بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o ادبی۔ فکری تحریکات اور اقبال ڈاکٹر خالد اقبال یاسر اردو سائنس بورڈ 299 ۔ اپرمال، لاہور مندرجات پیش لفظ باب اوّل : ادبی تحریک سے کیا مراد ہے؟ ادبی تحریک ____ادبی تحریک اور سیاسی۔سماجی تحریکات ___تحریک اور رجحان کا فرق ____ادبی تحریک اور عصریت____اعتقادات، فلسفے ، سیاست، معاشرت اور علوم کا ادبی تحریک پر اثر____ادبی تحریکیں اور شخصیات____ ادبی تحریک اور نصب العین۔ باب دوم: اقبال کی شاعری کا علمی و ادبی پس منظر۔ برصغیر کا مادرسری مزاج ____آریائوں کی آمد اور پدرسری اثرات ____ بدھ مت اور جین مت ____ ویدانت۔ بھگتی تحریک ____ اسلامی تصوف____سیرامپورپادری مشن (مذہب کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومت برطانیہ کی پالیسی)____سیّد احمد شہید بریلویؒ کی تحریک____سرسیّد احمد خان اور نیا علم الکلام ____ اقبال کے نسلی و آبائی میلانات۔ باب سوم : حصہ اول : جدیدیت کیا ہے ؟ پس منظر اور ارتقائ۔ جدیدیت اور تغیر____ جدیدیت اور روایت ____جدیدیت اور عصریت____جدیدیت اور اجتہاد____اہم جدّت نگار: ولیم شیکسپیر ____ولیم جیمز____ سگمنڈ فرائڈ____کارل ژونگ___ جمیز جائس ____ ایذراپائونڈ ____ فیڈریکوگارسیالورکا ____ ہینری برگساں ____رابندرناتھ ٹیگور____ رڈیارڈ کپلنگ ____ اقبال اور جدیدیت۔ حصہ دوم : فطرت پسندی کیا ہے؟ پس منظراور ارتقاء اہم فطرت نگار: ایملی زولا ____ ولیم ورڈز ورتھ ____ نظیر اکبر آبادی____ اقبال کی فطرت پسندی۔ حصہ سوم: حقیقت پسندی کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء اہم حقیقت نگار : استے دال ____بیلنسکی _____گستاف فلائبیر ____ ہورڈی بالزاک ____ اقبال کی حقیقت نگاری۔ حصہ چہارم: وجودیت کیا ہے ؟ پس منظر اور ارتقاء وجودیت کی اقسام ____ اہم وجودی ادباء : سورین کرکے گار ____ نطشے ____ مارٹن ہائیڈیگر____ کارل جیسپرز ____ جبریل مارسل____ ژاں پال سارتر ____البیر کامیو ____ سائمن ڈی بوار۔ حصہ پنجم: اشتراکیت کیا ہے ؟ پس منظر اور ارتقاء اہم اشتراکی حقیقت نگار : لیونکولائیوچ طا لسطائی ___ میکسم گورکی ___ فیوورمیخائیلووچ دوستوفسکی ____ولادیمیر مایا کوفسکی ____ اقبال اور اشتراکیت۔ حصہ ششم : علامت نگاری کیا ہے ؟ پس منظر اور ارتقاء علامتوں کی اقسام ____ علامت کی تاریخ اور پس منظر ____ اردو شاعری میں علامت نگاری کی روایت ____ اقبال کی شاعری کا علامتی نظام ____ اہم علامت نگار: چارلس پیربودلیئر ____ ولیم بٹلر ژیٹس____ ہنرک ابسن ____ ٹی۔ایس۔ ایلیٹ____ اقبال کی علامت نگاری۔ باب چہارم: ادبی ۔ فکری تحریکیں اور اقبال کی شاعری ____کلاسیکی شعراء اور اقبالؒ ___ اقبالؒاور مخزن ____ اقبالؒاور علی گڑھ تحریک ____ انجمن حمایتِ اسلام اور اقبال ؒ____انجمنِ پنجاب کی تحریک نظم گوئی اور اقبال ____ تصورِ وطینت و قومیت اور اقبال ____ اقبالؒپر قیامِ یورپ کے اثرات _____ اقبالؒ، جمال الدین افغانی ؒ اور اتحاد عالمِ اسلامی کی تحریک ____ علم الکلام اور اقبال ؒ ____ اقبال تحریکوں کا امتزاج باب پنجم: حصہ اول : اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ: اقبال کی غزل ____اقبال کی طویل نظمیں____چند اور نظمیں اور دیگر اصناف____ حصہ دوم : تحریکِ اقبال کے ادبی ثمر ات: اقبال کا نظریۂ سخن ____ کلاسیکی غزل سے انحراف____اسلوب کی تازگی ____ نئے شعری تلازمات اور علامات و استعارات ____ مضامینِ نو ____غزلِ مسلسل____نظم کی معنوی وسعت ____ زورِ بیان ____ اوزان و بحور کا تنوع____ حصہ سوم : تحریکِ اقبال کے فکری ثمرات: اقبال کا نظریہ ء وطنیت و قومیت____اقبال اور عظمت ِ انسان ___ اقبال اور الہٰیات ____ اقبال اور تصوف ____ اقبال اور تصّورِ زمان و مکان____ پیش لفظ میں نے اقبال پر ادبی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لینے کا ارادہ اس لیے کیا تھا کہ کسی روایتی موضوع کی بجائے ایک قدرے تازہ مفروضہ (Hypothesis) قائم کر کے اس کے اثبات کے لیے کام کیا جائے ۔ ارادہ اپنی جگہ اور اس کی بخوبی تکمیل کا مرحلہ اپنی جگہ ، میںاس موضوع سے انصاف کرنے میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ یہ کتاب پڑھنے والے، خاص طور پر اقبال کے سنجیدہ قارئین اور اہلِ دانش ہی کر سکیں گے ۔ بایں ہمہ میری کاوش کا حاصل آپ کے سامنے ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ موضوع کچھ ایسا نیا بھی نہیں ہے ، البتہ اسے ایک نئے زاویے سے اقبال کا مطالعہ کہا جا سکتا ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری اور افکار کا تجزیہ عام طور پر بہت سے مفکرین اور شعرا کے افکار سے تقابل کے ذریعے کیا جاتا ہے ، لیکن یہاں آپ کا واسطہ انھی شخصیات سے پڑے گاجو کسی ادبی۔ فکری تحریک یا رجحان کا محور و مرکز رہی ہیں ۔ یہاں شخصیات سے زیادہ تحریکات اہم ہیں ، اور تحریکات بھی وہ جنھوں نے اقبال سے ذرا پہلے یا اقبال کے زمانے میں نشوونما پائی۔ ضروری نہیں کہ اقبال نے انھیں متاثر کیا ہو یا اقبال ان سے متاثر ہوئے ہوں ۔ اس مطالعے کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ اقبال بجائے خود ایک تحریک اور اس تحریک کی روحِ رواں تھے ۔ وہ اپنی وضع کردہ تحریک کا سرِّ آغاز ہی نہیں ، اس کی مرکزی شخصیت ہیں اور یہ تحریک ان کی وفات سے نصف صدی بعد محض فعال ہی نہیں ، وسعت پذیر بھی ہے ۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ان ابواب میں ادبی تحریک کو سیاسی - سماجی تحریکوں سے علیحدہ طور پر دیکھنے اور مختصر طور پر اس کی تعریف ، حدود اور خصوصیات متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ اعتقادات ، فلسفیانہ نکات، سیاسی اتار چڑھائو ، معاشرتی عوامل اور علوم ادبی تحریک پر کیونکر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ نیز یہ کہ ادبی تحریک میں کسی عہد کا باطنی مزاج اور ظاہری سمتیں کیسے منعکس ہوتی ہیں ۔ تحریکات کے پس منظر میں کارفرما محرکات اور شخصیتوں کے حوالے سے ادبی تحریکوں کی افزائش اور فروغ پر بھی اجمالی طور پر بحث کی گئی ہے ۔ رجحان کو ہمارے ہاں تحریک کا مترادف خیال کیا جاتا ہے جبکہ رجحان کسی تحریک کا پیش خیمہ تو ہو سکتا ہے ، اسے بذاتہٖ تحریک نہیں کہا جا سکتا ۔ زندگی کی حقیقتوں کے مابین کوئی بھی ادبی یا فکری تحریک کسی مقصد کے بغیر وجود میں نہیں آتی ۔ اس مقصد کے ارفع ہونے میں ہی اس تحریک کی پائندگی مضمر ہے ۔ ہمارے ہاں شعراء اور ادباء کے فن اور شخصیات کے انفرادی مطالعے تو ملتے ہیں ، لیکن ان عوامل کا ذکر نہیں ملتا جن کے تسلسل میں کسی خاص ادبی شخصیت نے ظہور پایا ۔ اقبال جیسے نابغۂ روزگار شاعر کے فن کے ادراک کے لیے از بس ضروری ہے کہ اس کی شاعری کے علمی و ادبی پس منظر سے کماحقہ ، واقفیت حاصل کی جائے ۔ چنانچہ ہند-اسلامی تہذیب کے ارتقاء کے حوالے سے بر صغیر کے مادر سری مزاج ، پدر سری اثرات ، بدھ اور جین مت ، ویدانیت اور بھگتی تحریک سے گزرتے ہوئے ہم اسلامی تصوف تک چلے آتے ہیں ۔ درمیان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومتِ برطانیہ پڑتی ہے اور ہم اقبال کے نسلی و آبائی میلانات کی تخصیص تک آتے آتے سید احمد شہید بریلویؒ کی تحریکِ جہاد اور سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک اور نئے علم الکلام کو چُھو کر گزرتے ہیں ۔ ابتدائی مباحث کی حیثیت الحاقی ہے لیکن موضوع کے حوالے سے ان کی نظری اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ ان سے گزرے بغیر ہم جدید ادبی تحریکوں کی روشنی میں اقبال کو نہیں سمجھ سکتے ۔ اقبالؒ محض اردو ادب ہی نہیں بلکہ بین الاسلامی ادب کا وہ مینارۂ نور ہیں جس سے پورا عالمِ اسلام بالواسطہ یا بلا واسطہ طو رپر متاثر ہوا۔ ا ن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے کی سماجی ، سیاسی اور مذہبی تحریکوں کو اپنی لا متناہی تخلیقی فعالیت کے بل پر ادبی تحریکیں بنا دیا اور ان کے امتزاج سے ایک نئی تحریک کی داغ بیل ڈالی ۔ انہوں نے کسی مغربی یا مشرقی فلسفے کو بعینہٖ قبول نہیں کیا بلکہ اپنی حد درجہ تجزیاتی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے امتزاج پر اپنے فن کی بنیادیں استوار کیں ۔ انھی زاویوں سے اقبال کی شاعری کا متعلقہ باب میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس حصّے کو مقالے کے قلب کی حیثیت دینی چاہیے ۔ آنے والے ابواب در حقیقت اسی باب کی توسیع ہیں اور ایک بار جب اقبال کو بذاتہٖ ایک تحریک کے طور پر قبول کر لیا جائے تو پھر ان کی اپنی تحریک باقی تمام تحریکوں کا حاصل قرار پاتی ہے ۔ اقبال کی غزلوں ، طویل نظموں اور رباعیات وغیرہ کے تنقیدی مطالعے سے اقبال کا اپنا نظریہ ٔ سخن واضح تر ہوتا ہے ۔ اقبالؒ اپنی تحریک کی مرکزی شخصیت ہیں اور وہی اپنی تحریک کو رجحان کی سطح سے اوپر اٹھا کر تحریک کا درجہ دینے پر قادر تھے۔ وہی اپنی شاعری سے اپنی تحریک کا نصب العین وضع کرتے ہیں اور اپنے زمانے سے اس تحریک کے مقاصد کا تقابل کرتے ہیں ۔ وہ اپنی تحریک کے نتائج دیکھنے کے لیے زندہ نہیں لیکن اس تحریک کی کامیابیاں اقبال کی اپنی پیش گوئیوں کی روشنی میں اور زیادہ معنی خیز ہیں اور اقبال کی تحریک کی زرخیزی اور ہمہ گیر اثرات کے ادراک کے لیے کافی ہیں ۔ اقبال نے اصنافِ ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کئے اور اردو کے بعد میں آنے والے شعراء نے ان سے سب سے زیادہ روشنی حاصل کی ۔ آخری باب میں اقبال کی تحریک کے ادبی ثمرات کے ساتھ ساتھ فکری حوالے سے بھی ا ثرات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے افکار کے زاویے دریافت کئے گئے ہیں جو آج بھی اہل فکر و دانش کی روز مرہ بحثوں کا مستقل موضوع ہیں اور جن پر کوئی اور مفکر قابلِ ذکر اضافہ نہیں کر سکا۔ اوپر جن ذیلی موضوعات کا ذکر اجمالاً کیا گیا ہے ، وہ درحقیقت اپنی اپنی جگہ اتنے اہم ہیں کہ ایک ایک مکمل کتاب ہی ان کا علیحدہ طور پر احاطہ کر سکتی ہے ۔ میرا موضوع مختلف الجہات ، وسیع اور متنوع ہے اور اس کے صرف پس منظر کے بیان کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں ۔ تاہم میں نے ان موضوعات کو سمیٹ کر اپنے موضوع کے ساتھ وفادار رہنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کی تسوید کے دوران بے شمار کتابیں نظر سے گزریں لیکن حوالہ صرف انھی کتابوں کا دیا گیا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس موضوع کے دائرے میں آتی ہیں ۔ میں نے بہرحال گزشتہ مطالعات کی روشنی میں اپنے طور پر غیر جانبدار نتائج تک پہنچنے کی سعی کی ہے ۔ یہ کتاب پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر اردو ادب کے نامور استاد اور محقق ڈاکٹر نجیب جمال کی زیر نگرانی لکھی گئی ہے اور اس علمی مشغلے میں ان کی مشاورت ہر مرحلے پر میرے ساتھ رہی ۔ انھوں نے تحقیق کے امور میںبھی ہر مرحلے پر رہنمائی کی ۔انھوں نے مقالے کے لیے خاکے کی منظوری سے لے کر تکمیل تک قدم قدم پر میرے ذوقِ تحقیق کو مہمیز کیا اور میری ازلی کاہلی کے باوجود میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ اس موقع پر مجھے ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم بھی یاد آ رہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے پہلے شعبۂ اقبالیات کے صدر تھے اور انھی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے باعث میں اس قابل ہو اکہ یہ کتاب تحریر کر پایا۔ انھوںنے ہی مجھے اس راستے پر پہلا قدم بڑھانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے حالیہ صدر شعبۂ اقبالیات ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے بھی کتابوں کی واپسی کا یقین کئے بغیر مجھے بہت اہم کتب فراہم کیں۔ میں زیر نظر کتاب لکھنے میں تعاون پر ان تمام احباب کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اس کتاب کی تکمیل اور پھر اشاعت سے مجھے ایک گو نہ مسرت حاصل ہو رہی ہے ۔ اگر اہلِ فکر و نظر نے اسے قبولیت سے مشرف کیا تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے ۔ ڈاکٹرخالد اقبال یاسر باب اوّل ادبی تحریک سے کیا مراد ہے ؟ تحریک میں حرکت اور متحرک ہونے کے معنی پوشیدہ ہیں یعنی ہم اسے جمود کا الٹ قرار دے سکتے ہیں ۔ تخلیقِ کائنات کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں محض ایک جمود تھا ۔ پھر اس جمود ہی سے حرکت پیدا ہوئی جس کے سبب اس کائنات کی ابتداء ہوئی ۔ کائنات کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی بھی تحرک ہی سے عبارت ہے ، شاید اسی وجہ سے مفکّرین نے زندگی کو ’’رو میں ہے رخشِ عمر ‘‘سے تعبیر کیا ہے ۔ فلسفہ میں شروع ہی سے یہ بحث موجود ہے کہ مطلق حرکت ہے یا سکون،اور اس سلسلے میں طرفین نے زوردار دلائل کے ساتھ اپنے اپنے مؤقّف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔جدید دور میں حرکت کو مطلق تصور کرنے اور سکون کو اضافی جاننے کارویہ نمایاں ہے۔ دوسری طرف اگر ادب کا جائزہ لیں تو اس سے مراد وہ فن ہے جس کے اظہار کے لیے الفاظ کو وسیلہ بنایاجاتا ہے۔ادب کو ہم زندگی کا آئینہ قراردے سکتے ہیں کہ جو کچھ کسی معاشرے میں ہو رہا ہے ادب اسے بالواسطہ طور پر منعکس کر دیتا ہے۔حال کے ساتھ ساتھ ادب کے آئینے میں اپنے ماضی کے نقوش اور مستقبل کے امکانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ہر لکھنے والا ایک مخصوص معاشرے میں پیدا ہوتا ہے اور اس میں زندگی بسر کرتا ہے۔کسی بھی ادیب کی تحریر اس کے ذاتی تجربات، مشاہدات،تاثّرات،تصوّرات اور شخصی ترجیحات کے ساتھ ساتھ معاشرتی احوال،معاشی کیفیّات، تاریخ کے نشیب وفراز،الغرض بہت سی انفرادی اور اجتماعی کیفیّات کی ترجمان ہوتی ہے۔یہی مختلف اجزاء مل کر ادب میں آفاقیت پیدا کرتے ہیں جس کی بدولت کسی مخصوص عہد میں ایک خاص ثقافت میں بولی جانے والی زبان میں ایسی تحریریں سامنے آتی ہیں جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد بھی ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔ ادبی تحریک تحریک کا بنیادی کام جمود کو توڑنا اور ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل پیدا کرنا ہے۔ادب میں جب ایک لمبے عرصے تک خیالات،اسلوب،ہیئت اور لفظیات کی سطح پر یکسانیت طاری رہے تو ایسے میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ کسی نئی تحریک کے ذریعے ادب کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کیا جائے۔ ادبی تحریک اپنے سامنے دیگر تحریکوں کی طرح ایک واضح ادبی نصب العین رکھتی ہے۔اس کے تحت یہ بات غیر محسوس طور پر یا ارادی طور پر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ا دب کیا ہے؟اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟کسی صنف یا فن پارے کے لیے ہیئت اور اسلوب کی سطح پر کون کون سی تبدیلیاں ممکن ہیں یا ناگزیر ہیں؟اور موضوعاتی سطح پر ادب کو اب کس نوعیت کے امکانات کو اپنے دائرے میں سمیٹنے کی ضرورت ہے؟ تحریک کا لفظ ادب میں ایک دوسرے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لکھنے والااپنے لیے لکھنے کی تحریک کس چیز سے حاصل کرتا ہے۔ان معنوں میں ہم لکھنے والوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:ایک قسم کے وہ ادیب ہوتے ہیں جو خارج کو زیادہ اہم خیال کرتے ہیں اور اپنے لکھنے کی تحریک خارجی واقعات اور مشاہدات سے حاصل کرتے ہیں،دوسرے وہ جو اپنے باطن میں غوطہ زنی سے اس کے ا سرار کی نقاب کشائی کو ادب کا مقصود قرار دیتے ہیں اور انھی سے متاثر ہوتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں کوئی واضح لکیر کھینچنا آسان نہیں ہے۔کوئی بھی لکھنے والا اپنے تخلیقی عمل میںخارج یا باطن دونوں سے تحریک حاصل کر سکتا ہے۔وہی غالبؔ جو یہ کہتا ہے کہ ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں،وہی یہ کہتا ہوا بھی پایا جاتا ہے کہ ؎ تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے (1) دوسری صورت مکمل شعوری بیداری کی ہے جس کے بالکل سامنے کی مثال ترقی پسند ادب ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے ا دبی تحریک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ادبی تحریک فی الاصل ادب کے جمود کو توڑنے اورا س کی کہنگی کو زائل کر کے تنوّع اور نیرنگی پیدا کرنے کا عمل ہے۔‘‘(2) اگر ڈاکٹر انور سدید کی تعریف کو مدّ ِنظر رکھا جائے تو ادبی تحریک کے تین مقاصد نظر آتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی با ہم پیوست ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ ادب پر سکون کی جو کیفیّت طاری ہو چکی ہے اور جس کے زیر اثر تکرار اور یکسانیت تخلیقات میں راہ پا چلی ہیں ، اس کا سدِّباب کرتے ہوئے نئے اسالیب اور موضوعات کو ادب کے دائرے میں لایا جائے ۔ نئے عناصر کی شمولیت کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی ہے کہ قدیم اور فرسودہ خیالات ، زبان اور استعارات سے ممکن حد تک اجتناب برتتے ہوئے خود کو کہنہ پن سے دور رکھا جائے ۔ اس طرح ادب میں تنّوع اور نیرنگی پیدا ہوتی ہے ۔ ان مقاصد کے ساتھ ساتھ تحریک ایک اور مقصد بھی سرانجام دیتی ہے اور وہ ہے منتشر عناصر کو یکجا کرنا ۔ یہ کام افراد ، تخلیقات اور افکار ہر سطح پر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ چونکہ تحریک کسی ایک مرکزی نکتے کے گرد اپنا تانا بانا بنتی ہے اور اس سلسلے میں جو افراد یا لکھنے والے خود کو نئی ادبی تحریک کے بنیادی معاملات سے متّفق خیال کرتے ہیں ، وہ اس تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے ادب کی صورت گری ، انفرادی سطح کا معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی فعل کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس سے اشتراکِ خیال ظاہر اور مترشح ہو تا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر تازہ ادبی تحریک کلاسیکی اور متقدم ادب میں سے ان اجزاء کی چھان بین کرتی ہے جو اس ادبی تحریک کے مزاج کے قریب ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ جدّتِ خیال اور ندرتِ فکر کے بین بین نئے سرے سے نئی ترجیحات اور توضیحات کی روشنی میںماضی کے ادبی ورثے کے ساتھ رشتہ استوار کرتی ہے ۔ ادبی تحریک اور سیاسی ۔ سماجی تحریکات ادبی تحریک کا مقصد معاصر ادب میں تبدیلی پیدا کر کے اسے نئی شکل و صورت دینا ہے جبکہ معاشرے کو تبدیل کرنا ، موجودہ سماجی ڈھانچے کو توڑ کر نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینا ، موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی حکومت کو ختم کرکے اس کی جگہ نئے سیاسی نظام اور نئی حکومت کا قیام ، سیاسی اور سماجی تحریکات کے مقاصد میں شامل ہو تے ہیں ۔ یوں یہ تحریکیں عموماً اپنے معاشرے کی نا ہمواریوں کو نشانہ بناتی ہیں او ر لوگوں کو روشن اور بہتر مستقبل کے خواب دکھاتی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی تحریکیں عوام سے یہ مطالبہ بھی کرتی ہیں کہ و ہ بہتر مستقبل کے حصول کے لیے آواز بلند کریں اور اپنی پوری توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پرانے اور شکستہ نظام کے ستونوں کو گرا دیں تاکہ ان کی جگہ ایک نئے او ر بہتر نظام کی داغ بیل ڈالی جا سکے ۔ اس تبدیلی کے لیے سیاسی اور سماجی تحریکیں منفی اور تخریبی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں ۔ ان کے برعکس ادبی تحریک کا مقصد ظاہری ڈھانچے کی شکست و ریخت نہیں ہوتا بلکہ ایسی تحریک تو معاشرے کے باطن میں موجود اس جوہر کو غیر محسوس طور پر تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کے سہارے اس معاشرتی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ تحریک فرد کو خارجی سطح پر متحرک کرنے کی بجائے اس کے باطن کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس سے زیادہ دیرپا اور گہری نوعیت کی تبدیلی لائی جا سکے ۔سیاسی اور سماجی تحریک فرد کی زندگی کی خارجی سطح کو اپنی گرفت میں لاتی ہے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ دوسری طرف ادبی تحریک فرد کی شخصیت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانے کا باعث ہوتی ہے تاکہ پرانے ڈھانچے میںسے ایک نئے انسان کو برآمد کیا جا سکے ۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ادبی تحریک کی کارکردگی اور اس کی افادیت کے بارے میں بجا طور پر اشارہ کیا ہے : ’’سماجی زندگی ایک مسلسل منشور ہے اور ہر ادیب کے پاس برطانوی دستور کی طرح ایک غیر تحریری دستور ہوتا ہے جس سے اس کی فکر مرتّب ہوتی ہے ۔ ‘‘ (3) مندرجہ بالا بیان سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ تحریک لگے بندھے اصول و ضوابط اور کسی مقررہ منشور کی شعوری پابندی نہیں کرتی بلکہ اس کا ڈھانچہ بہت حد تک لچکدار ہوتا ہے جس میں ترمیم ، اضافے یا تبدیلی کی ہمہ وقت اور کسی بھی حد تک گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن ہمیں ادب میں ایسی تحریکیں بھی ملتی ہیں جن کے باقاعدہ طور پر تحریر شدہ مینی فیسٹو اس پر دستخط کرنے والوں یا محض متّفق ادیبوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ادراک اور شعور کی سطح پر ایک خاص قسم کا ادب تخلیق کریں ۔ ان تحریکات کے پسِ پشت واضح سیاسی عزائم ہوتے ہیں ۔ یہ فرد کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھاتی ہیں لیکن تعبیر نہ ملنے کی صورت میں ان تحریکات سے وابستہ افراد مایوسی اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں تھوڑے عرصے کے بعد ہی تحریک تنظیمی سطح پر دم توڑ دیتی ہے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے ادبی اور سیاسی تحریک کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’سیاسی تحریک میں تغیر کا عمل خارج سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے کی صرف ایک پرت یعنی اس کے خارجی مظہر کو اثرات قبول کرنے پر مائل کرتا ہے ۔ دوسری طرف ادبی تحریک قلبِ ماہیت کے جس عمل کو بروئے کار لاتی ہے وہ فرد کے داخل میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ پورے خارج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تحریک کے اثرات پیش منظر بدلتے ہی بالعموم اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور نئی انتظامیہ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی کایا پلٹ میں مصروف ہو جاتی ہے لیکن ادبی تحریک کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں اور انہیں بیک جنبشِ قلم حرفِ غلط کی طرح مٹانا ممکن نہیں ہوتا ۔ ‘‘ (4) اس اقتباس سے اس نقطۂ نظر کی بہتر طور پر وضاحت ہو جاتی ہے کہ ادبی اور سیاسی تحریکیں اپنے طریقِ کار، عمل اور اثرات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کیونکر مختلف ہیں ۔ تحریک اور رجحان کا فرق تبدیلی کی خواہش کسی بھی فرد کے ذہن میں جنم لے سکتی ہے اور وہ فرد تبدیلی لانے کے لیے اپنے طور پر جدوجہد بھی کر سکتا ہے ۔ لیکن جب تک اس خواہش میں دوسرے لوگ شریک نہ ہوں اور اجتماعی طور پر واضح اور شعوری لحاظ سے اپنی اس آرزو کا اظہار نہ کریں ، اس وقت تک اس نئے طرزِ احساس کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا ۔ جب ادباء کا ایک پورا گروہ ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنی اپنی تخلیقات میںکسی خاص طرزِاحساس کو اجاگر کرنے لگے تو عموماً ایسی کیفیت کو رجحان کا نام دیا جاتا ہے ۔ جب یہ رجحان رفتہ رفتہ پھیلنے لگتا ہے اور اس کے زیرِ اثر ادباء اور شعراء کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر یہ رجحان اپنی توسیعی صورت میں تحریک کا روپ دھار لیتا ہے بشرطیکہ یہ نیا ادبی رجحان مبنی بر حقائق ہو، اثر پذیر ہواور اسے عصری صورتِ حال کا معروضی تجزیہ کر کے پروان چڑھایا گیا ہو ۔ رجحان اور تحریک میں بنیادی فرق یہ ہے کہ رجحان اکثر نمایاں اور تیز رفتار نہیں ہوتا۔اس کے برعکس تحریک تند وتیز ہوتی ہے۔تحریک سمت نمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے جبکہ رجحان کی سمت واضح نہیں ہوتی اور اس کا نصب العین پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔ تحریکات کا آغازعام طور پر افراد اپنی اپنی سطح پر کرتے ہیں جو آہستہ آہستہ اجتماعی صورت اختیار کرلیتی ہیں،یعنی تحریک کا آغاز رجحان کے طور پرہوتا ہے۔رجحان کو ہم کسی حد تک انفرادیت اور تحریک کو اجتماعیت سے وابستہ کر سکتے ہیں۔ادب میں کوئی بھی نیا رجحان ایک خیال یا واضح اشارے کی صورت میں سر اٹھاتا ہے۔اس کی نشوونما کے لیے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے ادباء بھی اس خیال یا اشارے سے اپنی وابستگی کا اظہار اپنی تحریروں کے ذریعے کرنے لگیں۔یعنی اشارہ رجحان کا عکاس ہوتا ہے جبکہ تحریک اپنے آپ کو علامت کے روپ میںظاہر کرتی ہے،ایسی علامت جو معنی آفریں اور ہمہ گیر ہو تی ہے۔ ادبی تحریک اور عصریت ادبی تحریک کا عصریت کے ساتھ جو تعلق قائم ہوتا ہے اس کی توضیح ہم دو پہلوؤں سے کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی ادبی تحریک کے پنپنے کے لیے اس تحریک کے عصر میں ایسے عناصر کا وجود ضروری ہے جو ادبی تحریک کے پھلنے پھولنے کے لیے ساز گار ماحول اور مناسب فضا تیار کر سکیں۔اردو زبان وادب کے میدان میں اس کی ایک واضح اور بیّن مثال نظیر اکبر آبادی کی شاعری ہے۔نظیر اکبر آبادی نے مولانا الطاف حسین حالی اور ترقّی پسند شعراء کے عہد سے کہیں پہلے ایسی نظمیں تخلیق کیں جو ان کے زمانے کے عوام کے حالات اور کیفیات کی خوبصورتی سے عکاسی کرتی تھیں۔یہی نہیں بلکہ انھوںنے اپنی شاعری کے لیے جو زبان استعمال کی وہ بھی عوامی لہجے اور عام بول چال سے مطابقت رکھتی تھی لیکن ہم نے دیکھا کہ اپنے عصر میں نظیر کی شاعری کو زیادہ پذیرائی نصیب نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ اس دور کے تذکرہ نویسوں نے بھی ان کا شمار اس وقت کے اہم شعراء میں نہیں کیا بلکہ ان کے نام اور کام پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔اس کے برعکس موجودہ صدی میں مولانا الطاف حسین حالی کے زیر اثر ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہلِ قلم نے بنیادی طور پر ان عناصر کو ہی اپنی شاعری میں جگہ دی جن سے نظیر کی شاعری کا خمیر اٹھا تھا۔اس سے نہ صرف یہ کہ نظیر اکبر آبادی کے اندازِ فکر کا احیاء ہوا،بلکہ ان کی شاعری نے جس رجحان کی ابتدا کی تھی اس نے اس عہد میں آ کر باقاعدہ طور پر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔چنانچہ نظیرکی شاعری کو از سرِ نو پڑھنے ،سمجھنے اور اس کی قدروقیمت کے تعین کی کوشش کی جانے لگی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیسویں صدی میں سائنس اور معاشرتی علوم کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن اور شعور کے ارتقاء نے زمین کو ہموار کر دیا تھا اور اب اس نوعیت کی عوامی شاعری کے بیج کے لیے ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ وہ تناور درخت بن سکے۔ ادبی تحریک اور عصریت کا ایک تعلق تو وہی ہے جس کی نشاندہی اوپر کی سطور میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دونو ں میں ایک رشتہ اور بھی ہے جو پہلے رشتے کے معکوس ہے۔یعنی یہ کہ ادبی تحریک کی کامیابی کے لیے صرف عصری حالات کا سازگار ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ دوسری جانب ہر ادبی تحریک کے لیے اپنے زمانے کے نمایاں احساسات ،خیالات،رجحانات بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ روحِ عصر کو اپنی بنت میں سمونا بھی اتنا ہی لازم ہوتا ہے ورنہ ادبی تحریک کی نشوونما رکنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی دور کے معاشرتی اور سیاسی احوال کی زیریں لہروں کو جاننے کی ضرورت پیش آئے اور کسی معاشرے کے نمایاں رجحانات کو سمجھنا ہو تو اس زمانے کے ادب کا مطالعہ بے حد معلومات افزا اور فکر انگیز ثابت ہوتا ہے،کیونکہ ادب میں عصری رجحانات، معاشرتی اتار چڑھاؤ اور تاریخ کے نشیب و فراز بالواسطہ طور پر منعکس ہوتے ہیں۔ اعتقادات ،فلسفے،سیاست،معاشر ت اورعلوم کا ادبی تحریک پر اثر کوئی بھی ادب جس ثقافت کی پیداوار ہوتا ہے ،اپنے اندر اس تہذیب اور ثقافت کے اجزائے ترکیبی بالواسطہ طور پر شامل کر لیتا ہے۔ثقافت کی تعریف پر بشریات کے علماء آج تک متفق نہیں ہو سکے تاہم اس کی تعمیر میں اعتقادات ،مذاہب، فلسفہ ،سیاست ،طرزِ معاشرت اور سائنسی علوم سب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ثقافت کی مقبول تعریف کے مطابق چونکہ اس میں کسی مخصوص تمدنی گروہ کے رواج،توہمات ،آدابِ زندگی اور روزمرّہ معمولات سے لے کر زندگی کے اعلیٰ حقائق کے بارے میںاس کے طرزِ عمل تک تمام پہلو شامل ہوتے ہیں،اس لیے ثقافت بہت سے عناصر اور عوامل سے مرتّب ہو تی ہے ۔ادبِ عالیہ اپنے اندر ثقافت کے ان تمام نمایاں اجزاء کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ جوڑ کہیں پر دکھائی نہیں دیتا اور اس طرح وہ ان کی دائمی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے کہ ادب جس معاشرے میں جنم لیتا ہے اسی معاشرے کے خدّوخال نمایاں کرتا ہے۔کسی قوم کے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کے مخصوص عصر میں،جس میں وہ ادب تخلیق ہوا ہو،مروّج رسومات، روایات، توہمات،عادات،فلسفیانہ خیالات ،نظریات،طرزِ معاشرت ،اندازِ فکر ، اس معاشرے میں فروغ پانے والے علوم غرضیکہ ہر اس بات کو جان سکتے ہیں جو اس تمدّن سے مخصوص ہو۔مثال کے طور پر اگر ہم خاص طور پر خواجہ میر درد اور دیگر شعراء کے کلام کا عام طور پر مطالعہ کریں تو ہمیں اس معاشرے پر تصوف کے گہرے اثرات ملتے ہیں کیونکہ اس معاشرے کے عقائد پر تصوّف بہت حد تک چھایا ہو اتھا۔مزید برآں فنا اور جبریت کے فلسفے نے اس پورے عہد کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔یہ دونوں عناصر میر اور اس کے معاصر شعراء کے کلام میں بے حد نمایاں ہیں۔اس زمانے میں ہندوستان معاشرتی اور سیاسی سطح پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا تھا اور انگریز مغلیہ سلطنت کی بساط پر اپنے مہرے آزماتے چلے جا رہے تھے۔ملک طوائف الملوکی کا شکار تھا۔سکھ ،مرہٹے اور جاٹ اپنی اپنی کارروائیوں میںمصروف تھے۔مغل حکمرانوںکا اقتدا ر دہلی اور قلعۂ معلی تک محدود ہوتا جا رہا تھا۔میر تقی میر،ان کے معاصر شعراء اور ان کے مابعد شعراء کے کلام میں اس تغیر وتبدّل اور زوال آمادہ تہذیب کی جانب واضح اشارے ملتے ہیں ؎ چند لُچّے ہیں مستعدِّ کار دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار (میر تقی میر)(5) میں ننگ ہوں اتنا کہ قبیلے میں سے کوئی میراث کے بھی لینے کو وارث نہ کہایا (میر زا محمد رفیع سودا)(6) یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ادب اپنے مخصوص دور کے مروّجہ علوم کے جوہر کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن اس کا طریقِ کار دوسرے علوم سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ ادب تفصیل کی بجائے اجمال بلکہ جمالیات کا راستہ اپناتا ہے۔امور اور اشیاء کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ ان کے اجزاء پر توجہ دینے کی بجائے ان اجزاء کی کلّیت پر نظر رکھتا ہے۔ اس طرح یہ کثرت میں وحدت کی جستجو کا عمل بن جاتا ہے جو کہ فلسفے اور جدید سائنسی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کے الٹ ہے ۔ لیکن طریقِ کار کے اس اختلاف کے باوجود ادب کا دیگر علوم کے ساتھ رشتہ اٹوٹ اور پختہ ہے اور سب ایک دوسرے کی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ ادب نہ صرف یہ کہ سائنس اور فلسفے سے اثرات قبول کرتا ہے بلکہ یہ سائنس اور فلسفے کو متاثر بھی کرتا ہے ۔ سائنس کے میدان میں متعدد انکشافات اور ایجادات ایسی ہیں جن کے ابتدائی نقوش ہمیں ان انکشافات اور ایجادات سے بہت پہلے مختلف ادباء اور شعراء کی تحریروں میں مل جا تے ہیں ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ادب پڑھنے والوں کے تخیل کو مہمیز کرتا ہے ، اس لیے یہ مختلف میدانوں میں تخلیقی کام کرنے والے افراد کو نت نئی راہیں سجھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ادبی تحریکیں اور شخصیات اگرچہ تحریک ہمیشہ اجتماعی فکر و عمل سے پروان چڑھتی ہے لیکن جب تک سوچنے والوں اور لکھنے والوں کا ایک قابلِ لحاظ گروہ کسی مرکزی خیال پر شعوری یا غیر شعوری طور پر متفق ہو کر اور مل جل کر ہیئت ، اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کی سطح پر اشتراکِ فکر و عمل کا ثبوت مہیا نہ کرے ، ادبی تحریک وجود میں نہیں آ سکتی ۔ اس کے باوجود یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ہر تحریک کے پسِ پشت کوئی نہ کوئی قد آور علمی و ادبی شخصیت ضرور موجود ہوتی ہے جس کے افکار و نظریات تحریک کے لیے اینٹ اور گارے کا کام دیتے ہیں ۔ یوں تحریک فرد سے شروع ہوتی ہے اور اجتماعی صورت میں پروان چڑھتی ہے ۔ مثال کے طور پر ہم علمِ نفسیات کے میدان میں تحلیلِ نفسی کی تحریک کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے نفسیات کے علم کے ساتھ ساتھ بشریات ، ادب، فنونِ لطیفہ اور دوسرے کئی علوم کو بھی متاثرکیا ہے ۔ تحلیلِ نفسی کی اس تحریک سے اس عہد کے بڑے بڑے نام وابستہ ہیں ۔ ان نامور شخصیات میں ژونگ ، ایڈلر ، فرام، سیلون ، راغ اور ایرکسن شامل ہیں ۔ لیکن اس بات سے انکار بہت مشکل ہے کہ یہ سب لوگ جس مرکز کے گرد جمع ہوئے وہ سگمنڈ فرائڈ کی ذات تھی ۔ اگر فرائڈ نہ ہوتا تو تحلیلِ نفسی کی تحریک شاید اس طرح پروان نہ چڑھتی کیونکہ اس تحریک کا سارا مواد فرائیڈ کے نظریات کی تشریح و توضیح یا ردّو قبول کے باعث وجود میں آیا ۔ اگرہم اردو ادب میں سے کوئی سامنے کی مثال لینا چاہیں تو علی گڑھ تحریک کا حوالہ بہت با معنی اور برمحل ہے ۔ اردو ادب میں یہ پہلی باقاعدہ تحریک تصور کی جاتی ہے جو علمی اور نظریاتی خطوط پر استوار ہوئی ۔ اس تحریک میں اس دور کے اہم لکھنے والے کسی نہ کسی حیثیت میں شامل تھے ۔ ان میں مولانا الطاف حسین حالی ، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا شبلی نعمانی اور مولوی ذکاء اللہ نمایاں تھے ۔ لیکن یہ تمام سیارے جس ستارے کے گرد گردش کرتے رہے وہ سرسید احمد خان کی شخصیت ہے ۔ اگر سر سید احمد خان ان خلاّق ذہنوں کو ایک مرکز پر جمع نہ کرتے تو شاید علی گڑھ تحریک وجود میں نہ آتی جس نے اردو شعر و ادب ہی نہیں ، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش ثبت کئے ۔ ذرا اور آگے بڑھیں تو اس اثر آفریں تحریک کی اگلی اور منطقی کڑی خود اقبال کی شخصیت اور شاعری ہے ۔ اقبال کی شخصیت ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور پر اثر تھی۔ ان کی شاعری اپنے اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کے اعتبار سے ایک نئی تحریک کا آغاز ثابت ہوئی ۔ ان کی پیروی میں لا تعداد لکھنے والوں نے اسی اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کو اپنی شاعری اور نثری ادب میں جگہ دی جو پہلے پہل اقبال کے ہاں اپنی پوری شدّت ، جدّت اور ندرت کے ساتھ ظاہر ہوئے تھے ۔ یوں اقبال اردو میں ایک نئی تحریک کے پیشرو اور نقیب ہوئے جسے ’’اقبال کی تحریک ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا اتنا آسان نہیں ہے ۔ اقبال کے بعد اگر اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں بہت سی تحریکیں پہلو بہ پہلو نظر آتی ہیں ۔ ان میں سے مثال کے لیے ترقی پسند تحریک کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک فکری اور نظری لحاظ سے کارل مارکس اور اینگلز کے معاشی ، سماجی اور تاریخی افکار کے گرد گھومتی ہے ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ادبی تحریکیں اپنے عروج کے دوران بے شمار افراد کو اپنے جلو میں لے لیتی ہیں ، اگرچہ وہ بنیادی طور پر کسی ایک یا ایک سے کچھ زیادہ علمی و ادبی شخصیات کے افکار سے خوشہ چینی کرتی ہیں ۔ ادبی تحریک اور نصب العین جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ، جب کوئی ادبی رجحان ادبی تحریک میں ڈھلتا ہے تو اس میں کئی واضح تبدیلیاں آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک تبدیلی تو یہ ہوتی ہے کہ ادبی رجحان کے برعکس ادبی تحریک ایک ٹھوس نصب العین کی حامل ہوتی ہے ۔ ادبی تحریک کا آغاز کرنے والے کے سامنے اس تحریک کا فکری پس منظر واضح ہوتا ہے اور اپنی منزل کے حصول کا طریقِ کار معیّن ہوتا ہے ۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ادبی تحریکیں اپنے نصب العین کو حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نصب العین کو حاصل کرتے وقت مثالیت پسندی سے کام لیا جاتا ہے جسے حاصل کرنا چاہے ممکن نہ ہو لیکن جس تک پہنچنے کی خواہش اقوام کو مسلسل جدّوجہد پر آمادہ رکھتی ہے ۔ نصب العین ہی سے تحریک کی سمت کا تعین ہوتا ہے جس سے مختلف افراد کو کسی مرکزی نکتے پر مجتمع ہونے میں سہولت ہوتی ہے اور پھر وہ سب مل کر اپنے متعین مقصد کے حصول کے لیے اپنے قلم کے ذریعے غیر شعوری یا شعوری کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ حواشی و حوالہ جات 1۔ (میرزا) اسد اللہ خان غالب :نئے پرانے ، انتخاب از امجد اسلام امجد ، التحریر ، لاہور،1999 ء ، ص۔ 259 2۔ (ڈاکٹر)انور سدید:ـ اردو ادب کی تحریکیں ،انجمن ترقی ٔاردو پاکستان ، کراچی ،1985 ء ، ص۔60 3۔ مجتبیٰ حسین : تحریک اور ادب ، مقالہ مشمولہ مجلہ پاکستانی ادب کراچی ، شمارہ نومبر1984 ئ، ص۔5 4۔ (ڈاکٹر ) انور سدید : کتاب مذکور، ص۔ 66 5۔ میر تقی میر:انتخابِ میراز ناصر کاظمی ، مکتبہ ء خیال ، لاہور ، 1989 ء ،ص۔625 6۔ (میرزا) محمد رفیع سودا :نئے پرانے ، انتخاب از امجد اسلام امجد مذکور ، ص۔ 85 ٭٭٭ باب دوم اقبال کی شاعری کا علمی و ادبی پس منظر کسی بھی شاعر یا تخلیقی فنکار کی عظمت کااندازہ لگانے کے لیے اور تاریخِ ادب میں اس کے مقام کے تعین کی خاطر اس خطّے کے ادبی اور ثقافتی ورثے سے آگاہی حاصل کرنا ضروری تصوّر کیا جاتا ہے ۔ تاریخِ ادب کا مطالعہ زنجیر کے مشاہدے کے مماثل ہے ۔ جیسے زنجیر میں بہت سی کڑیاں ایک ترتیب سے پروئی ہوئی ملتی ہیں اور اگر درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو جائے تو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے ، بالکل اسی طرح تاریخِ ادب بھی ادباء کی کڑیوں کے تسلسل سے مرتّب ہو تی ہے ۔ ہر ادیب کا رشتہ اپنے سے ماقبل اور بعد میں آنے والے ادیبوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ کسی بھی ادیب کے طرزِ اسلوب ، اندازِ بیان اور موضوعات کا جائزہ لینے کے لیے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ اس زیرِ مطالعہ ادیب سے پیشتر آنے والے ادیبوں کے کام سے واقفیت پیدا کی جائے تاکہ صحیح معنوں میں اندازہ ہو سکے کہ زیرِ نظر ادیب یا شاعر نے ادب کے ارتقاء میں کیا کردار ادا کیا ۔ اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اگر ہم اقبال کی شاعرانہ اہمیت کا اندازہ لگانا چاہیں تو ہمیں نہ صرف اردو ادب کی تاریخ اور اقبال سے قبل اردو کے اہم شاعروں کے کلام سے واقف ہونا چاہیے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فارسی شعر کی عظیم روایت ، غیر منقسم ہندوستان کے تمدن ، ہند ۔ اسلامی تہذیب کے عناصرِ ترکیبی اور ہندوستان میں تخلیق ہونے والے شعری ادب کے ورثے کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ہم حتمی طور پر یہ اندازہ لگا سکیں کہ اقبال نے اپنے کلام سے اردو شاعری کے دامن کو کس حد تک مالا مال کیا ہے ۔ اس لیے اقبال کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ہندوستان کے تہذیبی مزاج پر گفتگو ہو گی ۔ برّصغیر کا مادر سری مزاج ہندوستان ایک قدیم خطۂ ارض ہے جہاں انسانی تہذیب نے زمانۂ قدیم سے اپنے نقوش چھوڑے ہیں ۔ برّصغیر کا شمالی حصہ جس میں وادیٔ سندھ مرکزی اہمیت کا حامل ہے ، از منۂ قدیم سے تہذیب و تمدن کا مرکز رہا ہے ۔ موئنجوداڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں اس سر زمین پر پروان چڑھیں جن کا زمانہ آج سے پانچ ہزار سال قبل بتایا جاتا ہے ۔ اس تہذیب کی پرداخت کرنے والوں کے بارے میں عرصے سے تحقیق جاری ہے جس سے ان کے رسوم و رواج ، طرزِ بودو باش اور مذہبی عقائد پر روشنی پڑتی ہے ۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق یہ علاقہ زمانۂ قدیم سے مختلف تہذیبوں کی باہمی آویزش کے نتیجے میں نشوونما پانے والے نئے تہذیبی سانچوں کی آما جگاہ رہا ہے ۔ اس تہذیب کے بارے میں تحریری معلومات نہیں ملتیں اور اب تک اس کے کھنڈروں سے دریافت ہونے والی مہروںپر رقم تصویری رسم الخط کو پڑھنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لیے اس تہذیب کے بارے میں تحقیق کا بنیادی ماخذ آثارِ قدیمہ کی کھدائی سے برآمد ہونے والی اشیاء اور سازو سامان ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ یہ پروٹو آسٹرلائیڈ نسل کے لوگ تھے اور یہ قدیم مذہب الارواح کے ماننے والے تھے (1) ۔ دراوڑی تہذیب ایک مستقل ، پرسکون اور آہستہ رو تہذیب تھی ۔ کھیتی باڑی کے لیے سازگار فضا اورموسمی حالات نے ان لوگوں کو ضروریاتِ زندگی کی طرف سے مطمئن کر دیا تھا ۔ برِصغیر کی تاریخ کا آغاز زمانہ ما قبل تاریخ سے ہوتا ہے ۔ اس دور کے حالات کے بارے میں ڈی۔ ڈی۔ کو سمبی نے لکھا ہے کہ : ’’ہندوستان کے زمانہ ما قبل تاریخ کی دو امتیازی خصوصیات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔ عصرِ برفانی کا آخری دور ہندوستان کے برصغیر میں نہ اتنا شدید تھا نہ اتنا وسیع جتنا یورپ میں … اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہندوستان ، خاص کر اس کے مشرقی حصوں میں ما قبل تاریخی لوگ یونان اور برما سے داخل ہوئے ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقل و حرکت تاریخی زمانے میں بھی کافی بعد تک جاری رہی ہو ۔ اس مشرقی علاقے کے حجری اوزان میں ایک قسم کا پتھر لگا ہوا ہے اور ایک ہی قسم کی تکنیک نظر آتی ہے دوئم یہ کہ شکار کرنے او ر مچھلیاں پکڑنے کے علاوہ دیگر اقسام کی غذا جمع کرنا بہت زیادہ آسان تھا اور یورپ یا برّاعظم ایشیاء کے کسی بھی دوسرے مقام کی بہ نسبت کہیں زیادہ وسیع علاقوں میں ممکن تھا ‘‘۔ (2) کوسمبی کی کتاب سے جو اقتباس نقل کیا گیا ہے اس سے باآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برّصغیر بیرونی حملہ آوروں کے لیے کیوں اس قدر پرکشش رہا ہے ۔چونکہ اسی کشش کی وجہ سے ہندوستان میں حملہ آور ایک تسلسل کے ساتھ وارد ہوتے رہے اور اپنے ساتھ نت نئے عقائد ، مذاہب اور بودوبا ش کے انداز لاتے رہے ، اس لیے یہاں کی تہذیب مسلسل تغیر کے عمل سے دوچار رہی ۔ اس جانب ڈاکٹر انور سدید نے واضح اشارہ کیا ہے ـ : ’’ہندوستان کی قدیم تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک میں پہلے ہر نئی رو کے خلاف ردّ ِعمل پیدا ہوا لیکن جب نئی رو زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی تو اس ملک کی مٹّی نے اسے اپنی خوشبو اور ذائقے میں جذب کرنے کی سعی کی اور یوں بالآخر اسے مطیعِ فرمان بنا لیا ۔ برصغیر میں پیوند کاری کا یہ عمل متعدد تاریخی ادوار میں ہوا ۔ چنانچہ فاتحین اور مفتوحین کے اختلاط سے پروان چڑھنے والی تہذیبیں اہمیت اختیار کرتی گئیں ۔ بالفاظ دیگر یہ سرزمین بیرونی اثرات کے بیج کو اپنی زرخیز مٹی میں سینچنے اور اس سے ایک خوبصورت پودا پیدا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس میں لپکنے اور تسخیر کرنے کا جذبہ نسبتاً کمزور ہے ‘‘۔ (3) ڈاکٹر انور سدید نے بڑی خوبی سے قدیم ہندوستان کے مزاج کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے ۔ آخر میں جو بات انھوں نے کی ، اس کا جواب اور وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہاں کی آبادی کے لیے ضروریاتِ زندگی با افراط دستیاب رہی ہیں ، اس لیے یہاں کے باسیوں کو اپنے خطّے کے بارے میں زیادہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ۔ آریائوں کی آمد سے پہلے برصغیر کے قدیم باشندوں کے عقائد کے بارے میں ول ڈیوراں (Will Durant) نے تحریر کیا ہے کہ : "The oldest known religion of India, which the invading Aryans found amongst the Nagas, and which still survives in the ethnic nooks and crannies of the great Peninsula, was apparently an animistic and totemic worship of multitudunous spirits, dwelling in stones and animals, in trees and streams, in mountains and stars, snakes and serpents, were divinties-idol sand ideals of virile reproductive powers and the sacred "Bodhi" tree at Budha's time was a vertige of the mystic but wholesome reverence for the quite majesty of trees. Naga, the dragon-god, Hanuman, the monkey-god, Nandi, the divine-bull and the Yakshas or tree-gods passed down into the religion of Historic India. Since some of these spirits were good and some evil, only great skill in magic could keep the body from being possessed or tortured, in sickness or mania, by one or the more of the innumerable demons that filled the air. Hence the medley of incantations in the Atharva-Veda or the "Book of Knowledge" of magic one must recite, spells to obtain children, to avoid abortion, to prolong life, to ward off evil, to sleep, to destroy or harras the enemies."(4) ول ڈیوراں کے بیان سے ہمیں قدیم ہندوستان کے لوگوں کے مذہبی عقائد کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔ ا س معاشرے کا بنیادی مرکز عورت یا ماں تھی ۔ خاندان کے معاملات عورت ہی طے کرتی تھی اس لیے اس معاشرے کو سماجی اصطلاح میں مادر سری معاشرے کا نام دیا جاتا ہے ۔ زمین اور عورت کا رشتہ ان قدیم باشندوں کے ذہن میں بالکل واضح تھا کیونکہ دونوں تخلیق کی علامت ہیں اور ان دونوں کی وجہ سے زندگی کا تسلسل قائم ہے ۔ اس لیے عورت کو زندگی کے اہم معاملات میں حتمی فیصلے کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا ۔ اس معاشرے کا مرکزی نقطۂ نگاہ حال اور آج تھا ۔ ماضی اور مستقبل کے تصورات سے ان کا دماغ بالکل خالی تھا یا واضح نہ تھا ۔ وہ لوگ آج زندہ رہو کل دیکھا جا ئے گا، کے اصول پر زندگی بسر کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ جنگل اور بیابان کی زندگی کو خیر باد کہتے جا رہے تھے اور انہوں نے دریائوں اور جھیلوں کے کنارے اپنی باقاعدہ بستیاں آباد کر لی تھیںلیکن زمین سے گہری وابستگی کے سبب ان کے ہاں تحرک کے عوامل کم تھے۔ یہ تمدن ٹھہرائو اور سکون کی علامت تھا ۔ ہر ٹھہرے ہوئے معاشرے کی طرح قدیم ہندوستان کے معاشرے میں بھی سماجی اقدار کو زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔ معاشرتی اقدار پر اپنے پختہ یقین کی وجہ سے ہی وہ ایک مستحکم اور دیرپا تہذیب و تمدن کو استوار کرنے میں کامیاب رہے ۔ ان لوگوں کے رسوم و رواج ، تہواری روایات اور سماجی کردار کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں ایک بار پھر ڈی۔ ڈی۔ کو سمبی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا : ’’تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مذہبی رسوم زیادہ معروف ہیں،ان کے آغاز کے نشانات بھی ابتدائی اور زمانہ ما قبل تاریخ میں موجود ہیں۔ ہولی کا بہاریہ تہوار ایک فحش اور فی زمانہ کچھ بدکارانہ رنگ رلیوں کا جشن ہے۔ایک بڑے سے الاؤ کے گرد ناچنا ا س کی مرکزی خصوصیت ہے۔اس کے بعد کبھی کبھی کچھ منتخب لوگ انگاروں پر چلتے ہیں لیکن اس سے اگلے دن ہمیشہ ہی ایک ہنگامہ پرور اور بلندبانگ عوامی فحاشی کا مظاہرہ ہوتا ہے جس کے دوران الگ تھلگ مقامات پر جنسی بے لگامی اور بلا امتیاز شہوت رانی کے تجربات بھی ہوتے ہیں۔معلوم تاریخ کے عہدمیں خوراک ناقص تھی۔زندگی سخت تھی اور تولیدوافزائش ایسی آسان چیز نہیں تھی ۔اس وقت محرک کے طور پر فحاشی ضروری تھی۔ اس کا بگڑ کر سیاہ کاری کی شکل اختیار کر لینا ایک جدیدتبدیلی ہے۔اس تبدیلی کا سبب بہتر خوراک بھی ہے جو کسانوں کی زیادہ بھاری محنت کی رہین مِنّت ہے اور اس تبدیلی کا نتیجہ ہے ایک یکسر بدلی ہوئی جنسی بھوک اور جنسیات کے معاملات میں ایک قطعی دوسرا انسانی رویہ ۔۔۔ہولی زمانہَ ما قبل تاریخ کی یادگار معلوم ہوتی ہے ،جب عورت قبیلے کی سردار ہوتی تھی۔ بعض جگہ آج بھی ایک مرد کو (جسے ’’کولنا‘‘کہتے ہیں)عورت کے کپڑے پہن کر ہولی کی آگ کے گرد رقص کرنے والوں میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے ۔بنگلور میں عظیم سالانہ تیوہار’’کوگا‘‘ کے موقع پر رسوم میں شریک پیشوا کو اپنے فرائض منصبی اداکرنے سے پہلے زنانہ لباس پہننا پڑتا ہے۔ یہی صورتِ حال مغربی ہندوستان میں بٹیر پکڑنے والے پاردھی لوگوں کے پرو ہت کی ہے جو پاردھی نسل کی افزائش کی خاطر منتر پڑھنے اور گرم کھولتے ہوئے تیل کے ذریعے جسمانی اذیت سہنے کے لیے عورتوں کے کپڑے پہنتا ہے۔یہ رسمیں اور تیوہار اب مردوں نے اپنا لیے ہیں حالانکہ اصلاًان پر عورتوں کی اجارہ داری تھی ۔اسی طرح دیوی ماتا کی نسبت سے متبرک سمجھے جانے والے درختوں کا ذکر برہمنی اساطیر اور حکایات میں آتا ہے۔سڑک سے دور دیہات میں ایسے کنج ابھی تک موجود ہیں لیکن عورتوں کا وہاں جانا ممنوع ہے،بجزان چند مقامات کے جہاں پروہتائی قدیم لوگوں کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی ہے اور باہر سے آنے والے نو آباد کاشتکاروں کے قبضہ میں منتقل ہوئی ہے۔ابتدا میں تو ممانعت مردوں کے جانے پر تھی لیکن جب سماج کا اقتدارِ مادری، اقتدارِ پدری میں تبدیل ہو گیا تو پروہتائی اور رسوم بھی اس کی مناسبت سے تبدیل ہو گئیں ۔‘‘(5) کوسمبی نے مندرجہ بالا اقتباس میں ہولی کے تہوار کی مذہبی اور سماجی حیثیت پرروشنی ڈالی ہے۔اس سے تاریخی عمل کے دوران اس میں رونما ہو نے والی تبدیلیوں کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ہولی کا تہوار آج بھی ہندوؤں کے اہم ترین تہواروں میں شامل ہوتا ہے اور تمام دنیا میں موجود ہندواس تہوار کو جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ہم محض ایک تہوار کی جزئیات میں آنے والی تبدیلیوں سے ہندوستان کے مادر سری مزاج میں وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ہندوستان کے ماحول ،تہذیب اور رسومات میں پہلی اہم تبدیلی آریاؤں کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی جس نے آہستہ آہستہ اس خطّے میں جڑ پکڑ لی۔ آریاؤں کی آمد اور پدر سری اثرات ’’آریا‘‘کے لغوی معنی’’پیدائشی آزاد‘‘یا تین اعلیٰ ذاتوں کا رکن ہیں۔ آریا افراد کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ وسطی ایشیا کے رہنے والے تھے ۔یہیں سے انھوں نے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کی۔ جن علاقوں کو آریاؤں نے تا راج کیا ان میں برصغیر ہندوستان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ وہ اس سر زمین پر افغانستان کے رستے وارد ہوئے اس لیے ان کا مقابلہ پہلے پہل وادیٔ سندھ کے لوگوں سے ہوا اور اسی خطے پر انہوں نے سب سے پہلے سلطنت قائم کی ۔رفتہ رفتہ وہ برصغیر کے دوسرے علاقوں میں پھیلتے چلے گئے۔ ’’آریہ‘‘مختلف قبائل پر مشتمل تھے اور ان سب کے درمیان واحد قدرِ مشترک زبانو ںکا ایک خاندان تھی۔ اس میںسنسکرت ،لاطینی اور یونانی،کلاسیکی آریائی زبانیں تھیں۔برصغیر ہندوستان کی مختلف زبانیں مثلاً پنجابی ،بنگالی،مرہٹی وغیرہ سنسکرت ہی سے نکلی ہیں۔ آریاؤں کی زندگی مسلسل حرکت سے عبارت تھی اس لیے زمین کے ساتھ ان کی وابستگی گہری نہیں تھی۔آریا لوگ جنگجو اور خانہ بدوش تھے۔آثارِ قدیمہ بتاتے ہیں کہ ان لوگو ں کی غذا کا انحصار زیادہ تر مویشیوں پر تھا۔آریائی قبائل کا ڈھانچہ مرد کی حاکمیت پر قائم تھا۔مرد قبیلے کا سربراہ،جائیداد کا مالک اور خاندان کا بڑا ہوتا تھا۔ برصغیر ہندوستان کے قدیم باشندے جنہیں مؤرخوں نے دراوڑ کہا ہے،آریاؤں کی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکے اور جنوب کی طرف پسپا ہوتے چلے گئے۔ آریاؤں نے مفتوحین سے اپنی نفرت اور حقارت کے اظہار کے لیے انہیں داس یعنی غلام کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ۔انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو سماجی سطح پرمقامی لوگوںسے دور رکھا،بلکہ اپنی نسلی برتری کو برقرا ررکھنے کے لیے اپنے اور مقامی آبادی کے درمیان حدّ ِ فاصل کھینچ دی۔یہ ایسی حد تھی جسے عبورکرنا دونوں کے لیے نا ممکن تھا۔اس سلسلے میں جی۔ ٹی۔ گیرٹ نے لکھا ہے : ’’یہ طبقاتی تقسیم دراصل خالی نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی اور یہ اس وقت ظہور میں آئی جب سفید فام آریاؤں کوسیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔‘‘(6) آریاؤں کے اسی نسلی رویے کے سبب ہندوستان میں نسلی بنیاد پر ذات پات کانظام وجود میں آیا۔ اس نظام کی جڑیںاتنی گہری ہیں کہ تین ہزار سال کے طویل دور میں ماسوائے بدھ مت کے غلبے کے سالوں میں ،اس نظام پر کبھی آنچ نہیں آئی۔آج بھی ہندوستان میں اس نظام پر اتنی سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ نچلی ذات کا ہندو اعلیٰ ذات کے ہندو کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا۔ذات پات کا یہ غیر انسانی نظام ہندوستان کے سیکولر نظریۂ حیات کے منہ پر ایک طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام میں ذاتوں کے ساتھ سماجی نوعیت کے کام بھی وابستہ کردیے گئے تھے۔مذہبی رسومات کی ادائیگی برہمن قوم کے سپرد تھی جو سب سے اونچی ذات تھی۔اس کے بعد کھشتری تھے جن کے ذمے ملک کی حفاظت تھی۔تیسرا نمبر ویش کا تھا جو کاروبار چلاتے تھے اور زمینوں کے لگان کا حساب کتاب رکھتے تھے ۔اس ترتیب میں سب سے نچلے درجے پر شودر تھے جن کی حیثیت غلاموں کی تھی او ر ان کے ذمے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی خدمت تھی۔اس تقسیم میں آریا برہمن اور شودر دراوڑ تھے۔ آریاؤں نے ہندوستان کو زیرِ نگیں لانے کے بعد نہ صرف یہ کہ سماجی سطح پر اپنی برتری قائم رکھی بلکہ تخلیقی سطح پر اپنی تہذیبی فوقیت کو برقرار رکھا ۔ آریاؤں کی تخلیقی جہت کا بیان ڈاکٹر انور سدیدکے ہاںیوں ملتا ہے : "۹۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ آریاؤں کی داخلی برانگیختی کا تخلیقی اظہار اپنشدوں کی تصنیف میں ہوااور فنا اور بقا کے تصورات کو اہمیت ملی۔۔۔۔اس عہد کی دو کتابیں جنہیں ہندوستانی دیو مالا کی حیثیت حاصل ہے ’’رامائن ‘‘اور ’’مہابھارت‘‘ہیں۔ان کتابوں کی رزمیہ کہانیاں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔‘‘(7) دراوڑی اور آریائی تہذیبوں میں بنیادی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے تھے۔جب فاتح قوم نے حتمی طور پر فوج کے ذریعے برتری حاصل کرلی تو تہذیبی طور پر بھی آریہ برتر قرار پائے ۔ان دونوں تہذیبوں کے ملاپ سے اندرونی کشمکش کا آغاز ہوا۔ڈاکٹر انور سدید نے دراوڑی اور آریائی مزاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’دراوڑی تہذیب مزاج کے اعتبار سے کلاسیکی نوعیت کی تھی ،چنانچہ اس تہذیب نے خود کو اونچی پرواز کی طرف مائل کرنے کی بجائے اپنے داخل میں سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم وقیود کا پختہ نظام قائم کیا۔برصغیر میں برہمنیت کا فروغ بھی اسی کلاسیکی مزاج کا نتیجہ ہے اور جین مت اور بدھ مت کی افزائش اس سنگلاخ کلاسیکیت کے خلاف ایک واضح ردِّعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(8) ہندوستان میں آریاؤں کی آمد کے بعد جو تہذیبی اتار چڑھاؤ ہوا ،اس کا بڑا اورایک اہم موڑ بدھ مت سمجھا جاتا ہے ۔ بدھ مت اور اور جین مت بدھ مت کا آغاز شہزادہ گوتم نے کیا مگر مرنے کے بعد وہ سدھار تھ کے نام سے مشہور ہوا۔گوتم ساکیہ قبیلے میں پیدا ہوا۔ ساکیہ لوگ اپنے معاملات کا انتظام وانصرام خود کیا کرتے تھے ۔اس قبیلے کے اندر برہمنیت نہیں تھی مگر ذات پات کے طبقات موجودتھے۔نو عمر گوتم نے قبائلی رسوم و رواج کی پیروی میں کھشتریوںکی طرح ہتھیار چلانے،گھوڑا دوڑانے اور رتھ کی سواری کی تربیت حاصل کی۔اس کی شادی ایک کھشتری خاتون کچانا سے کر دی گئی۔جس سے ایک لڑکا راھل پیدا ہوا۔ اپنے عہد کے فلسفیوں کے افکار سے متاثر ہو کر اس کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ زندگی کے مسائل کو حل کرے اور نسلِ انسانی کے غم واندوہ کو دور کرنے کے طریقے معلوم کرے ۔انیس سال کی عمر میں گوتم نے اپنے گھر اور قبیلے کو خیر باد کہا، اپنے بال منڈوا دیے ،بیراگی کا بھیس اپنا یا اور بنی نوعِ انسان کی نجات کی جستجو شروع کر دی۔(9) بدھ کے نزدیک یہ دنیامصائب کا گھر ہے ۔خواہشات انسان کو دکھی کر دیتی ہیں ۔اگر انسان اس دنیا میں نروان (سکون)حاصل کرنا چاہتا ہے تواسے چاہیے کہ وہ دنیا اور اس سے وابستہ خواہشات ترک کر دے۔بدھ نے اپنے عہد کے ذات پات کے نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔اس نے انسانی مساوات اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔اس کے مطابق انسانی جسم روح کا زندان ہے جس سے رہائی ضروری ہے اس سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ بدھ کا فلسفہ ترکِ دنیا اور فرار کا فلسفہ ہے، زندگی کی حقیقتوں سے منہ موڑ کر جنگلوں کی راہ لینے کا فلسفہ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق بدھ مت اصل میں دراوڑی تہذیب کے دائرے یا عورت کے زندان سے آزاد ہونے کی سعی اور آریائی ردِعمل کی صورت تھی ۔(10) بدھ کے تصوّرِ مذہب کے بارے میں ول ڈیوراں نے لکھا ہے: "His conception of religion was purely ethical. He cared everything about conduct, nothing about ritual or worship, metaphysics or theology.When a Brahman proposed to purify himself of his sins by bathing at Gaya, Budha said to him: "Have thy bath here, even here. O'Brahman! Be kind to all beings.If thou killest not life, if thou takest not what is not given to thee, secure in self denial. What wouldst thou gain by going to Gaya? Any water is Gaya to thee.''(11) مندرجہ بالا اقتباس بدھ مت اور بدھ مت کے تصور ِمذہب کی عکاسی کرتا ہے۔بدھ مت نے برصغیر کی تہذیب پر دیر پا نقوش ثبت کیے۔برِصغیر سے باہر چین،جاپان،سری لنکا،برما،تھائی لینڈ،ملایا ،فلپائن اور بہت سے دوسرے ممالک میں اسے پَذیرائی حاصل ہوئی۔لیکن برصغیر میں چند صدیوں بعد دوبارہ برہمنوں کے قوت پکڑنے سے بدھ مت رفتہ رفتہ سمٹتا چلا گیا تاہم اس خطۂ ارضی کے فنونِ لطیفہ پر اس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ بدھ مت کے مختصر بیان کے بعد ہم جین مت کی طرف آتے ہیں ۔ جین مت کا بانی مہا ویر تھا ۔ اس نے فرد کو جسمانی اور حسیاتی لذتوںسے کنارہ کش ہونے کی تلقین کی ۔ بدھ مت کی طرح جین مت میں بھی ارضی زندگی کے تیاگنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جین مت نے ویدوں کی سند سے انکار کیا ۔ اس کے پیرو کار سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگا کرتے تھے ۔ ان کا سامان عموماً ایک جوڑا کپڑے ، کمبل ، بھیک مانگنے کے کا سے اور زمین جھاڑنے کے لیے جھاڑو جیسی اشیاء پر مشتمل ہو تا تھا ۔ جینی راہبوں کو بال منڈوانا پڑتے تھے ۔ برِصغیر میں بدھ مت اور جین مت کے عروج کا زمانہ کم و بیش ایک ہی ہے ۔ بدھ مت کے مفکرین کی اکثر کتابوں میں جین مت کا حوالہ حریف فرقے کے طور پر آتا ہے ۔ برِصغیر سے باہر بھی جین مت نے اپنے اثرات ثبت کیے ۔ ان میں جاپان اور ہند چینی کے ممالک خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ جاپان میں بدھ مت اور جین مت کے ملاپ سے زین بدھ ازم کا فلسفہ وجود میں آیا جسے جاپان کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے ۔ بدھ مت اور جین مت در حقیقت بر ہمنیت کے خلاف احتجاج کی علامت ہیں لیکن برِصغیر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی ہندو مذہب کا حصہ بن گئے ۔ بر ہمنیت نے جس طرح آہستہ روی سے بدھ مت اور جین مت پر دوبارہ غلبہ پایا اس کا بیان ڈاکٹر را دھا کر شنن کے ہاں ملتا ہے ۔ بیان اگر چہ بدھ مت کے بارے میں ہے لیکن اس کا اطلاق جین مت پر بھی ہو تا ہے ۔ ’’بر ہمن مت نے اپنی نشاۃِ ثانیہ میں بدھ کو وشنو کا اوتار تسلیم کیا ۔۔۔۔ اور بدھ عقیدے کے بہترین اوصاف کو بر ہمنیت میں ضم کر لیا‘‘ ۔(12) ویدانت ویدانت سے مراد فلسفے کا وہ نظام ہے جس کی بنیاد ویدوں پر ہو ۔ ویدک ادب میں اپنشد آخری وید ہے اس لیے ما بعد فلسفوں پر اس کے اثرات سب سے زیادہ گہرے ہیں ۔ واسو بندھو نے پانچویں صدی عیسوی میں حقیقت کے پسِ پشت لا زوال حقیقت کا تصور اجا گر کیا ۔ نویں صدی عیسوی میں شنکر ا چاریہ نے ویدانت کے فلسفے کو نئے سرے سے فروغ دیا ۔ (13) اسی باب میں رائے شوموھن لعل ماتھر نے لکھا ہے : ’’شنکر کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ کسی اصلی نظام کا موجد یا شارح ہے بلکہ وہ تو اپنشدوں اور برہمہ سوتر کی تعبیر اس تر تیب سے کرتا ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ اپنشدوں میں ایک مر بوط اور باقاعدہ فلسفہ موجود ہے ۔‘‘(14) شنکرا چاریہ نے جس طرح ویدانت کی تشریح کی ہے اس کے مطابق یہ خارجی عالم مایا یا فریب ہے۔ خدا نے اس عالم کو کھیل کے طور پر پیدا کیا ہے ۔ علّت اور معلول میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ آخری علّت یا حقیقت بر ہمہ ہے جس کے سبب سے یہ عالم قائم ہے ۔ شنکر نے اپنے فلسفے کے ذریعے ویدانیت کا پر چار کیا یعنی اس نے ادویت اور ثنویت کے تصورات کو رد کر دیا اور یہ کہا کہ مطلق صداقت واحد آتما ہے ۔ شنکر کے مطابق ہم اس عالم سے اس لیے واقفیت حاصل نہیں کر سکتے کہ جب صحیح علم پیدا ہوجائے تو بو دو نمود دونوں باطل ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمِ خارجی تو ایک التباس ہے اور جب کسی فرد کو صداقت کا علم ہو جائے تو التباس بے معنی ہو جاتا ہے ۔ شنکرا چاریہ نے صرف بتیّس سال کی عمر پائی لیکن اس مختصر عمر کے دوران ہی اس نے ایک صوفی ، ایک عالم اور ایک عاقل شخص کی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی ۔ وہ مالا بار کے ایک بر ہمن گھرانے میں پیدا ہوا۔ ابتدا ہی میں اس نے زندگی کا عیش و آرام ترک کر دیا اور گیان دھیان میں مشغول ہو گیا ۔ اس کے مطابق اعلیٰ مذہب اور اعلیٰ ترین فلسفہ ویدوں میں موجود ہے ۔ شنکر عقل کے محدود ہونے کے تصور کا قائل ہے ۔ ول ڈیور اں نے لکھا ہے : ''It is not logic that we need, says Shankara, it is insight, the faculty (akin to art) of grasping at once the essential out of irrelevant, the eternal out of the temporal, the whole out of the part: this is the first pre-requisite to philosophy. The second is willingness to observe, inquire and think for understanding's sake, not for the sake of invention, wealth or power; it is withdrawal of the spirit from all the excitement, bias and fruits of action. Thirdly, the philosopher must acquire self-restraint, patience and tranquility; he must learn to live above physical temptation or material concerns. Finally, these must burn deep in his soul, the desire for maksha, for liberation from ignorance, for an end to all consciousness of a separate self, for a blessful absorption in the Brahman, of complete understanding and infinite unity. In a word, the student needs not the logic of reason so much as cleansing and deepening discipline of the soul. This perhaps, has been the secret of all profound education.''(15) شنکرا چاریہ کے حوالے سے جو باتیں ول ڈیوراں نے لکھی ہیں ، ان سے شنکرا چاریہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ خود شنکر کے اپنے افکار کی تعمیر پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ عقل اور منطق کو ضمنی تصور کرنے کے باعث شنکر وجدان کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جس سے اس کے ذہن پر ہندو فلسفے کے اثرات کا اندازہ ہو تا ہے ۔ ویدانت کی تعلیمات وحدانیت ، مساوات اور مایا کا پر چار ہیں ۔ شنکر نے نویں صدی میں ہندو مت کے احیاء کے لیے جو کام کیا اس نے آگے چل کر فکری سطح پر ہندو مت کی بنیادوں کو گہرا کیا ۔ اس نے اپنے عہد میں جدید ہندو مت کے فروغ میں دوسرے مفکرین کی نسبت مرکزی کر دار ادا کیا ۔ آج کا ہندو مت زیادہ تر شنکرا چاریہ کی تعلیمات پر مبنی ہے ۔ بھگتی تحریک بھگتی تحریک کی ابتداء جنوبی ہند سے ہوئی ۔ اس کو شروع کرنے کا سہرا رامانج کے سر ہے ۔ شنکرا چاریہ کے بعد رامانج کی کتاب ’’شری بھاشیہ ‘‘ ویدانیت کی سب سے بہتر کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس کے مطابق اس دنیا کا خالق بر ہما حقیقتِ مطلق ہے ۔ بر ہما کا قرب حاصل کرنے کے لیے صرف عبادت ہی کافی نہیں بلکہ محبت ، پیار اور بھگتی اصل چیز ہے ۔ بھگتی تحریک کے ماننے والے بھگت کہلاتے تھے ۔ ان میں دیو اچاریہ ، ہری نند ، راگھو نند ، راما نند ، بھگت کبیر ، تلسی داس اور میرا بائی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ بعد میں آنے والے لوگوں اور خاص طور پر راما نند نے رامانج کے برعکس عوامی زبان میں اپنے تصورات پیش کیے۔ راما نند کے عہد تک اسلام برِ صغیر میں پوری طرح پھیل چکا تھا ۔ اسلام کے اثرات کے تحت بھگتی تحریک صرف ایک تحریک نہ رہی بلکہ ایک عملی فلسفہ بن گئی ۔ راما نند ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کا مخالف تھا ۔ اس نے ہندوؤں کی نچلی ذاتوں کو اپنی تعلیمات سے متاثر کرنے کی بھر پور کو ششیں کیں تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل نہ ہوں ۔ بھگتی تحریک نے برصغیر کی مذہبی اور فکری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ خاص طور پر اس تحریک سے ہندو مذہب کو جِلا ملی ۔ اس تحریک کے زیر اثر بہت کامیا ب اور اثر آفریں شاعری کی گئی ۔ یہ شاعری اپنے اندر محبت ، یگانگت اور مساوات کا پیغام لیے ہوئے ہے ۔ اس مذہبی اور روحانی شاعری نے جو اکثر عام بول چال کی زبان میں تخلیق ہوئی ، نچلی ذات کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا اور انھیں اس تحریک کے روپ میں سکون کی ایک صورت سے آشنائی ہوئی ۔ اس تحریک سے وابستہ شاعروں میں دادو چتنیر ، میرا بائی ، بھگت سورداس ، نام دیو ، پریم نند ، تلسی داس، بھگت کبیر ، سنت تکارام ، ودیاپتی اور بہت سے دوسرے نام شامل ہیں ۔ ڈاکٹر انور سدید نے بھگتی تحریک اور اس کے اثرات پر یوں جامع اور پر مغز تبصرہ کیا ہے : ’’بھگتی تحریک نے فرد کو سکون ، اعتدال اور توازن کی فضا میں روحانی رفعت حاصل کرنے کا سبق دیا۔ اس تحریک کا اساسی مقصد اخلاقی اور اصلاحی تھا ۔ بھگتی تحریک نے خدا کے شخصی تصور میں اپنا ئیت پیدا کی اور کبھی آقا اور غلام ، کبھی خاوند اور بیوی اور کبھی عاشق اور معشوق کا تعلق ابھارا۔ اس سے خدا کے تجریدی تصور کو شدید زک پہنچی لیکن تخلیقی اعتبار سے اس تصور نے جذباتی زاویے کو عمدہ کر وٹ دی ۔ ودیاپتی ، میرا بائی اور چندی داس کی شاعری میں اس تصور کی طرف نازک ، لطیف اور گدرائے ہوئے اشارے ملتے ہیں ۔ بھگتی تحریک کی شاعری نے عورت کے جذبات کو سلگتی ہوئی زبان دے دی اور یوں گیت کو بالخصوص فروغ حاصل ہوا۔ ‘‘(16) اسلامی تصوف: مسلمانوں میں تصوف کا باقاعدہ آغاز لگ بھگ تیسری صدی ہجری میں ہوا۔ بعض محققین نے اس کی ابتداء کو اصحابِ صُفّہ سے منسوب کیا ہے ۔ تصوف کالفظ صوف سے مشتق خیال کیا جاتا ہے ۔ صوفیہ وہ بر گزیدہ افراد تھے جو خدا سے لَو لگاتے تھے ۔ دنیاوی معا ملات میں کم سے کم شریک ہوا کرتے تھے اور ایک خاص قسم کے سادہ کپڑے پہنتے تھے ۔ صوفیہ کے مختلف سلسلے اپنا رشتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جوڑتے ہیں ۔ صوفیہ شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ روز و شب عبادت اور یادِ لٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔ وہ ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مستغرق رہنے کو زندگی کا ماحصل جانتے ۔ باطن کی طہارت کو افضل سمجھتے ، خلق خدا سے محبت کرتے اور لوگوں کے کام آنے کو عبادت کا درجہ دیتے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلمانو ں کی سلطنت میں دو دو دربار ہوتے تھے ۔ ایک خلیفۂ وقت کا اور ایک اولیاء اللہ کا ۔ چونکہ صوفی خود کو حکومتی گو رکھ دھندوں سے الگ رکھتے تھے ، اس لیے مسلم حکمران ان کے دربار میں حاضری اور ان کی خوشنودی کے متمنّی رہتے تھے ۔ ایسی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں جن میں خلیفۃ الوقت اپنے عہد کے اولیاء کی خدمت میں حاضری دیتا رہا ۔ برِصغیر میں مسلمان فاتحین آٹھویں صدی عیسوی میں داخل ہوئے لیکن ان کی آمد سے بہت پہلے مسلمان صوفیہ اور تجار اس خطے میں اسلام کی شمع روشن کر چکے تھے ۔ مسلمان صوفیہ وسطی ایشیا ء ، ایشیائے کو چک اور عرب کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے ہندوستان آتے رہے ۔ ان کے سامنے پہلا اور آخری مقصد تبلیغ و اشاعتِ اسلام ہوتا تھا لیکن صوفیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں تھی ۔ ان کے ہاں ہر مذہب ، فرقے ، رنگ ، نسل اور مکتبہء خیال کے لوگ حاضری دیا کرتے تھے اور یہ صو فیہ ، ولی ، ابدال ، قطب اپنے حسنِ اخلاق سے لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے۔ تبلیغِ اسلام کے اس ارفع نصب العین کے حصول میں صوفیہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کر نا پڑا۔ انھوں نے اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں ۔علامہ سید سلیمان ندوی نے مسلمان صوفیہ کی ان خدمات کے بارے میں درست کہا ہے : ’’اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کو غزنی اور غور کے بادشاہوں نے فتح کیا تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خانوادئہ چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا ۔ ‘‘(17) صوفیہ چونکہ عام لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے دن رات عوام الناس کے ساتھ گزرتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ارد گرد بسنے والوں کی زبانیں اور بول چال کے لہجے اپنا لیے ۔ صوفیہ جس خطّے میں بھی گئے وہاں کے لوگوں کی زبان میں ان سے کلام کیا جس سے ۔ صوفیاء اور مقامی آبادی میں ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گیا ۔ صوفیہ نے نہ صرف یہ کہ مقامی لہجوں پر عبور حاصل کیا بلکہ ان زبانوں میں اپنی تصنیفات اور تخلیقات سے اضافے بھی کیے ۔ صوفیہ نے جو شاعری کی یا نثر لکھی ، اس کا مقصد محض ادب کی تخلیق نہ تھا بلکہ وہ ادب کے وسیلے سے لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل کرتے تھے ۔ چنانچہ بالواسطہ طور پر صوفیہ کی مسلسل سعی سے بہت سی مقامی غیر ادبی زبانوں میں ادب کے انمول اور بیش بہا نمونے تیار ہو گئے ۔ ڈاکٹر انور سدید صوفیہ کی تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’صوفیہ کی تحریک نے اسلامی تصوف کو ہندوستان میں ایک فکری اور عملی لہر کی صورت میں رائج کیا اور اردو زبان کو عوام تک پہنچا کر قابلِ قدر خدمات انجام دیں ۔ ‘‘(18) شعرو ادب کے ساتھ ساتھ صوفیہ نے دوسرے فنون مثلاً موسیقی وغیرہ کی تر ویج میں بھی گرانقدر حصہ لیا ۔ فکری سطح پر صوفیہ نے خدا کی وحدانیت کا پر چار کیا ۔ مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ صوفیہ نے اردو کے دامن کو بھی مالا مال کیا اور اردو نثر و نظم کے ابتدائی نمونے صوفیہ ہی کے مہیا کردہ ہیں ۔ ہندوستان میں مسلمان صوفیہ کی خدمات اور مقامی تہذیب و ثقافت پر اسلامی تہذیب کے ہمہ گیر اثرات کے بارے میں تفصیلی معلومات اور تجزیے کے لیے شیخ محمد اکرام کی اہم کتابوں آبِ کوثر ، رودِ کوثر اورموجِ کوثر سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ سیرامپور پادری مشن (مذہب کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومتِ بر طانیہ کی پالیسی ) سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں تاجروں کے بھیس میں یورپی حملہ آوروں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میںبرِصغیر بتدریج مغربی طاقتوں کی نو آبادیات کاحصہ بن گیا ۔ ابتداء میں پر تگالی ، ولندیزی ، فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ کئی دوسری قوموں نے بھی برِصغیر میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن حتمی کامیابی انگریزوں نے حاصل کی ۔ 1857 ء تک تقریباً تمام ہندوستان پر انگریزوں کا بلا واسطہ یا بالواسطہ قبضہ ہو چکا تھا ۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان کا انتظام براہِ راست حکومتِ بر طانیہ نے سنبھال لیا ۔ انگریزوں نے یہاں کے سماجی ، معاشی اور سیاسی نظام ہی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے منظم کوششیں کیں ۔ علی عباس جلالپوری کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے : ’’ملوکیت پسندوں اور تاجروں نے سترہویں صدی سے مذہبی تبلیغ کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا چنانچہ سینکڑوں مشنری ادارے قائم کیے گئے اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جوق درجوق مشرقی ممالک کو جانے لگے ۔ یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ عیسائیت کی تبلیغ سے اہلِ مغرب کا مقصد یہ تھا کہ دیسیوں نے عیسائیت قبول کر لی تو وہ اپنے مغربی آقائوں کو اپنا ہم مذہب سمجھ کر ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے ۔ اس طرح اہلِ مغرب نے مذہب کے نام پر اپنا اقتصادی تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے کہا تھا ’جب سفید آدمی آیا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی ، اب اس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل !‘ ـ"(19) جلالپوری کے اس بیان سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بات پرتگالی ، ولندیزی اور فرانسیسی تجارتی کمپنیوں کے بارے میں تو درست ہے اور ان کے ہندوستان میں ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے مقامی لوگوں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کیا جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے ۔ ان کے برعکس ایسٹ انڈیا کمپنی جس کا تعلق انگلستان سے تھا ، کی مذہبی پالیسی بہت مختلف تھی ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے عیسائیت کی تبلیغ کرنے والوں کی مدد کرنے کے بجائے کسی حد تک یا بظاہر ان کی حوصلہ شکنی کی جس سے مقامی آبادی کو یہ تاثر ملا کہ انگریز ان کے مذہبی عقائد کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ جنوبی ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ سب سے پہلے لوتھرن (Luthern) فرقے کے پادریوں نے ۱۷۰۷ء میں کی ۔ یہ مشن جرمن پادریوں پر مشتمل تھا جن کی تبلیغ کے نتیجے میں محدود تعداد میں مقامی آبادی نے عیسائیت کو قبول کر لیا ۔ شمالی ہندوستان میں پہلا اعلیٰ ذات کا ہندو جس نے عیسائیت اختیار کی ، بابو گنیش داس تھا ۔ جن اداروں نے برصغیر میں مسیحیت کی تبلیغ کی کوشش کی ان میں چرچ مشن اور بپٹسٹ مشنری سوسائٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان اداروں نے تواتر کے ساتھ مبلغین برصغیر بھیجے جنہوں نے مقامی آبادی میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کی۔ جس علاقے میں سب سے پہلے عیسائی پادری اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئے اس کا نام سیرامپور تھا ۔ سیرامپور کا علاقہ کلکتے کے قریب واقع ہے ۔ یہ قصبہ اس وقت ڈنمارک کی حکومت کے زیر نگیں تھا ۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا جس میں وشنو کی پوجا کی جاتی تھی اور اسے سارے ہندوستان میں ایک اہم تیرتھ شمار کیا جاتا تھا ۔ سیرا مپور میں تبلیغ میں مصروف مشن کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی مذہبی حکمتِ عملی کی وجہ سے مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مذہبی پالیسی میں تبدیلی لارڈو لزلی کے زمانے میں آئی ۔ اس نے دارالامراء میں خود پیش ہو کر ان الفاظ میں قرار داد پیش کی : ’’ بہرگاہ کہ ہندوستان کے برطانوی مقبوضات کے باشندوں کی سو دو بہبود کو ترقی دینا ہمارے ملک کا عین فرض ہے ، یہ ضروری سمجھا گیا کہ ایسے ذرائع و وسائل اختیار کئے جائیں کہ جن سے ان باشندگانِ ہند میں کارآمد علوم کی ترقی اور مذہبی و اخلاقی اصلاح و تحریک کی صورتیں پیدا ہوں۔ پس بایں وجہ لازم آیا کہ ان مقاصد کے حصول کیلیے جو لوگ ہندوستان جانا اور وہاں بودو باش اختیار کرنا چاہیں ، ان کو معقول قانونی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے ارادوں کی تکمیل کر سکیں ۔ ‘‘ (20) دارالامراء کی باقاعدہ منظوری کے بعد برطانیہ کے پادریوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھل گئے اور برِصغیر میں پہلے سے موجود تبلیغی مشنریوں کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا جس نے مناظروں اور مذہبی مباحث کی ایک ایسی دوڑ شروع کی جو آئندہ ڈیڑھ دو صدیوں تک جاری رہی۔ عیسائیت کی تبلیغ کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہی ہو چکی تھی ۔ جب 1857 ء میں برصغیر تاجِ برطانیہ کے تحت ہوا تو تب بھی ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے مشن اپنا کام کرتے رہے ، لیکن مقامی آبادی کو مذہب میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں حکومت کی پالیسی بہت حد تک نرم ہی رہی ۔ سیّد احمد شہید بریلوی کی تحریک برِ صغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدآہستہ آہستہ مقامی حکمرانوں اور یورپی تجارتی کمپنیوں نے اپنے اپنے طور پر طاقت حاصل کرنے اور اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ اس میں مرہٹّے، جاٹ ، سکھ ، انگریز اور فرانسیسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ نادر شاہ درّانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے مغل اور مرہٹہ اقتدار کا سورج غروب کر دیا جس کے بعد پنجاب کے وسیع علاقے پر سکھوں کی حکمرانی قائم ہو گئی اور جنوبی ہند میں انگریز اپنے اقتدار کی حدود کو وسیع کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کی اس زبوں حالی کے دور میں جس شخص نے اسلام کو درپیش خطرات کی طرف پہلے پہل مسلمان حکمرانوں اور عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی اس کا نام حضرت شاہ ولی اللہ ؒ تھا ۔ شاہ ولی اللہؒ نے ایک طرف امّتِ مسلمہ کو سیاسی زوال سے نکالنے کی راہیں تلاش کیں اور دوسری طرف مسلمانوں میں عام طور پر راہ پانے والی مذہبی بدعتوں اور عقائد میں در آنے والی کمزوریوں اور ضعف کا علاج کرنے کی پوری دل جمعی اور درد مندی سے جدوجہد جاری رکھی ۔ اس طرح اٹھارویں صدی عیسوی میں شاہ ولی اللہؒ بر صغیر کی واحد مسلم شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمان قوم کی بقا کے لیے ایک سے زیادہ محاذوں پر جنگ کی ۔ ان کی تعلیمات اور افکار نے برصغیر کی مسلم فکر پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔ اس سلسلے میں انور سدید کا یہ بیان قابل غور ہے : ’’شاہ ولی اللہؒ نے دین اور دنیا ، مذہب اور سیاست میں کوئی حّدِ فاصل قائم کئے بغیر اجتہاد پر زور دیا ۔ شاہ صاحب کے اس عمل میں تخریب بالکل نہیں تھی اور تعمیر کا عنصر زیادہ تھا ۔ چنانچہ ان کے اثرات صرف ان کے عہد تک محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے حزب اللہ کا جو تصور پیش کیا تھا وہ ان کی اولاد کو منتقل ہو گیا اور برصغیر میں اخلاقی ، سیاسی اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ان کے لائحہ عمل کو ان کے فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز نے جاری رکھا۔ ‘‘ (21) شاہ عبدالعزیز نے اپنی زندگی علومِ اسلامی کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ ان کا مذہبی نقطۂ نظر بے حد کشادہ تھا ۔ اس زمانے کے لوگ مذہبی معاملات میں آپ کی رائے کو فوقیت دیتے تھے ۔ شاہ صاحب نے برصغیر میں مسلم قوم کے دوبارہ غلبے کے لیے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر ایک تحریک چلائی اور اپنے دور کے مسلمان حکمرانوں کو متحد ہو کر انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی۔ ان سب باتوں نے مل کر سیّد احمد شہید کی تحریک کے لیے راستہ ہموار کیا ۔ سید احمد بریلوی کی تربیت میں بھی شاہ عبدالعزیز کا بہت زیادہ حصہ تھا ۔ شیخ محمد اکرام کے مطابق ’’ انھوں نے بائیس سال کی عمر میں شاہ عبدالعزیز سے سلسلہ ء نقشبندی میں بیعت کی اور اس کے کچھ عرصہ بعد دہلی کی ان مبارک ہستیوں سے کوئی چار سال اخذِ فیض کر کے رائے بریلی واپس چلے گئے ۔ ‘‘ (22) ان دوسری مبارک ہستیوں میں شاہ عبدالعزیز کے بھائی شاہ عبدالقادر بھی شامل تھے جن سے سیّد احمد شہید بریلوی نے قرآن و حدیث اور فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی ۔ محققین کے مطابق سیّد احمدکی فطرت میں شروع ہی سے عسکریت غالب تھی ۔ فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد سیّد احمد نے ٹونک کے حکمران نواب امیر خان کی ملازمت اختیار کرلی ، جہاں انھوں نے لگ بھگ سات برس فنِ سپہ گری کی تحصیل و تکمیل میں صرف کئے۔ جب نواب نے انگریزوں کی بالادستی تسلیم کر لی تو انھوں نے ملازمت چھوڑ دی اور تمام ہندوستان بالخصوص بنگال کا دورہ کر کے اپنے حامی اور کارکن جمع کئے اور اپنی تحریکِ جہاد کا آغاز کیا ۔ جب سیّد احمد نے جہاد کا اعلان کیا تو ان کے ساتھ پانچ سو سپاہی تھے جنہیں لے کر وہ شمالی ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انھوں نے درۂ بولان کے راستے قندھار اور پھر کابل اور پشاور کا رخ کیا ۔ پشاور پہنچ کر پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے خلاف علمِ جہاد بلند کر دیا ۔ سیّد احمد شہید کا منصوبہ یہ تھا کہ شمالی ہندوستان میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اپنا مرکز قائم کیا جائے اور پھر طاقت پکڑ کر دہلی کی جانب پیش قدمی کی جائے لیکن ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ پشاور کا مقامی سردار یار محمدخان سکھ حکمران کے ساتھ مل گیا اور اس نے سید صاحب کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی ۔ (23) آخر کار سیّدصاحب نے بالاکوٹ کو اپنا مرکز بنایا لیکن کسی غدار نے بالا کوٹ میں داخلے کا خفیہ راستہ دکھانے میں سکھوں کی رہنمائی کی۔ بالاکوٹ میں سیّد صاحب کے دل شکستہ لشکر اور سکھوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں سیّد احمد ، شاہ اسمٰعیل اور بے شمار مسلمان مجاہدین شہید ہوئے ۔ بظاہر سیّد احمد کی تحریک ناکام ہو گئی لیکن اس نے جو چراغ مسلمانوں کے دلوں میں روشن کیا وہ مدتوں جگمگاتا رہا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے ایک طبقے کو انفرادی سطح سے بلند ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے غور و فکر کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ کیا ۔ شمالی ہندوستان میں سیّد احمد کی شہادت کے بعد بھی سکھوں اور اس کے بعدانگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا گیا۔ یہاں تک کہ جنگِ آزادی 1857 ء میں بھی اس تحریک سے وابستہ افراد نے انگریزوں کے خلاف حصہ لیا۔ اس تحریک کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان قوم نے حکمرانوں کی طرح دیکھنے کی بجائے اپنے طور پر جدوجہد کرنے کی عملی کوشش کی ۔ بنگال میں مولوی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک بھی اسی فکر سے متاثر تھی جسے سیّد احمد نے فروغ دیا۔ اسی طرح تیتو میر شہید نے بھی بنگال میں سیّد احمد کے زیر اثر اپنی تحریک چلائی ۔سیّد صاحب کی تعلیمات کا اثر دوسرے اہم افراد پر بھی ہوا اور مومن خان مومن جیسا شاعر بھی آپ کے افکار سے متاثر ہو کر آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گیا ۔ سر سیّد احمد خان اور نیا علم الکلام 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان کے مسلمان دل برداشتہ ہو چکے تھے اور ازحد مایوسی کا شکارتھے۔ جنگِ آزادی میں فتح پانے کے بعدانگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر انتقام کا نشانہ بنایا اور انھیں سیاسی ، سماجی اور معاشی سطحوں پر کچلنے کی منضبط کوششیں کیں ۔ ایسے کٹھن دور میں جب مسلمان ہر جانب سے محصور ہو چلے تھے ، سر سیّد احمد خان نے اپنے افکار اور کارناموں سے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ سر سید احمد خان اپنے عہد کی نمایاں ترین اور متنازعہ شخصیت تھے ۔ اگرایک طبقہ انھیں مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتا تھا تو دوسرا طبقہ انھیں سرے سے مسلمان کہنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہندوستان کی فکری تاریخ اور روایت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے سر سیّد احمد خان کے افکار اور ان کی علی گڑھ تحریک کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کہتے ہیں کہ : ’’مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے ، تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انھیں جو نئے مسائل پیش آ رہے تھے وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے ۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اوروہ اس سے بدکتے تھے ۔ اب تک ان کی ادبی زبان فارسی رہی تھی لیکن اس زبان کا مستقبل تاریک تھا اور اردو میں غزل گو شعراء کے دو اوین کے سوا کوئی قابل ِذکر لٹریچر نہ تھا ۔ نثر میں گنتی کی چند کتابیں تھیں اور ابھی اس میں علمی مسائل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں آئی تھی ۔ اردو شاعری بھی نقائص سے پر تھی اور قوم کی نشوونما میں کسی طرح کارآمد نہ ہو سکتی تھی ۔ قوم کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ ایک نئی زبان تیار ہو جو فارسی کی جگہ لے ۔ ایک نیا لٹریچر پیدا ہو جو شاندار ماضی اور موجودہ زبوں حالی کی تصویر قوم کے سامنے کھینچ کر رکھ دے ۔ شاعری اور شاعرانہ تنقید کے بالکل نئے اصول مرتب ہوں۔ ایک نئی نثر رائج ہو جو زورِ انشاء دکھانے کے لیے نہیں بلکہ عام روزمرّہ کے واقعات بیان کرنے کے لیے کام آئے ۔ علی گڑھ تحریک نے یہ سب کچھ کیا ۔ ‘‘ (24) لیکن علی گڑھ کی اس ناقابلِ فراموش دین کے ساتھ ساتھ سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں تضادات کی فراوانی ہے ۔ رسالہ اسباب بغاوتِ ہند میں انھوں نے بہادر شاہ ظفر اور مسلمان مجاہدین کی کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ ایک زمانے میں وہ ہندو مسلم اتحاد کے اس قدر حامی تھے کہ امتناع ِگائو کشی پر تیار ہو گئے تھے اور ہندو اور مسلمان کو ایک قوم تصور کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کے افکار میں پختگی اور تبدیلی آتی چلی گئی ۔ اگر سرسیّد احمد خان کی مذہبی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی ۔ سر سیّد نے مذہبی عقائد کی نئی تفسیر اور تعبیر کرنے کی سعی کی ۔ انھوں نے عقل کو بنیاد قرار دے کر قرآن کی عقلی توجیہات کی طرف توجہ کی ۔ عقلیت پر زور دینے کی وجہ سے انھیں بہت سے ایسے عقائد کا انکار کرنا پڑا جن کی عقلی توجیہہ ان سے ممکن نہ ہو سکی مثلاً روزِ قیامت ، ملائکہ اور جناّت وغیرہ ۔ ان کے علاوہ دوسرے عقائد پر ان کے خیالات کی بناء پر علماء ان کے خلاف کمربستہ ہو گئے ۔ تعلیمی سطح پر انھوں نے مسلمانوں کے لیے انگریزی زبان اور جدید مغربی علوم کو لازمی قرار دیا ۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے سوسائٹی بنائی اور علی گڑھ میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جو بعد میں کالج اور پھر یونیورسٹی کے درجے تک پہنچ گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک عہد ساز اردو رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے جاری کیا جس کامقصد مغربی علوم کو اردو میں منتقل کرنا اور مقامی لوگوں تک بالعموم اور مسلمانوں میں بالخصوص جدید علوم کی روشنی پہنچانا تھا۔ سرسید احمد خان نے اپنے دور کی مذہبی تعلیم اور دینی مدارس کے نصاب پر بھی شدید اعتراضات کیے۔ ’’میں نہایت ادب سے پوچھتا ہوں کہ جو کتبِ مذہبی اب تک ہمارے ہاں موجود ہیں ، اور پڑھنے پڑھانے میںآتی ہیں ان میں سے کون سی کتاب ہے جس میں فلسفہ ء مغربیہ اور علوم ِجدیدہ کے مسائل کی تردید یا تطبیق مسائلِ مذہب سے کی گئی ہے ۔ وجود سماوات سبع کی ابطال پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس کتاب میں لکھی ہے ۔ اثبات حرکتِ زمین اور ابطال حرکت و دوریٔ آفتاب پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس سے جا کر پوچھیں؟ عناصرِ اربعہ کا غلط ہونا جو اب ثابت ہو گیا ہے ، اس کا کیا علاج کریں ؟ پس ایسی حالت میں ان (مذہبی ) کتابوں کا نہ پڑھنا ان کے پڑھنے سے ہزار درجے بہتر ہے ۔ ‘‘ (25) موجودہ مذہبی فکر کو رد کرنے سے یہ لازم آیا کہ مذہبی عقائد کی نئی توجیہہ کی جائے ۔ چنانچہ سرسید نے قرآنی آیات کی سائنسی اور عقلی تاویلات تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے قرآن کو نیچر کے حوالے سے سمجھنے پر زور دیا جو اس وقت خاص طور پر انگلستان میں ایک غالب تحریک تھی ۔ اسی سبب سے ان کے مخالفین انہیں نیچری کہنے لگے ۔ اس دور میں جن علماء ، مفکرین اور ادباء نے سر سید کی فکر سے اتفاق کیا اور ان کی طرف دستِ تعاون دراز کیا یا اپنے طور پر ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کیں ، ان میں مولانا شبلی نعمانی ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا الطاف حسین حالی ، مولوی چراغ علی ، مولوی ذکاء اللہ اور محسن الملک خاص طور پر نمایا ں حیثیت کے حامل ہیں ۔ سر سید احمد کے بعد مذہبی فکر کو جس شخص نے اوروں سے زیادہ متاثر کیا وہ شبلی نعمانی تھے۔ وہ ابتداء میں سر سید کی فکر سے متاثر تھے لیکن بعد میں انھوں نے سر سید کی فکر سے کسی قدر انحراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو جدید مغربی علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دینی فکر سے بھی آگاہ ہونا چاہیے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے ندوہ میں ایک ایسے مدرسے کی بنیاد رکھی جہاں دینی علوم کے پہلو بہ پہلو جدید مغربی علوم بھی سکھائے جاتے تھے ۔ ا س ادارے سے فارغ التحصیل افراد ندوی کہلواتے تھے ۔ شبلی نے مسلمانوں کے تابندہ ماضی کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے ذہنوں پر پڑے ہوئے قنوطیت کے پردے کو چاک کرنے کے لیے عظیم مسلمان شخصیتوں پر عالمانہ کتابیں تحریر کیں ۔ ان میں سے حضرت عمر فاروق ؓاور مامون الرشید پر کتابیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ لیکن شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیبہ کی تدوین ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے علم الکلام کو بھی نئے سرے سے تازہ فلسفیانہ حوالوں سے مرتب کرنے کی کوشش کی ۔ غرض یہ کہ علی گڑھ تحریک نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقوش ثبت کئے ۔ اردو شاعر ی میں جدیدیت کے ابتدائی نقوش علی گڑھ ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوئے ، اگرچہ جدید اردو شاعری کی جنم بھومی لاہور کو سمجھا جاتا ہے ۔ نئے طرزِ بیان کے ساتھ تازہ موضوعات پر نظمیں پہلے پہل علی گڑھ میں یا علی گڑھ تحریک کے زیر اثر ہی تخلیق ہوئیں ۔ یہیں پر اردو کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی خفتہ صلاحیتوں کو جِلا ملی اور ان کی شخصیتوں کے نقوش واضح ہوئے ۔ اس تحریک کا مقصد قوم کو اس کی دینی و دنیوی زبوں حالی کا احساس دلا کر خوابِ غفلت سے بیدار کرنا بھی تھا جس میں اس تحریک نے ناقابلِ بیان کامیابی حاصل کی ۔ اقبال کے نسلی و آبائی میلانات اس سے پہلے جن تحریکات کا ذکر آیا وہ اجتماعی حافظے کا حصہ ہیں۔ یہاں انفرادی سطح پر اقبال کے نسلی و آبائی پس منظر کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ کسی فرد کی شخصیت مختلف عناصرِ ترکیبی سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ اس میں نسلی ورثہ اور ماحول بھی تقریبا برابر حصہ لیتے ہیں۔ والدین اور بزرگوں کی شخصیات اور گھریلو تربیت فرد پر زیادہ گہرے اور دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ نسلی وراثت اور ابتدائی ماحول انھی کی وساطت سے اولاد تک پہنچتا ہے۔ اقبال کے اجداد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے سپرو گھرانے سے تھا۔ اقبال نے محمد دین فوق کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے: "کشمیری پنڈتوں کی جو گوت سپرو ہے، اس کے اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا تھا ٗ عرض کرتا ہوں : جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمۂ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا اور وجوہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے۔ اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومتِ اسلامی کا اعتماد حاصل کیا ٗ وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ’’س‘‘ تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’پرو‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر پڑھنا کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو ازراہ ِتعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیمی رسوم و تعلقاتِ قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا ۔ رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیاہے۔"(26) ’’اقبال کے جدّ ِاعلیٰ’بابا لول حج‘ یا’لولی حاجی‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ کی قبر چرار شریف میں احاطہ مزار شیخ نور الدین ولی کے اندر ہے جہاں ان کے مرشد بابا نور الدین بھی مدفون ہیں۔‘‘ (27) اقبال کی رگوں میں برہمن خون تھا جس میں اعلی فلسفے اور مذہبی تعلیمات کو اپنے اندر سمونے کی بے پناہ سکت موجود تھی۔ بابا لول حج کے قبولِ اسلام کے بعد برہمن رگوں میں اسلام کی تعلیمات گردش کرنے لگیں اور اقبال کے اجداد نے اسلام کی رشد و ہدایت کا وظیفہ شروع کر دیا۔ جاوید اقبال نے سید نذیر نیازی کے حوالے سے علامہ کا یہ بیان نقل کیا ہے: ’’ہمارے والد کے دادا یا پردادا پیر تھے ٗ ان کا نام تھا شیخ اکبر ۔ انھیں پیری اس طرح ملی کہ سنکتھرا میں سادات کا ایک خاندان تھا جسے لوگ سید نہیں مانتے تھے اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی۔ اس خاندان کے ایک بزرگ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ پر بیٹھ گئے جس کے متعلق روایت تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ مخالفین نے یہ دیکھا تو انھیں یقین ہو گیا کہ فی الواقعہ سید ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور ان کے خاندان کی خدمت کرنے لگے۔ ایک مرتبہ اسی خاندان کا ایک فرد والد ماجد کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ دھسّوں کی تجارت کیوں نہیں کرتے؟ اس زمانے میں معمولی دھسّوں کی قیمت دو روپے فی دھسہ سے زیادہ نہیں تھی۔ والد ماجد نے کوئی دو چار سو دھسّے تیار کیے تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں پر بک گئے حالانکہ فی دھسّہ آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہیں آئی تھی۔ دو چار سو دھسّے فروخت ہو گئے تو کافی روپیہ جمع ہو گیا۔ پس یہ ابتدا تھی ہمارے دن پھرنے کی۔ پھر بھائی صاحب بھی ملازم ہو گئے۔‘‘ (28) اوپر کے اقتباس سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ روحانی فیض اقبال کی خاندانی میراث رہا اوریہ میراث اقبال کو بھی منتقل ہوئی۔ خود اقبال اللہ کے نیک بندوں سے جو محبت رکھتے تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ٗ جو یقیناً انہیں اپنے اجداد سے ودیعت ہوئی تھی۔ اقبال کے والد ماجد بھی اہل ِباطن میں شمار ہوتے تھے۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ان کے احوال میں رقم طراز ہیں: ’’شیخ نور محمد جو اپنے خاندان میں ’’میاں جی‘‘ اور عرفِ عام میں ’’نتھو‘‘ کہلاتے تھیٗ ایک صاحبِ دل درویش اور صوفی مشرب انسان تھے۔ لیکن اپنی پیری مریدی یا اپنے کمالاتِ باطنی کے اظہار سے محترز رہتے ہوئے دل بیارو دست بکار پر عمل پیرا رہے ۔۔۔ شیخ نور محمد اپنی ذاتی وجاہت ٗ متانت اور پاکیزگیٔ سیرت کی بنا پر شہر میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ علم و عرفان کا ذوق اور دینی جذبہ انہیں علماء و صلحا کی مجالس میں کشاں کشاں لے جاتا تھا اور وہ ان صحبتوں سے برابر استفادہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (29) اقبال نے اپنے والد کی صحبت سے بہت فیض حاصل کیا۔ وہ ہمیشہ ان کا ذکر احترام اور محبت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اقبال اپنی گفتگو کے دوران میں اکثر اپنے والد کے روحانی احوال بیان کرتے: ’’شیخ نور محمد سلسلۂ قادریہ میں ایک بزرگ سے بیعت تھے اور اقبال بھی کم عمری میں سلسلہ ٔ قادریہ سے وابستہ ہو چکے تھے۔‘‘ (30) اقبال کے ذہن پر ان کے نسلی اور آبائی میلانات کے اثرات ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے اور واضح ہو کر سامنے آتے ہیں اوران سے اقبال کے شعری رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی ایک نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادہ کے نام‘‘ ان کی ذاتی واردات معلوم ہوتی ہے ؎ میں اصل کا خاص سومناتی آبا مرے ، لاتی و مناتی تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد مری کفِ خاک ، برہمن زاد ہے فلسفہ ، میرے آب و گل میں پوشیدہ ہے ، ریشہ ہائے دل میں (کلیاتِ اقبال، ص۔530 ) اقبال کی پرورش ٗ تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں ان کے گھریلو ماحول کا بے پایاں اثر تھا۔ سید نذیر نیازی نے ’’دانائے راز‘‘ میں میر حسن کی زبانی ان کے والد شیخ نور محمد کو ان پڑھ فلسفی قرار دیا ہے(31) ۔ اقبال کے اپنے بیان کے مطابق ابنِ عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ ان کے گھر میں باقاعدگی سے پڑھی جاتی تھیں۔ اقبال اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کہتے ہیں کہ میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے تعلیم دلوائیں۔ انھوں نے اول تو مجھے محلے کی مسجد میں بٹھا دیااور پھر شاہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔(32) مسجد میں عمر شاہ درس دیتے تھے۔ بعد میں انھیں غلام حسن کے مدرسے میں داخل کروایا گیا جہاں سے میر حسن نے انھیں دیکھا اور اپنی شاگردی میں لے لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد ٗ اقبال کی سیرت اور کردار کو شروع ہی سے اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر میں رہتے تھے۔ ایک واقعہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کی سرزنش اس بات پر کی کہ اس نے سائل کو چھڑی سے ضرب کیوں پہنچائی ہے کیونکہ یہ رسول اکرم ؐ کے اسوۂ حسنہ کی خلاف ورزی ہے۔ اقبال کو ایک بار ان کے والد قرآن مجید پڑھتے دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’قرآن مجید اسی کی سمجھ میں آتا ہے جس پر اس کا نزول ہو ۔۔۔۔۔ اس کی تلاوت اس طرح کیا کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔‘‘ (33) اقبال کا یہ شعر اسی رہنمائی کا حاصل معلوم ہوتا ہے ؎ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف (کلیاتِ اقبال ، ص ۔402 ) سحر خیزی کی عادت جو ساری عمر اقبال کے ساتھ رہی، اقبال کے گھریلو ماحول کی وجہ سے ہی ان کی طبیعت اور مزاج میں راسخ ہوئی۔ شیخ نور محمد ایک بار اقبال کو ان کے لاہور جانے سے پہلے اوان شریف لے کر گئے تھے اور گمان کیا جاتا ہے کہ اسی سفر کے دوران اقبال کو قاضی سلطان محمود کی خدمت میں پیش کرکے ان سے بیعت کروایا گیا۔ قاضی سلطان محمود سلسلہء قادریہ کے بزرگ تھے۔(34) اقبال کی نظر میں ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ ِحقیقت ایک طرف تھی۔ (35) سید میر حسن مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک روشن خیال بزرگ تھے۔ انھی کے مشورے پر اقبال کو سکاچ مشن ہائی سکول میں داخل کروایا گیا تھا۔ وہ خود بھی وہیں تعلیم دیتے تھے۔ والدہ کی محبت نے بھی اقبال میں ترقی کی خواہش بیدار رکھی۔ ماں کی خصوصی شفقت اور تربیت کے حوالے سے اقبال نے اپنی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ بہت موثر انداز میں کہی ہے ؎ تربیت سے تیری ، میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا O دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 257 ) والدہ کی وفات پر مہارا جہ سرکشن پرشاد کو ایک خط میں جو صحیفہ کے شمارہ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں شائع بھی ہوا ٗ اقبال نے لکھا تھا کہ ’’میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔‘‘ (36) خاندانی طور پر تصوف اور دینی علوم سے دلچسپی کے سبب ہی جب اقبال 1905 ء میں یورپ کے لیے روانہ ہوئے تو اس سے پہلے دلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی درگاہ پر حاضری دی اور ان کے مزارِ مبارک پر دلی جذبات سے بھر پور اور مقصدِ سفر پر مبنی ایک اثر آفریں نظم بھی پڑھی۔ (37) اقبال اور ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی عمروں میں اٹھارہ برس کا فرق تھا۔ انھیں اقبال سے بے پناہ محبت تھی اور وہ ان کی تعلیم کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہے۔ نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ایک شعر انھی کے حوالے سے تخلیق ہوا ہے ؎ کاروبارِ زندگانی میں و ہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا (کلّیاتِ اقبال، ص۔258 ) انھی کی ملازمت اور انجینئرنگ کی تعلیم سے اقبال کے خاندان کے مالی حالات بہتر ہوئے۔ اقبال کی تعلیم کے اخراجات کا زیادہ تر بار انھیں نے اٹھایا۔ ’’اقبالِ کامل‘‘ میں عبدالسلام ندوی نے ایک لطیفہ درج کیا ہے جس میں اقبال کی زبانی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ ان کے قیامِ انگلستان اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات زیادہ تر شیخ عطا محمد ہی نے برداشت کیے تھے۔ اقبال نے بھی ساری عمر ان کا ذکر محبت سے کیا اور ان کے احسانات کو یاد کرتے تھے۔ ان کے کلام میں بڑے بھائی کے لیے دعائیہ اشعار ملتے ہیں۔ ان واقعات اور شواہد سے واضح ہے کہ اگر اقبال کے خاندانی حالات ان کی شخصیت کو صحیح رخ پر تعمیر کرنے کے لیے سازگار نہ ہوتے تو وہ اقبال ہر گز نہ بنتے۔ اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں اقبال کا دورانِ تعلیم چودہ پندرہ برس کے لگ بھگ نکلتا ہے۔ یہاں پر انھوں نے علم و حکمت ٗ کلام و الہٰیات ٗ تفسیر و حدیث اور فقہ و تصوف میں درک حاصل کیا اور اس تہذیب و تمدن کے عروج کا بھی جائزہ لیا جو پوری دنیا پر اپنا تسلط جما چکی تھی۔ اس دور میں اقبال انگریزی ادب کا مطالعہ بھی ذوق و شوق سے کرنے لگے تھے جس کا ثبوت شکسپیئر کے ڈرامے کنگ رچرڈ کے متن پرا ن کے تحریر کردہ حواشی سے ملتا ہے۔ (38) انھوں نے اسی دور میں اپنا تخلص اقبال بھی نام کے علاوہ رقم کرنا شروع کر دیا تھا۔’زبان‘ـ دہلی کے شمارہ نومبر1892 ء میں ان کی شائع شدہ غزل اس امر کی غماز ہے کہ وہ سکول کے زمانے سے شعر کہنے لگے تھے۔ ان کی ایک اور غزل اسی رسالے کے فروری 1894 ء کے شمارے میں چھپی۔ (39) یہ غزلیں داغ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں اور ان میں کلاسیکی رومانویت پائی جاتی ہے۔ الفاظ کے درو بست پرا ن کی نظرہے اور محسوس ہوتا ہے کہ انھیں شعر کہنے کا سلیقہ ہے۔ سیالکوٹ کے زمانۂ تعلیم میں ان کے ذہن کی تشکیل اس صورت میں ہوئی کہ خیالات میں وسعت اور جامعیت آئی اور حقائق اور مسائل کے شعور اور ان پر خلوصِ نیت سے غورو فکر کی صلاحیت کو جلا ملی۔ عربی زبان پر عبور کی بنیاد بھی یہیں پر پڑی۔ اس زبان کا ان کی شاعری پر گہرا اثر ہے۔ اس کی بلاغت اور فارسی کا حسنِ بیان اور لطافت اقبال کے لیے سیالکوٹ کی دین ہے۔ یہ دور ایک روشن مستقبل کا آغاز اور اس کی اساس تھا۔ حواشی و حوالہ جات 1۔ (ڈاکٹر )وزیر آغا: اردو شاعری کا مزاج، جدید ناشرین ٗ لاہور ٗ 1965 ء ٗ ص۔ 58 ۔ 2۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی: قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت ٗ فیمس بکس ٗ لاہور ٗ 1989 ئ، ص ۔53 ٗ 54 ۔ 3۔ (ڈاکٹر )انور سدید : اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقّیء اردو پاکستان ٗ کراچی، 1985ء ٗ ص ۔146 ۔ 4. Will Durant: The Story of Civilization. (Vol: I) Our Oriental Heritage, Simon and Schuster, New York, 1954, P.402. 5۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی:کتاب مذکور ٗ ص۔72 ,71 ۔ 6. G.T Garret.; Legacy of India, Oxford, 1938,p.97. 7۔ (ڈاکٹر )انور سدید : کتاب مذکور۔ص ۔148 ۔ 8۔ ایضاً : ص۔150 ۔ 9۔ ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی:کتاب مذکور ٗ ص۔ 148 ۔ 10۔ (ڈاکٹر )وزیر آغا : کتاب مذکور ٗ ص ۔77 ۔ 11. Wil l Durant: op cit, p.431. 12. (Dr). Radha Krishnan: The Vedanta, London, 1928, p.36. 13۔ (ڈاکٹر )انور سدید: کتاب مذکور ٗ ص۔151 ۔ 14۔ ( رائے) شیوموہن لعل ماتھر : قدیم ہندی فلسفہ ٗ ترقئی اردو بیوروٗ نئی دہلی، 1980 ء ، ص۔203 ۔ 15. Will Durant: op cit., p. 547. 16۔ )ڈاکٹر (انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 158 ۔ 17۔ ( سید) سلیمان ندوی: نقوشِ سلیمانی ٗ دارالمصنفین ٗ اعظم گڑھ ٗ 1939 ئ، ص ۔26 ۔ 18۔ )ڈاکٹر (انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 177 ۔ 19۔ )سید (علی عباس جلالپوری : روحِ عصر ٗ کتاب نماٗ راولپنڈی ٗ 1989 ء ،ص۔107 ۔ 21۔ (ڈاکٹر)انور سدید : کتاب مذکور ٗ ص۔ 282 ۔ 22۔ ) شیخ( محمد اکرام: ٗ موج ِکوثر ٗ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ٗ لاہور ٗ 1982 ء ٗ ص۔ 15 ۔ 23۔ ایضاً: ص۔ 26 ۔ 24۔ ایضاً: ص۔ 77 ۔ 25۔ سرسید احمد خان : مقالاتِ سرسید ٗ جلد اول ٗ مجلس ترقیٔ ادب ٗ لاہور ٗ1963 ء ، ص۔ 97 ۔ 26۔ اقبال: کلّیاتِ مکاتیب ِاقبال (جلد سوم ) مرتبہ سید مظفر حسین برنی ، اردو اکادمی ، دہلی ، 1993، ص ۔ 451 ۔ 27۔ (ڈاکٹر )جاوید اقبال: زندہ رود، حیاتِ اقبال کا تشکیلی دور ٗ شیخ غلام علی اینڈ سنز ٗ لاہور ٗ 1985ء ٗ ص۔9 ۔ 28۔ ایضاً: ص۔9 ۔ 29۔ (ڈاکٹر )افتخار احمد صدیقی : عروجِ اقبال ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1987 ء ٗ ص۔11 ٗ 12 ۔ 30۔ ایضاً: ص۔ 13 ۔ 31۔ ( سید )نذیر نیازی:دانائے راز، اقبال اکادمی ٗ لاہور ٗ 1988 ء ،ص۔16 ۔ 32۔ ( سید) نذیر نیازی: اقبال کے حضور ،اقبال اکادمی ٗ لاہور ٗ 1981 ء ٗ ص۔ 94 ۔ 33۔ ایضاً: ص۔20 ٗ21 ۔ 34۔ ( سید) نذیر نیازی : کتاب مذکور، ص ۔19 ۔ 35۔ اقبال: مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی مشمولہ اقبال نامہ(حصّہ اوّل) مرتبہ شیخ عطااللہ، شیخ محمد اشرف، لاہور، ص۔ 35 ۔ 36۔ (علامہ)اقبال: اقبال بنام شاد،مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1986 ء ٗ ص۔ 109 ۔ 37۔ عبدالسلام ندوی : اقبالِ کامل، مطبع معارف ٗ اعظم گڑھ ٗ 1948 ء ٗ ص ۔10 ۔ 38۔ خالد نظیر صوفی : اقبال دردنِ خانہ، بزم ِاقبال، لاہور ٗ 1983 ء ،ص۔ 106 ۔ 39۔ (ڈاکٹر) جاوید اقبال : کتاب مذکور ٗ ص۔69 ٗ 70 ۔ ٭٭٭ باب سوم: حصّہ اوّل جدیدیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء جدیدیت کا ذکرآئے تو اس طرح کے الفاظ ذہن میں گونجنے لگتے ہیں جن میں سے اکثرکامادہ ایک ہے۔ ان الفاظ میں جدّت، ندرت، جدید، حالیہ، تجدّد، تجدید شامل ہیں۔ ان تمام الفاظ کے مفاہیم اور معانی جدیدیت کی تعریف کا حصہ ہیں یعنی جدید زمانے کی خصوصیات کے حامل افکار، معائیر، اصول، خیالات اور ان کے مطابق عمل جدیدیت یا جدّت پسندی کہلائے گا۔ (1)جدیدیت کے مترادفات اور مشتقّات کے متضاد لفظ قدامت ہے چنانچہ جدّت پسندی، قدامت پسندی کی ضد ٹھہرے گی۔ یوں تقلید، قدامت پسندی اور ماضی پرستی سے گریز جدیدیت کی تعریف میں شامل ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائیں تو جدیدیت عقلی، علمی اور منطقی طورپر دنیا کو رجائیت اور ایقان کے ساتھ خوش انجامی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھنے اور اس کے لیے تگ و دو کا نام ہے۔ جدیدیت میں اس امر کو ایک مطلق آفاقی اصول گردانا جاتا ہے کہ انسان کے لیے عقل اور منطق کے ذریعے ہی حقائق کا ادراک اور معاشرے کی ترقی ممکن ہے۔ جدیدیت کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ انسان مشین ہے۔ ہم بطورانسان خالص طبیعی دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا میں وہی کچھ ہے جس کا فہم، ادراک یا احساس ہمیں اپنی حسیات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی لیے جدید ادب میں جدیدحسیات کا ذکراذکارہوتا رہتاہے۔ جدّت پسندوں کے نزدیک تاریخ اور وقت آگے کی جانب سفر کرتے رہتے ہیں اور تاریخ ثقافتی اور نظریاتی زاویے سے واقعات کا بیان ہے۔ ایک پہلو سے جدیدیت فکری سطح پر مادی حقیقت کے سحر سے نکل کر تجریدی سچ کی تلاش کا عمل بھی ہے لیکن اس طرح کہ سچ تک پہنچا تو علمی ذرائع سے جاتا ہے لیکن اس کا اظہار تجریدی طورپر کیاجاسکتا ہے۔ نئی روشنی کے خیرمقدم یا روشن خیالی کے حوالے سے جدیدیت، ثقافت کو اعلیٰ اور ادنیٰ ثقافتوں میں تقسیم کرتی ہے اور صرف اعلیٰ ثقافتوں کو ہی مطالعے یا تجزیے کے لائق گردانتی ہے۔ ایک جدید معاشرے میں جدیدانسان اپنے ارادے اور منزل کے تعین میں آزاد ہوتا ہے۔ جدید ثقافت کی ہمہ گیریت، کثرتِ پیداوار بمقابلہ صارفیت اور منڈی کا پھیلائو کسی بھی جدید معیشت کا مطمحٔ نظر ہوتا ہے۔اس رخ سے مادیت پسندی بھی جدیدیت پسندی میں داخل ہوتی ہے۔جدیدحسیت اور معاشی نظریات اپنی علامتیں، اشارے، کنائے، رمزیں اور تلازمات اپنے ساتھ لاتی ہے جو جدیدیت کی تحریک کے پیروکاروں کی تحریروں میں اپنے معانی کی جولانیاںدکھانے لگتے ہیں۔ نئے لکھنے والے یا دوسرے فنکار محض ادیب یا فن کار نہیں ہوتے کہ ثقافتی رجحانات اور تاثرات کو مجرد طورپر محفوظ کرتے جائیں بلکہ وہ انھیں تخلیقی سطح پر برت کر تجریدی اور علامتی اظہار کے منفرد پیکر تراشتے ہیں۔ اس رجحان میں سرمایہ دارانہ نظام کا ابطال بھی مادیت پسندی کے باجود شامل ہوجاتا ہے کیونکہ سرمایہ داری سرمایہ داروں کا طبقہ پیدا کرتی ہے جبکہ جدیدیت ارادے اور نیت کی پختگی کے ساتھ درمیانے طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ اسی خاص حدودوقیود کے واضح احساس کے ساتھ معیشت، معاشرت اور ثقافت کو ایک اکائی کے طورپر منعکس کرتے ہیں۔ ان جدت پسندوں میں سے ہر کوئی تو نہیں مگر کوئی کوئی اچھے برے کے درمیان تفریق کے قابل ہوتا ہے۔ متن کی تشریح و تفسیرکوبھی جدیدادب میں اہمیت حاصل ہے۔ ادبِ عالیہ کے متن کے بین السّطور اس کے حتمی معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لفظ کتاب سے ہے اور کتاب کتب خانے کی وجہ سے ادب کا منبع ہے۔ طبع شدہ علم کی ترویج و اشاعت کتب خانوں کی مرہونِ منت ہے۔ جدیدیت کے بہت سے نکات، افکار اور معائیرمیں نوجدیدیت اور پسِ جدیدیت کے علمبردار وں نے بہت سی ترامیم اور اضافے کیے ہیں لیکن اکثردانشورانھیں ایک تحریک کے دو رخ سمجھتے ہیں تاہم یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ علم کی ترویج اب محض چھپے ہوئے لفظ کی محتاج نہیں رہی۔ جیسے انٹرنیٹ پر بلامعاوضہ دستیاب وکی پیڈیا کے مطابق جدیدیت کی اصطلاح یکے بعد دیگرے ابھرنے والی ان تمام ثقافتی تحریکوں کا احاطہ کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں انیسویں صدی کے آخری عشروں اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں معاشرتی تبدیلیوں اور اتارچڑھائو کی عکاس ہیں۔ ان میں فنِ تعمیر، موسیقی، ادب اورفنونِ لطیفہ میں ظاہرہونے والی تبدیلیاں شامل ہیں۔(2) تاریخی اعتبار سے جدیدیت کی اصطلاح کا استعمال عیسائیت کے زاویے سے شروع ہواتھا اور یہ تحریک مذہبی حوالے سے تقلید پسندی، کٹڑپن، روایت پرستی، ضعیف الاعتقادی اور دقیانوسیت کا ردّ ِ عمل تھی۔ اس صورتِ حال کوزیادہ کلی اور معروضی طورپر یوں بیان کیاجاسکتا ہے: "Embracing change and present, modernism encompasses the works of thinkers who rebelled against nineteenth century academic and historicist traditions, believing the traditional forms of art, architecture, literature, religion, faith, social organization and daily life were becoming outdated; they confronted the new economic, social and political conditions of an emerging fully industrialized world."(3) جدیدیت، الٰہیات اور مذہب کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں معتزلہ عالموں کے ظہور اور اسلامی تعلیمات کی تعلیمی توجہیات کے رجحان سے مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس تحریک کے تحت بھی کیتھولک عقائد کو جدید علوم اور افکار میں برپا ہونے والے انقلاب اور یورپ کی نشاۃ ِثانیہ سے آنے والی تبدیلیوں کی روشنی میں پرکھاجاتا ہے۔ تاہم ہماری توجہ جدیدیت کے ادبی پہلو اور اس کے ادب پر اثرات کی نشاندہی پر ہے۔ اس کی جامع تعریف کچھ یوں ہے: "It is a trend of thought that affirms the power of human beings to create, improve and reshape their environment with the aid of scientific knowledge, technololgy or practical experimentation." (4) یہی وجہ ہے کہ جدیدیت نے تجارت سے لے کر فکری سطح تک ان معاملاتِ دنیا کا ہر زاویے سے ازسرِ نو جائزہ لیا ہے جو ترقی کا راستہ روکتے ہیں اور ایسے رجحانات اور عوامل کے مقابلے میں ارتقا کی خصوصیت کے حامل متبادل عوامل اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جدیدیت کے باقاعدہ آغاز سے ذرا پہلے انیسویں صدی کے نصف اول میں بپاہونے والی جنگوں اور انقلابات نے ان رجحانات کو جنم دیا جسے بعد ازاں رومانویت کی اصطلاح سے پہچاناگیا۔ اس تحریک کے نمایاں نکات انفرادی تجربے کے موضوعات، تخلیقی مواقع، فطرت کی فوقیت، اظہار کے انقلابی یا غیرمقلدانہ اسالیب اور فرد کی آزادی تھے۔ 1848 ء کے رومانوی انقلاب کی ناکامی نے اثباتیت (Positivism) کے نظریے کو فروغ دیااور ان مختلف نظریات کے امتزاج نے اس خیال سے تقویت پائی کہ حقیقت موضوعی اظہار پر غالب رہتی ہے۔ یہی مشترکہ مفروضے، حوالے، مسیحی اخلاقیات اور کلاسیکی طبقات کے نظریے کاامتزاج ،فلسفے میں عقلی، مادی اور اثباتی تحریکوں کی نشوونما کا موجب بنے جو نظام اور استدلال پر زور دیتے تھے۔ ثقافتی تنقید نگار اِن افکار کے مجموعے کو حقیقت پسندی (Realism) سیتعبیرکرتے ہیں۔ عقلیت پسندی(Rationalism) نے فلسفے میں اپنے مخالفوں کو بھی ردِّعمل پر مجبور کیا۔جیسے ہیگل کے تاریخ کے جدلیاتی تجزیے کے مقابلے میں فریڈرک نطشے اور کرکے گار اٹھ کھڑے ہوئے جن کے فلسفے پر وجودیت (Existantialism) کی عمارت استوار ہوئی۔ 1870ء کے بعد ترقی کے پہیے کو تیزترکرنے کی کوششوں کواس لیے تنقید کا نشانہ بناگیاکہ ترقی ایسے افراد پیدا کرے گی جو معاشرتی آداب سے انجان ہوتے جائیں گے اوروہ اپنے جیسے انسانوں سے دور ہوتے جائیں گے۔ فن کار اور معاشرے کے اخلاق میں نہ صرف یہ کہ تفریق پائی جاتی ہے بلکہ معاشرہ خود ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اس سے اثباتیت کے فلسفے پر زد پڑی اور شوپنہار کے فلسفے پر قنوطیت کی چھاپ لگادی گئی۔ کیونکہ اس نے انسانی انا کی تکذیب کی تھی حالانکہ اسے کسی حدتک بعد کے آنے والے مفکروں نے قبول کیاتھا اور کچھ کچھ مسترد کیاتھا۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقاء (Evolution) اور روحانیت(Spiritualism) کے اختلافات اور کارل مارکس کی طرف سے سرمایہ داری نظام کے اپنے تضادات سے پیداہونے والے معاشی مسائل کی نشاندہی بھی مل کر جدیدیت کے ارتقاء کا ایک اہم موڑ کہلاتی ہیں۔فن میں زیادہ اور ادب میں کم کم تاثریت پسندی (Impressionism) کے اثرات بھی اسی زمانے میں دیکھے گئے۔ ادب کے لیے اس اصطلاح کو مبہم بھی سمجھاگیا تاہم جس طرح تاثرپسندمصور اشیاء اور مناظر کو بعینہٖ منعکس نہیں کرتے تھے اور کیفیات کی تصویرکشی سے تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے اسی طرح ادب میں بھی براہِ راست اظہار سے گریزکرتے ہوئے علامت کے سہارے تاثر کو الفاظ کے ذریعے قاری تک پہنچانے کو تاثریت پسندادب کہاگیا۔ ادبی تنقید میں بھی گہرے تجزیاتی مطالعے کی بجائے نقاد اگر ادبی فن پارے کے بارے میں محض اپنا تاثر بیان کرتا تو اسے تاثراتی تنقیدکہاجاتا۔ علامت پسندی(Symbolism) اس خیال کی آبیاری کرتی تھی کہ زبان اپنی فطرت میں علامتی ہوتی ہے اور اسی سے حب الوطنی کا اظہارہوتا ہے اورخاص طورپر شاعری کو محض آواز اور اس کی بنت سے پیدا ہونے والے تاثر پر مرتکز رہناچاہیے۔ ایسی علامت پسندی کو حقیقت پسندی کا ردِ عمل بھی قراردیاجاتا ہے۔(5) اس زمانے کے سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کی مدد سے معاشرے میں صنعتوں کے فروغ سے حیران کن تبدیلی آرہی تھی۔ فنون، انجینئرنگ اور صنعتی مواد کی روزافزوں پیداوار سے عمارتوں، سڑکوں، ریلوں اور ریل کی پٹڑیوں سے شہری زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔ پندرھویں اور سولھویں صدی کی احیائے علوم کی تحریک کے نتیجے میں متشکل ہونے والی نشاۃ ِثانیہ کہیں دور رہ گئی تھی اور بے تار برقی پیغامات کی ترسیل سے دوریاں سمٹ گئی تھیں اور وقت کا تصور بدل رہاتھا۔ یہ صنعتی شہری ثقافت اپنے مسائل بھی لے کرآئی تھی۔ جدیدیت کے فلسفے کی پرداخت کے اس مرحلے پر ولیم ایورڈیل(William Everdell) نے زوردیاتھا کہ جدیدیت کی تحریک رچرڈ ڈیڈ یکائنڈ (Richard Dedekind) کی1872ء کی اعدادی تقسیم اور بولٹزمان(Boltzmann) کے 1874ء کی شماریاتی حرکیت (Statistical Thermodynamics)سے شروع ہوئی تھی لیکن کلیمنٹ گرین برگ (Clement Greenberg)نے کہا: "What can be safely called modernism, emerged in the middle of the last century and rather locally, in France, with Boudelaire in literature and Manet in painting, and perhaps with Flaubert in prose fiction."(6) وہیں پر پہلے پہل جدیدیت(Modernism) کو"avant-grade" کہاگیا اور اس کے بعد یہی اصطلاح اس تحریک کے لیے استعمال ہونے لگی جس نے اپنے آپ کو روایت پرستی اور معاشرے کو علیٰ حالہٖ (Status-Co) برقرار رکھنے کے خلاف جدوجہد کو اپنا شعار بنایا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے تک جدیدیت نئے عوامل اور طریقوں کی روشنی میں پرانے علوم اور خیالات پر نظرثانی کی بجائے انھیں یکسر مسترد کرنے کا وطیرہ اپنا چکی تھی۔ اس کی دلیل یہ دی گئی کہ حقیقت کی نوعیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور انسان کے راستے میں حائل رکاوٹیں دورہوتی جارہی ہیں تو ادب اور فن کو اس زمانے کے ساتھ بدلناچاہیے جس میں صنعت و حرفت اور نظریۂ اضافیت کا ہر طرف چرچا ہے۔ اس پس منظر میں سگمنڈفرائڈ (Sigmund Freud) اور ارنسٹ میچ(Ernst Mach) کے فکرانگیز نظریے نے جدیدیت کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کے خیال میں ذہن کا اپنا الگ وجود یا ساخت ہوتی ہے۔ موضوعی تجربے کا انحصارذہنی ڈھانچے کے مختلف حصوں کے اشتراکِ عمل پر ہوتا ہے۔ موضوعی حقیقت فرائڈ کی نظر میں انسان کے طبعی میلان اور بنیادی جبلتوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے انسان کو ظاہری اور خارجی دنیا کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ میچ نے اسی حوالے سے اثباتیت (Positivism) کا معروف نظریہ مرتب کیا جس کے مطابق فطری طورپر اشیاء کے باہمی تعلق کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انھیں بس ذہنی مشق کے ذریعے جاناجاسکتا ہے۔ اس طرزِ فکر نے ماضی سے مغائرت کو فروغ دیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سمجھاجاتا تھا کہ خارجی اور مطلق حقیقت کسی فرد کو متاثرکرنے اور خود اپنا آپ اس پر واضح کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ فرائڈ نے ایسی موضوعاتی حالتوں کا ذکرکیاتھا جس میں لاشعور ملوث ہوتا ہے۔ وہ لاشعور جس میں بنیادی اضطراری حرکتیں اور انھیں متوازن رکھنے کے لیے خود عائد کردہ بندشیں کارفرمارہتی ہیں۔ کارل ژونگ (Carl Jung) نے اسی خیال کو اجتماعی لاشعور کے فطرتی جوہر کے ساتھ آمیز کیاتھا۔ اجتماعی لاشعور، تمثیلوں اور علامتوں سے بھرپور ہوتا ہے اور وہ انھیں مسلسل قبول کرتا رہتا ہے یا ان سے نبردآزمارہتا ہے۔کارل ژونگ کے نظریے سے کہاجاسکتا ہے کہ سماجی حدودوقیود اور رسوم و رواج کے خلاف لوگوں کا باغیانہ رویّہ انسان کی ناسمجھی یا جہالت کے باعث پیدانہیں ہوتا بلکہ یہ رجحان انسان کی خصلت ہے۔ اس خیال کا کچھ واسطہ ڈارون(Darwin) کے نظریۂ ارتقاء بلکہ انسان کو حیوان قرار دینے سے بھی ہے جو پہلے ہی سے متعارف ہوچکاتھا۔ رومانیت سے ماخوذ ان خیالات کی آویزش اور نامعلوم کے بارے میں جاننے کی خواہش کی ابتدائی لہر ادباء اور شعراء کی تحریروں میں منعکس ہوئی تو شروع شروع میں انھوں نے اپنی تخلیقات کو پہلے سے رائج رجحانات کی توسیع سمجھا۔ بعدازاں جب انھیں اپنے ہی کلام اور تصویروں میں جدّت کا احساس ہوا تو بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انھوں نے مختلف اصناف اور فنی اسالیب کی مختلف طریقے سے توضیح کی کوشش شروع کی۔ پہلی جنگِ عظیم برپاہونے سے پہلے ہی سماجی ڈھانچے میں توڑپھوڑکاآغاز ہوچکاتھا۔ انقلاب کی علمبردار سیاسی جماعتوں کااجتماعی رویہ اور پرانی اقدار کی شکست و ریخت اظہار کے ہرذریعے اوراسلوب میں راہ پاچکی تھی اور اس رجحان نے پرانے رواجوں کو مسترد کردیا تھا یا انھیں تبدیل کرکے قابلِ قبول بنالیاتھا۔ اسی رو میں آئن سٹائن(Einstein) نے 1913 ء میں اپنے عمومی نظریۂ اضافیت پر مقالہ پیش کیا اور نیلزبوہر(Neils Bohr) کے Quantized Atom ، ایڈمنڈھسرل(Edmund Hussrel) کے خیالات(Ideas) اور ایذراپائونڈ (Ezra Pound) کی علامت نگاری سے دنیائے علم و ادب متعارف ہوئی۔ اس پیش رفت نے جدیدیت کو نئے معانی، مفاہیم اور جہات سے آشنا کیا۔ ادب میں جدیدیت نے تخریب اور بگاڑ کو اپنالیااور ادب میں سیدھی سادھی حقیقت نگاری کو یا تو مسترد کردیا یا اس سے آگے بڑھ گئی۔ انیسویں صدی کے تخلیق کاروں کے برعکس جو ارتقاء پر یقین رکھتے تھے، چارلس ڈکنز (Charles Dickens)اور لیوطالسطائی(Leo Tolstoy) جیسے ادیب نہ ہی اتنے انقلاب پسند اور نہ ہی اتنے لاابالی تھے جتنا ان کے بعد آنے والی نسل کے ادیب تھے۔ ان کا شمار معاشرے کے ذمہ دار اور معزز افراد میں ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ بعض اوقات معاشرے کے بعض ناپسندیدہ پہلوئوں پر تنقید بھی کیاکرتے تھے تاہم انھوں نے ماحول کو اپنی تحریروں سے مالا مال بھی کیا۔ جدیدیت ان کے عہدمیں بھی ترقی کی پرچارک رہی اور روایتی اسالیب، اصناف اور سماجی ڈھانچے کو ترقی کے راستے کی رکاوٹیں گردانتی رہی۔ اس لیے ایسے ادیبوں کو بہرحال انقلابی ہی شمارکیاجاتا رہا جو افکار وخیالات کو اپنی تحریروں سے تبدیل کرنے کی بجائے پرانے سماجی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے پریقین رکھتے تھے۔ مستقبلیات(Futurism) کی تحریک یا نظریہ بھی اس کے منشور میں شامل نکات کے مطابق لوگوں کو اکسانے اور اپنا پیروکار بنانے کے لیے تھا تاکہ وہ بھی انتشاراور شکست و ریخت کے عمل میں شامل ہوجائیں۔ برگساں(Bergson) اور نطشے(Nietzshe) کے افکارسے متاثر مستقبلیات کی تحریک بھی جدت پسندوں کی خلل انگیزی اور توڑپھوڑ کا عقلی اور فکری جواز تلاش کرتی تھی۔ داداازم(Dadaism) میں ماورائے حقیقت پسندی (Surrealism) کی تحریکیں یا رجحانات بھی جدیدیت ہی کا شاخسانہ تھیں۔ منطقی طورپر بہت سے جدّت پسند اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ روایت سے انحراف کرکے ہی ادب اور فن اظہارکے نئے راستے تراشنے کے قابل ہوسکتا ہے لیکن جدیدیت کے ناقدین جدیدیت یا نو جدیدیت کو پاگل پن سے تعبیرکرتے ہیں اور اسے روح سے خالی اور میکانکی کہتے ہیں۔ روایت شکنی جدیدیت کی تحریک کا سب سے متنازعہ پہلو ہے۔ جدیدیت کے پیروکار اظہار رائے کی آزادی ، تجربیت اور انقلابیت پر زور دیتے ہیں۔ ادب میں اس کا مطلب ناولوں میں قابلِ فہم کردارنگاری اور داستان نویسی سے احتراز ہے۔ شاعری میں بھی براہ ِراست اور دو ٹوک اظہار کی بجائے مشکل اور ابلاغ کے ناقابل اسلوبِ بیان جدیدیت کی ہی دین ہے۔روس کی اشتراکی حکومت نے جدیدیت کو اس لیے مسترد کیا کہ اس کی نوعیت اشرافیائی ہے اگرچہ اس سے پہلے وہ مستقبلیات اور تغیریت کے رجحان کی توثیق کرچکی تھی۔ نازی حکومت نے جدیدیت کونرگسیت کے مترادف اور مہمل قراردیاتھا بلکہ وہ تو اسے یہودانہ اور نیگروسمجھتی تھی۔ دراصل جدیدیت کو عام طورپر صارفانہ اور سرمایہ دارانہ معاشروں میں پنپنے کا موقع زیادہ ملا حالانکہ اس نے صارفیت کو درخورِاعتنا کبھی نہیں جاناتھا۔ ردِّجدیدیت کی تحریکیں انھیں وجوہات کی بناپر کلیّت(Holism) پرزوردیتی ہیں۔ اس نظریے سے مراد ہے کہ وجود کی شناخت اور تشخص اس کے کل اور اجزاء سے ماوراء بھی ہے۔ اس خیال کا علاقہ روحانیت سے ہے جسے جدیدیت کے مرض کے علاج کے طورپر متعارف کروایاگیا ہے۔ ایسی تحریکیں جدیدیت میں سے تخفیفی عنصرتلاش کرتی ہیں جس کے باعث جدیدیت کوئی منضبط نتائج اور اثرات پیداکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بہت سے جدت پسند بھی اسی نتیجے پر پہنچے اور بالآخر تصوف کی طرف مائل ہوگئے۔ انھوں نے اس رجحان کی تکذیب کی کہ تخلیقی اظہار کو تکنیکی حقائق کی تصدیق کرنی چاہیے۔ ایسے جدت پسندجو جدیدیت سے کنارہ کرتے ہیں، انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے انفرادی تخلیقیت کے قائل ہوجاتے ہیں۔(7) جدیدیت اور تغیر جدیدیت کی تعریفیں اوپرآچکی ہیں۔ ان تعریفوں کے مطابق جدیدیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو تغیربھی ہے۔ تغیر کے مترادفات تبدیلی، فرق، اختلاف، دگرگونی، چاندکاگھٹنابڑھنا، ریزگاری، خردہ، آہنگ، تنوع، تبدیلیٔ آب و ہوا، دن رات اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔رائے بدلنا، ارادہ بدلنا، تدبیربدلنا بھی تغیر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ بے ثباتی، متلون مزاجی، ناپائیداری، بے قراری اس کی منفی یا مثبت کیفیات ہیں۔(8) تغیّراس قدر فطری امر ہے کہ یہ کائنات کے ذرے ذرے میں اور وقت کے آنات کے حوالے سے جاری و ساری ہے۔ تغیر سے کسی کو مفر نہیں چاہے وہ انسان ہو، شجر ہو، حجرہو،چرندہو، پرندہو۔ جدیدیت کا نام تبدیلی ہے۔ ذہنوں کی تبدیلی، مظاہرکی تبدیلی، معمولات کی تبدیلی، روح کی تبدیلی، ایسی تبدیلی جو معاشرے میں ترقی کا سبب بنے۔ ایک تغیر فطری ہے، جبکہ جدیدیت جس تغیرکی بات کرتی ہے اس کے لیے تگ و دو کرنابھی ضروری ہے۔ جدیدیت بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وقت اور تاریخ میں کبھی ٹھہرائو نہیں آتا۔ اسی طرح انسانی فکر بھی ایک جگہ رکتی نہیں بلکہ متغیراورمتحرک رہتی ہے۔ معائیر اور افکارمیں ترامیم اور اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ ایجادات اور انکشافات بھی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ تعمیراتی مواد سمیت تعمیراتی اسالیب، لباس، اوزار ایک سے نہیں رہتے۔ مادی اور غیرمادی ثقافتوں میں تبدیلیاں رونماہوتی رہتی ہیں اور ان ہمہ نوع اور ہمہ جہت تغیرات کو جدیدیت کی رو سے ادیبوں کی تحریروں میں راہ ملنی چاہیے۔ تغیر کی ضد ثبات ہے، پائیداری ہے۔ غیرمتبدل ہے، راسخ ہے، استوارہے۔ ثبات جدیدیوں کے نزدیک ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی بنا، جو جدیدیت ہی کے ایک پہلو کی تشریح کرتا ہے، اپنی روح میں تغیر ہی پر استوار ہے۔ ادب ہو،شاعری ہو یا ناول نگاری، انشائیہ ہو یا افسانہ نویسی انسانی احساسات اور جذبات ہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انسان ہی کے ہردم متغیر جذبات کبھی خوشی کبھی غم، کبھی رجائیت کبھی یاس، کبھی سکون کبھی بے قراری، کبھی محبت کبھی نفرت کی عکاسی ہر شاعر اور افسانہ و ناول نویس کا مطمحٔ نظرہوتا ہے۔ انسانی مزاج تغیرآشنا ہی نہیں تغیرپسند ہے۔ اس لیے کیا عجب کہ جدیدیت تغیرکی علمبردار ہے چاہے وہ تبدیلی توڑپھوڑ، شکست وریخت اورمعاشرے میں انتشار کی صورت میں ہی کیوں نہ ظاہرہو تاہم اس کا مقصد بالآخرمعاشرے کی بہتری ہوناچاہیے۔ جدیدیت اور روایت روایت کے لغوی معنی، رسم، رواج، سنّت، عقائداور وہ تاریخی شعور ہے جو اسلاف سے اخلاف تک نسل در نسل غیرمحسوس طورپر منتقل ہوتارہتا ہے۔ نظریات اور حقائق کے انتقال کا تسلسل روایت کی خاصیت ہے۔(9) روایت پرستی ایک رجحان ہے جس کے پیروکار روایت کا اتباع کرتے ہیں اور انھیں اہم سمجھتے ہیں۔ ان اصول وقواعد پر ،جوماضی میں طے ہوئے ہوں چاہے وہ مذہبی ہوں یا سماجی، چپکے رہنے اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی مزاحمت بھی روایت پرستی کے زمرے میں آئے گی۔ روایت پرستی روایت کی نقّالی، تقلیداور تسلسل ہے، جبکہ جدیدیت روایت کے تسلسل کا انقطاع ہے۔ یہ انقطاع فرضی بھی ہوسکتا ہے تاکہ جدیدیت اور روایت کا فرق سمجھاجاسکے۔ ورنہ جیسے بہتے پانی میں لٹھ مارکر اسے الگ الگ نہیں کیاجاسکتا اس طرح روایت اور جدّت بھی جداجدانہیں کی جاسکتی۔ادب کے ماضی سے لکھنے والوں کو روایت کے بہت سے پہلوئوں میں سے لسانی روایتیں،فکری روایتیں اور ہئیتی روایتیں ڈھلی ڈھلائی ملتی ہیں۔ کلاسیکیت شاید اسی کا نام ہے۔ ادباء اور شعراء کلاسیکیت اور روایت کی تقلید کرتے ہوئے بھی رواں عہد میں ان میں ترمیم اور اضافے کرتے رہتے ہیں اوران کا کہا ہوا آئندہ نسلوں کے لیے روایت کے طوپر محفوظ ہوکر انھیں منتقل ہوتارہتا ہے۔ ادیب کو زبان کے پیرائے، اصطلاحات، انتقاد کے تصورات، اصناف، ہئیتیں، صنائع، بدائع ، تلازمے، کنائے،علامتیں، اقدار، ثقافتی مظاہر، فکری زاویے ورثے میں ملتے ہیں اور وہ اس کے مزاج کاحصہ ہوتے ہیں۔ استواریت، استقلال، آزمودگی روایت کی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ادیب بار بار اِن سے رجوع کرتا ہے۔ جدیدیت بھی روایت کے بغیربے معنی ہوتی ہے۔ روایت کی تبدیلی سے جدت طرازی کا آغازہوتا ہے۔ روایت میں مابعدالطبیعات بھی شامل ہوتی ہے جبکہ جدیدیت نشاۃ ِثانیہ اور تشکیلِ نو کے دور سے نکل کر جدیدعلوم کے زمانے میں داخل ہوئی تھی۔ روایت کا سحراپنی جگہ مگر جدیدیت بھی انسان ہی کی فلاح کے لیے ہے۔ جدیدیت نئے پن کا، تجربے کاخیرمقدم کرتی ہے۔ آواں گارد یا جدیدیت کی وجہ سے دانشوروں کا ایک طبقہ ہرمعاشرے میں ظہورپذیرہوا جس نے پرانے دقیانوسی خیالات، گھسے پٹے رسوم و رواج کو مستردکیا لیکن زیادہ جدت پسندشاعروں ا ور ناول نگاروں نے روایت اور کلاسیکیت کے رچائو سے اپنے اسالیب، علامتوں، استعاروں اور تلازموں میں تازگی اور نیاپن پیداکیا۔ روایت کو نئے زمانے سے منسلک کیے بغیر برتنا شاید کسی فطری تخلیق کار کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایشلے ڈیوکس (Ashely Dukes) کہتا ہے کہ : ’’روایت کامیاب تجربے کے نتیجے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘(10) یعنی ادیب روایت کی پیروی کرتے ہوئے روایت سازی میں بھی مصروف ہوتا ہے جس کے لیے اسے ریاضت کرناپڑتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ Tradition and Individual Talentمیں یہی بیان کرتا ہے کہ(روایت)’’ترکے میں حاصل نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ تمھیں درکار ہوتو اسے پانے کے لیے تمھیں ان تھک محنت کرناہوگی۔‘‘(11) جدیدیت میں تعمیریت، دادائیت، انحطاط، وجودیت، اظہاریت ،آزادنظم، مستقبل شناسی، رمزیت، انسان دوستی، شعور کی رو، علامت نگاری، تاثریت، تجریدیت اور جدیدحسیت سب کچھ شامل ہے لیکن یہ تمام رجحانات اور تحریکیں ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کے ذریعے کسی بھی زبان اور اس کے ادب کی روایت کا حصہ بن چکی ہیں۔ کیونکہ ہرلکھنے والا ورثے میں ملے اس سرمائے سے خوشہ چینی بھی کرتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح بدلتا بھی ہے اور اس پر اثراندازبھی ہوتا ہے۔(12) روایت کے بارے میں ایک نکتۂ نظر محمدحسن عسکری کا بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ’’روایت کے معنی سمجھے بغیر ادب چل نہیں سکتا اور مغرب روایت کے معنی سمجھنے میں بالکل ناکام رہا ہے…روایتی ادب اور روایتی قول صرف روایتی معاشرے میں پیداہوسکتے ہیں اور روایتی معاشرہ وہ ہے جو مابعدالطبیعات پر قائم ہو…مابعدالطبیعات صرف ایک ہی ہوسکتی ہے۔ یہی اصل اور بنیادی روایت ہے۔ اس کا کسی نسل یا ملک سے تعلق نہیں۔ البتہ اظہارکے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔‘‘(13) حسن عسکری کی ابتداجدت نگاری سے ہوئی تھی لیکن آخر آخر وہ روایت پرست ہوگئے تھے۔ عبوری معاشرے میں بھی جدت فروغ پاسکتی ہے۔ اس لیے کہ جدیدیت نے جن معاشروں میں جنم لیااور پروان چڑھی وہ بھی کبھی روایتی معاشرے ہی تھے۔’’ضروری نہیں کہ جدیدیت زمانی اعتبار سے قربت سے ناپی جائے۔ جدّت زمانی یا مکانی نہیں بلکہ ایک نکتۂ نظر کا نام ہے۔‘‘(14) جیسے میر، نظیر اور غالب کو بھی جدیدشعراء میں شامل کیاجاتا ہے۔ روایت کے ادراک کے بغیر کسی ناقد کے لیے کسی نظم یا ناول کی تفہیم ممکن نہیں ہوتی۔ اس کے بغیر کسی فن پارے کے متن کے معانی ہی سمجھ نہیں آتے۔’’روایت کسی ادبی کام کی مکمل ساخت کو سمجھنے کے کام آسکتی ہے۔‘‘(15) اس ضمن میں تاریخیت کے رجحان کو بھی کام میں لایاجاسکتا ہے جس کا تعلق ماضی کے حوالے سے روایت سے نکل آتا ہے۔ تاریخیت کا مطلب ان روایات، تصورات اور معمولات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے جوکسی تہذیب اور معاشرے کے تسلسل کا باعث ہوتے ہیں۔ جدیدیت اور عصریت تاریخیت کا تعلق عصریت سے بھی ہے اور روایت سے بھی۔ دراصل تینوں عوامل یا رجحانات ایک دوسرے سے کسی قدرمختلف بھی ہیں اور ایک دوسرے پر جزوی طورپر منطبق بھی ہوتے ہیں۔ عصرکے معنی زمانے کے ہیں۔ زمانے کا تعلق وقت، عہد، دور سے ہوتا ہے۔ یہ عہد پرانابھی ہوسکتا ہے ،نیا یا حالیہ بھی اور آنے والابھی۔ یہ تینوں زمانے، جنہیں ہم ماضی، حال اورمستقبل سے پہچانتے ہیں مل کر ایک اکائی بنتے ہیں۔ ادبِ عالیہ میں ان تینوں صورتوں کا احساس اور ادراک پایاجاتا ہے۔ کیونکہ ادبِ عالیہ کا کوئی بھی فن پارہ اپنے عصرکاہوتا ہے اور ہرعصرکابھی یعنی جوشاہکارِ ادب رفعتِ تخیل کے سبب زمانے یا عصریت کے احساس سے ماورا ہوجاتا ہے اسے زندۂ جاوید کہاجاسکتا ہے چاہے اس کے اشارے، علامتیں، احساسات، خیالات اور رجحانات اپنے ہی زمانے کا عکس ہوں۔ تاریخ سے عصریت یوں مختلف ہے کہ تاریخ، واقعات کا محرر بیان ہوتی ہے جبکہ ادب میں تاریخ بالواسطہ طورپر در آتی ہے جیسے تلمیح کے طورپر۔ عصریت واقعاتی اظہارنہیں ہوتی بلکہ کسی واقعے کا تاثراتی اور تخلیقی بیان ہوتی ہے جو ادب کی کسی صنف کے فنی تقاضے بھی پورا کرتا ہو، عصریت سے مراد کسی مخصوص عہد کے معاشرتی، تہذیبی، علمی اور فکری سطح پر رونماہونے والے واقعات، مقبول خیالات، انکشافات کی آگہی ہے جس کے بغیر ادب کی تخلیق ناممکن ہوتی ہے۔ ادب اور ادیب اپنے عصر سے جداہو ہی نہیں سکتا۔ ایمی دی گارماں کا کہنا ہے کہ فن کار اپنی ذات کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی اپنے زمانے کے بارے میں لکھتا ہے۔ٹی۔ ایس۔ایلیٹ نے یہی بات الٹی طرح کہی ہے کہ’’ادیب بعض اوقات زمانے کے بارے میں لکھتے ہوئے ذات کے بارے میں بھی لکھ جاتا ہے۔‘‘(16) ادیب عصریت کے حوالے سے ماضی پرست بھی ہوسکتے ہیں اور جدید بھی یعنی اپنے زمانے کے بھی۔ جدیدیت کا تعلق بھی ارتقاء سے ہے اور زمانہ بھی مسلسل آگے کی طرف سفر کررہا ہے جس طرح ہرلمحہ گزشتہ لمحے کے مقابلے میں نیاہوتا ہے۔ عصریت میں نئے پرانے کی بحث بھی بہت پرانی ہے اور زمانی یا عصری تقسیم کو مشکل سمجھتے ہوئے بھی اس پر مباحث جاری رہتے ہیں۔ ہر زمانے کی اپنی جدیدیت ہوتی ہے اور اپنی قدامت بھی۔ اور اس میں اس زمانے کی روح تلاش کی جاسکتی ہے۔روحِ عصر یا کسی زمانے کا مزاج ہر نوع کے تاریخی فلسفوں کا محور رہا ہے۔’’جب ہم کسی تاریخی دور کے سیاسی، عمرانی، اقتصادی، علمی اور فنی عوامل و مؤثرات کا ذکرجلی رجحان یا اجتماعی رخ کی روشنی میں کریں گے تو یہ رجحان یا رخ اس تاریخی دور کی روح ہے۔‘‘ (17) اور یہی اندازِنظرعصریت کہلائے گا۔ علی عباس جلالپوری نے مختلف ادوار کے غالب رجحانات کے حوالے سے ان کی روح کی نشاندہی کی ہے۔ان کے خیال میں زمانہ انتسابِ ارواح، مسلکِ زرخیزی اور مسالکِ زرخیری کی اصلاح، عقل وخرد کی جبلت کی فوقیت کے کلاسیکی نظریۂ حیات، عالمی برادری کے رومی تصور، فلسفے اور مذہب کی آویزش یعنی علمِ کلام سے آگے بڑھ کر آزادیٔ فکرونظر جدید علوم کے ارتقاء کے نتیجے میں صنعتی انقلاب اور اس کے بعد کے عہدمیں حقیقت پسندی کے زاویۂ نگاہ کی تشکیل تک آپہنچی ہے۔ اس طرح آج کی عصریت میں جدیدیت کے سارے عناصر، سارے رخ اور رجحانات شامل ہیں۔(18) ادب میں عصریت کی اہمیت کی طرف کارل ژونگ نے بھی توجہ دلائی۔اس کی متعارف کردہ اصطلاح Sychronicity کے ایک معنی لسانیات کے حوالے سے ہم عصریت کی تلاش ہے۔اس طرزِ فکر سے زمانے، وقت اور عصرمیں مطابقت پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے عصری یگانگت بھی کہہ سکتے ہیں۔Sychronicity کا اردو ترجمہ ہم عصریت بھی کیاجاتا ہے۔ برگساں کا واقعیتِ زماں کا نظریہ بھی عصریت ہی سے متعلق ہے۔ اس نے گھڑی کے حساب سے وقت کی پیمائش کے مقابلے میں زمانی دورانیے یعنی گزارے ہوئے وقت کا تصورپیش کیا۔ اس نے ارتقاء کو میکانی نہیں تخلیقی عمل قراردیااور عصریت اور زمانے کے تصور میں تحرک اور تغیرتلاش کیا۔ حیات کی ندرت اور یکتائی اس کے خیال میں زمانے کے دورانیے یا عصریت کے ادراک ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ ڈاکٹرسلیم اختر نے اپنی کتاب تنقیدی دبستان میں فرانسیسی نقاد ایڈمنڈشیرر کے خیالات نقل کیے ہیں۔شیرر کے بقول ’’کسی مصنف کی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس امرکا تعین بھی کرنا کہ اس نے اپنے عہدکے حالات سے متاثرہوکر اپنی صلاحیتوں کا رخ کس طرف موڑا…مصنف کے کردار اور شخصیت کی تفہیم اور اس کے عصر کا تجزیہ۔ ان دونوں سے ہی اس کی تخلیقات کو درست طورپرسمجھاجاسکتا ہے۔‘‘(19) ان بیانات کی روشنی میں کسی ادیب اور شاعر کی تخلیقات کی صحیح معنوں میں تشریح کے ضمن میں عصریت کے عنصر کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور فرانسیسی نقاد طین(Taine) نے بھی تنقید کے فارمولے کے طورپر تین عناصرکو اہمیت دی تھی۔ یہ عناصر(1) نسل(Race) (2) ماحول(Milieu) اور(3) لمحۂ تخلیق (Moment)ہیں اور ان تینوں عناصر کا واضح طورپر تعلق عصریت سے بنتا ہے: ’’اس نظریہ کی رو سے ادیب اپنے عہدکی پیداوار ہے۔ وہ کسی خاص نسل سے وابستہ ہے اور ایک مخصوص نوعیت کے سماج میں جنم لیتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی خاص مقام اور تاریخی لمحہ کے مخصوص اثرات مل جل کر اس کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہوئے ادبی شعور اور تخلیقی استعداد کو کسی مخصوص سانچے میں ڈھال کر خاص طرح کا پیرایۂ اظہار عطاکرتے ہیں۔‘‘(20) جدیدیت اور اجتہاد اجتہاد کا لفظ ہمارے ہاں عام طورپر دینی اصطلاح کے طورپراستعمال ہوتا آیا ہے لیکن اس کا ایک معنی جدّت بھی ہے۔ اس طرح اس کی نسبت جدیدیت سے بھی ہے۔جدّت اور اُپج میں اجتہاد اور اختراع کا مفہوم شامل ہونے کے معانی یہ ہوئے کہ تقلید سے گریز اور قدامت پسندی سے اجتناب کو بھی اجتہاد کہہ سکتے ہیں اور جدیدیت بھی قدامت پرستی اور تقلید کی ضد ہے۔(21) اختراع ہر طرح کی نئی ایجاد کو کہتے ہیں چاہے وہ فکری ہو، لسانی ہویا تجرباتی۔ فنون اور صنعت و حرفت میں عام پیش رفت نت نئی ایجادات اور اختراعات سے ممکن ہوتی ہے جن سے ہم جدید دور میں داخل ہوئے۔ یوں اجتہاد جدیدیت کے مترادف معلوم ہونے لگتا ہے۔اجتہاد کے لغوی معنی جدوجہد، کوشش اور تگ و دو کے ہیں اور جدیدیت میں بھی معاشرے کی ترقی کے لیے پوری تندہی کے ساتھ اپنی عقل اور علم کو استعمال میں لانے کی تلقین موجود ہے۔یہ جدوجہد کسی فرسودہ رواج کی تبدیلی کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور معاشرے کو یکسر تبدیل کرکے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی انقلاب لانے کے لیے بھی۔ اجتہاد کے معانی قیاس کے بھی ہیں لیکن ایسا قیاس جو رائے کی حد تک پہنچ چکاہو اور رائے بھی وہ جو غوروفکر اور تحقیق کے بعدقائم ہو۔(22) غوروفکر اور تحقیق کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں عقلی، منطقی ، علمی اور عملی ہرطرح کی تحقیق اور تجزیہ شامل ہوگیااور یہ سارا طریقہ اورعمل جدیدیت کی جان ہے۔ اجتہاد میں کسی مسئلے کی توضیح اور کسی نظریے کی تشریح تحقیق کے نتائج کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ جدیدیت کے ایک لازمی عنصر یا جزو کے طورپر تجربیت اجتہاد میں بھی کام آتی ہے۔ اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب دینی معاملے میں کسی مسلّمہ ماخذ سے راہنمائی نہ ملے یعنی جمود کی کیفیت سے واسطہ پڑے۔وہ مسئلہ ایسا ہوسکتا ہے جسے حل کیے بغیرمعاشی، معاشرتی اور اخلاقی طورپر پیش رفت میں اڑچن پیش آرہی ہو۔ ایسے میں مسئلے کے حل کے لیے جدّت طرازی لازمی ہو جاتی ہے یعنی اجتہاد اگر خالصتاً دینی اصطلاح بھی ہو تو مذہب میں تحرّک اور تغیر اجتہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے: ’’حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو یمن کا والی مقرر کیا تو فرمایا: ’تمہارے فیصلوں کی بنیاد کس چیز پر ہوگی؟‘ انھوں نے عرض کیا: ’کتاب اللہ پر‘۔ارشاد ہوا:’اگر کتاب اللہ کسی مسئلے پر خاموش ہو تو پھر؟‘ انھوں نے عرض کیا:’سنتِ رسول اللہؐ پر۔‘ فرمایا:‘’اگر سنتِ رسول اللہؐ میں بھی مسئلہ زیرِ بحث کی طرف کوئی اشارہ نہ ملے تو بنائے فیصلہ کیاہوگی؟‘ معاذ ؓ ؓنے کہا:’میری اپنی رائے یعنی اجتہاد۔‘(23) یعنی اجتہادبھی ایک علمی، تحقیقی اور تجزیاتی سرگرمی ہے۔ اس کے لیے اجتہادی میں غوروفکراور استدلال کی صلاحیت ضروری ہے۔ اسالیبِ بیان، معانی اور لغت پر عبور بھی اجتہاد کے لیے لازمی شرط ہے۔حقیقت اور مجاز کا تعین،مجمل اور تفصیل کا ادراک اور علّت ومعلوم کی سمجھ بوجھ اجتہادی کو جدیدیت کے پیروکاروں کے برابر ہی نہیں لاتی ان پر فضیلت بھی دیتی ہے۔ جدیدیت کا ایک اورپہلو رائے کی آزادی بھی ہے اوراجتہاد دراصل اظہارِرائے کی آزادی کے بغیرممکن ہی نہیں ہوتا۔ بعض عالم قول بالرّائے اور اجتہاد میں تفریق کرتے ہیں کہ اجتہاد علماء کے باہمی مشوروں سے رائے قائم کرنے کانام ہے۔ جبکہ قول بالرائے ذاتی رائے کہلائے گی۔ یہاں پراصول اور فروع کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد یا اجتہادی اصول کے ذیل میں کسی مذہب یافقہ کاپابندہوتا ہے لیکن فروع میں آزاد ہوتا ہے۔ یوں اجتہاد کے اصطلاحی معنوں میں اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے اگرچہ اجتہاد عام معنوں میں اظہار رائے کی آزادی کے بغیر اجتہاد نہیں ہوتا بلکہ اجتہاد تو دوسروں کی رائے کی آزادی کا احترام کرتا ہے اور اختلافِ رائے کا حق دیتا ہے۔اجتہاد بہرحال روایت کو بعینہٖ قائم رکھنے اور مذہبی اخلاقیات کو اسی صورت میں باقی رکھنے کے خلاف اسلامی تعلیمات کی رو سے واحد اوزار، آلہ یا طریقہ ہے جس سے اسلام کے اصولوں پر نئے علوم اور تازہ خیالات کی روشنی میں جزوی یا مکمل تبدیلی ممکن ہے۔ اہم جدّت نگار ولیم شیکسپیئر (1564-1616)(William Shakespeare) کو صرف انگریزی زبان ہی نہیں، ہر عہد،ہرملک اور ہرزبان کے ادب میں عظیم ترین شاعراور ڈرامہ نگار تسلیم کیاجاتا ہے۔ شیکسپیئربرطانیہ کے شہر Stratford-upon-Avon میں پیداہوا۔ اس کا تعلق تاجرخاندان سے تھا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر جس کی تفصیلات دستیاب نہیں، وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگیا۔1582 ء تک اس نے اداکاری میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اور شاید یہی شوق اسے لندن لے آیا۔ یہاں آکر وہ ایک ڈرامہ کمپنی سے منسلک ہوا جس کے لیے اس نے ڈرامے لکھے بھی اور کبھی کبھار کوئی کردار اداکرتارہا۔ 1599 ء میں اس نے گلوب تھیٹر میں باقاعدہ شراکت داری اختیار کرلی جو اس کے تاجرانہ پس منظر کے سبب نفع بخش ثابت ہوئی اور1613 ء میں وہ آسودگی کے ساتھ گزربسر کے لیے کافی دولت کما کر واپس اپنے شہر اپنے تین بچوں اور بیوی کے پاس لوٹ آیا۔ ابتدا میں شیکسپیئرکے ڈرامے شگفتہ اور نیم مزاحیہ تھے۔ ان میں تاریخی عنصر نمایاں تھا۔ ان میں The Comedy of Errors،تین قسطوں پرمبنیHenry the VII ، Richard III،King Jhon اور The Taming of the Shrew جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ بعدازاں شیکسپیئر نے غنائی ڈراموں کا آغاز کیا جن میں مزاح سے بھی کام لیاگیا تھا۔ اس رو میںRichard III ، The Merchant of Venice ، A Midsummer Nigths Dream، Romeo and Juliet ،دو قسطوںمیں Henry IV ، Henry V، Julius Ceasar ،Twelfth Night جیسے اہم ڈرامے تخلیق ہوئے۔ ان کے علاوہ شیکسپیئرکے شاہکار ڈرامے Hamlet ، King Lear ، Macbeth ، Antony and Cleopatra ، Othello اس کی ڈرامہ نگاری کے تیسرے دور میں لکھے گئے اور کھیلے گئے۔ آخری اور چوتھے دور کے ڈراموں میں Pericles ، The Tempest ، Henry VIII اور The Winter's Tale شامل ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئرنے سانیٹ Sonnet کی ہیئت میں 150 سے زائدنظمیں بھی لکھیں۔ شیکسپیئرکے ڈرامے زورِبیان، لفظیات کے شکوہ اور لہجے کے طنطنے کے سبب دیکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو متاثرکرتے تھے۔ اسے کرداروں کی مناسبت، واقعات کی پیچیدگیوں، جذبات کے اتارچڑھائو، انبساط، گدازاور نوحہ گری کو موزوں ترین الفاظ، استعارات، تلازمات اور اشارات میں پیش کرنے میں کمال حاصل تھا۔ اس کے ڈرامے انسانی نفسیات اور سماجی حقیقتوں کے اتنے قریب تھے کہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے تھے۔ ذہانت، تخلیقیت اور مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی سے اس نے بظاہر عام سی کیفیات اور معمولات کو تخلیقی رفعتوں سے آشنا کردیا۔ المیے کا جدیدروپ اور مسائل کی نئی تفہیم اس کے آخری ڈراموں میں زیادہ قوت کے ساتھ منعکس ہوئی ہے۔ شیکسپیئرخودکوئی مفکریانظریہ ساز نہ تھا لیکن ناقدین اور شارحین نے کولرج، لیمب، ھیزلٹ اور آرنلڈ وغیرہ سے شیکسپیئرکے ڈراموں کے پلاٹ، کہانیوں کی بنت، غنائیت، منظرکشی، تاریخیت، مزاح اور رسوم کی پیش کش کو کھنگال کراس میںسے شیکسپیئرکے نفسیاتی نظریے، دینی رجحانات، بادشاہت اور بادشاہوں کے بارے میں اس کے رویے کا سراغ لگایا ہے۔ جدیدیت سے پہلے یا جدیدیت کے بعد اس سے پھوٹنے والی کوئی تحریک ایسی نہیں جس پر شیکسپیئرنے اپنا اثرمرتب نہ کیاہو، خاص طورپر رومانیت کی تحریک پر۔ وہ قدیم ہوتے ہوئے بھی اتنا جدید ہے کہ بیسویں صدی تو خاص طورپر شیکسپیئرکی صدی قراردی جاتی ہے۔(24) ولیم جیمز(1842-1910) (William James) امریکہ کا مشہورفلسفی اور ماہرنفسیات تھا۔ ’اصولِ نفسیات ‘کے عنوان سے اس کی کتاب نفسیات کی بنیادی کتابوں میں شمارہوتی ہے۔ وہ یہ مضمون ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتابھی رہاتھا۔ وہ انتہائی بااخلاق اور مہذب انسان گردانا جاتا ہے۔ اس کے افکار اور اسلوب میں ارادیت(Voluntarism) عملیت (Pragmatism)اورانقلابی تجربیت (Radical Empiricism) کے رجحانات ملتے ہیں۔ ’شعور کی رو‘کی اصطلاح ولیم جیمز ہی کی وضع کی ہوئی ہے۔ وہ شعورکو متحرک، فعال، ہردم رواں اور انتخاب میں آزاد خیال کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہم کائنات کے بے جوڑ تسلسل سے اپنی دنیاتراشتے ہیں، ارادہ اور دلچسپی کو ابتدائی حیثیت حاصل ہے۔ علم ایک ذریعہ ہے۔ سچائی دراصل ہمارے خیالات کی راہ میں ایک مصلحت کا کام دیتی ہے۔ افکار سے ہمارے مقاصد حاصل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے اور یہ ان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک خیال (Idea) یا فکرکا کام صرف یہ بتلانا ہے کہ ایک عملی مقصد کے کیا اثرات ہوں گے۔ ان سے ہمیں کس قسم کے Sensations کی امیدکرنی چاہیے اور کس قسم کے ردّعمل کے لیے تیاررہناچاہیے۔‘‘(25) اس فلسفے کو عملیت کی اصطلاح سے سمجھاگیا۔ سگمنڈفرائڈ (1852-1932)(Sigmund Freud) آسٹروی ماہرعصبیات تھا۔اسے تحلیلِ نفسی کا بانی سمجھاجاتاہے جس کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ انسانی ارتقاء کو جنسی خواہش کے بدلتے ہوئے عوامل کے ذریعے ہی سمجھاجاسکتاہے۔ لاشعور اس کے خیال میں خواہشات کو دباتا ہے۔ خاص طور سے ایسی خواہشات جو جارحانہ اور جنسی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ لاشعور دبی ہوئی نفسانی خواہشوں سے متصادم ہوتا ہے تو اس کااظہار خوابوں اور Freudian Slips کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ لاشعوری کشمکش اعصابی اور نفسیاتی خلل کا سبب بنتی ہے۔ فرائڈ سمجھتا تھا کہ نفسیاتی خلل کاعلاج تحلیلِ نفسی کے ذریعے دبی ہوئی یادوں، خیالات اور خواہشوں کا شعوری احساس دلاکر کیاجاسکتا ہے۔ فرائڈابتدا میں عمل تنویم کے ذریعے نفسیاتی مریضوں کا علاج کرتاتھا لیکن بعد میں اس نے آزادانہ اختلاط اورخوابوں کے تجزیے کے ذریعے علاج شروع کر دیا ۔اس طریقۂ علاج کو وہTalking Cureکا نام دیتاتھا۔ یہ تمام پہلو اس کی تحلیلِ نفسی میں تھراپی کے طورپر استعمال کیے جانے لگے تھے۔ ادب میں نفسیاتی حقیقت نگاری اورپیچیدہ کرداروں کی تہ دار پیش کش فرائڈ کے خیالات سے متاثرہوکر ممکن ہوئی۔ شناخت، انااور انائے مطلق، موت و حیات کی جبلت اور مذہبی نفسیات کے رجحانات ،جدیدادب اور فلسفے میں اسی کے حوالے سے داخل ہوئے۔ اضطراب، بے قراری، غصہ، جھنجھلاہٹ، دماغی خلل، فن کی تخلیق میں اسی کے طفیل معاون قرارپائے۔(26) کارل ژونگ (1875-1916)(Carl Jung) کا نام بھی فرائڈ کے ساتھ لیاجاتا ہے۔ دونوں نے ایک ساتھ کام بھی کیا لیکن ژونگ کا نام نفسیات اور انسانی ذہن پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفوں میں لیاجاتا ہے۔ وہ نفسیات کا مطالعہ نشریات، فلکیات، کیمیا، خوابوں، فنونِ لطیفہ، اساطیر، مذہب اور فلاسفی کی روشنی میں کرتا ہے۔وہ تضادات کے اتصال جیسے مردانگی اور نسوانیت، فکراورجذبہ، روحانیت اور عقلیت سے نتائج نکالنے پر یقین رکھتا ہے۔ اگرچہ خوابوں کا تجزیہ اس سے پہلے بھی ہوتارہتاتھا لیکن خوابوں کے مطالعے کو اس نے نئی وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔ وہ نفسیاتی معالج تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے تقابلِ مذاہب وافکار سے لے کر ادب اور فنونِ لطیفہ کی تنقید تک کئی دوسرے علوم میں بھی دلچسپی لی۔ اس نے آر کی ٹائپ (Archetype) ، اجتماعی شعور(Collective Conscious) ، پیچیدہ جذباتی تجربات(The Complex) اور عصریت (Synchronicity) جیسے تصورات کو پہلی بار جدیدیت سے متعارف کروایاتھا۔(27) جیمزجائس(1882-1941)(James Jyoce) کا تعلق بھی ژیٹس کی طرح آئرلینڈ سے تھا۔ اس نے ناول کی تکنیک اور زبان کے استعمال میں جدّت پیدا کی جو بے ربطی، پریشان خیالی اور عدم تسلسل سے عبارت ہے۔ خیالات کے بے لگام بہائو یا شعوری کیفیتوں کے آزادانہ اظہار کے اس اسلوب کو بھی جدیدیت کی دین کہاجاتا ہے۔ اس کا ناول Ulysses اس رجحان کا نمائندہ ہی نہیں شاہکار تسلیم کیاجاتاہے۔جیمزجائس شاعری میں نام پیدا کرنے میں ناکامی پرناول کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اس کے پہلے مجموعے ڈبلائنرز(Dubliners) کی کہانیوں کی بنت میں جوڑدکھائی نہیں دیتا اگرچہ وہ نئے انداز کی کہانیاں تھیں، اس کے دوسرے ناول، ایک فن کار کا پورٹریٹ بطور نوجوان(A Portrait of the Artist as a Young Man) میں اس نوجوان فنکار کی داستان میں حقیقت پسندی سے کام لیاگیا ہے۔ جس ناول نے اسے جدیدناول نگاروں کی صف اوّل میں لاکھڑاکیا۔وہ Ulysses تھا جو اس نے1914 ء اور 1921ء کے دوران میں لکھا۔ اس کا ناشرمشکل سے ملااور اس ناول پرفحاشی کا الزام بھی لگایاگیا۔ بالآخر یہ ناول1922 ء میں پیرس سے چھپا۔ امریکہ میں 1923 ء تک اس پر پابندی لگی رہی۔ اس ناول کی کہانی کا تانا بانا بہت الجھا ہوا ہے۔ اسے شعور کے روکے رجحان کی مثال اسی لیے کہاجاتا ہے کہ اس کا پلاٹ ایک نہیں کئی سطحوں پرآگے بڑھتا ہے۔کرداروں کے ساتھ زبان بھی بدلتی ہے جس میں لسانی قواعد اور صرف و نحو کا کوئی خیال نہیں رکھاگیا ہے۔ محاورے اور فقروں کے استعمال میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیاگیا اس لیے اسے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ کردار ایسے ہیں کہ جیسے وہ اختلالِ نفس کا شکارہوں۔ اسی لیے ناول کے کردار اپنی نفسی کیفیتوں میںاـظہار کے اندازبدلتے جاتے ہیں۔مختلف کردار بھی مختلف انداز میں بات کرتے ہیں۔ (28) اس طرح کے ناول کے ایک ناقد جیرالڈگولڈ کے مطابق’’انتشار ِخیال کے لحاظ سے ایک ٹیلی فون ڈائریکٹری یولیسز سے زیادہ اہمیت کی مالک ہے۔‘‘ اس نے اس ڈائریکٹری کو اس اعتبار سے فن پارہ اور یولیسز کو ردی کی ٹوکری قراردیا۔(29) لیکن اس کے باوجود بہت سے نقادوں نے اس کے اسلوبِ نگارش کومعنی آفریںسمجھااور اس کی مختلف علامتوں، تمثیلوں اور لفظیات اپنے اپنے مطالب اور معانی نکالے۔ اس ناول کو اس لحاظ سے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کہ جائس نے اس میں مذاہب، اساطیر، جغرافیائی عناصر،زبانوں اور دوسری بے شمار اشیاء اور مظاہرکے بارے میں اپنے زندگی بھر کے علم، تجربے اورمشاہدے کو اس ناول میں سمیٹ لیا ہے۔(30) ایذراپائونڈ (1885-1972)(Ezra Pound) اڈاھو، امریکہ میں پیداہوا۔ اس نے ہملٹن کالج سے پی ایچ بی اور پنسلوانیا یونیورسٹی سے ایم اے تک تعلیم پائی۔ کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہا۔ وہ بارہ سال لندن اور چار سال پیرس میں مقیم رہا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ A Lume Spento 1908 ء میں وینس اٹلی سے شائع ہوا۔ بعد ازاں اس نے کوئی بیس سال اٹلی میں گزارے۔اس نے تنقید پر نو کتابیں لکھیں۔ اس کے پندرہ شعری مجموعوں میں ایک Collected Poemsہے۔ پورے یورپ اورامریکہ میں جدیدیت کے فروغ کے لیے کسی اور ادیب نے اس جتنا ہمہ جہت اور متنوع تخلیقی اور نظری کام نہیں کیا۔ ولیم بٹلر ژیٹس، جیمز جائس، ارنسٹ ھیمنگوے، رابرٹ فراسٹ، ڈی ۔ایچ لارنس اور ٹی ۔ ایس ایلیٹ جیسے نامور شاعروں، افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں اورنقادوں کو ایذراپائونڈ نے جدید طرزِ احساس پرمبنی ادب تخلیق کرنے پر آمادہ کیااور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ فاشزم کی حمایت میں نشری تقریروں کی پاداش میں وہ گرفتار ہوااور 1958 ء تک نظربندرہا۔ 1912ء میں پائونڈ شکاگو کے جریدے "Poetry" کا لندن میں نمائندہ بن گیا۔ علامت نگاری کی تحریک کے سرخیل کے طورپر اس نے علامت نگاروں کا پہلا منشور تحریرکیا جس میں اس نے شاعری میں سیدھی سادھی لفظیات اور زبان کے چھدرے (Sparse) استعمال پرزور دیا۔ اس نے علامتی شاعری کا پہلا مجموعہ Des Imagistes بھی1914 ء میں مرتب کیا۔ جدیدادب کے صورت گرکے طورپر ایذراپائونڈ نے اپنے دوست ژیٹس کو زیادہ مترنم نئی شعری بندشیں اختیارکرنے کی ترغیب دی۔ 1914 ء میں پائونڈاور جیمز جائس کے درمیان ہم آہنگی کا آغازبھی ہوا جوابھی ژیٹس کی طرح معروف نہ تھا۔ لندن کے مجلے"The Egoist" کے غیراعلانیہ مدیر اور Little Review نیویارک کے مدیر کے طورپر اس نے جائس کے دوناولوں A Portrait of the Artist as a Young ManاورUlysses کی طباعت و اشاعت میں مدد کی، جس سے جائس ادبی حلقوں اور قارئین سے متعارف ہوا اور اس کی مالی معاونت بھی ممکن ہوئی۔ اسی سال اس نے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کو بطورِ شاعر اور نقاد ادبی زندگی کے اسی طرح کے آغاز میں مدد دی۔ 1909ء میں اس کی شاعری کی دو کتابیںچھپیں جن میںExultations نمایاں ہے۔ 1909-10 کے دوران لندن میں دیے جانے والے خطبات پر مبنی کتاب 1910 Spirit of Romanceء میں شائع ہوئی۔ امریکہ میں اپنی ادبی حیثیت مستحکم کرنے میں ناکامی کے بعد وہ ایک بارپھر یورپ لوٹ آیا۔1911 ء میں ایک اشتراکی ہفت روزہ ـ’’Age ‘‘کے ایڈیٹر Orage نے اسے اپنے ادارۂ تحریر میں شامل کرلیااور اس طرح اس کی گزربسرکابندوبست ہوگیا۔ وہ اس مجلے کے لیے اگلے نوسال تک لکھتارہا۔ انگریزی شاعری میں رابرٹ فراسٹ اور ڈی ایچ لارنس پرابتدائی تنقید اسی نے لکھی اور ان کے فنی محاسن کی توصیف کی۔ اس کی نظموں کے اگلے دو مجموعے Ripostes اورLustra بالترتیب1912 ء اور1916 ء میں منظرعام پرآئے۔1918 ء میں اس کی تنقیدی کتابPavannes and Divisionsنیجدیدیت کو نئے مفاہیم عطاکیے۔ اس نے ابتدائی چینی شاعری کے تراجم"Cathay" کے عنوان سے1915 ء میں کیے۔ اس کے بعد جاپانی زبان کے گلی محلے میں محدود کرداروں کے ساتھ کھیلے جانے والے مختصر ڈراموں کی دو جلدوں کو اس نے 1916 ء اور1917 ء میں انگریزی کے قالب میں ڈھالا۔ پہلی جنگ عظیم کی ہلاکت خیزیوں سے پریشان حال اور مایوس ایذراپائونڈ نئے امکانات کی تلاش میں برطانیہ سے پیرس منتقل ہوگیا۔ پیرس ہجرت سے قبل اس کی دو سب سے اہم نظموں میں سے ایک Homage to Sextus Propertius 1919 ء میں تخلیق ہوئی جو اس کے مجموعے Quia Pauper Amavi میں شامل ہے۔ دوسری نظمHugh Selwyn Mauberley 1920 ء کی ہے۔ Mauberley برطانوی ثقافت کے ایک پہلو کی مکمل لفظی تصویرکشی ہے جس سے اس ادبی منظرنامے کی ہوبہو تصویراپنی جزئیات سمیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ یہ نظم بیسویں صدی کی اہم ترین نظموں میں شمارکی جاتی ہے۔ 1917 ء کی Propertius برطانوی سلطنت پرشعری تبصرہ ہے۔ لندن میں بارہ سالہ قیام کے بعد ایذراپائونڈ اپنے آپ کو نظری طورپر ایک مکمل اور تخلیقی اعتبار سے بھرپور شاعر کے روپ میں ڈھال چکاتھا۔’’اس کا انداز آخری عہد کے وکٹورین جیساہوگیاتھا جس کے لیے محبت ’طنبور کے تاروں‘،’مسلے ہوئے ہونٹوں‘ اور ’نابینا کی غیرواضح کہانیوں‘ جیسی کوئی کیفیت تھی۔ چھ سات سال تک وہ بالغوں کے لیے نئی طرز کی شاعری کرتارہاتھا جو غیرمحسوس طورپر عام بول چال کے اسلوب میں ڈھل رہی تھی۔دانش کی شیشے کی طرح شفاف مگر خشک تر تخلیقی رو میں پائونڈ کی شاعری میںکفایت لفظی، ایجاز و اختصار اور بیان کی شستگی کے اوصاف نمایاں رہے۔ اس نے تجربے کے لمحات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے حقیقی بصری تمثالوں اور حسیاتی تفصیلات کو مکمل فنی گرفت کے ساتھ برتا۔‘‘ (31) اس کی نظمیں پر مغز اختصار کی حامل ہوگئی تھیں جس کی خواہش میں وہ پرانے ادب کے مطالعے میں ہمہ وقت غرق رہاکرتاتھا۔ اس نے اینگلوسیکسن شاعری ،یونانی اور لاطینی کلاسیکی ادب، دانتے اور انیسویں صدی کے فرانسیسی شاہکار جیسے تھیو فائل گاتیر کی Emaux et Camees،اور گستاف فلابیر کا ناولMadam Bovary گھول کرپی لیاتھا۔ ’’اپنے دوست ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی طرح پائونڈ ایسی جدیدیت کا خواہش مند تھا جو زندگی کے گزشتہ اعلیٰ معیاروں کا احیاکرے۔‘‘ (32) جدیدیت برائے جدیدیت نے، جس کی آزمائش ماضی کے حوالے سے نہ ہوئی ہو، اس کے شعری مزاج میں تکفیر کے رجحانات پیداکردیے تھے اور اس کے اظہار کی کوشش اس طرح کی غیررسمیت میں دیکھی جاسکتی ہے ؎ چائے پیو اور سیزر پر لعنت بھیجو سب سے آخری فتح کی بات کرو 1911ء میں اپنی اینگلوسیکسن نظمSeafarer میںاس کا اعتماد اور تھا۔ یہی خوداعتمادی اس کی آزاد نظم 1912-The Return ء میں بھی تھی ؎ دیکھو! وہ لوٹ آئے ، آہ! دیکھو! ان کی متذبذب جنبشیں اور سست پائوں لفظوں کے قدرتی آہنگ سے مملو، مختصرنظموں کو لفظیاتی کاملیت کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر اس کی برسوں کی ریاضت کاثمرتھا۔ اپنی آواز کو بلندکیے بغیر پائونڈ اب انسانی جذبات، احساسات، معاملات اور کیفیات کو پوری فنکاری کے ساتھ منعکس کرنے پرقادرتھا۔ لفظوں کی ترتیب وتغیر اور ان سے پھوٹنے والی رمزیں اورتمثالیں اسے نوجوانی کے تجربات سے مستعار لینے کی حاجت نہیں رہی تھی۔ وہ مشق کے دور سے گزرچکاتھا اور اب ایک پختہ کار اور قادرالکلام شاعرتھا۔وہ استعارے اور علامتیں اب اس کی خلاقانہ ذہانت اور وہبی صلاحیت کا حاصل تھیں۔Lustra کی نظمیں کاملیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتی ہیں ؎ نہ ہی اس میں مضمرزندگی اس وقت کی شفاف خنکی سے کچھ بہتر کی خواہش کرسکتی ہے ایک ساتھ جاگنے کے وقت لیکن وہ نظم جس میں پائونڈ کی جدیدحسیّت اپنے عروج پر ہے، اٹھارہ حصوں پرمشتمل طویل نظم Hugh Selwyn Mauberleyہے۔ یہ نظم فن کار اور معاشرے کے تعلق کے گہرے مشاہدے اور تجربے سے لے کر صنعت و حرفت کی پیداواری صلاحیت کی چیرہ دستیوں اور جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرتی ہے۔ دیکھیں ماضی کی طبّاع بازگشت اس نظم میں کس طرح درآئی ہے ؎ جب ہمارے دو اجسام والرکے ساتھ دفن ہوں گے تو انھیں تغیرکے ہاتھوںایک اندازِ تغافل سے مسمار ہونے تک جداجدا کیاجاتارہے گا ایک حسن کے سوا۔ مگر ماضی کی بازگشت میں ایسے ایجازواختصار کے ساتھ ؎ نرم خواور ان پڑھ محبوبہ کے ساتھ اس نے اپنی صلاحیتوں کا امتحان لیا اور مٹی اذیت سے دوچارہوئی(33) 1921ء سے 1924 ء کے درمیان ، اپنے پیرس میں قیام کے دوران میںپائونڈ نے ارنسٹ ہیمنگوئے کے ساتھ ایک نغماتی ڈرامہ Le Testament لکھنے میں تعاون کیا۔ ایلیٹ کواس کی طویل نظم The Waste Land کی تخلیق میں اس نے مفیدفنی مشورے دیے اور نیویارک کے رسالے The Dial کے نمائندے کے طورپر فرائض انجام دیے۔ 1927ء میں پیرس سے مایوس ہوکر پائونڈاٹلی میں قیام پذیرہوا ،جہاں اس نے اگلے بیس سال گزارے۔1927-28 ء میں اس نے اپنا رسالہ Exile نکالا اور1930 ء میں اپنی طویل نظمThe Cantos جو اس نے1915 ء میں شروع کی تھی، مختلف حصوں میں The Draft of xxx Cantosکے عنوان سے شائع کی۔ نظم کے اگلے حصے 1934 ء تک چھپتے رہے اور اسی سال اس کی بہترین نثری تحریروں کا مجموعہ Make it New منظرعام پرآیا۔ تاریخ و ثقافت پر اس کی نثری تحریر کا مجموعہ1938 ء میںGuide to Kulchure کے عنوان سے چھپا۔ 1930ء کی عظیم کسادبازاری نے اسے تاریخ اور خاص طوپرمعاشی تاریخ کی طرف راغب کیا۔ وہ معیشت میں اس وقت سے دلچسپی لینے لگا تھا جب 1918 ء میں اس کی ملاقات سی۔ ایچ ڈگلس (C.H. Douglas)سے ہوئی تھی۔ ڈگلس کے معاشی نظریات کے مطابق ناکافی قوتِ خرید کے باعث دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ،معاشی کسادبازاری کی بنیادی وجہ ہے۔ ایذراپائونڈ کا خیال تھا کہ حکومت اور عوام کی جانب سے بنکاری اور سرمائے کی غلط تفہیم اور عالمی بنکاروں کے ہاتھوں سرمائے کا ناجائز ارتکاز اور استعمال طویل جنگوں پرمنتج ہوا ہے۔ وہ معاشی مسائل اور مالیاتی اصطلاحات کے بارے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس نے ABC OF Economics ، Social Creditاور What is Money for ? جیسی کتابیں لکھ ڈالیں۔ وہ سیاست میں بھی ملوث ہوگیا اور اس نے اٹلی کے مردِآہن بینیتومیسولینیBenito Missolini کی تعریف میں ایک کتاب لکھ دی۔ اس رجحان کی شدت نے اس کے Canto کی تخلیق پربھی اثرڈالا۔ جنگِ عظیم دوم قریب آئی تو وہ امریکہ لوٹ آیا کہ شاید وہ اٹلی اور امریکہ کے درمیان امن کے قیام میں مدد دے سکے مگر ایک بار پھر مایوس ہوکراسے پھر اٹلی آناپڑا اور اس نے ریڈیوروم پر جیمز جائس سے لے کر سرمائے اور امریکی حکومت پر یہودی بنکاروں کے کنٹرول کے موضوعات پر سینکڑوں ریڈیائی تقریریں کرڈالیں۔ ان تقریروں میں وہ امریکیوں کے جنگی جنون کو کھلے عام مطعون کرتاتھا۔ 1945 ء میں اسے امریکی فوج نے گرفتار کرلیا اور چھ ماہ تک ایک کیمپ میں قید رکھا جس میں جنگی مجرموں کو رکھاگیاتھا۔ یہ کیمپ پیسا کے قریب تھا۔ ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اس دوران میں پائونڈ نے کنفیوشس کے افکار کو انگریزی میں منتقل کردیا، اسی دوران میںاس نے Prison Cantosلکھے جو اس کی مسلسل زیرتخلیق طویل نظم کا سب سے زیادہ دلگداز اور المناک حصہ ہے۔ امریکہ واپسی پراس کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلایاگیا لیکن پاگل اور ذہنی طورپر مقدمہ کے ناقابل سمجھ کر اسے1958 ء تک دماغی امراض کے ہسپتال میں رکھاگیا۔ 1958 ء میں اسے بالآخر بری کردیاگیااور اس کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے۔ وہ اٹلی پھرواپس آیااور 1960 ء کے بعد اس نے لکھنا لکھانا ترک کردیا۔ اس کے Cantos نامکمل رہ گئے جو اس وقت تک آٹھ سو صفحات تک پھیل چکے تھے۔ ان کینٹوز میں ہئیت کی کوئی پابندی نہیں ملتی۔ اسے یونانی دیومالا،قدیم چینی تہذیب ، بازنطینی اور مصری اساطیر اور نشاۃ ِثانیہ کے بعد کے اطالیہ کا ایک ذاتی مراقبہ یا سفرکہاجاتا ہے۔ جان آدم، تھامس جیفرسن اور کئی دوسرے معاشی مفکرین کے افکار اور بنکاری اورمالیاتی مسائل کے عمیق مطالعے سے بھی Cantos میں تنوع اور وسعتِ خیال پیدا ہوئی۔ اپنی تمام فنی کمزوریوں اور استقام کے باوجود Cantos اس صدی کی بہترین نظموں میں سے ایک تسلیم کی جاتی ہے۔ پائونڈ کا انتقال وینس میں ہوا۔ اس نے جدیدیت کے نظریے کی ترویج و اشاعت کے لیے عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ساٹھ سے زائد کتب تصنیف کی ہیں اور ستر سے زائد کتب کی تدوین و اشاعت اسی کی مساعی کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ اس نے پندرہ سو سے بھی زائد مضامین سپردِ قلم کیے تھے۔ اس کی زندگی بھرکی قلمی کاوشوں اور عملی سرگرمیوں کے طفیل اسے جدیدیت کا باواآدم کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔(34) فیڈریکو گارسیالورکا (1898-1936)(Federico Garcia Lorca) سپین کا مشہورشاعر اور ڈرامہ نگار ہے۔ اس کی پیدائش غرناطہ کی ہے۔ وہ فاشزم کے کٹڑ مخالفوں میں شامل تھا اور خانہ جنگی کے دوران میںانھی کے ہاتھوں غرناطہ میں1936 ء میں مارا گیا حالانکہ وہ سیاست میں عملی طورپرحصہ لینے سے اجتناب کرتاتھا۔ وہ تو بس اظہار کی آزادی، انسان دوستی، عالمی امن کا علمبردارتھا۔ اس نے اپنے ڈراموں، نظموں ،تقریروں اور موسیقی کے ذریعے ہسپانوی کلاسیکی روایت، دیومالا اور عوامی جنگوں کو جدید فنی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اس کے بہترین نمونے حقیقت نگاری، تجریدیت اور رمزیت کا دل نشیں امتزاج ہیں۔ اس کی مقبولیت کا آغاز اس کے ڈراموں’ماریا پنیدا، پرلم پینوکابلیسا سے باغ میں معاشقہ، موچی کی حیرت انگیز بیوی اور کنواری بڑھیا بے بی روزتیا، سے ہوا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ ’شاعرکی کتاب‘ اوردوسرا مجموعہ’خانہ بدوشوں کے گیت‘تھا۔ اس کا تیسرا شعری مجموعہ’شاعرنیویارک میں‘ امریکی معاشرے کی میکانکیت، مادیت اور غیرتخلیقی مزاج کے خلاف احتجاج ہے۔ سیاح تھیٹرکمپنی لابراکاکی ملازمت کے دوران میںاس نے ڈراموں کی ہدایت کاری کے علاوہ تین مشہور ڈرامے‘کسان المیے،خونی شادی،پارسا اوربرنارڈالباکاخاندان بھی لکھے اور ان کے ذریعے عوامی تھیٹر کے ایک نئے رجحان کوتحریک دی۔ ’بلی کلب کی کٹھ پتلیاں‘ کٹھ پتلی تھیٹر کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ زندگی کے آخر ی دنوں میں اس کا آخری شعری مجموعہ ’بل فائٹر کی موت پر نوحہ‘ شائع ہوا۔ لورکا بطور شاعر، ڈارمہ نگار، مصور اور موسیقار متنوع اور گوناگوں صلاحیتوں کا حامل غیرمعمولی فنکارتھا۔ اس کے تمام فن پارے اپنی ثقافتی روایات، معاشرتی مسائل اور لوک دانش سے تحریک پاتے ہیں۔ وہ فوق الحقیقت کی تکنیک کو بھی کامیابی سے استعمال کرسکتا تھا اور دیومالائی پراسراریت کو بھی۔ شعریت اور غنائیت کو تمثیل میں آمیزکرکے اس نے مؤثر ڈرامے تخلیق کیے۔ نفسیاتی اور سماجی حقیقت نگاری اس کے ہاں جذبے اور جبلّت کے اخلاقی تصورات کے ساتھ تصادم کی تصویرکشی کرتی ہے۔ زمین اس کے نزدیک زندگی اور تحرک کا سرچشمہ بھی ہے اور موت کی امانت دار بھی۔ اس نے کلاسیکی اور جدید رجحانات کو ہم آہنگ کرکے یورپ کی دوسری زبانوں اور ہسپانوی زبان کے ادب میں تفاوت کم کرنے کی کوشش کی۔ (35) ہینری برگساں(1859-1941)(Henri Bergson) نے تحرک، تغیراور ارتقاجیسی اقدارکے اثبات میں غیرمتحرک اقدار کومسترد کیا اور اپنے ان خیالات کا اظہارکیا جو بعدازاں’’تدریجی عملیہ‘‘کا فلسفہ کہلائے۔ وہ ایک صاحب طرز نثرنگار بھی تھا اور علمی حلقوں کے علاوہ غیرفلسفی عام شخص کے لیے بھی قابل فہم انداز میں لکھناجانتاتھا۔ باپ کی طرف سے برگساں پولستانی یہودی خاندان سے تعلق رکھتاتھا جنہیں The Sons of Berek یاBerek Son کہاجاتاجو برگساں میں بدل گیا۔ اس کا باپ باصلاحیت موسیقار تھا۔ اس کی ماں کا تعلق ایک انگریزیہودی خاندان سے تھا لیکن برگساں کی پرورش خالصتاً فرانسیسی انداز میں ہوئی۔ اس نے عمرکا زیادہ ترحصہ پیرس میں گزارا۔اس کی تعلیم پیرس کے لائسی کنڈرسیٹ(Lycee Condorcet) میں ہوئی جہاں اس نے ثابت کیا کہ وہ فطری اور بشری علوم میں ایک سی خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔ وہ1878 ء سے1881 ء تک پیرس کےEcole Normale Superieure میں پڑھتارہا۔ یونیورسٹی اساتذہ کی تربیت کے ذمہ دار اس ادارے کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ وہ یونانی اور لاطینی کلاسیک میں یکساں سہولت محسوس کرنے لگا۔ یہیں اس نے اپنے فلسفیانہ کام کا آغاز کیا۔اس علاقے میں قیام کے دوران میں اسے وہ خیالات وجدانی سطح پر سوجھے جو بعدازاں فلسفے پر اس کی اولین کتابوں کی بنیادبنے۔اپنے اس دور کے بارے میں برگساں نے ممتاز امریکی نتائجیت پسند ولیم جیمز (William James)کو لکھا کہ اس سے پہلے وہ میکانکی نظریات سے وابستہ رہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ وابستگی ہربرٹ سپنسر(Herbert Spencer) کے مطالعے کا نتیجہ تھی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سائنس میں وقت کو استقرار نہیں۔ یعنی سائنس کی بنیاد ہی استقرار کے خاتمے پرہے۔ اس انکشاف کے بعد اس نے بہ مراحل اپنے تمام پچھلے تصورات ترک کردیے۔ اس تبدیلی کا پہلا نتیجہ ایک مقالےAn Essay on the Immediate Data of Conciousness, Time and Free Willکی صورت میں نکلا۔ 1889 ء میں چھپنے والے اس مقالے پراسی سال اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ برگساں نے اپنے اس کام میں کوشش کی کہ سائنس میں مستعمل تصور اور گھڑی سے ناپے جانے والے وقت کے مقابلے میںزمانی اور دورانیے یعنی گزارے گئے وقت کا تصور پیش کرے۔ اس نے انسان کی اپنی داخلی ذات سے آگہی کا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ نفسی حقائق باقی تمام حقائق سے کیفیتی طورپر مختلف ہیں۔ اس نے نفسیات دانوں پرالزام لگایا کہ وہ نفسی حقائق کو شمارکرنے اور انھیں قدری سطح پربیان کرنے کے عمل میں ان کا ابطال کردیتے ہیں۔ اس نے خاص طورپر فیکنر (Fechner) کے قانون پرتنقیدکی جس میں مہیج یعنی انگیخت کی شدت اور اس کے پیداکردہ احساس کے درمیان قابل پیمائش تعلق موجود ہونے کا دعویٰ کیاجاتا ہے۔ جب ایک بار اس کے ذہن سے دورانیے اور توضیح اور کیفیتی اور قدری کے متعلق ابہام دور ہوئے تو اس نے دعویٰ کیا کہ سائنسی جبریت کے نام پرانسانی آزادی پرلگائے گئے اعتراضات کوبے بنیاد تصورکیاجاسکتا ہے۔ برگساں نے پیرس لوٹ کرLycee Henri IV میں پڑھاناشروع کیا۔1891 ء میں اس نے مشہور ناول نگار مارسل پرائوسٹ (Marcel Proust) کی کزن سے شادی کرلی۔ اسی عرصے میں وہ جسم اور ذہن کے درمیان موجود تعلق کا مطالعہ کرتارہا۔ تب اس تعلق پر نفسی فعلیاتی متوازیت (Psychophysiological Parallelism) کا نظریہ زوروں پرتھا۔ اس کی رو سے ہر نفسی امر کی مطابقت میں ایک فعلیاتی امرموجود ہوناچاہیے۔ یوں ذہن اور جسم کے تعلق پر جبریت طاری کردی گئی تھی۔ برگساں کو یقین تھا کہ اس نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں جبریت کا استرداد کردیا ہے لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ اس نے جسم اور روح کے باہمی تعلق پراپناکوئی نظریہ نہیں دیا۔ اس مسئلے پر اس کی تحقیق کے نتائج1896 ء میں "Matter and Memory" کے عنوان سے چھپے۔ اس کی کتابوں میں سے یہ مشکل اور مکمل ترین کتاب ہے۔اس کتاب میں جو طریقہ اپنایاگیا وہ فلسفیانہ طرزِ تخلیق کی ایک مثال ہے۔ اس کتاب میں برگساں نے عمومی قیاس کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اور نہ ہی قیاسی نظام کی وضاحت میں پڑا۔ اس نے کتاب کا آغاز بعض مسائل کے تجزیے سے کیا۔ سب سے پہلے اس نے ان قابلِ مشاہدہ حقائق کا تعین کیاجو اس وقت تک موجود سائنسی مہارت کے لیے ممکن تھے۔ اس نے پانچ سال تک یادداشت پردستیاب تمام ادب پڑھ ڈالااور زبان کے استعمال کی صلاحیت کھوبیٹھنے یعنی ایفیسیا (Aphasia)کی حالت کا خصوصیت سے مطالعہ کیا۔ نفسی فعلی متوازیت کے نظریے کی رو سے دماغ میں آنے والے کسی خلل کو نفسی قوت کی فعلی بنیادوں کو بھی متاثرکرناچاہیے تھا۔ برگساں کا استدلال تھا کہ ایفیسیا کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ متاثرہ شخص دوسروں کی بات سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے، اس کے اعضائے گویا ئی بھی مفلوج نہیں ہوتے مگر اس کے باوجودوہ بول نہیں سکتا۔ دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ یادداشت نہیں کھو گئی بلکہ جسم کی میکانیت متاثرہوئی ہے جس کی مدد سے یادداشت کااظہارہوسکتا ہے۔ برگساں نے اپنے اس مشاہدے سے نتیجہ اخذکیا کہ ہماری یادداشت اور، اسی لیے، ہمارا ذہن یاروح جسم پرمنحصرنہیں ہے بلکہ اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ اس مضمون کا پیشہ ورانہ جریدوں میں ناقدانہ جائزہ لیاگیا۔ یہ مضمون اس منزل کی طرف پہلا قدم تھا جہاں پہنچ کر برگساں اپنے زمانے کے مقبول ترین اور موثر ترین اساتذہ اور مصنفوں میں سے ایک قرارپایا۔ 1897 ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے Ecole Normale Superieure لوٹا جہاں انیس برس کی عمرمیں وہ بطور طالب علم داخل ہواتھا۔پھر1900 ء میں اسےCollege of France میں تعینات کیاگیا جو پورے فرانس میں مؤقّرترین علمی ادارہ شمارکیاجاتاتھا۔ یہاں بھی وہ اعلیٰ ترین معیارات پرکامیاب استاد ثابت ہوا۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم چھڑنے تک برگساں ازم کا دور دورہ رہا۔ ولیم جیمز اس کی تصانیف کا مطالعہ ذوق و شوق سے کرتاتھا۔ اپنے زمانے کے یہ دومستند عالم گہرے دوست بن گئے۔ ہر کہیں برگساں کے فلسفے کی شرح اور اس کی تصانیف پرتبصرے نظرآنے لگے ۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ فلسفے میں ایک نئے دور کا آغازہوا ہے جس نے ادب، موسیقی، مصوری، سیاست اور مذہب جیسی متنوع سرگرمیوں کوبھی اہمیت دی ہے۔1907 ء میں برگساں کی مشہورترین کتابCreative Evolution منظرِ عام پرآئی۔ اسے بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں میں چھپنے والے عظیم ترین کاموں کی فہرست میں رکھاجاتا ہے۔ کتاب نے اس امر پر مہرتصدیق ثبت کردی کہ برگساں عمل کے تسلسل کا فلسفی ہے۔کتاب سے یہ بھی سامنے آیا کہ اس کے افکار پر حیاتیات کا عمیق اثر ہے۔ برگساں نے تصور حیات پرغوروفکر کے عمل میں ارتقا کو مسلمہ سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا۔ تاہم اس نے اس نظریے کی فلسفیانہ تعبیر پرتنقیدکرتے ہوئے ثابت کیا کہ دورانیے کی اہمیت کونظرانداز کرنے کے باعث حیات کی ندرت اوریکتائی سے صرفِ نظرہوجاتا ہے۔ اس نے تجویز پیش کی کہ پورے ارتقائی عمل کو قوتِ حیات کے استقرار کی صورت میں دیکھناچاہیے۔ یہ قوتِ حیات نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ نت نئی شکلوں میں اپنی نمودکے لیے کوشاں ہے۔ مختصر یہ کہ ارتقا میکانی نہیں بلکہ تخلیقی عمل ہے۔ برگساں نے خیال پیش کیا کہ تشکیل کا یہ عمل متوازی خطوط میں وقوع پذیر ہوتا ہے جن میں سے ایک خط جبلت اور دوسرا ذہانت کے ارتقا کاخط ہے۔ جبلت کے تحت حشرات اور دیگرجاندارزندہ ہیں جبکہ ذہانت کے ارتقا کا نتیجہ انسان ہے۔ تاہم یہ دونوں ایک ہی قوت ِحیات کا شاہکار ہیں جو دنیا میں ہرجگہ کارفرما ہے۔ کتاب کے آخری باب کا عنوان ’’فکر اورمیکانیاتی التباس کی سینمائی میکانیت‘‘ ہے۔ اس باب میں فلسفیانہ افکار کی پوری تاریخ کاجائزہ لیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فلسفہ ہمیشہ فطرت اور اس میں ظہورِ نو (Becoming) کی تحسین میںناکام رہا۔ اسی لیے غیرمتحرک اور ایک دوسر ے سے غیرمتعلق اصولوں کا اطلاق کرتے ہوئے فطرت کی حقیقت جاننے کی کوشش میں اس کا ابطال کیاگیا۔ برگساں نے مذکورہ بالا بڑی تصانیف کے ساتھ ساتھ کچھ چھوٹے رسالے اورمضامین بھی قلمبندکیے۔1900 ء میں ایسی ہی تحریک "Laugter: An Essay on the Meaning of Comic" اور1903 ء میں"An Introduction to Metaphysics" چھپی۔اسے برگساں کے فلسفہ کا بہترین تعارف ماناجاتا ہے۔ وہ اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے کہ جاننے کے دو مختلف طریقے ہیں۔ پہلاطریقہ تجزیے اور تصوریت کا ہے۔ اس طریقے میں چیزوں کو ٹھوس اور ایک دوسرے سے عدم تسلسل میں موجود دیکھنے کا رجحان پایاجاتا ہے۔ یہ طریقہ سائنس میں اپنی معراج کو پہنچتا ہے۔ دوسرا طریقہ وجدان پر بھروسہ کرتا ہے۔ یہ طریقہ فوری اور چیزوں کو اپناکر اس کے قلب تک پہنچنے پرمشتمل ہے۔ برگساں کا خیال ہے کہ پہلا طریقہ عملی دنیا میں مفید ہے اور انسان اسے مادی دنیا کا عامل اور فاعل ہونے کے حوالے سے استعمال کرتا ہے لیکن یہ طریقہ دورانیے اور اس کے دوامی بہائو کو چھوڑجاتا ہے کیونکہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف وجدان کی گرفت میں لایاجاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ طریقہ اشیا کی اصل تک پہنچنے میں استعمال نہیں ہوپاتا۔ برگساں کے سارے کام کو ایسی کوشش خیال کیاجاسکتا ہے جو اس نے اشیا کی دروں ترین حقیقت میں کارفرما دورانیے پراپنی وجدانی گرفت کی تشریح اور اطلاق میں کی۔ 1914ء میں برگساں کالج ڈی فرانس میںاپنے تمام ترفرائض سے دستبردارہوگیا لیکن 1921 ء تک باقاعدہ سبکدوش نہ ہوا۔ اسے ہروہ اعزازدیاگیا جو فرانس پیش کرسکتاتھا۔ 1915 ء کے بعدسے اسے فرانس اکیڈمی کے ’’چالیس لافانیوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرلیاگیا۔ 1927 ء میں اسے نوبل انعام برائے ادب دیا گیا۔ "Creative Evolution" کی اشاعت کے پچیس سال کے بعد اس کی اگلی بڑی کتاب 1932 ء میں "The Sources of Mortality and Religion"کے عنوان سے سامنے آئی۔ اس نے اپنی پہلی تصانیف میں دعویٰ کیاتھا کہ بنیادی فہم دراصل سکون اور تحرک کی ذمہ دار اور ایک دوسرے کے مخالف عمل کرنے والی قوتوں کی کارفرمائی ہے۔ چنانچہ وہ انسان کی اخلاقی، سماجی اور مذہبی زندگی میں ایک طرف بندمعاشرے اوردوسری طرف کھلے معاشرے کو کارفرماپاتا ہے۔ بندمعاشرے کا اظہار وضع شدہ قوانین اور رسوم و رواج پرعمل پیرائی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کھلے معاشرے کی نمائندگی ان سورمائوں اور صوفیوں کے حوصلے اور ترنگ سے ہوتی ہے جو اپنے سماج اور اپنے لوگوں میں مقدس مانے جانے والے قوانین کو توڑ کران سے اوپراٹھ جاتے ہیں۔ یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ اخلاقیات کے دو منابع ہیں۔ ایک منبع کی جڑیں ذہانت میں ہیں جو سائنس اور اس کے ساکن میکانیاتی آئیڈیل کی طرف لے جاتی ہے جبکہ دوسری وجدان پرمبنی ہے جس کا اظہار نہ صرف فن اور فلسفے کی آزاد اخلاقیت میں ہوتا ہے بلکہ صوفیوں کی سری اورمتصوفانہ وارداتیں بھی اسی کے احاطے میں آتی ہیں۔ اپنی اس تحریر میں برگساں خداکے اس تصور کے نزدیک پہنچ گیا جو مذہب کے قدامت پسند تصورات میں ملتا ہے۔1937 ء میں لکھوائی جانے والی اپنی وصیت میں اس نے اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ اپنے غوروفکر کے باعث میں کیتھولک ازم کے قریب سے قریب ترچلاگیا اور میں اسے جیوڈازم (Judasim) کی تکمیل خیال کرتاہوں۔لیکن اس کے باوجود برگساں نے مذہب کی تبدیلی کا کوئی ارادہ نہ کیا۔ وہ اپنی وصیت کی وضاحت میں لکھتا ہے کہ اگر میں نے دنیابھرمیں یہودیت کے خلاف لہر اٹھتے نہ دیکھی ہوتی تو شاید مذہب بدل لیتا لیکن مجھے ان لوگوں میں سے نہیں ہوناتھا جنہیں کل تعذیب و عقوبت کا نشانہ بنایاجاناتھا۔ اس نے بسترِمرگ پرپڑے یہودی کہلوانا ہی پسند کیا۔(36) اگرچہ برگساں فلسفے کے کسی مکتبِ فکر کا بانی نہیں لیکن اس کے اثرات قابل ذکر ہیں۔ اس نے فرانس، امریکہ اوربرطانیہ کے فلسفیوں پرگہرے اثرت مرتب کیے۔ اس کے اثرات ولیم جیمز، جارج سنتیانا الفریڈنارتھ وائٹ ہیڈ(Alfred North Whitehead) اور یہاں تک کہ اقبال کے ہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ رابندرناتھ ٹیگور(1861-1941)(Rabindranath Tagore) کے چاہنے والے اسے گرودیو اور روی ٹھاکر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ٹیگور نے بنگالی ادب میں کلاسیکی سنسکرت ادب پرقائم روایتی طرزِ نگارش کی جگہ بول چال کی زبان کو رواج دیا۔ ہندوستانی معاشرت کے بعض نفیس پہلوئوں کو مغرب میں متعارف کروانے والوں میں سے ٹیگور غالباًاہم ترین ادیب ہے۔ ٹیگور کا باپ دیوندرناتھ ٹیگور (Dabendranath Tagore) برہموسماج کے دو بڑے دھڑوں میں سے ایک کا رہنماتھا۔ ٹیگور اپنی اصل میں ٹھاکر کابگاڑ ہے جو مالک کے معنوں میں برتا جاتا ہے۔ ٹیگور برہمن تھا اور اس کے ہاں علم اور دانشوری کی ایک لمبی روایت موجود تھی۔ اگرچہ اہلِ مغرب ٹیگور کو باقاعدہ فلسفی سے زیادہ بطور شاعرجانتے ہیں لیکن روایتی ہندوستانی سماج میں یہ تفریق موجود نہیں تھی۔ ٹیگور کی فکرمذہب اور فلسفے کے امتزاج سے وجود میں آئی۔ ٹیگور نے اپنے خیالات کے اظہارمیں جو تکنیک اپنائی اسے عروسی تصوف(Bridal Mysticism) کہاجاسکتا ہے۔ تصوف کی اس خاص طرز میں صوفی خودکو دلہن کے طورپر دیکھتے ہوئے اپنا ذہن اور جسم اپنے الوہی دولہاکے سامنے پیش کردیتا ہے۔اگرچہ اس کے اپنشدی تصورات و خیالات اس کی تمام تصانیف میں سرایت کیے ہوئے ہیں لیکن ’’سادھنا‘‘ میں زیادہ واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانیوں کے ایک خاصے بڑے طبقے نے اسے ہمیشہ رشی ،کوی اور صوفی قراردیا ہے۔ ٹیگور کے گردنظرآنے والے تقدس کے ہالے کی ایک اور وجہ ہندوستان کا قومی مزاج بھی ہے کہ یہاں عظیم مفکروں کو تقدیس کا لبادہ پہنادیتے ہیں۔ ٹیگور کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ برہمن زاد ہونے کے ناطے اسے بچپن سے ہی اپنشدوں کی تعلیم دی گئی۔ اپنے روحانی سفر میں وہ عمر بھر اِن سے رہنمائی حاصل کرتارہا۔ ٹیگور کے ہاں خداکاجوتصورملتا ہے وہ ویدوں سے اپنشدوں تک پہنچا۔ ویدوں کا خدا اسلام اورعیسائیت کے خداسے یوں مختلف ہے کہ یہ ہرچیز میں سرایت کیے ہوئے ہے اورہرطرح کے تشخص اور بیانیے سے ارفع تر ہے۔ مشہورترین ہندودیوتائوں سمیت ہرچیز دراصل اس ازلی حقیقت یعنی برہمن کا عارضی اور ارضی اظہار ہے۔ ٹیگور نے وجود،شعوراورمکتی کی ہندوتثلیث کی اصطلاح میں برہماکے ساتھ انسان کے تعلق کوبیان کیااور اسے ہندومت کا مقصدقراردیا۔ اپنشدوں کے بنیادی فلسفے میں بھی اسی اصول کی روح موجود ہے۔ اپنشدوں کے متعلق ٹیگور نے اپنے ذاتی خیالات ’’سادھنا‘‘ میں بیان کیے ہیں۔’’سادھنا‘‘ ہندی میں طرزِحیات اورطرزِ عمل کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔’’سادھنا‘‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیگور پراپنشدوں کے اثرات کتنے گہرے ہیں۔ اگرچہ ٹیگور کے ادبی سرمائے میں شاعری کو غلبہ حاصل ہے لیکن اس نے ناول،افسانے، سفرنامے، ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔ اس کے لکھے ہوئے گیتوں کی تعداددوہزار سے زیادہ ہے۔ ان گیتوں کو بنگالی ادب میں وہ مقام حاصل ہے کہ اس صنف کا نام ہی رابندرسنگیت پڑگیا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہندوستانی مغربی بنگال اور اکثریتی مسلمان آبادی کے ملک بنگلہ دیش میں انھیں ثقافتی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ زیادہ تر رابندرسنگیت ارفع ترین محبت اور تصوف کا پیرایہء اظہارہیں۔ بنگالی اخلاقیات کے مزاج پر ٹیگور کا اثراتناگہرا ہے کہ لسانیاتِ عالم میں اس کی قدرے کم تردرجے کی ایک مثال انگریزی خوانوں پرشیکسپیئر کے اثرات ہیں۔ رابندرناتھ ٹیگور کادادا ادوارکاناتھ اپنی عربی اور فارسی دانی کے لیے مشہورتھا۔ ان کے خاندان میں سنسکرت اور قدیم ہندوکتابوں کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات اور فارسی ادب کے فہم کی روایت پشتوںسے چلی آرہی تھی۔ چنانچہ عجب نہیں کہ اس کی تحریروں میں برصغیرکے مختلف علاقوں کے تمدنوں کی جھلک نظرآتی ہے۔ ٹیگور نے نظم اور نثر دونوں کو مختلف پیغاموں کے ابلاغ کے لیے برتا۔ اس کی نثر میں سماجی سوالات، سیاسی خیالات اور تعلیمی تصورات کے ساتھ ساتھ عالمگیر انسانی بھائی چارے کی جھلک ملتی ہے جبکہ ٹیگور کی شاعری میں مذہبیت اور روحانیت کے ساتھ فطرت اور حیات کے سرورکااعتراف اوراس سے جنم لینے والی شادمانی نظرآتی ہے۔ اس کے ہاں نظرآنے والے سرور اور سرمستی کی جڑیں بیشتراوقات خارج میں نہیں ہوتیں۔ اس کی عالمگیریت اورحب وطن بھی دراصل اسی کیفیت کے دو مدارج ہیں۔ ادبی تاریخ میں ٹیگور کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں نے اس کے لکھے دو گیتوں کو اپنے قومی ترانے قراردیا۔ اسے1913 ء کا نوبل انعام گیتانجلی (Gitanjali) کے انگریزی ترجمے پرملا۔ یہ ترجمہ خود ٹیگور نے کیاتھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے یہ ترجمہ ژیٹس(Yeats) کی حوصلہ افزائی پرکیاتھا۔ ٹیگور نے ہندوستان میں قوم پرستی کی تحریکوں کی ابتدا پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ بعدازاں وہ ان کے بدلتے رخ کودیکھ کرایک طرف ہوگیا۔1919 ء میںپنجاب کے جلیانوالہ قتل عام میں 350نہتے شہریوں کے مارے جانے پر سب سے پہلے ٹیگور نے برطانوی تاج کا عطاکردہ ’’سر‘‘کا خطاب واپس کیاتھا۔ ٹیگور کے نمایاں ترین کارناموں میں سے ایک وشوابھارتی(Visva-Bharati) یونیورسٹی کا قیام بھی ہے۔یہ یونیورسٹی ان تمام ودیالوں یعنی سکولوں پر محیط تھی جو اس نے اپنے تعلیمی تصورات کے مطابق تعلیم دینے کے لیے قائم کیے تھے۔ ٹیگور کابچپن نہایت غیردلچسپ سکولوں میں گزراتھا۔ اسے ان کے بے لچک نظم و ضبط اور حبس زدہ ماحول سے شدید وحشت ہوتی تھی۔ وہ ہندوستان میں برطانیہ کے طفیل آنے والے نظام کو مصنوعی قراردیتاتھا۔ وہ سمجھتاتھا کہ یہ نظامِ تعلیم میکانی کتاب خوانی کا اسیرہے اور اس میں فطرت کے ساتھ متعامل اورہمکلام ہونے کی گنجائش موجود نہیں۔ وہ سمجھتاتھا کہ نوخیزہندوستانی اذہان کی قوتِ احساس اس نظامِ تعلیم کے تحت فقط موت سے دوچارہوسکتی ہے۔ اگرچہ اپنے سرپرستوں کی خواہشات کے احترام میں اس نے کچھ باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی لیکن اس کی فکر کے تعین میں کسی بھی درس گاہ سے زیادہ اہم کردار خاندانی کتب خانے نے اداکیا۔ مروجہ نظامِ تعلیم سے اختلاف کے باعث ٹیگور نے مغربی بنگال میں شانتی نکیتن (Santiniketan)کے مقام پر برہمچاری آشرم قائم کیا۔ قدیم ویدی زمانے کے ہندوستان میں اچاری یعنی گرو کی رہنمائی میں علم کے متلاشی کوبرہمچاری کانام دیاجاتا تھا۔ ٹیگور نے پوری کوشش کی کہ اس کا قائم کردہ ادارہ جدیدزمانے میں بھی ویدی نظامِ تعلیم کا نمونہ بن جائے۔ اس کام میں ٹیگور کواپنے باپ کی معاونت بھی حاصل تھی جس نے وسیع زرعی رقبے پرمشتمل اپنی جاگیر کاایک حصہ اس ادارے کے لیے وقف کردیاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیگور کاقائم کردہ ادارہ تیس شعبوں پرمشتمل یونیورسٹی بن گیا۔ہندوستان کی آزادی کے بعدحکومت نے اس ادارے کا انتظام سنبھال لیا۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں 1922 ء کا آسکرانعام یافتہ فلم ساز ستیہ جیت رے(Satyajit Ray) ،1998 کااقتصادیات کا نوبل انعام یافتہ امرتیاسین (Amartya Sen) اور سابقہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ٹیگور نے اپنے دور کی عالمی تحریکوں سے اثرات قبول کیے اور مختلف اقوام اور ممالک کے مابین جنگوں پراظہارِافسوس بھی کیا۔ لیکن وہ جس امن کا خواہاں تھا اس کی ماہیت سیاسی نہیں تھی۔ وہ انسان کے عالمگیر تشخص پرمبنی امن کا پرچارک تھا۔ ٹیگور نے اپنی یونیورسٹی کے لیے فنڈزاکٹھاکرنے کی غرض سے کئی ممالک کے دورے کیے۔ یوںاسے مختلف اقوام کے خصائص اور مزاجوں کی تفہیم میں مددملی۔ عالمی ادب کی ایک صنف مشرق و مغرب کا تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ ٹیگور نہ صرف اس صنف کانمایاں نثار ہے بلکہ شاید اس کا بانی بھی ہے۔اس نے اپنے مضامین میں رڈیارڈکپلنگ جیسے نسل پرست ادیبوں کی نہایت موثر مخالفت کی۔ اسّی کی دہائی میں اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔1890 ء میں چھپنے والا مجموعہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کابھرپوراظہارتھا۔ ٹیگور کی معروف ترین نظمیں اس مجموعے میں شامل تھیں۔ بیشتربنگالیوں کو کئی ایک نظموں کی ہیئت غیرروایتی لگی۔ اس کتاب میں سماجی اور سیاسی اقدارپرچوٹیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔1891 ء میں ٹیگور اپنی آبائی جاگیرکاانتظام سنبھالنے مشرقی بنگال کے اس علاقے میں چلاگیاجو آج بنگلہ دیش میں ہے۔ یوں زندگی کے دس برس شہزادپور میں گزرگئے۔اس دوران میںٹیگور نے بارہادریائے پدما میں تیرتے کشتیوں پربنے گھروں میں قیام کیا۔ یوں اسے غریب دیہاتیوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی تحریروں میں غریب بنگالیوں کی غربت اور پسماندگی کی انتہائی جاندار تصویرکشی اور ان کے ساتھ دلگداز ہمدردی اسی براہ راست مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ چھوٹی بڑی محرومیوں میں رنگی ان دیہاتیوں کی زندگی کو ٹیگور نے نہایت پراثرطورپربیان کیا۔ ان کہانیوں میں مقدر، ستم ظریفی اور تلخی کا ایک امتزاج زیریں سطح پرہلکورے لیتانظرآتاہے۔ ستیہ جیت رے جیسے فلمساز وہدایتکار نے بڑی کاوش سے ان احساسات کو پردۂ سیمیں پرپیش کیا۔ ٹیگور کوبنگال کے فطری نظاروں سے عشق تھا۔ اس کی شاعری میں دریائے پدما کے مناظرباربارابھرکرسامنے آتے ہیں۔ ان سالوں میں اس کے کئی ایک مجموعے سامنے آئے جن میں سے سونارتاری(Sonar Tari) زیادہ اہم ہے جو1894 ء میں چھپا۔ڈراموں کا ایک مجموعہ چترنگدا 1892 (Chitrangada) ء میں چھپا۔ ٹیگور کی شاعری اوربالخصوص اس کے دو ہزار سے زیادہ گیتوں کا ترجمہ قریب قریب ناممکن ہے۔ اس کے گیت بنگالیوں کے تمام طبقوں میں مقبول ہیں۔ 1912ء کے بعدسے ٹیگور نے یورپ، امریکہ اور مشرقی ایشیا میں طویل قیام کیا۔ وہ مختلف موضوعات پر لیکچردیتا رہااور اپنی شاعری سناتارہا۔ اس کے ناول، نظموں اور افسانوں کے مقابلے میں کم ترہیں لیکن نظراندازنہیں کیے جاسکتے۔ اس کے ناولوں میں سے’’گورا‘‘(Gora) کو خصوصاً اچھی شہرت ملی۔ بیس کی دہائی کے اواخرمیں ٹیگور کی عمرلگ بھگ ستر برس کی تھی کہ اس نے مصوری شروع کی۔ اسے جدید ہندوستان کے صف اول کے مصوروں میں رکھاجاتاہے۔ نظموں کا مجموعہ گیتا نجلی رابندرناتھ ٹیگور کی معروف ترین شاعری پر مشتمل ہے۔ نثری نظم کی ہئیت میں لکھے گئے اس ترجمے کا تعارف ولیم بٹلرژیٹس(William Butler Yeats) نے لکھا۔ ٹیگور نے ان نظموں میں عہدِ وسطیٰ میں کی جانے والی بھگتی شاعری کو بطور نمونہ استعمال کیا تھا۔ان گیتوں کے لیے موسیقی بھی خود ٹیگور نے ترتیب دی۔مجموعے کی کچھ نظموںمیں روحانی تڑپ اور ارضی خواہشات کے درمیان ہونے والی اندرونی کشمکش کو بیان کیاگیا ہے لیکن زیادہ تر نظمیں محبت کے گرد گھومتی ہیں۔ مجموعے میں شامل تمام نظموں پردھیمے سر حاوی ہیں۔ اگرچہ اس مجموعے نے نوبل انعام دلوانے میں مرکزی کردار اداکیالیکن ماہرین اس امرپرمتفق نہیں کہ یہ ٹیگور کاعمدہ ترین اورنمائندہ کام ہے۔ رابندرناتھ ٹیگور کی نظموں کا مجموعہ’’ مناسی‘‘ پہلی بار1890 ء میں چھپاتھا۔ اس مجموعے کے انگریزی نام کا مطلب ’’ذہن کی تخلیق‘‘ تھا۔ کتاب منظرعام پرآئی تو ٹیگور انتیس برس کا تھا۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ شاعراپنے فن کی پختگی تک پہنچ چکاہے لیکن بیشتر نظموں کا مرکزی خیال نوعمری کی رومانویت پرمشتمل ہے۔ فطرت کی بات ہویامحبت کی ہرجگہ محویت کارفرماہوتی ہے۔ ہمیں منہ زور اورخام جذبوں کے پیکر مہذب پیرایۂ اظہار کے پہلو بہ پہلو کھڑے ملتے ہیں۔اسی طرح ہم روح اور جسم کو بھی بالمقابل کھڑا پاتے ہیں۔ کئی نظمیں ارضی خواہشات کی مذمت میں ہیں اور کچھ میں بنگالی معاشرے کی تنگ نظری پرتنقیدملتی ہے۔ ٹیگور کے جن ابتدائی مجموعوں نے ایذراپائونڈ(Ezra Pound) اورڈبلیو۔ بی۔ژیٹس کومتاثرکیا،ان میں یہ مجموعہ بھی شامل ہے۔ بنگالی ادب کی ہزارسالہ تاریخ میں ٹیگور کی بلندقامت شخصیت نہایت ممتازنظرآتی ہے۔ اس کے گیت آج بھی کروڑوں بنگالیوں کے لبوں پررہتے ہیں۔ لیکن ٹیگور نے یورپ اورامریکہ میں جوہیجان پیداکیاتھا بڑی حدتک ختم ہوچکا ہے۔ گیتانجلی کا انگریزی ترجمہ مارچ1913 ء میں لندن سے چھپاتھااورنومبر میں انعام کا اعلان ہونے تک اس کی دس اشاعتیں نکل چکی تھیں۔ اس وقت کی مقبولیت کے حساب سے کہا جاسکتا ہے کہ اب مغرب میں ٹیگور کو کچھ زیادہ نہیں پڑھاجاتا۔ گراہم گرین(Graham Greene) نے تو1937 ء میں ہی کہہ دیاتھاکہ جہاں تک رابندرناتھ ٹیگور کا تعلق ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ سوائے مسٹرژیٹس کے کوئی شخص اس کی نظموں کو کچھ زیادہ وقعت دیتا ہے۔ بنگالی ادب میں ٹیگور کے مقام اور باقی دنیا میں اس کی مقبولیت کے زوال کا تقابل یقینا دلچسپ ہے لیکن اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ بنگالی خواں طبقہ اسے فکری سطح پراپنا ہم عصرپاتا ہے اور اس کے کلام کو ہمہ جہت گردانتا ہے جب کہ مغرب میں اسے بھولابسرا روحانیت پسند سمجھاجاتا ہے جس کا کلام اورخیال دونوں پٹے ہوئے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ ژیٹس(Yeats) اور ایذراپائونڈ سمیت ٹیگور کے اولین مداحوں نے مغرب کے ہاتھوں بیچنے کے لیے اس کے گرد تصوف کا ایک ہالہ لپیٹ دیا۔1941 ء میں ٹیگور کی وفات کے بعد اسے میسرآنے والے مداحو ں میں ایک اینااخماطوف(Anna Akhmatov) بھی شامل ہے جس نے ساٹھ کی دہائی کے وسط میں اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ روسی زبان میں کیا۔ اخماطوف نے بھی قراردیا کہ رابندرناتھ ٹیگور شاعری کا وہ دھارا ہے جو اپنی قوت کا زیادہ تر حصہ ہندومت اور گنگا سے حاصل کرتا ہے۔ اخماطوف کا خیال درست ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ٹیگور مشرقی ہندوستان کے ہندوئوں میں بھی اتنا مقبول ہے جتنا بنگلہ دیش کے بنگالی مسلمانوں میں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان بھی محسوس کرتے ہیں کہ ٹیگور ان کے خیالات کی نمائندگی کرتا ہے۔بنگلہ دیش کا قومی ترانہ ’’امارسوناربنگلہ‘‘(میراسنہرابنگال) ٹیگور کی شاعری ہے۔ آج کی مسلم، ہندو اور مغربی تہذیبوں کی فضا میں رہنے والے کو یہ بات قدرے عجیب لگے گی کہ خود ٹیگور نے اپنی خاندانی روایات کو ہندو، مسلم اوربرطانوی تمدنوں کا امتزاج قراردیاتھا۔ اس کی مصوری تجرید اور فطرت کی نمائندگی کا خوبصورت امتزاج ہے جسے بڑی دیر سے سراہاگیا۔ اس کے مضامینِ ادب، تمدن،سماجی تبدیلی، مذہبی عقائد، بین الاقوامی تعلقات اور فلسفیانہ تحلیل و تجزیے کا احاطہ کرتے ہیں۔ ٹیگور کے نزدیک لوگوں کو زندہ رہنے اور آزادی سے غوروفکرکی سہولت دینا سب سے بڑا انسانی شرف تھا۔ قدامت پسند ہندوئوں کے برعکس اسے مذہب کے نام پرہونے والی فرقہ واریت سے سخت نفرت تھی۔ بعض اوقات اسے گمان گزرتا کہ قومیت پرستی بھی انسان کو گروہوں میں تقسیم کردیتی ہے۔اسے بعض اوقات گاندھی کی قوم پرستی پربھی شک گزرتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیگور ہندوستانی سیاست سے لاتعلق رہا۔ اس نے1905 کے تقسیمِ بنگال اور1919 ء کے جلیانوالہ قتلِ عام کی مذمت کے لیے ہرممکن طریقہ استعمال کیا۔ رڈیارڈکپلنگ (1865-1936)(Rudyard Kipling) کا باپ جان لاک ووڈکپلنگ ایک عالم، فاضل شخص تھا۔ اسے فنونِ لطیفہ سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کے مزاج پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ لاہور عجائب گھر کا کیوریٹربنا۔ کپلنگ نے اس پس منظر میں اپنے باپ کو اپنے مشہورترین ناول"Kim" کے پہلے باب میں بیان کیا ہے۔ کپلنگ کی ماں ایلس مکڈونلڈکی تین بہنوں نے ایڈورڈبرن جونز Edward Burne Jones) ( ایڈورڈپوئنٹر(Edward Poynter) اور الفریڈبالڈون(Alfred Baldwin) سے شادیاں کیں۔ موخرالذکر کا بیٹاسٹینلے بالڈون(Stanley Baldwin) برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ ان رشتوں نے کپلنگ کی زندگی پراہم اثرات مرتب کیے۔ کپلنگ ممبئی(ہندوستان)میں پیداہوا۔ اس کا بچپن کچھ خوشگوارنہیں تھا۔ وہ چھ برس کا تھا کہ اس کے والدین اسے انگلینڈلے گئے۔ وہ پانچ برس تک والدین سے دور سائوتھ سی کے ایک گھرانے میں پرورش پاتا رہا۔ اس گھرکے متعلق اس نے اپنے جذبات1888 ء میں چھپنے والی اپنی کہانی "Baa Baa, Black Sheep"میں بیان کیے۔ بعدازاں اسے یونائیٹڈ سروسزکالج میں بھجوادیاگیا۔ یہ سستی اور نئی اقامتی درس گاہ آبادی سے کافی دور تھی۔ اس ادارے میں ہونے والے تجربے کپلنگ پر زندگی بھر مسلط رہے۔ 1899 ء میں چھپنے والی "Stalky & Co" میں اس درس گاہ کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ خودروجھاڑجھنکار سے پٹی ایک ایسی جنت نظرآتی ہے جس میں مارکٹائی اور دھونس دھاندلی کے ماحول میں بھی انگلینڈ کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورااترنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مہم جوئی کا رنگ لیے اس سلسلۂ داستان کوکپلنگ کا عظیم تخیلاتی کارنامہ قراردیاجاسکتا ہے۔ بعض پڑھنے والوں کو اس تحریرمیں سفاکی نظرآتی ہے۔ یہ احساس عین فطری ہے اورمصنف کے تجربے کا حصہ ہے۔ ایک حساس اور پُرزوتخیل کے حامل شخص کو ضوابط کے کڑے شکنجے سے گزرناپڑے تو ہونے والی شکست و ریخت عین قابلِ فہم ہے۔ 1882 ء میں کپلنگ ہندوستان واپس لوٹ آیا اور کئی سال تک صحافت سے وابستہ رہا۔ اس کے والدین بجائے خود کچھ ایسے اہم عہدوں پرنہ تھے لیکن ان کے مراسم مقامی اور حکمران ہردوطبقوں کے ساتھ تھے۔ نتیجتاًکپلنگ کومعاشرے کے طبقہ بالا کے طرزِ حیات کے مطالعے کا موقع ملا۔ اس نے ہندوستان کے عام لوگوں کے رہن سہن کا مشاہدہ بڑے غور سے کیا۔ اسے لڑکپن سے ہی دیسی باشندوں کے طرزِ حیات میں دلچسپی تھی۔ جلدہی اس کا قلم رواں ہوگیا۔ وہ کئی ایک اخبارات کے ساتھ بھی وابستہ رہا۔ قلمی خاکے اور ہلکی پھلکی شاعری سے اس کی پہچان بنتی گئی۔ اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ1886 ء میں "Departmental Ditties" کے عنوان سے چھپا جب کہ کہانیوں کامجموعہ "Plain Tales from the Hills" ، 1888 ء میںسامنے آیا۔ 1889 ء تک اس کی کہانیوں کے چھ مجموعے سامنے آچکے تھے جن میں سے"Three Soldiers"،"The Phantom Rickshaw" اور "Wee Willie Winkie"کو خاص شہرت ملی۔ دوسرے مجموعے میں"The Man Who Would be King"شامل تھی جب کہ"Baa Baa, Black Sheep" تیسرے مجموعے میں شامل تھی۔ وہ 1889 ء میں انگلینڈ واپس چلاگیا۔ جہاں اس کی شہرت پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ ایک سال کے اندراندر اسے اپنے وقت کے بہترین نثرنگاروں میں شمارکیاجانے لگا۔ 1892 ء میں اس کی کہانیوں کا مجموعہ "Barrak Room Ballads" سامنے آیا تو اس کی شہرت مزید چمکی۔ لارڈ بائرن کے بعد کسی نے اتنی تیزی سے شہرت حاصل نہ کی تھی۔ 1892 ء میں ملک الشعرا لارڈٹینی سن (Lord Tenyson) کا انتقال ہو ا تو عوام نے فوراًکپلنگ کو اس منصب پر فائزکردیا۔ اسی سال کپلنگ نے امریکی پبلشرومصنف والکاٹ بیلسٹیئرWolcott) (Balestierکی بہن کیرولین سے شادی کر لی۔1982 ء میں والکاٹ نے کپلنگ کا "The Naulakha" چھاپا۔ اس نوبیاہتا جوڑے نے فوراً امریکہ کی راہ لی اور ورمونٹ (Vermont) میں واقع کیرولین کی جائیدادپرآباد ہوا۔ ان کے ہمسائیوں کو اس نوجوان جوڑے کے طرزِمعاشرت پرشدیداعتراض تھا۔ امریکی طرزِ حیات میں ڈھلنے میں ناکامی کے بعد کپلنگ انگلینڈواپس لوٹ آیا۔ اس کے بعدکپلنگ امریکیوں کو ہمیشہ خارجی (Foreigners) خیال کرتارہا۔ اس نے فرانسیسیوں کے ساتھ ساتھ امریکیوں کو بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا جن کے متعلق وہ کہا کرتاتھا کہ رودبارِانگلستان کے پار صرف کم نسب لوگ پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں قیام کے دوران1890 ء میں اس کا ناول "The Light That Failed" چھپا۔ یہ کہانی ایک مصور کی ہے جسے اندھا ہوجانے کے بعد اپنی معشوقہ کا توہین آمیز رویہ سہنا پڑتا ہے۔1897 ء میں "Captains Courageous" نامی ناول سامنے آیا۔ مہم جوئی پر مبنی یہ ناول لفاظی سے بھرپور ہے اور اسی لیے اسے بہت سے نقاد کمزورناول قراردیتے ہیں۔ 1901ء میں بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب "Kim" چھپی جسے کلاسک خیال کیاجاتا ہے۔ 1897ء میں "The Jungle Book" سامنے آئی۔ کہانیوں کے اس مجموعے میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے ساتھ کہانیاں جوڑی گئیں۔ مذکورہ بالاتحریروں نے ایک بات تو واضح کردی کہ اگرچہ کپلنگ کوکہانی کے بیان پر عبور حاصل ہے لیکن وہ متوازن اور گتھاہوا ناول نہیں لکھ سکتا۔ 1902ء میں کپلنگ نے برواش، سسکس میں ایک گھرخریدااور پھرمرنے تک اسی میں رہا۔ بعدکی بیشتر تحریروں کا پس منظرسسکس ہے۔ اس حوالے سے 1906 ء میں چھپنے والا ناول "Puck of Pook's Hill"اور1910 ء میں چھپنے والی تحریر"Rewards and Fairies"خصوصاًقابلِ ذکر ہیں۔ اگرچہ ان دونوں کا اصل مقصدانگریزی تاریخ کی ڈرامائی پیشکش ہے لیکن ان میں کپلنگ کی عمیق ترین وجدان کی جھلک ملتی ہے۔1907 ء میں اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔ کپلنگ نے جنوبی افریقہ میں بھی خاصا وقت گزارا۔ ہیروں کے مشہور بیوپاری اور جنوبی افریقہ کے سیاستدان سیسل رہوڈز(Cecil Rhodes) نے اسے گھر دے رکھاتھا۔ رہوڈز سے دوستی نے کپلنگ میں سامراجی رجحانات کو ہوادی جو سال بہ سال مضبوط ہوتے گئے۔ کپلنگ پوری ایمانداری سے سمجھتاتھا کہ ہرانگریز بلکہ ہرسفیدفام کافریضہ ہے کہ وہ نوآبادیات کے پس ماندہ خطوں میں یورپی ثقافت متعارف کروائے۔ وہ نوآبادیات کے باشندوں کو پس ماندہ اور کم ترخیال کرتاتھا۔ اس کی طرزِفکر معاصرروشن خیالی کے ساتھ متصادم تھی چنانچہ عمرگزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تنہائی میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ اس کا انتقال جارج پنجم کی وفات سے دور روز پہلے ہوا۔ بیشترلوگ سمجھتے تھے کہ بطورانگریزجارج پنجم بھی اپنے عہد کی نمائندگی میں کپلنگ سے بہتراور کامیاب تھا۔ کپلنگ کی کہانیاں اور نظمیں انیسویں صدی کے اواخراور بیسویں صدی کے آغاز میں انتہائی مقبول تھیں۔ لیکن جنگِ عظیم اول کے بعد کے سنجیدہ لکھاری کی حیثیت سے اس کی شہرت دھندلانے لگی۔اسے زیادہ تر سامراج پرستانہ رویے کا حامل شخص کہاجاتاتھا۔ اگرچہ ٹی ایس ایلیٹ(T.S.Eliot) جیسے نامور نقادوں نے بھی بطور شاعر اسے ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اسے بلندمرتبہ شاعرکبھی خیال نہ کیاگیااگرچہ اس کی شاعری خاصی توانا ہے۔ وہ عام فوجیوں اور ملاحوں کے ذخیرۂ الفاظ میں لکھتا ہے اور اسی وجہ سے ایک خاص طبقے میں مقبول رہا لیکن بنیادی طورپر وہ فکرکاشاعر نہیں ۔ اس کے ہاں زورِ تخیل اورشدتِ فکر کی بجائے گونج دار لہجے میں بیان کی گئی کہانیاں ملتی ہیں۔ لیکن کپلنگ کی نثر کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں۔ اس کے ہاں کہانی کاری کا فن مسلسل مائل بہ ترقی نظرآتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے قیام کے دوران میںچھپنے والی کہانیوں سے لے کر بالترتیب1891 ،1893 ،1898 ،1904 ، 1909 ، 1926اور1932 میں سامنے آنے والی تحریروں"Life's Handicap" ،"Many Inventions"،"The Day's Work" ،"Traffics and Discoveries" ، "Actions and Reactions" ، "Debits and Credits" اور "Limits and Renewals"تک اس کا فن مائل بہ پختگی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کہانی کاری میں مرکزی خیال کی کھوج کا عنصر طاقتور ہوتا چلاجاتا ہے۔ان کہانیوں میں"The Phantom Rickshaw" کا سامافوق الفطرت ماحول ایک بارپھرنظرآتا ہے۔ 1924 ء میں چھپنے والی"The Wish House" میں یہ تکنیک بڑی لطافت سے برتی گئی ہے۔1915 ء میں چھپنے والی"Mary Postgate" میں بھی 1880 ء کی ایک کہانی "The Man Was" کی سی معصوم اور بے ضرروطن پرستی جھلک ملتی ہے۔ آخری سالوں میں عدم مقبولیت کی ایک وجہ اس کے طرزِ تحریر میں آنے والی کچھ تبدیلیاں بھی ہیں۔ اس دور میں اس کی تحریریں موضوع سے براہِ راست خطاب نہیں کرتیں، گنجلک ہوجاتی ہیں۔ اس دور کی کہانیوں کے مرکزی خیال بھی غیرواضح اور مضمحل سے ہیں لیکن ان تکنیکی خامیوں سے قطع نظر سیاسی تعصب بھی بطورِ ادیب اس کی مقبولیت پر اثراندازہوا۔ بلاخوفِ تردیدکہاجاسکتا ہے کہ کپلنگ نے زیادہ تربچوں کے لیے اور نہایت کامیاب تحریریں لکھیں۔ 1902 ء میں چھپنے والی کتاب"Just so Stories" کم عمربچوں کے لیے جب کہ "The Jungle Book" ،"Puck of Pooks's Hills" اور "Rewards and Fairies"کا حلقۂ قارئین زیادہ وسیع ہے۔ اس کے متفرق کاموں میں سے 1899 ء میں چھپنے والی "From Sea to Sea" زیادہ اہم خیال کی جاتی ہے۔ یہ کتاب سیاحت کے دوران میںلکھے گئے خاکوں پرمشتمل ہے۔ کپلنگ نے تیس کی دہائی کے اوائل تک لکھنے کا کام جاری رکھا اگرچہ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ رفتار کم ہوتی چلی گئی۔ اس کی پہلے کی سی کامیابی اور مقبولیت بھی نہ رہی۔ وہ 1936 ء کے اوائل میں برین ہیمرج سے مرگیا۔ موت کے بعد سے اس کی مقبولیت زوال پذیرہے۔ آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آیا اسے عظیم لکھاریوں کی صف میں رکھاجاسکتا ہے یا نہیں۔ یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کا انہدام ہوا اور بیسویں صدی کے وسط میں کمیونزم کے اثرات پھیلے تو کپلنگ کا کام زمانے کا ساتھ نہ دے سکا۔ لیکن سامراجیت پر تنقید اورکپلنگ پرتنقید کو الگ الگ رکھنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ سامراجیت کی مذمت میں کپلنگ کی مذمت کرجاتے ہیں۔ ان کے لیے کپلنگ کو سامراجیت سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی وفات کے فوراًبعد کے زمانے کاجائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ یورپ سے زیادہ امریکی ادیبوں نے اسے اپنا ورثہ بنایا۔ سائنس فکشن ادیب جان ڈبلیو کمپبل (John W. Campbell) اسے اپنا آئیڈیل خیال کرتاتھا۔ اس کی اپنی زندگی میں کپلنگ کوبنیادی طورپر شاعرماناجاتاتھا جبکہ آج اسے بنیادی طورپربچوں کا ادیب خیال کیاجاتا ہے۔1939 ء میں کپلنگ کی بیوی نے انتقال کیا تو سسکس میں واقع اس کے گھر کو نیشنل ٹرسٹ نے حاصل کرلیااور اب یہ عجائب گھر کی حیثیت سے قائم ہے۔ "If"رڈیارڈکپلنگ کی معروف نظم ہے۔1895 ء میں لکھی گئی یہ نظم پہلی بار1910 ء میں کپلنگ کی مختصر کہانیوں کے ایک مجموعے "Rewards and Fairies" میں چھپی۔ نقادوں کا خیال ہے کہ کپلنگ نے یہ نظم ڈاکٹرلینڈرسٹرجیمسن(Dr. Leander Starr Jameson) کی شخصیت سے متاثرہوکر لکھی۔ اس شخص نے 1895 ء میں جنوبی افریقہ میں بوئروں کے خلاف ایک تباہ کن برطانوی حملے کی قیادت کی تھی۔ جنگ بوئر چھڑنے میں ایسے حملوں نے بنیادی کرداراداکیا۔ تاہم برطانوی پریس نے جیمسن کو ہیرواور برطانوی شکست کو فتح کی شکل دی۔ کسی بھی دوسری نظم کے مقابلے میں یہ نظم مختلف مجموعوں میں کہیں زیادہ شامل رہی۔ بی بی سی کے ایک پول کے مطابق برطانیہ میں یہ نظم کسی بھی دوسری نظم کے مقابلے میں زیادہ مقبول رہی۔ کپلنگ کی نظم "The White Man's Burden" 1899 ء میں چھپی۔ لیکن اب یہ نام بطورِ اصطلاح دنیاکے متعلق ایک ایسے نقطۂ نظر کے لیے برتاجاتا ہے جسے استعماریت کو جواز دینے کے لیے استعمال کیاجاتارہا۔اس اندازِ فکر کے مطابق تمام غیریورپین تمدن اور ثقافتیں طفولیت اور شرپرمبنی ہیں۔ اہل یورپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ ان پرغالب آئیں اور یہ غلبہ اس وقت تک برقراررکھیں جب تک وہ تمدن بلوغت حاصل کرنے کے بعد دنیامیں اپنی شناخت نہیں بنالیتے۔ یہ نظم سب سے پہلے ایک امریکی رسالے "McClure" میں چھپی۔ یہ نظم سپین۔ امریکہ جنگ کے بعد امریکیوں میں پیدا ہونے والی علیحدگی پسندی ختم کرنے کے لیے لکھی گئی۔ خیال کیاجاتاتھا کہ امریکہ نے فلپائن میں سپین کی جگہ نہ لی تو جاپان جیسی کوئی طاقت وہاں قابض ہوسکتی ہے۔ کپلنگ نے نظم لکھ کر فلپائن میں امریکی مداخلت کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ آج یہ اصطلاح اہلِ یورپ کی نسلی برتری کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم تاریخی تناظرمیں اس اصطلاح کو نوآبادیات کے جواز میں پیش کی گئی وجوہات میں سے ایک کے لیے برتاجاتا ہے۔ استعماری قوتوں نے اپنی ایشیائی اور افریقی نوآبادیاتی مہموں کے مذکورہ بالا جواز کی غرض سے نوآبادیات کے ماضی کو دبایا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بھی یہی کچھ کیاگیا۔(38) اقبال اور جدیدیت کسی بھی لغت میںModern کا لفظ جدیددور کا شخص، نئی روشنی کا شخص، جدیدعہد کی خصوصیات کا حامل شخص، کے معانی دیتا ہے۔ماہرین لسانیات Modernist کے اردو متبادل کے طورپر متجدد یا جدت پسند کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دیکھاجائے تو اقبال ہرلحاظ سے نئی روشنی کے شخص تھے اور ان کی شخصیت جدیدعہد کی ساری خصوصیات کی حامل تھی۔ وہ قدامت پسند نہ تھے، تقلید اور ماضی پرستی سے انھیں کوئی علاقہ نہ تھا۔ وہ ہر امرکو، واقعے کو اور فکرکو عقل، علم اور منطق کی کسوٹی پرپرکھتے تھے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے وہ تحرک، تغیراور تبدیلی کو ضروری گردانتے تھے اور پورے ایمان اور ایقان کے ساتھ ہر لحظہ جدوجہد اور تگ و دو کے قائل تھے۔ وہ ارتقائ، نمود، وجود، تدبراور حکمت کا صرف ذکر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ ایک باعمل شاعرتھے۔ سب سے پہلے تو انھوں نے اپنے وجود کے اثبات کے لیے، اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے غوروفکر کرناشروع کیاجس کی ابتداء اس سے ہوئی کہ ع اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔(کلیاتِ اقبال،ص۔93 ) اپنے ذوق، آراء اور انداز سے اقبال بہرنوع دورِحاضر کے انسان تھے۔ اس طرزِ فکر کی عکاس اقبال کی ابتدائی نظموں میں سے ایک ’’زہداور رندی‘‘ ہے جسے اقبال کا ذاتی خاکہ کہناچاہیے۔اقبال نے اس نظم میں اپنا تقابل ایک مولوی صاحب سے کیا ہے جو اتفاق سے ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔ اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ راگ کو بھی عبادات میں داخل سمجھتا ہے۔ حسن فروشوں سے اسے عار نہیں ہے، ہندوکوکافر نہیں کہتا جس پرمولوی صاحب اسے کہتے ہیں کہ شاید یہ کسی اور اسلام کا بانی ہے۔ (کلّیاتِ اقبال،ص91-92-93 )،اس نظم میں اقبال مولوی صاحب کی زبانی اپنی گوشمالی بھی کررہا ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جب اقبال خود اپنے آپ کو ع ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو (کلّیاتِ اقبال،ص148 - ) کہاکرتا اور خود ہی اپنا تجزیہ کرتا رہتا جو بذاتہٖ ایک جدید رویہ ہے۔ع کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ! اپنے نکتہ چینوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص130 - ) نثرمیں بھی اقبال نے ایک اور جگہ کہہ رکھا ہے کہ’’عقلِ انسانی فطرت کی جانب سے خود انتقادی کی ایک کوشش ہے(39) اپنی نکتہ چینی کی ادا میں ہی اقبال اپنی خردافروزی کا جواز تلاش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو بھی کہہ بیٹھتا ہے ؎ مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں اپنے مصوّر سے گلہ رکھتا ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص133 - ) ’عاشق ہرجائی‘کے عنوان سے ایک اور نظم بھی اقبال کا اپنا خاکہ ہے جس میں اقبال نے اپنے آپ کو مجموعۂ اضداد کہا ہے۔آپ اپنی تلاش کا یہ عمل ہی اقبال سے یہ کہلواتا ہے ؎ ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ! اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص136- ) ان افکار اور اشعار میں پڑھنے والے جدیددور کی ایک تحریک وجودیت کے آثارتلاش کرسکتے ہیں۔اقبال کے استاد سر تھامس آرنلڈ نے کہاتھا کہ’’ہندوستان میں حرکتِ تجدّد نے اپنا ممتازترین ظہور سرمحمداقبال کی شاعری میں پایا ہے۔‘‘(40) انھی آرنلڈ اور نکلسن جیسے اساتذہ کا فیض تھا کہ اقبال پورے اعتماد کے ساتھ کہہ پایا کہ ؎ حلقۂ صبح و شام سے نکلا اس پرانے نظام سے نکلا (کلّیاتِ اقبال،ص203- ) سرگزشتِ آدم میں اقبال نے شعور کو حضرت آدمؑ اور اولادِ آدم کی میراث کے طورپر پیش کیا ہے۔ اس نظم میں اقبال کے یہ مصرعے اُن کی جدیدعلوم و فنون سے آگہی کی خبردیتے ہیں ؎ پیا شعور کا جب آبِ آتشیں میں نے o کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے o کیا اسیر شعاعوں کو برقِ مضطر کی o کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر o سکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے (کلّیاتِ اقبال،ص۔108-109 ) نظم بعنوان عبدالقادر کے نام، میں تو اقبال اور تو اور قیس کو بھی آرزوئے نو سے شناسا کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہیں۔(کلیاتِ اقبال،ص158- )انھی عبدالقادر نے پروفیسر تھامس آرنلڈ کے بارے میں بانگِ درا کے دیباچے میں یہ کلمات کہے تھے کہ’’ وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خواب واقف ہیں۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے طرزِ عمل سے حصہ دیںاور وہ اس ارادے میں بہت کچھ کامیاب ہوئے۔‘‘(41) اقبال کو ابتداء ہی میں تصوف کا درس گھر سے ملااور مشرقی علوم میں دسترس مولانا میرحسن نے پیداکردی تھی۔ بعدازاں انگریز اساتذہ نے انھیں جدید علوم و فنون کی راہ سمجھائی۔ اقبال نے بیک وقت ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈزورتھ سے استفادے کا اعتراف کیا ہے۔’’ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا۔‘‘(42) پروفیسرآرنلڈ نے اقبال کے دل میں علم کی جستجو کی جو شمع روشن کی تھی، اقبال نے اپنی نظم ’’نالٰۂ فراق‘‘ میں اس کا ذکربڑے ادب سے کیا ہے۔ ع تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم o تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم (کلّیاتِ اقبال،ص105- ) اور انھی کی ایما پر اقبال یورپ کے تعلیمی سفرپرروانہ ہوئے تھے ؎ چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو (کلّیاتِ اقبال،ص122- ) یہی وجہ تھی کہ اقبال کی پہلی نظم ’کوہ ہمالہ سے خطاب‘میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں(کلیاتِ اقبال،ص40 -)۔ اقبال نے انگریز شعراء سے براہِ راست متاثرہوکر بھی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں سے نامعلوم شعرا سے ماخوذ نظمیں مکڑا اور مکھی، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعااور ماں کا خواب شامل ہیں۔کچھ نظموں میں شعراء کے نام بھی درج ہیں۔ جیسے ایک پہاڑاورگلہری؍ایمرسن، ہمدردی؍ولیم کوپر، آفتاب؍گایتری، عشق اورموت؍ٹینی سن، پیامِ صبح؍لانگ فیلو اور رخصت اے بزمِ جہاں؍ایمرسن۔ اقبال نے غالب پرایک نظم میںگوئٹے سے غالب کا یوں تقابل بھی کیا ہے ع گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے (کلّیاتِ اقبال،ص56- ) بانگِ درا میں اقبال نے شمع اور آفتابِ صبح میں ہی نہیں بلکہ محض شعاعِ آفتاب کے حوالے سے جاگنے اور جگانے کا پیام دیا ؎ تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے؟ سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے؟ (کلّیاتِ اقبال،ص267- ) اور پھر شاید اپنے آپ کو شعاعِ آفتاب کا مست خیال کرتے ہوئے اسی نظم میںاپنے بارے میں کہا ہے کہ ع مہرِ عالمتاب کا پیغامِ بیداری ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص267- ) اور یہی پیغامِ بیداری، سرسید کی لوحِ تربت میں یوں سنائی دیتا ہے کہ ع سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے (کلیاتِ اقبال،ص85- ) اس ضمن میں اقبال کی مشہورنظم ’’شاعر‘‘ کو بھی ذہن میں رکھیے۔اسی لیے تو نکلسن نے بالآخر یہ کہا کہ’’اقبال کی شاعری نے نوجوان مسلمانوں میں بیداری پیدا کردی ہے اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس مسیحاکاانتظار تھا وہ آگیا ہے۔‘‘(43) یہ جدید ذہن کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے خبردار رہناچاہتا ہے۔علومِ شرق و غرب پڑھ لینے کے باوجود وہ اپنے آپ کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ ع تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزمِ کہن بدل گئی (کلّیاتِ اقبال،ص139- ) اسے پتا ہے کہ انسان اپنی فطرت میں راز جو ہے چاہے خدا نے راز اس کی نگاہ سے چھپالیا ہو۔ اس کی حیرت اور تجسس اسے بتاتا ہے کہ ؎ ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص100- ) اقبال کا حیرت کے بارے میں اپنا بیان ہے کہ’’ افلاطون کے نزدیک حیرت اس لیے قابلِ قدر ہے کہ اس سے فطرت کے بارے میں ہمارے تجسس کو تحریک ہوتی ہے۔ بیدل کے لیے حیرت اپنے ذہنی نتائج و اثرات سے قطعِ نظر قابلِ قدر ہے۔‘‘(44) اس لیے وہ ہر دم ذوقِ آگہی کے لیے بے تاب رہتا ہے ؎ لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ بے تاب تو تیری بے تابی کے صدقے ،ہے عجب بے تاب تو (کلّیاتِ اقبال،ص148- ) اپنے آپ کو’ شعاعِ آفتاب ‘میں’’ اے سراپا اضطراب! ‘‘کہتے ہوئے وہ خود ہی سوال بھی کرتا ہے کہ ع تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟ (کلّیاتِ اقبال،ص266- ) یہ سارا اضطراب یہ بے چینی، آگہی کے لیے ہے اور آگہی کی بھی اپنی نظم شمع میںاقبال یوں تعریف کرتا ہے ؎ بستانِ بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی وصلِ کشا کشِ من و تو ہے یہ آگہی ( کلّیاتِ اقبال،ص76- ) کشاکشِ من و تو کی اس آگہی سے زندہ انسان اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں برآمد کرلیتا ہے جو سراسر نیا ہوتا ہے۔ ؎ کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ، ویرانہ کر (کلیاتِ اقبال،ص218- ) جدیدشاعر کے طورپر اقبال تبدیلی کا، تغیر کا، تسلسل کا، ترقی کا اورحرکت کا شاعرہے۔ اقبال نے کائنات ہی کو حرکی تصور کرلیا تھا اور حرکت ہی کو اصل قرار دیا۔ چلنا چلنا مدام چلنا، ہی نہیں بلکہ ؎ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ، ایک تغیر کو ہے زمانے میں ( کلّیاتِ اقبال،ص173- ) کے ساتھ ساتھ اقبال اپنے بارے میں بھی کہتا ہے کہ ع ملا مزاج ، تغیر پسند کچھ ایسا ( کلّیاتِ اقبال،ص108- ) یہ تغیر پسندمزاج ہی ہے جس نے اقبال کی شاعری کو انقلاب کی شاعری بنادیا ؎ خواجہ از خونِ رگِ مزدور ساز و لعلِ ناب از جفائے دہ خدایاںِ کشتِ دہقانانِ خواب انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب! شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بدام کافرانِ سادہ دل را برہمن را زُنّار تاب انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب! مہر و سلطان نرد و باز و کعبینِ شان و غل جان محکوماں زتن بردند و محکوماں خراب انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب! واعظ اندر مسجد و فرزند او در مدرسہ آں بہ پیری کود کے ایں پیر در عہدِ شباب انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب! کس نداند ، جلوۂ آب از سراب انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب! ( کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔ 401 ) کارل مارکس کی آواز میں اقبال جتلاتا ہے کہ اب دنیا کو پرانے افکار کی نمائش گوارا نہیںاور انقلاب میں اقبال کا مشاہدہ یہ ہے کہ ؎ دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت ( کلّیاتِ اقبال،ص649- ) ترکی کے دانشور عبدالقادر کراحان نے اقبال کو’’آزادی، وطن پرستی اور فضیلت کے لیے کوشاں‘‘ پایا ہے۔(45) تعلیمِمغربی کو بھی اقبال نے دراصل جرأت آفریں پایاتھا اور اسی سے اقبال نے نظم آفتابِ صبح، میں اپنے لیے دعاکی تھی کہ ع سر میں جز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو (کلیاتِ اقبال،ص81- ) وہ تو کسی ایسے آقا کا بندہ بننے کے لیے بھی تیارنہیں جسے خدا کے بندوں سے پیار نہ ہو۔ اقبال کا خیال ہے کہ’’کردار اور صحت مندتخیل میسرآجائے تو اس گناہ اور دکھ بھری دنیا کی ایسی تعمیرِ نو ممکن ہے کہ یہ ایک حقیقی جنت بن جائے۔‘‘(46) دنیا کو حقیقی جنت بنانے کے خواب اور اس کی تعبیر کے حصول کے لیے کوششِ ناکام میں زندگی کی تلاش اورتگا پوئے دمادم میں زندگی کی دلیل ڈھونڈنے سے اقبال کی شاعری عبارت ہے ؎ یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے کیا ہے یہ؟ رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے کیا ہے یہ؟ ( کلّیاتِ اقبال،ص267- ) اس رقص کو، آوارگی کو یا جستجو کو اقبال پیکارِزندگی کہتاہے۔ اس کا مقصد کمال پانا گردانتا ہے اور اقبال اس کشمکش اور کشا کش میں حددرجہ رجائیت سے کام لیتا ہے ؎ شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے ( کلّیاتِ اقبال،ص222- ) o آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی ( کلّیاتِ اقبال،ص221- ) ’’اقبال اس بات کا قائل ہے کہ’’زندگی میں کامیابی کا انحصار عزم پر ہے نہ کہ عقل پرلیکن پہلے عقل و خرد کا استعمال ضروری ہے۔‘‘(47) خرد کی گتّھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا ! مجھے صاحب جنوں کر ( کلّیاتِ اقبال،ص412- ) اقبال کو یہ جنوں بھی حرکت اور عمل کی خاطردرکار ہے۔ اقبال کے خیال میں انسان اپنے ہرارادے اور عمل کے ذریعے اس مرتبے پرپہنچ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تقدیر اس سے پوچھ کر طے کرے۔ایک متحرک اور زندہ طاقت کے طورپر انسان اپنے اعمال میںاور حرکات میں آزاد ہے ؎ تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے ( کلّیاتِ اقبال،ص674- ) ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے وہ عالمِ مجبور ہے تو عالمِ آزاد ( کلّیاتِ اقبال،ص85- ) نہ مختارم توان گفتن ، نہ مجبور کہ خاکِ زندہ ام در انقلابم o دگرگوں جہاں ان کے زورِ عمل سے بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے ( کلّیاتِ اقبال،ص746- ) شعلہ ہا کشترِ ارمن دمید روزِ مجبوری ، بہ مختاری رسید ( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص607- ) اقبال نے ایک اور جگہ تلقین کی تھی کہ’’پیکرِ قوت مہدی کا انتظارچھوڑدو۔ جائو اور مہدی کی تخلیق کرو۔‘‘(48) اقبال اس بات کے قائل نہیں کہ ع ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی بلکہ وہ مسلمان کو مردِ قوی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔(49) کمزوری اور غلامی کو وہ انسان کے لیے اتنا ضرر رساں سمجھتے ہیں کہ غلام ذہنیت کے شخص کو سرزنش کرتے ہیں ؎ سُن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار! غلامی سے بتر ہے بے یقینی ( کلّیاتِ اقبال،ص407- ) کلیاتِ اقبال میں عزیزاحمد کے حوالے سے مرقوم ہے کہ’’اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سی بات جو عامی کی سمجھ میںبھی آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔ اسلامی تعلیمات کی حرکی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خداکاجانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے۔‘‘(50) اقبال نے خودکہا ہے کہ جہان کی زندگی جنبش میں ہے، قرار میں اجل پوشیدہ ہے اور جسے سکون کہتے ہیں کہیں نہیں ہے۔ (کلیاتِ اقبال،ص145- ) اقبال کے حرکی تصور ِحیات میں آرزواور تمنا کی اصطلاح بہت معنی خیز ہے۔ آرزوئیں اورتمنائیں تخلیقی عمل کو متحرک رکھتی ہیں ؎ از تمنائے بہ جام آمد حیات گرم خیز و تیز گام آمد حیات ( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص51- ) ان سے شعر میں سوزوگداز ہی پیدا نہیں ہوتا، لذتِ جستجو بھی پیداہوتی ہے ؎ فطرتِ شاعر سراپا جستجو است خالقِ پروردگار از آرزو است ( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص517- ) آرزو ہی میں فروغِ جاوداں کا راز پوشیدہ ہے کہ اس سے حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وجدان کی سب سے بڑی خصوصیت ہی آرزو اور تمنا ہے۔ اس کے ذریعے فن کار نئی قدریں، نئے معیار بلکہ نت نئی آرزوئیں تخلیق کرتا چلاجاتا ہے۔ ان اقدار میں جمالیاتی اقدار بھی شامل ہیں ۔ ؎ ہر لحظہ نیا شوق ، نئی برقِ تجلی اللہ کرے ، مرحلۂ شوق نہ ہو طے ( کلّیاتِ اقبال،ص639- ) یہاں تک کہ جمال کے تصور کو بھی اقبال نے تحرک عطا کردیا ہے۔ جمالیات اورحسن کو جب حرکت سے وابستہ کیا جائے تو حسن کی عینیت بدل جاتی ہے اور اس سے حسن کا تصور اعلیٰ سے اعلیٰ ترہوتاجاتا ہے۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ کی ایک نظم ’حوروشاعر‘گوئٹے کی ایک نظم کا جواب ہے جس کا موضوع بھی یہی ہے۔ گوئٹے اس نظم میں حور کے سامنے اپنے جمالیاتی احساس کی پرتیں یوں کھولتا ہے کہ وہ حسن جو اسے مقصودومطلوب ہے ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے اور وہ اس حوالے سے ہمہ وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ حرکت اور ارتقاء کا تعلق بہت واضح اور گہرا ہے۔ حرکت ارتقا پذیری کا نام ہے۔ اس ارتقاء کے سبب جمال کا معیار بھی بلندسے بلند ترہوتاجاتا ہے۔ حالی نے بھی اس طرح کا شعر کہہ رکھا ہے ؎ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں اقبال نے اپنی نظم میں اسے اس طرح بیان کیا ہے ؎ چو نظر قرار گیرد بہ نگارِ خوب روئے تپد آں زماں دلِ من پئے خوب تر نگارے زِ شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے سرِ منزلے نہ دارم کہ بہ میرم از قرارے طلبم نہایتِ آں کہِ نہایتے نہ دارد بہ نگاہِ نا شکیبے بہ دلِ امید وارے ( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص298- ) اقبال حرکت کے قائل صرف جمالیاتی حوالے سے نہیں اور نہ ہی ان کی آرزوں کی کوئی نہایت ہے بلکہ ان کے حرکی تصور کی غایت تسخیرکائنات کی آرزو تک وسیع ہے۔ اقبال کا تفکر اور تدبر پوری کائنات کا احاطہ کرتا ہے اور انسان کے ہاتھوں اس کائنات کی تسخیر ہی اقبال کا اصل مقصد ہے۔ اقبال کے خیال میں حیات اسی خاطر ہے کہ کائنات کی غیرمنظم قوتوں کو نظم و ضبط میں لاکر انھیں اپنے تصرف میں لائے ؎ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں ( کلّیاتِ اقبال،ص364- ) اور فکرِانسان کی دسترس دیکھیے کہ آج طبیعی علوم اور ریاضیات کے ذریعے تیرہ کائناتیں دریافت ہوچکی ہیں جن کے ابعاد بھی چار سے بارہ تک ہیں۔ اقبال ہی کاکہنا ہے کہ ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمام صدائے کن فیکوں ( کلّیاتِ اقبال،ص364- ) یہ ایک شاعر کی رفعتِ تخیل ہے کہ وہ ستاروں سے آگے کئی اور جہانوں کی خبردیتا ہے۔ وہ اسی زمین کے روزوشب سے الجھ کر نہ رہ جانے کی تلقین کرتا ہے اور نئے زمان و مکان کی تلاش پرقائل کرتا ہے ؎ عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے ( کلّیاتِ اقبال،ص350- ) علامہ اقبال نے اسے یوں بھی کہا ہے کہ’’اس کی(یعنی کائنات کی)ترکیب بھی اس طرح ہوئی کہ اس میں مزید وسعت کی گنجائش ہے۔ قرآنِ حکیم کی سورہ فاطرکی آیت۔01 میں ارشاد ہے: یَزِیْدُ فِی الخَلْقِ مَایَشائُ (وہ پیدائش میں جو چاہے زیادہ کردیتا ہے)‘‘(51) اس بناپراقبال اضافہ کرتے ہیں کہ’’یہ کوئی جامدکائنات نہیں،نہ ایک ایسا مصنوع جس کی تکمیل ختم ہوچکی اور جوبے حرکت اور ناقابل تغیروتبدیل ہے۔ برعکس اس کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں ایک نئی آفرینش کا خواب پوشیدہ ہے۔ دراصل کائنات کا یہ پراسراراہتزاز اور تحریک علیٰ ہذالقیاس زمانے کی یہ خاموش روانی جس کا احساس ہم انسانوں کو دن اور رات کی گردش میں ہوتا ہے،قرآن پاک کے نزدیک ایک بڑی آیت ہے اللہ کی۔‘‘ (52) ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود ( کلّیاتِ اقبال،ص454- ) ابنِ عربی نے کہاتھا کہ روحانی واردات سے وہ جہاں پہنچا ہے وہیں ابنِ سینا حسی تجربے کے ذریعے سے پہنچنا چاہتا ہے۔ اقبال نے بھی یہی کہا کہ ع محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی ( کلّیاتِ اقبال،ص276- ) یعنی روحانیت اور دنیاوی علوم کی بنیاد تجربیت ہی ہے فرق صرف تجربے کی نوعیت کا ہے۔ ؎ علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ ( کلّیاتِ اقبال،ص401- ) اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کا منتہا انسان کی بقا ہے۔ اقبال بھی ’مجلہ علی گڑھ کے نام‘ اپنی نظم میں یہی نکتہ سکھارہے ہیں ع غم کدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے۔( کلّیاتِ اقبال،ص140- ) یہ شرفِ دوام اپنے عصر سے آگہی ہے۔ یعنی انسان کو اپنے گردوپیش کی خبر رکھنی چاہیے۔ یہ جدیدیت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے اور اس کا ذکر پہلے تفصیل سے ہوچکا ہے۔ عصری حوالے سے گردوپیش کا مفہوم وسیع تر ہے۔ اقبال کے ہاں عصری شعور اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ انھیں عالمگیر سطح پر محرکات اور عوامل سے شناسائی اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے رجحانات پرایک عجیب طرح کی گرفت حاصل تھی۔ وہ مسلمانوں کوان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلاکر ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دیناچاہتے تھے تاکہ ان کا حال اور مستقبل بہترہو ؎ آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک ( کلّیاتِ اقبال،ص292- ) o اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ( کلّیاتِ اقبال،ص296- ) o زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے ( کلّیاتِ اقبال،ص451- ) آخری شعر جس نظم کا ہے اس کا عنوان ’’ساقی نامہ ‘‘ہے۔ یہ نظم ابتدا سے آخرتک اقبال کے گہرے عصری شعور کی آئینہ دار ہے۔یہ بھی طے ہے کہ معاشرے کا عملِ اقتصاداور سیاسی نظام اس عہد کے شعرا اور دوسرے لکھنے والوں پر اس طرح اثرانداز ہوتا ہے جس طرح حساس ذہنوں پرہوناچاہیے اوران کی تخلیقی قوت اپنے مخاطب کو دانش اور بینش کے ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ اور تنقیدبھی سکھاتی ہے۔ اقبال کی شاعری تو سراپا تاریخ ہے اور تاریخی شعور کی پیداوار ہے تاہم اقبال نے ابتدا ہی سے اپنے زمانے سے پہلے اور اپنے زمانے کے مغربی اور مشرقی افکار سے رجوع کرلیاتھا اور اس کا پہلا ثبوت انھوں نے علم الاقتصاد، کی تصنیف سے دے دیاتھا۔ اقبال نے تحریک احیائے علوم، تحریکِ اصلاح، انقلابِ فرانس اور صنعتی انقلاب کی وجہ سے مشرق و مغرب میں معاشرت، معیشت، سیاست اور رویے میں نمودارہونے والے افکار اور نظریات سے آگاہی حاصل کرلی تھی اور ان کے مسلمان معاشرے پر اثرات کے بارے میں غوروفکر کرناشروع کردیاتھا۔ انھوں نے اپنی تخلیقات اورمضامین میں زندگی کی ارتقائی نہج کا خیال رکھتے ہوئے اپنا اندازِ نظرمرتب کرلیاتھا کہ جو کچھ اب ہورہا ہے آئندہ کیسا ہو جائے گا۔ اقبال کی ماضی سے آگہی اور حال پر نظر مستقبل آفریں تھی ؎ ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہدِ کہن رکھتا ہوں میں اہلِ محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ( کلّیاتِ اقبال،ص224- ) یہ بھی ایک عصری تقاضا ہے کہ ادب کا شخصی وجود اس کی قوم کے اجتماعی وجود اور ملک کی جغرافیائی وحدت سے مربوط ہوتا ہے۔اس قوم کا اپنا ہی ایک ماضی ہوتا ہے۔ تاریخ ہوتی ہے جو اس ادب کو انفرادیت بخشتی ہے۔ ہرادب کے حافظے پراس بارِ امانت کا احساس، اس قوم کی شناخت اور اس کے دوام کے لیے ضروری ہے۔ اپنے خطبات میں ایک جگہ انھوں نے کہا ہے کہ: "The Spirit of man in its forward movement is restrained by forces which seem to be working in opposite directions. This is only another way of saying that life moves with the weight of its own past on its back and that in view of social change, the value and function of the forces of conservation can not be lost sight of. It is with this organic insight into the essential teaching of the Quran that modern rationalism ought to apporach our existing institutions. No people can afford to reject their past entirely; for it is their past that made their personal identity." (53) ابنِ خلدون نے ایک عجیب بات تاریخی اور عصری حوالے سے کہی تھی کہ’’ گزرا ہوا زمانہ آنے والے زمانے سے اس قدر مشابہ ہے کہ ایک جگہ کا پانی دوسری جگہ کے پانی سے بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (54)یہ قول اس قول سے کہ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘‘ لطیف مگر گمبھیر اختلاف کا پتادیتا ہے کہ یہاں معاملہ صرف دہرانے کا نہیں ہے۔اس معاملے کو اگر ادب اور شاعری کے حوالے سے دیکھیں تویہ قول اقبال کی شاعری پر صادق آتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ’’تاریخ سے بیگانہ رہ کرکسی قسم کی شاعری کا امکان نہیں لیکن شاعری کا فریضہ اس کے سوا نہیں کہ تاریخ کو بدل کر رکھ دے اور اسی لیے انقلاب کی کھری شاعری کشف و عرفان کی شاعری ہوتی ہے۔‘‘ (55) یونان کے ڈرامہ نگاروں سکائی لس، سوفوکلیز، یوربیڈز، فرانس کے فرانکویس اوگیر، مولیر، ناروے کے ابسن، برطانیہ کے شیکسپیئر اور برنارڈ شا اور جرمنی کے لسینگ کی طرح اقبال کی شاعری اور نثری تحریریں عصری آگہی کی زندہ مثال ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہیے کہ اقبال نے ان سب کو پڑھ رکھاتھا یہاں تک کہ لسینگ کوبھی جس کا ذکر اقبال نے یوں کیا ہے کہ’’ادبی تنقید لازماً تخلیقی ادب کی متعاقب نہیں ہوتی۔ جرمن ادب کے ابتدائی دور ہی میں ہمیں لسینگ جیسا نقاد ملتا ہے۔‘‘ (56) اقبال عصری آگہی، تاریخی شعور اور زمان و مکاں کی باتوں سے بھی آگے بڑھ کر فن کے ذریعے سے وقت کا مشاہدہ کرتا ہے اور وقت کو بھی ایک کائناتی مظہر کے طورپرتسخیر کرنے کی بات کرتا ہے۔ وقت کے بہائو کی تندی اور تاریخ کے جبر سے سلامت نکلنے کے لیے اقبال نے عشق کا سہارا لیا ہے ؎ تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود ایک سیل ہے سیل ،کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام ( کلّیاتِ اقبال،ص420- ) اقبال نے عصریت پر اس قدر فکر کر رکھی تھی کہ ایک بار جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اندھیرااور روشنی اکٹھے ہوسکتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا تھاکہ ’’ ہاں۔ وقت میں۔‘‘(57) اقبال نے29 نومبر1929 ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے سپاسنامے کے جواب میں جو کچھ کہا وہ جدیدیت کے بارے میں اقبال کے افکار کا نچوڑ ہے۔’’ ایک تو انگریزی زبان و ادب کے مصنفین کو ایسے مضامین تخلیق کرنے کا موقع ملا جن سے موجودہ نسل کی ذہنیت کی تشکیل وتوضیح ہورہی ہے۔ دوسرے انگلستان سے ہمیں افکار کی عادت ملی ہے۔ اس فکرِ ثقیل کی مشرق کو ضرورت ہے۔ تیسرے جمہوریت ہے جو اگرچہ مشتبہ قدروقیمت رکھتی ہے لیکن گواراہے اس لیے کہ جمہوریت کا مطلب ’’صاف، علیٰ رئوس الاشہاد ‘‘اور آزادیٔ بحث و تمحیص ‘‘ہے۔(58) اقبال کے ہاں عصریت کا تصور صرف عصرِ رواں تک محدود نہیں تھا اور اس کا ذکر اوپرآچکا ہے تاہم اس کا مزیدواضح اظہار اقبال نے اپنی زبان سے سپاسنامے کے اس جواب میں دیا ہے جس میں انھوں نے’ انکشافِ ماضی ‘پرزور دیتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا ہے کہ وہ ماضی پرست نہیں ہیں بلکہ مستقبل کے معتقد ہیں۔ وہ زمانۂ حال کو سمجھنے کے لیے ماضی کی ضرورت کے قائل ہیں کیونکہ مسلمانوں کے لیے اپنے ماضی کو سمجھنا سرچشمۂ تہذیب وشائستگی کو سمجھنا ہے لیکن ہم لوگ جدیدتہذیب و شائستگی کے اصولوں کو سمجھنے کے لیے دوسری اقوام کی طرف دیکھتے ہیں۔علومِ جدیدہ استقرائی اصولوں پر چلتے ہیں اور استقرائی اصول دراصل قرآن سے سیکھاجاسکتا ہے اور دنیائے جدیدہ قرآن شریف ہی کے ظاہر کیے ہوئے مطمحٔ حیات سے ترقی کرکے یہاں تک پہنچی ہے۔(59) اقبال ’’دنیائے جدیدہ‘ کی ارتقائی تاریخ قرآن کے افکار و تعلیمات کی روشنی میں لکھنے کے آرزو مند رہے۔ انھیں یقین تھا کہ’’ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘(60) اس سے پہلے وہ تشکیلِ جدیدالٰہیات اسلامیہ کے عنوان سے سات خطبات لکھ بھی چکے تھے اور انھیں سنا بھی چکے تھے۔ جدیدیت کا ایک پہلو جمود، جہالت اور تقلید سے دامن بچانابھی ہے۔ وہ’’دنیائے اسلام میں مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی ایک ہنگامہ خیز حرکت و جنبش پیدا‘‘کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن وہ پریشان بھی تھے کہ’’عالمِ اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیرجدوجہد کے سرِتسلیم خم نہیں کرے گا۔‘‘(61) قدامت پرستی، تنگ نظری، ضعیف الاعتقادی اورکرامات کے بارے میں مبالغہ آرائی، تعویذگنڈوں اور جامدنظریات کے خلاف اقبال شروع ہی سے آواز اٹھاتے رہے تھے ؎ رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی خراب کو شکِ سلطان و خانقاہِ فقیر فغاں کہ تخت و مصلّٰی کمالِ رازقی کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اِک روز کتابِ صوفی و ملا کی سادہ اوراقی ( کلّیاتِ اقبال،ص393- ) اقبال کو معلوم تھا کہ ملّا، واعظ، شیخ اور صوفی کے افکار اسلامی تعلیمات کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں اور ان کی عبادات دکھاوے کی ہیں۔ انھوں نے معاشرے میں تخلیقی قوتوں کی بیخ کنی کی ہے اور لوگوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری کردیا ہے۔ فرقہ واریت اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر وہ مسلمانوں کے خیالات کو پراگندہ کررہے ہیں۔ ؎ نہ فلسفی سے، نہ ملا سے، کچھ غرض مجھ کو یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد ( کلّیاتِ اقبال،ص396- ) حلقۂ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز ترے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ ہے بلند بام ابھی خلقِ خدا کا گھات میں ، رندو فقیہ و میر و پیر ( کلّیاتِ اقبال،ص436- ) ہربند سے آزادافراد پرمشتمل قوم میں شوخیٔ اندیشہ کی خطرناکی کے احساس کے ساتھ وہ فکرِ مدرسہ وخانقاہ کو آزاددیکھناچاہتے تھے کیونکہ ان کی نظر میں مذہبِ ملّا،جمود،تقلید اور تکذیب کا مذہب تھا۔ پیروں کے گھر بجلی کے چراغوں سے روشن ہیں اور دہقان کومٹی کا دیا بھی میسر نہیں اس لیے وہ کعبے کے متولی کی بجائے کعبے کے برہمنوں کی طرح نذرانے وصول کرتے ہیں جیسے مہاجن سود کماتے ہیں۔ ؎ نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن ( کلّیاتِ اقبال،ص496- ) اقبال خود اپنے آپ کو سبق دیتا ہے کہ ع تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ ( کلّیاتِ اقبال،ص398- ) کیونکہ ع آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی ( کلّیاتِ اقبال،ص400- ) یہ نہیں کہ اقبال کا رجحان ان خانقاہوں اور مدرسوں کی طرف نہ تھا بلکہ اقبال نے ان سے فیض رسانی کی کوشش بھی کی لیکن نتیجہ ؎ ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ ( کلّیاتِ اقبال،ص443- ) اقبال کو ابتدا میں ان ملائوں سے کچھ امیدیں بھی تھیں کہ شاید وہ ملت کے رہنمائی کے لیے اپنے زورِ خطابت کو کام میں لاسکتے ہیں لیکن اسے اپنے تجربے اور مشاہدے نے بتایا کہ ؎ میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب (کلّیاتِ اقبال،ص403- ) اس شعر میں واعظ کی بے عملی پراقبال نے چوٹ کی ہے اور اس کی مقلّدانہ روش، بدعتوں اور فروعی معاملات میں دلچسپی پرطنز کی ہے۔ ایک اور جگہ بھی اقبال نے ملا کی خاکہ نگاری اس طرح کی ہے ؎ نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ہے بد آموزیٔ اقوام و مِلل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد ،نہ کلیسا، نہ کنشت (کلّیاتِ اقبال،ص445- ) اقبال بار بار مدرسوں اور ان کے جامدنظامِ تعلیم پرسوال اٹھاتے ہیں ؎ مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟ خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟ (کلّیاتِ اقبال،ص393- ) اور مذہبِ ملا محض جمادات و نباتات کو قراردیتے ہیں۔(کلیات اقبال،ص۔407 )اور خراج اور صدقے کو ایک دوسرے کا مترادف کہتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں ؎ کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا (کلّیاتِ اقبال،ص444- ) اقبال کے خیال میں تمدن، تصوف، شریعت اور کلام بتانِ عجم کے پجاری ہوچکے ہیں۔یہ امّت روایات میں کھو کررہ گئی ہے اور حقیقت خرابات میں ملائوں کے طفیل کھوچکی ہے۔ ایسابھی نہیں کہ کلامِ خطیب دل کو لبھاتا نہیں لیکن خطیب لذتِ شوق سے بے بہرہ ہے۔ اس کا بیان منطق سے سلجھابھی ہے لیکن لغت کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہی صوفی کبھی خدمتِ حق میں مرد ہوا کرتا تھا۔ اس میں انسانیت تھی، محبت بھی تھی اور وہ جمعیت میں فرد تھا لیکن وہ بھی ؎ عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا (کلّیاتِ اقبال،ص451- ) یعنی اقبال مانتا ہے کہ کبھی صوفی بھی فکرونظر اور اسرارِ حیات و کائنات کا خوگر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی افراط و تفریط اورجمود و جہالت کی مثال بن گیا ہے ع رہا صوفی گئی روشن ضمیری (کلّیاتِ اقبال،ص408- ) جو بڑے درد سے کہا کرتے تھے کہ ’’چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا اور فتوے بازی اس کی دلیل ہے کہ اس قوم میں اللہ والے ختم ہوچکے ہیں۔‘‘(62) ایک ضعیف شخص جب نماز کی طوالت سے تنگ آیا اوراس کا سبب پوچھا تو اقبال کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہندی مسلمان کے بے کار اور بے نصب العین ہونے کی دلیل ہے…اس ملک کے بے کار ملا اور نکمے مسلمان اگرمذہبی بحث و پیکار اور لمبے لمبے درودووظائف میں اپنا وقت صرف نہ کریں تو کیا کریں۔‘‘(63) تصوف کے بارے میں اقبال کا گمان یہ تھا کہ’’تصوف ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتا ہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف سب انحطاطِ قومی کے نشان ہیں۔ اسلامی تصوف بھی اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے…تصوف نے سائنسی روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ڈاکٹرکے پاس نہیں جاتے، تعویذ تلاش کرتے ہیں۔ گوش و چشم بند کرنا اور صرف چشم ِباطن پر زور دینا جمود اورانحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر ان کے لیے جدوجہدکرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔‘‘(64) اقبال اور اجتہاد اس باب کے نظری حصے میںاجتہاد کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کی وضاحت ہوچکی ہے اور اس بارے میں بھی کہ تقلید اور اجتہاد ایک دوسرے کے متضاد ہیں اقبال نے خود اپنے آپ کونظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیرمقلد کہا۔(65) عدم تقلید ایک اعتبارسے جدت پسندی ہوئی اور اجتہاد توجدت پسندی کاعملی اظہار ہے۔ اجتہاد کے بارے میں اقبال کا نکتۂ نظر یہ تھا کہ ’’موجودہ تمدن کو کسی طرح اسلام کے قریب تر لایاجائے۔‘‘(66) اگراجتہاد کے معانی سعی کرنااور تحقیق کرنا ہو تو بھی یہ ایک جدیدذہنی رویے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اقبال کا رویہ عہدِرواں کے مسائل کے بارے میں ایک جدید دورکے شخص کا تھا اور اسی لیے مولانا سعیداحمداکبرآبادی نے کہا کہ’’ہم اقبال کو عہدِجدید کا زبردست مفکرِاسلامی، مجددِ ملت اور اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا داعی کہتے ہیں۔‘‘(67) مولانا سعیداحمداکبرآبادی نے اقبال کو مجدّدِملت یونہی نہیں کہہ دیاتھا۔ یہ مقام اقبال نے اپنی دقّت نظری اور اسلام کے گہرے مطالعے کے بعد اسلامی افکار کی نئے سرے سے مطالعے،تفہیم، تشریح، تفسیراور تعبیر میں اپنی معروضیت اور خلوصِ نیت کے سبب حاصل کیاہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اقبال کو مجدّد الف ثانی شیخ احمدسرہندی ؒ سے بہت عقیدت تھی۔ انھوں نے اولادِنرینہ کے لیے ان کے مزار پر جاکر دعا مانگی تھی اور اپنے فرزند جاوید کے بچپن میں اسے ساتھ لے کر بطورِ شکرانہ ان کے مزارپر حاضری بھی دی تھی۔(68) اقبال نے خود مجدد کی تعریف صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام ایک خط میں یوں کی ہے کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نکتۂ نگاہ سے زمانۂ حال کے حواس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا۔‘‘(69) اقبال نے اپنے انگریزی خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ Reconstruction of) (Religious Thought in Islamمیں یہی فریضہ انجام دیا ہے۔ خاص طورپر ان سات خطبات میں سے چھٹے خطبے کا تو موضوع اور مرکزی خیال ہی اسلامی فقہ میں اجتہاد ہے۔اقبال نے ان سارے خطبات میں مجموعی طورپر اور چھٹے خطبے میں خصوصی طورپر اسلامی فقہ کو زمانے کی ضرورت کے مطابق ڈھالنے پرزوردیا ہے۔ اقبال اجتہاد کو جاری و ساری سمجھتے ہیں اور انھوںنے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کی تمدنی ، سیاسی اور علمی کامیابیوں کو مجتہدانہ کوششوں ہی کا مرہونِ منت قرار دیاہے۔ وہ اس عہد میں اسلامی نظریات و افکار کی تشکیلِ جدید سے ملت اسلامیہ میں ارتقاء کی ایک نئی لہراور تڑپ پیداکرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ نئی ایجادات اور سائنسی کمالات اور مذہبی اقدار میں ہم آہنگی پیداکرنے میں بھی ان خطبات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جدیدیت اور مذہبیت دونوں حوالوں سے اجتہاد کی تعریف نظری حصے میں بیان کی جاچکی ہے۔ اقبال نے بھی اجتہاد کی وہی تعریف بیان کی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ ’’فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ کوشش ہے جو کسی قانونی مسئلہ میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘(70) اقبال یہ رائے قائم کرنے کے لیے دلائل کی جڑیں(1) قرآن حکیم (2)حدیث(3) اجماع اور(4) قیاس میں تلاش کرتے ہیں اور مجتہد کے لیے (1) اسلام کا علم (2)اسلامی نظامِ حیات کا فہم(3) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مزاج اور طریقہ کار سے آگاہی اور(4) ذاتی طورپر اعتماد کے قابل اور بلند سیرت ہونا لازمی سمجھتے ہیں۔ اپنی نظم ’’اجتہاد‘‘ میں وہ یہی باتیں شاعرانہ انداز میں مگر دو ٹوک لہجے میں بیان کرتے ہیں ؎ ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذتِ کردار نہ افکارِ عمیق حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہو کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق (کلّیاتِ اقبال،ص534- ) o پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق (کلّیاتِ اقبال،ص641 -) اجتہاد فی نفسہٖ حرکت، تبدیلی اور ارتقاء کا نام ہے اس لیے اجتہاد سے روگردانی علم اور عقل سے روگردانی ہے۔ اقبال نے دلائل سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ’’ختمِ نبوت انسان کے عقلی ارتقاء کی وہ حد ہے جس کے بعدانسان اپنی آزادانہ رائے کے تقاضے کے مطابق عقل اور مشاہدے کے سہارے زندگی کے ارتقائی مراحل طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی منزل سے اجتہاد کی منزل کا آغازہوتاہے۔‘‘(71) جب انسان اجتماعی فکروعمل سے گریزکرتا ہے تو معاشرہ تنزل اور انتشارکاشکارہوجاتاہے۔ اسلام میں زوال کا آغاز اجتہاد سے منھ موڑنے سے ہوا۔ اقبال نے اپنے چھٹے مقالے ’’اسلام کی تعمیرمیں اصولِ حرکت‘‘ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کی تین وجوہات بیان کی ہیں: ۱۔ معتزلہ فرقے کی ابتدا ،عروج لیکن بعض معاملات میں حدود سے تجاوز خاص طورپر قرآن کے ازلی یا مخلوق ہونے کا مسئلہ اور قدامت پسندوں کے مقابلے میں قرآن کو مخلوق قراردینا۔ مزیدبرآں امام غزالیؒ کا قدامت پسندانہ ردّ ِعمل جس سے اسلام میں اجتہاد کا راستہ بندہوا۔ ۲۔ صوفیا میں باطنی اور ظاہری تقسیم سے پیدا کردہ جمود اور راہبانہ تصوف جیسے غیراسلامی افکار کی پیروی۔ ۳۔ منگولوں کے ہاتھوں بغدادکی تباہی سے جامعات اور کتب خانوں کی بربادی، علمائے کرام کا قتل یا ہجرت اور علم کے مراکز کاخاتمہ۔(72) اقبال نے ان المیوں پر اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں جابجاتبصرہ کیا ہے اور امّتِ مسلمہ کے زوال کا نوحہ لکھا ہے لیکن وہ محض نوحہ گری پر رک نہیں گئے وہ ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کرنے کے بعد افق سے ابھرتے ہوئے آفتاب کی طرف بھی مسلمانوں کی توجہ مبذول کرواتے ہیں اور امت اور اس کے رہنمائوں کو اجتہاد کی ضرورت اوراہمیت کا احساس دلاتے ہیں تاکہ زوال کے عمل کو روک کر ترقی کی راہ پر گامزن ہواجاسکے۔ اقبال کے خطبات میں الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کا مقصد اولیٰ یہی ہے۔اسلامی فقہ کی ازسرِنو ترتیب و تشکیل اقبال خود بھی کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں اس کا وقت نہ مل سکااورانھوں نے ’’یہ تمام تر ذمہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپردکرنے کا فیصلہ کیا۔ غالباً اسی خیال کے پیشِ نظرانھوں نے مختلف اوقات میں مولاناشبلی نعمانی، سیدانور شاہ کاشمیری اور سیدسلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی۔‘‘(73) اقبال کا اجتہاد قدامت اور جدّت کے امتزاج سے پیداہوتا ہے۔ اقبال نے قصۂ قدیم وجدید کو دلیل تنگ نظری کہا اور جب ان کی زبان پر ترکی کے قومی شاعر ضیاگو کالپ کے یہ الفاظ آئے کہ ’’…مذہب نام ہے علمِ قطعی کا اور اس کا مقصد یہ ہے کہ قلب انسانی کو روحانیت سے بھر دے۔‘‘(74) اور اس کے علاوہ بھی انھوں نے جابجا روحانیت اور عقلیت میں اشتراک کی راہیں تلاش کرکے توازن اور اعتدال کی راہ اختیار کی تو بعض مفکر یہ کہنے لگے کہ ’’اقبال نے بھی عقل پر زور دیا مگر کہیں کہیں عقل پر مذہب و وجدان کو فوقیت دے کر امام غزالیؒ بننے کی کوشش کی۔‘‘(75) اقبال کے ہاں اجتہاد دراصل مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کی تحریکوں سے وابستہ ہے، جو اندھی تقلید کے خلاف جدوجہد اور احیائے علوم کی کوشش سے عبارت تھی۔ اس دور میں اسلامی دنیا میں اقبال سے ذرا پہلے اور ان کی زندگی میں شاہ ولی اللہ اور سرسیداحمد خان عقل کی پذیرائی کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ مصر میں محمدعبدہٗ اور اخوان المسلمین کی تنظیم اور ترکی میں ضیاگوکالپ کے افکار کا ذکر خوداقبال کے خطبوں میں مل جاتا ہے۔ جمال الدین افغانی نے بھی عقل کو بروئے عمل لاکر سائنسی انکشافات کی روشنی میں الٰہٰیات اسلامیہ کی تشکیلِ نو کی تحریک برپا کردی تھی۔ اقبال ایک روشن خیال، وسیع النظر اور وسعتِ قلب کے حامل معاشرے کی تشکیل کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اجتہاد کے مصادر، طریقہ کار، دائرۂ عمل اور اجتہاد کی اہلیت پر بھی قلم اٹھایا جن میں سے بعض عوامل اور نکات کا ذکر اوپرآچکا ہے۔ اقبال نے اجتہاد کے مصادر میں سے ایک اتفاق رائے یا اجماع، کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے ذریعے اجتہاد ممکن ہے۔ جمہوری روح کی نشوونما اور مسلمان ممالک میں اسمبلیوں کی تشکیل جدیدیت کی طرف ایک بڑا قدم ہے اس لیے اجتہاد کا حق فردِ واحد سے عوام کی نمائندہ اسمبلی کو دیاجاسکتا ہے۔ نمائندہ اسمبلی میں مختلف فکری رجحانات رکھنے والے احباب قومی قانون سازی کے لیے اکٹھے ہوں گے اور اس میں یہ بھی ممکن ہوگا کہ قانونی بحث و مباحثے میں وہ لوگ بھی حصہ لے سکیںگے جو اگرچہ بہت پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر اپنے معاملات کی حقیقت پسندانہ تاویل پیش کرسکیں گے۔ اس طریقے سے ہم اپنی خفیہ صلاحیتوں کو قانونی زندگی میں بروئے کار لاکر ایک ترقی پذیر زاویۂ نگاہ پیدا کرسکیں گے۔ (76) کسی بھی معاشرے میں انصاف، مساوات، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سب سے بڑا داعی اسلام ہے۔ اقبال کے افکار کی روشنی میں ہمیں مغرب کی تقلید سے گریز اور تقابل میں تمیز کے جوہر کی تعمیرکرنا ہے۔ تخلیق کے رجحان کی پرورش کرنا ہے۔ ثقافت اور اجتہاد کے رشتوں کو پہچاننا ہے، انسانوں کی فطری خدمات اور جوہر کی تقویت اور ایک وسیع اور جامع نظامِ تعلیم مرتب کرنا ہے ،وسعتِ نظر، وسیع المشربی اور روشن خیالی پیداکرنا ہے جو نتیجتاً اجتہاد کی راہیں ہموار کرکے اسلامی معاشرے پر ترقی کے نئے در وا کرے گی ؎ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کی سحر کر (کلّیاتِ اقبال،ص621- ) جدیدیت سے مراد وہ تہذیب بھی لی جاتی ہے جو گزشتہ چارپانچ سو سال کے دوران میں یورپ سے ابھری۔ اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اس دور سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا۔ یونانی اور لاطینی علماء اس کے نتیجے میں وہاں سے ہجرت کرکے مغربی یورپ میں پھیل گئے۔ دوسری طرف جدید اسلامی علوم کا گہوارہ اندلس عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا۔ ان علماء اور اندلسی مسلمانوں کے علوم کے زیراثر یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا اور بتدریج نت نئی ایجادات سے یورپ کی پسماندگی اور جہالت رفع ہوئی۔ چنانچہ یورپی اقوام کو اپنی مصنوعات کے لیے منڈیوں کی تلاش ہوئی اور وہ نئے بحری راستے تلاش کرتے کرتے ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف انڈونیشیا تک جو اس وقت جزائرشرق الہند کہلاتاتھا، جاپہنچیں۔ انھوں نے پہلے پہل مشنریوں کے ذریعے اور پھر معاشی اور تجارتی ہتھکنڈوں سے ان علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیااور ایشیا اورافریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا جس کی بنیاد آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے پڑی تھی۔ مسلمان ممالک خاص طورپر یورپی سامراج اور تہذیب و تمدن کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، طرابلس، سوڈان، ہندوستان، عراق اور شام جیسے مسلم ممالک کی یورپ کے ہاتھوں غارت گری اور تباہی پر اقبال کا دل اسلامی تہذیب کے زوال کے حوالے سے بہت کڑھتاتھا ؎ لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز (کلّیاتِ اقبال،ص293- ) یعنی اقبال کو یقین ہے کہ دراصل جدیدیت مسلمانوں کی میراث تھی جسے مغرب لے اڑا۔ لیکن مغربی جدیدیت اس حکمت سے خالی ہے جو اسلامی فکر کی پہچان تھی۔ اقبال کو سب سے زیادہ رنج اس بات پہ تھا کہ سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دل و دماغ یورپی تہذیب کی گرفت میں آتے چلے جارہے تھے۔ ان کے خیال میںجدیدیت کی رو میں یورپی تہذیب کی مادیت پرستی قابل مذمت اس لیے ہے کہ اس سے کسبِ زر، زندگی کی معراج سمجھاجاتا ہے۔ مادی لذتوں کو یورپ نے اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ یہ لذتیں بجائے خود ان کا مقصودبن گئی ہیں۔ اس سے بے مروتی اور سنگدلی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور انسان اور روحانی اقدار پس ِپشت ڈال دی گئی ہیں ا س سے معاشرہ اعتدال، توازن اور ہم آہنگی سے محروم ہوگیا ہے۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ خالص مادیت کی بنیادوں پرکسی بھی تہذیب کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا ؎ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے (کلّیاتِ اقبال،ص305- ) یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے کہ یہ ظلمات یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبّر ، یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیّت کی فتوحات وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات (کلّیاتِ اقبال،ص434-435- ) جدیدسائنس نے انسان کو فطرت سے آزادی ممکن حد تک دلادی ہے لیکن اس سے انسان اپنی نفسی کمزوریوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سے انسان کی زندگی حیوانوں سے بھی پست ہوگئی۔ اگر ان علوم کا مقصد انسانی خدمت نہ ہو تو وہ نعمت نہیں زحمت بلکہ لعنت ہوجاتی ہے۔ اس سے زندگی اپنی پوری جزئیات اور امکانات آشکارکرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ؎ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا (کلّیاتِ اقبال،ص583- ) دراصل مغرب کے دینی عقائد جامد تھے اور سائنسی انکشافات سے ٹکراتے تھے۔ علم کی روشنی سے ان کے بے لچک دینی عقائد متزلزل ہوئے تو وہ مذہب اور اس کی اقدار ہی کے منکر ہوگئے۔ مادی اسباب کی فراوانی نے عیش پرستی اور خود غرضی کے رجحانات کو جنم دیا اور اخلاقی اور روحانی اقدار سے انکار نے مے خواری، عریانی، سودخوری اور اخلاقی پستی کا فساد برپاکیا ؎ صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری (کلّیاتِ اقبال،ص661- ) یورپی طاقتوں نے مسلمان ممالک پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی کوشش کی اور اپنی تہذیب کی خامیوں کو ان ممالک کو زیرِدست رکھنے کے لیے ان میں عام کیا۔جدید تہذیب کے بارے میں اقبال تین مختلف زاویوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ان میں پہلا تناظر مسلمانوں کے ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا عہدِحاضر کی مغربی تہذیب کا منظر ہے اور تیسرا اس مستقبل کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے جو یقینی طورپرعالمِ اسلام کی عصری تاریخ میں آشکار ہونے کو ہے ؎ خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص395- ) مغرب کی مادیت کی شدیدمذمت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقبال مادی ترقی کے سرے سے مخالف ہیں۔ اس معاملے میں ان کی صریح رائے تھی کہ انسان کو مغرب کے مادے کے سامنے سر نہ جھکاناچاہیے اور نہ ہی بعض ترک ِدنیا کے طالب علموں کی طرح مادے سے انکار کردیناچاہیے بلکہ ضرورت ہے کہ مسلمان اسلام کی روح سے آشنا ہوجائیں جو مادہ سے گریز کی بجائے اس کی تسخیر کی کوشش کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ اسلام کی روح مادے کے قرب سے نہیں ڈرتی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دنیا میں حصہ ہے۔ اس کو نہ بھولو۔ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک اور بڑی خامی عقل پرستی کا خمیر ہے۔ جدیدتمدن انسانی افعال اور افکار کو عقل کے علاوہ کسی اور کسوٹی پر پرکھنے کے لیے تیار نہیں جبکہ اقبال کے خیال میں عقل کے پاس حقیقت تک پہنچنے کا کوئی موزوں پیمانہ نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق حواسِ انسانی سے ہے اور حواس حقیقت کے ادراک کے لیے اکثر اوقات ناکافی ہوتے ہیں اس ناموزوں پیمانے سے حاصل شدہ نتائج حتمی نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اقبال یورپ کے اس نامکمل طرزِ فکر کے نقاد ہیں۔ وہ عقل کو کلی اختیار نہیں دیتے اور عقل کے لیے اخلاق کی پابندیاں اور روحانی رہنمائی لازمی سمجھتے ہیں۔حواس، عقل کے ہاتھ میں ہوں تو وہ سیدھے راستے پر رہتی ہے ؎ یا عقل کی روباہی، یا عشقِ ید الٰہی یا حیلۂ افرنگی، یا حملۂ ترکانہ (کلّیاتِ اقبال،ص394- ) اقبال نے سائنسی ترقی کی مددسے محض اپنے مفادات کو مدنظر رکھنے پر بھی مغربیوں کی سرزنش کی ہے کہ انھوں نے بحیثیت مجموعی اس سے انسانیت کی ہلاکت کے اسباب پیدا کیے ہیں اور اس قوت کو کمزور ممالک کو اپنی سامراجی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے اور طرح طرح کی مشینیں ایجادکرکے عالمگیر پیمانے پر معاشی استحصال کا نظام قائم کیا ہے۔ بے درد سرمایہ داروں نے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو آزادی سے محروم کیااور اسے بھی مشین کا پرزہ سمجھا۔ کمزور اقوام کی خام پیداوار سے مصنوعات تیارکرکے انھیں ہی مہنگے داموں فروخت کیاجانے لگا۔ سرمایہ دارانہ قوتوں کی مسابقت اور مقابلے کی حس نے دو عظیم جنگیں برپاکیں۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہواتھا۔ یہ نہیں کہ اقبال سائنس کے مخالف تھے بلکہ وہ تو اس پر اہلِ فرنگ کی اجارہ داری کے مخالف تھے۔ ان کے خیال میں جدیدعلم و حکمت اس لذّتِ ایجاد کا نتیجہ ہے جس سے مغربی اقوام پہلے پہل مسلمانوں کی بدولت آشنا ہوئیں۔ جدید سائنس اسی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ چنانچہ وہ سائنس کو فرنگی زاد نہیں مسلمان زاد کہتے ہیں ؎ حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست اصلِ اُو جز لذّتِ ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دستِ ما افتادہ است دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست باز صیدش کن کہ او از قافِ ماست (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص749- ) جدیدتمدن کے طریقِ فکر و عمل کے بارے میں اقبال کے خیالات بہت واضح ہیں۔ ان کے نزدیک اس تحریک میں کوئی خرابی نہیں، اس واسطے کہ یورپی تہذیب ذہنی اعتبار سے اسلامی تہذیب کے بعض نہایت اچھے پہلوئوں کی مزیدنشوونما سے عبارت ہے۔ اقبال کو خوف ہے تو یہ کہ کہیں یورپین تہذیب کی ظاہری چمک دمک ہماری اس تحریک کو روک نہ دے اور ہم اس(یورپی تہذیب) کی حقیقی اندرونی روح تک نہ پہنچ پائیں۔اہل مغرب کی انسانی حقوق کی پاسداری اور مساوات کے اصول اقبال کے نزدیک قابل قدر ہیں۔ ان کے خیال میں اس قسم کی اصلاحی فلاحی مملکتیں قائم کرنے کا خیال بھی اسلام سے بہت قریب ہے۔ اہل یورپ کی محنت، ایفائے عہد، کاروباری دیانت اور کاملیت پسندی کے باعث وہ انھیں مسلمانوں کی بہ نسبت اسلام کے زیادہ پابند نظرآتے ہیں۔ وہ ان مشرقی رہنمائوں کی مذمّت کرتے ہیں جو مغرب کی اندھی تقلید سے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا رہے۔ وہ یورپی تہذیب کی حقیقی خوبیوں کو چھوڑ کر صرف ظاہری خوبیوں کو اپنانے کو غیردانش مندانہ فعل کہتے ہیں۔ اصل علم وحکمت اور ترقی و خوشحالی مخصوص لباس، وضع قطع اور بے حجابی سے حاصل نہیں ہوتی۔ فرنگ کی ترقی خوشحالی اور قوت کی بنیاد ان کے علم و فن، قوت ایجاد اور فکرِ چالاک پر ہے۔ مسلمان رہنمائوں نے اس پر توجہ نہیں دی ؎ نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی (کلّیاتِ اقبال،ص654- ) اقبال کو مغرب سے نہیں مشرق سے گلہ تھا کہ وہ اپنی ناسمجھی کے باعث تہذیبِ مغرب کی کورانہ تقلید میں پھنستے چلے جارہے ہیں: قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص648- ) حالانکہ مغرب کی قوت کا راز چنگ و رباب میں یا دخترانِ بے حجاب کے رقص میں نہیں ان کے علم و فن میں پوشیدہ ہے۔ اس علم و فن کا چراغ ہماری آگ ہی سے روشن ہواتھا۔اسی باعث اقبال نے دانشِ حاضر کو سحرِقدیم ہی کو پھر سے تازہ کرنے کا طعنہ دیا ہے اور تاریخی اور علمی اعتبار سے اقبال کا تجزیہ درست بھی لگتا ہے۔ دراصل اقبال کی شخصیت سرتاپا تحرّک، عمل، ارتقا اور تجدید سے عبار ت تھی اور وہ اپنے عہد کے مختلف ادبی، علمی، سیاسی اور معاشرتی مکاتیبِ فکر کے ساتھ صرف اس حد تک متفق ہوتے تھے جس حد تک ان کا تجزیاتی ذہن قبول کرتاتھا۔ کسی خیال یا نظریے کے بارے میں غورکرتے ہوئے اقبال اسے افادیت کے پیمانوں سے ناپتے تھے اور وہ اسی ادب کے علمبردارتھے جو عصرِحاضر کے قومی اور بین الاقوامی تناظر میں ارتقائی میلان رکھتاہو اور تقلید اور رجعت پسندی کے خلاف مؤثر حربے کے طورپراستعمال ہوتا ہو اور اس کے لیے وجدان اور روحانی تجربے سے بھی استفادہ کرتاہو: ’’اقبال کے فلسفے کا وہ حصہ جو معاصر معاشی، سیاسی اورمعاشرتی تحریکوں سے تعلق رکھتا ہے سراسر تجرباتی، عقلی اور ترقی پسندانہ ہے۔ اس کی انقلابی اہمیت اور انقلاب آفرینی مسلم ہے لیکن اقبال کا مابعدالطبیعاتی فلسفہ تجرباتی کم اور قیاسی زیادہ ہے۔ جہاں عقلیت پسندی کی جگہ وجدان اور عقائد لے لیتے ہیں جنہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ناممکن ہے۔ اس اعتبار سے اقبال کا ویژن دو متضاد رویوں سے مرتب ہوتا ہے جن پر مختلف مکاتیب فکر ایک عرصہ سے بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔‘‘(77) لیکن حتمی طورپر اقبال ایک جدید ذہن ہی ٹھہریں گے۔ جدیدیت کی روح کہیں ٹھہرنانہیں، کسی نظریے یا خیال پر رُکنا نہیں اور اقبال کے مزاج اور تحریروں میں جدیدیت کی یہی روح سرایت کرچکی تھی۔ حواشی و حوالہ جات -1 قومی انگریزی- اردو لغت: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع پنجم،2002 ،ص۔1256 ۔ 2- Wikipeadia, free encydlopedia: Internet 3- Ibid 4- Ibid 5- Ibid 6- Ibid 7- Ibid -8 جامع انگلش۔ اردو ڈکشنری جلد۔۱:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی؛ ص۔811-812 ۔ -9 قومی اردو-ا نگریزی لغت مذکور،ص2119- ۔ 10- Professor Mumtaz Ahmed: Literary Criticism; Ch. Ghulam Rasool & Sons, Lahore, 1989, P.611 11- Ibid: P. 611 -12 (ڈاکٹر) سہیل احمدخا ن۔محمد سلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات؛ جی سی یونیورسٹی، لاہور،طبع اول،2005 ،ص204- ۔ -13 ایضاً:ص205- ۔ -14 سیدعابدعلی عابد:انتقادادبیات؛سنگِ میل،لاہور،1994 ،ص253 -۔ -15 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان،محمد سلیم الرحمن، (مؤلفین):کتاب مذکور،ص۔205 ۔ -16 بحوالہ (ڈاکٹر) انور سدید مقالہ بعنوان ادب، عصری آگہی اور انشائیہ، مشمولہ ادبی زاویے، مرتبہ خالد اقبال یاسر؛اکادمی ادبیات پاکستان،1984 ،ص120- ۔ -17 (سید)علی عباس جلالپوری، روحِ عصر؛روہتاس بکس،لاہور،طبع سوم، 1989،ص7-8- ۔ -18 ایضاً:ص8-9- ۔ -19 (ڈاکٹر)سلیم اختر:تنقیدی دبستان: سنگِ میل،لاہور،1997 ،ص133-134- -20 ایضاً:ص136-137- ۔ -21 اردو لغت(تاریخی اصول پر) جلداوّل:ترقی اردو بورڈ،کراچی،طبع اول، 1977 ، ص190- ۔ -22 ایضاً:ص191- ۔ -23 اردو دائرہ معارف اسلامیہ،جلد۔۱:مرتبہ ڈاکٹرسیدعبداللہ، دانش گاہ ِپنجاب، لاہور،طبع اول،1964 ،ص103-105- ۔ -24 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد 1- (ادبیات):قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ،ص354-356- ۔ -25 ایضاً:جلد8- (فنونِ لطیفہ): ص۔184-185 ۔ 26. Wikipedia: op. cit. 27. lbid: -28 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد1- (ادبیات) مذکور، ص۔201 ۔ -29 بحوالہ سیدعلی عباس جلالپوری:کتاب مذکور،ص180- ۔ -30 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد 1- (ادبیات) مذکور:ص۔201 ۔ 31- The New Encyclopeadia Britannica. P.649 32- lbid p.649 33- lbid: p. 649 34- lbid: p.650 -35 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد8- ( فنونِ لطیفہ)قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، طبع اول، 2003 ،ص۔476-477 ۔ -36 خالد اقبال یاسر،محمدارشدرازی:نوبل انعام کے103 سال (ادب)،اردو سائنس بورڈ، لاہور،طبع اول ،2005 ، ص۔ 203-207 ۔ -37 ایضاً:ص104-109 ۔ -38 ایضاً:ص64-68 اور72 ۔ -39 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال؛ مترجمہ افتخاراحمدصدیقی، مجلس ترقیٔ ادب، لاہور، طبع دوم، 1983، ص66- ۔ -40 بحوالہ کلیاتِ اقبال؛ اقبال اکادمی،لاہور، 1990 ،ص10- ۔ -41 (شیخ) عبدلقادر: دیباچہ کلّیاتِ اقبال، اقبال اکادمی، لاہور،1990 ئ، ص۔ 38 ۔ -42 اقبال، شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص105- ۔ -43 بحوالہ کلیاتِ اقبال مذکور؛ص10- ۔ -44 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص128- ۔ -45 بحوالہ کلیات اقبال مذکور،ص11- ۔ -45 اقبال، شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص138- ۔ -47 ایضاً:ص142- ۔ -48 ایضاً:ص134- ۔ -49 ایضاً:ص132- ۔ -50 بحوالہ کلیات اقبال مذکور،ص13- ۔ -51 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی؛ ملفوظاتِ اقبال؛ اقبال اکادمی، لاہور، طبع اول، 1977،ص370- -52 ایضاً:ص371- ۔ 53- Iqbal: Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.166-167 -54 بحوالہ مظفر علی سیّد: مقالہ ادب اور تاریخی شعور مشمولہ ادبی زاویے، مرتبہ خالد اقبال یاسر مذکور،ص81- -55 ایضاً:ص184- -56 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص165- ۔ -57 (فقیر سیّد)وحیدالدین: روزگارِفقیرجلدددم،لائن آرٹ پریس، کراچی، طبع دوم، ص104- ۔ -58 محمد رفیق افضل(مرتب): گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، لاہور، طبع سوم، 1986،ص103-104- ۔ -59 ایضاً:ص۔ 104-105 ۔ -60 ایضاً:ص12- ۔ -61 ایضاً:ص86- ۔ -62 ڈاکٹرابواللیث صدیقی:ملفوظاتِ اقبال مذکور؛ص77- -63 ایضاً:ص77- ۔ -64 ایضاً:ص138-139- ۔ -65 فقیرسیدوحیدالدین:کتاب مذکور؛ ص61- -66 محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور،ص169- -67 کلیات ِاقبال مذکور:ص11- -68 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی:ملفوظاتِ اقبال مذکور:ص603-604- -69 اقبال، علامہ محمد؛ کلیات مکاتیبِ اقبال؛جلددوم، مرتبہ: سیدمظفرحسین برنی؛خط بنام صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، اردو اکادمی، دہلی،1993 ؛ص601- -70 بحوالہ (ڈاکٹر) کنیزفاطمہ یوسف:اقبال اور عصری مسائل؛سنگِ میل،لاہور، 2005، ص465- -71 ایضاً:ص426- -72 (ڈاکٹر) رفیع الدین ہاشمی: اقبال؛ تفہیم و تجزیہ، اقبال اکادمی، لاہور، طبع اول، 2000،ص146- -73 اقبال:تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،مترجمہ سیدنذیرنیازی،بزمِ اقبال، طبع سوم، 1986،ص247- -74 پروفیسرخواجہ غلام صادق، فلسفۂ جدید کے خدوخال، نگارشات،لاہور، طبع اول،1986 ،ص341- ۔ -75 اقبال :خطبات مذکور: ص268-271- ۔ -76 ظہیرکاشمیری؛ ادب کے مادی نظریے؛ کلاسیک، لاہور، طبع دوم، 1975 ، ص152- 77- Dr. Anne-marie Schimmel: Gabriel's Wing, E.J. Brill; Leiden; 1963, P.295. ٭٭٭ باب سوم :حصہ د وم فطرت پسندی کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء فطرت پسندی یوں تو ایک جذبے کا نام ہے جو کائنات اور اس کے مظاہر سے انسان کے ازلی و ابدی تعلّق کی بنیادپر وجود میں آتا ہے۔ تاہم اصطلاحاً اس کا سلسلہ اس رویّے اور رجحان سے جُڑا ہوا ہے جس کا آغاز فرانس سے ہوا اور جسے نظریاتی بنیادوں پر استوارکرنے میں ہیپولٹ طین (HippolyteTaine)،کومٹے(Comte) ایملی زولا(Emile Zola) اور ڈارون(Darwin) نے اہم کرداراداکیا اور نیچرلزم (Naturalism) کی اصطلاح وضع کرکے اسے کائنات کی حیاتیاتی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔ جے اے کڈن(J. A. Cuddon) کے مطابق: "In literature naturalism developed out of realism. The main influences that went to forming a different point of view were Darwin's biological theories, Comte's application of scientific ideas to the study of society, and Taine's application of deterministic theories to literature." (1) فطرت سے وابستگی رکھنے والے ان نظریہ سازوں کے یہاں انسان کی زندگی اور اس کے اعمال سماجی حالات کے آئینے میں ترتیب پاتے ہیں اور فطرت کے مظاہر اور مناظرہرآن اس پراثراندازہوتے اور اس کی داخلی کیفیتوں کو جنم دیتے ہیں۔ ادبی تنقیدمیں نیچرلز م کا لفظ عام طورپر فطری حسن سے والہانہ تعلق کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم اس کے حقیقی مفہوم کو دیکھاجائے تو ہمارا ذہن اس نکتے پر مرکوز ہوتا ہے کہ عالمِ موجود کی تمام اشیاء فطرت کا لازمی حصہ ہیں اور سب اپنے وجود کے فطری اور مادی مقاصد رکھتی ہیں۔ عالمِ وجود کا ایک لازمہ انسان کی ذات بھی ہے جو بجائے خود فطرت کا ایک عظیم الشّان مظہر ہے۔ انسان کی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ خودپرگزرنے والی کیفیتوں کو مختلف سطحوں پر محسوس کرتا ہے۔ اس کے محسوسات فطری طورپرتشکیل پاتے ہیں البتہ ان کے اثرات کی سطحیں مختلف ہیں۔ فطرت پسندی میں فطرت کا لفظ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ فطرت یا Nature کے معانی قدرت، مایا، عالم یا کائنات کے ہیں۔(2) قدرت وہ الوہی قوت ہے جو تخلیقِ کائنات، اس کے ارتقاء اور اسے مربوط و منظم رکھنے پر قادر ہے۔ دوسرے کائنات میں تمام اشیاء اور مظاہر شامل ہیں خاص طورپر وہ مادی اور ظاہری دنیا جس تک انسان کی رسائی نہ ہوئی ہو اور وہ ابھی تک اَن چھوئی حالت میں موجود ہو۔ تیسرے کسی شے کی خاصیتوں اور اوصاف کا مجموعہ جن سے وہ شے مرتب ہوئی ہو اور آخری مفہوم میںوہ جبلّتیں یا خلْقی رجحانات شامل ہیں جن سے ذاتی رویہ اور مزاج بنتا ہو۔ (3) فطرت پسندی (Naturalism) کو فطریت بھی کہاجاتا ہے۔ اس کے سیدھے سیدھے معانی یہ ہیں کہ ’’فطری جبلتوں اور تمنائوں سے پیدا ہونے والا، فطری باتوں سے وابستگی یا اُنس۔‘‘(4) فلسفیانہ زاویے سے فطرت یا فطرت پسندی’’وہ طریقہ کار ہے جس میں ہر مظہراور ہرقدر کو بیان کرنے کے لیے فطرت یا نیچر کا وسیلہ اختیار کیاجاتا ہے۔‘‘(5) مافوق الفطرت اس کے متضاد ہے اور تصوریت بھی اس کے الٹ معانی دیتی ہے۔ تجربیت اور مادیت کے رجحانات فکری سطح پر فطریت کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اثباتیت کا تصور بھی فطریت کے مترادف ہے۔ فطریت روحانی یا غائیتی دلائل سے نہیں بلکہ عِلل (Causes) سے علاقہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ کہاجاچکا ہے، فطرت پسندی یا فطریت حقیقت پسندی کے مدارج میں سے ایک ہے۔ اسے مبالغہ آمیز حقیقت پسندی بھی کہاجاتا ہے۔ وہ شاعر یا فکشن لکھنے والا جو مظاہرِ فطرت کے حسن کا دلدادہ ہو اسے فطرت پسند کہاجائے گا۔ حقیقت پسندی کا آغاز انسانی خصوصیات اور اس کے پس منظر کے سائنسی مطالعے سے ہوتا ہے۔ اسے آپ ایک طرح کی معاشرتی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت پسندی کی یہی تحریک اپنے آخری مدارج میں فطرت پرستی تحریک میں تبدیل ہوجاتی ہے (6) اورمادیت کے فلسفے کو، ڈارون کے حیاتیاتی افکارکو اور طین کے نظریۂ جبریت کو بھی اپنے اندرجذب کرلیتی ہے۔(7) فطرت پسندی کی تعریف میں ذکر آچکا ہے کہ معاشرے کے مطالعے کے لیے کامٹے کے سائنسی طریقۂ کار کا اطلاق بھی فطرت پسندی کا حصہ ہے۔ فطرت نگاروں کے خیال میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ فطرت میں داخل ہے۔’’ایسے مصنفین کا مقصد جدیدزندگی کی معروضی، غیرجانبدارانہ اور تفصیلی تصویر کشی تھا جس میں آزاد ارادے کی بجائے اقتصادی اور معاشرتی عناصر کی اہمیت پر زور دیاجاتا تھا۔ وہ دینی حقائق کا منبع الہام کی بجائے مطالعۂ قدرت قرار دیتے تھے۔(8) زندگی کی تفسیرفطری حوالے سے کرنے والوں نے معاشرتی حالات کی تصویرکشی کرتے ہوئے انسان کی کمزوریوں اور بدہئیتی ہی کو اجاگرکیا ہے۔ فرد کی کیفیت کے بارے میں فطرت نگاروں کا تصور عام طورپر موضوعی اور ملال انگیز ہوتا تھا۔(9) فطرت کے بارے میں ابتدائی تصورات ارسطو، برونو، اسپینوزا، کانٹ، روسو، نطشے، مارکس، جیمس، ڈیوس اور وائٹ ہیڈ کے ہاں معمولی سے اختلافات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ فطرت پسندی کا ایک پہلو دہریت کا بھی ہے لیکن اسے فطرت پسندی کے اثرات میں شمارکیاجاناچاہیے۔ کامٹے اور نطشے نے تو اپنی دہریت کو چھپایابھی نہیں تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ ہرفطرت پسند دہریاہوجاتا۔ بہت سے فطرت پسند خدا کے وجود کے قائل تھے لیکن انھیں خدا مظاہرِفطرت میں ہر طرف جلوہ گر نظرآتاتھا یعنی وہ وحدت الوجود کے صوفی نظریے کے بالواسطہ یا غیرمحسوس طورپرقائل تھے۔ ایسے فطرت پسندوں میں اسپینوزا اور بعض دوسرے فطرت پسند بھی شامل تھے جنھوں نے تصوریت سے بھی کام لیااور مابعدالطبیعات سے بھی اعتنا نہیں برتا۔ بعدمیں آنے والوں نے عقلی اور استدلالی سطح پر ہمہ گیر حقیقت کے ادراک کی کوششیں کی ہیں اور سائنس اور فطرت کے ذریعے کائنات کی تشریح کی ہے۔(10) فطرت پسندی کی پیش رو کے طورپر بطور ادبی اصطلاح حقیقت پسندی کا یورپ میں استعمال انیسویں صدی کے نصف آخرمیں سامنے آیا جبکہ فلسفیانہ اصطلاح کے طورپر Realism اُس اصول کو کہیں گے کہ تصوراتِ کُلّی اپنے مطابق خارجی حیثیتیں رکھتے ہیں۔ اسی طرح عملیات (Epistemology) میں Realism سے مراد یہ ہے کہ خارجی دنیا ہمارے عملِ ادراک سے آزادموجود ہے اور اُس کی موجودگی ویسی ہی ہے جیسا کہ ہم اُس کا ادراک رکھتے ہیں۔ "Real"کا لفظ لاطینی لفظ"Res" سے مشتق ہے ، جس کے لاطینی میں معنی ہیں ’’شے‘‘یا’’چیز‘‘ جو حقیقی یا واقعی طورپر موجود ہو۔ یوں یورپ کی زبانوں میں Real کے لفظ کے غیرفلسفیانہ معنوں میں حقیقی کے ساتھ اشیاء یا چیزوں سے تعلق رکھنے کا مفہوم برابرموجود رہا ہے اور یہی معاملہ فطرت نگاری میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انیسویں صدی میں جبRealism کی ادبی تحریک فرانس میں چلی تو اُس کی بنیاد زیادہ تر اس لفظ کے لغوی معنوں پرہی تھی۔ یعنی ’’حقیقتِ واقعہ‘‘ یا ’’واقعہ نگاری کی تحریک‘‘۔ بعدازاں اسی تحریک کے بطن سے فطرت نگاری نے جنم لیا۔ فرانس میں ادبی تحریک کے طورپرRealism کا آغاز شان فلیوری کی تحریروں سے ہوا۔ یہ الگ بات کہ بطور تخلیق کار شان فلیوری کا مقام و مرتبہ کچھ بلند نہیں۔ یوں شان فلیوری نے ایک ایسے ادبی رجحان کو تحریک کا نام دے دیا جو کم و بیش ہرملک کے ادب میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ حقیقت نگاری کے تحت فطرت نگاری’’ اصول‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’رجحان‘‘ہے یعنی سائنسی سطح پر جس طرح اشیاء اور اجسام کا مطالعہ اور معائنہ کیاجاتا ہے اُسی طرح حقیقت نگار یا فطرت نگار، ادبی سطح پر آرٹ کی دنیا میں وہی کام کرتا ہے۔ اسی لیے جن ناقدین اورادبی مؤرخوں نے1832 ء سے1875 ء تک کے انگریزی ادب کو حقیقت نگاری کا دور کہاتو وہ کچھ غلط نہ تھا۔ یوں کہاجاسکتا ہے کہ برطانیہ میں یہ رجحان شان فلیوری سے بہت پہلے کا ہے۔ورڈزورتھ اور کولرج جنہیں رومانوی تحریک کے نمائندہ شعراء تسلیم کیاجاتا ہے، درحقیقت حقیقت نگاری کے اسی رجحان سے متاثرتھے جسے حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا ملغوبہ کہاجاسکتا ہے۔ اُن میں رومانویت تو خیر تھی ہی مگر اُن کی فطرت نگاری صرف و محض مظاہرِ فطرت یعنی نباتات اور جمادات تک محدود تھی۔ اُس میں سے ورڈزورتھ نے معصوم فطرت کو چُنااور کولرج نے قہار فطرت کو۔ ورڈزورتھ کے ہاں پُرسکون وادیاں، گُپ چُپ پہاڑ اور پھولوں کے لہلہاتے تختے دکھائی دیتے ہیں اور اُسی معصوم فطرت سے متعلق ایک ننھی لڑکی لوسی گرے اپنے آپ میں مگن دکھائی دیتی ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ لوسی گرے ورڈزورتھ کی چھوٹی بہن کا ایک روپ تھا۔ دوسری طرف کولرج کے ہاں بپھرے ہوئے سمندر، غضبناک، اُمڈتے ہوئے بادل اور چیختی چنگھاڑتی ہوائیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دونوں شاعر رومانویت پسند ہیں لیکن اُن کے ہاں اک دوجے سے مختلف مظاہرِ فطرت نظرآتے ہیں۔ اس لیے کہ رومانیت میں تخلیق کار کی اپنی منتخب کردہ خاص حقیقتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ رومانیت کی پرواز عقلی نہیں ہوتی ، اُس میں ذاتی وجدان کا عنصر ضرورت سے زیادہ غالب ہوتا ہے۔ لیکن خیریہ تو ہم بات کررہے ہیں حقیقت نگاری میں فطرت نگاری کے ملے جُلے عناصرکی۔ یہ طے ہے کہ حقیقت نگاریا فطرت نگار جتنا باکمال ہوگا اُس کا نقطۂ نظر غیرشخصی ہوگا اور اُس میں رومانی ذاتیت کم سے کم ہوگی۔ اس لیے کہ سب سے پہلے تو وہ ناظر ہے اور اس کا پہلا مقصد مظاہرِ فطرت اور زندگی کی نقاشی کرنا ہے۔ اُس کا اندازِ بیان بہت صاف اور سیدھاسادہ ہوناچاہیے اور اُس بیان میں بھی اُسے اپنی ذاتی رائے سے بچ کر چلناہوگا۔ ادب کے میدان میں اور خاص طورپر ناول اور افسانے میں فطرت پسندی کارجحان ان دنوں پیدا ہوا جب انیسویں صدی میں نظری طبیعیات اور خاص طور پر حیاتیات میں اختلافی نوعیت کے افکار کا پرچار شروع ہوا۔ ان افکار کے اطلاق سے معاشرتی اور انفرادی تجزیے کے امکانات اور زندگی کی نئی تفسیر و تشریح کے زاویے لکھنے والوں کے ہاتھ لگے۔’’انسانیت کو فطرت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے والوں کا جھکائو داخلیت کی طرف تھا اور ان کی تحریروں میں ایک خاص وضع کی حزن آمیز قناعت پائی جاتی تھی۔‘‘(11) فکشن میں گان کور برادران(Goncourt Brothers) ،ایڈمنڈجیولسEdmund) (Jules اور الفانسے دادے (Alphonse Daudet) اس طرزِ اظہار کے اوّلیں نمائندوں میں شامل تھے۔ گان کور برادران کواس میدان میں اوّلیت حاصل ہے کہ ان کے ناولGerminie Lacerteuxجو1865 ء میں منظرِ عام پرآیا،میں ایک گھریلو ملازمہ کی المناک زندگی کی عکاسی ہے۔ اس ناول کی ایملی زولانے بھی تعریف کی جو فطرت پسندی کی تحریک کا سب سے بڑا پرچارک سمجھاجاتا ہے۔ فلابیر فطرت پسندی میں ایملی زولا سے کم نہیں لیکن ایملی زولا کا رویہ زیادہ نامیاتی اور طبیعاتی ہے۔ اپنی کتاب Therese Raquin کے دیباچے میں جو 1868 ء میں چھپی، اس نے اپنے آپ ایک ایسے فطرت پسند کے روپ میں پیش کیا جس کا طریقۂ کار امراض اور علم الابدان کے کسی ماہر کی طرح تشخیصی ہو۔ اس کے خیال میں فرد کے اعمال و افعال کا تعین اس کے حالات اور وراثتی اثرات سے ہوتا ہے اور ناول نگار کا کام یہ ہے کہ وہ اس کی زندگی کا پوسٹ مارٹم یا آٹوپسی کرے۔ اس کے ناولوں میں سنسنی خیزی اور میلوڈرامائی عناصرنمایاں ہیں۔ نقادوں نے اس کی تحریروں میں انسانی زندگی کے ناقابلِ بیان پہلوئوں اور کمترطبقوں کی المناک کیفیتوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی پوری شدت کے ساتھ عکاسی کاذکرکیا ہے۔ افلاس کے مارے ہوئے بدصورت کردار اور ناگوارکیفیات اس کے ناولوں میں نمایاں ہیں۔ پہلی کتاب کے بعد اس نے بیس ناولوں کے ایک سلسلے کا منصوبہ بنایا جسے اس نے Rougon Macquart کانام دیا۔ یہ جلدیں اس نے1871 ء سے1893 ء کے دوران لکھیں۔ ان بیس ناولوں میں سب سے زیادہ اہم Germinal ہے جو اس نے 1885 ء میں تصنیف کیاتھا۔ ایملی زولا نے اپنے بعد کے ایک سو سال پوری دنیا کے ادب کو متاثرکیا۔ اس کے اسلوب سے متاثرہونے والوں میں موپساں (Maupassant) ، جے کے ہائزمانز(J.K. Huysmans) ، جارج مور(George Moore) اور جارج گسنگ (George Gissing)شامل ہیں۔ ایملی زولا کے افکار سے جرمنی کے فطرت پسندوں نے زیادہ اثرقبول کیا جہاں برلن اور میونخ کے دبستانوں کا بہت نام تھا۔ یہاں فطرت پسندی کی تحریک کے نمایاں لکھنے والوں میں جی۔ ایم کانرڈ(G.M. Conrad) ،ہولز (Holz) ،شلاف (Schlof)، ہارٹ برادران(Hart Brothers) ، بلائبتریو (Blaibtreu) اور بولشے(Bolsche) شامل تھے ۔جرمن فطرت پسندی کو سب سے زیادہ ڈرامہ نگار ہاپ مان(Haupt mann) نے برتا۔ فرانس سے باہر ابسن (Ibsen) سٹرائنڈبرگ (Strindberg)چیخوف، طالستائی، گورکی اور گوگول اور اوقیانوس کے پار تھیوڈور ڈریزر (Theodore Drieser)،فرینک نورس(Frank Norris) اور سٹیفن کرین(Stephen Crane) کے ناولوں میں فطرت پسندی اپنے تمام تر پہلوئوں سمیت موجود ہے۔(12) فطرت پسندوں نے زندگی کی اس سفاکیت کی تصویرکشی کی جس کو عہدِوکٹوریہ کے برطانوی ادیبوں نے نظراندازکیے رکھا تھا۔ اس لیے جب ان کے اسلوب کے اثرات گسنگ، موراور ہارڈی کے ناولوں میں ظاہرہوئے تو فطرت پسندوں کی فحاشی اور عریانیت کے خلاف بہت سنگین اعتراضات اٹھائے جانے لگے۔ زولا پر انسانی زندگی کے حیوانی رجحانات کے ضرورت سے زیادہ اظہارکا الزام لگایاگیا۔(13) لیکن غیرجانبداری اور بے تعصب نگاہ سے دیکھا جائے تو دنیامیں رنج و الم کی فراوانی ہے اور خوشی اس کے مقابلے میں کم ہے۔ بدصورتی عام ہے اور حسن نایاب۔ ایسی حالت میں حقیقت پسند فطرت نگاروں کے پاس وہی کچھ دکھانے کے علاوہ جو وہ ہمہ وقت اپنے آس پاس دیکھتے ہیں، کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے۔(14) بہرحال فطرت پسندی کے مخالفین نے اسے ادب و فن میں فطرت کے سامنے اس کے روشن پہلوئوں سے مکمل طورپر پہلوتہی کرتے ہوئے ہتھیارڈالنے کے مترادف قراردیا ہے۔ اسے جمالیات سے خالی، الم انگیزی سے پُراور سفاکیت کے سبب مطعون ٹھہرایاجاتا رہا اور اس لیے بھی کہ اس سے انسان دہریت کی حدتک جاسکتا ہے۔ تھامس ہارڈی نے فطرت پسندی کے اثرات کو اعتدال کے ساتھ قبول کیاتھا اس لیے اس نے فطرت پسندی کے بارے میں متوازن رائے قائم کی ہے: "The recent school of novel writers target in their insistence on life and nothing but life, in a plain slice that a story must be worth the telling, that a good deal of life is not worth any such thing and that they must not occupy the reader's time with what he can get at first-hand any where around him." (15) یورپ میں فطرت پسندی پر مبنی ڈراموں کے ایک سلسلے کے علاوہ روس میں بھی فطری دبستان کا نام روسی حقیقت پسندی کی تحریک کے ابتدائی دور میں استعمال ہوا۔ گوگول کے شارح بیلنسکی(1811-1848) نے فطرت پسندی کے اس رجحان کی ابتداکی تھی۔ بیلنسکی کا خیال تھا کہ ادیب کو روحانی خیالات کو ایک طرف چھوڑکر اس عہد کے سماجی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ کسانوں کے ساتھ ناانصافی ان میں سے ایک تھی۔ اس کی فطرت پسندی، مصنوعی پن اور قناعت پسندی کی تکذیب پرمبنی تھی۔(16) فطرت کے بارے میں ایک تصورقرآن کا بھی ہے۔ قرآن بار بار عالمِ فطرت کی طرف انسان کی توجہ اشاروں، کنایوں سے اور واضح طورپر مبذول کرواتا ہے۔ قرآن انسان کوعالمِ فطرت کے مشاہدے اور تسخیروتصرف کی طرف قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے لیکن ایسی فطرت پرستی سے گریز کی تلقین بھی کرتا ہے جو دہریت، مادہ پرستی، حسیت اور اختیاریت کی انتہاتک لے جائے۔ قرآن کے نزدیک صرف محسوس ہی حقیقی اور فطری نہیں ہے۔ فطرت اور حقیقت محسوسات تک محدود نہیں۔(17) اس سے ماوراء بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی فوق الفطرت اور مافوق الفطرت قرآن کے حوالے سے فطرت میں داخل ہیں۔ قرآن میں انسان کی جبلت اور مزاج کا ذکرباربارآتا ہے۔ قرآن اور اسلام کے فطرت کے بارے میں نظریات ایک تفصیلی تذکرے کے متقاضی ہیں جس کا یہ محل نہیں۔ اہم فطرت نگار ایملی زولا(1840-1902) کاپورانام ایملی ایڈورڈچارلس انطونی زولاتھا۔ وہ پیرس میں ایک انجینئرکے گھرپیداہوا۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم ایکس(Aix) میں حاصل کی۔ بعدازاں پیرس اور مارسیلز میں زیرتعلیم رہا لیکن ڈگری حاصل نہ کرسکا۔ شروع میں کلرکی کی لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑکر صرف ادب کا ہوگیا۔ فن اور ادب پر تندوتیز مضامین سے اس نے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اس کا پہلا ناول "Therese Raquin"بھی ہولناک کہانی مگرمؤثر اسلوب کے باعث اہم سمجھاجاتا ہے۔ ایملی زولاکے ہاں فطرت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ابتدائی رومانیت کے جنوں خیز دور سے گزرکر اس نے’’ روزان ۔ماکارٹ‘‘ (Rougon-Macquart) کے نام سے شاہی خاندان کی ایک تاریخی کہانی بیان کی جس کے افراد کی کردارنگاری اس نے نفسیاتی اور عضویاتی زاویے سے کی۔ کئی جلدوں پرمشتمل ناولوں کے اس سلسلے میں اس نے وراثت، ناگوارماحول، سائنسی اسلوب اور معاشرتی زندگی کی بدہئیتی سے انسانی رشتوں کی نزاکتوں، پیچیدگیوں اور منفی پہلوئوں کی عکاسی کی ہے۔ اس نے اس عہد کے فرانسیسی معاشرے کی تصویرکشی میں انسانی فطرت کی عکاسی میں حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ ناولوں کا یہ سلسلہ زیادہ مقبول نہ ہوا لیکن اس کے اگلے رزمیہ ناول"Le Assomoir" نے اسے اپنے عہد کا سب سے مقبول ناول نگار بنادیا۔ اس کی تحریروں نے ادبی دنیامیں نئی بحثوں کو جنم دیا۔ زولا کے پہلے ناول شہری معاشرت کے بارے میں تھے لیکن اس کا اگلا ناول "Le Reve" دیہاتی زندگی کے متعلق تھا۔ شہری زندگی پر بھی اس نے تین ناولوں کا سلسلہ "Lourdes, Rome, Paris"کے عنوان سے تصنیف کیا۔ زولا کو صحیح معنوں میں فطرت نگار سمجھاجاتا ہے۔ وہ اس دبستان کا سرخیل تھا۔ دوسرے لکھنے والے انسان میں حسن، خیراور شرافت تلاش کرتے تھے لیکن وہ انسان کی نفسانی خواہشات، حرص و ہوس، بیماری اور بسیارخوری پر قلم اٹھاتا تھا۔ حزن، ملال، افسردگی، اضطراب، اداسی، دہشت، وحشت اور کراہت کے بیان میں اس کا ثانی کوئی نہ تھا۔ زولا نےDreyfus کے معاملات میں بھی اپناکرداراداکرنے کی کوشش کی۔ یہ معاملات ایسے تھے جن سے فرانس کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں ارتعاش پیداہواتھا۔ ایک زیرعتاب پروفیسرکی حمایت میں ایک مضمون بعنوانJaccuse لکھنے پراسے بہت مخالفت کا سامناہوا۔اسی مخالفت کے سبب وہ فرانس سے ہجرت کرکے برطانیہ میں پناہ لینے پر مجبورہوا۔ 1899 ء میں وہ ڈریفس کے مقدمے پرنظرثانی کی اطلاع پاکر فرانس واپس آیا لیکن تین سال بعد ہی وہ دھوئیں کی وجہ سے دم گھٹنے پر پیرس میں اپنے گھرمیں مردہ پایاگیا۔ اس کی ساری زندگی افلاس میں کٹی اور وہ کبھی زندگی کے مسائل سے نہ نکل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے زندگی کی اتنی سچی اور فکرانگیز تصویریں اپنے ناولوں میں کھینچی ہیں۔(18) ولیم ورڈزورتھ(1770-1850)(William Wordsworth) کا شمار انگریزی زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں کیاجاتا ہے۔ وہ ایک رومانی شاعر تھا لیکن اس کا رومان مظاہرِفطرت کی منظرکشی میں اپنے کمال پر دکھائی دیتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا۔ وہ ایک سیلانی شخص تھا۔ فرانس کی سیاحت میں اسے آنت والون سے پیار ہوگیاجس سے اس کی ایک لڑکی پیداہوئی۔ وہ فرانس کے انقلاب کو بہت قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ جمہوریت پسندتھا اور اس کے خیالات پر روسو کی فکرکا غلبہ تھا۔ وہ فرانس بوجوہ خواہش کے واپس نہ جاسکااوربالآخرڈارسٹ شائر میں قیام پذیرہوگیا۔ اس شہر میں اس کی کالرج سے ملاقات ہوئی جو گہری دوستی میں بدل گئی۔ ورڈزورتھ اورکالرج نے مل کرLyrical Ballads لکھیں۔ ان Ballads میں ورڈزورتھ کی نظمTintern Abbey بھی شامل ہے۔ یہ نظم رومانیت پسندوں کا منشورسمجھی جاتی ہے۔ 1799ء میں وہ جھیلوں کے لیے مشہور لیک ڈسٹرکٹ چلاآیااور اپنی بہن کے ساتھ زندگی کے باقی سال وہیں گزار دیے۔ 1800ء میں Lyrical Ballads کے نئے ایڈیشن میں اس نے شاعری کے بارے میں اپنے نظریات پر مبنی ایک تنقیدی مقالہ پیش کیا جس پر اسے کڑی تنقید سہنی پڑی۔ اس کی فطرت پرستی کئی نظموں میں منعکس ہوئی۔ ان میںسے ایک نظم The Prelude ایک سوانحی نظم ہے۔ 1842ء میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوااور اس کے ایک سال بعد وہ دربار سے منسلک ہوگیا۔ ورڈزورتھ کا اسلوبِ بیان بہت سادہ تھا اور وہ اپنی نظموں کے موضوعات روزمرہ کے بظاہربے وقعت مگرحقیقی واقعات اور مناظرمیں سے منتخب کرتاتھا۔ وہ شعر بڑی ریاضت سے کہتا۔ فطرت کے مظاہر سے اس کا لگائو مثالی تھا۔ اس کی فطرت سے لگائو کی مظہربہت سی نظموں میں سے پیٹرکاگھنٹہ، مارگریٹ اور مائیکل کا ذکرزیادہ ہوتا ہے۔(19) نظیراکبرآبادی(1749-1830) نے طویل عمرپائی۔ پیدادہلی میں ہوالیکن احمدشاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے آگرہ چلاآیا اور وہیں باقی عمربسر کی۔ فارسی، عربی، اردو،ہندی پراسے عبورحاصل تھا۔ درس و تدریس اس کا مشغلہ تھا۔ آخری عمرمیں فالج کا شکارہوگیاتھا۔ نظیراکبرآبادی کو ابتداء میں زیادہ درخورِاعتنا نہیں سمجھاگیا لیکن آخرآخراسے اردونظم کا صاحب اسلوب عوامی شاعرتسلیم کرلیاگیا۔وہ ایک وسیع المشرب، بے نیاز اور لاابالی مگر مجلسی شخص تھا۔ وہ ہر طبقے، ہرعمراور ہرمزاج کے لوگوں میں گھل مل جاتا تھا۔ جوانی بڑی بھرپور گزاری۔ کھیل کود، پتنگ بازی، پیراکی، ورزش، کبوتربازی کا شوقین تھا ۔ ہرمذہب کے تہواروں اور میلوں ٹھیلوں میں شامل ہوتا۔ اس کی شاعری عوامی زندگی کا مرقع ہے۔ غزل میں بھی اپناثانی نہیں رکھتا۔ وسیع ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ عام زندگی کی تمثیلیں، واقعات، معمولات کی تصویرکشی میں بڑے لطیف نفسیاتی نکتے غیرمحسوس طورپر یوں بیان کرتے جانا کہ دل میں اترجائیں کچھ اسی سے خاص تھا۔ کھلی ڈلی آزاد، لاپروازندگی کی تصویروں نے اس کے کلام میں تنوع اور رنگارنگی کا سماں پیدا کیا ہے۔ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے تہواروں، رواجوں، ہرمذہب کی برگزیدہ ہستیوں، عام منظروں، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں، کھانوں، کھیلوں اور میلوں ٹھیلوں کی جزئیات کے ساتھ لفظی تصویریں کھینچنے میں کمال رکھتا ہے۔ وہ فطرت پسندی کے رجحان کے اردوتوکجا کسی بھی زبان میں شاید پہلا شاعر ہو گا۔ اس کی نظمیں’’ بنجارہ نامہ‘‘،’’ روٹیاں‘‘ اور ’’آدمی نامہ ‘‘تو لوک شاعری کی طرح زبانوں پر رواں ہوجانے کی خاصیت رکھتی ہیں۔(20) اقبال کی فطرت پسندی اقبال ہمیں ایک ایسے فطرت پسند شاعر دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف1832 ء تا1875 ء کی درمیانی مدت میں جنم لینے والے رومانوی شاعر ولیم ورڈزورتھ سے متاثر رہے بلکہ ان کی ابتدائی تربیت پنجاب کے استعماری حکمراں لیفٹیننٹ گورنر ڈونلڈ میکلوڈ(Donald Mcleod) کی زیرسرپرستی اورکرنل ہالرائیڈ کی تحریک پر قائم کردہ انجمن پنجاب(قیام:8 مئی1874 ئ)کے مشاعروں کے زیراثرہوئی۔ میں نے اقبال کی فطرت نگاری کوزیربحث لانے کے لیے ان کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ : ’’کلیاتِ اقبال’’مرتبہ مولوی محمدعبدالرزاق،مطبوعہ عماد پریس، حیدرآباد(دکن)،طبع اول، ۱۳۴۳ھ بہ مطابق1924 ء کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اس میں اقبال نے’’بانگِ درا‘‘ کی صورت میں اپنی ابتدائی شاعری کا نہ صرف انتخاب پیش کیا بلکہ بہت سی نظمیں اور غزلیں جو اُن کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی تھیں انھیں مستردکردیا۔ یوں خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ پہلی اور سب سے پرانی ’’کلیاتِ اقبال‘‘ شاید اقبال کی شاعری کے پہلے دور کی نمائندہ کتاب ہے یعنی اقبال کی اردو شاعری کا وہ پہلا دور جو1897 ء تا1905 ء پرمحیط ہے۔ شاعری کے آغاز تا سفرِ یورپ تک کا کلام اور یہی وہ زمانہ ہے جو فطرت پسند شاعر اقبال کو ادبی دنیا سے متعارف کرواتا ہے۔ البتہ منتخب کردہ کتاب میں شامل بیشتر کلام ایسا ہے جس کا انتخاب کرتے وقت اقبال نے اپنی شاعری کا نہ صرف ازسرِنو جائزہ لیا بلکہ قطع بُرید کی اور نظموں کے عنوانات تک بدل دیے مثال کے طورپر ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نظم’’ماں کا خواب‘‘ کا عنوان’’ کلیاتِ اقبال‘‘ میں ’’ماں اور بچہ‘‘ دکھائی دیتا ہے اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس نظم کی تاریک رات کی پُراسرا ریت اور دل گرفتہ کردینے والا موضوع کولرج کی یاددلاتا ہے۔ لیکن اقبال کے ہاں انجمن پنجاب کا اثراور ورڈزورتھ سے قربت زیادہ دکھائی دیتی ہے اور یہ نظم واحداستثنائی مثال ہے۔ تاہم یہ امر تحقیق طلب ہے کہ یہ قطع بُرید یا تبدیلیاں مولوی محمد عبدالرزاق نے کی ہیں یا خود اقبال نے۔ ہو سکتا ہے کہ مولوی عبدالرزاق نے اپنے طور پر رسائل سے اقبال کی شاعری جمع کر کے تصرف اور تحریف سے کام لیا ہو اور اقبال کو اس کا پتا ہی نہ ہو۔ رسائل میں بھی کتابت کی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اقبال کی فطرت پسندی یا مُظاہرِ فطرت سے متعلق نظموں پر بات کرنے سے پہلے اُن کی ابتدائی غزلوں میں سے ایک شعر ملاحظہ کیجیے ؎ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے گرے تھے جو عرقِ انفعال کے مولوی محمدعبدالرزاق کے بقول جب اقبال نے یہ شعرسُنایا تو ہر طرف سے تحسین و آفریں کے نعرے بلندہوئے۔ مرزاارشد بھی موجود تھے۔ بے اختیار داد دی اور مسرت اندوز استعجاب سے کہہ اُٹھے:’ہائیں اقبال! اس عمرمیں اور یہ شعر‘ اُس کے ساتھ ہی سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدائوں سے مشاعرے کی فضاگونجنے لگی۔ جتنے سُخن سنج اُس مجلس میں جمع تھے سب کے سب اقبال کی طبعِ سلیم اور جوہرِ قابل کے معترف ہوئے۔ ملک کے طول و ارض میں یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔‘‘(21) واضح رہے کہ یہاں مرزا ارشد سے ’’مرزاارشد گورگانی‘‘ مراد ہیں۔ جن سے اقبال نے سب سے پہلے شاعری پر اصلاح لینی شروع کی تھی اور بعدازان مرزا داغ دہلوی سے کچھ مدت اصلاح لی۔ اب آئیے 1897 ء تا1923 ء کی درمیانی مدت میں کہی گئی فطرت پسندی سے متعلق اقبال کی نظموں کے عنوانات دیکھتے چلیں: ہمدردی،ماں اور بچہ(ماں کا خواب)،ایک گائے اور بکری، چانداور تارے، ایک پہاڑاور گلہری،انسان،حُسن و عشق،ستارۂ صبح، شام،کوہستانِ ہمالہ (بانگ درا میں یہ نظم ہمالٰہ کے نام سے ملتی ہے)، کنارِ راوی،چاند،آفتاب،موجِ دریا،ابرِکوہسار،ایک پرندے کی فریاد،صبح،شالا مارباغ،حیدرآباد دکن،شمعِ طور،لامکاں کا مکاں،محبت خُفتگانِ خاک سے استفسار،عشق اور موت،خاموشی،پیامِ صبح،شبنم اور ستارے،انسان اور بزمِ قدرت،جگنو، شعاعِ آفتاب،شب و شاعراورخضرِ راہ۔ اندازہ کیجیے کہ فطرت پسندی کے حوالے سے اقبال نے کتنی بڑی تعداد میں نظمیں تخلیق کیں۔ درج بالا نظموں کے صرف آغاز سے اشعار بطورِ نمونہ دیکھتے چلیے اس لیے کہ اقبال نے فطرت نگاری کے حوالے سے ہرنظم کا آغاز مظاہرِفطرت(نباتات و جمادات) سے مدد لے کرکیا ہے۔ نظم اپنے اختتام تک کبھی تو مظاہرِ فطرت کے حوالے سے پہنچتی ہے یا اُس کا اختتام کسی فلسفیانہ یا اصلاحی نقطے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارے موضوع سے متعلق صرف اقبال کی نظموں کے ابتدائیے ہیں ؎ اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندیاں تھیں وہاں تھے اناروں کے بے شمار درخت اور پیپل کے سایہ دار درخت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں طائروں کی صدائیں آتی تھیں (ایک گائے اور بکری) ڈرتے ڈرتے، دمِ سحر سے تارے کہنے لگے ، قمر سے نظّارے رہے وہی ، فلک پر ہم تھک بھی گئے، چمک چمک کر (چانداور تارے) جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمیں قمر نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر جیسے ہو جاتا ہے گم، نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول (حُسن و عشق) جب دکھاتی ہے سحر، عارضِ رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینۂ زرّیں اپنا جلوہ آشام ہے یہ، صبح کے میخانے میں زندگی اس کی، ہے خورشید کے پیمانے میں (غنچۂ ناشگفتہ اورآفتاب)/(کلی) مصرِ ہستی میں شام آتی ہے رنگ اپنا جمائے جاتی ہے اے سبوئے مئے شفق، اے شام! تومئے بے خودی پلاتی ہے (شام) اے ہمالہ! اے فصیلِ کشور ہندوستاں! چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں (کوہستانِ ہمالہ) سکوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مِرے دل کی (کنارِ راوی) اے قمر کیا خامشیِ افزا ہے تیری روشنی رات کے دامن میں ہے گویا سحر سوئی ہوئی میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موج زن (چاند) اے آفتاب! روح روانِ جہاں ہے تُو! شیرازہ بندِ دفترِ کون و مکاں ہے تُو! باعث ہے تُو وجود و عدم کی نمود کا ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست بُود کا (آفتاب) ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا سرِ کہسار پہ دیکھے کوئی جوبن میرا غیرتِ تختۂ گلزار ہے مسکن میرا کہ گل افشاں ہے سر گوشۂ دامن میرا کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو (ابرِ کُہسار) آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانا وہ ساتھ سب کے اُڑنا، وہ سیر آسماں کی وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا مل کے گانا پتّوں کا ٹہنیوں پر وہ جھومنا خوشی میں ٹھنڈی ہوا کے پیچھے وہ تالیاں بجانا (ایک پرندے کی فریاد) آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر منزلِ ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر محفلِ قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت (صبح) یہ شالا مار میں اک برگ زرد کہتا تھا گیا وہ موسمِ گل جس کا رازداں ہوں میں (شالامار باغ) رو لے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوں نابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار یہ محل ، خیمہ تھا اُن صحرا نشینوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی (صقلیہ) جس کی نمود دیکھی، چشمِ ستارہ بیں میں خورشید میں، قمر میں، تاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے خلوت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں (لامکاں کا مکاں) عروسِ شب کی زُلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے قمر اپنے لباسِ نو میں بے گانہ سا لگتا تھا ابھی واقف نہ تھا گردش کے آئینِ مسلّم سے (محبت) مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھی نقابِ روئے شام شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر (خُفتگانِ خاک سے استفسار) سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی کہ خود ناخوشی مست جام خوشی تھی کہیں مہر کو تاجِ زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی (عشق اور موت) خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا فطرت ہے مراقبے میں گویا وادی کے صدا فروش ،خاموش کہسار کے سبز پوش، خاموش (خاموشی) اُجالا جب ہوا رخصت جبینِ شب کی افشاں کا نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا (پیامِ صبح) اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے، ستارے ہر صبح میسر ہیں نئے، تجھ کو نظارے کیا جانیے، تُو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے جوبن کے مٹے اُن کے نشاں دیکھ چکی ہے (شبنم اور ستارے) صبح سورج کو جو چڑھتے ہوئے دیکھا میں نے بزمِ معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے پرتَوِمہر کے دم سے ہے اُجالا تیرا سیمِ سیّال ہے پانی ترے دریائوں کا (انسان اور بزمِ قدرت) جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھُولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے، مہتاب کی کرن میں (جُگنو) صبح جب میری نگہ، سودائیِ نظّارہ تھی آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی میں نے پوچھا اُس کرن سے، اے سراپا اضطراب! تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟ (شعاعِ آفتاب) کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تُو پریشاں خاموش صورتِ گل مانندِ بُو پریشاں تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تُو مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تُو (شب و شاعر) ساحلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چھُپائے اک جہانِ اضطراب شب ، سکوت افزا ہُوا ، آسودہ ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِآب (خضرِ راہ: بنداوّل) درج بالا تمام اشعار’’ کلیّاتِ اقبال‘‘مرتبہ مولوی عبدالرزاق سے منتخب کردہ ہیں لہٰذا نظموں کے عنوانات اوراقبال کے جاری کردہ متن اور اس ابتدائی متن میں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے اور ہے بھی۔ پیش کردہ صورت اُس فطرت نگار اقبال کی تلاش میں مددگارثابت ہوسکتی ہے جو بعدازاں ایک بڑے فلسفی شاعر کے طور پر پہچاناگیا۔ فطرت نگار اقبال کے اس ابتدائی کلام میں فلسفے سے متعلق اشارے ملتے ہیں لہٰذا مولوی محمدعبدالرزاق لکھتے ہیں: ’’…ورڈزورتھ کی طرح اقبال کی بھی یہ خواہش ہے کہ وہ شاعر سے زیادہ معلّم اور فلسفی سمجھے جائیں۔ کیوں کہ کیٹس، شیلی وغیرہ پرستارانِ حُسن کے مسلک ’’حسنِ آئینۂ حق‘‘ کے خلاف اُن کے نزدیک ’’حق آئینۂ حسن‘‘ ہے اور شعر ’’آئینہ دارِ حُسن‘‘ ہونے کے بجائے آئینہ دارِ حق۔‘‘(22) مولوی عبدالرزاق نے یہ بات اقبال کے درج ذیل شعر کو بنیاد بناکرکہی ہے ؎ حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت اقبال کے خود جاری کردہ اردو کے پہلے مجموعۂ کلام’’ بانگِ درا‘‘ سے بہت پہلے، فطرت نگار اقبال سے متعلق مولانااسلم جیراج پوری کی درج ذیل رائے حددرجہ اہم ہے: ’’ذوقِ صحیح جذباتِ عالیہ کی اُن لطیف تحریکات پروجْدکرتا ہے، جن سے دل کے تاربجتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹرصاحب(اقبال) کی شاعری اہلِ فہم کی دماغی راحت اور روحانی لذت کے لیے ایک میوۂ پُرمایہ ہوگئی ہے۔ کیوں کہ وہ علوم دینی و دنیوی و مشرقی و مغربی کے مجمع البحرین ہیں۔ذوقِ صحیح، دلِ دردمنداور طاقتِ لسانی رکھتے ہیں۔ اُن کی چشمِ بصیرت انسانی خیالات کی انتہائی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے اور اُن کے دیدۂ تخیل کے سامنے سے زمین سے آسمان تک کے پردے اُٹھے ہوئے ہیں۔ وہ عرش کے پایوں میں جھولتے ہیں، مُرغانِ اولی احنجہ کے ساتھ اُڑتے ہیں۔ ساکنانِ حرمِ قدس سے ملتے ہیں، بزمِ انجم و کواکب کے رموز سُنتے ہیں، شبنم اور آفتاب کے باہمی راز،گُل و بُلبل کے ناز و نیاز اور پروانہ و شمع کے سوز و ساز سے آشنا ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں میں برق کی موجیں، سمندروں کی موجوں میں زندگی کی لہریں، قطرۂ اشک میں سوزِ دل کا تب و تاب اور دانۂ گوہر میں حیاتِ معنوی کی آب دیکھتے ہیں۔ غرض عالمستانِ معنی ہے، جس کے چپے چپے اور گوشے گوشے سے جواہرپارے چُنتے ہیں۔‘‘(23) فطرت نگار اقبال کے پیرایۂ اظہار اور لفظیات سے متعلق اقبال کے معاصر، ہندوستان کے نامور مصور اُمرائو سنگھ بہادر لکھتے ہیں: ’’…کیا ہی پاکیزہ اور شُستہ خیالات ہیں، جو سطحی نظرمیں محض اس وجہ سے سمجھ میں نہیں آتے کہ ذہن میں الفاظ کے پُرانے معنی جمے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم زندگی زبانوں میں دیکھتے ہیں، اس کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ سے نئے نئے معنی اس طرح پیدا کیے گئے ہیں جس طرح کہ ایف۔ڈبلیو۔ بین کے کلام میں پایاجاتا ہے کہ ان سے انگریزی کے الفاظ اور جملوں میں ایسی لچک اور ایسے خیالات کی گنجائش موجود ہے کہ ہندوستان نے ان سے اپنے رنگ کے ایسے مطالب و معانی نکلے جن سے وہ دراصل بالکل عاری تھے۔ بالکل اُسی انداز سے اقبال بھی فارسی اور اردو زبانوں سے کام لے رہا ہے۔‘‘(24) ماہِ نو کی نسبت سے اقبال کہتے ہیں ؎ ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقابِ نیل ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے رُوئے آبِ نیل ذرا مناسبتیں ملاحظہ ہوں کہ چاند، چونکہ سورج سے کسبِ فیض کرتا ہے اس لیے ’ماہِ نو‘ایک سورج کی قاش ٹھہری۔ پھر اقبال کا’ہلالِ عید‘ سے متعلق یہ کہنا ؎ یہ اُبھرتے ہی آنکھ سے چھُپنا روشنی کا مگر حباب ہے تُو نظر سے جلد چھُپ جانے کے حوالے سے ’’روشنی کا حباب‘‘ہونا۔ مولوی محمدعبدالرزاق لکھتے ہیں: ’’جگنو کو انجمنِ گل کی شمع، شفق کو سورج کے پھُول، صبح کو دُخترِ لیل و نہار، حیات کو تسلسلِ فرائض، غم کو رُوح کا نغمۂ خاموش، زندگی کو خسِ آتش سوار، گُل کو پیمانِ رنگ و بُو، ہلال کو حلقۂ پرطائوس کہنے میں کس قدر لطافت ہے۔‘‘(25) فطرت نگاری اور نیچر سے اُن کی قربت کے حوالے سے اقبال کا یہ مصرع ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے ع عاشقِ فطرت کو ہے صحنِ گُلستاں، کُوئے یار ورڈزورتھ کی طرح اقبال فطرت سے کس قدر جُڑے ہوئے ہیں، چندامثال دیکھیے ؎ بادلوں کا اُمڈآنا: اُٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا نہاں ہوا جو رُخِ مہر زیرِ دامن ابر ہوائے سرد بھی آئی سوارِ توسنِ ابر غروبِ آفتاب کا منظر: شرابِ سُرخ سے انگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام طلوعِ صبح: پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ بے زباں طائر کو سرمستِ نوا کرتی ہے یہ رات کا منظر: ظلمتِ آشفتہ کاکل وسعتِ عالم میں ہے اشکِ انجم در گریباں روز کے ماتم میں ہے طِفلکِ شش روزۂ کون و مکاں خاموش ہے رات کے آغوش میں لپٹا ہوا بے ہوش ہے آبِ دریا خُفتہ ہے، موجِ ہوا غش کردہ ہے پست ہر ہستی کے سازِ زندگی کا پردہ ہے کیسی ہجرت خیز ہے ظلمت فروشی رات کی دن کے ہنگاموں کا مدفن ہے خموشی رات کی یوں شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال جس حُسن سے متاثردکھائی دیے اور جو اُن کے قلب و ادراک پراثراندازہوا، وہ فطرت کا حُسن ہے اور اس دورمیں بلاشبہ اقبال پرورڈزورتھ کا اثربہت گہرا ہے۔لیکن اس مطالعۂ فطرت میں اقبال ایک طرف تو فطرت کے ایک مظہر کا تعلق دوسرے مظہر سے جوڑتے ہیں اور دوسری طرف انسان کا موازنہ فطرت سے کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر ورڈزورتھ پیچھے رہ جاتا ہے اور اقبال مولاناروم کے حلقۂ اثر میں چلے جاتے ہیں۔ جن کے نزدیک انسان فطرت کا مظہرِ کامل ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ:’’فطرت کا علم خُدا کی عادت یا کیریکٹر کا علم ہے۔ اس لیے مشاہدے اور مطالعے میں ہم انائے مُطلق سے ایک قسم کی قربت کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘(26) ممتازحسین کے خیال میں اقبال، فطرت کے ارتقاء میں کوئی خاص مقصدپنہاں دیکھتے ہیں۔(27) لیکن اقبال اس بات کو ماننے سے ہمیشہ گریزاں رہے کہ فطرت اپنے ارتقاء میں کسی مقصد کو پنہاں رکھتی ہے۔ شایداس لیے کہ یہ خیال ایک ایسے خطِ تقدیر کو تقویت پہنچاتا ہے، جو ہمیں مُقدر پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اقبال نے جب بھی فطری مظاہر کی خُنک آسودگی اور بے حس سکون کا مشاہدہ کیا تو اُنھیں ہمیشہ اپنے دل کی تڑپ اور اپنے جذبات کی ناآسودگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔‘‘(28) یہی سبب ہے کہ بقول فیض احمدفیض:’’ اقبال کی نظر میں اُس کا ہمعصر انسان بھی نباتات اور جمادات کی طرح مُردہ دل اور بے سوز ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو جتنا چاند، تاروں سے دُور محسوس کرتے ہیں، اُتنا ہی انسانوں سے دُور پاتے ہیں۔‘‘(29) اقبال مظاہرِفطرت اور مناظرِفطرت کے ذریعے حقیقتِ اولیٰ کی تلاش میں ہے اور ان کے اسرار کو حل کرنے کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی نظمیں ’پرندے کی فریاد‘ اور’ایک آرزو‘اسی کوشش کی مظہرہیں۔ فطرت کے مختلف پہلو ان کے اندرحیرت پیداکرتے ہیں۔اقبال نے اپنی نظم ’عہدِ طفلی‘ میں جس حیرت کی کارفرمائی کا ذکرکیا اسی حیرت کو وہ افلاطون کے افکار کی روشنی میں اس لیے قابل قدر گردانتے ہیں کہ ’’اس سے فطرت کے بارے میں ہمارے تجسس کو تحریک ہوتی ہے۔‘‘(30) وہ اسے شاعر کی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ روحِ ارضی اپنے جن پہلوئوں کو علامات کے پردوں میں چھپالیتی ہے۔ وہ ان علاقوں کی علامتوں کی توجیہہ کرے اور انسان پر ان کا مفہوم واضح کردے(31) ؎ تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے روحِ ارضی کا ذکرآیا ہے تو روحیت یا انتسابِ روح(Animism) کا ذکر بھی برمحل ہوگا۔ اقبال کے ہاں آپ کو جابجا ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اقبال نے مظاہرِ فطرت یعنی سورج، چاند، تاروں، درختوں اور دوسرے مظاہر کو زندہ علامتوں کے طورپر انسانی رویوں کے ادراک، توجیہہ اور تفسیر کے لیے برتا ہے۔ ادب میں یوں بھی انتسابِ ارواح کو شاعری اور دیگرفنون کی خوبیوں میں سے ایک شمارکرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ’’اسی کے طفیل ایک شاعر یا ایک فن کار فطرت کے حسین مناظر، سرسبزدرختوں، لہلہاتے ہوئے پھولوں، امڈتے ہوئے بادلوں اور گاتے ہوئے پرندوں کو انسانی احساسات سے متصف کرتا ہے اور اس کے تحت وہ ان سے براہِ راست قلبی رابطہ پیداکرلیتا ہے، جسے علمی اصطلاح میںEmpathy کہتے ہیں اور جو فن کارانہ وجدان کا مرکزی نکتہ ہے۔‘‘(32) اس کی سیدھی مثالیں دیکھیے : ع چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن o ع آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی o ع وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا (کلّیاتِ اقبال،ص52-53- ) ع کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے (کلّیاتِ اقبال،ص61- ) ع بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں (کلّیاتِ اقبال،ص58- ) ع چرخ نے بالی چرالی ہے عروسِ شام کی (کلّیاتِ اقبال،ص:85 ) اقبال مظاہر فطرت سے کیا کچھ کشید کرتے ہیں اس کا ایک نادر نمونہ ان کی نظم’کنارِ راوی‘ ہے۔ ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ ’’راوی کے کنارے غروبِ آفتاب کے ایک پرجلال منظر کے مقابلے میں آپ کے کتب خانے کا سارا حیرت انگیز کتابی علم ودانش ہیچ ہے۔‘‘(33) اور دوسری طرف نظم میں وہ منظر کشی سے گزرکر زندگی کے اسرار ورموز کی گرہیں کھولنے لگتے ہیں ؎ جہادِ زندگیٔ آدمی رواں ہے یونہی ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا (کلّیاتِ اقبال،ص121- ) یہی کیفیت ان کی نظم’جگنو‘ میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اسے ایک ایسا استعارہ بنادیتے ہیں کہ جس سے وہ ایک طلسماتی کرداربن جاتا ہے اور اسی کے حوالے سے وہ وحدت الوجود کی تشریح کرنے لگتے ہیں ؎ حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بُلبل، بو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے (کلّیاتِ اقبال،ص111- ) ایک مقام پر تو انھوں نے خودشاعر کو شبستانِ وجود میں جگنو کی مثل کہہ دیا ہے ؎ کِرمِ شب تاب است شاعر، در شبستانِ وجود در پر و بالش فروغے، گاہ ہست و گاہ نیست (کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔398 ) بطورشاعراقبال ہمہ وقت غوروفکر کے عادی تھے اور وہ اپنے مشاہدات، مطالعات اورتجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ عالمِ فطرت کو اور عالمِ تاریخ کو علمِ انسانی کے دو بڑے ذریعے قراردیتے تھے۔ ان کی فکر کا نچوڑیہ تھا کہ’’یہ شمس و قمر، یہ سایوں کا امتداد، یہ اختلافِ لیل و نہار، یہ رنگ اور زبان کا فرق اور یہ قوموں کی زندگی میں کامیابی اور ناکامی کے دنوں کی آمدوشد اور حاصلِ کلام یہ کہ یہ سارا عالمِ فطرت جیسا کہ بذریعہ حواس ہمیں اس کا ادراک ہوتا ہے، حقیقتِ مطلقہ کی آیات ہیں اور اس لیے ہرمسلمان کا فرض ہے کہ ان میں غوروفکر سے کام لے۔ یہ نہیں کہ بہروں اور اندھوں کی طرح اعراض کرے کیونکہ جو کوئی اس زندگی میں اندھوں کی طرح ان آیات سے اپنی آنکھیں بندرکھتا ہے وہ آگے چل کر بھی اندھا ہی رہے گا۔‘‘(34) اقبال کس طرح مناظرِ فطرت کے مشاہدات کے دوران اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہے اس کا صحیح اندازہ اقبال کی پوری شاعری کے مطالعے سے ہوسکتا ہے لیکن ایک سادہ سی نظم ’امتحان‘ بھی اس کی غماز ہے ؎ کہا پہاڑ کی ندی نے سنگریزے سے فتادگی و سرافگندگی تری معراج ترا یہ حال کہ پامال و دردمند ہے تو مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا کسے خبر کہ تو سنگِ خار ہے کہ زجاج (کلّیاتِ اقبال،ص595-596- ) ذرا اس نظم کو غور سے پڑھیں تو فطرت کے بارے میں اقبال کے نظریات اور افکار کی نمائندہ دکھائی دے گی کہ اس میں حرکت و عمل کا سبق بھی فطرت کے تقاضوں کے طورپر مل جاتا ہے۔ فطرت نگاری کی دوسری قسم انسانی فطرت(بطورجاندار)کی حیوانی جبلتوں کے بیان سے مخصوص رہی ہے۔ اس خصوص میں گستاف فلابئیر، گون کوربرادران، ایمائل زولا اور موپساں کے نام نمایاں ہیں اور یہ سارے کے سارے فرانسیسی ہیں۔ اقبال کے ہاں اس نوع کی فطرت نگاری کی کہیں ایک جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی، جس کی سب سے نمایاں مثال گستائوفلابیئرکا ناول’مادام بواری‘ شمارکیا جاتا ہے اور ایمائل زولا کی فطر ت نگاری کی بھی جو ایک زمانے میں’’زولائیت‘‘کہلائی۔ اقبال کی فطرت نگاری ابتدائی طورپر ساکت و جامد، غیرانسانی موجوداتِ عالم سے اتنا متعلق نہیں رہی تھی۔ آگے چل کر اقبال کے ہاں موضوعات کے پھیلائو نے اُن کی شاعری کے اس رجحان کو بالکل ختم نہیں کیا بلکہ اقبال نے فطرت کو وسیع تر مفہوم اور عمیق تر معانی میں الٰہیاتی اور انسانی زاویوں سے عمودی اور افقی طورپر اپنی شاعری میں اس طرح سمودیا کہ فطرت نگاری کو ان کے مجموعی نظام فکر سے الگ کرکے دیکھنا یادکھانااتنا آسان نہیں رہا۔ وہ اپنا پیغام فطرت ہی سے اخذ کردہ علامتوں، استعاروں اور کنایوں میں مسلمانوں کو پہنچاتا ہے ؎ مانندِ صبا خیزد و زیدن دگر آموز دامانِ گل و لالہ کشیدن دگر آموز (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص393- ) جانم در آویخت با روز گاراں جوئے است نالان در کوہساراں (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص377- ) حواشی و حوالہ جات 1- J.A. Cuddon: Literary Terms and Literary Theory, Penguin Books,London,1992, P-537. -2قومی انگریزی ارد ولغت: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع پنجم ،2002 ئ، ص۔1298 ۔ 3- (Professor) Mumtaz Ahmed: Literary Criticism; Ch. Ghulam Rasool & Sons, Lahore, 1989, P- 581. -4 قومی انگریزی- اُردو لغت : مذکور ص۔1298 ۔ -5 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد۔8 (فنون لطیفہ):قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ، ص۔332 ۔ -6 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد۔1(ادبیات):قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ، ص۔411۔ 7- Professor Mumtaz Ahmed: OP.Cit.p.581. -8 قومی انگریزی- اردو لغت مذکور،ص۔1298 9- J.A. Cuddon: Op. Cit; P-537. -10 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا,جلد۔8،)فنون لطیفہ) مذکور: ص۔232۔ -11 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان, محمدسلیم الرحمن،(مؤلفین): منتخب ادبی اصطلاحات: جی سی یونیورسٹی،لاہور؛طبع اول،2005 ء ص۔143۔ 12- J.A. Cuddon: Op. Cit., P-538. 13- Prof. Mumtaz Ahmed: op. cit: P-580. -14 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین):کتاب مذکور،ص۔144 15- Prof. Mumtaz Ahmed: op. cit: P-581 16- J.A. Cuddon: Op. cit., P-539. -17 اقبال:تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،مترجمہ:سیدنذیرنیازی،بزم اقبال، لاہور، طبع سوم،1986 ئ،ص۔323 ۔ -18 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد۔۱(ادبیات) مذکور۔ ص۔297 ۔ -19 ایضاً: ص۔569-570 ۔ -20 ایضاً:ص۔555 ۔ -21 مولوی محمد عبدالرزاق:کلیاتِ اقبال،عمادپریس،حیدرآباد دکن ،طبع اول،1924 ئ، ص۔32-33 ۔ -22 ایضاً: ص۔69 ۔ -23 ایضاً: ص۔70 ۔ -24 ایضاً: ص۔73-74 ۔ -25 ایضاً: ص۔99 ۔ -26 اقبال:تشکیلِ جدیدالٰہیا ت اسلامیہ ،بہ حوالہ ادب و شعوراز ممتازحسین،کراچی: مکتبۂ اسلوب، طبع اول،س۔ن،ص۔196 ۔ -27 ممتازحسین:کتاب مذکور،ص۔199 ۔ -28 فیض احمدفیض:میزان، ناشرین، لاہورطبع اول،1962 ،ص۔257 ۔ -29 ایضاً:ص۔259 ۔ -30 اقبال:شذراتِ فکرِ اقبال ،مترجمہ ڈکٹر فتخار احمد صدیقی ترجمہ مجلس ترقیٔ ادب،لاہور، طبع دوم،1983 ،ص۔128 -31 ایضاً: ص۔139 ۔ -32 علی عباس جلالپوری: روحِ عصر،روہتاس بکس، لاہور،طبع سوم،1989 ئ،ص۔19 ۔ -33 اقبال:شذراتِ فکرِ اقبال مذکور،ص۔151 ۔ -34 اقبال:تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ، مذکور،پانچواں خطبہ،ص۔197-198 ۔ ٭٭٭ باب سوم:حصہ سوم حقیقت پسندی کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء ادب اور فن کی تنقید وتحقیق میں حقیقت پسندی کی اصطلاح ایسے ادب کو الگ کرکے دیکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو زندگی کو بعینہٖ منعکس کرتا ہو۔ حقیقت پسندی کی اصطلاح کے اطلاق میں اگرچہ زیادہ تخصیص سے کام نہیں لیاجاتا تاہم اسے رومانویت، مثالیت اور فراریت کے متضاد خیال کیاجاتا ہے۔ ان ساری اصطلاحات سے مراد زندگی کے تلخ حقائق سے منہ موڑ کر تخیل کی دنیامیں پناہ لینا ہے۔ دراصل حقیقت نگاری کے مختلف مرحلے یادرجے ہوسکتے ہیں جن میں سے پہلا تو یہ ہے کہ دنیاوی حقائق اور مظاہر کو مشاہداتی سطح پر اپنی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس طرح پیش کیاجائے جیساکہ وہ معروضی اور مادی طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو تصویری حقیقت پسندی یا فطرت پسندی بھی کہاجاتا ہے۔ دوسرا درجہ ان تخلیق کاروں کی توضیح کرتا ہے جو ادب کو فراریت سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حقیقت نگاری کا مطلب ان ناخوشگوار تفصیلات اور متغیر رویوں کا تخلیقی سطح پر ادراک ہے جن کا ذکر نہ کرنا ہی مناسب ہواکرتا ہے چنانچہ ہم اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ادب میں حقیقت نگاری ایک رجحان کا نام ہے جو رومانوی یا جذباتی ہوئے بغیر زندگی کو زندگی کی طرح منعکس کرتے ہوئے فطرت کی اس کے سارے پہلوئوں سمیت ممکنہ حد تک دیانت داری سے تصویرکشی کی ترغیب دیتا ہے۔ حقیقت پسندحقائق کو مثالیت کی اس سطح پر برتنے پر یقین نہیں رکھتے کہ جمالیاتی پہلو مافوق الفطرت اور نزولی مواد کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ درآئے۔ (1) حقیقت پسندی کا ایک مترادف واقعیت پسندی بھی ہے مگر ایک دبستان ادبی سیاق و سبق میں یہ سمجھتا ہے کہ حقیقت پسندی کا مطلب زندگی کی ہوبہو عکاسی نہیں ہے۔ یہ معاشرت اور زندگی کے اسرارورموز کو اپنے زاویے سے سمجھنے کا نام ہے۔ کوئی بھی حقیقت نگار اپنی افتادِ طبع کے پیش نظر زندگی کے کسی خاص پہلو یا پہلوئوں کو اپنے انفرادی انداز میں بیان کرتا ہے یا کرسکتا ہے۔ بس اتنا ہے کہ اس کا اندازِ بیان ایسا ہو کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہو اس پر حقیقت یااصلیت کا گمان ہو۔(2) وہ کرداروں پر ملمع نہ چڑھائے، واقعات کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لے اور اسلوب بھی اس قدر رنگین نہ ہو کہ قاری اس میں کھو جائے۔ اسی لیے حقیقت نگار مابعدالطبیعیاتی، روحانی یا مافوق الفطرت عناصر کے بیان سے گریز کرتے ہیں۔ صوفیانہ واردات حقیقت نگاروں کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے اگرچہ حقیقت نگاری کی ایک قسم مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری بھی ہے جو یہ کہتی ہے کہ آفاقی حقائق ہی اصل حقائق ہوتے ہیں جیسے خیر، انصاف، انسانیت، امن، محبت وغیرہ۔ آفاقیت کا تعلق مثالیت سے بھی گہرا ہے اور مثالیت پسندی حقیقت پرستی سے لگانہیں کھاتی اس لیے مجرّد حقیقت نگاری یہ کہتی ہے کہ آفاقی حقائق صرف انسانی ذہنیت کی پیداوارہیں اور وہ معمولی اور روزمرہ سے بلند ترباطنی تجربات پرانحصارنہیں کرتی۔ حقیقت پسندی کے حوالے سے تقلیدImitation کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ادب و فن میںImitation کی اصطلاح’’ ایک دوسرے کے عمل کے مشاہدے کے زیراثر عمل کرنے کی تحریک‘‘(3) کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کا ایک معنی نقّالی یا بناوٹ بھی ہے۔ اگر ایک مصنف کسی دوسرے مصنف کے اسلوبِ بیان کی ہوبہو نقل کرے تو اسے بھی تقلیدکہاجائے گا۔ موسیقی کے فن میںImitaion کا مطلب کسی دھن میں غنائی خیال کے مختلف حصوں میں آوازوں کی تکرار کو بھی کہاجاتا ہے۔(4) کوئی نقلی یا مصنوعی چیز جسے اصلی، حقیقی اور اعلیٰ چیزوں کی مانند بنایاگیا ہو تو اسے بھی Imitation کہتے ہیں۔ نقل بمطابق اصل کے لیے ایک اور لفظ Counterfietبھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ شے جو کسی اور شے کی تلبیس ہو۔(5) ڈرامے میں نقال، بہروپیے، بھانڈ، مسخرے یاخاموش اداکارکوMimic کہاجاتا ہے اور دراصل Mimicry کا مطلب نقالی یا بہروپ بھرنا ہوتا ہے۔(6) سنگتراشی میں یہ اصطلاح بہت استعمال ہوتی ہے جہاں اس کا مطلب مٹی، موم، کاغذ یا پتھر کے ذریعے مجسمہ، سانچہ، ڈھانچہ یا نمونہ(model) بنانا ہے۔(7) قدیم فلسفے میں تقلیدImitation مثالی کرداروں کی صنائع بدائع ،لفّاظی، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے حقیقی تصویرکھینچنے کو کہاگیا ہے اور اس عہد میں بھی اسے ایک باقاعدہ فن کا درجہ حاصل تھا۔(8) قدیم تاریخ میں شاعروں پر افلاطون کے نقالی کے الزام کا ذکرملتا ہے جس کے مطابق شاعرپورے سچ کا اظہار نہیں کرتے اور اس میں سے دو حصے کم کردیتے ہیں۔ ارسطو نے البتہ ادب کو نقالی کی بجائے نمائندگی قراردے کر شاعروں اور ادیبوں کی کسی قدر لاج رکھنے کی کوشش کی۔ دراصل تقلید ، صنفی معنوں میں نقل یا چربے کو بھی کہاجاتا ہے اوراس پر سب سے بڑا اعتراض بھی یہی ہے۔ تقلیدیاچربے کے مقابلے میں اوّلین، قدیم ترین اور طبع زاد کو زیادہ اعتبار حاصل ہوتا ہے۔ تخلیقیت کو تقلیدکامتضادخیال کیاجاتا ہے۔Originality دراصل تمام فنونِ لطیفہ کی جان ہوتی ہے جو ایجادات اورتخلیقیت کی بناپر کسی ادیب اور شاعر کی انفرادیت، جدّت پسندی اور نئے پن کا تعین کرتی ہے اور اس سے کسی شاعر کا اعتبارقائم ہوتا ہے۔ اس بات پر بھی البتہ بحث ہوتی رہی ہے کہ خالص یا مجرد Originality کہیں پائی جاتی ہے یا نہیں بلکہ اسے بھی غیرمحسوس اور ناقابلِ تحقیق تقلید ہی کہا جاتا ہے۔ ارسطو نے البتہ ادب کو زندگی کا عکس قراردیا۔ اس کے خیال میں ادب اشیاء اور معمولات کو وہ جیسے بھی ہیں یا جیساانھیں ہوناچاہیے، اسی طرح پیش کیے جانے کا نام ہے لیکن انیسویں صدی میں آتے آتے تقلید یاImitation کی اصطلاح ادب میں رفتہ رفتہ ترک کردی گئی جب اس کا موازنہ حقیقت پسندی میں تخیل کی کارفرمائی سے کیا جانے لگا۔(9) ادب میںImitation کا جواز یہ بھی دیاجاتا ہے کہ حقیقت اپنی کلیت میں الفاظ کی گرفت سے باہرہوتی ہے اس لیے اس میں ہنرمندی اور تخیل کو بروئے کار لانا ہی پڑتا ہے تاکہ ادب پارہ یاکوئی بھی فنی مظہراصلیت کا تاثردے سکے۔ بیسویں صدی کے اختتام تک آتے آتے نظری تنقید میں حقیقت نگاری کی اہمیت کم سے کم ہوچکی ہے اور بعض تنقیدی دبستان تو سمجھنے لگے ہیں کہ ادب کی تفہیم کے لیے اب یہ اصطلاح اتنی کارآمد نہیں رہی اور اس کے بغیر بھی تنقیدی مباحث ہوسکتے ہیں۔(10) حقیقت پسندی کی تحریک شعوری طورپر 1830 ء کے بعد فرانسیسی انقلاب کے بعدشروع ہوئی اور1850 ء سے لے کر1880 ء تک اس کا یورپ میں بہت چرچا رہا۔ ابتداء ہی سے اس تحریک کے پیروکاروں پراعتراضات بھی شروع ہوگئے تھے کیونکہ اس تحریک کے محرکات کو یا تو سمجھا ہی نہیں گیا یا اس کی توضیحات میں کوئی کمی رہ گئی۔ بعض ادبی حلقوں نے اسے ادب کے بنیادی شعائر کی خلاف ورزی قراردیا۔ وہ اسے انسانی فطرت کی تذلیل بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حقیقت پرستی، غیرمعمولی، پیچیدہ، منفرد اور قابلِ تعریف کرداروں کو نظرانداز کرنے کا نام تھا۔ اس طرح ادب پارہ کسی المیے میں پوشیدہ تخلیقی ترفع سے محروم رہ سکتا تھا۔ انسان کا بے ساختہ پن مجروح ہوتاتھا اوریوں حقیقت پسندی کے نام پر اس نوعیت کا تخلیقی تجربہ جمالیاتی حظ سے خالی رہ کر صحافیانہ وقائع نگاری کی سطح سے اوپر اٹھنے کے قابل نہ رہ پاتا۔(11) اس تنقید کے باوجود حقیقت نگاری ادب کا ایک نمایاں رجحان رہا ہے اور اس کے اثرات قبول کرنے والوں میں بالزاک ستے دال اور فلابیربھی شامل ہوگئے۔ جنہوں نے فردیت اور موضوعیت کی بجائے معروضیت اور لاشخصیت کو فروغ دیتے ہوئے زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو اپنی تحریروں میں اجاگرکیا۔ وہ ایک حقیقت نگارکے طورپر انسانی میلانات ،سماجی ماحول اور معاشرتی روایات کو کام میں لائے۔ انھوں نے اعتقادات اور فطرت کے جمالیاتی پہلوئوں کو آمیزکرکے اپنا اسلوب تراشا۔ انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کو حقیقت کے قریب لانے کے لیے اپنی ذاتی یادداشتوں اور سوانحی پہلوئوں کو ان میں سمودیا تاکہ فرد اور معاشرے کی صحیح عکاسی ہوسکے۔ ایسے ناول نگاروں میں ڈکنز، گوگول، طالستائی، دوستوفسکی، مارک ٹوین اور میلول بھی شامل ہیں جنہوں نے زندگی کی تلخیوں، فرد کی بے بسی، سیاسی جبر اور سطحی پہلوئوں پرتوجہ دے کر حقیقت نگاری کو تخلیقی ترفع عطاکیا ہے۔(12) ایسا بھی نہیں کہ حقیقت نگاری ان سے پہلے ادب میں موجود ہی نہ تھی۔ دراصل ادب سدا سے ہی زندگی کا مرقّع رہاہے، اس لیے دیومالائی قصے ہو ں یا لوک داستانیں، قدیم رزمیے ہوں یا لوک گیت ان ساری اصنافِ سخن میں آپ کو حقیقی زندگی کے مسائل کی جھلک دکھائی دے گی۔ یہاںتک کہ طلسم ہوشربا جیسی داستانوں کے فرضی واقعات اور کرداروں کی فرضی صلاحیتوں نے عہدِ جدید میں حقیقت کا روپ دھار لیا ہے اور وہ اب اتنے محیرالعقول نہیں لگتے یعنی وہ مفروضے بھی دراصل حقیقت کے حصول کی ایک کوشش ہی تھے۔ ناول میں جدیدصنف کے طورپر حقیقت نگاری کا سہرا چاہے آپ ڈیفواور فیلڈنگ کے سر باندھنے کی کوشش کرتے رہیں، ادب میں بہرحال آپ کو حقیقت نگاری کا سراغ صدیوں پہلے لکھی گئی اور ہم تک پہنچنے والی ہر تحریر میں مل جائے گا چاہے وہ نظم میں ہو یانثرمیں، وہ انسانی تحریر ہویاالہامی، اس کا تعلق فرد اور معاشرے سے ضرورنکل آئے گا۔ اردو میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کا فسانۂ آزاد اور اس کے دوسرے ناول جیسے ’جامِ سرشار‘ اور’سیرِکہسار‘حقیقت پسندی کی مثال ہیں۔ چاہے آپ انھیں جدید معنوں میں ناول ماننے سے انکار کریں تو بھی وہ حقیقت نگاری کی اردو نالوں میں اوّلیں مثالیں سمجھے جائیں گے۔ مرزامحمدہادی رسوا کا ناول امرائو جان ادا، سماجی حقیقت نگاری کا مرقع ہے اور نذیراحمد کے مقصدی اور اصلاحی ناول بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔(13) شاعری میںبھی سارے کلاسیکی اردو شعرا میں آپ کو حقیقت نگاری کی مثالیں بغیرڈھونڈے مل جائیں گی۔ میر، آتش، مصحفی اور پھرغالب بھی اپنی تمام نفاست پسندیوں کے باوجود حقیقت نگاری سے یکسرخالی نہیں ہیںاور نظیراکبرآبادی تو اوّل وآخر حقیقت نگارہیں۔ اہم حقیقت نگار استے دال(1783-1842) کا اصل اورپورانام میری ہنری بیلے(Marie Henry Beyle)تھا لیکن وہ معروف استے دال(Stendhal) کے نام سے ہوا۔ وہ فرانس میں گرینوبل(Grenoble) کے مقام پر ایک وکیل کے گھرپیداہوا۔ بارہ سال تک ایک پادری اسے گھرپر بطوراتالیق پڑھاتارہا۔ اس کے بعد اس کی باقاعدہ تعلیم ایک مقامی سکول میں ہوئی۔ سترہ برس کی عمرمیں وہ پیرس منتقل ہوااور بعدازاں فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کی عمرکازیادہ ترحصہ اٹلی میں گزرا۔ جب نپولین کو شکست ہوگئی تو وہ نئے حکومتی نظام سے سمجھوتہ نہ کرپایااور اس نے دوبارہ اٹلی کے شہرمیلان کا رخ کیا لیکن اطالوی وطن پرستوں کی ایک تنظیم سے تعلق کی بنا پر1811 ء میں اسے میلان سے نکال دیاگیا۔ یوں اسے پیرس واپس آناپڑا۔ پیرس کے ادبی حلقوںنے جنھیں سیلون (Salon) کہا جاتا ہے،اس کا خیرمقدم کیا۔ وہ کونسل کی حیثیت سے بھی کام کرتا رہا۔ اس کا انتقال پیرس ہی میں ہوا۔ استے دال کی کتاب"La Charteuse de Parme" دراصل اس کی خودنوشت سوانح عمری ہے جسے اس نے 1822 ء میں تصنیف کیاتھا۔ Racine of Shakespear" ـ" اس کی دوسری کتاب اور"Vie de Rossini" تیسری اہم تصنیف تھی لیکن اس کا پہلا باقاعدہ ناول 1827"Armance" میں شائع ہوا جو بطور حقیقت نگار اس کی شہرت کا سبب بنا۔ 1830 ء میں استے دال کا اگلا ناول"Le Rouge et le Noir" کا تانا بانا حقیقی واقعات سے بناگیاتھا۔ اس ناول کا مرکزی کردارJulien Sorel استے دال خود تھا یااس کا ایسا روپ تھا جس میں ڈھلنے کی وہ خواہش رکھتاتھا۔ محمدحسن عسکری نے اس ناول کا براہ رست ترجمہ ’’سرخ و سیاہ‘‘ کے نام سے کیا تھا۔بطورحقیقت نگار استے دال کواصل مقبولیت اس کے ڈرامے Le Charteuse de Parmeسے ملی۔ اس ڈرامے میں بطور سماجی حقیقت نگار اس نے اپنے ذاتی تجربات اورمشاہدات کو سمودیاتھا۔ اس میں اطالیہ کے درباری آداب و انداز اور اس کے طرزِمعاشرت پراثرات کو سچائی کے ساتھ منعکس کیاگیاتھا اور اس سے واٹرلو کی مشہور اور نتیجہ خیزجنگ کا نقشہ بھی آپ کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ بطور حقیقت نگار استے دال کے اسلوب کو بطورِ مثال سامنے رکھاجاسکتا ہے جو اپنے کرداروں کی انفرادی خصوصیات کے مطالعے، شخصی توانائی کے احساس اور ان کی سب کی قابلِ فہم تشریح، الفاظ کے موزوں انتخاب اور اندازِ بیان کے سبب الگ سے پہچاناجاتا ہے۔(14) بیلنسکی(Belinsky) کی ترقی پسندانہ تحریروں اور ذاتی سرپرستی نے اسے شاہانہ اطوار کے مقابلے میں جمہوری اقدارکا حامی بنادیا۔ اس دور کے روس میں ایسے اختیارات کا حامل گردن زدنی تھا چنانچہ ان افکار کا پرچار کرنے والے حلقوں سے تعلق کی بناپر1849 ء میں اسے گرفتار کرکے اس کی پھانسی کا حکم صادر ہوا لیکن حیران کن طورپر اسے تختۂ دار سے پھانسی سے پہلے ہی اتارلیاگیااور اس کی سزا قیدبامشقت اور سائبیر یا کی طرف جلاوطنی میں بدل دی گئی۔ وہ چارسال وہاں قید رہا۔ اس کے بعد اس نے پانچ سال ایک سپاہی کے طورپر خدمات انجام دیں تب کہیں اسے پیٹرس برگ واپس آنے کی اجازت ملی۔ 1849 ء میں اس کی گرفتاری اس امرکی غماز تھی کہ اس کاشمار اہم لکھنے والوں میں ہونے لگاتھا۔ اس کے تراجم اور طنزیہ مضامین نے اپنے قارئین کا حلقہ پیدا کر لیاتھا۔ اس کا ناولٹ ’بیچارے لوگ‘1849 ء میں شائع ہوچکاتھا۔ اگلے سالوں کی اذیت کوشی اور بے کسی نے اس کی حقیقت نگار ی میں ذاتی تجربات سے اور بھی زیادہ سوز و گداز اور تاثرپیداکردیا۔ اس کی تحریروں ،اس کے افکار اور اس کی زندگی پر اس کے والد کے قتل، جاگیرداروں کے جبرواستحصال، قیدوبند، وطن بدری، مرگی کی بیماری، جوئے کی لت اور ان تمام مسائل کے سبب یورپ کے سفر، قرضوں اور جائیدادوں کی قرقیوں کے اثرات بہت واضح اور گہرے ہیں۔ (15) گستاف فلائبیر(1821-1880)(Gustave Flaubert) ایک سرجن کابیٹاتھا۔ وہ فرانس میں روئین(Roven) کے مقام پر پیداہوا ور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قانون پڑھنے کے لیے اس نے پیرس کا رخ کیا لیکن اسے ذاتی طورپر قانون سے کوئی رغبت نہ تھی۔ 1846 ء میں اسے اپنے والد اور بہن بھائی سے دائمی جدائی کاصدمہ سہناپڑا اور وہ پیرس چھوڑکر کروہاںسےCrosset چلاآیا اور اس کے بعدباقی زندگی وہیں گزاری۔ اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی البتہ 1854 ء سے 1864 ء تک اس کا اس کے عہد کی ایک نامورشاعرہ لوئزکولے(Mile Louise Colet) سے دھواں دھار معاشقہ چلا۔ دونوں میں محبت بھرے خطوط کا تبادلہ ہوتارہا اور اب یہ خطوط فرانسیسی ادب کی تاریخ کاحصہ ہیں ورنہ اس کی زندگی جذبات سے بہت حد تک خالی تھی۔ 1849ء میں اسے یونان اور مصرکی سیاحت کا موقع ملااور وہ ان دونوں ممالک کی قدیم ثقافت اور روایات سے بہت متاثرہوا۔ 1850 ء میں جب وہ مشرق کے سفر سے واپس لوٹا تو اس نے مادام بواری(Madame Bovary) جیسا شاہکار ناول تخلیق کیا۔ اسے لکھنے میں اس کے چھ سال صرف ہوئے لیکن جب یہ ناول سامنے آیا تو فوری طورپر مقبول ہوگیا حالانکہ اس ناول پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے۔ اس کے بعد اس نے سلامبو (Salammbo) پر توجہ دی جو دراصل تاریخی دستاویز ہے اور اس میں آثارِقدیمہ کا مطالعہ خاص طوپرشامل ہے۔فلائبیر اپنے زمانے کے نشیب و فراز، رسوم و رواج، اعتقادات و افکار کا ہی عکاس ہے۔ اپنی یادداشتوں اورتجربات کو اس نے اپنی ایک تصنیف"La Education Sentimentale" میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ فلائبیر کی اپنی شخصیت بھی بہت مختلف اور پیچیدہ تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ ساری عمر مصائب وآلام کا شکار رہا۔اسے اعصابی کمزوری بھی لاحق تھی۔ اس کے قریبی دوست یاتووفات پاگئے یا اس کی اپنی وجہ سے اس کا ساتھ چھوڑکراسے تنہاکرگئے لیکن ان نامساعد حالات، ذہنی پریشانیوں اور جسمانی کمزوریوں کے باوصف وہ مسلسل لکھتارہا۔ اسی دوران اس کی کتاب "La Tentation de Saint Antoine" منظرِ عام پرآگئی۔1877 ء میں اس کی تین کہانیوں کا مجموعہ "Trios Contes" شائع ہوا۔ اس کی آخری کتاب"Bouvard et Pecuchet"تھی جسے وہ خود اپنا شاہکار سمجھتاتھا۔ اس کی صحت توپہلے ہی کمزورہوچکی تھی۔ آخرکار مرگی کے حملے میں وہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ فلائبیر میں شرمیلے پن اور حساسیت کے ساتھ ایک نوع کی نخوت بھی تھی۔اسے اپنے دوست اپنے آپ سے کمترلگتے تھے اوروہ ان کی کم مائیگی، شکل و صورت اور عادات واطوار کا مضحکہ اڑایاکرتا تھا۔شاید یہ بھی اس کی حقیقت پسندی کا ہی ایک رخ ہو لیکن اس کا اسلوب جچاتلا اور اندازِ بیان زور دار ہوتاتھا اس لیے وہ ایک رومانی حقیقت پسند کے طورپر ادب کے میدان میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔(16) ہنورڈی بالزاک(1799-1850)(Honore De Balzac) کا شمار انیسویں صدی کے مشہورفرانسیسی ناول نگاروں میں ہوتاہے۔ باپ کی خواہش پر اس نے وکالت کی توسہی لیکن اس پیشے کو دل سے قبول نہ کرسکا۔ اسے بطور سزا گزربسر کے لیے معمولی رقم دے کر ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اکیلا چھوڑ دیاگیا۔ انتہائی مایوسی اور افسردگی کے ان دنوں میں بالزاک نے ناول اور المیہ کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔1820 ء سے 1822 ء کے دوران میں اس ماحول میں لکھی ہوئی تخلیقات کا مجموعہ Oeuvres de Jeunesse ہے۔ تب تک وہ ایک ناکام، گمنام اور مقروض شخص تھا۔ یہاںسے وہ برٹینی (Britany) چلا گیا اور اس نے ایک باغیچے کو اپنابسیرا کرلیا جو فائگرس (Fougeres) کے قریب واقع تھا۔ اس کا پہلا سنجیدہ ناول Les Chovans تھا جس میں دیہاتی ماحول اور طرزِ معاشرت کی منظرکشی کی گئی تھی۔ واقعیت نگاری میں انسانی زندگی، تلخی اورالمیے کی آمیزش اس ناول کا خاص پہلو تھا۔ حقیقت نگاری رومانویت کے متضادخیال کی جاتی ہے۔ اس کا اظہار اس کی کتابPhysiologie of Marraige میں ہوتا ہے۔ بالزاک نے مقروض ہوتے ہوئے بھی اپنی تمام تحریروں کو"La Comedie Humaine" کے عنوان سے خود ہی شائع کیا جس میں شہروں اور قصبوں کی عمومی، سیاسی، معاشرتی اور فوجی طرزِ زندگی کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے کردار ہمیں چلتے پھرتے عام انسانوں کی طرح متحرک دکھائی دیتے ہیں جو اپنی جسامت، لباس، پیشے اور سکونت کے اعتبار سے اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔ اس کے کردار تخیلاتی ہوتے ہوئے بھی حقیقی ہیں۔ اس کے اسلوب میں طوالت، تفصیلات اور بیانات، اس کے گہرے مشاہدے اور مزاج کی گہرائی کا خارجی اظہار سمجھے جاتے ہیں۔(17) اقبال کی حقیقت نگاری اقبال کو ہم اوّل و آخر ایک حقیقت نگار بلکہ واقعیت نگار تک کہہ سکتے ہیں۔ انھیں ان کی زندگی ہی میں ترجمانِ حقیقت کا خطاب ان کے پڑھنے والوں نے یونہی نہیں دیاتھا۔ ہمیں اقبال کی شاعری مقالات، بیانات، شذرات اور مکالمات میں حقیقتِ حال یا حقیقت کی تلاش کے علاوہ اورکچھ ملتا ہی نہیں ہے۔ حقیقت کی عکاسی اورحقیقت کی جستجو ان کے مزاج کا حصہ تھی: ع رہی حقیقتِ عالم کی جستجو مجھ کو(بانگِ درا؍کلیاتِ اقبال،ص108/92- ) اس لیے ان کے ہاں حقیقت نگاری اپنے تمام پہلوئوں، زاویوں اور مرحلوںسمیت جلوہ گر ہے۔ حقیقت نگاری کا بنیادی واسطہ انسان اور انسانی زندگی سے ہے۔ وہ انسان کی انفرادیت اور اہمیت کی حقیقت جانتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ’’ہرایک انسان اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور کسی کاوجود بے کار نہیں ہے لیکن اس حقیقت کا پتا اس وقت چلتا ہے جب ہمیں کسی شخص سے اچھی طرح سابقہ پڑے اور ہم اسے قریب سے دیکھیں۔‘‘(18) موت اپنی جگہ برحق سمجھی جاتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک’’موت کا کوئی وجود نہیں، اصل حقیقت زندگی ہے، موت نہیں۔‘‘(19) دوسری طرف وہ موت کو بھی زندگی کے حوالے سے ہی سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور مرنے والوں سے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں دنیاوی زندگی کے حقیقی مسائل کے حوالے سے استفسار کرتے ہیں ؎ اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے روح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟ کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟ قافلے والے بھی ہیں، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟ تنکے چنتے ہیں وہاں بھی، آشیاں کے واسطے؟ خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟ ( کلیات اقبال،ص70- ) اور کس دردمندی سے یہ سب وہ ایک مصرعے میں سمودیتے ہیں۔ ع اس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟ ( کلیاتِ اقبال،ص71- ) اور اسی درد کی ایک سچے حقیقت نگار کی طرح تصویرکھینچتے ہوئے وہ جیسے خود حقیقت نگاری کا بنیادی اصول بیان کرتے ہیں۔ ع وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے ( کلیاتِ اقبال،ص99- ) اور وہ محض دیکھتے نہیں ہیں بلکہ خودمنظر کا حصہ بن جاتے ہیں ؎ گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ ( کلیاتِ اقبال،ص124- ) حقیقت نگار کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی نقّالی نہیں کرتا بلکہ زمانۂ حال میں رہتا ہے اور مستقبل پرنظررکھتا ہے ؎ ذرا دیکھو کہ جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں ( کلیات اقبال،ص100- ) اور اسی مضمون کے ایک اور زاویے سے بیان میں پرجلال مظاہرِ فطرت کے حوالے سے فطرت پسندی اور حقیقت نگاری کس تخلیقی ترفع کے ساتھ آمیز ہوئی ہیں جیسے کہ دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہوں ؎ دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا؟ گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟ ( کلیات اقبال،ص427- ) اسے مفکرانہ حقیقت نگاری کا مرقع نہیں تو اور کیا کہیں گے اور اگر مستقبل میں وہی ہو جائے جس کا ادراک کوئی وقت سے پہلے کرلے تو سمجھئے کہ اس شخص کی حقیقت نگاری پر مہرتصدیق حالات و واقعات نے ثبت کردی۔روزنامہ انقلاب کے10 دسمبر1931 ء کے شمارے کے مطابق اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام سے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں’’…اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتاتھا…یہ 1907 ء کی بات ہے۔ اس سے چھ سات سال بعدیعنی1914 ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوگئیں۔ 1914 ء کی جنگِ یورپ دراصل اہلِ یورپ کی اس غلطی کا نتیجہ تھی…یعنی مذہب و حکومت کی علیحد گی اور دہریانہ مادیت کا ظہور…بالشویزیم مذہب و حکومت کی علیحد گی کا ایک طبعی نتیجہ ہے…‘‘(20) یہ حقیقت پسندی کی معراج ہے کہ پیشین گوئیاں حقیقت بن جائیں۔ اس طرح کی ایک اور پیشین گوئی علامہ اقبال نے اپنے شعروں میں یوں کررکھی تھی ؎ کشیری کہ با بندگی خود گرفتہ بتے می تراشد زسنگ مزارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیبِ تنش جامۂ تار تارے ازاں می فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے ( کلیات اقبال فارسی،ص271- ) یہ نظم پیامِ مشرق میں 1923 ء میں شائع ہوئی تھی اور کمال یہ ہے کہ1924 ء کی تحریکِ کشمیر کا آغاز ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں کی ہڑتال اور بغاوت سے ہوا۔(21) اسی طرح اقبال ہی کے قلم سے نکلاتھا کہ ؎ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد ( کلیات اقبال،ص396- ) اورآل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہٰ آباد میں۱۹۳۰ء میں اقبال نے اپنی تقریرمیں کہاتھا کہ: ’’سندھ کی پشت ہندوستان کی طرف ہے اور منھ وسطِ ایشیاء کی جانب۔ علاوہ ازیں اگرسندھ کے ان زراعتی مسائل جن سے حکومت بمبئی کو مطلق ہمدردی نہیں اور اس کی بے شمارتجارتی صلاحیتوں کا لحاظ رکھ لیاجائے۔ اس لیے کہ کراچی بڑھتے بڑھتے ایک روزلازماًہندوستان کا دوسرا دارالسلطنت بن جائے گا تو صاف نظرآتا ہے کہ اس کو احاطۂ بمبئی سے ملحق رکھنا مصلحت اندیشی سے کس قدردور ہے…‘‘(22) اور آج کا کراچی آپ کے سامنے ہے ۔کیا اس شہرکاشمار برصغیر کے معاشی اعتبار سے دوچار اہم ترین شہروں میں نہیں ہوتا اور کیا یہ پاکستان کا دارالخلافہ نہیں رہا۔تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقبال نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کیسی بصیرت افروز بات کہی تھی: ’’تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حائلی مملکتیں عظیم سیاسی وحدتوں کی صورت اختیارکرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ملک شام جو سلطنت ِرومااور اہلِ فارس کے درمیان ایک حائلی مملکت تھا ۔اس صورتِ حال سے دو چار رہا ،لہٰذا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی دشوار ہے۔‘‘(23) یعنی اقبال اگر آئندہ کی بات کرتے ہیں تو روشنی گزشتہ سے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا نکتۂ نظر عقلی، استدلالی اور تجزیاتی ہوتا ہے۔1929 ء کے آغاز میں افغانستان میں غازی امان اللہ خان کے خلاف شورش نے سراٹھایا اور وہاں بچہ سقّہ کی حکومت قائم ہوگئی لیکن جیسا کہ وہاں کی تاریخ کاانداز ہے، خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اقبال نے امان اللہ خان کی ناکامیوں کا ایک سبب اصطلاحات نافذکرنے میں عجلت اور فوج کی طرف توجہ کرنے میں غفلت کو قرار دیا(24) ۔ ان اصطلاحات کا مقصد وہاں کے مسلمانوں کی حقیقی ترقی تھا لیکن اقبال کے خیال میں یہ ترقی دنیا کے ملائوں کے نظریہ کے خلاف تھی۔ اقبال جانتے تھے کہ افغانستان کا ملّا شور بازار اس شورش کا سرغنہ تھا حالانکہ اس نے خوداصطلاحات کی اس دستاویز پر جسے’نظام نامہ‘کہاگیاتھا، دستخط کئے تھے۔ اقبال نے اس صورتِ حال سے یہ حقیقت پسندانہ نتیجہ اخذ کیا کہ’’اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیرجدوجہد کے سرِ تسلیم خم نہیں کرے گا۔‘‘(25) 1929ء کے بعد سے لے کر آج تک کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ اقبال نے1929 ء میں جس خدشے کا اظہار کیاتھا وہ اپنی انتہائی شدت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے اور لڑکیوں کے سکولوں کواڑانے، سرِعام کوڑے مارنے، سرکاٹنے، بتوں کو نیست و نابود کرنے کے واقعات کے ساتھ ملائوں کی شورش اپنی تمام انتہاپسندی کے ساتھ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں جاری ہے جو دراصل اسلام کے قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل اندازِ نظر کے درمیان خونی کشمکش سے عبارت ہے اور اس کا اختتام مستقبل قریب میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت نگاروں کے بارے میں یہ بات عام طورپرکہی جاتی ہے کہ وہ واقعات، حقائق اور مناظرِ فطرت کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں۔ یہ بات اقبال پربہت حد تک صادق آتی ہے۔ اقبال نے میتھیوآرنلڈ کے اس خیال کو کہ شعر تنقیدِ حیات ہے کو یوں قبول کیا ہے کہ’’ یہ بات بھی یکساں طورپر درست ہے کہ خودحیات تنقیدِ شعر ہے۔‘‘(26) شعر کی زبان میں اقبال نے اسے یوں بیان کیا ہے ؎ ای میانِ کیسہ ات نقدِ سخن بر عیارِ زندگی او راہزن ( کلیاتِ اقبال فارسی،ص55- ) اقبال اس بارے میں اس قدر انصاف پسند ہے کہ اپنے آپ کو بھی اپنے نکتہ چینوں میں شمارکرتا ہے۔ اقبال نے خوداپنی کردارنگاری کی ہے اور اس بارے میں بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ اس بارے میں نظم’زہد اور رندی‘ مکمل طورپرپڑھنی چاہیے اور اقبال کے پورے کلام میں وہ اشعارتلاش کرنے چاہئیں جن میں وہ واحدمتکلم کے طورپراپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں ؎ ہیں ہزاروں اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کا رست خیز کیا خبر تجھ کو درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں ( کلیاتِ اقبال،ص149- ) لیکن ان سارے پہلوئوں کے ہوتے ہوئے بھی اقبال جذبات کی رو میں بہناایک کھرے حقیقت نگار کی طرح نہیں جانتا اور بہرطور اپنی شخصیت اور اپنی فکر میں توازن قائم کرنے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ نظم’شکوہ‘ کے بعد’جواب شکوہ‘ اس کی ایک واضح مثال ہے۔اگرچہ اقبال کی شاعری کی ابتداء کلاسیکیت سے ہوئی تھی اور اس میں نوجوانی کے دور کی رومانویت بھی ملتی ہے لیکن دیکھئے کہ اس میں بھی وہ انسانی فطرت کے کس قدر قریب رہتے ہیں ؎ حسن کی تاثیر پر غالب نہ آسکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے دانائوں میں تھی ( کلیاتِ اقبال،ص165- ) اقبال نے خود اپنی شخصیت کو دو حصوں میں بانٹ رکھاتھا۔ ان کا کہناتھا کہ ’’میری ذات میں دو شخصیتیں جمع ہیں۔ ظاہری شخصیت عملی اور کاروباری ہے، اور باطنی شخصیت ایک فلسفی، صوفی اور خواب دیکھنے والے کی ہے۔‘‘(27) ڈاکٹرافتخاراحمدصدیقی نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ’’اگرچہ بقول اقبال ان کی ظاہری شخصیت کا تعلق مادی زندگی کے حقائق وواقعات سے اور باطنی شخصیت کا تعلق زندگی کے اعلیٰ نصب العین و تصورات سے ہے لیکن ان دونوں پہلوئوں میں بڑی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ظاہری شخصیت کی حقیقت پسندی باطنی شخصیت کے تصورات کے لیے ٹھوس بنیادیں مہیا کرتی ہے…اسی طرح باطنی شخصیت کا سوزوساز، مادی زندگی کی تلخیوں کو گوارابناتا ہے۔‘‘(28) مندرجہ بالا اقتباس اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اقبال ہیں تو حقیقت پسند لیکن اوروں سے ذرا مختلف قسم کے حقیقت پسند ہیں۔ ان کے لیے کوئی اور اصطلاح وضع کرنا پڑے گی جس میں حقیقت نگاری کا حوالہ بھی موجود ہو۔ زندگی کے اعلیٰ نصب العین اور تصوریت اقبال کو’ مثالیت پسند حقیقت نگار‘کے درجے پر فائز کرتی ہے کہ جو دنیاوی حقائق کے ادراک کے ساتھ انسان کوارتقاء کے اعلیٰ ترین مدارج پر دیکھنا چاہتا ہے ؎ تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے ( کلیاتِ اقبال،ص87- ) یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوبِ فطرت ہے ( کلیاتِ اقبال،ص100- ) رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود ( کلیاتِ اقبال،ص421- ) نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر ( کلیاتِ اقبال،ص428- ) ایک مثالیت پسندحقیقت نگار کے طورپراقبال بطور شاعر اپنی ذمہ داری اور مقام سے آگاہ تھا۔ ’شاعرِ رنگین نوا‘کو ’دیدۂ بینائے قوم‘سمجھنے کے علاوہ بھی اسے شعر کی دسترس اور شاعر کے مقام کی حساسیت کا ادراک تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ایک انحطاط پسندفن کار کسی قوم کے لیے چنگیزاور ہلاکو کی فوجوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔وہ شعری تجربے کوالہامی قراردیتے ہوے قوموں کی روحانی صحت اس ’الٰہام‘کی نوعیت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس کا نزول اس قوم کے شاعروں اور فنکاروں پرہوتا ہے۔ یعنی اقبال کے نزدیک شاعرکاکردار دوسروں کے لیے مثالی ہوناچاہیے تاکہ قوم کی زندگی اس کے افکار کی روشنی میں پروان چڑھے۔ ان کے خیال میں شاعری زندگی اور شخصیت کا محض اظہار ہی نہیں اس کے تابع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اقبال خود بھی شاعراور شاعری کو مثالیت اور حقیقت کا امتزاج سمجھتے تھے ؎ کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی ، مقامِ نغمہ تازی نگہ ، آلودۂ اندازِ افرنگ طبیعت غزنوی ، قسمت ایازی ( کلیاتِ اقبال،ص407- ) اقبال کا ایقان تھا کہ صداقت اور حقیقت فن کے لیے لازمی ہیں۔ ان کے ہاں اسی لیے بناوٹی باتیںاور ملمع کاری نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو شاعری کا مخاطب اس شاعری سے متاثرنہیں ہوتااور اگرہوتا بھی ہے تو وقتی طورپر۔ اس کا اثر دائمی نہیں ہوتا۔ اقبال کی نظم ’شمع و شاعر‘کانفسِ مضمون یہی ہے کہ شاعرکے لیے ضروری ہے کہ وہ جس خیال کو منظوم کرے، اس کی حقیقت کو واضح کردے اور جو کچھ کہے دردمندی سے کہے۔ بانگِ درا کی نظموں ’تصویردرد‘ اور ’صدائے درد‘اسی دردمندی اورسوزساز کا مرقّع ہیں ؎ سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق انگیز ہے ( کلیاتِ اقبال،ص74- ) اقبال نے صدائے درد میں’شاعرِ معجز نما‘کو’دانۂ خرمن نما‘ کہا لیکن خرمن کے بغیر شاعرکی ہستی سے ہی انکارکردیا اور اس نظم کا اختتام اس شعر پر کیا ؎ کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار میں پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے ( کلیاتِ اقبال،ص74- ) ’تصویردرد‘دراصل صدائے درد ہی کا تسلسل ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر نے خودکواس مے خانۂ ہستی میں ہرشے کی حقیقت کہا ہے۔ یہ نظم اقبال کے اس دور کی ہے جب اقبال حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ وہ فطرت کے بہت سے راز ہائے سربستہ کو سمجھنے کا آرزومند تھا۔قدرتی مناظر اور مظاہرِ فطرت کے اسرارسے وہ تقریباًگزرآیا تھا۔ اب اسے انسان کی بے بسی کا احساس بھی ستانے لگا تھا اور وہ دستور زباں بندی کی شکایت کرنے لگا تھا اور اسی نظم میں وہ یہ بھی کہتے سنائی دیتا ہے کہ ؎ سکوت آمیز طولِ داستانِ درد ہے ورنہ زباں بھی ہے ہمارے منھ میں اور تابِ سخن بھی ہے ( کلیاتِ اقبال،ص103- ) خودکوحقیقت نگاروں کی طرح سراپا درد اوراپنی داستاں کو حسرت بھری کہتے ہوئے اقبال کو’حیاتِ جاوداں‘اور’مرگِ ناگہاں‘ دونوں کے حوالے سے اپنی لاچاری کے اس احساس کے باجود خیال ہے کہ ؎ جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں ( کلیاتِ اقبال،ص264- ) موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے خوگرِ پرواز کو پرواز پر ڈر کچھ نہیں موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں ( کلیاتِ اقبال،ص263- ) اقبال اپنی نظم تصویردرد کے ایک بند میں اپنے عزم کا اظہارایک مثالیت پسنداور صاحبِ فکر وعمل کے طورپرکرتا ہے۔ اس بند کی ردیف’کرکے چھوڑوں گا‘ ان کی بطورشاعراپنی شخصیت پر یقین کی غماز ہے ؎ جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل میں سوزِ پنہاں کو تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا ( کلیاتِ اقبال،ص100- ) حقیقت کی تلاش کے لیے یہ تجسس ان کی پہلی نظموں’پرندے کی فریاد‘اور’ایک آرزو‘میں بھی نمایاں ہے۔ اقبال رنج و غم سے طبیعت کوبوجھل نہیں کرتا بلکہ دکھوں اورتلخیوں کے ادراک سے ان میں رفعتوں کا احساس پیداہوتا ہے۔ اپنی نظم نوائے غم میں وہ کہہ اٹھتا ہے کہ ع میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے بلکہ وہ تو درد کے حوالے سے ابدیت اور ہمیشگی کے حصول کی خواہش رکھتا ہے ؎ کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یا رب! وہ درد جس کی کسک لازوال ہو ( کلیاتِ اقبال،ص349- ) انسان کے حالات کی سختی اس کے نزدیک ایک حقیقت ضرور ہے ؎ کوئی نہیں غم گسارِ انسان کیا تلخ ہے روز گارِ انسان ( کلیاتِ اقبال،ص153- ) لیکن وہ غم کو اپنے حواسوں پر طاری ہونے نہیں دیتا اور انھیں بعض اوقات صرف چھُو کر ہی گزر جاتا ہے۔ نوائے غم میں ہی وہ کہہ رہا ہے کہ ع نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے اور دوسری طرف ایک غزل میں اس کا مصرع ہے کہ ع اک ذرا افسردگی تیرے تماشائوں میں تھی(کلیاتِ اقبال، ص165-)پہلے مصرعے میں یاس کی صدا دھیمی ہے اور دوسرے میں افسردگی بس اک ذرا سی ہے اور توجہ تماشو ںپر ہے یعنی ایک نوع کی اثباتیت اقبال کے ہروقت زیرِ نظر رہتی ہے اور اسی رو میں اقبال اللہ تعالیٰ سے بھی یہ سوال کربیٹھتا ہے ع کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ ( کلیاتِ اقبال،ص356- ) شاید اثباتیت بھی حقیقت پسندی ہی کا ایک پہلو ہے کہ اس کے بغیر زندگی لایعنی ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت پسندی بہرحال زندگی آمیزاور زندگی افروز ہوتی ہے یا اسے ایساہوناچاہیے لیکن استثنائی طورپر کہیں ایک آدھ بار اقبال کی حقیقت پسندی سفاک بھی ہوجاتی ہے جیسا کہ اس کے اس خیال سے ظاہر ہورہا ہے: ’’انصاف ایک بیش بہاخزانہ ہے لیکن ہمیں لازم ہے کہ اسے رحم کی دستبرد سے محفوظ رکھیں۔‘‘(29) لیکن اس خیال میں بھی معاشرے کو کسی نظم و ضبط کے تابع رکھ کر اسے مستحکم و مربوط رکھنے کی اثباتیت (Positvism) اورعملیت پسندی (Pragmatism) جھلکتی ہے۔ اس قول پر ذرا سا اور غورکیاجائے تو اس میں معاشرے کے حوالے سے اجتماعی فلاح اور خیرکی برتری کی خواہش بھی زیریں رو کے طورپرموجود ہے اور اس طرح یہ اندازِ نظر مثالیت پسندانہ حقیقت نگاری کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ ترقی پسندوں کے ہاں جس طرح کی سماجی حقیقت نگاری کا چرچا رہا ہے اس طرف بھی اقبال کی توجہ اسی حوالے سے رہی ہے کہ معاشرے میں کسی طرح معاشی انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوسکے۔ شعراء میں اس طرف اغلباً اقبال نے ہمارے ہاںسب سے پہلے توجہ کی تھی اور اس کی سب سے پہلی تصنیف یا تالیف ہی ’علم الاقتصاد‘ہے جو اردو میں بھی اس مضمون کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں قومی معیشت، زمین، محنت، سرمایہ، مسئلہ قدر، منافع، اجرت، مالگزاری، لگان، سود، آبادی اور بین الاقوامی تجارت جیسے موضوعات پرقلم فرسائی کی گئی ہے۔یہی موضوعات اقبال کی شاعری میں کس قدر سرایت کرچکے تھے اس کا اندازہ اقبال کی نظموں کے عنوانات ہی سے لگایاجایاسکتا ہے۔خضرِراہ کے ذیلی عنوانات میں’سرمایہ و محنت‘شامل ہے۔ پیامِ مشرق کے حصے ’نقشِ فرنگ‘میں بھی قسمت نامہ’ سرمایہ دار و مزدور‘اور’نوائے مزدور‘کے نام سے دو نظمیں شامل ہیں۔ ہیگل اور موسیولینن و قیصرولیم بھی اقتصادیات اور اس کے ذریعے معاشرتی انصاف میں اقبال کی دلچسپی کوظاہرکرتی ہیں۔ ’جاویدنامہ‘میں’ فلک عطارد‘کے تحت’اشتراک و ملوکیت‘بھی اسی رجحان کی عکاس ہے اور اقبال میں یہ رجحان ابتداہی سے تھا جیسا کہ ’علم الاقتصاد‘کے سنِ اشاعت سے ظاہر ہے اور بانگِ درا کے ظریفانہ کلام سے بھی جہاں اقبال ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتا ہے کہ ع ’دیکھیے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک‘اور محنت و سرمایہ کی دنیا میں صف آرائی کا تذکرہ کرتا ہے۔ اسی حصے میں مزارع و مالک میں تکرار بھی اقبال کی نگاہ میں ہے اور اس کی نگاہ ایک متوازن حقیقت پسند کی نگاہ ہے۔ ’بالِ جبریل‘میں’لینن(خدا کے حضورمیں)، ’فرمانِ خدا (فرشتوں سے)‘، ’پنجاب کے دہقان سے‘اور’ضربِ کلیم میں سیاسیاتِ مشرق و مغرب کے حصے میں اشتراکیت، کارل مارکس کی آواز اور بلشویک روس کے ساتھ ساتھ، ابلیس کی مجلسِ شوریٰ بھی اسی سلسلے کی نظم ہے جس سے ’ارمغانِ حجاز‘کاآغازہوا ہے۔ اقبال کی مندرجہ بالانظموں اور دیگرنثری آثار میں سے بہت سے اقتباسات اقبال کے اشتراکیت اور اس حوالے سے سماجی حقیقت نگاری کی مثالوں کے طورپر پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن اقبال بطور حقیقت نگار مثالیت پسند ہوتے ہوئے بھی شدت پسند نہ تھے۔ ان کی رائے معتدل اور ان کا اندازِ نظر متوازن رہتاتھا۔ وہ بغیرکسی عقلی توجیہہ کے کسی بھی نظریے، رجحان یا تحریک کو من و عن یا جزوی طورپربھی قبول نہیں کرتے تھے۔ حقیقت پسندی کی تعریف میں یہ پہلو شامل ہے کہ کوئی امر یا کوئی مظہرجوایک شخص کی نظر میں حقیقت ہو اسے ساری دنیا کاحقیقت تسلیم کرناضروری نہیں ہے۔ یہ حقیقت پسند مظاہر، عناصر، امور، معاملات اور واقعات اپنی نظر سے دیکھ سکتا ہے اور چاہے تو دنیاکی توجہ اس طرف مبذول کرواسکتا ہے۔ چنانچہ اقبال بھی دنیا کی حقیقتوں کو اپنی نظر سے دیکھتا، ان کا تجزیہ کرتااور اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اشتراکیت کے نظریے کے غیرجانبدارانہ تجزیے اور اس کے بار ے میں اپنا نتیجہ اخذ کرنے کی مثالیں آپ کو اقبال کے کلا م، خطبات ، تقاریر اور مکالموں میں مل جاتی ہیں۔ ان کا ذکراشتراکیت کے حوالے سے اسی باب میں ہوجائے گا بہرحال یہ طے ہے کہ اقبال کی حقیقت پسندی میں غیرجانبداری، صداقت شعاری، انصاف پسندی، حق گوئی اور بے باکی بھی داخل ہے اور وہ بلندبانگ نعروں، مشینی رجحانات اور گمراہ کن تاویلات سے متاثرہوئے بغیر اپنا نکتۂ نظرسرِ عام بیان کرتا ہے اور دہراتارہتا ہے ؎ زمامِ کار اگرمزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ( کلیاتِ اقبال،ص374- ) o الٰہی تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری ( کلیاتِ اقبال،ص372- ) بالِ جبریل میں اقبال کی ایک بے مطلع غزل ع یارب! جہانِ گزراں خوب ہے لیکن،سے شروع ہوتی ہے اور ؎ چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال، کرتاکوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند‘پرختم ہوتی ہے ۔یہ غزل اقبال کی اسی حق پرستی اور صداقت شعاری کا اظہار ہے ؎ درویشِ خدا مست ، نہ شرقی ہے ، نہ غربی گھر میرا ، نہ دلی ، نہ صفاہاں نہ سمرقند کہتا ہوں وہی بات ، سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلۂ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دما وند ( کلیاتِ اقبال،ص356-357- ) حقیقت پسندی یوں تو روزِ ازل سے انسانی اظہار و بیاں کے ہرانداز میں پائی جاتی ہوگی تاہم باقاعدہ تحریک کے طورپر حقیقت پسندی ابتداً افسانہ نویسوں اور ناول نگاروں نے شعوری طورپر اسلوب کے طورپراختیارکی تھی۔ عالمی فکشن میں حقیقت نگاری پلاٹ یعنی واقعات اور کرداروں کے حوالے سے پروان چڑھی۔ پہلے کردار نگار ی کے حوالے سے اقبال کی شاعری کا جائزہ لیں تو خوداقبال ہی اپنی شاعری کا واحدمتکلم ہے اور ایک حقیقی کردار ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب آپ اقبال کی نظموں اور یہاں تک کہ غزلوں کا بنظرِغائر جائزہ لیں تو ان گنت تاریخی اور حالیہ حقیقی کرداروں کا ذکر ہی نہیں ملے گا بلکہ وہ انفرادی طورپر اور مشترکہ طورپرکئی نظموں کے محرّک ہوں گے۔ان میں سے چند کردار بانگِ درا کے حوالے سے ترتیب وار یوں ہوں گے: مرزاغالب، سرسیداحمدخان، بلالؓ، داغ، سوامی رام تیرتھ، عبدالقادر، رام، فاطمہ بنت عبداللہ، غلام قادر روہیلہ، شبلی و حالی، صدیق ؓ، والدہ مرحومہ، عرفی، نانک، شیکسپیئر، ہمایوں، معتمد اور طارق بن زیاد ۔ بالِ جبریل میں ترتیب وار ان کرداروں پرنظمیں ہیں: جاویداقبال، نپولین، مسولینی، نادرشاہ افغان، خوشحال خان خٹک، خاقانی، مرزابیدل، ابوالعلیٰ معرّی اور قارون۔ ضربِ کلیم میں بھی کرداروں کے حوالے یوں ہیں: محمدعلی باب، سلطان ٹیپو، حکیم نطشہ، جاوید، رومی، مرزابیدل، کارل مارکس، مسولینی، محراب گل خان۔ ارمغانِ حجاز میں بھی سراکبرحیدرآبادی، مسعودمرحوم، حسین احمد کے نام سے تین کرداری نظمیں موجود ہیں۔ کلیاتِ اقبال فارسی میں بھی افلاطون، علی مرتضیٰؓ، سیدمخدوم علی ہجویریؒ، میرنجات نقشبند المعروف باباجی صحرائی، شہنشاہ عالمگیر، بوعبیدہ وجابان، سلطان مراد، فاطمۃ الزہراؓ، مصطفیٰ کمال پاشا، شوپن ہائر، ہیگل، برگساں، لینن وقیصرولیم، زرتشت، گوتم، مسیحؑ، طالستائی، محمدؐ، ابوجہل، حلّاج، طاہرہ، سیدعلی ہمدانی ؒ، ملا طاہرغنی کشمیری، ابدالی، نادر سلطان شہید، جاوید ، حکیم سنائی اور سلطان محمودغزنوی کے کردارملتے ہیں۔ ان کرداروں کے علاوہ غزلوں، رباعیوں، قطعات اور مثنویوں میں اظہار میں دلائل و براہین کی خاطر یا علامتوں کے طورپر جابجا نہ صرف انسانی کردار بلکہ ماورائی کرداروں کے ساتھ ساتھ دنیابھر کے ممالک یا تہذیبوں، شہروں، مقامات اور عمارات کا تذکرہ اقبال کا روز مرّہ اور محاورہ ہیں۔ جس طرح اشخاص پر نظمیں ہیں اسی طرح عمارات پر بھی اقبال نے بہت سی نظمیں لکھی ہیں جن میں سے مسجدِقرطبہ پر ان کی نظم شاہکارسمجھی جاتی ہے جس کی دوسری مثال اردوشاعر ی میں نہیں ملتی۔ اقبال کے کرداروں میں پرندے بھی بطورعلامت شامل ہیں۔ شاہین، اقبال کاایک لافانی کردار ہے جس کی خوبیاںنقا دانِ فن بار بار اپنے مضامین میں دہرا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کبوتر، کنجشکِ فرومایہ، گلہری، جگنو، بلّی، مکڑا اور مکھی، گائے ، بکری، پروانہ، شیر، خچر، چیونٹی بھی اپنے کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں سمیت موجود ہیں۔ اقبال کی حقیقت نگاری کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایسے کرداروں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جو صرف کردار ہیں۔ ایسے کردار جن سے اقبال نے خطاب کیا ہے یا ان کے کردار پرعلامتی انداز میں دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔ ایسے کرداروں میں خودشاعر، طفلِ شیرخوار، آدم، مسافر، طلبائے علی گڑھ ، وہ جس کی گو دمیں اقبال نے بلی دیکھ کر نظم کہی، سلیمیٰ،عاشقِ ہرجائی، انسان، وہ جس سے پھول کا تحفہ ملا، مدینے کے راستے میں ایک حاجی، جوانانِ اسلام، سلطان، درویش، فقیر، پھولوں کی شہزادی، دریوزۂ خلافت، ایک نوجوان، ملّا، پیر، مرید، دہقان، تاتاری، پیرزادے، شیخِ مکتب،فلسفہ زدہ سید زادہ، ہندی مسلمان، صوفی، مردانِ خدا، کافر، مومن، پنجابی مسلمان، امرائے عرب، زمانۂ حاضر کا انسان، اقوام مشرق، مصلحینِ مشرق، طالبِ علم، مہمانِ عزیز، اساتذہ، مردِ فرنگ، عورت، اہلِ ہنر، یہود، ابلیس کے مشیر، بڈھابلوچ، معزول شہنشاہ، دوزخی،لردِفرنگی اور اس کا پسر اور بحری قزاق شامل ہیں جن کی اقبال نے شاعر ہوتے ہوئے بھی تخلیقی سطح پر سچی تصویریں کھینچی ہیں۔ اقبال نے نظموں کے موضوعات انھی حقیقی، جیتے جاگتے، چلتے پھرتے کرداروں، تاریخ کے اتارچڑھائو، روزمرہ واقعات اورفطرت کے عناصر سے کشید کیے ہیں اور انھیں کے گرداپنے کلام کا تانابانا مرتب کیا ہے۔ حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کو اردو میں ایک دوسرے کے متراد ف اور ہم معنی سمجھاجاتا ہے۔ فکشن کی بنیاد بھی حقیقی واقعات ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ شاعری میں عام طورپر تاریخی واقعات کو نظم کرتے ہوئے شاعر اپنی عمومی تخلیقی سطح برقرارنہیںرکھ پاتااور اس طرح اس کی شاعری صحافیانہ یا ہنگامی بن جاتی ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی کرداروں، تاریخی واقعات، تاریخی مقامات اور تاریخی عمارات پرجونظمیں لکھیں انھیں بھی وہ تخلیقی ترفع اور فنی عظمت عطا کی کہ اس کی نظمیں شاعری کے اعلیٰ معیاروں پربھی پورااتریں۔ اقبال نے واقعیت نگاری کا کمال جن نظموں میں دکھایا ان میں فاطمہ بنت عبداللہ، محاصرۂ ادرنہ، غلام قادرروہیلہ، جنگ ِیرموک کا ایک واقعہ، شکوہ، جوابِ شکوہ، قیدخانے میں معتمدکی فریاد، عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت، سرزمینِ اندلس میںطارق کی دعا، خوشحال خان خٹک کی وصیت، تاتاری کا خواب، ہارون کی آخری نصیحت، آزادیٔ شمشیر کے اعلان پر، سلطان ٹیپو کی وصیت، بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو اور معزول شہنشاہ شامل ہیں۔ ان نظموں سے پتاچلتا ہے کہ اقبال نے بھی حقیقت نگار فکشن سے براہ ِراست متاثر ہوئے بغیرحقیقی واقعات کو نظم کیااور اس بات سے کوئی نقاد بمشکل انکارکرے گا کہ حقیقت نگاری میں افسانوں اور ناولوں کے پلاٹ حقیقی واقعات پراستوار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ حکایات بھی جن میں لوک دانش اورسماجی مسائل بیان ہوئے ہیں فکشن میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بہت سی حکایات کو بھی منظوم کیا ہے۔ ان حکایات کو بھی اقبال نے تخلیقی سطح پر اپنے مفاہیم اور اندازِ نظر کی تشریح، توضیح اور تفسیر کے لیے برتا ہے۔ ان حکایات کے کردار بھی حقیقی ہیں اور ان کے سبق بھی قرینِ قیاس ہیں۔ اردو شاعری میں ایک مکڑااورمکھی، ایک پہاڑاورگلہری، ایک گائے اور بکری، ایک پرندہ اور جگنو، خضرِراہ، شیراور خچر اورچیونٹی اور عقاب ایسی ہی حکایات ہیں۔ اقبال حکایات کو حقیقت نگاری کے لیے ایک کارآمد اور مؤثر ذریعۂ اظہار سمجھتا ہے۔ البتہ شاعرکویہ ذریعہ استعمال کرنے کاسلیقہ ہوناچاہیے۔لینن کا کہنا تھا کہ زندگی کی عمیق ترین حقیقتوں کو سادہ حکایتوں اور تمثیلوں کی صورت میں واضح کرنے کے لیے غیرمعمولی خطابت درکارہے۔ اقبال نے اس ضمن میں شیکسپیئر، مولاناجلال الدین رومی اور حضرت عیسیؑ کو ایسی نادرالوجود فطانت کی ہی مثالیں قراردیا ہے۔ اقبال کو اس سلسلے کی چوتھی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ فارسی کلیات میں ایسی سات حکایات ’اسرارورموز‘میں شامل ہیں۔ مثنوی اور طویل نظمیں اقبال کی محبوب اصناف ہیں اور اس صنف کی ایک خصوصیت ان کاکسی وقوعے یا واقعے کا بیان بھی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ منظوم قصے کے طورپر فکشن کے قریب بھی آجاتی ہیں یا آسکتی ہیں۔ حقیقی واقعات یا وقوعے اقبال کی بہت سی نظموں کے محرک ہیں اور ان کی نشاندہی اقبال کے مجموعوں کی فہرستوں کے سرسری مطالعے سے ہی ہوجاتی ہے۔ صرف بانگِ درا ہی لے لیجئے تو اس میں پرندے کی فریاد، خفتگانِ خاک سے استفسار، سید کی لوح تربت، رخصت اے بزمِ جہاں، داغ، التجائے مسافر، طلبۂ علی گڑھ کے نام‘ …کی گود میں بلی دیکھ کر، عبدالقادرکے نام، پھول کا تحفہ عطاہونے پر، ایک حاجی مدینے کے راستے میں، موٹراور عیدپر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں اقبال کی زندگی کے اپنے واقعات پرمبنی ہیں۔ تاریخی واقعات پرنظموں کا ذکرپہلے آچکا ہے۔ اقبال شناس جانتے ہیں کہ تاریخی حوالوں کو تخلیقی سطح پر برتنے کے حوالے سے بھی اقبال ماضی پرستی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے آئندہ کے لیے منطقی نتیجہ نکالتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلاکرانھیں پھر سے وہی عروج پانے کاسبق دیتا ہے۔ اقبال نے اس بارے میں کہاتھا کہ: ’’اگرقوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریق نہیں کہ ہم اپنی گزشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں یا اس کا احیاء خودساختہ ذرائع سے کریں۔‘‘(30) اس ضمن میں وہ تاریخی حوالے سے یوں بات کرتے ہیں: ’’ماضی کا غلط احترام علیٰ ہٰذا ضرورت سے زیادہ تنظیم کا وہ رجحان جس کا اظہار تیرہویں صدی اور بعد کے فقہا کی کوششوں سے ہوتا ہے اسلام کی اندرونی روح کے منافی تھا۔‘‘(31) اقبال نے یوں تو سارے کلام میں اسی خیال کو برتا ہے البتہ اس کی نظم’مسلم ‘ (جون1912 ئ) خاص طورپر اسی مضمون کی ہے اور اس کے آخری تین شعر تو ماضی کو یادکرنے کی توجیہ بلکہ صفائی کے مصداق ہیں ؎ ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہدِ کہن رکھتا ہوں میں اہلِ محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ( کلیاتِ اقبال،ص224- ) اقبال نے تاریخ کا صرف مطالعہ ہی نہیں بلکہ تاریخی حالات، واقعات اور کرداروں کااپنے علم و فضل کی روشنی میں تجزیہ بھی کررکھاتھا۔ انھوں نے تاریخ ِہند کے نام سے ایک درسی کتاب بھی لکھی تھی جو1913-1914 ء میں مڈل کی سطح کے نصاب میں شامل تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشر نے 1914 ء میں شائع کیاتھا۔ اصل کتاب نایاب ہے جبکہ خلاصہ محفوظ ہے۔(32) تاہم اس کتاب کے بارے میں بعد کی تحقیق سے یہ کتاب اقبال کی ثابت نہیں ہوتی۔(33) اس پر مزید تحقیق درکارہے۔ یہ تمام مثالیں اور حوالے اقبال کی واقعیت نگاری کا پتادیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک تو شعری تجربہ بظاہر ناقابل یقین یا غیرمرئی عقلی تجربات کو واقعیت میں بدل دیتا ہے: ’’فلسفہ انسانی عقل کی خنک تیرگی میں ٹھٹھرتے ہوئے تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شاعر آتا ہے اور اپنے سوزِ دل سے انھیں گرماکر واقعیت میں بدل دیتا ہے۔‘‘(34) اور کسی تجربے کو کوئی شاعریوں پیش کرے کہ وہ اصلی، سچااورحقیقی لگے تو ایسے شاعر کو حقیقت نگاروں میں شامل کرلیاجائے گا۔ اس طرح صوفیانہ واردات یا روحانی تجربے کو بھی تخلیقی فنون میں پیش کرنے کی راہ نکل آتی ہے جسے مابعدالطبیعاتی یا روحانی حقیقت نگاری بھی کہاجاسکتا ہے۔ اسے اس لیے بھی حقیقت پسندی ہی کہناچاہیے کہ اسے بیان کرنے والا اسے صدق دل سے حقیقی، کھرااور اصلی سمجھتا ہے اور وہ اپنے زورِ بیان سے اور سوزِ دروں سے اسے اس طرح پیش کرنے پر قادر ہوتا ہے کہ وہ اصلی اور حقیقی معلوم ہوجیسے ؎ وقت کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام ( کلیاتِ اقبال،ص420- ) اس طرح کا ایک تجربہ ہے جس پراقبال نے بہت غورکیا ہے اور اس مفروضے کا بھی تجزیہ کیا ہے کہ’’زمانِ تسلسل ہی حقیقی زمانہ ہے‘‘ لیکن اقبال نے اس خیال کا یہ مطلب نکالا ہے کہ’’اگر زمانے کے تصور کو ماضی، حال اور مستقبل کا تصورملتزم ہے تو ہم اس کا قیاس ایک خطِ مستقیم ہی پر کریں گے جس کا ایک حصہ طے ہوچکا ہے یعنی ہم اسے پیچھے چھوڑآئے ہیں اور ایک ہمارے سامنے ہے لہٰذا اس کا طے کرناباقی ہے لیکن جس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمانہ کوئی زندہ اور تخلیقی حرکت نہیں بلکہ ایک سکونِ مطلق ہے جس میں ہر طرح کے ڈھلے ڈھلائے حوادث پہلے سے جمع ہیں اور اب یکے بعد دیگرے ویسے ہی ہمارے سامنے آرہے ہیں جیسے خارج میں بیٹھے ہم کسی فلم کا تماشاکررہے ہوں۔‘‘اس کے بعد اقبال نے پروفیسر براڈ(Broad) کے حوالے سے کہا ہے کہ’’ہم مستقبل کے کسی حادثے کو حادثے سے تعبیر ہی نہیں کرسکتے‘‘اور اپنی رائے دی ہے کہ’’زمانہ حقیقتِ مطلق کا ایک جزوِلاینفک ہے اگرچہ’’حقیقی زمانہ متصل نہیں‘‘اور اس میں’’ماضی، حال اور مستقبل میں امتیاز ناگزیرہے۔‘‘(35) اقبال کی نظم’زمانہ’ کو اقبال کے زمانے کے بارے میں خیالات کا خلاصہ کہنا چاہیے ، ع طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ ،(کلیات اقبال، ص459- ) مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری دراصل حقیقت ِمطلق کے ادراک کی سعی ہے۔ اس ضمن میں علم بالحواس اور علم بالوحی پربحث ہوتی رہی ہے۔ علم بالحواس کی بنیاد تجربات پرہے اور علم بالوحی کی اساس روحانی واردات،مکاشفے، فیضان، عرفان یا القا ہونے پر ہے لیکن مقصددونوں طرح کے ذرائع کا حقیقت کی تلاش اور اس کا ادراک ہی ہے۔ اقبال تو تجربے کو بھی محسوسات اور مدرکات کہتا تھا۔ اقبال جب یہ کہتا ہے کہ ؎ کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیازمیں ( کلیاتِ اقبال،ص302- ) تو دراصل وہ بطور شاعر حقیقتِ مطلق یعنی سادہ لفظوں میں حق تعالیٰ کے عرفان کے خواہش مند ہیں اور ایسا ہوبھی جاتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی ذات ان کے حیطۂ ادراک میں آبھی جاتی ہے ع ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں مجاز رختِ سفر اٹھائے( کلیات اقبال،ص164- )یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا۔روزگارِ فقیر میںذکر ہے کہ وہ ایک مقام پرخدا کی ہستی کو ایک ناقابل انکار حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کوئی فلسفیانہ دلیل دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس پر ممتازحسن نے اقبال کو کہا کہ’’آپ اتنے بڑے مفکراور فلسفی ہیں‘‘ پھرآپ کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ خداکے وجود پرعقلی دلیل دینے کی بجائے خوش اعتقادی کے ساتھ اس کا ذکرکریں؟‘‘ اس پر اقبال نے یہ جواب دیا تھا کہ’’خدا کے متعلق پوچھتے ہو؟ میں نے اسے دیکھا ہے…انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ خدا کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ لمحے کم نصیب ہوتے ہیں…بہت ہی کم‘‘(36) اقبال کی زبان میں دراصل ایسے محسوسات اور مدرکات الفاظ سے بھی ماورا ہوجاتے ہیں ؎ حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ ، گفتار زنگ ( کلیاتِ اقبال،ص457- ) اسلام میں خدا کے اسمائے صفت کی تعداد ننانوے ہے، یوں بھی اللہ تعالیٰ کو مسلمان مشیت، ارادہ، حکمت، محب، محبوب، جمال، حقیقت، خیروغیرہ کہتے ہیں، وہ ذاتِ واحد، حقیقت اخریٰ اور اِلایتجزیٰ ہست ہے۔ محی الدین عربی خدا کو حقیقت نفسی الامری کے طورپیش کرتا ہے جو تصوف کی حدود میں آتی ہی نہیں اور ہر کوئی اس کا تصور اپنی دینی،اخلاقی اور علمی اہلیت کے مطابق کرتا ہے۔ حق، حسنِ ازل، ہستیٔ مطلق، یزداں، ذاتِ الٰہی سب الفاظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سامی مذاہب میں خدا کا تصور شخصی اورمجرد ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا کے لیے الٰہ کے لفظ کو ترجیح نہیں دی کیونکہ اس کی جمع آلہ کی صورت میں موجود ہے۔ وہ اللہ کا لفظ مناسب سمجھتا ہے جس کی’’انفرادیت ان صفات سے مترشح ہوتی ہو جوسورہ اخلاص میں بیان کیے گئے ہیں کہ وہ واحد اور صمد ہے۔ تولید کے انداز کی آفرینش نہ اس کے جوہر اور ماخذ میں ہے اور نہ ہی اس سے سرزد ہوتی ہے اور موجودات کی کوئی شے اس کے مماثل یا اس کی ہمسر نہیں۔‘‘(37) اقبال نے اپنے دوسرے خطبے مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ میں ہستیٔ باری تعالیٰ کے ادراک کے لیے تین دلائل کا ذکرکیا ہے۔ ایک، کائنات سے استدلال دوسرے غایتی استدلال اور تیسرے وجودیاتی استدلال۔ پھرخودہی ان دلائل کو اس طرح رد کیا ہے کہ کائنات کے مظاہر میں علّت و معلول کے سلسلے میں علّت العلل کاتصور لابدی ہے جو کسی اورعلّت کا معلول نہیں ہوتا جسے ذاتِ واجب الوجود یا ہستیٔ مطلق سمجھنا چاہیے۔لیکن قانونِ تعلیل کے آخر میں یہی اصول ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں معطّل کردیاگیا ہے۔ علّت اور معلول کا ایک دوسرے پرانحصار خداکو کائنات کا محتاج کردیتا ہے اور اس طرح خدا ہستیٔ مطلق نہیں رہتا۔ کائنات کی تنظیم اور اس کے مقصد سے صانع اورمصنوع کا تصورابھرتا ہے اور اس سے خدا کی خالقیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ وہ کائنات کے کارخانے کے باہرایک صنّاع ،کاریگریا ناظم ہوکررہ جاتا ہے وجودیاتی استدلال میں ہستیٔ کامل کے تصور میں اس کے وجود کا فقط تصور کیاجاتا ہے ضروری نہیں کہ تصوراتی خدا کو حقیقت میں موجودثابت کیاجاسکے۔ تصوراور وجود میں ہمیشہ ایک ناقابلِ عبورخلیج حائل ہوتی ہے۔ یہ تینوں دلائل اس لیے خدا کے اثبات سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ عقل و فکر کو موجودات پرخارج سے عائدکیاجاتا ہے۔ حالانکہ فکر اپنا موضوع اور مواد خودبھی پیداکرسکتی ہے۔ فلک مظاہر کے اندر اساسی اور تخلیقی قوت کا نام ہے۔ اصل شہودوشاہد و مشہودایک ہیں لیکن فکر کا اندازانھیں علیحدہ علیحدہ کردیتا ہے۔ صحیح نظریۂ وجود وفکرقرآن کی اس تعلیم سے مرتب ہوتا ہے کہ’’ایک ہی ہستی واحد ہے جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور اس ظاہروباطن میں دوئی نہیں‘‘ہوالظاہر ، ہوالباطن، ہوالاول، ہوالآخر۔(38) اس کے بعد اقبال نے اپنے اس خطبے میں ہستی کی تین سطحوں مادہ، حیات اور نفس یا شعور کے حوالے سے طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات جیسے جدید علوم کی روشنی میں ذات باری تعالیٰ کے ادراک کے لیے مدلّل بحث کی ہے۔(39) ذاتِ باری کے بارے میں ابتدائے آفرینش سے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک ماورائی یعنی خدا کائنات سے ماوراء اور سریانی جس کی رو سے خدا کائنات میں جار ی و ساری ہے۔(40) اقبال عنفوانِ شباب میں وحدت الوجود کے معروف نظریے کے قائل تھے اور نفیٔ ہستی اور فنافی اللہ پر یقین رکھتے تھے ؎ میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں ( کلیاتِ اقبال،ص132- ) وہ حسنِ ازل کو ہمہ گیر اور کائنات کے مظاہر میں جاری و ساری سمجھتے تھے۔ ان کی بانگ ِدرا کی شاعری اسی خیال سے لبریز ہے ؎ دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر نور سے جس کی ملے سازِ حقیقت کی خبر ( کلیاتِ اقبال،ص81- ) دلِ ہر ذرّہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی ( کلیات اقبال،ص143- ) بعدازاںنطشے، شوپنہار، جیمزوارڈ، وائٹ ہیڈ، برگساں اور دیگرمغربی مفکرین کے افکارونظریات کے مطالعے نے ان کے تصورِ ذات باری کو ازسرِنو ترتیب دینے میں اپنے اثرات ظاہرکیے۔ برگساںباطنیت اور ارتقائی تخلیق کا ترجمان تھا۔ دوسری طرف ارتقائے بروزی کے شارحین لائڈمارگن اور الیگزینڈر نے بھی اقبال کو متاثرکیاجن کے خیال میں ارتقاء کا عمل لامتناہی اور مسلسل ہے اور کسی خاص نقطے پرپہنچ کر اس کے رک جانے کا امکان نہیں ہے۔ اقبال کا تصورِ ذات باری سریانی اور ماورائی خدا کے نظریات کا امتزاج ہے۔ ان کے معترضین کا کہنا ہے کہ’’اقبال اپنے فکرونظر کے کسی دورمیں ماورائی نہیں تھے۔ شروع شروع میں وہ وجودی سریانی تھے بعدمیں ارتقائی سریانی ہوگئے۔(41) لیکن اقبال کا کہنا یہ ہے کہ حقیقتِ مطلقہ جو کائنات میں ساری و جاری ہے انائے مطلق ہے لیکن ذاتِ باری کے مذہبی تصور کے لیے ضروری ہے کہ خدا کائنات سے ماورا ہواور شخصی ہو۔ اس کے نزدیک شخصیت اور ماورائیت لازم و ملزوم ہیں۔(42) تاہم’’فردِکامل صرف خدا ہے جس کے اندر سے اس کا غیرصادرنہیں ہوسکتا…الٰہی زندگی ایک ناقابلِ تقسیم کل ہے جو معرضِ شہود میں آکر تقسیم پذیردکھائی دیتی ہے‘‘(43) لیکن’’خدا کے ہاں فکروارادہ ،فعل اور شیٔ مخلوق سب ایک ہیں…ہستیٔ مطلق ایک معقول اور منظم نظام ہے جس کے اندر ایک ضوی وجود کی طرح ہر حصے کی ہستی دوسری ہستی سے منسلک اوراس میں مدغم ہے اور اس تمام کل کی ایک مرکزی انا ہے۔‘‘ خداکاادراک اگرانسان مظاہرِفطرت سے کرنے کی کوشش کرے تو کامیاب نہیں ہوگا اس لیے’’جس چیز کوہم فطرت کہتے ہیں وہ حیات الٰہی کا ایک تیز رولمحہ ہے…قرآن کے نگاریں الفاظ میں وہ عادت اللہ ہے‘‘(44) یہ صرف وجدان ہی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ’’حیات ایک مستجمع انا ہے‘‘(45) اس مستجمع، مختتم انااور اس کی تخلیق شدہ کائنات میں کہیں رخنہ نہیں۔’’فطرت کا علم خدا کی سیرت یاسنّت کا علم ہے، مشاہدہء فطرت میں اہم انائے مطلق کے ساتھ ایک گہرا رابطہ پیداکرتے ہیں۔‘‘(46) اگر وقت کی ماہیت پرغورکیاجائے تو حقیقتِ مطلق اور زمان ِمطلق ایک نظرآتے ہیں جس کے اندر فکرِحیات و کائنات ایک دوسرے میں داخل اور پیوست ہیں۔‘‘(47) شخصی تصورِ ذاتِ باری میں انسان خداکواپنی شکل و صورت پرقیاس کرتا ہے۔عہدنامۂ قدیم میں بھی ایک آیت ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پربنایا۔ علم الکلام کے مطابق یہ تشبیہہ ذاتِ الٰہی پرزندگی کے حوالے سے وارد نہیں ہوتی۔ زندگی کے تمام کوائف اسی سے مترشح ہوتے ہیں اس کا کمال اس کی لامختتم خلاقی میں سے ہے۔ یہ کسی ایسے نصب العین کے حصول کی کوشش سے عبارت نہیں ہے جوخداکی ذات سے باہرہو۔ انسان اپنی سعی میں ناکام ہوسکتا ہے جبکہ خدا اپنے تخلیقی امکانات میں ناکامی سے ناآشنا ہے۔ اس کی ہستی کی جامعیت اور اس کا کمال تخلیقِ مسلسل میں ہے۔(48) ’’خدا اولاًخالق ہے لیکن ایسا خالق جو پہلے سے مقرر کردہ نقشے کے مطابق تخلیق کرے وہ صحیح معنوں میں خالق نہیں رہتا۔‘‘(49) ’’ اسلام کے مطابق خدا ایک زندہ اورمتحرک ہستی ہے جو اپنی مرضی بدل بھی سکتی ہے…انائے مطلق کا لاانتہا ہونا اس کی تخلیقی اہلیتوں کے لامحدود ہونے سے عبارت ہے جس کا اظہارجزوی طورپر ہماری کائنات میں ہوا ہے…اس سے لامحدود سلسلے پیداہوتے ہیں لیکن وہ خودان میں محدود نہیں۔ خدا کی سرشت تخلیق ہے۔ انائے مطلق سے صرف انا ہی پیدا ہوتے ہیں خدا اشیاء نہیں تخلیق کرتا بلکہ افراد یا انا تخلیق کرتا ہے۔ الٰہی قوت کا ہر ذرہ خواہ وہ درجۂ حیات میں کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو ایک انا ہے خدا ایک دکی سیلان ہے، کل یوم ہوفی شانo اور اس کے تمام مظاہراور مخلوقات اس لیے ہیں کہ وہ بھی اپنے طورپر تخلیق کریں۔عشقِ حیات ہرچیز سے صادرہورہا ہے۔ افلاک میں بھی وہی ہے جوخاک میں ہے اوراپنی تمام تغیر پذیراورتمام جدوجہد کے باوجود خدا کی ذات کے اندر ایک سکون ِازلی ہے۔‘‘(50) اقبال کی ابتدائی نظموں میں تصوف اور خصوصاً اس کے اہم نظریے’’وحدت الوجود‘‘کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ تصوف ان کے گھریلوماحول میں رچا ہوا تھا۔ اس امر کے شواہد بھی موجود ہیں کہ وہ خود سلسلۂ قادریہ سے بیعت تھے۔ بعدازاں تعلیمی مراحل اور تحقیق نے بھی انھیں تصوف سے بہت قریب کردیا۔ ان کے ابتدائی اشعار ہیں کہ ؎ کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ( کلّیاتِ اقبال،ص111- ) منصور کو ہوا لبِ گویا پیامِ موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی ( کلّیاتِ اقبال،ص128- ) بعد میں تحقیقی مقالہ فلسفۂ عجم پرمزید مطالعے اور غوروفکر سے تصوف کے مروجہ عقائد کے بھیانک اثرات منکشف ہوئے تو وہ اسرارِ خودی کے اوّلیں دیباچے میں ان مہلک اثرات کے خلاف احتجاج پرمجبورہوگئے۔ وحدت الوجود کے مطابق خدا اور کائنات ایک ہی ہیں کیونکہ وجودِ حقیقی صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظرآتا ہے وہ صفاتِ خداوندی کی تجلّی ہے اور تجلّی کا اپنی جگہ کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ اس شے کا حصہ ہوتی ہے جس کا عکس ہو اس لیے کائنات میں کوئی بھی چیز خدا کے وجود سے الگ نہیں۔ اس فلسفۂ وحدت الوجود سے اقبال کے اختلاف کی حدود اس طرح متعین کی جاسکتی ہیں: ۱۔ فلسفۂ وحدت الوجود حقیقت کا ایک تکمیل شدہ تصور پیش کرتا ہے جب کہ فلسفۂ اقبال میں یہ کائنات ابھی تکمیلی مراحل سے گزررہی ہے۔ ۲۔ فلسفۂ وحدت الوجودجیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے ایک فلسفۂ وحدت ہے جبکہ اقبال کا نقطۂ نظر کثرت کا ہے۔ ۳۔ فلسفۂ وحدت الوجودمیں انسانی ارادہ کی آزادی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال انا کی حقیقی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ (51) مثنوی اسرارِخودی کے دیباچے میں جو اس کے اوّلین ایڈیشن میں شامل تھا۔ اقبال نے سری شنکر کی تعلیمات کا ذکرکیا ہے جو ترکِ عمل کو ترکِ کل نہیں سمجھتا بلکہ ’’عمل اور اس کے نتائج سے بے نیازی کا قائل ہے۔سری شنکر نے اس تصور کو منطقی طلسم میں الجھادیا۔ محی الدین ابن عربی اور سری شنکر کی تعلیمات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مسئلہ وحدت الوجودکے اثرات کے لیے دماغی قوتوں سے کام لیا ہے۔ ایرانی شعراء نے اس معاملے میں دل کو رہنما کہا ’’انھوں نے جُزو اور کُل کا دشوار گزاردرمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کرکے رگِ چراغ میں خونِ آفتاب کا اور شرار ِسنگ میں جلوۂ طورکا بلاواسطہ مشاہدہ کیا…ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخرکار نتیجہ یہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباًتمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کردیا ‘‘جبکہ’’ مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک ایک نہایت زبردست پیغامِ عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک اناایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہوسکتی ہے۔‘‘(52) اقبال انسانی انا کے ارتقاء کے قائل ہیں تاحدیکہ انسانی انا ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ انائے مطلق سے ہم کلام ہوجائے۔ عجمی صوفیا کی طرح وہ تکمیلِ ذات اسے نہیں کہتے کہ انسانی انا ایک قطرۂ حقیر کی طرح انائے مطلق کی وحدت کے بحرِ بے پایاں میں جذب ہوجائے بلکہ اسے کہتے ہیں کہ اپنے اندر جہاں تک ہوسکتا ہے صفاتِ ربانی پیداکرے، تسخیرِ کائنات کا فریضہ انجام دے اور تخلیق میں خدا کا ہم باز ہو۔‘‘(53) گویا اقبال کے خیال میں وحدت الوجود کافلسفہ ایک طرف توہندوفلسفہ کا عکس ہے اور دوسری طرف ایرانی شعراء کے تخیلات کا کارنامہ ہے۔ اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے نام خط میں لکھا ہے کہ’’ حضرت امام ربّانی مجدّدالف ثانی ؒنے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ گستن اچھا ہے یا پیوستن یعنی فراق اچھا ہے یا وصال۔میرے نزدیک گستن عین اسلام ہے اور پیوستن رہبانیت یا غیراسلامی تصوف ہے اور میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔‘‘(54) اقبال وحدت الوجود کے نظریے کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ قطعاً غیراسلامی ہے۔محی الدین ابن عربی کا قدیم ارواح اور تنزلاتِ ستہ کے مسائل بھی اسی سے منسلک ہیں۔ اخبار’ وکیل ‘امرتسر کے15 جنوری1916 ء کے شمارے میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ’’مسئلہ وحدت الوجود گویا مسئلہ تنزلاتِ ستہ کی فلسفیانہ تکمیل ہے بلکہ یوں کہیے کہ عقلِ انسانی خودبخود تنزلات ِستہ سے وحدت الوجود تک پہنچتی ہے، اکثرصرف اس مسئلے کے قائل ہیں بعض اس طرح کہ وحدت الوجود ایک حقیقت نفس الامر ہے اور بعض اس طرح کہ یہ محض ایک کیفیت قلبی کا مقام یانام ہے۔‘‘(55) پھراقبال نے اس مسئلے پراپنا نقطۂ نظر اس طرح پیش کیا ہے کہ’’ میرا مذہب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظامِ عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے۔ وہ جب چاہے گا اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔‘‘(56) اقبال کو صوفیا کے زہدوتقویٰ سے اختلاف نہ تھا بلکہ وہ تصوف میں شامل اس مابعدالطبیعاتی عنصراور غلوفی الزہد کے خلاف تھا جسے وہ اسلام دشمنی سمجھتاتھا۔ ایسا تصوف ایک نظامِ تمدن اور نظامِ فکر کی صورت اختیارکرگیاتھا اور زہدوارتقاء کے دائرے سے نکل کر ایک نظریہ، ایک فلسفہ بن گیاتھا جس میں ناتوانی مسلمان کے لیے حسین و جمیل تھی اور ترکِ دنیا موجبِ تسکین ہوگیاتھا۔ اس خانقاہی اورترکِ دنیا کے تصورات میں ضعیف اقوام اپنی ہستیٔ کامل اور شکست خوردگی کا جواز ڈھونڈتی ہیں۔ ایسے تصوف کا اظہار جب شاعری اور ادب میں ہوتا ہے تو طبیعتو ں کو پست کردیتا ہے۔ جبکہ اسلامی تصوف دلوں کو تقویت دیتا ہے اور حوصلوں کو بلندرکھتا ہے اور اس کے مثبت افکار ادب اورشاعری میں بھی اپناجلوہ دکھاتے ہیں اور ایسے تصوف کے اثرکو دوچندکردیتے ہیں۔ اقبال قرآن سے روشنی حاصل کرتاہے اور پوری دینی بصیرت کے ساتھ صوفیاء کے ان عقائد سے اتفاق کرتا ہے جنہیں اسلام کے مطابق سمجھتاہے اور ان عقائد سے اختلاف کا اظہارکرتا ہے جو غیراسلامی ہیں۔ صوفیااور اقبال کا پہلا مشترکہ نظریہ ادراکِ حقیقت کانظریہ ہے۔ دونوں کے خیال میں ادراکِ حقیقت کا ذریعہ عقلی استدلال نہیں بلکہ وجدانِ عشق اور عشق سے پیدا شدہ وجدان ہے۔ یہاں دونوں ایک ہی راہ پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک جذبۂ پیچ و تاب اور عشق و ایمان ہی نصب العین تک پہنچاتے ہیں۔ دوسرا اشتراک نظریۂ مقامِ آدمیت اور شرفِ انسانیت کا نظریہ ہے۔ صوفیوں کے نزدیک بھی انسان بہت بڑا ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ اقبال کا بھی یہی نظریہ ہے کہ انسان بہت بڑا درجہ رکھتا ہے لیکن بڑائی کی وجوہات دونوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ صوفیوں کے نزدیک انسان اس لیے بڑا ہے کہ اپنی ابتدا میں ازل سے پہلے کائنات وجود میں نہ آئی تھی۔ یہ بھی خدا کا ایک حصہ بلکہ خدا ہی تھا۔اقبال کے خیال میں یہی مخلوق ترقی پذیر ہے اور اس کی خودی سب سے زیادہ فطرت کی تسخیر کی قوت رکھتی ہے اور انسان اپنی پستیوں سے نکل کر ربوبیت تک پہنچ جاتا ہے جو طلسمِ گنبدِ گردوں کو توڑسکتا ہے۔ جس کی نگاہ سے تجلّیات میں خلل پڑ سکتا ہے اور جس کے عشق کی ایک جست زمین و آسماں کی بے کرانی کا قصّہ تمام کرسکتی ہے۔ ایک اور نظریہ جس میں اقبال اور صوفی تھوڑی دور تک ساتھ چلتے ہیں وہ نیچر کا تصور ہے۔ شروع شروع میں اقبال کا نیچر کا تصور بھی صوفیوں سے ملتا جلتا تھا۔ابتدا میں وہ فطرت کی ہر چیز میں حسنِ ازل کی جھلک دیکھتا تھا۔ اقبال کے بعد کے تصور کے مطابق کائنات مادی وجود ہے۔ جو انسان کی کوشش، علمی چھیڑچھاڑ اورانسان کے تصرف کے لیے تخلیق ہوا ہے۔ اگرچہ ان مادی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی پہلوبھی شامل ہے جس میں وہ تھوڑی دیر تک صوفیوں کے ساتھ چلتا ہے۔اقبال ان بزرگان دین اور صوفیاء سے گہری عقیدت رکھتا ہے جنہوں نے اسلام کا دائرہ وسیع کیااور جو گمراہی کے اندھیروں میں ہدایت کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ ان کے کلام میں جابجاان صوفیا مثلاسنائی، عطارؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ اور حضرت ربانی مجددالف ثانیؒ سے عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے اور وہ خود کو مولانا روم کا مرید کہتے ہیں اور ان سے اکتسابِ فیض کا برملا اعتراف کرتے ہیں ؎ صحبتِ پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش لاکھ کلیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف ( کلّیاتِ اقبال،ص373- ) اقبال ڈرامے کا کوئی خاص حامی نہ تھا کیونکہ ان میں کرداروں کی نقالی کی جاتی ہے لیکن اس نے اپنے مجموعۂ کلام میں کئی نظمیں تمثیل کے پیرائے میں لکھی ہیں جن میں مکالمہ نگاری کے فن کا مؤثر استعمال کیاگیا ہے اور اس میں کردار بھی موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر کردار وہ ہیں جو مذہبی اور قرآنی حوالوں سے ہمارے مدرکات اور محسوسات کا حصہ بن چکے ہیں جیسے حضرت خضر ؑ، ابلیس، ابلیس کے مشیریاچیلے، روحِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، مہدی، مولانارومی اور مریدہندی وغیرہ، شکوہ اور جوابِ شکوہ بھی توخدااوربندے کے درمیان مکالمے کی ہی صورت میں ہے۔ فردوس میں ایک مکالمہ بھی ہاتف اوراقبال کے درمیان ہے۔ شبِ معراج بھی تو ایک روحانی واردات ہے ؎ رہِ یک گام ہے ہمت کے یے عرشِ بریں کہہ رہی ہے یہ مسلماں سے معراج کی رات ( کلّیاتِ اقبال،ص278- ) اور یہ شعر تو زبان زدِ عام ہے ؎ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں اور تکوینِ کائنات کا واضح حوالہ اس شعر میں آیا ہے جو اس پوری غزل میں شامل ہے ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ( کلیاتِ اقبال،ص364- ) اور اب تو دنیا جان گئی ہے کہ کائنات واقعی ابھی ناتمام ہے اور اس میں کئی اور کائناتوں کا اضافہ ہوتاچلا جارہا ہے۔ اس خیال کی بنیاد بگ بینگ کااور Push اورPull کا نظریہ ہے۔ اقبال نے تشکیل ِجدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے دیباچے میں اس امرکی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’وہ دن دور نہیں کہ مذہب وسائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوجوسرِدست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔(57) خطبات میں ہی کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ محسوس بے شک حقیقی ہے لیکن حقیقت محسوسات تک محدود نہیں۔(58) البتہ اقبال تو مابعدالطبیعیاتی کرداروں کو بھی اپنی شاعری کے حوالے سے حقیقی زندگی کے ارتقا کا وسیلہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ؎ دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار ( کلیاتِ اقبال،ص557- ) یہ بیان بھی اقبال کے اس خیال سے مطابقت رکھتا ہے: پیکرِ قوتِ مہدی کا انتظار چھوڑو،جائو اور مہدی کی تخلیق کرو (59) جنت، دوزخ، برزخ، نبوت، رسالت، معرفت اور سلوک کے کتنے ہی مقامات ہیں جو مادی بھی نہیں ہیں مگر ہم انھیں حقیقی سمجھتے ہیں اور یہ معاملات اقبال کے قلم کی دسترس میں رہے۔ یعنی مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری بھی ممکن ہے۔ دوسری طرف اقبال کا یہ خیال بھی ہے کہ شاعری کا منطقی ہوناضروری نہیں۔ حالانکہ شاعری رفعتِ تخیل کی پیداوار ہے اس لیے اس کا جمالیاتی پہلو زیادہ پیشِ نظر رہناچاہیے۔ کسی شاعر کی عظمت ان اشعار سے طے نہیں ہوتی جن میں سائنسی صداقتو ں کی ترجمانی ہوئی ہو بلکہ اقبال نے شاعری میں کسی قدر ابہام اور مخفی پیرائے کی قدردانی کا سبق دیا ہے، کیونکہ اس طرح وہ جذبات کے لحاظ سے زیادہ عمیق ہوتا ہے۔ دوسری طرف اقبال معاشرتی ارتقاء کی خاطر معجزات پرایمان کوبڑی حد تک لازمی محسوس سمجھتا ہے کیونکہ ’’اس قسم کا اعتقاد مافوق الفطرت احساس کو شدیدترکردیتا ہے…اور اس سے معاشروں کے اتحادکو تقویت ملتی ہے۔‘‘(60) اقبال کا مزاج چونکہ حددرجہ تجزیاتی، عقلی اور استدلالی رہاتھا اس لیے ایک مرحلے پر وہ مابعدالطبیعیات سے کچھ اکتاہٹ بھی محسوس کرنے لگتا تھا کیونکہ اس سے اسے مسائل کی عملی صورتوں میں ان معاملات کی اصل قدروقیمت جانچنے کے لیے نظری تحقیق کی طرف رجوع کرناپڑجاتاتھا لیکن اس کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور تھا کہ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مابعدالطبیعیات سے مطلق پیچھاچھڑالینا ناممکن ہے۔‘‘(61) مندرجہ بالا تمام تصریحات، حوالہ جات اور مثالوں سے واضح ہے کہ اقبال واقعی ترجمانِ حقیقت کہلانے کا حق دار تھا۔ اس کی فکراور اس کی شاعری سراسر حقیقت کی تلاش بلکہ حقیقتِ اولیٰ تک رسائی سے عبارت تھی ؎ مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ ( کلیاتِ اقبال،ص458- ) اقبال کی زندگی کا کوئی لمحہ بے کار نہیں گزرا اس لیے اس کے ہاں افکار، نظریات اور خیالات کی کثرت ہے لیکن اس کے افکار کی کثرت میں ایک وحدت بھی مضمر ہے اور وہ ہے حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری۔ اقبال نے صرف حقیقت نگاری ہی نہیں کی بلکہ اس تصور میں براہِ راست شعور ی اور غیرشعوری طورپرگراں بہا اور قابل قدر اضافے کیے ہیں کیونکہ وہ صحیح معنوں میںایک آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور محققانہ نظررکھتا ہے۔ وہ کسی کی اندھادھند تقلید نہیں کرتا بلکہ حقیقتوں کو اپنی نظر سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار ہے مگر مثالیت پسندبھی ہے۔ تاہم اس کی مثالیت پسندی میں انتہاپسندی نہیں، توازن پایاجاتا ہے۔ حواشی و حوالہ جات 1- Professor Mumtaz Ahmed: Literary Criticism, Ch.Ghulam Rasool and Sons, Lahore, 1989; P.598 -2 ( ڈاکٹر)سہیل احمدخان،محمد سلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات؛شعبۂ اردو، جی سی یُونیورسٹی ،لاہور ،2005 ، ص162-163- -3 قومی انگریزی- اردو لغت؛مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع پنجم، 2002 ، ص967- -4 ایضاً:ص967- -5 ایضاً:ص468- -6 ایضاً:ص1240-41- -7 ایضاً:ص1255- -8 (i)(پروفیسر)ممتازاحمد:کتاب مذکور:ص598- (ii)لغت مذکور؛ص1696- -9 (i)ایضاً:ص586- (ii)ایضاً:ص1370- 10. J.A. Cuddon: The Penguin Dictionary of Literary Terms and Literary Theroy; Penguin Books; London; 1999; P.728 11- Professor Mumtaz ahmed: op.cit. P.598. -12 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1-(ادبیات)قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نئی دہلی،2003 ء ص224- -13 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان۔محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین):کتاب مذکور،ص۔164-165 -14 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1-(ادبیات)مذکور،ص42- -15 ایضاً:ص -16 ایضاً:ص411-412- ۔ -17 ایضاً:ص ۔98-99۔ -18 (فقیر)سیدوحیدالدین:روزگارِفقیر(جلددوم)،فقیرسیدوحیدالدین ،کراچی، باردوم، 1965،ص94- ۔ -19 ایضاً:ص91- ۔ -20 بحوالہ محمدرفیق افضل(مرتب):گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقاتِ پاکستان،لاہور، طبع سوم1986 ئ،ص254-255- -21 (فقیر)سیدوحیدالدین:کتاب مذکور،ص۔102-103 -22 ایضاً:ص۔108-109 -23 بحوالہ ڈاکٹر جسٹس جاویداقبال(مرتب)(ڈاکٹرجسٹس):شذراتِ فکرِاقبال، مجلس ترقیٔ ادب،لاہور،طبع دوم، 1983،ص89- ۔ -24 محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور؛ص85- ۔ -25 ایضاً:ص86- ۔ -26 (i)بحوالہ اقبال :شذراتِ فکرِاقبال،مذکور،ص90- (ii)محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور،ص240- -27 عطیہ بیگم؛اقبال، اقبال اکادمی، لاہور،1981 ء ص15-۔1981۔ -28 (ڈاکٹر)افتخاراحمدصدیقی:دیباچہ شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص5- -29 اقبال:شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص84- ۔ -30 اقبال:تشکیلِ جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ ( مترجم سید نذیر نیازی)؛بزمِ اقبال،لاہور، طبع سوم، 1986 ئ، ص233- ۔ -31 ایضاً:ص233- ۔ -32 (فقیرسید)وحیدالدین:کتاب مذکور؛ص64- -33 (پروفیسرڈاکٹر)رفیع الدین ہاشمی:اقبالیات:تفہیم و تجزیہ:اقبال اکادمی پاکستان: لاہور،طبع اوّل2004 ئ،ص۔155-169 -34 (ڈاکٹر)اقبال: شذراتِ فکرِ اقبال مذکور، ص۔149 ۔ -35 اقبال: تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ مذکور،ص88-89- -36 فقیر سیدوحیدالدین:کتاب مذکور،ص۔89-90 ۔- -37 اقبال: ’’تصورِ باری تعالیٰ اور دعاکامفہوم‘‘تیسراخطبہ؍فکرِاقبال ازڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم، بزمِ اقبال،لاہور ،طبع چہارم ، 1968 ء ، ص721 - -38 اقبال:مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ’’دوسرا خطبہ؍کتاب مذکور،ص۔693-695 ۔ -39 اقبال:ایضاً،ص696-720 ۔ -40 (سید)علی عباس جلالپوری:اقبال کا علم الکلام، مکتبۂ فنون، لاہور،طبع اول، 1972،ص61- ۔ -41 ایضاً:ص73- -42 ایضاً:ص73- -43 اقبال:تیسراخطبہ و کتاب مذکور،ص721- اور727 -44 ایساندروبوزانی :اقبال کا فلسفۂ مذہب اور یورپ،مشمولہ ماہِ نو ستمبر1977 ئ، ص141- -45 اقبال:دوسرا خطبہ وکتاب مذکور،ص717- -46 ایضاً:ص715- -47 ایضاً:ص719- -48 (ڈاکٹر)خلیفہ عبدالحکیم:اقبال کا تصورالٰہ،مشمولہ ماہِ نوستمبر1977 ئ،ص136- -49 ایضاً:ص137- -50 اقبال:دوسرا خطبہ و کتاب مذکور،ص720- -51 منظوراحمد:اقبال اور تصوف:چندتنقیحات:مشمولہ منتخب مقالاتِ اقبال ریویو، مرتبہ:ڈاکٹروحیدقریشی، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،طبع اوّل 1983 ء ،ص37- -52 اقبال: دیباچہ اسرارخودی اوّلین ایڈیشن مشمولہ مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیدعبدالواحد معینی،آئینۂ ادب ،لاہور،ص195-196- -53 (سید)عابدعلی عابد،شعرِاقبال،بزم ِاقبال،لاہور، طبع دوم،1977 ، ء ص۔230-231 -54 اقبال:مکتوب بنام حسن نظامی مشمولہ انوارِاقبال،مرتّبہ: بشیراحمدڈار، اقبال اکادمی، لاہور، طبع دوم1977 ئ، ص181- -55 اقبال:اسرارِخودی اور تصوف مشمولہ مقالاتِ اقبال،مرتّبہ:سیدعبدالواحدمعینی، آئینہ ادب،لاہور،1982 ئ،ص۔202-203- ۔ -56 اقبال: مضمون و کتاب مذکور،ص203- ۔ -57 اقبال:خطبات مذکور، مترجمہ سید نذیر نیازی،ص40- ۔ -58 ایضاً:ص323- -59 (ڈاکٹر جسٹس)جاویداقبال(مرتب):(ڈاکٹر)افتخاراحمدصدیقی(مترجم): کتاب مذکور،ص67- ۔ -60 ایضاً:ص145- ۔ -61 ایضاً:ص80- ۔ ٭٭٭ باب سوم : حصہ چہارم وجودیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء دوسرے نظریہ ہائے فکر کی طرح وجودیت اپنا ایک سائنسی نظام رکھتی ہے، جو تہذیبی روایتوں کو ان کی مخصوص حالتوں میں ایک خاص شکل دیتی اور پھر اس خاص شکل کے ذریعے اپنا مدعابیان کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وجودیت ہرقسم کے تحریری، منطقی اور سائنسی فلسفے کی نفی کرتی ہے اورعقل کی مطلقیت سے انحراف اختیارکرتی ہے تاہم اس کا منشایہ ہے کہ فلسفے کوفرد کی زندگی، تجربے اور اس تاریخی صورتحال سے مربوط ہوناچاہیے جس میں فرد خودکوپاتا ہے کیونکہ یہ ظن و تخمین کا علم نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات ہے۔ سب کچھ وجود میں مضمر ہے۔ وجود اعلان کرتا ہے کہ وہ معروضی دنیا کے بجائے صرف اپنے تجربے کو حقیقی جانتا ہے۔ اس کے نزدیک ذات ہی حقیقی ہے۔ وہ اپنی بے مثال انفرادیت پراصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی عمومی خصوصیات کے مقابلے میں اپنے وجود کو اساسی حیثیت دیتا ہے۔ ’’وجودیت کا مرکزی تصور یہ ہے کہ آدمی وہی کچھ بنتا ہے جو وہ بننا چاہے۔ خدا یامعاشرے کی طرف سے بطور جبراس پر کوئی تقدیر مسلط نہیں کی گئی۔ آدمی کے پاس اختیار ہے اور ساتھ ہی ذمہ داری کا وہ احساس جو اختیار کا عطاکردہ ہے۔ اگر وہ اپنے لیے کوئی راہِ عمل چُنتا ہے یا باہرکی طاقتوں کے سامنے سر جھکاکرمجہول انداز میں جیے جانے پرراضی ہے تو قابلِ حقارت ہے۔‘‘(1) انسان ہمیشہ اسی الجھن میں گھِرا رہتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اسے اس دنیا میں کون لایا ہے؟ اس کا خالق اس کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے؟ اسے اس دنیا میں لانے سے پہلے اس سے مشورہ کیوں نہیں کیاگیا؟ اسے اگرموت ہی سے ہمکنار ہونا ہے تو پھرزندگی کا جواز کیا ہے؟ اس کے ذاتی فیصلوں کی حیثیت کیا ہے؟ اس کامقصد کیا ہے؟ انسان اور فطرت کی مشترک اقدارکیا ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات سے اُلجھتا ہوا انسان اپنے مرکز کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی اعلیٰ صداقت کا تعین اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنی حیاتیاتی قدریں متعین نہیں کرتا۔ انسانی وجود کے معنی اور اہمیت کی بنیادی دریافت وجودیت کاجوہر ہے جس کا سلسلہ آزادیٔ فکرونظر کی نظریاتی کوششوں سے جوڑا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اس کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے: "It applies to a vision of the condition and existence of man, his place and function in the world and his relationship, or lack of one with God." (2) یورپ کی فکری تاریخ میں فلسفۂ وجودیت کو امتیازی مقام جنگِ عظیم اوّل کے بعد حاصل ہوا۔ عقل پرستی کے شدیدرجحان اورسائنس پربے پناہ اعتماد نے روایتی فکر کی ایک خاص درجہ بندی کررکھی تھی جس میں انسان کے بجائے اشیاء کی ضرورت پر زوردیاجارہاتھا۔ چنانچہ صنعتی معاشرے کی عدم شخصیتی کو جنم دینے والی قوتوں کے خلاف ایک فکری بغاوت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ وجودیوں نے اندازہ کیا کہ فرد کو ان عناصر سے محفوظ رکھنا ضروری ہے جو اس کی آزادی سلْب کررہے ہیں۔ مروجہ نظام فرد کی انفرادیت کے لیے شدید نقصان دہ ہے جو فرد کوایک کل پرزے کے طورپر استعمال کررہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں تنہائی اور بیگانگی کاعمل دخل بڑھ رہا ہے۔ انسان مذہب سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ اس کے چاروں طرف تاریکی ہے۔ اخلاقیات زوال پذیر ہے۔ چنانچہ اس صورتحال کے خلاف ردِّعمل شروع ہوا۔ وجودیت کے پیروکاروں نے فردِواحد او راس کے گوناگوں مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایااور یوں عوامی سطح پراس فلسفے کو قبولیت کادرجہ عطاہوا۔ وجودیوں نے اپنے افکارکولوگوں تک پہنچانے کے لیے فلسفیانہ مباحث سے زیادہ شاعری، فکشن، تنقید، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرویوز جیسے وسیلوں سے کام لیا۔ چنانچہ یہ فلسفہ جلد ہی ایک تحریک کی صورت اختیارکرگیا۔ بلکہ فیشن کے طورپر وجودی کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ نیو انسائیکلوپیڈیا برٹینکامیں لکھا ہے: ’’ مختلف اور مخالف اطراف میں ترقی کے بعدوجودیت نے اپنی فلسفیانہ اساس بنالی اور عوامی تہذیب کو اپنی طرزِفکر کے ہتھیاروں اور تکنیکی ہتھکنڈوں سے ایسی بہت سی اصطلاحات کے معنی سمجھائے ہیں جو ابھی تک واضح نہیں تھیں۔ مثال کے طورپر تشکیک، موقع، حالت، انتخاب، آزادی اورمنصوبہ وغیرہ جیسی اصطلاحات وجودیت کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔‘‘(3) مغربی مفکروں میں ہیگل(1770-1831) نے وجودیت اور اشتراکیت کے حوالے سے بہت سے دوسرے افکار اور اپنے بعد آنے والے مفکروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہیگل نے تاریخ کے تناظرمیں جدلیاتی عوامل کی تشریح کرتے ہوئے حقیقت کو مجموعی طورپر اس کے جوہر اور اس کے وجود کے ساتھ باہم مربوط کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ’’جوہر لازماًظہورپذیرہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ کووجود میں ڈھالتا ہے۔ وجودجوہر کی موجودگی ہے اور اس لیے وجود کو اصل عناصر کی موجودگی کہاجاسکتا ہے۔ جوہرہی وجود ہے۔ اسے اس کے وجود سے ممیز نہیں کیاجاسکتا۔‘‘(4) بعدازاں ہیگل کے اس خیال کو اس کے ناقدوں نے شاہ بلوط کو گملے میں لگانے کی کوشش قراردیا۔(5) وجود کی تحریک کو اسی لیے ہیگل مخالف تحریک بھی کہاجاتا ہے جس کے سرخیل کرکے گار (Kierkegaard)،کارل مارکس (Carl Marx) ، فیورباخ (Feurbach) اور شیلنگ(Schelling) تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ تحریک انیسویں صدی کے آخرمیں پروان چڑھی۔ ان سب نے ہیگل (Hegel) کے قومیت کے نظریے کو رد کیا۔ مارکس نے فرد کو اس صورت میں آزادقراردیا اگر وہ اپنے آپ کو موجودگی کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ ایک زندہ و موجود شخص اور ایک سوچنے والے انسان کی طرح سوچنا ان کے خیالات کا محور تھا۔ سپین کے ایک وجودی مفکر اورٹیگا وائی گیسے (Ortega Y. Gasset) نے فرد کو وہی کچھ قرار دیا جو اس کے ساتھ ہوا ہو یا جو کچھ اس نے کیا ہو۔ اس کے خیال میں انسان اپنے ماضی کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے اس لیے جو کچھ بھی وہ ہے وہ اس کی تاریخ ہے اور تاریخ بھی فردہی سے ہے۔(6) کافمین نے وجودیت کو فلسفے سے بالاتر روایتی طرزِ فکر کے خلاف ایک دوسر ے سے مختلف بہت سے انحرافی افکار کے لیبل کے طورپر سمجھنے کی کوشش کی۔ وجودیت کی جامع تعریف اسی لیے مشکل ہے کہ اس میں مختلف نقطہ ہائے نظرکی فراوانی ہے۔ اس وجہ سے سارترکو کہناپڑاتھا کہ جوکوئی بھی وجودیت کا لفظ استعمال کرتا ہے وہ اس کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے الجھ جائے گا اوراب اس لفظ کے کوئی معنی نہیں رہے۔(7) وجودیت انسان کو محض ایک شے سمجھنے کے خلاف بغاوت تھی۔ اسی لیے یہ مشین اورمادیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور فرد سے متعلق مختلف تنظیموں کی سرگرمیوں پرمعترض تھی۔ اس طرح وجودیت نے انسان کے تصور کو واضح کرنے کی بجائے اوربھی مبہم کردیاتھا اور انسانی صورت ِحال تضادات اور پریشانیوں سے عبارت ہوچلی تھی جس پر محض غوروفکر سے قابوپانا آسان نہیں تھا کیونکہ فرد خوداپنے آپ سے نبردآزماہوگیا تھا۔ سارتر کے نزدیک وجودیت ایک فلسفہ یا دبستانِ فکر ہے جس کی بنیاد وجود کی مکمل تہی مغزی، کائنات کی تمام تخلیق کی نفی اور یوں تمام اخلاق کی نفی کا نظریہ ہے۔(8) وجودیت کی تعریف میں مزیداضافہ کرتے ہوئے اس نے تمام انسانی اعمال کو شکست کے اصول کے تابع کیااور اس لیے انھیں ایک جیسا یا ایک دوسرے کے مساوی قراردیا۔ انسان قوتِ ارادی اور صلاحیت کے بل بوتے پر اپنی منزل پاسکتا ہے جس سے کوئی فرد اپنی موجودگی کا پتادتیا ہے لیکن وجودیت کا یہ اصول منزل کے پہلے سے تعین پر یقین نہیں رکھتا۔ وجودیت انسان کے فطری تخیل کی رفعت کا ادراک نہیں رکھتی اور صرف اور صرف اس کی تباہی اور بربادی کی داستان سناتی ہے۔ سارتر کا کھیل Marts Sam Sepulture اسی لیے فرانسیسیوں کے اس گروہ کی ذہنی اور جسمانی اذیتوں کو بیان کرتا ہے جو مزاحمتی تحریک کے دوران فرانس کے غداروں کے ہتھے چڑھ گیاتھا۔ وجودیوں کے خیال میںانسان کسی خاص تجربے سے گزرتے ہوئے ہی اپنی زندگی کے کچھ اہم فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ سوچنا اور منتخب کرنا ہی وہ عمل ہے جس سے وجودیوں کے رویے کی وضاحت ہوتی ہے۔ تجربہ صرف محسو س کرنے اور اپنی انفرادیت کی نمائش کے لیے ان کے کام آتا ہے۔ تجربہ انسان کی اصل فطرت کو ظاہرکرتا ہے۔ تجربہ ہی دراصل انسان کو وہ لمحے فراہم کرتا ہے جس میں وہ صحیح معنوں میں موجود ہوتا ہے۔(9) وجود پر جوہرکی ترجیح، دہشت، براایمان اور آزادی، دوسرا پن اور زاویۂ نظر، استدلال کو بے چینی کا کمزوردفاع سمجھنا اور لایعنیت وجودیت کے نمایاں عناصر میں شمار ہوتے ہیں اورا نہیں وجود ی ادیبوں کی تحریروں میں تلاش کیاجاسکتا ہے۔ یہ رجحانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور ایک دوسرے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ دنیا،کائنات اور زندگی سے بے اعتنائی زندگی کے تجربات ہی سے پھوٹتی ہے اور کوئی فطری شاعر ایسے تجربات سے گزر کر ہی ایسا شعر کہہ سکتا ہے ؎ مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی (10) بے اعتنائی یا لاتعلقی کسی بحران ہی سے جنم لیتی ہے۔ لاتعلقی کے بحران نے خود ہی مختلف داخلی وارداتوں کو جنم دیا ہے جنھیں عرفِ عام میں وجودی اصطلاحات کہا جاتا ہے۔ ان وجودی اصطلاحات میں دہشت، بوریت، مایوسی، عدمیت، موت، وابستگی، شرم، امکان، اضطراب، لغویت، آزادی، ذمہ داری،ضمیرفروشی، ضمیرِ بد، نفی و انکار، واقعیت، جرم، ابہام، کراہت، بیگانگی، برہنگی، خودکلامی، خوف، غیرمعقولیت، ارادہ، التباس، نیستی، ہستی برائے ذاتِ خود، ہستی برائے دیگراں، خارجی انکار، داخلی انکار، محرک، وجودی مطالعاتی طریق کار، مظہریت،صورتحال، قدر جیسے الفاظ کثرتِ استعمال سے علامات اور اصطلاحات کی صورت اختیارکرگئے ہیں۔ وجودی انسانی کیفیات کو نفسیاتی نہیں سمجھتے کیونکہ نفسیاتی کیفیات کا سائنسی تجربہ کیاجاسکتا ہے لیکن وجودی کیفیتوں کا سائنسی مشاہدہ ممکن نہیں۔ مثال کے طورپر دہشت کو خوف سے ممیز کیاجاسکتا ہے کیونکہ خوف کا سبب خارجی ہے جبکہ دہشت کی علّت کشائی ممکن نہیں کیونکہ وہ کسی خارجی شے سے مماثل نہیں۔ اسی طرح انسانی فیصلے کا لمحہ فرد میں کرب، دہشت، اضطراب، انکار، تشویش اور غصہ پیداکرتا ہے لیکن اس کی تحلیلِ نفسی نہیں ہوسکتی۔ مایوسی کا صحیح مفہوم کائنات کی بے ثباتی اور فریب کا پردہ چاک کرنا ہے جو انسانی وجود سے ممکن نہیں۔ تاہم دہشت اور مایوسی انسانی فکر کے داخلی دائرے کو مضبوط کرتے ہوئے اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں ایما ن اور ایقان کا دریچہ وا ہوتا ہے۔ انسان اپنی مکمل بے بسی کے ہاتھوں شکستہ ہوکرنادیدہ قوتوں کے سامنے سرِتسلیم خم کرتا ہے اور خود سے بے نیاز اور بیگانہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کراہت اور شرم بھی وجودی حقیقتیں نہیں۔ دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرد موجود ہے اور کائنات کی تمام ترلغویت اوربدمزگی کے باوجود اس سے چھٹکاراممکن نہیں۔ انسانی سچائیوں اور انسانی برائیوں کے ٹکرائو سے ابہام پیداہوتا ہے۔ چونکہ ہستیٔ موجود کو زندگی کے آخری لمحے تک موت کا سامنا ہے۔ اس لیے فرد کو چاہیے کہ وہ اس امکانی موت کے تصور سے بچنے کے بجائے اس سے ہم آہنگی پیداکرے اور اپنے ضمیرِ خوش کے بل بوتے پر اپنی ذات کو استحکام عطاکرے۔ انسان فطرتاًآزاد ہے۔ آزادی کی مدد سے وہ اپنے آپ کو استحکام بخش سکتا ہے۔ اگروہ خوشی سے اپنی موت کا انتخاب کرکے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرلے تو وہ قصۂ آدم کی شرمندگی سے روحانی نجات پاسکتا ہے۔ تاہم آزادی ایک کربناک اور ہولناک تجربہ ہے کیونکہ ’’ہاں‘‘کہنے اور’’نہ‘‘ کہنے کی آزادی انسان کو ایک ایسے فلسفۂ اخلاق کے تابع کردیتی ہے جو وجود کی ذاتی قوتِ فیصلہ کے استحکام کا مظہر ہے۔ وجودیت کاسب سے اہم پہلو یہی تصورِ حریت ہے جو اس روایتی اندازِ فکر کے خلاف ایک شدیدردعمل ہے جس نے انسان کو مادیت، تجربیت اور مذہبیت کے جال میں پھنسا کراس کی آزادی سلب کرلی ہے اور جیتاجاگتا انسان محض ایک شے بن کر رہ گیا ہے۔ آزادی کے تصور کی یہ سلبیت انسان کے اندر بیگانگی، مغائرت اور اجنبیت کے اثرات پیداکرتی ہے۔ ہیگل اپنی کتاب Phenomenology of Mindمیں ا س تصورِ بیگانگی کو ’’شعورِ افسردہ‘‘ کہتا ہے۔ جرمن فلسفی فیورباخ اس اصطلاح کو کچھ مقامات پر بیگانگیٔ مذہب اور مارکس بیگانگیٔ محنت کا نام دیتا ہے۔ اجنبیت اور بیگانگی کی وجودی کیفیات شدیدکربناکی کا احساس لیے ہوئے ہیں۔ جس طرح بیگانگیٔ مذہب میں انسان اپنی ذات کے بہترین اوصاف مذہبی اداروں کی شکل میں منجمد کرکے خود بیگانگی کا شکارہوجاتا ہے اسی طرح سرمایہ انسان کی ذات پرمسلط ہوکر افلاس کی اس صورتِ حال کو جنم دیتا ہے جولاتعلقی اور اجنبیت کے انجماد کی مثال بن جاتی ہے۔ وجود کی حقیقت ان دونوں سے بڑی ہے۔ وہ ہستی و نیستی کے تجربے سے دوچارہوکر داخلی صورتِ حال میں جاگزیں ہوتا ہے اور اس بھری کائنات میں اس کی حیثیت لامکانی کی سی ہوجاتی ہے۔ اگروہ چاہے تو امکانی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مغائرتِ ذات کی نفی کرسکتا ہے یا وہ معاشرے کا تجربہ کرسکتا ہے۔ بہرحال یہ اس کا انتخابی عمل اور اس کی وابستگی ہے کہ وہ اپنے لیے کس صورتِ حال کا انتخاب کرتا ہے۔بقول سارتر: ’’انسان کا مقدر یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی انتخاب کرکے نیستی کے خلاکوپُرکرتارہے، چاہے یہ انتخاب کتنا ہی عارضی کیوں نہ ہو۔‘‘(11) درج بالا معروضات کی روشنی میں وجودیت کی مقبولیت کے اسباب تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جرمنی میں وجودیت ہیگل اور اس کے پیروکاروں کے انتہاپسندانہ تعقل کا ردِّعمل بن کر نمودار ہوئی۔ وجودیت عدم معقولیت اورناشائستگی کا ایک ایسا فلسفہ ہے جس نے انسان کو اس کی فطرت، اس کے تصورات، اس کی بنیادی آزادی، اس کے جذبات، اس کا انتخاب اور اس کی داخلی دنیا اسے واپس لوٹادی۔ انسان کو اس کے اعمال اور اس کے نتائج کا آقاقراردیا اور یوں وجودیت انسانی اعتبار کا ایک ایسا فلسفہ بن گئی جس کا دروازہ صرف فرد کی دستک سے کھلتا ہے۔ مزاحمتی سطح پر وجودیت نے جہاں بندۂ بیگانہ کو جینے کاحوصلہ دیا، وہاں نفسیاتی سطح پر وہ ایک المیاتی ردِّعمل سے بھی دوچار ہوئی۔ انسان اس کائنات میںبے آسرا اور بے وجود رہنے والے تجربے کے شدید(Acute) معانی کی بازیافت کا خواہش مند تھا لیکن اس لغویت کا جواب ہمیشہ پردۂ غیب ہی میں مضمر رہا۔ مغربی تمدن نے سائنسی تکنیک اور ایجادات کو متعارف کرایا۔ لمحہ بہ لمحہ نت نئی چیزیں تیارکرتی ہوئی صنعت، روشن خیالی اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کافروغ وغیرہ اوررجائیت بھی انسانی تنہائی اور افسردگی کا ازالہ نہ کرسکی۔ وجودیت نے دنیاکوایک ماتم کدہ قراردیا جہاں مشین کی بلندبانگ آواز میں انسانی احساس کی تمام صدائیں دب کررہ گئی ہوں اور انسان ایک لایعنی زندگی بسرکرنے پر مجبورہو۔ جبریل مارسل کے ڈرامے کی ہیروئن کرسٹائن کہتی ہے: ’’کیا کبھی کبھار تمہیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم زندگی بسرکررہے ہیں(اگر ہم اسے زندگی بسرکرناکہہ سکیں تو)ایک شکستہ دنیا میں؟ جو ایک وقت بتانے والی گھڑی کی طرح ٹوٹی ہوئی ہے۔ جس کے سپرنگ کب کا کام چھوڑ گئے۔ اگر تم اس گھڑی کو اپنے کان کے ساتھ لگائو تو سوائے خاموشی کے تمھیں کچھ سنائی نہیں دے گا۔ انسانوں کی یہ دنیا، شایدکبھی ا س کے پاس دل ہو لیکن مجھے کہنے دو کہ اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘(12) وجودیت کے ہی مایوس، تنہااور اُداس سائے وین گاف کی تصویروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ عدمیت اور بے حیثیتی کے یہی تجربات دوستوفسکی، گارسیا مارکیزاور کافکا کی تحریروں میں دکھائی دیتے ہیں۔سارتر اپنی کتاب میں لکھتا ہے: "Thus the passion of man is the reverse of that a Christ, for man loses himself as man in order that God may be born. But the idea of God is contradictory and we lose ourselves in vain. Man is a useless passion". (13) چنانچہ وجودیت کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ وہ انسانی زندگی کی مجبوری سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی فرد کی بے معنی زندگی میں ذاتی آزادی، ذاتی اعتماد اور ذاتی امنگ کا وہ دیا روشن کرتی ہے جو کائناتی ظلمت میں بہت سی تبدیلی کا ضامن نہ سہی لیکن روشنی کا ستارہ بن کر اپنا اثبات چاہتا ہے۔ سارترکے بقول’’انسان ایک طرح کے خالی پن یا کیچڑمیں پھنساہوا ہے۔ اسے اختیارحاصل ہے کہ وہ اسی کیچڑمیں پڑارہے اور ایسی نیم بیدارحالت میں جس میں خود اسے اپنے ہونے کا کوئی احساس نہ ہو، انفعالی اورمجہول زندگی گزاردے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس داخلی، مجہول صورت سے نکل آئے اور جان جائے کہ وہ کون ہے اور اس کی کیا حالت ہے۔ اس ادراک کے نتیجے میں جو ایک طرح کے مابعدالطبیعیاتی اور اخلاقی کرب سے دوچار ہوجائے گا تب اسے خبرہوگی کہ وہ جس دبدھے میں پڑا ہوا ہے وہ کتنا مہمل ہے۔ اس پریاسیت غالب آنے لگی گی تاہم اس ادراک سے اس کی ذات میں جو توانائی پیداہوگی اس کے بل بوتے پر وہ خودکوکیچڑ سے چھڑالے گا۔ اسے خبرہوگی کہ وہ وجودرکھتا ہے اوراپنی مرضی سے کوئی راہِ عمل چن کرزندگی اورکائنات کوجو پہلے لغویت سے معمور معلوم ہوتی تھی، معنی دے سکتا ہے۔ اگر وہ خود کوباعمل سیاسی اور سماجی زندگی گزارنے کا پابندبناسکے تو یہ اس کے اختیار کی جہت ہوگی۔‘‘(14) وجودیت کی اقسام -1 الحادی وجودیت الحادی وجودیت سے آج کے معاشرے میں وجودیت کی ایک قسم کے طورپرباربار سابقہ پڑتا ہے۔ موحدانہ وجودیت سے الحادیت اس طرح مختلف ہے کہ یہ خدا کے وجود اور اس کے بھیجے ہوئے پیغامبروں کاانکار کرتی ہے جو ہمیں اس نوع کی تلقین پرمامور کیے جاتے ہیں کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں۔ الحادی وجودیت اس نظریے کو مستردکرتی ہے کہ دنیااور زندگی کسی قسم کی تخلیقیت کی پیداوار ہے یا تخلیقیت سے عبارت ہے اور انسان کو اپنی زندگی کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایمانی حرارت درکار ہوتی ہے۔ اس نوع کی وجودیت پرایمان کو ایک برا عقیدہ سمجھاجاتا ہے۔ -2 الٰہیاتی وجودیت الٰہیاتی یاموحدانہ وجودیت نقطۂ نظر کے اعتبار سے زیادہ ترمسیحی وجودیت سمجھی جاتی ہے لیکن یہودی وجودیت بھی ہوسکتی ہے اور شایدمسلم وجودیت بھی۔ الحادی وجودیت اورموحدانہ وجودیت میں تفریق خدا کے وجود کے اثبات اور اسے خالقِ کل کاماننایانہ ماننا ہے۔ موحدانہ وجودیت کے علمبرداراس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدانے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ ہم زندگی بسرکرنے کا قرینہ متعین کرسکیں اور ہر شخص انفرادی طورپراپنے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ -3 لا وجودیت یافنائیت اگرچہ لا وجودیت، وجودیت نہیں اور وجودیت لا وجودیت نہیں ہے تاہم دونوں نظریوں کو باہم غلط ملط کر دیاجاتا ہے۔ ایک طرح کی لاوجودی وجودیت بہرحال موجود ہوتی ہے لیکن وہ بھی خالص لاوجودیت کی اساسی خصوصیات کی حامل نہیں ہوتی۔ ان دونوں نظریات کے درمیان تفریق اس لیے بھی مشکل ہوجاتی ہے کہ نطشے ان دونوں فلسفوں کے حوالے سے معروف ہے۔ وجودی لاوجودیوں اور کٹڑلاوجودیوں میں تھوڑا بہت امتیاز اس لیے ہے کہ لاوجودی کسی بھی معنی پرہرگز یقین نہیں رکھتے جبکہ وجودی لاوجودی اس پرمحض زندگی کے کسی نہ کسی طرح کے معنی کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں۔ باقاعدہ فنائیت یالا وجودیت بھی بالواسطہ طورپر یہ بات مانتی ہے اوروجودی لاوجودی بھی مکمل وجودیت کے اس مسلک کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے دونوں کے درمیان امتیاز کی لکیربہت کمزور ہے۔ اگر دوسرے وجودی لوگوں کی زندگیوں کے کسی ایسے معانی پراتفاق بھی کرلیں جومعانی وہ خود انھیں دیتے ہیں تو بھی وجودی لاوجودی ایسے معانی کو خودفریبی قراردیتے ہیں۔ اس طرح وجودی لاوجودی دوسرے وجودیوں کے مقابلے میں زیادہ قنوطی ٹھہرتے ہیں لیکن نتائج یوں ایک سے نہیں ہوتے کہ ان میں سے بعض خودکشی کو سب سے بہتر عمل قراردیتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگرزندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا تو آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ اس خیال کو ایک نوع کی لذت پسندی بھی کہاجاسکتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جوفنائیت کو کسی مستندمفکرکی فکرکالازمی حصہ سمجھتے ہیں اور اسی فکر سے دہشت جنم لیتی ہے جو اقدار کی پہچان کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور حسرتوں کے ساتھ ساتھ ان کے حصول کی تمنا بہرصورت دلوں میں جگائے رکھتی ہے۔ اوپربیان کیاگیا ہے کہ وجودیت کے علمبرداروں کے یہاںفرد کی داخلیت کے موضوع پر اشتراک کے باوجود کچھ اختلافات موجود ہیں۔ وجودیوں کا ایک گروہ خدا، اشیاء اور انسانی مکاشفات سے دلچسپی رکھتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ انسانی وجود کو کلیت کا درجہ دیتا ہے۔ تیسرا گروہ انسانی وجود اوردنیا کے شعوری روابط میں دلچسپی ظاہرکرتا ہے۔ تاہم تمام وجودی فلاسفہ کے نزدیک امورِ کائنات کا حل سائنس کے اختیار میں نہیں کیونکہ سائنسی طریقۂ تحقیق صداقت کی تلاش سے عاری ہے۔ عقل حقیقتِ مطلق کا ادراک نہیں کرسکتی اس لیے عقلی تقسیم انسانوں کو بے حیثیت بنادیتی ہے۔ انسانی وجود ایک مستقل عمل ہے۔ اس مستقل عمل کو وجودی شعورقراردیتے ہیں۔ وہ انسان کی کامل آزادی کے تصورپرروشنی ڈالتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کاوجودمعدوم جوہرسے تشکیل پذیرہوا ہے۔ وجودی موت کو برحق سمجھتے ہیں اور اسے اپنے فلسفے کا بنیادی جوہرقراردیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ انسان اپنے ماحول سے اثرات قبول کرتا ہے اسے ماضی، حال اورمستقبل کی گردشی حالتوں سے چھٹکارانہیں۔ انسانی وجود وقت کے اسی سمندر میں اُبھرتا، ڈوبتااور سنبھلتا رہتا ہے۔ اس کے شعور کی ڈوری کسی غیرمرئی طاقت سے بندھی ہے چاہے اس کا نام خدارکھ دیاجائے یا خلا، اسے وجود کی اتھاہ قراردیاجائے یا دنیاوی مظاہر کی کہانی۔ یہ عدم کا طویل راستہ ہے جس پر چلتے چلتے انسان غمگین، مضطرب، افسردہ اور بیگانہ ہوگیا ہے۔ لاتعلقی کا یہی بحران وجودیت کی اصل بنیاد ہے۔(15) اہم وجودی ادباء وجودیت کے نمایاں علمبرداروں میں اینے ڈیکارٹ(1596-1650) ، پاسکل (1623-1662)، کانٹ(1724-1804) ، ہیگل(1770-1831) ، کِرکے گار (1813-1855)، نطشے(1844-1900) ، بیوبر(1878-1965) ، جیسپرز (1883-1969)، مارٹن ہائیڈیگر(1889-1976) ، جبرئیل مارسل(1889-1973) ، سیمون ڈی بوار(1908-1986) ، کامیو(1913-1960) اور کولن ولسن(1931) شامل ہیں۔ سورین کرکے گار(Soren Kierkegaard) کو فکری سطح پر وجودیت کی تحریک کا بانی قراردیاجاتا ہے۔ وجودیت کے ابتدائی افکار اس کی کتابوں Fear and Trembling (1843)اور (1848) Sickness onto Death سے اخذکیے گئے ہیں۔ ان کتابوں میں کرکے گار نے اپنے اس خیال کی باربار توضیح اورتشریح کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو اپنی پریشانیوں سے نجات کے لیے خداسے رجوع کرناچاہیے۔ اس کے ذریعے انسان ذہنی سکون ور روحانی آرام پاسکتا ہے۔ انسان کو اپنے وجود کا ادراک اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ یہی بات حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کرکے گار سے پہلے اس اندازمیں کہہ چکے تھے کہ ’’جس نے اپنے رب کو پہچانا، اس نے اپنے آپ کو پہچانا۔‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کا یہ قول اسلام کے صوفیانہ افکارکی بنیاد بنا۔ کرکے گار البتہ اس باب میں عیسائی روحانیت سے متاثر ہوا ہوگا۔ اگرچہ اس نے شروع شروع میں عیسائیت سے منحرف ہوکرہیگل کے فلسفے میں وجود کی صداقت تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔(16) کرکے گار نے بھی خدااور انسان کے باہمی رشتے کے بارے میں لگ بھگ یہی کہاتھا کہ نسب سے پہلے تو فرد’’اپنی ہی ذات سے گہرا رشتہ استوار کرتا ہے اور اسے اپنے آپ سے نیز اپنی تقدیر سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے، دوسرے یہ شخص خود کو ایک مستقل حالت میں محسوس کرتا ہے اور اس کے سامنے کوئی نہ کوئی تکمیل طلب کام ہمیشہ ہوتا ہے،تیسرے یہ شخص ایک انتہائی جذباتی خیال کی زد میں ہوتا ہے۔‘‘(17) نطشے(Neitzsche) قدیم یونانی دیوتائوں میں سے ڈائیونس(Dionys) کی جبلی قوتوںکے حوالے سے فوق البشر کانظریہ پیش کرتا ہے اور اپالو(Appolo) کو منطق اور عقل کے ساتھ ساتھ سکون و آرام کی علامت کے طورپر پیش کرتا ہے۔ انھی علامتوں کی تفسیر کرتے ہوئے وہ عوامی اخلاقیات میں محکومیت اور حاکمیت کے حوالے سے تفریق پیداکرتا ہے، غلامی لوگوں میں ہمدردی، پیاراور عجز تو پیداکرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یا اس کے زیراثران میں خوئے غلامی کو اس قدر راسخ کردیتی ہے کہ ان کی زندگی اپنی مرضی سے بسرکرنے کی خواہش سے خالی ہوجاتی ہے جوفرد کے اپنے وجود سے اثبات کی بجائے اس کی نفی کی مریضانہ حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ دوسری طرف حاکمیت حکمرانوں کے افکار و اعمال میں جلال، تمکنت، شکوہ یہاں تک کہ غرور اور تکبرکے منفی اوصاف پیداکردیتی ہے لیکن ایسا فرد ہی زمین کا بوجھ اپنے کاندھوں پراٹھانے کا اہل ہوتا ہے جو اپنی ذات کے اسرار سے واقف ہوتا ہے۔ تحرک، فعالیت اور عزم اس کی شخصیت کے نمایاں جوہرہوتے ہیں۔ نطشے تو وجود کی اہمیت منوانے میں خداکی موت کے اعلان کی حدتک جاپہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس کی وجودیت الحادکاشکارہوگئی اور اس نے فوق البشر کی انتہاکردی جب اس نے دنیا میں قدرکامعیار قوتِ محض کو گردانناشروع کردیا۔ اس کے خیال میں بشرفوقیت کے اس ارفع مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتا ہے یا اسے متحرک رہناچاہیے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی انفرادیت اور بے انتہا طاقت کے ادراک اور اس کے حصول کے ساتھ ساتھ استعمال کا جذبہ اس کے رگ و پے میں بجلی کی طرح دوڑتا رہے۔ کرکے گاراورنطشے میں یہی فرق ہے کہ کرے گار وجود کے حوالے سے خدا کی معرفت کا متمنی تھا جبکہ نطشے نے خداکی ذات کی نفی میں فرد کے وجودکااثبات تلاش کیااور عدمیت کا شکارہوگیا۔(18) مارٹن ہائیڈیگر(Martin Heidgger) انسان کی ہستی یا وجود کوDesein کہتا ہے۔ اس کا مثالی فرد کسی روحانیت یامابعدالطبیعیات کو خاطرمیں نہیں لاتا۔ اگرچہ وہ دنیامیں اپنی مرضی سے نہیں آتامگر اسے ہر وقت یہی فکررہتی ہے کہ اسے کسی بھی لمحے مرجانا ہے لیکن اس کا یہی احساس اسے دوسرے جانداروں پر فوقیت دیتا ہے۔ یعنی ہائیڈیگر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا قائل ہے۔ تاہم اس کا سفر لاشے سے لاشے کی جانب ہے۔ اس سفر میں اس کی فکر مندیاں اور طرح طرح کے خوف اس کے اندر امکانات کے در وا کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بقا کی جدوجہد پراپنے آپ کو مجبورپاتا ہے۔ اس طرح روزمرہ معمولات میں اندیشے اور واہمے اس کے قریب نہیں آتے۔ ایسی حالت میں انسان کا وجودانبوہ سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت بھی حاصل کرسکتا ہے اور زمانے کی لگامیں تھام سکتا ہے مگر یہ کیفیت بھی دائمی نہیں ہوتی اور اپنے آپ کو ایک بارپھر لاشیئت کے مقابل پاتا ہے۔ وجودہائیڈیگر کے نزدیک ایک حقیقت ہی نہیں سوال بھی ہے۔اس کے اندر بے پناہ جبلی و تخلیقی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جس کی مددسے یہ دنیاکوآباد اور بربادکرسکتا ہے۔(19) کارل جیسپرز(Carl Jaspers) کے افکار کا لبِ لباب یہ ہے کہ وجود (Existence) معروضی ہستی(Dasien) کی ایسی صورت ہے جو ہرلحظہ تکمیل پذیرہے۔ معروضی ہستی آپ اپنی تخلیق پرقادر ہے۔ وجود کی آزادی ماورائیت کی دین ہے۔ ماورائیت اور وجود لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وجود کی حقیقت کا ثبوت بہم پہنچانا ناممکن نہیں اگرچہ یہ فنانہیں ہوتا اورنہ ہی اسے کسی ا ور وجود سے تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ ان افکار سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جیسپرز نے کرکے گارد، نطشے اور ہائیڈیگر کے افکار میں توازن پیدا کرنے کی سعی کی ہے اور انھیں عقل کی کسوٹی پر بھی پرکھا ہے۔ عقل و خرد کو کام میں لاتے ہوئے وہ فلسفے اور سائنس کی حدود پربھی بحث کرتا ہے۔ سائنس تجربات پرانحصارکرتی ہے اور ان سے اپنے نتائج اخذ کرتی ہے۔ اس لیے مطلقیت اور کاملیت اس کی دسترس سے باہررہ جاتے ہیں۔ ہستی کی ماورائیت اسے مطلقیت اور ہمہ گیریت کے قابل بناتی ہے چنانچہ ہستی یا وجود کلیت اورمطلقیت کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے امکانات کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنی حدود سے بھی باہرنکل سکتا ہے۔ جبریل مارسل(Gabriel Marcel) عیسائی وجودیت کا نمایاں ترین وجودی مفکر ہے۔اس کا شمار فرانسیسی زبان کے اہم ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔اس نے سارترکے نکتہ نظر پرقابلِ لحاظ تجزیاتی تحریریں لکھی ہیں۔ اس نے اپنی کتابExistence et existentialisme (1925)میں پہلی بار فرانسیسی ادب میں وجودیت (Existentialism) کی اصطلاح متعارف کروائی۔ وہ فرد کے وجود کو اہمیت دیتا ہے لیکن اس کے خیال میں فردکائنات میں موجود ضرور ہے لیکن اس کا وجود ہستی کے طور پر ہے البتہ معروضیت اور موضوعیت کا امتیاز فرد کی اپنی سوچ کی پیداوار ہے۔اس سوچ یافکر کے دومراحل یاقسمیں ہیں۔ پہلی فکر طے شدہ طبعی حقائق کی روشنی میں وجود کو طبعیات، کیمیا، نفسیات اور فعلیات کے حوالے سے تجزیہ کرتی ہے۔ یہ فکر کی ناقص سطح ہے۔ اس مرحلے پر فکرِانسانی وجود کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ پوست یا گودے تک صرف چھلکے یا خول سامنے رکھ کر پہنچنے کی کوشش ہے۔ دوسرے پہلو سے مطالعہ وجود کی گہرائی کو منعکس کرتا ہے۔ یہ طریقہ یا مشق کسی وجود کے اسرارمنکشف کرتی ہے جس سے وجود کے اندر’’میں‘‘کااحساس پیداہوتا ہے۔ اپنی تمام ترصعودی اور نزولی کیفیات کو سمیٹتے ہوئے کسی وجود کو مارسل کے نزدیک ادراک ہوتا ہے کہ"I am What I am" جو حقیقتِ مطلق کی تخلیق شدہ کائنات کے ایک اور طرح مقابل ہے، اس طرح نہیں جیسے وہ اپنے جسم اور اپنی زندگی کے مقابل ہے۔ لیکن ایسا ’’میں‘‘حقیقتِ مطلق پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔(20) بعض فرانسیسی ناول نگاروں مثال کے طورپر جین کیرول(Jean Cayrol) اور لوس استنگ (Lue Estang)پرجبریل مارسل کے افکار نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ بہت سے ایسے وجودی بھی ہیں جنہیں عام طورپر مفکروں میں شمارنہیں کیاجاتا لیکن انھوں نے اپنی ادبی تحریروں سے وجودیت کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ ان لکھنے والوں میں چیکوسلوویکیہ سے تعلق رکھنے والا فرانزکافکااور روسی ناول نگار دوستؤ فسکی زیادہ نمایاں ہیں۔ کافکااکثرایسے کردارتخلیق کرتاتھا جو ماورائے حقیقت ہوتے اور جومایوسی اور لایعنیت سے نبردآزما رہتے۔ فرانزکافکا کے مشہور اور نمائندہ ناول The Metamorphosis اور The Trial اسی رجحان کے عکاس ہیں۔ دوستؤفسکی کے ناولNotes from Underground ایک ایسے انسان کی طویل کہانی ہے جو معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کے قابل نہیں ہوتا اور اپنی ان عادتوں کی وجہ سے اپنے آپ سے ناخوش رہتا ہے جو عادتیں وہ اختیار کرتا ہے۔ دوستؤفسکی بھی مسیحی وجودیت کا بڑاپرچارک تھا۔ اس کے دوسرے ناولCrime and Punishmentکی کہانی لادین وجودیت کے مقابلے میں مسیحی وجودیت کی عکاس ہے جس کا مرکزی کردار راسکونی کوف وجودی بحران سے گزرتے ہوئے دنیا کودوستؤفسکی کے اسی زاویے سے دیکھتا ہے۔ ژاں پال سارتر غالباًسب سے زیادہ جاناپہچانا وجودی ہے۔ وہ ان چندادیبوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے آپ کو وجودی کہلواناپسند کیا۔ سارتر وجودیت سے متعلق اپنے فلسفے کو استوارکرتے ہوئے ہسرل(Husserl) اورجرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر کے افکار سے متاثرہوا تھا۔ سارتر کی Being and Nothingness کو وجودیت کے بارے میں سب سے اہم تصنیف خیال کیاجاتا ہے۔ سارتر اپنے خیالات اور افکار کو مختلف الجہات اصناف اور فنون کے ذریعے فروغ دینے پرقادرتھا۔ اس کے فلسفیانہ مضامین، خطبے، ناول اور ڈرامے اس کی تخلیقی اورذہنی اپج کے آئینہ دار ہیں۔No Exit اورNausea اس کی نمائندہ تحریریں ہیں۔1960 ء میں اس نے اپنی تصنیفCritique of Dialectical Reason میں مارکسیت کو وجودیت سے ہم آہنگ کرنے کی فکرانگیزکوشش بھی کی تھی۔ آزادی اور ذمہ داری کا احساس اس کی تحریروں کے نمایاں موضوعات تھے۔(21) سارتر خدا کے وجود سے بظاہر انکار کرتا تھا لیکن وہ معروف معانی میں دہریانہیں تھا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہستی کے انکار کی بجائے یہ کہا کرتا تھا کہ خدا کے وجود کو مان بھی لیا جائے تو اس سے انسان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کی دہریت منفی نہیں لگتی تھی کیونکہ اس میں اثبات کا پہلو بھی تھا۔وہ انسان پر زور دیتا تھا کی اسے اپنا کردار، اپنی ہستی کا ادراک اور اپنی رائے مکمل آزادی کے ساتھ متعین کرنی چاہیے۔(22) البیر کامیو(Albert Comus) ایک زمانے تک سارترکادوست تھا۔ دوریاں پیداہونے تک وہ وجودی موضوعات پر The Rebel ،The Stranger اورSummer in Algeirsجیسی تحریروں سے وجودی ادب کو مالامال کرچکاتھا۔ کامیو بھی بہت سے دوسرے ادیبوں کی طرح وجودیت کے لیبل کے بغیر اپنی تصنیفات کو لایعنیت کا سامناکرنے والے انسانوں سے متعلق سمجھتاتھا۔ The Myth of Sisyphus میں کامیو نے ایک یونانی اسطور کی مثال سے وجودکی بے مصرفیت کو واضح کیاتھا۔ اسطورکے مطابق سسی فس ہدایت کے حصول میں ناکام رہاکیونکہ جونہی وہ ایک چٹان کو گھسیٹتا ہوا پہاڑکی چوٹی تک پہنچتا تو چٹان لڑھک کر پہاڑ سے نیچے آجاتی۔ کامیوسمجھتا ہے کہ وجودبے کار سی شے ہے لیکن سسی فس بالآخراپنی کوشش کے معانی اور مقصد سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے اور اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔(23) کامیو شاید دل سے سمجھتا تھا کہ ’’انسانی زندگی مہمل ہے۔‘‘ مہمل (Absured) سے اس کی مراد یہ نہ تھی کہ ’’ہم زندگی سے متعلق استدلال نہیں کر سکتے اور نہ علت اور معلول کے درمیان استدلالی روابط کا کھوج لگا سکتے ہیں۔‘‘ اس کے نزدیک یہ لفظ آدمی کی خواہشات اور کائنات کے سکوت کے مابین تضاد کو واضح کرتا ہے۔ کامیو کے علاوہ آینسکو(Ionesco) ،سیمو ئیل بیکٹ(Samuel Becket) ،ژاں ژینے (Jean Genet) ، ارابل(Arrabel) ،پنٹر(Pinter) اور ایلبی(Albee) کے ڈرامے بھی لایعنیت یالغویت ہی کا تاثرپیداکرتے ہیں۔ سائمن ڈی بوار(Simon De Bouvoir) ایک اور اہم وجودی ہے جس نے اپنی عمرکاایک حصہ سارتر کی معیت میں بسرکیا۔ اس نے تانیثیت اور وجودی اخلاقیات پرThe Second Seaاور The Ethics of Ambiguity جیسی تحریریں چھوڑی ہیں۔ سائمن ڈی بوار،سارتر کے زیرِسایہ رہنے کے باعث وجودیت کے حوالے سے بہت نمایاں نہ ہوسکا۔ اس نے ایسے دور میں تانیثیت کا علم بلندکیا جب اس کاکوئی ذکر بھی نہیں کرتاتھا۔ اس وجہ سے وہ کامیو کی طرح اپنے دوسرے دوستوں کے مقابلے میں تنہائی کا شکار بھی ہوگیاتھا۔(24) فرازفینن کو بھی وجودی کہاجاتا ہے۔ جس نے افتادگانِ خاک جیسی شہرہ ٔآفاق کتاب تصنیف کی۔ اسے جمالیاتی وجودی بھی کہاجاتا ہے۔ اقبال اور وجودیت اقبال کے مذہبی اور فکری سلسلے ایک طرف نطشے اور برگساں کے افکار سے ملے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ رومی، غزالی اور امام ابن تیمیہؒ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ مشرق و مغرب کی فکری آویزش اقبال کے تصوراتی انسان اور معاشرے کا پیکر تراشتی ہے۔ یہ انسان ان کے نزدیک انسانِ کامل ہے اور اس کی تمام تر توانائی تسخیرِ فطرت پرمرکوز ہے۔ اس انسانِ کامل کو نطشے کے سپرمین سے مشابہ قراردیاجاسکتا ہے۔ نطشے کا سپرمین کائنات پرغلبے کی قوت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت میں معنیٔ کائنات ہے۔ وہ سپرمین کو مسرت کی روشنی کہتا ہے اور اسے انسانی انتہاقراردیتا ہے۔ نطشے کا سپرمین اورمردِ خدا از سرِنو زندہ ہوجانے والی علامتیں ہیں لیکن ان علامتوں کی بازیافت کی پہلی کڑی انسان کی اپنے ذاتی وجود سے آگاہی ہے کیونکہ انتشار، اضطراب اور تضادات کی اس وسیع کائنات میں انسانی شعور ایک طرف زمان و مکاں کی وسعت کا تجربہ کرتا ہے تو دوسری جانب اسے اپنے عدم تحفظ کا بے پایاں احساس ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اس کائناتی دائرے کا مرکزی نقطہ کہاں ہے اور اس کا یوں زمان ومکاں کا اسیرہوکرجبرکی زندگی بسر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اقبال کی شاعری وجودکے اسی مرکزی نقطے کے گردگھومتی نظرآتی ہے۔ وہ کبھی خودبیں، کبھی خدابیں ، کبھی جہاںبیں اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان فکری تضادات سے اس کے ہاں عمل اورردِ عمل کی مسلسل رسہ کشی دکھائی دیتی ہے ؎ اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو کہ حضور میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں (کلیاتِ اقبال، ص53- ) یہ اضطراب اقبال کی وجودی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کے پس منظر میں انسانی جبلتیں، سماجی تضادات، فکری تذبذب اور انسانی زندگی کے فناہوجانے کا خوف چھپاہوا ہے۔ چنانچہ اقبال اس اضطراری حالت کا کھوج لگانے کے لیے مکالماتی اندازمیں کہتا ہے ؎ میں نے پوچھا اس کرن سے اے سراپا اضطراب! تیری جانِ نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟ یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خُو ہے ، کیا ہے یہ رقص ہے ، آوارگی ہے ، جستجو ہے ، کیا ہے یہ ( کلیاتِ اقبال،ص226- ) اضطراب کا یہ مسلسل عمل اقبال کی شاعری میں ایک پیچیدہ سوال بن کر یوں سامنے آتا ہے ؎ عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بے تابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی (کلیاتِ اقبال،ص460- ) o مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا آرام قلندر کو تہِ خاک نہ آیا (کلیاتِ اقبال،ص553- ) اقبال کے ہاں اس اضطراب اور پریشانی کے اسباب ان کی ذاتی زندگی میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں تاہم اس سے کہیں بڑھ کران کا یہ اضطراب اس احساس سے جڑا ہوا ہے کہ وہ ایک غلام قوم میں پیدا ہوئے۔ فکری سطح پر وہ مذہبی اور سماجی نظام کی آویزشوں کو دیکھ کر مضطرب ہوئے۔ اپنے اس اضطراب کو انھوں نے فلسفیانہ سطح پر دریافت کیااورپھراسی دریافت کی روشنی میں اپنے وجود کی تلاش کے عمل کاآغازکیا۔جس میں اندیشے اور واہمے مسلسل ان کے تعاقب میںرہے۔ ایک گردابِ فنا میں اقبال کی حالت اس مضطرب ذی روح کی ہے جو اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہے۔طوفان کی دہشت اور موت کا خوف اس پر کپکپی طاری کرتا ہے۔ وہ اپنے وجود کوکسی مضبوط وجود سے وابستہ کرکے ہمیشہ کی زندگی کی آرزو رکھتا ہے۔ چنانچہ اقبال ہائیڈیگر کی طرح لیکن غیرمحسوس طورپر موت کی دہشت اور زندگی کے تسلسل پر غورکرنے کی عادت ڈالتاہے۔ ان کی نظمیںشمع و پروانہ،سیدکی لوحِ تربت پر،عشق اور موت، رخصت اے بزمِ جہاں موت کے ظالمانہ رویے کے اشارے ہیں۔ زندگی کی موت کے ہاتھوں شکست دیکھ کر وہ سوچتا ہے ؎ زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل کیا وہ جینا کہ ہو جس میں تقاضائے اجل (کلیاتِ اقبال،ص112- ) تم بتا دو روز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے (کلیاتِ اقبال،ص71- ) بالِ جبریل کی نظمیںمسجدقرطبہ اورساقی نامہ میں اقبال یہ بتاناچاہتا ہے کہ زندگی خود موت کی گھات میں ہے اور عشق موت کا تریاق ہے۔’’نپولین کے مزارپر‘‘میں اقبال تسلیم کرتا ہے کہ جوشِ کردار زندگی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ زندگی فرصتِ یک دو نفس ہے۔ ضرب ِکلیم کی ایک نظم کا عنوان ہی موت ہے۔ جس میں اقبال کہتا ہے ؎ فرشتہ موت کا چھوتا تو ہے بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے (کلیاتِ اقبال،ص578- ) حیات و موت نہیں التفات کے لائق فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود (کلیاتِ اقبال،ص582- ) خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات (کلیاتِ اقبال،ص725- ) وجودیت کو انقلاب، تغیر، بحران، انحراف، انکار اور انفرادیت کے فلسفہ کے رنگ میں دیکھاجائے تو اقبال کا فلسفۂ خودی وجودی تناظرکے بہت قریب نظرآتا ہے۔ آغاز میں جب وجودیت نے یونانی فلسفے کی معروضیت اور تجریدیت کے خلاف آواز اٹھائی تو یونانیوں کا کہناتھا کہ کائنات کی سب سے بڑی میزان انسان ہی ہے لیکن شرفِ عظیم بے چارگی کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ اس عینیت پسندی نے بے عملی اور سکون پرستی کو جنم دیا تھا جو ترکِ دنیا اور ترکِ خواہش کے تجربے سے زندگی حاصل کرتی تھی۔ شرفِ عظیم کی بے چارگی اس کی سپردگی کا ایسا روپ تھا جو زندگی کے شعوری تعطل کا جواز بنتا ہے۔ چنانچہ انسان کو اس سپردہ کاری کے عمل سے باہرلاکر شخصی سطح پر زندہ رہنے کا درس دینابھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ دوسری بارجب وجودیت نے جدید فلسفے کی عقلیت پسندانہ روایت کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ ڈیکارٹ کے اس جملے کے طواف میں تھی کہ’’میں سوچتا ہوں،اس لیے ہوں‘‘ اس ضرب المثل نے ڈیکارٹ کے تصورات کے حوالے سے انسانی عقل و فکر کو انسان کابنیادی جوہرقراردیاتھا۔ مادے کے وجود پراس فکری تجریدیت کے تسلط کا خاتمہ ہیگل کے جدلیاتی نظام کے ہاتھوں ہوا۔ ہیگل کی خواہش تھی کہ وہ عقلیت اور رہنمائی کو افلاطونی فلسفے کی روشنی میں ایک دوسرے کے مترادف قراردے۔ اقبال نے یہ کہا تو سہی کہ ع ہیگل کا صدف گہر سے خالی لیکن …فکری، عقلی اور مذہبی سطح پر ان مختلف نظام ہائے فکر سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں اندازہ ہوا کہ مختلف نظام ہائے فکر کا تجربہ بھی ان مسائل سے فرار کا ایک ذریعہ ہے جوانسانی آزادی کو غصب کرنے کا وسیلہ بنتے رہتے ہیں اور فرد واحد سے اس کے بنیادی حقوق چھین کر اسے پامال زندگی بسرکرنے پرمجبورکرتے ہیں۔ اس مجبوری میں ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب انسانی نظام، کائنات اور زندگی کی اصطلاحوں سے منحرف ہوجاتا ہے۔ اقبال اس نظام کو ابلیسی نظام قراردیتے ہیں جو انسان کو خوئے غلامی میں پختہ کرتا ہے اور سجدہ ہائے نیاز اس کا مقدربنارہتا ہے۔ تاہم اقبال ہیگل کے فلسفۂ حرکت اور فلسفۂ تعقل کے ان امور سے اتفاق کرتے ہیں جو حیاتِ انسانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ وجودیت کاتیسرامرحلہ اس خودساختہ کشیدگی اور احساسِ مغائرت کے حوالے سے سامنے آیا جہاں یونانی تہذیب عقلیت پسندی کے تجربے سے گزر کرنئے عہد میں آن پہنچی تھی۔ انسان ایک پیداواری شے کی صورت اختیارکرگیاتھا۔ ناپ تول کے اعشاری نظام، حسابات اور شماریات کے ذریعے سائنس والوں نے انسان کو بھی ظن و تخمین کے حوالے سے ناپناشروع کردیاتھا ؎ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات (کلیاتِ اقبال،ص435- ) اس جدیدیت اور مادے کو بنیادبناکر ایک ایسی دنیاقائم کی گئی جو ایک معروضی دنیاتھی جہاں کسی شخص کا کوئی درجہ متعین نہیں تھا۔ ضروری تھا کہ بے شکل اور بے مقام ہوتے ہوئے اس انسان کو واپس لایاجاتا جسے ایک بے جان پرزہ سمجھ لیاگیاتھا۔ وہ بھول چکاتھا کہ اس کا وجودِ ذاتی کیا ہے؟ اس کی آزادی کے کیا معنی ہیں اور وہ دھیرے دھیرے قریب آتی موت کی دہشت سے کس طرح چھٹکاراپاسکتا ہے۔ وجودیت کا کہنا تھا کہ انسان کو منتشر حالات سے آزاد ہوکرتکلیف دہ خودکار اطاعت سے بچناچاہیے تاکہ ہم اپنے اندرونی مسائل پرسنجیدگی سے غورکرسکیں اور خودمختاری کے معنی سے آگاہ ہوسکیں۔ اسی بات کو اقبال نے اپنے فلسفہء خودی کی روشنی میں یوں بیان کیا ہے ؎ خودی کے نگہباں کو ہے زیر آب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند فرو فالِ محمود سے در گزر خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر (کلیاتِ اقبال،ص456- ) فرد کی آزادی اور اس کا امکان وجودی فلسفے کا بنیادی نکتہ ہے۔ جس کی پہلی کڑی آزادیٔ رائے اور اور آزادیٔ اظہار ہے۔ یہ آزادی وجود کو اعتبار بخشتی ہے اور انسانوں کو چیزوں سے ممتازکرتی ہے۔ یہ آزادیٔ رائے انتخاب کا عمل یا فیصلہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے۔مولانا رومؒ کا کہنا ہے کہ کوشش کر اور اپنے آپ کو بے خودی میں پالے۔ یہ انسان کی دریافت کا بنیادی نکتہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں ؎ تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر (کلیاتِ اقبال،ص528- ) وجودیت کی اصطلاح سے اس کی الگ پہچان ضرور ممکن ہوئی لیکن وجودیت اور وجودی ھبوطِ آدم کے ساتھ ہی دنیامیں آئے یعنی ع مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی،کے تجربے سے سب سے پہلا آدمی بھی دوچارہوا۔ اس لیے اقبال جیسے فطری شاعر پروجودیت کے اثرات اور آثار وجودی نہ ہونے کے باوجود تلاش کرناکوئی مشکل نہیں تاہم اقبال کی تحریروں میں وجودی افکارسے غیرمحسوس اور غیرارادی انحراف بھی پایاجاتا ہے جیسا کہ وجودی نظریۂ ارتقا پر غورکرنابھی بے کار سمجھتے ہیں جبکہ نظریۂ ارتقا اقبال کے فکری نظام کا لازمی جزو ہے۔ وجودی صرف فرد کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ نسل، رنگ، زبان کو قابل اعتنا نہیں گردانتا۔’’وہ برہمن جس کو اپنے شرفِ ذات کا غرّہ ہے اگر ہر روز ایک اچھوت کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونے لگے تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کیسا زبردست انقلاب رونماہوجائے گا۔‘‘(25) وہ کسی وقوعے کے احسا س کو کسی فرد کی پہلے سے وہاں موجودگی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ حیوان سے انسان بننے کی کیفیت سے انکاری ہے جبکہ اقبال کے فلسفے کے مطابق انسانی تاریخ میں انسان موجودہ حالت میں جبلّی کیفیتوں سے گزرکر پہنچا ہے اور عبادت کے لیے مخصوص سمت کے انتخاب اور باجماعت نماز سے’’اس تمناکااظہار بھی مقصود ہے کہ ہم ان امتیازات کو مٹاتے ہوئے جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں اپنی وحدت کی ترجمانی کریں۔‘‘(26) وجودی کہتے ہیں کہ انسان وہی کچھ ہے جیسا وہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے مقدر پراسے مکمل گرفت حاصل ہے۔ وہ خدا جیسا نہیں تو اس سے کم بھی نہیں لیکن آزاد نہیں۔ وہ آزادہوبھی نہیں سکتا۔ وہ آزاد رہنے کے لیے بنایانہیں گیا۔ دوستؤفسکی کے ناول سزا وجزا کا مرکزی کردار سکولنی کوف اپنی آزادی اور اختیار کو آزمانے کے لیے ایک بوڑھے کو مارڈالتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے اس قتل کا اعتراف کرناپڑجاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال سے کسی کو سابقہ پڑے تو وہ خوداپنی ذات کو منوانے کے لیے خودکشی بھی کرسکتا ہے۔ کسی فرد کی آزادی کے بارے میں اقبال کا اندازِ نظر وجودیوں سے کسی حد تک مختلف یوں ہے کہ اقبال فرد کی لامحدود آزادی کا ہمنوا نہیں بلکہ اس کا خیال ہے کہ ؎ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرلے (کلیاتِ اقبال،ص278- ) کسی نے کہہ رکھا ہے کہ آپ ایک وقت میں ایک ٹانگ تواٹھاسکتے ہیں لیکن اسی وقت دوسری ٹانگ نہیں اٹھاسکتے۔ اقبال کے خیال میں خیروہ نہیں جو کسی شدیدمجبوری کے سبب پیداہو۔ خیرذات کاآزادانہ طورپراخلاقی آدرشوں کو قبول کرنے کا نام ہے۔ خیرکی تمنا دو خودیوں کے درمیان اپنی مرضی سے ابھرتی ہے۔ ’’خیرمیں جبر کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا…آزادی خیرکی شرطِ اوّلیں ہے۔‘‘(27) سارترکوانسانی زندگی پوری طرح جبریت یامکمل طورپرعدم جبریت کامظہرلگتی ہے لیکن وہ ان دونوں صورتوں میں مکمل عدم جبریت یعنی فرد کی کامل آزادی کاحامی ہے۔ وہ آزادی کے جذبے اور مقصد کے تعین کو انسان کے لیے لازمی قراردیتا ہے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے آزاد ہے۔ جبکہ اقبال کا کہنایہ بھی ہے کہ خودی کی کارفرمائی میں رہنمائی اور سمت نمانگرانی کا عنصرواضح کرتا ہے کہ خودی ایک آزادانفرادی علّت و معلوم ہے۔’’اگر ایسانہ ہو تولفظِ تخلیق بے معنی ہوجائے گا کیونکہ ہم خودبھی کچھ نہ کچھ کرنے کے اہل ہیں۔‘‘(28) اقبال زوردیتا ہے کہ زندگی دراصل مقاصداور نتائج کو اپنی مرضی کی صورت دینا ہے اور پھرانھی کے تابع رہنا ہے۔ ذہنی زندگی ان معنوں میں غایاتی ہے کہ جب ہمارے سامنے کوئی ایسادور ازکار مقصد نہ ہو جس کی طرف ہم پیش قدمی کرتے رہے ہوں تو زندگی کا عمل پھربھی ارتقاپذیرہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نصب العین اور اخلاقیات کے درجے بھی ارتقاپذیراوروسعت پذیرہوتے جاتے ہیں لیکن اس راستے کا تسلسل کسی نظام کے تابع ہے۔ معاملات کے تجزیے میں بظاہر اچانک تبدیلیوں کے باوجود اس کے مختلف مدارج ایک دوسرے کے ساتھ نامیاتی طورپرباہم پیوست ہوتے ہیں۔ فردکی زندگی کی تاریخ مجموعی طورپر یگانگت کا نام ہے اور اس کی زندگی محض باہمی غلطی سے اختیارکردہ واقعات کا سلسلہ نہیں ہے۔’’خودی کی زندگی اختیارکی زندگی ہے جس کا ہرعمل ایک نیاموقع پیداکردیتا ہے۔‘‘(29) می شود از بہرِ اغراضِ عمل عامل و معمول و اسباب و علل (کلیاتِ اقبال فارسی،ص33- ) وجودیت کا غالب رجحان الحادی ہے۔ سارتراورہائیڈیگراسی طرح کی وجودیت کے پیروکارہیں مگر اقبال کا فلسفہ الحادی نہیں موحّدانہ ہے۔ ملحدوجودی کسی طرح کی اقدار، اخلاقیات اور مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے خیال میں زندگی بس یونہی مل جاتی ہے اور اس کا کوئی مقصدنہیں ہے نہ ہی اس کی آزادی کوئی معنی رکھتی ہے۔ اسی حوالے سے زندگی لایعنی ٹھہرتی ہے۔ ان کے مقابلے میں اقبال قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے: وَمَا خَلَقْنَاالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ m مَاخَلَقْنٰھُمَآاِلَّابِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَ کْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَm اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان کے درمیان میں ہے عبث نہیں بنایاm ہم نے انھیں حکمت ہی سے بنا یاہے لیکن اکثرلوگ نہیں سمجھتےm (۳۹۔۳۸:۴۴؍سورۃ الدّخان) ایک اور جگہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ: وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرmاِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاْولِی الْاَلْبَابِm اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت اور اللہ اس شے پرپوری قدرت رکھتے ہیںmبے شک آسمانوں کے، زمین کے بنانے میں اوررات اور دن کے یکے بعد دیگر آنے جانے میں دلائل ہیں اہلِ عقل کے لیےm (۱۹۰۔۱۸۹:۳؍سورۃ آلِ عمران) اقبال ان وجودیوں کے مقابلے میں اس بات کے قائل ہیں کہ زندگی مقصد سے خالی نہیں۔ قادرِ مطلق نے انسان کو دنیامیں انفرادی اور اجتماعی طورپرکوئی اہم کرداراداکرنے کے لیے بھیجا ہے اور اس کے لیے ایک نظام بھی وضع کیا ہے۔ خدا نے انسان کو اپنا نائب بناکربھیجا ہے۔ ’’شخصیت کا یہ بارِ گراں ایک امانت ہے جسے آسمانوں اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کردیاتھا مگر جسے انسان نے خوداپنے آپ کو خطرے میں ڈال کراٹھایا۔‘‘(30)وجودی انسانی مزاج کے مختلف عناصراورمظاہرکا مطالعہ کرتے ہیں جیسے ناراضگی، احساسِ جُرم، افسردگی، تشنج، دہشت، لاچاری، کھنچائو، تنائو جن سے انسان کی فطرت کے بارے میں کائنات کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے ع زندگی کیا ہے غم کا دریا ہے اقبال کے خیال میں’’ارتقا کا راستہ…عالمگیردکھ درد اور ظلم و عدوان کا راستہ ہے۔‘‘(31) اس طرح وجودی انسان کی آزادی بھی الم انگیز دکھائی دیتی ہے کیونکہ انسان اپنی پیدائش کے وقت، مقام اور خاندان کے انتخاب میں آزاد نہیں ہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ جب وہ شعور کی منزل کو پہنچتا ہے تو خودکوایک مخصوص صورتِ حال میں پاتا ہے جو اس کی تخلیق کی ہوئی نہیں ہوتی اور وہ خودہی ہرطرح کے شیطانی وسوسوں، عادتوں اور عملوں کا اور ان کے نتائج کا بھی ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسی دنیامیں زندگی گزارنے پرمجبور ہے جس کے بارے میں وہ پہلے سے کچھ نہیں جانتا اور جب عمربھر کے تجربے کے بعدجاننے لگتا ہے تو موت قریب کھڑی ہوتی ہے اور دوبارہ زندگی ملنے کاکوئی امکان نہیں ہوتا۔ موت کا وقت، مقام اور طریقہ بھی اس کے علم یا اختیارمیں نہیں ہوتا۔ اس کے اعمال کے نتائج کی پیش گوئی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اس کی خوش قسمتی اوربدقسمتی کا انحصار بھی اس کے اپنے اعمال اور تجربوں پرہوتا ہے۔ ان حقائق سے وجودی یہ نتیجہ نکالنے پرمجبورہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے احساسِ جرم کا شکارہے جس سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا چنانچہ اس کی افسردگی، مایوسی اور اضطراب جائز ہے۔ عیسائی عقیدہ بھی یہی ہے کہ انسان گنہگار پیدا ہوتا ہے اور گناہ اس کی اصل ہے۔اقبال اس منظرنامے کو ردکرتا ہے۔ وہ رجائی ہے اور امنگوں بھری زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے لیکن وہ خدااور شیطان دونوں کے وجودکااثبات چاہتا ہے ؎ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی (کلیاتِ اقبال،ص251- ) یہ شعراقبال کے مزاج میں توازن اور فکرمیں میانہ روی کاپتادیتا ہے۔ وہ رجائیت اور یاسیت دونوں طرح کی کیفیات کو انسانی نفسیات کا حصہ گردانتا ہے۔ رجائیت پسند برائوننگ کے نزدیک دنیا میں سب کچھ اچھے کے لیے ہوتا ہے اور یاسیت پسند شوپنہار کے نزدیک دنیامسلسل برفانی موسم کی زد میں ہے جہاں اندھا ارادہ زندگی کی مختلف صورتوں کی لاانتہاقسموں میں اپناظہورکرتا ہے جو ایک لمحے کے لیے ظاہرہوتی ہیں اور پھرہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتی ہیں۔ رجائیت اور یاسیت کا معاملہ کائنات کے بارے میں ہمیں ہمارے علم کی اس سطح پرفیصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری ذہنی ساخت ایسی ہے کہ ہم چیزوں کو صرف حصوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ان عظیم کونیاتی قوتوں کے اثرات کا احاطہ نہیں کرسکتے جو بیک وقت زندگی کو وسعت دیتی اور قوت بھی فراہم کرتی ہیں اور اسے تہ و بالا بھی کرتی ہیں۔ قرآنی تعلیمات نہ رجائیت بھری ہیں نہ یاسیت پسندانہ جو انسان کے رویے میں بہتری کے امکان اور فطرت کی قوتوں پراس کی فوقیت پریقین رکھتی ہیں۔ (32) یہ اصلاح پسندی ہے جو تسلیم کرتی ہے کہ کائنات ابھی وسعت پذیر ہے اور جوانسان کی شیطان پر حتمی فتح کی امید میں متشکل ہوتی ہے ؎ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون (کلیاتِ اقبال،ص364- ) ایک اور مقام پر اقبال نے کہا ہے کہ ؎ قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (کلیاتِ اقبال،ص391- ) اس سے زیادہ امید افزا خیال کیا ہوگا کہ ؎ ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں (کلیاتِ اقبال،ص378- ) جبرئیل مارسیل وجودیت کے مذہبی عنصر کاپیروکار تھا۔ شروع میں وہ ہیگل کی فعالیت پسندی کے زیرِ اثر تھا جسے بعدازاں اس نے تنقیدکانشانہ بنایا۔ اس کے وجودی افکار موضوع و معروض، روح و جسم، من و تو، خداوخودی کی دوئیوں کے گردگھومتے ہیں۔ مذہبی وجودی یہ سمجھتے ہیں کہ مل کر عبادت کرنے سے فرد کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ انھیں یقین ہے کہ جب کوئی فرد اکیلاعبادت کرتا ہے تو اس کا انہماک اتناگہراہوتا ہے کہ وہ اپنی روح میں ڈوب جاتا ہے۔ وجودی ہمیشہ من و تو کے ذریعے مکالمہ کرتے ہیں اور ہم، وہم سے گریز کرتے ہیں۔ میانہ رو اقبال باجماعت نمازپرزوردیتے ہیں اورفرد کو اکیلے میںعبادت کی بھی تلقین کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ نمازکااصل مقصدبہتر طورپراس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب نماز کا عمل باجماعت ہو۔ ہر سچی عبادت کامنشاسماجی نوعیت کاہوتا ہے۔ اجتماع انسانوں کی ایک تنظیم ہے جو ایک ہی جگہ صورت پذیر ہوکر ایک ہی مقصد پرمل کرمنہمک ہوتے ہیں اور اپنے باطن کو ایک جذبے کے ساتھ ایک دوسرے پرظاہر کرتے ہیں۔ اقبال نے وجودیوں کے اس تصورکی نفی کی ہے کہ اجتماعی عبادت توجہ کو متاثرکرتی ہے۔اقبال کے خیال میں یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ باہمی تعلق عام انسان کی عقلی قوت میں اضافہ کرتا ہے، اس کے جذبات کو گہرا کرتااور اس کے ارادے کو اس کی انفرادی تنہائی میں اس حدتک متحرک کرتا ہے جس کا اسے خود علم نہیں ہوتا ۔ اقبال کے نزدیک باجماعت نماز پڑھنے سے اسلام کے معاشرتی اصول کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام انسانی مساوات پرزوردیتا ہے اس طرح کی مذہبی عبادت یعنی باجماعت نمازپڑھنے سے معاشرے کے مغروراور رتبے کا خیال رکھنے والوں کے غروراور رتبے کا انسداد کرتے ہیں۔’’بحالتِ اجتماع ایک عام انسان کی قوتِ ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی اور اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیداہوتی ہے جو دوسروںسے الگ تھلگ رہنے میںہرگز ممکن نہیں۔‘‘(33) اقبال کے نزدیک جماعت فرد سے برتر ہے۔ معاشرہ ایک فرد کو اپنی صلاحیتوں کے آزادانہ اورمنصفانہ اظہار کے مواقع مہیاکرتا ہے۔ اتحاد، اتفاق اور یگانگت کے بغیر انسان کی کوئی وقعت نہیں ؎ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (کلیاتِ اقبال،ص217- ) o فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود (کلیاتِ اقبال فارسی،ص99- ) مذہبی انفرادیت کاپرچارکرنے والے وجودی خودفریبی کا شکارہوتے ہیں۔ وہ خودساختہ افسردگی اور دل برداشتگی کا روناروتے رہتے ہیں اور انسانوں کو خدا سے دل گرفتگی اور شکایات پرمائل کرتے ہیں۔ وہ انسانوں کی انسانوں سے دوری پر خوش ہوتے ہیں۔ اقبال ان کے مقابلے میں خدا، معاشرے اور فرد کی اپنی اپنی اہمیت کا احساس رکھتا ہے۔ سیاسی طورپر وجودی انفرادیت کے معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی انفرادیت معاشرے کو طوائف الملوکی اور انتشار کا شکار کرسکتی ہے۔ اقبال کا نقطۂ نظر اس بارے میں بھی متوازن ہے ؎ جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں جاتا (کلیاتِ اقبال،ص661- ) اقبال اپنی مثالی ریاست میں فرد کو اپنی صلاحیتوں کے پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع کی گنجائش کے حق کی وکالت کرتا ہے اور اس کے لیے ایک جامع اور مربوط سماجی نظام کی تشکیل پراصرار کرتا ہے۔ فرد اور معاشرہ ان کے مطابق ایک ہی لکیر کے دونکات ہیں لہٰذا انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ؎ فرد می گیردد ز ملت احترام ملّت از افراد می باید نظام (کلیاتِ اقبال،فارسی ص99- ) یاپھر ؎ فرد را ربطِ جماعت رحمت است جوہرِ او را کمال از ملت است (کلیاتِ اقبال،فارسی ص99- ) قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم (کلیاتِ اقبال،ص93- ) بالاسطور میں اقبال کے خطبات کے جوحوالے باربارآئے ہیں ان سے پتاچلتا ہے کہ وجودیت کے علمبرداروں اور مفسروں سے متاثرہوئے بغیر آزادانہ طورپر اقبال ان محسوسات، معاملات، مشاہدات اور تجربات کو تخلیقی اور فکری سطح پر برتتا چلاگیا ہے۔ جیسا کہ اقبال نطشے کے الحاد کو رد کرتا ہے اور کرکے گار کے سچے فرد کی طرح خودکوہرلحظہ خداکے حضور محسوس کرتا ہے۔ کرکے گار ذاتِ خداوندی کے وسیلے سے انسان کو پہچانتا ہے۔ نطشے کے فوق البشر کی کوئی مذہبی اخلاقیات نہیں جیسے کرکے گارمذہب کو ایک قوت تسلیم کرتا ہے اور الوہیت کا پرچارک ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی خودی کی اہمیت تسلیم کرتا ہے۔ وہ انسان کو ہرلحظہ تغیرکا سامناکرتے ہوئے متحرک اور فعال تصورکرتا ہے۔ خودی کا فلسفہ تحر ک اور فعالیت ہی سے مملو ہے ؎ خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا برنگِ بحر ساحل آشنا رہ کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا (کلیاتِ اقبال،ص410- ) خودی کی پہلی منزل فرد کا اپنی باطنی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی انفرادیت کی پہچان اور اس کا تعین ہے تاکہ وہ داخلیت سے خارجیت کی طرف جست کے قابل ہوسکے اور اپنے ارادے اور اختیار کو بروئے کار لانے کے قابل ہوجائے۔ خدالگتی کہیے کہ کیا وجودیت اس لحاظ سے فلسفۂ خودی اور بے خودی کا بدل نہیں ہے اگرچہ اس فلسفے کی دیگر تفصیلات، تشریحات اور توضیحات میںتنوع بھی ہے اور اختلافات بھی ہیں۔ تاہم داخلی کیفیات میں فرد کا اپنے وجود کو دریافت کرنا وجودیت کی اساس ہے اور خودی کے فلسفے کی بھی تاہم اقبال وجودی معرفت پر رک نہیں جاتا بلکہ اس حوالے سے معرفت الٰہی کی منزل پاناچاہتا ہے۔ انفرادی حوالے سے اقبال نے خودی کو اپنے نفس اور اپنی ذات کے مکمل شعور کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس زاویے سے اقبال اور جدیدوجودیت کے بانی کرکے گارد اور کارل جیسپرز کے خیالات میں ایک حدتک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقبال کے مطابق عرفانِ ذات، خدا کی معرفت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اطاعتِ الٰہی، ضبطِ نفس اور نیابت الٰہی خودی کے تادیب وتہذیب کے تین مراحل ہیں۔ عبودیت میں گم ہوکر انضباط اور جذبات کی تہذیب سے گزرکر نفس کی سرکشی پرقابو پاکرانسان خدا سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس سے بندے میں تسخیرکائنات کی الوہی صفات پیداہوجاتی ہیں اس سے انسان خلیفۃ اللہ کے حقیقی منصب پر فائزہوتا ہے جس کے انتظارمیں کائنات بے قراررہتی ہے۔ اقبال انفردی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پربھی ضعف اور نفیٔ خودی کا مخالف ہے۔ اس سے غلامانہ ذہنیت پیداہوتی ہے اور فرد اپنی بے بسی اور لاچاری کو فقراور درویشی کا نام دیتا ہے اور ان کی ایسی زیبائش کرتا ہے کہ اہل ہمت کو بھی اس کی تعلیم میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ وحدانیت پرایمان دین و حکمت کا سرچشمہ ہے اور فرد اس سے ہر قسم کی قوت حاصل کرتا ہے۔ اس سے اس کا دل بے ہراس ہوجاتا ہے اور ہمت عالی ہوجاتی ہے۔ رسالت بصیرت کا منبع ہے۔ یہ انسانوں کو بے بسی اور ناطاقتی سے نجات دلاتی ہے۔ عشق اور حریت بھی محکومی اور غلامی کی نفسیات کے ساتھ انفرادی خودی کے تصور کا جزولاینفک ہیں لیکن اقبال نے عین اسلامی عقائد کے مطابق فرد اور جماعت میں توازن قائم رکھا ہے اور فرد کی نفسیات کو اس کشاکشِ دنیاوی میں جماعت کے مفادات سے الگ نہیں کیا۔ خودی کی تعلیم غلاموں کو احرار بناتی ہے اور ضعیفوں کو پیکار کی قوت بخشتی ہے اور اسی سے ارتقا کی راہیں کشادہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔خوئے غلامی سے فرداور قوم کو بچانے کے لیے اقبال نے اس طرح کے اشعار کہے ہیں ؎ خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام (کلیاتِ اقبال،ص655- ) کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند تاویلِ مسائل کا بناتے ہیں بہانہ (کلیاتِ اقبال،ص652- ) اقبال کا فلسفۂ بے خودی اقبال کے فلسفۂ خودی کی تکمیل کرتا ہے۔ فرد ایک قطرے کی طرح ملت کے دریا میں ملتا ہے لیکن اپنی ہستی فنانہیںکرتا۔ اس طریقے سے اس کی انفرادی خودی مزید استحکام پاتی ہے۔ ’’خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظراندازکرے، وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا انسانی تجربے نے بتایا ہے کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی(شعور)سے متحدہوجاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیداہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفردی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بندہوجاتا ہے…کسی آئین کے بغیراجتماعی خودی پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور اس کے اجزاء یوں بکھرجاتے ہیں کہ فرد کی خودی بھی شدیدطورپرمتاثرہوتی ہے اور اس میں انتشارپیداہوجاتا ہے۔‘‘(34) انفرادی اوراجتماعی خودی ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ ایک طر ف فرد ملت کے آئین اورضوابط کی پابندی کرکے کسی قدر خودشکنی مگراصلاً ارتقا سے گزرکرملت کا بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے اور ملت کی اجتماعی قوت کا امین ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف ملت قوانین کو لاگوکرکے خودی کو تعمیری اور تخلیقی رو کا پابند بناتی ہے۔اجتماعی خودی کے لیے اقبال کی مثالی جماعت ہیئتِ اجتماعیہ اسلامیہ ہے۔ توحیداور رسالت کے تمام پہلو، خبریات اور متعلقات سے انسانیت کا ایک عالمگیر تصورممکن ہے اور اسی سے اجتماعی خودی تشکیل پاتی ہے۔انفس وآفاق دونوں کی ہم آہنگی اسلام کا مطمحٔ نظر ہے۔ خودی اور بے خودی باہم انجذاب سے انسان کو کائنات کی تسخیرکاسبق دیتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روح یہی ہے۔ سائنسی ترقی کے بغیرہئیت ملتِ اجتماعیہ اسلامیہ کا ارتقاء جاری نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی خودی کی تشکیل اور ملت کے احساسِ خودی کی توسیع کے لیے علمِ کائنات اورتسخیرِ کائنات کے ساتھ تاریخ اور روایات کا تحفظ اور احترام بھی ضروری ہے۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لیے حافظے کا درجہ رکھتی ہے اور حافظے ہی سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط و تسلسل قائم رہتا ہے۔ دنیامیں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ماضی اور مستقبل دونوں جہتوں سے استواررکھتی ہیں۔ شعورِخودی کی کفالت اور نشوونمابھی اسی سے ممکن ہے۔ وجودیت عقل کو مطلق اورحتمی تصورنہیں کرتی۔ بلکہ وہ کسی حد تک منطق کو بھی خاطرمیں نہیں لاتی اور ذات کے تجربے پر انحصارکرتی ہے۔ بانگِ درا کی ایک نظم ’’عقل و دل‘‘میں اقبال نے عقل اور دل کے درمیان مکالمے کی صورت میں یہی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم اگرچہ ان کے ابتدائی دور کی نظموں میںسے ہے لیکن عشق اور عقل کے تصور میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے عقل اور عشق کے لیے جو مقام متعین کیے ہیں ان کے بعد کے کلام اور افکار میں بھی انھیں یہی مقام حاصل رہا ہے بس اتنا ہوا ہے کہ ان کے احوال اور کیفیات کی مزیدتشریحات اور پہلو سامنے آتے رہے ہیں۔ اس نظم کوسامنے رکھ کر عقل اور عشق کے مقام کو متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں: ۱۔ عقل ہستی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مظاہرکے ذریعے سے وہ حقیقت کا بالواسطہ ادراک کرتی ہے۔ حواس کے ذریعے سے جوعلم اسے حاصل ہوتا ہے اس کے واسطے سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے لیکن عشق بلاواسطہ طورپربراہِ راست حقیقتِ ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح عقل کا منزل تک پہنچنا یقینی نہیں ہے مگر عشق بلاشبہ منزل سے آشناہوتا ہے۔ ۲۔ عقل زمان و مکان کے حدودکی پابند ہے۔ ان حدودکوتوڑنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ صرف زمان و مکان کے مظاہرکے ادراک کا ذریعہ ہے۔ اس سے ہمیں صرف علم حاصل ہوتا ہے مگر عشق کی پہنچ زمان و مکان کی حدود سے ماورا اور اس عالم نامحدود تک ہے جہاں حقیقتِ مطلق بے حجاب نظرآتی ہے اور یہی ’معرفت‘کا مقام ہے۔ ۳۔ عقل علم کے ذریعے حقیقتِ مطلق تک پہنچناچاہتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے جبکہ عشق اپنی کوشش میں کامیاب ہوتا ہے۔ عقل’خداجو‘اورعشق ’خدانما‘ ہے۔ تاہم علم برے بھلے کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ اسی سے سیدھے راستے کی پہچان ہوتی ہے۔ علم حیرانی اور بے تابی پرمنتج ہوتا ہے اور اس مرحلے پرعشق رہنماہوکر منزل تک پہنچاتا ہے۔ ان بنیادی نکات کو سامنے رکھ کردیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ عقل اورعشق کے درمیان کوئی بنیادی تضادیااختلاف موجود نہیں ہے۔ دونوں اپنی اپنی حدود میں وہ کام انجام دیتے ہیں جو ان کے ذمے ہیں۔ابتدائی مراحل میں تو عقل کی اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی آخری مراحل میں عشق کی ؎ فطرت کو خرد کے رو برو کر تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر (کلیاتِ اقبال،ص387- ) گویا عقل کی رہبری میں بھی انسان بہت سے مقامات اور مدارج کو طے کرنے کے قابل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی صداقت اور حقیقت کی متلاشی ہے اور درست راستے کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اس کے اندر عشق کی کئی صفات بھی پائی جاتی ہیں مگر وہ جوش و خروش، والہانہ تڑپ، حرکت و حرارت اور جرأت مندی جو عشق کا امتیازی شیوہ ہے، عقل کو میسرنہیں۔ اسی لیے وہ رہبرو رہنماہونے کے باوجود منزل سے محروم رہتی ہے ؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں (کلیاتِ اقبال،ص375- ) گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے (کلیاتِ اقبال،ص409- ) تاہم اقبال نے جزوی اورعملی امورمیں عقل کو بہت کارآمد قراردیا ہے، عقل پران کا اعتراض صرف اتنا ہے کہ کلی امور میں عقل ہمیشہ واماندہ اور عاجز ہے ؎ اک دانشِ نورانی، اک دانشِ برہانی ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی (کلیاتِ اقبال،ص356- ) عقل کی قوتوں نے سائنسی انکشافات انسان سے کرائے ہیں۔ تسخیرِفطرت میں انسان کی رہنمائی کی ہے۔ تمدن اور تہذیب کے مدارج طے کرنے میں انسان کی مدد کی ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت کے نئے نئے راستوں کو اجاگرکیا ہے۔ گویاانسان کی ظاہری زندگی کو بنانے سنوارنے، قاعدے میں لانے اور منظم کرنے میں تمام کارہائے نمایاں عقل نے انجام دیے ہیں۔ عشق نے دوسری طرف انسان کا دل روشن کیا ہے اور باطنی ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔ روحانی اوراندرونی مسائل کا ادراک کیا ہے اور انسان کو روحانی اور قلبی سکون فراہم کیا ہے ۔ عشق و ایمان سے زیادہ طاقت ور جذبہ دنیامیں اورکوئی نہیں ہے ۔عقل اسباب و علل کے چکرمیں پھنسی رہتی ہے ۔ اس سے آگے قدم بڑھاناعشق کا کام ہے جسے چشمِ غیبی نصیب ہوتی ہے۔ اس کی ایک ہی جست سے انسان زمان و مکان کی حدود سے آگے نکل جاتا ہے ؎ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں (کلیاتِ اقبال،ص355- ) o بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی (کلیاتِ اقبال،ص310- ) یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل پرعشق کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عشق ہی سے حقائقِ اشیا کامکمل علم اور صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اقبال عقل کے مخالف نہیں۔ کرکے گار کے ہاں بھی عقل اور عشق کے درمیان یہی تفریق موجود ہے یعنی جب تغیراور تحرک کے کسی نتیجہ خیزمرحلے پرعشق اورمنطق میں سے انتخاب کرناپڑے تو عقل کے تابع مہمل بننے کی بجائے عشق ہی سے کام لیناچاہیے۔اقبال کا ایک اور قطعہ’ عقل و دل،اس کیفیت کی زیادہ واضح توضیح کرتا ہے ؎ ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی باہر نہیں کچھ عقلِ خداداد کی زد سے عالم ہے غلام اس کے جلالِ ازلی کا اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے (کلیاتِ اقبال،ص552- ) اس کے بغیر تصرف اور ایجاد کی صلاحیتیں بے کار ہیں۔ اس کے بغیرزندگی ممکن نہیں لیکن اس پر حدسے زیادہ انحصارکرنا اقبال کے خیال میں درست نہیں۔ عقل کی دسترس ایک خاص حد تک ہے۔ اس سے آگے وجدانی صلاحیتوں کی کارفرمائی ہے جو عشق سے منسلک ہیں لیکن جذبہ، جبلت اور وجدان پربھی اسی صورت میں اعتماد کیاجاسکتا ہے جب انھیں عقل کاآسرامیسرہو۔ کیونکہ عقل کے استعمال کے بغیر منہ زور جذبہ انسان کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لیکن پھربھی اقبال نے عقل کی بجائے عشق کو زیادہ صاحبِ ادراک قراردیا ہے ؎ زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک (کلیاتِ اقبال،ص394- ) عقل اسباب و علل کی بھول بھلیوں میں گم ہوکراصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہے۔ عقل میں جرأت رندانہ کی کمی ہوتی ہے۔ عشق کے بغیروہ پیش رفت کرنے سے کتراتی ہے۔ جہاں وہ قدم روکتی ہے عشق زندگی کے کارواں کی زمام سنبھال لیتا ہے۔ اقبال نے خودی کی تربیت کا سب سے بڑا وسیلہ عقل نہیں بلکہ عشق کو قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر تخلیقِ مقاصدممکن نہیں جو خودی کا بنیادی کام ہے۔ تخلیقِ مقاصد جذبۂ عشق کے بغیرممکن نہیں۔ اقبال سے پہلے بھی عشق کی بہت سے تفسیریں ہوئی ہیں ان میں جنسی اور رومانی عشق سے لے کر متصوفانہ عشق تک کئی تصورات شامل ہیں لیکن اقبال کا عشق بے حدوسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’مسجدِقرطبہ‘‘ کاایک بندعشق کے بارے میں اقبال کے افکارکواپنی تمام ترگہرائیوں اوروسعتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس سے عشق کو عقل پرترجیح دینے کے لیے اقبال کے تمام دلائل وبراہین واضح ہوجاتے ہیں ؎ مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دمِ جبرئیل ، عشق دلِ مصطفیٰ عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک عشق ہے صہبائے خاک، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہہِ حرم ، عشق امیرِ جنود عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات (کلیاتِ اقبال،ص419-420- ) اور پھراقبال اسی نظم میں عشق کو سراپا دوام اور رفت و بود سے ماورا قرار دیتا ہے کیونکہ عشق مقصود حاصل کرنے کے بعد ایک نئی آرزو از خودپیداکرلیتا ہے ؎ ہر لحظہ نیا طور ، نئی برقِ تجلّی اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے (کلیاتِ اقبال،ص639- ) و ہ خاصیتیں جن کے باعث اقبال عشق کو عقل پرفوقیت دیتا ہے ان میں خوداستحکامی اور خودافزائی کے انتہائی مرتبے کے حصول میں اس کا کردار ہے ؎ صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِحسین بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق (کلیاتِ اقبال،ص439- ) اقبال معروف معنوں میں وجودی نہیں لیکن دیکھیے کہ وجود یہاں کس درجہ تخلیقی سطح پراستعمال ہوا ہے ع وجود کیا ہے فقط جوہرِ خودی کی نمود(کلیاتِ اقبال، ص546- ) جیساکہ نظری حصّے میں یہ نکتہ سامنے آچکا ہے کہ انسانی وجود کے معنی اور اہمیت کی تلاش اورادراک ہی وجودیت کا جوہرہے۔ سارتر کے نزدیک انسان اپنی قوتِ ارادی اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی منزل کو پاسکتا ہے اور شکست و فتح سے بے نیاز رہتے ہوئے ذاتی تجربے سے گزرکر اپنی موجودگی کا پتادیتا ہے۔ اقبال کے ہاں شاہین کا تصور وجود کی اس فعالیت، تحرک اور فطری صلاحیتوں کا مظہر ہے جو گھبرانانہیں جانتا۔ شاہین طیور کا سردار ہے ع یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ (کلیاتِ اقبال،ص378- ) دوسرے پرندے خوبصورت بھی ہیں۔ خوش آوازبھی ہیں مگر ان کا حوصلہ بلند نہیں ہے۔ ان کی پرواز میں تیزی نہیں، وہ سکون کے عادی ہیں حرکت کے نہیں ؎ کر بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے ، طائوس فقط رنگ (کلیاتِ اقبال،ص401- ) شاہین کی پرواز کی کوئی حد نہیں۔ اسی طرح اس کی نظر کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کی آنکھ میں تجسس ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے مظاہر سے دوسرے پرندوں کی بہ نسبت زیادہ باخبرہوتا ہے۔ چاہے وہ پرندے اس سے کتنا ہی حسدکریں۔ اقبال انھیں شاہین کے مقابل کم تر اور اچھوت کہتا ہے ؎ زاغ کہتا ہے نہایت بد نما ہیں تیرے پر شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام روح ہے جس کی دمِ پرواز سر تاپا نظر (کلیاتِ اقبال،ص681-682- ) وہ پر جنہیں زاغ بدنماکہتا ہے، شاہین ان پر فخرکرتا ہے ع صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست دراصل شاہین نہیں اس کی ہمت پرکُشاہوتی ہے۔ اس ہمت کے سامنے آسماں کی بھی کوئی حقیقت نہیں ؎ بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں زیرِ پر آگیا تو یہی آسماں، زمیں (کلیاتِ اقبال،ص689- ) شاہین کی خصوصیات جیسا کہ یہاں بیان ہوئی ہیں، یہی ہیں کہ وہ کبھی پرواز سے تھک کرنہیں گرتا، وہ باہمت غیور اور خوددارہوتا ہے،کسی کا مارا ہوا شکارنہیں کھاتا، آشیانہ نہیں بناتا،بلندپروازہے، خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے، یعنی سراپا اسلامی فقر، حرمت اور حریت کی تمثیل ہے ؎ اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن شاہیں سے تدر￿و کی غلامی (کلیاتِ اقبال،ص601- ) اقبال کی مکمل نظم’’شاہین‘‘ان کے’’شاہین‘‘ کے بارے میں تصورات کانچوڑہے ؎ کیا میں نے اس خاک داں سے کنارہ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ نہ بادِ بہاری ، نہ گلچیں ، نہ بلبل نہ بیماریٔ نغمۂ عاشقانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی ، زاہدانہ جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں ،بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ (کلیاتِ اقبال،ص495- ) ہمارے لیے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اقبال ایک پرندے ’شاہین‘ کے ذریعے ہم انسانوں کو کیا پیغام دیناچاہتا ہے۔ وہ ان انسانوں کو انسان سمجھتے ہیں جن میں شاہین کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ؎ فطرت کے تقاضوں کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی (کلیاتِ اقبال،ص691- ) دراصل اقبال خاص طورپرنوجوان مسلمانوں کے دل سے زوال کے احساس، تن آسانی اورپژمردگی کو دورکرکے ان میں غیرت، آزادی، بلند پروازی، تیزنگاہی اور قلندری جیسی صفات پیداکرنے کا آرزومند ہے تاکہ انسان ان خوبیوں کو تسخیرِفطرت کے لیے، انقلاب کے لیے، مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اور دنیا اور آخرت میں سرخروئی کے لیے کام میں لائے۔ اقبال شاہیں بچوں کو زاغوں، کبوتروں اور کرگسوں کی صحبت سے دور رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ وہ ان کی طرح نوجوانوں کو کمزورنہیں بلکہ شاہین کی طرح طاقتور دیکھناچاہتا ہے تاکہ وہ جرمِ ضعیفی کا شکارہوکرمرگ مفاجات سے دوچارنہ ہوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر یوں متحرک ہوں کہ انسانی معاشرت میں تبدیلی لاسکیں۔ اپنے جوش، کردار اورخیرپرستی کے سبب دنیاپرچھا جائیں۔ ’’آزادی کی قدرشاہین کی حیاتی نمومیں بڑی اہم حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(35) اقبال کا مردِ کامل جسے اقبال نے مردِ مومن، مردِ حق،بندہ ٔ آفاقی، مردِ خدا، مردِ بزرگ، مجاہد، مسلم، قلندر اور کئی اور ناموں سے پکارا۔ اقبال کے خودی کے تصور کا مثالی فرد ہے ع نقطۂ پُرکارِ حق، مردِ خدا کا یقین (کلیاتِ اقبال،ص424- ) یا پھرع نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں (کلیاتِ اقبال،ص301- ) یعنی اقبال کے مردِ مومن یا مردِ کامل میں تجدیدِ حیات، جلال و جمال، جہدوعمل، عشق، حق گوئی، بے باکی اور فقر کے اوصاف ضروری ہیں۔اقبال کا شاہین کا تصور بھی اقبال کے مردِ مومن کے تصور سے پیوست ہے۔ فکرِ اقبال اور وجودیت میں اشتراک کے پہلوئوں کی تلاش میں اردواورانگریزی زبانوں کے نقادوں اور محققوں نے بہت زورِ تحقیق صرف کیا ہے۔ یہ بجا ہے کہ وجودیت کی تحریک اقبال کے زمانے میں ہی پروان چڑھی اور اپنے عروج کو پہنچی لیکن یہ امرباعثِ حیرت ہے کہ اقبال کی اپنی تحریروں میں وجودیت کا کوئی براہِ راست حوالہ موجود نہیں حالانکہ وہ اپنے عہد کے سب سے زیادہ کثیرالمطالعہ شخص تھا۔ وجودی مفکروں میں سے نطشے کا ذکراس کے ہاں زیادہ ملتا ہے۔پیامِ مشرق میں صحبت ِرفتگاں میں کارل مارکس اور ہیگل کے ساتھ نطشے بھی موجود ہے۔ جاوید نامہ میں حکیم المانوی نطشہ اور ضربِ کلیم میں حکیم نطشہ کے عنوان سے نظمیں شامل ہیں۔ ایک نظم یورپ، نطشے سے ماخوذ ہے جو بالِ جبریل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شذراتِ فکر اقبال میں ہیگل کا نظام فلسفہ (ص71- )ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل ،ورڈزورتھ(ص105- )اور برگساں کے افکار پر بھی اقبال نے بہت توجہ صرف کی ہے۔ ان کاایک مقالہ ’’بیدل برگساں کی روشنی میں‘‘دریافت ہوچکا ہے۔ یہ بھی اقبال کے قاری جانتے ہیں کہ اقبال نے فلسفے میں ایم۔اے کیاتھا چنانچہ پرانے اور نئے افکار سے ان کی دلچسپی ظاہروباہرہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں ہرفلسفہ اور ہرفکربھاتی ہو۔ وہ ہر لحظہ غوروفکر کرنے والا مفکر تھا لیکن شاعری کا جوہر انھیں فطرتی طورپر ودیعت ہوا تھا۔ ان کی تحریروں کا بغور مطالعہ کرنے والے بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ کوئی بھی نکتۂ نظر یا اندازِ نظر من و عن قبول کرنے کا قائل نہیں تھا۔ اس نے خوداپنے اس مزاج کا اظہارکئی مقامات پر کیا۔ مثلاًضربِ کلیم کی نظم اجتہاد میں وہ کہتا ہے ع آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق (ص32- )ضربِ کلیم ہی میں فلسفہ، نظم میں وہ اپنے آپ کو تلقین کرتا ہے ع الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا،(ص55- )بالِ جبریل کے قطعے فلسفی (ص170- ) میں وہ کسی فلسفی پر یوں طنز کرتا ہے جو اغلباً نطشے ہوسکتا ہے ؎ بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سرِ محبت سے بے نصیب رہا پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا (کلیاتِ اقبال،ص494- ) اس قطعے میں وہ فکر و نظر کی جدت اور طبع زادیت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ برگساں اور ہیگل کو بھی اس نے جوں کا توں قبول نہیں کیا۔ آپ ذرا یہ اشعار دوبار پڑھیں ؎ تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زنّاریٔ برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی (کلیاتِ اقبال،ص530- ) یہاںنظم’ فلسفہ‘کا یہ مصرع یادکرنے کا مقام ہے : ع غواص کو مطلب ہے، صدف سے کہ گہر سے، بالا دو شعروں کے بعد یہ اشعار بھی اقبال کا ذہن فلسفے کے بارے میں پڑھنے کے لیے دہرانے ضروری ہیں ؎ انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفۂ زندگی سے دوری افکار کے نغمہ ہائے بے صوت ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت (کلیاتِ اقبال،ص530- ) اس پربھی غور کریں کہ ضربِ کلیم کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘کے عنوان میں اقبال نے فلسفہ زدہ کی ترکیب مرض کے طورپراستعمال کی ہے۔ ضربِ کلیم ہی کی ایک اور نظم’’علم وعشق’’ میں بھی اقبال کسی ایسے ہی صاحبِ مطالعہ شخص کو نصیحت کرتا ہے ع بندۂ تحسین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن (ص33- )بجا کہ اقبال نے وجود، ذات، خودی اور اس کے ملتے جلتے ہم معنی الفاظ، تراکیب اور علامتیں اپنے اشعار اور خطبات میں باربار استعمال کی ہیں اور ان میں وجودیت پائی بھی جاتی ہے جیسے ؎ و ہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا (کلیاتِ اقبال،ص526- ) اور ایسے شعروں میںآزادی، ارادہ، اختیار، عظمت، فعالیت اور قوت کا بھرپور اظہار وجودی افکار سے مماثلت رکھتا ہے لیکن یہ تحقیق مماثلت اور اشتراکات کی حد تک درست ہے اور اقبال کے وجودیت کے بالاستیعاب مطالعے کے شواہد فراہم نہیں کرتی جس سے اقبال کا وجودیت سے متاثرہوناثابت نہیں ہوتا چاہے آپ اقبال اوروجودیت کا اشتراک ہیگل کے فلسفے کو مسترد کرنے کی مشترکہ قدر میں بھی تلاش کیوں نہ کرتے ہوں اوروجودیت کو ہیگل سے نطشے کی طرف بڑھنے کا نام ہی کیوں نہ دیتے ہوں۔ ذرا حکیم نطشے کے بارے میں اقبال کے خیالات تو دیکھیے ؎ حریفِ نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرارِ لا الٰہ کے لیے خدنگِ سینۂ گردوں ہے اس کا فکرِ بلند کمند اس کا تخیل ہے مہر و مہ کے لیے اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی ترس رہا ہے مگر لذّتِ گنہ کے لیے (کلیاتِ اقبال،ص597- ) اس نظم اور بالا حوالوں سے کیا ظاہرہوتا ہے یہی ناں کہ اقبال اپنے اردگرد نگاہ ضرور ڈالتے ہیں اور زندگی کے راز کو کھولنے کی سعی بھی کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیت علم کے جویافرد کی ہے، جو اپنے بارے میں خودکہتا ہے کہ ع جاتاہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ(فلسفہ و مذہب،بالِ جبریل،ص104) لیکن اس کی پیروی زیاد ہ دیرسوچے سمجھے بغیرنہیں کرتا۔ چنانچہ عمومی طورپر اقبال کی شاعری اور افکار پر ’وجودیت‘ کی جوپرچھائیاں نظرآتی ہیں وہ اسی قدر ہیں جو ہرفطری شاعر کے ہاں ڈھونڈی جاسکتی ہیں کیونکہ وجودیت بہرحال انسانی زندگی اور انسانی نفسیات سے علاقہ رکھتی ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ اپنی زندگی کے کسی مرحلے پر اقبال نے وجودی افکار سے استفادہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب وجودی نظامِ فکر کے دوسرے پہلو جیسے کائنات، بیگانگی، الحاد اور لایعنیت کا تذکرہ ہوگا تو اقبال کے ہاں ایسے تصورات، معاملات اور نکات آپ کو کیفیات یا جذبات کے حوالے سے تومل جائیں گے لیکن فکری سطح پر ان کااثبات کہیں نہیں ملے گا کیونکہ غوروفکر کے بغیروہ کچھ بھی تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں ہوتے ؎ شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا (کلیاتِ اقبال،ص531- ) اقبال اپنے دور کی ذہین ترین اور طباع شخصیت تھا ۔اس کے افکار میں تنوع، وسعت، گہرائی اور ندرت ہے۔ بطور شاعر ان میں ہررجحان اور ہرفکر کے شعر مل جائیں گے۔جیسے آپ میر، غالب، کافکا، بریخت، رلکے، مصحفی، آتش جیسے ہر شاعراور ہرافسانہ نگار میں ہرتحریک اور تصورات کے آثار تلاش کرسکتے ہیں ویسے ہی اقبال پر بھی آپ کو ہرفلسفے کا پرتو ملے گا جو ان کے زمانے سے پہلے اور بعد میں معروف ہوا۔ اقبال حددرجہ تجزیاتی ذہن کے حامل بھی تھے اور ان کی تخلیقی قوت بھی انتہا کی تھی۔ وہ خودہرمسئلے، ہرخیال اور ہرنکتے پرہرممکن پہلوئوں سے غوروفکر کے عادی تھے مگر نتیجہ اپنے زاویۂ نگاہ سے نکالتے تھے۔اس لحاظ سے وہ بذاتِ خود وجودیت کا عملی نمونہ ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ کرکے گار کی طرح یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ’’ جب کسی دور میں طوفانِ برق و باراں آنے لگتے ہیں تو مجھ جیسے افراد ظاہرہوتے ہیں۔‘‘(36) کیونکہ انہونی نے ہی انسان کو بے یقینی، عدم اعتماد اور بحران سے نکال کر خوداعتمادی کا سبق پڑھایا ۔ اقبال میں خودستائی نہیں تھی تاہم دوسرے وجودیوں کی طرح وہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہے کہ"I am what I am" کیونکہ وہ فکروعمل کی آزادی کا پرچارک ہے مگر اپنی انفرادیت کے ساتھ اور اجتماعیت کے ساتھ بھی ؎ آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ (کلیاتِ اقبال،ص589- ) وجودیت اور اقبال کے افکارمیں مماثلت یااشتراک کے ساتھ ساتھ توازن اور تفریق کا پہلو بھی بالاقطعے اور مندرجہ ذیل شعرسے واضح ہے ؎ گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد (کلیاتِ اقبال،ص498- ) حواشی و حوالہ جات -1 ڈاکٹرسہیل احمدخان۔محمدسلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات: شعبۂ اردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور،بار اوّل2005 ،ص78- 2- J.A.Cuddon: The Penguin Dictionary of Literary Terms and Literary Theory; Penguin Books; London; 1999; P.294. 3- New Encyclopedia Britannica: Volume VIII, P.78 4- W. Barrel: What is Existentialism?, Grove Press, New York, 1964; P.46. 5- Ibid. P.46. 6- J. Ortega Y-Gasset: Towards a Philosophy of History, Translated by H.Weyl, The World Publishing Company, New York; 1941, P.216-17 7- Walter Kaufman (Ed): Existentialism; From Dostoevsky to Sartre: Meridien Books, New York;1961: P.11. 8- J.P.Sartre: Existentialism and Religious Belief, P.Mairet Methuen, London, 1965; P.25. 9- Everyman's Encyclopedia; Vol. V: J.M.Dent and Sons, London 1958; P.57-58. -10 میر تقی میر: انتخابِ میراز ناصرکاظمی،مکتبۂ خیال، لاہور ،1989 ،ص342- 11- J.P.Sartre: Being and Nothingness. English Translation by Hazel E.Barnez Philosophical Library, New York, 1956; P. 709. 12- George Novack: Introduction to Existentialism/Marxism, Marjorie Grene, Chicago, 1959, P.5. 13- J.P.Sartre: Op. cit. P.784. -14 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان، محمدسلیم الرحمن(مؤلفین): کتاب مذکور ،ص79- 15. Wikipedia, the free encylopedia from internet. 16- Ibid: Internet. -17 بحوالہ ڈاکٹروزیرآغا: تصوراتِ عشق و خرد؛اقبال کی نظرمیں،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع ثانی1987 ، ص197-98- 18- Wikipedia: Op.cit. 19- Ibid: Internet. 20- Ibid: Internet. 21- Ibid: Internet. -22 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد ۔ ۱ (ادبیات): قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2003 ئ، ص۔ 302 ۔ 23- Wikidpedia: Op. cit. -24 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد- ۱ (ادبیات) مذکور، ص۔ 428 ۔ -25 اقبال: تشکیلِ جدیدالٰہیات ِاسلامیہ، مترجمہ سیدنذیرنیازی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، طبع سوم، 1986 ، ص140- -26 اقبال:ایضاً،ص141- -27 اقبال:ایضاً،ص128- -28 اقبال:ایضاً،ص120- -29 اقبال:ایضاً،ص136, 187- -30 اقبال:ایضاً،ص132- -31 اقبال:ایضاً،ص121- -32 اقبال:ایضاً،ص123- -33 اقبال:ایضاً،ص138- -34 شیخ عطاء اللہ(مرتب):اقبال نامہ مجموعہ مکاتیبِ اقبال،حصہ اول، شیخ محمداشرف، لاہور،س۔ن۔ ص24- -35 عزیزاحمد:اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز،لاہور،س۔ن۔ -36 ڈاکٹرجمیل جالبی:تنقیداورتجربہ،یونیورسل بُکس، لاہور،1988 ،ص315- ٭٭٭ باب سوم: حصہ پنجم اشتراکیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء اشتراکیت انگریزی اصطلاحSocialism کا اردو مترادف ہے۔ اس سے بطوراصطلاح ایک ایسی ’’معاشرتی تنظیم اور حکومت کا ایک نظریہ یا طریقہ‘‘ مراد لیاجاتا ہے’’جس میں ذرائع پیداوار اور تقسیم لوگوں کی اشتمالی ملکیت ہوتے ہیں اور انتظامی باگ ڈور ریاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘(1) اشتراکیت کی اصطلاح اردو میں عربی زبان سے مستعار لی گئی ہے۔ جس کا لغوی مطلب بھی لگ بھگ وہی ہے جو انگریزی میں سوشلزم کی اصطلاح کا ہے۔ اشتراکیت کے معانی عربی میں پیداوار کے ذرائع اجتماعی یا سرکاری ملکیت میں رکھنے کے ہیں اور یہ بھی اس کے معانی میں شامل ہے کہ ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق کا م لیاجائے اور اس کا معاوضہ اس کی محنت کے مطابق ادا کیاجائے۔(2) اشتراکیت کا سب سے بڑا محرک کارل مارکس کو تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس کے افکار کے’’ مطابق اشتراکیت اس’درمیانی صورت حال کا نام ہے‘ جس کا سرمایہ داری نظام کے بعدآنا اٹل ہے اور اس کے بعد ہی مکمل غیرطبقاتی معاشرہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘(3) اشتراکیت کی اس تعریف سے پڑھنے والے کا ذہن جدلیاتی عمل کی طرف چلاجاتا ہے جو اشتراکی فلسفے کی بنیاد ہے۔بعض نقاد افلاطون کے مکالماتی اسلوب میں جدلیاتی عمل کی ابتدائی شکل ڈھونڈتے ہیں۔ جدلیات یاDialectics کا ذکر آگے آئے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ اشتراکیت یا سوشلزم میں موجود تصور، زمانۂ قدیم میں افلاطون ہی نے اپنی ’’کتابِ قوانین‘‘ میں کچھ یوں پیش کیاتھا: ’’…اس پرانی کہاوت پر کہ دوستوں کی سب چیزیں مشترک ہوتی ہیں، وسیع پیمانے پر کبھی عمل ہوا ہے یا نہیں، معلوم نہیں۔ ایسی کمیونزم کہیں موجود ہے یا نہیں یاآئندہ کبھی رائج ہوگی یا نہیں جس میں عورتیں، بچے اور املاک مشترک ہوں اور نجی یا ذاتی اشیاء کا تصور ہی زندگی سے خارج ہوجائے۔‘‘(4) افلاطون کا پیش کردہ یہ پراناتصور قدیم برطانیہ کی دہقانی اشتراکیت اور جرمنی کے انقلابی مفکر تھامس موئنزز کے علاوہ مزدک کی تحریک میں بھی تلاش کیاجاتا ہے۔ پروفیسرکارل ڈیل کے مطابق ’’سوشلزم یا اشتراکیت صرف ذاتی محنت کی کمائی کو جائز سمجھتا ہے۔ البتہ جائیداد سے حاصل کردہ آمدنی کا قائل نہیں۔‘‘(5) اب دیکھتے ہیں کہ جدلیات پرغوروفکر کرنے والوں کی توجہ مکالمات افلاطون کی طرف کیوں مبذول ہوئی۔ دراصل جدلیات کے معانی میں پوشیدہ طورپر نہیں واضح طورپر ہی شامل ہے کہ جدلیات’’منطقی بحث و استدلال کا فن اور معمول‘‘ کو کہتے ہیں جیسے’’ عموماً سوالاًجواباً کلام میں ہوتا ہے جسے کسی نظریے یا رائے کی صداقت کی تحقیق کے سلسلے میں بروئے کارلایاجاتاہے۔‘‘(6) جدلیات کوعلم الکلام بھی گرداناجاتا ہے اور اسے منطق کی ایک شاخ کے طورپر پہچاناجاتا ہے۔ اصطلاحاً’جدلیات‘ جدلی مادیت پسندوں کا ’’اختیارکردہ تحقیق کا وہ طریقہ کار‘‘ ہے جو ہیگل سے منسوب چلاآرہا ہے۔ اس طریقۂ کار کا ’’انحصار دو متضاد لیکن متعامل قوتوں، دعویٰ و ضدِّ دعویٰ کی آمیزش اور اعلیٰ تر مرحلے پر ان کی مسلسل تطبیق(تالیف) پرہوتا ہے۔‘‘(7) سقراط کی انصاف اور نیکی کے صحیح ادراک کی سوال و جواب کے ذریعے کوشش ہیگل، فختے اور کانٹ کی جدلیاتی تفہیم تک آپہنچی تو فختے نے جدلیاتی مکالمے، مباحثے یا مجادلے کے تین مرحلے یا مشترکہ اصول تجویزکیے تاکہ محض مفروضے کی بنیادپر گفتگو نہ کی جائے جس سے بعدازاں تضادات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ مرحلے یا اصول کچھ یوں تھے: ۱۔ پہلے ایک قضیّے کو ثابت کیا جائے۔ ۲۔ بالکل مختلف قضیّے کے بارے میں بھی ثبوت فراہم کیے جائیں۔ ۳۔ ان دو مختلف قضیوں کے تضاد کو کسی اور زاویے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ پتالگایاجائے کہ ان دونوں میں تضاد اس بنا پر ہے کہ استدلال اور علم بھی اپنی اپنی حدود میں رہتے ہیں۔ ہیگل نے جدلیات کے مراحل کو ہمہ گیر، اختصاصی اور انفرادی میںتقسیم کیا۔ ہمہ گیری کا تعلق سادہ لوحی کی بنیاد پر غیرحقیقی ایقان ہے۔ اختصاصی کا تعلق اپنی شناخت اور اپنے سے الگ کسی اور کی پہچان ہے اور پھر انفرادیت جس کا مطلب خودآگہی اور ذاتی بالیدگی ہے۔(8) ان افکار پرکانٹ کے اس نظریے کی چھاپ نمایاں ہے جس کے تحت وہ تجربے سے ماورا ء اشیاء اور ادراکاتِ ذہنی کے اطلاق کی کوشش کو لاحاصل قراردیتا ہے۔ جدلیاتی مادیت فطرت اور سماج کو ایک اور طرح سے ادراکاتِ ذہنی کے اطلاق سے سمجھنے کی کوشش ہے۔ ’’جدلیت سے مراد یہ ہے کہ فطرت کے حوادث برابرمتحرک ہوتے ہیں۔وہ برابربدلتے رہتے ہیں اور فطرت کی متضاد طاقتوں کے باہمی جدل سے فطرت کا ارتقاء ہوتا ہے۔‘‘(9) کارل مارکس نے ہیگل کے ان مرحلوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا اطلاق انسانی تاریخ پرکیا۔ سب سے پہلے اس نے سماج کی پیداواری طاقتوں کی نشاندہی کی: ۱۔ وہ آلات ِپیدوار جو مادی چیزوں کے بنانے اور پیداکرنے کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔ ۲۔ وہ لوگ جو ان آلات کو استعمال کرتے ہیں۔ ۳۔ ان لوگوں کا تجربہ اور کام کا ہنر جو پیداوار کے سلسلے میں بروئے کارآتا ہے۔(10) ان پیداواری طاقتوں کے ذریعے تاریخ کاارتقاء ہوتا ہے تو بتدریج مندرجہ ذیل نظام وجودمیں آتے جاتے ہیں: ۱۔ قدیم اشتراکی نظام ۲۔ غلامی کا نظام ۳۔ جاگیرداری نظام ۴۔ سرمایہ دارانہ نظام ۵۔ اشتراکی نظام یعنی جب انسان ابتدائی اشتمالی نظام سے باہرآکر معاشرتی جبر کے تحت اس نظام کا کل پرزہ بن جاتا ہے تو تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے۔ وہ اس مرحلے پر تاریخ کا ایک کردار ضرور ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتے۔ حالات کا جبرانھیں ایساکرنے ہی نہیں دیتا۔ جب اشتراکیت کا نظام آخرکار قائم ہوتا ہے تو پھرخودآگہی کا مرحلہ آتا ہے جس کی نشاندہی ہیگل نے کی تھی۔ جس کے بعد انسان اپنی مرضی سے تاریخ کا رخ موڑ سکتا ہے۔ ’’ہیگل نے حقیقت کے ادراک کے لیے وجدان کی بجائے منطق کا سہارالیاتھا اور زندگی کے ارتقاء کو جدلیت پرمبنی قراردیاتھا۔ اس جدلیت میں ہیگل نے زندگی کے دو متضاد زاویوں یعنی اصل (Thesis)اور تضاد(Anti-Thesis) کے ادغام کو غیرمعمولی تصور کیااور اسے نئی تعمیرکا پیش خیمہ قراردیا۔‘‘(11) جدلیت ہیگل کے ہاں تیسرے مرحلے میں داخل ہوکر مکمل ہوتی ہے۔ جسے وہ دعویٰ اور ضدِّ دعویٰ کی وحدت کہتا ہے۔ اب مارکس اور ہیگل کے خیالات کو ملاکر پڑھیں تو مارکس کے ہم خیال فریڈرک اینگلز کے اس نکتے کا پس منظر سمجھ میں آجاتا ہے جس کے مطابق ’’جب بہت سے افراد کے ارادے عملی کشمکش کی صورت اختیارکرتے ہیں تو فیصلہ کن نتیجہ عمل میں آتا ہے۔‘‘(12) جسے دعویٰ اورضدِّ دعویٰ کی وحدت کہناچاہیے۔ لینن کا قول بھی اینگلز ہی سے ایک حد تک مطابقت رکھتا ہے کہ ’’ارتقاء متضاد کیفیتوں کے مابین جدوجہد کا نام ہے۔‘‘(13) ہم آہنگی پیداکرنے کا نہیں۔ سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان طبقاتی طورپر جن متضاد کیفیتوں کے باعث طبقاتی کشمکش فطری طورپر جاری رہتی ہے اس کے سبب سچی ترقی پسندی وہی ہے جس میں سرمایہ داروں کے ساتھ مزدوروں کی مفاہمت کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔بلکہ ستم زدہ طبقوں کے درمیان اتفاق پیداکرکے شعوری طورپر انقلاب کا راستہ ہموار کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ رجعت پسند طبقے کی حکومت کاتختہ الٹ کرسیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’ہرپرانے معاشرے سے نیا معاشرہ پیداکرنے کا کام قوت ہی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔‘‘(14) اس اعتبار سے غلط یا صحیح طورپر یہ خیال پیدا ہو ا کہ سوشلزم کا آغاز عدمیت یعنی(Nihilism) سے ہوناچاہیے۔ اس نظریے کے حامی یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ سماج کے معاشی اور سیاسی نظام کو مکمل طورپر تباہ و برباد نہ کیاجائے تو نیانظام اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ بربادی تعمیروترقی کے خیال سے کی جائے لیکن انیسویں صدی کے آخر میں کچھ اشتراکی بربادی کو بہرحال لازمی سمجھتے تھے۔ اس نظریے کے تحت قتل، آتش زنی اوربلوے کو بھی جائز سمجھاگیا لیکن منفی اور انتشار انگیز ہونے کے سبب یہ تصور بعدازاں اشتراکیت سے خارج ہوگیا۔(15) اگرچہ اس طرز فکر نے مشہورروسی ناول نگار ترگنیف کو متاثرکیااور اس نے اپنے ناول ’’باپ اور بیٹا‘‘ میں عدمیت(Nihilism) کی اصطلاح پہلی بار استعمال بھی کی اور اس ناول کا مرکزی خیال بھی اسی تصور پر استوار کیا۔ اشتراکیت ایک طرف تو یورپ کی مادہ پرستی اور سرمایہ دارانہ ملوکیت کا ردِّ عمل تھا اور دوسری طرف حقیقت پسندی کی توسیع بھی تھا۔ اشتراکی حقیقت نگاری ، جس کا آغازروس میں ہوا، کامقصد یہ تھا کہ فن و ادب کے ذریعے مارکسی نظریات کا پرچار کیاجائے تاکہ ایک اشتراکی معاشرہ قائم ہوسکے۔ اس کے اظہار کا ذریعہ کوئی بھی ہو لیکن وہ اس معاملے میں ریاست کے احکامات کی پیروی کرے۔ سٹالن نے ایسے فنکاروں کے لیے’انسانی روحوں کے صناع‘ کی ترکیب وضع کی تھی لیکن ایسے افکار میکائیل شولوخوف (Mikhail Sholokov) اور الیگزینڈرفیڈیفAlexander) (Fadeyevجیسے دوسرے درجے کے شعراء ہی پیدا کرسکے۔ اشتراکی حقیقت پسندی کو فطرت پسندی یا بورژوائی حقیقت پسندی کا ردِّ عمل بھی کہاگیا۔ اس خیال کی مخالفت اس بناپر کی گئی کہ کسی نظریے کے تحت شاعری یا ناول نگاری دراصل لکھنے والے کی آزادیٔ اظہار کو سلب کرنا ہے۔(16) یہ اعتراض اردو میں ترقی پسند ادب پر بھی ہواتھا کہ ترقی پسند شعرا پہلے سے طے شدہ موضوعات پر لکھتے ہیں اور طے شدہ موضوعات پراچھا ادب تخلیق کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ بات بھی قابلِ بحث ہے کیونکہ طے شدہ موضوعات پر ادبِ عالیہ کا اچھا خاصا ذخیرہ ہرزبان کے ادب میں پایاجاتا ہے تاہم لینن کے خیالات پر ایک نظرڈال لینی چاہیے جواگرچہ ادب کو پرکھنے کے لیے جدلیاتی مادیت سے مدد لیاکرتاتھا لیکن’’ اس کا مذاقِ ادب صرف حقیقت پسندی تک ہی محدود نہ تھا۔ وہ رومان کو بھی پسندکرتاتھالیکن ایسے رومان کو جوانسان کے بہترمستقبل اورانسان کی آزادی کی خواہش کا اظہارکرتا ہے۔‘‘(17) بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ انقلابی تخیل کو بھی انسانی فطرت کے مطابق سمجھ کر اس بات کا اوروں کو بھی قائل کیاکرتاتھا کہ انسانوں اور خاص طورپر لکھنے والوں کو تخیل پرست بھی ہوناچاہیے۔ حقیقت نگاری میں بھی وہ حقیقت کو بگاڑکر پیش کرنے پر ناراض ہوتاتھا۔اسے ایسے لکھنے والے پسند تھے جو ’’مظلوم عوام سے ہمدردی رکھتے ہوں۔ وہ پرتکلف اور مبالغہ آمیز ادب کا دشمن تھا…وہ جانتاتھا کہ ادب صداقت پرمبنی ہو، حقیقت پسندانہ ہو۔ عام لوگوں کی زندگی سے متعلق ہو اور اسے محاربی بنائے۔‘‘(18) ترگنیف کی اشتراکی حقیقت نگاری کے علاوہ برزن، بیلنسکی، چرنیشوسکی، ڈوبرویسو، نیکراسو، روپنسکی، طالسطائی اور گورکی لینن کے زیرمطالعہ رہے ہیں۔ وہ پشکن کا اپنی گفتگو اور تحریروں میں حوالہ دیا کرتاتھا۔ وہ ناولوں اور شاعری کی تحسین کرناجانتاتھا اور ان اہلِ قلم کے فن پاروں کی ادبی قدروقیمت اور معیاروں کو پرکھ کر اپنی رائے قائم کیاکرتاتھا۔ طالسطائی اس کے نزدیک روسی انقلاب کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ اگرچہ وہ بالشویک انقلاب سے ایک حد تک الگ ہی رہا اور اس کے ناولوں میں انقلاب کی روح بین السطور تلاش کرناپڑتی ہے۔ چیخوف نے بھی اسی دورمیں اپنا مقام پیداکیاجب روسی معاشرے میں انقلاب کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ اس کے لہجے میں طنز کی کاٹ بھی ہے اور امیدکی روشنی بھی۔ وہ علامتوں کے پردے میں حقیقتوں کو چھپاتا بھی ہے اور آشکار بھی کرتا ہے۔ اس کی حقیقت پسندی بالآخر اس کے مزاج میں مایوسی اور اضمحلال پیداکرتی ہے۔ آندریف میں بھی تحرک اور فعالیت کی کمی ہے مگر ارادیت موجود ہے۔ اشتراکی تحریک کی سب سے مؤثرنمائندگی میکسم گورکی نے کی ہے۔ اس کے ناول کے ہیرو پسے ہوئے طبقات کے عام اور بے نام سے کردار ہیں جن میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا حوصلہ پیدا ہوچکاہے۔ مایا کوفسکی نے جنگ و جدل سے گریزکاسبق دیا اور معاشرتی ارتقاء کے لیے پیار، محبت اور امن کو ضروری سمجھا۔ سٹالن کا زمانہ ادب کو نئی راہ دکھانے میں ریاستی کردار کا زمانہ ہے۔ اس سلسلے میں ادب اور زیادہ سنگین ہوگیا۔ طالسطائی اور چیخوف کی سماجی حقیقت نگاری کو نئے پہلوئوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ لیونوف، گلیڈکوف اور پلنیاک کے ہاں طبقاتی اور سماجی کشمکش میں زیادہ شدت دکھائی دی۔ پاسترناک کی شاعری میں انقلاب رومانوی اور غنائی ہوگیا۔ شولوخوف کا ناول ’’ڈان بہتارہا۔‘‘ انسانی ذہن کے حوالے سے صرف خارجی حالات کا عکس ہی نہیں بلکہ لینن کے خیالات کے مطابق خارجی حالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا بھی مظہر ہے۔ غرضیکہ لینن اور مارکس کے نزدیک ان ادباء نے خارجی حقائق کو بے سوچے سمجھے محض اتفاق ہی سے نہیں اپنایاتھا۔ وہ اپنے اس معاشرے سے مربوط تھے جس میں وہ اپنی زندگی بسرکررہے تھے۔ لینن نے خود ادب اور سماج کی ترقی کے درمیان اٹوٹ اور ناگزیرتعلق کا اعتراف ان ادیبوں کے فن پاروں میں سے مثالیں دے دے کرکیااور انھیں اشتراکی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کا دلیرسپاہی قراردیا۔(19) اہم اشتراکی حقیقت نگار لیونکولائیوچ طالسطائی(1828-1910) کا تعلق طبقۂ امراء سے تھا۔ وہ دوستوفسکی کے ساتھ روس کے دو سب سے بڑے ناول نگاروں میں سے ہے۔ عالمی ادب میں بھی وہ صفِ اول کے ناول نگاروں میں شامل ہے۔ اس نے اعلیٰ تعلیم پائی اور اپنی زندگی کا آغازفوجی عہدے سے کیا۔ اس نے اپنے عہد کے اشرافیائی طرزِزندگی سے بھرپورلطف اٹھایااور اس معاشرت کے آداب واطور کا تجزیہ خلاقانہ بے باکی سے کیا۔ وہ فکری اور عملی دونوں طرح سے زندگی کے ساتھ پیوست اورمربوط رہااور اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات کے اظہار میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس کا اسلوب براہِ راست اور دو ٹوک تھا۔ حقیقت کی تلاش اس کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔ حق کی تلاش میں اس کی عمر میدانِ کارزار، سرکاردربار، سیروسیاحت اور جاگیرداری میں گزری اور بالآخر اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں پناہ ڈھونڈی اور حق کی تلاش میں وہ اصل حقیقت کو پانے میں کامیاب ہوا۔ ’مرا عقیدہ‘ نامی تصنیف جو زندگی کے اخلاقی معانی آشکار کرتی ہے، اس کے عقیدے پر کلیسا کے اعتراضات کا سبب بنی اور روسی کلیسااور رومن چرچ دونوں نے اسے مذہب سے خارج قراردے دیا۔ عمرکے آخری حصے میں وہ ماسکو اور اپنی جاگیر یاسنایاپولیانہ، ضلع تولا کے درمیان گھومتارہا۔ وہ اپنے عقیدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی ساری جائیداد غریب کسانوں میں بانٹناچاہتاتھا۔ اس بات پر اس کی اپنی بیوی کے ساتھ ٹھن گئی اور طالسطائی موت کی تلاش میں گھر سے دور ریلوے سٹیشن جاپہنچااور وہیں فوت ہوگیا۔ اسے واپس لاکر اس کی جاگیرمیں دفن کیاگیا۔ طالسطائی کی تصنیفات میں ناول ایناکرے نینا، حیاتِ ثانیہ، وس کری سسے یے، جنگ اور امن، سوانح حیات(تین حصے)، افسانوی مجموعے، قازق لوگ، سبستاپول کی کہانیاں، تین موتیں، گھریلومسرت، حاجی مراد، اعتراضات، ایوان ایلچ کی موت، آقا اور بندہ، لوک کتھا، اندھیرے کی قوت، کروٹزرسوناتا، آرٹ کیا ہے؟، تعلیم کا پھل اور ڈائری، زندہ مردہ، آج پہلے سے زیادہ دلچسپی سے پڑھے جانے لگے ہیں۔(20) وہ معاشرے کے ستائے ہوئے مظلوم طبقے کو خیر کی علامت قراردیتا ہے اور انسان کے اندرپوشیدہ نیکی کے جذبات کومہمیز کرکے شر کا سامناصرف قوت سے نہیں خیر کی طاقت سے بھی کرنے کا داعی ہے۔ میکسم گورکی (1868-1936)(Maxim Gorky) کا اصل نام الیکسی میکسی مووچ پشکوف(Alexei Maximovich Pyeshkov) ہے۔ طالسطائی کے برعکس گورکی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا باپ ایک بڑھئی تھا اور ماںرنگریز کی بیٹی تھی۔ وہ ماسکو کے قریب واقع ایک قصبے نووگورد میں پیداہوا۔ اس کی ابتدائی عمر انتہائی عسرت اور تنگ دستی میں کٹی کیونکہ وہ بچپن ہی میں یتیم ہوگیاتھااور اس کی پرورش اس کے رنگریز نانانے کی تھی۔ وہ اسی سبب سے قازان یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے پایا۔ اس عہد کے اعتبار سے غیرقانونی انقلابی اور باغیانہ حلقوں سے اس کا تعارف ہوا جو مارکسی نظریے کی ترویج کے لیے کام کررہے تھے۔ اسی تعلق کے سبب 1883 ء میں اسے پابندِسلاسل کردیاگیا۔ بعدمیں بھی پولیس اس کی نگرانی کرتی رہی۔ وہ ایک عام مزدور کی زندگی بسرکرتارہااور روس کے مختلف شہروں میں گھومتاپھرتارہا۔ کرالینکو نام کے ایک عوامی شاعر نے اس کے اندر دبی ہوئی ادبی صلاحیت کو اجاگرکیااور وہ اپنے مشاہدات کو اپنے طویل افسانے مکارچدرا(Makar Chidra) میں تخلیقی طورپر کامیابی سے سمونے کے قابل ہوگیا۔ اس کی تحریر کے سادہ اسلوب، بیان کی روانی، جذبے کی صداقت، طنز کی تلخی اور مشاہدے کی گہرائی اس کی ادب کے میدان میں مقبولیت اور شہرت کا سبب بنی۔ و ہ لینن کے دوستوں میں شامل تھا۔ پلے خانوف سے بھی اس کی رسم و راہ تھی۔ اس نے انقلاب کی آمد کی پیش گوئی ’شہبازکانغمہ‘ اور ’طوفان کا نقیب‘ جیسی نثری نظموں میں کردی تھی۔ 1905 ء میں لینن سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی اور وہ تمام عمرلینن کا معتمد اور پرخلوص ساتھی رہا۔ وہ سٹالن کے بھی بہت قریب تھا۔ 1901 ء میں اسے ماسکو شہر سے نکال دیاگیاتھا۔ 1902 ء میں اسے اکادمی کا رکن منتخب کیاگیا لیکن زارنے اس کی رکنیت منسوخ کردی۔ اس کے ڈرامے ’می شانے‘ اور’’پاتال میں‘ آج بھی کھیلے جاتے ہیں۔ 1906 ء میں وہ جان بچاکر خفیہ طورپر امریکہ چلاگیا۔ 1913ء میں اسے زارنے معافی دے دی اور وہ روس واپس آگیا۔1921 ء میں اس پر تپِ دق کا حملہ ہوااور اس وجہ سے اس نے تین سال جرمنی اور چیکوسلواکیہ میں گزارے۔ اس کی تحریریں اشتراکی حقیقت پسندی کے اصولوں کا مثالی نمونہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے ناول ’ماں‘کو جو اس نے1906 ء میں لکھاتھا ، آج بھی روسی ادب کا شاہکار تسلیم کیاجاتا ہے۔(21) لینن نے ’ماں‘ کے بارے میں کہاتھا کہ’’ کئی مزدور انقلابی تحریک میں اصل بات کو سمجھے بغیر محض جوش کی وجہ سے کام کررہے ہیں۔ ’ماں‘ پڑھ کر انھیں بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ایسی کتاب کی ضرورت ہے۔‘‘(22) اشتراکیت کے لیے گورکی کی ادبی خدمات کا اعتراف لینن ان الفاظ میں کرتا ہے ’’تمہاری ادیبانہ خوبیوں نے روس(اورصرف روس ہی نہیں) کی مزدور تحریک کو بہت فائدہ پہنچایا ہے اور تم آئندہ بھی اسے بہت فائدہ پہنچائوگے۔ کوئی واقعہ بھی تمہیں مخالف کیفیت میں جذب نہیں ہونے دے گا۔‘‘(23) گورکی کے فن پاروں میں اسے Bawdy Face اورTwenty Six Men and a Girlبہت اچھے لگتے تھے۔لینن اور گورکی کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوتارہا کیونکہ لینن کا خیال تھا کہ گورکی اس کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے لگتاتھا کہ لینن، گورکی کو اپنے خیالات اور عقائد کا قائل کرناچاہتاہے۔ وہ دراصل بطورادیب گورکی کے قلم کی طاقت اور تاثیرسے واقف تھا اور گورکی نے بھی جو کچھ لکھا وہ لینن کے دل اور ذہن کے تاروں کو چھیڑنے کے لیے لکھا۔(24) فیودر میخائیلووچ دوستوفسکی(Fedor Mikhailovich Dostoevsky) (1821-1881)ماسکو کے ایک طبیب کی اولادتھا اس لیے اس کی زندگی کے ابتدائی سال ایک خیراتی مطب کے ماحول میں بسرہوئے۔ اس کا باپ سخت مزاج تھا۔ ایک دن اس کے باپ کو شایداس کی سخت گیری کے ردِّعمل میں اس کی جاگیر کے کسانوں نے قتل کردیا۔ ان دنوں وہ صنعتی فنون سکھانے والے ایک ادارے میں زیرِتعلیم تھا جو فوج کے زیرِانتظام تھا۔ جیب خرچ کی تنگی سے وہ پہلے ہی پریشان تھا تاہم وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے فارغ التحصیل ہوکرڈرافٹسمین بن گیا لیکن ادب کے راستے میں رکاوٹ سمجھ کر اس نے نوکری چھوڑ دی اور ہمہ وقتی ادیب کے طورپر مصروفِ عمل ہوگیا۔ وہ دورانِ تعلیم ہی تاریخ، فلسفے، مذہب اور ادب کی طرف راغب ہوچکاتھا۔ وہ تنہائی پسند تھا جس سے اس کی مطالعے کی اور فکر کی عادات پختہ ہوتی چلی گئیں۔ بیلنسکی (Belinsky)کی ترقی پسندانہ تحریروں اور ذاتی سرپرستی نے اسے شاہانہ اطوار کے مقابلے میں جمہوری اقدار کا حامی بنادیا۔ اس دور کے روس میں ایسے خیالات کا حامل گردن زدنی تھا چنانچہ ان افکار کا پرچار کرنے والے حلقوں سے تعلق کی بنا پر1849 ء میں اسے گرفتارکرکے اس کی پھانسی کا حکم صادر ہوا لیکن حیران کن طور پراسے تختۂ دار سے پھانسی سے پہلے ہی اتارلیاگیا اور اس کی سزا قیدبامشقّت اور سائبیریا کی طرف جلاوطنی میں بدل دی گئی۔ وہ چارسال وہاں قیدرہا۔ اس کے بعد اس نے پانچ سال ایک سپاہی کے طورپر خدمات انجام دیں تب کہیں اسے پیترس برگ واپس آنے کی اجازت ملی۔ 1849ء میں اس کی گرفتاری اس امر کی غماز تھی کہ اس کا شمار اہم لکھنے والوں میں ہونے لگا تھااور اس کے تراجم اور طنزیہ مضامین نے اپنے قارئین کاحلقہ پیدا کرلیاتھا۔ اس کا ناولٹ ’’بیچارے لوگ‘‘1849 ء میں شائع ہوچکاتھا۔ اگلے دو سال کی اذیت کوشی اور بے کسی نے اس کی حقیقت نگاری میں ذاتی تجربات سے اور بھی زیادہ سوز، گداز اور تاثیرپیداکردی۔ اس کی تحریروں، اس کے افکار اور اس کی زندگی پراس کے والد کے قتل، جاگیرداروں کے دورِاستحصال، قیدوبند، وطن بدری، مرگی کی بیماری، جوئے کی لت اور ان تمام مسائل کے سبب یورپ کے سفر، قرضوں اور جائیدادوں کی قرقیوں کے اثرات بہت واضح اور گہرے ہیں۔ دوستوفسکی کی زندگی ہرلحاظ سے بھرپور، بامقصدمگرمتنازعہ رہی۔ اس کے خیالات میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں ۔ اس کی انقلاب پسندی بعدازاں ردِّانقلاب کے رویے تک ہی نہیں عیسائیت کے پرچار کی حد تک جاپہنچی۔ اس نے غریبی بھی دیکھی اور امارت بھی۔ اس نے مختصر مضامین بھی سپردقلم کیے اور ضخیم ناول بھی لکھے۔ اس کا ضخیم ترین ناول،’برادرانِ کراموزوف‘ تھا۔ دیگر اہم ناولوں میںذلّتوں کے مارے لوگ،جواری،چچاکا خواب، جرم و سزا، ایڈیٹ (Idiot)، نوعمر اور بھوت پریت شامل ہیں۔ اسے اپنا روزنامچہ اور ڈائری لکھنے کی بھی عادت تھی۔ وہ فلسفیانہ اور ذاتی سطح پر ہرلحاظ سے ایک مثالی اشتراکی حقیقت نگار تھا۔(25) ولادیمیرمایاکوفسکی(Vladimir Mayakovsky) (1893-1930)نے چودہ برس کی عمرمیں شاعری شروع کردی تھی۔ وہ1917 ء میں روسی انقلاب سے پہلے ایک سال قید رہ چکاتھا۔قیدوبند کے تجربے سے گزرنے پر وہ بطورشاعر زیادہ مشہورہوگیا۔ اشتراکی انقلاب کے لیے ولولہ انگیز نعروں اور بالشویکیوں کی ہدایات اور طے شدہ حکمت عملی، اندرونی شورشوں کی ہائو ہو، لینن کی زندگی کے اتارچڑھائو اور بالآخر موت کو اس نے اپنی شاعری میں اس طرح گوندھا جیسے وہ سب کچھ اس کے لہو میں تیرتا ہو۔ اس کی شاعری اشتراکی افکار کی ترجمان ہی نہیں بلکہ خوداشتراکی ہوگئی تھی۔ وہ اشتراکیت اور روس کی محبت میں اتنا دیوانہ تھا کہ انقلاب کے ابتدائی سالوں میں روسی انقلاب کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، یہاں تک کہ مصنوعات کی تعریفیں کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتاتھا۔ اس نے مروّجہ شعری پیمانوں سے انحراف کیا۔ لفظوں کے زیروبم اور قافیوں کے منفرداستعمال سے اس نے شاعری کو نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ روسی انقلاب کی فتوحات سے کسی بھی اور تحریک سے زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ اپنی بلندآہنگ شاعری کو بھرے مجمعے میں سناتااور اپنی شعرخوانی سے سماں باندھ دیتا۔ روس میں برسرِعام جلسوں میں شعرسنانے کا رواج مایاکوفسکی کی دین ہے۔اس کی شاعری میں طنز کی کارفرمائی بھی ملتی ہے جس کی کاٹ بہت تیز ہوتی تھی۔ اس نے امریکی صدرولسن کا بھی مضحکہ اڑایاتھا۔ جس کی وجہ سے امریکہ کی سرمایہ دارانہ معیشت اور زرپرستی تھی۔ وہ مزاجاً خودسر، اکھڑمزاج، بے باک اور باغی تھا۔ وہ اپنی زندگی کسی قاعدے قرینے کے تحت بسرنہیںکرتاتھا۔ اس نے ایک فطرت پسندشاعر کی جوانی میں خودکشی پراسے ملامت کی لیکن پانچ سال بعد خودبھی جوانی ہی میں خودکشی کربیٹھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے محبت میں ناکامی، انقلاب کے نتائج سے دل برداشتہ ہوکر یا خوداحتسابی کے جذبے سے مغلوب ہوکر خودکشی کی تھی۔ اس کی مشہور نظموں میں پتلون میں بادل، کھٹمل، بحرِاوقیانوس، 15کروڑ، لینن اور حمام شامل ہیں۔(26) اقبال اوراشتراکیت اقبال اپنے مضمون"The Muslim Community: A Sociological Study"میں امّتِ مسلمہ کی حالتِ زارکا نقشہ پیش کرتے ہوئے ترقی پذیرممالک کی معیشت کوزیربحث لایاتھا۔ یہ الگ بات کہ اس مضمون میں اشتراکی مفکر مزدک کا حوالہ تو ملتا ہے، ہیگل(جس کے ردّ میں کارل مارکس نے’’جدلیاتی مادیت‘‘ کا فلسفہ تشکیل دیا) اور کارل مارکس کا ذکرکہیں نہیں ملتا۔ اسی طرح اقبال نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے"The Develpment of Metaphysics in Persia"میں بھی صرف مزدک کا ذکر کیا ہے، ہیگل اور کارل مارکس کا نہیں۔ اقبال نے پہلی بار ہیگل کا ذکراکبرالٰہ آبادی کے نام لکھے گئے ایک خط مُحررہ 17دسمبر1914ء میں کیا۔ جس میں اکبرالٰہ آبادی کے درج ذیل شعر کی تعریف کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ’’آپ نے ہیگل کے سمندرکو ایک قطرہ میں بندکردیا، یا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔‘‘وہ شعر یہ ہے ؎ جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں (27) بعدازاں اقبال کے ہاں ہیگل کے جدلیاتی نظریہ کا ذکر اُن کے ایک مضمون:"Touch of Hegelianism in Lisanul Asr Akbar" مطبوعہ:"New Era" لکھنؤ، بابت: 18 اگست1917 ء میں ملتا ہے۔ جب کہ کارل مارکس کا پہلا حوالہ’’پیامِ مشرق‘‘ کے حاشیے پردیکھنے کو ملا۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’کارل مارکس، جرمنی کامشہور ماہر اقتصادیات، جس نے سرمایہ داری کے خلاف قلمی جہادکیا۔ اس کی مشہورکتاب موسوم بہ’سرمایہ‘ کو مذہب اشتراکیت کی بائبل تصورکرناچاہیے۔‘‘ کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ میں اشتراکیت کے تصورکو کچھ اس طرح سائنٹیفک بنیادیں فراہم کیں کہ فی زمانہ اشتراکیت کا تصور کارل مارکس سے متعلق ہوکررہ گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں کارل مارکس کی تہلکہ مچادینے والی کتاب’’داس کیپیٹل‘‘ علامہ اقبال کے ذاتی کتب خانہ، مخزونہ: اسلامیہ کالج، سول لائنز،لاہور وبقایاجات، مخزونیہ: اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ،لاہور میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح لینن کی کوئی کتاب یا اینگلز کی کوئی کتاب یا کتابچہ علامہ اقبال کی ذاتی لائبریری کا حصہ نہیں بنا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ روس کا اشتراکی انقلاب علامہ اقبال کے سامنے کی بات تھی اور وہ انقلاب ابھی اُس طرح بارآورنہیں ہواتھا جیسا کہ بعدمیں دیکھنے کو ملا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اشتراکیت سے اُس طرح متاثر کبھی نہیں رہے، جس طرح ہمارے ہاں کے ترقی پسندمصنفین متاثرہوئے۔ نیزاس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ علامہ اقبال ، یورپ ستمبر1905 ء میں گئے اور 1908 ء میں واپسی ہوئی۔ 1934 ء میں اقبال سنگھ، مُلک راج آنند اور احمدعلی وغیرہم بطور طالب علم برطانیہ پہنچے اور یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے 1934-35 میں انجمن ترقی پسندمصنفین کے بارے میں اشتراکی فلسفہ کے مطابق غوروفکر کیااور یہ علامہ اقبال کی زندگی کا آخری دور ہے جو انھوں نے متعدد امراض کا شکارہوکر لاہورمیں گزارا۔ ڈاکٹر ظ۔انصاری اقبال پر آخری دور میں کارل مارکس کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کتاب ’’اقبال شناسی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ اقبال ڈاکٹرایم۔ ڈی تاثیرکی وساطت سے اشتراکی موادکامطالعہ کرناچاہتے تھے، مگر مطلوبہ کُتب اُن تک نہیں پہنچ سکیں۔‘‘(28) اسی لیے بقول اخترحسین رائے پوری، اقبال ملوکیت اور سرمایہ داری کا دشمن ضرور ہے لیکن اس حد تک جتنا کہ متوسط طبقے کا ایک آدمی ہوسکتا ہے۔(29) شاید اسی لیے اخترحسین رائے پوری کے خیال کے مطابق علامہ اقبال،میسولینی جیسے ڈکٹیٹر کو ہی اسلامی پاکستان کے استحکام کا ضامن سمجھتے ہیں، کارل مارکس کے تصورِ اشتراکیت کو نہیں۔(30) مجنوں گورکھپوری نے جب علامہ اقبال کو موضوع بنایاتو اسی اُلجھن میں رہے کہ اقبال کو قدامت پرست کہاجائے یا ترقی پسند۔ اُن کے خیال کے مطابق اقبال کی شاعری کئی تنازعات کی حامل ہے لیکن مجنوں اس بات کا اعتراف ضرور کرتے ہیں کہ علامہ اقبال انقلاب اور ترقی کے داعی تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ یہ عالمِ موجودات حرکت و انقلاب کے لیے مجبور ہے۔ نیز مجنوں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال ہی ہندوستان کا وہ پہلا شاعر ہے جس نے یہ شعور عطا کیا کہ خدا اور قضاوقدر کے مقابلے میں انسان کی بھی اہمیت ہے۔(31) ان لوگوں کے مقابلے میں ترقی پسند نقادعلی سردارجعفری علامہ اقبال کو ایک بڑے پیام کا شاعرتو تصورکرتے ہیں لیکن اُن کے خیال میں اقبال اپنے عہد کے اُلجھاووں سے آزادنہ ہوسکا۔ اس لیے وہ شاعر بڑے ہیں اور فلسفی چھوٹے۔ (32)بعدازاں علی سردارجعفری نے 1977 ء میں اپنی اس رائے سے رجوع کرلیاجو انھوں نے اپنی کتاب ’’ترقی پسندادب‘‘ مطبوعہ: 1951 ء میں پیش کیاتھا۔ انھوں نے اب اقبال کو پوری عالمِ انسانیت کی بیداری کا شاعر کہا لیکن چند فکری تضادات کے ساتھ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تضادات تو عظیم ناول نگارطالسطائی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ علی سردارجعفری کے خیال میں برصغیر میں اقبال کی فکرنے تین قسم کے ذہنوں کی تربیت کی ہے یعنی ایک تو ہوا انقلابی ذہن مثلاً فیض احمدفیض اور مخدوم محی الدین وغیرہ جبکہ دوسر ا بیدار مغز نیشنلسٹ ذہن ہے جن میں ڈاکٹرذاکرحسین، خواجہ غلام السیّدین اور شیخ محمدعبداللہ کے نام سرفہرست ہیں جبکہ تیسرا مسلم فرقہ پرست ذہن ہے جس نے اقبال کی شاعری کا غلط استعمال کرکے اپنے لیے جواز تلاش کیا۔ علی سردارجعفری کی رائے میں مہاتما گاندھی، رابندرناتھ ٹیگور اور اقبال میں ایک قدرِمشترک تھی اور وہ تھی ساری بنی نوع انسان کا درد۔ علی سردارجعفری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقبال نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اشتراکیت کو بھی اپنے فلسفۂ خودی کے ایک حصے میں ڈھال کردیکھا۔(33) اقبال نظم’’میسولینی‘‘ میں کہتے ہیں ؎ ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ذوقِ انقلاب ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب (کلّیاتِ اقبال۔ص۔480 ) اور اقبال نے یہ لینن کی زبان سے کہلوایا ہے ؎ تو قادروعادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دُنیا ہے تری منتظرِ روزِمکافات! (کلّیاتِ اقبال۔ص۔436 ) بالِ جبریل میں شامل دو نظمیں: نپولین کے مزارپر اورمیسولینی پڑھ کر ہی نہیں، اقبال کے افکار کا تجزیہ کرکے مختلف ناقدین نے اندازہ لگایا کہ 1922 ء تا1935 ء اشتراکیت سے کہیں زیادہ فسطائیت کا فلسفہ اقبال کو متاثرکررہاتھا۔ علی سردارجعفری کہتے ہیں کہ اقبال کے ہاں’’انقلاب اے انقلاب‘‘ کے نعرے میں خودی کی بیداری کے اثرات کا اظہارملتا ہے اور اقبال ’’اشتراکیت کے معاشی نظام میں مذہبی اور روحانیت کی آمیزش کے قائل تھے۔‘‘(34) علی سردارجعفری کے خیال میں: ’’اقبال کے پاس اخلاقی اور سیاسی نظام کا کوئی سیکولر تصور نہیں تھا۔‘‘(35) علی سردارجعفری کے مطابق اقبال کے ہاں اشتراکی انقلاب کا خیرمقدم تو ملتا ہے لیکن اشتراکی مادیت کی تنقید اورمادیت میں روحانیت کی آمیزش کے ساتھ، جسے اقبال نے اسلام کا جدیدمعاشی نظام تصورکیا۔(36) اقبال کے ناقدین یہ سمجھتے ہیں کہ فلسفۂ اشتراکیت سے کامل آگہی نہ ہونے کے سبب وہ اسلام کے اُس انقلابی تصوّر سے بھی دور رہے جسے حضرت ابوذرغفاریؓ نے پیش کیاتھا اور اُسی تصور کے سبب اُنھیں حضرت عثمانؓ کے عہدمیں شہربدرکردیاگیا۔ یہاں تک کہ اُسی عالم میں اُن کا انتقال ہوگیااور اُن کی لاش پررونے والی صرف اُن کی بیوی تھی جہاںنہ نمازِ جنازہ پڑھائی جاسکتی تھی، نہ تدفین ہوسکتی تھی تاوقتیکہ ایک قافلہ اُدھر سے گزرا اور اُن کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ اگراقبال، حضرت ابوذرغفاریؓ کے مساوات کے تصور کو کارل مارکس کے فلسفے سے ملاکر دیکھتے تو جیسا کہ انھوں نے چاہاتھا کہ دین بھی ہاتھ سے نہ جائے اور ’’انقلاب اے انقلاب‘‘ کا نعرہ بھی بلند کرلیاجائے تو اُن کو کچھ مشکل پیش نہ آتی۔ اقبال کی اسی ناکامی کی وجہ سے اخترحسین رائے پوری نے اقبال کو فاشسٹ قراردیا۔ ایسا کیوں ہوا اس کی ایک وجہ اور بھی تھی۔علامہ اقبال نے اٹلی کے فاشسٹ سیاسی لیڈر میسولینی سے نہ صرف عقیدت مندانہ ملاقات کی بلکہ اُسے ایک انقلابی لیڈر تصور کرتے ہوئے اُس سے متعلق ایک نظم میسولینی بھی لکھی ؎ ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارا لعلِ ناب اوراس نظم کا آخری شعر ہے ؎ فیض یہ کس کی نظر کا ہے، کرامت کس کی ہے؟ گو کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب (کلّیاتِ اقبال۔ص۔481 ) میسولینی کی نظرکو کرامت اور شعاعِ انقلاب قراردینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ترقی پسند نقادوں کی نظرمیں اقبال فاشسٹ قرارپائے۔ اقبال کی میسولینی سے ایک مختصر ملاقات جس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا غلام رسول مہر نے حمزہ فاروقی کو بتایاتھا کہ: ’’…ملاقات بہت طویل نہ تھی۔ ترجمانی کے فرائض ڈاکٹرسقارپا نے انجام دیے تھے۔گفتگو زیادہ تر اقبال کی تصانیف کے بارے میں ہوئی تھی۔‘‘(37) یوں رائی کا پہاڑ بنالیاگیا اور اس میں اخترحسین رائے پوری کا کردارسب سے زیادہ ہے۔ انھوں نے اقبال اور میسولینی کے فکری اشتراک کو ظاہرکرنے کے لیے کہا کہ اقبال اور میسولینی دونوں قومیت کے قائل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال کے نزدیک قوم کا مفہوم مذہبی ہے اور میسولینی کے نزدیک نسلی۔ اقبال اور میسولینی جمہوریت کے مخالف ہیں۔ یہ چیز میسولینی نے عملی طورپر ثابت کی اور اقبال نے نظریاتی سطح پر ’’پیامِ مشرق‘‘ میں یہ شعر کہہ کر ؎ گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پُختہ کار ے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانِ نمی آید (کلّیاتِ اقبال فارسی۔ص۔305 ) اقبال نے اس شعر میں عوام یا جمہور سے متعلق بہت سخت زبان استعمال کی۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سو گدھوں کے دماغ کو بھی اکٹھاکریں تو ایک انسان کا دماغ نہیں بنایاجاسکتا۔ اسی طرح ’’جاویدنامہ‘‘میں اقبال نے اشتراکیت و ملوکیت دونوں کی مخالفت کی ہے لہٰذا اخترحسین رائے پوری کے خیال کے مطابق وہ فاشزم کی حمایت کررہے ہیں جبکہ مشہور ترقی پسند نقاد نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال سرمایہ داری اور شہنشاہانہ سامراج کے دشمن تو ہیں لیکن انھوں نے ان طاقتوں کے ساتھ بھی اتحادِ عمل نہ کیا جو سرمایہ داری اور شہنشاہانہ سامراج کو مٹادیناچاہتے تھے۔(38) یوسف حسین خاں نے احتشام حسین سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال تو ہیگل کے ’’صدف‘‘ کو گہر سے خالی کہتے ہیں لیکن اس حوالے سے یوسف حسین خاں کی تصنیف ’’روحِ اقبال‘‘ میں شامل اس رائے کو یوں رد کیاجاسکتا ہے کہ اقبال کے ہاں فکری سطح پر کافی اُلجھنیں پائی جاتی ہیں۔(39) یوں احتشام حسین کا خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کو زندگی کے ہر لمحہ بدلنے کا احساس تھا اور جو بھی اس بات کا حامی ہوتا ہے وہ مطلق قدروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اقبال بھی منزل کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔(40) اقبال نے تسخیرِفطرت کے پہلو پر تو زور دیا لیکن فرد کی اندرونی کشمکش کے حل پرنہ اتنا زوردیا نہ اُس حل کی کوئی کنُجی دی۔ شاید اُس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُن کے سامنے اسلام کی شکل میں ایک بنابنایا نظام موجود تھا۔ اقبال کا انسان عظیم الشان قوتوں کا مالک ہے، اُس کا باطن طاقت کا خزانہ ہے، خدا اُسے اپنے جوہر نمایاں کرنے کا موقع دیتا ہے۔ لہٰذا اقبال کی شاعری میں خدااورانسان کا تعلق آقااور غلام کا نہیں بلکہ رفیقانہ ہے اور اقبال کا مردِ مومن انسان کی ترقی یافتہ شکل۔ شاید اسی لیے اقبال نے’مردِ مومن‘ پراتنازوردیا۔(41) اقبال سے متعلق اس نوع کی بحثیں چھیڑی ہوئی تھیں جب عزیزاحمد نے اقبال کو اپناموضوع بنایا۔ انھوں نے بتایا کہ اقبال کا’’مردِ مومن‘‘ سوویت روس کے انسانِ جدید سے بہت قریب ہے، وہ خیرکاسخت پابند ہے اور مردِ مومن میں فقرپایاجاتا ہے لہٰذا دورِ جدید کا سوشلسٹ انسان اس سے کچھ مختلف نہیں ہوتا۔(42) عزیزاحمد نے اقبال کے شاہین کو میسولینی کی فکر کی علامت قراردینے پربھی اعتراض کیا۔ عزیزاحمد کے خیال میں: ’’وہ بُلند پروازی اور خیرکی طاقت کا رمز ہے، جبرکا نہیں۔ طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اُس سے انسان مظلوم نہیں بن سکتا۔‘‘(43) عزیزاحمد نے یہ بھی کہا کہ اقبال نے دوسرے مذاہب کے حقوق پامال کرنے کی کہیں بھی ہدایت نہیں کی۔ صرف اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بے انتہا طاقت جمع کرنے کی تلقین ضرور کی ہے۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کے لیے میسولینی کی شخصیت اور فکرمیں اقبال کی کشش کا باعث ’’ذوقِ حرکت‘‘اور’’ذوقِ انقلاب‘‘ تھے اس لیے کہ زندگی میں معجزات حرکت اور انقلاب سے ہی رُونماہوتے ہیں۔(44) واضح رہے کہ ’’پس چہ بایدکرد‘‘ میں اقبال فاشسٹ شہنشاہیت کو یورپ کے عام سرمایہ دارانہ نظام کی ہی طرح کی کوئی قسم تصورکرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا ہے اقبال کے دور میں پرول تاری آمریت کا تصور نیانیاتھا اور اقبال کو یہ خدشہ تھا کہ انقلابِ روس کا حشر بھی انقلابِ فرانس کی طرح کا نہ ہو اس لیے انھوں نے کھل کر اشتراکی نظام کی حمایت نہیں کی۔ البتہ اقبال، سرمایہ دارانہ فلسفے کو حقارت کی نظر سے ضرور دیکھتے ہیں۔ اسی لیے روس کے انقلاب میں اقبال کوزندگی کی ایک نئی تڑپ محسوس ہوتی ہے تو وہ اُمتِ مسلمہ کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎ قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ رفتار (کلّیاتِ اقبال۔ص۔148 ) عزیزاحمد نے اقبال کی شاعری میں شامل ترقی پسند عناصر بیان کرتے ہوئے اقبال کی ’’روحانی اشتراکیت پسندی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کی اشتراکی روحانیت ا ور کارل مارکس کی مادہ پرست اشتمالیت میں معمولی سا فرق ہے۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اقبال مذہب کو سماجی اورمعاشی حالات کی پیداوار نہیں سمجھتے بلکہ اقبال کے خیال میں سرمایہ دار، مذہبی پیشوائوں اور مُلّائوں کو رشوت دے کر اپنے اغراض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نیز اقبال کے خیال میں اگر مذہب میں سے حرکت کا تصور نکال لیا جائے تو مذہب بے روح ہوجاتا ہے۔ عزیزاحمد نے بالآخر اسلام اور اشتراکیت کی قربت اقبال میں سے ڈھونڈ لی۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کی نظم’’خضرِ راہ‘‘ اُن کی انقلابی شاعری کی ابتداء ہے اور اسی نظم میں اسلام اور اشتراکیت کا امتزاج ملتا ہے۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال نے حضرت خضر کی زبانی جن حقائق کو بیان کیا ہے اُن میں اسلام کا اجتہادی تصورموجود ہے۔ حضرت خضرؑ کے بیان میں کارل مارکس کے نظریات کی چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عزیزاحمد کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں بھی اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کی خونخواری کے بیان میں اشتراکی اسلام پر کاربند ہوجانے کا مشورہ دیا۔(45) عزیزاحمد کی اسی بات کو آلِ احمدسرور نے مزید آگے بڑھایاہے۔ اُن کے خیال میں اقبال ’’اسلامی سوشلسٹ‘‘ ہیں۔ اقبال کا یہ پہلو انھوں نے اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں سے تلاش کیا۔ آلِ احمدسرور کہتے ہیں کہ اقبال نے شیطان کو خواہ مخواہ اتنی اہمیت نہیں دی۔ اُن کے خیال میں اقبال نے شیطان کی زبانی سوشلسٹ اسلام کا تصور پیش کیا ہے اس حوالے سے آلِ احمدسرور نے اقبال کا ایک خط خواجہ غلام السیّدین کے نام ڈھونڈنکالا۔ جس میں 17اکتوبر1926ء کو اقبال لکھتے ہیں: ’’تاریخ انسانی کی مادی تعبیر سراسر غلط ہے۔ میں روحانیت کا قائل ہوں مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا۔ باقی رہا سوشلزم ۔ اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے، جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔‘‘(46) اقبال نے دراصل اشتراکیت کو بیک جنبشِ قلم رد نہیں کیا بلکہ ملحدانہ اشتراکیت کومسترد کیا ہے۔ محمدعلی جناح کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں کہ: " If Hinduism accepts Social Democracy, it must necessarily cease to be a Hinduism for Islam, the acceptance of Social Democracy in some suitable form is not a revolution but a return to the original purity of Islam." (47) سوادِعامہ کے بارے میں یہ خوش گمانی رکھتے تھے کہ ’’روسی فطرتاً لامذہب نہیں ہیں۔‘‘ انھوں نے ان سے یہ توقع قائم کی تھی کہ روس کے مزاج کی موجودہ منفی حالت غیرمعینہ عرصہ تک نہیں رہے گی۔ انھیں یقینی طورپر اپنے نظام کے لیے کسی مثبت بنیادکی تلاش کرناہوگی۔ اگر بالشوزم میں خدا کی ہستی کا اقرارشامل کردیا جائے تو بالشوزم اسلام کے بہت ہی قریب آجاتا ہے۔ اس لیے میں متعجب نہ ہوں گا اگر کسی زمانہ میں اسلام روس پر چھا جائے یا روس اسلام پر…‘‘(48) اوپر خواجہ غلام السیّدین کے نام جس خط کا ذکرآیا ہے اس کے مطابق اقبال نے اپنے آپ کو روحانیت کا قائل بتایا ہے۔ اقبال کے خیال میں انسانی ضمیر کو بے حس بنانے میں کمیونزم کا دخل ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے انسان اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اپنی وجدانی قوت اور روحانی طاقت کے سرچشمے تک رسائی پاسکے۔ کمیونزم کی بنیاد میںتعصب اور نفرت شامل ہیں اور یہ رجحانات روحانیت کی نفی کرتے ہیں۔ اقبال اس خدشے کے پیش نظر ان رویوں کو زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے انسانی جدوجہد کے لیے نقصان دہ قراردیتے ہیں۔ اس سے یوں لگنے لگتا ہے جیسے انسان اصل زندگی سے بیزار ہوچکا ہے اور اب اس کی نظر ایسے حقائق پر ہے جو صرف حواس کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ اقبال چاہے ذات پات کی تمیزاور نوعِ انسانی کی ترقی کے باب پر گفتگو کرتے ہوئے براہمنوں کی حکومت سے کشتریوں کی حکومت اور پھر ویشوں کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے ملک التجار کے سیاسیات عالم پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بالآخر مزدور طبقے کی حکومت کی امیدیں لگائیں۔(49) پھر بھی وہ اپنے اوپر اشتراکی کا الزام برداشت نہیں کرتے کیونکہ اس سے اسلام کے عقائد پرزدپڑتی ہے۔ اخبارزمیندار مورخہ23 جون1923 ئ، میںشمس الدین حسن کے پروفیسرغلام حسین کے متعلق مضمون میں اقبال کے بالشویک خیالات کا حامی ہونے کی آڑ میں پروفیسرغلام حسین کی گرفتاری پر سوال اٹھایاگیا تھا۔ اس جواب میں اقبال نے ایڈیٹرزمیندار کو جو خط لکھا اس میں واضح طورپر کہا کہ ’’چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہء اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردیدمیرا فرض ہے… روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خودغرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردّ ِ عمل ہے لیکن…اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے۔(50) آلِ احمدسرور کے خیال میں اقبال غلامی کو پسندنہیں کرتے اور معاشرے میں مساوات کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ بغیرمساوات کے آزادی بے معنی ہوجاتی ہے۔ وہ انسانوں میں امتیازروا رکھنے کے قائل نہیں اور مزدوروں کی حکومت چاہتے ہیں لیکن مزدور کو یہ حق نہیں دیتے کہ حکومت قائم کرنے کے معاملے میں مزدور ظالم بن کر خونریزی کا بازارگرم کرے۔ یہیں سے اقبال کے ہاں اشتراکیت اور فسطائیت کی کشمکش شروع ہوتی ہے اور فسطائیت کے مقابلے میں اقبال اشتراکی نظام کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔(51) آلِ احمدسرور یہ بھی نہیں مانتے کہ اقبال کا مذہبی جذبہ اُن کے شاعرانہ پیغام کو محدود کرتا ہے اور اُس کی شاخیں فسطائیت اور جمہور دشمنی سے پیوستہ ہیں۔ سرور کے خیال میں اقبال نے بڑی شدّومد کے ساتھ سرمایہ داروں اور سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کی ہے۔(52) آلِ احمدسرور نے اقبال کے حوالے سے اخترحسین رائے پوری کے اُٹھائے گئے بیشتراعتراضات کو رد کردیا۔ وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ: ۱۔ اقبال فسطائیت کے حامی ہیں۔ ۲۔ اقبال ملوکیت و سرمایہ داری کے معمولی سے دُشمن ہیں۔ ۳۔ اقبال عوام یا جمہور کو حقیر جانتے ہیں۔ ۴۔ اقبال جمہوری یا محنت پیشہ لوگوں کی حکومت کو پسندنہیں کرتے۔ آلِ احمدسرور کے خیال میں ہمیں صرف اقبال کی نظم’’میسولینی‘‘ مشمولہ ’’بالِ جبریل‘‘ ہی کو نہیں دیکھناچاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اقبال ’’ضربِ کلیم‘‘ میں کیا کہتے ہیں ؎ پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج (کلّیاتِ اقبال۔ص۔662 ) آلِ احمدسرور یہ تو مانتے ہیں کہ اقبال نے کہیں کہیں اشتراکی نظام پر اعتراض کیا ہے کیونکہ جب اقبال سے یہ پوچھا گیا کہ آپ فاشزم اور کمیونزم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا تھا: ’’میرے لیے فاشزم اور کمیونزم یا زمانۂ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے۔‘‘(53) آلِ احمدسرور یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ نظم میسولینی تو پڑھتے ہیں لیکن لینن:خدا کے حضور میں ، نہیں پڑھتے۔ اقبال جمہوریت کے خلاف نہیں۔ البتہ انھوں نے مزدوروں کی حکومت کے قیام میں ہونے والی خونریزی دیکھی تھی اور یہی سبب تھا کہ مزدوروں کی حکومت کے ابتدائی دور کے بارے میں اُن کی رائے اچھی نہ تھی اور اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ1936 ء میں جب اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ لکھی تو وہ اشتراکیت کی طرف بہت کچھ مائل ہوچکے تھے۔(54) اقبال کی نظم’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ (1936) سے قبل 1922 ء تا1935 ء اقبال نے پیامِ مشرق ،زبورِ عجم اورجاویدنامہ میں کارل مارکس کے افکاراوراشتراکیت پر اظہارِ خیال تو کیاتھا لیکن انھیں کون سا نظامِ معیشت پسندتھا اس کے بارے میں اُن کی کوئی دو ٹوک رائے نہیںالبتہ مزدوروں سے ہمدردی ضرور دکھائی دیتی ہے لیکن اشتراکیت کی لامذہبیت اُن کے لیے قابل قبول نہیں۔ نہ وہ مزدور حکومت کی آمریت کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کے اِن ترقی پسند اور غیرترقی پسند ناقدین کے بعدجدیددور کے ایک ترقی پسند ناقد ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اقبال کی ترقی پسندی کی جڑیں نہ تو مغربی سامراج کے خلاف نفرت میں تلاش کرنی چاہئیں اور نہ ہی مغربی معیشت پر تعمیرشدہ سیاسی ڈھانچے سے بیزاری میں ڈھونڈنی چاہئیں۔‘‘(55) محمدعلی صدیقی کے نزدیک ’’اقبال کی طرف سے بورژوا جمہوریت کی مخالفت دراصل لبرل جمہوریتوں کی طرف سے فاشزم کی مُخالفت پر ایک قسم کا لطیف طنزہے۔‘‘(56) پروفیسرفتح محمدملک نے اقبال کو’’مجموعۂ اضداد‘‘ کہنے کی بجائے ’’دانائے راز‘‘ کہا ہے۔فتح محمدملک کہتے ہیں کہ جس بنیاد پر ترقی پسند ناقدین اقبال کی انسانیت اور آفاقیت کو شک میں ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں،اُن کو اس استدلال پرغورکرناچاہیے جس کے ساتھ اقبال اسلام کو اشتراکیت پر فوقیت دیتے ہیں۔(57) یوں غور کیاجائے تو پتا چلتا ہے کہ ترقی پسند ناقدین نے1936 ء میں پوری شدّومد کے ساتھ آغاز ہونے والی انجمن ترقی پسندمصنفین کی ساری شدّت پسندی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقبال کی1922 ء تا1935 ء کی شاعری کے تناظرمیں اشتراکیت سے متعلق اقبال کے غیرواضح خیالات پر خوب لے دے کی۔ یہاں تک کہ انھیں فسطائیت کا علمبردار بھی کہہ دیا جبکہ اقبال اپنی عمرکے آخری برس میں اشتراکیت کے فلسفے سے متاثردکھائی دیے اور غیرترقی پسند ناقدین نے محض نظریاتی اختلاف کی بنیادپر اقبال کے پیام کو آفاقی قرار دیتے ہوئے ترقی پسندناقدین کے جائز اعتراضات کو بھی ردکردیا۔ اس سارے پس منظر کودیکھتے ہوئے ڈاکٹرایم ڈی۔تاثیرکا اقبال سے متعلق مضمون ’’اقبال کا سیاسی نظام‘‘حددرجہ متوازن دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے خیال میں اقبال اپنے دور میں مروج ہرسیاسی نظام کی خامیوں کو چھان پھٹک کرتے رہتے تھے اُور ان کی سمجھ میں اُس وقت تک یہ بات آئی تھی کہ اشتراکی اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا معبودِ حقیقی، فقط پیٹ ہے۔ لہٰذا اقبال نے اِن دونوں نظاموں کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ ’’زمین نہ زمیندار کی ہے نہ کسان کی ہے۔ زمین صرف اللہ کی ہے…یہ وہ تیسرا راستہ ہے جسے اسلامی سوشلزم کہاجاتا ہے۔‘‘(58) اقبال اشتراکیت(سوشلزم) کو ایک ایسی آندھی سمجھتے تھے جو فضاسے آلودہ ہوائوں کو نکال باہرکرتی ہے۔ روس کے اشتراکی انقلاب کے بعد یہ رویہ ہندوستانی معاشرے کا حصہ بن گیا۔ جب امیراور غریب طبقات میں اختلافات پیداہوئے تو اس طرح مزدور اور صنعت کار کی بجائے مزارع اور جاگیردار کے مابین تنازع پیداہوا۔ اُس دور کا بھارت بنیادی طورپر ایک زرعی ملک تھا۔ بے حس جاگیردار اور سُودخور ساہوکار سرِعام دکھائی دیتے تھے۔ اس امر کے حوالے سے اقبال ایک ایسے انقلاب کے خواہاں تھے جوکمیونزم اور سوشلزم کے مطابق نہ ہو بلکہ سینٹ سائمن کے قول کے مطابق ہو۔ جس میں معاشرے کے باحیثیت لوگوں سے وسائل لے کر اصل حقداروں تک پہنچانے پرزوردیاگیاہے۔ یہ ایک ایسی ترکیب ہے جو تمام بن کمائے سرمائے کو ختم کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے وسط کے ہندوستان میں اشتراکی نظریات کا اثر نوجوانوں اور انڈین نیشنل موومنٹ کے بائیں بازو کے گروہوں کے ذریعے پھیلااور اس سے فکری اور تجزیاتی سطح پر نئے افق وا ہوئے۔ اس تحریک کے نمایاں نظریات کا عکس اقبال کی شاعری میں بھی ظاہرہوا اور کچھ حد تک اقبال کے غیرتبدیل شدہ مذہبی تصورات پربھی پڑا۔ یوں اقبال نے اشتراکیت اور مزدوروں کے مسائل میں دلچسپی لی۔ اس نظریہ کی نمایاں خصوصیات اُس دور کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں قومی آزادی کی تحریک کا ظہورتھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال روس کے عظیم اشتراکی انقلاب کو خوش آمدید کہنے والوں میں پہلے شخص تھے۔اقبال کے الفاظ میں روس کا انقلاب پرانے نظام کی تباہی کا عملی مظاہرہ تھا ؎ دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت (کلّیاتِ اقبال۔ص۔649 ) اقبال کے اس شعر کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پرانے دور کے طرزِ معاشرت کا آخری وقت آگیا ہے۔ بلاشبہ اقبال نے اس دور میں اس پر بھی غوروفکر کیا کہ سوشلزم کا کچھ دوسرے نظریات جیسا کہ اشتمالیت اورسماجی نظریات سے قریبی تعلق ہے۔ اشتمالیت ،فرانسیسی نظریات پر مبنی ہے۔ جو فرانس میں 19 ویں صدی کے اواخر میں ظہورپذیرہوا۔ اُسے ریاست اور حکومتی تنظیم کے لیے شہری آبادی اور معیشت کے شعبوں کو چلانے، اُن کے نظم و ضبط اور انصرام کی خاطراستعمال کیاگیا۔ یہ کوئی مقالٰہ یا عقائد کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی منصوبہ بندی ہے۔ جب کہ اشتراکیت (سوشلزم) انسانی فطرت اور مساوات کے بارے میں ایک عقیدہ ہے۔ اشتراکیت اور اشتمالیت میں فرق واضح کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اشتمالیت، اشتراکیت کے مقابلے میں محدود ،رسمی اور طویل العمر ہے۔ ایک غیرمعروف قول سے کمیونزم اور سوشلزم کا فرق بہترانداز میں واضح ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ سوشلزم کے مطابق آپ کے پاس دو گائیں ہیں۔ جن میں سے ایک آپ اپنے ہمسائے کو دے دیتے ہیں۔ جبکہ کمیونزم میں آپ کے پاس دو گائیں ہیں، جنھیں حکومت لے لیتی ہے اور اُس کی جگہ آپ کو کچھ مقدارمیں دُودھ دے دیتی ہے۔ اشتراکیت سے متعلق محدودمعلومات کے سبب اقبال یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ کارل مارکس نے اپنے ’’اشتمالی منشور‘‘ کے لیے اپنی تحریروں میں اشتمالیت کو اشتراکیت (سوشلزم) کی قدیم شکل قراردیا ہے۔ کارل مارکس نے انقلابی کمیونزم اور یوٹوپیئن(جنّتِ ارضی) سوشلزم میں فرق کی واضح نشان دہی کی۔ اگرچہ اشتراکیت(سوشلزم) اور کمیونزم میں کوئی واضح حدبندی مقررکرنایا لکیرکھینچنا بہت مشکل ہے لیکن اینگلز نے اشتمالی منشور میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن سے بہتر تشریح ہوتی ہے۔ 18ویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں اشتراکی جمہوریت(سوشل ڈیموکریسی)، مارکسیت(مارکسزم) کے تقریباً مساوی آگئی۔ مارکسزم نے بہ حیثیت اشتراکی جمہوریت کے اشتراکیت کے مقابل اپنی نظریاتی شکل اختیارکرلی۔1920 ء تاحال اشتراکی جمہوریت کی اصطلاح کا اشتراکیت (سوشلزم) اور سماجی آزادانہ روایات کے ساتھ بہت قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقبال ’’مُلحد اشتراکیت‘‘ کو مُسترد کرتے ہیں نہ کہ بذاتِ خود اشتراکیت کو۔ لگتا ہے کہ اقبال کو اشتراکیت سے اصل شکایت صرف اس کی دہریت کی وجہ سے تھی اور ایک مقام پر تو وہ اشتراکیت کی دہریت کو بھی کلیسا کی مخالفت میںقبول کرنے کے قریب آجاتے ہیں ؎ یہ وحی دہریتِ روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات (کلّیات ِاقبال۔ص۔653 ) اقبال کے خیال میں اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو کسی موزوں شکل میں قبول کرناکوئی انقلابی بات نہیں بلکہ اسلام کے اصل خالص پن کی طرف واپسی ہے۔ اشتراکی نظریہ کے ماخذ دو نمایاں توجیہات کے ساتھ منسوب ہیں۔ پہلی کثیر عرصۂ کار احاطہ کرتی ہے، جو ابتدائی دورِ جدید سے وابستہ ہے جب کہ دوسری توجیہہ فرانسیسی انقلاب کے بعد والے دورپر زوردیتی ہے۔ اشتراکیت(سوشلزم) کو بہت سی اقدار اوردانشورانہ روایات ورثہ میں ملی ہیں اس کے بہت سے مکاتیب ہیں۔ جن میں سے سب سے مشہور مکایتب مارکسزم، اصلاحی ریاستی سوشلزم، اخلاقی سوشلزم،کثیرگروہی سوشلزم اور مارکسی سوشلزم ہیں۔ اقبال اپنی نظم’’اشتراکیت‘‘ میں کہتے ہیں کہ روس کی گرمیٔ رفتار بے سود نہیں اور اسی کے نتیجے میں ؎ جو حرفِ قُلِ العفْو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار (کلّیات ِ اقبال۔ص۔648 ) روسی اقوام کے رویہ سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ رُوس کی تیز رفتار ترقی بہتری کے حصول کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور موجودہ دور میں ’’کہو کہ کافی ہے‘‘ جیسے الفاظ میں مضمر سچائی کی عملی مثال سامنے آنے والی ہے۔ اقبال کو یقین تھا کہ عہدِجدیدکاشعور ملوکیت اور اشتراکیت میں بنیادی تبدیلیاں پیداکردے گا اور خود روسی قوم اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کرکے ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبورہوجائے گی جس کے اصولِ اساسی یا خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ وہ ملوکیت کے حوالے سے اشتراکیت کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ جاویدنامہ میں جمال الدین افغانی کی زبان سے کارل مارکس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ اشتراکیت کی بنیاد پرسوال اٹھاتے ہیں کہ اشتراکیت محض مساوات شکم پر زور دیتی ہے۔ جبکہ اقبال کے خیال میں مساوات صرف اخوت کے بل پر قائم ہوسکتی ہے۔(59) حواشی و حوالہ جات -1 قومی انگریزی- اردو لغت،مرتّبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد، طبع پنجم؛2002 ء ،ص۔1885 ۔ -2 اردو لغت (تاریخی اصول پر) جلد اوّل، ترقی اردو بورڈ،1966 ء ،ص۔514 ۔ -3 قومی انگریزی- اردولغت مذکور:ص۔1885 ۔ -4 سبطِ حسن: موسیٰ سے مارکس تک: مکتبۂ دانیال؛ کراچی؛طبع اول؛1988 ء ،ص۔96 ۔ -5 قمررئیس و عاشورکاظمی: ترقی پسندادب، مکتبہ عالیہ،لاہور،طبع اول، 1994 ء ، ص۔367 ۔ -6 قومی انگریزی۔ اردولغت مذکور:ص۔568 ۔ -7 ایضاً:ص۔568 ۔ -8 ( ڈاکٹر)سہیل احمدخان - محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین)؛منتخب ادبی اصطلاحات؛ شعبۂ اردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور؛ طبع اول،2005 ئ،ص۔66-65 ۔ -9 (سید)سجادظہیر:مارکسی فلسفہ؛پیپلز پبلشنگ ہائوس؛لاہور؛طبع چہارم؛1970 ئ؛ ص۔21۔ -10 ایضاً:ص49-50 -11 (ڈاکٹر)انورسدید:اردو ادب کی تحریکیں؛انجمن ترقی اردو پاکستان؛ کراچی؛ طبع اول؛1985 ئ؛ص۔136 12- Frederick Engels: Selected Works; Moscow; 1969; P-31. -13 (سید)سجادظہیر:کتاب مذکور؛ص۔30 -14 ایضاً:ص۔78 -15 جامع اردوانسائیکلوپیڈیا،جلد8-(فنونِ لطیفہ):قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ،ص۔309 16- Cuddon, J.A: The Penguin Dictionary of Lietrary Terms and Literary Theory, Penguin Books, London; 1999; P-837. -17 ظہیرکاشمیری:ادب کے مادی نظریے ،کلاسیک، لاہور،طبع دوم،1975 ،ص۔94 -18 ایضاً:ص۔89 -19 (ڈاکٹر)انورسدید:کتاب مذکور،ص۔139-140 -20 جامع ارد و انسائیکلوپیڈیا،جلد1-(ادبیات):ص۔165 -21 ایضاً:ص۔458 -22 ظہیرکاشمیری: کتاب مذکور،ص۔95-96 -23 ایضاً:ص۔96 -24 ایضاً:ص۔100-101 -25 جامع ارد و انسائیکلوپیڈیامذکور:ص،242 -26 ایضاً:ص۔488 -27 اقبال:کلیات ِمکاتیبِ اقبال(جلداوّل)؛ مرتبہ سید مظفرحسین برنی، اردو اکادمی ، دہلی؛1992 ،ص۔320-323 -28 محمدبلال سہیل:’’ڈاکٹرظ۔انصاری‘‘مقالہ برائے ایم۔اے اردو، پنجاب یونیورسٹی اور یئنٹل کالج، لاہور،سیشن 1989-90 ، ص۔181 ۔ -29 اخترحسین رائے پوری:ادب اور انقلاب،ادارہ اشاعت ِاردو،طبع اول ؛ حیدرآباددکن؛1943 ،ص۔80 -30 ایضاً:ص۔87 -31 مجنوں گورکھپوری:اقبال؛ اجمالی تبصرہ،سنگم پبلشنگ ہائوس،الٰہ آباد؛ طبع اول؛ س۔ن،ص۔37-43 -32 بہ حوالہ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘از خلیل الرحمن اعظمی، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ؛طبع اول1979 ،ص۔282 -33 علی سردارجعفری:اقبال شناسی،پیپلزپبلشنگ ہائوس، لاہور،طبع اول؛1977 ئ، ص۔13 ،22 ،23 ،26 ،27 ،29 ،30 ،31 ،32 ، 34 ،43 -34 ایضاً:ص۔44 -35 ایضاً:ص۔48 -36 ایضاً:ص۔76 -37 محمدحمزہ فاروقی:سفرنامۂ اقبال،مکتبہ اسلوب؛کراچی، طبع اول،1989 ئ،ص۔158 -38 احتشام حسین:’’روایت اور بغاوت‘‘ میں شامل مضمون’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘ یہ مضمون پہلے پہل بہ زبان انگریزی "All India Weekly" بمبئی میں شائع ہواتھا۔اسے ’’روایت اور بغاوت‘‘ کے صفحہ100 پرملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔ -39 ایضاً:ص۔92 -40 ایضاً:ص۔265 -41 عزیزاحمد:ترقی پسندادب؛ کاروانِ ادب، ملتان، طبع اول؛1986 ئ،ص۔60 -42 ایضاً:ص۔61 -43 ایضاً:ص۔63 -44 ایضاً:ص۔74 -45 عزیزاحمد:’’اقبال نئی تشکیل،گلوب پبلشرز،لاہورطبع اول،1968 ؛ ص۔137-139 -46 آلِ احمدسرور: ’تنقید کیا ہے‘،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی ،طبع اول؛1952 ئ، ص۔107(اس خط کا ذکر رئیس احمد جعفری کی مرتبہ ’’اقبال اور سیاست ِملی‘‘ کے صفحہ96 پربھی موجود ہے۔) 47- Iqbal: Letters of Iqbal to Jinnah, Muhammad Ashraf, Lahore; 1963: P-19 -48 رئیس احمدجعفری(مرتب):اقبال اور سیاستِ ملی،اقبال اکادمی پاکستان؛لاہور، طبع دوم1981 ،ص۔247 -49 فقیرسیدوحیدالدین:روزگارِ فقیر(جلددوم)،لائن آرٹ پریس، کراچی، طبع دوم،1965 ؛ ص۔98-99 -50 محمدرفیق افضل(مرتب):گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقات پاکستان،لاہور، طبع سوم1986 ،ص۔6-7 -51 آل احمدسرور:اقبال اور ابلیس، مرتبہ فقیراحمدفیصل،لاہوراکیڈمی، لاہور؛ طبع اول،س۔ن،ص۔268-269 -52 ایضاً:ص۔278 -53 آل ِاحمدسرور:’’اقبال اوراُس کے نکتہ چیں‘‘، مشمولہ عرفانِ اقبال مرتبہ زہرامعین، تخلیق مرکز،لاہور، طبع اول؛1977 ،ص۔89 -54 ایضاً:ص۔92 -55 ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی:’’ترقی پسندی کی ایک جہت؛اقبال ‘‘مشمولہ’’فکرِاقبال کے منور گوشے مرتبہ ڈاکٹرسلیم اختر،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہورطبع اول،س۔ن،ص۔56 -56 ایضاً:ص۔59 -57 فتح محمدملک:اقبال؛فکروعمل،بزم اقبال،لاہور،طبع اول،1985 ،ص۔25 -58 ڈاکٹرایم۔ڈی تاثیر:اقبال کا فکروفن، مرتبہ افضل حق قریشی،یونیورسل بُکس،لاہور، طبع اول،1988 ،ص۔100-102 -59 ڈاکٹرمعین الدین عقیل :’’دنیائے اسلام میں اشتراکیت اوراقبال کامسئلہ‘‘، مشمولہ، اقبال؛1984 ، مرتّبہ؛ ڈاکٹروحیدعشرت، اقبال اکادمی، لاہور، طبع اول، 1956 ،ص۔527-528 ٭٭٭ باب سوم:حصہ ششم علامت نگاری کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء الفاظ جہاں انسانی زندگی میں ربط و ترسیل اور افہام کے سلسلے قائم کرتے ہیں وہاں ان کی ترتیب اور استعمال کے قرینے میں انسان کی ذہنی ترقی اور اوج و عروج کی داستان پوشیدہ ہے۔ الفاظ کوئی جامداورٹھوس شے نہیں ہوتے بلکہ ہرعہدمیں ان کی شکل اور ہیئت بدلتی رہی ہے۔ خاص طورپر جہاں انھیں ادبی تخلیق کے لیے استعمال کیاگیا ہے تو وہاں یہ تخلیق کار کے مزاج اور طرز احساس کے مطابق نیارنگ اختیارکرتے رہے ہیں۔ جس طرح سائنس کے تجربات کی صداقت اس کے اشاروں اورعلامتوں میں پنہاں ہوتی ہے اسی طرح شاعری اور ادب میں بھی انسانی تجربات کی صداقت اس کے رموز، کنایوں اور علامتوں کے ذریعے عیاں ہوتی ہے۔ دی نیو انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکامیں علامت کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں: "The word Symbol comes from the Greek "Symbolon" which means contract, token, insignia and a means of identification." (1) دی انسائیکلوپیڈیا آف امریکانامیں علامت کے معنی ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں: "The use of word to suggest or to intimate, rather than to convey specific meaning, in an essential characteristic of poetry." (2) ویبسٹرز انسائیکلوپیڈیاکے مطابق علامت کی تعریف یہ ہے: "A word, phrase image or the like, having a complex of associated meaning and perceived as having inherent value, separable from that which is symbolized, as being part of that which as symbolized and as performing that which is normal function of standing for or representing that which is symbolized, usually conceived as deriving its meaning chiefly from the structure in which it appears and generally, distinguished from a sign."(3) دی ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز (The Dictionary of Literary Terms) میں علامت کا مفہوم یوں لکھا ہے: "The word symbol derives from the Greek verb symballien, mark, emblem, token or sign...... A literary symbol combines an image with a concept (words themselves are a kind of symbol) it may be public or private, universal or local."(4) چارلس چاڈوک (Charles Chadwick) اپنی کتاب "Symbolism" میں علامت نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں: "Symbolism is a way to communicate ideas and thoughts, indirectly negating the real object, depending on alternate emblem, sign or mark to regenerate the real objects without emphasizing on the real object."(5) علامت کے بارے میں بیان کیے گئے درج بالا مفاہیم کی رُو سے ہمیں اس لفظ کے حتمی معنی تک پہنچنے میں مددملتی ہے۔ چنانچہ اس یونانی الاصل لفظ کو نشان، اشارہ، خیال اور کسی پس منظرمیں خوابیدہ مفہوم کے متبادل کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے۔ ادبی اصطلاح میں علامت نگاری سے مراد کسی خیال یا فکرکو بالواسطہ طورپر کسی اشارے یا نشان کے طورپربیان کرنے کا نام ہے۔ ولیم یارک ٹنڈل(William York Tindall) کے مطابق: ’’ادبی علامت ان دیکھی شے کی ایسی مشابہت یا مماثلت ہے جس کے قلب میں محسوسات اور فکر کے اشارات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے۔‘‘(6) اردو کے نقاد عارف عبدالمتین نے علامت کے معنی و مفہوم سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’علامت کے لغوی معنی ہیں نشان یا سُراغ اور اس لفظ کی توضیح یوں کی جاسکتی ہے کہ علامت کسی بھی نوعیت کی اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی بھی نوعیت کی دوسری چیز کی نشاندہی کرے یا اس کاسراغ مہیاکرے۔ بہ الفاظ دیگر علامت اس پُرمعنی وجود کا نام ہے جس کی معنویت محض اس سے ماورا کسی اوروجود کے حوالے میں مضمرہو۔ گُل کا لفظ ایک علامت ہے۔ اس کی معنویت اس نباتاتی وجود میں پوشیدہ ہے جو کہ سُرخ رنگ کی نرم و نازک پتیوں پرمشتمل پیکر لیے اپنی خوشبو سے باغ کے گوشے گوشے کو مہکارہاہو۔ اسی طرح بلبل کا لفظ ایک علامت ہے اور اس کی معنویت کا راز اس حیواناتی وجود میں پنہاں ہے جو اپنے خوشنما اور دیدہ زیب رنگوں والے پَروں کے ساتھ باغ میں اُڑتااور گلوں پرکمال شیفتگی سے منڈلاتا ہے۔‘‘(7) غورکیاجائے تو الفاظ کے صحیح معنی اور امکانات علامتی اسلوب ہی نمایاں کرتے ہیں۔ جب لفظ علامت بنتا ہے تو وہ اپنی قوت کا اظہاربھرپور طریقے سے کرتا ہے۔ شعری علامت احساساتی اور تصوراتی سطح کی حامل ہوتی ہے جو پہلے احساساتی سطح پر قاری کو متاثرکرتی ہے اور پھرتصوراتی سطح پرذہن کی دوسر ی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتی ہے۔ اس اعتبار سے الفاظ کا علامتی استعمال دراصل زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ جب الفاظ کو ادبی علامتوں کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے تو ان کی حیثیت محض اشاروں اور کنایوں کی نہیں رہتی بلکہ وہ جن حقائق اور کوائف کی نشاندہی کرتے ہیں وہ بھی اس کی معنویت کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔شاعری اور ادب میں علامتوں کا مطالعہ عصری اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تمدنی اسالیب علامتوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتے ہیں اور وسیع ترمعانی میں ادبی علامتوں کے ذریعے کسی تمدن کی جذباتی اور فکری زندگی کی تشخیص بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی قطعی اور مکمل شکل میں علامتیں انفرادی اور عصری اظہار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہوتی ہیں اور فنی اور ادبی اعتبار سے تخلیقی تجربے کے ادراک، تنظیم اور ترسیل کاجامع اور موثروسیلہ بھی۔ ڈبلیو۔بی۔ ژیٹس(W.B. Yeats) کے بقول: ’’علامتیں شاعری میں ایک بہت بڑی طاقت کی حیثیت رکھتی ہیں…وہ اس کو پہلودار بناکراس میں حسن پیدا کردیتی ہیں۔‘‘(8) گویا شاعری جو الفاظ کو ترسیلِ جذبات و افکار کے ناگزیر ذریعے کے طورپر بروئے کارلاتی ہے، علامتوں سے قوت حاصل کرتی ہے اور اس میں اثر آفرینی پیدا ہوتی ہے۔ شاعری کا لطف یہی ہے کہ قاری کا ذہن علامت کے پردے میں پوشیدہ خیال سے ربط پیداکرلے۔ ڈاکٹروزیرآغا لکھتے ہیں: ’’علامت شے کو اس کے مخفی تصور سے منسلک کرتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جب شے علامت کا روپ اختیارکرتی ہے تو قاری کے ذہن کو اپنے مخفی تصورکی طرف موڑ دیتی ہے۔ جب شاعر کسی شے یا لفظ کو علامت کے طورپراستعمال کرتا ہے تو اپنی تخلیقی جَست کی مدد سے اس شے اور اس کے مخفی معنی میں ایک ربط دریافت کرتا ہے۔ شاعرکاسارا جمالیاتی حظ اس کی اِسی جَست کے باعث ہے۔‘‘(9) ہم علامت کو اس پُرمعنی وجود کا نام دے سکتے ہیں جس کی معنویت اس سے ماورا کسی اور وجود کے حوالے میں مضمر ہے۔ چنانچہ شاعری میں علامت کے وسیلے سے معنوی تہیں پیداہوتی ہیں۔ گویاعلامت اپنے لفظی معنی کے علاوہ تہ در تہ احساسات اور مفاہیم کا ایک سلسلہ اپنے بطن میں چُھپائے ہوتی ہے۔ پھر ان معنوی پرتوں کا ایسا پائیدار رشتہ انسانی ذہن سے قائم کرتی ہے جس کے امکانات قوتِ متخیلہ کے ساتھ ساتھ وسیع ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ علامت کو ایک خاص امیج قراردیاجاسکتا ہے جس میں سے اور متعددامیبحز برآمدہوتے ہیں۔ یہ خاص امیج دعوتِ فکر و خیال دیتا ہے۔ اس لحاظ سے علامت فکر کے لیے غذا کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور ذہنِ انسانی کے زنگ کو دُورکرکے اس میں حرکت کی صفت پیداکرتی ہے۔ الفاظ کے صحیح لغوی امکانات علامتی اسلوبِ بیاں ہی سے واضح ہوتے ہیں۔ علامت سازی ایک ہمہ گیرعمل ہے اور انسان کا ذہن مختلف خیالات، افکار، محسوسات اور تلازمات کے رشتوں کوعلامتی شکل میں متعین کرتارہتا ہے۔ علامتوں کی اقسام علامتوں کے ابلاغ اورمعنویت کی بناپر ان کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے: ۱۔ روایتی علامتیں(Conventional Symbols) ۲۔ اتفاقی علامتیں(Accidental Symbols) ۳۔ آفاقی علامتیں(Universal Symbols) روایتی علامتیں نسل در نسل انسانی معاشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں لفظ اور شے میں بظاہرکوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن کثرتِ استعمال ان میں رشتہ پیدا کردتیا ہے۔ چنانچہ الفاظ کے زبان پر آتے ہی شے کے بارے میں ابلاغ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپرلفظ’’میز‘‘میں اور شے ’’میز‘‘ میں معنوی طور پر کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن ایک عرصے سے اِسے برابر میز ہی کہاجاتا ہے۔ اس لیے زبان سے لفظ ادا ہوتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اشارہ کس شے کی طرف ہے۔ یہ مثال ان علامتوں پربھی صادق آتی ہے جو کسی مخصوص زبان کے ادب میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آرہی ہوں اور ان کے معنی قطعیت کے ساتھ متعین ہوچکے ہیں۔ مثلاًاردو، فارسی شاعری میں گل و بلبل، برق و آشیاں، دشت و جنوں وغیرہ الفاظ روایتی علامتوں کے زمرے میں آئیں گے۔ اتفاقی علامتوں میں بھی علامت اور شے میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ روایتی علامتوں کے بالکل متضادہوتی ہیں۔ ایسی علامتیں رفتہ رفتہ جذباتی حدت سے محروم ہوجاتی ہیں اور صرف ذہنی یا فکری رہ جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کا انفرادی تعلق کمزور ہوجاتا ہے اور اجتماعی قدر زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ اتفاقی علامتیں مکمل طورپر ذاتی ہوتی ہیں اور ان کی تشکیل فرد کے ہی جذباتی تجربات سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کو کسی شہر یا گلی یا مکان کے سلسلے میں کچھ ایسا تجربہ ہوتا ہے کہ اس کا نام آتے ہی وہ منظرپوری تفصیل کے ساتھ ذہن میں ابھرآتا ہے اور جب وہ شخص اس کا ذکرکرتا ہے تو ایک خاص تاثرکے ساتھ کرتا ہے لیکن دوسرا شخص اس کے مفہوم کو اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک اس مقام سے متعلق ان واقعات کا رشتہ واضح نہ کردیاجائے جس کا تجربہ پہلے شخص نے کیا ہے اور جن کے بارے میں وہ اپنے تاثرکا ابلاغ دوسروں تک کرناچاہتا ہے۔ آفاقی علامتوں میں علامت اور اس شے میں گہرا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے جس کی وہ نمائندگی کرتی ہے۔ انسان زندگی کی ارتقائی منزلوں سے گزرتے ہوئے مختلف جذباتی اور جسمانی مرحلوں سے گزرتا اور ان کے بارے میں مختلف تاثرات قائم کرتا رہا ہے۔ بقول ابنِ فرید: ’’اس ماحول کے بارے میں جس سے بنی نو ع ِانسان کے ارتقائے حیات کا تعلق رہا ہے تمام انسانوں کے تصورات یکساں ہیں۔ مثلاً آگ، پانی، ہوا،روشنی، زمین، پہاڑ، پیڑ وغیرہ۔ اس لیے ان کے بارے میں تمام انسانوں کے ذہنی و جذباتی تجربات، تاثرات یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ردّ ِعمل میں تنوع دو وجوہ کی بناپرہوسکتا ہے اولاً عمرانی، ثانیاًمیلانی۔ یعنی ایک معاشرے یا آبادی کے لوگ کرۂ ارض کے انتہائی شمال میں رہنے کی بناپر سورج کو جمال کی علامت تصور کرتے ہوں لیکن خطِ استواپر رہنے والے لوگ اسے جلالِ محض قراردیتے ہیں۔ اسی طرح الائو میں جلتی ہوئی آگ نہ صرف زندگی اور جذبے کی علامت ہوگی بلکہ رحمت و محبت کی مظہربھی۔ لیکن یہی آگ بستی کو اپنے مہیب شعلوں کی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو قہر، غضب اور نفرت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ غرض آفاقی علامت کے ذریعے ہم جذباتی تجربات کا مادی تجربات کی زبان میں اظہار کرتے ہیں۔ یہ زبان کسی فرد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں میں مشترک ہوتی ہے۔‘‘(10) علامت کی تاریخ اور پس منظر قدیم علامتوں پرغوروفکر کرنے والے ناقدین کے سامنے یہ اہم سوال رہا ہے کہ ان علامتوں کی تاریخ کیا ہے؟ اس سوال پر غورکرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی علامت کی تشکیل میں صرف فردِ واحد شامل نہیں ہوتا بلکہ اس میں ماحول، معاشرہ اور وقت بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جب کوئی شاعر یا ادیب کوئی علامت استعمال کرتا ہے تو اس علامت کا تعلق صرف شاعر یا ادیب کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس منظر میں مختلف تہذیبوں اور ان تہذیبوں سے وابستہ انسانوں کے آثاربھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیلانی کامران علامتوں کے استعمال کو اظہار کی قدیم ترین صورت سے تعبیرکرتے ہیں۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ پہلے ادوارمیں شاعری میں علامتوں کا استعمال جزوی طورپر ہوتا تھا مگر جب یہ رجحان مکمل طورپر شاعری پر حاوی ہوا تو اس سے ابلاغ کا مسئلہ پیداہوا۔ انھوں نے علامت میں قاری کی شرکت کو ضروری قراردیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ علامت ایسی ہونی چاہیے کہ قاری بھی شاعرکے محسوسات اور یادداشتوں میں شریک ہوسکے۔ لیکن اگر قاری اِن یادداشتوں اور محسوسات سے لاتعلق رہتا ہے تو اس صورت میں قاری کے لیے علامت کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔(11) غلام جیلانی اصغر کے خیال میں شاعری ہر دور میں اپنا مزاج بدلتی رہتی ہے اس لیے اس کی علامات کے معنی اور مفہوم میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس ریاضی کی علامات متعین ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک غزل میں مستعمل علامتیں قدیم دور سے لے کر اب تک ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اس لیے یہ علامتیں اپنی تازگی کھوبیٹھی ہیں۔ وہ یہ خیال ظاہرکرتے ہیں کہ ریاضی اور سائنسی علامات کا تاثراجتماعی جبکہ شاعر کی تخلیق کردہ علامات کا کردار اور تاثر انفرادی اور شخصی ہوتا ہے۔(12) ڈاکٹرسجاد باقررضوی نے دیگر تہذیبوں کی علامتوں کے بجائے اپنی تہذیب کو فوقیت دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فرد اور قوم کے شعور میں اضافہ اپنی تہذیبی علامتوں کا شعورپیداکرنے، انھیں سمجھنے اور جذب کرنے ہی سے ممکن ہے۔ اپنی تہذیبی علامتوں کو فراموش کرنے سے قوم انحطاط و زوال کاشکار ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں: ’’کسی قوم کے انحطاط کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزائم کو بھول جاتی ہے جو اس کے افراد کی جذباتی زندگی کو مربوط رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ انحطاط سیاسی اور سماجی ہونے سے پہلے جذباتی زندگی کا انحطاط ہوتا ہے۔ تاہم قوم کے تخلیقی ذہن علامتوں کو اپنے اندر رچائے بسائے ہوتے ہیں اور ان ہی علامتوں کے ذریعے اپنے لاشعور سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔‘‘(13) شادامرتسری نے ہندی دیومالا کے مختلف کرداروں کے حوالے سے علامت کی ادبی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب ہم ہندی دیومالاکی کہانیوں کے کرداروں کی صفات کو کسی دوسرے شخص میں دیکھتے ہیں تو ہم اسے اس کردار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شخص کی متعددصفات کوگنوانے کے بجائے فقط ایک ہی لفظ سے اس کی تمام خوبیوں یا خامیوں کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ انھوں نے علامت کو اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پرزوردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جدیدانسان اپنی شاعری میں موجود ماحول اور زندگی سے علامتیں اخذکرکے استعمال کرے۔ شادامرتسری کے خیال میں: ’’ علامت بذاتِ خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ شاعر ہے جو علامت کو ایک جہانِ معنی عطاکرتا ہے اور جس کا طریقۂ اظہار علامت کے مفہوم کو بیان کرتا ہے اور اس طرح شاعر اپنی شاعری میں ایک نیا حسن اور تازگی پیداکرتا ہے۔ علامت ایک ایسا خزانہ ہے جس کو صرفِ بے جا سے بچانا ہمارا فرض ہے اور اس کے موزوں صَرف سے ہی شاعری کی دنیامیں معنی اور مطالب کے نئے دروازے کھُل سکتے ہیں۔‘‘(14) ڈاکٹروزیرآغا کا موقف ہے کہ علامت میں ابہام ضروری ہوتا ہے لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی علامت کا استعمال اس طرح کرے کہ قاری اس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ان کے نزدیک علامت کا قاری تک ابلاغ بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر فن پارے میں حظ افروزی ممکن نہیں۔ وہ علامت کی تخلیق کے سلسلے میں آزادانہ تلازمہ خیالی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں انفرادی علامتوں میں بھی اجتماعی تجربات شامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروزیرآغا نے علامت کو استعارے کی ترقی یافتہ شکل قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک جب استعارے میں سے نئے نئے معنی پھُوٹتے ہیں اور وہ اپنے لغوی حدود سے تجاوزکرجاتا ہے تو وہ علامت کے مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک تمثیل کے ذریعے علامت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگراندھیری رات ہے اور میدان میں صرف ایک قمقمہ روشن ہے اورآپ اس قمقمے کی طرف آرہے ہیں تو جسم سے جڑا ہواآپ کا سایہ آپ کا تعاقب کرے گا اور قدم بہ قدم مختصرہوتاچلاجائے گا۔ حتیٰ کہ جب آپ قمقمے کے نیچے کھڑے ہوںگے، سایہ آپ کے قدموں میں سمٹ کرغائب ہوجائے گا۔مگرجب آپ قمقمے سے آگے بڑھنے لگیں تو یہی سایہ آپ کے قدموں سے نکل کر آگے آگے چلنے لگے گا اور بتدریج بڑا ہوتاجائے گا تاآنکہ اندھیروں میں جذب ہوکرمعدوم ہوجائے گا۔ جب شے صرف ایک معنی کی حامل ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ نشان ہے۔ جب یہ شے ایک اور شے سے مشابہت کی بناپررشتہ قائم کرے تو یہ تشبیہ یا استعارہ ہے اور جب یہی شے آگے بڑھ کر معنوی توسیع کی علمبرداربن جائے تو علامت ہے۔‘‘(15) ڈاکٹرمحمداجمل کا موقف یہ ہے کہ ہرخالص شعری واردات علامتی ہوتی ہے۔وہ شعری رویے کے مابین واسطے کا کام سرانجام دیتی ہے۔ شعور ایک سوال پوچھتا ہے اور جواب میں لاشعور کوئی علامت یا علامتوں کا کوئی سلسلہ جس کا اساطیر اور لوک دانش میں اظہار ہوا ہو فراہم کردیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہرعلامت کو ایک پہلوسے شعوری اور دوسرے پہلو سے لاشعوری کہاجاسکتا ہے۔ کسی علامت کے لاشعوری معنی کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مدھم سُروں پردھیان دیاجائے۔ دبی دبی آوازوں کو سُنااور بین السّطور اچھی طرح جھانک لیاجائے۔‘‘(16) ڈاکٹرسلیم اختر علامت کو تخلیق کار کے شعور میں جھانکنے کا وسیلہ بھی قراردیتے ہیں اور نفسی توانائی کی شدت کی پیمائش کا معیاربھی۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’تخلیق کار میں نفسی توانائی کی شدت کی پیمائش علامات سے کی جاسکتی ہے۔ علامت خوابوں کی ہو یا کسی جدیدنظم کی، ان سب کا مقصد ایک ہے۔ یعنی یہ نفسی توانائی کے اخراج کا ایک اوراندازبھی ہے۔ معنی خوابوں میں بھی ہیں اور نظم بھی ان ہی سے پُرمعنی ہوتی ہے۔‘‘(17) شمیم احمد کے خیال میں علامت کی تشکیل کے لیے جہاں اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کا ہوناضروری ہے وہاں اظہار کے پیرایوں پرمکمل گرفت کاہونا بھی لازم ہے۔ اس خیال کو وہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’کبھی بڑا ادب بغیر علامات کے پیدانہیں ہوتا اور علامات بغیرپُرقوت تخیل، زبان پر اعلیٰ درجے کی قدرت اور مہارت اور الفاظ سے زندہ رشتے کے بغیروجود میں نہیں آتیں۔‘‘(18) علامت کے حوالے سے ناقدین کے خیالات اور آراء کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ علامت زبان کا ایسا تخلیقی اور تخیلی استعمال ہے جو اپنی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ہمہ گیر ہے۔ علامت کا تعلق فرد سے بھی ہے اور اجتماع سے بھی۔ یہ ماضی سے بھی اپنا تعلق استوارکرتی ہے اور حال اور مستقبل سے بھی ربط قائم کرتی ہے۔ یہ قدیم تہذیبوں اور اساطیری روایات سے بھی اپنا ناتاجوڑتی ہے اور تہذیبی سطح پرجدید منظرنامے میں بھی اپنا قدم مضبوطی سے جماتی ہے۔ انسانی نفسیات کے حوالے سے اس کی جلوہ فرمائی شعورمیں بھی ہے اور لاشعور میں بھی۔ اس کے ذریعے ہم تخلیق کار میں نفسی توانائی کی شدت کو ماپ سکتے ہیں اور انسان کے خوابوں میں پھیلے ہوئے معانی کوسمیٹ سکتے ہیں۔ علامت کی اثرانگیزی معاشرے کی زندہ حقیقتوں میں سرایت کیے ہوئے ہے اور کائنات کے جملہ مظاہر انسان کی ذات میں عکس ریزہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ معنوی لحاظ سے علامت نگاری سے ملتی جلتی ایک اور اصطلاح تمثال نگاری(Imagism) بھی ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں۔عام طورپرتمثال ’’زبان و بیان کے ذریعے اشیائ، افعال، اعمال، احساسات، خیالات، نظریات، ذہنی کیفیات اور بہت سے حسّی و غیرحسّی تجربات کے اظہار پر محیط ہے۔‘‘(19) تمثال نگاری میں تمثال(Image) لفظوں سے بنائی ہوئی تصویر کو کہاجاتا ہے۔(20) ضروری نہیں کہ یہ تصویر ذہنی ہی ہو۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں لفظی، خیالی اور ادراکی تصویر میں امتیازکرناہوگا۔ لفظی تصویر میں تمثیل، استعارے یا کنائے سے کام نہیں لیاجاتا جو علامت نگاری اور تمثال نگاری کی ہی مختلف صورتیں سمجھی جاتی ہیں۔ لفظی تصویر ہو بہو وہی ہوتی ہے جو دکھائی دیتی ہے۔ خیالی اور ادراکی تصویر انسان کی ایک یا تمام حسیات کوالگ الگ کرکے یا ایک دو یا پانچوں حسیات کے امتزاج سے بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ علامت نگاری اور تمثال نگاری کا مقصد یہ رہا ہے کہ’’ لمبی لمبی وضاحتوں سے بہتر ہے کہ شاعر ایک ایسی تصویر سامنے لائے جس پر غورکرنے سے افعال کی کئی سطحیں اجاگرہوجائیں۔‘‘(21) اور کوئی شے، واردات یا تجربہ اس میں سمٹ جائے۔ علامت نگار یا تمثال پرست شعراء اشاریت کی بجائے قوتِ متخیلہ کو تحریک دے کر واضح اور مخصوص پیکر تراشتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے خیال کی ترسیل کرتے ہیں۔ تمثال نگاروں کا اسلوبِ بیاں صنائع، بدائع، تشبیہات اوراستعارات سے پُر ہوتا ہے۔ Sybmolسے مراد علامت کے علاوہ رمز بھی لیاجاتا ہے اور Image کے معنوں میں بھی رمز شامل ہے۔ اس لیے علامت نگارشعرا میں علامت نگاری ، رمزیت اور تمثال نگاری ایک ساتھ تلاش کی جاسکتی ہیں چاہے وہ ژیٹس ہو، ایذراپائونڈ ہو،بودلیئرہو ، میر ہو، میرزا ہویا مصحفی ہو۔ علامت کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ علامت یا تمثال یا رمزمیں اپنی بات ابہام پیداکرکے براہِ راست نہ کہنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جبرواستبداد کے ماحول میں اس اسلوب کے ذریعے، سچائی کا اظہار اس لیے کیاجاتا ہے کہ اس کی مختلف تاویلیں ہوسکیں، اس کی تشریح مشکل ہو اور اس طرح کسی ظالم یا جابر حکومت کے ظلم سے بچاجاسکے۔ ناسازگار سیاسی، سماجی ماحول میں بات علامت کے پردے میں چھپاکر کہنا عام ہوجاتا ہے۔ بعض ناقد اسے فرار یا بزدلی بھی کہہ بیٹھتے ہیں لیکن دراصل یہ اپنی بات کہنے کا ایک اسلوب رجحان اور ڈھنگ ہے۔ باطنی اور روحانی علوم میں بھی اس انداز کو ناقدرشناسوں اور کم فہم لوگوں سے روحانی اسرارورموز کو الگ رکھنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ مغرب میں تمثال نگاری اور علامت نگاری انیسویں صدی کے نصف آخر میں بطورِ تحریک نمودار ہوئی تھیں۔ بودلیئر اس تحریک کا پیش روتھا۔ راںبو، ورلینن، میلارمے، والیری، ژیٹس، ایذراپائونڈ اور ایلیٹ اس تحریک کے نمایاں شعرا میں سے ہیں۔فرانسیسی شاعری میں یہ رجحان تیزی سے انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں دیکھنے میں آیا۔یہ تحریک سائنس کے متعین اصول و ضوابط کے خلاف ایک ردّعمل تھی جس کے نتیجے میں پابندشاعری کے مقابلے میں آزاد نظم نے رواج پایا جن میں طبیعی اور عمرانی معاملات کی تصویرکشی نہ ہو۔(22) اردو دنیا سے میرا جی نے بودلیئراور میلارمے کو متعارف کروایا جس سے اردو شاعری کو علامت نگاری اور تمثال نگاری کے حوالے سے پرکھاجانے لگا ورنہ علامت نگاری تو ہرعہداور ہرزبان کی شاعری میں ابتدا ہی سے موجود رہی ہے اور اسی لیے اس تحریک سے بہت پہلے کی جانے والی شاعری کی تفسیر بھی بعض نقادوں نے اس تحریک کے زیراثر کی ہے ،اور ورجل ، شیکسپیئر اور دانتے کی شاعری کو بھی تمثالوں کی توضیح کے لیے استعمال کیا ہے۔(23) اردوشاعری میں علامت نگاری کی روایات تخلیقی عمل کے دوران میںتخلیق کار کبھی لاشعوری تجربے سے گزرتا ہے اور کبھی شعوری مرحلے سے کبھی لاشعورمیں پڑا ہوا لفظ یا لفظوں کا ایک سلسلہ شعر میں منتقل ہوجاتا ہے اور کبھی لفظوں کی تلازماتی اور انفرادی معنویت کو مدّ ِنظررکھتے ہوئے تخلیق کار شعوری طورپر ان کی تخلیق کرتے ہیں۔ کبھی ایک لفظ اپنی علامتی معنویت کے ساتھ غیرشعوری طورپراچانک ذہن میں ابھرتا ہے اور تخلیق کار اس لفظ کو مرکزی حیثیت تفویض کرتے ہوئے اس کے گردتلازمات اور انسلاکات کا ایک ایسا دائرہ بنادیتا ہے جو اس لفظ کے ابلاغ اور ترسیل میں پوری معاونت کرے۔ دراصل ایک تخلیق کار اپنے لاشعور میں پڑے ہوئے لفظ یا لفظوں کے کسی ایک سلسلے سے اپنا تخلیقی سفر شروع کرتا ہے اور جیسے ہی وہ لفظ یا لفظوں کے سلسلے سے آگے بڑھ کر اپنی نظم یا غزل تخلیق کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ شعور کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس امرکے لیے کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کی مدد سے واضح طورپر علامت کو شعوری یا غیرشعوری عمل قراردیا جاسکے۔ اصل مقصد علامتوں کے تعین کے بعدکسی فن پارے میں اس کی حیثیت اورعمل کی تاویل سے ہے اور اس کا جواب تین طریقوں سے دیاجاسکتا ہے: ۱۔ شاعرکاوہ ذاتی تجربہ جو علامت کی تشکیل کا منبع ہے۔ یہ منبع خواہ فطری دنیاہویا انسانی بدن یا آدمی کی مصنوعات۔ ۲۔ کسی تخلیق میں ان علامتوں کی معنوی حیثیت۔ ۳۔ وہ طریقہ جس میں یہ علامتیں قوت حاصل کرتی ہیں۔ کلاسیکی اردو غزل کا علامتی نظام اس دور کے شعراء کے نظریۂ کائنات اور تصورِ حیات سے پھوٹتا ہے۔ خدا، کائنات اور انسان، یہ وہ تین موضوعات ہیں جن کے آپس کے تعلق سے اس دور کے شعراء کا فکری نظام مرتب ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں استعمال ہونے والی علامتوں کا معنوی عکس بھی بیک وقت ان تین سطحوں پرمنعکس ہوتا ہے اور غزل کا یہ علامتی نظام صوفیانہ فکرکے تابع ہے۔ صوفیانہ روایت کی طرح علامت بھی اپنے اندر مختلف درجات اور سطحیں رکھتی ہے۔ وہ زندگی کے ادنیٰ مظاہر سے بلندہوکر حقیقت الحقائق تک رسائی حاصل کرتی ہے اور یوں زندگی کے عمودی رُخ کو ظاہرکرتی ہے۔ لیکن زندگی کی مابعدالطبیعاتی اور روحانی وارداتوں کی مظہرہونے کے ساتھ ساتھ وہ مادی زندگی سے بالکل لاتعلق بھی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ مادہ اور اس کی تمام شکلیں بنیادی طورپر حقیقتِ واحدہ کا ہی حصہ ہیں۔ یہ علامتی الفاظ، روحانی اور ماورائی حقائق کی رمزہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے اطراف و جوانب کو بھی چُھوتے ہیں۔ اردو غزل کا یہ علامتی نظام فارسی کی علامتی شاعری سے مستعار ہے۔ گل و بلبل و پروانہ وغیرہ فارسی شاعری سے ہمارے شعری نظام میں علامت کے طورپر منتقل ہوئے۔تاہم انھیں فارسی کی طرح ہمارے ہاں علامت بننے کے لیے ارتقائی منازل سے نہیں گزرناپڑا۔ چنانچہ بُلبل کی نغمہ سرائی، آہ و زاری میں تبدیل ہوگئی اور عاشق کا کردار اداکرنے لگی۔ گل اپنے حسن، تازگی اور شگفتگی کے سبب محبوب کے مشابہ ہوگیا۔ یوں گل اور بلبل کا تلازمہ عاشق اور محبوب کی علامت بن گیا۔ شمع پہلے صرف روشنی کا کام دیتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس میں سوزوگداز پیداہوناشروع ہوگیا اور وہ غم کی نمائندگی کرنے لگی۔ پھرشمع کے گردپروانے کے والٰہانہ طواف اور جاں سپاری نے بھی عاشق کے بے لوث خلوص اور ایثار کی معنویت اختیارکرلی اور شمع و پروانہ کا تلازمہ عاشق و معشوق، سوزوگداز اور نوروضیا کے مفاہیم اداکرنے لگا۔ دبستانِ دہلی کے شعراء کے یہاں اپنے خاص پس منظر اور مخصوص طرزِ احساس کے ساتھ ان علامات کا استعمال ملتا ہے۔ ڈاکٹرنورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں: ’’دہلی دبستانِ شاعری میں معنوی اعتبار سے روحانیت یعنی قلبی واردات، تصوف، علوخیال، ہجرنصیبی، انفرادیت، احساس اور لسانی حوالے سے وضاحت، سادگی، سلاست اور آہ کی اصطلاحوں سے واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ دہلوی شعراء نے جو علامتیں استعمال کی ہیں ان میں بھی یہی طرزِ احساس دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (24) ؎ شمع کی مانند ہم اس بزم میں چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے (درد) o ایک سب آگ ، ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں (میر) o غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک (غالب) اردو شاعری جب لکھنؤ پہنچی تو یہاں تہذیب وتمدن پرتکلّف اور تصنّع کا رنگ چڑھ رہاتھا اور زبان میں وسعت پیداہوچکی تھی۔ اس لیے شاعری کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی اس سے بہتر اور کوئی صورت ممکن نہ تھی کہ اسے صنعت گری بنادیاجائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرابوللیث صدیقی لکھتے ہیں: ’’شاعری اور صنعت گری، جذبات نگاری اور الفاظ کی شعبدہ کاری کو ملاکر لکھنوی شعراء نے ایک نیا رنگ پیداکردیا۔ ہررنگ کی نمایاں صفت صنعت ہی کو ٹھہرایاگیا۔ رعایتِ لفظی یا ضلع جگت جواوّل الذکر کی ایک بدنماشکل تھی، اس کے باعث ظہور میں آئی۔ تشبیہ اور استعارے میں سادہ اور فطری تشبیہات کے بجائے دورازکار تشبیہات شاعری میں درآئیں اور اردو غزل میں جو علامتیں استعمال ہورہی تھیں ان کاسطحی استعمال ہونے لگا۔‘‘(25) ؎ مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغِ ہجراں کا طلوعِ صبحِ محشر چاک ہے میرے گریباں کا (ناسخ) o یہ روشنی تھی برقِ تجلی سے آشنا بیگانہ شمعِ طُور سے اِک شمعداں نہ تھا (منیرشکوہ آبادی) o شاعری کا علامتی نظام ابتداً حسن و عشق کے گردگھومتا رہا۔ چونکہ ان جذبات کے بالواسطہ اظہارکے لیے گل و بُلبل کے پیرائے اپنی علامتی قوت کی بنا پر موزوں ترین قرارپاتے تھے۔اسی لیے انھی پیرایوں کو اظہار کا وسیلہ بنایاگیا لیکن رفتہ رفتہ ان تلازموں میں معنویت کی وسعت پیداہونے لگی اور حسن و عشق اورغم کے علاوہ یہ پیرائے اپنے تلازمات کے ساتھ دوسرے مفاہیم کی بھی ادائیگی کرنے لگے۔ مثلاً: ’’باغ کے تلازمات میں سرو، قمری، گُل، بلبل، صیاد، گل چیں، باغبان، آشیاں، قفس، دام و دانہ، یاسمین، نسرین، نسترن، ارغوان، سوسن اور خاور وغیرہ، دنیا کے معنوی تلازمات اور حقیقت کے مختلف پہلوئوں کے لیے علامتوں کا کام دینے لگے۔ اس طرح محفل کے حوالے سے شمع، پروانہ، شراب، کباب، پیالٰہ، صُراحی، خُم، جُرعہ، شیشہ، خمار، صبوحی، ساقی، مطرب، چنگ، رباب، پردہ، ساز وغیرہ میں علامتی معنویت پیداہوئی اور یہ تمام تلازمات زندگی کے مختلف مفاہیم اور حقیقت کی مختلف اشکال کو ظاہرکرنے لگے۔‘‘(26) اردو شاعری نے فارسی شاعری یا عجمی تہذیب کی علامات کو قبول کیاتو اس لیے کہ ان لوگوں نے اس تہذیبی روایت کو اپنی فکر سے ہم آہنگ پایا۔ بقول انتظارحسین: ’’ہماری علامتیں کچھ براہ ِراست ہمارے مذہبی تجربے سے ماخوذ ہیں اور ان تہذیبی روایتوں سے جن کی گہری تہ میں یہ مذہبی تجربہ پانی کی رَو کی طرح جاری ہے۔‘‘(27) عجمی تہذیب کے ساتھ ہمارا واسطہ موخرالذکر کی نوعیت کا ہے۔ مستعار ہئیتی سانچوں مثلاً غزل، مثنوی،قصیدہ وغیرہ میں شعراء انھی مضامین کی عکاسی کرنے لگے جو فارسی شاعری میں رائج تھے۔ کلاسیکی اردو غزل میں علامتی نظام زیادہ تر تین مثالوں سے ظاہر کیاجاسکتا ہے: اول: باغ اور اس کے متعلقات دوم: شراب اور اس کے لوازمات سوم: معاشرتی حوالوں سے اور ان میں سے خاص طورپر طرز آرائش کے ذریعے۔ اس نوعیت کی علامتوں میں سب سے زیادہ علامتی معنویت ’’آئینہ‘‘ نے حاصل کی۔ درج بالا علامتی وسائل میں سے باغ اور اس کے متعلقات نے اپنی زبردست علامتی قوت کی بناپر بے پناہ علامتی مفاہیم پیدا کیے۔ باغ کے تلازمات میں سے ’’گُل و بلبل‘‘کثیر جہات کو سامنے لاتا ہے ؎ گُل و بُلبل کا گرم ہے بازار اس چمن میں جدھر نگاہ کرو (غالبؔ) o درد منداں باغ میں ہر گز نہ جاویں اے ولی!ؔ گر نہ دیوے نالہ و بُلبل سُراغِ عاشقی (ولیؔ) o خدا جانے صبا نے کیا کہی غنچوں کے کانوں میں کہ تب سے دیکھتا ہوں عندلیبوں کو فضائوں میں (سراجؔ) o لائی ہے جب سے بات چمن کی زبان پر رنگیں ہوا ہے تب سے بیاں عندلیب کا (حاتمؔ) درج بالا اشعار میں گُل و بُلبل کے تلازمات اپنے بنیادی مفاہیم میں حسن و عشق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم اپنے علامتی عمل میں یہ زندگی کے دوسرے وقوعوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ یہ علامتی سطح وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوجاتی ہے ؎ گل کی جفا بھی دیکھی، دیکھی جفائے بُلبل یک مُشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بُلبل (آبرو) o اللہ رے، عندلیب کی آوازِ دل خراش جی ہی نکل گیا جو کہا اس نے ہائے گُل (میر) o ہے کس قدر ہلاکِ فریب وفائے گُل بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل (غالب) قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو! خبر گُل کی ہم کو سناتا رہے گا (درد) ان اشعار میں معنی کا کثیرالجہاتی عمل کارفرما ہے۔ مثلاً شعرمیں گل سے محبوب کی طرف، بلبل سے عاشق کی طرف اور گلشن سے دنیا کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اس دنیا میں محبوب کی جفائوں کے مقابل عاشق کی وفا کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بالآخر فناہوجاتا ہے۔ اس سے آگے چلیں تو گل سے مراد حاکمِ شہر، بلبل سے مراد رعایااور گلشن شہر کا استعارہ ٹھہرتا ہے۔ اس سے مزید آگے بڑھیں تو گل قادرِ مطلق کی علامت ہے یعنی مشیّتِ ایزدی کے سامنے ہم اس حد تک مجبور ہیں کہ فناپذیرہیں مگر اُف نہیں کرسکتے۔ برصغیر پرانگریزوں کے تسلط کے بعدزندگی کے ہرشعبے میں تبدیلیاں آئیں۔ ادب بھی ان گہرے اثرات سے دامن نہ بچاسکا۔ چنانچہ کلاسیکی طرزِ فکر کی جگہ انجمنِ پنجاب کے مشاعرے اور علی گڑھ تحریک کے تحت مقصدیت و سادگی نے اردو شاعری پر اپنا رنگ جماناشروع کردیا۔ انجمنِ پنجاب کے مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراء کا بنیادی مقصد خیالات کی ترسیل تھا۔ اس لیے استعارہ اور استعاراتی اندازِ بیان مردُود قرارپائے اور شعر کا کمال یہ ٹھہرا کہ شاعر کا مافی الضمیر کماحقہٗ ادا ہوا چنانچہ مولانا محمدحسین آزاد نے پرانی شاعری کے استعاراتی انداز پر ردّ ِعمل کا اظہارکرتے ہوئے لکھا کہ: ’’تم استعارات کی گہرائیوں میں دھنس کے اپنے آپ کو تباہ کرچکے ہو۔ تشبیہات و استعارات اس طرح استعمال ہونے چاہئیں کہ وہ کیفیات کا آئینہ ہوں۔ جن سے واقعات واضح ہوسکیں، نہ کہ زیادہ دھندلے ہوجائیں۔ ‘‘(28) آزاد کی نظرمیں استعارہ مافی الضمیر کی ادائیگی میں معاونت کے بجائے بیان کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور مضامین استعارے میں گم ہوجاتے ہیں چنانچہ آزادیہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ: ’’وضاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم، کسی شے سے رغبت یا اس سے نفرت، کسی شے سے خوف یا فکر، یا کسی شے پر مہروغضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو، اس کے بیان سے وہی اثر، وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دلوں پر چھاجائے جو اس مشاہدے سے ہوتا ہے۔‘‘(29) دوسری طرف علی گڑھ کے روحِ رواں سرسیداحمدخاں ایک سائنسی اور منطقی ذہن رکھنے والے مُصلح تھے۔ وہ قوم کی اصلاح کے لیے کسی مابعدالطبیعاتی یا ماورائی نظام کی جگہ ٹھوس حقائق کے قائل تھے۔ ان کے سارے فکری نظام کی بنیاد عقلیت پر ہے۔ چنانچہ ان کی یہی عقلیت پسندی ادبی امور کے سلسلے میں بھی ظاہر ہوئی۔انجمن پنجاب کے مشاعروں کے بارے میں انھوں نے لکھا: ’’یہ بات سچ ہے کہ ہمارے اِن باعثِ افتخار شاعروں کو ابھی نیچرکے میدان میں پہنچنے کے لیے قدم بڑھانا ہے اور اپنے اشعار کو نیچرل پوئٹری کے ہمسر کرنے میں بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر ان مثنویوں کو دیکھنے سے اتنا خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ خیالات میں کچھ تبدیلی ضرور پیداہوئی ہے۔‘‘(30) سرسیداحمدخان نیچرل شاعری کو ٹھوس حقائق کے ہم معنی خیال کرتے تھے۔ ان کے نزدیک حواس کے باہراور مابعدالطبیعات کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ان کی یہی منطقی سوچ اور سائنسی طرزِ احساس علامت نگاری کے مانع رہا۔ علی گڑھ تحریک کے اہم ستون مولاناالطاف حسین حالی، سرسید کے جملہ نظریات اور تصورات سے مکمل متفق تھے۔ چنانچہ مقدمہ شعروشاعری میں ملٹن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ اور جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’سادگی سے مراد محض لفظوں کی سادگی نہیں بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہئیں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کی شارع عام پرچلنا، بے تکلفی کے سیدھے راستے سے ادھر اُدھرہونا، فکرکوجولانیوں سے باز رکھنا، اس کا نام سادگی ہے۔‘‘(31) علامت نگاری ایک پیچیدہ اورتہ دار عمل ہے۔ جہاں معانی کی بے شمار سطحیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ حالی جس طرح کے سادہ اور اکہرے طرزِ اظہار کا تقاضا کرتے ہیں وہ علامت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حالی کا زور معانی پر ہے جبکہ علامت میں لفظ بھی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ علامتی الفاظ ہی ہوتے ہیں جو شعر کو کثیرالجہات بناتے ہیں۔ علامت کے حوالے سے شعر میں معانی کی ہمہ رنگ چھوٹ پڑتی ہے۔ اس عمل میں بعض اوقات اشکال کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن حالی کے نزدیک عمدہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سریع الفہم ہو۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ اصمعی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اصمعی نے عمدہ شعر کی یہ تعریف کی ہے کہ اس کے معنی لفظوں سے پہلے ذہن میں آجائیں۔‘‘(32) حالی کے نزدیک شاعری کی بنیاد قدرتی عناصر پرہونی چاہیے اور لفظی اور معنوی دونوں حوالوں سے وہ فطرت کے موافق ہو۔ اپنے اسی موقف کی بناپر وہ شاعری میں مبالغے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ لفظوں کے بطون میں غوطہ زن ہونے کے بجائے محض ان کی ظاہری سطح تک رہ جاتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک اور اس کے زیراثر مولاناحالی کے برعکس اکبر الٰہ آبادی کا طرزِ احساس مشرقی تہذیب سے گہرا ربط رکھتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں ہمیں لفظ کا علامتی استعمال نظرآتا ہے۔ اکبرالٰہ آبادی کی شاعری قدیم اقدار اور جدیدتہذیب کی آویزش کا منظرنامہ پیش کرتی ہے اور اسی آویزش سے ان کی علامتیں ابھرتی ہیں۔ ڈاکٹروحیدقریشی لکھتے ہیں کہ: ’’ان(اکبر)کی علامتیں اپنے ماحول کی دریافت ہیں۔ انگریزی تعلیم، عیسائیت اور لادینی اور مجلسی آداب ، طریقۂ بودوباش کے عمومی مظاہر، وہ اندازِ نظر جو برطانوی تصورات کا لازمی حصہ تھا، سائنس ومذہب کی آویزش، مادی اور روحانی اقدار کا تصادم غرض کہ وکٹورین عہد کے بعض مخصوص رجحانات اور اس سے کچھ پہلے کے فلسفیانہ افکار کی پرچھائیاں مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ پاک و ہند پر بھی پڑنے لگی تھیں۔ اس کے مقابلے میں قدیم مذہبی تصورات، قدیم فلسفیانہ اندازِ فکر، مغل کلچر کے مجلسی آداب،اور مرزامنشی، ان سب کا تصادم لازمی تھا۔‘‘(33) یوں تو اکبر کے ہاں قدیم شاعری کے علائم بھی ہیں۔ مثلاشراب کے تعلقات کے حوالے سے ظاہر ہونے والی علامات کے ذریعے زیادہ تر صوفیانہ مضامین کو بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح بہاروخزاں کے متعلقات کے حوالے سے ظاہرہونے والی علامات بھی ان کی شاعری کے تقریباً ہردورمیں نظرآجاتی ہیں۔ ان علامتوں کے حوالے سے اکبرعصری زندگی کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا لکھتے ہیں: ’’ اکبرہندوستان کی سرزمین کی مفلوک الحالی، انتشار، زوال اور افتراق کے نقشے کھینچتے ہیں۔ علاوہ ازیں انگریزوں کی آمداور ان کی لگائی پابندیوں پر استحصال وغیرہ کے مضامین بھی اسی پردے میں بیان کیے جاتے ہیں۔‘‘(34) لیکن اکبرکی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ ا نھوں نے خود علامتیں وضع کیں۔ ان علامتوں میں کچھ تو مغربی تہذیب کو ظاہر کرتی ہیں، کچھ مشرقی روایات کی غماز ہیں اور کچھ علامتیں مغربی روایت کو ظاہرکرتی ہیں۔ مثلاً ’’مِس‘‘ مغرب کا وہ سحر ہے جس کے زیراثر مشرقی نوجوان نے اپنا حلیہ بدل ڈالا۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ مغرب کے جذباتی استحصال کی علامت ہے۔ اسی طرح مغربی تہذیب کے حوالے سے اکبر کے یہاں’’کالج‘‘ کی علامت ابھرتی ہے۔ اکبر کے نزدیک کالج کی مادی تعلیم، انسانی روح کو مُردہ کردیتی ہے اور اس کے ذہن کو زنگ لگادیتی ہے۔ اس سے چندمادی فوائد تو حاصل ہوسکتے ہیں لیکن مذہبی اقدار کا مکمل طورپر خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مغرب کے حوالے سے نمایاں ہونے والی مزیدعلامات میں اکبر کے یہاں کلرک، ٹائپ، پائپ، انجن، موٹر، ریل، مشین، ہوٹل وغیرہ جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جو لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ علامتی انداز میں برتے گئے ہیں۔ ان تمام علامتوں کے ذریعے اکبر مغرب پرطنز کرتے ہیں اور مغرب سے بیزاری کا اظہارکرتے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی کی شاعری میں کچھ علامتیں مشرقی تہذیب کے حوالے سے بھی سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ’’شیخ‘‘ کی علامت اکبر کے یہاں کلاسیکی غزلوں کی حد تک ریاکاری اور ضمیرفروشی کا اشاریہ ہے۔ لیکن ان کے جدیدرنگ میں یہ مشرقی تہذیب کی علامت ہے۔ اس کے برعکس ’’سید‘‘ اس ثنویت کی علامت ہے جو بیک وقت مادیت اور روحانیت کے قانون میں تقسیم ہوچکا ہے۔ جہاں ذاتی منفعت دیکھتا ہے اس جانب لپکتا ہے۔ ان معروف علائم کے علاوہ ان کے ہاں ’’زاغ‘‘ اور’’اُلّو‘‘ مغربی تہذیب کے نقالوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ’’بدھو‘‘ عام طورپر سادہ لوح مسلمانوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اکبر کی علامات کے مجموعی جائزے سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ وہ ان علامات کے ذریعے مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنا چاہتے تھے۔ اکبرالٰہ آبادی تک پہنچ کر ہم اقبال کے عہدمیں داخل ہوجاتے ہیں۔ یوں تو اس عہد سے منسلک شعراء راشد، فیض، میراجی اور مجیدامجد کی شاعری کا مطالعہ بھی علامتوں کے نئے اورجدید ترمفاہیم کے درکھولتا ہے لیکن یہ سب شعرا ء اقبال کے بعد کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے یہاں ہئیت کے نئے سلسلے اردو شاعری کے ایک مختلف تناظرکو تشکیل دے کر انھیں ایک الگ دائرے میں لے آتے ہیں۔ ان شعراء کے یہاں اکثرعلامات اپنے مخصوص پس منظر سے ہٹ کر اختراعِ معنی کے زمرے میں آتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ذکر کو چھوڑ کر ہم اردو کی کلاسیکی شاعری میں استعمال ہونے والی چند مخصوص علامتوں پر ایک نظرڈالتے ہیں جس سے نہ صرف کلاسیکی اردو شاعری کے علامتی نظام کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ اندازہ بھی ہوسکے گا کہ اقبال تک آتے آتے اردو شاعری کی روایت میں علامتوں کے استعمال کی کیا صورت رہی ہے اور شعراء نے ان علامتوں میں کون سے نئے امکانات دریافت کیے ہیں۔ پانی پانی کلاسیکی شاعری میں علامتی معنویت میں متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ کلاسیکی روایت میں انسان حقیقتِ کُل کا ایک جزو ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قطرہ دریا کا حصہ ہے اور جس طرح قطرے کی حیثیت سمندر سے الگ کچھ نہیں۔ اسی طرح انسان حقیقتِ مطلقہ سے فراق کے باعث بے حیثیت ہے۔ چنانچہ انسان(قطرہ) کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقت الحقائق(سمندر)میں ضم کردے۔ رواں پانی وقت کے بہائو کو ظاہرکرتا ہے جبکہ ٹھہرا ہوا پانی انجماد اور قوت کی علامت ہے۔ پانی اپنی سیال کیفیت کی بناپر فرد کی بے چینی، بے اطمینانی اور جذباتی توجہ کو بھی ظاہرکرتا ہے۔ پانی کے متعلقات میں کنواں محدودیت اور تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سمندر ہمیشگی، بے کناری اور ابدیت کی رمز ہے۔ دریا زندگی میں روانی، ضبط اور توازن کا اشاریہ ہے۔ حباب زندگی کی ناپائیداری کا نشان ہے اور سراب زندگی کے غیرحقیقی ہونے کو ظاہرکرتا ہے۔ آگ کلاسیکی شاعری میں آگ کی علامت تقریبا تمام بنیادی مفاہیم کے ساتھ اجاگرہوئی ہے اور اپنی متنوع خصوصیات کے باعث اپنے مفاہیم بدلتی رہتی ہے۔ آگ کی علامت ایک سطح پر تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری سطح پر یہ زندگی میں حرارت کی علامت ہے۔ دل کے سوز و عشق کو دکھانے کے لیے آگ سے بڑھ کر کوئی علامت نہیں کیونکہ وہ کرب اور سوز جو عشقیہ واردات میں ہوتا ہے، آگ میں جلنے سے مشابہ ہے۔ ایک سطح پر آگ شعور کی علامت بھی ہے۔ یہ بغاوت کی رمز بھی ہے۔ صوفیانہ روایت میں آگ کو عشق کی علامت کے طورپرپیش کیاگیا ہے۔ آگ کے ساتھ بہت سے روحانی تصورات بھی وابستہ ہیں۔ کوہِ طور پر خدا کے نور کا جلوہ آگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آگ میں جل کر راکھ ہوجانا صوفیانہ واردات کی معراج ہے کہ یہ عمل نفیٔ ذات کا ہے۔ ہوا کلاسیکی اردو شاعری میں ہوا اپنے مختلف النوع خواص کے سبب مختلف ناموں سے موسوم کی جاتی ہے۔ کہیں یہ اپنی سبک روی اور آہستہ خرامی کی وجہ سے صبا کہلاتی ہے، کہیں صحرا میں چلنے والی لُو کی صورت میں سموم اور صَرصَر کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ہوا کے اندر تعمیری اور تخریبی دونوں قسم کے رویے پائے جاتے ہیں۔ تعمیری نوعیت کے اعتبار سے یہ نمو اور افزائش کی علامت ہے اور تخریبی حوالے سے یہ طوفان، آندھی، بگولوں اور یخ بستہ بادِشمال کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اِن ہر دو صورتوں میں یہ حرکت اور تحریک کی علامت بنتی ہے۔ خاک کلاسیکی اردو شاعری میں خاک کی علامت متنوّع الْجہات معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ خاک سے مختلف چیزیں نمو حاصل کرتی ہیں۔ اس لیے یہ زرخیزی اور غذائیت کا منبع ہے۔ ہرشے بالآخر خاک کی طرف لوٹتی ہے۔ خودانسان خاک یا مٹی سے بنا ہے اور بالآخر اسی میں مل جانے والا ہے۔ خاک میں پناہ دینے کی صفت بھی موجود ہے۔ اس کی مادرانہ صفات کے باعث زمین کو ماں کا درجہ دیاجاتا ہے۔ کلاسیکی ارد وغزل میں خاک اپنے مختلف رنگوں میں بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ شجر کلاسیکی غزل میں شجر کی علامت اپنے متنوّع خصائص کے حوالے سے ظاہر ہوتی ہے لیکن مجموعی طورپر اس علامت کے ذریعے زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کو اجاگرکیاگیا ہے۔ اول الذکر روپ میں شجر مسافر نوازی اور سایہ داری جیسی مہربان صفات کا اظہار ہے۔ درختوں کا خزاں میں ٹنڈمنڈہونااور بہار میں دوبارہ برگ و بار لانا حیاتِ نو اور تعمیرِ جدیدکا اعلامیہ ہے۔ اسی طرح ایک چھوٹے سے بیج سے گہری جڑوں، مضبوط تنے، اَن گنت پتوں، پھولوں، پھلوں سے لدے پھندے عظیم درخت کا ظاہرہونا، علامتی طورپر کائناتی عمل کو ظاہرکرتا ہے۔ کس طرح وحدت سے کثرت جنم لیتی ہے اور پھر بیج کی صورت میں دوبارہ کثرت وحدت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یوں شجر حیات و ممات کے دوہرے عمل کو ظاہرکرتے ہیں۔ پرندہ اردو کی کلاسیکی شاعری میں متعدد پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہما خوش قسمتی کی علامت ہے۔ عنقاعدم کی اور بلبل عشق کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس سے زندگی کے دوسرے عوامل کی طرف بھی اشارے پھوٹتے ہیں۔ پرندہ بنیادی طورپر روح کی علامت ہے۔ روح کو بلندیوں کی طرف لے جانے والی قوت کی رمز کے ساتھ ساتھ یہ تخیل کی اُڑان کی علامت بھی ہے۔ پرندوں کی بولی (منطق الطّیر) اعلیٰ حقائق کا رمزیہ ہے۔ یہ بھی ہے کہ پرندے آسمان پر زمین کے سفیر ہیں۔ پرندے زیادہ تر زندگی کے مادی پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاًفاختہ دنیابھر میں امن اور شرافت کی علامت خیال کی جاتی ہے۔ گدھ کو عموماًتباہی اور ہوس کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ پھول کلاسیکی اردو شاعری میں پھول ایک اہم عنصر کے طورپرظاہرہوتا ہے۔ بنیادی طورپر پھول ایک جمالیاتی مظہرکا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنی مختصر زندگی اور عارضی بہار کی بناء پر زندگی کی ناپائیداری اور کم فرصتی کا اعلامیہ بھی بنتا ہے۔ ان بنیادی مفاہیم کے علاوہ پھول اپنے متنوع اوصاف کے باعث مختلف استعاراتی اور تشبیہاتی حوالوں سے بکثرت استعمال میں آئے ہیں۔ مختلف پھولوں کی صفات مختلف ہیں۔ کہیں کوئی پھول اپنے جوہر کی وجہ سے علامت بنتا ہے کبھی شکل کی وجہ سے۔زرد پھول مثلاًسورج مکھی وغیرہ بالعموم شمسی رمزیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ بنفشہ اپنی پوشیدہ خوبصورتی اور خوش کن خوشبوکی وجہ سے حیااور عجزکااستعارہ خیال کیاجاتا ہے۔ گلاب وسیع علامتی مفہوم کا حامل پھول ہے۔ سفید پھول پاکیزگی، تکمیل، معصومیت اور دوشیزگی کی علامت خیال کیاجاتا ہے لیکن سُرخ پھول اس کے برعکس زمینی جذبوں اور زرخیزی کی علامت ہے۔ سفیداور سُرخ گلاب کا اجتماع تفاوت کے اتحاد، پانی اور آگ کے میل کو ظاہرکرتا ہے۔ کنول روحانی کشف کو ظاہرکرتا ہے۔ گیندامشرق میں وفاداری کی علامت سمجھاجاتا ہے جبکہ مغرب میں یہ درازیٔ عمر کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ سورج کلاسیکی اردو شاعری میں سورج کی علامت مختلف تلازمات کے ساتھ اُبھرتی ہے۔ کہیں اس کے ساتھ ذرّے کا تلازمہ آتا ہے اور صوفیانہ واردات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح سورج کے ساتھ سایہ کا لفظ متضاد تلازمہ کے طورپر اُبھرتا ہے۔ قدیم شاعری میں کہیں کہیں سورج کو ایک جمالی مظہر کی حیثیت سے بھی پیش کیاگیا ہے۔ سورج عقل اور شعور کی علامت بھی بنتا ہے۔ یہ آگ بھی ہے اور روشنی بھی۔ اس لیے بیک وقت زندگی اور موت دونوں کا اعلامیہ ہے۔ بنیادی طور پر سورج پدر کی علامت ہے لیکن اس علامت کی نوعیت جغرافیائی حوالے سے بدلتی ہے۔ سورج روشنی کا سرچشمہ ہے۔ اس کے ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے۔ روشنی زندگی میں خیرکی رمز ہے جبکہ حدت اور حرارت زندگی میں حرکت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چاند کلاسیکی اردو شاعری میں چاند اپنے جمالیاتی روپ میں ظاہر ہوا ہے۔ اسے جمالیاتی مظہراور محبوب کی خوبصورتی، کم نمائی وغیرہ کے اظہار کے لیے استعاراتی انداز میں استعمال کیاگیا ہے۔ چاند جذبے کا رمز بھی ہے۔ اس کی ٹھنڈی روشنی سمندروں کی طرح انسانی شخصیت میں بھی جذباتی مدّوجذر پیدا کرتی ہے۔ ستارہ کلاسیکی شاعری میں ستارہ بنیادی طورپر مقدر کے رمز کے طورپرسامنے آتا ہے۔ ستارے کے بارے میں یہ تصور قدیم علمِ فلکیات سے ماخوذ ہے کہ مختلف ستاروں کی گردش انسانی نصیب پر اثراندازہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ستارہ رہبری اور رہنمائی کا رمز بھی ہے، رات کے مسافراپنی سمت نمائی کے لیے بالخصوص سمندری سفر میں ستاروں سے کام لیاکرتے تھے۔ ستارہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی روشنی ہے۔ اس لیے امید کا نشان ہے۔ یہ روح کی چمک کی علامت ہے کہ روح اندھیرے میں ہوتی ہے۔ یوں اندھیرے میں امیدورجاکی علامت بھی ہے۔ گزشتہ سطور میں جن علامتوں کا ذکر ہوا ہے یہ تکوین کائنات کے عناصر اور فطرت کے وہ مظاہر ہیں جن کا انسان کے ساتھ بہت گہر اتعلق ہے۔ چنانچہ ہماری کلاسیکی شاعری میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر رہاہو جس نے کسی نہ کسی سطح پر ان علامتوں سے فائدہ اٹھاکر کائنات اورانسان اور فطرت کے باہمی تعلق کو بیان نہ کیا ہو۔ ان علامتوں کے علاوہ ہماری شعری روایت میں تاریخ، معاشرت اور تہذیب کے حوالے سے بھی علامتوں کا طویل سلسلہ ملتا ہے۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو اردو شاعری میں ہمیں ابتدا ہی سے اپنی تاریخ سے وابستگی کی جھلک نظرآتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شاعروں نے زیادہ تر قرآن پاک میں پیش کیے گئے تاریخی واقعات کو موضو ع بنایا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسٰیؑ کے معجزات اور ان کے مصلوب کیے جانے کے واقعے کو غزل کا شاعر متنوع رنگوں میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح حضرت موسیٰؑ اور کوہِ طور کا واقعہ بھی ایک اہم موضوع کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی بات حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے بے وفائی کے واقعے، حضرت یعقوبؑ کے ان کی جدائی میں رو رو کر آنکھوں سے محروم ہوجانے کے قصے اور حضرت یوسفؑ پر زلیخا کے فدا ہوجانے کے قصے میں ملتی ہے۔ اسی طرح حضرت خضرؑ ایک علامتی کردارکے طورپراُبھرتے ہیں۔ قرآنی واقعات کے علاوہ کچھ اور واقعات بھی ایک اہم علامتی ماخذ کے طورپرسامنے آتے ہیں۔ جن میں حسین بن منصورحلاج کا انا الحق کہنے اوردارپرکھینچے جانے کا واقعہ اپنے اندر بے پناہ علامتی قوت رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر واقعہ کربلا کی علامتی حیثیت نے تو ہر دور کی اردو شاعری پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ معاشرتی علامتوں میں شہر، گھر، دیوار، چراغ، آئینہ وغیرہ کی علامتیں کئی جہتوں سے نت نئے معانی کو سامنے لاتی ہیں۔ قدیم شاعری میں شہر کے بارے میں ایک اظہار تو شہرآشوب کی صورت میں ملتا ہے جہاں شاعر شہر میں ہونے والی بدنظمیوں، معاشرتی خرابیوں اور سماجی انتشار کو ہدف تنقید بناتا ہے اور ایک المیاتی لَے میں صورتِ حال کی تبدیلی کی خواہش کرتا ہے۔ کلاسیکی عہد کا شاعر جب شہرآشوب لکھتا ہے تو باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کے فقدان کا ماتم کرتا ہے اور شہر کی شکست و ریخت کو زندگی کے قدری زوال سے تعبیرکرتا ہے اور اس صورتِ حال پر احتجاج کرتا ہے۔ اسی طرح گھر کی علامت بھی شہر اور ملک کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ دیوار کلاسیکی شاعری میں مختلف معنوں میں ظاہر ہوتی ہے لیکن بنیادی طورپر یہ ایک پردے اور خصوصاً اس جہان اور جہانِ دیگر کے مابین نقاب کا اشاریہ ہے۔ چراغ اردو شاعری میں ایک معروف علامت ہے۔ چراغ اور شمع کو زیادہ تر زندگی کی علامت سمجھا گیا ہے لیکن اکثر شاعروں نے اس علامت کو وارداتِ عشق اور عشقیہ سوز کے علامتی خدوخال ابھارنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ آئینہ بنیادی طورپر لازمۂ حسن ہے تاہم یہ اپنے اندر بے پناہ علامتی سطحیں رکھتا ہے۔ یہ صفائی اور پاکیزگی کا رمز ہے۔ تمثال یا عکس قبول کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے اکتساب کا اعلامیہ ہے۔ آئینہ کلاسیکی اردو غزل کی کثیرالاستعمال علامت ہے ۔شان الحق حقی کی تحقیق کے مطابق غالب کے یہاں آئینے کا لفظ۲۶۵بار آیا ہے۔ دیگر کلاسیکی شعراء نے بھی اس اہم علامتی مظہر کی رنگا رنگ جہتیں دریافت کیں اور اس سے مختلف نفسی، مادی اور روحانی موضوعات کی طرف اشارے کیے۔ اردو شاعری میں ان علامتوں کے حوالے سے معانی کی ایک وسیع کائنات منکشف ہوتی ہے تاہم اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ شاعر اپنی شاعری میں جذبے کا اظہار کرتا ہے لیکن اس اظہار کا ابلاغ ہونا بھی ضروری ہے۔ ابلاغ کے لیے شاعراور قاری کے درمیان کوئی رشتہ یا تعلق ہونا چاہیے یعنی شاعر ایسی علامتیں استعمال کرے جو پڑھنے والے کو شاعر کی دنیا میں پہنچادیں اور وہ علامتیں ایسی ہوں جوقاری کے ذہن کو روشنی مہیا کریں، اسے اندھیروں میں نہ لے جائیں۔ بقول بلراج کومل: ’’کامیاب شاعروں کے ہاں علامتیں نظم میں آئینوں کی طرح جڑی ہوتی ہیں۔ وہ آئینے جن میں مضمون کا عکس صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔ ناکام شاعروں کے ہاں علامتیں( انھیں وہ خالص ذاتی علامتوں کا نا م دیتے ہیں) اس قلعے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں جن کے اندر قید کیے ہوئے لوگ باہر نہیں آسکتے اور باہر کے لوگ اندر نہیں جاسکتے۔ یہ اور بات ہے کہ قلعے کی دیواریں بظاہر حسین دکھائی دیتی ہیں۔‘‘(35) اہم علامت نگار چارلس پیر بودلیئر(Charles Pierr Boudelaire) (1821-1867)ایک شوقیہ مصور کا بیٹاتھا جو کہ سرکاری ملازمت سے روزی کماتا تھا۔ وہ چھ سال کی عمر میں ہی یتیم ہوگیا۔ اس کی ماں نے ایک فوجی افسر سے شادی کرلی۔ وہ اپنے سوتیلے باپ کو قبول نہ کرنے کے سبب گھر سے دور لوین(Lyon) کے ایک سکول میں داخل کروادیاگیا۔ وہ بچپن ہی سے خشک مزاج، اداس اور تنہائی پسند تھا۔1839 ء میں فارغ التحصیل ہوکر اس نے لکھنے کا ارادہ کیا۔ اس کی زندگی میں کوئی با قاعدگی نہ تھی اوروہ طبعاً آوارہ مزاج تھا۔ وہ ہندوستان بھی آیا لیکن ایک سال بعد واپس چلاگیا۔ اب اسے فضول خرچی اور فیشن پرستی کی عادت بھی پڑچکی تھی۔ اس نے فیشن شو کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مزاج درشت بھی تھااور وہ سستی کا بھی شکارتھا۔ اس کی علامتی نظموں کی پہلی کتاب Les Fleurs du Malتھی۔ اس کی نظموں کے مرکزی خیال بیمار ذہن کی پیداوار تھے۔ اسے بدہیئتی، غلط اندیشی، تنہائی اور افسردگی میں کشش محسوس ہوتی تھی اور وہ انھیں میں حسن تلاش کرتاتھا۔ اسے اپنا یہ مجموعہ اس کی اپنی آس، امیدوں، پریشانیوں، مصیبتوں اور المیوں کا عکاس لگتاتھا۔ 1821 سے1847 کے درمیانی عرصے میں وہ ایڈگر ایلن پو(Edgar Allan Poe) کے بہت قریب رہا۔ اس دوران اس نے یورپ کے ادب پاروں کا ترجمہ کیا۔ وہ جلدہی قرضوں کے جنجال میں پھنس گیااور وہ قرض خواہوں سے بچنے کے لیے فرانس سے بلجیم چلاآیا۔ غموں کا سامنا کرنے کے بجائے اس نے حشیش میں پناہ ڈھونڈی اور بلانوشی کرنے لگا۔ فالج کا شکارہونے کے بعد اس کے آخری دو سال برسلز اور پیرس کے سینی ٹوریم میں بسر ہوئے۔(36) ولیم بٹلرژیٹس(1865-1939)(William Butler Yeats) کا تعلق آئرلینڈ سے ہے۔ وہ ڈبلن میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عہدساز شاعر، ڈرامہ نویس اور نثرنگار تھا۔ اسے انگریزی زبان کے بیسویں صدی کے اہم ترین لکھنے والوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اسے 1924 ء میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ اس نے آئرلینڈ کے رومن کیتھولک چرچ کی تاریخی روایات سے کوئی واسطہ نہیں رکھاتھا کیونکہ اس کا عقیدہ ان سے مختلف تھا اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے اس کا مزاج اس لیے نہ ملا کہ وہ مادیت پرست ہوچکے تھے۔ وہ عیسائیت سے آزاد آئرلینڈ کی ان زندہ روایات، رسوم اور اعتقادات اور مقدس مقامات سے متاثرہوا جن پر علمائے بشریات کی تحقیق نے روشنی ڈالی تھی۔ محبت میں ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کی بجائے اس نے اپنی محبت اپنے وطن آئرلینڈ پرنچھاور کر دی۔ اس نے فنِ خطابت اور فنِ تحریر میں کمال حاصل کیا اوراپنی فصاحت وبلاغت، زورِ بیان اور لفّاظی سے اپنی شاعری ہی نہیں اپنی تقریروں کو بھی ولولہ انگیز اور پرجوش لہجے سے موثر اور دل نشیں بنادیا۔ ایسا اس نے اپنے باغیانہ خیالات، حب الوطنی کے جذبے اورآئرلینڈ کے لیے قوم پرستی کے سچے احساس کے ساتھ کیا لیکن ان رجحانات کی محرّک دراصل اس کی محبوبہ ساد تھی جو انگریزی جبروستبداد کی شدیدمخالف تھی۔جب اس کا ڈرامہ Cathleen ni Haulihan ڈبلن میں کھیلا گیا تو ساد نے اس میں مرکزی کرداراداکیاتھا۔ متنازعہ آئرش رہنما چارلس سٹیورٹ پارنیل(Charles Stewart Pernell) کی مقبولیت میں کمی اور اس کی موت سے ژیٹس کو احساس ہوا کہ آئرلینڈ کی سیاست میں نتیجہ خیز سرگرمی باقی نہیں رہی چناچہ وہ اپنی عملی زندگی کے اس خلا کو پرکرنے کے لیے مکمل طورپرشاعری، ڈرامے اور لوک سورمائوں کی داستانوں پر توجہ دینے لگا۔ژیٹس کو یقین تھا کہ نظموں اور ڈراموں کے ذریعے آئرش قوم میں یکجہتی اور اتحاد پیداکیاجاسکتا ہے۔وہ اپنے عہد کے ایک اور نامور جدیدشاعر ایذراپائونڈ(Ezra Pound) کا معاون بھی رہا جب وہ جاپان کے(No Plays) کے ترجمے میں مصروف تھا۔ژیٹس نے بعدازاں خودبھی ایسے مختصرڈرامے لکھے۔ اس نے اپنی تحریروں سے آئرش قومیت کی آبیاری کی۔1922 ء میں جب آئرش فری سٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی تو ژیٹس نے اس ریاست کے ایوانِ بالا کی رکنیت قبول کرلی۔ اس کا انتقال فرانس کے مقام روقیوبرونے (Roquebrune)میں ہوا اور وہیں اس کی امانتاً تدفین ہوئی کیونکہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوچکاتھا۔ 1948 ء میں اس کے جسدِ خاکی کو اس کے آبائی شہر سلیگو(Sligo) لاکرایک چھوٹے سے پروٹسٹنٹ گرجے کے قبرستان میں دفن کیاگیا۔ کہتے ہیں کہ اگر ژیٹس چالیس سال کی عمرمیں شاعری ترک کردیتا تو وہ انگریزوں کا غیرمتنازعہ طورپراہم ترین شاعرقرارنہ پاتا۔ انگریزی شاعری میں کسی اور شاعر کی مثال نہیں ملتی جس نے اپنی بہترین شاعری پچاس سے پچھترسال کی عمرکے درمیان کی ہو۔ اس دور کی شاعری میں اس کا زندگی بھر کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ، دانش اور عرق ریزی شامل ہے۔ ژیٹس کی علامت نگاری اس اہم دور کی مقبول اساطیریات اور دیومالائی کرداروں میں سے پھوٹتی ہے اس لیے اسے سمجھنا اتنا آسان نہں۔ خودژیٹس بھی اپنی علامتوں سے نامانوس قاری پر آہستہ آہستہ کھلتا ہے۔تاریخ کے باربار دہرائے جانے کے تصور سے اس نے خیالی پیکروں، استعاروں، تمثالوں اور تشبیہوں کو بھی غیرمحسوس طورپر دہرانے اور ان کے امتزاج اور آمیزش سے اپنا منفرد اسلوب تراشا۔ اس کے اپنے پراسراراورطلسماتی اسلوب کا ارتقاء ناقدین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ژیٹس کی مشہور تمثالوں میں لیڈا (Leda) اور سواں(Swan) ، ھیلن(Helen) اور جلتاہوا ٹرائے(Troy) شامل ہیں۔ منارا (Tower) تو اس کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے جواس نے کئی صورتوں میں بار بار برتا ہے۔ یہ منارا اس پرانے قصر کا ہے جو اس نے کبھی خریداتھا اور اسے پھر سے تعمیرکیاتھا۔ اس کی محبوب علامتوں میں چانداورسورج، جلتاہواگھر، غار، خاردارشجر، کنواں، سمندری بگلا، شاہین، نابیناشخص، معذور آدمی، بھکاری، سگِ تازی، رخش اور جنگلی سور شامل ہیں۔ اس کی ایک اور علامت بے حد معنی آفریں ہے جسے Unicorn کہاجاتا ہے۔ دیکھنے میں یہ ایک سینگ کا گھوڑا لگتا ہے۔ یہ سینگ اس کی پیشانی سے نکلا ہوتا ہے۔ اس دیومالائی حیوان کی پچھلی ٹانگیں بارہ سنگھے جیسی، دم شیرکی اور سر، گردن اور جسم گھوڑے جیساہوتا ہے۔ دیومالااور ادب میں اسے تقدس اور پاک خیالات کے اوصاف کے ساتھ ساتھ تندخوئی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان روایتی علامات کو ژیٹس اپنی ذاتی واردات اور تجربے سے نئے معانی پہنا تا ہے۔ اس کے لہجے کا جلال، تمکنت، زورِ بیان اور سحرانگیزی کی وجہ سے وہ اپنے عہد کے دوسرے شاعروں میں ممتازاورسربلند ہے۔(37) ہنرک ابسن(1828-1906)(Henric Ibsen) کا تعلق ناروے سے تھا لیکن وہ مجموعی طورپر مغربی ڈرامہ نگاروں کی صفِ اول میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ رومانی ڈرامہ اور میلو ڈرامہ ناروے میں مقبول تھا اور جرمنی کا ڈرامہ کمزور سی روحانیت میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ فرانس، انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک میں ڈرامہ محض تفریح کا ذریعہ تھا جس کی حقیقت نگاری میں اتنی گہرائی نہ تھی کہ اسے ادب کا درجہ دیاجاسکتا۔ ابسن نے ان ازکار رفتہ اور فرسودہ رجحانات کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان روایات کو نکھارا، سنوارا اور انھیں نئے امکانات سے روشناس کرایا۔ اس نے ایک سنجیدہ حقیقت نگاری کا سنگِ بنیاد رکھا جس میں نہ صرف عصری مسائل سے نبردآزما ہونے کا جذبہ کارفرماتھا بلکہ سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ذاتی تجربے کی گہرائی، فلسفیانہ فکر اور اخلاقی مسائل کا امتزاج تھا۔ اس نے ڈرامے کو فنی نظم و ضبط اور تہ داری عطا کی۔ اسے پیچیدہ تجربات کی پیش کش کا اہل بنایا۔ اور حقیقت نگاری اور علامتی طرزِ اظہار کے امتزاج سے اسے وسعت اور شاعرانہ مزاج عطاکیا۔اسے سماجی حقیقت نگاری کا امام سمجھاجاتا ہے۔ابسن کے ابتدائی ڈرامے ان رجحانات سے متاثرتھے جو اس سے پہلے مقبول تھے ۔ اس کے قلم سے جدید ڈرامہ نگاری کا آغاز اس کے نثری ڈراموں سماج کے ستون اور نوجوانوں کی جماعت سے ہوا جن میں سماجی حقیقت نگاری پائی جاتی ہے اگرچہ ان کی تخلیقی سطح اتنی بلندنہیں ہے۔ اس کا رجحان ساز ڈرامہ’گڑیاگھر‘ 1897 ء میں منظرعام پرآیا۔ یہ ترشاترشایانہیں بلکہ نئے انداز کا ڈرامہ تھا جس کی تفہیم اتنی آسان نہ تھی۔ اس نے زندگی کے حقائق اور سماجی مسائل کو ایسے انوکھے اسلوب میں پیش کیا کہ اس سے ڈرامے میں معنی خیزی اور فکرانگیزی پیداہوئی اور وہ محض تفریح کا ذریعہ نہ رہا۔ عہدِ جدید کے فکری مسائل جیسے فرد کی آزادی، روایت اور جدّت کی اخلاقی حوالے سے آمیزش اور انسانی ضمیر کی کشمکش نے اس ڈرامے کو تہ دار اور پیچیدہ لیکن تخلیقی اور بامقصدبنایا۔ حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں کے لیے بھی اس ڈرامے کے ذریعے آوازاٹھائی گئی جس سے پورا یورپ متاثرہوا۔ عیش و نشاط اور اخلاقیات کے تصادم کے حوالے سے اس جائزے نے انسانی المیے کو منفرد زاویے سے دیکھنے کی روش کو عام کیا۔ اس ڈرامے نے فرد میں اخلاقی ذمہ داری کا احساس اجاگر کیااور انسانی رشتوں کی نزاکتوں سے پیداہونے والے مسائل کو منعکس کیا۔ انسانی فطرت کے اسرارورموز اور رشتوں کی الجھنوں اور کشاکش کو پیش کرنے کے لیے ابسن کو علامتوں، اشاروں اور کنایوں کا سہارا لیناپڑا۔ اس طرح نفسیاتی حقیقت نگاری کے خارجی اورباطنی پہلوئوں کو اور طرح کے علائم اور رموز سے آشکار کرتے ہوئے ابسن نے اظہار کا نیااسلوب تراشا۔ اس کا ڈرامہ ’جنگلی بطخ ‘بھی نمائشی اور سطحی احوال پرستی پرکاری ضرب لگاتا ہے۔ ’روزمرشوم‘اس کا ایک اور شاہکار ڈرامہ ہے جو اخلاقی روایات اور اصولوں کی پابندی کو معاشرے کے لیے مثبت قراردیتا ہے۔ اس کے نزدیک وہی اصول تمدنی ارتقاء کے لیے کارآمد ہیں جو سطحیت اور اتھلے پن سے دوچار نہ ہوں اور انھیں محض دکھاوے کے لیے تسلیم نہ کیاجاتا ہو۔ سماجی حقیقت نگاری اور علامات کی جدت نے اس ڈرامے کو اور بھی فکرانگیز بنادیا۔ ’سمندری خاتون‘میں شعریت پائی جاتی ہے اور اس شعریت میں اشاریت اور علامت نگاری سے انسان کے عمیق جذبات کو مہمیز کیاگیا تھا۔ ’معمار اعظم‘ کو ابسن نے تخلیق کار کی علامت کے طورپر پیش کیا ہے جس کی تخلیقی صلاحیتیں امکانات کے نئے نئے در وا کرسکتی ہیں۔ وجدانی، باطنی اور داخلی احساسات اور جذبات کے سحرانگیز بیان سے ابسن نے خارجی اور بیرونی دنیا کو انسانی تعلقات کے حوالے سے رہنے کے قابل بنانے کی سعی کی مگر دوسری طرف حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اصول پسندی اور فکرونظر کی بلندی کے باوجود فنکار کی المناک ناکامی کا بھی اعتراف کیااور اس انجام کو انسان کے مقدر کے طورپر قبول کیا۔ ابسن کا آخری دور کا ڈرامہ ’جب ہم مردے جاگے‘ بھی فنکاری کے داخلی جذبات اور احساسات پرمبنی ہے اور اسی لیے اس میں شعریت بھی زیادہ ہے۔ ’’ننہا یولن‘‘ بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے جبکہ ’’جون گیبریل بورک مان‘‘ نفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ ابسن نے حقیقت پسندی کے میکانکی اظہار کو انسانی اقدار اور نزاکتوں کو تخلیقی سطح پر برتااور اپنی ذاتی حساسیت کے امتزاج سے علامت نگاری کو اثرپذیری عطاکی۔ اس نے حقائق کو ان کے اصلی روپ میں پیش کرتے ہوئے بھی انھیں اتنا ٹھوس نہیں رہنے دیا کہ وہ محض عقلی اصول و قواعد رہ جائیں۔ اس کی علامتیں بھی کسی قدر مبہم ہونے کے باوجود تفہیم کے قابل ہیں اور ان سے ایک سے زیادہ معانی نکالے جاسکتے ہیں۔ اس نے معروضات اور حسیات کے مابین ایک پراسرار ربط پیداکیا۔ انسانی میلانات، عصری سماجی ماحول، مروّج اخلاقیات، معاشرتی اصول و قواعد، ذاتی تجربات، مشاہدات اور یادداشتوں کے امتزاج کے ساتھ ابسن نے مؤثر حقیقت نگاری اور بامعنی اشاریت کو برتااور جدیدیت کی تحریک کومالامال کیا۔(38) ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (1888-1965)(T.S.Eliot) کو انگریزی ادب کے عظیم نقادوں اور شاعروں میں سے ایک سمجھاجاتا ہے۔وہ پیداتو امریکہ کے ایک مقام سینٹ لوئی میں ہوا تھا لیکن اس نے مستقل سکونت کے لیے برطانیہ کا انتخاب کیا۔ اس نے اپنے شعری آہنگ کی تازگی، استعارات کی انفرادیت اور حسیّت سے نظم کو نئی جہتوں سے روشناس کیا اور اس کے شعری تجربات نے بیسویں صدی کے جدیدشعراء کی شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔تجریدیت بھی اس کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے جس سے اس کی نظموں کی معنی آفرینی دوچندہوجاتی ہے۔ اس کی نظموں میں ڈرامائی عناصرکا رچائو ان کے تاثرمیں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی لافانی نظم 1922,Wastelandمیں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم اس کی نظم نگاری کی ہی نہیں جدیدنظم کے نمایاں رجحانات کی مثال ہے۔ ڈرامائیت کے فطری رجحان نے اسے بعدازاں منظوم ڈرامہ نگاری کی طرف مائل کیا اور اس نے اپنا پہلا اہم ڈرامہ’ کلیسا میں قتل‘1936 ء میں پیش کیا۔ وہ خود کیتھولک تھا اس لیے اس ڈرامے میں مذہبیت اور تجریدیت کے دل نشیں امتزاج سے کام لیاگیا ہے۔ اس ڈرامے کی پیش کش کا مقام اور موقع بھی ایلیٹ کے مخصوص مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ کینٹربری کلب کے جشن کی تقریبات کا حصہ تھا۔ اس کا مرکزی خیال حکومت اور کلیسا کی آویزش تھااور اس کا زمانہ بارھویں صدی عیسوی کاتھا جس کے نتیجے میں آرچ بشپ تھامس بیکیٹ مارا گیاتھا۔ یہ ڈرامہ اعلیٰ نصب العین کے لیے جان ہارنے کے مذہبی نظریے اور رجائی تصور کو اجاگرکرتا ہے۔تاریخیت، یونانی ڈرامے کے المیہ عنصراور ڈرامائی تمثیلوں کے ساتھ ساتھ ہئیت کے حوالے سے کورس (Chorus) یعنی مل کر گائے جانے والے گیت کے مسیحی تعلیمات کے پس منظر نے ڈرامے کو فکرانگیز اور رفعتِ تخیل کے لحاظ سے ثروت مند بنایا ہے۔ جدیددور میں غنائیہ ڈرامے کا احیاء ایلیٹ سے ہوتا ہے۔ کلاسیکیت اور روایت کے گہرے احساس کے ساتھ جدت طرازی ایلیٹ کے منظوم ڈراموں کی پہچان ہے۔ ایلیٹ کا اگلا ڈرامہ’خاندانی اجتماع‘‘بھی اس کے اسی منفرد اسلوب میں گندھا ہوا ہے تاہم اس میں حقیقت اور ماورائیت کویوں باہم آمیز کیاگیا ہے کہ اس سے ڈرامے کی پراسراریت بڑھ گئی ہے۔ پرانی داستانوں اور اساطیر سے ایلیٹ کی دلچسپی اس ڈرامے سے بھی ظاہر ہے کہ اس کا پلاٹ قدیم یونانی دیومالائی داستان اور سٹیز سے مستعار ہے۔ اس کہانی کے ذریعے ایلیٹ نے علامتی انداز میں اس دور کے سماجی مسائل اور مختلف کرداروں کو درپیش نفسیاتی الجھنوں اور ان کی باطنی کیفیات کو پیش کیا ہے۔ ایلیٹ عوامی سطح کے کرداروں کے ذریعے مذہبی و اردات اور روحانی تجربات کو اس طرح اپنی نظموں اور ڈراموں میںبُنتا ہے کہ ان سے آفاقیت کا تاثرپیداہوتا ہے۔’کاک ٹیل پارٹی‘،’ قابلِ اعتبار کلرک‘ اور ’بزرگ سیاست دان‘ اسی رجحان کے ڈرامے ہیں جن میں یونانی دیومالابھی بین السطور جھلکتی ہے۔ مذہبی، روحانی اور مابعدالطبیعاتی عناصر کے باوجود ایلیٹ کے ڈراموں میں عصریت اور حقیقت کا ادراک نمایاں ہے۔ وہ ماضی کی علامتوں کو نئے زمانے کی حسیّت پرمنطبق کرتا ہے۔ ان ڈراموں کے مرکزی کردار عام انسانوں کے مقابلے میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں لیکن باقی کردار معاشرے کے عام انسانوں جیسے ہیں اور ان کے مسائل بھی انھی کی سطح کے ہیں۔ آخری دورمیں ایلیٹ نے سیکولر نکتۂ نظر سے بھی روحانی واردات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور اس طرح وہ حقیقت نگاری کے اور قریب آگیا تھا۔ منظوم ڈرامے کو نثری ڈرامے پر ترجیح دینے کے باعث ایلیٹ سے اختلاف بھی کیاگیا اور اس کے نثری ڈرامے کو محض سطحی تجربات کے عکاس ہونے کے نظریے کو قبول نہیں کیاگیا۔ ایلیٹ کے تنقیدی تجربات نے جدید ادب کی دنیا میں اب تک ارتعاش پیداکررکھا ہے۔اور انگریزی شاعری، انگریزی ڈرامے اور انگریزی تنقید کو نئے زاویوں سے آشنا کیا جن میں سے بعض موثر بھی ثابت ہوئے۔(39) اقبال کی علامت نگاری اقبال کی شاعری میں موجود علامات کی تفہیم کے لیے فکرِ اقبال تک رسائی ضروری ہے۔ اقبال اپنا پیغام جن علامتوں کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں وہ ہماری اپنی تہذیبی علامتیں ہیں۔ یہ علامتیں محض تاریخی حقائق کا درجہ نہیں رکھتیں بلکہ ہماری جذباتی زندگی کی اساس بھی ہیں۔ فکرِ اقبال میں ان علامتوں کی توضیح کرتے ہوئے سجادباقررضوی لکھتے ہیں: ’’اقبال کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں اور یہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔‘‘(40) اقبال اپنے افکار اسلامی تصورات سے اخذ کرتے ہیں اور افکارِ عالم میں جو باتیں انھیں اسلامی تصورات کی تائید کرتی نظر آتی ہیں، ان سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور فکری وحدت کی صورت میں ان کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈاکٹرسلیم اختر اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اقبال میں اگرچہ مشرق و مغرب کے فلسفوں اور جدیدعلوم کی بو قلمونی کا امتزاج ملتا ہے مگر اساس ان کی اسلام اور قرآنِ مجید پر استوار ہے، اور اسی سے علامہ متنوع نظریات میں فکری توازن پیداکرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے جملہ علوم اور فلسفیانہ مباحث کاانفرادی حیثیت میں مطالعہ کرنے کے برعکس ان کا اسلامی تشخص متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالفاظ دیگر انہوں نے علوم کی کثرت میں نظر کی وحدت پیدا کی ہے۔ ‘‘(41) اقبال نے کہیں تو براہِ راست قرآن حکیم اور سیرت نبویؐ سے استفادہ کیا ہے اور کہیں بالواسطہ طورپران سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ چنانچہ جہاں وہ بالواسطہ طورپراسلامی تصورات سے استفادہ کرتے نظرآتے ہیں وہاں ان کے سامنے رومی کی شخصیت ہے۔ وزیرالحسن عابدی لکھتے ہیں: ’’ فکرِ اقبال کے ماخذ میں رومی کو سنگِ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال رومی کو اپنا ہادی اورپیشوا خیال کرتے ہیں اور بار بار اعلان کرتے ہیں کہ میرے میکدے کی شراب دراصل پیرِ روم کی خمستان کی حاصل کردہ ہے۔ اقبال زندگی کے اسرار کی نقاب کشائی کرتے ہیں مگر اس انکشاف کا سہرا اپنے پیرومرشد کے سرباندھتے ہیں۔‘‘(42) سیدوزیرالحسن عابدی نے’’اقبال کے شعری ماخذ مثنوی روم میں‘‘کے حوالے سے98 بنیادی موضوعات اور112ذیلی موضوعات کی مماثلت دریافت کی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:ابلیس، ابلیس کی حقیقت، انسان اور کائنات، انسان اور عالم، انسانِ کامل، جہادِ زندگی، دوام و حرکت، حریّت، عمل، خودی، خودنگری، خودشناسی،ضعفِ خودی، عقل و دل، عقل و عشق، فکرِ کافر اور فکرِ مومن وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو فکرِ اقبال کے ہرگوشے میں قرآن ہی نظرآتا ہے۔ وہ معیشت پر بات کررہے ہوں یا سیاست پر صرف قرآن حکیم ہی کے حکم کے متعین کرنے میں ان کا حوالہ بنتا ہے۔ وہ بلاشبہ قرآنی فکرمیں ڈھلے ہوئے انسان تھے۔ اقبال کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان سنّتِ رسولؐ کی روح سے پوری طرح واقف ہوں اور اسے اپنی عملی زندگی میں جاری و سار ی کریں۔ فکرِ اقبال کے نزدیک مغرب کی سیاسی فتح دراصل مسلمانوں کے اس عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمان قرآن کی تعلیمات بھول کرآپس میں اُلجھ گئے اور اس طرح ارادی طورپرانھوں نے اپنے لیے تباہی و بربادی کے دروازے کھول لیے۔ مسلمانوں کے یہی وہ تباہ کن اور دل سوز حالات تھے جس میں خوبیٔ سیاست کا کردار نمایاں ہے اور یہی وہ سبب ہے جس نے فکرِ اقبال میں مغربی تہذیب و تمدن اور اندازِ فکر کے خلاف بیزاری کا احساس پیداکیا۔ اقبال فرد کو ایک جماعت، ایک گروہ اور ایک اکائی کی حیثیت سے دیکھنے کے شدیدمتمنی تھے۔ ان کا فلسفۂ خودی خالصتاًفرد کی صلاحیتوں کی جِلا، اس کی ترقی و کامرانی اور اس کے تشکیلِ مناصب کی علامت ہے۔ بیداریٔ خودی کے لیے انھوں نے معاشرے کو نہیں، فرد کو پکارا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ فرد اکائی کی صورت میں نیابتِ الٰہی کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے اور یہی چیز معاشرے کو ایک کامل معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک قوم کے زوال اور پستی کا سبب روحانی اقدار کا فقدان ہے چنانچہ انھوں نے اِس مرض کے علاج کے لیے زندگی کے عقلی رویوں اور مادی رجحانات کے طلسم کو توڑنے کے لیے خودی کا اسم دریافت کیا۔ اقبال کے یہاں خودی وہ قوت ہے جو انسان کو زمین سے اٹھاکر اوجِ ثریاپرمتمکّن کردیتی ہے جس کی بدولت گردوں عالمِ بشریت کی زد میں آجاتے ہیں اور خاک کا پتلا لوح و قلم کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اقبال کی شاعری کا علامتی نظام چنانچہ اقبال نے زندگی کے عمومی رُخ پر زور دیتے ہوئے اپنی شاعری میں ایک وسیع علامتی نظام مرتب کیا اور مختلف علامتوں سے اپنے بنیادی نکتے کو واضح کیا۔ اقبال کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے: اول: وہ علامتیں جو قدیم شاعری میں مستعمل تھیں اور اقبال کے یہاں آکر انھیں نئی معنویت ملی۔ دوم: وہ علامتیں جو اقبال نے اپنی اجتہادی فکر سے کام لے کر خود وضع کیں۔ پہلی قسم کی علامتوں میں ’’پروانہ‘‘ اقبال کی ایک اہم علامت ہے۔ پروانہ کلاسیکی شاعری میں عاشقِ صادق کی علامت سمجھاجاتا ہے لیکن اقبال کے یہاں اس کا استعمال برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے نفس میں سوز نہیں۔وہ غیرکی آگ کا محتاج ہے اور خودی کے جوہرسے محروم ہے۔ ’’جگنو‘‘ اقبال کے یہاں پروانے کی متضادعلامتی معنویت کے ساتھ اُجاگرہوتا ہے۔ پروانہ جہاں غیرسے روشنی کا دریوزہ گر ہے وہاں جگنو کے اندر ذاتی تب و تاب موجود ہے اور وہ دوسرے سے مدد طلب کرنے کے بجائے اپنے باطنی امکانات کو ظاہرکرتا ہے۔ جن پرانی علامتوں کو اقبال نے نئی معنویت دی ہے ان میں ’’لالہ‘‘ ایک اہم علامت ہے۔لالہ بھی اقبال کے فکری نظام سے مکمل طورپر مربوط ہے۔ لالۂ صحرا ان کے یہاں عرب ثقافت کی علامت کے طورپر ابھرا ہے۔ پرانی علامتوں میں ’’ساقی‘‘کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ساقی پرانی شاعری میں اکثرتصوف کے حوالے سے ظاہر ہوا ہے۔ اقبال نے اس علامت کے روحانی اور مابعدالطبیعاتی معنی برقراررکھتے ہوئے اسے وسعت دی ہے۔ ’’ابلیس‘‘ کلاسیکی شاعری میں شَر کا نمائندہ خیال کیاجاتا ہے۔ اقبال نے اس علامت میں مثبت مفہوم داخل کرکے اس کی معنویت میں اضافہ کیا ہے۔ ذیل میں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامتوں کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ آئینہ ’’آئینے‘‘ کی معنوی اور علامتی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹرسعداللہ کلیم لکھتے ہیں: ’’تاریخی اعتبار سے آئینہ اصطلاحی معنوں میں تقریباًدسویں گیارہویں صدی عیسوی سے استعمال ہوتاچلاآرہا ہے۔ صوفیانہ ادب میں آئینہ کائنات اور بالخصوص انسان کا استعارہ ہے جس میں حسنِ مطلق کے جلوے منعکس ہوتے ہیں…ابنِ عربی نے فصوص الحکم کے پہلے اور دوسرے باب میں اس اصطلاحی مفہوم کو اتنا راسخ کردیا کہ اب تک اس کا یہ مفہوم شاعری میں برقرار ہے۔‘‘(43) نفسیاتی سطح پر آئینے کااستعمال شاعر کی جمال پسندی کا آئینہ دار ہے اور خودپسندی کا غماز بھی۔ اقبال نے بانگ درا میں جتنی بار آئینے کی علامت استعمال کی ہے وہ ان کے باقی تمام اردو اور فارسی کلام سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ قلب آئینہ کے مترادف کے طورپر شاعری میں استعمال ہوتا ہے۔ انسان کے وجود میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسی میں ذاتِ واجب کے چہرے منعکس ہوتے ہیں۔ اقبال نے بھی اس شعری روایت کو برقراررکھتے ہوئے زیادہ تر انھی معنوں میں آئینہ کا لفظ استعمال کیا ہے ؎ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں (کلّیاتِ اقبال،ص۔313 ) غازۂ اُلفت سے یہ خاکِ سیہ آئینہ ہے اور آئینے میں عکسِ ہمدمِ دیرینہ ہے (کلّیاتِ اقبال،ص۔146 ) حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال (کلّیاتِ اقبال،ص۔182 ) جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں (کلّیاتِ اقبال،ص۔142 ) شاہدِ قدرت کا آئینہ ہو میرا دل نہ ہو سر میں جُز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو (کلّیاتِ اقبال،ص۔81 ) کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں (کلّیاتِ اقبال،ص۔198 ) بے خبر تو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے (کلّیاتِ اقبال،ص۔320 ) آئینے کی علامت میں آنکھ کا تلازمہ بھی ہوتا ہے جو مقامِ حیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اقبال کے کلام میں حیرت میں کھوئی ہوئی آنکھ کے لیے بھی آئینہ کا ذکر موجود ہے ؎ آنکھ تیری صفتِ آئینہ حیران ہے کیا نُورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا (کلّیاتِ اقبال،ص۔143 ) ایک جگہ شیکسپیئرکو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎ حُسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حُسن دلِ انساں کو ترا حسنِ کلام، آئینہ (کلّیاتِ اقبال،ص۔279 ) ابلیس ابلیس کلاسیکی شاعری میں شَر کا نمائندہ خیال کیاجاتا ہے۔ اقبال نے اس علامت میں مثبت مفہوم داخل کرکے اس کی معنویت کوبدل دیا ہے۔ اقبال کے یہاں ابلیس زندگی کے حرکی اور تخلیقی رویّوں کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اگرزندگی میں پیکار نہ ہو تو انسان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ ابلیس مردِ مومن کی ارتقائی منازل میں اس کے ساتھ ٹکراتا ہے اور اسی ٹکرائو اور تصادم سے مردِ مومن ارتقا کی منازل طے کرتا ہے۔ اگر ابلیس نہ ہو تو زندگی کی ہنگامہ آرائی، چہل پہل اور حرکت و حرارت ختم ہو کر ر ہ جائے اور زندگی موت میں تبدیل ہوجائے۔ بالِ جبریل میں جبریل اور ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کارگزاری پرفخرکرتا ہے اور جبریل کو محض عبادت گزارہونے کی بناپر لذتِ آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔اس کے موقف کے مطابق زندگی میں ہمہ ہمی اور رونق اسی کے دم سے ہے ؎ ہے مری جرأت سے مُشتِ خاک میں ذوقِ نمو میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو! دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، میں کہ تُو؟ خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں، یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو! (کلّیاتِ اقبال،ص۔274-75 ) ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس زندگی میں اپنے تصرف پرفخرکااظہارکرتا ہے ؎ ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بُو کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بہ تُو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو (کلّیاتِ اقبال،ص۔708 ) ابلیس کی ستائش انھی صفات کے باعث ہے جن میں زندگی کا ارتقاء مضمر ہے اور ان علامات کے بغیرزندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقا نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن نفی فی نفسہٖ اعلیٰ قدر تصور نہیں ہوسکتی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کی طرف یا اقبال کی اصطلاح میں استحکامِ خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھانا چاہیے۔ اثبات نفیِ مسلسل کے بغیر نہیں ہوسکتی۔لہٰذا نفی بھی خیرِ مطلق کے لیے لازمی ہے۔ انسانِ کامل ؍مردِ مومن مردِمومن یاانسانِ کامل اقبال کی معروف علامتوں میں سے ایک ہے جو اس کے فلسفۂ خودی کی عملی شکل اور نمائندہ ہے۔ کلاسیکی شاعری میں انسانی زندگی کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقتِ کُل میں ضم کردے۔ لیکن اقبال نے اس کے برعکس اثباتِ خودی کا درس دے کر یہ واضح کیا کہ انسان اپنی ہستی کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنے اندر اُلوہی صفات پیدا کرسکتا ہے۔ جب انسان خودی کے تمام مراحل طے کرلیتا ہے تو وہ انسانِ کامل کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے۔ تمام عالم اس کے زیرِ نگیں ہوجاتا ہے۔ وہ عناصر پرحکمرانی کرتا ہے اور لوح و قلم کا مالک بن جاتا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن خدائی صفات سے متصف نظرآتا ہے۔ وہ آفاق کا مالک ہے جس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وہ دنیاوی مسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ کی ذات پر توکل کرتا ہے جو بظاہر آبجو ہے لیکن دریائے بیکراں کی وسعت اپنے اندر رکھتا ہے ؎ تو بے بصر ہو تو یہ مانعِ نگاہ بھی ہے وگرنہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک (کلّیاتِ اقبال،ص394- ) صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص395- ) ہوں آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں ، نہیں دانۂ اسپند (کلّیاتِ اقبال،ص357- ) مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ ، لا الٰہ سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ ، لا اِلٰہ o نقطۂ پرکارِ حق ، مردِ خدا کا یقین ورنہ یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز (کلّیاتِ اقبال،ص423-424- ) کافر ہے مسلماں، تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر ِ الٰہی (کلّیاتِ اقبال،ص370- ) مردِ مومن کی علامت کی مزیدوضاحت درج ذیل اشعار میں ملاحظہ ہو ؎ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن (کلّیاتِ اقبال،ص558- ) ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن گفتار میں ، کردار میں اللہ کی برہان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان جس سے جگرِلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا ، صفتِ سورۂ رحمن (کلّیاتِ اقبال،ص573- ) ہے علم فقط مومنِ جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص369- ) کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے تو ڈھونڈ رہا ہے سمِ افرنگ کا تریاق اِک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (کلّیاتِ اقبال،ص556- ) کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں (کلّیاتِ اقبال،ص308-) بُت؍ بُت کدہ کلامِ اقبال میں بُت کا کلمہ محض اینٹ پتھر سے بنائے ہوئے خدائوں یا دیوتائوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ وہ ان رسوم و رواج، عقائد اور رویّوں کو بھی بُت کی علامت کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں جن کی پرستش کی جاتی ہے اور جن سے عقیدت لوگوں میں دینِ حق سے دُوری پیدا کررہی ہے۔ وہ چاہے وطنیت ہو یا رنگ و نسل کا احساس، وہ دولت ہو یا انسانی تعلقات، اقبال انھیں بُت اور انھیں عزیز رکھنے کو بُت پرستی قراردیتے ہیں ؎ بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی (کلّیاتِ اقبال،ص300- ) یہ مال و دولتِ دنیا ، یہ رشتہ و پیوند بُتانِ وہم و گماں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ (کلّیاتِ اقبال،ص527- ) مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے (کلّیاتِ اقبال،ص187- ) یہ بُتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراشِ آذرانہ (کلّیاتِ اقبال،ص383- ) توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق ہوش کا دارو ہے گویا مستیٔ تسنیمِ عشق (کلّیاتِ اقبال،ص139- ) حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے تنِ حرم میں چھپا دی ہے روحِ بت خانہ (کلّیاتِ اقبال،ص615- ) عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرح و دین بت کدۂ تصورات (کلّیاتِ اقبال،ص439- ) بُلبل اقبال کے اردو کلام میں بُلبل کی علامت۳۷بار استعمال ہوئی ہے۔ اقبال بلبل کو چشمِ امتیاز بھی قراردیتے ہیں ؎ تمیز لالہ و گل سے ہے نالٰۂ بُلبل جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے (کلّیاتِ اقبال،ص132- ) اقبال، سعدی کو شیراز اور داغ کو ہندوستان کی بربادی اور اپنے آپ کو امّتِ مسلمہ کے زوال پر فریاد کناں پاتے ہیں تو تینوں کے لیے بُلبل کی علامت استعمال کرتے ہیں۔ ایک دردمند شاعر کو اپنے ماحول، اپنی سرزمین، اپنی تہذیب اور اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے۔ وہ ان کی بربادی پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اقبال بھی اپنے دردمندانہ شعری اظہار کو نالۂ بلبل کے مماثل قراردیتے ہیں۔ بلبل کی علامت کی مختلف صورتیں اقبال کے کلام میں یوں ظاہرہوتی ہیں ؎ نالٰہ کش شیراز کا بُلبل ہوا بغداد پر داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر (کلّیاتِ اقبال،ص159- ) بُلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں ہمنوا ہیں سب عنادل باغِ ہستی کے جہاں (کلّیاتِ اقبال،ص166- ) میں بلبلِ نالاں ہوں اس اُجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے (کلّیاتِ اقبال،ص242- ) اور بُلبل ، مطربِ رنگیں نوائے گلستاں جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے (کلّیاتِ اقبال،ص178- ) عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن ایک بُلبل ہے کہ محوِ ترنّم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک (کلّیاتِ اقبال،ص198- ) کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ مجاز کلی کلی ہے تری گرمئی نوا سے گداز (کلّیاتِ اقبال،ص225- ) پروانہ ’’پروانہ‘‘ ایک قدیم علامت ہے جسے کلاسیکی شاعری میں عاشقِ صادق کے مفہوم میں استعمال کیاگیا ہے لیکن اقبال کے یہاں اس علامت کا استعمال مختلف انداز میں ہوا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے نفس میں سوز نہیں، وہ غیرکی آگ کا محتاج ہے اور خودی کے جوہر سے محروم ہے۔چنانچہ غیرکی آگ میں جل مرتا ہے اور ایک غیرتخلیقی رویے کاشکارہوجاتا ہے۔ اقبال اپنی نظم ’’شمع وپروانہ‘‘ میں پروانے کو بلندمقام دیتے ہیں اور اسے طورِ شمع کا کلیم کہتے ہیں ؎ کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے چھوٹا سا طور تو، یہ ذرا سا کلیم ہے پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی (کلّیاتِ اقبال،ص72- ) زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب (کلّیاتِ اقبال،ص65- ) لیکن رفتہ رفتہ اقبال پروانے پر جگنو کو ترجیح دینے لگتے ہیں کہ جگنو کو پروانے پر اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے کہ اس کی روشنی بے تب و تاب سہی لیکن مانگی ہوئی نہیں۔وہ غیروں سے نور مانگنے کی بجائے خود اپنے وجودِ باطنی کی روشنی پراعتماد رکھتا ہے۔ اگر پروانہ یہ سوال کرتا ہے کہ ؎ پروانے کی منزل سے بہت دُور ہے جگنو کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو (کلّیاتِ اقبال،ص442- ) تو جگنویہاں پروانے کی متضادعلامتی معنویت کے ساتھ اجاگرہوتا ہے۔ پروانہ جہاں غیرسے روشنی حاصل کرتا ہے، وہاں جگنو کے اندر ذاتی تب و تاب موجود ہے اور وہ دوسروں سے مدد طلب کرنے کے بجائے اپنے باطنی امکانات کا ظاہرکرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی خودی پہچاننے کی سعی کرتا ہے۔پروانہ ایسے افراد یا قوم کی علامت بنتا ہے جو محکوم قوم یا افراد کی خصوصیات رکھتا ہے۔ جبکہ جگنو اپنی خودی کو محکم رکھتا ہے۔ نظم ’’پروانہ اور جگنو‘‘ میں جگنو کا جواب ملاحظہ فرمائیں ؎ اللہ کا سَو شکر کہ پروانہ نہیں میں دریوزہ گرِ آتشِ بے گانہ نہیں میں (کلّیاتِ اقبال،ص442- ) پرویز؍خسرو؍فرہاد خسروپرویز ،اقبال کے کلام میں ملوکیت،شہنشاہیت اور سرمایہ داری کی ایک ملی جُلی علامت ہے جبکہ فرہاد کی حیثیت ایک عاشق، ایک مشقت کا راور مزدور کی ہے۔ ان تمام مقامات پر جہاں فرہاد کی علامت کوبرتاگیا ہے شعر میں دردمندی کا احساس بہت نمایاں ہے۔ خسروپرویز کے لیے اقبال کے جذبات منفی ہیں جبکہ فرہاد کے لیے مثبت طرزِ فکر نظرآتا ہے۔ ان علامات کے ذریعے اقبال نے حکمت و دانش اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو نمایاں کیا ہے ؎ بہر زمانہ بہ اسلوبِ تازہ می گویند حکایتِ غمِ فرہاد و عشرتِ پرویز (کلیات اقبال فارسی،ص339- ) عشق اور ہوس کے فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے ؎ در عشق و ہوسناکی، دانی کہ تفاوت چیست آں تیشۂ فرہادی ، ایں حیلۂ پرویزی (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص303- ) فرہاد کا ذکر کلام ِ اقبال میں کل دس بارہ بار سے زیادہ نہیں ملتا۔ تلوار؍تیغ ؍دھار اقبال کے کلام میں تلوار یا تیغ ہتھیار کے معنوں میں نہیں بلکہ خودی کے مترادف کے طورپر استعمال ہوتی ہے ؎ خودی کا سرِّ نہاں ، لا اِلٰہ الّا اللہ خودی ہے تیغ، فساں ، لا اِلٰہ اِلّا اللہ (کلّیاتِ اقبال،ص527- ) یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے (کلّیاتِ اقبال،ص455- ) نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل (کلّیاتِ اقبال،ص391- ) اور خودی وہ کیفیت ہے کہ انسان کا کائنات پر تصرف قائم ہوجاتا ہے۔ اقبال صرف خودی ہی کے لیے تیغ کی علامت استعمال نہیں کرتے بلکہ عشق کے لیے بھی اس علامت کو شاعری میں لاتے ہیں ؎ عشق کی تیغِ جگردار اُڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی! (کلّیاتِ اقبال،ص351- ) اور پھر یہ تیغ جدوجہد کی علامت بن کر اپنے لغوی مفہوم کے بھی قریب ہوجاتی ہے ؎ کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب تیغِ ہلال کی طرح ، عیشِ نیام سے گزر (کلّیاتِ اقبال،ص366- ) خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اِک انبار تُو پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو (کلّیاتِ اقبال،ص288- ) صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب (کلیاتِ اقبال،ص428- ) گویا اقبال کے نزدیک تلوار یا شمشیر کسی قوم کی وہ حالت یا کیفیت ہے جب اس کی خودی بیدار ہو۔ جب وہ جدوجہد کررہی ہو۔ یعنی عمل کی حالت میں ہو کیونکہ اِسی عمل سے قوموں کو عروج حاصل ہوتا ہے ؎ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل، طائوس و رباب آخر (کلّیاتِ اقبال،ص382- ) خودی ڈاکٹرعابدحسین ،اقبال کے تصورِ خودی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اقبال نے خودی کو ایک فلسفیانہ اصطلاح کے طورپر اس احساس اور عقیدے کے لیے استعمال کیا ہے کہ فرد کا نفس اور انا تو ایک مخلوق اور فانی ہستی ہے لیکن یہ ہستی اپنا ایک الگ وجود رکھتی ہے جو عمل سے پائیدار اور لازوال ہوجاتا ہے اور خودی کے استعمال کی یہی صورت ہے کہ انسان اپنے ماحول سے مسلسل جنگ کرتارہے۔‘‘(44) ’’ساقی نامہ‘‘ میں اقبال خودی کے امتیازات بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں ؎ یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اِک بوند پانی میں بند ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار (کلّیاتِ اقبال،ص455-57- ) اقبال جب خودی کو تلوار کی دھار قراردیتے ہیں تو افرنگ زدہ مسلمان انھیں خالی میان کی طرح نظرآتا ہے جو خودی کے جوہر سے بے گانہ ہے ؎ مگر یہ پیکرِ خودی سے ہے خالی فقط نیام ہے تو زرنگار و بے شمشیر (کلّیاتِ اقبال،ص456- ) اقبال کے خیال میں خودی ایک بحرِ بیکراں ہے جس میں باہمت انسان ہی غوطہ زن ہوکر موتی چنتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ؎ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص376- ) اقبال خودی کو انسانی زندگی کے صدف کا موتی بھی قراردیتے ہیں۔ جو صدف میں تربیت پاکر درِ شہوار بن جاتا ہے ؎ زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا ہے جو قطرے کو گہر کر نہ سکے (کلّیاتِ اقبال،ص543- ) اقبال خودی کا مسکن دل کو قراردیتے ہیں اور تعمیرِ خودی میں کائنات کو مضمر دیکھتے ہیں: خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص456- ) بے ذوقِ نمود زندگی موت تعمیرِ خودی میں ہے خدائی (کلّیاتِ اقبال،ص383- ) اقبال خودی کے عشق سے محکم ہونے کی صورت میں اسے صورِ اسرافیل اور علم سے محکم ہونے کو غیرتِ جبریل قراردیتے ہیں ؎ خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل (کلّیاتِ اقبال،ص391- ) اقبال کے نزدیک خودی میں یہ طاقت ہے کہ وہ رائی کو پہاڑ کے مانند مضبوط بنادیتی ہے اور اس کے برعکس اگر پہاڑ میں خودی کی کمزوری آجائے تو وہ رائی کے دانے کے مانند ہلکا اور بے زورہوجاتا ہے ؎ خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا برنگِ بحر ، ساحل آشنا رہ کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا (کلیاتِ اقبال،ص410- ) خودی کے عارف کو سمندر کے مانند ہوناچاہیے جو ساحل سے اپنا تعلق بھی قائم رکھے اور کفِ ساحل سے اپنا دامن بھی بچائے۔ یعنی دنیا میں رہو اور دنیا کی آلودگیوں سے اپنا دامن بھی بچائے رکھو۔ کیونکہ خودی سوال کرنے سے کمزورہوجاتی ہے۔ جب ہم کسی دوسرے کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے ہیں، کسی دوسرے کا سہارا ڈھونڈتے ہیں تو گویا اپنی خودی کا گلاگھونٹ دیتے ہیں ؎ تو اگر خوددار ہے منّت کشِ ساقی نہ ہو عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر (کلّیاتِ اقبال،ص218- ) یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو تجھے بھی چاہیے مثلِ حبابِ آبجو رہنا (کلّیاتِ اقبال،ص102- ) استغنا سے خودی مضبوط رہتی ہے۔ خواہشات کا بڑھ جانا، بے یقینی، وسواس اور اندیشہ ہائے گوناگوں کا سبب بنتا ہے جو خودی کی موت ہے ؎ حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں (کلّیاتِ اقبال،ص364- ) مفلسی و ناداری اور اقتصادی بدحالی بھی خودی کی موت کا باعث ہے ؎ نہ رہے ستارے کی گردش ،نہ بازیٔ افلاک خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ (کلّیاتِ اقبال،ص378- ) اقبال کے خیال میں وہ قوم جس کے جوانوں کی خودی فولاد کے مانند ہو سب سے زیادہ ممتازاور بارعب ہوتی ہے۔ ہر قوم اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتی ہے ؎ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد (کلّیاتِ اقبال،ص585- ) اقبال خودی میں کبریائی ومصطفائیؐ، حتیٰ کہ پورا جہاں دیکھتے ہیں ؎ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زَد میں ہے ساری خدائی (کلّیاتِ اقبال،ص408- ) درویش؍قلندر؍مردِ مسلماں اقبال کے یہاں انسانِ کامل کے لیے درویش اور قلندر کی علامت بھی استعمال کی گئی ہے۔ اقبال کی شاعری میں درویشی اور قلندری تکمیلِ انسانیت کی دو منزلوں کے نام ہیں۔ درویشی کے مرحلے پر انسانِ کامل خلوت گزیں ہوتا ہے لیکن مقصد یہ ہوتا ہے کہ یک سوئی حاصل کرکے تسخیرِ کائنات کی طرف متوجہ ہوں جبکہ قلندری عمل کا مقام ہے۔ درویش ہونے کی حیثیت سے طالب جو کچھ سوچتا ہے، قلندرہونے کی حیثیت سے اسے ایک خارجی شکل دیتا ہے۔ اقبال کا درویش جوہرِ ملکوتی کا مالک ہے جو مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ہے ؎ فطرت نے مجھے بخشے ہیں ، جوہرملکوتی خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند درویشِ خدامست ، نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دِلی ،نہ صفاہاں ،نہ سمرقند (کلّیاتِ اقبال،ص357- ) قلندر کی علامت کو اقبال تصوف کے دائرے سے نکال کر میدانِ عمل میں لے آئے ہیں۔ مردِقلندر دنیوی جاہ وجلال اور مادی اقتدار سے بے نیازی کا رمز ہے۔ وہ اپنی ذات کے جوہر پر کامل یقین رکھتا ہے اور یقینِ کامل کی یہی صفت اسے مادی سہاروں سے بے نیاز کردیتی ہے ؎ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن (کلّیاتِ اقبال،ص367- ) بہت مدت میں نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا قلندر جز دو حرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے مجازی کا (کلّیاتِ اقبال،ص368- ) ضربِ کلیم میں اقبال کی نظم ’’قلندر کی پہچان‘‘ ان تمام تصورات کو واضح کرتی ہے جو اس علامت کے ساتھ وابستہ ہیں ؎ کہتا ہے زمانے سے یہ درویشِ جوانمرد جاتا ہے جدھر بندۂ حق ، تو بھی اُدھر جا ہنگامے ہیں میرے، تیری طاقت سے زیادہ بچتا ہوا بُنگاہِ قلندر سے گزر جا میں کشتی و ملّاح کا محتاج نہ ہوں گا چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تُو، تو اُتر جا توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا ؟ ہے تجھ میں مکر جانے کی عادت تو مکر جا مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایّام کا مرکب نہیں ، راکب ہے قلندر (کلّیاتِ اقبال،ص554- ) اقبال کائنات کے محاسبے کا اختیار مردِ قلندر کو دیتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے وقت پر اختیار و حکومت بھی تفویض کرتے ہیں۔ یہی مردِ مومن یا انسانِ کامل کی خصوصیات بھی ہیں۔ ساقی اقبال کے یہاں شاعری کی قدیم علامتوں میں سے ’’ساقی‘‘ کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ ساقی کلاسیکی شاعری میں اکثر تصوف کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال نے اس علامت کے روحانی اور مابعدالطبیعاتی معنی برقراررکھتے ہوئے اسے وسعت دی ہے اور اسے عظمتِ رفتہ کی بازیابی، زندگی کی اعلیٰ قدروں کے فروغ اور افکارِ تازہ کی نمود کرنے والی طاقت سے مربوط کیا ہے ؎ بیا ساقی نوائے مرغِ زار از شاخسار آمد بہار آمد، نگار آمد، نگار آمد، قرار آمد کنار از زاہداں برگیر و بے باکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخِ کہن بانگِ ہزار آمد (کلّیاتِ اقبال،ص306- ) ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے؟ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص346- ) بال جبریل کی ساتویں غزل کی ردیف بھی ساقی ہے۔ ساقی سے شاعر کی کیا مراد ہے؟ اس کو یہ شعر واضح کردیتا ہے ؎ حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں کرتا کہ پیدائی تری اَب تک حجاب آمیز ہے ساقی (کلّیاتِ اقبال،ص351- ) بال جبریل کی آٹھویں غزل کی ردیف بھی ساقی ہے۔ جس کا آخری شعر ملاحظہ ہو ؎ تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! (کلّیاتِ اقبال،ص351- ) اس سے اگلی غزل کا مطلع قابل توجہ ہے۔ ساقی کے علاوہ مَے کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے ؎ مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تُو پلا کے مجھ کو مئے لا اِلٰہ اِلّا ہُو (کلّیاتِ اقبال،ص352- ) ستارہ؍شرر اقبال نے اپنے جذبات و افکار کے کئی ایک نازک گوشے ستارے کی علامت کے ذریعے ظاہر کیے ہیں۔ جیسے جسم کا ستارہ،اخترِ صبح ،چاند اور تارے، ستارہ،دوستارے،بزم انجم،شبنم اور ستارے،ستارے کا پیغام وغیرہ نظمیں اس کی آئینہ دار ہیں۔ اقبال کے یہاں آغاز میں ستارے قسمت کا آئینہ ہیں لیکن پھر وہ انھیں آسمان کی فراخی میں خوار و زبوں دیکھتے ہیں، کہیں یہ ناپائیداری کی علامت بن کر آتے ہیں ؎ دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب اُبھرا گیا دورِ گراں خوابی (کلّیاتِ اقبال،ص297- ) لیکن بعد میں یہی ستارہ عروجِ آدم کے حوالے سے بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے ؎ عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے (کلّیاتِ اقبال،ص350- ) گرچہ تھا تیرا تنِ خاکی نزار و درد مند تھی ستاروں کی طرح روشن تری طبعِ بلند (کلّیاتِ اقبال،ص282- ) روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں (کلّیاتِ اقبال،ص431- ) مجموعی طورپر اقبال کے یہاں ستارہ روشنی کی علامت ہے جس کے ساتھ جسم کے اُجالے کا تصور بھی وابستہ ہے اور جسم نئی زندگی اور جدوجہد کا استعارہ ہے۔ ستارے کے ساتھ ساتھ عارضی روشنی کے لیے ’’شرر‘‘ کی علامت بھی استعمال ہوئی ہے۔ اقبال کے یہاں روشنی، حدت و حرارت کے لیے شعلہ و شرر کی علامت جزو اور کُل کے تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے اور فنااور استحکام کے نفاذ کو بھی۔شرر کی چمک عارضی اور لمحاتی ہے جو بعض اعتبارات سے فرد کی خودی کی مماثل ہے جبکہ شمع کی حیثیت نسبتاًمستقل اور مستحکم ہے جو اجتماعی خودی کی یاددلاتی ہے۔ شرر کے جلدفناہوجانے کے باوصف اقبال کے نزدیک اس کی یہ صفت قابلِ غور ہے کہ جو لمحہ زندگی اُسے ملتا ہے اور اس کے باوجود کہ اس کی زندگی شعلے سے مستعار ہے۔ وہ اپنی ہستی کا ثبوت دے کر مٹتا ہے۔ روحِ ارضی، آدم کا استقبال کرتے ہوئے اسے شررقراردیتی ہے اور کہیں سورج کی تب و تاب اس میں دیکھتی ہے ؎ خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں (کلیاتِ اقبال،ص461- ) وہ شعلۂ روشن ترا، ظلمت گریزاں جس سے تھی گھٹ کر ہوا مثلِ شرر تارے سے بھی کم نور تر (کلّیاتِ اقبال،ص272- ) خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض (کلّیاتِ اقبال،ص400- ) کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں (کلّیاتِ اقبال،ص431- ) شرر اقبال کے نزدیک زندگی کی علامت بھی ہے کہ شبِ تاریک میں ستاروں کی مدھم روشنی کی اہمیت بھی ہوتی ہے اور شرر تو کیاچنگاری بھی کم اہم نہیں ہوتی ؎ نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود (کلّیاتِ اقبال،ص582- ) اے کہ ہے زیرِ فلک، مثلِ شرر تیری نمود کون سمجھائے تجھے، کیا ہیں مقاماتِ وجود (کلّیاتِ اقبال،ص626- ) سمندر؍بحر اقبال زندگی کی وسعت کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک انسان کی ذہنی و فکری اور تخلیقی صلاحیتیں بے کراں ہیں تو پھر زندگی بھی بے کراں ہونی چاہیے ؎ ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے (کلّیاتِ اقبال،ص461- ) لیکن اس بے کرانی کے لیے اپنی حقیقت سے آگاہی ضروری ہے جو خودی کے اثبات سے ممکن ہے ؎ اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل! کہ تُو قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے (کلّیاتِ اقبال،ص220- ) بندگی میں گُھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی (کلّیاتِ اقبال،ص288- ) وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ (کلّیاتِ اقبال،ص600- ) خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص595- ) بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو یہ میری خود نگہ داری مرا ساحل نہ بن جائے (کلّیاتِ اقبال،ص350- ) رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے (کلّیاتِ اقبال،ص380- ) اقبال کے یہاں بحرِ بیکراں کی علامت خودی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے ؎ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جُو اسے سمجھا اگر، تو چارہ نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص376- ) سورج؍آفتاب سورج روشنی کاسرچشمہ بھی ہے اورحدت و حرارت کا منبع بھی۔ روشنی استعارہ ہے، ترقی و خوشحالی کا، جبکہ حدت و حرارت زندگی کو ظاہرکرتی ہے۔ اقبال نے ہمیشہ مردِ مسلماں میں شبوں کا گداز اور دنوں کی تپش طلب کی ہے۔ اقبال کے مطابق آفتاب اسی آئینِ حیات کی علامت ہے جس نے مسلمانوں کے لہو میں رچ بس کر دنیا کو رنگینیوں اور توانائیوں سے مالامال کردیا ؎ عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب (کلّیاتِ اقبال،ص441- ) قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے، نور کی ندیاں رواں (کلّیاتِ اقبال،ص438- ) سورج کی روشنی اور تحرک اقبال کے نزدیک مردِ مومن کی علامت بھی ہے ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے (کلّیاتِ اقبال،ص303- ) مثلِ خورشیدِ سحر، فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزاد، معانی میں دقیق (کلّیاتِ اقبال،ص641- ) اور جب سورج عشق کا متبادل بنتا ہے تو یہ کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس کی روشنی و حرارت لازوال ہوجاتی ہے ؎ عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے (کلّیاتِ اقبال،ص183- ) شاہین شاہین اقبال کی ایک ایسی علامت ہے جس کا استعارہ قدیم شاعری میں کہیں کہیں تشبیہاتی انداز میں ہوا ہے لیکن اقبال نے پہلی بار ’’شاہین‘‘ کو اپنے فکری نظام سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی علامتی جہتوں کو اُجاگرکیااور اسے ایک لافانی مقام عطاکردیا۔ شاہین دراصل انسانِ کامل کارمز ہے جو خودی کا علمبردار ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانِ کامل کی ایک خصوصیت فقر ہے جو خودی کی تکمیل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ فقر سے مراد رہبانیت نہیں بلکہ دنیوی جاہ و جلال اور مادی علائق سے بلند ہوکر اعلیٰ مقاصد کے لیے سرگرمِ عمل ہونا ہے۔ اقبال خود شاہین کے بارے میں لکھتے ہیں ؎ ’’شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیرت مند ہے، اور کے ہاتھ سے ماراہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلندپرواز ہے۔ خلوت پسند ہے۔ تیز نگاہ ہے۔‘‘(45) اس امر کا سراغ تو نہیں مل پایا کہ اقبال نے ژیٹس کو پڑھا تھایا نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ شاہین کو بیسویں صدی کے اس اہم انگریزی شاعر نے بھی بطور علامت استعمال کیا ہے۔ اسی طرح قازقستان کے شاعر آبائی کنن بائیف کا شاہین بھی قوت، جلال اور جمال کی علامت ہے۔ بلکہ اقبال کا شاہین علامتی ہے اور آبائی کا عقاب علامتی بھی ہے اور حقیقی بھی کہ خود آبائی عقاب پالتاتھا۔ وہ کہتا تھا کہ عقاب سُدھا نے والا جانتا ہے کہ عیار لومڑ کہاں رہتے ہیں اور وہ بھی تفریحِ طبع کے لیے شعرنہیں کہتا تھا، اقبال کی طرح ان نوجوانوں کے لیے لکھتا تھا جن کی حسیات بیدار ہوتی ہیں (46)۔دراصل شاہین کی صفات میں سے خوددار ی اور غیرت تو ایسی صفات ہیں جو تمام زندہ اقوام میں پائی جاتی ہیں مگر بے آشیانی کا تصور صرف امّتِ مسلمہ سے مخصوص ہے۔ مسلم فکر میں زمینی رشتے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے بلکہ اصل اور بنیادی اہمیت عقیدے کو حاصل ہے۔ اقبال کا شاہین اور قلندر دونوں اس صفت سے متصف ہیں۔ بلندپروازی بھی اسلامی فقر کا طرۂ امتیاز ہے۔ فقیر دنیوی مسائل اور مادی وسائل سے بلندہوجاتا ہے اور اعلیٰ ترین مقاصد کواپنا نصب العین بنالیتا ہے۔ اسی طرح سے خلوت پسندی بھی مسلم صوفیہ کا اہم شعار ہے۔ خلوت پسندی سے مراد دنیا سے علیحدگی نہیں بلکہ بے نیازی ہے اور ظاہر ہے کہ زندگی میں اعلیٰ نصب العین کے حصول کے لیے ایک منزل فکروتدبر کی ہے اور فکروتدبر کے لیے تخلیہ اور خلوت نشینی لازمی ہے۔شاہین کی تیز نگاہی بھی فقر ہی کا ایک الگ امتیازی وصف ہے اور یہی خوبی امت مسلمہ سے بھی مخصوص ہے جو اپنی تیزنگاہی اور باریک بینی کی بدولت حقیقت کی تہ تک رسائی حاصل کرتی ہے اور ہر مادی اور طبیعاتی دنیا سے آگے روحانی اور مابعدالطبیعاتی جہانوں کو اپنا مقصود قراردیتی ہے۔ شاہین کی علامت اقبال کے فلسفۂ خودی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اقبال کا مردِ مومن یا انسانِ کامل حرکت کا علمبردار ہے۔ اقبال جمود کو موت قراردیتے ہیں اورزندگی کے ارتقاء کو حرکت پذیری میں مضمر خیال کرتے ہیں۔ نیزان کا خیال ہے کہ اس حرکت پذیری کے لیے زندگی کو بے حداہمیت حاصل ہے جو زندگی کی رفتار کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے۔ اقبال کا شاہین ان تمام صفات کا حامل ہے۔ اسی طرح اقبال زندگی میں کائنات کی مختلف قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے قوت کو ایک لازمی وصف خیال کرتے ہیں۔ اقبال کا شاہین قوت کا رمز بھی ہے، لیکن اس کا مقصد کمزوروں کو دبانانہیں بلکہ باطل قوتوں کے ساتھ ٹکرانا ہے۔ شاہین کے ساتھ اقبال کرگس کا تلازمہ بھی لاتے ہیں۔ اقبال کے یہاں شاہین اور کرگس میں وہی تعلق ہے جو جگنو اور پروانے میں ہے۔ شاہین غیرت مند ہے۔ کسی اور کا مارا شکار نہیں کھاتا جبکہ کرگس مردارخور ہے۔ شاہین خودی کی ارفع صفات سے معمور ہے جبکہ کرگس نفیِ خودی کا رمز ہے۔ شاہین کی مختلف صفات اقبال کے یہاں دیکھئے ؎ نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر (کلّیاتِ اقبال،ص448- ) شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا (کلّیاتِ اقبال ،ص368- ) وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی (کلّیاتِ اقبال،ص355- ) ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہو گیا (کلّیاتِ اقبال،ص246- ) نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے شکارِ مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص372- ) اسی اقبالؔ کی میں جستجو کرتا رہا برسوں بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا (کلّیاتِ اقبال،ص386- ) فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری (کلّیاتِ اقبال،ص389- ) تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں (کلّیاتِ اقبال،ص390- ) ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تُو فروغِ دیدۂ افلاک ہے تُو ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تُو (کلّیاتِ اقبال،ص409- ) گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو (کلّیاتِ اقبال،ص437- ) ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ (کلّیاتِ اقبال،ص443- ) پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکارِ زندہ کی لذّت سے بے نصیب رہا (کلّیاتِ اقبال،ص494- ) بالِ جبریل کے درج بالا اشعار کے علاوہ اس مجموعے میں’’شاہین‘‘ کے عنوان سے اقبال کی ایک نظم موجود ہے۔ جس میں شاہین کی مختلف صفات، جن میں بلندپروازی،تحرک اور درویشی وغیرہ شامل ہیں ؎ کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ نہ بادِ بہاری، نہ گلچیں، نہ بُلبل نہ بیماریٔ نغمۂ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ (کلّیاتِ اقبال،ص495- ) شمع شمع کا تذکرہ اقبال کے اردو کلام میں کم و بیش بیس مرتبہ ہوا ہے۔ جبکہ چارنظموں میں شمع،شمع اور پروانہ، بچہ اور شمع،شمع اور شاعرمیں شمع موضوع کی حیثیت سے آتی ہے۔ موخّرالذکر نظم میں شمع نے واضح طورپر شاعرکاروپ دھارلیا ہے کہ جلنا ہے اور جلتے رہنا اس کی فطرت ہے۔ اسے پروانوں کو اپنے قریب لانے کا شوق نہیں بلکہ پروانوں کا جلنا شمع کے داخلی، بے ساختہ سوز کا ایک قدرتی حاصل ہے ؎ حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو ملنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو (کلّیاتِ اقبال،ص77- ) ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمعِ مزار تُو ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو (کلّیاتِ اقبال،ص75- ) دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن نہ تری حکایتِ سوز میں نہ مری حدیثِ گداز میں (کلّیاتِ اقبال،ص313- ) فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس (کلّیاتِ اقبال،ص457- ) شمع کی طرح جیئیں بزم گہِ عالم میں خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں (کلّیاتِ اقبال،ص158- ) شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے (کلّیاتِ اقبال،ص213- ) شمع تو محفلِ صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص73- ) یہ تلاشِ متّصل شمعِ جہاں افروز ہے تو سنِ ادراک انساں کو خرام آموز ہے (کلّیاتِ اقبال،ص54- ) پھر یہ انساں آں سرِ افلاک ہے جس کی نظر قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر جو مثالِ شمع روشن محفلِ قدرت میں ہے آسماں اِک نقطہ جس کی وسعتِ فطرت میں ہے (کلّیاتِ اقبال،ص261- ) صحرا ’’صحرا‘‘اقبال کے نزدیک وہ خوش نصیب خطۂ ارض ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیداہوئے۔ جس کے کشادہ افق سے امّتوں نے طلوع کیا۔ جس زمین کو اقبال کے محبوب کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے۔ مسکنِ محبوب ہونے کے علاوہ صحرائی کشادگی یوں بھی اہلِ جنوں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ صحرا کے متعلقات میں کلامِ اقبال میں کارواں،راہی، محمل، ناقۂ لیلی، قیس، آہو، طناب، خیمہ اور اس قبیل کے جملہ الفاظ مجموعی طورپر ۳۲۵بار برتے گئے ہیں۔ کارواں قومی اور ملی زندگی کے اجتماعی تحرک کا ترجمان بھی ہے۔ اقبال نے کارواں، امیرِ کارواں، بانگِ درا، منزلِ راہی، راہی کے کلمات کو مسلمانوں کی حالت بیان کرنے کے لیے اوراپنے پیغام کے اظہار وابلاغ کے لیے زیادہ موزوں پایا۔ چندمثالیں ملاحظ ہوں ؎ پھول بے پروا ہیں تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آوازِ درا ہو یا نہ ہو وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا (کلّیاتِ اقبال،ص213-214- ) کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی (کلّیاتِ اقبال،ص355-370- ) پَرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے (کلّیاتِ اقبال،ص299- ) ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال!ؔ اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل میں ہوں (کلّیاتِ اقبال،ص132- ) قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا غیرِ یک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا (کلّیاتِ اقبال،ص235- ) اس سفر کا ایک پہلو حرکت و تفسیر ہے جو اقبال کے بنیادی افکار میں شامل ہے ؎ ہر شے مسافر، ہر چیز راہی کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی (کلّیاتِ اقبال،ص382- ) اقبال کے یہاں صحرا کے حوالے سے آہو وغیرہ کے الفاظ بھی اقبال کی صحرا سے دلچسپی کو ظاہرکرتے ہیں۔ اقبال مردِ مسلمان کے لیے آہو کا کلمہ استعمال کرتے ہیں ؎ بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے (کلّیاتِ اقبال،ص241- ) اقبال کے نزدیک انسان ذرہ نہیں بلکہ اس میں صحرا سمٹا ہوا ہے۔ یہ صحرا عشق کے ذریعے ہی منکشف ہوسکتا ہے ؎ اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرّہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے (کلّیاتِ اقبال،ص206- ) عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے مشتِ خاک ایسی نہاں زیرِ قبا رکھتا ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص149- ) عشق؍عقل؍علم اقبال کا تصورِ عشق اردو شاعری کی روایت سے بالکل مختلف ہے۔ وہ خود عقل اور عشق کو حریف قراردیتے ہیں۔ عشق قوتِ عمل اور جوشِ انقلاب سے عبارت ہے اور اس کا مقصدِ اولیٰ زمانے کو اپنی آرزو کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اقبال کے خیال میں ماہیتِ وجود کا عرفان محض حسی ادراک یا منطقی عقل سے نہیں ہو سکتا۔ ادراک اور عقل وجود کا طواف تو کرسکتے ہیں لیکن حریمِ ذات میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ عشق ہی کی بصیرت ہے جس میں شاہدومشہود کی وحدت کا ادراک ہوتا ہے۔ عشق ماہیتِ اشیاء کے باطن سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور محض خارج سے اس کا مشاہدہ نہیں کرتا۔ اقبال کے نزدیک عشق انسانی جذبات میں سب سے زیادہ طاقتورجذبہ ہے جس سے کائنات مسخرکی جاسکتی ہے۔ جس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی۔ عشق ایک ایسی دُھن یا لگن کا نام ہے کہ جس میں انسان کو مقصد کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ ایک تندوتیزسیلاب کے مانند ہے اور ہر قسم کی رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے ؎ ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید، عشق عقلِ انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید، عشق (کلّیاتِ اقبال،ص183- ) نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں عشق کی تخلیقی صلاحیتوں کو اقبال بڑی خوبصورتی سے واضح کرتے ہیں ؎ ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو عشق خود ایک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دمِ جبرئیل، عشق دِل مصطفی عشق خدا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق ہے نُورِ حیات، عشق ہے نارِ حیات (کلّیاتِ اقبال،ص420-421- ) اقبال عشق سے سوزِ زندگی کا اثبات کرتے ہیں ؎ عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے (کلّیاتِ اقبال،ص183- ) عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات (کلّیاتِ اقبال،ص439- ) اقبال عشق میں ایک خاص صفت اثباتِ وجود دیکھتے ہیں۔ ضرب کلیم سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے مہ و ستارہ مثالِ شرارہ یک دو نفس مئے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا تیرے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے (کلّیاتِ اقبال،ص578- ) اقبال عشق کے امتیازات کی وضاحت ضربِ کلیم میں موجود نظم’’علم وعشق‘‘ میں بھی کرتے ہیں جہاں عشق اثباتِ ذات، عمل، قوت و اقتدار اور تمام علوم کا ماخذ قرارپاتا ہے ؎ علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تخمین و ظن بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں عشق کے ادنیٰ غلام، صاحبِ تاج و نگیں عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمین عشق سراپا یقیں اور یقین فتح یاب شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام شورشِ طوفاں حلال، لذّتِ ساحل حرام عشق پہ بجلی حلال، عشق پر حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے امّ الکتاب (کلیاتِ اقبال،ص532-533- ) عشق اور عقل کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال عشق کو ہر طرح کی مصلحت سے بالاتراور ہرمنظر سے بے نیاز قراردیتے ہیں ؎ پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی (کلّیاتِ اقبال،ص310- ) چنانچہ عشق کی اپنی خصوصیات کی بناپر وہ دیارِ عشق میں نام پیداکرنے کا مشورہ دیتے ہیں ؎ دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر (کلّیاتِ اقبال،ص443- ) یہاں یہ واضح رہے کہ دل محلِّ عشق ہے اس لیے عقل اور دل کا مقابلہ بھی دراصل عقل اور عشق کا مقابلہ ہے۔ جب عقل یہ کہتی ہے کہ میں خضرِ خجستہ پا کی مانند ہوں، کتابِ ہستی کی مفسّر ہوں تو جواب میں دل کا موقف ملاحظہ کیجئے ؎ علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں شمع تو محفلِ صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں میں تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں (کلّیاتِ اقبال،ص72- ) فقر اقبال کے کلام میں فقر بھی تصوف کی وہ اصطلاح نہیں جو عجز، بے بسی اور افلاس سے متعلق ہے بلکہ یہ مردِ مومن کا مال و دولتِ دنیا سے استغنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زمانہ ستیزی کا معلّم بھی۔ اقبال کا صاحبِ فقر یعنی مردِ قلندر صرف اپنی ذات کو کثافتوں سے محفوظ نہیں کرتا بلکہ ایجاباً اپنے زمانے سے ٹکرلیتا ہے اور اقدارِ مروجہ کی جگہ بزور قوت نئی اقدارقائم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اقبال فقر کی تفسیر حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت ابوذرغفاریؓ اور حضرت امام حسینؓ کے ذریعے کرتے ہیں۔ غزوۂ تبوک کاحوالہ دے کر، جب حضرت ابوبکرؓ تمام تر سامان خدا کے راستے پر لٹانے کے لیے آئے تھے، اقبال یہ کہتے ہیں ؎ پروانے کو چراغ تو بُلبل کو پھُول ،بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول ،بس (کلّیاتِ اقبال،ص252- ) حضرت ابوذرغفاریؓ کی ساری زندگی فقر پرعمل کرتے گزری۔ وہ یہ خصوصیت مسلمانوں میں بھی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ اقبال کے نزدیک قیصروکسریٰ کے استبداد کو ختم کرنے کے محرکات میں فقر بھی شامل ہے ؎ مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا؟ زورِ حیدر، فقرِ بوذر، صدقِ سلمانی (کلّیاتِ اقبال،ص301- ) اور حضرت امام حسینؓ جنہوں نے اپنی جان و مال، عزیزواقارب سبھی کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا، آپ کا فقر اقبال مردِ مسلماں کی میراث سمجھتے ہیں ؎ اِک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیری (کلّیاتِ اقبال،ص490- ) یوں فقر کی علامت سب کچھ قربان کرنے کی صلاحیت کو بھی ظاہرکرتی ہے اور مدّمقابل کو شکست سے دوچارکرنے کی قوت کا اظہار بھی کرتی ہے۔ کلیم اقبال کے اردو کلام میں طُور اور اس کے متعلقات کا ذکر۸۰بارآیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اقبال کو کوہِ طُور، حضرت موسیٰ ؑ،تجلی وغیرہ سے کس درجہ لگائو تھا۔ وہ گلِ رنگیں کو دیکھتے ہیں تو برگِ ریاض طُور کا احساس ہوتا ہے ؎ میری صورت بھی تو اِک برگِ ریاضِ طُور ہے میں چمن سے دُور ہوں تو بھی چمن سے دُور ہے (کلّیاتِ اقبال،ص54- ) شمع و پروانہ میں پروانے کے بارے میں اقبال کا تصور ملاحظہ ہو ؎ کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے چھوٹا سا طور تو، یہ ذرا سا کلیم ہے (کلّیاتِ اقبال،ص72- ) بانگِ درا کے آخر میں صور ت ِحال مختلف نظرآتی ہے ؎ کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم اپنی ہستی میں عیاں شعلۂ سینائی کر (کلّیاتِ اقبال،ص331- ) کھلتے نہیں اس قلزمِ خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چیرے (کلّیاتِ اقبال،ص497- ) رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد (کلّیاتِ اقبال،ص396- ) اقبال کے یہاں کلیم ایک ایسے کردار کی علامت بن کر ابھرتا ہے جس کی وساطت سے حسنِ گریزپا کی جگہ قوت اور اقتدار کی گرفت اقبال کے ذہن پر بڑھتی نظرآتی ہے۔ جمال کی جگہ جلال لیتا ہے اور انفعالیت، فعالیت میں تبدیل ہوتی نظرآتی ہے۔ لالہ جن پرانی علامتوں کو اقبال نے نئی معنویت سے ہمکنار کیا ہے۔ ان میں لالہ ایک اہم علامت ہے۔ لالہ اقبال کے فکری نظام سے مکمل طورپر مربوط ہے۔ لالٰۂ صحرااِن کے یہاں عرب کی ثقافت کے طورپرابھرا ہے۔ آگے بڑھ کر یہی علامت امّتِ محمدیہ کا حوالہ بنتی ہے۔ لالہ اقبال کے یہاں رمزِ جمال بھی ہے۔ اسی طرح لالہ کلامِ اقبال میں کبھی کبھی عشق کی علامت بھی بنتا ہے۔ وہ لالہ کے ساتھ جلالی اور جمالی ہر دو طرح کی صفات منسوب کرتے ہیں۔ یہی دو صفات اقبال کے مردِ مومن میں پائی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں چراغِ لالہ کی ترکیب استعمال کرکے اقبال لالہ کے حوالے سے نُور کا احساس کرتے ہیں اور یوں لالہ روشنی، خیراور علم کا رمز بھی ہے۔ اقبال کے اردو کلام میں بانگِ درا کے حصہ اول یعنی1905ء تک کی شاعری میں لالہ کا تذکرہ نہیں ملتا۔ بانگِ درا کے دوسرے دور کی شاعری میں ہم لالہ کی علامت سے متعارف ہوتے ہیں ؎ حسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے (کلّیاتِ اقبال،ص150- ) یہاں لالہ کی علامتی حیثیت ابھی واضح نہیں ہے۔ لالہ کی علامتی حیثیت کی وضاحت ’’بلادِ اسلامیہ‘‘ میں ملتی ہے ؎ یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز (کلّیاتِ اقبال،ص171- ) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کو امتِ محمدیہ اور لالہ کے درمیان بہت سے مشابہتیں نظرآتی ہیں ؎ اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینہ میں رکھتے ہیں وہ لالے ہی نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص198- ) بالِ جبریل میں لالہ کی علامت مزیدوسعت اختیارکرتی ہے اور اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے، کی نمائندگی کرتی نظرآتی ہے ؎ میری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی (کلّیاتِ اقبال،ص353- ) اقبال اپنی نظم’’لالۂ صحرا‘‘ میں امتِ محمدیہ اور لالہ کی مشابہتیں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ؎ خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اِک جذبۂ پیدائی،اِک لذّتِ یکتائی اے بادِ بیابانی، مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی (کلّیاتِ اقبال،ص449- ) امتِ محمدیؐ کے تمدن و ثقافت، افکار وعقائد اس وقت تک صحت مند و توانارہے جب تک عرب کے بیاباں میں رہے۔ عجم، عراق اور ہندوستان میں یہ لالۂ صحرائی نہ پنپ سکا۔ لالہ کا سُرخ رنگ اقبال کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ غالباً اس لیے کہ یہ بیک وقت جذبات کی شدت، زندگی کی حدت و حرارت اور حسن و نکھار کا مظہر ہے۔ پھر لالہ کا سیاہ داغ جو سوزِ دروں کی علامت ہے، اس کا خود رَو ہونا کہ اس طرح وہ اپنی حنا بندی کے لیے کس غیر کی مشاطگی کا محتاج بنے اور لالہ کا صحرا سے متعلق ہونا کہ صحراور صحرائی زندگی سے اقبال کو جو خصوصی لگائو تھا، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ملّتِ اسلامیہ یا ہیئتِ ملتِ اسلامیہ کے علاوہ شاعر نے تہذیبِ حجاز کے لیے لالۂ صحرائی کو برتا ہے۔ لالہ کی جملہ صفات کو سامنے رکھتے ہوئے تہذیبِ حجاز کی وہ خصوصیت سمجھنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے جو عام طور سے اقبال کا مقصودِ نگاہ ہیں اور جن کی خصوصیات کی کمی کی بنا پر عجم کی اصطلاح کا مفہوم کلام اقبال میں متعین ہوتا ہے۔اقبال سمجھتے ہیں کہ لالہ بادِبیابانی میں ہی پنپ سکتا ہے۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں ؎ پنپ سکا نہ خیاباں میں لالہء دل سوز کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم و جَو (کلّیاتِ اقبال،ص399- ) چمن میں رختِ گل شبنم سے تَر ہے سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے (کلّیاتِ اقبال،ص410- ) چنانچہ اقبال ثقافتِ اسلامی کے سرچشمہ کی طرف پلٹتے ہیں جو ان کے موقف کے مطابق صحرائے عرب ہے ؎ خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے (کلّیاتِ اقبال،ص432- ) ضربِ کلیم میں اقبال محسوس کررہے تھے کہ ان کا کلام اسلامیانِ ہند پر اثراندازہورہا ہے چنانچہ وہ فخریہ کہتے ہیں ؎ مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا نسیمِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ابھی (کلّیاتِ اقبال،ص654- ) نَے؍نے نوازی اقبال نے نَے نوازی کو شعر گوئی کی علامت کے طورپر استعمال کیا ہے ؎ وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی (کلّیاتِ اقبال،ص354- ) اقبال اپنے کلام سے سننے والوں کے دل میں گرمی پیداکرناچاہتے ہیں۔ بقول سیدعابدعلی عابد: ’’نَے دراصل فنونِ لطیفہ کی علامت ہے لیکن اس کا تعلق خاص طورپر شعر سے ہے۔ اقبال کے کلام میں نَے نوازی شاعری ہے۔ نے نواز یعنی شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے ہم قوموں کے دلوں کو گرمادے اور ان سوئے ہوئے ولولوں کو جگائے جن سے زندگی عبارت ہوتی ہے۔‘‘(47) آیا کہاں سے نالۂ نَے میں سرورِ مے اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چَوبِ نَے! جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے (کلّیاتِ اقبال،ص627- ) کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ طبیعت غزنوی، قسمت ایازی (کلّیاتِ اقبال،ص407- ) اقبال کی تمثال نگاری اور پیکرتراشی میں بھی علامتیں کارفرماہیں۔ اقبال نے ایسی تمثالوں کو پھر سے اہمیت دی جو دنیا کے حافظے سے محوہوچکی تھیں۔ ایسے کردار جو تاریخ کے صفحوں میں کہیں گم ہوچکے تھے ،اقبال نے انھیں اپنے شعروں میں یوں برتا کہ وہ زندۂ جاوید ہوگئے۔ اقبال کی پیکرتراشی منفرد ہی نہیں ہمہ جہت اور متحرک بھی تھی۔ جیسے انسان کی خودی کا تصور کہ جس کی رسائی کی کوئی حد نہیں۔ ازل اس کے پیچھے ہے تو ابد سامنے ہے جسے زمان و مکاں کے پیمانوں میں قید نہیں کیاجاسکتا۔ ایسا ہی ایک کردار اس مومن کا ہے جو خودی کی تجسیم ہے ؎ افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشمکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن (کلّیاتِ اقبال،ص506- ) اقبال نے عصر یا زمانے کو ’’تارِحریر دورنگ‘‘ کی مثل کہا جو اقبال کی تصوریت یا تمثال نگاری کی شعریت اور معنی خیزی کے کمال کو ظاہر کرتی ہے۔ این۔ میری شمل نے اس علامت سے خالقِ کل کے حوالے سے یہ سمجھا کہ اس نے وقت کو دو مختلف رنگوں میں رنگا ہے جو قدیم ایرانی تصورات کے مطابق وقت کے تصور کے ابہام کو ظاہر کرتی ہے کہ جو انسانی جہدوعمل سے قطع نظر انسان کی جزاورسزا کا فیصلہ کرتا ہے۔(48) اقبال مانوس تمثالوں کو پرانے خیالات دہرانے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ اقبال کی فطانت اور وہبی صلاحیت ان علامتوں ،تمثالوں اور پیکروں میں نئی گہرائی، گیرائی اور معنوی امکانات کے در وا کرتی ہے۔ اقبال نے اپنی طویل نظموں میںجدید مغربی نظم نگاروں کو محبوب ڈرامائی کیفیات سے مملو کہانی اور وقوعے کی فضا تشکیل دی ہے۔ وہ نئے استعارے دریافت کرتے ہیں اور پرانے کرداروں کو نیا روپ بھی دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ابلیس کو ایک نئے مگر جاندار کردار کے طورپر پیش کیا ؎ گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو! (کلّیاتِ اقبال،ص۔474-475 ) یہاں تک کہ اقبال کا محبوب بھی روایتی نہیں اور نہ ہی آپ اسے عورت کے روپ میں دیکھتے ہیں کہ وہ اس منزل سے کہیں ارفع منزل پر فائز ہیں جو بیان کے جوش، رمزیت کی رفعت اور بلا کی ایمانی قوت سے ملا کرتی ہے ؎ حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں (کلّیاتِ اقبال،ص۔345 ) اقبال کی علامت نگاری اور تمثالیت اس کی ایسی تشبیہوں میں ظاہر ہوتی ہے جو ہمارے سامنے کی ہیں اور ہماری محسوسات سے بہت قریب بھی ہیں جیسے ؎ جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں (کلّیاتِ اقبال،ص110- ) پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی ، آئینہ دیکھتا ہو (کلّیاتِ اقبال،ص ۔79) وہ اپنی ان متحرک تصویروں سے غیر ذی روح چیزوں میں یوں جان پیدا کردیتے ہیں کہ وہ ہمیں چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔ اقبال کی ڈرامائی کیفیات بھی انسانی فطرت کے بہت قریب ہیں، اگرچہ بلندآہنگ ہیں۔ ان کی خودکلامی بھی ایک نوع کی تمثال نگاری ہے جس میں کہانی کا رنگ ہے اور کردار آپس میں عصری موضوعات پر سنجیدہ مکالمہ کرتے ہیں۔ اقبال کی تمام شاعری گواہ ہے کہ عصر، عشق، ایمان اور فن کے امتزاج سے اقبال نے عشقِ ایماں اور فن کو اپنی تمثالوں، علامتوں، استعاروں، تشبیہوں اور رمزوں سمیت اتنی بسیط سطح پر مدغم کیا ہے کہ ان میں کہیں کوئی جوڑ نظرنہیں آتا۔ گزشتہ صفحات میں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی یہ علامات ان کی فکر سے مربوط ہیں اور کلامِ اقبال کی تفہیم میں بنیادی کردار اداکرتی ہیں۔ جب تک ان علامتوں کا مفہوم قاری پر واضح نہ ہو، کلام اقبال کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اقبال کی علامات کوئی معمہ یا چیستان نہیں جو فہمِ انسانی کے احاطے سے باہرہوبلکہ اقبال کی یہ علامات اسلامی مابعدالطبیعات سے اخذ کی گئی ہیں۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو فلسفۂ اسلام سے آگاہ ہے اس کے لیے کلامِ اقبال میں موجود علامات کو سمجھنا بہت سہل ہے اور ان علامات کی معنویت تک رسائی حاصل کرنا مشکل نہیں۔ یوں اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامات کا دائرہ مکمل ہوتا ہے اور یہ کہاجاسکتا ہے کہ اقبال کے افکار کی مکمل تفہیم کے لیے لازم ہے کہ ان علائم کی تعبیر کی جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلام اقبال کی تفہیم جس قدر وسعت اختیارکررہی ہے اسی اعتبار سے فکرِ اقبال کے گوناگوں اثرات بھی نمایاں ہورہے ہیں۔ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے کلامِ اقبال چراغِ منزل کا کام دے رہا ہے اور اس عمل میں شریک شعرا اپنی اپنی بساط کے مطابق اس سے کسبِ نورکررہے ہیں۔ اقبال کی شاعری کا نظامِ رموز و علائم ان کے یہاں ارتقاء اور وسعت کے امکانات پورے کرتا ہے اور اپنی جامعیت کے باعث بعد کے شعرا کے لیے مینارۂ نور تو ہے لیکن اسے اختیارکرنا کارِ محال بھی ہے۔ حواشی و حوالہ جات 1. The New Encyclopedia of Britannica: London. 15th Edition, Vol 17, 1973-74, P.900. 2. The Encyclopedia of Americana, Grolier Incorporated, Danbury, Vol.26, 1972, P. 166. 3. Webster's Encyclopedic Unabridged Dictionary of the English Language: New York; Gramercy Books, 1989, P.14. 4. J.A. Cuddon: Dictionary of Literary Terms and Literary Theory; Penguin Books, London. 1975, P.276. 5. Charles Chadwick: Symbolism; W.W; London. 1973, P.41. 6. William York Tindall: The Literary Symbol: Indiana University Press: 1960, P.12. -7 عبدالمتین عارف: امکانات، لاہور، ٹیکنیکل پبلشرز، اردوبازار، 1975 ،ص۔135 ۔ -8 بحوالہ مقالہ ’’نثری نظم اور اس کی تکنیک‘‘ از فخرالحق نوری، مشمولہ مجلہ ’’القلم‘‘ گورنمنٹ کالج ،پتوکی،1966 ، ص۔26 ۔ -9 (ڈاکٹر)وزیرآغا:اردو شاعری کا مزاج، لاہور، مکتبۂ عالیہ،1978 ،ص43- ۔ -10 (ڈاکٹر)ابنِ فرید: میں، ہم اور ادب، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، 1977 ، ص21,22- ۔ -11 جیلانی کامران: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ، مشمولہ ادبی دنیا، لاہور، شمارہ11،1968 ،ص233- ۔ -12 ایضاً:ص۔238 ۔ -13 (ڈاکٹر)سجادباقررضوی: تہذیب و تخلیق، لاہور، مکتبۂ جدید، 1966 ء ،ص58- ۔ -14 شادامرتسری: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ ادبی دنیا، لاہور، شمارہ11 ،1968 ء ،ص۔231-32 ۔ -15 (ڈاکٹر)وزیرآغا: علامت کیا ہے؟ مقالہ،مشمولہ’’علامت‘‘، لاہور، جنوری1996 ئ،ص14- ۔ -16 (ڈاکٹر)محمداجمل: مقالاتِ اجمل مرتبہ: شیمامجید،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،لاہور، 1987،ص۔144 ۔ -17 (ڈاکٹر)سلیم اختر:تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،1989 ء ،ص۔118 ۔ -18 شمیم احمد: طلسم ہوشرباکی علامتی اہمیت، مقالہ،مشمولہ’’نیادور‘‘ کراچی شمارہ23-34 ،ص۔321 ۔ 19. J.A Cuddon: op.cit. P.413. -20 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان ، محمدسلیم الرحمن( مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات، شعبہ اردو ،جی۔ سی۔ یونیورسٹی، لاہور، طبع اول ، 2005 ، ص۔113 ۔ -21 ایضاً:ص۔166 -22 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1- (ادبیات): قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی، طبع اول،2003 ،ص۔391 ۔ -23 ایضاً:ص۔117-118 -24 (ڈاکٹر)نورالحسن ہاشمی: دلّی کا دبستانِ شاعری، بک ٹاک، لاہور، 1991،ص35۔ -25 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی: لکھنؤ کا دبستانِ شاعری، غضنفراکیڈمی،کراچی، 1987،ص74- ۔ -26 (ڈاکٹر)نورالحسن ہاشمی:کتاب مذکور، 1991 ،ص۔113 ۔ -27 انتظارحسین:علامتوں کا زوال، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،1983 ،ص۔54 ۔ -28 محمدحسین آزاد: نظمِ آزاد، شیخ مبارک علی اینڈ سنز، لاہور، س ۔ن،ص۔27 -29 ایضاً:ص۔-24 -30 ایضاً:ص۔24 ۔ -31 الطاف حسین حالی، مقدمہ شعروشاعری، کشمیرکتاب گھر،لاہور، 1978 ، ص58- ۔ -32 ایضاً:ص۔94 ۔ -33 (ڈاکٹر)وحیدقریشی، صحیفہ، شمارہ نمبر2، س ن،ص۔ 8 ۔9 -34 (ڈاکٹر)خواجہ محمدزکریا: اکبرالٰہ آبادی، سنگ ِمیل پبلی کیشنز، لاہور، 1986 ، ص۔266 ۔ -35 بلراج کومل: شاعری میں علامتوں کا مسئلہ، مقالہ ادبی دنیا، لاہور، شمارہ11 ،1968 ، ص۔223 ۔ -36 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا مذکور، ص۔ 18 ،117۔ -37 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔602 ۔ -38 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔14 ،13۔ -39 جامع اردو انسائیکلوپیڈیامذکور، ص۔88 ۔ -40 (ڈاکٹر)سجادباقررضوی:علامہ اقبال اور عرضِ حال، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، 1994ء ، ص۔13 ۔ -41 (ڈاکٹر)سلیم اختر: اقبال کی فکری میراث، بزمِ اقبال،لاہور، 1996 ء ، ص۔7 ۔ -42 وزیرالحسن عابدی، اقبال کے شعری ماخذ، مجلس ترقی ادب، لاہور،1977 ء ، ص۔14 ۔ -43 (ڈاکٹر ) سعداللہ کلیم: اقبال کے مشبہ بہ، مستعار منہ، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، 1985ئ،ص۔30 ۔ -44 بحوالہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ مرتّبہ: اے۔ جی۔ نیازی: عشرت پبلشنگ ہائوس، لاہور، 1965ء ، ص19 ۔ -45 بحوالہ اقبال نامہ( حصہ اوّل) مرتّبہ شیخ عطاء اللہ: شیخ اشرف اینڈ سنز، لاہور،س ن، ص۔204 ۔ 46۔ آبائی کننبائف: محبت روشن رہتی ہے، مترجمہ: خالد اقبال یاسر، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، 1995 ء ،ص۔85 ،35 ،9 ۔ -47 سیدعابدعلی عابد: شعرِ اقبال، بزمِ اقبال،لاہور، 1977 ئ،ص405 ۔ 48- Dr. Anne-marie Schimmel, : Gabriel's Wings, E.T.Brill, Leiden, 1963, P.295. ٭٭٭ باب چہارم ادبی۔ فکری تحریکیں اور اقبال کی شاعری اب تک ان فکری روایات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں اقبال کی شاعری پر مرتب ہوئے۔اس کے تسلسل میں اب ہندوستان کی شعری روایت کا جائزہ لیا جائے گا اور اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ اقبال نے اپنے عہد سے پہلے آنے والے کس کس شاعر سے فکری اور فنی سطح پر اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اس کا مقصد اردو شاعری کے ارتقاء کے حوالے سے اقبال کے شعری قدو قامت اور اہمیت کا اندازہ لگانا ہے۔ دنیا کے تمام جانے پہچانے عظیم شعراء اپنے پیش رو شاعروں سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ان سے فکری اور فنی سطحوں پر متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال بھی دوسروں سے مختلف نہیں۔ اپنے پیش رو شعراء کے اثرات قبول کرنے سے شاعری توانا اور معنی آفریں ہوتی ہے اور شاعر ایک بھر پور شعری روایت کے تسلسل میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ماضی کے عظیم شعراء کی فکری اور شعری دین پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں چند اور ادبی و فکری تحریکات کا ذکر بھی آئے گا جن سے اقبال متاثر ہوئے۔ یوں اقبال کی شاعری کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ کلاسیکی شعراء اور اقبال اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں خود کو صرف اردو شاعری کی روایت تک ہی محدود نہیں رکھنا پڑتا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فارسی اور انگریزی ادب کو بھی مدِّ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس میں خصوصیت سے فارسی ادب دو وجوہات کی بنیاد پر ضروری ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اقبال نے فارسی شعر سے فکری اور فنی سطح پر اکتسابِ فیض کیا ہے اور اس کا اقرار اقبال نے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ دوسرے خود اقبال کی شاعری کا ایک بڑا حصہ فارسی زبان میں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ فارسی شعر و ادب کو کتنی اہمیت دیتے تھے اور نہ ہی اس کے جائزے کے بغیر اقبال کا مطالعہ مکمل کہا جا سکتا ہے۔ بات کو اگر فارسی شعرا سے شروع کریں تو سب سے پہلا اور اہم نام مولانا روم کا آتا ہے جسے خود اقبال پیرِ رومی کہتے ہیں اور ان کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اقبال نے فکری سطح پر مولانا سے بہت فیض اٹھایا ہے۔ مولانا کی مثنوی صدیوں تک مسلم گھرانوں میں ایک معتبر کتاب رہی ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے قرآن در زبانِ پہلوی بھی قرار دیا ہے۔ چونکہ اقبال کا مسئلہ بھی مسلم امّہ کو زوال سے نکال کر بلندی سے ہمکنار کرنا تھا ٗ اس لیے ان کا مولانا روم سے متاثر ہونا یقینی امر تھا۔ اپنی طویل نظم ’’جاوید نامہ‘‘ میں وہ اپنے مرشد کے ہمراہ جس سیر پر نکلتے ہیں ٗ اس کی بدولت ہی ہم ان پر مولانا کے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں۔ حافظ دوسرا اہم شاعر ہے جس کا اقبال کے ساتھ موازنہ ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان سے یورپ گئے تو حافظ کے بے شمار اشعار انھیں ازبر تھے ٗ اسی لیے ایک بار عطیہ فیضی نے انھیں حافظ کا حافظ قرار دیا۔ حافظ کے شعری کمالات سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال ان کی فکر سے بھی متاثر تھے جن میں تصوف کے وحدت الوجودی مکتبہء فکر کے تصوّرات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن یورپ سے واپسی کے بعد ان کے تصورات میں گہری تبدیلی واقع ہوئی۔ جب انہوں نے اسبابِ زوالِ امت پر غور کیا تو ایک وجہ انھیں مسلم معاشرے پر وحدت الوجودی فکر کی صورت میں نظر آئی۔ سو اقبال نے حافظ اور وحدت الوجود کے مکتبۂ فکر کو رد کیا۔ مثنوی اسرارِ خودی اور خاص طور پر اس مثنوی کے دیباچے پر (جسے بعد میں حذف کر دیا گیا) ہونے والی بحث ٗ جس میں اکبر الٰہـ آبادی اور خواجہ حسن نظامی جیسے افراد نے اقبال کے خلاف قلم اٹھایا۔ اقبال نے اس حوالے سے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کیا۔(1) اسی طرح ہم سنائی ٗ عرفی ٗ فیضی اور بیدل کے ساتھ بھی بعض حوالوں سے اقبال کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اردو شاعری کے ابتدائی نقوش کی بازیافت کی کوشش کریں تو بات صدیوں پیچھے تک جا سکتی ہے اور خصوصی طور پرا میر خسرو کے ہاں ایسے کئی اشعار مل جاتے ہیں جنھیں ہم اردو کی ذیل میں رکھ سکتے ہیں مگر ولی ایک ایسا شاعر ہے جس کی ادبی حیثیت مسلم ہے اور جس سے اردو کی شعری روایت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ ولی ہی نے ابتدائی اردو غزل کے ایسے سانچے فراہم کیے جو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی ہمیں معاصر شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ولی کے بعد میر تقی میر آتے ہیں کہ شاعروں اور نقّادوں نے انہیں خدائے سخن قرار دیا ہے۔ میر کا رنگِ شاعری اتنا پختہ اور ارفع ہے کہ موجودہ صدی میں فراق ٗ ناصر ٗ ابن انشاء اور بے شمار شاعر ان کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ حتی کہ غالب جیسا شاعر بھی ان کے اثرات سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ اس کی وجہ میر کا شعری اسلوب اور تخلیقی ترفع ہے جس کا جواب اردو میں پیدا نہیں ہو سکا۔ اقبال کے ہاں ہمیں میر کے اثرات نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ابتدائی زندگی میں اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کی۔ داغ کی شاعری میں زبان اور معاملاتِ حسن و عشق دو اہم عناصر ہیں۔ لیکن داغ کا عشق ٗ میر کے عشق سے مختلف کیفیت کا حامل ہے۔ بعد میں جب اقبال یورپ سے واپس آکر زوالِ امت پر غور کرنے لگا تو تب بھی میر ان کی طبع سے مناسبت نہ رکھنے کے باعث ان سے دور ہی رہا۔ اگر اقبال نے میر کے عہد کے کسی فرد سے اثرات قبول کیے ہیں تو اس کا نام سودا ہے۔ سودا کے ہاں دو کیفیات بہت نمایاں ہیں۔ ایک نشاطیہ رجائیت اور دوسرا بلند آہنگی۔ اقبال جس نوعیت کی مقصدی شاعری کا قائل تھا اس کے لیے یہ دونوں عناصر بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ میر اور سودا کے فرق کو مندرجہ ذیل دو اشعار سے واضح کر سکتے ہیں۔ جو ہر تذکرے میں مل جاتے ہیں ؎ سرھا نے میرؔ کے آہستہ بولو ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے o سوداؔ کے جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت خدّامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے سودا کے شعر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا مزاج اقبال سے بہت قریب تھا۔ اس لیے اقبال نے سودا کی شاعری کے دونوں رنگوں یعنی نشاطیہ رجائیت اور بلند آہنگی کو قبول کیا ہے۔ یہ امر بھی ثابت ہے کہ اقبال نے ابتداء ہی میں سودا کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا اور کلیاتِ سودا ایک مدّت تک ان کے زیر مطالعہ رہی۔(2) اقبال نے ایک جگہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’میں نے ہیگل‘ گوئٹے ٗ مرزا غالب ٗ عبدالقادر بیدل اور ورڈز ورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘ (3) بیدل ،غالب کا بھی محبوب شاعر رہا ہے اور اقبال کی اس سے دلچسپی کا اندازہ ان کے ایک مقالے بیدل ،برگساں کی روشنی میں، سے لگایا جا سکتا ہے۔ (4) اردو شاعروں میں اقبال جس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ غالب ہے۔ غالب اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا شاعر ہے جس نے گہرے فلسفیانہ مضامین کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس لیے جب اقبال نے شاعری میں فلسفیانہ مضامین سمونے کی کوشش کی تو اس کی نظر بلا ارادہ غالب پر پڑی۔ غالب کی عظمت اور اقبال کے نزدیک ان کی اہمیت کا اندازہ اس نظم سے بھی ہوتا ہے جو اس نے غالب کے بارے میں لکھی ہے اور بانگِ درا میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جاوید نامہ میں اقبال نے مسلم تاریخ میں سے جن تین کرداروں کو چنا ہے ان میں سے ایک غالب بھی ہے۔ ۱۵ فروری ۱۹۳۷ء کو انجمنِ اردو پنجاب کے تحت یومِ غالب کے موقع پر اقبال کا پیغام بھی اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔(5) اقبال نے غالب کے حضور ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے ؎ نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر شاہدِ مضمون تصدّق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچۂ دلی گلِ شیراز پر آہ تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرا میدہ ہے گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔(56 گلشنِ ویمر کے خوابیدہ سے اشارہ گوئٹے کی جانب ہے ٗ یعنی اقبال نے غالب کو اردو میں وہی درجہ دیا ہے جو جرمنی میں گوئٹے کا ہے۔ ایک سطح پر ہمیں اقبال میں غالب کی شعری روایت کا تسلسل نظر آتا ہے۔ غالب نے اپنے دور میں جس روش کی بنیاد ڈالی تھی اسے اقبال نے کمال تک پہنچایا۔ غالب کی انانیت جو در ِکعبہ کو بھی اپنے لیے وانہ دیکھ کر واپس پلٹنا چاہتی ہے ٗ اقبال کے خودی کے تصور میں ڈھل جاتی ہے۔ اس جانب سر عبدالقادر نے ’’بانگِ درا‘‘ کے دیباچے میں بہت واضح اشارہ کیا ہے۔(6) اقبال پر غالب کے اثرا ت کی نشاندہی ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے اپنے مضمون ’’غالب ۔ پیش رو ِاقبال‘‘ میں بھی کی ہے۔(7) جب اقبال نے شعرو ادب کی طرف رجوع کیا، اس وقت ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں اس نے داغ سے اصلاح بھی لی جس کے واضح اثرات ہمیں اس کی ابتدائی شاعری پر نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چلا مگر اقبال نے داغ سے لفظوں کے استعمال کا شعور اور اردو زبان کی باریکیوں کو سمجھا جس نے آگے چل کر اس کی شاعری کے لیے اچھی بنیادیں فراہم کیں۔ ایک اور بات جو داغ کی شاعری میں بہت نمایاں ہے وہ اس کا خلوصِ بیان ہے۔ اس نے وہی کچھ لکھا ہے جو ان پر بیتی۔ اقبال نے داغ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ٗ اس سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال استاد کی کن صفات سے متاثر ہوئے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ لکّھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون اٹھ گیا ناوک فگن ٗ مارے گا دل پر تیر کون؟ (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 117 ۔(116 ’’شعرِ اقبال‘‘ میں سید عابد علی عابد نے داغ اور اقبال کے طویل موازنے کے بعد ان الفاظ میں اقبال پر داغ کے اثرات کی جانب اشارہ کیا ہے: ’’اقبال نے یورپ جانے سے پہلے نہ صرف داغ سے اردو کی شعری روایت کے سارے رموز سیکھ لیے بلکہ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہو گئے کہ لفظ و معنی میں کتنا نازک رشتہ استوار ہے۔ مطابقتِ الفاظ و معانی کتنی بنیادی بات ہے۔ داغ تو صرف ذاتی و اردات کو بعینہٖ پڑھنے والوں تک منتقل کرتے تھے۔ اقبال نے اپنے مطالعے کی وسعت کی بدولت اور اپنی بصیرت کی بناء پر نہایت دقیق افکار اور لطیف تصورات کو جذبے میں سمو کر ایسی ہئیت بخشی جس کا آہنگ اور نغمہ بھی عین معانی کے مطابق تھا‘‘۔ (8) اقبال اور مخزن اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں اس دور کے ایک رسالے ’’مخزن‘‘ اور اس کے مدیر سر عبدالقادر نے نمایاں حصہ لیا۔ اس بات کا کچھ اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال نے اپنی پہلی کتاب کے دیباچہ نگار کے طور پر سر عبدالقادر کو ہی چنا۔ ’’مخزن‘‘ کی اشاعت موجودہ صدی کی ابتداء میں اس اعتبار سے بہت اہم واقعہ تھا کہ اس رسالے نے انگریزی ادب کے اثرات کو اردو میں پختہ کیا۔ حالی اور آزاد نے اردو میں انگریزی ادب سے متاثر ہو کر جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ ’’مخزن‘‘ اس سلسلے میں اگلی کڑی ثابت ہوا جس نے اپنے طور پر ادب میں مغربی اثرات کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ’’مخزن‘‘ کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس رسالے نے پہلے پہل اقبال کے کلام کو شائع کیا۔ سر عبدالقادر نے اقبال میں ایک بڑے شاعر کی خصوصیات کو ابتداء میں ہی بھانپ لیا تھا۔ اس لیے جب قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے اس بات کی شدید مخالفت کی اور اقبال کو شاعری جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ (9) مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ابتداء میں ’’علامہ اقبال کے ذریعے دعوت یعنی شاعری کو ہر دلعزیز بنانے کے لیے دو وسیلے بہت کارگر ہوئے۔ اول انجمن کے سالانہ اجلاس ۔ دوم رسالہ ٗ ’’مخزن‘‘۔ دونوں نے علامہ اقبال سے فائدہ اٹھایا اور دونوں نے علامہ اقبال کی خدمت انجام دی۔ دونوں کی وجہ سے علامہ کی شاعری کو فروغ حاصل ہوا اور دونوں کے لیے علامہ کا گراں مایہ کلام زیب و زینت کا باعث بنا‘‘۔ (10) رومانیت کی تحریک اپنے علمبرداروں روسو اوروالٹیئر کے افکار کے نتیجے میں ادب میں داخل ہوئی ٗ لیکن یہ انیسویں صدی کے اوائل کی تحریک ہے اور اسے اقبال کی معاصر ادبی تحریک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا واضح مفہوم 1810 ء میں مادام ڈی سٹیل کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ اس تحریک نے ادب میں کالرج ٗ ورڈز ورتھ اور بعض دوسرے شاعروں کے حوالے سے رواج پایا ٗ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے اثرات اقبال کے زمانے تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اقبال کی رومانیت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے مغربی شاعری کی اقدار کو اپنے اندر سمویا ضرور لیکن مشرقی اندازِ اظہار کو بھی برقرار رکھا۔ (11) یہاں یہ کہنا بھی خالی ازعلّت نہیں ہوگا کہ علی گڑھ تحریک نے فلسفے اور سائنس کے امتزاج پر مبنی جس حقیقت پسندانہ مقصدیت کو جنم دیا ٗ اس کے ردّ ِعمل میں رومانویت نے ادب میں راہ پائی۔ محمد حسین آزاد ٗ عبدالحلیم شرر اور ناصر علی دہلوی نے فرد کے باطن کی طرف توجہ کی اور ا س کے داخل کو گھٹن سے نکالا۔ اس تحریک کا آغاز تو انھوں نے ہی سرسید کے خیالات پر کسی تعرض کے بغیر کیا تھا ٗ تاہم اس رجحان کو نشوونما اس عہد کے اس اہم مجلہ ’’مخزن‘‘ اور اقبال کے افکار سے ہوئی۔ اقبال کی اس زمانے کی رومانی شاعری کا پہلا عنصر مشرقی اندازِ اظہار کو برقرار رکھتے ہوئے مظاہرِ فطرت کی ان کے خارجی حسن کے حوالے سے نہیں بلکہ حسنِ ازلی کی رمزیت کے ساتھ تصویر کشی ہے۔ دوسری طرف انھوں نے ماضی کی عظمتوں سے جوہرِ حیات کشید کرنے کی سعی کی اور اس سلسلے میں منفرد ٗ ترو تازہ اور جلال و جمال آمیز استعارات، تشبیہات اور تمثالیں وضع کیں۔ تیسری جانب انہوں نے ایسے رومانی کردار تخلیق کیے جو معاشرے کی جامد قدروں اور پائمال رواجوں کو بدل دینے کا عزم لے کر ابھرتے ہیں۔ اقبال کی اس نوعیت کی شاعری پہلے پہل ’’مخزن‘‘ کے ذریعے قارئین تک پہنچی۔ اقبال اور علی گڑھ تحریک اپنی ابتدائی زندگی میں اقبال جن دو افراد سے بہت زیادہ متاثر ہوا وہ میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ تھے۔ یہ دونوں حضرات سرسیّد سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور ان کی تحریک کو ہندوستان کے لوگوں کے لیے مفید جانتے تھے۔ جاوید اقبال کے مطابق سرسید سے اقبال کا پہلا رابطہ میر حسن کے ذریعے ہوا (12) ابتداء میں وہ سرسیّد کے مداح تھے اور ان کی تحریک کے زبردست حامی بھی۔ اقبال کے دور میں علی گڑھ واحد جگہ تھی جس کی جانب پڑھے لکھے لوگ پُر امید نظروں سے دیکھتے تھے کہ مستقبل میں یہ ادارہ مسلمانوں کی زندگی میں بڑا کام کرے گا۔ علی گڑھ تحریک کے بہت زیادہ اثرات لاہور کے مسلمانوں پر مرتّب ہوئے اور انھوں نے انجمن حمایتِ اسلام قائم کی جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے علی گڑھ تحریک سے کم و بیش مشابہ تھی۔ پنجاب کے علاقے میں سرسید کی تحریک کے اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید کے خلاف محاذ آرائی اور فتوے بازی میں یہاں کے علماء نے حصہ نہیں لیا۔ اس لیے یہ علاقہ سرسید کے افکار کی ترویج کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوا۔ نہ صرف پنجاب کے لوگوں نے اپنے علاقے میں سرسید کی تقلید میں تعلیمی ادارے قائم کیے جہاں مسلمان بچوں کو جدید علوم سے روشناس کروایا جاتا تھا ٗ بلکہ علی گڑھ کی مالی اور اخلاقی مدد کی بھی حتی المقدور کوشش کی۔ ’’یکم فروری 1884 ء کو لاہور میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اصرار پر سرسید نے جو معرکتہ الآراء تقریر ’’اسلام‘‘ کے موضوع پر کی ٗ اس نے نیچریت و دہریت کے الزام کی قلعی کھول دی اور بقول ’’پنجابی اخبار‘‘ (لاہور) ہر فرقے کے محقّق گروہ پر ثابت کر دیا کہ وہ بلا شبہ پکے مسلمان اور اسلام کے سچے خیر خواہ ہیں۔ (13) اس سلسلے میں حالی نے پنجاب کے لوگوں کے سرسیّد کے بارے میں رویے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’انھوں نے ہندوستان کے دیگر اور حصوں کی طرح سرسید کو مسلمانوں کی صرف دنیوی ترقی کا خواستگار مگر دین کا مخرب نہیں ٹھہرایا بلکہ ان کو دنیا اور دین دونوں کا سچا خیر خواہ اور خیر اندیش سمجھا‘‘۔ (14) علی تحریک گڑھ تحریک صرف تعلیمی ادارے بنانے کی تحریک نہیں تھی بلکہ اس نے سیاسی ٗ سماجی ٗ تہذیبی ٗ مذہبی غرض ہر سطح پر مسلمانوں کی زندگی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں سرسید کے مذہبی افکار زیادہ متنازعہ بنے اور ان کی وجہ سے انھیں مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اقبال نے اپنی ابتدائی زندگی میں سرسید کے افکار کا مطالعہ کیا اور ان سے متاثر بھی ہوئے۔ ایک سطح پر دیکھیں تو اقبال کے خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam ہمیں سرسید کی اجتہادی فکر کی اگلی کڑی نظر آتے ہیں جن کے ذریعے انھوں نے مذہبِ اسلام کو عقلی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ جنت و دوزخ اور عرش و کرسی کے بارے میں سرسیّد کے خیالات خاص طور پر اقبال کے ہاں نظر آتے ہیں۔ سرسید اور اقبال کے ہاں بعض سطح پر ارتقائے فکر میں اشتراک بھی نظر آتا ہے سرسید ابتداء میں ہندوستان کے لوگوں کو ایک قوم تصور کرتے تھے اور ان کی اجتماعی بہتری کے لیے کوشاں تھے ٗ لیکن جنگِ آزادی کے بعد کے حالات اور خاص طور پر اردو ، ہندی تنازعے نے ان کے تصورات میں گہری تبدیلی پیدا کی اور انھوں نے مسلم قومیت کی بات شروع کر دی۔ یوں وہ ہندو مسلم اتحاد سے مسلمانوں کے جماعتی مفاد کی طرف آئے۔ اسی نوعیت کا ارتقاء ہمیں اقبال کے ہاں نظر آتا ہے کہ وہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سے شروع کرتے ہیں اور ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر‘‘ تک کا سفر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کے اندر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں اور مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کو الگ وطن کے حصول کی راہ پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انجمن حمایتِ اسلام اور اقبال سرسید کے علمی افکار کی پیروی میں اور علی گڑھ تحریک کے تتبع میں اس کے آغاز کے بعد سات سال کے اندر اندر اہالیانِ پنجاب نے انجمن حمایتِ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن نے خاص طور پر لاہور میں بہت سے علمی ادارے قائم کیے۔ اس تحریک کا ایک اہم مقصد اسلامی لٹریچر کی اشاعت بھی تھی۔(15) انجمن ایک فلاحی ادارہ تھی اور اس کے لیے مالی معاونت کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس مقصد کے لیے یہ ادارہ کئی طرح کے پروگرام منعقد کرواتا رہتا تھا۔ اسی طرح کے ایک پروگرام منعقدہ 1900 ء میں اقبال نے اپنی نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ پہلی بار انجمن کے اس جلسے میں پڑھی جس کی صدارت شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد نے کی تھی۔ اس طرح انجمن حمایتِ اسلام سے اقبال کا جو تعلق استوار ہوا وہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ انجمن کے سالانہ جلسوں میں اقبال نے مندرجہ ذیل نظمیں سنائیں۔ (16) ۱۔ 1900ء ٗ نالہء یتیم ۲۔ 1901ء ٗیتیم کا خطاب ہلالِ عید سے یا درد ِدل ۳۔ 1902ء ٗاسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں کو خیر مقدم اور دین و دنیا یا زبانِ حال۔ ۴۔ 1903ء ٗ فریادِ امت جس کا پہلا عنوان ابر گہر بار تھا۔ ۵۔ 1904ء ٗ تصویر درد ۶۔ 1911ء ٗشکوہ ۷۔ 1912ء ٗ شمع و شاعر ۸۔ 1913ء ،ایک نامکمل فارسی نظم ۹۔ 1916ء ٗ بلال ؓ ۱۰۔ 1920 ء ٗارتقاء ٗ مردِ آزاد ۱۱۔ 1922ء ٗ خضر راہ ۱۲۔ 1923ء ٗ طلوعِ اسلام ۱۳۔ 1932ء ٗنغمہء سرمدی ان نظموں کے علاوہ اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسوں کے موقع پر علمی موضوعات پر خطبات بھی دیے اور تقریریں بھی کی تھیں۔ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کس طرح علی گڑھ تحریک کی توسیع تھی اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے وابستہ یا اس سے متاثر ہونے والے اس زمانے کے صاحبانِ علم و دانش لوگوں میں سے بیشتر اس تنظیم کے سالانہ جلسوں میں خاص طور پر شرکت کرتے رہے۔ ان میں سے مولانا الطاف حسین حالی ٗ مولانا شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد قابل ذکر ہیں (17) ۔ اقبال کی اس تنظیم سے گہری اور تا عمر وابستگی اور اس تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اہم ترین نظموں کو اس انجمن کے جلسوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کا عمل بھی اقبال کی علی گڑھ تحریک کے مقاصد کی ادب کے ذریعے سے حصول میں سرگرمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اقبال سے پہلے ڈپٹی نذیر احمد کا جوشِ خطابت انجمن کے جلسوں کی جان ہوتا تھا۔1900 ء کے جلسے کے بعد اقبال کی آواز ان میں گونجنے لگی۔ ابتداء میں اقبال اپنا کلام تحت الّفظ سناتا تھا، بعد میں لوگوں کی فرمائش پر ترنم سے اپنی نظمیں سنانے لگا۔ انجمن کے جلسوں میں دس دس ہزار کے مجمعے میں لوگ اقبال کا کلام سنتے اور سر دھنتے۔ انجمن کے جلسوں اور اقبال کی اس میں شرکت کے باب میں افتخار احمد صدیقی نے لکھا ہے: ’’انجمن کے جلسوں میں قومی شاعری کی روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی اور اس کا تسلسل دور ِحاضر تک قائم رہا۔ اس صدی کے ابتدائی عشروں میں قومی شاعری کا اتنا زور بڑھا کہ ہزاروں کے مجمعے میں مرکزِ نگاہ بننے اور داد و تحسین حاصل کرنے کی خواہش ٗ ہر موزوں طبع نوجوان کو قومی شاعر بننے پر اکساتی تھی ٗ لیکن اقبال کی قومی شاعری ایک پیغمبرانہ جذبے کا نتیجہ تھی۔(18) صدیقی صاحب کی بات سے انکار ممکن نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انجمن سے اقبال کا تعلق صرف شاعری تک ہی محدود نہ رہا بلکہ بعد میں وہ اس کے سیکریٹری اور صدر بھی منتخب ہوئے اور اس کے قانونی مشیر بھی رہے۔ یوں اقبال نے لاہور میں فروغِ تعلیم کے لیے جدوجہد میں عملی حصہ لیا۔ انجمن کے بارے میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ ادارہ فلاحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھاٗ اس کے جلسوں میں مذہبی رنگ غالب رہتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انجمن کا تعلق عام لوگوں سے تھا اور عام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے پر جوش مذہبی تقریروں اور نظموں کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ اقبال جب ان جلسوں میں اپنی نظمیں سناتا تو لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ یوں انجمن اور اقبال کے درمیان ایک ایسا تعلق استوار ہوا جس نے انجمن کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کی نشوونما میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ انجمن پنجاب کی تحریکِ نظم گوئی اور اقبال انجمنِ پنجاب، لاہور 12 جنوری 1865 ء کو قائم کی گئی تھی۔ اس کا ایک اہم مقصد ’’علمی و ادبی و معاشرتی اور سیاسی مسائل پر بحث و نظر ‘‘ تھا۔ ایک علمی اور تعلیمی تنظیم ہونے کے ناطے اس کی کوششوں کے طفیل 8 دسمبر1879 ء کو پنجاب اور ینٹل کالج اور14 اکتوبر1882 ء کو پنجاب یونیورسٹی کا قیام ممکن ہوا۔ (19) صرف انھی دو اہم ترین اداروں کے قیام میں انجمن کے کردار سے اس انجمن کے دور رس اثرات اور خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ امرِ واقع ہے کہ دکن سے دلی ٗ دلی سے لکھنئو اور لکھنئو سے لاہور کے تہذیبی مرکز بننے میں اہلِ علم و دانش کی کثیر تعداد میں ایک شہر سے دوسرے شہر تاریخی عوامل کے تحت ہجرت کا بہت دخل ہے۔ لکھنئو اور دہلی سے لاہور ہجرت کرنے والے شعراء میں محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نمایاں تھے۔ ان دونوں کے علاوہ دہلی اور لکھنئو سے لاہور کی ادبی مجلسوں اور مشاعروں میں شرکت کے لیے اس عہد کے نامور شعراء اور ادباء اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان مشہور ہستیوں میں ڈپٹی نذیر احمد ٗ مولانا شبلی نعمانی ٗ مولانا ابو الکلام آزاد ٗ اکبر الٰہ آبادی ٗ خوشی محمد ناظر ٗ مولانا ظفر علی خان اور کئی دوسرے شامل تھے۔ آزاد ٗ حالی اور لاہور کی ادبی شخصیتوں نے مل کر جس انجمن کی داغ بیل ڈالی، اسے تیسری ہجرت کے حاصل اور اردو شاعری کے ارتقاء کے ایک اہم دور کے آغاز کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی انجمن کے تحت1874 ء میں مولانا محمد حسین آزاد کے توسط سے اقبال کا ظہور اور اس سے کچھ پہلے جدید شاعری کی تحریک کا آغاز ہوا۔ انھوں نے مئی 1874 ء میں نئی شاعری پر ایک پر مغز لیکچر دیا اور جدید شاعری کا نظریہ پیش کیا۔ انھوں نے پرانی شاعری کی کمزوریاں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نظم ’’شام کی آمد اور رات کی کیفیت ‘‘ سنائی۔ یہ مشاعرہ طرحی مشاعروں کی روایت سے روگردانی کرتے ہوئے موضوعی مشاعروں کا نقطۂ آغاز تھا۔ ان مشاعروں کی غرض و غایت یہ تھی کہ اردو شاعری کو تقلید کے دائرے سے نکال کر کھلی فضا میں لایا جائے اور مواد اور ہیئت کے اعتبار سے وسعت دی جائے، شاعری میں علمیت اور افادیت کا رنگ پیدا کیا جائے مبالغہ ٗ انفعالیت اور قنوطیت کی جگہ حقیقت ٗ رجائیت اور فعالیت سے ہم کنار کیا جائے۔ ان مقاصد کے علاوہ ایک اور مقصد بھی تھا۔ وہ یہ کہ نئے اردو نصاب کے لیے نئے انداز کی نظموں کو فراہم کیا جائے۔ (20) مشاعروں کے اس سلسلے میں نو مشاعرے برکھارُت ٗ زمستان ٗ امید ٗحبِّ وطن ٗ انصاف ٗ مروّت ٗ قناعت ٗ تہذیب اور اخلاق کے موضوعات پر ہوئے۔ یہ مشاعرے 1874 ء اور1875 ء میں ہوئے۔ ان میں سے نئی شاعری کے پہلے مشاعرے کی تاریخ اور مولانا محمد حسین آزاد کے تاریخی خطبے کی تاریخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(21) یہاں یہ کہنا بھی برمحل ہوگا کہ اس پہلے مشاعرے کے صدر کرنل ہالرائیڈ نے مظاہرِ فطرت کے حوالے سے خدا کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے اردو شاعری کو وسیلہ بنانے کی تاکید کی۔ وہ بطور ناظمِ تعلیمات اس انجمن کے سرپرست تھے اور اس انجمن کی حیثیت سرکاری ادارے کی تھی۔ 1875ء سے1890 ء تک انجمنِ پنجاب کی جانب سے خاموشی رہی مگر اس کے تسلسل میں1890 ء میں ایک ’’انجمنِ اتحاد‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی حکیم شجاع الدین محمد تھے۔ اس انجمن کے تحت مشاعرے 1905 ء تک جاری رہے۔ اسی انجمن کے تحت ایک مشاعرے میں اقبال نے وہ غزل پڑھی جس کے اس شعر پر مرزا ارشد گورگانی پھڑک اٹھے تھے (22) ؎ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے گرے تھے جو عرقِ انفعال کے(23) انجمنِ پنجاب کی ایک خاص دین اردو میں منظوم ترجموں کا رواج تھا۔ ان جدید نظموں نے اردو نظم کے لہجے ٗ اسلوب ٗ مواد اور ہیئت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آزاد ٗ حالی ٗ اسماعیل میرٹھی ٗ غلام مولا قلق میرٹھی ٗ پنڈت برج موہن د تاتریہ کیفی اور نظم طباطبائی انگریزی شاعری کے اولیں مترجمین میں سے تھے۔ اقبال نے بھی انھی کے تتبّع میں مغربی شعراء کے تراجم کیے یا ان سے ماخوذ نظمیں تخلیق کیں۔ ایک مکڑا اور مکھی ٗ ایک پہاڑ اور گلہری ٗبچے کی دعا ٗ ہمدردی ٗ ماں کا خواب ٗ آفتاب ٗ پیامِ صبح ٗ عشق اور موت ٗ رخصت اے بزمِ جہاں ٗ مشمولہ بانگِ درا اقبال کی شروع کی شاعری پر جدید شاعری کی تحریک کے انھی اثرات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے ’’سید کی لوح تربیت‘‘ اور ’’شبلی و حالی‘‘ کے عنوانات سے بھی نظمیں لکھیں۔ حالی کے بارے میں انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں ان کی صدارت ہی میں ایک فی البدیہ رباعی بھی بہت مشہور ہے ؎ مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی معمور مئے حق سے ہے جامِ حالی میں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی اس رباعی کے بعد انھوں نے حالی کا کلام اپنی زبانی سنایا۔(24) اقبال کی نظموں کے موضوعات بھی آزاد اور حالی کی ان نظموں سے مناسبت رکھتے ہیں جو اس نے اس تحریک کے فروغ کے لیے بطور خاص لکھیں۔ مثال کے طور پر گل ِرنگیں ٗ ہمدردی ٗ پرندے کی فریاد ٗ ماہِ نو ٗ چاند اور تارے ٗ شبنم اور ستارے جو مسّدس مدّو جذر اسلام از الطاف حسین حالی کے زیرِ اثر بعدازاں شکوہ ٗ جوابِ شکوہ ٗ خضرِ راہ ٗ طلوعِ اسلام ٗ بلادِ اسلامیہ ٗ مسلمان اور تعلیمِ دید ٗ شب ِمعراج ٗ صدیق ؓ ، بلال ؓ اور مسجدِ قرطبہ جیسی معنی آفریں اور فکر سے روشن نظموں کی صورت میں ظہور پذیر ہوئیں اور جنھوں نے اقبال کی اپنی منفرد اور عہد ساز تحریک کی بنیاد مضبوط کی۔ آزاد اور حالی نے تسلسلِ خیال کی جس روایت کو جاری رکھا اس میں وضاحت زیادہ تھی اور رمزیت کم سے کم۔ انھوں نے دبستانِ لکھنئو کے ردّ ِعمل میں اپنے عہد کی سماجی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری میں معروضیت کا عنصر داخل کیا اور موضوعی عنصر کی نفی کرتے ہوئے اپنی شاعری کو سادہ اور سپاٹ بنا دیا۔ فکری ابعاد اور صنعت گری کو جدا کر دینے سے ان کے ہاں فنی تضادات نمایاں ہو گئے ٗ کیونکہ تشبیہ ٗ استعارہ ٗ علامت ٗ تمثیل یا پیکر تراشی کے زبان کے ساتھ اتصال اور انجذاب سے ارفع شاعری جنم لیتی ہے اور انھوں نے اس سے انحراف کیا ٗ اس لیے ان کا شعری تجربہ مکمل نہ ہو سکا اور ان کی شاعری بے روح ہو گئی۔ اقبال نے اس شعری تجربے کو مکمل کیا اور فکری جہتوں کو زبان و بیان کی تمام رفعتوں کے ساتھ شامل کرکے ایک ترو تازہ لفظیات مرتب کی جو اپنے جلال و جمال اور تخلیقی ترفع کے ساتھ اقبال کے ہمہ گیر موضوعات سے لگّا کھاتی تھی۔ انھوں نے اپنے کمالِ فن سے ہر لفظ میں علامت کی روح پیدا کی۔ لیکن اس کے باوجود اقبال کے شعری مقام میں جدید شاعری کی اس تحریک کے حصے کو منفی نہیں کیا جا سکتا کہ اردو شاعری کے دریائے سخن میں دوسری زبانوں کے ادب کے مختلف نمکیات اور تراکیب کے حامل پانیوں میں پھر سے ہلچل پیدا کرنے سے ہی اقبال جیسے شاعر کا ظہور اردو شاعری کے ارتقاء کے اس مرحلے پر ممکن ہوا۔ تصورِ و طنیت و قومیت اور اقبال اقبال نے جس عہد میں آنکھ کھولی وہ ہندوستان میں سیاسی بیداری کا دور تھا۔ جنگِ آزادی کے اثرات معدوم ہو چکے تھے۔ انگریزوں اور مقامی آبادی کے درمیان افہام و تفہیم کے نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ جدید مغربی علوم کی ترویج سے ہندوستان کے باشندوں پر ایک نئے جہان کے در وا ہو رہے تھے۔ اقبال نے پہلے مرے کالج سیالکوٹ اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ دونوں ادارے ابتداء ہی سے مغربی علوم کی اشاعت اور قومی ہم آہنگی کے فروغ میں پیش پیش رہے ہیں۔ اقبال نے بھی اس فضا سے اثرات قبول کیے۔ ان اثرات میں بہت اہم تصور ِو طنیت تھا۔ یہ تصور جغرافیائی حدود کے اندر قیام پذیر لوگوں کو ایک قوم قرار دیتا تھا۔ اقبال نے اس تصور کو اپنی ابتدائی نظموں میں واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ بانگ ِدرا کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ہی ان کی ہندوستان سے محبت اور عقیدت کی ترجمان ہے ؎ اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستان! چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ سے کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا، چشمِ بینا کے لیے (کلّیاتِ اقبال،ص ۔5 ) اس کی نظم ترانۂ ہندی کی بھی مثال دی جا سکتی ہے جہاں اقبال ہندوستان کی عظمت کے گن گاتا نظر آتا ہے ؎ سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا ،آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے، ہندوستاں ہمارا یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے اب تک مگر ہے باقی ،نام و نشاں ہمارا اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو، دردِ نہاں ہمارا (کلّیاتِ اقبال، ص ۔110, 109 ) جن نظموں میں اقبال نے ہندوستان کی مٹی اور یہاں کی چیزوں سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ہمالہ ٗ ابرِ کوہسار ٗ ایک آرزو ،رخصت اے بزم جہاں! ٗ نیا شوالہ ٗ نانک اور چشتی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، سوامی رام تیر تھ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص اس نے اپنی نظموں ترانۂ ہندی اورہندوستانی بچوں کا قومی گیت میں بھی اپنی حبّ الوطنی کا اظہار کیا ہے۔ اس نغمے کا لہجہ اور الفاظ کی گونج ٗ اس جوش و جذبے کو قاری تک منتقل کرتے ہیں جس کے تحت یہ تخلیق کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی عظمت کے گیت گانے اور ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے والوں میں اقبال تنہا مسلم نہیں ہے بلکہ مسلم اکابرین کی ایک پوری جماعت ہمیں اس صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔ ان میں سرسید ٗ حالی ٗ قائداعظم ٗ مولانا محمدعلی جوہر ٗ مولانا شوکت علی ٗ نواب محسن الملک ٗ حسرت موہانی ٗ ابو الکلام آزاد اور کئی دوسرے نام خاص طور پر اہم ہیں۔ لیکن یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ان لوگوں پر انڈین نیشنل کانگریس کی ہندو نواز پالیسیاں واضح ہوتی گئیں، یہ لوگ متحدہ قومیت کے نعرے سے دست بردار ہوتے چلے گئے اور ان اہم رہنمائوں میں سے سوائے ابو الکلام آزاد کے باقی کے تقریباً سب مسلم رہنمائوں نے مسلم حقوق کی بات شروع کر دی۔ اقبال کی زندگی میں بھی وہ وقت جلد آگیا جب اس نے اس بات کا اندازہ کر لیا کہ ہندو کسی قیمت پر مسلمانوں کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ نہیں۔ اس بات نے اقبال کے ذہن میں انتشار کو جنم دیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس نے ملکی حالات سے مایوس ہو کر اس سر زمین کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن آگے چل کر اس کے ہاںملّی شعور پختہ ہونے لگا اور وہ ہندوستان کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے مسلم قومیت کی بات کرنے لگا۔ یہ اقبال کی زندگی کا انتہائی اہم موڑ تھا۔ اقبال نے اپنے ہم وطنوں کی بے مہری اور بے مروتی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ؎ اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں کیا انسان ہیں یہ غیر اپنوں کو سمجھتے ہیں عجب نادان ہیں یہ امتیازِ قوم و ملّت پر مٹے جاتے ہیں یہ اور اس الجھی ہوئی گتھی کو الجھاتے ہیں یہ (کلّیاتِ اقبال، ص ۔64 ) اس نظم تک آتے آتے اگرچہ اقبال اپنے ہم وطنوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہے لیکن ابھی وہ قوم اور ملت کے اختلافات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں بلکہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اب تک اقبال کے ہاں مسلم قومیت کا نظریہ سیاسی یا قومی نصب العین کے طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ کسی حد تک اقبال وحدت الوجود کے نظریے کو مانتے ہوئے اتحاد اور متحدہ قومیت پر قائم ہے۔ قیام یورپ سے واپسی پر جب اقبال کے ہاں ردِّ وحدت الوجودکا عمل شروع ہوا تو اسی کے ساتھ اس نے رفتہ رفتہ متحدہ قومیت کے نصب العین کو بھی خیر باد کہنا شروع کر دیا۔ اب وہ مولانا روم کی پیروی میں اپنی ذات کی تعمیر ٗ خودی کی نشوونما اور شخصیت کی تکمیل کو سب سے اہم جاننے لگا یعنی اگر انسان اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے نفیٔ خودی کی بجائے اثباتِ خودی کی طرف آنا چاہئے۔ یہ نقطہ ان کے ہاں مغربی تصورِ و طنیت کے ردّ اور ملی شعور کی نشوونما کے لیے بنیاد ثابت ہوا۔ اقبال نے جان لیا کہ جغرافیائی وطن کا تصور انسان کو ایسے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے جو باہم ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے اس کے ہاں ایسا نظر آتا ہے جیسے وہ اشتراکیت کے نئے فلسفے کی طرف مائل ہو رہا ہے لیکن یہ مختصر مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی نگاہیں اس بات کا ادراک حاصل کر لیتی ہیں کہ معاشی مفاد کے جس فلسفے پر نئی سلطنت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور جس فلسفے میں مذہب اور خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں وہ جلد ہی اپنی افادیت کھو دے گا۔ اس طرح اگر ایک طرف وہ متحدہ قومیت سے مسلم قومیت کی طرف آتا ہے تو دوسری طرف لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر دیتا ہے۔ اس کا یہ شعر مسلم قومیت کی جانب اس کے سفر کا سنگِ میل ہے ؎ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم ٗ وطن ہے سارا جہاں ہمارا (کلّیاتِ اقبال، ص ۔186 ) اب وہ خود کو جغرافیائی حدود سے ماوراء کر لیتا ہے اور خود کو پوری مسلم امت کے ساتھ منسلک کرکے دیکھنے لگتا ہے ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر (کلّیاتِ اقبال، ص ۔295 ) مسلم قومیت کی جانب اقبال کے سفر کے بیان کے لیے افتخار احمد صدیقی کا ایک طویل اقتباس درج کیا جا رہا ہے جس سے اقبال کی سمتِ سفر کا اندازہ لگانے کا موقع ملے گا: ’’محبت کے پرستار اقبال کے لیے وحدت الوجودی تصوف میں سب سے بڑی کشش یہ تھی کہ یہ نظریہ مذہب کے ظاہری اختلافات کو مٹا کر انسانی وحدت اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین پیش کرتا ہے۔ لیکن وجودی تصوف محض مذہبی طور پر ہی منکر نہیں بلکہ نیکی اور بدی ٗ خیر و شر اور حق و باطل کے امتیازات بھی ختم کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ’’عالمگیر اخوت و محبت‘‘ کے یہ بلند آہنگ دعوے خواب و خیال سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ لفظ ’’محبت‘‘ میں کوئی طلسمی قوت نہیں ٗ جس کے اثر سے دنیا میں انسانوں پر انسانوں کا ظلم و ستم اور شرکی قوتوں کا فتنہ و فساد مٹ جائے۔ محبت کا نصب العین (یعنی عالمگیر امن و اخوت ٗ مساوات و حریت) سعی و عمل ‘ جہدو پیکار اور ایثار و خدمت کے ایک لامتناہی سلسلے سے وابستہ ہے۔ جب تک منظم طور پر کوشش نہ کی جائے ٗ دنیا میں کوئی ایسا معاشرتی نظام قائم نہیں ہو سکتا جہاں عدل و مساوات اور اخوت و محبت کی قدریں ٗ انسانی خود غرضی اور ہوس پرستی کی یلغار سے پامال نہ ہونے پائیں۔ انسانی وحدت کا تصور اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین اسلام بھی پیش کرتا ہے ٗ لیکن اسلام اس نصب العین کے حصول کے لیے ایک دستور العمل اور ایک اجتماعی نظام تشکیل دیتا ہے۔ صوفیہ کے نزدیک اس اجتماعی نظام (ملت اسلامیہ) اور اس دستور العمل (شریعت) کی کوئی اہمیت نہیں۔ تصوف کے وحدت الوجودی نظریے سے متاثر ہو کر صوفی شعراء جن منفی اقدار کی تبلیغ کرتے رہے ٗ ان کا خلاصہ یہ ہے ۔ ’’دنیا ہیچ است و کارِ دنیا ہمہ ہیچ‘‘ دنیا کے مادی حقائق اور زندگی کے سنگین مسائل کو پائے استحقار سے ٹھکرانے کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا جس کے لیے جہدو عمل کے کسی منظم سلسلے ٗ کسی دستور العمل یا کسی اجتماعی نظام کی ضرورت باقی رہے۔ اپنے فکری ارتقاء کے اس مرحلے میں اقبال اپنے ذوقِ علم و معرفت اور مطالعے کی وسعت کے باوجود حق آگاہی کی منزل سے دور تھے۔ ’’وحدتِ ادیان‘‘ اور ’’وحدتِ انسان‘‘ کے حسین نعروں کا کھوکھلا پن انھیں چند سالوں بعد اس وقت محسوس ہوا جب عجمی تصوف کے دل فریب پردوں کو محقق کی دور رس نگاہوں نے چاک کر دیا اور انھیں اسلام کے اجتماعی نظام کے مطالعے کا موقع ملا‘‘۔ (25) ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کے فکری ارتقاء کی جانب بجا اشارہ کیا ہے لیکن تصوف اور صوفیہ کے باب میں وہ انتہا پسندانہ سوچ کا شکار ہو گیا تھا۔ شریعت یا مذہبِ اسلام کو نظر انداز کرنے کی روش اگر ہمیں چند صوفیہ کے ہاں نظر آتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ تمام صوفیہ شریعت کو اہمیت نہیں دیتے تھے، کور نظری ہے۔ اس بات کا اظہار کہ صوفیہ کو دنیاوی مسائل سے غرض نہیں، حقائق کو نظر انداز کرنا ہے اور خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کے مسلمانوں کی اکثریت نے ان صوفیہ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا یہ بات کہنا کہ صوفی بے عمل ٗ مذہب اسلام سے دور لوگ تھے ٗ انتہا پسندی کی انتہا قرار دی جا سکتی ہے۔ اقبال کے بارے میں یہ لکھنا کہ وہ چند سال بعد تصوف سے دور ہو کر اسلام کے سیدھے راستے پر آ گیا، سادہ لوحی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال اسلام کے راستے سے کبھی ہٹا ہی نہیں ۔ دوسرا مذہب کی صرف من پسند تعبیر کو کل مذہب قرار دینا گمراہی ہے۔ تیسرا اگرچہ اقبال نے وحدت الوجود کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا ٗ لیکن وہ رومی ٗ مجدد الف ثانی اور کئی دیگر صوفیہ کے نہ صرف دل سے قائل تھا بلکہ اس نے اس بات کا اظہار اپنے آخری دور کے اشعار میں بھی کیا ہے۔ خاص طور پر جاوید نامہ میں منصور حلاج ٗ قرۃ العین طاہرہ اور غالب جیسے کرداروں کا انتظار اس جانب واضح اشارہ ہے کہ اقبال نے اپنی سوچ کے دروازے کسی پر بند نہیں کیے تھے۔ افتخار احمد صدیقی کے بیان سے وہابیت جھلکتی ہے اور اعتدال کا دامن کسی حد تک ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ بانگِ درا کے آخری حصے سے ہی اقبال کی فکر میں واضح تبدیلی کے آثار نمایاں تھے ٗ لیکن بالِ جبریل تک آتے آتے یہ تبدیلی ٹھوس صورت اختیار کر چکی تھی۔ اقبال نے مغربی تصوّرِ وطنیت کو پوری طرح ردّ کرکے اُمتِ اسلامیہ کے تصور کو اپنا لیا تھا۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد لکھتے ہیں: ’’اقبال کے اس خیال کی شعری صورت بالِ جبریل میں سب سے دل فریب روپ دھارتی ہے کہ وطنیت کا مغربی تصور انسان کی گرم رفتاری میں حائل ہوتا ہے اور ارتقاء کی فطری قوتوں کو روکتا ہے۔ اس تصور کے ذریعے اربابِ اقتدار ٗ نسل اور قوم اور وطن کو بتوں کی صورت دے کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور انھیں اس چیز پر قربان کر دیتے ہیں جو دراصل ان کی ہوسِ اقتدار ہے لیکن جسے وہ فریب کاری کے طریقے پر ناموسِ وطن کہتے ہیں ٗ بالِ جبریل میں اقبال نے عالمِ انسانیت کی اس بے احترامی اور باا قتدار طبقے کی فریب کاری کے خلاف نہایت موثر احتجاج کیا ہے اور نہایت ہی خوب صورت پیرائے میں انسانوں کی طبقہ بندی کی مذمّت کی ہے۔ اس سلسلے میں کبھی اپنی علامتیں تغزل سے مستعار لی ہیں ٗ کبھی تصوف سے ٗ کبھی وضاحت سے بات کی ہے ٗ کبھی نہایت نزاکت سے اشارے کیے ہیں لیکن بہرحال جذبے کی آنچ ہر شعر میں سلگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘‘۔(26) عابد صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اقبال کی فکر کے ارتقاء کو پیش کیا ہے آگے چل کر انھوں نے اقبال کے اشعار نقل کیے ہیں جو یہاں درج کیے جاتے ہیں ؎ متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی (کلّیاتِ اقبال ،ص ۔352 ۔353) فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند درویشِ خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلّی ٗ نہ صفاہاں ٗ نہ سمر قند (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 357 ) نہ تو زمیں کے لیے ہے ٗ نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے ٗ تو نہیں جہاں کے لیے رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے (کلّیاتِ اقبال، ص۔389 ) ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں جو کھویا گیا اک نشیمن تو کیا غم مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 389 ۔390 ) اس طرح کی بے شمار مثالیں ہم اقبال کے اردو کلام سے پیش کرسکتے ہیں جہاں وہ مسلمانوں کو اپنے اندر ملی جذبہ پیدا کرنے کا پیغام دے رہا ہے لیکن اب ہم تصور و طنیت کی بحث کواسی مقام پر ختم کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اقبال کے قیامِ یورپ نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے۔ اقبال پر قیام یورپ کے اثرات ’’1905 ء سے 1908 ء تک اقبال کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جو انھوں نے یورپ میں بسر کیا گو وہاں انھیں شاعری کے لیے نسبتاً کم وقت ملا اور ان نظموں کی تعداد جو وہاں کے قیام میں لکھی گئیں ٗ تھوڑی ہے، مگر ان میں ایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے۔ ان تین سالوں میں سے دو سال ایسے تھے جن میں میرا بھی وہیں قیام تھا اور اکثر ملاقات کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری ترک دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں ہے جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔ اس لیے ایسی مفید خدا داد طاقت کو بیکارکرنا درست نہ ہوگا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادۂ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعر اختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں، وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ن کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا اس کا تو یوں خاتمہ ہوا۔ مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعۂ اظہار خیال بنا لیا‘‘۔(27) مندرجہ بالا اقتباس میں سر عبدالقادر نے اقبال کے قیامِ یورپ کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے آنے والے دنوں میں نہ صرف اردو کی شعری روایت میں اضافہ ہوا بلکہ برصغیر کی سیاست پر بھی دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ ایک اور بات جس کی جانب اشارہ کیا گیاہے وہ اس کی نظموں کا مخصوص رنگ ہے جو قیام یورپ کی دین ہے۔ یہ نظمیں بانگِ درا میں حصہ دوم کے تحت آئی ہیں۔ قیامِ یورپ کے دوران اقبا ل کو مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس نے اس کے مشاہدے اور مطالعے سے دور رس نتائج اخذ کیے اور پھر وہ مغربی تہذیب کے ایک مضبوط نقاد کے طور پر سامنے آیا۔ اس تین سالہ قیام کے دوران میںاس کے مطالعے میں وسعت پیدا ہوئی ٗ اور اسے ایک وسیع تناظر میں غور و فکر کا موقع ملا۔ انگلستان اور جرمنی میں قیام کے دوران ایسا لگتا ہے کہ وہ جرمن قوم اور جرمن فلسفے سے زیادہ متاثر ہوا۔ انگلستان میں قیام کے دوران اسے میک ٹیگارٹ، پروفیسر برائون ٗ نکلسن ‘ جیمز وارڈ وغیرہ جیسے اہم مفکرین سے ملاقات کا موقع ملا لیکن اقبال نے سب سے زیادہ اثر جرمنی کے شاعر نطشے سے قبول کیا۔ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ اقبال سے رومی کا پہلا تعارف بھی نطشے کے حوالے سے ہوا۔ اقبال نے اپنے ’’انسان ِکامل‘‘ کے تصور کی تشکیل میں بہت سے اجزائے ترکیبی نطشے کے سپر مین سے اخذ کیے۔ مشرق کی عظمتِ رفتہ کے دوبارہ احیا اور مشرق کی قدامت کو مغربی جدت سے ہم آہنگ کرنے کے تصورات نے بھی جنم لیا۔ اس کی شاعری میں حرکت و عمل کا پیغام بھی اسی جگہ سے شروع ہوا۔ اقبال نے اپنا فلسفۂ زندگی مرتّب کیا۔ ان اشعار کو ہم اقبال کے یورپی اثرات سے آزاد ہونے اور مشرقی روح کو دوبارہ تازہ کرنے کے مشن کا آغاز کہہ سکتے ہیں ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 167 ) اقبال جب ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مقصد لے کر یورپ روانہ ہوا تو اس سے قبل ایک ابھرتے ہوئے قومی شاعر کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔ اس وقت تک اس کی ذہنی ٗ فکری اور تخلیقی کاوشوں کا محور مندرجہ ذیل موضوعات تھے: 1۔ مناظرِ فطرت کے مشاہدات کا تاثر 2۔ حبِّ وطن اور ارباب وطن سے عقیدت 3۔ عقل اور عشق ٗ دل اور دماغ کی باہمی آویزش 4۔ تصوف اور نظریۂ وحدت الوجود 5۔ اسرارِ حیات کا تجسس قیامِ یورپ کے زمانے میں اقبال نے بہت کم شاعری کی۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ اپنے تعلیمی مشاغل میں ہمہ تن مصروف تھا اور دوسری وجہ یہ کہ وہ روایتی شاعری کو بے کارِ محض خیال کرنے لگا تھا۔ بعد میں جب شیخ عبدالقادر اور پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اس نے شاعری ترک کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا تو اس نے ایسے شعر کہنے کا عزم کیا جن کا کوئی مقصد ہو اور جن سے قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے۔ یورپ میں قیام کے زمانہ میں ایک طرف اقبال کو مغرب کے سیاسی افکار کے مطالعے کا موقع ملا اور دوسری طرف اسلامی ممالک کی تباہی اور زوال کا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ چنانچہ اس کے افکار و نظریات میں بڑی دور رس تبدیلی واقع ہوئی۔ اسے پتا چل گیا کہ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے جبکہ مسلمان اجتماعی طور پر خوار و زبوں حال تھے اور غلامانہ ذہنیت کا شکار ہو رہے تھے۔ اقبال نے ان حالات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی جو مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی کا باعث بنے۔ اس کاوش نے اس پر مغربی اقوام کے ان حربوں کو واشگاف کیا جو انھوں نے مشرقی اقوام کو غلام اور محکوم بنائے رکھنے کے لیے وضع کیے تھے۔ ان حربوں میں سب سے مہلک اور خطرناک حربہ وطنیت اور قومیت کا مغربی نظریہ تھا۔ اس نظریے نے مسلمانوں کو آپس میں تعصب میں مبتلا کر دیا تھا اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا تھا ٗ چنانچہ اقبال جغرافیائی حد بندیوں پر مبنی وطنیت کے نظریے سے متنفر ہو گیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ قومیت کی تشکیل جغرافیائی حدود ٗ نسلی امتیاز اور زبان کے اشتراک پر نہیں ہوتی بلکہ عقیدے ٗ نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے اور قومیت کا یہ نظریہ صرف اسلام میں موجود ہے۔ اقبال نے بلادِ اسلامیہ ،حضورِ رسالت مآب میں، لکھ کر یورپی اقوام کی مسلمان دشمنی کا پردہ چاک کیا۔ خطاب بہ جوانانِ اسلام ٗ شعاعِ آفتاب ٗ نویدِ صبح اور فاطمہ بنت عبداللہ جیسی نظموں میں اقبال نے یاس میں کھوئی قوم کو امیدِ فردا یاددلائی ہے اور ان کے عزم کو مہمیز کیا ہے۔ شمع و شاعر اور خضرِ راہ میں اس دور کے حالات کا تجزیہ اور تصویر کشی کی ہے اور1923 ء کے لگ بھگ طلوعِ اسلام لکھ کر ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ِثانیہ کی نشاندہی کی ہے ؎ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 298 ) اس دور میں اقبال کی فکر کا محور اسلام بن چکا ہے۔ صدیق ؓ ٗ بلال ؓ اور جنگِ یرموک کا ایک واقعہ، سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے اقبال کی شیفتگی مترشح ہے۔ شفا خانۂ حجاز میں وہ سر زمین ِحجاز میں مرنے کی تمنا کرتا ہے اور ،میں اور تو ،میں حضور اکرم ﷺ سے لطف و کرم کی التجا کرتا ہے۔ اقبال نے قیام یورپ کے اثرات کے تحت قوم کو اپنا نظریۂ زندگی تبدیل کرنے کی تلقین کی۔ جن مظاہرِ فطرت کو اس سے قبل وہ اسرارِ حیات سے آگاہی حاصل کرنے کا ذریعہ بتاتا تھا اب اس کے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مظاہر کی معنویت ان کے ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی چنانچہ چاند تارے میں وہ مظاہرِ فطرت کے حوالے سے جہد مسلسل کے نظریے کی وضاحت کرتا ہے ؎ جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسمِ قدیم ہے یہاں کی اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 145 ) اسی طرح ان کی نظم کوششِ ناتمام بھی اسی پیغام کی حامل ہے۔ اقبال کو ان کے مخالف فرقہ پرست بھی کہتے ہیں لیکن ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف ان کے ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھا جہاں وہ بہت غور و فکر کے بعد پہنچا تھا۔ اس کے نزدیک اسلام مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے چنانچہ اس نے یورپ کے قیام کے دوران اپنی شاعری کو ایک پیغام کی صورت دینے کا ارادہ کیا تاکہ بنی نوع انسان اسلام کے طفیل اپنے مصائب سے نجات پا سکے۔ یورپ میں تین سالہ قیام کے دوران اقبال کی زندگی میں جذباتی پہلو کے اعتبار سے بھی تغیرات آئے۔ انگلستان میں اس کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی جو وہاں ان دنوں مقیم تھیں۔ اس کے بعد جرمن میں وہ اپنی جرمن زبان کی استاد مس ایما ویگے ناست سے متاثر ہوئے جن کا احوال خود اقبال نے متعدد جگہ بیان کیا ہے اس کے علاوہ اقبال کے حوالے سے لکھی جانے والی کئی کتابوں میں اس سلسلے میں مفصل بحث موجود ہے ٗجن میں اقبال از عطیہ فیضی، اقبال یورپ میں از سعید اختر درانی، عروجِ اقبال از افتخار احمد صدیقی اور کئی دوسری کتب قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ ہم اقبال کے قیام یورپ پر بحث سمیٹتے ہوئے اقبال پر ایک اور حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ یہ پہلو پین اسلام ازم کا ہے جس میں ان کے پیش روجمال الدین افغانی ہیں۔ اقبال، جمال الدین افغانی اور اتحادِ عالم اسلامی کی تحریک عالم اسلام کی انیسویں صدی کی ممتاز ترین شخصیت سیّد محمد بن صفدر المعروف جمال الدین افغانی (1838 ئ۔1839 ئ۔ مارچ 1897 ئ) عظیم مفکر ٗ صاحب حکمت و دانش اور کشش انگیز رہنما تھے۔ ان کے نزدیک ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کا راز دو نکتوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک نکتہ اغیار کی غلامی سے نجات ہے اور دوسرا اتحاد ِعالمِ اسلامی۔ انہوں نے اپنی جادو اثر تقریر وں ٗ جاذب نظر شخصیت ٗ حسنِ خلق ٗ منطق اور زور ِبیان سے ان گنت لوگوں کو اپنا حامی بنایا۔ مشہور فرانسیسی مصنف ارنسٹ رینان انہیں ابنِ سینا اور ابنِ رشد جیسی عظیم المرتبت مسلمان ہستیوں کے ہم پلہ قرار دیتا ہے۔ ’’وہ نہ صرف مفکر و حکیم تھے بلکہ اہلِ نظر بھی تھے اور ان کی بصیرت نے اس عہد میں حالات کا مثلاً اسلامی ممالک کے زوال و انحطاط اور جمود و بے حسی ٗ ان کی اقتصادی اور سیاسی زندگی پر یورپی ممالک کے روز افزوں تسلط و اختیار اور مشرق میں دہریت کی نشر و اشاعت جس کا منبع ڈارو نیت تھی ٗ صحیح اندازہ لگایا۔‘‘ (28) اپنی کتاب ’’رک بہ دھریہ‘‘ میں انہوں نے ڈارون کے نظریات کی تردید کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’فقط مذہب ہی معاشرت کے استحکام و سلامتی اور قوموں کی قوت کی ضمانت دے سکتا ہے جبکہ لادینی مادیت انحطاط و زوال کا سبب ہے۔ ان کے نزدیک یہ دینِ اسلام اور اس کا عقیدہ توحید ہی ہے جو اجتماعی لحاظ سے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور بہترین امتِّ مسلمہ ہے اور انفرادی اعتبار سے اس سے انسان میں تقویٰ ٗ صداقت اور حسنِ اخلاق پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے بعض مملکتوں کی سیاسی سیادت و تفوق کے زوال کو مادیت (مثلاً یونان میں ابیقوریت(Epicureanism) اور فرانس میں والٹیئر اور روسو کے نظریات)سے منسوب کیا ہے۔ (29) یہی نہیں بلکہ انھوں نے عہد حاضر میں اسلامی نظریات پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مدلّل اور مسکت جوابات بھی دیے ہیں۔ وہ اس امر کے شدت سے قائل تھے کہ اسلام اور سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دنیا کے ابتدائی نامور سائنسدان مسلمان ہی تھے۔ عقیدئہ جبر و قدر کے سلسلے میں بھی انہوں نے عقیدئہ قدر یعنی آزادیٔ عمل کا پرچار کیا۔ جمال الدین افغانی کی تحریک اتحادِ عالمِ اسلامی کو مغربی مفکرین منفی طور پر پین اسلام ازم کا نام دیتے ہیں ٗ جیسا کہ آج کل انہوں نے بنیاد پرستی کی اصطلاح خود ہی وضع کرکے اسے قابل مذمت قرار دے رکھا ہے۔ افغانی کی اس تحریک کا مقصد اس وقت کی اسلامی ریاستوں کے درمیان اتحاد اور تنظیم قائم کرکے انھیں ایک لڑی میں پرونا تھا جس کے لیے انھوںنے بے شمار مصائب ٗ آلام اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور طویل سفر کیے۔ اسی سلسلے میں وہ ایک سے زائد بار ہندوستان بھی آئے۔ جمال الدین افغانی اپنی اس تشویش میں حق بجانب دکھائی دیتے ہیں کہ مغربی سامراجی قومیں اپنی محکوم قوموں کی تہذیب و ثقافت کی نشوونما کو روکنے کے لیے اور ان کے جذبۂ حریت کو دبانے کی خاطر ان قوموں پر حقیقی تعلیم کے دروازے بند رکھتی ہیں اور انھیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ ان کے اندر کسی قسم کی کوئی اہلیت یا خوبی نہیں ہے(رڈیارڈ کپلنگ کی مشہور نظم ’’سفید آدمی کا بوجھ ‘‘ اس کی بدترین مثال ہے جس میں رنگ دار قوموں کو گالیاں تک دی گئی ہیں اور انسان تک تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے)۔ اپنی زبان کی کم مائیگی کا احساس پیدا کرکے درحقیقت وہ استبدادی اور سامراجی عزائل کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ جمال الدین افغانی نے مشرقی اقوام کو اپنی زبان ٗ اپنے ادب اور اپنی ثقافت کے حوالے سے اپنا قومی شعور پیدا کرنے کا پیغام دیا۔ ان کے خیال میں اپنی گراں مایہ تاریخ کے بغیر دنیا میں کوئی قوم باعزت اور باوقار نہیں ہو سکتی۔ اسلامی دنیا میں انھی خیالات اور مقصد کے حصول کے لیے خلوصِ نیت کے سبب جمال الدین افغانی کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، وہ مشرقِ جدید کی تاریخ میں پہلے مجاہد تھے جن کی بصیرت نے ایک اسلامی بلاک کی ضرورت محسوس کی اور اسے امنِ عالم کی ضروری شرط ٹھہرایا۔ (30) علامہ اقبال کے مطابق ’’زمانۂ حال میں اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ مؤخر الذکر ہی اصل میں موسس ہے ٗ زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ِثانیہ کا‘‘۔(31) اقبال کے اس نقطۂ نظر پر یہ اضافہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے ضمن میں جمال الدین افغانی سے اگلا نام خود اقبال کا ہے اور اس کے بعد ترکی کے ضیاء گوک الپ اور مصر کے سعد زاغلولو کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ایک سرسری مطالعہ ہی سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں رہتا کہ ان کا کلام سر تاسر جمال الدین افغانی کے خیالات ہی کا تخلیقی پر تو ہے۔ انھوں نے جمال الدین افغانی کی اس شکایت کو رفع کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ان کے خطبات بھی جمال الدین افغانی ہی کے افکار کی توسیع ہیں تاہم انہوں نے جاوید نامہ میں بھی ان کا جا بجا ذکر کیا ہے اور انہیں مشرق اور دنیائے اسلام کا عظیم مفکّر قرار دیا ہے۔ اقبال پین اسلام ازم کی اصطلاح کے پسِ پردہ مغربی استبداد کے پروردہ اور پرچارک مفکرین کے مذموم عزائم جانتے تھے ٗ اسی لیے اقبال نے پین اسلام ازم کے بارے میں ایک بیان کے ذریعے یہ تشریح ضروری سمجھی ’’۔۔۔۔۔ پین اسلام ازم کا لفظ فرانسیسی صحافت کی ایجاد ہے اور یہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے لیے استعمال کیا گیا تھا جو اس کے وضع کرنے والوں کے خیال کے مطابق اسلامی ممالک غیر اسلامی اقوام خاص کر یورپ کے خلاف کر رہے تھے۔ بعد میں پروفیسر برائون آنجہانی اور دیگر اشخاص نے یورپی تحقیقات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کہانی بالکل غلط تھی۔ پین اسلام ازم کا ہوّا پیدا کرنے والوں کا منشا صرف یہ تھا کہ اس کی آڑ میں یورپ کی چیرہ دستیاں جو اسلامی ممالک میں جاری تھیں وہ جائز قرار دی جائیں۔۔۔۔۔’’پین اسلام ازم‘‘ سے اسلام کی عالمگیر سلطنت بہت مختلف ہے۔ اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقیناً منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں مطلق العنان بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ ‘‘(32) اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے ہندوستانی سیاسی پس منظر میں ہندوئوں کی پھیلائی ہوئی گرد کو بھی صاف کرنے کے لیے پین اسلام ازم کی وضاحت کی اور مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک علیحدہ معاشرتی جماعت ٗ علیحدہ اقلیت اور علیحدہ قوم قرار دیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سجاد حیدر یلدرم کی تحریک پر مولانا شبلی نے علامہ اقبال کا خیر مقدم کیا تو جواباً اقبال نے جو کلمات ادا فرمائے ان سے پین اسلام ازم کے بارے میں اقبال کے مثبت خیالات کی ترجمانی ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہوتی ہے: ’’میری نظموں کے متعلق بعض ناخدا ترس لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور مجھ کو پین اسلام ازم کی تحریک پھیلانے والا بتایا جاتا ہے۔ مجھ کو پین اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخر ِکار غالب آئے گی۔ اس مشن کے متعلق جو جوش اور خیال میرے دل میں ہے ٗ اپنی نظموں کے ذریعہ قوم تک پہنچانا چاہتا ہوں اور اس اسپرٹ کے پیدا کرنے کا خواہشمند ہوں جو ہمارے اسلاف میں تھی کہ دولت و امارت کو وہ اس دارِ فانی کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے۔ میں جب کبھی دہلی آتا ہوں تو میرا یہ دستور رہا ہے کہ ہمیشہ حضرت نظام الدین محبوب الہی ؒکے مزار پر جایا کرتا ہوں اور وہاں کے دیگر مزارات وغیرہ پر بھی ہمیشہ حاضر ہوا کرتا ہوں میں نے ابھی ایک شاہی قبرستان میں ایک قبر پر الملک اللہ کا کتبہ دیکھا، اس سے اس اسلامی جوش کا اظہار ہوتا ہے کہ دولت اور حکومت کے زمانہ میں مسلمانوں میں تھا۔ جس قوم اور جس مذہب کا یہ اصول ہو ٗ اس کے مستقبل سے نا امیدی نہیں ہو سکتی اور یہی وہ پین اسلام ازم ہے جس کاشائع کرنا ہمارا فرض ہے اور اس قسم کے خیالات کو میں اپنی نظموں میں ظاہر کرتا رہتا ہوں‘‘۔ (33) یہاں یہ ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ اقبال کے مندرجہ بالا بیانات میں بھی جمال الدین افغانی کی روح بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اقبال کی نظموں خطاب بہ نوجوانان اسلام ،حضور رسالت مآبﷺ میں ٗ شفاخانۂ حجاز ٗ شکوہ ٗ جوابِ شکوہ ٗ تعلیم اور اس کے نتائج ٗ فاطمہ بنت عبداللہ ٗ تہذیبِ حاضر ٗ کفر و اسلام ٗ بلالؓ ٗ مسلمان اور جدید تعلیم ٗ صدیق ٗ مذہب ٗ جنگِ یرموک کا ایک واقعہ ٗ دریوزۂ خلافت ٗ خضرِراہ ،طلوعِ اسلام (مشمولہ بانگ ِدرا) مسجدِقَرطبہ، ہسپانیہ، طارق کی دعا، فرشتوں کی دعا، فلسفہ و مذہب(مشمولہ بال جبریل) لا الہ الا اللہ ٗ مسلمان کا زوال ٗ جہاد ٗ قوت اور دین ٗ اسلام، افرنگ زدہ ،اے ر وح محمدؐ ،مکہ اور جنیوا ٗ اقوامِ مشرق ٗ مغربی تہذیب ٗ آزادیء فکر ٗ عصر ِحاضر ٗ سیاسیاتِ افرنگ وغیرہ (مشمولہ ضرب ِکلیم) جمال الدین افغانی کے افکار کی ترویج و توسیع اور فروغ کا ہنگام سمجھی جا سکتی ہیں۔ درحقیقت اقبال نے اپنے کلام سے ان کی تحریک کو ایک ادبی تحریک بنا دیاہے۔ اقبال کا اپنا یہ کہنا ہے کہ ’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساسِ ملیہ پیدا ہو جو قرونِ اولی کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ ‘‘(34) ایک اور مقام پر اقبال نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’ہمارے ملی اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذہبی اصول پر ہماری گرفت مضبوط ہو۔ میں آزاد تعلیم کا قائل نہیں۔ تعلیم بھی دیگر امور کی طرح قومی ضروریات کے تابع ہوتی ہے۔ ‘‘(35) اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم بپا کرکے انسان کو رنگ و نسل،نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ کی شکل دی۔ افغانی کی طرح اقبال کے نزدیک یہ ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنا ہی اسلام کا نصب العین ہے۔ اسلام نے اخوت اور بھائی چارے کا یہ وسیع نظام قائم کرنے کا کارنامہ انجام دے کر دکھا دیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں ٗ گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔ اقبال مسلمانوں کو پھر اسی اخوتِ اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتا ہے اور ایک ملت میں گم ہونے کا سبق سکھاتا ہے۔ وہ ایک ایسی عالمگیر ملت کے قیام کا طلب گار ہے جس کا خدا ٗ رسول ٗ کتاب، کعبہ، دین اور ایمان ایک ہو ؎ منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی ٗ دین بھی ایمان بھی ایک حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 320 ) اسی جذبے سے اقبال نے مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیا۔ اسلامی تعلیمات عالمگیریت سے مملو ہیں اور اسلام تمام نوعِ انسانی کو اخوت کی لڑی میں پرو کر ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان کی ہوس کا علاج ہو سکے۔ لیکن اقبال کے نزدیک اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ اقبال نے جمعیتِ اقوام پر اس طرح طنز کیا ہے ؎ مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم (کلّیاتِ اقبال، ص۔571 ) بعد ازاں اقبال نے اپنے خطبات میں مسلمان قوموں کی ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے جو انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا کرے۔ رموزِ بیخودی میں اقبال نے اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ عنوان قائم کرکے اپنے مفکرانہ نکات بیان کیے ہیں۔ اخوت اسودو احمر کی تقسیم مٹا دیتی ہے جس سے بلال حبشی ؓ ،حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کے ہمسر ٹھہرتے ہیں۔ یہی اخوت، ملت کے قیام کی بنیاد ہے۔ اسی سے خیر و شر اور نیکی، بدی کے معیار میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے، ورنہ ہر شخص اپنے معیار خود طے کرے اور معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ مساوات اور اخوت اقبال کے اشعار کے مطابق رسالتِ محمدیﷺ کی دین ہیں۔ حریت، مساوات اور اخوت کی تاسیس و تشکیل رسالتِ محمدی ﷺ کا مقصد تھا۔ اسلام نے انسان کو انسان کی عبادت سے روکا۔ لاقیصر و لا کسری کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن ٗ پادری ٗ برہمن ٗ سلطان ٗ امیر سب مذہب کے ٗ سیاست کے اور معاشرت کے اجارہ دار تھے اور عام لوگوں کا استحصال کرتے تھے، ان کی توہم پرستی اور کمزوری سے مفادات حاصل کرتے تھے ٗ لیکن رسولوں نے آکر حق داروں کو ان کا حق دلانے کا کام شروع کیا۔ حضور اکرم ﷺ کے نزول سے سیرت کی فضیلت قائم ہوئی۔ انھوں نے محنت کرکے روزی کمانے والے کو خدا کا حبیب گردانا۔ ان تعلیمات سے صرف اسلامی معاشرہ ہی نہیں پوری انسانیت فیض یاب ہوئی ؎ تازہ جان اندر تنِ آدم رمید ۔۔ بندہ را باز از خدا ونداں خرید(کلّیاتِ اقبال فارسی، ص۔ 116 ) اخوت و مساوات نے فرد کو ایک ملت میں ضم کرکے اس سے پوری ملت کو قوت فراہم کی۔ اس نے فرد کے دل سے خوف اور یاس کو دور کیا اور ان کے اندر ایسی قوت اور اعتماد پیدا کیا کہ حوادث کے تیر ان پر بے اثر ہونے لگے۔ ملّت کا احساس دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوا۔ ایرانیوں کے خلاف جہاد کے دوران ایک معمولی سپاہی کی طرف سے انجانے میں ایرانی فوج کے سپہ سالار جابان کی جان بخشی کی اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓکی طرف سے توثیق اس امر کی مظہر تھی کہ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ اگر امان کسی عام سپاہی نے بھی دی ہے تو وہ اسی ملت کا ایک حصہ ہے اور اس وعدے کی پاسداری سب بھائیوں کا فرض ہے۔ انھوں نے ملت کی یک آہنگی کو اتنے بڑے جابر اور ظالم قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم قرار دیا۔ اسی طرح سلطان مراد کی ایک معمار کے ہاتھ کاٹنے پر عدالت میں پیشی اور قصاص کی سزا کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرنا بھی اخوت اور مساوات کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ اخوت ٗ حریت اور مساوات ایک دوسرے سے باہم متصل اور پیوست تصورات ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری اصطلاح ٗ کیفیت ٗ روایت یا اصول بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے حریت کو اسلامی معاشرے کی اہم ترین قدر کے طور پر پیش کیا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں حریت کی ایسی روشن مثالیں قائم ہوئیں کہ ہم آج بھی ان سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دور میں عام سے عام آدمی مسجد میں ٗ عدالت میں اور برسرِ عام امیر المومنین سے اس کے کسی فعل پر باز پرس کر سکتا تھا اور کسی دنیاوی جاہ و جلال ٗ سلطنت سے مرعوب نہیں ہوتا تھا بشرطیکہ وہ دل اور ذہن سے خود کو حق پر سمجھتا ہو۔ دوسری طرف خلیفۂ وقت خوشدلی سے باز پرس کا جواب دیا کرتا تھا۔ مساوات اور حریت کی ایسی مثالیں اور نمونے دنیا کا کوئی اور معاشرہ اور ریاست آج تک پیش نہیں کر سکی۔ سیرت کی فضیلت کے اصول اور بنیادی اسلامی قدر پر کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی جب انہوں نے اپنے فرزند یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا جس کے کردار سے ملت کے افراد اور اکابرین مطمئن نہیں تھے اور اسے عاقل ٗ عادل اور متقی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی واقعے نے امت ِمسلمہ کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ اس سے نظامِ حریت کی شکست و ریخت کا آغاز ہوا اور خلافت ٗ سلطنت اور خلیفہ ٗ بادشاہ میں بدل گیا۔ ایسے میں حضرت حسین ؓ نے حریت کا علم بلند کیا اور مطلق العنان سلطانی جو آئندہ چل کر استبداد کا سرچشمہ اور پھر سے قیصریت کی طرح بننے والی تھی ٗ کے خلاف تلوار اٹھائی اور حریت عوام الناس کے حقِ خود ارادیت کے تحفظ اور روحانی جمہوریت کے قیام کے لیے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کی قربانی دی۔ اقبال نے حریت کے اس فلسفے کو اپنی مشہور علامت شاہین کی خصوصیات کے ذریعے بھی واضح کیا ہے کیونکہ شاہین ہمیشہ آزاد فضائوں میں محو پرواز ہوتا ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت عزیز احمد نے اس طرح سے کی ہے۔’’اس وسعتِ پرواز کے باعث ٗ حیات کی ایک اور بڑی قدر شاہین میں نمایاں ہوتی ہے۔ یہ آزادی ہے۔ شاہین کی وسعتِ پرواز یا اس کی نشوونما محض آزادی کے حالات میں ممکن ہے ورنہ غلامی میں شاہین تدرو سے بھی زیادہ بزدل بن جائے گا ؎ تنش از سایۂ بالِ تدروے لرزہ می گیرد جو شاہیں زادۂ اندر قفس بادانہ می سازد (کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔299 ) غلامی شاہین کی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے ؎ فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہین بخشا جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفّاش (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 596 ) چنانچہ’’ اقبال کا شاہینِ کا فوری ٗ میرو سلطان کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا جو اپنی رفعتِ پرواز چھوڑ کر پھر سے اپنے مالک کے پاس آب و دانہ کے لیے آ بیٹھتا ہے، جو محض میر اور سلطان کے اشارے پر طیور کا شکار کرتا ہے۔‘‘(36) اور اس کے جو رواستبداد میں شریک اور آلۂ کار بن جاتا ہے ؎ وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 255 ) دنیائے اسلام اس وقت جمال الدین افغانی اور اقبال کے نزدیک و طنیت اور قومیت کے مغربی نظریات سے متاثر ہے۔ اس کی وجہ ان کی مغرب کے ہاتھوں صدیوں کی غلامی اور محکومی ہے۔ علم الکلام اور اقبال اقبال کا شمار اردو اور فارسی کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری جہانِ ادب کا گراں بہا سرمایہ ہے۔ جہاں تک اقبال کے فکر و نظر کا تعلق ہے تو اسے فلسفی کے ساتھ ساتھ متکلم بھی کہا جاتا رہا ہے کیونکہ اس نے اپنے پیشرو متکلمین اشعری ٗ غزالی اور رازی کی طرح مذہبی علم کا تطابق اپنے عہد کے علمی انکشافات سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ علمی دنیا میں فلسفے اور علم الکلام کو ایک دوسرے سے مختلف اور بعض صورتوں میں متضاد تصور کیا جاتا رہا ہے برٹرینڈرسل کی ’’آئوٹ لائن آف فلاسفی‘‘ میں ولیم جیمز کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ فلسفہ واضح طور پر غور و فکر کرنے کی مستقل کوشش کا نام ہے۔ تفکر کی صلاحیت ہی انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسان غورو فکر کی بدولت اپنے مشاہدات و تجربات میں نہ صرف ربط و تعلق پیدا کرتا ہے بلکہ انھیں ایک معنی خیز ہیئت بھی بخشتا ہے جسے ہم فلسفۂ حیات کہتے ہیں جدلیاتی مادیت پسندوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فلسفیوں کا کام محض حقائق کی ترجمانی کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرۂ انسانی میں انقلاب برپا کرنا بھی ہے۔فلسفہ ایک مستقل ٗ آزاد اور مسلسل ذہنی کاوش کا نام ہے جسے کسی مخصوص عقیدے کی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ جب عقلی استدلال اور فلسفیانہ تدبر کو چند مخصوص مذہبی عقائد کی تصدیق و توثیق کے لیے وقف کر دیا جائے تو وہ فلسفہ نہیں رہتا ٗ علم الکلام کہلاتا ہے۔ شہرستانی نے ’’ملل و نحل‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ کلام اور منطق مترادف الفاظ ہیں۔ کلام فلسفے کے مقابلے میں ایجاد ہوا تھا اس لیے اسے فلسفے کی ایک شاخ منطق کا نام بھی دیا گیا۔ شبلی نعمانی کے خیال میں علم الکلام فقہ اکبر کو بھی کہتے ہیں۔ کلیسائے روم نے ایک زمانے میں فلسفے کو مذہب کی کنیز قرار دیا لیکن جدید دور کے فلسفی ایسے فلسفے کو علم الکلام کہنے پر مصر ہیں ۔علم الکلام از منۂ وسطی کے ایک عیسائی متکلم السلم کے خیال میں پہلے عقیدہ رکھنے اور اس کے بعد اس پر غورو فکر کرنے کو کہتے ہیں۔ غور و فکر کے بعد عقیدہ اختیار کرنے کو نہیں (37) ۔ اس تعریف کی روشنی میں اقبال کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:’’میں نے اسلام کی روایاتِ فکر علیٰ ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں ٗ الہٰیات اسلامیہ کی تشکیلِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔۔۔۔ قدیم طبیعیات نے خود ہی اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے لہٰذا جس قسم کی مادیت ابتداء ً اس کے لیے ناگزیر تھی ٗ بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سرِدست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔‘‘ (38) بزبانِ خود اپنے خطبات میں اقبال نے جدید علمی رجحانات و انکشافات کی روشنی میں الہٰیات اسلامیہ کو از سرِ نو مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اعتبار سے وہ غزالی اور رازی کی طرح ایک متکلم کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے اور ایک اور مقام پر وہ کہتا ہے کہ اس نے ’’مذہبی علوم کو سائنٹفک صورت دینے‘‘(39) کا مطالبہ پورا کیا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین انور لکھتے ہیں کہ ’’اسلام میں مذہب اور فلسفے کو ہم آہنگ کرنے کی سب سے مربوط کوشش بیسویں صدی میں غالباً صرف اقبال نے کی ہے۔ ان کے کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی مذہبی فکر یعنی الہٰیات کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی سعی کی اور ویسا ہی کارنامہ سر انجام دیا جیسا صدیوں پہلے ہمارے عظیم متکلمین مثلاً نظام اور اشعری نے یونانی سائنس اور فلسفے کے مقابلے میں انجام دینے کی کوشش کی تھی۔‘‘(40) اس اقتباس کے مطابق عشرت حسین انور ہمارے بہت سے دانشور متکلمین کا اولین فرض افکارِ جدیدہ کا مشرف بہ اسلام کرنا قرار دیتے رہے ہیں۔ اقبال کا مقصد بھی یہی تھا۔ خوا جہ غلام السیدین کو ایک خط میں اقبال نے لکھا تھا ’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارو مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رکھنا چاہیے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔ یہ علم ٗ علمِ حق کی ابتداء ہے جیسا کہ میں نے جاوید نامے میں لکھا ؎ علمِ حق اول حواس آخر حضور آخرِ او می نگنجد در شعور (کلّیاتِ اقبال،فارسی، ص۔670 ) علم از تحقیقِ لذّت می برد عشق از تخلیقِ لذت می برد (کلّیاتِ اقبال فارسی، ص۔ 543 ) وہ علم جو شعور میں نہیں سما سکتا اور علم حق کی آخری منزل ہے، اس کا نام عشق ہے۔‘‘(41) علم و عشق کے تعلق سے جاوید نامے میں کئی اشعار ہیں ؎ علمِ بے عشق است از طاغوتیاں علمِ با عشق است از لاہوتیاں (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 548 ) ’’مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ علم یعنی اس علم کو جس کا مدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے ٗ مسلمان کریں‘‘۔ (42) 1912ء میں شبلی نعمانی نے ایک مجلسِ علم الکلام کی بنیاد ڈالی تھی جس کی رکنیت اقبال نے منظور کر لی تھی۔ (43) اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق نظریات اور مختلف الجہات تحریکوں سے منسلک افکار کو شاعری میں بڑی کامیابی سے اپنے زاویے سے برتتے چلے جاتے ہیں ٗ چنانچہ اقبال اشعار میں بھی فلسفے کی مخالفت کرتے دکھائے دیتے ہیں ؎ انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ، زندگی سے دوری (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 530 ) بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سّرِ محبت سے بے نصیب رہا (کلّیاتِ اقبال، ص۔494 ) خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 547) فلسفے اور علم الکلام کے بارے میں انتشارِ فکر کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلسفہ اور کلام کو مترادف خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی انتشارِ فکر کے باعث اقبال کو متکلم کی بجائے فلسفی کہا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف اقبال نے خود بھی اپنے بارے میں اس بحث کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ وہ ایک طرف علم ِکلام کی تعمیر کیے جاتا ہے اور دوسری طرف علمِ کلام کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ ایک خط میں اقبال نے لکھا کہ ’’آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیز کیا جائے اور ایک نئی دینیات اور علمِ کلام کی تعمیر و تشکیل میں اسے برسرِ کار لایا جائے۔‘‘(44) ۔ اب علمِ کلام کی ضرر رسانی اور بے ثمری کا ذکر اقبال ہی کی زبانی سنیئے ؎ طبع ِمشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 703 ) ابلیس اپنے مشیروں سے یوں ہم کلام ہے ؎ ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے (کلّیاتِ اقبال، ص۔711 ) علاجِ ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 370) کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ الہٰیات کے ترشے ہوئے لات و منات (کلّیاتِ اقبال، ص۔711 ) انھی خیالات کی وجہ سے اقبال کے شارحین انہیں متکلم کی بجائے فلسفی کہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اقبال نے غزالی کی طرح فلسفہ پڑھا تھا اور اسے غزالی کی طرح اس نے اپنے موروثی دینی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی توثیق کے لیے استعمال کیا اور جدید فلسفے کو مسلمان بنانے کی سعی کی اس لیے انھیں متکلم کہنا بھی درست ہے۔ اقبال ٗ تحریکوں کا امتزاج انیسویں صدی کے وسط ہی سے انگریزی ادب نے برصغیر کے علم و ادب پر اپنے اثرات ثبت کرنے شروع کر دیئے تھے۔ اس وقت انگلستان کے ادب میں نمایاں رجحان رومانوی تحریک تھا۔ رومانیت میں عقل کی نسبت جذبے پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ کلاسیکی اقدار اور رویوں کو توڑ کر نئی قدریں بنانے کی کوشش اور جدیدمغربی صنعتی معاشرے کو رد کرنے کے رجحان کو رومانیت کے اہم اصولوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ فکری سطح پر رومانیت کے بڑے علمبردار کے طور پر ہم روسو کا نام لے سکتے ہیں جس نے سب سے پہلے مغربی معاشرے کے اصولوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ روسو نے کہا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ زنجیر میں جکڑا ہوا ہے ۔ انسان کو دوبارہ اس کا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے معاشرے کے بندھنوں سے آزاد کر دیا جائے۔ شاعروں میں بائرنٗ شیلے ٗ کیٹس نے نمایاں طور پر رومانوی تحریک کے رجحان کو پھیلانے میں حصہ لیا۔ سرسید نے ہندوستان کے مسلم طبقے میں سب سے پہلے حقیقت پسندی ،عقلیت اور مقصدیت کی بات کی یوں اردو ادب میں ایک واضح مقصد کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ کچھ عرصے بعد عقلیت پسندی اور مقصدیت کے خلاف آوازیں بھی اٹھنی شروع ہوئیں اور ادب میں جمالیاتی اور رومانی رجحانات تیزی سے ابھرنے لگے۔ ہمارے ہاں رومانی رجحان کے جڑ پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں مشرقی ذہن اور مزاج کے لیے بہت دلکشی اور دلچسپی موجود تھی۔ اردو ادب میں ’’مخزن‘‘ کی اشاعت نئے رجحانات کی افزائش کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوئی ۔ ابتداء میں غلام بھیک نیرنگ ٗ خوشی محمد ناظر ٗ ظفر علی خان اور علامہ اقبال کے نام نمایاں ہیں ٗ جنھوں نے نئے رجحانات کو ادب میں فروغ دینے میں حصہ لیا۔ اقبال نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو وہ ایک فطرت پسند شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ اقبال نے مناظرِ فطرت سے متاثر ہو کر نظمیں لکھیں۔ علامہ کی ان نظموں میں تخیل کی پرواز اور آرزو پرستی نمایاں نظر آتی ہیں۔ انھوںنے اپنے خیالات کے لیے خوبصورت الفاظ اور تشبیہیں استعمال کی ہیں مثلاً ان کی نظمیںہمالہ ٗ گلِ رنگین ٗ ابرِ کوہسار ٗ عقل و دل ٗ صبح کا ستارہ ٗ حقیقتِ حسن ٗ کو ہم اس ذیل میں رکھ سکتے ہیں جہاں اقبال پر رومانوی تصورات کی چھاپ خاصی گہری ہے۔ ان نظموں سے چند بند درج کیے جاتے ہیں ؎ ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کہسار نے اے ہمالہ! کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر (کلّیاتِ اقبال، ص۔52 ) ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابرِ کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا کبھی صحرا کبھی گلزار ہے مسکن میرا شہر و ویرانہ مرا ٗ بحر مرا ٗ بن میرا کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو (کلّیاتِ اقبال، ص۔ 57) اقبال کی ابتدائی شاعری میں رومانوی رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ لیکن جوں جوں اقبال شعری سفر میں آگے بڑھتا ہے یہ رجحانات کم ہوتے جاتے ہیں اور اس کی جگہ حقیقت پسندی اور مقصدیت لینے لگتی ہے ٗ لیکن عقل کے مقابلے میں جذبے یا عشق کو زیادہ اہم جاننے کا رجحان ہمیں ان کے ہاں آخر تک نظر آتا ہے۔ ’’اقبال اس اعتبار سے کلاسیکی ہیں کہ انھوں نے اس زبان میں لکھا جو ان کی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ اقبال نے لسانی قواعد ٗ اصناف کی ہیئیتوں، صنائع بدائع اور بحور و اوزان میںاتنے تجربات اور اجتہاد سے کام نہیں لیا لیکن وہ اس اعتبار سے جدید ہیں کہ ا نھوں نے مرکّب اسلامی تہذیب و تمدن میں سے جس کا لباس ’’ترک و تار ٗ خونسار ٗ اور اصفہان نے تیار کیا ہے ‘‘اور ’’نشانِ جلالت ٗ رعب اور دبدبہ جس کی خصوصیتیں ہیں‘‘ اور جس کا ذخیرہ ٔالفاظ ’’عرب سے اور پھر سمر قند و بخارا سے ماخوذ ہے۔ ‘‘(45) اقبال نے اس زبان میں شاعری کرتے ہوئے بحور و اوزان ٗ صنائع بدایع ٗ رمزو کنایہ ٗ تشبیہ و استعارہ ٗ تمثال نگاری ٗ پیکر تراشی ٗ علامتوں ٗ تراکیب اور لفظیات کا ایک اپنا منفرد ٗ پرشکوہ ،معنی آفریں اور اثر پذیر نظام ترتیب دیا ہے جو ان کے بلند آہنگ موضوعات ٗ لہجے کے طنطنے اور فلسفیانہ طرزِ اظہار سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کے خیالات و افکار کی ترسیل میں حد درجہ کامیاب ہے۔ اشتراکیت ایک معاشی و سماجی نظریہ ہے جو معاشی مساوات اور انسانوں کے تمام طبقوں کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے۔ ابتداء میں یہ صرف ایک معاشی نظریہ تھا لیکن کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اس میں تاریخ اور حیات و کائنات کے بارے میں نظریات شامل کرکے ٗ اشتراکیت کو نظریاتی طور پر وسیع بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کی تعلیمات کے اثر سے اشتراکیت نے ایک ایسے عقیدے کی صورت اختیار کر لی جو دنیا کے قدیم مذاہب کے مقابل آ گیا اور جس نے انسان اور کائنات کو خالصتاً مساوی بنیادوں پر سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی۔ جب مغرب میں اشتراکیت کو فروغ ملا اس وقت یورپ میں جدید علمی اور سائنسی دریافتوں کی بدولت مذہبی تعلیمات کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ اور لوگوں کی زندگی پر مادی اقدار کا رنگ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ یہ فضا اشتراکیت کی نشوونما و ترویج کے لیے مثالی ثابت ہوئی اور بہت جلد اس فلسفۂ حیات کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ علماء اور ادباء کی ایک بڑی تعداد نے اس مسلک میں انسانیت کی فلاح دیکھی اور اپنی منزل جان کر اس کے حصول کے لیے سرگرم ہو گئے۔ اقبال جن دنوں یورپ میں مقیم تھا تب اشتراکی سارے یورپ کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے اور اقتدار پر قابض طبقے کے ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ انھیں پہلی کامیابی پہلی جنگ عظیم کے بعد روس میں ہوئی۔ جنگ کے نتیجے میں روس کا اندرونی سیاسی اور معاشی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ ایسے میں لینن کی قیادت میں اشتراکیوں نے روس میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں پہلی بار اس نظریے کی علمی افادیت کو جانچنے کی کوشش کی گئی۔ ساری دنیا میں تفکر کرنے والے لوگ اس تجربے کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ اقبال نے بھی اشتراکیت کے مطالعے اور روس میں اس کے علمی تجربے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کئی جگہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے: ’’اقبال نے جب مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع ِسخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے نظری اور عملی پہلوئوں پر غور کرکے اپنے نتائجِ فکری سے ملّت کو آگاہ کرے۔ سب سے پہلے اقبال نے پیامِ مشرق میں اس کے متعلق رائے زنی شروع کی۔۔۔۔۔۔۔ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلابِ عظیم کو اچھی طرح پرکھے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلو اور اس کی ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔ ‘‘(46) اس سلسلے میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا ٗ اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبال ملّت ِاسلامیہ میں بھی دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کا محرِک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد تاکہ لا کے بعد آسانی سے اِلاّکی طرف قدم اٹھ سکے۔ بلکہ توحید ہی اس تمام انقلاب کی محرِک ہو۔ اشتراکیت ابھی تک خوف اور جبر سے فلاحی حاصل نہیں کر سکی۔ خالص روحانیت جو خلوص اور محبت ِانسانی پیدا کرتی ہے ٗ وہ اس انقلابی معاشرت میں ابھی نظر نہیں آتی۔ اکابر ہوں یا عوام ،ایک دوسرے سے خائف رہتے ہیں۔ افکار کی آزادی ناپید ہے۔ ایک نئے جبر و ظلم نے قدیم جبروں کی جگہ لے لی ہے۔ اشتراکیت کے بڑے بڑے امام چشمِ زدن میں غدار بن جاتے ہیں یا غدار شمار ہوتے ہیں۔ قبلِ انقلاب کی تہذیب اگر یک طرفہ تھی تو یہ نئی انقلابی تہذیب بھی ایک طرف سے ترقی اور دوسری طرف سے تنزل کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرح کے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو مذمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتا ہے ٗ جو معاشرت و معیشت کے متعلق اقبال کے اپنے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن زاویہ ء نگاہ کی ذرا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتا ہے۔‘‘ (47) اقبال نے اشتراکیت پر جو تنقید اس کے روحانیت سے پہلو تہی کے حوالے سے کی تھی اور لینن کو خدا کے حضور لاکھڑا کیا تھا آگے چل کر ثابت ہوا کہ کوئی نظام بھی روحانی اقدار کی نفی کرکے زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور روس میں مذہب کو نہ صرف سرکاری طور پر قبول کیا گیاہے اور اسے گلاسنو سٹ قرار دیا گیا ہے بلکہ اب تو یہ نظریہ دم توڑ چکا ہے اور روس کی بہت سی ریاستیں یکے بعد دیگرے آزاد ہو چکی ہیں۔ اس سے اقبال کی فکری گہرائی اور دور اندیشی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اقبال کو اشتراکیت سے دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی مساوات ٗ برابری اور مظلوم طبقوں سے ہمدردی جیسے تصورات کی بدولت تھی ٗ خود اسلام میں بھی یہ سب تصورات ابتداء سے موجود ہیں اور اس اضافے کے ساتھ کہ وہاں مرکزی نقطہ اللہ کی ذات ہے جس سے روحانی اقدار ٗ مادی تعداد کے ساتھ ڈھل کر بہتر متوازن طور متشکل ہوتی ہیں ٗ خلیفہ صاحب کا اشارہ اسی جانب ہے۔ اقبال نے اشتراکیت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا اور اس نظام نے مغرب کے استحصالی نظم پر جو ضرب لگائی اس کا وہ قائل بھی تھا لیکن اسے اقبال نے اپنے نصب العین کے طور پر کبھی قبول نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس اسلامی تعلیمات پر عمل میں راہ ِنجات دیکھی۔ جدید علوم اور اشتراکیت کے فلسفے سے متاثر ہو کر ادباء کے ایک گروہ نے ترقی پسند فکر کی بنیاد رکھی۔ اس نظریے کے پیش نظر قدیم اور فرسودہ نظریات اور اقدار کا ابطال اور جدید علوم کی ترویج اور وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ ہمارے ہاں اس تحریک نے کچھ عرصے بعد اشتراکیت کے آلۂ کار کی صورت اختیار کر لی اور ترقی پسندی اور اشتراکیت تقریباًہم معنی الفاظ ہوگئے۔ اقبال کے ہاں ترقی پسندی اس حوالے سے تو موجود ہے کہ وہ آئینِ نو کی طرف آنے اور طرز ِکہن کو چھوڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ بغیر کسی اصول یا معیار کے نہیں بلکہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ سب کچھ معیار کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرنا چاہیے۔ یوں ان کی ترقی پسندی انتہا کی طرف مائل نہیں بلکہ اس میں اعتدال اور میانہ روی موجود ہے۔ اس طرح وہ اپنے بعد آنے والے ترقی پسندوں سے یکسو ہوجاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی پسندی اپنی بہترین صورت میں اقبال کے ہاں موجود ہے اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے اقبال سے بہت اثرات قبول کیے ہیں۔ جہاں تک حقیقت نگاری کا تعلق ہے اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ اس ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت نگاری سے ادب میں مراد وہ تحریک ہے جو براہِ راست اظہار، اشیاء کے ہو بہو بیان اور رومانیت کے متضاد خصوصیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے اقبال ہمیں بہت بڑے حقیقت نگار نظر آتے ہیں کہ ان کے ہاں اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے پر ان کے براہ ِراست اظہار کا رجحان بہت نمایاں ہے۔ حقیقت نگاری کے میدان میں بہت کم لوگ ہمیں اردو میں اقبال کے پائے کے نظر آتے ہیں اگرچہ اردو میں اس تحریک کا آغاز سرسید اور حالی کے ساتھ ہو چکا تھا لیکن اقبال سے پیشتر حقیقت نگاری میں جمالیاتی اصولوں کو عموماً نظر انداز کیا جاتا تھا جس سے ادب پارہ پروپیگنڈہ کی سطح پر اتر آتا تھا اور اپنا ادبی معیار کھو دیتا تھا۔ اس کے برعکس اقبال نے جمالیاتی اقدار کو خوبصورتی سے حقیقت نگاری سے اس طرح ملا کر بہترین فن پارے تخلیق کیے کہ اقبال کے بعد بھی چند ایک کے سوا کوئی ان کی ہمسری کا مقام حاصل نہیں کر سکا۔ اگر ہم حتمی طور پر بات کرنا چاہیں تو یہ مشکل ہے کہ اقبال پر کوئی ایک لیبل لگا دیں کہ وہ رومانی تھا، اشتراکی تھا، فطرت پسند تھا، وجودی تھا، علامت نگار تھا، حقیقت نگار تھا یا ترقی پسند ۔ اصل میں اقبال مجموعی طور پر ایک جدید اور عظیم شاعر تھا۔ اس کے ہاں ان سب رجحانات کے بہترین عناصر نے ایک دوسرے سے مل کر ایک نیا روپ اور آہنگ حاصل کر لیا تھا۔ ان رجحانات کے ساتھ ساتھ اقبال کی مذہب پسندی نے اسلامی تعلیمات کی آمیزش سے ایک نئے رجحان کو چیزِدیگر بنا دیا تھا اور اگر ہم اسے کوئی نام دے سکتے ہیں تو وہ اقبالیات ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے اگرچہ اقبال کے مرتبے اور مقام کو کم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مسلم دنیا میں بالخصوص اور ساری دنیا میں بالعموم اقبال کی شہرت اور عزت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں ’’اقبالیات‘‘ ایک باقاعدہ شعبے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں پر ہمہ وقت ماہرین اس مخصوص طرزِ اظہار کے خدّو خال نکھارنے میں مصروف ہیں۔ حواشی و حوالہ جات 1۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے : اقبال بنام شاد، مرتبہ : محمد عبداللہ قریشی، بزمِ اقبال، لاہور، 1986 ئ۔ 2۔ خالد نظیر صوفی : اقبال درونِ خانہ ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1983 ء ‘ ص۔107 ۔ 3۔ ( علامہ) محمد اقبال : شذراتِ فکرِ اقبال ٗ مرتّبہ: ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، مترجمہ: ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی؛ مجلس ترقیٔ ادب ٗ لاہور ٗ 1983 ئ، ص۔ 105 ۔ 4۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : (علامہ) محمد اقبال : مطالعۂ بیدل برگساں کی روشنی میں، مرتّبہ و مترجمہ: ڈاکٹر تحسین فراقی ٗ یونیورسل بکس، لاہور، 1988 ء (اس مقالے کا اولین ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض نے کیا تھا۔ یہ ترجمہ سہ ماہی ٗ ادبیات ٗ اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۴ جلد ۔ بابت اپریل ۔ 1988ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ یہ ترجمہ ان کی مرتّبہ کتاب افکارِ اقبال میں بھی شامل ہے)۔ 5۔ (علامہ) محمد اقبال : گفتار ِاقبال؛ مرتبہ محمد رفیق افضل ٗ ادارہ تحقیقاتِ پاکستان ٗ لاہور، 1986ء ،ص ۔207۔ 6۔ (شیخ) عبدالقادر : دیباچہ ٗ بانگِ درا ٗ مشمولہ کلیاتِ اقبال، ص۔ 9 7۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : ڈاکٹر سید عبداللہ : مقاماتِ اقبال ٗ لاہور اکیڈمی ،لاہور، 1964ئ، ص۔ 163 تا186 ۔ 8۔ (سید) عابد علی عابد : شعرِ اقبال ؛اقبال کے شعورِ تخلیق کا جائزہ، بزمِ اقبال، لاہور، 1977ء ،ص۔ 91 ۔ 9۔ ( شیخ) عبدالقادر : دیباچہ بانگ درا مذکور ٗ ص۔ 15۔ 10۔ محمد حنیف شاہد : اقبال اور انجمن حمایت ِاسلام ٗ کتب خانہ انجمن حمایتِ اسلام ٗ لاہور ٗ 1976ئ، ص۔ 30 ۔31 ۔ بحوالہ حمایت اسلام (انجمن ایڈیشن) 10 اپریل 1970 ء ۔ 11۔ تفصیلات کیلیے دیکھیے : انور سدید : اقبال کے کلاسیکی نقوش ٗ اقبال اکادمی پاکستان ٗ لاہور ٗ 1988 ء ،ص۔ 74 تا 110 ۔ 12۔ (ڈاکٹر جسٹس) جاوید اقبال :دیباچہ شذراتِ فکرِ اقبال مذکور ٗ ص۔ 47۔ 13۔ (پروفیسر ڈاکٹر ) افتخار احمد صدیقی: عروجِ اقبال ٗ بزمِ اقبال ،لاہور، 1987 ء ، ص۔129 ۔ 14۔ (مولانا) الطاف حسین حالی :حیاتِ جاوید ٗ اکادمی ایڈیشن ٗ لاہور، 1957 ئ، ص۔ 567 بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کتاب مذکور ٗ ص۔ 129 ۔ 15۔ محمد حنیف شاہد: کتاب مذکور ٗ ص۔ 25 ۔ 16۔ منسوخ نظموں کے متون اور ان کے تقابلی مطالعے کے لیے دیکھیے (1) محمد حنیف شاہد : کتاب مذکور ٗ ص۔ 147 ٗ (2) علامہ محمد اقبال: باقیاتِ اقبال،مرتبہ سید عبدالواحد معینی، ترمیم و اضافہ محمد عبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور ٗ 1975 ء ،ص ۔43 تا51 ٗص۔52 تا 71 ،ص ۔ 97 تا 102 ٗ ص۔ 113 تا 130 ٗ ص۔ 139 تا 162 ص۔ 290 تا 330 ۔ (3 ) علامہ محمد اقبال : ابتدائی کلامِ اقبال مرتبہ ڈاکٹر گیان چند ، شائستہ پبلشنگ ہائوس، کراچی،1988 ئ، ص ۔61 تا 69 ، ص۔ 95 تا 104 ٗ ص۔ 148 تا 140 ٗ ص۔191 تا 200 ٗ ص۔ 239 تا 246 ۔ 17۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : محمد حنیف شاہد :کتاب مذکور۔ 18۔ (پروفیسر ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی : کتاب مذکور، ص۔114 ۔ 19۔ محمد حنیف شاہد :کتاب مذکورٗ ص۔ 22 ۔ 20۔ (ڈاکٹر) عنوان چشتی : اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت ٗ تخلیق مرکز ٗ لاہور، س ۔ن، ص۔151 ٗ 152 ۔ 21۔ (ڈاکٹر) گوہر نوشاہی:لاہور میں اردو شاعری کی روایت ٗ مکتبۂ عالیہ ٗ لاہور ٗ 1991 ء ٗ ص۔64 ۔ 22۔ محمد عبداللہ قریشی :حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں ٗ بزمِ اقبال ،لاہور ٗ 1982 ء ٗ ص ۔57 ۔ 23۔ محمد حنیف شاہد: کتاب مذکور ٗ ص۔ 81 ۔ا س شعر کے دوسرے مصرعے کی تصحیح فقیر سید وحید الدین کی کتاب روزگار ِفقیر جلد دوم میں کی گئی ہے۔ 24۔ (علامہ) محمد اقبال : باقیات ِاقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی مذکور ،ص ۔295 ۔ 25۔ (پروفیسر ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی ٗ کتاب مذکور ٗ ص۔ 178 ۔ 26۔ (سید )عابد علی عابد : کتاب مذکور ٗ ص۔ 201 ۔ 27۔ شیخ عبدالقادر ٗ دیباچہ بانگ ِدرا مذکور ٗ ص ۔ 15 ۔ 28۔ اردو دائرہ ء معارفِ اسلامیہ، جلد نمبر 1 ٗ دانشگاہِ پنجاب ٗ لاہور ٗ 1973 ء ٗ ص۔372 ۔ 29۔ ایضاً :ص۔374 ۔ 375 ۔ 30۔ ایضاً :ص۔380 31۔ (علامہ) محمد اقبال : اقبال نامہ ٗ حصہ دوم مرتبہّ شیخ عطاء اللہ ،شیخ محمد اشرف ٗ لاہور ٗ س۔ن ٗ ص ۔231 ۔232۔ 32۔ (علامہ) محمد اقبال : گفتارِ اقبال ٗ مرتبہ محمد رفیق افضل مذکور ٗ ص۔ 177 ۔178 33۔ (علامہ) محمد اقبال : مقالاتِ اقبال ٗ مرتبہ سید عبدالواحد معینی ٗ آئینۂ ادب ٗ لاہور ٗ 1988ئ، ص ۔132 ۔ 34۔ (علامہ) محمد اقبال : مکاتیب ِاقبال بنام گرامی ٗ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی : اقبال اکادمی ٗ لاہور ،1981 ء ، ص۔ 132 35۔ ( علامہ) محمد اقبال : شذراتِ فکرِ اقبال ٗ مترجمہ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی مذکور ٗ ص ۔58 36۔ عزیز احمد : اقبال ٗ نئی تشکیل ٗ گلوب پبلشرز ٗ لاہور، 1968 ء ٗ ص ۔362 ٗ 363 ۔ 37۔ ( سید) علی عباس جلالپوری : اقبال کا علمِ کلام، مکتبہ فنون ،لاہور ٗ 1972 ء ٗ ص۔14 ۔15 ۔ 38۔ علامہ محمد اقبال : دیباچہ ٗ تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ ٗ مترجمہ سید نذیر نیازی ، بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1986 ء ،ص ۔15 ۔ 39۔ ایضاً :ص۔20 ۔ 40۔ (ڈاکٹر) عشرت حسین انور: اقبال کی مابعد الطبیعات ٗ مترجمہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی، اقبال کادمی پاکستان ٗ لاہور ٗ 1980 ء ص ۔ 15 ۔ 41۔ ایضاً :ص۔24 ۔ 42۔ اردو متن کے لئے دیکھیں اقبال کے تعلیمی نظریات از ڈاکٹر محمد ریاض ٗ گلوب پبلشرز ٗ لاہور ٗ س۔ن، ص ۔ 88 ٗ 89 ۔ 43۔ (سید) علی عباس جلالپوری :کتاب مذکور ٗ ص۔18 ۔ 44۔ (علامہ) محمد اقبال :خط بنام صاحبزاد آفتاب احمد خان ٗ بحوالہ سید علی عباس جلال پوری ، کتاب مذکور ۔ ص ۔20 ۔ 45۔ ( علامہ) محمد اقبال : اقبال نامہ حصہ اول مرتبہ شیخ عطاء اللہ مذکور ٗ ص ۔65 ۔ 46۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1988 ء ،ص ۔ 247 ۔ 47۔ ایضاً: ص۔261 ۔262۔ ٭٭٭ باب پنجم : حصہ اوّل اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ ’’غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا ٗ اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد ِخاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے ٗ اور اس نے پنجاب کے ایک گوشہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘(1) سر عبدالقادر نے اقبال کی پہلی کتاب کے دیباچے میں اقبال کی شاعری کی جانب غالب کی مماثلت کے حوالے سے اشارہ کیا ہے۔ اس سے ہمیں اقبال کی شاعری کے بہت سے عناصرِ ترکیبی سے آگاہی ہوتی ہے۔ غالب نے اردو شاعری میں فلسفیانہ مضامین کے بیان سے ایک نئی طرح ڈالی تھی جسے اقبال نے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اقبال ایسا شاعر ہے جس کے ہاں گہری فکر اور حکمت جاری و ساری نظر آتی ہے۔ اقبال نے تہذیب و تمدن کے جملہ پہلوؤں پر غور و فکر کیا اور انسانی زندگی میں مذہب کے کردار ٗ ادب کی تہذیبی اہمیت ٗ کائنات میں انسان کا مقام ،غرض بے شمار سنجیدہ ٗ فکری اور فلسفیانہ مضامین کو شاعری کا جامہ یوں پہنایا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیات جنم لیتی دکھائی دیتی ہے۔ کسی بھی عظیم شاعر پر بات کرتے ہوئے ہمیں ایک بات کو مدّ ِ نظر رکھنا چاہیے کہ شعر و ادب کی اپنی منطق ہوتی ہے جو فلسفہ اور زندگی سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے شعرو ادب کے تصورات اخذ کرتے وقت خصوصی احتیاط برتنی چاہیے اور جلد بازی سے ایسے نتائج اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو شاعری کی کُلّی تفہیم سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس کی شاعری فنی اعتبار سے دنیا کے عظیم شعراء کے مقابلے میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی مربوط فکر اور مذہبی تعلیمات کو اپنی شاعری میں سمونے سے اردو شاعری میں ایک نئی طرز کی بنا ڈالی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری سے مسلم قوم کے زوال کے خاتمے اور مسلم نشاۃِ ثانیہ کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے کام لیا۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے۔ شاعری کو عام طور پر لطفِ طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمالِ حسنہ میں شمار نہیں کیاجاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ قسم ہے جو گِرتوں کو ابھارتی ہے اورخستگانِ حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملّت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوںاس کو اعلیٰ درجے کے اعمالِ حسنہ میں شمار کرنا چاہئے۔ ‘‘(2) خلیفہ صاحب نے بجا طور پر اقبال کی شاعری کے اس پہلو کو ابھارا ہے جو خود اقبال کو بھی بہت عزیز تھا۔ وہ اکثر اپنے احباب کی مجالس میں اس بات کا اظہار کیا کرتا تھا کہ وہ شاعر نہیںہے اور فنی نزاکتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، اس لیے اُس کی شاعری تو اس پیغام کی ترسیل کے لیے ہے جو وہ اپنے لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اپنے اس برملا اعتراف کے باوجود اقبال کے ہاں ایسے فنی سقم کم ہی ملتے ہیں جنہیں عیب شمار کیا جا سکے۔ اقبال نے اردو ٗ فارسی اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس سے اسے شعری رموز کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اقبال کے ہاں لفظ ٗ نگینوں کی طرح جڑے ہوتے ہیں اور لفظ و معانی میں مکمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر ہم اقبال کی شعری لغت کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس نے بہت سے ایسے الفاظ کو بھی اپنی شعری لغت کا حصہ بنایا جنہیں عموماً غیر شاعرانہ سمجھ کر شاعری سے باہر رکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اقبال نے بہت سے لفظوں کو نئے معنوں میں استعمال کیا۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد کا یہ بیان بر محل معلوم ہوتا ہے: ’’اقبال ان شعراء میں سے ہیں جو نہ صرف اپنے کلام کی ادبی خوبیوں کی وجہ سے جاذبِ توجہ ہوتے ہیں بلکہ جو اپنے مطالب و معانی کے اعتبار سے بھی تحقیقی مطالعے کا موضوع بنتے ہیں۔ ان کے یہاں یہ بات بھی ہے کہ انھوں نے تغزل اور تصوف کے ذخیرہ ٔعلامات و مصطلحات میں سے اکثر الفاظ و تراکیب کو اپنے معانیء قدیم سے جدا کرکے گویا بہ جبر و قہر سینہء الفاظ میں ایک روحِ نو پھونکی۔ علائم و رموز کو سمجھنا یوں بھی دشوار ہوتا ہے لیکن جب یہ الجھن بھی پیدا ہو جائے کہ کوئی لفظ یا ترکیب ایک علامتی شکل اختیار کر لے اور پھر اپنی علامتی اہمیت سے ہٹ کر ایک اور علامتی معنویت پیدا کرے تو یہ پیچ در پیچ استعارے کی صورت پڑھنے والے کے لیے اکثر و بیشتر گمراہی کا موجب بن سکتی ہے۔ اقبال کے ہاں علائم صاف اور سامنے کی چیزیں ہیں اور کچھ رموز پیچ دار اور پراسرار ہیں‘‘۔ (3) عابد صاحب نے اپنے اس بیان میں ایک جانب اقبال کے طریقِ کار اور ان کے رموز و علائم کی اہمیت پر بات کی ہے تو دوسری جانب انھو ںنے اس مشکل کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے جس کے سبب قاری کو کلامِ اقبال پیچیدہ اور الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے اور مطالب کو گرفت میں لینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اپنی اسی کتاب میں آگے چل کر عابد صاحب نے اقبال کے رموز و علائم کی مفصّل وضاحت کی ہے جس سے ہمیں کلامِ اقبال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اقبال نے اپنا شعری خاکہ خود ترتیب دیا تھا۔ اقبال نے بڑی مہارت سے اپنے راستے کا انتخاب کیا اور اپنا راستہ خود بناتا ہوا منزل تک پہنچا۔ اقبال کے فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس پر لکھنے کی ابھی کافی گنجائش موجود ہے۔ یہاں ہم اس سمت میں مختصر اشارہ کرنے پر اکتفا کریں گے۔ چونکہ اقبال جن تصورات و افکار کا اظہار شاعری میں کرنا چاہتا تھا، وہ اردو شاعری کے لیے نئے تھے اس لیے اسے اپنے لیے نئے استعارے بھی تراشنے پڑے۔ اس نے اپنی فکر کے لیے جو جہانِ فن تخلیق کیا۔ وہ اس کی فکر سے مطابقت رکھتا تھا، اس لیے دونوں کے اشتراک سے اعلیٰ درجے کی شاعری تخلیق ہوئی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کا یہ بیان قابل توجہ ہے: ’’اقبال کی فکری بلوغت اور ان کے فن کی بلاغت الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں، ایک ہی اکائی کے دو پہلو ہیں جن کے درمیان فرق تنقید کی چشمِ امتیاز چاہے تو کر سکتی ہے۔ جبکہ شاعری کے لمحہء تخلیق میں دونوں ایک دوسرے کے اندر بالکل مدغم ہیں۔ اور اس ادغام کا نتیجہ واحد ہے جو اجزائے ترکیب سے ترتیب پانے والا ایک ایسا مرکب ہے جس کے اجزاء اپنی جداگانہ حیثیت کھو چکے ہیں اور ایک کل کے اجزائے ترکیبی بن چکے ہیں۔ فکر و فن کے مکمل ادغام کی یہ صورت صرف اس خلوص کی بنا پر رُوبہ عمل آئی ہے جو اقبال کے معاملے میں بیک وقت فکر اور فن دونوں کی خصوصیت ہے۔ اقبال کے سارے افکار و تصورات نہ صرف ان کے مشاہدات و مطالعات ہیں بلکہ احساسات و جذبات بھی ہیں۔ یعنی تجربات اوروار دات بن چکے ہیں۔ واقعات محسوسات میں بدل گئے ہیں۔ حقائق کوائف میں ڈھل گئے ہیں۔ شاعر کے خلوص کی شدت وحدتِ کائنات و حیات کے تمام مظاہر و مناظر کو تپا اور گھلا کر ایک تخلیقی وحدت کی شکل دے دیتی ہے۔ یہی وحدت اقبال کا فن ہے جو فکر کے تمام ضروری اجزاء سے مرکّب اور فن کے تمام ضروری عناصر پر مشتمل ہے‘‘۔(4) ڈاکٹر عبدالمغنی نے اقبال کے فکر و فن کے ا تّصال سے پیدا ہونے والی شاعری کی خصوصیت اور اہمیت کی طرف بڑے خوبصورت اشارے کیے ہیں۔ اس بات کی گنجائش بہرحال موجود ہے کہ اس بیان پر ایک طویل بحث کی جا سکے اور اس میں بہت کچھ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس جگہ ہم اقبال کے فن پر بحث کو ختم کرتے ہیں اس لیے کہ آگے چل کر جب اقبال کی شاعری پر تفصیل سے بحث کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی۔ اقبال کی شاعری کے تفصیلی مطالعے کے لیے عموماً تین طریقہ ہائے کار اختیار کیے جاتے ہیں: 1۔ اقبال کی شاعری کا موضوعات کے اعتبار سے جائزہ ۔ 2۔ اقبال کی شاعری کا تاریخی تناظر میں جائزہ۔ 3۔ اقبال کی شاعری کا شعری اصناف کے اعتبار سے ارتقائی جائزہ۔ ان تینوں طریقوں سے اقبال کی شاعری کو سمجھا جا سکتا ہے اور ہر طریقے کے اپنے اپنے محاسن ہیں۔ یہاں ہم تیسرا طریقہ کار اختیار کریں گے یعنی شعری اصناف (غزل ٗ نظم ٗ طویل نظم اور متفرق اصناف) کے حوالے سے ان کی شاعری کا جائزہ لیں گے۔ اقبال کی غزل غزل اردو شاعری کی ایسی صنف ہے جو بڑے تخلیقی تجربے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اردو شاعری میں کسی بھی شاعر کو جانچنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اس نے کیسی غزل کہی ہے۔ ولی ٗ میر‘ درد ٗ سودا ٗ غالب ٗ آتش ٗ داغ اور بے شمار دوسرے شعراء کو اردو شاعری میں بڑا مقام حاصل ہے اس کی وجہ ان کا غزل کے میدان میں بڑے تخلیقی تجربے کا اظہار ہے۔ اقبال نے بھی شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ ابتداء میں اس نے داغ سے اصلاح بھی لی جو اس وقت ہندوستان کے شعری منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے۔ اقبال کی ابتدائی غزلوں میں ہمیں داغ کے واضح اثرات ملتے ہیں۔ یہ غزلیات بانگِ درا کے پہلے حصے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غزلیں جو اقبال نے بانگِ درا میں شامل نہیں کیں وہ باقیاتِ اقبال میں شامل ہیں۔ اقبال نے بانگِ درا کے پہلے حصے میں جن غزلیات کو شامل کیا ہے ان کی ابتدائ1901 ء سے ہوتی ہے۔ پہلی غزل یہ ہے ؎ گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستیٔ نا پائیدار دیکھ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ ٗ مرا انتظار دیکھ کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔124 ) موجودہ صدی کی ابتداء میں اگر ہم برصغیر میں ہونے والی اردو شاعری کو (جس میں داغ سب شاعروں پر چھائے ہوئے تھے) ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ بالا غزل کا مطالعہ کریں تو ہمیں خوشگوار حیرت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر ہی سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اپنے انداز ِ بیان ٗ زبان اور مواد کے اعتبار سے ہم اردو غزل کے ایک نئے ذائقے سے روشناس ہو رہے ہیں۔ اس غزل کا شاعر اشیاء پر غور و فکر اور گہرے مشاہدہ کا حامل نظر آتا ہے۔ لڑکپن کی رومانویت جو بعض شعرا کا تمام عمر پیچھا نہیں چھوڑتی ہمارے شاعر سے کوسوں دور ہے۔ سیدھے سادے عامیانہ مضامین کو بھونڈے طریقے سے بیان کرنے کی بجائے شاعر گہرے مطالب کے حامل شعر کہہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعر سنوارنے کا سلیقہ نمایاں ہے۔ ایک اور خوبی جوا س غزل سے عیاں ہے، وہ اپنے دور کی شعری لغت سے انحراف کی شعوری کوشش ہے۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں کہ جس شاعر کے ابتدائی کلام میں یہ عناصر موجود ہوں آگے چل کر اس کے ہاں بڑا شاعر بننے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیات تھیں جن کی بدولت اقبال نے نہ صرف اپنے ہمعصر شاعروں میں نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ اپنے عہد کے مانے ہوئے اساتذہ سے بھی خراجِ تحسین وصول کیا۔ ڈاکٹر عبدالمغنی نے اقبال کی اس پہلی غزل کے تجزیئے کے بعد لکھا ہے: ’’اس ہیئت سخن میں فن کے روایتی سانچے کو توڑا نہیں گیا ہے۔ اک موڑ آ گیا ہے۔ اس میں تبدیلی کی بجائے توسیع کی گئی ہے اور انقلاب کی بجائے ارتقاء ہوا ہے۔ تغزل کی ساری مسلّم ا لثّبوت ادائیں اس غزل سرائی میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود احساس ہونے لگتا ہے کہ ان ادائوں میں ایک نئی جہت خموشی سے پیدا ہو رہی ہے۔ تغزل میں مجازی و حقیقی شیوے برابر ہی مضمر رہے ہیں لیکن اب دونوں کے امتزاج سے آفاقیت کا ایک نیا عشوہ ابھرتا نظر آ رہا ہے ٗ غزل کو عجم کے آب رکنا باد اور گلگشت ِ مصلیٰ نے پروان چڑھایا ہے ٗ مگر اب اسی دیار میں کوہِ اضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کی ہوائیں چلتی محسوس ہو رہی ہیں۔ یہ شیراز کی تصویر میں نجد کا ترنم ہے۔ اس طرح عشق کی اصلی روایت جس ہیئتِ عتیق سے روئے زمین پر جلوہ افروز ہوئی تھی، صدیوں کے بعد ایک بار پھر اسی کے گرد طواف کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بانگِ درا ہے جو جلد ہی بالِ جبریل پر پرواز کرے گی اور دنیائے غزل پر ضربِ کلیم لگا کر بالآخر زبورِ عجم بن جائے گی اور پیامِ مشرق کہلائے گی۔‘‘ (5) ڈاکٹر صاحب کی بے جا لفّا ظی کے باوجود ہمیں ان کے بنیادی نقطے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے لیکن انھوں نے جس طرح الفاظ کا بے دریغ قتلِ عام کیا ہے اس سے ان کی بدذوقی بہر طور ظاہر ہو جاتی ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ کے حصۂ اول میں اور بھی کئی ایسی غزلیں موجود ہیں جو اپنی مجموعی فضا کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں۔ یہاں ان غزلیات کے چند ایک اشعار درج کیے جاتے ہیں ؎ عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب ! عداوت ہے اسے سارے جہاں سے کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جاتا ہے ٗ آتا ہے کہاں سے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 125 ) پاس تھا ناکامیء صیاد کا اے ہم صفیر! ورنہ میں، اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 126 ) کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا،تقاضا طور پر کیا خبر ہے تجھ کو اے دل! فیصلہ کیونکر ہوا دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے پھر یہ وعدہ حشر کا ، صبر آزما کیونکر ہوا تونے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت !کہ گل ہو کے پیدا خاک سے ،رنگیں قبا کیونکر ہوا میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی کیا بتائوں، ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 127 ۔ 126 ) انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب! رہنے والے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذّت ، خانماں برباد رہنے کی نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں مرے اشعار اے اقباؔل! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے، یہ درد انگیز نالے ہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 127 ) ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 128 ) جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوںمیں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ٗ ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِبیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔130 ۔129 ) ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں ٗ مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں ٗ سزا چاہتا ہوں (کلّیاتِ ِاقبال ٗ ص۔131 ) مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر بیگانہ شے پہ نازشِ بیجا بھی چھوڑ دے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔133 ) اقبال کی یہ غزلیں دو اعتبارات سے خاصی اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے ہمیں ان کی بعد کی شاعری کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ بہت سے موضوعات جو آگے چل کر اقبال کی شاعری کے اہم اور مستقل موضوعات کے طور پر سامنے آئے، ان کی ابتداء بھی ہمیں ان غزلیات میں نظر آتی ہے۔ دوسرا ان سے ہمیں اقبال کی فنی چابکدستی اور مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حصے کی تین چار غزلیں بہت طویل ہیں۔ باقی غزلوں میں بھی اشعار کی تعداد خاصی زیادہ ہے جس سے ان کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کی ان غزلیات کا صحیح مقام ٗ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، تبھی معلوم ہو سکتا ہے جب ہم اسے اس دور کے شعری منظر نامے میں رکھ کر دیکھیں۔ اس سلسلے میں یہاں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کا یہ بیان درج کر ناکافی معلوم ہوتا ہے: ’’اقبال کی ان غزلوں کا صحیح مقام متعین کرنے کے لیے اس دور کے ادبی پس منظر ٗ بالخصوص غزل گوئی کی عام روایت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بیسیویں صدی کے اوائل تک اصلاحِ غزل کے سلسلے میں حالی کی اجتہادی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مشاعروں اور ادبی محفلوں میں ابھی تک داغ وامیر کا سکّہ رائج تھا‘‘ (6) ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے تک آتے آتے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اقبال کی غزل کے موضوعات ٗ اور فن میں گہرائی اور گیرائی آتی جا رہی ہے۔ اب ان کا فلسفیانہ نقطہ نظر زیادہ نکھر کر سامنے آ رہا ہے ؎ زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے رم کے سوا کچھ بھی نہیں رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیا جس دم ٗ تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 161 ) نرالا سارے جہاں سے ٗ اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتّحادِ وطن نہیں ہے کہاں کا آنا ٗ کہاں کا جانا ٗ فریب ہے امتیازِ عقبٰی نمود ہر شے میں ہے ہماری ،کہیں ہمارا وطن نہیں ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 162) کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔163 ) دوسرے حصے کی غزلیات میں خصوصی طور پر جن موضوعات سے بحث کی گئی ہے ان میں عشق و فلسفہ ٗ معرفت و حکمت ٗ زندگی اور زمانے کے بارے موضوعات شامل ہیں ٗ ان غزلوں میں ایک خاص طرز کی بے باکی ٗ شوخی اور نکتہ سنجی ہمیں نظر آتی ہے اور اقبال کا یہ رنگ حصہ سوم کی غزلیات میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے ٗ جس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔ حصہ دوم کی یہ غزلیات ٗ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اب اقبال نے روایتی موضوعات سے تقریباً پیچھا چھڑا لیا ہے اور قدرے نئے تصورات نظم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہیئت غزل میں بھی خفیف سی تبدیلی کے آثار ملنا شروع ہوئے ہیں جو بالِ جبریل کی غزلوں میں پوری طرح نمایاں ہوئے ہیں۔ ان غزلیات کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے لکھا ہے: ’’ان غزلوں کے اسلوبِ سخن کا مطالعہ جن سے یہاں اشعار لیے گئے ہیں ٗ صاف صاف بتاتا ہے کہ بہت ہی پیچیدہ ٗ ثقیل اور دقیق خیالات و احساسات کو بھی ٗ جن کا اظہار اب تک غزل میں نایاب تھا ٗ تغزل کے رنگ و آہنگ اور استعارات و کنایات میں اس پختگی اور نفاست کے ساتھ جذب کیا جا رہا ہے کہ عنقریب غزل کا تصور ہی بدل جائے گا۔ اگرچہ تغزل کی تصویر نہ صرف باقی رہے گی بلکہ اس کے نقوش پہلے سے بدر جہا زیادہ تیکھے ہو جائیں گے ۔‘‘(7) عبدالمغنی صاحب کی اس بات سے اختلاف کرنا مشکل ہے کہ انھوں نے بجا طور پر اقبال کی بہت سی اہم خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں اقبال کے ہاں سے دیکھیں ؎ جو موجِ دریا لگی یہ کہنے ،سفر سے قائم ہے شان میری گہر یہ بولا، صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل ،وہ تربیت سے نہیں سنورتے ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔162 ) بلندی آسمانوں میں ٗ زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں ٗ افتادگی تیری کنارے میں جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں ٗ پھول میں ٗ حیواں میں ٗ پتھر میں ٗ ستارے میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔164 ) اقبال کی اس دور کی غزلیات ہم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے اس بیان کے ساتھ ختم کرتے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر کے کافی قریب ہے۔ ’’حاصلِ بحث یہ کہ جس طرح اس مختصر دور کے گوناگوں تجربات اقبال کی شخصیت کی توسیع و تکمیل کا باعث ہوئے اور انگلستان و جرمنی میں سیرو تفریح کے اتنے مواقع اور ایسی صحبتیں میسر آئیں ٗ جن کی یاد عرصۂ دراز تک ان کے لیے سراپا نشاطِ روح بنی رہی ٗ جس طرح وسیع مطالعے اور مشاہدے کی بدولت اقبال کے ذہن و فکر کے زاویے بدل گئے اور وہ مغربی تہذیب کے ظلمات سے گذر کر اسلام کے سرچشمۂ حیات تک پہنچے ٗ اسی طرح ان کا فن بھی احساس و شعور کی ایک نئی جہت، ایک اعلی نصب العین کے نئے سوزو ساز اور نئے آہنگ و انداز سے آشنا ہوا۔‘‘ (8) بانگِ درا کے تیسرے حصے کا آغاز علامہ اقبال کی وطن واپسی کے بعد ہوتا ہے۔ مغرب میں جہاں اس نے جدید علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی، مغربی فلسفے اور قانون کا مطالعہ کیا، وہیں جدید مغربی تہذیب اور اس تہذیب میں پروان چڑھنے والے مختلف اداروں کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ٗ اس طرح اسے اپنی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا موازنہ کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں میسر ہوئیں۔ یوں اس نے مغربی تہذیب اور جدید تعلیم کی غلط روش کو ہدفِ تنقید بنایا۔ سرمایہ دارانہ اور مغربی سیاسی نظام سے اقبال نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔وہ مشرق کے رہنے والوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا مشورہ دیتا ہے اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ہندوستان میں قومیت سے ملت کے تصور کی طرف مراجعت کا آغاز ہوا۔ اقبال نے فارسی شاعری شروع کی جو آگے چل کر ان کے اظہار کا بڑا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس نے تصوف کے بعض تصورات و شخصیات کو ہدفِ تنقید بنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دور فکرِ اقبال کے حوالے سے ایسا دور ثابت ہوا جس میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اقبال کی اردو غزل کے اعتبار سے بھی انگلستان سے واپسی کے بعد کا دور بہت بار آور ثابت ہوا۔ اس نے اردو غزل میں ایک نئے لہجے کا اضافہ کیا۔ اپنی بعض یادگار غزلیں اسی دور میں لکھیں۔ موضوعات ٗ اسلوب ٗ زبان و بیان اور دوسرے فنی لوازمات کے حوالے سے اقبال کی یہ غزلیں اس کی نمائندہ غزلیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ بعض مثالیں اقبال کے ہاں سے دیکھیں ۔ ؎ نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ٗ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 311 ۔310 ) پھر بادِ بہار آئی ٗ اقبالؔ غزل خواں ہو غنچہ ہے اگر گل ہو ٗ گل ہے ٗ تو گلستاں ہو تو جنسِ محبت ہے ٗ قیمت ہے گراں تیری کم مایہ ہیں سوداگر ٗ اس دیس میں ارزاں ہو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔312 ) کبھی اے حقیقتِ منتظر ٗ نظر آ لباس ِمجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں نہ عشق میں رہیں گرمیاں ٗ نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔313 ۔312 ) تہ ِدام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیرِ لبی رہی نہ خدا رہا نہ صنم رہے ٗ نہ رقیبِ دیر و حرم رہے نہ رہی کہیں اسد اللہی ٗ نہ کہیں ابو لہبی رہی مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہیدِذوقِ وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 313 ) اوپر اقبال کی غزلیات سے جو اقتباسات درج کیے گئے ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیںکہ یہاں تک آتے آتے دوسرے بڑے شاعروں کی طرح اقبال نے بھی اپنا ایک اسلوب ٗ موضوعات اور دوسرے فنی لوازمات اختیار کر لیے تھے اور وہ آئندہ اردو غزل بلکہ اردو شاعری کے بڑے شاعر کے طور پر طلوع ہونے کے لیے تیار تھا۔ بالِ جبریل کا آغاز ہی غزلیات سے ہوتا ہے اور یہ اقبال کے اردو کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ اگرچہ ایک دور میں بعض اصحاب کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ اقبال کی یہ شاعری غزل کی ذیل میں نہیں آتی ٗ اس لیے کہ یہ غزل کے طے کردہ معائیر پر پورا نہیں اترتی لیکن یہ اعتراض ان لوگ نے کیا جو مکھی پر مکھی مارنے کو ہی فن خیال کرتے ہیں اور وہ جو ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا لکھنے والا اپنے فنی معیارات اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور ماضی کے تنقیدی سانچے اس کی تحسین کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں تک ایلیٹ کا یہ قول ابھی نہیں پہنچا۔بالِ جبریل کی یہ شاعری یقینا اردو غزل میں بے مثال اضافہ ہے۔ ان غزلیات نے اردو غزل کو بالکل نئی ڈگر پر ڈال دیا۔ ان میں جدید غزل کے خدو خال بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ اقبال کے بعد اردو غزل نے جو ترقی کی اس میں اقبا ل کی ان غزلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس حصے کی پہلی غزل ہے ؎ میری نوائے شوق سے، شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں ٗ بتکدئہ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر، میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل، تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو،دیر و حرم کی نقشبند میری فغاں سے رستخیز، کعبہ و سومنات میں گاہ میری نگاہِ تیز، چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی ،میرے توہمات میں تونے یہ کیا غضب کیا ٗ مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 345) اقبال کی اس غزل میں ہمیں حمدیہ آہنگ ملتا ہے۔ شاعر اس میں کائنات کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی اس وسیع و عریض کائنات کے بھید جاننے کے لیے مضطرب ہے اور کائنات کے مختلف مظاہر اسے اپنی ذات کا پر تو نظر آتے ہیں۔ شاعر کی نظر سامنے موجود اشیاء سے ماورا اس حقیقت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے چین ہے جو ان سب اشیاء کا حسابدار و مصدر ہے۔ یہاں ہمیں اقبال کے ہاں زمین سے اوپر اٹھ کر الو ہی مظاہر کی طرف جست کا رجحان ملتا ہے۔ بال ِجبریل کے اس حصے میں کل 76 غزلیں شامل ہیں اور معیار کے اعتبار سے سب ایک دوسری کی ہم پلّہ ہیں۔ ہر غزل میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ان غزلوں میں ہمیں فکری تسلسل نظر آتا ہے۔ عشق و محبت کے جذبات ہوں ٗ یا کائنات کے راز ،شاعر سب پر ایک نئے زاویے سے نگاہ ڈال رہا ہے۔ تصوف ٗ فلسفہ اور الہٰیات کی ساری بحث جو پہلے صرف نثر میں بیان ہوا کرتی تھی اب اشعار کے پیکر میں ڈھل رہی ہے۔ ان غزلیات کا انتخاب ایک مشکل امر ہے اور غزل کے اشعار کا انتخاب تو اور بھی دشوار ہے، اس لیے ہم آگے جو مثالیں پیش کر رہے ہیں وہ انتخاب نہیں بلکہ سامنے آ جانے والی غزل ہے ؎ کیا عشق، ایک زندگیٔ مستعار کا کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا وہ عشق ٗ جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا میری بساط کیا ہے ٗ تب و تابِ یک نفس شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا کر پہلے مجھ کو زندگیٔ جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو ! یا رب! وہ درد جس کی کسک لازوال ہو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔349 ) اس غزل سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اب اقبال عارضی اور لمحاتی اشیاء کے فریب سے آزاد ہو کر آفاقی اور لازوال کی خواہش میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اب عشق مجازی ان کے لیے سنگِ میل ہے اور وہ عشقِ حقیقی تک جانے کے لیے بے قرار ہے۔ زندگیٔ جاوداں کے لیے اس کا ذوق وشوق دیکھنے کے قابل ہے اور وہ اپنے دل کے لیے لازوال کسک اور کھٹک چاہتے ہیں ؎ تجھے یاد کیا نہیں ہے ، مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہِ محبت ، وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراشِ آزرانہ نہیں اس کھلی فضا میں ،کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس ، نہ آشیانہ رگِ تاک منتظر ہے تری بارشِ کرم کی کہ عجم کے میکدوں میں نہ رہی میء مغانہ مرے ہم سفر اسے بھی اثرِ بہار سمجھے انھیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایتِ زمانہ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 353) اسی طرح ایک اور غزل دیکھیں : عالمِ آب و خاک و باد ٗ سرِّعیاں ہے تو کہ میں ؟ وہ جو نظر سے ہے نہاں ٗ اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟ وہ شبِ درد و سوز و غم،کہتے ہیں زندگی جسے اس کی سحر ہے تو کہ میں؟ اس کی اذاں ہے تو کہ میں؟ کس کی نمود کے لیے، شام و سحر ہیں گرم سیر شانۂ روز گار پر بارِگراں ہے تو کہ میں؟ تو کفِ خاک و بے بصر ٗ میں کفِ خاک و خود نگر کشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تو کہ میں؟ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 365 ) اقبال کو مسلم ہسپانیہ سے جو شغف تھا وہ سب پر عیاں ہے۔مسجدِ قرطبہ اس کی لازوال نظم ہے جو یقینا دنیا کی چند بہترین نظموں میں شامل ہے۔ قرطبہ میں ہی اس نے ایک غزل لکھی جس پر باقاعدہ درج ہے کہ یہ قرطبہ میں لکھی گئی ٗ ملاحظہ کریں ؎ یہ حوریانِ فرنگی ٗ دل و نظر کا حجاب بہشتِ مغربیاں جلوہ ہائے پابہ رکاب دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب جہانِ صوت و صدا میں سما نہیں سکتی لطیفۂ ازلی ہے فغانِ چنگ و رباب سکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی فقیہِ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ و سیماب ہوائے قرطبہ شاید یہ ہے اثر ٗ تیرا مری نوا میں ہے سوز و سرورِ عہدِ شباب (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔371 ) مندرجہ بالا غزل میں ہمیں فکرِ اقبال کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک انھیں اپنا اسیر کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ مسلمانوں میں انھیں وہ خلوص اور وہ ایمان نظر نہیں آتا جو کہ ماضی میں ان کا شیوہ رہا تھا۔ اسی لیے اقبال یہ ساری غزل میں نہ ہونے کے موضوع کو خبر و سخن بنا رہے ہیں۔ بالِ جبریل کی غزلیات سے اور بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں ٗ جہاں اقبال کے فکرو فن کے ملاپ نے ایسی شاعری کو جنم دیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال اقبال کے بعد اردو شاعری پیدا نہیں کر سکی۔ لیکن یہاں ہم آخر میں صرف اقبال کی صرف ایک غزل درج کرکے ضرب ِکلیم اور ارمغان حجازکی غزلوں کی سمت چلتے ہیں ؎ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی انھیں کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد نہ فلسفی سے، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد فقیہِ شہر کی تحقیر، کیا مجال مری مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز خدا کی دین ہے سرمایۂ غم فرہاد کیے ہیں فاش ٗ رموزِ قلندری میں نے کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ، ہو آزاد رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 396 ) غزل کے فن میں جو پختگی اقبال نے بالِ جبریل میں حاصل کر لی تھی ٗ آگے چل کر وہ ضرب ِکلیم کی غزلوں میں برقرار رہی۔ ضربِ کلیم بنیادی طور پر نظم کا مجموعہ ہے لیکن اس میں شامل پانچ غزلیں بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ غزلیں اپنے اسلوب ٗ فنی پختگی اور فکری بالیدگی کے اعتبار سے بالِ جبریل کے تسلسل میں ہیں۔ اردو شاعری میں ’’تغزل‘‘ ان سکّہ بند استعارات ٗ تلازمات سے منسلک ہے جو عشق و محبت کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کے زیر اثر حسن ِگریزپاکے نقشے کھینچے جاتے ہیں۔ ہجروصال کے قصے کہے جاتے ہیں اور انھی کے حوالے سے کیفیتِ انبساط و نشاط یادرد و حرماں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تدریسی تنقید اسے عشقِ مجازی کے خانے میں ڈالتی ہے۔ تصوف کے اثرات نے ان میں بعد ازاں عشق ِحقیقی کے ابعاد کا اضافہ کیا۔ اقبال ان نابغہ روزگار شعراء میں سے تھا جو پامال راستوں پر سفر سے گریز کرتا ہے اور اپنی راہیں خود تراشتا ہے۔ اس میں پہلے سے موجود تلازماتی نظام سے نکل کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی اس لیے اس نے اپنے دائرے خود ترتیب دیے اور عاشقی اور تصوف سے قطع نظر کرکے غزل کو بین الاقوامی معاملات اور سیاسیات سے دو چار کیا۔ اس نے اردو غزل کو پرانے مضامین کی قید سے رہا کیا اور غزل کی قدیم روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ٗ گل و بلبل اور شمع و پروانہ کی بجائے نئے رموز و علامات تشکیل دیے۔ وہ فطرت کے سانچے میں خود ڈھلنے کی بجائے فطرت کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کا قائل تھا، اس کے نزدیک فن کار کا یہی منصب ہے۔ خاص طور پر بال ِجبریل کی غزلیں اقبال کے اس نظریہ فن کی نمائندہ ہیں۔ اقبال نے اپنی غزلوں میں غزل کی مخصوص ہیئت سے رو گردانی نہیں کی ٗ البتہ اس کے مزاج ٗ رنگ و آہنگ ٗ لفظیات اور مضامین کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔اس نے اس صنفِ سخن سے نظم کا کام لیا۔ اس سے پہلے غزل کے بارے میں یہ تصور رائج تھا کہ اس کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل مضمون بیان کرتا ہو اور موڈ کے سوا اس کا باقی شعروں سے موضوعی ربط نہ بھی ہو ٗ تو کوئی حرج نہیں۔ اقبال نے غزل کے تمام شعروں کو آپس میں مربوط کرکے اسے ایک جامع اکائی بنا دیا۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ ان غزلوں میں Strained Paradox کو بھی کام میں لاتا ہے۔ وہ اپنی بات کو مختلف انداز میں دہراتا ہے تاکہ گوشِ ناشنوا کو از بر ہو سکیں۔ وہ غزل کو نظم کے قریب لانے میں اس قدر محو ہے کہ تخلیقی رو میں ایک غزل جس کا آغاز ’’کیا عشق ایک زندگیٔ مستعار کا‘‘ سے ہوتا ہے ٗ ایک بالکل مختلف زمین کے شعر میں اختتام پذیر ہوتی ہے ؎ کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لا زوال ہو یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 349 ) غزل میں تسلسل کی سب سے نمایاں مثال ٗ بالِ جبریل کی پہلی ہی غزل ہے جس میں اقبال ایک ہی خیال کی مختلف پرتوں کو ہر اگلے شعر میں سامنے لاتا چلا جاتا ہے ؎ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 345) یا پھر وہ غزل جس کا شعر ہے ؎ باغِ بہشت سے مجھے، حکمِ سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر (کلّیاتِ قبال ٗ ص۔ 347 ) ان غزلوں کے شاعر کا نصب العین زندگی کی جدوجہد اور ارتقاء کے صبر آزما مراحل سے مردانہ وار گزرنے کا پیغام دینا ہے۔ وہ زمانے کے مکرو فریب سے واقف ہے ع ’’کہ میں ہوں واقفِ رازِ درونِ مے خانہ ‘‘ اور وہ ملتِ اسلامیہ کے افراد کو اسی دنیا میں رہنے کا نہیں بلکہ اپنی دنیا الگ بنانے کا سبق دے رہا ہے ؎ حدیثِ بے خبراں ہے تو بازمانہ بساز زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز (کلیاتِ اقبال ٗ ص۔354 ) اگر ان غزلوں کی پہنائی میں اتر کر دیکھا جائے تو سیاست اور بین الاقوامی معاملات گردِ راہ نظر آنے لگتے ہیں۔ اقبال زندگی کو بلندی سے اور ایک ارفع سنگھا سن سے دیکھتا ہے۔ وہ حیات و کائنات کے اسرار پر نظر رکھتا ہے اور ان کے مظاہر کے ساتھ ہم پرواز ہے۔ وہ آفاقی نظام کا حصہ ہے۔ اس کی غزلیں ہلکی سی لطیف کیفیت لیے ہوئے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بیک وقت یا کم از کم وجدان کی ایک ہی مسلسل رو اور آمد کی حالت میں لکھی گئی ہوں۔ شاید اسی لیے ایک ہی تاثر کی چند غزلوں کو تو اقبال نے حکیم سنائی کے روضے پر حاضری کی یادگار کے طور پر پھر سے نئی ترتیب دے کر بالِ جبریل میں شامل کیا ہے۔ اس سے پہلے درج غزلوں کی ترتیب بھی 16 پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔ اقبال نے بطور فنکار غزل کی ہیئت میں ایسے مضامین دیے جنھیں غزل نے اپنی ایک ہزارسالہ طویل تاریخ میں قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے افکار اس کے مضامین سے متعلق بہت شدید ہیں اور اسی کے تحت انھوں نے غزل کو یکسر نئے راستے پر ڈال دیا ؎ درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں نہ سمرقند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 357 ) اہل ہنر نے اس سے پہلے ایسی لفظیات ٗ رموز و علائم بھلا شاعری میں کہاں دیکھے تھے ٗ جنھیں اقبال نے اس قدر سلیقے اور آسانی کے ساتھ شعر کی انگشتری میں نگینے کی طرح جڑا کہ ہر کس و ناکس نے اسے اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق پایا۔ آب و گلِ ایران ٗ تبریز ٗ ہند کے میخانے ٗ وارث ِپرویز ٗ سوزو ساز رومی ٗپیچ و تاب رازی ٗ فریب خوردہ شاہین ٗ افرنگ کی زندیقیٗ بندۂ حق ٗ بین و حق اندیش دانہ اسپند ٗ پیمانہء الّا ٗ یدِ بیضا ٗ کافرِ ہندی ٗ اندازِ ملوکانہ ٗ نفسِ جبریل ٗ جیحوں ٗ پارس و شام ٗ بانگِ لاتخف ٗ اور اس نوعیت کی ان گنت تلمیحات ٗ اشارات ٗ تراکیب ٗ استعارات ٗ رموز ٗ علامات ٗ کنایات ٗ کب اس طرح شاعری میں بار پا سکے تھے ٗ جس طرح اقبال نے انھیں تراش کر دائمی چمک دے دی۔ اقبال کے افکار کی اپنی دنیا اور ایک ارفع سطح ہے۔ اس کے ہاں الفاظ و معانی میں گہرا ربط پایا جاتا ہے اور وہ اس قدر بلند آہنگ اسلوب کے بغیر اپنے پیغام کی شاید ترسیل کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اقبال کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ یہ شکوہ ٗ یہ طنطنہ ٗ یہ جلال یہ جمال اور یہ کھنک اردو کے کسی اور شاعر کے نصیب میں نہیں آئی۔ یہ پُر شوکت اندازِ اظہار اقبال کی شاعری پر اس طرح فٹ بیٹھتا ہے کہ ان مضامین کے لیے کسی دوسرے اسلوب کا خیال ہی ذہن میں نہیں آ سکتا ع اگر کج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا ؟ ‘وہ حرف ِراز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں یا عالمِ آب و خاک و باد ٗ سرِعیاں ہے تو کہ میں ؟ جیسی غزلیں ٗ اقبال اس طرز کے علاوہ بھلا اور کس انداز سے کہہ سکتا تھا۔ موسیقی اور غنائیت شروع ہی سے اقبال کی شاعری کا اہم عنصر تھا۔ یہ خاصیت ان غزلوں میں درجۂ کمال کو پہنچ گئی ہے حیات و کائنات کے بیشتر مسائل کو اقبال نے ان غزلوں میں برتا ہے اور زندگی کے مسائل کو ایک فلسفی کی نظر سے دیکھا ہے۔ وہ زندگی کے اسرار کی کنہ کو پا چکا ہے اور اس خود آگہی نے اس کی شاعری اور فکر کو اس قدر پختہ کر دیا ہے کہ اس کے انداز میں پیغمبری لحن پیدا ہو گیا ہے ۔ اب اس کے تخیلات دنیائے آب و گل سے بالاتر ہو کر عرش کی کرسی پر ہیں اور وہ فکرو تخیل کی اس ارضیت کو پا چکا ہے جو ہر کسی کی دسترس میں نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اس کلاسیکی تغزل سے الگ اور اعلیٰ درجے کا کوئی وصف ہے جس کے لیے نقادوں کو نئے سرے سے سوچنا پڑا ہے اور تنقید کے نئے سانچے بنانے پڑے ہیں اور یہی بطور شاعر اقبال کا اعجاز ہے۔ اقبال کی طویل نظمیں شاعری میں طویل نظم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ طویل نظم لکھنے کے دوران کسی شاعر کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں اور فن پر اس کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مسلسل مضمون کو بیان کرنے کے لیے شاعر کے انتخابِ الفاظ ٗ تراکیب کے استعمال ٗ نظم کی ہیئت اور ان سب کو ملا کر ایک طویل نظم لکھنے سے شاعرانہ اہمیت کا تعین ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت سے بڑے بڑے شاعر اپنی طویل اور یاد گار نظموں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ملٹن کا نام آتے ہی Paradise Lost ذہن میں آتی ہے اور ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے ساتھ ہمارے حافظہ میں Wasteland کا نام ابھرتا ہے۔ خود ہمارے ہاں مولانا حالی نے مسدّس لکھ کر طویل نظم نگاری کا باقاعدہ آغاز کر دیا تھا۔ علامہ اقبال کی شاعری میں بھی طویل نظم نگاری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان نظموں میں جہاں ایک طرف اس کی فنی چابکدستی کا اظہار ہوتا ہے وہیں ہمیں اقبال کی فکر سے بھی بہتر طور پر شناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کیونکہ مسلسل نظم لکھتے ہوئے اپنی سوچ اور فکر کو مربوط رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم اقبال کی طویل نظموں کا تاریخی جائزہ لیں تو ہمیں اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقاء کو جاننے کا اچھا موقع ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اقبال کے فن میں آنے والے تغیر کو بھی دیکھ سکیں گے۔ اقبال کی طویل نظموں پر بات کرنے کے لیے ہمیں آغاز تصویرِ دردسے کرنا پڑتا ہے جس کا مرکزی موضوع وطن کی محبت ہے۔ غالباً یہ نظم اقبال کی حبِّ وطن کی شاعری میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس نظم میں کل آٹھ بند ہیں لیکن مختلف بند میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ اس نظم میں خطابیہ لہجہ نمایاں ہے۔ جس سے بعض اوقات شاعرانہ حسن مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔ اس نظم کا پہلا بند تمہید کے طور پر آیا ہے جس میں اقبال اپنے حالات بیان کر رہا ہے۔ یہاں ہمیں ملک میں سیاسی جبر اور غیر ملکی استبداد کے خلاف آواز بھی ملتی ہے اگرچہ یہ آواز بہت دھیمی ہے۔ مثلاً یہ شعر ؎ یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔98 ) نظم کا دوسرا بند پہلے سے مربوط ہے ۔ اس میں شاعر نے بتایا کہ انسان’’ریاضِ دہرمیں نا آشنائے بزم ِعشرت‘‘ ہے۔ یہاں شاعر گریز کرکے اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہے اور اس شعر میں انسان کی محرومیوں اور نارسائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا سراپا نور ہو جس کی حقیقت ٗ میں وہ ظلمت ہوں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 99) یوں شاعر نے یاسیت سے رجائیت کی کرن برآمد کی ہے اور آگے چل کر وہ اپنے ملک ہندوستان سے خطاب کرتا ہے، ہندوستان کی حالتِ زار پر آنسو بہاتا ہے اور ہندوستان کے افسانے کو سب افسانوں میں عبرت ناک قرار دیتا ہے۔ وہ اپنی بات اسی جگہ ختم نہیں کر دیتا بلکہ ہندوستان کے باسیوں کو آنے والی تباہی سے خبردار کرتا ہے۔ آگے چل کر اسی نظم میں اس کے خطاب کا رخ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اب وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کی حالتِ زار سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اپنا مستقبل بہتر بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں کے ساتھ اتحاد اور محبت سے رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ فنی اعتبار سے یہ نظم مربوط شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ شاعر کے الفاظ کا انتخاب اور تراکیب موزوں ہیں اور لفظ و خیال کی اکائی بہت خوبصورت ہے۔ طویل نظموں کے سلسلے کی اگلی کڑی شکوہ ہے۔ اقبال کی یہ نظم بہت زیادہ متنازع ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے ان پر کفر کا فتویٰ بھی لگا ٗ لیکن اس دورکے ناسمجھ لوگوں نے اقبال کے خلوص اور دردِ دل کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی ٗ جو اس نظم میں جھلکتا نظر آتا ہے۔ ایک طرح سے یہ شکوہ مسلمانانِ عالم کی طرف سے اپنے رب سے ہے اور وہ اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے اپنا موازنہ غیر مسلم قوموں سے کرتے ہیں اور اللہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کو ایسی پستی میں کیوں ڈال دیا گیا ہے۔ نظم کے کل بند31 ہیں۔ ہر بند تین اشعار پر مشتمل ہے۔ یوں اس نظم میں93 اشعار شامل ہیں۔ فنی پختگی ٗ طرز ِبیان ٗ صفائی کلام اور جوشِ بیان کے اعتبار سے یہ نظم شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ نظم کا آغاز اس بند سے ہوتا ہے ؎ کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں فکرِ فردا نہ کروں ٗ محوِ غمِ دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں ٗ اور ہمہ تن گوش رہوں ہمنوا ! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرأت آموز مری تابِ سخن ہے ٗ مجھ کو شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن، ہے مجھ کو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 190 ) یہاں سے شروع کرکے اقبال اس نظم کا اختتام اس بند پر کرتے ہیں ؎ چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ اسی عہدِ وفا سے دل ہوں پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خُم ہے تو کیا ٗ مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 199 ۔ 198 ) اسی تسلسل میں ہم جوابِ شکوہ پر بات کرتے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں ترتیب کے اعتبار سے اس کا نمبر شمع اور شاعر کے بعد آتا ہے۔ جب شکوہ کی مخالفت میں طوفان حد سے زیادہ بڑھ گیا ٗ تب اقبال کی طرف سے نظم ’’جوابِ شکوہ ‘‘ سامنے آئی۔ اس نظم کا لہجہ شکایت کا ہے اور یہ شکایت اللہ تعالی مسلمانوں سے کر رہے ہیں اور ان کی کوتاہیوں کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے زوال کے اسباب کیا ہیں۔ یوں اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کو عروج کی طرف جانے کے لیے ان خامیوں کو دور کرنے کی تلقین کرتے ہیں جن کے سبب وہ زوال پذیر ہوئے۔ جوابِ شکوہ 32 بندوں پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ اہمیت کے اعتبار سے یہ شکوہ سے بڑی ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے دونوں کا موازنہ مشکل ہے۔ شکوہ فنی چابکدستی اور مضمون آفرینی کے اعتبار سے اعلیٰ پائے کی چیز ہے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ کا اختتام اس بند پر کیا ہے ؎ عقل ہے تیری سپر ٗ عشق ہے شمشیر تری میرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری ما سوا اللہ کے لئے، آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 237 ) شکوہ اور جواب شکوہ کا موازنہ ڈاکٹر عبدالمغنی نے خوب کیا ہے ٗ وہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ’’بلاشبہ دونوں حصوں کے اندازِ گفتگو میں کچھ فرق ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کا ’’نعرہ ٔمستانہ‘‘ ’’جوابِ شکوہ‘‘ میںموقع کے لحاظ سے ذرا زیادہ حسین ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے۔ انسان اور خدا کی آوازوں کے درمیان امتیاز ہونا ہی چاہیے۔ بہر حال دونوں آوازوں میں شعریت کا مطلق رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ چنانچہ شکوہ اور جوابِ شکوہ کی مطابقت تو واضح ہے ٗ لیکن ہر دو الگ الگ ارتقائے خیال اس نقطۂ نظر سے تلاش کرنا عبث ہے کہ کوئی ایک نکتہ یا مضمون نظم کا موضوع ہے اور سارے اشعار اسی کے ارتقا کا سامان کرتے ہیں۔ البتہ نظم کا جو عمومی تخیل ایک ملّت کی مرقّع سازی اور خاکہ نگاری پر مشتمل ہے ٗ وہ شروع سے آخر تک اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ موضوعِ تخیل ہے اور فنکاری کے سارے پیچ و خم اسی مرکزی نقطہ کے گرد نمایاں ہوتے ہیں۔ خیال اور احساسات ایک روانی اور تسلسل کے ساتھ مربوط طریقے پر رونما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ارتقائے خیال کی رفتار اتنی تیز ہے کہ قاری کے لیے دم مارنا مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘(9) شمع اور شاعر کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ پہلا بند فارسی میں ہے جس کے اشعار کی تعداد پانچ ہے۔ اس میں شاعر رات کے وقت شمع سے مکالمہ کر رہا ہے۔ اس کے پانچ بند مسلسل شمع کے جواب پر مشتمل ہیں۔ آخری پانچ بندوں میں شاعر شمع کے اٹھائے ہوئے نکات کا جواب دیتا ہے۔ اس نظم کی خوبی چست مکالمات اور تمثیل کے انداز کو بہترین انداز میں پیش کرنا ہے۔ اپنی کئی دوسری نظموں کی طرح اقبال نے اس نظم میں بھی اپنے ماضی کو خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس نظم میں ہمیں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے نظر آتے ہیں۔ اقبال ماضی کے آئینے میں تصویر دیکھتے ہوئے حال پر اس کا اطلاق کرتے ہیں اور مستقبل میں تصویر کا عکس دیکھتے ہیں اس طرح تینوں زمانوں کو ایک ساتھ رکھ کر شاعر نے تاریخ و حیات کے تسلسل کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں بعض جگہ فارسی تراکیب کے استعمال سے اسلوب دقیق ہو گیا ہے لیکن موضوع کا جوش و ولولہ نظم کے بہائو میں اسے کہیں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ شاعری کے بہترین نمونے کے طور پر نظم کا یہ بند دیکھیں جس میں شمع خطاب کر رہی ہے ؎ تھا جنہیں ذوقِ تماشا ٗ وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشان ہو چکی پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائیء سوزِ تمام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں ٗ تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے ٗ آوازِ درا ہو یا نہ ہو (کلّیاتِ اقبال، ص۔213 ۔212 ) یہ نظم ایک سوال سے شروع ہوتی ہے اور جواب در جواب سے گزر کر جس میں جگہ جگہ یاسیت کے سائے چھائے ہوئے ہیں ٗ ایک نشاط انگیز اختتام تک پہنچتی ہے۔ شمع ٗ اقبال کا بہت محبوب اور معنی آفریں استعارہ ہے۔ بانگ ِدرامیں شمع کے حوالے سے بہت سی نظمیں ہیں مثلاً شمع و پروانہ ٗ شمع ٗ بچہ اور شمع ٗ وغیرہ ۔اسی طرح صرف شاعر کے عنوان سے دو نظمیں بھی اسی مجموعے میں شامل ہیں۔ ٗ شمع اور شاعر ٗ میں اقبال نے شاعر اور شمع کو دو کرداروں کی صورت میں یکجا کیا ہے۔ ان کرداروں کے ذریعے اقبال نے اپنی معروضیت اور جامعیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کی نظموں میں نیم ڈرامائی کیفیت اور مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ شمع اور شاعربھی مکالمے کے انداز میں ہے اگرچہ پہلا مکالمہ شاعر کی زبانی فارسی میں ہے ٗ جو محض پانچ اشعار پر مشتمل ہے جبکہ شمع کی طرف سے شاعر کے سوال کا جواب طویل ہے اور دس بندوں پر پھیلا ہوا ہے جس میں اکیاسی اشعار ہیں ۔ یہ نظم فروری 1912 ء میں تخلیق ہوئی (10) یہ وہ دور ہے جب اقبال یورپ کے تعلیمی سفر سے واپس آ چکے تھے اور ان کے افکار و خیالات کسی قدر واضح اور متعین شکل اختیار کرنے لگے تھے۔ یورپ کی تہذیب کی ملمع کاری اور کھوکھلا پن ان پر آشکار ہو چکا تھا اور وہ وطن کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کے نظریے کو غلط سمجھنے لگے تھے۔ اس کی جگہ ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے احساس نے لے لی تھی۔ ان کے خیال میں مغربی سامراج نے جغرافیائی بنیادوں پر قومیت کے نظریہ کو فروغ دے کر ملتِ اسلامیہ کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور بھائی کو بھائی سے جدا کرکے بے کس اور لاچار بنا دیاتھا۔ مسلمانوں کے زوال کا سبب ان کے نزدیک اسلامی اخوت کے اصولوں سے روگردانی اور کردار کی کمزوری تھا۔ ان تمام مایوس کن حالات کے باوجود اقبال قوم کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوتے۔ وہ ملتِ اسلامیہ کی مظلومیت کا بزبان شاعر صرف نوحہ ہی نہیں پڑھتے بلکہ شمع کی زبانی قوم کو امید کی روشنی بھی دکھاتے ہیں۔ شاعر نے شمع کو ان حالات میںSource of Inspiration کے طور پر پیش کیا ہے کہ اس نے تو خود کو شمع کی صورت جلایا ہے لیکن اس کے گرد پروانے جمع کیوں نہیں ہوئے۔ اس کے سوزو ساز میں آخر کیسی کشش ہے کہ کرمکِ بے مایہ سوزِ کلیم کاسبق سیکھتا ہے۔ شمع کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خود جلتی ہے اور دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ اس کا مقصد جلنا ہے اور لوگ اس کی روشنی کے شیدا ہیں۔ شمع کو اقبال نے اپنے اردو کلام میں بیس بار اور فارسی کلام میں تیس بار مختلف مفاہیم کی ترسیل کے لیے استعمال کیا ہے (11) لیکن اس کا یہی مفہوم سب پر حاوی رہا ہے۔ شمع اور شاعرمیں شمع نے ایک شاعر کا روپ دھار لیا ہے کہ جو قوم کی زبوں حالی پر کڑھ رہا ہے اور جل رہا ہے۔ اسے پروانوں کو اپنے گرد جمع کرنے کا شوق نہیں ہے کہ اس سے نام و نمود کا سودا اور شوق جھلکتا ہے۔ ’’پروانوں کا شمع کے گرد جلنا شمع کے داخلی سوز کا ایک قدرتی حاصل ہے۔‘‘ (12) یہ نظم دراصل اقبال کی اس قومی شاعری کا ابتدائیہ ہے جو اقبال نے بعد میں تخلیق کی تھی۔ اقبال نے اپنے اندر خلوت میں جلوت اور جدائی میں رفاقت جیسی خدائی صفات شمع کی طرح پیدا کرنے کی آرزو کا اظہار بین السطور نظم کے پہلے بند میں کیا ہے جو اس سے پہلے ان کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ میں براہِ راست ان کی زبان سے اس طرح ادا ہوئی تھی ؎ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 64 ) شمع اقبال کو اپنے جواب کی ابتداء ہی میں آئینِ ملت سے روگردانی پر سرزنش کرتی ہے اور گلشن کے برہم ہونے کے بعد اس کے بے محل ترنم اور بے موسم نغمے پر خفگی کا اظہار کرتی ہے کہ شاعر زمانے کے تقاضے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جمعیت کی پریشانی اور کارواں کی بے حسی کے بعد شاعر کا بادِبہاری کا پیغام ٗ وعدہ ٔدیدار عام ٗ گرم نوائی اور آوازِ درا سب بعد از وقت ہے۔ متاعِ کارواں کے لٹنے اور احساسِ زیاں کے مٹنے کے ذکر سے شمع مسلمانوں کے حالات کی دگرگونی کا احساس دلاتی ہے۔ وہ ہنگاموں سے آباد ویرانوں اور سطوتِ توحید کے ذکر سے ملت کو ان کے درخشاں ماضی کی یاد دلاتی ہے اور شامِ غم اور ظلمتِ شب میں صبحِ عید کی نوید بھی سناتی ہے۔ ٹوٹی ہوئی مینا کے رونے اور دشتِ جنون پرور کی خاموشی کے حوالے احساس ہزیمت اور مکمل انفعالیت کے استعارے ہیں۔ جمعیت کی پریشانی ملّی انتشار کو اجاگر کرتی ہے۔ ان تمام ابتدائی بندوں میں احساسِ شکست خوردگی نمایاں ہے اور مقصد اس کے ذکر سے یہ ہے کہ ملّتِ بیضا کو جرأتِ رندانہ پر آمادہ کیا جائے اور سست، روی کاہلی اور خوابِ غفلت کی گراں باری سے آزاد کرکے جہد و عمل کے راستے پر ڈال دیا جائے (13) شمع اسی لیے شاعر کو وقت کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے پھر سے نغمہ پیرا ہونے پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ شاعری کو جزویست از پیغمبری سمجھتے ہوئے محفلِ ملت کو پیغامِ سروش سنا دے اور دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے زندہ کر دے۔ شمع کے نزدیک کاروان ِبو کی پریشانی ذوق تن آسانی اور ملت کی جمعیت کے مٹنے سے پیدا ہوئی ؎ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 217 ) ان خیالات کا مخاطب ہندوستانی مسلمان ہیں جن کی ان خامیوں کے طفیل احساسِ جمعیت ختم ہوا اور اس سے پراگندگی ٗ انتشار اور لامقصدیت قومی زندگی میں داخل ہوئے۔ شمع ایسی حالت میں محبت کو مستور رکھ کر شعلۂ تحقیق کو غارت گر کا نشانہ کرکے ٗ نئے جنون سے نیا ویرانہ پیدا کرکے ٗ شاخِ کہن پر نیا آشیانہ استوارکرنے کی تلقین کرتی ہے ۔وہ شخصی اہمیت کو جو ہرِ آئینہ ایام کہتی ہے۔ دہقان کو دانہ، کھیتی، باراں اور حاصل گردانتی ہے تاکہ انسان اپنی مستور قوتوں کو استعمال میں لائے اور شیرازہ بندی سے نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو۔ آخری بند میں شمع، شاعر میں سوزو ساز کی کمی سے صرف ِنظر کرتے ہوئے اسے بشارت دیتی ہے کہ : آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔321 ) شمع اور اقبال آخر میں ایک ہی پیکر میں ڈھل کر توحید کے وسیلے سے نور کی فرمانروائی ٗ ملّی مقاصد کے حصول ٗ تمنائوں کی بار آوری اور روشن صبح کے طلوع ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے۔ ان تمام استعاروں اور ان سے پیدا ہونے والے مفاہیم سے واضح ہے کہ شاعر قومی اور ملّی شعو ر سے بہرہ ور ہے اور تخلیقی قوتوں کی باز آفرینی سے ملی انتشار پر قابو پانے کی آرزو دل میں لیے ہوئے ہے اور ہر اعتبار سے قوم کی رہبری کا فریضہ اورملّت کے اتحاد کا وظیفہ یاد دلا رہا ہے۔ ’بانگ درا‘ہی میں ان کی ایک اور طویل نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ہے۔ یہ ایک مرثیہ ہے جو اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر لکھا ہے ۔ اس لیے سوزو گداز ٗ جذباتیت ٗ والدہ سے محبت اور ان کی وفات کا شدید رنج اس نظم کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے فکر و فلسفہ کے حوالے سے اس میں ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں کہ یہ نظم صرف ایک مرثیہ نہیں رہتی بلکہ حیات و ممات ٗ زندگی اور اس دنیا کے بارے میں فکری تصورات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ بڑے شاعر کا کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جس موضوع کو بھی منتخب کرتا ہے اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ والدہ کی موت یقینا ایک عالمگیر المیہ ہے ۔بہت سے شاعروں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے ذاتی رنج سے اوپر نہیں اٹھ سکے جبکہ اقبال نے اپنی نظم میں اسے عالمگیر المیے کو پیش کیا ہے اور موت کی چیرہ دستیوں کو خوبصورتی سے منعکس کیا ہے۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں، ترکیب بند میں ہے جس میں کل ۱۳ بند شامل ہیں۔ ان بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ نظم کا آغاز ایک ایسے بند سے ہوتا ہے جس میں عمومی طور پر شکست و ریخت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسرے بند سے وہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور اپنے المیے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نظم کا یہ مختصر بند فرد کے لیے ماں کی اہمیت کی جانب بھر پور اشارہ کرتا ہے ؎ علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور دُنیَوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم بے تکلّف خندہ زن ہیں ٗ فکر سے آزاد ہیں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔257 ۔256 ) خضرِراہ میں ایک بات بہت نمایاں ہے اور وہ اس کا سیاسی اور خطیبانہ لہجہ ہے۔ چونکہ اس کا موضوع ایسا ہے کہ ایسا لہجہ در آنا یقینی ہے۔ اس لیے زیادہ غیر ضروری معلوم نہیں ہوتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ نظم میں تخیل کی کار فرمائی اسے معیار سے گرنے سے بچاتی ہے۔ یہ نظم بھی ایک تمثیل کی صورت میں ہے۔ جس میں مکالمے سے بنیادی کام لیا گیا ہے۔ یہ مکالمہ شاعر اور خواجہ خضر کے درمیان ہے۔ خواجہ خضر کا کردار تمام سامی روایتوں اور خاص طور پر مسلم روایت میں اپنی ایک خاص معنویت رکھتا ہے اور اس نظم میں شاعر نے اس تاریخی اور روایتی معنویت کو استعمال کرکے فنی چابکدستی کا مظاہرہ بھی کیا ہے او ر اس خاص تاثر کو بھی ابھارا ہے جو ان کا مقصودِ نظر تھا۔ خضر راہ کی ابتداء بھی سوالات سے ہوتی ہے۔ یہ سوالات شاعر کرتا ہے جو رات کے وقت ساحلِ دریا پر ٹہل رہا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ تب خضر اس کے سوالوں کے جوابات دیتے ہیں جس میں ان کی طویل عمر اور لمبے تجربات کا نچوڑ شامل ہے۔ جوابِ خِضر،یوں شروع ہوتا ہے ؎ کیوں تعجّب ہے مری صحرا نوَردی پر تجھے یہ تگا پوئے دمادم، زندگی کی ہے دلیل (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 286 ) آگے چل کر حضرتِ خضر زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ شاعر کو تلقین کرتے ہیں کہ زندگی کو پیمانہء امروز و فردا سے نہیں ناپنا چاہیے ٗ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی تو اصل میں جوئے شیر و تیشۂ سنگ گراں ہے۔ اصل انسان وہ ہے جس میں صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ موجود ہو ٗ زندگی کے بارے میں خضر اپنے خیالات کا اختتام اس شعر پر کرتے ہیں ؎ یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 289 ) اس کے بعد ’’خضر‘‘ سلطنت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کی مختلف اقوام اور مختلف بادشاہوں کے حوالے دیتے ہوئے وہ مغرب کے جمہوری نظام کو سازِ کہن قرار دیتے ہیں۔ ’’آزادی‘‘ کے خوش کن نعرے کو وہ سرمایہ داروں کی جنگ ِزر گری کہتے ہیں۔ آگے چل کر وہ سرمایہ اور محنت کے بارے میں اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہیں۔ اب وہ بندہ ٔمزدور کو بیدار کرنے کے لیے اسے سرمایہ دار کے حیلے بہانوں کا پتا دے رہے ہیں۔ وہ نسل ٗ قومیت ٗ کلیسا ٗ سلطنت ٗ تہذیب ٗ رنگ کو خواجگی کے مسکرات قرار دیتے ہوئے مزدور سے خطاب کرتے ہیں ؎ اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔292 ) نظم کے آخری حصے میں خضر دنیائے اسلام کی جانب آتے ہیں، اور ماضی کی عظمت پر اترانے کے رویے کی مذمّت کرتے ہوئے مسلم سے کہتے ہیں کہ اس کا دل دانائے راز نہیں ہے اور یہی سبب اس کی موجودہ زبوں حالی کا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب گنوانے کے بعد خضر مسلمانوں کو اپنی فریاد کی تاثیر دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اسی نظم سے متصل اقبال کی ایک اور طویل نظم طلوعِ اسلام ہے جو بانگِ درا کی آخری نظم ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے ؎ دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا ٗ گیا دورِ گراں خوابی مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی ٗ ذہنِ ہندی ٗ نُطقِ اعرابی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 297 ) اقبال کی یہ طویل نظم بھی ترکیب بند کی ہیئت میں ہے جس میں کل ۹ بند ہیں اور اسے ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید قرار دے سکتے ہیں۔ اقبال نے اس نظم میں موضوع کی مناسبت سے پر شوکت اور خیال آفریں الفاظ اور تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ فکر انگیز خیالات کے اظہار کی مناسبت سے موزوں الفاظ آئے ہیں اور عمدہ تراکیب تراشی گئی ہیں۔ یہ نظم تصویروں ٗ استعارات اور علامتوں سے بھری ہوئی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اقبال اس نظم میں امت مسلمہ کو عروج کی نوید دے رہے ہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے تصادم ٗ قدیم و جدید کے تضاد اور دین و دنیا کے تقابل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آخر میں وہ سارے دکھوں کا علاج اسلامی توحید میں تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملّتِ اسلامی کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے ایک بار پھر ثابت کر دے کہ مذہبِ اسلام ہی اس دنیا کے مسائل کا حل ہے۔ نظم کی فنی ہیئت کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’موضوع کے مختلف پہلوئوں کو ایک ترکیب کے ساتھ مختلف بندوں میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر بند دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔ جبکہ ہر بند کے اندر متعدد اشعار بھی آپس میں ربطِ خیال کرتے ہیں یہ اشعار استعارات و علائم، تشبیہات و کنایات اور تلمیحات و تصاویر سے پُر ہونے کے علاوہ ایک انتہائی مترنم آہنگ سے مملو ہیں۔ یہ نقوشِ کلام جزوِ عبارت بن گئے ہیں اور اپنے سیاق و سباق میں بہت ہی معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں۔ بلاشبہ نظم کے خیالات و افکار پر اسلام چھایا ہوا ہے لیکن اول تو اسلام کو ایک آفاقی نظریے اور انسان دوست تصور کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ٗ یہاں تک کہ ملت اور مشرق کو باہم مترادف کر دیا گیا ہے اور مغرب کو مشرق کے سامنے ایک فریق سے زیادہ ایک مریض کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب نظم کا موضوع طلوعِ اسلام ہے تو بذاتہٖ لازماً فنی اعتبار سے مضمونِ تخلیق اسلام ہونا ہی چاہیے تھا ٗ ورنہ فکر و فن دونوں ناقص رہ جاتے۔ ‘‘(14) ان خیالات کی تائید میں ہم نظم سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں ؎ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے یقیںپیدا کر اے غافل!کہ مغلوبِ گماںتو ہے مکاں فانی ٗ مکیں آنی ٗ ازل تیرا ٗ ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو ٗ جاوداں تو ہے یہ نکتہ سرگذشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے سبق پھر پڑھ صداقت کا ٗ عدالت کا ٗ شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔300 ۔ 299 ) ایک اور بند کے چند اشعار دیکھیں ؎ تو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا ٗ خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی ٗ وہ خراسانی ٗ یہ افغانی ٗ وہ تورانی تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بیکراں ہو جا خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا گزر جا بن کے سیلِ تند رو ٗ کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کرسازِ فطرت میں نوا کوئی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 305 ۔ 304 ) طلوعِ اسلام اقبال کے فکری نظام میں اپنے مرکزی نقطے کے بہترین اظہار کا نمونہ ہے۔ جس میں فکر و فن اس طرح یک جا ہوئے ہیں کہ بہترین فن پارہ وجود میں آیا ہے۔ بالِ جبریل میں اگرچہ غزلوں کی تعداد نظموں کی بہ نسبت زیادہ ہے لیکن اس میں ساقی نامہ اور مسجد قرطبہ جیسی عالی شان نظمیں بھی شامل ہیں جو کہ اقبال کے شعری سرمائے کے بہترین نمونے ہیں۔ جہاں تک ساقی نامہ کا تعلق ہے تو اس بات کا تعین کرنا خاصہ مشکل ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس میں فکر ِاقبال کے بنیاد ی عناصر جمع ہو گئے ہیں۔ اقبال نے ساقی نامہ کے لیے مثنوی کی ہیئت اوررواں دواں بحر کا انتخاب کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بے شمار موضوعات کو اس طرح بھرا ہے کہ کوزے میں دریا بند کرنے کے محاورے کا اطلاق بلاشبہ اس نظم کے ہر ہر مصرعے پر کیا جا سکتا ہے۔ ساقی نامہ میں ہمیں زندگی ٗ سلطنت، دنیائے اسلام ٗ تصورِ خودی، عناصرِ فطرت ٗ عصرِ حاضر کے مسائل ٗ مغرب و مشرق کا موازنہ ٗ مسلم امت ٗ اور ان سب کے ساتھ ساتھ شخصی واردات کا بیان ملتا ہے اور یہ سب عناصر نہایت خوبی سے ایک دوسرے سے پیوست اور گلے ملتے ہوئے ہیں۔ اتنے مختلف موضوعات کو ملا کر نظم لکھنے کے باوجود اس میں بلا کی روانی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک موجیں مارتا ہوا دریا ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں آہنگ کو مرکزی نقطہ بنا کر صوتی حسیات کا بہترین اظہار کیاہے ؎ زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے دلِ طورِ سینا و فاراں، دو نیم تجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش تمدن ٗ تصوف ٗ شریعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امّت روایات میں کھو گئی لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد محبت میں یکتا ٗ حمیّت میں فرد عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک ، مقامات میں کھو گیا بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔452 ۔ 451 ) آپ نے دیکھا کہ ایک ہی بند میں اقبال نے کیسے مختلف موضوعات کو سمو دیا ہے۔ اقبال کا ’’ساقی نامہ‘‘ اردو اور فارسی شاعری کی روایات کے تتبع میں لکھا گیا ہے۔ انھی روایات کے تحت اقبال نے ساقی نامے کا آغازِ بہار کے درود کے ذکر کے ساتھ کیا ہے۔ ساقی سے خطاب بھی ساقی نامے کی تسلیم شدہ روایات کا لازمی جزو ہے اسی لیے آٹھویں شعر سے اس خطاب کا آغاز ہوتا ہے اور یہیں سے ساقی سے اظہارِ مطلب کیا گیا ہے ؎ پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات وہ مے جس سے ہے مستیٔ کائنات وہ مے جس میں ہے سوزو سازِ ازل وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 ) یہاں واضح طور پر مے کے استعارے میں شاعر ساقی سے اس عرفان کا طلب گار ہے جس سے ضمیرِ حیات اور سرِّکائنات اس پر روشن ہو جائے اور وہ اس کے باطن میں اتر کر اس سے پوری طرح واقف ہو جائے تاکہ وہ ابدیت سے ہمکنار ہو سکے۔ یہاں پر اقبال بین السطور نوجوانان ملت سے اپنے گردو پیش کی کائنات کو اپنے عزم و تیقن سے بدلنے کی امید قائم کرتا ہے۔ جوئے کہستاں ٗ کو زندگی اور زماں کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اقبال دنیا بھر میں بیداری کی ایک لہر کو محسوس کرتا ہے اور تبدیلی کی اس لہر کی ممکنہ تہلکہ خیزی اقبال کو مستقبل کے بارے میں پر امید کرتی دکھائی دیتی ہے اوروہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ ؎ دلِ طُورِ سینا وفاراں، دو نیم تجلّی کا پھر منظر ہے کلیم (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 ) اور ظاہر ہے کہ تلمیح کی نئی معنویت نئی نسل کے کسی کلیم سے ہی اجاگر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف اقبال عجمیت کے غلبے کی مذمت کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر نوجوانوں کو اس کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کر تے ہیں جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے ہیں ؎ تمدن ٗ تصوف ٗ شریعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 ) وہ نوجوان میں لذت شوق ٗ پیدا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ لذتِ شوق میں عرفانِ حقیقت کے لیے وجدان کے طریق ِکار اس کے ہمکنار ہونے کی آرزو اسرار و رموز ِحیات سے آگاہی کا جذبہ اور آگے بڑھنے کے لیے عمل کا عزم سب شامل ہیں۔ اقبال شدتِ شوق کے فقدان پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں میں پھر اسی شرابِ کہن کے اثرات پیدا کرنا چاہتا ہے جو مسلمانوں کے عروج کی ضامن تھی۔ اسی لیے اقبال انسان کے ذہن اور برتائو پر عقل فرو یہ کے غلبے کے خلاف احتجاج کرتا ہے ؎ خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 452) اقبال نوجوانوں میں دلِ مرتضی اور سوزِ صدیق کا متمنی ہے۔ اقبال ان میں ہمہ زندگی سے ان کے بدن کی نمود کی تمنا کرتا ہے وہ ان سے موت کا تعاقب کرکے اسے زیر کرنے کی کوشش میں منہمک رہنے کی خواہش کرتا ہے۔ اسی نظم میں اقبال نے نوجوانوں میں خودی کو بیدار رکھنے کی تعلیم بھی دی ہے۔ اقبا ل کے نزدیک خودی مکان کی پابند نہیں ہے البتہ وہ وقت کی حدود میں اپنے آپ کو پا سکتی ہے۔ یہ ازل اور ابد دونوں سے منسلک بھی ہے اور وقت کے بہائو سے بھی اس کا رابطہ ہے ؎ ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 455 ) یہاں دریا زندگی کے تسلسل کی علامت ہے۔ زندگی ہر دم ترو تازگی سے عبارت ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ نت نئے راستے تلاش کرتی ہے اور اپنے راستے کی رکاوٹوں کو اپنی ضربوں سے رواں بناتی جاتی ہے ۔ اس کے ارتقاء کا راز اس کے تجسس میں ہے۔ خودی ایسی قوت ہے جو ہمہ وقت اضطراب اور تنائو میں رہتی ہے اور بالآخر انسانی خود ی کی صورت میں ظہور کرتی ہے جو ایک فعال اور متحرک اکائی ہے ؎ ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 456 ) اقبال کی رائے میں خودی کی نشوونما ٗ حریت، فقر، حوصلہ مندی اور سادگی سے ہوتی ہے۔ اسے کم و بیش ٗ نشیب و فراز اور پس و پیش سے واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ اس نہج پر قائم رہتی ہے جس سے وہ دنیا میں سربلند ہو سکتی ہے وہ ایک سجدے کے اہتمام سے باقی ہر سجدے کو اپنے اوپر حرام کر لیتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی فقط خوردو نوش نہیں ہوتی کہ اس کے لیے اپنی عزت نفس دائو پر لگا دی جائے: تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 457) جرات اور غیرتِ نفس کو پاکر ہی انسان فاتحِ عالم خوب و زشت بن سکتا ہے۔ اور زمین اور آسمان اس کے صید ہو سکتے ہیں۔ ساقی نامہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان ٗ کی بحرمیں ہے اور اس کا وزن ففعولن فعولن فعولن فعول ہے۔ یہ بحربہت مترنم اور رواں ہے۔ اقبال نے نثری ترتیب میں باوزن اور مترنم مصرع کہے ہیں اور لفظیات بھی اقبال ہی سے مخصوص ہیں۔ ساقی نامہ سے آگے پیرو مرید کے عنوان سے ایک مکالمہ ہے جو اقبال اور ان کے پیر مولانا روم کے درمیان ہے۔ فکر اقبال پر مولانا روم کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ خود اقبال نے ایک سے زیادہ جگہ پر انہیں اپنا مرشد قرار دیا ہے۔ جاوید نامہ میں وہ اسی پیر کی معیت میں افلاک کی سیر کے لیے نکلتے ہیں۔ یہاں اقبال مولانا روم کو امامِ عاشقانِ درد مند ٗ قرار دیتے ہیں اور ان سے رہبری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یاد رہے کہ اقبال نے علوم شرق و غرب کا مطالعہ کر رکھا ہے لیکن یہ علوم اس کی روح کی تشنگی دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس نظم کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ اردو اور فارسی دو زبانوں میں ہے۔ مریدِ ہندی اردو میں سوال کرتا ہے اور پیر رومی فارسی میں جواب دیتا ہے۔ اس نظم میں اقبال کی دونوں زبانوں پر دسترس کا اظہار ہوتا ہے نظم کا اختتام اس مکالمے پر ہوتا ہے ؎ مُریدِ ہندی : ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز اہلِ دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز پیرِ رومی: کارِ مرداں روشنی و گرمی است کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔472 ) آخری شعر ہی نظم کا نقطۂ عروج اور لبِّ لباب ہے۔ مسجد قرطبہ،بال جبریل کی لازوال نظم ہے۔ ہم نے اسے اپنے مطالعہ میں آخر پر رکھا ہے اگرچہ کتاب میں ترتیب کے حوالے سے یہ ’’ساقی نامہ‘‘ سے پہلے آتی ہے۔ مسجدِ قرطبہ کو آخر میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے خیال میں اقبال نے اس نظم کے ذریعے مسلم اندلس کو زندہ ء جاوید بنا دیا ہے اس لیے اس کا تذکرہ سب سے جدا ہونا چاہئے۔ اندلس وہ جگہ ہے جہاں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمرن رہے۔ مسلم اندلس کی عظمت ٗ شان و شوکت اور علمی برتری بھی دیکھنے کی چیز تھی اور جس طرح اندلس کے مسلماں صفحہ ء ہستی سے مٹ گئے وہ بھی عبرت کا بہت بڑا نشان ہے۔ اگرچہ مسلمان اندلس میں مٹ گئے لیکن اندلس کی یاد مسلمانوں کے اجتماعی حافظے سے کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ قرطبہ ٗ غرناطہ اورا ندلس کے دوسرے شہروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے رہے۔ انھیں الحمرا کے درو دیوار کی سرگوشیاں اورمسجدِ قرطبہ کی اذانیں سنائی دیتی رہیں لیکن صدیوں انھیں اس سرزمین پر سجدہ کرنے کی سعادت نصیب نہ ہو سکی۔ صدیوں بعد اقبال نے مسجدِ قرطبہ میں نماز پڑھی اور اللہ کے حضور دعا مانگی۔ یہ دعا بالِ جبریل میں مسجد قرطبہ سے پہلے ہے اور ہم اسے مسجد ِقرطبہ کا ابتدائیہ قرار دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمغنی نے مسجدِ قرطبہ کی فنی اور ادبی حیثیت کے بارے میں لکھا ہے: ’’اس نظم کی ترتیبِ ہیئت میں شروع سے آخر تک ایسی کامل یکسوئی اور اس کے عناصرِترکیبی کے دوران ایسی مکمل پیوستگی ہے کہ خود اقبال کی دوسری اہم نظموں میں مواد کی انتہائی پیچیدگی کو انتہائی ہم آہنگی میں مرتکز کرنے کی اتنی بڑی مثال اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ملتی۔‘‘(15) ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم نظم کی باقاعدہ ابتداء پر غور کریں تو ہمیں ایسا جوش و خروش اور جذبے کی تیزی ملتی ہے کہ احساس ہوتا ہے جیسے چڑھتا ہوا دریا ہے جو اپنے راستے کی ہر چیز کو بہالے جانا چاہتا ہے ؎ سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات، زیر و بمِ ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہء روز و شب، صیرفئی کائنات تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کارِ جہاں بے ثبات ٗ کار جہاں بے ثبات اوّل و آخر فنا ٗ باطن و ظاہر فنا نقشِ کہن ہو کہ نو ٗ منزل آخر فنا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔420 ۔419 ) اس نظم کے آٹھ بند اور ہر بند میں آٹھ شعر ہیں یوں کل ۶۴ اشعار پر مبنی یہ نظم فکر و فن کا نادر شاہکار ہے۔ نظم میں زندگی عشق ٗ فنا ٗ عصر ٗ ایمان اور کئی دوسرے موضوعات کو پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے تاریخِ اسلام اور اسلامی روایت کے رموز و علائم کو اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر نے مسجدِ قرطبہ کی مرقّع نگاری بھی بے مثال طریقے سے کی ہے۔ اقبال نے مسجد کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ مضمرات اور مسلمانوں کے اجتماعی حافظے میں موجود یادوں کو خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کیا ہے۔ انھوں نے مسجدِ قرطبہ کو مسلم امّت کی علامت بنا دیا ہے۔ اسے ہمارے فردوسِ گمشدہ کی علامت کا درجہ دے دیا ہے۔’’ مسجدِ قرطبہ‘‘ اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب کی داغ بیل ڈالنے والی نظم ہے۔ آج اگر ہمیں بہت سے نئے شاعروں کے ہاں مسلَم اندلس ٗ قرطبہ اور دوسری مسلم تہذیبوں کے تباہ حال شہر علامتوں کے روپ میں جلوہ گر ملتے ہیں۔ تو ان سب کی نقیب یہ مسجدِ قرطبہ ہی ہے۔ یوں اس صدی میں اس نظم نے اردو شاعری پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ فنی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ اقبال نے وقت ٗ عشق ٗ فن ٗ تاریخ اور انقلاب کے بارے میں اپنے افکار کو اپنی نظم مسجدِ قرطبہ ٗ کے درو بست میں پرو دیا ہے یہ اقبال کے (اس نظم کے خصوصی حوالے کے ساتھ) غالب شعری محرکات کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبال کی تخلیقی حس کو مسجد قرطبہ کی تعمیری عظمت ٗ شکوہ اور جلال کی کیفیات نے متاثر کیا جو مکانی سیاق و سباق رکھتی ہے۔ یعنی اقبال کا تخیل دراصل اس مکانی نقطے کے گرد گھومتا ہے اور یہی اس کے فن کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے ذریعے اقبال یہ واضح کر رہا ہے کہ زمان و مکان ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہیں۔ پہلے بند سے یہ نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ زمان و مکان اصل ہیں اور اس حقیقت کو دراصل زمان و مکان کا تسلسل مشخص کر رہا ہے۔ وقت ایک تجریدی تصور ہے جو مختلف آفات کے ایک لڑی میں پرونے کے خیال سے واضح ہوتا ہے۔ روز و شب کا تسلسل اس کا ہی ایک خارجی مظہر ہے ٗ کیونکہ اسی سے واقعات کا ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے جسے آپ حقیقت سے تعبیر کر سکتے ہیں ٗ حیات و ممات بھی وقت کی حدود میں ہی بامعنی ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے کہا ؎ سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلہ روز و شب، اصلِ حیات و ممات (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔419 ) اقبال کے نزدیک وقت اور ابدیت کے درمیان نقطۂ انقطاع موجود ہے ؎ سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 419 ) یعنی ایک وقت سازِ ازل کی طرح سلسلہ وار ہے اور دوسراذ ات کے حوالے سے غیر سلسلہ وار جو تواتر کے بغیر تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ وقت کے ہاتھوں پرکھ اور چھان بین کے بعد جو وجود ٗ ذات یا انا حیات کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتی، مٹا دی جاتی ہے لیکن جو شخص زمانے کے بے رحم قانون سے آنکھیں ملا کر اپنی تقدیر خود بنانے پر قادر ہو اس کے لیے زندگی ایک بے معنی تکرار کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے لیے متعین اور معلوم نشاناتِ راہ ٗ فریبِ نظر بن کر رہ جاتے ہیں ع ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 420 ) اس کے لیے اگرچہ آنی و فانی ٗ معجزہ ہائے ہنرٗ اول و آخر ٗ باطن و ظاہر ٗ نقش کہن، نقشِ نو تمام فنا ہیں تاہم مردِ خدا کے طور پر اس کے نقش میں رنگِ ثبات ِدوام ابھر آتا ہے ٗ عشق اس کو حیات دیتا ہے اور اس پر موت حرام ہو جاتی ہے۔ عشق اور موت کے درمیان ازلی کشمکش ہے لیکن عشق میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے مد مقابل پر فتح پالے۔ اقبال عشق کا ایک جامع تصور رکھتے ہیں اور اس میں پیر رومی کا فیضان بھی شامل ہے۔ نظم کا دوسرا بند عشق کی اندرونی اور بیرونی بے پایاں قوتوں اور اس کے مظاہر خاص طور پر دل ِمصطفے اور دم ِجبریل کا ذکر کرتا ہے۔ فقیہ حرم اور امیر جنود بھی انھی میں شامل ہیں۔ اقبال عشق ٗ کو وقت سے بھی ماورا قرار دیتا ہے اور ان کے خیال میں وقت اپنی اصل ماہیت میں عشق کی توانائی سے مختلف نہیں ہے ؎ عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام اسی خیال کو دوبارہ اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے ع عشق سراپا دوام ، جس میں نہیں رفت و بود (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔421 ) حرمِ قرطبہ کا وجود بھی عشق کے دم ہی سے قائم ہے۔ یہ ایک ایسے فنی جذبے کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے جس میں ایمان اور ایقان کی آمیزش ہے۔ اس کی صناعی میں وقت کو عشق کی بھٹی سے گزار کر لازوال بنا دیا گیا ہے۔ اس کی فضا میں انسان ابدی نشے اور دراز تر ہونے والی سرمستی میں ڈوب جاتا ہے ؎ کافرِ ہندی ہوں میں ، دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوٰۃ و درود ، لب پہ صلوٰۃ و درود (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔422 ) چوتھے بند کے حوالے سے اقبال کو مسجد قرطبہ کے حسن ٗ عظمت اور استحکام میں مردِ مومن کے جلال و جمال کی جھلک نظر آتی ہے یعنی سنگ و خشت کا یہ پیکرِ مجسم انھی الوہی تصورات کی خارجی تجسیم ہے۔ پانچویں بند میں مردِ مومن کی زیادہ واضح جھلک ملتی ہے۔ یہاں مردِ مومن خدا کی تخلیقی قوت میں اس کا شریک ہو جاتا ہے ؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں ، کار کشا،کار ساز یا پھر ع خاکی و نوری نہاد ، بندئہ مولا صفات (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 ) ظن و تخمین کی اس دنیا میں مرد ِمومن کا عزمِ صمیم اور اندرونی یقین کا ایک ایک نقطہ محکم ہے جو اعتدال اور سلامت روی کا ضامن ہے ؎ نقطۂ پر کار حق ، مردِ خدا کا یقین ورنہ یہ عالم تمام، وہم و طلسم و مجاز (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 ) چھٹے بند میں اقبال پھر مسجدِ قرطبہ سے مخاطب ہو کر اسے کعبہء ار باب فن ٗ اور سطوت ِدینِ مبین ٗ جیسی پر شکوہ علامتوں سے نمایاں کرتے ہیں اور صرف قلبِ مسلمان کو اس کے حسن کی نظیر بتاتے ہیں جس کی نگاہوں نے شرق و غرب تربیت کی اور اپنی خرد سے یورپ کو ظلمات سے نکال کر عروج کی طرف گامزن کیا۔ اقبال نے اگلے بند میں اپنے گہرے تاریخی شعور کو برتا ہے اور شکست و ریخت، انتشاراور افتراق کے بعد منجمد اور مجہول زندگی میں گہری اور یک لخت تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس آرزو مندی کو اقبال نے اس طرح اپنی زبان دی ہے ؎ دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا؟ گنبدِنیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 427 ) آخری بند میں اقبال امتوں کے وجود کا انحصار کش مکشِ انقلاب کے اصول پر قرار دیتے ہیں۔ ایسا انقلاب عملِ پیہم اور خود احتسابی سے واقع ہو سکتا ہے ؎ جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ امم کی حیات ٗ کش مکشِ انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا، میں وہ قوم کرتی ہے جوہر زماں، اپنے عمل کا حساب (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 ) اس بند میں اقبال نے انقلاب کی بشارت بھی دی ہے اور اس بشارت کے لیے منطقی شرائط بھی پیش کی ہیں۔ نظم کا آخری شعر مسجدِ قرطبہ کے حوالے سے خونِ جگر کے بغیر ایسی دوامی اور لازوال تبدیلیوں کو ناتمام قرار دیتا ہے ؎ نقش ہیں سب نا تمام ٗ خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام ٗ خونِ جگر کے بغیر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 ) اس نظم کے آٹھ بندوں میں ایک سبک اور نفیس شعری منطق پائی جاتی ہے۔ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے ساتھ حیرت انگیز حد تک مربوط ہیں۔ یہاں تصورات اور ان کے حسّی مبادلات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں۔ تقلیلِ الفاظ ٗ ایمائیت اور روشن محاکات اس نظم کی رگ و پے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا آہنگِ خیال فکر اور جذبے کے باہمی امتزاج سے پھوٹتا ہے یہ نظم ایک ترکیبی علامیہ ہے جس میں مذہب ٗ فن اور تاریخ کے محاکات باہم د گر آمیز کر دیے گئے ہیں اور اقبال ایک اونچے فنی سنگھاسن سے رفعتِ تخیل کے ساتھ محوِ کلام دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم میں بحر منسرح زمانی آٹھ رکنی بسرامی استعمال کی گئی ہے جس کے اراکین ہیں مفتعلن ٗ فاعلن ٗ مفتعلن ٗ فاعلن ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دریائے وادیء الکبیر میں ایک باقاعدہ نظم کے تحت موجیں اٹھتی ہیں اور کناروں سے ٹکراتی ہیں۔ ہر لفظ مسجدِ قرطبہ کی طرح محکم ،روشن اور مضبوط کھڑا ہے پھر الفاظ کو ترصیع کی صنّاعی سے اس طرح برتا گیا ہے کہ عروضی وقفہ اور داخلی قافیے مل کر موسیقی کا ایک باقاعدہ نظام مرتّب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اقبال کوئی انحطاطی نہیں کہ صنّاعی کا التزام کرے بلکہ یہاں غیر محسوس طور پر با آسانی شعری موسیقی سے ترنّم کی کیفیت خود بخود پیدا ہوتی چلی گئی ہے اور یہی اقبال کی فنی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اب ہم اقبال کی آخری طویل نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کی طرف آتے ہیں۔ یہ نظم ان کے آخری مجموعے ارمغانِ حجاز کے اردو حصے میں شامل ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ ایک مجلس کی روداد ہے جس میں ابلیس اپنے مشیروں کے ساتھ شریک ہے۔ یہ مشیر باری باری اپنی کارکردگی بیان کر رہے ہیں اور آخر میں خود ابلیس اس مجلس سے خطاب کرتا ہے۔جدید انگریزی شعراء کی طرح تمثیل کے آہنگ میں لکھی گئی یہ نظم ڈرامے کے تقریباً تمام عناصرِ ترکیبی اپنے اندر رکھتی ہے اور اسے بہت خوبصورتی سے اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔ نظم کی ابتدا ابلیس کے خطاب سے شروع ہوتی ہے ؎ یہ عناصر کا پرانا کھیل ، یہ دنیائے دوں ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّائوں کا خوں اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز جس نے اس کا نام رکھا تا جہانِ کاف ونوں میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔702 ۔701 ) پہلا مشیر ابلیس کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے غلامی کو لوگوں کے لیے ازلی ابدی حقیقت بنا دیا ہے۔ ہم نے مسلمانوں سے خوئے مسلمانی نکال دی ہے اور عبادت کو رسومات میں ڈھال دیا ہے۔ اب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرا مشیر پہلے کی بات کرتے ہوئے اسے سلطانیٔ جمہور کے غوغا کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلا مشیر جمہوریت کو ملوکیت کا پردہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے خود شاہی کو جمہوری لباس پہنایا ہے۔ پہلا مشیر کہتا ہے کہ مغرب کے جمہوری نظام کا چہرہ باہر سے روشن لیکن باطن چنگیز سے زیادہ تاریک ہے۔ تیسرا مشیر سب کی توجہ مارکس ازم کی جانب مبذول کرواتا ہے جس کے سبب بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب توڑ دی ہے۔ پانچواں مشیر ٗ اشتراکیت سے گھبرا کر ابلیس سے التجا کرتا ہے کہ وہ ان کی پریشانی دور کرے۔ ابلیس انھیں بتاتا ہے کہ اسے اشتراکی کوچہ گردوں سے کوئی خطرہ نہیں وہ تو امتِ مسلمہ کی بیداری سے ڈرتا ہے۔ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں اقبال نے علامتی انداز میں حکومت کے مختلف نظاموں یعنی سرمایہ داری ٗ اشتراکیت ٗ فاشزم اور اسلامی نظام ِحیات پر بحث کی ہے۔ خود ابلیس کے مشیروں کے ذریعے یہ راز فاش کیا گیا ہے کہ عصرِ حاضر کے مروّجہ نظام، ابلیسیت ہی کے پیدا کردہ ہیں اور در پردہ اسی کے فتنوں ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ابلیس کو کارِ جہاں بانی میں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ اشتراکیت بھی ملوکیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ البتہ ملّتِ اسلامیہ جس نظامِ زندگی کو بروئے کار لانے کی تیاری کر رہی ہے وہ ضرور ابلیسیت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ابلیس واضح الفاظ میں یہ بتا کر کہ ؎ ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امّت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔700 ) اپنے مشیروں کو ایسے حربوں اور سازشوں سے کام لینے کا مشورہ دیتا ہے جو ملتِ اسلامیہ کے خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہونے دیں اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ وہ اسے فقہی مسائل اور علمِ کلام کی تاویلات میں الجھائے رکھیں اور گفتار کے سوا کردار و عمل کی روح اس میں بیدار نہ ہونے دیں ؎ ہے یہی بہتر، الہٰیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے تم اسے بیگانہ رکھو، عالمِ کردار سے تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات مست رکھو، ذکر و فکرِ صبح گاہی میں، اسے پختہ تر کر دو، مزاجِ خانقاہی میں اسے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔711 ۔712 ) یہ نظم اقبال کے عہد میں اٹھنے والی سب سیاسی اور سماجی تحریکات کے معروضی چوکھٹے میں پیوست نظر آتی ہے۔ خاص طور پر وہ تحریکیں اقبال کے پیش نظر تھیں جو سرمایہ داری ٗ ملوکیت اور استعماریت کے خلاف ردّ ِعمل کے طور پر ظہور میں آئیں یعنی فاشزمٗ نازی ازم اور کمیونزم جنہیں اقبال نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس نظم میں بیش از بیش طنزیہ لہجے میں ان کا ذکر فنی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ابلیس کے کردار کی جھلکیاں اور اقبال کے یہ موضوعات اور افکار اس سے پہلے بھی اقبال کی شاعری میں موجود تھے لیکن اس نظم میں اقبال نے اپنی تمام عمر کی ریاضت ٗ مطالعے اور تجربے سے کام لے کر پختگی کے ساتھ ان افکار کا احاطہ کیا ہے اور اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا ہے۔ نظم کے بیرونی ڈھانچے اور اس کے مرکزی تصورات کے ساتھ ساتھ اس کے اندرونی دبائو بھی توجہ کے متقاضی ہیں۔ اس کے بعد کی نظم کا عنوان ہے، بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو، جس میں باپ نے بیٹے کو کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اپنے آپ پر بھروسا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ’’تصویر و مصور‘‘ میں خودی کا درس ہے۔عالمِ برزخ میں غلاموں اور آزاد منش انسانوں کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ سر راس مسعود کے مرثیے اور دو تین مختصر نظموں کے بعد چند اردو قطعات ہیں جن میں سعی و عمل کا پیغام دیا گیا ہے۔ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کے حوالے سے اقبال نے انتیس حیات افروز نکات بیان کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی حالتِ زار کی دردناک تصویر کھینچی ہے ؎ سرما کی ہوائوں میں، عریاں بدن اس کا دیتا ہے ہنر جس کا، امیروں کو دوشالہ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 750 ) سر اکبر حیدری کے نام نظم میں اقبال کی قلندرانہ ٗ درویشانہ اور غیور طبیعت پر روشنی پڑتی ہے۔ بعد ازاں حسین احمد کے عنوان سے مندرجہ ذیل تین فارسی شعر ہیں جو اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی سے اس بیان سے متاثر ہو کر کہے تھے جس میں مولانا نے وطن کو قومیت کی اساس قرار دیا تھا ؎ عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں، ورنہ زدیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبی ست سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی ست بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔754 ) اسی مجموعے میں ایک نظم دوزخی کی مناجات، بھی شامل ہے جو دنیا میں مفادات کی کشمکش کا پردہ چاک کرتی ہے۔ دوزخی کے نزدیک دنیا میں غریبوں کی قسمت میں فقط نالہ و فریاد لکھا ہے۔ یہاں پرویز ٗ سراب ہیں اور فرہاد ٗ جگر تشنہ ۔ علم ٗ حکمت ٗ سیاست ٗ تجارت سب فکرِ ملوکانہ نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ بلند عمارات والے شہر ویرانہ ء آباد ہیں ۔آخر میں وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ دوزخ میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ؎ اللہ ترا شکر کہ یہ خطۂ پرسوز سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 722) یعنی یورپ کی غلامی سے دوزخ کی زندگی قدرے بہتر ہے۔ ارمغانِ حجاز کی آخری نظم حضرتِ انسان ہے جو عظمتِ انسانی کا پرجوش بیان ہے۔ یہ نظم اقبال نے وفات سے چند روز پیشتر لکھی تھی۔ یہ نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے ؎ اگر مقصودِ کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟ مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 775 ) چند اور نظمیں اور دیگر اصناف غزل اور طویل نظم کے حوالے سے اقبال کی شاعری کے فکری اور فنی پہلوئوں پر خاصی بات ہو چکی ہے۔ اب ہم مختصراً اقبال کی مختصر نظموں ٗ قطعات ٗ رباعیات اور ظریفانہ کلام کے حوالے سے بات کریں گے۔ اگرچہ فکرِ اقبال کے مرکزی نقطے اور اس کے حوالے سے دوسرے موضوعات پر سیر حاصل بات ہو چکی ہے اور اقبال کے فنی ارتقاء پر بھی گفتگو کی جا چکی ہے لیکن چونکہ ان اصناف کی اقبال کی شاعری میں الگ اہمیت ہے اور دوسرا چونکہ یہ اقبال کے کلام کا اہم حصہ ہیں اس لیے ہم ان پر بات کرتے ہیں۔ لیکن یہاں ہمارے پیشِ نظر اختصار ہوگا اور ہم فرداً فرداً سب نظموں پر بات کرنے کی بجائے صرف منتخب نظموں پر بات کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم اپنی بات کی ابتدا نظم ہمالہ، سے کرتے ہیں جو کلامِ اقبال کی ابتدائی نظم ہے ۔ ہمالہ میں دو موضوعات ہیں، ایک تو فطرت پسندی اور دوسری حب الوطنی ٗ ہمالہ ہندوستان کا ہی نہیں دنیا کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے اور شاعر نے اسے کشورِ ہندوستان کی فصیل قرار دیا ہے۔ اقبال نے ہمالہ، کو ہندوستان کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے لفظیات کا انتخاب اور تراکیب کی تراش خراش بہت موزوں ہے۔ فطرت پسندی کے پیش منظر کو ہی اگر پیشِ نظر رکھیں تو ہمیں گلِ رنگین، کے عنوان سے دوسری نظم ملتی ہے جو شاعر کے فطرت کے حوالے سے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتی ہے۔ ’’ابرِ کوہسار‘‘ اور دوسری کئی نظموں کو اس ذیل میں رکھ سکتے ہیں۔بانگ درا کے ابتدائی حصے میں بیشتر ایسی نظمیں شامل ہیں جن پر فطرت نگاری کا اطلاق ہو سکتا ہے پھر ان نظموں کی لفظیات اور نرم لہجہ بھی انہیں رومانی فضا کے قریب لے آتا ہے۔ابربچہ اور شمع کنارِ راوی اور کئی دوسری نظمیں ہم اسی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں جن میں شاعر فطرت سے اپنے قرب اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ بانگِ درا کے دوسرے حصے کا آغاز محبت نامی نظم سے ہوتا ہے جس میں شاعر نے محبت کے جذبے اور اس جذبے کی نزاکتوں کا بیان کیا ہے۔ اس سے اگلی نظم حقیقت ِحسن، ہے جس میں شاعر نے حسن کے فانی ہونے اور اس فنا سے پیدا ہونے والے افسوس کو موضوع بنایا ہے پیام میں بھی بنیادی طور پر عشق ہی کے جذبے کو اپنا موضوع بنایا گیا ہے۔ حسن و عشق .... کی گود میں بلی دیکھ کر،کلی،وصال سلمیٰ،عاشق ہرجائی ، جلوۂ حسن،پیغام عشق ،فراق ایسی نظموں میں حسن و عشق کے معاملات ہی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ تمام نظمیں اقبال کے قیامِ یورپ کے دوران لکھی گئی ہیں۔ یورپ میں اقبال کو عطیہ فیضی اور اپنی جرمن زبان کی خواتین اساتذہ کی صحبت میسر آئی اور اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اقبال ان خواتین سے متاثر ہوئے۔ قیامِ یورپ کے دوران لکھی گئی اقبال کی یہ نظمیں کم و بیش انھیں جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہیں۔ اقبال کی ان رومانی نظموں کے فنی محاسن کے سلسلے میں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کا یہ بیان قابل غور ہے: ’’اقبال کی یہ نظمیں اپنے موضوع اور طرز ِاحساس کے علاوہ اسلوبِ فن کے لحاظ سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ گذشتہ سطور میں رسالہ ’’مخزن‘‘ کے حوالے سے اردو شاعری میں رومانی رجحان کا ذکر آ چکا ہے۔ اس سہ سالہ دور میں بھی ’’مخزن‘‘ کے صفحات میں مغربی شعراء کی نظموں کے تراجم اور نوبہ نو رومانی تخلیقات و تجربات کا سلسلہ جاری رہا لیکن اگر بیسویں صدی کے عشرہ ٔاول کی صدہا رومانی نظموں کا ایسا انتخاب مرتب کیا جائے جو انیسویں صدی کی انگریزی شاعری کی جمالیاتی اقدار و فنی معیار کی حامل ہو ٗ تو شاید اقبال کی ان نظموں کے علاوہ بہت کم چیزیں اس انتخاب میں شامل ہو سکیں گی۔‘‘ (16) ڈاکٹر صاحب نے بجا طور پر ان نظموں کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ بہر طور شاعر ی میں ان کی حیثیت مسلّمہ ہے۔ اقبال کے ہاں قومی اور ملی نظموں کا آغاز ہمالہ ہی سے ہو چکا تھا۔ آگے چل کر اس رجحان کی نمائندہ نظموں میںترانہء ہندی، نیا شوالہ، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، سوامی رام تیرتھ اور طلبائے علی گڑھ کالج کے نام کو رکھا جا سکتا ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے اور اقبال نے بھی اسی جذبے کے تحت اپنے وطن ہندوستان سے محبت کی ٗ جس کا اظہار ان کی شاعری میں بھی ہوا۔ لیکن ہندوستان کے سیاسی حالات نے اسے رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ کو اپنا نصب العین بنانے پر مجبور کر دیا جس کے ساتھ ہی اس کی نظموں میں وطن پرستی کا تصور کم ہوتا چلا گیا اور ملت اور امت کے تصورات حاوی ہوتے گئے۔ بانگِ درا کے تیسرے حصے کا آغاز ہی بلادِ اسلامیہ نامی نظم سے ہوتا ہے۔ جس میں وہ مسلمانوں کو ان کے ماضی کی کھوئی ہوئی عظمت کی یاد دلاتے ہوئے عمل پر ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آگے چل کر انہوں نے وطنیت کے نام سے اپنی نظم میں وطن کے مغربی تصور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے قومیتِ اسلام کی جڑ کاٹنے کا آلہ قرار دیا ہے ۔خطاب بہ نوجوانانِ اسلام،مسلم،حضور رسالت مآب میںشفاخانۂ حجاز ، فاطمہ بنت عبداللہ ،صدیق کفر و اسلام،بلالؓ اورمذہب کے نام سے شامل نظموں میں انھوں نے کھل کر اپنے مذہبی جذبے اور مذہبی شعور کا اظہارکیا ہے۔ ان نظموں کے مطالعے سے ہم اندازہ کرتے ہیں کہ کس طرح رفتہ رفتہ اقبال کے تصورات میں ارتقاء ہوا اور وہ ملت اسلامیہ کے مسائل کی جانب متوجہ ہوئے۔ ظریفانہ کے عنوان سے اقبال نے بانگِ درا کے آخر میں اپنا ایسا کلام شامل کیا ہے جس میں اس نے طنزو مزاح کے حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اقبال سے پہلے اردو میں اکبر الٰہ آبادی نے بڑی خوبی کے ساتھ طنزو مزاح کو اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا۔ لیکن اکبر کے ساتھ المیہ یہ پیش آیا کہ اکثر و بیشتر انھیں ایک مزاحیہ شاعر سمجھ کر پڑھا گیا۔اقبال کے ہاں چونکہ یہ رنگ بہت زیادہ گہرانہیں اس لیے ان کے کلام میں یہ صرف ایک پہلو کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعری کے اس رنگ میں بھی اقبال کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں اور اس نے چند خوبصورت نمونے ہی پیش نہیںکیے ہیں بلکہ جدیدیت کے بعض منفی پہلوئوں پر کچھ مغربی دانشوروں کی طرح تنقید سے کام لیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسلمانوں کے ذہنی جمود اور رجعت پسندی کو بھی نشانہ بناتے ہیں ؎ مشرق میں اصول ِدیں بن جاتے ہیں مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلّے وہاں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 315 ) شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 315 ) ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا ہم تو فقیر تھے ہی ، ہمارا تو کام تھا سیکھیں سلیقہ اب امراء بھی ’’سوال‘‘ کا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 318 ۔319 ) اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الیکشن ، ممبری ، کونسل ، صدارت بنائے خوب آزادی نے پھندے میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔323 ) بال ِجبریل میں اقبال کی 38 رباعیات شامل ہیں۔ رباعی لکھنا ایک مشکل کام ہے کہ اس کے لیے بحر یںمتعین ہیں جن کے ساتھ دوسرے بہت سے دیگر لوازمات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے جیسا کہ رباعی کا تیسرا مصرعہ اتنا جاندار ہوناچاہیے کہ وہ باقی تینوں مصرعوں کو ایک لڑی میں پرو دے۔ اقبال کی اردو اور فارسی دونوں زبانوں کی شاعری میں رباعی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال نے شاعری کے اس میدان میں بھی اپنے کمالِ فن کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی رباعیات بھی فکر و فن کے اعتبار سے شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ انھوں نے ان میں اپنے تصورات و خیالات اور فکر و فلسفہ کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اقبال کی رباعیات کی چند مثالیں دیکھیں ؎ یقیں ، مثلِ خلیل آتش نشینی یقیں اللہ، مستی ، خود گزینی سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار! غلامی سے بتر ہے بے یقینی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 406 ) نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری رہا صوفی، گئی روشن ضمیری خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ نہیں ممکن امیری، بے فقیری (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 408) زمانے کی یہ گردش جاودانہ حقیقت ایک تُو ، باقی فسانہ کسی نے دوش دیکھا ہے ، نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ (کلیاتِ اقبال ٗ ص۔ 404 ) بالِ جبریل کی وہ چند نظمیں جو مسجد قرطبہ کے فوراً بعد آتی ہیں۔ ان پر مسجدِ قرطبہ کے اثرات بے حد نمایاں ہیں اور مسلم اندلس کے پس منظر میں ہونے کے سبب مسجدِ قرطبہ سے ان کی قربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت ، ہسپانیہ اورطارق کی دعا اس ذیل میں آتی ہیں۔ بالِ جبریل کی ایک اہم نظم لینن ۔ خدا کے حضور، ہے جس میں اقبال نے لینن جیسے منکرِ خدا کو خدا کے حضور کھڑا کرکے مار کسزم کے سب سے بڑے خدا کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ لوگ جو اقبال پر مارکسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں ٗ انھیں اس نظم کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ شاید وہ اس نظم کو پڑھے بغیر ہی اقبال کے مسلک کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرشتوں کا گیت ،فرمانِ خدا، الارض للہ،فلسفہ و مذہب، مذہبی حیثیت کی حامل نظمیں ہیں جو کہ اقبال کے مرکزی خیال سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ چند دوسری نظمیں بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں اقبال نے اپنے تصورات کا خوبصورت اظہار کیا ہے ۔ان میں محبت ،جدائی، جبریل و ابلیس ،زمانہ اورلالۂ صحرا، خاص طور پر توجہ کے قابل ہیں۔ بالِ جبریل میں چند قطعات بھی شامل ہیں جو فنی چابکدستی کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ ان میں آخری قطعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے ؎ کل اپنے مریدوں سے کہا پیرِ مغاں نے قیمت میں یہ معنی ہے درِناب سے دہ چند زہراب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 500 ) ضربِ کلیم کی نظموں میں مذہبی شعور اور نیا پن بہت نمایاں ہے۔ ان نظموں کی شعری لفظیات ، تلمیحات، استعارات بھی مذہبی روایات سے اخذ کردہ ہیں۔لاالٰہ الا اللہ اور معراج جو کتاب کی ابتداء میں درج ہیں ٗ اس سلسلے کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ علم و عشق ،مرد ِمسلماں ، مدنیت اسلام اور دیگر کئی نظمیں اسی طرز کی حامل ہیں۔ ’’ضرب کلیم ‘‘میں بیشتر مختصر نظمیں شامل ہیں لیکن فنی چابکدستی، موضوع کے بیان پر مضبوط گرفت ٗ خوبصورت زبان اور دلکش لہجے کے سبب یہ مختصر نظمیں بھی اپنے اندر معنی کے خزانے رکھتی ہیں۔ سیاسیاتِ مشرق و مغرب کے عنوان سے مختصر نظموں کا ایک سلسلہ ہے جس میں متعدد نظمیں شامل ہیں۔ ان کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ اپنے طور پر نظم مکمل ہونے کے باوجود اپنے سے پیشتر اور مابعد کی نظموں سے مربوط بھی ہے یوں یہ ایک طویل نظم بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کا ایک سلسلہ محراب گل افغان کے افکار ہے جس کے20 جزو ہیں۔ یہ غزل کی ہیئت میں ہے۔ ہر جز اپنے طور پر مکمل ہونے کے ساتھ فکری اعتبار سے اپنے سے ماقبل اور مابعد سے تسلسل بھی رکھتا ہے ۔ ارمغانِ حجاز کی اردو نظموں میں بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ،تصویر و مصور ،عالمِ برزخ، صدائے غیب ،دوزخی کی مناجات اور آوازِ غیب خوبصورت نظمیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ارمغانِ حجاز میں رباعیات کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے۔ جو اقبال کے رباعی کے مزاج کو تبدیل کرنے ، ان میں جدید موضوعات کے استعمال اور فنی گرفت کی بہترین مثالیں ہیں ٗ چند رُباعیات دیکھیں ؎ ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟ عبث ہے شکوۂِتقدیرِیزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 734 ) خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے جہاں روشن ہے نورِ لا الٰہ سے فقط اک گردشِ شام و سحر ہے اگر دیکھیں فروغِ مہرو مہ سے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 735 ) کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر کبھی دریا کے سینے میں اتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر مقام اپنی خودی کا فاش تر کر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 735 ) اقبال کی غزلوں اور نظموں کے بنظرِ غائر مطالعے سے یہ واضح ہے کہ وہ بے مقصد رومانویت سے آلودہ شاعری پر نہیں ٗ بلکہ ایسی با مقصد اور متحرک شاعری پر یقین رکھتے ہیں ٗ جو خوابِ غفلت سے عمومی طور پر بنی نوع انسان اور بالخصوص مسلمانوں کو جگا سکے۔ ایسے شاعر کی آواز میں محبوب کی ادا اور نزاکت نہیں بلکہ اسرافیل کے صور جیسی شوکت ٗ جلال اور گھن گرج ہو جس سے تلمیح اور اسلامی عقائد کے مطابق سوئے ہوئے مُردے بھی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے ؎ مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگِ صورِ سرافیل دلنواز نہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 376 ) یہ شعر اس امر کا بھی غماز ہے کہ اقبال کی شاعری کلاسیکی رومانویت سے ٹھوس حقیقت نگاری کی طرف سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ ادب میں اظہاریت کی تحریک اصلاح پسندی اور انفرادی فکر سے عبارت ہے۔ اقبال کی شاعری سامراجی ہتھکنڈوں کی شکار قوموں کے لیے آسمانی بجلی جیسی بلند فکری اور روشنی کی علامت ہے۔ ان کے افکار کی روشنی جبرو استبداد کی سیاہ رات میں بھٹکتے ہوئے مسافروں کو راستہ سجھاتی ہے ؎ صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند کہ بھٹکتے نہ پھیریں ظلمتِ شب میں راہی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 400 ) شاعری ایک ایسا فن ہے کہ بغیر تخلیقی صلاحیت کے حاصل نہیں ہوتا اور تخلیقی صلاحیت وہبی ہوتی ہے۔ اقبال اپنی اس وہبی صلاحیت کے ذریعے اپنی قوم کی مردہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے کا دعویدار ہے ؎ میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 477 ) یہ شعر نیچری شاعری اور اظہاریت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ شعر کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیت کو نیچری شاعری کے زیر اثر اقبال نے ایک جگہ یوں بھی بیان کیا ہے ؎ مری مشاّطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 353 ) لیکن ذرا غور کیا جائے تو اس شعر میں فکر کی ایک اور زیریں روبھی موجود ہے۔ اقبال کے شعری محرکات میں سے مظاہرِ فطرت ٗ حبّ ِ وطن اور اہل وطن سے محبت ٗ اسرارِ کائنات ٗ الہٰیات ٗ زمان و مکان ٗ قومیت اور وطنیت کے مغربی تصور سے بیزاری ٗ اسلامی اخوت اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی خواہش ٗ عقل و عشق کی تفریق ٗ عظمتِ انسانی اور فلسفہ خودی و بیخودی ٗ نمایاں تر رہے ہیں۔ ابتداء میں ان کے ہاں روانی ٗ شیرینی اور الفاظ و تراکیب کی دلنشینی ٗ استعارے ٗ مشبہ بہ، مستعار منہ ٗ تلمیحات ٗ تماثیل موجود ہیں لیکن فکر کی گہرائی اور تخیل کی بلندی ان میں رفتہ رفتہ پیدا ہوئی۔ اور بالآخر ان کا کلام الہامی اور آفاقی دکھائی دینے لگا اور خود آگہی کے طفیل ان کا لہجہ پیغمبرانہ ہوتا چلا گیا ۔ اس نے فکر و تخیل کا وہ عروج حاصل کیا ٗ جہاں تک اردو شاعری میں کسی اور کی رسائی ان سے پہلے اور بعد میں نہیں ہو سکی۔ حواشی و حوالہ جات 1۔ (شیخ )عبدالقادر : دیباچہ ’بانگ درا‘ مشمولہ کلیاتِ اقبال، اردو ،شیخ غلام علی اینڈ سننر ، لاہور، 1989 ء ، ص۔ 9 ۔ 2۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم:فکرِ اقبال ، بزمِ اقبال ، لاہور ، 1988 ء ، ص۔ 8 ۔ 3۔ عابد علی عابد: شعرِ اقبال ،بزمِ اقبال ، لاہور، 1977 ء ،ص۔ 292 ۔ 4۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی: اقبال کا نظامِ فن ، اقبال اکادمی ، لاہور ، 1990ئ، ص۔11,10۔ 5۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور، ص ۔70 ، 8 ۔ 6۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی :ـ عروجِ اقبال، بزمِ اقبال ، لاہور ، ص۔ 19 ۔ 7۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص ۔87 ۔ 8۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی: کتاب مذکور ، ص۔411 ۔ 9۔ (ڈاکٹر )عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص۔ 239 ۔ 10۔ (علامہ) محمد اقبال : کلیاتِ اقبال اردو ، اقبال اکا دمی پاکستان ، لاہور ، ص ۔210 ۔ 11۔ سعد اللہ کلیم : اقبال کے مشبہ بہ و مستعار منہ مشمولہ اقبال بحیثیت شاعر،مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مجلس ترقیٔ ادب ، لاہور ، 1977 ء ، ص ۔438 ۔ 12۔ ایضاً: ص۔439 13۔ اسلوب احمد انصاریـ:اقبال کی تیرہ نظمیں، مجلس ترقّیء ادب ، لاہور، 1977 ء ، ص۔ 35 ۔36 ۔ 14۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص۔ 283 ۔ 15۔ (ڈاکٹر ) عبدالمغنی : کتاب مذکور، ص۔ 381 ۔ 16۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی : کتاب مذکور ، ص ۔378 ۔379 ۔ ٭٭٭ باب پنجم :حصہ دوم تحریکِ اقبال کے ادبی ثمرات اقبال کا نظریۂ سخن فن برائے فن اور فن برائے زندگی کی بحثیں اب فرسودہ ہو چکی ہیں۔ ان سے قطعِ نظر اقبال کے بارے میں اتنی بات طے ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے اور فن کو زندگی آمیز اور زندگی آموز سمجھتا ہے۔ اس طرح اقبال نے ایک اہم مگر کڑا منصب قبول کیا ہے اور اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اردو کے تمام شاعروں سے زیادہ کامیابی سے اس منصب سے عہدہ برآ ہوا ہے۔ وہ اس سے خود نکھر کر اور ابھرکر سامنے آیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے زندگی کو بھی اور زیادہ نکھار اور تازگی عطا کی ہے ؎ علم از سامانِ حفظِ زندگی است علم از اسبابِ تقویمِ خودی است علم و فن از پیش خیزانِ حیات علم و فن از خانہ زادانِ حیات (کلّیاتِ اقبا ل فارسی ٗ ص ۔37 ) اقبال فن کے ذریعے شخصیت کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ’’ہماری شخصیت جملہ اشیائے کائنات میں حسن و قبح کا معیار ہے ٗ مذہب، اخلاق اور آرٹ سب کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔‘‘ (1) اقبال کے نزدیک شخصیات اور افراد سے قوم بنتی ہے اور ’’کسی قوم کی روحانی صحت کا دارومدار اس کے شعراء اور آرٹسٹ کی الہامی صلاحیت پر ہوتا ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر کسی کو قابو حاصل ہو۔ یہ ایک عطیہ ہے ٗ اس عطیے سے فیضیاب ہونے والے کی شخصیت اور خود اس عطیے کی حیات بخش تاثیر انسانیت کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ کسی زوال پذیر آرٹسٹ کی تخلیقی تحریک ٗ اگر اس میں صلاحیت ہے کہ وہ اپنے نغمے یا تصویر سے لوگوں کے دل لبھا سکے ٗ قوم کے لیے چنگیز خان کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘‘(2) ایسے زوال پسند فن کاروں کے بارے میں اقبال نے ضربِ کلیم میں ہنرورانِ ہند، کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ؎ عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیّل ان کا اِن کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ٗ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 240 ) زبور ِعجم میں اقبال نے ایک باب غلام اقوام کے فنون ِلطیفہ کے لیے وقف کیا ہے (3) اقبال کے خیال میں فنِ تعمیر آزاد اقوام کا حصہ ہے اور غلام اقوام موسیقی اور مصوری پر اپنا وقت اور تخلیقی صلاحیتیں صرف کرتی ہیں۔ ان اقوام کے فن کاروں کی موسیقی موت کا راگ ہے اور ان کی حیثیت ایک بیوہ کے نالہ و فغاں سے زیادہ نہیں۔ ان کی شاعری اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہے لیکن آزاد اقوام کی شاعری معنی آفریں اور تہ دار ہوتی ہے۔ غلام قوم کا فن کار پرانی وضع کی ہوئی ڈگر پر چلتا ہے۔ اپنی ذات اور قوتِ تخیل پر اعتماد کرکے اپنا راستہ نہیں تراشتا بلکہ محض قبولِ عام کو اپنی سند اور معیار سمجھتا ہے چاہے وہ معیار کتنا ہی پست کیوں نہ ہوں۔ اس کا فن محض واقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ واقفیت کو تخیل کی ارضیت نہیں دے سکتا۔ آزاد قوم کافن کار اپنی اندرونی تپش ٗ سوز و گداز ٗ اعلیٰ ترین تصوریت ٗ ریاضیت اور حرکتِ حیات کو عشق میں گوندھ کر اپنی تخلیق کے محرّک بناتا ہے۔ اس کا جذبۂ تخلیق خونِ جگر سے مادی اور غیر مرئی اشیاء میں جان ڈال دیتا ہے اور وہ زمانے پر فتح پانے کے لیے سچا آرٹ تخلیق کرتا ہے ؎ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود قطرۂ خونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دِل خونِ جگر سے سدا سوز و سرور و سرود (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔421 ) نقش ہیں سب ناتمام، خون ِجگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 ) ’’فنونِ لطیفہ ‘‘ ہی کے عنوان سے ضربِ کلیم کی ایک نظم میں اقبال کے فنونِ لطیفہ کے بارے میں نظریات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتے ہیں: اے اہلِ نظر!ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصودِ ہنر، سوزِ حیاتِ ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کا جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں! وہ صدف کیا ٗ وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص ۔631 ۔630 ) اقبال کے نزدیک فن کو انسان کے اندر قوت اور ولولہ پیدا کرنا چاہیے۔ وہ اس آرٹ کا قائل نہیں جو اپنے سحر اور افسوں سے شیروں پر نیند طاری کر دے۔ اس کے خیال میں فن حسن ہے اور وہ آرزو پیدا کرتا ہے۔ حسن کا مقصد اقبال کے خیال میں یہی ہے کہ وہ دلوں میں کوئی تمنا اور کوئی خواہش پیدا کرے۔ جس سے عالمِ وجود روشن ہوتا ہے اور اسی پر نامعلوم ممکنات کی ترقی کا دارو مدار ہے۔ فن خود منزل نہیں بلکہ منزل پر پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔ فن کو روح پرور اور حیات بخش ہونا چاہیے، نہ کہ افیونی اور خواب آور۔ حقیقت کو منعکس کرنا ایسے فن کا مطمحٔ نظر ہے۔ فن کا ایک پہلو اقبال کے نزدیک تعلیمی اور تبلیغی بھی ہے۔ اقبال نے درحقیقت فن کو اور ادب کو معاشرے کی آنکھ کا درجہ دیا ہے بلکہ ایک جگہ تو اقبال نے شاعر کو ’’دیدۂ بینائے قوم‘‘ کہا ہے۔(4) اقبال فن کو نفس کا آئینہ کہتا ہے۔ قلبی احساسات کے بیان ہی سے ادب میں زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا ایک رخ ایمائی بھی ہوتا ہے وہ اظہار میں کبھی کچھ کہے بغیر بھی چھوڑ دیتا ہے تاکہ سننے والے کا دل اس خلا کو اپنے طور پر پُر کر دے اور اس کی فکر اور جذبے کو مہمیز کرے (5)یہ ادب میں خالصتاً ایک جدید اضافہ ہے ۔ اقبال کہتا ہے کہ : ’’تمام انسانی سرگرمیوں کا انتہائی مقصد زندگی ہے۔ پرشوکت، پر قوت ٗ مالا مال، زندگی۔ تمام انسانی آرٹ کے پیشِ نظر یہی مقصد ہونا چاہیے اور ہر چیز کی قدر اس کی حیات بخش قابلیت کے مطابق مقرر کی جانی چاہیے۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہماری سوئی ہوئی قوتِ ارادہ کو بیدار کرے اور جو زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہم میں قوت پیدا کرے۔ ہر وہ چیز جو نیند لاتی ہے،جو ہماری آنکھیں بند کر دیتی ہے اور ہمیں آس پاس کی چیزیں دیکھنے نہیں دیتی، جن کو قابو میں لانے ہی پر زندگی کا انحصار ہے ٗ زوال اور موت کا پیغام ہے۔ آرٹ کی خاطر آرٹ کا واہمہ تنزل اور ادبار کی ایک عیارانہ ایجاد ہے جو زندگی اور قوت کی طرف سے بہکا کر ہمیں دوسری جانب لے جاتی ہے۔‘‘(6) یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے طور پر اپنے نظریۂ ادب اور فنونِ لطیفہ کے بارے میں اپنے خیالات کو عملی طور پر اپنی شاعری میں برتا اور دوسرے شعراء اور ادباء کے لیے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ اس کی شاعری جاں بازی ٗ اولو العزمی، تحریک ٗ جلال ٗ جمال ٗ توازن اورشکوہ سے عبارت ہے۔ اس کا تصور ِفن دور ِحاضر کے تمام اربابِ ہنر کے لیے دائمی قدر کا حامل ہے اور انھیں بھی بطور شاعری ابدیت اور جاودانی عطا کرتا ہے۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے اردو میں سب سے پہلے باضابطہ طور پر مقصدی ادب لکھنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ اس میں تعلیم اور ادب سب سے زیادہ اہم ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے فوراً بعد ہمیں اقبال کی جاندار اور متحرک شخصیت نظر آتی ہے جس نے تن تنہا ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی اور مستقبل پر دور رس اور فیصلہ کن اثرات مرتب کیے۔ یہاں ہم تحریک اقبال کے ثمرات کا جائزہ لیتے ہوئے خود کو ادب کے دائرہ کار تک محدود رکھتے ہیں۔ کلاسیکی غزل سے انحراف اردو شاعری کی سب سے جاندار اور زرخیز صنف، غزل ہے۔ غزل میں ہیئت کی پابندی بہت سخت ہے۔ دراصل غزل ہے ہی ہیئت کا نام۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تین سو سال کے شعری سرمائے کو مدنظر رکھتے ہوئے غزل کی لغات بھی تقریباً متعین ہو چکی تھیں۔ الفاظ کے بارے میں طے کر دیا گیا تھا کہ کون سے لفظ غزل میں آ سکتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب یہ لفظیات اپنے حقیقی معنوں سے جدا ہو گئے اور ابتذال کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ مولانا حالی نے سب سے پہلے غزل اور اردو شاعری میں اصلا ح کا بیڑا اٹھایا۔ اگرچہ مولانا نے اردو شاعری کی نئی بوطیقا بڑی محنت سے مرتب کی لیکن وہ تخلیقی سطح پر قابل ِقدر نمونے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حالیؔ کے بعد اکبرؔ نے اردو شاعری میں نئی لفظیات کو داخل کیا۔ حسرتؔ نے جدید غزل کو نئے مضامین اور اسالیب سے روشناس کروانے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں سب سے کامیاب اور ہمہ جہت کوشش جس نے آئندہ اردو شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے، اقبال کی کوشش ہے۔ اقبال نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا۔ داغ اپنی زبان دانی کے لیے پورے ہندوستان میں مشہور تھے۔ اقبال نے ابتدا میں چند غزلیں داغ کی تقلید میں لکھیں ٗ لیکن جلد ہی انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ اقبال نے اردو شاعری کو نئی زبان دی۔ وہ اپنی طرز کے موجِد اورخاتم بھی خود ہی تھے ۔انھوںنے کلاسیکی غزل سے دو سطح پر انحراف کیایعنی لفظیات اور مضامین میں، اور دونوں سطح پر اس کا اجتہاد بہت کامیاب رہا ۔اقبال نے کلاسیکی غزل کو غیر ضروری جکڑ بندیوں سے آزاد کرکے اسے ایک نئے راستے پر ڈالا۔ اقبال کی غزل کے چند اشعار ہی بتا دیتے ہیں کہ ان کا تعلق کس شاعر سے ہے ؎ اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری، ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہرو ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں کہہ گئی رازِ محبت ، پردہ داری ہائے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آوازِ رحیلِ کاروں سمجھا تھا میں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔355 ) اس غزل کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ غز ل کسی اور کی ہے۔ یہ نمونۂ حرف اپنے سے ماقبل شاعروں کی غزل سے مختلف ہے بلکہ بعد میں بھی کوئی ایسی غزل کہتا نظر نہیں آتا۔ اقبال کی تقلید میں بہت سے لوگوں نے شاعری کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا حشر ایک بڑے برگد کے نیچے اگنے والے ننھے منھے پودوں جیسا ہوا۔ ہاں اقبال کی اجتہادی روش نے بہت سے لوگوں میں حوصلہ پیدا کیا اور انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج سے انحراف کرنے کی کئی کامیاب مثالیں چھوڑی ہیں۔ اسلوب کی تازگی ابتدائی دور کی مختصر سی شاعری کو چھوڑ کر اقبال کی ساری شاعری اسلوب کی تازہ کاری کا شہکار ہے۔ اقبال جن خیالات کو منظوم کرنا چاہتا تھا وہ اردو شاعری میں نئی چیز تھی۔ اس لیے انھیں اپنے اسلوب کو بھی نئے سرے سے طے کرنا پڑا۔ اس کے ہاں الفاظ کا درو بست ٗ مصرعے کی بناوٹ ٗ تشبیہات و استعارات کا استعمال ٗ غرض اسلوب کے تمام پہلو اپنے اندر جدت رکھتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا غزل کو ہی سامنے رکھیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ غزل اپنی لفظیات ٗ تراکیب اور طرز ِبیان کے اعتبار سے کلاسیکی غزل سے بالکل مختلف ہے۔ اگر ہم کلاسیکی شاعری کے تسلسل میں اس غزل کا مطالعہ کریں تو یہ ہمیں بند فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتی ہے۔ کم و بیش یہی معاملہ نظم کا ہے۔ اقبال نے نظم میں اپنا اسلوب خود تراشا ہے۔ اردو میں نظم نگاری کا آغاز نظیر اکبر آبادی سے ہوتا ہے۔ نظیر نے اردو نظم کے لیے جو اسلوب اختیار کیا وہ اس کے زمانے کے مروّجہ اسلوب سے بہت مختلف تھا۔ اس لیے اسے قبولِ عام حاصل کرنے کے لیے ایک مدت تک انتظار کرنا پڑا۔ بعد کے دور میں حالی نے اردو نظم میں نئے اسلوب کا اضافہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ شاعری کے اعلیٰ نمونے تخلیق کرنے میں ناکام رہے تاہم انھوںنے نظری پہلو پر خاصہ کام کیا۔ اقبال نے اگرچہ اپنی شاعرانہ معاملات میںنظریہ سازی تو بہت کم کی لیکن اس نے ایسے تخلیقی نمونے ضرور چھوڑے جن کی بنیاد پر آگے چل کر نئی شاعری کرنے والوں نے اپنا نظریہ وضع کیا۔ اقبال کے ان اجتہادی اقدامات نے اردو نظم کو ایک اعلیٰ پائے کی چیز بنا دیا۔ نئے شعری تلازمات اور علامات و استعارات جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ اقبال نے جن مضامین کو موضوع ِسخن بنایا، وہ نئے تھے۔ اس لیے اس نے اپنے لیے لفظیات ٗ تلازمات ٗ علامات اور استعارات بھی خود تراشے۔ اقبال کی شاعری کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں بے شمار ایسے لفظ مل جاتے ہیں جنہیں اقبال سے پیشتر غیر شاعرانہ تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح انھوںنے نئے شعری تلازمے بھی تراشے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرانے تلازمات کو نئے انداز میں استعمال کیا جس سے شعری تلازمات میں رنگارنگی پیدا ہوئی۔ اقبال نے اپنے شاعرانہ کمال سے بے شمار الفاظ کے معانی میں وسعت پیدا کر دی۔ اقبال نے اپنے شاعرانہ کمال سے بے شمار الفاظ کو علامات کا درجہ دے دیا۔ لالہ ٗ شاہین ٗ کبوتر اور اس طرح کے اور بہت سے لفظ اقبال کے استعمال کے بعد علامات میں ڈھل گئے۔ اقبال نے نئے شعری استعارے تراشے ٗ جن سے اردو کی شعری لغت میں اضافہ ہوا۔ آگے چل کر اقبال کی شعری لغت کے بہت سے الفاظ ٗ علامات ٗ استعارات کو دوسرے شاعروں نے بھی قبول کیا۔ اس میں خاص طور پر تاریخِ اسلام اور اسلامی تہذیب سے متعلقہ الفاظ ٗ علامات قابل ذکر ہیں ؎ یہ حوریانِ فرنگی ٗ دل و نظر کا حجاب بہشتِ مغربیاں، جلوہ ہائے پابہ رکاب دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 371 ) اس کے ساتھ ساتھ اگرمسجد قرطبہ کا مندرجہ ذیل بند دیکھیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے ؎ اے حرمِ قرطبہ ٗ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے، خونِ جگر سے نمود قطرہء خونِ جگر ٗ سِل کو بناتا ہے دل خونِ جگر سے صدا ، سوز و سرور و سرود تیری فضا دل فروز ، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوںکا حضور ٗ مجھ سے دلوں کی کشود عرش معلی سے کم، سینۂ آدم نہیں گرچہ کفِ خاک کی، حد ہے سپہرِ کبود پیکرِ نوری کو ہے، سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں، سوز و گدازِ سجود کافرِ ہندی ہوں میں ٗ دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوٰۃ و درود ٗ لب پہ صلوٰۃ و درود شوق مری لَے میں ہے ٗ شوق مری نے میں ہے نغمۂ ’اللہ ہو‘ میرے رگ و پے میں ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔422 ۔421 ) غزل اور نظم کے دونوں ٹکڑوں کو دیکھنے سے بالکل بجا طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ شعری تلازمات، استعارات اور علامات کے اعتبار سے یہ اردو شاعری لیے نیا ذائقہ تھے۔ مضامینِ نو اقبال نے جس دور میں آنکھ کھولی۔ وہ سماجی تغیرات کا تیز ترین دور تھا، دنیا میں ہر چیز تبدیل ہو رہی تھی۔ ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمد کے بعد سماجی و تہذیبی تغیرات بڑی تیز ی سے رونما ہو رہے تھے۔ جنگِ آزادی میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوںپر اضمحلال کی کیفیت طاری تھی۔ اقبال نے اپنی شاعری سے اس کیفیت کو توڑنے کی کوشش کی۔ اقبال نے جدید مغربی علوم کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ خاص طور پر مغربی فلسفے کے مطالعے نے اقبال میں امکانات کے نئے دروا کیے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنی قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کے ہاں مسلمانوں کے زوال کی شدت ٗ اس زوال سے نکلنے کی کوشش ٗ مسلم تہذیب اور اس سے وابستہ لوزامات کا بیان، مسلم اندلس کی بازیافت ٗ تصورِ خودی ٗ مردِ مومن کا تصور ،شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے فرد کی اپنی کوششیں ٗ ایسے موضوعات ہیں جو ہمیں اقبال سے پہلے کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض فلسفیانہ تصورات کو بھی خوبی سے اپنے اشعار کا موضوع بنایا ہے۔ ان میں فلسفۂ زمان و مکاں ٗ حیات و ممات ٗ کائنات کے اسرار، مابعد الطبیعیاتی مسائل ٗ نظریۂ علم جیسے دقیق موضوعات شامل ہیں۔ان کا بیان نثر میں بھی خاصہ مشکل ہے لیکن اقبال نے ان موضوعات کو بڑی مہارت اور خوبی کے ساتھ اپنے اشعار میں برتا ہے۔ اگر ہم اقبال کے مضامین کا جائزہ لیں جو اس نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں تو ہم خوشگوار حیرت سے دو چار ہوتے ہیں کہ ان میں تنوع بہت زیادہ ہے۔ پھولوںاور جانورں سے لے کر اعلیٰ ترین فلسفیانہ موضوعات ٗ بچوں کے لیے لکھی جانے والی نظموں سے لے کر دنیا کے ذہین ترین افراد کے لیے کی گئی شاعری ٗ اتنی رنگا رنگی اور تنوع ہمیں اردو کے کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم صرف ان مضامین کی فہرست بنائیں جن پر صرف ’’بانگِ درا ‘‘میں نظمیں شامل ہیں تو کچھ یوں ہوگی۔ ہمالہ ٗ گلِ رنگین ٗ عہد طفلی ٗ مرزا غالب ٗ ابرِ کوہسار ٗ مکڑا اور مکھی ٗ پہاڑ اور گلہری ٗ بچے کی دعا ٗ ہمدردی ٗ شمع و پروانہ ٗ عقل و دل ٗ درد ٗ آفتاب ٗ آرزو ٗ درد ِعشق ٗ گل پژمردہ ٗ سید کی لوح تربت ٗ ماہ نو ٗ انسان ٗ بزم فطرت ٗ پیام صبح ٗ عشق اور موت ٗ زہد درندی ٗ شاعر ٗ موج دریاٗ نالۂ فراق ٗ چاند ٗ بلال ٗ سرگزشتِ آدم ٗ ترانہء ہندی ٗ جگنو ٗ نیا شوالہ ٗ داغ ٗ کنارِ راوی ٗ التجائے مسافر اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ٗ۔ ہم نے اس فہرست کو صرف بانگ درا کے حصہ اول تک محدود رکھا ہے ورنہ یہ بہت طویل ہو جاتی۔ ان میں بہت سے مضامین ایسے ہیں جو اردو شاعری میں پہلی بار آئے ورنہ اس سے پہلے انھیں شاعری کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا رہا۔ اقبال کی اجتہادی روش کے بعد بہت سے دوسرے موضوعات کو شاعری میں شامل کرنے میں آسانی رہی۔ غزلِ مسلسل کلاسیکی شاعری میں غزل کی جو ہیئت متعین تھی ا س میں غزل کا ہر شعر اپنے طور پر خود مختار اکائی ہوتا تھا۔ شعر کے دو مصرعے مل کر مکمل مفہوم کو ادا کرتے تھے۔ شاعر کی خوبی اس سے متعین ہوتی تھی کہ اس نے ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں کتنے موضوعات کو بیان کیا ہے۔ بعض اوقات دو یا تین اشعار میں ایک ہی مفہوم آ جاتا تھااور ان سے پہلے اس بات کی نشاندہی کر دی جاتی تھی کہ یہ قطعہ بند اشعار ہیں۔ اردو میں بہت کم افراد نے یہ کوشش کی ہوگی کہ غزلِ مسلسل لکھی جائے۔ اس سلسلے میں انفرادی مثالیں تو شاید کچھ لوگوں کے ہاں مل جائیں لیکن اس سلسلے میں اقبال کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے شعوری طور پر اور متواتر غزلِ مسلسل کہی ٗ جس کے سبب اسے قدامت پرستوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور بعض لوگوں نے تو اقبال کی غزل کو غزل ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود وقت نے اقبال کے حق میں فیصلہ دیا اور غزلِ مسلسل لکھنے کی روش اردو میں چل نکلی اور آج تک اقبال کے بعد تمام اہم شاعروں نے مسلسل غزلیں لکھیں ہیں بلکہ بعض شاعروں نے ٗ جن میں مجید امجد کا نام سب سے نمایاں ہے ٗ اکثر و بیشتر اپنی غزل میں فکری تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ اقبال نے اردو میں غزل مسلسل کی ابتداء اس لیے کی تاکہ غزل میں بھی طویل اور پھیلے ہوئے موضوعات کو بیان کیا جاسکے۔ اس کے پسِ پردہ شاید بعض جدت پسند نقادوں کی اس تنقید کا جواب بھی شامل تھا کہ غزل میں چونکہ فکری تسلسل نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک مربوط صنف نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ آج بھی غزل کا غالب رجحان یہی ہے کہ اس میں مختلف اشعار میں مختلف مضامین ادا کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود غزلِ مسلسل بھی کافی تعداد میں کہی جا رہی ہے۔ اب ہم اقبال کے ہاں سے دو غزلیں نمونے کے طور پر درج کرتے ہیں جو کہ غزلِ مسلسل کی اچھی مثالیں ہیں ؎ پھر بادِ بہار آئی ٗ اقبال غزل خواں ہو غنچہ ہے اگر گل ہو ٗ گل ہے تو گلستاں ہو تو خاک کی مُٹھّی ہے ٗ اجزاء کی حرارت سے برہم ہو ٗ پریشاں ہو ٗ وسعت میں بیاباںہو تو جنسِ محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری کم مایہ ہیں سوداگر ٗ اس دیس میں ارزاں ہو کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری تو نغمۂ رنگیں ہے ٗ ہر گوش پہ عریاں ہو اے رہروِ فرزانہ ٗ رستے میں اگر تیرے گلشن ہے تو شبنم ہو ٗ صحرا ہے تو طوفاں ہو ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی مقصد ہے اگر منزل ، غارت گرِ ساماں ہو (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔312 ) دوسری غزل ؎ نہ میں اعجمی ٗ نہ ہندی ٗ نہ عراقی و حجازی کہ خودی سے میں نے سکیھی دو جہاں سے بے نیازی تو مری نظر میں کافر ٗ میں تری نظر میں کافر ترا دیں نفس شماری ٗ مرا دیں نفس گدازی تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت کہ موافقِ تدرواں ، نہیں دینِ شاہبازی ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکے خرد کو ، رہ و رسمِ کار سازی نہ جدا رہے نوا گر، تب و تابِ زندگی سے کہ ہلاکیء امم ہے ، یہ طریقِ نَے نوازی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 587 ) غزل مسلسل میں اقبال نے بعض جگہ پر تبدیلی بھی کی ہے کہ غزل کو ردیف کی پابندی سے آزاد کرکے صرف قافیے کے زور سے شعر بنانے کی کوشش کی ہے۔ غیر مردّف غزل لکھنے میں شاعر کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن اقبال جیسے عظیم شاعر نے ایسی مشکلات پر قابو پا کر بہترین غیر مردّف غزلیں لکھی ہیں۔ نظم کی معنوی وسعت مضامینِ نو کے حوالے سے ہم بتاتے ہیں کہ اقبال نے اردو شاعری میں بے شمار نئے موضوعات کا اضافہ کیا ہے جب کوئی شاعر شاعری میں نئے مضامین شامل کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں شاعری کو معنوی طور پر وسعت بخشتا ہے۔ اقبال نے صرف ہیئت کی سطح پر نظم میں وسعت پیدا نہیں کی بلکہ معنوی اعتبار سے بھی اسے وسعت دی۔ اس نے نظم کے ڈھانچے کو اپنے تجربات کی مدد سے لچکدار بنایا تاکہ اس میں زیادہ سے زیادہ موضوعات کو سمویا جا سکے۔ پختہ ہیئتیں بظاہر بہت مضبوط نظر آتی ہیں لیکن یہی مضبوطی ان کے فنا کی بنیاد بن جاتی ہے۔ ادب میں مختلف اصناف میں ترمیم و تغیر کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ جن اصناف میں وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنے کی سکت موجود نہیںہوتی وہ رفتہ رفتہ متروک ہو کر مردہ ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی ہیئتیں لے لیتی ہیں۔ نظم اس اعتبار سے خوش قسمت رہی ہے کہ اس میں ہیئت کے بے شمار نمونے موجود ہیں اور شاعر اپنے موضوع کی مناسبت سے اپنے لیے کسی نہ کسی ہیئت کا انتخاب آسانی سے کر سکتا ہے۔ اقبال نے معنوی سطح پر بھی اپنے دور میں موجود پابندیوں کو توڑتے ہوئے بے شمار متنوع موضوعات کو اپنی نظم میں جگہ دی۔ اقبال کی نظمیں پڑھتے ہوئے قاری کو گمان گزرتا ہے کہ نظم ایک ایسی ہیئت ہے جس میں دنیا جہاں کے موضوعات سما سکتے ہیں یوں اقبال نے معنوی سطح پر نظم کو وسعت دے کر اپنے سے بعد آنے والے شاعروں کے لیے راستے کو آسان بنا دیا جو اقبال کے اجتہاد سے ہمت پکڑتے ہیں۔ ان کے بعد آنے والے افرا دمثلاً فیض ٗ میرا جی ٗ راشد ٗ مجید امجد ٗ اختر الایمان ٗ آفتاب اقبال شمیم ٗ مختار صدیقی اور کئی دوسرے معروف شاعروں نے نظم میں معنوی وسعت پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ زورِ بیان اقبال اپنی شاعری کے ذریعے اپنی قوم کے لوگوں کو عمل کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ اقبال کے سامنے یہ مقصد تھا کہ عالمِ اسلام کو زوال سے نکال کر عروج تک کیسے پہنچایا جائے۔ خاص طور پر وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی غلامی ٗ معاشی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی جس میں قوت اور زور ہو۔ بات اس طرح کہی جائے کہ وہ لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرے۔ دوسروں میں جو ش و جذبہ پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ بات کرنے والا خود بھی جوش و خروش کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری ایک پر جوش شاعر کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں زورِ بیان کے پیدا ہونے کی ایک ضمنی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنی بہت سی مشہور و معروف نظمیں انجمن حمایتِ اسلام اور دوسری فلاحی تنظیموں کے جلسوں میں پڑھیں جہاں حاضرین کی تعداد ہزاروں تک بھی ہوتی تھی۔ ا ن جلسوں کا ایک مقصد ان تنظیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا بھی ہوتا تھا۔ اس لیے لوگوں کو ابھارنے کے لیے پر جوش الفا ظ کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اقبال کا فلسفہ چونکہ متحرک اور عمل سے عبارت تھااور وہ اپنی قوم کو دنیا کی متحرک اور با عمل قوم دیکھنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے اپنے زورِ بیان سے شاعری میں ایسی روح پھونکی کہ پڑھنے والے بھی اپنے اندر ایک عجیب جوش اور ولولہ پاتے ہیں ٗ لیکن اس کے باوجود اقبال کو پڑھتے ہوئے ہمیں کسی جگہ اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ زور ِبیان سے فنی تقاضے مجروح ہوئے۔ اس کی وجہ کلام اقبال میں فکرو فن کا توازن ہے۔ چونکہ اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار مناسب ترین الفاظ میں کیا ہے اس لیے ہمیں کسی جگہ بھی فن سے غفلت برتنے کا احساس نہیں ہوتا۔ مقصدی یا اصلاحی شاعری کرنے والے عموماً دو طرح کی خامیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض اوقات ان کا زورِ بیان تخلیقی قوت سے محروم ہو کر نعرہ بازی میں تبدیل ہو جاتا ہے ایسے شاعروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ ایسے بادل ہیں جن میں گرج کے علاوہ کوئی دوسری صلاحیت موجود نہیں ٗ دوسری خامی یہ پیدا ہوتی ہے کہ بات تو بلند و بالا کرنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ایسے منتخب کرتے ہیں جو ان کے افکار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس طرح کی خامیوں کی نشاندہی اردو کے بہت سے شاعروں کے ہاں کی جا سکتی ہے ٗ لیکن اس کا یہ محل نہیں۔ یہاں تو ہم کلامِ اقبال سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جہاں زورِ بیان بھر پور تخلیقی قوت کے ساتھ آیا ہے اور یاد رہے کہ کلام اقبال میں ایسی چند مثالیں ہی نہیں بلکہ اقبال کا سارا کلام ہی اسی نوعیت اور معیار کا ہے ؎ ہم سے پہلے تھا ٗ عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیوں کر تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔191 ) نظم زمانہ کے آخری دو شعر ؎ جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ ہوا ہے گو تندو تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مرد ِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندا، خسروانہ (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔459 ) اوزان اور بحور کا تنوع اقبال کی شاعری میں اوزان اور بحور کا تنوع بھی بہت دلچسپ ہے لیکن اس پر بحث بہت تکنیکی ہو جائے گی ا س لیے یہاں سرسری طورپر اس کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ اقبال نے شعر کہنے کے لیے جتنی بحریں اپنے اشعار میں برتی ہیں اس اعتبار سے بھی بہت کم شاعر اردو میں ایسے ہوں گے جو اقبال کا مقابلہ کر سکیں۔ مختصر بحروں سے لے کر طویل ترین بحروں تک، مثنوی کی بحرسے لے کر رباعی کی بحروں تک غرض اقبال نے ہر طرح کی بحر میں طبع آزمائی کی ہے ایک اور بات جس کی طرف اشارہ ضروری ہے ،وہ یہ ہے کہ اقبال نے بعض بحور میں کمی بیشی کرکے بھی استعمال کیا ہے جس سے اوزان کا تنوع اور زیادہ ہو گیا ہے۔ اس سے اقبال کی فنِ عروض پر گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔اس نے ماہر فنکار کی طرح اپنے اوزار اپنی مرضی سے استعمال کیے ہیں اور ان سے خوبصورت فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ اوزان و بحور کے تنوع کی چند مثالیں دیکھیے ؎ صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی (بحر رمل زحافی آٹھ رکنی) ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو (بحرِ مجتث زحافی آٹھ رکنی) مری مشّاطگی کو کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی (بحر ہزج مثمن مقبوض سالم) آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا (بحرِ رمل مثمن محذوف) میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں (بحرِ کامل مثمن) عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام (بحر منسرح زمانی آٹھ رکنی) ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود (بحر متقارب مثمن مقصور الآخر) یہ محض چند مثالیں ہیں وگرنہ اقبال نے بہت سے زحافات اپنی تمام تر لطافتوں ٗ باریکیوں اور نزاکتوں کے ساتھ استعمال کیے ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے۔ اقبال کی تحریک کی بہت بڑی دین،اہم فکری مسائل پر غور و خوض کی روایت کو پھر سے جِلا دینا ہے۔ اقبال نے خود بھی فلسفے کے نازک اور دقیق معاملات پر غورو خوض کیا اور گہرے مطالعے ٗ مشاہدے اور تجربے کے بعد نئے نتائج اخذ کیے اور آنے والوں کو نئی راہیں سجھائیں اس لیے ا س ضمن میں بعض اہم مسائل و افکار پر ان کے فکر انگیز خیالات کا اختصار کے ساتھ خاص طور پر ان کی شاعری کے حوالے سے ذکر بر محل ہوگا کیونکہ اقبال نے اعجازِ فن کو سیاسی، سماجی اور دینی تحریکوں اور فلسفوں کو شاعری میں پوری فنی لطافتوں کے ساتھ برتا اور مقبول بنایا ہے۔ اقبال کی تحریک کے فکری ثمرات اقبال کا نظریہ ء و طنیت و قومیت اقبال کے نظریۂ وطنیت اور قومیت کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’’حب الوطنی، وطن دوستی اور تصور وطنیت کے لحاظ سے اقبال کی فکر و نظر میں کچھ ارتقائی صورت یا تبدیلی ملتی ہے جسے بعض لوگوں نے فکری تضاد کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو غالباً یہ ہے کہ وطن کے حوالے سے متذکرہ تینوں اصطلاحات کو مترادف قرار دے لیا جاتا ہے جس کا قدرتی نتیجہ تضاد کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسرے اقبال کے سلسلے میں فکری تبدیلی کے محرکات اور اس کی نوعیت کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس لیے وطن (ایک قدرتی حقیقت) اور وطنیت (ایک سیاسی تصور) کی یہ بحث مطالعۂ اقبال کے ضمن میں اکثر کج بحثی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ ‘‘(7) اقبال ابتداء میں وطن کی جغرافیائی حیثیت اور مغرب کے تصورِ وطنیت کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ان کی وطن سے محبت وطن پرستی کی حدوں تک جا پہنچتی تھی۔ ان کی پہلی اہم نظم ہمالہ میں شیخ عبدالقادر کے مطابق وطن پرستی کی چاشنی موجود ہے (8) اپنی نظم تصویرِ درد میں وہ ہندوستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہیں۔ ترانہ ء ہندی میں وہ انتہائی دلنشین طریقے سے وطن کے ساتھ گہرے لگائو کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی بچوں کا قومی گیت میں اقبال کی وطن کے ساتھ محبت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ اس نظم کے آخری بند میں اقبال کا والہانہ پن دیکھنے کے قابل ہے ؎ بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا نوحِ نبی کا آکر ٹھہرا جہاں سفینا رفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینا جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا میرا وطن وہی ہے ٗ میرا وطن وہی ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 114 ) نیا شوالہ میں تو یہ کِہہ کر انہوں نے وطن پرستی کی انتہا کر دی کہ ع خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۔ (9) کفایت علی نے اپنے مضمون مطبوعہ’’ ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ،اکتوبر1934 ء میں بیان کیا ہے کہ ’’ان تمام اشعارمیں جو1905 ء سے پہلے لکھے گئے۔ اقبال کے سیاسی خیالات کا مرکز وطن ہے اور وہ وطنیت کے نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ اوروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہیں لیکن بعد میں ہندوستانیوں کی تاریک ذہنیت ٗ تباہ کن فرقہ وارانہ تعصبات ٗ فسادات اور اتحادِ قومی و احساسِ یگانگت کے فقدان کی وجہ سے ان سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(10) غالباً اسی وجہ سے اور بعد ازاں یورپ کے قیام کے دوران سامراجی ممالک کے تہذیب و تمدن کے مشاہدے کے باعث ان کے وطن پرستانہ جذبات رفتہ رفتہ دھیمے اور ملی جذبات گہرے ہوتے گئے۔ تاہم وطن کی جغرافیائی حیثیت سے اقبال نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اتنا ضرور ہوا کہ ان کی وطن پرستی وطن دوستی میں ڈھل گئی۔ دراصل ان کی مخالفت صرف وطنیت کے سیای نعرے سے تھی۔ ان کی پختگی کے دور کی تصانیف جاوید نامہ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق! اور مثنوی مسافر میں بھی وطن دوستی کے لطیف احساسات جا بجا جھلکتے ہیں۔’’ جاوید نامہ‘‘ کا وہ حصہ تو خاص طور پر قابل ِذکر ہے جہاں انھوںنے قلزمِ خونیں کے تحت روحِ ہندوستان اور اس کے نالہ و فریاد کی تصویر کشی کی ہے (11) بعد ازاں جب اقبال مغرب کے سیاسی تصور وطنی قومیت کے مضمرات اور ملت اسلامیہ کے لیے اس کے ہولناک نتائج سے پوری طرح آگاہ ہوئے تو انھوں نے زیادہ واضح طور پر اسے مذموم قرار دیا۔ کفایت علی کے خیال میں ’’جن معانی میں اقبال نے وطنیت کو مذموم قرار دیا ہے ٗ وہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی خاص ملک کے رہنے والے اپنے ملک کو باقی ممالک کے مقابلے میں غاصبانہ اور جابرانہ طور پر ترجیح دیتے ہوئے محبت کرنے لگیں۔ وطنیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے وطن کی خاطر جابر بن جائیں اور باقی ممالک کے باشندوں کو بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوئے ان پر حکومت کرنے کے خواہاں ہوں۔‘‘ (12) اقبال نے اپنی نظم وطنیت میں وطنیت کا تجزیہ ایک سیاسی تصور کی حیثیت ہی سے کیا ہے۔ وہ ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں اسلام کے رکنِ اساسی توحید کو ملتِ اسلامیہ کے توسط سے عالمی انسانی برادری کی تشکیل کا بنیادی نکتہ قرار دیتے ہیں اور پھر ’’در معنی ایں کہ وطن اساسِ ملّت نیست‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت بھی اقبال مغرب کے سیاسی نظریۂ وطنیت پر بحث کرتے ہیں جس میں اسے مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور میکیاولی کے باطلانہ افکار کا نتیجہ بتاتے ہیں۔(13) ان تمام حوالوں سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اقبال وطن اور حب الوطنی کے فطری تصور اور اس سے پھوٹنے والے فطری جذبات و احساسات کی نفی کر رہے ہیں۔ وطن سے انسان کی شناخت ہوتی ہے۔ شاعری کے علاوہ نثری تحریروں میں سے ماڈرن ریویو کلکتہ میں مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں تحریر کردہ مضمون میں اقبال مولانا کے اس بیان پر کہ اقوام کی تشکیل اوطان سے ہوتی ہے، زیادہ واضح طور پر اپنے نظریہء وطنیت کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں نظریہء وطنیت کی تردید اس زمانے سے کر رہا ہوں جب دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا۔ مجھ کو یورپی مصنفوں کی تحریروں سے ابتداء ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کے ملوکانہ اغراض اس امر کے متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میںفرنگی نظریہ ٔوطنیت کی اشاعت کی جائے۔۔۔۔ ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں کیونکہ ہم سب کرہ ٔارضی کے اس حصہ میں بود و باش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے منسوب ہے، علیٰ ہذالقیاس ٗ چینی ٗ عربی ٗ جاپانی ٗ ایرانی وغیرہ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل ہوا ہے محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اوراس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھومی سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس کے لیے قربانی کرنے کو تیار رہتاہے ۔۔۔۔۔۔ مگر زمانۂ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ٗ ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے ۔چونکہ اسلام میں ہئیت اجتمائیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ وطن کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے ۔‘‘(14) اقبال کا خیال ہے کہ جدید دور میں سامراجی ملوکیت وطنیت کے سیاسی تصور ہی کا کرشمہ ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان لکھتے ہیں کہ ’’اقبال ملوکیت یا امپیریلزم کو جارحانہ وطنیت ہی کا ایک شاخسانہ تصور کرتا ہے اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلیم کی ضد خیال کرتا ہے۔ قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ میرا وطن غلط ہو تو بھی صحیح ہے۔ یہ جھوٹی عصبیت حق و باطل میں تمیز نہیں ہونے دیتی ۔۔۔۔۔ جدید ملوکیت اور سرمایہ داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس طرح سرمایہ داری قومی دولت میں اضافے کے لیے نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں رہتی ہے اسی طرح ملوکیت جو وطنیت ہی کی ایک شکل ہے ،جو نئے نئے علاقوں کو فتح کرکے ان پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ اس کو اپنا اقتدار وسیع کرنے سے کام ہے چاہے خدا کی بے بس مخلوق پر کچھ بھی گزرے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال سرمایہ داری کو بھی ملوکیت اور وطنیت کے ساتھ منسلک کرکے قابل نفریں گردانتا ہے‘‘۔(15) جہاں تک اقبال کی وطن دوستی اور جذبۂ حب الوطنی کا تعلق ہے۔ وہ شروع سے آخر تک اسی کا راگ الاپتا رہا۔ وہ اپنی شاعری اور نثری مضامین میں مسلسل برصغیر کی سیاسی غلامی پر مضطرب دکھائی دیتا رہا۔ اس نے ہمیشہ وطن کی آزادی کا خواب دیکھا اور دکھایا ٗ لیکن اس نے وطن سے محبت کو سیاسی قومیت کی صورت دینے سے اجتناب کیا جس کے نتیجے میں بنی نوعِ انسان خطّوں اور علاقوں میں تقسیم ہو کر اپنی برتری اور تسلط قائم کرنے کے لیے ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ ان کے نزدیک وطنیت عالمگیر انسانی اخوت کے راستے کا پتھر ہے جو صرف اسلامی تعلیمات سے ہی قائم ہو سکتی ہے جو عالمِ انسانی کو رنگ و نسل اور قبیلے کی قیود سے آزاد کرکے ایک ہمہ گیر عقیدے کے ذریعے ایک لڑی میں پرو دیتی ہیں۔ جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بنا پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریۂ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی۔ ان کا خیال تھا کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اس سے بلاوجہ مناقشات اور تنازعات کی بنا پڑتی ہے۔ اپنی نظم’’ وطنیت‘‘ میں انہوں نے اسی تصور کا تجزیہ کیا ہے ؎ اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کاگھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 188 ) رموز ِبیخودی میں در معنی این کہ اساسِ ملت نیست ٗ کے عنوان سے بھی سیاست اور مذہب کی تفریق کو اقبال مغربی قومیت کے تصور اور میکیاولی کی باطل سیاسی فکر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں (16) ۔’’ جاوید نامہ‘‘ میں بھی وہ فلک عطارد پر سید جمال الدین افغانی کی زبان سے مذہب اور وطن کے تفرقے پر اظہار خیال کرتے ہیں (17) ۔ 1910 ء کے آخر میں ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اقبال اگرچہ اسلامیانِ ہند کی تعلیمی حالت اور اس کے مضر اثرات اور زبونیٔ قوم کی عام حالت کی اصلاح پر اظہار ِتشویش کرتے ہیں تاہم نظری بحث میں وہ اسلام کے اجتماعی نظام کا بھی جدید عمرانی تصورات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی حیثیت اور اقوامِ عالم میں انفرادیت کو تین امور کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ 1۔ ملت اسلامیہ کی عام ہیئت ترکیبی ۔2 ۔ مسلم تہذیب و ثقافت کی یک رنگی یا وحدت ۔3 ۔ سیرت و کردار کا ایسا نمونہ جو مسلمانوں کی قومی ہستی کے تسلسل کے لیے لازم ہو۔ (18) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا تصورِ قومیت عقیدے پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ عقیدہ بغیر وطن کے فروغ نہیں پا سکتا۔ یہاں پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اقبال قوم اور ملّت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور مسلمان قوم سے وہ ہمیشہ ملّت مراد لیتے ہیں اور ملّت کے لغوی معنی دین یا مذہب کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے لفظ ملّت قوم کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اور بالخصوص قرآن مجید میں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن حال کی عربی ٗ فارسی اور ترکی زبان میں بکثرت سندات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملّت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے (19) ۔ اقبال کا تصوّرِ ملت اسلامی تعلیمات کے مطابق اخوت اور بھائی چارے کے وسیع نظام کے قیام سے ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنے سے عبارت ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر اقبال کا تصورِ قومیت دو دائروں میں گھومتا ہے۔ ’’ایک مقامی دائرہ ہے جس میں مقامی جغرافیہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس مرکز کو عقیدوں کے اولین کیمپ یا حصار کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد دوسرا دائرہ وسیع تر وطن کا ہے یعنی وہ سب اقالیم جن میں مشترک عقیدے کی حکمرانی ہو ٗ ان مشترک عقیدوں والے دوسرے وطن بھی اپنے ہی وطن کی طرح سمجھے جاتے ہیں۔ فرق صرف انتظامی سہولت کا ہوتا ہے کہ ہر یونٹ کو اپنی جگہ ہیئت منتظمہ بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے مگر اساسی اصول اور عقیدے ہر جگہ مشترک ہوتے ہیں جو مقاصدِ عالیہ کے لیے آپس میں اشتراک و اتحاد رکھتے ہیں۔ تیسرا دائرہ اوطان کا ہے جنہیں حلیف کہا جاسکتا ہے۔‘‘ (20) اقبال کا یہ سطحی تصور کوئی ناقابلِ عمل تخیل نہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی تجربے میں خلافت و امامت کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اقبال کا تصورِ وطن و قومیت اسی عقیدے امامت و خلافت کا پر تو ہے۔ قوم کے مقابلے میں ملّت کے لفظ کی دینی لحاظ سے فوقیت کے بارے میں اقبال کا کہنا تھا کہ ’’ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔‘‘(21) ان خیالات سے واضح ہے کہ وحدتِ مذہب ٗ وحدتِ تمدن ٗ تاریخ، ماضی اور مستقبل کی امید اقبال کے نظریہ ملت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ رنگ ٗ نسل اور جغرافیائی حد بندیاں ان کے نزدیک وسیع انسانی برادری کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان کے نزدیک ’’ دین نہ قومی ہے نہ نسلی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اسلام ہی بطور دین وہ ضابطۂ حیات ہے جس کے پاس گونا گوں انسانی مسائل کا حل موجودہے۔‘‘ (22) اور ’’اسلام قیدِ وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی امت تیار کرے جس کا اپنا مخصوص شعورِ ذات ہو۔‘‘(23) یہ شعورِ ذات اقبال کے خودی اور بے خودی کے فلسفے میں اجتماعی خودی کی اصطلاح میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ یہ اجتماعی خود ی وحدت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور یہ وحدت عقیدہ ہائے توحید و رسالت اور اخوت سے ملتی ہے ؎ فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 217 ) اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی (کلیاتِ اقبال ٗ ص۔ 277 ) بلکہ اقبال نے تو بذاتہِ مذہب کو وطن قرار دے دیا ہے ع اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 187 ) اقبال نے عروج و زوالِ مسلسل پر بہت غور و فکر کیا ہے اور اس ضمن میں جن اصولوں کی طرف اشارہ کیا ہے انھیں بھی اقبال کے تصورِملّت کی جامعیت کے لیے اس میں شامل سمجھنا چاہیے۔ اس نے تن آسانی، عیش پرستی اور غلط کاری کو حیاتِ اقوام کی کمی کا باعث قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ملت کی اجتماعی خطائیں معاف نہیں کی جاتیں اور خدا ان کی سزا ضرور دیتا ہے(24) ؎ فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیںملّت کے گناہوں کو معاف (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔559 ) چنانچہ قرآن مجید کے اصولوں کے مطابق افراد اور قوم کو اپنے اپنے اعمال کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ مِلّی سطح پر احساسِ ذمہ داری کا فقدان ملّت کے زوال کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ جواب دہی فرد کی ملّت کے سامنے اور فرد و ملّت کی خدا کے سامنے، دونوں کی بقاء کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ روشن خیالی اور صحت مندانہ اختلاف رائے سے زندگی آگے کی طرف سفر کرتی ہے اور اجتماعی زندگی میں تغیر و تبدل سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ قناعت کی بجائے بہتر زندگی کے لیے جدوجہد ملّت اسلامیہ کے لیے از بس ضروری ہے۔(25) اقبال ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنے کے لیے دنیا کے تمام مسلمان ملکوں کو ایک لڑی میں پرونے کا خواہش مند ہے ؎ بتانِ رنگ و بو کو توڑ کرملّت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 300 ) ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 295 ) اقبال کے نزدیک اسلام ایک ازلی، ابدی ،آفاقی اور عالمگیر نوعیت کاپیغام ہے اور ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے اس لیے اس کے پیرو کاروں کو رنگ ٗ نسل ٗ قبیلے اور ملک کے امتیازات مٹا کر یکجا ہو جانا چاہیے اور مسلمان ملکوں کی ایک الگ لیگ آف نیشنز قائم کرنی چاہیے۔ وہ مغربی وطنیت کے تصور پر قائم اس دور کی لیگ آف نیشنزپر اس طرح طنز کرتے ہیں ؎ اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیتِ اقوام کی جمعیتِ آدم (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 570 ۔571 ) اقبال کے خیال میں مسلم ملکوں کے اتحاد میں رکاوٹ اس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے کہ ان کی حد بندیاں اور تشکیل مغربی نظریۂ وطنیت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ان کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ وہ ایک مربوط ملّت کی صورت میں منظم ہو جائیں۔ او آئی سی او اور اس سے منسلک بعض اداروں کے قیام سے اقبال کے افکار کا اثر کسی حد تک ظاہر ہونا بھی شروع ہو گیا ہے اور اب یہ توقع بندھ رہی ہے کہ اقبال کے جامع تصورِ ملت کے تحت مسلمان ملّتِ واحدہ کی شکل میں ایک عالمگیر برادری میں کبھی نہ کبھی ضرور ڈھل جائیں گے۔ اقبال اور عظمتِ انسان اقبال کی شاعری میں عظمت انسانی کے حوالے سے انسان کا ذکر طرح طرح کی ترکیبوں اور اسم ہائے صفات میں ہوا ہے۔ مثلاً مردِ مومن، انسانِ کامل ٗ بندہ ء آفاقی ٗ مرد ِخدا ٗ مرد ِحق ٗ عاشق زندہ دل ٗ مردِ خود آگاہ وغیرہ ٗ دوسری طرف اقبال نے عظمتِ انسانی کے مثالی پیکروں کے نمونے بھی پیش کیے ہیں جن میں حیدرِ کرار ٗ ابو بکر ٗ عمر ٗ بلال ٗ حسین ٗ عثمان، بوذرؓ ، صوفیائے کرام ٗ سلاطین ،مردانِ حر اور دانشور شامل ہیں۔ اقبال کے عظمتِ انسانی کے تصورات جا بجا اس کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔ انسان کے لیے عظمتِ انسانی کے حصول کے مراحل اور خصوصیات میں ’’اسرارِ خودی‘‘ و ’’رموز ِبیخودی‘‘ میں خودی کی تربیت کے درجات ٗ عقل و عشق کے تقابل ٗ اطاعت ٗ ضبطِ نفس ٗ نیابتِ الہیٰ اور ان سے منسلک ذکر و فکر ٗ فقرِ غیورٗ حریت ٗ جبروت ٗ خود آگاہی ٗ مشکل پسندی ٗ ذوقِ تسخیر مردانگی ٗ حکمت و دانش ٗ سوزو گداز ٗ او لوالعزمی ٗ ندرت ٗ علمیت ٗ صداقت ٗ عدالت ٗ شجاعت ٗ ایمان اور یقین جیسے اوصاف جو آپس میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال کے عظمت انسانی کے نظریات ابن مسکویہ ٗ ابن العربی ٗ عبدالکریم الجیلی ٗ نطشے اور بعض مغربی مفکرین کا پرتو ہیں جبکہ اقبال نطشے کو مجذوب کہتا ہے ؎ اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 385 ) یہ مقامِ کبریا وہ ہے جو خودی کی تربیت کے تین مراحل اطاعت ٗ ضبطِ نفس اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتاہے۔ جب انسان اپنی ذات کو صوفیہ کے تصورِ و حدت الوجود کے مطابق خود کو اللہ تعالی کی ذات میں جذب کرکے فنا کی منزل تک نہیں بلکہ خدا کی ذات سے الگ اپنی ذات کا تشخص اور پہچان قائم کرنے کے بعد خود کو خدا کے نائب فی الارض اور خلیفۃ اللہ کا اہل ثابت کرتا ہے۔ اقبال زوالِ آدم کے تمام آثار کے باوجود اسی لیے اعتماد کے ساتھ خدا کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے ع زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا، اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ ؎ باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 347) انسان کا منصب خدا کے نائب کے طور پر اس دراز کارِ جہاں کو اس کی منشا کے مطابق سر انجام دینا ہے اور پھر اسی مقام کو حاصل کرنا ہے جو اس نے کبھی کھو دیا تھا ؎ عَروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔351 ) نبی جو انسان ِکامل اور عظمتِ انسانی کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔ معرفت الہٰی سے خدا سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتا ہے اور اس سے اقبال بنی نوع انسان کے لیے نصب العین اخذ کرتے ہیں ؎ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفٰے سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔364 ) دوسری طرف اقبال فطرت کو انسان کی جولاں گاہ سمجھتا ہے ؎ عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں ، یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک (کلیاتِ اقبال ٗ ص۔394 ) اور اقبال کے نزدیک انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ کہکشاں، ستاروں اور افلاک کے انتظار کی مدت کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اقبال کے نزدیک انسان حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ وہ عنانِ فطرت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، وہ وقت کا شکار نہیں، شکاری ہوتا ہے۔ کافر مادے کی تسخیر میں مصروف ہے جب کہ مومن باطنی قوتوں سے نئے جہانوں کو تخلیق کرتا ہے ؎ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 557 ) اقبال نے ان بری عادات کا ذکر بھی کیا ہے جو عظمتِ انسانی کو ضعف پہنچاتی ہیں۔ ان میں حرص ٗ خوف ٗ غم ٗ وسوسہ ٗ ناتوانی ٗ نرمی کا بے جا استعمال، احتیاج ٗ مجبوری اور حد سے زیادہ انکسار شامل ہیں۔ احتیاج انسان کو دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور کرتی ہے جو انسان کی توہین ہے۔ (26) انسان جب نیابتِ الہٰی کی سیڑھی عبور کرتا ہے تو اس کا وجود الوہی ہو جاتا ہے ۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ نے فرمایا ہے ’’کہ انسان مسلسل اطاعت و عبادت سے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ آخر میں وہ میرے اوصاف کا آئینہ بن جاتا ہے پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے ٗ میں ہی اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ٗ میں ہی اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، میں ہی اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے اور میں ہی اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ‘‘۔ اقبال کے افکار اسی حدیث کا عکس ہیں ؎ ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا و کار ساز (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 ) یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 573 ) مومن کے کردار اور گفتار میں اللہ کی برہان اس مستیٔ کردار سے پیدا ہوتی ہے جو اقبال کے نزدیک مومن کو کم درجے کے انسان یعنی کافر سے جدا کرتی ہے۔ دل و نگاہ کی مسلمانی اور کردار کی پختگی عشق کے طفیل حاصل ہوتی ہے۔ اقبال نے ’’اسی اندرونی کیفیت، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے اور خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاء میں اسے سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے‘‘۔ (27) مردِ خدا کا عمل ٗ عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام (کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔420 ) انسانی عظمت کے اعلیٰ درجات کے حصول کے لیے انسان میں جلالی اور جمالی دونوں کیفیات کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ایسا انسان درویشی و سلطانی ٗ قاہری’ دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ وہ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہوتا ہے۔ مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد اور شبستانِ محبت میں صفتِ حریر و پرنیاں رکھتا ہے۔ حلقہ ٔیاراں میں بریشم کی طرح نرم اور رزم حق و باطل میں فولاد ہوتا ہے۔ وہ ایسی شبنم ہے جو جگرِ لالہ میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے اور وہ طوفان ہے جس سے دریائوں کے دل دہلتے ہیں۔انسان کو مردِ حر، حق گو اور بیباک ہونا ہی زیب دیتا ہے۔یہی آئینِ جوانمرداں ہے۔ اس کے زورِ بازو سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ اقبال کا انسان کامل نطشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسمہ نہیں فقرو استغنا کا پیکر ہے۔ نگاہِ فکر میں شانِ سکندری ہیچ ہو جاتی ہے۔ ایسے فقر سے اسرارِ جہانگیری کھلتے ہیں، فقر خانقاہی فقط اندوہ دگلیری ہے۔ سچا فقر افلاک سے حریفانہ کشمکش رکھتا ہے۔ وہ خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنے کا نام ہے ’’اقبال کے انسانِ کامل کی نمود فقر ہی سے ممکن ہے اور فقر کی ۔۔ ایک بڑی خصوصیت یقین ہے ۔۔۔ جسے مذہبی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں۔ انسانِ کامل کے نمود کے ساتھ آزادی احتجاج سے آزادی کا نام ہے تاکہ انسان کو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے ٗ اس آزادی سے حاصل ہونے والا یقین تقدیرِ الٰہی کو بدل سکتا ہے۔‘‘ (28) اقبال کے تصوّرِ عظمتِ انسانی کی تصویریںجاوید نامہ میں خطاب بہ جاوید کے زیرِ عنوان بھی ملتی ہیں، اس کے مطابق ایک نوجوان کے لیے سوزِ لا الٰہ اور علمِ حق ضروری ہے۔ علم ِحواس ناقابل اعتبار اور نقص سے پُرہے۔ اخلاقی و روحانی تربیت کے دوران اپنی ضروریات جس قدر ممکن ہو کم کرنا ہوتی ہیں۔ مزید برآں اخلاص مندی ٗ خوفِ سلطان و امیر سے آزادی، عدل اور فقر و استغنا میں توازن، ذکر و فکر ٗ ضبطِ نفس اندر شباب ٗ لذّتِ پرواز اور اعلیٰ نصب العین کے لیے جدوجہد مثالی انسان بننے کے لیے لازمی خصائص ہیں (29) مزید برآں اخلاص ِعمل ٗ شریعت کی پاسداری، احترام ِآدمی بھی پسندیدہ عادتیں ہیں۔ ’’ ارمغان ِحجاز‘‘ میں یہی خصوصیات عظمت کی پہچان بتائی گئی ہیں۔ طلوع ِاسلام میں بھی مرد ِمسلمان پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان تحریروں سے اقبال کے عظمتِ انسانی کے بارے میں خیالات کافی حد تک سامنے آ جاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان صوفیہ کے انسان ِکامل اور نطشے کے فوق البشر سے اقبال کا عظیم اور مثالی انسان مختلف اور اپنی نرالی آن بان اور مخصوص شخصیت کے باعث زیادہ متاثر کرتا ہے اور زیادہ حقیقی، متحرک ، فعال ، جاندار، متوازن اور قابلِ عمل کردار ہے ۔ اقبال اور الٰہیات اقبال فکر اور وجود کی یکجائی پر ایمان رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مغربی تصورات کا عقلی خدا ان کے اس خدا سے مختلف اور مکمل ہے جو وجدان سے بھی منکشف نہ ہوتا ہو۔حی وقیوم خدا کا وجود تکوینی ،غایاتی اور کلیاتی دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔اقبال کے خیال میں تکوینی دلیل محض محدود کا انکار کر کے لا محدود تک پہنچنے کی کوشش ہے اور محدود کا انکار کرکے لا محدود از خود باطل ہو جائے گا۔غایات سے مراد ہے کہ ہر شے کا کوئی مقصد ہوتا ہے جس سے ایک صنّاع یا کاریگر متشکل ہوتا ہے نہ کہ خالق۔ کلیاتی پہلو صرف ذاتِ کامل کو مصور کرتا ہے جس میں صرف حئی ہونا بھی شامل ہے۔ان افکار کے برعکس اقبال کا تصور ذاتِ باری انسان اور کائنات کو اپنے جلومیں لیے ہوئے ہے۔اقبال کا کہنا ہے کہ جس چیز کو ہم فطرت کہتے ہیں وہ حیاتِ الٰہی کا فقط ایک تیز رو لمحہ ہے ۔۔۔قرآن کے نگاریں الفاظ میں وہ عادت اللہ ہے اس لیے فطرت بھی خدا کے اثبات کے لیے ناکافی ہے البتہ وجدان بتا سکتا ہے کہ ’’حیات ایک مجتمع انا ہے۔‘‘(30) ۔اقبال نے ایک ذرے سے لے کر سورج تک کائنات کو ایک انا تصور کیا ۔نظریۂ وجود وفکر قرآنی آیات کی روشنی میں ایک ایسی ہستیٔ واحد کا وجود ثابت کرنے میں ممد ہوتا ہے جو ظاہر اور باطن میں ہے اور ظاہر وباطن میں دوئی نہیں ہوتی۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے مطابق’’وہ خدا کا تصور ایک لامحدود انا ،ایک کائناتی خودی ،ایک ہستیٔ مافوق،ایک تخلیقی عزم للقوۃاور لا انتہا ممکنات رکھنے والے فرد کے طور پر کرتے ہیں۔وہ خود ایک لامحدود انا ہے اس لیے اپنا اظہار لا تعداد داناؤں کی تخلیق سے کرتاہے جو خداکی دائمی طور پر تخلیقی حرکیت میں زندہ رہتے اور اس میں نقل وحرکت کرتے ہیں۔چونکہ خدا آزادہے اور اس لیے ہر فرد کا جوہرِ خاص بھی آزادی ہے اور ایک عظیم خالق کے جذبہء تخلیق میں شامل ہونا اس کے لیے مقدر ہے۔‘‘(31) اقبال اپنے خطبے مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ، میں کہتے ہیں کہ ’’از روئے قرآن کائنات اضافہ پذیر ہے۔خدا اپنی آفرینش سے اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔‘‘(32) یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون (کلّیاتِ اقبال۔ ص۔364 ) حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت میں اقبال زمان ومکان کے راز کو سب سے بڑا راز قرار دیتے ہیں’’اس کو جان لینا سرِّ کائنات اور صفاتِ حق تعالیٰ کا جان لینا ہے۔‘‘(33) یہ بھی قرآن میں ہے کہ خدا ارض و سماوات کی سب چیزوں کو جانتا ہے۔کوئی تین آدمی خلوت میں باہم ہم کلام نہیں ہوتے۔وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے خدا ان کے ساتھ ساتھ ہو گا۔(34) قرآن ہی میں ہے کہ خدا زمین اور آسمان کے ایک ایک ذرے کے وزن کا شاہد ہے اور یہ بھی کہ وہ انسان کی اس کے وجدان کے ساتھ سر گوشیوں کو بھی سنتا ہے اور اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے یعنی خدا کا کوئی نہ کوئی مکان ضرور ہے،لیکن اقبال اتصال اور انفصال کی کیفیتوں کا اطلاق ذاتِ الٰہی پر نہیں کرتا۔ دراصل انائے مطلق کائنات کے ساتھ اس طرح متصل ہے جیسے روح جسم کے ساتھ البتہ’’مکانی آزادی کے بلند ترین نقطے پر انسانی روح کی رسائی ہے جس کا بے نظیر جوہر یہ ہے کہ نہ وہ ساکن ہے نہ متحرک ‘‘اس سے بھی بڑھ کر مکانِ الٰہی تو مکان لامکاں ہے ’’جو تمام جہات اور ابعادسے مطلقاً آزاد ہے اور اس نقطۂ اتصال کا حامل ہے جہاں تمام موجوداتِ لامحدود واصل یکد گر ہو جاتی ہیں‘‘ (35) دوسری طرف مادہ اور روح تمام کے لیے زمانے الگ الگ ہوتے ہیں۔مادی اجسام ’’مرور‘‘کی صفت رکھتے ہیںجبکہ مادی موجودات کا ایک سال غیر مادی موجودات کا ایک دن ہوتا ہے ۔’’زمانِ الٰہی دوام و ابد سے بالاتر ہے۔اس کی ابتداء ہے نہ انتہا۔زمانِ الٰہی میں تمام تاریخ کائنات، علتی تسلسل سے آزادہو کر ایک واحد فوق الاوام ’’اکنون ‘‘(یعنی اب) میں جمع ہے‘‘(36) اس واحد فوق الاوام میں ’’خدا ایک سکونی اصلیت نہیں بلکہ ایک حرکی سیلان ہے اور اس کے تمام مظاہر اور مخلوقات اس لیے ہیں کہ وہ بھی اپنے طور پر تخلیق کریں‘‘۔(37) اقبال کے خیال میں زندگی کے مختلف مراحل اور درجات خودی کے ارتقاء کے درجات ہیں۔خودی درجہ بدرجہ بلند ہو کر انسان میں اپنے انتہائی درجے تک پہنچتی ہے۔اس کی تربیت کے مدارج، اطاعتِ الٰہی ،ضبط نفس اور نیابت الٰہی اور آخری مرحلے کے بعد انسان کے اندر زبردست تخلیقی قو ت پیدا ہو تی ہے۔اس میں صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہونے لگتا ہے۔معراجِ مصطفٰے ،انسانی خودی کے عروج کا انتہائی درجۂ کمال ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی رسائی کہاں تک ممکن ہے۔معراج ِمصطفٰے تو ایک نبی کا معجزہ ہے تاہم اس سے پتا چلتا ہے کہ گردوں عالمِ بشریت کی زد میں ہے۔خداانائے مطلق ہے اور وہ انائیں تخلیق کرتا ہے انسان کے نفس کی انانیت دوسرے موجودات سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے اور اسی لیے وہ خدا کے مرکزِ ذات کے نزدیک تر ہوتا ہے۔ وہ اگر دنیا کو اپنے مزاج اور تمناؤں کے مطابق نہیں پاتا تو وہ بنیادِ موجودات کو درہم برہم کر دیتا اور ذرات کوترکیب ِنو بخشا ہے اور اپنی قوت سے ایسا زمانہ پیدا کرتا ہے جو اس کے مزاج کے لیے ساز گار ہوتا ہے(38) ۔لیکن اقبال نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان اس گہرے ربط کے باوجود ’’انسان کے مقصود کے ساتھ پیروی اور کہیں کہیں ناکامی بھی وابستہ ہے‘‘لیکن خدا کی ذات میں جو کچھ ابھی ممکن سے موجود نہیں ہوا، وہ اس کے تخلیقی امکانات کا معرضِ وجود میں آنا ہے اور اس کے اندر ناکامی کو کوئی دخل نہیں۔اس کی ہستی کی جامعیت اور اس کا کمال تخلیقِ مسلسل کے منافی نہیں۔‘‘(39) اس کے باوجود انسان ہی خدا کے ہنر کا شاہکار ہے۔ وہ کسی حد تک اپنی تقدیر کا مختار بھی ہے۔مذہب بھی ایک طرح سے خدا کی بے پایاں اور لامتناہی بظاہر مافوق الفطرت قوتوں پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا رہا ہے۔اس قدر زیادہ کہ انسان اور کائنات کی اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رہ جاتی ۔مذہب کے مطابق کُن ادا کرنے سے کائنات خدا نے پیدا کی اور پھر عالم میں انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ،انسان دنیا میں خدا کا نائب ہے اور اسی لیے خدانے اسے اپنی صورت پر تخلیق کیا۔اگر فرشتے با خبر تھے تو خدا ان سے زیادہ با خبر ہو گا کہ وہ انسان کو بنا کر اپنا نکتہ چیں پیدا کر رہا ہے ۔اقبال نے اس نکتہ چیں کا کردار بار بار اپنی شاعری میں ادا کیا ہے ؎ قصور وار غریب الدّیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد میری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے وہ دشتِ سادہ وہ تیرا جہانِ بے بنیاد (کلّیاتِ اقبال،ص۔348 ) خدا کے سامنے اس کے ہمزاد کے طور پر اس کی بے تکلفی یوں اقبال کے ہاں ظاہر ہوتی ہے ؎ باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر (کلّیاتِ اقبال،ص۔347 ) کائنات، انسان اور خدا کے رشتے سے ہی اقبال نے خدا سے یہ سوالات کیے ہیں ؎ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی، زیاں تیرا ہے یا میرا (کلّیا تِ اقبال،ص۔346 ) ان شعروں سے خدا کا شخصی تصور مترشح ہے جس سے اقبال ہمکلام ہے۔قرآن نے خدا کو زمینوں اور آسمانوں میں نور سے تشبیہہ دی ہے۔اقبال نے تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں اس حوالے سے خدا اور کائنات کے باہمی تعلق پر بحث کی ہے اور شاعری میں بھی اسے یوں نظم کیا ہے ؎ مجو مطلق دریں دیرِ مکافات کہ مطلق نیست جز نورالسمٰوات (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص۔437 ) خدا کے کلاسیکی تصور کے مقابلے میں اقبال نے جس تغیر پذیر خدا کا تصور پیش کیا ہے۔اس کے نزدیک خدا کی لامحدودیت مجتمع ہے وسعت پذیر نہیں۔ اس میں ایک لا مختتم حرکی سلسلہ ہے لیکن یہ بذاتہٖ وہ سلسلہ نہیں ہے۔(40) ؎ درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرونِ او وسعت پذیر است (کلّیاتِ اقبال، فارسی ۔ص۔438 ) خدا کے نقطہء نظر سے پہلے یا بعد کا کوئی زمانی تصور ہی نہیں ہے۔ تخلیقِ زماں ایک مسلسل عمل ہے۔(41) ؎ ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود (کلّیاتِ اقبال ،ص۔ 454 ) اقبال انسان، خدا اور کائنات کے تعلق کا بہت بڑا شاعر تھا اور شعورِ ذات کی تبلیغ کرتا تھا اس میں ایک شاعری کی تخیل آفرینی، کسی اہلِ نظر کی بصیرت اور فلسفی کی فکر نے مل کر ظہور کیا تھا۔اس کے اس موضوع پر تصورات میں ہمیں ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔ اقبال اور تصوّف ما بعد الطبیعاتی حقیقت پسندی کے ضمن میں اقبال کے متصوفانہ افکار کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے تاہم تصوف پر اقبال کے نقطۂ نظرمیں اس کی انفرادیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اس اضافے کی ضرورت ہے کہ اقبال نے جس ماحول میں پرورش پائی، اس پرتصوف کے اثرات غالب تھے۔ابتداء میں گھر پر انہوں نے’’ فصوص الحکم‘‘ اور فتوحات مکیہ کے درسوں میں شرکت کی ۔اس کے والد ایک صوفی بزرگ تھے جن کا ایک وجدانی قصہ عطیہ بیگم نے بیان کیا ہے جس کے مطابق انھیں خواب میں کابل سے آنے والے ایک قافلے میں کسی بیمار شخص کے بارے میں معلوم ہوااور وہ شہر سے دور قافلے کے پڑاؤ میں اس کا علاج کرنے گئے۔(42) ماہنامہ ’’ضیائے حرم‘‘کے اپریل 1975 ء کے ایک شمارے میں سید نوراحمد شاہ قادری نے اپنے مضمون میں اوان شریف میں اپنے والد کی معیت میں قاضی سلطان محمود کی خدمت میںحاضری اور سلسلہ ٔ قادریہ میں اقبال کی بیعت کا ذکر کیا ہے۔(43) شاہ سلیمان پھلواری کے نام ۹ مارچ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں اقبال نے خود بتایا ہے کہ ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں ‘‘۔(44) بعد ازاں ڈاکٹریٹ کے لیے ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء کے موضوع پر مقالہ لکھنے کے دوران تصوف کے بارے میں ان کا شعور بہت پختہ ہو گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ’’بانگ ِدرا‘‘میں تصوف اور وحدت الوجودی نظریے کے بارے میں بہت سے اشعار مل جاتے ہیں۔بہر حال وحدت الوجودی فلسفے سے اقبال کے شغف کی مدت مختصر رہی۔وہ اسلامی تصوف کا معترف اور مداح رہا۔لیکن جو اقوال ،افعال اور تعلیمات خلافِ شریعت ہوں، چاہے وہ کسی سے بھی نسبت رکھتے ہوں، اقبال ان عناصر اور اجزاء کے خلاف رہا ہے۔تصوف کے افکار میں ترکِ دنیا،تجرد،گوشہ نشینی،ترک لذائذ ،عبادات میں شدت اور فنافی الذات کی روایات عام رہی ہیں۔اس طرح تصوف اور بے علمی کو لازم و ملزوم بلکہ مترادف خیال کیا جانے لگا تھا۔متصوفین کے نزدیک دنیا دکھوں کا گھر تھا اور مومنوں کے لیے جہنم۔اس لیے حقیقت اولیٰ کے طالب کو سگِ دنیا کا لقب دیا جاتا تھا یعنی ان معنوں میں عیسائیوں کی رہبانیت اوربدھ بھکشوؤں کے ترکِ دنیا میں کوئی تفریق نہ رہی تھی۔دوسرے اقبال کا فلسفہ تحریک اور جہد وعمل کا فلسفہ ہے اس لیے وہ ا س نظریے کو مسلمانوں کے ذہنی زوال کا باعث سمجھتے تھے۔مثنوی اسرارِ خودی کے دیباچے میں تصوف کے ان بے روح عقائد کی مخالفت وہ ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ’’مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انھوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین وجمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ اس مسئلہ نے عوام میں پہنچ کر تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔(45) حافظ ایران کے نامور صوفی شاعر تھے۔ اقبال نے اسرارِ خودی میں ان کے افکار پر سخت نکتہ چینی کی۔اس نے حافظ کی سہل انگاری، تن آسانی اور حجرہ نشینی کی تعلیم اور جبر وقدر کے غلط نظریے کے تباہ کن نتائج پر عبدالرحمن طارق کے ساتھ ایک ملاقات میں روشنی ڈالی جس کا ذکر اس نے اپنے مضمون ’’مئے شبانہ‘‘ میں کیا ہے۔اقبال نظریہ ء وحدت الوجود کو عجمی تصوف کا نام دیتا تھا جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری تنزل کا ذمہ دار ہے۔اس نظریے نے مسلمانوں میں نفیٔ ہستی کے خیالات کو رواج دیا تھا۔چنانچہ اس نے وجودی صوفیہ اور ان کے افکار کے خلاف پر جوش جہاد شروع کیا اورا بن عربی کی تعلیمات کو ’’کفرو زندقہ‘‘ قرار دیا (46) اور حافظ شیرازی کو ’’فقیہِ ملّتِ میخوارگاں ‘‘،اگرچہ بعد ازاں اقبال نے حافظ شیرازی کے خلاف اشعارکو اسرارِ خودی سے نکال دیا تھا لیکن اپنے خیالات تبدیل نہیں کیے تھے(47) وحدت الوجود کی مخالفت کی ایک اور وجہ انہوں نے خواجہ حسن نظامی کے نام 30 دسمبر 1915 ء کے ایک خط میں یوں بیان کی ہے کہ ’’صوفیہ کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی ہے۔یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی ہے اور موخر الذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔توحید کے مقابلہ میں یااس کی ضد کثرت نہیں جیسا کہ صوفیہ نے تصور کیا ہے بلکہ اس کی ضد شرک ہے۔وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانہء حال میں فلسفہء یو رپ کی اصطلاح میں توحیدکو ثابت کیا وہ مو حد تصور کیے گئے۔حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلے کا تعلق مذہب سے نہ تھا بلکہ نظامِ عالم کی حقیقت سے تھا۔عبادت کے قابل صرف ایک ذات ہے باقی جو کچھ نظامِ عالم میں نظر آتا ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے۔‘‘(48) اسرار ِخودی میں اقبال نے تصوف کے بعض غیر اسلامی شعائر پر جو نکتہ چینی کی تھی اس پر سخت اعتراضات ہوئے۔ان اعتراض کرنے والوں میں خواجہ حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی شامل تھے۔اقبال نے اس دور کے مختلف دانشوروں کو تصوف پر اپنے اعتراضات کی نوعیت اور فلسفیانہ زاویوں کی توضیح بہت سے خطوط اور مضامین میں کی ہے۔(49) اقبال درحقیقت عجمی تصوف کا مخالف تھا جس میں رہبانیت در آئی تھی۔ اس کے خیال میں وحدت الوجود کا فلسفہ ہندوفلسفے کا عکس ہے اور دوسری طرف ایرانی شعراء کے تخیلات کا کارنامہ ہے۔اقبال کو صوفیہ کے زہد وتقویٰ سے نہیں بلکہ غلوفی الزہد پر اعتراض رہا جس سے تصوف ایک ایسا نظام تمدن بن گیا تھا جس کی نا توانی میں مسلمانوں کے لیے بے جا کشش پائی جا تی ہے۔وحدت الوجود کا نظریہ نو فلاطونیت کے ذریعے اسلام میں داخل ہوا تھا اس لیے اقبال نے یونانی فلسفی افلاطون پر بھی طنزوتعریض کی اور اسے گو سفندِ قدیم کا لقب دیا۔(50) راہب اول فلاطونِ کلیم از گروہِ گو سفندانِ قدیم گوسفندے در لباسِ آدم است حکم او برجانِ صوفی محکم است (کلّیاتِ اقبال، فارسی،ص۔49 ۔50 ) افلاطون مادی دنیا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تھااور اسے نظروں کا فریب سمجھتا تھا۔اس لیے اقبال کے خیال میں جو شخص دنیا کو محض خواب وخیال ،ایک دھوکا اور وہم سمجھے وہ تسخیرِ کائنات کے لیے سر گرمِ عمل کیوں کر ہو سکے گا ۔ اس لیے اقبال افلاطونی اور نو فلاطونی فلسفے کے پیروکاروں اور مفکرین کے اس سکر آفریں فلسفے کو مسلمانوں کو عملی طور پر کمزور اورجدو جہدکی صلاحیت سے عاری کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔صوفی سے اپنی بیزاری کا اظہاراقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے افلاطون سے متعلق اشعار میں اسی وجہ سے کیا ہے کہ اس کا اندازِ فکر افلاطونی ہے ۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے مطابق’’اقبال رومی کی طرح اثباتِ خودی کا معلم ہے اس لیے وہ ہر ایسے تصوف سے نالاں ہے جو ترک اور فنا پر زور دیتا ہے اور اخلاقی و حیات آفریں پہلو سے گریز کرتا ہے۔اصل جہاد خانقاہوں کے زاویوں میں بیٹھ کر محض ذکر اور فکر سے نفس کشی کی مشق نہیں۔ ‘‘(51) مولانا روم تصوف اور صوفیہ کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’صوفی توکل پر زور دیتا ہے لیکن تو کل کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جدوجہدترک کر دے۔‘‘(52) جدوجہد کا ایک اور نام جہاد بھی ہے۔غلط تصوف کے ساتھ صبرو استغنا ء اور توکل کی غلط توضیحات بھی مسلمانوں میں رواج پانے لگیں۔اقبال نے اس تصور کے خلاف بھی قلم اٹھایا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال’’تصوف کوغیر اسلامی عناصر سے پاک کرکے اسلام کی روح پرور ارتقاء پسند تعلیم کو اجاگر کرنا چاہتا ہے‘‘(53) اقبال اور تصور ِزمان ومکان علامہ اقبال نے اپنے تصور زمان و مکاں کی وضاحت کے لیے اشاعرہ ابن عربی،رازی ،دوانی ، عراقی جیسے مسلمان مفکروں اور زینو نطشے ،کانٹ آین سٹائن،الیگزینڈر جیسے مغربی علماء کے نظریۂ زمان ومکاں پر بحث کی ہے اور ان کے نقائص اور محاسن کا احاطہ کرتے ہوئے ابنِخلدون اور برگساں کی حرکیت سے بھی آگے بڑھ کر اس مسئلے پر معروضی اور موضوعی دونوں پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے اور الٰہیاتی اسرارو رموز بھی بیان کیے ہیں۔سادہ لفظوں میں زمان ایک حقیقت ہے اور زندگی نام ہے زمان میں ایک مسلسل حرکت کا ۔قرآن مجید نے اختلافِ لیل و نہار میں خدائے عزوجل کی نشانیوں کی طرف انسان کو توجہ دلائی۔احادیث میں دہر یا زمان کو ذاتِ الٰہی کا مترادف قرار دیا گیا ہے اور زمانے کو برا کہنے سے روکا گیا ہے۔ ابتدائی فلسفہ دانوں کے زمان کے بارے میں تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ زمان غیر حقیقی ہے(افلاطون،زینو)زمان منفرد آنات کا تواتر ہے اور متصل آنات کے درمیان خلائے زمانی ہوتا ہے(اشاعرہ )کائنات میںتبدیلی جستوں میں واقع ہوتی ہے۔یعنی دو مختلف حالات کے درمیان کائنات اور اس کے ساتھ زمان ساکت ہو جاتا ہے ۔اس کی تقسیم جوہری اور غیر مسلسل ہے(طبعین)زمان ایک قسم کی روانی ہے(نیوٹن)ان نکات کی روشنی میں ذات باری کا ادراک نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے اس قادر ِمطلق کی تخلیقی فاعلیت پر زد پڑتی ہے۔اسلامی فکر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہے۔یہ فکر سکونیت کے یونانی نظریات کی تردید کرتے ہوئے البیرونی کے ریاضی تفاعل اور ضابطہء ادراج اور ابنِ مسکویہ کے نظریہ ارتقاء میں حرکیت زمانی کو ظاہر کرتی ہے۔(54) اقبال کے نزدیک ’’حرکت فی نفسہِ فطرت کا ایک نا قابلِ تقسیم عمل ہے۔ہر حرکت خواہ وہ تیرکی پرواز ہو ،زندگی کا ایک نا قابلِ تقسیم فعل ہو گا ‘‘۔(55) کائنات کے اندر مظاہر کا عبور فی الزمان ہستی کی حقیقت تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور حقیقت ِمطلقہ زمانِ مطلق ہے جس کے اندر فکرو حیات و کائنات ایک دوسرے میں داخل اور پیوستہ ہیں ’’ لہٰذا زمان ِمطلق کا ادراک خدا تعالیٰ کا عرفان ہے جو تربیتِ خودی کے مراحل کا اہم عنصر ہے۔انفرادی خودی کے حوالے سے اس نوعیت کی’’وحدت‘‘ہمیں ایسے نفس کے اندر ہی دکھائی دے سکتی ہے جو زندگی کے تمام کوائف پر محیط ہو اورجو انفرادی زندگی اور فکر کا سر چشمہ ہو‘‘(56) انفرادی اور اجتماعی خودی کے درمیان حرکیت اور وقت کے حوالے سے یہ تفریق کی جا سکتی ہے کہ انائے مطلق یا حقیقتِ اخریٰ زمانِ مسلسل نہیں بلکہ زمانِ خالص میں ہوتی ہے جہاں تبدیلی’ تغیر ‘ارتقاء نقص سے کمال کی طرف نہیں ہوتا بلکہ وہاں تغیر کے معنی تکوین مسلسل کے ہیں(57) ۔جبکہ فرد خواہش کی پیروی میںکامیابی اور ناکامی کے نشیب و فراز میں رہتا ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت میں سفر کرتا رہتا ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ فرد اپنی خودی کے مدارج طے کرتا ہوا اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ ناظر اور منظور ایک ہو جائیں اور ناظر منظور میں اپنی توجہ اس قدر جذب کرے کہ اسے اپنا شعور باقی نہ رہے اور انا ئے مطلق کے زمان میں تدریجِ لمحات سے ناظر بھی ماورا ء ہو جائے لیکن ایسا اس صورت میں ممکن ہے کہ ’’ناظر میں ادراک کی صلاحیت ہو اور دوسری طرف منظور ایسا ہو جو ناظر کی استعداد سے ادراک میں آنے کو قبول کرے‘‘(58) یعنی ع خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے (کلّیاتِ اقبال،ص۔384 ) زمان فعالیتِ الٰہی کی ایک کیفیت ہے۔ خودی سے انسان میں تسخیرِ کائنات کا شعور اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور وہ فعالیت الٰہی اور اس ذات باری کی خلاّقی کی صفات سے مملو ہوتا ہے۔زمانِ الٰہی مرور سے آزاد ہوتا ہے۔ اس سے انسان کو بھی بقائے دوام حاصل ہو سکتی ہے اور وہ اپنی تقدیر خود بنانے پر قادر ہو سکتا ہے۔قرآن حکیم کے مطابق زمانِ الٰہی ’’ام الکتاب‘‘ہے’’جس کے اندر تمام تاریخ سببِ تسلسل کے حال سے آزاد ہو کر ایک با لا ابدی آن میں جمع ہو گئی ہے۔ جاوید نامے میں یہی مضمون’’زروان‘‘یا روح زمان ومکاں کی زبان سے اداکیا گیا ہے ؎ من حیا تم، من مماتم من نشور من حسابِ دوزخ و فردوس وحور آدم و افرشتہ در بندِ من است عالمِ شش روزہ فرزندِ من است ہر گلے کز شاخِ می چینی منم امِّ ہر چیزے کہ می بینی منم (کلّیاتِ اقبال فارسی،ص۔498 ) اس اعتبار سے کائنات زمان کے اندر واقع ہوئی ہے۔حقیقت زمان اور کائنات کے اس رشتے پر مسجدِ قرطبہ کے یہ اشعار بے حد معنی خیز اور فکر انگیز ہیں ؎ سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز وشب اصلِ حیات و ممات سلسلہ روز و شب، تارِ حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روزو شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات، زیرو بمِ ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب، صیرفیٔ کائنات تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو ،جس میں نہ دن ہے نہ رات (کلّیاتِ اقبال،ص۔ 420 ۔419 ) ان شعروں کے بطن سے بقا اور حیات و ممات کے تصورات کا زمانے سے تعلق بھی پھو ٹتا دکھائی دیتا ہے۔اس بارے میں اقبال نے اپنے خطبات میں بقا کو ایک توانا اور مستحکم شخصیت کا حق قرار دیا یعنی موت اور آخرت ایک بے حادثہ لازماں ابدیت نہیں بلکہ اپنے مختلف زمانی نظام کا نام ہے(59) ۔جہاں پہنچ کر فرد کسی اور تناظر میں اپنی فعالیت کا اظہار کرتا ہے۔مردِ خود آگاہ صاحب تقدیر ہوتا ہے۔’’عالم مادی پر زمانہ سوار ہوتا ہے اور انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ زمانے کا راکب بن جائے اور زمانے کا راکب بننا ہی زمانے کو شکست دینا ہے۔‘‘(60) اقبال نے اپنی بہت سی دوسری نظموں کے علاوہ ’’نوائے وقت ‘‘میں بھی یہی پیغام دیا ہے۔ اقبال کے خیال میں وقت خودی کے بحر میں تلاطم پیدا کرتا ہے۔ اگر خودی اس پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو تو یہ طوفانِ بلا خیز تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے اور اگر اسی کی خودی اس بے مہار قوت کی باگیں موڑ سکے تو انسان کے تخلیقی امکانات کی وسعت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی سے انسان اپنی تقدیر کا خود راکب بن سکتا ہے اور نیابتِ الٰہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔’’یہ زمانے میں رہتے ہوئے زمانے پر فتح حاصل کرتا ہے۔‘‘(61) عام کائناتی وقت سے آزاد ہو کر وہ اپنا دوران ِخالص تراشتا ہے اور اس سے سرور حاصل کرتا ہے۔کائناتی وقت کو اقبال مکانی سمجھتا ہے اقبال آگاہ کرتا ہے کہ ’’اصلی وقت یادوراں کو خط سے ممتاز کیا جائے جہاںدورانِ خالص کا سرور مردِ حرکا امتیاز ہے وہاں مکانی زمان کی قیدو ، عبد یا محکوم کی نشانی ہے۔مرد حر کی فعال خودی ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے اور اسی لیے دوران میں بسر کرتی ہے ایسا شخص’’لی مع اللہ وقت‘‘کہنے کی قدرت رکھتا ہے۔روز وشب کا اسیر یہ بات کہنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔(62) یہ دوران خالص مکانی خصوصیات کے ساتھ وسعتِ خالص ہے۔اقبال شکستِ زمان کے معجزے کو عصری تاریخ میں کار فرما دیکھنا چاہتا تھااس کی آرزو تھی کہ محض فرد ہی اپنی تقدیر رقم نہ کریں اور زمانے کے راکب نہ بنیں بلکہ ایک پوری ملت ایسی ہو جو ان دو ابعاد کے نقطۂ اتصال کی زندہ نشانی بن جائے۔‘‘اقبال نے شاید اس راز کو پالیا تھا کہ یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے اور مثالیت پسندی سے عبارت ہے اس لیے حقیقت میں اس اتصال کو پانا شاید ممکن نہ ہو اس لیے ارتقا ء کے اصولوں میں اس نے بعد ازاں انفرادی ترقی کو روحانی حوالوں سے اپنا رہنما اصول بنایا’’اقبال کے مردِ مومن کا عروج اس اہم حقیقت کے عرفان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نوع نہیں بلکہ فرد ہی تاریخ میں اعتبار یا استناد حاصل کر سکتا ہے۔اور وہی سارے آفاق کو اپنے اندر سموسکتا ہے،وہ زمان و مکان پرکمند آور ہوتا ہے، یہی مرد مومن اپنے عشق کی طاقت سے سیل ِوقت کو روک لیتا اور اپنے عشق کی مہر ثبت کرتا ہے اور بقا کا درجہ پا لیتا ہے۔(63) ضروری نہیں کہ اقبال کے تصورات ِزمان ومکاں حتمی ہوں۔ان افکار پر ابتداء ہی سے غورو خوض ہوتا رہا ہے اور اقبال نے اپنے سے پہلے آنے والے مفکرین کے تصورات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کو مدلل اور الہٰیاتی زاویوں سے ا جاگر کیا ہے۔ان کے تصور اتِ زمان و مکاں کی ا ہمیت ان کے حرفِ آخر ہونے میں نہیں۔ ان کی خرد افروزی میں ہے۔اگر مسلمانوں کو دنیا میں اپنی امتیازی حیثیت کو قائم رکھنا ہے تو ان کے لیے اتنے اہم فکری موضوعات کو تازہ اورزندہ رکھنا ضروری ہو گا۔اسلامی نقطۂ نظر سے زمان و مکاں کی اہمیت دنیا کی حقیقت اور عام زمان و مکاں میںانسان کی جہد وعمل کے نتائج کو عالمِ آخرت سے وابستہ کرنے میں ہے۔اس سے انسان پر اور انسان کی کاوشوں پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی اعتماد زندگی کے تسلسل کی ضمانت ہے۔ اقبال نے شعر وادب کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی ان کے بیان کے لیے ان کے شارحین اور محققین نے طویل کتابیں تصنیف کی ہیں اور ہنوز اقبال کے افکار کی توضیح تشنہ سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اختصار کے ساتھ ہم ان کے مقاصد کو انسانی قوتوں کی صحیح نشوونما ،شخصیت کی اٹھان،ذہن کی تربیت،فرد کی ذاتی حیثیت اور فرد اور جماعت کے تعلقات ،اس پر سماج کے اثرات اور تمدن عالم اور کائنات میں انسان کے مقام اور ان سب مسائل کے متعلق ان کے خیالات میں تلاش کر سکتے ہیں۔ارتقائیت اور حرکت وعمل ان کے ہاں تازہ خیالات سے مربوط ہیں اور تازگی تخلیقی وقت سے پیدا ہو تی ہے۔ اپنی نظم تخلیق میں انہوں نے یہی نکتہ واضح کیا ہے ؎ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے جوہر نفس سے کرے عمرِ جادواں پیدا (کلّیاتِ اقبال،ص۔613 ) دراصل اقبال کے پیش نظر اوائل صدی کا ہندوستان تھا اور ان میں بسنے والے ہندی مسلمان۔ان کے نزدیک مسلمانوں کے انحطاط کا باعث یہ تھا کہ انھوں نے کشمکشِ حیات سے منہ موڑ لیا۔مقابلے کی طاقت گنوا دی،دنیا کو نا پائیدار اور بے ثبات سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔قرآن کریم کی عملی تعلیمات سے رو گردانی کی،کٹھ ملائیت،تصوف اور یونانی فلسفے کے اثرات نے انہیں تسخیر عالم سے بے گانہ کر دیا ۔ان حالات میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی ضرورت درپیش تھی۔اقبال نے ابتداء ہی سے کوشش کی کہ قوم کے جمود کو توڑ کر انسان کی شخصیت کی نشوونما پر زور دیا جائے۔اس نے انسان کو ایک انسان کے طور پر زندگی کرنے کا درس دیا ؎ یقین ،افراد کا سرمایۂ تقدیرِ ملّت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملّت ہے تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا ،خدا کا ترجماں ہو جا (کلّیاتِ اقبال،ص۔304 ۔303 ) اقبال کے مطابق حرکت عمل کا جوہر ہے اور عملی کشمکش زندگی کا راز ہے۔ وہ علم اور عمل میں توازن کا قائل تھا ،وہ ایسا علم نہیں چاہتا تھا جو عملی قوت کو کمزور کرے اور اخلاقی قدروں سے انسان کو بیگانہ کر دے۔اس نے اپنے خطبات میں لکھا ہے کہ’’اگر طاقت اور قوت بصیرت سے محروم ہیں تو اس کا نتیجہ بجز ہلاکت اور بے دردی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ہمارے لیے دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالمِ انسانی روحانی اعتبار سے آگے بڑھ سکے۔(64) اس مضمون میں ان کا شعر ہے ؎ علمِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں (کلّیاتِ اقبال،ص۔375 ) وہ اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ انسان اپنے ماحول اور قدرت سے ربط قائم کرنے سے نہیں گھبراتا۔ وہ دنیا اور اس کی پوشیدہ طاقتوں کو قبول کرتا ہے اور عالمِ آفاق یعنی روح اور مادہ دونوں کے باہمی ربط کو ایک حقیقت تسلیم کر لیتا ہے۔سید نذیر نیازی کے مطابق اقبال کی ’’فکر کا حقیقی سر چشمہ ۔۔۔قرآن مجید ہے۔۔۔صاحبِ خطبات نے اگر عہدِ حاضر کے الفاظ اور مصطلحات سے کام لیا تو ہم گرفتار انِ فرنگ کی خاطر ،اس لیے کہ ان کا خطاب دراصل ہم سے ہے اور ہماری وساطت سے جدید علمی دنیا سے ‘‘(65) اسی طرح ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کا کلام شاعرانہ پیرایۂ بیان میں اور جدید علوم کی روشنی میں سراسر قرآن کریم کی تشریح ہے۔ اگر مثنوی مو لانا روم کو آٹھ سوبرس قبل’’قرآن در زبان پہلوی‘‘سمجھا گیا تو ہم کلام اقبال کو الف ثانی میںو ہی مرتبہ دے سکتے ہیں۔‘‘(66) اقبال کے خیال میں حقیقت تک پہنچنے کے دو وسیلے ہیں ایک’’علم وعقل‘‘ جسے اقبال خیر کہتے ہیں دوسرا‘‘عشقِ نظر‘‘۔حقیقت کے حصول میں منطق اور استدلال بھی کام آتے ہیں اور کشف اور الہام بھی۔اقبال ان تمام وسیلوں کی متوازن آمیزش سے انسانِ کامل کی ذہنی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب انسان ارتقاء کی منازل طے کرکے ایک مکمل اور منفرد ہستی بن جاتا ہے تو اس کی فتوحات کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔وہ زمین و آسمان پر خدا کا نائب بن جاتا ہے اور اس میں خلاّقیت پیدا ہو جاتی ہے۔خودی،اجتماعی خودی بے خودی،ملّت کے ساتھ فرد کے اتصال کے نظریات، اقبال کے انھی خیالات سے پھوٹتے ہیں اور انھیں میںضم ہوتے ہیں۔ان افکار کے ذریعے وہ ملتِ اسلامیہ کی بقاء اور ترقی کے خواہاں ہیں۔وطن اور ملّت کے بارے میں وہ اپنا ایک مخصوص نظریہ رکھتا ہے۔اس نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے مسلمان قوم کو ایک لائحہ عمل دیا جس کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ پھر سے اپنے گمشدہ عروج و عظمت کو حاصل کر سکتی تھی ۔اس دورمیں ہمارے قومی وجود کو سخت خطرات لاحق تھے لیکن اقبال کوملّتِ اسلامیہ کی خوابیدہ قوتوں پر اعتماد تھا ۔اس دور میں ہندی مسلمانوں کی بیداری اور بعد ازاں مسلمان ملکوں کی سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزادی میں اقبال کی فکر کارفرما رہی ہے۔اپنے خطبات میں انہوں نے مسلمانوں کی جس لیگ آف نیشنز کا ذکر کیا تھا او آئی سی شایداسی کا کمزورسا ابتدائی روپ ہے جس کے تحت مشترکہ اسلامی بنک اور ICESCOجیسے ادارے بن چکے ہیں۔ ایران کے حالیہ انقلاب میں علی شریعتی اور دیگر ایرانی دانشور اقبال کے فلسفے کے اثرات کا اثبات کرتے رہے ہیں۔ خود اقبال نے عشرت رحمانی کے نام اپنے تیس اگست 1931 ء کے مکتوب میں لکھا ہے کہ ’’آپ کا حسنِ ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے حقیقت میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے Seriously اس طرف توجہ کی ہے۔باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیے اس کے متعلق کیا عرض کروں۔مقصود تو بیداری سے تھا اگر بیداریء ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں لیکن آپ کے اس ریمارکس سے بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھاکہ اس بات کا شائد کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمدعلی،شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو اس کا احساس نہ ہوتو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خداکے فضل وکرم سے بالکل بے غرض ہوں۔‘‘ (67) ایک اور خط کے اقتباس میں جو ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے درج کیا ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ’’مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔‘‘(68) ان خطوط سے واضح ہے کہ اقبال کا تخلیقِ شعروادب کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی ا نفرادی اور اجتماعی بیداری تھا اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کی تحریک نے ان کی زندگی میں ہی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا اورا ن سے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب کے آثار کھائی دینے لگے تھے۔ حواشی و حوالہ جات 1۔ اقبال : مکتوب بنام نکلسن : بحوالہ ’’ادب اور فنون لطیفہ سے متعلق اقبال کا نظریہ ‘‘ ازڈاکٹر عندلیب شادانی مشمولہ ماہنامہ ’’ماہ نو‘‘ ، لاہور۔ ستمبر۔1977 ء ، ص۔81 ۔ 2۔ اقبال : دیباچہ مرقّعِ چغتائی (دیوان ِغالب ) ، جہانگیر کلب ، لاہور ،س۔ن ،صفحہ نمبر ندارد ۔ 3۔ اقبال : کلیّاتِ اقبال فارسی ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، 1989 ء ص۔573 تا587 ۔ 4۔ اقبال : کلّیات ِاقبال اردو ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1989 ء ، ص۔61 ۔ 5۔ (شیخ) اکبر علی: ـ’’اقبال کی شاعری میں آرٹ کا تصور‘‘ مشمولہ اقبالیات کے نقوش مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ،1977 ئ، ص۔ 538 ۔544 ۔ 6۔ ایضاً: ص ۔545 ۔ 7۔ (ڈاکٹر) غلام حسین ذوالفقار :اقبال ایک مطالعہ ، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور، 1987ء ، ص ۔59 ۔ 8۔ (شیخ ) عبدالقادر : دیباچہ ’’بانگِ درا‘‘ مشمولہ کلیاتِ اقبال اردو مذکور ،ص ۔31 ۔ 9۔ ایضاً : ص ۔88 10۔ کفایت علی :’’اقبال و طنیت ، پین اسلامزم اور سیاسی تحاریک ’’مشمولہ اقبالیات کے نقوش‘‘ مرتبہ (ڈاکٹر) سلیم اختر مذکور، ص۔ 199 11۔ اقبال: کلیات ِاقبال فارسی مذکور ، ص ۔142 ۔143 12۔ کفایت علی: ـ اقبال و طنیت پین اسلامزم اور سیاسی تحاریک ’’مشمولہ کتاب مذکور ، ص ۔202 13۔ اقبال : کلیات ِاقبال فارسی مذکور ،ص۔ 115 تا 117 14۔ (ڈاکٹر) غلام حسین ذوالفقار:کتاب مذکور ، ص۔ 70 ۔71 15۔ (ڈاکٹر) یوسف حسین خان : روحِ اقبال، آئینہ ادب ، لاہور ،1984 ء ، ص ۔297 ۔ 16۔ محمد اقبال :کلیات ِاقبال فارسی مذکور، ص۔ 115 ۔114 ۔ 17۔ ایضاً : ص۔450 ۔451 ۔ 18۔ اقبال :’’ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ‘‘ مشمولہ مقالات ِاقبال مرتّبہ سید عبدالواحد معینی ، آئینہء ادب ،لاہور ، 1988 ء ، ص۔159 ۔ 19۔ (ڈاکٹر) سید عبداللہ :مسائلِ اقبال ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہور ، 1974 ء ، ص۔ 345 ۔ 20۔ (علامہ )محمد اقبال :’’جغرافیائی حدود اور مسلمان ‘‘ مشمولہ مقالات اقبال مرتبہ سید عبدلواحد معینی مذکور ، ص۔262 ۔ 21۔ ایضاً : ص۔273 ۔ 22۔ ایضاً ـ: ص۔266 ۔ 23۔ (سید )نذیر نیازی: اقبال کے حضور،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،1981 ء ، ص۔ 15 ۔ 24۔ (ڈاکٹر) محمد ریاض : تقدیر امم اور اقبال ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1983 ء ، ص۔146 تا 159 ۔ 25۔ اقبال : کلیّات اقبال اردو مذکور، ص ۔548 ۔ 26۔ (ڈاکٹر) سید عبداللہ : کتاب مذکور ، ص۔ 266 ۔268 ۔ 27۔ (سید )وقار عظیم :ـ’’اقبال ؛شاعر اور فلسفی ،تصنیفات، لاہور ، 1968 ء ،ص۔ 266 ۔ 28۔ عزیز احمد اقبال نئی تشکیل ، گلوب پبلشرز ، لاہور ،سنہ ندارد، ص ۔ 305 ۔306 ۔ 29۔ اقبال : کلیاتِ اقبال فارسی مذکور ، ص۔199 ۔208 30۔ ایسا ندرو بوسانی:’’ اقبال کا فلسفہء مذہب اور یورپ ‘‘ مشمولہ ماہنامہ ماہِ نو لاہور ،ستمبر 1977ء ، ص ۔140 ۔141 ۔ 31۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم : مقالات ِحکیم جلد دوم اقبالیات، مرتبہ شاہد حسین رزاقی ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور ، 1969 ء ،ص۔ 64 ۔ 32۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم :فکرِ اقبال، بزم ِاقبال، لاہور ، 1968 ء ص۔175 ۔ 33۔ محمد اقبال : انوارِ اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، 1977 ء ، ص۔ 258 ۔ 34۔ ایضاً :ص۔ 259 ۔ 35۔ ایضاً :ص۔ 262 ۔ 36۔ ایضاً :ص۔ 263 ۔ 37۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم :مقالاتِ حکیم مذکور، ص ۔ 67 ۔ 38۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی: اقبال اور مسلکِ تصوف ،اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ، 1977ء ص ۔276 ۔ 39۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم: فکرِ اقبال مذکور ، ص ۔719 ۔ 40۔ رفعت حسن : "God and Universe in Iqbal's Philosophy" مشمولہ مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘ لاہور ،اپریل ۔ جون 1987 ئ، ص۔31 ۔ 41۔ رفعت حسن : مقالہ و مجلہ مذکور ،ص۔31 ۔ 42۔ عطیہ بیگم :اقبال ، مترجمہ ضیاء الدین احمد برنی، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، 1981ء ، ص۔ 16 تا19 ۔ 43۔ (سید) نذیر نیازی : کتاب مذکور ، ص ۔25 ۔ 44۔ اقبال : مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواری مشمولہ انوار ِاقبال مذکور، ص۔ 188 ۔ 45۔ اقبال: دیباچہ مثنوی ’’اسرارِ خودی ‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی مذکور، ص۔ 157 ۔ 46۔ محمد اقبال :اقبال نامہ ، حصہ اول مجموعہ مکاتیب ِاقبال، مرتبہ شیخ عطاء اللہ ، شیخ محمد اشرف ، لاہور 1951ء ، ص۔ 44 ۔ 47۔ (ڈاکٹر )ابو سعید نور الدین :اسلامی تصوف اور اقبال، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، 1977ئ، حاشیہ، ص ۔ 257 ۔ 48۔ محمد اقبال :خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مکتبہ خیابانِ ادب ،لاہور، 1976ئ، ص۔ 117 تا118 ۔ 49۔ تفصیل کے لیے دیکھئے اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اول ،ص۔ 54 ۔55 ، حصہّ دوم، ص ۔35 تا37 ، انوارِ اقبال ، مرتبہ بشیر احمد ڈار ،ص۔ 268 تا277 اور ص۔ 180 تا183 ۔ 50۔ (سید) علی عباس جلال پوری : اقبال کا علمِ کلام، مکتبہ ء فنون ، لاہور ، 1972 ء ، ص ۔92 ۔ 51۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم : مقالات ِحکیم مذکور ، ص۔135 ۔ 52۔ (ڈاکٹر) ابو اللیث صدیقی: کتاب مذکور ، ص ۔388 ۔ 53۔ (ڈاکٹر )خلیفہ عبدالحکیم :مقالات حکیم ‘‘ مذکور، ص ۔136 ۔ 54۔ (سید )بشیر الدین :’’اقبال کا تصور ِزمان ‘‘ مشمولہ اقبالیات کے نقوش مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر مذکور، ص۔340 ۔339 ۔ 55۔ اقبال: دوسرا خطبہ،ــ’’مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ‘‘، مشمولہ فکرِ اقبال مرتبہ(ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم مذکور، ص۔699 ۔ 56۔ ایضاً:ص۔715 ۔ 57۔ ایضاً: ص۔719 ۔ 58۔ (ڈاکٹر) برہان احمد فاروقی: ’’اقبال کا تصوّرِ زمان و مکان‘‘، مشمولہ، منتخب مقالات: ’’اقبال ریویو‘‘ مرتبہ (ڈاکٹر) وحید قریشی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1983ئ، ص۔131 ۔ 59۔ (ڈاکٹر) عالم خوندمیری: ’’ زماں۔ اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں‘‘۔ مشمولہ، ماہنامہ ’’نقوش‘‘، لاہور۔ اقبال نمبر 2 ، دسمبر۔1977 ء ص۔ 136 ۔ 60۔ ایضاً: ص۔ 138 ۔ 61۔ ایضاً: ص۔ 139 ۔ 62۔ ایضاً: ص۔ 139 ۔ 63۔ ایضاً: ص۔ 142 ۔ 64۔ اقبال: تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ مترجمہ(سید) نذیر نیازی،بزمِ اقبال، لاہور،1983 ئ، ص۔138 ۔ 65۔ ایضاً: ص۔ 735 ۔ 66۔ (مولانا) سعید احمد اکبر آبادی: خطباتِ اقبال پر ایک نظر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،1987 ء بحوالہ رضی الدین صدیقی؛ مقدمہ روحِ اقبال از(ڈاکٹر) یوسف حسن خان، مذکور، ص۔19 ۔ 67۔ اقبال : بحوالہ ماہنامہ ماہِ نو، لاہور، اقبال نمبر شمارہ نمبر5 ، جلد نمبر30 ، ستمبر۔1977 ئ، ص۔100 ۔ 68۔ (ڈاکٹر) غلام مصطفٰے خان: اقبال اور قرآن ، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، 1977 ئ، ص۔39 ۔ ٭٭٭