ملفوظات اقبال مع حواشی و تعلیقات ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اقبال اکادمی پاکستان دیباچہ طبع ثانی* علامہ اقبال کی وفات کو اب بارھواں برس شروع ہو چکا ہے۔ اس عرصے میں دنیا نے بڑے بڑے انقلابات دیکھے، لیکن ان انقلابات نے اقبال کی عظمت، فکری اور شخصی احترام میں شاید کچھ اضافہ ہی کیا۔ علامہ مرحوم کے ملفوظات کی ضرورت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح اس پہلے صدمے کے وقت محسوس ہوئی تھی جب 21اپریل 1938ء کی صبح کو لاہور نے یکایک سنا کہ اس کی دولت بیدار اس سے ہمیشہ کے لئے چھن گئی۔ اس وقت ہر طرف یہ خواہش تھی کہ اقبال کی حیات شخصی کے خاتمے کے باوجود ملفوظات اقبال کے وہ نقوش محو نہ ہوں جو مرحوم نے اہل لاہور کے دلوں پر چھوڑے تھے۔ اس کتاب کی طبع ثانی اسی مستقل ضرورت کا ایک اظہار ہے۔ مشاہیر ادب کے ذاتی احوال و اقوال کی جستجو ایک پرانا مشغلہ ہے۔ اس کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں طرح کی رائیں موجود ہیں۔ لیکن ان مخالف و موافق آراء سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ عملاً سبھی مشاہیر کے حالات کے متعلق مدح یا قدح کی نیت سے خاصی چھان بین ضرور کی جاتی ہے۔ اس تجسس کے نتائج بعض صورتوں میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اس کی حقیقت ایک دلچسپ تفریح سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ دوسری صورت بالخصوص ان شعراء کے معاملے میں پیش آتی ہے جن کے قلم کی *ملفوظات، مطبوعہ اشاعت منزل، بل روڈ لاہور نازک تراش اور ہمہ رنگ حرکت ان کے کلام میں ان کی شخصیت کی ایسی کامل تصویر چھوڑ جاتی ہے کہ ان کی شخصی زندگی کی کرید سے کوئی نیا انکشاف نہیں ہوتا۔ مثلاً شیکسپیئر یا غالب کے ذاتی کوائف یا لطائف ان کی شاعری پر کوئی خاص اضافہ نہیں کرتے۔ ان کا کلام دیکھیے تو ان کی شخصیت کے چھوٹے اور بڑے، خفی اور جلی سبھی پہلو شعری اشارات کی روشنی میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ہمیں یہ معلوم بھی ہو جائے کہ مرزا غالب پان نہیں کھاتے تھے یا شیکسپیئر نے اپنی وصیت کہ مرزا غالب پان نہیں کھاتے تھے یا شیکسپیئر نے اپنی وصیت میں صرف دوم درجے کا ایک پلنگ اپنی بیوی کے لیے چھوڑا تو دراصل ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اقبال کی کیفیت اس معاملے میں الگ ہے۔ اس ن کی شاعری کے موضوعات عظیم الشان اور لامحدود ہیں۔ لیکن پھر بھی اس میں ان کی شخصیت کا ہر رنگ منعکس نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر وہ ایک مبلغ تھے اور ان کی شخصیت کا یہی پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو ان کی بلندی فکر، ان کے خلوص جذبات، ان کے جوش ایمان، ان کی چبھتی ہوئی طنز میں ہر جگہ جھلکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملتا رہا وہ جانتے ہیں کہ ان چار عناصر کے علاوہ مرحوم کی فطرت کی تعمیر میں کچھ اور اثرات بھی شامل تھے۔ ان کا لطیف مزاح جوان کے شاعرانہ کلام میں نظر نہیں آتا ان کی شخصی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ اسی طرح وہ محدود و مجبور مگر مضطرب بشریت بھی صرف اقبال کے مکالمات اور ذاتی احوال میں اپنی جھلک دکھاتی تھی جس کے پائے پر شاعر اسلام اور حکیم الامت کے مطلق انا کا منبر قائم تھا۔ یہی وہ منبر تھا جس سے اقبال اور اس کے نصب العینی مرد مومن کی ہم ضمیر آوازیں ایک آواز بن کر گونجتی تھیں۔ ملفوظات اقبال کے اس انکشافی پہلو سے قطع نظر ان صفحات میں اقبال کے بنیادی پیغام کے بعض پہلوؤں کی عجیب و غریب تائید ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اپنی تحریروں میں پیغمبر امید تھے۔ جب انہیں ذاتی زندگی کے تاریک تر لمحات بھی امید اور ایمان کی روشنی سے منور نظر آتے ہیں تو ملفوظات کے پڑھنے والے کو طبیعت میں ایک انبساط محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان کی مفکرانہ شان جس تکرار اور تواتر سے ان کی عام گفتگو میں نمودار ہوتی ہے وہ اہل ذوق کے لیے بجائے خود ایک سبق ہے۔ ان کی جذباتی زندگی میں اتنی وسعت اور پاکیزگی تھی کہ مجاز اور حقیقت یہاں ملتے تھے اور مل کر ایک ہو جاتے تھے۔ ان کی شاعری کی بنیاد تبلیغ پر تھی اور ان سے ملنے والے ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے کہ جس شخص کے حضور میں وہ پہنچے ہیں وہ پیدائشی طور پر ایک معلم ہے۔ غرض علامہ اقبال کے ذاتی کوائف کا بیان کئی لحاظ سے ضروری تھا اور ہے۔ ا س سلسلے میں موجودہ نسل کی، بالخصوص اہل لاہور کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ اس نسل کے گزر جانے کے بعد علامہ علیہ الرحمتہ سے متعلق یادداشتوں کا وہ سرمایہ کالعدم ہو جائے گا جو اس وقت تک بیسیوں ذہنوں میں محفوظ ہے: زیر نظر مجموعہ ’’ حلقہ نقد و نظر‘‘ کی تحریک پر مرتب ہوا۔ جن اصحاب نے اس کی تحریر میں حصہ لیا وہ علامہ مرحوم سے بہ اختلاف مدارج نیاز مندی کا تعلق رکھتے تھے۔ قارئین پر خود بخود ظاہر ہو گا کہ یہ مدارج انتہائی عقیدت سے لے کر انتہائی بے تکلفی کے مراسم تک پھیلے ہوئے تھے۔ چنانچہ اس مجموعے کے ہر باب میں باہمی تعلقات کی اس رنگارنگی کا جداگانہ عکس نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال کی ادا شناسی کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے ملاقاتیوں کے حلقے میں ہر شخص سے اس کے ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔ کتاب کی اس طبع ثانی میں علامہ مرحوم کے فرزند ارجمند شیخ جاوید اقبال ایم اے کا ایک مضمون بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور حمید اللہ خاں 28 اپریل 1949ء ٭٭٭ پیش گفتار مسلمانوں کی کوششوں سے جن علوم و فنون کو فروغ نصیب ہوا ان کا سرچشمہ قرآن حکیم اور حدیث نبویؐ کا مطالعہ ہے۔ تفہیم قرآن کے لیے لغت، فقہہ اللسان، قواعد صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت کے اصولوں پر توجہ ہوئی، احادیث کی تدوین اور ان کی صحت کے اصولوں کو متعین کرنے کے لیے تاریخ، اسماء الرجال، منطق، نفسیات وغیرہ کو ترقی نصیب ہوئی۔ آگے چل کر لسانیات، قواعد، لغت نویسی، تاریخ، سوانح نگاری غرض سینکڑوں علوم قرآن اور حدیث کے مطالعہ اور تفہیم کی بدولت وجود میں آئے۔ انہیں علوم میں تدوین و ترتیب ملفوظات کا فن ہے جس میں مسلمانوں کی صدیوں کی کاوشیں محفوظ ہیں۔ ملفوظات، لفظ سے مشتق ہے اور اس کا اطلاق اقوال و گفتار پر ہوتا ہے جسے سننے والا محفوظ کر لیتا ہے۔ عام طور پر یہ اقوال و گفتار صوفیائے کرام، علمائے دین، اکابر حکماء اور دانشوروں کے ہیں جن کو ان کے عقیدت مندوں نے بڑی محنت اور صحت کے ساتھ قلمبند کر کے اپنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے ترتیب و تدوین سے پیش کیا ہے۔ اکثر اکابر کے افکار و خیالات ان کی مستقل تصانیف اور تحریروں میں موجود ہیں، لیکن ظاہر ہے یہ تحریری سرمایہ مستقل اور اہم ہونے کے باوجود ان کی زندگی کے صرف چند لمحات کی تخلیق ہوتا ہے۔ روزانہ زندگی میں احباب اور عقیدت مندوں سے گفتگو میں بہت سے ایسے معاملات بیان ہوتے ہیں جو مستقل تحریروں میں جگہ نہیں پاتے لیکن جن سے ان کے افکار و نظریات کی تشریح اور تفسیر ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں اور خاص طور پر بے تکلف دوستوں سے بات چیت میں ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کا مستقل تصانیف میں سراغ نہیں ملتا، مستقل تصانیف میں احتیاط اور مصالح بھی قدم قدم پر مصنف کے قلم کو پابند کرتے ہیں۔ بہت سی باتیں جو انسان کہنا چاہتا ہے وہ کھل کر نہیں کہہ سکتا اور اسی لیے تحریروں بالخصوص نظم میں اور اس میں بھی غزل میں خاص طور پر ایمائی انداز بیان اختیار کرنا پڑتا ہے غزل اور نظم میں علامات اور اشارات میں شاعر جو کچھ کہہ گزرتا ہے وہ اگر نثر میں صاف صاف بیان کر دے تو شاید زندگی دشوار ہو جائے۔ اس کی ایک مثال مختلف ادوار میں سیاسی گھٹن کا اظہار ہے۔ یہ خواہ اس دور قدیم کے شہر آشوبوں اور ہجویات میں ہو جس کی ایک مثال سودا کا کلام ہے، یا دور جدید میں فیض کی غزل، ان باتوں کا سادہ نثر میں اظہار شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔ ملفوظات کی بات دوسری ہے، اس میں کہنے والا کھل کر بات کرتا ہے۔ کسی مصلحت، کسی پابندی، لحاظ، رکھ رکھاؤ کا اس کو احساس نہیں ہوتا۔ اس کی شخصیت جیسی کھل کر ان ملفوظات میں سامنے آتی ہے ویسی کسی اور تحریر میں ممکن نہیں ہوتی۔ اگر یہ اصول درست ہے کہ کسی تحریر کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کے مصنف کے مزاج، افتاد طبع، نشست و برخاست اور روز مرہ زندگی کے معمولات کو سامنے رکھنا ضروری ہے تو ان ملفوظات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ کوئی فنکارانہ تخلیق اپنے خالق کی سیرت اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز سے بیگانہ نہیں رہ سکتی اور اس طرح فن کی تفہیم کے لیے فنکار کی تفہیم پہلا مرحلہ ہے اور ملفوظات اس مرحلہ سے گزرنے کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ہیں۔ پھر اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی تحریر کو پڑھ کر پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی الجھن پیدا ہوتی ہے، کوئی مسئلہ اٹھتا ہے، اس کا جواب اس تحریر میں نہیں ملتا، اگر مصنف موجود نہ ہو تو پھر ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق ایسے مسائل کی تشریح اور توجیہہ کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال مرزا غالب کے کلام کی مختلف شرحوں میں ملتی ہے کہ شارحین نے ایک ہی شعر کی طرح طرح تشریح کی ہے مگر بعض اشعار کی تشریح جو مرزا نے خود مولانا حالی کے سامنے بیان کی اس سے اس قیاس آرائی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بعض مسائل و معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا ذکر بعض تحریروں میں صرف ضمنی طور پر اور نہایت مختصر یا محض اشاروں تک محدود ہوتا ہے، ان کی تفسیر اور تشریح بھی ان ملفوظات کے ذریعے سے ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال بلا شبہ اپنے دور کے نابغہ تھے،ا نہوں نے فکر و خیال کی نئی راہیں ہمارے لیے کھولی ہیں۔زندگی کا ایک مثبت، موثر اور فعال نظریہ پیش کیا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے مختلف منازل اور مراحل کی نشان دہی کی ہے۔ شاعری میں انہوں نے موضوع اور اسلوب دونوں میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ وہ ایشیا کی بیداری کے نقیب و علمبردار ہیں اور ملت اسلامیہ کی میراث کے محافظ۔ ان کا فلسفہ اور ان کی شاعری بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کے افکار کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کا مقصد تشکیل الہیات جدید ملت اسلامیہ تھا جس کا نتیجہ ان کے مشہور خطبات ہیں جو خطبات مدراس کے نام سے مشہور ہیں اور جن کے متن انگریزی کے علاوہ اردو ترجمہ سید نذیر صاحب کا حواشی و تعلیقات کے ساتھ دستیاب ہے۔ ان کے خطبات، مقالات، مکاتیب، مضامین اور مجموعہ ہائے کلام سب مل کر اقبال کے فلسفہ، ان کے شاعرانہ مزاج و مذاق، ان کے نظریات اور عقائد کی تصویر مکمل کرتے ہیں، لیکن اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے ان کے ملفوظات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ملفوظات اقبال کا پہلا ایڈیشن محمود نظامی صاحب نے مرتب اور شائع کیا ۔ سنہ اشاعت نہ ناشر نے لکھا ہے اور نہ اس کا ذکر پیش لفظ یا دیباچہ میں ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ نسخہ 1947ء سے پہلے شائع ہوا ہو گا۔ اس میں حسب ذیل مضامین شامل تھے: 1کیف غم (شیخ سر عبدالقادر) 2اقبال کی یاد میں (میاں بشیر احمد) 3علامہ اقبال کی صحبت میں (محمد حسین عرشی) 4میرا اقبال (مرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لائ) 5ایک فیضانی لمحے کی یاد (ڈاکٹر تاثیر) 6 اقبال کے ہاں ایک شام (ڈاکٹر سعید اللہ) 7علامہ اقبال سے ایک ملاقات (پروفیسر حمید احمد خاں) 8عمر عزیز کے بہترین لمحے (حفیظ ہوشیار پوری) 9یاد ایام (خواجہ عبدالوحید) 10 چند ملاقاتیں (سید الطاف حسین) 11دو ملاقاتیں (سید عابد علی عابد) 12اقبال کے ہاں (خضر تمیمی) 13حضرت علامہ (عبدالواحد) 14بزم اقبال (سعادت علی خاں )اور 15مئے شبانہ (عبدالرشید طارق) اس پر ایک مختصر پیش لفظ ہے جس سے ان مضامین کی شان نزول کا پتہ چلتا ہے یعنی حلقہ نقد و نظر جس میں لاہور کے کچھ باذوق پڑھے لکھے لوگ جمع ہوتے تھے اور مضامین پڑھے جاتے تھے اور اس میں لاہور کے نوجوان ادیب خاص طور پر شامل ہوتے تھے۔ اس پیش لفظ کے بعد مضامین کے مرتب کرنے والے جناب محمود نظامی کا تقریباً دو صفحوں پر مشتمل ایک مختصر دیباچہ ہے۔ ان مضامین کی اشاعت کا مقصد نظامی صاحب یوں بیان کرتے ہیں: ’’ پیش کرنے والے کو یقین ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد ہم نہ صرف شاعر اعظم کے فن کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ شاعر اعظم کی شخصیت کو سمجھنے میں بھی یہ ہماری ممد و معاون ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ شاعر اعظم اور اس کے پیغام کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کو سمجھنا لابدی ہے۔‘‘ یہ مجموعہ لالہ نرائن دت سہگل نے امرت الیکٹرک پریس لاہور سے پنڈت دھرم چند بھارگو بی ایس سی کے اہتمام سے چھپوا کر لوہاری گیٹ لاہور سے شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن کی کل تعداد صرف ایک ہزار تھی اور اس کی قیمت چار روپے رکھی گئی تھی۔ صفحات کی کل تعداد 234تھی۔ کتاب کے آخر میں ناشر نے اپنی کتابوں کا ایک اشتہار بھی دیا ہے اور یہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کی تصانیف کے کچھ تراجم ہیں۔ ترجمہ کرنے والوں میں حضرت یزدانی، احسان بی اے، منشی تیرتھ رام، جمیل احمد، منی رام دیوانہ، نرمل چندر (شرح گیتان جلی) اور احسان علی شاہ شامل ہیں۔ تین ناول شرت چندر چٹر جی کے ہیں، ترجمہ کرنے والے منی رام جی دیوانہ، رام سروپ کوشل اور کوئی صاحب حضرت آتش ہیں۔ دوسرے صفحہ پر مرزا ادیب کے صحرا نورد کے رومان، ان داتا، دنیائے آزاد اور موت کے راگ کا اشتہار ہے۔ راجہ مہدی علی خاں کی تصانیف و تراجم میں دنیا کی رنگیں مزاج عورتیں، ستارۂ صبح، شمع حرم اور کملا شامل ہیں۔ احسان علی شاہ کی تصانیف و تراجم میں مہر و ماہ، بیوی کی تلاش اور بیٹے شامل ہیں۔ ان اشتہارات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو ناشرین بھی اس وقت اردو کی کتابیں شائع کرتے تھے اور ان کے مصنفین اور مترجمین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ اس ادارے کے اشتہار سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً کاروباری نقطہ نظر سے ناولوں اور افسانوں کی طباعت و اشاعت زیادہ سود مند تھی اور ناشرین کا زور بھی اسی پر صرف ہوتا تھا۔ا یسی صورت میں ایک خالص علمی اور فکری کتاب جیسی کہ ملفوظات اقبال ہے، اس ادارہ کی طرف سے علامہ اقبال کی حیثیت اور اہمیت کا اعتراف ہے، ورنہ جیسا کہ معلوم ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ہندوؤں کی اکثریت اس اقبال کی تعریف کرتی رہی۔ جس نے کوہ ہمالہ اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نیا شوالہ لکھا لیکن جوں ہی اقبال اپنے ذہنی سفر میں کشمکش کے دور سے نکلے اوران کی شاعری کا ملی اور آفاقی دور شروع ہوا تو ہندوستانی قومیت کے علمبرداروں نے بڑی مایوسی کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اس پہلے دور میں بھی جس میں ان پر ہندوستانی قومیت اور اس کے اثرات کا غلبہ نظر آتا ہے، ایک طرح کی جغرافیائی اور ملی کشمکش میں مبتلا تھے، خود ترانہ ہندی کو دیکھئے، آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا .............. .............. مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا لیکن اس کا آخری شعر دیکھئے: اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا یہ درد نہاں بالآخر کیا ہو سکتا ہے؟ اقبال کی شاعری کا آغاز باقاعدہ بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا اور ان کی نظم کوہ ہمالیہ مخزن کے پہلے شمارہ میں شائع ہوئی۔ سرسید احمد خاں کی وفات 1898ء میں ہوئی تھی اور اردو ہندی کے قضیہ کے بعد ان کو یقین ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان آئندہ اس ملک میں مل کر نہیں رہ سکتے اور بالآخر ان کو الگ ہونا ہی پڑے گا۔ یہی احساس اور بھی بہت سے محب وطن مسلمانوں میں بیدار ہونے لگا تھا۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے بھی اپنے مشہور مقالہ میں ملک کی اس تقسیم کی طرف اشارہ کیا تھا۔ 1905ء میں بنگالہ کی تقسیم اور پھر اس کی تنسیخ نے اس جذبے کو اور تقویت پہنچائی۔ اور1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی جس میں آگے چل کر 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد کے اجلاس میں اپنا وہ تاریخی خطبہ پڑھا جسے پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خطبہ کسی وقتی، ہنگامی یا جذباتی لمحے کی پیداوار نہ تھا۔ اس کے پس منظر میں ایک طویل مطالعہ، مشاہدہ، غور اور فکر شامل ہیں۔ علامہ نے فرمایا تھا1؎: ’’ میں نے اپنی زندگی کا زائد حصہ اسلام، اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے تعلیمات اسلامی کی روح سے (جیسا کہ مختلف زبانوں میں اس کا اظہار ہوا ہے) رہا ہے، میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے کہ ایک عالمگیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔ لہٰذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ مسلمانان ہندوستان بہرحال اپنی اسلامی روح کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں، میں کوشش کروں گا کہ آپ کے فیصلوں کی رہنمائی کی جائے اسی بصیرت کی روشنی میں، خواہ اس کی قدر و قیمت کچھ بھی ہو، آپ کے دل میں اسی بنیادی اصول کا احساس پیدا کر دوں جس پر میری رائے میں تمام فیصلوں کا عام انحصار ہونا چاہیے۔‘‘ 1؎ حرف اقبال، مرتبہ لطیف احمد شروانی، المنار اکادمی لاہور جولائی 1947ء طبع دوم، ص17,18 ترجمہ سید نذیر نیازی یہ بنیادی اصول کیا ہے، اسے بھی علامہ کی زبان سے سنیے: ’’ حب الوطنی بالکل طبعی صفت ہے اور انسان کی اخلاقی زندگی میں اس کے لیے پوری جگہ ہے۔ لیکن اصل اہمیت اس کے ایمان، اس کی تہذیب اور اس کی روایات کو حاصل ہے، اور میری نظر میں یہی اقدار اس قابل ہیں کہ انسان ان کے لیے زندہ رہے اور ان کے لیے ہی مرے نہ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے جس سے اس کی روح کو کچھ عارضی ربط پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ 2؎ سو یہی وہ بنیادی اصول تھا جس تک رسائی کے لیے علامہ اقبال اپنے پہلے دور میں کشمکش سے گزرے۔ بانگ درا کے حصہ اول میں اس کشمکش کا اظہار جا بجا ہوا ہے۔ کل رنگین میں یہ اشعار دیکھیے: میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے مطمئن ہے تو، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں اور صدائے درد کے یہ اشعار دیکھئے: سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسایاں تو اک قرب فراق آمیز ہے ....................... ........................... 2؎ ایضاً ص16 حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینہ سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے اور جس نظم کا عنوان شمع ہے اس کا پہلا شعر: بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع درد مند فریاد در گرہ صفت دانہ سپند اور ماہ نو کا یہ شعر: نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں زہد و رندی کے یہ آخری چار شعر ہیں: گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے موج دریا کے عنوان سے جو نظم ہے اس کے یہ دو شعر دیکھئے: ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے کیوں تڑپتی ہوں یہ پوچھے کوئی میرے دل سے زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں ارباب نظر تنگی دریا اور وسعت بحر کے استعاروں اور علامتوں سے ہی اس کشمکش کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو محدود جغرافیائی وطنیت اور آفاقی ملت اسلامیہ کے تصور کی وجہ سے شاعر کو پریشان رکھتی ہے۔ یہ چند مثالیں بانگ درا کے حصہ اول سے لی گئی ہیں جن میں 1905ء سے پہلے تک کا کلام موجود ہے۔ 1905ء سے 1908ء تک دوسرا دور قیام انگلستان کا ہے۔ اس دور میں عبدالقادر کے نام، صقلیہ کے علاوہ 1907ء کی یہ غزل دیکھئے: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا اور وہ راز کیا تھا: کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خار زار ہو گا سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا اور پھر اس بیداری اور ہوشیاری کا پیغام علامہ کی شاعری، ان کے خطبات، مقالات، مضامین اور ان ملفوظات میں نہایت واضح طور پر ملتا ہے۔ ملفوظات کا دوسرا ایڈیشن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے مرتب کیا اور اس میں صرف دو مضامین کا اضافہ کیا۔ ایک مضمون حکیم مشرق کے عنوان سے حکیم محمد حسن قرشی صاحب کا ایک اور ابا جان کے عنوان سے ڈاکٹر جاوید اقبال کا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا مضمون پہلے ایک ریڈیائی تقریر کی صورت میں تھا، ملفوظات کے طبع دوم میں شامل ہو ااور پھر ڈاکٹر جاوید اقبال کے مقالات کے مجموعہ مئے لالہ فام میں کسی قدر حذف و اضافہ کے بعد شائع ہوا۔ میں نے متن کی بنیاد طبع اول پر رکھی ہے۔ حکیم محمد حسن قرشی صاحب کا مضمون حکیم مشرق طبع دوم سے لیا ہے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے مضمون کے لیے مئے لالہ فام میں شامل مقالہ کو متن بنایا ہے۔ پہلا اور دوسرا ایڈیشن دونوں کمیاب کیا تقریباً نایاب ہیں۔ جب ملفوظات کے متن اور حواشی کی ترتیب و تدوین میرے سپرد ہوئی تو میرے عزیز دوست اور رفیق مرحوم پروفیسر سید وقار عظیم نے بڑی تلاش سے پنجاب پبلک لائبریری سے طبع دوم کا ایک نسخہ میرے لیے حاصل کیا۔ خوش قسمتی سے پھر طبع اول کا نسخہ مجھے کراچی یونیورسٹی کے کتب خانہ سے مل گیا۔ میں نے اسی نسخہ کو متن میں استعمال کیا ہے۔ اس عرصے میں علامہ کے ملفوظات کے متعلق بعض چیزیں شائع ہوئیں۔ ان میں بعض مضامین ایسے تھے جن کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ خیال درست ہے کہ علامہ کے انتقال کے بعد وہ علامہ کے عقیدت مندوں، نیاز مندوں، مشیروں میں شامل ہو گئے اور بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ علامہ شعر کہنے میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بعض نے ان کی کبوتر بازی، بٹیر بازی اور پتنگ بازی کے بارے میں اپنی اختراعات سے بزعم خود مطالعہ اقبال میں بڑا اضافہ کیا۔ ایسی تحریروں کو اس متن میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن بعض اور تحریریں معتبر ایسی شائع ہوئیں جن سے اس متن میں اضافہ ہوا۔ ان میں ایک روزگار فقیر ہے جس سے علامہ کے اہم ارشادات کو اضافہ متن کے تحت شامل کر لیا گیا ہے۔ دوسرا ماخذ ممتاز حسن مرحوم کی مرتبہ اقبال اور عبدالحق ہے۔ اس سے بھی متن میں مفید اضافے ممکن ہوئے ہیں۔ ملفوظات کے بعض مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں جن میں نذیر نیازی صاحب کا مجموعہ بھی شامل ہے۔ یہ مجموعہ عام طور پر دستیاب بھی ہے اور اس پر ضروری حواشی بھی موجود ہیں اس لیے اس کے متن یا اس متن پر دوبارہ حواشی تحریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بعض مجموعے زیر ترتیب ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے ملفوظات اقبال کی صحبت میں او رجناب صوفی تبسم کی یادداشتیں، امید ہے کہ یہ ملفوظات حواشی اور تعلیقات کے ساتھ شائع ہوں گے۔ اب میں مختصر طور پر اس تصویر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ان ملفوظات کو پڑھ کر ابھرتی ہے۔ علامہ اقبال ان ملفوظات میں ایک مرد مومن کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان کے ایمان و ایقان کی اساس عشق رسولؐ ہے جن کے واسطے اور وسیلے سے اور جن کے وجدان کی اعلیٰ ترین شکل وحی کے ذریعے سے کلام الٰہی ہم تک پہنچا ہے۔ عشق رسولؐ میں اقبال کا غلو انتہائی شدید ہے اور ان کی نظم و نثر اور ان کے مکاتیب و مقالات میں جا بجا موجود ہے۔ ایسا ہونا یوں بھی ضروری تھا کہ بغیر اس کے کوئی مسلمان سچا اور پورا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی کامل ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت انسؓ سے بھی بعینہ یہ حدیث مروی ہے مگر اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں: ’’ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ ایک اور روایت میں بھی رسولؐ سے محبت کا ذکر خدا کی محبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی کا مزہ پائے گا، اللہ اور اس کا رسولؐ اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور جس کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے واسطے اس سے محبت کرے اور کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو۔ قرآن حکیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی عزت و احترام کا جا بجا ذکر ہے۔ سورہ الاحزاب (آیت6) میں ارشاد ہوا ہے: ’’ النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم‘‘ نبی مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔ اور سورہ الحجرات (5-6) میں ارشاد ہوا ہے: ’’ یایھا الذین امنو لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھرو الہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون‘‘ مسلمانو! تم اپنی آوازیں رسولؐ خدا کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ ان سے بہت زور سے بات چیت کیا کرو، جیسا کہ تم آپس میں کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کی وجہ سے تمہارے کیے کرائے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ ملفوضات میں اس کی مثالیں بکثرت ہیں، مثلاً محمد حسین عرشی صاحب سے سرمد کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور وہ مشہور شعر سامنے آیا: ملا گوید احمد بفلک بر شد سرمد گوید فلک با احمد در شد کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شعر ہے جس پر بعض علماء کا اعتراض تھا کہ اس میں معراج جسمانی سے انکار ہے اور ا سکی بناء پر سرمد کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ علامہ نے فرمایا کہ یہ شعر مولانا روم کے اس شعر سے ماخوذ ہے: تو مخور غم کہ نگردد یاوہ او بلکہ عالم یاوہ گردد اندرو علامہ نے وہ واقعہ بیان کیا جو اس شعر سے متعلق مولانا روم نے نظم کیا ہے۔ عرشی صاحب فرماتے ہیں: ’’ یہاں پہنچ کر حضرت علامہ ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔۔ مرزا جلال الدین فرماتے ہیں:‘‘ ’’ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس (حالی) سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں وہ بند: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا سے شروع ہوتے ہیں یا جو مسدس کے آخر میں ہیں انہیں بطور خاص مرغوب تھے۔ ان کو سنتے ہی ان کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے، اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں، حضور رسالتمآب کے ساتھ انہیں جو وابستگی تھی اسی کی وجہ سے انہیں اولیائے کرام سے بھی خاص عقیدت تھی۔‘‘ غرض اقبال کے یہاں عشق رسولؐ کی جو نوعیت ہے وہ ان کے کلام نظم و نثر میں اتنی واضح ہے کہ یہاں اس کی تائید میں مزید مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے علامہ نے قرآن حکیم، فقہ اسلامی، سیاست اسلامی تاریخ، تہذیب و تمدن اسلامی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس سے ان پر اسلام کی عالمگیر حیثیت کا انکشاف ہوا تھا۔ قرآن کو وہ تعلیمات اسلام کا ماخذ سمجھتے تھے او رمسلمانوں کے بلکہ دنیا کے تمام مسائل کا حل قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرنا چاہتے تھے۔ قرآن اور حدیث سے ان کی دلچسپی اور وسعت مطالعہ کا اندازہ ملفوظات میں ان مباحث پر ان کے خیالات اور بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آخر عمر میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ قرآن حکیم کے بارے میں وہ اپنے حواشی قلمبند کر دیں اور بقول خود یہ سب سے بڑا تحفہ تھا جو وہ عالم اسلام کو پیش کر سکتے تھے۔ اس کے لیے جس سکون و اطمینان، فارغ البالی، وسائل و ماخذ کی فراہمی درکار تھی وہ اس کے لیے برادر کوشش کرتے رہے۔ اور آخر میں سرسید راس مسعود مرحوم کی کوشش سے بھوپال میں نواب حمید اللہ خاں مرحوم کی سرپرستی میں کوئی صورت اس منصوبہ کی تکمیل کی پیدا ہو رہی تھی کہ پہلے راس مسعود اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد علامہ کا خود انتقال ہو گیا اور یہ منصوبہ ہماری بدنصیبی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ افسوس کہ اب ہم میں کوئی شخص ایسی بصیرت کا مالک نظر نہیں آتا جو اس اہم تقاضے کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کا اظہار بڑے کرب کے ساتھ علامہ نے 19مارچ1935ء کو عرشی صاحب کے نام اپنے ایک خط میں کیا ہے جس کا ایک حصہ یہاںنقل کیا جاتا ہے: ’’ آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں، مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے؟ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں، اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے: کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحب سرور نہیں بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے۔ اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوئے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔۔۔۔ محمد اقبال‘‘ چنانچہ عرشی صاحب علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں عرشی صاحب لکھتے ہیں: ’’ میرے ان کے مکالمات کا غالب حصہ باریک روحانی، متصوفانہ اور قرآنی مسائل سے متعلق ہوتا ہے۔‘‘ چنانچہ عرشی صاحب نے ان بعض ملاقاتوں کی تفصیل اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔ ایک اور مسئلہ جو ان ملفوظات کا موضوع ہے علم کی حقیقت ہے۔ حواشی و تعلیقات میں ہم اس مسئلہ پر کسی قدر تفصیل سے لکھ رہے ہیں اس لیے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں، صرف عرشی صاحب کے حوالہ سے علامہ کا یہ قول نقل کرنا کافی ہے: ’’ فرمایا: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک ہمارے اکتسابی معلومات کا ذخیرہ، ہم خود مخلوق الٰہی ہیں اور ہمارے اکتسابی آلات علمیہ ہماری مخلوق یعنی ہمارا علم مخلوق کا مخلوق ہے۔ پس ایسے علم کو علم الٰہی سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرا وہ علم ہے جو خواص کو عطا ہوتا ہے۔ وہ بے منت کسب، قلب و روح کے اعماق سے ابلتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا، اس علم کی کلید کیا ہے؟ فرمایا ’’ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من زکھا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اس پر علم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، تزکیہ نفس کا طریق کیا ہے؟ اس پر آپ نے صوفیہ کے بعض مشاغل کی طرف اشارہ کیا۔ اس مختصر حوالے سے جہاں علم کے باب میں علامہ اقبال کے خیالات کا سراغ ملتا ہے وہاں تصوف اور صوفیہ کے بارے میں بھی ان کے نقطہ نظر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ علامہ اقبال تصوف اور صوفیوں کے خلاف تھے۔ بیشک علامہ اقبال ان بعض خیالات سے متفق نہ تھے جو بعض صوفیہ سے منسوب ہیں لیکن وہ صوفیانہ تجربے اور واردات روحانی کے منکر نہ تھے بلکہ وہ تصوف جو اسلامی ہے اور جس کا ماخذ قرآن حکیم، احادیث نبوی، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی پاک زندگی اور اکابر صوفیا کی تعلیمات ہیں۔ وہ ان کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ایسے صوفیہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ابو الحسن علی الہجویری داتا گنج بخش اور حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ اور بعض دوسرے نام شامل ہیں۔ منصور حلاج اور سرمد کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ ہم اس مسئلہ پر تفصیل سے اپنی کتاب اقبال اور مسلک تصوف میں بحث کر چکے ہیں جو علامہ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں شائع ہو رہی ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اس میں اس مسئلہ کا تفصیلی مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ملفوظات کا ایک اور اہم موضوع ملکی اور ملی سیاست ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ملفوظات کم ہیں تاہم علامہ کا نقطہ نظر یہاں بھی وہی ہے جو ان کے خطبات اور تقریروں اور ان کی نظموں میں ہے۔ یعنی وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اپنے اسلامی مزاج اور روایات سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے اور ایک باعزت زندگی بسر کرنے کے لیے انہیں اپنی ملی حیثیت مستحکم کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی اور جماعت یا گروہ میں کم نہ ہو جائیں اور یہی مطالبہ پاکستان کی اساس ہے۔ 3؎مرزا جلال الدین اپنے مضمون مشمولہ ملفوظات میں فرماتے ہیں: ’’ میں سیاسی مسائل میں ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال تھا۔ ان کی طرح میرا بھی یہی ایمان تھا کہ مسلمان کسی دوسری سیاسی جماعت میں مدغم ہو کر اپنی ملی حیثیت کو کھو دینے کی بجائے اپنی سیاسی تنظیم کے لیے خود کوشش کریں۔ چنانچہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے لندن میں انہیں 3؎ اس موضوع پر علامہ کے خطبات اور تقاریر کا ایک اچھا مجموعہ حرف اقبال ہے۔ مرتب لطیف احمد شروانی، محولہ بالا مقاصد کے پیش نظر پان اسلامک سوسائٹی کے نام سے ایک نیم سیاسی انجمن قائم کر رکھی تھی جس کے جنرل سیکرٹری سر عبداللہ سہروردی تھے اور سر سلطان احمد اور میں جائنٹ سیکرٹریز۔‘‘ ’’ اقبال کا تفکر و تدبر محض اس اسلامی سیاست تک محدود تھا جس کا ذکر کلام پاک میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اسی سیاست کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا اور اسی نکتہ پر ان کے خیالات ابتدا سے آخر تک مرکوز رہے اور یہ نکتہ وحدت ملی تھا اس کے سوا وہ کسی اور سیاست کو درخور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔‘‘ اس کے باوجود وہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کی سیاست سے بالکل بے تعلق نہ تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے قاری کو منجمد اور ماخذات کے اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی خط و کتابت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جس تصور کو انہوں نے اپنے الہ آباد کے خطبہ میں پیش کیا تھا وہ جن مراحل سے گزرا اسے دیکھنے کے لیے وہ دس سال سے زیادہ زندہ نہ رہے لیکن ان کے انتقال کو دس سال گزرے تھے کہ ان کا خواب ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کی صورت میں وجود میں آ گیا۔ زبان کا مسئلہ بھی ہمارا ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس باب میں علامہ کے خیالات کا سراغ ان مکاتیب میں ملتا ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کو لکھے ہیں4؎ ان میں بعض کے اقتباسات دیکھئے: 4؎ بحوالہ اقبال نامہ حصہ دوم، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، طبع لاہور 1951ء ’’ بہرحال اگر اردو کانفرنس کی تاریخوں تک میں سفر کے قابل ہو گیا تو انشاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا لیکن اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس ہم معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں۔ اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تاہم میری لسانی عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں۔‘‘ جس کانفرنس کا اس خط میں ذکر ہے وہ علی گڑھ میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ہوئی تھی اور راقم السطور اس وقت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو کی انجمن اردوئے معلی کا سیکرٹری تھا اور اس حیثیت سے کانفرنس کے بعض امور اس کے ذمہ بھی تھے۔ یہ بڑا نازک دور تھا۔اور اردو ہندی کا جھگڑا اپنی انتہائی شدت پر تھا اور اس کانفرنس میں انجمن کی تنظیم نو اور اس کا دفتر دہلی منتقل کرنے کا مسئلہ در پیش کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں چند تجاویز پیش کی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں اردو کی ترقی کے لیے پنجاب (لاہور) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایک اور خط میں علامہ لکھتے ہیں: ’’ آپ کی تحریک سے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ بہت سے اعتبار سے یہ تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سرسید رحمتہ اللہ علیہ نے کی تھی۔‘‘ یہ اشارہ ظاہر ہے تحریک اردو کی طرف ہے۔ ایک اور خط میں فرماتے ہیںـ: ’’ اردو زبان کے تحفظ کے لیے جو کوشش آپ کر رہے ہیں، ان کے لیے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔ مگر آپ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری امداد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے۔‘‘ ملفوظات میں اقبال اور عبدالحق مرتبہ ممتاز حسن مرحوم کے حوالے سے جو اضافے کئے گئے ہیں، وہ اضافہ متن کے عنوان سے شامل ہیں۔ ان کے دو اقتباسات خاص طور پر قابل توجہ ہیں: ’’ 2فروری 1938ء کی نشست میں نذیر نیازی نے اقبال کے کہنے پر قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر پڑھ کر سنائی جو اسی روز اخبار میں چھپی تھی۔ اقبال اس تقریر کی دو باتوں پر خوش ہوئے۔ ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر‘‘ گویا علامہ اقبال اردو کو صرف ایک زبان، یا صرف کسی ایک علاقے کی زبان، یا صرف ایک گروہ کی زبان نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک ’’ تہذیب‘‘ کا نام اور علامت تھی جو برصغیر کی اسلامی تہذیب ہے۔ اردو کی اہمیت کے بارے میں اسی حوالے سے ایک قول اور دیکھئے: 7مارچ کی نشست میں اقبالؒ کا ارشاد تھا کہ انگریزوں نے باوجود سلطنت مغلیہ کے زوال و انتشار کے۔۔۔ یہ ملک مسلمانوں سے چھینا تھا مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی غلبہ کو وہ اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے بڑی تن دہی سے اردو کو فروغ دیا تاکہ مسلمانوں کا رشتہ فارسی اور عربی سے کٹ جائے اور وہ اپنے علمی اور تہذیبی ورثہ سے محروم ہو جائیں مگر پھر اسی اردو سے جب مسلمانوں کے شعور ملی کو تقویت پہنچی اور وہ ان کی قومی زبان بن گئی تو یہ امر طبعاً حکومت کو ناگوار گزرا اور اب اس نے اردو کے مقابلہ میں ہندی کی حمایت شروع کر دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے شعور ملی کی بیداری اور تقویت میں اردو کی اہمیت و حیثیت کا پورا اندازہ تھا۔ فنون لطیفہ، شاعری، موسیقی، مصوری، تہذیب مغرب، سوشلزم کمیونزم وغیرہ تحریکات، سماج میں عورت کی حیثیت غرض کتنے ہی موضوعات اور ہیں جن پر علامہ نے اپنی شاعری اور مقالات و مکاتیب میں اظہار کیا ہے اور ان ملفوظات سے ان کی مزید تائید، تشریح اور توضیح ہوتی ہے۔ ان سب پر اختصار سے گفتگو بھی طوالت کا باعث ہو گی۔ قارئین متن اور حواشی و تعلیقات کے حوالہ سے خود ان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا ہے ان ملفوظات میں علامہ کی شخصیت اور ان کے معمولات کی تصویر مکمل کرنے کا سامان موجود ہے جو اور کسی ذریعے سے ممکن نہیں۔ آپ اس تصویر کو 5؎ اس موضوع پر ایک اچھا مطالعہ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ از ڈاکٹر معین الدین عقیل ہے۔ یہ مقالہ راقم السطور کی نگرانی میں تیار ہوا اور کراچی یونیورسٹی نے اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ اب اسے انجمن ترقی اردو نے شائع کر دیا ہے۔ (طبع1976ء کراچی) میرے تبصرہ کے بغیر دیکھئے۔ البتہ حمید اللہ خاں مرحوم نے ملفوظات کے طبع دوم 6؎ میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس پیش گفتار کو ختم کرتا ہوں: ’’ ان (اقبال) کی شاعری کے موضوعات عظیم الشان اور نا محدود ہیں لیکن پھر بھی اس میں ان کی شخصیت کا ہر رنگ منعکس نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر وہ ایک مبلغ تھے، اور ان کی شخصیت کا یہی پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو ان کی بلندی فکر، ان کے خلوص جذبات، ان کے جوش ایمان، ان کی چبھتی ہوئی طنز میں ہر جگہ جھلکتا ہے لیکن جن لوگوں کو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملتا رہا وہ جانتے ہیں کہ ان چار عناصر کے علاوہ مرحوم کی فطرت کی تعمیر میں کچھ اور اثرات بھی شامل تھے۔ ان کا لطیف مزاح جو ان کے شاعرانہ کلام میں نظر نہیں آتا، ان کی شخصی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ اسی طرح وہ محدود و مجبور مگر مضطرب بشریت بھی صرف اقبال کے مکالمات اور ذاتی احوال میں اپنی جھلک دکھاتی تھی جس کے پائے پر شاعر اسلام اور حکیم الامت کے مطلق انا کا منبر قائم تھا۔ یہی وہ منبر تھا جس سے اقبال اور اس کے نصب العینی مرد مومن کی ہم ضمیر آوازیں ایک آواز بن کر گونجتی تھیں۔‘‘ اور اب چند جملے حواشی، تصریحات اور تعلیقات کے باب میں دراصل ملفوظات اقبال کی ترتیب و تدوین و اشاعت جدید کی خدمت جب میرے سپرد ہوئی تو اصل کام یہی پیش نظر تھا، ملفوظات میں جن اشخاص، امصار، تحریکات، مسائل اور واقعات کا ذکر ہے 6؎ ملفوظات طبع دوم محولہ بالا ص6-7 ان کے حوالے درج کیے جائیں اور بعض باتیں جو اشاروں میں ہیں ان کی وضاحت ہو جائے۔ میں نے یہ کام دیانت داری سے اپنی بضاعت کے مطابق انجام دیا ہے اور پاورقی حوالوں میں ماخذ کا ذکر کر دیا ہے۔ اس لئے فہرست ماخذات آخر میں دوبارہ نقل نہیں کی گئی۔ کراچی 10جون1977ء ابو اللیث صدیقی ٭٭٭ پیش لفظ لاہور کی فضا اردو ادب کے لیے ہمیشہ سازگار رہی ہے۔ نت نئے رسائل، اشاعتی ادارے اور انجمنیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے علاوہ صاحب ذوق حضرات کی مخصوص و محدود صحبتیں بھی ادب کی خدمت میں ہاتھ بٹاتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مخصوص انجمن حلقہ نقد و نظر تھی جس کے روح و روان پروفیسر عبدالواحد، پروفیسر حمید اللہ خاں اور ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ راقم الحروف بھی حلقہ مذکور سے متعلق تھا۔ اس کتاب کے تمام مضامین اس حلقے کے مختلف اجلاس میں پڑھے گئے تھے۔ یہ اجلاس پروفیسر عبدالواحد کی قیام گاہ پر ڈاکٹر سعید اللہ کی صدارت میں ہوا کرتے تھے جن میں لاہور کے نوجوان ادیب اور دوسرے شائقین شامل ہوتے تھے۔ یہ مضامین خاص طور پر اس انجمن کے لیے لکھے گئے تھے اور بعد میں بعض بزرگوں کی رائے سے کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے۔ ٭٭٭ دیباچہ کارلائل نے ہیرو اور ہیرو پرستی کے موضوع پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ نہ جانے کیا کچھ اس میں لکھا۔ پڑھنے والے ہیرو پرستی کے بارے میں صحیح اور غلط دونوں طرح کے نتیجے اخذ کرتے رہے لیکن زندگی کے مختلف شعبوں سے جن باعظمت لوگوں کو اس نے اپنا موضوع بنایا، ان کی شان میں فرق آیا نہ آن میں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اقبال کے متعلق بھی آپ شاید یہی بات کہہ اٹھیں اس لیے اس تمہید کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اقبال اردو ادب کا ہیرو ہے۔ فارسی ادب کا بھی ہیرو ہے اور اس کے علاوہ نہ صرف مسلمانوں کا ہیرو ہے بلکہ اس کے مرد مومن کے نظریے کو ہم لفظ مومن کے سطحی مفہوم سے محدود نہ کر دیں اور مومن کے معنی ایک آئیڈیل کے سمجھیں، اسے انسانیت کا آدرش جانیں تو اس صورت (میں) وہ انسانیت کا ہیرو بھی ہے۔ ہیرو اور ہیرو پرستی کچھ تو ذاتی خصائص کی بلندی کا نتیجہ ہوتی ہے اور کچھ ایک فر دکے لیے اجتماع کے احساس احسان مندی کا۔ اقبال کا بھی یہی حال ہے۔ وہ ایک بڑا شاعر تھا، وہ ایک بلند پایہ فن کار تھا۔ یہ اس کے ذاتی خصائص تھے۔ اس نے اپنے خیالات اور اپنی تعلیم و تبلیغ سے لوگوں میں ایک نئی روح پھونکی مردہ دلوں میں جان ڈال دی۔ وہ اپنے خیالات کو ایک پیغام کی صورت میں ہمارے سامنے لایا۔ اس کے لیے ہم اس کے احسان مند ہیں۔ ہم نے اسے پیغمبر سمجھا لیکن اس کے اپنے سامنے جس پیغمبر کی زندگی مشعل راہ تھی وہ خود اس کا ایک ہلکا سا پر تو تھا اور اس کی طرح اسے خود بھی تسلیم تھا کہ میں بھی تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ اقبال کی ذہنی بلندی نے یہ ظاہر کرنے میں کوئی عار نہ محسوس کی۔ لیکن ہم ذہنی لحاظ سے اتنے بلند نہ تھے۔ ہم یہ بھول گئے کہ وہ ایک شاعر ایک پیغامبر ہوتے ہوئے بھی ایک انسان ہے اور جس طرح ہم اس کی شاعری، اس کے پیغام سے مستفید ہو سکتے ہیں، اس طرح اس کی انسانیت کا مطالعہ بھی نہ صرف اس کے جوہر خدا داد کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے، بلکہ ہمیں زندگی میں آگے بڑھا سکتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے کچھ لوگوں نے اس پہلو سے اقبال پر غور کیا۔ اپریل 1938ء میں حضرت علامہ کا وصال ہوا۔ اس سال کے آخر تک یہ کتاب، جس میںلوگوں کے مشاہدے تجربے اور مطالعے موجود تھے، اشاعت کے لیے تیار تھی۔ لیکن مسودہ پبلشر کے حوالے کر دینے کے باوجود مرتب کو ترجمانی کے لحاظ سے کچھ جھجھک پیدا ہوئی کیونکہ اس وقت اقبال کا وصال ایک تازہ ملی حادثہ تھا۔ اس وقت فضا میں تعزیت کی جذبات پرستی تھی ممکن تھا کہ اس وقت اگر یہ کتاب شائع کی جاتی تو اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا۔ عام انسانیت اپنی جبلی کمزوری کے باعث ایک ہیرو(کو) ایک انسان کی صورت میں دیکھنا پسند نہ کرتی۔ لیکن آج۔ آج ہم اقبال کے جانے پر جتنے آنسو بہانا چاہتے تھے بہا چکے۔ آج ہم ٹھنڈے دل سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی موت اتنا بڑا حادثہ نہ تھی جتنا بڑا معجزہ اس کی زندگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ التواء میں پڑی ہوئی کتاب آج آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ پیش کرنے والے کو یقین ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد ہم نہ صرف شاعر اعظم کے فن کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ شاعر اعظم کی شخصیت کو سمجھنے میں بھی یہ ہماری ممد و معاون ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ شاعر اعظم اور اس کے پیغام کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کو سمجھنا لابدی ہے۔ محمود نظامی ٭٭٭ شیخ سر عبدالقادر کیف غم اقبال کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا ’’ کیف غم‘‘ ہے اور یہی کیفیت مرحوم کے ذاتی خصائل میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ جو لوگ ان سے ملتے رہے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی ظرافت اور ہنسنے ہنسانے کی عادت کے ساتھ ان میں یہ عجیب وصف تھا کہ سنجیدگی اور متانت بیٹھے بیٹھے ظرافت پر غالب آ جاتی تھی اور چہرے پر یکایک غم آمیز اثرات نظر آتے تھے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جیسے کوئی درد انگیز خیال دفعتہ دل میں آ گیا ہے۔ یہ رنگ ان کے اشعار میں بہ کثرت پایا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے کلام میں اثر گداز دل سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ غالب1 ؎ کا یہ شعر اس خیال کی ترجمانی کرتا ہے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی! یہ نظریہ اقبال کے اس مصرعہ میں اس سے بھی بلند مقام پر پہنچ گیا ہے۔ عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم باوضو رہنا اقبال کے نزدیک شاعری میں غم کا عنصر شامل ہونا مشرقی شاعری کو مغربی شاعری سے ممیز کرنے والی صفت ہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا ہے: پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ ’’ کیف غم‘‘ نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے یہی فرق مشرق اورمغرب کے اور فنون کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے اور خاص کر دونوں کی موسیقی میں زیادہ واضح ہے۔ مغربی موسیقی جذبات طرب کو ابھارنے کے لیے زیادہ موثر ہے اور مشرقی موسیقی میں عموماً جذبات غم کی تحریک زیادہ ہے۔ شعر سے رغبت کے ساتھ اقبال کو موسیقی2؎ کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کو علم موسیقی سے گہری واقفیت پیدا کرنے کا تو موقع نہیں ملا، مگر ان کے کان موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے ا ور کوئی گاتا ہو تو وہ اس سے ایسا لطف اٹھاتے تھے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے۔ قدرت نے خود انہیں بھی اچھا گلا عطا کیا تھا، اس لیے کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے جس سے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔ وہ ہر بحر کے لیے ایسی موزوں لے چن لیتے تھے کہ سننے والے مسحور ہو جاتے۔ اس ترنم کے وقت ان پر اکثر غم کی حالت طاری ہوتی تھی اور سننے والے بھی اس سے اثر پذیر ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے۔ جب انہوں نے بڑے مجمعوں اور قومی جلسوں میں شریک ہونا شروع کیا تو پہلے اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ لوگوں کو خبر ہو گئی کہ وہ خوش آہنگ بھی ہیں تو فرمائشیں ہونے لگیں کہ لے سے پڑھیں۔ دوستوں کے کہنے سننے سے وہ مان گئے۔ پھر تو یہی چرچا ہو گیا۔ جب کبھی وہ تحت اللفظ پڑھنا چاہیں، لوگ انہیں ترنم پر مجبور کر دیں۔ لاہور کی مشہور تعلیمی انجمن ’’ حمایت اسلام‘‘ کے سالانہ اجلاس اکثر ان کے کلام سے مستفید ہوتے تھے۔ پہلے پہل جب ان کا کلام ترنم سے وہاں سنا گیا، تو کئی موزوں طبع طلبا اور بعض دوسرے شعرا کو شوق ہوا کہ وہ ان کے طرز ترنم کا تتبع کریں۔ اب جسے دیکھو وہ اپنا کلام اسی طرز سے پڑھ کر سنا رہا ہے۔ خواجہ دل محمدؐ ایم اے جو اب اسلامیہ کالج میں ریاضیات کے پروفیسر ہیں اور شاعری میں بھی نام پیدا کر چکے ہیں، اس وقت طالب علم تھے اور اقبال کی آواز کا نمونہ پیش کرنے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے تھے۔ اب بھی اکثر مجالس میں ان کی لے سننے میں آتی ہے، مگر اس میں وہ ابتدائی رنگ باقی نہیں۔ ان دنوں دہلی کے شاہی خاندان کے ایک نامور فرد مرزا ارشد گورگانی 4؎ مرحوم زندہ تھے وہ بھی انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی قومی نظمیں سنایا کرتے تھے جو بہت مقبول ہوئی تھیں۔ مرزا صاحب ہمیشہ تحت اللفظ پڑھتے تھے۔ انہوں نے اقبال کی روز افزوں قبولیت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ اقبال کی خوش آہنگی اس کی نظم کو پر لگا رہی ہے اور اپنی ایک نظم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرعہ لکھا۔ نظم اقبالی نے ہر اک کو گویا کر دیا یہ بات تو درست تھی کہ بہت سے لوگ اقبال کو دیکھ کر ترنم پر آمادہ ہو گئے تھے مگر اس کی قبولیت کی اصلی وجوہ اور تھیں جو اس وقت کے کلام میں بھی موجود تھیں اور بعد کو زیادہ پختہ ہو گئیں۔ انجمن کا ایک اجلاس جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ شکوہ‘‘ اپنے انداز خاص میں پڑھی، بہت لوگوں کو یاد ہو گا، جب ’’ کیف غم‘‘ کا سماں جلسے پر چھا گیا تھا۔ان کے بہت سے مداح پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے۔ اس وقت کی ایک اور بات خاص طور پر قابل دید تھی کہ اقبال کا معمر باپ 6؎ اس نظم کے سننے والوں میں موجود تھا۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے، مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علامات غم تھیں جو بیٹے کے چہرے پر تھیں۔ در حقیقت یہ خصوصیت بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی۔ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے، مگر ان کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پروا کر دے۔ 7؎ ساری عمر اپنی دس انگلیوں کی کمائی سے روزی کمائی۔ ’’دل بہ یار و دست بہ کار‘‘ پر ان کا عمل تھا۔ دل خدا کی طرف اور ہاتھ کام پر لگے رہتے تھے۔ ایک عرصہ تک اقبال اپنی نظمیں ترنم سے پڑھنے کے بعد فرمائشوں کی کثرت سے تنگ آ گئے اور انہوں نے یہ اصول بنا لیا کہ کسی بڑے مجمعے میں ترنم سے نہیں پڑھیں گے۔ بہت سے شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، مگر مرحوم جب کوئی ایسا فیصلہ کر لیتے تھے، اس پر قائم رہتے تھے۔ اس لیے ان کی وفات سے برسوں پہلے یہ معمول ہو گیا تھا کہ کسی جلسے میں اگر وہ اپنا کلام پڑھیں تو تحت اللفظ پڑھتے تھے اور دوستوں میں بیٹھے ہوئے بھی ترنم پر بہ مشکل مائل ہوتے تھے۔ اخیر میں انہوں نے خاص صحبتوں میں بھی ترنم سے پڑھنا بند کر دیا تھا۔ اس عرصہ میں ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے اور دو اور دوستوں کو ان کی نوائے درد انگیز سننے کا موقعہ ملا۔ وہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر افسوس آتا ہے کہ جس زمانے میں اقبال لے سے پڑھتے تھے۔ اس وقت آواز کے ریکارڈ بنانے کا رواج نہ تھا او رکسی کو خیال نہ آیا کہ ان کے پڑھنے کی بے نظیر طرز کو مستقل طور پر مقید کر لیا جاتا کیونکہ ایک خاص اثر ان کی آواز میں تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھا اور لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ جس موقعہ کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی تفصیل دلچسپ ہے میں نے دیرینہ اور بے تکلف دوستی کی بنا پر وہ جسارت کی جس سے اقبال اپنا کلام اپنے خاص انداز میں سنانے پر مجبور ہو گئے۔ 1933ء میں سید سر عبدالرؤف صاحب جو لاہور کی ہائیکورٹ کی ججی سے پنشن پا کر الہ آباد چلے گئے تھے، احباب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جسٹس سید آغا حیدر صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ جب وہ لاہور میں تھے تو میرے اور اقبال کے ان سے بہت مراسم تھے۔ ایک دن سید آغا حیدر صاحب نے مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کھانے کے بعد اقبال کی باتیں شروع ہوئیں تو سر عبدالرؤف نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ اقبال اپنی نظموں کو بڑے موثر انداز سے پڑھتا ہے، مگر افسوس کہ میں اتنے برس لاہور میں رہا، اور اقبال سے ملاقات بھی رہی، مگر مجھے ہمت نہ ہوئی کہ میں فرمائش کرتا کہ اپنا کلام لے سے پڑھ کر مجھے سنائیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ میں اکثر اقبال سے ملنے جاتا ہوں مگر افسوس کہ آپ ایسے وقت میں لاہور آئے جب اقبال نے اپنے پڑھنے کا انداز بدل دیا۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ تم اقبال کے پرانے دوست ہو، کوئی طریق بتاؤ جس سے ہم ان کا کلام ان کے پرانے انداز سے سن سکیں، میں نے کہا، کوشش کروں گا، گو کامیابی یقینی نہیں کہی جا سکتی۔ تجویز یہ ہوئی کہ اقبال کو اور مجھے پھر کسی دن کھانے پر بلائیں مگر کسی اور کو نہ بلائیں اور کھانے کے بعد سید عبدالرؤف اقبال سے کہیں۔ اقبال ان کا ادب کرتے ہیں، شاید ان کی فرمائش کو نہ ٹالیں۔ اس قرار داد کے مطابق ہم چاروں ایک شب جمع ہوئے میں جانتا تھا کہ سید عبدالرؤف کے کہنے پر اقبال صاف انکار تو نہیں کریں گے، مگر غالباً یہ کہیں گے کہ مجھے اب اپنا کلام یاد نہیں رہتا اور کوئی اشعار یاد بھی ہوں تو مسلسل یاد نہیں۔ اس کا علاج میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ میں گھر سے چلتے وقت ان کی اردو فارسی کتابیں اپنے ساتھ ایک کاغذ میں لپیٹ کر لے گیا تھا تاکہ اگر یہ عذر پیش ہو تو میں کتابیں پیش کر دوں۔ جب ہم سب کھانے سے فارغ ہوئے اور دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھے تو عبدالرؤف نے بہت اچھے لفظوں میں اپنی آرزو بیان کی اور کہا کہ مجھے اس لطف سے محروم نہ رکھیے جو آپ کے اور دوست پہلے اٹھا چکے ہیں اور یہ بھی کہا کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، معلوم نہیں پھر یہاں آؤں یا نہ آؤں۔ آپ سے یہ میری آخری درخواست ہے اس کا اقبال پر اچھا اثر ہوا، مگر انہوں نے وہی عذر پیش کیا جس کی مجھے توقع تھی۔ میں اٹھ کر وہ کتابیں لے آیا اور ان کے سامنے رکھ دیں۔ اب انہیں انکار کا راستہ نہ رہا اور طبیعت بھی کچھ مائل ہو گئی۔ انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ان دونوں ججوں کے لیے تو ان کی خوش نوائی ایک نئی چیز تھی، میں جو پہلے سن چکا تھا، میرے لیے بھی ایک گئی ہوئی نعمت واپس آئی۔ ہم اس طرح جھوم جھوم کر سننے لگے کہ اقبال کو بھی مدت کے بعد اس طرح پڑھنے کا مزا آ گیا اور ان کی طبیعت کی وہ خصوصیت بھی اپنا رنگ لائی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم تینوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ پڑھتے پڑھتے ان کے آنسو بہ نکلے، پھر ہم کیا پتھر تھے کہ ہمارے آنسو تھمے رہتے۔ رات کے کوئی دس بجے تھے جب اقبال نے پڑھنا شروع کیا۔ آدھی رات ہو گئی تو ہم سب کو پتہ چلا کہ اتنی دیر ہو گئی ہے۔ بادل نخواستہ یہ پر کیف صحبت ختم کرنی پڑی۔ دونوں سید بہت ممنون ہوئے۔ اقبال کو ان کی دوستی کا بھی پاس تھا اور سیادت کا بھی۔ اقبال کو بارگاہ رسالت سے ایسی عقیدت تھی کہ وہ ہر سید کا احترام کرتے تھے۔ جب ہم دونوں وہاں سے چلے تو اقبال نے شکایت کی کہ تم نے آج بری طرح مدت کا بندھا ہوا معمول مجھ سے ترک کرایا۔ میں نے کہا کہ سید عبدالرؤف کا دلی شوق ایسا تھا کہ انہیں محروم رکھنا ظلم تھا۔ اگر یہ بات آپ کے خلاف طبع ہوئی ہے تو مجھے معاف کریں۔ اقبال نے کہا، میں بھی اسی خیال سے پڑھنے پر آمادہ ہو گیا، مگر تمہیں اس شرط سے معافی ملتی ہے کہ کل پر یا آئندہ مجھے ایسی فرمائش نہ ہو۔ کل کی تاکید اس لیے کی کہ یہ قرار پایا تھا کہ دوسرے دن شام کو دونوں سید صاحبان نے پھر فرمائش کی مجھے ان کو بتانا پڑا کہ میرے اور اقبال کے درمیان جو معاہدہ ہو چکا ہے، اس کا پابند ہوں اور درخواست میں شریک نہیں ہو سکتا۔ حیف کہ کچھ عرصہ بعد گلے کی بیماری8؎ کی وجہ سے اس آواز کو صدمہ پہنچا کہ مرحوم اپنی عمر کے آخری سالوں میں معمولی بات چیت بھی بہت دھیمی آواز سے کر سکتے تھے۔ 1934ء میں جب میں لاہور سے رونہ انگلستان ہوا تو اقبال بیمار تھے۔ اسی بیماری کی وجہ سے وہ آکسفورڈ نہ آ سکے۔ جہاں انہیں لیکچر دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ہزہائی نس نواب صاحب بھوپال9؎ کو جو ان کے خاص قدر دانوں میں تھے، خیال آیا کہ ان کا معالجہ ہونا چاہیے۔ انہیں اپنے ہاں بلا کر مہمان رکھا اور علاج بھی کرایا جس سے قدرے افاقہ ہوا اور گفتگو میں کچھ آسانی پیدا ہو گئی مگر گلا پورا درست نہ ہو سکا۔ میں 1937ء میں چند ماہ کی رخصت لے کر لاہور گیا تھا۔ غنیمت ہے کہ مرحوم سے دو آخری ملاقاتیں نصیب ہو گئیں۔ ایک دن گیا تو وہ علیل تھے اور پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس چند نوجوان طلباء اور دو ایک دوست بیٹھے تھے۔ لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس کے چند روز بعد صحت کچھ بہتر ہوئی تو مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا اور میرے ساتھ کھانا کھایا۔ دو اور دوست بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ اس دن مزاج شگفتہ تھا اور کئی باتوں میں پرانے زمانے کی جھلک نظر آتی تھی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری دفعہ دیکھ رہا ہوں اور ان کی دلچسپ باتیں آخری دفعہ سن رہا ہوں۔ ہم ’’ کیف غم‘‘ کے لیے ان کی آواز تو اب نہیں سن سکتے، مگر ان کا کلام اس سے لبریز ہے اور اس کیف میں جوش زندگی ملا ہوا ہے۔ شیخ سر عبدالقادر10؎ ٭٭٭ اقبال کی یاد میں جب ہم کسی بڑے آدمی کی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں اور ان باتوں کو یاد کرتے ہیں جو اس نے ہم سے اور ہم نے اس سے کہیں تو ہم اپنے دل میں ایک قسم کی خوشی لیکن ساتھ ہی اگر ہم دیانتدار ہیں تو ایک قسم کی تشویش بھی محسوس کرتے ہیں۔ خوشی کی وجہ ظاہر ہے، اچھائی اور بڑائی کا ذکر دل خوش کن ہے، انسان فطرتاً انہیں پسند کرتا ہے، ان کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ پھر ہماری خود پسندی فخر کرتی ہے کہ بڑائی سے تعلق کی وجہ سے ہم بھی گویا بڑے ہو گئے۔ خوشی تو اس لیے ہوتی ہے، اور تشویش سی کچھ اس لیے کہ بڑائی کے سامنے ہم اپنی کمزوری اور کمی محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن زیادہ تر اس لیے کہ ہم جھجکتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم روایت کرنے میں چوک جائیں۔ جو کچھ بڑے آدمی نے کہا ہم نے جانے پوجھے اس میں کچھ اپنی طرف سے بڑھا گھٹا دیں۔ اس نے کہا کچھ ہو اور ہم نے سمجھا ہو کچھ اور۔ اور اگر ہمارا حافظہ زیادہ مضبوط نہ ہو تو جھجک اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال علیہ الرحمتہ کے متعلق میری بعینہ یہی حالت ہے۔ اس واسطے جب میرے عزیز دوست نے کہا کہ آپ ایک مضمون کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کی بابت اپنی ذاتی معلومات بیان کیجئے تو میں نے طرح طرح کے سچے جھوٹے بہانے بنائے۔ میں نے کہا میری معلومات کچھ ایسی ویسی ہیں۔ اس سے نہیں معلوم میرا کیا مطلب تھا؟ ایک تو مضمون لکھنے پر سستی کا اظہار دوسرے شاید یہ خیال کہ اور اصحاب بہت پتے کی باتیں لکھیں گے، بڑے علمی طریقے سے اقبال اور اس کے کلام کا ذکر کریں گے اور میرے لیے یہ کوشش کم از کم تکلیف دہ ہو گی۔ تیسرے یہ کہ مرحوم سے میں زیادہ تر ان کی عمر کے آخری حصے میں ملتا رہا۔ اس سے پہلے جتنا ان سے ملنا اور جتنا ان کو جاننا چاہیے تھا میں نہ جانتا تھا، پھر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ میں اقبال پر ایک مقالہ قلمبند کرنے اک تہیہ کروں اور پھر یہ کہ بہت سی باتیں جو انہوں نے مجھ سے پچھلے چند ماہ میں کیں مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہیں۔ لیکن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب1؎ جو ایک مصمم ارادہ لیے ہوئے تھے، ان پر ان دلائل اور براہین کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور اس کے بعدجب میں نے بے تکلفی سے ڈاکٹر صاحب سے اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر کیا تو ان حضرات نے مجھے دھر پکڑا کہ بس یہی بیان کر دیجئے، بس یونہی لکھ بھی دیجئے۔ اس کے بعد اگر میرا مضمون مضمون نہ ہوا، اگر وہ ایک مقالہ کی حد تک نہ پہنچ سکے، اگر وہ محض بات چیت سی ہو اور بہت سی اپنی ذات کے متعلق کہانیاں ہوں تو الزام بر گردن مرتب۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہہ سن کر اب مجھے اطمینان سا ہو گیا ہے، تشویش تقریباً غائب ہے اور خالص خوشی موجود۔ خوشی ہے کہ میں بھی ان ہزاروں اصحاب کے زمرے میں شریک ہوں جو شاعر ملت کے متعلق کوئی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوں۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا جب ہمارا محبوب شاعر زندہ تھا۔ ہندوستان بھر میں9جنوری 1938ء کو یوم اقبال کی دھوم مچی تو لاہور میں میں نے بھی ایک عام اجلاس میں انگریزی میں ایک مقالہ پڑھا اور اردو میں ریڈیو پر ایک تقریر نشر کی۔ اس کے دوسرے ہی دن میں مرحوم سے ملا اور میں نے کہا کہ شفیع صاحب نے جلسے کا خوب انتظام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آنکھیں جھپکیں اور میں نے دوبارہ کچھ ایسی ہی بات کہی تو ایک معنی خیز’’ ہوں‘‘ سے جواب دیا۔ اس پر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ میں نے محسوس کیا کہ ملک و قوم کو ان کے لیے اس سے بھی بہت کچھ اور کرنا چاہیے اور کرنا چاہیے تھا اور آئندہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ مجھے اور لاکھوں کی طرح یہ خوشی تھی کہ شکر ہے ہم نے کچھ کیا لیکن ساتھ ہی ان کی احسان مند’’ ہوں‘‘ نے شرمندہ کر دیا کہ کہان یہ عظیم الشان انسان اور کہاں ہم اسے کبھی کبھی یاد کرنے والے۔ اس تقریب سے پہلے میں نے کبھی اقبال کے متعلق نہ کوئی مضمون لکھا تھا نہ تقریر کی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ مجھے ایک زبردست نقاد اور ایک باقاعدہ فلسفی ہونا چاہیے جب کہیں جا کر میں اقبال کے متعلق کچھ کہہ سکتا ہوں، مگر میں خوش ہوں کہ اس وقت ان کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے میں نے کچھ لکھا اور اب پھر مجھے موقع ملتا ہے کہ کچھ لکھوں اور بے تکلفی سے لکھوں۔ اقبال کو پہلے پہل میں نے شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ سکول میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں شاید چونتیس پینتیس سال ہوئے دیکھا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے پہلی نظم جو میں نے سنی تصویر درد2؎ تھی۔ ایک حسین نوجوان ’’ ناک پکڑ‘‘ عینک لگائے شلوار اور چاندنی جوتی پہنے گریبان کا بٹن کھلا ہوا سٹیج پر کھڑا خوش الحانی سے ایک مخصوص لے میں پڑھ رہا تھا: نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری میری عمر نو دس سال کی ہو گی ’’ منت کش تاب شنیدن‘‘ نے تو مجھے قطعاً مرعوب اور خاموش کر دیا گو ’’ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری‘‘ سے لطف آیا۔ یہ یاد نہیں کہ اس کے صحیح معنے بھی سمجھ میں آئے کہ نہ آئے لیکن ہم نوعمروں کی ٹولی نے بھی خوب سر ہلایا۔ اتنے میں اقبال اپنے شعر گاتے گئے۔ ہم لحن و حن سے تو واقف نہ تھے، ہم تو اسے محض گانا سمجھتے تھے اور ہم بغیر سمجھے شریک محفل رہے یہاں تک کہ ایک ایک شعر بکنے لگا۔ اقبال اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے، ایک نوجوان نے بڑھ کر شاید پندرہ روپے میں ایک شعر خرید لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ اقبال کا گورنمنٹ کالج کا ایک ہندو شاگرد ہے۔ یہ رقمیں سب انجمن حمایت اسلام کے چندے میں ادا ہوتی تھیں۔ اقبال کا دیدار پہلی بار میرے لیے۔ اسے ’’ ملاقات‘‘ سمجھ لیجئے، ہمارے لیے اس زمانے میں یہ ملاقات سے کم نہ تھا۔ اس کے بعد ’’ آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ‘‘ 3؎ یاد آتا ہے۔ یہ اقبال کی پہلی نظم تھی جو میں نے یاد کی اور جب ’’ بانگ درا‘‘ کے چھپنے پر میں نے اسے بدلا ہوا پایا تو اسے محض تھوڑا سا پڑھ کر فوراً حکم لگا دیا کہ نظم خراب ہو گئی ہے۔ کہاں وہ آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ اور کہاں یہ ’’ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کامل کے گانا‘‘ کیا ہم سب کو’’ بہاڑوں‘‘ سے ’’جھاڑیاں‘‘ اور ’’ سب کے گانے‘‘ سے’’ اپنا آشیانہ‘‘عزیز تھا؟ کچھ بھی ہو پرانی جانی پہچانی ہوئی چیز نئی اصلاح شدہ چیز سے کہیں زیادہ مرغوب و محبوب تھی۔ کچھ عرصہ تک بانگ درا پڑھتے رہنے کے بعد نئی چیزوں سے انس پیدا ہوا اور اکثر اصلاحیں سمجھ میں آنے لگیں۔ میرے والد جسٹس شاہدین 4؎ مرحوم سے اقبال کے خاص تعلقات تھے۔ میاں صاحب جب 1890ء میں ولایت سے بیرسٹر بن کر واپس آئے اس کے بعد ایک طرف تو ان کا علیگڑھ تحریک 5؎ سے خاص تعلق پیدا ہوا اور دوسری طرف وہ لاہور میں قابل نوجوانوں کے ایک دائرے کے مرکز بن گئے۔ اس دائرے میں اقبال بھی شامل تھے۔ چنانچہ اپنی پہلی نظم ’’ چمن کی سیر‘‘ میں جو مخزن 6؎ میں اکتوبر1901ء میں شائع ہوئی۔ حضرت ہمایوں فرماتے ہیں: اعجاز دیکھ تو سہی یہاں کیا سماں ہے آج نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے رنگ اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آج ناظر! کمان فکر سے مار ایک دو خدنگ از نغمہ ہائے دلکش ایں چار یار ما پنجاب خوش نو است ہمایوں دیار ما اور شالا مار باغ کشمیر پر جو نظم لکھی اور جو مخزن میں جون1903ء میں شائع ہوئی اس میں فرماتے ہیں: ناظر7؎ بڑا مزہ ہو جو اقبال ساتھ دے ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالا مار ہو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اقبال اپنی عمر کے آخری حصے میں سیر و سیاحت کے مشتاق نہ تھے جوانی کے دنوں میں بھی یہی حال تھا۔ اقبال نے بھی بعض اشعار میں ہمایوں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کا جس کا مطلع ہے: لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جس کے جلانے کے لیے ایک غیر مطبوعہ شعر ہے : ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے والد بزرگوار کے کاغذات میں ایک پرزہ نکلا جس کے ایک طرف ایک دعوت کی تقریب میں اقبال نے میز کی ایک طرف سے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں والد نے اسی زمین میں شعر لکھا۔ دو دوستوں میں خوب نوک جھونک ہوئی۔ ان اشعار کے نقل کرنے کا یہ موقع نہیں۔ ہمایوں مرحوم پر اقبال کی نظم مشہور ہے اور یقینا ان کی بہترین نظموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے: اے ہمایوں8؎ زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان سے کس قدر آشنا تھے بلکہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب علمی صحبتوں میں یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے اور جب والد مرحوم نے لاہور میں پہلے پہل ایک محمڈن ینگ مین ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی تھی۔ 1910ء میں اپنے انگلستان جانے سے پہلے کا کوئی واقعہ تفصیل اور صحت کے ساتھ یاد نہیں جس کا میں ذکر کر سکوں۔ صاف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے گھر میں اکثر سرسید اور شبلی اور محسن الملک اور حالی اور اقبال کا ذکر ہوتا تھا اور 1908ء کے بعد والد نے کئی بار مجھ سے کہا کہ میں اقبال کو ترغیب دینا چاہتا ہوں کہ وہ بیرسٹری ترک کر کے علی گڑھ کالج 9؎ میں چلے جائیں جہاں وہ قوم کے لیے اور بھی مفید ثابت ہوں اور جیسے حالی نے مسدس10؎ لکھی اس طرح نئے حالات کے مطابق وہ اس مرکزی مقام سے قوم کو خطاب کریں۔ 1914ء میں ولایت سے واپس آ کر جب میں نے سال دو سال بیرسٹری اختیار کرنے کی کوشش کی تو لاہور چیف کورٹ کے بار روم میں مجھے اکثر اقبال کو دیکھنے اور بعض دفعہ ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی بے حد عزت تھی۔ میں ان کو اتنا بڑا اور اپنے آپ کو ہر طرح اتنا چھوٹا سمجھتا تھا کہ ان سے باتیں کرنے کی بھی مجھے جرأت نہ ہوتی تھی۔ دور ہی دور سے دیکھ کر گویا ان کی پرستش کیا کرتا۔ میرے تایا زاد بھائی میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر اقبال کے خاص دوستوں میں سے تھے اور مجھے بھی معلوم تھا کہ ان لوگوں کی ایک خاص بے تکلف صحبت ہوا کرتی تھی جس میں مجھ سے متین نو عمر کے لیے گنجائش نہیں ہو سکتی۔ ایک روز میں بار روزم میں گیا تو دونوں دوست بیٹھے تھے۔ اقبال نے مجھے دیکھ کر کہا، آئیے مولانا بشیر! یہ سن کر مجھے بے حد شرم آئی۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی جائے پناہ نہ تھی بھائی شاہنواز نے کہا دیکھو تم نے مخزن میں جو گمنام ایک نعت بھیجی ہے وہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا دی ہے۔ مخزن ان کے ہاتھ میں تھا۔ نعت کا پہلا شعر تھا: بیاباں کو بنایا غیرت خلد بریں تو نے چمن میں کر دیا ہر گل کو نگہت آفریں تو نے میرا دل بڑھانے کو ڈاکٹر صاحب نے بعض شعروں کی تعریف کی۔ کچھ یہ خیال ہو گا کہ آج کل کا کوئی یورپ زدہ نوجوان مذہب کا ذکر کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کے بائیس سال بعد پچھلی سردیوں میں جب میں ان سے اکثر ملتا رہا چند بار انہوں نے اسی مولانا سے مجھے مسکرا کر خطاب کیا۔ دوسری تیسری دفعہ میں نے بھی مسکرا کر ذرا احتجاج کیا کہ ڈاکٹر صاحب میں کہاں کا مولانا ہوں۔ مسکرا کر فرمانے لگے، واہ مولانا کوئی بری بات ہے اور کیا مولاناؤں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں، آخر کچھ عربی جانتے ہی ہو نا؟ وغیرہ وغیرہ۔ والد مرحوم کی وفات کے چند سال بعد جب دسمبر1921ء میں میں رسالہ ہمایوں جاری کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک نظم کے لئے درخواست کی۔ سن کر کہا کہ تم رسالہ کیا نکالتے ہو اردو کے رسالے تو نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں، تم اردو لٹریچر کے لیے کوئی اور زیادہ مفید کام کرو۔ میں نے پوچھا تو فرمایا کہ تم فرانسیسی زبان سے واقف ہو گارساں دتاسی11؎ کی تصانیف کو اردو میں منتقل کر دو۔ مگر میرے دماغ میں رسالے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ نظم کے لیے میں نے اصرار کیا تو (پنجابی میں) کہا’’ ویکھو‘‘ ۔ ایسے تمام اصراروں اور مطالبات کے جواب میں اسی مختصر’’ ویکھو‘‘ سے کام لیتے تھے۔ 12؎ بعد میں جب مجھے دو تین مرتبہ اسی ’’ ویکھو‘‘ سے واسطہ پڑا تو میری خود داری نے ذرا سمجھ داری سے کام لے کر آئندہ تقاضا کرنا ہی چھوڑ دیا اور ایسا کرنا ہی مناسب تھا۔ اس کے بعد مجھ ڈاکٹر صاحب سے کبھی مایوسی نہ ہوئی۔ میں نے سمجھ لیا کہ ان کی چیزیں زبان و ادب اور قوم و ملک کے لیے ہیں محض رسالوں اخباروں والوں کے لیے نہیں۔ ہاں یہ ذکر کر دینا چاہیے کہ پہلے ’’ دیکھو‘‘ کے چند ہی روز بعد انہوں نے والد مرحوم پر اپنی نظم ’’ ہمایوں‘‘ بھائی شاہنواز کے ذریعے سے مجھے ہمایوں کے پہلے نمبر میں اشاعت کے لیے بھیجی۔ ان کے ہاتھ کا لکھاہوا مسودہ اب تک میرے پا س موجود ہے۔ دو ایک بار اور بھی انہوں نے ہمایوں کے لیے کچھ مرحمت فرمایا۔ ہاں اس سے مجھے یاد آتا ہے کہ 1918ء میں والد مرحوم کی وفات پر انہوں نے مجھے ایک تاریخی رباعی بھیجی جو ان کی قبر پر کتبہ کی صورت میں کندہ ہے: در گلستان دہر ہمایون نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چون بوئے گل رمید می جست عندلیب خوش آہنگ سال فوت 334+4=1336 علامہ فصیح ز ہر چار سو شنید ایک اور شعر بھی لکھا جس سے اس لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے جو اقبال کو ہمایوں سے تھا: دوش بر خاک ہمایوں بلبلے نالید و گفت اندریں ویرانہ ما ہم آشناے داشتیم بعد میں کئی بار جو باتیں ان سے ہوئیں ان سے مجھ پر ثابت ہوا کہ جن چند در چند ہستیوں کی ان کے دل میں بہت قدر و منزلت تھی ان میں ایک والد بزرگوار تھے۔ 1922ء میں جب میں نے والد کے اردو کلام کو شائع کرنے کی غرض سے یکجا کیا تو کئی بار ڈاکٹر صاحب سے ان کے انار کلی والے مکان میں جا کر مشورہ کیا۔ اس سلسلے میں جب ایک روز وہاں گرامی مرحوم 13؎ بھی تشریف رکھتے تھے، حضرت گرامی نے مجھ سے فرمائش کی کہ آپ بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے کچھ سنائیے۔ میں نے عرض کی کہ مجھے شعر کہنا نہیں آتا، ایسی ہی تک بندی ہے۔ اصرار کیا تو میں نے دو تین شعر سنائے۔ ایک شعر میں سچائی بر وزن بھلائی باندھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لفظ سچائی ہے سچائی نہیں۔ ان کی پہلی اور آخری اصلاح تھی جو میرے نصیب میں آئی۔ میں نے کبھی اپنی تفریح طبع کو اس قابل نہ سمجھاکہ ان سے اصلاح لیتا ورنہ غالباً اس سلسلے میں بآسانی میں ان کی تضیع اوقات کا موجب بن سکتا۔ جیسے اقبال 1938ء میں اپنے سال وفات میں تھے ویسے ہی وہ سترہ سال پہلے 1921ء میں تھے۔ وہی حقہ وہی ان کا نوکر علی بخش14؎ اسی طرح شلوار اور قمیض پہنے چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ قمیض کے گلے کا اوپر کا بٹن کھلا ہے، عموماً پنجابی میں باتیں کرتے تھے اور دنیا بھر کی باتیں، بڑے بڑے مضمون پر چھوٹی سی چھوٹی بات پر ہو رہی ہیں، جو آئے آ جائے، جو چاہے کہے۔ جو ان کا خیال ہے وہ بیان کر رہے ہیں۔ بے تکلفی سے بات چیت ہو رہی ہے۔ معلومات کا خزانہ ہے کہ سب کے لیے کھلا ہے لیکن کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ عقلمندی کے موتی بکھر رہے ہیں۔ ادھر ان کا بھی کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ یہ نوع انسان کے او ربالخصوص اپنی قوم کے شیدائی ہیں۔ لوگ برے ہوں یا بھلے انہیں کیا، وہ بھی انسان ہیں یہ بھی۔ ان کا وقت ان کا وقف ہے پھر شکایت کیسی اور رعونت کیوں؟ ایسے ہوتے ہیں بڑے آدمی! کسی قسم کا شہنشاہی یا سادھوانہ دکھلاوا بھی نہیں۔ جو ہیں سو ہیں۔ تشہیر کی ضرورت نہیں۔ خلوص کی ایک تصویر ہیں۔ حکومت پر، انگریزوں پر، سیاسی لیڈروں پر نیک نیتی سے تنقید کر رہے ہیں۔ کسی کا ڈر خوف نہیں کیونکہ کسی کی خوشامد منظور نہیں۔ کسی کا کھائیں تو اس کا گائیں۔ کسی سے غرض نہ مطلب لیکن یوں واسطہ اور تعلق ہر کسی سے، جو ملے یا مل جائے! پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے دل ہی دل میں اس بات کی شکایت تھی کہ انہوں نے فارسی میں کیوں لکھنا شروع کیا چنانچہ میں نے ایک بار سے زیادہ ان سے اپنی شکایت کا اظہار کیا اور پنجابی کا مشہور فرقہ دہرایا کہ ’’ فارسیاں گھر گالے‘‘ (یعنی فارسی نے گھر تباہ کر دیے، پنجاب میں مشہور ہے کہ ایک جلاہے نے اتنی فارسی پڑھ لی کہ اپنے گھر لوٹ کر پھر وہ پنجابی میں بات ہی نہ کر سکتا تھا چنانچہ وہ آب آب کرتے ہی مر گیا اور کسی نے نہ سمجھا کہ بے چارہ پیاسا ہے) اس پر ہمیشہ مسکرا دیتے۔ میں نے اصرار کیا تو کہا کہ میری اردو بھی تو نری فارسی ہے۔ میں نے کہا نہیں پھر بھی اردو میں لکھیے۔ لے دے کر ایک آپ ہمارے پاس ہیں، وہ بھی فارسی میں لکھنے لگے تو نتیجہ کیا ہو گا۔ فرمایا کہ شاعر کا خیال جس زبان میں بھی موزوں ہو جائے وہ اسی میں کہے گا۔ مجھے ان کی فارسی سے اتنی چڑ تھی کہ میں نے کئی سال تک یہ کہہ کر کہ۔۔۔ فارسی زیادہ سمجھ ہی میں نہیں آتی، ان کی فارسی مثنویاں نہ پڑھیں۔ آخر ایک روز اٹھا کر دیکھیں اور پڑھیں، دل میں ایک حرکت سی پیدا ہوئی تو اپنے آپ کو برا بھلا کہا کہ حیف ہے میں اتنی مدت اس دولت سے محروم رہا۔ ایک روز کا واقعہ یاد آتا ہے کہ چیف کورٹ کے سامنے سڑک پر میں ڈاکٹر صاحب سے باتیں کرنے لگا۔ دوران گفتگو میں نے دور حاضر کی اشتہاریت کی شکایت اور مذمت کی۔ فرمانے لگے خدا کی طرف دیکھو، وہ سب سے بڑا پراپیگنڈا کرنے والا ہے۔ یہ کائنات ساری کی ساری اس کا پراپیگنڈ انہیں تو اور کیا ہے، ہزاروں لاکھوں بے شمار مظاہرے ہیں، پھر مسکرا کر کہا تم پراپیگنڈا کو اتنا برا نہ سمجھا کرو۔ ایک اور روز میں نے ٹیگور کا ذکر کیا تو فرمایا کہ دیکھو ٹیگور10؎ عملی آدمی ہے اور اس کی شاعری امن و خاموشی کا پیغام دیتی ہے، ادھر میری شاعری میں جدوجہد کا ذکر ہے لیکن میں عملی آدمی نہیں ہوں۔ بال جبریل 16؎ چھپی تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں کلکتے میں تھا وہیں منگوائی، وہاں سے بہرائچ کے جنگلوں میں گیا تو ساتھ لے گیا اور مزے لے لے کر پڑھی۔ اپنے آپ کو کوسا اور کہا کہ اتنا بڑا آدمی اور ایسا شاعر تمہارے ہی شہر میں دن رات رہنے والا اور تمہاری یہ حالت ہے کہ اس کے پاس گئے بھی تو محض کبھی کبھی۔ حیف ہے تم پر۔ غرض لوٹ کر دوسرے تیسرے دن ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بال جبریل کی بہت تعریف کی اور شکر کا اظہار کیا کہ وہ فارسی سے پھر اردو کی طرف آئے۔ ان دنوں میں میں اپنی غذا کا ایک عجیب و غریب تجربہ کر رہا تھا۔ گوشت، مچھلی، انڈا، چینی، گھی، مکھن، دودھ، سوپ، شوربہ، بادام، اخروٹ بلکہ گوبھی تک سب کچھ چھوڑ کر چند بھاپ زدہ ترکاریوں اور چکی کے آٹے پر گزران کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ میں نے سادہ اور صحت بخش زندگی کا راز پا لیا۔ یہ خبط اپنی انتہائی شکل میں دو سال تک میرے سر پر سوار رہا۔ یہی دن تھے کہ میں نے بال جبریل پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب سے جو اور عقیدت پپیدا ہوئی تو اس کا اظہار اس طرح کرنا چاہا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر جب معلوم ہوا کہ ان کی صحت خراب ہو رہی ہے، گلا بیٹھ گیا ہے، آواز ذرا سی باقی ہے تو میں نے ترکاری نوشی پر ایک طول طویل لیکچر دینا شروع کیا اور عرض کی کہ ایک تو باغ کی سیر کیا کیجئے اور دوسرے ترکاریاں کھا کر آزمائیے۔ پہلے تو کہا کہ بعض مسلمان اطباء نے بھی ان کی خوبیاں اور خواص بیان کیے ہیں، میں نے اصرار کیا تو مسکرا کر فرمایا کہ ’’ ویکھو‘‘ ۔ جب وہ اپنی میو روڈ والی کوٹھی جاوید منزل میں آ چکے تھے میں کبھی کبھی حاضر ہوتا اور بال جبریل کے بعض اشعار کا مفہوم دریافت کرتا۔ ایک روز میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اس شعر میں کیا اشارہ ہے: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی میں حیران ہوا کہ تین سو سال ہوئے کہ جہانگیر کے ہاں میخواری کا دور دورہ تھا، ڈاکٹر صاحب کیا پھر وہی رسم قدیم جاری کرنا چاہتے ہیں کیا؟ جواب دیا کہ نہیں یہ شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہندی 17کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان ہند کے سب سے زبردست رہنما گزرے ہیں۔ ایک روز میں نے عرض کی کہ ایک ’’ نقاد دوست‘‘ نے آپ کے ایک شعر پر اعتراض کیا ہے کہ لفظ’’ مینا‘‘ مونث نہیں مذکر ہے۔ مجھے بھی اس اعتراض پر تعجب ہوا کیونکہ مینا شکل صورت سے اور آواز سے مونث معلوم ہوتا ہے۔ علی بخش ملازم سے کہا کہ رسالہ 18؎ تذکیر و تانیث لاؤ۔ دیکھا اور کہاں ہاں ایسی غلطیاں مجھ سے ہو جاتی ہیں۔ برسوں تک ان سے محض کبھی کبھی ملاقات ہوئی لیکن گذشتہ سال اکتوبر1937ء میں لکھنو میں لیگ کے سالانہ اجلاس19میں شرکت کرنے کے بعد میں اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ وہ پنجاب لیگ کے صدر تھے۔ 20؎ اکثر ان سے سیاسی معاملات پر گفتگو رہتی۔ کئی بار میں نے مسلم قوم اور اردو زبان کے مستقبل کی بحث چھیڑی، اردو زبان کے متعلق میں نے گاندھی جی کے مخالفانہ رویہ کی شکایت کی اور کہا کہ تعجب ہے کہ قومیت اور ہندوستانیت کا نام لے کر ہماری کلچر اور مشترکہ زبان کو یوں ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ ایک روز میں ذرا جوش میں آ گیا اور پھر مایوسی کا اظہار کرنے کو تھا کہ مسکرا کر فرمانے لگے کہ ڈرو مت تمہاری قوم اور زبان اس طرح مٹائے سے مٹیں گی نہیں۔ 21؎ ہر ہفتے بعض دفعہ ہر دوسرے روز کئی کئی گھنٹے تک ان سے آخری سردیوں میں میری باتیں ہوئیں۔ سیاست، فلسفہ، ادب، شاعری، یورپ کی موجودہ حالت، ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل، صحت اور پرہیز اور علاج اور قوت ارادی اور کئی اور بڑی بڑی اور معمولی معمولی چیزوں کا ذکر خدا جانے کتنے موضوع تھے جن پر اس شمع ہدایت نے روشنی ڈالی۔ اس شک و شبہ اور بے اطمینانی کے زمانے میں میری طرح بیسیوں اوروں کو بھی احساس تھا کہ چلیے ڈاکٹر صاحب کے پاس کہ کچھ معلومات میں اضافہ ہو اور کچھ ڈھارس بندھ جائے۔ کئی اوروں کے مقابل میں میرا ان سے کوئی خاص قریبی تعلق نہ تھا پھر بھی کم از کم گذشتہ سردیوں میں میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ میرے دل کی تنہائیوں کا سہارا ہیں اور ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے پر کرنے والا کوئی نہیں۔ مارچ1938ء میں ایک روز میں عشا کے وقت کوٹھی پر گیا تو علی بخش نے مجھے روکا۔ یہ پہلی بار تھی کہ اس بھلے مانس نے مجھے روکا ہو۔ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے۔ دمہ کا دورہ سخت پڑتا ہے اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا ہے کہ وہ کسی سے بات کرنے نہ پائیں۔ یہ سن کر مجھے بے چینی ہوئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بات چیت نہیں کروں گا۔ میں اندر گیا تو چارپائی پر اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے، وہی یوم اقبال والے شفیع صاحب پیٹھ مل رہے تھے۔ پوچھا کون ہیں؟ میں نے جواب دیا۔ فرمایا بیٹھ جائیے۔ میں نے عرض کیا براہ کرم آپ نہ بولیے، آپ کو تکلیف ہو گی۔ میں نے چند باتیں کیں اور چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میں کہہ دیتے ’’ اچھا‘‘ ’’ ہوں‘‘ کہیے آخر آدھ گھنٹے کے بعد میں نے معذرت چاہی۔ فرمایا آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوئی۔ دل بھر آیا کہ اس سخت تکلیف کے عالم میں بھی کس طرح دلجوئی کرتے ہیں۔ اس زمانے میں ان کی صحت بہت بگڑ چکی تھی، لیکن ہمت و حوصلہ ایسا تھا کہ چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی اور طبیعت میں وہی خلوص اور دوستوں کے لیے وہی الفت کا اظہار اور ہر آنے والے کا اسی طرح خیر مقدم۔ سبحان اللہ۔ کیا عظیم الشان انسان تھا جس کی لوگوں نے بہت قدر کی، لیکن سچ یہ ہے کہ پھر بھی پوری قدر نہ کی۔ شاید پوری قدر ہو ہی نہ سکتی تھی۔ ایک روز میں نے کہا کہ افسوس ہے قوم نے آپ کی پوری قدر نہ کی، بانگ درا یا دوسری کتابیں لاکھوں کی تعداد میں بک جاتیں22؎!میرے دوسرے فقرے کو انہوں نے پسند نہ کیا، کہا کہ قوم غریب ہے اور ناقدری کا جواب یہ دیا کہ جب کوئی غریب آدمی شہر سے آ کر میری مٹھی چاپی کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا میری قدر کر رہی ہے۔ ایک روز میں نے بعض سیاسی لیڈروں کا ذکر کیا۔ جوش میں آ کر فرمانے لگے۔ کہ یہ لوگ سب خود غرض ہیں اور ایثار نہیں کر سکتے۔ لیڈر امیروں کی جماعت میں موجود ہیں ہی نہیں۔ مسلمانوں کے لیڈر عوام میں سے پیدا ہوں گے۔ تم دیکھ لینا ایسا ہو کر رہے گا، پھر وہ لوگ رہنمائی کر سکیں گے۔ ایک دفعہ ان کی شاعری کے پیغام اور اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق وغیرہ23؎ کا ذکر آ گیا تو انگریزی میں کہا: There is a Crust at the heart of Central Asia, i want to break through it. (وسط ایشیا کے قلب پر ایک پپٹری جمی ہوئی ہے، میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہوں) ایسے ہی اور بیسیوں لاجواب فقرے روز ان کے منہ سے نکلتے۔ کاش کوئی قلمبند کرنے والا ہوتا۔ غرض سینکڑوں باتیں ہوئیں لیکن افسوس کہ حافظہ قوی نہ ہونے کی وجہ سے میں انہیں دماغ میں محفوظ نہیں رکھ سکا اور نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات لکھوں جو پوری پوری درست نہ ہو۔ اگر کبھی اور باتیں یاد آئیں اور موقع ملا تو چند اور واقعات بھی قلمبند کر کے اپنا فرض ادا کروں گا اور اس سے مزید لطف اٹھا سکوں گا۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو بد قسمتی سے یہ مصرع بار بار دہرایا جا چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ غالب، اقبال اور ایسے ہی چند اور افراد پر یہ بات صادق آتی ہے کہ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا! خدا نے اقبال کو بادشاہی مسجد24؎ لاہور میں ابدی راحت کے لیے وہ جگہ بخشی جس کا وہ مستحق تھا۔ قوم کا سچا رہنما قوم کی پاکیزہ ترین زمین میں محو خواب ہے۔ ہر ماہ ہزاروں ہر سال لاکھوں شخص اس کی قبر کی زیارت کریں گے۔ فاتحہ پڑھیں گے اور اسے یاد کریں گے اور لاکھوں کروڑوں انسان اس کا پیغام پڑھیں گے یا سنیں گے۔ وہ کچھ سمجھیں گے کچھ نہ سمجھیں گے لیکن ان کی تاریک زندگیوں میں نور کی یہ شعاع اپنا زبردست پر تو ڈالے گی اور ان کی مس خاک کندن بن کر چمکے گی۔ میاں بشیر احمد25؎ بی اے بیرسٹر ایٹ لائ، ایڈیٹر ہمایوں ٭٭٭ علامہ اقبال کی صحبت میں جس طرح مرشد روم1؎ نے جاوید نامہ 2؎ کے ’’ زندہ رود*‘‘ کو عالم افلاک و ماورائے افلاک کی سیر کرائی اسی طرح انہوں نے مجھ کو ’’ زندہ دود‘‘ کی لاہوتی مجلس میں پہنچایا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جاوید نامہ اور بال جبریل کے مطالعہ نے مجھے مجبور کر دیا کہ مثنوی رومی کو باقاعدہ بہ نظر تعمق دیکھوں۔ تقریباً18دن میں میں نے نصف سے زیادہ مثنوی اس طرح دیکھ ڈالی کہ ایک شعر سے بھی سرسری عبور نہیں کیا۔ ہر لفظ پر غور کرتا اور ہر ترکیب سے لذت یاب ہوتا ہوا گذر گیا، لیکن اس دوران میں بہت سے مقام ایسے آئے، جہاں میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا اور ایک رفیق راہ کی طلب میں بے چین ہو جاتا۔ بعض اوقات پیر روم خود فرما دیتے: یار باید راہ را تنہا مرو از سر خود اندریں صحرا مرو کے تراشد تیغ دستہ خویش را رو بجر احے سپار ایں ریش را وغیرہ *علامہ کا نام ہے جو جاوید نامہ کی سیر سماوی میں رکھا گیا۔ ایسی حالت میں، میں نے اپنے گرد و پیش نگاہ ڈالی، تو مجھے علامہ مرحوم کے سوا کوئی ایسا شخص نظر نہ آیا جو راہ کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتا۔ چنانچہ میں نے امرت سر پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ علامہ مرحوم کو ایک مکتوب کے ذریعے اپنے مافی الضمیر اور اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔ علامہ نے حسب عبادت بہت جلدی تسلی بخش جواب دیا، جسے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: لاہور19مارچ1935ء جناب عرشی صاحب! السلام علیکم۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میری صحت عامہ تو بہت بہتر ہو گئی ہے، مگر آواز پر ابھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ علاج برقی ایک سال تک جاری رہے گا۔ دو ماہ کے وقفے کے بعد پھر بھوپال جانا ہو گا۔ آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی (رحمتہ اللہ علیہ) کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے؟ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں، اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے، ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے: کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحب سرور نہیں بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے، اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں، بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے، جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے،3؎ جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔ زیادہ کیا عرض کروں؟ محمد اقبال اس کے بعد میں برابر حاضر خدمت ہوتا رہا۔ میرے ان کے مکالمات کا غالب حصہ باریک روحانی، متصوفانہ 4؎ اور قرآنی مسائل سے متعلق ہوتا۔ میں عموماً سوالات کی ایک فہرست تیار کر کے لے جاتا۔ آپ ہر سوال کے جواب میں کافی گفتگو فرماتے۔ جب تک میری تسلی نہ ہو جاتی، یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس ضمن میں بہت سے نکات و اسرار میرے سوال و طلب سے بھی زائد آپ کی زبان پر آ جاتے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر ان کی زبان سے نکلے ہوئے تمام کلمات جمع کئے جا سکتے، تو ہر روز ایک مبسوط کتاب بن جایا کرتی، جو بہت سے دینی، سیاسی، تاریخی، اخلاقی، حکمی وغیرہ مباحث کا بے نظیر ذخیرہ ہوتی، لیکن اس باب میں، میں نے خود ناقابل تلافی تساہل سے کام لیا کہ اس دولت کو محفوظ نہ رکھا، جس سے میرے قلب و روح کی جیب معمور ہوتی تھی اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس خزانہ عشق و عرفان کے دروازے اتنی جلدی بند ہو جائیں گے۔ بہرحال اس سونے دماغ میں جو کچھ بچ رہا ہے، بغیر کسی نظم و ترتیب کے قرطاس و قلم کے سپرد کرتا ہوں کہ مرور وقت کی غارت گری سے محفوظ رہ سکے: عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں (اقبال) ایک دفعہ مجھے لاہور کے احباب کی ایک مجلس میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ صاحب خانہ سے رخصت چاہی تو انہوں نے کچھ دیر اور بیٹھنے کے لیے اصرار کیا۔ میں نے کہا، علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری میرے پروگرام کا اہم جزو ہے، اس وقت میں یہی ارادہ رکھتا ہوں۔ اس پر حاضرین نے علامہ کے جمود و تعطل پر متعصبانہ اعتراض شروع کر دیے۔ میں اپنے ارادے پر مصر رہا۔ آخر ان میں سے ایک بزرگ، محترم حکیم طالب علی صاحب جو اس سے پہلے علامہ سے متعارف نہیں تھے، میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ وہاں پہنچنے پر علی بخش نے میرے حاضر ہونے کی اطلاع دی۔ میں حکیم صاحب موصوف کی معیت میں اندر پہنچا، تو تنہا بیٹھے تھے۔ خیریت پرسی کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ حکیم طالب علی صاحب نے سورۂ النجم 5؎ کے پہلے رکوع کی تشریح دریافت کی۔ علامہ نے اس پر ایک طویل تقریر فرمائی۔ بالخصوص کان قاب قوسین او ادنیٰ کی تفسیر اپنے رنگ میں عجیب و نادر چیز تھی۔ ان سطور کے ناظرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ آیات مذکورہ قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات سے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے آئمہ مفسرین نہایت دروازہ کار تاویلوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں، یہاں تک کہ ایک غیر مسلم یورپین مترجم قرآن نے اس مقام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کی تصنیف قرار دے دیا۔ علامہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ناسوت و لاہوت یا عقل و وحی یا عالم بشریت و عرش الوہیت کو دو کمان نما دائروں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ بشری عقل کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وحی سماوی سے کامل مطابقت حاصل کرے، یعنی اس ترقی یافتہ عقل کے رباب سے بعض خاص اوقات میں جو نغمہ نکلتا ہے، وہ ساز الہام سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دو کمان کامل اتصال کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ نوع انسان میں انبیاء ؑ بالعموم اور انبیاء میں حضرت خاتم النبیینؐ بالخصوص اس مقام کے آخری نقطہ سے واصل ہوئے۔ اس کے بعد علامہ نے فرمایا کہ اس تقریر سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن (معاذ اللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۔ وحی الٰہی میں فہم بشریٰ کا قطعاً دخل نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جرمنی میں ہمارے ایک پروفیسر علم ریاضی کے بہت زیادہ مشاق تھے۔ بعض اوقات طلبہ ان سے نہایت مشکل سوال کر بیٹھتے۔ آپ فوراً جواب بتا دیتے۔ طلباء تشریح پوچھتے، تو کہتے، اس کے لیے دو ہفتہ کی مہلت درکار ہے۔ ان کے نزدیک جواب دینا آسان تھا، لیکن اس کا عمل سمجھانا دیر طلب تھا، اسی طرح عقل و وحی کا تطابق ہر فن کے اہل کمال میں پایا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا میرے خیال میں سرمد6؎ نے ایک شعر میں معراج کی جو حقیقت بیان کر دی ہے بڑے بڑے علماء کی مبسوط تصانیف اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ فرماتے ہیں: ملا گوید احمد بہ فلک برشد سرمد گوید فلک باحمد درشد علامہ نے فرمایا، یہ شعر رومی کے ایک شعر سے مستفاد ہے، جس کا واقعہ مثنوی میں اس طرح بیان ہو اہے: ’’ کہ جلسہ سعدیہ جب آنحضرتؐ کی رضاعت سے فارغ ہوئیں، تو آپ کو لے کر عازم مکہ ہوئیں۔ حرم میں پہنچیں، تو ایک غیبی آواز سنی کہ اے حطیم! آج تجھے بے اندازہ شرف حاصل ہونے والا ہے۔ الخ۔ حلیمہ اس آواز کی طرف متوجہ ہوئیں، حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زمین پر بٹھا دیا اور صاحب آواز کا سراغ لگانے کے لیے ادھر ادھر دوڑنے لگیں۔ جب کامیاب نہ ہوئیں، تو واپس آ کر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو نہ پایا، سخت متحیر و مغموم ہوئیں۔ اتنے میں ایک پیر مرد نمودار ہوا۔ اس نے پوچھا اے حلیمہ! اس فریاد و ماتم کا سبب کیا ہے؟ جواب دیا: میں احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دودھ ماں ہوں۔ حطیم میں پہنچ کر میں ہوائی آوازوں کی تلاش میں بچے کو زمین پر بٹھا کر ادھر ادھر پھرنے لگی۔ آواز ختم نہ ہوتی اور آواز دینے والا نظر نہ آتا تھا۔ میں اسی عالم حیرت میں واپس آئی، تو بچے کو اس مقام پر نہ دیکھا۔ پیر مرد نے کہا: غم نہ کر! میں تجھے ایسے سلطان تک پہنچا دوں گا، جو تجھے بچے کے حال و مقام سے آگاہ کر دے گا ۔ یہ کہہ کر وہ پیر، حلیمہ کو عزیٰ کے پاس لے گیا کہ یہ بت اخبار غیبی کا ماہر ہے۔ ہم نے ہزاروں گم شدہ اس سے حاصل کیے ہیں۔ پیر مرد نے عزیٰ کو سجدہ کیا اور اس کی ثناء کے بعد مناجات شروع کی کہ حلیمہ سعدیہ کا بچہ گم ہو گیا ہے۔ اس بچے کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ جب اس کے منہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلا تو سب بت سجدہ میں گر پڑے اور پکارے کہ اے مرد پیر! جا ہمیں اس سے زیادہ نہ جلا۔ بتوں کی یہ باتیں سن کر پیر مرد کے ہاتھ سے عصا گر پڑا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ حلیمہ نے کہا: اے مرد پیر!‘‘ حیرت اندر حیرت اندر حیرتم! کبھی مجھ سے ہوا باتیں کرتی ہے، کبھی پتھر خطاب کرتے ہیں، آخر میرا بچہ گیا کہاں؟ پیر مرد نے کہا: اے حلیمہ! خوش ہو، سجدۂ شکر ادا کر! تو مخور غم کہ نگردد یاوہ او بلکہ عالم یاوہ گردد اندرو* یہاں پہنچ کر حضرت علامہ 7؎ ڈاڑھیں مار کر رونے لگے، جب ذرا افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا:یہاں ’’ یاوہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: یا وہ گشتن، یعنی گم شدن سرمد کا شعر اسی شعر سے ماخوذ ہے! ایک ملاقات کے دوران میں، میں نے عرض کیا: آپ کے مدراس والے لیکچر8؎ بے حد مشکل ہیں۔ اگر اسلام یا قرآن کا منشا وہی ہے، جو آپ نے ان لیکچروں میں بیان فرمایا ہے اور جس کو اس ترقی یافتہ زمانے کے بڑے بڑے اہل علم سمجھنے سے قاصر ہیں، تو قرن اول کے عرب صحرا نشینوں نے اسے کیا سمجھا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ بنی الاسلام علی الخمس، کسی قوم کی تشکیل و تعمیر کے لیے اسلام کے پانچ ارکان مشہورہ کا اجرا و انضباط کافی ہے، چنانچہ اس کی محسوس اور عملی صورت عہد سعادت سے بہتر کہیں نظر نہیں آ سکتی اور تاریخ کا حافظہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔‘‘ *مولانا رومی روایات کے ضعف و قوت سے تعرض نہیں کرتے، ان سے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ میں نے کہا: ’’ ایک طرف تو ’’ یسرنا القرآن للذکر‘‘ فرمایا اور اسی قسم کے دوسرے ارشادات فصلت آیتہ اور فصلنہ علیٰ علم وغیرہ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف بہت سی آیات کو متشابہات کہہ کر ان کے فہم پر لایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم کی مہر لگا دی۔ ظاہری نگاہ اس میں تضاد دیکھتی ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: اس کو یوں سمجھو۔ا یک دفعہ لنڈن میں ایک صاحب نے کسی مہمان کے اعزاز میں چند دوستوں کو ضیافت پر مدعو کیا۔ا ن میں میں بھی شامل تھا۔ فراغت طعام کے بعد مہمان عزیز سے تفصیلی تعارف کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ ماہر حجریات ہیں۔ میں نے آپ سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ فیصلہ ہوا کہ سیر کو اکٹھے چلیں گے، چنانچہ سیر کرتے ہوئے ہم سمندر کے ساحل پر پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے مضمون (حجریات) کے متعلق کچھ فرمائیں۔ انہوں نے ساحل سے ایک چھوٹا سا سنگ پار اٹھا لیا اور اس کی سوانح عمری بیان کرنا شروع کر دی۔ مختصر یہ کہ ہم 15دن روزانہ سیر کو جاتے رہے اور وہ اس پارہ حجر کے رموز و اسرار بیان کرتے رہے۔ اس کے مدارج نشو و ارتقا پر درجے کے زمانے کی تعیین، اس کے اجزائے اولیہ، رنگ و صلابت و صورت نوعیہ وغیرہ کے تفصیلی اسباب، تاثیرات و خواص وغیرہ اتنی باتیں بیان کر دیں جو میرے لیے اور اس علم سے ہر ناواقف شخص کے لیے پردۂ خفا میں تھیں یا متشابہ تھیں اور اس شخص کے لیے کہ راسخ فی العلم تھا، مفصل و میسر تھیں۔ اسی طرح قرآن مجید سارے کا سارا مفصل بھی ہے اور متشابہ بھی۔ جس قدر انسان کا ذوق9؎ و وجدان اور اخلاق و روحانیت ترقی کرتے جائیں گے، اس پر قرآن کے مطالب آشکارا ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح کاایک دوسرا واقعہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک دعوت میں ہمیں ایک صاحب سے تعارف کا اتفاق ہوا، جو صرف سطح بحر کی مخلوقات کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنے فن سے متعلق عجیب و غریب انکشافات فرمائے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ سمندر کی سطح پر رہنے والے جانداروں کی انواع و اقسام اور ان کے احوال و کوائف بے حد دلچسپ اور اہم ہیں۔ مجھ پر ان کی تقریر سے سحر ہو رہا تھا۔ اسی طرح ہر شخص اپنے فن کا راسخ ہوتا ہے اور وہ فن اس کے لیے ’’ یسرنا‘‘ اور ’’فصلت‘‘ کے مترادف ہو جاتا ہے۔‘‘ میرے نزدیک علامہ کی تشریح’’ یھدی الیہ من اناب‘‘ کے مفہوم سے بھی کامل مطابقت رکھتی ہے۔ آکری عمر میں قریباً ہر صحبت میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی10؎ کا ذکر آ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ: ’’ سلطان ٹیپو‘‘ کے جہاد حریت سے انگریز نے اندازہ کیا کہ مسئلہ جہاد اس کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ جب تک شریعت اسلامیہ سے اس مسئلہ کو خارج نہ کیا جائے، انگریز کا مستقبل مطمئن نہیں، چنانچہ اسی زمانہ سے مختلف ممالک کے علماء کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ ہندوستانی علماء سے بھی ایسے فتاویٰ حاصل کئے، لیکن ایک منصوص قرآنی مسئلہ کو مٹانے کے لیے علماء کو ناکافی سمجھ کر ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا بنیادی مسئلہ یہی ہو کہ اقوام اسلامیہ میں نسخ جہاد کی تبلیغ کی جائے۔ احمدیت کے اسباب وجود پر آج تک جو کچھ لکھا گیا، اس کی وقعت سطحیت سے زیادہ نہیں۔ اس کا حقیقی سبب اسی ضرورت کا احساس تھا۔ اس کے بعد علامہ نے مجھے خاص طور پر کہا: ’’ تم ایسے فتاویٰ کی نقول تلاش کرو، ممکن ہے کہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 12؎ سے اس کا کچھ سراغ نکلے۔‘‘ میں امرت سر پہنچ کر مولوی صاحب موصوف سے دریافت کیا، تو انہوں نے سرسید مرحوم کے کتب خانہ علی گڑھ کی طرف رہنمائی کی۔ میں نے علامہ کو اس مطلب کا ایک خط لکھ دیا۔ پھر معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ نے اس بارہ میں کوئی قدم اٹھایا یا نہیں۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں آپ نے سید ریاست علی صاحب ندوی کو بھی اس کام کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ یہ کام اسی وقت کرنے کا ہے۔ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، ہم اس کی سہولتوں سے دور ہوتے جائیں گے اور اس ’’ ملت جدید‘‘ پر تقدس کے غلاف چڑھتے جائیں گے۔ علامہ کے برادر اکبر احمدیت سے دلچسپی رکھتے تھے، علامہ ان کا ادب ملحوظ رکھتے اور اس بارے میں ان سے گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ میری موجودگی میں احمدیت پر گفتگو ہو رہی تھی، وہ درمیان میں آ گئے تو علامہ خاموش ہو گئے ۔ عمر کے آخری برسوں میں جب انہوں نے کھلم کھلااس مذہب کی تردید شروع کی، تو برادر بزرگ کو ناگوار گزرا۔ فرماتے تھے ’’ ایک دن جوش میں آ کر انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ حدیث علی راس کل مائتہ کا اقتضا یہ ہے کہ ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد مبعوث ہو۔ تمام گذشتہ صدیوں کے مجدد تو پائے جاتے ہیں، اس صدی کے مجدد اگر مرزا صاحب نہیں تو کون ہے؟ میں نے کہا، یہ حدیث موضوع ہے۔ کہنے لگے، تم یہ نئی بات کر رہے ہو، جو آج تک نہیں سنی گئی، میں نے اسی وقت موضوعات*۔۔۔۔ منگوائی اور اس میں تلاش کر کے دکھلا دی۔ بھائی صاحب خاموش ہو کر رہ گئے۔‘‘ بہت سے مولوی جو تحریک احمدیت کے مخالف ہیں، انہوں نے اس مخالفت کو ذریعہ معاش بنا رکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ احمدیت مٹے، کیونکہ اس کے مٹنے سے ان کی تجارت مٹ جائے گی۔ لیکن علامہ مرحوم ان لوگوں سے تھے جو پورے خلوص اور کامل بصیرت سے اس فرقہ کو تمام عالم اسلامی، عقائد اسلامی، شرافت انبیائ، خاتمیت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور کاملیت قرآن کے لئے قطعاً مضر و منافی سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ: ’’ قرآن کے بعد نبوت و وحی کا دعویٰ تمام انبیائے کرام کی توہین ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ختمیت کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دیانت کو درہم و برہم کر دینے کے مترادف ہے۔‘‘ (یہ تحریر جو حافظہ کی مدد سے لکھی گئی ہے، یہاں تک پہنچ چکی، تو مجھے ایک کاپی دستیاب ہوئی، جس میں کچھ *نام یاد نہیں رہا۔ منہ اشارات میرے قلم سے لکھے ہوئے مل گئے۔ ذیل میں ان کی مدد سے لکھتا ہوں۔ راقم) مورخہ 12اپریل 1935ء وقت4بچے سہ پہر میں نے سوال کیا، آیہ مبارکہ ان الذین جاھدوا فینا لنھد ینھم سبلنا (جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھلائیں گے) سے کیا مراد ہے؟ علامہ نے فرمایا: ’’ تمام علوم و کمالات اور مقاصد عالیہ جو نوع انسان کے لیے کسی نہ کسی جہت سے مفید ہوں، ان کے حصول کی سعی، جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور اس مشق و مزاولت کے ارتقائی نتائج لنھد ینھم کا ظہور ہیں‘‘ میں نے عرض کیا، مولانا روم نے فرمایا ہے: نطق آب و نطق باد و نطق گل ہست محسوس حواس اہل دل اس سے کیا مرا دہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ قرآن مجید میں ہے زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اور کل قد علم صلوتہ و تسبیحہ ہر مخلوق کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم حاصل ہے۔ ان آیتوں سے ثابت ہے کہ ہر شے کو اس کے حال کے مطابق نطق عط ہوا ہے۔‘‘ میں نے کہا: مجھے نطق اشیاء و عناصر سے انکار نہیں، میرا سوال ’’ محسوس حواس اہل دل‘‘ پر ہے۔ آپ کی پیش کردہ دوسری آیت کے ساتھ ہی یہ لفظ پڑے ہوئے ہیں: ولکن لا تففھون (یعنی ہر شے نمازی اور تسبیح خواں تو ضرور ہے لیکن اے انسانو!تم اس کی سمجھ نہیں رکھتے) پھر اہل دل اس نطق کو کس طرح محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے یہ شعر پڑھا: ہر کہ عاشق گشت حسن ذات را گشت سید جملہ موجودات را آپ کی سانت متغیر ہو گئی۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا: معرفت الٰہی سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ سید الطائفہ13؎ جنید بغدادیؒ کے نزدیک معرفت یا عرفان کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب یا مضاف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ قرآن عزیز میں اس کا استعمال نہیں کیا گیا، البتہ علم و ایمان کا ذکر بار بار آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ تو عارف ہے، نہ معروف۔ ہاں ’’ عالم و علیم‘‘ ہے اور’’ معلوم‘‘ ہے، جس پر بہت سی آیتیں شاہد ہیں۔ انمایختی اللہ من عبادہ لعلما(اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اس کے بندوں میں علم سے ممتاز ہیں) یہاں علما کہا ہے، عرفا نہیں کہا۔ مجھے صحیح یاد نہیں کہ یہی آیت پڑھی تھی یا کوئی اور آیت بھی پڑھی تھی۔ اس کے بعد لفظ علم پر گفتگو ہوئی۔ فرمایا:’’ علم14؎ کی دو قسمیں ہیں، ایک ہمارے اکتسابی معلومات کا ذخیرہ۔ ہم خود مخلوق الٰہی ہیں اور ہمارے اکتسابی آلات علمیہ ہماری مخلوق، یعنی ہمارا علم، مخلوق کا مخلوق ہے۔ پس ایسے علم کو علم الٰہی سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرا وہ علم ہے، جو خواص کو عطا ہوتا ہے۔ وہ بے منت کسب قلب و روح کے اعماق سے ابلتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا،ا س علم کی کلید کیا ہے؟ فرمایا: ارشاد خداوندی ہے، قد افلح من زکھا، جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا، اس پر اس علم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ میں نے کہا تزکیہ نفس کا طریق کیا ہے؟ اس پر آپ 10؎ نے صوفیہ کے بعض مشاغل کی طرف اشارہ کر دیا۔‘‘ اس مقام پر مجھے یاد آ گیا، میں نے کسی صحبت میں پوچھا: صوفیہ کے اذکا رمحصوصہ اور مصطلحات و مدارج (غوث، قطب، ابدال وغیرہ) کا تعلق نفس اسلام سے کیا ہے؟ صحابہ میں مومن، صالح، شہید، صدیق وغیرہ الفاظ تو ملتے ہیں، لیکن ان الفاظ کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا؟ آپ نے فرمایا: واقعی جناب رسالت مآب ؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں نہ یہ اصطلاحات تھیں اور نہ اس قسم کے اذکار و اوراد۔ اسلامی تصوف مجوس، ہنود اور نصاریٰ کے تعلقات سے کافی حد تک متاثر ہوا ہے۔ اسی12اپریل کی ملاقات میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ ولادت اور رفع سماوی کا ذکر ہوا، تو فرمایا’’ یہ*دو *علامہ نے اپنے بعض اشعار و خطوط میں بھی جو میرے نام ہیں، اس طرف اشارہ کیا ہے، مثلاً: مینار دن پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ اب انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے اور ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی مرزا بیدل نے بہت پہلے لکھ دیا ہے: عالم کہ بوضع خود سری مسرور است در شیوۂ غفلت حسی مجبور است باز آمدن مسیح و ہدی اینجا از تجربہ مزاج اعیان دور است چیزیں تو مسلم عیسائیوں کی بدولت اسلامی عقائد میں داخل ہو گئیں۔ میں نے پوچھا: اسلام بتمامہ قرآن میں محصور ہے یا نہیں؟ فرمایا:’’ مفصل کہو‘‘ ! میں نے کہا: خارج از قرآن ذخیرہ احادیث و روایات اور کتب فقہ وغیرہ کو شامل کر کے اسلام مکمل ہوتا ہے یا صرف قرآن اس باب میں کفایت کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ چیزیں تاریخ و معاملات پر مشتمل ہیں، ان کی بھی ضرورت ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کن ضروریات کے ماتحت وضع کی گئیں، لیکن نفس اسلام قرآن مجید میں بکمال و تمام آ چکا ہے۔ خدا تعالیٰ کا منشا دریافت کرنے کے لیے ہمیں قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے پوچھا: مولانا روم کے شعر ذیل کی شرح کیا ہے؟ دفتر صوفی کتاب و حرف نیست جز دل اسپید ہمچو برف نیست اس وقت علی بخش کو بلا کر ایک کتاب منگوائی، جس پر غالباً یہ شعر اور اس کے ماقبل و ما بعد کے اشعار لکھ کر انگریزی زبان میں ان کی شرح اپنے قلم سے لکھ رکھی تھی۔ مجھے اس کا ترجمہ کر کے سمجھا دیا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔‘‘ پھر مولوی کا یہ شعر پڑھا: زاد دانشمند آثار قلم16؎ زاد صوفی چیست انوار قدم یہ شعر پڑھ کر بہت روئے۔ اس کے بعد پھر مولوی کا ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ صوفی ہرن کے قدموں کے نشان سے اس کا سراغ لگاتا ہے اور چلتے چلتے بوئے نافہ تک پہنچ جاتا ہے، پھر بوئے نافہ کی رہنمائی میں خود ہرن تک جا پہنچتا ہے۔ پھر فرمایا: قلم کی راہ چلنے والا بھی آخر پہنچ ہی جاتا ہے، بلکہ محفوظ طریق سے۔ اس صحبت میں میرے ساتھ ایک خوش گلو رفیق تھا، میں نے عرض کیا: اگر آپ کچھ سننا پسند فرمائیں، تو یہ صاحب حاضر ہیں آپ نے رضا مندی ظاہر کی۔ میں نے بال جبریل منگوانے کو کہا اسی وقت منگوائی گئی۔ میں نے خاص خاص نظموں پر جو مجھے بہت پسند تھیں، نشان کر دیے۔ سب سے پہلے ایک غزل پڑھی گئی، جس کا آخری شعر یہ ہے: تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ 17؎ جب تک یہ غزل گائی جاتی رہی، آپ روتے رہے اور میں بھی اس حالت سے بہت متاثر ہوا۔ یہ صحبت قریباً سوا دو گھنٹے تک قائم رہی۔ 14اپریل35ء کو حاضر خدمت ہوا۔ میرے ساتھ حکیم طالب علی صاحب تھے۔ ہمارے حاضر ہونے سے پہلے مشہور شاعرہ اور قائدہ مسز سروجنی نائیڈو18؎ اور میاں بشیر احمد آف ہمایوں موجود تھے۔ ان سے انگریزی میں بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے شاعرہ کو پہلی اور آخری دفعہ دیکھا اور یہ بات بھی ایک ہی دفعہ دیکھی کہ علامہ، شاعرہ کو رخصت کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر کوٹھی کے برآمدے تک تشریف لائے۔ اس کے بعد جناب عبداللہ یوسف علی 19؎ اور بعض دیگر اکابر حمایت اسلام آ گئے۔ کسی خاص موضوع پر میٹنگ ہوئی۔ آخر دیر کے بعد تنہائی نصیب ہوئی۔ میں نے پوچھا: مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی20؎ کس کے متبع ہیں؟ فرمایا: مرزا سے پہلے کوئی شخص اس رنگ میں لکھنے والا نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی طرز کے آپ ہی موجد و مبدع اور خالق و صانع ہیں۔ ان کے بعد بھی کوئی اس طرز میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے بعد کئی باتیں ہوئیں، جو خاص طور پر قابل ذکر نہیں۔ پھر حکیم طالب علی صاحب کے سوال پر مسیح علیہ السلام کی معجزات سے بھری ہوئی زندگی، ولادت اور وفات سے متعلق فرمایا کہ نو مسلم عیسائیوں نے اپنے غیر معقول اور خرافیاتی عقائد مسلمانوں میں شائع کر دیے۔ سادہ لوح مسلمانوں نے ان کو اجزائے اسلام سمجھ کر سر آنکھوں پر اٹھایا اور ابتدائی مصنفین نے روایتاً اپنی کتب میں نقل کر دیا۔ اس کے علاوہ ایک صحبت میں آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ بزرگوں کی آمد ثانی کا عقیدہ تمام مذہبی گروہوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں سے مختص نہیں۔ اس میں یہ مصلحت رکھی گئی ہے کہ جب کوئی مصلح و مجدد کھڑا ہو، وہ لوگوں کے اس انتظار و اعتقاد سے فائدہ اٹھا کر ن کو ایک مرکز پر لا سکے۔ مسلمانوں کے مسیح و مہدی کی آمد بھی اسی قبیل سے ہے، ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن اس بارے میں قطعاً خاموش ہے۔ ایک اور بزرگ نے بھی ایک دفعہ اپنا یہی خیال ظاہر کیا تھا جس پر عوام پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ آخر ان کو اپنے الفاظ کی نہایت نازیبا تاویل کر کے جہال کی زبانیں بند کرنا پڑیں۔ علامہ کے شعر میں اسی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے: کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو اس کے بعد میں نے حیات بعد الممات سے متعلق استفسار کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ حیات اخروی، انسان کے ذوق حیات کی شدت پر منحصر ہے۔ جس قدر کسی شخص میں ذوق زندگی زیادہ ہو گا، اتنا ہی اس کا زمانہ برزخ کم ہو گا۔ شہدا کا ذوق زندگی بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے ان کے لیے کوئی برزخ نہیں۔ اس زندگی سے آنکھ بند کرتے ہی ان کے لیے دوسری زندگی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا، عام مومنین کے لیے بھی برزخ کا کہیں ذکر نہیں: فرمایا: ’’ اس کا سبب بھی ذوق حیات ہے۔ میں نے اس خیال کو اپنے ایک شعر میں بھی ظاہر کیا ہے: جانے کہ بخشند دیگر نگیرند انساں بمیرد از بے یقینی‘‘ اس کے بعد سلسلہ گفتگو دوسری جانب مڑ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ یورپ سے آتے ہوئے ایک صبح جہاز میں میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔ میرے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا آ گئی: وارزق اھلہ من الثمرات رزقاً (خدایا! حرم کعبہ کے اہالی کو پھلوں سے رزق عنایت فرما) اس سے میری طبیعت بے حد متاثر ہوئی۔ اس دعا کو زبان سے نکلے ہوئے چار ہزار سال گزر گئے۔ اس کی قبولیت ایک بدیہی حقیقت بن گئی ہے۔ تمام اسلامی ممالک ایران، عراق، شام افغانستان، بیروت، ٹرکی وغیرہ جو حرم کعبہ سے روحانی تعلق رکھتے ہیں، پھلوں کے رزق سے معمور ہیں اور غیر اسلامی دنیا یورپ، امریکہ وغیرہ اس نعمت خداوندی سے محروم سبحان اللہ!‘‘ 16جنوری1938ء 3بجے بعد دوپہر بمقام جاوید منزل قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک ملاقات رہی۔ دوران کلام میں آپ نے فرمایا: ’’ علم‘‘ کے چار ذریعے ہیں اور قرآن مجید نے ان چاروں کی طرف واضح رہنمائی کی ہے۔ مسلمانوں نے ان کی تدوین کی اور دنیائے جدید اس باب میں ہمیشہ مسلمانوں کی منت کش رہے گی۔ پہلا ذریعہ ’’ وحی‘‘ ہے اور وہ ختم ہو چکا۔ دوسرا ذریعہ ’’ آثار قدما و تاریخ‘‘ ہے جس پر آیات قرآن متوجہ کر رہی ہیں۔ ’’ سیسروا فی الارض‘‘ اس آیت نے علم آثار کی بنیاد رکھ دی، جس پر مسلم مصنفین نے عالی شان قصر تعمیر کیے۔ ذکر بایام اللہ، یہ آیت محید تاریخ کا ابتدائی نقطہ ہے۔ جس نے ابن خلدون جیسے باکمال محقق پیدا کیے۔ علم کا تیسرا ذریعہ ’’ علم النفس‘‘ ہے جس کا آغاز وفی انفسکم افلا تبصرون سے ہوتا ہے۔ اس کو حضرت جنیدؒ اور ان کے رفقا و اتباع نے کمال تک پہنچایا۔ آخری ذریعہ صحیفہ فطرت ہے، جس پر قرآن مجید کی بیشمار آیات دلالت کر رہی ہیں مثلاً ’’ الی الارض کیف سطحت‘‘ اس علم پر علمائے اندلس نے بہت توجہ مبذول کی۔ آیات متشابہات، فصلت آیاتہ، راسخون فی العلم، وغیرہ آیات کی تطبیق پر حضرت علامہ کی تقریر جو میں پہلے نقل کر آیاہوں، اسی صحبت میں ہوئی تھی۔ اس تمام تشریح علوم، تفصیل آیات، اور مساعی علمائے اسلام کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ موجودہ دنیا اپنے تمام علم و تہذیب اور صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی ’’ مخلوق‘‘ ہے۔ میں نے اس لفظ پر ذرا اظہار تعجب کیا۔ آپ نے فرمایا’’ حقیقی خالق بیشک اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی خالق ہو سکتے ہیں، جیسا کہ آیہ احسن الخالقین سے ظاہر ہے، خدائے پاک تمام دوسرے خالقوں سے احسن ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ’’ قرآن سے پہلے کسی ارضی یا سماوی کتاب نے انسان کو اس بلند مقام پر نہیں پہنچایا جس کی قرآن نے اطلاع دی۔ یہ لفظ تم قرآن کے سوا کہیں نہ دیکھو گے:’’ سخر لکم ما فی السموات والارض‘‘ آج تک تم جن ارضی و سماوی، مہیب یا مفید ہستیوں کو اپنا معبود سمجھتے رہے ہو، وہ سب اور تمام دیگر کائنات تمہاری خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے۔ توحید کا یہ مرتبہ اعلیٰ، ماسوا سے بے پروا کر دینے والا، یہ انسانی خودی کا حقیقی عرفان، قرآن سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘ اس کے بعد سید جمال الدین افغانی اور سر سید احمد خاں رحمتہ اللہ علیھا کا تذکرہ چل پڑا۔ فرمایا:’’ افغانی22؎ کا مرتبہ علم و فضیلت سید سے بدرجہا بلند ہے۔ سید کے فرزند رشید سید محمود کیع لمی قابلیت بھی نادرہ روزگار تھی۔ ان کی قانونی استعداد حضرت امام ابو حنیفہؓ کے مشابہ تھی۔ میں نے سید احمد کی وفات پر تاریخ کہی تھی، جو ان کی قبر پر کندہ ہے: انی متوفیک ورافعک الی و مطھرک ایک دفعہ میرے ساتھ میاںمولا بخش صاحب سوداگر صابون تھے۔یہ بزرگ امرتسر میں اپنے دینی ذوق کے لیے مشہور ہیں۔ ہمارے ساتھ دو اور صاحب ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئے۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ یہ صاحب غالی قسم کے اہل حدیث ہیں۔ ان دنوں علامہ مسیح ؑ کی آمد ثانی کے متعلق ایک بیان شائع کرا چکے تھے، جس سے احمدی حضرات ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے۔ یہ دونوں صاحب اس معاملہ کے متعلق علامہ سے کچھ گفتگو کرنے آئے تھے۔ انہوں نے کہا:’’ احمدیوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ آپ (علامہ ) نے لکھا ہے کہ مسیح ؑ کی آمد ثانی کا عقیدہ مسلمانوں نے مجوسیوں سے لیا ہے، کیا آپ نے کہیں ایسا لکھا ہے؟ ‘‘ علامہ نے فرمایا، ’’ نہیں‘‘ ! انہوں نے کہا:’’ آپ تحریر فرما دیں، تاکہ ہم اس کو شائع کر کے احمدیوں کا منہ بند کر دیں‘‘ علامہ نے اسی وقت قلم کاغذ منگوا کر اس مطلب کی تحریر لکھ دی۔ ان دونوں صاحبوں نے اس تحریر کو پڑھ کر کہا: ’’ایک سطر کا اور اضافہ کر دیجئے ۔ جس کا مطلب یہ ہو کہ آپ حدیث شریف کے مطابق مسیح کی آمد ثانی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔‘‘ علامہ نے فرمایا’’ میرا یہ اعتقاد نہیں ہے‘‘ انہوں نے کہا’’ کیا آپ کو حدیث کی صحت سے انکار ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’ میں اعتقادی امور میں صرف قرآن پر انحصار رکھتا ہوں اور حدیث کے متعلق مجھے اور آپ سب کو معلوم ہے کہ ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہے۔‘‘ اس بات پر ایک صاحب ذرا گرم ہو کر کہنے لگے، اگر اس طرح حدیث سے بے پروائی کی جائے گی تو مسلمانی ختم ہو جائے گی۔ ہمارا کوئی عمل و عبادت حدیث کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ قرآن تو نماز ایسی روز مرہ کی چیز کے لیے بھی ہمیں کوئی تفصیل نہیں بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ اہل قرآن نے اپنے لیے عجیب قسم کی نمازیں تراش لی ہیں، جن کا جمہور اہل اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کی نمازوں کے اوقات، اذکار اور رکعات وغیرہ سب عالم اسلامی سے مختلف ہیں۔ کیا ایسی حالت میں آپ ان کو کافر نہیں کہیں گے؟ علامہ نے اس تیز کلامی کے جواب میں نہایت نرمی سے فرمایا: ’’ کافر نہ کہو‘‘ کوئی اور نام رکھ لو، یہ شدت ہے۔ تم لوگ نمازوں کی رکعات و اذکار پر لڑتے ہو، مجھے تو سرے سے نماز کا وجود ہی کہیں نظر نہیں آتا (یا یہ کہا تھا کہ خطرے میں نظر آتا ہے) اس کے بعد وہ دونوں صاحب چلے گئے، لیکن گفتگو کا موضوع نہ بدلا۔ علامہ نے بڑے درد سے فرمایا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا اور فتوے بازی اس امر کی دلیل ہے کہ اس قوم میں اللہ والے لوگ ختم ہو چکے ہیں۔ پھر آپ نے وفد ہلال احمر کا وہ قصہ سنایا جو بعد میں ضرب کلیم میں بصورت نظم شائع ہوا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وفد موصوف کے ایک رکن علامہ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے شاہی مسجد میں گئے۔ وہ بوڑھے آدمی تھے۔ امام نے نماز میں طوالت اختیار کی۔ وہ تنگ آ گئے۔ باہر آ کر انہوں نے علامہ سے اس طوالت پر تعجب کا اظہار کیا اور اس کا سبب پوچھا، تو علامہ نے کہا، یہ ہندی مسلمان کے بے کار اور بے نصب العین ہونے کے دلیل ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اپنی قوم اور ملت کی تعمیر و تشکیل کا کام ہے، اس لیے آپ کو ایسی بے مصرف نمازوں کی فرصت نہیں۔ اس ملک کے بے کار ملا اور نکمے مسلمان اگر مذہبی بحث و پیکار اور لمبے لمبے درود و وظائف میں اپنا وقت صرف نہ کریں تو کیا کریں؟ ایک صحبت میں میں نے علامہ ابن جوزی 23کی ’’ تلبیس ابلیس‘‘ کا ذکر کیا، اس میں مصنف نے کامل جرأت اور پاک دلی سے ابلیس کے ہتھ کنڈوں اور مقدس مذہبی جماعتوں پر اس کے اثرات کی وضاحت کی ہے۔ اس ضمن میں صوفیہ کے معائب بھی دل کھول کر بیان کیے ہیں۔ میں نے اس حصہ کا کچھ ذکر کر کے حضرت علامہ کی رائے دریافت کی۔ آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ میں نے کہا، علامہ ابن تیمیہ 24کی روش بھی تصوف کے خلاف ابن جوزی سے کچھ کم نہیں۔ آپ نے اس پر بھی کچھ ایسے الفاظ فرمائے، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ بعض لوگ حقیقت سے واقف نہیں ہوتے اور نظر بر ظاہر عیب چینی شروع کر دیتے ہیں۔ ہنگامہ ’’ شہید گنج‘‘ 2؎ کے دنوں میں جب کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اور اخبارات آپس میں پگڑی اچھالنے کی مشق میں بہت تیزی دکھا رہے تھے، میں نے عرض کیا، آپ ان لوگوں کے لیڈروں کو بلا کر صلح کر ادیں، تو بہت بڑی اسلامی خدمت ہو گی۔ آپ نے فرمایا:’’ امرت سر میں یہ کوشش کرو‘‘ میں نے کہا: ’’ امرت سر میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو ان پر موثر ہو سکے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ان کے منہ بند کر سکوں۔ میں ان سب کو خوب جانتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، آپ کے نزدیک موجودہ ہندی اسلامی تحریکوں میں کون سی تحریک مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ عموماً ان تحریکوں کے قائد جاہل ہیں۔‘‘ احرار کے متعلق کہا:’’ ان سے کسی قدر اصلاح کی امید ہو سکتی ہے۔‘‘ ایک دفعہ میں نے پوچھا، مثنوی’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں آپ کے مصرع: علم و حکمت از کتب، دیں از نظر میں ’’ نظر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا’’ صحبت‘‘ ایک دفعہ میں نے عرض کیا، فلاں جدید فرقہ صراحتاً متضاد دعاوی اور لغو عقائد کا مجموعہ ہے، لیکن بہت سے اہل علم و ثروت اور اصحاب دانش و ترجبہ اس میں شامل ہیں جس سے سطحی عقل کے لوگ بانی فرقہ کی صداقت تسلیم کر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس کے جواب میں آپ نے عقل کی متعدد قسمیں بیان کیں، جن کے لیے انگریزی الفاظ استعمال کیے جو مجھے یاد نہیں رہ سکے۔ مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا:’’ بعض لوگ بعض مخصوص فنون و اعمال میں کافی بصیرت کے مالک ہوتے ہیں، لیکن بہت سے دوسرے امور میں قطعاً سادہ اور صریح الاعتماد ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر ایک مثال بیان فرمائی کہ:’’ مجھے ایک مصنف نے اپنی ایک کتاب جو انگریزی زبان میں معدنیات پر لکھی گئی تھی، تبصرے کے لیے بھیجی۔ میں نے اسے پڑھا تو مجھے ایک فن سے ذوق پیدا ہو گیا۔ تھوڑے عرصہ میں میں نے جواہر کے پرکھنے کی مہارت حاصل کر لی۔ 19ء میں جب ولایت گیا تو ایک لارڈ صاحب کی لیڈی کو میرے اس ذوق کا علم ہو گیا، وہ بھی اس کی بہت شوقین تھیں، اپنے جواہرات کا ڈبہ اٹھا کر میرے پاس لے آئیں۔ میں نے ان کے گراں قدر منتخبات کو دیکھا اور ان کی مناسب تعریف کرتا رہا۔ اخیر میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک نہایت اعلیٰ۔۔۔ تھا، لیکن افسوس ہے کہ میں اسے جدا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ میں نے کہا، آپ مجبور کیوں ہو گئیں؟ انہوں نے کہا، مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ میری قسمت کے موافق نہیں۔ اس سے اندازہ لگا لو کہ وہ عورت بڑی اہل علم و تجربہ ہونے کے باوجود کتنے پست و ہم میں گرفتار تھی۔ اسی طرح بعض آدمی کوئی قیمتی پتھر تھا جس کا نام یاد نہیں رہا (منہ) قانون میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، جب وہ کسی مذہبی مدعی کی بزرگی تسلیم کر لیتے ہیں تو عوام کو دھوکا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے قانون نے اس کو بزرگ مانا ہے، ضرور اس میں کوئی بزرگی ہو گی، حالانکہ وہ قانون دان مذہب کی حقیقت سے اتنا ہی گورا ہوتا ہے جتنا ایک عامی انسان۔ اسی طرح اکثر لوگ مذہبی کتب پر عبور رکھتے ہوئے بھی صحیح مذہبی حس نہ رکھنے کے باعث فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘ ایک دفعہ علم جوتش کا ذکر ہوا، فرمانے لگے: ’’ میرے ایک پنڈت دوست نے اپنے استاد سے جو بنارس میں اس فن کا بہت ماہر تسلیم کیا جاتا تھا، جاوید کی ولادت پر جنم پتری بنوائی، میں اس کا قائل نہیں ہوں، اس لیے میں نے اس پر کچھ توجہ نہ کی۔ چند دن گزرے، بڑے بھائی صاحب نے وہ پتری نکال کر دیکھی اور مجھے بھی دکھائی۔ اس میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ یہ بچہ۔۔۔۔ سال کی عمر میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ ‘‘ یہ بچہ سال کی عمر کو پہنچے گا تو اس کا والد لمبی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا اور یہ خود سال تک معدہ (یا شاید جگر) کے مرض میں مبتلا رہے گا۔‘‘ تعجب ہے کہ یہ دونوں باتیں صحیح ہو رہی ہیں۔ ایک دفعہ اسلام یا مسلم کی تعریف میں ایک بلیغ و عمیق تقریر فرمائی، جس کو میں بمشکل سمجھ سکا، اس وقت اس کا دھندلا سا اجمال دماغ میں موجود ہے۔ کچھ ایسا مفہوم تھا کہ انسان صحیح معنوں میں مسلم اس وقت ہوتا ہے، جب قرآن کے فرمائے ہوئے اوامر و نواہی اس کی اپنی ’’ خواہش‘‘ بن جائیں، یعنی وہ یہ نہ سمجھے کہ میں کسی حاکم یا آقا کے حکم و تسلط کے ماتحت فضائل اخلاق و عبادات پر کاربند اور ذمائم و قبائح نفس سے مجتنب ہوں، بلکہ یہ چزیں اس کی اپنی تمنا بن کر اس کے عمق روح سے اچھلیں۔ قرآن اس کے حق میں ایک تلخ اور شافی دوا نہ رہے بلکہ ایک لذیذ اور زندگی بخش غذا بن جائے، منشائے الٰہی اور فطرت انسانی میں مغائرت نہ رہے۔ یہی مطلب ہے فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا الخ کا۔ اس پر تاریخ سے بعض مثالیں بھی دیں جو بالکل بھول گئی ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ تمام داستان طویل عرصہ کے بعد ایک کمزور حافظہ کی مدد سے مرتب کی گئی ہے، اس لیے اس میں بالکل وہی کچھ نہیں ہے جو علامہ مرحوم کی زبان سے نکلا۔ بعض جگہ اشارات تفصیل کی صورت میں آ گئے ہیں اور بعض جگہ تفصیل اشارات میں ہو گئی ہے۔ تاہم یہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بات جو ان کے عقائد کے خلاف ہو، ان کے ذمے لگانے سے احتراز کیا جائے۔ ربنا لا تو اخذنا ان نسینا او اخطانا محمد حسین عرشی ٭٭٭ میرا اقبال غالباً 1905ء میں میں نے پہلی مرتبہ ڈاکٹر سر محمد اقبال علیہ الرحمتہ کو دیکھا۔ لندن میں حصول تعلیم کی غرض سے اپنے قیام کے آخری دنوں میں سر عبدالقادر اور میں یک ہی مکان میں چند دن کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان سے جب کبھی وطن اور ابنائے وطن کے متعلق باتیںہوتیں تو ان کی زبان پر سر محمد اقبال کا تذکرہ ضرور آتا۔ دراصل میرے کان ہندوستان ہی میں ان کے نام سے آشنا ہو چکے تھے۔ مخزن میں اکثر ان کی نظمیں شائع ہوا کرتیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی طبیعت کے ہیجان و طغیان کا پتہ چلتا تھا مگر اس زمانے میں چونکہ بساط ادب پر حالی 1؎، شبلی2؎، نذیر احمد3؎ وغیرہ کا قبضہ تھا اس لیے اقبال کی شخصیت کچھ ایسی جاذب توجہ نہ تھی کہ اس سے ملنے اور اس کی صحبت سے مستفید ہونے کی خواہش پیدا ہوتی۔ بہر صورت میں حصول تعلیم کے بعد جب ہندوستان واپس آیا تو سر عبدالقادر نے لندن سے مجھے ایک خط میں لکھا کہ ان کے دوست شیخ محمد اقبال بھی انگلستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کو لکھ بھیجا ہے کہ وہ چلنے سے قبل سفر اور قیام انگلستان کے متعلق ضروری معلومات مجھ سے حاصل کر لیں۔ چنانچہ چند دن بعد شمس العلماء مولوی سید ممتاز علی صاحب مرحوم کے ساتھ جو میرے پڑوسی تھے، اقبال میرے مکان پر تشریف لائے اور سید صاحب کے توسط سے جو ہم دونوں کے مشترک دوست بھی تھے، ہمارا تعارف ہوا۔ یہ میری اور اقبال کی پہلی ملاقات تھی۔ اقبال کی عمر اس وقت غالباً تیس کے قریب ہو گی۔ ان کے چہرہ کے خد و خال کی موزونیت، ان کے قد و قامت کا تناسب اور ان کے جسم کی ساخت انہیں انفرادی خصوصیات کی حامل تھیں، جن کی وجہ سے پنجابی ہر جگہ ممیز کیے جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ایک ایسی بشاشت نظر آتی تھی جو آخر دم تک ان کے ساتھ رہی اور وفات کے بعد بھی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ چھدری مونچھیں اور آنکھوں پر الجھے ہوئے ابرو عین اسی طرح تھے جس طرح میت کے آخری دیدار پر مجھے نظر آئے۔ میری ملاقات کے وقت ان کی روشن و بشاش آنکھیں صاف ظاہر کرتی تھیں کہ ان کے دن خوش وقتی اور اطمینان میں بسر ہو رہے ہیں۔ ان امور کے علاوہ اقبال کے چہرے یا ان کی حرکات و سکنات سے کوئی ایسی بات مترشح نہ ہوتی تھی جس سے میں اقبال کے متعلق یہ اندازہ لگا سکتا کہ کوئی دن جاتا ہے اس شخص کے افکار انسانی خیالات کی دنیا میں ہیجان و انقلاب کا موجب ہوں گے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ملاقات کے دوران میں میرا خیال رہ رہ کر ان کی شاعرانہ حیثیت کی طرف منتقل ہوتا ۔ ہماری ملاقات مختصر اور رسمی تھی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ وہ سوال کرتے رہے اور میں جواب دیتا رہا، یا یوں کہیے کہ وہ خاموشی سے سنتے رہے اور میں انگلستان کی زندگی کے متعلق اس قسم کے افسانے سناتا رہا جو ہمارے نوجوان اس ملک سے لوٹنے پر اپنی فتوحات کے سلسلے میں سنایا کرتے ہیں۔ چند دن بعد میں نے مولوی ممتاز علی صاحب مرحوم کی زبانی سنا کہ اقبال انگلستان روانہ ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد کم و بیش تین سال تک مجھے ان کے کوائف حالات سے کسی قسم کی کوئی خبر نہیں ملی، مگر ان کی واپسی سے کچھ عرصہ پیشتر میرے کانوں میں ان کا نام پھر پڑنے لگا اور وہ اس طرح کہ ضلع کی کچہری میں قانونی مشاغل کے بعد جب ذرا سستانے کی غرض سے شیخ گلاب دین اور مولوی احمد دین4؎ کے پاس بیٹھنا پڑتا تو اقبال کا تذکرہ بھی چھڑ جاتا۔ مولوی احمد دین مرحوم ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے وہ ڈاکٹر صاحب کا تذکرہ اس انہماک و شغف سے کرتے کہ مجھے بھی ان سے پھر ایک مرتبہ ملنے کی خواہش پیدا ہو گئی اور جب لاہور کے دوست ان کے استقبال کے لیے ریلوے سٹیشن پر گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اقبال سے چند ماہ قبل شیخ عبدالقادر صاحب بھی مراجعت فرمائے وطن ہوئے تھے اور ان کے استقبال پر بھی میں موجود تھا مگر قدرتی طور پر اپنی شان اور چہل پہل کے لحاظ سے اقبال کا استقبال شیخ صاحب کے استقبال سے بہت کم درجے کا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ عبدالقادر مخزن کے ذریعہ لوگوں میں بہت محبوب تھے۔ اقبال کی حیثیت ابھی اردو دنیا میں نوارد کی تھی جس کی طبیعت کے لاتعداد جوہر آئندہ چل کر کھلنے والے تھے۔ ان کی واپسی پر بھاٹی دروازہ کے باہر بلدیہ کے باغ میں شیخ گلاب دین مرحوم نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت دی۔ ڈیڑھ ایک سو آدمی شامل ہوئے اور دو تین اصحاب نے خیر مقدم کی نظمیں پڑھیں۔ دراصل اسی صحبت میں میرے اور اقبال کے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔ پارٹی سے فارغ ہوتے ہی اقبال سیالکوٹ چلے گئے۔ چند دن بعد جب وہ واپس لاہور آئے تو پہلے پہل انہوں نے منشی گلاب سنگھ کے چھاپے خانے کے عقب میں چند کمرے رہائشی اور دفتر کے لیے کرایہ پر لیے۔ اس کے چند ماہ بعد وہ انار کلی میں وہاں اٹھ آئے جہاں کبھی میاں محمد شفیع مرحوم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ میری رہائش ان دنوں چیمبرلین روڈ پر تھی۔ اس قرب مکانی کی وجہ سے ان سے ملنے جلنے میں مجھے اور بھی سہولت مہیا ہو گئی جس کی بنا پر کچہری سے فارغ ہونے کے بعد ہم ایک دوسرے کے مکان پر بھی کافی دیر ملتے۔ انہیں ایام میں میاں شاہنواز مرحوم بینی ہم میں آ ملے اور ہمارے ایسے جلیمں ہوئے کہ ان کے وقت کا اکثر حصہ ہمارے پاس بسر ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے وکالت شروع کی تو انہوں نے ضلع کچہری پر چیف کورٹ کی ترجیح دی اور براہ راست وہیں پریکٹس شروع کی۔اسی دوران میں گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف سے ان کی خدمت میں استدعا کی گئی کہ وہ طلباء کو فلسفہ پڑھا دیا کریں۔ پہلے تو ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ درس و تدریس کا یہ سلسلہ ان کے قانونی مشاغل میں ہارج ہو گا مگر گورنمنٹ کالج والے پہلے ہی سے اس جواب کے لیے تیار ہو کر آئے تھے، انہوں نے سیدھا چیف جج کو جا پکڑا اور اس سے حکم لکھوایا کہ ڈاکٹر صاحب کا کوئی مقدمہ 11بجے سے قبل پیش نہ ہوا کرے۔ کچھ عرصہ یہ مشغلہ بھی جاری رہا مگر بعد میں محکمہ تعلیم پنجاب نے ان سے درخواست کی کہ وہ وکالت سے کلی طور پر علیحدگی اختیار کر کے کالج میں شعبہ فلسفہ کی۔ کرسی کو زینت بخشتیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو آئی ای ایس میں لے لینے کا بھی وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئی ای ایس کے کچھ اتنے مشتاق نہ تھے کہ وہ وکالت جیسا آزاد پیشہ ترک کر کے اپنے پاؤں میں بیڑی ڈال کر بیٹھ جاتے۔ انہوں نے دوستوں سے مشورہ کیا اور ہم سب نے یہی رائے دی کہ سرکاری ملازمت میں اول تو قوت عمل کے سلب ہونے کا احتمال ہے، دوسرے محکمہ تعلیم میں وسعت کے امکانات بہت محدود ہیں، چنانچہ اگر سرکاری ملازمت ہی پر نگاہ ہو تو وکالت ہی کیوں نہ رکھی جائے جس میں ترقی کے جملہ مدارج میں جج کا عہدہ بھی ہے۔ اس پر انہوں نے کالج سے تعلقات منقطع کر لیے اور وکالت پر اکتفا کی۔ اس زمانے میں بار روم میں ایسے افراد بکثرت تھے جو بعد کو جلیل القدر عہدوں پر فائز ہوئے اور حکومت کی نظر میں رفیع المرتبت خطابات کے مستحق ٹھہرے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب لالہ شادی لال، مولوی شاہ دین، میاں محمد شفیع، میاں فضل حسین6؎، لالہ لاجپت رائے7؎، پنڈت شو نرائن شمیم اور دیگر کئی نامور وکلاء ابھی پریکٹس کے مدارج طے کر رہے تھے اور ان کی موجودگی نے بار روم کی رفعت ایسی بلند کر رکھی تھی کہ باید و شاید اقبال بھی اسی عہد میں بار روم میں داخل ہوئے۔ وہ اپنے مقدمات کی تیاری میں خاص انہماک سے کام لیتے اور بڑی محنت سے ان کو تیار کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں ظرافت کو بہت دخل تھا۔ وہ فارغ اوقات میں بار روم میں بیٹھ کر جب اپنی پر لطف باتوں اور ظریفانہ گفتگو کو شروع کرتے تو متعدد افراد ان کے گردا گرد جمع ہو جاتے۔ ہندوؤں میں پنڈت شو نرائن شمیم کو اقبال سے خاص انس تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں خاص دلچسپی لیتے۔ اس دوران میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت گہرے ہو چکے تھے۔ ہمارا معمول یہ تھا کہ دس بجے کے قریب ہم چیف کورٹ میں پہنچے۔ مقدمات کے شروع ہونے تک ادھر ادھر کی گپ چلتی اور جب کوئی مقدمہ ختم ہو جاتا تو دوسرے کے شروع ہونے تک پھر بار روم میں آ جاتے۔ منشی طاہر دین کی جیب میں قینچی کے سگرٹوں کی ڈبیا پڑی رہتی، ڈاکٹر صاحب سگرٹ سلگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور لطائف و پر مذاق باتوں سے وقت کاٹتے۔ بعد میں تو یہاں تک نوبت پہنچی کہ اکثر عدالت عالیہ کے کام سے فارغ ہو کر وہ میرے ہمراہ میرے دفتر میں تشریف لے آتے اور رات دیر گئے تک میرے پاس ہی ٹھہرتے۔ انہیں ایام میں اقبال کی ملاقات نواب سر ذوالفقار علی خاں مرحوم8؎ کے ساتھ بھی ہو گئی اور اسی طرح سر جوگندر سنگھ جوگی سے مراسم قائم ہو گئے۔ ذوالفقار مرحوم، اقبال اور میں کبھی نواب صاحب کے دولت خانے پر اور کبھی میرے دفتر میں قریباً قریباً بلا ناغہ ملا کرتے۔ ہمارے باہمی تعلقات ایسے گہرے تھے کہ سر میاں محمد شفیع مرحوم و فضل حسین مرحوم ہمیںTrioاصحاب ثلاثہ کے نام سے یاد کیا کرتے۔ بعد میں اس ٹرایو میں شیخ اصغر علی صاحب (ریٹائرڈ فینانشل کمشنر پنجاب) کا بھی اضافہ ہو گیا، مگر انہیں ملازمت کی متعدد مصروفیات کی وجہ سے ملنے کا زیادہ وقت نہ ملتا۔ سر عبدالقادر صاحب بھی لائل پور جانے سے پہلے کبھی کبھی اس بزم کو رونق بخشا کرتے اور یوں یہ حلقہ احباب پھیل گیا اور اس کی دلکشی میں ایک گونہ اضافہ ہو گیا۔ اقبال انگلستان سے تشریف لائے تو ان کی عظمت ان کی جلیل القدر شاعری کی وجہ سے تھی۔ لوگ ان کے تبحر علمی اور حکیمانہ ژرف نگاہی سے واقف نہ تھے لیکن کچھ عرصہ بعد ایک جلسہ میں جو احمدیہ جماعت کی طرف سے جو ابھی قادیانی اور لاہوری پارٹی کے جھگڑوں میں نہ الجھی تھی، کیلیاں والی سڑک پر منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک پر مغز مقالے میں مذہب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ آپ کا مضمون انگریزی میں تھا جس کی زبان اس قدر عالمانہ تھی کہ ہر شخص کا فہم و ادراک اس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کے دلوں پر ان کی بالغ نظری، عالمانہ استعداد اور فلسفیانہ لیاقت کا نہایت گہرا اثر ہوا اور وہ آئندہ کے لیے ایک جلیل القدر شاعر کے علاوہ ایک رفیع المرتبت عالم بھی سمجھے جانے لگے۔ اس طرح جب اقبال کی عالمانہ حیثیت کی طرف لوگوں کی آنکھیں کھلیں تو تمام حلقوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ چنانچہ اس کے بعد جب کبھی کوئی سوشل اجتماع ہوتا تو مسئلہ صدارت میں بڑی کشمکش ہوتی۔ اس وقت تک میاں محمد شفیع مرحوم کا نام اس قسم کی مجالس کی صدارت کے لیے واحد طور پر پیش ہوا کرتا تھا، اب لوگ اقبال کی عظمت سے روشناس ہوئے تو ان کا نام بھی اعزاز کے لیے تجویز ہونے لگا اور شفیع مرحوم کے مقابلہ پر احمدیہ جماعت اقبال کا نام پیش کرتی، مگر ڈاکٹر صاحب کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ وہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنے دوست سر ذوالفقار علی خاں کے لیے کوشش کرتے۔ اسی کشمکش کی وجہ سے ان مجالس میں اچھی خاصی گرمی پیدا ہو جاتی اور صدارت کا مسئلہ بڑا دلچسپ رہتا۔ اس زمانہ میں پنجاب میں محض دو تحریکیں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔ ایک مذہبی دوسری، سیاسی، مذہبی تحریک مرزا غلام احمد صاحب کی تھی اور سیاسی مسلم لیگ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ دونوں تحریکیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس زمانے کے تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کی جملہ توجہات کا مرکز تھیں لہٰذا قدرتی طور پر ان دونوں تحریکوں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ جہاں تک مرزا صاحب کی تحریک کا تعلق تھا، اقبال نے اس کا مطالعہ کیا لیکن اس کے مطالعہ کے باوجود انہوں نے اس وقت اس تحریک سے اپنی بیزاری کا وہ اظہار نہیں فرمایا جو بعد کو انہوں نے نظم اور نثر دونوں میں شدت سے کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے سر سید علیہ الرحمتہ کی تعلیم کا بہت چرچا تھا۔ جن افراد کی نظروں میں سرسید جیسے بزرگ کی انقلاب انگیز تحریریں رہتی تھیں ان کے لیے مرزا غلام احمد صاحب کے خیالات کچھ زیادہ اہم نہ تھے۔ میں چونکہ سرسید کا مداح اور طالب علم تھا اس لیے مذہبی بحثوں کے دوران میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ان کی آراء و افکار کا تذکرہ آ جاتا ہے۔ جہاں تک سرسید کے خیالات میں اصلاح کا پہلو تھا، وہ سرسید کے مداح تھے لیکن جہاں تک ان کی تفسیر9؎ کا تعلق ہے وہ اس سے اپنے اختلاف کا اظہار کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔ چنانچہ ایسے مواقع پر میں ان سے ہمیشہ یہی کہا کرتا کہ وہ متنازعہ نکات کی وضاحت کی خاطر قرآن پاک کی تفسیر خود کیوں نہیں لکھتے۔ اس امر پر انہوں نے کئی مرتبہ آمادگی کا اظہار فرمایا مگر جب وقت، اچھی لائبریری اور ضروری مواد کے فقدان کا خیال آتا تو وہ مایوس ہو جاتے۔ میں سیاسی مسائل میں ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال تھا۔ ان کی طرح میرا بھی یہی ایمان تھا کہ مسلمان کسی دوسری سیاسی جماعت میں مدغم ہو کر اپنی ملی حیثیت کو کھو دینے کی بجائے اپنی سیاسی تنظیم کے لیے خود کوشش کریں۔ چنانچہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے لندن میں انہیں مقاصد کے پیش نظر پان اسلامک سوسائٹی10؎ کے نام سے ایک نیم سیاسی انجمن قائم کر رکھی تھی جس کے جنرل سیکرٹری سر عبداللہ سہروردی تھے اور سر سلطان احمد اور میں جائنٹ سیکرٹریز تھے۔ میری واپسی کے بعد جب اقبال وہاں پہنچے تو یہ سوسائٹی قائم تھی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر جب وہ وطن واپس آئے تو صوبائی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ اس لیگ کے صدر مولوی شاہ دین مرحوم تھے، سر محمد شفیع سیکرٹری تھے اور میں اسسٹنٹ سیکرٹری۔ اقبال آئے تو قدرتی طور پر لیگ کی جاذبیت نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ بھی ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گئے۔ لیگ کے خیالات تو خیر ماڈریٹ تھے مگر اس زمانے کی کانگرس بھی کچھ اتنی انتہا پسند نہ تھی پھر بھی حکیم محمد اجمل خاں صاحب مرحوم11؎ جو کانگرس کے بہت بڑے حامی تھے جب کبھی لاہور یا شملہ تشریف لاتے تو سیاسی مسائل پر ان سے ڈاکٹر صاحب کی بڑی گرما گرم بحث ہوتی جو کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتی اور جس کے دوران میں ڈاکٹر صاحب کی بذلہ سنج اور ظرافت پرور طبیعت کے جوہر کھلتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سیاسیات میں عملی طور پر کبھی داخل نہیں ہوئے، کیونکہ ان کی طبیعت اس زحمت سے ہمیشہ نفور رہی۔ گو وہ پہلے اور پھر اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل لیگ کے رکن تھے، مگر ان کی طبیعت کو فطری طور پر سیاست سے مناسبت نہ تھی، نہ انہوں نے اپنی زندگی بھر میں کبھی سیاسی قائد بننے کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ سیاسیات ہندی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مایوس کن ہیں۔ غیر ملکی حکومت کے ارباب قضا و قدر سے جو سات سمندر پار بیٹھ کر اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، کسی قسم کے سیاسی ہنگامے سے متاثر ہونے کی کم امید ہے اور جب تک ہندوستان کی حکومت کا سرچشمہ انگریز ہے مسلمان اپنے مفاد کے لیے اس سے کچھ نہیں پا سکتا اور اس کی تمام جدوجہد اپنے مفید جوہر کو رائگاں کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ وہ ایسی سیاسی قیادت کو سوائے وقتی شور و شغب کے اور کچھ نہ سمجھتے۔ بلکہ وہ اس سلسلے میں اس قدر مایوس تھے کہ انجمن حمایت اسلام جیسے ادارے اور اسلامیہ کالج جیسے دار العلوم کی مجلس انتظامیہ کے صدر ہونے کے باوجود ان کی کارروائیوں سے بڑی بے رخی برتتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت سے امداد لینے کی وجہ سے دونوں کا دائرہ عمل محدود ہو چکا ہے اور ان اداروں کی ترقی کے لیے کسی نئے لائحہ عمل کا تجویز کرنا نا ممکن ہے۔ اقبال کا تفکر و تدبر محض اسی اسلامی سیاست تک محدود تھا، جس کا ذکر کلام پاک میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اسی سیاست کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا اور اسی نکتہ پر ان کے خیالات ابتدا سے آخر تک مرکوز رہے اور یہ نکتہ وحدت ملی تھا۔ اس کے سوا وہ کسی اور سیاست کو درخور اعتنا تصور نہ کرتے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کو سیاست ہندی سے کس قدر لگاؤ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جب کئی سال بعد کونسل کی رکنیت کے لیے انہیں آمادہ کیا گیا تو ان کے مشیران کار اس امر کو نظر انداز کر گئے کہ اقبال کی طبیعت کو اس جنس سے کوئی نسبت نہیں۔ لہٰذا نتیجہ اتنا ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن تھا جتنی توقع تھی۔ شاید سیاست میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو کام خواہ کم کرے مگر باتیں زیادہ بنائے۔ اقبال اول تو ابن الوقت نہ تھے، دوم وہ ایسی سیاست پر اپنا وقت ضائع کرنا عقلمندی تصور نہ کرتے تھے۔ جس کا ماحصل سوائے چند تقریروں کے اور کچھ نہ ہو۔ اس مقام پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر معاملہ ایسا ہی تھا تو پھر اقبال رکنیت کے لیے کیوں کھڑے ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں کونسل کی رکنیت کو آئندہ ترقی کے لیے ایک زینہ سمجھا جاتا تھا اور ڈاکٹر صاحب بھی فطری طور پر ترقی کی خواہش سے بے نیاز نہ تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے اصرار نے بھی انہیں اس کام پر آمادہ کیا۔ جہاں تک فلسفیانہ کاوش اور شعر و سخن کا تعلق تھا، ڈاکٹر صاحب کے رفیع المرتبت دماغ میں اس قدر ذکاوت اور ان کے فکر بلیغ میں اس قدر رسائی تھی کہ ان کے جملہ ادراک مافوق الفطرت تھے اور ان کے متعلق آج کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہے مگر اپنے ذاتی معاملات کے متعلق رائے قائم کرنے میں ڈاکٹر صاحب بالکل بے بس تھے اور ان کا عجز صاف نظر آنے لگتا۔ چنانچہ وہ اس ضمن میں معمولی سے معمولی لوگوں کی طرف رجوع کرتے اور ان کی آراء کے عیب و صواب کو جانچے بغیر ان پر عمل پیرا ہونے تک تامل نہ فرماتے۔ نتیجہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب اپنے معاملات انہیں پر چھوڑ دینے کے عادی سے ہو گئے۔ ان کا یہ طرز عمل ان کے دیرینہ دوستوں کو پسند نہ تھا۔ چنانچہ کچھ تو خود پیچھے ہٹ گئے اور بعض کے متعلق انہیں حضرات کی مساعی سے ڈاکٹر صاحب کے دل میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ جو آخر وقت تک رفع نہ ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر قابلیتوں کے باوجود مردم شناسی میں مشاق نہ تھے، ورنہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھنے والے لاتعداد افراد میں سے جوہر قابل کو ضرور تلاش کر لیتے اور اپنے بعد انہیں بھی سرسید علیہ الرحمتہ کی طرح کام کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت مل جاتی جو ان کی جلیل القدر تعلیم کے علم کو بلند رکھتی اور ان کے فیضان کا سلسلہ بدستور جاری رہتا۔ میں ابتدا سے الیکشن کے خلاف تھا۔ مجھے علم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کو اس قسم کی سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں۔ مبداء فیاض سے جو طبیعت ان کو عطا ہوئی وہ اس قسم کی ہنگامہ خیزیوں سے مایوس نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب وہ الیکشن کے لیے بالکل آمادہ ہو گئے تو ہمیں یہ خیال گزرا کہ اگر وہ کونسل میں جانا ہی چاہیں، تو کم از کم انہیں بلا مقابلہ منتخب کیا جائے۔ اس زمانے تک ڈاکٹر صاحب کا شہرہ دور تک پہنچ چکا تھا اور ان کا نام خاص احترام کا مستحق تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے مقابلے پر خان بہادر ملک محمد دین کھڑے ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعہ سے ہندوؤں میں مسلمانوں کی جس قدر سبکی ہوئی وہ محتاج توضیع نہیں اور ستم یہ تھا کہ ملک صاحب کے کارکنوں میں اکثر افراد ایسے تھے جو ڈاکٹر صاحب کی عظمت سے نا آشنا نہ تھے بلکہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور محرم علی چشتی12؎ جیسے باخبر حضرات ان کے کام کرنے والوں میں سے تھے اور سب پر مستزاد یہ کہ ڈاکٹر صاحب کو بہ نفس نفیس ووٹ طلبی کی خاطر اکثر شہر کے محلوں اور کوچوں میں لے جایا گیا یہ سب باتیں ان کی بے نیاز طبیعت کے منافی تھیں۔ لیکن جب ان کو رکنیت کے لیے کھڑا کر ہی دیا گیا تھا تو وہ کیا کرتے۔ خیر جب انتخاب کے بعد اقبال کونسل میں گئے تو اس کی کارروائیوں سے انہوں نے اسی بے رخی سے کام لیا جو ان کا معمول تھی۔ اس پر ان کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں او ران پر غیر عملیا ور تساہل پسند ہونے کا الزام دیا جانے لگا۔ اول تو اقبال ان معنوں میں عملی انسان ہی نہ تھے کہ وہ زبان سے جن خیالات کا اظہار فرماتے، جھٹ ان پر عمل کر کے دکھا بھی دیتے۔ دوسرے کسی شاعر کے قول و عمل میں تطابق۔۔۔۔۔ کچھ اتنا ضروری بھی نہیں۔ تیسرے ڈاکٹر صاحب محض اپنے آپ کو عملی ثابت کرنے کی نیت سے زیادہ باتیں بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ چنانچہ جو لوگ ان پر بے عمل ہونے کا الزام دیتے ہیں، وہ انہیں لوگوں کی طرح غلطی پر ہیں جو اقبال کو محض شاعر ہی تصور کرتے ہیں اور ان کے افکار کو شعر و سخن کے مقررہ قواعد سے جانچ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال نہ محض شاعر تھا نہ سیاسی لیڈر بلکہ ایک اسلامی فلاسفر یہ معاملہ دوسرا ہے کہ اس نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے نثر کی بجائے نظم کو انتخاب کیا؟ اس صنف ادب کو بھی وہ جان بخشی کہ باید و شاید۔ خیر بات کہیں کی کہیں جا نکلی؟ میں بتا رہا تھا کہ اقبال کی واپسی پر پنجاب میں کون سی تحریکیں کام کر رہی تھیں اور قصہ چھڑ گیا ان کے انتخاب کا، بہر صورت اقبال ہر شام بلاناغہ میرے ہاں تشریف لاتے۔ ان کو راگ رنگ کا بہت شوق تھا۔ میرے مکان پر چونکہ رقص و سرود کی محفلیں اکثر جما کرتیں، اس لیے وہ ان مجالس میں بڑی رغبت سے شمولیت فرماتے۔ میں نے دیکھا کہ بعض اوقات رقص و سرود ہی کے دوران میں آپ اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے۔ گانا جاری ہوتا کہ اقبال کا قلب جذبات سے متاثر ہونے لگتا اور وہ ایک دھیمی آواز میں گنگنانا شروع کر دیتے جس کے ساتھ ساتھ اپنے داہنے زانو کو ہاتھ سے تھپکتے جاتے۔ اس کیفیت کے آشکارا ہوتے ہی ارباب نشاط کو فی الفور گانے سے بند کر دیا جاتا اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر اقبال کی آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی۔ سازندے جو اقبال کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے، نہایت مدھم سروں میں ایک خاص قسم کی تال سی دیتے تھے، جس کے ساتھ وہ اپنی ایک مخصوص لے میں جس کی دلکشی کا اظہار الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتا اپنے اشعار پڑھنا شروع کر دیتے۔ ان کی آواز سازوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے کچھ ایسی دلنواز ہو جاتی کہ ایک سماں سا بندھ جاتا۔۔۔۔ ان کے پڑھنے کے بعد چونکہ پھر گانے کی مجلس کا لطف قائم نہیں رہ سکتا تھا، اس لیے گویوں کو رخصت کر دیا جاتا۔ ’’یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘ والی نظم کی بنیاد بھی ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی تھی اور ملی ترانے کا پہلا شعر بھی اسی حالت میں موزوں ہوا تھا۔ اس میں کلام نہیں کہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ شب کی تنہائی میں مرتب ہوتا تھا، مگر ایسی صحبتوں میں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت جوش پر آ جاتی۔ میری ملاقات سے پیشتر مولوی احمد دین صاحب نے کئی ایسے مواقع کا مشاہدہ کیا۔ مجھے خود سر عبدالقادر نے بتایا کہ اقبال ایک ایک وقت میں سو سو شعر کہہ چکے ہیں اور اس کیفیت کے پیش نظر مجھ سے سر عبدالقادر نے کئی مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ اقبال کے وقت کا اکثر حصہ میرے پاس بسر ہوتا ہے، اس لیے میں تمام ایسے مواقع پر ان کے اشعار و افکار کو قلمبند کر لیا کروں تاکہ یہ چیزیں محفوظ ہو جائیں۔ لیکن مجھے حد درجہ صدمہ ہے کہ میں نے شیخ صاحب کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ ورنہ کئی ایسی باتیں معرض نوشت میں آ جاتیں جن سے اقبال کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت سی مدد ملتی۔ اقبال کی نگاہ میں اس قدر بصیرت تھی کہ وہ معمولی سے معمولی واقعات سے بھی فلسفے کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے۔ مثلاً ایک مرتبہ سر ذوالفقار علی خاں، سر جوگندر سنگھ اور میں اقبال کے ساتھ نواب صاحب کی موٹر میں شالا مار کی طرف سیر کو نکلے۔ اس زمانے میں موٹر سازی کی صنعت ابھی تکمیل پذیر نہ ہوئی تھی، اس لیے موٹریں چلنے کے دوران میں اچھا خاصہ شور پیدا کرتیں۔ مگر نواب صاحب کی موٹر چونکہ بیش قیمت تھی، اس لیے اس میں یہ نقص بڑی حد تک غائب تھا۔ چنانچہ سر جوگندر سنگھ نے از راہ حیرت کہا کہ نواب صاحب کی موٹر کس قدر خاموش واقع ہوئی ہے۔ بظاہر یہ بات کوئی ایسے پتے کی نہ تھی کہ اقبال اس سے یوں متاثر ہو جاتے کہ وہ اسی فقرے پر اپنی نظم کی بنیاد رکھ دیتے، لیکن ’’ بانگ درا‘‘ میں ’’ موٹر‘‘ 12؎ کے عنوان سے جو نظم ہے اس کا مطالعہ فرمائیے اور اقبال کی فلسفہ طراز طبیعت کا اندازہ لگائیے۔ غرض کہ اقبال کے کلام میں متعدد ایسی نظمیں ملتی ہیں جو اکثر نہایت معمولی واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں اگر ان واقعات کو قلمبند کر لیا جاتا تو شاید ان سے بہت سی مفید باتیں نکل سکتیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے خاص دوستوں کی صحبت میں عموماً عاپنے تازہ اشعار بلا کسی فرمائش کے خود بخود سنا دیا کرتے۔ مگر جس زمانے میں وہ’’ شکوہ‘‘ لکھ رہے تھے انہوں نے البتہ حد درجہ خاموشی سے کام لیا۔ جس شام انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں فقیر سید افتخار الدین مرحوم کی صدارت میں آپ یہ نظم سنانے والے تھے، اسی شام آپ اپنے والد صاحب کے ہمراہ میرے ہاں مدعو تھے۔ ہم کھانا ختم کر رہے تھے کہ انجمن کے سیکرٹری صاحب معہ چند اراکین کے ہانپتے ہوئے تشریف لائے اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگے کہ نظم کا وقت شروع ہونے والا ہے اور سامعین شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فی الفور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم سمجھ گئے کہ اس مرتبہ کوئی معرکہ آرا نظم ہو گی جس کے لیے اس قدر پردہ داری سے کام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پنڈال میں داخل ہوئے تو ہمیشہ کی طرح اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں میں ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اس کے بعد نالیوں کے شور میں ڈاکٹر صاحب نظم سنانے کے لیے اٹھے اور یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو جلسہ پر رقت کی کیا کیفیت طاری ہوئی۔ عام طور پر شعر سنانے کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب حد درجہ محتاط تھے۔ انہیں اپنی طبیعت کے سوا کوئی شے اس امر کے لیے مجبور نہ کر سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے خاص دوستوں کے سوا کسی کو نظم نہ سناتے، البتہ حکیم محمد اجمل خاں اور نواب سر ذوالفقار علی خاں دو دوست ایسے تھے کہ ان کو یہ رعایت حاصل تھی کہ ان کی فرمائش ڈاکٹر صاحب رد نہ فرماتے تھے،مگر وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سے واقف تھے، اس لیے کبھی بے جا اصرار نہ کرتے۔ ایک دفعہ لاہور میں پراونشل مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے راجہ نوشاد علی تعلقہ دار اودھ تشریف لائے ہوئے تھے اور سر محمد شفیع کے ہاں قیام پذیر تھے۔ جلسہ میں اقبال، سر عبدالقادر کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ کارروائی سے فراغت پا کر ہم سب راجہ صاحب کے ساتھ چائے پی رہے تھے کہ راجہ صاحب نے برسبیل تذکرہ کہا کہ ہم سنا کرتے تھے کہ پنجاب کے لوگ زندہ دل ہوتے ہیں، مگر میں نے تو یہاں کوئی زندہ دلی نہیں دیکھی۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ آپ غلط جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں؟ خیر لیجئے ہم اس کا ابھی انتظام کیے دیتے ہیں اور انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ لو بھئی کل یہ شکایت بھی رفع ہو جائے۔ میں نے دوسرے دن رقص و سرود کا سامان کیا اور راجہ صاحب کو معہ دیگر احباب کے مدعو کیا۔ ہر چند لاہور کی نامور طوائف بلائی گئی تھیں، مگر لکھنو کا لطف کہاں؟ تھوڑی دیر کے بعد راجہ صاحب نے گانا بندکرا دیا اور اقبال سے فرمائش کی کہ وہ ترنم کے ساتھ کچھ سنائیں۔ ہر چا انہوں نے اصرار کیا مگر ڈاکٹر صاحب صاف انکار کر گئے۔ اس سے جلسہ میں بدمزگی سی پیدا ہو گئی۔ جب سب لوگ اٹھ کر چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب مجھ سے کہنے لگے:’’ جو لوگ اپنی وجاہت کے بھروسے پر میری نظم سننا چاہتے ہیں وہ میرے سامعین میں سے نہیں۔‘‘ جس صحبت میں سر عبدالقادر یا گرامی مرحوم ہوتے اقبال اپنی نظم کے دوران میں لطافت سخن اور رفعت تخیل کی طرف خاص طور پر توجہ دلایا کرتے۔ گرامی مرحوم کی موجودگی میں اشعار کا خاص لطف آتا کہ دونوں استاد ان فن ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے۔ اقبال دیگر اساتذہ کے شعر و سخن کے بھی بہت دلدادہ تھے۔ خواجہ حالی مرحوم کے مسدس کے تو عاشق تھے۔ میرے پاس ریاست ٹونک کا ایک شائستہ مذاق شخص ملازم تھا۔ اسے ستار بجانے میں خاصی دسترس تھی اور وہ مسدس حالی ستار پر ایک خاص طرز کے ساتھ سنایا کرتا۔ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف میں وہ بند جو: ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ سے شروع ہوتے ہیں یا جو مسدس حالی کے آخر میں ہیں انہیں بطور خاص مرغوب تھے۔ ان کو سنتے ہی ان کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے۔ اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں۔ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انہیں جو وابستگی تھی اسی کی وجہ سے انہیں اولیائے کرام سے بھی خاص عقیدت تھی اور وہ ان کے مزارات پر اکثر حاضر ہوا کرتے۔ لاہور میں حضرت علی ہجویریؒ 14؎ اور شاہ محمد غوث15؎ کے مزارات پر اکثر جاتے اور اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار فرماتے۔ وہ پیشہ ور پیروں کے ہمیشہ خلاف رہے، لیکن اگر انہیں کوئی مرد کامل نظر آ جاتا تو وہ ضرور اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ ایک مرتبہ پانی پت کے چند اشخاص نے مجھے اپنے مقدمہ میں وکیل کیا۔ یہ اصحاب حضرت خواجہ غوث علی شاہ صاحب قلندر پانی پتی کے سجادہ نشین حضرت سید گل حسن شاہ صاحب مصنف تذکرہ غوثیہ کے مرید تھے۔ اس زمانے میں شاہ صاحب کی روحانیت کا بہت شہرہ تھا۔ میرے موکل جب لوٹنے لگے تو میں نے شاہ صاحب کو سلام بھیجا اورکہلا بھیجا کہ کبھی پانی پت کی طرف آنے کا موقع ملا تو ضرور حاضر خدمت ہوں گا۔ دو تین ماہ بعد ایک دن اچانک انہیں اصحاب میں سے ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے:’’ لو شاہ صاحب خود ہی تشریف لے آئے ہیں۔ ان دنوں وہ امرتسر میں مقیم ہیں اگر تم ان سے ملنا چاہو تو میرے ساتھ چلو‘‘ میں نے شاہ صاحب کے جائے قیام کا پتہ دریافت کر کے انہیں تو رخصت کیا اور خود ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچا۔ وہ بھی چلنے کو تیار ہو گئے۔ اتنے میں سر ذوالفقار علی خاں تشریف لے آئے اور ہم تینوں ٹرین پر سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ راستے میں یہ طے پایا کہ شاہ صاحب پر سر اقبال اور سر ذوالفقار کی شخصیت کا اظہار نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ دیکھنا مطلوب تھا، آیا شاہ صاحب بھی اپنے کشف سے ان کی شخصیت کو تاڑ لیتے ہیں16؎ یا نہیں۔ ہم شاہ صاحب کے پاس پہنچے تو میرے موکلوں میں سے ایک نے میرا تعارف کرایا اور میں نے اپنے رفقاء کو شیخ صاحب اور خان صاحب کے مختصر ناموں کے ساتھ پیش کیا۔ دوران گفتگو میں شاہ صاحب نے دریافت کیا:’’ آپ میں سے کوئی صاحب شعر بھی کہتے ہیں؟‘‘ یہ سوال اپنی تمام تر سادگی کے باوجود ہمارے لیے حد درجہ اہم تھا اس لیے نواب صاحب اور میں کنکھیوں سے اقبال کی طرف دیکھنے لگے۔ نواب صاحب نے ٹال دینے کی نیت سے جواب دیا:’’ شاہ صاحب جہاں تک شعر سے لطف اندوز ہونے کا تعلق ہے ہم بھی اہل پنجاب کی ادبی روایات کے تھوڑے بہت حامل ضرور ہیں۔‘‘ مگر شاہ صاحب اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے، کہنے لگے جس طرح پھول کی خوشبو خود بخود انسان کے دماغ تک پہنچ جاتی ہے مجھے بھی یوں محسوس ہو رہا ہے گویا آپ میں سے کوئی صاحب شاعر ضرور ہیں۔ اتنے میں اندر سے کسی کی آواز آئی:’’ ارے یہ کہیں ذوالفقار تو نہیں بول رہے؟‘‘ نواب صاحب سٹپٹا گئے کہ ان کا راز کیسے کھل گیا۔ معلوم ہوا۔ راجہ۔۔۔۔۔ (نام یاد نہیں رہاـ) تعلقہ دار یو پی جو شاہ صاحب کے مرید اور نواب صاحب کے دوست تھے اور اپنے علاج کے سلسلے میں اپنے پیر صاحب کے ہمراہ امرتسر آئے ہوئے تھے، اندر لیٹے ہیں۔ انہوں نے نواب صاحب کی آواز فوراً پہچان لی اور نواب صاحب کا راز طشت از بام کر دیا۔ اب میرے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں نے پشیمانی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا نام شاہ صاحب کو بتایا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر مسکرانے لگے، پھر بولے میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ میں سے یہی حضرت شاعر ہیں۔ اس کے بعد دیر تک ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے متعلق شاہ صاحب اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے۔ ہم چلنے کی نیت سے اٹھنے لگے تو اقبال نے شاہ صاحب سے کہا کہ وہ عرصہ سے سنگ گردہ کے مریض ہیں، وہ ان کے لیے دعا کریں کہ انہیں اس شکایت سے نجات ملے۔ شاہ صاحب کہنے لگے:’’ بہت اچھا، لیجئے میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں، آپ بھی ہاتھ اٹھائیں‘‘ دعا کے بعد ہم نے اجازت لی اور لاہور کی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ راستے میں ڈاکٹر صاحب پیشاب کی نیت سے غسل خانے میں تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو ان کے چہرے پر حیرت و استعجاب کے آثار نظر آ رہے تھے، کہنے لگے:’’ عجب اتفاق ہوا ہے، پیشاب کے دوران میں مجھے یوں محسوس ہوا، گویا ایک چھوٹا سا سنگ ریزہ پیشاب کے ساتھ خارج ہو گیا ہے۔ مجھے اس کے گرنے کی آواز تک سنائی دی اور اس کے خارج ہوتے ہی طبیعت کی ساری گرانی جاتی رہی۔‘‘ اکثر مجالس میں ڈاکٹر صاحب سے قرآن حکیم کے رموز سننے کا بھی ہمیں موقع ملتا۔ وہ فقہ 17؎ میں کسی خاص سکول کے پابند نہ تھے، گو عام طور پر لوگ انہیں سنی ہی سمجھتے رہے ہیں اور وہ اپنے امور میں اہل سنت ہی کے شعار کے پابند تھے۔ مسائل شرعی میں وہ بڑی آزاد خیالی کے ساتھ گفتگو فرمایا کرتے اور دوران بحث میں کہا کرتے خدا کا ارشاد ہے فتفکروا و تدبروا18؎ اجتہاد ہر شخص کا فطری حق ہے اور وہ ساری عمر اسی پر عمل پیرا رہے۔ اقبال مذہبی لٹریچر کا بہت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ جب وہ کسی مذہبی مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے تو معلوم ہوتا کہ موضوع زیر بحث پر کوئی کتاب یا رسالہ ان کی نظر سے نہیں بچا۔ وہ اپنے خیالات کو اس خوبی سے پیش کرتے کہ سننے والا ان کے تبحر علمی سے مرعوب ہوئے بغیر رہ نہ سکتا۔ ان کا استدلال ایسا جامع ہوتا کہ مخالف پر ہر طرح کی حجت پوری ہو جاتی اور اس کے لیے انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔ ان کے انداز بیان میں ایک ایسی قدرت تھی کہ وہ فرسودہ سے فرسودہ مسائل میں بھی کوئی نہ کوئی نیا نکتہ پیدا کر کے دکھا دیتے اور باخبر سے باخبر سننے والے کو بھی یوں معلوم ہوتا گویا یہ بات پہلے اس کے مطالعہ میں کبھی آئی نہ تھی، مگر اپنی اس عالمانہ شان کے باوجود اقبال کبھی تعلی کی نہ لیتے۔ میں نے انہیں کبھی اپنی وسیع معلومات سے اپنے پاس بیٹھنے والوں پر رعب ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مجھے ابتداء سے مذہبی باتوں میں بہت توغل تھا۔ سرسید19؎ کی تعلیم نے تو اس تشنگی کو جنون میں تبدیل کر دیا تھا۔ چنانچہ میرے اور اقبال کے درمیان فراغت کے ایام میں اکثر مذہبی بحث چھڑ جاتی، بلکہ میں ان کے تبحر علمی سے مستفید ہونے کی خاطر ان سے بحث چھیڑ لیتا جس کے دوران میں ان کے ساتھ آیات محکمات و متشابہات اور ولادت مسیح ؑ، ظہور مہدی، جبر و اختیار، جزا و سزا وغیرہ جیسے متنازعہ مسائل پر میرا ان کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا اور وہ ان مسائل کی اس شرح و بسط کے ساتھ وضاحت فرماتے کہ اگر میں ان کے آرا و افکار کو ساتھ ساتھ قلمبند کرتا رہتا تو آج مذہبی مسائل پر ایک ضخیم و جامع دفتر تیار ہو جاتا۔ ڈاکٹر صاحب کی وسعت معلومات کو دیکھ کر مجھے کئی مرتبہ خیال گزرتا کہ اگر وہ شعر و سخن اور فلسفیانہ غور و فکر کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے مذہبی مسائل کی تشریح کی طرف توجہ دیتے تو وہ اپنے وقت کے بہت بڑے مذہبی پیشوا ہوتے، اسی خیال کے پیش نظر میں نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے استدعا کی کہ قرآن حکیم کی تفسیر لکھیں اور ا س میں کلام نہیں کہ اگر وہ تفسیر لکھتے تو وہ یقینا بہترین ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں علوم اسلامی کی نشر و اشاعت کا خیال ہمیشہ رہا۔ وہ مجھ سے فرمایا کرتے کہ اگر حالات مساعدت کرتے تو وہ ایک اسلامی دار الاشاعت کی طرح ڈالتے جو اسلامی فلسفہ و تعلیم کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانے کی سعی کرتا۔ وہ کہا کرتے کہ علوم اسلامی کے متعدد اوراق ایسے ہیں، جن کی اشاعت اس زمانے کے لیے از بس ضروری ہے۔ انہوں نے کئی مرتبہ ایک ایسی اسلامی لائبریری کی ضرورت کو بھی شدت سے محسوس کیا جہاں مذہب کے متعلق تمام ضروری کتابیں مہیا ہوںَ اسی طرح وہ ایک ایسے اسلامی ادارے کے قیام کے بھی خواہش مند تھے جس کے توسط سے علوم اسلامی کا احیا ہو۔۔۔۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ اگر کہیں سے زمین اور اخراجات کا انتظام ہو سکتا تو وہ اپنی دیرینہ آرزو کو عملی شکل دیتے۔ ملاؤں20؎ کے طائفہ نے اسلامی ترقی کو ہندوستان میںجس قدر ضعف پہنچایا ہے، اس پر ان کا دل ہمیشہ جلتا۔۔۔ وہ ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اپنے ذہن میں ایک سکیم تیار کر رہے تھے، بلکہ آخری دنوں میں انہوں نے اعلیٰ حضرت سرکار بہاولپور کی خدمت میں اسی سکیم کے بارے میں ایک خط بھی ارسال کیا۔ ان کے اس ارادے کی تجویز نے خود مجھ پر اس قدر اثر کیا کہ میں نے بہاولپور میں اس کی سرپرستی کا انتظام کرنا چاہا، بلکہ بہاول نگر کے گرد و نواح کو اس کام کے لیے اپنے ذہن میں منتخب بھی کر لیا۔ جن دنوں وہ بیمار تھے، میں کرنل مقبول حسین قریشی21؎ وزیر بہاولپور کے ساتھ ان کی خدمت میں پہنچا اور میں نے انہیں بتلایا کہ میں کرنل موصوف کے توسط سے سرکار بہاولپور کی خدمت میں ان کے ادارے کی سرپرستی کے لیے درخواست کرنے والا ہوں۔ اس خبر سے وہ بہت خوش ہوئے، مگر ان کی بے وقت موت نے اس کام کو وہیں روک دیا۔ معاشرتی بحثوں میں وہ ہمیشہ سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین فرمایا کرتے بلکہ حضور رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سادہ زندگی کو اپنا اسلوب بنانا چاہتے۔ جب وہ میری درخواست پر انار کلی سے میکلوڈ روڈ پر اٹھ آئے تو میں نے ان سے مکان کی آرائش کے لیے کہا کہ وہ اس کے مردانہ کمروں کو ڈرائنگ اور ڈائننگ کی صورت میں تقسیم کر دیں، مگر اس پر انہوں نے یہی فرمایا کہ وہ کسی قسم کے بے معنی تکلفات میں الجھنا نہیں چاہتے۔ چنانچہ کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا معاشرتی اسلوب وہی رکھا جو انار کلی بازار کے قیام کے دوران میں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے کمروں کو مغربی فیشن کے مطابق آراستہ نہ کیا، بلکہ اس میں ایک خاص انداز پیش نظر رکھتے۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے نشست کے کمرے کی کیفیت یہ تھی کہ فرش پر قالین بچھا رہتا اور کرسیاں دیوار کے ساتھ چاروں طرف لگی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب خود فرش پر تشریف رکھتے اور ملاقاتی بھی اکثر فرش ہی پر بیٹھتے۔ کمرہ میں داخل ہونے سے قبل ایک برآمدہ تھا جس میں کرسیاں بچھی رہتیں۔ ایام سرما میں ڈاکٹر صاحب دھوپ میں بیٹھنے کی نیت سے برآمدہ میں تشریف رکھتے۔ برآمدہ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی پڑی رہتی۔ گرمی کے دنوں میں آپ دن کے وقت اسی کمرے میں آرام فرماتے۔ اس سادہ پسندی کی وجہ سے انہیں غیر ملکی لباس سے نفرت تھی۔ گوہاٹی کورٹ میں انہیں کوٹ پتلون پہن کر جانا پڑتا اور اکثر معاشرتی تقریبات کے سلسلے میں بھی وہ انگریزی لباس ہی نہ مجبوری تمام پہن لیا کرتے، لیکن موجب تکلف سمجھ کر وہ ہمیشہ اسے بار خاطر سمجھتے رہے۔ وہ اکثر شلوار اور چھوٹا کوٹ پہنتے۔ عیدین کی نماز کے موقع پر کبھی کبھی بند گلے کا کوٹ بھی پہن لیا کرتے۔ اسی طرح وہ دیسی جوتی اور رومی ٹوپی کو پسند کرتے۔ کبھی کبھی صافہ بھی باندھ لیتے۔ دیسی کھانے میں وہ اچھی چیزیں بڑی رغبت سے کھاتے، بلکہ اچھا کھانا کھانے کا انہیں بہت شوق تھا۔ پہلے تو دن میں وہ دو مرتبہ ہی کھانا کھایا کرتے تھے، بعد میں ایک وقت پر اکتفا کرنے لگے۔ اس میں بھی حتی الوسع کم کھاتے۔ اس سلسلہ میں میں نے ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ جب بھی وہ کھانے کے وقت پر میرے ہاں ہوتے اور میں ان سے دریافت کرتا کہ اگر اشتہا ہو تو کھانا منگواؤں؟ تو یہی جواب دیتے کہ انہوں نے کبھی اشتہا سے کھانا نہیں کھایا، بلکہ جب بھی مل جائے کھا لیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب حقے کے بہت دلدادہ تھے۔ خالص پنجابی قسم کا حقہ ہر وقت ان کے سامنے پڑا رہتا۔ ایک مرتبہ شہزادی دلیپ سنگھ بمبا کی کوٹھی پر جانے کا اتفاق ہوا۔ سر جوگندر سنگھ، سر ذوالفقار علی خاں اور میں ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ تھے۔ موصوفہ کو ڈاکٹر صاحب سے بہت عقیدت تھی اور وہ انہیں اکثر اپنی کوٹھی پر مدعو کیا کرتیں۔ ہم سب بیٹھ گئے تو شاہزادی اٹھ کر برآمدہ میں تشریف لے گئیں اور چند منٹ بعد ایک نفیس حقہ خود اٹھائے ہوئے واپس آئیں اور ڈاکٹر صاحب کے سامنے اسے رکھ کر فرمایا کہ شوق کیجئے۔ شہزادی اردو نہ جانتی تھیں، مگر ڈاکٹر صاحب کے کلام کی بہت مشتاق رہتیں، ان کی فرمائش پر ڈاکٹر صاحب نے ایک مختصر سی نظم سنائی جس کا ترجمہ سر جوگندر سنگھ نے انگریزی میں کیا۔ اقبال جہاں بھی رہے ان کا امکان مرجع خواص و عوام رہا، کیونکہ ان کی محفل میں ہر ایک کو صلائے عام تھی۔ صبح سے شام تک ملاقاتیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ان کے مکان پر جاری رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارا دن اپنے مکان پر مقیم رہنے کے عادی ہو گئے اور چلنے پھرنے سے گھبرانے لگے۔ جب وہ انار کلی میں قیام پذیر تھے تو صبح کے وقت چند دوستوں کی معیت میں وہ بھاٹی دروازہ کی طرف سے راوی کی جانب جایا کرتے۔ جب وہ میکلوڈ روڈ پر آئے تو میں نے ان سے کہا کہ وہ صبح کے وقت سیر کو نکلا کریں۔ چند روز تو وہ میرے ساتھ گئے، ایک دن تنگ آ کر کہنے لگے کہ: ’’ یہ روز کا جھنجھٹ کچھ ٹھیک نہیں، کبھی کبھار چلنا ہوا کرے تو ایک بات بھی ہے، ہر روز کون نکلے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ جو تھوڑا سا وقت دوست احباب اور ملاقاتیوں کی صحبتوں سے بچ رہتا اسے مطالعہ پر صرف کرتے۔ مطالعہ کے لیے خاص مضمون یا خاص زبان کا التزام نہ ہوتا۔ اردو، فارسی، عربی، انگریزی جس زبان کی کتاب مل جاتی پڑھ لیتے۔ اچھی کتاب کا نام سنتے تو دوستوں سے مانگ لیتے۔ اپنی کتابوں میں جس میں زیادہ دلچسپی لیتے، اس کے حاشیے پر بطور نوٹ کچھ نشان سے بھی لگا دیا کرتے۔ انگریزی تلفظ میں ڈاکٹر صاحب کا لہجہ بڑا معمولی تھا، مگر تحریر میں ان کے قلم کا زور بے پناہ ہوتا۔ یہی حال عربی فارسی کا تھا۔۔۔۔ ان زبانوں پر عالمانہ عبور رکھنے کے باوجود بولنے میں ان کی کیفیت یہ ہوتی کہ وہ اٹک اٹک جاتے، مطالب قرآنی پر ان کی نظر ہمیشہ رہتی۔ کلام پاک کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران میں جب وہ بآواز بلند پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر فکر کرتے اور ان سے متاثر ہو کر رو پڑتے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز میں ایک خاص کشش تھی۔ جب وہ قرآن پاک کو بآواز بلند پڑھتے یا اپنے اشعار اپنی مخصوص لے میں سناتے، تو سننے والوں کا دل پگھل جاتا۔ جب ان کی آواز خراب ہو گئی تو میں ان سے ملنے گیا۔ مجھے ان کی اس شکایت کا علم نہ تھا۔ دوران گفتگو میں نے دیکھا کہ وہ بہت زور سے بولنے کی کوشش کرتے پھر بھی ان کی آواز ٹھیک طور پر سنائی نہ دیتی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی اور میں نے بحالت یاس ان سے کہا کہ: ’’ ڈاکٹر صاحب آپ کی آواز کا یوں بند ہو جانا آپ سے بڑھ کر خود آپ کے دوستوں کی بد قسمتی ہے جن کے گوش اب اس نعمت سے نہ جانے کب تک محروم رہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کو روپے پیسے کا لالچ نہ تھا، ہاں اس کی قدر ضرور کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے بے ضرورت خرچ سے ہمیشہ محترز رہتے، بلکہ اکثر اوقات اس کے مصرف میں اس قدر حزم و احتیاط سے کام لیتے کہ ان کی احتیاط کنجوسی دکھائی دینے لگتی۔ ہم نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی کبھی کھانے پر حکام کو اپنے ہاں مدعو کر لیا کریں۔ انگریز کو رام کرنے کا بہترین طریقہ اکل و شرب کی دعوت ہے۔ وہ اکثر بڑے بڑے وعدے ایسی ہی صحبتوں میں کیا کرتا ہے اور جو تعلقات کھانے کی میز پر قائم ہوتے ہیں ان کا احترام اس ہمیشہ ملحوظ رہتا ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہمارے مشورے قابل قبول نہ ہوتے، وہ یہی جواب دیتے کہ وہ ایسی تقریبات پر روپیہ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ اول تو انگریز کو رام کرنے کا سوال ہی ان کی دلچسپیوں کے دائرے سے باہر تھا، دوسرے اگر کھانا کھانے کے بعد بھی انگریز رام نہ ہوا تو اس درد سر کا فائدہ؟ ڈاکٹر صاحب نے خود کبھی کسی دنیوی اعزاز کے حصول کے لیے کوشش نہ کی، گو جب وہ کسی سے سن پاتے کہ ان کا نام ہائیکورٹ کی ججی کے لیے زیر غور ہے تو وہ اس موضوع پر خاص طور پر دلچسپی لینا شروع کر دیتے مگر وہ خود اس سلسلے میں کبھی کوئی سرگرمی نہ دکھاتے، بلکہ انہوں نے اپنے خطاب کے معاملہ میں بھی کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں فرمایا۔ خطاب کے ملنے سے کچھ عرصہ پیشتر انگلستان کا ایک مشہور اخبار نویس، جو ادبی دنیا میں کافی شہرت رکھتا تھا، ممالک اسلامی کی سیر سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کا مہمان ہوا، اسے ترکی سے لے کر افغانستان تک جس اسلامی قلم رو سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب کا نام ہر جگہ اس کے سننے میں آیا تھا۔ لاہور پہنچتے ہی اس نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر ارباب حکومت چونکہ ہمارے ادبی مشاہیر سے بے خبر اور ان کے کارناموں سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لیے کچھ تعجب نہیں اگر گورنر پنجاب اقبال کی عظمت سے ناواقف نکلے۔ تاہم اخبار نویس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں چائے پر مدعو کر کے اسے ان کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع بہم پہنچائے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی، مگر ان کی مثال تو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی سی تھی، کہنے لگے:’’ کون جائے، پاؤں کے انگوٹھے میں کئی دن سے درد ہے، گورنمنٹ ہاؤس تک جانے میں نہ جانے تکلیف کس قدر بڑھ جائے۔‘‘ میں نے اصرار کیا کہ و ہ ضرور جائیں، پہلے تو وہ اپنی ضد پر اڑے رہے مگر بعد میں چلنے کے لیے تیار ہو گئے اور میں انہیں اپنی گاڑی میں سوار کر کے خود گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچا کر آیا۔ واپسی پر وہ سیدھے میرے ہاں تشریف لائے اور تمذکرہ بالا واقعہ من و عن سنایا۔ اس کے چند دن بعد ہی گورنمنٹ کی طرف سے آپ کے روبرو خان بہادر کے خطاب کی تجویز پیش کی گئی۔ جسے آپ نے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد ’’ شمس العلمائ‘‘ کی تجویز ہوئی، اسے بھی آپ نے رد کر دیا، بالآخر ’’ نائٹ ہڈ‘‘ کی تجویز ہوئی۔ اس کے قبول کرنے میں بھی آپ کو تامل تھا لیکن نواب سر ذوالفقار علی خاں کے اصرار پر وہ اس پر رضا مند ہو گئے۔ جب انہوں نے خطاب قبول کر لیا تو اس پر دبی زبان سے چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کسی نے کہا:’’ حکومت نے آپ کی زبان بندی کے لیے یہ چال چلی ہے۔‘‘ کوئی کہنے لگا’’ آخر بیچارے اقبال بھی کیا کرتے، حصول جاء سے بے نیاز رہنا کچھ اتنا آسان نہیں۔‘‘ کسی اور نے کہا:’’ نہیں، اب اقبال کی فطری بے باکی کا خاتمہ سمجھو۔‘‘ انہیں خیالات کی ترجمانی میں’’ زمیندار‘‘ میں مولانا ظفر علی خاں صاحب نے ایک نظم بھی چھاپ ماری۔ ڈاکٹر صاحب بھی عوام کی اس قیاس آرائی سے بے خبر نہ تھے، چنانچہ جب اس خطاب کے سلسلے میں آپ کے اعزاز میں شاہدرہ باغ کے اندر ایک بہت بڑی پارٹی دی گئی تو آپ نے گورنر پنجاب کی موجودگی میں وہ اشعار سنائے جو ’’ طلوع اسلام‘‘ کے ابتداء میں درج ہیں۔ اس میں انہوں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو اعلائے کلمتہ الحق سے نہیں روک سکتی۔ حساس ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں عفو اور غیض دونوں قسم کے جذبات کی شدت تھی۔ وہ زود رنج تو نہ تھے لیکن اگر ناراض ہو جاتے تو پھر ان کا غصہ دیر تک رفع نہ ہوتا۔ اسی طرح جب وہ مائل بہ کرم ہوتے تو بڑی سے بڑی رنجش کی بھی پروا نہ کرتے۔ مجھے خود ان کی طبیعت کی اس افتاد کا ایک تجربہ حاصل ہے۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں مرحوم اور میرے درمیان چند قطعات اراضی کے نظم و نسق کے سلسلے میں ایک غلط فہمی سی پیدا ہو گئی۔ بظاہر یہ بڑی معمولی سی غلط فہمی تھی، جس کا ازالہ معمولی حالات میں بآسانی ہو جاتا مگر اتفاقات ہی کچھ ایسے پیش آئے کہ یہ ذرا سی غلط فہمی اچھی خاصی رنجش میں مبدل ہو گئی۔ ایک دن برسبیل ذکر ڈاکٹر صاحب کے مکان پر یہی مسئلہ ہم دونوں کے درمیان زیر بحث آ گیا۔ میں نے ان کے پاس اپنی صفائی بیش کی اور ان سے کہا کہ میں ان کے روبرو تمام واقعات کو پیش کروں گا تاکہ وہ ہم دونوں کے دوست کی حیثیت سے غیر جانبداری سے بتا سکیں کہ میری طرف سے یا نواب صاحب کی طرف سے کون سی زیادتی روا رکھی گئی تھی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ نواب صاحب راستی پر ہیں۔‘‘ مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس یک طرفہ فیصلہ پر سخت رنج ہوا اور میں نے کہا:’’ اگر آپ نے حالات کو سنے بغیر میرے متعلق اپنے دل میں ایک رائے قائم کر لی ہے تو میں آپ کی اس غیر منصفانہ رائے کو پرکاہ کی وقعت بھی نہیں دیتا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں چھڑی اٹھا کر باہر کی طرف چل کھڑا ہوا۔ گو اس وقت میرا دل غصے کے جذبات سے معمور تھا، پھر بھی اپنی پرانی دوستی کے پیش نظر مجھے یہی توقع تھی کہ وہ مجھے اس طرح رخصت ہونے دیں نہ گے بلکہ آگے بڑھنے سے روک دیں گے، مگر التجا و منت سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بیگانہ تھی۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھے حقہ گڑگڑاتے رہے، گوی ان کے نزدیک میرا یہ اضطراری فعل میرے روز مرہ کے معمول میں سے تھا۔ا س سے میرے دل پر ایک اور چرکا لگا اور میں نے یوں سمجھا گویا انہوں نے دانستہ طور پر مجھے ذلیل کیا ہے۔ گھر آیا تو میرا دل اس واقعہ سے سخت پژ مردہ ہوا۔ برسوں کی یکجائی اور ہم صحبتی کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کا میری طبیعت سے یوں بیگانہ نکلنا میرے لیے حد درجہ حیرت اخیز امر ھا جس کا خیال رہ رہ کر جی کو بے چین کرتا۔ نواب صاحب سے تو رنجش پیدا ہو ہی گئی تھی، اس واقعہ کے بعد سے ڈاکٹر صاحب سے بھی تعلقات منقطع ہو گئے۔ اس سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا گویا دنیا میں میں اکیلا ہی رہ گیا ہوں۔ کچہری کے کام کے بعد وقت کا کاٹنا سوہان روح ہو جاتا اور طبیعت مضمحل ہونے لگتی۔ کئی مرتبہ دل میں خیال آتا کہ جو کچھ ہوا ہے اسے عبث سمجھ کر خود ڈاکٹر صاحب کی طرف رجوع کر لوں، مگر پھر احساس خود پرستی ایسا کرنے سے روکنا اور دل کی گہرائیوں سے ندا آتی کہ اگر اقبال کو تیری دوستی کی قدر ہوتی تو کیا وہ خود چل کر آنہ سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ہائیکورٹ جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے مکان کے سامنے سے گزرتا تو وہ مجھے دور اپنی کوٹھی کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے نظر آتے۔ دل میں ایک کپکپی سی ہونے لگتی اور جی چاہتا کہ دوڑ کر ان سے لپٹ جاؤں، مگر پھر اپنے صدمے کا خیال آ جاتا اور میں خاموشی سے آگے بڑھ جاتا۔ اس کیفیت سے آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی ایک قسم کی بے نیازی سی آتی گئی، یہاں تک کہ اسی حالت کو ایک سال گزر گیا۔ ایک سال جو اپنی طوالت کے لحاظ سے ایک صدی سے بھی طویل معلوم ہوتا تھا۔ اس اثنا میں میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ا س زمانے میں میں نکلسن روڈ پر اٹھ آیا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت دیکھتا ہوں تو ڈاکٹر صاحب خراماں خراماں میرے ہاں چلے آتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ تعزیت کی غرض سے تشریف لائے ہیں مگر خدا جانے کیا وجہ تھی کہ مجھے ان کا یوں چلے آنا کچھ ناگوار سا گزرا۔ وہ بھی میرے دل کی کیفیت کو بھانپ گئے، مگر خاموش رہے۔ دعائے فاتحہ ہو چکی تو مجھے خیال گزرا شاید وہ سرد مہری سے متاثر ہو کر چلے جائیں مگر وہ بدستور بیٹھے رہے۔ پھر یک لخت ایک ایسے لہجہ میں جو ان کی رقیق القلبی کی تمام کیفیات کا آئینہ دار تھا، مجھ سے کہنے لگے:’’ سنو تو! تم نے اس دن میرے متعلق خواہ مخواہ اپنے دل میں بدظنی کو راہ دی۔ میں نے جو کچھ کہا اس سے کسی طرح تمہاری نیت پر شبہ کرنا مقصود نہ تھا مگر تم نے بھی غضب کر دیا کہ بگڑ کر اٹھ آئے اور پھر اس پر یہ ستم بھی روا رکھا کہ سال بھر اسے ادھر کا رخ نہ کیا، مگر خیر آج اپنے دل کو میری طرف سے صاف کر دو اور میری رفاقت پر پہلا سا اعتماد پیدا کرو۔ اگر تم سچ مچ یہی سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی روا رکھی ہے تو آؤ مجھے معاف کر دو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کے ان الفاظ نے میرے دل پر تو جو اثر کیا وہ تو کیا ہی تھا، ڈاکٹر صاحب کا اپنا دل بھی بھر آیا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر بچوں کی طرح رو پڑے۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ پیشتر میرے اور نواب سر ذوالفقار علی خاں کے تعلقات بھی پھر استوار ہو چکے تھے لیکن مجھے یہ معلوم کر کے حد درجہ صدمہ ہوا کہ اس دوران میں خود غرض افراد کی مساعی سے نواب صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان بھی رنجش پیدا ہو گئی تھی اور ان کے مراسم بھی منقطع ہو گئے تھے۔ اقبال اور ذوالفقار کی دوستی کچھ ایسے سطحی تعلقات پر مبنی نہ تھی کہ اس کا انقطاع ایک معمولی واقعہ سمجھا جاتا۔ نواب صاحب کو ڈاکٹر صاحب سے جس قدر تعلق تھا وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ سب سے اول آپ ہی نے انگریزی میں ڈاکٹر صاحب کے کمالات پر کتاب تصنیف فرمائی۔ اقبال کے حاسد ہمیشہ ان کے خیالات کو حکام کی نظر میں خطرناک ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ چونکہ اس قسم کی غلط فہمیاں ڈاکٹر صاحب کی ترقی میں ہارج ہو سکتی تھیں، اس لیے سر ذوالفقار علی ہمیشہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے، کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ اقبال اپنی تمام تر قابلیتوں کی وجہ سے اس امر کے مستحق ہیں کہ حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ عدالت عالیہ کی بنچ کو زینت بخشیں۔ لیکن خود غرض افراد نے ان دوستوں کے درمیان بھی اختلاف کی خلیج حائل کر دی۔ مجھے اس امر کی اطلاع ملی تو میں نے ان دونوں میں صفائی کرا دینے کی کوشش کی۔ نواب صاحب تو فی الفور اس کام کے لیے آمادہ ہو گئے لیکن ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں کچھ حجاب باقی تھا، وہ اپنی ضد پر پہلے تو اڑے رہے، مگر میں نے اصرار کیا تو ان کی طبیعت نے جوش مارا اور وہ مصالحت کے لیے تیار ہو گئے۔ میں نے ان کی صفائی کے لیے ایک تاریخ مقرر کی اور دونوں کو چائے پر اپنے ہاں مدعو کرنے کا ارادہ کیا مگر اس تاریخ سے قبل نواب صاحب اچانک بیمار ہو گئے اور ان کی علالت نے ایسی مہلک صورت اختیار کی کہ اسی سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس المناک سانحہ سے ہم دونوں کے جی پر جو کچھ گزری وہ محتاج بیان نہیں۔ مجھے جہاں تمام عمر اس بات کا غم رہے گا کہ دونوں دوست پھر ایک دوسرے کے دل سے اس قدر قریب ہو جانے کے باوجود آخری مرتبہ بغل گیر نہ ہو سکے وہاں ڈاکٹر صاحب بھی ہمیشہ اس خیال سے مغموم ہو جایا کرتے کہ دلوں کے صاف ہو جانے کے باوجود ان کو موقع نہ مل سکا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ کم از کم ایک مرتبہ بالمشافہ گفتگو کر لیتے۔ ڈاکٹر صاحب کا ارادہ تھا کہ وہ نواب صاحب کی نماز جنازہ میں ضرور شامل ہوں چنانچہ ہم دونوں موٹر میں سوار ہو کر مالیز کوٹلہ پہنچے مگر بدقسمتی سے میت کو ہمارے پہنچنے سے قبل سپرد خاک کر دیا جا چکا تھا۔ ناچار ہم بادل حسرت زدہ فاتحہ کے بعد لاہور واپس آ گئے۔ جس شخص کو ذرا نمود حاصل ہوتی ہے اس کے متعلق اکثر دو گروہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک اس کے اتقا اور پرہیز کا دعویدار ہوتا ہے، دوسرا اس کی لغزشوں کو نمایاں کر کے اس کو متہم کرتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ حال ہی کی پیداوار ہیں، دوسرا گروہ ڈاکٹر صاحب کے ایام جوانی سے چلا آتا ہے۔ اقبال آخر انسان تھے۔ پیغمبرانہ اعجاز رکھنے کے باوجود پیغمبر نہ تھے، اس لیے ان کو ایسی باتوں سے معرا سمجھنا جو بشریت کا لازمہ اور انسانیت کا خاصہ ہیں، ایک ایسا تمسخر انگیز دعویٰ ہے جس میں نہ تو حقیقت کو دخل ہے نہ خود ڈاکٹر صاحب کی روح کے لیے مسرت کا سامان موجود ہے۔ اقبال زاہد خشک تھے نہ ریا کار صوفی۔ اس میں شک نہیں کہ آخری ایام میں وہ گوشہ نشینی اور درویشانہ زندگی کی وجہ سے دنیا اور اس کے افراد سے بڑی حد تک کنارہ کش ہو گئے تھے اور ان کی کیفیت اس مرد فقیر کی سی تھی جو اس مادی دنیا سے بے نیاز ہو کر کسی اور ہی عالم میں کھویا رہتا ہو، لیکن ان کے چہرے پر تقدس کا جو ہالہ ہر وقت نظر آتا تھا اس سے یہ کسی طور پر لازم نہیں آتا کہ انہیں ان کے اصلی مرتبے سے محروم کر کے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے زمزمے میں شامل کر لیا جائے حالانکہ ان سے علیحدہ رہ کر بھی اقبال کے عظمت و وقار میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ دوسرا گروہ بھی اپنی بے خبری اور تنگ نظری کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ عالم شباب میں عام طرز معاشرت کے خلاف تھوڑی سی بے راہ روی ضرور موجود تھی لیکن محض اسی کے پیش نظر کوئی حتمی نظریہ قائم کرنا ان پر بہت بڑا ظلم ہے۔ ہر Geniusکی زندگی کا جائزہ لیتے وقت ہمیں اس امر کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ عام لوگوں سے اپنے استعداد اور ادراک میں مختلف ہونے کی وجہ سے فطری طور پر وہ اپنے اصول اور میلانات میں بھی عوام سے مختلف ہوتا ہے اور اس کے ہر فعل کو ایک خاص مقررہ اصول، ایک خاص مجوزہ ضابطے سے پرکھنا ستم ظریفی ہے۔ وہ اپنے ہم جنسوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے یقینا مختلف معیار نقد کا مستحق ہے۔ اقبال کی دنیا فطرتاً اصول پرستی سے بے نیاز تھی وہ عمل کا تعلق دل سے نہیں بلکہ روح سے سمجھتے تھے، وہ یہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے کہ انسان کیا کرتا ہے یا اس کو کیا کرنا چاہیے بلکہ ان کی نظر اس کے ایقان و اعتقاد پر ہوتی، یہی وجہ تھی کہ اس امر کو ضروری نہ سمجھتے کہ ان کا طرز عمل ضرور ان کے اپنے فرمودات یا معاشرہ کے مصنوعی اصولوں کے مصداق ہی ٹھہرے۔ وہ ترغیبات سے خائف سادھوؤں اور راہبوں کے خلاف زندگی کے تمام زہر ناک نشیب و فراز کا لطف اٹھانا اپنے نفس کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک زندگی نہ تو شباب کے نشہ میں اس مدہوش نوجوان کی طرح محض نقد عیش تھی جو اپنی ہوس پرستی میں غرق ہو کر اس کی ہلاکت آفرینیوں پر سنگین غور و فکر سے کام نہیں لیتا اور نہ اس گمراہ کی طرح مذہب و معاشرہ سے بغاوت تھی جو انہیں اپنے راستے میں حائل دیکھ کر ان دونوں سے بگڑ بیٹھتا ہے بلکہ ان کی آزادہ روی اس صاحب دل کی سی تھی جو زندگی کے تمام مخالف عناصر سے مردانہ وار جنگ کرتا ہوا اس کے ہلاکت خیز طوفانوں میں اپنے تجربات سے جادۂ مستقیم تلاش کر لیتا ہے۔ میرے ہاں اکثر شام کے وقت محفل رقص و سرود قائم ہوا کرتی جس میں چند ہم خیال دوست شریک ہو جایا کرتے۔ سارا دن عدالتوں میں موشگافیوں میں بسر ہو جاتا۔ رات کے وقت دیر گئے تک مقدمات کی تیاری کے مشاغل درپیش رہتے اوران چڑھے ہی از سر نو اسی دماغی کاوش میں الجھنا پڑتا۔ اس مسلسل انہماک سے نواء مضمحل ہو جاتے اور دماغ کے نچڑ جانے سے روح پر افسردگی سی چھانے لگتی۔ چنانچہ طبیعت میں تازہ دم ہونے کی خواہش پیدا ہوتی اور دل فراغت کے لمحات کے لیے بے چین ہو جاتا۔ اس پر ہم چند دوست زندگی کے پریشان کرنے والے ہنگاموں سے ہٹ کر خوش وقتی کے لیے ایک مختصر سی بزم قائم کرتے اور اس کی دلکشیوں میں اپنے تھکے ہوئے دماغوں کو تازہ دم کرتے۔ جب اقبال سے میری ملاقات ہوئی تو ان پر بھی اس مجلس کا حال کھلا۔ ادھر میں نے بھی مولوی احمد دین مرحوم سے ان کی داستان سن رکھی تھی۔ دونوں طرف سے کشش ہوئی اور پہلی ہی صحبت میں ہم سمجھ گئے کہ ہمارے طبائع اور مزاجوں میں ایک حیرت انگیز یکسانیت ہے۔ جب طبیعتوں میں موافقت ہو جائے تو دوستوں کی صحبت زیادہ پر لطف ہو جاتی اور انہیں ایک دوسرے کی رفاقت میں خاص لذت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اقبال کی شمولیت کے بعد ان صحبتوں کی تعداد اور دلکشی میں ایک گونہ اضافہ ہو گیا۔ گو اقبال کا کلام اکثر پچھلی شب کے سکون اور تنہائی میں مرتب ہوتا تھا مگر ایسی حالت بھی ہوتی کہ ان مجالس میں ان کی طبیعت کبھی کبھی موزوں ہو جاتی اور وہ شعر کہنا شروع کر دیتے۔ ایسا تو اکثر ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب بے فکری کے عالم میں مزے لے لے کر گانا سننے میں مشغول ہوتے اور مغنیہ کوئی نعت چھیڑ دیتی جس کا کوئی شعر ان کے دل پر اثر کر جاتا اور ان پر بے اختیار رقت طاری ہو جاتی۔ اس کیفیت کے ظاہر ہوتے ہی محفل کا نقشہ بدل جاتا اور ہمیں اس حقیقی اقبال کی جھلک دکھائی دینے لگتی جس کا دماغ حریم ربانی کے جلوؤں سے مدہوش، جس کا دل تجلیات خداوندی سے منور، جس کی نگاہ میں پیغمبرانہ پاکیزگی اور جس کے تخیل میں ملکوتی بلندی تھی۔ یہی وہ مقدس ساعت ہوتی جس میں شاعر مشرق خاکدان عالم سے بلند ہوتا ہوا عرش معلی کی طرف بڑھتا اور جذبات کی تند و تیز موجیں اس کے دل کے مخفی چشمہ سے موسیقیت کے ساتھ شعر کی صورت میں اٹھنے لگتیں۔ بعض اوقات اقبال پر ایک معنی خیز سکوت سا چھا جاتا اور وہ یوں دکھائی دینے لگتے گویا کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ پھر وہ یک لخت یوں چونک پڑتے گویا نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ اس حالت کے ظاہر ہوتے ہی ہم سمجھ جاتے کہہ ان کے دل پر کوئی وجدانی کیفیت طاری ہے اور وہ شعر کی فکر میں ہیں۔ یہ کئی مرتبہ میرے مشاہدے میں آیا کہ جب اقبال کا دل کسی جذبے سے متاثر ہوتا تو وہ گرد و پیش کے حالات سے بالکل بے خبر ہو جاتے۔ علی برادران کی رہائی22؎ میں امرتسر میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں مولانا محمد علیؒ خود تشریف لانے والے تھے۔ اس جلسہ میں شمولیت کے لیے ہمیں بھی دعوت دی گئی اور نواب سر ذوالفقار علی خاں، اقبال اور میں نواب صاحب مرحوم کی موٹر میں امرتسر کی جانب روانہ ہوئے ۔راستے میں ہم باتیں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک اقبال پر متذکرہ کیفیت طاری ہونے لگی۔ انہیں خاموش پا کر نواب صاحب نے ان کی جانب دیکھا تو وہ کسی اور ہی دھن میں نظر آئے۔ اس پر وہ مجھ سے کہنے لگے:’’ لو بھئی یہاں تو فکر شعر ہو رہی ہے۔‘‘ اور ہم پھر اپنی گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ چند ساعت بعد اقبال چونکے اور ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمانے لگے:’’ ہاں صاحب اب کہیے کیا ارشاد ہے!‘‘ معلوم ہوا’’ اسیری‘‘ کے عنوان سے بانگ درا میں جو اشعار ہیں وہ ابھی ابھی موزوں ہوئے ہیں۔ بہر کیف ان نشاف افزا صحبتوں میں اقبال کی ظرافت پرور طبیعت اپنے زور پر نظر آتی اور ان کی زبان سے ایسے ایسے لطیف فقرے چست ہوتے اور ایسی دلفریب پھبتیاں نکلتیں کہ سننے والے بھڑک اٹھتے، مگر ان کے مذاق میں واہیات باتوں اور بیہودہ گفتار کو دخل نہ ہوتا اور جب وہ ہزل کی طرف راغب ہوتے تو ان کی مضمون آفرینی ان کے استادانہ رنگ اور قادر الکلامی کے ماتحت اس قدر دلفریب ہو جاتی کہ اس میں ابتذال نام کو نظر نہ آتا۔ ان کا بلند بانگ شاعرانہ اسلوب رکیک سے رکیک لفظ میں کچھ ایسا جہان معنی پنہاں کر دیتا کہ گوش سماعت پر ناگوار گزرنے کی بجائے الٹا اس میں دنیا بھر کی چاشنی آ جاتی اور سننے والے اس کے لطف سے سیر نہ ہوتے۔ ایسی صحبتوں میں اقبال اپنی تمام تر سنجیدگی کے باوجود بعض اوقات عملی مذاق سے نہ چوکتے بلکہ جو شخص ان کا تختہ مشق بنتا اسے خوب پریشان کرتے۔ ایک مرتبہ ہم مسام ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنو گئے۔ اجلاس کے ایام میں ایک شام ایسی بھی تھی کہ ہم فارغ تھے۔ اقبال کی طبیعت جب بیکاری سے گھبرانے لگی تو وہ مجھ سے فرمانے لگے:’’ چلو کہیں چل کے گھڑی دو گھڑی گانا ہی سن آئیں۔‘‘ میں پہلے تو آمادہ ہو گیا مگر بعد میں کسی اچانک کام کی وجہ سے رک گیا، وہ چل کھڑے ہوئے۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے:’’ لو آج تمہیں تماشا دکھائیں‘‘ میں نیا ستعجاب کے عالم میں دریافت کیا:’’ آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ فرمانے لگے’’ ہونا کیا تھا، بس آج ایک مولوی صاحب کو ہم نے پکڑ لیا۔ جس طوائف کے ہاں ہم گانا سننے گئے تھے، وہیں کہیں اس کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک مولوی صاحب بھی ہمارے جانے سے قبل دل بہلا رہے تھے، مگر آپ جب وہاں سے چمپت ہوئے تو اپنی بوکھلاہٹ کے عالم میں کانفرنس کا دعوتی رقعہ وہیں پھینک آئے تھے۔ ہم پہنچے تو طوائف نے ہم سے کہا کہ جس طرح بھی ہو ہم مولوی صاحب کو تلاش کر کے ان کی امانت بحفاظت ان تک پہنچا دیں۔ مگر ہم نے یہ سوچا ہے کہ یہ رقعہ نواب وقار الملک بہادر صدر ایجوکیشنل کانفرنس ہی کی معرفت کیوں نہ لوٹائیں تاکہ ضابطے کی پابندی بھی ملحوظ رہے اور نواب بہادر بھی دیکھ لیں کہ دنیا بھلی سے بھلی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر اقبال نے کاغذ کا تختہ نکالا اور قلم پکڑ کر نواب صاحب کے نواب طوائف کی طرف سے ایک مفصل خط لکھ ڈالا۔ اس میں شام کے واقعے کی تمام تفصیل بے کم و کاست بیان کرنے کے بعد لکھا کہ چونکہ بندی قبلہ مولوی صاحب کے پتے سے واقف نہیں، اس لیے آپ سے التماس کرتی ہے کہ ان کا کھوج نکال کر ان کے کاغذات ان تک پہنچا دیں۔ اس خط کی بھنک مولوی صاحب کے کان میں بھی پڑ گئی اور وہ ہانپتے کانپتے اقبال کے پاس آئے اور لگے بے طرح منت خوشامد کرنے اور ان کی جان و مال کو دعائیں دینے۔ مگر اقبال تو گویا اسی وقت کے انتظار میں تھے، اب آئے ہو تو جاتے کہاں ہو کے مصداق انہوں نے حضرت کو وہ رگیدا دیا کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ نہ جانے آپ نے ناک سے کتنی لکیریں کھینچیں تب آپ کی جان چھوٹی۔ بہر صورت اقبال کی یہ ولولہ انگیز زندگی ان کی وفات سے کئی سال قبل ختم ہو چکی تھی، مگر آخری ایام کی افسردہ دلی کے باوجود ان کے دل سے اس پر کیف زمانہ کی یاد محو نہ ہو سکی۔ بعض اوقات مجھے سچ مچ یوں محسوس ہونے لگتا گویا وہ اپنے پرستاروں کے ہر لحظہ بڑھتے ہوئے جم غفیر سے کچھ گھبرا سے گئے ہیں جس میں دن بھر گھرے رہ کر عقیدت کے بے جان مظاہروں کے سوا انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور زندگی کی وہ صحیح رنگینیاں جن کی دید سے انسان میں زندہ رہنے کی امنگ اور عمل کی خواہش پیدا ہوتی ہے، ان سے پرے ہٹتی جا رہی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا اعتراف خود اقبال کی طرف سے اشارۃً کئی مرتبہ ہوا۔ 1935ء میں کئی مرتبہ وہ مجھے ساتھ لے کر نہر پر چلے جاتے جہاں ہم لب جوبیٹھ کر ستمبر کی ٹھنڈی نسیم کے روح افزا جھونکوں میں اسی پرانی زندگی کی یاد سے اپنے پژ مردہ دلوں کو تازہ کرتے۔ گذشتہ صحبتوں کے مٹتے ہوئے نقوش پھر واضح ہونے لگتے اور ہم ان کی دلفریبیوں میں کچھ عرصہ کے لیے کھو سے جاتے۔ میں ستمبر1937ء میں یورپ کے سفر کے بعد لاہور واپس آیا تو میں نے سنا اقبال عرصہ سے صاحب فراش ہیں۔ اس خبر سے میرا دل بیقرار ہو گیا اور میں ان سے ملنے گیا۔ا تفاق سے وہ اکیلے تھے۔ اس تنہائی میں ان کے دل پر پھر وہی جوش و حرارت پیدا ہوئی اور وہ مجھ سے پوچھنے لگے: ’’ تم سال بھر کے بعد وطن واپس آئے ہو استاد سچ مچ کہو! اب کے جال میں کیا لگا؟‘‘ میں نے کہا:’’یہاں جو کچھ لگا وہ آپ کے ’’ راؤنڈ ٹیبل‘‘ والے سفر سے کم ہی ہو گا۔ ذرا اپنی مار دھاڑ کو بھی یاد فرما لیجئے۔‘‘ اس پر اقبال ہنس پڑے، بولے ’’ راؤنڈ ٹیبل‘‘ والے سفر میں رکھا ہی کیا تھا، رفقاء سفر منکر نکیر کی طرح ہر وقت دائیں بائیں موجود رہتے تھے۔ میں نے انہیں گدگدانے کی نیت سے کہا، ’’ میں آئندہ سال کے اوائل میں جرمنی اور بلجیم جا رہا ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ اس مرتبہ آپ کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لے چلوں۔‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب کچھ افسردہ سے ہو گئے، کہنے لگے:’’ اس طویل علالت سے اگر نجات مل جاتی تو شاید میں بھی کہیں جا سکتا۔ سفر کا ارادہ تو میرے دل میں بھی ہے مگر دیکھیں اس کی منظوری کب ملتی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’ آپ کے دل میں حج کی بہت پرانی خواہش ہے، اس لیے اب کے میرے ساتھ یورپ چلیے تاکہ حج کرنے سے قبل چوہوں کی تعداد پوری نو سو ہو جائے اور گھر لوٹتے ہوئے راستے میں گناہ بخشواتے آئیں۔‘‘ میں اٹھ کر چلنے لگا تو بولے:’’ اب لاہور میں جم کے بیٹھنے کی کوشش بھی کرو گے یا یوں ہی جہاں نوردی میں مشغول رہو گے؟ تمہیں اس مشغلے سے فراغت ہوتی تو ذرا گھڑی دو گھڑی دل بہلانے کو وہی پرانی صورتیں اکٹھی کرتے۔ رنگ محفل تو اس میں کیا آئے گا، ہاں یاران محفل کو پھر ایک نظر اکٹھا دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ اتفاق دیکھئے کہ جنوری1938ء میں پھر یورپ کی طرف روانہ ہونے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے جاوید منزل گیا۔ ان پر بیماری کا اثر بہت ہو چکا تھا مگر پھر بھی ان کے چہرے پر وہی بشاشت کھیل رہی تھی جس نے ان کی موت کے بعد بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میں ان کے پاس بیٹھا بیماری کی کیفیت پوچھ رہا تھا کہ میاں شاہنواز مرحوم تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:’’ لو آج پھر وہی محفل قائم ہو گئی۔‘‘ آج پھر سالہا سال کے بعد یہ موقع آیا تھا کہ ہم تینوں ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر پھر وہی پرانا جوش، وہی سابقہ ولولہ، وہی گذشتہ زندہ دلی طاری ہونے لگی۔ ہمیں اس افسردہ دل کی بجھتی۔۔۔۔ ہوئی چنگاری شعلہ جوالہ بنتی نظر آنے لگی اور اقبال کی ظریف گفتگو ہمیں زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد کر کے پھر اسی پرانی انجمن میں لے گئی جس کے روح رواں کبھی وہ خود تھے۔ آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹنے لگے اور گذشتہ زندگی کے دلفریب واقعات کے سینمائی تیز رفتاری کے ساتھ یکے بعد دیگرے چلتے پھرتے دکھائی دینے لگے جن کے دھندلکے میں ہمیں یوں محسوس ہونے لگا گویا ہم اسی محفل میں بیٹھے ہیں جس کی گرمی سے حیات جیسی مغموم اور افسردہ کرنے والی شے ایک لازوال نعمت دکھائی دیتی تھی۔ اس وقت ہم دونوں دوست ان بچوں کی طرح جو اپنی بھولی بسری شرارتوں کو یاد کر کے لطف لیتے ہیں اپنی بے فکری کی زندگی کے گذشتہ واقعات یاد کرنے لگے۔ یہ ہم تینوں کی آخری صحبت تھی! مارچ میں میں یورپ سے واپس آیا تو ڈاکٹر صاحب کی علالت آخری صورت اختیار کر چکی تھی مگر پھر بھی جس وق تمیں ان سے ملنے گیا تو ان کے بشاش چہرے پر مجھے وہ آثار نظر نہ آئے جنہیں موت کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ مفکر اسلام چند دن کا مہمان ہے۔ جس صبح اقبال اپنے معبود حقیقی کے حضور میں پہنچے، میں اتفاق سے لاہور میں تھا۔ رات کو مجھے دہلی جانا تھا۔ غالباً9بجے کا عمل تھا، میں صحن میں کھڑا ضروری کاغذات کا مطالعہ کر رہا تھا، ساتھ کے کمرے میں ریڈیو بج رہا تھا جس کے ارد گرد اپنے بچے شور و غل میں مصروف تھے۔ یکلخت کسی نے مجھے آواز دی ’’ غضب ہو گیا، ابھی ابھی ریڈیو پر اعلان ہوا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صبح5بجے انتقال فرما گئے۔‘‘ مجھے اس خبر سے یوں دھکا سا لگا گویا کسی نے اٹھا کر پٹک دیا ہو۔ میں چپ چاپ فرش پر بیٹھ گیا۔ میرے تمام قویٰ پر وہ ہیبتناک وحشت طاری تھی جو زلزلے کے گزر جانے کے بعد عناصر کائنات میں نظر آتی ہے۔ محسوسات کی نقشہ کشی شاید کسی مشاق ادیب کے لیے مشکل نہ ہو مگر میں اس وقت اپنے خوفناک غم کے اظہار میں قاصر ہوں۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ یہ وہ غم تھا جس میں انسان ہائے ہائے نہیں کرتا، اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے، صرف اس کی نظر پتھرا جاتی ہے اور روح تحلیل ہونے لگتی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اقبال کی میت کا آخری دیدار نہ کروں۔ میں نہیں چاہتا تھا، ان کے موت کی افسردگی سے ہم کنار چہرے کی جھلک میرے ذہن سے زندہ دل اقبال کی بشاش صورت کے شاداب تصور کی متاع عزیز کو چھین لے۔ میں چاہتا تھا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اقبال کے منور چہرے کا وہی جاندار نقشہ موجود رہے جو مجھے ان کی مخصوص صحبتوں میں نظر آیا کرتا تھا۔ مگر آخر ایک اضطراری کشش نے مجھے ’’ جاوید منزل‘‘ کی طرف کھینچا اور میں دوپہر کے وقت اپنے دوست کے حضور میں پہنچنے پر مجبور ہو ہی گیا۔ ’’ جاوید منزل‘‘ کے اندر اور باہر آنے جانے والوں کا ایک لامتناہی ہجوم نظر آتا تھا۔ اس ہنگامے کے باوجود’’ جاوید منزل‘‘ پر اس بدنصیب دلہن کی حسرتناک اداسی ٹپک رہی تھی جس کا سہاگ اس کی شادی کے اگلے ہی دن لٹ جائے۔ یا شاید وہ مادر گیتی کی بد قسمتی پر نوحہ زن تھی جس نے آج اقبال جیسا گوہر آبدار کھو کر اپنی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے اضافہ کر لیا تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان کے کمرے کی طرف بڑھوں یا یہیں سے لوٹ جاؤں کہ کسی معمر شخص نے، جنہیں میں اس وقت پہچان نہیں سکا، میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا:’’ آپ اپنے دوست سے مل لیے؟‘‘ بظاہر یہ الفاظ بہت سادہ تھے مگر آتش غم میں جلتے ہوئے دل پر انہوں نے وہی کام کیا جو آگ پر تیل کیا کرتا ہے اور میں اقبال کے سرہانے پہنچ گیا۔ ان کے پاس شاید میں دو سیکنڈ یا اس سے بھی کم ٹھہرا مگر اتنے عرصے میں میں نے دیکھ لیا کہ اقبال نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ ان کے چہرے پر اس وقت بھی ان کی فطری بشاشت کے طفیل ایک خفیف سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جس میں مجھے ان کے مخصوص خندۂ استہزاء کی کیفیت جھلکتی ہوئی نظر آئی۔ اس سے میری طبیعت بے اختیار بھر آئی اور دل کے بخارات پانی بن کر آنکھوں کے راستے ٹپک پڑے۔ گھر آیا تو مجھ پر ایک وحشت سوار تھی۔ گو پچھلے کئی سالوں سے میرا ان سے میل ملاپ بہت کم ہو گیا تھا اور مجھے ان کی صحبت میں بیٹھنے کے بہت کم مواقع پیش آئے تھے، مگر آج ان کے جانے سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا گویا دنیا سونی ہو گئی ہے اور اس کی تمام رنگینیاں کرب اور مصیبت میں مبدل ہو گئی ہیں۔ اب وہی لاہور ہے اور وہی میں ہوں، مگر خدا جانے ہم دونوں میں اس قدر افسردگی اور بیگانگی یکلخت کہاں سے آ گئی ہے۔ مجھے اپنے متعلق یوں محسوس ہوتا ہے، گویا زندگی کے تمام ولولے، تمام جوش، تمام حرارتیں چشم زدن میں سرد ہو گئی ہیں۔ اب لاہور کی حیثیت اس بے جان پھول کی سی نظر آتی ہے جس کی خوشگوار نگہت ہمیشہ کے لیے اڑ گئی ہو۔ اب میں ہمیشہ سفر میں رہتا ہوں۔ مگر اس جہاں نوردی کے باوجود میرے دل سے روحانی بے تابی اور درد انگیز فراق کی کیفیت جدا نہیں ہوتی۔ طبیعت کی بے چینی اور روح کی بیقراری میں فرق نہیں پڑتا اور جب چلتا چلتا تھک جاتا ہوں تو تازہ دم ہونے اور سستانے کے لیے پھر ایک مرتبہ گھر لوٹ آتا ہوں؟ مگر گھر کے پر سکون مناظر سے بھی میرا دل آسودہ اور روح مطمئن نہیں ہوتی ناچار پھر رخت سفر اٹھاتا ہوں۔ جب سفر پر روانہ ہونے لگتا ہوں تو بچے یہ کہہ کر چمٹ جاتے ہیں کہ:’’ آپ نے تو اس مرتبہ زیادہ دیر تک ٹھہرنے کا وعدہ کیا تھا!‘‘ مگر آہ انہیں اس بڈھے کی دلی کیفیت کا اندازہ نہیں جسے اس کے یاد و دمساز، نوجوانوں کی اجنبی دنیا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ گئے ہوں۔ مرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لاء ٭٭٭ ایک فیضانی لمحے کی یاد ایک شام کو ہم چار: تاثیر1؎، چغتائی2؎ اور ان کے دو بھائی 3؎ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاتے ہی غیر مطبوعہ اردو کلام کا مطالبہ شروع کر دیااور دلائل کی بوچھاڑ کر دی: اردو میں آپ نے دیر سے نہیں لکھا، اردو بحیثیت زبان کے مستحق امداد ہے، اردو دان لوگ بحیثیت ہم قوم ہونے کے پیغام اقبال سننے کے مستحق ہیں، مسلمانان ہند کو اور کون ابھارے گا؟ کارواں کے نکالنے کا آپ ہی نے مشورہ دیا تھا، آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام نہ ہوا تو ہماری نیاز مندی لوگوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے گی۔ ہم کچھ نہ کچھ لے کر ٹلیں گے۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے کہنے لگے، اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے۔ جاوید نامہ 4؎ کو ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں، اس لیے فارسی میں بھی کچھ کہنا محال ہے۔ یوں بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا سنگ مر مر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے۔ مگر تمہارے اور دیگر عزیزوں کے اصرار سے اردو کی طرف میلان ہو رہا ہے، دیکھو! جو اس کی مرضی! ہم نے دلائل بازی میں شکست ہوتی دیکھ کر نیاز مندی کو سہارا بنایا اور ’’ اردو غزل‘‘ سن کر ذرا چونکے، کہنے لگے،’’یہ ایک نئی شرط لگا دی‘‘ ہماری اس فقرے سے ہمت بندھی، سمجھے اردو غزل نہیں تو نظم، یہ بھی نہیں تو غیر مطبوعہ فارسی کلام تو مل ہی جائے گا۔ اپنی اس کامیابی پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے کہ یکایک حضرت علامہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ:’’ تم اس وفد کے سرغنہ ہو اور شاعر ہو، اپنے اشعار سناؤ، شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ میری تمام شوخیوں اور مسکراہٹوں کا خاتمہ ہو گیا۔ میں اور اپنے اشعار حضرت علامہ کو سناؤں! مجھے کبھی ان کے سامنے اپنے اشعار پڑھنے کی جرأت نہ ہوئی اور جب کبھی انہوں نے میری کسی مطبوعہ نظم کا ذکر کیا، مجھے پسینہ آنے لگا۔ میری خاموشی پر حضرت علامہ پھر بولے، بھئی کچھ سناؤ گے تو شاید تمہاری قسمت کی کوئی چیز ہو جائے۔ اس پر چغتائی صاحب کارواں کے مفاد پر مجھے قربان کرتے ہوئے بول اٹھے۔ ’’ وہ سمجھا تھا میں والی غزل سنا دو‘‘ باقی دو بھائی بھی ہم آہنگ ہو گئے: ’’ ہاں ہاں، سمجھا تھا میں والی غزل‘‘ علامہ اقبال مسکرا رہے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور جی کڑا کر کے ایک مطلع پڑھا، پھر دوسرا، علامہ اقبال اس کا ایک مصرع تم کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں دہرانے لگے، مجھے کچھ تسکین ہوئی۔ آخری شعر پر مجھے خود یقین تھا: زلف آوارہ گریباں چاک اے مست شباب تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں حضرت علامہ کو بھی پسند آیا، کہنے لگے زمین اچھی ہے۔ خدا کا قافیہ کیوں چھوڑ دیا؟ اور کچھ چپ سے ہو گئے۔ فکر شعور میں سر جھکا لیا۔ ہماری امیدیں بلند ہو گئیں مگر مجھے ایک اور فکرلاحق ہو گیا۔ میری غزل اچھی تھی، بہت اچھی تھی، لیکن اگر حضرت علامہ نے اس پر کچھ کہہ دیا تو قدر عافیت معلوم! بے حیثیت ہو کر رہ جائے گی۔ ہاں اردو ادب اور کارواں دولت مند ہو جائیں گے۔ مگر ۔۔۔۔ میرے دماغ میں یہ کش مکش جاری تھی کہ حضرت علامہ بولے اگر قافیہ بدل جائے تو؟ ہمیں فوراً بولا تو بہتر ہو گا اور اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ کہنے لگے: ’’ لو سنو، تم غزل غزل5؎ پکار رہے تھے تو غزل ہی سہی: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی! داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں! یہ شعر کہہ کر علامہ کچھ رکے، دو تین منٹ تک، اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کر چکتا تھا کہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر جاوید نامہ کی کیفیات کا حامل تھاـ:‘‘ ’’مہر و ماہ و مشتری کو ہمعناں سمجھا تھا میں!‘‘ جوں جوں شعر ہوتے جاتے، علامہ کی حالت بدلتی جاتی، بستر ہی میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ گئے، آواز میں لرزش سی آ گئی، جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبابہ اٹھا کر انشاد کرتے تھے اور اس شعر پر: تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں! وہ بھی رو رہے تھے اور ہم بھی! نہ جانے یہ غزل کتنی لمبی ہو جاتی مگر یہ فیضانی سلسلہ ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہو گیا اور ہم اس در اندا زکو دل ہی دل میں کوستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد بہت ملاقاتیں ہوئیں مگر ہم نے دوبارہ اس غزل کا ذکر تک نہ کیا اور نظر ثانی کے لیے بھی شعروں کی نقل نہیں دی۔ مطلع کے متعلق علامہ نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ یوں کر دیا جائے: اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں کس رباط کہنہ کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں مگر میں نے تعمیل ارشاد نہ کرتے ہوئے اس فیضانی لمحے کی یادگار کو جوں کا توں رہنے دیا۔ ڈاکٹر تاثیر ایم اے، پی ایچ ڈی ٭٭٭ اقبال کے ہاں ایک شام 21نومبر1937ء کو پروفیسر عبدالواحد1؎ اور میں سر اقبال کی کوٹھی کے بائیں دروازے سے داخل ہوئے۔ علی بخش اپنے کمرے سے باہر آ رہا تھا۔ اس سے علیک سلیک ہوئی۔ پوچھا کیا ہم ڈاکٹر صاحب سے مل سکتے ہیں؟ علی بخش نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی بچی منیرہ2؎ بیمار ہے۔ ڈاکٹر آیا ہوا ہے۔ یہ کہتے ہوئے علی بخش ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں گیا اور فوراً ہی ’’ آ جاؤ جی‘‘ کی آواز آئی۔ ہم کوٹھی کے واسطی کمرے میں داخل ہوئے جس کی سامنے کی دیوار پر سر اقبال کی ایک بہت بڑی تصویر آویزاں ہے۔ اس کمرے سے گزر کر بائیں ہاتھ پر جو چھوٹا کمرہ ہے، اس میں پہنچے۔ سر اقبال پلنگ پر لیٹے تھے۔ لحاف کو دو دفعہ تہہ کر کے پاؤں کی طرف رکھا ہوا تھا اور ڈاکٹر صاحب وہی پرانا سبز حاشیے اور بادامی رنگ کا دھسہ لیے لیٹے تھے۔ پلنگ کے پاس میز پر کچھ کتابیںتھیں اور دو تین نیچے فرش پر۔ ڈاکٹر صاحب کے پلنگ کے پاس ایک نوجوان ہندو ڈاکٹر بیٹھا تھا۔ ہم نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا، آئیے۔ میں عمومیت کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا مگر میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی ڈاکٹر صاحبس ے ملنے کا اتفاق ہوا، سلام کا جواب ہمیشہ ہاتھ اٹھا کر دیا۔ رسمی گرمجوشی نہیں ہوتی تھی، اسی کی جگہ ہندہ پیشانی ہوتی۔ جن لوگوں کو ان سے پہلی دفعہ ملنے کا اتفاق ہوتا ان پر یہ طریق ملاقات کسی قدر گراں گزرتا۔ مگر جو ڈاکٹر صاحب کی راہ و رسم سے واقف تھے، وہ خوب جانتے تھے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی بڑی شخصیت گزری ہو جس کا دروازہ اس طرح ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا رہا ہو۔ صلائے عام تھی؟ جس کا جی چاہتا چلا آتا، گھنٹوں بیٹھتا، باتیںکرتا، انہیں کبھی ناگوار نہ گزرتا۔ دو چار ملنے والے جاتے تو دو چار اور آ جاتے۔ صبح سے شام تک یہ دھارا یوں ہی بہتا چلا جاتا۔ اکثر دل میں سوال پیدا ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کس وقت کھانا کھاتے ہیں، کب پڑھنے لکھنے کا کام کرتے ہیں۔ لوگ بھی ہر طرح کے ملاقات کے لیے آتے۔ ہم ملاقات کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حکیم صاحب تشریف فرما ہیں، ان سے طب سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں حکیم صاحب گئے تو اخبار نویس آ گئے اور سیاسیات کی بحث شروع ہو گئی۔ سیاسیات کی بحث چل رہی تھی کہ ایک اور بزرگ آ گئے اور ڈاکٹر صاحب نے سیاسیات سے جو گریز کیا تو خوش طبعی اور لطیفہ گوئی شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے بعض عقیدت مند ایسے بھی تھے۔ جنہیں وہ بنایا کرتے تھے۔ دوسری دفعہ جو پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جرمن سیاح دوسری ملنے کے لیے آیا ہوا ہے اور فلسفہ خودی اور زمان و مکان پر بحث ہو رہی ہے۔ وہ صاحب اٹھ کر گئے تو ایک پہلوان آ گئے، ان سے پہلوانی کی باتیں ہوتی رہیں۔ بات کسی قسم کی جو ہو سر اقبال کا اپنا رنگ قائم رہتا تھا۔ جو لوگ ڈاکٹر صاحب کو ان کی شاعری کے ذریعہ جانتے ہیں ان کو اس بات کی مطلق خبر نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں مزاح اور اور خوش طبعی کسی شدت سے تھی۔ کسی قسم کا موضوع ہو مزاح کا پہلو وہ ہمیشہ نکال لیا کرتے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حکایات سنانے میں انہیں ویسا ہی کمال حاصل تھا جس طرح فلسفہ کے مسائل بیان کرنے میں۔ جس موضوع سے بحث کرتے اس پر گویا مرتب اور مدون رسالہ پیش کر دیتے اور سننے والے کو یوں معلوم ہوتا گویا ساری عمر صرف اسی ایک موضوع کی نذر کر دی ہے۔ لوگ ملاقات کے لیے آتے تو سر اقبال خوش ہوتے، مگر لوگوں کی شخصیت سے ڈاکٹر صاحب کو چنداں سرورکار نہ ہوتا۔ ہر شخص ان کے لیے چند خیالات کا مجموعہ تھا، اس لیے ہر ایک سے اس کی بساط کے مطابق باتیں کرتے اور اسی وجہ سے رسمی گرمجوشی سے نہیں ملتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو طرح طرح کے خطوط آتے؟ ہندوستان کے اور ہندوستان سے باہر کے ان خطوں کا جواب وہ اپنے ہاتھ سے لکھتے، جو سوال کیا جاتا اس کا جواب دیتے۔ یہ کام گو بہت مشکل اور صبر آزما ہے، مگر یہ فرض وہ خندہ پیشانی سے انجام دیتے۔ یہ وصف سر اقبال کی خصوصیات میں شامل تھا۔ گوشہ نشینی بھی ان کا ایسا وصف تھا جس کی پابندی نہایت سختی سے کرتے۔ اپنے گھر سے باہر شاذ و نادر ہی نکلتے تھے۔ جسے ملنا ہوتا وہیں آ جاتا۔ چائے کی دعوت ان کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی۔ فرماتے کہ ان پارٹیوں میں کھانے کو تو کچھ ملی جاتا ہے مگر روحانی تکلیف ہوتی ہے۔ سر اقبال کی ’’ لمبی ہوں‘‘ نہایت پر معنی اور مخصوص چیز تھی۔ اس کا استعمال گفتگو میں اکثر ہوتا۔ کسی مسئلہ پر کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد یہ ’’ ہوں‘‘ نمودار ہوتی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسئلہ زیر بحث نے خیالات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور مسئلہ زیر بحث کے متعلقات کی وسعتوں اور گہرائیوں میں ڈوب کر پھر سے ابھرے ہیں۔ یہ ’’ ہوں‘‘ کی ایک صورت تھی۔ دوسری صورت یہ ہوتی کہ جب کوئی شخص کوئی بات کہتا جس سے ڈاکٹر صاحب کو اتفاق نہ ہوتا تو آپ خاموش رہتے اور پھر کچھ وقفہ کے بعد یہ ’’ ہوں‘‘ نمودار ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب گفتگو ہمیشہ پنجابی میں کرتے۔ اگر کوئی ایسے بزرگ تشریف لے آتے جو پنجابی سے ناواقف ہوتے تو حسب ضرورت اردو، فارسی، انگریزی میں گفتگو فرماتے۔ دوران گفتگو میں جب خاموشی کا وقفہ آ جاتا تو اکثر سر کے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرتے اور کبھی کبھی ’’ یا اللہ‘‘ کی ضرب لگاتے۔ یہ جملہ معترضہ کسی قدر لمبا ہو گیا، میں کہہ رہا تھا کہ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو سر اقبال پلنگ پر لیٹے تھے اور ایک نوجوان ہندو ڈاکٹر پاس بیٹھا تھا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی بچی کو بخار اور نزلہ کی شکایت ہے۔بچی گرم کپڑے نہیں پہنتی۔ کہتی ہے مجھے سردی نہیں لگتی۔ آخر بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ معمولی امراض کا علاج تو ڈاکٹر کر سکتے ہیں، اکثر بیماریاں ان کے بس کا روگ نہیں؟ مثلاً تپ دق، ذیابیطس، ٹائیفائیڈ لاہور میں اب صرف ایک حکیم ہے: ’’ قرشی، مگر وہ کتابیں لکھتا ہے، علاج معالجہ کی طرف توجہ کم کر دی ہے۔ نمونیا کا شرطیہ اور حکمی علاج کرتا ہے۔‘‘ نوجوان ڈاکٹر نے کہا کہ نمونیا خود بخود دسویں دن غائب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہے، تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ ہوں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، کل ایک حکیم میرے پاس آیا۔ شدت سے جھکی تھا۔ بہت لمبی تقریر کرتا رہا۔ جب تقریر ختم کی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے مریض بچ بھی جاتے ہیں؟ کہنے لگا، یہ حصہ رہنے دیجئے، وقت علاج کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر فرمایا، کسی شخص نے حکیم محمود خاں دہلوی3؎ سے کہا کہ آپ کے مریض بھی مرتے ہیں اور دوسروں کے بھی؟ پھر ان میں اور آپ میں فرق کیا ہوا؟ حکیم صاحب نے کہا کہ آں قرم ساقان بے قاعدہ می کشند و من باقاعدہ۔ فرمایا کہ میری والدہ کو درد گردہ اس شدت سے ہوتا تھا کہ ہمیں ان کی موت سامنے نظر آیا کرتی تھی۔ ایک دفعہ وہ درد گردہ سے بیہوش پڑی تھیں، رات کا وقت تھا کہ حکیم نور الدین صاحب قادیانی نے آ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حکیم صاحب نے جو گھر میں ہیجان دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ ہم نے صورت حال بیان کی۔ حکیم صاحب نے کہا میں بھی ذرا دیکھوں۔ حکیم صاحب نے ایڑی کے قریب کسی رگ کو دبایا تو والدہ نے آنکھیں کھول دیں۔ حکیم صاحب نے کہا، اب رات کا وقت ہے، اس وقت تو سینگ کرو، صبح باقاعدہ علاج ہو گا۔ صبح ہوئی تو حکیم صاحب نے والدہ کے لیے چوزہ تجویز کیا۔ کہا، اس کا شوربا پئیں اور گوشت کھائیں۔ اس علاج کا یہ اثر ہوا کہ والدہ کو پھر عمر بھر درد گردہ کی شکایت نہ ہوئی۔والدہ عرصہ دراز تک چوزہ کھاتی رہیں۔ کھاتے کھاتے تنگ آ گئیں تو حکیم صاحب کو لکھا گیا کہ اگر مناسب ہو تو چوزے کا بدل بتا دیں۔ جواب آیا انڈہ بدل ہے۔ ایک دفعہ جب میں انارکلی میں رہتا تھا، مجھے Gout کی شکایت ہوئی۔ حکیم نور الدین صاحب4؎ لاہور آئے تھے، علی بخش کو ان کے پاس بھیجا کہ میں درد کی وجہ سے چلنے سے معذور ہوں، اگر آپ تشریف لے آئیں تو عنایت ہو گی۔ علی بخش کی معرفت جواب آیا کہ کھانا کھا کر مرغی کے پر کو حلق میں ڈال کر قے کر دو۔ میں کھانا کھا چکا تھا، علی بخش مرغی کا پر لایا، قے کر دی۔ درد جاتا رہا۔ مستقل طور پر نہیں۔ میرے بائیں گردے میں درد ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر کے کہنے پر ایکسریز فوٹو لیا گیا۔ معلوم ہوا گردے میں پتھری ہے۔ ڈاکٹروں نے ولایت جا کر آپریشن کروانے کی صلاح دی۔ میں جانے کو تیار ہو گیا۔ اتنے میں مولوی میر حسن صاحب کا سیالکوٹ سے خط پہنچا ، انہوں نے آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ میں نے ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثناء میں دہلی سے حکیم نابینا صاحب کا خط آیا کہ مجھے اخبار کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ آپ پتھری کا آپریشن کروانے ولایت جا رہے ہیں، آپ دہلی آ جائیں، بغیر آپریشن کے پتھری دور ہو جائے گی۔ میں گیا، چودھری محمد حسین6؎ اور علی بخش ساتھ تھے۔ درد کم ہو چکا تھا، مگر گرانی کا احساس شدت سے تھا۔ ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ایک گولی دی کہ اسے بھی کھا لیں۔ پانچ بجے سہ پہر تک گرانی جاتی رہے گی۔ چنانچہ ویسے ہی ہوا باقاعدہ علاج کے لیے دوائی دے کر رخصت کر دیا۔ لاہور آ کر دوائی شروع کی تو پیشاب کا رنگ سیاہی مائل ہونا شروع ہوا۔ روز بروز زیادہ سیاہی مائل ہوتا گیا۔ آخر کم ہونا شروع ہوا، یہاں تک کہ اصلی رنگ پر آ گیا۔ سال بھر دوائی کھاتا رہا۔ اس کے بعد دس سال سے درد گردہ نہیں ہوا۔ اب چند دن ہوئے معمولی سا ہوا مگر دوسرے گردے میں حکیم صاحب کو لکھا گیا، انہوں نے دوائی بھیج دی۔ کچھ دیر ڈاکٹر صاحب خاموش رہے اور انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے رہے، پھر فرمایا، حیدر آباد میں ایک انگریز پروفیسر ہے جو میری بعض نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے جسم میں گرم ملک کے جراثیم پیدا ہو گئے اس لیے میں ملازمت چھوڑ رہا ہوں۔ میں نے اسے لکھا کہ آپ ملازمت نہ چھوڑیں، گرم ملک کے جراثیم آپ کے جسم میں نہیں ہو سکتے، اگر ہوں گے تو ڈاکٹر کے دماغ میں۔ باقی رہے مغربی جراثیم تو وہ میرے جسم میں ہو سکتے ہیں آپ کے جسم میں نہیں۔ فرمایا ایک دفعہ میں حکیم اجمل خان صاحب کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کے دو بجے کے قریب میری ڈاڑھ میں درد ہونے لگا۔ میں نے حکیم صاحب کے ملازم کو جگایا اور اسے کہا کہ حکیم صاحب کو جگاؤ۔ اس نے کہا حکیم صاحب زنانے مکان میں سو رہے ہیں، یہ کام مشکل ہے۔ میں بضد ہوا تو وہ حکیم صاحب کو جگا کر لایا۔ میں نے حکیم صاحب سے صورت حال بیان کی۔ انہوں نے ملازم سے کچھ کہا، وہ تھوڑی دیر میں کوئی چیز لے آیا۔ حکیم صاحب نے کہا، جس ڈاڑھ میں درد ہے اس پر اسے رکھ کر اوپر کی ڈاڑھ سے دبا دو۔ میں نے ویسا ہی کیا۔ تھوڑی دیر میں درد جاتا رہا۔ میں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا چیز تھی؟ فرمایا، ہمارے بزرگوں نے نادر شاہ سے جواہرات کے تھال لے کر یہ چیز تو اسے دے دی تھی، جس سے اس کا درد جاتا رہا تھا، مگر اس کی اصلیت نہیں بتائی تھی، بھلا میں آپ کو کیسے بتا سکتا ہوں ! حکیم صاحب مسکرائے اور فرمایا، ادرک اور اس پر پسا ہوا نمک۔ میں نے سوال کیا کہ آپ نے ’’ وقت‘‘ کو تاوار کہا ہے، اس سے کیامراد ہے؟ اے خوش آن وقتے کہ سیف روزگار با توانا دستی ما بود یار! ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’ تلوار اس لیے ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے، بڑھاپا آتا ہے، پھر موت۔ یہ وقت کی تلوار ہے۔’’ وقت‘‘ ایک طرح سے رحمت بھی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ تکلیف آئی اور گزر گئی۔‘‘ میں نے دوسرا سوال کیا کہ حدیث7؎ ہے:’’ دہر کو بر مت کہو، دہر خدا ہے‘‘ اس کا کیامطلب ہے؟ پہلے تو ہوں ہاں کرتے رہے، آخر کہا کہ Realityکا لازمی جزو ’’ دہر‘‘ ہے۔ اتنا کہا اور خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا، پیرس میں برگسان سے جب ملاقات ہوئی تو اسے Gout کی شکایت تھی۔ پہیوں والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نوکر کرسی کو چلا کر ادھر سے ادھر لے جاتا تھا میں نے برگسان کو یہ حدیث سنائی تو کرسی سے اچھل پڑا پوچھا یہ کون کہتا ہے؟ میں نے کہا ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ’’ وقت‘‘ کو ہم Eternalمانتے ہیں مگر وہ گزر بھی رہا ہے۔ اگر ان دونوں کو ملایا جائے تو جس چیز کو ہم Nowکہتے ہیں وہ Eternal nowبن جاتی ہے Realityدو معنوں میں لی جا سکتی ہے: ایک Extensiveاور دوسرے Intensive ، Intensiveسے مراد یہ ہے کہ مثلاً ایک گیند اپنے محور کے گرد حرکت کرے اور ہر گردش میں اس کا رنگ بدل جائے۔ ’’ وقت‘‘ کو اسی طرح تصور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔ رات اور دن کی تمیز ہم نے قائم کر رکھی ہے، ورنہ ’’ وقت‘‘ تو اس تمیز سے پاک ہے۔ زرتشت تو غالباً ایک خدا کو مانتا تھا، مگر ایران میں یزداں اور اہرمن کی ثنویت موجود تھی۔ ایک روشنی (دن) اور دوسرا تاریکی (رات) ان دونوں کا اجتماع Realityہے۔ قرآن میں بار بار دن اور رات کا ذکر آتا ہے۔ ہندو تو ’’ وقت‘‘ کو مایا کہتا ہے، بدھوں نے اس کی اصلیت کو مانا ہے اور اس کے حصے کیے ہیں۔ وقت کا Atomic تصور 8؎ بدھوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے، پھر فرمایا ’’ وقت‘‘ کا تصور Personality کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان Truthکا متلاشی تھا، ایران Beautyکا اور عرب Goodnessکا، اسلام نے تینوںPersonalityمیں جمع کر دیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب پھر خاموش ہو گئے او رمیں نے تصوف کی بحث چھیڑ دی۔ فرمایا، تصوف9؎ ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتا ہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف، سب انحطاط قومی کے نشان ہیں۔ اسلامی تصوف بھی اسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام کے اولین دور کے صوفی زہاد تھے۔ زہد اور تقویٰ ان کا مقصد تھا۔ بعد کے تصوف میں مابعد الطبیعیات اور نظریات شامل ہو گئے۔ تصوف اب محض زہد نہیں رہتا، اس میں فلسفہ کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں، یہ فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ ’’ وحدت اور کثرت‘‘ کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کی روح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت نہیں بلکہ شرک ہے۔ وہ فلسفہ اور وہ مذہبی تعلیم جو انسانی شخصیت کے نشوونما کے منافی ہو بیکار چیز ہے۔ تصوف نے Scientific روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ تعویذ تلاش کرتے ہیں۔ گوش و چشم کو بند کرنا اور صرف چشم باطن پر زور دینا جمود اور انحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر جدوجہد سے کرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔ ’’ شجر ممنوعہ‘‘ میرا خیال ہے تصوف سے مراد ہے۔ خالص اسلامی تصوف یہ ہے کہ احکام الٰہی انسان کی اپنی ذات کے احکام بن جائیں: یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن پھر فرمایا، انا الحق10؎ کے معنے یہ نہیں کہ میں خدا ہوں، بلکہ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ ’’ انا‘‘ ہی اصلی چیز ہے۔ بندہ اگر خدا میں گم ہو گیا تو اس نے اپنی ہستی مٹا دی۔ پروفیسر عبدالواحد نے پوچھا Evolutionکے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا، پسندیدہ ہے مگر اسے اصلیت نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کی گردن اس لیے لمبی ہو گئی کہ اسے اپنی خوراک شاخوں پر تلاش کرنی پڑی۔ تصوف کی بحث ’’ کرامات‘‘ دست غیب اور بخشش کے سوال کو لے آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ قصے سمجھ میں تو نہیں آتے مگر ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ممکن ہے کبھی سمجھ میں آ جائیں۔ دست غیب سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مولانا وحید الدین سلیم 12؎ نے بارہا بیان کیا کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کے پیر حضرت غوث علی قلندر نے مولانا وحید الدین سلیم کو بلایا اور کہا کہ تمہارا باپ ہمارا دوست تھا، ہم تمہیں ایک وظیفہ بتا دیتے ہیں، جب روپے کے حصول کی اور کوئی صورت نہ ہو تو اس وظیفہ کو پڑھنا، پانچ روپے تمہیں مل جایا کریں گے۔ پیر صاحب سے رخصت ہو کر گھر آئے تو والدہ کو سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ گھر میں کچھ نہیں، نہ آٹا نہ دال۔ وظیفہ پڑھا گیا تکیہ کے نیچے سے پانچ روپے مل گئے۔ مولانا کا بیان ہے کہ انہوں نے اسی طرح وظیفہ پڑھ کر تعلیم حاصل کی۔ جب خود روپیہ کمانے لگے تو وظیفہ بند کر دیا۔ سرسید سے جب مولانا کی ملاقات ہوئی تو مولانا نے سرسید سے کہا کہ آپ نیچری ہیں، مگر ہمارے وظیفہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ کرامت کی بھی ایک مثال ڈاکٹر صاحب نے سنائی۔ فرمایا، سرسید احمد کی طرح ان کے باپ کے گلے میں بھی رسولی تھی، وہ اپنے پیر کے پاس گئے اور کہا کہ حضرت مجھے رسولی کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، اس کا کیا کچھ علاج کیجئے۔ پیر صاحب نے کہا، دیکھیں، سرسید کے والد نے سر آگے بڑھایا۔ پیر صاحب نے ان کی ڈاڑھی کے نیچے ہاتھ پھیرا اور فرمایا، بھئی ہمیں تو رسولی کہیں نظر نہیں آتی۔ بخشش کی بھی مثال سنائی۔ فرمایا، ایک سب انسپکٹر پولیس ہے، وہ سانپ کے کاٹے کا دم کرتا ہے اور شفا ہو جاتی ہے۔ کئی سو میل سے بھی دم کا اثر ہو جاتا ہے۔ خاموشی کے ذرا سے وقفہ کے بعد میں نے پوچھا’’ جن‘‘ 13؎ کا ذکر قرآن میں آتا ہے ’’ جن‘‘ کس چیز سے عبارت ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، بعض اس کے معنے جنگلی آدمی کے بیان کرتے ہیں کیونکہ وہ چھپے ہوتے ہیں۔ اسی مصدر سے جنت، جنین اور جنہ (ڈھال) نکلے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی ایسی مخلوق ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ کئی رنگ ہیں جنہیں ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ کئی آوازیں ہیں جنہیں ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، چند دن ہوئے میں باہر بیٹھا تھا، ایک فقیر ہاتھ میں ڈنڈا لی۔ تہمد باندھے آ گیا۔ میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ میری ٹانگیں دبانے لگا۔ میں مزے سے بیٹھا رہا اور وہ میرے پاؤں دباتا رہا۔ آخر میں نے پوچھا، آپ کس طرح آئے ہیں؟ اس فقیر نے کہا، میں فلاں پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انہوں نے مجھے کہا کہ تمہارے علاقہ کا قلندر ڈاکٹر اقبال کو مقرر کر دیا گیا ہے، تم ان کے پاس جاؤ۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے تو ابھی تک کوئی اطلاع اس قلندری کے بارے میں نہیں پہنچی۔ میری بات کو اس فقیر نے قلندی کے کوچہ کی کوئی رمز سمجھا، ٹانگیں دباتا رہا۔ اتنے میں چودھری محمد حسین صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی سر سکندر کے بارے میں گفتگو شروع کرنے ہی کو تھے کہ میں نے ٹوکا اور کہا، چودھری صاحب اس سکندری کو رہنے دیجئے، آج یہاں قلندری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، جن دنوں میں انارکلی میں رہا کرتا تھا، ایک دفعہ جاڑے کے موسم میں ایک فقیر نے رات کے دو بجے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ علی بخش نے دروازہ کھولا، میں نے علی بخش سے پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا ایک فقیر ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں بستر سے اٹھا، فقیر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، آپ کس طرح تشریف لائے؟ کہنے لگا، مجھے دوسری جگہ جانے کا حکم ملا ہے، میں جا رہا ہوں، اس لیے آپ سے ملنے آ گیا۔ میں نے پوچھا، آپ اس دنیا کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگا، اب امام مہدی14؎ کے ظہور کا وقت آ گیا ہے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اگرچہ شدت کی سردی تھی مگر اس فقیر نے رات کے دو بجے دہی کی لسی پینے کی خواہش ظاہر کی۔ علی بخش گیا، کسی دکاندار کو جگا کر لسی بنوا کر لایا۔ اس فقیر نے پی اور کہا اب میں چلتا ہوں۔ میں نے کہا اس وقت تو ریل نہیں ملے گی۔ اس نے کہا، فقیر کو ریل سے کیا غرض۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: اکثر لوگ مہدی کے منتظر ہیں مگر وہ آنے میں نہیں آتا۔ ایک اور بزرگ لاہور میں ہوا کرتے تھے۔ جب کبھی ملتے مہدی کے آنے کی تاریخ بتا جاتے۔ وہ تاریخ گزر جاتی تو ایک نئی تاریخ مقرر کر دیتے۔ اسی انتظار میں ان کا انتقال ہو گیا مگر مہدی کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ کچھ دن ہوئے ایک اور بزرگ تشریف لائے وہ بھی مہدی کے آنے کی خوشخبری دے گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے پہلے بھی کئی لوگ مہدی کی آمد کی خبر دے گئے ہیں مگر ابھی تک وہ نہیں آیا، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے کام مہدی کے لیے نہیں اٹھا رکھنے چاہئیں۔ مہدی کے قصے کے بعد قدرتی طور پر مسیحؑ کا ذکر آ گیا۔ میں نے کہا، احمد یوں کے بارے میں جو آپ نے رسالہ شائع کیا ہے، اس میں آپ نے لکھا ہے کہ Spengler شیپنگر نے مسلمانوں کو مجوسی اقوام میں شامل کرنے میں غلطی کی ہے۔ Spengler نے مجوسی اقوام کی ایک خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ کسی آنے والے نبی کی منتظر رہتی ہیں، مسلمان کسی آنے والے نبی کے منتظر نہیں۔ میں نے کہا آپ کا یہ دعویٰ کہ مسلمان کسی آنے والے نبی کے منتظر نہیں درست نہیں کیونکہ مسلمان عام طور پر مسیح ؑ کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا میں اس کا قائل نہیں۔ میں نے اپنے ا شعار میں اس عقیدہ کو اظہار بھی کیا ہے۔ اسی بنا پر احمدیوں نے مسلمانوں کو میرے خلاف ابھارنے کی کوشش کی مگر وہاں کچھ اثر نہ ہوا۔ کچھ دیر خاموشی رہی، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: میرے والد صاحب کی دکان پر ابنع ربی کی فصوص الحکم باقاعدہ پڑھی جایا کرتی تھی، مولوی عبدالکریم صاحب قادیانی کہ ان کی آواز بلند تھی، یہ خدمت سر انجام دیا کرتے تھے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بھی اس صحبت میں شریک ہوا کرتے تھے۔ مجاز اور حقیقت کی داستان وہ ابن عربی سے سنتے رہے۔ یہی فلسفہ بعد میں انہوں نے حقیقی اور مجازی نبوت کی شکل میں پیش کیا۔ اس طرح گویا مرزا صاحب نے ابن عربی سے فیض حاصل کیا اور ابن عربی نے افلاطون سے۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا، ابن عربی، بیدل اور ہیگل کے جال میں جو ایک دفعہ پھنس جاتا ہے، اس کی رہائی مشکل سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد خاموش ہو گئے، پھر فرمایا: سیالکوٹ کا ذکر ہے میں شام کے قریب گھر سے نکلا تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے احمدی جمع ہیں۔ بعض میرے واقف تھے۔ میں گیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ ایک صاحب نے کہا حضرت میرزا صاحب نے عبداللہ آنھم کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی کہ اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو چار برس کے اندر مر جائے گا، آج ان چار سالوں کا آخری دن ہے، ہم تار کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے رندانہ طریق سے کہا کہ خدا کی بات کو اس طرح نہ مان لیا کرو، اس کا کیا اعتبار ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی بات ہے پوری ہو کر رہے گی۔ میں نے کہا، وہ پیش گوئی مشروط تھی۔ اگر عبداللہ آنھم نے چپکے سے توبہ کر لی ہو تو پیش گوئی پوری نہیں ہو گی۔ اگر ایسی صورت پیش آ گئی تو پھر تم کیا کرو گے؟ وہ دن گزر گیا، عبداللہ آنھم نہ مرا۔ دوسرے ہی دن قادیان سے اشتہار نکلا، جو صورت حال میں نے احمدی دوست سے بیان کی تھی وہی پیش آئی۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے غیر مشروط طور پر عبداللہ آنھم کی موت کی دوبارہ پیش گوئی کی جو پوری ہوئی۔ میں نے پوچھا، کیا پیش گوئیاں اور معجزات نبوت کی دلیل قرار دیے جا سکتے ہیں؟ فرمایا نہیں؟ اکثر رمل جفر والے بھی پیش گوئیاں کرتے ہیں؟ کچھ پوری ہو جاتی ہیں کچھ غلط۔ یہ اتفاقی بات ہے۔ نبی کی تعلیم اور اس کی زندگی ہی نبوت کے لیے حجت ہو سکتی ہے۔ میں نے سوال کیا: مرزا محمود صاحب قادیانی سیاسیات میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے گفت و شنید فرما رہے ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ فرمایا: ہاں، میں نے بھی اخباروں میں یہ خبر پڑھی ہے۔ انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ سے Tender مانگے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ انگریز سے کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے خفا ہوں، جلدی کرو اور مجھے مناؤ۔ گفتگو کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ایک بزرگ تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے نو وارد سے مخاطب ہو کر کہا: کہو جی چودھری جی آپ کے پیر صاحب کیا کہتے ہیں؟ چودھری صاحب بولے، ڈاکٹر صاحب آپ کو کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک دیگ پلاؤ کی پکا کر غریبوں کو کھلا دیں، آپ کا حلق ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: نہ چودھری جی، یہ بات غلط ہے۔ پہلے صحت اس کے بعد ایک کی جگہ دو دیگیں۔ چودھری صاحب نے کہا تو آپ کی مرضی۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہے۔ ذرا سے وقفہ کے بعد کہا’’ ہوں‘‘ اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر کے بالوں میں کنگھی کرنے لگے۔ پھر یکایک ’’ یا اللہ‘‘ کی ضرب لگائی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ میں نے مناسب موقع دیکھ کر پوچھا: تجزیہ نفسی (Psycho-analysis) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: جنسی جذبات اور تحت الشعور پر علم النفس کی عمارت بنانے کے بعد فرائیڈ جنسی جذبات پر مابعد الطبیعیات کی عمارت کھڑی کرنا چاہتا ہے، یہ ممکن نہیں۔ ذرا سے وقفہ کے بعد فرمایا: مجھے قبض کی شکایت تھی، میں نے خواب دیکھا کہ سات چور میرے مکان میں گھس آئے۔ صبح رفع حاجت کے بعد میں نے کموڈ میں نظر ڈالی تو اس میں سات سدے تھے، تجزیہ نفسی والے اس کی کیا تشریح کریں گے۔ میں نے پوچھا، غالب کی شاعری کے بارے میں آج کل یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا وہ قناطی تھا یا رجائی، آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟فرمایا:قنوطیت فلسفہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی اچھی چیزوں میں بھی برائی کا پہلو نکالا جائے۔ اس طرح کے قنوطی بدھ مت والے ہیں یا پھر ان کا بیرو شوبن ہاوئر Schopenhauer اس لحاظ سے غالب قنوطی نہیں، البتہ شاعر پر کبھی ایسی حالت طاری ہوتی ہے کہ وہ دنیا سے بیزاری کی داستان بیان کرتا ہے۔ فلسفہ کی اصطلاح میں اسے قنوطیت نہیں کہتے۔ بہرحال قنوطیت سے بحث کرتے وقت ا س فرق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد میں نے پوچھا، تمدن (Cibilisation) اور تہذیب (Culture) آج کل اس طرح استعمال ہو رہے ہیں کہ گویا وہ ہم معنی ہیں، آپ ان میں کس طرح امتیاز کریں گے؟ فرمایا، Civilasationکا تعلق باہر کی دنیا سے ہے اور Cultureکا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ ڈاکٹر صاحب بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر کے بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔ پھر یکایک فرمایا: مذہب نے کچھ جانوروں کے کھانے کی اجازت دی ہے اور بعض کو حرام قرار دیا ہے۔ اس مسئلہ پر طب کے نقطہ نظر سے بحث ہو سکتی ہے، مگر میرا خیال ہے کہ اس میں جمالیات کو بھی دخل ہے۔ اگر سب حلال اور حرام جانوروں کی دو علیحدہ فہرستیں بنائی جائیں تو میرا خیال ہے حلال جانور خوبصورت نکلیں گے اور حرام بدصورت۔ اس نقطہ نگاہ سے آج تک کسی نے اس مسئلہ سے بحث نہیں کی۔ تھوڑے سے وقفہ بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: جب میں بھاٹی دروازہ میں رہا کرتا تھا، ایک بزرگ مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اس وقت میری شاعری کا آغاز تھا۔ غالباً میرے اشعار نے ملاقات کی خواہش پیدا کی ہو گی۔ میں نہانے جا رہا تھا۔ میں نے کہا آپ تشریف رکھیے میں آپ کے آنے کی اطلاع شیخ محمد اقبال کو کیے دیتا ہوں۔ نہانے کے بعد میں آیا تو ان سے کہا، فرمائیے میں آ گیا ہوں۔ اس شخص کو نہایت مایوسی ہوئی۔ اس نے اپنے ذہن میں جو شکل میری بنا رکھی تھی غالباً میں اس معیار پر پورا نہ اترا۔ نادر خان16؎ سے جب اول مرتبہ ملاقات ہوئی تو وہ کابل جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے۔ وہ میری صورت دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کہنے لگے: آپ اقبال ہیں؟ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ لمبی ڈاڑھی والے بزرگ صورت ہوں گے۔ میں نے کہا: آپ سے زیادہ مجھے حیرانی ہے۔آپ تو جرنیل ہیں میں سمجھتا تھا آپ دیوہیکل ہوں گے، مگر آپ میں جرنیلی کی کوئی شان نہیں، اس قدر دبلے پتلے۔ اس کے بعد فرمایا، میں نے مومن کا دیوان نہیں پڑھا تھا، اب دیکھا ہے، اس میں مجھے صرف ایک شعر پسند آیا ہے: تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا17؎ شعر و شاعری کی بات جو شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ آج کل ہندوستان کے قومی ترانہ کا سوال در پیش ہے۔ مسلمان بندے ماترم پر معترض ہیں۔ آپ ہندوستان کے لیے ایسا قومی ترانہ کیوں نہیں لکھتے جس میں معنوی اور صوتی لحاظ سے گرمی ہو۔ فرمایا: ہندوستان میں قوم ہے کہاں جس کے لیے قومی ترانہ لکھا جائے۔ مختصر سی خاموشی کے وقفے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: میں عمر بھر کرائے کے مکانوں میں رہا ہوں۔ جاوید منزل جاوید کی ملکیت ہے، میں اس کو پچاس روپے ماہوار کرایہ دیتا ہوں۔ ایک دفعہ سر ذوالفقار علی خاں مجھ سے کہنے لگے، اپنا مکان کیوں نہیں بنواتے؟میں نے کہا تم سرمایہ داروں نے چار چار پانچ پانچ مکانوں پر قبضہ جما رکھا ہے، ہم جیسوں کے حصے میں اپنا مکان کیسے آ سکتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت مانگی، فرمایا: جا رہے ہیں، اچھا ۔ ہم اٹھے اور رخصت ہوئے۔ ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے، پی ایچ ڈی ٭٭٭ علامہ اقبال سے ایک ملاقات گذشتہ ماہ رمضان کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت سے بس رہے تھے ہم علامہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبہ انگریزی کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدر شعبہ فلسفہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا، مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان بھی صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔ ساڑھے چار بج چکے تھے، سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا، فضا اجلی اور نکھری ہوئی تھی مگر مغرب کی طرف ابر کی چند قرمزی اور نارنجی دھاریاں افق پر ایک لہر یا سا بنا رہی تھیں۔ ہم ا مپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہہ آیا جہاں یہ سڑک میو روڈ سے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ سڑ ک کے ساتھ صحن کی چھوٹی سی دیوار اور اس کے پیچھے یوکلپٹس کے چار پودے جو ابھی اپنے پورے قد و قامت کو نہیں پہنچے، پھر سبزے کا ایک مختصر سا تختہ جس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر رک گئے۔ اس کی ڈیوڑھی تین محرابیں اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پائے طبیعت کو رعب و وقار کے بجائے حسن و لطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میں سے نکلا۔ اس نے جا کر علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔ برآمدے سے گزرے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان آرائش بہت سادہ اور تکلف و تصنع سے پاک تھا۔ رواق پر شاعر مشرق کی ایک تصویر، دو تین فٹ اونچی فوراً نظر کے سامنے آ گئی۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خوبا گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا تھا کہ ہم جب آتے تھے علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے ہوئے مگر زیادہ تر لیٹے ہوئے پاتے تھے، لیکن مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میکلوڈ روڈ کے قیام کے دنوں میں حضرت علامہ اپنے خرمن فیض کے خوشہ چینوں کو کسی اور رنگ میں صلائے عام دیتے تھے۔ میں سڑک سے مڑتا تھا تو کوٹھی کے صحن میں داخل ہوتے ہی اور بعد کے دنوں میں اس لمبی روش پر چند ہی قدم چل کر جو مکان تک پہنچاتی تھی، ہمیشہ برآمدے کے ایک مخصوص گوشے میں ڈاکٹر صاحب ایک آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے دور سے نظر آ جاتے تھے۔ برآمدے تک پہنچتے پہنچتے علی بخش پہلے سے جمی ہوئی محفل میں حسب ضرورت ایک یا دو کرسیوں کا اضافہ کر دیتا تھا۔ آج ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی ہم کسی قدر ٹھٹکے۔ ایک یورپین خاتون ڈاکٹر صاحب کے بستر کے برابر کرسی پر بیٹھی تھیں اور ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی بچی کو گود میں لیے ہوئے تھیں۔ ہم کو دیکھتے ہی وہ اٹھیں اور مقابل کا پردہ اٹھا کر مکان کے اندر چلی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے، انہوں نے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ ہم تینوںبستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ’’ کون صاحب ہیں؟‘‘ یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ برس ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت و عنایت سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ سوال میری سمجھ میں نہ آیا، اس لیے اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا:’’ جی میں ہوں حمید احمد خاں، سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی، اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا جس کو ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول اپنی اس لمبی استادانہ ’’ ہوں‘‘ سے توڑا، جس میں بالعموم گفتگو کے لاتعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے ساتھ ہی لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: ’’ ڈاکٹر صاحب! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ کچھ لکھتے بھی ہیں۔‘‘ ’’ پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں۔‘‘ ’’ نظر نہیں آتا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میں نے بیحد حیرت و استعجاب کے لہجہ میں دہرائے۔ ہاں! جب آپ لو گ میرے کمرے میں داخل ہوئے ہیں تو میں آپ کو نہیں دیکھ سکا۔ اب تھوڑی دیر گزرنے پر آپ کی صورتیں کسی قدر دھندلی نظر آ رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ Senile Cateract (موتیا بند) اتر آیا ہے۔ سعید اللہ: ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ Senile Cateract اتر آنے کا خطرہ ہے، مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحب: جی ہاں! عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے، مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو جو سو سال سے کچھ زیادہ زندہ رہے، اسی برس کی عمر میں اترا تھا۔ میں: اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟ ڈاکٹر صاحب:’’ اب اس کا آپریشن ہو گا۔ لیکن جب تک یہ پک نہ جائے آپریشن نہیں ہو سکتا۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں گے، پانچ سال لگ جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھنا بالکل موقوف ہے، کیونکہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بیکار تھی۔‘‘ ’’ شروع ہی سے بیکا رتھی؟‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسف و اضطراب بھی شامل تھا۔ جی ہاں! دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جونکیں لگوائی گئی تھیں۔ تاہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے دیکھ لیا کرتا تھا ۔(اس کے بعد ایک ایسے تبسم کے ساتھ جو گویا تاریکی کی قوتوں کے خلاف پیغمبر امید کا نعرۂ خاموش تھا) اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجائے سوچتا ہوں جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں (پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ تکیے سے سر اٹھا کر) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی کچھ باتیں ہوئیں۔ اس یورپین خاتون کا ذکر ہوا جو تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں ہمیں نظر آئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے بچوں کی گورنس ہیں اور علی گڑھ کے کسی پروفیسر کی سفارش پر ڈاکٹر صاحب نے انہیں ملازم رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا:’’ بیچاری اپنے حالات کی وجہ سے مصیبت میں تھی اور ہے بڑی شریف عورت۔ بہت اچھی منتظم ہے۔ بچوں کی تعلیم کے علاوہ اس نے گھر کا بہت سا اور کام کاج بھی سنبھال لیا ہے۔ ذرا فرصت ملتی ہے تو مکان کے جھاڑنے پونچھنے میں لگ جاتی ہے یا باورچی خانے میں جا کر ہاتھ بٹاتی ہے۔ میرا باورچی خانے کا خرچ اب ایک تہائی کم ہو گیا ہے۔ کبھی مجھے انگریزی میں خط لکھنا ہوتا ہے تو اسی کو لکھوا دیتا ہوں۔ اردو خط جاوید لکھ دیتا ہے۔ ہاں اس سلسلہ میں ایک بڑا لطیفہ ہوا۔ میری لڑکی منیرہ اپنی گورنس کے ساتھ سیر کے لیے کسی طرح نہیں جانا چاہتی تھی۔ بہت دفعہ کہا مگر اسے گورنس کے ساتھ سڑک پر نکلنا بالکل منظور نہیں تھا۔ آخر کئی دن بعد یہ راز کھلا جب منیرہ نے کہا لوگ مجھے کہیں گے میم کی بیٹی ہے۔‘‘ انہیں باتوں میں سوا پانچ بج گئے۔ علی بخش نے آ کر مہر صاحب1؎ اور سالک صاحب2؎ کے آنے کی اطلاع دی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے قریب ہی دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس3؎ لکھنو میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران ’’ انقلاب‘‘ 4؎ کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ اس اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ افطار کے لیے سنگترے، کھجوریں، کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں جو کچھ ہو سکے سب لے آئے۔ سالک صاحب: افو! یہ سب کچھ منگوانے کی کیا ضرورت ہے، کھجوریں کافی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب : (ایک ایسی شوخی سے جس میں طفلانہ معصومیت کا انداز جھلکتا تھا) سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جما دیں، کچھ نہ کچھ تو لائے گا۔ رحمے نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کی لفظ بہ لفظ پابندی ضروری نہ سمجھی اور قریب قریب سالک صاحب کی خواہش کی پاسداری پر اکتفا کیا۔ ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا ڈاکٹر صاحب گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے غالب اور بیدل کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی رائے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف Dynamic (حرکی) ہے اور غالب کا Static(سکونی) ڈاکٹر صاحب: (Inclined to static) مائل بہ سکون میں: جی ہاں اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ ڈاکٹر صاحب: بیدل کے کلام میں خصوصیت کے ساتھ حرکت پر زور ہے یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب کرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینان و سکون سے الفت ہے۔ بیدل نے ایک شعر لکھا ہے ’’ خرام می کاشت*‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیں، لیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعار ہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انار کلی میں رہتا تھا میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیا ہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد بھی یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (Dynamic and Optimistic) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (Passimistic and static) اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقہ ارادت زیادہ تر ہندوستان تک محدود ہے۔ مگر ہندوستان سے باہر افغانستان، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے، سیاسیات *ڈاکٹر صاحب نے جس شعر کی طرف اشارہ کیا وہ یہ ہے: ہر نہ دو قدم خرام می کاشت از انگشتم عصا بہ کف داشت فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی کو دیکھئے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموںمیں وہ زیادہ ہر دلعزیز ہے۔ ہندوستان میں ناصر علی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں۔ میں: اس کے کلام کے حرکی عنصر کی وجہ سے؟ ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے سعید اللہ: اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو غالب نے شروع شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی؟ کیا یہ صرف اس دعویٰ کے لیے کہ میں بھی مشکل لکھ سکتا ہوں؟ اس موقع پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت کی اجازت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ ہاں جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے۔‘‘ دونوں حضرات ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت و برخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرۃً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا، آج کل ہندوستان کے نیشنل اینتھم کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا رائے ہے؟ ڈاکٹر صاحب:’’ نیشنل اینتھم‘‘ تو اس صورت میں ہو کہ کوئی ’’ نیشن‘‘ ہو۔ جب سرے سے ’’نیشن‘‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے تو ’’ نیشنل اینتھم‘‘ کہاں ہو سکتا ہے میری تو یہ رائے ہے کہ ہندوستان کو کسی ’’ نیشنل اینتھم‘‘ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ سعید اللہ: بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تو یہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے) آپ ہندوؤں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں؟ ہندو شاعری کے تمام دفاتر دیکھ ڈالیے، کہیں گرمی نظر نہیں آئے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوؤں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھی بعض بعض حصوں میں۔ عبدالواحد: مگر ہندوستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب: میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے۔ عبدالواحد: کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد و حال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے، وہاں قوالی سے بعض لوگ یک دم حال میں آ جاتے ہیں۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟ ڈاکٹر صاحب:ان لوگوں نے وجد و حال کو ایک (دستور) بنا لیا ہے یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے خرش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انہیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی طبعی نسائیت کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا۔ نسائیت سے مراد فالتو جذبات ہیں۔ ایران اور ہندوستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے اور حال انہیں فالتو جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیوں کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے ۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے وہیں کی موسیقی انہوں نے قبول کر لی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ واقعہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فن لطیفہ میں6؎ سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی۔ البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق پیش آیا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے، جن میں قوت اور ہیبت کی ایک ایسی شان تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام 7؎ بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا، میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قواء شل ہوتے گئے تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ قصر زہرا8؎ دیوؤں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ 9؎ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء 10؎ محض مہذب انسانوں کا! پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں الحمراء کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ’’ ھو الغالب‘‘ لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا، یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔‘‘ اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندوستان کی اسلامی عمارات کا ذکر ہوتا رہا۔ یعنی تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’ مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کا ضعف آ گیا ہے اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے۔‘‘ سعید اللہ:’’ دلی کی جامع مسجد11؎ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب:’’ وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘ ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دلکشا بحث ختم ہوئی۔ اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا کچھ ایسا مناسب بھی نہیںتھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان ’’ مشورہ طلب‘‘ نگاہوں سے دیکھا جنہیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول ہم سے کہا’’ اچھا! چلتے ہیں آپ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ پروفیسر حمید احمد خان، ایم ۔اے ٭٭٭ عمر عزیز کے بہترین لمحے! دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد جل گیا حاصل، مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد (اقبال) علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج کے زمانہ تعلیم کے دوران میں ہوئی۔ ان دنوں ہمارے کالج میں احباب کا ایک ایسا گروہ موجود تھا جسے ڈاکٹر صاحب کی تعلیم اور فلسفہ شعر سے خاص عقیدت تھی۔ ہم عموماً شام کے وقت ’’ نیو ہوسٹل‘‘ یا ’’ کواڈر ینگل‘‘ سے ’’ لارنس گارڈن‘‘ کی سیر کا ارادہ کر کے نکلتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ راستے میں ہمارا ارادہ بدل جاتا اور ہم ڈاکٹر صاحب کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی پر پہنچ جاتے۔ ڈاکٹر صاحب کے ’’ جاوید منزل‘‘ میں چلے جانے کے بعد بھی ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ لیکن کالج سے اس گروہ کے منتشر ہو جانے کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ’’ قادیانیت‘‘ کے متعلق ڈاکٹر صاحب کے پہلے اور دوسرے بیان کی اشاعت کے درمیانی عرصے میں ہم اکثر ان کے پاس جایا کرتے تھے اور گفتگو کا موضوع عام طور پر ’’ قادیانیت‘‘ ہوا کرتا تھا۔ ہماری تعداد پانچ چھ کے قریب ہوتی تھی جس کی وجہ سے ہر ایک کو فرداً فرداً کسی خاص موضوع پر مفصل گفتگو کرنے کا موقع نہ ملتا تھا، اس لیے اس زمانے کی کوئی خاص بات یاد نہیں، نہ اس وقت ہمیں ان کے ’’ ملفوظات عالیہ‘‘ کو محفوظ کرنے کا خیال تھا کیونکہ یہ معلوم نہ تھا کہ اس سرچشمہ علم و ادب کے فیض سے ہم بہت جلد محروم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد دو تین مرتبہ پروفیسر تبسم1؎ کے ساتھ، ایک دفعہ عرشی صاحب کے ساتھ اور اکثر تنہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ ان میں سے جو ملاقاتیں مجھے یاد ہیں اس مضمون میں ان کا ذکر کروں گا۔ تین سال کا ذکر ہے کہ میں گورنمنٹ کالج کی ’’ مجلس فلسفہ‘‘ کے لیے ’’ بیسویں صدی میں فلسفہ اور سائنس‘‘ کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ رہا تھا، چند کتابیں پڑھنے کے بعد مزید استفادہ کے لیے علامہ مرحوم (رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے جدید سائنس کے فلسفیانہ اور روحانی رحجانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ اس ’’ روحانیت‘‘ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو مغرب کے موجودہ سائنسدانوں خصوصاً سر آرتھر اڈنگسٹن اور سر جیمز جینز کی تحریروں سے منسوب کی جاتی ہے اور کیا موجودہ سائنس واقعی مذہب کی طرف آ رہی ہے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہمیں ان حالات سے خوش نہیں ہونا چاہیے۔ 6؎ موجودہ سائنس انیسویں صدی کی سائنس کے خلاف جس کی بنیاد’’ میکانیت‘‘ اور’’ قادیت‘‘ پر تھی ایک رد عمل ہے۔ چونکہ مادہ کی ماہیت کے متعلق اب سائنس کا نظریہ بدل گیا ہے، اس لیے موجودہ انقلاب کو بعض لوگ’’ روحانیت پرستی‘‘ پر محمول کرتے ہیں۔ ممکن ہے مادہ کے متعلق پھر ہمارا نظریہ بدل جائے اور ’’ روحانیت آمیز‘‘ خیالات کی یہ عارضی روخس و خاشاک کی طرح بہہ جائے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ تحقیقات کے انتہائی مراحل پر سائنس کا حیرت و استعجاب سے دو چار ہو کر فلسفہ اور روحانیت کے دامن میں پناہ لینا اس کے اعتراف عجز و شکست کی دلیل ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے حقیقت کو پا لیا ہے۔ جہاں سائنس ختم ہوتی ہے وہاں سے فلسفہ شروع ہوتا ہے، اور حیرت و استعجاب جو سائنس کا انجام ہے، فلسفہ کا آغاز ہے، جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے ایک لطیفہ بھی ارشاد فرمایا جس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جب میں نے عرض کیا کہ جیمز جینز ’’ قادر مطلق‘‘ کو ایک بہت بڑے ریاضی دان سے تشبیہہ دیتا ہے اور اس کے نزدیک یہ عالم امکان ایک ریاضی کے مسئلے کی مانند ہے جو اس کے ’’ ذہن لا محدود‘‘ کی تخلیق ہے تو آپ نے ہنس کر جواب دیا کہ اس طرح آپ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا’’ شاعر مطلق‘‘ ہے اور یہ دنیا جو اس کی تخلیق ہے ایک ایسی نظم ہے جس کا مطلع اور مقطع ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ کچھ عرصہ بعد اسی مجلس کے لیے میں ایک اور مقالہ تیار کر رہا تھا جس کا موضوع یہ تھا: ’’ فلسفہ جدید میں قدر کا تصور‘‘ یعنی The Conception of Value in Modern Philosophy۔ اس مقالے کے بیشتر حصے کی بنیاد میرے پہلے مقالے پر تھی، لیکن مختلف کتابوں کے مطالعہ کے بعد بھی ’’ قدر‘‘ یعنی Valueکی ماہیت میرے لیے ایک معمہ تھی، خصوصاً یہ مسئلہ کہ ’’ قدر‘‘ کا وجود’’ خارجی‘‘ ہے یا ’’ داخلی‘‘ اس کے متعلق متضاد نظریے میری نظر سے گزرے تھے اور میں کسی خاص نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ شکوک رفع کرنے کے لیے پھر علامہ سے رجوع کیا۔ میں نے اس مسئلے پر دو نظریے پڑھے تھے: 1’’ قدر‘‘ ایک خارجی حقیقت کے انکشاف کا نام ہے جس کا منبع’’ نفس انسانی‘‘ کی حدود سے باہر ہے۔ 2’’ قدر‘‘ نفس انسانی کی تخلیق ہے اور اس سے باہر اس کا وجود نہیں۔ پروفیسر رادھا کرشن نے جو پہلی بات کے قائل معلوم ہوتے ہیں، ان متضاد نظریوں کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: 1’’ قدر‘‘ اس حقیقت کے انکشاف کا نام ہے جس کا منبع روح مطلق ہے۔ 2’’ قدر‘‘ نفس غیر مطلق کی استعداد کا انتہائے کمال ہے میں نے علامہ مرحوم سے دریافت کیا کہ اس مسئلے پر آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ دونوں نظریے درست ہیں۔ میں نے کہا’’ وہ کس طرح؟‘‘ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں اور تصویر ان میں سے کسی ایک کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔’’ قدر‘‘ کا وجود بیک وقت’’ خارجی‘‘ اور’’ داخلی‘‘ ہے، اور اس کو محض’’ خارجی‘‘ یا محض’’ داخلی‘‘ تصور کرنے کی بنیاد اس غلطی پر ہے جس میں مغرب اور مشرق دونوں شریک ہیں۔ کوئی خالص’’ مادی‘‘ یا کوئی خالص’’ روھانی‘‘ نقطہ نظر’’ قدر‘‘ کی ماہیت کی تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتا۔ فلسفے کی یہ روایت ہے کہ وہ عام طور پر’’ روح‘‘ اور’’ مادہ‘‘ دونوں میں سے ایک کو حقیقت تصور کر کے دوسرے کو’’ سراب‘‘ سمجھ کر ترک کرتا رہا ہے، حالانکہ دونوں کے امتزاج کا نام’’ حقیقت‘‘ ہے۔ یہی روائتی غلطی مسئلہ ’’ قدر‘‘ پر بھی اثر انداز ہوئی ہے اور اس لیے دو متضاد نظریے پیدا ہو گئے ہیں۔ ’’ قدر‘‘ کا سرچشمہ خارجی ہے، لیکن اس کی تخلیق میں انسانی استعداد کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کوئی دو آرٹسٹ بعینہ ایک ہی چیز نہیں بنا سکتے۔ دونوں کے عمل سے اپنی اپنی انفرادیت Individuality نمایاں ہو گی۔ اس کے برعکس دو سائنسدانوں کے لیے اپنے اپنے مشاہدات و تجربات سے ایک ہی ’’ قانون فطرت‘‘ اخذ کرنا ممکن ہے۔ پھر جدید سائنس کی روشنی میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ دنیا ایک اتفاقی ظہور ہے یا اس کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے۔ مجھے اس کے متعلق سر جیمز کے نظریوں میں تضاد نظر آتا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے علامہ سے کہا کہ جیمز کے نزدیک ایک طرف تو دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے کیونکہ وہ ’’ خلاق‘‘ ( Creator) کا قائل ہے اور جہاں ’’ خلاق‘‘ کا تصور ہو گا وہاں مقصد کا ہونا ضروری ہے، لیکن دوسری طرف وہ اس عالم امکان کی ہیبت ناک وسعتوں میں انسان کو ’’ اسٹرونومی‘‘ کی رو سے ایک نہایت ہی غیر اہم اور بے بس چیز تصور کرتا ہے۔’’ غیر محدود قوت تخلیق‘‘ کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس کا یہ نظریہ نہایت مایوس کن ہے۔ اس تضاد کے متعلق آپ نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قسم کی متضاد باتیں تمام موجودہ سائنس دانوں کے ہاں پائی جاتی ہیں، اور کہا کہ اسٹرونومی کا مطالعہ واقعی انسان کو پست ہمت کر دیتا ہے، میں ہمیشہ نوجوانوں کو اس سے منع کرتا ہوں۔ میں بعض لوگوں سے اس قسم کی باتیں سنا کرتا تھا کہ اقبال کے فلسفے میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے تمام افکار اصل میں مغربی فلسفیوں کے افکار ہیں۔ ان مغربی فلسفیوں میں نیٹشے اور برگساں کا نام وہ اکثر لیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک صاحب کہا کرتے تھے کہ اقبال نے انسانیت کی تکمیل یا خودی کے مرقع کا مسئلہ نیٹشے کے نظریہ ’’ فوق البشر‘‘ سے لیا ہے۔ اسی طرح ’’ قوت عمل‘‘ یا ’’حرکت‘‘ اور ’’ مکان و زمان‘‘ کے نظریے جو اقبال کے ہاں پائے جاتے ہیں وہ ’’ برگساں‘‘ کی کاوش طبع کا نتیجہ ہیں۔ ایک صاحب نے جنہوں نے’’ شوپنہار‘‘ کے ’’ عزم للحیات‘‘ (Will to be) کا نام سن رکھا تھا اور اس لفظ کے معانی اور شوپنہار کے مایوس کن فلسفہ حیات سے بے بہرہ معلوم ہوتے تھے، یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ خودی‘‘ کی بنیاد اسی پر رکھی ہے۔ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں نے اسی روز تہیہ کر لیا کہ فلسفیانہ نظموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کروں جس میں فلسفہ کے کسی خاص موضوع کے متعلق علامہ اقبال اور ایک مغربی فلسفی کے نظریے مکالمے کی صورت میں پیش کیے جائیں تاکہ ان لوگوں پر جنہیں مغربی فلسفیوں تک رسائی کے موقعے نہیں ملتے، وہ اختلافات واضح ہو جائیں جو علامہ اقبال کو فلسفہ مغرب سے ہیں۔ چنانچہ میں نے اس سلسلے میں تین نظمیں لکھیں۔ ایک کا موضوع ’’ خدا‘‘ تھا۔ جس میں’’ ذات مطلق‘‘ کے متعلق نیٹشے اور اقبال کا مطالعہ تھا۔ باقی دو نظموں ’’ عزم للحیات‘‘ اور ’’ عزم للقوت‘‘ میں علی الترتیب شوپنہار و اقبال اور نیٹشے و اقبال کے مکالمے تھے۔ میں نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لیے علامہ سے اجازت طلب کی اور ایک خط کے ساتھ یہ تینوں نظمیں ان کی خدمت میں بذریعہ ڈاک ارسال کیں۔ اس خط کے جواب میں آپ کا یہ گرامی نامہ موصول ہوا: لاہور، یکم نومبر1936ء ’’ جناب حفیظ صاحب السلام علیکم آپ کا خیال بہت اچھا ہے، مگر اردو میں خیالات کا ادا کرنا بہت مشکل ہے، اس کے لیے آپ کو بہت غور و فکر کرنا ہو گا۔ بحیثیت نظم ’’ عزم للحیات‘‘ اوروں سے بہتر ہے۔ آپ جس وقت چاہیں تشریف لا سکتے ہیں۔‘‘ محمد اقبال اس کے بعد خود بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ لیکن افسوس کہ گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے نظموں کا یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ ہم مردہ پرستوں کی ’’ زود پشیمانی‘‘ غور کے قابل ہے، ابھی آپ کے جسد خاکی کو سپرد خاک بھی نہ کیا گیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں نے بھی مرحوم کی کتابیں خرید کر یا مانگ کر پڑھنی شروع کر دیں جو اس سے پہلے آپ کے کلام سے نا آشنا تھے یا علامہ کی شاعری کے متعلق ان کی معلومات محض’’ بانگ درا‘‘ کی چند نظموں تک محدود تھیں۔ اس صورت حالات کے پیش نظر جب کہ ڈاکٹر صاحب ’’ جاوید منزل‘‘ سے ’’ منزل جاوید‘‘ کو جا چکے ہیں، ان غلط فہمیوں کا دور کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے جو ان کے فلسفیانہ افکار کے متعلق پڑھے لکھے عوام میں مشہور ہیں، اس لیے میں اس سلسلے کی طرف دوبارہ توجہ کروں گا۔ 21فروری37ء کو ’’ انجمن اردو پنجاب‘‘ کی طرف سے ’’ یوم غالب‘‘ منایا گیا۔ میں اس تقریب پر پیغام لینے کے لیے مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ صبح کا وقت تھا۔ آپ ’’ جاوید منزل‘‘ کے صحن کے مغربی کونے میں چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکائی ہوئی تھیں اور ان پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان میں درد یا اسی قسم کی کوئی اور تکلیف ہے مجھے دیکھ کر فرمایا’’ نیازی صاحب ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ نہیں! میں حفیظ ہوں‘‘ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک دو مرتبہ پہلے بھی انہیں مجھ پر نیازی صاحب کا شبہ ہوا تھا۔ خیر میں چارپائی کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا او رمزاج پرسی کی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور ’’ یوم غالب‘‘ کے لیے پیغام کی درخواست کی۔ اس پر آپ لیٹ گئے اور کچھ دیر خاموش رہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ مجھے تکلیف ہے آپ جس قسم کا پیغام چاہتے ہیں خود لکھ لیں، میں دستخط کر دوں گا۔ چنانچہ میں نے غالب کے متعلق چند اس قسم کی سطور لکھ لیں جو عام طور پر ایسی رسمی تقریبوں کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ اس وقت یاد نہیں رہا کہ میں نے کیا لکھا تھا۔ میں نے یہ پیغام انہیں پڑھ کر سنایا اور دستخط کے لیے ان کی خدمت میں پیش کرنے ہی کو تھا کہ آپ جوش کے عالم میں فوراً اٹھ بیٹھے اور فرمانے لگے: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غالب کا کلام پڑھا ہی نہیں۔ آپ اس کے فلسفہ شعر سے بے بہرہ ہیں۔‘‘ اگر یہ الفاظ کسی اور کی زبان سے نکلتے تو شاید مجھے اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا احساس نہ ہوتا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں کس کے سامنے ہوں اور یہ الفاظ کس کی زبان سے نکلے ہیں، اس لیے ندامت کے احساس سے چپ ہو رہا۔ کوئی دو منٹ کی خاموشی کے بعد آپ نے فرمایا:’’ لکھیے!‘‘ آپ بولتے گئے اور میں لکھتا گیا۔ پھر جو کچھ لکھا پڑھ کر سنایا اور آپ نے دستخط کر دیے۔ چونکہ یہ پیغام غالب و بیدل3؎ کے فلسفہ شعر اور ان کے روحانی تعلق کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے اور اس کا محفوظ رکھنا بھی نہایت ضروری ہے، اس لیے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں: ’’ اپنا پیغام تو میں کیا دوں گا، البتہ غالب کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو آج یوم غالب منا رہے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے:‘‘ بگذر از مجموعہ اردو کہ بے رنگ من است مرزا آپ کو اپنے فارسی کلام کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت کا قبول کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے، لیکن اگر آپ اسے قبول کرنے کا فیصلہ کر لیں تو ان کے فارسی کلام کی حقیقت اور ان کی تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے دو باتوں کا جاننا ضروری ہے: اول یہ کہ عالم شعر میں مرزا عبدالقادر بیدل اور مرزا غالب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ دوم یہ کہ مرزا بیدل کا فلسفہ حیات غالب کے دل و دماغ پر کہاں تک موثر ہوا اور مرزا غالب اس فلسفہ حیات کو سمجھنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ مجھ کو یقین ہے کہ اگر آج کل کے وہ نوجوان جو فارسی ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس نقطہ نگاہ سے غالب کے فارسی کلام کا مطالعہ کریں تو بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ بات موجب اطمینان ہے کہ پروفیسر حمید اللہ خاں صاحب4؎ نے ’’ غالب اور بیدل‘‘ پر ایک محققانہ مقالہ لکھ کر علامہ کی زندگی ہی میں ان کی یہ خواہش پوری کر دی جس کا اظہار انہوں نے اپنے پیغام میں کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے اکثر ملاقات کرنے والوں نے جہاں مرحوم کو ’’ رقت انگیز‘‘ کیفیت میں آنسو بہاتے دیکھا ہے وہاں آپ کے منہ سے علمی و ادبی لطائف کے پھول جھڑتے بھی دیکھے ہیں۔ چنانچہ مجھے بھی ایک دو ایسے لطیفے یاد ہیں۔ ایک دفعہ عرشی صاحب اور پروفیسر تبسم صاحب کی معیت میں آپ کے پاس گیا تو ان مضمونوں اور نظموں کا ذکر چھڑ گیا جو آج کل اردو کے عام رسالوں میں شائع ہوتی ہیں۔ علامہ مرحوم اس بات پر اظہار افسوس کر رہے تھے کہ مجھے ’’ ضرب کلیم‘‘ کا یہ شعر یاد آ گیا: ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار میں نے یہ شعر پڑھا اور پھر مثنوی ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق!‘‘ کے ان اشعار کی طرف اشارہ کیا جو آپ نے ’’ حکمت فرعونی‘‘ کے عنوان کے تحت عصر حاضر کے متعلق لکھے ہیں: دختران او بزلف خود اسیر شوخ چشم و خود نما و خردہ گیر ساختہ، پرداختہ، دل باختہ ابرواں مثل دو تیغ آختہ ساعد سیمین شاں عیش نظر سینہ ماہی بہ موج اندر نگر! اس کے بعد علامہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ان فارسی اشعار میں آپ نے عورت کا ذکر جس والہانہ انداز میں کیا ہے اس کے پیش نظر یہ شعر کیا آپ پر بھی صادق نہیں آتا: ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس شعر میں’’ عورت شاعر پر سوار ہے‘‘ لیکن مثنوی کے فارسی شعروں میں ’’ شاعر عورت پر سوار ہے‘‘ اور دونوں میں فرق ظاہر ہے۔ مرحوم چونکہ خود نہایت خوش ذوق تھے اس لیے جب کسی سے کوئی لطیفہ سنتے تو بے اختیار داد دیتے۔ ایک روز میں نے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ اقبال کے فلسفہ شعر کی توضیح کن الفاظ میں کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا ’’ اقبال قرآن کا شاعر ہے اور شاعر کا قرآن ہے‘‘ اس کے بعد میں علامہ سے ملا تو خلیفہ صاحب کے اس فقرے کا ذکر کیا۔ آپ بے حد محظوظ ہوئے۔ خلیفہ صاحب کا یہ فقرہ محض ادبی لطیفہ ہی نہیں بلکہ میں اسے علامہ کی شاعری پر مختصر مگر جامع تبصرہ سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس بعض لوگ ان کے اشعار کے معنی پوچھنے جایا کرتے تھے۔ا گرچہ ذاتی طور پر اس سلسلے میں مجھے ان کے پاس جانے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن مشہور ہے کہ آپ خاموش رہا کرتے تھے، چنانچہ قبلہ تاثیر صاحب بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ علامہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے شعروں کا مطلب آپ بیان رک کے ان کے معانی کو محدود نہیں کرنا چاہتا۔ دو ایسے حضرات کو میں بھی جانتا ہوں جو آپ کے پاس اس غرض سے گئے۔ ایک صاحب کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میری گزارش کے جواب میں فرمایا کہ ’’ یہ شعر میں نے آپ کے لیے نہیں لکھا۔‘‘ دوسرے فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ارشاد کیا’’ میرا کام لکھنا تھا، میں لکھ چکا، سمجھنا آپ کا کام ہے۔‘‘ میں اس مضمون کو ایک ایسے واقعہ کے ذکر کے بغیر ختم نہیں کر سکتا جو میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کے ’’ روحانی تصرف‘‘ کی دلیل ہے۔ اب سے دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں ہوشیار پور میں اپنے برادر اکبر شیخ عبدالرشید صاحب راحل کے پاس بیٹھا مثنوی ’’ مسافر‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ہم نظم کے آخری حصے پر پہنچے تو برادر محترم اس مصرع پر آ کر رک گئے: ’’صدق و اخلاص و صفا باقی نماند‘‘ اور دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد فرمانے لگے کہ اس مصرع کے اعداد1357ھ ہیں، دیکھیں دو سال کے بعد اس مصرع سے کس کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ میں یہ بات سن کر ہنس دیا اور اس مصرع کے اعداد گئے تو واقعی 1357ھ تھے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ اس الہامی مصرعے کے اندر خود مصنف کی تاریخ وفات مضمر ہے۔ اس واقعہ کی یاد میرے ذہن سے بالکل محو ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد جب میں نے اس مصرعے سے تاریخ نکالی تو بھائی صاحب نے اپنے خط میں یہ قصہ یاد دلایا۔ اقبال فی الحقیقت’’ صدق و اخلاق و صفا‘‘ کا مجسمہ تھا۔ وہ ہماری نگاہوں سے رو پوش ہے،لیکن اس کی یہ صفات ہمیشہ باقی رہیں گی۔ اقبال زندہ جاوید ہے، مرنے کے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی جھلک موت کی بظاہر کامیاب یورش پر ایک لطیف طنز تھی، کیونکہ: چشم عالم سے وہ چھپ سکتا ہے مر سکتا نہیں حفیظ ہوشیار پوری، ایم اے ٭٭٭ یاد ایام آٹھ اکتوبر1934ء کو رات کے پونے نو بجے میں ریلوے سٹیشن پر ایک چٹھی سپرد ڈاک کرنے کے بعد میکلوڈ روڈ کے راستہ گھر جا رہا تھا۔ جس وقت میں سر محمد اقبال کی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا، خیال آیا کہ علامہ محترم اس وقت اکیلے ہوں گے، اس لیے ملاقات کا اچھا موقعہ مل جائے گا۔ میں بالعموم ایسے ہی اوقات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونا پسند کیا کرتا تھا۔ اس لیے کہ دوسرے لوگ بالعموم آپ کے پاس بیٹھ کر سیاسیات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے جو اقبال کی شخصیت کے لیے میرے نزدیک ایک کمتر موضوع تھا۔ چنانچہ موقعہ کو غنیمت جان کر میں کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب دیکھ رہے تھے، سوائے ایک ملازم کے جو آپ کے پاؤں دبا رہا تھا اور کوئی پاس نہ تھا۔ علامہ مرحوم کے ہاں آنے جانے کی دقت کبھی نہ ہوتی تھی وہ جہاں بڑے سے بڑے آدمیوں کی کسی گرمجوشی کے ساتھ آؤ بھگت نہ کرتے تھے وہاں معمولی سے معمولی حیثیت کے آدمی کے ساتھ بھی حسن سلوک فرماتے تھے۔ نہ کسی کے استقبال کا خاص اہتمام ہوتا تھا نہ کسی کی راہ میں رکاوٹ پیش ہوتی۔ میں ہمیشہ زیادہ سے زیادہ اس بات کی ضرورت سمجھتا تھا کہ اپنے آنے کی اطلاع دے دوں۔ اس موقع پر اس کی بھی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ آپ نے مجھے خود ہی دیکھ لیا اور اپنے معتاد طریق’’ آئیے خواجہ صاحب‘‘ کہہ کر مجھے قریب بلا لیا۔ میں سلام مسنون کے بعد مزاج پرسی کر کے جو بیٹھا تو نو بجے شب سے لے کر گیارہ بجے تک بڑی ہی پر لطف صحبت رہی۔ بیشمار باتیں مختلف الانواع موضوعوں پر ہوئیں اور اس تمام عرصہ میں کوئی اور صاحب وہاں وارد نہ ہوئے۔ جو لطف اور خوشی میں نے ان دو گھنٹوں میں حاصل کیے وہ میری زندگی کی ایک بہت ہی غیر معمولی اور بیش باہ چیز ہے۔ میں شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دو گھنٹے میری زندگی کے بہترین اوقات میں سے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو حضرت علامہ نے میرے سامنے کہیں لفظ بلفظ یہاں دہرا دوں، لیکن باتوں کی کثرت ہی اس راہ میں مانع ہو رہی ہے۔ ایک بہت بڑی خوشخبری1؎ جو ڈاکٹر صاحب نے سنائی یہ تھی کہ وہ اپنے دل میں اس بات کی زبردست خواہش رکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی تعلیم پر اپنے خیالات مفصل طور پر کتابی صورت میں ظاہر فرمائیں۔ وہ فرماتے تھے:’’ میں نے اپنے خیالات کا بڑی تفصیل سے اشعار میں اظہار کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں ان سے بھی بڑی چیز ہے جسے قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔‘‘ لیکن وہ یہ کام اسی صورت میں یکسوئی کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ پانچ سال کے لیے ان کو افکار روزگار سے کامل طور پر فرصت حاصل ہو جائے۔ افسوس کہ دنیائے اسلام کے اس عدیم النظیر فلسفی اور کلیم کے لیے ہندوستان کی مسلمان قوم فراغت کا سامان مہیا نہیں کر سکتی ۔ مسلمانان ہند کی بے سر و سامانی اور بے حسی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق فرمایا :’’ میرا مدت العمر کا مطالعہ اور مشاہدہ مجھے یقین دلا چکا ہے کہ یہ لوگ بالکل بیکار ہیں، بالخصوص ہندوستان کے تعلیم یافتہ مسلمان2؎‘‘ ان کا خیال تھا کہ اگر کبھی کام آ سکتے ہیں تو غریب مزدوری پیشہ یا دکاندار مسلمان جن کے لیے ان کے دل میں محبت اور عزت ہے اور جن سے مل کر انہیں حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن تعلیم یافتہ مسلمانوں کا گروہ ان کے نزدیک مستحق التفات نہیں، یہاں تک کہ اگر وہ قرون متوسطہ کے ڈکٹیٹر بن جائیں تو وہ اس گروہ کو ’’ ہلاک‘‘ کر دیں۔ حضرت علامہ کی غریبوں سے ہمدردی اور امیروں سے نفرت آپ کے کلام کا طغرائے امتیاز ہے۔ بال جبریل میں’’ لینن‘‘ والی نظم کے آخری اشعار کس قدر واضح ہیں: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات وہ تو خدا کی زبان سے فرشتوں کے نام بھی یہ حکم سننا چاہتے تھے کہ: اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ’’ اسلام کا مستقبل دنیا کے دوسرے مسلمانوں پر منحصر ہے نہ کہ ہندی مسلمانوں پر۔‘‘ جاپان کا ذکر آیا تو آپ نے کہا کہ جاپان میں تبدیل مذہب 3؎دنوں یا ہفتوں کا کام ہے نہ کہ یورپین ممالک کی طرح صدیوں کا۔ اگر اسلام کا چرچا اس ملک میں شروع ہو گیا تو چند ہفتوں میں تمام جاپانی قوم مسلمان ہو جائے گی۔ اس کی وجہ زیادہ تر سیاسی ہے۔ جاپان کے لیے مسلمان ہو جانے میں یہ فائدہ ہو گا کہ روس کے خلاف اسے چین اور ترکستان میں زبردست اسلامی قوت کی امداد حاصل ہو جائے گی۔ 14اکتوبر1934ء کی شب کو میں سیر کرتا ہوا پھر حضرت علامہ کے دولت کدہ پر جا نکلا۔ اس وقت آپ کے پاس قیصر صاحب، استاد عشق لہر اور ایک ’’ حکیم صاحب‘‘ بیٹھے تھے۔ دس منٹ کے بعد وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے اور حضرت علامہ اور میں باتیں کرنے کے لیے رہ گئے۔ قریباً ایک گھنٹہ تک پر لطف علمی گفتگو ہوا کی۔ ایک موقعہ پر گفتگو کا رخ اس مسئلہ کی طرف پھر گیا کہ اہل یورپ جن باتوں کا صدیوں تک تجربہ کر کے ان سے متنفر ہو چکے ہیں، یورپ کے ایشیائی مقلدین انہیں چیزوں کے پیچھے جا رہے ہیں مثلاً آزادی نسواں۔ حضرت علامہ نے اس سلسلہ میں عورتوں کے متعلق بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں۔ مثلاً I have no faith in women 4؎ یا ’’ عورتیں اپنے مخصوص مشاغل (مثلاً خانہ داری) میں بھی بلند ذہنیت کا ثبوت نہیں دیتیں‘‘ پھر حضرت علامہ نے فرمایا کہ عورت کو دماغ کمزور ملا تھا، اس لیے کہ Creative (تخلیقی) Function( قوت) اس کے معاملہ میں دماغ کی بجائے Womb (رحم) سے تعلق رکھتی ہے۔ مرد دماغ سے تخلیق کا کام لیتا ہے اور عورت Womb(رحم) سے۔ ماہ نومبر1934ء کے آخری یکشنبہ کے روز تین چار دوستوں کے ہمراہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم لوگ قریباً دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھے رہے۔ اس عرصہ میں علامہ محترم کے خیالات عالیہ سے ہم لوگ بہت بڑی حد تک فیض یاب ہوئے اور سب احباب کی رائے میں ہمارا وہ وقت بہت ہی بابرکت شغل میں صرف ہوا۔ حکمت و معرفت کے دریا تھے جو ہمارے سامنے بہتے چلے جا رہے تھے۔ علامہ موصوف نے سیاسیات، اقتصادیات، تصوف، شریعت، سبھی قسم کے مسائل پر رائے زنی فرمائی۔ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ایک قوم یا فرد کو حالات کی نا مساعدت اور بخت کی نارسائی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بے سر و سامانی، اخلاص (افلاس) اور نفرت سے بھی انسان بیشمار فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مفلس آدمی جس کے پاس چھن جانے کے لیے کچھ بھی نہیں یا جس کے پاس وہ مال و متاع نہیں جس کی محبت اسے اپنی طرف کھینچ سکے، وہ حق و صداقت کی حمایت میں دلیری اور جرأت دکھا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں ملک کی سیاسیات میں فرقہ وارانہ مناقشات میں حصہ لینے کے لیے شامل نہ ہوا تھا، بلکہ محض اس لیے کہ ہندوستان کے آئندہ نظام سیاسی11؎ میں مسلمانوں کی حیثیت واضح کر دوں اور یہ ظاہر کر دوں کہ اس ملک کے سیاسی ارتقا میں حصہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو دوسری اقوام ہند میں مدغم نہ ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے اس پر اصرار کیا کہ ’’ میں نے اس کے سوا گول میز کانفرنس کی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔‘‘ تعلیم کا ذکر آیا تو فرمایا کہ مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے دنیوی تعلیم حاصل کرنی چاہی، لیکن نہ تو دنیا حاصل کر سکے اور نہ دین ہی سنبھال سکے۔ 6؎ یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھو رہی ہیں۔ 31مئی 1935ء کے روز جو ملاقات ہوئی اس کے دوران میں میں نے حضرت علامہ سے ’’ادب لطیف ‘‘ 7؎ کی تعریف پوچھی تو اس سلسلہ میں ’’ ادب‘‘ اور ’’ آرٹ‘‘ پر آپ نے بہت سی پر از معلومات اور دلچسپ باتیں ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگرچہ آرٹ کے متعلق دو نظرئیے موجود ہیں: اول یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرنا ہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسان کی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے اور اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل نفرت و پرہیز ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔ اس پر حکومت کے فرائض پر اظہار خیالات ہونے لگا اور آپ نے فرمایا کہ حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق8؎ کی حفاظت ہے لیکن اس اہم تریں فرض کو دنیائے جدید تسلیم ہی نہیں کرتی۔ حکومتیں محض لوگوں کے سیاسی خیالات و رحجانات سے تعلق رکھتی ہیں؟ افراد کے اخلاق کو درست کرنا اپنے فرائض میں داخل ہی نہیں سمجھتیں۔ پھر اسلام اور تہذیب حاضرہ کا ذکر ہوا۔ فرمانے لگے کہ اسلام تہذیب حاضرہ9؎ کی تمام ضروری اور اصولی چیزوں کا دشمن ہے اس لیے مسلمانوں کو اسے تباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ یہ کہ ان چیزوں کو جزو اسلام بنا لیا جائے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اب دنیا اسلام کی طرف آ رہی ہے، اس لیے اگر آج تہذیب مغربی تباہ ہو جائے تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس آنے والے دور کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ جس وقت تہذیب جدید کا خاتمہ ہو۔ مسلمانوں کو اسلام کا علم بلند کر دینا چاہیے۔ آرٹ کے مضمر اثرات کے متعلق آپ نے فرمایا کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لیے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کی تباہی میں اس کے فن موسیقی کا بہت حصہ رہا ہے 10؎ میں جب کبھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ایسے وقت کی تلاش میں رہتا جب کہ طویل فراغت حاصل ہو تا کہ اطمینان کے ساتھ ان کی صحبت با برکات سے فیضیابی ہو سکے۔ اس لیے کہ جہاں ان تک رسائی آسان ہوتی وہاں رخصت حاصل کرنا محال ہوتا، اس لیے کہ ان کے ارشادات عالیہ کا سلسلہ بہتے ہوئے دریا کی روانی کے مثل تھا۔ نہ وہ رکتا اور نہ آدمی رخصت لے سکتا۔ چنانچہ15جون1935ء کو مجھے ایک قادیانی احمدی نے رسالہ دیا۔ جو دراصل مرزا بشیر الدین محمود کا وہ خطبہ جمعہ تھا جو انہوں نے سر محمد اقبال کے بیانات کے خلاف انہی دنوں دیا تھا۔ 16جون کی صبح کو دفتر جاتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ حضرت علامہ کو وہ رسالہ دکھاتا جاؤں۔ وہاں جو ٹھہرا تو ساڑھے بارہ بج گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے دریافت فرمایا کہ انجمن خدام الدین کا انگریزی اخبار’’ اسلام‘‘ کا آئندہ پرچہ کب چھپے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پرچہ پریس میں جا رہا ہے۔ اس پر آپ نے اسی پرچہ کے لیے بیان لکھوایا۔ پھر اس کی کانٹ چھانٹ میں بہت وقت صرف ہوا۔ اس بیان کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اس چٹھی کی نقل بھی دی جو انہی دنوں اسٹیٹسمین میں شائع ہوئی تھی تاکہ اسے بطور مضمون ’’ اسلام‘‘ میں شائع کر دیا جائے۔ 19دسمبر1935ء کے روز حضرت استاذی المحترم مولانا احمد علی صاحب کے فرزند اکبر حافظ حبیب اللہ صاحب کی معیت میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حافظ صاحب کو بہت مدت سے ملاقات کا شوق تھا۔ باتوں باتوں میں جہاد پر گفتگو شروع ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ جہاد جارحانہ ہونا چاہیے یا دفاعی؟ فرمانے لگے کہ عام طور پر تو دفاعی ہے لیکن بوقت ضرورت جارحانہ بھی ہو سکتا ہے 11؎ مثلاً اگر کسی قوم کی بد اخلاقی اس قدر بڑھ جائے کہ اس سے ہمسایہ قوموں کے اخلاق تباہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو ہمسایہ مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ بزور شمشیر اس قوم میں سے خرابی کو مٹانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ سلطان شہید ٹیپو نے مالا بار کے غیر مسلم وحشی باشندوں سے کہا تھا کہ تم لوگ بجائے برہنہ پھرنے کے کپڑے پہننا شروع کر دو، ورنہ میں بزور شمشیر تمہیں کپڑے پہننے پر مجبور کروں گا۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن میں مسلمانوں کو جو امر بالمعروت اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اشاعت حق کے پیچھے شمشیر کی حمایت ہونی چاہیے، اس لیے کہ بغیر طاقت کے امر و نہی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر امر و نہی کے فرائض مسلمان ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کا ہونا ضروری ہے۔ میری آخری ملاقات حضرت علامہ سے ان کی وفات سے قریباً ایک ہفتہ پہلے ہوئی۔ آپ کے مرض الموت میں میں قریباً ہر روز ’’ جاوید منزل‘‘ جاتا، لیکن اس خیال سے باہر سے ہی مزاج پرسی کر لیتا کہ اگر حاضر خدمت ہوا تو آپ باتیں کریں گے اور ا س سے آپ کو تکلیف ہو گی۔ ایک روز دوپہر کے وقت میں کوٹھی کے احاطہ میں علی بخش کے ساتھ باتیں کر رہا تھا، حضرت علامہ نے اندر سے دیکھا اور یہ معلوم ہونے پر کہ میں آپ کی مزاج پرسی کر رہا ہوں مجھے اندر بلا بھیجا۔ میں حاضر ہو،ا مزاج پرسی کے بعد میں نے پوچھا کہ آج کل علاج انگریزی ہے یا یونانی؟ فرمانے لگے: I hve lost all faith in allopathy. اس کے بعد ارشاد ہوا: There can be no science of medicine, for there is no science of life. پھر فرمایا: How cn you have a science of something the reality of which you can not Know. اس کے بعد تمدن اسلام اور دوسرے موضوعوں پر گفتگو ہوئی۔ آپ بڑے جوش سے باتیں کرتے رہے۔ اس وقت آپ کو شدید درد تھا، درد کی شدت سے مجبور ہو کر آپ بستر پر الٹے لیٹ لیٹ جاتے، لیکن پھر فرط جوش سے سیدھے بیٹھ جاتے اور گفتگو کا سلسلہ چھیڑ دیتے۔ میں دل ہی دل میں افسوس کر رہا تھا کہ کیوں اندر آیا،نہ میں حاضر خدمت ہوتا، نہ آپ کو زحمت گفتگو ہوتی۔ وفات سے پہلے روز صبح کو میں ’’ جاوید منزل‘‘ گیا۔ حضرت علامہ چائے نوش فرما رہے تھے۔ میں سامنے ہو کر زحمت گفتگو بھی نہ دینا چاہتا تھا اور بغیر دیکھے بھی نہ رہنا چاہتا تھا۔ شاید فطرت اندر ہی اندر یہ احساس دلا رہی تھی کہ آج اس یگانہ دہر کی مادی زندگی کا آخری روز ہے، اس کے بعد وہ صورت دیکھنی نصیب نہ ہو گی۔ میں درمیانی کمرے میں، جہاں آپ کا بڑا فوٹو آویزاں ہے، بیٹھ گیا۔ آپ چائے پی رہے تھے اور میں اپنی جگہ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن آنکھیں نہ ملاتا تھا، مبادا پہچان کر اپنے پاس بلا لیں۔ اسی عالم میں بصد حسرت و یاس میں کچھ دیر کے بعد رخصت ہوا اس روز میں نے حضرت علامہ کی صورت کی آخری جھلک پائی۔ دوسرے روز علی الصبح ایک دوست یہ روح فرما خبر لائے کہ علامہ محترم نے اس دنیائے آب و گل سے عالم جاوید کاسفر اختیار فرما لیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون خواجہ عبدالوحید ٭٭٭ حضرت علامہ میں1917ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی انٹرمیڈیٹ جماعت کے سال اول میں داخل ہوا۔ ان دنوں وہاں عربی کے پروفیسر مولوی میر حسن مرحوم1؎ تھے۔ مولوی صاحب کو سیالکوٹ میں ہر چھوٹا بڑا جانتا تھا۔ ان کی خود داری اور وضع داری ضرب المثل تھیں۔ ان کی شخصیت اس قدر پر وقار اور با رعب تھی اور وہ اس قدر معاملہ فہم اور نکتہ شناس تھے کہ گو وہ انگریزی بالکل نہ جانتے تھے، پرنسپل صاحب کالج کے تمام انتظامی معاملات میں سب سے پہلے ان سے استصواب رائے کرتے۔ مولوی صاحب بہت ضعیف تھے، ایک لمبا سا عصا ہاتھ میں رکھتے اور اس کے سہارے نہایت آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم لے کر چلتے۔ لیکن پابندی اوقات کا یہ عالم تھا کہ کالج میں وقت مقررہ سے نہ کبھی ایک سیکنڈ پہلے پہنچتے نہ بعد۔ وہ اپنے مکان سے کالج تک جو کم و بیش دو میل کا فاصلہ تھا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچتے، لیکن جاتے ہمیشہ پیدل ۔ ایک دن پرنسپل صاحب نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ تانگے پر آیا کیجئے، الاؤنس آپ کو کالج دے دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ٹانگوں میں جو رہی سہی سکت ہے وہ بھی کھو دوں۔ اسی طرح چشمہ لگانے کے سخت مخالف تھے، گو بینائی اس قدر کمزور تھی کہ پڑھتے وقت کتاب بلا مبالغہ ناک سے چھو جاتی۔ ان کا لباس تمام تر سفید ہوتا تھا؟ شاید سفید داڑھی کی مناسبت سے۔ گرمیوں میں لٹھے کا پاجامہ اور ململ کا لمبا کرتہ اور پگڑی، جاڑوں میں پاجامہ اور کرتہ روئی دار۔ کالج میں لڑکے اور پروفیسر سب ان سے اس قدر مرعوب تھے کہ ان کو دور سے آتے دیکھ کر یا تو راستے سے ہٹ جاتے یا جلدی سے سلام کر کے ایک طرف کو ہو جاتے۔ ان کے طالب علم جو ان سے عربی پڑھتے تھے کچھ سہمے سے رہتے تھے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ وہ علم کا سمندر ہیں، لیکن ان سے کچھ حاصل کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے کیونکہ وہ شروع شروع میں بہت سختی کرتے ہیں اور بات بات پر ڈانٹ دیتے ہیں۔ جو شخص یہ پہلا مرحلہ کامیابی سے طے کر لے پھر اس پر اپنا فیض عام کر دیتے ہیں۔ میں نے عربی نہیں لے رکھی تھی، لیکن چونکہ پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا اس لیے مولوی صاحب کی قابلیت سے حتی المقدور استفادہ کرنے کی خواہش ہمیشہ سے دل میں موجزن تھی۔ میرے لیے ان میں جو جاذبیت تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اقبال کے استاد تھے۔ کالج میں داخل ہوتے ہی میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں بحیثیت شاگرد ہونے کا یہ سب سے اچھا موقعہ ہے۔ اب میں بہانہ ڈھونڈنے لگا کہ کسی ترکیب سے ان کے پاس جاؤں۔ ان دنوں میں مولوی محمد علی صاحب کا قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا، میں نے سوچا کہ مولوی صاحب سے یہی کیوں نہ پوچھ لیا جائے کہ آپ معجزات کی استدلالی تاویل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن جب وہ فارغ بیٹھے تھے میں لرزتا کانپتا ان کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام عرض کیا، ادھر سے کچھ جواب نہ ملا۔ میں خاموش بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے، کہو بھئی کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آج کل میں مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں، اس کے پڑھنے سے میرے ذہن میں ہیجان سا پیدا ہو گیا ہے۔ آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ معجزات کی حقیقت پر کچھ روشنی ڈالیں۔ ’’ تو یعنی تم نیچری ہو گئے ہو۔ نکل جاؤ یہاں سے، تمہارا کیا کام ہے یہاں، جاؤ محمد علی کے پاس، نکل جاؤ‘‘ میں گھبرایا تو بہت، لیکن دل کڑا کر کے خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پسیجے اور کہنے لگے کہ آج فرصت نہیں، کل آنا۔ اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مولوی صاحب محض خشک عالم تھے۔ ان کی طبیعت کا ایک لطیف پہلو بھی تھا، لیکن ان کی ظرافت اور شگفتہ مزاجی خاص خاص موقعوں پر ظاہر ہوتی تھی۔ ان کی گلی کے سامنے بازار میں کنجڑوں اور کنجڑیوں کی گویا مارکیٹ لگا کرتی تھی۔ آپ خود سبزی خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت کے وقت کنجڑوں اور خاص کنجڑیوں سے جو مزے کی باتیں ہوتیں اور جو قہقہوں کی آوازیں بلند ہوتیں وہ اس بازار میں رہنے والے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے۔ ان دنوں کالج کے نزدیک ایک میدان میں جلاہیاں تانا تنا کرتی تھیں جب وہ مولوی صاحب کو دور سے آتا دیکھتیں تو مارے خوشی کے اچھل پڑتیں اور کہتیں ’’ وہ بابا آیا۔‘‘ مولوی صاحب ٹھہرتے نہیں تھے، لیکن ان کو وہاں سے گزرتے گزرتے کوئی پندہ منٹ ضرور لگ جاتے اور اس دوران میں ہر ایک جلاہی سے کوئی نہ کوئی ہنسی ٹھٹھے کی بات ضرور ہو جاتی۔ ایک دفعہ مولوی صاحب سٹاف میٹنگ میں دو منٹ دیر سے پہنچے۔ یہ واقعہ اس قدر خلاف معمول یا یوں کہیے کہ خلاف عادت تھا کہ کالج میں چرچا ہو گیا۔ ہر ایک یہ کہتا پھرتا تھا کہ مولوی صاحب کل دو منٹ دیر سے آئے۔ میں نے اتفاقاً پرنسپل صاحب سے پوچھا:’’ سنا ہے کہ مولوی صاحب کل وقت پر نہ پہنچ سکے، کیا یہ درست ہے؟‘‘ پرنسپل صاحب نے کہا:’’ ہاں درست ہے اور میں تمہیں مولوی صاحب کا ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ کل جب وہ سٹاف روم میں داخل ہوئے تو میں نے از راہ تمسخر گھڑی دکھاتے ہوئے مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے مولانا آپ نے ہمیں پورے دو منٹ تک انتظار کرایا۔‘‘ مولوی صاحب نے فوراً کہا، ’’ بھئی ایسی بھی کیا بات ہے؟ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس دنیا میں تمہارا کتنے برس انتظار کیا۔‘‘ (پرنسپل صاحب کی عمر اس وقت کوئی پینتالیس سال تھی) میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی خود داری، وضعداری اور شگفتہ مزاجی کو ان کے استاد کی طبیعت کی بھی خصوصیات سے ایک گہری مناسبت ہے۔ مجھے اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف سب سے پہلے ان دنوں حاصل ہوا جب وہ میکلوڈ روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ میں کئی دفعہ اس سڑک پر سے گزرا کرتا تھا اور ہر دفعہ نگاہ خود بخود ان کے مکان کے دروازے کی طرف جاتی جس میں سے کچھ فاصلے پر برآمدے کے دو ستون دکھائی دیتے تھے اور بس گو اقبال کو دیکھنے کی خواہش مدت سے تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بغیر تقریب کے کسی طرح چلا جاؤں اور اقبال کا میری طبیعت پر غائبانہ طور پر کچھ ایسا رعب طاری تھا۔ گو میرے ایک دو دوست ان کے ہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے او رمجھ سے کہتے بھی تھے کہ آؤ تمہیں بھی لے چلیں، لیکن میں نے ہر دفعہ یہ وہ کہہ کر ٹال دیا۔ ایک تو میں فطری طور پر اختلاط سے کتراتا ہوں اور دوسرے شاید میں یہ سمجھتا تھا کہ شاگرد بھی استاد کی طرح ہو گا اس لیے اپنے پرانے تجربے کو کیوں دہرایا جائے۔ لیکن چونکہ میرے دوست میرے انتہائی شوق سے بے خبر نہ تھے، اس لیے ایک دن وہ مجھے کھینچ کر لے ہی گئے۔ سڑک والے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی میرے دل کی دھڑکن ذرا تیز ہو گئی۔ آگے جا کر میرے دوست نے ان کے ملازم علی بخش سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کر دو۔ اس نے واپس آ کر کہا کہ چلے جائیے۔ ہم برآمدے میں سے ہوتے ہوئے دائیں جانب ایک کمرے میں داخل ہوئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنے ذہن میں اقبال کی ایک خاص شبیہہ تجویز کر رکھی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ نہایت پر ہیبت شخص ہو گا۔ اس کی پیشانی پر ہمیشہ غصے کی وجہ سے شکن رہتے ہوں گے۔ اقبال سے ہمکلام ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہ ہوتی ہو گی، کیونکہ اس سے تو وہی گفتگو کرے جس کی علمیت اور ذہانت بہت بلند پائے کی ہو، ورنہ جب کبھی اقبال نے کسی کے منطقی استدلال میں کوئی خامی دیکھی، جھٹ وہیں ڈانٹ بتا دی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اقبال نے مجھے بظاہر سرسری طور پر ایک نظر سے دیکھا، لیکن مجھے یہ محسوس ہوا کہ ان کی نگاہ میرے روح و قلب کی گہرائیوں تک سرایت کر گئی ہے اور انہوں نے میری شخصیت کا ایسا مکمل جائزہ لے لیا ہے کہ ان سے کچھ مخفی نہیں رہا۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فروری کے آخری دن تھے، ہلکی ہلکی سردی تھی، علامہ اقبال ایک بادامی رنگ کا دھسہ اوڑھے، حقے کی نے منہ میں لیے بستر پر گچھا مچھا بنے، تکیے پر ٹیک لگائے، آدھے لیٹے آدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی بے تکلفی اور لا ابالی پن دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے دیکھا کہ اقبال محض انسان نہیں مافو ق البشر ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، ان کا انداز بھی بے تکلفانہ تھا۔ ہمارے داخل ہونے کے کچھ دیر بعد تک خاموشی رہی۔ پھر کسی نے کچھ بات کی، میرے دوست نے اپنی رائے ظاہر کی، اقبال نے کچھ کہا ، اوروں نے سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ میں اب بھول گیا ہوں کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، لیکن آخر میںRelativity اور Gravity کا ذکر چھڑ گیا۔ اوروں کو اس طرح آزادانہ گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر میری بھی ہمت بڑھی اور میں نے بھی ایک دو باتیں کہہ دیں علامہ اقبال ہر ایک کو نہایت توجہ سے سنتے، زیادہ تر خاموش رہتے، لیکن جب کبھی مناسب سمجھتے کچھ کہہ بھی دیتے یا جب کبھی کوئی ان سے براہ راست سوال کرتا تو اس کا نہایت سوچ سمجھ اور متانت سے جواب دیتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں نہایت غور و خوض کا نتیجہ ہے اور ان کا انداز بیان اس قدر موثر اور دلکش تھا کہ پیچ در پیچ مسائل بھی آسانی سے ذہن نشین ہو جاتے۔ اس مختصر سی صحبت کے بعد مجھے بوجوہ ایک طویل عرصہ تک اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ نہ ملا۔ پانچ چھ سال کے بعد میں اسلامیہ کالج لاہور میں ملازم ہوا اور یہاں پروفیسر ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمید احمد خاں سے دوستانہ تعلقات کی بنا پڑی۔ ایک دفعہ (یہ اقبال کی وفات سے تقریباً ایک سال پیشتر کا ذکر ہے)میرے دوستوں نے کہا کہ چلو آج اقبال کے ہاں چلیں۔ میں نے یہ کہہ کر ٹالنا چاہا کہ آپ تو اکثر ان کے ہاں جاتے ہیں لیکن چونکہ میں کبھی نہیں گیا اور وہ مجھے نہیں جانتے اس لیے میر اآپ کے ہمراہ جانا مناسب نہیں۔ دراصل اس دفعہ بھی میری جبلی کم آمیزی مانع ہوئی۔ مگر میرے دوستوں نے کہا کہ گو ہم کئی دفعہ اقبال کے ہاں گئے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیں جانتے ہی ہوں۔ وہاں دیوان عام ہوتا ہے۔ ہر کس و ناکس کو بے دھڑک آنے جانے کی اجازت ہے۔ تم بھی چلے چلو۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ ہو لیا۔ اب اقبال اپنی میو روڈ والی کوٹھی میں رہتے تھے۔ اس سڑک پر سے بھی میں کئی دفعہ گزرا تھا اور اس کوٹھی کو دوران تعمیر میں اور تکمیل کے بعد کئی دفعہ دیکھا تھا۔ اس کوٹھی کی طرز تعمیر سے مجھے ہمیشہ مایوسی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے رواق کے ستونوں پر نظر پڑتی ہے۔ یہ ستون پست قد، نازک اور سبک سے ہیں اور ان کی کرسی مقابلتاً بھاری ہونے کے باعث غیر متناسب معلوم ہوتے ہیں۔ صحن میں دائیں اور بائیں جانب جو کمرے بنے ہوئے ہیں وہ بھی قطعاً نا موزوں ہیں۔ کوٹھی کے کمروں کی چھتیں بہت نیچی ہیں۔ اگر عمارت اقبال کے پسند ہوتی تو اس میں وسعت، رفعت اور جبروت کی خصوصیات ہونا چاہئیں تھیں، لیکن موجودہ عمارت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس میں حسن ضرور ہے لیکن بیگماتی۔ سننے میں آیا ہے کہ اقبال کے عقیدتمندوں میں سے چند مقتدر حضرات ان کے مزار پر اقبال کے شایان شان ایک مقبرہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس دفعہ یہ کام کسی ایسے ماہر فن کے سپرد کرنا چاہیے جس نے اقبال کے کلام کا بغور مطالعہ کیا ہوا ہو اور جو ان کی شخصیت سے بخوبی واقف ہو۔ الغرض ہم ’’ جاوید منزل‘‘ پر پہنچے۔ علی بخش سے کہا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کر دو۔ ادھر سے وہی جواب آیا کہ آ جائیے۔ ہم ڈرائنگ روم میں سے گزر کر بائیں پہلو والے کمرے میں داخل ہوئے جس میں جناب علامہ اپنے مخصوص انداز میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پلنگ کے پاس تین کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے۔ اقبال کی آواز بہت کمزور تھی اور دیرینہ علالت کی وجہ سے جسم نحیف و نزار تھا لیکن نیم وا آنکھوں میں وہی چمک اور نگاہوں میں وہی تیزی تھی جو میں ابھی تک نہیں بھولا تھا اور چہرے پر افسردگی یا تکلیف کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم نے احوال پرسی کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اب پہلے سے بہتر ہوں۔ حکیم نابینا صاحب کی دوا استعمال کرتا ہوں، بہت کچھ افاقہ ہے۔ اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر آپ کی صحت کا اس وقت یہ عالم ہے تو اس سے پیشتر تو آپ کی حالت بالکل خطرناک صورت اختیار کر گئی ہو گی لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت اقبال اس قدر خوش امید واقع ہوئے ہیں کہ گو در حقیقت ان کی حالت روز بروز رو بہ تنزل ہی کیوں نہ ہو، ان کو ہمیشہ یقین ہوتا تھا کہ میں بتدریج رو بصحت ہوں۔ نہ معلوم یہ خیال حکیموں کے نزدیک درست ہے یا نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقبال کی مرگ افگن رجائیت ہی تھی جس کی بدولت وہ اتنی دیر بیماری کا مقابلہ کر سکے، ورنہ اگر کوئی اور شخص انہی موذی امراض میں مبتلا ہوتا تو وہ کبھی کا جاں بحق ہو گیا ہوتا۔ در حقیقت لوگ بھی اقبال کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے۔ ان کی حیرت انگیز تاب مقاومت کے پیش نظر سب جانتے تھے کہ باوجود پے در پے حملوں کے موت ان پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ گو وہ عرصہ دراز تک بیمار رہے، ان کی وفات کی خبر بالکل غیر متوقع تھی۔ اس ملاقات کے بعد مجھے کئی دفعہ اقبال کی قدمبوسی کا شرف حاصل ہوا ہے، لیکن میں ہمیشہ اپنے دوستوں کی معیت میں گیا ہوں، اکیلا جانے کی جرأت میں آخر تک نہیں کر سکا۔ اب میں اقبال 1بینائی کا جاتے رہنا 2یونانی طب، کالی عینک، دواؤں کا تیار کرنا 3تصوف، ریواڑی والے حکیم، لوٹے کا قصہ کے صرف چند ایسے اقوال بیان کروں گا جو کسی نہ کسی وجہ سے میرے ذہن پر دیرپا نقش چھوڑ گئے ہیں۔ ایک دفعہ ہم تینوں دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اندر جانے کی اجازت پا کر ہم علامہ موصوف کے کمرے میں داخل ہوئے اور السلام علیکم کہہ کر کرسیوں پر بیٹھ گئے تھوڑے عرصہ کے بعد اقبال نے پوچھا’’ کون صاحب ہیں؟‘‘ حمید احمد خاں نے ہم تینوں کے نام بتائے اور کہا کہ ہم اسلامیہ کالج سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا، فرمانے لگے کہ مجھے تمہارا نام دریافت کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میری بینائی روز بہ روز کمزور ہو رہی ہے، چنانچہ اب میں آسانی سے کسی کی صورت بھی نہیں پہچان سکتا۔ اس پر میں نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی طویل علالت کے دوران میں مطالعہ ہی ایک ایسا مشغلہ تھا جو آپ کی تسکین کا باعث ہو سکتا تھا، افسوس کہ اب آپ اس سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ فرمانے لگے کہ نہیں یہ کچھ ایسا نقصان نہیں۔ دیکھیے نا جب سے میں پڑھنے کے قابل نہیں رہا، میرا حافظہ زیادہ قوی اور میری قوت فکر زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ اب محض غور و فکر سے مجھے وہ وہ نکات سوجھتے ہیں کہ بہت سا مطالعہ کرنے کے بعد بھی نہ سوجھتے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میری ایک آنکھ کی بینائی بچپن میں ہی کسی بے احتیاطی کی وجہ سے زائل ہو گئی تھی۔ چنانچہ میں اب تک صرف ایک آنکھ سے کام لیتا رہا ہوں اور مجھے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ اب یہ آنکھ بھی جواب دے رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ اس کو بالکل کوئی ضرر نہیں پہنچا صرف موتیا اتر رہا ہے، جب پک جائے گا تو آپریشن سے آنکھ درست ہو جائے گی۔ فی الحال مجھے کالی عینک استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ آنکھ پر زیادہ زور نہ پڑے۔ دریافت کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ شیشے میں کالا رنگ جست اور سرمے کی آمیزش سے دیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سرمے میں بھی یہی دو اجزا ہوتے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں کالی عینک کا پہننا ویسا ہی اثر رکھتا ہے جیسے آنکھوں میں سرمے کا استعمال۔ میں نے کہا کہ دونوں کا اثر ایک جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ شیشہ تو ہر وقت آنکھ کے سامنے رہتا ہے اس لیے روشنی کی شعاعیں اس میں سے چھن کر آتی ہیں، لیکن سرمہ صرف پپوٹوں میں رہ سکتا ہے۔ فرمایا کہ نہیں، ہر دفعہ آنکھ جھپکنے سے سرمے کی ایک نہایت باریک جھلی آنکھ پر تن جاتی ہے اور یہ وہی کام دیتی ہے جو کالی عینک۔ دراصل علامہ اقبال یونانی طب2؎ کے بہت معتقد تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ طریقہ علاج نہایت مجرب ہے۔ اس کے زیادہ مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی معیاری حیثیت نہیں۔ اگر یونانی دوائیں ویسی ہی معیاری ہوں جیسی ایلوپیتھی کی تو یونانی طب کو بہت جلد فروغ ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورت میں دواؤں اور مرکبات کا گھر میں تیار کرنا بہت بڑی دقت کا باعث ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی طبیعت میں عقلیت4؎ کا پہلو بہت نمایاں تھا، لیکن وہ عقل کی گورانہ تقلید نہ کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عشق یا وجدان ہی ایک ایسا ملکہ ہے جس کی بدولت موجودات کے تمام اسرار کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر صوفیائے کرام کی روایات بیان کیا کرتے تھے جن سے ان کے اس رحجان کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک دفعہ ہم تینوں دوست حاضر خدمت ہوئے۔ علامہ موصوف ڈرائنگ روم میں تشریف فرما تھے اور بہت سے لوگ موجود تھے۔ گفتگو جاری تھی جس میں ادب سے نمایاں حصہ ایک حکیم صاحب لے رہے تھے جو ریواڑی سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ یہ حکیم صاحب نہایت خوش اعتقاد واقع ہوئے تھے اور طرح طرح کے نا ممکن الوقوع قصے بیان کر رہے تھے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ نے اپنے ایک مرید کے لیے دعا کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موخر الذکر کے مٹکے اشرفیوں سے بھرے رہتے تھے۔ یہ اور ایسی ہی اور باتیں سن کر حاضرین حکیم صاحب کی سادہ لوحی پر مسکرا رہے تھے۔ لیکن حکیم صاحب کو نہ لوگوں کے تبسم زیرلب کا احساس ہوا اور نہ ان کا یقین متزلزل ہوا۔ اس پر علامہ اقبال نے بھی ایک واقعہ بیان کیا فرمانے لگے کہ ایک دفعہ بابا فرید شکر گنج کا ایک مرید ان کی خدمت میں قدمبوسی کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت کے ہاتھ میں اس وقت ایک مٹی کا لوٹا تھا اور آپ وضو کر رہے تھے اتنے میں انہوں نے لوٹے کو اس طرح پھینک دیا جیسے کسی پر دے مارتے ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ لوٹا تھوڑی دور جا کر زمین پر گر پڑے وہ ہوا میں غائب ہو گیا۔ بہت دنوں کے بعد حضرت کے مریدوں کا ایک قافلہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی قافلہ نے آپ کے سامنے مٹی کے چند ٹھیکرے پیش کیے۔ مرید مذکور نے موقعہ پا کر قافلے والوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایران سے آ رہے تھے اور بلوچستان میں سفر کر رہے تھے کہ راستے میں دفعتاً ایک شیر نے ہم پر حملہ کیا۔ ہم نے بارگاہ الٰہی میں سلامتی کی دعا کی جس کا فوراً یہ نتیجہ ہوا کہ ایک مٹی کا لوٹا شیر کے سر پر پڑا اور وہ بھاگ گیا۔ ہم فوراً سمجھ گئے کہ یہ ہمارے حضرت کی کرم فرمائی ہے۔ لہٰذا ان ٹھیکروں کو تبرک جان کر ہم ساتھ لے آئے اور یہاں پہنچ کر حضرت کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس پر حاضرین میں سے کسی نے پوچھا کہ طبعی حوادث میں سے زمانے کا عنصر کیونکر خارج ہو سکتا ہے۔ دیگر اعتراضات سے قطع نظر یہ قرین قیاس نہیں کہ لوٹا پاکپتن میں پھینکا جائے اور وہ اس وقت سینکڑوں میل کے فاصلے پر بلوچستان میں ایک شیر کے سر پر جا پڑے۔ جواب میں حاضرین میں سے ایک اور صاحب نے کہا کہ جدید ترین طبیعیات کی رو سے ایک جسم کی دو حالتوں میں بعد مکانی ہونے کے باوجود ان میں بعد زمانی ہونا لازم نہیں۔ اس کا ثبوت جوہر کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کی حرکات سے ملتا ہے۔ جوہر کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کی حرکات ایک Protonہوتا ہے جس کے گرد جوہر کی نوعیت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ برقیے مخصوص مداروں میں گردش کرتے ہیں۔ اب مشاہدے میں آیا ہے کہ کبھی ایک برقیہ اپنے مدار کو چھوڑ کر ایک نئے مدار میں گھومنے لگتا ہے اور اس سے متعلق دو حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ اس تغیر کی کوئی علت نہیں ہوتی۔ یعنی جدید طبیعیات کے نزدیک علت و معلول کا قانون اٹل نہیں۔ دوم یہ کہ برقیے کا ایک مدارسے دوسرے مدار تک جست کرنا ہم وقت حادثات ہیں، یعنی مسافت مکانی کے لیے مرور زمان لازم نہیں4؎ علامہ اقبال نے اس تقریر کو بہت توجہ سے سنا اس پر حاضرین کے مابین تھوڑی بہت بحث بھی ہوئی۔ لیکن بعد ازاں گفتگو کا رخ بدل گیا اور ہم کچھ دیر کے بعد رخصت لے کر چلے آئے۔ اب اقبال اس دار فانی سے چل بسے ہیں۔ ان کی وفات ایک ایسا نقصان ہے جو قطعاً نا قابل تلافی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال اپنے کلام کی بدولت زندہ جاوید ہیں اور ایسی عظیم الشان ہستی کو کبھی موت نہیں ہو سکتی۔ یہ نظریہ اس کلیے پر مبنی ہے کہ ایک شاعر کی نظم اس کی مکمل شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہمیں شیکسپیئر کی سوانح حیات کا بالتفصیل علم نہیں تو کچھ مضائقہ نہیں، کیونکہ شیکسپیئر کی ہمہ گیر شخصیت اس کے ڈراموں میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح شیلے کے کلام میں اس کی بیباک اور آزاد طبیعت واضح طور پر نمودار ہوتی ہے۔ لیکن اقبال کا کلام اس کلیے کی استثنا ہے۔ اقبال کی شخصیت کے دو امتیازی پہلو تھے جن کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔ اپنے کلام میں اقبال فوق البشر کی حیثیت سے رونما ہوتے ہیں۔ ان کا بلند پایہ کلام اس قدر بلند ہے کہ ان کا تخیل اپنے پرواز کی ابتدا عرش بریں سے کرتا ہے۔ ان کے فکر کی رفعتوں کی انتہا اور گہرائیوں کی تہہ تک پہنچنا شاید کسی کے بس کی بات ہو۔ بعض دفعہ تو ان کا کلام فلسفیانہ دقائق سے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے فہم سے بالاتر ہو جاتا ہے یہ درست ہے کہ اقبال کے شعر سے ہر شخص حتی المقدور استفادہ کر سکتا ہے، لیکن محض ان کی نظم پڑھنے سے، اب وہ ذاقی تعلق پیدا نہیں ہو سکتا جو ان کی زندگی میں ممکن تھا ان سے تبادلہ خیالات کے یہ مواقع اس قدر بیش قیمت تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد یہ کمی ہر گز پوری نہیں ہو سکتی۔ فوق البشریت کے مقابلے میں اقبال کی کیفیت کا دوسرا رخ ان کی بشریت ہے۔ اقبال کی سادگی اور ان کی ظرافت دو ایسے عنصر ہیں جو ان کے کلام میں مشکل سے ملتے ہیں۔ ان کا فیض بلا امتیاز مذہب وملت ہر شخص پر عام تھا۔ جس کا جی چاہتا ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، جب تک جی چاہتا ان کی صحبت سے مستفیض ہوتا اور جب جی چاہتا چلا آتا۔ اقبال ہر ایک کی گفتگو میں پوری توجہ اور انہماک سے حصہ لیتے اور ہر ایک کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے۔ جب کبھی کسی نے علی بخش سے جا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے اطلاع کر دو۔ اندر سے ہمیشہ یہی جواب آیا کہ آ جائے۔ اقبال نے کبھی اشارے یا کنائے سے کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے، آپ تشریف لے جائیے یا یہ کہ میں آپ کی بے ربط گفتگو سے تنگ آ گیا ہوں، اب ختم کیجئے۔ میرا اور میرے دوستوں کا دستور تھا کہ جب کبھی کوئی ایسا علمی مسئلہ ہمارے در پیش ہوتا جس کا حل ہمیں نہ سوجھتا تو ہم اقبال کے پاس چلے جایا کرتے۔ ان سے احوال پرسی کے بعد ہم سوال پوچھتے اور ہم ہر دفعہ یہ دیکھتے کہ ہماری مشکل کا حل ان کے پاس جچا تلا موجود ہے۔ ان سے جس کسی موضوع پر گفتگو کرتے، ایسا معلوم ہوتا کہ اقبال تمام عمر اسی ایک موضوع پر غور و خوض کرتے رہے اور اس کا کوئی باریک سے باریک پہلو بھی ان کی نکتہ شناس نظر سے پوشیدہ نہیں۔ دنیا کے مصائب اور مشکلات کا بہترین علاج اقبال کی صحبت تھی۔ ان کی طبیعت میں ایک قسم کی غیر مغلوب (Invincible) رجائیت تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ تا دم آخر خندہ جبیں رہے۔ کیوں نہ ہو آخر دنیا و مافیہا بلکہ دنیا و مافیہا کی کون سی طاقت تھی جو ان کے زیر نگیں نہ تھی۔ وہ صحیح معنوں میں فقیری میں امیری کرتے تھے۔ یہ قول کہ علم قوت ہے بالکل درست ہے۔ اقبال کی حکومت تمام کائنات پر حاوی تھی۔ انہوں نے تمام مظہر کو ایک ایسے مکمل اور پختہ نظام میں منظم کر رکھا تھا کہ اس کائنات کی بڑی سے بڑی طاقت بھی سرتابی کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ اب اگر ایسا شخص خوش امید نہ ہو گا تو اور کون ہو گا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی طبیعت میں شگفتگی اور ظرافت ضرور ہونی چاہیے۔ اقبال کبھی اس خیال سے بات نہیں کرتے تھے کہ میری زبان سے ہمیشہ گوہر شہوار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گو ان کے پاس بڑے بڑے صاحب قلم اور صاحب طرز لوگ جایا کرتے، ان کا کوئی Boswellنہ بنا۔ اقبال میں صحیح شان قلندری نمایاں تھی۔ وہ اپنے علم کے انمول موتیوں کو اس طرح بے دریغ لٹایا کرتے تھے جیسے ان کے نزدیک ان کی کوئی قدر ہی نہ تھی۔ لہٰذا ہر شخص جس نے ان کے علم سے خوشہ چینی کی ہے ان کی وفات حسرت آیات کو اپنا ذاتی نقصان تصور کرتا ہے اور ان کا کلام موجود ہونے کے باوجود نوحہ خواں ہے۔ عبدالواحد ایم۔ اے ٭٭٭ چند ملاقاتیں اکثر لوگوں کی طرح میں بھی جب پریشان کن حالات میں محصور ہو جاؤں تو تسکین خاطر کے لیے عہد ماضی کے چند زریں ایام کی یاد میں پناہ لے لیا کرتا ہوں۔ میری مختصر گذشتہ زندگی کے بہترین واقعات جنہیں میں اپنے لیے سرمایہ فخر و ناز سمجھتا ہوں اور جن کی یاد متاع زندگی بن کر عمر بھر میرے دل میں آباد رہے گی، وہ چند مختصر ملاقاتیں ہیں جومجھے علامہ مرحوم سے نصیب ہوئیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی زیارت کے مواقع مجھے صرف طالب علمی کے زمانہ میں میسر ہوئے جب میں ان کی صحبت بابرکت سے کماحقہ استفادہ کرنے کے قابل نہ تھا، مگر جب مجھ میں ان سے بات کرنے اور ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگی تو وہ چل بسے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ملاقاتیں مختصر اور پریشان سی ہیں۔ یوں تو انہیں کئی مرتبہ بیک وقت نگہہ باز گشت کے سامنے ایک داستان کے مختلف ٹکڑوں کی صورت میں لا چکا ہوں مگر انہیں سپرد قلم کر کے صفحہ قرطاس پر یکجا کرنے کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کی تحریک پر ہوا۔ عدم فرصت کے سبب یہ خیال ایک طویل عرصہ تک ذہنی حدود سے باہر نہ آ سکا، مگر پھر جی میں آئی کہ انتظار فرصت میں اگر ساری عمر بھی ضائع ہو جائے تو بعید نہیں؟ اس کام سے جتنی جلدی ممکن ہو فارغ ہو جانا چاہیے چنانچہ آج گویا اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے: کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو مدت ہوئی ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو شکوہ کے اشعار ورد زباں تھے۔ کالج کی کتابیں پڑھتے پڑھتے اگر شکوہ شروع کر دیتا تو دل و دماغ پر ایک بیخودی سی طاری ہو جاتی جس سے ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیدار ہو کر معلوم کیا کرتا کہ کتابیں میز پر دھری کی دھری ہیں۔ ان دنوں ہر وقت دھن سی لگی رہتی کہ ان بلند پایہ اشعار کے مصنف کی زیارت نصیب ہو۔ چند احباب کی منت سماجت کی کہ اگر ان کی رسائی اقبال تک ہو تو کبھی نہ کبھی مجھے اپنے ہمراہ ضرور لے چلیں۔ ایک صاحب نے رضا مندی کا اظہار تو کیا مگر نہ معلوم کس خیال سے بہت لیت و لعل کرتے رہے۔ آخر پورے نو مہینے ٹالم ٹول کے بعد وہ مجھے اس قبہ عالیہ تک لے کر پہنچے جس کے شوق دید میں میں ایک عرصہ سے بے قرار تھا۔ غالباً جولائی کے اواخر کی چاندنی رات تھی، ڈاکٹر صاحب میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے صحن میں ایک پلنگ پر تہمد اور سفید بنیان زیب تن کیے لیٹے ہوئے تھے۔ ایک ملازم شانے داب رہا تھا۔ کوٹھی کی ایک جانب سرکنڈوں کی قطار تھی، جن کا سایہ صحن کے سامنے کافی دور تک پڑ رہا تھا۔ روشنی وغیرہ کوئی نہ تھی۔ چاندنی رات کا سماں، سرکنڈوں کا خاموش اور دراز سایہ، مکان کی ’’ پر سکونی‘‘ و ’’ بے چراغی‘‘ اور اس عظیم الشان شخصیت کی انتہائی سادگی جو میری دنیائے عقیدت کے اوج ثریا پر مقیم تھی۔ایک عجیب منظر تھا جس کی کیفیت آج تک دل میں باقی ہے مگر کبھی محتاج الفاظ نہیں ہوئی۔ جو صاحب میرے ہمراہ تھے انہوں نے ایک ملازم کے ذریعہ اپنی آمد کی خبر بھیجی۔ ڈاکٹر صاحب نے نام سنتے ہی ہمیں بلا لیا۔ چنانچہ ہم جا کر اور السلام علیکم کہہ کر ان کے قریب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میری آنکھوں کو ان کے چہرے کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں ہمہ تن دید بن کر اس محویت سے ان کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا، گویا کسی دیرینہ خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہوں۔ قریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک لمبی اور گہری سانس لیتے تھے جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دود پیچاں کے انبار کا ایک بارثقیل سینے پر دھرا ہے جس کی تخفیف چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی پاؤں کو چارپائی پر اوپر نیچے حرکت دیتے تو بستر پر سلوٹیں پڑ جاتیں۔ پیشانی اور رخسار ابھرے ہوئے تھے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور ٹھوڑی کے نچلے حصے کا گوشت ڈھلک رہا تھا۔ مزاج پرسی کے بعد میرے محترم دوست نے ڈاکٹر صاحب سے میر ااس طرح تعارف کرایا کہ یہ گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم ہیں اور آپ کے بہت مداح ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک لحظہ میری طرف غور سے دیکھا۔ باوجودیکہ سر سے شانوں تک ان کا جسم نسبتاً اندھیرے میں تھا، ان کی آنکھوں میں جو چمک اس وقت نمودار ہوئی مجھے روز روشن کی طرح واضح طور پر نظر آئی اور آج تک میری نگاہوں میں محفوظ ہے۔ اس سے یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیے کہ اپنے کلام کے ایک مداح کو دیکھ کر انہیں مسرت ہوئی کیونکہ ان کی آنکھیں قدرتی طور پر چمکدار تھیں ۔ بالخصوص جب کسی چیز کو آنکھ پھیر کر دیکھا کرتے تو یہ چمک نمایاں طور پر نظر آیا کرتی۔ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے:’’ کون سی جماعت میں پڑھا کرتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی’’ سیکند ایر کا امتحان دے چکا ہوں اور تھرڈ ایر میں داخل ہونے کا ارادہ ہے۔‘‘ مضامین کون سے ہیں؟ میں نے کہا’’ عربی اور اے کورس کی صلاح ہے‘‘ فرمایا’’ اے کورس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ’’ اے کورس ریاضی کا ایک مضمون ہے‘‘ کہنے لگے’’ بی اے وغیرہ میں ریاضی تو غالباً چند مخصوص قسم کے سوالات تک محدود ہے جن سے اس کے چند موٹے موٹے اصولوں کو طلباء کے ذہن نشین کرانا مقصود ہوتا ہے، البتہ ریاضی اعلیٰ کے لیے تخیل کی ضرورت ہوتی ہے، تم اکنامکس2؎ کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘ ان دنوں مجھے علم اقتصادیات سے کچھ دلچسپی نہ تھی (اگرچہ آج اس کی تحصیل کو ترستا ہوں) چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز مجھے پسند نہ آئی اور میں خاموش رہا۔ پھر فرمایا’’تعلیم سے کچھ مقصد پیش نظر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا’’ فی الحال کچھ نہیں‘‘ میرے سامنے رکھے بغیر بے تکے مضامین لے لیتے ہیں۔ اس گفتگو کو مجھ پر اتنا اثر ضرور ہوا کہ میں نے بی اے میں اے کورس کی بجائے تاریخ اے لی۔ اس کے بعد روئے سخن دیگر عنوانات کی طرف منتقل ہوا۔ کچھ دیر پنجاب کے چند بڑے بڑے شہروں کے آباد ہونے کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد یہ سبیل تذکرہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک ہم جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ کہ وہ ہر سال امتحان میں ناکامی سے دو چار ہوا کرتا تھا۔ جس طرح ملاح ہر مرتبہ مسافروں کو دریا پار کرنے کے بعد واپس کنارے پر آ جاتا ہے اس کا بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ ہم اسے ملاح کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اکثر بطور تمسخر اسے کہا کرتے تھے کہ بھئی تم نے یونیورسٹی کا سالانہ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے ایک مولوی صاحب کا قصہ سنایا جن سے چند روز ہوئے سیالکوٹ میں ان کی ملاقات ہو چکی تھی۔ ان کے اصلی الفاظ یاد نہیں مگر صورت حالات یہ تھی کہ مولوی صاحب کو ایک پردہ نشین لڑکی کے والدین نے حسن ظن میں گرفتار ہو کر لڑکی کو اقلیدس پڑھانے کے لیے معلم مقرر کیا۔ تعلیم اور تعلم کا انداز قدرے مضحکہ انگیز تھا یعنی مولوی صاحب اور ان کی شاگرد رشیدہ کے درمیان پردہ حائل رہتا اور مولوی صاحب پردے کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر سلیٹ یا کاغذ پر مستطیلوں اور مربعوں کو کھینچ کر ان کے رقبوں کے قواعد لڑکی کو سکھایا کرتے۔ چند روز کے بعد مولوی صاحب نے ریاضی کے دقیق نکات و رموز کی تعلیم میں پردے کو سد راہ سمجھا۔ آخر پردہ تھا، اٹھ گیا، اور مولوی صاحب استاد اور شاگرد کے تعلقات کی محدود اور بے کیف دنیا سے نکل کر عشق اور تعشق کے بحر نا پیدا کنار کی غواصی پر کمر بستہ ہوئے۔ بات اڑ گئی، مولوی صاحب کی تشہیر ہوئی اور معاملہ در عدالت تک پہنچا ان دنوں مقدمہ چل رہا تھا لہٰذا قصہ یہیں ختم ہوا۔ مولوی صاحب کی وارفتگی پر قدرے تعجب کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ میں نے لڑکی کو دیکھا ہوا ہے، کوئی خاص خوبصورت نہیں۔‘‘ مجھے ان الفاظ میں ایک ہلکا سا شبابی رنگ نظر آیا اور ان کے تلفظ میں کسی کے شباب رفتہ کی صدائے باز گشت سنائی دیتی معلوم ہوئی۔ علاوہ ازیں جس معصومانہ انداز میں ڈاکٹر صاحب نے ان الفاظ کو ادا کیا ا س سے میرے دل میں گدگدی سی پیدا ہوئی، مگر میں مسکراہٹ تک کو ضبط کر کے بیٹھا رہا۔ آج تنہائی میں کبھی یہ فقرہ یاد آ جائے تو مسکرا لیا کرتا ہوں۔ جہاں تک یاد ہے پہلی ملاقات میں اور کوئی بات قابل ذکر نہ ہوئی اور ہم اجازت لے کر واپس چلے آئے۔ میں اگرچہ آج بھی سن رسیدہ نہیں ہوں مگر ان دنوں بالکل بچہ تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس شعر و سخن کے علاوہ اور کسی قسم کی باتیں نہ ہوں گی، لہٰذا پہلی مرتبہ ان سے ملنے کے بعد میں مایوس سا ہوا اور دل میں کہا کہ بجائے شاعر اقبال کے بیرسٹر اقبال سے ملاقات ہوئی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اشعار ان کے جگر پارے ہیں اور کسی متشاعر کے کلام کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا سامان نہیں اور ان سے مزید واقفیت نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ کسی علم خام رکھنے والے کی طرح نمائش پسند نہیں کہ جن صفات کے سبب دنیا ان کی معتقد ہو وہ ان کا مظاہرہ ملنے والوں پر خواہ مخواہ کرتے رہیں۔ یہ راز بھی بعد میں آشکار ہوا کہ نظم و نثر کے امتیازات منظور ہے کہ اور لوگوں کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے لہٰذا الفاظ ان کے منہ سے ایک عجیب دلکش و موثر انداز میں نکلتے ہیں جسے دنیا اپنی اصطلاح میں شعر کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ نیز ان سے مل کر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ جب تک شخص شعر و شاعری کی بحث میں انہیں زبردستی گھسیٹ کر نہ لے آئے وہ اس سے حتیٰ الامکان اجتناب کیا کرتے۔ اس موقع پر اپنے ایک عزیز کا قصہ یاد آ گیا۔ وہ سناتے تھے کہ ایک مرتبہ یوپی کے رہنے واے دو شاعری زدہ اصحاب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے گئے۔ علیک سلیک کے بعد مزاج پرسی ہوئی اور پھر بعد کچھ دیر تک دونوں جانب خاموشی طاری رہی۔ کچھ انتظار کے بعد جب ان میں سے ایک کو شاعری کے پھپھولے نے بہت تنگ کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا’’ قبلہ آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’جی ہاں! آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ پھر خاموش رہ کر دوسرے حضرت بولے:’’ جناب! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ جی ہاں! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ اس کے بعد دونوں اصحاب وہاں سے تشریف لے آئے اور میرے دوست سے سیخ پا ہو کر کہنے لگے:’’ کہ ایسے شاعر تو ہمارے ہاں بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ ہم نے خنکی اور بادلوں کا عمداً ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب طبع آزمائی کر کے ہمیں تازہ ترین اشعار سے محظوظ کریں گے، مگر وہ تو بالکل چپ سادھے رہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات کرنے سے پیشتر جس غلط فہمی میں میں مبتلا تھا یہ لوگ بھی یقینا اسی غلط فہمی میں گرفتار تھے۔ الحمد للہ کہ جب میں ان سے دوسری ملاقات کرنے کے لیے حاضر ہوا تو اس غلط فہمی کو رفع ہوئے گویا صدیاں ہو چکی تھیں۔ وہ تو قعات جنہیں دل میں لے کر میں ان سے پہلی مرتبہ ملنے گیا آج کبھی ان کا دل میں خیال بھی آ جانے تو عرق خجالت میں ڈوب جاتا ہوں۔ کچھ عرصہ کے بعد شوق دید پھر مجھے ان کے در دولت تک لے پہنچا۔ اس وقت آپ ایک شخص سے محو گفتگو تھے۔ میں بھی قریب جا کر بیٹھ گیا۔ غالباً مکان و زمان کے مسئلہ پر بحث شروع تھی۔ میں دلائل کی ابجد تک سمجھنے سے قاصر تھا، البتہ وقتاً فوقتاً آئن سٹائن، طوسی، شہرستانی وغیرہ ہم ایسے نام سننے میں آ رہے تھے اور ان کی بحث میں صرف یہ جملہ آج تک یاد ہے کہ صوفیائے کرام کے نزدیک مکان و زمان3؎ ایک سے زیادہ ہیں۔ میری طرف مڑ کر فرمانے لگے’’ کہیے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’ صرف زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘ سن کر خاموش ہو گئے اور میں چپکا بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا۔ شام کا وقت تھا جب اندھیرا زیادہ ہونے لگا تو اجازت مانگ کر واپس چلا آیا۔ کئی ماہ کے بعد ان کی کوٹھی کے سامنے سے پھر گزر ہوا تو دل میں آئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ملتے ہی چلیں۔ اجازت لے کر ان کے کمرے میں پہنچا اور سلام عرض کر کے ان کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اس وقت یونیورسٹی امتحانات کے پرچے دیکھنے میں مصروف تھے۔ کہنے لگے’’ کس طرح آئے؟‘‘ میں نے کہا’’ ایک پریشانی ہے جسے رفع کرنا چاہتا ہوں‘‘ ’’ یعنی؟‘‘ میں نے عرض کی’’ نکلسن نے عربوں کی ادبی تاریخ میں قرآن شریف کی دو آیتوں کا انگریزی ترجمہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کے معانی میں کامل تضاد ہے ایک آیت کا مطلب ہے کہ انسان جو چاہے کرے اور دوسری کا یہ کہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آیات مجھے یاد نہیں مگر ان کے معانی قریب قریب یہی ہیں‘‘ فرمانے لگے جب نکلسن نے کتاب شائع کی تھی تو میں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے لکھا تھا کہ یہ ’’ تضاد‘‘ کی بکواس کیسی، جیسے تم تضاد کہہ رہے ہو وہ حقائق زندگی کے عین مطابق ہے۔ میں نے کہا’’ ڈاکٹر صاحب! میں نہیں سمجھا کہ حقائق زندگی کے مطابق ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ کہنے لگے’’ تو بس میرا یہی مطلب ہے۔ حقیقت کوئی بکرنگ چیز نہیں بلکہ ایک مختلف الالوان مرکب ہے۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ قبلہ اس میں کیا مصلحت ہے کہ انسان مختار بھی ہے اور مجبور بھی کیوں نہ ہمیں بالکل مجبور یا مختار بنایا گیا؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے ’’ اس کی مصلحت سے تو وہی واقف ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ البتہ انسانی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ آدمی اپنی مجبوریوں پر غالب آتا رہے۔ احوال زندگی کے مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان رفتہ رفتہ اپنی تقدیر تک پہنچ رہا ہے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا ’’ کیا قوت وجدان ہر شخص میں موجود ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں عورتوں میں مردوں سے نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ صوفیا نے اس قوت کی نشوونما کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ بعض لوگ ان پر عمل کرنے سے کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ نہیں ہوتے۔‘‘ اس کے بعد میں نے ان سے قرآنی تفاسیر کے متعلق سوال کیا ’’ کہ آپ کے خیال میں کون سی تفسیر بہترین ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اکثر مفسرین قرآن کے مختلف الفاظ کے معانی اور ان کی صوفی و نحوی خوبیوں کے دکھانے میں اپنی تمام تر کوشش صرف کر دیتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر ایسی کتابوں کی بھی ضرورت ہے 4؎‘‘ تفسیر کے متعلق میں نے ایک دو اور مواقع پر بھی ان سے سوال کیا، مگر نہ معلوم کیوں وہ اس سوال کے جواب میں ہمیشہ خاموش رہے۔ ایک عرصہ کے بعد ان سے پھر ملنے کا اتفاق ہوا۔ میرے علاوہ ایک پروفیسر صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ سلسلہ کلام شروع تھا جب میں وہاں پہنچا تو پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہمارے نوجوان اگر آج بھی اپنے اخلاق درست کر لیں تو میں امید کرتا ہوں کہ ان کا مستقبل خوشگوار ہو گا۔‘‘ دوران گفتگو میں پروفیسر صاحب نے کہا:’’ ڈاکٹر صاحب! آج تک کوئی قوم یا کسی قوم کی تہذیب مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں ہوئی۔‘‘ کہنے لگے’’ یہ خیال صحیح نہیں۔ مختار قومیں عام طور پر اپنے محکوموں کے دل و دماغ پر یہ خیال اس لیے مسلط کر دیتی ہیں کہ ان میں پھر سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اسلام اس خیال کا قطعی مخالف ہے۔ آپ محض ایک قوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ مرکر زندہ نہیں ہو سکتی مگر خیال فرمائیے قرآن تو قیامت کا قائل ہے وہ تو کہتا ہے کہ یہ ایک قوم کیا ساری دنیا مر کے ایک بار پھر زندہ ہو گی۔‘‘ لفظ قیامت کی اس تفسیر سے جو سرور مجھے حاصل ہوا اس کا اندازہ میں خود نہیں کر سکتا۔ پروفیسر صاحب کے چہرے کو دیکھا تو وہاں بھی مسرت کی سرخی نظر آئی۔ یہ ملاقات جب بھی یاد آئے قیامت کی تفسیر یاد آ جاتی ہے۔ اس کے بعد دو ملاقاتیں اور ہوئیں جن کا نقشہ ہو بہو آنکھوں کے سامنے ہے اور جن کے تاثرات عمر بھر تازہ رہیں گے۔ پہلی ملاقات دو ہم جماعت عزیزوں کے علاوہ پروفیسر صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کی معیت میں نصیب ہوئی۔ آپ اپنی پرانی کوٹھی کے برآمدہ میں ایک قمیض اور شلوار پہنے ہوئے رونق افروز تھے۔ حقہ پاس رکھا تھا وہ مرض جس سے ان کی آواز قریباً بالکل بیٹھ چکی تھی اور جس نے ان کو غالباً دم واپسیں تک نہ چھوڑا، اسے لاحق ہوئے ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ پہلے صوفی صاحب سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد فرمانے لگے کہ ’’ آج ایک روسی ترک موسیٰ جار اللہ مجھے ملنے کے لیے آ رہے ہیں؟ غالباً پندرہ بیس منٹ تک آ جائیں گے۔ وہ روس سے یہاں تک محض اس لیے آئے ہیں کہ مجھ سے اسلامی نظریہ سیاست و نظام حکومت کے متعلق استفسار کریں۔ کتنا افسوس ہے کہ روس سے یہاں تک انہیں ایک شخص بھی ایسا نہیں مل سکا جو ان کی ان امور میں تشفی کر سکتا۔‘‘ قریباً دس منٹ گزرے ہوں گے کہ موسیٰ جار اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ پردے کے متعلق ضمنی طور پر ایک مختصر سی بحث چھڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے:’’ فطرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں تخلیقی صفات ہوں پردے میں رہے۔ خود خدا کو دیکھیے بے حجاب نہیں۔ زندگی کو لیجئے اگرچہ اس کے آثار کو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر بذات خود وہ ہماری نگاہوں سے پنہاں ہے۔ اسی طرح آپ جس چیز کو بھی لیں جو کار تخلیق سے تعلق رکھتی ہو، آپ دیکھیں گے کہ وہ نقاب پوش ہے۔ اس پر موسیٰ جار اللہ نے کہا کہ ہم لوگ بھی پردے کے قائل تو ضرور ہیں مگر حجاب رو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نص قطعی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ نہیں قرآن حجاب رو کا قائل ہے‘‘ یہاں پہنچ کر میرا جی چاہتا تھا کہ قطع کلام کر کے ڈاکٹر صاحب سے اس نکتے کی مزید وضاحت کے لیے درخواست کروں، مگر اتنی بے باکی کی جرأت پیدا نہ ہو سکی، لہٰذا طوعاً و کرہاً خاموش ہو رہا۔ اس کے بعد سلسلہ کلام نے اصل موضوع کی طرف رجوع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامی نظام سیاسی پر اظہار خیالات کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ انسان ایک فرد یکتا یا گوہر یکتا ہے جس کی ترکیب روح اور مادے سے ہوئی ہے، لہٰذا ہر وہ نظام حکومت جو محض انسان کی جسمی یا مادی ضروریات کو پورا کر سکے انسان کی تشفی نہیں کر سکتا اور نہ ہی نوع انسانی اس نظام کے وضع کردہ راستے پر گامزن ہو کر ارتقائی سیادت سے بہرہ ور ہو سکتی ہے۔ اسلام دین و سیاست میں تفریق اسی لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہیئت ترکیبی ان ہر دو عناصر کے امتزاج کی متقاضی ہے۔ اسلامی نظام حکومت5؎ نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ Aristocracyہے اور نہ تھیا کریسی (Theocracy) بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔‘‘ اس فقرے کی کچھ تشریح کرنے کے بعد موضوع سے متعلقہ افکار و خیالات کا اظہار جہاں جہاں ان کی کتابوں میں ہو چکا تھا، آپ نے ان مقامات کی طرف موسیٰ جار اللہ کی توجہ مبذول کروائی۔ سلسلہ کلام ا گرچہ فارسی میں تھا تاہم زبان اتنی سلیس تھی کہ باوجود فارسی سے بخوبی واقف نہ ہونے کے ان کی ایک ایک بات سمجھ رہا تھا۔ بعد ازاں کچھ دیر تک موسیٰ جار اللہ آپ سے آپ کے کئی ایک اشعار کے معانی اور گرامر کی رو سے ان کی تراکیب کے متعلق پوچھتے رہے۔ شام ہو چکی تھی اور چونکہ موسم سرما تھا لہٰذا ہوا میں خنکی ذرا ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کا ملازم ایک کمبل لے آیا جو تبسم صاحب نے آپ کے کندھوں کے گرد ڈال دیا۔ سلسلہ کلام بڑھانا چاہتے تھے کہ آپ کی آواز نے قریباً بالکل جواب دے دیا اور آپ موسیٰ جار اللہ کو یہ کہہ کر رخصت کرنے پر مجبور ہو گئے کہ کل پھر تشریف لائیے۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور ہم واپس آ گئے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دل و دماغ ایک جہان نور و سرود میں منتقل ہو چکے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک احساس حسرت بھی لاحق تھا جیسے لیلائے محمل ایک ہی جھلک دکھا کر غائب ہو گئی ہو یا زندگی بھر کی خوں گشتہ آرزوئیں ایک سہانے خواب میں پوری ہو رہی ہوں اور آنکھ کھل جائے۔‘‘ ایم اے کے آخری سال میں ہم چند ہم جماعتوں نے موسم سرما کی ایک شام کو دفعتہ ارادہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے چلیں۔ ارادہ کرتے ہی ہوسٹل سے روانہ ہو پڑے اور راستے میں صلاح کی کہ آج حضرت علامہ سے مسئلہ خیر و شر کے متعلق استفسار کریں گے۔ در دولت پر پہنچ کر اجازت لینے کے بعد ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت ساتھ کے کمرے میں مصروف مطالعہ تھے، خبر پا کر تشریف لائے۔ مزاج پرسی کے بعد ہم میں سے ایک نے اس مسئلہ کو چھیڑنے کی جرأت کی تو فرمانے لگے کہ ’’ اپنے فلسفہ کے پروفیسر سے کیوں نہیں پوچھتے، وہ کوئی کتاب بتا سکیں گے۔اس پر ایک اور صاحب نے ان کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم قرآنی اور اسلامی نظریہ خیر و شر کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فرمایا:’’ پہلے اس مسئلہ کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر لو، اس کے بعد میرے پاس آنا اور جو جی چاہے پوچھ لینا۔ ڈکنسن نے ایک کتاب لفظ خیر سے مراد The Meaning of Good لکھی ہے، وہ مفید مطلب رہے گی۔ کتاب آسان ہے۔ اگر کسی نے فلسفہ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ بھی بلا دقت اسے سمجھ سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک صاحب نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! اسلام کس نظام حکومت کا قائل ہے؟ فرمایا کچھ عرصہ ہوا میں نے اس موضوع پر موسیٰ جار اللہ سے بحث کی تھی، اس بحث کو دہرا نہیں سکتا، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ ارسٹا کریسی (Aristocracy) ہے نہ تھیا کریسی (Theocracy) ہم نے کہا ’’ تو پھر وہ کون سا نظام ہے اگر ان چاروں میں سے ایک بھی نہیں؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے؟’’ اس نظام کو معرض وجود میں لانا آپ لوگوں کا کام ہے۔‘‘ پھر آپ نے ہم سے تھیاکریسی کی تعریف پوچھی مگر باوجود اس کے کہ بعض ہم جماعت پولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے، ہم میں سے کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا۔ اس پر ہمیں کچھ ندامت سی محسوس ہوئی۔ آپ مسکرانے لگے اور ایک کتاب طاق میں سے نکال کر ہمیں اس لفظ کی تعریف پڑھ کر بتائی۔ پھر ہم نے آپ سے جنت کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:’’ قرآن نے کئی قسم کی جنتیں6؎ بیان کی ہیں۔ بعض مادی ہیں اور بعض روحانی۔ مادی جنتوں کے بیان سے تو آپ واقف ہی ہوں گے، مگر بعض بعض مقامات پر روحانی جنتوں کا بھی ذکر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ قرآن نے روحانی جنت کی تعریف کس طرح کی ہے؟ فرمایا ’’ فیھا لا لغو ولا تاثیم‘‘ اس کے بعد ہم میں سے ایک نے کہا:’’ قبلہ یہ بڑے بڑے لوگ جو ہیں سر فلاں اور خان بہادر فلاں میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو ہمیں نسبتاً کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘ فرمایا: ’’ زندگی اسی طرح بسر کرو گویا یہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ مجھے دیکھو، میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ یہی لوگ میرے پاس بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں، علیک سلیک کر کے چلے جاتے ہیں۔ میں بھی جواباً علیک سلیک کہہ دیتا ہوں ۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔ انہیں محض بڑی بڑی تنخواہوں کا وصول کرنا ہی آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں جانتے‘‘ پھر نماز کا ذکر آ گیا، کسی نے پوچھا کہ ’’ اگر اردو میں نماز پڑھ لی جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ عربی میں نماز بالکل سیدھی سادی ہے، کوئی مشکل الفاظ نہیں، لہٰذا نماز کے اردو ترجمے کا خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے7؎ ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ اردو میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مجھے یاد ہے میری والدہ صاحبہ عربی الفاظ کا تلفظ صحیح نہ کر سکتی تھیں، لہٰذا میرے والد صاحب انہیں اجازت دیا کرتے تھے کہ وہ بیشک اردو میں ہی نماز پڑھ لیا کریں‘‘ (خدا کی قدرتیں بہت ذیشان ہیں ماں وہ کہ نماز کے سادہ عربی الفاظ کا صحیح تلفظ نہ کر سکے، اور بیٹا وہ جس کی علمیت کا ایک جہان معترف ہو اور جس کی قابلیت کے سامنے ایک دنیا سر تسلیم خم کرے)‘‘ ان دنوں بال جبریل نئی نئی شائع ہوئی تھی اور ان کی ’’ سمجھا تھا میں‘‘ والی غزل زباں زد خاص و عام تھی۔ ویسے اس غزل کا پہلے ہی سے شہرہ تھا کیونکہ بال جبریل کی اشاعت سے پیشتر وہ رسالہ ’’کارواں‘‘ کے پہلے نمبر میں شائع ہو چکی تھی۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس غزل کا بہترین شعر یعنی: عرصہ محشر8؎ میں میری خوب رسوائی ہوئی داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں شائع ہونے سے رہ گیا۔ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر مجھے اس بات کا اس وقت خیال آیا جب کہ کتاب کاتب کے پاس جا چکی تھی اور اس شعر کا اندراج ممکن نہ تھا۔‘‘ ازاں بعد۔۔۔ اور آپ کے نظریہ فوق البشر کے متعلق بات چیت ہوئی تو ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ فوق البشر کی کیا تعریف ہے؟ کہنے لگے:’’ ہر صحیح مومن فوق البشر ہے اور اسلام وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر9؎ ڈھلتے ہیں۔‘‘ چونکہ کارلائل کی کتابیں ہمارے کورس میں شامل تھیں، لہٰذا ضمنی طور پر اس کے نظریہ ہیرو (Hero) کے متعلق بھی تذکرہ آ گیا۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ ’’ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں‘‘ شخصیت پرستی (Heroworship) ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام کے خلاف ہے یہاں آپ نے بہ طریق تعلیٰ نہیں بلکہ گزارش احوال واقعی کے طور پر ایک تقریب کاقصہ سنایا، جس پر وائسرائے کے علاوہ ہندوستان کی ریاستوں کے فرمانروا اور دیگر اکابر و زعمائے ملک کا ایک جم غفیر رونق افروز تھا۔ کہنے لگے:’’ جس وقت مہاتما گاندھی اس مجمع میں داخل ہوا تو قریباً سب لوگ اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جس کے سامنے سے گزرتا وہی احتراماً اٹھ کھڑا ہوتا مگر جب میرے پاس سے گزرا تو میں بدستور اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اس کے بعد وائسرائے نے چند لوگوں کی دعوت کی جن میں میں بھی مدعو تھا، دعوت کے بعد وائسرائے نے مجھے تنہائی میں کہا کہ:’’ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں بشرطیکہ آپ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں‘‘ میں نے کہا کہیے۔ کہنے لگا:’’ کہ تقریب پر مہاتما گاندھی کی تعظیم کے لیے سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ میں نے سر شفیع کو بھی اٹھتے ہوئے دیکھا مگر آپ اپنی جگہ پر بدستور قائم رہے اس کا کیا سبب ہے؟‘‘ فرمایا ایک دو سیکنڈ تو میں خاموش رہا، مگر پھر مجھے دفعتہ جواب سوجھا اور میں نے کہا:’’ غالباً آپ کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں کئی مسلمان ایسے ہیں، جن کے باپ دادا ہندو تھے، ان میں سے اکثر و بیشتر ہنوز اپنے آباؤ اجداد کی صفات سے متصف ہیں، الحمد للہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘ پھر آپ نے کہا کہ ’’ اسوۂ رسول شخصیت پرستی کی مخالفت کا بہترین مظہر ہے۔ رسول خدا ؐ صحابہ کرامؓ کی جماعت کے پاس جب کبھی جاتے تو وہ آپ کو دور سے دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے۔ آپ نے ایک دو مرتبہ دیکھا اور تیسری مرتبہ منع فرمایا۔ خیال کیجئے، وہ ہستی جس کی خاطر اس کے متعین اپنے خون کا آخری قطرہ گرا دینا دینی و دنیوی سعادت مندی کا واحد ذریعہ تصور کرتے تھے اسے اتنا بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی اس کی خاطر اٹھ کھڑا ہو۔ ایک اور واقعہ یاد آ گیا، کہتے ہیں کہ رسول خداؐ شام کا کھانا کھانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے ہمراہ عام طور پر صحرا میں برائے سیر جایا کرتے تھے۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ جب آپ مصروف سیر تھے تو چند غزال آپ کے پاؤں کو آکر چومنے لگے۔ صحابہؓ نے عرض کیا:’’ قبلہ دو عالم! جانوروں کو تو یہ سعادت نصیب ہو مگر ہم اس کے لیے ہمیشہ ترستے رہیں‘‘ آپ نے فرمایا۔۔۔۔ یہاں ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے جیسے طاقت گفتار یک لخت جواب دے گئی ہو۔ چونکہ ہم نے سن رکھا تھا کہ ذکر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی کیا کیفیت ہوا کرتی ہے، لہٰذا ہم ہمہ تن دید بن کر ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ مثال مجسمہ جامد و ساکت تھے۔ کمرے میں سناٹے کا عالم تھا خاموشی نے طول پکڑا یہاں تک کہ قریباً ایک منٹ اسی طرح گزر گیا۔ اس کے بعد ان کے چہرے پر ایک لرزش نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی رخساروں پر آنسوؤں کی بارش شروع ہو گئی۔ سسکتے ہوئے کہنے لگے: رسول خداؐ نے فرمایا:’’ اسجدو اللہ اکرموا اخوالکم‘‘ 10؎(یعنی بزرگوں کی محض واجبی تعظیم کرو، سجدے کے لائق صرف خدائے تعالیٰ کی ذات واحد ہے) بخدا دنیا بھر کی ادبیات میں اس سے بہتر فقرہ مجھے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔‘‘ ہم اس واقعے سے اور ڈاکٹر صاحب کی کیفیت کے مشاہدے سے بے حد متاثر ہوئے اس کے بعد سلسلہ کلام کو جاری رکھنا بے محل سا معلوم ہوا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی تھی، لہٰذا مجلس برخاست ہوئی اور ہم اٹھ کر چلے آئے۔ آج تک یاد ہے کہ اس رات دلوں کی میل دھل چکی تھی اور ہم سب اس احساس سے مسرور تھے کہ بہرحال جیتے جی کم از کم ایک مسلمان تو دیکھ لیا۔ اسلام کی موجودہ حالت کے پیش نظر یہ واقعہ خرق عادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی یاد آ جائے حیرت ہوتی ہے کہ اس کافرستان میں یہ دیوانہ رسولؐ کسی طرح پیدا ہو گیا اور اس ظلمت کدۂ الحاد میں یہ قندیل ایمان کیسے جگمگا اٹھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ باوجود اتنی سیہ کاریوں کے مسلمان اس نعمت سے مشرف ہونے کے لیے دیدۂ قدرت میں کیونکر منتخب ہو گئے اور یقین نہیں آتا کہ: یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی آج اس واقعہ کو قریباً چار سال ہو چکے ہیں، مگر تاثرات کی تازگی کے سبب ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کل کی بات ہے۔ علامہ مرحوم کی تصویر بار بار آنکھوں کے سامنے آ کر جنت نگاہ بن رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ پیکر حیات جس کے کلام کا ہر لفظ عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، خود موت کے چنگل سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ جہاں تک ’’ دنیائے سماوی‘‘ کا تعلق ہے پہلی ملاقات کا منظر آج کی رات سے مشابہہ تھا۔ گرد و پیش کا سماں ان لمحات رفتہ کی خوابیدہ یاد کو پیام برخیز دے رہا ہے۔ آسمان پر’’ تارے آوارہ و کم آمیز‘‘ نظر آتے ہیں۔ چاندنی دور دور تک چھٹکی ہوئی ہے۔ جہان بقعہ نور بن رہا ہے۔ گویا زمین ایک شفاف نوری سمندر کی تہ میں مستقر ہو گئی ہو۔ افق کے قریبی مناظر تاریکی کے ہلکے حجاب میں کھوئے کھوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دل میں ارمانوں کی لہر اداس نغموں کے زیر و بم کی طرح کبھی اٹھتی ہے، کبھی بیٹھ جاتی ہے۔ بے ثبات انسانی زندگی کا منظر طلسمی نقش و نگار کی صورت ہر لمحہ ’’ فریب نظر‘‘ بن رہا ہے۔ ابھی پیدا، ابھی پنہاں، افکار پریشاں مجسمہ حیرت بن کر اس موج سراب کے معمہ ہست و نیست سے دو چار ہیں۔ انسانی زندگی کے پیہم ظہور و پیہم غیوب کا تصور دل و دماغ پر حاوی ہے اور اس تصور کی آغوش بسیط میں دوش و امروز، امروز و فردا آپس میں مل مل کر جدا ہو رہے ہیں۔ تقسیم زمانہ کی مصنوعی حدود احساسی طور پر پھیکی پڑ چکی ہیں گویا ماضی و حال و مستقبل ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہوں۔ ایام رفتہ کی تصویر عرصہ تخیل میں پیدا ہو کر چشم تصور سے اوجھل ہو رہی ہے۔ کمرے کے اندر چاند کی کرنیں ایک میز پر پڑ رہی ہیں جس کے ایک کونے پر ڈکنسن کی کتاب The Meaning of Goodمیری زندگی کے رفتہ و حاضر کو یمین و یسار میں لیے ہوئے ایک عرصہ سے پڑی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کئے مدت ہو چکی ہے۔ مسئلہ خیر و شر کے متعلق ابتدائی خیالات جو کبھی حصار سنگین معلوم ہوتے تھے، مصنف کی تخریبی تنقید سے شکوک و شبہات کی اس فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں جہاں پائے تخیل کو قرار نہیں۔ نگاہیں آفاق کی تاریکیوں اور فضا کی نوری پہنائیوں میں حیران و سرگرداں اس ہستی کی متلاشی ہیں جس کا وعدہ تھا کہ تم خیر و شر کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر کے میرے پاس آؤ میں تمہیں اسلامی نظریہ خیر و شر سے آگاہ کروں گا۔ اس کے جیتے جی تو ہزاروں امیدیں تھیں مگر آج جب کہ ہر لمحہ اس دلخراش حقیقت کا سامنا ہے کہ: ’’ہوا جو خاک سے پیدا وہ خاک میں مستور‘‘ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دل و دماغ کی پریشانیوں کو رفع کرنے کی تدبیر کیا ہو گی: ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں اگر ایفائے وعدہ نہ ہوا تو قصور کس کا؟ اسے اپنی شومی قسمت تصور کروں یا مشیت ایزدی؟ اسے اپنی مجبوری کہوں یا ان کی؟ یہ تعبیرات سود مند ہوں یا بے سود، با معنی ہوں یا بے معنی، حقیقت ہوں یا دھوکا مگر دل کو یہ احساس ہر لمحہ کھائے جا رہا ہے کہ یہ وعدہ اب قیامت تک کے لیے ایفا طلب رہ گیا اور یہ امید عمر بھر کے لیے حسرت جانگداز میں منتقل ہو گئی: قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے گناہگار ہے کون اور خون بہا کیا ہے؟ سید الطاف حسین، ایم اے ٭٭٭ دو ملاقاتیں ٹھیک یاد نہیں لیکن غالباً1923ء یا1924ء کی بات ہے، کہ ایک بیرونی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسری خالی ہوئی، میں نے بھی درخواست دی، لیکن درخواست دینے کے بعد چپکا بیٹھ رہا۔ ایک دوست نے جن کی تجربہ کاری پر بہت اعتماد تھا، یہ قصہ سنا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ علامہ اقبال سے سفارش کروائی جائے۔ اس وقت تک مجھے ان کی خدمت میں کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور ان کی عظمت کا نقش دل پر اس قدر گہرا تھا کہ یوں کہیے کہ جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی تھی، لیکن یہ سفارش والا سلسلہ ایسا نکلا کہ میں نے ان کی ملاقات کے وسائل کے متعلق تگ و دو شروع کی، جوئندہ یا بندہ ایک بزرگوار جن سے ابھی تک عقیدت استوار ہے، اس معاملے میں خضر راہ ثابت ہوئے (خضر راہ علامہ اقبال کے کلام کی رعایت سے نہیں لکھا گیا) گرمیوں کے دن تھے، شام کا وقت تھا، جب میرے یہ خضر طریقت مجھے اپنے سات لے کر نکلے، تو میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ علامہ میری سفارش کیوں کریں گے، نہ وہ مجھ سے ذاتی طور پر واقف نہ میرے ہفوات نظم و نثر کے آشنا۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ شاید میرے خضر طریقت کی سفارش موثر ثابت ہو اور علامہ میری سفارش پہ آمادہ ہو جائیں۔ بہر نوع راستہ کٹ گیا اور ہم علامہ اقبال کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے دروازے پہ جا پہنچے۔ علامہ کا معمول یہ تھا کہ ہر قسم کے رسمی تکلفات سے بے نیاز ہو کر ملتے تھے۔ نہ کارڈ بھیجنے کی ضرورت نہ سر زیر بار منت درباں کرنے کی حاجت۔ علامہ بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں، لوگ باگ آ جا رہے ہیں، تانتا لگا ہوا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ خسرو کے اس شعر کا مطلب انہی کے مکان پہ جا کر سمجھ میں آتا تھا: ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست یہ باتیں میں نے سن رکھی تھیں لیکن اس دن بچشم خود مشاہدہ کیں۔ علامہ برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹے حقہ پی رہے تھے۔ میں اور میرے دوست سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ذرا اندازہ کر لیجئے کہ اس وقت میرے دل میں کیا کیفیت ہو گی۔ دور سے تو علامہ کو کئی بار دیکھا تھا، اس دن پہلی بار یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ان کی باتیں سنیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ سچ مچ مجھ کو یقیں نہیں آتا تھا کہ اقبال میرے سامنے لیٹا باتیں کر رہا ہے۔ دل بلیوں اچھل رہا تھا کہ علامہ نے میرے خضر طریقت سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہیں؟ انہوں نے میرا نام بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پنجاب کے بہت بڑے ادیب اور شاعر ہیں، انہوں نے ایک جگہ درخواست دی ہے، چاہتے ہیں آپ ان کی سفارش کریں۔ علامہ نے حقہ کا ایک کش لیا، ’’ ہوں‘‘ کہا اور میرے دوست سے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے لگے۔ ان سے باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک بیرسٹر صاحب تشریف لے آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یہ صاحب علامہ سے ایسی بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے کہ مجھے تعجب ہوتا تھا۔ یہ بزرگوار بہت ہنس مکھ تھے اور پھبتی کہنے میں طاق۔ ان کے آنے سے گفتگو کا رخ تبدیل ہو گیا اور علامہ بھی ان نو وارد بیرسٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے، مسکراتے جاتے تھے اور کبھی کبھی ان کی پھبتیوں کا جواب بھی دیتے تھے۔ یہ نو وارد بیرسٹر صاحب اپنے ہم پیشہ قانون دانوں پر پھبتیاں کس رہے تھے اور حق بات یہ ہے کہ مزے کی باتیں کر رہے تھے۔ ناگاہ باتیں کرتے کرتے رک گئے اور ایک عجیب انداز میں بے تکلفانہ کہا:’’ یار توں حقے دو رکھیا کر، اک اپنے لئی تے اک دوسریاں لئی۔ حقے دی نڑی منہ وچ پا کے توں تے فیر کڈدا ای نہیں۔ اے تینوں خبرے کی پیڑی عادت لے گئی ہوئی اے‘‘ (یار تم حقے دو رکھا کرو۔ ایک اپنے لیے ایک دوسرے کے لیے، حقہ کی نے منہ لیتے ہو تو لیے ہی رہتے ہو۔ خدا جانے تمہیں یہ کیا بری عادت پڑ گئی ہے) مندرجہ بالا فقرے ٹھیٹھ پنجابی میں کچھ ایسے بے تکلفانہ انداز میں کہے گئے تھے کہ ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی۔ علامہ مسکرائے اور نوکر کو آواز دے کر کہا:’’ پیر صاحب کے لیے دو سمار حقہ لے آؤ۔‘‘ میں علامہ کی باتیں دلچسپی سے سن تو رہا تھا، لیکن میرے گوش قلب میں ایک شبہ سا پرورش پا رہا تھا کہ علامہ میری سفارش نہ کریں گے کیونکہ انہوں نے اس معاملے میں سوائے’’ ہوں‘‘ کہنے کے اس کے بعد کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میرے خضر طریقت نے میرا زانو دبایا، گویا مجھے اشارہ کیا کہ اٹھو چلیں، میں نے اجازت چاہی اور ساتھ ہی میرے خضر طریقت نے کہا:’’ عابد صاحب کے لیے سفارش‘‘ فرمایا: ’’ سفارش ہاں‘‘ پھر انگریزی میں کہا:’’ جو آپ مناسب سمجھیں لکھ لائیں میں دستخط کر دوں گا‘‘ ہم دونوں سلام کر کے رخصت ہوئے۔ علامہ کے’’ محقق‘‘ دوست ابھی تشریف رکھتے تھے۔ راہ میں میرے خضر طریقت نے مجھ سے کہا:’’ لو بھئی تمہارا کام تو ہو گیا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔ گھر پہنچا تو سوچتا رہا کہ یہ بھی علامہ نے کیا ارشاد فرمایا جو مناسب سمجھو لکھ لاؤ۔ کبھی یہ خیال آتا کہ پھر جب ان کی اجازت ہے تو کیوں نہ اپنے متعلق واقعی جو جی میں آئے لکھ لوں۔ پھر سوچتا بہت بیہودہ بات ہو گی کہ علامہ تو مجھ پہ اتنا اعتماد کریں اور میں یہ حرکت کروں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو کچھ میں نے اپنے متعلق لکھا نہایت معقول تھا۔ شام کو وہ تحریر لے کر علامہ کی خدمت میں پہنچا، انہوں نے تحریر پڑھی، مسکرائے اور مجھ سے کہا کہ:’’ ان لفظوں سے آپ کا کام ہو جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کی جو امید تو ہے۔ وہ پھر مسکرائے اور فرمایا:’’ دیکھ لیجئے میں نے آپ کو کھلی چھٹی دے دی تو آپ نے خود ہی اپنی تعریف میں مبالغے سے کام نہیں لیا۔‘‘ یہ کہہ کر دستخط کر دئیے۔ اس کے بعد کئی بار علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی جن میں سے اس مرحلے پر میں صرف ایک ملاقات کا تفصیلی ذکر کروں گا۔ دسمبر1937ء میں ایک دن میں اور میرے ایک دوست کسی کام سے جا رہے تھے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پاس ہمیں ایک خوش پوش نوجوان نے ٹھہرا لیا۔ ان دنوں یوم اقبال منانے کی تحریک کا بڑا چرچا تھا۔ میں اگرچہ ذرا فاصلہ پر تھا لیکن میں سن رہا تھا کہ یہ نوجوان تحریک کے متعلق کچھ باتیں کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھ کر کہ ان دونوں کی باتیں شاید ایسی ہوں کہ میرا شامل ہونا انہیں ناگوار ہو، میں ذرا آگے بڑھ گیا۔ میرے دوست نے مجھے آواز دے کر بلایا اور اب معلوم ہوا کہ یہ نوجوان میرے دوست سے یوم اقبال کے سلسلے میں مشورہ لے رہا ہے، میرے دوست نے میرا تعارف کرایا تو اس باہمت نوجوان نے میرا نام سنتے ہی فوراً کہا آپ علامہ کی شاعری پر کوئی پیپر نہیں پڑھیں گے؟ میں نے کوئی رسمی سا عذر پیش کیا لیکن دونوں صاحب میرے سر ہو گئے اور آخر مجھے وعدہ کرنا پڑا کہ میں اقبال اور فنون لطیفہ پر مقالہ پڑھوں گا۔ رات کو لوٹا اور اس مضمون کا خیال آیا تو کچھ الجھن سی ہونے لگی، سوچتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جو علامہ مرحوم کی تعلیم کی اصل روح کے خلاف ہو۔ اگرچہ نقاد کی حیثیت سے مجھے کامل آزادی حاصل تھی، لیکن علامہ مرحوم سے جو مجھے عقیدت تھی، اس کی وجہ سے یہ خیال ضرور پیدا ہوتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جس سے اصل مقصد (اقبال کے نظریہ فنون لطیفہ کی تفسیر) فوت ہو جائے یا علامہ کو کسی قسم کی ذہنی تکلیف ہو۔ دوسرے دن راجہ حسن اختر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے موقع پا کر اپنی الجھن کا ذکر چھیڑا۔ راجہ صاحب نے بیساختہ کہا کہ چلیے علامہ کے ہاں چلتے ہیں۔ مجھے جرأت تو نہیں کہ ان کے سامنے بحث کا آغاز کر سکوں، لیکن اگر آپ کسی مسئلے پر بحث چھیڑ دیں گے اور علامہ کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو کئی گرہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ چنانچہ اسی شا میں اور راجہ صاحب علامہ کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ ایک دو اور بزرگوار بھی بیٹھے تھے جن کو میں نہیں پہچانتا۔ حسن اتفاق سے ایک مقامی مشاعرے کا ذکر آ گیا جس میں پو ۔ پی کے ایک برخود غلط شاعر انقلاب نے بہت ہنگامہ بپا کیا تھا۔ اسی سلسلے میں اردو اور فارسی محاورات اور تضمینات کا ذکر چھڑ گیا۔ یاد نہیں کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کس نے کہا۔ میں نے یہ محاورہ سن کر غالب کا شعر پڑھا: باید ز مے ہر آئینہ پرہیز گفتہ اند آرے دروغ مصلحت آمیز گفتہ اند علامہ مسکرائے اور ایک شعر پڑھا جو میں نے اچھی طرح نہیں سنا کیونکہ ان کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کچھ لفظ کان میں پڑتے تھے، کچھ نہیں سنائی دیتے تھے۔ میرے چہرے کے انداز سے وہ بھانپ گئے کہ میں نے شعر نہیں سنا، اس لیے پھر ذرا بلند تر آواز سے پڑھا: راستی فتنہ انگیز، اس سہی قد کا ہے قد اور دہن اس کا دروغ مصلحت آمیز ہے راجہ صاحب نے موقع دیکھ کر کہہ دیا کہ عابد صاحب ’’ اقبال اور فنون لطیفہ‘‘ پر ایک مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ علامہ نے میری طرف تیز تیز متجسسانہ نظروں سے دیکھا۔ جن لوگوں کو ان نظروں کی دور بینی اور دور رسی محسوس کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تیز تیز نظروں میں کیا بات پوشیدہ تھی۔ علامہ کی آنکھیں، گویا مخاطب کے تمام سرمایہ ذہنی کو ٹٹول کر، گویا اس کے تہہ قلب کے خفیہ ترین گوشوں میں پہنچ کر اس کے اعمال اور افعال کے محرکات شعوری اور غیر شعوری کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں او راس طرح محسوس ہوتا تھا گویا علامہ مخاطب کو تول رہے ہیں۔ ان تاثرات کو بیان کرنے کے لیے پانچ چھ سطریں لکھنے کی ضرورت پڑی ہے، لیکن در حقیقت یہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہو گیا۔ ایک آدھ منٹ چپ رہنے کے بعد علامہ نے فرمایا:’’ میرے کلام کو آرٹ1؎ (شاید اس کا مغربی تصور مراد تھا) سے کیا تعلق ہے؟ میری شاعری اسلامی تفکر اور فقہہ کی تفسیر اور تعبیر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو واضح کر دوں کہ آپ کے خیال میں فنون لطیفہ کا نصب العین کیا ہے۔ فرمایا’’ ہاں اس اعتبار سے مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے، شفیع صاحب آ گئے اور ان کے شانے دبانے لگے۔ میں نے جرأت کر کے پوچھا کہ آرٹ کے زوال پذیر ہونے کے جو محرکات ہوتے ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ علامہ نے لیٹے لیٹے جواب دیا کہ آرٹ کی زوال پذیری دراصل اقوام کی مجموعی زوال پذیری کے تابع ہوتی ہے۔جب تک خدا کو کسی قوم سے کچھ کام لینا مقصود ہوتا ہے اور اسے سرداری کے منصب پر فائز رکھنا منظور ہوتا ہے، اس وقت تک آرٹ زندہ اور جاندار رہتا ہے، بلکہ سب سے پہلے کسی قوم کی زوال پذیری کی علامت آرٹ کی زوال پذیری کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ یہ کہہ کر چپ ہوئے تو نیازی صاحب نے پوچھا کہ ان حالات میں کیا شاعری سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے؟ فرمایا ضروری نہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے جب کوئی قوم زوال پر آمادہ ہو جاتی ہے تو ٹھوس چیزوں سے، مغز سے، معنی سے، بیگانہ ہو جاتی ہے۔ چھلکے سے، شکل سے، دل بستگی بڑھ جاتی ہے۔ یہی آرٹ کی زوال پذیری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اردو شاعری2؎ میں شاید ناسخ اور اس کے سکول کا کلام آپ کے ارشاد کی بہترین تفسیر ہے۔ فرمایا میں نے ناسخ اور اس کے سکول کا کلام بہت کم پڑھا ہے، میرا اردو ادبیات کا مطالعہ بہت محدود ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو کی تاریخ میں دکنی ادبیات کا حصہ نسبتاً بہت جاندار نظر آتا ہے۔ نیازی صاحب نے فرمایا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو گی کہ دکنی ادبیات کو مذہب سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ فرمایا:’’ ہاں، یا یوں کہو کہ زندگی سے دکنی ادبیات کا تعلق اصلی اور اساسی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’ کچھ دن ہوئے ہیں رسالہ اردو میں ایک مقالہ نگار نے میر حسن اور ایک پرانے دکنی ادیب کی مثنویوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی کہ دکنی شاعر کا کلام زیادہ جاندار اور پر جوش ہے۔‘‘ علامہ نے فرمایا:’’ مقالہ نگار کا خیال ٹھیک ہو گا۔ حسن کے وقت تک اردو شاعروں میں کافی ژولیدہ بیانی پیدا ہو چکی تھی۔ یا تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے، یا کہنا چاہتے تھے تو کہہ نہیں سکتے تھے، بلکہ جو بزرگوار کچھ کہنا چاہتے تھے ان کے کلام میں بھی ایک خاص قسم کی ژولیدہ گفتاری ہے جو ذہنی ژولیدگی اور پریشان فکری کی خبر دیتی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کی ژولیدہ گفتاری کا معیاری نمونہ غالب کا ابتدائی کلام سمجھا جائے گا۔ کسی نے غالب کے ’’ نسخہ حمیدیہ ‘‘ والے دیوان کا ایک شعر پڑھا۔ شعر یاد نہیں، غالباً ژنگ آخر اور پلنگ آخر، ان قافیوں میں تھا۔ علامہ کچھ عرصہ چپ رہے، پھر فرمایا:’’ کسی حد تک، لیکن غالب سے کہیں زیادہ مومن3؎ ژولیدہ گفتار ہے۔‘‘ میں خود اگرچہ مومن کے مداحوں میں سے نہیں ہوں اور اس کے اسلوب فکر اور انداز تغزل کو ایک کارنامہ نہیں سمجھتا، لیکن کچھ نقادوں نے غالب کے مقابلے میں مومن کو اچھالا تھا۔ اس سلسلے کے تمام واقعات مجھے یا دآ گئے اور معاً خیال آیا کہ زوال پذیر قوموں کے نقاد بھی کس قدر ژولیدہ فکر ہو جاتے ہیں کہ پریشان گفتاری کو ندرت اسلوب اور ژولیدہ بیانی کو جدت ادا کا لقب دے کر معایب کو محاسن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ بلہے شاہ کی کافیوں کا ذکر آیا۔ کچھ وقت تک پنجابی شاعری اور تصوف کا ذکر چلتا رہا، لیکن میرے دل کو چیٹک سی لگ گئی تھی کہ موقع ملے تو علامہ سے کچھ اور پوچھوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسلام کی زوال پذیری کے سلسلے میں ایرانی تحریکات مذہبی کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ شاید اسلام کی زوال پذیری میں ان تحریکات نے کافی حصہ لیا ہے جنہیں مجوسی کہا جاتا ہے اور جن کو دراصل شبعمیت سے کوئی تعلق نہیں۔ فرمایا:’’ ہاں، اگر اسلامی علوم و فنون اور اسلامی روایات کا چشمہ بہت کم گدلا ہوا ہے تو ترکان عثمانی کے ہاں ہے 4؎۔ ورنہ اسلام کا چشمہ جس زمین سے گزرا ہے اس کو گدلا کر دیا گیا ہے۔ اس کا رخ پھیر دیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے۔ ایک صاحب نے کسی نئی تصنیف کا ذکر چھیڑا جس میں آرٹ کے فلسفے سے بحث کی گئی تھی۔ علامہ نے فرمایا:’’ ایک جرمن مصنف کہتا ہے کہ فلسفے کے نظام دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ٹھوس وزنی، ان میں مغز زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے ذرا ہلکے۔ جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ہر ٹھوس چیز سے بیگانہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’آرٹ بھی ٹھوس اور ہلکا ہو سکتا ہے؟‘‘ فرمایا’’ ہو سکتا ہے زوال پذیر اقوام میں آرٹ کا رس نچوڑ کر نہیں پیا جاتا، بلکہ پھل کی شکل بنا دی جاتی ہے اور اس کے رنگ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آرٹ کی عظمت کا انحصار کس چیز پر ہے، شکل پر یا مغز پر؟ علامہ نے ارشاد فرمایا کہ یوں تو شکل بھی مغز ہی کا ایک پہلو ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹ کی عظمت کا معیار مغز کی صحت مندی اور توانائی پر ہوتا ہے۔ 5؎ یہ کہہ کر علامہ چپ ہوئے تو ان کے ایک پرانے دوست تشریف لے آئے۔ انہوں نے مجھے آنکھ کے اشارے سے بولنے سے منع کیا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد میں نے اور راجہ صاحب نے اجازت چاہی۔ اجازت چاہی میں رسماً لکھ گیا ہوں، ورنہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں علامہ پر یہ شعر صادق آتا تھا: ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست سید عابد علی عابد ایم اے، ایل ایل بی ٭٭٭ اقبال کے ہاں حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی کے متعلق ایک ہیچ مدان کا کچھ کہنا، چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ لیکن ایک صحبت کی یاد میرے دل سے محو نہ ہو گی۔ 1936ء قادیانیت کی شدید مخالفت کا زمانہ تھا۔ ایک طرف تو مجلس احرار اور دوسرے علمائے اسلام اپنی تحریروں اور تقریروں سے ’’ قصر خلافت قادیان کی بنیادیں متزلزل‘‘ کر رہے تھے اور دوسری طرف مرزائی صاحبان اپنی طویل اور قاطع دلیلوں سے’’ سعید روحوں‘‘ کو راہ راست پر لا رہے تھے۔ ان ایام میں حضرت ممدوح علیل تھے۔ لیکن طرفین کی وزنی دلیلیں، سیدھے سادے نوجوانوں کو سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دے رہی تھیں۔ اس لیے کئی ایک تشنگان ہدایت، رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ نوجوان بڑی بیتابی کے ساتھ آپ کے ارشادات عالیہ کے منتظر ہیں، آپ نے اپنا شہرۂ آفاق مضمون ’’ اسلام اور قادیانیت‘‘ شائع فرمایا، جس سے کئی ایک گتھیاں سلجھ گئیں اور وہ دلائل جو سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر، سادہ دل نوجوانوں کو گمراہ کر سکتی تھیں، تار عنکبوت کی طرح کمزور نظر آنے لگیں اور نوجوانوں کی متوقع بیراہ روی کا مکمل سد باب ہو گیا۔ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کو اس مضمون کے بعض حصے سمجھ میں نہ آئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اسلامی تعلیمات اور ماحول سے واقفیت نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ’’ ماڈرن ریویو‘‘ (کلکتہ میں مذکورہ مضمون پر تنقید لکھی جس کا جواب حضرت علامہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ اسلام اور احمدیت‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ اس کی اشاعت سے دلوں کے رہے سہے شکوک بھی رفع ہو گئے۔ قصہ کوتاہ ہر طرف قادیانیت کے موافق یا مخالف تذکرے شروع تھے جن سے مساجد اور عام جلسہ گاہوں کے علاوہ مکلف کوٹھیوں کے خلوت کدے بھی خالی نہ تھے۔ ان ایام میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں صرف دو ہی فریق رہ گئے ہیں: ایک وہ جو قادیانیت کا مخالف ہے اور دوسرا وہ جو اس کے موافق۔ میں نے اس سال پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے (فارسی) کا امتحان دیا۔ حضرت ممدوح ہمارے ایک پرچے کے ممتحن اعلیٰ تھے اور اس میں ممدوح نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خلافت الٰہیہ اور مجدد کے نظریے کے متعلق ایک سوال پوچھا تھا جس میں ضمنی طور پر قادیانیت بھی زیر بحث آ جاتی تھی۔ اپنے دوست، صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کے ساتھ ’’ جاوید منزل‘‘ میں مجھے حضرت ممدوح کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہمارے جانے سے پیشتر قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح، کسب فیض کے بعد موٹر میں سوار کوٹھی سے نکل رہے تھے۔آپ نے دروازے تک ان کی مشائعت کی اور پھر ہماری طرف توجہ فرمائی۔ صوفی صاحب کو دیکھ کر تو آپ بس نہال ہی ہو گئے۔ ڈیوڑھی میں ایک کھری چارپائی بچھی تھی جس کے سرہانے چھوٹا سا تکیہ دھرا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پائنتی کی طرف کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس پر ایک کتاب کھلی ہوئی پڑی تھی، جس کے ایک خاص مقام پر پنسل دھری تھی۔ ایک کابی شاید مختصر یاد داشتوں کے لیے پاس تھی۔ حضرت ممدوح صرف سادہ سے کرتے اور شلوار میں ملبوس تھے۔ آخر الذکر پنجاب کی پانچ گزی شلوار اور پائجامے کے بین بین تھی۔ اللہ اللہ مشرق و مغرب کے جملہ علوم کا ماہر خرابی صحت اور زیادتی عمر کے باوجود اب بھی اس شان سے ہمہ تن مطالعہ تھا! حضرت علامہ اور ہم’’ جاوید منزل‘‘ کے گول کمرے میں گئے جس کی مشرقی فضا سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے ایک قلفی دار، سادہ،فرشی حقہ لایا گیا جس میں نرم تمباکو بھرا تھا۔ میں نے کڑوے تمباکو کا ذکر چھیڑا تو آپ نے جھنگ کے تمباکو کو سراہا، لیکن گلے کی تکلیف کے باعث اس سے لطف اندو زہونے سے معذوری ظاہر فرمائی۔ ہم میں سے ممدوح کے ساتھ حقہ پینے کا شرف صرف صوفی صاحب قبلہ کو حاصل ہوا۔ ادبیات پر گفتگو شروع ہونے پر مشرق و مغرب کے ادبیات زیر بحث آ گئے جس میں حضرت علامہ سمندر کی سی وسعت کے مالک معلوم ہوتے تھے اور ان کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ جس موضوع پر گفتگو فرماتے تھے یہی معلوم ہوتا تھا گویا ساری عمر آپ نے اسی کے مطالعہ میں صرف فرمائی ہے۔ ضمناً پنجاب کی ادبی روایات پر بھی بات چیت ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ ان کے برقرار رکھے جانے کی امیدیں دو نوجوانوں سے وابستہ نظر آتی ہیں۔ ایک (مخدومی پرنسپل) تاثیر ( پی ایچ ڈی کینٹب ایم اے او کالج امرتسر) اور دوسرے (محترمی) محمد اسد خان صاحب اسد ملتانی بی اے۔ علی بخش چائے لایا اور آپ نے میٹھی چائے پر نمکین کو ترجیح دی۔ چائے کے ساتھ ساتھ ماہبیات کا دور شروع ہوا۔ میں نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی ان تصریحات کے متعلق استصواب کیا۔ آن ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد آپ نے جواب میں قادیانیت اور اس کے بانی کی مختلف تحریروں اور دعاوی کے پیش نظر ظاہر فرمایا کہ ثانی الذکر کی شخصیت نفسیاتی مطالعہ کے لیے بہت موزوں ہے۔ صوفی صاحب بولے کہ آپ سے بڑھ کر موصوف کا تجزیہ نفسی کون کر سکے گا۔ ارشاد ہوا کہ موضوع واقعی بہت دلچسپ ہے، لیکن صحت کی خرابی مانع ہے، کوئی نوجوان اس کام کے لیے اٹھے تو اس کی ہر ممکن امداد اور رہبری کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے ان نقصانات کو گنایا جو قادیانیت کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں مذاہب عالم کو برداشت کرنے پڑے۔ پھر مختلف مذاہب سے اسلام کے امتیازات کو بشرح تمام واضح کر کے ارشاد فرمایا کہ اسلام نہ صرف دنیا کے مذاہب میں سے کامل ترین 1؎ مذہب ہے، بلکہ اس سلسلے میں جو ارتقائی بلندیاں انسان کو ودیعت کی گئی ہیں ان کی بھی آخری کڑی ہے۔ آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ قادیانیت کی تعلیم اسلام کی تیرہ سو سال کی علمی اور مذہبی ترقی کے کس طرح منافی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر آپ نے ظاہر فرمایا کہ قادیانیت کے ارکان اعلیٰ اسلاف صالحین کی تحریروں کو محرف کر دیتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انہیں ایک خاص موضوع پر کی مسلمہ کتب کا علم تک بھی نہیں ہوتا۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے، ایل ایل بی امیر جماعت احمدیہ لاہور کا ذکر بھی درمیان میں آتا رہا۔ آخر کار میں نے عرض کیا کہ فریقین کی آراء کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ الیوما کملت لکم دینکم کی صریح نص قرآنی کے بعد اجرائے نبوت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی2؎ میں نے عرض کیا کہ آخر اسلام میں اور فرقے بھی تو ہیں، صرف قادیانی صاحبان کی مخالفت ہی کیوں کی جائے؟ اس پر ارشاد ہوا کہ ان کا اختلاف بنیادی نہیں3؎ بلکہ فروعی ہے اور حقیقت میں یہ اسلامی فرقے مختلف گروہ ہائے خیال (Schools of thoughts) ہیں جن کے اختلافات فقہ پر مبنی ہیں۔ ہر ایک فرقہ اسلام کے مسلمان پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن قانون اسلامی کے بعض حصوں کی تشریح میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے۔ فقیہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’ تعجب ہوتا ہے کہ یہ اصحاب ’’ خشک‘‘ ہونے کے باوجود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں کس قدر حساس واقع ہوئے ہیں۔ ایک صاحب اٹھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں کام اس طرح کیا۔ اس دعویٰ کی تائید میں وہ ہر ممکن ثبوت (قرآن حدیث یا دیگر مآخذ سے) بہم پہنچاتے ہیں۔ دوسرے صاحب اس کی تردید میں فرماتے ہیں کہ نہیں یہ کام حضورؐ نے یوں سر انجام دیا۔ وہ اپنے دلائل الگ پیش کرتے ہیں جس سے مستفسر کو حضورؐ کی مبارک زندگی کے ایک خاص پہلو کے متعلق موثق معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ امر ہے کہ جہاں کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آیا ان ’’ جذبات سے عاری متنفین‘‘ کے دلوں میں محبت کے سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگ گئے۔ ان حضرات کی زندگی کا محبوب سرمایہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوۂ حسنہ ہے جس کے ہر پہلو کو اس قدر حزم و احتیاط سے محفوظ و ملحوظ رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ (یہاں آپ نے Grealously Guard کرتے ہیں کا فقرہ ارشاد فرمایا تھا) اب تم خود اندازہ کر لو کہ ایسی محبوب و مفتجر ہستی کے جملہ اعزازات کے لیے کسی اور صاحب کو چن لینا، اسلامی علوم کی فلک رفعت عمارت کے انہدام سے مترادف نہ ہو گا؟‘‘ بانی مرزائیت کے کوائف زندگی اور انہی حالات میں حضورؐ کے مبارک افعال کے تفاوت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ آبدیدہ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بہت ہوئے آنسوؤں سے ہم شکوک کے داغوں کو دھوتے اور دلوں کو روشن کرتے، صوفی صاحب کے دولت کدے پر لوٹ آئے۔ سچ ہے: نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی ٭٭٭ بزم اقبال میں جھنگ سے ایک دن کے لیے لاہور آیا۔ عبداللہ یوسف علی صاحب نے لنڈن سے اپنے پمفلٹ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی چند کاپیاں مجھے بھیجی تھیں کہ انہیں ارباب علم و ذوق کی خدمت میں پیش کر دوں۔ دوپہر کا وقت تھا، میں ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی ایک کاپی لے کر علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حسب معمول اہل شوق کا ایک گروہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کی نشست گاہ میں بیٹھا ہوا ان انمول موتیوں کو چن رہا تھا جو علامہ موصوف دوران گفتگو میں یوں بکھیرا کرتے تھے کہ ہم میں ہر ایک اس لٹتی ہوئی دولت کی افراط و ارزانی کو دیکھ کر اپنے کو جواہر معرفت و روحانیت سے مالا مال تصور کرتا تھا۔ کہاں ہے اب وہ محفل اور وہ بے مثل آواز؟ اس کا جواب موت سے پوچھیے، میری غم زدہ روح اور کانپتا ہوا قلم کیا اس کا جواب دیں گے! میرے کمرہ میں داخل ہونے پر اس غیر فانی تبسم سے جس پر ہزار الفاظ قربان ہوں، مجھے اپنے پاس کی ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سلسلہ گفتگو کشمیر سے متعلق تھا۔ کشمیر میں آزادی کی روح صدیوں کے تشدد و جبر کے بعد اپنا سر ابھار رہی تھی۔ ریاست اسے ہر طریق سے پھر دبانا چاہتی تھی۔ لیکن علامہ مرحوم فرما رہے تھے کہ یہ نا ممکن ہے، یہ روح کی چنگاری ہے، شعلہ بن کر رہے گی1؎۔ محفل میں سے ایک صاحب نے کشمیریوں کی غربت و جہالت کا ذکر کیا۔ مرحوم مسکرا دیے:’’ غربت و جہالت قوت ایمان و حریت کی راہ میں نہ کبھی سد راہ ہو سکے ہیں اور نہ ہوں گے۔ ہم تو امی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ہیں۔ مسلمان کے لیے غربت و جہالت کی آڑ لینا اس کی روحانی کمزوری کی پکی دلیل ہے۔‘‘ ان الفاظ نے سامعین پر ایک رقت سی طاری کر دی۔ علامہ مرحوم نے غالباً اس کا احساس کرتے ہوئے بات کا رخ پلٹ دیا، فرمانے لگے میں تو نبی ہوتا ہوتا رہ گیا۔ حالات نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی طباعت اور اشاعت میں تاخیر کر دی ورنہ کشمیر کے اس ہیجان کو تو میں مدت سے’’ دیکھ ‘‘ رہا تھا۔ اب میری طرف رجوع کیا۔ میں نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی کاپی پیش کر دی۔ میں علم النفس کا طالب علم ہوں، جانتا ہوں کہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت جس طرح پر اپنی توجہ کسی نقطہ خاص پر مبذول کر سکتی ہے، اس کی صلاحیت عام آدمیوں میں بالعموم نہیں ہوتی۔ جونہی علامہ مرحوم نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کے ورق الٹنے شروع کیے میں خوش ہوا کہ اس بات کے عملی تجربہ کا موقعہ ہاتھ آ گیا۔ کوئی دس پندرہ منٹ تک پمفلٹ کے پینتیس چالیس صفحوں پر سرسری نظر ڈالتے رہے، لیکن اس عرصہ میں وہ گویا ہم میں وہاں موجود ہی نہ تھے۔ کئی ایک حضرات نے کشمیر کے متعلق چند ایک سوالات بھی کیے لیکن علامہ مرحوم نے ایک حرف تک بھی نہ سنا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ ایک طرف کشمیر کے ایک مذہبی تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیٹھے ہیں اور علامہ مرحوم کی خدمت میں مالی امداد حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔ انہیں مخاطب کر کے فرمایا:’’ تمہارا اس وقت پنجاب میں ہونا اگر درد ناک نہیں تو تعجب انگیز ضرور ہے۔ تم بیکاری کا رونا رو رہے ہو اور تمہارے ہم وطن اپنی آزادی اور حقوق کے لیے طرح طرح کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ غربت اور بھوک کی شکایت کرتے ہو، اپنے وطن کو واپس چلے جاؤ، آزادی کی رو میں کود پڑو، اگر قید ہو جاؤ گے تو کھانے کو تو ضرور مل ہی جائے گا، اور اس گداگری سے بچ جاؤ گے۔ اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے اور کیا چاہتے ہو؟ اگر قرآن نے تمہیں یہ بھی نہیں سکھایا2؎ تو تم اور سیکھتے کیا ہو؟ اگر کشمیر جانا ہو تو کرایہ کے پیسے میں دیے دیتا ہوں۔‘‘ نوجوان نے گردن جھکا لی۔ سب خاموش تھے۔ میرا گاڑی کا وقت قریب تھا، اجازت لے کر رخصت ہوا۔ شام ہونے کو تھی، سورج کی آخری شعاعیں شام کے پھیلتے ہوئے دھندلکے سے بر سر پیکار تھیں۔ علامہ مرحوم کو کوٹھی *کے برآمدے میں اکیلے بیٹھا دیکھ کر اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا۔ میں نے دل میں کہا:’’ رموز‘‘ ، اسرار، زبور عجم، پیام مشرق، جاوید نامہ آج تو کچھ سبق پڑھ کر جاؤں گا۔ سلام عرض کر کے بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا:’’ شینلگر3؎ کی ’’ زوال مغرب ‘‘ (Decline of the West) پڑھی؟ خوب کتاب ہے، بیسویں صدی کے آغاز کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔‘‘ *یہ بھی میکلوڈ روڈ کے زمانہ*قیام کا ذکر ہے۔ میں اس کتاب کی پہلی جلد پڑھ چکا تھا، دوسری نہ پڑھی تھی۔ شینلگر کے اچھوتے نظریے نے میرے دماغ پر خاصا گہرا اثر کیا تھا۔ میں اس کے ساتھ پھر ہیگل 4؎ (Hegal) کے ٹھوس خیالات سے دو چار ہونا چاہتا تھا لیکن مجھے تو آج ’’ سبق‘‘ پڑھنا تھا۔ مختصر سی ’’ جی ہاں، یونہی دیکھی ہے‘‘ کے بعد ہمہ تن گوش ہو کر علامہ مرحوم کی طرف متوجہ ہوا۔ یہ سلسلہ یہیں منقطع ہو گیا۔ ٹھیک اسی وقت میانہ قد، زرد رو، اجنبی نامانوس شکل کا نوجوان وارد ہوا۔ قہر درویش، برجان درویش میں کرسی کی پشت سے لگ کر بیٹھ گیا۔ نوجوان جاوا کا رہنے والا تھا۔ کسی وہاں کے رسالہ یا اخبار کا نامہ نگار تھا۔ اسلامی ممالک کا دورہ کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا تھا۔ لاہور میں مولانا ظفر علی خاں کے یہاں مقیم تھا۔ زاد راہ دوسروں کی مہمان نوازی اور فیاضی تھی۔ علامہ مرحوم کے پاس بھی سوال کے لیے حاضر ہوا تھا۔ مرحوم نے ملازم سے پانچ روپے منگوا کر اس کو دیتے ہوئے کہا:’’ اگر تم میں کچھ صلاحیت ہے تو ممکن ہے یہ اسلامی ملکوں کا سفر کسی حد تک تمہاری ذہنی و دماغی ترقی کا باعث ہو۔ لیکن جب تک کہ تم واپس اپنے ملک میں پہنچو گے یہ بھیک مانگنا تمہاری روح کو تو بالکل فنا کر دے گا۔ دماغ یا روح! اس کا فیصلہ تم خود کر لو۔‘‘ کچھ عرصہ تک ہم تینوں خاموش بیٹھے رہے۔ مجھے تو پہلے ہی اس اجنبی کا آنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا، اب جو ذرا اس کو تنبیہہ ہوئی، مجھے ایک گونہ تسلی ہوئی۔ اگرچہ اب میں کئی بار متاسف ہوتا ہوں کہ محض خود غرضی کی بنا پر ایک غریب الوطن کا اچانک آنا جانا مجھے کیوں برا معلوم ہوا۔ آخر اس گھر میں تو سبھی کا حق تھا، مسلمانوں کا، ہندوستانیوں کا، سارے دنیا والوں کا ۔ علامہ مرحوم کے چہرے پر وہی متانت اور مسکراہٹ عیاں تھی؟ فرمانے لگے:’’ تمہارے اس طرح گھر سے نکل پڑنے نے ایک پرانے واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ میں شملہ سے واپس آ رہا تھا۔ امرتسر کے اسٹیشن پر گاڑی کھڑی تھی، کھڑکی میں سے باہر دیکھا تو چند ترک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آئے۔ ترکوں کو دیکھ کر میرا دل قابو میں نہیں رہتا۔ فوراً اٹھا اور گاڑی سے باہر نکلا، ان سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ گھر سے حج کے ارادہ پر نکلے تھے، لیکن ساتھ ہی ایران، افغانستان اور ہندوستان کی سیر بھی کرنا چاہتے تھے۔‘‘ جاوا کے نوجوان نے خیال ظاہر کیا کہ غالباً پیسے والے ہوں گے۔ لیکن علامہ مرحوم فرمانے لگے:’’ نہیں، معمولی حیثیت کے معلوم ہوتے تھے۔ تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ البتہ بجائے بھیک مانگنے اور دوسروں کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھانے کے اپنی عقل اور محنت پر بھروسہ رکھتے تھے۔ جہاں جاتے وہاں کی مخصوص چیزیں خرید کر دوسری جگہ بیچ دیتے اور اس طرح تجارت کرتے ہوئے قلیل منافع پر ان کا گزران تھا۔ کتنے اچھے ہیں یہ ترک! آزادی ان کا حق ہے۔‘‘ اتنے میں ملازم آیا، معلوم ہوا کہ علامہ مرحوم کو کہیں باہر تشریف لے جانا تھا، ہم دونوں سلام عرض کر کے رخصت ہوئے۔ سعادت علی خاں، ایم اے ٭٭٭ مئے شبانہ میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ بچپن ہی سے اقبال کے نام گرامی سے واقف ہو گیا۔ میری والدہ اکثر ’’ ماں کا خواب‘‘ ،’’ بلبل‘‘ اور ہمدردی کی نظمیں1؎ سنایا کرتی تھیں، چنانچہ سب سے پہلی نظمیں جو میں نے ازبر کیں یہی تھیں۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو دادا جان حاجی احمد بخش صاحب حضرت علامہ (رحمتہ اللہ علیہ) اور گرامی مرحوم کے واقعات سنایا کرتے، اس زمانے کے جب حضرت علامہ (رحمتہ اللہ علیہ) بھاٹی دروازے میں سکونت پذیر تھے اور یہ تینوں بزرگوار گاہے گاہے اکٹھے مل بیٹھتے تھے۔ جب تک میں ثانوی درسگاہ میں داخل نہ ہوا، میرے دل میں ان سے ملاقات کی خواہش پیدا نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو میں اسے محسوس نہ کر سکا کیونکہ اپنی بے بضاعتی کے پیش نظر ایسی خواہش کو دل میں جگہ دینا مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا لیکن ایک موقعہ پر مجھے اس کا احساس بڑا زور دار ہوا۔ 1923ء یا1924ء میں مجھے سال بخوبی یاد نہیں، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کا مقام انعقاد ہمارا مدرسہ واقع بیرون بھاٹی دروازہ قرار پایا اور یہ بھی سننے میں آیا کہ ڈاکٹر اقبال جلسے میں ضرور شریک ہوں گے اور اپنی نظم سنائیں گے۔ یہ خبر جس قدر سرور اور انبساط کی حامل تھی، نتیجہ میں اتنی ہی مایوس کن ثابت ہوئی۔ علامہ مرحوم کو دیکھنے کی آرزو بر نہ آئی اور مزید بہت مدت تک شرمندۂ تکمیل نہ ہوئی۔ بہر کیف میری آتش شوق پیہم مایوسی کے باعث سرد پڑ گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد کونسل کے انتخابات کا چرچا اٹھا اور معلوم ہوا کہ علامہ بھی امیدوار ہیں۔ ہمارے خاندان کے ہر فرد کی دلی تمنا تھی کہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو لیکن ملک محمد دین نے مخالفت کا اعلان کر دیا اور لاہور اور اس کے مضافات کے مسلمان بدقسمتی سے فرقہ پرستی کے گرداب میں الجھ گئے۔ کشمیری اور ارائیں کا سوال پیدا ہوا۔ لڑائی، جھگڑے، دنگا و فساد تک نوبت پہنچی، ارائیں ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اعانت کرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان کو بائیکاٹ کی دھمکیاں دی گئیں۔ پڑوس کے ایک صاحب ریش بزرگ سے میری جھڑپ بھی ہو گئی۔ میں اقبال اقبال پکار رہا تھا۔ ہم نے اپنے مکان کے در و دیوار ’’ اقبال‘‘ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالے تھے۔ اس بزرگ کو ہمارے افعال بالکل نہ بھائے۔ خواہ مخواہ برہم ہو گئے۔ کہنے لگے’’ اقبال آخر ہے کیا، صرف شاعر اور بیت گو۔ حقہ لے کر تمام دن گڑگڑاتا رہتا ہے۔ دو کش لگائے، دھواں چھوڑا اور ایک آدھ شعر لکھ دیا اور کام ہی کیا ہے۔ مسلمانوں کی کیا خدمت کی ہے اس نے؟‘‘ میری عمر ہی کیا تھی بمشکل پندرہ ہو گی۔ لازماً تند ہو گیا۔ اتنے میں دادا آ گئے اور میں پٹنے سے بچ گیا۔ اس الیکشن کا بھلا ہو کیونکہ انہی ایام میں مجھے ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے کے متعدد مواقع ملے۔ جہاں کہیں جلسہ ہوتا ہم اپنے محلے کی والنٹیر کور لے کر ان کے اشعار پڑھتے وہاں جا پہنچتے اور عین سٹیج کے قریب جگہ پاتے۔ ہماری کور کا گیت جواب شکوہ میں سے ذیل کے بند ہوا کرتے تھے: منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟ وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو ‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو‘ بتائو تو مسلمان بھی ہو الیکشن کا نتیجہ نکلا‘ علامہ اقبال اپنے حریف کو زبردست شکست دی اور ان کا جلوس نکالا گیا۔ جب جلوس بھاٹی دروازہ میں اونچی مسجد کے پاس آ کر رکا تو ہم سب پھولوں کے ہار لے کر آگے بڑھے اوران کے گلے میں ڈال دیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے ان کا قرب اس قدر زیادہ میسر ہوا اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ان کے سامنے لب کشائی کی۔ اس کے بعد یہ آرزو اور بھی بڑھ گئی۔ کہ ان کے نیاز زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جائیں۔ بالآخر کافی عرصہ کے بعد دادا جان ہم تینوں بھائیوں کو لے کر اس مرغوب آستانے پر پہنچے۔ یہ شاید 1927ء کا واقعہ ہے۔ ان کی کوٹھی میکلوڈ روڈ پر کئی بار آتے جاتے دیکھی تھی۔ کوٹھی اور سڑک کے درمیان ایک لمبی سی گلی تھی جس کے بائیں جانب کھلی زمین تھی جہاں مکی کے لمبے لمبے پودے میں نے اکثر کھڑے دیکھے تھے ۔ دروازے پر دو پست اور بوسیدہ ستون اس کی حدود کو واضح کرتے تھے۔ وہاں سے دور کوئی ڈیڑھ سو قدم کے فاصلے پر کوٹھی کے دو تین ستون اور لکڑیکی سرخ جھالر سی دکھائی دیتی تھی۔ سامنے ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ اس کے جنوب میں زنان خانہ کا دروازہ تھا اور شمال میں ڈائننگ روم کے مسقف برآمدے سے ملا ہوا ایک غیر مسقف تھڑا تھا۔ کوٹھی کی ظاہری ہئیت (بعد میں باطنی کے متعلق بھی یہی رائے قائم کی) غیر دقیع اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ شکست و ریخت کے آثار متعدد مقامات سے ہویدا تھے۔ رہائش کی مانورزونی ہمیں کھٹکی ‘ ہم تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو سراپا حیرت و استفسار پایا۔ مگر یارائے سخن کسے تھا۔ دل آنے والی ملاقات کے لیے دھڑک رہا تھا۔ اور حضرت علامی کو ڈرائنگ روم کے باہر کھڑکی کے نیچے آرام کرسی پر نیم دراز دیکھ کر دل کی دھڑکن اور بھی تیز ہوگئی۔ تھڑے میں ایک چارپائی بچھی تھی۔ آرام کرسی کے سامنے اور ادھر ادھر دو تین کرسیاں دھری تھیں ہم ذرا قریب پہنچے تو شمال کی جانب اور کمرے نظر آئے۔ جہاں دو چارپائیوں پر دو آدمی بیٹھے تھے۔ یہ ملازمین کے کوارٹر تھے۔ اور ان سے ذرا پرے ڈاکٹر صاحب کا کتب خانہ تھا۔ اس کے اور ڈرائنگ روم کے درمیان ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ ان دو بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک پتلا دبلا آدمی اٹھا اور ہماری طرف بڑھا۔ اس کے سر پر بغیر پھندنے والی رومی ٹوپی تھی۔ جس کی لالہ رنگی زمانے کے ہاتھوں مٹیالی ہو گئی تھی۔ ڈاڑھی خشخشی اور مونچھیں بھوری تھیں‘ آنکھیں ہنستی ہوئی یہ ڈاکٹر صاحب کا ملازم علی بخش تھا۔ دادا جان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر اطلاع دی ڈاکٹر صاحب نے وہیں سے آئیے حاجی صاحب کہہ کر بلایا۔ ہم بارگاہ میں بصد عجز و نیاز پہنچے‘ مصافحہ کیا اور کرسیوں پہ جن میں علی بخش نے اور بھی شامل کر دی تھیں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب حاجی صاحب سے باتیں کرنے لگے۔ مولانا گرامی مرحوم کا ذکر آیا تو فرمانے لگے کہ کسی کو چاہیے کہ ان کے ہمراہ رہ کر ان کا کلام قلم بند کرتا جائے۔ انہیں اپناکلام سارا زبانی یاد ہے۔ مگر لکھایا لکھایا بہت کم ہے‘ ہماری جانب دیکھ کر پوچھا کہ کون ہیںِ؟ حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے پوتے ہیں آپ کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے نام اور پڑھائی کی بابت پوچھا ہم نے بتایا کہ حاجی صاحب کہنے لگے یہ لوگ مدت سے مصر تھے کہ آپ کے نیاز حاصل کریںَ ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آ ہی کے اشعارگنگناتے رہتے ہیں۔ ان کو تو ااپ سے غائبانہ عشق ہو گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے حقہ کی نے کو منہ میں لیا۔ ہلکے ہلکے کش لگائے اور مسکرا کر فرمایا حاجی صاحب نوجوانوں کی آئندہ نسلیں میری مٹھی میں ہیں‘‘۔ کس قدر الہامی اور صداقت سے لبریز فقرہ ہے۔ نوجوانوں کے قلوب پر ان کی زبردست گرفت کا اندازہ آج بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ رخصت ہونے کو اٹھے تو دوبارہ مصافحہ کرتے وقت بھائی حمید نے ڈاکٹر صاحب کا ہات چوم لیا جس سے بھائی مجید اور میرے دل میں رشک کے جذبات موجزن ہوئے۔ ہم مصافحہ پہلے کر چکے تھے اور دوبارہ کرتے ہوئے حجاب اور آداب مانع ہوئے اس لیے تمام راستہ تاسف ہوتا رہا کہ اس سعادت سے ہم کیوں محروم رہے۔ گفتگو میں بیشتر حصہ عموماًڈاکٹر صاحب کا ہوتا تھا۔ ہم ذرا سی بات چھیڑ دیتے۔ کوئی سوال پوچھ بیٹھتے اور وہ حقائق و معارف کے دریا بہانا شروع کر دیتے ایک ہی صحبت میں مختلف موضوعات زیر بحث آتے۔ اسلامیات‘ فلسفہ‘ اور سیاسیات‘ سے لے کر روز مرہ کے مشاغل پر بھی اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ گویا انہیں ہر علم و فن پر احاطہ ہے۔ یہ احساس ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ محض ٹالنے کی خاطر یا اپنا تبحر منوانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ خلوص اور خیالات و جذبات کی صحت ان کے اسلوب بیان سے مترشح تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ اگر انہیں موضوع ناپسند ہو ا یا اگر یہ کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی تو صرف ’’ہوں‘‘ فرما دیا کرتے۔ لیکن اس سے کسی کی دل شکنی کبھی مقصود نہ ہوتی۔ بے معنی سوالات سے البتہ ضرور چڑھ جایا کرتے تھے۔ میرے سامنے ایک واقعہ پیش آیا وہ عرض کرتا ہوں: پچھلی گرمیوں میںایک روز شام کے وقت میں اور صوفی تبسم نے ڈاکٹر صاحب کے یہاں چلنے کی ٹھانی ایک اور صاحب بھی موجو دتھے۔ انہوں نے بھی رفاقت کی خواہش ظاہر کی ۔ وہ سائیکل پر تھے کہ ہم تانگے میں لہٰذا وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ جب ہم جاوید منزل پہنچے تو ڈاکٹر صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اوریہ صاحب پاس بیٹحے تھے ڈاکٹر صاحب بہت برہم نظر آتے تھے۔ میں نے اس سے قبل اہیں برہمی و غیظ و غضب کی حالت میں صرف ایک مرتبہ دیکھا تھا اور وہ بھی ای نوجوان مرزائی مبلغ کو انہوں نے دھکے دے کر اپنی کوٹھی سے باہر نکال دیا تھا۔ لیکن موجودہ کیفیت اس سے قدرے مختلف تھی۔ اس میں افسوس کا عنصر غالب تھا۔ ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ صوفی صاحب کو کہنے لگے۔ Sufi Who is this young man? صوفی یہ نوجوان کون ہے؟ ہمیں حیرت ہوئی کہ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ چنانچہ نہ تو صوفی صاحب جواب دے سکے اور نہ ہی کوئی اور اس لیے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ فرمانے لگے۔ He comes here asks Dr. Sahib Wht is your opinion about psychology. Now what opinion can I give him about psychology. دیکھیے نا یہ مجھ سے آ کر پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی نفسیات کی بابت کیا رائے ہے؟ آپ ہی کہیے میں نفسیات کی بابت کیا رائے دوںَ؟ ہمیں اک گونہ تسلی ہوئی کہ خیر معاملہ اتنا نازک نہیں‘ لیکن ڈاکٹر صاحب کے بشرے اور لہجے سے ظاہر تھا کہ انہیں اس سے کافی تکلیف ہوئی ہے۔ اس واقعہ سے صرف یہی چیزنہیں ہوتی کہ وہ مہمل استفسارات سے تنگ پڑ جاتے تھے بلکہ ان کی جبلی کم آزاری بھی عیاں ہو جاتی تھی۔ انہوںنے انگریزی میں اس لیے پوچھا کہ ان صاحب کی ظاہری ہئیت اور ملانی صورت سے یہ گمان نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انگریزی زبان سے واقف ہیں اور اس کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے گی۔ ڈاکٹر صاحب کی زبان میں بے حد رس اور شیرینی تھی۔ ایک بار ان کے پا س بیٹھ کر گھنٹوں اٹھنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ان کے سامنے کوئی بھی بیٹھا ہو اسے اپنی علمی کم مائیگی اور ان کی رفعت و بلند مرتبی کا احسا س ہرگز نہ ہوتا تھا۔ جیسے کوئی نہایت ہی مشفق اور بے تکلف دوست کے سامنے بیٹھا ہو۔ ایک روز جون 1929ء کو ہم تینوں دادا جان بھائی مجیدا ور میں ان کے آستانہ پر پہنچے ڈاکٹر صاحب ڈرائنگ روم میں صوفے پہ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کرلکھنا چھوڑ دیا اور بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ اس روز ان کی ذات کے کئی اور پہلو مشاہدہ کیے۔ ہماری گفتگو کا رخ اسلام اور مشاہیر اسلام کی طرف پھرا تو انہوں نے ہمیں عہد اولیٰ کے مسلمانوںکے ایثار اور الوالعزمی کے واقعات سناتے ہوئے تاریخ اسلامی میں سے ایک ورق سنایا جس کا تعلق حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور قسطنطنیہ کی اولین فتح سے تھا۔ نوے برس کی عمر میں ان کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو یاد کر ے ڈاکٹر صاحب پر کمال رقت طاری ہو گئی ان کا چہرہ گلاب کی طرح سرخ ہو گیا آواز حلق میں رک گئی اور بولنے کی ہر سعی کے ساتھ ان کا چہرہ زیادہ گلگوں ہوتا گیا یہاں تک کہ آنسوئوں کا تانتا بندھ گیا۔ اس قصے کے بعد کامل سکوت چھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب سب سے زیادہ متاثر تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہماری موجودگی کو بھول گئے ہیں۔ کمر ے میں شام کی تاریکی پیدا ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ چلیے باہر برآمدے میں چل کر بیٹھیں۔ علی بخش نے پلنگ اورکرسیاں پہلے ہی بچھا رکھی تھیںَ پانی کا چھڑکائو بھی کر دیا تھا علی بخش نے حقہ اٹھایا اور ہم سب باہر آ گئے۔ ایک ملاقاتی کے آنے کی اطلاع دی گئی۔ اجازت پر ایک نوجوان بغل میں چند کتابیں دبائے آگے بڑھا ارو جھک کر آداب بجا لایا۔ شکل و صورت اورلباس سے ہندوستانی معلوم ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے استفسار پر بولا کہ حیدر آباد (دکن) سے محض حضور کے نیا ز رنے آیا ہوں۔ تھوڑے توقف کے بعد اٹھا اور ایک کتاب ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا اور کہا کہ اس پر اپنے ہاتھوں سیکوئی شعر لکھ دیں۔ وہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصنیف پیام مشرق تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ کر فرمایا کہ بھئی اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب میرا ہی توہے پھر اور کیا لکھوں؟ اس نے اصرار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اوراق زرا الٹے پلٹے قدرے توقف کیا جیسے کچھ سوچ رہے ہیں پھر علی بخش کو آواز دے کر کہا کہ قلمدان اٹھا لائو۔ علی بخش ایک بڑا سا سیاہی مائل قلمدان لایا جس میں شیشے کی ایک بڑی دوات اورشاید د و قلم تھے۔ قلمدان کے وسط میں اٹھانے کے لیے ایک لوہے کا محرابی کند تھا۔ علی بخش نے قلم سیاہی میں ڈبو کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں دبا دیا اور انہوں نے کتاب کے سرورق پر ذیل کا شعر رقم فرما دیا: سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقی و فقر حیدری است ۳ وہ نوجوان بہت خوش ہوا اور ذرا دیر اور بیٹھ کر چلا گیا۔ اتنے میں پاس کے سینما سے شور و غوغا بلند ہوا۔ ایک شاعر اور فلسفی کی قیام گاہ جسے کامل سکون اور سکوت میسر ہونا چاہیے تھا غوغا آرائی کے اس سیل بے پناہ میں غرق ہو گئی۔ ہم خاموش بیٹھے تھے اس نے چونکا دیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب ! یہ شور تو آ پ کے آرام میں بہت مخل ہوتا ہو گا‘‘؟ انہوںنے فرمایا’’ہاں مگر اب عادت ہو گئی ہے‘‘۔ ’’آپ اس کوٹھی کو بدل کیوں نہیںدیتے یہ تو یوں بھی بہت بوسیدہ اور پرانی ہے۔ آپ اس کا کتنا کرایہ دیتے ہیں‘‘؟ ’’ایک سو تیس روپے‘‘۔ ’’اتنے روپوں میں تو آپ کو ایک بہت اچھی کوٹھی مل سکتی ہے ‘‘۔ ’’ٹھیک ہے مگر میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ کوٹھی دو یتیم ہندو بچوں کی وراثت ہے‘ میرے چلے جانے سے ان کو بہت تکلیف ہو گی۔ انتا کرایہ شاید اور کوئی نہ دے‘‘۔ اس پاکیزہ جذبے کے اظہار سے ہم عش عش کر اٹھے۔ اللہ اللہ! یہ وہ اقبال ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں عجیب و غریب خیالات اور نظریے جاگزیں تھے۔ کوئی ملحد قرار دیتا تھا کوئی دہریہ ۔ متذکرہ الیکشن کے دوران میں مخالف پارٹی کا پروپیگنڈہ ان کی ذات گرامی میں خردہ گیری تک محدود رہا اور ان کی نامسلمانی کو ثابت کرنے کے لیے عموماً ان کے اس شعر کا حوالہ دیا جاتاتھا: اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا اور نادان یہ نہ سمجھے کہ وہ اس ڈھنگ سے مسلم قوم کے مذہبی جمود کو غیرت کی گرمی سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کم نظر ان کی بیتابی جان کا اندازہ نہ کر سکے اس لیے کہ انہیں کبھی توفیق نہ ہوئی کہ ان کا قرب حاصل کریں‘ ان کے پاس بیٹھیں اور ظاہر کی بجائے باطن کی جھلک دیکھیں۔ وہ ا ن کے کلام کی روح کو نہ پہنچ سکے۔ جب یہ شعر جو خود قوم کی دوں ہمتی اور ہنگامی جوش و خروش کا آئینہ دار ہے سنا کہ: مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا تو اسے بے دین کہا۔ شکوہ سن کر تو اسے پہلے ہی زندیق بنا دیا تھا۔ یہ سب تعصب بے عقلی اور جہالت کی کارفرمائیاں ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کیجواب نے میرے خیلات کی رو کو اس بہائو میں پھینک دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ باقی دونوں حضرات بھی یہی کچھ سوچتے ہوں گے۔ اتنے میں علی بخش ڈاکٹر صاحب ک لیے کھانا لے آیا۔ لکڑی کے درمیانہ سائز کے خوان میں تولیے کے اوپر ایک چینی کی طشتری میں دلیا تھا۔ دودھ اور چمچے کے پاس تھے بس ان کی یہ غذا تھی۔ ڈاکٹر صاحب چارپائی پر ہی کھانے لگیل۔ وہ کھا چکے تو ہم ذرا اور ٹھہر کر چلے آئے۔ اب ہم اکثر ان کی ملاقات کو جانے لگے۔ جس روز دادا نہ جا سکتے ہم دونوں بھائی جا پہنچتے۔ میں واپس آ کر عموماًہر ملاقات کی تفصیل اپنی ڈائری میں رج کر لیا کرتا تھا۔ مجھے ڈائری لکھنے کی عادت سکول ہی میں پڑ گئی تھی۔ اور آج جب میں ان پرانی تاریخوں کو الٹ پلٹ کر دوبارہ دیکھتا ہوں تو اک عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ان خوش قسمت اور گراں بہا لمحات کی یاد قلب کی گہرائیوں میں بھی ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ تب کیا پتا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان یادداشتوں کی قدر و منزلت نہ صرف میری بلکہ ہر اقبال پرست کی نگاہ میں افزوں ہو جائے گی۔ میں یہاں 1930ء کی ایک ملاقات ڈائری سے من و عن نقل کرتا ہوں: 23جون 1930ء عشق درد انگیز را ہر جادہ در کوے تو برد بر تلاش خود چہ می نازد کہ رہ سوے تو برد شام کے کوئی سات بجے کے قریب بھائی مجید اور میں ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی واقع میکلوڈ روڈ پہنچے۔ تمازت آفتاب کے اثرات ابھی کافی تیز تھے‘ لیکن ملاقات کی دھن میں ہم نے کوئی پروا نہ کی اور تیزی سے قدم اٹھاتے چلے گئے۔ دادا جان نے ایک مخملی جائے نماز‘ سفید سیپ کی تسبیح اور کچھ کھجوریں (خاص مدینہ منورہ کی جن میں گٹھلی نہ تھی) حجاز سے ڈاکٹر صاحب کے لیے بھیجی تھیںَ انہیں ان کی خدمت میں پیش کرنے جا رہے تھے تمام راستہ لبوں سے یہی دعا نکلتی رہی کہ وہ کہیں باہر نہ تشریف لے گئے ہوں۔ دروازے میں داخل ہوئے تو نگاہ شوق دور ہی سے اٹھی اور بے حد مسرور ہوئی کہ وہ محبوب انسان حسب معمول باہر برآمدے میں چارپائی پر گائو تکیے سے ٹیک لگائے کسی ملاقاتی سے محو گفتگو تھے۔ علی بخش آیا اور ہمیں ڈاکٹر صاحب کے حضور میں لے گیا۔ ہم نے مودبانہ سلام عرض کیا‘ ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ اٹھایا اور کمال تلطف سے ’’آئیے‘‘ فرمایا اور کرسیوں کی طرف اشارہ کیا ہم قریب ترین خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کونسل سے آنے والے انتخابات اور امیدوار زیر بحث تھے۔ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کی غوغا آرائی ارو فضول سے متاسف تھے آپ کو افسوس تھا کہ مسلمان انتخابات میں اپنی انفرادی اور ملی طاقت کو ضائع کر کے اپنی ذہنی‘ اخلاقی اور سیاسی پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے مخاطب سے فرمایا: ’’قومیت ۴ ؎ کا سوال نہایت ناپسندیدہ سوال ہے۔ کوشش کرنا چہیے کہ یہ نہ اٹھے۔ اس کے لیے چاہیے کہ ایسے لوگوں کی ایک کانفرنس بلائی جائے جو انتخابات اور ووٹوں کے سلسلے میں بہت زیادہ گرم جوش (Enthusiastic)ہوں امیدواروں کے کوائف اور حالات معلوم کرنے کے لیے اس کانفرنس کی یہ کوشش ہو کہ رائے عامہ کا جائزہ لے اور معلوم کرے کہ عوام کا رخ کیا ہے۔ اور وہ زیادہ تر کس امیدوار کے حق میں ہیں۔ اس کے بعد کانفرنس کے اراکین‘ جن کی تعداد طاق ہو تاکہ رائے شماری میں آسانی ہو‘ کی رائے لینا چاہیے اور اکثریت کے فیصلے کے مطابق مجوزہ امیدوار کی اعانت اور مدد کریں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب چپ ہو گئے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر میں کنگھی کرنے لگے۔ ان کے بال چھوٹے چھوٹے اور سپید مگر سیاہی مائل وہ انگلیوں کے درمیان اور ان کے زور سے اس طرح نگوں ہو جاتے تھے جیسے گندم کے زرد اور سنہری کھیت ہوا کی موجودگی میں۔ اسی انداز میں وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور دادا جان کی بابت پرسش کی۔ عرض کیا کہ زیارت حرمین سے واپس آئے اور کراچی ہی سے بغداد کی جانب روانہ ہوگئے ہیں آپ کی خدمت میں سلام بھیجا ہے۔ ’’خدا کرے اس مقدس ارض کی زیارت مجھے بھی نصیب ہو دیکھو بھئی حاجی صاحب سے کہنا کہ اس سفر سے فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دادا جان اس سے بہت عرصہ بیشتر ایک حج ادا کر چکے تھے ڈاکٹر صاحب انہیں حاجی صاحب کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ہم سب۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھائیں ان سے کہنا کہ فارسی نظم یا نثر میں اپنا سفر نامہ مرتب کریں یہ چیز یقینا بڑی اچھی ہو گی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی عظیم شخصیت کا خوف میرے دل سے اب اٹھ چکا تھا اور اس کی جگہ اب کمال محبت بلکہ پرستتش نے لے لی تھی مگر انہیں براہ راست مخاطب کرنے میں ابھی ذرا جھنک محسوس کرتا ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس شرف اور سعادت سے محروم رہنا بھی سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ میں نے جسارت سے کام لیا اور عرض کی کہ حاجی صاحب ہر خط میں آپ کی خیریت پوچھتے ہیں ارو آپ کو اشعار تو ضرور لکھتے ہیں اور آپ کا یہ شعر تو بڑے مسرور ہو کر لکھا ہے: زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں ڈاکٹر صاحب بھی اس سے بہت مسرور ہوئے اور ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ میں نے عرض کیا کہ اس شعر کے پیش نظر انہوںنے اپنی عقیدت اور نیاز کا اظہار کرنے کے لیے جو ان کو آپ کی ذات سے ہے جائے نماز تسبیح اور کھجوریں بطور تحفہ بھیجی ہیں زمزم کا نام بھی نہیں لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا خوب! مجھے ان دنوں ایک تسبیح اور جائے نماز کی ضرورت ھتی جائے نماز تو ان شا ء اللہ بڑی احتیاط اور حفاظت سے رکھی جائے گی۔ دیار حبیب کا تحفہ ہے اور تم جانتے ہو کہ اس پر کھڑے ہونا اس کو خراب کرنے کے مترادف ہے (اپنی اس بات پہ وہ خود ہی ہنس پڑے) پھر علی بخش کو بلا کر اسے ہدایت فرمائی کہ ان چیزوں کو ان کے ملاحظہ کے لیے پیش کیاجائے۔ ذرا وقفہ کے بعد پھر فرمایا : ’’یہ کھجوریں مجھے حقیقت میں بڑی پسند ہیںَ مرتبہ سالک صاحب کو منگانے کے لیے کہا ہے مگر وہ عموماً بھو ل جاتے ہیںَ اچھا اب تم حاجی صاحب کو کب خط لکھو گے؟‘‘‘ عرض کیا کہ اس جمعرات کو۔ ’’تو میری طرف سے شکریہ ادا کر دینا۔ پھر جب وہ واپس آئیں گے تو میں زبانی بھی شکریہ ادا کر دوں گا۔ ان سے کہنا کہ ان کی جائے نماز بہت دلپسند اور مرغوب تحفہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دینا کہ (ڈاکٹر صاحب ذرا سا ہنسے اور کہا): ’’من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا‘‘ تھوڑے سے سکوت کے بعد پھر کہنے لگے۔ ’’چند دنوں تک شاید میں بھی بغداد جائوں‘‘َ 18جولائی کے بعد یقین سے کہہ سکوں گا۔ پہلے فلسطین جائوں گا جہاں دیوار گریہ کی تقسیم اوقات کی بابت شہادت دینا ہے۔ وہاں سے پھر تمام قابل دید مقامات اور زیارت گاہوں سے پھرتا پھراتا واپس آئوں گا۔ اس کے بعد غالباً افغانستان کا سفرا ختیار کروں گا جہاں امیر نادر خاں نے آنے کی دعوت دی ہے‘‘۔ سفر کی باتیں جو شروع ہوئیں تو انہیں اپنے سفر مدراس کے تجربات اور مشاہدات یاد آ گئے جہاں وہ لیکچر دینے کے لیے گئے تھے یا شاید ایک مسلمان جرنیل کی یاد نے ایک اور جلیل القدر مسلمان جرنیل کی یاد تازہ کر دی فرمانے لگے : ’’میسور میں جہاں کہیں بھی گیا تو دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی نام ہے اور وہ سلطان شہید کا تھا۔ ہر مقام پہ جہاں ۱۔ Time Division of the Wailing Wall دو تین آدمیوں کی محفل گرم ہوئی ایک ہی قصہ تھا‘ ایک ہی رنگین داستان تھی جسے ہر کوئی بیان کرتا اور سارے ادب سے سر جھکائے سنتے اور سلطان شہید کی معرکہ آراء زندگی تھی۔ بازاوں میں دوکانداروں کا موضوع سخن بھی یہی تھا۔ دو تین مجلسوںمیںجہاں مجھے جانے کا اتفاق ہوا یہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے عمداً کئی مرتبہ گفتگو کا رخ دوسری باتوں کی طرف پھیرا لیکن ہر بار پھر سلطان ٹیپو کا تذکرہ آ جاتا اور پھر اخیر تک گریز نہ ہوتا‘ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان مرا نہیں زندہ ہے اور عنقریب ان کے درمیان آ ئے گا‘‘۔ مسلمانوں کے اس عقید ے کے باعث گفتگو کا رخ مرزا غلام احمد قادیانی اور بہاء اللہ کی تعلیمات کی طرف پلٹا اور فرمایا: ’’پچھلے دنوں ایک امریکن خاتون جس نے بہائی مذہب اختیار کر رکھا تھا میرے پاس آئی اور بہاء اللہ کی بات باتیں کرتی رہی۔ میں نے قرآن پاک کی چند آیات پڑھ کر سنائیں ارو جب اسے ان کے مطالب اور معانی سے آگاہ کیا تو اچھل پڑی کہ ہیں یہ تعلیمات تو ہمارے بہا آقا کی ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ نہیں یہ تو خدا کے احکام ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے۔ بہاء اللہ نے صرف ان میں تھوڑا سا تغیر کر کے اپنا لی ہیں۔ اس کا ددعویٰ در حقیقت سراسر باطل ہے۔ تم دونوں کی تعلیمات میں بے حد مشابہت اور مماثلت پائو گی۔ یا اگر سچ پوچھو تو بہا ء اللہ کی تعلیمات علوم قرآنیہ کی فرع ہے۔ اس سے اس کی تشفی ہو گئی مگر جاتے ہوئے باہء اللہ ک تعلیمات کا ایک مختصر سار سالہ چھوڑ گئی‘‘۔ پھر مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ پہنچائے گی اگر اس کا استیصال نہ کیا گیا۔ اس ضمن میں کہنے لگے ’’سیالکوٹ کی ایک مسجد میں مرزا صاحب دعوی مسیحیت کے ابتدائی ایام میں صبح صبح اپنے عقیدت مندوں کے حلقہ میں تازہ الہامات سنایا کرتے تھے۔ ایک روزمجھے جو دل لگی سوجھی تو میں بھی وہاں جا پہنچا۔ اور کہا کہ مجھے بھی کچھ الہامات ہوئے ہیں۔ سنیے میں نے عربی کے چند جملے جن میں احمدیوں اور ان کے مذہب کی بابت مزاحیہ رنگ میں نوک جھونک تھی سنائے جس سے وہ طائفہ سخت برہم ہوا اور مجھے بھاگنا پڑا‘‘۔ ا س کے بعد او ر بہت سے موضوعات پر باتیں کرتے رہے جن کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ آپ مسلمانوں کے تنزل اور زبوں حالی سے بہت متاثرتھے۔ کہنے لگے ’’مغل بادشاہوں میں بہت سی کمزوریاں تھیں اور ان کی سلطنت کے انحطاط کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بحری طاقت کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۸۔ ہسپانیہ اور دیگر ممالک میں ان کے سیاسی زوال اور ادبار کی وجہ بھی بحری طاقت کا نہ ہونا تھا‘‘۔ اب دس بجنے والے تھے اٹھنے کو جینہ چاہتا تھا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب نے کوفت یا اکتا جانے کا کوئی اظہار کیا لیکن ان کے آرام ہی کے پیش نظر ہم نے مناسب سمجھا کہ رخصت کی اجازت لیں ڈاکٹر صاحب نے ’’اچھا‘‘ فرمایا اور ہم چلے آئے۔ حضرت علامہ اپنے ہندو دوستوں ۹ کے بہت مداح تھے‘ مگر وہ بحیثیت قوم ان کی سو د خوارانہ ذہنیت اور مسلم آزار سرشت کی شکایت بھی کیا کرتے اور اس چیز کو قطعا ناپسند فرماتے تھے کہ مسلمان سیاسی معاشرتی یا اقتصادی پہلو میں ان کے غلام بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک روز جبکہ میں صوفی غلام مصطفے تبسم اور بدر الدین بدر اورپنجابی کے ایک مشہور شاعر بابو کرم سراج الدین نظامی صاحب اور دو ایک اور دوست ان کے پاس بیٹھے تھے تو کانگرس اور مسلم لیگ کا تذکرہ چھڑا۔ نئے انڈیا ایکٹ کے نفاذ کی آمد آمد تھی اور کوششیں ہو رہی تھیں کہ مسلمانوں کو کانگرس میں شامل کیا جائے۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اچھے خاصے مخلص کارکن ہیں۔ اور دل سے خواہاں ہیں کہ مسلمان بھی کانگرس کے دوش بدوش جہاد حریت میں شریک ہوں آپ فرمائیے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہاں جواہر لال نہرو مخلص ہیں مگر کانگرس ساری مخلص نہیں وہ خالص ہندوئوں کی جماعت ہے ۔ اس لیے ہر حال میں انہی کے حقوق اور مفاد کو مدنظر رکھتی ہے اگر مسلمان اکے دکے ہو کے کانگرس میں شامل ہوں تو ملت اور اس کے مفاد سے غداری کریں گے۔ اپنی وحت ملی کو پارہ پارہ کریں گے یہ بات نہ ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کو اپنی سیاسی شخصیت کو کسی صورت بھی کھونا نہ چاہیے اورانہیںیہ کوشش کرنا چاہیے کہ جب تک کانگرس بحیثیت ایک قوم کے ان کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے۔ اس میں ہرگز شامل نہ ہوں اور علیحدہ رہ کر اپنے حقوق آزادی کے لیے لڑیں۔ میراایمان ہے کہ مسلمان دل میں آزادی کی تڑپ ہندو سے زیادہ ہے‘‘۔ اسی ملاقات میں صوفی صاحب نے بابو کرم کا تعارف کرایا۔ بابو کرم نے اپنی چند پنجابی نظمیں سنائیں جو ڈاکٹر صاحب نے پسند فرمائیںَ کہنے لگے بابوصاحب آپ کی پنجابی زبان بڑی ستھری اور ٹھیٹ ہے۔ آپ اگر مولانا روم (رحمتہ اللہ علیہ) کی مثنوی کی کچھ حکایات خالص پنجابی میں منتقلکرنے کی کوشش کریں تو ضرو رکامیاب ہو سکتے ہیںَ صوفی صاھب آپ کو موزوں حکایات بتا سکتے ہیںَ یہ فارسی اور پنجابی دونوں زبانوں کی خدمت ہو گی‘‘۔ انہوںنے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ پنجابی نظم ۱۰ میں تصوف کے بڑے بڑے ذخیرے پنہاں ہیں خصوصاً فرید (رحمتہ اللہ علیہ) کے دوہے ٭۔ فارسی کے بعد شاید یہ دوسری زبا ہے جو تصوف سے مملو ہے۔ اس روز سراج الدین نظامی کو ہم اس لیے اپنے ہمراہ لے گئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو ان کا کلام سنائیں چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی گئی تو وہ خوب فرما کر تکیے پر آدھا لیٹ کر بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ نظامی صاحب نے دبی زبان میں پہلے لے کو دہرایا اور پھر ’’بال جبریل‘‘ سے وہ غزل گائی جس کا مطلع ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں سراج الدین نظامی کی آواز بڑی میٹھی اور رسیلی ہے‘ کسی ساز کی ہم آہنگی کے بغیر بھی سننے والے پر اک کیفیت طاری ہو جاتی ہے ار پھر جب اقبال کے کلام کو موسیقی کے پردوں میں نظر بند کیا جائے تو یہ کیفیت اور بھی موثر اور دیرپا ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ڈاکٹر صاحب نے فرید کا یہ مشہور بیت سنایا: اٹھ وے فریدا جاگ سویرے تے جھاڑو دے مسیت تو ستا تے رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بہت محظوظ ہوئے اس لیے کہ تھوڑی دیر کے بعدفرمانے لگے بھئی کوئی فارسی کی غزل یاد ہے تو سنائو! جس پرنظامی صاحب نے زبور عجم میں سے وہ غزل سنائی جس کا مطلع یہ ہے: آشنا ہر خار را از قصہ ما ساختی در بیابان جنون بردی و رسوا ساختی ڈاکٹر صاحب اور بھی سننے کے تمنائی تھے کہ لیکن نظامی صاحب کو صرف یہی غزل ازبر تھی‘ لہٰذا وعدہ کیا کہ کچھ دنوں تک فارسی کی چند غزلیں یاد کر کے حاضر خدمت ہوں گا۔ یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ اگرچہ متعدد موقعوںپر جب ہم گئے تو ڈاکٹر صاحب نے نظامی صاحب کو یاد فرمایا۔ جنوری 1935ء مٰں میں صوفی صاحب اورمیرے دوست سید الطاب حسین ان کی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ ایک پست قامت سپید رنگ ‘ کہنہ سال اجنبی حاضر ہوا۔ ا س کے پائوں میں بھاری بھرکم فل بوٹ تھے۔ بدن پر سیاہ لبادہ تھا۔ اور سر پر سیا ہ رنگ کی قراقولی اور ہاتھ میں ’’جاوید نامہ‘‘ کا ایک نسخہ تھا۔ سلام علیکم کہا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا لہجہ غیر مانوس لیکن فاضلانہ تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ ایرانی النسل ہے ور جب اس نے فارسی میں گفتگو آغاز کی تو اندازہ پختہ ہو گیا ۔ اس کی فارسی بالکل جدید تھی کچھ لہجہ بھی ویسا تھا۔ میں پوری طرح نہ سمجھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمار ا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ نو وارد کا نام موسیٰ جار اللہ ہے اور وہ روسی عالم اور جید ہیں۔ ادھر ادھر کی بہت سی باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس بزرگ نے ’’جاوید نامہ‘‘ نکالا تعریفیں ہونے لگیں اور کہنے لگا کہ دو باتیں آپ سے سمجھنے آیا ہوں۔ اس کے بعد دین اور سیاست اور نظریہ لادینی کی بابت استفسار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے پر بہت روشنی ڈالی مغربی سیاست اور وطنیت کے زہر آلود نظریے کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہے۔ اس میں رنگ نسل اور قومیت کی تمیز نہیں۔ اسلام میں دین اور سیاست کو علیحدہ نہیںکیا جا سکتا۔ دوسری چیز جس کی بابت روسی عالم نے وضاحت چاہی وہ یہ شعر تھا: ایں ز حج بیگانہ کرد آں از جہاد ۱۲ جس پر ڈاکٹر صاحب نے بہاء اللہ ایرانی اور مرزا غلام احمد قادیا نی کے مخترع مذاہب‘ ان کے اسباب و علل اثرات و نتائج بد پوری تفصیل سے بیان فرمائے۔ اسی سال انہوںنے قادیانی مذہب کے خلاف اپنا پہلا بیان دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ پیر کا دن تھا اور مئی کی چھ تاریخ چار کو میرا امتحان ختم ہوا جس سے فراغت حاصل کر کے اک گونیہ آزادی اور سرور کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے کھانا کھایا اور ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی کی راہ لی۔ شاید باہ بجنے والے تھے اور وہاں پہنچا۔ دل میں پہلے خیال آیا کہ بڑا ناموزوں سا وقت ہے شاید ڈاکٹر صاحب آرام فرما رہے ہوں یا فرمانے والے ہوں اور میں خواہ مخواہ مخل ہوں مگر اس بارگاہ میں ناامیدی اور مایوسی مفقود ہے میں نے ذر ا ٹھٹک کر سامنے والے کمرے کی چق اٹھا کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کائچ پر بیٹھے کسی امتحانکے پرچ ملاحظہ کر رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور اجازت چاہی انہوں نے عینک میں سے دیکھا اورکہا آئو بھئی طارق۔ مجھے اس سے بے اندازہ خوشی ہوئی۔ میں جا کر دیوار سے لگی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی کی اور کہنے لگے طبیعت اچھی ہے البتہ آواز ویسی ہی ہے بھوپال پھر علاج کے لیے جائوں گا۔ اس اثنا می وہ پرچہ دیکھتے رہے بڑے غور سے ایک ایک لفظ پڑھتے جوابات پرکھتے پھر کہیں جا کر نمبر لگاتے۔ آخر ایک پرچوں کے ڈھیر پر رکھ دیا۔ حقہ پینے لگے اور پوچھا۔ حاجی صاحب کا کیا حال ہے اب عرصے سے ادھر نہیںآئے۔ ذرا دیر اور بیٹح کر اٹھے اور کہنے لگے۔ چلو دوسرے کمرے میں چلیں۔ ہم اٹھ کر ساتھ والے چھوٹے کمرے میں آ بیٹھے اور جسے ڈاکٹر صاحب بطور خواب گاہ استعمال کرتے تھے وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے ۔ وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے چند کتابیں بکھری پڑی تھیں علی بخش ڈاکٹر صاحب کے لیے کھانا لے آیا۔ شاید شوربا پکا تھا۔ ان کے کھاتے کھاتے چودھری محمد حسین صاحب بھی تشریف لے آئے۔ ان دنوں مسلمانوں کی طرف سے شور بلند ہو رہا تھا کہ مرزائیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت شمار کیا جائے۔ قادیانی عقائد کے خلاف مسلمانوں میں کافی جوش و خروش تھا اور طبقہ علماء نے اس فرقہ پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اس نوع کے ریزولیوشن بھی پیش کیے گئے جن سے ہلچل مچ گئی۔ گورنر پنجاب نے ایڈریس کے جواب میں مسلمان قو م کی بے ربطی‘ باہم نفاق و افتراق اور بے لیڈری پر اظہار تاسف بھی کیا۔ میں نے مرزائی ریشہ دوانیو ں اور طرز تبلیغ کی چند مثٓلیں اپنے اسلامیہ کالج کے زمانے کی سنائیں۔ ڈاکٹر صاحب اس بارے میں ایک بیان کی فکر کر چکے تھے۔ اب جو یہ موضوع چھیڑا تو ان میں جوش و خروش پیدا ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ مزید باختر کے بغیر اسے شائع کرا دیا جائے۔ انہوںنے علی بخش کو آوا ز دی اور کاغذ قلم دوات لانے کو کہا۔ مجھ سے فرمایا کہ میں بیان لکھتا جائوں۔ چنانچہ میں نیچے دری پر بیٹھ گیا۔ ایک سوٹ کیس سے میز کا کام لیا۔ میں بیان لکھتا جاتا اور ڈاکٹر صاحب بڑے غور سے سنتے اور درمیان میںمتعدد مقامات پر تصحیح فرماتے جاتے تھے۔ کئی ایک جملے کٹوا کر دوبارہ لکھوائے وہ یقینا ماسبق سے زیادہ واضح اور برجستہ ہوتے۔ خصوصا اکبر مرحوم کے اس شعر کا پہلا ترجمہ : گورنمنٹ کی خیر یارو منائو انا الحق کہو اور پھانسی نہ پائو موجودہ ترجمے سے بالکل مختلف ہے۔ لفظی اور کم وقیع تھا۔ کراس اور چین کے الفاظ اور آخری جملہ بعد کی سوجھ کا نتیجہ تھے پہلی سعی جس قدر منثو ر تھی دوسری اتنی ہی مترنم اور دلکش تھی۔ یہ ان کا شاعرانہ کمال تھا۔ کہ ترجمہ پر اصل کا گما ن ہوتا ہے۔ اس ترجمہ کی بات سے یاد آیا کہ استاد محترم ڈاکٹرتاثیر ایک روز کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کی تحریر میں بڑی شیرینی اور روانی ہے۔ لیکن جب کبھی انہیں اپنے اشعار کا مطلب ا س زبان میں بیان کرنا ہوتا تو عموماً مجھے ترجمہ کرنے کو کہتے جس پر میں نے کہا کہ آپ تو خود بہت اچھا ترجمہ کر سکتے ہیں جو مجھ سے ممکن نہیں تو فرمانے لگے کہ جب میں اپنے اشعار کاترجمہ انگریزی میں کرنے لگتا ہوں تو وہ ترجمہ کے بجائے خود ایک دوسری نظم بن جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ موجودہ ترجمہ یہ ہے: O friend pray for the Glory of the Briton's name No more the claim of Persia's Mystic Saint Say I am God sans Chains sans Cross sans Shame. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات دور نکل گئی ڈاکٹر صاحب اس قسم کے بیانات لکھواتے وقت آہستہ آہستہ اور سوچ سمجھ کر لکھوایا کرتے تھے۔ نہ صرف معانی و مطالب بلکہ الفاظ کی برجستگی ‘موزونی اور نشست کا خیال بھی رکھتے‘ لیکن اس کوشش میں تکلف اور آورد کا شائبہ تک نہ تھا ان کی نگاہیں اپنے سامنے دور کسی غیر مرئی شے پر جم جاتیں جس کی حقیقت اور وجود سے گویا ہم لوگوں کو آشنا کرتے جاتے۔ بیان لکھ چکنے کے بعد ان کو پڑھ کر سنایا کرتے۔ انہوں نے دوایک اور تبدیلیاں کیں۔ اب اس کی نشر و اشاعت کا سوا ل درپیش ہوا۔ چودھری صاحب نے شاید انگریزی اخبارات میں چھپوانے کاذمہ لیا مجھ سے فرمایا کہ اردو اخبارات مٰں سب سے پہلے زمیندار کے دفتر جائوں اور مولانا ظفر علی خاں سے کہوں کہ وہ خود اسکا ترجمہ کریں ڈاکٹر صاحب کا یقین تھا کہ اس کا بہترین ترجمہ وہی کر سکتے ہیں۔ میں وہیں سے بائسکل لے کر زمیندار کے دفتر دوڑا۔ لیکن مولانا سے ملاقات نہ ہو سی۔ وہ لاہور سے باہر تھے۔ واپس آ کر صورت احوال بیان کی ا سکے بعد یاد نہیں کیا فیصلہ ہوا۔ بہرکیف وہ اخبارات میں چھپا اور اک شور برپا ہوا۔ لوگوںنے حسب عادت اسے صحیح بھی سمجھا اور غلط بھی۔ دوست بھی برہم ہوئے اور دشمن بھی‘ ڈاکٹر صاحب کی سیاست دانی کی صحت پہ بحث و تمحیص کے دفتر کھلے۔ تکلیف اور بیماری کے وقت بھی ڈاکٹر صاحب کی شگفتہ مزاجی اور خوش دلی نہ جاتی‘ نہ صرف اشعار میں بلکہ زندگی میں بھی ان سے بڑھ کر خوش امید اور رجا پسند شاید ہی کوئی ہو۔ ان کی مزاج پرسی کرنے والے کو ان کی تکلیف کی شدت کا ہرگز احساس نہ ہونے پاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب ہم عیادت کو گئے تو گلے کی شکایت کے باوجود کوئی دوگھنٹہ لطیفہ بازی کرتے رہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی دکھ اور غم کے عالم میں بھی دیکھا مگر ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ غم و اندوہ کے احساس نے انہیںمغلوب کر لیا ہو‘ ان کے لب پر حرف شکایت کبھی بھی نہ سنا‘ نہ کبھی وہ تقدیر اور قدرت کی سخت گیری سے نالاں ہوئے چہرے پر کبھی ایسی شکن نظر نہ آئی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ الم و یاس یا ناامیدی ایام نے ان کی روح کو صدمہ پہنچایا ہے۔ اگست 1930ء میں ان کے والد محترم نے وفات پائی ۱۳۔ ہم فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوئے تو اپنے کتب خانے کے باہر تشریف رکھتے تھے۔ والد محترم کی دو چار باتیں کیں کچھ واقعات سنائے اور پھر گفتو کا رخ پھیر دیا۔ اپنی کوٹھی بنانے کے ارادے سے اور اس کی تکمیل کے امکانات کی بابت باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ ہمارے دلوں سے ان کے صدمے کا خیال جاتا رہا۔ اس کے پانچ سال بعد ان کے انتہائی ضبط کی بہترین مثال دیکھنے میں آئی۔ 23مئی1935ء کو اپنی خواہش سے مجبور ہو کر میں اور صوفی صاحب شام کو کوئی چھ بجے جاوید منزل پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب کو نئی کوٹھی میں سکونت پذیر ہوئے بمشکل آٹھ دن ہوئے ہوں گے۔ ہم مبارک باد عرض کرنے گئے تھے علی بخش نے ہمیں پرچ میں سے دیکھا اور آگے بڑھ کر پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے آ گئے ہیں؟ کیا آپ کو اطلاع مل گئی ہے؟ ہم سراپا حیرت و استفسار پا کر علی بخش سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ جاوید کی والدہ ابھی ابھی رحلت کر گئی ہیںَ ہمارے دل پر جو گزری وہ محتاج بیان نہیں۔ ہم دونو ں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ‘ درمیانی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب دائیں جانب طعام گاہ کے دروازے کے قریب فرش پر سر جھکائے بیٹحے تھے ۔ ہمارے سلام کی آواز سن کر انہوںنے سراٹھایا اور ہمیں پہچان کر کہا اچھا ہوا آپ آ گئے میں بالکل اکیلا تھا۔ ان کی آواز دھیمی مگر پر سکون تھی۔ چہرہ اداس اور مغموم تھا۔ لیکن اس کے باوجود صبر و شکیب کا حامل تھا۔ اس پر اشک آفرینی اور آہ و بکا کا کوئی اثر پیدا نہ تھا جو کہ انسانی کمزوری کا خاصہ ہے اور اس لیے کہ عام انسان موت کی ماہیت سے بے خبر اور ا س کی حقیقت سوے ناآشنا ہوتا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا اور کیسے گفتگو کریں اور ڈاکٹر صاحب کامل سکوت میں بیٹھے نہ جانے کیا سوچ رہے تھے کہ آخر صوفی صاحب نے زبان کھوی اور افسوس کے چند کلمات کہے میںنے بھی وہی دہرا دیے۔ اور پوچھا کہ بیگم صاحبہ کو کیا تکلیف تھی؟ اب اچھی طرح یادنہیں ہے کہ گمان ہ کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ فرمایا کہ وہ عرصے ی سے صاحب فراش تھیں۔ دل کے پاس پھوڑ ا ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اپریشن کامشورہ دیا مگر وہ نہ مانیں اور آخر کار ختم ہو گئیں۔ ان کی زبان میں رقت آ گئی‘ ذرا دیر خاموشی کے بعد کہنے لگے‘ بڑی نیک بخت عورت تھی‘ بیماری کی حالت میں بھی لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھانے سے احتراز نہ کرتی ۔ حقی المقدور گھر کا سارا کام کاج خود ہی کرتی۔ اس قدر سمجھ دار اور باسلیقہ تھی کہ جی خو ش ہوتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں آئے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ ایک وہ بیمار دوسرے نئی کوٹھی میں آنے کی افراتفری روز مرہ کی استعمال کی اشیاء بھی کہیں سے کہیں رکھی جا سکتی ہیں لیکن مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ اپنی موت کو سر پر دیکھ کر اس نے چارپائی پر ہی فہرست مرتب کی اور اس میں لکھا کہ فلا ںچیز فلاں جگہ پڑی ہے۔ اور فلاں چیز فلاں جگہ۔ تاکہ ہم لوگوں کو تلاش و جستجو میں تکلیف کا سامنا نہ ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئے اور ذر ا دیر کے بعد کہا: ’’مجھے زیادہ فکر اب جاوید اور منیرہ کی ہے۔ ان کی دیکھ بھال مشکل ہو جائے گی‘‘۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مرزا جلال الدین صاحب تشریف لے آئے اور تجہیز و تکفین کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا‘ انہوںنے ہدایا ت دیں ور وہ رخصت ہو گئے۔ ا س کے بعد خواجہ عبدالوحید آئے اور افسوس کرنے لگے کہ باوجوداتنی قربت کے انہیں تاخیر سے اطلاع ملی۔ اب احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے کمرہ بھر گیا اور مشک کافور کی بو سے دماغ میں موت کا بھیانک خیال سما گیا۔ گرمیوں کی راتیں تھیں حدت کافی تھی۔ مجھے شہر واپس آنا پڑا یہ یاد نہیں کہ کس کام چند دوستوں کو بھی اطلاع کر دی اور پھر جاوید منزل کا رخ کیا۔ جنازہ نماز عشا کے کافی دیر بعد اٹھایا گیا اور بی بی پاکدامناں کے قبرستان میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو زیادہ چلنے پھرنے کی عادت پہلے ہی نہ تھی۔ اب تو کمزوری اور نقاہت کے باعث قدم اٹھانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے پائوں میں پمپ شو تھا۔ شلوار اور بند گلے کا کوٹ پہنے ہوئے تھے اور سر پر سیاہ رنگ کی مخملی ٹوپی تھی۔ جنازے میں کافی پیچھے سر کو نیچے ڈالی خاموشی سے چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے جا رہے تھے۔ جب قبرستان میں پہنچے تو لحد ابھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا ہٹ کر اس کی جانب منہ کر کے ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ لوگ گورکنوں کو مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ کوئی اس کی لمبائی اور چوڑائی پوچھ رہا تھا تو دوسرا پتھر کی سلوں کی بابت پوچھ رہا تھا۔ کوئی سقے کو آوازیں دے رہا تھا تو کوئی قرات خواں مولوی کو بلا رہا تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس تمام عرصے میں زبان سے شایدایک لفظ نہ نکالا۔ وہ کامل سکون میں قبر پر نظر جمائے بیٹھے تھے۔ گیارہ بج چکے ہوں گے جب ہم سب وہاں سے لوٹے۔ مادر جاوید کی وفات ڈاکٹر صاحب کے دل پر ایک زخم چھوڑ گئی جو ان کی اپنی موت سے مندمل ہوا۔ لیکن اس اثناء میں بھی ان کی خوش طبعی اور مزاح پرستی میں فرق نہ آیا۔ اس حادثے کے کچھ دن بعد ہم تین چار دوست شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پلنگ کے اردگرد بیٹھے تھے۔ پلنگ پورچ کی شمالی جانب بچھا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب تکیے پہ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ صنف نازک کی باتیں چھوڑ یں تو مسکرا کر بولے ’’عورتیں جب میرا کلام پڑھتی ہیں تو خیال کرتی ہیں کہ میں بڑا جوان ہوں۔ جاوید کی والدہ کی وفات کے بعد سے مجھے شادی کے کئی پیغامات آ چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بڑی ذہین اور پڑھی لکھی لڑکی کا خط آیا‘ لکھا تھا کہ میں ہر وقت آپ کا کلام پڑھتی رہتی ہوں‘ آپ مجھ سے شادی کر لیں! میں نے جواب دیا کہ میرا کلام پڑھتی رہو تو اچھا ہو گا‘‘۔ یہ سنا کر آپ بھی ہنسے اور ہمیں بھی خوب ہنسایا۔ بھوپال سے وظیفہ کا اعلان ہوا تو 2جون کو میں ان کی خدمت میں ہدیہ تہنیت پیش کرنے گیا۔ وہ وسطی کمرے میں پلنگ پر لیٹے تھے۔ بے حد کمزور اور لاغر ہو گئے تھے نظام کی خاموشی پر جب میں نے اظہار تاسف کیا تو کہنے لگے’’بھئی وہاں معاملہ اٹھا تھا اور منظوری ملنے والی تھی کہ یہاں کے دو آدمیوں 14؎ نے اس کی سخت مخالفت کی‘‘۔ میں حیرت زدہ ہو گیا کہ وہ کون بدبخت انسان ہو سکتے ہیں اور جب انہوںنے نام بتائے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ وہ دونوں مسلمانان ہند کی جلیل القدر ہستیاں مانی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب وفات پا چکے ہیں‘ دوسرے سرکاری فرائض کی ادائیگی میں ہوائی جہازوں پر دنیا کے چکر کاٹتے پھرتے ہیں۔ پھر میں نے Introduction to the Study of Quran جو وہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے‘ کے متعلق تذکرہ چھیڑا تو فرمانے لگے ’’ہاں ذر ا صحت اچھی ہو تو لکھنا شروع کروں گا چاہتا ہوں کہ کوئی پڑحا لکھا‘ وسیع النظر اور صحٰح المشرب فاضل دیوبند میسر آ جائے۔ مجھے حوالجات تلاش کر کے دیتا رہے اور لکھتا جائے۔ انگریزی سے واقف ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے۔ میں تنخواہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ ایک بار کتاب شروع کی تو انشاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کی تمام Theories(نظریات) کو توڑ پھوڑ کے رکھ دوں گا۔ ارادہ ہے کہ قانون کی تمام کتب بیچ کر فقہ‘ حدیث اور تفاسیر خرید لوں۔ یہ اب میرے کسی کام کی ہیں‘‘۔ اس کے بعد میں جب کبھی جاتا تو اس کتاب کی بابت ضرور استفسار کرتا اور ہمیشہ خدا سے صحٹ کی دعا کرتے۔ 9ستمبر 1935ء کو وہ بھوپال سے لوٹے (جہاں وہ علاج کی غرض سے جاتے تھے) تو صحت قدرے اچھی تھی۔ کھانسی کو افاقہ تھا‘ البتہ یہاں آ کر انہیں نزلہ اور زکام کی شکایت ہو گئی۔ شہید گنج کے حادثے کو دو ماہ کے قریب ہوئے تھے۔ انہیں اس کا بڑا رنج ہوا تھا۔ بہر کیف ان کی رائے تھی کہ مسلمانوں کو قانون شکنی نہ کرنا چاہیے۔ کہنے لگے ’’حکومت نے گولی چلا کر سخت ٹھوکر کھائی ہے! دراصل بات یوں ہے کہ خود حکومت کے قبضے میں بے شمار مسجدیں ہیں اور ان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کی غرض سے مسجدشہید گنج پر سکھوں کے تصرف کو جائز قرار دیا ہے‘‘۔ 1935ء کا سال میرے لیے بڑا باسعادت سال ثابت ہوا۔ اس میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے متعدد مواقع میسر آئے‘ خصوصاً 25جون کے بعد اس روز علی بخش آیا اور کہنے لگا کہ جاوید کو پڑھا دیجیے۔ بھلا مجھے کیا عذر ہو سکتا تھا؟ دوسرے دن میں چھ بجے جاوید منزل پہنچ گیا۔ علی بخش نے دو کرسیاں اور ایک میز بچھا رکھی تھی۔ جاوید آ گیا اور ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ وہ انگریزی کی کتاب پڑھ رہا تھا‘ تلفظ اچھا تھا اور یوں بھی رواں لیکن جب میں نے مطلب بیان کرنے کو کہا تو نہ کر سکا۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ اس نے اپنے والد بزرگور کی فطانت سے زیادہ حصہ نہ پایا۔ البتہ اس میں ایک بات ضرور تھی۔ وہ عام معلومات ضرور حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اور بات بات پر سوال کرتا تھا۔تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر صٓحب بھی باہر تشریف لے آئے۔ وہ بنیان اور دھوتی میں ملبوس تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہماری جانب بڑھے ۔ اور کہنے لگے:’’بھئی طارق تمہیں تکلیف دی ہے ‘ میں نے علی بخش کو بھی منع کر دیا تھا اور لیکن وہ کہنے لگا کہ کیا حرج ہے!‘‘ میں نے اس ی تائید کی اور کہا کہ میں تو بلکہ ا پر نازاں ہوں۔ کہ آپ کی خدمت کا موقع ملا۔ اس کے بعد جاوید کی بابت باتیں ہوتی رہیں ۔ انہیں بھی گلہ تھا کہ جاوید دل لگا کر محنت نہیں کرتا اور دوسری باتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ پھر ہمیں چھوڑ کر وہ ٹہلنے لگ پڑے جتنے روز میں گیا یونہی ہوتا رہا۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر میں ان کے پاس جا بیٹھتا۔ کچھ دیر فیض یاب ہو کر چلا آتا۔ اس زمانے میں میں نے ایک مقالہ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر لکھا تھا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ صوفی نہ تھے۔ ایک شام میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہی سوال کیا تو فرمانے گے کہ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ حقیقت میں صوفی نہ تھے۔ اس کے ثبوت میں انہوںنے مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب نفحات الانس کا حوالہ دیا اور کہا کہ صوفیوں کی اصطلاحات اور زبان کے استعمال سے کوئی صوفی تھوڑا ہی بن جائے گا۔ جس طرح Cowl پہننے سے کوئی پادری نہیں بن جاتا۔ اس سلسلے میں انہوںنے خواجہ حافظ (رحمتہ اللہ علیہ) کی شاعری‘ ان کی سہل نگاری‘ تن آسانی اور حجرہ نشینی کی تعلیم اور جبر و قدر کے غلط نظریے کے تباہ کن نتائج پر روشنی ڈالی فرمانے لگے’’ صوفی عمل کی تلقین کرتا ہے اور یہ خواجہ حافظ (رحمتہ اللہ علیہ) کے یہاں مفقود ہے اس کا اثر جو کچھ ہندی مسلمانوں پر ہوا وہ ظاہر ہے‘‘َ یہاں سے پلٹے تو فرمانے لگے ’’میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل سے ناامید نہیں ہوں مجھے یقین ہے کہ عنقریب ان میں سے کوئی Guiding Spirit 15؎ نمودار ہو گی۔ ‘ ‘ فقر کی بابت پوچھا تو فرمایا ’’فقر سے میری مراد افلاس اور تنگدستی نہیں بلکہ استغناء دولت سے لاپروائی ہے۔ دولت جو ہر مردانگی کی موت ہے ۔ اس سے جرات اور بہادری جاتی رہتی ہے: میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری اس کی مثال میں انہوںنے اپنے سفر انگلستان کے مشاہدات بیان فرمائے اور کہنے لگے کہ جہاں روپے پیسے کا سوال ہو وہاں انگریز کی ذہنیت ارو ہندو کے بنیا پن میں سر مو فرق نہیں رہتا۔ انگریز پیدائشی طور پر جوئے باز اور قمار باز ہے معمولی سے معمولی خدمت کے صلے میں بھی وہ انعام اور اکرام کا خواہاں رہتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوںنے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے ’’میں لندن جا رہا تھا گاڑی میں کئی مسافر تھے اور میرے سامنے تاش کھیلی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دو پارٹنر ہیں جو جیتے ہی جاتے ہیںَ انہوںنے ہر مسافر کو کھیلنے کی دعوت دی اور کوئی بیس پونڈ ہتھیالیے۔ میں انہیں غور سے دیکھنے لگا تو ان کی چالوں (Trick)کو بھانپ گیا۔ میں نے جوا کبھی نہیں کھیلا مگر جب انہوںنے مجھے بھی دعوت دی تو میں تیار ہو گیا۔ چنانچہ میں کھیلا ارلندن پہنچتے پہنچتے ان سے بیس کے بیس پونڈ جیت لیے۔ جب میں گاڑی سے اترا تو وہ دونوں قمار باز میرے دائیں بائیں ہو گئے خوشامد اور چاپلوسی کی باتیںکرنے لگے۔ کہ میں کسی طرح وہ جیتی ہوئی رقم ان کے حوالے کر دوں‘ اپنی غریبی کا دکھڑا روئے اور ہندوستانیوں کی فراخدلی کی تعریفیں کرنے لگیل مگر میں نے جب یہ کہا کہ تم کھیل میں دغا اور فریب کاری سے کام لیتے ہو اور میں پولیس میںتمہاری رپورٹ کر دوں گا تو فوراً نو دو گیارہ ہو گئے۔‘‘ بال جبریل میں جہاں انہوںنے کئی مقامات پر اہل مغرب کی قمار بازی اور زر پرستی کا تذکرہ کیا ہے ۔ وہاں ملا اور پیر کے خلاف بھی جائز درشتی سے کام لیا ہے۔ اکثر احباب کو شک تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا غیض کسی اصلیت پر مبنی نہیں‘ وہ محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اس طبقہ کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ شکوک جب ان پر آشکار کیے گئے تو انہوںنے موجودہ زمانے کے پیروں کی دوں ہمتی‘ فرومائیگی اور کم سوادی کے ذیل میں دو واقعات سنائے کہنے لگے ’’جن دنوں میری رہائش انارکلی میں تھی تو ایک سرحدی پیر چند مریدوں کی معیت میں آئے اور کہا کہ وہاں سرحد میںہمارے مریدوں کا سال کے سال اجتماع ہوا کرتا ہے‘ ایک تو جگہ تنگ ہے اور دوسرے اشیائے خوردنی کم ملتی ہیں‘ آپ گورنر بہادر کی طرف سے ایک درخواست لکھ دیں اور کہ ہمیں اس مقام پر چند مربع اراضی مرحمت فرمائیں کہ کاشت سے آمدنی کی صورت بھی بن جائے۔ پیر صاحب میرے پرانے دوست تھے مجھے یہ سن کر صدمہ ہوا کہ پیر صاحب آپ سید ہیںَ سید کونینؐ کی اولاد میں سے ہیں جس نے غیر کے سامنے کبھی دست سوا ل دراز نہ کیا۔ آپ زمین انگریز سے مانگتے ہیں جس کا اس پر کوئی حق نہیں‘ آپ اس سے کیوں نہیں مانگتے جو ارض و سما کا مالک ہے۔ اس وقت تو پیر صاحب برہم ہو کر چل دیے۔ لیکن یہ الفاظ میری زبان سے کچھ ایسے درد سے نکلے تھے کہ بغیر اثر کیے نہ رہے‘ دوسرے روز پیر صاحب اکیلے آئے آنکھوں میں آنسو تھے‘ کہنے لگے کل مریدوں کی موجودگی میں مجھے آپ کے الفاظ گراں گزرے لیکن جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے سچ فرمایا تھا۔ میں اب ایسی دریوزہ گری نہ کروں گا۔ ان کے چلے جانے کے کوئی ہفتہ عشرہ بعد مجھے ان کا تار موصول ہوا جس میں لھا تھا کہ زمین مل گئی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہوئی کہ پیر صاحب جب دہلی گئے تو ان کے بے شمار فوجی مریدوں نے ان کا تعارف کمانڈ انچیف سے کرایا۔ سپاہیوں کو خوش کرنے کے لیے ان سے پوچھا کہ تمہارے پیر صاحب کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو کہو۔ مریدوں نے زمین کی احتیاج ظاہر کی تو کمانڈر ان چیف نے اسی وقت سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کو خط لکھا اور زمین دلوا دی‘‘۔ دوسرا واقعہ جب میں یہاں جاوید منزل میں آ گیا تو ایک روز ایک پیر صاحب مجھے ملنے آئے۔ دوپہر کا وقت تھا‘ گرمی پورے زوروں پر تھی‘ دھوپ پر نظر نہ جمتی تھی کہ ایک شخص پسینے میں شرابور ہانپتا ہوا آیا اور پیر صاحب کے قدموں میں گرا۔ یہ ان کا مرید تھا۔ کہنے لگا حضور کی آمد کی اطلاع ملی تھی صبح صبح ہی مغلپورہ سے چل پڑا کئی مقامات پر گیا لیکن آپ وہاں سے تشریف لے گئے تھے آخر معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے حضور میری حالت بڑی خراب ہے۔ فاقہ مست ہو گیا ہوں دو سو روپیہ کا قرض دار ہو چکا ہوں‘ ملازمت ملتی نہیں آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری مشکلات کا خاتمہ ہو۔ یہ کہا اور جیب سے دو روپے نکال کر پیر صاحب کی نذر گزاری۔ پیر صاحب نے روپے جیب میں ڈالے اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آئیے دعا کیجیے۔ میں نے کہا آپ دعا پہلے مانگ لیجیے میں بعد میں مانگوں گا۔ پیر صاحب نے آنکھیں میچ لیں اور زیر لب کچھ کہنے لگے۔ دعا ختم کی ہاتھ منہ اور داڑھی پر پھیرے مرید پر پھونک ماری۔ وہ پھولا نہ سمایا‘ خوش تھا کہا پیر صاحب اب میری باری ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند کہنا شروع کیا ۔ ’’اے خدا ! آج کل کے پیر و مرشد بھٹک گئے ہیں انہیں راہ ہدایت دے پیر صاحت نے صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہوش کی دوا کیجیے۔ میں نے کہا کہ دیکھنے پیر صاحب میں آ پ کی دعا میں مخل نہ ہوا تھا مجھے بھی اطمینان سے دعا مانگ لیجے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا اے خدا آج کل کے مریدوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ اپنے پیروں کے کہنے میں نہ آئیں پیر صاحب نے پھر ٹوکا‘ لیکن میں نہ رکا‘ یہ نادان مرید کہتا ہے کہ میں دو سو روپے کا قرض دار ہو گیا ہوں‘ لیکن نہیں جانتا کہ اب دو سو دو روپے کا قرض دار ہو گیا ہے۔ پیر صاحب اب زیادہ برہم ہو گئے کہنے لگے دیکھیے یہ نامناسب ہے آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ میں ںے کہا اچھا دعا ختم کر دیتا ہوں لیکن ایک شرط پر کہ آپ یہ دو روپے مرید کو واپس کیجیے اور اسے قرضے سے سبکدوش کرنے کا بندوبست کیجیے۔ اور اسے نوکری دلائیے۔ پیر صاحب ناراض تو بہت ہوئے لیکن اسی وقت دو روپے واپس کر دیے ۔ اور باقی شرائط پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ تو پیروں کی کیفیت ہے‘‘۔ ’’جی ہاں‘‘ ہم میں سے کسی نے کہا۔ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن اگر ڈاٹر صاحب نے ’’بال جبریل ‘‘ میں یہ شعر کہا: شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب‘ میرا سجود بھی حجاب تو اس میں کوئی تعجب نہیں وہ نماز کو صحیح معنوں میں مومن کی معراج سمجھتے تھے۔ اس چیز کا وہ اکثر خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ ایک روز نماز کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’بعض مقامات ایسے ہیں جہاں خدا کے آگے سر بہ سجود ہونے میں اک کیف اور سرور حاصل ہوتاہے ۔ لیکن بعض مقامات میں اس کا الٹ ۔ میں صبح کی نماز حتی الامکان قضا نہیں ہونے دیتا۔ اور مجھے اس کی ادائیگی میں خاص لطف اور سکون میسر ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں جب افغانستان گیا تو وہاں نماز فجر ادا کی تو مجھے قطعاً سرور حاصل نہ ہوا اوراک خلا سا محسوس کیامجھے سخت حیرانی ہوئی ۔ جب اپنے محترم رفیق سید سلیمان ندوی 16؎ سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوںنے بھی انہی احساسات کی تائید کی اور کہا کہ نماز میں باوجود کامل خضوع کے پہلا سا سرور نہیں ملا۔ جب ڈاکٹر صاحب دوسری گول میز کانفرنس سے واپس تشریف لائے توکہنے لگے ’’ہندوستان واپس آتے ہوئے میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے تاریخی مقامات کا معائنہ کیا۔ مسجد قرطبہ میں جس کی فضا صدیوں سے بے اذاں پڑی تھی حکام کی اجازت لے کر نماز ادا کی‘ سجدے میں گر کر خدا کے حضور گڑگڑایا کہ اللہ اللہ! یہ وہی سر زمین ہے جہاں مسلمانوں نے سینکڑوں برس حکومت کی‘ یونیورسٹیاں قائم کیں اور یورپ کو علم اور فضل سکھایا۔ جن کے دبدبے سے شیروں کے دل ہلتے تھے اور جن کے احسان کے نیچے آج تمام فرنگستان دبا ہوا ہے۔ آج بھی اسی قوم کا ایک فرد انہی کی تعمیر کردہ مسجد میں اغیار کی اجازت لے کر نماز پڑھ رہا ہوں۔ میری آنکھوں سے خون جگر آنسو بن کر ٹپک رہا تھا۔ اور میرے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ اے خدا یہ تیرے پاک بندوں کی سرزمین ہے۔ یہ پرشکوہ مسجد یہ قصر حمراء اور یہ عالیشان قلعے ان کی عظمت کے گواہ ہیں اے خدا تو ان کو محفوظ رکھ۔ ‘‘ اس دعا کو ڈاکٹر صاحب اس وقت بھی دہرا رہے تھے ان کی آواز بھاری ہو گئی اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ ہم سب کی زبان سے آمین نکلا۔ تو فرمانے لگے: ’’ہسپانیہ میں میں نے ایک چیز کا مشاہدہ کیا ہے اوروہ مسلمانوں کا انمٹ نقش ہے جو وہاں کی درودیوار سے ہویدا ہے۔ وہاں کی فضا میں عربوں کی نشاۃ ثانیہ Moorish Revivalکے آثار پیدا ہیں‘‘۔ یہ چند یادداشتیں ان بیش قیمت لمحوں کی باقی رہ گئی ہیں جو کبھی کبھار ا س محبوب ہستی کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا۔ اپنی قسمت پر نازاں ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی عمر میں ہی اس آستاں تک رسائی حاصل ہوگئی۔ اب ان شاء اللہ یہ سعادت اپنی موت تک جاری رہے گی۔ د ل میں یہ خیال تک بھی نہ آیا تھا کہ وہ اتنی جلد خود وفات پا جائیں گے اور ہم تشنہ کام رہ جائیں گے۔ اس محرومی کو اب عمر بھر رویا کریں گے۔ افسوس: وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا عبدالرشید طارق ایم ۔ اے ٭٭٭ حکیم مشرق میں نے اپریل 1909 ء کی ایک سہہ پہر کو پہلے پہل ڈاکٹر محمد اقبال کو دیکھا۔ اس وقت وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں اپنی مشہور عالم نظم شکوہ کو سنا کر عوام و خواص سے خراج تحسین حاصل کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی عمر ان دنوں پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی مگر اس وقت بھی ان کی شہرت پنجاب کے حدود سے باہر نکل چکی تھی۔ اور پنجاب میں تو ان کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔ میں خود بھی ابھی بچہ تھا۔ تیرہ سال کی عمر ہو گی۔ فورتھ ہائی میں پڑھتا تھا۔ اقبال کی نظم ’’بلبل کی فریاد‘‘ مجھے بے حد پسند تھی مگر اس زمانے میں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ نظم اقبال کی ہے۔ البتہ ہندوستان ہمارا اور چین و عرب ہمارا نے ڈاکٹر اقبال سے وابستگی پیدا کر دی تھی۔ اور انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں زیادہ تر ڈاکٹر اقبال کی زبان سے ان کا کلام سننے کے لیے گجرات سے آیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے ان دنوں علمی اور ادبی میلے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد‘ خواجہ الطاف حسین حالی‘ شہزادہ ارشد گورگانی ‘ حضرت ناظم شاہ سلیمان سیوہاروی وغیرہ سحڑ بیان خطیب اور شاعر اس مجلس قومی میںشریک ہوتے اور پرستاران علم و ادب ہندوستان کے ہر گوشہ سے کھینچ کر چلے آتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے اس مجلس میں دو ایک ہی سال کے اندر نمایاں جگہ حاصل کر لی تھی۔ اور یورپ سے واپسی کے بعد تو اس مجلس کی شوکت وعظمت زیادہ تر اقبا ل کے نغموں کی رہین منت تھی۔ 1909ء کے سالانہ جلسہ میں بھی سب کو اقبال کی نظم کا انتظار تھا اور جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سحر انگیز لے میں ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو تمام مجمع مسحور نظر آتا تھا۔ نظم کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔ اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں ایک جگہ اکابرکا مجمع تھا۔ میں وہاں چلا گیا۔ سب نظم کی تعریف کر رہے تھے۔ مولوی محبوب عالم اس وقت جسٹس کرامت حسین صاحب جج ہائیکورٹ الہ آباد کو سٹیشن پر چھوڑنے گئے تھے اس لیے نظم نہیں سن سکے۔ ان سے سب کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ تو اقبال نے کلام کر دیا۔ افسو س آپ نہیں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اقبال کی نظمیں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں۔ اقبال کے مشہور عاشق خواجہ صمد جو ککڑو ان کے بارہ میں کہہ رہے تھے کہ میرے اقبال کا تخیل بہت بلند ہے۔ گجرات میں ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے میں لاہور میں مقیم رہا اور پھر دہلی چلا گیا۔ یہاں طبیہ کالج کے ساتھ پہلے متعلم اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہا۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں سننے کے لیے انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتا رہا۔ جواب شکوہ انجمن کے جلسہ میں نہیں پڑھا گیا۔ جنگ بلقان کے متعلق موچی دروازہ کے ایک جلسہ میں سنایا گیا۔ اس جلسہ کا انتظام مولوی ظفر علی خاں صاحب 1؎ نے کیا تھا ۔ جلسہ میں آغا حشر مرحوم 2؎ بھی شریک تھے ۔ انہوںنے ایک نہایت دلچسپ تقریر میں بیان کیا کہ وہ بھی ایک نظم سنانا چاہتے تھے مگر حضرت اقبال کے سامنے کسی کا رنگ جمنا مشکل ہے۔ اس لیے وہ نظم نہیں کہہ سکے۔ غالباً آغا صاحب کے ذہن میں آپ وقت ان کی مشہور نظم ’’شکریہ یورپ‘‘ کا تخیل آ چکا تھا۔ نظم سے پہلے جو مظاہرہ ہوا وہ اس زمانہ میں بھی اقبال کی ہر دل عزیزی کا ایک دلآویز منظر تھا۔ پہلے تو رونمائی کا سوال پیداہوا۔ جب میں جواب شکوہ کے ہر صفحہ کو مختلف اصحاب نے خریدا۔ اس کے بعد جب نظم شرو ع ہوئی تو ہر طرف سے آواز بلند ہوئی گا کر گا کر مگر جب ڈاکٹر صاحب نے پکار کر کہا کہ اس نظم کا مفہوم گانے سے ادا نہیں ہو سکے گا۔ تو سب خاموش ہو گئے نظم کے اختتام پر سینکڑوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں یہ تمام روپیہ بلقان فنڈ 3؎ میںدیا گیا۔ شکوہ کے علاوہ میں نے اسرار خودی کے بعض اجزا اور خضر راہ اور طلوع اسلام کو انجمن کے جلسوں میں سنا۔ خضر راہ کو ڈاکٹر صاحب نے نہایت درد انگیز لہجے میں پڑھا تھا اور جس سے مجمع پر رقت کا عالم طاری ہو گیا تھا اور جب وہ ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو کہہ کر خو دہی آبدیدہ ہو گئے تو تمام مجمع کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انجمن کے جلسوں میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں اکثر طویل ہوا کرتی تھیں۔ بعض اوقات نظم ایک ہی مجلس میں ہوتی تھی اور بعض اوقات دو جلسوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک ایسی ہی صورت میں ڈاکٹر صاحب نے یہ شعر پڑھا: درمیان انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر اس وقت ایک جلسہ کے صدر مرزا سلطان احمد اور دوسرے جلسہ کے صدر فقیر افتخار الدین 4؎ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے علاوہ ان کی متعدد سیاسی اور علمی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے بعض اہم علمی خطبات انگریزی میں پڑھے گئے جو اپنے بلند علمی مطالب کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ دہلی اور بمبئی میں مطب کرن یکے بعد صحٹ کی خرابی کی وجہ سے جب مجھے لاہور میں ٹھہرنا پڑا تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضر ہونے کا بارہا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ شفا ء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی مرحوم کے ساتھ جانے کی سعی کی تھی۔ مگر ایک صاحب راستے میں مل گئے اور یہ آرزو بر نہ آ سکی۔ ایک عرصہ کے بعد پنجاب طبی کانفرنس کی تحریک شروع ہوئی۔ اس سلسلہ میں پبلک جلسے ہوتے رہے جن کے صدر سر محمد شفیع مرحوم سر عبدالقادر وغیرہ ہوتے تھے ۔ ایک جلسہ کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے متعلق تجویز کی گئی۔ یہ غالباً 28کا ذکر ہے۔ کچھ اطبا ان کی خدمت میں گئے او ر ان سے اس تجویز کا اظہار کیا ڈاکٹر صاحب جلسوں کی صدارت سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں طب یونانی کے چنداں معترف بھی نہیں تھے۔ اس لیے انہوںنے انکار کیا ارو طب یونانی کے متعلق چند شبہات ظاہر کیے۔ ان اطباء نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگر آپ کو ان اعتراضات کے جواب مطلوب ہیں تو ہم ایک دوسرے طبیب کو لائیں گے آپ ان سے سوال و جواب کر لیں‘ مگر مطمئن ہونے کے بعد جلسہ کی صدارت ضرور فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا اور وقت کا تعین فرمایا۔ چنانچہ دوسرے روز اطباء کرام مجھے ساتھ لے کر گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد اعتراضات کیے جن کے جوا ب میں دیتا رہا۔ مگر وہ پھر برابر اعتراضات کرتے رہے۔ یہ سلسلہ دو تین گھنٹے جاری رہا۔ معلوم نہیں وہ مطمئن ہوئے یا نہیں مگر انہوںنے صدارت کا وعدہ کر لیا۔ اس کے چند دن بعد محمڈن ہال میں جلسہ ہوا۔ میں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر طب یونانی کی صفت ارو خوبیوں پر ایک طویل تقریر کی جسے پسند کیا گیا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں طب یونانی کی حقیقت و اہمیت کے متعلق حوصلہ افزا الفاظ ارشاد فرمائے۔ سب نے خیال کیا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔ اس کے بعد صرف دو ایک مرتبہ حاضری کا اتفاق ہوا۔ اور بعض امور کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ آج سے تین سال پہلے جب وہ میکلود روڈ سے جاوید منزل چلے گئے اور ان کی بیگم صاحبہ شدید علالت میں مبتلا ہوئیں تو انہوںنے یاد فرمایا۔ بیگم صاحبہ ڈاکٹروں کے زیر علاج تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ یونانی علاج شروع کیا جائے۔ اس کے متعلق وہ چاہتے تھے کہ حکیم نابینا صاحب دہلی سے تشریف لائیں اور میں بھی مشورہ میںشریک ہوں۔ مگر اس انتظام سے پہلے بھی بیگم صاحبہ رحلت فرما گئیں۔ میں نے اس ملاقات میںمحسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے خیالات میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے ۔ اور اس کی بڑی وجہ حکیم عبدالوہاب صاحب 6؎کی معجز نما کامیابی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عرصہ تک سنگ گردہ میں مبتلا رہے اور جب ڈاکٹر حضرات ان ک لیے عمیلہ (اپریشن) کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں بتلاتے تھے اور عمیلہ کے لیے بھی وہ آنا جانا ضروری قراردیتے تھے۔ تو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے ان کو فائدہ ہو گیا اور وہ طب یونانی کے مداح و معترف ہو گئے۔ بیگم صاحبہ کی رحلت سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کو ایک خاص تکلیف شروع ہو گئی تھی۔ وہ عید کی نماز پڑھ کر گھر آئے گرم دودھ ملا کر سویاں کھائیں سویاں کھاتے ہی ان کی آواز بیٹھ گئی۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر آواز نہ کھلی۔ آخر مجبور ہو کر پھر ان کو حکیم نابینا صاحب کی طرف رجوع کیا جن کے علاج سے ان کو معتدبہ فائدہ ہوا۔ اگرچہ ان کو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے بہت فائدہ تھا اور ان کی دوائیں مستقل طور پر جاری رکھتے تھے۔ مگر کچھ عرصہ سے وہ کبھی کبھی مجھے بھی یاد فرما لیا کرتے تھے اور اپنے مرض کے متعلق مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں خود بھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس وقت بھی پہلے عموماً وہ اپنے مرض علاج اور غذا کے متعلق سوالات کرتے اس کے بعد ادبی سیاسی مذہبی مذاکرا ت کرتے۔ اس عرصہ میں ان کا قلب ضعیف معلوم ہوتا تھا۔ نبض ضعیف و رقیق تھی اور غسل خان تک جانے سے بھی دم پھول جاتا تھا۔ اس کے ساتھ بعض اوقات دم کشی بھی شروع ہو جاتی تھی جو درحقیقت ضعف قلب کا نتیجہ تھی۔ گزشتہ دسمبر سے ان کی صحت زیادہ گرنا شروع ہوئی۔ سانس کے دورے ہر رات کو ہونے لگے۔ ضعف قلب کی شکایت بھی ہو جاتی تھی۔ اور کبھی کبھی بائیں شانے میں درد بھی ہو جاتاتھا۔ درحقیقت ان کا قلب عرصہ سے مائو ف تھا اور اب تدریجاً پھیل گیا تھا۔ اس کے ساتھ جگر بھی بڑھ گیا تھا اور پائوں پر بھی ورم آ گیا تھا۔ اس عرصہ میں زیادہ تر یونانی علاج ہوتا رہا جن سے ا ن کو نسبتاً فائدہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی بعض اصحاب کے توجہ دلانے پر ایلوپیتھی کی طرف رجوع کرتے اور بہترین ڈاکٹر نہایت کاوش سے علاج کر تے مگر عموماً ان سے فائدہ کم ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ پھر یونانی علا ج کی طرف رجوع کر لیتے۔ اسی عرصہ میں مجھے روزانہ حاضری کا اتفاق ہوتا رہا ۔ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تو سید نذیر نیازی صاحب یا میاں محمد شفیع صاحب یا میاں علی بخش کو بھیج دیتے۔ میں اکثر رات کو آٹھ نو بجے جاتا اور گیارہ بجے تک وہیں ٹھہرتا۔ بعض اوقات شام کو سات بجے اس خیال سے جاتا کہ نو بجے واپس آ جائوں گا۔ مگرپھر بھی گیارہ بجے تک ٹھہرا لیتے۔ شام کے علاوہ کبھی کبھی میں صبح کو سیر کرتے ہوئے چلا جاتا تھا بعض اوقات رات کو تکلیف ہوتی تھی تو صبح پانچ بجے ہی شفیع صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ اکثر مجھے جگا کر ساتھ لے جاتے۔ کبھی کبھی دو تین بجے دن کو بھی یاد فرما لیتے تھے۔ مگر ایسا عموماً کم ہوتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں نے اضطراب سا محسوس کیا اور اسی وقت چلا گیا اور جا کر دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب بے چین ہیں ۔ اضطراب کا تذکرہ کرنے پر فرمانے لگے کہ میں تکلیف محسوس کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ آپ آ جائیں۔ رات کی صحبت میں چوھدری محمد حسین صاحب سید نذیر صاحب نیازی اور میاں محمد شفیع صاحب بالتزام ہوا کرتے تھے۔ اکثر راجہ حسن اختر صاحب بھی شریک ہو جایا کرتے تھے۔ خواجہ عبدالرحیم صاحب اور دوسرے حضرات بھی کبھی کبھی آ جایا کرتے تھے۔ میں وہاں بیٹھ کر پہلے حالات معلوم کرتا پھر نبض دیکھتا اور جگر اور پائوں وغیرہ کی حالت دیکھتا۔ اس کے بعد دوائوں میں مناسب ردوبدل کرتا۔ پھر ڈاکٹر صاحب مرض کے متعلق سوالات کیا کرتے جن کے میں جواب دیتا۔ وہ ہمیشہ سے بہت بڑ ے نقاد تھے۔ مگر آخری ایام یں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور میں خود بھی بعض اوقات پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ خود انہیں یہ احساس تھا کہ ان کو مطمئن کرنا کسی قدر مشکل ہے۔ آخری ایام میں مجھے راولپنڈی جانا پڑا اور میں نے یہ تجویز کیا کہ میری غیر حاضری میں بعض دوسرے اطباء ان کی نگرانی کرتے رہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ مجھے مطمئن نہیں کر سکیں گے۔ مرض کے متعلق ان کے سوالات کے جوابات دینے میں ایک بہت بڑی دقت ی تھی کہ ان کے مزاج میں بے حد ذکاوت اور نزاکت پیدا ہو چکی تھی۔ اور اگر ان کو یہ معلوم ہو جاتا یکہ ان کی بعض علامات کو دوسرے اسباب کا نتیجہ قرار دیا جا تا ہے تو وہ ا س پر اس طرح سے جرح کرتے کہ معالج پریشان ہو جاتا ۔ غذا کے متعلق ان کی حس اور بھی لطیف ہو چکی تھی۔ تقریباً ہر دوسرے اور تیسرے روز اور امر کی خواہش کرتے تھے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضاف کیا جائے ’’اگرپلائو کی اجازت نہیں تو کھچڑی میں کیا حرج ہے۔ یہ سادہ غذا ہے‘‘ آپ ایک دو روز کھچڑی کھا لیا کیجیے۔ ہاں تو کھرچڑی بھنی ہوئی ہونی چاہیے۔ جس میں گھی کافی ہو۔ گھی کم ہونا چاہیے کیونکہ جگر بڑھا ہوا ہے تو پھر کھچڑی میں لذت کیا ہو گی۔ اچھا کم از کم اس میں دہی تو ملا لیا جائے۔ مگر آپ کو کھانسی اور تولید بلغم کی شکایت ہے۔ جس میں دہی مضر ہے تو پھر اس میں کھچڑی کھانے سے نہ کھانا اچھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو پلائو اور کباب بے حد مرغوب تھے۔ اور اسے وہ اسلامی غذا کہا کرتے تھے۔ ان کے لیی بے حد اصرار تھا ار ب لطائف الحیل میں سے انہیں ٹالتا رہا تو راولپنڈی جانے سے پہلے انہوں نے دو تین مرتبہ اصرار کیا کہ ایک روز آپ کی دعوت یہاں ہو اور آ میرے سامنے پلائو کھائیں تاکہ اگر میں پلائو کھا نہیں سکتا تو کم از کم کھاتے دیکھ لوں۔ دوا کے بارے میں بھی ان کی طبیعت بہت لطافت پسند تھی وہ چاہتے تھے کہ دوا خوش ذائقہ ہو۔ قلیل المقدار اور سریع الاثر ہو۔ حکیم نابینا صاحب کی دوائوں کو وہ اسی لیے پسند فرماتے تھے اور مجھے بھی ان کے رجحان کی وجہ سے ایسی ہی دوائیں تیار کرانا پڑیں جن کی وہ اکثر تعریف کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے جس قدر میں قریب ہوتا گیا‘ اسی قدران کی عظمت کامجھے زیادہ احساس ہوتا گیا۔ یہ امر تعجب انگیز تھا کہ فلسفہ کی گہرائیوں پر اس قدر عبور ہونے کے باوجود وہ مذہب سے اس قدر متاثر تھے۔ جب تک ان کو قریب سے نہ دیکھا جائے اس شیفتگی اور عشق کا انداز کرنا مشکل ہے جو ان کو اسلم اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام سے تھا۔ ایک رات میں ان کی خدمت میں تھا کہ حضورؐ کی سنت کا ذکر شروع ہو گیا تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ کی اس پیروی کی بے حد تاکید فرمائی ثابت کیا کہ آپ کا پیکر اطہر مجسم اسلام ہے آپ اسلام اور ایمان کی تفسیر ہیں اور خود حضورؐ کے اسوہ حسنہ دریافت کرتا ہو تو قرآن مجید کا ہر حرف اس کی طرف اشار ہ کرتا ہے۔ قرآن حکیم سے تو ان کے بے حد شغف تھا۔ وہ بچپن سے بلند آواز سے قرآن حکیم پڑھنے کے عادی تھے۔ قرآن حکیم پڑھتے ہوئے وہ بے حد متاثر معلوم ہوتے تھے۔ آواز بیٹھ جانے کا انہین زیادہ قلق یہ تھا کہ وہ قرآن عزیز بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے بیماری کے دنوں میں بھی جب کبھی کسی نے قرآن حکیم کو خوش الحانی سے پڑھا تو ان کے آنسو جاری ہو گئے اور ان پر لرزش اور احتراز کی کیفیت طاری ہو گئی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا بے حد احترام کرتے تھے اور اگر جدید تعلیم یافتہ مسلمان محمد صاحب کہتا تو بہت تکلیف محسوس کرتے۔ اگرچہ جمہور ان کو زیادہ تر شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے مگر خود شاعری کو اپنے افکار کے پھلانے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے ۔ ان کو اس وقت بے حد تکلیف ہوتی تھی جب کوئی ان سے دوسرے شاعروں کی طرح اشعار سنانے کی فرمائش کرتا تھا۔ میں نے ان سے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ غالب نے یہ آپ کے لیے کہا ہے: مانبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما ان کے شعر کہنے کی حالت بھی دوسرے شعرا سے کچھ الگ تھی۔ فرماتے تھے کہ سال میں چار پانچ ماہ تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک خاص قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے میں بلا ارادہ شعر کہتا رہتا ہوں۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے گھر میں دوسرے کام بھی کرتا رہتا ہوں‘ مگر زیادہ تر طبیعت کا رجحان شعر گوئی کی طرف ہوتا ہے۔ ان دنوں عموما ً رات کو شعر گوئی کے لیے بیدار رہنا پڑتا ہے۔ میرے استفسار کرنے پر فرمایا کہ چار پانچ ماہ کے بعد یہ قوت ختم ہو جاتی ہے توغور و فکر کے بعد کچھ شعر کہے جا سکتے ہیں مگر یہ آورد ہوتی ہے اور وہ آمد دونوں طرح کے کہے ہوئے اشعار میں تمیز کی جا سکتی ہے۔ اس حالت کو ڈاکٹر صاحب حمل سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس حالت کے اختتام کو وضع حمل سے حضرت علامہ اقبال کی صحبت میں ان کی سیرت کے متعلق جو تاثرات ہوئے‘ ان کی تفصیل ایک دوسرے مضمون کی مقتضی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مرض کی حالت میں مدوجذر ہوتا رہتا تھا مگر یونانی علاج سے انہٰں کافی فائدہ ہو گیاتھا۔ یہ ظاہر ایک حد تک ان کی حالت امید افزا ہو گئی تھی۔ تاہم اندرونی عوارض و اثرات کم و بیش باقی رہتے تھے۔ اسی عرصہ میں مجھے پنجاب کے طبی کانفرنس میں راولپنڈی جانا پڑا۔ میرے جناے کے کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر صاحب کی طبیعت یک بیک زیادہ خراب ہو گئی۔ یہ صورت دیکھ کر انہوںنے مجھے واپس آنے کے لیے تحریر فرمایا مگر میں جلد تعمیل نہ کر سکا۔ میرے پہنچنے سے پہلے لاہور کے معروف ترین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ علاج شروع کر چکا تھا جس سے دو روز کچھ فائدہ محسوس ہوا مگر انیس اپریل یکو حالت خراب ہونی شروع ہوئی۔ شام کو جب میں ںے اور تین چار ڈاکٹروں نے دیکھا تو حالت اطمینان بخش نہیںتھی۔ تاہم حواس اس طرح صحیح و سلیم تھے اور ظاہری حالت میں کویء خاص تغیر نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میں اس رات بارہ بجے تک پاس بیٹھا رہا۔ چودھری محمد حسین صاحب‘ سید نذیر نیازی صاحب پروفیسر مظفر الدین صاحب اور شفیع صاحب بھی موجود تھے ۔ ایک آدھ دفعہ میں ںے اجازت چاہی تو فرمایا کہ ابھی ٹھہریں اور علی بخش کو بلا کر کہا کہ حکیم صاحب کے لیے چائے بنائو۔ میں ںے رض کیا کہ ابھیمیں نے کھانا نہیں کھایا۔گھر جا کر کھانا کھائوں گا۔ فرمانے لگے پھر تو آپ کو کھانا کھانا چاہیے تھا۔ شفیع صاحب نے کہا کہ سب نے حکیم صاحب کو کہا تھا‘ مگر انہوں نے اعتراض کیا۔ فرمانے لگے یہ ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں۔ جب آخری دفعہ رکا تو میں ںے علی بخش سے کہا کہ اب چائے بنوا لائو۔ اس پر علی بخش نے فرمایا کہ میم صاحبہ نے جو بسکٹ بنائے ہیں حکیم صاحب کو کھلائو۔ چنانچہ میں نے اور چودھری صاحب نے اور نیازی صاحب نے چائے پی۔ اس عرصہ میں شفیع صاحب ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دوا لے آئے اور حضرت نے ایک خوراک پی لی۔ پینے کے بعد بہت بے چینی محسوس کی اور فرمانے لگے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے۔ میں اسے قے کرنا چاہتا ہوں چنانچہ خون آ رہا تھا اور خطرہ تھا کہ قے سے رگ نہ پھٹ جائے ۔ میں نے گرم پانے ارو نمک کے غرغرے کرنے اور دانہ الائچہ چبانے کے لے کہا اس سے بے چینی کم ہوئی مگر فرمانے لگے کہ ابھی متلی باقی ہے۔ پھر میں نے اکسیر عبنری دی تو اس سے متعلی رفع ہو گئی۔ اس کے بعد ایک اور دوسری ڈاکٹری دوا پینی تھیل مگر اس سے انکار کیا اور فرمانے لگے کہ ڈاکٹری دوائیں خلاف انسانیت ہیں کیونکہ ان میں مریض کے ذوق کا خیال نہیںرکھا جاتا۔ پھر فرمایا کہ میڈیکل سائنس زندگی کی سائنس معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہے۔ ڈاکٹر قیوم صاحب نے کہا کہ دوسری دوا خواب آور ہے اور اس کا پینا ضروری ہے۔ فرمانے لگ کہ مجھھے ان دونوں سے نیند نہیں آت۔ اجزا بھی ہیں تو فرمایا کہ اگر اس مکسچر میں سے دافع درد اجزا کو الگ کر کے دے سکیں تو پی لوں گا۔ کیونکہ خواب آور اجزا سے مجھے نیند نہیں آتی۔ جب ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بحال ہو گئی تو میں اجازت لے کر اپنے رفقا کے ساتھ چلا آیا۔ میرے آنے کے بعد کچھ دیر تک نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی ارو بے چینی شروع ہوئی۔ تین بجے کے قریب میاں محمد شفیع صاحب کو میرے پاس بھیجا۔ مکان کا دروازہ بند تھا مگر ملاز مباہر سویا ہوا تھا۔ شفیع صاحؓ نے اسے کوئی دوسرا آدمی سمجھ کر نہ جگایا اور چند آوازیں دیں۔ جواب نہ پا کر وہ واپس چلے گئے۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کو رات کو بلانا ہو تو کس طرح بلایا جائے۔ میں نے کہا کہ آپ بلا تکلف آدمی بھیج دیں۔ نیچے ملازم سوتا ہے وہ جگا لے گا۔ اس پر خاموش ہو گئے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جگا لے گا کہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ ایک گھنٹی (بیل ) لگوائی جائے۔ میں نے انتظام کرنا چاہا مگر بدقسمتی سے جلد ہی میں راولپنڈی چلا گیا۔ واپسی پر ڈاکٹروں کا علاج شروع ہو چکا تھا اس لیے اس طرف خیال نہ آیا۔ اس سے پہلے جب رات کو تکلیف ہوت تو عموماً ڈاکٹر صاحب جمعتی سنگھ صاحب کو بلا لیتے تھے۔ مگر آخری رات کو ڈاکٹری علاج ہونے کے باوجود مجھے بلایا اور جب شفیع صاحب ویسے ہی واپس چلے گئے تو فرمایا کہ افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ اس کے بعد پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر صاحب کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ قرشی کو بلا لائیںَ انہوں نے فرمایا کہ وہ را ت کو بہت دیر سے گئے ہیں اور اس وقت اس کو بیدار کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اس پر یہ قطعہ ارشاد فرمایا جس کی اس قدر شہرت ہو چکی ہے: سرود رفتہ بازآید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید 10؎ راجہ صاحب نے اس قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی کہا کہ میں ابھی حکیم صاحب کو لا رہا ہوں۔ وہ پانچ منٹ پر جاوید منزل سے نکلے۔ اس کے بعد فرمایا کہ پلگ ساتھ کے کمرے میں لے چلو۔ جب اندر پلنگ لے گئے تو فرمایا کہ کندھا دبایا جائے۔ علی بخش نے شانہ دبایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ دل پر تکلیف ہے اور اس کے ساتھ ہی پانچ بج کر چودہ منٹ پر جن جان آفرین کے سپرد کر دی۔ میں جب جاوید منزل کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ طلوع آفتاب کے ساتھ علم و ادب کا یہ آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکا ہے۔ وہ اس وقت پہلو کے کمرے میں پلنگ پراکیلے پڑے تھے۔ میں نے چادر منہ سے سرکائی اور یہ خیال کیا کہ حسب معمول آئیے حکیم صاحب کی شیریں آواز سامع نواز ہو گی مگر یہ خیال ایک ایسی آواز بن کر رہ گیا کہ جس سے ہمیشہ دل میں خلش ہوتی رہے گی ۔آخری وقت میں ان کے یاد کرنے کی یا تو یہ وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ میں آخری لمحات میں ان کے پاس رہوں ۔ یا ان کا خیال ہو گا کہ ان خطرناک لمحات میں جواہر مہرہ اکسیر عنبری وغیرہ استعمال کرائوں تاکہ بارہا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی نبض بہت کمزور اور نڈھال ہو گئی اور جواہر مہرہ وغیرہ کے استعمال سے طبیعت سنبھل گئی۔ بہرحال کوئی بھی وجہ ہو میرے لیے یہ امر موجب اضطراب رہے گا کہ میں ان کی خواہش کے باوجود آخری لمحات میں ان کے پا س نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی موت کا ہم میں سے کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔ جب رات کو گیارہ بجے تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو سب کا خیال تھا کہ ہم سب جاوید منزل جائیں گے۔ چودھری محمد حسین صاحب ان کو دن بھر کے واقعات سنائیں گے جو ان کے جنازے پر عظمت جلوس‘ جمہور کی اشک باری اور شاہی مسجد کے باغ میں ان کی تجہیز و تکفین کے انتظامات پر مشتمل ہوں گے۔ راجہ حسن اختر صاحب مزار کے نقشے اور مجلس اقبال ک تشکیل کے متعلق ان سے مشورہ کریں گے۔ سید نذیر نیازی صاحب ان کو بغداد کا کوئی ایسا خواب آور افسانہ سنائیں گے کہ جس سے وہ ہمیشہ کے لیے سکھ کی نیند سو جائیں ۔ میں محمد شفیع اور میاں علی بخش ان کے کندھے کو اس طرح دبائیں گے کہ پھر وہ کبھی درد کی شکایت نہ کریں گے اور میں ان کی نبض دیکھ کر ایسی خوشگوار دوائیں اور لذیذ غذائیں تجویز کروں گا کہ ان کے کام و دہن جنت کے لذائذ و نعائم کا سا لطف محسوس کرنے لگیں: اب بھی صبح کی نماز کے وقت کوئی جگانے کے لیے آواز دیتا ہے تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے سات اٹھ بیٹھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو پھر کچھ تکلیف ہو گئی ہے جو صبح ہی سے صبح انہوںنے یاد فرمایا ہے۔ شفیع صاحب دوسرے تیسرے روز مطب پر آتے ہیں اور ان کو دیکھ کر بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے ارو میں سمجھتا ہو ں کہ ڈاکٹر صاحب کی حالت بتانے کے لیے آئے ہیں ۔ مگر پھر جب وہ کہتے ہیں کہ شیخ عطا محمد صاحب (ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی) بخار میں مبتلا ہیں علی بخش کو سینہ میں در د ہے عزیز جاوید اقبال کو کھانسی ہے تو میں کھو سا جاتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں چھوڑ کر بادلوں سے بھی بڑے دور کسی ایسے مقام پر چلے گئے ہیں جو ان کے تخیل کی طرح بلند و بے پایاں ہے اور جہاں دوستوں کی آہ و بکا اور عزیزوں کے نالہ و شیون کا گزر نہیں ہے۔ حکیم محمد حسن قرشی ٭٭٭ حواشی و تلیقات کیف غم… شیخ سر عبدالقادر ۱۔ غالب: مرزا اسد اللہ خان غالب فارسی اور اردو کے مشہور شاعر اور نثر نگار ہیں اردو اور فارسی دونوںمیں ایک منفرد اسلوب کے بانی ہیں جو اس تہذیب کا ترجمان ہے جو کی حدود وسط ایشیا میں سمرقند اور بخارا سے دہلی اور کلکتہ تک پھیلی ہوئی ہیںَ علامہ اقبال کو مرز اسد اللہ خان غالب سے جو عقیدت تھی اس کا ایک سبب مرزا کا تخیل تھا لیکن اصول ربط کی وجہ یہ تھی کہ جس کا اظہار علامہ نے مرزا غالب کے عنوان سے بانگ درا میں ایک شعر میں کیا ہے: دید تیری آنکھوں کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے یہ حکیمانہ اور صوفیانہ مشاہدہ ہے جس کی اہمیت پر علامہ اقبال نے اپنے خطابات میں اور مکاتیب میں بار بار اظہار خیال کیا ہے۔ مرزا غالب کا صوفیانہ مسلک وہی تھا جو وحد ت الوجود کے ماننے والے صوفیہ کا ہے جسے علامہ اقبال تسلیم نہیں کرتے اور اس کی بجائے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک وحدت شہود کو مانتے ہیں جس میں اعلیٰ ترین منزل ’’عبدیت‘‘ ہے۔ یہ وہ منزل ہے جو علامہ اقبال کے یہاں خودی کے مقام سے گزر کر بیخودی کی منزل ہے۔ مرز ا غالب بھی علامہ اقبال کی طرح صوفی خرقہ پوش نہ تھے لیکن تصوف کے مسائل اور انداز بیان میں صوفی مشرف تھے۔ یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا سر عبدالقاد ر لکھتے ہیں خہ مرزا کے یہاں جو گداز دل ہے وہی شاعر کے کلام میں تاثیر کرتا ہے۔ مرزا کا شعر ہے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی علامہ اقبال کے نظری ہفن میں بھی کیف غم کی اہمیت مسلم ہے ۔ سر عبدالقادر نے جو شعر علامہ کا نقل کیا ہے ا سمیں مغرب کی مے کا اثر نشاط ہے اور خانہ ساز مے میں کیف غم۔ مرزا غالب کے سلسلے میں علامہ اقبال نے ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا ہے۔ اوروہ یہ کہ ہرچند کہ مرزا غالب بیدل کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے ارد وکلام میں غالب بیدل کا اجتماع نہ کر سکے۔ ویسے بھی مرزا غالب اور اقبال اور بیدل میں ایک ذہنی اور فکری رشتہ ملتا ہے۔ یہ تینوں اپنی شاعری میں فکر کی گہرائی اور گیرائی پر زور دیتے ہیں۔ اور شاعری کو محض جذبات یا احساسات کا اظہار نہیں سمجھتے۔ اردو شاعری میں ایسے مضامین مرزا غالب کے کلام سے آئے اور یہی سلسلہ علامہ اقبال تک پہنچا ہے‘‘۔ ۲۔ سر عبدالقادر کا یہ بیان اہم ہے کہ علامہ اقبال کو موسیقی کا بھی شو ق تھا۔ شاعری کو بعض حضرات نے موزونی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭۔ ’’اقبال اور بیدل‘‘ ماہ نو…از ابوللیث صدیقی‘ استقلال نمبر 1954ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طبع کانام دیا ہے ۔ اگرچہ اس میں بعض اور عناصر بھی شامل ہیں لیکن بنیادی طورپر کلام ناموزوں کو شعر کوئی نہ کہے گا۔ یہی موزونیت موسیقی کی اساس ہے۔ موسیقی کے بارے میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر واضح ہے۔ بال جبریل میں پیر و مرشد کے عنوان سے مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال جواب میں یہ اشعر اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں: دور حاضر مست چنگ و بے سرور بے ثبات و بے چین و بے حضور کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا دوست کیا ہے دوست کی آواز کیا آہ یورپ ! بافروغ و تابناک نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوئے خاک اور پیر رومی فرماتے ہیں: بر سماع راست ہر کس چیر نیست طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست صوفیہ نے سماع کے باب میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بعض سلسلوں (مثلا چشتیہ) میں سماع مرغوب اور بعض (مثلاً نقشبندیہ) میں نامحبوب ہے۔ داتا گنج بخش حضرت علی الہجویری نے کشف المحجوب میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ایک واقعہ خواجہ ابو احمد المظفر حمدان کی صحبت کا نقل کیا ہے۔ حضرت علی ہجویری سماع سے خوش ہوئے تو آپ (خواجہ صاحب) نے فرمایا : ایک ایسا وقت بھی آتاہے کہ یہ سماع اور کوے کی کائیں کائیں تمہارے لیے یکسا ں ہو جائیں۔ سماع کی قوت اسی وقت تک ضرورت ہوتی ہے جب تک ’’مشاہدات‘‘ نصیب نہ ہو: ’’چون مشاہدات حاصل آمد ولایت سمع ناچیز شد‘‘۔ جو بات مولانا روم نے کہی ہے حضرت علی ہجویری نے ایک اور ’’امام اہل حدیث‘‘ کے حوالے سے یوں بیان فرمائی ہے: ’’اگر تاثیر اندر دل حلال بود‘ سماع حلال بود‘ و اگر حرام حرام‘ و اگر مباح مباح‘‘۔ گویا تمام انحصار اس پر ہے کہ دل میں اس سے تاثیر کیا پیدا ہوتی ہے۔ 3۔ خواجہ دل محمد: لاہورکے ایک ممتاز استاد‘ ماہر ریاضی‘ شاعر بچپن سے علامہ کے کلام کے شیدائی تھے اور ان کے انداز کلام سے بھی متاثر ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں استاد تھے۔ ریاضی میں ان کی مرتبہ کتابیں عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل رہیں۔ 4۔ مرزا ارشد گورگانی: مرزا عبدالغنی ارشد گورگانی خاندان مغلیہ کی یادگار تھے۔ 1850ء میں قلعہ معلی دہلی میں پیدا ہوئیل۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب آ کر محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے شاعری میں مرزا قادر بخش صابر کے شاگرد تھے۔ مولانا حالی اور آزاد بھی ان دنوں لاہور میں تھے۔ حالی سے ارشد گورگانی کا قریبی تعلق رہا اور جب حالی نے نظم جدید کے مشاعروں میں نئی نظمیں لکھیں تو ارشد بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ 21فروری 1906ء کوملتان میں انتقال ہوا۔ 5۔ اقبال کی مشہور نظرم شکوہ اور اس کا دوسرا حصہ جواب شکوہ دونوں بانگ دار میں شامل ہیں۔ مولانا حالی کی مسدس کے بعد اگر کوئی نظم خاص و عام میں یکساں طور پر مقبول ہوئی اوراس کی مقبولیت اب بھی قائم و باقی ہے۔ تو وہ یہ نظم ہے۔ مسد مدو جذر اسلام کی طرح یہ دونوں نظمیں بھی مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان پیش کرتی ہیں مسد س میں صرف صورت حال بیان کی گئی تھی ۔ گویا یہ ایک آئینہ تھا جس میں قوم کو اپنی صورت نظر آتی تھی۔ اس تباہی اور بربادی کے اسباب اور اس کے علاج کی طرف مسدس میں اشارہ نہ تھا۔ اور نظم کا پورا تاثر انتہائی مایوسی اور محرومی و ناکامی کا تھا۔ چنانچہ حالی نے ایک ضمیمہ ’’امید‘‘ لکھ کر اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی۔ علامہ اقبال کی نظموں میں جوش اور ولولہ ایسا تھا کہ اپنے عروج و زوال کی اس تصویر کو دیکھنے والے مایوس ہونے کے بجائے عمل کی طرف راغب اور مائل ہوں اور پورا تاثر قنوطی ہونے کے بجائے رجائی تھا۔ 6۔ سر عبدالقادر نے علامہ کے والد کا ذکر کیا ہے۔ علامہ کے دیگر ناقدین اور سوانح نگاروں نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔ بالخصوص علامہ کی طبیعت میں جو سوز و گداز اور مزاج میں جو درویشی اور قلندری پیدا ہوئی ا س کا سرچشمہ ان ہی کی ذات تھی۔ علامہ نے بار بار اس کاذکر کیا ہے۔ خصوصاً یہ واقعہ کہ بچپن میں انہوںنے کسی درویش کو غصہ میں آ کر مارا پیٹا یا سخت سست کہا۔ اس پر والد صاحب بے حد مغموم ہوئے اوربیٹے سے کہا خدارا غور کرو قیامت کے دن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہو گا اور مجھ سے پوچھا جائے گا کہ ایک جوان صالح کی تربیت تیرے سپرد کی تھی تو اسے بھی سرانجام نہ دے سکا اس وقت ندامت اور شرمندگی سے میرا کیا حال ہو گا! ٭ علامہ نے اس واقعہ کو جس موثر اندا زمیں لکھا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ والد کا اسم گرامی شیخ نور محمد تھا۔ لیکن اعزاز و اقربا میاں جی کہہ کر مخاطب کرتے۔ آخر عمر تک سیالکوٹ میں مقیم رہے اور 17 اگست 1930ء کووہیں انتقال فرمایا۔ علامہ اپنے والد محترم کے فیض روحانی کے جس قدر قائل تھے اس کا اندازہ ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے بھتیجے اعجاز احمد صاحب کو لکھا ہے: ’’برخوردار اعجاز کو بعد دعا واضح ہو کہ میں نے تمہارے دونوں خط پڑھ لیے ہیں۔ والد مکرم کی طبیعت پہلے بھی رقیق تھی‘ اب یہ سبب ضعف پیری کے اور بھی رقیق ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ زیادہ عمر کا آدمی کوئی رفیق اپنا نہیں دیکھتا۔ اس کو دنیا نئی معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے ۔ جس سے اس کی طبیعت اور گھبرا جاتی ہے۔ اس واسطے میرا مشورہ تم کو یہ ہے کہ دن میں ایک دفعہ وقت نکال کے ایک آدھ گھنٹہ ان کے پا س بیٹھا کرو اور جن باتوں میں ان کو دلچسپی ہے اس کے متعلق ان سے گفتگو کیا کرو‘ خواہ وہ گفتگو بہ تکلف سی کیوں نہ ہو۔ تم اس با ت کو زندگی کے دیگر فرائض کی طرح لازم کر لو اور ایک دن بھی اس فرض کی انجام دہی سے غافل نہ ہو۔ غالب گمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ حق جوانے مسلمے با تو سپرد کو نصیبے از دبستانم نبرد از تو ایں یک کار آساں ہم نشد یعنی آں انبار گل آدم نشد (اسرار خودی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے کہ اس سے تم کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ کیا عجیب ہے کہ جو بات ان سے … کو حاصل نہیں ہو سکی وہ تم کو مل جائے اور اگر یہ بات ہو گئی تو زندگی بھر ان کے احسان کوفراموش نہ کر سکو گے اگرچہ اس وقت تم کو اس کا احساس نہ ہو کیونکہ جوانی کے خیالات کارخ اور طرف ہے۔ مجھے خود جو فائدہ ان کی ذات سے ہوا‘ اس کا احساس اب ہوا ہے۔ ور میں اس کو ہر قسم کے علم اور دنیوی وجاہت پر ترجیح دیتا ہوں۔ تم ان کے مذاق کا مطالعہ کرو۔ اور پھر خواہ بہ تکلف ہی کیوں نہ ہو تھوڑی دیر کے لیے اس مذاق میں رنگین ہو جایا کرو تاکہ وہ تمہیں محرم تصور کریں۔ اس میں تمہارے لیے بڑے بڑے فائدے مستور ہیں جن کو مین اب بیان نہیںکر سکتا اور اگر بیان کروں بھی تو شاید تم ان کو اچھی طرح سمجھ بھی نہ سکو گے۔ اس فائدے کے علاوہ دنیوی فائدے کا بھی امکان غالب ہے۔ کسی وقت خوش ہو کر ایک کبیر الحسن آدمی کے منہ سے دعا نکل جائے تو اسے دنیا کے تجربے نے نہایت پر تاثیر بنایا ہے‘‘۔ (خطوط اقبال‘ رفیع الدین ہاشمی‘ مکتبہ خیابان ادب لاہور 1976ء ص 144-145) جس فائدے کی طرف علامہ کے اشارہ کیا ہے وہ وہی مشاہدہ اور صوفیانہ تجربہ ہے جس کو علامہ اقبال تصوف اسلام اور عین روح اسلام کے مطابق سمجھتے تھے اور روایت ان کی خاندانی تھی۔ اپنے برادر مکرم شیخ عطا محمد کو ایک اور مکتوب میں اپنے جد اعلیٰ حضرت بابا لول حج کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کشمیر کے مشہور مشائخ میں تھے(بحوالہ خطوط اقبال محولہ بالا)ترک دنیا کر کے گھر سے نکل گئے تھے۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے۔ واپس آنے پر بقول علامہ ’’اشارہ غیبی‘‘ پا کر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے جو حضرت نور الدین ولی کے مرید تھے اور بقیہ عمر مرشد کی صحبت میں گزاری اور مرشد کے جوار میں موضع چرار شریف میں‘ جو سر ی نگر سے جنوب مغرب میں بیس میل کے فاصلے پر ہے‘ مدفون ہیں۔ علامہ نے جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے اسی خاندانی مذاق کاعارفانہ کا ذکر کیاہے: جس گھر کا مگر چراغ تو ہے ہے اس کا مذاق عارفانہ 7۔ سر عبدالقادر نے لکھا ہے کہ ان کے والد کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پرواہ کر دے۔ تصوف کے بار ے میں خود علامہ اقبا ل کابھی نقطہ نظر یہی تھا۔ وہ اس تصوف کو خالص اسلامی مانتے تھے جس کی بنیاد قرآن حکیم‘ احادیث نبوی‘ اقوال و افعال صحابہ اور صوفیائے کبار کے عمل پر تھی۔ جس میں ترک دنیا اور رہبانیت کی بجائے زندگی کا ایک حرکی تصور تھا۔ اور جس میں زندگی ایک ارتقا پذیر قوت سمجھی جاتی تھی۔ اقبال صوفیہ کے وحدت وجود کے مسلک کے خلافت تھے اور حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کے مسئلہ وحدت شہود کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے خیا ل میں اعلیٰ ترین مقام ’’عبدیت‘‘ کا تھا۔ وحدت کی ضد علامہ کے نزدیک کثرت نہیں بلکہ شرک ہے۔ علامہ حالت صحو کوحالت سکر پر ترجیح دیتے تھے۔ بعض حضرات شریعت اور طریقت دو الگ الگ راستے بتاتے ہیں‘ اس بات میں علامہ کا عقیدہ یہ تھا: ’’حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خود ی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا لکھا ہے۔ بعض نے اسی کانام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ و یدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے جس کانتیجہ یہ ہوا کہ : ’’مسلمان اس وقت عملی اعتبارسے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدہ کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں‘‘۔ (مکتوب بنام ظفر احمد صدیقی بحوالہ اقبال نامہ جلد دوم طبع 1951ء ص 46) 8۔ گلے کی بیماری: یہ سلسلہ 10جنوری 1934ء کو عید کے موقع پر سوئیاں اور دہی کھانے سے شروع ہوا۔ پہلے خیال ہوا صرف انفلوئنزا ہے۔ پھر ڈاکٹروں نے بتایا کہ گلے کے نیچے جو آلہ صوت (Larynx)ہے اس کا تار ڈھیلا ہو گیا ہے۔ (یہ غلط فہمی تھی جنہیںوتران صوت یا Vocal Chordsکہتے ہیں وہ اصلاً تار یا تار کی شکل نہیں ہونٹوں کی صورت میں جن کے کھلنے یا بند ہونے سے صدائی (Voiced) یا بے صدا (Voiceless) اصوات پیدا ہوتی ہیں) اس کی وجہ سے آواز بیٹھ گئی ہے۔ ایک قیاس یہ تھا کہ نقرس کی شکایت کبھی کبھی ہو جاتی تھی اور بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ نقرس کا اثر بھی آواز پر ہو سکتا ہے۔ پھر ایکسرے کرایا گیا اورتشخیص یہ ہوئی کہ دل کے اوپر کی طرف ایک نئی Growth ہورہی ہے جس کے دبائو سے ووکل کارڈ (Vocal Chord)متاثر ہیں۔ اس کے لیے یورپ بجلی سے علاج کرانے کے لیے جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن ایک تو علامہ اس پر آمادہ نہ تھے کیونکہ بقول خود وہ مغربی اطبا کاامتحان کر چکے تھے‘ نہ تھے دوسرے یورپ کے علاج پر روپیہ خرچ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ خود علامہ نے ایک خط میں نذیر نیازی کے نام لکھا ہے۔ افسوس کہ اقبا ل کی عظمت کا شاعر اپنی زندگی کے اس دور میں بھی جب ان کی شاعری اور فلسفہ کا شہرہ ہو چکا تھا۔ اور ان کے مداحوں میں زندگی کے ہر شعبہ اور ہر سطح کے ہزاروں قدردان موجود تھے‘ ان کی مالی حالت ایسی نہ تھی جو یورپ کا سفر اور معمولی علاج کرا سکتے۔ شاید ان کے فقر غیور نے کبھی کسی سے مالی امداد کی توقع نہ کی۔ سوائے اس وظیفہ کے جو دور آخر میں پانچ سو روپیہ مہینہ کانواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے پیش کیا تھا اور اسے بھی محض ایک والی ریاست کے وظیفہ کے طورپر نہیں بلکہ ایک صاحب نظر کے ہدیہ کے طور پر‘ حمید اللہ خاں کے لیے یہ اشعار کسی قصیدہ کے نہیں ہیں‘ ضرب کلیم کے انتساب کے ہیں: زمانہ با امم ایشیا چہ کرد و کند کسے نہ بود کہ ایں داستاں فروخواند تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است دل تو بیند و اندیشہ تو می داند بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من کل گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند غرض حکیم نابینا صاحب دہلوی کا علاج ہوا۔ کبھی معلوم ہوتا تھا کہ کچھ افاقہ ہے ۔ کبھی صورت حال پھر بگڑ جاتی۔ ادھر علامہ کی شریک حیات جاوید اقبال کی والدہ علیل ہو گئیںَ اور 23مئی 1935ء کو ان کا انتقا ل ہو گیا۔ علامہ کی علالت کا سلسلہ جاری رہا اور 1938ء میں ان کی وفات کا ختم ہوا۔ آواز کے اس بیٹھ جانے کی طرف اشارہ اس دور کے کلام میں جگہ جگہ ہے۔ یہ آخری زمانے کے دور شعر ہیں۔ پہلا مصرعہ بھی اسی کی طرف نازک اشارہ ہے: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید اس بیماری اور علاج کی بڑی تفصیل مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی (اقبال اکیڈمی کراچی 1957ئ) میں موجود ہے۔ 9۔ نواب صاحب بھوپال: ہز ہائنس نواب سر حمید اللہ خاں والی بھوپال جن کا ذکر سابقہ حاشیہ میں موجود ہے۔ سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال کی ریاست کے وارث ہوئے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے تھے ارباب علم و فن کے قدر دان تھے اور بہت سے قومی ادارے ان کی فیاضی سے زندہ تھے۔ ملک کی تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں میں عملی حصہ لیتے تھے۔ آخر زمانہ میںنواب سر راس مسعود (جنہوں نے اپنی کوششوں سے حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کا منصوبہ پیش کر کے اردو میں اعلیٰ تعلیم کی روایت کومستحکم کای اور اردو جدید علمی زبانوں کے حلقہ میں ان کی کوششوں سے شریک ہوئی) علی گڑھ سے مایوس ہو کر بھوپال چلے گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ راس مسعود مرحو م نے ہی علامہ اقبال کو بھوپال بلوایا اور ان کا قیام ریاض منزل دولت کدہ سر راس مسعود میں رہا۔ ضرب کلیم کی کئی کئی نظمیں ریاض منزل میںہی لکھی گئیں۔ مثلاًمقصود‘ حکومت‘ نگاہ‘ امید‘ اور بعض شیش محل بھوپال میں مثلاً ابلیس کا فرمان‘ اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ جمعیت اقوام مشرق‘ مسولینی‘ اقبال اور بھوپال کے تعلق کی تفصیل صہبا لکھنوی نے اقبال اور بھوپال میں گزاریں اور قرآن حکیم کے بعض مطالب کی تفسیر اپنے نقطہ نظر سے لکھیں اور اسی لیے انہوںنے نواب صاحب کا نظریہ قبول کر لیا تھا‘ لیکن بیماری نے اس کو مہلت نہ دی۔ علامہ اقبال نے جشن حالی کے موقع پر یہ اشعار نواب حمید اللہ خاں کے لیے لکھے تھے: مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می بینم چو محمل را گراں بینم حدی را تیزتر خوانم حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو ز الطاف تو موج لالہ خیزد از خیابانم طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را نوائے او بجانہا افگند شورے کہ می دانم بیا تا فقر و شای در حضور او بہم سازم تو بر خاکش گہر افشان و من برگ گل افشانم 10۔ سر عبدالقادر: سر شیخ عبدالقادر سرزمین پنجاب کے نامور فرزند‘ علمی ادبی ‘ تعلیمی‘ اور تہذیبی سرگرمیوں میں نمایاں علامہ اقبا ل کے رفیق دیرینہ باند دار میں عبدالقادر کے نام جو نظم ہے اس سے ہی اندزہ ہو جاتاہے۔ کہ علامہ عبدالقادر کو اپنا رازدار اور رازداں سمجھتے تھے۔ ملت کی تہذیبی سیاسی نشاۃ الثانیہ کے باب میں دونوں ہم خیال تھے۔ لندن کے قیام کے دوران تحریک اتحاد بین المسلمین سے دونوں کو بہ یک وقت دلچسپی ہوئی وہیں ایک دور ایسا گزرا کہ علامہ نے شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ عبدالقادر نے ہی انہیں آمادہ کیا کہ وہ گیسوئے اردو کو سنوارنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اقبال کی پہلی نظم کوہ ہمالہ سے خطاب‘ جو شائع ہوئی تو وہ شیخ عبدالقادر کے مشہور علمی اور ادبی رسالے مخزن میں شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں اقبال کی ا س دور کی اکثر نظموں کے نقش اول موجود ہیں جن میں بعد میں اصلاح ہوئی۔ بانگ درا پر شیخ صاحب کا مقدمہ اقبا ل کی شاعری کی اہمیت اور اس کے امکانات دونوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے کا دوسرا مضمون رموز بیخودی ے جو مخزن ستمبر 1918ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ ایک تفصیلی ریویو یا تبصرہ تھا‘ جس میں رموز بیخودی کے مضامین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ سرعبدالقادر اور علامہ کے پر خلوص تعلقات کا سلسلہ قیام انگلستان سے شروع ہو کر 1937ء تک جار ی رہا۔ جب شیخ صاحب کی علامہ سے آخری ملاقات ہوئی۔ شیخ عبدالقادر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قصور میں پائی اور لاہور سے بی اے پاس کر کے منٹگمری کے ایک سکول میں ملازمت شروع کی۔ 1898ء میں پنجاب آبزرور کے عملہ میں بطور ایڈیٹر شریک ہوئے۔ 1901ء میں مخزن جاری کیااور 1904ء میں انگلستان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئے۔ 1907ء میں واپس آ کر دہلی میں بطور بیرسٹر پریکٹس شروع کی۔ پھر لاہور چلے آئے اورکچھ عرصہ لائل پور میں سرکاری وکیل رہے۔ 1921ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور 1925ء میں پنجاب میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ 1934ء میں وزیر ہند کی کونسل کے ممبر ہو کر لندن چلے گئے اور 1939ء تک وہاں قیام کیا۔ 1942ء میں بہاولپور کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ آخرعمر میں بیمار رہنے لگے تھے۔ 9فروری 1950ء کو لاہور میں وفات پائی۔ علامہ اقبال اور سر عبدالقادر کے خیالات و نظریات میں ہم آہنگی کا اظہار بانگ درا کی اس نظم سے ہوتا ہے۔ جو علامہ نے سر عبدالقادر کے نام لکھی ہے۔ اس زمانے میں تحریک تجدد اسلام اور تحریک اتحاد بین المسلمین کی جو تحریکات مختلف ممالک کے مسلمان نوجوانوں میں مقبول تھیں دونوں اس سے وابستہ تھے۔ اقبال کی یاد میں… میاں بشیر احمد ‘ مدیر ہمایوں 1۔ پرفیسر حمید اللہ خاں: مولانا ظفر علی خاں اور مولانا حامد علی خاں کے بھائی پنجاب کے اکابر ماہر تعلیم شامل ‘ ادیب‘ مضمون نگار‘ محقق ‘ نقاد‘ انگریزی ادب کے استاد مگر اردو زبان و ادب کے شیدا‘ جامعہ عثمانیہ سے فارغ التحصیل ہوئے بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں انگریزی ادب و شاعری پر تحقیق کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں ملازمت کا زیادہ عرصہ گزارا جہاں بعد میں پرنسپل بھی رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے پاکستان کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں سربراہی کے فرائض انجام دیے۔ اسی دور کی یادگار تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند ہے جس کی بہت سی جلدیں ہیں اور جو اردو فارسی عربی اور دوسری زبانوں میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ذہنی تاریخ کی ایک معتبر اور مستند دستاویز ہے ۔ جو خان صاحب کی نگرانی میں تیار ہوئی۔ نقاد کی حیثیت سے وہ غالب شناسوں کی اول صف میں شمار ہوتے ہیں۔ صد سالہ تقریبات غالب کے سلسلہ میں ان کا مرتبہ نسخہ حمیدیہ دیوان غالب اس کی ایک مثال ہے۔ اور غالب سے متعلق کتابوں کا سلسلہ انہی کے ایما پر اور انہین کی نگرانی میں یونیورسٹی نے شائع کیا۔ تعلیمی اور علمی مباحث پر مضامین و مقالات بکثرت تھے۔ ان کے متعلق علامہ کا یہ سرٹیفکیٹ اس بات کی شہادت ہے کہ علامہ اقبال ان کی صلاحیتوں اور ملت اسلامیہ کے لیے ان کے درد و خلوص کے قدردان تھے۔ یہ خط علامہ نے ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین (اسلامیہ کالج کمیٹی کے آنریری جنرل سیکرٹری) کو لکھا تھا اصل خط انگریزی میں ہے : My dear Shujauddin, I write this on behalf of M. Hamid Ahmad Khan, who I understand , is applying for a post in Islamia College. I have met him several times and have opportunities judging his scholarly attainments. I would advise the college committee to appoint him. HJe is occpying at present in the Accounts Department. I have found him keenly interested in literature and philosophy and I have no doubt he will be quite a successfull lecturer on English literature and philosophy. Besides, unlike many muslim youngmen of our day he is very enthusiastic about the cultural history of Islam. I am sure his contact with Muslim youngmen will do them a lot (of) good. I would like to see more Muslim teachers like him. Yours Sincerely, Muhammad Iqbal. اس مختصر سے خط میں علامہ نے حمید احمد خاں کے جوہروں کی نشان دہی کی ہے۔ خان صاحب اسلام اور مسلمانوں کے سچے عاشق او ر خیر خواہ تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی فلاح اور بقا اور ان کی سیاسی‘ تعلیمی اور تہذیبی ترقی کے لیے انہوںنے اپنی عمر وقف کر دی تھی۔ علامہ اقبال کے نیاز مندوں میں تھے چنانچہ ملفوظٓت اقبال جس حلقہ کی پیشکش ہوئی اس کے سرگرم اراکین میں تھے۔ 2۔ تصویر درد: یہ وہ نظم ہے جو بانگ درا میں اس شعر سے شروع ہوتی ہے: نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے‘ بے زبانی ہے زباں میری یہ اقبال کی ان ابتدائی نظموں میں سے ہے جن میں ان کا سیاسی‘ سماجی اور ملی شعور ایک واضح منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس وقت تک وہ ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس لیے خطاب ہندوستان سے تھا: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں لیکن اس وقت بھی اس چمن کے باغبانوں کی رزم آزمائیاں ان کو کسی اور منزل کی طرف متوجہ کرتی ہیں: نشان برگ و گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں اس دور میں بھی ان کا فلسفہ حرکت اورعمل کا ہے: یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے مکمل نظم بانگ درا میں موجود ہے: 3۔ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ یہ نظم بانگ درا میں پرندے کی فریاد کے عنوان سے شامل ہے ۔ اور اس وضاحت سے کہ یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس دور میں بچوں کے لیے اور بھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ مضمون اورزبان کے اعتبار سے یہ نظم اور دوسری نظمیں جو اس قبیل کی ہیں بچوں کے ذہن اور ان کی زبان کے معیار کے مطابق ہیں۔ مگر یہ صرف بچوں کے لیے نہیں بڑوں کے لیے بھی غور و فکر کا سامان ہیں۔ Skylark بھی صرف ایک پودنے کا مشاہدہ ہے۔ لیکن اسے انگریزی شاعری کی تاریخ میںادبیات عالیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میاں بشیر احمد نے لکھا ہے کہ اس نظم میں جیسی کہ بانگ درا میں شائع ہوئی‘ اس کی ابتدائی شکل و صورت کچھ بدل گئی ہے۔ یہ صورت بعض اور نظموں کیساتھ بھی پیش آئی ہے۔ چنانچہ بعض غزلوں اور نظموں کے جو متون پہلے مخزن یا بعض دوسرے رسالوں میں شائع ہوئے ان میں بعض کو تبدیلی یا اصلاح کر دی گئی ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ بعض حلقوں میں علامہ اقبال کی زبان اور محاوروں پر بعض اعتراضات کیے گئے تھے۔ بلکہ بعض لوگوں تو علامہ کے کلام پر اصلاح ر کے ان کو بھیجتے تھے۔ چنانچہ اقبال نامہ کے مرتب نے بابو عبدالمجید کو 1904ء میں علامہ کا لکھا ایک خط نقل کیاہے جس کی عبارت یہ ہے: ’’یہ کوئی صاحب چھوٹے شملہ سے میری غزل کی اصلاح کر کے ارسال کرتے ہیں۔ میری طرف سے ا ن کا شکریہ ادا کیجیے اور عرض کیجیے کہ بہتر ہو اگر آپ میر اور داغ کی اصلا ح کیا کریں۔ مجھ گمنام کی اصلاح کرنے سے آپ کی شہرت نہ ہو گی۔ میرے بے گناہ اشعار کو جو حضرت نے تیغ قلم سے مجروح کیا ہے اس کا صلہ انہیں خدا سے ملے…امید ہے جکہ وہ برا نہ سمجھیں گے۔ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہوجاتا ہے‘‘۔ یہ اعتراضات بالعموم بعض تراکیب‘ بعض محاوروں اور بعض الفاظ و تذکیر و تانیث کی بنا پر تھے۔ اس قسم کے اعتراضات کا سلسلہ نیا نہیں تھا۔ ہمارے اکثر قدما اور تذکرہنگاروںنے بعض معاصرین پر اس طح کے اعتراضات پہلے بھی کیے تھے میر تقی میر اپنے تذکرہ نکات الشعرا میں اکثر شعرا کا کلام نقل کر کے لکھا ہے کہ اس شعر یں یہ لفظ ہوتا تو بہتر تھا۔ اصلاح شعرمیں بھی ہمارے اساتذہ کا رویہ یہ رہا ہے۔ سودا اور ان کے معاصرین انشا اور مصحفی کے معرکوں میں بھی اسی طرح کی تنقید کی بہت سی مثالیں موجود ہیںَ علامہ پر بعض لوگوں کو اعتراض تھا کہ وہ اہل زبان نہیں ا س لیے زبان و محاورہ کی غلطیاں ان کے کلام میں موجود ہیں۔ یہ بحث بھی پرانی ہے۔ بیچارے میر کہ ناخدائے سخن اور شعرائے اردو کے سرتاج ہیں لوگ ان کی زبان کو بھی نہیں مانتے کہ اکبر آبادی ہیں۔ انشاء اللہ خاں تو دہلی والوں میں بھی سب کی اردو کو معیاری اور مستند نہیں تسلیم کرتے بلکہ اس کی جغرافیائی حدود دہلی میں ایک مکان سے دوسرے مکان تک متعین کرتے ہیں اور اس سے باہر جو بھی اردو بولتا لکھتا ہے وہ ساقط المعیار بتاتے ہیں۔ علامہ اقبال کا شاعری کے بارے میں نقطہ نظر مختلف تھا اور وہ اپنے شعر کو اپنے خیالات اور نظریات کے ابلاغ کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے اور محض زبان کے چٹخارے کی شاعری ان کے شعری مسلک میں شامل نہ تھی۔ تاہم وہ سنجیدہ تنقید قبول کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے رموز بے خودی پر ریویو کیا ہے تو اس میں اس کی طرف اشارہ تھا۔ اس سلسلے میں علامہ نے سید صاحب کو ایک خط لکھا تھا‘ اس کا ایک حصہ یہ ہے: ’’آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے ۔ صحت الفاظ و محاورات کے متعلق آ پ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور صحیح ہو گا‘ لیکن اگر آپ ان لغزشوںکی طرف بھی توجہ کرتے تو آپ کا ریویو میرے لیے مفید ہوتا۔ اگر ٓاپ نے غلط الفاظ اور محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے ان سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح کی جائے‘‘۔ اس تنقید کے وصول ہونے میں تاخیر ہوئی تو علامہ اقبال نے خود یاددہانی کرائی اور جب ایک تنقیدی تفصیل آ گئی تو اپنی تائید میں اساتذہ کے کلام کی مثالیں پیش کیں۔ لیکن سارا لہجہ نہایت متین بلکہ مودبانہ تھا۔ اس باب میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے: ’’شعر محاورہ اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیں میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے‘‘۔ 4۔ جسٹس شاہ دین: میاں بشیر احمد کے والد اور علامہ اقبال کے مخصوص حلقہ احبا ب میں شامل تھے 1867 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1887ء میں قانون ک اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور بیرسٹری کی تکمیل کی۔ شرح محمدی کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور ہائی کورٹ کے ایک ممتاز جج تھے۔ سرسید کی تعلیمی اور اصلاحی تحریک کے حامیوں بلکہ سرگرم ساتھیوں میں سے تھے ۔ چنانچہ سرسید کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا جو اجلاس 1894ء مٰں علی گڑھ میں ہوااس کی صدارت جسٹس محمد شاہ دین نے ہی کی تھی۔ علامہ کے ساتھ شعر و شاعری کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس بند میں ایسی ہی مجلسوں کے سلسلے میں شاہ دین محمد کا یہ بند ہے: اعجاز دیکھ تو سہی یہاں کیا سماں آج نیرنگ آسمان و زمین کا نیا ہے رنگ اقبال تیری سحربیانی کہاں ہے آج ناظر کمان فکر سے مار ایک دو خدنگ از نغمہائے دلکش ایں چاریار ما پنجاب خوشنوا ست ہمایوں دیار ما ہمایوں جسٹس شاہ دین کا اپنا تخلص تھا۔ مخز ن کے دور اول میں ان کا کچھ کلام مخز میں شائع ہوا۔ مذکورہ بالا بند بھی مخزن اکتوبر 1901ء میں شائع ہوا۔ اسی سال علامہ کی پہلی مشہور نظم کوہ ہمالہ سے خطاب بھی مخزن ہی نے شائع کی تھی۔ غلام بھیک نیرنگ اور خوشی محمد ناظر کا کلا م بھی مخزن میں شائع ہوا ہے۔ 1918ء مٰں ان کا انتقال ہوا اور علامہ اقبال نے تاریخ وفات کے لیے یہ قطعہ لکھا اور وہ نظم جو بانگ درا میں ’’ہمایوں‘‘ کے نام سے ہے: در گلستان دہر ہمایون نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چوں بوئے گل دمید می جست عندلیب خوش آئند سال فوت علامہ فصیح ز ہر چار سو شنید میاں بشیر احمد نے ہمایوں کے نا م سے ایک ادبی رسالہ ان کی یاد میں نکالا تھا۔ اسے ایک طور سے مخزن کا جانشین اور تکملہ سمجھنا چاہیے۔ اعلیٰ درجے کے سنجیدہ ادبی مذاق اور صحت مند تنقیدی توازن اس رسالے کی خصوصیات تھیں اور اردو کے بعض مشاہیر شعرا‘ نثر نگار اور نقاد ہمایوں کے اوراق کے ذریعے ہی سے متعارف و مشہور ہوئے۔ 5۔ علی گڑھ تحریک : دراصل سر سید کی تحریک جو ایک اصلاحی تحریک تھی علی گڑھ تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ سرسید خود دہلی کے شرفا ء کے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اسلاف میں اکثر مغل سلاطین کے مقرب اور معز ز عہدہ دار رہے تھے۔ سر سید احمد خاں کے عہد تک مغلیہ سلطنت کا زوال و انحطاط کاشکار ہو چکی تھی۔ چنانچہ سر سید نے انگریزوں کی ملازمت اختیار کی اور اپنی محنت سے بڑی ترقی کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا ان کی آئندہ زندگی پر بڑا اثر پڑا۔ اور وہ مسلمانوں کے مستقبل اور برصغیر پاک و ہند میں ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں بڑی فکر اور تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں انگریزوں سے تعاون کر کے ان کا اعتماد بحال کرانا تھا۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو مایوسی‘ ناکامی اور احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے ان میں خود اعتمادی پیدا کر کے ان کے مستقبل کے لیے ایک راہ عمل تجویز کرنا تھا۔ اور اس پر گامزن ہونے کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔ اس کے لیے مسلمانوں میں ایک ذہنی اور فکری انقلاب پیدا کرنے کی ضرور ت تھی۔ یہ اصلاح تہذیب و معاشرت ‘ زبان‘ ادب ‘ انشاء ہر میدان میں ضروری تھی۔ سرسید کی یہی ہمہ جہتی تحریک علی گڑھ تحریک کہلاتی ہے۔ پہلے انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ قائم کیا کیونکہ وہ تعلیم کو اس تحریک کا محور سمجھتے تھے۔ بعد میں یہ مدرسہ کالج بنا۔ دراصل سرسید کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں ایک ایسی درس گا ہ قائم کی جائے جو بقول ان کے تذکرہ نگاروں کے برعظیم کے مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار ثابت ہو۔ سرسید جب علی گڑھ آئے تو یہاں ایک مدرسہ اسی نیت سے کھولا۔ دراصل یہ کام اس مجسل نے کیا جو سرسید نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے یے ایک مجلس کے نام سیقائم کی تھی۔ مدرسہ 1875ء میں قائم ہوا اور 1876ء میں سرسید ملازمت سے سبکدوش ہو کر علی گڑھ میں مستقل مقیم ہو گئے اور 1877ء میں یہ مدرسہ محمڈن اینگلو اورئنٹل کالج بنا اور اسی زمانے میں یہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان ی سیاست کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ سرسید کی مجوزہ یونیورسٹی ان کی زندگی میںوجود میں نہ آ سکی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین محسن الملک نے اس مقصد کے لیے ایک میموریل فنڈ قائم یا اور 1910ء کے قریب آغا خاں سوم نے اس تجویز اور خواب کو ایک حقیقت میں بدلنے کے نام سے وجود مین آ گئی۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ اشاعت اول 1967ء ص 315) فرماتے ہیں: ’’کوئی خواب کاملاً پوار نہیں ہوا کرتا۔ مسلم یونیورسٹی نشوونما پر کاتنا عظیم تخلیقی مرکز نہیں بن سکی کہ اسلام کی علمی اور تحقیقاتی روایات کو بحال کرتی۔ جن حالات میں اس ادارے نے کا م کیا اس کے ہوتے ہوئے اس ادارے سے اس قسم کے کارنامے کا مطالبہ کرنا حق بجانت نہ ہوتا۔ علی گڑھ نہ بہ ہر حال اپنے بانی کی خواہشات کا ایک بڑا حصہ پورا کر دیا۔ اس نے مسلم قوم کی تشکیل میں ایک ایسے وقت میں اہم کردار ادا کیا جب کہ وہ تحت الثریٰ کے کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے قوم کو ایک نئی امید دی ‘ ایک نئے مقصد کا فہم دیا۔ اس نے مسلمانوں کو مایوسی کے عمیق ترین غار سے باہر کال کر بارآور سرگرمی کے میدان میں لا کھڑ ا کیا۔ اس نے ایسے مسلمانوں کی ایک نسل پیدا کی جو اسلام کے ساتھ اپنی بنیادی وفاداری کو خراب کیے بغیر دنیا کے جدید آلات اور اس کی فکر سے واقفیت رکھتے تھے۔ فی الحقیقت علی گڑھ مسلمانوں میں قومیت کے احساس کاگہوارہ تھا۔ کیونکہ اس نے برعظیم میںایک سالم و متحد مسلم ملت کے خیال کو زندہ رکھا۔ علی گڑھ ان نقائص سے مبرا نہ تھا جو اس کے دوستوں کی نظر میں بہت واضح تھے اور جنہیںدیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی تھی مگر اس میں کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا کہ علی گڑھ کے بغیر مسلمان برعظیم کے سیاسی و ذہنی زندگی میں دوسری قوموں سے اور بھی زیادہ پیچھے رہ جاتے ۔ علی گڑھ میں جو خوبیاں تھیں اور جو اس کی کمزوریاں تھیں وہ روشن خیال مسلمانوں کے بہت بڑے طبقہ میں سب کی سب موجود تھیں‘‘۔ علامہ اقبال کو علی گڑھ اور علی گڑھ تحریک سے دلچسپی تھی ایک زمانہ میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوئے تھے لیکن بعد میں ایسا نہ ہوا۔ علی گڑھ کے حالات سے ان کی دلچسپی ان مکاتیب اورمضامین کے علاوہ بانگ درا میں ان کی نظموں میں طلبہ علی گڑھ کے نام سید کی لوح تربت سے ظاہر ہے۔ ایک دور ایسا آیا کہ علی گڑھ میں Anti God سوسائٹی قائم ہوئی تو علامہ کو بڑا صدمہ ہوا کہ علی گڑھ سے ان کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان کے اس مرکز سے ایسے فرزند پیدا ہوں جو اسلام اور ملت اسلامیہ کی خدمت کریں۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’آپ علی گڑھ جا کر مذہبی مضامین پر طلبا سے گفتگوئیں کیا کریں تو نتائج بہت اچھے ہوں گے۔ باوجود بہت سی مخالف قوتوں کے جو ہندوستان میں مذہب کے خلاف (اور بالخصوص اسلام کے خلاف) اس وقت عمل کر رہی ہیں‘ مسلمان جوانوں کے دل میں اسلام کے لیے تڑپ ہے۔ لیکن افسوس کوئی آدمی ہم میں نہیں جس کی زندگی قلوب پر موثر ہو‘‘۔ غالباً مولوی عبدالماجد دریا آؓادی نے اس مشورہ پر کچھ عرصہ کے لیے عمل بھی کیا۔ یہ خط 1929ء کا ہے اور 1934ء کے درمیان (اورشاید اس کے بعد بھی ) مولوی عبدالماجد صاحب علی گڑھ تشریف لائے تو طلبا سے مذہبی امور پر گفتگورکرتے ۔ یہ میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر کہتا ہوں کہ مجھے خود بعض ایسی مجلسوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے اس زمانہ میں علی گڑھ میں آفتاب ہوسٹل نیا تعمیر ہوا تھا اور نام نہا ترقی پسند‘ کمیونسٹ اور مذہب دشمن عناصر کا مرکز بھی اسی میں تھا۔ نام گنانے سے کوئی فائدہ نہیں‘ ان میں سے بعض عناصر اب پاکستان میں ہیں اور خود کو پاکستان پاکستانی قومیت‘ نظریہ پاکستان اور پاکستانی تہذیب کا ترجمان بتاتے ہیں۔ سر سید راس مسعود مرحوم سے اقبال کے تعلق نے قدرتی طورپر علی گڑھ سے علامہ کی دلچسپی اور تعلق خاطر کو اور تقویت بخشی اور یہ سلسلہ راس مسعود مرحوم کی وفات پر ختم ہوا۔ اس موقع پر علامہ کا دردناک مرثیہ مسعود رسالہ اردوکے مسعود نمر میں شائع ہو چکا ہے اور ارمغان حجاز میں بھی شامل ہے۔ 6 : مخزن: لاہور کا مشہور ادبی رسالہ جو پہلے سر عبدالقادر کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ملک کے چوٹٰ کے ادبی رسالوں میں شمار ہوتا تھا اوربیسویں صدی مین اردو کی تحریک کو اس سے بڑی تقویت پہنچی۔ رسالے کے معیار کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس عہد کے لکھنے والے تمام اکابر کے افکار و خیالات اس میں شائع ہوئے ہیں مخزن صرف ایک رسالہ نہ تھا ایک تحریک تھا۔ اس تحریک پر ایک مفصل مقالہ مخزن ایک تحریک کے نام سے کراچی یونیورسٹی میں خالدہ افضال صاحبہ نے پیش کر کے ایم ۔ اے فل کی ڈگری لی ہے۔ ایک اور مقالہ برائے پی ایچ ڈی ڈاکٹر صفدر حسینکا ہے۔ جنہوں نے سر عبدالقادر پر تحقیقی مقالہ لکھ کر کراچی سے ڈگری لی ہے۔ اس میں بھی مخزن پر تفصیلی بحث ہے۔ 7۔ ناظر: چودھری خوشی محمد‘ ناظر تخلص والد کانام چوھدری مولاداد خاں‘ موضع ہریا والا ضلع گجرات پنجاب میں 1389ھ مطابق 1872ء میں پیدا ہوئے۔ کالج کی تعلیم کے لیے علی گرھ گئے اور جہاں سے 1893ء میں بی اے کی ڈگری لی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر ریاست کشمیر میں ایک اعلیٰ عہدے پر مقرر ہوئے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد چک جھمرہ ضلع لائلپور میں مقیم ہوئے اور اکتوبر 1944 ء میں انتقال ہوا۔ شاعر کی حیثیت سے وہ شہرت حاصل نہ کر سکے جس کا ان کا کلام ہر طرح سے مستحق تھا۔ علامہ اقبال کے حلقہ احباب میں تھے۔ علی گڑھ سے تعلق کی بنا پر سر سید کی تحریک اور علی گڑھ کے حامیوں میں سے تھے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں میں شرکت کرتے اور پنجاب میں علی گڑھ تحریک کے فروغ اور تقویت کے لیے کوشش کرتے رہے۔ اقبال سے ہم نوائی اور ہم آہنگی دونوں کے مشترک نظریات اور برعظیم کی ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لیے اور اصلاح و استحکام کی بنیاد پر قائم ہے ان کی ایک مشہور نظم جوگن ہے جو اردو نظم کیتاریخ میں کلاسیکی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ 8۔ اقبا کی یہ نظم جسٹس شاہ دین ہمایوں پر ہے اور بانگ درا میں شامل ہے۔ نظم مختصر ہے لیکن اس سے اقبال کے جذبات اور احساسات کی پوری ترجمانی ہو جاتی ہے۔ اس میں صرف پانچ شعر ہیں ۔ اقبال کو اپنے مرحوم دوست کی مشت خاکستر‘ میں ’’شعلہ گردوں نورد‘‘ نظر آتا تھا۔ اور ان کا یہ نظریہ کہ موت ‘ حیات کے انقطاع کا نام نہیں تفصیل سے ان کی دوسری نظموں مثلاً والدہ مرحومہ کی یاد میں گورستان شاہی‘ شمع و شاعر میں اس نظریہ کی تشریح موجود ہے۔ اس مختصر نظم میں یہ خیال بڑی خوبی سے صرف دو اشعارمیں نظم ہوا ہے: موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں شب کی خاموشی میں جز ہنگامہ فردا نہیں موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی 9۔ علی گڑھ کالج جو اس وقت محمڈن اینگلو اورئنٹل کالج کہلاتا تھا چونکہ کالج اور اس کے متعلقہ لوگ سرسید اور ان کے بعد ان کے جانشین اور اس کے متعلق لوگ سرسید اور ان کے بعد ان کے جانشین اور رفقا نواب محسن الملک ‘ نواب وقار الملک وغیرہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کا محور اورم رکز بن گئے تھے اس لیے قدرتی طور پر علامہ اقبال کے احباب چاہتے تھے کہ علامہ بھی علی گڑھ سے وابستہ ہو جائیں اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ کے لیی ان کو جو نظریات افکار یا خیالات تھے وہ علی گڑھ کے طلبا تک پہنچا سکیں۔ علی گرھ کی اس قوت (Potential) کا اندازہ پوری مسلم قوم کو تھا۔ چنانچہ اسی علی گڑھ سے رئیس الاحرار مولانا فضل الحسن حسرت موہانی‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا ظفر علی خان جیسے آزادی ی جدوجہد کے سپاہی پیدا ہوئے اور پھر فرزندان علی گڑھ نے برعظیم کے گوشے گوشے میں اس پیغام کو پہنچایا۔ قائد اعظم اسی بنا پر علی گڑھ کو مسلم وم کا اسلحہ خانہ کہتے تھے ۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کے آخری مرحلہ میں بھی علی گڑھ کا کردار نمایاں رہاہے اور علی گڑھ کے طلباء نے خاص طور پر صوبہ سرحد‘ سند ھ اور پنجاب میں دورے کر کے ا س تحریک کو تقویت پہنچائی۔ میاں جسٹس شاہ دین کی ترغیب اس اہمیت کا اندازہ خود ان کے بعض بیانات سے ہوتا ہے۔ 1894ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا نواں اجلاس علی گڑھ میں منعقد ہوا تو اس کی صدارت کے لیے جسٹس محمد شاہ دین کو منتخب کیا گیا۔ پھر 1913ء مٰں آگرہ میں کانفرنس کے اجلاس مٰں انہوںنے دوبارہ صدارت کی۔ اس سے علی گڑھ ‘ علی گڑھ تحریک سرسید کے افکار وخیالات اور مسلمانوں کی جدوجہد سے ان کی دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ 1913ء میں انہوںنے کانفرنس کے خطبہ صدارت میں جن امور کی طرف اشارہ کیا تھا ان میں صاف علامہ کے خطبات الہ آباد کی صدائے بازگشت ملتی ہے۔ علامہ نے مسلمانوں اور ہندوئوں کی اقتصادی حالت کا مقابلہ کرکے بتایا تھا کہ ایسی صورت میں مسلمانوں اور ہندوئوں کاقدم بہ قدم چلنا اورمتحد ہو کر ایک جماعت کی حیثیت سے کام کرنا ممکن نہیں۔ جسٹس شاہ دین نے اس خطبہ میں یہ کہا تھا: ’’آج تک بہ حیثیت قوم ہم نے اپنے اصول دولت کی طاقتوں کو تقویت دینے میں بہت کچھ کوتاہی روا رکھی ہے‘ اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری اقتصادی حالت نہایت زبوں ہو گئی ہے۔ آج کل صنعت و حرفت کا دور دورہ ہے اور میں ان نوجوانوں کو جو آرٹس کالجوں میں تحصیل علم کرتے ہیں‘ بڑے زور سے یہ صلاح دوں گا کہ وہ بمقابلہ زبان ہائے جدیدہ اور فلسفہ کی طبیعیات اوراقتصادیات کے مطالعہ پر زیادہ توجہ دیں۔ زباندان یا فلسفی کے مقابلے میں ایک ماہر طبیعیات تحقیقت علمی کے مفید کام میں زیادہ نمو پاتا ہے۔ اور ہماری قوم کے واسطے ایک ماہر علم مادیات کا وجود زیادہ مفید ہے جس کی علمی تعلیم اس کو زندگی کے مجسم حقائق سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ قابل بنا دیتی ہے‘‘۔ سرسید کا بھی یہی نقطہ نظر تھا۔ چنانچہ انہوںنے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ میں ایک سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی جس کا مقصد ملک و قوم کو سائنس کی جدید تحقیقات اور انکشافات سے آشنا کرانا تھا۔ سوسائٹی کے لیے ایک عمارت تعمیر ہوئی تھی جس میں مختلف سائنسی موضوعات پر لیکچر اور مذاکرے ہوتے تھے اور عملی تجربات بھی دکھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ تجویز بھی تھ کہ اس سوسائٹی کے ذیرعہ سے اردو میں علوم جدیدہ کو ترجموں اور تالیفات سے منتقل کیا جائے اور اس سلسلے میں سوسائٹی نے بہت کچھ مفید کام بھی کیا۔ سرسید احمد خاں کو سوسائٹی اور اس کے کام کی اہمیت کا اس قدر خیال تھا کہ انہوںنے اپنے انگلستان کے قیام کے دوران نواب محسن الملک کو جو خط لکھا تھا اس میں سوسائٹی کے کام میں سست رفتاری پر اپنی تشویش اور گہرے رنج و الم کا اظہار کیا تھا کہ سوسائٹی ایک نہایت اہم اور مفید کام انجام دے سکتی ہے۔ لیکن قوم کو اس کی طرف پوری توجہ نہ تھی۔ اسی خطبہ میں جسٹس شاہ دین محمد نے کانفرنس اور تحریک سرسید کے حوالے سے اردو زبان کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا: ’’اس زبان(اردو) کے ادبی اور علیم نشوونما میں مدد پہنچنا ہماری کانفرنس کے پروگرام کا خاص اہم جزو ہے۔ اس ذمہ داری کو انجام دینے میں ہماری قوم نے نہایت غفلت سے دکھائی ہے۔ دیگر زبانوں کے مقابلہ میں ارد کو ایسی سہولتیں حاصل ہیں کہ اگر اس کانفرنس کی طرف سے معمولی امداد بھی صحیح اصول اور باقاعدہ طریقہ پر کی جائے گی تو وہ تمام رکاوٹیں جو اس زبان کی ترقی میں سد راہ ہیں دور ہو جائیں گی‘‘۔ آگے چل کر اسی تقریر میں جسٹس شاہ دین نے علامہ اقبا ل کے اس مصرعہ کی تائیدکی: ’’جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہٰںمذاق سخن نہیںہے۔ کچھ عرصہ کے لیے اردو شاعری کی طرف سے ہم کو اپنی توجہ کم کر دینی چاہیے اور ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ شعبہ شاعری میں تصنیفات کا سلسلہ کم کر دیا جائے اور اپنے نوجوانوں کو آمادہ کیاجائے کہ انگریزی زبان کی تصنیفات جو عملی مضامین پر جدید تحقیقات کے متعلق ہیں‘ ان کے تراجم اردو زبان میں تیار کر کے اردو لٹریچر کو مالا مال کردیں۔ اس مدعا کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام علوم جدیدہ کی اصطلاحات کی ایک مکمل لغت تیار کی جائے ۔ یہ اصطلاحات ان اسطلاحات کا جو زبان انگریزی اور یورپ کی دیگر زبانوں میں عموماً مروج ہیں یا تو ترجمہ ہوں یا ان کا اتخاذ ہوں‘‘۔ علی گڑھ نے اردو کی جو خدمات انجام دیں وہ الگ تفصیلی بیان کی محتاج ہیں۔ اور سرسید اور ان کے رفقائے کار نے اردو کو ایک جدید دور کے علمی اور تحقیقی مطالب ادا کرنے کے قابل بنایا کہ بقول مولانا شبلی نعمانی یہ کل کی چھوکری یورپ کی اپنی ثقہ بہنوں سے آنکھ ملانے کے قابل ہو گئی۔ 10۔ مولانا حالی کا مشہور مسدس مدوجذر اسلام جو صرف مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔ اردو نظم کی تاریخ کا ایک شاہکار ہے۔ حالی کے متعلق علامہ اقبال کا ارشاد ہے: آں لالہ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد سید دگر او را نمی از اشک سحر داد حالی ز نواہائے جگر سوز نیاسود تا لالہ شبنم زادہ را داغ جگر داد سرسید کے نزدیک اس کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اس کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مسدس کی رسید میں جو خط سرسید شملہ سے مولانا حالی کو لکھاہے اس میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا میں کیا کیا؟ تو جواب دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھو ا لایا ہوں شاید ہی کسی شاعر یا مصنف کو انے کلام کی ایسی داد ملی ہو گی۔ مسدس کیا ہے مسلمانوں کے عروج و زووال کی ایک موثر داستا ہے جس سے مسلمانوں کی پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ خاص طور پر اسلام کے فیوض و برکات کا اس طرح ذکر کیا ہے ‘ کہ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلام ایک ابر رحمت تھا کہ عرب کے ریگستانوں سے اٹھا اور ساری دنیا پر سیراب کر گیا‘ جس نے ایک قوم کی کایا پلٹ گی اور دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا پھر مسلمانوں کی فتوحات سے بڑھ کر ان کی علمی فتوحات‘ ان کی رصد گاہیں‘ ان کے مدرسے اور شفاخانے‘ ان کے کتب خانے‘ تعمیر کردہ مساجد او ر ا کے علوم و فنون کا ذکر کر کے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے آشنا کرایا ہے۔ پھر دور زوال کی تصویر ہے اور اس میں بھی کہیں جھوٹ یا مبالغہ نہیں ۔ حیقت اور امر واقعہ کا اظہار ہے اور یہ تصویر ایسی دردناک ہے کہ پڑھنے والے کو عبرت ہوتی ہے۔ اردو میں قومی شاعری کی یہ پہلی کوش ہے جو ادب العالیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کے پیش نظر بھی مسلمانوں کا عروج و زوال تھا چنانچہ ان کی نظموں بالخصوص شکوہ میں اور جواب شکوہ میں وہی موضوع ہے جو مسدس حالی کا ہے بلکہ علامہ اقبال نے ان دونوں نظموں کے لیے وہی پیمانہ (یعنی مسدس) اختیار کیا جو حالی نے اختیار کیا تھا اور جو مسلسل اور تاریخی حالات اور واقعات کے بیان کے لیے نہایت مناسب پیمانہ ہے جسے انیس اور دبیر جیسے قادر الکلام شعرا نے اپنے مراثی کے لیے بھی اختیار کیا ہے۔ حالی کی مسدس کا ایک مقصد نوجوان مسلمانوں سے خطاب تھا۔ جن کو ملت اسلامیہ کی کشتی کی ناخدائی کرنا تھی اور یہی علامہ اقبال کا مقصد تھا جس کے لیے ان کے احباب ان پر زور دیتے تھے۔ کہ وہ بیرسٹری ترک کر کے علی گڑھ چلے جائیں تاکہ بقول میاں بشیر احمد نئے حالات کے مطابق وہ اس مرکزی مقام سے قوم کو خطاب کریں۔ 11۔ موسیو گارساں دتاسی مشہور فرانسیسی مستشرق تھے۔ 20جنوری 1794ء کو مارسیلز میں پیدا ہوئے۔ اور وہیں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی ۔ اس زمانے میں مارسیلز ایک مشہور تجارتی بندرگاہ تھا اور مشرق و مشرق بعید اور یورپ کے درمیان ایک تجارتی بحری شاہراہ پر ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں مختلف ملکوں کے تاجروں اور سیاحوں‘ ملاحوں اور ناخدائوں سے گارساں نے عربی بو ل چال سیکھی۔ یہ اس کا مشرق اور مشرقی زبانو ں سے پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد 1817ء میں وہ مشرقی زبانوں سکے سیکھنے کے شوق میں پیرس جا کر مشہور مستشرق موسیو ایس ڈی ساسی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور عربی فارسی اور ترکی زبانوں میں خاصی استعداد بہم پہنچائی ۔ 1824ء میں وہ علوم مشرقیہ کے اس ادارہ کے ناظم مقرر ہوئے جو ان کے استاد موسیو ایس ڈی ساسی نے قائم کیا ھتا۔ اس کے بعد اس ادارہ میں ہندوستانی یعنی اردو کا شعبہ کھولنے کا منصوبہ بنا تو گارساں دتاسی کو ا س میں مقرر کیا گیا۔ 1848ء میں حکومت کی منظوری کے بعد یہ شعبہ قائم ہو گیا۔ گارساں دتاسی نئی نسل کے ان مستشرقین میں سے تھا جس نے فرانس میں مشرقی زبانوں اور علوم کے مطالعہ کی روایت کو دوبارہ قائم کیا۔ ہندوستانی زبان سیکھنے کے لیے گارسا ں نے انگلستان کا سفر کیا کیونکہ ایک تو انگریزی میں اردو سیکھنے کے لیے ضروری مواد اور ماخذ خاصے فراہم ہو چکے تھے۔ دوسرے وہاں اردو پڑھانے اور سکھانے کا بھی کچھ انتظام تھا کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات اور تجارتی نیز سیاسی امور کی نگہداشت کے لیے اعلیٰ افسرانگلستان سے ہی بھرتی کر کے بھیجے جاتے تھے اور ان کے لیے اس ملک میں جانے سے پہلے وہاں کی زبان‘ تہذیب اور معاشرت اور رسم و رواج سے آگا ہ ہونا ضروری تھا۔ موسیو گارساں دتاسی نے اردو سیکھنے کے بعد اپنے ادارہ میں اس کی تدریس تعلیم اور تحقیق میں بڑی سرگرمی کا اظہار کیا ۔ اگرچہ اس کو کبھی ہندوستان آنے کا موقع نہیں ملا لیکن اس کی تصانیف‘ مقالات اور خطبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی نظر نہ صرف اردو شعر و ادب کی تاریخ اور اس کے سرمایے اور روایات پر بڑی گہری تھی بلکہ وہ سال بہ سال اردو زبان و ادب اور برصغیر کی تہذیبی‘ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں پوری اطلاعات رکھتا تھا اور ایک عرصہ تک اپنے سالانہ خطبات میں وہ سال بھر کی اردو زبان کی تاریخ اور ترقی کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ اس کے خطبات سے اس کی دلچسپی کے علاوہ ا س کی وسیع معلومات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس دور میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے باب میں اس کے مقالات اور خطبات ایک اہم ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ درس و تدریس اور تعلیم و تحقیق کا یہ سلسلہ کم و بیش پچاس سال کے عرصہ پر محیط ہے اور 2ستمبر 1878ء کو گارساں کی وفات پر ختم ہے۔ گارساں دتاسی کی تصانیف تراجم‘ مقالات‘ خطبات ‘ انتخابات شعرا کے دواوین اور جو انہوں نے مرتب کیے‘ صرف و نحو پر مضامین وغیرہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سر فہرست تاریخ ادبیات ہندی و ہندوستانی ہے۔ انہوں نے ولی کا دیوان مرتب کیا اور اس کے اشعار کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح میر امن کی باغ و بہار کو مرتب و مدون کیا۔ سرسید احمد خان کی آثار الصنادید کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جس پر سرسید کو رائل ایشیاٹک سوسائٹی کا ممبر بنایا گیا۔ انہوںنے عربی‘ ہندوستانی اور فارسی گیتوں کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا اور ہندوستانی کے عوامی گیت بھی منتخب کی۔ ہندوستانی زبان کے عناصر کے عنوان سے اس زبان کی قواعد کا ڈھانچہ 1829ء میں اور اس کا دوسرا ایڈیشن 1863ء میں شائع کیا۔ اس کے سالانہ خطبات1850ء سے 1870ء تک کے عرصہ ک ہیں۔ اگرچہ گارسا ں دتاسی کا میلان اور پیشہ زبانوں اور بالخصوص ہندوستانی زبان کی تعلیم و تدریس اور تحقیق تھی لیکن مذہب اسلام سے بھی ان کو دلچسپی تھی اور اسلام ے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہمدردانہ تھا۔ چنانچہ اسلام کے بارے میں اس کی تصانیف میں سے بعض یہ ہیں: (1) قرآن کے مطابق اسلام میں فرائض و آئین‘ 1826ء ، 1829ئ،1840ئ۔ (2) ایمان اسلام کی تشریح 1822ء ، 1828ء (3) قرآن کے مطابق اسلامی آئین و عمل‘ تیسرا ایڈیشن پیرس 1871ء (4) ہندوستان میں اسلام کی خصوصیات کا مطالعہ 1839 ء ، 1869ء (5) مسلمانوں کے ناموں اور القابوں کا مطالعہ‘ دوسری ایڈیشن 1878ء (6) قرآن حکیم کے ایک حصے کا ترجمہ۔ عربی ‘ اردو ‘ فارسی ‘ ترکی اور اسلام سے گارساں دتاسی کی دلچسپی ہی غالباً علامہ اقبال کے پیش نظر تھی جو انہوںنے گارساں دتاسی کے مطالعہ اور اس کی تصانیف کو اردو میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ گارساں دتاسی کے مقالات کا کچھ حصہ نواب سر راس مسعود نے بقیہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے مرتب کیا اور مقالات و خطبات انجمن ترقی اردو نے شائع کیے ۔ممکن ہے کہ نواب سر راس مسعود مرحوم کو بھی علامہ اقبال نے ہی اس اہم کام کی طرف توجہ کیا ہو۔ لیکن گارساں کی اہم ترین تصنفی تاریخ ادبیات ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کا پہلا ایڈیشن رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف گریٹ برٹن اینڈ آئر لینڈ کی طرف سے 1839ء میں شائع ہوا تھا اور دوسری جلد 1846ء میں شائع ہوئی۔ گارساں دتاسی نے اس کی تکمیل کا ذکر اپنے 4دسمبر 1854ء کے خطبے میںکیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی تصنیف کے بعض اجزا کا ہندوستانی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس کا اشارا غالباً تذکرہ شعراء کی طرف ہے جو کریم الدین نے مرتب کیا تھا۔ وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اس تصنیف کی اشاعت سے انگریزوں میں اردو زبان کا شوق ہوا۔ پہلے ایڈیشن کے بعد بھی گارساں دتاسی اردو زبان و ادب کی تاریخ کے ماخذات کی تلاش میں لگا رہا اور اردو شعرا کے تذکرے دواوین اور ان کے متعلق مختلف ذرائع اور وسائل سے اطلاعات جمع کرتا رہا اور پھر اس نے اس تاریخ کا دوسرا ایڈیشن مرتب کیا جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ ا س کی پہلی دو جلدیں 1870ء میں اور دوسری اورتیسری جلدی 1871ء میں شائع ہوئی گویا یہ تاریخ موسیو گارساںدتاسی کے تیس سال کے مطالعے اور تحقیق کا نتیجہ ہے۔ علامہ اقبال کو قدرتی طور پر گارساں دتاسی اور اس کی تصانیف سے دلچسپی تھی۔ کیونکہ اس کی اطلاعات نہ صرف معتر اور معلومات افزا تھیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا نقطہ نظر ہمدردانہ تھا ورن علامہ کو عام یورپین مصنفین سے شکایت ہی تھی کہ ان میں علمی دیانت داری کے بجائے تعصب بلکہ بعض صورتوں میں مذہبی جنون تک نظر آتا ہے اور اس یے ان کی تحقیققات سے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کچھ مسخ ہی نظر آتی ہے۔ اگرچہ خطبات اور مقالات گارساں دتاسی کے ترجمے اردو میں آ چکے تھے لیکن اس اہم تاریخی دستاویز تک جو فرانسیسی زبا ن میں تھی‘ ہمارے بہت کم مصنفین مورخین اورمحققین کی رسائی تھی۔ 1957ء میں حکومت پاکستان کے ایک تعلیمی وظیفہ پر ایک فرانسیسی خاتون للیان نذرو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں علمی تحقیقات کے لیے داخل ہوئیں۔ صدر شعبہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی تجویز پر یونیورسٹی نے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے گارساں دتاسی کی اس تاریخی دستاویز کا فرانسیسی سے اردو ترجمہ کیا اور اس کے حواشی و تعلیقات کا موضوع منظور کیا اور ڈاکٹر صدیقی کی نگرانی میں یہ ترجمہ اور حواشی و تعلیقات دو ضخیم جلدوں میں مرتب کیے گئے اوربالآخر اس پر کراچی یونیورسٹی نے للیان نذرو کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اب سے بہت پہلے شائع ہو جانا چاہے تھا لیکن یہ مسودہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ اقبال کے بعض پرستاروں نے بھی اس کی اہمیت اورافادیت کے پیش نظر اس کی طباعت اور اشاعت میں دلچسپی لی لیکن کوئی صورت اب تک اس کی پیدا کی ہوئی نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ممتاز حسن صاحب مرحوم نے مرکزی اردو بورڈ لاہور کے ڈائریکٹر جناب اے ڈی اظہر کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس اہم کتاب کو شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ لیکن یہ ادارہ اسے شائع نہ کر سکا۔ ایک عرصہ تک یہ انجمن ترقی اردو کے کارکنوں کی الماریوں میں طباعت کے انتظار میں پڑی رہی اور اب کراچی یونیورسٹی کے کتب خانے میں پی ایچ ڈی کے مقالات کے ساتھ بے قدری کی شکوہ سنج ہے۔ 12۔ علامہ اقبال زبان کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہ تھے۔ اپنی نجی گفتگو اور احباب کی بے تکلف مجلسوں میں ظاہر ہے وہ اپنی مادری پنجابی ہی استعمال کرتے ہوں گے‘ لیکن برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سیاسی او ر تہذیبہ حوالے سے ان کے نزدیک اردو زبان کی حیثیت اور اہمیت مسلم تھی اور اس سے وسیع تر سطح پر وہ فارسی کی تہذیبی اور علمی حیثیت کو تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی نظم و نثر کی اہم ترین تصانیف اردو اورفارسی میں ہی ہیں۔ بعض تصانیف انگریزی میں ہیں جن کااردو ترجمہ علامہ کی تجویز ایما یا اجازت سے ان کی زندگی میں ہوا۔مثلاً خطبات کا ترجمہ کو سید نذیر نیازی نے کیا۔ نذیر نیازی صاحب کے حوالے سے (اقبال کے حضور‘ کراچی 1971ء ص 49 ‘ 135-136) سے علامہ کے یہ ملفوظات پیش نظر رکھیے: ’’ہندی اور اردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوںنے محسوس کیا کہ سر سید کا یہ قول کہ ہمارا اور ہندوئوں کا راستہ الگ الگ ہے حرف بہ حرف صحیح ہے… یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس دنے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا۔ جب نہرو رپورٹ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا‘‘۔ نذیر نیازی صاحب کا یہ بیان کہ: ’’2فروری 1938 ء کی نشست میں انہوںنے علامہ اقبال کے کہنے پر قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر پڑ ھ کر سنائی جو اسی روز اخبار میں چھپی تھی۔ اقبال اس تقریر کی دو باتوں سے خوش ہوئے ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے ردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر‘‘۔ علامہ اقبال کے ان خیالات اور انداز فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اردو اسلامی تہذیب اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ثقافت کی روح تھی اور اردو ہندی کا تنازعہ دراصل اسی شہ رگ کو کاٹنے کی ایک کوشش تھی۔ دوسرے یہ کہ علامہ اردو پر حملے کوتہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کے خلاف ایک حملہ تصور کرتے تھے۔ علی گڑھ میں انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام مولوی عبدالحق نے ایک اردو کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ میزبانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ارو اس کے مختلف اداروں بالخصوص انجمن اردوئے معلی شعبہ اردو کے ذمہ تھی جس کے صدر پروفیسر رشید احمد صدیقی اور سیکرٹری ابوللیث صدیقی تھے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مولوی صاحب نے علامہ اقبال کو بھی دعوت دی‘ جواب میں علامہ فرماتے ہیں : ’’اگرچہ میں اردو زبان کی بہ حیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تاہم میری لسانی دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے‘‘۔ اس ارشاد میں عصبیت کا لفظ خاص طور پر غور کرنے کے قابل ہے۔ ہم لوگوں نے عصبیت کا مفہوم کچھ ایسا متعین کر لیا ہے کہ جس میں تنگ نظری اور کم حوصلگی زیادہ نمایاں ہے‘ حالانکہ عصبیت وہ جوہر ہے جو کسی معاشرہ کو اس کی انفرادیت بخشتا ہے اور اس کے اجتماعی وجود کی ضمانت ہوتی ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب کے نام پر ایک اور خط میں فرماتے ہیں: ’’کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کر سکتا‘‘۔ 13۔ گرامی: شیخ غلام قادر گرامی 1856ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں تحصیل علم کے لیے لاہور آئے اور اورینٹل کالج لاہور میں داخل ہو کر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور کچھ عرصہ تک وکالت بھی کی۔ پھر امرتسر میں فارسی کے معلم ہوگئے۔ اس کے بعد کپورتھلہ چلے گئے اور کچھ عرصہ لدھیانہ بھی رہے۔ پولیس میں بھی نوکری کی بالآخر دکن چلے گئے جہاں نظام دکن نے انہیں اپنا استاد مقرر کیا اور بڑی قدردانی کی۔ 1916ء میں واپس پنجاب آئے اور 26مئی 1927ء کو انتقال ہوا۔ فارسی شاعری کا اعلیٰ درجے کا مذاق رکھتے تھے اور علامہ اقبال کو ان کی شاگردی پر فخر تھا۔ 14۔ علی بخش: علامہ اقبال کا معتمد خدمت گار جس کا حوالہ علامہ اقبال کے احباب اور نیاز مندوں کی تحریروں میں بار بار آتا ہے۔ ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ ایک عرصہ تک علی بخش نے شادی نہیں کی تھی اور اس باب میں اس نے علامہ سے استفسار کیا تو علامہ نے لکھا کہ اگر انسان صاحب استطاعت ہو اور اپنے اہل و عیال کی خبر گیری کی صلاحیت اور ذرائع اور وسائل رکھتا ہو تو ضروری شادی کر لینا چاہیے ورنہ شادی کر کے اپنے ساتھ ایک دوسری زندگی کو وابستہ کر کے مصیبت میں کیوں ڈالا جائے۔ ملازمین کے انتخاب کے سلسلے میں علامہ خاصے محتاط تھے۔ چنانچہ بیگم صاحبہ کے انتقال کے بعد جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے جب ایک خاتون کی ضرورت ہوئی تو علی گڑھ سے ایک بیوہ جرمن خاتون کو بلایا گیا۔ یہ ڈاکٹر اصغر حیدر کی سالی تھیں اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ان کے اوصاف کی بنا پر ان کی سفارش کی تھی۔ یہ خاتون ابھی حیات ہیں اور منیرہ صلاح الدین کے ساتھ گلبرگ لاہور میں مقیم ہیں۔ 15 رابندر ناتھ ٹیگور: بنگال کے ہندوؤں کے روحانی گرو، شاعر، ادیب، معلم اور انشا پرداز۔ ٹیگور کا فلسفہ جو بظاہر امن و خاموشی کا فلسفہ ہے دراصل اسی ہندو و یدانت کی صدائے باز گشت ہے، لیکن ٹیگور کا فلسفہ محض فکری امن و سکون کا فلسفہ نہ تھا۔ وہ نئی ہندو نسل کو ان کی قدیم تہذیب و روایات سے قریب تر لانا چاہتا تھا۔ اس تعلیمی فلسفہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے شناتی نکیتن میں ایک مثالی درسگاہ بھی قائم کی تھی۔ علامہ جب یہ فرماتے ہیں کہ ٹیگور عملی آدمی ہے تو ان کی مراد یہی ہے کہ وہ عملاً ہندوؤں کی تہذیبی نشاۃ الثانیہ کی تحریک میں آگے آگے ہیں۔ علامہ اقبال نے بار بار اپنی بے عملی کا ذکر کیا ہے اور اکثر حضرات ان کا یہ شعر دہراتے ہیں: اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا جب وہ فرماتے ہیں کہ میں عملی آدمی نہیں تو ان کی مراد یہ نہیں کہ وہ عملاً جدوجہد آزادی کی تحریک سے الگ رہے۔ ان کے مکاتیب سے واضح طور پر ظاہر ہے کہ وہ ملک کی سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ اس سے بڑھ کر ان کے عملی ہونے کا ثبوت کیا ہو گا کہ انہوں نے اپنے الہ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس میں پاکستان کے تصور کا پہلا واضح نقشہ پیش کیا اور پھر ساری عمر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ منجملہ اور ماخذ کے علامہ اقبال اور قائد اعظم، علامہ اقبال اور مولوی عبدالحق کے مکاتیب سے اس کردار کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلمانوں کے کردار کو موثر، مثبت اور متحد کرنے میں بھی علامہ کی کوششوں کو پیش نظر رکھیے: ’’ عملی سیاست کا ایک معمولی سا اندازہ انتخاب یا الیکشن سے ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے 1926ء میں صوبائی اسمبلی یعنی پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا انتخاب لڑا اور جس حلقہ سے علامہ اقبال کھڑے ہوئے ان کے حریف ملک محمد دین تھے جن کا ذاتی اور برادری کا اثر و رسوخ اس حلقہ میں خاصا تھا۔ بقول فقیر سید وحید الدین (روزگار فقیرص103) کئی ہفتہ شہر میں خوب ہنگامہ آرائی رہی۔ لاہور کے در و دیوار سے ووٹ ووٹ کی صدائیں آتی تھیں۔ سید صاحب30نومبر اور8دسمبر1926کے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حلقہ انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے 64پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور بارہ ہزار ووٹوں میں68 فی صدی ووٹ ڈالے گئے جن میں پانچ ہزار چھ سو پچھتر (5675) ڈاکٹر صاحب کو اور دو ہزار چار سو اٹھانوے (2498) ووٹ محمد دین کو ملے۔ اس کے بعد تین سال تک علامہ کونسل کے رکن رہے اور انہوں نے نہایت اہم قومی اور ملکی مسائل پر تقریریں کیں اور بحث میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔‘‘ یہ صرف ایک مثال تھی۔ ٹیگور اور علامہ اقبال کے اس فرق کی تائید ایک اور بیان سے ہوتی ہے۔ حیات اقبال سے اس قسم کی مثالیں اور مل سکتی ہیں جسے فقیر سید وحید الدین نے سید امجد علی کے حوالے سے نقل کیا ہے: ’’ Tagore preaches rest practises adtion, iqbal practices rest and preaches action.‘‘ اس مسئلہ کا ذکر ممتاز حسن صاحب کے مقالہ اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے، میں بھی ہے جو ہمایوں اکتوبر1931ء میں شائع ہوا۔ 16 بال جبریل: بال جبریل علامہ اقبال کے اردو کلام کا دوسرا مجموعہ جو بانگ درا کی اشاعت اول سے ایک طویل عرصہ کے بعد شائع ہوا۔ بانگ درا کی پہلی اشاعت1924ء میں آئی، اس سے پہلے اسرار خودی، (1915ئ) پیام مشرق (1923ئ) اور اس کے بعد زبور عجم (1927ئ) جاوید نامہ (1932ئ) شائع ہوئیں۔ بانگ درا کی اشاعت کے بعد علامہ کی توجہ فارسی کی طرف زیادہ رہی بلکہ بعض شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بقول علامہ فارسی میں شعر ان پر نازل ہوتے تھے۔ اردو کے شیدائی بانگ درا کی اشاعت سے پہلے ہی اقبال کے کلام کے مداح بن چکے تھے اور ان کی مشہور نظمیں جو بانگ درا میں شامل ہیں خاص و عام میں مقبول ہو چکی تھیں۔ لیکن علامہ اقبال اپنے پیغام کووسیع تر ذریعہ ابلاغ فراہم کرنے کے لیے، حکیمانہ خیالات کے اظہار کے لیے فارسی کی طرف مائل تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ فارسی زبان میں حکیمانہ اور بالخصوص صوفیانہ افکار صدیوں سے نظم ہوتے چلے آئے تھے، اس لیے فارسی میں ان کے اظہار کے لیے مناسب اصطلاحات اور موزوں اسلوب بیان پیدا ہو گیا تھا۔ اردو شاعری اگرچہ اس کی عمر بھی کئی سو سال کی ہو چکی تھی مگر اس میں اکثر و بیشتر رسمی عاشقانہ شاعری کے بیان کی طرف رحجان تھا، تصوف اور اخلاق کے جو مضامین تھے وہ اکثر فارسی سے ہی ماخوذ تھے اور خود اردو کے شاعر جب اس قسم کے فکری موضوعات کی طرف توجہ کرتے تھے تو فارسی کی دستگیری کے بغیر آگے قدم اٹھانا ان کے لیے دشوار ہوتا۔ اس قسم کی ایک واضح مثال اردو میں مرزا غالب کی ہے کہ ان کے اردو کلام کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ اس شاعری کا سلسلہ افکار و خیالات، علامات و اشارات، استعارات و تشبیہات اور تراکیب کے اعتبار سے بجائے اردو کے فارسی کی روایات سے ملتا ہے۔ ان حالات میں علامہ اقبال کا فارسی کی طرف زیادہ متوجہ ہونا سمجھ میں آجاتا ہے۔ بال جبریل کی اشاعت سے اردو والوں کو واقعی بڑی خوشی ہوئی، چنانچہ میاں بشیر احمد کا یہ فقرہ ’’ بال جبریل چھپی تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی‘‘ اس دور کے لوگوں کے عام رد عمل کا اظہار ہے۔ 17مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ: علامہ اقبال کے کلام نظم و نثر، ان کے مکتوبات اور مضامین میں حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کا ذکر کئی جگہ آتا ہے۔ ایک تو صوفیانہ افکار کے سلسلے میں علامہ کا نقطہ نظر وحدت الوجود کی بجائے وحدت شہود کی طرف جھکا ہوا ہے جو حضرت مجدد کا بھی مسلک ہے۔ دوسرے حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے دور میں برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ میں راسخ الاعتقادی کی تحریک کا آغاز کیا اور اسے تقویت بخشی۔ دراصل برعظیم میں مسلمانوں کے آنے کے بعد قدرتی طور پر نہ صرف یہاں کی تہذیب اور رسم و رواج، یہاں کی زبانوں اور ان کے شعر و ادب نے مسلمانوں کو متاثر کیا بلکہ یہاں کے مذہبی یا نیم مذہبی افکار و خیالات، توہمات، دیو مالا اور خرافیات نے بھی مسلمانوں کے خیالات میں راہ پائی، یہاں تک کہ عہد اکبری میں اس فتنہ عظیم نے یہ یہ صورت اختیار کی جو اکبر کے دین الٰہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بعض مورخین (مثلاً ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ ص174) کا خیال ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں اکبر راسخ العقیدہ مسلمان تھا لیکن ایک تو اس وجہ سے کہ اس کی شادی ایک راجپوت راجکماری کے ساتھ ہوئی تھی اور قدرتی طور پر اکبر اور جہانگیر کے علاوہ محل اور دربار سے متعلق دوسرے لوگوں میں ہندوؤں کی طرف میلان اور جھکاؤ بڑھ گیا۔ دوسرے سیاسی مصلحتوں کی بناء پر بھی اکبر اور جہانگیر ایسا رویہ اختیار کرنا سیاسی اور ملکی مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے جس سے ان کی مسلم نوازی یا اسلام پرستی کا تاثر پیدا ہو بد قسمتی سے بعض علماء کے آپس کے اختلافات اور مناظروں نے اکبر میں اس طبقہ کے خلاف بے اعتمادی بلکہ نفرت کے جذبات پیدا کر دیے اور ان لوگوں کو اس کے مزاج میں دخیل ہونے کا موقع ملا جو صرف موقع پرست تھے۔ شیخ مبارک نے وہ مشہور فتویٰ تیار کیا جس کو بعض حضرات اکبر کو ’’ مبرا عن الخطا‘‘ قرار دینے کی دستاویز کہتے ہیں اور بعض صرف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر بادشاہ عوام کی بھلائی کے لیے کوئی حکم دیتا ہے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس کی تعمیل کریں۔ بعض اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ شرط یہ ہے کہ وہ حکم آیات قرآنی کے مطابق ہو۔ اگر یہ واقعہ ہوتا تو شیخ عبدالنبی اور مخدوم الملک کو اس مجلس، جہاں یہ فتویٰ تیار ہوا، جبراً نہ لایا جاتا اور زبردستی ان سے دستخط کرانے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ یہ صورت حال ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھی ہے۔ یہ اس انجام کا آغاز تھا کہ اسلام کو دین اسلام مجازی و تقلیدی کہہ کر ترک کیا گیا اور دین بادشاہ کو قبول کیا گیا۔ ملا عبدالقادر نے اس ترک دین کے عہد کے یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’ من کہ فلاں ابن فلاں باشم بطوع و رغبت و شوق قلبی از دین اسلام مجازی و تقلیدی کہ از پدران دیدہ و شنیدہ بودم ابرا و تبرا نمودم و مراتب اخلاص چارگانہ کہ ترک مال و جان و ناموس و دین باشد قبول کردم۔‘‘ اکبر کے زمانہ میں ہی اس رحجان کے خلاف رد عمل شروع ہو گیا تھا۔ چنانچہ شاہزادہ دارا شکوہ کی ناکامی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا۔ جہانگیر کو اگرچہ بعض مورخین نے شرابی، عیش پرست اور عاشق مزاج شاہزادے کی حیثیت سے پیش کیا ہے لیکن تزک جہانگیری سے جو اس کی تصویر ابھرتی ہے، وہ اس سے مختلف ہے۔ اور اسی جہانگیر کے دور میں راسخ الاعتقادی کا احیاء ہوا اور اس تحریک کے ایک نمایاں علمبردار حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہیں۔ شیخ احمد (رحمتہ اللہ علیہ) کی پیدائش 971ھ 1562-63ء میں سرہند میں ہوئی۔ ان کے والد شیخ عبدالاحد تھے، جو ایک مشہور عالم و فاضل بزرگ تھے اور اس عہد کے ایک مشہور صوفی بزرگ شیخ عبدالقدس گنگوہی (رحمتہ اللہ علیہ) کے مرید تھے، گنگوہی خود سلسلہ چشتیہ صابریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ہدایت پر شیخ عبدالاحد پہلے ’’ تکمیل علوم دین و شریعت‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کے بعد سلسلہ سلوک کی منازل شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے صاحبزادے رکن الدین نے طے کرائیں۔ شیخ احمد نے اپنی ابتدائی تعلیم اور بیشتر علوم کی تکمیل اپنے والد سے کی، اس کے علاوہ اس عہد کے بعض دوسرے فاضل اساتذہ سے کسب فیض کیا، جن میں صوفی شاہ کمال کشمیری، شیخ یعقوب کشمیری، قاضی بہلول بدخشانی وغیرہ شامل ہیں۔ شاہ کمال (رحمتہ اللہ علیہ) نے ہی انہیں سلسلہ قادریہ کی تربیت دی اور ان کے والد نے بھی انہیں اپنا مرید اور خلیفہ بنا کر مرید کرنے کی اجازت دی۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ سترہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی اور تصوف کے مراحل تیزی سے طے کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ خواجہ باقی باللہ دہلوی کے زیر ہدایت سلسلہ نقشبندیہ میں شریک ہوئے، اور باقی زندگی بر عظیم میں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ اور ان کے دینی افکار و اعمال کی اصلاح کے لیے وقف کر دی، اور تبلیغ کی طرف متوجہ ہوئے۔ بعض مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں جہانگیر نے انہیں1618ء میں قید کر دیا اور اگلے سال وہ رہا ہوئے۔ گوالیار کے قید خانے سے رہا ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ جہانگیر کے ساتھ رہے اور جہانگیر نے ان کے بارے میں اپنی رائے بدل دی۔ حضرت شیخ احمد سرہندی کا انتقال 1022ھ مطابق 29نومبر1664ء کو ہوا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ان کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں (ملت اسلامیہ محولہ بالا ص192): ’’ شیخ احمد سرہندی پر اس ضرورت کا انکشاف صوفیانہ کیفیت ہی کے ذریعے ہوا۔ اس زمانے میں اونچے سے اونچے درجے کی جو تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی شیخ احمد اس سے مستفید ہوتے تھے۔ ان کی تصانیف سے نہ صرف دینیات بلکہ فلسفہ کا بھی نہایت عمیق فہم ظاہر ہوتا ہے۔ وہ صوفیہ کی تصانیف سے پوری طرح واقف تھے اور ہر دعوے کی جانچ پڑتال بڑی صفائی کے ساتھ کر سکتے تھے، مگر ان کا تبلیغی مقصد ان کے نظری علم پر مبنی نہیں تھا۔ا ن کے تیقنات کا سب سے زیادہ عجیب عنصر یہ ہے کہ ان میں سے اہم ترین تیقن یعنی وحدت الوجود کا رد انہیں اپنی انتہائی خواہش کے برخلاف حاصل ہوا تھا۔ یہ تیقن اور اپنے تبلیغی مقصد کا احساس دونوں ان کی واردات قلب پر یکساں مبنی تھے۔‘‘ اس مختصر سے جائزہ سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال کو حضرت مجدد الف ثانی سے جو عقیدت تھی وہ اسی بناء پر تھی کہ ان کے تجربات صرف نظری علم پر مبنی نہ تھے، ان کی اساس خبر تھی اور اسی سے یقین یا تیقن کی وہ منزل نصیب ہوئی تھی جو عقیدہ اور نظریہ کی اساس ہوتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی وحدت شہود کے قائل تھے جس کی اعلیٰ ترین منزل کو انہوں نے عبدیت بتایا ہے۔ ایک طرح یہ اس وحدت الوجود کا رد تھا جسے علامہ اقبال تصوف کا غیر اسلامی عنصر سمجھتے تھے اور جو مسلمانوں میں غیر اسلامی ماخذ سے داخل ہوا تھا اور جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر نفی خودی کے فلسفہ کو مسلمانوں میں فروغ ہوا اور ان کی قوت عمل مفلوج ہو کر رہ گئی، اس طرح حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کی تحریک تھی جسے حضرت مجدد اور ان کے معتقدین نے پروان چڑھایا۔ حضرت مجدد کے نظریہ توحید کی ایک عالمانہ تفصیل اور تجزیہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے مقالہ مجدد کا نظریہ توحید، میں مل سکتی ہے۔ خود ان کے مکتوبات سے ان کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کے کئی اڈیشن نکل چکے ہیں۔ مجدد الف ثانی کے سلسلے میں ڈاکٹر قریشی لکھتے ہیں:’’ وہ ہستی جس نے تاریخ اسلام کے دوسرے ہزار سالہ عہد کے آغاز میں اسلامی تعلیمات کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کر کے اصلی رنگ میں دوبارہ جاری کیا۔ برعظیم میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے راہ نما مفکرین نے ان کی اس حیثیت کو بہ اتفاق رائے تسلیم کیا ہے۔‘‘ 18رسالہ تذکیر و تانیث: غالباً ضامن علی جلال لکھنوی کا ’’ رسالہ تذکیر و تانیث‘‘ ہے جس کا نام مفید الشعرا بھی ہے۔ اس رسالہ کے دوسرے ایڈیشن میں جو1340ھ میں مطبع مجیدی کانپور سے شائع ہوا تھا، جلال دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ ’’ رسالہ کارآمد شعر بحث تذکیر و تانیث میں 1293ھ میں طبع ہوا تھا، وہ ناقص و نا تمام اور نہایت غلط چھپا تھا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے اس کی شعر تکمیل و تصحیح کر کے دوسرا ایڈیشن مفید الشعرا کے نام سے شائع کیا اور نواب کلب علی خاں والی رام پور سے اس کا انتساب کیا۔ بقول جلال ’’ یہ رسالہ ایک مقدمہ اور چند فائدوں اور چند فصلوں پر بنا پاتا ہے۔‘‘ دوسرے ایڈیشن کا جو نسخہ پیش نظر ہے وہ 1363ھ کا مطبع مجیدی کانپور کا چھپا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک کہ رسالے کی پہلی تصنیف کو تقریباً ستر سال ہو چکے تھے اس کے نسخے برابر شائع ہو رہے تھے اور ان کی مانگ تھی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اردو میں جنس غیر حقیقی کا مسئلہ نہایت اہم ہے۔ جاندار اشیاء میں جنس حقیقی ہوتی ہے کہ مذکر ہوتی ہیں یا مونث، لیکن بے جان اشیاء اور صفات اصلاً نہ مذکر ہوتی ہیں اور نہ مونث لیکن اہل زبان ان میں سے بعض کو مذکر اور بعض کو مونث استعمال کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اردو سے مخصوص نہیں، دنیا کی بعض اور زبانوں مثلاً فرانسیسی میں بھی یہی صورت ہے۔ جنس حقیقی رکھنے والی اشیاء کو جلال نے ’’ ذوی العقول‘‘ بتایا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض کی تذکیر و تانیث پر اساتذہ میں اتفاق ہے اور بعض میں اختلاف ہے۔ انہوں نے ان سب کی ایک فہرست دی ہے اور چند کلیے بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہر کلیہ میں مستثنیات ہیں بلکہ حد یہ ہے کہ ایک ہی استاد کے یہاں ایک ہی اسم مذکر اور مونث دونوں طرح موجود ہے۔ مرزا غالب سے منسوب ایک لطیفہ سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا رتھ مذکر ہے یا مونث؟ فرمایا: مرد سوار ہوں تو مذکر اور عورتیں سوار ہوں تو مونث۔ اس گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ رسالہ تذکیر و تانیث کو حوالہ کے لیے قریب ہی رکھتے تھے اور علی بخش بھی اس سے اتنے واقف تھے کہ علامہ کے ارشاد پر فوراً حاضر کر دیتے تھے۔ ضرورت اس کی شاید اس لیے ہوتی ہو گی کہ اس زمانے میں بعض افراد اور بعض حلقوں سے علامہ کے کلام پر جو اعتراضات ہوتے تھے ان میں ایک پہلو کا تعلق صرف شعر کی زبان و بیان سے تھا، بعض تراکیب پر، بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث پر، بعض محاوروں پر۔ علامہ کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا شعر لفظی صناعی کا نمونہ ہے اور اس میں ویسی مرصع کاری ہے جس کا دعویٰ آتش کے کلام میں ملتا ہے۔ رہا حضرات لکھنو کا کسی لفظ کو مذکر یا مونث بولنا یا کسی خاص محاورے کا کوئی خاص انداز تو بعض اکابر جو لکھنو میں رہنے کے باوجود خود کو لکھنوی نہیں کہتے اور اپنے محاورہ اور انداز گفتگو پر چاہے وہ آئیاں جائیاں ہی کیوں نہ ہو فخر کرتے تھے، آخر میں انیس کہ ان کے آباء کی تین پیڑھیاں فیض آباد اور لکھنو میں گزر چکی تھیں فرماتے تھے: جلدی میں گو جوانوں نے چوٹیں بچائیاں اور جگہ کو جاگہہ بولتے تھے اور کہتے تھے۔ ’’ حضرات یہ میرے گھر کی زبان ہے، حضرات لکھنو اس طرح نہیں بولتے۔‘‘ علامہ اقبال بہ ہر حال اس روایت کا احترام کرتے ہیں اور ضامن علی جلال لکھنوی کی سند کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شعرائے لکھنو میں ضامن علی جلال صرف شاعر نہیں تھے بلکہ زبان، محاورہ اور قواعد کی تحقیق سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ان کی لسانی تصانیف میں حسب ذیل شامل ہیں: 1سرمایہ زبان اردو، جس میں اردو کے محاورات ہیں۔ 2افادۂ تاریخ، فن تاریخ گوئی پر۔ 3منتخب القواعد، مفرد اور مرکب الفاظ کی تحقیق میں 4 تنقیح اللغات، اردو لغت 5گلشن فیض، اردو لغات *بحوالہ لکھنو کا دبستان شاعری، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، طبع سوم1967ء 6دستور الفصحائ، فن عروض میں۔ 7مفید الشعرا، رسالہ تذکیر و تانیث جس کا اوپر ذکر ہوا۔ ضامن علی کے حالات زندگی مختصراً یہ ہیں: والد کا نام حکیم اصغر علی تھا اور خاندانی پیشہ طبابت تھا۔ لیکن اصغر علی نے داستان گوئی میں بڑا نام پیدا کیا جو اس زمانے میں لکھنو میں بجائے خود ایک بڑا فن تھا جسے لکھنو کے باکمالوں نے معراج کمال کو پہنچایا۔ اسی داستان گوئی کے سلسلے میں اصغر علی نواب یوسف علی خان والئی رامپور (ممدوح مرزا غالب) کی خدمت میں پہنچے۔ لیکن جلال کی پیدائش لکھنو میں 1250ھ مطابق1834ء میں ہوئی۔ فارسی کی درسی کتابیں پڑھیں اور عربی میں بھی بہ قدر ضرورت استعداد پیدا کی۔ اپنا آبائی پیشہ طبابت بھی ترک نہیں کیا اور بعد کی زندگی میں اسے کسب معاش کے لیے اختیار بھی کیا۔ 1857ء سے قبل لکھنو میں شاعری کی جو محفل آراستہ تھی اس میں جلال بھی شریک ہوئے، رشک (میر علی اوسط) شیخ امام بخش ناسخ کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی تحریک اصلاح زبان کو آگے بڑھانے میں بڑے سرگرم تھے۔ جلال رشک کے شاگرد امیر علی خاں ہلال سے اصلاح لینے گئے اور ان کے واسطے سے رشک تک رسائی ہوئی۔ ایک عرصہ تک رشک ان کا کلام دیکھتے رہے۔ پھر برق سے بھی اصلاح لی۔برق1856ء میں واجد علی شاہ کے ساتھ مٹیا برج چلے گئے۔ جلال کا عرصہ تک دربار رامپور سے تعلق رہا۔ نازک مزاج ایسے تھے کہ کئی مرتبہ ملازمت ترک کر دی لیکن نواب صاحب رامپور کی قدر دانی سے نواب کلب علی خاں کے دور تک بہ سلسلہ قائم رہا۔ آخر زمانہ میں کاٹھیا واڑ کی ریاست منگرول کے رئیس نواب حسین میاں نے ان کو بلا لیا لیکن صحت خراب ہونے کی بناء پر جلال لکھنو واپس چلے آئے اور 1909ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح جلال کی شاعری کا دور آخر علامہ کے کلام کا دور اول 1901ء تا 1905ء اور ، دور دوم (1905تا 1908ئ) ہے۔ 19اکتوبر1937ء کا مسلم لیگ کا لکھنو کا اجلال بڑی تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان جو ان حالات اور واقعات کے ایک عینی شاہد ہیں، اس کی تفصیلات اپنی خود نوشہ سوانح عمری شاہراہ پاکستان میں بیان کرتے ہیں۔ اس بیان کے بعض اقتباسات یہاں پیش کئے جاتے ہیں: ’’ مسلم لیگ کی قوت میں دن دو نا رات چوگنا اضافہ ہو رہا تھا اور صوبہ کے عوام اب بے طرح جاگ پڑے تھے۔ تقریباً تمام شہروں، قصبوں اور ضلعوں میں مسلم لیگ کی شاخیں ابھر چکی تھیں جن کے بنانے میں کسی نام کا دخل کم اور لوکل جذبات کا عمل دخل زیادہ تھا۔۔۔ بہر صورت یہ حال دیکھ کر میں نے طے کیا کہ اب ایک مسلم کانفرنس مسلم لیگ کی قیادت میں لکھنو میں منعقد کی جائے جس کے لیے راجہ محمود آباد نے تمام ذمہ داری اخراجات کی اپنے سر لے لی اور ہم نے اس جلسہ کی صدارت کے لیے مسٹر جناح کو دعوت دے دی۔۔۔۔۔ مسٹر جناح13 اکتوبر کو بمبئی سے شام کی گاڑی سے پہنچے جہاں ان کے استقبال کے لیے ہزار ہا مسلمان کھڑے ہوئے تھے۔ جس شان سے ان کا استقبال کیا گیا اسی شان سے ان کا جلوس بھی نکالا گیا۔۔۔ سر سکندر حیات خان اور مسٹر فضل الحق بھی دوسرے دن پہنچ گئے اور ان کے علاوہ تمام صوبوں کے زعما اس تعدادمیں لکھنو آ گئے کہ ہمارے لیے ان سب کا انتظام کرنا بھی بہت دشوار ہو گیا۔ اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے مسلمانوں کا کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘ 14اکتوبر1937ء کو مسلم لیگ کونسل کا پہلا اجلاس محمود آباد ہاؤس میں ہوا اور اس میں وہ مشہور معاہدہ ہوا جو سکندر جناح پیکٹ کے نام سے مشہور ہے۔ سر سکندر حیات خان کی تجویز تھی کہ یونینسٹ پارٹی کے سب ممبران مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں مگر پنجاب کے خصوصی معاملات کے لیے یونینسٹ پارٹی کو قائم رکھا جائے اور مسلم لیگ اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی دلچسپی کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے ہیں۔ (اردو ترجمہ کے لیے دیکھیے اقبال نامہ حصہ دوم مرتبہ شیخ عطاء اللہ ناشر شیخ محمد اشرف لاہور1951ئ) اس معاہدہ کے متعلق علامہ کے رد عمل کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے (بحوالہ اقبال نامہ محولہ بالا ص31 وبعد) بصیغہ راز لاہور 10نومبر1937ء مائی ڈیر مسٹر جناح سر سکندر اور ان کے دوستوں سے متعدد گفتگوؤں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر لیگ اور پارلیمنٹری بورڈ پر اپنا پورا پورا قبضہ چاہتے ہیں۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں آئے گی اور یونینسٹوں کو بورڈ میں اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں ان کی اکثریت تسلیم کر لی تھی، میں نے چند دن ہوئے آپ سے دریافت کیا تھا کہ آیا آپ نے فی الواقعہ پارلیمنٹری بورڈ میں یونینسٹ اکثریت منظور کر لی تھی، ابھی تک جواب کا انتظار ہے۔ ذاتی طور پر میں سر سکندر کو وہ اکثریت دینے کا مخالف نہیں جس کے وہ طالب ہیں ۔ لیکن عہدہ داران لیگ میں رد و بدل کا مطالبہ یقینا منشائے معاہدہ سے تجاوز کرنا ہے۔ بالخصوص موجودہ معتمد (جنہوں نے لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں) کی علیحدگی کا مطالبہ معقولیت سے دور ہے۔ سر سکندر یہ بھی چاہتے ہیں کہ لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کا آدمی مسلط ہو۔ مجھے تو اس تمام کھیل کا مقصد لیگ پر پہلے قبضہ جمانا اور پھر اس کا جنازہ نکال دینے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ صوبے کی رائے سے آگاہی رکھتے ہوئے میں لیگ کو سر سکندر اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس معاہدہ نے پہلے ہی صوبہ میں لیگ کے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے اور یونینسٹوں کی چالیں اسے اور بھی چرکے لگائیں گی۔ انہوں نے اب تک لیگ کے مسلک پر دستخط نہیں کیے اور میں سمجھتا ہوں نہ ہی وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں فروری کی بجائے اپریل میں منعقد ہو۔ میرے خیال میں وہ اپنی زمیندارہ لیگ کے قیام و استحکام کے لیے اس طرح مہلت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً آپ وک علم ہو گا کہ لکھنو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ کی بنا ڈالی تھی جس کی شاخیں اب صوبہ بھر میں قائم کی جا رہی ہیں۔ از راہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ اندریں حالات ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اول تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائے وگرنہ اولین فرصت میں پوری تفصیل سے تحریر فرمائیے۔ مخلص اقبال 20مذکورہ بالا حاشیہ سے اور نیز اقبال جناح مکتوبات، علامہ کے دیگر بیانات، تقاریر، مضامین و مقالات سے اور بعض اشعار میں بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں کا سراغ ملتا ہے۔ اگرچہ ان پر بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ عملی انسان نہ تھے اور از راہ کسر نفسی انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ میں عملی آدمی نہیں تاہم اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ وہ محض باتیں کرنے والے شخص تھے۔ مسلم لیگ کے ہی سلسلے میں ان کی جدوجہد کا اندازہ اس سے لگائیے کہ الہ آباد میں 1930ء میں اپنے تاریخی خطبہ سے اپنی وفات سے چند ماہ پہلے تک وہ اس تحریک سے پوری طرح وابستہ رہے۔ ظاہر ہے پنجاب میں لیگ کی صدارت کی ذمہ داری پھولوں کی سیج نہ تھی خصوصاً اس پس منظر میں جس کا کچھ اندازہ سابقہ حاشیہ سے ہوتا ہے۔ تقسیم ہند کی ضرورت کا جس شدت سے علامہ کو احساس تھا اس کے بے شمار حوالے ہیں۔ قائد اعظم کو ایک خط میں (21جون 1937ء ) لکھتے ہیں: ’’ آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے۔‘‘ انہوں نے دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ 21 یہ بیان پھر ایک مرتبہ اہم ہے کہ اس میں علامہ قوم اور زبان کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ پاکستانی قومیت اور مشترکہ کلچر کی نمائندہ اور ترجمان ایک ’’ مشترکہ زبان ہے‘‘ علامہ کے افکار و نظریات میں رجائیت اور یقین کا جو عنصر تھا اس کی بناء پر آپ کو جس قدر یقین اس بات کا تھا کہ یہ قوم کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتی اسی طرح یہ بھی یقین تھا کہ یہ زبان یعنی اردو کسی کے مٹانے سے نہیں مٹے گی۔ اردو کو اپنی تاریخ میں بہت سے محاذوں پر بہت سے حریفوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ 22۔ یہ بیشک درست ہے کہ علامہ کے کلام کے اردو اور فارسی مجموعوں کی اشاعت کی تعداد اتنی نہیں جتنی مغربی ممالک میں ان سے بہت کم تر درجہ کی کتابوں کی ہوتی ہے۔ اس کے اسباب بہت سے ہیں۔ غالباً سب سے اہم جہالت ہے۔ جس ملک میں خواندگی کا معیار یہ ہو جو ہمارے یہاں ہے وہاں لاکھوں نسخوں کو پڑھنے والے کہاں سے آئیں۔ دوسرا سبب جو اسی جہالت کا نتیجہ ہے شعور کی کمی ہے۔ ایسی شاعری جس میں زبان کا چٹخارہ بھی ہو اور پھر جس کو سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے ایک خاص سطح کی ذہنی بلندی بھی درکار ہو اس کا دائرہ اشاعت قدرتی طور پر محدود ہی ہو گا۔ تیسرا سبب جو ان دو کا نتیجہ ہے کتابوں کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت کا گراں ہوتا ہے۔ اگر کتاب کے صرف ہزار دو ہزار نسخے شائع ہوں تو قیمت یقینا زیادہ ہو گی، لاکھوں کی تعداد میں چھپے تو قیمت کم ہو گی۔ افلاس نے اس مسئلہ کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ جس شخص کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی، تن ڈھکنے کے لیے کپڑا، اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہ ہووہ دیوان غالب یا بانگ درا کہاں سے خریدے گا۔ علامہ کو خود اس کا احساس تھا چنانچہ اس گفتگو میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ علامہ کی مختلف کتابوں کے کل کتنے ایڈیشن شائع ہوئے اور ان کی جملہ مطبوعات کی کل تعداد اشاعت کتنی ہے، اس کا اندازہ کچھ اس فہرست سے ہوتا ہے جو روزگار فقیر (ص216-215) میں دی گئی ہے: 1 اسرار خودی 1915تا1959 6اڈیشن 13,000 2 پیام مشرق 1923تا1958 9 18,000 3 بانگ درا 1924تا1926 21 1,14,000 4 زبور عجم 1927تا1959 7 16,400 5 جاوید نامہ 1932تا1959 4 6000 6 بال جبریل 1935تا1962 12 62,000 7 پس چہ باید کرد 1936تا1959 4 11,000 8 ضرب کلیم 1936تا1959 10 43,000 9 ارمغان حجاز 1938تا1959 7 22,000 3,05,400 اس میں 1962ء کے بعد شائع ہونے والے ایڈیشن بھی شامل کر لیجئے تو بھی کل تعداد چار لاکھ تک نہ پہنچے گی۔ 1915ء سے 1977ء تک کے طویل عرصے میں جو باسٹھ سال پر محیط ہے اور جس میں قیام پاکستان عمل میں آیا اور علامہ کے مطالعہ سے دلچسپی کے سامان بہم پہنچے اور اس کی تاریخی، تہذیبی، فکری اور فنی اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیا، اس کے بعد یہ تعداد ہے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ اردو کے مجموعے اور بالخصوص بانگ درا ہے۔ اس تجزیہ سے اس افسوسناک حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ علامہ نے فارسی کو اس لیے اختیار کیا تھا کہ ایک وسیع تر ذریعہ ابلاغ تھا لیکن فارسی میں شائع ہونے والی تصانیف کی تعداد بہت کم ہے اور اس طرح وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا اسی لیے اب فارسی کے تمام مجموعوں کو یکے بعد دیگرے ترجموں کے ذریعے سے پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور بعض ان میں سے شائع بھی ہو چکے ہیں۔ 23علامہ کے پیغام اور ان کی تصانیف بالخصوص فارسی تصانیف اسرار خودی، رموز بے خودی اور پیام مشرق کے خطاب کے سلسلے میں علامہ’’ وسط ایشیا کے قلب‘‘ (Heart of Central Asia) کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس وسط ایشیاء کے قلب پر ایک پپڑی (Crust) جم گئی ہے، میں اسے توڑنا چاہتا ہوں۔ وسط ایشیاء دراصل ملت اسلامیہ کی تہذیب کا وہ علاقہ ہے جو روس اور روسی ترکستان سے شروع ہو کر ترکی، ایران، عراق، افغانستان ہوتا ہوا برعظیم پاک و ہند تک پھیلا ہوا ہے اور جو تہذیبی اور فکری اعتبار سے ایک اکائی ہے۔ اس تہذیبی اور فکری احساس کے مشترک عناصر ایک سے زیادہ ہیں۔ مثلاً فارسی زبان اور اس کا شعر و ادب جو اس پورے علاقے کا ایک تہذیبی سرمایہ ہے اور جس کے ایک علمبردار اور نمایاں ترجمان مولانا جلال الدین رومی ہیں۔ یہ مشترک عناصر اس وسیع علاقے میں فن تعمیر کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ اور بہت سے مشترک رسوم و رواج میں بھی جھلکتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہی تہذیب تھی جو برعظیم کے مسلمان فرمانروا بالخصوص مغل وسط ایشیا سے لے کر آئے تھے اور اس کا سلسلہ اس ملک تک پہنچایا تھا اور مسلمانوں کی سلطنت کے قیام کے بعد بھی ان کے تہذیبی، ذہنی اور سیاسی رشتے ایران و افغانستان سے لے کر ترکی تک پھیلے ہوئے تھے اور برابر ان کی تجدید ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے اس علاقے کی بیداری پر علامہ اقبال کی خاص توجہ تھی۔ 24لاہور کی شاہی مسجد جس کے سایہ میں علامہ اقبال کی آخری آرام گاہ ہے، برصغیر میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی زندہ جاوید شہادت ہے۔ سادہ لیکن پر شکوہ، مسجد قرطبہ کی طرح جس کو علامہ نے اپنی مشہور نظم کا موضوع بنایا ہے۔ یہ مسجد حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کی یاد دلاتی ہے جن کو علامہ نے ترکش ما را خدنگ آخریں کہا تھا اور سلطانی میں درویشی کا جو تصور اقبال کے مرد مومن میں نظر آتا ہے اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ اس کی زندہ تفسیر تھے۔ اس مسجد کے سامنے لاہور کا مشہور شاہی قلعہ ہے جو مغلوں کے دور عروج کی داستان یاد دلاتا ہے اور جو دور زوال میں سکھوں کے قبضے میں رہا او رجس کے آثار اب بھی جا بجا اس قلعے میں مخمل میںٹاٹ کا پیوند بن کر نظر آتے ہیں۔ اس طرح مسجد اور قلعہ کے درمیان علامہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ مزار کی تعمیرات کی تفصیلات علامہ کے تذکرہ نگاروں نے لکھی ہیں (مثلاً روزگار فقیر ص252) ان سے پتہ چلتا ہے کہ 1946ء میں مزار کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا اور1954ء میں تکمیل کو پہنچا اور اس وقت کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ روپے صرف ہوئے۔ نقشہ حیدر آباد دکن کے ممتاز ماہر تعمیرات نواب زین یار جنگ نے تیار کیا تھا۔ مزار کے تعویذ اور کتبے کے لیے حکومت افغانستان نے نہایت قیمتی پتھر Lapis/Lazuli فراہم کیا جو شفاف پتھر کی نہایت اعلیٰ اور قیمتی قسم ہے۔ مزار کے محل و قوع اور تعمیر سے علامہ کی اس آرزو کی تکمیل ہوتی ہے: کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایہ دیوار بخش لاہور کی یہ بادشاہی مسجد بھی برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان کی ایک عمارت ہے۔ قلعہ لاہور کے اکبری دروازے کے سامنے مغرب کی سمت یہ مسجد پندرہ فٹ بلند ایک چبوترے پر تعمیر کی گئی ہے۔ قلعہ اور مسجد کے درمیان حضوری باغ اور رنجیت سنگھ کی بارہ دری ہے۔ یہ مسجد ابو الظفر محی الدین محمد عالمگیر اورنگ زیب نے 1084ہجری مطابق 1673ء میں تیار کرائی تھی اور اس وقت اس پر چھ لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔ مسجد کے اخراجات کے لیے اورنگ زیب نے ملتان کا خراج وقف کر دیا تھا۔ اس کا عالیشان دروازہ سنگ رخام اور سنگ مر مر سے بنا ہے۔ سکھوں نے اپنی حکومت کے دور آخر میں مسجد کے صحن کو بطور اصطبل استعمال کیا اور یہ اس صوبہ میں ہوا جہاں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت تھی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار! اس زمانے میں مسلمانوں پر اس مسجد کا داخلہ بند تھا۔ 1856ء میں حکومت ہند نے مسجد مسلمانوں کو واگزار کی مگر اس حالت میں کہ جگہ جگہ سے فرش اکھڑ چکے تھے، دیواریں منہدم ہو رہی تھیں۔ مختلف اوقات میں مسجد کی مرمت اور بحالی کی کوششیں ہوئیں اور قیام پاکستان کے بعد 1961ء میں اس مرمت کی تکمیل ہوئی۔ پہلے مسجد کی دیکھ بھال انجمن اسلامیہ پنجاب کرتی تھی اور اب صوبائی محکمہ اوقاف کی نگرانی میں ہے۔ لاہور کی یہ مسجد وسعت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں ستر ہزار سے زیادہ بندگان خدا بہ یک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں چند نادر تبرکات بھی محفوظ ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سبز عمامہ بھی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قرآن پاک کا ایک سیپارہ بھی۔ کہا جاتا ہے کہ 1911ء میں طرابلس کے مسلمانوں پر اٹلی کی یورش سے متاثر ہو کر ایک نظم ’’حضور رسالتمآب میں‘‘ لکھی تھی*جس کا پہلا بند یہ ہے: گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو اور اسی کا آخری بند ہے: حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر، میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں یہ نظم علامہ اقبال نے 1911ء میں اسی مسجد کے صحن میں اشکبار آنکھوں سے سنائی تھی اور سننے والوں کو بھی رلایا تھا۔د ور جدید میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عالم اسلامی کے نامور فرزندوں نے اس مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی جو علامہ اقبال کے ملت اسلامیہ کے اتفاق و اتحاد کے خواب کی طرف ایک قدم تھا۔ 25۔ اس مقالہ کے مضمون نگار میاں بشیر احمد، جسٹس شاہ دین کے صاحبزادے، لاہور کے اکابر میں ایک ممتاز شخصیت تھے۔ رسالہ ہمایوں انہوں نے جسٹس شاہ دین ہمایوں کی یاد میں نکالا تھا۔ اسے لاہور میں مخزن کا جانشین اور اس تحریک کا ثمر سمجھا جاتا ہے۔ ہمایوں اعلیٰ درجے کے ادبی مذاق کی تسکین کا ایک ذریعہ تھا اور اس میں شائع ہونے والے مضامین نظم و نثر کا ایک اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی معیار اور مزاج تھا۔ ہمایوں نے اپنی طویل مدت اشاعت میں اردو کے ادبی رسالوں کے لیے ایک نمونہ اور ایک روایت قائم کی۔ میاں بشیر احمد ایک درد مند دل رکھنے والے سچے مسلمان تھے جنہیں اسلام اور ملت اسلامیہ اور بالخصوص برعظیم کے مسلمانوں کے معاملات اور مسائل سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ خود اور ان کے خاندان کے دوسرے بزرگ سیاسی اور سماجی تحریکات میں پیش پیش رہتے تھے۔ اردو کے عاشق تھے اور پنجاب میں اردو کے معاملات کے بارے میں مولوی عبدالحق صاحب انہیں سے مشورہ کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک ترکیہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے اور دونوں ملکوں کو قریب تر لانے میں سعی و کوشش کرتے رہے۔ علامہ اقبال کے عقیدت مند ہیں اور ان کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اردو کے عاشق تھے اور اس حد تک کہ ایک عرصہ تک علامہ اقبال کا فارسی کلام پڑھا ہی نہیں اور شکوہ کیا کہ آپ فارسی میں کیوں لکھتے ہیں۔ سچے پاکستانی تھے۔ علاقائی یا لسانی تعصب سے بالاتر، شرافت اور تہذیب کا مجسمہ۔ میر کے اس شعر کی تفسیر وہی تھے: مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے ٭٭٭ علامہ اقبال کی صحبت میں: محمد حسین عرشی 1۔ مرشد روم: مولانا جلال الدین رومی جن کو علامہ اقبال اپنا پیر و مرشد بتاتے ہیں اور مختلف مسائل کے سلسلے میں جو سوالات ان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ان کے جوابات مولانا جلال الدین رومی کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ ان کے حالات اور ان کی مثنوی کے بارے میں مشرق و مغرب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ: مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی پورا نام جلال الدین محمد اور والد کا نام بہاؤ الدین محمد بن حسین الخطیبی ۔ ولادت بلخ میں7ربیع الاول 604ھ مطابق30ستمبر1207ء کو ہوئی اور وفات 5جمادی الثانی 672ھ مطابق 17 دسمبر 1273ء والد کا شمار اپنے عہد کے اکابر شیوخ اور علما میں ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس عہد کے رواج کے مطابق گھر سے شروع ہوئی اور والد سے ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کئے۔ انہی کے ساتھ جلال الدین محمد نے ممالک اسلامیہ کا سفر کیا اور حج بیت اللہ و زیارت مدینہ منورہ سے مشرف ہوئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اسی سفر میں ان کی ملاقات مشہور صوفی بزرگ خواجہ فرید الدین عطار سے ہوئی۔ مختلف شہروں کی سیر کرتے بالآخر قونیہ تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی عرصہ میں ان کی ملاقات شمس تبریز سے ہوئی۔ تذکرہ نگاروں نے اس ملاقات اور مولانا پر شمس تبریز کے اثرات کو نہایت شرح و تفصیل سے لکھا ہے۔ غرض اس ملاقات کے نتیجہ میں مولانا کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ علامہ اقبال نے بھی اس واقعہ کو مثنوی اسرار و رموز میں نظم کیا ہے۔ خود مولانا نے اپنی مثنوی میں شمس تبریز کے اثرات کا اعتراف کیا ہے: شمس تبریزی کہ نور مطلق است آفتاب است و ز انوار حق است ایں نفس جاں را منم برتافتست بوئے پیراہان یوسف یافت است مولانا رومی سے منسوب سلسلہ صوفیہ جلالیہ یا مولویہ کہلاتا ہے اور آج بھی قونیہ میں مولانا کے مزار پر اس سلسلے کے صوفیہ کا اجتماع رہتا ہے۔ اقبال اور رومی کے اس روحانی اور فکر تعلق کے باب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایک اچھا مطالعہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا اقبال رومی اور نطشے ہے۔ ڈاکٹر ابو اللیت صدیقی کی تصنیف اقبال اور مسلک تصوف میں بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ مختصر طور پر یوں کہہ سکتے ہیں: (الف) علامہ اقبال رومی کے اس تصور سے متفق ہیں کہ محض فلسفہ، حکمت، منطق، استدلال، تجربے، مشاہدے اور علم سے معرفت حاصل نہیں ہو سکتی یا کم از کم معرفت کامل یا اصل حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے، بلکہ عشق کے ذریعے سے ہی اس کا کشف و حصول ممکن ہے۔ یہ تجربہ وہ صوفیانہ تجربہ ہے جو اقبال اور رومی دونوں کے یہاں قدر مشترک ہے۔ پہلی قسم کا علم نظر اور دوسرا خبر ہے۔ یہ تجربہ صرف رومی یا اقبال کا ہی نہیں، حجتہ الاسلام غزالی جو مفکرین اسلام میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک ہیں، اسی منزل سے گزرے اور بالآخر تصوف میں پناہ لی، اور یہ تسلیم کیا کہ معرفت حقیقی کا ایقان اس ذاتی تجربے سے ہی ہوتا ہے جو حسی ادراک اور حسی مشاہدے کی منزل سے باہر ہے۔ علامہ اقبال نے بار بار اس تجربے پر زور دیا ہے۔ (ب) علامہ اقبال اور مولانا جلال الدین رومی دونوں کے یہاں فقر و قلندری کا ایک مشترک تصور ہے۔ فقر یا قلندری کا یہ تصور یہودیوں یا عیسائیوں کی رہبانیت، ترک دنیا اور تجرد نہیں ہے، نہ اسے بدھوں کے ترک دنیا کے تصور سے کوئی علاقہ یا تعلق ہے، نہ اس فقر کے معنی دریوزہ گری، طلب یا محرومی ہے۔ یہ وہ اسلامی فقر ہے جو فقر غیور ہے۔ جو ’’ محسود امیری‘‘ ہے۔ اس کی اعلیٰ ترین مثالیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت طیبہ میں ملتی ہیں۔ علامہ اقبال جب اسلاف کا سوز دروں طلب کرتے ہیں تو نان جویں کے ساتھ ’’ بازوئے حیدر‘‘ بھی مانگتے ہیں: مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ (ج) اقبال اور رومی دونوں حیات کے ایک ارتقا کے تصور کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا رومی کے وہ اشعار پیش نظر رکھیے جو جمادات، نباتات اور حیوانات کے مراحل کی نشان دہی کرتے ہیں جن سے حیات کو اپنے طویل اور با مقصد سفر میں گزرنا پڑا ہے۔ علامہ اقبال نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ حیات انسانی تک ارتقا کی جو منازل اور مراحل مولانا جلال الدین رومی نے گنائے ہیں وہ عصر حاضر کے نظریہ ارتقا سے (جو عام طور پر ڈارون کا نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) کہلاتا ہے) حیران کن حد تک قریب ہیں۔ اس ارتقا میں جدوجہد، حرکت اور عمل مسلسل لازمی عناصر ہیں۔ دونوں اس کے قائل ہیں کہ زندگی اسی حرکت اور جدوجہد سے فروغ پاتی اور ارتقا کی منازل طے کرتی ہے۔ ہستم اگر میروم، گر نہ روم نیستم (د) مولانا جلال الدین رومی اور اقبال دونوں زندگی سے فرار کے قائل نہیں بلکہ مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کرنے کے فلسفہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہمرہان سست عناصر سے دونوں دل گرفتہ ہیں۔’’ شیر خدا اور رستم دستاں‘‘ کے دونوں آرزو مند ہیں اور ہر چند کہ تلاش دشوار راہوں سے گزرتی ہے لیکن وہاں تک رسائی کی تمنا ہی سوز و ساز حیات ہے۔ علامہ اقبال کے بقول مولانا رومی کی تعلیم غزالوں کو شیروں کا دل بخشتی ہے۔ زندگی کا یہی مثبت اور فعال و صحت مند نظریہ دونوں کے افکار کو ہم آہنگ بناتا ہے۔ (ہ) رومی اور اقبال دونوں کا تعلق اپنے اپنے عہد میں ایک ایسے دور سے رہا ہے جسے ’’ دور فتنہ‘‘ کہا گیا ہے۔ رومی نے ’’ دور فتنہ عصر کہن‘‘ میں اور اقبال نے’’ دور فتنہ عصر رواں‘‘ میں اپنا پیغام پہنچایا اور اس طرح ان دونوں کی شاعری محض ایک جمالیاتی تجربہ نہیں ہے۔ یہ شاعری محض برائے شعر گفتن یا یہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است کی عوام میں مشہور روایت کے برعکس دونوں نے اپنے اپنے کلام کو اپنے اپنے دور کے افکار و خیالات کی اصلاح کا ذریعہ بنایا ہے۔ (و) اقبال اور رومی دونوں جدوجہد اور حرکت پیہم و جاوداں کے ساتھ ساتھ سوز و ساز، درد، گداز، صدق و صفا، اخلاص و درد مندی کے پیکر ہیں اور وہ تمام صفات جو اقبال کے تصور میں انسان کامل اور مرد مومن میں پائی جاتی ہیں اور جن کی تعلیم اور ان پر عمل اسلامی تصوف کے علمبردار صوفیہ کے یہاں ملتا ہے، دونوں اس کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرتے ہیں۔ 7دونوں ذکر و فکر اور علم و عمل کی منازل طے کرنے میں ایک مرشد کامل اور ایک ہادی و رہبر کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں۔ اعلیٰ ترین نمونہ خود رسول کریم ؐ کی حیات طیبہ ہے اور اس کے اتباع کی خود قرآن حکیم میں ہدایت کی گئی ہے۔ سلامتی کا راستہ وہی ہے جو راہ رسولؐ ہے۔ اس لیے اقبال اور مولانا جلال الدین رومی دونوں کے یہاں رسول کریم ؐ سے عشق درجہ کمال پر پورے خلوص اور شدت کے ساتھ موجود ہے۔ دونوں ان اکابر صوفیہ اور بزرگان دن سے فیض پانے کا اعتراف کرتے ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں اپنے قول و فعل سے اسلام اور اسلامی عقائد کی تائید اور تبلیغ کی۔ اقبال خود مولانا روم کو بار بار اپنا پیر و مرشد بتاتے ہیں۔ مولانا روم کی زندگی میں شمس تبریز کا اثر محتاج بیان نہیں۔ (ز) اقبال نے جس طرح جلال و جبروت اور قوت و شوکت کا ذکر کیا ہے اور نو افلاطونی فلسفہ نفی خودی کی جس طرح نفی اور تنقید کی ہے اس سے بعض لوگ اقبال کو فاشسٹ کہتے تھے، حالانکہ اقبال کے انسان کامل اور مرد مومن اور فلاسفہ مغرب کے ’’ مرد آہن‘‘ میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ مرد آہن کے یہاں اخلاقی اور روحانی اقدار کی کوئی جگہ نہیں۔ اقبال کے یہاں مولانا رومی کی طرح اخلاقی اور روحانی اقدار کے بغیر انسان کامل کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ 2جاوید نامہ: علامہ کی فارسی منظوم تصانیف میں اسرار خودی، رموز بیخودی، پیام مشرق اور زبور عجم کے بعد پانچواں مجموعہ جس کا پہلا ایڈیشن 1932ء میں اور دوسرا1947ء میں شائع ہوا۔ روزگار فقیر میں1932تا1959 چار ایڈیشنوں کی مجموعی تعداد چار ہزار بتائی گئی ہے۔ دراصل یہ تعداد صرف طبع سوم دسمبر1954ء دو ہزار اور طبع چہارم نومبر1959 دو ہزار کی ہے۔ طبع اول 1932اور طبع دوم فروری 1947(باہتمام چودھری محمد حسین) اس میں شامل نہیں۔ ان کے بعد نومبر1965میں پانچواں ایڈیشن (دو ہزار) اور ستمبر1974میں چھٹا ایڈیشن (دو ہزار) شائع ہوا۔غیر قانونی طور پر بھارت میں طبع ہونے والے ایڈیشن ان میں شامل نہیں ہیں۔ علامہ اقبال کے مجموعوں میں جاوید نامہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ علامہ کے آخری دور کی تصانیف میں ہے۔ جب ان کے افکار و نظریات کی شکل مستحکم اور واضح ہو چکی ہے۔ اسرار خودی کی اشاعت سے جاوید نامہ تک کا ذہنی سفر مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور بعض مسائل کے بارے میں اقبال کے خیالات بدلتے بھی ہیں۔ جاوید نامہ کے تجزیہ اور مطالعہ سے علامہ کی فکر و فن کے سارے گوشے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس طرح کی نظموں کا پہلا نقش بانگ درا کی مشہور نظم ’’ خضر راہ‘‘ ہے جس میں شاعر جو’’ شہید جستجو‘‘ ہے اور جس کے دل میں مختلف مسائل و معاملات کے متعلق بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ ساحل دریا پر غور و فکر میں مستغرق نظر آتا ہے۔ یہاں اس کی ملاقات خضر سے ہوتی ہے جن کی چشم جہاں بیں پر وہ طوفان آشکار ہوتے ہیں جن کے ہنگامے ابھی دریا میں خموش ہوتے ہیں اور جن کے سامنے علم موسیٰ بھی حیرت فروش ہے۔ سوالات نہایت اہم ہیں، زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟ سرمایہ و محنت میں کشمکش کیوں ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہے؟ ایشیا کن مراحل سے گزر رہا ہے۔ دنیائے اسلام کے لیے آزمائش کا وقت ہے۔ ترکوں اور عربوں کی بیداری اور جدوجہد کا انجام کیا ہے؟ غرض وہ سارے سوالات جو اس وقت کے زندہ ذہن میں پیدا ہو سکتے تھے اور خضر ان کے جوابات دیتے ہیں۔ جاوید نامہ میں ایک روحانی اور ذہنی سفر ہے، جس میں شاعر کی رہبری اور رہنمائی حضرت رومی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے شاعر اپنی بیچارگی کا شکوہ رکتا ہے کہ اسے ہم نفس اور ہمنوا نہیں ملتا۔ یہ شکوہ ذہنی سفر کرنے والوں کو عام طور پر ہوتا ہے۔ مرزا غالب بھی اسی کیفیت سے گھبرا کر کہہ اٹھتے ہیں: بیاورید گر ایں جا بوہ زبان دانے غریب شہر سخن ہاے گفتنی دارد اور اقبال فرماتے ہیں: زار نالیدم صداے برنخواست ہم نفس فرزند آدم را کجاست؟ انسان کی عظمت کا حال یہ ہے کہ آیہ تسخیر اور آیہ علم الاسما اس کی شان میں ہیں لیکن آج کا انسان خرد کا اسیر ہے اور علامہ کچھ اور چاہتے ہیں: عقل دادی ہم جنونے دہ مرا رہ بجذب اندرونے دہ مرا اور جواب یہ ملتا ہے: اے امینے از امانت بے خبر غم مخور، اندر ضمیر خود نگر .................... ......................... عقل آدم بر جہاں شبخوں زند عشق او بر لا مکاں شبخوں زند .................. .................. ’’ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را‘‘ اس مرحلہ پر حضرت رومی کی روح ظاہر ہوتی ہے اور اسرار معراج نبی کریم ؐ بیان کرتی ہے: چیست معراج آرزوے شاہدے امتحانے روبروے شاہدے اس کے بعد زروان کہ روح زمان و مکان ہے مسافر کو عالم علوی کی سیاحت کے لیے لے جاتی ہے اور وہ زمزمہ انجم سنتے ہیں: شام و عراق و ہند و پارس خوبہ نبات کردہ اند خوبہ نبات کردہ را تلخی آرزو بدہ ................... ..................... ضرب قلندری بیار، سد سکندری شکن رسم کلیم ؑ تازہ کن، رونق ساحری شکن اس کے بعد افلاک کی سیر شروع ہوتی ہے۔ فلک قمر، جہاں ان کی ملاقات اس عارف ہندی سے ہوتی ہے جو قمر کے غاروں میں سے ایک میں خلوت نشیں ہے اور جہاں دوست کہلاتا ہے۔ جہاں دوست کے سوالات اور رومی کے جوابات سے ’’ عالم‘‘ رنگ عالم، آدم، حق کی حقیقت معلوم ہوتی ہے: آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فسن جہاں دوست اور شاعر کے سوال جواب نہایت مختصر لیکن جامع ہیں: گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب؟ گفتم ترک ذکر گفت تن؟ گفتم کہ زاد از گرد رہ گفت جاں؟ گفتم کہ رمز لا الہ گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست گفت عالم؟ گفتم او خود روبروست گفت ایں علم و ہنر؟ گفتم کہ پوست گفت حجت چیست؟ گفتم روے دوست گفت دین عامیاں؟ گفتم شنید گفت دین عارفاں؟ گفتم کہ دید یہ مختصر سا نمونہ جاوید نامہ کے افکار و خیالات کا ہلکا سا عکس ہے۔ اگر علامہ کی کوئی ایک تصنیف ان کے خیالات کی پوری طرح ترجمانی کر سکتی ہے تو وہ یہی جاوید نامہ ہے۔ 3۔ یہ خط 19مارچ1935ء کا ہے۔ اس کے بعد علامہ تین سال زندہ رہے۔ گویا اس خط اور اس مضمون کے ملفوظات سے اس آخری دور کے بعض اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ نے اس خط میں فرمایا ہے کہ وہ مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکے ہیں اور پڑھتے ہیں تو قرآن حکیم اور مثنوی روم۔ یہ دونوں باتیں نہایت اہم ہیں۔ آخر عمر میں علامہ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ قرآن حکیم پر تفسیری حواشی لکھیں اور چنانچہ سرسید راس مسعود اور نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال سے وابستگی اور بھوپال کے وظیفہ کا قبول کرنا بھی اسی سلسلہ میں تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ آخری چند سال علالت مسلسل میں گزرے اور اسی عرصہ میں علامہ کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا اور چھوٹے بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی سنبھالنا پڑی۔ ادہر برعظیم پاک و ہند کی سیاست بھی ایک نازک اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی اور علامہ کا جو تعلق مسلم لیگ سے تھا اور جس کے وہ ایک وقت پنجاب میں صدر بھی تھے، اس نے بھی ان کے ذہن اور توجہ کو اپنی طرف مبذول رکھا۔ بایں ہمہ مثنوی اور قرآن حکیم کا مطالعہ برابر جاری رہا۔ قرآن حکیم کے مطالعہ کا اثر ان کے پورے کلام میں ملتا ہے۔ بے شمار آیات قرآن حکیم کی ان کے اشعار میں موجود ہیں۔ ان کے خطبات میں برعظیم میں ملت اسلامیہ کے مذہبی افکار کی جس تشکیل نو کا ذکر کیا گیا ہے اس کی اساس بھی قرآن حکیم ہی ہے۔ پہلے خطبے میں علامہ فرماتے ہیں (تشکیل جدید*اردو ترجمہ جس سے اس حاشیہ میں حوالے لیے گئے ہیں): ’’ کہ قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔‘‘ اس کے بعد قرآنی نقطہ نظر سے تخلیق کائنات کی غرض و غایت بیان کرتے ہیں کہ اس کی آفرینش اس لیے نہیں ہوئی کہ یہ محض ایک کھیل یا تماشہ ہے۔ علامہ قرآن حکیم کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں: (1)سورہ الدخان ،44آیت38-39 *تشکیل جدید الہیات اسلامیہ اردو ترجمہ سید نذیر نیازی وما خلقنا۔۔۔۔۔۔ لا یعلمون ’’ اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم فعل عبث کرنے والے ہوں، (بلکہ) ہم نے ان دونوں کو کسی حکمت ہی سے بنایا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔‘‘ (2) سورہ آل عمران3 آیت 19-191 ان فی خلق السموت۔۔۔۔۔۔۔ باطلاً ’’ بلاشبہ آسمانوں کے اور زمیں کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں دلائل ہیں اہل عقل کے لیے جن کی حالت یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی، بیٹھے بھی، لیٹے بھی اور آسمان اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا۔‘‘ اس کی تشریح میں مفسرین نے لکھا ہے کہ تخلیق کائنات میں حکمتیں رکھی گئی ہیں جن میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ اس مخلوق سے خالق تعالیٰ کے وجود و توحید پر استدلال کیا جائے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کی (یعنی کائنات کی) ترکیب بھی اس طرح ہوئی کہ اس میں مزید وسعت کی گنجائش ہے۔ قرآن حکیم (سورہ فاطر35آیت1) میں ارشاد ہے: یزید فی الخلق ما یشاء (وہ پیدائش میں جو چاہے زیادہ کر دیتا ہے) علامہ اقبال جب یہ فرماتے ہیں: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صداے کن فیکوں تو ان کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ یہ کوئی جامد کائنات نہیں، نہ ایک ایسا مصنوع جس کی تکمیل ختم ہوچکی اور جو بے حرکت اور نا قابل تغیر و تبدل ہے۔ برعکس اس کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں ایک نئی آفرینش کا خواب پوشیدہ ہے۔ دراصل کائنات کا یہ پر اسرار اہتزاز اور تحریک علیٰ ہذا زمانے کی یہ خاموش روانی جس کا احساس ہم انسانوں کو دن اور رات کی گردش میں ہوتا ہے، قرآن پاک کے نزدیک ایک بہت بڑی آیت ہے اللہ کی۔‘‘ یہ ہم نے صرف بطو رمثال اور نمونہ نقل کیا ورنہ اسی خطبہ میں آگے چل کر قرآن حکیم کے بکثرت حوالے ملتے ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ نہ صرف تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے لیے بلکہ اپنے تمام افکار و نظریات میں علامہ کی فکر کی اساس قرآن حکیم اور احادیث نبوی پر استوار ہے۔ جہاں تک مثنوی مولانا روم میں قرآن حکیم کی تعلیمات کا تعلق ہے، اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ اسے قرآن در زبان پہلوی کہا جاتا ہے۔ یہ مرتبہ کسی اور تصنیف یا کسی مصنف کو نصیب نہیں ہوا۔ یہاں ہم صرف بطور نمونہ مثنوی مولانا روم سے بعض اشعار تائید میں پیش کرتے ہیں جو قرآں حکیم کی صرف ایک سورہ، سورۂ بقر کی آیات پر مبنی ہیں۔ اسی سے قرآن حکیم سے لیے گئے دیگر حوالوں کا اندازہ لگا سکتے ہیںـ: یومنون بالغیب میباید مرا زاں بہ بستم روزن فانی سرا ٭٭٭ ہست بر سمع و بصر مہر خدا در حجب اس صورت است و بس صدا ٭٭٭ برق را چوں یخطف الابصار داں نور باقی را ہمہ انصار داں ٭٭٭ فاتقوا النار التی او قدتموا انکم فی المعصیتہ از ددتموا ٭٭٭ ور نبی فرمود کایں قرآں ز دل بادی بعضے و بعضے را مضل ٭٭٭ بو البشر کو علم الاسماء یگ است صد ہزاراں علمش اندر ہر رگ است ٭٭٭ آدمی کو علم الاسماء بگ است در تک چوں برق ایں سگ بیتک است ٭٭٭ علم الاسماء بد آدم را امام لپک نے اندر لباس عین و لام ٭٭٭ چوں ملائک گوئی لا علم لنا تا بگیرد دست تو علمتنا ٭٭٭ آدم اینہم باسما درس گو شرح کن اسرار حق را مو بمو ٭٭٭ آن کرہ بابات را بودہ عدامے وز خطاب اسجدوا کردہ ابا ٭٭٭ اسجدوا الادم ندا آمد ہمی کادمید و خویش بینندش دمی ٭٭٭ جانہائے خلق پیش از دست و پا می پریدند از وفا سوئے صفا چوں بامر اھبطوا بندی شدند جنس خشم و حرص و خرسندی شدند ٭٭٭ چوں عتاب اہبطوا انگیختند ہمچو ہاروتش نگوں آویختند ٭٭٭ گوش نہ اوفوا بعہدی گوش دار تاکہ اوف عہد کم آید زیار ٭٭٭ ماندہ از آسماں در می رسید نے شریٰ و بیع و نے گفت و شنید درمیان قوم موسیؑ چند کس بے ادب گفتند کو سیر و عدس منقطع شد خوان و ناں از آسماں ماند رنج زرع و بیل و داسماں ٭٭٭ زندہ شد کشتہ ز زخم دم گاؤ ہمچو مس از کیمیا شد زر ساو ٭٭٭ کاؤ موسیؑ بود قرباں گشتہ کمتریں جزوش حیات کشتہ برجہید آں کشتہ ز آیبش ز جا در خطاب اضربوا ببعضہا یا کرامی اذبحوا ھذ البقر ان اردتم حشر ارواح النظر ٭٭٭ چوں تمنو الموت گفت اے صادقین صادقم، جاں را بر افشانم بریں اس سورۃ بقر کی یہ صرف چند آیات ہیں جو ہم نے اس سلسلے میں نقل کیں۔ اسی سورۃ کی اور آیات ہیں اور اس کے علاوہ قرآن حکیم کی دوسری سورتوں کے بھی اسی طرح جا بجا حوالے مثنوی میں موجود ہیں۔ اس مکتوب کا آخری فقرہ بھی قابل غور ہے:’’ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بد نصیبہ سے اب اس ملک میں پید انہیں ہوتے۔‘‘ ظاہر ہے یہاں محض علوم ظاہر کے جاننے والے مراد نہیں ہیں کیونکہ علامہ کے دور میں بھی علوم کے جاننے والے خواہ وہ علوم قدیم اور رسمی ہوں یا علوم جدیدہ موجود تھے۔ یہاں اسرار و رموز کے جاننے والے وہ لوگ ہیں جو بزرگان دین، صوفیائے کرام اور ارباب نظر کی چشم کرم سے فیض پا کر حقیقت کے اس روحانی تجربے تک پہنچ جاتے تھے اور پہنچ جاتے ہیں جہاں تک عقل و فکر انسانی کی رسائی نہیں۔ علامہ خود اپنی زندگی کے اس دور میں اس منزل سے گزر رہے تھے۔ ان کے مزاج میں جو سوز و گداز پیدا ہو گیا تھا اور جو رقت ان پر اکثر طاری ہو جاتی تھی وہ اسی گداز دل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اسرار و رموز سے آگاہی کا نتیجہ ہے۔ 4۔ مکاتیب اور دوسری تحریروں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ زندگی کے آخری چند سالوں میں علامہ کے مکالمات کا غالب حصہ باریک روحانی متصوفانہ اور قرآنی مسائل سے متعلق ہوتا تھا۔ چنانچہ دو منصوبے علامہ کے پیش نظر تھے : ایک تو وہ تاریخ تصوف اسلام اس طرح لکھنا چاہتے تھے جس سے حقیقی اور اسلامی تصوف کے خدو خال نمایاں ہو جائیں کیونکہ وہ اس تصوف کو تسلیم کرتے تھے اور صوفیائے کرام کے روحانی تجربات اور ان کی اعلیٰ منازل و مراتب کا احترام کرتے تھے۔ دوسرے وہ قرآن حکیم کے بارے میں اپنے خیالات قلمبند کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک قرآنی تعلیمات میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے جو عصر حاضر میں فکر انسانی کو درپیش ہیں۔ وہ دور جدید کے ان فکری تقاضوں کا جواب قرآن حکیم سے دینا چاہتے تھے۔ 5۔ سورہ النجم مکہ معظمہ میں نازل ہوئی، ترتیب قرآنی میں یہ سورہ 53ہے۔ اس میں باسٹھ آیتیں اور تین رکوع ہیں۔ اس سورہ میں حضرت جبریل اور نزول وحی کا بیان ہے اور مفسرین نے اس کی تفسیر میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نے وحی کے باب میں اپنے خیالات کا کچھ اظہار تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں اسلامی ثقافت کی روح سے متعلق خطبہ میں کیا ہے۔ بقول ان کے قرآن مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خاصہ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا ذکر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہیے کہ جیسے جیسے وہ ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ اس مکالمے میں بھی بنیادی طور پر اس ارتقا اور نشوونما کی طرف اشارہ ہے: ’’ بشریٰ عقل کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وحی سماوی سے کامل مطابقت حاصل کر لے۔ یعنی اس ترقی یافتہ عقل کے رباب سے بعض خاص خاص اوقات میں جو نغمہ نکلتا ہے وہ ساز الہام سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دو کمان (بقول علامہ ناسوت و لاہوت، یا عقل و وحی یا عالم بشریت و عرش آلوہیت) کامل اتصال کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ نوع انسان میں انبیاء بالعموم اور انبیاء میں حضرت خاتم النبیین بالخصوص اس مقام کے آخری نقطہ سے واصل ہوئے۔‘‘ اور علامہ کے نزدیک یہی دلیل حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انسان کامل ہونے کی ہے جن پر قرآن مجید کے اعلان کے مطابق دین مکمل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی نعمتیں تمام فرمائیں۔ 6سرمد: سرمد کے نام، قومیت اور حالات زندگی کے بارے میں اختلاف ہے، بعض یہودی الاصل ارمنی بتاتے ہیں۔ بعض نے کاشانی لکھا ہے۔ نام بعض تذکروں میں سعیدائے سرمد، لکھا ہے جس سے مولانا ابو الکلام آزاد کا قیاس ہے کہ اسلامی نام کا ایک جزو شاید لفظ سعید ہو گا۔ مولانا کے بقول تحصیل علمی اس زمانہ کے مطابق کامل ہو گی۔ بہ سلسلہ تجارت ہندوستان آئے اور کسی ہندو پسر کے عشق میں مبتلا ہوئے۔ تذکرہ نگاروں نے یہ واقعہ مختلف شہروں سے منسوب کیا ہے۔ ٹھٹھہ، اور پٹنہ دونوں شہروں کے نام ملتے ہیں۔ عشق شور انگیز نے دیوانہ اور صحرا نورد بنا دیا۔ دلی پہنچے اور دارا شکوہ کی صحبت میں رہنے لگے۔ عاشقی میں قید لباس سے آزاد ہو چکے تھے۔ عالم سرمستی کا تھا۔ ایک رباعی کہی: ہر کس کہ سر حقیقتش پا در شد او پہن تر از سپہر پہنا در شد ملا گوید بر فلک شد احمد سرمد گوید فلک بہ احمد در شد علما نے اسے معراج جسمانی سے انکار قرار دیا اور واجب القتل ٹھہرایا۔ برہنگی کا جواز یہ بتایا: خوش بالائے کردہ چنیں پست مرا چشمے بدو جام بردہ از دست مرا او در بغل من است و من در طلبش دز دے عجب برہنہ کردہ است مرا صاحب مراۃ الخیال کا بیان ہے کہ جلاد تلوار چمکاتا آگے آیا تو فرمایا: فدائے تو شوم، بیا بیا کہ بہر صورتے کہ می آئی من ترا خوب می شناسم۔ اور یہ شعر پڑھا: شورے شد از خواب عدم چشم کشودیم دیدیم کہ باقی است شب فتنہ غنودیم یہ واقعہ عالمگیر کی جانشینی 1069ھ کے ایک سال بعد پیش آیا۔ * 7۔ عشق رسولؐ میں سوز و گداز کی یہ کیفیت علامہ اقبال پر اکثر گزری ہے اور بے شمار واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس شعر کے سلسلے میں حاشیہ میں لکھا گیا ہے کہ مولانا رومیؒ روایات کے ضعف و قوت سے تعرض نہیں کرتے۔ ان سے عجیب و *منجملہ اور حوالوں کے دیکھے: (1) مضامین ابو الکلام آزاد، فرنٹیر بک ڈپو، لاہور ص212 و بعد۔ (2) شمع انجمن، تذکرہ، نواب صدیق حسن خان، مطبع شاہجہانی ص209۔ علامہ اقبال نے سرمد کے شعر کو رومی کے ایک شعر سے ماخوذ بتایا ہے۔ یہ بحث ملفوظات میں دیکھئے۔ غریب نتائج اخذ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہ بات صرف مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ تک محدود یا مخصوص نہیں، صوفیائے کرام سے منسوب بہت سی روایات میں ایسی احادیث یا اقوال جنہیں حدیث سمجھ کر پیش کیا گیا ہے، ضعیف، وضعی یا صریحاً قول صوفیہ ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے اقبال اور مسلک تصوف از ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، یکے از مطبوعات سلسلہ صد سالہ یادگار علامہ اقبال، طبع اقبال اکیڈمی لاہور۔ اس مضمون کو علامہ نے بھی مومن اور کافر کی تمیز میں بیان کیا ہے کہ کافر آفاق میں گم ہوتا ہے اور مومن میں آفاق گم ہوتے ہیں۔ 8مدراس والے لیکچر: دراصل ان خطبات کی طرف اشارہ ہے جو تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے نام سے ہیں اس کی پہلی اشاعت 1930ء میں ہوئی اور اس میں چھ خطبات شامل تھے۔ اسی لیے ان کا عنوان بھی انگریزی میں (Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam )تھا۔ 1934ء میں اس میں بعض لفظی ترمیمات ہوئیں او رایک خطبہ کے اضافہ کے بعد لندن کی مجلس ارسطو (Aristotelian Society) کی دعوت پر لکھا گیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔ یہ خطبات گویا علامہ اقبال کے فکر کا احاطہ کرتے ہیں او ران کی زندگی کے آخری دور تک ان کے نظریات و مقاصد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ خطبات کا مقصد اس کے عنوان سے ہی ظاہر ہے۔ اردو ترجمہ کا عنوان تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ہے۔ علامہ اقبال عصر حاضر میں ساری دنیا میں بالعموم اور برعظیم پاک و ہند میں بالخصوص ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید تھے اور جانتے تھے کہ دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے اور خاص طور پر جدید سائنس اور عقلیات نے مذہب کے بارے میں بعض ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں ان کا جواب قرآن حکیم اور تعلیمات اسلام میں موجود ہے۔ البتہ مسائل کی تفہیم اور ان کے جوابات کی نوعیت کو عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں دیکھنا پڑے گا اور بعض مسائل میں ایک اجتہادی نقطہ نظر اختیار کرنا پڑے گا۔ علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے افکار میں جمود و تعطل کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان کے بعض فرقوں اور طبقوں اور بعض علماء نے اجتہاد کے بند ہونے کے مسلک کو قبول کر لیا۔ علامہ کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا بشرطیکہ اس اجتہاد کی اساس قرآن حکیم اور روح اسلام ہو او رکوئی تفسیر یا تعبیر ایسی نہ ہو جس سے مسلمان خود کو بدلنے کی جگہ قرآن کو بدلنے لگیں۔ خطبات کے موضوعات نہایت اہم ہیں۔ پہلا خطبہ علم اور مذہبی مشاہدات کے موضوع پر محیط ہے۔ یہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت، ترکیب، عناصر، انسان اور کائنات کے تعلق جیسے مسائل کے بارے میں سوالات کے جوابات کہاں تک عقل کی رسائی میں ہیں اور کس حد تک ماورائے عقل و ادراک و احساس و تجربے پر۔ دوسرے خطبہ میں مذہبی مشاہدات کے فلسفیانہ معیار سے بحث کی گئی ہے۔ تیسرے خطبہ کا موضوع ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا ہے۔ چوتھے خطبے میں خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت کے مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ پانچویں خطبے میں اسلامی ثقافت کی روح کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹے خطبہ کا عنوان ’’ الاجتہاد فی الاسلام‘‘ ہے۔ ساتواں خطبے کا موضوع’’ کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ ہے۔ اصل خطبات انگریزی میں تھے لیکن ابتدا سے ہی علامہ اس کے اردو ترجمے کے حق میں تھے۔ چنانچہ پہلے خیال تھا کہ اردو ترجمہ جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر عابد حسین کریں۔ عابد صاحب خود فلسفہ کے عالم تھے اور مکالمات افلاطون کا ترجمہ کر چکے تھے، لیکن عابد صاحب نے مصروفیت کی بنا پر انکار کر دیا تو سید نذیر نیازی صاحب نے ترجمہ کیا اور مولانا محمد السورتی، مولانا اسلم جیرا جپوری اور علامہ سید سلیمان ندوی کے مشورے بھی شامل رہے اور ترجمے کے اکثر حصے علامہ نے خود بھی دیکھے۔ ایک اعتبار سے انگریزی خطبات سے زیادہ اہم یہ ترجمہ ہے کیونکہ بہت سی اصطلاحات دینی اور فکری جو فلسفہ اسلام سے تعلق رکھتی ہیں انگریزی میں کسی اصطلاح سے ان کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ مثلاً خود وحی کا لفظ جو مفہوم رکھتا ہے وہ Recealation سے ظاہر نہیں ہوتا۔ نذیر نیازی صاحب کا ترجمہ معہ حواشی و فرہنگ اصطلاحات مجلس ترقی ادب لاہور سے 1958ء میں شائع ہوا۔ 9یہاں پھر علامہ اقبال نے ذوق و وجدان اور اخلاق و روحانیت کی ترقی کو تفہیم قرآن کے لیے ضروری دیا ہے۔ قرآن فہمی کے لیے محض عربی زبان کا عالم ہونا، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کافی نہیں، ضروری البتہ ہے۔ اصل چیز توفیق الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہی اور ضلالت میں مبتلا کرے۔ علامہ کا یہ استدلال درست ہے کہ قرآن مجید سارے کا سارا مفصل بھی ہے اور متشابہ بھی۔ 10۔ مرزا غلام احمد قادیانی فرقہ کے بانی جو بعد میں دو فرقوں میں بٹ گیا۔ قادیان ان کا مرکز تھا جو اب بھارت میں ہے۔ پاکستان میں ربوہ کو قادیانیوں نے اپنی تحریک کا مرکز بنایا۔ قادیانی تحریک کے متعلق علامہ کا نقطہ نظر صاف ظاہر ہے۔ انہوں نے اپنے مکاتیب میں صاف صاف لکھا ہے کہ قادیانی نہ اسلام کے وفادار ہو سکتے ہیں اور نہ اس ملک کے۔ علامہ کا یہ تجزیہ درست ہے کہ سلطان ٹیپو شہید کے جہاد حریت کے بعد انگریزوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کا مسئلہ جہاد ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور انہوں نے شریعت اسلامیہ سے اس مسئلہ کو خارج کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔ مثلاً مسلمانوں کے جہاد کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاثر پیدا کیا کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی عام ہو گئی کہ مسلمان تبلیغ دین کے لیے نہیں صرف ملک گیری کی ہوس میں جنگ کرتے تھے، حالانکہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بقول: ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی؟ اور مسلمانوں کا کردار یہ تھا: ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے چنانچہ علامہ کے بقول انگریزوں نے بعض نام نہاد علما کو اپنا آلہ کار بنایا۔ کہ وہ اسلام اور شریعت اسلامیہ میں رخنہ اندازی کریں۔ ایک سیاسی مسئلہ جہاد کا تھا، چنانچہ بعض اطراف سے یہ توجیہہ کی گئی کہ جہاد سے مراد صرف جہد یا کوشش ہے، تلوار اٹھانا اور خون بہانا جہاد نہیں اور بعض نے جہاد بالسیف کی جگہ ’’ جہاد بالقیم‘‘ *کو اس دور کی ضروریات کے مطابق جہاد بتایا۔ غرض علما کے ایک طبقہ سے اس طرح کی تاویلات فراہم ہو گئیں لیکن اس کا اثر عامۃ المسلمین پر نہ ہوا اس لیے بقول علامہ ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مرزا غلام احمد اس خدمت پر متعین ہوئے اور مختلف مراحل سے گزر کر کبھی مسیح موعود، کبھی مہدی، کبھی نبی ظلی کے روپ میں ایک ایسی شریعت کے بانی ہوئے جو اسلام کے نام پر اسلام کی تلبیس تھی۔ قادیانیت کے خلاف مسلم علماء اور زعماء نے آواز اٹھائی او ربہت کچھ لکھا گیا لیکن علامہ کا یہ خیال درست ہے کہ اصل مسئلہ یعنی قادیانیوں کے تنسیخ مسئلہ جہاد پر جس توجہ کی ضرورت تھی وہ نہیں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی قادیانیت کی تبلیغ و تنظیم کا سلسلہ جاری رہا اور قادیانی بعض کلیدی آسامیوں پر قابض رہے جن سے نازک آسامیوں پر ان کا اور ان کی جماعت کے لوگوں کا اثر و اقتدار بڑھا اور طرح طرح کے سیاسی، سماجی اور انتظامی مسائل پیدا ہوئے۔ *اس شعر میں علامہ کا اشارہ اسی کی طرف ہے: فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر نظم کا عنوان ہے جہاد، دیکھئے، ضرب کلیم ص28 اس کے خلاف زبردست رد عمل بھی ہوا اور بالآخر حکومت پاکستان کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا۔ علامہ کے اکثر مکتوبات میں قادیانیوں کے بارے میں واضح خیالات موجود ہیں۔ 11۔ سلطان ٹیپو شہید: سلطان ٹیپو شہید سے علامہ اقبال کی عقیدت کی بناء سلطان شہید کا جذبہ اور شوق جہاد ہے یہ جہاد صرف اسلام کی سربلندی اور برعظیم پاک و ہند میں انگریزوں کے تسلط کے خلاف تھا، جن کے عزائم میں سلطان شہید کو سلطنت ہند کی پامالی اور نتیجہ کے طور پر ملت اسلامیہ کی تذلیل و تضحیک کے سامان نظر آ رہے تھے۔ سلطان شہید کے بارے میں ہمارے ملک کے نامور مورخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں*: ’’ اگرچہ سلطان ٹیپو سلسلہ تواریخ کے اعتبار سے بہت بعد میں آیا، مگر ملت نے اس کی شخصیت میں ایک اور لائق، مجاہد اور منتظم فرزند پیدا کیا۔ اس میں اس قدر پیش بینی تھی کہ اس نے پہلے سے یہ اندازہ لگا لیا کہ انگریز برعظیم کے سرداروں او رحکمرانوں سے اقتدار چھین لیں گے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مغرب کی بڑھتی ہوئی طاقت کے حقیقی اسباب کا کچھ فہم و ادراک رکھتا ہے اور اس نے اپنی مملکت میں بعض اصلاحات جاری کرنے کی کوشش بھی کی۔ اگر اس کو وقت ملتا تو اس کی یہ اصلاحات نظام ملک کی جدید تشکیل کے لیے بنیاد کا کام انجام دیتیں۔ وہ بر عظیم میں سب سے پہلا فرمانروا تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر سفارتی تعلقات اور موقع شناسی کی قدر و قیمت کو اچھی طرح *برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ، ص224 سمجھا، مگر اس کے مقدر میں کامیابی نہیں تھی کیونکہ اسے بڑی زبردست مشکلات کا سامنا تھا۔ کم سے کم اسے یہ طمانیت قلب ضرور حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی جیسی کوشش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور اپنی قلمرو کے دفاع میں مردانہ وار لڑتے ہوئے جان دی۔ مسلمانوں کے حکمران طبقوں میں نظام الملک اور ٹیپو سلطان جیسے آدمی فی الحقیقت نادر الوجود تھے۔ ملت ان جیسے فرزند پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکی تھی۔‘‘ سلطان ٹیپو شہید کے مجاہدانہ عزم و استقلال اور جدوجہد کا ایک اور اندازہ فتح المجاہدین*سے ہوتا ہے۔ یہ سلطان ٹیپو کے فوج کے قواعد و ضوابط اور آئین جنگ پر ایک نادر تصنیف ہے جو سلطان کے حکم سے اور اس کی نگرانی میں اس کے ایک فوجی افسر میرزا زین العابدین شوستری نے مرتب کیا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں شہید ملت لیاقت علی خاں فرماتے ہیں**: Tipu Sultan was a great soldier, a great administrator and one of the greatest servants of the cause of Islam. دیباچہ میں میرزا زین العابدین، سلطان ٹیپو کے اس احساس کا ذکر کرتے ہوئے جو اس کے دل میں سلطنت تیموریہ کے زوال، ملازمین *فتح المجاہدین، مرتبہ ڈاکٹر محمود حسین، مقدمہ لیاقت علی خاں وزیر اعظم و وزیر دفاع پاکستان، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی 1950ء **ایضاً سلطنت کی نمک حرامی اور بد بختی سے پیدا ہونے والے حالات کی طرف سے تھا کہ بقول سلطان ’’ نصارائے کوٹھی دار سواحل ہند کہ تجارت کے بہانے سے آئے تھے، آہستہ آہستہ اس ملک میں قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ سلطان نے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کی بے حرمتی، بے بسی اور پریشانی کا ذکر کیا ہے اور اسی کے لیے اس نے اپنی فوج کو نئے طریقے سے منظم کیا اور اس کے قواعد و ضوابط حرب و ضرب مرتب کیے۔ کتاب کے آغاز میں باب اول در بیان ’’ مسائل عقائد و نماز و مسائل منع تمباکو و نمک حرامی و ترکہ وجہاد وغیرہ‘‘ ہے۔ اس میں جہاد کے مسائل پر زیادہ تفصیل سے لکھا ہے۔‘‘ مثلاً 1جہاد باکفار از برائے نصرت دین اسلام است، بجہت ارتفاع حق، قال اللہ تعالیٰ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ 2مسئلہ: حرام است روگرداں شدن از جہاد بر کسے کہ واجب است بر او جہاد۔۔۔ 3 مسئلہ: کسے کہ اعانت مسلمانی بکند در جہاد بنفقہ یعنی ما کول یا مال یعنی زر یا سلاح جنگ یا اسپ یا بذات یعنی خود شریک جنگ شود پس از برائے اوست ثوابے کہ ہست برائے مجاہدہ در راہ خدا۔ 4مسئلہ: نیکو نیست برائے مسلمین کہ اطاعت بکنند کفار را با قدرت و امکان۔ 5مسئلہ: نیکو نیست باج دادن بکفار با قدرۃ بر جہاد۔۔۔۔ یہ ہم نے نہایت اختصار سے بطور نمونہ چند مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے جو فتح المجاہدین میں بیان کئے گئے ہیں۔ پوری کتاب سے سلطان کے ذوق و شوق جہاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ جن حضرات نے جہاد کے سلسلے میں علامہ کی تحریریں پڑھی ہیں ان کو علامہ کے بیانات میں سلطان ٹیپو شہید کی جھلک ضرور نظر آئے گی بالخصوص وہ مکتوب جو علامہ نے علی گڑھ کے ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا ٭ اور جس میں جہاد کی مختلف صورتوں کی وضاحت کی تھی اور یہ کہ محض جوع الارض کی تسکین کے لیے جو لڑائی لڑی جائے وہ جہاد نہیں اورنہ اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ اسی خط میں علامہ نے اپنے کلام کی مشہور شعری علامت ’’شاہین‘‘ کی بھی تشریح کی تھی۔ سلطان شہید علامہ کے نزدیک جدوجہد اور عزم و استقلال کا ایک کامل نمونہ تھا۔ ضرب کلیم میں ایک مختصر نظم سلطان ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے اس کردار کی ترجمان ہے: تو وہ نورد شوق ہے؟ منزل نہ کر قبول! لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول! اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز! ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول! کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں ! محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول! ٭ یہ مکتوب پہلی مرتبہ راقم نے علامہ کی حیات میں علی گڑھ میگزین کے اقبال نمبر میں شائع کیا تھا۔ یہ نمبر تیار ہو چکا تھا کہ علامہ کا انتقال ہو گیا اور اسی ہفتہ یہ شائع ہوا۔ صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول! باطل دوئی پسند ہے‘ حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول ٭ 12۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری: یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے رد قادیانیت میں نمایاں کردار ادا کیا اور مناظروں مباحثوں اور مجلسوں کے علاوہ اپنی تحریروں میں بھی مرزا غلام احمد کے دعوئوں اور ان کے اقوال کی تردید کی ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے سر سید احمد خاں مرحوم کے کتب خانے کی طرف توجہ دلائی۔ سرسید مرحوم کا کتب خانہ ایک زمانے میں بے شک ایسا تھا کہ مولانا شبلی نعمانی جب پہلی مرتبہ علی گڑھ آئے تو انہوںنے سرسید کے کتب خانے میں ایسی مطبوعا ت دیکھیں جو ان کی نظرسے پہلے نہیں گزری تھیں اور اکثر مطبوعات جدیدہ مصر‘ شام و لبنان وغیرہ کی مطبوعات ملک میں صرف ان کے پاس تھیں۔ سرسید نے خود مذہب کے بارے میں بہت کچھ لکھا تھا۔ تبئین الکلام کی ترتیب میں خاص طور پر عبرانی عربی ماخذ جمع کیے تھے بلکہ عبرانی پڑھی تھی۔ اور کتاب کے لیے عبرانی ٹائپ بھی منگوایا تھا۔ لیکن جب زمانے کا ذکر اس گفتگو میں ہے سرسید مرحوم کا کوئی کتب خانہ اس صورت کا باقی نہ تھا۔ کتب خانے کا ایک بڑا حصہ غالباً سرسید کے سفر انگلستان کے اخراجات کے لیے فروخت کرنا پڑا۔ کچھ حصہ ایم اے ا و کالج کی لائبریری میں تھا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی لٹن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ’’ضرب کلیم‘‘ ص 73۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لائبریری میں منتقل ہوا۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ علامہ نے اس سلسلے میں علی گڑھ سے رابطہ قائم کیا یا نہیں۔ 13۔ جنید بغدادیؒ : حضرت جنید بغدادیؒ ان صوفیہ میں سے ہیں جن سے عقیدت کا اظہار علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں جا بجا کیا ہے۔ ذوق و شوق ان کی مشہور نظم ہے اس میں حضرت جنیدؒ کے فقر کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: شوکت سنجر و سلیم ‘ تیرے جلال کی نمود فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب جو شعر علامہ نے پڑھا تھا کہ ہر کہ عاشق گشت حسن ذات را گشت سید جملہ موجودات را حضرت جنیدؒ ان صوفیہ میں سے تھے جو مشاہدہ ذات حق کے سالک تھے اور جنہوںنے جمال بے نقاب کا ادراک اپنے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن سے کیا تھا۔ حضرت جنید سید الطائفہ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ علامہ نے بھی ان کو اسی لقب سے خطاب فرمایا۔ حضرت جنید کے مرتبہ کا اعتراف اکابر صوفیہ نے کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوالحسن علی بن عثمان بن ابی علی الجلابی جو ہجویری کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں اور خود علامہ اقبال نے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے حضرت جنید ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ کشف المحجوب متن تصحیح شدہ و انتین ژوفسکی‘ مطبوعات موسسہ چاپ و انتشارات امیر کبیر ص 161 تیر ماہ یک ہزار و سی صد و سی و شش۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’شیخ مشائخ اند طریقت و امام ائمہ انر شریعت ابو القاسم الجنید بن محمد الجنید القواریری‘ مقبول اہل ظاہر و ارباب القلوب بود‘ و اندر فنون علم کامل و در اصول و فروغ و وصول و معاملات مفتی و امام اصحاب ابو ثور بود۔ ویرا کلام عالی و احوال کاملست ۔ تاجملہ اہل طریقت پر امامت وے متقق اند و ہیچ مدعی و متصرفی را در وے محال اعتراض و اعراض نیست‘‘۔ حضرت جنید باوجود اس مرتبہ کے جو ان کو صوفیانہ مشاہدہ سے حاصل ہوا تھا۔ شریعت ظاہری اور طریق راستخہ اسلام کی سختی سے پابندی کرتے اور اس کی تاکید فرماتے۔ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت خواجہ فرید الدین عطار جو خود صوفیائے کبار میں سے ہیں حضرت جنید کے حوالہ سے فرماتے ہیں: ’’این راہ کسے یابد کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد‘ و سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بردست چپ‘ و در روشنائی دو شمع می دود تا نہ در شبہت افتد نہ در ظلمت بدعت‘‘۔ حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت جنید کے بعض اقوال نقل کیے ہیں ٭۔ علامہ اقبال روحانی مراتب اور تجربات میں ارتقاء کے قائل ہیں۔ حضرت ہجویری اس سلسلے میں انبیاء اور صدیقین کے مراتب کا ذکر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یوں کرتے ہیں: ’’گفت کلام الانبیا نبا عن الحضور و کلام الصدیقین اشارۃ عن المشاہدات۔ سخن انبیاء خبر باشد از حضور و کلام صدیقاں اشار ت از مشاہدات صحت خبر از نظر بود‘ و ازاں مشاہدات از فکر و خیر جز از عین نتوان داد و اشارت جز بغیر نباشد پس کمال و نہایت صدیقان ابتدا روزگار انبیا بود و فرقے واضح است میان ولی و نبی و تفضیل انبیاء بر اولیا بہ خلاف دو گروہ از ملاحدہ کہ انبیاء را اندر فصل موخر گویند و اولیا را مقدم‘‘۔ ارمغان حجاز میں بھی علامہ اقبال نے حضرت جنید کا ذکر کیا ہے: دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینی دل جنید و نگاہ غزالی و رازی حضرت جنید بغدادی ؒ کو خراز بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ موزہ دوزی کاکام کرتے تھے اور اکابر صوفیائے سلف کی طرح محنت مزدوری کر کے کسب حلال کماتے تھے۔ آبائی وطن نہاوند تھا لیکن آپ کی ولادت بغداد میں ہوئی۔ ان کی روحانی تربیت میں حضرت سری سقطیؒ‘ حضرت حارث محاسبی اور حضرت شیخ محمد قصاب کے نام ملتے ہیں۔ تذکرہ نگاروں نے ان کی جو صفات بیان کی ہیں وہ بے حد ہیں لیکن ان میں خاص طور پر زہد اور عشق الٰہی پر زور دیا ہے۔ خواجہ عطار ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’بیشتراز مشائخ بغداد در عصر او و بعد از وے مذہب او داشتہ اند‘ و طریق او طریق صحو بود‘‘۔ یہ طریق صحو وہی ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے کیا ہے اور اسے سکر پر ترجیح دی ہے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 297ھ 910ء میں ہوئی۔ 14۔ علامہ اقبال نے بار بار اپنے اشعار میں بھی اور اپنی نثری تحریروں میں بھی علم کی دو قسموں کا ذکر کیا ہے۔ کہیں ایک کو علم اور دوسرے کو وجدان کہا گیا ہے۔ کہیں علم کی دو قسمیں ہیں: برتن زنی‘ مارے برد‘ اور بردل زنی یارے بود کہیں کو ایک خبر ایک کو نظر کہا ہے۔ اس کی مفصل بحث تشکیل جدید الہیات اسلامیہ یعنی خطبات میں پہلے خطبہ میں کی ہے جس کا عنوان ہی علم اور مذہبی مشاہدات ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں عقلی اساسات کی جستجو کاآغاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک ہی سے ہو گیا تھا ٭ کہ آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ مجھ کو اشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر۔ خود قرآن حکیم میں بار بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ مناظر و مظاہر قدرت دن رات کا نظام سیاروں کی گردش ‘ بادل بارش بلکہ حقیر شہد کی مکھی تک آیت الٰہی ہیں جن پر غور کرنے سے حقیقت پر سے بعض پردے اٹھتے ہیں۔ علامہ کے بقول یونانی فلسفہ اور دیگر اثرات نے مفکرین اسلام کے مطمح نظر میں کچھ وسعت پیدا کر دی ہے مگر بہ حیثیت مجموعی قرآن مجید میں ان کی بصیرت محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ قرآن پاک کی روح اساساً یونانیت کے منافی ہے۔ اس یونانیت کے فکر تحلیلی سے مایوس ہو کر بعض مفکرین نے صوفیانہ واردات پر توجہ کی ۔ اس کی ایک اور مثال امام غزالی کے ہاں ملتی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حقیقت مطلقہ کے تمام و کمال ٭٭ لقا کی خاطر ادراک بالحواس کے ساتھ ساتھ اس چیز کے مدرکات کا اضافہ بھی ضروری ہے جسے قرآن پاک نے فواد یا قلب سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ص 4 و مابعد۔ ٭٭ ایضاً ص 23۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلب کو ایک طرح کا وجدان یا اندرونی بصیرت کے لیے جس کی پرورش مولانا روم کے دلکش الفاظ میں نور آفتاب سے ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم حقیقت مطلقہ کے ان پہلوئوں سے اتصال پیدا کر لیتے ہیں جو ادراک بالحواس سے ماورا ہیں۔ قرآن مجید کے نزدیک قلب کو جو قوت دید حاصل ہے اور اس کی اطلاعات بشرطیکہ ان کی تعبیر صحت کے ساتھ کی جائے کبھی غلط نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی پراسرار قوت ہے۔ اسے دراصل حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کا وہ طریق ٹھہرانا چاہیے جس میں باعتبار عضویات حواس کا مطلق دخل نہیں ہوتا۔ بایں ہمہ اس طرح حصول علم کاجو ذریعہ پیدا ہوتا ہے ایسا ہی قابل اعتماد ہو گا جیسے کسی دوسرے مشاہدہ سے‘ جسے اگر باطنی یا صوفیانہ یا فوق العادۃ ٹھہرایا جائے تو بحیثیت مشاہدہ اس کی قدر و قیمت میں کوئی فرق نہیں آتا‘‘۔ 15۔ اس جملے اور بعد کے پارے کے آخری جملے میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے۔ اس لیے مقالہ نگار کے سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلط فہمی ہے۔ تزکیہ نفس کے لیے علامہ کا یہ فرمانا کہ صوفیاکے فرائض اس کے لیے ہیں صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے ۔ رہا یہ سوال کہ بعض اصطلاحات جو صوفیہ یامفکرین کے یہاں بعد میں ملتی ہیں وہ جنات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نہ تھیں اور نہ اس قسم کے اذکار و اوراد تو یہ ا س حد تک درست ہے کہ صوفی کی اصطلاح اس زمانے میں نہ تھی اورکسی بھی مسلمان کے لیے سب سے بڑا فخر یہ تھا کہ اس نے آپ کا زمانہ پایا یا آپ کو دیکھا یا سنا۔ یہ صحابہ کرامؓ تھے ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا عہد آیا لیکن اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجو د تھے جن کی روش عامہ المسلمین سے الگ تھی۔ مثلاً اصحاب صفہ جو مسجد نبوی سے باہرا یک چبوترے پر بیٹھے عبادت کرتے تھے اور ان کے لیے سامان زندگی خود رسول کریمؐ اور ان کے صحابہؓ بہم پہنچاتے تھے اور بعض صوفیا لوگ ان کی نسبت انہیں اصحاب صفہ سے بتاتے ہیں۔ بہرحال اگر مسلمانوں اور بالخصوص صوفیائے کرام میں ذکر و شغل کے بعض خاص طریقے رائج ہیں تو ضروری نہیںکہ یہ مجوس ہنود یا نصاریٰ ہی آئے ہوں ممکن ہے ان کے یہاں بھی بعض طریقے ایسے یا ان سے ملتے جلتے رائج ہوں لیکن ان کو صوفیہ کے ذکر و شغل کا منبع یامصدر یقین کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ ذکر و فکر کی تاکید قرآن حکیم میں ہے۔ اس سلسلے کی بعض روایات آیات مبارکہ دیکھیے: (1) انما المومنون الذین … رزق کریم (الانفال ۲۔۳۔۴) ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ (آیتیں) ان کے ایمان کو اور زیادہ (مضبوط) کر ددیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (اور ) جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (بس) سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور (ان کے لیے ) مغفرت ہے اور عزت کی روزی‘‘۔ (2) الذین امنوا …تطمئن القلوب (الرعد ۔ ۲۸) ’’جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے ذکر س ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے‘‘۔ (3) فسئلوا … لا تعلمون (النحل ۴۳) ’’اگر تم نہ جانتے ہو تو اہل ذکر (یعنی جاننے والوں سے پوچھو۔ (4) و اصبر نفسک…امرہ فرطا (الکہف ۲۸) ’’اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھا کیجیے جو صبح و شام (یعنی ولی الدوام) اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضاجوئی کے لیے کرتے ہیں اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے نہ پائیں اورایسے شخص کا کہنا نہ ماننے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد (ذکر) سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشات پر چلتا ہے‘‘۔ (5) الم تران اللہ … بما یفعلون (النور ۔ ۴۱) ’’کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمیں میں (مخلوقات) ہیں اور (بالخصوص) پرند جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں سب کو اپنی اپنی دعا اور اپنی تسبیح معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے‘‘۔ یہ صرف چند آیات ہیں جن میں ذکر الٰہی اور تسبیح و تمجید کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ مخلوقات اپنی اپنی زبان ‘ اپنے اپنے طریقے اور اپنے اپنے انداز میں اس امر ربی کی تعمیل و تکمیل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ماخذ قرآنی کسی اور مصدر سے ماخوذ ہیں۔ اب دیکھیے خود صوفی ذکر کی تعریف کیا کرتے ہیں: ’’ذکر اللہ کی یاد‘ یاد الٰہی میں جمیع غیر اللہ کو دل سے فراموش کر کے حضور قلب کے ساتھ قرب و معیت و حق تعالیٰ کا انکشاف حاصل کرنے کی کوشش کو ذکر کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر وہ چیز جسکے توسل سے یاد حق ہو‘ خواہ اسم ہو یا رسم ‘ فعل ہو یا جسم ‘ کلمہ ہو یا نماز‘ یا تلاوت قرآن یا درود شریف یا ادعیہ‘ یا کیفیات یا کوئی اور چیز جس سے مطلوب کی یاد ہو اور طالب و مطلوب میں رابطہ پیدا ہو یا بڑھے اصطلاح تصوف میں ذکر کر کے نام سے موسوم ہے۔ چنانچہ صوفی کے جملہ افعال و اقوال و احوال جو کہ یاد حق سے خالی نہیں رہتے اذکار ہیں۔ ذکر کا جمال یہ ہے کہ ذاکر و مذکور کے درمیان سے جملہ حجابات اٹھ جاویں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس تعریف میں کوئی چیز ایسی نہیں جو قرآنی تعلیمات یا روح اسلامی کے منافی ہو۔ چنانچہ اسی بناء پر علامہ اقبال نے تزکیہ نفس تصٖیہ باطن اور اصلاح قلب کے لیے بعض اوراد اور اشغال کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ان اذکار کی مختلف شکلیں ہیں جو مختلف سلسلوں کے مشائخ میں رائج ہیں۔ مثلاً ذکر لسانی یا ذکر ناسوتی‘ ذکر قلبی یا ذکر ملکوتی ذکر نسفی یا فکر ذکر روحی یا ذکر جبروتی و مشاہدہ ذکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ سر دلبراں ص 169 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہوتی یا سری ذکر نفی اثبات‘ ذکر اسم ذات‘ ذکر جبروتی‘ وغیرہ تفصیل ان کی تصوف کی تصانیف میں موجود ہے۔ 16۔ یہ دونوں شعر مثنوی میں ہیں اور اسی ترتیب سے: دفتر صوفی کتاب و حرف نیست جز دل اسپید ہمچو برف نیست زاد دانشمند آثار قلم زاد صوفی چیست انوار قدم حقیقت تک رسائی کے ان دونوں طریقوں پر علامہ اقبال نے بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ عقل و تعقل کو بالکل معطل نہیںکرتے بلکہ اس کا دائرہ عمل متعین کرتے ہیں جس طرح حقیقت کے تجربے کے صوفیانہ یا مذہبی عمل کا دائرہ عمل ہے۔ خطبات میں بھی اس پر بحث ہے اورکلام یں بھی جا بجا اس علم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 17۔ پوری غزل بال جبریل میں موجود ہے مطلع یہ ہے: تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ؟ وہ ادب گہ محبت وہ نگہ کا تازیانہ اس میں بتان عصر حاضر کے بارے میں یہ شعر بھی ہے: یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ! نہ تراش آزرانہ بال جبریل میں علامہ اقبال کی غزلوں میں وہ رنگ و آہنگ ہے جو اس سے پہلے اردو غزل میں نہیںملتا۔ مضامین عاشقانہ ہیں لیکن عشق کا تصور وہ نہیں جو مرزا خاں ڈاغ دہلوی یا مومن جرات کے یہاں ہے۔ انداز بیان غزل کا ہے لیکن اس میں ندرت اور تازگی ہے۔ 18۔ مسز سروجنی نائیڈو: شاعرہ ادیب ‘ مضمون نگار‘ سیاسی مبصر اپنے دور میں بالخصوص نوجوان طلبا میں بے حد مقبول تھیں۔ حب وطن کے جذبے سے سرشار اور وطن کی آزادی کے مجاہدوں کی قدردان تھیں۔ برعظیم میں اور یہاں سے باہر ان کی محفلیں شعر و ادب‘ سیاست و تہذیب کی انجمنیں معلوم ہوتی تھیں۔ انگریزی زبان پر زبردست قدرت تھی اور اس میں شعر بھی کہتی تھیں۔ 19۔ علامہ عبداللہ یوسف علی قرآن حکیم کے انگریزی ترجمہ کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انڈین ایجوکیشن سروس سے متعلق تھے پھر ایک مدت تک اسلامیہ کالج لاہور میں پرنسپل رہے انجمن حمایت اسلام کے سرگرم اراکین میں تھے اور پنجاب میں مسلمانوں کی دینی سماجی اور کسی قدر سیاسی تحریکات میں دلچسپی لیتے تھے۔ علامہ اقبال کے قدردانوں میں تھے۔ آخر عمر میں لندن چلے گئے تھے اور تقریباً گمنامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ آخری زمانہ میں کس مپرسی اور ناقدری میں گزارا۔ وہیں انتقال ہوا۔ 20۔ مرزا عبدالقادر بیدل: مرزا عبدالقادر بیدل برعظیم پاک و ہند کے ان اکابر شعرا میں سے ہین جن کا فارسی کلام مستند ومعتبر ہے ۔ اگرچہ بعض اردو اشعار بھی ان سے منسوب ہیں لیکن ان کی تاریخی صحت مشتبہ ہے۔ بعد کے شعراء نے جن میں مرزا غالب اور علامہ اقبال بھی شامل ہیں مرزا بیدل کا اعتراف کیا ہے عقل و جنون کے باب میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر وہ تھا جسے صوفیانہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا ہے شیخ بھی مثال برہمن صنم تراش محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش مذہب ہے جس کا نام وہ ہے اک جنون خام ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش کہتا مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور مجھ پر کیا ہے مرشد کامل نے راز فاش با بر کمال اندکے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش یہ آخری شعر جس میں مرشد کامل کا ہے وہ مرزا عبدالقادر بیدل ہی ہیں۔ یہی خیال علامہ کا اس اردو شعر میں ہے: اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا ہی چھوڑ دے مرزا عبدالقادر صرف ایک شاعر نہیں تھے۔ صوفی بھی تھے۔ ان کے چچا مرز ا قلندر تھے۔ جنہوںنے عبدالقادر کے والد کی وفات کے بعد اس بچے کی پرورش کی۔ وہ خود حضرت شیخ ککمال کے مرید تھے اور اپنے ساتھ عبدالقادر کو بھی ان کی خدمت میں لے جاتے تھے اورایک اور بزرگ شاہ ملوک تھے جن کی خدمت یں عبدالقادر حاضر ہوتے تھے اور انہوں نے اکر ان کی کرامتوں کا حال بھی لکھا ہے۔ وہ وحدت الوجود کے قائل تھے اور مثنوی مولانا روم کے اشعار عبدالقادر کو سناتے تھے۔ شاید مرزا عبدالقادر بیدل اور علامہ اقبال دونوں کے مرشد کامل پیر رومی ہی دونوں کے ربط باطن کی کڑی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس طرح کا وحدت وجودی کا تصوربعض صوفیہ کے یہاں ملتا ہے ۔ اور اس میں بیدل بھی شامل ہیں وہ اقبال کے مسلک سے مختلف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اقبال کا کلام بڑی حد تک اس وحدت الوجود کے نظریہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل و اثرات کی تردید ہے۔ لیکن دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال اور بیدل دونوں اس باب میں ہمنوا ہیں کہ طریقت کا کوئی راستہ ایسا نہیں کہ جو شریعت سے باہر ہو۔ بیدل اپنے پیرومرشد شیخ کمال الدین کا یہ قول نقل کرتے ہیںـ: تا نہ گردند خاک جادہ شرع گر ہمہ منزل اند گمراہ اند وحدت الوجودی ہونے کے باوجود مرزا عبدالقادر بیدل ا س تصوف کے خلاف ہیں جو مزاج خلق میں ہوس کی پرورش کرے۔ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں: در مزاج خلق بے کاری ہوس می پرورد غافلاں نام فضولی را تصوف کردہ اند دراصل جو چیز علامہ اقبا ل کو بیدل کے یہاں پسند ہے وہ عظمت آدم ہے۔ تخلیق کائنات کا مقصد انسان کامل کا ظہور و عروج ہے اور کائنات کو اسی کے لیے مسخر کیا گیا۔ ہر چیز جو پیدا کی گئی انسان کی غلام ہے۔ بیدل کے یہ اشعار دیکھیے: طالب صحبت معنی نظراں باید بود خاک در صحن بہشتے کہ نہ دارد آدم! ٭٭٭ ہر دو عالم خاک شد تابست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش اقبال کے ایک شعر میں اسی کی بازگشت یوں ہے: آیہ کائنات کا معنی دیریاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو اس سلسلے کے بعض او ر اشعار یہ ہیں: عافیت دور است از نقش بنائے محرمی خوں بود رنگے کزو تصویر انساں می شود مدعا دل بود اگر نیرنگ امکاں ریختند بہر ایں یک قطرہ خوں رنگ طوفاں ریختند علامہ اقبال نے مولانا رومی کے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن میں حیات کی ارتقائی منازل جمادات‘ نبادات اورحیوانات کے مراحل طے کرتی ہیں بیدل فرماتے ہیں: آن نغمہ بے نشانی پردہ راز کہ انسان ز نوائے اوست مخرج پرداز در آئینہ جماد موج رنگ است در طبع نبات بوئے حیواں آواز ٭٭٭ زحد نمی رسی اے دنی بعروج فطرت بیدلی تو معلم ملکوت شو کہ نہ حریف کمال او اسی طرح اور اشعار بھی بیدل کے یہاں بکثرت ملتے ہیں۔ علامہ اقبال کی طرح بیدل کے یہاں بھی زندگی کا ایک حرکی تصور ہے: در عشق ز پروانہ ہوس آئینہ بر گیر ہر چند ریت قطع شود باز ز سر گیر ٭٭٭ بے غبارے نیست ہر جا مشت خاکے دیدہ ام شد یقین کز بعد مردن ہم نمی میرد ہوس ٭٭٭ عرصہ آزادی از جوش غبارم تنگ بود بر سر خود دامنے افشاندم و صحرا شدم ٭٭٭ موج دریا در کنارم از تگ وپویم مپرس آنچہ من گم کردہ ام نایافتن گم کردہ ام غرض مرزا کے کلام میں افسردگی فشار اور محرومی کی جگہ ہمت اولوالعزمی بلند فطرتی حرکت اور عمل پیہم کا سبق ملتا ہے۔ ٭ 21۔ علوم قدیمہ اور علوم جدیدہ دونوں میں مسلمانوں کے کمالات ‘ ان کی ایجادات اور انکشافات سے اہل مغرب کی بے اعتنائی کے باوجود ان میں سے بعض نے مسلمانوں کے فضل وکمال کا اعتراف کیا ہے ۔ اصلاً مسلمانوں کے لیے سرچشمہ ‘ علوم وہدایت قرآن حکیم ہے علامہ نے وحیی کو علم کا پہلا ذریعہ بتایا ہے۔ جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین پر ختم ہو گیا۔ لیکن قرآن حکیم موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے خود ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں نے اسی ہدایت کی روشنی میں دیگر علوم و فنون کی تدوین کی۔ قرآن کی زبان عربی تھی۔ جب اسلام ان ملکوں اور لوگوں میں پھیلا جن کی زبان عربی نہ تھی تو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے لیے عربی جاننے کی ضرورت پیش آئی اور عربی میں قواعد صرف و نحو کی تدوین شروع ہوئی اور ابو الاسود پہلا نحوی ہوا۔ پھر تدوین احادیث کے سلسلے میں علم الرجال کی بنیادپڑی جس سے سوانح نگاری کے علاوہ علمی تحقیق و تدقیقی تنقیح و تنقید کے اصول اور ضابطے مرتب ہوئے۔ اس کا سلسلہ تاریخ نگاری تک پہنچا اور مسلمانوں نے تاریخ کو نیم حقیقت نیم افسانہ کے دور سے نکال کردور جدید سے آشنا کر دیا۔ علامہ ابن خلدون اس فن کے بنیادی ماخذ میں سے ہے۔ چنانچہ علامہ نے دوسرا ذریعہ آثار قدما و تاریخ بتایا ہے جس میں جغرافیہ بھی شامل ہے۔ مسلمانوں کو قرآن حکیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ دیکھیے اقبال اور بیدل ‘ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی‘ ماہ نو‘ استقلال نمبر 1954ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے دنیا بھر کے سیر وسفر کی ترغیب دلائی۔ ’’سیر وا فی الارض‘‘ پر عمل پیرا ہو کر مسلمان جغرافیہ دانوں نے سیر و سیاحت سے اس فن کو مضبوط سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور اپنے ذاتی مشاہدوں پر مبنی اعلیٰ درجے کی کتابیں لکھیں۔ مشہور مستشرق جے ایچ آئی کریمرز لکھتا ہے: ’’یہ معلوم کرنا آسان نہیں کہ مسلمانوں کا علم جغرافیہ کس حد تک ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا۔ انہوںنے کہاںتک بحری سفر کیے اور ان کے تجارتی تعلقات کی وسعت کا کیا حال تھا۔ یہ بیان حیرت انگیز ضرور معلو م ہو گا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نویں صدی سے لے کر چودھویں صدی تک جغرافیہ کی معتدبہ اور اہم کتابیں عربی ہی میں لکھی گئیں ٭‘‘۔ خلیفہ مامون الرشید کے عہد میں مشہور جغرافیہ دان اور ماہر علوم ہیت الخوارزمی نے بطلمیوس کے ایک رسالے پر مبنی ایک کتاب لکھی۔ اس میں اس وت کی دنیا کا ایک نقشہ بھی شامل تھا۔ جس میں وہ علاقے دکھائے گئے تھے جو اسلام کے بعد ظہور میں آئے اور جو ظاہر ہے بطلیموس کے رسالے میں نہ ہوں گے۔ اس میں عرض البلد اور طول البلد بھی موجود ہیں۔ مامون نے ہی صحرائے شام میں ایک جغرافیائی پیمائش کا حک مدیا تھا اور اسی کے حکم سے ستر عالموں نے جن میں الخوارزمی بھی شامل تھا کرہ ارضی کا ایک مجسمہ بھی تیار کرایا تھا۔ اس کتاب میں خوارزمی نے دنیا کو سات حصوں میں یا ہفت اقلیم میں تقسیم کیا تھا یہ بات بھی بطلیموس کے رسالے میں نہ تھی۔ الخوارزمی کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ مقالہ مشمولہ میراث اسلام مرتبہ تامس آرنلڈ و الفریڈ گیام ۔ اردو ترجمہ عبدالمجید سالک مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور‘ 1960ء ص 107ء و بعد ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ الفرغانی (860) البستانی (900)ابن یونس (1000)اور البیرونی کے تیار کردہ نقشے بھی موجود ہیںَ ابن خودداذبہ (870)الیعقوبی (890)ابن الفقیہہ (903) اور ابن رستا (910) بھ مشہور جغرافی دان گزرے ہیں۔ جنوہںنے اسلامی دنیا کے علاوہ غیر مسلم ممالک مشرق بعید اور جزائر اور بزنطینی قلمرو کے حالات بھی لکھے ہیں۔ ایک مشہور ناخدا سلیمان سیرافی نے ہندوستان اور چین کے بحری سفر کے حالات لکھے ہیں۔ ابو زید البلخی (متوفی 934ئ) ایک اور مشہور جغرافیہ دان تھا۔ اسنے ایک ضخیم کتاب اس فن پر لکھی ہے۔ وہ تو اب موجود نہیں لیکن بعد کی اہم ترین تصانیف میں سے اس کے حوالے ملتے ہیں۔ مثلاً اصطخری (950)ابن حوقل (975)اور المقدسی (985)ناموں کی یہ فہرست طویل ہے۔ ان میں المسعودی بھی ہے۔ جو دنیائے اسلام کا جہانگرد سیاح تھا۔ اس نے چین اور ہندوستان کا سفر کیا تھا ادریسی دوسرا مشہور اور ذہین جغرافیہ دان ہے۔ اس مختصر سے بیان ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک اس علم کی کس قدر اہمیت تھی اور انہوں نے اس میں کتنا اضافہ کیا ہے۔ علامہ اقبال نے علم کا تیسرا ذریعہ علم النفس بتایا ہے جس کا آغاز علامہ کے بقول ’’وفی انفسکمن افلا تبصرون‘‘ سے ہوتا ہے دور جدید میں اس علم کو جسے اب اصطلاحاً نفسیات کہتے ہیں جو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ علامہ کے بقول اس کو حضرت جنید (رحمۃ اللہ علیہ) اور ان کے رفقا و اتباع نے درجہ کمال کو پہنچایا ۔ یہاں علامہ کا اشارہ ان واردات نفسیات روںانی کی طرف ہے جن کا تجربہ اور مشاہدہ صوفیائے کرام مثلاً حضرت جنید(رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا تھا۔ علامہ اقبال نے کسی اور موقع پر لکھا تھا کہ اس کاآغاز بھی رسول کریمؐ کی حیات طیبہ میں ہو چکا تھا اور آپ ؐ اس طرح کا مطالعہ فرماتے تھے جس کی اہمیت کو سب سے پہلے ابن خلدون نے محسو س کیا ۔ چوتھا ذریعہ علامہ نے صحیفہ فطرت یعنی مطالعہ و مشاہدہ کائنات بتایا ہے اور لکھا ہے کہ علمائے اندلس نے اس طرف خاص توجہ مبذول کی۔ 22 ۔ سید جمال الدین افغانی: انیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ کی تحریکوں کے دو قائد نامور ہیں: ایک سر سید احمد خاں اور دوسرے سید جمال الدین افغانی۔ سرسید احمد خاں کی تحریک خاص طور پر برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی اصلاح کی تحریک تھی۔ یہ بھی ایک ہمہ جہتی تحریک تھی لیکن سر سید احمد خاں کی زیادہ توجہ مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی اصلاح کی طرف تھی اور اس میں وہ تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ مذہبی اصلاح بھی ان کی تحریک کا ایک اہم جزو تھی لیکن اس باب میں لو گ ان سے اختلاف رکھتے تھے۔ خود ان کے پرستار مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے مذہبی خیالات میں جا بجا اختلاف کیا ہے اور بالخصوص ان کی تفسیر قرآن حکیم کے بارے میں لکھا ہے کہ سرسید نے اس میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عالم دین کی حیثیت سے سرسید احمد خاں کی تعلیم و تربیت ایسی نہ تھی کہ وہ اس اہم اور نازک وقت میں الجھتے۔ بعض حضرات یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرسید جدید تعلیم اور اصلاح معاشرت سے مسلمانوں کو انگریزوں پسند یا انگریز پرست بنانا چاہتے تھے۔ سرسید کے نقطہ نظر سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ان کے خلوص اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ اس کا تعلق ابن صیاد ایک وارفتہ یہودی نوجوان سے تھا جس کی وجدانی کیفیتوں نے حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی تھی تشکیل جدید محولہ بالا ص 24۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیانت داری پر شبہ کرنا شاید درست نہیں جمال الدین افغانی کی صورت اس سے مختلف ہے وہ مسلمانوں کی بین الاقوامی ملت اور سیاست ملیہ کے قائد تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک عالم تھے اور دینی اصلاح کو اساسی اہمیت دیتے تھے۔ سید جمال الدین افغانی اپنے بیان کے مطابق 1839ء میں اسعد آباد میں پیدا ہوئے لیکن بعض تذکرہ نگاروں نے تحقیق کر کے لکھا ہے کہ آپ ایران میں ہمدان کے قریب اسی نام کے ایک قریہ میں ُیدا ہوئے۔ لیکن بعض مصلحتوں کی بنا پر جن میں سیاسی مصلحتین بھی شامل تھیںَ وہ ایرانی کی بجائے افغانی مشہور ہونے کے خواہشمند تھے۔ چنانچہ ای جی برائون نے بھ اس خیال کی تائید کی ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسوں میں حاصل کی اور اس میں بعد ایران اور افغانستان کے مختلف مرکزوں میں در س لیا۔ اٹھارہ ال کی عمر میں مسلمانوں کے علوم میں درجہ کمال حاصل کیا جن میں عربی صرف و نحو علم اللسان بلاغت‘ تصوف‘ منطق ‘ فلسفہ‘ طبیعیات‘ مابعد الطبیعیات‘ ریاضی‘ ہئیت‘ طب ‘ تشریح الاعضاء وغیرہ شامل تھے اٹھارہ سال کی عمر میں ہندوستان آئے۔ یہاں انہوںنے انگریزی سیکھی اور جدید علوم و فنون سے بھی واقفیت بہم پہنچائی۔ 1857ء میں حج کیا اور پھر افغانستان آ کر ملکی سیاست میں حصہ لیا۔ امیر شیر علی کے زمانہ میں ان کی مخالفت شروع ہوئی اور وہ 1869 ء میں افغانستان سے چلے گئے۔ ہندوستان آئے۔ حکومت نے ان کی پذیرائی تو کی لیکن انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ حکومت کے ہی ایک جہاز میں وہ سوئز پہنچے۔ اور کچھ عرصہ قاہرہ میں قیام کیا۔ اس کے بعد قسطنطنیہ چلے گئے۔ سلطان عبدالحمید نے ان کا بڑا احترام کیا اور سید صاحب نے ترکی کے علما اور حکام میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کی۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی مخالفت شروع ہوئی۔ لیکن علماء سے ان کے بعض نزاعی بحثیں چھڑ گئیں اور ترکی حکومت نے ان کو ملک بدر کر دیا اور 1871ء میں وہ قاہرہ پہنچ گئے۔ حکومت مصر نے ان کا وظیفہ مقرر کردیا اور انہوںنے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ نوجوان خاص طور پر ان سے متاثرتھے۔ ان کے خیالات کی اشاعت نے ملک میں بیداری کی تحریک شروع کی اور مصر میں انگریزوں کی مداخلت ارو اقتدار کے خلاف جذبات ابھرتے گئے۔ یہاں بھی علماء کے ایک حلقہ نے ان کی مخالفت کی اور حکومت بالخصوص مصر میں مقیم انگریز افسروں نے ان کے خیالات کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھا اور 1879ء میں سید صاحب کو مصر سے نکال دیا گیا۔ مصر سے نکلنے کے بعد سید صاحب برعظیم ہند آئے اور حید ر آباد دکن میں مقیم ہوئے لیکن مصر میں نوجوان مصریوں کی تحریک آزادی نے‘ جس سے سید صاحب کا تعلق ظاہر ہوتا تھا۔ بغاوت کی شکل اختیار کر لی اور برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا اس دوران میں ہندوستان کی حکومت نے سید صاحب کو کلکتہ میں نظر بند کر دیا۔ جب یہ تحریک ناکام ہو گئی تو انہیں ہندوستان سے جانے کی اجازت مل گئی اور آپ لندن اور پھر پیرس چلے گئے۔ پیرس پہنچ کر سید صاحب نے بین الاقوامی سطح پر اپنی تحریک اور خیالات کی اشاعت شروع کی۔ یہاں ان کے مصری شاگرد شیخ عبدہ بھی پہنچ گئے اور انہوںنے پیرس سے عربی کا ہفت روزہ العروۃ الوثقیٰ نکالا جس کا مقصد ملت اسلامیہ کو اقوام مغرب کی چیرہ دستیوں اور لوٹ کھسوٹ سے بچانا تھا۔ حکومت برطانیہ نے مصر اور ہندوستان میں اس پرچے کی اشاعت ممنوع قرا ر دی۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ 13مارچ 1884ء کو اور آخری پرچہ 16اکتوبر 1884ء کو شائع ہوا۔ سید صاحب کے ایک سوانح نگار محمد رشید رضا لکھتے ہیں٭: ’’اگر یہ اخبار جاری رہتا تو مسلمانوں میں ایک عام بغاوت پھیل جاتی۔ یہ اخبار اسی نام کی ایک خفیہ تنظیم کا علمبردار تھا جو سید جمال الدین افغانی نے قائم کی تھیاور جس میں ہندوستان‘ مصر‘ شمالی افریقہ‘ اور شام کے مسلمان شامل تھے۔ اس تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو متحد کرے‘ ان کو خواب غفلت سے جگاائے اور ان کو پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرے۔ اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے طریقے سمجھائے… اس تنظیم کا فوری مقصد یہ تھا کہ مصڑ اور سوڈان کو برطانوی قبضے سے نجا ت دلائی جائے۔ سید صاحب نے مکہ معظمہ میں بھی اتحاد اسلامی کی ایک انجمن ام القریٰ کے نام سے قئام کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک خلیفہ مقرر کیا جائے۔ ابھی اس انجمن کو قائم ہوئے ایک ہی سال ہوا تھا کہ سلطان عبدالمجید نے اس کو ختم کر دیا‘‘۔ اس رسالے کے بند ہونے کے بعد سید صاحب لند ن میں اور پھر ماسکو اور سینٹ یٹر ز برگ چلے گئے۔ روس میں ان کا قیام تقریباً چار سال رہا۔ 1889ء میں وہ ایران گئے اور ان کو وزیر جنگ مقرر کیا گیا لیکن ان کا اثر وام میں اتنا ہی بڑھا کہ حکومت سے ان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اور سید جمال الدین افغانی کو بستر علالت پر سے جہان وہ مسجد شاہ عبدالعظیم میں پناہ لے رہے تھے گرفتار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بحوالہ اسلام اور تحریک تجدد مصر میں چارلس سی آدم اردو ترجمہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب لاہور 1958 ص 13۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر لیا گیا اور ترکی کی سرحد پر پہنچا دیا گیا۔ یہ واقعہ 1890 ء کے اواخر یا 1891 کے اوائل کا ہے۔ کچھ عرصہ بعد بصرہ رہنے کے بعد سید صاحب لندن گئے اور 1892ء میں قسطنطنیہ پہنچ گئے جہاں 9مارچ 1897ء کو ان کا انتقال ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کامرض الموت جبڑے کا سرطان تھا لیکن بعض لوگوںنے لکھا ہے کہ ایک زہریلے خلال سے سید صاحب کے لبوں کو مسموم کیا گیا تھا اور یہی ان کی موت کا سبب بنا۔ چارلس سی آدم سید جمال الدین افغانی کی تحریک کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’سید جمال الدین افغانی کی تمام انتھک کوششوں اور مسلسل شورشوں کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ تمام مسلم اقوام ایک حکومت اسلامی کے ماتحت ہوجائیں اور ان سب پر ایک خلیفہ المسلمین کا قطعی اور کلی اقتدارہو۔ جس طرح اسلام کے پر افتخار دور میں ہوتا تھا۔ بعد میں اسلام کی متحدہ طاقت متواتر اختلافات کا اور نزاعات سے منتشر ہو گئی ار مسلمان ملک جہالت اور بے بسی میں غرق ہو کر مغربیوں کی چیرہ دستی کا شکا رہو گئے۔ مسلمان ملکوں کی موجودہ حالت انحطاط جمال الدین کو ہمیشہ غمگین رکھتی تھ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر یہ ممالک ایک دفعہ بیرونی تسلط اور مداخلت کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں اور اسلام میں بھی ایسی اصلاحات کر دی جائیں جن سے یہ زمانہ حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرسکے تو مسلمان قومیں یورپی قوموں کے سہارے یا ان کی نقالی کے بغیر اپنے لیے ایک جدید اور شاندار زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ایضاً ص 18-19 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا نظا م تیار کر سکتی ہیں۔ ان کے نزدیک دین اسلام اپنے تمام لوازم میں ایک آفاقی مذہب ہے جو اپنی داخلی روحانی قوت کی وجہ سے یقینی طور پر ایسی اہمیت رکھتاہے کہ تمام بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت پیدا کر سکے‘‘۔ سید جمال الدین افغانی کی تعلیمات کے تعمیری پہلو پر مواد ان کی تصنیف الرد علی الدہرین میںملتا ہے اور یہ واحد تصنیف ہے جو سید صاحب سے یادگار ہے جو انہوںنے حیدر آباد دکے دوران قیام لکھی تھی۔ جرجی زیدان نے ان الفاظ میں سید صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے: ’’سید جمال الدین افغانی کی تمام مساعی کا مقصد اتحاد اسلام تھا۔ اس جدوجہد میں انہوںنے اپنی تمام قوتیں صرف کر دیں اور اسی کی خاطر دنیا سے انقطاع اختیار کر لیا۔ انہوںنے عمر بھر شادی نہ کی۔ نہ کسی طرف سے نفع کے طالب ہوئے… انہوںنے اپنے دوستوں مداحوں اور شاگردوں میں زندگی کی وہ روح پھونک دی جس سے ان کی قوتیں بیدارہو گئیں اور ان کے قلم تیز و طرار ہو گئے۔ مشرق کوا ن کے کارناموں سے فائدہ پہنچا۔ اور ہمیشہ پہنچتا رہے گا‘‘۔ علامہ اقبال کی سید جمال الدین افغانی سے وابستگی صاف ظاہر ہے ۔ اسلام کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں دونوں مسلت اسلامیہ کے موجودہ انحطاط زوال اور پستی پر مغموم تھے اور اصلاح کے لیے کوشا ں تھے۔ دونو ں دین کی اہمیت اور اس کی اصلاح کی ضرورت کو محسوس کرتے تھے۔ دونوں تحریک اتحاد مسلمین کے قائل تھے۔ بعض حلقوں میں اسی کو پین اسلامزم (Pan-Islamism)کہا جاتا ہے اور بیان کیا جاتاہے کہ علامہ اقبال جب لند ن پہنچے تو وہاں ایک ایسی انجمن موجود تھی اور علامہ اقبال اور ان کے احباب اس کے سرگرم رکن تھے۔ بہرحال علامہ کی شاعری اور ان کے افکار کے خیالات میں تحریک جمال الدین افغانی کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ 23-24: ابن جوزی اور ابن تمیمہ کی اس روش کی طرف ہلکے اشارے علامہ اقبال نے ایران میں مابعد الطبیعیات کے ارتقاء میں بھی کیے ہیں مثلاً ابن جوزی کا ذکر الغزالی کے سلسلے میں آیا ہے۔ علامہ کے الفاظ یہ ہیں٭: Ibn Jauzi Qadi Iyad, and other famous theologians of the arthodox school, publicly denounced him as one of the misguided, and Iyad went even so far as to order the destruction of all his philosophical anda theological writings that existed in spain" ابن تمیمہ کی تصوف کی تنقید کے بے سود ہونے کا ذکر بھی اسی دستاویز میں ان الفاظ میں ملتا ہے: "The flower of the Greek thought faded away before the breath of Christianity but the burning simoon of Ibn Taimiyya's invective could not touch the freshness of the Persian rose, The one was completely swept away by the flood of barbarian invasions the other unaffected by the Tartar revolution still holds its own" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ The Development of Metaphysics in Persia 2nd Edition Lahore P. 61. ٭۔ ایضاً ص 82۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقالہ نگار نے صرف علامہ اقبال کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کیا ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ علامہ نے صوفیوں اور تصوف کے متعلق اس قسم کی تنقید کو ناپسند کیا جس میں ان کو شیطانی ہتھکنڈوں سے تعبیر کیاگیا تھا۔ اور یہ درست فرمایا تھا کہ وہ لوگ جو اصل حقیقت سے واقف نہیں وہ اس طرح کی تنقید کرتے ہیں۔ تصوف کوئی کتابی علم نہیں ہے کہ صرف پڑھنے یا سننے سے حاصل ہو جائے۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہے ۔ اور اس کے لیے بڑی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس تربیت میں اگر ضبط نفس اور تزکیہ باطن پر زور دیا جاتا ہے تو یہ قرآنی تعلیمات یا اسلام کی روح کے منافی نہیں۔ اگر بعض صوفیوں سے بعض ایسے اشغال اور اعمال منسوب ہیں جو بظاہر عام لوگوں کے نزدیک قرآنی تعلیم یا اسلامی نطریہ حیات کے خلاف ہیں تو اس کی کئی صورتیں ہیں اول تو یہ کہ ہمارے پاس اس کی قطعی شہادت کس قدر مضبوطہے کہ بعض صوفیہ جو اقوال یا افعال منسوب کر دیے گئے دوسرے ی کہ بعض اعمال و اشغال یا عبادات ریاضت‘ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے جو طریقے بعض صوفیہ کے یہاں رائج ہیں اور اسی طرح کے یا اس سے ملتے جلتے بعض طریقے اور صورتیں بعض دیگر مذاہب میں بھی نظر آتی ہیں تو یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ یقینا ان کاماخذ یہ دیگر مذاہب ہیں۔ قرآن حکیم کے بعض قصص ہبوط آدم سے عیسیٰ تک یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک توریت اور انجیل میں مذکور ہیں اور بعض مستشرقین جو اسلام کے مخالف ہیں ان سب کو ماخوذ قرار دتیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ قصے قرآن حکیم میں اپنے عناصر انداز‘ ترتیب اور مقاصد میں بالکل الگ ہیں۔ علامہ اقبال خاص طور پر اپنی عمر کے آخری دور میں تصوف کے متعلق ایک ہمدردانہ نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اور اس روحانی تجربے کو عقلی معیار سے کسی قدر باہر سمجھتے تھے۔ ابن الجوزی کا نام عبدالرحمن بن علی بن محمد تھا۔ حبنلی دبستان کے مشہور فقیہ بہت سی تصانیف کے مولف اور عرب کے واعظ مشہور ہیں۔ سلسلہ نسب پندرہ پشتوں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جا ملتا ہے۔ الجوزی نسبت بصرے کے ایک محلے جوذہ یا جوز سے ہے جہاں ان کے ایک بزرگ رہتے تھے پیدائش کے سال میں اختلاف ہے 508ھ اور 510ھ اور 517ھ بتایا جاتا ہے۔ ابن الجوزی بغدادمیں پیدا ہوئے تین سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ نے تربیت و تعلیم پرپوری توجہ صرف کی فلسفہ اور علم کلام کے علاوہ تمام علوم متداولہ میں کمال پیدا کیا اور اپنے عہد کے اکابر اساتذہ سے جن کی تعداداٹھہتر بتائی جاتی ہے کسب فیض کیا۔ ان کا قول ہے کہ سب سے اچھی نافلہ عباد ت تحصیل علم ہے اس لیے زہد کی طرف توجہ نہ کی۔ علم کے ساتھ فصاحت و بلاغت کا بھی شہرہ تھا۔ مصر میں فاطمیوں کے دربار سے وابستہ رہے او رخلفائے عباسیہ کا خطبہ رائج ہوا تو خلیفہ کی خدمت میں ایک کتاب لکھ کر پیش کی۔ خلفائے وقت اور اراکین سلطنت سے تعلق کسب معاش کے لیے نہیں بلکہ علم کی بنا پر تھا۔ عرصہ تک درس و تدریس کا سلسلہ رکھا۔ کہتے ہیں کہ ان کے درس میں پانچ ہزار سے دس ہزار تک حاضرین شریک ہوتے تھے۔ کئی مرتبہ قید کی سختیاں بھی اٹھائیں۔ سبب بعض علماء اور اکابرصوفیا سے اختلاف تھا۔ جن میں حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی کے صاحبزادے بھی تھے۔ ابن الجوزی حضرت شیخ کو نہیں مانتے تھے۔ رمضان 597/1200ء میں وفات پائی۔ ان الجوزی بقول خود بدعت کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ غزالی کی احیا ء علوم الدین کو ضعیف احادیث صے پاک کر کے ایک نسخہ تیار کیا۔ وہ خود لکھتے ہیںکہ ان کی تصانیف کی تعداد تین سو ہے۔ ان میں سے سو کے قریب آج بھی موجو د ہیں۔ تلبیس ابلیس بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس کی ایک اشاعت قاہرہ سے 1928ء میں ہوئی۔ اس کا موضوع وعظ و نصیحت ہے اور ابن الجوزی نے لوگوں کے بعض افعال کو جو ان کے خیا ل میں شریعت اسلامی کے مطابق نہیںہیں شیطان کی عیاری کا نتیجہ قرار دیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ ان افعال کی تردید کریں۔ چنانچہ بعض خیالات جو فلاسفہ منکران نبوت ‘خوارج ‘ باطنیوں اور بعض صوفیوں سے منسوب ہیں ان کی بھی تنقید کی ہے اور اس تنقید میں ان کا لہجہ نہایت شدید ہو گیا ہے ۔ علامہ اقبال ظاہر ہے کہ ان افعال کی تائید نہیں کرتے جو شریعت اسلامی کے خلاف ہیں لیکن ایک تو ان کو ابن الجوزی کے لہجہ اور اس کی شدت سے اختلاف ہے‘ دوسرے یہ کہ ابن الجوزی خود تصوف کے مرد میدان نہ تھے اور نہ اس وادی میں انہوںنے قدم رکھا تھا‘ اسی لیے علامہ اقبال نے فرمایا ٭ کہ بعض لوگ حقیقت سے واقف نہیں ہوتے اور نظر بر ظاہر عیب چینی شروع کر دیتے ہیں۔ ابن تمیمہ کا پورا نام تقی الدین ابو العباس احمد بن شہاب الدین ہے۔ مشہور عرب عالم دین دمشق کے قریب حران میں (1243/661)پیدا ہوئے۔ خاندان میں کئی پشتوں سے درس و تدریس کا سلسلہ تھا اور پورا خاندان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ تفصیلات کے لیے دیکھیے اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ دانش گاہ پنجاب لاہور‘ جلد 1کراسہ 8 ص 472-567 جہاں ابن الجوزی کی تالیفات کی تفصیل اور ماخذ کی فہرست دی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم و فضل کا گہوارہ تھا ۔ تحصیل علم اپنے والد اور اس عہد کے اکابر علماء سے کی جو دمشق میں موجود تھے۔ علوم اسلامیہ سے خاص دلچسپی تھی چنانچہ قرآن‘ فقہ ‘مناظرہ و استدلال میں کمال پیدا کیا اور بیس سال کی عمر میں تعلیم مکمل کر کے حنبلی فقہ کے استاد مقرر ہوئے۔ ان کے نظریات میں بعض اوقات مناظرہ کے رنگ کی آمیزش سے علما کا ان سے اختلاف بھی ہوا۔ کئی مرتبہ قید و بند کی سختیاں اٹھائیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس زمانے میں ابن تمیمہ دمشق کے قلعے میں قید تھے جہاں انہوںنے قرآن کی تفسیر اور اپنے مخالفین کے خلاف رسالے لکھے‘ اس خبر پر ان کو کتاوں کاغذ اور سیاہی سے محڑوم کر دیا گیا ۔ اس واقعہ کے بیس دن بعد 20 ذوالقعدہ 728ھ 27/28 ستمبر 1328ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس جنازے میں دو لاکھ مرد اور پندرہ ہزار عورتیں شریک تھیں۔ ابن تمیمہ حنبلی تھے اور اپنے آپ کو مجتہد فی المذہب سمجھتے تھے۔ اپنی اکثر تصنیفات میں قرآن و احادیث کے احکام کی لفظی پیروی پر زور دیتے تھے۔ ابن الجوزی کی طرح ابن تمیمہ بھی بدعت کے سخت مخالف تھے۔ انہوںنے صوفیہ سے عقیدت کو اولیا ء پرستی بتایا ہے اور ان کے مزارات کی زیارت کی شدید مذمت کی ہے۔ اور حدیث نبوی نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف تین مسجدوں کا سفر اختیار کرو مکے کی مسجد حرام بیت المقدس کی مسجد اور میری مسجد کا۔ حد یہ ہے کہ ابن تمیمہ کے خیال میں اگر کوئی شخص محض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی زیارت کے لیے سفر اختیار کرے تو یہ بھی ایک ناجائز فعل ہو گا٭۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ایضاً ص 451 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے علامہ اقبال ابن تمیمہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ انہوںنے اکثر بزرگان دین اور صوفیائے کرام کے مزارات پر حاضری دی ہے اوران سے مدد کے طلب گار بھی ہوئے ہیں۔ فقراء (جن سے ان کی مراد صوفیہ اور مشائخ ہیں) کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ ہے جو اپنے زہد و فقر ‘تواضع اور حسن اخلاق کی وجہ سے قابل ستائش ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مشرک مبتدع اور کافر ہیں اور یہ لوگ قرآن و سنت کو ترک کر کے کذب و تلبیس اور مکاید و حیل سے کام لیتے ہیں۔ بظاہر یہ درست ہے۔ کوئی مسلمان مشرک مبتدع اور کافر کی پیروی نہیں کرے گا۔ اور نہ ان کے اعمال و اقوال کو تسلیم کرے گا۔ لیکن یہاں بھی اگر اعتراض کرنے والے کی نظر صرف ظاہر پر ہے اور وہ بھی سرسری تو پھر شاید ہی کوئی مسلمان شرک اور کفرکے فتویٰ سے محفوظ رہے چنانچہ علمائے اسلام کے ایک طبقہ نے تو ’’کافر سازی‘‘ کو ہی خدمت اسلام سمجھ لیا ہے۔ اور فی سبیل اللہ فساد ایسے ہی علمائے ظاہر کا عمل تھا جن کو علامہ ملا کہتے ھتے۔ خود مسلمان علما ابن تمیمہ ٭٭ کے عقیدہ کے باب میں متفق نہیں۔ بعض لوگ انہیں ملحد بتاتے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جو شخص ابن تمیمہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے۔ بعض لوگ اس کے برعکس ابن تمیمہ کی مذہبی دیانت داری‘ ادراک اسلامی اور مسائل فہمی میں ان کو بے مثال قرار دیتے ہیں اور بعض حضرات کا خیا ل ہے کہ ابن تمیمہ کی تصانیف کے اثر سے محمد ابن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ دیکھیے راقم کی تصنیف اقبال اور مسلک تصوف سلسلہ جشن صد سالہ علامہ اقبال اقبال اکیڈمی لاہور۔ ٭٭ ابن تمیمہ کے لیے دیکھیے اردو دائرہ معارف اسلامیہ محولہ بالا‘ ص 448-459 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالوہاب نجدی کی تحریک ابھری۔ دور حاضر میں مصر میں شیخ عبدہ پر ان کا اثر نمایاں ہے اور برعظیم اک و ہند میں شاہ ولی اللہ‘ مولوی عبداللہ غزنوی نواب صدیق حسن خاں‘ مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ میں احیاء سنت کا جذبہ ابن تمیمہ کی تصانیف کے اثرات کی ایک کڑی ہے۔ 25۔ مسجد شہید گنج: موجودہ شہر لاہور میں اکبری منڈی کے قریب پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ جو لنڈا بازا ر کہلاتی ہے۔ وہاں ایک بزرگ شاہ کا کو چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار تھا جن کی وفات 888/1477 میں ہوئی تھی۔ یہیں ایک مقبرہ میںمیر منو کا تھا جن کی وفات 1752ء مٰں ہوئی تھی۔ یہ میر منو نواب قمر الدین خان وزیر شاہ محمد کے فرزند تھے اور سکھ ان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ اسی کے ساتھ ایک پختہ مسجد اور حمام تھے۔ اس مسجد کے تین گنبد اور تین محرابیں تھیں اور اسے داراشکوہ کے خانساماں عبداللہ خاں نے 1064/1653 میں تعمیر کرایا تھا۔ سکھوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں اس مسجد اور مقبرہ کو مسمار کر کے گوردوارہ تعمیر کیا اور اس جگہ کو شہید گنج کہنے لگے۔ کیونکہ ان کے خیال میں میر منو (نواب میر معین الملک) نے فرخ سیر کے عہد مین یہاں سکھوں کو قتل کیا تھا۔ میر منو کا مقبرہ بارہ دری کی صورت میں تھا۔ اسے مسمار کر کے آثار برطانوی عہد حکومت تک باقی تھے اور مسلمانوں کامطالبہ تھا کہ یہ مسجد اور ملحقہ عمارتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں۔ لیکن مسلمان دشمن انگریزوں کی حکومت نے اسے مسلمانوں کے حوالہ نہ کیا بلکہ 9جولائی 1935ء کو سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے انگریزی فوج اور پولیس کی قیادت میں اس مسجد اور مزار حضرت شاہ کاکو چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو مسمار کر دیا۔ مسلمانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ پیر جماعت علی شاہ کو امیر ملت منتخب کیا گیا اور تحریک مسجد شہید گنج شروع ہوئی۔ مولانا ظفر علی خاں ملک لال خاں مولانا سید حبیب اور بہت سے دوسرے مسلمان قید کر دیے گئے اور قیام پاکستان تک اس گوردوارہ کی حفاظت سکھ کرتے تھے۔ اب بھی یہ جگہ سکھوں کے لیے محفوظ مقامات میں شامل ہے۔ مسجد شہید گنج پر شعرا نے بکثر ت نظمیں لکھی ہیں۔ ٭٭٭ میرا اقبال : مرز ا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لاء 1-2-3حالی شبلی اور نذیر احمد اس دور کے اکابر شعرا اور مصنفین میں تھے جس میں علامہ اقبال کی شاعری اور ان کی فکری زندگی کا آغاز ہوا۔ ان حضرات کو تحریک سر سید کے نمایاں علمبرداروں اور اس تحریک کے مقصد کے حصول کے لیے قلمی جہاد کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کا مقصد جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں ملت اسلامیہ کا احیا اور ان کی تعلیمی ‘ تہذیبی اور معاشرتی اور معاشی فلاح و بہبود کا حصول تھا۔ حالی‘ شبلی ‘ اور نذیر احمد نے اس تحریک کے ادبی محاذ کو سنبھالا جس کے قائد خود سر سید احمد خاں تھے ۔ حالی کی مسدس پر ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ حالی کی دوسری نظمیں ان کے مضامین و مقالات بھی اسی رجحان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ شبلی مورخ اسلام ہیں اور مسلمانوں کو ان کی تاریخی روایات اور ایک عظیم ورثہ سے آشنا کراتے ہیں۔ وہ ان اعتراضات کا جواب بھی دیتے ہیں جو اسلام بانی اسلامؐ اور اسلام کے بعض نامور فرزندوں مثلاً اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ پر دشمنان اسلام لگاتے تھے تاکہ مسلمانوںمیں خود اعتمادی عزم اور حوصلہ پیدا ہو اور وہ تاریخ اسلام کی ولولہ انگیز روایات سے آشنا ہو سکیں۔ نذیر احمد کی زیادہ توجہ مذہب اور اصلاح معاشرت کی طرف تھی کیونکہ وہ مسلمانوں کے اس احیاء اورنشاۃ الثانیہ میں مذہب کی اہمیت کو پوری طرح محسوس کرتے تھے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ قرآن حکیم کا بامحاورہ ترجمہ اور سلیس اردو زبان میں ترجمہ ہے۔ تاکہ عام اردو خوان بھی قرآن حکیم کے مطالب اور تعلیمات سے واقف ہو سکے۔ بانگ درا میں ایک نظم ’’شبلی و حالی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ شبلی کی وفات کا صدمہ کم نہ ہوا تھا کہ حالی بھی رخصت ہو گئے۔ اس مختصر سی نظم سے ا دونوں بزرگوں ک اہمیت اور اقبال کی ان سے وابستگی کی اساس سمجھ میں آتی ہے۔ اقبال کے بقول مردان کار‘ اسباب حادثات ‘ ڈھونڈتے ہیں اور چارہ ستم چرخ لاجورد کرتے ہیں۔ یہی چمن ملت کے دیرینہ رازدار ہوتے ہیں جن کی نوائے درد سرمایہ گداز ہوتی ہے۔ آخری تین شعر یہ ہیں: خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار سرمایہ گداز تھی جن کی نوائے درد شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں حالی بھی ہو گیا سوے فردوس رہ نورد ’’اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد‘‘ 4۔ مولوی احمد الدین: خواجہ احمد الدین صاحب امرتسر کے ایک عالم دین تھے۔ جن کے بعض مضامین امرتسر کے رسالہ ’’بلاغ‘‘ میں شائع ہوئے۔ علامہ اقبال کا ایک خط صوفی غلام مصطفیٰ تبسیم کے نام ہے ٭٭۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال احمد الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بانگ درا ص 248 ٭٭خطوط اقبال‘ مرتبہ رفیع الدین ص 174 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب کے علم و فضل سے متاثر تھے۔ اور بعض امور و مسائل میں انہوںنے خواجہ احمد الدین سے مشورہ کیا تھا۔ مرزا جلال الدین کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ احمد الدین صاحب بھی علامہ سے متاثر تھے او را ن کا ذکر احترام سے کرتے تھے۔ یہ حضرات اقبال کے اولین عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ شیخ گلاب دین بھی اسی حلقے میں شامل تھے۔ یہ لاہور کے مشہور وکیل اور سیاسی اور تہذیبی زندگی میں نمایاں ایک شخصیت تھے اور انجمن حمایت اسلام کے سرگرم کارکنوں میں تھے۔ 5۔ گورنمنٹ کالج لاہور: علامہ اقبال کا گورنمنٹ کالج لاہور سے زمانہ طالب علمی میں تعلق رہا جہاں انہیں پروفیسر آرنلڈ کی صحبت نصیب ہوئی۔ اس دوستی کی یادگارنظم وہ ہے جو بانگ درامیں نالہ فراق ٭کے عنوان سے ہے اور جس میں آرنلڈ کو ’’کلیم زروہ سیناے علم‘‘ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ اس بیان سے ظاہرہے کہ کچھ عرصہ علامہ اقبال نے اس کالج میں بحیثیت استاد بھی گزارا‘ لیکن شاید ملازمت کی پابندی‘ خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو ان کی آزاد طبیعت کو گوارا نہ تھی۔ شاید اسی وجہ سے وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ملازمت بھی نہ کر سکے۔ حالانکہ ان کے اکثر احباب کا خیال تھا کہ علامہ کو اپنا پیغام برصغیر کی ملت اسلامیہ تک پہنچانے کے لیے علی گڑھ ضرور جانا چاہیے تھا۔ کیونک آنے والی جدوجہد میں علی گڑھ کے نوجوانوں کو ایک اہم کردار ادا کرنا تھا۔ 6۔ میاں فضل حسین: میاں سر فضل حسین بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے اکابر قانون دان‘ سیاسی مدبر‘ سماجی کارکن اور لاہور کی تہذیبی زندگی میں ایک مثالی کردار تھے۔ علامہ اقبال سے ان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بانگ درا ص 75 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو خاص عقیدت تھی اور علامہ بھی ان کے بہت قریب تھے ۔ اس کا اندازہ اس نظم سے ہوتا ہے جو فلسفہ غم کے عنوان سے بانگ درا ٭ میں شامل ہے اور جس کے سرنامہ پر علامہ نے خود قوسی میں (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے نام) لکھا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے موت و حیات کے مسئلہ پر تفصیل سے اظہار خیال کیاہے یہ اسی سلسلے کی ایک نظم ہے جس میں اقبال کی مشہور نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں ار گورستان شاہی بھی شامل ہیں۔ اس نظم میں جو فلسفہ غم کے عنوان سے ہے یہ خیال نظم ہوا ہے کہ عقل انسانی فانی اور عشق زند ہ جاوید ہے۔ عشق محبوب کے مرنے سے مر نہیں جاتا بلکہ روح میں غم بن کر رہ جاتا ہے۔ نہر روان زندگی اصلیت میں ایک ہے جو رفعت سے گر کے ہجوم نوع انسانی بن جاتی ہے۔ آخری بند یہ ہے: مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بانگ درا ص 168 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خضر ہمت ہو گیا ہو آرزوے گوشہ گیر فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر وادی ہستی میں کوئی ہمسفر تک بھی نہ ہو جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں 7۔ لاجپت رائے: لاجپت رائے لاہور کے ایک مشہور سیاسی کانگریسی کارکن تھے۔ تعصب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ لاہور سے خالص ہندوانہ ذہنیت کا ترجمان اخبار روزنامہ بندے ما ترم اپنی سرپرستی میں جاری کیا اور مسلم کش سیاست کو ہوا دی۔ لکھنے پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ راجہ اشوک کی سوانح عمری اور تاریخ ہند قدیم ان کی تصنیف ہیں۔ 27نومبر 1928ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ 1907ء میں سردار اجیت سنگھ نے بھارت ماتا کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کی تھی اور اسی نام کا ایک پرچہ نکالا تھا۔ لالہ لاجپت رائے بھی اسی تحریک میں شریک تھے۔ لالہ لاجپت رائے اور ان کے چند ساتھیوں کو 1818ء کے قانون کے تحت جلاوطن کر دیا گیا تھا لیکن لاجپت رائے کو کچھ عرصہ کے بعد واپسی کی اجازت مل گئی اور 1920ء میں وہ کلکتہ کانگرس کے صدر بنائے گئے۔ 1927ء میں سائمن کمیشن کی لاہور آمد کے موقع پر بھی جو زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا اس میں مولانا ظفر علی خان عطاء اللہ شاہ ‘ افضل حق اور ستیہ پال کے ساتھ لالہ لاجپت رائے بھی شریک تھے اور پولیس نے لاجپت رائے پر بھی ڈنڈے برسائے۔ 8۔ نواب سر ذوالفقار علی خان: یہ وہی نواب سر ذوالفقار علی خان ہیں جن کی تیز رفتار بے آواز موٹر کا ذکر اقبال نے بانگ درا کی نظم میں کیا ہے۔ لاہور کے اس دور کے سربرآوردہ عمائدین میں تھے۔ اقبال کے احباب کے حلقے میں ممتاز تھے اس قصے کو ایک شریک واقعہ کی حیثیت سے مرزا جلال الدین نے بیان کیاہے اور لکھا ہے کہ علامہ اقبال کی نگاہ میں اس قدر بصیرت تھی کہ وہ معموی سے معمولی واقعات سے بھی فلسفے کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے تھے‘‘۔ علامہ اقبال نے تیز رفتاری اور خاموشی کا یہ ربط دیکھا کہ قافلہ حیات اور کاروان زندگی میں ہر تیز رفتار خاموش ہوتا ہے۔ یعنی جو شور زیادہ کرتا ہے وہ چلتا کم ہے فارسی کی اس مشہور مثل کے مصداق کہ جو بادل زیادہ گرجتے ہیں کم برستے ہیں۔ اس مضمون سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صرف حکیم اجمل خاں مرحوم اور نواب سر ذوالفقار علی خان علامہ کے دو ایسے احباب تھے جن کی شعر خوانی کی فرمائش علامہ رد نہیں کر تے تھے۔ اس سے یقینا ان دونوں کا سخن فہم اور سخن سنج ہونا بھی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ انگریزی میں علامہ اقبال پر پہلی کتاب نواب ذوالفقار علی خان ہی نے لکھی تھی۔ آخر زمانہ میں بعض غلط فہمیوں کی بنا پر علامہ اقبال اور نواب صاحب میں کچھ رنجش پیدا ہو گئی تھی۔ اور مرزا جلال الدین صاحب کی کوشش سے یہ دور ہو جاتی لیکن اسی عرصے میں نواب صاحب کا انتقال ہوگیا۔ علامہ اقبال اور مرزا جلال الدین ان کے جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے مالیر کوٹلہ پہنچے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے میت سپرد خاک ہو چکی تھی اور علامہ فاتحہ پڑھ کر واپس آ گئے۔ 9 ۔ سر سید احمد خاں کی تفسیر: سر سید احمد خاں کے مذہبی خیالات سے اختلا ف اقبال تک محدود نہیں‘ علماء کی ایک پوری جماعت اس باب میں ان سے اختلاف رکھتی تھی۔ بنیادی طور پر سرسید عقل اور نیچر کو اپنے افکار و نظریات میں بنیادی حیثیت دیتے تھے۔ مذہب میں جو تجربے اور واردات ماورائے فہم و ادراک ہوں وہ ان کو تسلیم نہیںکرتے تھے۔ علماء کا ایک گروہ جس کے نمائندہ مولوی علی بخش بدایونی تھے۔ سرسید کی تکفیر کے درپے تھے چنانچہ مولوی علی بخش حج کے لیے گئے تو وہاں موجو د علماء سے سرسید کی تکفیر کے فتوے کی توثیق و تصدیق کر ا کے لائے۔ کانپور کے رسالہ نورالآفاق میں سرسید کے مخالفین کے مضامین شائع ہوتے تھے چنانچہ علی گڑ ھ کالج کے قیام کے سلسلے میں بھی سرسید کی مخالفت ا ایک سبب ان کے مذہبی خیالات تھے جن کی بنا پر سرسید کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس معاملہ میں ان کو کالج کی حدتک کوئی تعلق نہ ہو گا۔ خود سرسید کے عقیدت مندوں میں حالی ان کے مذہبی خیالات سے متفق نہ تھے اور تفسیر قرآن میں ان کے بقول سرسید نے جا بجا ٹھوکریں کھائیں تھیں اور ان سے رکیک غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔ یہی حال علامہ شبلی کا تھا۔ علامہ اقبال کو ایک اور بنیادی اختلاف مسئلہ جہاد میں سرسید کے خیالات سے تھا اور وہ جہاد کو موقوف سمجھنے یا اسے محض جہاد بالقلم ہونے کو تسلیم نہیںکرتے تھے۔ اور منجملہ دیگر باتوں کے مرزا غلام احمد سے ان کے اختلاف کی بھی یہی وجہ تھی۔ علامہ اقبال آخری زمانہ میں قرآن حکیم پر بعض حواشی لکھنا چاہتے تھے۔ دراصل ان کا اردہ تھا کہ جدید فلسفہ کی روشنی میں قرآن حکیم کی تفسیر لکھیں نواب صاحب بھوپال سے پہلی ملاقات میں نواب صاحب نے ٭ An interpretation of Holy Quran in the light of Modern Philosophyکے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ اس کتاب کا خاکہ میرے ذہن میں ہے کچھ تیار بھی کیاہے لیکن کچھ کتابیں بیرون ملک میں ہیں انہیںدیکھ لینا چاہتا ہوں۔ اس زمانے میں علامہ آکسفورڈ اور کیمبرج توسیعی خطبات کے سلسلے میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور خیال تھا کہ اس موقع پر وہ اپنی ان کتابوں کو دیکھ کر سکیں گے۔ یہ واقعہ یکم فروری 1935 کا ہے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا جس کا ایک سبب علامہ کی آخری علالت ان کی بیگم کی علالت اور وفات بھی ہے۔ اس کا اظہار علامہ نے نواب سرراس مسعود کے نام ایک خط میں بھی جو لاہور سے 26اپریل 1935کو لکھا گیا تھا ان الفاظ میں کیا ہے: ’’مجھے کچھ عرصہ پہلے تو اس خیال سے بھی مسرت تھی کہ آپ کی اس کوشش میں کامیاب ہونے کی قومی امید تھی اور اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن حکیم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا۔ بہرحال دیدہ باید ہر امر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر عالم جدید میں اسلام کی اس خدمت کا شرف میر ے لیے مقدر ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کے لیے ضروری ذرائع بہم پہنچا دے گا٭‘‘۔ افسوس کہ 30جولائی 1937 کو راس مسعود کا انتقال ہو گیا اور سال بھر نہ گزرا تھا کہ علامہ اقبال بھی رخصت ہو گئے۔ آں قدح بشکست و آں ساقی نماند 10۔ پان اسلامک سوسائٹی: سر عبدالقادر نے بانگ درا (طبع اول) کے دیباچہ میں اس تحریک کا کچھ ذکر کیا ہے ۔ دراصل اسے بعض مغربی مورخین نے پان اسلامزم Pan-Islamismکا نام دیا ہے اور تحریک اتحاد بین المسلمین سے موسوم کیاہے۔ یہ صورت حال عرصہ سے پیدا ہو رہی تھی کہ اقوام مغرب کا سیاسی اثر اور اقتدار اسلامی سلطنتوں میں آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور حکمت مغرب کے اثر سے وطنی قومیت کے جذبات اس طرح ابھر رہے تھے جس سے ملت اسلامیہ کا تصور پارہ پارہ ہو رہا تھا۔ بقول علامہ اقبال: کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز لے گئے تثلیٹ کے فرزند میراث خلیلؑ خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہ لاہ رنگ جو سراپا ناز تھے آج مجبور نیاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭اقبال نامہ‘ جلد اول ص 57-58-356 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس وہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز گفت رومی ہر بنائے کہنہ کابادن کنند می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند حکمت مغرب کی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ مسلمانوں میں سیاست ملی کے تصور کی جگہ سیاست وطنی کے رجحانات کی حمایت کی جائے تاکہ ملت اسلامیہ پارہ پارہ ہو جائے۔ عیسائیوں میں کلیسا اور پوپ نے ایک مرکزی حیثیت سے عیسائیوں کو مجتمع رکھنے میں ایک اہم تاریخی کردار ادار کیا ہے۔ اس کی ایک مثال صلیبی جنگوں میںہی نظر آتیہے کہ اس جنگ میں یورپ اور برطانیہ کے دور دراز گوشوں سے سورما صلیبی جنگوں میں شرکت کرنے کے لیے ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ لیبیا پر اٹلی کا قبضہ ہو گیا۔ مراکش میں فرانسیسیوں کا اقتدار قائم ہوا اور ترکی پر بلقانی اتحادیوں نے یورش کی ۔ یہ سب واقعات 1912ء کے ہیں جو اقبال کی نظم خضر راہ کا پس منظر ہے جس کا اقتباس اوپر پیش کیا جا چکا ہے۔ ملت اسلامیہ میں کوئی کلیسائی یا پروہتی نظام نہیں تنہا لیکن خلیفۃ المسلمین کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ چنانچہ جب تک خلافت کا دور اول رہا خلیفۃ المسلمین نے تمام ملت اسلامیہ کو ایک ہی مملکت میں منسلک رکھا لیکن آہستہ آہستہ یہ صورت بدلتی گئی لیکن انتہائی زوال کے دور میں بھی کم از کم برائے نام خلیفہ یعنی خلفائے عثمانی کو یہ درجہ حاصل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ترک حرمین شریفین کے خادم ہونے پر فخر کرتے تھے اور قسطنطنیہ سے ہزاروں میل دور ٹیپو سلطان جنوبی ہندوستان کی ریاست میسور میں عثمانی خلیفہ سے درخواست کر کے اپنے آپ کو تسلیم کراتا ہے بیسویں صدی ٭ کے آغاز میں بھی برعظم میں تمام مساجد میں جو خطبہ پڑھا جاتا تھا اس میں سلطان ترکی کا نام دنیائے اسلام کے خلیفہ اور حکمران کی حیثیت سے شامل تھا۔ چنانچہ جب عربوں نے ترکوں کے خلا ف بغاوت کی تو بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: ’’برعظیم کے مسلمان اس واقعے سے حیران تھے کہ عرب اپنے ہم مذہب مسلم خلیفہ کے مقابلے میں غیر مسلم سیاست کو ترجیح دیتے رہے تھے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ عربوں کی شکایات کا بہتر حل کسی ایسیآئینی تدارک سے ہو سکتا تھا جس کے نتیجے میں عربوں کو خود مختاری حاصل ہو جاتی۔ برعظیم کے مسلمانوں عربوں کے برخلاف یہ سمجھتے تھے کہ اگرچہ سلطنت عثمانیہ بہت کمزور ہو گئی تھی تاہم اس سے یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ ایک مسلام وفاق کی صورت میں مبدل ہو کر ان مسلم نسلوں کے بہت بڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بحوالہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ ص 252-253 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصوں کا تحفظ کرے گی جو اب تک اس کے زیر حکومت تھیں‘‘۔ ترکوں پر تو خیر جو گزری سو گزری اور سلطنت عثمانیہ کو مدتوں یورپ کا مرد بیمار کہہ کر اس کے حصے بخرے کر دیے گئے اور بالآخر یہ انجام ہوا کہ ترکوں نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ برعظیم میں اس کا ر د عمل بڑا مایوس کن ہوا۔ یہاں کے لوگوں نے عثمانیوں کی ہمدردی کے مظاہرے کیے تھے‘ ان کے اکابر قائدین مولانا محمد عی مولانا شوکت علی وغیرہ نے تحریک خلافت اور ترکوں کی حمایت میں برطانوی غم و غصہ اور قید و بند کی صعوبتیں قبول کی تھیں ان کی مدد کے لیے یہاں سے طبی وفد بھیجے گئے تھے ترکوں کی حمایت کے لیے چندہ کیا تھا۔ 1920ء میں ترکوں پر میثاق سیورے عائد کیا گیا اور اس نے بقول ڈاکٹر قریشی سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی سیادت کو عملاً منسوخ کر دیا۔ اس کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر قریشی لکھتے ہیں: ’’بہرحال میثاق سیورے نے برعظیم کے مسلمانوں کے جذبات کو اس حد تک مشتعل کر دیا کہ اس کی تاریخ میں مثال نہیںتھیل وہ سارے جذبات جو ایک عرصے سے دبے ہوئے تھے ایک ایسی تحریک کی شکل میں پھوٹ نکلے جس نے برعظیم میں سلطنت برطانیہ کی جڑوں کو ہلا دینے کے لیے وہ کردار ادا کیا جو آج تک اس سے قبل کی کسی اور شورش نے نہیں کیا تھا۔ مسلمانوں نے اس تحریک میں شریک ہو کر نتائج سے بے نیازی اور مصائب و آلام سے انتہائی بے پروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ایضاً ص 254-255 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ایسا ثبوت دیا کہ جو لوت یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان اس قسم کی جدوجہد کے قابل نہیں ہیں وہ حیران ہو گئے‘‘َ یہی پس منظر تھا جس میں مصر میں تحریک تجدد شرو ع ہوئی تھی اور علامہ جمال الدین افغانی شیخ عبدہ اور ان کے شاگردوں نے اسے پروان چڑھایا تھا۔ فرانس انگلستان اور روس تک ان تحریکات کا سلسلہ پھیلا تھا اور خاص طور پر نوجوان مسلم طلبا جو ان ممالک میں موجود تھے ان میں یہ تحریک خاصی مقبول تھی ان جذبات کا اظہار علامہ اقبال نے خضر راہ میں اوپر نقل کیے گئے بند کے بعد اگلے بند میں ان اشعار میں کیا ہے: ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں حق ترا چشمے عطا کر دست غافل درنگر مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست مور بے پر حاجتے پیش سلیمانے میر ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش ٭ 11۔ حکیم اجمل خاں: برصغیر پاک و ہند کے نامور طبیب مسیح الملک حکیم اجمل خاں‘ خاندان شریفی کے ایک فرزند تھے اس خاندان کے طبیبوں نے طب اسلامی کو برصغیر پاک وہند مین نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے ترقی بخشی۔ حکیم اجمل خاں نے دور جدید کے سائنٹفک طریقوں کو طب سے روشناس کرایا۔ دلی کا طبیہ کالج ان کی کوششوں کابڑا مرکز تھا۔ ایک معمولی مثال یہ ہے کہ حکیم صاحب کی ہدایات پر جدید طبی ریسرچ ان لوگوں کے سپرد ہوا جنھہوںنے جدید سائنس کی تعلیم کی تکمیل کی تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے مشہور بوٹی پاگل بوٹی سے فعال اجزا نکال کر اجملین تیار کی جو آج بھی طب مغرب میں خون کے دبائو کی ایک موثر دوا سمجھی جاتی ہے۔ حکیم اجمل خاں صاحب کا ملک و ملت کی سیاسی اور تہذیبی سرگرمیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بانگ درا ص 300-301 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ دور خلافت میں اور اس کے بعد وہ ڈاکٹر انصاری کے ساتھ جدوجہد آزادی کی تحریک میں شامل رہے۔ جامعہ ملیہ جو پہلے علی گڑھ میں اور بعد ازاں دلی میں ایک علمی ادارہ کی حیثیت سے قائم ہوئی اس میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا۔ شاعر بھی تھے اور شید مخلص کرتے تھے۔ دیوان نہایت خوبصورت چھاپے میں جرمنی سے طبع ہوا ہے۔ 12 ۔ محرم علی چشتی: مولوی نور احمد چشتی کے فرزند تھے محرم کے مہینہ میں پیدا ہونے کی وجہ س نام ہی محرم علی رکھا گیا۔ تایخ ولادت 6محرم 1280ھ مطابق 23جون 1863ء ہے۔ لاہور کی علمی اور تہذیبی مجالس میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ 1884ء میں لاہور سے رفیق ہند کے ام سے ایک اخبار جاری کیا۔ سرسید احمد خان اور ان کی تحریک کے مخالفین میں تھے اور اکثر ان سے بحث کرتے تھے۔ سر سید احمد خان کے دورہ پنجاب کے موقع پر انہوںنے رفیق ہند کا خاص نمبربھی شائع کیا تھا۔ محرم علی چشتی ادیب اور شاعر بھی تھے۔ چشتی تخلص تھا اور شاہ مستان کابلی ک یحلقہ ارادت میں تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تصوف سے عملی دلچسپی رکھتے تھے ٭۔ پیشہ کے اعتبار سے صحافی اور وکیل تھے۔ سیاست میں کانگرس کے حامی تھے 8دسمبر 1934ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ ٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بحوالہ یادگار چشتی مصنفہ نور احمد چشتی مرتبہ گوہر نوشاہی‘ مجلس ترقی ادب لاہور 1972ء مقدمہ ص 54۔ ٭٭ نقوش لاہور نمبر 1962(ص 944) میں ان کی ولادت 11اگست 1864ء لکھی ہے جو درست معلوم نہیں ہوتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 13۔ جس نظم کا یہاں حوالہ ہے وہ بانگ درا میں یوں ہے: موٹر کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز مانند برق تیز مثال ہوا خموش میں نے کہا نہیں یہ موٹر پہ منحصر ہے جادہ حیات میں ہر تیز پا خموش ہے پا شکستہ شیوہ فریاد سے جرس نگہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش مینا مدام شورش قلقل سے پابگل لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی سرمایہ دار گرمی آواز خامشی 14۔ حضرت علی ہجویریؒ: لاہور کی روحانی عظمت کے نشان جو عام طور پر اپنے لقب داتا صاحب سے ہی پکارے جاتے ہیں۔ ان اکابر صوفیہ میں سے ہیں جنہوں نے برعظیم پاک و ہند میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بانگ درا ص 196 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کا چراغ ہدایت روشن کیا۔ کتنی ہی سلطنتیں قائم ہوئی اور لٹ گئیں حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر ان صاحب کرامت بزرگ کا چشمہ فیض آج بھی صدیاں گزر جانے کے بعد اسی طرح جاری ہے۔ لقب داتا گنج بخش کے متعلق عام روایت یہ ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی سجزی اجمیری نے یہاں چلہ کھینچا اور فیض روحانی حاصل کی تو آپ نے یہ شعر پڑھا تھا: گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما آپ کا اسم گرامی ابوالحسن بن عثمان الجلابی ہے وطن غزنی تھا جہاں محلہ ہجویر میں قیام کی وجہ سے ہجویری کہلائے حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی کے مرید تھے اور ان ہی کے ارشاد کے مطابق سلطان مسعود بن محمود کے عہد میں 431ھ میں غزنی سے لاہور تشریف لائے۔ ان کامسلک تصوف میں جنیدیہ تھا جس کی نسبت ابوالقاسم الجنید بن محمد سے ہے ۔ جن کو طائوس العلما ء کہتے تھے۔ اور یہ مسلک صوفیان طیغوریان کے برعکس جو سکر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ صحو کا تھا۔ (علامہ اقبال کا بھی یہی خیال تھا) حضرت ہجویری کے پیر و مرشد الختلی کا قول ہے سکر بازی گاہ کودکان ست و صحو فنا گاہ مرداں۔٭ اپنے پیر و مرشد ک بارے میں کشف المحجوب میں جو حضرت علی ہجویری کی ایک اہم تصنیف ہے اور برعظیم پاک و ہند میں مسلک تصوف پر قدیم ترین تاریخی دستاویز ہے۔ فرماتے ہیں کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بحوالہ کشف المحجوب از روئے متن تصحیح شدہ وانتیں ذوکوفسکی طبع موسسہ مطبوعاتی امیر کبیر صفحہ سی و ہنشت پیش گفتار۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوتاد کی زینت تھے اور عابدوں کے شیخ تھے تفسیر کے عالم تھے ظاہری لباس اور تسوم صوفیہ کی نہ رکھتے تھے۔ شیخ علی الہجویری نے کس ب فیض اور تزکیہ نفس کے لیے اسلامی ممالک کے سفر کیے اور اپنے عہد کے اکابر علامء سے فیض پایا۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ سرچشمہ ہدایت تھے ۔ دن کے وقت در س و تدریس میں مصروف رہتے تھے اور طالبان شریعت کی رہبری و رہنمائی فرماتے۔ رات کے وقت طالبان طریقت کی تربیت فرماتے۔ بقول دارا شکوہ آپ کی رہبری سے ہزاروں جاہل عالم بن گئے۔ کافروں نے اسلام قبول کیا۔ گمراہوںنے راہ ہدایت پائی۔ دیو انے فرزانے بن گئے۔ جن لوگوں کا علم ناقص تھا کامل ہوئے تصوف کے باب میںآپ کا مسلک یہ تھا: ’’میں نہیں جانتا کہ فارسی کون ہے اور ابو سلمان کون ہے اور انہوںنے کیا باتیں کہی ہیں۔ جو شخص توحید کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو‘ اس کا دین اسلا م میں کوئی مقام نہیں چونکہ اصل دین ہے۔ وہ تصوف جو اس کا نتیجہ ہے اور اس سے مشتق نہ ہو مستحکم نہیںہو سکتا‘‘۔ علامہ اقبال نے مثنوی اسرار و رموز میں ایک داستان لھی ہے کہ ایک خوف زدہ مروی حضری ہجویری کی خدمت میں حاضر ہوا دشمنوں سے خوفزدہ تھا۔ حضرت ہجویری نے جو نصیحت کی وہ یہ تھی: فارغ از اندیشہ اغیار شو قوت خوابیدہ بیدار شو سنگ چوں برخود گمان شیشہ کرد شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد …… …… …… …… …… …… خویش را چون از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی گر فنا خواہی ز خود آزاد شو گر بقا خواہی بخود آباد شو 15۔ شاہ محمد غوث رحمتہ اللہ علیہ: حضرت شا ہ محمد غوث حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں تھے۔ ان کا سلسلہ نسب سترھویں پشت سے حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے مل جاتا ہے۔ آپ کے جد امجد سید عبداللہ گیلان سے آ کر پشاعر میں مقیم ہوئے ۔ ان کے فرزند سید حسن تھے اور ان ہی کے فرزند اول حضرت شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ تھے ان کی ایک تصنیف رسالہ غوثیہ میں اس میں آپ نے الہور آنے کا واقعہ لکھا ہے ۔ کہ میں تلاش حق میں لاہور پہنچا اور شب بسر کرنے کے لیے حضرت میاں میر کے مقبرہ میں قیام کیا۔ رات کا حضرت میاںمیر ظاہر ہوئے اور مجھ پر توجہ فرمائی اور شغل عطا کیا۔ دوسرے دن آپ ہی کے ارشاد کے مطابق حضرت شیخ حامد کی خدمت میں حاضر ہوئے جو حضرت علی الہجویری کے مزار کے قریب رہتے تھے۔ اس حساب سے آپ 1045/1635کے بعد لاہور تشریف لائے۔ سال وفات 1177/1763بعض تذکرہ نگاروں نے 1178/1764بھی لکھا ہے۔ حضرت شاہ محمد غوث علوم ظاہر و باطن میں کامل تھے۔ سکھوں کے دور میں جہاں اور آثار مسلمانوں کے ڈھائے گئے وہاں آپ کے مزار کے احاطہ کی دیوار بھی منہدم کر دی گئی لیکن اندرونی چہار دیواری اور مقبرہ کی بے حرمتی کی نوبت نہ آئی اور سکھ سردار کنور نہال سنگھ جو اس کا مرتکب تھا ایک حادثہ میں ہلاک ہو گیا ۔لوگوں نے آپ کی کرامات میں لکھا ہے مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی ہے کچھ مزارات اور بھی ہیں چہار دیواری اور قبرستان ملحقہ میں ہیں۔ علامہ اقبال کو حضرت شاہ محمد غوث سے عقیدت اسی بنا پر تھی کہ آپ کا تصوف اسلامی تصوف تھا اور جس کی بنیاد قرآن حکیم اور تعلیمات اسلام پر تھی آپ نے اپنی پوری زندگی خلق خدا کی خدمت اور ہدایت میں صرف کی۔ یہ آپ کا روحانی تصرف تھا۔ کہ اب تک اس فیض کا سلسلہ جاری ہے۔ ٭ 16۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ صوفیائے کرام کے کشف و کرامت کے قائل تھے اور اس کا انہوںنے ذاتی تجربہ کیا تھا۔ اقبال دور جدید کے تعلیم یافتہ فلسفی تھے لیکن دعا کی اہمیت کو تسلیم کرتے تھے۔ اس کی متعددمثالیں ان کی زندگی میں ملتی ہیںجہاں ایک یعنی گردے سے پتھری کے اخراج کا قصہ ہیاں بیان ہوا ہے۔ اس قسم کی دعائیں علامہ اقبال نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے وسیلہ سے بھی مانگی ہیں۔ 17۔ یہ بات درست ہے کہ علامہ فقہ میں کسی خاص مسلک کے پابندنہ تھے ۔ گو عام طور پر ان کو سنی سمجھتے تھے۔ ان کے سنی ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن اس بارے میں ان کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ تفصیلات کے لیے دیکھیے تحقیقت چشتی‘ تصنیف نور احمد چشتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلک صاف تھا۔ خضر راہ میں خود فرماتے ہیں: اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ کی منقبت کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب اور اوصاف بہت کھل کر لکھے ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو امام عاشقان بتایا ہے۔ یہ معا ملہ ان کی ذاتی عقیدت کا تھا جس میں اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے۔ دراصل علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اساس دین قرآن حکیم پراستوار تھی اور آ پ کا یہ قول ملفوظات میں ہی نظر سے گزرا ہو گا۔ میں اعتقادی امور می صرف قرآن پر انحصار کرتا ہوں اور حدیث کے متعلق مجھے اور آپ کو سب کو معلوم ہے کہ یہ کن ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ علامہ کے اس خیال سے اختلاف کی گنجائش ہے کیونکہ حدیث کی اہمیت کو نظر انداز کر دیں تو بہت سے امور میں رہبری اور رہنمائی کی اہمیت کو نظر انداز کر دین تو بہت سے امور میںرہبری اور رہنمائی کے لیے تفصیلات نہیں ملیں گی۔ دراصل اسلام دشمن محققین اور مستشرقین کا طریق عمل ہی یہی تھا کہ بانی اسلام کی شخصیت کو مسخ کر کے پیش کر یں تاکہ قرآن کے مجسم شارح پر سے ایمان اعتقاد اور بھروسہ اٹھ جائے ارو شک و شبہ کی گنجائش نکل آئے تو پھر قرآن حکیم جو بذریعہ وحی آپ ہی کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے اس کی نظریاتی اساس بھی متزلزل ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ احادیث ہمیں ذرائع سے پہنچی ہیں لیکن تدوین حدیث کے سلسلے میں محدثین نے روایت و درایت کے جو اصول وضع کیے ہیں اور جس طرح ان کی جانچ پڑتال کی ہے اس نے ااحدیث صحیحہ متعین کر دی ہیں حضر ت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ٭ ’’اے علم کے طالبو! اے بے وقوفو تم اپنے آپ کو علما کہلواتے ہو۔ تم یونانیوں کے علوم نحو ‘ صرف اور معانی میں مشغول ہو اور سمجھتے ہو کہ علم اسی کا نام ہے۔ حالانکہ تم یا تو کتاب اللہ کی آیت محکمہ ہے ک ہتم اسکے غریب کی تفسیر اس کا سبب نزول اور اسکے مشکلات کا حل سیکھو۔ یا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قائمہ ہے کہ تم اسے یاد کرو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیسے کرتے تھے قضائے حاجت کے لے کیسے جاتے تھے ۔ روزہ کیسے رکھتے تھے حج کیسے کرتے تھے‘ جہاد کیسے کرتے تھے۔ آپ کی گفتگو کیسی ہوتی تھی ۔ زبان کی حفاظت آپ کس طرح فرماتے تھے اور آپ کے اخلاق کیسے تھے تاکہ تم آپؐ کی ہدایت کا اتباع کرو اور آپؐ کی سنت کی پیروی کرو نہ اس لیے کہ تم وہ پر فرض ہے صرف اس لیے کہ وہ ہدایت اور سنت ہے۔ یا پھر علم فریضہ عادلہ ہے کہ تم یہ سیکھو کہ وضو اور نماز کے کیا ارکان ہیں۔ زکوۃ کا نصاب اور اس میں مقدار واجب کیا ہے۔ میت کے فرائض کے سہام کیا ہیں‘‘۔ ایک اور مقام پر شاہ صاحب فرماتے ہیں: ’’تم میں سے اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ ان کے پاس ان کے نبیؐ کی کوئی حدیث پہنتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ بحوالہ اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ ڈاکٹر مظہر بقا ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد طبع اول نومبر 1973ء ص 19-20 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرتے کہتے ہیں کہ میرا عمل تو فلاں کے مذہب پر ہے۔ حدیث پر نہیں۔ اس کے بعد حیلہ یہ پیش کرتے ہی کہ حدیث کا سمجھنا اور اس کے مطابق حکم دینا یہ کامل اورماہر لوگو ں کا کام ہے اور ائمہ نے جو ایسے نہ تھے کہ یہ حدیث ان سے مخفی رہتی اگر اس حدیث کو چھوڑا ہے تو کسی وجہ سے چھوڑا ہو گا یا ی حدیث منسوخ ہے یامرجوع یا د رکھو دین میں ان باتوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ اگر تم اپنے نبیؐ پر ایمان لاتے ہو تو نبیؐ کی اتباع بھی کرو بشرطیکہ اس حدیث کی اصلیت ثابت ہو‘‘۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ائمہ اربعین کی تطبیق کی کوشش کی تھی اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جس انداز میں ذکر کرتے ہیں ا س میں اتباع سنت اور تقلید حدیث نبوی بھی شامل ہے۔ 18۔ بلاشبہ قرآن حکیم میں بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اجتہاد ہر شخص کا فطری حق ہے۔ بے شک اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا اور نئے ماحول اور نئے مسائل سے عہد ہ برا ہونے کے لیے اجتہاد کی ہر دور میں ضرورت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اجتہاد کرنے والا اس کا اہل ہو اہلیت کی شرائط میں بنیاد قرآن و حدیث کا فہم‘ تفسیر و اجتہاد کی تاریخ کا علم اجتہاد کرنے والے میں ہو اور نیت اس کی اسلام کی روح کی روشنی میں کوئی حل تلاش کر نا ہو نہ کہ اجتہاد کو حیلہ بنا کر خود اقبال کی زبان میں: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی ٭ مجتہد مطلق کے لیے ان پانچ چیزوں کا علم ضروری قرار دیا ہے۔ ۱۔ کتاب 2۔ سنت 3۔ اجماع 4۔ قیاس 5۔ علم عربیت البتہ اجماع کی جگہ انہوںنے علم اقاویل سلف لکھا ہے اور ان سب کی تفصیل بھی لکھی ہے ۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال نے بھی ان شرائط کے ساتھ ہی اجتہاد کو تسلیم کیا ہو گا۔ 19۔ سرسید کی تحریک میں ان کے مذہبی خیالات کی تائید و تردید میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ بنیادی طورپر سرسید مذہب کو صرف نیچر یعنی فرت اور عقل کی روشنی میں دیکھتے تھے۔ اگر کوئی بات ان کے خیال میں خلاف فطرت یا خلاف عقل ہو تو وہ اسے نہیںمانتے تھے۔ مثلاً معجزات کے قائل نہ تھے۔ معراج جسمانی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اجنہ سے مراد محض جنگلی یا پہاڑی قوم لیتے تھے ۔ ان سے مذہب میں روشن خیالی کی روش ضرو ر پیدا ہوئی لیکن مذہب کی گرفت کمزور پڑ گئی اور علماء اسی بنا پر سرسید سے اختلاف کرتے تھے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ مذہب کے ماورائے عقل پہلو پربھی زور دیتے تھے اور روحانی تجربات کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ایضاً ص 430 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 20۔ ملائوں سے مراد کیاہے؟ عام طور پر اس شخص جو جو قدیم علامء کی سی وضع قطع رکھتا ہو اور علوم دینی سے اس کا تعلق ہو مولوی یا ملا کہا جاتا ہے اور برعظیم میں ان اصطلاحات میں ذلت آمیز تصور برطانوی دور اقتدار میں پیدا ہوا ورنہ خود برعظیم میں علمائے کرام کا ایک طویل سلسلہ ہے جنہوں نے اسلام اور علوم اسلامی کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ یہ طبقہ شروع سے انگریزی حکومت کا مخالف رہا تھا اور ان سے تعاون کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سمجھتا تھا۔ چنانچہ برطانوی دور کی پوری تاریخ میں ان علماء کے شاندار کارناموں کا ذکر ملتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں بھی علماء نے اس جنگ کو جہاد قرار دینے کا فتویٰ دیا تھا اور اس کی پاداش میں ممتاز علماء کو پھانسی کی سزا ملی تھی۔ اور بکثرت کالے پانی بھیج دیے گئے تھے۔ بہت سے حضڑات کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ ان سب کو ملا کہہ کر نظر انداز کر دینا مذہب اسلام کی ذلت کا ذمہ دار قرار دینا کوتاہ نظری ہے۔ برعظیم میں دینی تعلیم میں انہیں ملائوں کا حصہ ہے ورنہ آج یہ دینی مدارس ہوتے اور نہ ہی دینی ععلیم کی کوئی روایت کیونکہ نئے نظام یافتہ طبقہ میں تو آج بھی ان علوم کو علوم مردہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل علوم یہی علوم دین ہیں جن کا ذکر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے پہلے آ چکا ہے۔ مغربی تہذیب و معاشرت کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور اندھا دھند تقلید مغرب کے خلاف بھی انہیں ملائوں نے اپنی روایات اپنی وضع قطع طور طریقوں سے اسلامی روایات کو زندہ رکھا رہے نام نہاد دین فروش جو خود کو عالم ظاہر کرتے تھے اور حقیقت میں مکار تھے‘ ایسی سیاہ بھیڑیں اور بدنام کنندہ نیکو نامے چند ہر طبقہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال نے دین فروشوں کی مذمت کی ہے خواہ وہ مولوی ہوں یا مسٹر۔ 21۔ کرنل مقبول حسین قریشی۔ امیر بہاولپور کے مشیر اور وزیر تھے علی گڑھ میں تعلیم پائی اور تحریک علی گڑھ کے ہمدردوں اور علی گڑھ کے شیدائیوں میں تھے اور 1947ء کے ہنگاموں سے پہلے علی گڑھ میں کئی سال مقیم رہے۔ بہاولپور میںعلمی سرپرستی کے لیے مشہور تھے۔ چنانچہ علامہ اقبال کی تجویز بھی اسی سلسلے میں ایک کڑی تھی۔ 22۔ علی برادران کی رہائی: مولانا شوکت علی اور محمد علی برعظیم کی ملت اسلامیہ کے نامور فرزند حریت اور جنگ آزادی کے نڈر سپاہی مرد مجاہد علی گڑھ کے مایہ ناز کسی زمانے میں مسٹر محمد علی تھے پھر مولانا محمد علی بن گئے۔ علی گڑھ اور آکسفورڈ کی تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے باوجود ملت کا وہ درد رکھتے تھے کہ جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کے سیاسی مسلک کا سب سے بہتر تجزیہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی زبان سے سنیے:٭ ’’محمد علی نے اپنے نظریات میں ان متعدد رجحانات کا جو اس وقت مسلم ملت کے فکر میں موجود تھے امتزاج پیش کیا ۔چونکہ نئی تعلیم سے وہ خود مستفید ہوتے تھے اس لیے ان کا شعور رکھتے تھے۔ کہ یہ تعلیم ملت کو اپنے مسائل حل کرنے یا قابل بنانے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے ۔ وہ سید احمد خاں کے کام کی قدر کرتے تھے۔ اور ان کے لیے حقیقی تحسین و تعریف کا جذبہ رکھتے تھے۔ مگر اس جذبے نے انہیں اس تعلیم کی حدود کو سمجھنے سے نہیں روکا۔ اور نہ وہ اس جذبہ کی وجہ سے سائنس کی حدود سے بے خبر تھے جیسے سید احمد خاں نے اس قدر بھرپور خراج تحسین ادا کیا تھا۔ انہوں نے آزادی کی ضرورت پوری طرح محسوس کی اجنبی حکومت کو دوام بخشنے سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔ اس لیے انہوںںے اس کٰال کیا کہ ہندوئوں سے باعزت مصالحت کرنی چاہیے۔ جس کے بغیر اجنبی حکومت سے نجات غیر ممکن ہے ۔ مگریہ سمجھوتہ ان کی ملت کے حقوق کا ضامن ہونا چاہیے تاکہ ملت ایک اور غلامی سے جو اس مرتبہ خود اس کے ہم وطنوں کے ماتحت ہو گی محفوظ رہ سکیل وہ برعظیم کی مسلم ملت کو دو دنیائوں کا باشندہ خیال کرتے تھے۔ ایک طرف یہ ملت اپنے مادری وطن سے وابستہ تھی اور اس بنا پر اس کے جو فرائض یا حقوق تھے ان سے دست بردار نہیں وہ سکتی تھی۔ اور دوسری طرف وہ اسلام کے عالمی ملت کا بھی ایک جزو تھی جس کی طرف سے بھی اس کی ذمہ داریاں اور فرائض عائد ہوتے تھے۔ وہ مسلم ملت کی جداگانہ ہستی کو ابھرتی ہوئی ہندوستانی قوم میں ضم کر دینے کے لیے تیار نہیںتھے۔ انہوں ںے لکھا کہ ’’خطوط انشقاق اتنے گہرے اور نمایاں ہیں کہ یہ جز وفاق کے اور کسی اتحاد کی اجازت نہیں دیتے‘‘۔ اس سے ان کی مراد علاقائی وفاق نہیںتھا بلکہ ملتوں کا وفا ق تھا۔ کامریڈ اس لیے جاری کیا گیا تھا کہ ان نظریوں کا اظہار کرے اور مسلمانوں کو اس کے لیے تیار کرے۔ کہ وہ اپنی ماورائے ملکی ہمدردیوں کے اس جوش و خروش میں جو اسلام کی روح ہے ذرہ برابر کمی کے لیے بغیر ملکی وطن پرستی میں مناسب حصہ لے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ بہت سے وطن پرست ہندو حلقوں میں مسلمانوں کی ماورائے ملکی ہمدردیوں کو شبہ سے دیکھے جانے کے باوجود محمد علی ان مشکلات سے خائف نہیں ہوئے جو مذکورہ بالا منزل مقصود کو حاصل کرنے اور ایک ایسی مملکت میں رہتے ہوئے جس پر غیر مسلموں کا غلبہ ہونے والا تھا اتحاد اسلامی کی حکمت عملی کو اختیار کرنے میں فطرتاً موجود تھیں‘‘۔ ٭ برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ محولہ بالا ص 348 علامہ اقبال بھی خود اس تجربے سے گزرے ۔ ان کے ابتدائی دور کے کلام میں جو بانگ درا کے اول حصہ میں شامل ہے ان کے یہاں حب وطنی کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہ ہمالہ کی عظمت کے گیت گاتے ہیں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت نیا شوالہ اور دوسری نظمیں اسی دور کے جذبات کی ترجمان ہیں۔ لیکن عالمہ اقبال بھی مسلمانوں کی ان دو دنیائوں کے قائل تھے ۔ ان کے نزدیک محض وطنی قومیت عصر حاضر کا سب سے بڑا بت تھا چنانچہ ان کی نظم وطن بحیثٰت ایک سیاسی تصور میں اسی نظریہ کی ترجمانی ہے۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری کا ملی رنگ پوری طرح سے ابھر کر آتا ہے۔ اور برعظیم کی ملت اسلامیہ کا عالم گیر ملت اسلامی سے رشتہ پوری توانائی سے ظاہر ہوتا ہے۔ قوم پرست ہندو اقبال کے اس عمل سے بڑ ے مایوس ہوئے اور انہوںنے اقبال کو فرقہ پرست اور مسلمانوں کا شاعر قرار دیا حالانکہ اقبال کی شاعری کا ایک حصہ زندگی کے ان افکار اور مسائل کا ترجمان تھا جو ساری دنیا کے لے یکساں طورپر اہمیت رکھتے ہیں۔ مولانا شوکت علی نے جو محمد علی کے بڑے بھائی 1913ء میں انجمن خدام کعبہ کی بنیاد ڈالی۔ یہ انجمن جن حالات میں قائم ہوئی ان کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ لیبیا پر اٹلی کا قبضہ ہو چکا تھا۔ مراکش میں فرانسیسیوں کا اقتدار تھا۔ اور ترکی پر اتحادیوں کی یورش جاری تھی۔ یہ سارے واقعات 1912ء کے تھے۔ جنہوںنے برعظیم کے مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ مولانا محمد علی آکسفورڈ کے فارغ التحصیل تھے ۔ ان کے بعض احباب اور متعلقین کو بڑی امید تھی کہ وہ انڈین سول سروس میں شامل ہو جائیں گے جو اس زمانے میں سرکاری ملازمت میں سب سے بڑا اعزاز تھا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا چنانچہ مولانا محمد علی بقول خود‘ انگلستان کے ایک موسم بہار اور ایک نوجوان کی کم و بیش احمقانہ ترنگ کے صدقہ میں انڈین سول سروس میںداخلہ نہ لے سکے۔ کچھ عرصہ رام پور اور بڑودہ میں ملازمت کی۔ وہ بھی مزاج کے مطابق نہ تھی چنانچہ صحافت کی طرف آئے۔ 1911ء میں انہوںنے کامریڈ جاری کیا۔ اسی سال بنگال کی تقسی منسوخ ہوگئی جس سے مسلماوں میں مایوسی اور غم و غسہ کی لرہ دوڑ گئی۔ ادھر وہ حالات بین الاقوامی سطح پر پیش آئے جن کا ذکر 1912ء کے حوالہ سے اوپر کیا جاچکا ہے۔ 1914ء میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہو گئی جس میں ترک اور انگریز د ومخالفت گروہوں میں تھے اور برعظیم کے مسلمانوں میں بڑا ہیجان پیدا ہو گیا تھا اور ملت اسلامیہ شدت کے ساتھ ترکی کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ محمد علی نے کامریڈ میں اپنا مشہور مضمون لکھا۔ جس کا عنوان تھا ترکوں کا انتخاب اس میں محمد علی نے حکومت برطانیہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مصر کے معاملات میں ترکی کی دلجوئی کرے۔ اور ترکوں کے ساتھ انصاف کر کے ان سے مصالحت کی کوشش کرے۔ اس مضمون سے سر ھرے انگریز حاکموں کی جبین پر شکن پڑ گئی اور محمد علی کو قید کر دیا گیا کامریڈ بند کر دیا گیا اور اس کا پریس بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔ محمد علی اور ان کے بڑے بھائی شوکت علی دونوں کو دسمبر 1919ء کے آخر میں رہاکیا گیا۔ وہ سیدھے امرتسر پہنچے جہاں اس زمانہ میں انڈین نیشنل کانگرس مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے سالانہ اجلاس ہو رہے تھے خلافت کانگرس کی صدارت شوکت علی نے کی اور مولانا محمد علی کو برطانیہ ارو جنگ کے دیگر فاتحین کو مسلمانوں کے نقطہ نظر سے واقف کرانے کے لیے ایک وفد کا سربراہ بنایا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر امرتسر میں جو جلسے ہوئے تھے ان میں شرکت کے لیے امرتسر کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی ممتا ز مسلمان تشریف لائے تھے اور اقبال بھی موجود تھے۔ جس نظم کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسیری کے عنوان سے بانگ درا میں شامل ہے نظم نہایت مختصر ہے لیکن جذبات کی شدت اور محمد علی ک لیے علامہ اقبال کی عقیدت اور احترام کی ترجمان ہے: ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند قطرہ نسیاں ہے زندان صدف سے ارجمند مشک ازفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند شہپر زاغ و زغن بند قید و صید نیست ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند اس رہائی کی داستان کو اپنے ادب العالیہ کے انداز میں علامہ عصر میرمحفوظ علی بدایونی نے بھی بلبلان اسیر کی رہائی سے لکھا تھا جو طنزیات و مقالات سید محفوظ علی مرتبہ محمد محی الدین بدایونی انجمن ترقی اردو پاکستان طبع 1974ء میں شامل ہے۔ مولانا محمد علی اور علامہ اقبال کے تعلقات کی ایک جھلک جاوید اقبال کے مضمون اقبال ایک باپ کی حیثیت میں مشمولہ مئے لالہ فام میں بھی ملتی ہے۔ ٭٭٭ ایک فیضانی لمحے کی یاد میں: ڈاکٹر تاثیر 1۔ تاثیر: محمد دین تاثیر لاہور کے شاعروں ادیبوں انشا پردازوں اور استادوں کے حلقوں میں ایک ممتاز شخصیت 28فروری 1902 کو ولادت ہوئی عرصہ تک ایم اے او کالج امرتسر میں پرنسپل رہے۔ کچھ عرصہ آزاد کشمیر میں گزرا پھر اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی کی مختلف مجلسوں اور کمیٹیوں کے رکن تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کی مختلف مجلسوں اور کمیٹیوں کے رکن تھے۔ نظم و نثر انگریزی اور اردو دونوں کا نہایت اعلیٰ درجے کا مذاق نکالا تھا۔ لاہور کے مشہور ادبی جریدے کارواں کی اشاعت میں شریک تھے جس کا حوالہ اس مضمون میں بھی ہے۔ لاہور سے نکلنے والے اردو کے مشہور رسالے نیرنگ خیال میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے تھے کبھی اپنے نام سے اور کبھی فرضی ناموں سے ۔ اس زمانے میں لاہور میں یاس سیماب جگر اور اصغر بھی موجود تھے۔ دلچسپ مشاعرے ہوتے اور کبھی کبھی مزیدار معرکہ آرائی ۔ آخر زمانے میں چراغ حسن حسرت سے بھی جو قلمی معرکہ ہوا ہے وہ یادگار ہے۔ 30نومبر 1950ء کو وفات پائی۔ عزیزم کے نام ان کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مجموہ کلام آتشکدہ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ 2۔ چغتائی: عبدالرحمن چغتائی۔ برعظیم کے ممتا ز مصوروں اور فن مصور میں اس خاص انداز کے بانی جو ان کے نام سے چغتائی آرٹ کہلاتا ہے۔ اور جس میں برعظیم کے مسلمانوں کی تہذیبی و ثقافتی جمالیاتی قدروں کی عکاسی کی گئی ہے۔ چغتائی کے فنی کمالات کا اعتراف برعظیم کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی ہوا ہے۔ اور ان کے فن پاروں کی بین الاقوامی نمائشیں ہو چکی ہیں۔ 1928ء میں عبدالرحمن چغتائی نے دیوان غالب کے بعض اشعار کو مصر کیا اور مرقع چغتاء ی کے نام سے شائع کیا۔ ا س پر علامہ اقبالؒ نے پیش لفظ بھی لکھا اور ان کے بارے میں اپنے اس نظریہ کی وضاحت کی ہے جو اسرار خودی اور زبور عجم میںپیش کیا جا چکا ہے بقول علامہ: I have tried to picture the soul movement of the ideal Artist in whom Love reveals itself as a unity of beauty and power. دلبری بے قاہری جادوگری است دلبری باقاہری پیغمبری است ٭ 3۔ ان دو بھائیوں میں ایک ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ہیں جو علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ کے یہان حاضری دینے والوں میں شامل تھے اقبال کی صحبت میں اور روایات اقبال ان کی دو تسانیف ہیں جشن اقبال 1977ء کے مجلس ترقی ادب لاہور کے پروگرام مطبوعات میں شامل ہیں۔مکاتیب اقبال کے کاتبین میں بھی ہیں۔ ٭٭ علامہ ان کو ماسٹر صاحب کہتے تھے اور بعض خطوط میں بھی اسی لقب سے مخاطب کیا ہ۔ ان کی تحقیق کا موضوعع فن تعمیر ہے جس میں ان کا مقالہ تاج محل پر موجودہے۔ دسمبر 1928ء ٭Foreward مرقع چغتائی Lahore 21 July 1928 ٭٭ خطوط اقبال رفیع الدین ہاشمی ص 31 میں علامہ نے مدراس کا جو سفر کیا تھا اس میں عبداللہ چغتائی آپ کے ساتھ تھے۔ 4۔ جاوید نامہ: مجموعہ جاوید نامہ پہلی مرتبہ 1932ء میں شائع ہوا اس میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے پیر رومی کے ساتھ افلاک کی سیر کی ہے مختلف سیاروں میں ارواح اور ملائک سے ملاقات کی ہے۔ اور مختلف اہم مسائل پر ان سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ سیر افلاک کا موضوع نیا نہیں۔ صوفیائے کرام میں سے اکثر کے یہاں اس کا ذکر ملتاہے ۔ علامہ اقبال عطیہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’گزشتہ رات میں خواب میں بہشت گیا لیکن جہنم کے دروازوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔ میں نے محسوس کیا کہ دوزخ تو سردی کے لحاظ سے ایک فرفستان ہے۔ دوزخ کے ارباب اختیار نے میری حیرت کو بھانپ لیا اور کہا کہ اس مقام کی فطرت توحد درجہ بارد ہے لیکن اس سے گرم تر مقام فہم و گمان سے بالا تر ہے۔ کیونکہ اس کے گرمانے کے لیے ہر شخص اپنا ایندھن ساتھ لاتا ہے‘‘۔ بعض مکاتیب سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ سیر افلاک پر موجودہ قلمی اور مطبوعہ تحریروں کی علامہ کو جستجو رہتی تھی۔ واقعہ معراج ان کے پیش نظر تھا۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ان کے پیش نظر تھے۔ دراصل یہ سلسلہ اس ارتقائے روحانی کا تھا جسے علامہ حیات کی ارتقائی منازل میں شمار کرتے تھے علامہ سیر میں ہندو سادھو سے بھی ملاقات ہوتی ہے گوتم بدھ‘ زرتشت ‘ ٹالسٹائی سے تذکرہ ہے۔ جمال الدین افغانی‘ سعیدحلیم پاشا کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ اقبال نامہ جلد 2 ص 13۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روحوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ فرعون اور کچز مہدی اور سوڈانی کی ارواح بھی نظر آتی ہیں۔ حلاج غالب اور قرۃ العین سے ملاقات ہوت ہے ابلیس بھی نظر آتا ہے ۔ ماورائے افلاک پر نطشے سے ملاقات ہوتی ہے۔ جنت الفردوس میں شرف النسا کا قصر نظر آتا ہے۔ جو تیغ اور قرآن کی محافظ تھی۔ سید علی ہمدانی ملا غنی کشمیری بھی ملے تھے اور بھرتری ہری بھی۔ وہاں سے سلاطین مشرق کی طرف رجوع ہوتے ہیں جن میں نادر شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو شہید شامل ہیں۔ اس کے بعد جاوید نامہ کا وہ حصہ ہے جو نئی نسل سے خطاب ہے اور تعلیمات اقبال کا خلاصہ ہے۔ اقبال کے فلسفہ و فکر اور ان کے فن شاعری کے مطالعے میں جاوید نامہ کی ایک بنیادی حیثیت ہے۔ ٭ 5۔ یہ غزل بال جبریل میں اس طرح موجود ہے۔ : ٭٭ اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں ٭ منجملہ اور تبصروں میں دیکھیے: جاوید نامہ از اسلم جیراج پوری ‘ مشمولہ اقبال معاصرین کی نظر میں مرتبہ سید وقار عظیم مجلس ترقی ادب لاہور 29دسمبر 1973ء ص ۳۱۴ و بعد۔ ٭٭ بال جبریل طبع بستم 1975ء لاہور ص 14۔ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں کہہ گئی راز محبت پردہ داری ہائے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں ٭٭٭ اقبال کے ہاں ایک شام: ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے پی ایچ ڈی 1۔ پروفیسر عبدالواحد: اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کے استاد تھے اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نیازم ندوں میں تھے سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ اد ب کے علاوہ تصوف اور تاریخ و تہذیب اسلامی سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کی شاگردی کا بھی شرف ملا تھا۔ اسلامیہ کالج میں پروفیسر حمید احمد خان‘ ڈاکٹر سعید اللہ اور عبدالواحد صاحب کا ایک حلقہ تھا جن میں مذاق طبیعت مشترک تھا۔ اور تینوں علامہ سے عقیدت رکھتے تھے۔ اور اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ 2: منیرہ : (ولادت : 1930ئ) علامہ کی صاحبزادی جاوید اقبال اور منیرہ سے علامہ کو جو محبت اور لگائو تھا اس کا اندزہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ اب میں صڑف جاوید اورمنیرہ کی خاطر زندہ ہوں۔ یہ آکر زمانہ علامہ کے لیے آلام جسمانی و روحانی کا دور تھا۔ وہ خود بیمار تھے اور گلے کی بیاری کا کوئی علاج کامیاب ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ اسی میں علامہ اقبال کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا اور جاوید اور منیرہ کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ علی گڑھ سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی سفارش پر ایک جرمن خاتون جو علی گڑھ میں ایک استاد ڈاکٹر اصغر سید (شعبہ نباتیات) کی ہمشیرہ نسبتی تھیں بطور گورنس تقرر کیا۔ علامہ اس تقرر سے بہت مطمئن تھے اور انہوںنے لکھا ہے کہ اس خاتون نے بچوں کے علاوہ گھر کی دیکھا بھال کا کام بھی سنبھال رکھا ہے۔ شروع میں منیرہ اس خاتون سے مانوس نہ تھیں کہتی تھیں کہ لوگ اس کے ساتھ باہر دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ میم کی لڑکی ہے۔ بہ ہر حال اس نیک سیرت خاتون نے علامہ کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی جاوید اور منیرہ کی دیکھ بھال بڑی ذمہ داری سے کی ۔ ٭ 3۔ حکیم محمود خان دہلوی: دہلی کے طبیبوں کے مشہور شریفی خاندان کے نامور فرزند انہوںنے طب کو حیات نو بخشی بالعموم امرا اور نوابوں کے معالج تھے۔ لیکن ان کا دروازہ عوام کے لیے بھی ہر وقت کھلا تھا۔ علامہ اقبال ڈاکٹروں سے زیادہ طبیبوں کے قائل تھے اور انہوںنے اپنے ذاتی تجربے کی بہت سی مثالیںحکیم اجمل خان حکیم نور الدین صاحب وغیرہ کی بیان کی ہیں۔ 4۔ حکیم نور الدین: حکیم نور الدین قادیانی تھے اور علامہ نے قادیانیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن خود ان کے بڑے بھائی قادیانی تھے۔ اور حکیم نور الدین صاحب سے علامہ کے تعلقات ایسے تھے کہ ایک مرتبہ انہیں بارہا علامہ نے حکیم صاحب سے اپنی والدہ او ر خود اپنے لیے مشورہ کیا ہے۔ 5۔ مولوی میر حسن: علامہ اقبال کے استاد تھے۔ تاریخ ولادت 8اپریل 1844ء اور وفات 25ستمبر 1929ء کو ہوئی۔ ان کے والد سید محمد شاہ تھے جو خود ایک عالم تھ۔ ابتدائی تعلیم ان سے اور مولانا شیر محمد سیالکوٹی سے حاصل کی۔ اسکاچ مشن کالج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ مئے لالہ فام جاوید اقبال طبع اول 1966ء اقبال ایک باپ کی حیثیت سے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیالکو ٹ میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے مکاتیب میں ان کا ذکربڑے احترام سے کیا ہے اور ہر جگہ ان کا نام بڑی عقیدت سے اور احترام سے لیا ہے۔ بانگ در ا میں التجائے مسافر کے عنوان سے جو نظم ہے جو حضرت نظام الدین اولیاؒ محبوب الٰہی کے مزار پر انگلستان روانگی کے وقت پڑھی تھی اس میں یہ اشعار مولوی صاحب کی تعریف میں ہیں: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو جب حکومت کی طرف سے علامہ کو خطاب دینے کی تجویز ہوئی تو علامہ نے فرمایا کہ پہلے ان کے استاد مولوی میر حسن صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے اور یہ کہ مولوی صاحب کو اس خطب کے وصول کرنے کے لیے لاہور آکر گورنر کے سامنے حاضری سے معاف رکھا جائے۔ چنانچہ یہ انعام شمس العلماء مولو ی میر حسن صاحب کی طرف سے ان کے صاحبزادے نے وصول کیا۔ نہایت غیرت مند قانع اورراضی برضائے الٰہی انسان تھے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اسوہ رسولؐ پر صحیح معنوں میں اگر کسی شخص کا عمل ہے تو وہ مولانا سید میر حسن ہیں۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کا ایک مختصر خاکہ روزگار فقیر ص 204تا 209 میں ملتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6۔ چوہدری محمد حسین: چوہدری محمد حسین بھارنگی سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ۔ اسلامیہ کالج لاہور میں چوہدری رحمت علی جن کی شہرت لفظ پاکستان کے خالق کی حیثیت سے ہے۔ کے ہم جماعت تھے اور 1916ء کے قریب علامہ کے یہاں آنا جانا شروع کیا ۔ آگے چل کر محمد حسین صاحت علامہ کے قریب ترین احباب میں شمار ہوئے ان کی کتابوں کی طباعت و اشاعت کا انتظام کرتے۔ علامہ نے انپے انتقال کے بعد وصیت کی کہ میں جن لوگوں کو بچوں کا نگران اور ولی مقرر کرتا ہوں ان میں چوہدری امیر حسین بھی تھے شاعر تھی لیکر ظاہر ہے علامہ کی شاعری کے سامنے یہ چراغ کیا جلتا۔ دورہ مدراس میں بھی شریک سفر تھے۔ ٭ 7۔ حدیث ’دہر کو برا مت کہو‘‘ حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں: لا تسبو الدھر فان اللہ ھو الدھر (مسلم جلد ۲ص ۲۳۱) علامہ اقبال نے اسرار خودی میں خود اس حدیث کا حوالہ دیا ہے: زندگی از دہر و دہر از زندگی لا تسبو الدھر فرمان نبی است ٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ چوہدری محمد حسین صاحب کے بارے میں ایک مفصل مضمون ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے دیکھیے مئے لالہ فام محولہ بالا۔ ٭٭ اصل عبارت بحوالہ مسلم جلد 2ص 231ولسان العرب المجلہ الرابع طبع بیروت 1955ء صفحہ 292ومنتہی الارب مطبع سرکاری لاہور جلد 2ص 7 سنہ ندارد۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال نے تصور زمان و مکان پر تفصیلی بحث اپنے خطبات میں کی ہے ۔ بعض مکاتیب میں اشارے ہیں اور اپنی شاعری میں بھی۔ اس کا ایک اچھا تجزیہ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے اپنے مقالہ اقبال کا تصور زمان و مکان میں پیش کیا ہے۔ طبیعی زمان و مکان جس میں عقل انسانی چکر لگاتی ہے اصل حقیقت نہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں: خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ ٭٭٭ ہستی و نیستی از دیدن و نادیدن من چہ زمان و مکان شوخی افکار من است علامہ کے نزدیک اصل حقیقت زمان و مکان کی طبیعی زمان مکان سے ظارہ نہیں ہوتی۔ زندگی ے زمان مسلسل تغیر و حرکت کا نام ہے اور یہ ارتقا کا وہی تصور ہے جس کا ذکر علامہ نے رومی کے حوالہ سے بھی کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ زمان یا وقت اس حقیقت آخری کا ایک لازمی جزو ہے۔ عد لیل و نہار کا اسیر اور روزگار دل حر میں یاوہ گردد عبد گردد یاوہ در لیل و نہار در دل حر یاوہ گردد روزگار ٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ڈاکٹر رضی الدین صدیقی مجلس ترقی ادب لاہور 29دسمبر 1973ء طبع اول ص 83 تا135۔ ٭٭ اسرار خودی و رموز بے خودی ص 82۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8۔ وقت کے اس تصور کی بحث کے لیے دیکھیے منجملہ اور ماخذ کے ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کا مقابلہ اقبال کا تصور زمان و مکان و دیگر مضامن شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ 9۔ اس بیان سے یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال مطلق تصوف کو ناپسند کرتے تھے یہ بحث ان کی زندگی میں ہو چکی ہے اورانہوںنے صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ ان کی پرورش اور نشوونما ایک ایسے گھرانے اور ماحول میں ہوئی ہے جس کا مذاق عارفانہ ہے اکابر صوفیہ کو جن میں مولانا جلال الدین رومی سرفہرست ہیں وہ اپنا پیر ومرشد اور بادی و رہنما جانتے اور مانتے ہیں۔ خود سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں اور اپنے صاحبزادے کو بھی بیعت کرانا چاہتے ہیں تاک ہان کے مزاج کی وارستگی میں کچھ قابو آئئے حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت علی الہجویری داتا گنج بخش کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ور ان سے استمداد کرتے ہیں ہاں علامہ اس تصوف کے مخالف ہیں اور جس میں غیر اسلامی عناصر شامل ہیں یا جو طریقت کا لبادہ اوڑھ کر شریعت کو ترک کرنے کا نام تصوف رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک اسلامی تصوف کی اساس قرآن حکیم احادیث نبوی‘ سیرت صحابہ اور صوفیائے کرام کی پاک زندگی میں ملتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے منجملہ اور ماخذات کے راقم مقالہ ہذا کی کتاب اقبال اور مسلک تصوف سلسلہ مطبوعات جشن صد سالہ تقریبات علامہ اقبال 1977ء اقبال اکیڈ می دیکھیے۔ 10۔ قول انا الحق منصور حلاج سے منسوب ہے جسے اس قول کی بنا پر قتل کیا گیا۔ ان کے نعرہ انا الحق کی بنا پر خود صوفیائے کرام میں ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض ان کو مہجور کہتے ہیں لیکن بعض جن میں شیخ ابو سعید اورابوالخیر اور حضرت علی الہجویری بھی شامل ہیں ان کی بزرگی کی تعریف کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ منصور کا نعرہ غلبہ شوق جذب و مستی کے عالم میں تھا کہ حقیقت کا جب انکشاف ہوا تو وہ اسے ضبط نہ کر سکے۔ ابتدا میں علامہ اقبال بھی وحدت الوجود کے ولم بردار ہونے کی وجہ سے منصور کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا تصوف بھی وحدت الوجودی اور زوال کی نشانی ہے۔ اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کون تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میںنے جو کچھ لکھا ہے وہ نئی بات نہیں حضرت علاء الدولہ سنجانی لکھ چکے ہیں حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں تو محی الدین اورم نصور ھلاک کے معتلق وہ الفاظ نہیںلکھے جو حضرت سنجانی اور جنید نے ان دونوں بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔ ہاں ان کے عقائد اور خیالات سے بیزاری ظاہر کی ہے۔ اگر اسی کا نام مادیت ہے تو قسم بخدائے لایزام مجھ سے بڑھ کر مادہ پرست دنیا میں کوئی نہ ہو گا‘‘۔ لیکن بعد میں جب منصور حلاج کے متعلق تحقیق ہوئی اور بالخصوص فرانسیسی مشتشرق میسی نیان نے حلاج کے متعلق نیا دستاویزی مواد شائع کیا تو بقول علامہ معلوم ہوا کہ ان کے قول انا الحق سے مرادیہ نہ تھی کہ وہ خدا کے ساتھ متحد ہو گئے بکہ یہ کہ وہ تخلیق حق Creative Truthتھے۔ ان کے بعض اقوال سے واضح ہوتا ہے ۔کہ وہ خدا کی ورائیت کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک انسانی خودی وہ قطرہ حقیر نہیںجو انجام کار دریا میں مل جائے بلکہ وہ قطرہ ہے جو اپنی ہستی کو زیادہ پائیدار صوت میں استوار کرے اور اس بات کا اقرار کرے کہ اس کی ہستی حق ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے علامہ کے خیالات کے لیے دیکھیے: Reconstruction of Religious Thought in Islam. یا اردو ترجمہ بہ عنوان خطبات اقبال تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ترجمہ سید نذیر نیازی اور ضرب لیم کے یہ دو شعر پیش نظر رکھیے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش٭ 11۔ ارتقا: ارتقا یا Evolution سے غالباً استفسار کرنے والے کا اشارہ اس حیاتیاتی یا Biological ارتقا کی طرف تھا جو نظریہ ڈارون سے منسوب ہے۔ علامہ نے اسے پسندیدہ کہا اور فرمایا کہ اسے اصلیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ ارتقا کی ان کڑیوں کا حوالہ اقبال کے پیر و مرشد مولانا روم کے یہاں بھی ملتا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں: آمدہ اول بہ اقلیم جماد از جمادی در نباتی اوفتاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ضرب کلیم طبع جنوری 1976ء شیخ غلام علی اینڈ سنز ص 118۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالہا اندر نباتی عمر کرد وز جمادی یاد ناورد از نبرد وز نباتی چوں بحیواں اوفتاد نامدش حال نباتی ہیچ یاد جز ہماں میلے کہ دارد سوئے آں خاصہ در وقت بہار و ضمیراں باز از حیوان سوئے انسانیش میکشد آں خالقے کہ دانیش ہم چنیں ز اقلیم تا اقلیم رفت تا شد اکنوں عاقل و دانا و زفت خود علامہ کے یہاں ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ابھی ناتمام ہے: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون یہ عمل کن فیکون ارتقا کی مختلف منازل کی نشان دہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ارتقا محض نباتیاتی Vegetativeیا محض حیاتیاتی Biologicalنہیں اور نہ اس کا مقصد محض بقائے اصلح کے لیے جدوجہد ہے بلکہ علامہ کے نزدیک اصل ارتقا نقطہ خودی کی ہے کہ جو اصل حیا ت ہے۔ اس کی حرکت اور مسلسل ارتقا کا ایک شاعرانہ بیان ساقی نامہ میں ہے اس کے یہ اشعار دیکھئے*: ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر ..................... .................... خودی کی یہ ہے منزل اولین مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا *بال جبریل ص129-128 بعض مغربی فلاسفہ کے یہاں بھی اس تخلیقی عمل کے جاری رہنے کا تصور ملتا ہے، مثلاً ہیگل۔ 12۔ مولانا وحید الدین سلیم پانی پتی: ولادت 1867ء یا1869ء میں پانی پت میں ہوئی۔ کچھ عرصہ لاہور میں رہ کر مولوی فیض الحسن اور مولوی عبداللہ ٹونکی جیسے یگانہ روزگار اساتذہ سے درس لیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کے لٹریری اسسٹنٹ تھے اور رسالہ معارف علی گڑھ سے نکالتے تھے جس کا شمار اس دور کے اعلیٰ مذاق کے ادبی پرچوں میں ہوتا تھا۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، مسلم گزٹ کانپور، زمیندار لاہور کی ادارت سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور آخر زمانہ تک اسی پر فائز رہے۔ 29جولائی 1928ء کو ملیح آباد میں وفات پائی۔ اعلیٰ درجے کے ادیب اور انشا پرداز تھے بالخصوص لسانی مسائل میں بڑی نظر رکھتے تھے۔ وضع اصطلاحات علمیہ ان کی مشہور تصنیف ہے جس میں اردو زبان کے آریائی خاندان کے مشترک اصولوں کی بحث کر کے اردو میں جدید علوم و فنون کی اصطلاحات وضع کرنے کے ضابطے اور مثالیں بیان کی ہیں۔ شعر بھی کہتے تھے اور مجموعہ کلام افکار سلیم کے نام سے 1938ء میں شائع ہو چکا ہے۔ 13۔ قرآن حکیم میں جن کے لفظ کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ جن سے مراد جنگلی، صحرائی اور وحشی لوگ ہیں اور ان کے مقابلہ میں انس سے مراد شہری لوگ ہیں۔ سرسید احمد خان نے بھی اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اور اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف خیالات بھی پیش کیے ہیں۔* سرسید نے لکھا ہے کہ قرآن حکیم میں سورۂ کہف، سورۂ حجر اور سورۂ رحمن میں ’’ جن‘‘ یا’’ جان‘‘ سے مراد شیطان ہے، کہ جس کو ’’ نار‘‘ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو مٹی یا کیچڑ سے۔ عرب جاہلیت، متوسطین یہودیوں اور مجوسیوں کا بھی یہ خیال تھا کہ ماورائے انسان ایک اور مخلوق بھی ہوائی ناری ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔ سرسید آگے چل کر لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں پانچ مقام ایسے ہیں جن میں جن کا لفظ بمعنی مزعوم اور مظنون عرب جاہلیت کے آیا ہے۔ عرب جاہلیت جنوں کی مختلف قسمیں سمجھے تھے۔ اس کے بعد سرسید کے الفاظ یہ ہیں: ’’ ان آیتوں کے سوا جہاں قرآن مجید میں لفظ جن آیا ہے اس سے وحشی اور جنگلی انسان مراد ہیں، جو شہروں سے دور اور جنگلوں و پہاڑوں اور ویران میدانوں میں چھپے رہتے تھے جس کے سبب سے ان پر جن کا اطلاق ہوتا تھا۔‘‘ اس کے بعد سرسید نے اشعار جاہلیت اور دیگر لسانی حوالوں سے اس خیال کی تائید کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کوئی ان کا اپنا خاص خیال نہیں، ان کے علاوہ بعض اور مفسرین نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ اس کے بعد سرسید نے قرآں حکیم اور احادیث میں اس لفظ کے حوالوں سے نہایت تفصیل سے بحث کی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ خیال اس بحث سے الگ ہے کہ ایک ایسی مخلوق ممکن ہے جو ہم کو نظر نہ آتی ہو۔ انہوں نے درست لکھا ہے کہ بہت سے رنگ ایسے ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتے، اسی طرح *مقالات سرسید حصہ دوم۔ تفسیری مضامین، مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب، لاہور۔ طبع اول 1961ئ، ص150و بعد ماہرین صوتیات جانتے ہیں کہ اسی طرح انسان کی حد سماعت کی بھی حدود ہیں کہ ایک حد سے نیچے یا اوپر کی رفتار فی ثانیہ دوریہ لہریں اس حلقہ سماعت سے باہر ہیں۔۔۔۔ جس طرح کی مثالیں علامہ نے بیان کی ہیں۔ صوفیائے کرام کے یہاں اس کی تائید میں بکثرت مثالیں مل سکتی ہیں: 14۔ امام مہدی: اس باب میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر واضح ہے۔ وہ مہدی موعود کے تصور کو تسلیم نہیں کرتے اور حضر ت مسیح کی آمد ثانی کو مانتے ہیں۔ غالباً اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اقبال کے اپنے فلسفہ عمل سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ یہ جو عام لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی مہدی یا مسیح موعود تشریف لائیں گے اور عصر حاضر کے سارے مسائل کو حل کر دیں گے صرف اس بناء پر ہے کہ لوگ خود ان حالات کا مقابلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کم ہمتی اور بے عملی کو اس عقیدہ سے تقویت پہنچاتے ہیں۔ 15۔ شوپنہار: مشہور جرمن شاعر (1788ء تا1860ئ) جو عام طور پر ایک قنوطی فلسفی کی حیثیت سے مشہور ہے ’’ کائنات بہ حیثیت ارادہ و خیال ہے‘‘ (World as will and Idea) یہ 1819ء میں شائع ہوئی تھی۔ بنیادی طور پر شوپنہار کا خیال ہے کہ دنیا ارادے کی ایک شکل ہے اور ہر چیز اسی تعقل کے محور پر گردش کر رہی ہے اور اسی لیے ہم کشمکش سے دو چار رہتے ہیں۔ علامہ نے بڑے اختصار سے ما بعد الطبیعیات کے ارتقا میں ایک جملے میں شوپنہار کے نظریے کا خلاصہ یوں پیش کیا ہے*: * The Development p. 146 Schopenhauer conceived reality as will which was driven to objectification by a sinful bent eternally existing in its nature..... but schopenhauer postulates certain temporal ideas in order to account for the objectification of the primordial will. 16۔ نادر خان: علامہ کے نزدیک نادر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کی ملی تحریک کے علمبردار تھے۔ خود ایک مجاہد تھے اور یہی دو صفات علامہ کی ان کی عقیدت کا سبب ہیں۔ علامہ کے بیان کردہ اس واقعہ سے سراغ ملتا ہے کہ ان کے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے اور ظاہر ہے اسلامی ملکوں بالخصوص ایران، افغانستان اور ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات اور ملت اسلامیہ کے مسائل ایسے تھے جن سے ان تمام ہمسایہ ممالک کی گہری دلچسپی ایک قدرتی امر ہے۔ افغانوں او رایران میں بیداری سے علامہ بڑے متاثر تھے اور ان کے کلام میں اس کے آثار جا بجا ملتے ہیں۔ جاوید نامہ جب ’’ حرکت بہ کاخ سلاطین مشرق‘‘ کا مرحلہ آتا ہے بزم درویشاں سے گزر کر کاخ سلاطین تک رسائی ہوتی ہے ۔ جہاں نادر، ابدالی اور سلطان شہید (ٹیپو) کا مسکن ہے۔ نادر کے متعلق فرماتے ہیں: نادر آں دانائے رمز اتحاد با مسلمان داد پیغام و داد* 17دیوان مومن: حکیم مومن خاں مومن مرزا غالب کے ہم عصر، اردو غزل کی تاریخ میں منفرد عاشقانہ رنگ کے استاد۔ ولادت *جاوید نامہ ص172-171 1215ھ 1800ئ، وفات1268ھ مطابق1852ئ۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں کشمیر سے آ کر دہلی میں بس گئے اور شاہی طبیبوں میں داخل ہو گئے۔ خاندان کو شاہ عبدالعزیزؒ سے عقیدت تھی۔ انہیں کے مدرسے سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ شاہ عبدالقادرؒ صاحب سے عربی کی کتابیں پڑھیں۔ پیشہ طب کا مومن نے بھی اختیار کیا لیکن ان کی شہرت کا دار و مدار ان کی شاعری پر ہے۔ اردو کلیات سب سے پہلے نواب مصطفی خان شیفتہ نے 1243ھ میں جمع کیا اور اس پر دیباچہ لکھا جو 1264ھ 1846ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس کے بعد مختلف حضرات نے دیوان مدون کر کے شائع کیا۔ دور حاضر میں ایک اچھا نسخہ مولانا ضیاء احمد بدایونی نے 1943ء میں علی گڑھ میں مرتب کیا جو الہ آباد سے شائع ہوا۔ انہوں نے قصائد مومن بھی شائع کیے۔ دیوان پر ان کا مقدمہ مطالعہ مومن میں ایک اہم دستاویز ہے۔ مجلس ترقی ادب نے کلیات مومن دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اسے کلب علی خاں فائق نے مرتب کیا۔ 1964ء میں شائع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ مومن کے یہاں اردو میں خالص تغزل کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ یعنی مضامین عاشقانہ ہیں اور ہجر و وصال کی باتیں ہیں۔ انداز ان کا پہلو دار ہے جس سے کلام میں نزاکت پیدا ہو گئی ہے۔ ناقدین نے لکھا ہے کہ جرأت کی طرح ان کے یہاں بھی معاملہ بندی کے مضامین بہت ہیں لیکن جرأت بوجہ اپنی کم علمی کے کھل گئے ہیں۔ مومن کے پہلو دار اسلوب نے ان کی پردہ داری کر لی ہے۔ حکیم مومن خاں اس تحریک جہاد سے بھی متاثر تھے جو سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ اور سید اسمعیل شہید نے شروع کی تھی اور ان کے کلام میں تحریک جہاد پر اشعار موجود ہیں۔ جن میں انہوں نے سید صاحب ا ور ان کی تحریک کی تعریف کی ہے اور خود بھی جہاد میں شریک ہونے کا اظہار کیا ہے۔* علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جو شعر پسند کیا ہے وہی ہے جس پر مرزا غالب اپنا دیوان نثار کرنے کو تیار تھے۔ ٭٭٭ *تفصیل کے لیے دیکھئے، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ڈاکٹر معین الدین عقیل مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، 1976ء ص234-233 علامہ اقبال سے ایک ملاقات: حمید احمد خاں 1مہر:مولانا غلام رسول مہر، شہرت کا آغاز روزنامہ زمیندار کے شعبہ ادارت سے ہوا۔ بعد میں انقلاب نکالا جس میں ان کے رفیق کار عبدالمجید سالک بھی تھے۔ مولانا مہر کو تاریخ، بالخصوص تاریخ اسلام اور مسلمانوں کی تحریکات سے بڑی دلچسپی تھی۔ انقلاب میں بھی ابتدائی دور میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد میں بڑا حصہ لیا اور نہرو رپورٹ وغیرہ کے خلاف کھل کر لکھا۔ علامہ اقبال سے بہت گہرے اور قریبی روابط تھے۔ یورپ کے سفر میں اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ تھے اور فلسطین میں موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں بھی علامہ کے ساتھ تھے۔ ان تعلقات کا اندازہ ان خطوط سے بھی ہوتا ہے جو علامہ نے مرہ صاحب کے نام لکھے ہیں۔ 2مولانا عبدالمجید سالک 13دسمبر1894ء کو پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ 27ستمبر1959ء کو مسلم ٹاؤن لاہور میں وفات پائی۔ مولانا مہر اور سالک ہم مشرب، ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔ دونوں زمیندار میں ساتھ رہے۔ 1927ء میں دونوں نے زمیندار سے الگ ہو کر انقلاب نکالا۔ سالک صاحب اس میں افکار و حوادث کے نام سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے اور اداریہ عام طور پر مہر صاحب لکھتے تھے۔ یہ ساتھ آخر دم تک قائم رہا۔ مسلم ٹاؤن لاہور میں دونوں نے مکان بھی پاس پاس بنائے تھے۔ اعلیٰ درجے کے شاعر اور ادیب تھے۔ علامہ اقبال کے مداحوں میں ہیں۔ ذکر اقبال اس سلسلے کی ایک تصنیف ہے جو لاہور سے 1955ء میں شائع ہوئی۔ 3۔ اجلاس لکھنو: اس اجلاس کا کچھ حال پہلے لکھا جا چکا ہے۔ علامہ اقبال اس زمانے میں پنجاب میں مسلم لیگ کے عہدہ دار تھے اور قائد اعظم سے اس موضوع پر ان کی خط و کتابت بھی ہوئی تھی۔ اس مجوزہ میثاق کے بارے میں علامہ کو بجا طور پر خدشات تھے۔ 4مدیران انقلاب: یعنی مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک صاحبان۔ 5ناصر علی: ناصر علی، سرہند کے رہنے والے تھے۔ کچھ عرصہ الہ آباد میں صوبہ دار سیف خان کے ساتھ رہے، پھر سرہند واپس چلے آئے۔ بیجا پور او رکرناٹک میں بھی مختصر قیام رہا۔ آخری ایام دلی میں بسر ہوئے۔ 1697ء 1108/ھ میں انتقال ہوا*۔ ایک مثنوی اور ایک دیوان ان سے یادگار رہے۔ ان کا شمار فارسی کے ان باکمال شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے صناعی اور لفظی کاریگری کو اپنا فن بنایا اور اس کے نتیجہ میں متقدمین کی سادگی اور سلاست کا خاتمہ ہو گیا۔ ان کے پاس لے دے کر یہی لفظی صنعت گری ہے یا جدت ادا جس سے انہوں نے اپنی دوکان سجائی ہے۔ 6فنون لطیفہ کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنے نظریہ کی وضاحت نظم و نثر میں کی ہے۔ لیکن یہ ماننے میں تامل ہے کہ * Beals: Oriental Biograpbical Dictionary p.206 فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ مصوری کی جگہ خطاطی کو مسلمانوں نے فن کی جو وہ حیثیت بخشی اس کی ایک مثال ہے۔ 7مسجد قوۃ الاسلام: دہلی کی یہ مشہور ناتمام مسجد قطب مینار سے ملحق ہے۔ اسے قطب الدین ایبک نے 1193ء میں تعمیر کرایا اور برعظیم میں اسلامی طرز تعمیر کا قدیم ترین نمونہ ہے۔ یہ ابتدائی دور کی اسلامی تعمیرات میں ایک نادر نمونہ ہے۔ مسجد کی موجودہ حالت (1947ء کے قریب) زیادہ اچھی نہ تھی، لیکن علامہ کا یہ احساس درست تھاکہ اس کو دیکھ کر قوت و جلال کا اثر طاری ہو جاتا ہے۔ ضرب کلیم میں علامہ نے اس مسجد پر ایک نظم لکھی ہے *: ہے مرے سینہ بے نور میں اب کیا باقی لا الہ مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود! چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو کہ ایازی سے دگر گوں ہے مقام محمود! کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود! ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز جس کی تکبیر میں ہو معرکہ بود و نبود! *ضرب کلیم ص15 اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز بے تب و تاب دروں میری صلواۃ اور درود! ہے مری بانگ اذاں میں بہ بلندی نہ شکوہ کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟ 8قصر زہرا: عبدالرحمان ثالث (961-912ئ) نے قرطبہ کے قریب مدینتہ الزہرا کے نام سے ایک محل تعمیر کرایا تھا۔ اس کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس کی چار دیواری میں پندرہ ہزار دروازے تھے۔ شاہی باغات اور محلات کے علاوہ سرکاری ملازمین کے رہنے کے لیے مکانات بھی بنائے گئے تھے۔ اس کی تعمیر پر ایک کروڑ پچاس لاکھ دینار سرخ خرچ ہوئے تھے۔ اس کا طول چار میل اور عرض تین میل تھا اور پچیس سال کی مدت اس کی تعمیر میں لگی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس نادر قصر کے دیکھنے کو دور دور سے سیاح آتے تھے اور اسے خلافت اندلس کی شان و شوکت اور عظمت و بزرگی کا نشان سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے بعد اس قصر کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ رہے نام اللہ کا۔ 9مسجد قرطبہ: اس مسجد کو ماہرین نے اسلامی فن تعمیر کا نادر ترین نمونہ قرار دیا ہے*۔ روایتی عرب مساجد کے نمونے پر مبنی اس مسجد میں ابتدا صرف ایک مستطیل صحن تھا۔ جس کا بڑا حصہ کھلا ہوا اور ایک حصہ چھت دار تھا، عبدالرحمن اول کی * The world of Islam-Architecture, ceramics, Paintings, rugs metal work, carving-Ernst. J. Grube-Paul Hamlyn. London IInd. Ed 1966, p.47 بنا کر اس مسجد میں چار مرتبہ توسیع ہوئی۔ عبدالرحمن ثالث نے اس میں ایک بلند مینار کا اضافہ کیا۔ یہ 950ء کا واقعہ ہے لیکن اہم ترین اضافہ حکم کے دور میں ہوا جس نے سات دالانوں کا اضافہ کیا۔ المنصور کے عہد میں صحن اور عمارت دونوں میں مزید توسیع ہوئی۔ دوہری اور تہری محرابوں، قبوں کے علاوہ آرائش میں فن اپنے انتہائی کمال پر پہنچا ہوا ہے۔ ایک مبصر*کا بیان دیکھئے: "The Lavish architectural design, the dreation of the double and triple-arch ardace, the extra-ordinary versality in decorating the surfaces of the arches and niches, the mihrab and the cupala of the Cappella del mihrab with stucco and mosaics, the variety of designs employed and the perfect equilibrium between the richness of the detail and the tranquility of the total effect, is perhaps unparalleled in early islamic art." کہا جاتا ہے کہ صرف عبدالرحمن نے اس مسجد کی تعمیر پر دو لاکھ سکہ طلائی خرچ کئے تھے۔ اس میں شمالاً جنوباً انیس محرابیں اور شرقاً غرباً اڑتیس محرابیں تھیں۔ ڈیڑھ من پختہ عود و عنبر و لوبان مسجد میں جلتا تھا اور محراب مسجد میں سونے کا چراغ دان تھا۔ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو یہ مسجد اذان سے محروم ہو گئی۔ اقبال نے اس کا ذکر کیا ہے۔ 10 الحمرا: قصر الحمرا کے متعلق ماہرین فن کی رائے دیکھئے**: *ایضاً **ایضاً ص112 "In Its intricate succession of rooms and courts, constantly changing direction, the richess of the surrounding arcades, water badins and water courses that penetrate in to the interior of the buliding. and with multitude of fountains, the alhambra palace is like a splendid Oasis remote from the reality of this world. this effect is specially emphasised through the contrast between an almost entirely undecorated exterior and the unparalleled richness of the interior. in the alhambra the fungamental elements of Islamic architecture and bisic ideas of architectural design and decoration, developed over many centuries, formed their highest from of realisation. in this sense the alhambre is probably the most perfect piece of Islamic Architecture. قصر الحمرا کی تعمیر یوسف اول (1333-53ئ) اور محمد خامس (1353-91ئ) کے عہد میں ہوئی۔ سرخ پتھر کے استعمال کی بناء پر اسے الحمرا کا نام دیا گیا۔ 11۔ دہلی کی جامع مسجد: دہلی کی جامع مسجد کو شاہجہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ شاہ جہاں اور دوسرے مغل بادشاہوں، شاہزادوں اور امیروں وزیروں نے برصغیر میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مسجدیں تعمیر کرائیں مگر ان میں سے بعض بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، مثلاً دلی کی مسجد قوۃ الاسلام، قطب مینار جس کا ایک مینار ہے، یا لاہور کی شاہی مسجد جسے اورنگ زیب نے تعمیر کرایا تھا اور یہ دہلی کی جامع مسجد جسے سرسید احمد خاں نے آثار الضادید میں ’’ یہ مسجد اقصیٰ اور یہ معبد اعلیٰ‘‘ کہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ میں بھی اہم ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جہاد کا تاریخی فتویٰ یہیں مرتب ہوا اور اسی مسجد سے اس فتوے کا اعلان کیا گیا۔ جب ستمبر1857ء میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو ایک تجویز یہ بھی تھی کہ اس مسجد کو یا تو بالکل مسمار کر دیا جائے یا گرجا گھر میں تبدیل کر دیا جائے لیکن مسلمانوں کی بے بسی، مجبوری اور شکست کے باوجود انگریز ایسا نہ کر سکے اور 1862ء میں مسلمانوں سے تاوان کے بطور روپیہ وصول کر کے مسجد واگزار ہوئی۔ جن حضرات نے یہ رقم مہیا کی ان میں میرٹھ کے ایک رئیس خان بہادر الٰہی بخش بھی تھے۔* یہ مسجد دہلی کے مشہور قلعہ معلی سے ہزار گز کے فاصلے پر مغرب کی جانب ایک پہاڑی پر اس طرح تعمیر ہوئی کہ اس نے پہاڑی کو ڈھک لیا ہے۔ مسجد سنگ سرخ سے تعمیر ہوئی ہے اور اندر سے اجارے تک سنگ مر مر کی اور جا بجا سنگ سرخ اور سنگ مر مر کی دھاریں ہیں۔ سنگ موسیٰ کی پچی کاری ہے۔ یہ مسجد دسویں شوال 1060ھ میں سعد اللہ خاں، دیوان علی اور فاضل خاں خانسامان کے اہتمام سے بنی۔ ہر روز پانچ ہزار معمار اور مزدور اور سنگ تراش اس کی تعمیر میں لگے رہے۔ دس لاکھ روپے کے خرچ سے چھ سال میں مکمل ہوئی۔** *آثار الصنادید، سرسید احمد خاں، مرتبہ ڈاکٹر سید معین الحق پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی، طبع اول 1966ئ، ص161۔ **اس کی تفصیلات پیمائش، محرابوں کے کتبات وغیرہ کے لیے دیکھئے آثار الصنادید، سرسید احمد خان محولہ بالا۔ عمر عزیز کے بہترین لمحے: حفیظ ہوشیار پوری ایم اے 1پروفیسر تبسم:صوفی غلام مصطفے تبسم، اردو، فارسی اور پنجابی کے ممتاز شاعر، فارسی ادبیات کے استاد، ایک طویل عرصہ تک گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فارسی و اردو کے سربراہ رہے۔ پھر جب پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے ایم اے کی تدریس شروع ہوئی تو اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس میں شریک رہے۔ زندہ دل، خوش باش و خوش مزاج، زندہ دلان لاہور کی تصور اعلیٰ درجے کا علمی اور ادبی مذاق رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال سے خاص عقیدت ہے۔ ان کی صحبت کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ اقبال اکیڈمی لاہور کے عہدہ دار بھی ہیں۔ 2 علامہ کا یہ تجزیہ درست تھا کہ تحقیقات کے انتہائی مراحل پر سائنس کا حیرت و استعجاب سے دو چار ہو کر فلسفہ اور روحانیت میں پناہ لینا اس کے اعتراف شکست کی دلیل ہے۔ اس کا واضح ثبوت آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ اقوام یورپ، امریکا، جاپان وغیرہ میں ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی کثرت و شدت اور اس بوجھ سے فرار کے لیے نشہ کا استعمال ہے۔ سماج سے فرار نے ہی وہ طبقہ پیدا کیا جو عام طور پر ہپی کہلاتا ہے۔ اب کچھ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کا علاج مذہب ہے۔ علامہ نے اپنے آخری خطبہ میں جو خطبات کے طبع ثانی لندن میں ہے، مذہب کے اس پہلو سے بحث کی ہے۔ 3غالب اور بیدل: مرزا غالب نے خود بیدل کے اثرات کا اعتراف کیا اور خامہ بیدل کو عصائے خضر صحرائے سخن قرار دیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مرزا بیدل کا جو انداز شاعری تھا اس کی مثال اردو شاعری میں پہلے نہ تھی، اور خود مرزا غالب کو بھی اردو کلام میں یہ انداز نبھاہنا مشکل نظر آیا اور انہوں نے اپنی اردو شاعری کو مجموعہ بے رنگ کہہ کر فارسی کلام کے مطالعہ کی دعوت دی۔ کلیات غالب اب تین جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کر دی ہے (مرتبہ سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی) علامہ اقبال کا خیال تھا کہ کوشش کے باوجود مرزا غالب سے بیدل کی تقلید کا حق ادا نہیں ہوا۔ 4غالب اور بیدل پر حمید احمد خاں صاحب کا مضمون غالباً سالنامہ یادگار میں شائع ہوا تھا۔ 5ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، فلسفی، شاعر، ادیب، نقاد، کشمیر کے ڈار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 1915ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیااور یونیورسٹی میں اول آئے۔ پھر فلسفہ میں ایم اے کیا اور اول آئے، 1925ء میں لندن سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور جامعہ عثمانیہ کے شعبہ فلسفہ سے منسلک ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور چلے آئے اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اقبال اکیڈمی قائم ہوئی تو اس سے بھی تعلق تھا۔ شاعری کا اعلیٰ درجے کا مذاق رکھتے تھے اور خود بھی ایسا شعر کہتے تھے جو حسن خیال اور لطافت بیان کا نمونہ ہوتا۔ علامہ اقبال کے شیدائیوں میں تھے، مرزا غالب کے مطالعے سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ چند تصانیف یہ ہیں: حکمت رومی، فکر اقبال، اسلام کا نظریہ حیات، تشبیہات رومی، اسلام کی بنیادی حقیقتیں، اقبال اور ملا۔ ٭٭٭ یاد ایامـ: خواجہ عبدالوحید 1اس خوش خبری کا ذکر اکثر ملفوظات او رمکاتیب میں ملتا ہے۔ ایک زمانہ میں بہاولپور میں اس کے لیے صورت پیدا ہو رہی تھی، پھر امید تھی کہ شاید حیدر آباد سے کچھ سامان ہو جائے۔ آخر میں سرسید راس مسعود کی محبت، اخلاص اور قدر دانی سے یہ تمنا پوری ہونے کی امید نظر آئی، لیکن راس مسعود مرحوم کے انتقال اور پھر تھوڑے عرصہ کے بعد علامہ کی وفات نے اسے ناتمام ہی رکھا۔ 2۔ یہ خیال علامہ کے محترم اکبر الہ آبادی کا بھی تھا جن کا یہ مصرعہ بہت مشہور ہے۔ کونسل میں بہت سید، مسجد میں فقط جمن علامہ نے شکوہ کے جواب میں بھی انہیں خیالات کا اظہار فرمایا ہے: جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے 3علامہ کا یہ تجزیہ بالکل درست تھا، اس کی تازہ ترین مثال جاپان میں آج کل ملتی ہے۔ مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب میں جہاں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے، اچھے مستقبل اور ملازمت کی تلاش میں جاپانی اسلام قبول کر رہے ہیں۔ 4اسے علامہ کے خیالات کی عام ترجمانی نہیں سمجھنا چاہئے کہ آپ نے فرمایا: I have no faith in women علامہ نے رموز بیخودی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی ہے: گفت با امت ’’ز دنیاے شما دوست دارم طاعت و طیب و نسائ‘‘ ملا علی قاری نے اسے یوں لکھا ہے: حبب الی دنیا کم النساء والطیب و جعلت قرۃ عینی فی نماز (مجھے دنیا کی دو چیزیں محبوب ہیں، عورت اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے) رموز بیخودی میں ہی یہ عنوان بھی ہے: ’’ در معنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ اور اس عنوان کے تحت یہ اشعار ہیں*: نغمہ خیز از زخمہ زن ساز مرد از نیاز او دوبالا ناز مرد پوشش عریانی مرداں زن است** حسن دلجو عشق را پیراہن است عشق حق پروردۂ آغوش او ایں نوا از زخمہ خاموش او آنکہ نازد بر وجودش کائنات ذکر او فرمودہ با طیب و صلوۃ*** اور اس کے بعد عنوان ہے: ’’ در معنی ایں کہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؓ اسوۂ کاملہ ایست برائے نساء السلام ‘‘ اور اگلا عنوان ہے: ’’خطاب بہ مخدرات اسلام‘‘ ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال کے پیش نظر نسوانیت کا بھی ایک کامل نمونہ ہے جس کی ایک مثال *مثنوی اسرار و رموز، ص173 **اشارہ آیت قرآن مجید ھن لباس لحکم وانتم لباس لھن ***یہاں پھر اسی حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے جس کا حوالہ اوپر آ چکا ہے۔ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؓ کی ہے اور شرف النساء بھی ایک خاتون ہیں جن کی شان میں علامہ نے جاوید نامہ میں یہ روح پرور اشعار لکھے ہیں۔ افلاک کی سیر کے بعد جب شاعر اپنے پیر و مرشد کی رہنمائی میں جنت الفردوس کی طرف حرکت کرتا ہے تو اسے ایک ’’ کاشانہ از لعل ناب‘‘ نظر آتا ہے۔ رہبر سے پوچھتا ہے یہ قصر کس کا ہے۔ جواب ملتا ہے شرف النساء کا جو شرف انسانیت اور نازش خواتین ہے، جس کے ہاتھ میں قرآن اور کمر پر تلوار لٹکتی تھی۔ یہ اشعار اس قابل ہیں کہ اس موقع پر نقل کئے جائیں*: گفتم ایں کاشانہ از لعل ناب آنکہ می گیرد خراج از آفتاب ایں مقام، ایں منزل، ایں کاخ بلند حوریاں بر در گہش احرام بند اے تو دادی سالکاں را جستجوے صاحب او کیست؟ با من باز گوے گفت ایں کاشانہ شرف النسا ست مرغ بامش با ملائک ہم نواست قلزم ما ایں چنیں گوہر نزاد ہیچ مادر ایں چنیں دختر نزاد *جاوید نامہ 157-156 خاک لاہور از مزارش آسماں کس نداند راز او را در جہاں! آں سراپا ذوق و شوق و درد و داغ حاکم پنجاب را چشم و چراغ آں فروغ دودۂ عبدالصمد فقر او نقشے کہ ماند تا ابد تا ز قرآن پاک می سوزد وجود از تلاوت یک نفس فارغ نبود در کمر تیغ دو رو قرآن بدست تن بدن ہوش و حواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عمرے کہ رفت اندر نیاز بر لب او چوں دم آخر رسید سوئے مادر دید و مشتاقانہ دید گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآن نگر ایں دو قوت حافظ یکد یگراند کائنات زندگی را محور اند اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود و بس وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیغ و قرآن را جدا از من مکن دل باں حرفے کہ می گویم بنہ قبر من بے گنبد و قندیل بہ مومناں را تیغ با قرآن بس است تربت ما را ہمیں ساماں بس است ایسی ہی ایک اور ایمانا فروز مثال فاطمہ بنت عبداللہ کی ہے۔ وہ عرب لڑکی جو 1912ء میں طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ یہ نظم بانگ درا میں ہے اور اس کا پہلا بند یہ ہے*: فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی *بانگ درا، ص239 یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے یہ البتہ درست ہے کہ عصر حاضر میں بعض خواتین نے آزادی اور برابری کے نام سے جو رنگ پسند کیا ہے اسے اقبال نا مناسب، غیر اسلامی اور نسوانیت کے وقار اور مرتبہ کے منافی سمجھتے ہیں۔ 5علامہ اقبال کی سیاست: جیسا کہ علامہ اقبال کی اس گفتگو سے ظاہر ہے وہ ان معنوں میں سیاست دان نہ تھے جن معنوں میں ہم بعض دوسرے قائدین کو سیاست دان کہتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے وہ اپنے فلسفیانہ اور شاعرانہ مزاج کے ساتھ اس طرح کی سیاسی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ نہیں لے سکتے تھے جس طرح مثلاً مولانا حسرت موہانی یا مولانا ظفر علی خاں نے لیا ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا وہ ہندوستان کے آئندہ سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حیثیت واضح کر دیں۔ چنانچہ الہ آباد کے مشہور مسلم لیگ کے اجلاس کے صدارتی خطبہ میں انہوں نے مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل آزاد مسلم مملکت کے قیام پر اسی لیے زور دیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اس بات کا خطرہ تھا کہ مسلمانان برعظیم دوسری اقوام میں مدغم نہ ہو جائیں۔ 6۔ یہ بیان نہایت اہم ہے اور علامہ نے اس میں مسلمانوں کے نظام تعلیم پر تبصرہ کیا ہے۔ مسلمانوں کا اپنا ایک نظام تعلیم تھا جس میں مکتب، مدرسے، خانقاہیں، بیت الحکمت سب موجود تھے۔ اس وقت جب یورپ قرون وسطیٰ کی جہالت اور بربریت کی تاریکی میں گرفتار تھا، دنیائے اسلام میں علم و حکمت کی شمعیں روشن تھیں۔ بغداد ہو یا غرناطہ یا قرطبہ، دہلی ہو یا ٹھٹھہ کوئی ایسا اسلامی علاقہ نہ تھا جہاں علم و حکمت کے چراغ نہ روشن ہوں۔ مسلمانوں کے علوم کی اصل اور بنیاد دین تھا اور بقیہ علوم اسی کی خدمت کے لیے اسی کے محور پر قائم ہوئے۔ قرآن کی تفہیم اور تعلیم کے لیے عربی زبان و ادب، صرف و نحو اور لسانیات کی ترقی ہوئی۔ تدوین و ترتیب حدیث نے علم حدیث کے مختلف علوم کو جنم دیا۔ علمی تحقیق و تدقیق، تنقیح و تنقید کے اصول روایت و درایت متعین ہوئے۔ علم اسماء الرجال، سیرت، سوانح نگاری اور تاریخ نویسی وجود میں آئی۔ فلسفہ اور علم کلام پیدا ہوا۔ فقہ کی تدوین ہوئی۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کی تعلیم میں ایک بنیادی عنصر دین کی تفہیم اور تعلیم کا تھا اور یہ مسلمانوں کی تعلیم کی اساس تھی۔ چنانچہ بچوں کی تعلیم کا آغاز ہی دینی تعلیم اور قرآن حکیم سے ہوتا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان ان علوم میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے لیکن جب سے تقلید کا دور شروع ہوا اور خاص طور پر مسلمانوں میں یونانی فلسفے کے اثرات کا نفوذ ہوا مسلمانوں کی تعلیم کا وہ دور شروع ہوا جو تقلید کا دور تھا اور یہ سلسلہ دور حاضر تک جاری رہا بلکہ اب بھی جاری ہے۔ دور جدید میں ہم نے جدید تعلیم کے نام سے جو تعلیم شروع کی اس نے صرف دوسرے اور تیسرے درجے کے خواندہ اشخاص کی ایک تعداد ضرور پیدا کر دی لیکن حقیقی تعلیم سے جو انشراح قلب و نظر ہوتا ہے اس سے ملت اسلامیہ محروم ہو گئی اور آج کی دنیا میں صف اول کے سائنسدانوں، موجدوں اور ماہرین علوم جدیدہ کی فہرست میں مسلمانوں کے نام نظر نہیں آتے۔ اصلاً تعلیم کا مقصد نظریہ حیات سے متعین ہوتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی اپنا نظریہ حیات ہو گا تو ہمارا ایک تعلیمی نظریہ بھی ہو گا ورنہ تعلیم محض رسمی اور تقلیدی ہو گی۔ عورت اور تعلیم جدید کے عنوان سے اسی مسئلہ پر ضرب کلیم میں ایک مختصر نظم بھی ہے *: تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگرہ مدرسہ زن ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت ضرب کلیم میں ایک حصہ کا عنوان ہی عورت ہے اور اس میں کئی نظمیں شامل ہیں۔ 7ادب لطیف کی اصطلاح بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں خاصی عام تھی اور اس سے مراد ایسی نگارش تھی جو موضوع کے اعتبار سے جذباتی اور رومانی ہو اور انداز بیان نثر میں شاعری کا سا ہو۔ اسے عام طور پر ٹیگور کے اسلوب سے متاثر سمجھا جاتا تھا اور خاص طور پر گیتان جلی کے اردو ترجمے کو اس کا ایک نمونہ *ضرب کلیم، ص96 قرار دیا جاتا تھا۔ لکھنے والے انشائے لطیف کے بہت سے تھے۔ نیاز فتح پوری بھی ان میں سے ایک تھے۔ آل احمد، سجاد حیدر یلدرم کے یہاں بھی اس کے اثرات ملتے ہیں۔ مہدی الافادی کا رنگ اپنا منفرد ہے لیکن انشائے لطیف کا سراغ ان کے یہاں بھی ملتا ہے۔ آرٹ کے بارے میں علامہ نے اپنا نظریہ وضاحت سے اپنی نظموں میں بیان کیا ہے۔ اس میں شاعری، مصوری، موسیقی، فن تعمیر سب آ جاتے ہیں۔ مثنوی اسرار خودی میں ایک عنوان ہے: ’’ در معنی اینکہ افلاطون یونانی کہ تصوف و ادبیات اقوام اسلامیہ از افکار او اثر عظیم پذیر فتہ بر مسلک گو سفندی رفتہ است و از تخیلات و احتراز واجب است۔‘‘ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے: 1افلاطون ’’ ظلمت معقول‘‘ میں گم ہے۔ 2افلاطون کو’’ زندگی‘‘ کی حقیقت فنا میں نظر آتی ہے۔ وجود محض عدم ہے۔ 3اس کے نزدیک عالم اسباب محض ایک افسانہ ہے۔ 4ذوق عمل سے محروم ہے۔ 5بجائے سوز و آتش اس کے یہاں افسردگی ہے جس سے ایک افیون خوردہ معاشرہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بحث کا عنوان ہے:’’ در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ اس کا خلاصہ یہ ہے: 1خون انساں داغ آرزو سے گرم ہے اور اس خاک میں آگ چراغ آرزو سے روشن وہتی ہے۔ تمنا سے حیات مے بجام آتی ہے۔ گرم خیز اور تیز گام بنتی ہے۔ 2زندگی ’’ مضمون تسخیر‘‘ ہے۔ 3ہر چہ باشد خوب و زیبا و جمیل در بیابان طلب ما را دلیل 4افسوس اس قوم پر جس کا شاعر ذوق حیات سے محرومی، زندگی سے فرار کا سبق دے کر کشتی حیات کے پاسبانوں کو غافل بناتا ہے اور کشتی کو قعر دریا میں ڈبوتا ہے۔ 5ادب میں فکر صالح ہونی چاہیے اور اس کے لیے: فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوے عرب می بایدت اس رجعت سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کا ادب اور فن میں لحاظ رکھنا چاہیے جو اسلام کی روح اور تہذیب اسلام کے عناصر ہیں کیونکہ ان مقاصد کے بغیر ادبی یا فنی تخلیق کی نہ کوئی سمت و جہت متعین ہو گی اور نہ فکر صالح وجود میں آئے گی۔ یہ گویا فنون لطیفہ کے بارے میں علامہ اقبال کے بنیادی خیالات ہیں۔ فن برائے فن اور فن برائے حیات یعنی Art for the sake of art اور Art for the sake of life کی اصطلاحات اور مباحث اب اس قدر عام اور مکتبی ہو چکے ہیں کہ ان پر گفتگو کی ضرورت نہیں۔ ضرب کلیم میں ایک حصہ ادبیات، فنون لطیفہ سے متعلق ہے۔ اس کے بعض اشعار سے مختلف فنون کے بارے میں علامہ کے خیالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دین و ہنر: اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ تخلیق: وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا ادبیات: عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے شعاع امید: مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر *ضرب کلیم ص100تا134 اہل ہنر سے: روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود اور اگر با خبر اپنی شرافت سے ہو تیری سپہ انس و جن! تو ہے امیر جنود اہرام مصر: اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر اہرام کی عظمت سے نگونسار ہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر! فنون لطیفہ: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا! مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا! جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں وہ صف کیا وہ گہر کیا! شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا! بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا! اس مختصر انتخاب سے فنون لطیفہ کے بارے میںعلامہ کے نقطہ نظر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ فن قید زماں اور قید مکاں سے آزاد ہے۔ اسے ثبات و دوام وہ جذبہ عطا کرتا ہے جو اس کی تخلیق کا محرک ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال مسجد قرطبہ ہے جو بہ یک وقت جمال و جلال کا بہترین مجموعہ ہے۔ 8حکومت کے فرائض کا یہ تصور دراصل اسلامی طرز حکومت کا تصور ہے جس میں صاحبان امر کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو نیک کاموں کی طرف بلائیں اور برے کاموں سے روکیں۔ اس طرز حکومت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ملک و دولت فقط حفظ حرم کا ایک ثمر ہے۔ حرم ایک علامت ہے اس نظریہ حیات کی جو اسلامی نظریہ حیات ہے۔ 9اس بیان سے یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال دور حاضر کی علمی، سائنسی اور تکنیکی ترقی کے منکر ہیں یا رجعت پسند ہیں۔ وہ تہذیب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کی مراد افراد اور معاشرہ کا طرز زندگی ہے۔ موجودہ تہذیب مادی ترقی کو انتہائے کمال سمجھتی ہے اسی لیے روحانی اور اخلاقی قدروں کی طرف توجہ نہیںد یتی اور معاشرہ میں خود غرضی، استحصال، بے راہ روی اور بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے۔ اس تہذیب کا ذکر علامہ کے یہاں بار بار ملتا ہے۔ بانگ درا میں ابتدائی دور میں ہی یہ شعر ملتے ہیں: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا یہ شاخ نازک وہی مطالبے ہیں جو تہذیب حاضر کی اساس ہیں۔ اس میں اخلاق کو ایک قدر اضافی سمجھا جاتا ہے مذہب صرف شخصی اور ذاتی معاملہ ہے اور جمہوریت کا تصور یہ ہے کہ اکثریت کا جو بھی فیصلہ ہو وہی درست ہے چاہے حقیقت میں وہ افراد یا معاشرہ کے لیے تباہ کن ہی کیوں نہ ہو۔ جس میں افراد کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے اصل اساس تہذیب کی یہی تول یا میزان ہے جس کا ذکر اسلامی، قرآنی تعلیمات میں بار بار ملتا ہے۔ 10۔ آرٹ کے متعلق علامہ کے نظریہ سے بحث ہو چکی ہے، یہ بات محل نظر ہے کہ ہندو قوم کو ہمیشہ کے لیے مردہ تسلیم کیا جائے ان کے مخصوص مزاج اور تہذیب نے ہی ان کی انفرادیت کو محفوظ رکھا اور یہ موسیقی بھی ان کی تہذیب کا ایک جزو ہے۔ اگر ہندو قوم ہمیشہ کے لیے مردہ ہو چکی ہوتی تو وہ مسلمانوں کی کئی صدیوں کی حکومت اور دور اقتدار میں مسلم معاشرہ میں ضم اور گم ہو جاتی اور ہندو مسلم کشمکش جس کی شدت نے بالآخر مسلمانوں کو اپنی اکثریت کے علاقوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست قائم کرنے پر مجبور کیا پیدا نہ ہوتی۔ 11۔ جہاد کے بارے میں علامہ کے نقطہ نظر سے پہلے بحث کی جا چکی ہے۔ بیشک بعض صورتوں میں جہاد صرف دفاعی نہیں جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔ علامہ نے درست فرمایا اگر امرو نہی کے فرائض مسلمان ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کا ہونا ضروری ہے۔ اس تلوار کے استعمال کے حدود بالکل واضح ہیں۔ یہ چنگیزی تلوار نہیں ہوتی۔ یہ حدود قرآن حکیم نے واضح طور پر متعین کر دی ہیں۔ قرآن اور تلوار کے رشتہ کی ایک مثال شرف النساء کے کردار میں ملتی ہے جو قرآن بدست و شمشیر در کمر رہتی تھی۔ اس کا بیان اوپر آ چکا ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث شریف ہے۔ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی کہ محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوۃ دیں پس جب یہ باتیں کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچا لیں گے، سوائے حق اسلام کے اور ان کا حساب خدا کے حوالے ہے۔ ٭٭٭ حضرت علامہ: عبدالواحد ایم اے 1۔ مولوی میر حسن صاحب کا مختصر حال بیان کیا جا چکا ہے۔ عبدالواحد صاحب کے اس بیان سے مولوی صاحب کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ جن حضرات نے نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی، فرحت اللہ بیگ کی زبان سے سنی ہے وہ اس بیان میں اسی انداز کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ 2۔ علامہ طب یونانی کے بڑے معتقد تھے۔ ایک سبب اس کا یہ بھی تھا کہ یہ فن مسلمانوں کا فن تھا جسے انہوں نے پروان چڑھایا تھا۔ نام کو یہ طب یونانی ہے لیکن یونانی طبیبوں کا اب کوئی نام بھی نہیں جانتا۔ شیخ الرئیس بو علی سینا کی قانون اور شفا مدتوں یورپ کی طبی تعلیم میں بنیادی کتابیں رہیں۔ علم کیمیا میں ان کی ایجادات کا اس سے اندازہ لگائیے کہ اس علم کا نام ہی عربی ہے۔ دور زوال میں جہاں مسلمانوں کے اور علوم کو ضعف اور صدمہ پہنچا وہاں طب کو بھی نقصان ہوا لیکن برعظیم پاک و ہند میں دہلی اور لکھنو کے طبیبوں نے اسے دوبارہ سنبھالا۔ مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا طبیہ کالج اس کی ایک مثال ہے جہاں بطور نمونہ صرف ایک تحقیق کا نام لیا جا سکتا ہے جو اجملین کے نام سے موسوم ہے اور حکیم صاحب کی نشان دہی پر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اور ڈاکٹر رفعت حسین صدیقی مرحوم نے اس کے موثر اجزا نکالے جو اب تک خون کے دباؤ کی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ علامہ آخر وقت تک طبیبوں سے علاج کراتے رہے۔ 3۔ علم اور عشق کی بحث علامہ کے کلام میں جا بجا موجود ہے اور اس باب میں اس کا نقطہ نظر صوفیانہ ہے۔ مثنوی اسرار خودی سے آخر دور تک ہر مجموعے میں اس کی تائید میں اشعار موجود ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے اقبال اور مسلک تصوف از راقم الحروف محولہ بالا۔ 4۔ اس قسم کے تجربات کا ذکر صوفیہ کے یہاں عام ہے اور علامہ نے تسلیم کیا ہے کہ جدید طبیعیات میں علت و معلول کا قانون اٹل نہیں، اور یہ کہ بعض تجربات ماورائے تجزیہ عقلی ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان کے ادراک اور حواس محدود ہیں اور ایک حد سے آگے ان کی رسائی نہیں۔ بینائی اور سماعت کی ان حدود کا علامہ نے ذکر بھی کیا ہے کہ ہماری آنکھیں بعض رنگوں کو نہیں دیکھ سکتیں اور ہمارے کان بعض آوازوں کو نہیں سن سکتے۔ ٭٭٭ چند ملاقاتیں: سید الطاف حسین ایم اے 1۔ شکوہ: شکوہ علامہ اقبال کی ان نظموں میں ہے جو بلا شبہ اردو کی قومی اور ملی شاعری میں وہی مرتبہ رکھتی ہے جو مولانا حالی کی مسدس مدو جزر اسلام کا ہے ۔ دونوں کا محرک شدید ملی احساس ہے۔ شاعر کے پیش نظر مسلمانوں کا ماضی اور حال دونوں ہیں۔ حالی کی مسدس میں مستقبل کی نوید نہ تھی، اقبال کے یہاں یہ عنصر بھی موجود ہے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ حالی ہمارے حال کے شاعر تھے اور اقبال ہمارے استقبال کے شاعر ہیں۔ دونوں نظموں کے لیے ایک ہی پیمانہ یعنی مسدس استعمال کیا گیا ہے جو اس طرح کی تاریخی اور مسلسل بیانی نظموں کے لیے موزوں ترین پیمانہ ہے۔ حالی کی مسدس کی طرح شکوہ میں بھی مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ کے تابناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ اس میں فتوحات اور جہاد کا بھی ذکر ہے اور اس برکت و رحمت کا بھی جو اسلام لے کر آیا اور جس نے نوع انسان کو ہر قسم کی غلامی سے چھڑایا۔ ان جھوٹے خداؤں کی اطاعت سے بھی جن کو خدا بنا لیا گیا تھا، اوہام اور رسوم و قیود سے بھی۔ جس طرح حالی نے مسدس کے خاتمہ پر رقت انگیز دعا لکھی تھی: اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے اسی طرح علامہ فرماتے ہیں: مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے جوئے خوں می چگد از حسرت دیرینہ ما می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینہ ما 2۔ اکنامکس یا اقتصادیات کی اہمیت سے علامہ اقبال خوب آگاہ تھے چنانچہ انہوں نے خود بھی ابتدائی دور میں علم الاقتصاد پر ایک کتاب لکھی تھی۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے اقتصادیات کی طرف کبھی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ دوکانداری، تجارت وغیرہ بنیوں کا کام ہے اور حساب بہی کھاتہ بھی ان ہی کا سامان ہے۔ ہندوؤں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی پستی کا بڑا سبب دونوں قوموں کے درمیان اقتصادی فرق یا بعد تھا۔ اس کی طرف علامہ نے اپنے الہ آباد کے تاریخی خطبے میں بھی اشارہ کیا تھا۔ 3۔ زمان و مکان کے مسئلہ پر علامہ نے جو کچھ لکھا ہے ان کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ صوفیہ نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ بعض اقوال یہاں پیش کئے جاتے ہیں: 1’’ ارتقاع نسبت زمان و مکان: انتہائے جبروت میں سالک کی سمع و بصر اور اس کی جملہ صفات تقیدات سے تجاوز کر کے رنگ اطلاق کی جانب مائل ہو جاتی ہیں اور سالک کی نظر سے نسبت زمان و مکان اٹھ جاتی ہے۔ پھر وہ اشیائے قریبہ و بعیدہ کو یکساں طور پر دیکھتا ہے اور ان کی آوازیں یکساں طور پر سنتا ہے*‘‘ *سر دلبران، محولہ بالا، ص44 2’’ زمان، حرکت فلک اعظم کی مقدار: چونکہ یہ حرکت دائمی ہے۔ تعینات ایک دوسرے سے اسی کے باعث مسبوق مفروض ہوتے ہیں۔ بعض کی نسبت سے بعض ماضی اور بعض مستقبل قرار دئیے جاتے ہیں۔ ماضی گیا اور وجود نہیں رکھتا، مستقبل ابھی آیا نہیں اور کوئی وجود نہیں رکھتا۔ حال، ماضی کی نہایت اور مستقبل کی ہدایت ہے، یعنی ہر دو میں فاضل اور ہر دو میں مشترک ہے۔ گویا خط غیر متناہی مفروضہ میں ایک نقطہ وہمی ہے۔ اس نقطہ وہمی نے جسے حال کہتے ہیں، تجدد تعینات سے نہر رواں جاری کر رکھی ہے جس پر سرعت تجدد کی وجہ سے مثل قطرہ ہائے باراں کے آب رواں کا توہم ہوتا ہے۔ تو گویا زمانہ ایک نہر جاری ہے۔ نمود بے بود*‘‘ علامہ اقبال نے بھی صوفیانہ تجربے کے اس لمحے کا اظہار یوں کیا ہے: خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ یا عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں! مولانا روم نے بھی حال کے باب میں فرمایا ہے: صوفی ابن الوقت باشد، اے رفیق نیست فردا گفتن از شرط طریق *ایضاً ص195 4۔ تفسیر کے سلسلے میں علامہ اقبال کی یہ خاموشی بجا تھی۔ قرآن حکیم کی تفسیر لکھنے کے لیے جس پس منظر کی ضرورت تھی اس میں عربی لغت، صرف و نحو، قواعد، عربی ادب مع ادب جاہلیت، عربوں کی تہذیبی تاریخ، جملہ تفاسیر کا مطالعہ اور مختلف نظریات کے تحت لکھی گئی تفسیروں کا تجزیہ اور تبصرہ وغیرہ۔ اس کے لیے وقت بھی درکار تھا۔ اسی لیے علامہ نے جہاں اس موضوع کا ذکر چھیڑا ہے وہاں صرف اس پر اکتفا کی ہے کہ وہ قرآن حکیم پر جدید فلسفہ کی روشنی میں اپنے خیالات بطور حواشی لکھنا چاہتے تھے۔ تفسیر کا لکھنا ویسے بھی نازک کام تھا اور سرسید کی تفسیر سے پیدا شدہ اختلافات علامہ کے سامنے تھے۔ زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظر وہ اس طرح کی کسی بحث میں الجھنا پسند نہیں کرتے تھے اور یہ ناگزیر ہوتا اگر وہ کوئی نئی تفسیر لکھتے۔ 5۔ اسلامی نظام حکومت کے بارے میں علامہ کے اس خیال کے تفصیلی مطالعہ اور تجزیہ کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت، نہ Aristocracyاور نہ Throcracy بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔ ظاہر ہے اسلام ملوکیت نہیں، خضر راہ میں فرماتے ہیں*: آ بتاؤں تجھ کو راز آیہ ان الملوک سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری *بانگ درا ص296-295 خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰؑ طلسم سامری سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن تا تراشی خواجہ از برہمن کافر تری اسی سلسلے میں جمہوریت کے بارے میں فرماتے ہیں: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو 6۔ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے۔ مفسرین میں سے بعض نے لکھا ہے کہ جنت اور دوزخ اور ان کی نعمتیں اور عذاب جس طرح قرآن حکیم میں بیان کئے گئے ہیں وہ بطور تمثیل و تشبیہہ ہیں اور نعمت اور عذاب کا تصور واضح کرنے کے لیے استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلاً ایسی نہروں کا ذکر جن کا پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا، دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو عربوں کو اس نعمت کا کچھ اندازہ دلا سکتا ہے۔ اسی طرح دوزخ کی گرمی اور آگ کی شدت عذاب کی کیفیت کی ترجمان ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے اختلاف کیا ہے اور عام عقیدہ جنت و دوزخ کے بارے میں ہے کہ وہ ایسی ہی حقیقت میں ہیں جیسے بیان کیا گیا ہے۔ 7۔ علامہ کا یہ فرمانا بالکل درست ہے کہ نماز کے اردو ترجمے کا خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ آیات قرآنی کا ترجمہ مفہوم سمجھنے کے لیے بلاشک درست ہو سکتا ہے اور وہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی ترجمہ ایک زبان کا دوسری زبان میں اس عبارت کے پورے مفہوم اور زبان کی تہذیبی مزاج کے ساتھ منتقل نہیں کر سکتا۔ دوسرے یہ کہ یہ مسئلہ صرف نماز تک محدود نہیں، اگر قرآن حکیم کا محض ترجمہ کافی ہو تو پھر بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ بحث ہو چکی ہے کہ قرآن کی عبارت او رالفاظ وہی ہیں جس طرح بطور وحی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور اسی طرح ہم تک پہنچے ہیں۔ سرسید احمد خان جو اپنی تفسیر میں بڑی حد تک عقلیت پسند ہیں اور اکثر معاملات میں عام علمائے اسلام سے ان کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ وہ بھی فرماتے ہیں*: ’’ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے:‘‘ نزل علی قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم او یوحی الیہ وانہ علیہ الصلوۃ والسلام ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے۔ خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہنچایا ہے۔ جیسا کہ مذہب عام علماء اسلام کا ہے یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے، آنحضرت کے قلب پر القا کیا ہے جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے۔ کما قلت: ز جبریل امیں قرآن بہ پیغامے نمی خواہم ہمہ گفتار معشوق ست قرآنے کہ من دارم 8۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ شعر محض اتفاقاً طبع اول میں شائع ہونے سے نہیں رہا بلکہ علامہ نے اسے خود شامل نہیں کیا۔ 9۔ علامہ اقبال کا فوق البشر: شخصیت پرستی یاHeroworship کا جیسا کہ علامہ نے فرمایا اسلام میں کوئی *مضامین سرسید حصہ دوم، تفسیری مضامین مرتبہ اسمعیل پانی پتی مجلس ترقی ادب لاہور، 1961ئ، قرآن مجید کی تفسیر کے اصول ص227 تصور نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ایک کامل نمونہ ہے جس کا اتباع موجب ہدایت و فلاح و نجات ہے۔ فوق البشر یا Supremanکا تصور ہیرو سے مختلف ہے۔ علامہ کی اکثر تحریروں میں فوق البشر کا حوالہ ملتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کا سراغ عبدالکریم الجیلی کے انسان کامل تک پہنچتا ہے اور بعض اس تصور میں نطشے کے نظریہ کی جھلک پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صحیح مومن فوق البشر ہے اور اسلام وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں۔ یہ فوق البشر یا انسان کامل اقبال کا مرد مومن ہے۔ یہ مرد مومن خلیفتہ اللہ فی الارض ہے۔ خودی کا امین ہے، اللہ پر یقین رکھتا ہے، اس کے رسولؐ کی محبت کو ایمان جانتا ہے، وہ جلال و جمال دونوں کا کامل مجموعہ ہوتا ہے۔ حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور میدان کار زار میں صفت فولاد، وہ درویش ہے، اسباب ظاہری سے قطع نظر نہیں کرتا لیکن: مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اس سلسلے میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کی اور مثالیں بھی علامہ کی زندگی میں ملتی ہیں۔ باوجود اپنی بیماری، مالی اور ذہنی پریشانی اور بچوں کے مستقبل کی فکر کے جب انہیں سرکار نظام کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بھیجا گیا تو انہوں نے واپس کر دیا۔ ارمغان حجاز میں سر اکبر حیدری کے نام*یہ اشعار ہیں: تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ پرویر دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات *ارمغان حجاز ص277 مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کو حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات 10رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک انسان کامل کی علامت ہے اور آپ کا اتباع فلاح دارین کی ضمانت، لیکن آپ فوق البشر نہیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کہہ دیجئے میں تمہارے جیسا بشر ہوں، ہاں مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ ؐ تک کے لیے سجدہ کا حکم نہیں، صرف واجبی تعظیم کا حکم ہے، مثلاً یہ کہ دوران گفتگو اپنی آواز کو رسول کریم ؐ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ مولانا حالی نے بڑی خوبی سے مسدس میں یہ مضمون ادا کیا: تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ بنانا نہ تربت کو میری صنم تم نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہم تم مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی کہ بندہ ہوں اس کا اور ایلچی بھی ٭٭٭ دو ملاقاتیں: سید عابد علی عابد 1۔ علامہ کے آرٹ کے تصور سے بحث کی جا چکی ہے، یہاں علامہ نے ایک اہم بات یہ فرمائی ہے کہ ان کی شاعری اسلامی تفکر اور فقہ کی تفسیر اور تعبیر ہے۔ اس سے دو باتیں ظاہر کرنا مقصود ہیں: اول تو یہ کہ آرٹ یا فن کا ایک مقصد تعمیری، اصلاحی، افادی جو چاہیے کہہ لیجئے ضرور ہوتا ہے۔ آرٹ محض تفریح طبع کا سامان بہم نہیں پہنچاتا اور نہ اس کا مقصد محض انبساط، سکون یا حسن کی تلاش ہے۔ دوسرے یہ کہ بنیادی طور پر اقبال کی شاعری کے مطالعے کے لیے قرآن حکیم، احادیث نبوی، تاریخ اسلام، اسلامی فقہ و فلسفہ پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ علامہ نے درست فرمایا کہ آرٹ کا زوال دراصل اقوام کی مجموعی زوال پذیری کے تابع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں جو کچھ علامہ نے فرمایا اسے کسی قدر تفصیل سے مولانا حالی اردو شاعری کے حوالہ سے مقدمہ میں لکھ چکے ہیں یعنی یہ کہ جب سوسائٹی خراب ہوتی ہے تو وہ شاعری کو خراب کرتی ہے اور یہ خراب شاعری سوسائٹی کو مزید خرابی کی طرف لے جاتی ہے۔ علامہ کے اکثر اشعار سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ بعض فنون لطیفہ خاص طور پر اور بعض اکثر صورتوں میں دور زوال کی نشان دہی کرتے ہیں: آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر یا جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے یہ درست ہے کہ قومیں اپنے دور عروج میں اپنے فنون میں بھی قوت، حرکت، زندگی اور جلال کی ترجمانی کرتی ہیں۔ جب یہ دور ختم ہو جاتا ہے تو قوت کی جگہ اضمحلال، حرکت کی جگہ سکوت اور سکون، زندگی کی جگہ زندگی سے فرار اور جلال کی جگہ ایک طرح کی نزاکت جسے نسائیت سے تعبیر کر سکتے ہیں، پیدا ہو جاتی ہے۔ 2۔ اردو شاعری کے بارے میں یہ تجزیہ اہم ہے۔ علامہ کے اس اعتراف کو کہ انہوں نے اردو شعرا کا کلام بہت کم پڑھا ہے محض انکسار سمجھنا چاہیے کیونکہ دکنی ادبیات کا حوالہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جس نے ولی سے پہلے کے قدیم اردو شعرا کے کلام کا مطالعہ کیا ہو۔ یہ مطلاعہ اب بھی خاصا محدود ہے اور دکھنی ادب جاننے اور پڑھنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ شعرائے لکھنو اکثر و بیشتر صرف مضامین خیالی پر توجہ کرتے تھے جن کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ ان میں مغز کم اور پوست یا چھلکے سے دل بستگی زیادہ ہے لیکن ناسخ اسکول کی حد تک یہ امانت لکھنوی کے رنگ میں یا دیا شنکر نسیم کے اسلوب میں یہ بات درست ہو سکتی ہے، کلیتہً لکھنوی شاعری پر یہ اعتراض درست نہیں۔ آخری اسی لکھنو میں مرثیہ نگاری کا فروغ ہوا جو اعلیٰ درجے کی شاعری ہے اور جسے ایک حد تک اردو میں رزمیہ نگاری کا ایک قابل قدر نمونہ قرار دیا جا سکتاہے۔ محسن کاگوروی کی شاعری کو بھی محض پوست یا چھلکا قرار نہیں دے سکتے۔ نواب مرا شوق کی مثنویاں بھی صرف پوست نہیں ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ ان میں اس عہد کی زندگی کی جو خامیاں اور خرابیاں ہیں وہ سب جھلکتی ہیں اور شاعر نے حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ وہ معلم اخلاق نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ کہ شاعر کو معلم اخلاق ہونا چاہیے یا نہیں بحث طلب ہے۔ مولانا حالی نے ’’ مناجات بیوہ‘‘ لکھی تو بعض لوگوں کو یہی اعتراض تھا کہ اس کام کو یا تو کسی بیوہ سے عقد کر کے یا پھر’’ ودھوا آشرم‘‘ قائم کر کے زیادہ بہتر اور موثر طور پر انجام دیا جا سکتا تھا۔ دکھنی ادب کو مذہب سے اسی طرح کا اور اسی حد تک تعلق ہے جس حد تک لکھنوی شاعری کو۔ سلاطین دکن اور ان کے اکثر امرا بالعموم شیعہ تھے، اور ان کے درباروں میں مرثیہ خواں شاعر موجود تھے۔ عزا خانے تعمیر ہوئے تھے۔ محرم میں واقعات کربلا کی مجلسیں ہوتی تھیں۔ سلاطین خود مرثیے لکھتے تھے۔ یہ ساری صورت حال لکھنو میں دکن سے زیادہ شدت اور تکمیل سے نظر آتی ہے۔ز ندگی سے دکھنی ادب کے زیادہ گہرے تعلق ہونے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً ایک بات جس میں دکھنی شاعری عام طور پر بعد کی شاعری سے ممتاز ہے یہ ہے کہ دکھنی غزل میں عاشق عورت ہے اور مرد اس کا محبوب اور مطلوب ہے۔ یہ بات دکھنی غزل سے مخصوص نہیں۔ برج کے علاقہ کی شاعری، جسے ہندی شاعری کہتے ہیں۔ اس کا بھی یہی انداز اور رحجان ہے۔ البتہ دکھنی شاعری میں مقامی عنصر زیادہ ہے جو بعد میں اس لیے کم نظر آتا ہے کہ اردو شعراء فارسی گو شعرا کے مقابلہ کے لیے اردو میں ان مضامین کی طرف زیادہ توجہ کرتے تھے جو فارسی شاعری سے مخصوص تھے اور اکثر اسلوب بیان میں بھی ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ اس کی ایک اچھی مثال مرزا غالب کے یہاں ہے خود علامہ اقبال کے اردو کلام میں فارسی شاعری کا پرتو اور اس کے مزاج کا عکس موجود ہے۔ 3۔ مومن اور غالب کے اس فرق پر ناقدین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مولانا ضیاء احمد فرماتے ہیں کہ غالب اور مومن دونوں دقت پسند ہیں، فرق یہ ہے کہ مرزا غالب کے یہاں مضامین میں دقت ہے اور اس کے لیے اسلوب بیان بھی انہیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا، اسی لیے وہ بار بار فارسی کا یا فارسی آمیز اردو کا سہارا لیتے ہیں۔ مومن کے یہاں مضمون کی دقت، پیچیدگی یا گہرائی نہیں وہ صرف ایک پیچدار انداز بیان کو پسند کرتے ہیں۔ علامہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے مومن کا پورا کلام نہیں پڑا تھا اور انہوں نے مومن کا وہ مشہور شعر پسند بھی کیا ہے: تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا مومن ان اردو شعرا میں ہیں جن میں جذبہ جہاد اور دینی جوش بھی موجود تھا اور وہ سید احمد شہیدؒ اور سید اسمعیل شہیدؒ کی تحریک جہاد کے مداحوں میں تھے بلکہ عملاً اس جہاد میں شرکت کی زبردست خواہش نہ رکھتے تھے۔ اس قسم کے اشعار یہ ہیں: ایک قصیدہ ہے جس کا عنوان ہے ’’ گہر ریزی خامہ بہ ستائش یگانہ ایست کہ در یک دانہ بہ آب رساندہ اوست و گوہر شب چراغ بہ تاب آوردہ او‘‘ اس کا مطلع ہے*: الحمد لواہب العطایا اس شور نے کیا مزہ چکھایا *کلیات مومن جلد دوم، مرتبہ کلب علی خاں فائق، مجلس ترقی ادب لاہور اس میں حمد کے بہت سے اشعار لکھ کر فرماتے ہیں: اللہ غم بتاں میں یک چند بے فائدہ جان کو کھپایا پھر وادی عشق میں اس سرگردانی کی تفصیل لکھی ہے اور یہ دعا ہے: اس دام سے مجھ کو تو چھڑا دے داؤد نے جس میں دل پھنسایا دل زلف سے ہو رہا تو جانوں ’’زندان فرنگ‘‘ سے چھڑایا وہ عشق دے جس کا نام اسلام وہ شیوہ، نبیؐ نے جو بتایا وہ نعرۂ ’’علمہ بحالی‘‘ جس نے کہ اس آگ کو بجھایا کچھ آب زنی کرے نہیں تو سر نار جحیم نے اٹھایا مجھ کو بھی بچا لے جیسے تو نے یوسفؐ کو گناہ سے بچایا وہ رفعت حال دے کہ جس نے منصور کو دار پر چڑھایا اس کا مرے دل پہ ایک پرتو جس شعلے نے طور کو جلایا مومن کہے کس سے حال آخر ہے کون ترے سوا خدایا ایک مثنوی ہے ’’ مثنوی بہ مضمون جہاد‘‘ اس کے بعض اشعار یہ ہیں: بلا مجھ کو ساقی شراب طہور کہ اعضا شکن ہے خمار فجور کوئی جرعہ دے دیں فزا جام کا کہ آ جائے بس نشہ اسلام کا .................... ................... بہت کوشش و جاں نثاری کروں کہ شرع پیمبر کو جاری کروں دکھا دوں بس انجام الحاد کا نہ چھوڑوں کہیں نام الحاد کا ........................... ................................ زہے سید احمد قبول خدا سر امتان رسول خدا نگو گوہری کا نہ پوچھو شرف علی و حسین و حسن کا خلف خدا نے مجاہد بنایا اسے سر قتل کفار آیا اسے ........................ ................................. خبردار ہو جاؤ اے اہل دل کہ رحمت برستی ہے اب متصل ہوا مجتمع لشکر اسلام کا اگر ہو سکے وقت ہے کام کا ضرور ایسے مجمع میں ہونا شریک کہ خوش تم سے ہو وحدہ لا شریک جو داخل سپاہ خدا میں ہوا فدا جی سے راہ خدا میں ہوا حبیب حبیب خداوند ہے خداوند اس سے رضا مند ہے .................... ......................... عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرو حیات ابد ہے گر اس دم مرو جو ہے عمر باقی تو غازی ہو تم سزاوار گردن فرازی ہو تم یہ ملک جہاں ہے تمہارے لیے نعیم جناں ہے تمہارے لیے ................. ................ سعادت ہے جو جاں فشانی کرے یہاں او رواں کامرانی کرے الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار پہ تیرے کرم کا ہوں امیدوار تو اپنی عنایت سے توفیق دے عروج شہید اور صدیق دے ................ ................ یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں مری جاں فدا ہو تری راہ میں میں گنج شہیداں میں مسرور ہوں اسی فوج کے ساتھ محشور ہوں* یقینا اس کلام مومن کو پریشان گفتاری یا ژولیدہ نگاری نہیں کہا جا سکتا۔ 4یہ امر بالکل قدرتی ہے کہ جب کوئی قوم کسی ایسی دوسری قوم سے ملتی ہے جو مذہب، تہذیب و روایات اور افکار و خیالات میں اس سے مختلف ہوتی ہے تو دونوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑتا ہے۔ یہی صورت اسلام کے ساتھ پیش آئی ہے۔ جب اسلام کے *ایضاً ص236-235 حقہ بگوشوں کا دائرہ وسیع ہوا اور وہ اسپین سے لے کر جاوا سماترا اور مشرق بعید تک پھیل گئے تو ان کو مختلف تہذیبوں سے سابقہ پڑا۔ علامہ نے کسی قدر تفصیل سے ان اثرات کا جائزہ لیا ہے جو ایران اور برعظیم پاک و ہند میں ملت اسلامیہ پر غیر اسلامی افکار و خیالات کا نتیجہ ہیں۔ ترکوں کے بارے میں علامہ کا تجزیہ مزید وضاحت چاہتا ہے۔ علامہ ترکوں کی سخت کوشی کے ہمیشہ مداح رہے اور آل عثمان کے ہمدرد، لیکن علامہ کی زندگی میں ہی ایک انقلاب ایسا آیا جس نے ترکان عثمانی کی طرف سے مسلمانان عالم کو مایوس کیا۔ ترک خلافت اس کی ایک وجہ تھی۔ ترکی زبان کا قدیم رسم الخط بدل کر اس کی جگہ رومن اختیار کیا گیا، دینی تعلیم محدود ہوئی اور ترکی جو پہلے ہی نصف یورپ اور نصف ایشیا تھا اور زیادہ یورپ کی طرف جھک گیا لیکن یہ ایک دور تھا، یہ بھی گزر گیا۔ 5۔ یہ بحث بھی اب کتابی رہ گئی ہے کہ آرٹ کی عظمت کا انحصار موضوع پر ہے یا اس کی ہیئت، فارم (Form) یا اسلوب پر، اصلاً عظمت کا انحصار عدل یا Balance پر ہے، جس میں موضوع اور ہیئت دونوں شامل ہیں۔ لیکن ایک چیز جو ان دونوں پر سبقت اور فوقیت رکھتی ہے وہ مقصد ہے۔ ٭٭٭ اقبال کے ہاں: خضر تمیمی 1و 2۔ ختم نبوت اور تکمیل دین کا عقیدہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں ہے۔ اقبال نے مسئلہ قادیانیت کے سلسلہ میں بہت کچھ لکھا ہے اور اس میں اس مسئلہ سے بھی بحث کی ہے۔ اگر تکمیل دین اور ختم نبوت کے عقیدہ کو تسلیم نہ کریں تو پھر دین کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں اور تاویل، تبدیلی، رد و قدح کا دروازہ کھل جائے۔ قرآن حکیم میں جب ارشاد فرمایا گیا کہ: الیوم اکملت لکم دینکم تو پھر اس میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ 3۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ علامہ اقبال فقہ کے اختلافی مسائل کو بنیادی نہیں سمجھتے بلکہ مختلف گروہائے خیال ہیں۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ بعض لوگوں نے ان مسائل کو بجائے فروعی سمجھنے کے حقیقی اور بنیادی سمجھ لیا اور اس میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپس کے نزاع کا باعث بن گئے۔ علامہ نے جو ’’ دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘ کہا ہے اس کا مقصد یہ تھا کہ یہی لوگ جو فقیہہ شہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں صرف زبانی بحث کرتے ہیں: قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا ٭٭٭ بزم اقبال: سعادت علی خاں ایم اے 1و 2۔ کشمیر: کشمیر سے علامہ اقبال کی گہری وابستگی کے بہت سے اسباب ہیں۔ اولاً ان کے آبا و اجداد کا تعلق اس سر زمین سے تھا۔ اس کی کچھ تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ دوسرے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ذہنی اور روحانی تاریخ میں کشمیر کو ایک ممتاز مقام حاصل رہا اور بکثرت صوفیائے کرام اور علمائے عظام نے اس خطے کو اپنے قدموں کی برکت سے نوازا۔ یہ علاقہ مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ تھا، اس کے باوجود اس پر انگریزوں کی سرپرستی کے سائے تلے ڈوگرہ راجہ حکمران تھا اور کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو بزور شمشیر دبایا جاتا رہا۔ علامہ کی سیاسی بصیرت نے جس طرح پاکستان کے قیام کا خواب دکھایا تھا اسی طرح کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کا نقشہ بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ 1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو چلتے چلتے انگریزوں اور ہندوؤں کی سازش سے کشمیر کا ہندو بھارت سے الحاق کر کے ایک ناسور پاکستان کے دل میں پیدا کر دیا گیا۔ پچھلے تیس سال سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ کشمیریوں کے حق خود اختیاری کو تسلیم کرتی ہے۔ بھارت بھی بین الاقوامی سطح پر اس کے تصفیہ کا وعدہ کر چکا ہے لیکن ابھی تک جدوجہد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر کی آزادی کی لڑائی کو علامہ جہاد سمجھتے تھے، اسی لیے فرمایا کہ اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے۔ 3۔ شینگلر:Decline of the west کا مصنف شینگلر آسولڈ (1936-1880ئ) جرمنی کا مشہور فلسفی تھا۔ ا سنے اپنی اس کتاب میں تہذیب مغرب کا موازنہ رومی اور یونانی تہذیبوں سے کیا تھا۔ تہذیب کی گردش کا نظریہ سب سے پہلے شینگلر نے ہی پیش کیا تھا اور خاص طور پر ہٹلر کے دور میں جرمنی میں اس کے خیالات بڑے مقبول ہوئے۔ اس مشہور کتاب کی پہلی جلد1918ء میں اور دوسری جلد1922ء میں شائع ہوئی۔ 1936ء میں حرکت قلب بند ہونے سے میونخ میں انتقال ہوا۔ 4۔ ہیگل: اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ میں برگساں اور ہیگل کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے: تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناری برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی ایک فلسفی کا فلسفہ کے باب میں یہ نقطہ نظر بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ اپنے ذہنی سفر میں علامہ اقبال فلسفہ کی منزل سے بھی گزرے تھے اور ان پر یہ حقیقت واضح ہوئی، فلسفہ زندگی کے مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ زندگی سے دور لے جاتا ہے۔ مذہبی تجربہ جو وجدان کی اعلیٰ ترین شکل یعنی وحی کی صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے ہم تک پہنچا ہے وہی منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ بقول علامہ: دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق مومن کی اذاں ندائے آفاق! اپنے بارہ میں فرماتے ہیں: ہے فلسفہ میرے آب و گل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں اقبال اگرچہ بے ہنر ہے اس کی رگ رگ سے با خبر ہے شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز سن مجھ سے یہ نکتہ دل افروز اور وہ نکتہ یہ ہے: انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری افکار کے نغمہ ہائے بے صوت ہیں ذوق عمل کے واسطے موت دیں مسلک زندگی کی تقویم دیں سر محمد و براہیم ’’دل در سخن محمدی بند اے پور علی ز بو علی چند چوں دیدۂ راہ بیں نداری قاید قرشی بہ از بخاری‘‘ ہیگل (George wilhelm Freidrick Hegel) مشہور جرمن فلسفی، ولادت 1770ء وفات1831ء جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں فلسفہ کا استاد رہا۔ اس کی تصانیف میں Phenomenolohy of Mind (1807) Science of Logic (1822-16) Encyclopedia of the Philosoyhical Sciences (1817) Philosophy of Right (1821) مشہور ہیں۔ اس کے افکار و خیالات میں مذہب، جمالیات، اخلاقیات، تاریخ اور سیاست سب کچھ ہیں۔ان افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ ہیگل کے نزدیک ایک حقیقت مطلق محیط ہے۔ اس کا شمار ان تصورانی فلاسفہ کے ساتھ ہوتا ہے جن کی رائے کہ یہ دنیا تعقلی، با مقصد با معنی اور غایاتی ہے۔ ہیگل کلچر کے ارتقا کا قائل ہے اور کائنات کا یا کائنات میں عمل تخلیق مسلسل جاری ہے۔ سوشلسٹ افکار بڑی حد تک ہیگل کے خیالات سے متاثر ہوئے ہیں۔ ٭٭٭ مئے شبانہ: عبدالرشید طارق ایم اے 1۔ ماں کا خواب، بلبل اور ہمدردی علامہ اقبال کے دور اول کے کلام کا نمونہ ہیں اور بانگ درا میں شامل ہیں۔ ماں کا خواب اور ہمدردی دونوں ماخوذ ہیں۔ ہمدردی ولیم کوپر کی نظم سے ماخوذ ہے، اس کا پہلا شعر یہ ہے: ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا اس نظم پر بانگ درا میں لکھا ہے کہ بچوں کے لیے نظم کا مضمون اور اسلوب بیان نہایت رواں اور پختہ ہونے کے باوجود سادہ آسان اور دلنشیں ہے اور لطافت شعری سے خالی نہیں اور آٹھ اشعار پر مشتمل اس نظم کا اخلاقی نتیجہ اس آخری شعر میں ہے: ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے ماں کا خواب بھی ماخوذ نظموں میں ہے اور اگرچہ اس کے عنوان میں بھی لکھا گیا ہے کہ بچوں کے لیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جس صبر و شکر اور راضی برضائے الٰہی ہونے کا موضوع ہے وہ سادہ اور آسان اسلوب کے باوجود صرف بچوں سے خطاب نہیں ہو سکتا: میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اضطراب یہ ایک مرحوم بچے کی کہانی ہے جسے ماں خواب میں دیکھتی ہے۔ اور بچے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے دیے ہیں۔ یہ بچہ آہستہ آہستہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں دیا نہیں جلتا۔ ماں اپنے مرحوم بیٹے کی جدائی پر اپنے غم اور اس کی بے وفائی کا ذکر کر کے اشکبار ہوتی ہے۔ بیٹا جواب دیتا ہے کہ گریہ و زاری سے میری کوئی بھلائی نہیں، تیرے آنسوؤں نے اس دیے کو بجھا دیا۔ یہ ساری تمثیل بچوں کے ذہنی ادراک سے ذرا بالاتر ہے۔ بلبل کے عنوان سے کوئی نظم نہیں، غالباً پرندے کی فریاد کی طرف اشارہ ہے جو بچوں میں ایک نہایت مقبول نظم ہے: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ 2۔ حضرت ایوب انصاریؓ: بانگ درا کے حصہ سوم میں بلاد اسلامیہ کے عنوان سے پہلی نظم میں ایک بند یہ ہے: خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار مہدی امت کی سطوت کا نشان پایدار صورت خاک حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے نگہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا تربت ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا اے مسلماں ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر حضرت ایوب انصاریؓ صحابہ کرامؓ میں سے ہیں۔ خالد نام اور ابو ایوب کنیت تھی۔ مدینہ منورہ کے قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہشمند تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ ناقہ بیٹھے گا وہیں آپ قیام فرمائیں گے۔ ناقہ حضرت ایوب انصاریؓ کے مکان کے قریب بیٹھ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً سات ماہ یہاں قیام فمایا۔ حضرت ایوب انصاریؓ کا شمار اسلام کے جانباز مجاہدین میں ہوتا ہے اور اکثر غزوات میں آپ نے شرکت فرمائی ہے۔ امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں جب قسطنطنیہ کی مہم روانہ ہوئی تو آپ اس میں شریک تھے اور قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ہی آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔ مسلمانوں نے آپ کو وہیں دفن کر دیا۔ مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔ اس کے قریب ہی ایک مسجد ہے جسے سلطان محمد فاتح نے تعمیر کرایا تھا۔ پورا علاقہ حضرت ایوب انصاری کے نام سے ہی مشہور ہے۔ راقم کو بھی اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ایوب انصاری کی شہادت 48ھ مطابق668ء کا واقعہ ہے۔ آپ کے روحانی اثر اور تصرف کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سلاطین آل عثمان اپنی تخت نشینی کے موقع پر اپنی تلوار آپ کے مزار پر جھکاتے تھے۔* 3۔ سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقی و فقر حیدری است حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب کے باب میں علامہ کے کلام میں بکثرت اشعار ملتے ہیں۔ 4قومیت کا لفظ یہاں وضاحت طلب ہے۔ علامہ کی مراد ذات پات، برادری اور نسل سے ہے۔ مثلاً ہندوؤں کی چار ذاتوں کی طرح بعض مسلمان بھی مسلمانوں کو شیخ، سید، مغل، پٹھان کی چار ذاتوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان کو کہیں ذات اور کہیں قوم کہتے ہیں۔ پنجاب میں نو مسلم شیخ کہلاتے تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح راجپوت، جاٹ وغیرہ کہ غیر مسلم بھی تھے اور مسلم بھی۔ ظاہر ہے اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اللہ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے یعنی خدا سے ڈرنے والا اور انسانوں کو جو قبیلوں میں تقسیم کیا گیا تو صرف تعارف یا پہچان کے لیے۔ عام طور پر انتخابات میں اس طرح کے سوال اٹھتے تھے جس سے جمہوری انتخاب کا مقصد ہی فوت ہو جاتا تھا۔ علامہ نے انتخابات کے لیے جس قسم کی تجویز پیش کی وہ اس سے ملتی جلتی ہے جسے امریکی نظام میں (Primary Elections) کی صورت حاصل ہے۔ * Beals Oriental Biographical Dictionary 1891- p.12 5۔ سلطان ٹیپو شہید کے بارے میں پہلے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں ایک بات نہایت اہم یہ ہے کہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان مرا نہیں زندہ ہے اور عنقریب ان کے درمیان آئے گا۔ شہیدوں کے لیے یوں بھی قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ ان کو مردہ نہ کہو، وہ مرے نہیں زندہ ہیں، البتہ تم ان کو اپنی ان ظاہر بیں نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔ سلطان ٹیپو کے بارے میں دوبارہ ظاہر ہونے کا عقیدہ علامہ کے خیال میں درست نہ ہو گا کیونکہ وہ مہدی کے انتظار کے سلسلے میں اظہار خیال کر چکے ہیں کہ اس عقیدہ کا نفسیاتی پس منظر کیا ہے یعنی لوگ بجائے اپنی قوت پر بھروسہ کرنے کے: مردے از غیب بروں آید و کارے بکند کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ 6۔ بہاء اللہ: بہاء اللہ کا تعلق اس تحریک سے ہے جو بہائی یا بابی تحریک کے نام سے موسوم ہے جس کی ابتداء شیراز کے مرزا علی محمد باب (ولادت 1820ئ) سے ہوئی۔ یہ شیخ احمد کے شیعہ فرقے شیخیہ کے زیر اثر وجود میں آئی۔ علامہ نے ان کے عقائد کی تفصیل ایران میں ما بعد الطبیعیات کے ارتقا*میں بیان کی ہے۔ علی محمد باپ کے قتل کے بعد اس کے جانشین بہاء اللہ ہوئے۔ 7مرزا غلام احمد قادیانی: علامہ اقبال نے بہت کھل کر مرزا غلام احمد کے بارے میں لکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو جہاد کے تصور * Development of Metaphysics p.143-44-45 سے بیگانہ کرنا، ختم نبوت کے بنیادی اسلامی عقیدہ کو متزلزل کر کے اسلام کی اساس کو منہدم کرنا اور قرآن و حدیث کی تاویل کی ایک ایسی سمت اختیار کرنا تھا جو قطعاً اسلام کی روح کے منافی تھی۔ یہ سازش بھی برصغیر میں انگریزوں کی سیاسی سازشوں میں سے ایک سازش تھی۔ علامہ اقبال نے جواہر لال نہرو کو لکھا تھا کہ قادیانی نہ مسلمانوں کے وفادات ہو سکتے ہیں اور نہ ہندوستان کے۔ علامہ اقبال کا یہ تجزیہ کہ سلطنت مغلیہ کے انحطاط کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بحری طاقت کی طرف توجہ نہ دی: اسپین اور دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کے سیاسی زوال میں دیگر عناصر کے علاوہ یہ عنصر بھی شامل تھا۔ اپنے دور عروج میں مسلمانوں کی ترقی اور توسیع کا ایک بڑا سبب ان کی بحری طاقت تھی۔ نویں صدی عیسوی میں یہ طاقت اپنے انتہائی عروج پر تھی۔ ایشیاء اور افریقہ کے ساحلوں کے ساتھ تجارتی تعلقات اسی پر منحصر تھے۔ بحیرۂ روم کی تجارتی جہاز رانی صرف ان حصوں تک محدود تھی جو مسلمانوں کے زیر حکومت تھے۔ بحر ہند طالع آزمائی کا میدان تھا۔ دسویں صدی کے وسط تک مسلمانوں کے جہاز چین کے شہر خانفو تک پہنچ چکے تھے جو اب کینٹن کہلاتا ہے اور اس شہر میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی تھی۔ مسلمانوں کے جہاز کوریا اور جاپان تک آتے جاتے تھے *۔ 9ممکن ہے بعض ہندو دوستوں کو علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ *تفصیلات کے لیے منجملہ اور مآخذ کے دیکھئے میراث اسلام،مرتبہ طامس آرنلڈ ترجمہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب لاہور196خاص طور پر مقالہ جغرافیہ ا ور تجارت از جے ایچ کریمرز۔ پسند کرتے ہوں لیکن ایک دو (مثلاً جوگندر سنگھ) کے علاوہ خصوصی تعلقات کسی ہندو سے ثابت نہیں ہوتے ورنہ ان کی تحریروں اور مکاتیب میں کہیں نہ کہیں اشارے ہوتے۔ ایک مہاراجہ کشن پرشاد شاد (حیدر آباد) ہیں۔ لیکن وہ ایک صوفی منش انسان تھے اور یہی ان کے اور علامہ کے تعلقات کا محور تھا۔ پنجاب کی سیاست میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوستانہ تعلقات کا امکان کم تھا۔ علامہ واضح طور پر چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی سیاسی شخصیت اور قومی تشخص کو فراموش نہ کریں۔ اسی لیے وہ انفرادی طور پر مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت کے خلاف تھے کیونکہ کانگریس مسلمانوں کے اس الگ ’’ سیاسی وجود‘‘ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور علامہ کے لیے یہ اس مملکت کی اساس تھی جو پاکستان کے نام سے وجود میں آیا۔ علامہ نے درست فرمایا کہ مسلمان کے دل میں آزادی کی تڑپ ہندو سے زیادہ ہے۔ سرسید نے بھی اپنے رسالہ اسباب بغاوت ہند میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے، جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد مسلمان علماء کا جو سیاسی کردار رہا۔ وہ اس کا گواہ ہے کہ ان علماء نے قید و بند اور دار و رسن کو قبول کیا اور جہاد آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک آزادی میں جس زبان اور ادب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ اردو زبان اور اس کا شعر و ادب تھا جسے ہندو مسلمانوں کی زبان کہتے تھے۔ آزادی کی جدوجہد میں خاص مسلمانوں کے کردار پر آج بھی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ کا ریکارڈ صحیح رہے۔ 10بلاشبہ پنجابی میں تصوف کا نہایت اعلیٰ درجے کا ذخیرہ موجود ہے اردو میں بھی اس ذخیرہ کی کمی نہیں۔ اردوئے قدیم کا پہلا دور ہی صوفیائے کرام کا دور ہے اور یہ سلسلہ ابتدا سے آج تک جاری ہے*۔ 11۔ دین اور سیاست کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ دین یا مذہب خالص ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے اور سیاست کا تعلق اجتماعی اور عمومی معاملات و مسائل سے ہے۔ اس لیے اس مکتبہ فکر کے حامیوں کے نقطہ نظر کے مطابق دین اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ دراصل فکری طور پر مغرب میں کلیسا کی گرفت کے دور اقتدار میں سیاست ایک طرح کے پروہتی نظام کا شکار ہو کر رہ گئی تھی کہ کلیسا کے عہدہ دار ہی ایک دینی پشت پناہی کا سہارا لے کر سیاست کے سیاہ سفید کے مالک تھے۔ اس کے رد عمل کے طور پر لادینی سیاست وجود میں آئی۔ علامہ کے نزدیک جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی دور جدید میں اشتراکی نظریات و افکار میں بھی یہی کمزوری ہے کہ وہ مذہب یا خدا کو سیاست اور اجتماعی معاملات سے خارج سمجھتے ہیں۔ *اس موضوع پر مطالعے کے لیے بعض مآخذ اور مصادر یہ ہیں: 1اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام۔ مولوی عبدالحق 2پنجاب میں اردو، محمود شیرانی 3نقوش سلیمانی، سید سلیمان ندوی 4مقالات شیرانی (مجلس ترقی ادب لاہور) 5 تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند، پنجاب یونیورسٹی لاہور 12جہاد کی اہمیت کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات پر اظہار خیال کیا جا چکا ہے کہ علامہ کے نزدیک مرزا غلام احمد کی تحریک جہاد کے خلاف ایک غیر اسلامی تحریک یا سازش تھی۔ حج کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے اور ہر صاحب استطاعت پر یہ واجب ہے۔ سال میں ایک مرتبہ سارے عالم اسلامی سے فرزندان توحید، حرم کعبہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوتے ہیں۔ نہ رنگ و نسل کا کوئی امتیاز رہتا ہے، نہ وطن اور زبان کا، سب کا ایک لباس، سب کا ایک عمل، یہ ایمان افروز نظارہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور یگانگت کا سب سے بڑا مظہر ہے اور اس سے اسلامی عالمگیریت کے اس تصور کو تقویت پہنچتی ہے جو علامہ کا مقصد حیات تھا۔ 13۔ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد عرف نتھو تھے۔ یہ عرف یوں پڑا کہ نور محمد صاحب کی ولادت سے پہلے ان کے والدین کے کئی لڑکے یکے بعد دیگرے پیدا ہو کر انتقال کر گئے تھے، اس لیے ان کی ولادت سے پہلے اور بعد میں بہت سی ایسی رسمیں ادا کی گئیں جو اسلامی نہ تھیں ان میں ایک رسم یہ تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی ناک یا کان چھید دیتے تھے اور اس میں نتھ یا دریا پہنا دیتے تھے چنانچہ نور محمد صاحب کی بھی ناک چھید دیتے تھے اور اس میں نتھ یا دریا پہنا دیتے تھے چنانچہ نور محمد صاحب کی بھی ناک چھید دی گئی اور کئی سال تک وہ اس نتھ کو پہنے رہے، اسی وجہ سے عرف عام نتھو ہو گیا۔ علامہ کے سوانح نگاروں نے نور محمد صاح کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں۔ سیالکوٹ کے بازار چوڑی گراں میں جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔ کشمیریوں کے چند خاندان آباد تھے۔ اسی محلہ میں نور محمد صاحب پیدا ہوئے۔ رہنے کے لیے قدیم طرز کا ذاتی مکان تھا۔ مزاج میں قناعت، توکل اور درویشی تھی۔ یہی خصوصیات بیٹے کو باپ سے ورثہ میں ملیں۔ نور محمد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن دینی اور اخلاقی تربیت جس طرح انہوں نے اس کی اس کا ذکر علامہ کے یہاں موجود ہے۔ 17 اگست 1930ء کو ان کا انتقال ہوا۔ 14۔ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دو آدمی کون تھے۔ معتبر راوی بتاتے ہیں کہ ایک سر سکندر حیات اور دوسرے سر فیروز خان نون کی طرف اشارہ ہے۔ 15۔ ویسے علامہ اقبال، مہدی یا آنے والی Guidinig Spirit کے زیادہ قائل نہ تھے، لیکن یہاں ذکر سیاست کا تھا اور علامہ کا اشارہ قائد اعظم کی طرف ہو گا جو مسلمانوں کے عظیم قائد کی حیثیت سے نمودار ہو چکے تھے۔ علامہ نے اپنے ایک خط میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ خط لاہور سے 21جون1937ء کو بہ صیغہ راز قائد اعظم کو لکھا گیا*۔ مائی ڈیر مسٹر جناح نوازش نامہ کل موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے میں اٹھنے والا ہے، صرف آپ ہی کی ذات گرمی سے رہنمائی کی توقع ہے۔۔۔۔ 16سید سلیمان ندوی: علامہ شبلی نعمانی کے نامور شاگرد *اقبال نامہ حصہ دوم، ص19-18 اور جانشین، عالم و فاضل، والد کا نام ابو اسحق تھا۔ عربی کی تعلیم دار العلوم ندوہ میں حاصل کی اور یہیں سے مولانا شبلی سے عقیدت اور وابستگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ تک ندوہ کے اڈیٹر بھی رہے اور کچھ مدت پٹنہ کالج میں عربی اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے گزاری۔ سب سے بڑا کارنامہ علامہ شبلی کی یادگار دار المصنفین اعظم گڑھ کا قیام اور تصنیف و تحقیق کا سلسلہ جو اس ادارے نے شروع کیا اور اب تک جاری ہے۔ سید صاحب نے خود سیرت النبیؐ کو جو ان کے استاد کا قابل فخر کارنامہ ہے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ علامہ اقبال کے ساتھ افغانستان کے سفر میں شریک تھے۔ 1952ء میں کراچی میں وفات ہوئی۔ بکثرت تصانیف ان کی موجود ہیں۔ ٭٭٭ حکیم مشرق: حکیم محمد حسن قرشی 1مولانا ظفر علی خان: مولانا ظفر علی خان کی ولادت 1873ء میں اور وفات 1956ء میں ہوئی۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے اور مشہور ادیب، انشا پرداز اور محقق علامہ محفوظ علی بدایونی کے ہم جماعت اور حلقہ احباب میں تھے۔ علی گڑھ کی تعلیم سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ حیدر آباد میں مولوی عزیز مرزا کے دفتر میں مترجم رہے۔ مولانا شبلی بھی وہیں تھے اور مولانا عبدالحلیم شرر بھی۔ مولوی عبدالحق صاحب بھی جو ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ مدرسہ آصفیہ میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ میر محفوظ علی بھی اسی زمانہ میں حیدر آباد پہنچے۔ ظفر علی خاں کے مزاج میں شوخی اور تیزی و تندی بلا کی تھی۔ حیدر آباد کے ریونیو سیکرٹری مسٹر وا کر کی ہجو میں ’’ واکر نامہ‘‘ لکھا اور اس کی سزا یہ ملی کہ حیدر آباد سے شہر بدر کر دیے گئے۔ میر محفوظ علی جب سومالی لینڈ میں جج تھے اور مولانا ظفر علی بھی وہیں پہنچے اور تقریباً ایک سال قیام کیا۔ جنگ روس و جاپان (ترجمہ) اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ اس کے بعد میر صاحب اور مولانا نے بمبئی میں تجارت شروع کی۔ مولوی عزیز مرزا کی سفارش سے مولانا کو دوبارہ حیدر آباد جانے کی اجازت ملی۔ دکن ریویو اسی زمانہ میں نکالا، لیکن ان کی اصل شہرت صحافت میں اخبار زمیندار کے واسطہ سے ہوئی اور کم و بیش 1912ء سے 1935ء تک عملی طور پر برصغیر کی ملی اور سیاسی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا۔ انگریزوں کے عتاب میں زندگی کا بڑا حصہ جیل خانہ میں گزارا۔ بارہا اخبار اور پریس کی ضمانت ضبط ہوئی لیکن ان کی پالیسی میں فرق نہ آیا۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک میں بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیا اور نظم و نثر میں اپنے خیالات بلا جھجک ادا کیے۔ صحافت اور شاعری دونوں میں درجہ کمال رکھتے تھے۔ وہ جو انشا کے متعلق مشہور قول ہے کہ ان کے فضل و کمال کو شاعری نے اور شاعری کو نواب سعادت علی خاں کی صحبت نے ڈبویا تو وہی بات مولانا کے باب میں کہی جا سکتی ہے کہ اگرچہ انہوں نے اردو میں بے باک صحافت کا ایک اعلیٰ معیار قائم کیا لیکن اس سے ان کے مزاج اور شاعری دونوں پر اثر پڑا۔ مولانا کی شاعری میں بڑے امکانات تھے اور بلا شبہ ان کا شمار اس عہد کے شعرا کی صف اول میں ہوتا ہے۔ لیکن وقتی اور ہنگامی موضوعات و معاملات پر مضحک یا طنز و ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوڑ کر مولانا نے اپنی صلاحیتوں کو اس حد تک ضائع کیا۔ لیکن اعلیٰ درجے کی شاعری اور نثر کا جو نمونہ موجود ہے وہ بھی ان کی شہرت اور بقائے دوام کے لیے کافی ہے۔ اس شاعری کا محور ملی اور سیاسی تحریکات ہیں۔ نظم جدید میں بھی ان کے بعض اعلیٰ درجے کے شاہکار موجود ہیں مثلاً وادی جہلم، سیر کہسار اور نوید بہار، سلطان ٹیپو کے مزار پر دو آنسو اعلیٰ درجہ کی اثر انگیز نظم ہے۔ علامہ اقبال کی طرح مولانا ظفر علی خاں بھی تصوف کے وحدت وجودی مسلک کے خلاف تھے اور علامہ کی طرح نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ بلکہ سارے عالم اسلامی کے اتحاد و اتفاق اور فلاح و بہبود کے قائل تھے اور جہاد کو روح اسلام سمجھتے تھے۔ ترکوں سے انہیں خاص محبت تھی اور مختلف نظموں میں اس کا اظہار ہوا ہے۔ اقبال کی طرح مولانا بھی عاشق رسولؓ تھے اور ان کی بعض نعمتیں اردو نعت گوئی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی: دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو ٭٭٭ وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں 2۔ آغا حشر کاشمیری: آغا محمد شاہ نام، آغا محمد غنی شاہ کے بیٹے تھے۔ آبا و اجداد کا وطن کشمیر تھا۔ اس خاندان کے چند بزرگ بنارس آئے۔ یہیں آغا محمد شاہ کی ولادت 1879ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بنارس میں حاصل کی اور یہیں شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ یہ زمانہ پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کے کھیل کا تھا اور الفریڈ تھیٹریکل کمپنی ایک مشہور کمپنی تھی۔ احسن لکھنوی اس کے ڈرامہ نویس تھے۔ انہیں دیکھ کر حشر کو بھی ڈرامہ لکھنے کا شوق ہوا اور آفتاب محبت اس دور کی یادگار ہے۔ 1898ء میں حشر بمبئی چلے گئے جو پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کا مرکز تھا۔ 1899ء میں الفریڈ ناٹک کنڈلی کے لیے شیکسپیئر کے ڈرامے (A Wraiters Tale) کا ترجمہ مرید اشک کے نام سے کیا اس کے بعد کئی اور ڈرامے شیکسپیئر کے ڈراموں سے ماخوذ لکھے۔ 1899ء سے 1930ء تک انہوں نے 32 ڈرامے لکھے جن سے ڈرامہ نویس کی حیثیت سے وہ مسلم ہو گئے۔ ڈرامہ نویسی کے ساتھ ان کو ملت اسلامیہ کی اس دور کی تحریکوں سے بھی دلچسپی تھی اور مولانا ابو الکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی وغیرہ کے ساتھ مذہبی جلسوں میں شرکت کرتے اور تقریریں کرتے تھے۔ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکات شروع ہوئی تو اس کے خلاف بھی آغا حشر پیش پیش رہے۔ اپریل 1938ء میں لاہور میں انتقال ہوا۔ 3بلقان فنڈ: یہ فنڈ جنگ بلقان کے دوران ترکوں کی امداد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 1912ء میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن کا ساری عالمی اسلامی برادری سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان میں لیبیا پر اٹلی کا قبضہ، مراکش پر فرانسیسی اقتدار اور ترکی پر بلقانی اتحادیوں کا حملہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انور پاشا اور مصطفی کمال پاشا شیخ سنوسی کی مدد سے طرابلس میں اٹلی کی فوجوں سے بر سر پیکار تھے کہ سرویا، بلغاریہ اور یونان کی بلقانی ریاستوں نے 1913ء میں ترکی سے اعلان جنگ کر دیا اور ترک افسروں کو طرابلس کا میدان چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ اس کشمکش کی ایک طویل داستان ہے اور اسی سلسلہ میں غازی انور پاشا نے ادرنہ کا محاصرہ کر کے اسے دوبارہ فتح کر لیا۔ اس موقع پر دول عظمیٰ نے زور ڈال کر ترکی کو صلح پر مجبور کیا اور وہ بدنام زمانہ صلح نامہ جو میثاق سیورے کہلاتا ہے اس سلسلے کی آخری کڑی تھی جو 1920ء میں ہوا اور جس نے سلطنت عثمانیہ کی حیثیت اور اہمیت کو زبردست صدمہ پہنچایا۔ محاصرۂ ادرنہ جس کا اوپر ذکر ہوا، اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ایک نظم کا عنوان بھی ہے: یورپ میں جس گھڑی حق و باطل میں چھڑ گئی حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہوگیا گرد صلیب گرد قمر حلقہ زن ہوئی شکری حصار درنہ میں محصور ہوگیا مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام روئے امید آنکھ سے مستور ہوگیا آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے آئین جنگ شہر کا دستور ہوگیا ہر شے ہوئی ذخیرہ لشکر میں منتقل شاہیں گدائے دانہ عصفور ہوگیا لیکن فقیہ شہر نے جس دم سنی یہ بات گرما کے مثل صاعقہ طور ہوگیا ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہوگیا چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا 4۔ فقیر افتخار الدین: فقیر افتخار الدین لاہور کے مشہور ’’فقیر ‘‘ خاندان کے ایک فرد علامہ اقبال کے حلقہ احباب میںاور لاہور کے اکابر میںشمار ہوتے ہیں۔ اس خاندان کا سکھوں کے دربارمیں بڑا عروج ہوا اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جہاں تک ہو سکا اس عہد کے آلام و افکار سے بچایا۔ فقیر سید نجم الدین بھی علامہ اقبال کے خاص احباب میں سے تھے اور ان کے فرزند فقیر سید وحید الدین نے روزگار فقیر کے نام سے علامہ اقبال اور ان کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ جو شعر نقل کیا گیا ہے اس سلسلے میں ایک اور شعر بھی ہے۔ ہم نشین بے ریایم از رہ اخلاص گفت از کلام تو فروغ دیدہ برنا و پیر درمیان انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر فقیر سید وحید الدین فقیر سید افتخار الدین کے نواسے تھے اورانہی کے وسیلے سے سید وحید الدین کی رسائی علامہ تک ہوئی۔ روزگار فقیر میں ایک خاصی مدت پرمحیط تعلقات کاذکر موجود ہے۔ 5۔ شفا ء الملک حکیم فقیر محمد چشتی: لاہور کے مشہور طبیب وطن جگرائوں ضلع لدھیانہ تھا عربی وفارسی کی تکمیل کے بعد مدرسہ طبیہ دہلی میں جو بعد میں طبیہ کالج ہوا داخل ہو کر طب کی تکمیل کی اور 1909ء میں لاہور آ کر اپنا مطب شروع کیا۔ روایت ہے کہ سر سکندر حیات خان کو جو ایک زمانہ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے درد گردہ کا عارضہ لاحق ہوا اور ڈاکٹروں نے علاج سے عاجز ہو کر یورپ جانے اور آپریشن کرانے کا مشورہ دیا لیکن فقیر محمد چشتی صاحب کے علاج سے وہ تکلیف جاتی رہی اور سر سکندر حیات خاں کی سفارش پر انہیں شفاء الملک کا خطاب ملا۔ طب کے علاوہ خطاطی اور مصوری سے بھی دلچسپی تھی۔ بے اولاد تھے لہٰذا اپنی جائیداد طبیہ کالج دہلی کے نام وقف کر دی تھی۔ 16اکتوبر 1937ء کو انتقال ہوا۔ 6۔ عبدالوہاب حکیم نابینا برصغیر پاک و ہند کے معروف طبیب ڈاکٹر انصاری (مختار احمد) کے بڑے بھائی تھے اور ان کو ڈاکٹری کی تعلیم انہین نے دلائی تھی۔ پیدائشی نابینا تھے لیکن حافظہ زبردست تھا۔ اس بصار ت سے محرومی کے باوجود عربی‘ فارسی‘ علوم دین اور طب کی تعلیم مکمل کی۔ حافظ قرآن تھے ۔ اور تصوف سے غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ طب میں بڑا نام پیدا کیا اور ایسے زمانہ میں کہ حکیم اجمل خاں جیسے طبیب اور ڈاکٹر انصاری جیسے ڈاکٹر موجود تھے‘ ان کی شہرت اور مقبولیت حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ عرصہ تک حیدر آباد میں قیام رہا جہاں نظام کے طبیب بھی رہے۔ علامہ اقبال کو ان پر جو اعتماد تھا ا س کا اظہار بکثرت مکاتیب میں موجود ہے۔ ٭ 7۔ بار دراصل یہ ہے کہ پلائو اورکباب ایک طرح مسلمانوں کا بین الملی کھانا ہے۔ ہندوستان پاکستان افغانستان ایران ‘ عراق‘ شام‘ لبنان‘ عرب ‘ مصر کہیں چلے جائو پلائو اور کباب کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملتے ہیں۔ 8۔ اقبال اور عشق رسولؐ کے موضوع پر بہت لکھا گیا ہے ۔ اقبال کا خیال تھا اور درست کہ عشق رسول ؐ اسلام کی ایک بنیادی شرط ہے۔ ان کا عمل اس حدیث شریف میں تھا: ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی کامل ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اسکے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘ حضرت انسؓ نے بھی بعینہ یہ حدیث مروی ہے مگر اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔ ٭ میرے زمانے کی دلی ملا واحدی‘ طبع دوم‘ مشہور پریس کراچی سنہ ندارد۔ 9۔ علامہ اقبال نے جا بجا طب مغرب یعنی ایلوپیتھی کے مقابلہ میں طب یونانی کی حمایت کی ہے اور خود بھی اس پر عمل کیا ہے چنانچہ اپنی آخری علالت میں بھی جس کی تفصیل منجملہ اور لوگوں کے سید نذیر نیازی نے مکتوبات میں بیان کی ہے وہ حکیم نابینا صاحب کے علاج اور دوائوں کو ترجیح دیتے تھے۔ بات صحیح ہے اول تو طب یونانی مسلمانوں کا فن ہے کہ انہوںنے اس کو درجہ کمال تک پہنچایا ار جدید طب مغربی کے لیے راہ ہموار کی ۔ دوسرے یہ طریق علاج ملکی آب و ہوا اور شخصی مزاج کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ طب مغرب میں مزاج کے نام کی کوئی شے نہیں اب یہ ماننے لگے ہیں کہ بعض لوگوں پر بعض ادویہ کا اثر خراب ہوتا ہے جسے وہ Contra Indication کہتے ہیں۔ نبض کی اہمیت کے وہ قائل نہ تھے۔ اب بعض حالتوںمیں اسے ماننے لگے ہیں۔ 10۔ یہ تاریخی شعر ہیں اس لیے میں علامہ کے شعری مسلک کے مآخذ ‘ اس کی اساس اور موضوع سب کا احاطہ ہو گیا ہے۔ 11۔ حکیم محمد حسین قرشی: اس مضمون کے مصنف علامہ کے حلقہ احباب اور طبیبوں میں شامل ہیں۔ 1896ء میں گجرات ‘پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے مدرسہ نعمانیہ میں حاصل کی۔ پھر طب کی طرف آئے طبیہ کالج دہلی سے بھی استفادہ کیا۔ اور کچھ عرصہ تک وہاں درس و تدریس سے بھی منسلک رہے۔ بمبئی بھی رہے 1920ء میں لاہور آ کر مطب شروع کیا اور طبیہ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ طب یونانی کے احیا اور ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ شفاء الملک کا خطاب بھی ملا ہے سیاسی اور ملی تحریکوں میںنمایاں حصہ لیا ہے۔ طبی کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ٭٭٭ اضافہ متن اقبال اور عبدالحق: مرتب ممتاز حسن ’’اقبا ل نے ایک نجی محفل میں ایک سوال کے جواب میں کہا: 1۔ مولوی عبدالحق ٭کو مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد سے بذات خود کوئی تعلق نہیں تھا مگر جب خود ان کے اپنے معبود (یعنی اردو) پر زد پڑی تو وہ اس تحریک میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے‘‘۔ 2۔ ’’2 فروری 1938ء کی نشست میں نذیرنیازی نے اقبال کے کہنے پر قائد اعظم محمد علی جناح ٭٭ کی ایک تقریر پڑھ کر سنائی جو اسی روز اخبار میں چھپی تھی ۔ اقبال اس تقریر کی دو باتوں سے خوش ہوئے: ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر‘‘۔ 3۔ ’’7 مارچ کی نشست میں اقبال کا ارشاد تھا کہ انگریزوں نے باوجود سلطنت مغلیہ کے زوال و انتشار کے …یہ ملک مسلمانوں سے چھینا تھا ٭٭٭ مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی غلبہ کو وہ اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے۔ لہٰذا انہوںنے بڑی تن دہی سے اردو کو فروغ دیا تاکہ مسلمانوں کا رشتہ فارسی اور عربی سے کٹ جائے اور وہ اپنے علمی اور تہذیبی ورثہ سے محروم ہوجائیں مگر پھر اسی واردو سے جب مسلمانوں کے شعور ملی کو تقویت پہنچی تو اور وہ ان کی قومی زبان بن گئی تو یہ امر قطعاً حکومت کو ناگوار گزرا اور اب اس نے اردو کے مقابلہ میں ہندی کی حمایت شروع کر دی‘‘۔ ٭ اقبال اور عبدالحق ‘ مرتبہ ممتاز حسن۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ دسمبر 1973ء مقدمہ ص 12-13۔ ٭٭ ایضاً ص 33۔ ٭٭٭ ایضاً ص 34۔ تعلیقات 1۔ مولوی عبدالحق ولادت 20اپریل 1870ء سراوہ قصبہ ہاپڑ (یا ہاپوڑ) ابتدائی تعلیم پنجاب میں ہوئی۔ 1894ء میں علی گڑھ سے بی اے پاس کیا۔ ان کے معاصرین میں مولانا ظفر علی خان اور میر محفوظ علی تھے۔ میر صاحب سے ان کے خصوصی تعلقات آکر عمر تک قائم رہے۔ اور ان کے مضامین و مقالات مولوی صاحب نے ہی مرتب کر کے پہلی مرتبہ شائع کیے اردو زبان کی تاریخ میں مولوی صاحب اردو کے سب سے بڑے مجاہد ہیں۔ اور دور جدید میں اردو کی ترقی میں انہوںنے سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ انجمن ترقی ارد و کا قیام آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس دہلی میں 1903ء مٰں عمل میں آیا۔ اور اس کے پہلے سیکرٹری مولانا شبلی نعمانی ہوئے۔ پھر مولانا حبیب الرحمن شیروانی (نواب صدر یار جنگ بہادر) اور عزیز مرزا سیکرٹری رہے ۔ 1912ء میں مولوی صاحب صدر انجمن کے معتمد ہوئے اور ا س وقت سے انجمن اورمولوی صاحت ایک ہی ادارے کے دو نام ہیں۔ انجمن کا دفتر پہلے علی گڑھ میں تھا 1913ء میں مولوی صاحب اسے اورنگ آباد لے گئے جہاں وہ ریاست حیدر آباد کے محکمہ تعلیم سے منسلک تھے۔ 1938ء تک انجمن کا دفتر اورنگ آباد میں رہا اور 1935ء میں اس دہلی منتقل کیا گیا۔ 1947ء تک انجمن کا دفتر دہلی میں رہا۔ 1947ء کے فسادات میں مجبور ہو کر مولوی صاحب نے پاکستان ہجرت کی اور بقول خود 28 جنوری 1949ء کو بمبئی سے یہ شعر پڑھتا ہوا جہاز میں سوار ہوا۔ رخصت اے ہندوستان اے بوستان بے خزاں رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہماں پاکستان میں انجمن کا دفتر کراچی میں قائم ہوا۔ 1957ء تک مولوی صاحب اس کے سیکرٹری رہے اور اس سال صدر انجمن منتخب ہوئے۔ 16اگست 1961 کو انتقال ہوا۔ سیاسی محاذ سے قطع نظر مولوی صاحب نے اردو کی علمی خدمت میں نمایاں حصہ لیا اردو کے قدیم ادب کی اہمیت کے پیش نظر انہوںنے اس کی طرف خاص توجہ دی اور خود بکثرت دکھنی ادبیاب کے نادر نمونوں کو متعارف کرایا۔ اردو زبان اور شعر و ادب کی تاریخ کی کڑیاں مکمل کرنے کے لیے انہوںنے شعر ائے اردو کے نادر و نایاب تذکرے مرتب کر کے شائع کیے۔ ان کے مقدمات اس صنف میں ایک معیاری نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شخصی خاکے لکھنے میں بھی مولوی عبدالحق کو کمال حاصل تھا اور چند ہم عصر اس فن کا ایک اعلی درجے کا نمونہ ہے۔ مولوی صاحب کا اسلوب حالی کی طرح صاف‘ سادہ اور حقیقت پسند انہ ہے۔ بقول استاذی رشید احمد صدیقی اردو کا بنیادی اسلوب وہی ہے جو مولوی عبدالحق کا ہے۔ علامہ اقبال اور مولوی عبدالحق صاحب کے تعلقات کا اندازہ ان مکتوبات سے ہوتا ہے جو علامہ نے مولوی صاحب کو لکھے ہیں۔ علامہ اقبال اردو کی حیثیت اور اہمیت کے قائل تھے اور یہی مولوی صاحب اور علامہ کے روابط کی بنیاد تھی۔ علامہ مولوی صاحب کی خدامت کا بھی اعتراف کرتے تھے۔ اور اس خواہش کا بھی اظہار کرتے تھے کہ کاش ان کو بھی مولوی صاحب کے ساتھ اردو کی خدمت کا موقع ملتا ویسے علامہ نے اپنی شاعری سے اردو شاعری اور زبان کی جو آبرو بڑھائی ہے وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ 2۔ یہ بات نہایت اہ ہے کہ علامہ اقبال اردوکو محض ایک زبان نہیںسمجھتے تھے۔ اور نہ محض اس کی شاعری اور ادبیات کی اہمیت کی وجہ سے اس پر زور دیتے تھے۔ بلکہ علامہ اسے برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب کے ایک عظیم علامت یا Symbolسمجھتے تھے۔ اور اسی لیے اردو کے کسی حملہ کو وہ مسلمانوں کی تہذیب کی اساس پر حملہ قرار دیتے تھے ہندوئوں کی اردو دشمنی اور اردو ہندی قضیہ کی ساری بنیاد یہی تھی۔ 3۔ برصغیر پاک و ہند میں عربی و فارسی کا انحطاط اس علاقہ کی ملت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک بہت بڑا حادثہ ہے۔ اس کا یک نتیجہ تو یہ ہوا کہ مسلمان اپنی تہذیبی روایات اور ثقافتی اور علمی ورثہ سے کٹ گئے اور دوسری طرف جدید تعلیم کے نام سے جو تعلیم دی گئی وہ نہ تعلیم تھی اور نہ اس کا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ماضی اور ان کی روایا ت اوران کی ضروریات سے کوئی تعلق تھا۔ مسلمانوں میں اس کی بدولت تعلیم کے نام سے تیسرے درجہ کی تقلید اور نقالی کی روایت قائم ہو گئی اور اعلیٰ درجے کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کا راستہ بند ہو گیا۔ جب اردو نے عربی فارسی کی جگہ لی تو یہی صورت حال اردو کے ساتھ پیش آئی کہ اسے انگریز دشمنی اور ہندو مخالفت دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ‘ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے پی۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ لکھا ہے اور کراچی یونیورسٹی سے اس پر ڈگری ملی ہے۔ اب اسے انجمن ترقی اردو نے شائع بھی کر دیا ہے۔ ٭٭٭ روزگار فقیر (ص 29-30) اس پہلی ملاقات کے بعد علامہ مرحوم کو اکثر اپنے ہا ں رونق افروز ہوتے دیکھا۔ اگر والد لاہور میں موجود ہوں تو شاید ہی کوئی دن جاتا ہو گاکہ اقبال ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں یا والد ان کے ہاں نہ جاتے ہوں۔ اس لیے کہ ان بزرگوں کی دوستی محبت اور رفاقت کے اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ جہاں من و تو کے بیشتر حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ جذباتی الجھنیں ہوں یا گھریلو مسائل ماضی کا کوئی بھی دکھ ہو یا مستقبل کاکوئی بھی اندیشہ ہنگامہ شادی ہو یا سانحہ‘ غم گزرا ہوا تجربہ ہو یا آنے والی مشل پر بات باہمی اشتراک اور مشورت کو دخل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دوست آپس میں ملتے تو ان کی طویل صحبتیں کچھ بہتے ہونے پانی کاس سا عالم یاد دلاتیں کبھی سست خرام اور پرسکوت‘ کبھ پر شور اور طوفانی۔ خامشی کے لمبے وقفوں کے بعد بھی نہایت متین اور سنجیدہ گفتگو کی ہلکی ہلکی لہریں جنبش میں آتیں تو کبھی بذلہ سنجی اور لطیفہ بازی کا ایسا غلغلہ بلند ہوتا کہ سارا گھر گونج اٹھتا۔ ان صحبتوں کی کیفیت میرے ذہن میں محفوظ ہے لیکن افسوس کہ ان کی تفصیل محو ہو چکی ہے۔ اتنا یاد ہے کہ گفتگو کے دوران جب کبھی باری تعالیٰ یا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو علامہ مرحوم پر یکایک ایک وجدان سا طاری ہو جاتا۔ اس موقع پر عام طور پر وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو جاتے۔ تعلیقات 1۔ علامہ اقبال کے اپنے کلام ان کے ملفوظات ان کی سوانح حیات اور ان کے نقادوں کے اقوال اس سلسلے میں بکثرت ہیں۔ عشق رسول ؐ سے علامہ اقبال کے مزاج میں جو خاص قسم کی رقت پیدا ہو گئی تھی‘ اس کے کئی حوالے روزگار فقیر میں ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کیفیت کو علامہ اقبال بیان نہیںکر سکتے تھے اس لیے آبدیدہ ہو کر خاموش ہو جاتے۔ ایمان کے کامل ہونے کی جو پہچان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان کی ہے اس میں اسی طرح کی شدید محبت کا ذکر ہے لیکن علامہ اقبال نے اس عشق و محبت میں بھی ادب و احتیاط ملحوظ رکھی ہے اور ان کے کلام میںکہیں کوئی ایسا شعر نہیں ملے گا جیسے بعض نعت گو شعرا ے یہاں انتہائے شوق کے عالم میں ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے شوخی کی بعض مثالیں تو ان کے یہاں ہیں لیکن حضور اقدس کی ذات کے ساتھ انتہائی ادب و احترام اور احتیاط لازم جانتے ہیں۔ (ص 32-33) ’’ایک عجیب بات سنو۔ کل صبح میں اقبال کے ہاں گیا تو وہ گویا میرے منتظر بیٹھے تھے۔ دیکھتے ہی کھل گئے اور کہا اچھا ہوا فقیرتم آ گئے سنا ہے کہ داتا گنج بخش کی درگاہ آج کوئی بہت روشن ضمیر بزرگ قیام رکھتے ہیں ۔ ان سے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوںسے یہ وعدہ ایزدی ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز اور سربلند ہو ں گے تو آج کل یہ قوم اتنی ذلیل و خوار کیوں ۃے۔ ؟ اچھا ہے تم بھی ساتھ چلے چلو۔ اکیلے یہ زحمت کون کرے۔ میں بے ہامی بھر لی اور چلنے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ علامہ مرحوم ہاتھ ائوں ہلانے میں ہمیشہ بہت تامل کرتے تھے۔ دو قدم چلنا ہو تو اس کے لیے گھنٹوں پہلے تیاری کی ضرورت پڑتی تھی۔ چنانچہ داتا گنج بخش کے سفر کافیصلہ ہوتے ہی انوہںنے علی بخش کو آواز دی اورکہا کہ دیکھو ہم گھر سے باہر جا رہے ہیں ذرا جلدی سے فقیر کے لیے حقہ بھرو اور بھاگ کر کچھ سوڈا لیمن وغیرہ لے آئو۔ اس اہتمام میں حسب معمول جانے کتنا وقت نکل گیا۔ جب صبح سے دوپہر ہو گئی تو میں نے کہا:بھئی اقبال تمہارا کہیں جانے کا ارادہ تو نہیں ہے یوں ہی وقت ضائع کر رہے ہو۔ میں تو اب اکیلا گھر چلا۔ اقبال اس پر چونک سے پڑے اور کہا ہاں بھئی اب تو واقعہ دھوپ تیز ہو گئی ہے تم جانا چاہتے ہو تو جائو لیکن یہ وعدہ کرو کہ شام کو ضرور آئو گے۔ کچھ بھی ہو ہمیں ان بزرگ کے پاس ضرور جانا ہے۔ میں وعدہ کر کے چلا آیا۔ سہ پہر کو پھر پہنچا لیکن پھر اسی طرح حقہ اور سوڈا لیمن میں دن ڈھل گیا۔ میں نے اقبال سے اس تساہل کا شکوہ کیا تو اقبال بہت ہی انکسار سے کہنے لگے ’’بھئی اس دفعہ اور معاف کر دو صبح ضرور چلیں گے‘‘۔ اگلی صبح میں عمداً دیر سے پہنچا۔ کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا اقبال کو دیکھا تو ان کی عجیب کیفیت تھی۔ رنگ زرد‘ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ تفکر اور اضطراب کا یہ عالم جیسے کوئی شدید سانحہ گزر گیا ہو۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے؟ کہنے لگے فقیر میرے قریب آ کر بیٹھو تو کہوں آج صبح میں یہیں بیٹھا تھا کہ علی بخش نے آ کر اطلاع دی کہ کوئی درویش صورت آدمی ملنا چاہتاہے میں نے کہا بلا لو ۔ ایک درویش صورت آدمی میرے سامنے خاموش آ کھڑا ہو گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد میں نے کہا فرمائیے۔ آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟ اجنبی بولا ’ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں‘‘۔ اور اس کے بعد مثنوی کا مشہور شعر پڑھا: گفت رومی بر بناے کہنہ کا باداں کنند تو ندانی اول آن بنیاد را ویراں کنند کچھ پوچھو نہیںکہ مجھ پر کیا گزر گئی۔ چند لمحوں کے لیے مجھے قطععی اپنے گرد و پیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کے لیے نظر اٹھائی لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ علی بخش کو ہر طرف دوڑایا لیکن کہیں سراغ نہ ملا‘‘۔ والد مرحوم نے یہ واقعہ پہلے مجھے اور دوبارہ ایک دفعہ میرے پرانے دوست عاشق بٹالوی کو سنایا۔ جب عاشق بٹالوی نے کسی کاحوالہ دیے بغیر ڈاکٹر صاحب سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی تو انہوںنے فوراً کہا کہ تمہیںیہ واقعہ فقیر نجم الدین سے معلوم ہو ا ہو گا کیوں کہ میں نے صرف انہیں کو سنایا تھا۔ تعلیقات 2۔ ایسے واقعات کا حوالہ صوفیائے کرام کے یہاں جا بجا ملتا ہے۔ اس طرح کی روشن ضمیری ایک معمولی مظاہرہ دور حاضر میں Telepathyکے ذریعہ سے ہوتا ہے ۔ کہ عامل معمول کے مافی الضمیر کو بتا دیتے ہیں علامہ اقبال کو اپنی تشویش کا جواب مل گیا۔ ان کے کلام میں رجائیت کا جو عنصر ہے وہ اسی جواب کی روشنی ہے۔ خود فرماتے ہیں: پاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کارزار ٭٭٭ (ص 38-39) ایک دفعہ ان کی طبیعت ذرا شگفتہ تھی یعنی باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سوال کی اکہ ڈاکٹر صاحب آپ شعر کیسے کہتے ہیں؟ فرمایا ایک مرتبہ فارمن کرسچن کالج لاہور کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے مجھے بھی اس مین دعوت کی شرکت دی اجلاد کا پروگرام ختم ہونے کے بعد چائے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ہم لوگ چائے پینے بیٹحے تو ڈاکٹر لوکس میرے پاس آئے اور کہنے لگے چائے پی کے چلے نہ جانا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ ہم لوگ چائے پی چکے تو ڈاکٹر لوکس آئے اور مجھے اپنے ساتھ ایک گوشے میں لے گئے اور کہنے لگے اقبال مجھے بتائو کہ تمہارے پیغمبر پر قرآن کریم کا مفہوم نازل ہوا تھا اور چونکہ انہیں صرف عربی زبان آتی تھی انہوںنے قرآن کریم عربی میں منتقل کر دیا یا یہ عبارت ہی اس طرح سے اتری تھی؟ میں نے کہا یہ عبارت ہی اتری تھی۔ ڈاکٹر لوکس نے حیران ہو کر پوچھا کہ اقبال تم جیسا پڑھا لکھا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ عبارت اس طرح اتری ہے؟ میں نے کہا: ’’ڈاکٹر لوکس ! یقین میرا تجربہ ہے مجھ پر شعر پورا اترتا ہے تو پیغمبر پر عبارت پوری کیوں نہیںاتری ہو گی‘‘۔ تعلیقات 3 ۔ یہ بات صرف ڈاکٹر لوکس ہی کو نہیں سوجھی تھی مد ت تک قرآن حکیم کے باب میں یہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق اس کا صرف مفہوم اترا تھا یا الفاظ جس طرح قرآن حکیم میں آج بھی موجو د ہیں۔ اس کا جواب وہی ہے جو علامہ اقبال نے دیا تھا۔ سرسید احمد خاں بھی جو دور جدید کے علماء میں خالص عقلی نقطہ نظر رکھنے والوں میںشمار ہوتے ہیں‘ اصول تفسیر میںلکھتے ہیں: ’’3۔ الاصل الثالث ۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے نزل علی قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم لو یوحی الیہ وانہ علیہ الصلوۃ والسلام ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی۔ 4۔ اصل الرابع۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا یا وحی کیا گیا ہے۔ خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ تحریر فی اصول التفسیر مشمولہ مقالات سرسید حصہ دوم۔ تفسیری مضامین مرتبہ اسماعیل پانی پتی مجلس ترقی ادب لاہور 1961ء ص 227۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا ہے ۔ جیسا کہ مذہب عام علمائے اسلام کا ہے یاملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر القا ء کیا گیا ہے جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے۔ کماقلت: ز جبریل امیں قرآں بہ پیغامے نمی خواہم ہمہ گفتار معشوق است قرآنے کہ من دارم اور ان دونوں صورتوں کا نتیجہ متحد ہے اور اس لیے اس پر کوئی بحث ضرور نہیں۔ مگر میں اس بات کو تسلیم نہیںکرتا کہ صرف مضمون القاء کیا گیا تھا اور الفاظ قرآن آنحضر ت صلعم کے ہیں جن سے آنحضرت ؐ نے اپنی زبان میں جو عربی تھی اس مضمون کو بیان کیا ہے‘‘۔ سرسید نے اس کے بعد شاہ ولی اللہ کی تالیفات التفہیمات میں ان کے قول سے اس باب میں اختلاف کیا ہے اور قرآن حکیم کی متعدد آیات سے اس کو ثابت کیا ہے کہ: ’’اس سے ظاہر ہے کہ نزول قرآن قلب آنحضرتؐ پر عربی زبان میں نازل ہوا تھا۔ نہ یہ کہ صرف معنی القاء ہوئے تھے اور الفاظ جن سے وہ معنی تعبیر کیے گئے ہیں آنحضرتؐ کے تھے۔ نفس الامر کے اس لیے خلاف ہیں کہ خود تم اپنے نفس پر غور کرو کہ کوئی مضمون دل میں مجرد عن الالفاظ آ ہی نہیںسکتا اور نہ القاء ہو سکتا ہے۔ تخیل یا تصور کسی مضمون کا مستلزم ان الفاظ کے تخیل یا تصور کا ہے جن کا وہ مضمون مدلول ہے۔ مضمون کا الفاظ سے مجرد ہونا محالات عقلی سے ہے اور اس لیے قرآ ن مجید بلفظہ آنحضرتؐ کے قلب پر القاء ہوا تھا اور وہی الفاظ اور اسی نظم سے جس طرح القا ہوئے تھے آنحضرتؐ نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا‘‘۔ ٭٭٭ (ص 46-47) میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے جو اسپین کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کا نام Spain from the South اور مصنف کا نام J.B.Trendکتاب کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب کے دستخط ہیں اور ان کے نیچے 2جنوری 1935ء لکھا ہوا ہے۔ یہ کتاب مجھے ڈاکٹر صاحب نے مرحمت فرمائی تھی اور میں اسے بڑی عزیز متاع سمجھتا ہوں۔ اس کتا ب پر نظر پڑتے ہی مجھے یاد آ گیا کہ جب وہ تیسری گول میز کانفرنس سے واپس آئے تو میں والدمرحوم کی معیت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دنوں والد مرحوم کے فیض محبت سے مجھ میں اسلامی تاریخ کا خاصا ذوق پیدا ہو چلا تھا۔ سپین کے متعلق کئی کتابیں جن میں سکاٹ اور لین پول کی تصانیف شامل تھیں میری نظر سے گزر چکی تھیں۔ میں نے یہی تذکرہ چھیڑ دیا اور اسپین کے اسلامی عہد کی تاریخ کا ایک حصہ جو مجھے حفظ ہو گیا تھا فرفر سنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب بہت خو ش ہوئے۔ پھر اسپین کی موجودہ حالت کا ذکر چھڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے سفر میں سپین بھی گئیء تھے اور اسی زمانے میں انہوں نے مسجد قرطبہ پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو ان کی مشہور نظموں میں سمجھی جاتی ہے ۔ وہ جب قرطبہ پہنچے اور وہاں کی مسجد دیکھنے گئے جو انقلاب زمانہ کی بو قلمونی سے گرجا بن چکی ہے تو انہوںنے ایک پادری سے جو مسجد کی نگہبانی پر مامور تھا وہاں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ پادری نے یہ سن کر تامل کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: تعجب ہے تم مسیحی ہو کر ہم سے اس قسم کا سلوک روا رکھتے ہو۔ حالانکہ ہم نے تم سے کبھی اس قسم کا سلوک نہیں کیاتھا۔۔ وہ پادری اس فقر ہ سے کسی طرح متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ یہیں ٹھہریے میں بڑے پادری سے پوچھ کے آتا ہوں لیکن جب تک وہ واپس آیا ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ سنانے کے بعد کہا: تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے سپین پر آٹھ سو برس حکمرانی کی لیکن اس سرزمین میں کسی مسلمان کا نشان مزار تک نظر نہیںآتا۔ تعلیقات 4۔ مسجد قرطبہ پر حاشیہ پہلے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں مختصر طور پر نظم کے بارے میں کہنا ہے جس کا عنوان مسجد قرطبہ ہے۔ علامہ اقبال کی نظموں میں یہ ایک ایسی نظم ہے جس سے ان کے نظریہ فن کی وضاحت ہوتی ہے ۔ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے خاص فنون میں جہاں ان کے جوہر اور ملی خصوصیات کا سب سے بہتر اظہار ہوا ہے وہ ان کی تعمیر کردہ مساجد ہیں۔ مسجد بیت الحرام مکہ معظمہ اور مسجد نبوی آج بھی دنیائے اسلام کا قبلہ اور مرکز عقیدت و نیاز ہے۔ یوں بھی اسلامی بستی کی ایک پہچان ہی مسجد کا وجود ہے جس کے مینار اور گنبد دور سے اپنے وجود کا اعلان کرتے ہیں اور اہل ایمان کو دعوت عبادت دیتے ہیں۔ یہ مساجد ہمیشہ سے مسلمانوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز رہی ہیں اوراکثر بڑے مدرسے اور نامور علماء کی درسگاہیں ان مساجد ہی میں واقع تھیں جہاں دور دور سے طالبان علم حصول علم کے لیے آتے تھے۔ اکثر مساجد کے ساتھ جو حجرے ملتے ہیں وہ انہیں اساتذہ اور ان کے شاگردوں کے قیام کے لیے بنائے جاتے تھے اور عام طور پر طالب علموں کی رہائش اور ان کی کفالت بستی والوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ مسجد نبوی کے ہی ایک حصہ میں وہ حضرات رہتے جو اصحاب صفہ کہلاتے اور جو اپنا سارا وقت عبادت اور ریاضت میں گزارتے اور ان کی دیکھ بھال دوسروں کے ذمہ ہوتی۔ مسافروں کے لیے یہ مسجد ہر قریہ اور ہر شہر میں اسلامی میزبانی کی دعوت دیتی اور یہ سلسلہ تو مسلمانوں کے دور زوال یعنی بیسویں صدی تک چلتا رہا اور آج یجہی جہاں تہذیب جدید کے ہوٹل او رموٹل نہیںپہنچے وہاں فی سبیل اللہ سفر کرنے والوں کے لیے یہ مساجد منزل و قیام گاہ کے لیے موجود ہیں۔ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں‘ ان کی اجتماعی ہئیت میں مسجد کی ایک نمایاں اہمیت ہے پانچوں وقت نماز باجماعت کی تاکید اس سلسلہ یگانگت و وحدت کا باعث ہے اور مسجد تبادلہ خیال اورملی امور میں مشورہ کے لیے ایک موثر وسیلہ ۔ جمعہ کے دن اہل بستی اور عیدین کی نمازوں میں اہل شہر کا اجتما ع اور سالانہ حج و زیارت روضہ رسولؐ اور مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے کا شرف ملت اسلامیہ کو اپنی ہمہ گیر عالمی وحدت ویگانگت کا شعور عطا کرتی ہے۔ علامہ نے جو بات سپین کے متعلق کہی ہے کہ وہاں مسلمانوں نے آٹھ سو برس حکمرانی کی لیکن اس سرزمین میں کسی مسلمان کا نشان مزار تک نظر نہیں آیا لیکن مسجد قرطبہ آج بھی موجود ہے بقول علامہ اقبال : آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات‘ کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا‘ باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا لیکن ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کے عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام …… …… …… …… …… …… اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت بود مسجد میں جلال بھی ہے اور جمال بھی: تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل‘ تو بھی جلیل و جمیل …… …… …… …… …… …… مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ سایہ شمشیر میں اس کی پند لا الہ ظاہر ہے یہ بات اسپین کیا کسی ملک میں بھی کسی کے نشان مزار کو حاصل نہ ہو سکی۔ جو مزارات مرجع خلائق ہیں وہ بھی ان مردان خدا کی بدولت جن کی وہ ابدی خواب گاہ ہیں۔ مثلاً حضرت داتا گنج بخش علی الہجویری کا مزار‘ یا حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا مزار یا لاہور میں شرف النساء کا مزار جس پر علامہ نے جاوید نامہ میں ایک نظم لکھی ہے اور جنت میں شرف النساء کا محل لعل نعاب سے تعمیر دکھایا ہے۔ ٭٭٭ مسولینی: (ص 49-50) ڈاکٹر صاحب مسولینی سے دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہ اس سے رخصت ہوئے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور تقاضا کرنے لگے کہ آپ ہمارے لیڈر کے متعلق اپنی رائے دیجیے۔ ڈاکٹر صاحب اس موضو ع پر کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن لوگ راستہ روکے کھڑے تھے اور ہجوم سے موٹر نکال کے لے جانا ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ آخر مسولینی کے سٹاف کے آدمیوں نے کہا کہ ان لوگوں سے جان چھڑانا مشکل ہے‘ اس لیے کچھ نہ کچھ کہہ دیجیے۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے ہجوم سے مخاطب ہو کر فرمایا مسولینی بغیر بائبل کے لوتھر ہے ۔ یہ فقرہ اطالوی زبان میں ترجمہ ہوا اور ہجوم میں بار بار دہرایا گیا۔ لوگ سن کے خوشی سے ناچنے لگے اوراسی وقت بڑے بڑے پوسٹر جن پر یہ فقرہ درج تھا چھاپ کے درودیوار پر چسپاں کر دیے گئے۔ تعلیقات 5۔ بال جبریل میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مختصر نظم مسولینی کے عنوان سے لکھی ہے: ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ملت کا شباب ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی ندرت فکر و عمل سے سنگ خارہ لعل ناب رومۃ الکبریٰ دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر اینکہ می بینم بہ بیداری است یا رب یا بخواب چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ نوجوان تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب! یہ محبت کی حرارت! یہ تمنا! یہ نمود فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے‘ کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب یہ وہ زمانہ تھا جب یور پ میں ہٹلر اور مسولینی نے جرمن اور اطالوی قوم میں ایک ذہنی اور سیاسی انقلاب پیدا کیا تھا اور یورپ میں اتحادی ٹھیکہ داروں کو شکست دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بعض حضرات نے نازی ازم (Naziism)اور فاشزم (Facism) کو چنگیز اور ہلاکو کی غارت گری کے مترادف بنایا۔ یہ درست ہے کہ ہٹلر نے جرمن قوم کی نسلی برتری اور تفوق کی بنیاد نفرت پر رکھی تھی۔ اور یہودیوں پر بے شمار مظالم کیے تھے‘ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی‘ یہودیوںنے خود اپنی تاریخ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد بالخصوص فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ہٹلر اور مسولینی کے مظالم ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز (بال جبریل ص 26) اس نظم کی بنا پر بعض قاری علامہ کو فاشزم کا حامی بتاتے ہیں ۔ حالانکہ علامہ کو مسولینی سے جو ہمدردی تھی وہ اس بنا پر کہ اس نے ایک قوم کو جس کا ماضٰ شاندار روایات کا حامی تھا دور جدید میں انقلاب کا پیغام دیا اورسکون و سکوت مرگ کی جگہ حرکت اور قوت کا درس عام کیا۔ ا س مکالمہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ مسولنی کی قوت تنظیم سے بہت متاثر تھے جو ان کے نزدیک اسلام کی بھی تعلیم ہے۔ البتہ چونکہ مسولینی مردمومن نہیں تھا اس لیے اس کی قوت کو ضبط میں رکھنے کا کوئی ذریعہ نہیںتھا اور یہی بالآخر اس کے زوال کا سبب ہوا۔ اس گفتگو سے یہ بھی انداز ہ ہوتا ہے کہ آزادی کے کنٹرول اور شہروں اور قصبوں کی آبادی کی منصوبہ بندی کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات آج کے ماہرین کے نظریات کے عین مطابق ہیں۔ علامہ نے اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ نظریہ بھی اسلامی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد دے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔ دور جدید میں Satellite Townآباد کرنے کا یہی فلسفہ ہے۔ تعلیقات 6۔ مسولینی بغیر بائبل کے لوتھر ہے: یہ فقرہ نہایت اہم اور معنی خیز ہے۔ مارٹن لوتھر نے جو جرمن تھا کلیسائی اقتدار کے خلاف رد عمل کے طور پر اصلاح دین یا (Reformation) کی تحریک شروع کی۔ علامہ نے اس کا ذکر کیا ہے کہ جرمنی ’’اصلاح دین‘‘ کا انقلاب دیکھ چکا ہے۔ لوتھر کی تحریک کے نتیجہ میں عیسائیوں کا پروٹسٹنٹ طبقہ وجود میں آیا جس نے کلیسائی خرافات پرستی کے خلاف بغاوت کی۔ مارٹن لوتھر کی تعلیم ہسپانیہ کی مسلمانوں کی درس گاہوں میں ہوئی تھی اور اس کے افکار و خیالات پر اسلام اور مسلمانوں کا اثر صاف نظر آتا ہے بلکہ بعض عیسائی مورخین نے تو لوتھر کو Dog of Muhammadبھی لکھا ہے۔ چونکہ علامہ کے نزدیک مسولینی بھی ایک سیاسی‘ ذہنی اور فکری اور نظریات انقلاب کا بانی تھا۔ اس لیے انہوںنے مسولینی کو بغیر بائبل کے لوتھر کا خطاب دیا۔ ٭٭٭ تہذیب کا پیمانہ (ص 64) ایک دفعہ تہذیب و تمدن کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص نے کہا ’’تہذیب بتدریج بڑی نمایاں ترقی کر رہی ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا ذرا مجھے بھی تو بتائیے کہ آپ نے تہذیب کو کس پیمانے سے ناپ کر یہ معلوم کیا ہے کہ وہ برابر ترقی کر تی جا رہی ہے۔ اگر آپ کے پاس تہذیب کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ دور حاضر میں تہذیب روبہ تنزل ہے۔ تعلیقات 7۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ تہذیب جدید کو ایک زوال پذیر معاشرہ کی علامت سمجھتے تھے۔ اس تہذیب کے متعلق بانگ درا کے دور میں ہی ایسے اشعار ملتے ہیں: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاںنہیںہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا ان دو اشعار سے تہذیب عصر حاضر کے دو بنیادی اجزا کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس تہذیب کی بنیاد محض دولت ‘ سرمایہ‘ اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور استحصال ہے اوردوسرے یہ کہ جن تصورات اور نظریات پر یہ تہذیب قائم ہے وہ انسانی زندگی اور معاشرہ کے بنیادی اصول نہیں ہیں جومستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں بلکہ اس کی بنیاد محض نمائش ‘ تکلف‘ اہتمام ظاہر داری و ظاہر پرستی‘ تن کی دنیا اور پیراہن ہے۔ یہ روح اور دل کی دنیا کو اس کی اہمیت نہیںدیتی عقل کو عشق پر ترجیح دیتی ہے۔ جلال و قوت کی جگہ جمال و سکوت کی دعوت دیتی ہے۔ یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسوں میں نہ ادائے کافرانہ! نہ تراش آزرانہ ٭٭٭ فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا ٭٭٭ رہ و رسم حرم نا محرمانہ کلیسا کی ادا سوداگرانہ تبرک ہے مرا پیراہن چاک نہیں اہل جنوں کا یہ زمانہ ٭٭٭ یقین مثل خلیلؑ آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بے یقینی ان چند مثالوں سے ہی تہذیب نو کے بارے میں علامہ کے خیالات کی ترجمانی ہو جاتی ہے۔ اس باب میں علامہ اکبر الہ آبادی کے ہمنوا اور ہم خیال تھے۔ چنانچہ علامہ نے اکبر کے نام جو خطوط لکھے ہیں ان سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بعض لوگ جو خطوط لکھے ہیں ان سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس بنا پر اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو روایت پرست یا رجعت پسند کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تہذیب جدید بقول علامہ صرف جھوٹے نگینوں کی چمک دمک ہے جو آنکھوں کو خیرہ تو کر سکتی ہے دل و دماغ کو روشن نہیں کر سکتی۔ ٭٭٭ شاعر کی آنکھیں (ص 65) ایک دفعہ میں نے زمانہ کی قدر شناسی کا ذکر کیا اور کہا کہ لوگ اپنے ملک کے بڑے بڑے شاعروں‘ قومی رہنمائوں اور عظیم المرتبت انسانوں کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب اس سوال سے بہت متاثر ہوئے اور کسی قدر تامل کے بعد فرمایا: تم غور کرو تو یہ معلوم ہو گا کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو دنیا کی بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہا جاتی ہیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ صدیوں تک اس کی تعریف و توصیف کے گیت گاتی رہتی ہے۔ تعلیقات 8۔ ظاہر ہے یہاں شاعری اور شاعر کا ایک خاص تصور اور معیار علامہ کے پیش نظر ہے۔ صدیوں تک صرف وہی شاعر اور وہی کلام زندہ رہ سکتا ہے۔ جس نے زندگی کے ازلی اورابدی حقائق کو موضوع سخن بنایا ہو۔ ایسے ادب کو صحیح معنوں میں ادب العالیہ کا نام دے سکتے ہیں۔ ایسے شاعر‘ ادیب اور فسکار زمان و مکاں زبان و بیان اور مختلف زمانوں کے بدلتے ہوئے مذاق مزاج اورمعیار کے باوجود ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ علامہ کے کلام میں زندگی کے حقائق پر جو نظر ہے اور انہوںنے جس طرح فطرت انسانی اصل حیات و ممات اورکائنات کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کی اہے وہ ان کے کلام کے صدیوں زندہ رہنے کی ضمانت ہے۔ عورت کی ذمہ داری (ص 66) ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی غلطی پر پشیمان ہوئی ہے ۔ عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہدہ براہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی۔ اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کے ایسے کاموں پر لگایا جائے جنہیںمرد انجام دے سکتا ہے تو یہ طریق کار یقینا غلط ہو گا۔ مثلاً عورت کو جس کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا نہ صرف قانون فطرت کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی معاشرہ کو درہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش ہے۔ تعلیقات 9۔ عورت کی آزادی او ر عظمت کا اعتراف تاریخ عالم میں جس طرح اسلام نے کیا اورکسی مذہب یا معاشرہ میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ ہن لباس لکم و انتم لباس (وہ تمھار ا لباس ہیں اور تم ان کا لباس) اس قول میں مساوات کا بھیسبق ہے اور یہ کہ جس طرح لباس سامان زینت بھی ہے اور سامان ضرورت ہے۔ اس طرح عورت مرد کے لیے سامان زینت اور محافظ دونوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت نے عورت کی ساخت اور اس کی فطری ذمہ داریاں مرد سے علیحدہ رکھی ہیں اس لیے اس کو ان اصلی اور فطری ذمہ داریوں سے ہٹا کر ان کاموں میں لگایا جائے جو مردوں کے حصے میں آئے ہیں تو یہ طریقہ غلط ہو گا۔ اقوام مغرب کے تجربے نے اس خیال کی تائید کی ہے اور تصدیق کر دی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار (ص 68) ڈاکٹر صاحب نے ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کہ ان سے کسی شخص نے یہ سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کس کو ہو سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پہلے اسوہ حسنہ پر عمل کو اپنا شعار بنائو اور زندگی اس میں ڈھالو پھر اپنے آپ کو دیکھو‘ یہی ان کا دیدار ہے۔ عتاب (ص 69) زندگی بھر میں ڈاکٹر صاحب مجھ سے صرف ایک مرتبہ ناراض ہوئے آپ کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عقیدت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام زبان پرآتا تھا تو ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ ایک روز میں نے جرات کر کے پوچھا آپ نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کی ہے؟ یہ سنتے ہی مارے غصے کے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ابرو پر بل پڑ گئے‘ پھر کہنے لگے ایسے سوال نہیںکیا کرتے۔ تعلیقات 10۔ قرآن حکیم میں اسوہ حسنہ پر عمل کی جس طرح تاکید ہے وہ معلوم ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: لقد کان فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ زیارت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں علامہ کا استفسار پر ناراض ہونا اس بنا پر ہے کہ علامہ باوجود شدت محبت و عقیدت اسے سوئے ادب خیال کرتے تھے۔ تاب نظارہ کی حد تو یہ ہے کہ انسان مخلوقات الٰہی میں سورج کو بھی آنکھ ملا کر بلا پردہ نہیں دیکھ سکتا۔ تو پھر ایک ایسی ذات کا جلوہ کیسے برداشت کر سکتا ہے جو سراپا نور ہے۔ ٭٭٭ احسا س غرور (ص 74) ایک دفعہ راجہ نریندر ناتھ نے ڈاکٹر صاحب کو چائے پر مدعو کیا ۔ راجہ صاحب کے کمرے میں ہرن کی کھالیں بجھی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ان سے بچ بچ کر گزرے ۔ راجہ نریندر ناتھ نے حیران ہو کر وجہ پوچھی۔ آپ نے جواب میں بتایا کہ میرے استاد محترم نے ایک مرتبہ میری دی ہوئی جائے نماز استعمال نہ کرنے کا سبب بتاتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ہرن کی کھال پر بیٹھنے یا چلنے سے انسان کے دل میں لاشعوری طور پر غرور کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی مسلمہ بات ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں بھی موجود ہے۔ راجہ نریندر ناتھ اس جواب سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ کئی منٹ تک وہ خاموش کھڑے ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو تکتے رہے۔ تعلیقات 11۔ منجملہ او ر باتوں کے اس قول سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی کے معمولات میں بھی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس درجہ پاس اور لحاظ رکھتے تھے۔ تکبر اور غرور کے بارے میں قرآن حکیم اور احادیث نبوی میں بکثرت تنبیہہ ہے۔ روایت (ابودائود… حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ) ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:متکبر آدمی جنت میں داخل نہ ہو گا اور نہ وہ جو جھوٹی شیخی بگھارتا ہے۔ ابودائود سے یہ بھی روایت ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ مومن کا تہبند تو اس کی نصف پنڈلی تک رہتا ہے۔ اور اگر اس کے نیچے ٹخنوں سے اوپر رہے تو کوئی گناہ نہیں اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی گناہ کی بات ہے) یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی(تاکہ لوگوں پر اس کی اہمیت واضح ہو جائے ‘ اورپھر فرمایا اور اللہ اس شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ جو شیخی کے جذبے سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹے گا۔ لیکن اس بیان سے یہ غلطی پیدا نہ ہوکہ اسلام رہبانیت ترک دنیا ترک لذائذ کی تعلیم دیتا ہے۔ جیسا کہ بعض اور مذاہب اور مسالک میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہو پہنو بشرطیکہ تمہارے اندر گھمنڈ اور اسراف نہ ہو۔ ٭٭٭ قوم کی جنس (صفحہ 78) ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے کسی زندہ اور صاحب کردار قوم کی پہچان بتاتے ہوئے ایک بار کہا کہ جس طرح دنیا کی دوسری اشیاء میںنر اور مادہ کا جنسی امتیاز موجود ہے‘ اسی طرح قومیں بھی نر ارو مادہ ہوتی ہیں اور اس کا پتہ ان کے قول و عمل ‘ معاشرت‘ کردار‘ خصائل‘ اور نفسیات سے چلتا ہے: (جگر ہو خوں تو چشم و دل میں ہوتی ہے نظر پیدا) تعلیقات 12۔ علامہ کا یہ تجزیہ نہایت دلچسپ اور حقیقت پر مبنی ہے ۔ اقوام کچھ اپنے ماحول وراثت‘ روایت اور تاریخ کے مجموعہ سے ایک مزاج خاص بنا لیتی ہے جو ان کا اپنا اپنا امتیازی اور علامتی مزاج ہوتا ہے۔ مثلاً جرمن قوم اور فرانسیسی قوم کا موازنہ واضح کرتا جاتا ہے کہ مزاجاً ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ عرب قوم اور ہندو قوم کے موازنہ اورمقابلہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔ قول و عمل ‘ معاشرت و کردار میں اس کااظہار ایک طرف قوت‘ شوکت‘ غلبہ‘ اور ولولہ کی صورت میں اور دوسری طرف نرمی نازکی‘ جمال و لطافت کی شکل میں ہوتا ہے یہ بات خودایک قوم کی تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے: آ تجھ کو بتائوں میں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول‘ طائوس و رباب آخر ٭٭٭ مظلوم (ص 80) بعض ایسے لوگ بھی مسلماونں میں پائے جاتے ہیں جو نہ عربی زبان وا ادب میں خاطر خواہ استعداد رکھتے ہیں نہ عرب قدیم کے علمی سرمایہ پر ان کی نگاہ ہے‘ نہ قرآن کریم کو ٹھیک طور پر سمجھ سکتے ہیں مگر اپنی ااس علمی تہی مایگی کے باوجود قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کی کوشش فرماتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اس قسم کی باتوں سے بڑی اذیت ہوتی تھی۔ وہ اپنی متانت و سنجیدگی اور عالی ظرفی کے باوجود اس غم کو چھپا نہ سکے‘ ایک بار فرما ہی دیا قرآن کریم اس اعتبار سے بڑا ہی مظلوم صحیفہ ہے کہ جسے دنیا میں اور کوئی کام نہیںملتا‘ وہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں مصروف ہو جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نہایت ہی نازک اور محطاط ذمہ داری ہے۔ تعلیقات 13۔ یہ بات دور جدید کے بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں بالخصوص ایسے حضرات کے بارے میں درست ہے جو مغرب کی بعض درسگاہوں میں عربی یا علوم اسلامی کی تعلیم تکمیل کرتے ہیں۔ یہاں نام لینے کی ضرورت نہیںیورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ اور کینڈا میں ایسی مشہور علمی درسگاہیں ہیں جہاں قرآن اور علوم اسلامی کی تحقیق و تدریس کا کام عیسائی اور یہودی ماہرین کے سپرد ہے اور ان کی زیر نگرانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے مسلمان نوجوان بھی ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور اپنی علمی تہی مایگی اور افلاس کو چھپانے کے لیے بڑی بڑی ڈگریوں کا لبادہ پہن لیتے ہیں۔ پھر یہی حضرات قرآن فہمی اور اجتہاد کا دعویٰ کرتے ہیں اور قرآنی تعلیمات کو ایسا مسخ کرتے ہیں جو ان کے استادوں سے ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ ایک خط میں جو علامہ نے فضل الرحمان انصاری صاحب کو جو یورپ تعلیم کے لیے جانا چاہتے تھے اس قسم کی ہدایت دی تھی۔ ٭٭٭ پتھر (صفحہ 83) ایک بار محفل میں اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے ان کارناموں کا ذکر چل پڑا جن سے مسلمانوں کی غیر معمولی شجاعت بے جگری اور بے مثال سرفروشی کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس گفتگو میں حصہ لیا وہ بولے: ’’مسلمان ایک ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرتا ہے اسے پاش پاش کرتا ہے اور جو اس پر گرتا ہے پاش پاش ہوتا ہے‘‘۔ قرآن کریم نے مرد مومن کی اس شان کو: اشداء علی الکفار کے انداز میں پیش فرمایا ہے جس کی ترجمانی علامہ اقبال نے لفظوں میں کی ہے۔ تعلیقات 14۔ علامہ نے مرد مومن کی خصوصیات میں اس خارا مزاجی کا بھی ذکر کیا ہے۔ پہاڑ اور پتھر‘ رفعت‘ بلندی‘ سختی‘ پائیداری اور استقلال کی علامت ہیں۔ یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ علامہ کی پہلی مشہور نظم کوہ ہمالہ سے خطاب ہے اور اس نظم میں ہمالہ کی بلندی کا یہ عال ہے کہ آسمان جھک کر اس کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہے۔ اس کی سر کی برفانی دستار فضیلت کلاہ مہر عالم تاب پر خندہ زن ہے۔ اس کی چوٹیاں ثریا سے سرگرم سخن ہیں۔ سرحد کے غیور پٹھانوں کی آزادی اور حریت پسندی کا ایک محور ان کی کوہستانی زندگی پر بھی ہے۔ بال جبریل میں خوشحال خاں کی وصیت کا عنوان ہے: قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند مغل سے کسی طرح کمتر نہیں قہستاں کا یہ بچہ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ مغل شہسواروں کی گرد سمند علامہ اقبال مغربی تہذیب اور تعلیم جدیدکو شیشہ گری سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں ملت کے جوانوں کو خارا شگافی کے طریقے سکھانا چاہتے ہیں۔ ان کا علامتی شاہین بھی پہاڑوں کی چٹانوں پر گزر اوقات کر لیتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ پہاڑی زندگی سخت کوشی کی زندگی ہوتی ہے اور پہاڑی اقوام ہمیشہ میدانی علاقوں کے رہنے والوں کے مقابلہ میں سخت کوش ہوتی ہیں۔ میدانی زندگی میں علوم و فنون اور بالخصوص فنون لطیفہ کی ترقی ضرور ہوتی ہے مگر قوم میں جدوجہد اور خارا شگافی کے جوہر کمزور پڑ جاتے ہیں۔ مرد مومن کے مجاہد کے روپ میں علامہ کے حوالہ سے قرآن حکیم کی جو آیت کریمہ نقل کی گئی وہ مضمون کئی جگہ آیا ہے سورۃ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: وقاتلوھم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ فان انتہوا فان اللہ بما یعملون بصیر ’’اور تم ان (کفار عرب) سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (یعنی شرک) نہ رہے اور دین (خالص) اسی کا ہو جائے‘ پھر اگر یہ کفر آ جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتے ہیں‘‘۔ اور سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے : یا ایھا الذین آمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار و لیجدوا فیکم غلظۃ ’’اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس رہتے ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے‘‘۔ مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کرنے کا سبق یہیں سے ملتا ہے۔ ٭٭٭ ابن خلدون (صفحہ 85) راقم الحروف کے والد فقیر سید نجم الدین مرحوم نے ایک روز ڈاکٹر صاحب کے ہاں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اسے تاریخی کتابوں کے مطالعہ کا بہت شوق ہے۔ میں نے مشورہ دیا ہے کہ ’’ابن خلدون ‘‘ ضرور پڑھیے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا پوری کتاب نہیں صرف ’’مقدمہ‘‘ ۔ آج ان کے اس جواب پر غور کرتا ہوں تو حیرت و عبرت کے کتنے اوراق نگاہوں کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ابن خلدون کا مقدمہ واقعی خود ایک مستقل کتاب ہے۔ تعلیقات 15۔ ابن خلدون عبدالرحمن ابوزید الملقبسبہ ولی الدین ولادت تونس یکم رمضان 732ھ 27مئی 1332ء وفات قاہرہ 25رمضان 808ھ 16مارچ 1406ء مشہور تاریخ العبر کا مصنف جو سات جلدوں میں ایک اہم تاریخی دستاویز ہے کہا جاتا ہے کہ اس کی تاریخ بربر ہر اس چیز کے لیے جو المغرب عرب اور بربر قبائل اور اس ملک کے ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے ہمیشہ کے لیے ایک قیمتی رہنما رہے گی۔ یہ کتاب مصنف کے نصف صدی پر محیط مشاہدہ سفارتی اور سرکاری دستاویزات متعدد کتب اور وقائع پر مبنی ہے۔ اس میں عربی علوم اور تہذیب کے جملہ شعبوں سے بحث کی گئی ہے ۔ یہ بحث دراصل اس کتاب کا مقدمہ ہے جو ابن خلدون نے 779ھ میں ختم کیا۔ یہ مقدمہ فلسفہ تاریخ کے ماخذات میں ایک اہم ماخذ ہے اور علمی دنیا میں اسے مسلمانوں کا ایک عظیم تحفہ شمار کیا جاتا ہے۔ کتاب العیر اور مقدمہ کے علاوہ ابن خلدون کی تصانیف میں شرح البردۃ‘ الحساب اور المنطق بھی شامل ہیں٭۔ ٭٭٭ چالیس سال (ص 88) پیسہ اخبار اپنی قدامت کے سبب اردو صحافت کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر اور مالک مولوی محبوب عالم کی صاحب زادی فاطمہ بیگم سماجی کاموں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتی تھیں۔ ان کی مخلصانہ جدوجہد کی بدولت لاہور میں مسلمان لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کئی ادارے قائم ہو چکے تھے۔ یہ کام اس زمانے میں آسان نہیںتھا۔ قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ مسلمانوں کا معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو برداشت کرتے ہوئے ناگواری محسوس کرتا تھا۔ فاطمہ بیگم کو اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ تفصیلات کے لیے دیکھیے منجملہ حوالوں کے اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی جلد اول ص 505تا507طبع لاہور اگست 1963ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدوجہد میں لوگوںکے طعنے گوارا کرنے پڑتے ۔ وہ گاہ بہ گاہ ڈاکٹر صاحب کے پاس مشورہ کے لیے آتیں‘ ڈاکٹر صاحب ان کی ہمت بندھاتے اور ایسی پر امید باتین کرتے کہ فاطمہ بیگم کے اندر حوصلہ پیدا ہوتا اور ان کی دل شکستگی مایوسی میں تبدیل نہ ہونے پاتی۔ ایک بار فاطمہ بیگم آئیں تو اپنی مشکلات کا حال سنایا: میرے راستے میں اس طرح روڑے اٹکائے جا رہے ہیں کہ میں کیا کروں؟ اور سب سے زیادہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں مسلمان لڑکیوں میں مذہبی تعلیم کا وہ شغف نہیںپاتی جو ان میں فطری طور پر ہونا چاہیے تھا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے فاطمہ بیگم سے کہا کہ آ پ مایوس اور دل برداشتہ نہ ہوں اس مذہب کی خوبیاں چالیس سال کی عمر کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہیں۔ تمہارا کام تو زمین ہموار کرنا ہے اور اس میں پودا لگانا ہے۔ یہ پودا ایک دن خود بخود تناور درخت بن جائے گا اور پھل لائے گا۔ تعلیقات 16۔ چالیس سال کی عمر میں اسلام کی خوبیاں سمجھ میں آنے کی جو بات علامہ اقبال نے فرمائی اس میں ایک نازک نکتہ یہ ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی چالیس سال کی عمر میں ہوا۔ ٭٭٭ عاشق رسولؐ (ص 94-95-96) ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز‘ محبوب اور قابل قدر وصف جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ ذات رسالت مآب کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان ی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضورؐ کا نام ان کے سامنے لیا‘ ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی۔ اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتے ہی ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جاتے۔ کفار مکہ نے انسانیت کے اس محسن اعظم کو کس کس طرح ستایا اور کیسے کیسے ظلم و ستم ڈھائے۔ طائف میں حضورؐ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ غرض حضورؐ کی مظلومیت اور پریشان حالی کا کوئی واقعہ بھی ڈاکٹر صاحب کے سامنے بیان کیا جاتاتو ان کے احباب نے بارہا دیکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب چیخیں مار مار کر رو رہے ہیں ار نڈھال ہوئے جا رہے ہیں۔ عشق رسولؐ ڈاکٹر اقبال کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا اور ان کے ذہن و فکر پر چھا گیا تھا۔ وہ کتنے بڑے فلسفی تھے؟ اور فلسفہ کا سارا معاملہ عقل کے بل بوتے پر چلتا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو وہ عقل کی کسوٹی پر جانچنے کی جرات نہ کرتے تھے۔ اس معاملہ میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے۔ پس جو حضورؐ نے فرما دیا وہ دین و ایمان اور سر آنکھوں پر اس بارگاہ میںچون و چرا کی گنجائش ہی نہیں۔ سمعنا و اطعنا ‘ اطاعت‘ فرمانبرداری اور غلامی‘ یہی ایمان کی دلیل بلکہ بنیاد ہے: بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است اقبال کی شاعری کا خلاصہ جوہر اور لبہ لباب عشق رسولؐ اور اطاعت رسولؐ ہے ۔ میں نے ڈٓکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسولؐ کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے۔ وہ کیفیتیں بس محسوس کرنے کی تھیں جب یہ مقدس ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو جی چاہتا ہے کہ ایک واقعہ بیان کر ہی دوں: ایک دن سیرت نبوی پر گفتگو ہو رہی تھی‘ ڈاکٹر صاحب نے خاص انداز میں ایک واقعہ سنایا…فرمانے لگے: ’’ایک معرکہ میں مسلمان سپہ سالار کا گھوڑا زخمی ہو گیا‘ زخموں کی یہ حالت تھی کہ گھوڑے کا میدان کارزار میں کھڑا رہنا دشوار تھا۔ وہ بیٹھنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف کافر یلغار کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ اس عالم میں امیر العسکر نے گھوڑے کو مخاطب کر کے کہا : اگر تم نے اس نازک وقت میں میراساتھ چھوڑ دیا تو اس جہاں فانی سے رخصت ہونے کے بعد رسول اللہؐ سے تمہاری شکایت کروں گا‘‘۔ یہ واقعہ بیان کر کے ڈاکٹر صاحب زارو قطار رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی اس واقعہ سے سپہ سالار کے عشق رسولؐ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ تعلیقات 17۔ اس واقعہ سے بھی علامہ کے عشق رسولؐ کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ غالباً زندگی میں یہی ایک مرحلہ ایسا ہے کہ جب پیش آتا ہے تو علامہ ہمیشی بے اختیار ہو کر شدت جذبہ میں رونے لگتے ہیں۔ ٭٭٭ شہادت (ص 113) قتل راج پال کے مقدمہ میں غازی علم الدین کو پھانسی دیے جانے کے واقعہ کا اثر دوسرے مسملانوں کی طرح میرے دوست محمد محمود صاحب پی سی ایس (جو اس وقت فلسفہ کے طالب علم تھے ) کے ذہن پر بھی تازہ تھا ۔ چنانچہ ایک بار چند ساتھی طلبا کے ہمراہ وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوںنے براہ راست سوال کر ہی دیا: یہ کہ علم الدین کی موت شہادت ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا اس کا انحصار نیت پر ہے‘ اس کے بعد سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے توضیح کی کہ اگر یہ حقیقت ذہن میں ہو کہ حملہ آور کا اصل مقصد پیغمبر کے ذاتی وقار کونقصان پہنچانا نہیں بلکہ ا س کے لائے ہوئے پیغام کو مجروح اور اس کے ایمان محکم کو متزلزل کرنا ہے جو اس پیغام رشد و ہدایت پر قائم و استوار ہے۔ تو یہ حملہ صرف انسانییا پیغمبرانہ وقار کا قتل نہیں رہتا بلکہ اس ایمان اور عقل کا قتل بن جاتاہے۔ اس کوشش یااقدام کے خلاف ہر مدافعت یقینا صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے اور وہی اس کا ٹھیک ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر نہایت رقت انگیز لہجہ میں فرمایا: ’’میں تو یہ بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص میرے پاس آ کر بیٹھے اور کہے کہ تمہارے پیغمبرؐ نے ایک دن میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے‘‘۔ تعلیقات 18۔ علامہ کا یہ ارشاد بجا ہے کہ علم الدین شہید کی موت کے شہادت ہونے کا یا نہ ہونے کا انحصار نیت پر ہے اور اگر علم الدین کی نیت یہ تھی کہ راج پال کی کتاب سے اس پیغام بر جو رسول خدا لائے تھے صدمہ پہنچتا تھا اور اس لیے اس نے راج پال کو قتل کر دیا۔ لیکن اگر نیت یہ بھی ہوتی کہ اس کااصل مقصد پیغمبر کے ذاتی وقار کو نقصان پہنچانا تھا تب بھی راج پال کو قتل کرنے والا شہید ہوا کیونکہ پیغمبر کے ذاتی وقار کے صدمہ کا براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح دین اور پیغام رشد و ہدایت پرحملہ ہے ٭٭٭ انسان کی پناہ (ص 119-120) شیخ اعجاز احمد جو ڈاکٹر اقبال مرحوم کے بھتیجے ہیںچونیاں میں سب جج کے عہدے پر مامور تھے۔ وہاں ایک گیانی سکھ تھا جس کی تقریر کی بڑی دھوم تھی۔ جادو بیان تھا۔ شیخ صاحب بھی اس کی تقریر سننے کے شوق میں گاہے بہ گاہے سکھوں کے گوردوارے جایا کرتے تھے۔ بیدی خاندان کا یہ گرنتھی انارکلی گوردوارہ میں بھی رہ چکا تھا‘ بڑے کھلے دل سے گفتگو کرتا ۔ ایک دن وہ شیخ صاحب کے پاس آیا اورکہنے لگا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں مجھے ڈاکٹر اقبال کی خدمت میں لے چلیے۔ موسم گرما کی تعطیلات ختم ہوئیں شیخ اعجاز احمداس سکھ مقرر کو اپنے ہمراہ لے کر لاہور آئے اورڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سکھ مقرر نے پہلے اپنے مشرف بہ اسلام ہونے کا ارادہ کیا۔ پھر بولا ’کہ میرے بال بچے بہت ہیں خرچ زیادہ ہے آمدنی کم ہے کیا اچھا ہو مسلمان ہونے کے بعدمیری مالی امداد کی بھی کوئی صورت نکل آئے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اس گیانی سکھ کی زبان سے مالی امداد کا ذکر سن کر متاثر بلکہ متاسف ہوئے ۔ انہوں نے فرمایا …اول تو مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے۔ جہاں سے نو مسلموں اور ضرورت مندوں کی مالی امداد کی جاتی ہو۔ دوسرے مسلمان ہونے کے لیے مالی امداد کی شرط‘ یہ بات کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ میرے والد ضلع گوجرانوالہ میںایک بزرگ سے ملنے کے لیے گئے۔ یہ بزرگ گائوںسے باہر چارپائی پر بیٹھے ہوئے چند صاحبوں سے باتیں کر رہے تھے ۔ اتنے میں ایک جنگلی خرگوش جس کے پیچھے کتے لگے ہوئے تھے بھاگتا ہوا ادھر آیا اور چارپائی کے نیچے بیٹھ گیا اس خرگو ش کا جو کتے تعاقب کر رہے تھے وہ چارپائی پر آدمیوں کو بیٹھا دیکھ کر ٹھہر گئے بلکہ یوں کہیے ٹھٹک کر رہ گئے۔ وہ بزرگ یہ منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے خرگوش کو مخاطب کر کے فرمایا: اے عقلمند پناہ بھی لی تو انسان کی۔ ڈاکٹر صاحب یہ واقعہ سنا رہے تھے اور ان کا چہرہ تمتماتا جا رہا تھا یہاں تک کہ ان پر رقت طاری ہو گئی۔ انہوںنے صوفے پر اپنی ٹھوڈی رکھ دی اور زار و قطار رونے لگے۔ ان کی آنکھوں کے آنسو جو ابھی تک چھلک رہے تھے اب موتیوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے: سرابے کہ رخشد بہ ویرانہ خوش تر ز چشمے کہ پیرایہ نم نہ دارد! اور ڈاکٹر اقبال کی آنکھیں گریہ سحری کے علاوہ بھی شبنم آلود ہوتی رہتی تھیں۔ وہ سراپا سوز تھے۔ گیانی سکھ نے اس حکیمانہ مثال کو کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔ تعلیقات 19۔ قرآن حکیم میں بار بار ارشاد ہوا ہے کہ اصل پناہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ وہی صاحب قدرت ہے۔ خدا ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا ہی بادشاہ برحق ہے۔ کائنات میں اسی کا اقتدار ہے۔ وہی قوت و اقتدار کا سرچشمہ ہے۔ زمان و مکان ہر چیز پر اسی کا قبضہ ہے۔ نظام کائنات اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کارخانہ عالم اسی کے حکم سے چل رہا ہے۔ اس کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں اقتدار اعلیٰ اسی کا حق ہے۔ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے ۔ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔ جس کو چاہے اقتدار دے اور جس کو چاہے اس سے چھین لے۔ عزت اور دولت اسی کے اختیار میں ہے۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں‘ زندگی اور موت اسی کے اختیار میں ہے۔ ہر چیز کے خزانے اللہ ہی کے پاس ہیں۔ ا س کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ بندوں سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ ٭٭٭ سفر یورپ (ص 131-136) میرے عزیز سید امجد علی جو پاکستان کے وزیر خزانہ اور امریکہ میں اپنے ملک کی سفارت اور دوسرے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں‘ ڈاکٹر محمد اقبال سے دیرینہ اور نیازمندانہ تعلق خاطر رکھتے ہیں۔ یہ تعلق اس لیے اور بھی خصوصی ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جب ہندوستان کے سیاسی مستقبل پر غور کرنے کے لیے لندن میںمنعقد ہونے والی دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے انگلستان کا سفر کیا تو سید امجد علی بھی ایک بار ان کے رفیق سفر رہے۔ دوسری گول میز کانفرنس لندن میں 7ستمبر 1931ء کو شروع ہوئی اور یکم دسمبر 1931ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ تیسری گول میز کانفرنس 17نومبر کو شروع ہوئی اور 24دسمبر 1932کو ختم ہو گئی‘ ڈاکٹر سر محمد اقبال ان میں مسلمانان ہند کے نمائند ے کے طور پر شریک ہوئے اور سید امجد علی مسلم ڈیلی گیشن کے آنریری سیکرٹری کی حیثیت سے گول میز کانفرنس میں شریک رہے۔ یورپ کے اس سفر کی سیاسی اہمیت اس لیے اور بھی زیادہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے بعد یہ سفر کیا تھا۔ 1930ء کا یہ وہی اجلاس تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار نظریہ پاکستان کو اپنے خطبہ صدارت میں پیش کیا۔ اس طرح انہوںنے گویا سیاسی افکار و آراء کی دنیا میں پاکستان کا سنگ بنیاد نصب کر دیا۔ اس تاریخی سفر قیام انگلستان اور کانفرنسوں کے دوران متعدد ایسے واقعات مشاہدات اور ملفوظات کا سلسلہ جار ی رہا جنہیں اگر سید امجد علی اب بھی قلم بند نہ کراتے تو علم و ادب تاریخ‘ اور اخلاق و سیاست کا یہ سرمایہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جاتا۔ بعض یادگار تصویروںنے ان واقعات کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔ 1932ء کی تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جاتے ہوئے جب ڈاکٹر صاحب کا جہاز بندرگا وینس پر لنگر انداز ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے سید امجد علی سے جو ان کے رفیق سفر تھے فرمایا کہ یہاں سے لندن ٹرین میںچلیں گے اور راستہ میں د و تین دن پیرس میں ٹھہریں گے! چنانچہ یہ دونوں وینس سے ٹرین میں سوار ہو کر پیرس پہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے امرائو سنگھ مجیٹھیا موجود تھے۔ امرائو سنگھ کا نام آیا ہے توجی چاہتا ہے کہ قارئین سے ا ن کا سرسری تعارف بھی کرا دوں… سرسندر سنگھ مجیٹھیا پنجاب ہی کی نہیں ہندوستان کی مشہور و نامور شخصیت ہیں ۔ امرائو سنگھ انہی کے بھائی تھے۔ مجیٹھیا سکھوں کا اعلیٰ خاندان شمار کیا جاتا ہے۔ سرسندر سنگھ سے ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ دوستانہ مراسم تھے ۔ ان کی مستقل رہائش امرتسر میں تھی‘ مگر ان کے لڑکے امرائو سنگھ نے پیرس کو اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا۔ امرائو سنگھ مجیٹھا نے ایک ہنگرین خاتون سے شادی کی تھی جس کے بطن سے ایک نہایت ہی حسین و ذہین لڑکی(امرتا شیرگل) پیدا ہوئی۔ یہ لڑکی بچپن ہی سے مصوری کا شوق رکھتی تھی۔ بڑی ہوئی تو اس فن میں بہت کچھ نام پیدا کیا۔ اور یورپ کے باکمال آرٹسٹوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ ٭ سکھوں کے مشہور گائوں مجیٹھا کی وجہ سے یہ خاندان مجیٹھیا کہلایا۔ پیرس پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب نے امرائو سنگھ مجیٹھیا سے کہا کہ مجھے پیرس میں پہلے تو نپولین کی قبر پر جانا ہے پھر مشہور ریسرچ سکالر میسنگ نون (Massingnon) سے ملاقات کرنی ہے ۔ (میسنگ نون نے مسلمانوں کے زمانہ سپین پر تحقیقات شروع کرنے کے لیے ان دنوں بڑی شہرت حاصل کی تھی) تیسرا یہ کام ہے کہ میں فرانس کے اس شہرہ آفا ق فلسفی برگسان سے ملنا چاہتا ہوں (ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ پروفیسر برگسان کا نظریہ ’’واقعیت زماں‘‘ اسلامی تصور کے خاصہ قریب ہے)۔ نپولین کی قبر پر جانے کے لیے وقت مقرر ہوا اورپروگرام کے مطابق ڈاکٹر اقبال مرحوم اور سید امجد علی مشہور زمانہ فرانسیسی سپہ سالار اور حکمران نپولین بونا پارٹ کے مقبرہ پر گئے۔ امجد علی نے اس واقعہ کے متعلق جو سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم بات بتائی وہ ی ہے کہ نپولین کے مقبرے پر ڈاکٹر نے دیکھا اور وہ وہاں دس پندرہ منٹ رہے۔ لیکن مقبرے سے باہر نکلے تو ان کے چہرہ سے کسی خاص تاثر اور کیفیت کا اظہار نہیںہوتا تھا سید امجد علی کو یہ دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی اور مایوسی بھی چونکہ انہوںنے اس موقع پر یہ توقع قائم کر رکھی تھی کہ نپولین ایسے عظیم فرانسیسی سپہ سالار کی قبر پر جا کر ڈاکٹر صاحب پر وہ خاص کیفیت ضرور طاری ہو جائے گی جس کامشاہدہ کبھی کبھی ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت متانت کے ساتھ مقبرہ سے باہر آئے تو سید امجد علی کا یہ اشتیاق تشنہ تکمیل رہ گیا۔ پروفیسر برگساں کے بارے میں پتہ لگا کہ وہ ان دنوں پیرس کے مضافات کے کسی گائوں میں قیام پذیر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے طبعی تساہل کی بنا پر وہاں جانے کی زحمت گوارا نہیں کی ان کا خیال یہ تھا کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے واپسی پر برگساں سے ملیں گے۔ اس وقت تک شاید وہ پیرس ہی واپس آ جائیں۔ مشہور سکالر میسگ نون سے ملاقات کے وقت سید امجد علی‘ ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے میسگ نون سے دریافت کیا کہ مغرب کے مورخین کو اسلام سے جو تعصب و عناد ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہو رہا ہے۔ اوراسلام کی صداقت اور حقیقت ان پر آشکار اور واضح ہوتی جا رہی ہے… اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرانسیسی عالم نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے کہ اب مغربی مورخین نسبتاً غیر جانبدارانہ نقطہ نگاہ سے اسلامی تحریکوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ میسگ نون نے یہ بھی کہا کہ ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ پر مسلمانوں کے عظیم احسانات ہیں۔ انہوںنے تہذیبی اعتبار سے یور پ کو بیدار کیا۔ اور تعلیم و معاشرت کے بہت سے شعبوں میں مغرب کی ترقی کے لیے نئے نئے مواقع عطا کیے… میسگ نون سے ڈاکٹر صاحب کی ملاقات بہت دیر تک رہی اور ان دونوں عالموں کے درمیان اہم تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ میسگ نون کے علمی ذوق اور وسعت معلومات کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نے دوسری متعدد تصانیف کے علاوہ شیخ محی الدین ابن عربی صاحب فصوص الحکم کے نظریات پر ایک مبسوط و مستند کتاب لکھی ہے جس نے اسی شہرت کو چار چاند لگا دیے ۔ میسگ نون ڈاکٹر صاحب کی باتیں بڑی دلچسپی اورانہماک سے سنتا رہا۔ 24دسمبر1932ء کو جب لندن میں تیسری گول میز کانفرنس ختم ہوئی، تو ڈاکٹر صاحب ہندوستان واپس آنے سے قبل پیرس تشریف لے گئے، اور فرانس کے مشہور فلسفی پروفیسر برگساں سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات خاصی طویل رہی۔ اس میں برگساں کے نظریہ ’’ واقعیت زماں‘‘ پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ برگساں فلسفہ کا مجتہد تھا تو اقبال بھی ان علوم کے امام تھے۔ یوں سمجھئے کہ آئینہ آئینہ کے مقابل تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے برگساں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائی ’’ زمانہ کر برا مت کہو(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں خود زمانہ ہوں‘‘ تو برگساں حیران و ششدر رہ گیا اور بار بار ڈاکٹر صاحب سے دریافت کرتا رہا کہ ’’ کیا بہ صحیح قول ہے؟‘‘ تعلیقات 20گول میز کانفرنس کے سلسلے سے علامہ اقبال کے سفر یورپ کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس سے مسلمانان پاک و ہند کے سیاسی مسائل سے ان کی دلچسپی اور تعلق خاطر کا اظہار ہوتا ہے اور اس خیال کی تردید کہ وہ محض گفتار کے غازی تھے، کردار کے غازی تھے۔ یہ سفر الہ آباد کے 1930ء کے مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس کے بعد کا سفر ہے جس میں علامہ نے اپنے تاریخ ساز خطبہ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی تجویز سے بحث کی تھی۔ اس سفر میں میسگ نون سے ملاقات کا ذکر سید امجد علی صاحب کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔ علامہ اس مورخ اور مستشرق سے خاصے متاثر معلوم ہوئے ہیں۔ مثلاً منصور حلاج کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس مصنف کی تحقیقات سے منصور کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس مصنف نے حلاج کی تحریروں کے اجزا بشمول کتاب الطواسین شائع کیے۔ اس سلسلے میں علامہ کا تبصرہ یہ ہے:* ’’ اب اگر صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان واردات کا نشوونما حلاج کے نعرۂ انا الحق میں اپنے معراج کمال کو پہنچ گیا اور گو حلاج کے معاصرین علی ہذا متبعین نے اس کی تعبیر وحدۃ الوجود کے رنگ میں کی لیکن مشہور فرانسیسی مستشرق موسیومے سینوں (M. Massignon) نے حلاج کی تحریروں کے جو اجزا حال ہی میں شائع کیے ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہید صوفی نے انا الحق کہا تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اسے ذات الٰہیہ کے وراء الورا ہونے سے انکار تھا لہٰذا ہمیں اس کی تعبیر اس طرح کرنی چاہیے جیسے قطرہ دریا میں واصل ہو گیا حالانکہ یہ اس امر کا ادراک بلکہ علی الاعلان اظہار تھا کہ خودی ایک حقیقت ہے جو اگر ایک عمیق اور پختہ تر شخصیت پیدا کر لی جائے تو ثبات و استحکام حاصل کر سکتی ہے۔‘‘ ٭٭٭ معیار علم: (ص137) سید امجد علی نے ایک بار ڈاکٹر صاحب کے سامنے برسبیل گفتگو کہہ دیا کہ اگرچہ علم اس زمانے میں زیادہ پھیل چکا ہے، لیکن تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا معیار دن بدن کرتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، موجودہ نصاب تعلیم کے غیر معیاری ہونے کے متعلق تمہارا خیال بالکل درست ہے۔ *تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، محولہ بالا ص144 لیکن جہاں تک علم کا تعلق ہے وہ پہلے زمانے میں آج سے کہیں زیادہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مختصر جواب با معنی بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ علمی و فکری مسائل پر تحقیق کے طالب اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ پہلے زمانے میں علم صرف بطور ’’ علم ‘‘ اور اس زمانے میں علم بطور’’ ہنر و فن‘‘ حاصل کیا جاتا ہے اور عام طور پر اس کا مقصد زندگی کی خوش حالی اور مالی ذرائع مستحکم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا جاتا تو وہ علم حاصل کرنے کے اس نمایاں فرق کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب کے اشارہ کا صحیح لطف اور فائدہ اٹھا سکیں گے اور یہ اصول ’’ مقصد علم کے نظریہ‘‘ پر مزید تحقیق کی راہیں کھول سکے گا! تعلیقات 21یہ درست ہے کہ بہ حیثیت مجموعی انسان کے علم میں دور جدید میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ قدیم علوم کا انداز بالکل بدل گیا ہے۔ بہت سے نئے علوم اور ان کی نئی نئی شاخیں پیدا ہو گئی ہیں۔ تخصص (Specialisation) اس دور کی امتیازی خصوصیت ہے۔ اس کی بدولت انسان نے کائنات میں بہت سی قیود کو توڑ ڈالا ہے۔ تاہم انفرادی اور عام سطح پر نصاب تعلیم، طریق تعلیم اور مقصد تعلیم کے ناقص ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس کا اندازہ ان لاکھوں ڈگری یافتہ حضرات کی واقعی لیاقت سے لگایا جا سکتا ہے جو مختلف علوم و فنون میں درجہ کمال یعنی (Masters Degree) رکھتے ہیں۔ ٭٭٭ مجھے ہے حکم اذاں ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ : (ص139-138) مسجد قرطبہ کے واقعہ کو کتاب کے نقش اول میں عرض کر چکا ہوں۔ سید امجد علی نے اس واقعہ کا ذکر اس گراں قدر اضافہ کے ساتھ کیا۔ کہ ڈاکٹر صاحب جب مسجد قرطبہ میں گئے تو انہوں نے وہاں صرف نماز ادا کرنے پر اکتفا نہیں کی، بلکہ اس عظیم الشان تاریخی مسجد میں اذان بھی دی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ سارا واقعہ ایک خط میں لکھ کر سید امجد علی کو بھیجا۔ ڈاکٹر صاحب کے خط سے ایسے جوش مسرت کا اظہار ہوتا تھا جیسے بچہ کوئی عجیب و نادر اور غیر متوقع چیز پا کر خوشی کے مارے وارفتہ ہو جاتا ہے! مسجد قرطبہ مسلمانوں کے فن تعمیر کی جس طرح شاہکار یادگار ہے، اس طرح عبرت کا درد انگیز مرقع بھی ہے۔ 1236ء *میں اس نادر الوجود مسجد کو عیسائیوں نے کلیسا میں تبدیل کر دیا۔ جہاں تکبیر و اذان کی روح پرور صدائیں گونجتی تھیں، وہاں کلیسا کے جرس کی اجنبی اور نا مانوس آواز سنی جانے لگی۔ صدیوں سے یہ عبادت گاہ تکبیر و اذان سے محروم تھی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا کی کہ 696سال کے طویل عرصے بعد انہوں نے مسجد قرطبہ میں اذان دے کر، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کو بلند کیا اور تقریباً سات صدیاں گزر جانے کے بعد اندلس کی سر زمین میں اذان کی گونج نے وہاں کی فضا کو وہ گم گشتہ عظمت اور تقدیس عطا کی جو تاریخ کے اوراق پارینہ میں محض دھندلا عکس اور وقت کے کاوراں کا غبار بن کر رہ گئی تھی۔ * Spain from the South. by J.b. Trend, Page 76 ڈاکٹر صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ جب انہوں نے مسجد قرطبہ میں نماز ادا کرنے کے بعد دعاء کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ان پر یکایک اشعار کا نزول ہونے لگا حتیٰ کہ انہوں نے پوری دعا اشعار کی صورت میں مانگی اور وہی نظم بعد میں شائع ہوئی۔ تعلیقات 22مسجد قرطبہ علامہ کے یہاں ایک علامت ہے جو مسلمانوں کے نظریہ فن کی ترجمان ہے۔ اذان دراصل ایک بلاوا اور طلبی ہے، علامہ کا کلام یہی فریضہ ادا کرتا ہے۔ ٭٭٭ سر راس مسعود کی اقبال شناسی (ص157-156) افغانستان کی سیاحت میں علامہ سید سلیمان ندوی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے تیسرے رفیق سفر اور مونس راہ راس مسعود ہی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی شاعری سے سر راس مسعود کو کس قدر لگاؤ، شغف بلکہ عشق تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے: ایک بار ڈاکٹر صاحب اور سر راس مسعود ایک محفل میں جمع تھے، راس مسعود کی طبیعت کو جو چہل سوجھی تو وہ ڈاکٹر صاحب سے بولے کہ آج ہم دونوں کے درمیان بیت بازی کا مقابلہ رہے گا مگر اس شرط کے ساتھ کہ آج ہم اشعار شاعر مشرق ہی کے سنائیں گے، کسی دوسرے شاعر کے اشعار قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے عزیز دوست کی فرمائش اور شرط کو مان لیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب بیت بازی کا مقابلہ شروع ہوا اور دس بجے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شروع شروع میں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اشعار سنائے، مثلاً سر راس مسعود کا کہا ہوا شعر ’’ ل‘‘ پر ٹوٹا اور ڈاکٹر صاحب نے فوراً اپنا ایسا شعر سنا دیا جس کی ابتدا’’ ل‘‘ سے ہوتی تھی، مگر رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کے شعر سنانے کی رفتار دھیمی پڑتی چلی گئی، یہاں تک کہ آخر میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے شعر یاد کرنے میں بڑی تلاش اور غور و فکر سے کام لینا پڑا، مگر سر راس مسعود کے حافظہ اور یاد داشت کا یہ عالم تھا کہ وہ پوری روانی کے ساتھ علامہ اقبال کے اشعار سنائے جاتے تھے اور کسی طرح ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ آخر کار ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ اپنے دوست سر راس مسعود کے حق ہی میں دیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں اپنے اشعار اتنے یاد نہیں ہیں جتنے راس مسعود کو یاد ہیں اور وہ (اقبال) ان (راس مسعود) کی حاضر جوابی، برجستہ گوئی اور اقبال شناسی کے آگے سپر انداختہ ہیں: بیا کہ ما سپر انداختیم اگر جنگ است تعلیقات 23نواب سرسید راس مسعود، سرسید جیسے نامور دادا اور سید محمود جیسے نامور باپ کے پوتے اور بیٹے ان لوگوں میں ہیں جن سے علامہ اقبال کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ افسوس کہ ان کی ملاقاتوں کے ملفوظات بہت کم محفوظ ہیں۔ خاص طور پر قیام بھوپال کے طور میں ظاہر ہے علامہ اور راس مسعود مرحوم سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوا ہو گا۔ ٭٭٭ پردہ اور مخلوط تعلیم (ص166,164) صنف نازک کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ نظریہ تھا کہ خواتین کا کام گھروں میں رہ کر نئی نسل کو تربیت دینا ہے کہ اس طرح معاشرے میں اعتدال و سکون قائم رہ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب عورت کو ’’ شمع انجمن‘‘ نہیں ’’ چراغ خانہ‘‘ دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے یورپ کی زندگی تھی کہ عورت نے وہاں جب سے گھریلو ذمہ داری، تدبیر منزل اور خانہ داری کو خیر باد کہا ہے، یورپ کا معاشرہ تباہ و ابتر ہو کر رہ گیا ہے اور گھریلو زندگیاں بے مزہ اور بے سکون ہو گئی ہیں۔۔۔۔ ایک دن بیگم راس مسعود نے قدرے شکایت کے انداز میں ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ مرد خود تو تفریح کرنے اور دل بہلانے کے لیے رقص و سرود کی محفلوں اور کلب گھروں میں چلے جاتے ہیں لیکن بیچاری عورتوں کو چہار دیواری میں مقید رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی متین لہجہ میں کہا: میں جو کچھ کہتا ہوں اس میں تمام تر خواتین کا ہی فائدہ ہے۔ سفر افغانستان سے واپسی پر ڈاکٹر صاحب سے مزید دریافت کیا گیا کہ جب قرآن کریم تمام انسانوں کو علم و آگہی حاصل کرنے کی ہدایت کرتا ہے تو پھر لڑکوں اور لڑکیوں کی جدید تعلیمی سہولتوں پر کیوں قدغن لگائی جاتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا، بے شک قرآن کریم میں حصول علم پر بڑا زور دیا گیا ہے لیکن اس میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک مکتب میں مل جل کر تعلیم حاصل کریں۔ پردہ اور مخلوط تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات بڑے واضح تھے اور وہ اپنے اس موقف سے بال برابر ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے خود اپنی زندگی میں اس کا عملی ثبوت دیا کہ اپنی بچی منیرہ کی تعلیم و تربیت کے لیے بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد علی گڑھ سے ایک معلمہ بلوائی جس نے گھر میں رہ کر ڈاکٹر صاحب کی بچی کو تعلیم دی۔ ڈاکٹر صاحب منطقی اور فلسفیانہ انداز میں مردوں اور عورتوں کو ایسے مختلف خوش رنگ اور مہکتے پھولوں سے تعبیر کیا کرتے تھے جن کو پروان چڑھانے کے لیے جداگانہ اقسام کی کھاد درکار ہوتی ہے۔ وہ زن و مرد کی ترقی، نشوونما اور تعلیم و تربیت کے لیے جداگانہ میدان عمل کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جسمانی طور پر بھی ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور فرائض کے اعتبار سے بھی فولاد اور پھول کی ڈالی سے ایک جیسا کام نہیں لیا جا سکتا۔ تعلیقات 24۔ علامہ کا نظریہ اس باب میں اکبر الہ آبادی کے نظریات و افکار سے ہم آہنگ ہے کہ عورت کو شمع انجمن نہیں، چراغ خانہ بننا چاہیے۔ ٭٭٭ وجدان (صفحہ177) ہاں! تو علامہ ایک چارپائی پر گاؤ تکیہ کے سہارے نیم دراز تھے اور حقہ پی رہے تھے۔ میں نے ’’ چلم‘‘ کے لیے ’’ ٹوپی‘‘ کا لفظ پہلی بار انہیں کی زبان سے سنا۔ علیک سلیک کے بعد کچھ گفتگو ہوئی، اس کے بعد میں نے اپنی ملاقات کا مدعا ظاہر کیا، یعنی علامہ اقبال سے دریافت کیا کہ حکماء کے دلائل تو کانٹ نے باطل ٹھہرا دئیے۔ اب ہم ذات واجب کا اثبات کریں تو کیسے کریں؟ علامہ نے میرے اس سوال کا جو جواب دیا، سچ تو یہ ہے اس نے میری زندگی میں ایک بہت بڑا ذہنی انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے فرمایا عقلی دلائل کی مدد سے واجب الوجود کا اثبات نہیں ہو سکتا، اس کے اثبات کا طریقہ باطنی مشاہدہ یا مذہبی تجربہ ہے۔ خدا شناسی کا ذریعہ خرد نہیں، عشق ہے، جسے فلسفہ کی اصطلاح میں وجدان کہتے ہیں۔ تعلیقات 25۔ انہوں نے فرمایا: ’’ عقلی دلائل کی مدد سے واجب الوجود کا اثبات نہیں ہو سکتا۔ اس کے اثبات کا طریقہ باطنی مشاہدہ یا مذہبی تجربہ ہے۔ خدا شناسی کا ذریعہ خرد نہیں عشق ہے جسے فلسفہ کی اصطلاح میں وجدان کہتے ہیں۔‘‘ ان مختصر الفاظ میں علامہ نے جو نقطہ نظر بیان کیا وہی مسلک تصوف ہے اور یہی علامہ کا مسئلہ تصوف ہے۔ فلسفہ خودی کا ماخذ (ص183,182) علامہ کی خدمت میں حاضری اور رسائی کے بعد پروفیسر صاحب نے ان سے گلشن راز جدید بھی پڑھی۔ یہ مشکل کتاب پوری توجہ، انہماک اور مسلسل درس و تدریس کے باوجود دو مہینہ میں جا کر ختم ہوئی۔ 6مارچ1931ء کو جب انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے یہ شعر پڑھے: مرا دل سوخت بر تنہائی او کنم سامان بزم آرائی او مثال دانہ می کارم خودی را برائے او نگہ دارم خودی را تو ڈاکٹر صاحب پر یکایک خاص کیفیت طاری ہو گئی اور کئی منٹ تک اشکوں کا سیل رواں تھم نہ سکا۔ جو شخص نہ تصوف کا ذوق رکھتا ہے، نہ اس کا دل سوز و گداز سے آشنا ہے اور نہ وجدان و عشق اور جذب و سلوک سے وہ با خبر ہے، اس کے لیے یہ سمجھنا بہت دشوار ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کس بات نے یکایک سرشار و بے خود کر دیا۔ جب افاقہ ہوا۔۔۔۔۔ تو ڈاکٹر صاحب نے پروفیسر چشتی کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ تمہاری جگہ کوئی صاحب دل بیٹھا ہوتا تو بے اختیار تڑپنے لگتا۔‘‘ ’’ گلشن راز جدید، ختم کرنے کے بعد یوسف سلیم صاحب نے اسرار خودی بھی علامہ ہی سے پڑھی اور اپنی استعداد اور فہم کے مطابق علامہ کے ارشادات سے استفادہ کیا۔ ایک دن انہوں نے علامہ سے براہ راست سوال کر ہی دیا:‘‘ ’’ آپ کے فلسفہ خودی کا ماخذ کیا ہے اور چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ خودی کا فلسفہ صوفیائے کرام اور قرآن کریم سے ماخوذ ہے اس لیے میں نے خاص طور پر یہ بات آپ سے پوچھی ہے۔‘‘ فرمایا:ہاں یہ آیت استحکام خودی پر دال ہے: یا ایھا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم الی اللہ مرجعکم جمیعا فینبئکم بما کنتم تعملون۔ (سورۂ مائدہ، آیت105) مفہوم:’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر فرض ہے خودی کی محافظت اگر تم ہدایت پر ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے، تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا، تم سبھوں کو اللہ ہی کے پاس واپس جانا ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال پر مطلع کر دے گا(تاکہ ان کے مطابق جزا و سزا مل سکے)‘‘ تعلیقات 26۔یہ بیان نہایت اہم ہے۔ قرآن حکیم کی آیت میں انفس ہے۔ یہ اصطلاح آفاق و انفس کی صوفیائے کرام کے یہاں بھی ملتی ہے اور ان کے مسلک کی ترجمان ہے۔ ٭٭٭ روزگار فقیر جلد دوم ’’ اسی گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔‘‘ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور نجار کا لڑکا بازی لے گیا) ص30 ’’ کیا عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟‘‘ ص37 ’’ جب وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے او رمر گیا تو شہید؟‘‘ ص38 تعلیقات 27 یہ چھوٹے چھوٹے فقرے علامہ کے خیالات، افکار و نظریات کی تائید کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ماخذ کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ شفقت مادرانہ (354) والدہ مرحومہ کی یاد میں اس نظم کے گیارہ اشعار بانگ درا کے بعد منظر عام پر لائے جا چکے ہیں، لیکن حسب ذیل ایک شعر کسی مجموعے کی زینت نہیں بن سکا: وائے ناکامی کہ میں بھی آشنا حکمت سے ہوں طور ہوں، یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں تعلیقات 28 اس پس منظر میں علامہ کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں دیکھئے۔ ٭٭٭ مئے لالہ فام: ڈاکٹر جاوید اقبال اقبال ایک باپ کی حیثیت سے (ص164) میں نے سن رکھا ہے کہ میری پیدائش سے چند سال قبل ابا جان شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دعا کی اللہ تعالیٰ انہیں ایک بیٹا عطا فرمائے۔ آپ نے حضرت مجدد سے یہ عہد بھی کیا کہ اگر خداوند تعالیٰ نے انہیں بیٹا دیا تو اسے ساتھ لے کر مزار پر حاضر ہوں گے۔ آپ کی دعا پوری ہوئی اور کچھ عرصہ بعد جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے اپنے ہمراہ لے کر دربار سرہند شریف پہنچے۔ اس سفر کے دھندلے سے تصورات میری نگاہوں کے سامنے ابھرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہو رہا ہوں۔ گنبد کے تیرہ و تار مگر پر وقار ماحول نے مجھ پر ایک ہیبت سی طاری کر رکھی ہے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں اپنے چاروں طرف گھور رہا ہوں جیسے میں اس مقام کی خاموش ویرانی سے کچھ کچھ شناسا ہوں۔ ابا جان نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کا ایک پارہ منگوایا اور دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت صرف ہم دو ہی تربت کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی آواز گونج کر ایک ہولناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ ایک روز وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم گھر واپس آ گئے لیکن مجھ پر اس راز کا انکشاف نہ ہوا کہ آخر اس مزار پر جانے کا مقصد کیا تھا اور وہ آنسو کس لیے تھے؟ مجھے یاد ہے، میں بچپن میں اکثر یہی سوچا کرتا تھا۔ تعلیقات 1جاوید اقبال اور شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضری۔ اس واقعہ کا ذکر علامہ کے مکاتیب میں بھی ملتا ہے۔ حضرت مجدد کا مختصر تذکرہ اس مجموعہ میں کسی اور موقع پر پہلے آ چکا ہے۔ علامہ کی عقیدت کی بناء دراصل یہ ہے کہ حضرت مجدد نے برصغیر پاک و ہند میں احیائے دین کی زبردست کوشش کی، عقائد کو غیر اسلامی آلائش سے پاک کیا، اقبال کی طرح وحدت شہود حقیقت تک حضرت مجدد کی رسائی بھی وجدان کے ذریعہ سے ہوئی تھی اور ایک خاص عالم میں انہیں اس کا کشف ہوا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وحدت شہود اور وحدت الوجود میں جو تضاد یا تنافس بعض حضرات کو نظر آتا ہے وہ اہل نظر کے نزدیک حقیقی نہیں ہے بلکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ ظاہر ہے جاوید کو مزار پر لے جا کر حاضری دینے اور دلا دینے سے علامہ کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اس فرزند عزیز کو روح اسلام، وجدان اور طریقت کے ماحول سے شروع سے آشنا کرایا جائے۔ چنانچہ جاوید اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ اس پر وقار ماحول نے ان پر ہیبت طاری کی اور وہ اس خاموش ویرانی میں کچھ شناسائی محسوس کرنے لگے۔ علامہ نے دیر تک قرآن خوانی کی اور اشکبار رہے۔ اس وقت اس اشکباری کا راز جاوید اقبال پر کیا کھلتا، لیکن ظاہر ہے اس واقعہ نے جاوید اقبال کے شعور اور تحت شعور پر گہرا اثر ڈالا ہو گا۔ ٭٭٭ (ص168) اچانک میرے منہ سے خون بہتا دیکھ کر بے ہوش ہو گئے۔ تعلیقات 2جاوید اقبال کے منہ سے خون بہتا دیکھ کر علامہ کا بے ہوش ہو جانا۔ یہ واقعہ علامہ کی رقت قلب کی ایک شہادت اور مثال ہے۔ وہ شخص جو بظاہر طاقت و قوت اور جہاد کا علمبردار اور نقیب ہے اس کے باطن میں کس درجہ نرمی اور گداز ہے۔ خارا شگافی اور گداز دل دونوں ہی عناصر سے مرد مومن کا خمیر اٹھتا ہے۔ ٭٭٭ (ص168) کئی بار کھلی بہار میں جب میں کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا ہوتا تو وہ دبے پاؤں اوپر آ جاتے اور میرے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے مگر مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جب بھی کبھی کسی اور پتنگ سے پیچ لڑایا تو ہمیشہ ہماری پتنگ ہی کٹی۔ تعلیقات 3پتنگ بازی اور کبوتر بازی لاہور میں پتنگ اڑانے کا بڑا رواج تھا اور اب بھی ہے، خاص طور پر بسنت کے موقع پر سارا شہر پتنگ اڑانے نکل پڑتا۔ یہ ایسی تقریب تھی جس میں مذہب اور ذات پات کی تمیز نہ تھی۔ پتنگ بازی میں غالباً ایک علامت یہ بھی ہے کہ پتنگ پستی سے بلندی کی طرف مائل ہوتا/ہوتی ہے، ہوا اسے جدھر چاہے لے جا سکتی ہے لیکن پتنگ اڑانے والا اسے پھر بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے اور اس کا راستہ، بلندی اور رخ متعین کرتا ہے۔ ٭٭٭ (ص169) رمضان کے دنوں میں اماں جان باقاعدہ روزے رکھتیں اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتیں۔ تعلیقات 4علامہ کی والدہ: جاوید اقبال کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ قرآن مجید کی تلاوت کرتی تھیں، بعض لوگوں نے جو یہ لکھا ہے کہ چونکہ وہ قرآن نہیں پڑھی تھیں اس لیے ان کے والد نے اجازت دے دی تھی کہ نماز میں عربی آیات کی جگہ ان کا اردو ترجمہ پڑھ لیا کرو۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ والدہ کا نام امام بی بی تھا اور ان کی تربیت کا اثر علامہ پر جس طرح ہوا اس کا کچھ اندازہ اس نظم سے ہوتا ہے جس کا عنوان ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ہے۔ یہ واقعہ 9نومبر1914ء کا ہے، روزگار فقیر میں علامہ کی والدہ مرحومہ کی جو تصویر ہے اس میں بھی قرآن حکیم ان کے سامنے رحل پر کھلا رکھا ہے۔ ٭٭٭ (ص171) البتہ گانا سننے کا انہیں شوق ضرور تھا اور اچھا گانے والے کو جب کبھی گھر بلوا کر ان سے اپنایا اوروں کا کلام سنتے تو مجھے بھی پاس بٹھا لیا کرتے۔ فقیر نجم الدین مرحوم ابا جان کو اکثر ستار بجا کر سنایا کرتے تھے۔ خود ابا جان کو جوانی میں ستار بجانے کا شوق رہ چکا تھا لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ گئے تو اپنی ستار کسی دوست کو دے گئے۔ تعلیقات 5علامہ اور موسیقی بعض حضرات کا خیال ہے کہ علامہ اقبال رقص اور موسیقی کو نا پسند کرتے تھے، اور تائید میں ان کے پیش نظر علامہ کا یہ شعر ہوتا ہے: آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں ان کا مسلک وہی تھا جو صوفیائے کرام کا سماع کے باب میں بیان کیا گیا ہے اور پیر رومی اور مرید ہندی کے سوال و جواب میں بڑے اختصار سے اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے *: مرید ہندی اے امام عاشقان درد مند یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند ’’خشک مغز و خشک تار و خشک پوست از کجا می آید این آواز دوست، دور حاضر مست چنگ و بے سرور! بے ثبات و بے یقین و بے حضور! کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا! دوست کیا ہے دوست کی آواز کیا! آہ یورپ! بافروغ و تابناک نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوے خاک!‘‘ پیر رومی بر سماع راست ہر کس چیز نیست طعمہ بر مرغکے انجیر نیست *بال جبریل، ص134 (ص172) میں نے انہیں ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لیے ایک گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ نہ لے کر آئے لیکن میرا انہیں انگلستان میں لکھا ہوا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شان نزول کا باعث ضرور بنا: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر تعلیقات گراموفون کی فرمائش 6اس موقع پر جاوید اقبال صاحب نے اپنے پہلے مضمون مشمولہ ملفوظات اقبال طبع دوم اور مضمون مشمولہ مجموعہ مضامین مئے لالہ فام میں کچھ رد و بدل، ترمیم و اضافہ کیا ہے۔ مئے لالہ فام میں شامل مضمون سے علامہ کی ایک نظم کی شان نزول کا پتہ چلتا ہے۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ٭٭٭ (ص175) ’’ تمہیں یوں نہ رونا چاہیے۔ یاد رکھو، تم مرد ہو، مرد کبھی نہیں رویا کرتے۔‘‘ اس کے بعد اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ انہوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کی پیشانیوں کو باری باری چوما۔ مجھے بارہا جل کر کہا کرتے:’’ تمہارا دل پتھر کا ہے، تم بڑے سنگ دل ہو، اتنا نہیں جانتے کہ اس بہن کے سوا تمہارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔‘‘ تعلیقات سنگدل بھائی 7یہاں پھر کداز قلب پر زور ہے، بھائی کو بہن کی محبت کی تاکید۔ ٭٭٭ (ص177) اس لیے جب کبھی انہیں لوگ وہاں ملنے آتے یا وہ لوگوں کے ہاں جاتے تو مجھے ہمیشہ کہا کرتے کہ لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ تعلیقات بڑوں سے گفتگو 8۔ یہ بات ثابت ہے کہ نو عمری میں اپنے سے بڑوں کی صحبت سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ ادب اور تمیز، رکھ رکھاؤ اور شائستگی تو آتی ہی ہے ان کی گفتگو بجائے خود ایک مکتب اور مدرسہ ہوتی ہے، اسی لیے علامہ کی خواہش تھی کہ جاوید اقبال لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھنے کی بجائے ان سے بات چیت کیا کریں۔ ٭٭٭ (ص178) گرمیوں میں ابا جان باہر سوتے اور میری چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے کیونکہ انہیں عموماً رات کو تکلیف ہوتی تھی اور جب شعر کی آمد ہوتی تھی تو ان کی طبیعت اور بھی خراب ہو جایا کرتی۔ چہرے پر تغیر رونما ہو جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سر دے دیتے۔ اکثر اوقات وہ رات کے دو یا تین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اسے اپنی بیاض اور قلم و دوات لانے کو کہتے۔ جب وہ لے آتا تو بیاض پر اشعار لکھ دیتے۔ اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ آرام سے لیٹ جاتے۔ بعض اوقات تو وہ علی بخش کو اس غرض کے لیے بھی بلواتے کہ میری پائینتی پر پڑی ہوئی چادر کو میرے اوپر ڈال دو۔ تعلیقات 9شعر نازل ہونے کی یہ کیفیت بعض اور شعرا نے بھی اسی طرح بیان کی ہے۔ دراصل یہ کرب اس لیے ہے کہ خیالات و جذبات، افکار و مضامین کا جو سیلاب امنڈتا ہے اور جس شدت سے، وہ اپنے لیے وسیلہ اظہار، الفاظ اور پیراہن بیان چاہتا ہے، بیان کتنا ہی بلیغ کیوں نہ ہو اس کیفیت کو پوری طرح منتقل نہیں کر سکتا ہے اور یہی تلاش اس کرب و اذیت کی کیفیت پیدا کرتی ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے۔ ٭٭٭ (ص182) ابا جان کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے۔ میں نے بھی ان سے قرآن مجید پڑھا ہے۔ ان کی آواز بڑی پیاری تھی۔ ابا جان جب بھی ان سے قرآن مجید سنتے، مجھے بلا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک بار انہوں نے سورۂ مزمل پڑھی تو آپ اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور مرتعش ہو کر بولے: ’’ تمہیں یوں قرآن پڑھنا آتا ہے‘‘ اسی طرح مجھے ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کو کہا اور خاص طور پر وہ بند۔۔۔۔۔۔ جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا: ’’ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔ میں نے اماں جان کی موت پر انہیں آنسو بہاتے نہ دیکھا تھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک کسی کی نوک زباں پر آتے ہی ان کی آنکھیں بھر آیا کرتیں۔ تعلیقات قرأت اور نظم خوانی کا اثر 10۔ یہ بھی اثر نغمہ کی ایک صورت ہے جس کا ذکر پہلے ہوا۔ قرآن حکیم یوں تو از اول تا آخر حسن بیان اور حسن صوت کا مجموعہ ہے لیکن بعض قرآنی آیات بالخصوص لحن اور آہنگ کے اعتبار سے بہت زیادہ اثر انگیز ہیں، مثلاً سورہ رحمن اور سورہ مزمل وغیرہ مسدس کا یہ حصہ جو نعت گوئی کا ایک نادر نمونہ ہے اس کی قبولیت کا اس سے اندازہ لگائیے کہ آج بھی زندہ ہے اور دلوں کو گرماتا ہے۔ ٭٭٭ (ص187) مجھے خاص طور پر حکم تھا کہ جب بھی ان کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی بحث مباحثہ ہو رہا ہو تو میں وہاں ضرور موجود ہوں۔ لیکن مجھے ان کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ ہوا کرتی کیونکہ وہ میری سمجھ سے بالاتر ہوتیں۔ سو میں عموماً موقع پا کر وہاں سے کھسک جایا کرتا جس پر انہیں بہت رنج ہوت ااو روہ اپنے احباب سے کہتے:’’ یہ لڑکا نہ جانے کیوں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتا ہے۔‘‘ دراصل اب وہ تنہائی بھی محسوس کرنے لگے تھے اور اکثر اوقات افسردگی سے کہا کرتے:’’ سارا دن یہاں مسافروں کی طرح پڑا رہتا ہوں، میرے پاس آ کر کوئی نہیں بیٹھتا۔‘‘ ’’ جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں‘‘ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے:’’ چودھری صاحب! اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا خطاب بہ جاوید ضرور پڑھوا دیجئے گا۔‘‘ تعلیقات افسردگی 1 12- علامہ اقبال کی زندگی کے انسانی پہلو پر بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا اندازہ جاوید اقبال کے اس مضمون سے ہی ہو جاتا ہے۔ 1938ء کے آغاز کے حوالہ سے جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ علامہ تنہائی محسوس کرنے لگے تھے، اس کا سب سے بڑا سبب علامہ کی اہلیہ کا انتقال تھا جو علامہ کے نئے مکان جاوید منزل میں منتقل ہوئیں تو ایمبولینس گاڑی میں اور بقول جاوید اقبال نئے گھر میں قدم رکھنے کے تیسرے یا چوتھے روز ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت جاوید کی عمر صرف دس برس اور منیرہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ جاوید اقبال*نے لکھا ہے کہ اماں جان کی بے وقت موت نے ابا جان کو پژمردہ کر دیا تھا۔ دراصل ان کو رفیقہ حیات کی جدائی کے ساتھ ان دو بچوں کی پرورش، تربیت و تعلیم کی فکر تھی جن کو وہ نئی نسل کے مسلمانوں کا ایک مکمل نمونہ دیکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ اس کی ایک شہادت ہے اور پھر علامہ کا اپنی زندگی کے *مئے لالہ فام، ص175 آخری لمحوں میں چودھری محمد حسین سے یہ ارشاد ہیـ:’’ اسے جاوید نامہ کے آخر میں وہ دعا، خطاب بہ جاوید، ضرور پڑھوا دیجئے گا‘‘ اس کی تائید، چنانچہ مئے لالہ فام کے پیش لفظ میں ڈاکٹر جاوید اقبال خود فرماتے ہیں*: ’’ اگر کلام اقبال کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ حضرت علامہ کا پیغام دراصل مسلمانوں کی ہر نئی نسل کے لیے ہے۔ جہاں تک میری ذات یا میرے نام کا تعلق ہے، میری دانست میں انہوں نے اسے اپنے کلام میں اسی مقصد کے لیے ایک اشارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے کلام میں جہاں کہیں بھی مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں اس سے مراد در حقیقت نوجوانان ملت ہیں، مثلاً جاوید نامہ میں ’’خطاب بہ جاوید‘‘ دراصل ’’ سخنے بہ نژاد نو‘‘ ہے۔ اس لحاظ سے ملت کا ہر نوجوان علامہ کے لیے جاوید ہے۔‘‘ ٭٭٭ *ایضاً ص ب کتابیات 1حواشی اور تعلیقات کے متن میں نمبرد شمار پر مقالہ میں الگ الگ درج ہیں۔ 2پاورقی حوالے کتابیات میں ہر مقالہ کے تحت مسلسل نمبر دے کر لکھے گئے ہیں۔ پیش گفتار 1شروانی لطیف احمد، حرف اقبال، المنار اکادمی لاہور، جولائی 1947ء طبع دوم۔ 2ایضاً 3ایضاً 4 شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، حصہ دوم، طبع لاہور1951ء 5عقیل، ڈاکٹر معین الدین، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، انجمن ترقی اردو کراچی 1976ء 6حمید احمد خان، دیباچہ طبع ثانی ملفوظات اقبال، اشاعت منزل بل روڈ لاہور1949ء کیف غم 7ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر، اقبال اور بیدل، ماہ نو استقلال نمبر1954ء اقبال کی یاد میں 8ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر، لکھنو کا دبستان شاعری، طبع سوم، لاہور 1967ء 9فقیر، سید وحید الدین، روزگار فقیر، طبع دوم، لاہور، 1963ء 10بانگ درا، طبع لاہور، پانچواں اڈیشن علامہ اقبال کی صحبت میں 11ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر اقبال اور مسلک تصوف، اقبال اکادمی لاہور 1977ء 12عبدالحکیم، خلیفہ، ڈاکٹر اقبال، رومی اور نطشے، رسالہ اردو اقبال نمبر۔ 13 اقبال علامہ ڈاکٹر سر، جاوید نامہ، طبع ششم 1974ء لاہور 14نیازی، سید نذیر، ترجمہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، لاہور 1958ء 15آزاد، مولانا ابو الکلام، مضامین ابو الکلام آزاد، فرنٹیر بک ڈپو لاہور 16صدیق حسن خان، نواب، شمع انجمن تذکرہ مطبع شاہجہانی بھوپالی۔ 17اقبال، علامہ، ضرب کلیم، طبع ہشتم غلام علی اینڈ سنز لاہور، جنوری 1976ء 18قریشی، ڈاکٹر اشتیاق حسین، برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ، طبع کراچی 19خان، ڈاکٹر محمود حسین، مرتب فتح المجاہدین، مقدمہ نواب زادہ لیاقت علی خان، اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1950ء 20ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر، مدیر اقبال نمبر علی گڑھ میگزین، اپریل 1938ء 21الہجویری، حضرت ابو الحسن علی بن عثمان بن ابی علی الجلابی، معرفت داتا گنج بخش۔ کشف المحجوب، متن مرتبہ و تصحیح کردہ وانتین ژوفسکی، مطبوعات موسسہ چاپ و انتشارات امیر کبیر، تیر ماہ یکہزار و سبوسی و شش 22ایضاً 23تشکیل جدید الہیات اسلامیہ محولہ بالا 24ایضاً 25ذوقی، شاہ سید محمد، سر دلبران، طبع ثانی کراچی 1388ھ 26ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر، اقبال اور بیدل، ماہ نو استقلال نمبر1954ء 27سالک، عبدالمجید، ترجمہ میراث ایران مرتبہ تامس آرنلڈ و الفریڈ گیام مجلس ترقی ادب لاہور 1960ء 28تشکیل جدید الہیات اسلامیہ محولہ بالا 29سالک عبدالمجید، ترجمہ اسلام اور تحریک تجدد مصر میں، تصنیف چارلس سی آدم، مجلس ترقی ادب لاہور 1960ء 30ایضاً 31 Iqbal (Sir) Mohammad, The Development of Metaphysics in Persia 2nd Ed. Lahore. Bazm-i-Iqbal, n. d. 32اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔ دانش گاہ پنجاب لاہور، جلد1کراسہ 8 33ایضاً 34ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر۔۔۔۔ اقبال اور مسلک تصوف، محولہ بالا میرا اقبال 35اقبال علامہ، بانگ درا، محولہ بالا 36ہاشمی رفیع الدین، خطوط اقبال 37اقبال علامہ، بانگ درا محولہ بالا۔ 38ایضاً 39صہبا لکھنوی اقبال اور بھوپال، طبع اول، کراچی 1973ء 40شیخ عطاء اللہ اقبال نامہ، حصہ اول 41قریشی، اشتیاق حسین ڈاکٹر، برعظیم کی ملت اسلامیہ محولہ بالا 42ایضاً 43اقبال، علامہ، بانگ درا، محولہ بالا 44چشتی، نور احمد، یادگار چشتی، مرتبہ گوہر نوشاہی مجلس ترقی ادب، لاہور1972ء 45اسماعیل، شیخ محمد، نقوش لاہور نمبر، لاہور1962ء 46اقبال، علامہ، بانگ درا، محولہ بالا 47ہجویری، کشف المحجوب، محولہ بالا 48چشتی، نور محمد، تحقیقات چشتی، لاہور، پنجابی اکیڈمی 1964ء 49 بقا، ڈاکٹر مظہر، اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ، ادارہ تحقیقات اسلامیہ، اسلام آباد، طبع اول 1973ء 50ایضاً 51قریشی، اشتیاق حسین ڈاکٹر، برعظیم کی ملت اسلامیہ محولہ بالا۔ ایک فیضانی لمحے کی یاد 52چغتائی، عبدالرحمان، مرقع چغتائی، پیش لفظ علامہ اقبال، لاہور 1928ء 53ہاشمی، رفیع الدین، خطوط اقبال، محولہ بالا 54شیخ، عطاء اللہ، اقبال نامہ جلد اول محولہ بالا۔ 55وقار عظیم، سید، اقبال معاصرین کی نظر میں، مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء 56اقبال علامہ، بال جبریل، طبع جنوری 1975ء ، لاہور اقبال کے ہاں ایک شام 57جاوید اقبال، ڈاکٹر جسٹس، مئے لالہ فام، طبع اول 1966ء 58روزگار فقیر محولہ بالا 59جاوید اقبال، ڈاکٹر جسٹس، مئے لالہ فام محولہ بالا 60صحیح مسلم، جلد دوم 61صدیقی، رضی الدین ڈاکٹر، اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء 62اقبال، علامہ، اسرار و رموز، احسن برادرز، لاہور، طبع سوم 1948ء 63اقبال علامہ، ضرب کلیم محولہ بالا 64اقبال علامہ، بال جبریل، محولہ بالا 65سید، سرسید احمد خان، تفسیری مضامین، مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع اول1961ء 66اقبال، علامہ The Development of Metaphysics in persia محولہ بالا۔ 67اقبال، علامہ، جاوید نامہ، محولہ بالا 68عقیل، معین الدین ڈاکٹر، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، محولہ بالا 69 Beale, Thomas William: Oriental Biographical Dictionary Calcutta 1881. علامہ اقبال سے ایک ملاقات 70اقبال، علامہ، ضرب کلیم، محولہ بالا 71 Ernest. J. Grube-the World of Islam-Architecture, Ccramics, Paintings-rugs, metal work, carving-poul Hamlyn-London. II Ed. 1966. 72ایضاً 73ایضاً 74سید، سرسید احمد خان، آثار الصنادید، مرتبہ ڈاکٹر سید معین الحق پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی، طبع اول 1966ء 75ایضاً یاد ایام 76اقبال، علامہ، اسرار و رموز، محولہ بالا 77قرآن حکیم 78حدیث شریف 79اقبال، علامہ، جاوید نامہ، محولہ بالا 80اقبال، علامہ، بانگ درا، محولہ بالا 81اقبال، علامہ، ضرب کلیم محولہ بالا 82اقبال، علامہ، ضرب کلیم، محولہ بالا چند مصدق متن 83سر دلبراں، محولہ بالا 84ایضاً 85اقبال، علامہ، بانگ درا 86سید، سرسید احمد خان، تفسیری مضامین، حصہ دوم، مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب لاہور 1961ء 87اقبال علامہ، ارمغان حجاز، احسن برادرز، لاہور، طبع پنجم، جون1951ء دو ملاقاتیں 88مومن، حکیم مومن خان مومن، کلیات، جلد دوم، مرتبہ کلب علی خان فائق، مجلس ترقی ادب لاہور۔ 89ایضاً 90 Beals Oriental Biographical Dictionaryمحولہ بالا 91 Iqbal, The Development of Metaphysics in persia محولہ بالا 92میراث اسلام، ترجمہ عبدالمجید سالک، مرتبہ سرتامس آرنلڈ و الفریڈ گیام، مجلس ترقی ادب، لاہور، 1960ء 93عبدالحق مولوی، اردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام، انجمن ترقی اردو و دیگر مصادر 94شیخ، عطاء اللہ، اقبال نامہ، حصہ دوم، محولہ بالا حکیم مشرق 95واحدی، ملا میرے زمانے کی دلی، طبع دوم، کراچی، ندارد اقبال اور عبدالحق 96ممتاز حسن، اقبال اور عبدالحق، مجلس ترقی ادب، لاہور 1973ء 97ایضاً روزگار فقیر 98 سید، سرسید احمد خان، تحریر فی اصول التفسیر، مشمولہ مقالات سرسید، حصہ دوم، تفسیری مضامین مرتبہ اسماعیل پانی پتی، محولہ بالا 99اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، جلد اول، لاہور،1963ء 100تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، محولہ بالا اقبال ایک باپ کی حیثیت میں 101اقبال، علامہ، بال جبریل، محولہ بالا 102جاوید اقبال، ڈاکٹر جسٹس، مئے لالہ فام 103ایضاً ٭٭٭ اشاریہ اشخاص آ آتش، ۶، ۳۴۵ آدم ۳۰۰،۳۷۲، ۳۷۳ بتکرار ۴۶۷ آدم، چارلس سی ۴۰۹، ۴۱۰ آرتھر اڈنگسٹن، سر ۱۶۱ آرنلڈ، تامس، ۴۰۴، ۴۲۲، ۵۲۹ آزاد (محمد حسین ) ۲۹۸ آزاد، ابو الکلام، ۳۷۷ بتکرار، ۳۷۸، ۸۱۴، ۷۳۵ آغا حشر کاشمیری، ۲۷۸ بتکرار ۵۳۷ بتکرار آغا حیدر، جسٹس سید، ۳۵ بتکرار آغا خاں (سوم) ۳۱۷ آغا محمد شاہ۔ دیکھیے: آغا حشر کاشمیری آل احمد، ۴۹۰ آنحضرت ؐ۔ دیکھیے : رسول خداؐ آئن سٹائن ، ۲۰۴ الف ابدالی (احمد شاہ) ۴۵۴، ۴۶۹ ابراہیم ؑ، حضرت، ۷۳، ۴۲۸،۵۲۲، ۸۶۵ ابلیس، ۷۸، ۴۵۴ ابن الفقیہہ، ۴۰۵ ابن تیمیہ، ۷۸، ۴۱۲ بتکرار، ۴۱۵ بتکرار، ۴۱۶ بتکرار، ۴۱۷ بتکرار، ۴۱۸ ابن حوقل، ۴۵ ابن خرداذبہ ۴۰۵ ابن خلدون عبدالحرمن ابو زید الملقبسبہ ولی الدین ۷۴، ۴۰۳بتکرار،۵۷۸ بتکرار ۵۷۹ بتکرار ابن رستا ۴۰۵ ابن صیاد ۴۰۶ ابن عباسؓ، حضرت ۵۷۳ ابن عربی، شیخ محی الدین، ۱۴۳، بتکرار، ۵۹۰ ابن عمرؓ ۴۹۶ ابن یونس ۴۰۵ ابو احمد المظفر حمدان، خواجہ، ۲۹۷ ابو اسحق ۵۳۴ ابو الاسود، ۴۰۳ ابو الفضل محمد بن حسن الختلی، حضرت شیخ، ۴۳۶ بتکرار ابو القاسم الجنید بن محمد بن الجنید القواربری۔ دیکھئے: جنید بغدادی، حضرت ابو اللیث صدیقی، ۲۶، ۲۹۶، ۳۳۱ بتکرار، ۳۳۳، ۵۴۳، ۳۶۰، ۳۷۹، ۴۰۳ ابو ایوبؓ خالد۔ دیکھیے: ایوب انصاریؓ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت ۴۱۴، ۴۳۳، ۰۴۴ بتکرار ابو حنفیہؒ، حضرت امام ۷۵ ابو داؤد ۵۷۳ ابو زید البلخی ۴۰۵ ابو سعید ابو الخیر، شیخ، ۴۶۲ ابو سعید خدریؓ ۵۷۳ ابو سلمان، ۴۳۷ ابو ہریرہؓ، حضرت ۱۴، ۵۴۱ احسان بی اے ۶ احسان علی شاہ، ۶ بتکرار احسن لکھنوی ۵۳۷ احمدؐ۔۔ دیکھیے: رسولؐ خدا احمد الدین، خواجہ، ۴۲۱ بتکرار، ۲۲۴ بتکرار احمد بخش، حاجی ۲۳۹ احمد دین، مولوی، ۸۴ بتکرار، ۹۵،۱۱۶ احمد شہید، سید، ۴۷۰، ۵۱۲، ۵۱۵ احمد علی، مولانا، ۱۸۰ اجمل خاں، مسیح الملک، حکیم محمد، ۹۷، ۱۳۶ بتکرار، ۴۲۵، ۴۳۳ بتکرار، ۴۵۷، ۴۹۷بتکرار اجیت سنگھ، سردار، ۴۲۴ ادریسی ۴۰۵ ارسطو ۳۷۹ ارشد گورگانی، مرزا، ۳۳ بتکرار، ۲۷۶، ۲۹۸ بتکرار اسد۔ دیکھیے: غالب، مرزا اسد اللہ خاں اسد ملتانی، محمد اسد خاں، ۲۳۰ اسرائیل ؑ ۵۰۳ اسلم جیرا جپوری، مولانا، ۳۸۱، ۴۵۴ اسماعیل پانی پتی، محمد ۴۶۷، ۵۰۵، ۵۵۷ اسماعیل شہید، سید، ۴۷۰، ۵۰۵، ۵۵۷ اسماعیل شہید، سید، ۴۷۰، ۴۷۱، ۵۱۲ اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر، ۳۱۷، ۹۳۳، ۱۴۳، ۳۴۳، ۳۸۴، ۴۳۰ بتکرار، ۴۳۱ بتکرار، ۴۴۵ اسطخری ۴۰۵ اصغر ۴۵۱ اصغر حیدر، ڈاکٹر ۳۳۵، ۴۵۶ اصغر علی حکیم، ۳۴۶ بتکرار اصغر علی شیخ ۸۷ اظہر، اے ۔ ذی ۳۳۱ اعجاز احمد، شیخ ۳۰۰ بتکرار ۵۸۴ بتکرار، ۵۸۵ اعلیٰ حضرت سرکار (نواب بہاولپور) ۱۰۳ بتکرار افتخار الدین، فقیر سید ۹۶، ۲۷۹، ۵۳۹ بتکرار، ۵۴۰ افضل حق ۴۲۵ افغانی، دیکھئے: جمال الدین افغانی سید افلاطون ۱۴۳، ۴۹۰ بتکرار اکبر (بادشاہ)، ۳۳۹ بتکرار ۳۴۰ اکبر الہ آبادی، ۳۶۱، ۴۶۲، ۴۸۱، ۵۶۸ بتکرار، ۵۹۸ اکبر حیدری، سر، ۵۰۶ الطاف حسین، سید، ۴،۲۱۷، ۴۹۹ الٰہی بخش، خان بہادر، ۴۷۸ امام بی بی ۶۰۶ امام مہدی۔۔۔۔ دیکھئے: مہدی امانت لکھنوی ۵۱۰ امجد علی، سید، ۳۳۷، ۷۸۵بتکرار، ۵۸۸ بتکرار ۵۸۹ بتکرار، ۵۹۱، ۵۹۲، ۵۹۴ بتکرار امراؤ سنگھ مجھیٹھیا، ۵۸۸ بتکرار، ۵۸۹ امرتا شیر گل ۵۸۸ امیر معاویہؓ ۵۲۶ انسؓ، حضرت، ۱۴ بتکرار، ۵۴۱ انشائ، ۳۱۳ بتکرار، ۵۳۶ انصاری، ڈاکٹر۔۔۔۔ دیکھیے: ڈاکٹر انصاری انور پاشا ۵۳۸ انیس، میر، ۳۲۶، ۳۴۵ اورنگ زیب۔۔۔۔ دیکھیے: عالمگیر، ایاز ۵۰۳ ایوب انصاریؓ، حضرت ۵۲۵، ۵۲۶ بتکرار ب بابا فرید شکر گنجؒ ۱۹۳، ۲۵۷ بتکرار بابا لول، حضرت ۴۰۱ بابا نصیر الدینؒ، حضرت ۳۰۲ باقی باللہ دہلویؒ، خواجہ ،۳۴۱ بایزیدؓ ۳۸۹ بدر، بدر الدین ۲۵۶ براؤن، ای ۔ جی، ۴۰۷ برق، ۳۴۶ بتکرار برگساں ۱۳۷ بتکرار، ۱۶۵ بتکرار، ۵۶۱، بتکرار ۵۸۹ بتکرار، ۵۹۰، ۵۹۱ بتکرار برہان احمد فاروقی، ڈاکٹر، ۳۴۳ البستانی ۴۰۵ بشیر احمد، میاں، ۴، ۴۶، ۵۵، ۷۱، ۱۴۴، ۳۰۹، ۴۱۲، ۳۱۴، ۳۱۶، ۳۲۷، ۳۳۸، ۳۵۷ بتکرار بشیر الدین محمود، مرزا، ۱۸۰ بطلیموس، ۴۰۴ بتکرار بلہے شاہ ۲۲۵ بنو نجار ۵۲۶ بو علی سینا، شیخ الرئیس ۴۹۷، ۵۲۳ بہاء الدین محمد بن حسین الخطیبی ۳۵۹ بہاء اللہ، ۲۵۴ بتکرار، ۳۵۹، ۵۲۸ بتکرار بھرتری ہری ۴۵۴ بہلول بدخشانی، قاضی ۳۴۱ بیدل عظیم آبادی، مرزا عبدالقادر، ۷۲، ۱۴۳، ۱۵۴ بتکرار، ۱۵۵ بتکرار، ۱۶۸ بتکرار، ۲۹۶ بتکرار، ۳۹۸ بتکرار، ۳۹۹ بتکرار، ۰۰۴ بتکرار، ۰۱۴ بتکرار، ۲۰۴ بتکرار، ۴۸۰ بتکرار البیرونی ۴۰۵ بیگم راس مسعود ۵۹۷ پ پیغمبرؐ اسلام۔۔۔ دیکھئے: رسول خدا ؐ پیر روم۔۔۔۔ دیکھیے: مولانا روم پیر محمد چشتی، شفاء الملک حکیم، ۲۷۹ ت تاثیر، ڈاکٹر ایم۔ ڈی، ۴،۱۲۶، ۱۲۹، ۱۷۰، ۲۳۰،۳۶۱، ۴۵۱ بتکرار تارا سنگھ، ماسٹر ۴۱۸ تبسم ، پروفیسر صوفی غلام مصطفی ۱۴، ۱۶۱، ۱۶۹، ۲۰۷ بتکرار، ۲۰۹، ۲۲۹، بتکرار ۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۵۶ بتکرار، ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۶۳ بتکرار، ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۶۳ بتکرار، ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۶۳، ۲۶۴، ۴۶۱، ۴۷۹ بتکرار تقی الدین ابو العباس احمد بن شہاب الدین۔۔۔۔۔ دیکھئے: ابن تیمیہ تیرتھ رام، منشی، 4 ٹ ٹالسٹائی ۴۵۳ ٹیپو، سلطان شہید، ۶۴، ۱۸۱، ۲۵۳، ۲۵۴ بتکرار، ۳۸۲، ۳۸۴ بتکرار، ۳۸۵ بتکرار، ۳۸ بتکرار، ۳۸۷ بتکرار ۴۳۰، ۴۵۴، ۹۶۴، ۵۲۸ بتکرار ۵۳۶ ٹیگور، ڈاکٹر رابندر ناتھ ۶، ۵۰، بتکرار، ۳۳۵ بتکرار، ۳۳۷، ۴۸۹ ث ثناء اللہ امرتسری، مولوی ۶۵، ۳۸۸ بتکرار ج جامی، مولانا، ۲۶۹ جاوید اقبال، ڈاکٹر، ۱۲ بتکرار، ۱۳، ۸۰، ۱۴۷، ۱۵۲، ۲۶۳، ۲۶۵ بتکرار، ۲۶۶ بتکرار، ۲۶۸ بتکرار، ۲۷۱، ۲۸۰، ۲۹۱، ۳۰۲، ۳۰۵، ۳۳۵، ۴۵۰، ۴۵۶ بتکرار، ۴۵۷ بتکرار، ۴۵۹، ۶۰۳، ۶۰۴ بتکرار، ۶۰۵ بتکرار، ۲۰۶، ۶۰۹، ۶۱۱، ۶۱۴ بتکرار، ۶۱۵ بتکرار جبریل ؑ ۳۷۶، ۳۸۸، ۵۰۵، ۵۵۷، ۸۵۵ بتکرار جرأت، ۳۹۸، ۴۷۰ بتکرار جرجی زیدان ۴۱۱ جگر ۴۵۱ جگندر ۴۳۵ جلال الدین، مرزا، ۴، ۱۶، ۲۰، ۱۲۵، ۲۶۵، ۴۲۰، ۴۲۲، ۴۲۵ بتکرار جلال لکھنوی، ضامن علی، ۳۴۳ بتکرار، ۳۴۴، ۳۴۵ بتکرار ۳۴۶ بتکرار، ۳۴۷ بتکرار جماعت علی شاہ، پیر ۴۱۹ جمال الدین افغانی، سید، ۷۵ بتکرار، ۴۰۶ بتکرار، ۴۰۷ بتکرار، ۴۰۹ بتکرار، ۴۱۰ بتکرار، ۴۱۱ بتکرار، ۴۱۲، ۴۳۲، ۴۵۳ جمعیت سنگھ، ڈاکٹر ۲۸۹ جمیل احمد ۶ جناح، دیکھئے: قائد اعظم محمد علی جناح جنید بغدادیؒ، سید الطائفہ ابو القاسم بن محمد، حضرت، ۶۸، ۷۴، ۳۸۹ بتکرار، ۳۹۰ بتکرتار، ۳۹۱ بتکرار، ۴۰۵ بتکرار، ۴۳۶، ۴۶۲ بتکرار جوگی، سرجوگندر سنگھ ۸۷، ۹۵ بتکرار، ۱۰۵ بتکرار، ۵۳۰ جہانگیر (بادشاہ)، ۵۲، ۳۳۹ بتکرار، ۳۴۰ بتکرار، ۳۴۱ بتکرار جیمز جینز، سر، ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۴ بتکرار چنگیز ۵۶۵ بتکرار ح حافظ ۲۶۸ بتکرار، ۲۶۹ بتکرار حارث محاسبی، حضرت، ۳۹۱ حالی، مولانا الطاف حسین ۴، ۱۶، ۴۵ بتکرار، ۸۲، ۹۸، ۲۷۶، ۲۹۸ بتکرار، ۳۲۵ بتکرار، ۳۲۶ بتکرار، ۴۰۶، ۴۲۰ بتکرار، ۴۲۱ بتکرار، ۴۲۶،۴۹۹ بتکرار، ۵۰۷، ۵۰۹ حامد، شیخ، ۴۸ حامد علی خان، مولانا، ۳۰۹ حبیب، مولانا سید، ۴۱۹ حبیب الرحمان شیروانی، مولانا، ۵۴۸ حبیب اللہ، حافظ، ۱۸۰ بتکرار، حسرت، چراغ حسن، ۴۵۱ حسرت موہانی مولانا فضل الحسن، ۳۲۲، ۴۸۷ حسنؓ ۵۱۵ حسن، سید، ۴۳۸ حسن، میر، ۲۲۵ بتکرار حسن اختر، راجہ، ۲۲۲ بتکرار، ۳۲۲، ۷۲۲، ۳۸۲، ۲۸۹ بتکرار، ۲۹۰ حسن نظامی، خواجہ، ۵۳۷ حسینؓ، حضرت امام، ۴۴۰، ۵۱۵ حشر، آغا۔۔۔۔ دیکھئے: آغا حشر کاشمیری حفیظ ہوشیار پوری، ۴، ۱۶۶، ۱۶۷، ۱۷۲، ۴۷۹ حکیم نابینا، دہلوی عبدالوہاب، ۱۳۵، ۱۹۰، ۲۸۰، ۲۸۱ بتکرار، ۲۸۴، ۳۰۵، ۵۴۰، ۵۴۲ حلاج۔۔۔ دیکھئے: منصور حلاج حلیمہ سعدیہ، ۶۰، ۶۱ بتکرار، ۶۲ حمید، ۲۴۳ حمید احمد خاں، پروفیسر ۴، ۱۲، ۵۲، ۷۲، ۴۰، ۱۵۰، ۱۵۹، ۱۶۸، ۱۸۸، ۱۹۱، ۳۰۹ بتکرار، ۳۱۰ بتکرار، ۴۵۶، ۴۷۲، ۴۸۰ حمید اللہ خاں، نواب، ۱۷، ۳۸، ۳۰۴ بتکرار، ۳۰۵ بتکرار، ۳۰۶، ۳۶۹ حیدر۔۔۔ دیکھئے: علی، حضرت خ خاتم النبینؐ۔۔ دیکھئے: رسول خدا ؐ خالدہ افضال، ۳۲۰ خراز ۳۹۱ خسروؒ (امیر) ۲۱۹ خضر ؑ، ۳۶۵ بتکرار، ۴۸۰ خضر تمیمی، ۵، ۲۲۳، ۵۱۹ خلیق الزماں، چودھری، ۳۴۷ خلیل۔۔۔۔ دیکھئے: ابراہیم، حضرت خوشحال خاں ۵۷۶، ۵۷۷ د داتا گنج بخش، حضرت ابو الحسن علی الہجویری ،۲۰، ۹۸، ۲۹۷، ۳۸۹، ۳۹۰، ۴۳۵ بتکرار، ۴۳۶ بتکرار، ۴۳۷ بتکرار، ۴۳۸، ۴۶۱، ۴۶۲، ۵۵۳، ۵۵۴، ۵۶۳ دارا شکوہ، ۳۷۷، ۴۱۸، ۴۳۷ داغ دھلوی، نواب مرزا خاں، ۳۱۳، ۳۹۸ دہیر، ۳۲۶ دتاسی، موسیو گارساں ۴۷، ۳۲۷ بتکرار، ۳۲۸ بتکرار، ۳۲۹، ۳۳۰ بتکرار، ۳۳۱ بتکرار دل محمد، خواجہ، ۳۳، ۲۹۸ دلیپ سنگھ بمبا (شہزادی) ۱۰۵ دیوان علی، ۴۷۸ دیوالہ، منی رام، ۶ بتکرار ڈ ڈارون ۳۶۲، ۴۳۴۔ ۴۶۳ ڈاکٹر انصاری ۵۴۰، ۵۴۱ ڈکنشن ۲۱۰، ۲۱۷ ذ ذوالفقار علی، نواب سر، ۸۷، بتکرار، ۸۸، ۹۵، ۹۷، ۹۹ بتکرار، ۱۰۰بتکرار، ۱۰۸، ۱۰۹ بتکرار، ۱۱۰بتکرار، ۱۱۲بتکرار، ۱۱۳بتکرار، ۱۱۷بتکرار، ۱۴۷، ۴۲۵بتکرار، ۴۲۶، ۴۲۷، ۴۳۵ ر راجپال ۵۸۳، ۵۸۴ بتکرار راجہ محمود آباد ۳۴۷ رازی ۳۹۱ رادھا کرشن، پروفیسر ۱۶۳ راس مسعود، نواب سرسید ۱۷بتکرار، ۳۰۶ بتکرار، ۳۲۰ بتکرار، ۳۳۰بتکرار، ۳۶۹، ۴۲۷، ۴۲۸، ۴۸۱، ۵۹۵بتکرار، ۵۹۶بتکرار رحما، ۱۵۳ بتکرار رسالت مآب ؐ۔۔۔ دیکھئے: رسول خدا رستم دستاں ۳۶۲ رسول خداؐ ۱۴ بتکرار، ۱۵بتکرار، ۱۶بتکرار، ۱۷بتکرار، ۵۹، ۰۶بتکرار، ۱۶بتکرار، ۶۶، ۶۹، ۹۸بتکرار، ۱۰۳، ۱۳۷، ۲۱۳بتکرار، ۲۲۱۴بتکرار، ۲۳۲بتکرار، ۲۳۳بتکرار، ۲۳۵، ۲۵۴، ۲۷۱، ۲۷۵بتکرار، ۲۹۹، ۳۵۶بتکرار، ۳۶۱، ۳۶۱، ۳۶۳بتکرار، ۳۶۷، ۳۷۷بتکرار، ۳۷۸، ۳۹۰، ۳۹۲، ۳۹۳، ۴۰۳، ۴۰۵، ۴۰۶، ۴۱۶بتکرار، ۴۴۱بتکرار، ۴۴۲بتکرار، ۴۵۸، ۴۸۲، ۴۹۶بتکرار، ۵۰۴، ۵۰۵بتکرار، ۵۰۶بتکرار، ۵۰۷بتکرار، ۵۶۱، ۵۲۲، ۵۲۶بتکرار، ۵۳۶، ۵۴۱بتکرار، ۵۵۲، ۵۵۳بتکرار، ۵۵۸بتکرار، ۵۵۹، ۵۶۵، ۵۷۱بتکرار، ۵۷۲بتکرار، ۵۷۳بتکرار، ۵۸۰، ۵۸۱بتکرار، ۵۸۲بتکرار، ۵۸۴، ۵۹۱، ۵۹۴، ۶۱۳ رشک، میر علی اوسط، ۳۴۶ بتکرار رشید احمد صدیقی، پروفیسر، ۳۳۳، ۳۳۵، ۴۵۶، ۴۶۰بتکرار، ۴۶۱، ۵۴۹ رضا، محمد رشید ۴۰۹ رفعت حسین صدیقی، ڈاکٹر، ۴۹۷ رفیع الدین ہاشمی ۳۰۱، ۴۲۱، ۴۵۲ رکن الدین، ۳۴۱ رنجیت سنگھ ۳۵۵ روح الامین ؑ۔۔دیکھئے: جبریل ؑ رومی۔۔۔ دیکھئے: مولانا روم ریاست علی ندوی، سید، ۶۵ ز زرتشت ۱۳۸، ۴۵۳ زین العابدین شوستری، میرزا، ۳۸۵ بتکرار زین یار جنگ، نواب ۳۵۴ ژ ژوفسکی، وانتین ۳۸۹، ۴۳۶ س ساسی، موسیو ایس۔ ڈی ۳۲۷بتکرار ساغر ۴۵۱ سالک، عبدالمجید، ۱۵۳ بتکرار، ۱۵۵، ۲۵۳، ۴۰۴، ۴۰۹، ۴۷۲بتکرار، ۴۷۳، ۵۲۹ سپینگلر ۱۴۲ بتکرار ستیہ پال ۴۲۵ سجاد حیدر یلدرم۴۹۰ سراج الدین نظامی ۲۵۷ بتکرار، ۲۵۸بتکرار سرسید احمد خاں، ۷، ۲۲، ۴۵، ۶۵، ۷۵بتکرار، ۸۸، ۸۹بتکرار، ۳۱۴، ۳۱۵، ۳۱۶بتکرار، ۳۱۷بتکرار، ۳۲۱، ۳۲۲بتکرار، ۳۲۳، ۳۲۴بتکرار، ۳۲۵بتکرار، ۳۲۹بتکرار، ۳۳۲، ۳۸۸بتکرار، ۴۰۶بتکرار، ۴۲۰بتکرار، ۴۲۶بتکرار، ۴۳۴، ۴۴۲بتکرار، ۴۴۵، ۴۴۶، ۴۶۶بتکرار، ۴۶۷بتکرار، ۴۷۸بتکرار، ۵۰۲، ۵۰۵، ۵۳۰، ۵۵۷، ۵۹۶سرمد، ۱۵بتکرار، ۱۶، ۲۰، ۶۰بتکرار، ۲۶، ۳۷بتکرار، ۳۷۸ سروجنی نائیڈو، مسز، ۷۱، ۳۹۸ سرور کائناتؐ۔۔۔ دیکھئے: رسول خدا ؐ سری سقطی، حضرت ۳۹۱ سعادت علی خاں، نواب، ۵، ۲۳۸، ۵۲۰، ۵۳۶ سعد اللہ خاں ۴۷۸ سعید اللہ، ڈاکٹر، ۲۷بتکرار، ۱۴۷، ۱۴۸، ۱۵۰، ۱۵۱، ۱۵۵بتکرار، ۱۵۶، ۱۵۸، ۱۸۸، ۴۵۶بتکرار سعید حلیم پاشا ۴۵۳ سکاٹ ۵۵۹ سکندر حیات خاں، سر، ۱۴۱، ۳۴۷، ۳۴۸بتکرار، ۳۴۹بتکرار، ۵۳۳، ۵۴۰ سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر، ۴۳۳، ۴۹۷ سلیمان ؑ ۴۳۲، ۴۹۹ سلیمان سیرافی، ۴۰۵ سلیمان سیوہاروی، حضرت ناظم شاہ ۲۷۶ سلیمان ندوی، علامہ سید، ۲۷۳، ۳۱۴بتکرار، ۳۸۱، ۵۳۱، ۵۳۳، ۵۳۴، ۵۹۵ سلطان احمد، سر مرزا، ۲۱، ۸۹، ۲۷۹ سلطان جہاں بیگم ۳۰۵ سلطان شہید۔۔۔۔ دیکھئے: ٹیپو، سلطان سنائی، ۴۶۳ سنجر ۳۸۹ سودا، ۳۱۳ سید کونین ؐ۔۔۔۔۔ دیکھئے: رسول خدا ؐ سیف الدین کچلو، ڈاکٹر ۹۳ سیف خاں ۴۷۳ سیماب ۴۵۱ ش شاد، مہاراجہ کشن پرشاد، ۵۳۰ شادی لال لالہ ۸۶ شاہ جہان ۴۷۷ شاہ دین، جسٹس۔۔۔ دیکھئے: ہمایوں، جسٹس شاہ دین شاہ دین مولوی ۸۶، ۸۹ شاہ عالم ثانی، ۴۷۰ شاہ عبدالعزیز ۴۷۰ شاہ عبدالقادر ۴۷۰ شاہ کاکو چشتی ۴۱۸، ۴۱۹ شاہ کمال کشمیری، صوفی، ۳۴۱بتکرار شاہ محمد غوث، حضرت، ۹۸، ۸۳۴بتکرار، ۴۳۹ شاہ مستان کابلی ۴۳۴ شاہ نواز، میاں، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۸۵، ۱۲۱ شاہ ولی اللہ، حضرت، ۴۱۸، ۴۴۱بتکرار، ۴۴۲، ۴۴۳، ۴۴۴ شبلی، نعمانی مولانا، ۴۵، ۸۲، ۳۲۵، ۳۸۸، ۴۲۰بتکرار، ۴۲۱بتکرار، ۴۲۶، ۵۳۳، ۵۳۴بتکرار، ۵۳۵بتکرار، ۵۴۸ شجاع الدین، ڈاکٹر خلیفہ، ۳۰۹ شرف چندر چٹر جی ۶ شرر، مولانا عبدالحلیم۷، ۵۳۵ شرف النساء ۴۵۴، ۴۸۴بتکرار، ۴۹۶، ۵۶۳بتکرار، شفیع، میاں محمد (م ش) ۴۱، ۵۳، ۲۲۴، ۲۸۲بتکرار، ۲۸۳، ۲۸۷بتکرار، ۲۸۸بتکرار، ۲۸۹، ۲۹۱بتکرار، ۶۱۲ شمس تبریز، ۳۶۰بتکرار، ۳۶۳ شمیم پنڈت شیو نرائن ۸۶بتکرار شوپنہار، ۱۴۵، ۱۶۵بتکرار، ۴۶۸بتکرار شوق، نواب مرزا، ۵۱۱ شوکت علی، مولانا۳۲۲، ۴۳۱، ۴۴۵، ۴۴۹بتکرار شہرستانی ۲۰۴ شیدا۔۔۔۔۔۔ دیکھئے: ڈاکٹر انصاری شیر خداؓ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے: علیؓ، حضرت شیر علی، امیر، ۴۰۷ شیر محمد سیالکوٹی، مولانا ۴۵۷ شیخ احمد ۵۲۸ شیخ سنوسی، ۵۳۸ شیفتہ نواب مصطفی خاں، ۴۷۰ شیکسپیئر، ۱۹۵بتکرار، ۵۳۷بتکرار شیلے ۱۹۵ شپنگار آسولڈ، ۲۳۶بتکرار، ۵۲۱بتکرار ص صابر، مرزا قادر بخش ۲۹۸ صدیق حسن خاں، نواب ۳۷۸، ۴۱۸ صفدر حسین، ڈاکٹر، ۳۲۰ صمد، خواجہ، ۲۷۷ صہبا لکھنوی ۳۰۶ ض ضیا احمد بدایونی، مولان ۴۷۰ ط طارق، عبدالرشید، ۵، ۲۵۹، ۲۶۸، ۲۷۵، ۵۲۴ طالب علی، حکیم، ۵۹ بتکرار، ۷۱، ۷۲ طاہر دین، منشی ۸۶ طوسی ۲۰۴ ظ ظفر احمد صدیقی ۳۰۳، ۳۸۷ ظفر علی خاں، مولانا، ۱۰۹، ۲۳۷، ۲۶۲، ۲۷۷، ۳۰۹، ۳۲۲، ۴۱۹، ۴۲۴، ۴۸۷، ۵۳۵بتکرار، ۵۳۶بتکرار، ۵۴۸ ع عابد، سید عابد علی، ۴،۲۲، ۲۲۳، ۲۲۷، ۵۰۹ عابد حسین، ڈاکٹر، ۳۸۰بتکرار، ۳۸۱ عاشق بٹالوی ۵۵۵بتکرار عالمگیر، اورنگ زیب، ۳۵۴بتکرار، ۳۵۵، ۳۷۸، ۴۲۰، ۴۷۷ عبدالاحد، شیخ، ہ۳۴، ۳۴۱(والد مجدد صاحب) عبدالحق، ڈاکٹر مولوی ۲۱، ۳۳۳بتکرار، ۳۳۴، ۳۳۶، ۳۵۷، ۵۳۱، ۵۳۵، ۵۴۷، ۵۴۸بتکرار، ۵۴۹بتکرار، ۵۵۰بتکرار عبدالحکیم، ڈاکٹر خلیفہ ۱۷۰بتکرار، ۳۶۰، ۴۸۰ عبدالحمید، سلطان، ۴۰۷، ۴۰۹ عبدالرحمن اول، ۴۷۵ عبدالرحمن بن علی بن محمد ۔۔۔۔۔ دیکھئے: ابن الجوزی عبدالرحمن ثالث ۴۷۵، ۴۷۶بتکرار عبدالرحمن چغتائی ۴۵۱بتکرار، ۴۵۲بتکرار، ۴۵۳ عبدالرشید راحل، شیخ، ۱۷۱ عبدالصمد ۴۸۵ عبدالرؤف، سید سر، ۳۵بتکرار، ۳۶بتکرار، ۳۷ عبدالقادر، شیخ سر، ۴،۱۱، ۳۱، ۳۸، ۸۲بتکرار، ۸۴بتکرار، ۸۷، ۹۵بتکرار، ۹۷بتکرار، ۹۹، ۲۷۹، ۲۹۵، ۲۹۶بتکرار، ۲۹۹، ۳۰۲، ۳۰۷بتکرار، ۳۰۸بتکرار، ۳۲۰بتکرار، ۴۲۸ عبدالقادر بدایوانی، ملا، ۳۴۰بتکرار عبدالقادر جیلانی، حضرت، ۴۳۸بتکرار، ۴۱۴بتکرار عبدالقدوس گنگوہی، شیخ، ۳۴۱بتکرار عبدالقیوم ۶۰۲ عبدالکریم الجیلی ۵۰۶ عبدالکریم قادیانی، مولوی، ۱۴۳ عبدالماجد دریا آبادی، مولانا، ۳۱۹ بتکرار عبدالمجید، بابو۳۱۲ عبدالنبی، شیخ، ۳۴۰ عبدالواحد، پروفیسر، ۵، ۲۷بتکرار، ۱۳۰، ۱۳۹، ۱۴۸، ۱۵۰، ۱۵۶بتکرار، ۱۹۷، ۴۵۶بتکرار، ۴۹۷بتکرار، عبدالوحید، خواجہ، ۴، ۱۸۲، ۲۶۵، ۴۸۱ عبداللہ، سید (والد عبدالقادر جیلانی)۴۳۸ عبداللہ آتھم، ۱۴۳، ۱۲۴بتکرار عبداللہ ٹونکی، مولوی ۴۶۶ عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر، ۱۳، ۱۲۶، ۱۲۷ عبداللہ خاں ۴۱۸ عبداللہ سہروردی، سر ۲۱، ۸۹ عبداللہ غزنوی، مولوی، ۴۱۸ عبداللہ یوسف علی، علامہ، ۷۱، ۲۳۴، ۳۹۸ عبدہ، شیخ، ۴۰۸، ۴۱۸، ۴۳۲ عثمان غنیؓ، حضرت، ۴۴۰، ۵۱۸ عرشی، محمد حسین، ۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸بتکرار، ۱۹، ۵۷، ۱۸، ۱۶۱، ۱۶۹، ۳۵۹ عرفی، ۳۰۶ عزیٰ ۶۱بتکرار عزیز مرزا، مولوی، ۵۴۸، ۵۳۵بتکرار عشق لہر، استاد، ۱۷۶ عطاء اللہ، شیخ، ۲۱، ۳۴۸ عطاء اللہ شاہ ۴۲۵ عطا محمد، شیخ، ۲۹۱، ۳۰۱ عطار، خواجہ فرید الدین، ۳۵۹، ۳۹۰، ۳۹۱ عطیہ ۴۵۳ عقیل، ڈاکٹر معین الدین، ۲۵ علاعالدولہ سنجانی، حضرت، ۴۶۲ بتکرار علیؓ، حضرت، ۳۶۱، ۳۶۲، ۴۳۳، ۴۴۰بتکرار، ۵۱۵، ۵۲۳، ۵۲۷ علی بخش، ۴۸، ۵۲، ۵۳، ۵۹، ۷۰، ۱۳۰بتکرار، ۱۳۵بتکرار، ۱۴۱بتکرار، ۱۴۲، ۱۴۹بتکرار، ۱۵۳، ۱۸۱، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۶، ۲۳۱، ۲۴۲، ۲۴۳، ۲۴۶بتکرار، ۲۴۷بتکرار، ۲۴۹، ۲۵۰، ۲۵۲، ۲۶۰بتکرار، ۲۶۳بتکرار، ۲۶۸بتکرار، ۲۸۲، ۲۸۷بتکرار، ۲۸۹، ۲۹۱بتکرار، ۳۳۴، ۳۳۵، ۳۴۴، ۵۵۳، ۵۵۵بتکرار، ۶۱۱بتکرار علی بخش بدایونی، مولوی، ۴۲۶بتکرار علی محمد باب، ۵۲۸ علی برادران ۱۱۷ علی ہجویریؒ ۔۔۔۔ دیکھئے: داتا گنج بخشؒ علی ہمدانی، سید، ۴۵۴ عمر فاروقؓ، حضرت، ۱۵۷، ۴۴۰، ۵۲۷ عیسی ؑ۔۔۔۔۔۔۔دیکھئے: مسیح ؑ غ غازی علم الدین شہید، ۵۸۳بتکرار، ۵۸۴بتکرار غالب، مرزا اسد اللہ خاں،۳بتکرار، ۳۱بتکرار، ۵۵، ۱۴۵بتکرار، ۱۵۴بتکرار، ۱۵۵بتکرار، ۱۶۶، ۱۶۷بتکرار، ۱۶۸بتکرار، ۲۲۳، ۲۲۵بتکرار، ۲۴۵، ۲۸۵بتکرار، ۲۹۵بتکرار، ۲۹۶بتکرار، ۳۰۹بتکرار، ۳۳۸، ۳۴۴، ۳۴۶، ۳۶۵، ۳۷۵، ۳۹۸، ۴۵۴، ۴۶۹، ۴۷۱، ۴۸۰بتکرار، ۵۱۲بتکرار غزالی، امام، ۳۶۱، ۳۹۱، ۳۹۲، ۴۱۲ غلام احمد قادیانی، مرزا، ۶۴، ۶۶، ۸۸بتکرار، ۸۹، ۱۴۳بتکرار، ۱۴۴، ۲۵۴، ۲۵۵بتکرار، ۲۵۹، ۳۸۱، ۳۸۳بتکرار، ۳۸۸، ۴۲۶، ۵۲۸بتکرار، ۵۳۲ غلام علی، شیخ، ۴۶۳ غنی کشمیری، ملا، ۴۵۴ غوث علی شاہ، قلندر پانی پتی، حضرت خواجہ ۹۸، ۱۳۹ ف فاضل خاں، ۴۷۸ فاضل لکھنوی، سید مرتضیٰ حسین، ۴۸۰ فاطمہ الزہراؓ، سیدۃ النسا، ۴۸۳، ۴۸۴ فاطمہ بنت عبداللہ، ۴۸۶ بتکرار فاطمہ بیگم، ۵۷۹بتکرار، ۵۸۰بتکرار فائق، کلب علی خاں، ۴۷۰، ۵۱۲ فرائیڈ، ۱۴۵ فرحت اللہ بیگ ۴۹۷ فرخ سیر ۴۱۸ فرعون ۴۵۴ العرغانی ۴۰۵ فضل الحق ۳۴۷ فضل الرحمان انصاری، ۵۷۵ فضل حسین، میاں سر، ۸۶، ۸۷، ۴۲۲بتکرار، ۴۲۳ فقیر محمد چشتی، شفاء الملک حکیم، ۵۴۰بتکرار فیروز خاں نون، سر، ۵۳۳ فیض الحسن، مولوی، ۴۶۶ ق قارون ۵۱۹ قائد اعظم محمد علی جناح، ۲۱، ۲۳بتکرار، ۲۲۹، ۳۲۲، ۳۳۳بتکرار، ۳۳۶، ۳۴۷بتکرار، ۳۴۸بتکرار، ۳۵۰، ۴۷۳، ۵۳۳بتکرار، ۵۴۷بتکرار قرۃ العین ۴۵۴ قرشی، حکیم محمد حسن ۱۲ بتکرار، ۱۳۳، ۲۸۹بتکرار، ۲۹۱ قصاب، حضرت شیخ محمد، ۳۹۱ قطب الدین ایبک ۴۷۴ قلندر، مرزا ۴۰۰ قمر الدین خاں، نواب، ۴۱۸ قیصر، ۱۷۶، ۵۲۵ قیوم، ڈاکٹر، ۲۸۸ ک کار لائل، ۲۸، ۲۱۲ کانٹ ۵۹۹ کچنر ۴۵۴ کرامت حسین، جسٹس ۲۷۷ کرم، بابو، ۲۵۶بتکرار، ۲۵۷ کریم الدین، ۳۳۰ کریمرز، جے ایچ آئی ۴۰۴، ۵۲۹ کلب علی خاں، نواب، ۳۴۶، ۳۴۶ کلیم ؑ۔۔۔۔۔ دیکھئے: موسیٰ ؑ کمال، حضرت شیخ، ۴۰۰ بتکرار کوشل، رام سروپ ۶ گ گارساں دتاسی۔۔۔۔دیکھئے: دتاسی، موسیو گارساں گاندھی، ۵۱، ۲۱۲، ۳۱۲ گرامی، ۴۸بتکرار، ۹۷، ۹۸، ۲۳۹، ۲۴۳، ۳۳۴بتکرار، ۴۵۳ گل حسن شاہ، حضرت سید، ۹۸بتکرار، ۹۹بتکرار، ۱۰۰ گلاب دین، شیخ، ۸۴بتکرار، ۴۲۲ گلاب سنگھ، منشی، ۴۸ گوتم بدھ، ۴۵۳ گوہر نوشاہی، ۴۳۴ گیام، الفریڈ، ۴۰۴ ل لاجپت رائے، لالہ، ۸۶، ۴۲۴بتکرار، ۴۲۵بتکرار لال خاں، ملک، ۴۱۹ لطیف احمد شروانی ۸، ۲۰ لوتھر (بائبل کا) ۵۶۳، ۵۶۶ لوتھر، مارٹن، ۵۶۶بتکرار لوکس، ۵۵۶بتکرار، ۵۵۷بتکرار لیاقت علی خاں، شہید ملت، ۳۸۵بتکرار لیلیٰ ۳۸۷ لینن، ۱۷۵ م مامون (خلیفہ) ۴۰۴بتکرار مائیکل اڈوائیر، سر، ۲۷۱ مبارک، شیخ، ۳۳۹ مجدد الف ثانی، حضرت شیخ احمد سرہندی، ۱۹، ۵۲، ۱۵۴، ۲۹۵، ۳۰۲، ۳۳۸بتکرار، ۳۳۹بتکرار، ۳۴۰بتکرار، ۳۴۱بتکرار، ۳۴۲بتکرار، ۳۴۳بتکرار، ۶۰۳بتکرار، ۶۰۴بتکرار، مجید، ۲۴۳، ۲۴۶، ۲۵۰ محبوب عالم، مولوی، ۲۷۷، ۵۷۹ محرم علی چشتی، ۹۳، ۴۳۴بتکرار محسن الملک، نواب، ۴۵، ۳۱۷، ۳۲۲، ۳۲۲۴ محسن کاکوروی ۵۱۱ محفوظ علی بدایونی، علامہ میر، ۴۵۰بتکرار، ۵۳۵بتکرار، ۵۴۸بتکرار محمدؐ۔۔۔۔۔۔ دیکھئے: رسول خداؐ محمد ابن عبد الوہاب نجدی، ۴۱۷ محمد اجمل، حکیم، ۹۰ محمد اشرف، شیخ، ۳۴۸ محمد السورتی ۳۸۱ محمد حسن قرشی، ۵۴۲، ۵۴۳، ۵۳۵ محمد حسین، چودھری، ۱۳۵، ۱۴۱، ۲۶۰، ۲۶۲، ۲۸۳، ۲۸۷بتکرار، ۲۹۰، ۳۶۴، ۴۵۹بتکرار، ۶۱۴بتکرار، ۶۱۵ محمد خامس، ۴۷۷ محمد دین، خان بہادر ملک ۹۳، ۲۴۰، ۳۳۶، ۳۳۷ محمد شاہ، ۴۱۸ محمد شاہ، سید، ۴۵۷ محمد شفیع، میاں سر، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۸۸بتکرار، ۸۹، ۹۷، ۲۱۳، ۲۷۹ محمد علی، مولانا، ۳۲۲، ۴۳۱، ۴۴۵، ۴۴۷بتکرار، ۴۴۸بتکرار، ۴۴۹بتکرار، ۴۵۰محمد علی، مولوی، ۱۸۴بتکرار، ۱۸۵، ۲۳۱ محمد غنی شاہ، آغا، ۵۳۷ محمد فاتح، سلطان، ۵۲۶ محمد محمود ۵۷۳ محمود (غزنوی) ۴۷۴، ۵۰۳ محمود سید (ابن سرسید احمد خاں ) ۷۵ محمود احمد قادیانی، مرزا، ۱۴۴ محمود حسین، ڈاکٹر ۳۸۵ محمود خاں دہلوی، حکیم، ۱۳۴، ۴۵۷ محمود شیرانی، ۵۳۱ محمود نظامی، ۴،۵بتکرار، ۳۰ محی الدین بدایونی، محمد، ۴۵۰ مختار احمد۔۔۔۔۔ دیکھئے: ڈاکٹر انصاری مخدوم الملک، ۳۴۰ مرزا ادیب ۶ مرزا صاحب۔۔۔۔ دیکھئے: غلام احمد قادیانی، مرزا مرشد روم۔۔۔۔ دیکھئے: مولانا روم مسعود بن محمود، سلطان، ۴۳۶ المسعودی، ۴۰۵ مسولینی ۳۰۶، ۵۶۳بتکرار، ۵۶۴بتکرار، ۵۶۵بتکرار، ۵۶۶بتکرار، مسیح ؑ، حضرت ۶۹بتکرار، ۲۷بتکرار، ۷۶بتکرار، ۱۰۱، ۱۴۲بتکرار، ۱۴۳، ۳۶۱، ۴۱۳، ۴۶۸بتکرار، مصحفی ۳۱۳ مصطفی کمال پاشا ۵۳۸ مظفر الدین، پروفیسر۲۸۷ مظہر بقاء ڈاکٹر ۴۴۱ معین الحق، ڈاکٹر سید ۴۷۸ معین الدین چشتی مجزی اجمیریؒ حضرت خواجہ، ۴۳۶، ۴۳۹ معین الدین عقیل، ڈاکٹر ۴۷۱، ۵۵۱ معین الملک، نواب امیر۔۔۔۔۔ دیکھئے: میر منو مقبول حسین قریشی، کرنل، ۱۰۳بتکرار، ۴۴۵ المقدسی ۴۰۵ ملا علی قاری ۴۸۲ ملا واحدی ۵۴۱ ممتاز حسن، ۱۳، ۲۳، ۳۳۱، ۳۳۷، ۵۴۷بتکرار ممتاز علی، شمس العلمائ، ۸۲، ۸۳ المنصور (خلیفہ) ۴۷۶ منصور حلاج، ۲۰، ۴۵۴، ۴۶۱، ۴۶۲بتکرار، ۴۶۳، ۵۱۴، ۵۹۱بتکرار، ۵۹۲بتکرار منیرہ،۳۰ٍ، ۱۵۲، ۱۵۳، ۲۶۵، ۴۵۶بتکرار، ۴۵۷بتکرار، ۵۹۸، ۶۱۴ منیرہ اقبال، ۳۳۵ منیرہ صلاح الدین ۳۳۵ موسیٰ ؑ (حضرت) ۳۶۵۳، ۳۶۷، ۳۷۴بتکرار، ۴۷۸، ۵۰۳ موسیٰ جار اللہ، ۲۰۷بتکرار، ۲۰۸بتکرار، ۲۰۹بتکرار، ۲۱۰، ۲۵۸ مولا بخش، میاں، ۷۶ مولا داد خاں، چودھری، ۳۲۰ مولانا بشیر۔۔۔۔۔ دیکھئے: بشیر احمد، میاں مولانا رومؒ ۱۶بتکرار، ۵۶بتکرار، ۶۰، ۶۲، ۶۷، ۷۰بتکرار، ۲۵۷، ۲۹۷بتکرار، ۲۹۸، ۳۵۳، ۳۵۹بتکرار، ۳۶۰بتکرار، ۳۶۱بتکرار، ۳۶۲بتکرار، ۳۶۳بتکرار، ۴۶۳، ۳۶۵، ۳۶۶، ۳۶۷، ۳۷۱بتکرار، ۳۷۸بتکرار، ۳۷۹، ۳۹۳، ۴۰۰، ۴۰۱، ۴۲۹، ۴۵۳، ۴۶۰، ۴۶۱، ۴۶۳، ۵۰۱، ۵۲۱، ۵۵۵، ۶۰۷، ۶۰۸ مولوی۔۔۔۔۔ دیکھئے: مولانا روم مومن، حکیم مومن خان، ۱۴۷، ۲۲۵بتکرار، ۳۹۸، ۴۶۹، ۴۷۰بتکرار، ۵۱۲بتکرار، مہدی، امام، ۶۹بتکرار، ۷۲، ۱۰۱، ۱۴۲بتکرار، ۳۸۳، ۴۶۷بتکرار، ۵۳۳ مہدی الافادی، ۴۹۰ مہدی سوڈانی، ۴۵۴ مہدی علی خاں، راجہ، ۶ مہر، مولانا غلام رسول ۱۵۳، ۱۵۵، ۴۷۲بتکرار، ۴۷۳ میاں جی۔۔۔۔ دیکھئے: نور محمد، شیخ میاں میر، حضرت ۴۳۸بتکرار میر، میر تقی، ۳۱۳بتکرار، ۳۵۸ میر امن، ۳۲۸ میر حسن، مولوی، ۱۳۵، ۱۸۳بتکرار، ۴۵۶، ۴۵۷، ۴۵۸بتکرار، ۴۹۷بتکرار، میر منو، ۴۱۸بتکرار میسگ نون ۵۸۹بتکرار، ۵۹۰بتکرار، ۵۹۲ میسی نیان ۴۶۲ ن نادر خاں ۱۳۶، ۱۴۶، ۲۵۳، ۴۵۴، ۴۶۹بتکرار ناسخ، شیخ امام بخش، ۲۲۴بتکرار، ۳۴۶، ۵۱۰ ناصر علی سرہندی: ۱۵۵بتکرار، ۴۷۳بتکرار ناظر، چودھری خوشی محمد، ۴۳، ۳۱۵، ۳۲۰بتکرار نپولین بونا پارٹ، ۵۸۹بتکرار نجم الدین ، فقیر سید، ۵۳۹، ۵۵۵، ۵۷۸، ۶۰۷ نذیر احمد، ڈپٹی ۸۲، ۲۷۶ ۴۲۰بتکرار نذیر نیازی، سید، ۴،۸، ۱۳، ۱۶۷بتکرار، ۲۲۴بتکرار، ۲۸۲، ۲۸۳، ۲۸۷بتکرار، ۲۹۰، ۳۰۴، ۳۳۰بتکرار، ۳۳۳، ۳۶۹، ۳۸۱بتکرار، ۴۶۳، ۵۴۲، ۵۴۷ نرائن دت سہگل، لالہ،۵ نرمل چندر ۶ نریندر ناتھ، راجہ، ۵۷۲ بتکرار نسیم، دیا شنکر، ۵۱۰ نطشے، ۱۶۵بتکرار، ۳۶۰، ۴۵۴، ۵۰۶ نظام الدین اولیا، حضرت، ۲۰، ۴۳۹، ۴۵۸، ۴۶۱، ۵۶۳ نظام الملک، ۳۸۵ نظام دکن، ۲۶۶، ۳۳۴، ۵۰۶ نکلسن ۲۰۵ بتکرار نواب بھوپال۔۔۔۔ دیکھئے: حمید اللہ خاں، نواب نواب حسین، میاں، ۳۴۷ نواب صدر یار جنگ بہادر۔۔۔۔ دیکھئے: حبیب الرحمان شیروانی، مولانا نور احمد چشتی، مولوی، ۴۳۴بتکرار، ۴۳۹ نور الدین قادیانی، حکیم، ۱۳۴، ۱۳۵، ۴۵۷بتکرار نور الدین ولی، حضرت، ۳۰۲ نور محمد عرف نتھو، شیخ، ۳۰۰بتکرار، ۵۳۰بتکرار، ۵۳۳ نوشاد علی، راجہ، ۹۷بتکرار نہال سنگھ ‘ کنور‘ ۴۳۹ نہرو پنڈت جواہر لال‘ ۲۲۸‘ ۲۵۶ بتکرار ‘ ۳۳۲‘ ۴۷۲‘ ۵۲۹ نیاز فتح پوری ۴۹۰ نیرنگ‘ غلام بھیک ‘ ۳۱۵ و واجد علی شاہ ‘ ۳۴۶ واکر‘ ۵۳۵ وحید الدین ‘ فقیر سید‘ ۳۳۶بتکرار ۳۳۷‘۵۳۹‘۵۴۰ بتکرار وحید الدین سلیم ‘ مولانا‘ ۱۳۹ بتکرار ۴۶۶ وقار الملک‘ نواب ‘ ۱۱۸‘۱۱۹بتکرار ۳۲۲ وقار عظیم‘ پروفیسر سید‘ ۱۳‘۴۵۴ ولی‘ ۳۲۸‘۵۱۰ ولیم کوپر ‘ ۵۲۴ ہ ہٹلر ‘ ۵۲۱‘۵۶۴‘۵۶۵بتکرار ہلاکو‘ ۵۶۵ ہلال‘ امیر علی خاں‘ ۳۴۶ ہمایوں جسٹس شاہ دین‘ ۴۳‘بتکرار ۴۴‘بتکرار ۴۸‘۳۱۴‘۳۱۵بتکرار‘ ۳۲۱‘۳۲۲‘۳۲۳‘۳۲۴بتکرار ۳۸۷ ہیگل‘ ۱۳‘۲۳۷‘۵۲۱ بتکرار ۵۲۲ بتکرار ی یاس‘ ۴۵۱ یزدانی‘ ۶ یعقوب کشمیری‘ شیخ‘ ۳۴۱ الیعقوبی‘ ۴۰۵ یوسفؑ ‘ (حضرت) ۵۱۳ یوسف اول‘ ۴۷۷ یوسف علی خاں ‘نواب‘ ۳۴۶ یوسف حسین خاں ‘ ڈاکٹر ۳۳۰ یوسف سلیم چشتی ‘ پروفیسر ۵۹۹‘۶۰۰ بتکرار انگریزی Beal 473,527 Grube, J., 475 Hamid Ahmad Khan 310 Hamlyn, Paul, 475 Hegal 237 Ibn, Jauzi 412 Massignon 589,592 Muhammad, 566 Qazi Iyad, 412 rep Schopenhauer 145,469 Shujauddin, 310 Spengler, 142 rep Tipu Sultan, 385 Trend, J.B.. 559 ب (اماکن) آ آزاد کشمیر ۴۵۱ آکسفورڈ‘ ۳۷۹۳۷‘۴۲۷‘۴۴۵‘۴۴۸ آگرہ‘ ۳۲۲ آئر لینڈ‘ ۳۳۰ الف اٹلی‘ ۳۵۶‘۴۲۹‘۴۴۸‘۵۳۹ ادرنہ ‘ ۵۳۸ بتکرار اسپین ‘ ۵۱۸‘۵۲۹‘۵۵۹بتکرار ۵۶۰‘۵۶۱‘۵۶۳ اسعد آباد ۴۰۷ اسلام آباد ۴۱ اعظم گڑھ‘ ۵۳۴ افریقہ ‘ ۵۲۹ افغانستان ۷۴‘۱۰۷بتکرار ۱۵۴‘۱۵۵ بتکرار ۲۳۸‘۲۵۳‘۲۷۳‘۴۰۷ بتکرار ۳۵۳بتکرار ۳۵۴‘۴۶۹‘۵۳۴‘۵۴۱‘۵۹۵‘۵۹۷ الحمراء ۱۵۸ بتکرار الہ آباد ۸‘۲۱‘۳۵‘۲۷۷‘۳۲۳‘۳۳۶‘۳۵۰‘۴۷۰‘۴۷۳‘۴۸۷‘۵۰۰‘۵۹۱‘۵۸۷ امرت سر ۵۷‘۶۵‘۷۸‘بتکرار ۲۳۰‘۲۳۸‘۳۳۴‘۴۲۱‘۴۴۹بتکرار ۴۵۱‘۵۸۸ امریکہ ۴۷۹‘۵۷۵‘۵۸۷ انارکلی گوردوارہ ۵۸۴ اندلس‘ ۷۴‘۱۵۷‘۴۷۵ انڈیا…دیکھیے ہندوستان انگلستان: ۱۱‘۳۷‘۴۵‘۸۲‘بتکرار ۸۳بتکرار‘ ۸۷‘۱۰۷‘۲۶۹‘۳۰۷‘۳۰۸‘۳۱۴‘۳۲۳‘۳۲۷‘۳۲۸‘۳۸۸‘۴۳۲‘۴۵۸‘۵۸۷‘۶۰۹ اودھ‘۹۷ اورنگ آباد ۵۴۸‘۵۴۹ اونچی مسجد ۲۴۱ اہرام مصر ۴۹۳بتکرار ایران ۷۳ ‘۱۳۸‘بتکرار ۱۵۷‘۱۹۳‘۲۳۱‘۲۳۸‘۳۵۳‘بتکرار ۴۰۷بتکرار ۴۰۹ ۴۶۹ بتکرار ۵۱۸‘۵۴۱ ایشیا ۳‘۲۹۵‘۳۰۴‘۳۵۳‘بتکرار ۴۳۲‘۵۱۸‘۵۲۹ ب بحیرہ روم ۵۲۹ بخارا ۱۵۴‘۱۵۵‘۲۹۵ بربر ۵۷۹ برج ۵۱۱ برطانیہ ۴۰۸بتکرار ۴۲۹‘۴۳۱‘۴۴۸‘۴۴۹‘۵۷۵ بڑودا ۴۴۸ بصرہ ۴۱۰‘۴۱۴ بغداد ۵۲۱‘۲۵۳‘۲۹۰‘۳۰۳‘۳۹۱‘بتکرار‘ ۴۱۴‘۴۸۸ بلجیم ۱۲۰ بلخ۳۵۹ بلغاریہ ۵۳۸ بلقان ۲۷۸‘۵۳۸بتکرار بلوچستان ۱۹۳‘۱۹۴ بمبئی ۲۷۹‘۳۴۷‘۵۳۷‘۵۴۹ بنارس ‘ ۸۰‘۵۳۷بتکرار بنگالہ ۸‘۴۴۸ بھارت ۳۶۴‘ ۳۸۱‘۴۲۴‘۵۲۰ بھاڑنگی‘ ۴۵۹ بہاولپور ۱۰۳ بتکرار ۳۰۸ ‘ ۴۴۵ بتکرار ۴۸۱ بہرائچ ۵۰ بھوپال ۱۷‘۳۸‘۵۷‘۲۶۰‘۲۶۶‘۲۸۷‘۳۰۴‘۳۰۵بتکرار‘ ۳۰۶‘بتکرار ۳۶۹بتکرار ۴۲۶‘۵۹۶ بیت الحرم…دیکھیے :کعبہ بیت المقدس ۴۱۶ بیت اللہ… دیکھیے : کعبہ بیجا پور ۴۷۳ بیروت: ۷۴‘۴۵۹ پ پارس…دیکھیے : فارس پاک و ہند ‘ ۶‘۲۰‘۲۴‘۳۰۹‘۳۱۰‘۳۱۶‘۳۲۲‘۳۳۲‘۳۳۳‘۳۳۹‘۳۵۳‘۳۵۵‘۳۶۹‘۳۷۹‘۳۹‘ ۴۰۶‘۴۰۸‘ ۴۱۸‘۴۲۰‘ ۴۳۵‘۴۳۶‘۴۷۸‘۴۹۷‘۵۰۰‘۵۱۸‘۵۲۰‘۵۳۶‘۵۴۰‘۵۵۰‘ بتکرار ۵۹۱ پاکپٹن ۱۹۴ پاکستان ۸‘۳۰۹‘۳۱۹‘بتکرار ۳۲۲‘۳۳۱‘۳۳۶‘۳۵۲‘۳۵۵‘۳۵۷‘۳۵۸‘۳۸۳‘۲۸۴‘۳۸۵‘۴۸۰‘۴۵۹‘۴۷۱‘ ۴۸۰‘۵۲۰‘بتکرار ۵۸۷بتکرار‘ ۵۹۱ پانی پت ۹۸بتکرار ۹۹ پٹنہ ۳۷۷‘۵۳۴ پشاور ۴۳۸ پنجاب ۲۲‘۴۹‘۸۵‘۸۷‘۹۴‘۹۷‘۹۹‘۱۰۸‘۱۰۹‘ ۲۰۱‘۲۱۹بتکرار ۲۷۹‘۲۸۶‘۳۰۷‘۳۰۸‘۳۰۹‘ بتکرار‘ ۳۲۰‘۳۲۱‘۳۲۲‘۳۳۴‘۳۳۶بتکرار‘ ۳۴۸‘۳۵۰‘۳۵۵‘۳۵۷‘۳۶۹‘۳۹۸‘۴۵۱‘ ۴۷۳‘ ۴۸۰‘۵۲۷‘۵۳۰‘۵۴۰‘۵۴۲‘۵۴۸‘۵۸۵‘۵۸۸ پیرس ۱۳۷‘۳۳۷‘۴۰۸بتکرار ۵۸۸بتکرار ۵۸۹بتکرار ۵۹۰‘۵۹۱ ت تاج محل‘ ۱۵۸‘۴۵۲ ترکی‘ ترکیہ‘ ۷۴‘۱۰۷‘ ۱۵۴‘۳۵۳ بتکرار ۳۵۷‘۴۰۷‘۴۰۸‘۴۱۰‘۴۲۹‘۴۳۰‘۴۴۸‘۵۱۸‘ ۵۳۸‘۵۳۹ ترکستان‘ ۱۷۶ تونس‘ ۵۷۸ ٹ ٹھٹھہ ‘ ۳۷۷‘۴۸۸ ج جاپان‘ ۱۷۶‘بتکرار‘ ۴۷۹‘۴۸۲‘۵۲۹‘۵۳۵ جالندھر ۳۳۴ جانفو ۵۲۹ بتکرار جاوا ۲۳۷‘۲۳۸‘۵۱۸ جرمنی‘ ۶۰‘۱۲۰‘۴۳۴‘۵۲۱‘۵۳۲‘۵۶۶ جوزۃ (جوز) ۴۱۴ جہلم ‘ ۵۳۶ جھنگ‘ ۲۳۰‘۲۳۴ چ چک جھمرہ‘ ۳۲۰ چونیاں‘ ۵۸۴ چین‘ ۱۷۶‘۲۷۶‘۴۰۵بتکرار ح حجاز‘ ۱۲‘۲۵۰‘۲۸۹‘۴۲۸ حران‘ ۴۱۵ حرم …دیکھیے : کعبہ حرم قرطبہ…دیکھیے: مسجد قرطبہ حطیم ‘ ۶۱ بتکرار حیدر آباد (دکن) ۱۳۶‘۲۴۷‘۳۰۶‘۳۵۴‘۴۰۸بتکرار ۴۱۱‘۴۸۱‘۵۳۰‘۵۳۵‘بتکرار ۵۴۱‘۵۴۷‘۵۴۸ د دکن‘ ۳۳۴‘۵۱۱بتکرار دلی ‘ دہلی‘ ۲۲‘۳۳‘۱۲۲‘۱۳۵ بتکرار ۱۵۷‘۲۷۱‘۲۷۷‘۲۷۹‘۲۸۰‘۲۹۵‘ ۲۹۸‘۳۰۸‘ ۳۱۳ بتکرار ۳۱۶‘۳۷۷‘۴۳۳‘۴۵۷‘۴۷۰‘ ۴۷۳‘۴۷۴‘۴۷۷‘بتکرار ۴۷۸بتکرار ۴۸۸ ۴۹۷ ‘ ۵۴۰بتکرار ۵۴۲‘۵۴۸‘۵۴۹بتکرار دلی کی جامع مسجد‘ ۱۵۸ دمشق ‘ ۴۱۵‘۴۱۶ بتکرار دیوبند ۲۶۷ ر رام پور ‘ ۳۴۳‘۳۴۶بتکرار۴۴۸ راولپنڈی ‘ ۲۸۳‘۲۸۴‘۲۸۶‘۲۸۹ راوی ۱۰۵ ربوہ ‘ ۳۸۱ روس ۱۷۶‘۲۰۷ بتکرار ۳۵۳‘۴۰۹‘۴۳۲‘۵۳۵ روسی ترکستان ‘ ۳۵۳ روضہ رسولؐ ‘ ۵۶۱ روم ۶۳۲ روما ‘ ۱۲ رومۃ الکبریٰ‘ ۵۶۴ ریواڑی ۱۹۱‘۱۹۳ س سپین …دیکھیے : اسپین سراوہ‘ ۵۴۸ سرحد‘ ۳۲۲ سرہند شریف ‘ ۳۴۰‘۴۷۳بتکرار ۶۰۳ سرویا‘ ۵۳۸ سعودی عرب‘ ۴۸۲ سماترا ‘ ۵۱۸ سمرقند‘ ۲۹۵ سندھ ‘ ۳۲۲‘۳۸۵ سوئز ۴۰۷ سوڈان ‘ ۴۰۹ سومالی لینڈ‘ ۵۳۵ سیالکوٹ ۸۴‘۱۳۵‘ ۱۵۶‘۲۰۲‘۲۵۵‘۳۰۰‘۴۵۶‘ ۴۵۸‘۴۵۹‘۵۳۲ سینٹ پیٹرز برگ‘ ۴۰۹ ش شام‘ ۷۳‘۳۶۷‘۳۸۸‘۴۰۴‘۴۰۹‘۵۴۱ شاہدرہ باغ‘ ۱۰۹ شاہی مسجد‘ ۴۷۷ شمالی افریقہ ۴۰۹ شملہ ‘ ۲۳۸‘۳۲۶ شہید گنج‘ ۷۸‘۴۱۸ شیراز‘ ۵۲۸ ص صقلیہ‘ ۱۱ ط طائف ‘ ۵۸۱ طرابلس‘ ۳۵۶‘۳۵۷‘۴۸۶‘ ۵۳۸بتکرار طور‘ ۹‘۵۱۴ ع عراق ۷۳‘۳۵۳‘۳۶۷‘۵۴۱ عرب‘ ۱۵۶‘۲۷۶‘۴۶۷بتکرار ۵۴۱‘۵۷۴‘۵۷۹‘۶۱۲ علی گڑھ‘ ۲۲بتکرار‘ ۴۳‘۴۵‘۶۵‘۱۵۲‘۳۰۵‘۳۰۶‘۳۱۵‘۳۱۶‘۳۱۷‘بتکرار ‘ ۳۱۸‘۳۱۹‘ بتکرار‘ ۳۱۹بتکرار‘ ۳۲۰‘بتکرار ۳۲۱‘بتکرار‘ ۳۲۲بتکرار ۳۲۳‘۳۲۴‘۳۲۷‘۳۳۳بتکرار‘ ۳۳۵‘۳۸۷‘بتکرار‘ ۳۸۸‘۳۳۵‘۳۸۷‘بتکرار‘ ۳۸۸‘بتکرار‘ ۳۸۹‘۴۲۲‘بتکرار‘ ۴۲۶‘۴۳۴‘۴۴۵‘بتکرار‘ ۴۵۶‘۴۶۶‘بتکرار‘ ۴۷۰‘ ۵۳۵بتکرار‘ ۵۴۸‘بتکرار ۵۹۸ غ غازی پور ۳۱۷ غرناطہ ۴۸۸ غزنی ۴۳۶بتکرار ف فارس ۳۶۷‘۴۲۹ فرانس ۳۲۷‘۴۳۲‘۵۸۹‘۵۹۱ فرنگ…دیکھیے‘ یورپ فرنگستان ‘ ۲۷۴‘۴۲۹ فلسطین‘ ۲۵۳‘۴۷۲ فیروز پور ۳۳ فیض آباد‘ ۳۴۵ ق قادیان ۱۴۴‘۲۲۸’۳۸۱‘ قاہرہ‘ ۴۰۷‘۴۰۸‘۴۱۵‘۵۷۸ قرطبہ‘ ۳۵۴‘۴۷۵‘۴۸۸‘۵۵۹‘۵۶۱‘۵۶۲ قسطنطنیہ ‘ ۴۰۷‘۴۱۰‘ ۴۳۰‘۵۲۵‘۵۲۶بتکرار قصر الحمراء ۲۷۴‘۴۷۶بتکرار ۴۷۷ بتکرار قصر زہرا‘ ۱۵۸‘ ۴۷۵ ک کابل‘ ۱۴۶ کاٹھیاوار‘ ۳۴۶ کاشغر ۴۳۲ کان پور ۳۴۳بتکرار ۴۲۶‘۴۶۶ کپور تھلہ‘ ۳۳۴ کراچی‘ ۲۴‘۲۶‘۲۵۱‘۳۰۵‘۳۲۰‘بتکرار ۳۳۱‘۳۳۲ بتکرار ۳۸۵‘۴۷۸‘۵۳۴‘۵۴۱‘۵۵۱ کرناٹک‘ ۴۷۳ کشمیر ۴‘۲۳۴بتکرار ۲۳۵بتکرار‘ ۲۳۶‘۳۰۱‘ ۳۰۲‘۳۲۰‘۴۷۰‘۴۸۰‘۵۲۰بتکرار ۵۳۷ کعبہ‘ ۶۰‘۷۳‘۷۴‘۱۷۶‘۲۴۱‘۲۵۲‘بتکرار ۳۵۹‘۴۳۲بتکرار ۴۵۸‘۴۹۴‘بتکرار‘ ۵۲۵‘ ۵۳۲‘۵۶۰‘ کلکتہ‘ ۵۰‘۲۲۹‘۲۹۵‘۴۰۸‘۴۲۴‘۵۲۹ کوہ ہمالیہ ۶‘۷‘۳۰‘۳۱۵‘۵۷۶ بتکرار کیمبرج ۳۰۹‘۴۲۷ کیناڈا ۵۷۵ کینٹب ۲۳۰ کینسٹن دیکھیے : جانفو گ گجرات ‘ ۲۷۶‘۲۷۷‘۳۲۰‘۵۴۲ گوجرانوالہ‘ ۵۸۵ گیلان‘ ۴۳۸ ل لاہور ۵بتکرار‘ ۸‘۲۱‘۲۲‘۲۷‘بتکرار ۳‘۳۵‘بتکرار ۳۷‘۳۸‘۴۰‘۴۲‘۴۳‘۴۵‘بتکرار ۴۰‘۴۲‘۴۳‘۴۵بتکرار ۵۵‘۵۹‘۸۴‘بتکرار ۸۵‘۹۷بتکرار ۱۰۰‘۱۰۷‘۱۱۳‘۱۲۰‘۱۲۱‘۱۲۲‘۱۲۴بتکرار ۱۳۳‘۱۳۵بتکرار ۱۴۶‘۱۸۸‘۱۹۹‘۲۳۱‘۲۳۴‘۲۳۷‘۴۰‘۲۶۲‘۲۷۷‘۲۷۹‘۲۹۸‘بتکرار ۳۰۱ ‘ ۳۰۸‘بتکرار‘ ۳۰۹‘۳۱۴‘۳۲۰‘۳۲۱‘۳۳۴‘۳۳۶‘۳۴۸‘بتکرار ۳۴۹‘۳۵۴ بتکرار ۳۵۵ بتکرار ۳۵۷ بتکرار ۳۸۷‘۳۷۹‘۳۸۱‘۳۹۸‘۴۰۴‘۴۱۵‘۴۱۷‘۴۱۸‘۴۲۲‘بتکرار‘ ۴۲۳‘۴۲۴‘بتکرار ۴۳۵‘۴۳۶‘ ۴۳۷‘۴۳۸‘بتکرار‘ ۴۵۱‘بتکرار‘ ۴۵۲‘۴۵۴بتکرار‘ ۴۵۶‘۴۵۸‘۴۵۹‘۴۶۰‘۴۶۶‘ بتکرار‘ ۴۶۷‘۴۷۳‘ بتکرار ۴۷۷‘۴۷۹‘بتکرار ۴۸۰‘ بتکرار‘ ۴۵۸‘۵۰۵‘۵۲۱‘۵۲۹‘۵۳۱بتکرار ‘ ۵۳۳‘۵۳۷‘۵۳۹‘۵۴۰بتکرار‘ ۵۴۲‘بتکرار‘ ۵۴۷‘۵۵۲‘۵۵۶‘۵۵۷‘۵۷۹‘بتکرار ۵۸۵‘ ۶۰۶ لائل پور‘ ۸۷‘۳۰۸‘۳۲۰ لبنان‘ ۳۸۸‘۵۴۱ لدھیانہ‘ ۳۰۸‘۳۳۴ لکھنو‘ ۵۲‘۹۷‘۱۱۸‘۱۵۳‘۳۴۵‘بتکرار‘ ۳۴۶بتکرار ۳۴۷بتکرار ۳۴۹‘ ۴۷۳‘ ۴۹۷‘۵۱۰‘۵۱۱ لندن‘ ۲۰‘۶۳‘۸۲‘بتکرار ۸۹‘۲۳۴‘۲۶۹‘۲۷۰‘۳۰۷‘۳۰۸‘۳۷۹‘۳۹۸‘۴۰۸‘۴۰۹‘۴۱۰‘ ۴۱۲‘ ۴۷۹‘ ۴۸۰‘۵۸۷بتکرار ۵۸۸بتکرار ۵۹۱ لیبیا ۴۲۹‘۴۴۸‘۵۳۸ لین پول‘ ۵۵۹ م مارسیلز ۳۲۷ ماسکو‘ ۴۰۹ مالا بار‘ ۱۸۱ مالیر کوٹلہ‘ ۱۱۳‘۴۲۵ میٹا برج‘ ۳۴۶ مجیٹھا ۵۸۸ محمود آباد ہائوس ‘ ۳۴۸ مدراس ‘ ۶۲‘۲۵۳‘۴۵۳‘۴۵۹ مدینہ منورہ ۲۵۰‘۳۵۹‘۴۸۲‘۵۲۶بتکرار ۵۳۲‘۵۶۵‘۵۶۶ مراکش‘۴۲۹‘۴۴۸‘۵۳۸‘ مسجد اقصیٰ ۴۷۸ مسجد شاہ عبدالعظیم ۴۰۹ مسجد شہید گنج ۲۶۷‘۴۱۸‘۴۱۹بتکرار مسجد قرطبہ ۱۵۸‘۲۷۴‘۴۷۵‘۴۹۴‘۵۵۹‘۵۶۰‘بتکرار ۵۹۴‘بتکرار ۵۹۵بتکرار مسجد نبوی ۳۹۴‘۵۶۰‘۵۶۱بتکرار مسجد قوۃ الاسلام ۱۵۷بتکرار ۱۵۸‘ ۴۷۷ مسلم ٹائون ۴۷۲ مصر ۱۵۷‘۳۸۸‘۴۰۸ بتکرار ۴۰۹‘بتکرار ۴۱۴‘۴۱۸‘۴۴۸‘۵۴۱ مکہ معظمہ ۶۰‘۳۷۶‘۴۰۹‘۴۸۲ ملتان ۲۹۸‘ ۳۵۵ ملیح آباد‘ ۴۶۶ منٹگمری ‘ ۳۰۸ منگرول (ریاست) ۳۴۶ میرٹھ ۴۷۸ میسور ۲۵۳‘۴۳۰ میولخ‘ ۵۲۱ ن ندوہ۵۳۴ نہاوند ۳۹۱ نیل ۴۳۲ و وسط ایشیاء ۵۵‘۳۵۳ وینس‘ ۵۸۸ ہ ہاپر (ہاپوڑ) ۵۴۸ ہجویر‘ ۴۳۶ ہریا والا‘ ۳۲۰ ہسپانیہ‘ ۲۵۵‘ ۲۷۴بتکرار ۵۶۶ ہمالہ… دیکھیے : کوہ ہمالہ ہمدان‘ ۴۰۷ ہند ‘ہندوستان‘ ۷بتکرار‘ ۸‘۱۸‘۴۰‘۵۲بتکرار ۵۳’۵۸‘ ۸۲بتکرار ۹۰‘۱۰۲‘۱۰۷‘ ۱۲۶‘۱۲۳‘ بتکرار ۱۳۸‘۱۴۷بتکرار ۱۵۴‘بتکرار ۱۵۷‘۱۵۸‘۱۶۹‘۱۷۰‘۱۷۴‘۱۷۵‘ بتکرار ۱۷۸بتکرار‘ ۲۱۲‘ ۲۳۸‘ ۲۶۹‘۲۷۴‘۲۷۶بتکرار‘ ۳۰۸‘۳۱۱‘بتکرار ۳۱۵‘۳۱۹‘۳۲۷‘۳۲۸‘۳۵۰‘بتکرار‘ ۳۶۷‘۳۷۵‘ ۳۷۷‘ ۳۸۴‘۳۸۶‘۴۰۵‘بتکرار ۵۰۰‘۵۲۹‘۵۳۳‘۵۴۱‘۵۴۹‘۵۸۷‘۵۸۸‘۵۹۱‘بتکرار ۶۰۹ ہوشیار پور‘ ۱۷۱ ی یورپ‘ ۳۲‘۵۳‘۷۳‘۱۲۰بتکرار ۱۲۱‘۱۵۷‘۱۷۶‘بتکرار ۲۶۷‘۲۷۴‘۲۷۷‘ ۲۷۸‘ ۲۹۷‘ ۳۰۴ بتکرار ۴۷۹‘۴۸۸‘۴۱۸‘بتکرار ۵۳۸‘۵۶۴‘بتکرار ۵۷۵بتکرار ۵۸۷بتکرار ۵۸۸‘ بتکرار ۵۹۰ بتکرار ۵۸۸‘بتکرار ۵۹۰بتکرار ۵۹۱‘۵۹۷بتکرار ۶۰۷‘۶۰۸ یو۔ پی‘ ۱۰۰‘۲۰۳‘۲۲۲ یونان ۵۳۸ Alhambra 477 rep Central Asia, 55 Asia, 353 Lahore, 412,452 London, 475 Spain, 412 ٭٭٭ (ج) کتب ‘ جرائد‘ اخبارات آ آتش کدہ ۴۵۱ آثار الصنادید ۳۲۹‘ ۴۷۸ بتکرار الف اخلاقی تعلیم ۲۳۴ اردو (رسالہ) ‘ ۲۲۵‘۳۲۰ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام‘ ۳۵۱ ارمغان حجاز۳۲۰‘۳۵۲‘۳۹۱‘۵۰۶بتکرار اسباب بغاوت ہند‘ ۵۳۰ اسٹیٹسمین ۱۸۰ اسرار خودی ۵۴‘۲۳۶‘۲۷۸‘۳۰۰‘۳۳۷‘۳۵۲‘۳۵۳‘۳۶۴‘بتکرار ۴۵۲‘۴۵۹‘۴۶۰‘ ۴۹۸‘ ۶۰۰‘ اسرار و رموز‘ ۳۶۰‘۴۳۷‘۵۸۳ اسلام (اخبار) ۱۸۰بتکرار اسلام اور تحریک تجدد مصر۴۰۹ اسلام کا نظریہ حیات۴۸۰ اسلام کی بنیادی حقیقتیں ۴۸۰ اصول فقہہ اور شاہ ولی اللہ ۴۴۱ افادہ تاریخ ۳۴۵ افکار سلیم‘ ۴۶۶ اقبال اور بھوپال ۴۲۷ اقبال اور بیدل‘ ۴۰۳ اقبال اورعبدالحق‘ ۱۳‘۲۳‘۵۴۷بتکرار اقبال اور مسلک تصوف ۲۰‘۳۶۰‘۳۷۹‘۴۱۷‘۴۶۱‘۴۹۸ اقبال اورملا ۴۸۰ اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ۴۶۰‘۴۶۱‘ اقبال کی صحبت میں ۴۵۲ اقبال کے حضور ۳۳۲ اقبال معاصرین کی نظر میں ۴۵۴ اقبال نامہ ۲۱‘۳۰۳’۳۴۸بتکرار ۴۲۸‘۴۵۳‘۵۳۳ ان داتا‘ ۶ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘ ۴۶۶ انقلاب ‘ ۱۵۳‘ ۴۷۲بتکرار ۴۷۳ ب باغ و بہار ۳۲۹ بال جبریل ۵۰‘۵۱بتکرار ‘ ۵۶‘۷۱‘۱۷۵‘۲۱۱‘بتکرار ۲۵۷‘۲۷۰‘۲۷۳‘۲۹۷‘۳۳۷‘ بتکرار ‘ ۳۳۸ ‘ بتکرار ۳۵۲‘۳۹۷ بتکرار ۴۵۴‘بتکرار ۴۶۵‘ ۵۶۳‘۵۶۵‘۵۷۶‘۶۰۸ بانگ درا‘ ۹‘۱۱‘۴۲‘۴۳‘۵۴‘۹۵‘ ۱۱۷‘۱۶۶‘۲۹۵‘۲۹۹‘ ۳۰۷‘بتکرار‘ ۳۱۵‘۳۱۹‘۳۲۱‘۳۳۷ بتکرار ۳۳۸’۳۵۱‘۳۵۲‘بتکرار‘ ۳۵۶‘۳۶۵‘۴۲۱بتکرار ۴۲۲‘بتکرار ۴۲۳‘ بتکرار‘ ۴۲۵‘ ۴۲۸ ‘ ۴۳۳ ۴۳۵بتکرار‘ ۴۴۶‘۴۴۹‘۴۵۸‘۴۸۶بتکرار ۴۹۵‘۵۰۲‘۵۲۴بتکرار ۵۲۵‘۵۶۷‘۶۰۲ بائبل ۵۶۳‘۵۶۶ برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ ‘ ۳۱۷‘۳۳۹‘۳۴۱‘۳۸۴‘۴۳۰‘۴۴۵ بلاغ (مجلہ) ۴۲۱ بندے ما ترم( اخبار) ۴۲۴ بیٹے‘ ۶ بیوی کی تلاش‘ ۶ پ پس چہ باید کر د اے اقوا م شرق ۷۸‘۱۶۹‘۳۵۲ پنجاب آبزرور ۳۰۸ پنجاب میں اردو ۵۳۱ پیسہ اخبار ۵۷۹ پیام مشرق ۵۴‘۲۳۶‘۲۴۷‘۳۳۷‘۳۵۲‘۳۵۳‘۳۶۴ ت تاریخ ادبیات ۳۳۰ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند ۹‘۳۰‘۵۳۱ تاریخ العبر ۵۸۷‘۵۷۹ تاریخ بربر‘۵۷۹ تاریخ ہند قدیم ‘۴۲۴ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ۲۴‘۴۷۱‘۵۵۰ تحقیقات چشتی‘ ۴۳۹ تذکرۃ الاولیاء ۳۹۰ تذکرہ شعراء ‘ ۳۳۰ تذکرہ غوثیہ ‘ ۹۸ تزک جہانگیری ‘ ۳۴۰ تشبیہات رومی‘ ۴۸۰ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ۳۶۰بتکرار‘ ۳۷۱‘ ۳۷۶‘۳۷۹‘بتکرار‘ ۳۹۲بتکرار‘ ۴۰۶‘۴۶۳‘۵۹۲ تلبیس ابلیس ۷۷‘۳۱۵ تنقیح اللغات‘ ۳۴۵ ج جاوید نامہ‘ ۵۶بتکرار‘ ۱۲۶‘۱۲۸‘۲۳۱‘۲۳۵‘۲۳۶‘۲۵۸بتکرار‘ ۳۳۷‘۳۵۲‘۳۶۴‘بتکرار‘ ۳۶۵‘۳۶۸‘۴۵۳بتکرار‘ ۴۵۴بتکرار‘ ۴۶۹‘بتکرار‘ ۴۸۴‘۵۶۳‘۶۱۴بتکرار‘ ۶۱۵بتکرار چ چند ہم عصر ۵۴۹ ح حرف اقبال ‘ ۸‘۲۰ الحساب‘ ۵۷۹ حکمت رومی ‘ ۴۸۰ حیات جاوید ‘ ۴۰۶ خ خطبات ۳۳۲ خطبات مدراس ۳ خطوط اقبال‘ ۳۰۱‘۳۰۲ د دائرہ معارف اسلامیہ ۴۱۵‘۴۱۷‘۵۷۹ دستور الفصحا ۳۴۶ دکن ریویو ۵۳۵ دنیا کی رنگین مزاج عورتیں ۶ دنیائے آزاد‘ ۶ دیوان غالب ۳۵۱‘۴۵۲ دیوان مومن‘ ۴۶۹ ذ ذکر اقبال‘ ۴۷۳ ر راجہ اشوک کی سوانح عمری ۴۲۴ رامائن ‘ ۱۵۶ الرد الدہریین ۱۵۶ رسالہ تذکیر و تانیث ۳۴۳ رسالہ غوثیہ ۴۳۸ رفیق ہند (اخبار ) ۴۳۴بتکرار رموز بے خودی ۵۴‘۲۳۶‘ ۳۰۷‘بتکرار‘ ۳۱۴‘۳۴۶‘۳۰۷‘بتکرا‘ ۳۱۴‘۳۵۳‘۳۶۴‘۴۶۰‘ ۴۸۲بتکرار روایات اقبال ۴۵۲ روزگار فقیر ۱۳‘۳۳۶ُ۳۵۲‘۳۵۴‘۳۶۴‘۴۵۸‘۵۳۹‘۵۴۰‘۵۵۲‘۵۵۳‘۶۰۱ ز زبور عجم ۲۳۶‘۲۵۸‘۳۳۷‘۳۵۲‘۳۶۴‘۴۵۲ زمیندار (اخبار) ۱۰۹‘۴۵۲‘بتکرار ۴۶۶‘۴۷۲بتکرار ۵۳۵ زوال مغرب ۲۳۶ س ستارہ صبح ۶ سر دلبراں ۳۹۶‘۵۰۰ سرمایہ زبان اردو ۳۴۵ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۳۳۶ ش شاہراہ پاکستان ۳۴۷ شرح البردۃ ۵۷۹ شرح گینان جلی ۶ شمع انجمن ۳۷۸ شمع حرم ۶ ص صحرا نورد کے رومان ۶ ض ضرب کلیم ۷۷‘۱۶۹‘۳۰۴‘۳۰۶‘۳۵۲‘۳۸۳‘۳۸۷‘۳۸۸‘۴۶۳بتکرار‘۔ ۴۷۶‘بتکرار‘ ۴۸۹‘ بتکرار‘ ۴۹۱‘ ۴۹۲ ع العروۃ الوثقی (ہفت روزہ) ۴۰۸ عزیزہ کے نام ‘ ۴۵۱ ف فتح المجاہدین ۳۸۵بتکرار۳۸۶ فصوص الحکم ۱۴۳‘۵۹۰ فکر اقبال‘ ۴۸۰ ق قرآن حکیم ۱بتکرار‘ ۱۵‘۱۷‘ بتکرار ۱۸بتکرار ۱۹‘ ۵۷‘ ۵۸‘ ۵۹بتکرار‘ ۶۰‘ ۶۲‘۶۳‘۶۴بتکرار ۶۶ بتکرار ۶۷‘ ۶۸‘۷۰‘بتکرار‘ ۷۲‘۷۳‘۷۴بتکرار ۸۰‘۸۱‘۸۹‘۱۰۰‘ ۱۰۲‘۱۰۶بتکرار‘ ۱۳۸‘۱۳۹‘۱۴۰‘۱۷۰‘ بتکرار‘ ۱۷۴‘ بتکرار‘ ۱۸۱‘۱۸۴‘۲۰۵‘۲۰۶‘بتکرار‘ ۲۰۸‘بتکرار‘ ۲۱۰‘بتکرار ‘ ۲۳۲‘۲۳۶‘ ۲۴‘۲۵۴‘۲۶۴‘۲۸۵‘بتکرار‘ ۳۰۲‘۳۰۶‘۳۵۶‘۳۵۹‘۳۶۳‘۳۶۸‘۳۶۹‘بتکرار‘ ۳۷۰‘۳۷۱بتکرار‘ ۳۷۲‘۳۷۴‘۳۷۵‘۳۷۶‘۳۷۷‘۳۸۰‘بتکرار‘ ۳۸۱‘بتکرار‘ ۳۹۲‘بتکرار‘ ۳۹۳‘۳۹۶‘۳۹۸‘۴۰۳بتکرار‘ ۴۰۶‘۴۱۳بتکرار ۴۱۶‘ بتکرار‘ ۴۱۷‘۴۲۱‘بتکرار ۴۲۶‘بتکرار‘ ۴۲۷بتکرار‘ ۴۳۹‘۴۴۰‘بتکرار ۴۴۱‘۴۴۲بتکرار‘ ۴۴۴‘۴۵۴‘۴۶۱‘۴۶۶‘۴۶۷‘بتکرار‘ ۴۸۳‘۴۸۴‘۴۸۵‘بتکرار‘ ۴۸۶بتکرار‘ ۴۸۸بتکرار‘ ۴۹۶بتکرار ۵۰۲بتکرار ‘ ۵۰۴بتکرار‘ ۵۰۵بتکرار ‘ ۵۰۷بتکرار‘ ۵۰۹‘۵۱۹‘۵۲۷‘۵۲۸‘۵۲۹‘۵۴۱‘۵۵۶‘ بتکرار‘ ۵۵۷‘بتکرار‘ ۵۵۸بتکرار‘ ۵۷۱‘۵۷۲‘ ۵۷۴بتکرار‘ ۵۷۵بتکرار‘ ۵۷۷‘۵۸۶‘ ۵۹۷‘ بتکرار ۶۰۱‘بتکرار‘ ۶۰۳‘۶۰۵‘۶۰۶بتکرار‘ ۶۰۷‘ ۶۱۲بتکرار‘ ۶۱۳بتکرار قرآن کے مطابق اسلام میں فرائض و آئین ۳۲۹ قرآن کے مطابق اسلامی آئین و عمل ۳۲۹ قرآن حکیم کے ایک حصے کا ترجمہ ۳۲۹ قرآن مجید کی تفسیر کے اصول ۵۰۵ قصائد مومن ‘ ۴۷۰ ک کاروان (مجلہ) ۲۱۱‘۴۵۱ کامریڈ (اخبار) ۴۴۶‘۴۴۸بتکرار کائنات بحیثیت ادارہ و خیال کے ۴۶۸ کتاب الطواسین ۵۹۲ کتاب العبر …دیکھیے : تاریخ العبر کتاب اللہ…دیکھیے : قرآن کشف المحجوب ۲۹۷‘۳۸۹‘۴۳۶بتکرار کلیات غالب ۴۸۰ کلیات مومن‘ ۴۷۰ کملا ۶ گ گلشن فیض ۳۴۵ گیتان جلی ۴۸۹ ل لکھنو کا دبستان شاعری ۳۴۵ للیان نذرو (فرانسیسی خاتون) ۳۳۱بتکرار م ماڈرن ریویو ۲۲۹ ماہ نو‘ ۲۹۶‘۴۰۳ مثنوی رومی ۱۸بتکرار‘ ۵۶بتکرار‘ ۵۷بتکرار ۵۸‘۳۵۹بتکرار‘ ۳۶۸‘۳۶۹‘۳۵۹بتکرار‘ ۳۷۵‘۳۹۷‘۴۰۰ مخزن ۷‘۴۳بتکرار‘ ۴۶‘بتکرار‘ ۳۰۸‘۳۲۱‘۳۱۵‘بتکار ۳۲۰‘بتکرار‘ ۳۵۷ مراۃ الخیال‘ ۳۷۸ مرقع چغتائی ۴۵۲ مرید اشک ۵۳۷ مسافر (مثنوی) ۱۷۱ مسدس مد و جزر اسلام ۱۶‘بتکرار ۴۵‘۹۸‘بتکرار‘ ۳۲۶‘بتکرار ۳۲۷‘۴۲۰‘۴۹۹‘بتکرار‘ ۵۰۷‘۶۱۲‘۶۱۳ مسلم (حدیث) ۴۵۹بتکرار مسلم گزٹ ۴۶۶ مسلمانوں کے ناموں اور القابوں کا مطالعہ ۳۲۹ معارف ۴۶۶ مفید الشعرا ۳۴۳بتکرار ۳۴۶ مکالمات افلاطون ۳۸۱ مقالات سرسید‘ ۴۶۷‘۵۰۵‘۵۵۷ مقالات سید محفوظ علی ۴۵۰ مقالات شیرانی ۵۳۱ مکاتیب اقبال ۴۵۲ مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی ۳۰۵ ملفوظات اقبال ۴‘۶‘۱۲‘۱۳بتکرار‘ ۱۵‘۱۷‘۱۸‘۲۰بتکرار‘ ۲۳‘۲۴‘۲۵‘بتکرار‘ ۳۱۱‘۳۸۷‘۴۴۰‘۶۰۹ منتخب التواریخ ۳۴۰ منتخب القواعد ۳۴۴ المنطق ۵۷۹ موت کے راگ ‘ ۶ مہر و ماہ ۶ مئے لالہ فام ۱۲ بتکرار ۴۵۰‘ ۴۵۷‘۴۵۹‘۶۰۳‘۶۱۰‘بتکرار ‘ ۶۱۴ میراث اسلام ‘ ۴۰۴‘۵۲۹ میرے زمانے کی دلی ۵۴۱ ن نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی ۴۹۷ نسخہ حمیدیہ ۲۲۵‘۳۰۹ نفحات الانس ۲۶۹ نکات الشعراء ۳۱۳ نقوش (رسالہ) ۴۳۴ نقوش سلیمانی ۵۳۱ نور الآفاق (مجلہ) ۴۲۶ نیرنگ خیال ۴۵۱ و واکر نامہ ۵۳۵ وضع اصطلاحات علمیہ ۴۶۶ ہ ہمایوں ۴۶‘۴۷‘بتکرار ۵۵‘۷۱‘۳۰۹‘۳۱۰‘۳۱۶بتکرار‘ ۳۳۷‘۳۵۷بتکرار ہندوستان میں اسلام کی خصوصیات کا مطالعہ ۳۲۹ ی یاد گار چشتی ۴۳۴ انگریزی Encychlopedia of the Philosiphical Sciences 523 Decline of the West 236,521 The Development of Mataphysics in Persia412,468,528 Introduction to the Study of Quran 267 The Meaning of Good 216 Oriental Biographical Dictionary 473,27 Phenomenology of mind 523 Philosophy of Right 523 Quran 427 Reconstruction of Religious Thought in Islam 363,379 Science of Logic 523 Spain from the South 559,594 The World of Islam 475 World as Will and Idea 468 A Writers Tale 537 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End