ارمغانِ حجاز اُردو اقبالؒؔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم فہرست ۱۔ ابلیس کی مجلسِ شُوریٰ ۲۔بُڈھّے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ۳۔ تصویر و مصوّر ۴۔ عالمِ برزخ ۵۔معزول شہنشاہ ۶۔دوزخی کی مناجات ۷۔مسعود مرحوم ۸۔آوازِ غیب رباعیات ۱۔مری شاخِ امَل کا ہے ثمر کیا ۲۔ فراغت دے اسے کارِ جہاں سے ۳۔ دِگرگُوں عالمِ شام وسحر کر ۴۔ غریبی میںہُوں محسودِ ا میری ۵۔ خِرد کی تنگ دامانی سے فریاد ۶۔ کہا اقبال ؔنے شیخِ حرم سے ۷۔ کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد ۸۔ حدیثِ بندۀ مومن دِل آویز ۹۔تمیزِ خارو گُل سے آشکارا ۱۰۔ نہ کر ذکرِ فراق وآشنائی ۱۱۔ تِرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے ۱۲۔ خِرد د یکھے اگردل کی نگہ سے ۱۳۔ کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر مُلّازادہ ضیغم ؔلولابی کشمیری کا بیا ض ۱۔ پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہُوا سیماب ۲۔ موت ہے اک سخت تر جس کاغلامی ہے نام ۳۔ آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر ۴۔گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو ۵۔دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں ۶۔ رِندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات ۷۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیّری ۸۔ سمجھا لہُو کی بُوند اگرتُو اسے تو خیر ۹۔ کھُلا جب چمن میں کُتب خانۀ گُل ۱۰۔ آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ ۱۱۔ تمام عارف وعامی خودی سے بیگانہ ۱۲۔ دِگرگُوں جہاںان کے زور عمل سے ۱۲۔ نشاںیہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا ۱۴۔ چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی ۱۵۔ ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ ۱۶۔ حاجت نہیں اے خطّۀ گُل شرح وبیاں کی ۱۷۔ خود آگاہی نے سِکھلادی ہے جس کو تن فراموشی ۱۸۔ آں عزم بلند آور آں سوزِ جگرآور ۱۹۔ غریبِ شہرہوں میں، سُن تو لے مری فریاد ٭ ۱۔سراکبرحیدری صدرِ اعظم حیدر آباددکن کے نام ۲۔ حُسین احمد ۳۔ حضرتِ انسان اُردو نظمیں اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ ۱۹۳۶ء اِبلیس یہ عناصِر کا پُرانا کھیل، یہ دُنیائے دُوں ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں! اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھّا تھا جہانِ کاف و نوں میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیّت کا خواب مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیِسا کا فسوں مَیں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا مَیں نے مُنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جُنوں کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو اِبلیس کا سوزِ دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنِگُوں! پہلامُشیر اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی ورنہ ’قوّالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علمِ کلام‘! ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟ ’ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماںپر حرام! دُوسرا مُشیر خیر ہے سُلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر تُو جہاں کے تازہ فِتنوں سے نہیں ہے با خبر! پہلا مُشیر ہُوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیّت کا اک پردہ ہو، کیا اُس سے خطر! ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہُوری لباس جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجودِ مِیر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصَر مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر! تیسرا مُشیر روحِ سُلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر کیا اُس یہُودی کی شرارت کا جواب؟ وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب! اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب! چوتھا مُشیر توڑ اس کا رومۃُالکُبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ آلِ سیزر کو دِکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لِپٹا ہُوا ’گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب‘ تیسرا مُشیر مَیں تو اُس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں جس نے افرنگی سیاست کو کِیا یوں بے حجاب پانچواں مُشیر ( اِبلیس کو مخاطَب کرکے) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار! تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکار آبِ و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلہِ جنّت تری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جُنوں سے تار تار زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار فِتنۀ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جُوئبار میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار اِبلیس ( اپنے مُشیروں سے) ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو! دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے! (۲) جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندۀ مومن کا دِیں جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں، اﷲ کی ہے یہ زمیں! چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے (۳) توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات ابن مریم مر گیا یا زندۀ جاوید ہے ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟ آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟ ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟ کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟ تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا دنیا کو ہے پھر معرکۀ رُوح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے ’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘ تصویر و مُصوّر تصویر کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے مری تیرے ہُنر سے ولیکن کس قدر نا مُنصفی ہے کہ تُو پوشیدہ ہو میری نظر سے! مُصوّر گراں ہے چشمِ بینا دیدہ وَر پر جہاں بینی سے کیا گُزری شرَر پر! نظر، درد و غم و سوز و تب و تاب تُو اے ناداں، قناعت کر خبر پر تصویر خبر، عقل و خِرد کی ناتوانی نظر، دل کی حیاتِ جاودانی نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز سزاوارِ حدیثِ ’لن ترانی‘ مُصوّر تو ہے میرے کمالاتِ ہُنر سے نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط کہ تُو پِنہاں نہ ہو اپنی نظر سے عالمِ بَرزخ مُردہ اپنی قبر سے کیا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قیامت اے میرے شبستاںِ کُہن! کیا ہے قیامت؟ قبر اے مُردۀ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم؟ ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت! مُردہ جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت اُس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں مَیں ہر چند کہ ہوں مُردۀ صد سالہ ولیکن ظُلمت کدۀ خاک سے بیزار نہیں مَیں ہو رُوح پھر اک بار سوارِ بدنِ زار ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں صدائے غیب نے نصیبِ مار و کژدُم، نے نصیبِ دام و دَد ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگِ ابَد بانگِ اسرافیل اُن کو زندہ کر سکتی نہیں رُوح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسَد مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام گرچہ ہر ذی رُوح کی منزل ہے آغوشِ لَحد قبر ( اپنے مُردے سے) آہ، ظالم! تُو جہاں میں بندۀ محکوم تھا مَیں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک تیری مَیّت سے مری تاریکیاں تاریک تر تیری مَیّت سے زمیں کا پردۀ نامُوس چاک الحذَر، محکوم کی مَیّت سے سو بار الحذَر اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جانِ پاک! صدائے غیب گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرارِ وجود زلزلے سے کوہ و دَر اُڑتے ہیں مانندِ سحاب زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود زمین آہ یہ مرگِ دوام، آہ یہ رزمِ حیات ختم بھی ہوگی کبھی کشمکشِ کائنات! عقل کو ملتی نہیں اپنے بُتوں سے نجات عارف و عامی تمام بندۀ لات و منات خوار ہُوا کس قدر آدمِ یزداں صفات قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات کیوں نہیں ہوتی سحَر حضرتِ انساں کی رات؟ معزول شہنشاہ ہو مبارک اُس شہنشاہِ نِکو فرجام کو جس کی قربانی سے اسرار ملوکیّت ہیں فاش ’شاہ‘ ہے برطانوی مندر میں اک مٹّی کا بُت جس کو کر سکتے ہیں، جب چاہیں پُجاری پاش پاش ہے یہ مُشک آمیز افیوں ہم غلاموں کے لیے ساحرِ انگلیس! مارا خواجۀ دیگر تراش دوزخی کی مُناجات اس دیرِ کُہن میں ہیں غرض مند پُجاری رنجیدہ بُتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد پوجا بھی ہے بے سُود، نمازیں بھی ہیں بے سُود قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانۀ آباد تیشے کی کوئی گردشِ تقدیر تو دیکھے سیراب ہے پرویز، جِگر تَشنہ ہے فرہاد یہ عِلم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت جو کچھ ہے، وہ ہے فکرِ مُلوکانہ کی ایجاد اللہ! ترا شکر کہ یہ خطّۀ پُر سوز سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد! مسعود مرحوم یہ مہر و مہ، یہ ستارے یہ آسمانِ کبود کسے خبر کہ یہ عالم عدَم ہے یا کہ وجود خیالِ جادہ و منزل فسانہ و افسوں کہ زندگی ہے سراپا رحیلِ بے مقصود رہی نہ آہ، زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگارِ کمالاتِ احمد و محمود زوالِ علم و ہُنر مرگِ ناگہاں اُس کی وہ کارواں کا متاعِ گراں بہا مسعود! مجھے رُلاتی ہے اہلِ جہاں کی بیدردی فغانِ مُرغِ سحَر خواں کو جانتے ہیں سرود نہ کہہ کہ صبر میں پِنہاں ہے چارۀ غمِ دوست نہ کہہ کہ صبر معمّائے موت کی ہے کشود “دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است” (سعدؔیؒ) نہ مجھ سے پُوچھ کہ عمرِ گریز پا کیا ہے کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے ہُوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور مگر یہ غَیبتِ صغریٰ ہے یا فنا، کیا ہے! غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال خِرد بتا نہیں سکتی کہ مُدّعا کیا ہے دِل و نظر بھی اسی آب و گِل کے ہیں اعجاز نہیں تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے؟ جہاں کی رُوحِ رواں ’لا اِلٰہَ اِلّا ھُوْ، مسیح و میخ و چلیپا، یہ ماجرا کیا ہے! قصاص خُونِ تمنّا کا مانگیے کس سے گُناہ گار ہے کون، اور خُوں بہا کیا ہے غمیں مشو کہ بہ بندِ جہاں گرفتاریم طلسم ہا شکنَد آں دلے کہ ما داریم خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا ترے فراق میں مُضطر ہے موجِ نیل و فرات خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات نگاہ ایک تجلّی سے ہے اگر محروم دو صد ہزار تجلّی تلافیِ مافات مقام بندۀ مومن کا ہے ورائے سپہر زمیں سے تا بہ ثُریّا تمام لات و منات حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی نہ تِیرہ خاکِ لحدَ ہے، نہ جلوہ گاہِ صفات خود آگہاں کہ ازیں خاک داں بروں جَستند طلسمِ مہر و سِپہر و ستارہ بشکستند آوازِ غیب آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک! کس طرح ہُوا کُند ترا نشترِ تحقیق ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروںکے جگر چاک تُو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار کیا شُعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک مِہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک اب تک ہے رواں گرچہ لہُو تیری رگوں میں نے گرمیِ افکار، نہ اندیشۀ بے باک روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگَہِ پاک باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری اے کُشتۀ سُلطانی و مُلّائی و پیری! رُباعِیات (۱) مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا کلی گُل کی ہے محتاجِ کشود آج نسیمِ صبحِ فردا پر نظر کیا! فراغت دے اُسے کارِ جہاں سے کہ چھُوٹے ہر نفَس کے امتحاں سے ہُوا پِیری سے شیطاں کُہنہ اندیش گُناہِ تازہ تر لائے کہاں سے! ٭ دِگرگُوں عالمِ شام و سحَر کر جہانِ خشک و تر زیر و زبر کر رہے تیری خدائی داغ سے پاک مرے بے ذوق سجدوں سے حذَر کر (۲) غریبی میں ہُوں محسودِ امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری حذر اُس فقر و درویشی سے، جس نے مسلماں کو سِکھا دی سر بزیری! خرد کی تنگ دامانی سے فریاد تجلّی کی فراوانی سے فریاد گوارا ہے اسے نظّارۀ غیر نِگہ کی نا مسلمانی سے فریاد! کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون نِدا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون؟ کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد کہ ہے مردِ مسلماں کا لہُو سرد بُتوں کو میری لادینی مبارک کہ ہے آج آتشِ ’اَللہ ھُو، سرد حدیثِ بندۀ مومن دل آویز جِگر پُرخوں، نفَس روشن، نِگہ تیز میَسّر ہو کسے دیدار اُس کا کہ ہے وہ رونقِ محفل کم آمیز تمیزِ خار و گُل سے آشکارا نسیمِ صُبح کی رَوشن ضمیری حفاظت پھُول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹے میں ہو خُوئے حریری نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی کہ اصلِ زندگی ہے خود نُمائی نہ دریا کا زیاں ہے، نے گُہر کا دلِ دریا سے گوہر کی جُدائی ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے عبَث ہے شکوۀ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ خِرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے جہاں رَوشن ہے نُورِ ’لا اِلہ‘ سے فقط اک گردشِ شام و سحر ہے اگر دیکھیں فروغِ مہر و مہ سے کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر کبھی دریا کے سینے میں اُتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر مقام اپنی خودی کا فاش تر کر! مُلّا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری کا بیاض ( ۱) پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مُرغانِ سحَر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادیِ لولاب! گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندۀ مومن کے لیے موت ہے یا خواب اے وادیِ لولاب! ہیں ساز پہ موقُوف نوا ہائے جگر سوز ڈھِیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مِضراب اے وادیِ لولاب! مُلّا کی نظر نُورِ فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانۀ صُوفی کی مئے ناب اے وادیِ لولاب! بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سَحری سے اس قوم میں مُدّت سے وہ درویش ہے نایاب اے وادیِ لولاب! (۲) موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام مکر و فنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام! شرعِ مُلوکانہ میں جدّتِ احکام دیکھ صُور کا غوغا حلال، حشر کی لذّت حرام! اے کہ غلامی سے ہے رُوح تری مُضمحل سینۀ بے سوز میں ڈھُونڈ خودی کا مقام! (۳) آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر سینۀ افلاک سے اُٹھتی ہے آہِ سوز ناک مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سُلطان و امیر کہہ رہا ہے داستاں بیدردیِ ایّام کی کوہ کے دامن میں وہ غم خانۀ دہقانِ پیر آہ! یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روزِ مکافات اے خُدائے دیر گیر؟ (۴) گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوُے و رنگ و بو پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سِیتا ہے اُنھیں بے سوزن و تارِ رَفو ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش حاکمیّت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو (۵) دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں حیرت میں ہے صیّاد، یہ شاہیں ہے کہ دُرّاج! ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطُم مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج فطرت کے تقاضوں سے ہُوا حشر پہ مجبور وہ مُردہ کہ تھا بانگِ سرافیل کا محتاج (۶) رِندوں کو بھی معلوم ہیں صُوفی کے کمالات ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات خود گیری و خودداری و گلبانگِ ’اَنا الحق‘ آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ’ہمہ اوست‘ خود مُردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات! (۷) نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری ترے دِین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی یہی ہے مرنے والی اُمّتوں کا عالَمِ پیری شیاطین مُلوکیّت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری چہ بے پروا گذشتند از نواے صبحگاہِ من کہ بُرد آں شور و مستی از سیہ چشمانِ کشمیری! (۸) سمجھا لہُو کی بوند اگر تُو اسے تو خیر دِل آدمی کا ہے فقط اک جذبۀ بلند گردش مہ و ستارہ کی ہے ناگوار اسے دل آپ اپنے شام و سحَر کا ہے نقش بند جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند ( ۹) کھُلا جب چمن میں کتب خانۀ گُل نہ کام آیا مُلّا کو علمِ کتابی متانت شکن تھی ہوائے بہاراں غزل خواں ہُوا پیرکِ اندرابی کہا لالۀ آتشیں پیرہن نے کہ اَسرارِ جاں کی ہوں مَیں بے حجابی سمجھتا ہے جو موت خوابِ لَحد کو نہاں اُس کی تعمیر میں ہے خرابی نہیں زندگی سلسلہ روز و شب کا نہیں زندگی مستی و نیم خوابی حیات است در آتشِ خود تپیدن خوش آں دم کہ ایں نکتہ را بازیابی اگر زآتشِ دل شرارے بگیری تواں کرد زیرِ فلک آفتابی (۱۰) آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم محکوم کا سرمایہ فقط دیدۀ نم ناک محکوم ہے بیگانۀ اخلاص و مروّت ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش وہ بندۀ افلاک ہے، یہ خواجۀ افلاک (۱۱) تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ یہ راز ہم سے چھُپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ طلسمِ بے خَبری، کافری و دِیں داری حدیثِ شیخ و برہِمن فُسون و افسانہ نصیبِ خطّہ ہو یا رب وہ بندۀ درویش کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ چھُپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک گُہر ہیں آبِ وُلر کے تمام یک دانہ (۱۲) دِگرگُوں جہاں اُن کے زورِ عمل سے بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے مُنجّم کی تقویمِ فردا ہے باطل گرے آسماں سے پُرانے ستارے ضمیرِ جہاں اس قدر آتشیں ہے کہ دریا کی موجوں سے ٹُوٹے ستارے زمیں کو فراغت نہیں زلزلوں سے نُمایاں ہیں فِطرت کے باریک اشارے ہمالہ کے چشمے اُبلتے ہیں کب تک خضَر سوچتا ہے وُلر کے کنارے! (۱۳) نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صُبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال یہ اُمّتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں مَیں، لیکن قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے ورائے عقل ہیں اہلِ جُنوں کی تدبیریں (۱۴) چہ کافرانہ قِمارِ حیات می بازی کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی دِگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم دلِ جُنید و نگاہِ غزالی و رازی بحکمِ مفتیِ اعظم کہ فطرتِ ازلیست بدینِ صعوہ حرام است کارِ شہبازی ہماں فقیہِ ازَل گُفت جُرّہ شاہیں را بآسماں گرَوی با زمیں نہ پروازی منم کہ توبہ نہ کردم ز فاش گوئی ہا ز بیمِ ایں کہ بسُلطاں کنند غمّازی بدستِ ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست دُعا بگو ز فقیراں بہ تُرکِ شیرازی (۱۵) ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ وہاں دِگرگُوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ کنارِ دریا خضَر نے مجھ سے کہا بہ اندازِ محرمانہ سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردُوں ہے بے کرانہ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ مری اسیری پہ شاخِ گُل نے یہ کہہ کے صیّاد کو رُلایا کہ ایسے پُرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ (۱۶) حاجت نہیں اے خطّۀ گُل شرح و بیاں کی تصویر ہمارے دلِ پُر خوں کی ہے لالہ تقدیر ہے اک نام مکافاتِ عمل کا دیتے ہیں یہ پیغام خدایانِ ہمالہ سرما کی ہواؤں میں ہے عُریاں بدن اس کا دیتا ہے ہُنر جس کا امیروں کو دوشالہ اُمّید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی رَم اس کی طبیعت میں ہے مانندِ غزالہ (۱۷) خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی حرام آئی ہے اُس مردِ مجاہد پر زِرہ پوشی (۱۸) آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور شمشیرِ پدر خواہی بازوے پدر آور ( ۱۹) غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے مری فریاد کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد “٭صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگر است خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭:صدائے تیشہ الخ یہ شعر مرزاجانجاناں مظہر علیہ الرحمتہ کے مشہور بیاض خریطۀ جواہر، میںہے سر اکبر حیدری، صدرِ اعظم حیدر آباد دکن کے نام ’یوم اقبالؔ‘ کے موقع پر توشہ خانۀ حضور نظام کی طرف سے، جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے ایک ہزار روپے کا چیک بطور تواضع وصول ہونے پر تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے، اور شہنشاہی کر حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات مَیں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سرِ دوش کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات! حُسین احمد عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است حضرتِ انسان جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہائے پِنہانی یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے مرے ہنگامہ ہائے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟