زبورِ عجم اقبال ترجمہ خرم علی شفیق مزملہ شفیق اقبال اکادمی پاکستان پہلی بات ۱۹۲۷ء ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ برطانوی ہندوستان ایک نئی کروٹ لے رہا تھا۔ نئی اسمبلیوں کا افتتاح ہوا۔ منتخب ارکان میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اسمبلی سے باہر سیاسی جماعتوں کے اہم مذاکرات ہوئے۔ حکومتِ برطانیہ نے نئے دستور کے لیے تجاویز مرتب کرنے کے لیے رائل کمیشن مقرر کیا۔ اب صاف دکھائی دے رہا تھا کہ برطانوی ہندوستان کی ریاستیں اور صوبے ہمیشہ غلام نہ رہیں گے۔ آزادی ایک دم نہ ملی تو بتدریج مل جائے گی۔ علامہ اقبال نے اپنی چوتھی شعری تصنیف زبورِ عجم جون ۱۹۲۷ء میں شائع کی۔ ۲۶ جون کو روزنامہ انقلاب میں علامہ کے منشی جناب شیخ طاہر الدین کی طرف سے مندرجہ ذیل اشتہار چھپا: زبورِ عجم ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال صاحب بیرسٹر ایٹ لا کی تازہ تصنیف چھپ کر تیار ہو گئی ہے۔ لکھائی چھپائی دیدہ زیب ہے۔ کاغذ بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ مجلد کتاب ایک روپیہ زائد خرچ کرنے پر مل سکتی ہے۔ جلد نہایت خوبصورت اور پائیدار ہے۔ جلد پر ڈاکٹر صاحب اور کتاب کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ قیمت کتاب، تین روپیہ، علاوہ محصول ڈاک۔ قیمت کتاب مجلد چار روپیہ، علاوہ محصول ڈاک۔ المشتہر۔ شیخ طاہر الدین۔ بازار انارکلی۔ لاہور کتاب تین برس میں تیار ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اسرار و رموز (۲۲-۱۹۱۵) اور پیامِ مشرق (۱۹۲۳) فارسی میں بانگِ درا (۱۹۲۴) اُردو میں پیش کی جا چکی تھیں۔ چوتھی تصنیف کے لیے ایک دفعہ پھر فارسی کی طرف توجہ دی گئی تھی۔ بظاہر اِس کی وجہ کتاب کا موضوع تھا۔ یہ ایک غلام قوم کو آزادی کے طور طریقے سکھانے کی کتاب تھی۔ عنوان ہی میں یہ اشارہ موجود تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علہیم السلام کی قیادت میں آزادی نصیب ہوئی۔ پھر بھی غلامی کے اثرات فوراً ہی ختم نہ ہوئے۔ کئی دہائیوں کے بعد ہی ایک آزاد قوم کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ اِس نئی سوچ کا سب سے بڑا نمایندہ وہ نوجوان تھا جسے خدا نے پیغمبر بنا کر ایک نئی کتاب عطا فرمائی، یعنی حضرت داؤد علیہ السلام۔ اُن پر نازل ہونے والی کتاب کا نام زبور تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے جب ۱۹۲۴ء کے موسمِ گرما میں اپنی چوتھی تصنیف پر کام شروع کیا تو پہلے اس کا عنوان زبورِ جدید رکھا۔ انگریزی میں اسے Songs of Modern David بتایا۔ بہت جلد یہ عنوان زبورِ عجم ہو گیا یعنی وہ کتاب جو نئے زمانے میں مشرق سے غلامی کے اثرات ختم کر سکتی ہے۔ اُس وقت مشرقی اقوام، بالخصوص مسلمانوں کی حالت اگلے وقتوں کے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک مماثلت رکھتی تھی۔ بارہ برس پہلے علامہ اقبال نے اپنی بیاض میں ایک نظم لکھی تھی۔ بعد میں ’مذہب‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل ہو کر یہ چھوٹی سی نظم بہت مشہور ہوئی۔ اس کا ایک شعر جسے شائع نہیں کروایا گیا، یوں تھا: کانپتا ہوں پڑھ کے میں افسانہ اسرائیل کا ڈر ہے غفلت سے نہ ہو تیرا مقدّر بھی وہی اپنی آیندہ تصنیف جاویدنامہ (۱۹۳۲) میں وہ فرعون اور برطانوی سپہ سالار لارڈ کچنر کی روحوں کو زہرہ سیارے پر یکجا کرنے والے تھے۔ لہٰذا فرعون کی غلامی اور یورپی استعمار کے درمیان مماثلت بھی اُن کے پیشِ نظر تھی۔ اکبرؔ الٰہ آبادی، جنہیں اقبال مرشد کی حیثیت دیتے تھے، یہاں تک کہہ گئے تھے: یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی گویا فرعون نے بنی اسرائیل میں جو غلامانہ ذہنیت پیدا کی، ویسی ہی موجودہ دَور میں یورپی استعمار کی وجہ سے مشرقی اقوام میں پیدا ہو رہی تھی۔ صرف طریقے مختلف تھے۔ (یہ نکتہ علامہ اقبال کی نثری تحریروں اور لیکچروں میں بھی موجود ہے۔ خاص طور پر ’ملتِ بیضا پر عمرانی نظر‘ ملاحظہ کیجیے۔ یہ ایک لیکچر کا ترجمہ ہے جو علامہ نے ۱۹۱۱ء میں علیگڑھ میں انگریزی زبان میں دیا تھا)۔ اس لحاظ سے زبورِ عجم وہ نسخہ تھا جسے حکیم الامت نے اپنی قوم کو غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانے کے لیے تیار کیا۔ اس کا خلاصہ علامہ اقبال نے ایک دوست کے نام خط میں یوں بیان کیا: اِس کے چار حصّے ہیں۔ پہلے حصّے میں انسان کا راز و نیاز خدا کے ساتھ۔ دوسرے حصّے میں آدم کے خیالات آدم کے متعلق۔ طرز دونوں کی غزلیات کے موافق یعنی الگ الگ غزل نما ٹکڑے ہیں۔ تیسرے حصّے میں مثنوی گلشنِ راز (محمود شبستری) کے سوالوں کے جواب ہیں۔ اس کا نام میں نے گلشنِ راز جدید تجویز کیا ہے۔ چوتھے حصّے میں ایک مثنوی ہے جس کا نام میں نے بندگی نامہ تجویز کیا ہے۔ مثنوی کا مضمون یہ ہے کہ غلامی کا اثر فنونِ لطیفہ مثلاً موسیقی و مصوّری پر کیا ہوتا ہے۔ اگر ہم ذرا تفصیل سے جائزہ لیں تو کتاب کے چار حصوں کا تعارف یوں پیش کیا جا سکتا ہے: ۱ خد اسے خطاب پر مبنی غزل نما نظمیں۔ دُعا وغیرہ کو چھوڑ کر تعداد ۵۶ ہے۔ ان پر خاص اہتمام کے ساتھ نمبر ڈالے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ نظمیں ایک کہانی کے انداز میں جُڑی ہوئی ہیں۔ عموماً ایک نظم میں جو سوال اُٹھائے گئے ہیں، اگلی نظم میں اُن کے جوابات کی طرف اشارہ ہے۔ یوں ایک ذہنی سفر ہے۔ نمبروار نظموں کی صورت میں طے ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قاری محسوس کرنے لگتا ہے جیسے یہ اُس کے اپنی کیفیات کی روئیداد ہے۔ اگر کوئی اِس طرح تسلسل کے ساتھ یہ پورا حصہ پڑھے تو ضرور آخری نظم اُسے چونکنے پر مجبور کر دے گی۔ ۲ انسان سے خطاب پر مبنی غزل نما نظمیں۔ ابتدائیے وغیرہ کو چھوڑ کر تعداد ۷۵ ہے۔ یہ بھی نمبروار ہیں۔ انہیں ترتیب سے پڑھنے پر یوں لگتا ہے جیسے عالمِ فطرت بلکہ پوری کائنات محسوس کرنے اور سوچنے والا وجود بن گئی ہے۔ ہم اسے بتدریج دریافت کرتے جا رہے ہیں۔ نئے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ آخر میں ایک ایسا انجام سامنے آتا ہے جو بہت عجیب و غریب اور غیرمتوقع ہے۔ ۳ گلشنِ راز جدید، جس میں ۹ سوالات اور اُن کے جواب ہیں۔ گویا علامہ اقبال نے اپنے فکری نظام کا خلاصہ عام فہم اور سادہ انداز میں پیش کر دیا ہے۔ سوالات نئے نہیں ہیں۔ صدیوں پہلے تبریز کے صوفی عالم حضرت محمود شبستری نے بھی ان کے جواب دیے تھے۔ اُن کی کتاب گلشنِ راز صدیوں تک مسلم دنیا میں روحانی فکر کی درسی کتاب کے طور پر رائج رہی۔ زبورِ عجم کا یہ حصہ اُسی کتاب کی تجدید کے طور پر لکھا گیا ہے۔ اِس حصے کے اختتام پر علامہ اقبال خاص طور پر کہتے ہیں کہ جنہوں نے اِس نئی کتاب سے فائدہ نہ اُٹھایااُن کی خودی کبھی زندہ نہ ہو سکے گی۔ ۴ غلامی نامہ (فارسی میں ’بندگی نامہ‘)، جس میں غلامانہ ذہنیت سے پیدا ہونے والی مصوری، موسیقی اور مذہبی رویوں کی آسانی سے پہچانی جانے والی نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں۔ اِس کے ساتھ ہی آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کی پہچان کروائی گئی ہے۔ یہاں علامہ اقبال خاص طور پر تاکید کرتے ہیں کہ ہم اپنے دورِ عروج کے بادشاہوں کی بنائی ہوئی عمارتوں سے اثر قبول کریں۔ وہ قطب الدین ایبک اور شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی عمارتوں کا حوالہ دینے کے بعد تاج محل کی تعریف بڑی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔ اِس تعارف سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زبورِ عجم کے اصل مخاطب وہ نوجوان تھے جنہیں آزادی کے بعد سرگرمِ عمل ہونا تھا۔ جو سیاسی غلامی سے نکلنے کے بعد صرف ظاہری آزادی پر قناعت نہ کرنا چاہتے ہوں۔ اپنی قوم کو طاقت، شوکت اور عظمت دے کر دُنیا کی تمام اقوام میں ممتاز مقام دلوانے کا عزم رکھتے ہوں۔ اس راہ میں حائل پہاڑ جیسی مشکلات کو یوں ختم کرنے پر تیار ہوں جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن جالوت کو خالی ہاتھوں شکست دے دی تھی۔ ایسے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک رہنما کا کام دے سکتی ہے۔ علامہ اقبال کی فارسی تصانیف میں سے یہی ہے جسے اُردو ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ وہ اپنی زندگی ہی میں کر چکے تھے۔ بدقسمتی سے یہ کام اُس وقت نہ ہو سکا۔ مدتوں بعد کچھ تراجم سامنے ضرور آئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِس غرض سے نہیں کیے گئے ہیں کہ انہیں فارسی متن سے علیحدہ بھی ایک کتاب کی طرح روانی سے پڑھا جا سکے۔ زیرِ نظر ترجمے میں اِس بات کی خاص کوشش کی گئی ہے کہ عبارت آج کل کے عام قارئین کے لیے بھی آسان ہو تاکہ وہ مقصد پورا ہو سکے جس کے لیے یہ کتاب لکھی گئی تھی: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں خرم علی شفیق مزملہ شفیق زبورِ عجم کتابِ زبور پڑھنے والے سے کبھی معمولی گھاس کی پتی میری آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ کبھی میں نے ایک ہی نظر میں دونوں جہانوں کو دیکھ لیا ہے۔ اگرچہ عشق کی وادی بہت دور اور بہت وسیع و طویل ہے مگر کبھی کبھی سو برس کی راہ ایک آہ میں طے ہو جاتی ہے۔ طلب میں کوشش کیے جاؤ اور اُمید کا دامن ہاتھ سے مت دو۔ ایک ایسی عظیم دولت بھی ہے جو کبھی کبھی سرِ راہ مل جاتی ہے! حصہ اول میں دروازے کے باہر نہیں رہا بلکہ گھر کے اندر کی بات بتائی ہے۔ جو کبھی کہا نہیں گیا تھا، وہ کیسے قلندروں کی طرح کہہ دیا ہے! دعا یا رب! میرے سینے میں باخبر دل عطا فرمائیے۔ مجھے وہ نظر دیجیے کہ شراب میں نشے کو بھی دیکھ سکوں۔ یہ بندہ جو دوسروں کی سانس پر زندہ نہیں رہا، اِسے صبح کی طرح دل سے نکلی ہوئی آہ عطا فرمائیے۔ میں سیلِ بے پناہ ہوں، مجھے کسی چھوٹی اور حقیر ندی میں گرنے سے بچائیے۔ پہاڑ، بہار کے دامن اور وادی کو میری جولاں گاہ بنائیے! اگر مجھے بیکراں سمندر کا ہمسر بنایا ہے تو مجھے موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ موتی کا سکون بھی عطا فرمائیے۔ آپ نے میرے شہباز کو چیتوں کے شکار کے لیے چھوڑا ہے تو مجھے زیادہ بلند ہمت اورزیادہ تیز چنگل بھی عطا فرمائیے! میں حرمِ کعبہ کے پرندوں کے شکار پر نکلا ہوں، مجھے ایسا تیر عطا فرمائیے جو بغیر چلائے ہی کارگر ہو۔ میں مٹی ہوں، مجھے داؤد کے نغموں کی روشنی سے منور کر دیجیے۔ میرے ذرے ذرے کو چنگاری جیسی اڑان عطا فرمائیے۔ ۱ جنون اور وحشت بڑھانے والے عشق کو ہر راستے نے آپ کی گلی میں پہنچایا۔ اسے اپنی تلاش پر کیسا ناز ہے کہ راستہ آپ ہی کی طرف لے گیا۔ ۲ ہمارے سینے میں آرزو کی خلش کہاں سے آئی؟ گھڑا تو میرا ہے لیکن گھڑے میں شراب کہاں سے آ ئی؟ میں نے مانا کہ دنیا خاک ہے اور ہم مٹھی بھر خاک مگر ہمارے ذرے ذرے میں جستجو کا درد کہاں سے آیا؟ ہم میں یہ جنون اور ہائے و ہو کی ولولہ انگیزی کہاں سے آئی کہ اب ہماری نگاہیں کہکشاں سے دست و گریبان ہیں؟ ۳ کوئی غزل چھیڑئیے اور گائے ہوئے گیت پھر سے سنائیے۔ اِن افسردہ دلوں کی دلدہی کا سامان کیجیے۔ کنشت، کعبے، کلیسا اور بتخانے کے لیے ان نیم باز آنکھوں سے ہزار فتنے برپا کر دیجیے۔ جس شراب نے میری خاک میں آگ لگا دی، اُس کا کوئی پیالہ ان نئے ارادتمندوں کے لیے بھی لائیے۔ وہ بانسری لائیے جس کی آواز سے دل سینے میں رقص کرتا ہے اور وہ شراب جس سے روح کی صراحی پگھل جاتی ہے! عجم کے نیستاں میں صبح کی ہوا بہت تیز ہے۔ وہ چنگاری لائیے جو ساز کے تاروں سے اُڑ رہی ہے۔ ۴ اے کہ جس نے میرے آہ و نالہ کی گرمی بڑھا دی ہے، میری آواز سے ہزار سالہ وجود کو زندہ کر دیجیے! آپ جو پیالے کی مٹی اور پانی کو شرابِ زندگی کی بدولت شوق و مستی عطا کرتے ہیں، میرے دل کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتے! میری سانس سے مرجھائی ہوئی کلی کی گرہ کھول دیجیے اور میری نسیم سے لالہ کے دل کے داغ کو لہکا دیجیے۔ میرا خیال چاند، سورج اور مشتری سے آگے بڑھا جاتا ہے۔ آپ جو تاک میں بیٹھے ہیں، اسے شکار کیوں نہیں کرتے؟ میرے مولا! اپنے اِس فقیر کی لاج رکھیے جس نے دوسروں کی ندی سے پیالہ نہیں بھرا۔ ۵ ہمارے جسم کی خاک آپ کی جدائی میں سیکڑوں نالے بلند کرتی ہے کیونکہ آپ میری سانس سے بھی زیادہ قریب ہونے کے باوجود مجھ سے دور ہیں۔ کبھی آپ ہوا کے جھونکے میں چھپ کر باغ میں آجاتے ہیں ،کبھی پھول کی خوشبو میں آپ کا پتہ ملتا ہے اور کبھی کلی کے چٹکنے میں آپ کی آہٹ محسوس ہوتی ہے۔ مغرب آپ سے بیگانہ ہے اور مشرق میں محض افسانے رہ گئے ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ آپ دنیا میں ایک نئے اندازکے ساتھ جلوہ گر ہوں۔ جس پر پوری دنیا کی حکومت کی دھن سوار ہو اُس کے جنون کو چنگیز کی تلوار سے ختم کردیں۔ میں ایک آوارہ گرد اور آزاد بندہ ہوں، کہیں آپ سے بھی بھاگ ہی نہ جائوں۔اپنی زلفوں کی گرہیں میری گردن میں ڈال کر مجھے اپنا پابند بنالیں۔ میں تو محض نالۂ وفریاد کرنا ہی جانتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ میں غزل کہتا ہوں۔یہ کیا شے ہے جو شبنم کی طرح آپ میرے دل پر نازل کر رہے ہیں۔ ۶ میں اگرچہ تاریک مٹی سے بنا ہوں مگر مجھ میں ایک ننھا سا دل ہے جو میری کل متاع ہے۔ میری آنکھیں ایک حسن کو دیکھنے کے لیے ستاروں کی طرح کھلی رہتی ہیں۔ میں تو محض اس لیے ایک خاموش نالے کی شکل ہوں کہ میں آپ کے مضراب کی خواہش رکھتا ہوں۔ آپ مجھے ایسا ساز سمجھ رہے ہیں جو راگ کے قابل ہی نہیں۔ میرے دل کی دنیا کو ایسا کردیں کہ میں اپنی نوا کے شعلے سے خاکی انسانوں کے دلوں کو گرمادوں اور فرشتوں کے دلوں میں گداز پیدا کردوں۔ ہماری فطرت میں یہ جو تڑپ اور اضطراب ہے، یہ ہماری نیازمندی اور عاجزی کی وجہ سے ہے۔ آپ جو ہر حاجت سے بے نیاز ہیں میرے سوزوساز کو نہیں پاسکتے۔ میں نے اپنا راز نہ عیاں کیا ہے نہ چھپایا ہے۔ ہاں، اس انداز میں غزل کہی ہے کہ میرا سب راز ظاہر ہوگیا۔ ۷ پیاس سے دم توڑتی دنیا کے لیے میں نے اپنی دردمند اور دلپذیر صدا سے شرابِ زندگی کو جاری کردیاہے۔ آپ نے مجھ جیسے بے نوا پر ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھول دیا جس کا تصور بھی کسی انسانی ذہن میں نہیں آسکتا۔ اپنی سرمے جیسی نگاہ سے آپ میرے دل وجگر میں اتر گئے۔ یہ نگاہ بھی کیسی نگاہ ہے جس نے ایک تیر سے دو نشانے کئے ہیں۔ میری نگاہ جو نارِساتھی، اُسے آپ نے یہ کیسی بہار کا جلوہ دکھادیا کہ میں ایک نوآموز پرندے کی مانند باغ اور سبزہ زار اور دامنِ کوہ میں نالہ وفریاد کرتا پھرتا ہوں۔ اگر دوبادشاہ ایک ریاست میں نہیں سما سکتے تو بھلا حیرت کی کیا بات ہے۔حیرت تو اس پر ہے کہ ایک فقیر دو عالم میں نہیں سماتا۔ ۸ اپنے پورے چاند پر سے نقاب ہٹا دیجیے۔ اپنی رحمتِ عام کفر اور دین دونوں پر برسا دیجیے۔ پرانا نغمہ پھر سنا کر جام کی گردش کو تیز کر دیجیے۔ پھر سے اپنے آتشیں جام کے ساتھ ہماری محفل کی طرف توجہ کیجیے۔ شانے پر زلفیں پھیلائے باغ میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی چھت پر یہ پرندہ بیٹھا ہے، اِسے ہی شکار کرلیں۔ عراق کا صحرا منتظر ہے اور حجاز کی مٹی پیاسی ہے۔ اپنے کوفہ اور شام کو پھر سے حسینؑ کے خون سے سیراب کردیں۔ رہبر کو ایک طرف کرکے عشق اپنا راستہ اکیلے ہی طے کرتا ہے۔وہ اپنا اختیار کسی اور کے حوالے نہیں کرتا۔ میں اپنی بے خبری میں دَیر کے آستانے پر کھڑا آہ وزاری کرتا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے حرم کو پہچان لیا اور اپنی راہ ومقام جان گیا۔ میں کہ جس نے قید کی تنہائی میں بھی اپنا پیغام سنادیا، گویا بہار کی آمد کا پیام دینے والا پہلا پرندہ ہوں۔ ۹ میری نوا اس لیے پرسوز،بیباک اور غم انگیز ہے کہ میرے وجود کے خس وخاشاک میں ایک چنگاری آن گری ہے جبکہ صبح کی ہوا بیحد تیز ہے اور اُسے خوب بھڑکا رہی ہے۔ اگرچہ عشق کے پاس سروسامان نہیں ہوتا مگر وہ تیشہ ضرور رکھتا ہے جو پہاڑ کا سینہ چیر دیتا ہے لیکن پرویز کے خون سے پاک رہتا ہے۔ ایک ادا شناس کا یہ نکتہ میرے دل میں گڑ گیا ہے کہ معشوقوں کی نگاہ اُن کی دلآویز باتوں سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔ ایک گھڑی کو ذرا اِس ہجر کے مارے کے سرہانے آکر بیٹھ جا ئیے۔ آپ کی بزم سے خالی پیمانہ لے کر لوٹنے والے کی زندگی کا پیمانہ اب لبریز ہوا چاہتا ہے۔ میں نے داغِ جدائی کی آگ کو باغ میں اِس قدر نمایاں کردیا ہے کہ صبح کی ہوا اُس کو اور بھڑکاتی ہے اور شبنم اس کو ٹھنڈا نہیں کرپاتی۔ گوکہ یہ آپ کے پوشیدہ اشارے بھی گھر برباد کردینے کو کافی ہیں مگر پھر بھی مجھے آپ کے چشم واَبرو کے بیباک اور خونریز اشاروں کی چاہت ہے۔ عقل ودل دونوں کا ٹھکانا یہی آب وگل کی دنیا ہے مگر نہ جانے اِس میں کیا راز ہے کہ عقل کو یہ ٹھکانا زیادہ پسند ہے مگر دل اس سے الگ تھلگ رہتا ہے۔ مجھ کو دیکھ لو کہ میرے علاوہ پورے ہندوستان میں کوئی اور برہمن زادہ ایسا نہ ملے گا جو روم وتبریز کے ایسے صوفیانہ رموز سے واقف ہو۔ ۱۰ میرا دل اور آنکھیںآپ کا نظارہ کرنے کے لیے سراپا اشتیاق ہیں تو پھراگر میں ان کی تسکین کے لیے بت تراش لیتا ہوں تو کیا گناہ کرتا ہوں۔ آپ سامنے ہوکر بھی نقاب میں پوشیدہ ہیں اور نگاہ کو روشن نہیں کرتے۔اے میرے چاند!اگر میں فریاد نہ کروں تو کیا کروں۔ میری بے قیمت سی پونجی بس یہ ایک چھوٹا سا دل ہے اور وہ بھی آپ کی جدائی میں ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ اگرآپ میری کارواں سرائے میں آجائیں تو آپ کا کیا جاتا ہے! میں نے غزل سنائی کہ شاید اسی طرح مجھے قرار آجائے مگر شعلے سے چنگاری کے نکل جانے پر بھی اس کی تپش میں کہاں کمی ہوتی ہے۔ یہ دلِ زندہ جوآپ نے مجھے دیا ہے، حجاب میں نہیں رہ سکتا۔ اِسے ایسی نگاہ عطاکیجئے جو سنگِ خارہ میں چھپے شرارے کو بھی دیکھ سکے۔ آپ نے میرے دل کے ہزار ٹکڑوں میں اپنا غم اِس طرح بسا دیا ہے کہ ہر ٹکڑے کو اُس کا سرور مل رہا ہے۔ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں بھی ایک کشتی اس خطرہ سے دوچار نہیں ہوتی جس کا کہ عشق ساحل کی سلامتی میں بیٹھے ہوئے بھی سامنا کرتا ہے۔ میں جھوٹے خداؤں اور دنیا وی بادشاہوں سے اس شانِ بے نیازی سے گزر گیاجیسے کہ ماہِ تمام ستاروں کے پاس سے گزرجاتا ہے۔ ۱۱ اگرچہ عقل کا شاہین اپنی پرواز میں لگا ہوا ہے مگر اس ریگستان میں ایک ایساتیراندازبھی چھپا بیٹھا ہے جس کا نشانہ کبھی خالی نہیں جاتا۔ ایسی چیز موجود ہے جو رُکے ہوئے کام کی گرہ کھول دے۔ یہ عشق کے نغمے گانے والوں کی ہمت وحوصلے سے باہر بھی نہیں ہے۔ گفتار کی طاقت اگر ہے بھی تو کوئی اسے سمجھنے والا ہی نہیں ہے۔افسوس وہ عاجز کہاں جائے جس کے سینے میں کوئی راز ہو۔ اگرچہ مجھ کو سو طرح کے سوز میں سو طرح سے جلایا گیا ہے مگرکیسی لذت ہے اِس سوز میں جو ساز کے ساتھ ہے! ہم مردہ خاک سے پیدا ہونے والے دلِ زندہ بھی رکھتے ہیں۔ کہاں یہ دلِ زندہ اور کہاں ہم!یہ خدا ہی کا کام ہے۔ میرے سینے میں بھڑکتا شعلہ گھر کو روشن کردینے والا ہے مگر یہی گھرکوپھونک ڈالنے والا بھی ہے۔ میں افلاطون کی جہاںبین عقل پر تکیہ نہیں کرتا کہ میں پہلو میں ایک چھوٹا سا دل رکھتا ہوں جو بیباک اور گہری نظر رکھنے والاہے۔ ۱۲ یہ دنیا کیا ہے؟میرے پندار کا صنم خانہ!اس کا جلوہ میری بیدار نظر کا مرہونِ منت ہے۔ یہ تمام عالم جس کا احاطہ میری ایک نگاہ کرلیتی ہے ،گویا میری پرکار کی گردش کا ایک دائرہ ہے۔ چیزوں کا ہونا نہ ہونا میری دید اور نادید سے ہے۔ کیا زماں اور کیا مکاں، سب میری شوخیٔ افکار سے ہے۔ چلنا اور ٹھہر جانا،ہونا نہ ہونا سب میرے دل کی جادوگری ہے۔یہی ہے جو میرے اَسرار کی طرف اشارہ کرنے والا اور انہیں کھولنے والا ہے۔ وہ جہاں کہ جس میں بویا ہوا کاٹتے ہیں، اُس کا نورونار سب میری ہی تسبیح وزنّار سے ہے۔ میں تقدیر کا راز ہوں اور جہاں فکر کی ایک بھی مضراب پہنچ سکتی ہے وہاں میرے تار موجود ہوتے ہیں۔ اے ذاتِ پاک کہ جس کے فیض سے میں قائم ہوں،آپ کہاںہیں؟یہ دونوں جہاں تو میرے اثر سے ہیں، آپ کا جہاں کدھر ہے؟ ۱۳ ایسی فصلِ بہار اور ایسی خوش الحان بلبل کی آواز!اے میرے محبوب آپ بھی ایسے میں چہرے سے نقاب الٹ دیں،غزل سنائیں اور شراب لائیں۔ میرے ٹپکتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھیں اور اپنی طرف بھی نگاہ کریں۔میرے نیستاں پر ایسے ہی برق وشرار گراتے رہیں۔ بادِ بہار سے کہیے میرے خیال میں اُترے اور وادی ودشت میں ایسے ہی نقش ونگار بنائے۔ میںنے آپ کے چمن میں پھولوں اور کانٹوں کے درمیان اس طرح زندگی گزاری ہے کہ باغ وسبزہ زاروں کے سب پھولوں اور بوٹوں کو میری سانس نے طراوٹ بخشی ہے۔ اِس دنیائے آب وخاک کو میرے دل کی کسوٹی پر پرکھیے۔ اس کے روشن وتاریک ہونے کا اندازہ اس سے لگوائیے۔ میں روزِ حساب آپ کے حضور اس طرح پہنچوں گا کہ نہ تو میں نے کسی کو دل دیا ہوگا نہ دوجہاں میں دل لگایا ہوگا۔ پرانی گانے والی فاختہ نے میرا نالہ سنا تو کہا کہ چمن میں کسی نے پچھلے سال کا نغمہ اس طرح نہیں گایا۔ ۱۴ مقامِ رضا نے بھی میرے کیاکیامسائل حل کیے! مجھے ہونے اور نہ ہونے کے پھندے ہی سے باہر نکال لایا۔ عشق کے جوش نے اس بنجر کھیت میں خوب زور لگایا۔ ہزاروں بیج بوئے تب میرا ورود ہوا۔ نہ جانے ان کی نگاہ نے میری خاک میں کیا دیکھا کہ لمحہ لمحہ مجھے زمانے کی کسوٹی پرپرکھا۔ اس خس وخاشاک کی دنیا کودرمیان میں ڈال کر میرے دل کو عطا کیے گئے ننھے سے شرارے کو آزمایا کہ وہ اس کو پھونک ڈالے۔ میرے ہاتھ سے پیالہ لینا کہ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ساقی کی کرشمہ سازی نے مجھے لوٹ لیا ہے۔ ۱۵ اُٹھیے، پیاسی خاک پر زندگی کی شراب چھڑک دیجیے۔ اپنی آگ بھڑکا کر میری آگ ٹھنڈی کر دیجیے۔ درویشوں کی محفل، ایسے خودفراموشوں جیسی ہے جن کے میخانے کی صراحیاں خالی ہوں۔ بلند دعوے کرنے والے مدرسوں میں جوش کی آگ ٹھنڈی پڑچکی ہے۔ فکر ،جو گھتیاں سلجھاتی ہے، تقلید کی غلام ہے۔ دین محض روایتوں کا مجموعہ ہے۔اس لیے کہ سینے کے اندر جو دل ہیں، اُن کا کوئی ہدف ہی نہیں رہا۔ دونوں اپنی منزل کی طرف رواں ہیں اور دونوں ہی رہنمائی کررہے ہیں مگر عقل حیلے کے ساتھ لے جاتی ہے اور عشق اپنے زور سے کھینچ لے جاتا ہے۔ عشق اِس خیمۂ شش جہات یعنی کائنات کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر کہکشاں کی طناب بھی کاٹ ڈالتا ہے۔ ۱۶ آپ شاید سمجھیں کہ گھر کا طواف کرنے سے میرا مقصد محض گھر ہے۔ نہیں بلکہ میرا مقصود خود صاحبِ خانہ ہے۔ میں ایک ایسا شرار ہوں جس کا رنگ اڑچکا ہے۔ آپ میرے جلوے کو نظرانداز کیجیے کہ ایک دولحظہ کی چمک کے بجائے مجھ میں ہمیشہ کی گرمی اور روشنی ہے۔ میں جو راہ میں طے کرلیتا ہوں اس کی طرف دوبارہ نہیں دیکھتا۔زمانے کی طرح روز ایک نئی صبح کی تلاش کرتا ہوں۔ عشق کا سمندر ہی میری کشتی ہے،عشق کا سمندر ہی میرا ساحل ہے۔ نہ مجھے سفینے کی فکر ہے نہ کنارے کی خواہش۔ مجھ پر اپنی چنگاری ڈال دیجیے مگر ایسی جو مجھے بالکل ہی جلا ڈالے۔میں ابھی نیا نیا عقیدتمند ہوں، ابھی آشیانے کی فکر رکھتا ہوں۔ میں اس امید پر بادشاہوں کی کمندوں کا شکار ہونے سے ہرنوں کی طرح بھاگتا ہوں کہ کسی روز آپ میرا شکار کرنے آئیں گے۔ اگرآپ کرم فرمائیں تو میں اپنے پاس موجود اس دل افروزمئے شبانہ کے دوتین جام اس معاشرے کو بھی دے دوں۔ ۱۷ میرا محبوب سواری پر بیٹھے بیٹھے راہ نشینوں پر ایک نظر ڈال کر گزر جاتا ہے۔کوئی مجھے تھامے کہ میرا معاملہ ہاتھوں سے نکلا جاتا ہے۔ میں اپنے دوست کے جلوے کی بات دوسروں سے بھلا کیسے کروں کہ وہ تو شرارے کی طرح چشمِ زدن میں نظر کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ اس چاند کی منزل کی راہ سخت دشوار ہے جیسے عشق ستاروں کے دوش پر گزر جاتا ہے۔ آسمان کا پردہ تن جانے سے ناامید ہونے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ہماری نظر کے تیر تو پتھر کے بھی پار ہوجاتے ہیں۔ ہماری شبنم ایک وسیع سمندر ہے جس کا کنارہ کہکشاں ہے۔اس سمندرکی ایک موج بھی اٹھتی ہے تو کنارے کو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ جب تم اس کی خلوت میں پہنچو تو اسے نظربھر کر نہ دیکھنا کہ یہی وہ لمحہ ہے جب معاملہ نگاہ کی حد سے آگے کا ہوجاتا ہے۔ میں فراق میں کیا روؤں کہ آنسوؤں کے ہجوم میں دل ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آنکھوں کے راستے بہاجارہا ہے۔ ۱۸ آسمانوں تک پہنچ جانے والی عقل پر بہادری کے ساتھ شب خوں مارنا چاہیے۔ دردِ دل کا ایک ذرّہ افلاطون کے علم پر بھاری ہے۔ کل مغبچے نے مجھے اسررِ محبت بتائے کہ آنسو کا وہ قطرہ جو تم پی جاتے ہو، سرخ شراب سے بہتر ہے۔ ایسافقر جو بغیر تلوار کے ہی سیکڑوں دل فتح کر لے، دارا کی شان وشوکت اور فریدوں کے کرّوفر سے بہتر ہے۔ دیرِ مغاں میں آئے ہو تو بلند مضمون کی بات لے کر آنا۔ قصّے کہانیوں کی باتیں تو صوفی کی خانقاہوں میں ہی بہتر ہیں۔ اگر ہماری بہتی ہوئی ندی میں کسی طوفان کے منّتِ احساں ہوئے بغیر ایک موج بھی پیدا ہوجائے تو وہ دریائے جیجوں کی موج سے بہتر ہے۔ جو طوفان تم لائے ہو وہ شہر میں نہیں سماتا۔ یہ خانہ برباد تو بیاباں کی خلوت کے لیے ہی بہتر ہے۔ غزل خواں اقبال کو کافر تو نہیں کہہ سکتے مگر اس کے دماغ میں جو سودا ہے اُس کی وجہ سے اسے مدرسے سے باہر ہی رکھنا بہتر ہے۔ ۱۹ یا مسلمان کو یہ حکم نہ دیجیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر نکل آئے، یا اس کے فرسودہ جسم میں نئی جان پیداکردیجئے: یا یہ کریں یا وہ! یا برہمن کو حکم دیجیے کہ نیا خدا تراشے یا زناّریوں کے سینے میں خود آکر خلوت گزیں ہوجائیں، یا یہ کریں یاوہ! یا ایک اور آدم لا ئیںجو ابلیس سے کم تر ہو،یا ہمارے عقل ودیں کے امتحان کے لیے ایک اور ابلیس لائیں، یا یہ کریںیاوہ! یا نیا جہاں ہو یا نیا امتحان۔آخرآپ کب تک ہمارے ساتھ وہی کرتے رہیں گے جو اَب تک کیا ہے، یا یہ کریں یا وہ! فقر بخشا ہے تو خسرو پرویز کا سا شکوہ بھی بخش دیجیے۔ یا ایسی عقل عطافرما ئیے جو جبرئیل کی سی فطرت رکھتی ہو، یا یہ کریں یاوہ! یا میرے سینے میں موجود انقلاب کی آرزو ہی ختم کردیں یا اس زمین وآسماں کی سرشت ہی کو بدل دیں، یا یہ کریںیاوہ! ۲۰ عقل بھی عشق سے اور ذوق ِنظر سے بیگانہ نہیں مگر اس بیچاری میں وہ جرأتِ رندانہ نہیں۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ منزل کا خیال میری اپنی ہی ایجاد ہے مگر سفر کے دوران تھک کر بیٹھ جانا ہمّتِ مردانہ کے خلاف ہے۔ میں اُس سے ہر گھڑی ایک نیا میدانِ عمل چاہتا ہوں یہاں تک کہ مجھے جنون عطاکرنے والا خود ہی یہ کہہ دے کہ اب کوئی اور ویرانہ نہیں بچا۔ اس قدر شدّتِ جنوں میں بھی مجھے اپنے گریباں کا خیال رہا۔جنوں میں ہوش وحواس نہ کھونا ہر دیوانے کا کام نہیں۔ ۲۱ آپ کی جستجو میں جو لذت ہے وہی میری زندگی کا سوزوگداز ہے۔راستہ مجھے سانپ کی طرح کاٹتا ہے اگر میںآپ کی طرف نہ چلوں۔ جبرئیل ؑ اپنا سینہ کھولے ہوئے عاشقوں کے پاس سے گزرتے ہیں تاکہ ان پر آرزو کی کوئی چنگاری جا پڑے۔ کبھی میں آپ کے جلوے کے شوق میں سارے حجاب ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہوں اور کبھی اپنی ہی نگا ہِ نارسا سے آپ کے رخ پر حجاب ڈال دیتا ہوں۔ میں آپ کی تلاش میں نکلوں یا اپنی تلاش میں،میری عقل، دل اور نظر سب آپ کی راہ میں گم ہوچکے ہیں۔ میںآپ کے ہی چمن سے پھوٹا ہوا پودا ہوں۔ مجھے شبنم کے قطرے عطافرمادیں۔ میرے دل کی کلی کھِل جائے گی اور آپ کی ندی کے پانیوں میں کچھ کمی واقع نہیں ہوگی۔ ۲۲ اس محفل میں جہاں معاملہ شراب وساقی سے گزرچکا ہے، میں ایسا دوست کہاں سے تلاش کروں جس کے جام میں میں اپنی بچی ہوئی مے ڈال دوں۔ جو شخص سونے کے جامِ میں زہرِشیریں پینے کاعادی ہوچکا ہو وہ میرے مٹی کے پیالے سے یہ تلخ شراب کیسے پئے گا جو اس زہر کا تریاق ہے۔ میری خاک سے شرارے اٹھ رہے ہیں، انہیں کہاں گراؤں اور کہا ں جلاؤں۔آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ میری جان میں اپنا سوز بھر دیا۔ مغرب نے علم وعرفان کے چشموں کو گدلا کردیا ہے۔ ارسطو کے پیرو ہوں یا افلاطوں کے، دونوں ہی نے اس جہاں کو تاریک تر کردیا ہے۔ دنیا کے دل سے فریاد اٹھ رہی ہے کہ میں زہر آلود ہوگئی، میں زہر آلود ہوگئی! عقل فریادی ہے کہ اُس کے پاس اِس زہر کا تریاق نہیں۔ کیا ملاّ اور کیا درویش! کیا سلطان اور کیا دربان! سب منافقت اور فریب سے اپنا کام نکال رہے ہیں۔ جس بازار میں جوہر شناس کی آنکھ بدنظر اور کم نظر ہے، وہاں میرا نگینہ جب چمک میں بڑھتا ہے تو اور بھی کم قیمت ہوجاتا ہے۔ ۲۳ اے ساقی میرے جگر میں بھیگا ہوا شعلہ ڈال دیجیے۔ ایک بار پھر میری خاک میں ایک نئی قیامت برپا کردیجیے۔ اس نے مجھے گندم کے ایک دانے کے عوض زمین پر پھینک دیا تھا۔آپ مجھے پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے آسمانوں کے پار پہنچا دیں۔ عشق کو ایسی پر زور وطاقتور شراب عطاکردیجیے کہ جوانوں کو پچھاڑ دے۔ اُس کی تلچھٹ میرے ادراک کے پیمانے میں ڈال دیجیے۔ حکمت وفلسفہ نے مجھے بوجھل و مست کردیا ہے۔اے میرے رہنما، میرے سر کو اس بوجھ سے آزاد کردیجیے! عشق کی شراب کی گرمی عقل میں سوزوگداز پیدا نہیں کرسکی۔ اب اس کا علاج اپنے غمزہ واَدا سے کردیجیے۔ یہ محفل ابھی تک امید وبیم کی کشمکش میں گرفتار ہے۔اس پوری محفل کوآپ افلاک کی گردش سے بے نیاز کردیجیے۔ عین خزاں کے عالم میں بھی گل ولالہ اُگائے جاسکتے ہیں۔بس آپ پرانی شاخ پر انگور کا لہو ڈال دیجیے۔ ۲۴ اے ساقی، آپ مجھے اس شراب کا ایک بڑا پیالہ عطا کردیجیے جو مجھ میں لالے کے پھول کھلا دے اور میری خاک کی مٹھی کو بہار کی ہوا کے کندھوں پر اُڑا دے۔ میں نے یورپ میں جس مینا سے علم کی شراب پی، اُس نے میری فکر کو تاریک کردیا ہے۔اپنی منزل کے اس مسافر کو نگاہ شناس اور راہ شناس نگاہ عطا کردیجیے۔ میں تنکے کی طرح ہوا کے ہر جھونکے سے اُڑ کر اِدھر اُدھر جاپڑتا ہوں۔میرا دل شکوک اور بے یقینی کی کیفیت پر چیخ کر فریاد کرتا ہے، اسے یقین کی دولت عطاکردیجیے۔ میری روح میں آرزوئیںایک چنگاری کی مانند بھڑکتی اور بجھتی رہتی ہیں۔میری رات کو دلنشین آرزو کا ایک عظیم ستارہ عطاکردیجیے۔ آپ نے میرے ہاتھ میں ایسا قلم تھمایاہے جو اعلیٰ ترین نقش تحریر کرسکتا ہے۔مجھے ایسا نقاش بنایا ہے تو اب ایک پیشانی کی لوح بھی عطا کردیجیے جس پر میں اپنے نقش کا کمال دکھاسکوں۔ ۲۵ ہر وہ نقش جو دل آنکھوں سے حاصل کرتا ہے، میں اُس سے پاک ہوکر آیا ہوں۔میں پاک معنی کا گدا ہوں اسی لیے ذہن کو ہر خیال سے خالی کرکے آیا ہوں۔ کبھی کبھی ذوقِ جنوں مجھے دانائی کے طورطریقے بخشتا ہے اورکبھی میں عقلمندوں کے حلقۂ درس سے گریباں چاک کرکے لوٹتا ہوں۔ کبھی دنیا مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، کبھی میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہوں اور اُس پر حاوی آجاتا ہوں۔اے ساقی، اپنی شراب کو گردش میں لا ئیے تاکہ میں اس مشکل اور الجھن سے باہر نکل سکوں۔ نہ یہاں ساقی کے چشم واَبرو کے اِشارے ہیں نہ وہاں کوئی حرفِ عاشقی ہے۔میں صوفی اور ملاّ دونوں کی محفل سے افسردہ لو ٹ آتا ہوں۔ وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ کے خاص لوگوں کو مجھ سے کام پڑے گا۔ میری فطرت صحرائی ہے اور بادشاہوں کے حضور بیباکانہ چلا جاتا ہوں۔ ۲۶ میرا آزاد منش دل نورِ ایمان کے ساتھ کافری بھی کرتا رہا ہے۔حرم کو سجدہ کرتا رہا اور بتوں کی خدمت کرتا رہا۔ میں اپنی اطاعت اور بندگی کے لیے ایک بڑی ترازو لاکررکھوں گا۔ بازارِ قیامت میں خدا سے سودے بازی کروں گا۔ میرا دل زمین وآسمان کی گردش اپنی خواہش کے مطابق چاہتا ہے۔ہے تو ذرا سی غبارِ راہ مگر تقدیر ِ الہٰی کے مقابل اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہتا ہے۔ میرا دل کبھی حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق سے الجھ پڑتا ہے۔کبھی حیدر کا سا کردار اداکرتا ہے اور کبھی یہودِ خیبر کی طرح حق سے دست وگریباں ہوجاتا ہے۔ اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود اس سے شعبدے اور جادو صادر ہوتے رہتے ہیں۔ذراایسا کلیم تو دیکھو جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی۔ کہاں تو میری نگاہ، دوراندیش عقل کو شوق کی لذت عطا کرتی ہے اور کہاں یہ فتنے برپا کرنے والے جنون کو نشتر بھی لگاتی ہے۔ یہ تن آساں دل اپنے آپ کو بھلا کب پاسکتا ہے۔ اس نے ہزاروں سال تو مقامِ آزری میں گزارے ہیں۔ ۲۷ روزِ محشرآپ بھلا شاعر سے نعرۂ مستانہ کیوں چاہتے ہیں؟آپ تو خود ہنگامہ ہیں، ایک اور ہنگامہ کیوں چاہتے ہیں؟ آپ نے میری طبعِ رواں کو بحرِ نغمہ سے آشنا کردیا۔ اب محض گوہر کیا چاہتے ہیں، میرے چاک سینے سے دریا طلب کیجیے۔ ایسی نماز جس میں دل آپ کی طرف متوجہ نہ ہو مجھ سے نہیں پڑھی جائے گی، ہاں بالکل نہیں پڑھی جائے گی۔میں تو ایک خالص دل لے کر آپ کے حضور میں آیا ہوں، آپ اس کافر سے اور کیا چاہتے ہیں؟ ۲۸ نہ تو میرا ذہن کفروایمان کا کارزار ہے اور نہ ہی غموں کو گلے لگانے والی میری جان کو باغِ رضوان کی خواہش ہے۔ اگرآپ میرے دل میں اُتریں تو اُس میں اپنا ہی خیال جاگزیں پائیں گے، جیسے کسی بیابان میں چاندنی بکھری ہوتی ہے۔ ۲۹ خوش الحان پرندہ ہو یا شکاری شاہین، سب آپ ہی کے پیدا کردہ ہیں۔اب زندگی کسی کو نور کی جانب لے جائے یا نار کی جانب، سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔ یہ مٹھی بھر خاک،بیدار دل اور کہاں دنیا کا نظارہ! اِس چاند کا رات بھر ہاتھی کے ہودج کی طرح سواری کرنا آپ ہی کی طرف سے ہے۔ میرے سب افکارآپ کی ہی طرف سے ہیں چاہے دل میں ہوں یا زبان پر۔ اس بحر سے گوہر نکالنا یا نہ نکالناآپ ہی کا کام ہے۔ میں تو وہی مٹھی بھر خاک ہوں جس میں کچھ پیدا نہیں ہوسکتا۔اب اِس خاک میں گل ولالہ کا کھلنا اور ابرِ بہار کی طراوت کا برسنا سب آپ کی طرف سے ہے۔ ہم تو چلم چھڑک دینے والے ہیں، اس سے نقش بنانے والے آپ ہیں۔ہمارے حال کی صورت گری اور آیندہ کی نقاشی سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔ مجھے بہت سے گلے ہیں مگر وہ زبان تک نہیں آتے۔محبت وبے مہری اور فریب ودوستی سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔ ۳۰ عشق کی راہ پر اُٹھا ہوا ایک قدم ہزار پارسائی سے بہتر ہے۔ خدائی کی محنت او رکلفت سے نکل کر ایک لحظہ کے لیے میرے سینے میں آکر آرام تو کیجیے۔ ہم کو ہمارے مقام سے باخبر کیجیے۔ہم کہاں ہیں اورآپ کہاں ہیں؟ وہ پرانے دوستانہ غمزے تو ذرا یاد کریں۔ آخر کب تک تغافل سے ہمیں آزماتے رہیں گے؟ کل رات پورے چاند نے مجھ سے کہا کہ نارسائی کے زخم کو گوارا کرلو۔ اس نے خوب کہا مگر عاشقوں کے مذہب میں جدائی حرام کردی گئی ہے۔ میں نے آپ کے حضور اپنے دل کی بات رکھ دی ہے کہ شایدآپ عقدہ کشائی کریں۔ ۳۱ ذرا میرے دل کی دنیا پر اُن کا حملہ ملاحظہ کرو۔ پھر اُن کا قتل کرنا،جلا ڈالنا اور پھر نئے سرے سے درست کرنا تو ذرا دیکھو۔ کون سا دل ہے جو اِس چاند کی روشنی سے روشن نہیں ہے۔ہزاروں آئینوں کے سامنے ان کا خودکوبنانا سنوارنا تو ذرا دیکھو۔ جو ایک ہی ہاتھ سے ملکِ سلیمانؑ جیسے کئی ملک چھین لیتے ہیں اُن کا اپنے فقیروں کو دوجہاں بخش دینے کا کھیل تو ذرا دیکھو۔ وہ جو عقل مندوں کے دل ونظر پر شبخوں مارتے ہیں، ان کا اپنے ان نادانوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا تو ذرا دیکھو۔ ۳۲ راہِ طلب میں میں ابھی تک دنیا کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں۔ میرا دل ابھی تک قافلہ،رختِ سفر اور منزل کے خیال میں گرفتار ہے۔ نگاہ کی بہ بجلی کہاں ہے جو میرے گھر کو پھونک ڈالے،کہ میں ابھی تک کھیتی اور اس کے حاصل کی فکر میں پھنسا ہوا ہوں۔ مجھ جیسے ناپختہ کی کشتی کو ذرا طوفان کی نظر کردیجیے۔ موج کے ڈر سے ابھی تک میری نگاہ ساحل پر ٹکی ہوئی ہے۔ تڑپتے رہنا اور کہیں پہنچ نہ پانا بھی کیسی لذت آمیز کیفیت رکھتا ہے۔کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جو ابھی تک محمل کے پیچھے ہے۔ جس نے ابھی دوجہاں سے الگ اپنی شناخت نہیں پہچانی وہ ابھی تک اس نقشِ باطل ہی کا فریب خوردہ ہے۔ نگاہِ شوق محض ایک جلوے سے سیر نہیں ہوتی۔میں اِس خلش کو کہاں لے جاؤں جو اَبھی تک میرے دل میں ہے۔ اگرچہ میں نے محبوب کے حضور میں گفتگو کو بہت طول دے کر بیان کیا مگرپھر بھی بہت سی باتیں ابھی تک دل ہی میں رہ گئیں۔ ۳۳ سردی کا طویل موسم ختم ہوا۔ شاخوں پر نغمے پھر زندہ ہوگئے۔ چشموں کی طرف سے جو ہوائیں آرہی ہیں وہ گلوں کو رنگ اور ہواکوطراوت بخش رہی ہیں۔ بہار کی ہوا نے لالے کے چراغ کو جنگل اور صحرا میں کچھ اور روشن کردیا ہے۔ ایک میرا دل ہے کہ پھولوں کی صحبت میں بھی افسردہ ہے، ہرنوں اور مرغزاروں سے گریزاں ہے۔ کبھی یہ اپنے ہی دردوغم میں لذت محسوس کرتا ہے اور کبھی جوئے کہستاں کی طرح نالہ وفریاد سے رواں ہوجاتا ہے۔ میں تو اپنے رازداروں تک سے اپنا دردوغم بیان نہیں کرتا کہ کہیں اس کی لذت کم نہ ہوجائے۔ ۳۴ مجھے گھر اور منزل کی خواہش نہیں۔ میں تو ہمیشہ ہی راستے کا مسافر رہا ہوںاور ہر دیار میں اجنبی ہوں۔ صبح دم راکھ نے صبا سے کہا ، ’’ صحرا کی اس ہوا نے میرے شرارے کو بجھا دیا، اے صحرا کی ہوا ذرا آہستہ سے گزر! مجھے بکھیر نہ دے کہ میں تو سوزِ کارواں کی یادگارہوں۔‘‘ میری آنکھوں سے شبنم کی طرح آنسو گرنے لگے۔ میں بھی تو خاک ہوں اور راہگزر میں پڑا ہواہوں۔ میرے کان میں دل کی طرف سے یہ خوشخبری سنائی دی کہ زمانے کی ندی میرے چشمے سے رواں ہے۔ ازل میرے ماضی کی تابانی کا مظہر ہے۔ ابد میرے انتظار کے ذوق وشوق سے ہے۔ تو اپنی مٹھی بھر خاک کی فکر نہ کر بالکل فکر نہ کر۔تیری جان کی قسم!میری کوئی انتہا نہیں ہے۔ ۳۵ میں چشمِ ساقی کی شراب میں مست ہوں۔بن پئے ہی بدمست ہوں، بن پئے ہی بدمست ہوں! آپ کی بے حجابی نے میرے شوق کو ہوا دی ہے۔اِس پیچ وتاب میں ہوں کہ دیکھوں یا نہ دیکھوں۔ جس طرح شمع کا دھاگاآگ پکڑ لیتا ہے، اُسی طرح میرے مضراب سے رباب کے تار لو دینے لگتے ہیں۔ میرے دل کی منزل گاہ میرے دل سے باہر نہیں، اُس کے اندر ہی ہے۔ میں ہی بدنصیب ہوں کہ اُس کی راہ نہیں پارہا۔ جب تک مشرق سے سورج نہیں نکل آتا، ستاروں کی طرح میری آنکھوں سے نیند دوُر کردی گئی ہے۔ ۳۶ آپ نے سورج کی طرح روشن ہوکر میری شب کی سحر کردی ہے۔آپ سورج کی طرح روشن ہیں تو مناسب ہے کہ بے حجاب ہوجائیں۔ آپ نے میرے درد کو جان لیا ہے اور میرے ضمیر میں آرام فرما ہیں۔آپ میری نگاہ سے گریز کرتے رہے ہیں حالانکہ آہستہ آہستہ سامنے آئے ہیں۔ آپ کم قیمت لوگوں کو گراں قدر بنادیتے ہیں اور بے قراروں کا قرار ہیں۔آپ ٹوٹے ہوئے دلوں کی دوا ہیں مگر حاصل دیر سے ہوتے ہیں۔ غمِ عشق اور اُس کی لذت کا اثر دوگونہ ہوتا ہے۔کبھی سوزودردمندی کی شکل میں اور کبھی مستی وخرابی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ میرے دل کا قصہ آپ ہی سنا ئیے کہ آپ اِسے خوب جانتے ہیں۔مجھے بتا ئیے کہ میرا دل کہاں ہے کہ میں اپنے پہلو میں تو اِسے نہیں پاتا۔ آپ کے جلال کی قسم! میرے دل میں کوئی اور آرزو نہیں، سوائے اس کے کہ کبوتروں کو عقابی شان عطاکردوں۔ ۳۷ اے ساقی! اِس میخانے میں مجھے کوئی محرمِ رازنہیںملتا۔ شایدمیں کسی نئی دنیا کا پہلا آدمی ہوں۔ کبھی آپ میرے اِس فرسودہ پیکر کو مٹھی بھر خاک بنادیتے ہیں۔ کبھی اس خاک پر آبِ عشق چھڑک کر اس میں آگ بھڑکادیتے ہیں۔ جب آپ نے عجم میں ایک نئی بزمِ جم بپا کرہی دی ہے تو اب اسے دولتِ بیداراور جامِ جہاں نما بھی عطافرمادیں۔ ۳۸ آپ بتایے کہ دردمندوں کے جہاں سے بھلا آپ کا کیا واسطہ ہے؟ کیا آپ میری تب و تاب پہچانتے ہیں یا مجھ سا بیقرار دل رکھتے ہیں؟ آپ کو ان آنسوؤں کی کیا خبر جو کسی کی آنکھ سے ٹپکتے ہیں۔ کیا آپ کے یہاں بھی برگِ گل پر پڑی شبنم موتی کی طرح چمکتی ہے؟ آپ کو اِس جان کا حال کیا بتاؤں جسے ایک ایک سانس گن کر گزارنا پڑتی ہے۔کیا آپ کے پاس بھی مستعار لی ہوئی جان ہے یا آپ بھی غمِ روزگار رکھتے ہیں؟ ۳۹ اگر نظارہ بیخودکردیتاہے تو حجاب ہی بہتر ہے۔ مجھے یہ سوداقبول نہیں کہ یہ بہت مہنگا ہے۔ اب آپ ہم سے بے پردہ ہوکر سامنے آکر گفتگو کریں۔ کم آمیزی کے دن بیت گئے جب دوسرے بتایا کرتے تھے کہ آپ ہم سے یہ چاہتے ہیں،آپ ہم سے وہ چاہتے ہیں۔ میری بے ادب نگاہ نے آسمان میں رخنے ڈال دیے ہیں۔ اب بھی اگرآپ درمیان میں حجاب چاہتے ہیں تو ایک نیا عالم بنالیجیے۔ آپ کو تو اپنا اِتنا خیال ہے کہ اپنی بے نیازی کے باوجودآپ اپنے وجود پر گواہی اپنے دوستوں کے خون سے چاہتے ہیں۔ مقامِ بندگی اور ہے، مقامِ عاشقی اور ہے ۔آپ فرشتوں سے تو صرف ایک سجدہ چاہتے ہیں، خاکیوں سے اِس سے زیادہ کے طلبگار ہیں۔ میرے پاس جو خام تانبا ہے میں اُسے آپ کی محبت سے کیمیا بنارہا ہوں کہ کل جب میں آپ کے حضور پیش ہوں گا توآپ پوچھیں گے میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو! ۴۰ آپ کے نور نے سفید وسیاہ کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔دریا، پہاڑ، صحرا، جنگل، سورج اور چاند وجود میں آئے۔ آپ اُس کی خواہش رکھتے ہیں جسے نگاہ دیکھ سکتی ہے۔ مجھے اُس کی تلاش ہے جسے نگا ہ نہیں پا سکتی۔ ۴۱ مجھے ایسا دل عطا کردیجیے جس کی مستی اُس کی اپنی شراب سے ہو۔یہ دل مجھ سے واپس لے لیجیے جو خود سے بیگانہ ہے اور دوسروں کے افکار رکھتا ہے۔ مجھے ایسا دل عطاکیجیے جو پوری دنیا کو اپنے اندر سمولے۔ یہ دل مجھ سے لے لیجیے جو کم اور زیادہ کے چکر میں پھنسا رہتا ہے۔ مجھے تقدیر کے ترکش سے باہر نکال لیجیے۔ جو تیر ترکش کے اندر ہو وہ جگر کے پار کیسے ہوسکتا ہے؟ جہانگیری سے زندگی کمزور نہیں ہوجاتی۔میں نے تو ایک جہاں اپنی گرہ میں باندھ رکھا ہے اور دوسرا میری نظر کے سامنے ہے۔ ۴۲ یہ مٹھی بھرخاک ہی میرا سب کچھ ہے۔ میں اِسے اِس امید پر راہ میں بکھیر رہا ہوں کہ ایک روز میں اِسے فلک تک پہنچا دوں گا۔ کیا کروں، بھلا اِس کا کیا علاج کہ علم ودانش کی شاخ پرذرا سا بھی کوئی ایسا کانٹا پیدا نہیں ہوتا جس کا نشانہ میں اپنے دل کو بنا سکوں۔ جدائی کی آگ سے ہی میرے شرر کی نمود ہے۔ اگر میں اسے ہی بجھا دوں تو میرا نشان تک مٹ جائے گا۔ عشق ومستی کی مے میرے خون میں رچی ہوئی ہے۔میں نے دل ایسے نہیں دیا کہ پھر اسے واپس لے لوں ۔ آپ نے میرے دل کی سادہ تختی پر سارا مدّعا اور مقصد لکھ دیا ہے۔ اب مجھے اتنی سمجھ بھی عطا کیجیے کہ اسے غلط نہ پڑھ لوں۔ اگر آپ کے حضور کوئی میری غزل پیش کرے تو کیا ہی خوب ہو کہ آپ کہیں، ’’میں اُسے جانتا ہوں۔‘‘ ۴۳ یہ دل جوآپ نے مجھے عطا کیا ہے، یقیں سے لبریز ہوجائے تاکہ یہ جامِ جہاں بیں اور بھی زیدہ روشن ہوجائے۔ اگرچہ گَردُوں نے میرے جام میں تلخ شراب ڈالی ہے، میرے جیسے پرانے رِند کے لیے وہ بھی شیریں ہوجاتی ہے۔ ۴۴ ہوس والوں سے عشق کی رمز بیان نہیں کی جاسکتی۔جس طرح شعلے کی تب و تاب کی بات گھاس کی پتی سے نہیں کی جاسکتی۔ آپ نے مجھے ذوقِ بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ میں شعر کہوں لیکن جو کچھ میرے سینے میں ہے وہ میں کس طرح کسی سے کہوں۔ میرے دل کے نہاں خانے سے خوبصورت غزل نکلتی ہے مگر وہ شاخ پر بیٹھ کر ہی سنائی جاسکتی ہے۔ قفس میں کیسے سناؤں! شوق اگر زندۂ جاوید نہ ہوسکے تو تعجب کی بات ہے۔ آپ کی باتیں اِس دو پَل کی زندگی میں توبیان نہیں ہوسکتیں۔ ۴۵ وہ بھی کیا دن تھے جب میں رُباب اور بنسی کے ساتھ شراب نوش کرتا تھا! مے کاجام میرے ہاتھ میں ہوتا تھا اور مینا محبوب کے ہاتھ میں۔ اگرآپ میرے ساتھ ہوں تو خزاں میں رنگِ بہار پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ نہ ہوں تو بہار کا موسم خزاں سے بھی زیادہ افسردہ ہوجاتا ہے۔ آپ کے بغیر میری جان ایسے ہے جیسے کوئی ساز جس کے تار ٹوٹ چکے ہوں۔ آپ کے حضور میں میرے سینے میں ہر لمحہ نئے نئے نغمے پھوٹتے رہتے ہیں۔ کیا آپ کو خبر ہے کہ میں بزمِ شوق میں کیا چیز لے کر آیا ہوں؟ ایک پھولوں کا چمن، ایک نالہ بھرا نیستاں اور ایک بھرا ہوا میخانہ۔ مجھ میں وہ محبت ایک بار پھر زندہ کردیجیے جس کی قوت سے بے گھر بوریا نشیں، کیکاؤس کے تاج و تخت کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ دوست خوش ہیں کہ یہ آوارہ گرد اپنی منزل پر پہنچا۔ میں پریشان ہوں کہ ابھی تو علم ودانش کے مرحلے ہی طے کررہا ہوں۔ ۴۶ ہماری روتی ہوئی آنکھ نے ہمارے گریبان پر ستارے برسائے ہیں۔ ہمارا یہ ذوقِ نظر ہمیں آسمانوں سے پرے لے گیا ہے۔ ہرچندکہ ہم زمین والے ہیں، ہم ثریا سے بلند تر ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چنگاری جیسی مختصر زندگی ہمارے شایان ِ شان نہیں ہے۔ دنیا کے شام و سحر ہماری ہی گردش سے جنم لیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ شام وسحر ہمیں راس نہیں آسکتے۔ گردوں کا یہ جام تو ہم خالی کرچکے۔ اس لیے اے ساقی! تکلف سے کام نہ لیجیے۔ مجھے ایک اور مینا عطافرما دیجیے۔ دوجہانوں کی وسعت بھی ہمارے جنون کے شایاں نہیں۔ یہ جہاں بھی ہمارے لیے محض راہگذر ہے، اور وہ جہاں بھی رہگذر ہے۔ ۴۷ مشرق کہ جس کی کمندِ خیال میں آسمان بھی گرفتار ہے،افسوس کہ اب وہ خود اپنے آپ سے دور اور سوزِ آرزو سے خالی ہوچکا ہے۔ اس کی تیرہ وتاریک خاک میں زندگی کی تب وتاب نہیں ہے۔وہ محض ساحل پر کھڑا لہروں کی جولانیاںہی دیکھ رہا ہے۔ بت خانے اور حرم دونوں کی آگ سرد ہوچکی ہے۔ اب پیرِ مغاں تک کے پاس محض ہواکھائی ہوئی بے اثر شراب ہے۔ مغرب کی فکر مادّیت کے سامنے سربسجود ہوچکی ہے۔ وہ آنکھوں سے اندھی ہے۔ پھر بھی دنیائے رنگ وبو کے نظارے میں مست ہے۔ یہ آسمان سے بھی زیادہ تیزی سے رنگ بدلنے والی ہے۔ موت سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اس کے ہاتھوں ہمارا دامن کچھ ایسے چاک ہوا ہے کہ اب رفو نہیں ہوسکتا۔ ہے تو یہ خاکی نہاد مگر خو تمام آسمان ِ کہن جیسی ہے۔ ویسی ہی عیار،مکاّر،ناقابلِ اعتبار اور فتنے برپا کرنے والی منافق ہے۔ مشرق تباہ حال ہے اور مغرب اُس سے کہیں زیادہ تباہ ہے۔سارا عالم مردہ اور میری جستجو کے ذوق سے بے بہرہ ہے۔ اے ساقی اپنی محبت کی شراب پلا یے کہ ایک بار پھر سے وہ بزمِ شبانہ آباد کریں۔ ہمیں اپنی ایک نگاہِ محرمانہ سے مست کردیجیے۔ ۴۸ اپنے گیسوئے تابدار کے پیچوں میں ایک دو بل اور بڑھا دیجیے۔ اِس دلِ بے قرار کو تڑپنے کی مہلت بھی نہ دیجیے۔ آپ ہی سے میرے سینے میں وہ برقِ تجلّی ہے جس کی وجہ سے مہروماہ میرے انتظار کی تلخی اُٹھارہے ہیں۔ محبوب کو اپنے سامنے دیکھنے کی خواہش نے دنیا میں بت تراشی کی رسم ڈالی۔ عشق اِسی طرح اُمید رکھنے والے کو فریب میں ڈالتا ہے۔ مرغزار سے محبت کرنے والے پرندے کو ایک بار پھر مرغزار عطاکردیجیے تاکہ وہ سکون ِ قلب کے لیے نئے نغمے چھیڑ سکے۔ آپ نے مجھے طبعِ بلند عطافرمائی ہے تو میرے پاؤں بھی ہر بند سے آزاد کردیجیے تاکہ میں آپ کے دیے ہوئے بوریے کو بادشاہوں کی خلعت پر قربان کرسکوں۔ فرہاد کے تیشے نے اگر پتھرپھاڑ دیا تو اِس میں حیرت کی بات کیاہے؟ عشق تو اپنے شانوں پر پوراکوہسار اُٹھاسکتاہے۔ ۴۹ میری روح زمانے کے دوش پر بہتی ہے۔ ندی کی طرح کوہساروں کے درمیان فریاد کرتی جا رہی ہے۔ ہم ناپائیدار اِس پائیدار کائنات سے نبردآزما ہیں، پیدا ہوکر بھی اور پنہاں ہوکر بھی! یہ کوہ وصحراایہ دشت ودریا نہ ہمارے رازدار ہیں اور نہ غمگسار! یہ ندیاں یہ آبشاریں سب شوق سے خالی ہیں۔ شاخوں پر بیٹھے بلبل کے ہزاروں گیت بھی سب کے سب بے سوز نالے ہیں۔ وہ داغ جو میرے سینے میں سلگ رہا ہے، آہ ایسا داغ لالہ زاروں میں کہاں! ۵۰ آپ نے میرے دل کو جو تسلی دی تھی اُس سے اِس کی تڑپ ختم نہیں ہوئی۔ اب میں اِسے ایک بار پھر آپ ہی کے حوالے کرتا ہوں۔ یہ بھی کیسا دل ہے کہ ایک ایک سانس محنت سے کھینچتا ہے اس لیے کہ اِسے خود اپنے حالات پر اختیار نہیں ہے۔ میں توآپ کے ضمیر میں آرام کررہا تھا ۔ آپ نے اپنے جوش ِ خودنمائی میں اپنے اِس آبدار موتی کو کنارے پر پھینک دیا۔ چاند ستاروں کوآپ سے شکایت ہے، جو آپ نے بھی سنی ہوگی، کہ میری اس تاریک خاک میںآپ نے اپنا شرارہ پھونک دیا ہے۔ اُن کے تیر کی خلش ہی ہمیں غنیمت ہے ۔ اگر شکار مردہ ہوکر اُن کے قدموں میں گر جاتا تو اُنہوں نے اپنے شکار کواُٹھانا بھی نہیں تھا۔ ۵۱ سارے جہاں کی خواہشات کو محض ایک حرف میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ میں نے اپنی داستان کو طول اس لیے دیا ہے کہ آپ کے حضور زیادہ دیر تک رہ سکوں۔ آپ نے اپنے عشاق کی گویائی سلب کرلی مگرآپ نہیں جانتے کہ محبت بے زباں نگاہوں کو بھی گویائی عطاکردیتی ہے۔ کہاں وہ نوری مخلوق جو پیغام رسانی کے سوا کچھ نہیں جانتے اور کہاں یہ خاکی جو آسمان کو بھی اپنی آغوش میں لے سکتے ہیں! اگر میرے وجود کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک ذرّہ بھی کم ہوجائے تو میں اِس قیمت پر ہمیشگی کی زندگی بھی لینا پسند نہیں کرتا۔ اے بے پایاں سمندر! میںآپ کی موجوں کی کشمکش کا خواہشمند ہوں نہ مجھے موتی کی آرزو ہے اور نہ ہی ساحل کی تلاش! وہ معانی جوآپ نے میری جان پر شبنم کی طرح برسائے ہیں میں نے اُن سے اظہارِ فریاد کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کرلی ہے۔ ۵۲ آپ کب تک اپنے چہرے پر صبح وشام کا پردہ ڈالے رکھیں گے؟اپنا چہرہ دکھا ئیے تاکہ آپ کا جلوۂ ناتمام مکمل ہوسکے۔ سوزوگداز ایسی حالت ہے کہ آپ بھی مجھ سے یہ بادہ طلب کریں اگر میں اس مقام کی مستی کی کیفیت آپ کے حضور بیان کروں۔ میں نے زندگی کا نغمہ گاکر لالۂ تشنہ کام میں آتشِ شوق تو بھڑکادی ہے آپ شبنم کی نمی بھی عطافرمادیجئے۔ عقل ورق ورق ہوکر رہ گئی اورعشق اصل نکتہ پاگیا۔اس زیرک پرندے نے اپنے لئے بچھے جال کے نیچے سے دانہ اٹھالیا۔ نغمہ کہاں اور میں کہاں سازوسخن تو محض بہانہ ہے اصل میں تو میں بھٹکے ہوئے اونٹوں کو دوبارہ قطار کی جانب کھینچ رہا ہوں۔ وقت تو کھلی ہوئی بات کہنے کا ہے مگر میں اشاروں میں بات کرتا ہوںآپ ہی بتائیے کہ ان ناپختہ ساتھیوں کا میں کیا کروں؟ ۵۳ ہم اپنے زمانے کے پیچاک میں پھنسے اپنی سانس گِن رہے ہیں۔سمندر کی طرح جوش وخروش دکھاتے ہیں مگر کنارے پر گرفتار ہیں۔ اگرچہ سطوتِ دریا سے کوئی محفوظ نہیں ہے مگر ہم اس کے صدف کے اندر موجود موتی کی طرح اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ ہماری فطرت کے اندر جو جوہر پنہاں ہے اس کی قیمت صرّافوں سے نہ پوچھوہم خود ہی اس کی قیمت جانتے ہیں۔ ہمارے اس کھنڈر سے اب کوئی خراج کا طالب بھی نہیں ہے۔ہم فقیر ِ راہ نشیں ہیں اور آپ اپنے بادشاہ ہیں۔ ہمارے سینے میں کوئی اور بھی ہے کیا؟تعجب ہے کیا خبر یہ آپ ہیں یا ہم خودہی اپنے آپ سے دوچار ہیں۔ آدمِ خاکی کی تقدیر سے ذرا پردہ تو اٹھائیے کہ ہم آپ کی رہگذر میں بیٹھے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ ۵۴ میں نے فغاں کے لیے لب نہیں کھولے کہ نالہ بے اثر ہے۔بہتر ہے کہ اپنا غمِ دل کسی سے نہ کہیں کہ ہر کسی کے پاس اتنا جگر نہیں کہ اسے برداشت کرسکے۔ کیا حرم کیا دیر ہر جگہ آپ سے محبت کے چرچے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہمارے آپس کے راز وں سے سب بے خبر ہیں۔ یہ بات دیکھی نہیں جاتی کہ شرر ہمارے جہان کی طرف ایک لمحے میں نگہ کرتا ہے اور دوسرے لمحے نہیں دیکھ پاتا۔ آپ میری آنکھوں کے راستے میرے ضمیر میں بس گئے ہیں مگر اس طرح گزرے کہ نگہ کو خبر تک نہ ہوسکی۔ ان جوہر شناسوں میں سے کوئی بھی میرے نگینے کی قیمت کو نہیں پاسکا۔میں اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں کہ دنیا والے تو نظرہی نہیں رکھتے۔ عقل کو خیرہ کردینے والی جس شراب کا پیالہ فرنگ نے ہمیں تھمایا ہے وہ آفتاب تو ہے مگر روشن کرنے کی تاثیر سے محروم ہے۔ ۵۵ ہم کہ چاندنی سے زیادہ درماندہ واقع ہوئے ہیں کسی کو کیا پتا ہم نے یہ راہ کیسے طے کی ہے۔ آپ نے رقیبوں سے ہمارے دردِ دل کی بات کہہ دی ہے اور ہم اپنے آہ ونالہ کے اثر سے شرمسار ہوگئے ہیں۔ اپنے چہرہ سے پردہ اُٹھائیے کہ ہم خورشیدِ سحر کی طرح آپ کے دیدار کے لئے سراپا نگاہ بن کر آئے ہیں۔ ہمارے عزم کو یقین کی دولت سے اور پختہ کردیجئے کہ ہم اس معرکے میں بغیر کسی لشکر اور سپاہ کے آئے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ ایک نگاہ سرِ راہ کیا کرسکتی ہے آپ یہ دیکھئے کہ ہم آپ کے حضٰور میں استدعا کرکے اب راہ میں کھڑے ہیں۔ ۵۶ ذرا ہماری خاکِ پریشاں پر بھی نظرڈالیے۔ دیکھیے کہ کیسے یہاں کا ذرّہ ذرّہ بیاباں کو اپنے آپ میں سمیٹ لیتا ہے۔ حسنِ بے پایاں ایک سینے کی خلوت میں سمایا ہوا ہے۔ذرا اپنے آفتاب کو اس گریبان کے اندر ملاحظہ فرمائیے۔ آپ نے خود آدم کے دل کو عشقِ بلاانگیزعطاکیا اب اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کو نیستاں کی آغوش میں دیکھئے۔ یہ اپنے دامن سے پرانے داغ دھورہا ہے ذرا اس آلودہ دامن کی سخت کوش محنت پر تو نظر کریں۔ ہماری خاک ایک دوسرا آسمان تعمیر کرنے کے لئے اٹھتی ہے ذرا اس ناچیز ذرہ کا حوصلہ تو دیکھیے کہ بیاباں کی تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے۔ حصہ دوم تم سدرہ کے درخت کی شاخ ہو۔ چمن کا خاروخس مت بنو۔ اگر اُس کی ذات کے منکر بھی ہو تو اپنی ذات کے منکر مت بنو۔ ٭ میرے پاس جو مینا ہے اُس میں دو عالم دیکھے جاسکتے ہیں ۔ کہاں ہے وہ آنکھ جو وہ کچھ دیکھ سکے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ ایک اور دیوانہ آئے گاجو شہر میں نعرۂ حق بلند کرے گا۔ میرے جنوں سے سیکڑوں ہنگامے برپا ہورہے ہیں۔ اے نادان!راتوں کی اس بڑھتی ہوئی تاریکی سے افسردہ نہ ہو کہ میری پیشانی کا داغ ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔ تم مجھے اپنا دوست تو بناتے ہو مگر مجھے ڈر ہے کہ تم میرے شوروہنگامے کی تاب نہ لاسکو گے۔ ۱ اُٹھو کہ آدم کی جلوہ فرمائی کا وقت آگیا ہے ستارے اس مشتِ خاک کے سامنے سربسجودہیں۔ وہ راز جو سینۂ ہستی میں چھپا ہوا تھا اس آب وگِل کی شوخی سے اب اس کی باتیں عام ہونے لگی ہیں۔ ۲ چاند ستارے کہ جو اس راہِ شوق میں ہم سفر ہیں وہ کرشمہ سنج ادا فہم اور صاحبِ نظر ہیں۔ پتہ نہیں انہیں ہماری مٹھی بھر خاک میں ایسا کیا نظر آیا ہے کہ افلاک کی جانب سے منہ موڑ کر ہماری طرف نظر کئے ہوئے ہیں۔ ۳ لالے کے پھول میں سے صبا کی طرح گزرا جاسکتا ہے۔ ایک پھونک سے غنچے کی گرہ کھولی جاسکتی ہے۔ زندگی کیا ہے؟کل جہان کو اپنا اسیر کرلینا مگرتم یہ کیسے کروگے تم تو خود اسیرِ جہاں ہو۔ تمہارا ا مقدر ہے کہ چاند ستارے تمہیں سجدہ کریں مگر تم ابھی نہیں جانتے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اگرتم میرے میکدہ سے ایک پیالہ شراب لے لو تو اپنی مٹھی بھر خاک سے ایک نیا جہان پیدا کرسکتے ہو۔ اے اقبال تو نے اپنے سینے میں یہ چراغ کس طرح روشن کیا ہوا ہے؟جو کچھ تونے اپنی ذات کے ساتھ کیا ہمارے ساتھ نہیں کرسکتا؟ ۴ اگر تم بحرِ محبت کا کنارہ پانا چاہتے ہو تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ہزار شعلہ دے کر محض ایک شرر پانا چاہو۔ مجھے تو پرواز کی لذت سے آشنا کیا گیا ہے اورتم چمن کی فضا میں آشیانے کی خواہش کرتے ہو۔ اگر تم محبوب کی نگاہِ آشنا کی خواہش رکھتے ہو توذرا ان لوگوں کے دامن سے وابستہ ہوجا ؤجو اس کے راز سے واقف ہیں۔ جنوں سے واقف نہیں اور شہر میں ہنگامہ برپا کردیا؟اپنا پیالہ توڑ کر تم بزمِ شبانہ کی خواہش رکھتے ہو؟ تم عشوہ گری کرو اور دلیری سیکھو اگر تم ہم سے عاشقانہ غزل کی خواہش رکھتے ہو۔ ۵ زمانہ اُس دل آرام کا ایک تیزرَو قاصد ہے۔ اور کیا قاصد ہے کہ اس کا تمام وجود ہی سراپا پیغام ہے! یہ خیال نہ کرو کہ تمہیں دوست کا جلوہ میسر نہ آئے گا۔ہر چند کہ تمہارے سینے کے اندر آرزوابھی خام ہے۔ میں نے مانا کہ تم شاہین کی طرح بلند پرواز ہو مگر ہوشیار رہو کہ ہمارا صیاّد ایک پختہ کار شکاری ہے۔ جبرئیل ؑ اس مٹھی بھر خاک کی بلندی کو کہاں پاسکتے ہیں۔ان کے نام کی عظمت تو ان کے بلند مقام کی مرہونِ منّت ہے۔ تم جو ایک ایک سانس گن گن کر زندہ ہو تم کیا جانو کہ زندگی تو زمانہ کے طلسم کو توڑ دینے کا نام ہے۔ مغرب کے علم ودانش کے بارے میں اس قدر ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک نگہ اصل حقیقت کو پانے میںناکام رہے تب تک اس کی آہ وفغاں خوب لگتی ہے۔ میں اب ہلال اور صلیب کے معرکے کے بارے میں فکر مند نہیں ہوں کہ زمانے کے دل میں ایک نیا اور اس سے کہیں بڑا فتنہ پنپ رہا ہے۔ ۶ دوست کی سادہ لوحی کے بارے میں اب میں کیا کہوں کہ میرے سرہانے بیٹھ کر میرے درد کے درماں کی بات کررہا ہے۔ اگرچہ زبان دلیراور مدعا شیریں ہے مگر عشق کے بارے میں اب اور کیا کہوں سوائے اس کے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا ہی خوب ہے وہ شخص جو وجودکی تہہ میں اتر گیا اور موتیوں جیسا سخن نکال لایا اور اسے آسان زبان میں کہہ بھی دیا۔ میں ان کے بولوں کی لذت کا مارا ہوا ہوں کہ جب انہوں نے مجھے پہچان لیا تو زیرِ لب غصہ سے کہا کہ ’’خانہ خراب‘‘! غم نہ کرو کہ جہان خوداپنا راز نہیں کھول سکتا کہ جو بات پھول نہیں کہہ پاتا وہ مرغِ نالاں کی فریادکہہ دیتی ہے۔ وہ پیامِ شوق جو میں بے حجابی سے کہہ رہا ہوں وہ شبنم نے گلِ لالہ پر گرکرچپکے سے کہہ دیا۔ اگر میں نے بکھری بکھری مجنونانہ گفتگو کی ہے تو اس میں حیرت کیا ہے؟اس کے گیسوئے پریشاں کی بات جس نے بھی کی ہے اسی طرح کی ہے۔ ۷ عقل ذوقِ نظر کی وجہ سے ہی نظارے میں مصروف ہے۔یہ عقل جو ڈھونڈتی ہے اور پالیتی ہے۔ تم پاک ذات کا جلوہ طلب کرو اور مہہ وخورشید سے آگے گذر جا ؤکہ اس دیر کا ہر جلوہ نگاہ سے آلودہ ہے۔ ۸ میں ان زندہ دلوں کا غلام ہوں جو عاشق ِ صادق ہیں ان خانقاہوں کا نہیں جن کے دل عشق ومستی سے خالی ہیں۔ یہ زندہ دل لوگ رنگوں سے آشنا بھی ہیں اور بے رنگ بھی ہیں یہی ہیں جو مسجد،میخانہ اور صنم کدہ کے لئے معیار ہیں۔ ان کی نگاہ مہ وپروین سے بھی بلند ہے اور وہ کہکشاں کو بھی آشیانے کے لئے پسند نہیں کرتے۔ وہ محفل میں رہتے ہوئے بھی محفل سے جدا ہیں خلوت میں رہتے ہوئے بھی وہ ہر کسی کے ساتھ ہیں۔ ان عاشقانِ صادق کو کم تر نہ سمجھو کہ یہ بظاہر کم قیمت نظر آتے ہیں مگر یہی ہمارے قافلے کی اصل متاع ہیں۔ انہوں نے غلاموں کو آ زادی کا پیعام دے دیا ہے اوراب شیخ وبرہمن بے قافلہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ پیالہ اٹھا کر کہتے ہیں کہ شراب حلال ہے ۔یہ حدیث گو کہ ضعیف ہے مگر اس کے راوی ثقہ ہیں۔ ۹ اس چمن کے لالے ابھی تک رنگ سے آلودہ ہیں۔ ڈھال ہاتھ سے مت رکھو کہ جنگ ابھی جاری ہے۔ وہ فتنہ کہ جس کی آغوش میں سیکڑوںفتنے تھے، اسی فرنگ کے ہاں ایک اور فتنہ نے جنم لیا ہے جو ابھی پنگھوڑے میں ہے۔ تم کہ ابھی تک لبِ ساحل آسودہ کھڑے ہو اٹھ کھڑے اہوکہ تمہاراواسطہ اب گرداب اور مگرمچھوں سے پڑگیاہے۔ تیشے کو ہاتھ سے چھوڑ کر بیٹھ رہنا عقلمندی نہیںہے۔کتنے ہی لعل ہیں جو ابھی تک پتھرکے دل میں موجود ہیں۔ ذرا ٹھہرو کہ میں ایک نئے مقام سے پردہ سِرکاؤں ۔میں ان نغموں کے بارے میں اب کیا بیان کروں کہ جو ابھی سازمیںچھپے ہوئے ہیں۔ اس جہاں کا نقش تخلیق کرنے والے نے جب میرے جنون کو دیکھا تو کہا کہ تمہارے جنون کے لئے تو یہ ویرانہ بھی ابھی ناکافی ہے۔ ۱۰ حق کی خدمت کے لیے دلائل اور اثر انگیزبیان پر بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے مگر کبھی شمشیر و سناں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ عاشق تو اپنے عشق کے کہنے پر چلتے ہیں لہٰذاکبھی خرقہ کے نیچے زرّہ بھی پہن لیتے ہیں۔ جب یہ جہاں پرانا ہوجائے تو اس کا نام ونشاں مٹادیتے ہیں اور پھر اسی آب وگلِ سے نیا جہان تخلیق کرلیتے ہیں۔ وہ ایک نگاہ کو پانے کے لئے اپنا کل سرمایہ لٹا دیتے ہیں یہ عجیب قسم کے لوگ ہیں کہ خوشی خوشی خسارے کا سودا کرلیتے ہیں۔ کچھ عجیب نہیں کہ یہ لوگ گوہِ گراں کے ساتھ بھی وہی کچھ کرجائیں جو موجِ ہوا گھاس کی پتی کے ساتھ کرتی ہے۔ عشق بھی بازارِ حیات میں ایک متاع کی طرح ہے۔کبھی یہ متاع نہایت سستی مل جاتی ہے اور کبھی بہت گراں۔ میں نے آہ وفغاں محض اس لئے بلند کی ہے تاکہ تم بیدار ہوجاؤ ورنہ عشق تو وہ کام ہے جو آہ وفغاں کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ ۱۱ اپنی خودی میں موج کی طرح مست رہو اور اس مستی سے طوفان اُٹھادو۔تمہیںکس نے کہا ہے کہ بیٹھے رہو اور کوشش ترک کردو۔ چیتے کے شکار کا قصد کرو اور چمن سے نکل کھڑے ہو۔پہاڑپراپنا سامان رکھو اور خیمہ زن ہوجاؤ۔ چاندسورج کی گردن میں دم گھونٹ دینے والی کمند ڈالو اور آسمان سے ستارے توڑ کر اپنے گریبان میں ڈال لو۔ میں نے مانا کہ یہ شرابِ خودی بے حد تلخ ہے لیکن اپنا درد تو دیکھو اور اس کے درماں کے لئے ہمار ا یہ زہر پی لو۔ ۱۲ اس زمانے کا خضر حجاز کے صحراؤں سے نکلے گا اور ایک کارواں پھر اس دوردراز کی وادی سے برآمد ہوگا۔ میں غلاموں کے چہروں میں بادشاہوں کا سا کرّوفردیکھ رہا ہوں۔خاکِ ایاز سے محمود کے شعلے برآمد ہورہے ہیں۔ زندگی مدّتوں کعبہ وبت خانوں میں فریاد کرتی ہے تب جاکے بزمِ عشق سے ایک دانائے راز برآمد ہوتا ہے۔ اہلِ نیاز کے سینوں سے جو نالے بلند ہوتے ہیں وہ کائنات کے دل کے اندر نئے انداز ِ زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ چنگ میرے ہاتھ سے لے لے کہ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے میرا نغمہ خون بن کر سازوں کی رگوں سے برآمد ہورہا ہے۔ ۱۳ میں اور بادشاہوں سے توجہ طلب کروں؟ میں مسلمان ہوں میں مٹی سے خدا نہیں بناتا۔ میں اپنے سینے میں جو بے نیاز دل رکھتا ہوں وہ فقیروں کو بادشاہوں کے سے انداز عطاکرتا ہے۔ آسمان جو کچھ میرے گل ِلالہ پر برساتا ہے میں اسے سبزۂ خوابیدہ پر برساتا ہوں۔ میرا تخیل پروین کی مانند چاند سورج سے روشنی کی بھیک مانگنے نیچے نہیں اُترتا۔ اگر آفتاب بھی میری طرف آئے تو میں شوخی میں اسے راہ سے ہی واپس لوٹا دوں۔ فطرت نے مجھے جو آب وتاب بخشی ہے اس کی بدولت میںکالی گھٹا میں بجلی کی طرح چمکتا ہوں۔ میں حکمرانوں کی ادائیں پہچانتا ہوں یہاں گدھوں کو بلند مرتبے پر بٹھایاجاتا ہے اور یوسف ٓ کو کوئیں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ۱۴ ہر دم درویشی کے نشے میں مگن رہو اور جب اس میں پختہ ہوجاؤ تب سلطنتِ جمشید کے مقابل ڈٹ جاؤ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا تمہیں ہمارا جہان راس آگیا ہے؟میں نے کہا نہیں۔انہوں نے کہاکہ اسے درہم برہم کردو۔ میں نے میکدوں میں کوئی موزوں حریف نہیں دیکھا۔رستم جیسے بازورکھنے والوں سے صحبت رکھو،شراب پلانے والوں جیسے نازک انداموں سے نہیں۔ اے لالۂ صحرائی!تم خٰود کو تنہا کیوں جلاتے ہو اپنے داغِ جگر سے آدم کے سینے کو دہکا دو۔ تم اس کے دل کا سوز ہوتم اس کے خون کی گرمی ہو۔تمہیں یقین نہیں آتا؟تو اس عالم کے پیکر کو چاک کرکے دیکھ لو۔ عقل تمہاراا چراغ ہے؟اسے راہگزر پر ہر ایک کے لئے رکھ دو۔عشق تمہاراجام ہے؟اس کا شغل کسی آشنا کے ساتھ رکھو۔ میرا دل جو خون ہوچکا ہے میں اس کے ٹکڑے آنکھوں سے گر اتا ہوں کہ تم میرے یہ لعل ِ بدخشاں اٹھالو اوراپنی انگوٹھی میں جڑلو۔ ۱۵ ہوس ابھی تک جہانداری کا تماشا دکھانے میں لگی ہوئی ہے۔ابھی اور کتنے فتنے آسمان کے اس نیلے پردے میں چھپے ہیں۔ جب جب عقل جو بھی کچھ تراشتی ہے عشق اسے تب تب توڑ ڈالتا ہے کہ عشق مسلمان ہے اور عقل زناّری ہے۔ تم امیر ِ قافلہ ہو سخت اور مسلسل کوشش کرتے رہو کہ ہمارے قافلہ میں حیدری کرّاری سے ہی ملتی ہے۔ تم نے اپنی آنکھ بند کرلی ہے اور کہتے ہو کہ یہ جہان ایک خواب ہے۔آنکھ کھولوکہ یہ خواب جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔ خلوت میں انجمن آراستہ کرو کہ عشق کی فطرت وحدت شناس ہے مگر وہ کثرت کے نظارے بھی پسند کرتا ہے۔ کیا ہی خوش نصیب ہے وہ ہرن کہ جس کا زخم ایسا کاری تھا کہ وہ بس ایک ہی لمحہ کو تڑپا اور شکار بند کی زینت بن گیا۔ میں باغ اور وادی میں اپنے نغمے کے پھول برسارہاہوں۔کتنی قیمتی متاع ہے جو کسادبازاری کی وجہ سے اس قدر ارزاں ہوگئی ہے۔ ۱۶ اگرچہ فرشتہ آسمانوں کے طلسم سے پرے ہے، اُس کی نگاہ اِسی مٹھی بھر خاک کے نظارے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ خیال نہ کرو کہ عشق کا محض ایک ہی انداز ہوتا ہے کہ گل ولالہ کی قبا تو بغیر جنوں کے بھی چاک ہوتی ہے۔ خلوتِ دوست میں شوق کی بات صرف اس نالے کے طور پر بیان ہوسکتی ہے جو کہ نفسانی آلائشوں سے پاک ہو۔ تم تو ستارہ کی آنکھ سے پتلی بھی نکال سکتے ہو کہ تمہارے ہاتھ میں عقل ہے جو شاہین کی طرح تندوچالاک ہے۔ تم اپنا چہرہ کھول کر سامنے لا ؤکہ وہ ذات جس نے کہا تھا ’تم نہیں دیکھ سکوگے‘اب اس کفِ خاک کے جلوہ کی منتظر ہے۔ اس چمن میں نغمہ کس نے گایا اور یہ نوا کہاں سے آئی ہے؟کہ جس سے غنچہ شرمندگی سے سر جھکائے ہوئے ہے اور پھول شرم سے پانی پانی ہوگیا ہے۔ ۱۷ وہ عرب کہاں ہے جو محفلِ شبانہ پھر سے بپا کرسکے؟ عجم کہاں ہے کہ عشق کی ندی کو پھر سے زندہ کردے؟ درویشوں کے خرقے کے اندر ان کے جام شراب سے خالی ہیں۔آہ!کوئی نہیں جانتا کہ وہ جوان اور تیز شراب کہاں ہے۔ اس چمن میں تو ہر کوئی اپنا نشیمن بناتا ہے ایسا شخص کہاں ہے کہ جو آشیانہ بناکر پھر اسے پھونک ڈالے۔ ہزاروں قافلے بیگانوں کی طرح دیکھ کر گزرگئے ایسا کوئی کہاں ہے جو محرمانہ نظرڈالے۔ موج کی طرح اٹھو اور سمندر سے مسلسل دست وگریباں رہو۔اے بے خبرتم کنارے کی تلاش میں ہو بھلا کنارہ کہاں ہے؟ آؤدیکھو کہ تمہارے انگوروں کی رگوں میں تازہ خون دوڑ گیا ہے۔اب نہ کہناکہ وہ بادۂ مغانہ کہاں ہے؟ ایک ہی جست میں زمانوں کو طے کر ڈالو۔تم دورونزدیک کے زمانوں سے گزرچکے اب وقت کہاں ہے؟ ۱۸ صبا کی مانند اٹھو اور نئے انداز سے جینا سیکھو۔گل ولالہ کے دامن کو نئے انداز سے کھینچنا اور متوجہ کرنا سیکھو۔ غنچے کے ننھے سے دل میں اُترجانے کے نئے انداز سیکھو! تم نے درویشی خرقہ پہن لیا مگر بغیر جذبہ کہ تڑپتے رہے ہو۔اور ایسا تڑپنا تمہیں کہیں نہ پہنچا سکا۔ شوق کے چمن میں نئے انداز سے تڑپنا سیکھو! اے کافر اپنے دلِ آوارہ کو ایک بار پھر اسی ذات ِ حقیقی میں لگاؤ اور سب غیروں سے لاتعلق ہوکر خود اپنے آپ کو دیکھو۔ دیکھنا اور نہ دیکھنا اب نئے انداز سے سیکھو! سانس کیا ہے؟پیام ہے تم سنو یا نہ سنو۔تمہاری خاک کے اندر ایک جلوۂ عام ہے مگر تم نے نہ دیکھا۔ دیکھنا بھی اور سننا بھی دوبارہ سیکھو! ہم عقاب سی آنکھ اور شہباز سا دل نہیں رکھتے۔پالتو پرندہ کی طرح لذتِ پرواز نہیں رکھتے۔ اے پالتو پرندے اُٹھو اور پھر سے اُڑنا سیکھو! جمشید ودارا کا تخت یوں سرِ راہ عطا نہیںہواکرتا۔یہ تو کوہِ گراں ہے محض تنکے کے عو ض عطا نہیں ہوا کرتا۔ اسے اپنے خونِ دل سے پھر حاصل کرنا سیکھو! تم نے بہت نالہ وفریاد کی اور تمہاری تقدیر بھی وہی ہے جو کہ تھی۔وہی حلقہ ٔ زنجیر اب بھی ہے جو پہلے بھی تھا۔ نا امید نہ ہو پھر سے نالہ وفریاد سیکھو! تم جل بُجھے؟داغِ جگر سے ایک شرر لے لو۔ایک ذرا خود کو اضطراب میں ڈالو اور پورا نیستاں لے لو۔ شعلہ کی طرح خاشاک کو اپنی لپیٹ میں لے لینا پھر سے سیکھو! ۱۹ اے سوئی ہوئی کلی، دیکھتی ہوئی نرگس کی طرح اُٹھو! ہمارا گھر غموں کی یلغار میں ڈھے گیا ہے، اُٹھو! باغ کے پرندوں کی فریاد سے، صبح کی اذان سے اُٹھو!آتش بیانوں کے ہنگامے کی گرمی سے اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! دیکھو کہ سورج نے صبح کی پیشانی کو زینت بخش دی۔ صبح کے کان میں خونِ جگر کا آویزہ سجا دیا۔ صحراؤں اور پہاڑوں سے قافلوں نے رختِ سفر باندھے۔ اے دنیا کو دیکھنے والی آنکھ، دنیا کا نظارہ کرنے کے لیے اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! تمام مشرق راستے کی دُھول جیسا ہوا ہے۔ ایک خاموش فریاد اور بے اثر آہ ہے۔ اِس مٹی کا ہر ذرّہ ایک بھٹکی ہوئی نگاہ ہے۔ ہندوستان اور سمرقند اور عراق اور ہمداں سے اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! تمہارا دریا بھی کوئی دریا ہے جو صحرا کی طرح پرسکون ہے۔تمہارا دریا بھی کوئی دریا ہے جو نہ بڑھتا ہے، نہ اُترتا ہے۔جو طوفان اور خطرے سے خالی ہے، یہ کیسا دریا ہے؟ اس کے چاک سینے سے اُمنڈتی ہوئی موج کی طرح اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! یہ نکتہ چھپے ہوئے رازوں کو کھولنے والا ہے: ملک مٹی کا جسم ہے اور دین روحِ رواں ہے۔ جسم اور روح کے تعلق ہی سے جسم زندہ ہے اور روح زندہ ہے۔ خرقے اور جانماز، تلوار اور نیزے کے ساتھ اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! ناموسِ ازل کے تم امین ہو، تم امین ہو۔ دنیا کی حکومت کا بایاں بازو تم ہو، دایاں بازو تم ہو۔ اے بندۂ خاکی تم زمانی ہو، تم زمینی ہو۔ یقین کی شراب پیو اور گمان کے بتکدے سے اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! فریاد ہے افرنگ سے اور اُس کی دلآویزی سے! فریاد ہے افرنگ کے شیرینی اور پرویزی سے! دنیا تمام ویرانہ ہے افرنگ کی چنگیزی سے! حرم کے معمار، ایک بار پھر دنیا کی تعمیر کے لیے اُٹھو! گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو! گہری نیند سے اُٹھو! ۲۰ ہماری دنیا برباد ہو کر خاک ہو چکی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ گزرے ہوئے دن کبھی دوبارہ آئیں گے۔ وہ رات کہ جس میں گورِ غریباں میںٹھکانہ ہو اس میں چاند ستارے نہیں ہوتے۔تو اسکی سحر کیسے ہو؟ وہ دل کہ جو ایک مستقل اضطراب کا آرزومندہے کون جانے کہ وہ برق ہوجائے یا شعلہ؟ مت ڈرو کہ نگاہِ شوق، بلند تخیل اور اپنی خودی کا احساس کبھی خاکِ راہ نہیں ہوں گے۔ دنیا میں اس طرح زندگی گزار وکہ اگر ہماری موت مرگِ دوام بن جائے تو خدا خود اپنے کئے پر شرمندہ ہو۔ ۲۱ ہمیں اپنے گزرے ہوئے کل اور آنے والے دنوں پر ایک بار پھر سے نظر ڈالنی چاہیے۔خبردارہوجا ؤاور اٹھو کہ ایک بار پھر غوروفکر کی ضرورت ہے۔ عشق زمانے کے اونٹ پر اپنا محمل باندھتا ہے۔عاشقی کیا ہے؟شام وسحر پر سواری کرنا!اگر تم عاشق ہو تو تمہیں بھی یہی کرنا چاہیے۔ ہمارے بزرگ نے ہمیں بتایا کہ دنیا ایک ہی روش پر قائم نہیں رہتی۔اس کی خوشی وناخوشی پر توجہ نہیں کرنی چاہیے۔ تم اگر ترکِ جہاں کرکے اس کو سر کرنا چاہتے ہو تو تمہیں پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ میں نے اسے کہا کہ میرے دل کے اندر لات ومنات بسے ہوئے ہیں اس نے کہا کہ پہلے اس بتکدہ کو تہس نہس کرنا پڑے گا۔ ۲۲ میرا تخیل آسمان کے نظارے میں محو رہا ہے۔ کبھی وہ چاند کے شانوں پر سوار رہا کبھی کہکشاں کی آغوش میں رہا۔ یہ مت سمجھو کہ صرف یہی زمین ہی ہمارا نشیمن ہے کہ ہر ستارہ ہمارا جہان ہے یا رہ چکا ہے۔ حقیر سی چیونٹی کی آنکھ پر بھی ہزار ایسے نکتے آشکار ہیں جو ابھی ہماری آنکھ سے اوجھل ہیں۔ زمین اپنی پشت پر الوند اور بیستوں جیسے بلند پہاڑ خوشی سے اٹھا کر رکھتی ہے مگری ہماری یہ ذرا سی خاک بھی اسے اپنے شانوں پر گراں گزرتی ہے۔ لالہ کے خون بھرے پیالے کے داغ دیکھ کر ہی میں اس نکتہ پر پہنچاہوں کہ یہ اکھڑی ہوئی سانس والا بھی کبھی عاشق کی طرح صاحبِ فغاں رہ چکا ہے۔ ۲۳ نغموں نے مجھ پر قیامت ڈھا دی مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔ محفل کے سامنے آواز کے زیروبم اور مقام وراہ کے سوا کچھ نہیں۔ میری سرشت میں عشق کو فکر ِ بلند کے ساتھ ملا دیا گیا ہے میں ہمیشہ ناتمام ہی رہوں گا چاند کی طرح نہیں کہ کبھی کامل کبھی ناتمام۔ آہ وفغاں کو گوارا کرلوکہ عشق جب تک آہ وفغاں میں مشغول رہتا ہے اسے اپنے جنوں سے حقیقی آگاہی نہیں ہوپاتی۔ شعلہ ہوجا ؤاور اپنے سامنے آئے ہر خاشاک کو پھونک ڈالو کیونکہ اس کے بغیر خاکیوں کو زندگی میں داخلہ کی راہ نہیں مل سکتی۔ تم نر شاہین ہو پالتو پرندوں کی صحبت نہ رکھو۔اٹھو اور اپنے بال وپر پھیلا ؤتمہاری پرواز نیچی نہیں ہے۔ شبستان ِ وجود میں شاعر ایک جگنو کی طرح ہے کبھی اس کے پروں میںآب وتاب ہوتی ہے کبھی نہیں۔ اقبال نے اپنی غزل میں خودی کے احوال کھول کر بتادیے ہیں۔یہ نوآموز کافر ابھی بت خانے کے آئین سے واقف نہیں۔ ۲۴ میرے میکدے کی شراب ’’جمشید‘‘کی یادگار نہیں ہے۔میں نے تو اپنا جگر عجم کے شیشہ میں نچوڑ دیا ہے۔ آدم اپنے وجود کی تلاش میں موج کی طرح تڑپتا ہے مگر ابھی کمر تک عدم ہی میں گرفتار ہے۔ آؤ کہ ہم ابراہیم خلیل اللہ ؑکی طرح اس طلسم کو توڑ دیں کہ ہم نے تمہارے سوا اس بت خانے میں ہر طرف صرف بت ہی دیکھے ہیں۔ اگر تم اس کائنات کی تہہ میں نہ جاسکے تو پھر نگاہ کو محض اسے دیکھنے کے لئے استعمال کرنا ظلم ہے۔ ہماری لغزشوں میں بھی ایک لذت ہے میں خوش ہوں کہ ہماری منزل دور ہے اور راستہ پیچیدہ ہے۔ وہ تغافل جس نے مجھے محبوب کو دیکھنے کا موقع عطا کیا وہ ہے تو تغافل مگر التفاتِ مسلسل سے بھی بہتر ہے۔ اگرچہ میں بت خانہ میں پروان چڑھا ہوں مگر میرے لبوں سے وہی باتیں ٹپکی ہیں جو حرم کے دل میں ہیں۔ ۲۵ میں لالۂ صحرا ہوں مجھے خیاباں سے دور دشت وکہسار وبیاباں میں لے جاؤ۔ لومڑی سی مکاّری سیکھ کر میں خود اپنی اصل سے دور ہوچکا ہوں۔چارہ گرو!مجھے نیستاں کی آغوش میں پہنچادو۔ میرے سینے میں ایک حرف پوشیدہ تھا جسے میں نے گم کردیا۔اگرچہ میں بہت عمر رسیدہ ہوں مگر پھر بھی مجھے ایک حق آگاہ ملاّ کے پاس لے چلو۔ اگرچہ میں ایک سازِ خاموش ہوں مگر پھر بھی اپنے اندر ایک نوائے دگر بھی رکھتا ہوں۔مجھے کسی ایسے شخص کے پاس لے چلو جو میرے ساز پر سے پردہ اٹھادے۔ میری رات میں اس پرانے داغ کا آفتاب ہی میرے لئے کافی ہے لہٰذا یہ چراغ جو فانوس کے اندر ہے اسے میرے شبستان سے دور لے جاؤ۔ میں جس نے غلاموں کو بادشاہی کے رازوں سے آگاہ کیا،میں قصوروار ہوں مجھے سلطان کے آگے لے جاؤ۔ ۲۶ میں نئی بات کرتا ہوں مگر کوئی اس کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا۔آہ!یہ جلوہ خون ہوگیا اور کوئی نگاہ بھی اسے پانے کو نہ پہنچی۔ پتھر بن جاؤ اور اس کارگہہِ شیشہ گری میں سے گزرجاؤ۔افسوس اس پتھر پر جو بت بن کر جامد ہوگیا اور صراحی تک نہ پہنچ سکا کہ اسے توڑ ہی سکتا۔ کہنہ روایات کو توڑ ڈالو اور پھر تعمیر کی طرف قدم بڑھا ؤجو بھی کوئی محض ’لا‘میں پھنس جاتا ہے وہ ’ااِلاّ‘تک نہیں پہنچ پاتا۔محض ’لا‘میں ہی نہ الجھ جا کہ پھرا ’اِلاّ‘تک نہ پہنچ پائے۔ کیا ہی خوش نصیب ہے وہ چھوٹی سی ندی کہ جو اپنے ذوق ِ خودی کی وجہ سے خاک کے اندر چلی گئی اور دریا تک نہ پہنچی۔ موسیٰ ؑکلیم اللہ سے سبق سیکھو نہ کہ فرنگ سے جنہوں نے بحر کا سینہ چیر ڈالا مگر طورِ سینا تک نہ پہنچ سکے۔ عشق نے ہمارے ہی دل سے تڑپنے کے یہ انداز سیکھے ہیں ہمارا ہی شرر ایک جست میں پروانے تک پہنچ گیا۔ ۲۷ عاشق وہ نہیں جو ہر وقت آہ وفغاں میں مصروف رہے عاشق تو وہ ہے جو دوجہانوں کو اپنی ہتھیلی پر اٹھا کہ رکھے۔ عاشق وہ ہے جو اپنی دنیا خود تعمیر کرتا ہے وہ ایسے جہان پر قناعت نہیں کرتا جو محدود ہو۔ اہلِ فرنگ کے داناؤں کو دلِ بیدار تو نہیں ملا مگر بس اتنا کہ دیکھنے والی آنکھ مل گئی ہے۔ وہاں عشق ناپید ہے اور عقل اسے سانپ کی طرح ڈس رہی ہے حالانکہ اس کے سونے کے پیالے میں شراب ہر وقت لعلِ رواں کی صورت موجود رہتی ہے۔ میری شراب کی تلچھٹ ہی کو غنیمت جان کر پی لے کہ اب میکدہ میں ایسا پیرِ مرد کوئی نہیں رہا جو جواں اور تند شراب رکھتا ہو۔ ۲۸ اس چمن میں پرندوں کا دل لمحہ لمحہ تبدیل ہوتا ہے پھول کی شاخ پر وہ اور طرح چہچہاتے ہیں اور آشیانے میں اور طرح۔ ذرا اپنی طرف دیکھو!دنیا کی شکایت کیا کرتے ہو اگر تمہاری نگاہ بدل جائے تو دنیا بھی بدل جائے گی۔ اگر تمہاری آنکھ خوب غور سے دیکھ سکے تو تم دیکھو کہ میخانہ کا انداز اور ساقی کا طریقہ ہر لحظہ بدل رہا ہے۔ امیرِ قافلہ کو میری دعا پہچادیں اور پھر کہیں کہ اگرچہ راستہ تو وہی ہے مگر کارواں اب کہ اور ہے۔ ۲۹ ہم خدا سے گم ہو گئے ہیں اور وہ ہماری جستجو میں ہیں۔ ہماری طرح وہ بھی عشق میں مبتلا اور آرزو میں گرفتار ہیں۔ کبھی لالے کی پنکھڑیوں پر اپنا پیغام لکھ کر بھیجتے ہیں کبھی پرندوں کے سینوں میں اتر کر ان کا گیت کے ساتھ ہم تک پہنچتے ہیں۔ وہ نرگس کی آنکھ میں بیٹھے ہیں تاکہ ہمارے حسن کا نظارہ کریں اور جبھی تو نرگس کی آنکھ ہم سے گفتگو کرتی ہے۔ ہمارے فراق میں اُنہوں نے صبح جو آہ بھری تھی وہ اندر باہر، اوپر نیچے ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ انسان کے دیدار کے لیے ہی یہ سارا ہنگامہ پیدا کیا گیا ہے اور رنگ و بو کا تماشا تومحض سجاوٹ ہے۔ ذرّے ذرّے میں سمایا ہوا مگر پھر بھی ہم سے ناواقف، چاند کی طرح واضح ، ہر محل اور محلے میں موجود!ہماری مٹی میں جو زندگی کا موتی گم ہوا ہے وہ ہم ہیں یا وہ ہے؟ ۳۰ مالک نے مزدُور کے لہو سے لعل بنایا ہے۔ جاگیردار وںکے ظلم سے کسانوں کی کھیتیاں برباد ہو گئی ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! مولوی صاحب نے تسبیح کے دھاگے سے مسلمانوں کو اپنے قبضے میں باندھ رکھا ہے اور سادہ دل ہندوؤں پر برہمن نے زُنّار کا پھندا لگایا ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! حکمراں وہ کھلاڑی ہیں جو مکر میں پُورے ہیں۔عوام کے بدن سے روح نکال کر انہیں دوبارہ سُلا دیتے ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! واعظ میاں مسجد میں بیٹھے ہیں اور ان کا لڑکا مدرسہ میں۔ اُنہیں بڑھاپے میں بچپنا سُوجھا ہے اور یہ بیچارہ بچپن میں بوڑھا ہوا جا رہا ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! اے مسلمانو! علم و ہنر کے پیدا کیے ہوئے فتنوں سے پناہ مانگو۔ شیطان ہر قدم پر ملتا ہے اور خدا کی تلاش مشکل ہو گئی ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! جھوٹ کی ہمت دیکھو کہ سچ کو شکار کرنے گھات میں بیٹھا ہے۔ چمگادڑ نے اندھے پن میں سورج پر شبخون مارا ہے! انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! گرجے میں مریم کے بیٹے کو صلیب پر لٹکادیا گیا ہے۔ مصطفیٰ کو اپنی کتاب کے ساتھ کعبے سے ہجرت کرنا پڑی ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! میں نے نئے زمانے کے جام میں وہ زہر دیکھا ہے کہ جس سے سانپ لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! کبھی کبھی وہ کمزوروں کو بھی شیر کی طاقت دے دیتے ہیں۔ دیکھو، شائد بلبلے کے فانوس سے شعلہ بھی نکل آئے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! ۳۱ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ایک روز وہ بے نقاب نکلے گا اور میں اس کا دیدار کرسکوں گا مگر یہ گمان نہ کرو کہ اس سے میری جان اس پیچ وتاب اور اضطراب سے نکل جائے گی۔ بس ایک ضرب چاہیے کہ سوئی ہوئی جان خاک میں سے اٹھ کر کھڑی ہوجائے، کہ نالہ مضراب کے تار کو چھیڑے بغیر بھلا کب بلند ہوتا ہے۔ اپنی انگور کی بیل کو نیم شب کے آنسوؤں سے سیراب کرو تاکہ اس کے اندر سے آفتاب کی شعاع برآمد ہو۔ تم ایک حقیر ذرّہ ہومجھے ڈر ہے کہ کہیں ناپید ہی نہ ہوجاؤ اپنی ہستی کو پختہ کرو تاکہ اس میں سے آفتاب برآمد ہوسکے۔ خاک سے صرفِ نظر کرو اور اپنے آپ کو محض پیکرِ خاکی نہ سمجھو اگر تم اپنا سینہ چاک کرو تو اس میں سے مہتاب برآمد ہوگا۔ اگر انہوں نے تم پر اپنے حرم کا دروازہ بند کرلیا ہے تو کیا ہو ا،تم ان کے آستانے پر اپنا سر پٹکو تاکہ وہ قیمتی لعل برآمدہوسکے۔ ۳۲ زمانے کے سردوگرم سے خندہ پیشانی کے ساتھ گذرجاؤ۔گلشن ہو یا قفس ہو یا جال یا آشیانہ،سب سے گزرجاؤ۔ مانا کہ تم یہاں اجنبی ہو اور راہ نہیں پہچانتے مگر پھر بھی دوست کے کوچے سے ایسے گذروکہ جیسے تم اسے جانتے ہو۔ اپنی ہر سانس کے ساتھ دنیا کو نئی تبدیلی سے روشناس کردو۔اس قدیم کارواں سرائے سے وقت کی طرح گذرجاؤ۔ اگر جبرئیل وحور بھی تمہیں قابو میں کرنا چاہیں تو تم ان کے دل پر اپنے عشوہ وغمزے گرا ؤاور دلبروں کی طرح گذر جاؤ۔ ۳۳ زندگی اپنے سیپ میں موتی تخلیق کرنے کا نام ہے۔شعلہ کے دل میں اُتر جانا اور پھر بھی نہ پگھلنا ہی زندگی ہے۔ عشق یہ ہے کہ اس گنبدِ بے در میں سے باہر نکل جائیں اور فلک کے طاق سے چاند کی صراحی کو اتار لائیں۔ سلطنت دل ودیں کی نقدی لٹا کر حاصل ہوتی ہے ۔یہ ایک ہی داؤ میں دنیا فتح کرلیتے ہیں مگر جاں لٹا دیتے ہیں۔ حکمت اور فلسفہ ہمت والوں کو ہی زیبا ہے کہ یہ اپنے تخیل کی تلوار کو دوجہانوں کے خلاف آزمانے کا نام ہے۔ زندہ دلوں کا مذہب محض ٹوٹا بکھرا خواب نہیں ہے بلکہ اسی خاک سے ایک نیا جہان پیدا کرنا ہے۔ ۳۴ میں نے اس بغیر دروازے کے گنبد سے باہر نکلنے کا راستہ پایا ہے کیونکہ آہِ سحر گاہی خیال سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔ اے شاہیں تونے چمن ہی میں آشیانہ بنالیا ہے مجھے ڈر ہے کہ اسکی آب وہوا تیرے پروں کی پرواز کو کم نہ کردے۔ تم معمولی غبار ہوگئے ہو؟اس جگہ اطمینان وسکون سے زندگی نہ گزارو اور راہ میں نہ بیٹھ جا ؤبلکہ صبح کی ہوا کے ساتھ مدغم ہوجاؤ۔ جوئے کہکشاں سے بھی گذر جا ؤاور نیلگوں آسماں سے بھی گذر جاؤ۔منزل دل کی موت ہے چاہے وہ منزل چاند ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اس بے نیاز برق ِ تجلّی سے اس کا سینہ خالی ہوگیا ہے تو میری نظر میں کوہِ طور کی حیثیت گھاس کی پتّی کے برابر بھی نہیں ہے۔ ہم سے نہ پوچھو کہ کس طرح آدابِ محفل کا خیال رکھتے ہوئے جل جاتے ہیں، ہم جو محبوب کی ایک سرِسری نگاہ کے مارے ہوئے ہیں۔ میرے بعد لوگ میرے شعر کو پڑھیں گے اس کی حقیقت کو سمجھیں گے اور کہیں گے کہ محض ایک خودآگاہ شخص نے پورے جہاں کو بدل ڈالا۔ ۳۵ میں گناہ گار ہوں مگر غیور ہوں بغیر محنت کے اجرت پسند نہیں کروں گا۔میں اس بات پر غمزدہ ہوں کہ میرے گناہ کو شیطان کی تقدیر سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ عشق ومستی کے فیض سے میں نے اپنے تخیل کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ میں مہرِ عالمتاب کی آنکھ کو سرمہ سے گرفتار کرلیتا ہوں۔ میں صبحِ ازل سے ہی موج اور گرداب پیدا کرنے والا ہوں اگر سمندر پرسکون ہوجائے تو میں طوفان سے مدد لے کر اسے پھر سے طلاطم خیز کردیتا ہوں۔ میں اس دنیا کو پہلے بھی سینکڑوں بار آنش زیرِ پا کر چکا ہوں۔میرے نغمے سکون وسلامتی کو ختم کردیتے ہیں۔ میں نے گردن میں زناّر ڈال کر بتوں کے آگے اس لئے رقص کیا تاکہ اس شہر کا شیخ مجھ پر فتویٰ لگا کر اللہ والا بن جائے۔ کبھی یہ مجھ سے بھاگتے ہیں اور کبھی مجھ سے آملتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ میں صحرا میں شکاری ہوں یا شکار ہوں۔ سوز سے خالی دل کو حق آگاہ مر دکی صحبت سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوتا۔تم تپتے ہوئے تانبے جیسا دل لاؤ تاکہ میری اکسیر تم پر اثر ڈالے۔ ۳۶ دنیا اندھی ہے اور دل کے آئینے سے غافل پڑی ہے مگر وہ آنکھ کہ جسے بینائی ملی ہے اس کی نگاہ دل پر ہی رہتی ہے۔ رات تاریک ہے اور رستہ پیچیدہ ہے اور راہی بے یقینی کا شکار ہے۔قافلہ کے رہبر پر مشکلیں ہی مشکلیں آپڑی ہیں۔ دلبروں کی بات اتنے سارے محمل باندھنے والوں میں جاپڑی ہے اور اس میںاتنے اشارے پوشیدہ ہیں کہ بدمعاملہ رقیب بھی مست ہے عاشق بھی مست ہے اور قاصد بھی مست ہے۔ یہ مومنوں کا سا یقین رکھتا ہے اور کافروں کا سا گمان،میں کیا کروں اے مسلمانو کہ میرا واسطہ دل سے پڑگیا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود طوفان ہی ناخدائی کا کام کرجاتا ہے کہ موجوں کی طغیانی سے میری کشتی خود ساحل پر آپڑی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ دریا کی موجوں کو یہ دیکھنے والی آنکھ آخر کس نے عطا کی ہے کہ یہ موتی تو اپنے سینے میں رکھتی ہیں اور پتھر ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔ میرا سوزِ دروں میری سرزمینِِ ِ وطن کا حصہ نہ بن سکا افسوس کہ میں نے بہت علاج کرنے کی کوشش کی مگر اس خاک ِ صحرا پر سب کچھ بے اثر رہا۔ اگر تم اپنے دل کے اندر کوئی نیا جہان رکھتے ہو تو اسے باہر لاؤکہ فرنگ اپنے زخموں سے نڈھال ہوکر اب گرنے ہی والا ہے۔ ۳۷ تم اس جہان میں کوئی ایسا دوست نہ پاؤ گے کہ جو دلنوازی کے انداز جانتا ہو لہٰذا اپنے آپ میں گم ہوجاؤ اور اپنے عشق کی آبرو کی حفاظت کرو۔ مجھے اس دنیا کی تخلیق کرنے والے سے اس بات کا دکھ ہے کہ اپنے ذوق ِ خودنمائی کے باوجود اس نے ہم سے اپنی خدائی کے طریقے پوشیدہ رکھے۔ یہ نازک معنی ایاز کے علاوہ یہاں کون جان سکتا ہے کہ غزنوی کی مہرومحبت غلامی کا درد اور بھی بڑھادیتی ہے۔ میں اس علم وفراست کو گھاس کی پتی کے برابر بھی نہیں سمجھتا کہ جو مردِ غازی کو تیغ وسپر سے بیگانہ کردے۔ توجس دام پر بھی یہ سامان خریدلے سود مند ہی ہے چاہے بازوئے حیدری کو رازی کے علم وفلسفہ کے بدلے ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ اگر تم خون کا ایک قطرہ اور مٹھی بھر پر رکھتے ہو تو آ ؤمیں تمہیں شاہبازی کے انداز سکھادوں۔ اگر تم اسے محض ایک پھونک کی کارفرمائی سمجھتے ہو تو بے حد نادانی کرتے ہو کہ نے نوازی کے لئے تو سینے کے اندر تلوار جیسا دم رکھنا پڑتا ہے۔ ۳۸ جو علم تم سیکھتے ہو وہ نگاہ کا مشتاق نہیں ہے یہ راہ کا درماندہ راہی ہے آوارہ پھرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ آدم کہ جس کا دل دوجہانوں کے نقش ابھارتا ہے یہ آہوں کی لذت سے ہی وجود رکھتا ہے اور آہ کے بغیر اس کا کوئی وجود نہیں۔ ہر چند کہ اس کا عشق بھی اسے ہر دم سفر پر آمادہ رکھتا ہے مگر چاند کے سینے میں وہ داغ نہیں جو جگر پھونک ڈالے۔ میں تو محبوب کے چہرے سے ذرا بھی نظر نہیں ہٹانا مگر اس مستِ غافل کو ایک نگاہ کی بھی توفیق نہیں۔ اقبال نے قبا بھی پہنی اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہا سمجھ لے درویشی کا مطلب محض درویشی ٹوپی پہننا اور گدڑی میں رہنا ہی نہیں ہے۔ ۳۹ سحر کے سورج کی طرح نگاہ کو روشن کیا جاسکتا ہے اس خاکِ سیاہ کو محبوب کی جلوہ گاہ بنایا جاسکتا ہے۔ اپنی نگاہ کو کانٹے کی نوک جیسا تیز بنالو پھر اس سے ہیرے کی طرح آئینے کے اندر راہ بنائی جاسکتی ہے۔ اس گلشن میں چمن کے پرندوں کے لئے آہ وفغاں کرنا بھی بہت مشکل ہے یہاں غنچہ کے چٹکنے کے سے انداز میںہی آہ کی جاسکتی ہے۔ اگر تم میں دیکھنے کی تاب ہے تو تمہاری نگاہ بہت کچھ پاسکتی ہے۔اس کے لئے نہ یہ عالم حجاب میں رہے گا اور نہ وہ عالم نقاب میں۔ ’’تم درختوں کے نیچے کھڑے بچوں کی طرح آشیاں کو دیکھ رہے ہو۔‘‘پرواز پر آمادہ ہو تو مہروماہ کوبھی شکار کرسکتے ہو۔ ۴۰ تم نے غیروں کی صحبت میں پے درپے جام لنڈھائے اور مستقل دوسروں کی روشنی سے اپنا پیمانہ چمکاتے رہے۔ اب مشرق کے ساقی کے ہاتھ سے بھی دوارغوانی جام لے لو تاکہ تمہاری خاک سے پے درپے نالۂ مستانہ بلند ہوں۔ وہ دل جو تمنا کی تب وتاب سے آشنا ہوجائے وہ اپنے ہی شعلہ پر پروانے کی طرح پے درپے گرتا ہے۔ صبح کے اشکوں سے اپنی ز ندگی کو برگ وساز عطاکرو تمہاری کھیتی ویران ہوجائے گی اگرتم اس میں پے درپے دانہ نہ ڈالو گے۔ جام کو گردش میں لا ؤاور افرنگ کے ہنگامے کی بات بالکل نہ کرو۔یہاں ہزاروں کارواں پے درپے گذرگئے۔ ۴۱ عشق نے اپنے اندر جستجو کی اور آدم کو حاصل کیا۔لہٰذا اس کا جلوہ پردۂ آب وخاک سے آشکار ہوا۔ یہ کفِ خاک جو دل رکھتی ہے اس کے بدلے سورج چاند ستارے سب ہاتھ سے دئیے جاسکتے ہیں۔ ۴۲ آؤ دیکھو کہ مشرق والوں نے ایک نیا نقش بنایا ہے اب اس بت کے گرد طواف نہ کرو کہ جو توڑاجاچکا ہے۔ یہ بھی کیا جلوہ ہے کہ جس کو ایک نظر دیکھنے کے لئے کتنے ہی دل راہ کی خاک سے شرارہ کی مانند نکل رہے ہیں۔ شہروں میں ہلچل مچا ڈالنے والے ان تورانیوں کی منزل نہ جانے کہاں ہے جنہوں نے اپنی سانس کی تیزی سے اپنے ہی سینے کو زخمی کرڈالا ہے۔ تم بھی اپنے اندر ذوق ِ خودی پیدا کرلوکہ صاحبانِ طریقت ساری دنیا سے الگ ہوکرصرف خود سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ مردہ دلوں کی نظر سے دیکھیں تو کائنات ایک قیدخانہ ہے بس دو جام پئے اور جہان چھوڑ گئے۔ میں ان سواروں کی بیدارہمت کا غلام ہوں جو ستاروں کو اپنے نیزوں میں پروکراپنے ساتھ باندھ لیتے ہیں۔ فرشتوں کو اب سجدوں کی فکر کہاں رہی ہے کہ فرشتے تو خاکیوں کا نظارہ کرنے میں محو ہیں۔ ۴۳ مجھے عشق پر ناز ہے کہ اسے اپنے مٹ جانے کا غم نہیں ہے کیونکہ اس کا کفر حاضروموجود کا زنّار باندھنے سے آزاد ہے۔ اگر عشق حکم دے تو اپنی اس عزیز جان سے بھی دست بردار ہوجاکیونکہ عشق ہی ہمارامحبوب ہے اور مقصود بھی ہے جان تو ہمارا مقصودہی نہیں۔ سومنات توڑ دینے سے کافری اور بھی پختہ تر ہوجاتی ہے۔بتخانے میں رونق محمود کے ہنگاموں سے ہی ہوتی ہے۔ مسجد ہو،میخانہ ہو،دیروکلیسا ہو یا کنشت،یہ سب دل کو خوش کرنے کے واسطے سینکڑوں فسوں تخلیق کرتے ہیں مگر دل پھر بھی خوش نہیں ہوتا۔ میں نے پہاڑ کی ندی سے نغمہ پردازی سیکھی ہے میں گلستان میں بھی گیا تھا مگر ایک بھی نالہ دردآلود نہ تھا۔ اگر میرے پاس آنا چاہتے ہو تو پھر ٹھنڈی سانس اور گرم وپرجوش دل لے کر آنا ہوگا کیونکہ حرکت تو تمہارے اندر ہے نغمۂ داؤد میں نہیں۔ میرے عیب نہ ڈھونڈوبلکہ اپنے جام کو میرے معیار سے پرکھو میری تلخ شراب کی لذت جان کو غم میں گھلائے بغیر نہیں مل سکتی۔ ۴۴ میرے دلِ بے تاب پر ساقی نے مئے ناب ڈال دی ہے وہ کیسا ساز ہے اور اس نے پارے پر اکسیر ڈال کر اس کے اضطراب کو کم کردیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میرے سینے میں نور ہے یا نار ہے ہاں بس اس قدر جانتا ہوں کہ اس کی بیاض میں مہتاب کی روشنی ملی ہوئی ہے۔ فطرت ِ خاموش خود میرے دل پر حاوی ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ ساز اپنے ذوقِ نوا سے خود مضراب سے ٹکراجاتا ہے۔ غم نہ کرو اے نادان کہ آسمان نے خشک بیابان میں بھی ایسے چشمے رکھے ہیں کہ جو سیلاب کو بھی بہا لے جائیں۔ جب تم نے میری شیریں باتیں سنی ہیں تو میری ڈنک جیسی تلخ باتوں کا رنج نہ کرو کیونکہ آدم کو خواب سے بیدار کرنے کے لئے ڈنک بھی بہت ضروری ہے۔ ۴۵ ایک روز خاکی انسان نوری فرشتوں سے زیادہ روشن تر ہوجائیں گے اور زمین کو ہماری تقدیر کا ستارہ آسمان بنادے گا۔ ہمارا تخیل کہ جس نے کئی طوفانوں میں پرورش پائی ہے ایک دن اس نیلگوں آسمان کے گرداب سے باہر نکل جائے گا۔ ذرا آدم کے معنی پر تو نظر کرو!مجھ سے کیا پوچھتے ہو ابھی یہ فطرت کے اندر کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے ایک دن یہی مقبول وموزوں ہوجائے گا۔ یہ معمولی اور سطحی سا مضمون ایک دن ایسا موزوں ہوجائے گا کہ اس کی تاثیر سے خود یزداں کا دل پُرخٰوں ہوجائے گا۔ ۴۶ شریعت کی رسم وراہ کے بارے میں میں بجز اس کے اور کچھ دریافت نہیں کرپایا کہ صرف عشق کا منکر ہی کافر وزندیق ہوتا ہے۔ مسافرانِ حرم کو خدا یہ توفیق دے کہ وہ اس آدمِ خاکی کی سرشت کو پاجائیں۔ میں راستہ نہیں پوچھتا میں تو ایک رفیق کی تلاش میں ہوں کیونکہ کہتے ہیں کہ پہلے رفیق اور بعد میں طریق۔ فرنگ کے حکیم اپنے کند ذوق کی تلافی یوں کرتے ہیں کہ بادہ کو یاقوت کے جام میں ڈال کر اس کی چمک بڑھالیتے ہیں۔ ایسی دانش کہ جس کی تصدیق دل نہ کرے اس سے ہزار گنا بہتر یہ ہے کہ انسان نظر ہی نہ رکھتا ہو۔ اگرچہ عقل کے پیچ وتاب سلجھانے میں کچھ الگ ہی لذت ہے مگر سادہ دلوں کا یقین دقیق نکتوں سے کہیں بہتر ہے۔میں نے علم الکلام اور فلسفہ کو اپنے لوحِ دل سے مٹا ڈالا اوراپنادل تحقیق کے نشتر کے لئے کھول دیا ۔ میں بادشاہ کے آستانے سے دور ہی رہتا ہوں میں کافر نہیں ہوں کہ ایک بے توفیق خدا کی پرستش کروں۔ ۴۷ ہر ایک سے کنارہ کش ہوکر کسی آشنا کی صحبت طلب کرو۔خدا سے خودی طلب کرو اور خودی سے خدا۔ محض ایک کرشمہ کی خلش سے سب کاکام تمام نہیں ہوسکتا،عقل ودل ونگاہ کو الگ الگ جلوہ کی طلب ہے۔ عشق یہ ہے کہ کائنات کا سارا کا سارا جام ایک ہی سانس میں خالی کردیا جائے۔پورے جہان کا نظارہ کروانے والا جامِ جہاں نما نہیں بلکہ جہان کو فتح کرنے والا جام طلب کرو۔ مسافر ننگے پاؤں ہیں اور رستہ تمام خارزار ہے اپنی منزل پر پہنچنا ہے تو صبرورضا کی سواری طلب کرو۔ فقر جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو دلیل ِ بادشاہی بن جاتا ہے۔کیقباد کا تخت فقیروں کے بورئیے میں تلاش کرو۔ سامنے دیکھو ،کہ زندگی ایک اور ہی عالم کی طرف لے جارہی ہے لہٰذا جو کچھ تھا اور جو گذر گیا اس سے درگزر کرکے اس عالم کی انتہا طلب کرو۔ اگر زمانے کی چوٹ سے تمہارے نالے اور فریاد بانسری کی طرح نکلتے ہیں تو میرا جام اپنے ہاتھ سے رکھ دو اور اپنے زخم کی خاص دوا طلب کرو۔ ۴۸ تم دنیا کا مطالعہ کرتے ہو مگر خود اپنے آپ کو نہیں دیکھتے۔اے نادان تم کب تک غفلت اختیارکئے رہو گے؟ تم نورِ ازل ہو اس شب کو روشن کردو۔تم دستِ کلیمؑ ہو آستین سے باہر آؤ۔ اس دنیا کے چکّر سے باہر قدم رکھو ۔تم اس سے قدیم ہو اورتم اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہو۔ اے زندۂ جاوید آدم!تم موت سے ڈرتے ہو؟موت تو تمہارا شکار ہے اورتم اس کی گھات میں ہو۔ جان عطاکرکے پھر اسے واپس نہ لینا چاہئیے۔آدم اگر مرتا ہے تو بے یقینی سے مرتا ہے صورت گری اگر سیکھنی ہے تو مجھ سے سیکھو۔شاید کہ تم خود اپنی تخلیق پھر سے کرسکو۔ ۴۹ میں ان راتوں کے حادثات سے بالکل نہیں ڈرتا جو ستاروں کی گردش سے سحر میں تبدیل ہوہی جاتی ہیں۔ اس نے اپنا مقام نہیں پہچانا اور وہ جو کہ اپنے ہی جال میں گرفتار رہا وہ عشق کہ جو اپنا اظہار محض ’’یارب‘‘کے نعروں سے ہی کرنا چاہتا ہے۔ وہ آہ کہ جو جگر کو پھونک دینے کے لئے دل سے اٹھتی ہے اسے سینے میں ہی گھونٹ دو لبوں تک نہ لاؤ۔ میکدہ میں فطرت کے ساقی اب باقی نہیں رہے جو ایسی شراب پلاتے ہیں جو کسی مذہب میں نہیں سماسکتی۔پس تم ایسے فطرت کے ساقی کی خواہش کرو۔ وہ دل جو حقیقی دوست سے کٹ چکا ہے اسے کہیں آسودگی نہیں مل سکتی نہ مسجد میں قرأت کرنے سے نہ مکتب کی عقل ودانش میں۔ ۵۰ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو کہ نیلا آسمان ستاروں کی صورت میں ہزاروں آنکھیں کھولے ہوئے تمہاری راہ تک رہا ہے۔ میں کیا کہوں کہ تم کیا تھے اور تم نے کیا کیا اور تم کیا ہونے جارہے ہو کہ میرا جگر تو محمو کو ایاّزی کرتے دیکھ کر خون ہوگیا ہے۔ کیاتم وہ نہیں جس نے کہکشاں پر اپنا مصلیّٰ بچھایا تھا صوفی اور شاعر کی شراب نے تمہیں خود اپنا آپ بھلا دیا ہے ۔ فرنگ نے اگرچہ تمہارے افکار کی گرہ تو کھولی ہے مگر اس کی شراب نے تمہارے نشے میں اور اضافہ کردیا ہے۔ تم نامۂ اعمال اور روزِ حشر میزان کی باتیں تو کرتے ہو مگر میں حیران ہوں کہ تم یہ قیامت نہیں دیکھتے جو اس وقت برپا ہے۔ کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے سینے کے اندر موجود حرم کو پہچان لیتا ہے۔وہ ایک لمحے کو تڑپا اور پھر گفت وشنید کے مقام سے گذر گیا۔ مجھے مکتب اور میخانہ کسی پر اس وجہ سے اعتبار نہیں رہا کہ میں ایسے در پر سجدہ نہیں کرتا جو پیشانیاں گھسنے سے پرانی اور فرسودہ ہوچکا ہو۔ ۵۱ دیارِ شوق کہ جس کی خاک ہماری درد آشنا ہے اور وہاں کے ذرہ ذرہ میں جانِ پاک کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہاں مئے کو ساقی کے ہاتھ سے نہیں پیا جاتا بلکہ ان کی نگاہ ہی انگور کی صراحی کو توڑ ڈالتی ہے۔ اپنے جوشِ جنوں کو ضبط کرو کہ وہ مقامِ نیاز ہے وہاں ہوش میں رہو اور اپنی قبا چاک نہ کرو۔ ۵۲ پرانی شراب اور جوان محبوب کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کہ صاحبِ نظر لوگوں کے سامنے تو حور اور جنت بھی کوئی چیز نہیں ہیں۔ ہر چیز جسے تم محکم اور پائندہ سمجھتے ہو گذر جانے والی ہے۔یہ پہاڑ،صحرا اور خشکی اور سمندر اور اس کا کنارہ یہ سب بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔ مغرب والوں کی دانش مشرق والوں کا فلسفہ سب کے سب بتخانے اور بتوں کے طواف یہ سب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اپنی خودی کی فکر کرو اور اس بیاباں سے ڈرتے ہوئے نہ گزرو کہ صرف تم ہی رہ جانے والی ہستی ہو اور اس کے سامنے دونوں جہان تو کوئی چیز ہی نہیں ہیں۔ یہ راستہ جو میں نے اپنی نوکِ پلک سے کھود کر نکالا ہے اس میں منزل وقافلہ اور اُڑتی ہوئی خاک کچھ بھی نہیں ہیں۔ ۵۳ یہ قلندر جو دُنیا کی تسخیر میں لگے رہتے ہیں، بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں اگرچہ خرقہ پوش ہیں۔ جلوت میں ہوں تو سورج اور چاند پر کمند یں پھینکتے ہیں اور خلوت میں زمان ومکاں ان کی آغوش میں سمائے ہوتے ہیں۔ بزمِ دوستاں میں ان کا سراپا ریشم و کمخاب سا ملائم ہوتا ہے اور جب یہ میدانِ عمل میں ہوتے ہیں تو اپنی خودی سے آگاہ اور تن سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ اس دوغلے اور دورنگے آسمان کو نیا نظام عطا کرتے ہیں اور پرانے ستاروں کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ زمانہ مستقبل کے چہرے سے نقاب کھینچ چکا ہے مگر یہ معاشرہ ابھی تک ماضی کی شراب سے بدمست ہے۔ میرے لبوں نے وہ بات کہہ دی ہے جو کہنے کی نہیں تھی میں حیران ہوں کہ فقیہہ ِ شہر ابھی تک خاموش کیسے ہیں۔ ۵۴ میں دونوں ہاتھ سے چلائی جانے والی تلوار ہوں اور آسمان نے مجھے نیام سے نکال لیا۔ پھر سان پر تیز کرکے زمانے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ میں تخیل کا وہ جہاں ہوں کہ جسے فطرت ِ ازل نے گل وبلبل کی دنیا ختم کر کے پیدا کیا ہے۔ یہ نئی شراب جو میں تمہارے پیمانے میں انڈیل رہا ہوں، یہ ایسی خالص شراب ہے کہ اس نے میرے جام وسبو پگھلا کر رکھ دیے ہیں۔ میں اپنی سانس کو اپنے سینے ہی میں پگھلا کر محفو ظ رکھتا ہوں۔ میں حرم کا پرندہ ہوں اور اپنی آواز کی گرمی اور سوز سے پہچانا جاسکتا ہوں۔ پرانے مرشدوں کی سوجھ بوجھ کی کشتی اب ٹوٹ چکی ہے۔کیسا خوش نصیب ہے وہ شخص جو نئے زمانے کے دریا میں مجھے کشتی بناتا ہے۔ ۵۵ میں شرار کی طرح ذرّہ کو تڑپنا سکھاتا ہوں اور اڑنے کے لیے پر عطاکرتا ہوں۔ میری نوا کا سوز تو دیکھو!میں ہیرے کے ٹکڑے کو شبنم کا قطرہ بنادیتا ہوں اور ٹپکنا سکھاتاہوں۔ جب میں اپنے ظہور کے مقام سے شیریں نغمے الاپتا ہوں تو نیم شب کو ہی صبح کے سے انداز عطاکردیتاہوں۔ میں نے یوسفِ گم گشتہ کے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے تاکہ بے مایہ لوگوں میں بھی اس کی خریداری کا شوق پیدا کرسکوں۔ عشق ِ صبر آزما نے خودفراموش انسانوں کی خاک کو چشمِ تر بخشی اور میں نے انہیں نظارے کی لذت عطاکی۔ ۵۶ خودی لوگوں سے میل ملاپ میں گرفتار ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ابھی نارسا ہے۔اے دردآشنا!تم آشنائی سے سے بے نیاز ہوجاؤ۔ سلطانوں کی چوکھٹ پر کب تک پیشانی رگڑو گے اپنے خدا سے کبریائی اور بے نیازی کی ادا سیکھو۔ محبت اپنی جوانمری سے ایک روز اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ دنیا کا یہ دل لبھانے والا انداز اس کی نظروں میں گرجاتا ہے۔ میں نے اس کے حرم کے آگے اس طرح اپنا نغمۂ درد گایا کہ محرمِ راز لوگ بھی جدائی کی لذّت سے آشنا ہوگئے۔ میں اپنے آپ پر نازاں ہوں کہ خریدار کو رچشم ہے اور متاعِ عشق رواج نہ پاسکی اس لئے ابھی تک نئی کی نئی ہے۔ آؤ کہ لالہ کو پاؤں تلے مسل کر اس پر رقص کریں اور کھلے عام مے نوشی کریں کہ عاشق کوپارسائی کا خون معاف کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں سے دور بھاگ جا اور مسلمانی انداز اختیار کر کیونکہ مسلمان اب کافروں کے چلن کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ۵۷ عجم کے جوانو!میں تمہارے خیابان میں اپنی اور تمہاری جان کو چراغِ لالہ کی طرح جلارہا ہوں۔ میری فکر نے زندگی کے ضمیر کے اندر غوطہ لگایا ہے تب جاکر تمہاری پنہاں سوچ کو پاگیا ہوں۔ میں نے سورج اور چاند کو دیکھا پھر میری نگاہ پروین سے بھی اوپر چلی گئی تب جاکر میں نے تمہارے کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی۔ تمہارے بیابان میں ایک شعلہ آوارہ پھرتا تھا میں نے اس کو اس خیال سے لپیٹ لیا کہ اس کی کاٹ اور بھی تیز ہوجائے۔ لعل کا وہ ٹکڑا جو میں نے تمہارے بدخشاں سے حاصل کیا تھا اسے میری فکرِ رنگین نے مشرق کے تہی دستوں کی نظر کردیا ہے۔ ایک ایسا مرد آنے والا ہے جو غلاموں کی زنجیر توڑڈالے گا میں نے تمہارے زندان کے روزن سے اسے دیکھا ہے۔ اے پیکرِ آب وگِل میرے گرد جمع ہوجاؤمیں نے اپنے سینے میں تمہارے بزرگوں کی آگ کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ۵۸ میری سانس کو باد ِبہاراں کی سی صفت عطاہوئی ہے اور گھاس کے تنکوں کو میرے اشکوں نے چنبیلی کی سی مہک عطاکردی ہے۔ صحرا نشین لالہ کی نمود میرے خون سے ہوئی ہے اس طور پر کہ جیسے ایک بڑا پیالہ یاقوت جسے سرخ رنگ کی شراب سے بھردیا گیا ہو۔ میں اس قدر بلند پرواز ہوں کہ آسمان ِ بریں میں ہزار نوری فرشتے میری گھات میں بیٹھے ہیں۔ آدمِ خاکی کا فروغ نئے نئے کاموں سے ہے جبکہ چاندستارے وہی کام کرتے ہیں جو ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔ اس زمانے میں دستِ کلیمؑ آستینوں میں چھپا ہوا ہے اس لئے میں نے اپنا چراغ جلایا ہے۔ خدا کے آگے سجدہ کرو اور خسروانِ وقت سے دوستی نہ رکھو کہ برے وقت میں ہمارے اسلاف یہی کرتے رہے ہیں۔ ۵۹ اس شخص کو چھوڑو جس نے حقیقت کو نہیں دیکھا اور محض اس کے بارے میں سنا ہے اور اس کوبڑی طوالت سے بیان کرتا ہے جبکہ وہ دید کی لذت سے بے بہرہ ہے۔ میںنے شاعر اور فقہاء اور فلسفیوں کی بڑی باتیں سنی ہیں اگرچہ یہ بلند قامت درخت کی طرح ہیں مگر ایسا جس پر پھل نہیں ہوتا۔ وہ تجلی جس پر دیر کے پیروں کو اس قدر ناز ہے وہ ہزار راتیں تو پیدا کرسکتی ہے مگر ایک سحر نہیں دے سکتی۔ مجھے خدا سے گلہ ہے مگر میں اسے زبان سے نہیں کہہ سکتا کہ میری متاع تو اس نے مجھ سے لے لی مگر میرا یوسف ؑمیری آغوش میں نہ دیا۔ مجھے وہ ساقی نہ حرم میں ملا نہ بتخانے میں کہ جو عشق کا شعلہ عطا کرے محض چنگاری نہ دے۔ ۶۰ شاید اس صحرا سے کوئی کارواں گزررہا ہے کہ بڑی مدت کے بعد میںساربان کے نغمے سن رہا ہوں۔ اگر ایک یوسفؑ فرعون کی قید سے باہر آجائے تو اس پر کارواں کی متاع لٹائی جاسکتی ہے۔ ۶۱ ناداں، تمہیں فرنگ سے غمگساری کی امید ہے؟ شاہین کا دل اُس پرندے کے لیے نہیں دُکھتا جو اُس کے پنجے میں ہو؟ اگر تمہیں اپنے باپ کی میراث میں لعل مل جائے تو تمہیں پشیمان ہونا چاہئے نہ کہ فخر کرو کہ پتھر سے خود لعل نکالنے کی خوشی اور فخر ہی الگ ہے۔ دنیا کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مجھ سے کیا پوچھتے ہو میں تو فقط اتنا جانتا ہوں کہ میں ہوں یہ نہیں جانتا کہ یہ طلسم کیا چیز ہے؟ اس میخانے میں ہر مینا محتسب کے خوف سے لرز رہی ہے مگر اک عاشق کی مینا ہی ہے جو پتھر پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔ تم خودی کو پردہ سمجھتے ہو؟بے شک سمجھ لو مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اس پردے کو چاک مت کرنا کہ نگاہ کی حد بے حد مختصر ہے۔ وہ شاخِ کہن کہ جس کے زیرِ سایہ تم نے پر پرزے نکالے اگر اب اس کے پتے گر چکے ہیں تو اس کے نیچے سے اپنا آشیانہ اٹھالینا شرمندگی کی بات ہے۔ ایسی غزل کہو کہ فطرت خود اس سے مطابقت اختیار کرلے ایسی غزل کا بھلا کیا فائدہ کہ جوخود فطرت سے ہم آہنگ ہو۔ ۶۲ مشرق سے صرف ِ نظر کرو اور افرنگ کے افسوں سے مسحور نہ ہو کیونکہ یہ تمام پرانے اور نئے علوم جَو کے دانے برابر بھی نہیں ہیں۔ اسکندر اور دارا اور کیقباد گھاس کی ایک پتی کی مانند،جو ہوا کی راہ میں آپڑی ہو،گزرگئے۔ زندگی انجمن بھی سجاتی ہے اور خود اپنی نگہدار بھی ہے۔پس اے قافلہ میں چلنے والے سب کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ان سے بے نیاز رہو۔ تم چمکتے سورج سے بھی زیادہ روشن ہو تو اس طرح زندگی گزارو کہ ہر زرہ تک تم اپنا پرتو پہنچاسکے۔ وہ نگینہ جو تم نے شیطان کے آگے ہار دیا ہے اسے تو جبریل ِ امینؑ کے پاس بھی گروی نہ رکھا جاسکتا تھا۔ ہمارے جام کے کم پڑجانے سے میکدہ رسوا ہوگیا ہے تو حکیمانہ انداز میں صراحی اٹھاؤ،پیو اور آگے چلے جاؤ۔ ۶۳ یہ رنگ وبو کا جہاں ہمارے سامنے ہے اور تم کہتے ہو کہ یہ راز ہے۔ذرا خود اس کے تار کو چھیڑ کر دیکھو کہ تم مضراب ہو اور یہ ساز ہے۔ جلووں سے بدمست نگاہ اس جلوہ کی پاکیزگی کی وجہ سے پھسل پھسل جاتی ہے۔تم کہتے ہو کہ یہ حجاب ہے،یہ نقاب ہے ،یہ مجاز ہے۔ اٹھو اور اس نیلگوں پردے کی طناب کھینچ لو کہ پاکباز نگاہ کے لئے یہ شعلہ کی طرح عریاں ہے۔ میرا یہ خاکدان فردوس سے بڑھ کر خوبصورت ہے کیونکہ ذوق وشوق کا مقام بھی یہی ہے اور سوزوسازکاحرم بھی یہی ہے۔ کسی لمحہ میں خود کو گم کردیتا ہوں کسی لمحے اس کو گم کردیتا ہوں اور کسی وقت میں دونوں کو پالیتا ہوں،نہ جانے اس میں کیا راز ہے۔ ۶۴ اے لالۂ صحرائی مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے۔اُس کے فراق کے داغ نے میرے دل کو ایک چمن بناڈالا ہے۔ یہ جگر پھونک ڈالنے والی آہ صحرا کی تنہائی میں ہی ہوتی تو بہتر تھا مگر کیا کروں کہ میرا واسطہ محفل سے پڑگیا ہے۔ ۶۵ جب میں نے ایک آشنا کی نگاہ سے لالہ کے اندر دیکھا تو اسے سراپا ذوق وشوق اور سراپا آہ وفریاد پایا۔ اس عالم کے ہر بلند وپست سے زندگی کی گرمی پیدا ہوتی ہے۔کیا دامنِ کوہ،کیا ٹیلا،کیا صحرا میں نے ہر جگہ اسی ہرن کو وحشت سے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا ہے۔ نہ زندگی ہمارے ساتھ ہے اور نہ ہی زندگی ہم سے ہے بلکہ زندگی ہر جگہ ہے اور نہیں معلوم کہاں سے پیدا ہوئی ہے۔ ۶۶ یہ بھی ایک عظیم جہان ہے اور وہ بھی عظیم جہان ہے،یہ بھی بیکراں ہے اور وہ بھی بیکراں ہے۔ یہ دونوں ہی خیال ہیں اور دونوں ہی گمان ہیں۔دونوں میرے شعلہ سے نکلے دھوئیں کی موج ہیں۔ یہ بھی ایک دولمحے کے لئے ہے وہ بھی ایک دولمحے کو ہے۔میں ہی جاوداں ہوں میں ہی جاوداں ہوں! یہ بھی کھوٹا ہے وہ بھی کھوٹا ہے میری پاک جان ہی سکہّ رائج الوقت ہے۔ یہ بھی ایک گزر جانے والا مقام ہے وہ بھی ایک مقام ہے اور یہ بھی کچھ وقت کے لئے ہے اور وہ بھی عارضی ہے۔ یہاں میرا کیا کام ہے،وہاں میرا کیا کام ہے؟آہ وفغاں،آہ وفغاں! یہ بھی میرے لئے رہزن ہے وہ بھی رہزن ہے۔یہاں بھی نقصان ہے وہاں بھی نقصان ہے! ۶۷ بہار کی آمد ہے اور میری نگاہ آتشِ لالہ میں لوٹ رہی ہے۔اس پارہ پارہ دل میں سے ہزاروں فریادیں نکل رہی ہیں۔ شرابِ سرخ کا ایک گھونٹ تم اس چمن کی خاک پرگرا دو کہ خزاں کے خوف سے نرگس ولالہ کم کم اُگتے ہیں۔ تم جہانِ رنگ وبو کو تو جانتے ہو مگر دل کیا ہے کیا یہ بھی جانتے ہو؟یہ تو وہ چاند ہے جو حلقۂ آفاق سے اپنا ہالہ بناتا ہے۔ ۶۸ وہ مصوّر جس نے روزوشب کا یہ پیکر تخلیق کیا ہے۔ ان کے نقش سے وہ خود اپنا نظارہ کرتا ہے۔ اے صوفی!تم اپنے تاریک حجرہ سے باہر قدم رکھو اور دیکھو کہ فطرت نے اپنی ساری متاع تجارت کے واسطے لاکر رکھ دی ہے۔ صبح اور ستارہ اور شفق اور چاند اور سورج ان سب کا بے پردہ جلوہ محض ایک نگاہ سے خریداجاسکتا ہے۔ ۶۹ اس پرانی دنیا کو ایک بار پھر سے جوان ہونا چاہیئے،گھاس کے پتے کو صفت میں کوہِ گراں ہونا چاہیے۔ یہ مٹھی بھر خاک جس نے تمام حقیقت کو دیکھ لینے والی نگاہ پیدا کرلی ہے اس کے سینے میں جگر کے ٹکڑوں سے آلودہ نالہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ کہنہ چاند سورج کسی منزل پر نہیں پہنچاتے اس جہاں کی تعمیر کے لئے نئے ستارے ہونے چاہئیں۔ جو بھی تصویر میری نظروں کے سامنے آتی ہے خوبصورت ہے مگر مجھے اس سے زیادہ خوبصورت چاہیے۔ خدا نے کہا کہ یہ چیزیں ایسی ہیں اور ان کے علاوہ کچھ نہ بولو۔آدم نے کہا کہ ہاں یہ ایسی ہیں مگر انہیں ویسا ہونا چاہئے۔ ۷۰ اس باغ کا لالہ داغِ تمنا نہیں رکھتا تھا اور اس کی شوخ وبے باک نرگس نظارے والی آنکھ نہیں رکھتی تھی۔ خاکی انسان کے اندر نفس کی موج تو تھی مگر ظاہر نہ ہوتی تھی۔زندگی ایک کارواں تو تھی مگر مال ومتاع اور جنسِ خریداری نہیں رکھتی تھی۔ زمانہ مے کشوں کے شوروغل سے ناآشنا تھا۔اس کی صراحی میں شراب تو تھی مگر اسے پینے والے نہ تھے۔ کوہِ سینا کی برق شوق کی بے زبانی کا شکوہ کرتی تھی۔وادیٔ ایمن میں کوئی تقاضا کرنے والا نہ تھا۔ عشق نے ہماری فریادسے ہنگامے تخلیق کئے۔ورنہ خاموشوں کی اس محفل میں کوئی شوروغوغا نہ تھا۔ ۷۱ اس پرانے دَیرمیں یہ کس نے ہنگامہ برپا کیا ہے کہ یہاں کے سارے زنّاری نَے کی طرح سراپا نالہ وفریاد ہیں۔ فقیر کے حجرے ہوں یا بادشاہوں کے کاشانے سب جگہ ایسے غم ہیں کہ جوانی میں کمر کو دہرا کردیتے ہیں۔ درماں کہاں ہے؟کہ درماں سے درد اور بھی بڑھ جاتا ہے عقل ودانش تمام حیلے اور فریب اور شعبدے بازیاں ہیں۔ سیلاب کے زور کے بغیر آدم کی کشتی آگے نہ بڑھے گی کیونکہ ہر دل ناخدا سے ہزاروں جھگڑے رکھتا ہے۔ مجھ سے سفر ِ زندگی کی حکایت نہ پوچھومیںنے درد کو سازگار بنالیا ہے اور غزل گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گیا ہوں۔ میں نے اپنی سانس کو نسیمِ سحر سے ملالیا ہے لہٰذا میں پھولوں پر پاؤں رکھے بغیر چمن کی سیر کرلیتا ہوں۔ اس کوچہ ومحل سے جداہوکر لیکن ان ہی میں بکھر کرمیں نے چاند کی آنکھ سے اس دنیا کا نظاّرہ کرلیا ہے۔ ۷۲ اے لالہ!ایک کہستان،باغ اور سبزہ زاروں کے چراغ!میری طرف نظر کر کہ میں تجھے زندگی کا سراغ دیتا ہوں۔ ہم شوخ رنگ اور بوئے پریشاں نہیں ہیں ہم وہ ہیں جو دل ودماغ میں اتر جاتا ہے۔ مستی شراب سے ہے پیالے سے نہیں ہرچند کہ بادہ پیمانے کے بغیر نہیں پیا جاسکتا۔ داغوں کو اپنے سینے میں جلائے رکھو کیونکہ وجود کی شب کے اندر اس چراغ کے بغیر اپنا آپ بھی پہچانا نہیں جاسکتا۔ اے شعلہ کی لہر!اپنے سینے کو صبا کے لئے کھول دے شبنم کی خواہش نہ کر کہ وہ تجھے اس جلن سے آزاد کردے گی۔ ۷۳ میں آزاد بندہ ہوں اور عشق میرا امام ہے۔عشق میرا امام ہے اور عقل میری غلام ہے۔ اس محفل کا ہنگامہ میرے جام کی گردش سے ہے۔یہی میرا شام کا ستارہ ہے اور یہی میرا ماہِ تمام ہے۔ زندگی ذوقِ تمنا کے بغیر عدم کے اندر آسودہ تھی میرے حلقۂ دام میں آکر اس نے مستانہ وار نالہ وفریاد بلند کردی۔ اے عالمِ رنگ وبو!ہماری یہ صحبت آخر کب تک ہے؟تیری موت ہمیشگی کی ہے اور میرا عشق ہمیشگی کا ہے۔ میرے ضمیر کے باہر بھی وہ اور اندر بھی وہ۔یہ اس کا مقام ہے اب تُو میرے مقام کا اندازہ کر! ۷۴ کم سخن غنچہ کہ اپنے دل کے اندر راز چھپائے بیٹھا تھا،گل وریحان کے ہجوم میں اسے کسی دمساز کے نہ ہونے کا غم تھا۔ اس نے چمن کے پرندوں اور بادِ بہار سے دوستی کرنے کی خواہش کی اور یوں ان کی صحبت پر تکیہ کیا کہ جو پرواز پر جانے والے تھے۔ ۷۵ میں خود اپنے آپ کو سجدہ کرتا ہوں کیونکہ دَیروحرم تو رہے نہیں۔یہ عرب میں نہیں اور وہ عجم میں نہیںرہا! لالہ اور گُل کی پتیوں میں رنگ وآب نہیں رہا اور پرندوں کے نالوں میں وہ زیروبم بھی نہیں رہا۔ اس کارگاہِ دنیا میں مجھے اب کوئی نیا نقش نظر نہیں آتا۔شاید عدم کے اندر ہی اب کوئی نیا نقش نہیں رہا۔ آسمان کے سیاّرے کسی تبدیلی کے ذوق سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔شاید روزوشب کو اپنی لگی بندھی راہ سے ہٹانے کی توفیق نہیں رہی۔ منزل سے پہلے ہی سکون سے آرام کرنے لگے ہیں اور طلب سے پاؤں روک لئے ہیں۔شاید خاکی انسانوں کے سینوں میں دم ہی باقی نہیں رہا۔ یا تو ممکنات کی بیاض میں ایک بھی سادہ صفحہ نہیں بچا یا قضا کے قلم کو اب مزید لکھنے کی تاب نہیں رہی۔ گلشن راز جدید میں نے تمہاری آنکھ کی پُتلی میں بینائی ڈال دی ہے۔ میں نے تمہارے باطن میں ایک نئی دنیا پیدا کر دی ہے۔ سارا مشرق سویا پڑا تھا کہ ستاروں کی نگاہ بچا کر میں نے زندگی کے نغمے سے صبح تخلیق کر دی ہے۔ تمہید مشرق کی رُوح سے وہ پرانا سوز جاتا رہا۔ اس کا دم پھول گیا ہے اور اس کی جان جسم سے نکل چکی ہے۔ اُس تصویر کی مانند جو سانس کے بندھن کے بغیرزندہ رہتی ہے اور نہیں جانتی کہ زندگی کا لطف و لذّت کیا ہے اس کا دل مقصد و مدعا سے بیگانہ ہو گیا اور اس کی بانسری نغمہ و آواز سے خالی ہو گئی۔ میں نے بات کو نئے انداز میں پیش کیا یعنی محمود کے رسالہ کا جواب دیا۔ شیخ کے عہد سے لے کر اب تک کسی نے ہماری روح میں ایسی چنگاری نہیں جلائی، ہم کفن پہنے ہوئے مردے کی طرح قبر میں تھے مگر کسی ہنگامۂ قیامت سے دوچار نہیں تھے۔ اُس دانائے تبریز کے سامنے وہ قیامتیں گزریں جو چنگیز کے کھیت سے آئی تھیں، میری نگاہ نے ایک دوسرا انقلاب دیکھا اور کسی دوسرے آفتاب کو طلوع ہوتے دیکھا۔ میں نے معنی کے چہرے سے پردہ اٹھایا اور ذرہ کے ہاتھوں میں ایک آفتاب تھما دیا۔ تم یہ مت سوچنا کہ میں بغیر شراب پیے مست ہوں اور میں نے شاعروں کی طرح افسانہ گھڑا ہے، تمہیں اُس کم ظرف انسان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جس نے مجھ پر شعر و شاعری کی تہمت باندھی ہو۔ مجھے حسینوں کے کوچے سے کوئی سروکار نہیں۔ میں کوئی عاشق و فریفتہ دل رکھتا ہوں نہ کسی کے حسن کا دیوانہ ہوں، میری خاک کسی کی راہگزر کی خاک ہے نہ میرے جسم میں دلِ بے قرار ہے، میں تو جبریلِ امیں سے ہمکلام ہوں اور رقیب، قاصد اور دربان سے آشنا نہیں۔ مجھے فقر کی بدولت کلیم اللہ کا سامان میسر آ گیا ہے اور میرے خرقۂ درویشی میں شہنشاہوں کا رعب و داب ہے۔ میں اگر خاک ہوں تو کسی صحرا میں نہیں سماؤں گا اور اگر پانی ہوں تو کسی سمندر میں نہیں آؤں گا۔ پتھر کا دل میرے شیشے سے لرزتا ہے اور میرے افکار کا سمندر ساحل کو قبول نہیں کرتا۔ میرے پردے میں تقدیریں چھپی ہوئی ہیں اور قیامت میری گود میں پلی ہے۔ ذرا دیر کے لیے میں اپنی ذات میں ڈوب گیا اور ایک لازوال دنیا تخلیق کی، ’’مجھے اِس شاعری سے عار محسوس نہیں ہوتی کیونکہ صدیوں میں بھی کوئی عطار پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ میری روح میں حیات و موت کی جنگ جاری ہے اور میری نگاہیں حیاتِ جاوداں پر مرکوز ہیں۔ میں نے تمہارے جسم کو روح سے بے پرو ا دیکھا لہٰذا میں اُس میں اپنی روح پھونک دی۔ مجھ میں جو آگ جل رہی ہے اُس سے سراپا جل رہا ہوں، پس تم اپنی رات کو میرے چراغ سے منور کر لو۔ میری مٹی میں دل کو دانہ کی طرح بویا گیا ہے اور میری لوح پر کوئی اور ہی تحریر لکھ دی گئی ہے۔ خودی کا ذوق میرے لیے شہد کی طرح ہے، کیا بتاؤں کہ میرے واردات بس یہی ہیں۔ پہلے میں نے خود اس کے کیف و لذت کا تجربہ کیا اور پھر اسے اقوامِ مشرق میں بانٹ دیا۔ اگر جبریل یہ رسالہ پڑھے تو اپنا خالص نور گرد کی طرح جسم سے جھاڑنا شروع کر دے، اپنے مقام و مرتبہ پر فریاد کرے اور یزداں سے اپنے دل کا درد کہہ ڈالے: ’’میں آپ کی تجلی کو اتنا بے حجاب نہیں دیکھنا چاہتا، میں بس دردِ پنہاں چاہتا ہوں اور کچھ نہیں! میں اِس دائمی وصال سے باز آیا کہ میں نے آہ و فغاں کی لذّت چکھ لی ہے، مجھے انسان کا ناز و نیاز عطا فرمائیے اور میری جان میں اُس کا سوز و گداز پیدا کر دیجیے!‘‘ سوال ۱ سب سے پہلے میں اپنی سوچ کے بارے میں حیران ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جسے سوچنا کہتے ہیں، کون سی سوچ ہمارے لیے سفر کی شرط ہے اور کیوں یہ کبھی نیکی اور کبھی گناہ ہے؟ جواب انسان کے سینے میں کون سا نور ہے؟ وہ کیسا نور ہے کہ اُس کا غیب حضور ہے! میں نے اُسے اپنی جگہ پر قائم مگر سفر میں دیکھا ہے، اُسے نور دیکھا ہے اور نار دیکھا ہے۔ کبھی اُس کی آگ برہان اور دلیل ہے اور کبھی اُس کا نور جبرئیل کے جوہر سے ہے۔ کیسا روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والا نور ہے کہ اس کی کرن کے سامنے سورج ہیچ ہے! مٹی میں ملا ہوا مگر مکان کی قید سے آزاد اور شب و روز کے بند میں جکڑا ہوا مگر زمان کی گرفت سے آزاد ہے۔ اُس کی زندگی کا حساب سانسوں کی گنتی سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اُس جیسا ڈھونڈنے اور پانے والا اور کوئی نہیں ہے۔ کبھی تھکاہارا ساحل پر پڑا ہوتا ہے اور کبھی بیکراں سمندر اُس کے جام میں ہوتا ہے۔ یہ سمندر بھی ہے اور موسیٰ کا عصا بھی ہے جس سے سمندر کا سینہ دو نیم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ ہرن ہے کہ آسمان اس کی چراگاہ ہے اور کہکشاں سے پانی پیتا ہے۔ زمین و آسماں اس کے لیے صرف ایک منزل ہیں اور وہ کارواں کے بیچوں بیچ تنہا چلا جا رہا ہے۔ ظلمت و نور کے جہان، صور کی آواز، موت اور جنت و حور اُس کے احوال ہیں۔ اُسی سے ابلیس اور آدم کی نمود ہے اور اُسی سے ابلیس و آدم کی کامیابی ہے۔ نگاہ اُس کے جلوے سے سیر نہیں ہوتی کہ اُس کی تجلی خدا کا دل لے لینے والی ہے۔ ایک آنکھ سے اپنی خلوت کو دیکھتا ہے اور دوسری سے اپنی جلوت پر نظر رکھتا ہے، اگر ایک آنکھ بند کر لے تو یہ گناہ ہوگا اور اگر دونوں آنکھیں بند کر لے تو یہ راستے کے لیے ضروری ہے! اپنی ندی سے ایک سمندر پیدا کر لیتا ہے لیکن اپنی گہرائی میں اُترتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔ اُسی لمحہ وہ دوسری صورت اختیار کر کے غواص ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو باہر نکال لیتا ہے۔ اُس میں بے آواز ہنگامے ہیں اور ایسے رنگ و آواز جنہیں آنکھ دیکھ سکتی ہے نہ کان سن سکتے ہیں۔ اُس کی صراحی میں زمانہ ہے مگر ہم پر بتدریج ظاہر ہوتا ہے۔ زندگی اُس کی کمند پھینکتی ہے اور ہر پست و بلند کا شکار کرتی ہے۔ اُس کے ذریعے خود کو اپنی قید میں لاتی ہے یہاں تک کہ ماسوا کی گردن مروڑ دیتی ہے۔ کسی دن دونوں جہاں اُس کا شکار ہو جائیں گے اور اُس کی پیچدار کمند میں آ پھنسیں گے۔ اگر تم ان دونوں جہا نوں کو فتح کرو تو تمام دنیا مر جائے گی مگر تم نہیں مرو گے۔ طلب کے بیابان میں سستی سے پاؤں مت رکھو بلکہ پہلے وہ دنیا فتح کر لو جو تمہارے اندر ہے۔ اگر مغلوب ہو تو اپنے آپ کو فتح کر کے غالب ہو جاؤ۔ خدا کو چاہتے ہو؟ اپنے آپ سے قریب ہو جاؤ! اگر اپنے آپ کو تسخیر کرنے میں طاق ہو گئے تو تمہارے لیے دنیا کی تسخیر آسان ہو جائے گی۔ کتنا مبارک ہو گا وہ دن جب تم اِس دنیا کو تسخیر کرو گے اور نو آسمانوں کا سینہ شگاف کر دو گے۔ چاند تمہارے سامنے سجدہ کرے گا اور تم اُسے اپنی آہوں کی کمند میں لپیٹ لو گے۔ اِس پرانے بتکدے میں آزاد ہو گے اور بتوں کو اپنی مرضی کے مطابق تراشو گے۔ دنیائے چار سو یعنی روشنی، آواز، رنگ اور بو کے جہان کو اپنے قبضے میں لانا، اس کے کم بڑھنے کو زیادہ کرنا اور اپنی مرضی سے بدلنا، اُس کے خوشی اور غم سے دل نہ لگانا اور اُس کے نو آسمانوں کے طلسم کو توڑنا، اُس کے دل میں تیر کی اَنی کی طرح اترنا اور اپنے گیہوں کو اُس کے جَو کے بدلے نہ دینا، یہی ہے خسروانہ شکوہ، یہی ہے۔ یہ ہے وہ ملک جو دین کا جڑواں بھائی ہے۔ سوال ۲ کون سا سمندر ہے جس کا کنارہ علم ہے اور اس کی گہرائی میں کون سا موتی ملتا ہے؟ جواب یہ پُردم زندگی ایک بہتا سمندر ہے جس کا کنارا شعور اور آگہی ہیں۔ ایسا دریا ہے جو بہت گہرا اور موجوں والا ہے اور جس کے کنارے ہزاروں کوہ و صحرا ہیں۔ اس کی بے قرار موجوں کی مت پوچھو کہ ہر موج کنارے سے باہر نکل گئی، سمندر سے نکلی اور صحرا کو نمی دی، نگاہ کو کیفیت اور مقدار کی لذّت بخشی۔ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے شعور کے فیض سے روشن ہو جاتی ہے۔ وہ خلوت میں مست رہتی اور صحبت سے بھاگتی ہے مگر ہر شے اُس کے نور سے منوّر ہے، کہ پہلے وہ اُسے روشن کرتی ہے اور پھر ایک آئین کا پابند کر دیتی ہے۔ اُس کے شعور نے اُسے دنیا سے قریب کیا اور دنیا نے اُسے اُس کے راز سے بیخبر کر دیا۔ عقل نے اُس کے چہرے سے نقاب اٹھائی مگر قوتِ گویائی نے اُسے زیادہ بے حجاب کیا۔ وہ اِس جہانِ مکافات میں نہیں سماتی کہ یہ دنیا اُس کے مقامات میں سے بس ایک مقام ہے! تم دنیا کو اپنے آپ سے باہر دیکھتے ہو، اس میں میدان و بیابان، سمندر، صحرا اور کانیں دیکھتے ہو، یہ رنگ و بو کی دنیا ہمارا گلدستہ ہے جو ہم سے آزاد بھی ہے اور وابستہ بھی! خودی نے اسے ایک تارِ نگاہ سے باندھ دیا ہے یعنی زمین، آسمان اور چاند ستاروں کو ۔ ہمارے دل کو اس سے ایک پوشیدہ تعلق ہے کہ ہر موجود ایک نگاہ کا رہینِ منت ہے، اگر کوئی اِسے نہ دیکھے تو یہ سمٹ جائے لیکن اگر دیکھے تو یہ سمندر اور پہاڑ بن جائے۔ دنیا کی ضخامت ہمارے دیکھنے کی وجہ سے ہے، اِس کا پودا ہمارے بڑھنے سے بڑھا ہے۔ دیکھنے والے اور نظر آنے والے کی بات ایک راز ہے کہ ہر ذرّے کے دل میں یہ درخواست ہے: اے دیکھنے والے مجھے نظر آنے والا سمجھ لواور ایک نظر کی برکت سے مجھے موجود بنا دو! کسی چیز کی ہستی کا کمال اُس کا موجود ہونایعنی کسی دیکھنے والے کو نظر آنا ہے اور اُس کا زوال ہمارے سامنے نہ ہونا یعنی ہمارے شعور سے روشن نہ ہونا ہے۔ دنیا ہماری تجلّی کے سوا کچھ اور نہیں ہے اِس لیے کہ روشنی اور آواز کا جلوہ ہمارے بغیر ممکن نہیں۔ تم بھی اس کی صحبت سے مدد حاصل کرو اور اس کے پیچ و خم سے اپنی نظر کی تربیت کرو۔ ’’یقین جانو کہ تم شکاری شیر ہو اور اِس راہ میں چیونٹی سے مدد طلب کی گئی ہے۔‘‘ اُس کی مدد سے اپنی خبر پاؤ، تم جبریلِ امین ہو، بال و پر حاصل کر لو! اپنی عقل کی آنکھ کو کثرت پر کھولو تاکہ وحدت کا جلوہ تمہارے ہاتھ لگے۔ بوئے پیرہن سے اپنا حصہ حاصل کرو اور کنعان میں بیٹھے ہوئے مصر و یمن کی خوشبو محسوس کرو۔ خودی شکاری ہے اور چاند ستارے اُس کے شکار ہیں جو اُس کی تدبیر کے جال میں قید ہیں۔ آگ کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لو اور مکان و لامکاں پر شبخوں مار ڈالو۔ سوال ۳ جس کا ہونا محض امکان ہو اُس کا وصال اُس کے ساتھ کیسا جس کا وجود کسی کا محتاج نہیںاور یہ نزدیکی، دُوری، کم اور زیادہ کا معاملہ کیا ہے؟ جواب یہ کیوں اور کیسے کا جہاں سہ پہلو ہے اور عقل اس کی کیفیت اور کمیت کے لیے کمند ہے، یہ طوسی اور اقلیدس کی دنیا ہے اور زمین کو ناپنے والی عقل کے لیے بس یہی ہے۔ اس کے زمان و مکان بھی اندازے کے محتاج ہیںاور اس کے زمین اور آسمان بھی! کمان پر چلّہ چڑھاؤ اور اپنا ہدف معلوم کرو۔ میری باتوں سے معراج کا نکتہ سمجھ لو۔ اِس جہانِ مکافات میں ذاتِ مطلق کی تلاش مت کرو کہ ذاتِ مطلق صرف آسمانوں کا نور ہے۔ حقیقت لازوال اور لامکاں ہے، اب یہ مت کہنا کہ دنیا لامحدود ہے۔ اس کا کنارا اِس کے اندر ہے اور پست ہے مگر اس کی بلندی بھی کم بڑھنے والی نہیں ہے۔ اس کا باطن پست و بلند سے عاری ہے مگر اس کا ظاہر پھیلاؤ رکھنے والا ہے۔ ہماری عقل ابد کو سمجھنے کے قابل نہیں کہ جو ایک تھا وہ اس کی کشمکش سے ہزار ہو گیا ہے۔ یہ چونکہ لنگڑی ہے اس لیے سکون کو پسند کرتی ہے، مغز کو نہیں دیکھتی اور کھال پر فریفتہ ہے۔ چونکہ ہم نے حقیقت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اس لیے ساکن اور متحرک میں فرق کرتے ہیں۔ عقل نے لامکاں میں بھی مکاں کی طرح ڈالی اور وقت کو زنار کی طرح لپیٹ لیا، اپنے باطن میں وقت کا مشاہدہ نہ کیا اور ماہ و سال اور شب و روز بنا بیٹھی۔ تمہارے ماہ و سال ایک جو کے برابر بھی نہیں، ذرا کَم لَبِثتُم کے الفاظ میں ڈوب کر دیکھو! اپنے آپ تک پہنچو اور اِس ہنگامے سے دل اٹھا کر اپنے آپ کو اپنے ضمیر میں ٹپکا لو۔ جسم اور روح کو دو کہنا قابلِ اعتراض ہے اور انہیں الگ الگ دیکھنا حرام ہے۔ روح میں کائنات کا راز پوشیدہ ہے اور جسم زندگی کے احوال میں سے بس ایک حال ہے۔ معنی کی دلہن نے صورت کی مہندی رچائی ہے اور اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے زیور پہن لیے ہیں۔ حقیقت اپنے چہرے کے لیے پردہ بُنتی ہے کیونکہ اُسے دریافت ہونے میں لذّت ملتی ہے۔ فرنگ نے جسم کو روح سے الگ دیکھا تو اُس کی نگاہ کو ملک اور دیں بھی جدا دکھائی دیے۔ کلیسا پطرس کی تسبیح پڑھتا ہے کیونکہ اُسے حکومت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حکومت کے کاموں میں مکر و دغا دیکھو، بے روح جسم اور بے جسم روح دیکھو! عقل کو اپنے دل کا ہمسفر بنا کر ذرا ترک قوم کو دیکھو، فرنگ کی تقلید میں اپنے آپ سے دُور ہو گئے اور ملک و دیں کے درمیان تعلق نہ دیکھ سکے۔ ہم نے ایک کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے دیکھا کہ اُسے شمار کرنے کے لیے عدد ایجاد کر لیے۔ یہ پرانا بت کدہ جو تمہیں خاک کی مٹھی دکھائی دے رہا ہے ذاتِ پاک کی سرگزشت میں سے ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے۔ فلسفی مُردے کی تصویر بنانے والے ہیں کہ اُن کے پاس یدِ بیضا اور دمِ عیسیٰ نہیں ہیں۔ میرے دل نے اِس حکمت میں کچھ نہ دیکھا۔ وہ کسی اور ہی حکمت کے لیے بے قرار ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا بدلتی ہوئی ہے کہ اُس کا باطن زندہ اور پیچ و تاب میں ہے۔ اپنے اعداد و شمار چھوڑو اور ذرا اپنے آپ میں دیکھو، آگے بڑھو۔ اُس دنیا میں جہاں جزو کل سے بڑھا ہوا ہے، رازی اور طوسی کے اندازے محض دیوانگی ہیں۔ تم ایک مدت ارسطو سے واقفیت حاصل کرتے رہو، کچھ دیر بیکن کے ساز میں بھی اپنی آواز ملا لو، مگر آخر اُن کے مقام سے آگے گزر جاؤ اور اِس منزل میں گم مت ہو جاؤ، آگے بڑھ جاؤ۔ اُس عقل سے جو کم و بیش کو پہچانتی اور دریا اور کان کے باطن کا حال جانتی ہے، دنیائے کیف و کم کو تسخیر کرو اور آسمانوں میں ماہ و پرویں پر کمند ڈالو مگر دوسری حکمت بھی سیکھو اور اپنے آپ کو شب و روز کے طلسم سے رہا کرواؤ۔ تمہارا مرتبہ دنیا سے بلند ہے۔ تم وہ دایاں ہاتھ طلب کرو جو بائیں کا محتاج نہ ہو۔ سوال ۴ جو ہمیشہ سے ہے اور جسے بنایا گیا وہ ایک دوسرے سے جدا کیسے ہوئے کہ ایک دُنیا ٹھہرا اور دوسرا خدا ہوا؟ جسے پہچانا جا رہا ہے اور جو پہچان رہی ہے وہ اگر خدا کی ذات ہی ہے تو پھر یہ انسان کے دماغ میں کیا سودا سمایا ہے؟ جواب دوسرے کو تخلیق کرنا خودی کی زندگی ہے چنانچہ پہچاننے والے اور پہچانے جانے والے کی جدائی خیر ہے۔ ہم جو کسی کو ہمیشہ سے موجود سمجھتے ہیں اور کسی کو بنایا ہوا جانتے ہیں یہ ہمارے اندازے کی بات ہے جو گزرتے ہوئے دنوں کا طلسم ہے۔ ہم گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کو شمار کرتے رہتے ہیں اور ماضی، حال اور مستقبل سے سروکار رکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اُس سے علیحدہ کر لینا، پھر تڑپنا اور اُسے نہ پانا ہماری فطرت ہے۔ نہ اُس سے علیحدہ ہوئے بغیر ہماری قدر و قیمت ہے نہ اُسے ہمارے وصال کے بغیر قرار ہے، نہ وہ ہمارے بغیر ہے نہ ہم اُس کے بغیر، عجیب راز ہے کہ ہماری جدائی وصال میں فراق ہے۔ جدائی خاک کو نگاہ بخشتی ہے اور گھاس کی پتی کو پہاڑ کا سرمایہ عطا کرتی ہے۔ جدائی عشق کی خوبی اور خامی ظاہر کرنے والی ہے اور عاشقوں کو راس آتی ہے، ہم اگر زندہ ہیں تو دردمندی کی وجہ سے اور اگر قائم ہیں تو دردمندی کی وجہ سے! میں اور وہ کیا ہے؟ خدا کا راز ہے، میں اور وہ ہمارے دوام پر گواہ ہیں۔ نورِ ذات خلوت میں بھی ہے اور جلوت میں بھی ہے کہ انجمن میں رہنا ہی زندگی ہے۔ انجمن کے بغیر محبت صاحبِ نظر نہیںہوتی اور اپنے آپ کو دیکھنے کے قابل نہیں بنتی۔ ہماری بزم میں اُس کے جلوے دیکھو کہ ُدنیا غائب اور وہ ظاہر ہے، درودیوارہیں نہ شہر، محل اور محلے کہ یہاں میرے اور اُس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ کبھی وہ اپنے آپ کو ہم سے بیگانہ کرلیتا ہے اور کبھی ہمیں ساز کی طرح بجانے لگتا ہے۔ کبھی ہم پتھر سے اُس کا نقش بناتے ہیں، کبھی بغیر دیکھے اُسے سجدہ کرتے ہیں، کبھی فطرت کا ہر پردہ چاک کرکے بے جھجک محبوب کا دیدار کرلیتے ہیں۔ انسان کے دماغ میں یہ کیسا سودا سمایا ہے؟ اِسی سودے سے ہمارا باطن روشن ہے۔ کتنا اچھا سودا ہے کہ اُس کی جدائی میں روتا ہے مگر اسی جدائی سے پروان بھی چڑھتا ہے۔ اُس کی جدائی نے ایسا صاحبِ نظر بنایا ہے کہ اس نے اپنی شام کو اپنے لیے سحر بنا لیا ہے۔ خودی کو امتحان کے ہاتھوں دردمند بنا کر اُس کے کبھی ختم نہ ہونے والے غم کو خوشی میں بدل دیا، روتی ہوئی آنکھ سے موتیوں کی لڑیاں حاصل کیں اور ماتم کے درخت سے میٹھا پھل وصول کر لیا۔ خودی کو خوب بھینچ کر آغوش میں لینا فنا کو بقا کا ہم پلّہ بنانا ہے۔ محبت؟ مقامات کو گرفت میں لینا! محبت؟ انتہاؤں سے آگے گزر جانا! محبت کو انجام کا شوق نہیں ہوتانہ اس کی صبح کے طلوع کی کوئی شام ہوتی ہے۔ اس کی راہ میں عقل پیچ و خم کی طرح ہے اور دنیا ایک لمحے کی چمک ہے۔ ہمارے راستے میں ہزاروں دنیائیں ہیں۔ ہماری جولاں گاہیں کب ختم ہونے والی ہیں! اے مسافر، ہمیشہ کے لیے مر کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاؤ اور جو دنیا آنے والی ہے اُسے اپنے تصرف میں لے آؤ! اُس کے سمندر میں گم ہو جانا ہمارا انجام نہیں ہے۔ اگر تم اُسے حاصل کر لو تو یہ تمہاری فنا نہ ہو گی۔ ایک خودی کا دوسری خودی میں سما جانا محال ہے۔ خودی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنا جوہر بن جائے! سوال ۵ میں کون ہوں، مجھے میری خبر دیجیے اور یہ اپنے آپ میں سفر کرنے کا مطلب کیا ہے؟ جواب خودی کائنات کی حفاظت کا تعویذ ہے اور زندگی اُس کی ذات کی پہلی کرن ہے۔ زندگی میٹھی نیند سے بیدار ہوتی ہے تو اُس کا باطن جو ایک ہے وہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ نہ ہمارے ظہور کے بغیر اُس کا پھیلاؤ ممکن ہے نہ اُس کے پھیلاؤ کے بغیر ہمارا ظہور ممکن ہے۔ اُس کا باطن سمندر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں اور جس کے ہر قطرے کا دل ایک بیقرار موج ہے۔ اُسے صبر کی پروا نہیں اور افراد کے سوا اُس کا کوئی ظہور نہیں۔ زندگی آگ ہے اور خودیاں چنگاریوں کی مانند ہیں۔ وہ ستارے کی طرح اپنی جگہ پر قائم بھی ہے اور سفر میں بھی ہے۔ اپنے آپ سے نکلے بغیر وہ غیر کو دیکھ لیتی ہے اور مجمع میں ہونے کے باوجود خلوت نشیں ہے۔ ذرا اُس کا اپنے آپ میں تڑپنا دیکھو اور اِس گزر جانے والی زمین سے اُس کا بڑھنا دیکھو! وہ آنکھوں سے پوشیدہ آہ و نالہ کرتی رہتی ہے اور اُسے ہر وقت رنگ و بو کی تلاش رہتی ہے۔ وہ اپنے سوزِ دروں کی وجہ سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور ایک خاص روش پر اپنے آپ سے برسرِپیکار ہے۔ اس کی کشمکش کی وجہ سے دنیا کا ایک نظام ہے۔ کشمکش کی وجہ سے انسان آئنہ فام ہو جاتا ہے۔ اس کی روشنی سے خودی کے سوا کوئی چنگاری نہیں جھڑتی اور اُس کے سمندر میں موتی کے سوا کچھ اور نہیں پیدا ہوتا۔ خودی کے لیے پیکرِ خاکی حجاب ہے جس پر وہ آفتاب کی طرح طلوع ہوتی ہے۔ اس کے طلوع ہونے کا مقام ہمارے سینے میں اور ہماری مٹی میں روشنی اُس کے جوہر سے ہے۔ تم کہتے ہو، ’’مجھے میری خبر دیجیے اور یہ اپنے آپ میں سفر کرنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جسم اور روح کا تعلق کیا ہے۔ اپنے آپ میں سفر کرو اور دیکھو کہ ’’میں‘‘ کیا ہے۔ اپنے آپ میں سفر؟ بغیر ماں باپ کے پیدا ہونا اور ثرّیا کو بامِ فلک سے گرفتار کرنا، ابد کو ایک اضطراب میں اپنے قبضے میں کر لینا، سورج کی کرن کے بغیر مشاہدہ کرنا، امید اور یاس کے ہر نقش کو اپنے دل سے مٹا دینا، کلیم اللہ کی طرح دریا چاک کرنا، اِس خشکی اور تری کے طلسم کو توڑ ڈالنا، ایک اُنگلی سے چاند میں شگاف ڈالنا، لامکاں سے اِس طرح واپس آنا کہ سینے میں وہ ہو اور ہاتھ میں اُس کی دنیا ہو! مگر اِس راز کا بیان کرنا مشکل ہے کہ دیکھنا شیشہ ہے اور بیان کرنا مٹی! ’’میں‘‘ کی قوّت و طاقت میں کیا بیان کروں کہ اِنّا عرضنا ِ اسے بے نقاب کرتا ہے۔ اُس کے رعب داب سے آسمان پر لرزہ طاری ہے اور اس کی آغوش میں زمان و مکان ہیں۔ اس کے نشیمن کی بنیاد انسان کے دل میں ہے مگر اُس کی مشتِ خاک کے نصیب میں پھینکا جانا ہے۔ غیر سے جدا بھی ہے اور وابستہ بھی ہے، اپنی ذات میں گم بھی ہے اور غیرسے پیوستہ بھی ہے جس طرح خیال انسان کے جسم میں ہوتا ہے اور اُس کا سفر زمان و مکان سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ کیا راز ہے کہ قیدخانے میں ہے اور آزاد ہے، کمند بھی، شکار بھی اور شکاری بھی خود ہی ہے! تمہارے سینے میں ایک چراغ ہے۔ یہ کیسا نور ہے جو تمہارے آئینے میں ہے! غافل مت ہو کہ تم اس امانت کے امین ہو۔ کیسے نادان ہو کہ اپنی طرف نہیں دیکھتے ہو! سوال ۶ وہ حصہ کون سا ہے جو پورے سے زیادہ ہے اور اُسے پانے کا طریقہ کیا ہے؟ جواب خودی ہمارے اندازے سے بڑھ کر ہے۔ خودی اُس کُل سے زیادہ ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔ بار بار آسمان سے گرتی ہے کہ پھر اُٹھ کھڑی ہو۔ گزرتے ہوئے وقت کے سمندر میں گرتی ہے کہ پھر اٹھ کھڑی ہو۔ اپنے آپ کو دیکھنے والا آسمان کے نیچے اُس کے سوا اور کون ہے؟ بے بال و پر ہونے کے باوجود ایسا صاحبِ پرواز اور کون ہے؟ اندھیرے میں ہے مگر اُس کی آغوش میں روشنی ہے، جنت سے باہر ہے مگر پہلو میں حور ہے۔ اس دلآویز قوّتِ گویائی کے ذریعے جو وہ رکھتی ہے وہ زندگی کی تہ سے موتی نکال لاتی ہے۔ زندگی کا باطن ابدی ہے مگر ظاہر کی آنکھ سے دیکھو تو وقتی ہے۔ اس کی تقدیر میں زندگی کا مقام، اپنے آپ کو ظاہر کرنا اور اس ظہور کی حفاظت کرنا ہے۔ مت پوچھو کہ وہ کیسی ہے اور کیسی نہیں ہے کیونکہ تقدیر اُس کی فطرت سے باہر نہیں ہے۔ میں کیا کہوں کہ وہ کیسی ہے اور کیسی نہیں ہے کہ اُس کا ظاہر مجبور اور باطن آزاد ہے! شاہِ بدرؐ نے فرمایا ہے کہ ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے۔ تم ہر مخلوق کو مجبور کہتے ہو اور اُسے فاصلے کی قید میں مقید سمجھتے ہو مگر جان، جان آفریں کی پھونکی ہوئی ہے جو مختلف جلووں میں خلوت نشیں ہے۔ اُس کی مجبوری کی بات تو بیچ میں آتی ہی نہیں کہ بغیر فطرتِ آزاد کے جان، جان نہیں رہتی۔ اِس کیف و کم کی دنیا پر شبخوں مارو اور مجبوری سے مختاری کی طرف قدم بڑھاؤ۔ جب وہ اپنی ذات سے مجبوری کی گرد جھاڑ دیتی ہے تو وہ اپنے جہان کو اونٹنی کی طرح ہانکنے لگتی ہے۔ نہ آسمان اُس کی اجازت کے بغیر گردش کرتا ہے نہ ستارہ اُس کی مدد کے بغیر چمکتا ہے۔ وہ ایک روز ضمیرِ کائنات کو آشکارہ کر دیتی ہے اور اپنی آنکھوں سے اس کی حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔ فرشتوں کی قطار اُس کے راستے میں کھڑی ہو جاتی ہے اور اُس کے دیدار کے انتظار میں رہتی ہے۔ فرشتہ اُس کے انگور کی بیل سے شراب حاصل کرتا ہے اور اُس کی مٹی سے اپنی قدر و قیمت بڑھاتا ہے۔ اُس کی جستجو کا طریقہ کیا پوچھتے ہو کہ وہ کیفیتِ عشق کے تابع ہو جاتی ہے۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اُسے ابدیت میں لگا دو اور صبح کی فغاں کو عقل پر غالب کر دو۔ عقل کی متاع حواس سے حاصل ہوتی ہے اور فغاں عشق سے اپنی شعاع حاصل کرتی ہے۔ عقل جزو کو اور فغاں کُل کو حاصل کرتی ہے، عقل مر جاتی ہے مگر فغاں ہرگز نہیں مرتی۔ عقل ابدیت کا ظرف نہیں رکھتی کہ وہ گھڑی کی سوئی کی طرح سانسیں گنتی رہتی ہے، دن رات اور صبح و شام تراشتی ہے گویا شعلے کو حاصل نہیں کرتی اور چنگاریاں اکٹھی کرتی رہتی ہے۔ عاشقوں کی فغاں ہی مسئلے کا حاصل ہے جس کے ایک لمحے میں ایک زمانہ پنہاں ہے۔ خودی اپنے ممکنات کو ظاہر کرتی رہتی ہے تو اپنے اندر کی گرہ کھولتی رہتی ہے۔ تمہارے پاس وہ نور نہیں ہے جس سے وہ دیکھتی ہے اس لیے تم اُسے عارضی اور فانی سمجھتے ہو۔ وہ موت جو آتی ہے اُس سے ڈرنا کیسا کہ خودی جب پختہ ہو جائے تو موت سے آزاد ہو جاتی ہے، ہاں دوسری موت سے میرا دل لرزتا ہے بلکہ میرا دل، میری روح اور میرا وجود لرزتا ہے۔ عشق و مستی کی کیفیت سے محروم اور اپنی آگ سے دنیا کو نہ جلانا، اپنے ہاتھ سے اپنے جسم پر کفن کاٹنا اور اپنی آنکھ سے اپنی موت کو دیکھنا، یہ موت ہر وقت تمہاری گھات میں ہے اِس سے ڈرو کہ یہی ہماری موت ہے۔ یہ تمہارے جسم کو تمہاری قبر بنا دیتی ہے اور اُس کے منکر و نکیر کو بھی اس میں لا بٹھاتی ہے! سوال ۷ وہ مسافر کون ہے جو راستے پر چل رہا ہے اور کس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسانِ کامل ہے؟ جواب اگر تم اپنے دل میں دیکھو تو تمہیں اپنے سینے ہی میں منزل نظر آ جائے گی۔ ٹھہراؤ میں سفر کرنا ایسا ہی ہوتا ہے یعنی اپنی ذات سے اپنی ذات تک کا سفر یہی ہے۔ یہاں کوئی نہیں جانتا کہ ہم کہاں ہیں کیونکہ ہم چاند ستاروں کی نظروں میں بھی نہیں آتے۔ انتہا تلاش مت کرو کہ تمہاری کوئی انتہا نہیں، یہ سفر ختم ہوا تو تم مردہ ہو گے۔ ہمیں پختہ مت سمجھو کہ ہم خام ہیں۔ ہم ہر منزل پر مکمل بھی ہوتے ہیں اور نامکمل بھی رہتے ہیں! انتہا کو نہ پہنچنا ہی زندگی ہے۔ سفر ہی ہمارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے! ماہی سے ماہ تک ہماری جولاں گاہ ہے اور یہ زمین و زمان ہمارے سفر کی گرد ہیں۔ ہم اپنے آپ میں تڑپتے ہیں اور نمود کے لیے بیتاب ہیں کہ ہم موجیں ہیں اور وجود کی گہرائیوں سے ہیں۔ ہر وقت اپنی گھات میں رہو اور گمان کو چھوڑ کر یقین کی طرف بڑھو۔ محبت کے اضطراب اور بیقراری کو فنا نہیں ہے اور یقین اور دیدار کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ زندگی کا کمال ذاتِ حق کا دیدار ہے اور اس کا طریقہ اطراف کی دنیا سے نکل جانا ہے۔ ذاتِ حق کے ساتھ اِس طرح خلوت گزیں ہو جاؤ کہ وہ تمہیں دیکھے اور تم اُسے دیکھو۔ مَن یَرَانِی کے نور سے اپنے آپ کو منور کر لو کہ تمہاری پلک نہ جھپکے ورنہ تم باقی نہ رہو گے! اپنی ذات میں محکم ہو کر اُس کے حضور میں آؤ کہ اُس کے دریائے نور میں ناپید نہ ہو جاؤ۔ اپنے ذرّے کو وہ اضطراب عطا کرو کہ وہ آفتاب کے حریم میں بھی چمکتا رہے! محبوب کی جلوہ گاہ میں اِس طرح جلو کہ بظاہر تمہارا نور چمک رہا ہو مگر درحقیقت اُسے روشن کرے! جس نے دیدار حاصل کر لیا وہ دُنیا کا امام ہے۔ ہم اور تم ناتمام ہیں، وہ کامل ہے۔ اگر وہ نہیں ملتا تو اُس کی تلاش میں اٹھ کھڑے ہو اور مل جائے تو اُس کے دامن سے لپٹ جاؤ۔ فقیہ، شیخ اور ملّا کو اپنا ہاتھ مت پکڑاؤ۔ مچھلی کی طرح شکاری کے کانٹے سے بیخبر مت ہو جاؤ۔ وہی کامل ملک و دیں کے معاملات کا شناسا ہوتا ہے کہ ہم اندھے ہیں اور وہ صاحبِ نظر ہے، صبح کے سورج کی طرح اپنے ہر مسام سے ایک نگاہ عطا کرتا ہے۔ مغرب نے جمہوری نظام کی بنیاد رکھ کر ایک دیو کی گردن سے رسی کھول دی ہے۔ وہاں کوئی موسیقی ساز و مضراب کے بغیر نہیں ہوتی اور اُس کی کوئی پرواز طیارے کے بغیر ممکن نہیں۔ اُس کے باغ سے ویران کھیتی بہتر ہے۔ اُس کے شہر سے بیاباں بہتر ہے۔ ایک کارواں ہے کہ رہزنوں کی طرح لوٹ مار میں مصروف ہے۔ کئی پیٹ ہیں کہ ایک روٹی کے لیے ماردھاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُس کی روح سو گئی ہے اور جسم بیدار ہو گیا ہے۔ دین اور علم کے ساتھ فن بھی رُسوا ہو گیا ہے۔ کفر کرنے اور کافر بنانے کے سوا عقل کو کوئی کام نہیں۔ افرنگ کا ہنر انسان کو پھاڑ کھانے کے سواکچھ نہیں۔ ایک گروہ دوسرے کی تاک میں رہتا ہے، اگر یہی حال رہا تو اُس کا خدا ہی حافظ ہے! میری طرف سے اہلِ مغرب کو پیغام دو کہ عوام بے نیام تلوار کی طرح ہیں، تلوار بھی کیسی کہ جان نکال لیتی ہے اور مسلم و کافر میں تمیز نہیں کرتی، زیادہ دیر تک اپنے غلاف میں نہیں رہتی، اپنی جان بھی لے لیتی ہے اور دُنیا کی بھی! سوال ۸ اَنالحق کس نکتے کا بیان ہے اور کیا آپ کے خیال میں یہ مبہم بات بالکل فضول تھی؟ جواب میں َاناالحق کے نکتے کے متعلق پھر سے بتاتا ہوں اور ہندوستان و ایران کو اِس راز سے آگاہ کرتا ہوں۔ ایک آتش پرست نے آتش کدے میں ہانک لگائی، ’’زندگی اپنے دھوکے میں آ گئی جو وہ ’میں‘ پکار اُٹھی۔ خدا سو رہا ہے اور ہمارا وجود اُس کے خواب کا نتیجہ ہے۔ ’’یہ نیچے، اُوپر اور چار اطراف کا مقام خواب ہے، سکون و سفر اور شوق و جستجو خواب ہیں۔ بیدار دل اور نکتہ بیں عقل خواب ہے۔ گمان، فکر، تصدیق اور یقیں خواب ہیں۔ تمہاری یہ بیدار آنکھ بھی نیند میں ہے اور تمہارا بولنا اور عمل کرنا بھی نیند کی حالت میں ہے۔ جب وہ بیدار ہو جائے گا تو کوئی دوسرا باقی نہیں رہے گا اور جنسِ محبت کا کوئی خریدار نہ ہو گا۔‘‘ ہماری سمجھ کا وجود اندازے سے ہے اور ہمارا اندازہ حواس کی تقدیر سے ہے۔ حس میں تبدیلی ہوگی تو یہ دنیا بھی بدل جائے گی، سکون و سفر اور کیف و کم سب بدل جائیں گے۔ کہہ سکتے ہیں کہ رنگ و بو کی دنیا موجود نہیں ہے اور زمین و آسمان اور محل محلے وجود نہیں رکھتے، کہہ سکتے ہیں کہ ایک خواب ہے یا طلسم ہے جو اُس بے مثال کے چہرے کا پردہ ہے، کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب شعبدہ بازی ہمارے ہوش کی ہے جو آنکھ اور کان کے لیے حجاب ہے، مگر خودی رنگ و بو کی کائنات سے نہیں ہے ۔ ہمارے حواس اُس کے اور ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اُس کے حریم میں نگاہ کا گزر نہیں ہے، تم اُسے بغیر نگاہ کے دیکھ سکتے ہو۔ اُس کے دنوں کا شمار آسمان کی گردش سے نہیں ہے۔ تم خود دیکھتے ہو کہ اس میں ظن و تخمین اور شک نہیں ہے۔ اگر کہو کہ ’’میں‘‘ وہم و گمان ہے، اس کی نمود بھی دوسری چیزوں کی طرح ہے، تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ گمان پیدا کرنے والا کون ہے؟ ذرا اپنے آپ میں جھانک کر دیکھو کہ وہ بے نشاں کون ہے؟ دنیا سامنے ہے اور دلیل کی محتاج ہے! یہ تو جبرئیل سے بھی نہیں بن پڑے گی۔ خودی چھپی ہوئی ہے اور دلیل سے بے نیاز ہے۔ ذرا سوچو تو پا جاؤ گے کہ یہ کیا راز ہے! خودی کو حقیقی جانو، اِسے باطل مت سمجھو۔ خودی کو ایسا کھیت مت سمجھو جس میں پیداوار نہیں۔ خودی جب پختہ ہو جائے تو لازوال ہو جاتی ہے۔ عاشقوں کا فراق عینِ وصال ہوتا ہے کہ چنگاری کو بلندپروازی دی جا سکتی ہے، ہمیشہ کی تڑپ ببخشی جا سکتی ہے۔ خدا کا دوام اُس کے کسی فعل کا نتیجہ نہیں ہے کہ اُس کے لیے یہ دوام کسی جستجو سے نہیں آیا مگر بہتر دوام وہ ہے کہ ایک فانی جان عشق و مستی کی بدولت لازوال ہو جائے۔ پہاڑوں اور دشت و در کا وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ دنیا فانی ہے، خودی باقی رہنے والی ہے اور باقی سب ہیچ ہے۔ اب شنکر اور منصور کی بات زیادہ مت کرو کہ تم بھی اپنے آپ سے خدا کو تلاش کر سکتے ہو۔ خودی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے بن جاؤ، اناالحق کہو اور خودی کی تصدیق کرنے والے بن جاؤ! سوال ۹ کون ہے جو آخر خالص توحید کے راز سے واقف ہوااور وہ بات کیا ہے جو عارف کو معلوم ہوتی ہے؟ جواب آسمان تلے یہ دنیا بڑی دلفریب ہے مگر چاند سورج جلد فنا ہو جانے والے ہیں۔ شام کے کندھے پر سورج کی لاش ہوتی ہے اور چاند ستاروں کے لیے کفن فراہم کرتا ہے۔ پہاڑ ریت کی طرح اُڑتے ہیں اور سمندر ایک لمحہ میں کچھ اور ہو جاتا ہے۔ خزاں کی ہوا پھولوں کی گھات میں رہتی ہے اور اپنی جان کا خوف ہی کارواں کا کُل سرمایہ ہے۔ لالے کے پاس شبنم کے موتی نہیں رہتے، ایک لمحہ ہوتے ہیں اور دوسرے لمحے نہیں ہوتے۔ اَن سُنا نغمہ ساز میں اور چھپی ہوئی چنگاری پتھر میں مرجاتی ہے۔ مجھ سے موت کی حکومتِ عام کے بارے میں مت پوچھو کہ ہم اور تم سانس کی ڈور سے بندھے ہوئے اس کے شکار ہیں۔ غزل فنا کو ہر جام کی شراب بنایا گیا ہے، اسے کس بے دردی سے عام کیا گیا ہے! ناگہانی موت کی تماشاگاہ کو چاند ستارے کی دُنیا کا نام دیا گیا ہے! جس ذرّے میں بھی چلنے کی سکت ہوئی اُسے کسی نگاہ کے جادو میں گرفتار کر لیا گیا ہے! ہم میں قرار کیا ڈھونڈتے ہو کہ ہمیں دِنوں کی گردش کا اسیر کر دیا گیا ہے! اپنے سینۂ چاک میں خودی کی حفاظت کرو کہ اِسی ستارے کو شام کا دِیا بنایا گیا ہے! یہ دُنیا تو بس غروب ہونے والوں کی آماجگاہ ہے ۔ اِس پردیس میں یہی احساس عرفان ہے۔ ہمارا دل کسی وہم کے پیچھے نہیں دوڑ رہا۔ بے حاصل غم ہمارا نصیب نہیں ہے۔ یہاں آرزو، سرور اور جستجو کے ذوق و شوق کا دھیان رکھا جاتا ہے۔ خودی کو لازوال کیا جا سکتا ہے اور جدائی کو وصال بنایا جا سکتا ہے۔ ایک گرم سانس سے چراغ جلایا جا سکتا ہے۔ اِس سوئی سے آسمان کا چاک سیا جا سکتا ہے۔ خدائے زندہ ذوقِ کلام سے محروم نہیں۔ اُس کے جلوے بھی انجمن چاہتے ہیں۔ کس نے اُس کے جلوے کی برق اپنے جگر پر سہی، وہ شراب پی اور پورا جام چڑھا لیا؟ کس کے دل سے حسن و خوبی کا معیار ہے ؟ کس کی منزل کے گرد اُس کا چاند طواف کر رہا ہے؟ ’’اَلَست‘‘ کس کے حریمِ ناز سے آئی تھی؟’’بلیٰ‘‘ٰکس کے پردۂ ساز سے آئی تھی؟ مٹی میں عشق نے کیسی آگ بھڑکائی ہے کہ ہماری ایک آواز نے ہزاروں پردے جلا دیے! اگر ہم ہیں تو ساقی کا جام بھی گردش میں رہے گا اور بزم میں ہنگامے کی گرمی باقی رہے گی۔ میرا دل اُس کی تنہائی پر بھر آیا اس لیے میں اُس کی محفل سجانے کا سامان کر رہا ہوں، خودی کو بیج کی طرح بوتا ہوں اور اُس کی خاطر اِس کی حفاظت کرتا ہوں! خاتمہ تم تلوار ہو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں سے باہر آؤ۔ نکلو اور اپنی نیام سے باہر آؤ! اپنے ممکنات سے نقاب اٹھاؤ، چاند سورج اور ستاروں کو اپنی آغوش میں لے لو۔ اپنی رات کو یقین کے نور سے روشن کرو، اپنی آستین سے یدِ بیضا باہر نکالو۔ جس نے اپنے دل پر آنکھیں کھولیں اُس نے ایک چنگاری بوئی اور پروین کی فصل کاٹی! میرے باطن سے اُچٹی ہوئی چنگاری لے لو کہ میں مولانا روم کی طرح گرم خون ہوں۔ غلامی نامہ دنیا کو منور کرنے والے چاند نے یزداں سے کہا، ’’میری روشنی رات کو دن بنا دیتی ہے۔ کتنے اچھے تھے وہ دن جب میں روز و شب کے بغیر زمانے کے دل میں آرام کر رہا تھا، میرے اردگرد کوئی ستارہ تھا نہ میری فطرت میں گردش تھی! افسوس اس وجود کی دلکشی و مسحوریت پر اور برا ہو نمود کی تابانی اور اس کی آرزوئے شدید کا کہ میں نے آفتاب سے چمکنا سیکھا اور ایک مردہ خاک داں کو روشن کیا، ایسا خاک داں جو روشن و پر رونق ہے لیکن سکون سے محروم، جس کا چہرہ غلامی سے داغدار ہے۔ اس کا آدم مچھلی کی طرح کانٹے میں پھنسا ہوا قاتلِ یزداں اور آدم پرست ہے۔ جب سے آپ نے مجھے اس جہانِ آب و گل کا پابند بنایا ہے میں طواف کرنے میں خفت و شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ یہ دُنیا روح و روحانیت کے نور سے آگاہ نہیں ہے اس لیے یہ سورج اور چاند کے لیے موزوں نہیں۔ آپ اسے فضائے نیلگوں میں چھوڑ دیجیے اور ہم نوریوں کا رشتہ اس سے منقطع کر دیجیے۔ یا مجھے اس دنیا کی خدمت سے آزاد کر دیجیے یا اس کی خاک سے نیا آدم پیدا کیجیے۔ میری کھلی ہوئی آنکھ بے نور اور اندھی ہی بھلی۔ اے خدا! اس خاک داں کا تاریک اور اندھیرا رہنا ہی بہتر ہے۔‘‘ غلامی سے دل جسم میں مر جاتا ہے۔ غلامی سے روح جسم پر بوجھ بن جاتی ہے۔ غلامی سے جوانی میں بڑھاپے کا ضعف آ جاتا ہے۔ غلامی سے جنگل کا شیر دانتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ غلامی کی وجہ سے قوم کی بزم پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ ایک فرد دوسرے سے اُلجھ پڑتا ہے۔ یہ سجدے میں تو وہ دوسرا قیام میں! ایسی قوم کے معاملات بے امام کی نماز جیسے ہو جاتے ہیں۔ ہر فرد دوسرے فرد سے جھگڑ رہا ہوتا ہے۔ ہر وقت ہر فرد کو نئی مصیبت درپیش رہتی ہے۔ غلامی کی بدولت حق کا بندہ زُنّار باندھ لیتا ہے۔ غلامی سے اُس کا موتی بے وقعت ہو جاتا ہے۔ اس کی شاخ بغیر خزاں کے موسم ہی کے خالی ہو جاتی ہے اور اس کی روح میں موت کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ایسا کورذوق ہو جاتا ہے کہ زہر کو آب حیات سمجھ بیٹھتا ہے۔ بغیر موت کے ہی مردہ ہوتا ہے اور اپنی لاش اپنے کندھوں پر لیے پھرتا ہے۔ وہ زندگی کی غیرت و ناموس کو ہار کر گدھوں کی طرح چارے اور گھاس پر خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ اس کے ممکن اور محال کو دیکھو اور اس کے ماہ و سال کے ہونے اور نہ ہونے کو دیکھو۔ ان کے اوقات ایک دوسرے کے ماتم میں ہوتے ہیں۔ ان کی چال گھڑی کی ریت سے بھی زیادہ سست ہوتی ہے۔ ایک شورہ زمین بچھوؤں کے ڈنک سے خارزار۔ اُس کی چیونٹیاں اژدہے کو ڈسنے والی اور بچھوؤں کو شکار کرنے والی۔ اُس کی آندھیاں جہنم کی آگ، شیطان کی کشتی کے لیے ہوائے سازگار۔ اُس کی فضا میں آگ بسی ہوئی۔ شعلے آپس میں گتھے ہوئے۔ بل کھائے ہوئے دھوئیں کی تلخی میں لپٹی ہوئی آگ۔ ہولناک کڑک والی اور سمندر کے طوفانی شور جیسی۔ اُس کی وسعتوں میں اپنے پھنوں سے زہر ٹپکاتے ہوئے سانپ آپس میں لڑتے ہوئے۔ اُس کے شعلے کٹکھنے کتے کی طرح بھنبھوڑنے والے۔ ہولناک اور زندہ جلا دینے والے، جن کی روشنی مری ہوئی۔ ایسے بیابان میں سیکڑوں برس گزارنے کو غلامی کے ایک لمحے سے بہتر سمجھو! غلاموں کے فنونِ لطیفہ کے بیان میں موسیقی میں غلامی کی ساحری کے متعلق کیا بیان کروں کہ غلام کے فنونِ لطیفہ میں موت ہوتی ہے! اس کا نغمہ و موسیقی زندگی کی حرارت اور گرمی سے خالی ہوتی ہے اور پانی کے ریلے کی طرح دیوارِ حیات سے ٹکراتی ہے۔ غلام کا ظاہر بھی اس کے باطن کی طرح تاریک ہوتا ہے اور اس کی موسیقی بھی اس کی فطرت و طبیعت کی طرح پست ہوتی ہے۔ اس کے مرے اور بجھے ہوئے دل سے سوز و درد جاتا رہتا ہے۔ آئندہ کا ذوق ہوتا ہے نہ آج کی لذت! اُس کی بانسری سے اس کے قلب و روح کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ساز میں شہر بھر کے لیے موت کا سامان ہوتا ہے۔ اس کا ساز و آواز تمہیں کمزور اور مضمحل اور دنیا سے متنفر اور بیزار کر دیتے ہیں۔ مسلسل بہتے ہوئے آنسو اُس کی آنکھوں کا سرمہ ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکے اس کی موسیقی پر کان مت دھرو! خدا کی پناہ! یہ صرف موت کا نغمہ ہے۔ آواز کے لباس میں موت اور نحوست ہے۔ کیا تم پیاسے ہو؟ اس حرم میں چشمۂ زمزم نہیں ہے بلکہ اس کے زیروبم میں انسان کی ہلاکت و تباہی پوشیدہ ہے۔ دلوں سے درد و سوز ختم کر کے اس کی جگہ غم و مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور اس کی روحانی سرشاری اور غیب دانی کی جگہ اس میں زہر بھر دیتی ہے۔ اے بھائی! غم کی دو قسمیں سنو اور ہمارے اس شعلے سے اپنے ہوش کا چراغ روشن کرو۔ ایک غم وہ ہے جو انسان کو ختم کر دیتا ہے۔ دوسرا غم وہ ہے جو تمام غموں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ وہ دوسرا غم جو ہمارا رفیق اور ساتھی ہے اس کی معیت و رفاقت میں ہماری جان بے فکر اور بے غم رہتی ہے۔ اِس غم میں مشرق و مغرب کے ہنگامے پوشیدہ ہیں بلکہ وہ ایسا سمندر ہے جس میں تمام کائنات غرق ہے۔ جب کسی کے دل میں گھر کر لیتا ہے تو دل اُس کی وجہ سے بحرِ ناپیداکنار ہو جاتا ہے۔ محکومی و غلامی رازِ زندگی سے ناواقفیت ہے لہٰذا اس کی موسیقی اس دوسرے غم سے خالی ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اُس کی موسیقی غلط ہے۔ بیوہ عورتوں کے لیے ایسا نوحہ جائز ہے! موسیقی کو بادل کی گرج، بجلی کی کڑک اور پانی کے ریلے کی طرح ہونا چاہیے کہ غموں کے پہاڑ اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ موسیقی جنون کی پرورش کرے، ایسی آگ ہو جو خونِ دل میں حل کی ہوئی ہو، جس کے نم سے شعلے کو پروان چڑھایا جا سکے اور سکوت و حیرت کو اس کا حصہ بنایا جا سکے۔ تمہیں معلوم ہے، موسیقی میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں بے حرف و صوت کلام پیدا ہوتا ہے؟ روشن نغمہ اِنسانی فطرت کا چراغ ہے، اس کی روح موسیقی کی خارجی شکل کی صورت گری کرتی ہے۔ روشن نغمے کی روح کی صدا کہاں سے نکلتی ہے، میں نہیں بتا سکتا مگر اس کی خارجی صورت ظاہر ہے اور اُس سے اہم ہیں۔ نغمے میں اگر معنی نہیں تو وہ مردہ ہے اور اُس کا سوز بجھی ہوئی آگ سے ہے، مگر معنی کا راز مرشدِ رومی نے کھولا ہے جن کے آستانے پر میری فکر سجدہ ریز ہے: ’’معنی وہ ہے جو تمہیں اپنی گرفت میں لے کر صورت سے بے نیاز کر دے، معنی وہ نہیں جو تمہیں اندھا بہرا کر کے صورت پر اور فریفتہ کر دے!‘‘ ہمارے مطرب نے معنی کا جلوہ نہیں دیکھا۔ اُس نے صورت سے دل لگا لیا اور معانی سے دُور جا پڑا۔ مصوری اسی طرح میں نے فنِ مصوری بھی دیکھا ہے۔ اُس میں نہ براہیمی ہے نہ آذری ہے: ’’کوئی راہب ہوس میں گرفتار، کوئی حسینہ پنجرے میں ایک پرندہ لیے ہوئے، کوئی بادشاہ کسی خرقہ پوش فقیر کی خدمت میں، کوئی پہاڑی آدمی کاندھوں پر لکڑی کا گٹھا اُٹھائے ہوئے، کوئی نازک اندام نازنیں مندر کی طرف جاتی ہوئی، کوئی جوگی ایک ویرانہ میں بیٹھا ہوا، کوئی ٹوٹا پھوٹا بوڑھا بڑھاپے کے امراض سے چُور اور اُس کے ہاتھوں میں ایک بجھا ہوا چراغ، کوئی گویا کسی پردیسی گانے میں مست جیسے آہ و زاری کرتے ہوئے کسی بلبل کی سانس اُکھڑ گئی ہو، کسی کے تیرِ نگاہ کا گھائل کوئی نوجوان، کوئی چھوٹا بچہ جو بوڑھے باپ کی گردن پر سوار!‘‘ موئے قلم سے موت ہی کے مضمون نکلتے ہیں اور ہر جگہ موت ہی کی داستان اور اُس کا جادو ہوتا ہے۔ دورِ حاضر کا علم ڈوب جانے والی چیزوں کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اُس کے شبہات بڑھا دیے ہیں اور اُس کے دل سے یقین ختم کر دیا ہے۔ جو یقین سے محروم ہو اُس میں لذتِ تحقیق ہوتی ہے نہ قوتِ تخلیق، بے یقین شخص کا دل اندر سے کانپتا رہتا ہے اور اُس کے لیے کوئی نئی شکل وجود میں لانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ خوداعتمادی سے محروم اور بیمار ہوتا ہے۔ وہ عام چلن کے مطابق چلتا رہتا ہے۔ وہ فطرت سے حسن کی بھیک مانگتا رہتا ہے، وہ رہزن ہے جو مفلسوں پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ حسن کو اپنے وجود کے باہر تلاش کرنا غلطی ہے، جو ہمیں مطلوب ہے وہ بھلا ہے کہاں؟ جب مصور اپنے آپ کو فطرت کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی نقالی کرنے لگتا ہے اور اپنے فن کو ضائع کر دیتا ہے، مدتوں اپنا کوئی رنگ نہیں دکھاتا اور ہمارے شیشے پر کوئی پتھر نہیں مارتا۔ فطرت سات رنگوں میں لپٹی ہوئی اُس کے قرطاس پر معذور اور مخفی رہ جاتی ہے۔ اس کا پروانہ سوز سے خالی ہوتا ہے اور اس کا حال مستقبل کی فکر سے عاری ہوتا ہے، اس کی نگاہیں آسمان میں سوراخ نہیں کرتیںکیونکہ سینے میں بے باک دل نہیں ہوتا، خاک سار، بے حضور اور شرم گیں! رُوح الامیں کی صحبت سے محروم! اس کی سوچ مفلس اور کشمکش کے ذوق سے محروم ہوتی ہے اور اس کے اسرافیل کی آوازِ صور سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔ انسان اپنے آپ کو مٹی سمجھ بیٹھے تو اُس کے ضمیر میں خدا کا نور مر جاتا ہے، وہ کلیم کی طرح اپنے آپ سے باہر نکلے بھی تو اُس کا ہاتھ تاریک اوراُس کا عصا رسی ہوتا ہے۔ زندگی معجزے کی قوت سے خالی نہیں ہے مگر ہر ایک اس راز سے واقف نہیں۔ جس مصور نے فطرت میں اضافہ کیا اُس نے اپنے راز کو ہم پر آشکار کیا۔ اُس کے سمندر کو ضرورت تو نہیں ہے مگر ہماری نہر سے اُسے خراج پہنچتا رہتا ہے۔ وہ زمانے کے فرش سے شکنیں دُور کر دیتا ہے اور اُس کا ہنر ہر نگاہ کا اعتبار بن جاتا ہے۔ اُس کی حور جنت کی حور سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ اُس کے لات و منات کا منکر کافر ہوتا ہے! ایک نیا عالم پیدا کرکے قلب کو ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ اس کا سمندر اور اس کی موجیں اُس کی اپنی ذات سے ٹکراتی ہیں مگر ہمارے وہ موجیں ہمارے سامنے موتی ڈال جاتی ہیں۔ اُس کی رُوح میں جو کثرت ہے اُس سے ہر خالی کو پُر کرنا اُس کی شان ہے۔ اُس کی پاک فطرت اچھے برے کا معیار اور اُس کی صنعت اچھے برے کی آئینہ دار ہے۔ وہ ابراہیم بھی ہے اور آذر بھی، اُس کا ہاتھ بت شکن بھی ہے اور بت تراش بھی! ہر پرانی عمارت کی بنیاد اُکھاڑ ڈالتا ہے اور تمام موجودات کو صاف کر ڈالتا ہے۔ غلامی میں جسم روح سے خالی ہو جاتا ہے۔ بے روح جسم سے بہتری کی کیا اُمید ہو! ایجاد اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور انسان اپنی ذات سے بیخبر گزر جاتا ہے۔ جبرئیل بھی اگر غلام ہو جائیں تو آسمان سے نیچے آ رہیں گے! اُس کی روایت تقلید اور اُس کا مذہب آذری ہوتا ہے۔ اُس کے مذہب میں ندرت کفر کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید اور نئی باتیں اس کے وہم و شک میں اضافہ کرتی ہیں، قدیم اور فرسودہ اُسے بھلے لگتے ہیں۔ اُس کی نگاہ ماضی پر مرکوز اور مستقبل سے اندھی ہوتی ہے۔ وہ مجاور کی طرح قبر کی مٹی سے اپنا رزق تلاش کرتا ہے۔ یہ اگر ہنر ہے توآرزو کی موت ہے۔ اس کا باطن برا اور ظاہر خوبصورت ہے! عقل مند پرندہ قید میں نہیں آتا خواہ جال رشیمی تاروں ہی سے کیوں نہ بنا ہوا ہو! غلاموں کا مذہب غلامی میں عشق اور مذہب کے درمیان جدائی سے زندگی کا ذائقہ بدمزہ ہو جاتا ہے۔ عاشقی؟ توحید کو اپنے دل پر نقش کرنا اور اُس کے بعد خود کو ہر مشکل سے ٹکرا دینا! غلامی میں عشق محض زبانی ہوتا ہے اور ہمارا عمل ہمارے قول کا ساتھ نہیں دیتا۔ شوق کا قافلہ ذوقِ سفر سے محروم ہوتا ہے، بے یقین، بے راہ اور بے راہبر! غلام علم اور دین کو سستا بیچتا ہے۔ جسم کو زندہ رکھنے کے لیے روح بھی دے ڈالتا ہے۔ اگرچہ اُس کے لبوں پر خدا کا نام ہے مگر اُس کا قبلہ فرمانروا کی طاقت ہے، جس کے نام کی طاقت صرف ایک پھلا پھولا جھوٹ ہوتی ہے جس کے بطن سے مزید جھوٹ کے سوا کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ جب تک تم اس بت کو سجدہ کرتے رہو یہ خدا ہے مگر جونہی اس کے سامنے جم کر کھڑے ہو جاؤ یہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ خدا رزق بھی عطا کرتا ہے اور رُوح بھی مگر یہ خدا رزق دے کر رُوح لے لیتا ہے۔ وہ خدا جدائی کے مرض کا علاج ہے مگر اِس خدا کے کلام میں نفاق اور پھوٹ ہے، بندے کو اس حد تک اپنا عادی بنا لیتا ہے کہ آنکھ، کان اور ذہن کو کافر بنا دیتا ہے۔ جب بندے کی روح پر سوار ہوتا ہے تو اگرچہ جسم میں روح رہ جائے پھر بھی جسم بے روح ہوتا ہے۔ زندہ اور بے روح، دیکھو کیا راز ہے!دیکھو میں تمہیں ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ اے سمجھدار انسان، مرنا اور جینا بس اضافی امور ہیں، مچھلیوں کے لیے پہاڑ اور صحرا وجود نہیں رکھتے۔ پرندوں کے لیے دریا کی گہرائی موجود نہیں۔ سننے کی صلاحیت سے محروم شخص موسیقی کے سوز اور نغمہ و صدا کے لیے مردہ ہے، نابینا موسیقی سے مست اور مسرور ہو جاتا ہے مگر رنگوں کے سامنے وہ زندہ درگور ہوتا ہے۔ روح ذاتِ حق کے ساتھ زندہ اور باقی رہتی ہے ورنہ یہ اِس کے لیے مردہ اور اُس کے لیے زندہ ہے۔ ذاتِ حق زندہ اور کبھی نہ مرنے والی ہے، بس اُسی کے ساتھ جینا اصل زندگی ہے۔ جو بھی ذاتِ حق کے بغیر جیتا ہے وہ محض مردہ ہے اگرچہ کوئی اُس کی تعزیت نہیں کر رہا۔ دیکھنے کے لائق چیزیں اُس کی نگاہوں سے چھپی ہوئی ہیں، اُس کا دل تبدیلی کے ذوق و شوق سے خالی ہے۔ اُس کے کردار میں محبت کا سوز کہاں، اُس کی گفتار میں آفاق کا نور کہاں! اُس کا مذہب اُس کے آفاق کی مانند تنگ اور اُس کی اشراق، عشا سے زیادہ تاریک! زندگی اُس کے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ اور اُس کی موت اُس کی اپنی پالی ہوئی! اُس کی صحبت سے عشق کو ہر بیماری اور اُس کی پھونک سے ہر آگ بجھی ہوئی! اُس کیڑے کے نزدیک جو کبھی مٹی سے اُٹھا ہی نہیں، سورج، چاند اور آسمان کہاں ہیں! غلام سے ذوقِ دیدار کی توقع مت رکھو، غلام سے روحِ بیدار کی توقع مت رکھو! اُس کی آنکھ نے دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی، دنیا میں کھایا پیا، گہری نیند سویا اور مر گیا! حکمراں اگر ایک بیڑی کھولتا ہے تو اُس کی روح میں دوسری بیڑی ڈال دیتا ہے، ایک پیچیدہ آئین بناتا ہے اور کہتا ہے اِسے زرہ کی طرح پہن لو! قہر و غضب کی جھلک دکھاتا ہے اور اُس میں موت کے خوف کو بڑھا دیتا ہے۔ کہیں غلام اپنے آپ سے مایوس نہ ہو جائے اور اُس کے سینے سے آرزو رخصت نہ ہو جائے، کبھی اُسے خلعتِ فاخرہ عطا کرتا ہے اور زمامِ کار بھی اُس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ شاطر نے مہرے کو ہاتھ سے اُچھالا اور اپنے پیادے کو فرزیں بنا دیا! آج کی آسائش کا دلدادہ بنا دیا یہاں تک کہ اصل میں آئندہ کا منکر کر دیا! بادشاہوں کی مہربانی کے نشے سے جسم موٹا تازہ مگرجانِ پاک تکلے کی طرح کمزور! ایک جانِ پاک کا خراب ہونا اس سے بہتر ہے کہ جسموں کے کئی شہر تباہ ہو جائیں۔ بیڑیاں پیروں میں نہیں بلکہ روح اور دل پر ہیں، مشکل میں مشکل میں مشکل ہے! آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کے بارے میں ذرا گزرے ہوؤں کی صحبت اختیار کرو۔ آزاد لوگوں کا فن بھی دیکھو۔ اٹھو، ابیک اور سوری کا کام دیکھو! اگر حوصلہ ہے تو آنکھیں کھولو! وہ اپنے آپ کو باہر لائے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے۔ پتھر سے پتھر جوڑ کر گزرتے ہوئے وقت کو ایک لمحے میں روک دیا ہے۔ اس کا مشاہدہ تمہیں اور مضبوط بنا دیتا ہے اور تمہیں کسی دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیتا ہے۔ تصویر ہمیں مصور کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اُس کے باطن کی خبر دیتی ہے۔ جری ہمت اور بلند طبیعت! پتھر کے دل میں یہ دو لعل! مجھ سے مت پوچھو کہ یہ کس کی سجدہ گاہ ہے، اے بیخبر! روح کی بات دل سے مت پوچھو! افسوس ہے مجھ پر کہ اپنے آپ سے چھپا ہوا ہوں اور میں نے زندگی کے فرات سے پانی نہیں پیا۔ افسوس ہے مجھ پر کہ مجھے میری جڑوں سے اکھاڑ کر میرے مقام سے دُور پھینک دیا گیا ہے! پختگی یقینِ محکم سے ہے اور مجھ پر افسوس کہ میرے یقین کی شاخ بے نم ہے! مجھ میں الااللہ کی وہ قوت نہیں، میرا سجدہ اس درگاہ کے شایانِ شاں نہیں! ایک نظر اُس سچے موتی کو بھی دیکھو، تاج محل کو چاندنی رات میں دیکھو! اُس کا مرمر بہتے ہوئے پانی سے زیادہ رواں اور وہاں کا ایک لمحہ ابد سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ جوانمردوں کے عشق نے اپنی داستان بیان کر دی ہے، پلکوں کی نوک سے پتھر تراشے ہیں! جوانمردوں کا عشق جنت کی طرح پاک اور رنگیں ہے۔ سنگ و خشت سے نغمے پیدا کرتا ہے۔ جوانمردوں کا عشق حسینوں کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، حسن کا پردہ چاک بھی کرتا ہے اور حسن کا پردہ دار بھی ہے! اُس کی ہمت آسمانوں سے پرے پہنچ کر اِس محدود جہان سے باہر نکل گئی۔ جو دیکھا وہ چونکہ بیان میں نہیں سما سکتا تھا اس لیے اپنے باطن ہی کو بے نقاب کر دیا۔ بلند جذبے محبت سے ہیں، اسی سے بے وقعت قدر و قیمت پاتا ہے! محبت کے بغیر زندگی سراپا ماتم ہے، اُس کے تمام معاملات خراب اور ناپائیدار ہیں۔ عشق عقل و ہوش کو چمکاتا ہے۔ پتھر کو آئینے کی چمک عطا کرتا ہے۔ دل والوں کو طورِ سینا کا سینہ عطا کرتا ہے اور ہنرمندوں کو یدِ بیضا دیتا ہے۔ اُس کے سامنے ہر ممکن و موجود مردہ ہے کہ ساری دنیا کڑوی اور وہ مٹھاس ہے۔ ہمارے افکار کی گرمی اُس کی آگ سے ہے، پیدا کرنا اور روح پھونکنا اُس کا کام ہے! عشق چیونٹی، پرندے اور انسان کے لیے کافی ہے، دونوں جہانوں کے لیے تنہا عشق کافی ہے! قاہری کے بغیر حسن جادوگری ہے مگر قاہری کے ساتھ حسن پیغمبری ہے۔ عشق دونوں کو دنیا کے معاملات میں ملا دیتا ہے! دُنیا میں ایک نئی دُنیا پیدا کر دیتا ہے! ورنہ نئی تہذیب سے آگ لے لو، اپنا ظاہر روشن کرو اور اندر سے مر جاؤ!می نامہ دنیا کو منور کرنے والے چاند نے یزداں سے کہا، ’’میری روشنی رات کو دن بنا دیتی ہے۔ کتنے اچھے تھے وہ دن جب میں روز و شب کے بغیر زمانے کے دل میں آرام کر رہا تھا، میرے اردگرد کوئی ستارہ تھا نہ میری فطرت میں گردش تھی! افسوس اس وجود کی دلکشی و مسحوریت پر اور برا ہو نمود کی تابانی اور اس کی آرزوئے شدید کا کہ میں نے آفتاب سے چمکنا سیکھا اور ایک مردہ خاک داں کو روشن کیا، ایسا خاک داں جو روشن و پر رونق ہے لیکن سکون سے محروم، جس کا چہرہ غلامی سے داغدار ہے۔ اس کا آدم مچھلی کی طرح کانٹے میں پھنسا ہوا قاتلِ یزداں اور آدم پرست ہے۔ جب سے آپ نے مجھے اس جہانِ آب و گل کا پابند بنایا ہے میں طواف کرنے میں خفت و شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ یہ دُنیا روح و روحانیت کے نور سے آگاہ نہیں ہے اس لیے یہ سورج اور چاند کے لیے موزوں نہیں۔ آپ اسے فضائے نیلگوں میں چھوڑ دیجیے اور ہم نوریوں کا رشتہ اس سے منقطع کر دیجیے۔ یا مجھے اس دنیا کی خدمت سے آزاد کر دیجیے یا اس کی خاک سے نیا آدم پیدا کیجیے۔ میری کھلی ہوئی آنکھ بے نور اور اندھی ہی بھلی۔ اے خدا! اس خاک داں کا تاریک اور اندھیرا رہنا ہی بہتر ہے۔‘‘ غلامی سے دل جسم میں مر جاتا ہے اور روح جسم پر بوجھ بن جاتی ہے۔ غلامی کی بدولت جوانی میں بڑھاپے کا ضعف آ جاتا ہے اور اس کی بدولت جنگل کا شیر دانتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ غلامی کی وجہ سے ملت کی جمعیت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور افراد ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ کوئی سجدہ میں ہے تو کوئی قیام میں! ایسی قوم کے معاملات بے امام کی نماز جیسے ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے سے لڑا پڑتا ہے۔ ہر وقت کسی نہ کسی کو کوئی نیا مسئلہ رہتا ہے۔ غلامی کی بدولت مردِ حق پرست کافر ہو جاتا ہے اور اس کا موتی بے وقعت ہو جاتا ہے۔ اس کی شاخ بغیر خزاں کے موسم ہی کے خالی ہو جاتی ہے اور اس کی روح میں موت کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ایسا کورذوق ہو جاتا ہے کہ زہر کو آب حیات سمجھ بیٹھتا ہے۔ بغیر موت کے ہی مردہ ہوتا ہے اور اپنی لاش اپنے کندھوں پر لیے پھرتا ہے۔ وہ زندگی کی غیرت و ناموس کو ہار کر گدھوں کی طرح چارے اور گھاس پر خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ اس کے ممکن اور محال کو دیکھو اور اس کے ماہ و سال کے ہونے اور نہ ہونے کو دیکھو۔ ان کے اوقات ایک دوسرے کے ماتم میں ہوتے ہیں۔ ان کی چال گھڑی کی ریت سے بھی زیادہ سست ہوتی ہے۔ ایک شورہ زمین بچھوؤں کے ڈنک سے خارزار، اس کی چیونٹیاں اژدہے کو ڈسنے والی اور بچھوؤں کو شکار کرنے والی، اُس کی آندھیاں جہنم کی آگ اور شیطان کی کشتی کے لیے سازگار ہوا، اس کی فضا میں آگ یوں بسی ہوئی کہ شعلے آپس میں گتھے ہوئے ہوں، آگ جو بل کھائے ہوئے دھوئیں کی تلخی میں لپٹی ہوئی ہو جس کی آواز مہیب گرج دار اور سمندر کے طوفانی شور کی طرح ہو، اس کی وسعتوں میں اپنے پھنوں سے زہر ٹپکاتے ہوئے سانپ آپس میں لڑ رہے ہوں،اس کے شعلے کٹکھنے کتے کی طرح بھنبھوڑنے والے، ہولناک، زندہ جلا دینے والے اور تاریک ہوں، ایسے بیابان کی سیکڑوں سال کو غلامی کے ایک لمحے سے بہتر سمجھو! غلاموں کے فنونِ لطیفہ کے بیان میں موسیقی میں غلامی کی ساحری کے متعلق کیا بیان کروں کہ غلام کے فنونِ لطیفہ میں موت ہوتی ہے! اس کا نغمہ و موسیقی زندگی کی حرارت اور گرمی سے خالی ہوتی ہے اور پانی کے ریلے کی طرح دیوارِ حیات سے ٹکراتی ہے۔ غلام کا ظاہر بھی اس کے باطن کی طرح تاریک ہوتا ہے اور اس کی موسیقی بھی اس کی فطرت و طبیعت کی طرح پست ہوتی ہے۔ اس کے مرے اور بجھے ہوئے دل سے سوز و درد جاتا رہتا ہے۔ آئندہ کا ذوق ہوتا ہے نہ آج کی لذت! اُس کی بانسری سے اس کے قلب و روح کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ساز میں شہر بھر کے لیے موت کا سامان ہوتا ہے۔ اس کا ساز و آواز تمہیں کمزور اور مضمحل اور دنیا سے متنفر اور بیزار کر دیتے ہیں۔ مسلسل بہتے ہوئے آنسو اُس کی آنکھوں کا سرمہ ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکے اس کی موسیقی پر کان مت دھرو! خدا کی پناہ! یہ صرف موت کا نغمہ ہے۔ آواز کے لباس میں موت اور نحوست ہے۔ کیا تم پیاسے ہو؟ اس حرم میں چشمۂ زمزم نہیں ہے بلکہ اس کے زیروبم میں انسان کی ہلاکت و تباہی پوشیدہ ہے۔ دلوں سے درد و سوز ختم کر کے اس کی جگہ غم و مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور اس کی روحانی سرشاری اور غیب دانی کی جگہ اس میں زہر بھر دیتی ہے۔ اے بھائی! غم کی دو قسمیں سنو اور ہمارے اس شعلے سے اپنے ہوش کا چراغ روشن کرو۔ ایک غم وہ ہے جو انسان کو ختم کر دیتا ہے۔ دوسرا غم وہ ہے جو تمام غموں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ وہ دوسرا غم جو ہمارا رفیق اور ساتھی ہے اس کی معیت و رفاقت میں ہماری جان بے فکر اور بے غم رہتی ہے۔ اِس غم میں مشرق و مغرب کے ہنگامے پوشیدہ ہیں بلکہ وہ ایسا سمندر ہے جس میں تمام کائنات غرق ہے۔ جب کسی کے دل میں گھر کر لیتا ہے تو دل اُس کی وجہ سے بحرِ ناپیداکنار ہو جاتا ہے۔ محکومی و غلامی رازِ زندگی سے ناواقفیت ہے لہٰذا اس کی موسیقی اس دوسرے غم سے خالی ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اُس کی موسیقی غلط ہے۔ بیوہ عورتوں کے لیے ایسا نوحہ جائز ہے! موسیقی کو بادل کی گرج، بجلی کی کڑک اور پانی کے ریلے کی طرح ہونا چاہیے کہ غموں کے پہاڑ اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ موسیقی جنون کی پرورش کرے، ایسی آگ ہو جو خونِ دل میں حل کی ہوئی ہو، جس کے نم سے شعلے کو پروان چڑھایا جا سکے اور سکوت و حیرت کو اس کا حصہ بنایا جا سکے۔ تمہیں معلوم ہے، موسیقی میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں بے حرف و صوت کلام پیدا ہوتا ہے؟ روشن نغمہ اِنسانی فطرت کا چراغ ہے، اس کی روح موسیقی کی خارجی شکل کی صورت گری کرتی ہے۔ روشن نغمے کی روح کی صدا کہاں سے نکلتی ہے، میں نہیں بتا سکتا مگر اس کی خارجی صورت ظاہر ہے اور اُس سے اہم ہیں۔ نغمے میں اگر معنی نہیں تو وہ مردہ ہے اور اُس کا سوز بجھی ہوئی آگ سے ہے، مگر معنی کا راز مرشدِ رومی نے کھولا ہے جن کے آستانے پر میری فکر سجدہ ریز ہے: ’’معنی وہ ہے جو تمہیں اپنی گرفت میں لے کر صورت سے بے نیاز کر دے، معنی وہ نہیں جو تمہیں اندھا بہرا کر کے صورت پر اور فریفتہ کر دے!‘‘ ہمارے مطرب نے معنی کا جلوہ نہیں دیکھا۔ اُس نے صورت سے دل لگا لیا اور معانی سے دُور جا پڑا۔ مصوری اسی طرح میں نے فنِ مصوری بھی دیکھا ہے۔ اُس میں نہ براہیمی ہے نہ آذری ہے: ’’کوئی راہب ہوس میں گرفتار، کوئی حسینہ پنجرے میں ایک پرندہ لیے ہوئے، کوئی بادشاہ کسی خرقہ پوش فقیر کی خدمت میں، کوئی پہاڑی آدمی کاندھوں پر لکڑی کا گٹھا اُٹھائے ہوئے، کوئی نازک اندام نازنیں مندر کی طرف جاتی ہوئی، کوئی جوگی ایک ویرانہ میں بیٹھا ہوا، کوئی ٹوٹا پھوٹا بوڑھا بڑھاپے کے امراض سے چُور اور اُس کے ہاتھوں میں ایک بجھا ہوا چراغ، کوئی گویا کسی پردیسی گانے میں مست جیسے آہ و زاری کرتے ہوئے کسی بلبل کی سانس اُکھڑ گئی ہو، کسی کے تیرِ نگاہ کا گھائل کوئی نوجوان، کوئی چھوٹا بچہ جو بوڑھے باپ کی گردن پر سوار!‘‘ موئے قلم سے موت ہی کے مضمون نکلتے ہیں اور ہر جگہ موت ہی کی داستان اور اُس کا جادو ہوتا ہے۔ دورِ حاضر کا علم ڈوب جانے والی چیزوں کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اُس کے شبہات بڑھا دیے ہیں اور اُس کے دل سے یقین ختم کر دیا ہے۔ جو یقین سے محروم ہو اُس میں لذتِ تحقیق ہوتی ہے نہ قوتِ تخلیق، بے یقین شخص کا دل اندر سے کانپتا رہتا ہے اور اُس کے لیے کوئی نئی شکل وجود میں لانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ خوداعتمادی سے محروم اور بیمار ہوتا ہے۔ وہ عام چلن کے مطابق چلتا رہتا ہے۔ وہ فطرت سے حسن کی بھیک مانگتا رہتا ہے، وہ رہزن ہے جو مفلسوں پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ حسن کو اپنے وجود کے باہر تلاش کرنا غلطی ہے، جو ہمیں مطلوب ہے وہ بھلا ہے کہاں؟ جب مصور اپنے آپ کو فطرت کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی نقالی کرنے لگتا ہے اور اپنے فن کو ضائع کر دیتا ہے، مدتوں اپنا کوئی رنگ نہیں دکھاتا اور ہمارے شیشے پر کوئی پتھر نہیں مارتا۔ فطرت سات رنگوں میں لپٹی ہوئی اُس کے قرطاس پر معذور اور مخفی رہ جاتی ہے۔ اس کا پروانہ سوز سے خالی ہوتا ہے اور اس کا حال مستقبل کی فکر سے عاری ہوتا ہے، اس کی نگاہیں آسمان میں سوراخ نہیں کرتیںکیونکہ سینے میں بے باک دل نہیں ہوتا، خاک سار، بے حضور اور شرم گیں! رُوح الامیں کی صحبت سے محروم! اس کی سوچ مفلس اور کشمکش کے ذوق سے محروم ہوتی ہے اور اس کے اسرافیل کی آوازِ صور سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔ انسان اپنے آپ کو مٹی سمجھ بیٹھے تو اُس کے ضمیر میں خدا کا نور مر جاتا ہے، وہ کلیم کی طرح اپنے آپ سے باہر نکلے بھی تو اُس کا ہاتھ تاریک اوراُس کا عصا رسی ہوتا ہے۔ زندگی معجزے کی قوت سے خالی نہیں ہے مگر ہر ایک اس راز سے واقف نہیں۔ جس مصور نے فطرت میں اضافہ کیا اُس نے اپنے راز کو ہم پر آشکار کیا۔ اُس کے سمندر کو ضرورت تو نہیں ہے مگر ہماری نہر سے اُسے خراج پہنچتا رہتا ہے۔ وہ زمانے کے فرش سے شکنیں دُور کر دیتا ہے اور اُس کا ہنر ہر نگاہ کا اعتبار بن جاتا ہے۔ اُس کی حور جنت کی حور سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ اُس کے لات و منات کا منکر کافر ہوتا ہے! ایک نیا عالم پیدا کرکے قلب کو ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ اس کا سمندر اور اس کی موجیں اُس کی اپنی ذات سے ٹکراتی ہیں مگر ہمارے وہ موجیں ہمارے سامنے موتی ڈال جاتی ہیں۔ اُس کی رُوح میں جو کثرت ہے اُس سے ہر خالی کو پُر کرنا اُس کی شان ہے۔ اُس کی پاک فطرت اچھے برے کا معیار اور اُس کی صنعت اچھے برے کی آئینہ دار ہے۔ وہ ابراہیم بھی ہے اور آذر بھی، اُس کا ہاتھ بت شکن بھی ہے اور بت تراش بھی! ہر پرانی عمارت کی بنیاد اُکھاڑ ڈالتا ہے اور تمام موجودات کو صاف کر ڈالتا ہے۔ غلامی میں جسم روح سے خالی ہو جاتا ہے۔ بے روح جسم سے بہتری کی کیا اُمید ہو! ایجاد اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور انسان اپنی ذات سے بیخبر گزر جاتا ہے۔ جبرئیل بھی اگر غلام ہو جائیں تو آسمان سے نیچے آ رہیں گے! اُس کی روایت تقلید اور اُس کا مذہب آذری ہوتا ہے۔ اُس کے مذہب میں ندرت کفر کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید اور نئی باتیں اس کے وہم و شک میں اضافہ کرتی ہیں، قدیم اور فرسودہ اُسے بھلے لگتے ہیں۔ اُس کی نگاہ ماضی پر مرکوز اور مستقبل سے اندھی ہوتی ہے۔ وہ مجاور کی طرح قبر کی مٹی سے اپنا رزق تلاش کرتا ہے۔ یہ اگر ہنر ہے توآرزو کی موت ہے۔ اس کا باطن برا اور ظاہر خوبصورت ہے! عقل مند پرندہ قید میں نہیں آتا خواہ جال رشیمی تاروں ہی سے کیوں نہ بنا ہوا ہو! غلاموں کا مذہب غلامی میں عشق اور مذہب کے درمیان جدائی سے زندگی کا ذائقہ بدمزہ ہو جاتا ہے۔ عاشقی؟ توحید کو اپنے دل پر نقش کرنا اور اُس کے بعد خود کو ہر مشکل سے ٹکرا دینا! غلامی میں عشق محض زبانی ہوتا ہے اور ہمارا عمل ہمارے قول کا ساتھ نہیں دیتا۔ شوق کا قافلہ ذوقِ سفر سے محروم ہوتا ہے، بے یقین، بے راہ اور بے راہبر! غلام علم اور دین کو سستا بیچتا ہے یہاں تک کہ جسم کو زندہ رکھنے کے لیے روح دے ڈالتا ہے۔ اگرچہ اُس کے لبوں پر خدا کا نام ہے مگر اُس کا قبلہ فرمانروا کی طاقت ہے، جس کے نام کی طاقت صرف ایک پھلا پھولا جھوٹ ہوتی ہے جس کے بطن سے مزید جھوٹ کے سوا کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ جب تک تم اس بت کو سجدہ کرتے رہو یہ خدا ہے مگر جونہی اس کے سامنے جم کر کھڑے ہو جاؤ یہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ خدا رزق بھی عطا کرتا ہے اور رُوح بھی مگر یہ خدا رزق دے کر رُوح لے لیتا ہے۔ وہ خدا جدائی کے مرض کا علاج ہے مگر اِس خدا کے کلام میں نفاق اور پھوٹ ہے، بندے کو اس حد تک اپنا عادی بنا لیتا ہے کہ آنکھ، کان اور ذہن کو کافر بنا دیتا ہے۔ جب بندے کی روح پر سوار ہوتا ہے تو اگرچہ جسم میں روح رہ جائے پھر بھی جسم بے روح ہوتا ہے۔ زندہ اور بے روح، دیکھو کیا راز ہے!دیکھو میں تمہیں ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ اے سمجھدار انسان، مرنا اور جینا بس اضافی امور ہیں، مچھلیوں کے لیے پہاڑ اور صحرا وجود نہیں رکھتے اور پرندوں کے لیے دریا کی گہرائی موجود نہیں۔ سننے کی صلاحیت سے محروم شخص موسیقی کے سوز اور نغمہ و صدا کے لیے مردہ ہے، نابینا موسیقی سے مست اور مسرور ہو جاتا ہے مگر رنگوں کے سامنے وہ زندہ درگور ہوتا ہے۔ روح ذاتِ حق کے ساتھ زندہ اور باقی رہتی ہے ورنہ یہ اِس کے لیے مردہ اور اُس کے لیے زندہ ہے۔ ذاتِ حق زندہ اور کبھی نہ مرنے والی ہے، بس اُسی کے ساتھ جینا اصل زندگی ہے۔ جو بھی ذاتِ حق کے بغیر جیتا ہے وہ محض مردہ ہے اگرچہ کوئی اُس کی تعزیت نہیں کر رہا۔ دیکھنے کے لائق چیزیں اُس کی نگاہوں سے چھپی ہوئی ہیں، اُس کا دل تبدیلی کے ذوق و شوق سے خالی ہے۔ اُس کے کردار میں محبت کا سوز کہاں، اُس کی گفتار میں آفاق کا نور کہاں! اُس کا مذہب اُس کے آفاق کی مانند تنگ اور اُس کی اشراق، عشا سے زیادہ تاریک! زندگی اُس کے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ اور اُس کی موت اُس کی اپنی پالی ہوئی! اُس کی صحبت سے عشق کو ہر بیماری اور اُس کی پھونک سے ہر آگ بجھی ہوئی! اُس کیڑے کے نزدیک جو کبھی مٹی سے اُٹھا ہی نہیں، سورج، چاند اور آسمان کہاں ہیں! غلام سے ذوقِ دیدار کی توقع مت رکھو، غلام سے روحِ بیدار کی توقع مت رکھو! اُس کی آنکھ نے دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی، دنیا میں کھایا پیا، گہری نیند سویا اور مر گیا! حکمراں اگر ایک بیڑی کھولتا ہے تو اُس کی روح میں دوسری بیڑی ڈال دیتا ہے، ایک پیچیدہ آئین بناتا ہے اور کہتا ہے اِسے زرہ کی طرح پہن لو! قہر و غضب کی جھلک دکھاتا ہے اور اُس میں موت کے خوف کو بڑھا دیتا ہے۔ کہیں غلام اپنے آپ سے مایوس نہ ہو جائے اور اُس کے سینے سے آرزو رخصت نہ ہو جائے، کبھی اُسے خلعتِ فاخرہ عطا کرتا ہے اور زمامِ کار بھی اُس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ شاطر نے مہرے کو ہاتھ سے اُچھالا اور اپنے پیادے کو فرزیں بنا دیا! آج کی آسائش کا دلدادہ بنا دیا یہاں تک کہ اصل میں آئندہ کا منکر کر دیا! بادشاہوں کی مہربانی کے نشے سے جسم موٹا تازہ مگرجانِ پاک تکلے کی طرح کمزور! ایک جانِ پاک کا خراب ہونا اس سے بہتر ہے کہ جسموں کے کئی شہر تباہ ہو جائیں۔ بیڑیاں پیروں میں نہیں بلکہ روح اور دل پر ہیں۔ مشکل میں مشکل میں مشکل ہے! آزاد لوگوں کے فنِ تعمیر کے بارے میں ذرا گزرے ہوئے کی صحبت اختیار کرو اور آزاد لوگوں کا فن بھی دیکھو۔ اٹھو، ابیک اور سُوری کے شاہکار دیکھو! اگر حوصلہ ہے تو آنکھیں کھولو! وہ اپنے آپ کو باہر لائے ہیں اور اِس طرح اپنے آپ کو دیکھا ہے۔ پتھر سے پتھر جوڑ کر گزرتے ہوئے وقت کو ایک لمحے میں روک دیا ہے۔ اُس کا مشاہدہ تمہیں اور مضبوط بنا دیتا ہے اور تمہیں کسی دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیتا ہے۔ تصویر ہمیں مصور کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اُس کے باطن کی خبر دیتی ہے۔ جری ہمت اور بلند طبیعت! پتھر کے دل میں یہ دو لعل! مجھ سے مت پوچھو کہ یہ کس کی سجدہ گاہ ہے، اے بیخبر! روح کی بات دل سے مت پوچھو! افسوس ہے مجھ پر کہ اپنے آپ سے چھپا ہوا ہوں اور میں نے زندگی کے فرات سے پانی نہیں پیا۔ افسوس ہے مجھ پر کہ مجھے میری جڑوں سے اُکھاڑ کر میرے مقام سے دُور پھینک دیا گیا ہے! پختگی یقینِ محکم سے ہے اور مجھ پر افسوس کہ میرے یقین کی شاخ بے نم ہے! مجھ میں الااللہ کی وہ قوت نہیں، میرا سجدہ اس درگاہ کے شایانِ شاں نہیں! ایک نظر اُس سچے موتی کو بھی دیکھو، تاج محل کو چاندنی رات میں دیکھو! اُس کا مرمر بہتے ہوئے پانی سے زیادہ رواں اور وہاں کا ایک لمحہ ابد سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ جوانمردوں کے عشق نے اپنی داستان بیان کر دی ہے، پلکوں کی نوک سے پتھر تراشے ہیں! جوانمردوں کا عشق جنت کی طرح پاک اور رنگیں ہے اور سنگ و خشت سے نغمے پیدا کرتا ہے۔ جوانمردوں کا عشق حسینوں کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، حسن کا پردہ چاک بھی کرتا ہے اور حسن کا پردہ دار بھی ہے! اُس کی ہمت آسمانوں سے پرے پہنچ کر اِس محدود جہان سے باہر نکل گئی۔ جو دیکھا وہ چونکہ بیان میں نہیں سما سکتا تھا اس لیے اپنے باطن ہی کو بے نقاب کر دیا۔ بلند جذبے محبت سے ہیں، اسی سے بے وقعت قدر و قیمت پاتا ہے! محبت کے بغیر زندگی سراپا ماتم ہے، اُس کے تمام معاملات خراب اور ناپائیدار ہیں۔ عشق عقل و ہوش کو چمکاتا ہے۔ پتھر کو آئینے کی چمک عطا کرتا ہے۔ دل والوں کو طورِ سینا کا سینہ عطا کرتا ہے اور ہنرمندوں کو یدِ بیضا دیتا ہے۔ اُس کے سامنے ہر ممکن و موجود مردہ ہے کہ ساری دنیا کڑوی اور وہ مٹھاس ہے۔ ہمارے افکار کی گرمی اُس کی آگ سے ہے، پیدا کرنا اور روح پھونکنا اُس کا کام ہے! عشق چیونٹی، پرندے اور انسان کے لیے کافی ہے، دونوں جہانوں کے لیے تنہا عشق کافی ہے! قاہری کے بغیر حسن جادوگری ہے، مگر قاہری کے ساتھ حسن پیغمبری ہے۔ عشق دونوں کو دنیا کے معاملات میں ملا دیتا ہے! دُنیا میں ایک نئی دُنیا پیدا کر دیتا ہے!