سلسلۂ ادبیہ اُررو کورس آٹھویں جماعت کے لیے مؤلّفہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم-اے، پی-اے-ڈی بیرسٹر ایٹ لا و ممبر پنجاب لیجسلیٹو کونسل و حکیم احمد شجاع بی-اے (علیگ) سیکرٹری لیجسلیٹو کونسل ۱۹۴۰ء فہرست مضامین ٍ۱- ۹ ۲- دیباچہ اُردو کی مروجہ درسی کتابوں میں یہ کمی عام طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ کہ وہ نفسِ مضمون- اندازِ تحریر اور طریقۂِ انتخاب کے اعتبار سے زمانۂ حال کے مطالبات کو پورا نہیں کرتیں۔ یہ کتابیں ایک ایسے زمانے میں مرتب ہوئیں۔ جب انتخاب کے مواقع کم تھے۔ اور زبانِ اُردو نے وہ رنگ اختیار نہ کیا تھا۔ جو مغربی ادب کے تاثر کا لازمی نتیجہ ہے اُن کتابوں کے نقائص بیان کرنے کی بجائے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس سلسلہ کی امتیازی خصوصیات ہی بیان کردی جائیں۔ سلسلۂ ادبیہ کی ترتیب میں اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے۔ کہ پرانے اساتذۂ فن کے نتائجِ فکر کے ساتھ ساتھ زمانۂ حال کے اُن انشا پردازوں اور شاعروں کے مضامینِ نظم و نثر بھی طالبِ علم کی نظر سے گذریں جنھوں نے اُردو کو ایک ایسی زبان بنانے کے لیے انتھک اور کامیاب کوشش کی ہیں جو موجودہ ضروریات کے مطابق اور ادائے مطالب پر قادر ہو۔ مضامین کے انتخاب کے تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون ادبی خوبیاں رکھنے کے باوجود نئی معلومات کا حامل ہو۔ درسی کتابوں پر بالعموم متانت کا رنگ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ طالبِ عالم ان میں زیادہ دلچسپی نہیں لے سکتے۔ اس نقص کو دور کرنے کے لیے اس سلسلہ میں ظریفانہ مضامین نظم و نثر کی چاشنی بھی شامل کردی گئی ہے۔ کیونکہ نوعمر بچوں کے دل و دماغ تک دلچسپ پیرایۂ اظہار کی وساطت ہی سے رسائی ممکن ہے۔ مضامین زیادہ تر ایسے ہی منتخب کیے گئے ہیں جن میں زندگی کا روشن پہلو جھلکتا ہو۔ تاکہ طالب علم اس کے مطالعہ کے بعد کشاکشِ حیات میں زیادہ استقلال۔ زیادہ خودداری اور زیادہ اعتماد سے حصہ لے سکیں۔ حقیقت میں ادبیات کی تعلیم کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔ کہ ادبی ذوق کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبا کی وسیع النظری اور اُن کے دل کے دل و دماغ کی جامعیت نشوونما پائے۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس سلسلے کی کتابوں کے مطالعہ سے طلبا زبانِ اُردو کے ادبی محاسن سے بھی واقف ہوجائیں گے۔ اور ان کو اس زبان کی روز افزوں ترقی، وسعت اور قدرتِ اظہا رکا علم بھی ہوجائے گا اس مجموعہ میں ایسے مضامین بھی ہیں۔ جن مین مناظر فطرت، ذہنی کیفیات اور طبعی جذبات کی تصویریں الفاظ میں کھینچی گئی ہیں اور ایسے بھی جن میں علم طبیعات کے انکشافات، صنعت و حرفت کی اختراعات اور عام علمی تحقیقات کو زبان اُردو میں بیان کیا گیا ہے۔ اخلاقی مضامین کے انتخاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہ ان کا اسلوبِ بیان ایسا ہو جو طالب علم کو کمزور اور بُزدل بنانے کی بجائے نیک اور بہادر بنائے۔ اور اس امر کا لحاظ تو بالخصوص رکھا گیا ہے۔ کہ منتخبہ نظم و نثر پر وطنیت کا رنگ غالب ہو۔ تاکہ طلبا کے دلوں میں اخلاقِ حسنہ اور علم ادب کی تحصیل کے دوران میں اپنے وطن کی محبت کا پاک جذبہ موجزن ہو۔ اور وہ ہندوستان کو جس کی عظمت کے نشان اس مجموعہ میں جگہ جگہ پر موجود ہیں۔ زیادہ پُرعظمت بنانے میں حصہ لیں۔ سلسلۂ ادبیہ کو زبانِ اُردو کے طلباء کی ادبی رہنمائی کے لیے ہر طرح مکمل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ خدا کرے یہ طلبا کے مذاقِ ادب کو لطیف اور معیارِ لیاقت کو بلند کرنے میں کامیاب ثابت ہو۔ا س ضمن میں شیخ عبدالحمید صاحب ایم-اے، آئی-ای-ایس پروفیسر طریقۂ تعلیم ٹریننگ کالج لاہور کی عنایت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ جنھوں نے اس سلسلے کی موجودہ تین کتابوں کے مسودات کو بغور ملاحظہ کیا اور جن کے قیمتی مشورے اس سلسلے کی ترتیب و تدوین میں بہت مفید ثابت ہوئے۔ مؤلفین اُردو کورس آٹھویں جماعت کے لیے ۱- معرفت الٰہی صبح کے پرتو میں ہے جلوہ ترا رات کو تاروں میں ہے تیری رضا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا قابل عبرت ہے دُنیا کا نظام تخت گر ہے آج تو کل بوریا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا دیدنی ہے مقبروں کی خوابگاہ ایک ہی بستر پہ ہیں شاہ و گدا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا غنچۂ شاداب صحنِ باغ میں مُسکراتے ہی پریشاں ہو گیا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا بیٹھتے دیکھے حباب آسا جہاز ڈوبتے دیکھے سفینے بارہا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا زندگی نے سینکڑوں ساماں کیے موت نے آکر پریشاں کر دیا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا ذرّہ ذرّہ سے عیاں ہے انقلاب لمحہ لمحہ پر بدلتی ہے ہوا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا دب گئے کیا کیا خزانے خاک میں چل بسے کیا کیا عزیز و آشنا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا اُٹھ گئے ایک ایک کرکے دہر سے کیسے کیسے دوستانِ با صفا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا چاند کے ٹکڑے جنھیں کہتے تھے لوگ خاک کے پیوند ہیں وہ مہ لقا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا اُن کو رکھا ہے اندھیری قبر میں جن سے وابستہ تھا جینے کا مزا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا صبح کو تھا نغمۂ و ساز و سرود شام کو ہے گریہ و آہ و بکا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا خود بخود اُٹھتی ہے دل میں ہوک سی صبح کو چلتی ہے جب ٹھنڈی ہوا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا اس طلسمِ حیرت و نیرنگ کی جانتا ہوں ابتدا و انتہا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا مٹتے دیکھیں آرزوئیں بے شمار ٹوٹتے دیکھے ارادے بارہا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا اب بھی چونک اے جوش گہری نیند سے شب کے سناٹے میں آتی ہے صدا پھر بھی میں تجھ کو نہیں پہچانتا جناب جوش ملیح آبادی سوالات ۱- ان الفاظ کو مناسب موقع اور محل پر استعمال کرو: عبرت۔ دیدنی۔ طلسمِ حیرت۔ نیرنگ۔ مہ لقا۔ ۲- اس نظم میں شاعر نے کن کن مناظر کا ذکر کیا ہے اور کیوں؟ ۳- ترکیب نحوی کرو: ع قابل عبرت ہے دنیا کا مقام ۴- دیدنی اور زندگی کی ی کیسی ہے؟ ۴- شاہ و گدا کون سا مرکب ہے؟ کم از کم اس کی پانچ مثالیں دو۔ …٭…٭…٭… ۲- دنیا کی دلچسپیاں دُنیا بھی اِک بہشت ہے اللہ رے کرم کن نعمتوں کو حکم دیا ہے جواز کا آدمی بسا اوقات تکالیف کے صدموں سے گھبرا کر یا محنت کی سختیوں سے اُکتا کر کہہ اُٹھتا ہے ’’دنیا میں کیا آئے۔ ایک آفت میں پھنس گئے‘‘ یا ’’دنیا ہے ایک سلسلۂ مصیبت‘‘ کوئی اسے دوزخ سے تشبیہ دیتا ہے۔ کوئی دارالمحن کے نام سے یاد کرتا ہے۔ گو عملاً سب اس کی محبت میں مبتلا ہیں۔ اور سوائے چند خدا رسیدوں کے یہاں سے کوچ کرنے کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ تاہم ایک زمانہ ہے کہ اُسے برا کہنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اُس حق پسند کی نظر غائر کی داد دینی پڑتی ہے۔ جس نے دنیا کی الجھنوں سے قطع نظر کرکے اُس کی بے شمار دلچسپیوں کا دھیان کیا ہے۔ا ور شکر گزاری کا ثبوت دیاہے۔ اور غفلت کیش انسان کو یاد دلایا ہے کہ اُسے خالق نے کیسی کیسی نعمتیں بخشی ہیں۔ جن سے ہو ہر دم ہر لحظہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ا ور اُس پر اِحسان مندی کا یہ حال ہے کہ ذرا سی تکلیف پہنچے۔ اُسے دنوں، مہینوں بلکہ برسوں یاد رکھے اور ہر ایک سے اُس کی شکایت کرتا پھرے۔ اور جو لطف ہر گھڑی نصیب ہوا ہے۔ اُسے بھول جائے۔ اور اُس کا شکر زبان پر لانا تو درکنار، دل میں بھی کم آنے دے۔ جو قیود مذاہب نے بعض چیزوں کے متعلق لگا دی ہیں، اُن سے گھبرائے۔ لیکن اُن کے مقابل جو جو چیزیں جائز کردی ہیں۔ اور جن کی اجازت ہے کہ کھلے بندوں اور دل کھول کر اُن سے حظ اُٹھائو۔ اُن کا ذکر نہ کرے ’’بِنِعْمَۃِ۱؎ رَبِّکَ مَحَدِّثْ‘‘ کا مفہوم اگر ذہن میں رہے تو ایسی غفلت ممکن نہیں۔ مگر نسیان تو اس کی گھٹی میں پڑا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو احساناتِ الٰہی کو نہیں بھولتے۔ اور اُن کے سامنے دنیا کی معمولی کلفتوں اور رنج کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے۔ ۱- قرآن مجید میں ہے: ’’اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کر۔‘‘ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو۔ کیا بہار ہے! نسیم کے ہلکے جھونکے، بادِ صبا کی اٹھکھیلیاں، چلتے ہوئے پانی، بہتی ہوئی ندیاں، شفاف جھیلیں، زخار سمندر، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ، اور اُن کی برف سے ڈھنپی ہوئی چوٹیاں، پھولوں کے تختے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں، درخت اور اُن کے ہرے ہرے پتے، سبزہ اور اُس کا فرشِ زمردین، پکتے ہوئے کھیت اور اُن میں قوتِ زندگی کے خوشے، نگاہ کے لیے جنت نہیں تو کیا ہے؟ بلبل اور اُس کی خوش نوائی، فاختہ اور اُس کی کُو کُو، کوئل اور اُس کی کوک، ’’پپہیا‘‘ اور اُس کی ’’پی‘‘ یہ نغمہ نہیں تو کیا ہے؟ اِسی کو تو فردوسِ گوش کہتے ہیں۔ قدرت کا یہ ساز ہر وقت تمھارے خوش کرنے کو تیار ہے۔ اس کا سازندہ نہ کبھی تھکتا ہے نہ اُس کی آواز میں ضعف آتا ہے۔ یہ وہ ساز ہے جس کے لیے بگڑنا نہیں بنا اور قدرت کا حُسن کچھ مناظرِ کوہ و دشت اور باغ و راغ ہی پر ختم نہیں ہوگیا۔ نہ اُس کی آواز پرندوں کی خوش اِلحانی تک محدود ہے۔ آنکھ بینا ہو تو ہر جگہ حُسن کا جلوہ ہے۔ غزال کی آنکھ اور مور کے پر اور شیر کی کھال تو خوبصورت مشہور ہی ہیں مگر جن جانوروں کو حُسن سے بظاہر کچھ خاص مناسبت نہیں۔ اُن کو اگر باریک بین نگاہوں سے دیکھو تو ایک ایک جامع اوصاف ہے۔ شکل پر کیا موقوف ہے۔ جوہر اچھے ہوں تو کیا دل نہیں لے لیتے؟ شتر سوار سے پوچھو۔ جس کی سانڈنی لق و دق اور بے آب و گیاہ میدان کے کالے کوسوں کی منزل طے کرکے آئی ہے۔ کہ اُترتے ہی اُس کے گلے سے لپٹا جاتا ہے۔ اپنی آسایش کی فکر پیچھے کرے گا۔ پہلے اپنی وفادار سواری کے آب و دانے کا بندوبست کرلے۔ تیز گام تازی اپنے یکہ تاز سے وہ پیار لیتا ہے کہ کسی معشوق کو کم نصیب ہو۔ جس حرماں نصیب بڑھیا کے لڑکے لڑکیاں اُسے چھوڑ کر چل دیے ہوں اور جسے تنہائی کی مُونِس ایک بلی نصیب ہوئی ہو۔ اُس سے اُس بلی کے حُسنِ دلفریب کی تعریف سنو۔ اور جن ملکوں میں کتوں کو پالنے کی رسم عام ہے۔ اور مذہباً کوئی نفرت اُن سے موجود نہیں۔ وہاں ذرا کتوں کی قدردانی ملاحظہ کرو۔ اچھی اچھی حُسن کی پتلیاں اُن پر قربان ہوئیجاتی ہیں۔ اور کہتی ہیں۔ ’’او حُسن کی کان!‘‘ ’’او ملاحت کی جان!‘‘ اُس بڑھیا کے کان بلی کی ’’میائوں‘‘ ہی میں موسیقی کے سارے سُر تال موجود ہیں۔ا ور کتے کی وفا کی فدائی جوان عورت کے نزدیک اُس کی آواز چنگ و دف کی صدا ہے اور دنیا بھر کی مختلف اصوات کے ملنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے۔ درد آشنا اہل دل اسے مختلف سُروں کا ارگن سمجھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں کوئی سُر غلط نہیں اور کوئی صورت قبیح نہیں۔ گرمی کے دن اور اُن میں ٹھنڈا پانی سردی کے دن اور اُن میں سورج اور دھوپ، برسات کا موسم اور اُس میں ابر او رگھٹائیں، بہار کی فصل اور اُس کا جوبن سب نعمتیں ہیں۔ جن میں انسان کا حصہ ہے قدرت نے اُس کی حفاظت کا ہر موسم اور ہر آب و ہوا کے مطابق کچھ نہ کچھ بندوبست کیا ہے۔ اور اُس پر قادر مطلق کا احسان مزید ہے کہ اس کو ایک چیز ایسی دے دی ہے جس کے زور پر یہ نہ صرف اپنی حفاظت کا بلکہ اپنے آرام اور آرایش کا پورا پورا سامان کرسکتا ہے وہ چیز عقل ہے۔ عقل انسانی نے صفحۂ قدرت کے متن پر خوب حاشیے چڑھائے ہیں اور اُن میں عجب عجب گلکاریاں کی ہیں۔ خسخانہ و برفاب راحتِ گرما ہیں تو قہوہ خانہ و گرمابہ فرحتِ سرما۔ باریک ریشمی ململ اور جالیاں گرمی کے لیے اور سمور اور پشمینہ سردی کے لیے پہننے کا سامان ہیں۔ جاڑوں کی راتوں کے لیے لحاف اور گرمیوں کی تپش کے لیے پنکھے، یہ سب دولت مندوں کے لیے ہے۔ مگر بھی خدا کے فضل سے محروم نہیں۔ لاکھ دولتوں کی ایک دولت قناعت ہے جس کو نصیب ہو اور غریبوں میں امیروں کی نسبت زیادہ ثابت ہے۔ امیروں کو جوں جوں آرام کے اسباب ملتے جاتے ہیں۔ کہے جاتے ہیں ’’اور‘‘ غریب کو جو مل گیا۔ اُسی کو صبر و شکر سے لے کر بال بچوں میں خوش ہو بیٹھتا ہے۔ گرمی میں دوپہر کے وقت درختوں کا سایہ اُسے خسخانے سے بہتر ہے۔ اور سردی میں سورج اُس کے کمرے کی انگیٹھی ہے۔ رات کو اگر مکلف لحاف میسر نہیں تو کیا ہوا۔ گڈری یا کمبلی میں لپٹا ہوا ہے۔ یا چند سوکھی لکڑیوں کا ایک ڈھیر جمع کرلیتا ہے۔ اور اُن کو جلا کر اُن کے قریب رات کاٹ دیتا ہے۔ گھر ہو اور اُس میں اتفاق تو ایسی غریبی بھی کٹ جاتی ہے۔ اور پھر دولت تو ڈھلتی ہوئی چھائوں ہے۔ کیا جو غریب ہیں وہ ہمیشہ غریب ہی رہیں گے۔ کیا اُن کی یا اُن کی اولاد کی کبھی نہیں سنی جائے گی۔ انسان نہ دیکھے تو اور بات ہے۔ ورنہ کود اُس سے کئی درجہ افضل چیزیں حکمت ایزدی سے اُس کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آفتاب اُس کے لیے سمندروں کے پانی کو اُبالتا ہے۔ اُن کے بخارات کو اُڑا کر بادل بناتا ہے۔ بادل برستے ہیں تو زمین سرسبز ہوتی ہے۔ پھر آفتاب چمکتا ہے تو کھیت پکتے ہیں۔ اور میوے کھانے کے لائق بنتے ہیں۔ ہوا جو انسان کی زندگی کا سہارا اور بہت سی چیزوں کی ہستی کا راز ہے۔ انسان کے لیے چکی تک پیستی ہے۔ پانی چلتا چلتا اِنسان کے سَو کام کرجاتا ہے۔ کھیتوں میں سے ہو نکلا۔ تو وہ ہرے ہوگئے۔ باغ میں جاپہنچا تو اُس میں پھل پھول آگئے۔ کشتی کو اِس کی چھاتی پر رکھ کر کہہ دو کہ بھئی ذرا اِسے بھی ساتھ لیے جانا تو اسے عذر نہیں۔ اُس میں دس بیس سَو پچاس یا زیادہ آدمی چڑھ بیٹھیں تو اُسے کچھ پروا نہیں۔ا ور تو اور بوجھ تو جتنا اور جسم قسم کا چاہو، لادو، انکار نہیں۔ بہاے لیے جاتا ہے۔ آگ آدمی کے لیے کھانا پکاتی ہے۔ روشنی مہیا کرتی ہے اور اس کے سوا کسی اور کام میں جوت دو تو اپنی قوت خدمت کے لیے حاضر کردیتی ہے۔ ریلوے کے انجمن، دُخانی جہاز اور کارخانوں کی کلیں آگ کے زور سے چل رہی ہیں۔ ان قوتوں سے بالاتر ایک قوت ہے جسے برق کہتے ہیں۔ یہ پہلے صرف چمک کر ایک آنِ واحد میں غائب ہوجاتی تھی۔ اور انسان کی شائق نظر کو ایک جھلک دکھا کر اُس سے اپنا چہرہ چھپا لیتی تھی۔ اسے دیکھ کر انسان پہلے دہل جاتا تھا۔ یا غش کھا کر گر پڑتا تھا۔ اب یہ بھی عقل انسانی کی ترقی کے آگے سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ انسان کبھی اُسے پیام بری کی خدمت سپرد کرتا ہے اور کبھی اُسے گھوڑے کی جگہ گاڑی میں جوتتا ہے اور اس پر غصب ہے کہ جس نے یہ عظمت اور عزت دی اُس کا شکر ادا نہیں کرتا۔ تمتع کے موقعے اس کثرت سے ہیں کہ اُن کی کثرت طبیعت کو غافل کردیتی ہے۔ کھانے ہی کی چیزوں کو دیکھو۔ سرد ملکوں کے خوش ذائقہ انگور اور سیب اور گرم ملکوں کے مرغوب میوے آم اور خربزے قوت ذائقہ کے لیے۔ اس سے بڑھ کر لذت کیا چاہتے ہو لوگ اُنھیں بہشتی میوے کہتے ہیں۔ اور مراد یہ لیتے ہیں کہ یہ بہشت سے آئے ہیں۔ کتنا بھونڈا تخیل ہے۔ یہی کیوں نہیں کہتے کہ یہ بہشت ہے۔ جس میں ایسے ایسے میوے میسر ہیں اور اُنھیں پر کیا منحصر ہے۔ اپنی اپنی جگہ ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ رنگترہ اور نارنگی کھائو۔ تو قلب کی تفریح ہو۔ اس سے بڑھ کر اُن کی خوبی کیا ہوگی کہ مادی چیزیں ہیں۔ مگر تفریح قلب کا مادہ ان میں موجود ہے۔ آلوچہ اور خوبانی کا قدرت نے اپنے ہاتھ سے جوڑ ملایا ہے۔ ہرے بادام اور سبز پستے اب سب کو روز چکھتے ہو اور پھر کہتے ہو ’’ہم پر من و سلویٰ نہیں اُترتا‘‘ اِس سے بڑا خوانِ کرم کون بچھا سکتا ہے۔ اور کس نے کبھی پچھایا: ’’مَائِدَۃٌ۱؎ مِنَ السَّمَائ‘‘ ۱- آسمان سے اُترا ہوا دستر خوان مقابلے میں پیش کرو۔ اور تمھارے پکائے ہوئے کھانے بھی انھیں کھانوں کی نامکمل نقل ہے حلوائے بادام بناتے ہو کہ بادام کے ذائقے سے کسی قدر مشابہ ہو۔ اگر یہ قدرت کے عطا کیے مصالح نہ ہوں تو تمھارا کوئی کھانا مکمل اور مزے دار نہ ہو۔ طرح طرح کی رُقعہ دوزی کرکے اُسے اُن چیزوں سے سجا لیتے ہو۔ تو تمھارا دستر خوان پُررونق ہوجاتا ہے اور یہ من و سلویٰ بغیر اقرارِ احسان کے کھاتے کھاتے جب تھک جاتے ہو تو ’’بَقَلِہَا۱؎ وَ قِثَّائِہَا‘‘ پکارنے لگتے ہو۔ اُس وقت گاجر، مولی، لہن، پیاز، ماش اور مسور کی دال، کھیر ااور ککڑی وہ مزدہ دیتے ہیں کہ سیب و انگور اور سردے اور آم کوبھلا دیں۔ سمجھتے ہیں کہ کتابِ مقدس میں پرانوں کی کہانی بیان ہوئی ہے اور یہ معلوم نہیں کہ تمھارے دلوں کا بنانے والا اور جاننے والا اس کہانی کے بیان میں فطرتِ انسانی کا راز بتا رہا ہے۔ تاریخ روز اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور تمھیں خبر نہیں ہے۔ ذائقے سے کہیں نفیس وہ حس ہے۔ جسے شامہ کہتے ہیں۔ اس میں نہ کچھ کھانا ہے، نہ پینا۔ نہ چھونے کی ضرورت ہے۔ صرف خوشبو کے قریب آنے کی دیر ہوتی ہے کہ مشامِ جان تازہ ہوجاتا ہے۔ دل میں مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اور باچھیں کھل جاتی ہیں۔ خدا جانے اس میں کیا تاثیر ہے۔ اور اُس نے یہ اُڑ کر پہنچنے کی طاقت کہاں سے پائی ہے کہ آنکھ کو کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ اور طبیعت ہے کہ خوش ہوئی جاتی ہے۔ آدمی ایک ٹھنڈا سانس کھینچتا ہے کہ شاید سانس سے شامل ہوکر یہ نعمت اندر چلی جائے اور اپنی ہو رہے۔ مگر نہیں وہ ایک گذران لطف ہوتا ہے جو پل بھر میں چل دیتا ہے اور وہی سانس جو اندر سے واپس آتا ہے۔ تو گرم اور افسردہ ہوتا ہے اور اُس میں خوشبو کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ کبھی اس میں گذر ہو جہاں گلاب کا تختہ کھلا ہوا ہو یا جہاں اور پہاڑی پھولوں کی مہک دُور سے آرہی ہو اور تمھیں اپنی طرف بلا رہی ہو۔ تو ضرور جی چاہے گا کہ وہیں جھونپڑا بنا لو۔ اور بیٹھ رہو۔ اگر یہ نہیں نصیب ہوا تو فصلِ گل میں کسی باغ میں جابکلو۔ خوشبوئیں تو اچھی اچھی ہیں۔ مگر موتیا کھلی ہو تو معلوم ہو کہ تیزی کے ساتھ مستی کس حکمت سے ملائی گئی ہے۔ ۱- قرآن مجید کی آیت کا اشارہ حضرت موسیٰ کی قوم کی طرف ہے۔ جن پر من و سلویٰ اُترا۔ لیکن جب کھاتے کھاتے تھک گئے تو سبزی ککڑی، چنے اور مسور کی دال مانگنے لگے۔ اور پھر کیوڑے کی جنون انگیز خوشبو، کرنے کی جان فزا مہک اور بیک مُشک کی سوکھی لکڑی میں دھانی رنگ کے پھول اور اُن کی بھینی بھینی بُو، کوئی کس کس حسن پر جان دے۔ اُستادِ قدرت کی اُستادی قابل دید ہے۔ ذہنِ انسان کی ترقی کے لیے کیسا زینہ بنایا ہے۔ مادی اسیا سے اس مکتب میں ابجد شروع ہوتی ہے۔ اُن کا ذائقہ حُسن کو گرویدہ کرتا ہے۔ اس کے بعد درجۂ دوم کی مادی اشیا آتی ہیں۔ مثلاً سردی، گرمی جن کے متعلق کھانا استعارے کے طور پر بولتے ہیں۔ لیکن جو فی الحقیقت کھانے اور کھانے میں نہیں آتیں۔ دھوپ میں نظر بھی آجاتی ہے محسوس بھی ہوتی ہے۔ بدن پر اثر بھی چھوڑتی ہے۔ مگر پھر بھی ایسی چیز نہیں جیسے لونگ اور دارچینی کہ کھانے سے بدن میں حرارت معلوم ہو۔ اسی طرح سردی بدن کو لگتی ہے۔ دماغ پر اثر ڈالتی ہے۔ کبھی کبھی دل تک بھی پہنچتی ہے۔ برف و باراں کی وجہ سے ہو تو ایک حد تک نظر بھی آتی ہے۔ پر اس قسم کی نہیں جیسے طباشیر اور سرد چینی۔ کہ کھائیں اور زبان سے لے کر دل تک ٹھنڈک پہنچ جائے۔ دوم درجے کی مادی اشیا کے بعد خوشبو سبق دینے آتی ہے۔ کہ اِس کا سبب تو نظر کے سامنے ہے مگر وہ خود نظر آتی۔ ہاں اُس کا اثر موجود ہے۔ اُس کے بعد ایک چیز آتی ہے۔ جو خوشبو سے بھی بدرجہا زیادہ لطیف ہے اور وہ ’’حُسن‘‘ ہے۔ دیکھتے ہی دل قابو سے نکلا جاتا ہے۔ اس میں ایک بے قراری اور تڑپ محسوس ہوتی ہے ایک قسم کی لذت اس نظارے میں شامل ہے۔ جو اپنے ساتھ درد کی کیفیت بھی رکھتی ہے۔ اس پر اتنی مرغوب ہے کہ کوئی اس درد سے خالی نہیں رہنا چاہتا۔ یہ لذت اور سب لذتوں سے نرالی ہے۔ نہ اس کو کسی لذت سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ نہ اس کو کسی طرح بیان کرسکتے ہیں۔ بس اس کے آگے ’’حُسنِ مطلق‘‘ کی شناخت تک ایک ہی زینہ رہ جاتا ہے۔ مگر انسانی بصیرت کی معمولی حد یہیں تک ہے۔ یہاں پہنچ کر بہت سی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ اور آخری زینے پر کھڑے ہوکر موجوداتِ عالم پر نظر ڈالتے ہیں یا ان سے پرے تک دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آدمی غور کرے تو قدرت نے سبق پڑھانے میں اور سبقوں کی ترتیب مکمل اور آسان کردینے میں کوئی دقیقہ نہیں اُٹھا رکھا۔ اُس بینائی پر حیف ہے۔ جو اِتنی قریب مثال کے ہوتے یہ کہے کہ ’’مجھے نظر نہیں آتا۔ تو میں کیونکر مانوں۔ میں دیکھ نہیں سکتا تو میں کیونکر متاثر ہوں میں دُور ہوں۔‘‘ لیکن ہم تو دنیا سے آگے نکل چلے۔ ابھی تو اِس کی دلچسپیاں ختم نہیں ہوئیں۔ خیر اُن کا ختم ہونا تو مشکل ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اُن میں سے جس ایک سلسلے کا بیان ہم نے شروع کیا تھا۔ اس زنجیر کے ایک دو حلقے ابھی باقی ہیں۔ ہم نے ’’حُسن‘‘ کا نام لیا تھا۔ اُن چند لوگوں کو چھوڑکر جو ’’حُسن‘‘ کو جھلک کوہ و دریا اور دیگر مناظر قدرت میں دیکھتے ہیں۔ اور اس سے پھاند کر منزل کو جالیتے ہیں۔ ’’حُسنِ انسانی‘‘ دیکھ کر دُور ہی سے تڑپتے ہیں اور تڑپتے منزل پر جارہے ہیں اُن بے شمار مثالوں کی طرف آئو۔ جو حُسن کو دیکھ کر اُس کو اپنا بنانے کی آرزو کرتے ہیں۔ اور آسانی کے لیے اِس صیغے میں حُسنِ انسانی کے فدائیوں کو دیکھو۔ اُن میں کئی ایسے خوش قسمت ہیں جو اس آرزو میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جس حسین پر آغازِ عشق میں اُن کی نظر پڑتی ہے۔ آخر اُس سے ملنا ہوجاتا ہے۔ دنیاوی رسوم اور مذہبی قوانین دونوں اس ایجاد کو تسلیم کرکے اپنی منظوری کا سہرا طالب و مطلوب کو پہناتے ہیں۔ اور دعا دے کر رخصت کرتے ہیں۔ کہ جائو خوش رہو، پھلو پھولو۔ آگے چل کر درختِ اُمید ثمر لاتا ہے۔ حُسن پھر نئی کونپلیں نکالتا ہے۔ ماں باپ لڑکے لڑکی پیشانی میں پھر اُسی نور کی جھلک دیکھتے ہیں۔ جس نے اُنھیں جوانی میں ایک دوسرے کا والہ و شیدا کیا تھا۔ اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اس کی ہر ایک بات میں اپنی کسی عادت، کسی خصلت کسی کمال ظاہری یا باطنی کا نقش دیکھتے ہیں اور باغ باغ ہوتے ہیں۔ یہ وہ خوشی ہے جس کے ساتھ کی دنیا میں کوئی اور مسرت نہیں ہوسکتی پس پوچھو کہ آیا جو نعمتیں جائز کی گئی ہیں۔ اُن کا پلڑا ممنوعات اور مکروہاتِ دنیا سے بھاری ہے یا نہیں۔ یہ خوش قسمت جوڑا تو جو جواب اس سوال کا دے گا وہ تو ہم سمجھ ہی سکتے ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ کوئی اور یاس اور حرمان کا ستایا ہوا دل پکار اُٹھے۔ دنیا کی خوبیاں تو گن ڈالیں۔ مگر تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی دیکھو۔ غور کرو دنیا میں کتنی مصیبت ہے۔ کتنی بیماریاں ہیں۔ کتنا افلاس ہے۔ کتنی لڑائیاں ہیں۔ کیسی خونریزیاں ہیں۔ بجلی کتنے خرمن جلاتی ہے۔ آگ کتنے گھر پھونکتی ہے۔ موت کیسے کسیے گھر تباہ کرتی ہے۔ غرض ہزار آفتیں ہیں اور ایک انسان کی جان۔ یہ بیچارہ سب ستم سہے جاتا ہے اور اُف نہیں کرتا ہے۔ مگر یہ شکایت کرنے والے خواہ کرنے ہی حق بجانب ہوں۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ دُنیا اضداد سے پیدا کی گئی ہے۔ ہر ایک چیز کا وجود اُس کی ضد کے وجود کے متقاضی ہے۔ دُھوپ کے ساتھ سایہ لگا ہوا ہے۔ اور دھوپ کا اِحساس ناممکن ہوتا۔ اگر ساتھ سایہ نہ ہوتا۔ ایک مثبت ہے دوسرا منفی۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکمتِ بالغہ کا مقصدِ اصلی کیا ہے ور اس میں انسان کا کیا حصہ ہے۔ نگاہ میں وسعت اور عمق پیدا ہوجائے۔ تو تمام تکالیف خیرِ محض دکھائی دیں اور ہر منفی کی تہ میں کچھ مثبت پنہاں نظر آنے لگے۔ یہی وہ سرمہ ہے۔ جس کے لگاتے ہی آنکھ گرد و پیش جنت ہی جنت دیکھتی ہے۔ اور دل مرحوم داغِ شیریں بیان کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر گاتا ہے کہ دنیا بھی اِک بہشت ہے۔ سوالات ۱- ان الفاظ کے معانی کی تشریح کرو: زمردیں۔ گرمابہ۔ حکمتِ ایزدی۔ شامہ۔ جنوں انگیز۔ حکمتِ بالغہ ۲- اس دنیا ہی کو بہشت سمجھنے۷ کے لیے مضمون نگار نے کن دلائل سے کام لیا ہے؟ ۳- کیا جو لوگ دنیا کو دارلمحن تصور کرتے ہیں۔ راستی پر ہیں: اور اگر نہیں تو کیوں؟ اس مضمون پر ایک مختصر جواب مضمون لکھو۔ اور اس میں وہی خیالات ظاہر کرو جو مضمون نگار نے اس مضمون میں ظاہر کیے ہیں۔ ۴- مندرجۂ ذیل الفاظ میں سے جو واحد ہیں۔ اُن کی جمع اور جو جمع ہیں۔ اُن کے واحد بتائو۔ اوقات۔ آفت۔ قیود۔ محن۔ مناظر۔ اصوات۔ لطف ۵- اس سبق میں اسمائے صور کون کون سے ہیں؟ ۶- ان محاورات کو فقروں میں استعمال کرو: جوت دینا۔ سرِ تسلیم خم کرنا …٭…٭…٭… ۳- حب وطن فرخ۱؎ سیر تھا ہند میں فرمانرائے مُلک اور غیرتِ نسیم و صبا تھی ہوائے مُلک پر ہند پر تھا حادثۂ غم عجب پڑا یعنی کہ بادشاہ تھا خود جاں بلب پڑا اس طرح کا فتور پڑا تھا مزاج میں تھا مبتلا وہ اِک مرضِ لا علاج میں سب اہل عقل ہوش و حواس اپنے کھو چکے سارے طبیب ہاتھ علاجوں سے دھو چکے پر اِک۲؎ مسیح دم نے جو آ کر کیا علاج ایسا بحسبِ طبع موافق پڑا علاج گویا دوا بکارِ دُعا ہو گئی اُسے اور تین چار دِن میں شفا ہو گئی نوبت خوشی کی بج گئی سارے جہاں میں اور جان تازہ آ گئی اِک اِک کی جان میں فرخ سیر کہ شاہِ سخاوت مآب تھا بحرِ کرم کا جس کے جھکولا سحاب تھا ۱- آخری شاہانِ مغلیہ میں سے ایک تاجدار کا نام ہے۔ ۲- ایک انگریز ڈاکٹر جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے فرخ سیر بادشاہ دہلی کے علاج کے لیے آیا تھا۔ اِک جشنِ عام اُس نے کیا دُھوم دھام سے اور شور تہنیت کا اُٹھا خاص و عام سے حاضر ہوئے امیر و وزیر آ کے سامنے اور اُس طبیب کو کہا بلوا کے سامنے لا دامنِ اُمید کہ بھر دیں ابھی اُسے تا عمر بھر نہ پائے تو خالی کبھی اُسے دریا دلی طبیب کی دیکھو مگر ذرا ڈالی نہ اُس نے لعل و گہر پر نظر ذرا حُبِّ وطن کے جوش سے بیتاب ہو گیا دِل آب ہو کے سینہ میں سیماب ہو گیا کی عرض ہاتھ جوڑ کے خدمت میں شاہ کی بندے کو آرزو نہین کچھ عِزّ و جاہ کی زر کی ہوس نہ مال کی ہے جستجو مجھے پر آرزو جو ہے تو یہی آرزو مجھے کچھ ایسا میرے واسطے انعام عام ہو جس سے مرا تمام وطن شاد کام ہو بولا یہ شاہ اِس کا بھی تجھ پر مدار ہے جو مانگنا ہے مانگ تجھے اختیار ہے تب عرض کی طبیب نے یوں بادشاہ سے روشن جلالِ شاہ ہو خورشید و ماہ سے تھوڑی زمیں نواحیٔ دریا کنار میں مجھ کو عطا ہو مملکتِ شہر یار میں تا اُس طرف جو میرے وطن کے جہاز آئیں اور اُن میں تاجرانِ ذوی الامتیاز آئیں کچھ اُن پہ ہووے راہ نہ بیم و زوال کو آرام سے اُتاریں یہاں اپنے مال کو اور جنس جو کہ لائیں وہ نزدیک و دُور سے محصول سب معاف ہو اُس کا حضور سے پہلا علاج گرچہ بہت کارگر پڑا یہ نسخہ لیکن اُس سے سوا پُر اثر پڑا اُس کی بھی یعنی کلفتِ غم دور ہو گئی اور تھی جو کچھ کہ بات وہ منظور ہو گئی ہر چند اُسے نہ فائدۂ سیم و زر ہوا پر نفع بہر اہل وطن کس قدر ہوا دامن میں اِک عطاے خداداد پڑ گئی اور سلطنت کی ہند میں بنیاد پڑ گئی نوبت بجا کرے گی سدا صبح و شام کی آواز دیں گے طبل مگر اُس کے نام کی سوالات ۱- ان الفاظ کے ہم معنی الفاظ بتائو: مسیح دم۔ بحسبِ طبع۔ سخاوت مآب۔ سیماب۔ ۲- فرخ سیر کی بیماری اور انگریزی طبیب کی حب الوطنی کا واقعہ اپنے الفاظ میں لکھو۔ ۳- شاعر نے اس واقعہ کو نظم کرکے کیا کیا نتائج اخذ کیے ہیں؟ ۴- ترکیب نحوی کرو (ع) سب اہلِ عقل ہوش و حواس اپنے کھو چکے ۵- اُوپر کے شعر میں تاکید موکد کی کون کون سی مثال ہے۔ نیز بتائو کہ اُردو میں تاکید کے کلمات کون کون سے ہیں؟ …٭…٭…٭… ۴- قلعۂ شاہجہان شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ نے ایک مُدّت تک اکبر آباد کو دار الخلافت رکھا۔ ۱۲جلوسی مطابق ۱۰۴۸ھ موافق ۵۶۱ ملک شاہی اور ۱۶۳۸ء عیسوی کے دِلّی میں قلعہ بننے کا حکم دیا۔ اور اسی سال بارھویں ذی الحجہ کو دریا کے کنارے سلیم گڑھ کے پاس قلعہ بننا شروع ہوا اُستاد حامد اور اُستاد احمد معمار جو اپنے فن میں یکتا تھے اس قلعہ کو بنواتے تھے۔ مگر اس کامل دلیل سے کہ دیوانِ عام میں سنگین تخت کے پیچھے ایک مرقع تصاویر کا جو ریفیل اٹلی کے مُصوّر نے آرفیوس کے گانے کا کھینچا تھا۔ پتھر کی پچیکاری کا بنا ہوا ہے۔ جس کا حال اُس کے مقام پر بیان ہوگا۔ یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی یوروپین اٹلی کے مُلک کا بھی اس قلعہ کے بنانے میں شریک تھا۔ پہلے پہل عزت خاں کو اس قلعہ کا اہتمام ملا۔ اور پانچ مہینے دو دن میں اس کے اہتمام سے قلعہ کی بنیادیں کھدیں۔ اور کچھ مصالحہ جمع ہوا۔ اور کہیں کہیں سے بنیاد اُونچی بھی ہو آئی۔ اتنے میں عزت خاں ٹھٹھ کی صوبہ داری پر مامور ہوا۔ اور قلعہ کا اہتمام اللہ وردی خاں کو سپرد ہوا۔ دو برس ایک مہینے گیارہ دن میں اس کے اہتمام سے قلعہ کی چاروں طرف کی دیوار بارہ بارہ گز اُونچی ہوگئی۔ پھر اس کا اہتمام مکرمت خاں کے سپرد ہوا۔ اور بیسویں سالِ جلوس میں اُس کے اہتمام سے بن چکا۔ کل مُدّتِ تعمیر قریب نو برس کے ہوئی۔ چوبیسویں ربیع الاوّل ۲۱جلوسی مطابق ۱۰۵۸ ہجری موافق ۱۶۴۸ عیسوی بادشاہ نے اِس قلعہ میں پہلا جلوس کیا۔ سر سے پائوں تک یہ قلعہ سنگِ سُرخ کا بنا ہوا ہے اور ہر ایک مقام پر کنگورے اور مرغولیں بہت خوبصورتی سے بنائے ہیں۔ اس قلعہ کو ہشت پہل بنایا ہے۔ طول اس کا ہزار گز۔ اور عرض چھ سو گز کا ہے۔ جس کی کل زمین چھ لاکھ گز ہوئی۔ اس حساب سے یہ قلعہ اکبر آباد کے قلعہ سے دو گنا ہے۔ فصیل اس قلعہ کی پچیس گز اُونچی ہے۔ اور گیارہ گز گہری بنیاد ہے۔ دیوار کا آثار بنیاد سے پندرہ گز اور اُوپر سے دس گز کا ہے۔ اس قلعہ کی جانبِ شرق گنگا بہتی ہے۔ باقی تینوں طرف خندق جس کا محیط تین ہزار چھ سو گز کا ہے۔ پچیس گز چوڑی اور دس گز گہری کھود کر پختہ بنا دی ہے کہ نہر کے پانی سے دن رات لبریز بھری رہتی تھی۔ اس قلعہ کے بننے میں پچاس لاکھ خرچ ہوئے۔ا ور بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سو لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ قلعہ کے بننے میں اور پچاس لاکھ قلعہ کے اندر کے مکانوں میں۔ دیوانِ عام بہت مکان بہت نامی ہے اور بہت خوشنما بنا ہوا ہے جب کبھی دربار عام ہوتا تھا تو اُس میں بادشاہ جلوس کرتے تھے۔ اُس میں تین درجے کے مکان ہیں کہ اُن کی تفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ نشیمن ظلِّ الٰہی یا سنگین تخت اس مکان کے بیچوں بیچ میں شرقی دیوار سے ملا ہوا سنگِ مرمر کا تخت ہے۔ چار گز کا مربع اور اِس پر چار ستون لگا کر بنگلے کے طور پر اُس کی چھت بنائی ہے اور آدمی کے قدر سے زاید کرسی دی ہے۔ اُس کے پیچھے ایک طاق ہے۔ سنگِ مرمر کا بنا ہوا سات گز لمبا اور ڈھائی گز کا چھوڑا۔ اُس پر ہر ہر قسم کے چرند و پرند کی تصویریں عجب عجب رنگین پتھروں کی بنی ہوئی ہیں۔ اور اُس میں ایک آدمی کی تصویر ہے۔ جو دو تارہ بجا کر گا رہا ہے۔ مُلک اٹلی میں جو فرنگستان میں واقع ہے۔ آرفیون کلاونت کی کہانی یوں مشہور ہے کہ وہ علم موسیقی میں اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا۔ا ور ایسا خوش آواز تھا کہ جب گانے بیٹھتا تو چرند اور پرند اُس کی آواز سُن کر مست ہوجاتے تھے۔ اور اُس کے گرد آبیٹھتے تھے۔ اُسی مُلک میں رفیل ایک مصور تھا کہ تصویر کھینچنے میں اپنا مثل نہیں رکھتا تھا۔ اُس مصور نے آرفیوس کے گانے کی جو کہانی مشہور تھی۔ اُس کے مطابق اپنے خیال سے ایک مرقع کھینچا تھا۔ اور چرند اور پرند اُس کے گرد گانا سُننے کو بیٹھے ہوئے بنائے تھے۔ یہ مصوّر ۱۵۲۰ء میں مرا۔ مگر یہ مرقع اُس کا بنایا ہوا مُلک اِٹلی اور ولایت فرنگستان میں بہت مروّج اور نہایت مشہور ہے۔ اور اب تک اُس کی نقلیں موجود ہیں۔ وہی مرقع اس طاق میں پتھر کی پچیکاری میں کھودا ہے۔ پس یہ تصویر اُسی آرفیوس کی ہے۔ اور چونکہ اس مرقع کا سوائے فرنگستان کے اور کہیں رواج نہیں تھا۔ اس سبب سے یقین پڑتا ہے کہ اس قلعہ کے بنانے میں کوئی نہ کوئی فرنگی اٹلی کے مُلک کا شریک تھا۔ اس محراب کی بغل میں دروازہ ہے۔ اور اندر سے بھی آنے کا رستہ ہے۔ بادشاہ اِس تخت پر دربارِ عام کے دن اجلاس کرتے تھے۔ اِس تخت کے آگے ایک تخت سنگ مرمر کا بچھا ہوا ہے۔ امرا میں سے جس کسی کو کچھ عرض کرتا ہوتا تھا۔ اُس تخت پر چڑھ کر بادشاہ سے عرض کرتا تھا۔ یہ تخت اتنا اُونچا ہے کہ اس تخت پر چڑھنے پر بھی آدمی کا گلا تخت تک پہنچتا ہے۔ حمام یہ حمام بے مثل و بے عدیل ہے۔ یقین ہے کہ مُلکوں مُلکوں میں ایسا حمام نہ ہو۔ پہلا درجہ اس حمام کا کمرہ نما بنایا ہے۔ اجارہ تک سنگ مرمر کا اور اس پر منبت کاری کی ہے۔ اور شرق کی طرف جالیاں لگا کر آئینہ بندی کی ہے کہ اس میں سے دریا اور جنگل اور سبزہ بہت کیفیت سے دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے درجے میں جانب شمال ایک شہ نشین ہے۔ سر سے پائوں تک سنگ مرمر کی اور اُس پر بہت تحفہ منبت کاری اور پچی کاری کی ہے۔ اُس کے آگے ایک درجہ ہے مربع نرا سنگ مرمر کا۔ اُس کے فرش سے لے کر چھت تک عجیب عجیب رنگ کے پتھروں سے پچیکاری کی ہے۔ اور طرح بطرح کے بیل بوٹے، پھول پتی بنائی ہیں۔ یہ پچی کاری ایسی خوش قطع ہے کہ بے تامل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت تحفہ ایرانی قالین بچھا ہوا ہے۔ اس طرح کی پچی کاری ہونے سے بھی یقین ہوتا تھا کہ اس قلعہ کی تعمیر میں کوئی نہ کوئی اُستاد اٹالین شریک تھا۔ کیونکہ پچی کاری کا ایجاد اُسی ملک سے ہے۔ اُس درجے کے بیچوں بیچ میں ایک حوض ہے۔ مربع پر چین کار۔ اُس کے چاروں کونوں پر چار فوارے لگے ہوئے تھے۔ اُس کے گرد ایک نہر ہے۔ گز بھر کے عرض کی۔ اور بہت کم گہری نہایت نفیس۔ مشہور ہے کہ جب چاہتے تھے اس نہر اور حوض میں گرم پانی ہوتا تھا۔ اور جب چاہتے تھے ٹھنڈا۔ تیسرا درجہ اس حمام کا اجارہ تک نرا سنگ مرمر کا ہے۔ جانب غرب حوض گرم پانی کے بنے ہوئے ہیں۔ اُس کے بیچوں بیچ میںس نگ مرمر کا چبوترہ ہے کہ اس پر بیٹھ کر نہاتے تھے۔ جانب شمال ایک شہ نشین بنی ہوئی ہے اور اُس میں مستطیل حوض ہے۔ جب چاہیں اُس میں گرم پانی بھریں اور جب چاہیں سرد پانی بھریں۔ اس درجے میں بہت تحفہ پچی کاری اور منبت کاری کی ہوئی ہے۔ شاید کہ یہ حمام شاہجہاں اور عالمگیر کے بعد پھر گرم نہ ہوا ہو۔ مشہو رہے کہ سوا سو من لکڑی سے گرم ہوتا ہے۔ سوالات ۱- نشیمنِ ظلِّ الٰہی اور شاہی حمام کا خاکہ اپنے الفاظ میں کھینچو۔ ۲- آرفیوس کے متعلق تم نے اِس مضمون میں کیا کچھ پڑھا ہے۔ بتائو کہ قلعۂ شاہجہان میں اس تصویر کی موجودگی کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ ۳- ان اصطلاحات کے معانی کی توضیح کرو: پچی کاری۔ مرغولیں۔ منبت کاری۔ کنگورہ۔ ۴- کامل دلیل۔ اکبر آباد۔ بارہ گز اُونچی۔ کون کون سے مرکبات ہیں۔ اِسی قسم کی کم از کم دو دو مثالیں اپنی طرف سے دو۔ ۵- نہیں لکھتا تھا۔ بنا دی ہے۔ بیٹھتا ہے۔ کون کون سے فعل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا صیغہ واحد متکلم مجہول مؤنث بنائو …٭…٭…٭… ۵-رام چند جی کا بن باس رخصت ہوا وہ۱؎ باپ سے لے کر خدا کا نام راہِ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام دامن سے اشک پونچھ کے دِل سے کیا کلام آخر ہے کچھ حدِ ستم و ظلم و جور بھی ہم کو اُداس دیکھ کے غم ہوگا اور بھی دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ خوش خصال خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال۲؎ دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال سکتہ سا ہوگیا ہے یہ ہے شدتِ ملال تین میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ نورِ نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ جنبش ہوئی بھوئوں کو بھری ایک سرد آہ لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رُخ کی راہ ۱- رام چندر جی۔ ۲- یعنی خیال کی طرح خاموش۔ چہرہ کا رنگ حالتِ دِل کھولنے لگا ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا آخر اسیرِ یاس کا قُفلِ دہن کھلا افسانۂ شد آمدِ رنج و محن کھلا اِک دفترِ مظالمِ چرخِ کہن کھلا وا تھا دہانِ زخم کہ بابِ سُخن کھلا دردِ دل غریب جو صرفِ بیاں ہوا خونِ جگر کا رنگ سُخن سے عیاں ہوا رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز کہوں گی ہاں کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں جوگی بنا کے راج دُلارے کو بھیج دوں دُنیا کا ہو گیا ہے یہ کیسا لہو سفید اندھا کیے ہوئے ہے زر و مال کی اُمید انجام کیا ہو کوئی نہیں جانتا یہ بھید سوچے بشر تو جسم ہر لرزاں مثالِ بید لکھی ہے کیا حیاتِ ابد ان کے واسطے پھیلا رہے ہییں جال یہ کس دن کے واسطے لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اِس تخت و تاج کو تم ہی نہیں تو آگ لگائوں گی راج کو کن کن ریاضتوں میں گذارے ہیں ماہ و سال دیکھی تمہاری شکل جب اے میرے نونہال لائے دُلہن جو بیاہ کے شادی ہوئی کمال آفت یہ آئی مجھ پہ ہوئے جب سفید بال چھٹتی ہوں اُن سے جوگ لیا جن کے واسطے کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر گھر جن کے بے چراغ رہے آہ عمر بھر رہتا مرا بھی نخلِ تمنا جو بے ثمر یہ جائے صبر تھی کہ دُعا میں نہیں اثر لیکن یہاں تو بن کے مقدر بگڑ گیا پھل پھول لاکے باغِ تمنا اُجڑ گیا سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ آتی نظر نہیں کوئی امن و اماں کی راہ اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ تقصیر میری خالقِ عالم بحل کرے آساں مجھ غریب کی مشکل اجل کرے سُن کر زباں سے ماں کی یہ فریادِ درد خیز اُس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز عالم یہ تھا قریب آنکھیں ہوں اشک ریز لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز سوچا یہی کہ جان سے بیکس گزر نہ جائے ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے پھر عرض کی یہ مادرِ ناشاد کے حضور مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے کیوں وفور صدمہ یہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور لیکن نہ دل سے کیجیے صبر و قرار دُور شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی یہ جعل یہ فریب یہ سازش یہ شور و شر ہونا جو ہے سب اُس کے بہانے ہیں سربسر اسباب ظاہری میں نہ اُن پر کرو نظر کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر خاص اُس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں منظور کیا اُسے ہے کوئی جانتا نہیں راحت ہو یا کہ رنج خوشی ہو کہ انتشار واجب ہر ایک رنگ میں ہے شُکرِ کردگار تم ہی نہیں ہو کشتۂ نیرنگِ روزگار ماتم کدہ میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار سختی سہی نہیں کہ اُٹھائی کڑی نہیں دُنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب جن سے کہ بے گناہوں کی عمریں ہوئیں خراب سوزِ دروں سے قلب و جگر ہوگئے کباب پیری مٹی کسی کی کسی کا مٹا شباب کچھ بن نہیں پڑا جو نصیبے بگڑ گئے وہ بجلیاں گریں کہ بھرے گھر اُجڑ گئے ماں باپ منہ ہی دیکھتے تھے جن کا ہر گھڑی قائم تھیں جن کے دم سے اُمیدیں بڑی بڑی دامن پہ جن کے گرد بھی اُڑ کر نہیں پڑی ماری نہ جن کو خواب میں بھی پھول کی چھڑی محروم جب وہ گل ہوئے رنگِ حیات سے اُن کو جلا کے خاک کیا اپنے ہات سے کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال ان بیکسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال ہے کبریا کی شان! گزرتے ہی ماہ و سال خود دل سے دردِ ہجر کا مٹتا گیا خیال ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا آخر کر رو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا پڑتا ہے جس غریب پہ رنج و محن کا بار کرتا ہے اُس کو صبر عطا آپ کردگار مایوس ہو کے ہوتے ہیں انسان گناہگار یہ جانتے ہیں وہ ہے دانائے روزگار انسان اُس کی راہ میں ثابت قدم رہے گردن وہی ہے امرِ رضا میں جو خم رہے اور آپ کو تو کچھ بھی نہیں رنج کا مقام بعدِ سفر وطن میں ہم آئیں گے شاد کام ہوتے ہیں بات کرنے میں چودہ برس تمام قائم اُمید ہی سے ہے دُنیا ہے جس کا نام اور یوں کہیں بھی رنج و بلا سے مفر نہیں کیا ہوگا دو گھڑی میں کسی کو خبر نہیں اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں ہے دن کی دُھوپ رات کی شبنم انہیں گراں لیکن جو رنگِ باغ بدلتا ہے ناگہاں گل ہزار پودوں میں جاتے ہیں رائگاں رکھتے ہیں جو عزیز انہیں اپنی جاں کی طرح ملتے ہیں دستِ یاس وہ برگِ خزاں کی طرح لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار موقوف کچھ ریاض پہ اُن کی نہیں بہار دیکھو یہ قدرتِ چمن آرائے روزگار وہ ابر و برف و باد میں رہتے ہیں برقرار ہوتا ہے ان پہ فضل جو ربِ کریم کا موجِ سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا اپنی نگاہ سے ہے کرمِ کار ساز پر صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہرباں اگر جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں جناب برج نرائن چکبست دہلوی سوالات ۱- ان مرکب الفاظ کی تشریح کرو۔ اور بتائو ان سے کیا مراد ہے؟ صورتِ خیال۔ تصویر سنگ۔ اسیرِ یاس۔ درد خیز۔ ۲- رام چندر جی نے اپنی ماتا کو تسلی دینے کے لیے جن خیالات کو ظاہر کیا ہے۔ ان کو سلیس اُردو میں لکھو۔ ۳- اس بند کے مطالب کی تشریح کرو: لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار موقوف کچھ ریاض پہ اُن کی نہیں بہار دیکھو یہ قدرتِ چمن آرائے روزگار وہ ابر و برف و باد میں رہتے ہیں برقرار ہوتا ہے ان پہ فضل جو ربِ کریم کا موجِ سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا ۴- جنبش۔ ماتم کدہ۔ خالق۔ گنہگار۔ کارساز۔ قواعد کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ ۵- ترکیب نحوی کرو۔ لائے دُلہن جو بیان کے شادی ہوئی کمال …٭…٭…٭… ۶- مسٹر داد بھائی نوروجی دادا بھائی نوروجی ۱۸۲۵ء میں شہر بمبئی میں پیدا ہوئے۔ زہے نصیب اُس سرزمین کے جہاں ایسے فرشتہ صفت عالی دماغ اور بلند خیال لوگ پیدا ہوں۔ آپ کے بزرگ چھ صدی سے پروہت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے آبائی پیشے کو خیر باد کہہ کر نئی روش اختیار کی۔ یوں تو اِس عالی خیال کے ناخنِ فکر نے بہت سی سوشل اور مذہبی گتھیاں بھی سلجھائیں۔ لیکن پولٹیکل معاملات اور مُلک کی ترقی کا خیال زیادہ دامنگیر رہا۔ اور اُسی کی طرف آپ نے زیادہ تر توجہ مبذول فرمائی۔ چار ہی برس کی عمر میں باپ کا سایۂ عاطفت سر سے اُٹھ گیا۔ بیچاری بیوہ والدہ کے ذمے کُل تعلیم و تربیت کے فرائض آپڑے۔ ہندوستان کی کوش قسمتی سے آپ کی والدہ خاص لیاقت کی خاتون تھی۔ اور اُنہوں نے آپ کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ایلفنسٹن انسٹیٹیوٹ میں دلائی۔ اوائل عمر ہی سے آپ کی جفا کشی مشقت اور عالمانہ لیاقت کا شہرہ زبان زدِ خاص و عام ہونے لگا آپ کی طبع نورانی کے جوہر اور استعدادِ علمی کے چرچے جابجا ہونے لگے۔ اور مغربی ہندوستان کے محققین آپ کو قدردانی کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ اپنے کالج کے مایۂ ناز ہوگئے۔ ایک مرتبہ ایک یوروپین لیڈی صاحبہ کالج کے دیکھنے کو تشریف لائیں۔ طلبا سے جن میں آپ بھی شامل تھے۔ مختلف مضامین پر سوال کیے۔ وہ آپ کی جودت، زود فہمی اور ذکاوت اور حاضر جوابی سے ایسی متاثر ہوئیں کہ اُنہوں نے اپنی کتاب ’’ویسٹرن انڈیا‘‘ (مغربی ہندوستان) میں آپ کی ذہانت اور لیاقت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ آپ کی نسبت یہ پیشین گوئی کر گئی تھیں کہ یہ لڑکا لاکھوں میں ایک ہوگا۔ اور واقعی ان کا کہنا حرف بحرف صحیح ثابت ہوا۔ بیس ہی برس کی عمر میں آپ تحصیلِ علم سے بخوبی فارغ ہوگئے۔ اور آپ کی علمیت، ہمہ دانی اور مستقل مزاجی کا اِس قدر شہرہ ہوا کہ سرابر سکاٹن پیری صاحب بہادر نے جو اِس وقت عہدۂ چیف جسٹس پر مامور تھے۔ اپنی جیب خاص سے آپ کے ولایت میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نص صرفہ برداشت کرنے کا وعدہ کیا۔ باقی نصف خرچ بمبئی کے معزز اور موالدار رئوسا برداشت کرنے پر مستعد ہوگئے۔ لیکن سر جمشید جی-جی جی بھائی نے جن کا اس چندے میں سب سے زیادہ حصہ تھا۔ یہ افسوسناک رائے قائم کی کہ داد بھائی نوروجی کا ولایت بھیجا جانا مناسب نہیں۔ مبادا وہاں کی بود و باش اُن کو قدیمی دین و مذہب سے برگشتہ کردے۔ سفر ولایت کے اس طرح التوا پر تمام صریحی اُمیدوں اور آرزئوں کا خون ہوگیا۔ اور اب دادا بھائی کو بوجہ زیادہ خوشحالی نہ ہونے کے تلاشِ معاش کی فکر ہوئی۔ چند ماہ کے بعد آپ اُسی اسکول میں جس میں کہ آپ نے ابتدائی تعلیم پائی تھی۔ ہیڈ اسسٹنٹ مقرر ہوگئے۔ اس زمانے میں آپ کو علمِ ریاضی کا شوق عشق کے درجہ تک برپا ہوا تھا۔ اور یہاں تک کمال حاصل ہوچکا تھا کہ ایک عام جلسے میں پرنسپل صاحب بہادر نے آپ کی طباعی پر آفرین کی۔ اور اعلیٰ قابلیت کے صلے میں ایک طلائی تمغہ عنایت فرمایا۔ ۱۸۵۴ء میں آپ کی اور بھی منزلت افزائی ہوئی۔ اور آپ کالج کے فزکس اور میتھمیٹکس (علمِ طبعی اور ریاضی) کی پروفیسری پر ممتاز ہوئے۔ یہ رُتبہ اب تک کسی ہندوستانی کو نہ نصیب ہوا تھا۔ اِس عہدۂ جلیلہ کے فرائص کو بھی آپ نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ آپ کے فیضانِ صحبت و تعلیم سے ہزارہا طلبا تہذیب و علم مغربی کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ اس دس برس کے عرصے میں آپ حالت ملازمت میں رہے۔ آپ کا وقت عزیز صرف مدرسے میں طلبا کی تعلیم ہی میں نہیں صرف ہوتا تھا۔ اِسی عرصے میں آپ کی کوشش سے بمبئی میں باوجود سخت مخالفت کے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول جاری کیا گیا۔ اس زمانے کی بہت سی سوشل، تعلیمی، لٹریری اور مذہبی کارروائیوں کے بانی مبانی اور تحریک دلانے والے آپ ہی تھے۔ یہاں تک کہ بمبئی کی لٹریری اور سائنٹفک سوسائٹی بمبئی ایسوسی ایشن، فرامجی کائوس جی انسٹیٹیوٹ، ایرانی فنڈ، پارسی جمینزیم، وکٹوریا اینڈ البرٹ عجائب خانہ قائم کرنے کا افتخار آپ ہی کو حاصل ہے۔ غرضیکہ شہر میں کوئی ایسی علمی سوسائٹی یا پولٹیکل جماعت نہ تھی۔ جس کو کہ آپ سے فیض نہ پہنچا۔ ۱۸۵۱ء میں آپ نے زبانِ گجراتی میں ایک ہفتہ وار اخبار ’’راست گفتار‘‘ سوشل، مذہبی اور تعلیمی اصلاح کی تلقین کی غرض سے نکالا۔ دو برس تک آپ نے نہایت جفاکشی اور مستعدی سے اُس کی ایڈیٹری کی اور اپنے زورِ قلم کا سکہ جما دیا۔ اخبار کی عمدہ ترتیب اور چھپائی اور عالمانہ ایڈیٹوریل مضامین کی وجہ سے پرچے کی مالی حالت کو بھی بہت ترقی ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت جو بمبئی کے ورینکلر پریس (دیسی اخبار) کو آپ سبس ے بہتر حالت میں دیکھتے ہیں۔ بمبئی کی عورتیں کلکتہ اور مدراس وغیرہ سے جو زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اور سوشل اصلاح کا نیک اثر بمبئی پر دیگر مقامات سے جو زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ سب آپ ہی کی جانفشانی، مشقت اور کوششوں کے طفیل سے ہے۔ ۱۸۵۵ء میں آپ میسرز کاما اینڈ کمپنی کے ایجنٹ ہوکر انگلستان تشریف لے گئے۔ باوجود اِس امر کے کہ ہنوز آپ کی تجارتی معاملات میں ذاتی اور عملی تجربہ مطلق نہ تھا۔ لیکن آپ کی ہمہ دانی اور دیانت داری کا اعتقاد اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ سوداگران مذکور نے آپ کو اپنا شریک کار بھی کرلیا۔ وہاں بھی آپ مُلک کی خدمت سے غافل نہ رہے۔ اور آپ نے لنڈن انڈین ایسوسی ایشن قائم کی۔ اس زمانے میں جو جو رسالے اور مضامین کہ آپ نے تحریر فرمائے۔ اور جس قدر لیکچر کہ آپ نے جابجا دیے۔ اُن سب کے تذکرے کی اس موقعہ پر گنجایش نہیں۔ آپ کی محنت کا اندازہ ان واقعات سے ہوسکتا ہے کہ آپ صبح ۹بجے مکان سے نکل جایا کرتے تھے اور تمام دن ہندوستانی مسائل پر گفتگو اور تقریر کا سلسلہ جاری رکھ کر دس بجے رات کو گھر تشریف لاتے تھے۔ ۱۸۶۷ء میں اس سوسائٹی کے مقاصد کو اور زیادہ وسعت دی گئی اور ایک ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن قائم کی گئی۔ جس میں کہ ہندوستان کے پنشن خوار انگریز بھی شریک کیے گئے جو فوائد کہ مُلک کو اِن پولٹیکل جماعتوں سے حاصل ہوئے وہ سب پر عیاں ہیں۔ اس کارخانے کی جس کی طرف سے آپ ولایت بھیجے گئے تھے۔ تمام تجارتی پیچیدگیوں کو حل کرنے اور ان دونوں سوسائٹیوں کے کاروبار کے انجام دینے ہی پر آپ کی مشکل پسند طبیعت نے اکتفا نہ کیا۔ یونی ورسٹی کالج میں زبان گجراتی کی پروفیسری، سینٹ کی ممبری، انشورنس کمپنی کی ڈائرکٹری ، سکرٹری آف سٹیٹ سے ہندوستانی پیچیدہ پولٹیکل مسائل کے متعلق متواتر خط و کتابت،ا ہل برطانیہ کی ہندوستانی معاملوں پر غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی کوششیں اور ہندوستان کے مصائب کو اہل لندن پر ظاہر کرنے کے لیے عام تقریریں آپ کے مزید مشاغل سے تھے۔ بارہ برس کے عرصے کے قیام میں آپ کی دیانت داری خوش معاملگی اور راست بازی کا یہاں بھی سکہ جم گیا بدقسمتی سے انھیں ایام میں اتفاقاً آپ کو تین لاکھ روپے کا خسارہ ہوا۔ تجار کی حیثیت سے بھی آپ کا وقار بہت بڑھا ہوا تھا۔ اور کچھ رفیقوں کی قرضے کی صورت میں مالی امداد اور کچھ اپنی ذاتی محنت و مشقت سے بہت ہی قلیل عرصے میں اس نقصانِ عظیم کی جوں توں کرکے تلافی ہوگئی۔ ۱۸۶۹ء میں آپ وطن واپس آئے۔ ملک اور قوم کی نگاہ میں آپ کا جو وقار تھا۔ وہ محتاجِ بیان نہیں۔ یہاں اُن کی آمد پر بڑی تعظیم و تکریم اور توضع مدارات کی گئی۔ عام جلسے قرار دیے گئے۔ جن میں ہر قوم و ملت کے ہزارہا لوگ شریک ہوئے۔ اس موقع پر آپ کے ہم وطنوں نے علیٰ قدرِ حیثیت مالی امداد بھی کی۔ لیکن آپ کی غیرت اور عالی ہمتی نے یہ گوارا نہ کیا کہ آپ اس کا ایک حبہ بھی اپنے ذاتی تصرف میں لاتے۔ کل روپیہ رفاہِ عام میں خرچ کردیا۔ ۱۸۷۳ء میں آپ دوبارہ ولایت تشریف لے گئے سال ہی بھر بعد آپ کو ۱۸۷۴ء میں مہاراجہ صاحب بڑودہ نے اپنا مدار المہام مقرر کرنے کے لیے منتخب کیا اس تجویز کو لارڈ نارتھ بروک صاحب بہادر نے بھی پسند فرمایا۔ آپ کے مقرر ہوتے ہی کُل خود غرض امرا و رؤسا آپ کے درپے آزار ہوگئے۔ اِدھر اُدھر شکایتیں، درخواستیں اور عرضیاں دوڑائی گئیں۔ لیکن آپ حسبِ عادت نیک نیتی اور جفا کشی سے اپنے فرائضِ منصبی کو ادا کرتے رہے۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بد اعمال حاسدوں کو اپنے کیے کا ثمرہ مل گیا۔ اور سب نکال باہر کیے گئے۔ رفتہ رفتہ آپ کا اِس قدر وقار بڑھا کہ لارڈ نارتھ بروک صاحب بہادر نے آپ کی موجودگی میں ریذیڈنٹ کی بھی وہاں ضرورت نہ سمجھی۔ کُل سیاہ اور سفید کا اختیار آپ کو مل گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد بحکمِ ضروت آپ کو اس عہدے سے بھی علیحدہ ہونا پڑا۔ بڑودہ سے واپس آکر آپ دو برس تک بمبئی کارپوریشن کے ممبر رہے۔ اور اُس کے کاروبار کو انجام دیتے رہے۔ یہاں بھی آپ نے اپنی معاملہ فہمی کا سب کو قائل بنا دیا۔ آپ نے اسی زمانے میں کارپوریشن کے حساب و کتاب میں ایک ایسی غلطی پکڑی جس سے کارپوریشن کا چھ لاکھ پونڈ کا نقصان ہوتا تھا۔ اعزاز پر اعزاز نصیب ہوتا گیا۔ اگست ۱۸۸۵ء میں لارڈ صاحب بہادر نے آپ کو اپنی کونسل کا ایڈیشنل ممبر مقرر کیا۔ اس موقعہ پر کُل ہندوستان نے یک زبان ہوکر خوشیاں منائیں۔ یہ سال کانگریس کی پیدایش کا سال تھا۔ اس کی کارروائیوں میں آپ نے بہت بڑا حصہ لیا۔ اور آپ اس کے پریذیڈنت قرار دیے گئے۔ آغاز ۱۸۸۶ء میں آپ پھر انگلینڈ کو بغرض ممبری پارلیمنٹ روانہ ہوئے۔ گو کہ بوجوہ آپ کو اِس مرتبہ کامیابی نہ ہوئی۔ لیکن انھیں سو پچاس ووٹ کا مل جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ باوجود اختلاف سخت کے آزار رائے اور راستی پسند لوگوں کو آپ کے ساتھ کس قدر ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ دسمبر ۱۸۸۶ء میں آپ ہندوستان واپس آئے اور کلکتہ کانگریس کے دوسرے اجلاس کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے۔ آغاز ۱۸۸۷ء میں بمبئی سروس کمیشن میں آپ اپنی رائے پیش کرکے ولایت دوبارہ پارلیمنٹ کی ممبری کی خواہش سے گئے۔ اگلی ناکامیابی سے ہمہ نہ ہار کر اس مرتبہ آپ نے دو چند کوشش کی۔ اور ہائوس آف کامنز کے باقاعدہ ممبر ہوگئے۔ جو گرمجوشیاں کہ آپ نے اپنی ممبری کے زمانے میں ہندوستانی مسئلوں کی گتھیاں سلجھانے میں دکھلائیں۔ ان کے احسانات سے ہندوستان مدت تک سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ تین ہی برس کے عرصے میں آپ نے حتی الوسع کوئی دقیقہ نہا ُٹھا رکھا۔ امتحان سول سروس کے پھر دوسرے سال ہندوستان میں ہونے کی تجویز پیش کرائی۔ انڈین پارلیمنٹری کمیٹی بہ امداد سر ولیم ویڈر برن صاحب اور مسٹر ڈبلیو سی کین صاحب قائم کی۔ یہ آپ ہی کی بارہا تاکید اور ترغیب کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے مُلکی اخراجات کی جانچ کے لیے رائل کمیشن۱؎ کی ممبری پر ممتاز ہونے کا افتخار حاصل ہوا۔ اس کمیشن میں جو بیانات کہ آپ کے تھے۔ اُن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے تمدنی مسائل پر آپ کو کس قدر عبور ہے۔ آپ کو اپنے مطالب غیر زبان میں ادا کرنے میں کتنا ملکہ اور آپ کے دل میں حُبِّ قومی کس قدر موجزن ہے؟ دسمبر ۱۸۹۴ء میں آپ لاہور کی نویں کانگریس میں پریذیڈنٹ مقرر کیے جانے کے لیے مدعو کیے گئے اثنائے راہ میں جہاں کہیں کہ آپ قیام پذیر ہوئے آپ کا استقبال اور دعوت شاہانہ انداز سے ہوئی۔ لاہور میں تو اس قدر دلی جوش تھا کہ لوگ آپ کی گاڑی کو خود ہاتھوں سے کھینچ ۱- حکومت انگلستان کی طرف سے ہندوستان کے انتظام کی تحقیقات کے لیے ایک سرکاری وفد آیا تھا۔ کر آپ کو خیمے تک لے گئے۔ اس موقعہ پر سر ولیم ہنٹ رصاحب نے اخبار ٹائمز میں آپ کے خصائل ستودہ اور اعلیٰ قابلیت کی بہت تعریف کی۔ افسوس کہ عین خوشی کے زمانے میں آپ کے اکلوتے لڑکے نے داغِ مفارقت دیا یہ لڑکا بھی ہونہار تھا۔ اور ڈاکٹری کے فن میں بہت نام پیدا کرچلا تھا۔ نوجوان ہونہار لڑکے کی وفات کا قلق کچھ ایسا ویسا نہیں ہوتا۔ لیکن آفرین ہے کہ آپ کے تحمل اور ہمت کو کہ باوجود سخت ملال اور اندوہ کے آپ مُلک کی خدمت گزاری اُسی مستعدی سے کرتے رہے۔ ۱۸۹۵ء میں آپ پارلیمنٹ کی ممبری سے علیحدہ ہوئے۔ لیکن اپنے مُلک کی بہبودی کے لیے مرتے دم تک بدل و جان ساعی رہے۔ سوالات ۱- بحالت طالب علمی مسٹر دادا بھائی نوروجی کے ولایت جانے میں کیا رُکاوٹ حائل ہوئی؟ ۲- ولایت میں رہ کر جو خدمات مسٹر دادا بھائی نوروجی نے انجام دیں۔ ان کو مختصر طور پر بیان کرو۔ ۳- ان کے زندگی کے حالات پڑھ کر تم کیا سبق سیکھ سکتے ہو؟ ۴- (ا) مندرجۂ ذیل کلمات گریمر کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ زہے۔ مبذول۔ قائل۔ فرشتہ۔ صفت۔ تعلیم یافتہ۔ روش۔ بود و باش (ب) والدہ اور ستودہ میں ہ کیسی ہے؟ …٭…٭…٭… ۷- جوگی کل صبح کے مطلقِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا مستانہ ہوائے گلشن تھی جانانہ ادائے گلبن تھی ہر وادی وادیِ ایمن۱؎ تھی ہر کوہ پر جلوۂِ طور ہوا جب بادِ صبا مضراب بنی ہر شاخ مثالِ رباب بنی شمشاد و چنار ستار بنے ہر سرد و سمن طنبور ہوا سب طائر مل کر گانے لگے عرفان کی تانیس اُڑانے لگے اشجار بھی وجد میں آنے لگے دلکش وہ سماعِ طیور ہوا سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ سرور چھائی تھی بن میں گلشن میں آنگن میں فرشِ سنجاب و سمور ہوا تھا دلکش منظرِ دشت و جبلا ور چال صبا کی مستانہ اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظرؔ دیوانہ چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے پربت پر چھائونی چھائی تھی تھے خیمے ڈیرے بادل کے کوہر نے قنات لگائی تھی یہاں برف کے تودے گلتے تھے چاندی کے فوارے چلتے تھے چشمے سیماب اُگلتے تھے نالوں نے دھوم مچائی تھی یہاں قُلّۂ کوہ پہ رہتا تھا اک مست قلندر بیراگی تھی راکھ جٹوں میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی ۱- کوہِ طور کی وادی کو وادیِ ایمن کہتے ہیں تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر تھی ایک لنگوٹی زیب کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی سب خلقِ خدا سے بیگانہ وہ مست قلندر دیوانہ بیٹھا تھا جوگی مستانہ آنکھوں میں مستی چھائی تھی جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر میں نے سلام کیا تب آنکھ اُٹھا کر ناظر سے یوں بن باسی نے کلام کیا کیوں بابا! ناحق جوگی کو تم کس لیے آکے ستاتے ہو ہم پنکھ پنکھیرو بن باسی تم جال میں آن پھنساتے ہو کوئی جھگڑا دال چپاتی اک کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا کا تم ہم کو سُنانے آتے ہو ہم حرص و ہوا کو چھوڑ چکے اس نگری سے منہ موڑ چکے ہم جو زنجیریں توڑ چکے تم لاکے وہی پہناتے ہو تم پوجا کرتے ہو دھن کی ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی ہم جوت جگاتے ہیں من کی تم اُس کو آکے بجھاتے ہو سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے من میں ساجن کا ڈیرا ہے یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے تم کس سے آنکھ ملاتے ہو اُس مست قلندر جوگی نے جب ناظر کو یہ عتاب کیا کچھ دیر تو ہم خاموش رہے پھر جوگی سے یہ خطاب کیا ’’ہیں ہم پردیسی سیلانی مت ناحق طیش میں آ جوگی ہم آئے تھے تیرے درشن کو چتون پر میل نہ لا جوگی آبادی سے منہ پھیرا کیوں پربت میں کیا ہے ڈیرا کیوں ہر محفل میں ہر منزل میں ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی کیا مسجد میں کیا مندر میں سب جلوہ ہے وجہ اللہ کا پربت میں نگر میں ساگر میں ہر اُترا ہے ہر جا جوگی جی شہر میں خوب بہلتا ہے وہاں حُسن پہ عشق مچلتا ہے واں پریم کا ساگر چلتا ہے چل دل کی پیاس بجھا جوگی واں دل کا غنچہ کھلتا ہے ہر رنگ میں موہن ملتا ہے چل شہر میں سنکھ بجا جوگی بازار میں دھونی رما جوگی‘‘ ’’ان چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اُس پہ نہ تیل گرا بابا ہے شہروں میں غل شور بہت اور حرص و ہوا کا زور بہت بستے ہیں نگر میں چور بہت سادھو کی ہے بن میں جا بابا ہے شہر میں شورشِ نفسانی جنل میں ہے جلوۂ رُوحانی ہے نگری ڈگری کثرت کی بن وحدت کا دریا بابا ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں راجا کے نہ دوارے جاتے ہیں پرجا کی نہیں پروا بابا سر پر آکاش کا منڈل ہے دھرتی پہ سہانی مخمل ہے دنم کو سُورج کی محفل ہے شب کو تاروں کی سبھا بابا جب جھوم کے یہاں گھن آتے ہیں مستی کا رنگ جماتے ہیں چشمے طنبور بجاتے ہیں گاتی ہے ملار ہوا بابا یاں پنچھی مل کر گاتے ہیں پیتم کے سندیس سناتے ہیں یاں رُوب انوب دکھاتے ہیں پھل پھول اور برگ گیا بابا ہے پیٹ کا ہر دم دھیان تمہیں اور یاد نہیں بھگوان تمہیں سل پتھر اینٹ مکان تمہیں دیتے ہیں سکھی سے چھڑا بابا تن من کو دھن میں لگاتے ہو پیتم کو دل سے بھلاتے ہو ماٹی میں لال گنواتے ہو تم بندۂ حرص و ہوا بابا دھن دولت آنی جانی ہے یہ دنیا رام کہانی ہے یہ عالم عالمِ فانی ہے باقی ہے ذاتِ خدا بابا جناب چودھری خوشی محمد صاحب ناظر سوالات ۱- ان الفاظ کے معانی بتائو: مطلعِ تاباں۔ بقعۂ نور۔ وادیِ ایمن۔ جلوۂ طور۔ سماع طیور۔ ۲- جوگی نے بن باس اختیار کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں۔ اُن کا خلاصۂ مطلب بیان کرو۔ ۳- ترکیب نحوی کرو: تم پوجا کرتے ہو دھن کی ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی ۴- اس نظم میں سے اسم ظرفِ مکان اور زمان کی مثالیں الگ الگ بتائو۔ نیز بتائو ظرفِ زمان غیر محدود کی کون کون سی مثالیں ہیں؟ …٭…٭…٭… ۸- زبان کی تمیز اور اُس کا فرق زبان تو وہی ایک گوشت کی بوٹی ہے۔ جو دانتوں کی چار دیواری میں تالو کی چھت کے نیچے بل مارتی پھرتی ہے۔ کبھی تو ہونٹوں کے پھاٹک میں درّانہ آکھڑی ہوتی ہے۔ کبھی گردن نکال کر اِدھر اُدھر کچھوے کی طرح جھانکنے لگتی ہے۔کبھی میٹھی چیز کا مزہ لیتی ہے کبھی کھٹے اور کڑوے سے منہ بناتی ہے۔ کوئی اُسے لسان کہتا ہے۔ کوئی جیب۔ کوئی تیل کہتا ہے۔ کوئی ٹنگ۔ کسی نے للو کہہ لیا۔ کسی نے رسنا۔ مگر ہماری مراد اس جگہ روزمرہ کی بول چال یا ہر مُلک کی بھاکا سے ہے۔ اس میں خواہ عورتوں کی بولی ہو۔ خواہ مردوں کی۔ گنواروں کی گفتگو ہو یا شہر والوں کی۔ لکھنؤ کی لغت تراشی اور متانت ہو۔ یا دہلی کی سادگی اور سلاست۔ قلعۂ معلّیٰ کی معاملہ بندی ہو۔ یا ثقات کی لطیفہ گوئی، شہدوں کا پھکڑ ہو یا آزادوں کی بدلگامی پیشہ وروں کی اصطلاحیں ہوں یا دلالوں کی رمزیں۔ بچوں کا اُوں اُوں اور مم کرنا یا بیگموں کا نت نت اور جم جم کہنا۔ یہ ساری باتیں ہماری اُس زبان میں داخل ہیں۔ جس کا ہمیں بیان کرنا منظور ہے عام زبان کسی خاص قوم یا خاص شہر سے مخصوص نہیں ہے۔ یہی زبان ہے کہ جانوروں کے منہ میں ہے اور یہی زبان ہے کہ آدمیوں کے دہن میں۔ اگر بلبل اپنے چہکنے سے خوش ہے تو کوا بھی کائیں کائیں میں مگن ہے۔ کوئل کوک کو اچھا جانتی ہے تو مور جھنکارنے کو عمدہ سمجھتا ہے۔ مینڈک ٹرانے میں مست ہے تو جھینگر جھیں جھیں میں۔ پپہیا پی پی سے دل بہلاتا ہے تو فاختہ کُو کُو سے جی خوش کرتی ہے۔ کتا بھونکنے کو بھلا سمجھتا ہے۔ تو شیر دھاڑنے کو پسند کرتا ہے۔ اونٹ کو برانا بھاتا ہے تو بجار کو ڈکرانا پسند ہے غرض ایک دوسرے کی زبان اور لہجہ کو بحیثیت مجموعی ہم بُرا نہیں کہہ سکتے۔ کس لیے کہ ہر ایک کی زبان بجائے خود عمدہ اور بہتر ہے۔ جو کام فصیح آدمی اپنی زبان سے لیتے ہیں۔ وہی غیر فصیح اور جانور بھی اپنی زبان سے لیتے ہیں۔ زبان کیا ہے منشائے دلی کے اظہار کرنے کا آلہ ہے ایک زمانہ ہوگا کہ ہم لوگ آنکھوں یا ہاتھوں کے اشارے سے کام لیتے ہوں گے۔ پھر ایک زمانہ وہ ہوگا کہ ہم نے صرف اسموں سے کام نکالا ہوگا۔ اب ایک زمانہ یہ ہے کہ ہم نے اسماء افعال روابط وغیرہ کو مِلا جُلا کر ایک عمدہ تسلسل پیدا کرلیا۔ اور اپنے مفہوم کو اس طرح ادا کرنے لگے کہ سامع کو کسی طرح کی دقت نہ رہی۔ اب اگر ہم طاقتور، شہ زور اور کسی جنگل یا پہاڑ کے محنت کش باشندے ہوں گے تو ہمارا ایک ایک لفظ اور ایک ایک کلمہ جرأت، طاقت، سختی، اکھڑپن، غصب و خشونت کا جامعہ پہنے ہوئے ہوگا۔ حاکم سے بھی بولیں گے تو اکڑ کر ہی بولیں گے۔ اخلاص کی بات بھی کریں گے تو ایسی جیسے پتھر کھینچ مارا۔ اس میں بھی اگر بانگر میں ہماری بود و باشد ہوگی تو ہم سب سے زیادہ کرخت لفظ زبان سے نکالیں گے۔ اور جو کھادر میں تو اس سے دوسرے درجہ پر ہمارے الفاظ ہوں گے اور جو ہم دال چپاتی کے کھانے والے ناز پروردہ عیش منانے والے ہوں گے اور کبھی ریاضت کے پاس نہ پھٹکے ہوں گے تو ہماری بات بات سے مسکینی، غربت، عاجزی، سستی اور کاہلی ٹپکے گی۔ اُوپر کی بحث سے ثابت ہوا کہ کوئی ولایت کیوں نہ ہو۔ اس میں دو طرح کی زبان اور دو طرح کے الفاظ ہوں گے۔ بعض الفاظ میں صرف لہجہ کا فرق ہوگا بعض میں اصلیت کا۔ اس میں سے ایک زبان اکھڑ اور سخت کے نام سے جسے گنواری کا جفا کش لوگوں کی بولی کہہ سکتے ہیں مشہور ہوگی۔ دوسری ملائم اور نرم جسے شہری زبان کے نام سے موسوم کرنا بے جا نہ ہوگا تعبیر کی جائے گی۔ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ بارہ بارک کوس فاصلے پر زبان بدل جاتی ہے۔ مگر خاص شہر میں بھی دو طرح کی زبان ہوتی ہے۔ ایک عام لوگوں کی جسے متعصب لوگ زبانِ جہلا یا ادنیٰ آدمیوں کی بولی کہتے ہیں۔ دوسری خاص لوگوں کی جسے زبانِ شعراء یا فصحا کہتے ہیں۔ شعراء کی زبان میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی عام محاورے پسند کرتا ہے۔ کوئی خاص۔ جیسے اُستاد ذوق اور حضرتِ غالب۔ اب ان شہروں میں بھی فرق ہے۔ جو شہر کسی بادشاہ کا مدت تک دار الخلافہ رہا ہوگا۔ اس کی زبان اور شہروں کی نسبت عمدہ اور زیادہ شائستہ خیال کی جائے گی۔ باعتبار زبان تو ہر ایک زبان کا مرتبہ ایک ہی ہے مگر اس لحاظ سے کہ دار السلطنت میں آکر ہر ایک لفظ سانچے میں ڈھلتا اور خراد۱؎ چڑھتا ہے۔ اُسے سب پر ترجیح دے سکتے ہیں اس بات کے ثبوت میں ہزاروں دلیلیں موجود ہیں۔ اگر کوئی کشمیرزا ہندوستان کی زبان کو بُرا بتائے یا کوئی ہندی نژاد اصفہان کی زبان کو ٹکسال باہر ٹھیرائے تو کوئی تسلیم کرے گا؟ اب رہی یہ بات کہ زبان کی عمدگی کن باتوں پر منحصر ہے۔ سو یہ ہم کیا تمام عالم کھلے خزانے کہہ رہا ہے۔ کہ زبان کی خوبی اُس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ بڑے بڑے معنی پر موقوف ہے۔ جو لفظ جہاں چسپاں ہو۔ وہیں نگینہ کی طرح جڑا ہو۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی سمجھ میں آجائے۔ سو یہ بات زیادہ تر عورتوں کی زبان میں پائی جاتی ہے۔ یا ان لوگوں کی بول چال میں جنھوں نے اپنے ماں باپ کی روزمرہ کو معیوب نہ سمجھ کر اُس کے چھوڑ دینے پر کمر نہ باندھی ہو۔ اپنی اصل پر خود بھی قائم رہے ہوں۔ اور زبان کو بھی جوں کا توں بنا رکھا ہو۔ اگرچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اوروں کی زبان کی حرف گیری کرتے ہیں وہ بھی گھر میں جاکر اپنے بال بچوں کے ساتھ وہ گفتگو نہیں کرتے جو باہر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اُن کی تحریر میں بھی وہ لفاظی، سجع بندی، قافیہ پیمائی، خود رائی پائی جاتی ہے۔ جسے سُن کر خواہ مخواہ آدمی کی طبیعت اُلجھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی بات بناوٹ اور آورد سے خالی نہیں ہوتی۔ اور اُن کا کلام محض بے لطف اور بے اثر ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ عربی کے غیر مستعمل لغت ٹھونس ٹھونس کر بھر دیتے ہیں۔ اگر کوئی عبارت لکھنے بیٹھے تو دس بیس لغت کی کتابیں آگے رکھ لیں اور اپنی بے معنی علمیت جتانے کو بڑے بڑے لفظ چن کر اُس عبارت میں داخل کرتے چلے گئے۔ اور اُس کا نام زبانِ علمی رکھ لیا۔ عربی لفظوں کو اس طرح بھرا کہ ایک ایک بات کے چار چار مترادف ٹھیرا کر لکھ دیے۔ اُن کی بلا سے کوئی سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے۔ کسی نے اس عبار ت کو مجذوب کی بڑ جانا۔ اور کسی نے بلائے جان سمجھا اگر وہ اخبار ہے تو پڑیاں بندھیں۔ اور اگر کتاب ہے تو لڑکوں نے پٹاخے بنائے۔ ۱- اصل خرّاد زبان فارسی، خراط بزبان عربی، مگر روزہ بول میں خراد آتا ہے۔ جس طرح زبان کی خوبی سلاست پر موقوف ہے اُسی طرح اُس کی تکمیل ہر قسم کے الفاظ کی دستیابی اور کسی طرح کی روک نہ ہونے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنے مُلک کی سخت الفاظ سے پرہیز کریں۔ اور اُن کو اپنی زبان پر نہ آدنے دیں۔ تو سخت کاموں کے واسطے کہاں سے لفظ لائیں گے۔ اور سخت آلات کا نام کن کن لفظوں سے دھریں گے۔ ایسے لفظوں سے پرہیز کرنا زبان کو آیندہ ترقی سے باز رکھنا ہے۔ ہاں غیر زبان کے اُن لفظوں کا استعمال کرنا جو بالکل ہمارے کانوں سے جدا زبان سے ناآشنا ہوں۔ کسی طرح کارآمد نہ ہوگا۔ بلکہ اگر وہ لفظ ہمارے قواعد اور لہجہ کے موافق ڈھالیں جائیں گے۔ تو بھی پورا پورا مطلب نکالنے پر قادر نہ ہوں گے۔ مگر پچھلی صورت جب تک اپنی زبان سے کوئی لفظ بنایا جائے اور اُس کی کامل ترقی ہو کام نکالنے کے لیے اچھی ہے۔ پہلی صورت کے مصداق ہمارے ہندوستان میں اُس شہر کے لوگ ہیں جہاں کے نوکر چاکر تک جن کو آٹھ پہر اُن لوگوں سے کام پڑتا ہے۔ اپنے آقا کی بولی نہیں سمجھ سکتے۔ اُن کی زبان پر عربی فارسی کے وہ لفظ چڑھے ہوئے ہیں۔ جو شاید امیروں کے سوا اور لوگ لکھنے میں بھی مستعمل نہ کرتے ہوں گے اور وہ بھی لکھتے ہوں گے تو لغت سامنے رکھ کر۔ پرانی زبان کو جو تنزل ہوا ہے۔ اُس کا بڑا سبب یہی ہے کہ غیر مانوس الفاظ کا رواج پانا، دوسرے مُلک کے ایسے لفظوں کو جن کا ثانی اپنے مُلک میں موجود ہو داخل زبان کرنا۔ سخت سخت مخارج کے لفظوں کو فخریہ اپنی زبان پر چڑھانا۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا، سہل الخروج لفظوں کو خیال میں نہ لانا، علیٰ ہذا القیاس اور بھی ایسے ہی باعث ہوئے ہیں کہ جہاں کوئی کرخت اور سخت لفظ لوگوں کی زبان سے نہ نکلا یا تو اُس کو بالکل ترک کردیا۔ یا کچھ سے کرلیا۔ اور زبان کے آسان لفظ دیکھ کر اپنی زبان میں ملا لیے۔ سخت زبان صرف کتاب ہی میں دھری رہ گئی۔ ایک زمانہ تھا کہ تمام ہندوستان میں سنسکرت پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ میں اُس سے ملتی جلتی ایک اور زبان بولی جانے لگی۔ اُس کے بعد پراکرت کا جھنڈا قائم ہوا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بھاکا اور پھر اُردو زبان کا رواج ہوگیا۔ اور قدیمی زبان ایسی گم ہوگئی جیسے عنقا۔ البتہ سنسکرت کے وہ الفاظ جو ہماری زبان سے آسانی کے ساتھ نکل سکتے تھے۔ آج تک جوں کے توں قائم ہیں اور جو الفاظ اس زمانے میں پنڈتوں کے سوا اور لوگوں کی زبان سے صاف ادا نہیں ہوسکتے تھے یا تو وہ صرف کتابوں میں ہیں یا اُنھوں نے کوئی اور صورت قبول کرلی۔ یعنی کہیں سے کوئی حرف کرا دیا۔ کہیں کسی حرف کو کسی حرف سے بدل دیا اور اپنا مطلب نکال لیا۔ ایک ہی ملک میں ایک زبان کے ہوتے جو دوسری زبان کا رواج ہوجاتا ہے۔ اُس کا سبب بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلی زبان اپنی سخت کے باعث ناگوار گزرنے لگتی ہے۔ دیکھو سنسکرت کے زمانے میں پالی اور پراکرت نے اپنا جھنڈا گاڑ ہی دیا۔ ژند و پاژند کے وقت میں دری کا نقشہ جم ہی گیا۔ عبرانی کے وقت میں عربی نکل ہی آئی۔ اسی طرح ہر ایک ملک میں ہوتا آیا ہے اور اکثر سخت زبانوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ جناب سید احمد دہلوی مرحوم سوالات ۱- ان اصطلاحات ک ی اس طرح تشریح کرو کہ ان کے مطالب کا فرق سمجھ میں آجائے۔ لطیفہ گوئی۔ پھکڑ۔ بدلگامی۔ معاملہ بندی۔ رمز ۲- سکونت اور اردگرد کے حالات لوگوں کی زبان اور لب و لہجہ پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟ اس کے متعلق جو جو کچھ مصنف نے لکھاہے۔ اپنے الفاظ میں لکھو۔ ۳- اس سبق میں سے حاصل مصدر فارسی اور اُردو کی جماعت بندی کرو۔ ۴- مندرجۂ ذیل الفاظ کی جمع بتائو: ثقہ۔ فصیح۔ ربط۔ سامع۔ حاکم۔ حکم۔ شاعر۔ شعر …٭…٭…٭… ۹- ریچھ کا بچہ کل راہ میں جاتے جو ملا ریچھ کا بچہ لے آئے وہیں ہم بھی اُٹھا ریچھ کا بچہ سو نعمتیں کھا کھا کے پلا ریچھ کا بچہ جس وقت بڑھا ریچھ ہوا ریچھ کا بچہ جب ہم بھی چلے ساتھ چلا ریچھ کا بچہ تھا ہاتھ میں اِک اپنے سوا من کا جو سونٹا لوہے کی کڑی اُس پہ کھڑکتی تھی سراپا کاندھے پر چڑھا جھولنا اور ہاتھ میں پیالا بازار میں لے آئے دکھانے کو تماشا آگے تو ہم اور پیچھے تھا وہ ریچھ کا بچہ تھا ریچھ کا بچہ پہ وہ گہنا جو سراسر ہاتھوں میں کڑے سونے کے بجتے تھے جھمک کر کانوں میں دُر اور گھنگرو پڑے پائوں کے اندر وہ ڈور بھی ریشم کی بنائی تھی جو پُر زر جس ڈور سے یارو تھا بندھا ریچھ کا بچہ اِک طرف کو تھیں سینکڑوں لڑکوں کی پکاریں اِک طرف کو تھیں پیرو جوانوں کی قطاریں کچھ ہاتھیوں کی قیق اور اُونٹوں کی ڈکاریں غل شور ، مزے بھیڑ ، ٹھٹھ ، انبوہ بہاریں جب ہم نے کیا لا کے کھڑا ریچھ کا بچہ کہتا تھا کوئی ہم سے میاں آئو قلندر وہ کیا ہوئے اگلے جو تمھارے تھے وہ بندر ہم اُن سے یہ کہتے تھے یہ پیشہ ہے مچھندر ہاں چھوڑ دیا ، بابا! اُنھیں جنگلے کے اندر جس دن سے خدا نے یہ دیا ریچھ کا بچہ مُدّت میں اب اس ریچھ کو ہم نے ہے سدھایا لڑنے کے سوا ناچ بھی ہے اس کو سکھایا یہ کہہ کے جو ڈھپلی کے تئیں گت پہ بجاتا اِس ڈھب سے اُسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا جب سب کی نگاہوں میں کھبا ریچھ کا بچہ پھر ناچ کے وہ راگ بھی گایا تو وہاں واہ پھر کہروا ناچا تو ہر اِک بولی زبان واہ ہر چار طرف سنیے کہیں پیرو و جواں واہ سب ہنس کے یہ کہتے تھے میاں واہ واہ کیا تم نے دیا خوب نچا ریچھ کا بچہ اس ریچھ کے بچہ میں تھا اس ناچ کا ایجاد کرتا تھا کوئی قدرتِ خالق کے تئیں یاد ہر کوئی یہ کہتا تھا خدا تم کو رکھے شاد اور کوئی یہ کہتا تھا ، ارے واہ رے استاد تو بھی جئے اور تیرا سدا ریچھ کا بچہ جب ہم نے اُٹھا ہاتھ کڑوں کو جو ہلایا خم ٹھونک پہلواں کی طرح سامنے آیا لپٹا تو یہ کشتی کا ہنر آن دکھایا جو چھوٹے بڑے جتنے تھے اُن سب کو رجھایا بھی نہ تھکے اور نہ تھکا ریچھ کا بچہ جب کشتی کی ٹھیری تو وہیں سر کو جو جھاڑا للکارتے ہی اُس نے ہمیں آن لتاڑا گہ ہم نے پچھاڑا اُسے ، گہ اُس نے پچھاڑا اِک ڈیڑھ پہر ہوگیا کشتی کا اکھاڑا گو ہم بھی نہ ہارے نہ ہٹا ریچھ کا بچہ کہتا تھا کھڑا کوئی جو کر آہ آ ہا ہا اِس کے تمہیں اُستاد ہو واللہ آ ہا ہا یہ سحر کیا تم نے تو ناگاہ آ ہا ہا کیا کہیے غرض آخرش اے واہ آ ہا ہا ایسا تو نہ دیکھا نہ سُنا ریچھ کا بچہ حضرت نظیر اکبر آبادی مرحوم سوالات ۱- ریچھ اور قلندر کی لڑائی کا جو نظارہ شاعر نے نظم کیا اُسے سلیس اُردو نثر میں لکھو۔ مگر یہ خیال رہے تمام تفصیلات بیان ہوجائیں۔ ۲- اگر ہوسکے تو بندر کے تماشے کا بیان جس کو تم نے اکثر دیکھا ہوا اسی طرح نظم کرو۔ ورنہ اس کی کیفیت دلچسپ عبارت میں لکھ دو۔ ۳- ترکیب نحوی کرو:ع: ہر کوئی یہ کہتا تھا خدا کو تم رکھے شاد ۴- اس سبق میں مرکب اضافی کی کون کون سی مثالیں ہیں؟ …٭…٭…٭… ۱۰- دیا سلائی کیا تم نے کبھی اِس امر پر غور کیا کہ آگ ہمارے کتنے اور کیسے بڑے بڑے کاموں میں استعمال ہوتی ہے؟ ذرا اُس دنیا کا نقشہ اپنے تصور میں باندھ کر دیکھو۔ جس میں آگ کا وجود نہ ہو۔ فرض کرو کہ موسمِ سرما میں کسی روز جب ہم صبح کو بیدار ہوں اور سردی کا سخت زور ہو۔ اور اس وقت دُنیا میں ہر کہیں آگ بجھی ہوئی ہو یا ہمارے پاس آگ جلانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ یا یوں سمجھ لو کہ ہم آگ جلانا ہی بھول گئے ہوں تو اُس وقت ہماری کیا حالت ہوگی؟ ہم سب سردی کے مارنے ٹھٹھرنے لگیں گے کیونکہ انگیٹھیوں، بھٹیوں اور الائوں سے ہمیں مطلق حرارت نہ حاصل ہوسکے گی۔ ہمیں بہت جلد بھوک محسوس ہونے لگے گی۔ پر ہم کھانا تیار نہ کرسکیں گے۔ ہم سب بیکار ہوجائیں گے۔ پتلی گھروں کے کام بند ہوجائیں گے۔ بیوپار اور تجارت رُک جائیں گے۔ رات کے وقت ہم تاریکی میں راستہ ٹٹولتے پھریں گے۔ کیونکہ آگ کے بغیر نہ تو ہم لیمپ سے کام لے سکیں گے۔ اور نہ گیس اور بجلی سے۔ اس حالت میں یہ معلوم کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ آگ کی عدم موجودگی میں روشنی اور حرارت دونوں چیزوں کے حاصل نہ ہونے سے انسان کی زندگی سخت افسوسناک اور مصیبت سے بھری ہوئی ثابت ہونے لگے۔ دُنیا میں کوئی وقت نہیں گزرا جب کہ آگ موجود نہ رہی ہو۔ ہاں ایک ایسا وقت ضرور گزرا ہے جب کہ انسان آگ جلانے کا طریقہ نہیں جانتا تھا۔ جب اُسے آگ جلانے کا طریقہ معلوم ہوگیا تو مُدّتِ مدید کے بعد وہ اُسے بہت سہل سمجھنے لگا۔ آج کل ہم بلا دِقت آگ جلا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں بآسانی ’’دیا سلائی‘‘ دستیاب ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ’’دیا سلائی‘‘ دُنیا کی سب سے زیادہ عجیب چیزوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور انسان کو اس کے بنانے کا طریقہ سیکھنے میں ہزارہا سال گزارنے پڑے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ’’دیا سلائی‘‘ کیا چیز ہے۔ مگر بہت کم لوگ اس کی تاریخ سے واقف ہوں گے۔ آئو ہم اس کے تاریخی پہلو پر غور کریں۔ سب سے پہلے انسان کو آگ براہِ راست قدرت سے مہیا ہوئی تھی جب کسی پاس کے آتش فشاں پہاڑ سے نکلی ہوئی چنگاریوں کے ذریعہ سے جنگل میں آگ لگ جائے۔ یا بجلی گرنیس ے کسی درخت میں سے شعلے نکلنے لگیں۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قدرت کی جلائی ہوئی ’’دیا سلائی‘‘ ہے۔ دُنیا کی ابتدائی تاریخ میں ہر قسم کی آگ قدرت ہی کو جلانی پڑتی تھی۔ کیونکہ انسان اپنی کوشش سے ایک چنگاری بھی پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ آگ حاصل کرنے کا ابتدائی طریقہ انسان کے لیے یہ تھا کہ وہ کسی شعلے میں جو قدرت نے کسی آتش فشاں پہاڑ یا بجلی کے ذریعے سے جلایا ہو۔ لکڑیاں سُلگا لاتا تھا۔ اس طرح پر سُلگائی ہوئی لکڑیاں گھر لے جاکر اُن کی مدد سے آگ جلائی جاتی تھی۔ اُسے بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اور حتی الامکان کوشش کی جاتی تھی کہ وہ بجھنے نہ پائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ خواہ آگ کی کتنی ہی حفاظت کی جائے وہ کبھی نہ کبھی ضرور بجھ جاتی ہوگی۔ آندھی چلنے یا پانی برسنے سے اُس کا بجھ جانا بالکل قرینِ قیاس ہے۔ ایسی حالتوں میں دوبارہ لکڑیاں سلگا کر لانی پڑتی تھیں۔ اور اِس مطلب کے لیے بسا اوقات طویل سفر طے کرنے اور سخت مصائب جھیلنے پڑتے تھے۔ رفتہ رفتہ دنیا کے کسی حصہ میں کسی شخص کو ایک ایسا طریقہ معلوم ہوا جس کے ذریعے وہ خاطی طور پر آگ حاصل کیے بغیر آگ جلا سکتا تھا۔ اِس کا مطلب صاف الفاظ میں یہ ہوسکتا ہے کہ اُس نے مصنوعی طور پر آگ جلانے کا طریقہ معلوم کرلیا۔ وہ پہلے ہی سے یہ بات جانتا تھا کہ اگر ہاتھوں کو زور زور سے ملا جائے تو وہ گرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اُس نے تجربہ سے یہ بات معلوم کی کہ اگر خشک لکڑی کے دو ٹکڑوں کو آپس میں رگڑا جائے۔ تو انہیں بھی بہت گرم کیا جاسکتا ہے۔ اس تجربہ سے اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ ممکن ہے کہا گر لکڑی کے دو ٹکڑوں کو آپس میں رگڑا جائے تو انھیں بھی بہت گرم کیا جاسکتا ہے۔ا س تجربہ سے اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر لکڑی کے دو ٹکڑوں کو آپس میں زور سے رگڑا جائے تو آگ پیدا ہوجائے؟ پس اُس نے بالکل خشک لکڑی کا ایک ٹکڑا زمین پر رکھ کر اُس کی سطح کو دوسری چھڑی کے نوکدار سرے سے یہاں تک رگڑا کہ اُس میں ایک نالی بن گئی۔ رگڑنے کے عمل کے دوران میں اُس نالی کے اندر ایک قسم کی لکڑی کا برادہ جمع ہوگیا۔ اس پر بھی وہ تیزی اور سختی کے ساتھ لکڑیوں کو رگڑتا گیا۔ حتیٰ کہ وہ برادہ جو نالی میں جمع ہوگیا تھا۔ دہکنے لگا۔ اس دہکتے ہوئے برادہ پر اُس نے تھوڑی سی خشک گھاس رکھی اور اس کے بعد یہاں تک پھونکیں مارتا رہا کہ اُس میں شعلہ پیدا ہوگیا۔۱؎ یہ پہلا موقعہ تھا کہ انسان نے اپنے لیے خود آگ جلائی۔ شاید ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ’’دیا سلائی‘‘ کی ابتدائی تھی ہاں اُسی ’’دیا سلائی‘‘ کی ابتدا جو تاریخ عالم میں سب سے بہترین ایجاد کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ سہولت کی غرض سے آگ جلانے کے اس طریقہ کا نام ہم چھڑی کے ذریعے سے لکڑی میں نالی تیار کرنا رکھ لیتے ہیں۔ واقعی یہ طریق آگ کو محفوظ رکھنے اور اس کے لیے جابجا پھرنے کے طریقے سے زیادہ اچھا تھا۔ لیکن اس پھر بھی وہ ایک بہت بھدا اور غیر موزوں طریقہ تھا۔ اس مطلب کے لیے بالکل خشک لکڑی درکار ہوتی تھی۔ اور رگڑنے کا عمل صبر کے ساتھ بہت دیر تک جاری رکھنا پڑتا تھا۔ بعض اوقات ایک چنگاری پیدا کرنے میں کئی گھنٹے صرف ہوجاتے تھے۔ ایک عرصۂ دراز کے بعد کسی شخص نے یہ بات دریافت کی کہ لکڑی کو اُوپر نیچے لے جا کر رگڑنے سے یہ طریقہ بہتر ہے کہ اُسے ایک ہی جگہ رکھ کر گھمایا جائے اس طرح گھمانے سے نیچے کی لکڑی میں ایک سوراج پیدا ہوجاتا تھا۔ اور رگڑ کے ذریعہ سے جو حرارت پیدا ہوتی تھی۔ اس سوراج کے ہی کے اندر مرکوز رہا کرتی تھی۔ ابتداً چھڑی کو گھمانے کا عمل ہاتھ کی ہتھیلیوں سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سے ہاتھوں کو تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا۔ آگ جلانے والوں نے ہتھیلیوں کی بجائے چھڑی کو ایک رسی یا تسمہ کے ذریعہ سے گھمانا شروع کیا۔ جس چھڑے سے برمی کا کام لیا جاتا تھا۔ اُس کا بالائی سرا دانتوں میں دبایا جاتا تھا۔ اگر تم اس طرح آگ جلانے کا تجربہ کرکے دکھو تو معلوم ہوگا کہ برمے کی حرکت سے جبڑوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ ان دونوں مذکورہ بالا طریقوں میں آگ رگڑ کے ذریعہ سے پیدا کی جاتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانہ کے تمام لوگ اسی رگڑ کے طریقہ سے کام لیتے تھے اور اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں وحشی قومیں اسی سے کام لیتی ہیں۔ ۱- مسٹر والٹر ہوبھی اس امر کی تصدیق کریت ہیں کہ محض دو لکڑیوں کو رگڑنے سے آگ پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس عمل سے صرف اسی قدر ہوسکتا ہے کہ وہ دہکنے لگیں۔ آگ جلانے کے سلسلے میں دوسرا قدم اُس وقت اُٹھایا گیا۔ جب یہ بات دریافت ہوئی کہ پتھر لوہے اور خام دھات کو ایک دوسرے سے ٹکرانے سے آگ کا شرارہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کا اصول یہ تھا کہ چمقماق (آتشیں پتھر) کا ایک ٹکڑا خام لوہے کے ایک ٹکڑے سے ٹکرایا جاتا تھا۔ اور اس عمل سے متعدد شرارے نکلتے تھے۔ اگر ان شراروں کو خشک کاہی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں یا یا کوئلہ کے سفوف میں گرنے دیا جائے تو فوراً آگ پیدا ہوجاتی ہے لیکن مخفی نہ رہے۔ کہ اس طرح پر جو آگ پیدا ہوتی ہے۔ اُس میں سے شعلے نہیں نکلتے بلکہ وہ صرف دہکنے لگتی ہے۔ اب اگر اس دہکتی آگ پر خشک لکڑی رکھ کر پنکھے سے ہوا کریں یا پھونکیں ماریں تو شعلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر لکڑی کے ٹکڑے کو دہکتی آگ میں ڈالنے سے پیشتر گندھک میں ڈبو لیا جائے تو فوراً شعلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ آگ جلانے کا وہ طریقہ تھا جو رگڑ سے آگ پیدا کرنے کے طریقہ کے بعد مروّج ہوا۔ اور فی الحقیقت یہ ایک اصلاح یافتہ طریقہ تھا۔ کیونکہ اس میں آگ جلانے کے لیے نہ صرف کم محنت کرنی پڑتی تھی بلکہ وقت بھی بہت کم صرف ہوتا تھا۔ اُس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۱) ایک قسم کی ڈبیا (ٹنڈر بکس) جس میں کاہی کے کٹے ہوئے ٹکڑے اور کوئلہ کا سفوف وغیرہ موجود ہو (۲) ایک ٹکڑا فولاد۔ (۳) ایک ٹکڑا چقماق (۴) گندھک لگی ہوئی تیلیاں چقماق اور فولاد کو آپس میں ٹکرایا جاتا تھا اور اس طرح جو شرارے پیدا ہوتے تھے۔ وہ اُس ڈبیا میں گرائے جاتے تھے۔ جس میں کاہی کے ٹکڑے اور کوئلہ کا سوف ہوتا تھا۔ شرارے ڈبیا میں گرتے ہی دہکنے لگتے تھے۔ اُس کے بعد فوراً گندھک لگی ہوئی تیلی اس دہکتی آگ میں ڈال دی جاتی تھی جو فوراً روشن ہوجاتی تھی۔ اس کے جلتے ہی اس موم بتی کو جلا لیا جاتا تھا جو ٹنڈر بکس پر لگی رہتی تھی تیل میں آگ لگتے ہی ٹنڈر بکس کو بند کردیا جاتا تھا تاکہ دہکتا ہوا مصالح بجھ جائے۔ اور پھر دوسرے وقت کام میں لایا جاسکے۔ آگ جلانے کا یہ طریقہ اب سے ہزارہا برس قبل دریافت ہوا تھا۔ اور دنیا کی قریب قریب تمام مہذب اقوام۱؎ اسے اپنے اپنے وقت میں استعمال کرچکی ہیں۔ ۱- قدیم اہل یونان آتشی شیشہ کے ذریعے سے آگ جلایا کرتے تھے آفتاب کی شعاعیں شیشہ کے اندر سے گزر کر کسی چیز پر مرکوز ہوتی تھیں۔ جس میں بآسانی آگ لگ جاتی تھی۔ لیکن آتشی شیشہ کا ’’دیا سلائی‘‘ کے ارتقا سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ اس طریقہ کو چھوڑے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اب بھی بہت لوگ ایسے ہوں جنھیں وہ وقت یاد ہوگا جب کہ فولاد چقماق اور ٹنڈر بکس کا استعمال ہر گھر میں ہوا کرتا تھا۔ اب سے کوئی ۳۰۰سال قبل آگ جلانے کا ایک اور طریقہ دریافت ہوا۔ اگر گندھک کے تیزاب کی تھوڑی سے مقدار کلوریٹ آف پوٹاش اور کھانڈ کے مرکب پر ڈالی جائے تو چمکدار شعلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ آگ جلانے کا ایک نیا طریقہ دریافت کرنے کے لیے یہ ایک اشارہ تھا۔ چنانچہ آخرکار سترھویں صدی میں وائنا کے ایک سمجھدار شخص نے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ ٹنڈر بکس کے ہمراہ جو گندھک لگی ہوئی تیلیاں استعمال کی جاتی تھیں اُس نے اُن میں سے ایک تیلی لے کر اُسے گندھک کے تیزاب میں ڈبویا۔ اور اُس کے بعد اُسے کلوریٹ آف پوٹاش اور کھانڈ کے مرکب میں ڈالا اس کے بعد کیا ہوا؟ تیلی میں فوراً آگ لگ گئی اور شعلہ پیدا ہوگیا۔ یہ طریقہ آگ پیدا کرنے کے پہلے دونوں طریقوں سے مختلف تھا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہوتی تھی کہ چند کیمیائی اجزا کو ایک دوسرے سے ملا دیا جائے۔ پھر ان میں خودبخود آگ لگ جاتی تھی۔ مطلب یہ کہ کیمیائی طریق پر آگ پیدا ہوجاتی تھی۔ وائنا کے اِس شخص کی دریافت کی بدولت لوگوں کی توجہ نئی قسم کی دیا سلائی (یعنی کیمیائی دیا سلائی) کی طرف رجوع ہوئی۔ اب آگ جلانے کے لیے جن اشیا کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ حسب ذیل تھیں: ایک بوتل گندھک کے تیزاب کی، ایک بنڈل تیلیوں کا جن کے سروں پر گندھک اور کلوریٹ آف پوٹاش اور کھانڈ کا مرکب لگا ہوا ہو۔ اس قسم کی دیا سلائیوں پر بہت زیادہ لاگت آتی تھی۔ یعنی قریباً پندرہ روپیہ میں سو دیا سلائیاں تیار ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ یوں بھی غیر طمانیت بخش تھیں۔ بسا اوقات جب تیلی کو تیزاب میں ڈالا جاتا تھا تو اُس میں آگ نہ لگتی تھی۔ اور وہ دہک دہک کر تیزاب کو اِدھر اُدھر اُڑانے لگتی تھی۔ اس سے کپڑے بھی خراب ہوتے تھے۔ اور تیزاب بھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہویں صدی میں اس قسم کی دیا سلائیوں کو صرف وہی لوگ استعمال کیا کرتے تھے۔ جن کو یہ پسند تھیں۔ یا جو انھیں خریدنے کی توفیق رکھتے تھے عام طور پر ٹنڈر بکس کے ذریعہ سے آگ جلانے کا طریقہ رائج رہا۔ آخرکار اُنیسویں صدی یا یوں کہنا چاہیے کہ اُس صدی میں جس کے اندر بہت سی عجیب و غریب دریافتیں عمل میں آئیں۔ دیا سلائی کے ارتقا میں چوتھا قدم اُٹھایا گیا۔ ۱۸۲۷ء کا ذکر ہے کہ انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں جان واکر نامی ایک دوا فروش نے تیلیوں کے سروں پر گندھک، کلوریٹ آف پوٹاش اور سلفائیڈ آف انٹی منی کا مرکب لگا کر اُنھیں ریگ مال پر رگڑا تیلیان فوراً جلنے لگیں۔ یہ رگڑنے والی کیمیائی دیا سلائی وہ تھی۔ جس کا استعمال کم وبیش اصلاح کے ساتھ ہم آج تک کرتے ہیں۔ اسے رگڑنے والی کیمیائی دیا سلائی اِس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اسے چند کیمیائی ادویہ کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ جان واکر کی دیا سلائی کے لیے ایسڈ کی بوتل درکار نہ ہوتی تھی۔ تاہم وہ اچھی قسم کی دیا سلائیاں نہ تھیں۔اُنھیں صرف اُسی صورت میں جلایا جاسکتا تھا کہ خوب زور سے رگڑا جائے۔ اس کا شعلہ پھرپھڑانے لگتا تھا۔ اور ہر طرف آگ گرتی تھی۔ اس کے چند سال بعد اینٹی منی کی بجائے تیلیوں پر فاسفورس لگایا جانے لگا۔ اس سے دیا سلائی کی صنعت میں انقلابِ عظیم واقع ہوا۔ اب دیا سلائی معمولی رگڑ سے روشن کی جاسکتی تھی۔ اب اس میں پھڑپھڑاہٹ بھی باقی نہ رہی تھی۔ یہی وہ فاسفورس کی دیا سلائی تھی۔ جس سے ہم سب اچھی طرح آشنا ہیں۔ جب اس طرح پر آسانی سے جلنے والی فاسفورس کی دیا سلائیاں ایجاد ہوگئیں۔ تو پھر تیزاب میں تیلی ڈبو کر یا ٹنڈر بکس کے ذریعہ آگ جلانے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ آگ جلانے کے پرانے طریقوں کو لوگ فراموش کرتے گئے۔ اس قسم اس قسم کی دیا سلائیاں بارہ آنے فی پیکٹ کے حساب سے فروخت ہوتی تھیں۔ایک پیکٹ میں ۱۴۴ دیا سلائیاں ہوا کرتی تھیں۔ بہت کم لوگ ان کے استعمال کی توفیق رکھتے تھے۔ مگر اب ایک پیسہ میں عمدہ قسم کی سو دیا سلائیاں خریدی جاسکتی ہیں۔ اب ان کا رواج اس قدر عام ہوگیا ہے کہ صرف صوبجات متحدہ امریکہ میں تخمیناً ………۱۵ دیا سلائیاں ہر سال استعمال ہوتی ہیں۔ یعنی فی کس ۵دیا سلائی روزانہ۔ فاسفورس کی دیا سلائی میں ایک نقص ضرور ہے اور وہ یہ کہ اس میں آگ فوراً لگ جاتی ہے۔ اگر فرش پر کہیں ایک دیا سلائی پڑی رہ جائے۔ تو ممکن ہے کہ اس پر کسی شخص کا قدم پڑنے یا کوئی چیز گرنے سے اس میں آگ لگ جائے۔ ممکن ہے کہ بے خبری میں ہمارا پائو ں فاسفورس کی دیا سلائی پر پڑ جائے اور وہ جلنے لگے۔ اور ہم اُسے جلتا ہوا چھوڑ کر چلے آئیں اور گھر میں آگ لگ جائے۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ چوہوں نے فاسفورس کی دیا سلائی کو کترا ہے اور وہ جلنے لگیں اور اس طرح مکان میں آگ لگ گئی۔ ایک شہر کا ذکر کرتے ہیں۔ جسمیں تیس تباہی خیز آتشزدگیاں صرف چوہوں کے دیا سلائی کترنے سے واقع ہوئی تھیں۔ ان دیا سلائیوں کے حوادث سے محفوظ رہنے کے لیے کچھ مدت سے ’’سیفٹی دیا سلائیاں‘‘ ایجاد ہوئی ہیں۔ ان دیا سلائیوں میں فاسفورس نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے ایک قسم کی باریک ریت میں مبلا کر اس ڈبیا کے پہلو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جس میں دیا سلائیاں رکھی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک ان دیا سلائیوں کو ان کے خاص بکس پر نہ رگڑا جائے وہ نہیں جلتیں۔ یہ دیا سلائیاں فاسفورس کی معمولی دیا سلائیوں سے اس قدر بہتر ہیں کہ دن بدن فاسفورس کی دیا سلائیوں کی مانگ کم ہوتی جارہی ہے۔ او ربعض ممالک میں اس قسم کے قوانین نافذ ہوچکے ہیں کہ سیفٹی دیا سلائی کے علاوہ کسی اور قسم کی دیا سلائی فروخت نہ کی جائے۔ آگ جلانے کی طویل تاریخ میں سیفٹی دیا سلائی کا ایجاد آخری قدم ہے۔ ابتداً آگ رگڑ سے پیدا کی جاتی تھی۔ اور اب ہمارے زمانہ میں بھی رگڑ ہی سے پیدا کی جاتی ہے۔ مگر ذرا غور کیجیے کہ دونوں طریقوں میں کس قدر فرق ہے۔ برمے کے ذریعے آگ پیدا کرنے یا چھڑی کو لکڑی پر رگڑ کر آگ جلانے کے لیے فرصت اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ لیکن سیفٹی دیا سلائی کے ذریعہ سے ایک بچہ بھی ایک لمحہ میں آگ جلا سکتا ہے۔ لیکن ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ اس قسم کی عمدہ دیا سلائی تیار کرنے میں کتنا زمانہ صرف ہوا ہے۔ اس سادہ اور چھوٹی سی سیفٹی دیا سلائی کے ایجاد سے پیشتر دخانی انجمن، تار، ٹیلیفون اور برقی روشنی وغیرہ چیزیں مستعمل ہوچکی تھیں۔ سوالات ۱- الفاظِ ذیل کے معانی بتائو: الائو۔ پُتلی گھروں۔ آتش فشاں پہاڑ۔ چقماق ۲- چقماق، گندھک کی دیا سلائی اور سیفٹی (محفوظ) دیا سلائی میں کیا فرق ہے؟ ان میں ہر ایک کے متعلق وہی معلومات بیان جو ان کے متعلق اس مضمون میں پڑھی ہیں۔ ۳- پتھر سے چنگاری پیدا کرنے کے زمانے سے موجودہ نازک اور محفوظ دیا سلائی کے زمانے تک انسان نے آگ جلانے کے علم میں جو ترقیاں کیں۔ اُن کو درجہ وار بتائو۔ ۴- استفہام کے اقسام بیان کرو۔ا ور بتائو اس سبق میں ہر ایک کی کون کون سی مثال ہے؟ ۵- مندرجہ ذیل میں سے مذکر و مؤنثر جدا کرو: حرارت۔ استعمال۔ تجارت۔ تاریخ۔ قیاس۔ سطح۔ ابتدا۔ سفوف۔ فولاد …٭…٭…٭… ۱۱- ستارہ قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو مآلِ حُسن کیا مِل گئی خبر تجھ کو زمیں سے دُور دیا آسماں نے گھر تجھ کو مثالِ ماہ اُڑھائی قبائے زر تجھ کو غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے تمام رات تری کانپتے گذرتی ہے چمکنے والے مافر ! عجب یہ بستی ہے جو اَوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے اجل۱؎ ہے لاکھوں ستاروں کی ایک ولادتِ مہر فنا۲؎ کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ڈاکٹر سر محمد اقبال، ایم-اے بیرسٹر ایٹ لا سوالات ۱- ستارے اور چاند اور صبح کے طلوع کا خوف کیوں ہے؟ ۲- اس حقیقت کو جو اس مصرعے میں بیان کی گئی ہے۔ دوسری مثالوں سے واضح کرو: ۱- سورج کے نکلتے ہی ستارے نظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ گویا سورج کی پیدایش ستاروں کی موت ہے۔ ۲- دن کے بعد رات اور زندگی کے بعد فنا ایک قدرتی ذریعۂ آرام ہے۔ ’’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘‘ ۳- اس شعر کا مطلب عام فہم عبارت میں لکھو: اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اِک ولادتِ مہر فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے ۴- ترکیب نحوی کرو۔ ع چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے ۵- جملہ ندائیہ کی تعریف کرو۔ اور اُس کے اجزا کے نام بتائو۔ …٭…٭…٭… ۱۲- ایمان کا فیصلہ (۱) کانپور کے ضلع میں پنڈت بھرگودت مصر ایک بڑے زمیندار تھے۔ منشی ست نرائن لعل اِن کے مختارِ عام تھے۔ ساری ریاست کا سیاہ و سفید ان کے ہاتھ میں تھا۔ بڑے آقا پرست متدین آدمی تھے۔ لاکھوں روپیہ کا تحصیل وصول اور ہزاروں من غلہ کا لین دین انجام دیتے تھے۔ اور سارا انتظام اِس خوبصورتی سے کرتے کہ ریاست روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ ایسے وفا کیش ملازم کی جتنی عزت ہونی چاہیے تھی وہ ہوتی تھی۔ شادم و غم کی ہر ایک تقریب میں پنڈت جی ان کے ساتھ چشمی سے پیش آتے تھے۔ رفتہ رفتہ اُن پر اتنا اعتبار ہوگیا کہ کاغذات کا سمجھنا بھی ترک کردیا۔ خانگی مصارف کا حساب تک منشی جی کے ذمے کردیا گیا۔ اسی اثنا میں پنڈت جی بڑی سیر مرگِ بے ہنگام کے شکار ہوئے۔ گنگا نہانے گئے تھے۔ معلوم نہیں کسی گڑھے میں پھسل پڑے یا کوئی جانور کھینچ لے گیا۔ اُن کا پھر پتہ نہ چلا۔ اب منشی ست نرائن لال کے اختیارات اور وسیع ہوئے۔ بجز ایک بیوہ عورت اور دو تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے خاندان میں اور کوئی نہ تھا۔ مراسمِ وفات سے فرصت پانے کے بعد ایک روز بدنصیب بھان کنور نے اُنھیں بلایا۔ اور رو کر بولی: ’’لالہ! سوامی جی تو ہمیں منجدھار چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ڈونگا تمھیں پار لگائو تو لگ سکتا ہے۔ یہ سب کھیتی تمھاری لگائی ہوئی ہے اُسے تمھارے اُوپر چھوڑتی ہوں۔ یہ تمھارے بچے ہیں اُن کا منہ دیکھو۔ جب تک تمھارے مالک جئے۔ تمھیں اپنے بھائی سمجھتے رہے۔ مجھے بشواس ہے کہ تم اُسی طرح اِ س بوجھ کو سنبھالے رہو گے۔‘‘ ست نرائن لال نے روتے ہوئے جواب دیا: ’’بھابھی! بھیا کیا اُٹھ گئے۔ میری تقدیر پھوٹ گئی۔ نہیں تو مجھے آدمی بنا دیتے۔ میں اُنھیں کا جلایا جیا ہوں۔ اور اُنھیں کی چاکری میں مروں گا۔ آپ اطمینان رکھیں۔ کسی طرح کا اندیشہ نہ کریں۔ میں مرتے دم تک آپ کا حق نمک ادا کروں گا۔ آپ صرف اتنا کیجیے گا کہ میں جس کارندہ یا ملازم کی آپ سے شکایت کروں۔ اُس کو تنبیہ ضرور کردیجیے گا۔ ورنہ یہ لوگ شیر ہوجائیں گے۔‘‘ (۲) اس حادثہ کے بعد کئی سال تک منشی ست نرائن نے اس ریاست کو سنبھالا۔ کبھی کسی معاملہ میں ایک کوڑی کا بل نہیں پڑا۔ سارے ضلع میں انھیں کا رسوخ تھا۔ لوگ پنڈت جی مرحوم کو بھول سے گئے دوباروں میں، کمیٹیوں میں انھیں کو دعوت ملتی۔ حکامِ ضلع ان سے اس طرح پیش آتے۔ گویا وہ زمیندار ہیں ضلع کے دیگر رئوسا ان کا ادب اور لحاظ کرتے مگر روز افزوں وقار اور رسوم کے ساتھ مصارف بھی بڑھتے جاتے تھے۔ اور بھان کنور دوسری عورتوں کی طرح جز رس تھی۔ انسانی طبائع کی پیچیدگیوں سے واقف نہ تھی پنڈت جی مرحوم ہمیشہ انھیں انعام و اکرام عطا کرتے رہتے تھے۔ اور عنایات کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ روحانی طاقت کے بعد ایمان کا دوسرا ستون فارغ البالی ہے۔ اس کے سوا وہ خود کبھی کبھی کاغذا ت کی جانچ کرلیا کرتے تھے۔ برائے نام ہی سہی۔ مگر اس سے نگرانی کا خوف بنا رہتا تھا۔ کیونکہ طبعی خیانت کے بعد ایمان کا سب سے بڑا دشمن موقع ہے۔ بھان کنور یہ چٹکلے نہ جانتی تھی موقع اور احتیاج جیسے مہلک دشمنوں میں پڑ کر منشی کی دیانت کیونکہ جانبر ہوسکتی تھی۔ کانپور شہر سے متصل ایک بہت آباد اور زرخیز موقع تھا عین گنگا کے کنارے، پنڈت جی اس گائوں کی حسرت لیے ہوئے دنیا سے کوچ کرگئے۔ پختہ گھاٹ اور مندر اور باغ اور بنگلہ کی آرزو اُن کے دل ہی میں رہی۔ اتفاق سے اب یہ موضع بیع ہوا۔ اس کے زمیندار ایک ٹھاکر صاحب تھے۔ کسی فوجداری کے معاملہ میں ماخوذ ہوگئے تھے۔ مقدمہ کی پیروی کے لیے زرِ نقد کی اشد ضرورت تھی۔ منشی جی اپنے منصبی فرائض کے سلسلہ میں کچری گئے ہوئے تھے۔ ٹھاکر صاحب نے اس کا ذکر کیا۔ منشی جی کو منہ مانگی مراد ملی۔ اُسی وقت مول جول ہوا۔ بیع نامہ لکھا گیا۔ رجسٹری ہوئی۔ داخل خارج کی درخواست پیش ہوگئی۔ گو روپے موجود نہ تھے مگر شہر میں ساکھ تھی۔ ایک مہاجن سے رقعہ لکھ کر بیس ہزار روپے سکورے اور ٹھاکر صاحب کے نذر کیے۔ ہاں سہولت کے خیال سے یہ سب معاملہ اپنے ہی نام طے کیا۔ کیونکہ نابالغوں کے نام سے بیع کرانے میں قانونی پیچیدگیاں ہوتیں اور تاخیر سے شکار ہاتھ سے نکل جاتا۔ منشی جی اُس دن خوش خوش بیع نامہ لیے ہوئے بھان کنور کے پاس آئے۔ پردہ کرایا اور جاکر یہ مژدہِ جانفزا سنایا۔ بھان کنور نے آنسوئوں سے شکریہ ادا کیا۔ پنڈت جی کے نام پر پختہ گھاٹ، مندر اور بنگلہ بنوانے کی یاد تازہ ہوگئی۔ منشی ست نرائن لال دوسرے دن اس موضع میں گئے۔ اسامی حاضر ہوئے۔ نذریں گذاریں۔ ایک پُرتکلف دعوت دی گئی۔ حکام اور رئوسائے شہر مدعو ہوئے اور کشتیوں کی خوب سیر رہی۔ (۳) حالانکہ اس موضع کو اپنے نام سے خریدنے وقت منشی کے دل میں دغا کا ذرا بھی خیال نہ تھا۔ لیکن دو ہی چار دنوں میں اس کے اکھوے نکل آئے۔ اس موضع کے آمد و خرچ کا حساب وہ علیحدہ لکھا کرتے اور اُسے اپنی مالکن کو سمجھانے کی مطلق ضرورت نہ سمجھتے۔بھان کنور یوں بھی ان معاملات میں زیادہ دخل دینا مصلحت کے خلاف سمجھتی تھی۔ اس معاملہ میں بالخصوص اُسے منشی جی کے جذبات کا بہت زیادہ لحاظ تھا۔ کہ کہیں اُنھیں یہ اندیشہ نہ ہو کہ میں اُن سے بدگمان ہوں۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ اور اب رفتہ رفتہ دونوں فریق کے دلوں میں چور بیٹھا۔ بھان کنور کو خوف ہوا کہ کہیں یہ سارے کا سارا موضع ہضم کرنے کی فکر میں تو نہیں ہیں۔ ادھر قانونی طاقت منشی جی کے اخلاقی احساس پر غالب آئی۔ اُنھوں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ موضع میرا ہے۔ زیادہ سے زیادہ میں بیس ہزار کا مقروض ہوں۔ کوئی بہت کرے گا اپنے روپے لے لے گا۔ اس کے سوا کوئی کیا کرسکتا ہے۔ مگر یہ آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ منشی جی پیش قدمی کے انتظار میں مسلح بیٹھے تھے۔ اور بھان کنور موقع کی منتظر تھی۔ ہاں تیر و تفنگ سے محترز رہنا چاہتی تھی۔ ایک روز اُس نے منشی جی کو اندر بلا کر کہا ’’لالہ جی! برگدا میں مندر کا کام کب سے شروع ہوگا۔ اُسے لیے ہوئے آٹھ سال ہوگئے۔ اب کام لگ جائے تو اچھا ہو۔ زندگی کا کیا اعتبار جو کام کرنا ہے اُسے کر ہی ڈالنا چاہیے۔‘‘ حملہ کا آغاز نہایت خوش اسلوبی سے ہوا۔ منشی جی بھی دل میں اُس کے قائل ہوگئے۔ ذرا سوچ کر بولے : ’’ارادہ تو میرا کئی بار ہوا مگر موقع کی زمین نہیں ملتی۔ گنگا کے کنارے کی ساری زمین اسامیوں کے جوت میں ہے۔ اور وہ کسی طرح چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔‘‘ بھان کنور: ’’یہ بات تو مجھے آج معلوم ہوئی۔ آٹھ سال ہوئے۔ اس گائوں کا آپ نے کبھی بھولے سے بھی تو ذکر نہیں کیا۔ معلوم نہیں کتنی تحصیل ہے کتنا منافع۔ کیسا گائوں ہے کچھ سیر ہوتی ہے یا نہیں۔ جو کچھ کرتے ہیں آپ ہی کرتے ہیں اور کریں گے۔ لیکن کچھ مجھے بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔‘‘ منشی جی سنبھل بیٹھے۔ مبارزانہ پیش قدمی شروع ہوگئی۔ بولے: ’’آپ کو اس سے کچھ تعلق نہ تھا۔ اس لیے میں نے خواہ مخواہ آپ کو دق کرنا مناسب نہ سمجھا۔‘‘ بھان کنور کو سکتہ سا ہوگیا۔ پردہ سے باہر ہوگئی۔ اور منشی جی کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’یہ آپ کیا کہتے ہیں۔ آپ نے گائوں میرے لیے لیا تھا۔ یا اپنے لیے۔ روپیہ میں نے دیا یا آپ نے۔ اس پر جو کچھ خرچ پڑا۔ وہ میرا یا آپ کا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ اس وقت ہوش میں ہیں۔‘‘ ست نرائن لال نے سُن کر جواب دیا: ’’یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ موضع میرے نام سے بیع ہوا۔ روپیہ ضرور آپ کا لگا۔ مگر اس کا میں دیندار ہوں۔ رہا تحصیل وصول کا خرچ۔ یہ سب میں نے ہمیشہ جیب سے کیا ہے۔ اس کا حساب کتاب، آمد و خرچ ہمیشہ الگ رکھتا ہوں۔‘‘ بھان کنور نے غصہ سے بل کھا کر کہا۔ اس دغا کا پھل آپ کو ضرور ملے گا۔ آپ اس طرح میرے بچوں کا گلا نہیں کاٹ سکتے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ نے پیٹ میں یہ چھری چھپا رکھی ہے۔ نہیں تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔ خیر اب سے میرا روکڑ اور کاغذات آپ کچھ نہ چھوئیں۔ میرا جو کچھ ہوگا۔ میں آپ سے لے لوں گی۔ یہ کہہ کر بھان کنور پھر پردہ کی آڑ میں آ بیٹھی۔ لالہ صاحب کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ خفیف ہوکر وہاں سے اُٹھ آئے۔ اور دفتر میں جاکر کچھ کاغذات اُلٹ پلٹ کرنے لگے۔ مگر بھان کنور اُن کے پیچھے پیچھے مردانے میں چلی آئی۔ اور ڈانٹ کر بولی: ’’میرا کوئی کاغذ مت چھونا۔ ورنہ بُرا ہوگا۔ تم زہر بھرے ہوئے سانپ ہو۔ میں تمھارا منہ دیکھنا نہیں چاہتی۔‘‘ لالہ صاحب کاغذوں میں کچھ ترمیم کرنا چاہتے تھے مگر یہ حسرت دل ہی دل میں رہ گئی۔ خزانہ کی کنجی نکال کر پھینک دی۔ بہی کھاتے پٹک دیے۔ کواڑ دھڑاکے کے ساتھ بند کیا اور ہوا کی طرح سن سے باہر نکل گئے۔ دوسرے مختاروں کارندوں نے یہ کیفیت سنی تو پھولے نہ سمائے۔ منشی ست نرائن کے سامنے اُن کی دال نہ گلنے پاتی تھی۔ آکر آگ پر تیل چھڑکنے لگے۔ ’’نمک عجیب چیز ہے۔ پھوٹ پھوٹ کر نکلے گا۔‘‘ طرفین سے مقدمہ بازی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک طرف قانون کا قالب تھا۔ دوسری جانب قانون کی رُوح۔ مادہ کو رُوح سے پیکار کرنے کا حوصلہ ہوا تھا۔ بھان کنور نے منشی چھکن لال سے پوچھا: ’’ہمارا وکیل کون ہے؟‘‘ چھکن لال نے اِدھر اُدھر جھانک کر کہا: ’’وکیل تو سیٹھ جی تھے۔ مگر ست نرائن لال نے اُنھیں پہلے ہی گانٹھ رکھا ہے۔ اس مقدمہ کے لیے بہت ہوشیار آدمی درکار ہے۔ مہرا بابو کی آج کل خوب چل رہی ہے حاکموں کی قلم پکڑ لیتے ہیں۔ بولتے ہیں تو جیسے موٹر کار چھوٹ گیا۔ حضور اور کیا کہوں۔ مجرموں کو پھانسی سے اُتار لیا ہے۔ اُن کے سامنے کوئی وکیل تو زبان کھول ہی نہیں سکتا۔ حضور فرمائیں تو اُنھیں کو کرلیا جائے۔‘‘ اس طولانی تمہید کا اثر کچھ نہ ہوا۔ بھان کنور نے کہا: پہلے سیٹھ جی سے پوچھ لیا جائے۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ آپ جائیے اور اُنھیں بلا لائیے۔ چھکن لال نے زیادہ حیل و حجت نہیں کی۔ سیٹھ جی کے پاس جاکر پیغام دیا۔ سیٹھ جی پنڈت بھرگودت کے زمانے سے یہاں کے قانونی مشیر تھے۔ مقدمہ کی کیفیت سُنی تو حیرت میں آگئے۔ ست نرائن لال کو وہ نیک نیت آدمی سمجھتے تھے۔ اُسی وقت آئے۔ بھان کنور نے خود اُن سے مقدمہ کی روئداد بیان کی۔ اور اُن پر اپنے بچوں کے بہت حقوق جتانے کے بعد اس معاملے کو فوراً ہاتھ میں لینے کی استدعا کی۔ سیٹھ جی نے باہمی مصالحت کا ذکر کیا۔ بھان کنور پھر پردہ کے باہر نکل آئی اور بولی: ’’نہیں کبھی نہیں۔ میں صلح نہ کروں گی۔ آپ کاغذات دیکھیں۔ میرے بچوں کی خاطر تکلیف اُٹھائیں۔ ست نرائن کی نیت پہلے خراب نہ تھی۔ تھوڑے دنوں سے اس کی یہ حالت ہوئی ہے۔ دیکھئے جس تاریخ کو گائوں بیع ہوا تھا۔ اس متی میں ۳۲ہزار کا کیا خرچ دکھایا گیا ہے۔ اگر اُس نے اپنے نام قرض لکھا ہو تو دیکھئے سالانہ سود ادا ہوا یا نہیں۔ ایسے دغا باز آدمی سے میں صلح نہ کروں گی‘‘ اس میں کچھ نکتہ ہو یا نہ ہو۔ مگر جو عورت کبھی ان معاملات کے قریب نہیں گئی۔ اس کی قانونی گرفت واقعی حیرت انگیز تھی۔ یہ اُس دُھن کی برکت تھی جو اس وقت بھان کنور کے سر پر سوار تھی۔ خلاصہ یہ کہ کاغذات کی جانچ ہوئی۔ ثبوت بہم کیے گئے اور استغاثہ کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔ (۴) منشی ست نرائن لال صاحب غصہ میں بھرے ہوئے مکان پر پہنچے۔ لڑکے نے مٹھائی کے لیے ضد کی۔ اُسے پیٹا۔ بیوی پر اس لیے برس پڑے کہ اُس نے کیوں لڑکے کو رُلایا۔ اپنی بوڑھی ماں کو ڈانتا۔ ’’تم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ ذرا لڑکے کو بہلائو۔ اب میں گھر پر آئوں۔ تو بیٹھ کر لڑکے کو کھلائوں۔ مجھے دنیا میں نہ اور کوئی کام ہے نہ اور کوئی فکر۔ اس طرح گھر میں ایک طوفان برپا کرکے وہ باہر آئے اور سوچنے لگے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔ میں بھی کیسا احمق ہوں۔ اتنے دنوں تک سارے کاغذ اپنے ہاتھ میں تھے۔ جو چاہتا کرسکتا تھا۔ مگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہا۔ آج جب سر پر آپڑی تو سوجھی۔ میں چاہتا تو نئے بہی کھاتے بنا سکتا تھا۔ جس میں اس گائوں کے روپے کے خرچہ کا ذکر ہی نہ ہوتا۔ افسوس! گھر میں آتی ہوئی لکشمی میری حماقت اور ناعاقبت اندیشی کی بدولت اُٹھی جاتی ہے۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ شیطان کی خالہ اس طرح مجھ سے پیش آئے گی کہ کاغذات کو ہاتھ تک نہ لگانے دے گی۔ اِسی اُدھیڑ بن میں پڑے پڑے یکایک منشی جی اُچھل پڑے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ کیوں نہ کارپردازوں کو ملا لوں۔ وہ سب کے سب میری سخت گیریوں کی بدولت مجھ سے ناراض تھے۔ اس وقت سیدھے منہ بات نہ کریں گے۔ پر اِن میں ایسا تو کوئی نہیں ہے جو زر سے بے نیاز ہو۔ ہاں اس میں صرفِ کثیر کی ضرورت ہوگی۔ مگر اتنا روپیہ آئے گا کہاں سے؟ کاش! ذرا پہلے چیت گیا ہوتا تو یہ سب دقتیں ایک بھی نہ ہوتیں۔ بس ایک ہی ترکیب ہے کہ کسی طرح وہ کاغذات غائب کردوں۔ خطرناک معاملہ ہے پر کرنا ہی پڑے گا۔ نفس کے سامنے ایک بار سر جھکانے کے بعد پھر سنبھلنا مشکل ہوتا ہے۔ گناہ کی اتھاہ ندی میں ایک بار پھسل کر ہم دم بدم پیچھے ہی ہوتے جاتے ہیں۔ منشی ست نرائن لال جیسا نیک آدمی اس وقت اس فکر میں تھا کہ کیونکر سیندھ لگائوں۔ گناہ کی غذا گناہ ہے۔ منشی جی نے سوچھا کیا سیندھ لگانا آسان ہے؟ اس میں کتنی ہمت، کتنی ہوشیاری، کتنی پھرتی اور صفائی کی ضرورت ہے! کون کہتا ہے کہ چوری آسان کام ہے اور اگر پکڑا گیا۔ تو پھر بجز ڈوب مرنے کے اور کوئی علاج نہیں! منشی جی کو کسی طرح یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اِس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ ہاں ایک ترکیب اِس سے آسان نظر آئی۔ کیوں نہ دفتر میں آگ لگا دوں۔ ایک بوتل مٹی کے تیل اور ایک دیا سلائی کی ضرورت ہے۔ کسی بدمعاش کو ملا لوں۔ اُس کی مدد سے سارا کام ہوسکتا ہے۔ مگر یہ کیا معلوم کہ بہی اس کمرہ میں رکھی ہے یا نہیں۔ اُس چڑیل نے ضرور اُسے اپنے پاس رکھا ہوگا۔ (منشی جی اِسی اُدھیڑ بُن میں بہت دیر تک کروٹیں بدلتے رہے۔ نئے نئے منصوبے سوچتے رہے۔ مگر پھر اپنی ہی دلیلوں سے اُنھیں مٹا دیتے۔ جیسے برسات میں آسمان پر بادلوں کی نئی نئی صورتیں بنتی اور پھر ہوا کے زور سے بگڑ جاتی ہیں۔) لیکن یہ خیال دل سے کسی طرح دُور نہ ہوتا تھا۔ کہ ان کاغذات کو اپنے ہاتھ میں لانا چاہیے۔ یہ کام کٹھن ہے مانا۔ پر ہمت نہ تھی۔ تو ڑاڑ کیوں مول لی تھی۔ کیا کسی کی بیس ہزار کی جائداد آسانی سے ہاتھ آجائے گی۔ خواہ کسی صورت سے ہو۔ چور بنے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ آخر جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ بھی تو آدمی ہی ہوتے ہیں۔ بس ایک ھلانک کا کام ہے۔ اگر پار ہوگئے تو راج کریں گے اور گر پڑے تو جان سے ہاتھ دھوئیں گے۔ اسی طرح منشی ست نرائن لال نے اپنا دِل مضبوط کیا۔ (۵) رات کے دس بج گئے تھے منشی ست نرائن لال کنجیوں کا ایک گچھا کمر میں دبائے گھر سے باہر نکلے۔ دروازہ پر تھوڑے سے پیال رکھے ہوئے تھے۔ اُسے دیکھتے ہی وہ چونک پڑے۔ مارے خوف کے کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ معلوم ہوا کہ کوئی آدمی چھپا بیٹھا ہے۔ ان کے قدم رُک گئے۔ پیال کی طرف غور سے دیکھا۔ اس میں مطلق حرکت نہ ہوئی۔ تب ہمت بندھ گئی۔ آگے بڑھے اور دل کو سمجھانے لگے۔ میں کیسا احمق ہوں۔ اپنے دروازہ پر کس کا خوف۔ راستہ ہی میں مجھے کس کا خوف ہے۔ میں اپنی راہ جاتا ہوں۔ کوئی میری طرف ترچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں جب مجھے کوئی عین موقعہ پر پکڑ لے۔ تو البتہ دفعتہ اُنھوں نے بھان کنور کے ایک چپراسی کو آتے ہوئے دیکھا۔ کلیجہ سن سے ہوگیا۔ وہ لپک کر ایک اندھیری گلی میں گھس گئے اور وہاں بڑی دیر تک کھڑے رہے۔ جب وہ سپاہی نظروں سے اوجھل ہوگیا تو پھر سڑک پر آئے۔ یہ سپاہی آج صبح تک اُن کے حکم کا غلام تھا۔ اُسے اُنھوں نے بارہا گالیاں دی تھیں۔ لاتیں بھی ماری تھیں۔ مگر آج اس کی صورت دیکھ کر اُن کی روح فنا ہوگئی۔ اُنھوں نے پھر دلیل کی پناہ لی۔ میں جیسے کچھ بھنگ کھا گیا ہوں۔ اس چپراسی سے اتنا ڈرا۔ بالغرض وہ دیکھ ہی لیتا تو میرا کرسکتا تھا۔ ہزاروں آدمی راستہ چل رہے ہیں۔ اُنھیں میں ایک میں بھی ہوں۔ کیا وہ سب کے دلوں کا حال دیکھنے نکلا ہے۔ غالباً مجھے دیکھ کر وہ ادب سے سلام کرتا۔ اور کچھ دور تک میرے ساتھ چلتا۔ عجب نہیں کہ آج وہاں کی داستان بیان کرتا۔ اِس طرح دل کو مضبوط کرکے وہ پھر آگے بڑھے۔ یہ شاید سچ ہے کہ گناہ کے قابو میں آیا ہوا دل خزاں کا مارا ہوا پتا ہے۔ جو ہوا کے ذرا سے جھونکے میں گر پڑتا ہے۔ بازار میں پہنچے۔ زیادہ تر دُکانیں بند ہوچکی تھیں۔ ان میں سانڈ اور گائیں بیٹھے ہوئے رمزو کنائے کررہے تھے۔ صرف حلوائیوں کی دُکانیں کھلی تھیں۔ اور کہیں کہیں ایک آدھ گجرے والے ہار کی ہانک لگاتے پھرتے تھے۔ یہ حلوائی سب منشی جی کو پہچانتے تھے۔ مگر منشی جی نے سر نیچا کرلیا۔ کچھ رفتار تبدیل کی۔ اور لپکتے ہوئے چلے۔ دفعتہ اُنھیں ایک بگھی آتی ہوئی دکھائی دی۔ اُنھوں نے اسے پہچان لیا۔ یہ بلبھ داس سیٹھ وکیل کی بگھی تھی۔ اس میں بیٹھ کر وہ ہزاروں بار سیٹھ جی کے ساتھ کچہری گئے تھے۔ پر آج یہ اُنھیں کالے دیو کی طرح خوفناک معلوم ہوئی۔ اُنھوں نے رُخ پھیر لیا۔ اور بھاگ کر ایک خالی دکان پر چڑھ گئے۔ سانڈ نے سمجھا کوئی نیا رقیب پیدا ہوا ہے۔ سینگیں جھکائے پھنکارتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔ پر اس اثنا میں بگھی نکل گئی اور منشی جی کی جان میں جان آئی اب کے اُنھوں نے دلیلوں سے دل کو نہ سمجھایا۔ سمجھ گئے کہ اس وقت اس سے کوئی سود نہیں۔ خیریت ہوگئی کہ وکیل نے دیکھا نہیں۔ ورنہ ایک گھاگ ہے میرے بشرے سے تاڑ جاتا۔ ایک فرلانگ چل کر ایک گلی ملی۔ یہی بھان کنور کے مکان کا راستہ تھا۔ ایک دُھندلی سی لالٹین روشن تھی۔ جیسا منشی جی نے قیاس کیا تھا۔ پہرہ دار کا پتہ نہ تھا۔ اصطبل میں چماروں کے یہاں ناچ ہورہا تھا۔ کئی چمارنیں بنائو سنگار کرکے ناچ رہی تھیں۔ چمار مرد نگ بجا بجا کر گاتے تھے۔ گھر پے نہیں { OL 1 }مائیں شیام گھر آئے بدرہ اور دونوں پہرہ دار وہاں تماشا دیکھ رہے تھے۔ منشی جی کے کلیجہ میں دھڑکن تھی۔ سر دھم دھم کرتا تھا۔ ہاتھ پائوں کانپ رہے تھے۔ سانس پھول رہی تھی۔ بدن کا ایک ایک رُواں آنکھ اور کان بنا ہوا تھا۔ ان کی ساری طاقت، چستی، اوسان، حواس اور احتیاط اس وقت ارادہ کی مدد پر مستعد تھیں۔ منشی جی بلی کی طرح دبے پائوں لالٹین کے پاس گئے اور جس طرح وہ چوہے پر جھپٹتی ہے۔ اُسی اُنھوں جھپٹ کر اس کا پٹ کھولا۔ اور اُسے گل کردیا۔ ایک مرحلہ طے ہوگیا۔ مگر جتنا سمجھتے تھے اُتنا مشکل نہ تھا۔ دل کچھ مضبوط ہوا۔ دفتر کے برآمدہ میں پہنچے۔ اور ایک لمحہ تک خوب کان لگا کر آہٹ لی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف چماروں کے گانے کی آواز کان میں آتی تھی۔ دروازہ پر وہی پرانا قفل تھا اُس کی کنجی آج بہت تلاش کرکے بازار سے خرید لائے تھے۔ قفل کھل گیا۔ کواڑوں نے بہت ہی دبی زبان سے صدائے احتجاج بلند کی۔ منشی جی دفتر میں داخل ہوئے۔ اُن کے اعضا میں اس وقت بند کی سی پھرتی اور چستی تھی۔ اندر چراغ جل رہا تھا۔ منشی جی کو دیکھ کر اُس نے ایک بار سر ہلایا گویا انھیں اندر آنے کی ممانعت کی۔ منشی جی کے پیر تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ایڑیاں زمین سے اُچھلی پڑتی تھیں۔ سانس سینہ کو پھوڑ کر نکلنا چاہتا تھا۔ گناہ کا اتنا سنگین بار اُن کی برداشت سے باہر تھا۔ پل بھر میں منشی جی نے بہیوں کو اُلٹا پلٹا۔ ان کی تحریر آنکھوں میں تیرتی تھی۔ انتخاب کی مہلت نہ تھی۔ اُنھوں نے کاغذات کا ایک پشتارہ باندھا۔ اور بغل میں دبا کر تیر کی طرح کمرے سے باہر نکل آئے۔ دروازہ کو آہستہ سے بند کیا۔ اور اس پاپ کی گٹھڑی کو لیے ہوئے اندھیری گلی میں غائب ہوگئے۔ (تنگ اندھیری متعفن گلیوں میں وہ برہنہ پا تیزی سے قدم بڑھائے ہوئے اس طرح خود غرضی، بے وفائی اور دغا کا بارِ گراں لیے ہوئے چلے جاتے تھے۔ گویا گناہوں سے لدی ہوئی روح دوزخ کی نالیوں سے بہی جاتی تھی۔) بہت دیر تک بھٹکنے کے بعد وہ گنگا کے کنارے پہنچے۔ جس طرح تاریک دلوں میں کہیں کہیں ایمان کی دُھندلی روشنی چھپی رہتی ہے۔ اِسی طرح ندی کی سیاہ اور ساکت سطح پر تارے جھلملا رہے تھے۔ کنارے پر چند سادھو دھونی رمائے ہوئے تھے۔ شعلۂ حقیقت دل کے بجائے باہر دہک رہا تھا۔ منشی جی نے اپنا پشتارہ اُتارا۔ اور اپنی چادر میں لپیٹ کر اُسے ندی میں پھینک دیا۔ سوئی ہوئی لہروں میں کچھ ہلچل ہوئی۔ اور پھر سناٹا ہوگیا۔ (۶) منشی ست نرائن لال کے گھر میں ان کی ماں اور بیوی دو عورتیں تھیں۔ تاہم منشی جی کو گنگا میں ڈوب مرنے یا کہیں بھاگ جانے کی ضرورت نہ تھی دونوں عورتیں تعلیم سے بے بہرہ تھیں۔ نہ وہ باڈیس پہنتی تھیں۔ نہ موزے۔ نہ ہارمونیم پر گا سکتی تھیں۔ یہاں تک کہ اُنھیں صابن کے استعمال تک کا علم نہ تھا۔ وہ بالوں میں ہیر پن (hair pin) لگانا تک نہ جانتی تھیں۔ بہو میں اپنی عزت کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔ نہ ساس میں خودداری کی اسپرٹ۔ بہو اب تک ساس کی گھرکیاں بھیگی بلی کی طرح سہ لیتی تھیں۔ ساس کو بچوں کے نہلانے دھلانے حتیٰ کہ گھر میں جھاڑو دینے تک سے عار نہ تھی۔ بہو عورت کیا مٹی کا توندا تھی۔ ایک پیسہ کی بھی ضرورت ہو تو ساس سے مانگتی۔ غرض دونوں عورتیں اپنے حقوق سے بنجر جہالت کی تاریکی میں پڑی ہوئی جانوروں کی طرح زندگی کے دن کاٹتی تھیں۔ ایسی پھوہڑ تھیں کہ دال، موٹ، سموسے وغیرہ بھی گھر ہی میں بنا لیتی تھیں۔ اپنے ہی ہاتھوں سے کتنی ہی جسمانی شکایتوں کا علاج بھی کرلیتی تھیں۔ بیٹھی گھاس پات کوٹا کرتی تھیں۔ منشی جی نے ماں کے پاس جاکر کہا: ’’اماں! کچھ روپیہ نکالو۔ مجھ سے بھان سے ان بن ہوگئی۔ کل اُنھوں نے بے قصور الگ کردیا۔‘‘ میں نے چونک کر پوچھا: ’’الگ کردیا! کیا بات ہوئی۔ بھان کنور کا مزاج تو ایسا نہ تھا۔‘‘ منشی: بات کچھ نہیں تھی۔ میں نے اپنے نام سے موضع لیا تھا۔ اُسے میں نے اپنے قبضہ میں کر لیا۔ کل مجھ سے اُن سے صاف صاف باتیں ہوئیں۔ میں نے کہہ دیا کہ گائوں میرا ہے۔ میں نے اپنے نام سے لیا ہے۔ اُس سے تمھارا کوئی واسطہ نہیں۔ بس جامہ سے باہر ہوگئیں۔ جو جی میں آیا بکتی رہیں۔ اُسی وقت مجھے نکال دیا اور کہا۔ میں تم سے لڑکر اپنا گائوں لے لوں گی۔ اب آج اُن کی طرف سے میرے اُوپر مقدمہ دائر ہوگا۔ مگر اِ سے کیا ہوتا ہے۔ میرا اِس پر قبضہ ہے۔ ایک نہیں ہزار مقدمے چلائیں۔ ڈگری میری ہوگی۔ ماں نے بہو کی طرف دیکھا۔ بہو نے ماں کی طرف تاکا۔ ماں بولیں۔ ’’کیوں بھیا؟ وہ گائوں تو تم نے اُنھیں کے روپے سے اور اُنھیں کے لیے لیا تھا؟‘‘ منشی: لیا تھا تب لیا تھا اب مجھ سے ایسا آباد زرخیز گائوں نہیں چھوڑا جاتا۔ وہ میرا کچھ نہیں کرسکتیں۔ اپنے روپے کی وصول یابی کا بھی دعویٰ نہیں کرسکتیں۔ ڈیڑھ سو گائوں تو ہیں۔ تب بھی ہوس نہیں مانتی۔ ماں: بیٹا کسی کے دھن ہوتا ہے تو وہ اُسے پھینک تھوڑا ہی دیتا ہے تم نے اپنی نیت خام کی۔ یہ اچھا نہ کیا۔ دنیا تم سے کیا کہے گی۔ اور دُنیا چاہے۔ کچھ کہے یا نہ کہے۔ بھلا تم کو ایسا چاہیے۔ کہ جس کی گود میں اتنے دن پلے۔ جس کا اتنے دنوں تک نمک کھایا۔ اب اُسی سے دغا کرو۔ نارائن نے تمھیں کیا نہیں دیا ہے۔ مزے سے کھاتے ہو۔ پہنتے ہو۔ گھر میں نارائن کے دیے چار پیسے ہیں۔ بال بچے ہیں۔ اور کسی کو کیا چاہیے۔ میرا کہا مانوس۔ یہ کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر نہ لگائو۔ یہ اجس مت لو۔ برکت اپنے ہی پسینہ کی مائی میں ہوتی ہے۔ حرام کی کوڑی کبھی نہیں پھلتی۔ یہ اجس مت لو۔ برکت اپنے ہی پسینہ کی کمائی میں ہوتی ہے۔ حرام کی کوڑی کبھی نہیں پھلتی۔ منشی: یہ سب باتیں پوتھی کے بیگن ہیں۔ دنیا ان پر چلنے لگے۔ تو سارا نقشہ بگڑ جائے۔ میں نے اتنے دنوں ان کی خدمت کی۔ ایسے ایسے چار پانچ گائوں میری ہی بدولت بڑھ گئے۔ جب تک پنڈت جی زندہ تھے۔ میری نیت کی قدر تھی۔ آنکھ میں دھول ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ خود ہی میری خاطر کردیا کرتے تھے۔ اُنھیں مرے ہوئے آٹھ سال ہوگئے۔ مگر مسماۃ کے ایک بیڑے پان کی بھی قسم کھاتا ہوں۔ میری ذات سے اُن کی ہزاروں روپیہ ماہوار کی بچت ہوتی تھی۔ کیا ان کو اتنی سمجھ نہیں تھی۔ کہ یہ شخص جو اتنی ایمانداری سے میرا کام کرتا ہے۔ اس نفع میں کچھ اِس کا بھی حق ہے یا نہیں۔ حق کہہ کر نہ دو۔ انعام کہہ کر دو۔ کسی طرح دو تو۔ مگر وہ تو سمجھتی تھیں کہ میں نے اسے دس روپیہ مہینہ پر مول لے لیا ہے۔ میں نے آٹھ سال تک صبر کیا۔ اب کیا دس روپیہ میں زندگی بھر غلامی کیا کروں۔ اور اپنے بچوں کو دوسروں کا منہ تاکنے کے لیے چھوڑ جائوں۔ مجھے یہ موقع ملا ہے۔ اُسے کیوں چھوڑوں۔ زمینداری کی ہوس لیے ہوئے کیوں مروں۔ جب تک زندہ رہوں گا۔ خود کھائوں گا۔ میرے بعد میرے بچے چین اُڑائیں گے۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بولیں۔ ’’بیٹا! میں نے تمھارے منہ سے ایسی باتیں کبھی نہ سُنی تھیں تمھیں کیا ہوگیا ہے۔ تمھارے آگے بال بچے ہیں۔ آگ میں ہاتھ نہ ڈالو‘‘ بیوی نے ساس کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ایسا دھن نہ چاہیے ہم اپنی روٹی دال ہی میں خوش ہیں۔‘‘ منشی: اچھی بات ہے۔ تم لوگ روٹی کھانا۔ گزی گاڑھا پہننا۔ مجھے اب حلوے پوری کی خواہش ہے۔ ماں: یہ ادھرم مجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔ میں گنگا میں ڈوب مروں گی۔ بیوی: تمھیں یہ کانٹے بونا ہے۔ تو مجھے میکے میں پہنچا دو۔ میں اپنے بچوں کو لے کر اس گھر میں نہ رہوں گی۔ منشی جی نے جھنجھلا کر کہا۔ تم لوگوں کی عقل تو بھنگ کھا گئی ہے۔ یہ دوسرے لوگ جو رات دن دوسروں کا گلا دبا دبا کر رشوتیں لیتے ہیں۔ اور چین کرتے ہیں نہ اُن کے بال بچوں ہی کو کچھ ہوتا ہے۔ نہ اُن کو۔ ادھرم ان کو کیوں نہیں کھا جاتا۔ جو مجھی کو کھا جائے گا۔ میں نے تو ایمانداروں کو ہمیشہ تکلیف ہی میں دیکھا۔ میں نے تو جو کیا ہے۔ اُس کا سُکھ اٹھائوں گا۔ تم لوگوں کے جی میں جو آئے کرو۔ (۷) صبح کے وقت بھان کنور کا دفتر کھلا۔ تو کاغذات سب غائب تھے۔ منشی چھکن لال بدحواس گھر میں گئے اور مالک سے پوچھا: ’’کاغذات کیا آپ نے اُٹھوا لیے ہیں؟‘‘ بھان کنور نے کہا: ’’مجھے کیا خبر۔ جہاں آپ نے رکھے ہوں گے، وہیں ہوں گے۔ دم کے دم میں سارے گھر میں طوفان مچ گیا۔ پہرہ داروں پر بار پڑنے لگی۔ بھان کنور کو معاً ست نرائن لال پر شبہ ہوا۔ مگر اُن کی خیال میں چھکن لال کی مدد کے بغیر یہ کام ہونا غیر ممکن تھا۔ پولیس میں رپٹ ہوئی۔ ایک اوجھا نام نکالنے کے لیے بلایا گیا۔ مولوی صاحب نے قرعہ پھینکا۔ اوجھے نے بتلایا۔ کسی پرانے دشمن کا یہ کام ہے۔ مولوی صاحب نے بتلایا۔ کسی گھر کے بھیدی نے یہ حرکت کی ہے۔ شام تک یہی دوڑ دھوپ رہی۔ اور تب یہ صلاح ہونے لگی کہ ان کاغذات کے بغیر مقدمہ کیونکر چلے گا۔ روئداد تو پہلے ہی کمزور تھی۔ جو کچھ سہارا تھا۔ ان ہی اندراجات کا تھا۔ جو خود منشی ست نرائن لال نے کی تھیں۔ اب تو وہ ثبوت بھی ہاتھ سے گئے۔ دعویٰ میں کچھ جان ہی باقی نہ رہی۔ مگر بھان کنور نے مقدمہ دائر کرنے پر زور دیا بلا سے ہار جائیں گے۔ ہماری چیز کوئی دوسرا چھین لے تو ہمارا دھرم ہے کہ اُس کو واپس لینے کے لیے اپنے قابو بھر لڑیں۔ ہار مان کر بیٹھ رہنا بزدلوں کا کام ہے۔ سیٹھ جی وکیل کو اس سانحہ کی اطلاع دی گئی۔ اُنھوں نے بھی یہی کہا کہ مقدمہ بالکل بے جان ہوگیا صرف عقلی اور قیاسی دلیلوں پر دار و مدار ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا تو کیا۔ ورنہ ہارنا پڑے گا۔ پھر بھان کنور کو ضد تھی کہ مقدمہ ضرور دائر ہو۔ لکھنؤ اور الٰہ آباد سے دو بلند بانگ بیرسٹر بلائے گئے۔ اور ایک ہفتہ کے اندر استغاثہ دائر ہوگیا۔ سارے شہر میں اس مقدمہ کی دھوم تھی۔ کتنے ہی رئوسا کو بھان کنور نے شہادت میں طلب کیا تھا۔ دلچسپی کا خاص سبب یہ تھا کہ بھان کنور خود بھی پردہ کی آڑ میں بیٹھی ہوئی روئداد سنتی تھی۔ کیونکہ اُسے اب اپنے مختاروں اور ملازموں پر مطلق بھروسہ نہ تھا۔ استغاثہ کے بیرسٹر نے ایک مدلل اور موثر تقریر کی۔ اُس نے منشی ست نرائن لال کی سابقہ دیانت اور خلوصِ نیت اور اُن پر پنڈت بھرگودت کے کامل اعتماد کا ذکر کیا۔ بعد ازاں یہ دکھایا کہ مدعا علیہ کی مالی حالت ہرگز ایسی نہ تھی جو اتنے صرفِ کثیر کی متحمل ہوسکتی۔ آخر میں اُس نے منشی جی کی دغا اور بدعہدی پر ایسے رقت آمیز پرایہ میں بحث کی کہ سامعین کی آنکھیں آب گوں ہوگئیں۔ ’’کتنے افسوس اور عبرت کا مقام ہے کہ ایسا وفادار، آقا پرست آدمی رفتہ رفتہ اتنا گر جائے کہ اسی کی بیکس بیوہ اور یتیم بچوں کی گردن پر چھری پھیرنے سے باز نہ آئے۔ جن کا نمک اُس کی ہڈیوں میں پیوست ہوگیا ہے۔ انسانی خباثت اور کجروی کی اس سے زیادہ عبرت ناک مثال نہیں مل سکتی۔ نتائج کے اعتبار سے دیکھئے تو اس شخص کی سابقہ دیانت اور وفا کی وقعت بالکل نہیں باقی رہتی۔ کیونکہ وہ جواہر نہ تھے۔ بلکہ سنگریزے تھے جو محض اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے پیش کیے گئے تھے۔ وہ محض ایک رنگین جال تھا جو ایک خوش اعتقاد اور کم اندیش رئیس کو پھنسانے کے لیے پھیلایا گیا تھا۔ خیال کیجیے کہ اس شخص کا باطن کتنا تاریک کتنا گہرا اور اس کی خیانت کتنی دُور رس ہے۔ اپنے حریف کے ساتھ دغا کرنا کسی حد تک معافی کے قابل ہے۔ مگر اس شخص نے ان بیکسوں کے ساتھ دغا کی ہے۔ جن کے ساتھ بہبودی کرنا انسانی سرشت کا خاصہ ہے۔ کاش ہمارے ہاتھ میں وہ اندراجات ہوتے جو بیع نامہ لکھانے کے وقت منشی صاحب ممدوح نے فرمائے تھے۔ تو عدالت پر اُن کی سیہ باطنی روشن ہوجاتی۔ مگر ان کا دفتر سے عین برخاستگی کے روز غائب ہوجانا بھی عدالت کے لیے کچھ کم یقین انگیز نہ ہونا چاہیے۔ ایسی رذالت کے بعد اس شخص کے نزدیک کوئی کام ناکردنی نہیں ہوسکتا۔ کئی روز تک شہر کی شہادتیں ہوئیں مگر بیشتر سماعی تھیں۔ دو ایک صاحبوں نے چشم دید شہادت کا دعویٰ کیا۔ پر جرح میں اُکھڑ گئے۔ آج کی کارروائی ختم ہوگئی۔ دوسرے دن پھر مقدمہ پیش ہوا۔ فریقِ مخالف کے وکیل صاحب نے جوابی تقریر کرنا شروع کی۔ جس میں تضحیک کا پہلو غالب تھا ’’نرالی منطق ہے کہ ایک دولت مند کا ملازم جو کچھ خریدے۔ وہ اُس کے آقا کی چیز ہے اس دلیل کے مطابق ہماری گورنمنٹ کو اپنے ملازمین کی جائداد پر قبضہ کرلینا چاہیے۔ یہ تسلیم کرنے میں ہم کو عذر نہیں کہ ایسی کثیر رقم ہماری دسترس سے باہر تھی۔ اور یہ رقم ہم نے اپنے آقا ہی سے قرض لی مگر بجائے اس کے کہ ہم سے قرضہ کی وصولی کا تقاضا کیا جاتا ہم سے وہ جائداد مانگی جاتی ہے۔ حساب کے کاغذات پیش کیے جائیں تو وہ صاف بتلا دیں گے کہ اب میرے مؤکِلّ۱؎ کے ذمے بھان کنور کا ایک حبہ بھی باقی نہیں ہے۔ اگر میں آپ سے قرض لے کر شادی کرلوں تو کیا کل آپ مجھ سے میری بیوی چھین لینے کا دعویٰ کریں گے۔ ہمارے روشن خیال دوست نے ہمارے اُوپر بیکسوں اور یتیموں کے ساتھ دغا کرنے کا الزام لگایا ہے اگر منشی ست نرائن لال کی نیت فاسد ہوتی تو اس کا بہترین موقعہ وہ تھا جبکہ اُس کے آقائے نامدار کی وفات ہوئی تھی۔ اس طولانی انتظار کی کیا ضرورت تھی۔ اگر آپ شیر کو پھنسا کر اُس کے بچے کو اُسی وقت نہیں پکڑ لیتے۔ بلکہ اُسے بڑھنے اور خوانخوار ہونے کا موقع دیتے ہیں تو مجھے آپ کے دماغ کے صحیح ہونے پر شبہ ہوگا۔ مگر شاید منشی ست نرائن لال کے رنگین جال میں کوئی ایسی کرامات ہو۔ جسے سمجھنے میں ہمارے عالم دوست قاصر ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ منشی جی نے حق نمک ادا کردیا۔ آٹھ سال تک کمال دیانت سے کام انجام دیا۔ اور آج انھیں اپنی نیک نیتی کا ثمرہ جو مل رہا ہے۔ وہ نہایت درجہ دلدوز اور جگر خراش ہے۔ اس میں بھان کنور کی کوئی خطا نہیں۔ وہ ایک نیک خاتون ہیں۔ مگر اپنے صنف کی اعتقادی کمزوریوں سے خالی نہیں۔ دیانت مند آدمی خاصتہً صاف گو اور کم سخن ہوتا ہے۔اُسے باتوں میں نمک مرچ ملانے اور قند و شکر گھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی یہی باعث ہے کہ منشی جی کی بیوہ پر شیریں بیان رقیبوں ۱- وکیل کرنے والا کو وار کرنے کا یہ موقع مل گیا۔ اس دعویٰ کی بنیاد صرف اتنی ہے اور کچھ نہیں۔ بھان کنور یہاں موجود ہیں۔ کیا وہ کہہ سکتی ہیں کہ اس آٹھ سال میں کبھی اس موضع کا ذکر اُنھوں نے کیا۔ کبھی اس کے نفع نقصان۔ آمد و خرچ یا لین دین کی چرچا ان سے کی گئی۔ میں گورنمنٹ کا ملازم ہوں۔ اگر میں آج دفتر میں آخر اپنے خانگی انتظامات کی داستانیں چھیڑ دوں۔ اپنے اخراجات کی زیادتی اور اپنے خدمتگار کی نیکیوں کا قصہ گانے لگوں۔ تو شاید مجھے بہت جلد اپنے عہدہ سے سبک دوش ہونا پڑے اور ممکن ہے کچھ دنوں بنارس کے شاندار مہمان خانہ میں رکھا جائوں۔ اس کے بعد متعدد شہادتیں پیش ہوئیں۔ بالخصوص قرب و جوار کے مواضعات کے لوگوں کی جنھوں نے بیان کہ اُنھوں نے منشی ست نرائن کو اپنے دستخط سے رسیدیں دیتے اور اپنے ہی نام سے خزانہ میں روپیہ داخل کرتے دیکھا ہے۔ اس موضع کا دفتر اسی جگہ تھا۔ اس میں منشی جی کیس یر بھی ہوتی ہے وغیرہ۔ اس کارروائی کے بعد شام ہوگئی۔ منصف عدالت نے کل فیصلہ سنانے کا وعدہ کیا۔ (۸) منشی ست نرائن لال کی فتح اب یقینی تھی۔ استغاثہ کی شہادتیں کمزور تھیں۔ بحث قیاسی دلیلوں پر مبنی۔ ان کے منصوبے اب پورے ہونے والے تھے۔ ان کا شمار بھی زمینداروں میں ہوگا۔ اور اپنی سعی و محنت سے بہت جلد وہ بھی رئوسا کے زمرہ میں داخل ہوسکے گیں۔ لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ اب شہر کے شرفا سے آنکھیں ملاتے شرماتے تھے۔ اُنھیں دیکھتے ہی اُن کا سر نیچا ہوجاتا تھا۔ اور وہ ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ اس مسئلے کو چھیڑ نہ دیں۔ وہ بازار میں نکلتے۔ تو اُنھیں دیکھ کر اکثر دوکانداروں میں سرگوشیاں ہونے لگتیں۔ اور لوگ اُن کی طرف بُری نگاہوں سے دیکھتے۔ اس لیے وہ بازار سے سرجھکائے قدم بھائے بھاگے نکلتے تھے۔ اب تک لوگ اُنھیں ایک سچا بے لوث اور پاک طینت آدمی سمجھتے تھے۔ شہر کے وضع دار اور شریف لوگ انھیں اعزاز کی نگاہوں سے دیکھتے اور بڑی خاطر سے پیش آتے۔ حالانکہ ابھی منشی جی کو آزمایش کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ پر ان کا دل کہتا تھا کہ اب میری وہ بات نہیں رہی۔ اصل حقیقت سارے زمانے پر روشن ہے۔ اور عدالت میرے حق میں فیصلہ کیوں نہ کردے۔ لیکن میری ساکھ اب جاتی رہی۔ دلوں سے میری عزت اُٹھ گئی۔ اب مجھے بھی لوگ خود غرض ’ریاکار‘ مطلبی سمجھیں گے۔ غیروں کی بات کو الگ رہی خود اُن کے گھر والے اُن کے شریک نہیں تھے۔ بوڑھی ماں نے تین دن سے منہ میں پانی نہیں ڈالا۔ اور بیوی باربار ہاتھ جوڑ کر کہتی کہ اپنے بچوں کو رحم کرو۔ بُرے کام کا پھل کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ نہیں تو پہلے مجھی کو زہر دے دو۔‘‘ فیصلہ کے دن صبح کو ایک کنجڑن سبزی لے کر آئی۔ منشائن سے بولی۔ ’’بہو جی۔ ہم نے بجار۱؎ میں ایک بات سُنی ہے۔ بُرا نہ مانو۔ تو کہوں۔ جس کو دیکھو۔ اُس کے منہ میں یہی بات ہے کہ لالہ بابو نے جال۲؎ ساجی سے پنڈتائن کا اِلاکا۳؎ لے لیا ہمیں تو اس پر اکین۴؎ کبھی نہیں آتا۔ لالہ بابو نے نہ سنبھالا ہوتا اب تک پنڈتائن کی ایک اُنگل۵؎ زمین نہ بچتی۔ انھیں کا ایسا جگرا تھا کہ سب کو سنبھا لیا تو اب کیا انھیں کے ساتھ بدی کریں گے۔ ارے بہو! کوئی کچھ سات لاتا ہے کہ لے جائے گا۔ یہی نیکی بدی رہ جاتی ہے۔ بُرے کا پھل بُرا ہی ہوتا آدمی نہ دیکھے پر اللہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ بہو جی پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے تو اُس میں سما جائوں۔ عورتوں میں عزت اور حیا بہت زیادہ ہوتی ہے۔ طعن تشنیع کی برداشت اُن سے نہیں ہوسکتی۔ سرجھکائے ہوئے بولی ’’بوا میں ان باتوں کو کیا جانوں۔ میں نے تو یہ بات آج تمھارے منہ سے سنی ہے۔ کون کون سی ترکاری ہے؟‘‘ منشی ست نرائن لال بھی اپنے کمرے میں پڑے کنجڑن کی یہ باتیں سُن رہے تھے۔ اس ۱- بازار ۲- جعلسازی ۳- علاقہ ۴- یقین ۵- اُنگلی بھر کے چلے جانے کے بعد وہ بیوی کے پاس آکر پوچھنے لگے۔ یہ کیا کہہ رہی تھی؟ بیوی نے شوہر کی طرف سے منہ پھیر کر زمین کی طرف تاکتے ہوئے کہا: ’’کیا تم نے نہیں سنا؟ تمھارے کرتب کا بکھان کررہی تھی۔ تمھاری بدولت دیکھیں کس کس کے منہ سے یہ باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اور کس کس سے منہ چھپانا پڑتا ہے۔‘‘ منشی جی اپنے کمرے میں لوٹ آئے۔ بیوی کی باتوں کا کچھ جواب نہ دیا۔ دل پر غیرت کا غلبہ ہوگیا جس شخص کی نیک نیتی کی سارے شہر میں دھوم ہو۔ جو ہمیشہ غرور سے گردن اُٹھا کر چلتا رہا ہو۔ جو ہمیشہ اعزاز و احترام کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہو وہ کبھی زبانِ خلق سے بے پروا نہیں ہوسکتا۔ بدنامی کا خوف ہی بدنیتی کا سب سے بڑا دشمن ہے منشی جی نے سمجھا تھا۔ میں اس فعل کو ایسے خفیہ طریق سے کرلوں گا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی اور میرے اعتبار میں ذرّہ بھر بھی فرق نہ آئے گا۔ اُن کی یہ آرزو تو پوری نہ ہوئی۔ مشکلات پیدا ہوگئیں۔ ان مشکلات کے دُور کرنے میں انھیں چوری تک کرنا پڑی۔ لیکن یہ سب اسی بدنامی کے خوف سے جس میں کوئی یہ نہ کہے کہ اپنی مالکہ کو دھوکا دیا۔ باوجود اس احتیاط کے وہ رُسوائی کے تازیانہ سے نہ بچ سکے۔ بازار کی سودا بیچنے والی عورتیں تک اب انھیں ذلت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ پنجۂ نفس میں دبا ہوا ایمان اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکا۔ منشی جی سوچنے لگے۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ مانا کہ میں صاحب جائداد ہوجائوں گا لیکن بدنامی میرے گلے کا ہار بنی رہے گی۔ عدالت کاف یصلہ مجھے ذلت سے نہ بچا سکے گا۔ ثروت کا نتیجہ ہے عزت اور وقار۔ جب یہی نہیں تو ثروت کس کام کی۔ اطمینانِ قلب کھو کر دُنیا کی آنکھوں میں ذلیل بنر کر بے حیائی کا بوجھ سر پر رکھ کر اور اپنے گھر میں نفاق بو کر ثروت اور دولت میرے کس کام آئے گی۔ اور اگر سچ مچ مجھ پر قہر الٰہی نازل ہو تو میرے لیے منہ میں کالکھ لگا کر گھر سے نکل جانے کے سوا اور کوئی علاج نہ ہوگا۔ نیک نیت انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے۔ تو لوگ اُس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں۔ سیہ کاروں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو لوگ اُسے طعنے دیتے ہیں۔ ایشور کے انصاف کی تعریف ہوتی ہے۔ پرماتما! کسی طرح مجھے اس غار سے نکالو۔ کیوں نہ جاکر میں بھان کنور کے پیروں پر گر پڑوں۔ اور کہوں کہ مقدمہ اُٹھا لیجیے۔ ہائے افسوس! پہلے مجھے یہ بات کیوں نہ سوجھی؟ اگر کل تک میں اُن کے پاس چلا گیا ہوتا تو سارے کام بن جاتے پر اب کیا ہوسکتا ہے۔ آج تو فیصلہ کا دن ہے۔ منشی جی بہت دیر تک انھیں خیالات میں ڈوبے رہے۔ لیکن کچھ فیصلہ نہ کرسکے کہ کیا کرنا چاہیے۔ (۹) بھان کنور کو یقین ہوگیا کہ اب گائوں ہاتھ سے جاتا ہے۔ بیچاری ہاتھ مل کر رہ گئی۔ رات بھر اُسے نیند نہیں آئی۔ رہ رہ کر منشی ست نارائن لال پر غصہ آتا تھا۔ ظالم! ڈھول بجا کر میرا پچاس ہزار کا مال لیے جاتا ہے۔ اور میں کچھ نہیں کرسکتی۔ آج کل کے یہ انصاف کرنے والے بالکل آنکھ کے اندھے ہیں۔ جس بات کو سارا زمانہ جانتا ہے۔ وہاں تک بھی ان کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ بس دوسروں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ کورے کاغذوں کے غلام۔ انصاف کے معنے ہیں دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی۔ حق حق دار کو ملے۔ یہ نہیں کہ منصف صاحب خود ہی کاغذوں کے دھوکے میں آجائیں۔ اسی سے تو ایسی متفنی، جعلیے اور دغا باز آدمیوں کی ہمتیں بڑھ گئی ہیں۔ لیکن خیر! گائوں جاتا تو جائے۔ تم تو کہیں شہر میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ اس خیال سے بھان کنور کو کچھ تسکین ہوئی دشمن کا نقصان ہمیں اپنے فائدہ سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ یہ انسانی خاصہ ہے۔ تم ہمارا ایک گائوں لے گئے۔ نارائن چاہیں گے تو تمھارے ہاتھ سے بھی یہ جلدی نکلے گا۔ خود نرک کی آگ میں جلو گے۔ اور تمھارے بعد تمھارے گھر میں کوئی نام لیوا نہ رہ جائے گا۔ فیصلہ کا دن آگیا۔ آج اجلاس پر معمول سے زیادہ بھیڑ بھاڑ تھی۔ اس مقدمہ سے ہر خاص و عام کو دلچسپی تھی۔ ایسے ایسے مقطع لوگ نظر آتے تھے جو بنگلوں کی طرح سرکاری تقریبوں کے چشمۂ شیراں کے کنارے ہی نظر آتے تھے۔ مقدمہ اپنی نوعیت میں فرد تھا۔ وکیلوں، مختاروں کی کالی پلٹن کا ہجوم تماشائیوں سے کچھ ہی کم تھا۔ عین مقررہ وقت پر جج صاحب اجلاس پر نمودار ہوئے۔ وسیع ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ ہمہ تن گوش و چشم ہوگئے۔ اہلمد نے صندوق سے تجویز نکالی۔ اشتیاق نے لوگوںکو ایک ایک قدم اور آگے کھسکا دیا۔ جج نے فیصلہ سنایا۔ ’’مدعی کا دعویٰ خارج۔ فریق اپنے اپنے مصارف کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ ہرچند عام قیاس اس فیصلہ کی جانب مائل تھا۔ تاہم جج کی زبان سے سُن کر سارے مجمع میں ہل چل پڑگئی۔ جو اندیشہ تھا۔ وہ واقعہ ثابت ہوا۔ مایوسانہ انداز سے سرگوشیاں کرتے ہوئے لوگ عدالت سے باہر نکلنے لگے۔ دفعتہ بھان کنور گھونگھٹ نکالے اجلاس پر آکر کھڑی ہوئی۔ جانے والے لوٹ پڑے۔ جو باہر نکل گئے وہ پھر لپک کر آگئے۔ ساری جماعت دم بخود ہوکر بھان کنور کی طرف تاکنے لگی۔ ایک ساحر تھا جس نے اُنگلی کے اشارے سے ساری جماعت پر منتر ڈال دیا تھا۔ بھان کنور نے جج صاحب سے کانپتے ہوئے لہجہ میں کہا۔ سرکار کا حکم ہو تو میں ست نرائن لال سے کچھ پوچھوں؟ یہ ایک بے ضابطہ بات تھی۔ تاہم جج نے ازراہِ انسانیت اس کی اجازت دے دی۔ تب بھان کنور نے ست نرائن لال کی طرف دیکھ کر کہا: ’’لالہ جی! سرکار نے تمھاری ڈگری تو کر ہی دی۔ گائوں تمھیں مبارک رہے۔ مگر ایمان آدمی کا سب کچھ ہے۔ ایمان سے کہہ دو۔ گائوں کس کا ہے؟‘‘ یہ سوال سُن کر ہزاروں آدمی منشی جی کی طرف حیرت آمیز استفسار کی نگاہوں سے تاکنے لگے۔ منشی جی دریائے فکر میں ڈوبے، دل میں نفس اور ایمان کے درمیان دائو پیچ ہونے لگے۔ ہزاروں آدمیوں کی آنکھیں اُن کی طرف جمع ہوئی تھیں۔ اصل واقعہ کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ اتنے آدمیوں کے روبرو جھوٹی بات زبان سے نہ نکل سکی۔ غیرت نے زبان بند کردی ’’میرا‘‘ کہہ دینے میں کام بنتا تھا۔ کوئی امر مانع نہ تھا لیکن بدترین گناہ کی جو سزا دنیا دیس کتی ہے اس کے ملنے کا پورا خوف تھا ’’آپ کا‘‘ کہہ دینے میں کام بگڑتا تھا۔ جیتی جتائی بازی ہاتھ سے جاتی تھی۔ لیکن بہترین فعل کے لیے دنیا جو انعام دے سکتی ہے۔ اُس کے ملنے کی اُمید کامل تھی۔ اس اُمید نے خوف کو دبا لیا۔ اُنھیں ایسا معلوم ہوا گویا ایشور نے اُنھیں سرخرو بننے کا یہ آخری موقعہ دیا ہے۔ میں اب بھی اپنے ایمان کو بچا سکتا ہوں۔ اب بھی دنیا کی نگاہوں میں عزت پاسکتا ہوں۔ اُنھوں نے آگ بڑھ کر بھان کنور کو سلام کیا اور کانپتی ہوئی آواز سے بولے: ’’آپ کا‘‘! فتحِ حق کا ایک نعرہ بلند کمرے میں گونجتا ہوا عالمِ بالا تک جاپہنچا۔ جج نے کھڑے ہوکر کہا۔ یہ قانون کا فیصلہ نہیں ’’ایمان کا فیصلہ ہے۔‘‘ جناب منشی پریم چند سوالات ۱- اس کہانی کو مختصر طور پر بیان کرو۔ ۲- منشی ست نرائن کیسا آدمی تھا۔ اپنی رائے کے حق میں دلائل پیش کرو۔ ۳- مصنف اس کہانی سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالتا ہے؟ ۴- اس سبق میں تابع مہمل اور تابع موضوع کی کون کون سی مثال ہے؟ ۵- ذیل کے فقرے کو درست کرو۔ نیز بتائو کہ اس میں ’’جانا ہے‘‘ کون سا فعل ہے: ’’آج میں نے اُس کے ہاں جانا ہے‘‘ …٭…٭…٭… ۱۳- سرورِ قناعت اگر شاہ مُلکِ ارم کا مکیں ہے بھرے گھر میں رنجش سے خالی نہیں ہے ہماری طرح وہ بھی اندوہگیں ہے اُسے فکرِ دنیا ہمیں فکرِ دیں ہے وہ اپنے ولم میں ہم اپنے الم میں رہا فرق کیا شاہ میں اور ہم میں بظاہر سرِ شاہ پر تاج زر ہے مگر باطناً روز و شب خوفِ سر ہے وہاں قلب مجروح زخمی جگر ہے یہاں تیغ کا ڈر نہ فکرِ سپر ہے ہم آرام میں شاہ رنج و سقم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وہاں خوانِ نعمت مگر اشتہا کم یہاں اشتہا پر سوالِ غذا کم نہیں ہم کو اصلا خیالِ سوا کم قناعت ہمارا خزانہ ہے کیا کم ہم آسودہ دل شاہ حرصِ نعم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وہاں چاپلوسی ، تملق ، خوشامد خوشامد برآمد سے بننا سرآمد دو رنگی دِل دوستاں کی شد آمد وفا کی جد آمد ، جفا کی جد آمد نہ خوش مدح میں ہم ، نہ مغموم ذم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں اگر شاہ کے ہاتھ میں جامِ جم ہے یہاں اوک اپنا جو ہے کس سے کم ہے اگر شاہ مل جائے ناز و نعم ہے دل اپنا غنی ہے غنیمت یہ دم ہے جو ہم میں ہے وہ شاہِ والا حشم میں رہا فرق کیا شاہ میں اور ہم میں وہ بدخواب ہیں نومِ شب کھو رہے ہیں مگر پائوں پھیلائے ہم سو رہے ہیں وہاں دیدۂ شاہ خوں رو رہے ہیں یہاں اپنے آنسو گہر ہو رہے ہیں ہم آزاد غم سے وہ پابند غم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں کوئی شاہ بادل بلا دے تو جانیں کوئی برق و باراں گرا دے تو جانیں کوئی حرفِ قسمت پڑھا دے تو جانیں مقدر کا لکھا مٹا دے تو جانیں نہ ہم میں یہ قدرت نہ اُس ذی ہمم میں رہا فرق کیا شاہ میں اور ہم میں وہاں جو فروش اور گندم نما ہیں جو اعیانِ دولت ہیں زر آشنا ہیں یہاں جتنے دم ساز ہیں بے ریا ہیں نہ اہلِ غرض ہیں نہ اہلِ دغا ہیں ہم اہلِ گرم میں ، وہ اہلِ ستم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وہاں غلبۂ حرصِ کشور کشائی یہاں مُلکِ تسلیم کی بادشاہی وہاں فرشِ سُندُس بساطِ غنائی یہاں بوریا مسندِ بے ریائی اہم آزاد وہ فکرِ دام و درم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وہاں جاوداں رشکِ جاہ ونعم ہے حضوری میں ہے مدح، غیبت میں ذم ہے یہاں ایک ساں حالتِ بیش و کم ہے نہ آنے کی شادی نہ جانے کا غم ہے کھلے بند ہم ، شاہ قیدِ خدم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وفورِ دول میں مسرت نہیں ہے وہ مسرور ہے جو قناعت گزیں ہے جسے فرشِ سنجاب سطحِ زمیں ہے اُسی کا دل پاک عرشِ بریں ہے ہم اور شاہ یکساں ہوئے جسم شیم میں رہا فرق کیا شاہ میں اور ہم میں یہاں نیت نیک تاجِ ہُدا ہے یہاں عرشِ دل سدرۃ المنتہیٰ ہے یہاں قلب قانع مسرت فزا ہے جگر دولتِ عافیت سے بھرا ہے ہم آلام داخل سمجھتے ہیں سم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں ہمیں گنج عرفان و ادراک بس ہے کہ اللہ بس اور باقی ہوس ہے ہوا و ہوس سے حذر ہر نفس ہے نہ ذوقِ جہاں ہے نہ شوقِ قفس ہے ہمارے قدم ہیں تلاش قدم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں ثمر ہم شجر میں ، صدف میں گہر ہیں گہن میں اگر ہیں تو مثلِ قمر ہیں اگر آہ و نالے میں ہیں تو اثر ہیں نہاں ینشکر میں مثالِ شکر ہیں کسی حال میں ہم نہیں پیچ و خم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں وُہی نزع ہے اور وہی جانگنی ہے ولادت وہی ہے وہی مردنی ہے جو ہم پر وہی جانِ شہ پر بنی ہے فقط شاہ میں کبریا و منی ہے ہم آہ و فغاں میں وہ طبل و علم میں یہی فرق ہے شاہ میں اور ہم میں مگر کوئی مغلوب ہو یا کہ غالب سیہ بخت یا کامیابِ مطالب جدا ہو گیا رُوح سے جب کہ قالب برابر ہوئے دونوں مطلوب و طالب بالآخر گئے دونوں یکساں عدم میں رہا فرق کیا شاہ میں اور ہم میں جناب منشی و ناٹک پرشاد طالب مرحوم سوالات ۱- امیر و غریب، بادشاہ و فقیر میں ایک انسان کی حیثیت سے کچھ فرق نہیں اس کے ثبوت میں جو دلائل شاعر نے اس نظم میں بیان کیے ہیں۔ انھیں اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۲- ان مصرعوں کے مطالب کی تشریح کرو: ۱- یہاں اپنے آنسو گہر ہو رہے ہیں ۲- وہاں جو فروش اور گندم نما ہیں ۳- کہ اللہ بس اور باقی ہوس ہے ۴- بالآخر گئے دونوں یکساں عدم میں ۳- ان الفاظ کے معنی بتائو: شد آمد۔ شیم۔ سدرۃ المنتہیٰ۔ گنج عرفان۔ کبریا و منی۔ ۴- ترکیب نحوی کرو: جدا ہو گیا رُوح سے جب کہ قالب برابر ہوئے دونوں مطلوب و طالب ۵- طالب ومطلوب قواعد میں کیا کیا ہیں؟ اُوپر کے شعر کے پہلے مصرعے کے لیے نہایت سلیس فقرہ استعمال کرو۔ …٭…٭…٭… ۱۴- چاند اور ستارے دنیا کی پیدایش کا چوتھا دن جب ختم ہوا۔ اور آفتاب عالمِ تنہائی میں اپنا پورا جاہ و جلال دکھا کر غروب ہوگیا۔ اور روئے زمین پر جس کو ابھی تک آبادی کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ تاریکی پھیلنے لگی تو ایک تنہا مگر خوبصورت ستارہ آسمان پر نمودار ہوا۔ اپنے نئے خلعتِ وجود میں حیرت اور خوشی کے ساتھ کانپتے ہوئے اُس نے چاروں طرف نظر جو دوڑائی۔ تو دیکھا کہ نہ آسمان پر اُس کا کوئی ثانی ہے۔ نہ زمین پر۔ لیکن بہت زیادہ زمانے تک وہ اکیلا نہ رہا۔ ابھی ایک پھر دوسرا پھر تیسرا چمکیلا ہم چشم اُس سے آملا۔ یہاں تک کہ ایک گھنٹے میں سارا آسمان سیارات اور ثوابت سے جگمگا اُٹھا۔ جن میں ایک عظیم الشان دمدار ستارہ بھی تھا جو سمت الراس پر چمک رہا تھا۔ ان اجرامِ فلکی نے کچھ دیر تک اپنی اور ایک دوسرے کی حالت پر غور کی۔ اور اُن میں سے ہر ایک نے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ دل میں خیال کیا کہ تمام عالم کا نورانی مرکز میں ہی ہوں۔ اُن کو اپنی نسبت جو مغالطہ ہوا تھا۔ وہ رفع نہ ہوا۔ اگرچہ سب کے سب ہم چشموں کے قد و قامت میں اختلاف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ تاقتیکہ اُنھوں نے جھانک کر سمندر کے آئینے میں اپنی اپنی صورت دیکھ نہ لی۔ جس میں اُن کے خط و خال اور محل و مقام ٹھیک ٹھیک نظر آتے تھے۔ توجہ کے ساتھ اُس آئینے میں اپنی ذات حیثیت دیکھتے دیکھتے سب کو بتدریج عاجزی اور انکسار کا سبق یاد ہوگیا۔ نہ ہوا تو ایک دمدار ستارے کو جو اپنی آفتاب تک پھیلی ہوئی چمکیلی دم پر ایسا پھولا ہوا تھا کہ اب اپنے آپ کو آسمان کا بادشاہ ہی خیال کرتا تھا۔ جب وہ اس طرح اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ اُن کی توجہ ایک بار ایک مقیش کے تار کی طرف منعطف ہوئی۔ جو تھوڑی دیر تک اُفق سے کچھ اوپر چمک کر نظروں سے غائب ہوگیا۔ یہ چاند تھا۔ پہلی تاریخ کا نیا چاند۔ خوف زدہ ادا سے اس نے اُس چمکیلے گروہ پر نظر ڈالی۔ اور جب اُن نے دل میں خیال کیا کہ میرا لاغر او ربے ڈول جسم اُن کے کامل تناسبِ اعضا کے مقابل میں کیسا ذلیل اور بے حقیقت ہے تو سمندر کے دوستانہ دامن میں اُن کی نظروں سے اپنا منہ چھپا لینا اُسے ایک خوشی کی بات معلوم ہوئی۔ جب وہ نظروں سے غائب ہوگیا تو ستارے ایک دوسرے کو متجسسانہ حیرت سے دیکھنے لگے۔ گویا زبانِ حال سے یہ کہتے تھے کہ ’’سبحان اللہ کیا صورت تھی۔ صدقے اس صورت کے!‘‘ اور وہ پھر جلد جلد آزادی کے ساتھ اُس کے باب میں گفتگو کرنے لگے۔ لیکن جس حال میں کہ وہ اُس کی خمیدہ پشت اور اُس کی نادیدہ ادا کی ہنسی اُڑا رہے تھے یکایک اُنھیں معلوم ہوا کہ خود اُن کی روشنی بھی مدم پڑتی جاتی ہے۔ پورب کی پوہ پھٹنے لگی۔ اور بڑی حیرت کے ساتھ سب نے دیکھا کہ وہ مدھم پڑتے پڑتے آنکھوں سے غائب ہوئے جاتے ہیں۔ بلکہ انھیں ڈر ہوا کہ کہیں سرے سے بالکل غائب ہی نہ ہوجائیں۔ یہ خواب عدم میں پڑے اجرامِ فلکی دوسری شام کو آنکھیں ملتے ہوئے بتدریج پھر بیدار ہوئے اور آنکھیں کھول کر جب اُنھوں نے دیکھا کہ کل کی رات کی انجمن پھر جوں کی توں موجود ہے۔ تو دل میں بہت ہی خوش ہوئے۔ وہ چھوٹی چمکیلی شاخ بھی پھر نظر آئی۔ جو مغربی پہاڑوں کے سلسلے پر نیچے کو جھکی ہوئی تھی۔ لیکن اگرچہ پہلی دفعہ سے اب وہ کسی قدر زیادہ چمکیلی تھی۔ پھر بھی جلد دامنِ اُفق میں غائب ہوگئی۔ اور دمداد ستارے کو سارے آسمان پر مغرورانہ ادا سے قابض چھوڑ گئی۔ تیسری شام کو چاند قد اور روشنی میں اس قدر بدیہی طور پر بڑھ گیا تھا اور پہلے دن کی نسبت آسمان میں اس قدر اوج گزیں تھا کہ اگرچہ وہ اب بھی جلدی نظروں سے غائب ہوگیا۔ مگر کہکشاں کی دونوں جانب شروع سے اخیر تک موضوعِ گفتگووہی تھا۔ یہاں تک کہ نو پیدا شدہ آدمی کو اُس کی پہلی میٹھی نیند سے جس میں وہ پڑا بہشت میں سوتا تھا۔ جس نسیم نے آکر جگایا۔ اُس نے ستاروں کو آکر اطلاع دی کہ اب میدان خالی کرو۔ آفتاب اپنے جاہ وجلال کے ساتھ آتا ہے۔ اور دنیا کی پیدایش کا پہلا سبب ایسے جاہ و جلال کے ساتھ لاتا ہے۔ جس کے دیکھنے کو دنیا کے انحطاط کے زمانہ میں لوگوں کی آنکھیں ترسے گی اگلی رات کو چاند نے اپنی کرسی اور بھی بلند کر دی۔ اور پہلے سے کہیں زیادہ چمک دار دکھائی دیا یہاں تک کہ اس کے آس پاس جتنے چھوٹے ستارے تھے۔ اُن کو سب نے دیکھا کہ زرد پڑ گئے تھے۔ اور بعض تو نظر بھی نہ آتے تھے۔ چونکہ اُن کے رفقا اس کی توجیہ معقول طریق پر نہ کرسکتے تھے۔ اُنھوں نے قیاس کیا اور ایسا قیاس اُنھیں کرنا چاہیے تھا کہ چاند کی روشنی جو بڑھ رہی ہے۔ تو اُنھی کی روشنی سے۔ گویا چاند ایک ایک کرکے سب کو نگل رہا ہے۔ اور یہ خوف تمام میں عام طور پر پھیل گیا کہ چاند جوں جوں بڑھتا جائے گا۔ ہم سب کو نگلتا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہم میں کا ایک فرد بھی باقی نہ رہے گا۔ اگرچہ چاند ہر شب اسی طرح بڑھتا روز بروز خوبصورت ہوتا جاتا تھا۔ مگر پھر بھی وہ اپنا انکسار نہ چھوڑتا تھا۔ یہاں تک کہ اُس کا ہلال بڑھتے بڑھتے بدر کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ تب کسی قدر وہ اپنی فوقیت پر نازاں نظر آیا۔ اُس کی شعاعیں بھی ایسی تاباں و درخشاں ہوچلیں کہ بہت ہی کم ستارے اُس کے جلوے کی تاب لاسکتے تھے۔ دُمدار ستارہ بھی اُس کے آگے پھیکا پڑگیا۔ اپنے کمال کی شب کو چاند نہایت جاہ و جلال کے ساتھ وسطِ آسمان میں کرسیِ حکومت پر جلوہ گر ہوا اور زمین کو دن کا سا نازک اطلسی خلعت عنایت کیا۔ آئینۂ بحر میں جو اُس نے اپنی صورت دیکھی۔ تو اپنے عالم حسن پر گھنٹوں محوِ حیرت رہا۔ کچھ ستارے جو اب بھی بے حیائی سے آسمان پر چمک رہے تھے۔ زیادہ نیلگوں گہرائی میں جاچھپے۔ کہ ایک فاصلے سے اُس کے سب پر غالب آجانے والے حُسنِ تاباں کا نظارہ کریں۔ چاند بھی خود اِس خیال سے کچھ کم متحیر نہ تھا کہ دیکھو تو میں دیکھتے دیکھتے قد اور روشنی میں کس قدر بڑھ گیا۔ اور نہیں معلوم ابھی اور کہاں تک بڑھوں گا اس کی خود بینی نے اُسے یہ سمجھایا کہ اگرچہ شکل میں تو میں مکمل ہوچکا ہوں۔ لیکن قد ابھی اور بڑھے گا کیا میں بڑھتے بڑھتے اتنا بڑا نہیں ہوسکتا کہ آدم اور اس کی ہم جلیس حوا باغ عدن کے کسی گوشے سے جھانک کر دیکھیں تو اُنھیں بھی آسمان میں چاند ہی چاند نظر آئے! لیکن وہ اسی دل خوش کن خیال میں مست تھا۔ کہ یکایک اُس پر ایک سیاہ چھائیں نمودار ہوئی۔ جو ایک کنارے سے بڑھتے بڑھتے اس کی سطح کو سیاہ کرتی ہوئی دوسرے کنارے تک چھا گئی۔ جس سے اس کا سارا چہرہ گہنا گیا۔ اور لوحِ آسمان پر ایک بدنما داغ سے زیادہ اُس کا رتبہ نہ رہا۔ اس مصیبت کو آتے دیکھ کر ستارے اپنے اپنے گوشے سے چاند کی ذلت کا تماشا دیکھنے کو نکل آئے۔ لیکن اُن کی خوشی اور چاند کی ذلت کچھ بہت دیر تک نہ رہی۔ چھائیں جس طرح بڑھی تھی۔ اُسی طرح رفتہ رفتہ گھٹ بھی گئی۔ اور اب چاند پہلے سے زیادہ خوبصورت اور چمک دار نظر آنے لگا۔ دوسرا دن گذر گیا۔ اور دوسری رات آئی۔ اور اپنے معمول کے مطابق چاند پھر نکلا۔ مگر کسی قدر دیر بعد۔ جب کہ وہ اُفق پر سے اُبھر رہا تھا۔ اُس وقت بھی یہ خوف اُس کے دل میں گزرا تھا کہ میری چمک جتنی کل تھی۔ اُتنی آج نہیں۔ مگر جب اُس نے اپنا چہرہ دریا میں دیکھ لیا تو پھر تو یہ مبارک نقص اس کے دل پر آئینہ کی طرح روشن ہوگیا۔ موسم شور انگیز تھا۔ ہوا میں یکایک تیزی پیدا ہوئی اور موجیں اُٹھ کر منہ میں جھاگ بھر لائیں۔ شاید جوار (مد) پہلے ہی پہل چاند کی ہمدردی کو اُٹھا تھا۔ اور جو بات پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ایک خوفناک طوفان نے بجلی کی کڑک سے آسمان کو ہلا دیا۔ اور مینہ سے زمین کو نہلا دیا۔ چاند نہایت گھنگھور بجلیوں والی گھٹا کی جھپٹ میں آگیا۔ اس حالت اضطراب میں اُس کے خوش ہونے والے حریف بھی نہیں معلوم کہاں جاچھپے۔ جس سے چاند کی ذلت اُن کی نظروں سے پوشیدہ رہی۔ دوسری شام کو اور اسی طرح بعد میں بھی کئی شاموں تک چاند دیر کے بعد نکلتا رہا۔ اور روز بروز دُھندلا ہی ہوتا گیا۔ اِدھر یہ حال تھا کہ ہر موقعے پر وہ چھوٹے ستارے جو اُس کے سامنے مغلوب ہوگئے تھے۔ زیادہ تعداد میں نکلتے آتے تھے۔ اور اُس کے زوال پذیر عزت و جلال اور نقصان پذیر حسن و کمال کو دیکھ دیکھ کر خوشی سے جامے میں پھولے نہ سماتے تھے۔ کامیابی نے چاند کو خودبین اور مغرور بنا دیا تھا۔ مصیبت نے اُس کے خیالات کی اصلاح کی۔ اور عجز و انکسار کی نرم نرم دلفریبیوں سے اُسے پھر وہ جگہ دلوں میں حاصل ہوئی۔ جو غرور کے ہاتھوں چھن گئی تھی۔ کیونکہ جب اُس کی بدری شکل گھٹ کر اخیر حصۂ ماہ میں خمیدہ ناخن کی شکل بن گئی تو وہ سارے آسمان والوں کی نظر میں سب دنوں سے زیادہ خوبصورت نظر آیا۔ آخرکار ایک رات ایسی بھی آئی۔ جب کہ چاند کا کہیں پتہ نہ تھا۔ دمداد ستارہ بھی کسی غیر معلوم حصے میں چلا گیا تھا۔ اس شب کو ساری رات آسمان پر سناٹا رہا۔ مہینے کے انقلاب پر اطمینان کے ساتھ غور کرتے ہوئے ستاروں نے غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک اپنا سفر طے کیا۔ اور تجربے سے عقل حاصل کرکے متواضع اور راضی برضا رہے۔ ہر ایک اپنی تقدیر پر شاکر تھا۔ دوسری شام کو چاند نئے ہلال کی صورت میں مطلع مغرب سے پھر نمودار ہوا۔ جس سے سب کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ فوراً آسمان کے ہر حصے سے سب نے اُس کے پھر جی اُٹھنے پر دل سے مبارکباد کی صدا بلند کی۔ کہتے ہیں کہ ٹھیک اُس وقت جب کہ وہ غروب ہورہا تھا۔ اور جب کہ اُس کی کمان دھندلے بینگنی اُفق پر ابھی لٹک ہی ری تھی۔ ایک فرشتہ نمودار ہوا۔ جو اُس کے دونوں سروں کے بیچ میں ایک خاص ادا سے کھڑا تھا۔ جب اُس نے مڑ کر دیکھا۔ تو اُس کی آنکھ جلدی سے اس سرے سے اُس سرے تک تمام دنیا پر دوڑ گئی۔ آفتاب تو نہیں معلوم کن گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ چاند اُس کے زیر قدم ہی تھا۔ نیچے زمین پر جہاں تک نگاہ کام کرتی تھی۔ فرشِ زمردین بچھا ہوا تھا۔ اُوپر آسمان بُرج بُرج پر چراغاں کررہا تھا۔ وہ آن کی آن ٹھہر گیا اور پھر اس زبان میں جس میں صبح کے ستاروں نے مل کر گیت گایا تھا۔ اور بندگانِ خدا نے خوشی کے نعرے مارے تھے۔ اس طرح زمزمہ سنجِ حمد و ثنا ہوا: ’’اے صانعِ مطلق! اے حکمِ برحق! تیری صنعتیں بڑی اور حیرت میں ڈالنے والی ہیں۔ جس چیز کو دیکھتا ہوں۔ تیری حکمت اس سے آشکار ہے‘‘ اتنا کہہ کر وہ تو خاموش ہوگیا۔ مگر وہ زمزمہ آسمان کے گنبد میں اُس وقت سے آج تک برابر گونج رہا ہے۔ (ترجمہ از انگریزی) سوالات ۱- چاند کے طلوع و غروب پر ستاروں نے جن خیالات کا اظہار کیا۔ اُنھیں صاف عبارت میں لکھو۔ ۲- چاند ہلال کی حالت سے ترقی کرتے کرتے بدر ہوگیا۔ پھر گھٹ کر غائب ہوگیا۔ اس قدرتی حقیقت کے متعلق مضمون نگار نے اپنے تخیل سے کام لے کر کن جذبات کو چاند کی طرف منسوب کیا ہے۔ ۳- اس سبق میں تاکید مؤکد کی کون کون سی مثالیں ہیں؟ ۴- مندرجۂ ذیل الفاظ کے واحد بتائو: اجرام۔ ثوابت۔ سیارات۔ بندگان۔ صنائع۔ …٭…٭…٭… ۱۵- گنگا اے آبِ جاری، اے فیضِ قدرت، اے موجِ رحمت، اے رودِ گنگا ہے سب کے دِل میں یہ تیری قیمت، ایک ایک موتی ایک ایک قطرا عکسِ شفق سے سونے کی لہریں، بن کر اُٹھی تھیں موجیں ہزاروں مہتاب نے وہ منظر ہی بدلا، بہنے لگا اِک چاندی کا دریا ان خنکیوں کا اعجاز ہے یہ تازہ ہوئی ہیں ساری اُمنگیں بڑھنے لگی ہے دل کی حرارت، پانی سے پیدا ہوتا ہے شعلا ہوتے ہیں یوں تو تیرے کنارے، جلسے بہت کچھ میلے بہت سے ’’صبحِ بنارس‘‘ شہرت ہے جس کی، بے مثل ہے وہ تیرا کرشما جس سرزمین سے تیرا گزر ہے ، رشکِ بہارِ گلشن ہوئی ہے پودوں پہ رونق ، سیراب کھیتی ، شاداب وادی ، سرسبز صحرا جناب مولانا سہا علیگ سوالات ۱- اس شعر میں ’سونے کی لہریں‘ اور ’چاندی کا دریا‘ سے کیا مراد ہے؟ عکسِ شفق سے سونے کی لہریں، بن کر اُٹھی تھیں موجیں ہزاروں مہتاب نے وہ منظر ہی بدلا، بہنے لگا اِک چاندی کا دریا ۲- ’صبحِ بنارس‘ کا کیا مفہوم ہے؟ ۳- اس نظم کو سامنے رکھ کر سب عبارت نثر میں لکھو۔ مگر ترتیب کے بدلنے میں کوئی لفظ نہ رہ جائے۔ ۴- اس سبق میں صفت موصوف کی کون کون سی مثالیں ہیں۔ ۵- ترکیب کرو۔ ’’بڑھنے لگی ہے دل کی حرارت‘‘ ’’پانی سے پیدا ہوتا ہے شعلا‘‘ …٭…٭…٭… ۱۶- ہوشیار سراغ رسان ڈرامہ اشخاص یوسف جی اسمٰعیل بھائی: بمبئی کا ایک امیر جوہری ۔ سلیم: یوسف جی کا ایک معتبر ملازم۔ شاہد حسین:خفیہ پولیس کا افسر۔ ہدایات: یوسف جی اپنے آراستہ کمرے میں بحالت پریشان بیٹھے ہیں۔ اس کمرے کے بائیں گونے میں ایک دروازہ ہے۔ جو اُن کی خوابگاہ میں کھلتا ہے۔ دائیں جانب اس کمرے کا بیرونی دروازہ ہے۔ یوسف جی: (وفورِ پریشانی میں دونوں ہاتھوں سے سرتھام کر) کس قدر تعجب ہے۔ کس حیرت ہے۔ کل میں نے اپنے ہاتھوں سے اس ہیرے کو تجوری میں بند کیا۔ تجوری ویسی کی ویسی بند ہے۔ کبھی میرے پاس ہے۔ اور ہیرا غائب (اُٹھ کر اور کمرے میں ٹہل کر) آخر یہ پولیس کس مرض کی دوا ہے۔ میرے ہی گھر کا کونہ کونہ تلاش کرنے اور مجھ ہی سے سوالات کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتی۔ اگر میں ہی بتا سکتا۔ تو ان کو یہ تکلیف کیوں دیتا (پھر کچھ سوچ کر) آہ! اگر یہ ہیرا کم ہوگیا۔ تو ………… (سلیم چائے کی کشتی ہاتھوں میں لیے داخل ہوتا ہے) سلیم: چائے حاضر ہے یوسف جی: چائے! مگر سلیم اس کمرے میں میرے یا تمھارے سوا اور کوئی نہیں آتا۔ پھر یا تو تم چور ہو یا میں۔ سلیم: (رونی صورت بنا کر) تو حضور کو مجھ پر شک ہے حضور کے نمک ہی کی مار پڑے۔ جو میں نے آنکھ اُٹھا کر کبھی آپ کے مال کو دیکھا ہو۔ لیجیے میں کہیں گیا تو نہیں۔ میری تلاشی لے لیجیے۔ (ایک ایک کرکے ٹوپی، واسکٹ اور پھر جوتا اُتار کر دکھاتا ہے) یوسف جی: (جوتے کو دیکھ کر) بس بھائی بس تلاشی ہوچکی۔ (سلیم پھر بسورنا شروع کرتا ہے) اے بھائی میں نے کب کہا ہے کہ تم چور ہو۔ سلیم: (روتے ہوئے) ابھی ابھی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ چور یا تم ہو یا میں۔ یوسف جی: (چائے پیتے پیتے) تو بھئی میں نے کیا خطا کی۔ تم کو چور کہا تو اپنے آپ کو کب بخشا اچھا جانے دو۔ بھائی معاف کرو۔ تم چور نہیں۔ چور میں ہوں۔ مگر یہ تو……… (ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے) یہ کون؟ سلیم ذرا دیکھنا تو۔ (سلیم ٹیلی فون پر باتیں کرتا ہے) سلیم: ہاں ہاں۔ تشریف رکھتے ہیں۔ ذرا ٹھہرئیے۔ (یوسف جی سے مخاطب ہوکر) کوئی صاحب آپ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ خفیہ پولیس کے دفتر سے…… اُنھوں نے شاید یہی کہا ہے۔ یوسف جی: (جلدی سے چائے کا پیالہ رکھ کر) اب خوابِ غفلت سے جاگے۔ خیر! (ٹیلی فون پر) میں ہوں……… یوسف جی………جی، میں ہی یوسف جی اسمٰعیل بھائی ہوں۔ فرمائیے…… جی ہاں۔ چوری میرے ہی ہاں ہوئی ہے کون آئے گا۔ آپ؟……… آپ کون صاحب ہیں……… شاہد حسین…… آپ کی تعریف؟…… انسپکٹر خفیہ پولیس۔ آئیے صاحب ضرور آئیے۔ اور جلد آئیے۔ میں آپ ہی کے انتظار میں ہوں…… دس بجے سے پہلے نہیں آسکتے؟ (قریب کی کرسی پر بیٹھ کر اور ذرا اطمینان سے گھڑی دیکھ کر) ابھی تو بجے ہیں۔ افوہ ایک گھنٹہ باقی ہے! خیر میں اتنے میں کپڑے پہن لیتا ہوں۔ سلیم تم یہاں ٹھہرو۔ میں ذرا کپڑے بدل لوں۔ (خواب گاہ میں جاتے ہیں) (سلیم ذرا سی دیر انتظار کرتا ہے۔ اور پھر احتیاط سے چاروں طرف دیکھ کر ٹیلی فون پر باتیں کرتا ہے) دیکھو۔ میں ہوں ٹالی۔ جلدی کرو۔ مجھ پر شبہ کیا جارہا ہے۔ دس بجے خفیہ پولیس کا افسر آرہا ہے…… اُس کا نام؟ شاہد حسین۔ مگر پولیس نے مکان گھیر رکھا ہے۔ میں باہر نہیں جاسکتا۔ دس بجے…… ٹھیک دس بجے۔ خدا کے واسطے جلدی کرو۔ میں کیا کروں…… بہت بہتر۔ (واپس آکر بڑے اطمینان سے دیواروں پر لگی ہوئی تصویروں کو دیکھنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یوسف جی داخل ہوتے ہیں) یوسف جی: ہاں بھئی سلیم! تو تم کو پورا اطمینان ہے کہ میرے اور تمھارے سوا کل سے اس کمرے میں کوئی نہیں آیا۔ سلیم: (پھر رونی صورت بناکر) خدا کا غضب ٹوٹے جو میں نے کل سے آپ کے کمرے میں قدم بھی رکھا ہو۔ یوسف جی: (گھبرا کر) نہیں۔ میں نے تو یونہی ایک سوال کیا تھا۔ تم پھر رونے لگ گئے۔ جائو آرام کرو۔ ہاں چائے کے برتن اُٹھا لے جائو۔ (سلیم برتن اٹھا کر روتا ہوا چل دیتا ہے) سلیم بالکل بے گناہ ہے۔ کس قدر معصوم ہے میں نے اُسے ناحق رُلایا۔ کتنے برس سے میرے پاس کام کررہا ہے۔ نہیں یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ (سلیم داخل ہوتا ہے) یوسف جی: کیوں کیا ہے؟ سلیم: حضور! انسپکٹر شاہد حسین آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ یوسف جی: (گھڑی دیکھ کر) انسپکٹر شاہد حسین! ابھی تو سوا نو ہی بجے ہیں۔ خیر بلا لو۔ (انسپکٹر شاہد حسین داخل ہوتے ہیں۔) شاہد حسین: آداب عرض ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ ذرا وقت سے پہلے ہی آگیا۔ مجھے آپ کی پریشانی کا خیال تھا۔ یوسف جی: تسلیم۔ تسلیم۔ آپ نے بہت مہربانی کی۔ میں آپ ہی کا انتظار کررہا تھا۔ شاہد حسین: اگر تکلیف نہ ہو تو اس چوری کا مفصل حال مجھے بتا دیجیے تاکہ میں اپنی تحقیقات شروع کرسکوں۔ یوسف جی: جی مفصل حال کیا ہے۔ جو عرض کروں۔ میں جواہرات کی تجارت کرتا ہوں۔ کوئی آٹھ دن گذرے میں نے ایک ہیرا دس ہزار روپے پر خریدا۔ اور اپنی دانست میں بہت سستا خریدا۔ کل رات تک وہ میری تجوری میں محفوظ تھا۔ اور آج غائب۔ بس شاہد حسین: (سوچتے ہوئے) ہوں ہوں۔ اس کمرے میں کل رات سے اس وقت تک کون آیا؟ یوسف جی: صرف میں یا میرا ملازم۔ مگر وہ بہت معتبر ہے۔ مدت سے میرے پاس ہے۔ مجھے اس پر کوئی شبہ نہیں۔ شاہد حسین: خیر۔ مگر یہ تو بتائیے کہ یہ ملازم کل سے کہیں باہر تو نہیں گیا۔ یوسف جی: بالکل نہیں۔ شاہد حسین: (سوچتے ہوئے) کیا میں اس تجوری کو دیکھ سکتا ہوں۔ یوسف جی: بڑی خوشی سے۔ ادھر آئیے۔ وہ میرے سونے کے کمرے میں رکھی ہے۔ (دونوں اُٹھ کر جانا چاہتے ہیں کہ سلیم داخل ہوتا ہے) سلیم: کوئی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اپنا نام انسپکٹر شاہد حسین بتاتے ہیں۔ یوسف جی: انسپکٹر شاہدحسین! شاہد حسین: (ذرا بیتاب ہوکر سوچتے ہوئے) ہوں ہوں۔ انسپکٹر شاہد حسین۔ ہاں سیٹھ صاحب انھیں بلائیے۔ اچھا ہوا کہ میں وقت سے کچھ پہلے ہی آگیا۔ (سلیم سے) جائو اُنھیں بلا لائو۔ (یوسف جی سے) مگر سنیے۔ میرا نام نہ بتائیے گا۔ فقط یہی کہہ دیجیے کہ میں آپ کا ایک دوست ہوں۔ (سلیم اور انسپکٹر شاہد حسین نمبر۱ داخل ہوتے ہیں) شاہد حسین نمبر۲:تسلیمات۔ (سلیم کو غور سے دیکھتے ہوئے یوسف جی سے مخاطب ہوکر) سیٹھ جی اسمٰعیل بھائی آپ ہی کا نام ہے۔ میں خفیہ پولیس…… (شاہد حسین نمبر۱ کی طرف مشتبہ نظروں سے دیکھ کر) اہم اہم۔ یوسف جی: کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ میرے دوست ہیں۔ آپ فرمائیے۔ شاہد حسین نمبر۲:خیر۔ کیا میں آپ کے ملازم سے دو تین سوالات پوچھ سکتا ہوں؟ یوسف جی: بڑی خوشی سے (پکار کر) سلیم! سلیم! میاں اِدھر آئو۔ سلیم: (داخل ہوکر) جی سرکار! شاہد حسین نمبر۲: (سلیم کو بنظرِ غائر دیکھ کر) تم یہاں کب سے ملازم ہو؟ سلیم: ایک مدت ہوگئی ہے شاہد حسین نمبر۲: کتنے روز؟ کتنے مہینے؟ کتنے برس؟ سلیم: یہ تو میں نہیں جانتا صاحب۔ مگر ہوگئے ہوں گے یہی کوئی دس بارہ برس۔ شاہد حسین نمبر۲: مگر چھ برس ہوئے۔ تم الٰہ آباد میں تھے۔ سلیم: (رو کر) میں الٰہ آباد میں؟ صاحب میں نے تو الٰہ آباد کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ شاہد حسین نمبر۲: اب رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ دیکھیں تمھارا جوتا۔ یہ تم نے کہاں سے خریدا ہے؟ سلیم: یہیں سے (دائیں پائوں کا جوتا اُن کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اور چپکے سے بائیں پائوں کا جوتا دائیں پائوں میں پہن لیتا ہے) شاہد حسین نمبر۲: ٹھیک (جوتا واپس دے کر) لائو تو دوسرا پائوں (سلیم جوتے کو لے کر اور دائیں پائوں میں ڈال کر پھر اُسی کو واپس دے دیتا ہے) سلیم: لیجیے۔ شاہد حسین نمبر۲: خوب دونوں دائیں پائوں۔ (اسے اپنے اپنے ہاتھ پر رکھ کر) ذرا دیکھیں دوسرا پائوں۔ وہ جو اب تمھارے بائیں پائوں میں ہے۔ سلیم: (بحالت مجبوری دوسرا جوتا دے کر) لیجیے۔ شاہد حسین نمبر۲: (جوتے کی ایڑی کو ٹھوک بجا کر باہر کی طرف کھینچتا ہے۔ اس میں سے ہیرا نکال کر خوشی اور کامیابی کے اظہار سے) لیجیے سیٹھ صاحب یہ ہے آپ کا ہیرا۔ اب میں آپ کے اس معتبر ملازم کو ذرا بڑے گھر کی ہوا کھلانے کے لیے تکلیف دینے کی اجازت چاتا ہوں۔ شاہد حسین نمبر۱: (ایک پستول کی نالی شاہد حسین نمبر۲ کی طرف کرکے) ایسی جلدی کیا ہے؟ شاہد حسین نمبر۲: آپ کا اِس حرکت سے مطلب؟ شاہد حسین نمبر۱: صرف یہی کہ میں آپ کی چال سمجھ گیا۔ (یوسف جی سے) سیٹھ صاحب! یہ شخص بھی آپ کے ملازم کا رازدار ہے۔ اور چور ہے۔ جو ہیرا اِس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ صرف موم کا بنا ہوا نقلی ہیرا ہے۔ اصلی ہیرا اس وقت اس کی جیب میں ہے۔ (شاہد حسین نمبر۲ سے مخاطب ہوکر) ہاں ذرا اپنے ہاتھ تو اُٹھائیے۔ (وہ ہاتھ اُٹھاتا ہے) سیٹھ صاحب! اب آپ اس کی جیب سے اپنا ہیرا نکال لیجیے۔ (باہر کے دروازے پر کوئی شخص آواز دیتا ہے) یوسف جی: یہ کون؟ شاہد حسین نمبر۱: ٹھہرئیے۔ یہ بھی شاہد انھی کا کوئی ساتھی ہے۔ ان دونوں کو آپ اپنی خواب گاہ میں بند کردیجیے۔ (سلیم اور شاہد حسین نمبر۲ سے مخاطب ہوکر) چلئے تھوڑی دیر کے لیے اس کمرے میں آرام فرمائیے۔ (خواب گاہ میں داخل کرکے دروازہ بند کردیتا ہے) (یوسف جی سے) اب تھوڑی دیر کے لیے سیٹھ صاحب مجھے یوسف جی اسمٰعیل بھائی بننے کی اجازت دیجیے۔ آپ میرے وکیل ہیں اور کسی قانونی مشورہ کے لیے اِس وقت میرے ہاں تشریف لائے ہیں۔ (بیرونی دروازہ کھولتا ہے) آئیے آئیے۔ جناب کا اسم شریف۔ ملاقاتی: میرا نام انسپکٹر شاہد حسین ہے۔ (یوسف جی نام سُن کر چونک پڑتے ہیں) شاہد حسین نمبر۱: آپ وکیل صاحب ذرا مسودہ تیار کرلیجیے۔ (شاہد حسین نمبر۳ سے مخاطب ہوکر) آئیے اس کمرے میں تشریف لائیے۔ اسی میں وہ تجوری رکھی ہے۔ (کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ تھوڑی سی دیر میں کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ انسپکٹر شاہد حسین نمبر۱ واپس آتا ہے) سب کے سب گرفتار ہوگئے۔ آج کا دن بھی کتنا اچھا ہے۔ چوروں کا ایسا خطرناک جتھا اور ایک ہی موقع پر قابو میں آگیا۔ صرف میری خوش قسمتی ہے۔ آیندہ سے سیٹھ صاحب ذرا اپنے ہیروں کو سنبھال کر رکھا کیجیے۔ (شاہد حسین نمبر۲ اور سلیم چپ چاپ خوابِ گاہ کا دروازہ کھول کر اور پستول ہاتھ میں لیے داخل ہوتے ہیں) چوروں کا کچھ اعتبار نہیں۔ عین اِس وقت جب آپ اپنے آپ کو بالکل محفوظ خیال کرتے ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کی تجوری کی تاک میں ہوں مثلاً اس وقت آپ کو کیا معلوم ہے۔ کہ آپ اس شہر کے تین ہوشیار اور چالاک چوروں کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ (یوسف جی گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو گھرا ہوا پاتے ہیں) یوسف جی: (بہت پریشانی سے) آپ کا ان باتوں سے مطلب؟ شاہد حسین نمبر۱: یہی کہ ذرا ہم کو اجازت دیجیے۔ کہ آپ کو اس کرسی کے ساتھ مضبوط باندھ دیں۔ تاکہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے آرام تو کرسکیں (ایک رسی سے یوسف جی کو کرسی کے ساتھ باندھ دیتا ہے) لیجیے سیٹھ صاحب خدا حافظ اب جب آپ پھر کسی عجیب و غریب ہیرے کو بہت ہی سستے داموں پر خرید لیں گے تو ہم آپ کی ملاقات کا شرف حاصل کریں گے۔ آداب عرض (پستول جیب میں ڈال کر دروازے تک جاتے ہیں۔ اتنے میں دروازہ کھلتا ہے اور ایک شخص پستول کی نالی سامنے کیے داخل ہوتا ہے) کون تم کون؟ آنے والا: (بڑے اطمینان سے) خفیہ پولیس کا انسپکٹر شاہد حسین۔ شاہد حسین نمبر۱: (بہت گھبرا کر) بغیر اطلاع اس طرح اندر آنے سے تمھارا مطلب؟ انسپکٹر شاہد حسین: یہی کہ میں ایک ہوشیار سراغ رساں ہوں۔ اور وہ شخص جس کو تم شاہد حسین سمجھ کر کمرے میں بند کر آئے ہو۔ صرف میرا سارجنٹ تھا۔ اب میں ذرا تم سے بے تکلف ہونے کی اجازت چاہتا ہوں۔ ذرا ہاتھ بڑھا دیجیے۔ دیکھیے اب منہ بنانے سے کیا فائدہ۔ شاباش۔ ایسے! کیا کہنا!! (تینوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دیتا ہے) یوسف جی: (بہت حیرت اور مسرت سے) تو اصلی انسپکٹر شاہد حسین آپ ہیں۔ ہاہا ہاہا حکیم احمد شجاع بی-اے علیگ سوالات ۱- سلیم نے جب ٹیلی فون پر چوروں کو شاہد حسین انسپکٹر پولیس کے آنے کی اطلاع کی۔ تو چوروں نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا؟ ۲- جس شخص کو چوروں نے انسپکٹر شاہد حسین سمجھ کر کمرے میں بند کردیا۔ کون تھا؟ ۳- اصلی انسپکٹر شاہد حسین چوروں کو دھوکا دینے کے لیے کیا چال چلا؟ ۴- مندرجۂ ذیل میں سے مذکر کون کون سے ہیں اور مؤنث کون کون سے؟ تجوری۔ مرض۔ جوتا۔ خطا۔ اطمینان ۵- ’’پولیس کس مرض کی دوا ہے‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ نیز بتائو کہ بڑے گھر کی ہوا کھلانے کے کیا معنی؟ …٭…٭…٭… ۱۷- کسان عزت ہے نزدِ گبر و مسلماں کسان کی کیا جانے قدر جاہل و ناداں کسا کی خلقِ خدا ہے بندۂ احساں کی دُنیا تمام یعنی ہے مہماں کسان کی ہے اس کی میزبانی کا شہرہ جہان میں شانِ خلیلِ۱؎ حق ہے نمایاں کسان میں وقفِ رفاہِ عام ہے محنت کسان کی صرفِ فلاح ملک ہے قوت کسان کی عالم کے واسطے ہے مشقت کسان کی اللہ رے یہ چشمِ مروّت کسان کی ہے کام کاری عمر بشر کی بھلائی سے کچھ اُس کا واسطہ نہیں اپنی کمائی سے اپنی نہیں ہے فکر کچھ اصلا کسان کو آرام و عیش کی نہیں پروا کسان کو ہیں رنج سو طرح کے گوارا کسان کو تکلیفیں سہنا پڑتی ہیں کیا کیا کسان کو ۱- حضرت ابراہیم کا لقب ہے۔ خلیل کے معنے دوست کے ہیں۔ آپ اللہ کے دوست تھے۔ یعنی فرماںبردار بندے تھے۔ ہے مفلسی کی گود میں پل کر بڑا ہوا ہمدردئیے بشر کا ہے چسکا پڑا ہوا ضرب المثل نہ کیوں ہو قناعت کسان کی روشن ہے سب جہان پہ حالت کسان کی تھوڑی سو پونجی تھوڑی سی دولت کسان کی اور اس پہ دیکھنے کی ہے ہمت کسان کی غم اپنا کچھ نہیں ہے ذرا بھی کسان کو ہے فکرِ رزقِ خلقِ خدا کی کسان کو مشغول کاروبار ہے جب دیکھو تب کسان مصروفِ کاروبار ہے جب دیکھو تب کسان ہے مستعد بلا کا جفا کش غضب کسان وقتِ عزیز اپنا گنواتا ہے کب کسان ہر صبح گھر سے دیکھا نکلتے کسان کو کٹتی ہے عمر دھوپ میں جلتے کسان کو بودا نہیں ہے رشتۂ اُلفت کسان کا رہتا ہے ایک رنگِ طبیعت کسان کا مذہب نہیں ہے بغض و عداوت کسان کا شیوہ نہیں ہے قطع محبت کسان کا کرتا ہے کیسی زندگیِ صلح کل بسر پرخاش پر کسی کی نہیں باندھتا کمر رحمت خدائے پاک کی تجھ پر کسان ہو سر سبز تیرا کھیت سراسر کسان ہو محنت کا اجر تجھ کو میسر کسان ہو غلہ سے پُر ہمیشہ ترا گھر کسان ہو ہوں درست بُردِ قحط سے محفوظ کھیتیاں اور تیرے در سے ملتی رہیں سب کو روٹیاں جناب سید محمد فاروق سوالات ۱- ان الفاظ کو نئے فقروں میں استعمال کرو: رفاہِ عام۔ فلاحِ مُلک۔ محنت کا اجر۔ ضرب المثل۔ صلح کل ۲- شاعر نے کسان کی تعریف میں کیا کیا صفات بیان کی ہیں۔ اُن کو شمار کرو۔ ۳- نظم بالا کا مطلب آسان اُردو نثر میں لکھو۔ ۴- ’’ہر صبح کو گھر سے دیکھا نکلتے کسان کو‘‘ کی ترکیب نحوی کرو ۵- فلاحِ مُلک۔ چشمِ مروت۔ ہمدردیِ بشر۔ خلقِ خدا۔ رنگِ طبیعت۔ قطعِ محبت۔ خدائے پاک۔ کون کون سے مرکب ہیں؟ …٭…٭…٭… ۱۸- گھر سے نکل کے دیکھو ’’سفر وسیلۂ ظفر ہے‘‘ یہ مقولہ اگلے زمانے میں بھی سچ تھا۔ اور آج بھی سچ ہے۔ بلکہ پہلے کم تھا۔ اب زیادہ۔ پہلے افراد پر عائد ہوتا تھا۔ اب اقوام پر حاوی ہے۔ کسی ترقی کرتی ہوئی قوم کا نام لو۔ جو اُس فوائد سے بے خبر ہو۔ دنیا کی موجودہ تجارت کا فروغ اسی اُصول پر مبنی ہے۔ جرمنی۱؎ آج کل صنعت و حرفت کی ترقی میں اوّل درجے پر شمار کیا جاتا ہے کیا اِس صنعت و حرفت کا مدار محض اہلِ جرمنی کی قدردانی پر ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اہلِ مُلک بھی اپنے مال سے بڑھ کر کسی کے مال کو نہیں سمجھتے۔ دوسرے مُلکوں کی بنی ہوئی چیزیں اگر جرمنی میں راہ پانے کی کوشش کریں۔ تو وہاں کی حکومت ان اشیا پر بھاری محصول لگاتی ہے۔ تاکہ مُلکی اشیا کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ مگر یہ وہاں کی صنعتی ترقی کا ایک جزو ہے۔ اور شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ جزوِ قلیل، جزوِ اعظم بیرونی تجارت پر منحصر ہے۔ دنیا کا کون سا گوشہ ہے۔جہاں جرمن ساخت کا مال نہیں پہنچتا۔ چین میں اس کی کھپت ہے۔ روم میں اس کی قدر ہے۔ افریقہ کی منڈیاں وہ گھیرے ہوئے ہے اور ہندوستان کے بازاروں میں وہ انگریزی ساکت کی چیزوں سے بڑھ کر بکتا ہے۔ یہاں تک کہ خود انگلستان باوصف بڑا تجارتی مُلک ہونے کے جرمن ساخت کی اشیا کی دستبرد سے بچ نہیں سکتا اور لندن کے بازاروں میں لاکھوں کا مال جرمنی سے آیا ہوا بکتا ہے۔ امریکہ بھی اس ترقی میں کسی سے کم نہیں۔ اور انگلستان بھی اوّل درجے کے تجارتی ممالک میں ہے۔ اس کے سوا یورپ کے قریب قریب سب مُلک اس تجارتی لوٹ میں جو دنیا میں مچ رہی ہے۔ کم و بیش حصہ دار ہیں۔ مشری اقوام میں سے جاپان نے حال ہی میں اِس گُر کو سیکھا ہے۔ اور جاپانی چیزیں بھی جابجا پھیلتی جاتی ہیں۔ اب ہندوستان کی باری ہے۔ ہاتھ کے کام میں اب بھی ہمارا ۱- یہ مضمون جنگِ عظیم سے بہت پہلے لکھا گیا تھا۔ وطن کسی سے کم نہیں۔ اور ابھی کل کی بات ہے کہ یورپ کی دوکانوں میں ہندوستان کی دستکاری مہنگے داموں بکتی تھی۔ اب مشین کا زمانہ آگیا ہے۔ اور صنعتی اور تجارتی لڑائی میں اس قوم کا جو کل کا مقابلہ ہاتھ سے کرنا چاہے، وہی حال ہوگا۔ جو میدانِ جنگ میں توپ کا مقابلہ تیر و تفنگ اور بندوق کا سامنا تیغ و سنان کے ساتھ کرنے سے ہوتا ہے۔ وقت آ پہنچا ہے کہ ہند جاگے اور اس کے ساتھ اہل ہند کی قسمت۔ اور ہندوستان والے دُنیا کی معزز اور صنعتی اور تجارتی اقوام کی مجلس میں برابر کی کرسی لیں۔ اس کا آغاز تو پہلے گھر کی خبر لینے سے ہی ہوگا۔ کہ اپنی ضرورت کی چیزیں اپنے کارخانوں سے خریدیں۔ مگر اس کا معراج یہ ہے کہ ہندوستان کا مال زمانۂ سابق کی طرح اطراف دنیا میں پھیلنے لگے۔ بیشک یہ منزل دور ہے۔ اور دشواریاں بھی رکھتی ہے۔ لیکن اس کا پیش نظر رہنا بہرحال ضرور ہے۔ مسافر کی رفتار پر اس علم کا اثر ہوتا ہے۔ اور کوشش کا معیار جتنا بلند رہے مفید ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ترقی کی تدبیریں کیا ہیں۔ تدبیریں تو مختلف ہیں اور سب اپنی اپنی جگہ ضروری۔ مگر ہندیوں کا بکثرت دنیا کے دوسروں مُلکوں میں پھیل جانا ان میں سے ایک تدبیر ہے۔ جس کی اہمیت میرے دل پر روز بروز نقش ہوتی جارہی ہے۔ صنعتی تعلیم کے لیے سفر درکار ہے۔ تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے سفر درکار ہے۔ محنت مزدوری کے ذریعے ڈھونڈنے کے لیے سفر درکار ہے۔ مگر ان کے علاوہ بعض اور فوائد دوسرے ممالک میں چندے قیام پذیر رہنے سے وابستہ ہیں۔جن کا احساس وطن میں کم ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر وطن کے باہر ہی ہو بھی سکتا ہے۔ دوسری قوموں کے اوضاع و اطوار دیکھنے سے خیالات میں ایک وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جو نہایت قابل قدر ہے۔ اور جب کسی مُلک میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو۔ جو مدتوں باہر رہے ہیں اور جنھوں نے اپنے ہاں کی ہوا کے سوا اور مقامات کی بھی ہوا کھائی ہے تو نامعلوم طور پر ایک قسم کا تغیر مُلک کے حالات اور خیالات میں پیدا ہونے لگتا ہے۔ جیسے میدہ پر خمیر کا اثر ہوتا ہے۔ اور بہت سی ترقیاں اور بہت سی اصلاحیں جو پہلے ناممکن نظر آتی تھیں۔ ممکن معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور کئی تعصبات جو پہلے سدِّ راہ ہوتے تھے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہاں اس نتیجے کے مترتب ہونے کے لیے یہ ضرور ہے کہ جو لوگ سفر سے مستفید ہوں۔ وہ اُس کے فوائد کے اخذ کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ اور اُن میں بیشتر ایسا سفر کریں۔ جس کے اخراجات وہ سفر ہی سے نکالیں نہ یہ کہ سب کے سب مُلک کا روپیہ باہر صرف کر آئیں۔ اب تک جو کچھ لوگ سفرِ یورپ کو نکلے ہیں۔ وہ عموماً یا تو طالب علمی کے لیے نکلے ہیں۔ یا محض سیاحت کے لیے۔ اور اُن لوگوں کی تعداد جو تجارت کی غرض سے یورپ آئے ہیں۔ ابھی بہت کم ہے۔ تاہم اس سلسلے کا آغاز ہی دِل خوش کُن ہے۔ اور ایسے اصحاب کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن میری مراد سفر سے سفرِ یورپ ہی نہیں۔ بلاشبہ اِس وقت یورپ رونق کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اور صاحبانِ توفیق کے لیے اس کا دیکھنا خالی از لطف و فائدہ نہیں۔ مگر میرا مدعا سفر سے عام سفر ہے۔ چین کا ہو یا جاپان کا۔ روم کا ہو یا ایران کا۔ تہذیب کے دعوے دار یورپ کا ہو یا تہذیب کے شکار افریقہ کا۔ سب سے سبق مل سکتا ہے۔ سب سے فائدہ وہسکتا ہے۔بشرطیکہ کوئی محنت اور لیاقت کے جوہر لے کے نکلے اور ہمت کی رفاقت نہ چھوڑے۔ کلکتہ اور بمبئی اور ہندوستان کے بعض اور بڑے شہروں میں ایک معقول تعداد چینیوں کی ملتی ہے۔ جو مختلف صنعتی اور تجارتی طریقوں سے روپیہ کما رہے ہیں۔ اور بوٹ بنانے میں خصویت سے اُستاد ہیں۔ کیا ان کے مقابل میں چین کے کسی مقام میں ایسی یا اس کے قریب تعداد ہندی دستکاروں کی موجود ہے؟ نہیں۔ انگریز تاجروں کو لو۔ اور اُن کے کارخانوں کو دیکھو۔ جو روپیہ گورنمنٹ کے خزناے میں ہمارے ہاں سے جاتا ہے۔ اس کی بابت تو فریادیں ہوتی ہیں کہ ہم لوٹے جارہے ہیں۔ یا یہ بھی گورنمنٹ کا قصور ہے کہ سب بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں، بہت سے بڑے بڑے کارخانے، قریباً سب بستیاں جو چائے، نیل یا قہوہ کی پیداوارکے لیے قائم ہیں۔ انگریز تاجروں کے ہاتھ میں ہیں؟ کیا اگر خود اہلِ مُلک مشترکہ سرمایہ کی بڑی بڑی کمپنیاں رکھتے ہوں۔ اور کاموں میں حصہ لیں۔ اور انگریز تاجروں کے نفع میں خود بھی شریک ہوں۔ تو کوئی انھیں روکتا ہے؟ چاہیے تو یہ کہ ہر انگریز کے جواب میں جو ہندوستان میں تجارت کرکے روپیہ کماتا ہے۔ ایک ہندی تاجر انگلستان میں روپیہ کما رہا ہو۔ ہر فرانسیسی تاجر کے جواب میں ہندی کی کوٹھی فرانس میں ہو۔ ایران تجارتی اقوام کے لیے زرخیر منڈی ہے۔ جب دُور دُور سے قومیں آکر وہاں سے روپیہ کما سکتی ہیں۔ تو ہندوستان والے جو پاس رہتے ہیں کیوں مستفید نہ ہوں۔ خلیج فارس کے سواحل پر چند جگہ ہندوستانیوں کی دُکانیں ہیں۔ کیوں اس سے زیادہ نہ ہوں۔ مُلک کے اندر کے شہروں میں کیوں ہندی تاجر گھس نہ جائیں؟ روم ہم سے بہت دور بھی نہیں۔ اور ہمارے ابنائے وطن میں خصوصاً مسلمانوں کا تعلق بھی اُس سے گاڑھا ہے۔ روم میں ہر قوم کے تاجر ہیں۔ نہیں موجود تو ہندی ہی نہیں۔ افریقہ کے بعض حصوں میں ہندوستانی جانے لگے تھے۔ اور کام بھی اُن کا خاصہ بن چلا تھا۔ مثلاً جنوبی افریقہ میں اور وہاں کی آب و ہوا بھی اچھی تھی۔ مگر وہاں فرنگی اقوما کو ان چند آدمیوں کی کامیابی بھی کانٹے کی طرح کھٹکی اور اُنھوں نے ان کے راستے میں بے حد دقتیں ڈال دیں۔ اور اُن کا جانا قریب قریب بند کر دیا۔ اچھا یہ دروازہ بند ہے۔ تو بند ہی سہی اور کئی دروازے افریقہ میں کھلے ہیں۔ وہاں گھس جائو اور جو دروازہ بند ہے۔ اس کو بھی کھٹکھٹاتے رہو۔ کبھی تو کھلے گا ہی۔ جنوبی امریکہ کے بعض حصوں میں کچھ ہندی اچھی حالت میں ہیں۔ وہاں اُن کے خلاف تعصب بھی کم ہے۔ وہاں کچھ اور بھی کھپ سکتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس وقت جمیع اقوامِ عالم کو مقناطیس کی طرح کھینچ رہی ہیں۔ جرمن سے، روس سے، فرانس سے، انگلستان سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ اور وہیں کے باشندے قرار پا جاتے ہیں۔ معلوم نہیں۔ اگر بہت سے ہندوستانی وہاں جاکر بسنا چاہیں تو وہ کیا روّیہ اختیار کریں۔ لیکن تا حال اُن کا سلوک ہندوستانی سیاحوں، واعظوں اور طلبا سے بہت عمدہ ہے۔ آزادی کی سرزمین ہے۔ زرخیزی میں دنیا کے کسی حصے سے کم نہیں۔ محنت مزدوری کے لیے اچھی ہے۔ بشرطیکہ کوئی ہنر کسی کے پاس ہو۔ وہاں قسمت آزمائی کرنے والے نکلنے چاہییں۔ کینیڈا تو سلطنت برطانیہ ہی کا حصہ ہے۔ اور اس میں ہزاروں ایکڑ قابل زراعت زمین کاشتکار کے ہاتھ کا انتظار کررہی ہے۔ وہاں کی گورنمنٹ آئے دن انگلستان اور دیگر ممالک یورپ میں ایجنٹ بھیجتی ہے کہ لوگوں کو ترغیب دے کر لائو۔ زمین مفت ملے گی۔ وہ آکر قابض ہوجائیں۔ اور آباد کریں۔ آئے دن سینکڑوں جاتے ہیں۔ مگر اُدھر سے ’’ہَل مِن مزید‘‘ کی آواز بھی جاری ہے۔ کچھ ہمت ور پڑھے لکھے ہندوستان اگر چاہیں تو عجب نہیں۔ کہ اُنھیں وہی رعایات مل جائیں۔ جو اور آبادکاروںکو مل رہی ہیں۔ اور اگر یہ تجربہ کامیاب ثابت ہو۔ تو پھر اور زیادہ لوگ جانے لگیں۔ غرض اُمنگ اور جستجو شرط ہے۔ پھر اس میں کچھ کلام نہیں کہ ’’پائ؁ گدا لنگ نیست۔ مُلکِ خدا تنگ نیست‘‘ اس تحریک پر اعتراض دو ہوسکتے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ خود ہمارا مُلک بہت وسیع ہے۔ اُس میں ابھی بہت سی زمین قابل زراعت موجود ہے۔ اور بہت سے پیشے قابل تحصیل۔ سرمایہ جو باہر نکلنے کے لیے چاہیے۔ اُس کی بھی مُلک میں بے حد ضرورت ہے۔ پھر باہر جانا کیا معنے۔ دوسرا یہ کہ آگے ہی مُلک میں کام کرنے والے کم ہیں۔ اور اگر اِس طرح باہمت آدمیوں کا ایک معتدبہ حصہ مُلک سے باہر چلا جائے۔ تو مُلک اَور بھی غریب ہوجائے گا۔ اعتراض دونوں بجا اور جاندار ہیں۔ جواب میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ مُلک کے اندر جو ترقی ممکن ہے۔ وہ بھی کیجیے اور ضرور کیجیے۔ لیکن اگر قوموں میں نام پیدا کرنا ہے تو دوسری قوموں سے بھی رشتہ پیدا کرنے کی بنیاد ابھی ڈال دو۔ ہندوستان میں تمھاری سب کوششیں حدود سے گھری ہوئی ہیں باہر نکل کر نئے مُلکوں میں جو لوگ آزادی کی آب و ہوا میں زندگی بسر کریں گے۔ اور اپنی قوتوں کا دوسری قوموں کی قوت سے موازنہ کریں گے۔ اُنھیں معلوم ہوجائے گا کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہندی کسی سے کم رہیں۔ اُن کی حیثیت کا عکس دوسروں کی حیثیت پر پڑے گا۔اگر وہ باہر اپنی قابلیت کا سکہ جما دیں گے اور اپنے چلن کی خوبی کا اعتراف کرا لیں گے تو مُلک میں جو اُن کے بھائی ہوں گے۔ اُنھیں بھی اس نیک نامی کا حصہ ملے گا۔ اس نظر سے یہ تدبیر امتحان کے قابل ہے۔ اور یہ ایثار کر گزرنے کے لائق۔ رہا دوسرا اعتراض کہ کام کے آدمیون سے مُلک کو خالی نہ کرنا چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہوسکتا ہے کہ ہر شخص جو باہر نکلنے کا تہیہ مُلک کی خاطر کرے وہ اِس ارادے کے ساتھ ہی یہ عہد کرکے جائے کہ کامیابی کے بعد وہ ممالکِ غیر کو وطن ہی نہ بنا لے گا۔ اور اپنی عمر کا آخری حصہ اور اپنی محنت کی کمائی مُلک کی بھلائی میں صرف کرے گا اور جو کسی اتفاق سے اپنے نئے وطن کا پابند ہوجائے۔ وہ اپنے وطنِ مادری سے کبھی رشتہ نہ توڑے۔ اور دُور بیٹھ کر بھی ہند کے لیے باعث تقویت رہے۔ اور حتی المقدور مُلک کی بہتری کے لیے کوشش کرتا رہے۔ جو کام فرزانِ انگلستان دُنیا کے دور دراز حصوں میں جابسنے پر بھی انگلستان کے لیے کرتے ہیں۔ وہی کام ہر ہندی ہندوستان کے لیے کرتا رہے۔ اس شرط کو خیالی اور موہوم نہ سمجھنا چاہیے۔ جب قومیں بننے لگتی ہیں اور اُن کے دن بھلے آتے ہیں تو اُن کے عزم و ارادے میں استقلال پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اُن کے افراد گھر سے جو ارادے کرکے نکلتے ہیں۔ اُس سے کبھی نہیں ٹلتے۔ پس حُبِّ وطن کا ہندیوں پر یہ اثر ہو کہ وہ اپنا گھر گھسنا پن چھوڑ کر سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے، نئے مقامات میں رزق ڈھونڈھنے کی مشکلات کا سامنا کرنے اور زیادہ کامیاب اقوام کے ہاتھوں طرح طرح کی ذلتیں سہنے نکلیں۔ تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ وہ وطن سے نکل کر وطن کو یاد رکھیں۔ اور اپنی فتح اور کامیابی کی گھڑیوں میں بھی اس کے حق سے غافل نہ ہوں۔ اگر ڈھب کے آدمی نکلنے لگیں۔ تو تجارت، زراعت، صنعت، اشاعتِ مذہب، کئی اسباب تحریک کے لیے موجود ہیں۔ موجودہ حالت کے مصداق مجھے دو چار مصرعے سوجھے ہیں۔ لکھتے دیتا ہوں۔ شاعر ہوتا تو اس لمبی تحریر کی بجائے ایک مختصر اور پُرزور نظم لکھ دیتا۔ جسے لوگ گاتے پھرتے۔ ان ان مصرعوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ اور اپنے سخنور احباب سے عرض کرتا ہوں۔ ع۔ اگر ’’شاعری‘‘ ایک اشارت بس است۔ بخت آزمانے نکلو جنگل بسانے نکلو کڑیاں اُٹھانے نکلو جانیں جانیں لڑانے نکلو گھر سے نکل کے دیکھو ہندوستان والو! دولت کمانے نکلو حکمت اُڑانے نکلو مذہب سکھانے نکلو ہر ہر بہانے نکلو گھر سے نکل کے دیکھو ہندوستان والو! غرض نکلو تو سہی۔ مگر ایک شرط ملحوظ رہے۔ اس طرح گھر سے نہ نکلو کہ نہ گھر کے رہو، نہ گھاٹ کے۔ بلکہ سامان کے ساتھ جس سے اپنی عزت بڑھے اور مُلک کی شان۔ ایسا نہ ہو کہ جو بالکل بے زر ہیں۔ وہ بغیر مآلِ کار سوچے وطن کو چھوڑ دیں۔ تجارت والے سرمایہ کا بندوبست کرکے نکلیں۔ تعلیم کے شائق پہلے گھر سے خوب پڑھ کر نکلیں۔ زراعت کے لیے جائیں تو خود اس فن سے واقف ہوں۔ اور واقف کار آدمیوں کو ساتھ لے جائیں۔ صنعت والے اس قابل ہوں کہ چار باتیں کسی سے سیکھیں۔ تو چار اس کو سکھا بھی سکیں۔ جس مُلک میں جائیں اُس کی زبان پہلے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ا ور اس کے اوضاع و اطوار سے واقفیت بہم پہنچا لیں۔ وہاں دن بسر کریں توا س طرح کہ معلوم ہو کہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ابنائے وطن کی عزت کا ہر وقت پاس ہے۔ اگر بڑھیں۔ اور ان احتیاطوں کے ساتھ بڑھیں تو کوئی دن میں وہ کامیابیاں جو اب اوروں کے حصے میں ہیں۔ ہمارے احاطۂ دسترس میں ہوں گی۔ اور یہ جو ناکامیوں کی شکایت اب ہے۔ اُس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لندن میں ہزارہا یہودی روس سے آتے ہیں۔ اور دنوں میں کار و باری بن جاتے ہیں۔ چند سال کے بعد انگریزوں کے سے حقوق حاصل کرتے ہیں۔ اور اُن کی اولاد ہر اعتبار سے انگریز کا حکم رکھتی ہے۔ فرانسیسی، جرمنی، ارمنی، یونانی، اطالیہ کے باشندے، ہسپانیہ کے باشندے، آسٹریا کے رہنے والے، رُوس کے ساکن، غرض ہر مُلک کے قائم مقام انگلستان کے بڑے شہروں میں روزی کما رہے ہیں۔ اور محروم ہیں تو ہم جن کا اتنا حق انگلستان پر ہے۔ اور جن سے انگلستان کو بے شمار نفع پہنچتا رہتا ہے۔ یہی حال کم وب یش سلطنت برطانیہ کے دیگر حصص اور امریکہ وغیرہ میں ہے۔ اور جوں جوں اِس کیفیت کو ہم بچشمِ خود دیکھتے ہیں دل کڑھتا ہے۔ اور یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے ہم وطن بھی نکل پڑیں اور اس خوانِ یغما میں شریک ہوں۔ جناب شیخ عبدالقادر بی-اے، بیرسٹر ایٹ لا سوالات ۱- تجارت کو ترقی دینے کی غرض سے مضمون نگار نے کن اسباب کی سفارش کی ہے؟ ۲- گھر سے باہر نکلنے کے لیے مضمون نگار نے کن شرائط کی پابندی لازم قرار دی ہے؟ ۳- ’سفر وسیلۂ ظفر ہے‘ ایک جواب مضمون میں اس ضرب المثل کو آج کل کے حالات کے مطابق ثابت کرو۔ اور اس میں ان باتوں کا خاص طور پر ذکر کرو: (ا) سفر کرنے میں آج کل جو سہولتیں ہیں۔ (ب) وہ قومیں جو سفر کرکے ترقی کررہی ہیں۔ (ج) تجار ت کا فروغ سفر پر منحصر ہے۔ (د) سفر سے انسان نئے تجربے اور نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔ (ر) سفر کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ انسان اپنی معلومات سے اپنے وطن کو فائدہ پہنچائے۔ نہ کہ وطن کو چھوڑ کر دوسرے مُلکوں میں بُود و باش اختیار کرے۔ ۴- ’’گھر سے نکل کے دیکھو ہندوستان والو‘‘ کی ترکیب نحوی کرو۔ …٭…٭…٭… ۱۹- موسمِ گرما دھوپ میں تیزی شعاعوں میں شرارت بڑھ چلی پھر ہوا کے تند جھونکوں میں حرارت بڑھ چلی یوں پسینے کے ہیں قطرے عارضِ گل رنگ پر جس طرح پھولوں پہ شبنم کا سماں وقتِ سحر اب کہاں بادِ صبا میں وہ ادائے دل نواز خاک اُڑتی پھرتی ہے ہر سُو سمومِ جاں گداز وہ روانی دامنِ صحرا کے نالوں میں کہاں شوخیاں دلکش وہ اگلی سی غزالوں میں کہاں خشک لب ہیں پیاس سے ہونٹوں پہ ہے جانِ حزیں اور بیاباں میں کہیں اک بوند پانی کی نہیں سطح گردوں کو سمجھ کر چشمۂ آبِ رواں تک رہے ہیں دیدۂ حسرت سے ہو کر نیم جاں دھوپ سے ایسے ہیں گھبرائے ہوئے مارِ سیاہ بازوئے طائوس کے سائے میں لیتے ہیں پناہ دشت میں شیروں پہ ہیبت ایسی ہے چھائی ہوئی پھرتی ہے قالب میں جانِ زار گھبرائی ہوئی پیاس کی شدت سے ہیں غاروں میں سرگرم خروش ہو چلا ہے آتشِ غیظ و غضب کا سرد جوش سامنے ہوکر گزر جاتے ہیں پیلانِ دماں کیسا حملہ؟ ضعف سے اب جست کی طاقت کہاں دھوپ کی شدت سے یوں آتش بجاں طائوس ہیں بازوئے زریں نہیں ہیں ، شعلۂ فانوس ہیں دلفریبی کا وہ عالم سبزہ زاروں میں کہاں وہ روانی دشت و در کے آبشاروں میں کہاں اب کہاں وہ سبزۂ نوخیز کی دل کش مہک اب کہاں وہ دامن صحرا میں پھولوں کی مہک دوڑتے پھرتے ہیں بے تابانہ شعلے آگ کے ہیں حریف شوخی پروانہ شعلے آگ کے یوں لیے شعلوں کو ہے آغوش میں اِک اِک شجر جس طرح بجلی گرے ابرِ سیہ سے ٹوٹ کر بڑھ کر پہنچے شعلے تیزی سے نیستاں کے قریب مشتعل ہیں اب کسی وادی کے داماں کے قریب ٹھنڈ کچھ سوکھے ہوئے آتے ہیں صحرا میں نظر چونچ کھولے جس پہ دم لیتی ہیں چڑیاں بیٹھ کر یوں تو صحرا کے مناظر ہیں غضب کے ہولناک اُڑ رہی ہے چار سُو سے دشت کے دامن میں خاک کتنے نظارے ہیں اس موسم کے پھر بھی خوشگوار کتنی دلکش ہے کنول کے سُرخ پھولوں کی بہار کتنا منظر ہے سکوتِ شام کا تسکیں فزا چاند کی کرنوں کی کتنی پیاری پیاری ہے ادا کس قدر لذت فزا ذوق سماعِ ساز ہے کتنا دلکش مہوشوں کے حسن کا انداز ہے موسمِ گرما کی ہے کیا روح پرور چاندنی مرہم کافور ہے زخمِ جگر پر چاندنی جناب پیارے لال شاکرؔ سوالات ۱- موسمِ گل کی جو کیفیت اِس نظم میں بیان کی گئی ہے۔ اُسے صاف نثر میں لکھو۔ ۲- شاعر نے اس شعر میں جس تشبیہ سے کام لیا ہے۔ اس کی مماثل خصوصیات بیان کرو: یوں پسینے کے ہیں قطرے عارضِ گل رنگ پر جس طرح پھولوں پہ شبنم کا سماں وقتِ سحر ۳- اس نظم کی مدد سے موسمِ گرما پر جواب مضمون لکھو۔ ۴- ’’چونچ کھولے جس پہ دم لیتی ہیں چڑیاں بیٹھ کر‘‘ کی ترکیب نحوی کرو۔ …٭…٭…٭… ۲۰- مجھے میرے دوستوں سے بچائو ایک دن میں دِلّی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی۔ جو بڑے مؤثر طریقہ سے اپنی حالتِ زار لوگوں سے بیان کرتا جارہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفہ کے بعد درد سے بھری ہوئی تقریر اُنھیں الفاظ اور اسی پیرایہ میں دہرا دی جاتی تھی۔ یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ میں اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا، جسم خوب موٹا تازہ تھا۔ اور چہرہ ایک حد تک خوبصورت ہوتا مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کردی تھی۔ یہ تو اُس کی شکل تھی۔ رہی اُس کی صدا ۔ تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اُس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بلفظ لکھی جائے۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے یہ تھی۔ ’’اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں۔ اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن کو چلا جائوں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔ بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں۔ میرا کوئی دوست نہیں۔ ہائے میرا کوئی دوست نہیں۔ اے خدا کے بندو! میری سنو میں غریب الوطن ہوں۔‘‘ فقیر تو کہتا ہوا اور جن پر اُس کے قصہ کا اثر ہوا۔ اُن کی خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے۔ اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اُس سے کیا۔ اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر اُمور میں مَیں نے اُس کو اپنے سے اچھا پایا۔ یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں۔ اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے۔ وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں۔ وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنتا ہے۔ بس یہاں تک میں اُس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اُس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔ اُس کی صحت پر مجھے رشک کرنا چاہیے۔ میں رات دن فکر میں گذارتا ہوں۔ اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اُس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا۔ کہ اُس کی یہ قابل رشک حالت کس وجہ سے ہے؟ اور آخرکار میں اس بظاہر عجیب نتیجہ پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے۔ وہی اُس کے حق میں نعمت ہے۔ وہ حسرت سے کہتا ہے کہ’’میرا کوئی دوست نہیں۔‘‘ میں حسرت سے کہتا ہوں ’’میرے اتنے دوست ہیں‘‘ اُس کا کوئی دوست نہیں اگر یہ سچ ہے تو اُسے مبارکباد دینی چاہیے۔ میں اپنے دل میں یہ باتیں کرتاہوا مکان پر آیا۔ ’’کیسا خوش قسمت آدمی ہے کہتا ہے میرا کوئی دوست نہیں۔ اے خوش نصیب شخص! یہیں تُو مجھ سے بڑھ گیا۔ لیکن کیا اس کا یہ قول صحیح بھی ہے؟ یعنی کیا اصل میں اُس کا کوئی دوست نہیں۔ جو میرے دوستوں کی طرح اُسے دن بھر میں پانچ منٹ کی بھی فرصت نہ دے؟ میں اپنے مکان پر ایک مضمون لکھنے جارہا ہوں۔ مگر خبر نہیں کہ مجھے ذرا سا بھی وقت ایسا ملے گا کہ میں تخلیہ میں اپنے خیالات جمع کرسکوں اور انھیں اطمینان سے قلم بند کرسکوں۔ یا جو اسپیچ مجھے کل دینی ہے۔ اُسے سوچ سکوں۔ کیا یہ فقیر دن دہاڑے اپنا روپیہ لے جاسکتا ہے۔ اور اُس کا کوئی دوست راتے میں نہ ملے گا۔ اور یہ نہ کگے گا: ’’بھائی جان! دیکھو پرانی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔ مجھے وقت کی ضرورت ہے۔ تھوڑا سا روپیہ قرض دو۔‘‘ کیا اس کے احباب وقت بے وقت اُسے دعوتوں اور جلسوں میں کھینچ کر نہیں لے جاتے؟ کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اُسے نیند کے جھونکے آرہے ہوں۔ مگر یار دوستوں کا مجمع ہے۔ جو قصہ پر قصہ اور لطیفہ پر لطیفہ کہہ رہے ہیں۔ مگر اُٹھنے کا نام نہیں لیتے؟ کیا اسے دوستوں کے خطوں کا جواب نہیں دینا پڑتا؟ کیا اس کے پیارے دوست کی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب نہیں جو اُسے خواہ مخواہ پڑھنی پڑے۔ اور ریویو لکھنا پڑے؟ کیا اُسے احباب کی وجہ سے شور مچانا اور ہُو حق کرنا نہیں پڑتا؟ کیا دوستوں کے ہاں ملاقات کو اُسے جانا نہیں پڑتا۔ اور اگر نہ جائے تو کوئی شکایت نہیں کرتا؟ اگر ان سب باتوں سے وہ آزاد ہے تو کوئی تعجب نہیں۔ کہ وہ ہٹا کٹا ہے۔ اور میں نحیف و نزار ہوں۔ یا اللہ! کیا اس پر بھی شکر ادا نہیں کرتا خدا جانے وہ اور کون سی نعمت چاہتا ہے؟ لوگ کہیں گے۔ اس شخص کے کیسے بیہودہ خیالات ہیں! بغیر دوستوں کے زندگی دو بھر ہوتی ہے۔ اور یہ اُن سے بھاگتا ہے۔ مگر میں دوستوں کو بُرا نہیں کہتا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے خوش کرنے کے لیے میرے پاس آتے ہیں اور میرے خیر طلب ہیں۔ مگر عملی نتیجہ یہ ہے کہ احباب کا ارادہ ہوتا ہے۔ مجھے فائدہ پہنچانے کا۔ اور ہوجاتا ہے مجھے نقصان۔ چاہے مجھ پر نفرین کی جائے۔ مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ ثابت نہ کرسکا کہ احباب کا ایک جمِ غفیر رکھنے اور شناسائی کے دائرے کو وسیع کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کچھ کام کرنا ہے اور باتوں ہی میں عمر نہیں گزارنی ہے تو بعض نہایت عزیز دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا۔ چاہے اس سے میرے دل پر کیسا ہی صدمہ ہو۔ مثلاً میرے دوست احمد مرزا ہیں۔ جنھیں میں بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہوں۔ یہ نہایت معقول آدمی ہیں اور میری اُن کی دوستی نہایت پرانی اور بے تکلفی کی ہے۔ مگر حضرت کی خلقت میں یہ داخل ہے کہ دو منٹ نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ جب آئیں گے شور مچاتے وہئے، چیزوں کو اُلٹ پلٹ کرتے ہوئے۔ غرضیکہ ان کا آنا بھونچال کے آنے سے کم نہیں ہے۔ جب وہ آتے ہیں تو میں کہتا ہوںکوئی آرہا ہے۔ قیامت نہیں ہے۔ ان کے آنے کی مجھے دور سے خبر ہوجاتی ہے۔ باوجویکہ میرے لکھنے پڑھنے کا کمرہ چھت پر ہے۔ اگر میرا نوکر کہتا ہے کہ ’’میاں! اس وقت میں بہت مشغول ہیں۔‘‘ تو وہ فوراً چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ کہ ’’کمبخت کو اپنی صحت کا بھی تو کچھ خیال نہیں۔ (نوکر کی طرف مخاطب ہوکر) خیراتی! کب سے کام کررہے ہیں۔ بڑی دیر سے؟ توبہ توبہ! اچھا بس میں ایک منٹ ان کے پاس بیٹھوں گا۔ مجھے خود جانا ہے۔ چھت پر ہوں گے نا؟ میں پہلے ہی سمجھتا تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اُوپر آتے ہیں۔ اور دروازہ کو اس زور سے کھولتے ہیں۔ کہ گویا کوئی گولہ آکے لگا۔ (آج تک اُنھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا نہیں۔) اور آندھی کی طرح داخل ہوتے ہیں۔ ’’ہاہاہا! آخر تمھیں میں نے پکڑ لیا۔ مگر دیکھو دیکھو میری وجہ سے اپنا لکھنا بند مت کرو۔ میں ہرج کرنے نہیں آیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر لکھ ڈالا ہے۔ کہو طبیعت تو اچھی ہے؟ میں تو صرف یہ پوچھنے آیا تھا۔ واللہ مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں میں ایک شخص ایسا ہے جو مضمون نگار کے لفظ سے پکارا جاسکتا ہے۔ لو اب جاتا ہوں۔ میں بیٹھوں گا نہیں۔ا یک منٹ یہیں ٹھہرنے کا۔ تمھاری خیریت دریافت کرنی تھی۔ خدا حافظ!‘‘ یہ کہہ کر وہ نہایت محبت سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اور اپنے جوش میں میرے ہاتھ کو اس قدر دبا دیتے ہیں کہ اُنگلیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ اور میں قلم نہیں پکڑ سکتا۔ یہ تو علیحدہ رہا۔ اپنے ساتھ میرے کل خیالات کو بھی لے جاتے ہیں۔ خیالات کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر اب وہ کہاں؟ اور دیکھا جائے تو میرے کمرے میں ایک منٹ سے زیادہ نہیں رہے۔ تاہم وہ اگر گھنٹوں رہتے تو اس سے زیادہ نقصان نہ کرتے۔ کیا میں انھیں چھوڑ سکتا ہوں؟ میں اِس سے انکار نہیں کرتا کہ میری اور ان کی دوستی بہت پرانی ہے۔ اور وہ مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ تاہم میں اُنھیں چھوڑ دوں گا۔ ہاں چھوڑ دوں گا۔ اگرچہ کلیجہ پر پتھر رکھنا پڑے۔ اور لیجیے! دوسرے دوست محمد تحسین ہیں۔ یہ بال بچوں والے صاحب ہیں۔ اور رات دن انھیں کی فکر میں رہتے ہیں۔ جب کبھی ملتے آتے ہیں تو تیسرے پہر کے قریب آتے ہیں۔ جب میں کام سے تو فارغ ہوچکتا ہوں۔ لیکن اس قدر تھکا ہوا ہوں کہ دل یہی چاہتا ہے کہ ایک گھنٹہ آرام کرسی پر خاموش پڑا رہوں۔ مگر تحسین آئے ہیں اور اُن سے ملنا ضروری ہے۔ اُن کے پاس باتیں کرنے کے لیے سوائے اپنی بیوی بچوں کی بیماری کے اور کوئی مضمون ہی نہیں۔ میں کتنی ہی کوشش کروں مگر وہ اس مضمون سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر میں موسم کا ذکر کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں۔ ہاں بڑا خراب موسم ہے۔ میرے چھوٹے بچے کو بخار آگیا۔ منجھلی لڑکی کھانسی میں مبتلا ہے۔ اگر پالیٹکس یا لٹریچر کے متعلق گفتگو شروع کرتا ہوں۔ تو تحسین صاحب فوراً معذرت پیش کرتے ہیں۔ کہ بھائی آج کل گھر بھر بیمار ہے۔ مجھے اتنی فرصت کہاں کہ اخبار پڑھوں۔ اگر کسی عام جلسے میں آتے ہیں۔ تو اپنے لڑکوں کو ضرور ساتھ لیے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے باربار پوچھتے رہتے ہیں کہ ’’طبیعت تو نہیں گھبراتی؟ پیاس تو نہیں معلوم ہوتی؟‘‘ کبھی کبھی نبض بھی دیکھ لیتے ہیں اور وہاں کسی سے ملتے ہیں۔ تو گھر کی بیماری ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح میرے مقدمہ باز دوست ہیں۔ جنھیں اپنی ریاست کے جھگڑوں، اپنے فریق مخالف کی برائیوں اور جج صاحب کی تعریف یا مذمت (تعریف اس حالت میں جب کہ اُنھوں نے مقدمہ جیتا ہو) سوا اور کوئی مضمون نہیں۔ منجملہ اور بہت سے مختلف قسموں کے دوستوں کے میں محمد شاکر خاں صاحب کا ذکر خصوصیت سے کروں گا۔ کیونکہ وہ مجھ پر خاص عنایت فرماتے ہیں۔ شاکر خاں صاحب موضع سلیم پور کے رئیس اور ضلع بھر میں نہایت معزز آدمی ہیں۔ اُنھیں اپنی لیاقت کے مطابق لٹریچر کا بہت شوق ہے۔ لٹریچر پڑھنے کا انتا نہیں۔ جتنا لٹریری آدمیوں سے ملنے اور تعارف پیدا کرنے کا۔ اُن کا خیال ہے کہ اہل علم کی تھوڑی سی قدر کرنا اُمرا کے شایانِ شان ہے۔ ایک مرتبہ میرے ہاں تشریف لائے۔ اور بہت اصرار سے مجھے سلیم پور لے گئے۔ یہ کہہ کے کہ: ’’شہر میں رات دن شور و شغب رہتا ہے۔ دیہات میں کچھ عرصہ رہنے سے تبدیل آب و ہوا بھی ہوگی۔ اور وہاں مضمون نگاری بھی زیادہ اطمینان سے کرسکو گے۔ میں نے ایک کمرہ خاص تمھارے واسطے آراستہ کرایا ہے۔ جس میں پڑھنے لکھنے کا سب سامان مہیا ہے۔ تھوڑے دن رہ کے چلے آیا۔ دیکھو! میری خوشی کرو۔‘‘ میں ایسے محبت آمیز اصرار پر انکار کیسے کرسکتا تھا؟ مختصر سا سامان پڑھنے لکھنے کا لے کر میں اُن کے ساتھ ہولیا۔ ایڈیٹر ’’معارف‘‘ سے وعدہ کرچکا تھا کہ ایک خاص عرصہ میں اُن کی خدمت میں ایک مضمون بھیجوں گا۔ شاکر خاں صاحب کی کوٹھی پر پہنچ کر میں نے وہ کمرہ دیکھا۔ جو میرے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ کمرہ کوٹھی کی دوسری منزل میں تھا۔ اور نہایت خوبی سے آراستہ تھا۔ اس کی ایک کھڑی پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی۔ اور ایک نہایت ہی دلفریب نیچرل منظر میری آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا۔ صبح کو میں ناشتہ کی غرض سے بلایا گیا۔ جب دوسرا پیالہ چائے کا پی چکا تو اپنے کمرے کو جانے کے لیے اُٹھتا ہی تھا کہ چاروں طرف سے اصرار ہونے لگا کہ ’’ہیں! ہیں! کہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ کہ آج ہی سے کام شروع کردو۔ اپنے دماغ کو کچھ تو آرام دو۔ اور آج کا دن تو خاص کر اس قابل ہے کہ سینری کا لطف اُٹھانے میں گذارا جائے۔ چلئے گاڑی تیار کراتے ہیں۔ دریا پہ مچھلی کا شکار کھیلیں گے۔ پھر وہاں سے دو میل پر احمد نگر ہے۔ آپ کو وہاں کے رئیس راجہ طالب علی صاحب سے ملائیں گے۔ میرا ماتھا وہیں ٹھنکا کہ اگر یہی حال رہا تو یہاں بھی فرصت معلوم! خیر سینکڑوں حیلے حوالوں سے اس وقت تو میں بچ گیا۔ اور میرے میزبان بھی میری وجہ سے نہ گئے۔ مگر مجھے بہت جلد معلوم ہوگیا کہ جس عنقا یعنی یکسوئی کی تلاش میں میں سرگراں تھا۔ وہ مجھے یہاں بھی نہ ملے گی۔ میں جلدی سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آیا۔ اور اُس وقت ذرا غور سے اُس میز کے سامان کو دیکھا جو میرے لکھنے اور پڑھنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ میز پر نہایت قیمتی کامدار کپڑا پڑا ہوا تھا۔ جس پر سیاہی کا ایک قطرہ گرانا گناہِ کبیرہ سے کم نہ ہوگا۔ چاندی کی دوات، مگر سیاہی دیکھتا ہوں تو سوکھی ہوئی۔ انگریزی قلم نہایت قیمتی اور نایاب مگر اکثر میں نب ندارد۔ جاذب کاغذ ایک مخملی جلد کی کتاب میں۔ مگر لکھنے کے کاغذ کا پتہ نہیں۔ اسی طرح بہت سا اعلیٰ درجہ کا بیش قیمت سامان میز پر تھا۔ مگر اکثر اس میں میرے کام کا نہیں۔ اور جو چیزیں کہ ضرورت کی تھیں وہ موجود نہیں۔ آخرکار میں نے اپنا وہی پرانا استعمالی مگر مفید بکس اور اپنی معمولی دوات اور قلم (جس نے اب تک نہایت ایمانداری سے میری مدد کی تھی۔ اور میرے پران خیالات کو تیزی کے ساتھ قفسِ کاغذ میں بند کیا تھا) نکالا اور لکھنا شروع کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جن مرغانِ خوش نوا کی تعریف میں شعرا اِس قدر رطب اللسان ہیں۔ ان کی عنایت سے میں خوش نہیں ہوا۔ کہ سب کے سب میرے کمرے کے نیچے درخت پر جمع ہوگئے۔ اور شور مچانا شروع کردیا۔ تاہم میں نے کوشش کرکے اُن کی طرف سے کام بند کرلیے۔ اور کام میں ہمہ تن مشغول ہوگیا……… تن۔ تنن۔ تنتنانا۔ چھن۔ تاتن۔ تن تن تن‘‘ میں ایسا مصروف تھا کہ دنیا اور مافیہا کی خبر نہ تھی۔ یکایک اس تن تن نے چونکا دیا۔ ہیں یہ کیا ہے؟ افوہ! اب میں سمجھا۔ میرے کمرے کے قریب شاکر خاں صاحب کے چھوٹے بھائی کا کمرہ ہے۔ اُنھیں موسیقی میں بہت دخل ہے۔ اس وقت ستار سے شوق فرما رہے ہیں۔ بہت خوب بجا رہے ہیں: ’’اس کی گلی سے آئے کیوں؟ نکہتِ زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے اُمید۔ اہا مجھ کو صبا سے ہے اُمید۔ مجھ سے صبا کو کیا غرض‘‘ واہ وا! سبحان اللہ کیا غزل چھیڑی ہے۔ اے ترک سوارِ نواحِ عرب یثرب نگری پہنچا دینا کس رنگ میں ہے وہ حبیب مرا مجھے وا کی خبر یا لا دینا بہت ہی خوب! کمال کرتے ہیں۔ کوئی آدھ گھنٹہ اُنھوں نے موسیقی کی مشق فرما کر مجھے میری خواہش کے خلاف محظوط فرمایا۔ پھر کسی وجہ سے وہ اپنے کمرے سے چلے گئے۔ اور خاموشی طاری ہوگئی تو مجھے پھر اپنے کام کا خیال آیا۔ ’’اے میرے خیالات تمھیں میرا گنجینہ میرا خزانہ ہو۔ خدا کے لیے رحم کرو۔ میرے دماغ میں پھر آجائو۔‘‘ یہ کہہ کے میں کاغذ کی طرف متوجہ ہوا کہ دیکھوں کہاں چھوڑا ہے۔ میں اس فقرہ تک پہنچا تھا: ’’ہم اِس وسیع اور دقیق مضمون پر جتنا غور و فکر کرتے ہیں۔ا تنا ہی اُس کی مشکلات کا مثل‘‘ ’مثل‘ کے آگے میں کیا لکھنے والا تھا؟ ریگ دریا کے اندازہ نہیں کرسکتے؟ ہرگز نہیں۔ ایسا معمولی فقرہ تو نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ اور تھا۔ کوئی اعلیٰ درجہ کی تشبیہ تھی۔ اور فقرے کو نہایت شاندار الفاظ میں ختم کرنے والا تھا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کیا تھا۔ کیا نہ تھا۔ اب تو دماغ میں اُس کا پتہ بھی نہیں۔ گانے والے صاحب تو شکایت کررہیت ھے کہ: ’’اس کی گلی سے آئے کیوں؟ نکہتِ زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے اُمید۔ اہا مجھ کو صبا سے ہے اُمید۔ مجھ سے صبا کو کیا غرض‘‘ مگر میرا تو صبا کے نام نے دماغ خیالی کردیا۔ اگر وہ آتی اور نگہتِ زلف بھی لاتی۔ تو نہ معلوم کیا ہوتا۔ بہرحال اب مجھے وہ فقرہ از سرِ نو درست کرنا چاہیے۔ مشکلات کی بجائے کچھ اور ہونا چاہیے۔ ’’ہم اِس وسیع مضمون پر جتنا غور و فکر کرتے ہیں۔ اُتنا ہی اُن بیش بہا علمی جواہر کو اپنے مُلک اور قوم کے علمی خزانہ کے پُر کرنے کے لیے کافی پاتے ہیں۔ اور جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہاں رہے؟‘‘ ’’اور جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہاں رہے؟‘‘ یہ کیا مہمل فقرہ ہوا۔ لاحول ولا قوۃ! میں بھی کیا گڑبڑ کررہا ہوں۔ ’’آپ کہاں بھول پڑے۔ اتنے دنوں کہاں رہے۔‘‘ یہ فقرے تو شاکر خاں صاحب نے کسی دوست سے کہے ہیں۔ جو ابھی اُن سے ملنے آئے ہیں۔ میں مصروفیت میں اُنھیں ہی لکھ گیا۔ ہاں تو کاٹ کے فقرہ درست کرنا چاہیے: ’’اور جن کی قدر ابھی تک مُلک و قوم کو معلوم نہیں ہوئی ہے اور بظاہر‘‘ کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ’’کون ہے؟‘‘ ’’میں ہوں شبّن۔ سرکار نے کہا ہے کہ اگر آپ کو تکلیف نہ ہو۔ تو نیچے ذرا سی دیر کے لیے تشریف لائیے۔ کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں اور سرکار اُنھیں آپ سے ملانا چاہتے ہیں۔‘‘ بادلِ ناخواستہ میں اُٹھا اور نیچے گیا۔ شاکر صاحب کے دوست راجہ طالب علی صاحب تشریف لائے تھے۔ اُن سے میرا تعارف کرایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ تشریف لے گئے۔ اور مجھے بھی فرصت ملی۔ اور میں نے یکسو ہوکر لکھنا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ شبّن نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ معلوم ہوا کہ میری پھر یاد ہوئی۔ ہمارے میزبان کے کوئی اور دوست آئے ہوئے ہیں۔ اور میں انھیں دکھایا جائوں گا۔ گویا میں بھی مثل اس عربی گھوڑے کے تھا جسے میزبان نے حال ہی میں خریدا تھا۔ اور جو ہر دوست کو اصطبل سے منگا کے دکھایا جاتا تھا۔ اِن دوست سے نجات پاکر اور بھاگ کر میں پھر اپنے کمرے میں آیا۔ خیالات غائب ہوگئے تھے۔ فقرہ ازسرِ نو پھر بنانا پڑا۔ طبیعت اُچاٹ ہوگئی۔ بہ ہزار دقت پھر بیٹھا اور لکھنا شروع کیا۔ اب کی مرتبہ خوش قسمتی سے کوئی آدھ گھنٹہ ایسا ملا۔ جس میں کوئی آیا گیا نہیں۔ اب میرا قلم تیزی سے چل رہا تھا اور میں لکھ رہا تھا: ’’ہم کو کامل یقین ہے کہ ہمارے مُلک کے قابل نوجوان جنھیں تفتیش اور تحقیقات کا شوق ہے اور جو کولمبس کی طرح نئی معلومات اور نئی دنیا (گو وہ علمی دنیا ہی کیوں نہ ہو) کے دریافت کرنے کے لیے اپنے تئیں……‘‘ دروازہ پر پھر دستک۔ ’’کیا ہے؟‘‘ ’’حضور کھانا تیار ہے۔ میز پر چنا جاچکا ہے۔‘‘ ’’اچھا‘‘ ’’دریافت کرنے کے لیے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی خوف نہیں کھاتے۔ ضرور اِس طرف متوجہ ہوں گے اور اپنی کاوشوں اور کوششوں سے موجودہ۔‘‘ دروازہ پھر کھٹکھٹایا گیا۔ ’’ہاں‘‘ ’’حضور! سرکار آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہوا جاتا ہے۔‘‘ افوہ! مجھے خیال نہیں رہا۔ سرکار سے عرض کرنا میرا انتظار نہ کریں۔ میں پھر کھا لوں گا۔ اس وقت مجھے کچھ یایس بھوک نہیں۔ ’’اور آیندہ نسلوں کو زیر بارِ احسان کریں گے۔ یہی وہ نوجوان ہیں۔ جو قوم کی کشتی کو خدا کے اُوپر بھروسہ کرکے خطرات سے بچاتے اور ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔ زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ‘‘ ’’دستک‘‘ ’’کیا ہے؟‘‘ ’’سرکار کہتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر میں کھائیں گے تو ہم بھی اُسی وقت کھائیں گے۔ مگر کھانا ٹھنڈا ہو کے بالکل خراب ہوجائے گا‘‘ ’’اچھا بھائی۔ لو ابھی آیا۔‘‘ یہ کہہ کے میں کھانے کے لیے جاتا ہوں۔ سب سے معذرت کرتا ہوں۔ میزبان نہایت اخلاق سے فرماتے ہیں: ’’چہرے پر تھکن معلوم ہوتی ہے۔ کیا بہت لکھ ڈالا۔ دیکھو۔ میں تم سے کہتا تھا نا کہ شہر میں ایسی فرصت اور خاموشی کہاں؟‘‘ سوائے اس کے کہ آمنا و صدقنا کہوں۔ اور کیا کہہ سکتا تھا؟ اب کھانے پر اصرار ہوتا ہے۔ جس چیز سے مجھے رغبت نہیں وہی کھلائی جاتی ہے۔ بعد کھانے کے میزبان صاحب فرماتے ہیں: ’’سہ پہر کو تمھیں گاڑی میں چلنا ہوگا۔ میں تمھیں اس واسطے یہاں نہیں لایا کہ سخت دماغی کام کرکے اپنی صحت خراب کرلو‘‘ واپس کمرے میں آکر میں تھوڑی دیر اس غرض سے لیٹا ہوں کہ خیالات جمع کرلوں۔ اور پھر لکھنا شروع کردوں۔ مگر اب خیالات کہاں؟ مضمون اُٹھا کر دیکھتا ہوں۔ ’’زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ‘‘! اس کے متعلق کیا لکھنے والا تھا؟ ان الفاظ کے بعد کون سے الفاظ دماغ میں تھے؟ اب کچھ خیال نہیں کہ اس کو پہلے فقروں سے کیونکر ربط پیدا کرنا تھا۔ یوں ہی پڑے پڑے نیند آجاتی ہے۔ تیسرے پہر اُٹھتا ہوں تو دماغ نہایت صحیح پاتا ہوں۔ ’’زندگی اور موت کا ینحل مسئلہ‘‘! بالکل حل ہوجاتا ہے۔ پورا فقرہ آئینہ کی طرح صاف نظر آتا ہے میں خوشی خوشی اُٹھ کر میز پر گیا اور لکھنا چاہتا تھا کہ پھر وہی دستک! نوکر اطلاع دیتا ہے کہ گاڑی تیار ہے۔ سرکار کپڑے پہنے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ میں فوراً نیچے جاتا ہوں۔تو پہلا فقرہ جو میزبان صاحب کہتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے ’’آج تو دستے کے دستے لکھ ڈالے‘‘ میں سچی بات کہوں کہ ’’کچھ بھی نہیں لکھا‘‘ تو وہ ہنس کے جواب دیتے ہیں کہ آخر اس قدر کس نفسی کی کیا ضرورت ہے؟ خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں مجھے یقین ہوا اور مجھ کو اعتبار آیا مل ملا کر شام کو واپس آئے۔ کھانے کے بعد باتیں ہوتی رہیں۔ سونے کے وقت اپنا دن بھر کا کام اُٹھا کر دیکھتا ہوں تو ایک صفحہ سے زیادہ نہیں۔ وہ بھی بے ربط و بے سلسلہ۔ غصہ اور رنج میں آکر اُسے پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں۔ اور دوسرے روز اپنے میزبان کو ناراض کرکے اپنے گھر واپس چلا آتا ہوں۔ میں ناشکرا اور احسان فراموش کہا جائوں گا مگر میں مجبور ہوں۔ اس عزیز اور مہربان دوست کو بھی چھوڑ دوں گا۔ میں نے ذرا تفصیل سے اُن کا حال بیان کیا ہے۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ یہیں اُن احباب کی فہرست ختم ہوگئی۔ جن سے میں رخصت طلب کرسکتا ہوں۔ نہیں ابھی بہت سے باقی ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ہیں جو مجھ سے کبھی نہیں ملتے۔ مگر جب آتے ہیں میں اُن کا مطلب سمجھ جاتا ہوں۔ یہ حضرت ہمیشہ قرض مانگنے کے لیے آتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں جو ہمیشہ ایسے وقت آتے ہیں جب میں باہر جانے والا ہوتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں جب مجھ سے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’میاں عرصہ سے میرا دل چاہتا ہے تمھاری دعوت کروں‘‘ مگر کبھی اپنی خواہش کو پورا نہیںکرتے۔ ایک دوست ہیں وہ آتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ جب میں جواب دیتا ہوں تو متوجہ ہوکر نہیں سنتے۔ یا اخبار پڑھنے لگتے ہیں یا گانے لگتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں جو جب آتے ہیں۔ اپنی ہی کہے جاتے ہیں۔ میری نہیں سنتے۔ یہ سب میرے عنایت فرما اور خیر طلب ہیں۔ مگر میں اپنی طبیعت کو کیا کروں۔ صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک سے کہہ سکتا ہوں: (ع) ’’مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ اِحساں ہوتا‘‘ اب چونکہ میں نے یہ حال لکھنا شروع کردیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند اور احباب کے متعلق اپنے دل خیالات ظاہر کروں۔ دروازے پر ایک گاڑی آکے رُکی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ کون صاحب تشریف لارہے ہیں۔ میں ان کی شکایت نہیں کرنے کا۔ کیونکہ کیا تعجب کی بات نہیں کہ تین گھنٹہ سے میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی کرم فرما نے کرم نہیں فرمایا۔ اس لیے اُس کے شکریہ میں مَیں اس مضمون کو اسی ناتمام حالت میں چھوڑتا ہوں اور اپنے دوست کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دوست میری صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب آتے ہیں مجھ پر اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ ’’تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے‘‘ میں جانتا ہوں کہ اس وقت بھی یہ کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا حال سنائیں گے۔ جو بڑا حاذق ہے۔ یا کوئی مجرب نسخہ میرے لیے کسی سے مانگ کر لائے ہوں گے۔ ’’آئیے آئیے! مزاجِ عالی! بہت دن بعد تشریف لائے۔‘‘ جناب سید سجاد حیدر بی-اے علیگ سوالات ۱- اِس مضمون کو پڑھ کر اس کے اصل مطلب کا مختصر الفاظ میں بیان کرو۔ ۲- شاکر خاں صاحب رئیس سلیم گڑھ کے مکان پر مصنف مضمون کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُنھیں اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۳- ان انگریزی الفاظ کے مراد اردو الفاظ لکھو: اسپیچ۔ لٹریچر۔ لٹریری۔ سینری۔ ۴- ’اگر آپ تھوڑی دیر میں کھائیں گے تو ہم بھی کھائیں گے‘‘ کی ترکیب نحوی کرو۔ ۵- ’’لا حول ولا قوۃ‘‘ کی تشریح کرو۔ نیز بتائو کہ یہ کس موقع پر استعمال کیا جاتا ہے؟ …٭…٭…٭… ۲۱- مناظرۂ ہمت و تدبیر تدبیر یہ ہمت سے لگی کہنے بہ تکرار میں صاحب خانہ ہوں تو ہے میری پرستار ہمت نے کہا اُس سے کہ بیہودہ نہ جھک مار حامی ہے خدا میرا نہ کر مجھ سے یہ گفتار میں وہ ہوں کہ ہر مُلک کو تسخیر کیا ہے کی جس پہ نظر صاحب توقیر کیا ہے انسانوں سے دنیا کا سفر میں نے کرایا ہر منزلِ دشوار کو آسان بنایا بخشا شہِ جم جاہ کا نادار کو پایا کر کرکے غلاموں کو شہنشاہ دکھایا مانندِ پرِ کاہ بہت کوہ ہیں کاٹے میدانوں میں انبوہ کے انبوہ ہیں کاٹے جا پوچھ کلمبس۱؎ سے روایت کہ میں کیا ہوں پڑھ لارڈ کلائیو۲؎ کی حکایت کہ میں کیا ہوں پا حالِ نکلسن۳؎ سے ہدایت کہ میں کیا ہوں اللہ۴؎ کی شاہد ہے حمایت کہ میں کیا ہوں آنکھیں کھلیں گر مجھ کو بونا پارٹ۵؎ سے پوچھے معلوم ہو میں کیا ہوں جو لاکھارٹ۶؎ سے پوچھے کیا شان ہے میری کوئی یونان سے پوچھے روم و عرب و بربر و ایران سے پوچھے رتبہ مرا تاتار سے توران سے پوچھے ہاں میری حقیقت کوئی جاپان سے پوچھے شاہانِ جہاں غیرتِ جمشید گئے ہیں رُستم سے بہت زندۂ جاوید گئے ہیں چنگیز۷؎ بنی اور میں ایران میں پہنچی نادر۸؎ ہوئٰ مغلوں کے شبستان میں پہنچی واں فتح تھی جس جنگ کے میدان میں پہنچی آزاد تھے قیدی جو میں زندان میں پہنچی محمود۹؎ کا جب رُوپ بھرا ہند پہ آئی اسکندر اعظم کو اُٹھا سندھ پہ لائی لونڈی مجھے اللہ کی شان آپ بتائیں توہین کریں طعنے دیں صلواتیں سنائیں احسان جو کیے میں نے وہ سب دل سے بھلائیں اور درپئے تخریب ہوں درپردہ ستائیں جو میں نہ یہاں ہوتی تو تُو چیز ہی کیا تھی دُنیا میں تجھے رہنے کی تمیز ہی کیا تھی تدبیر رجز خوانباں ہمت کی یہ سُن کر بولی کہ میں ہوں خادمہ تم ہو مری افسر ارشاد جو تم نے کیا ہو اس سے بھی برتر سن لیجیے پر عرض مری کان لگا کر مانا کہ دُنیا میں ضرورت ہے تمھاری ساتھ ہی رہتی ہے ہماری بھی سواری کہیے تو سہی آپ کہاں پہنچیں اکیلی حاضر نہ تھی خاتون کی کس جا پہ سہیلی تنہا کوئی بن میرے مصیبت بھی ہے جھیلی سمجھائیے لِللّٰہ شتابی یہ پہیلی حائل ہوا جب ایلپس۱۰؎ تو رہ کس نے بتائی؟ اس کوہ کی کس نے تھی چڑھائی وہ چڑھائی؟ ہر ہال میں ساتھ آپ کے دمساز رہی ہوں ہر مشورتِ خاص میں ہم راز رہی ہوں دکھلاتی ہر اک کام میں اعجاز رہی ہوں ہر معرکۂ جنگ میں جانباز رہی ہوں آپ اکثر اوقات میں ناکام پھری ہیں میدانوں سے ہم ہی ظفر انجام پھری ہیں دربار میں عزت ہے اگر کچھ تو مجھے ہے سرکار میں وقعت ہے اگر کچھ تو مجھے ہے آفاق میں شہرت ہے اگر کچھ تو مجھے ہے دُنیا میں لیاقت ہے اگر کچھ تو مجھے ہے ہے کوئی اگر صاحب تمیز تو میں ہوں در اصل ہے اکسیر کوئی چیز تو میں ہوں چپ رہتی جو ہمت تو بھلا تاب کہاں تھی فرمایا کہ کیوں لاف سے آلودہ زباں تھی کیا اپنی صفت آپ ہی کرنے میں ہے خوبی ہے بات وہی جس میں نکالے نہ کوئی نی آ عقل سے پوچھیں کہ بھلا کون بڑی ہے ڈھیلی ے تو ہے کون سی اور کون کڑی ہے بی عقل کہ پردہ سے یہ سب بحث تھی سنتیں آ سامنے کہنے لگیں دونوں گئی گذریں لازم تھی یہی بات کہ تم ایکے سے رہتیں جب پھوٹ ہوئی دونوں میں کچھ کر نہیں سکتیں تدبیر نہ شامل ہو تو ہمت ہے جہالت ہمت کی نہ شرکت ہو تو تدبیر حماقت جناب سید علمدار حسین ۱- اس ہسپانوی شخص کا نام جس نے امریکہ کو دریافت کیا۔ ۲- ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت مدراس کا پہلا گورنر ۳- جنرل جان نکلسن ۴- ’’ہمت کا حامی خدا ہے۔‘‘ مشہور ضرب المثل ہے۔ ۵- نپولین بونا پارٹ شہنشاہِ فرانس ۶- جنرل سر ولیم لاکھارٹ (سابق سپہ سالار افواجِ ہندوستان (کمانڈر اِن چیف) ۷- مراد چنگیز خان ہے۔ ۸- مراد نادر شاہ سے جس نے ہندوستان پر محمد شاہ کے عہد میں حملہ کیا۔ ۹- سلطان محمود غزنوی۔ ۱۰- ایلپس اُس دشوار گزار اور برف پوش پہاڑ کا نام ہے۔ جس پر سے فرانس کا مشہور عالی ہمت او ربلند حوصل شہنشاہ نپولین بونٹا پارٹ بہ حسنِ تدبیر معہ سامانِ جنگ گزر سکا تھا۔ سوالات ۱- تدبیر اور ہمت کا مکالمہ نثر میں لکھو۔ ۲- شاعر نے ان مصرعوں میں کن واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (ا) نادر ہوئی مغلوں کے شبستان میں پہنچی۔ (ب) حائل ہوا جب ایلپس تو رہ کس نے بتائی۔ ۳- ان الفظ کے ہم معنے الفاظ بتائو: پرستار۔ تسخیر۔ لِللّٰہ۔ لاف زنی۔ ۴- ’’دربار میں عزت ہے اگر کچھ تو مجھے ہے۔‘‘ اُوپر کے مصرع کی ترکیب نحوی کرو۔ ۵- عقل نے تدبیر و ہمت کو کیا نصیحت کی؟ اس کو اپنے لفظوں میں بیان کرو …٭…٭…٭… ۲۲- موعظۂ حسنہ آج ایک ہفتہ کے بعد تمھارا خط ملا ہے۔ جو شخص تمھاری طرح ایسے مکان میں رہتا ہو کہ وہاں سارے سارے دن کان پڑی آواز نہ سُن پڑے۔ اُس کو اس بات کا یقین کرانا سخت مشکل ہے کہ دنیا میں لوگ خط کے منتظر بھی رہا کرتے ہیں۔ بشیر! گو تم کو اُس قدر تحصیل علم کا شوق نہ ہو۔ جس قدر بہ اقتضائے حالاتِ زمانہ ہونا چاہیے۔ یا جس قدر میں چاہتا ہوں کہ ہوتا۔ جو تم کو جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم سمجھ دار ہو۔ تمھاری سمجھ کے بھروسہ پر میں تم کو یہ خط لکھتا ہوں۔ شرم و حیا شرطِ ادب و جوہر شرافت ہے۔ لیکن شرم تین قسم کی ہے۔ شرعی، عقلی، عرفی، شادی بیاہ کے بارے میں جو شرم لوگ کیا کرتے ہیں۔ وہ نہ شرعی ہے نہ عقلی۔ بلکہ محض عرف یعنی راہ و رسمِ دُنیا کی پابندی ہے۔ تم کپڑا اور کتاب اور کھانا یہاں تک کہ ٹوپی اور جوتی یعنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں میں ہمیشہ فانی رائے کامل آزادی اور بے باکی کے ساتھ ظاہر کیا کرتے ہو۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ایسے امرِ اہم کی نسبت جس پر تمھارے دین و دُنیا کا بنائو بگاڑ منحصر ہے۔ تم سے رائے نہ طلب کی جائے۔ تم شاید یہ حیلہ کرو گے کہ یہ معاملہ مشکل ہے۔ اور مجھ میں ایسے اُمورِ عظیمہ کی نسبت رائے دینے کی قابلیت نہیں۔ سچ ہے رائے طلب کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ تمھاری رائے پر عمل بھی کیا جائے۔ بلکہ صرف اتنی غرض ہے کہ تمھاری طبیعت کا رجحان اور میلان دریافت ہو۔ میں تمھارے بیاہ کی نسبت مستعجل ہوں…… کے یہاں جو تذکرہ ہوا تھا۔ تم کو معلوم ہے اُن کو بھی انکار نہیں۔ اور جب اصل سخن میں اتفاق ہے تو چھوٹے اختلاف مہر وغیرہ کے رفع ہوجائیں گے۔ دہلی میں جہاں اس کی گفت و شنید ہو۔ وہاں کے حالات تم کو بہ آسانی معلوم ہوسکتے ہیں۔ پس تم اپنی رائے بھی ظاہر کرو کہ تم کو کیا منظور ہے۔ اور کس جگہ تعلق پیدا کرنا پسند ہے۔ برخوردار! یہ شرم کی بات نہیں ہے۔ تم خیال کرو کہ اگر شرم کی بات ہوتی تو میں کیوں پوچھتا۔ میرا بہ اصرار پوچھنا اس کی دلیل ہے کہ تم کو اپنی رائے ظاہر کرنے میں مضائقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تم کو لوگوں کا خیال ہے تو اپنی رائے کو اعلان کے ساتھ مت ظاہر کرو۔ اپنی ماں کے کان میں کہہ دو۔ یا اپنی بہنوں سے بیان کرو۔ یا مجھ کو لکھوا بھیجو۔ (۲) ظاہر فارسی تمھارا پہنچا۔ میں تم کو چند بار فارسی کی طرف متوجہ کرچکا ہوں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اُردو سے فارسی بہ مدارج بہتر ہے۔ اتنی بات سمجھ لو کہ انگریزی، عربی، فارسی۔ یہ سب دوسرے ملکوں کی زبانیں ہیں ہم کو من۱؎ حیث المعاشرۃ اپنی اُردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان درکار نہیں۔ لیکن اُردو بھی حالت طفلی میں ہے۔ یعنی کلہا ڈھائی تین سو برس اس کو پیدا ہوئے گذرے ہوں گے۔ میر تقی اور سودا کے اشعار میں بھی بہت سے الفاظ عجیب پائے جاتے ہیں۔ جو اب متروک و مہجور ہیں۔ جیسے جاگہ بجائے جگہ سیتی بجائے سے۔ آئیاں بجائے آئیں وغیرہ۔ شروع میں بھاکا کے الفاظ اُردو میں اس قدر کثرت سے تھے کہ ابتدائی اُردو کا ایک جملہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ سب سے پہلا اُردو شاعر یعنی ریختہ گو ولی تھا۔ اُس کے اشعار سنو۔ تو ہنستے ہنستے لوٹ جائو۔ لیکن یوماً فیوماً اُردو کی تہذیب ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ میر تقی نے ایسا ریختہ کہا کہ فارسی کو مات کیا۔ سودا اُن کا ہمعصر تھا۔ زاں بعد ناسخ و آتش کا زمانہ ہوا۔ تو اُن کی بولی اور بھی صاف ہے۔ اب آخر میں شیخ ابراہیم ذوق، حکیم مومن، میرزا غالب اور دبیر و انیس لکھنوی نے تو اُردو کو خوب ہی رونق دی۔ انگریز کبھی کبھی کچھ کچھ توجہ کرتے ہیں۔ کہ اُردو کو رونق ہو۔ مگر یہ سینکڑوں برس کے کام ہیں۔ غرض اُردو میں افسوس ہے کہ علم نہیں اور بولی ٹھولی کا بھی وہ لطف نہیں۔ جو عربی فارسی میں ہے۔ بشیر عربی کا جب تم کو مزہ ملے گا تو یقین و باور کرو۔ آدمی پر وجہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ مفتی صدر الدین خاں مرحوم کو میں نے دیکھا کہ بایں وقار مجمع امتحان میں انگریزوں کے روبرو گانے لگتے تھے۔ علم اور لُطفِ زبان کی جست و جو میں ہم دوسری ۱- بہ لحاظ معاشرت زبان کے حاجت مند ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ نری اُردو سے کام نہیں چلتا۔ اور چار و ناچار دوسری زبان سیکھنی پڑتی ہے اب دوسری زبان کون سی اختیار کی جائے۔ جس کے ذریعے سے علم حاصل ہو۔ اور بولی کا مزہ ملے۔ سو برخوردار وہ زبان انگریزی ’’کلام۱؎ الملک ملک الکلام‘‘ انگریزوں کی تلاش و محنت اس درجے کی ہے کہ کسی قوم نے اس صفت میں اُن کی ہمسری نہیں کی۔ اب انگریزی کا یہ حال ہے کہ گنجینۂ علوم ہے۔ یونانی اور عربی اور عبرانی اور سنسکرت لیٹن۲؎ وغیرہ میں جو ذخیرے تھے۔ انگریزوں نے سب اپنی زبان میں جمع کر لیے ہیں۔ اب یہ عجیب بات دیکھی جاتی ہے کہ اصلی زبان میں ان علوم کا پتہ نہیں۔ مثلاً جبر و مقالہ فی الاصل عربی میں تھا۔ اس کا نام الجبرا۳؎ اِس کا گواہ ہے۔ انگریزوں میں کوڑیوں۴؎ جبر مقابلے ہیں۔ عربی میں مجھ کو آج تک کوئی رسالہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا اور غالب ہے مصر و روم میں بھی ہوں گے۔ تو اب انگریزی کتابوں کے ترجمے ہوں گے۔ اصلی کتابیں معدوم اور مفقود۔ اس سے قطع نظر انگریزی زبانِ حکام وقت ہے۔ اگر اس میں علوم نہ بھی ہوتے تو اُس کا زبانِ حکام وقت ہونا ہی کافی تھا۔ کیونکہ اس صورت میں وہ ذریعہ رسائی ہے غرض جس جس پہلو سے دیکھا جاتا ہے۔ سب سے مقدم انگریزی۔ اس کے بعد عربی۔ فصاحت اور بلاغت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ عربی شعارِ اسلام ہے۔ سب کے فارسی۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ ہماری اُردو میں فارسی کی ترکیبیں بہت ہیں اور فارسی کے بدون تکمیل اُردو ممکن نہیں۔ حاصل کلام فارسی کو اتنا دیکھو کہ اصل مطلب فوت نہ ہو۔ یہ کون کہے کہ فارسی میں کچھ علم نہیں ’’علم شے بہ از جہلِ شے‘‘ اگر کسی کو موقع ملے تو اس کو سنسکرت اور ترکی اور پشتو اور چینی زبانوں کا سیکھنا تضیع اوقات سے بہتر ہے۔ تم تکمیلِ انگریزی پر اپنی تمام ہمت صرف کرو۔ فارسی کو لہو و لعب کے عوض رکھو۔ لیکن فارسی میں ہزاروں الفاظ عربی کے ہیں۔ اُن کو نظر اندازِ مت کرو۔ تحقیق عجیب چیز ۱- بادشاہ کا کلام کلام کا بادشاہ ہے۔ ۲- زبان لاطینی ۳- ناموں پر الف لام داخل ہونا اس کی شناخت ہے کہ یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ ۴- جس طرح بارہ کی درجن اُسی طرح بیس کی کوڑی ہے۔ جو کرو۔ تحقیق کے ساتھ کرو۔ اصلاح کے متعلق یہ بات ہے کہ مبتدی مثل اُس لڑکے کے ہے جو چلنا سیکھتا ہے اور اصلاح دہندہ اُس کو چلنا سکھاتا ہے۔ ہم لوگ بچوں کو اُنگلی پکڑا دیتے ہیں۔ لیکن چلنے کا سارا بوجھ لڑکے پر ڈالتے ہیں مگر فرض کرو کہ بجائے اُنگلی پکڑا دینے کے ہم لڑکے کو بٹھا دیں۔ اور خود دوڑے دوڑے پھریں۔ تو اِس سے لڑکے کو کیا فائدہ ہوگا۔ اصلاح دہندہ اگر خود ساری عبارت لکھ دے۔ مبتدی کو کچھ نفع نہیں۔ بڑی اصلاح شوق ہے۔ جی کو لگی ہوتی ہے تو آدمی وہ بات نکالتا ہے جو اُستاد کو نہ سوجھے۔ یہ تو طے ہوگیا کہ بندوبست میں دان صاحب رہیں۔ اور مجھ کو ضلع ملے۔ علی گڑھ کا نام سُن کر بورڈ نے کہا کہ نذیر احمد بڑا ہی خوش نصیب ہے اُس کو بے نمبر ترقی ملی۔ اب کیا ضرورت کہ ضلع بھی اُس کو اُسی کی تعیین سے ملے۔ غرض جواب صاف ’’ع یہ راحت ملی ایسی محنت کے بعد‘‘ میں علی گڑھ کو لے کر کیا بھاڑ میں ڈالتا۔ بخدا! صرف تمھارے لیے کہ تم کسی طرح پڑھو۔ بشیر! اگر تم چار پانچ برس لگ لپٹ کر محنت کر ڈالو۔ تو کچھ بات نہیں۔ پھر ان شاء اللہ ساری عمر اس محنت کا فائدہ اُٹھایا کرو گے۔ میں نے جس بے سرو سامانی سے پڑھا تمھاری ماں اُس کی گواہ ہیں۔ اُنھیں سے پوچھو کہ مجھ کو اطمینان سے سونا حرام تھا۔ یہ محنت ایک حیلہ ہوگئی اور خدا نے مجھ کو افلاس اور بے وقری کے عذاب سے نجات دی۔ تو تم بھی کبھی اپنی حالت کو میری اُس حالت سے مقابلہ کیا کرو۔ اب جو میں سست اور کاہل ہوگیا ہوں تو اس وجہ سے کہ کوئی اختیاری تدبیر باقی نہیں۔ ورنہ اس پیری میں بھی میری کتاب بینی جوان ہے۔ باربار امتحانِ وکالت کو جی للچاتا ہے۔ لیکن بیس برس کی خدمت اور تعزز پر نظر کرکے ہمت قصور کرتی ہے۔ اب جو مجھ سے رہ گیا ہے تم کرو ’’ع اگر پدر نہ تو اندر پسر تمام کند‘‘ انگریزی کا انتظام ابھی خاطر خواہ تم نے نہیں کیا۔ گریمر کے قواعد مستحفظ ہوں۔ا ور جو پڑھو سو از بر۔ اصلاح دینے والا کوئی آدمی با استعداد ہو۔ اور ہر وقت ایک دُھن لگی رہے۔ تب جانو کہ انگریزی آئی اور انگریزی کی تخصیص کیا ہے۔ ہر علم کا یہی حال ہے۔ جناب ڈاکٹر حافظ نذیر احمد خاں سوالات ۱- خط نمبر۱ میں مولانا نذیر احمد نے شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکوں کی رائے لینے کے متعلق کیا خیالات ظاہر کیے ہیں؟ ۲- خط نمبر۲ میں انگریزی پڑھنے کے حق میں مولانا نذیر احمد نے کیا دلائل پیش کی ہیں۔ اور اُردو سے فارسی کا کیا تعلق بتایا ہے؟ ۳- یہ فرض کرکے کہ خط نمبر۲ تمھارے نام ہے۔ اس کا جواب صاف اور صحیح اُردو میں لکھو۔ اور اس میں بیان کرو کہ تم کون کون سی زبانوں کی تحصیل میں مصروف ہو۔ اور اُن کی تحصیل کے لیے کن طریقوں پر عمل کررہے ہو؟ ۴- ذیل کے فقرے کی ترکیب نحوی کرو: ’’انگریزوں نے سب اپنی زبان میں جمع کرلیے ہیں۔‘‘ ۵- خط نمبر۱ سے مرکب اضافی اور توصیفی الگ الگ بتائو۔ …٭…٭…٭… ۲۳- حضرت قاسم۱؎ کی جنگ پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زارِ صبح سرگرمِ ذکرِ حق ہوئے طاعت گزارِ صبح تھا چرخِ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا چلنا وہ بادِ صبح کے جھونکوں کا دمبدم وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم کھا کھا کیا وس اور بھی سبزہ ہرا ہوا تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا وہ صبح نور اور وہ سبزہ وہ لالہ زار کُو کُو وہ قمریوں کی طائوس کی پکار وا تھے دریچے باغِ بہشت نعیم کے ہر سُو رواں تھے دشت میں بھوکے نسیم کے تھا لشکر یزید میں سامانِ قتلِ شاہ۲؎ ہر سُو جما رہا تھا صفیں شمر۳؎ رُو سیاہ اِک صف میں برچھیوں کی چمک تھی کہ الحذر ۱- حضرت امام حسنؑ کے بیٹے جو کربلا میں شہید ہوئے۔ ۲- حضرت امام حسینؑ جو کربلا میں شہید ہوئے۔ ۳- یزید کی فوج کا ایک افسر انیاں وہ توڑ ڈالیں جو فولاد کا جگر جب بندھ چکیں صفیں تو علم کھل گئے تمام کفل پڑ گیا کہ جنگ کو نکلیں شہِ انام۱؎ سُن کر یہ کفل محل سے برآمد ہوئے حضور۲؎ پڑھنے لگے درود رفیقانِ ذی شعور حق کے ولی مصاحب و سردارِ انس و جن کوئی جوان کوئی متوسط کوئی مُسِن وہ گورے گورے جسم قبائیں وہ تنگ تنگ زیور کی طرح جسم پہ زیبا سلاحِ جنگ کہتے تھے سب چڑھائے ہوئے آستین کو آقا ابھی کہیں تو اُلٹ دیں زمین کو لشکر سے تب بڑھا پسرِ سعد۳؎ چند گام چلے میں رکھ کے تیر یہ سب سے کیا کلام ہے شاق مجھ کو خلق میں جینا حسینؑ کا کیا شاد ہوں ہدف ہو جو سینہ حسینؑ کا لکھا ہیجب لگا کے وہ ناوک ہٹا شریر یکبار فوج شہ پہ چلے دس ہزار تیر جس وقت خاتمہ رفقا کا ہوا بخیر تھے پھر تو سب عزیز نہ تھا اُن میں کوئی غیر رُخصت ہوا حسینؑ سے پھر دلبرِ حسن۴؎ ۱- امام حسینؑ ۲- امام حسینؑ ۳- ابن سعد۔ یزید کی فوج کا ایک افسر ۴- حضرتِ قاسم برہم ہوئی وہ بزم وہ صحبت وہ انجمن دولھا کے نورِ رُخ کی ضیا چرخ تک گئی جولاں کیا فرس کو تو بجلی چمک گئی پہنچا جو رزمگاہ میں وہ غیرتِ قمر نیز پکڑ کے گھوڑے کو پھیر اِدھر اُدھر اللہ رے چمک رُخِ پُر آب و تاب کی سہرہ بنا ہوا تھا کرن آفتاب کی ناگہ رجز یہ پڑھنے لگے قاسمِ جری عالم میں کون ہے جو کرے ہم سے ہمسری شہرہ ہے حرب و ضبر شہِ خاص و عام کا سکہ ہے شش جہت میں ہمارے ہی نام کا جد ہے مرا امیرِ۱؎ عرب شحنۂ نجف وادی جنابِ فاطمۂ زہرا سی ذی شرف میں پارۂ دل حسنِؑ خوش خصال ہوں ہیرے سے جو شہید ہوا اُس کا لال ہوں ناگاہ فوجِ شام سے تیرِ ستم چلے قاسم بھی چھیڑ کر فرسِ خوش قدم چلے پیدل تو اُس قطار کے تھے کس قطار میں دو دو سوار کٹ گئے ایک ایک وار میں ڈھالیں اُٹھیں کہ دن شب دیجور ہو گیا لامع جو برقِ تیغ ہوئی نور ہو گیا ۱- حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئی ہنسی اجل کو بھی اس طرح مر گئے گھوڑوں پہ تن چڑھے رہے اور سر اُتر گئے تھا ابنِ سعدِ شوم کو اس دم بہت ہراس غرقِ سلاح ارزقِ۱؎ شامی کھڑا تھا پاس اُس سے کہا کہ فوج نہایت ہے بے حواس تو جا کے لڑ تو قتل ہو شاید یہ حق شناس کہنے لگا بگڑ کے وہ باصد غرور و لاف میں تب لڑوں اگر علیؑ آئیں پیٔ مصاف فرق آئے گا نہ میری کبھی آن بان میں لڑکے سے لڑ کے نام مٹا دوں جہان میں بیٹوں کو میرے بھیج کہ چاروں دلیر ہیں جنگ آزما ہیں سور ہیں صفدر ہیں شیر ہیں نکلا یہ بات سنتے ہی اُن میں سے ایک یل پیچھے چلی شریر کے ہنستی ہوئی اجل قاسم یہ نعرہ زن ہوئے چمکا کے راہوار او خیرہ سر اجل تری گردن پہ ہے سوار دشمن کو اپنی ضرب طمانچہ کا ہے آ کوئی وار کر جو ارادہ وِغا کا ہے یہ سنتے ہی کماں کو اُٹھا کر بڑھا شریر قاسمؓ نے ماری فرق پہ شمشیرِ بے نظیر یوں قطع اُنگلیاں ہوئیں اس تیرہ بخت کی جیسے کوئی قلم کرے شاخیں درخت کی ۱- یزید کی فوج کا ایک پہلوان چٹکی سے چھوٹ کر جو چلا تیر بے امان ’’قربان تیرے ہاتھ کے‘‘ چلائی یہ کمان مرکب سے گر کے مر گیا جب وہ عدوے دیں نکلا ادھر سے تب پسرِ ثانیِ لعیں نیز کاو ار کرنے لگا جب وہ خود پسند بجلی سا کوندنے لگا قاسم کا بھی سمند نیز سے کوہ ہوگیا جس دم وہ خیرہ سر ٹپکے میں ہاتھ ڈال کے پٹکا زمین پر جز موت کچھ شقی کو نہ اس دم نظر پڑا آنکھیں کھلیں تو قعرِ جہنم نظر پڑا جھپٹا برادرِ سوم اس کا بکر و فر تانے ہوئے وہ گرزِ گراں سر کہ الحذر یوں دو کیا عمودِ سرِ نابکار کو جس طرح تیغِ تیز اُڑا دے خیار کو مرتے ہی اس کے فوج سے چوتھا پسر بڑھا قاسم کارے او یلِ خود سر کدھر بڑھا لڑتا وہ کیا کہ تیرِ اجل کا نشانہ تھا اک ہاتھ میں نہ سر تھا نہ بازو نہ شانہ تھا بیجاں ہوئے نبرد میں بیٹے جو اُس کے چار ارزق کا دل ہوا صفتِ لالہ داغ دار جیبِ قبا کو مثلِ کفن پھاڑتا ہوا نکلا پرے سے دیو سا چنگھاڑتا ہوا قاسم نے دی صدا کہ بس اب کر زباں کو بند اللہ کو غرور و تکبر ہے ناپسند دیکھیں بلند کون ہے اور پست کون ہے کھل جائے گا ابھی کہ زبردست کون ہے بیٹوں کے غم نے کر دیے مختل ترے حواس گھبرا نہ بھیجتے ہیں تجھے بھی اُنھیں کے پاس چتلے ہیں جتنے سانپ وہ ڈستے نہیں کبھی گرجے ہیں جو بہت وہ برستے نہیں کبھی نیزہ ہلا کے جانب قاسم بڑھا وہ یل دولھا نے مسکرا کے صدا دی سنبھل سنبھل یہ کہہ کر اپنے چھوٹے سے نیزے کو دی تکان چمکی انی تو برق پکاری کہ الامان بل کیا کرے کہ زور ہی موذی کا گھٹ گیا غل تھا کہ اژدہے سے وہ افعی لپٹ گیا قاسم نے زور سے جو انی پر رکھی انی بھاگا شقی کے جسم سے زورِ تہمتنی جھنجھلا کے چوبِ نیزہ کو لایا وہ فرق پر قاسمؓ نے ڈانڈ ڈاند پہ مارا بچا کے سر نیز بھی دب کے ٹوٹ گیا نابکار کا دو انگلیوں سے کام لیا ذوالفقار۱؎ کا چمکا کے تیغِ تیز جو قاسم سنبھل گئے سمجھا جو کچھ فرس کے بھی تیور بدل گئے ۱- حضرت علی علیہ السلام کی تلوار میخیں زمیں کی اس کی تگاپو سے ہل گئیں دونوں کنوتیاں بھی کڑی ہو کے مل گئیں چھل بل دکھا کے فوج کو دوڑ تھما اُڑا صورت بنائی جست کی سمٹا کے جا اُڑا جن تھا پری تھا سحر تھا آہو شکار تھا گویا ہوا کے گھوڑے پہ گھوڑا سوار تھا دونوں طرف سے چلنے لگے وار یک بیک دو بجلیاں دکھانے لگیں ایک جا چمک ہر بار جانبین سے ہوتے تھے وار رد تھا حرب و ضرب میں وہ شقی بھی بلائے بد لایا جو حرف سخت زباں پر وہ بدخصال جھپٹا مثالِ شیر درندہ حسنؑ کا لال اوجھڑ لگی کہ ہوش اُڑے خود پسند کے گھوڑے نے پائوں رکھ دیے سر پر سمند کے گھوڑا بھی اس طرف کو اُدھر ہو کے پھر پڑا مارا کمر پہ ہاتھ کہ دو ہو کے گر پڑا غازی نے دی صدا کہ وہ مارا ذلیل کو بچے نے آج پست کیا مست پیل کو حضرت میر انیس مرحوم سوالات ۱- اس نظم میں میر انیس نے جس منظر کا نقشہ کھینچا ہے اُسے تم اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۲- مفصلہ ذیل سے کون حضرات مرادہیں: شیہِ انام۔ دلبرِ حسن۔ دولھا۔ امیرِ عرب ۳- بتائو کہ ارزق پہلوان حضرتِ قاسمؑ سے جنگ کرنے کے لیے کیوں نہیں گیا؟ ۴- ذیل کے شعر کی ترکیب نحوی کرو۔ اور بتائو ’’حسن کا لال‘‘ سے کون مراد ہے؟ لایا جو حرف سخت زباں پر وہ بدخصال جھپٹا مثالِ شیر درندہ حسنؑ کا لال ۵- لالہ زارِ صبح۔ ذکرَ حق۔ چرخِ اخضری۔ بادِ صبح۔ دامنِ صحرا۔ فرسِ کوش قدم۔ شب دیجور۔ لشکرِ یزید۔ سامانِ قتل شاہ۔ فوجِ شاہ۔ قواعد کی رُو سے کون کون سے مرکب ہیں؟ …٭…٭…٭… گ۲۴- پیسہ کا سفرنامہ میں تانبے کی کان میں رہتا تھا۔ اور سفرکا نام بھی نہ جانتا تھا۔ لیکن چند آدمیوں نے مجھ کو میری ماں کی گود سے جدا کرکے کان سے باہر نکالا۔ اور بھٹی میں لے جاکر گلایا۔ اُف! اُف!! کیسی سخت آگ تھی جس نے مجھ کو پتلا پانی کردیا۔ کچھ دیر کے بعد میرے دو منہ بنائے گئے۔ اور اُن پر عربی حروف میں ’’سلطان محمدؐ تغلق‘‘ لکھ دیا گیا۔ جب میرا بدن تیار ہوگیا تو کہا گیا۔ اب تجھ کو سفر کرنا ہوگا۔ میں نے پوچھا۔ کہاں کا؟ جواب ملا جہاں تہاں کا۔ یہ کہہ کر مجھ کوایک تھیلی میں بند کرکے خزانے میں بھیج دیا گیا۔ وہاں سونے چاندی کے بھائی بھی تھے۔ اُن کو بھی میں نے تھیلیوں میں بند دیکھا۔ اور سب کو مغموم پایا۔ تو پوچھا بھائی! تم چپ کیون ہو؟ وہ بولے گھر کی جدائی کا رنج ہے اور اس کا صدمہ کہ آزادی چھن گئی۔ اور دوسروں کے غلام بن گئے۔ میں نے کہا۔ غلامی کہاں ہے۔ تم اب بھی آزاد ہو۔ تمھاری اصل موجود ہے۔ اُنھوں نے جواب دیا۔ بے شک ہم سونا چاندی ہیں۔ مگر چہروں پر نقش جو لگائے گئے ہیں وہ غلامی کا نشان ہے۔ اب ہم کو سونا چاندی کوئی نہیں کہے گا۔ اشرفی روپیہ کہہ کر پکارا جائے گا۔ یہ سُن کر مجھ کو بھی خیال ہوا کہ واقعی یہ حالت تو غلامی کی ہے۔ کہ ہیں کچھ اور کہا کچھ اور جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں بادشاہ کا حکم آیا کہ ایک سو ایک اشرفیاں ایک سو ایک روپے اور ایک سو ایک پیسے خیرات میں دے دو۔ خزانچی نے ہم کو نکالا۔ اور گن کر دے آیا۔ پیسوں میں میں بھی نکلا۔ اور ایک محتاج کو دیا گیا یہ شخص ہم تینوں کو کپڑوں میں باندھ کر گھر لایا۔ اور صبح سے لے کر دوپہر تک ہم کو سامنے کر رکھ دیکھتا اور گنتا رہا۔ اس کے کئی بچے تھے۔ اور وہ سب بھوکے تھے۔ جب وہ بھوک سے رونے لگے تو وہ شخص اُٹھا۔ اشرفیاں روپے تو دفن کردیے۔ اور پانچ پیسے لے کر بازار گیا۔ اور ایک دوکان سے اُس نے پکی ہوئی روٹی خریدی۔ ان پانچ پیسوں میں ایک میں بھی تھا۔ نانبائی نے مجھ کو لے کر پانی کے پیالے میں ڈبو دیا۔ آدھی رات تک میں غرقِ آب رہا۔ جب نانبائی نے دوکان بڑھائی تو مجھ کو نکال کر ایک تھیلی میں ڈال دیا۔ دوسرے دن صبح کو قصائی گوشت لے کر آیا تو نانبائی نے تھیلی میں سے پیسے نکال کر اس کو دیے۔ تو میں بھی اُس کے ہاتھ میں گیا۔ وہاں بکریاں بک رہی تھیں۔ وہ اُس نے خریدیں اور مجھ کو بکری والوں کے حوالہ کردیا۔ بکری والے مجھ کو لے کر اپنے گائوں چلے گئے۔ یہ گائوں شہر سے ذرا دور تھا۔ اس بکری والی کی ایک …… تھی۔ جو اس وقت نماز پڑھ رہی تھی۔ نماز پڑھ ……… تو بکری والے نے مجھ کو اُس کے حوالے کیا۔ اُس نے ہاتھ بلند کرکے خدا کا شکرانہ ادا کیا اور پانچ پیسے الگ کرکے رکھ دیے۔ ان ہی میں ایک میں بھی تھا۔ میں رات بھر اپنے سب بھائیوں سے جدا صرف چار بھائیوں کے ساتھ کونے میں رہا۔ صبح کو وہ بڑھیا مجھ کو لے کر حضرتِ مخدوم نصیر الدین۱؎ چراغ دہلوی کے پاس گئی۔ اور اُن کے قدموں میں مجھ کو رکھ دیا۔ اُنھوں نے مجھ کو لے کر اپنے داروغۂ لنگر کے حوالے کردیا۔ تھوڑی دیر لنگری کی جیب میں رہا۔ اتنے میں ایک شخص اودھ کا رہنے والا غریب مسافر مخدوم چراغ دہلی کے پاس آیا اور اُنھوں نے لنگری سے پیسے مانگ کر اُس مسافر کو دے دیے۔ ان پیسوں میں میں بھی تھا۔ وہ مسافر مجھ کو لے کر اپنے وطن کو چلا۔ اُس کے پاس خرچ تھا اُس نے ہم پانچوں کو حضرتِ مخدوم کا تبرک سمجھ کر الگ رکھ لیا۔ اور راستہ میں خرچ نہ کیا۔ لیکن جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا۔ تو اُس کا خرچ ختم ہو گیا۔ اور دو وقت کے فاقہ کے بعد ایک سرائے میں اُس نے مجھ کو ایک بھٹیاری کے حوالے کرکے روٹی کھالی۔ اور چلا گیا۔ یہ بھٹیاری بہت کنجوس تھی۔ اُس نے مجھ کو گڑھا کھود کر دبا دیا۔ جہاں اور بھی اشرفیاں اور پیسے دفن تھے۔ اس گڑھے میں اکیس برس دبا پڑا رہا۔ وہ بھٹیاری مر گئی۔ اور اس کے یٹے نے کھود کر مجھ کو نکالا۔ اور عیاشی میں خرچ کرنا شروع کیا۔ ایک دن اُس نے شراب فروش سے شراب لی اور مجھ کو اُس کے سپرد کردیا۔ کلال مجھ کو لے کر گھر آیا۔ اور بہت روز میں اُس کے پاس رہا۔ ایک دن رات کو اُس کے یہاں چور آئے۔ اور میں بھی اُن کے ہاتھوں چوری ہوکر کمر میں باندھا گیا۔ اور گھوڑوں پر جنگل در جنگل پھرتا رہا۔ وہ چور رات کو سوتے تھے کہ بادشاہی فوج نے اُن کو آن گھیرا۔ اور وہ سب مارے گئے۔ فوجی سپاہیوں نے اُن کا اسباب لوٹ لیا۔ اس میں میں بھی تھا۔ مگر رات کے سبب میں زمین پر گر پڑا۔ اور کسی نے مجھ ۱- دہلی کے ایک مشہور ولی اللہ نہ دیکھا۔ سپاہی چلے گئے۔ اور مجھ کو زمین پر اکیلا چوڑ گئے۔ اس جنگل میں مجھ کو سات برس گزر گئے۔ بارش ہوتی تو میں خاک میں دب جاتا۔ آندھی چلتی تو خاک میرے چہرے سے ہٹ جاتی۔ ایک روز گرمی کے کوئی کے موسم میں کوئی سوار اس راستے سے آیا اور درخت کے نیچے دم لینے بیٹھ گیا۔ اُس کی نگاہ مجھ پر پڑی تو اُس نے مجھ کو اُٹھا کر کمر میں باندھ لیا۔ اور اس طرح سات سال کے بعد میں پھر شہر میں آیا۔ یہ سپاہی ہندو تھا۔ اُس نے مجھ کو ایک بھاٹ کے حوالہ کردیا۔ تین دن بعد بھاٹ کی بیوی مر گئی۔ اور اُس نے کفن خریدنے میں مجھ کو ایک کپڑے والے کے حوالے کیا کپڑے والا مسلمان تھا اُس نے مجھ کو مدت تک تھیلی میں رکھا اور آخر ایک دن کپڑا بننے والے جلاہے کو دیا۔ اُس نے مجھ کو اُسی دن سوت کاتنے والی عورت کے حوالے کردیا۔ اِس عورت کا بیٹا سبزی فروش تھا۔ صبح وہ ترکاری خریدنے گیا تو عورت نے مجھ کو سبزی فروش کے حوالہ کیا۔ جہاں اور روپے پیسے بھی تھے۔ کچھ دنوں کے بعد اُس نے ایک صراف سے اشرفیاں لیں۔ اور میں روپیوں پیسوں کے ساتھ صرف کے گھر پہنچا۔ صرف نے مجھ کو دفن کردیا۔ اور میں چار سو برس برابر زمین میں گڑا رہا۔ کیونکہ صراف مر گیا تھا۔ اور اُس نے کسی کو اپنے مال کی خبر نہ دی تھی۔ وہ صراف پانی پت میں رہتا تھا۔ چار سو سال کے بعد جب نادر شاہ ہندوستان پر چڑھ آیا اور پانی پت کے میدان میں محمد شاہ کی فوج سے اس کا مقابلہ ہوا تو زمین ہموا رکرنے میں وہ دیگچہ نکل آیا جس میں میں بند تھا۔ چوبداروں نے یہ روپیہ بانٹ لیا۔ اور میں بھی ایک ایرانی چوبدار کے ہاتھ آیا۔ نادر شاہ دہلی پہنچا۔ چوبداروں نے مجھ کو بازار میں دینا چاہا۔ مگر کسی دوکاندار نے مجھ کو قبول نہ کیا۔ اور کہا یہ پرانا سکہ ہے۔ اور اب اس کا چلن بند ہے۔ میں اس کی جیب میں تھا۔ کہ ایک دہلی والے نے چوبدار کو مار ڈالا۔ اور اُس کی جیب میں سے مجھ کو نکال لیا۔ اور اپنے گھر لے گیا۔ دوسرے دن وہ شخص بھی نادری قتل عام میں مارا گیا۔ اور اُس کے گھر میں آگ لگائی گئی۔ جس میں میں بھی جل کر کالا ہوگیا۔ اور کئی برس جلے ہوئے انبار میں پڑا رہا۔ آخر ایک شخص نے مکان بنوانا چاہا تو میں ایک بیلدار کو مل گیا۔ اور اُس نے مجھ کو اپنی بیوی کو دے دیا۔ بیوی نے مجھ کو چولہے کے سامنے دفن کردیا۔ جہاں اُس کے اور بھی روپے دفن تھے۔ چند روز کے بعد یہ میاں بیوی مرگئے۔ اور میں چولہے کے سامنے سو برس تک دفن رہا۔ اُس کے بعد دہلی میں سپاہیوں کا غدر ہوا۔ اور اُس کے فرو ہونے کے بعد دہلی کے بعض محلے کھودے گئے تو میں بھی کھد کر نکل آیا۔ اور ایک مسلمان مزدور نے مجھ کو پایا۔ اُس نے چاندی کے سکے تو فروخت کردیے اور مجھ کو ایک تعویذ سمجھ کر بچہ کے گلے میں ڈال دیا کیونکہ اُس نے مجھ پر عربی خط دیکھ کر خیال کیا تھا کہ میں بہت متبرک ہوں۔ دس برس تک میں اُس کے گلے میں رہا۔ اور جب وہ بچہ ہوشیار ہوگیا تو اُس نے ایک دن مجھے چنے والے کو دے کر چنے خرید لیے۔ چنے والے کے پاس مجھ کو ایک لکھے پڑھے مسلمان نے دیکھا۔ اور ایک روپیہ میں مجھ کو خرید لیا۔ یہ مسلمان گھر میں آیا اور مجھ کو ہاتھ میں لے کر کہنے لگا۔ اے پیسے! ذرا منہ سے بول۔ تو نے دنیا میں کیا کیا انقلاب دیکھے۔ تو کہاں کہاں رہا۔ تجھ پر ایک اسلامی شہنشاہ کا نام کندہ ہے۔ جو بڑا طاقتور اور شان و شوکت کا جہاندار تھا۔ اُس کے نام سے تیری عزت تھی۔ تو اسلامی سکہ کہلاتا تھا۔ مگر آج وہ تیرا مالک خاک میں پڑا سوتا ہے۔ آج اُس کی حکومت کا کہیں نام و نشان بھی نہیں۔ آہ! میں اس تغلق کی اولاد ہوں لیکن نامراد و برباد ہوں۔ اب تجھ جیسے حرفوں کا چلن نہیں رہا۔ اب تو ہم لوگوں کی ایک پرانی نشانی کہلائے گا۔ اب بازار میں مٹھی بھر چنے بھی تیرے عوض کوئی نہ دے گا۔ دیکھ یہی ہمارا حال ہے۔ کہ نسل شاہ ہیں۔ خلف ذی جاہ ہیں۔ مگر انقلابِ ایام کے ہاتھوں تباہ ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مسلمان بہت رویا۔ اور مجھ کو چومتا رہا۔ آنکھوں سے لگاتا رہا۔ چند روز میں اُس کے پاس رہا۔ لیکن ایک دن بازار میں اُس نے دیکھا کہ ایک امریکن پرانے سکے خرید رہا ہے۔ اور بڑی بڑی قیمتیں ان سکوں کی دے رہا ہے۔ میرے مالک نے بھی مجھ کو جیب سے نکال کر اُس کو دکھایا۔ امریکن نے میری خرید منظور کرلی۔ اور دس روپے میرے عروض اُس کو دینے چاہے۔ میرا مالک بہت مفلس تھا۔ اُس کو روپے کی بہت ضرور تھی مگر اُس نے کہا۔ نہیں میں اپنے ملک کی یادگار تجھ کو نہ دوں گا فاقہ کروں گا۔ اپنے آثارِ قدیمہ کو اپنے پاس سے جدا نہ ہونے دوں گا۔ امریکن یہ جواب سُن کر چپ ہوگیا۔ وہاں بہت لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ اور اس قصے کو اُنھوں نے سنا تھا۔ جب میرا مالک گھر آنے لگا تو ایک جیب کترے نے مجھ کو مالک کی جیب کتر کر نکال لیا۔ اور اُس امریکہ کے پاس لے جاکر فروخت کر ڈالا۔ امریکن مجھ کو لے کر اپنے مُلک میں گیا۔ اور ایک عجائب خانہ میں مجھ کو رکھ دیا۔ میں وہاں پانچ برس رکھا رہا۔ اور ہزاروں مردوں اور عورتوں نے آآکر مجھ کو دیکھا۔ ایک دن ایک ہندوستانی مسافر بھی وہاں آیا۔ اور اُس نے وہاں سے مجھ کو چرایا۔ اور پھر ہندوستان لے کر آیا۔ اور جے پور کے عجائب خانہ میں فروخت کردیا۔ آج میں اُسی جگہ مقیم ہوں۔ اِس کے بعد خبر نہیں۔ کہاں کا سفر پیش آئے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب میں اپنے وطن میں ہوں۔ جس کی یاد مجھے امریکہ میں ستایا کرتی تھی۔ خدا بھلا کرے۔ اُس ہندوستانی کا جس نے اپنا مُلکی فرض محسوس کیا۔ حضرت خواجہ حسن نظامی سوالات ۱- مفصل ذیل کے متعلق اپنی معلومات مختصر عبارت میں لکھو: حضرت مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی، سلطان محمد تغلق محمد شاہ۔ ۲- پیسہ کے سفرنامہ کی طرزِ تحریر کو اچھی طرح ذہن نشین کرکے تم بھی لاہور کے قلعہ کی آپ بیتی کہانی اس کی زبانی لکھو۔ اور اِس ضمن میں اِن حالات کو بیان کرو۔ (ا) اس قلعہ کو شہنشاہ اکبر نے تعمیرکیا۔ (ب) شہنشاہ جہانگیر دہلی سے کشمیر اور کشمیر سے دہلی جاتے ہوئے یہاں قیام کرتا تھا۔ (ج) شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں یہ لاہور کے حاکم کا محل بن گیا۔ (د) شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں یہ قلعہ پھر شاہی لشکر کی چھائونی کے طور پر استعامل ہوا۔ (ر) کچھ زمانے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اُسے اپنی سکونت کے لیے منتخب کیا۔ (و) انگریزی عہد حکومت میں بہت دنوں یہ فوجوں کی قیام گاہ رہا۔ ۳- ذیل کے فقرے کی تحلیل صرفی کرو: ’’نانبائی نے دوکان بڑھائی۔‘‘ ۴- پیسہ کس چیز کا بنتا ہے اور اشرفی روپیہ کس چیز کی؟ یہ سب دھاتیں کہاں سے نکلتی ہیں۔ اور دھاتوں کے نام لو۔ تانبا اور کس کس کام آتا ہے؟ …٭…٭…٭… ۲۵- اندھی پھول والی کا گیت گود میں مالن کے ہیں ٹوٹے ہوئے ڈالی کے پھول لو خریدارو یہ اندھی بیچنے والی کے پھول تم ہو جس دنیا کے مساکن نور کی دنیا ہے وہ عالمِ ظلمات مجھ مجبور کی دنیا ہے وہ ہو مبارک تم کو دنیا کے نظارے دیکھنا دن کو نورِ مہر شب کو چاند تارے دیکھنا میں وہاں ہوں ہے اندھیرا گھپ جہاں چھایا ہوا ہے تصور اس سیہ خانہ میں گھبرایا ہوا تم کو قدرت نے عطا کی قوتِ نظارگی اور میں محرومِ قدرت بندگی بے چارگی نظمِ دنیا کا ہے جامِ جم تمھارے واسطے تم ہو عالم کے لیے عالم تمھارے واسطے فلسفہ قدرت کا ان پھولوں میں دکھلاتی ہوں میں ان میں جو جو خوبیاں ہیں تم کو سمجھاتی ہوں میں طفلِ غنچہ بڑھ کے یہ آزاد گل بوٹے ہوئے آگئے ہیں اپنی ماں کی گود سے چھوٹے ہوئے وہم ہے نقش و نگارِ گل غلط ہے یہ گہاں عارضِ گل پر ہیں پیاری ماں کے بوسوں کے نشاں باعث عبرت ہے اُن کا عالمِ افسردگی مادرِ گیتی سے چھٹ کر پائی ہے پژ مردگی ناز پردردِ چمن ہیں یہ جوانانِ چمن حُسن کی دنیا کے ساکن ہیں یہ یارانِ چمن کل کے دن تک تھے یہی سب طرۂ دستارِ باغ ان کی رونق دیکھتی تھی نرگسِ بیمارِ باغ دستِ گلچیں ہر طرف تھے برچھیاں تانے ہوئے ہمدمِ راحت بھی ہیں اور غمگسار غم بھی ہیں رونق شادی شریکِ محفلِ ماتم بھی ہیں لو خریدارو! چلو یہ بے رُخی اچھی نہیں رات بھر کی ہے یہ رونق صبح کو کچھ بھی نہیں خندن زن ہیں ایک شب کی زندگانی کے لیے اپنے گھر لے جائو ان کو میہمانی کے لیے جناب احسن سوالات ۱- ان الفاظ سے کیا مراد ہے؟ عالم ظلمات۔ طفلِ غنچہ۔ ناز پروردِ چمن۔ مادرِ گیتی۔ طرۂ دستارِ باغ۔ جامِ جم۔ نرگسِ بیمار ۲- اندھی پھول والی کے خیالات کو جو اس نظم میں لکھے گئے ہیں۔ اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۳- ’’تم کو قدرت نے عطا کی قوتِ نظارگی‘‘ کی ترکیب نحوی کرو۔ ۴- ’’نظارگی‘‘ کی ی کیسی ہے۔ اور یہ کلمہ قواعد میں کیا ہے؟ …٭…٭…٭… ۲۶- اخلاقی جرأت جرأت جرأت یا دلیری کا بڑا تعلق دل سے ہے۔ اور جرأت یا دلیری کا وجود اُس خیال پر منحصر ہے جو ہمیں اپنے کام بے کھٹکے جاری رکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ جرأت دو اقسام پر منقسم ہوسکتی ہے: جسمانی جرأت (۱) جسمانی یا قدرتی جرأت۔ یہ وہ جرأت ہے جس کے بغیر سپاہی میدانِ جنگ میں اپنے کرتب اور فن نہیں دکھا سکتا۔ مثال کے طور پر ہم اس جگہ پومپی آئی کے سنتری کا ذکر کرتے ہیں۔ جب کہ کوہ آتش خیز وسوویس انگارے اور جھلسنے والا لاوا اپنے رہِ عدم کے دہانوں سے باہر پھینک رہا تھا۔ لوگ اس آفت ناگہانی سے پناہ حاصل کرنے کے لیے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر نہایت ہی سراسیمگی اور خوف و ہراس کی حالت میں بھاگتے پھرتے تھے۔ اور تمام کوششوں کے باوجود اس بلائے آسمانی سے چھٹکارا نہ ملتا تھا۔ لیکن واہ رے سنتری! تیری ماں نے تجھ ہی کو جنا تھا۔ تو اپنی جان کا خوف نہ کھا کر لوگوں کو بچانے میں نہایت ہی سرگرمی سے کام لے رہا ہے۔ اور اپنے فرائض منصبی نہایت ہی مستعدی سے ادا کررہا ہے افسوس! اس جوانمرد اور جری سپاہی نے سینکڑوں مرد و زن پر اپنی جان تصدق کی۔ اور اس کھینچا تانی کی حالت میں اپنی پیاری جان نہایت ہی جوانمردی سے لاوے کی نذرکی۔ اب احمد نگر کی چاند بی بی کی دلیری کو ملاحظہ فرمائیے۔ جس وقت مغلوں نے شہر کی چار دیواری پر دانت پیس پیس کر حملہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اور قریب تھا کہ احمد نگر کی فوج اس حملے کی تاب نہ لاکر ہتھیار ڈال دے۔ ٹھیک اُس دم یہ نیک اور چاند سی بی بی زرہ بکتر پہن آلاتِ حرب سے جسم کو مزین کر ہاتھ میں تلوار پکڑے شگاف پر آموجود ہوئی۔ اور اپنے سپاہیوں کو جوشیلے الفاظ سے بڑھاوے دینے لگی کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گئے۔ لاچار مغلوں کی سپاہ کو منہ کی کھاکر واپس بھاگنا پڑا۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس نیک اور پارسا بی بی نے اپنی جسمانی یا قدرتی جرأت کی وجہ سے ایسی لازوال شہرت حاصل کرلی ہے کہ چار ووانگ عالم میں اُس کا نام گونج رہا ہے۔ اور لوگ اس کو بڑی عزت اور توقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اخلاقی جرأت (۲) اخلاقی جرأت کو ہماری عادات سے خاص تعلق ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ جسمانی جرأت کے مالک ہیں۔ وہ اخلاقی جرأت سے بھی غلامی کا پٹہ لکھوا لیں۔ بہت سے سپاہی لڑنے میں بیباک ہوتے ہیں۔ لیکن اتنی تاب نہیں لاتے کہ اپنے ہم چشموں کے مزاج اور دل لگی اور ہنسی کا مقابلہ کرسکیں۔ برعکس اس کے ایسی نازک بدن اور گل اندام بیبیاں بھی ہیں۔ جن میں انتہا درجے کی اخلاقی جرأت پائی جاتی ہے۔ اس سے وہ بہادری مراد ہے جو انسان کو ایماندار اور راست گفتار اور قرض سے محترز اور ہوائے نفسانی کا دشمن ہونے اور اپنے فرائض کو باحسن الوجوہ انجام دینے کی تحریک دیتی ہے۔ اخلاقی کم ہمتی اخلاقی جرأت کے نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے چال چلن میں بڑا بھاری نقص واقع ہوجاتا ہے۔ اور طاقت ارادی کچھ ایسی کمزور اور قریب قریب باطل پڑ جاتی ہے کہ حالانکہ وہ دیکھتا ہے کہ یہ درست راستہ ہے۔ اور دل سے چاہتا بھی ہے کہ میں ایسی راہِ مستقیم کا رہرو بنوں۔ اور ٹیڑھے راستے کو بُرا سمجھتا ہے اور اُس سے پرہیز کرنا چاہتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہی ٹیڑھا رازستہ بصد ناز و ادا اس کو اپنی طرف کشاں کشاں لیے جاتا ہے۔ اور اس میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ اُس بیجا طریق سے نہایت ہی بہادری کے ساتھ پرے ہٹ جائے۔ یہاں یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم چند ایک نظیریں اخلاقی جرأت اور اخلاقی کم ہمتی یا بزدلی کی ہدیۂ ناظرین کریں۔ اخلاقی جرأت کی مثال پہلے پہل اخلاقی جرأت کا ظہور یقینا راست گفتاری میں ہوتا ہے۔ اگر ہم نے کوئی قصور کیا ہو۔ لیکن بغیر کسی شرم یا حجاب کے اُس قصور کا نہایت ہی پاک باطنی سے اعتراف کریں تو یہ اخلاقی جرأت کی ایک بڑی مثال ہے۔ دروغ گوئی اور فریب عموماً نتیجے ہیں بزدلی کے۔ اخلاقی کم ہمتی کی مثال مندرجۂ ذیل مثال اخلاقی کم ہمتی کی ایسی مثال ہے جو عموماً ہندوستان کے ہر قبیلے اور ہر فرقے کی طرزِ معاشرت پر عائد ہوسکتی ہے۔ اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر قبیلوں کے سرپرست اور بزرگ اخلاقی کم ہمتی کے ہاتھ نہ بک جائیں تو قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حالت میں ایک عظیم اصلاح ہوجائے۔ مثال اخلاقی کم ہمتی کی یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی لڑکی کی شادی عنقریب کرنی ہے اور اس کی ماہواری آمدنی صرف پچاس روپے ہے اور بدقسمتی سے وہ اب تک ایک پائی بھی شادی کے لیے نہیں جمع کرسکا۔ لیکن اُس کی ظاہری حیثیت اس بات کی مقتضی ہے کہ وہ شادی میں پانسو روپیہ صرف کرے۔ تو پھر اُسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ نہایت ہی دلیری سے یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس شادی میں اتنا روپیہ لگانے کو نہیں دھرا ہے۔ اور یہ عین حماقت ہے کہ شادی کے لیے قرض دام لے کر رات دن کی فکر کا شکار بنوں؟ نہیں بلکہ ایسے اعلیٰ خیالات والے چندچ ہی بندگانِ خدا ہیں۔ ورنہ ایک بڑی تعداد لوگوں کی ایسے موقع پر اپنی ناک ساک کی خاطر بے دھڑک روپیہ قرض لے لیتی ہے۔ اور انجام پر ذرا غور نہیں کی جاتی۔ ایسے لوگ نہایت ہی بزدلی اور جہالت سے اپنی گردن قرض کے جوئے کے نیچے دبا لیتے ہیں۔ ع بریں عقل و دانش بباید گریست برخلاف اس کے جس شخص میں اخلاقی جرأت ہوتی ہے وہ اپنی بساط سے زیادہ خرچ ہرگز نہیں کرتا۔ اور وہ قرض کے وبال سے خود ہی نہیں بچا رہتا۔ بلکہ وہ اپنے مُلکی بھائیوں کے لیے خود ایک زندہ مثال بنتا ہے۔ اور اس طرح اُن کو اخلاقی جرأت کا سبق سکھاتا ہے۔ ریفارمر اور اخلاقی جرأت ہر زمانے اور ہر وقت میں رفارمروں کو اخلاقی جرأت کی انتہا درجے کی ضرور ت پڑتی رہی ہے۔ بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ ان کو تمام عمر ملزم قرار دیا گیا ہے۔ بعض کو جیل خانوں کی کڑیاں اور مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔اور بہت سے رفارمروں نے اپنے ایمان اور عقیدے پر اپنی جانیں نثار کردی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ جو دنیا کی بہبودی کی مشین کے پہیے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں ان کے نام نہایت ہی عزت کے ساتھ ابد الاباد تک قائم رہیں گے اور سخت سے سخت مصیبت اور دشوار سے دشوار مہم میں لوگوں کی دستگیری اور رہبری کریں گے۔ مارٹن لوتھر اخلاقی جرأت کے کرشموں کا اثر ناظرین کے دل پر قرار واقعی طور پر جمنے کے لیے ہم ان مارٹن لوتھ رکے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ پراٹسٹنٹ مذہب کا وہ چوٹی کا رفارمر ہے جس کی عظمت کا سکہ یورپ کے ہر گوشے اور ہر طبقے میں بیٹھ گیا ہے۔ لوتھر ۱۰؍نومبر ۱۴۸۳ء میں بمقام الیسبلن (واقع سکسنی) پیدا ہوا۔ جب بڑا ہوا۔ تو باپ کے حکم کے موافق قانون کے مطالعہ کی جانب رجوع کیا۔ لیکن جب اُسی کا ایک عزیز دوست بجلی کے گرنے سے اُس کی آنکھوں کے سامنے مرا تو اُس کا دل دنیا کی تمام دلچسپیوں سے اُچاٹ ہوگیا اور اُس نے بمقام ارفرٹ ایک خانقاہ میں گوشۂ نشینی اختیار کی۔ یہاں رہتے ہوئے لوتھر کو بہت عرصہ نہ ہوا تھا کہ ایک دن حسنِ اتفاق سے ارفرٹ کے کتب خانے سے ایک پرانی بائبل لاطینی زبان کی اُس کے ہاتھ لگی۔ اور اس بائبل کے پڑھنے سے لوتھر کو یہ واضح ہوا کہ رومن کیتھلک مذہب کے تمام طریقے درست نہیں۔ اور پوپ کی حد سے زیادہ عظمت اس کی نگاہ میں بیجا معلوم ہوئی۔ چنانچہ اب وہ پوپ کی شان وشوکت اور جبروت کے مٹانے پر تل گیا۔ پوپ نے کئی مرتبہ اس کو کبھی نرمی سے اور کبھی غیظ و غضب سے یہ کہا کہ تو ان حرکات سے بازآ۔ اور پھر یہ دھمکی بھی دی کہ میں تجھ کو زندہ جلا کر خاک سیاہ کرڈالوں گا آخر لوتھر نے ۱۵۲۱ء میں ورمز کے مذہبی مجمع کے روبرو ایک لیکچر نہایت ہی جوشیلے الفاظ میں دیا اور اس عام جلسے میں اپنے نئے مذہب کے اصول حاضرین کو سمجھائے۔ اور آخر میں کہا کہ ’’جن مذہبی اُصول کی میں تلقین کرتا ہوں۔ اُن کا اقتباس میں نے خدا کے پاک کلام یعنی بائبل سے کیا ہے۔ اب میں اپنے ایمان سے ہرگز دست بردار نہیں ہوسکتا۔ چاہے پوپ اور دنیا کے بادشاہ مجھ کو پا بزنجیر زمیں دور جیل خانوں میں مقید رکھیں۔ خواہ زندہ گاڑیں اور چاہے وہ جیتے جی جلا کر میرا نام ونشان کر باقی نہ رکھیں۔‘‘ ذرا ایک لمحے کے لیے خیال کرو کہ لوتھر کے گرد مخالفین کا ایک انبوہِ کثیر جمع ہے۔ جس میں ہر طبقے کے لوگ موجود ہیں۔ شہنشاہ۱؎ چارلس پنجم بھی وہاں ہے اور جرمنی کے تمام شہزادے اور پوپ کے قاصد اور بڑے بڑے حکامِ وقت کی گناہیں بھی لوتھر کے چہرے پر پڑ رہی ہیں۔ ایسے ذی اقتدار لوگوں کے سامنے مندرجہ بالا کلمات کا لوتھر کی زبان سے نکلنا اُس کی اخلاقی جرأت کا بڑا بھاری ثبوت ہے۔ سائنس اور اخلاقی جرأت سمائلز لکھتا ہے کہ ’’دنیا کی کی تمام بڑی بڑی مہمیں اخلاقی جرأت نے ہی سر کی ہیں۔ ہر قوم کی تاریخ پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ کوشش کے میدان میں ترقی کے قدم ان لوگوں نے ہی بڑھائے ہیں۔ جو دل کے دلیر تھے۔ اور اخلاقی جرأت اپنے حصے میں رکھتے تھے۔‘‘ سقراط نے نیکی اور حیاتِ جاودانی کی نسبت اپنے شاگردوں اور عوام الناس کو اعلیٰ درجے کی تعلیم دی تھی۔ لیکن یہ تعلیم اُس زمانے کے لوگوں کے خیالات کے خلاف تھی۔ گورنمنٹ نے اُس کو متنبہ کیا کہ اس قسم کی تعلیم سے باز آئے۔ سقراط نے انواع و اقسام کی سختیاں جھیلیں۔ لیکن اپنے اصول کی تلقین سے نہ پھرا۔ آخر حسب الحکم گورنمنٹ اس دلیر شخص نے زہر ہلاہل کا پیالہ پی کر اپنی جانِ شیریں کو خیر باد کہا۔ لیکن مرتے دم تک شاگردوں سے اپنے عقیدوں اور اُصولوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ گلیلیو نے جو اطالیہ کا ایک بلند پایہ منجم گزرا ہے۔ لوگوں میں عام طور پر مشتہر کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد پھرتی ہے ان الفاظ کے عوض جو مظالم اس کو سہنے پڑے تھے۔ اُن سے وہ قریب قریب نیم مردہ ہوگیا تھا۔ غرض اسی طرح نیوٹن کو بھی جر ثقیل کی دریافت پر کافر قرار دے کر مجرم تصور کیا گیا تھا۔ حالانکہ نیوٹن صاف دلی اور پاک باطنی کے لحاظ سے تمام دنیا میں مشہور ہے لیکن ۱- ایک تاجدار غورکرنے کا مقام ہے۔ کہ اگر یہ سائنس دان حضرات سائنس کی معلومات کو اپنے سینوں میں دفن کیے ہوئے دفن ہوجاتے تو پھر ہمیں ان نئی معلومات سے محروم رہنا ہوتا اور سائنس کی ایک بڑی شاخ معرضِ ظلمت میں رہ جاتی۔ ہم اور اخلاقی جرأت اپنے طریق و اطوار اور ڈھنگوں کو درست کرنے کے لیے ہمیں اخلاقی جرأت کیس خت ضرورت رہتی ہے۔ نفسانی خواہشیں انسان کی جانی دشمن ہیں۔ مرتے دم تک ہم اپنی خواہشوں کی کشمکش اور اُلجھنوں میں گرفتار رہتے ہیں۔ اور اگر ہم میں اخلاقی جرأت موجود ہے۔ تو ضرور ان نفسانی خواہشوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ اور اس طرح سے اپنی تمام زندگی کو اخلاقی عیوب سے مبر کرلیتے ہیں۔ اخلاقی جرأت کے حاصل کرنے کا وسیلہ اس وقت باربار جو سوال ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’ہم اخلاقی جرأت کو کیونکر حاصل کرسکتے ہیں؟‘‘ اگر نفس کا شیطان تمھیں دھوکا دے کر اپنے دام گلوگیرمیں پھنسانا چاہے۔ اور تم اُس کے دھوکے میں نہ آئو۔ بلکہ ’’نہیں‘‘ کہہ کر اس کا دل جلائو یہ اخلاقی جرأت کا پہلا کرشمہ ہوگا۔ جو تمھاری جانب سے ظہور میں آئے گا اب جتنی مرتبہ تم نفس کشی سے اپنے فرائض کے سر انجام دینے کی طرف متوجہ ہوگے۔ اُسی قدر اخلاقی جرأت تمھارے دل و دماغ میں جگہ پکڑتی جائے گی۔ لیکن نفس کی شرارتوں کو برداشت کرنے سے نتیجہ برعکس پیدا ہوگا۔ ہر کام کے کرتے وقت اور ہر بات کے کہتے وقت اگر ہر شخص مندرجۂ ذیل نصیحت کو اپنے خیال میں رکھے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو۔ ’’جوانمرد اور مستقل مزاج بنو۔ اور ہر کام صرف خدا سے ڈر کر کرو۔ جو کام تم کرو۔ اور جو بات تم کہو۔ اُس کے کرتے اور اُس کے کہتے وقت اپنے دل سے یہ سوال کرو۔ ’’کیا جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں یا کہنا چاہتا ہوں۔ درست ہے؟‘‘ اگر تمھارا دل جواب میں ’’ہاں‘‘ کہے۔ تو پھر بہرصورت لوگوں کی مخالفت کے باوجود وہ کام کرو۔ اور بات وہ کہو۔ممکن ہے کہ تمھارے بعض رفقا تمھارے مخالف ہوجائیں۔ ممکن ہے کہ لوگ تمھیں حسب دستور عز ت کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔ لیکن تم ان سب باتوں کی کچھ پروا نہ کرو۔ مستقل مزاج رہو۔ اور مرد بنو۔ خدا تمھاری مدد پر ہے۔ تمھیں اس بات کا ذرا خیال نہ کرنا چاہیے کہ لوگوں کا تمھاری نسبت کیا کمان ہے۔ صرف یہ خیال ہمیشہ رکھو کہ تمھارا مدعا ایمانداری پر مبنی ہو۔ اور اپنے ضمیر کے احکام کی پابندی کو اپنا فرض سمجھو۔ جو دل دنیاوی آلائشوں سے پاس ہے۔ وہ جرأت بھی ضرور رکھتا ہوگا۔ کیونکہ پھر اُسے ڈر کس با ت کا ہے؟ اخلاقی جرأت سے ایسا طریقہ اختیار کرو کہ زندگی کا دشوار گزار سفر آسان ہوجائے۔‘‘ بقول سمائلز بات ساری یہ ہے کہ جوانمرد اور دلیر لوگ ہی خدا کے ایسے بندے ہیں۔ جو انسانی زندگی میں جان ڈال دیتے ہیں اور وہی دنیا کی حکومت اور رہبری کے قابل ہیں۔ مرنے کے بعد کمزوریوں اور ڈرپوکوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ لیکن ایک راست گفتار سچے اور صاحب جرأت شخص کی زندگی اُس کے مرنے کے بعد ایک ایسا روشن رستہ ہے۔ جو دنیا کے بھولے بھٹکے مسافروں کی رہبری کرے گا اور اُس دلاور شخص کی سوانح عمری ایک ایسا دلچسپ سبق ہے۔ جس کو دنیا کے سب لوگ شوق سے پڑھیں گے۔ اور اُس کے خیالات اور اُس کے جوش اور ولولے اور اُس کی اخلاقی جرأت اپنے فائدہ بخش اثر سے نسلاً بعد نسلٍ لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتے رہے گی ؎ زندہ است نام فرخِ نوشیرواں بعدل گرچہ بسے گزشت کہ نوشیرواں نماند جناب ڈپٹی لال نگم سوالات ۱- جسمانی جرأت اور اخلاقی جرأت میں مضمون نگار نے کیا فرق بتایا ہے؟ ۲- سمائلز کی رائے میں اخلاقی جرأت کن ترقیوں کی محرک ہوئی؟ ۳- ارادوں میں کامیاب ہونے کے لیے مضمون نگار نے کن نصائح پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے؟ ۴- تحلیل صرفی کرو۔ ’’اس نے بمقام ارفرٹ ایک خانقاہ میں گوشۂ نشینی اختیار کی۔‘‘ ۵- خانقاہ قواعد میں کیا ہے؟ …٭…٭…٭… ۲۷- لڑکیوں کی تعلیم تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے حُسنِ معاشرت میں سراسر فتور ہے اور اُس کے والدین کا بیشک قصور ہے اُن پر یہ فرض ہے کہ کریں کوئی بندوبست چوڑیں نہ لڑکیوں کو جہالت میں شاد و مست لیکن ضرور ہے کہ مناسب ہو تربیت جس سے برادری میں بڑھے قدر و منزلت آزادیاں مزاج میں آئیں نہ تمکنت ہو وہ طریق جس میں ہو نیکی و مصلحت ہر چند ہو علومِ ضروری کی عالمہ شوہر کی ہو مرید تو بچوں کی خادمہ مذہب کے جو اُصول ہوں اُس کو بتائے جائیں باقاعدہ طریق پرستش سکھائے جائیں اوہام جو غلط ہوں وہ دل سے مٹائیں جائیں سکے خدا کے نام کے دل میں بٹھائیں جائیں عصیاں سے محترز ہو خدا سے ڈرا کرے اور حُسنِ عاقبت کی ہمیشہ دُعا کرے تعلیم خوب ہو تو نہ آئے گی دام میں خالق سے لَو لگائے گی وہ اپنے کام میں خیرات ہی سے ہو گی غرض خاص و عام میں اس کو سکھایا جائے یہ واضح کلام میں اچھا برا جو کچھ ہے خدا ہی کے ہاتھ ہے نیکی اگر کرے گی تو فطرت بھی ساتھ ہے تعلیم ہے حساب کی بھی واجبات سے دیوار پر نشان تو ہیں واہیات سے یہ کیا زیادہ گن نہ سکے پانچ سات سے لازم ہے کام لے وہ قلم اور دوات سے گھر کا حساب سیکھ لے خود آپ جوڑنا اچھا نہیں ہے غیر پہ یہ کام چھوڑنا سینا پرونا عورتوں کا خاص ہے ہنر درزی کی چوریوں سے حفاظت پہ ہو نظر عورت کے دل میں شوق ہے اس بات کا اگر کپڑوں سے بچے جاتے ہیں گل کی طرح سنور کسبِ معاش کو بھی یہ فن ہے کبھی مفید اک شغل بھی ہے دل کے بہلنے کی بھی اُمید سب سے زیادہ فکر ہے صحت کی لازمی صحت نہیں درست تو بے کار زندگی کھانے بھی بے ضرر ہوں صفا ہو لباس بھی آفت ہے ہو جو گھر کی صفائی میں کچھ کمی تعلیم کی طرف ابھی اور اک قدم بڑھیں صحت کے حفظ کے جو قواعد ہیں وہ پڑھیں دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے اُن کی طلب میں حرض میں سارا جہان ہے اکبر سے یہ سنو کہ جو اِس کا بیان ہے دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے حد سے جو بڑھ گیا تو ہے اُس کا عمل خراب آج اُس کا خوشنما ہے مگر ہو گا کل خراب حضرت اکبر الٰہ آبادی مرحوم سوالات ۱- مولانا اکبر نے لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق کیا خیالات ظاہر کیے ہیں۔ اُن کی سلیس نثر میں لکھو۔ ۲- ان الفاظ کے معانی بتائو: تمکنت۔ اوہام۔ واجبات۔ حفظِ صحت۔ ۳- اس عنوان پر ایک مختصر جواب مضمون لکھو۔ اور مثالیں دے کر اس بیان کو ثابت کرو: حد سے جو بڑھ گیا تو ہے اُس کا عمل خراب آج اُس کا خوشنما ہے مگر ہو گا کل خراب ۴- ذیل کے مصرع کی ترکیب نحوی کرو: ’’حد سے جو بڑھ گیا تو ہے اُس کا عمل خراب‘‘ ۵- نظم بالا میں سے مرکب اضافی اور مرکب توصیفی الگ الگ لکھو۔ …٭…٭…٭… ۲۸- سائنس کے حیرت انگیز کرشمے مکالے کا نام ہندوستان میں زباں زدِ خاص و عام ہے۔ اس کی تقابلیوں کا سب کو اعتراف ہے مکالے سائنس دان نہیں تھا۔ لیکن سائنس کا جادو اِ س پر چل گیا تھا۔ سائنس نے بنی نوع انسان کو حق پرستی اور حق جوئی کے صلہ میں جو انعامات عطا کیے ہیں۔ اور جو فوائد ہم کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں علمی تحقیقات کی بدولت حاصل ہیں۔ ان کو مکالے نے نہایت خوبی کے ساتھ مجملاً یوں بیان کیا ہے۔ سائنس نے زندگی لمبی کردی ہے۔ تکلیف کو گھٹا دیا ہے۔ بیماریوں کی بیخ کنی کردی ہے۔ زمین کی پیداوار بڑھا دی ہے۔ ملاحوں کی زندگی کو خطرہ سے محفوظ کردیا ہے۔ سپاہیوں کے لیے نئے نئے بازو بنا دیے ہیں۔ بجلی کو مطیع ومنقاد بنا لیا ہے۔ رات کی تاریکی کو دن کے اُجالے سے زیادہ روشن بنا دیا ہے۔ آنکھ کی دُور بینی کو وسعت بخشی ہے۔ انسانی طاقتوں کو لا انتہا ترقی دی ہے۔ رفتار تیز کر دی ہے۔ فاصلہ کم کردیا ہے۔ میل ملاپ آسان کردیا ہے اور حضرت انسان کو سمندر کی تہ اور ہوا کی بلندی کی سیر کرا دی ہے۔ یہ سائنس کی اوّلیں فوائد میں سے چند ایک ہیں۔ ہزاروں فائدوں سے انسان ابھی متمتع نہیں ہوا۔ سائنس کا قانون ترقی کرتا ہے۔ جو باتیں کل ہماری نظر سے مخفی تھیں آج ہمارے پیش نظر ہیں اور آیندہ وہی ہماری تحقیق کی ابتدا ہوں گی۔ جو اُمور اِس مختصر اقتباس میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک بجائے خود ایک علیحدہ کتاب چاہتا ہے۔ علم دوست اصحاب جو زمانہ سے پیچھے نہیں ہیں۔ خود اس اجمال کی تشریح کرسکیں گے۔ اور کسی غلط فہمی میں نہیں پڑیں گے۔ اگر سائنس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی بدولت زندگی لمبی ہوگئی ہے تو یہ چنداں حیرت انگیز نہیں ہے۔ زندگی لمبی ہونے سے یہ مراد نہیں کہ فی الحقیقت انسانی عمر میں زیادتی کرنے کے لیے سائنس نے کوئی ںں۱؎ …٭…٭…٭…