صد شعر اقبال فارسی شارح صوفی غلام مصطفی تبسم مرتب: پروفیسر صوفی گلزار احمد اقبال اکادمی پاکستان کچھ صد اشعار فارسی کے بارے میں اس سے قبل 1977ء میں استاذ مرحوم صوفی تبسم صاحب کے نشر کردہ علامہ اقبال مرحوم و مغفور کے سو شعر اور ان کی تشریحات اشاعت کی منزل سے گذر کر اہل علم و دانش سے شرف قبولیت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، اب ان کے فرزند ارجمند پروفیسر صوفی گلزار احمد صاحب نے علامہ اقبال کے فارسی کے ان صد اشعار اور ان کی تشریحات کو ترتیب دے کر شائع کرانے کا بیڑا اٹھایا ہے جنہیں صوفی صاحب مرحوم نے مختلف تاریخوں میں ریڈیو پاکستان سے نشر کیا تھا۔ یہ اہم خدمت اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے اپنے ذمہ لی ہے اور اسے پورے اہتمام سے انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان اشعار کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوفی تبسم صاحب نے علامہ اقبال کے ان اشعار کو نشر کرنے کے لئے منتخب کیا ہے جن سے جوان نسل میں ایک ولولہ تازہ اور جذبہ نو پیدا ہو۔ یہ نسل ان اشعار کی روشنی میں اپنی کردار سازی کر سکے اور عمل کا پیکر بن کر ایک سچی اور محب وطن قوم بن کر ابھرے۔ ان اشعار کے انتخاب سے صوفی صاحب مرحوم کی قومی و ملی لگن اور حب الوطنی کے جذبہ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ صوفی تبسم صاحب نے بلاشبہ اشعار کے انتخاب میں بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے کام لیا ہے۔ وہ ان اشعار کے ذریعہ نوجوانوں کی رہنمائی کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں ۔ صوفی صاحب کی یہ بھی خواہش معلوم ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ کبھی شکست سے دو چار نہ ہو بلکہ اس کا ہر قدم پاکستان کی ترقی اور عظمت کے لئے اٹھے اور وہ ایک ایسی قوم بن جائے جو اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکے۔ ان اشعار میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو علامہ کے بنیادی تصور خودی کو پیش کر کے انسان کو معرفت نفس کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے ذریعہ وہ نوجوانوں کو خود شناسی، خود اعتمادی، خود کاری اور جہد مسلسل و جستجو کی راہ دکھا کر باطل اور شر کی قوتوں سے ٹکرا کر حق اور خیر کو غالب آنے کا درس دیتے ہیں۔ وہ جوانوں کو کم حوصلگی اور پست ہمتی سے نکال کر ایک بلند مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو خطرات سے مقابلہ کر کے جرأت کا پیکر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا نہ صرف شرف انسانیت ہی ہے بلکہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل بھی ہے۔ وہ جہد مسلسل اور جستجو کو زندگی کا دوسرا نام سمجھتے ہیں۔ صوفی صاحب نے ان اشعار کا بھی انتخاب کیا جو انسان کو کسی کا دست نگر ہونے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ اس طرح نہ صرف اس کی انسانیت مجروح ہوتی ہے بلکہ وہ قعر مذلت میں گر پڑتا ہے۔ انسان کی قربانی ہی اسے عروج بخشتی ہے اور وہ دوسری اقوام میں اپنا لوہا منواتا ہے۔ نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے اور سچائی کا دامن تھامنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مثال بھی اشعار میں پیش کر دی ہے کہ انہوں نے حق کا علم بلند کر کے اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ جان دے دی لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن میں جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین بھی ہے اور تکالیف کو برداشت کر کے کامیابی سے ہمکنار ہو کر منزل کے قریب آنے کا ذکر بھی ہے کیونکہ راہ خار زار ہی میں زندگی کا مزا ہے۔ اونچی اڑان اور ستاروں پر کمند ڈالنے ہی میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ استقلال اور حوصلہ مندی نہ صرف زندگی کو کامیاب بناتی ہے بلکہ نوجوانوں کو تگ و دو اور آتش فشانی سے دو چار کر کے جہد مسلسل کی بھٹی میں تپا کر کندن بنا کر نکالتی ہے۔ صوفی صاحب نے علامہ کے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے خود شناسی کا درس ملتا ہے اور باطل سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ان معنوی خوبیوں کی تشریحات کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی خصوصیات اور خوبیوں کو بھی بڑے حسن اور سلیقہ سے اجاگر کر کے ہمیں فنی اور شعری محاسن سے بھی آگاہ کر دیا جو ان اشعار میں پیش کئے گئے ہیں۔ راقم الحروف نے بڑی محنت سے ان اشعار کے صحیح نقل ہونے کی طرف توجہ دی ہے نقل ہونے میں بعض اشعار میں غلطیاں رہ گئی تھیں انہیں درست کیا ہے۔ بعض جملوں میں الفاظ چھوٹ گئے تھے انہیں پورا کیا ہے۔ نقل کرنے والے صاحب سے بعض اشعار غلط نقل ہو گئے تھے انہیں صحیح کیا گیا ہے۔ یہ سب کام راقم الحروف نے کلیات فارسی کو سامنے رکھ کر پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر شعر کے بعد بریکٹ میں اس کی نشاندہی کر دی جائے کہ وہ شعر یا قطعہ علامہ اقبال کے کس مجموعہ فارسی سے لیا گیا ہے۔ مرتب پروفیسر صوفی گلزار صاحب نے اشعار کی ترتیب میں تاریخوں کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا بلکہ غالباً موضوع کے اعتبار سے اشعار کو ترتیب دیا ہے۔ بہر کیف حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ ہر اعتبار سے یہ صد اشعار فارسی اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب جیسے محقق و نقاد کی رہنمائی و سرپرستی کا بہتر نمونہ ثابت ہو سکتے اور اہل علم و دانشور ان سے استفادہ کر سکی۔ ڈاکٹر عبید اللہ خان ٭٭٭ عرض مرتب زیر نظر کتاب صوفی تبسم مرحوم کی کتاب صد شعر اقبال کے سلسلے کی دوسری کڑی ہے، پہلی جلد صد شعر اقبال (اردو) علامہ اقبال کی نومبر1977ء کی صد سالہ تقریبات ولادت کے موقع پر مرکزی اردو بورڈ (اردو سائنس بورڈ) کی طرف سے شائع ہوئی تھی، اس اول جلد میں علامہ اقبال کے اردو اشعار کی تشریحات شامل ہیں، اب یہ دوسری جلد قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، اس میں علامہ اقبال کے فارسی اشعار کی تشریحات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس میں غزلوں کے اشعار کے علاوہ قطعات بھی شامل کئے گئے ہیں، یہ وہ شرحیں ہیں جو صوفی تبسم مرحوم ریڈیو پاکستان لاہور سے وقتاً فوقتاً نشر کرتے رہے ہیں یہ جلد میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں میرے برادر عزیز ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے جو صوفی صاحب کے بہت ہی قریبی شاگردوں میں سے ہیں، صوفی صاحب کی اقبالیات کے متعلق نگارشات کو شائع کرنے کا پر جوش اظہار کیا ہے، یہ دراصل اس محبت، خلوص اور عقیدت کا اظہار ہے جو وہ اپنے بزرگ استاد صوفی تبسم سے رکھتے ہیں، میں اس کار عظیم کے لئے ان کا بے حد ممنون ہوں۔ مجھے امید واثق ہے کہ اس دوسری جلد کے شائع ہو جانے کے بعد علامہ اقبال کے شائقین کافی حد تک اپنی تشنگی بجھا لیں گے جو وہ کافی عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ مجھے یہ بھی یقین کامل ہے کہ اس جلد کی اشاعت کے بعد علامہ اقبال پر کام کرنے والے محققین علامہ اقبال کی شاعری، پیغام، نظریات اور تصورات کے بارے میں آئندہ وسیع بنیادوں پر کام کر سکیں گے۔ میں اس کام کے سر انجام دینے میں اپنی بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمت اور توفیق عطا کرے کہ میں والد بزرگوار کی اقبالیات کے متعلق ان غیر مطبوعہ تخلیقات کو منظر عام پر لا سکوں جو قارئین کی نظر سے ابھی تک پوشیدہ ہیں۔ پروفیسر صوفی گلزار احمد 10اکتوبر1994ء 41گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور ٭٭٭ (1) بے تو از خواب عدم چشم کشودن نتواں بے تو بودن نتواں، با تو نبودن نتواں ( یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔) اقبال کا یہ شعر عجیب کیفیتوں کا حامل ہے۔ بظاہر بڑا سادہ لیکن پیچیدہ ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں سادگی اور پرکاری کے حسین امتزاج کی ایک حسین صورت ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ پھر اس شعر کو، بلکہ شعر کے دوسرے مصرعے کو ایک لفظی معمہ بھی بنا دیا ہے۔ بے تو بودن اور با تو نبودن، کے الفاظ عجب الجھن پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے ذرا سادہ ترجمہ سنئے۔ خدا سے خطاب ہے۔ اے خدا! تیرے بغیر ہم عدم سے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تیرے بغیر ہمارا وجود نا ممکن ہے اور تیرے ہوتے ہوئے ہمارا وجود نہ ہو یہ بھی نا ممکن ہے۔ دیکھا دوسرے مصرعے کے الفاظ کیسا گورکھ دھندا نظر آتے ہیں لیکن یہ کوئی لفظی شعبدہ بازی نہیں جیسا کہ ہمیں بعض قدیم اساتذہ کے شعروں میں نظر آتی ہے۔ لفظی شعبدہ بازی خوبصورت ضرور ہوتی ہے لیکن بے کیف اور بے جان ہوتی ہے۔ اقبال نے اس لفظی ہیر پھیر میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ اور اپنے ایک اہم نظریہ حیات کی وضاحت کر دی ہے۔ صوفیائے کرام کا نظریہ ہے کہ خدا نے انسان میں اپنی صفات الٰہیہ جبلی طور پر ودیعت کی ہیں انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان صفات الٰہیہ کو بروئے کار لائے اور ان کی تکمیل میں پیہم کوشاں رہے جوں جوں یہ صفات تکمیل پذیر ہوں گی انسان خدا کے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک اقبال ان بزرگو ں کا ہمنوا ہے لیکن اس آخری مقام پر آ کر وہ ان سے الگ ہو جاتا ہے۔ صوفیائ، انسانی ارتقا کی آخری منزل کو فنافی اللہ کا مقام قرار دیتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ اس کے نزدیک، انسان کا اخلاقی اور روحانی ارتقا برحق لیکن اس ارتقا میں انسان اپنی انا کو کہیں نہیں کھو دیتا۔ وہ اپنی خودی کو برقرار رکھتا ہے۔ چنانچہ شعر میں کہتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ خدا ہمارا خالق ہے۔ اس کے بغیر ہم وجود میں نہیں آ سکتے ۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہم بھی نہ ہوں لیکن یہ بھی نا ممکن ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہوں اور اپنا وجود کھو بیٹھیں، اس سے ملیں اور ہم نہ رہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کے وجود کے ساتھ ہمارا وجود سلامت رہے گا۔ جب کائنات معرض وجود نہیں آئی تھی، خدا موجود تھا اگر کائنات نہ بنتی تو پھر بھی اس کا وجود ہوتا لیکن درمیان میں انسان خلق ہوا اس کے وجود نے اس کائنات کی ہیئت بدل دی، اور یہ نکتہ منکشف ہوا کہ یہ سب کچھ اسی ہستی کی خاطر تھا۔ انسان کی آمد سے کیا کیا ہنگامے گرم ہوئے لیکن انہی ہنگاموں ہی میں تو انسان کی شان مضمر ہے۔ مرزا غالب نے اسی نکتے کو اپنے شوخ انداز میں یوں بیان کیا۔ نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ٭٭٭ (2) نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را گہر در سینہ دریا، خزف بر ساحل افتادہ است ( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔) کل زبور عجم کی ایک غزل کے مطلع کی تشریح کرتے کرتے آج کا شعر یاد آ گیا۔ یاد آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کل کے شعر میں چشم بینا کے الفاظ سے اس شعر کے الفاظ ابھر آئے۔ شاعر نے بات اتنے پیارے اور موثر انداز میں کہی ہے کہ انتخاب کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔ ذرا شعر دوبارہ سن لیجئے: نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را گہر در سینہ دریا، خزف برساحل افتادہ است ترجمہ ہے: نہ جانے سمندر کی لہر کو یہ چشم بینا کس نے عطا کی کہ موتی تو بحر کے سینے میں پڑا ہے اور خزف ریزے، یعنی ٹھیکری اور کنکر وغیرہ کے ٹکڑے باہر ساحل پر گرے پڑے ہیں۔ شعر میں جو پتے کی بات بیان ہوئی ہے ادھر بعد میں آئیں گے، پہلے ذرا اس شعر کی منظر کشی کی طرف توجہ دیجئے اور دیکھئے، تصور کیجئے کہ ایک بحر ذخار آپ کے سامنے ہے۔ طوفان برپا ہے اور اتنا شدید ہے جیسے پانی میں ایک حشر بپا ہے۔ موجوں کے تلاطم سے چٹانیں لرزہ بر اندام ہیں اور وہیل مچھلیاں اور مگرمچھ تنکوں کی طرح ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اچھلے پڑتے ہیں۔ اس قیامت خیز سمے میں نیساں کے ایک قطرے کو دیکھئے کس طرح صدف میں مطمئن بیٹھا ہے۔ باہر کی صورت یہ ہے کہ بحر کی تہ سے کتنے کنکر اور خزف ریزے ابھر کر کنارے پر گرتے چلے جا رہے ہیں۔ بیچارگی کا عالم ہے اور بے بضاعتی، اور بے مائگی بھی۔ اقبال اس شعر میں گوہر آبدار اور خزف ریزے میں فرق واضح کرنا چاہتا ہے۔ کہاں موتی اور کہاں ٹھیکری۔ لیکن اس فرق کی وضاحت کا انداز کتنا پیارا ہے۔ یہ سب کچھ تو موجوں کے طوفان کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے سمندر میں ہلچل مچی ہے۔ لیکن شاعر کا تجاہل عارفانہ دیکھئے۔ کہتا ہے کہ نہ جانے موجوں کو یہ چشم بینا کیسے مل گئی کہ انہوں نے دنیا جہاں کی بے قیمت چیزوں کو کنارے لا پھینکا ہے اور گوہر کو صدف کے آغوش میں بٹھا دیا۔ یہ باریک بینی، یہ قدر شناسی، یہ جوہر کو پرکھنے کی استعداد سبحان اللہ ان بظاہر بے رہرو، بے مہار، لہروں میں کیسے آ گئی۔ اقبال نے اس شعر میں تو فقط اشارہ کیا کہ موتی موتی ہے اور ٹھیکری ٹھیکری، لیکن ایک اور شعر میں صاف صاف بتایا کہ ایسا کیوں ہے۔ گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں موتی میں تو خالی چمک دمک ہی تھی اور کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ جو گراں بہا بنا تو اس لئے کہ اس میں خودی کا احساس تھا اس نے اس جوہر گراں قدر کی حفاظت کی تو یہ مقام حاصل کیا۔ یہی حال انسان کا ہے۔ قدرت نے ہر انسان میں استعدادیں ودیعت کی ہیں جو انسان ان فطری عطیوں کی قدر کرتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے اور پھر ان کو بروئے کار لاتا ہے وہ موتی بنتا ہے ورنہ خزف ریزوں کی طرح کنارے پر گر کر خوار و پامال ہوتا ہے۔ ٭٭٭ (3) بگیر اے سارباں راہ درازے مرا سوز جدائی تیز تر کن ( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے) شاعر کہتا ہے اے سارباں لمبا راستہ اختیار کر اور میری جدائی کی آگ کو اور بھی بھڑکا دے۔ قافلے کی باگ ڈور ساربان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جیسے چاہے اسے چلاتا ہے۔ کارواں کے منزل پر پہنچنے کی توقعات اسی سے وابستہ ہوتی ہیں کسی کا محبوب رخصت ہو رہا ہو تو سارباں سے کہا جاتا ہے۔ اے سارباں آہستہ راں کا رام جانم می رود یعنی ذرا آہستہ چل، میرا آرام جاں رخصت ہو رہا ہے۔ دم بھر اور اسے دیکھ لوں۔ لیکن اقبال سفر کو کسی اور ہی زاویہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی طرح سفر کے تیزی سے کٹ جانے کا متمنی نہیں۔ دوسرے لوگ منزل کو قریب آتے دیکھتے ہیں تو ان کی آتش شوق اور بھی تیز ہو جاتی ہے لیکن اقبال اپنے اسی شعر میں اس کے برعکس بات کرتا ہے۔ وہ سارباں سے ایسی راہ اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو دور ہو اور اسے وہ را ہ دراز کہتا ہے اور اس کی توجیہہ وہ خود ہی کرتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کہتا ہے۔ مرا سوز جدائی تیز تر کن یعنی میری آتش جدائی کو تیز تر کر دے ظاہر ہے جب سارباں راہ دراز اختیار کرے گا تو رہرو منزل مقصود پہ دیر میں پہنچے گا۔ تاخیر ہو گی تو منزل پہ پہنچنے کا شوق بھی تیز ہو گا۔ اس شوق کی تیزی کو شاعر نے سوز جدائی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے لیکن اقبال اس نکتے کو اپنے فلسفہ حیات سے وابستہ کرتا ہے کیونکہ وہ زندگی کو سفر سمجھتا ہے ایسا سفر جو کہیں ختم نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک سفر شوق کی یہ تیزی اور منزل پہ پہنچنے کے لئے انتہائی بے تابی، منزل مقصود پر پہنچ جانے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کاروان حیات چلتا رہے اور زندگی کی سرگرمیاں تازہ رہیں۔ اقبال کا موضوع ہی سفر حیات ہے کہ ہر دم جاری رہتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں مختلف پیرایوں میں اپنے جذبے کا اظہار کرتا ہے کبھی کہتا ہے سفر بے کارواں ہونا چاہئے۔ کبھی کہتا ہے منزل سے زیادہ پر پیچ راستے زیادہ خوش آئند ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ہمراہیوں سے کہتا ہے ۔ یہ سست رفتاری کیسی؟ تم ٹھہرے ہو تو ٹھہرو۔ میں آگے چل رہا ہوں۔ غرض اس کا مقصود زندگی کی تگ و دو کو جاری رکھنا ہے۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس شعر کے دو مصرعوں میں بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں مصرعے بڑے گہرے طور پر مربوط ہیں۔ جب منزل پر پہنچنے کے لئے دور کا راستہ اختیار کیا جائے تو منزل کی جدائی کا احساس تیز ہو گا اور جدائی کی آگ بھی تیز تر ہو گی۔ ٭٭٭ ( 4) نجیبے کہ پا بر زمین سودہ است ز مرغ سرا سفلہ تر بودہ است ( یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے۔ یہ شعر ’’پند بازبابچہ خویش‘‘ کے زیر عنوان نظم کا شعر ہے) اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے: وہ ہستی جو اپنے قدم زمین پر دھرتی پھرتی ہے کتنی ہی نجیب کیوں نہ ہو اس پرندے سے بھی زیادہ نیچ ہے جو زمین ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ نظم اقبال کی خوبصورت نظموں میں سے ہے۔ علاوہ فنی حسن کے اس میں اس کے افکار کی صحیح عکاسی پائی جاتی ہے۔ شاہیں، باز، عقاب یہ تینوں آزاد پرندے ایسے ہیں جو شاعر کے تصور حیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس نظم میں ان پرندوں کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ پرندوں کی دنیا وسیع و عریض فضا ہے جس میں وہ جہاں اور جدھر چاہیں پرواز کر لیتے ہیں۔ وہ پرندہ جو کسی قفس میں اسیر ہو، اپنی طبعی استعدادیں کھو بیٹھتا ہے اس کی قوت پرواز پنجرے کے چار تنکوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اقبال اسے اسیر پرندے کی زندگی کو پست سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ اس بلند نسب انسان کی زندگی کو پست تر خیال کرتا ہے جس کی نظریں سطح ارضی سے اوپر نہیں اٹھتیں وہ حافظ کے اس شعر کا مصداق بن کر رہ جاتا ہے۔ ترا زکنگرۂ عرش می زنند صفیر ندانمت کہ دریں دا مگہ چہ افتاد است ستم کی بات ہے کہ انسان کو کنگرۂ عرش سے پکارا جا رہا ہے اور وہ اس دنیاوی جال میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آج کے شعر کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ذرا باز کی نصیحت کا خلاصہ سن لیجئے۔ باز اپنے بچے سے کہتا ہے۔ تمام باز ایک ہی جوہر سے ہیں۔ وہ ہیں تو مشت پر لیکن شیروں کا دل رکھتے ہیں۔ دیکھ بیٹا چکوروں جیسے ادنیٰ پرندوں کی صحبت سے بچنا اور ان کا شکار کرنے کے سوا ان سے کوئی سروکار نہ رکھنا۔ نازک بدنی تو بٹیرہ وغیرہ کا حصہ ہے۔ تجھے تنومند اور سخت کوش ہونا چاہئے۔ یاد رکھ تمہارے بزرگ کسی درخت پر آشیانہ بنانا اپنی کسر شان سمجھتے تھے۔ انہیں تو اس زمین سے دل لگانا تو درکنار دانہ چننا بھی گوارا نہیں تھا۔ آسمان کی پھیلی ہوئی وسعتیں ہماری خدا داد وراثت ہے، شاہباز تو چٹانوں میں گھومتے ہیں تاکہ ان کے پنجے ان سے ٹکرا کر تیز تر ہو جائیں۔ ان ساری تفصیلات کو پیش نظر رکھئے اور آج کے شعر کی خوبیوں پر غور کیجئے۔ شاعر نے نجیب کا لفظ استعمال کیا ہے جو نجابت سے مشتق ہے اور بڑا بلیغ اور پر معنی ہے۔ اس لفظ سے انسانی کردار اور شخصیت کی عظمت او رشرافت نمایاں ہوتی ہے۔ ایک عظیم ہستی اگر پست زندگی بسر کرے تو یہ بہت بڑی گراوٹ ہو گی جو قفس میں اسیر پرندے کی زندگی سے بھی پست ہے۔ ٭٭٭ ( 5) من از غم ہانمی ترسم و لیکن مدہ آں غم کہ شایان دلے نیست ( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ کا ہے جو ’’حضور حق‘‘ کے عنوان کے تحت کلیات اقبال فارسی میں موجود ہے) اقبال نے اس شعر میں ایک مرد غیور، ایک بلند ہمت انسان کا تصور پیش کیا ہے اور بڑے شاعرانہ اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور گہرے جذبے میں ڈوب کر بیان کیا ہے۔ شاعر نے اس شعر میں غم کے بارے میں دو اہم باتیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ غم کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ان مایوسیوںمیں ڈوب جائے اور مضمحل ہو کر رہ جائے۔ غم تو انسان کو ابھارتا ہے، دوسرے یہ کہ غم اور غم میں فرق ہوتا ہے۔ مرزا غالب اپنی فارسی کی ایک طویل مثنوی میں فلسفہ غم یوں پیش کرتے ہیں خدا سے خطاب کر کے کہتے ہیں، اے خدا تو نے مجھے دنیا میں بے پناہ غموں میں ڈال دیا لیکن میں ترا ممنون ہوں کہ ان غموں نے میری روح کو بیداری عطا کی۔ مجھے ہمت دی کہ میں انہیں سمیٹ لوں۔ میں نے ان غموں کو ایک حسین قالب میں ڈھال لیا، ایک فن بنا لیا اور اس فن کی بدولت مجھے ایک بڑی دولت نصیب ہوئی جس نے مجھے ابدی شہرت عطا کی۔ اقبال بھی غم کی ایسی ہی عظمت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک غم، کوئی ادنیٰ اور پست شے نہیں یہ روٹی کا غم نہیں کہ وہ یہ سوچے۔ چہ خورد بامداد فرزندم غم ہو تو کوئی بلند غم ہو۔ غم نام ہے کسی ارفع اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کے لئے فکر مند ہونا اور اپنی کسی کوتاہی کے خیال سے پریشان ہونا۔ غم نام ہے وطن کا غم، ملت اور قوم کا غم، بلکہ بنی نوع انسان کا غم۔ اب ذرا دیکھئے کہ اقبال اس جذبے کو کس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ من از غم ہا نمی ترسم و لیکن مدہ آں غم کہ شایاں دلے نیست اے خدا میں غموں اور دکھوں سے ڈرنے والا انسان نہیں ہوں، بلند ہمت انسان ہوں۔ ہر طرح کے دکھ برداشت کر سکتا ہوں اور مردانہ وار کر سکتا ہوں، ہاں اتنا ہے کہ غم ہو تو صحیح غم ہو۔ میرے شایان شان ہو۔ اقبال نے اس آخری بات کو کہ غم ہو تو میرے شایان شان ہو پر اکتفا نہیں کیا۔ا سے شعر کے قالب میں ڈھال کر، نیا روپ عطا کیا اور کہا کہ کہیں ایسا غم نہ دینا جو ایک انسانی قلب کے شایان شان نہ ہو۔ فنکار آخر فنکار ہوت اہے اور پھر اقبال سا مفکر فنکار۔ کہ بات کرتا ہے کہ دو دھاری تلوار چلاتا ہے۔ فارسی کا معمولی ذوق رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ دلے میں یا سے مراد صرف ایک نہیں یعنی کسی ایک دل کے شایانش ان بلکہ ایک عظیم دل کے شایان شان۔ اردو کا شعر ہے۔ یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں ایک خانہ خراب ہیں دونوں طبع سلیم سمجھتی ہے کہ یہاں ایک سے مقصود ایک عدد نہیں بلکہ ایک عظیم خانہ خراب مراد ہے۔ اسی طرح شایان دلے سے اقبال کا اشارہ ایک عظیم انسان کے عظیم قلب کے عظیم حوصلے کی طرف ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ غم کے مدارج ہوتے ہیں۔ غم روزگار سے غم محبوب تک بڑا فاصلہ ہوتا ہے اور محبوب بھی کوئی اونچا محبوب۔ شاد عظیم آبادی کا سادہ سا شعر ہے لیکن کتنا خوبصورت غم جہاں سے ہیں فارغ ستم کشان فراق ترے ستائے ہوؤں کو فلک ستا نہ سکا ٭٭٭ ( 6) جہاں کو راست واز آئینہ دل غافل افتاد است دلے چشمیکہ بینا شد، نگاہش بردل افتاد است ( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ یہ اس حصہ کی 36 ویں غزل ہے۔) سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: یہ دنیا اندھی ہے اور آئینہ دل سے غافل ہوئی ہے۔ لیکن جو آنکھ بینا ہے، اس کی نظرل دل ہی پر پڑتی ہے۔ دنیا کے لوگ ظاہر پرست ہوتے ہیں، ان کی نگاہیں بھی سطحی ہوتی ہیں۔ وہ وہیں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور انہی ظاہری معاملات کے مخمصوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ انسانی عقل حکمت کے نکتے حل کر کے حقیقت کا سراغ لگانا چاہتی ہے لیکن سراغ نہیں ملتا۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ حقیقت کی تلاش میں دماغ کو ٹٹولنے کی بجائے دل کو ٹٹولنا ضروری ہے۔ اقبال اس بنا پر کہتا ہے۔ جہاں کو راست، دنیا نابینا ہے، انسان آنکھیں تو کھولتا ہے لیکن دیکھتا کچھ نہیں۔ اس کی نظر دل پر نہیں پڑتی۔ اس بات سے غافل ہے کہ اس کے سینے میں دل ہے جو آئینے کی طرح درخشاں ہے۔ اس میں حقائق کا پرتو ہے۔ وہ آئینہ دل پر نظر ڈالے تو حقیقت کی جھلک دکھائی دے۔ کسی نے کہا دل کے آئینے میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی لیکن اقبال تو اس سے آگے بڑھتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ اے انسان تو کس شے کی تلاش میں ہے، تو اپنے آپ کو پہچان، غافل! اپنی خودی کو پہچان، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ تو خود بڑی حقیقت ہے تو نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو گویا حقیقت شناس ہو گیا کیونکہ تو ہی اس کائنات کا سب سے بڑا راز ہے۔ شیخ سعدی نے غزلیہ رنگ میں کیا خوبصورت شعر کہہ دیا۔ اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر ٹکی ہوئی ہیں تو نظارے سے لذت اندوز ہونے کے لئے کہاں جا رہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ اے انسان! تو تو وہ گوہر ہے جس کی تابانی سے یہ جہاں روشن ہے۔ تجھے کس جہان حسن کی تلاش ہے۔ مرزا بیدل نے اسی نکتے کو تیور بدل کر نئے پیرائے میں بیان کیا۔ ستم است گر ہوست کشد کہ بسیر سرو سمن در آ تو ز غنچہ کم ند میدۂ در دل کشا بچمن در آ بڑے ستم کی بات ہے کہ ہوس تجھے سرو سمن کے نظارے کے لئے کشاں کشاں لئے پھرتی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ ذرا دل کا دروازہ کھول کے دیکھ کیسا چمن زار کھلا ہوا ہے۔ لیکن ساری دنیا اندھی نہیں ہوتی۔ ایسی آنکھ بھی ہے جو بینا ہوتی ہے اور اس کی نظر ادھر ادھر نہیں دل پر پڑتی ہے۔ اقبال اس بات کی تلقین کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انسان اس چمن زار کا مرکز ہے وہ گل سرسبد ہے۔ کائنات اور اس کی دلکشیاں اور رعنائیاں اسی کے لئے خلق کی گئی ہیں۔ اسی کی عظمت کا سروسامان ہے۔ وہ ان حسین وسائل سے اپنے کردار اور اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت کی تکمیل وجہ تخلیق کائنات ہے اور یہی فطرت کا عین منشا ہے کہ انسان اپنی اخلاقی اور روحانی پرورش اور تربیت کرتا چلا جائے۔ زندگی کی فلاح اسی میں پوشیدہ ہے۔ ٭٭٭ ( 7) یوسف گم گشتہ را باز کشودم نقاب تا بہ تنک مایگاں ذوق خریدن دہم ( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم سے لیا گیا ہے۔ یہ اس حصہ کی 55ویں غزل کا شعر ہے۔) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ میں نے کھوئے ہوئے یوسف کا پھر سراغ لگا لیا، تاکہ کم مال رکھنے والوں میں بھی خریداری کا ذوق پیدا کر سکوں۔ بظاہر بات بڑی سادہ معلوم ہوتی ہے لیکن بڑی گہری ہے اور دور رس ہے۔ شاعر نے ایک طرف تو ایک عام واقعہ کو اپنے حکمت آموز انداز میں سمویا ہے اور دوسری طرف اسلوب بیان میں اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں جس سے یہ شعر ایک بلند پایہ ادبی پارہ بن گیا ہے۔ اس شعر میں حضرت یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس تاریخی تلمیح کی مختصر صورت یہ ہے کہ یوسف کو بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا پھر وہ وہاں سے نکال کر سوداگروں کے ہاتھ بیچ دئیے گئے اور وہاں سے بازار مصر میں جا کر ارزاں داموں فروخت ہوئے لیکن یوسف ایک گرانمایہ ہستی تھی۔ اپنے ذاتی جوہر سے کتنے مراحل طے کر کے کہاں سے کہاں پہنچے۔ ان کی زندگی کی یہ معراج ضرب المثل ہو گئی اور ادب میں ایک جنس نایاب کی علامت بن گئی۔ اقبال، یوسف گم گشتہ سے، ایک ایسی ہی جنس نایاب مراد لیتا ہے جسے مسلمان کھو بیٹھے ہیں اور اس جنس کے خریدنے کے لئے سرمایہ بھی نہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اس کم مائگی کے عام میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ چیز ہو بھی گراں قیمت لیکن سستے داموں مل جائے۔ اقبال اس یوسف گم گشتہ سے مسلمان کا قدیم جوش ایمان، دینداری اور پرہیز گاری، فردی اور اجتماعی اخوت اور اتحاد ملی عظمت اور وقار، غرض سب کچھ مراد لیتا ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو ہم سے چھن گئی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے کو کم حیثیت خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں، اتنے تنک مایہ ہیں کہ اس جنس گرانقدر خریدنے کے اہل نہیں۔ یہ ہماری کم مائگی کی دلیل نہیں بلکہ ہماری کم حوصلگی اور پست ہمتی کی نشانی ہے۔ جب کسی قوم میں یہ احساس کمتری پیدا ہو جائے تو اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی ہے۔ اقبال اپنے شعر میں صرف یہی نہیں کہتا وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مسلمانوں میں نہ صرف کم ہمتی آ گئی ہے بلکہ اپنے گذشتہ ملی وقار اور عظمت کو بھول بھی چکے ہیں جس سے اس کے دوبارہ حاصل کرنے کے امکانات اور بھی کم ہو چکے ہیں لیکن ان سب باتوں کی نشاندہی کرنے کے بعد وہ مایوس نہیں۔ اس نے ملت کو وہ پیام دیا ہے جس سے ان کا ایمان تازہ ہو جائے۔ اس جنس گرنمایہ کی اس طرح سراغ رسی کی ہے کہ وہ ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ سوال صرف حوصلہ پیدا کر کے اس کو خریدنے کا ہے۔ اقبال نے اپنے کلام سے مسلمانوں میں وہ ذوق پیدا کیا ہے کہ یہ گراں قدر دولت آسانی سے ہاتھ آ سکتی ہے۔ اقبال کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ شعر کے دو مصرعوں میں اتنی معنوی وسعتیں بھر دی ہیں،ا تنا اختصار ہے کہ اس سے زیادہ کا شاید تصور نہ ہو سکے۔ انداز بیان اتنا سادہ ہے کہ سہل ممتنع بن گیا ہے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ جذبات کی ایک ہلکی سی لرزش شعر کے پڑھنے والے کے دل میں دوڑ جاتی ہے۔ سبحان اللہ! ٭٭٭ ( 8) بے زور سیل کشتی آدم نمی رود ہر دل ہزار عربدہ دارد بہ ناخدا ( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی 71ویں غزل سے لیا گیا ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: پانی کی رو کے زور کے بغیر انسان کی کشتی نہیں چلتی۔ ہر دل اپنے ناخدا سے ہزاروں انداز میں الجھ رہا ہے۔ کشتی آدم سے مراد خود انسان کی ذات ہے، جو زندگی کے سمندر میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ ناخدا، کشتی کے کھینچنے والے کو کہتے ہیں۔ تصور کیجئے، کشتی کو چلانے والی شے پانی کا بہاؤ ہے جسے اقبال نے سیل کہا ہے۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ہواؤں کا زور شامل ہوتا ہے۔ ناخدا صرف کشتی کو منزل مقصود کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر پانی میں بہاؤ نہ ہو تو کشتی کو چلانا کیسے ممکن ہے۔ سیل کے لفظ میں خالی پانی کے بہاؤ ہی کا مفہوم نہیں اس لفظ میں سمندر کا تلاطم، اس کا زور اور شدت طوفان بھی شامل ہیں۔ اقبال کے نزدیک انسان کی زندگی کی کشتی انسان کی شخصیت کے زور او ربل پر چلتی ہے۔ ناخدا کی سعی و کوشش صرف رہنمائی کرتی ہے۔ اصل میں سیل اور تلاطم بھی انسان کے کردار اور اس کی سعی عمل کے زور کا مظاہرہ ہے۔ قوت عمل ہی سے کشتی حیات چلتی ہے۔ اقبال کا شعر ہے خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں اگر جدوجہد اور سعی و عمل کا زور شور نہ ہو تو زندگی ساکت و جامد ہو جاتی ہے۔ بحر کی موجوں میں اضطراب کا مفہوم یہی ہے کہ انسان میں امنگیں اور ولولے ہونے چاہئیں۔ انہی سے اس کی زندگی میں زور اور قوت آتی ہے۔ دوسری بات جو اقبال نے اس شعر میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ محض ناخدا ہی کا سہارا ڈھونڈنا اور اسی کو کشی کا زور خیال کر لینا غلط ہے۔ یہ تقلید پرستی ہے اور ایسی تقلیند پرستی کی روش انسان کی کوششوں کو سرد کر دیتی ہے۔ اقبال کہتا ہے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے گویا مسافر ے لئے ضروری ہے کہ وہ خود ہی راستہ تلاش کرے اور خود ہی اس راہ پر چلے۔ ہمت ہار کر بیٹھ نہ جائے کہ اب خضر ہی میری جگہ سفر بھی طے کرے گا۔ مرزا غالب نے بھی انسان کو کچھ اسی انداز میں خبردار کیا ہے۔ کہتا ہے لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں مانا کہ اک بزرگ ہمیں راہبر ملے پوری تندہی سے سرگرم عمل ہونے والا انسان اقبال کے نزدیک صحیح معنوں میں مسلمان ہے۔ وہ ایسے ہی انسان کی خودی کو بھی مسلمان کہتا ہے۔ خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے عبث ہے شیوۂ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے ٭٭٭ ( 9) زندگی از طوف دیگر رستن است خویش را بیت الحرم دانستن است ( یہ شعر اسرار خودی سے ماخوذ ہے۔ جو اندرز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کہ برائے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است کے زیر عنوان آیا ہے) یعنی زندگی دوسروں کے طواف کرنے سے نجات پا لینے اور اپنے آ پ کو کعبہ تسلیم کرنے کا نام ہے۔ اقبال کے اس شعر کو پڑھتے ہی ذہن مرزا بیدل کے اس شعر کی طرف جاتا ہے۔ ستم ست گر ہوست کشد، کہ بسیر سرو و سمن در آ تو ز غنچہ کم ندمیدۂ در دل کشا بچمن در آ یعنی بڑے ستم کی بات ہے کہ تجھے سرو و سمن کی سیر کشاں کشاں لئے جا رہی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ اپنے دل کا دروازہ کھول، تجھے معلوم ہو کہ تو چمن ہی میں ہے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کا مشہور شعر ہے۔ اے تماشا گاہ عالم روئے تو توکجا بہر تماشا می روی دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر لگی ہوئی ہیں تو کس نظارے کی تلاش میں جا رہا ہے؟ بقول اقبال، انسان کے کردار اور شخصیت کا آغاز خود شناسی سے ہوتا ہے۔ صوفیاء کے اس قول کے ڈانڈے بھی اسی خیال سے ملتے جلتے ہیں کہ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ، اقبال، بیدل اور سعدی کے شعروں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ خود نگری، خود بینی اور خود شناسی۔ اقبال نے اس مسئلے کی وضاحت ایک اور شعر میں گوہر کی مثال دے کر کی ہے جو بڑی خوبصورت ہے۔ راز زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ غوطہ در خود صورت گوہر زدن پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن گوہر کو دیکھو ا س میں صحیح زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ گوہر اپنے آپ میں غوطہ لگاتا ہے اور پھر ابھرتا ہے۔ اس کی غوطہ زنی گویا اس کی خود شناسی ہے۔ اس کی تائید میں ایک اور گوہر نایاب کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ہم گنہگار لوگ رحمتہ اللعالمین کہہ کر پکارتے ہیں۔ رسول پاک ؐ کی غار حرا میں خلوت گزینی گویا ایک گوہر کا صدف میں بند ہونا تھا۔و ہیں ان کی ذات اقدس وحی الٰہی سے سرفراز ہو کر ابھری تھی۔ اقبال اس موقع پر شمس تبریزی کا ایک قصہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک فلسفی اور ماہر حکمت بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ آپ کی یہ قیل و قال کیا ہے؟ یہ منطقی موشگافیاں کیسی؟ فلسفی نے جواب دیا۔ آپ حکمت سے بے بہرہ ہیں۔ آپ کا دانشمندوں سے الجھنا درست نہیں۔ کہا جاتا ہے شمس تبریزی نے کتابوں پر ایک غضبناک نظر ڈالی۔ کتابوں کا ذخیرہ جل کر راکھ ہو گیا۔ فلسفی نے کہا۔ یہ آگ کہاں سے لائے کہ میرا سارا سرمایہ حکمت جلا کر راکھ کر دیا۔ شمس تبریزی نے فرمایا یہ ذوق و حال کی بات ہے تجھے اس سے کیا واسطہ؟ اقبال اس قصے سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ فلسفہ اور حکمت ہمیں، حقیقت سے تو کیا، اپنے آپ سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ صحیح علم وہ ہے جس سے انسان کو اپنا عرفان نصیب ہو۔ اسی عرفان سے انسان، انسان بنتا ہے اور اس کی طبعی استعدادیں بروئے کار آتی ہیں اور وہ ابھر کر اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی پروان چڑھتی ہے۔ ( 10) بدریا گر گرہ افتد بہ کارم بجز طوفاں نمی خواہم کشودے ( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے) سمندر میں ہوتے ہوئے اگر کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو میں اس کی گرہ کشائی طوفان ہی سے کروں گا۔ سمندر کے مسافر کی الجھن کونسی ہوتی ہے۔ کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے۔ مسافر اس طوفان سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ الگ ہے۔ وہ اپنی کشتی حیات کو زندگی کے طوفان سے باہر کھینچ کر لے جانا نہیں چاہتا اس لئے کہ یہی طوفان، اس کی زندگی کا سرچشمہ بھی ہے اور اسے تازہ دم رکھنے کا ذریعہ بھی۔ اقبال طرح طرح کی باتیں کرتا ہے لیکن اس کی ہر تان ایک ہی جگہ پر آ کرٹوٹتی ہے اور وہ اس کا تصور زندگی ہے کہ جسے وہ پیہم کشاکش سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتا ہے۔ علامتیں وضع کرتا ہے اور اپنے خیال کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہر قسم کا فنی حربہ تلاش کرتا ہے۔ جس خیال کا اظہار اس نے آج کے شعر میں کیا ہے وہ اس کا عام تصور حیات ہے جس سے ہم بخوبی آشنا ہیں۔ چند شعر سنئیـ: مثل ہے زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ بساز اقبال اس کہنہ اور فرسودہ سم کا قائل نہیں وہ تو کہتا ہے زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز زمانہ تیرے موافق نہیں تو تو اسے اپنے موافق بنانے کے لئے تگ و دو کر۔ یہ شعر سنئے کتنا واضح، شوخ اور دلکش ہے۔ بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است سمندر میں غلطاں ہو اور اس کی لہروں سے الجھ جا کیونکہ اسی کشمکش میں زندگی ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت بات سنئے کہتا ہے۔ مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت ز منزل جادۂ پیچیدہ خوشتر مجھے ایک صاحب دل نے یہ نکتہ بتایا کہ منزل سے بڑھ کر خوش آئند شے پر پیچ راستہ ہے جس پر مسافر گامزن ہوتا ہے۔ پروانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے من آں پروانہ را پروانہ دانم کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است جلنا تو سبھی کو آتا ہے لیکن پروانہ وہ ہے جو اتنا سخت جان ہو کہ اپنے کو شعلے کے سپرد کر دینے کے بجائے شعلے کو نگل جائے۔اقبال تو اسی کشمکش حیات کو راز حیات سمجھتا ہے کہ جو خطرات حیات میں پوشیدہ ہے۔ اگر خواہی حیات اندر خطرزی اور اگر تجھے واقعی جان کی تلاش ہے تو اس تب و تاب، اور تڑپ کو طلب کر جو کہیں ختم نہ ہو۔ اگر جانے ہوس داری طلب کن تب و تابے کہ پایابے مدار (11) اے صبا از تنک افشانی شبنم چہ شود تب و تاب جگر از لالہ ربودن نتواں ( یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اے صبا، قطرہ قطرہ برسانے سے کیا فائدہ، یوں چند بوندوں سے تو لالے کے جگر کی گرمی دور نہیں کی جا سکتی۔ ہوا کے چلنے سے صبح کی کلیاں کھلتی ہیں اور پھول مہکتے ہیں اور صبا کے چلنے سے شبنم کے ننھے ننھے قطرے فضا میں لہراتے ہوئے آتے ہیں اور پھولوں کی نازک پتیوں پر بکھر جاتے ہیں۔ انہی پھولوں میں ایک لالے کا پھول بھی ہے جو آتشیں رنگ ہے اور سینے میں داغ لئے ہوئے ہے جیسے کوئی عاشق زار، سوز عشق میں جلا ہوا دل لئے بیٹھا ہو۔ اقبال لالے کے پھول اور اس کے سینے کی اس گرمی کو بطور استعارہ استعمال کرتا ہے اور یہ استعارہ ایک ایسے عاشق صادق کے لئے ہے جو دل میں محبت کی گرمی اور تب و تاب لئے ہوئے ہے اور وہ گرمی کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ اقبال کا تصور عشق یہی ہے کہ یہ جذبہ انسان کی فطرت میں موجود ہے اور اس جذبے کی آگ کو کوئی خارجی عنصر آسودگی نہیں بخش سکتا۔ عشق ایک جاودانی شے ہے۔ انگریزی کا ایک مشہور شاعر براؤننگ اپنی ایک نظم میں اس غیر فانی جذبے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قلب کی ساری بے قراریاں اس لئے ہیں کہ انسان کا عشق غیر فانی ہے اور اس کا دل فانی ہے۔ ایک فانی دل میں غیر فانی جذبہ سمایا ہوا ہے جو اسے بے چین رکھتا ہے۔ An infinite panion in a finit heart that yeares مرزا غالب اسی جذبہ عشق کا تذکرہ یوں کرتا ہے۔ گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں پانی کی لہر، بہتیرے ہاتھ پاؤں مارتی ہے مگر اس کی بیقراری کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی جاتی ہے اور زبان حال سے شوق کے لازوال ہونے کا اشارہ کرتی ہے۔ یعنی وصل نصیب ہونے پر بھی عشق کی آگ نہیں بجھتی۔ پانی میں لہروں کو دیکھئے کس طرح ایک دوسرے سے ہمکنار ہونے پر بے قرار سے بے قرار تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ غالب ہی کا ایک شعر سنئے: عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے محبوب کی وفاداری اور عمر بھر کی وفاداری کا عہد و پیمان بھی، عاشق کے دل کی تڑپ کو سکون عطا نہیں کر سکتا۔ اقبال جس عشق کے جذبے اور آگ کا ذکر کرتا ہے وہ حسن کی وجہ سے ہے جو عشق کی طرح لازوال ہے، کہتا ہے۔ عشق است و ہزار افسوں، حسن است و ہزار آئیں نے من بہ شمار آیم، نے تو بہ شمار آئی یعنی ادھر حسن ہے اور اس کے ہزاروں تیور، ادھر عشق ہے اور اس کے ہزاروں انداز نہ ترے حسن کی انتہا ہو سکتی ہے نہ مرے عشق کی۔ جیسا کہ حسن تک رسائی اور اس سے تمتع حاصل کرنے کی جستجو اور تگ و دو جاری رہے گی اور یہی زندگی ہے۔ اسی سے انسان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل رہتا ہے۔ لالے کے دل کی آگ سے مراد یہی جذبہ ہے۔ اقبال کے شعر میں دوسرے مصرعے کا مفہوم نے من بشمار آیم، نے تو بشمار آئی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب عالم ہو تو میں اور تو دونوں کس شمار میں ہیں، یعنی برابر ہیں۔ ( 12) موسی و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آمد پدید زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است ( یہ دونوں اشعار رموز بیخودی سے لئے گئے ہیں جو در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا کے تحت درج ہیں) اقبال کے ان دو شعروں کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ موسیٰ اور فرعون، شبیر اور یزید۔ یہ دو قوتیں زندگی ہی سے ابھرتی ہیں۔ حق، قوت شبیری سے زندہ ہے اور باطل کا انجام مرگ حسرت ناک ہے۔ دنیا، موسیٰ اور فرعون کے واقعہ سے آشنا ہے۔ یہ حق و باطل کی کشمکش تھی۔ موسیٰ حق کے نمائندہ تھے اور فرعون باطل کا۔ اسی طرح شبیر یعنی حضرت امام حسینؓ کی ذات، حق کی آئینہ دار تھی اور یزید باطل کی علامت۔ اقبال کے نزدیک یہ دو متضاد قوتیں، زندگی میں بیحد ضروری ہیں۔ باطل کے بغیر، حق اپنی پوری قوت نہیں دکھا سکتا۔ تاریخ عالم کیا ہے؟ اسی حق و باطل کی جنگ کی ایک طویل داستان ہے۔ اقبال ہی کا ایک شعر ہے۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویٰ سے شرار بولہی اس شعر میں چراغ مصطفوی اور شرار بولہی بھی وہی دو علامتیں حق و باطل کی ہیں حق و باطل کا یہ تصادم مختلف صورتوں میں رونما ہوتا رہتا ہے اور اس تصادم کا نتیجہ ہمیشہ حق کی فتح اور باطل کی شکست ہوتا ہے۔ اقبال اس فتح مندی کو حق کی تازہ زندگی سے تعبیر کرتا ہے۔ اور باطل کی شکست کو مرگ کا نام دیتا ہے۔ حضرت امام حسین، یزید سے نبرد آزما تھے۔ یہ نبرد آزمائی ذاتی نہ تھی۔ اس میں کسی شخصی عناد یا دشمنی کا شائبہ نہ تھا۔ یہ ایک اصول کی جنگ تھی۔ پاکیزہ اصول، یہ ایمان کے تحفظ کا مسئلہ تھا وہ ایمان جو کسی فرد واحد کا ایمان و یقین نہیں تھا ایک اٹل حقیقت پر ایمان کا اعلان تھا۔ یزید کی جابرانہ سیاست اس مرحلے پر آ چکی تھی کہ اگر امام حسینؓ مقابل نہ آتے اور حق کا اعلان بلند آہنگی سے نہ کرتے تو ایمان کا گلا گھٹ کر رہ جاتا اور باطل اور فسق زور پکڑ لیتے۔ باطل کی اس یورش کا مقابلہ ضروری تھا اور کربلا کا واقعہ اسی پر زور مقابلے کا آئینہ دار ہے۔ امام حسین، کی بظاہر شکست، ان کی فتح مندی تھی ان کی شہادت میں ان کی زندگی کا پرتو تھا۔ انہوں نے جان دے کر حق و صداقت کو زندہ کر دیا، باطل گیا اور باطل کا علمبردار یزید بھی باطل کے ساتھ دب گیا۔ اقبال نے جگہ جگہ اپنے کلام میں حق و باطل کی اس مخاصمت اور کشمکش کو بیان کیا ہے لیکن ان دو شعروں میں جو قوت اور زور ہے وہ شاید کسی اور جگہ کم دیکھا گیا ہے اس میں شاعر کا زور ایمان بھی شامل ہے اور زور فن بھی۔ یہ شاعر کے دل کی بات تھی اور دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے اقبال کے یہ شعر محض حقیقت ہی کا اظہار نہیں، اس کے جذبات کی بات ہے۔ اس کے قلب کی بات ہے۔ دوسرے شعر، کے دوسرے مصرعے میں آخر کا لفظ ان دونوں شعروں کی جان ہے۔ یہ ایک ایسا مرکزی ستون ہے جس پر شاعر کے احساسات کی عمارت برقرار اور مستحکم ہے۔ یہ ایک زبردست حقیقت کا اعلان ہے اور حقیقت پائیدار شے ہے باطل بظاہر زندہ رہ کر بھی مرجاتا ہے۔ یزید بظاہر فتح مند ہوا اور زندہ رہا لیکن دنیا جانتی ہے وہ اپنی باطل پرستی کے تحکم کے ساتھ خود بھی موت کی ابدی نیند سو چکا ہے اور امام حسین کا نام آج بھی زندہ ہے اور ان کی یاد آج بھی زندگی کا ایک پیغام ہے اور یہ پیغام ایک ابدی پیغام ہے۔ ٭٭٭ ( 13) نہ بہ جادۂ قرارش، نہ بہ منزلے مقامش دل من مسافر من کہ خداش یار بادا ( یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت شعر ہے یہ اقبال نے دو مصرعوںمیں اپنے نظریہ حیات کا خلاصہ بیان کر دیا ہے کہتا ہے کہ میرا دل عجیب دل ہے کہ اسے کسی راہ میں قرار نصیب نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی منزل پہ جا کے رکتا ہے۔ اللہ میرے دل، میرے مسافر دل کا نگہبان ہو۔ پیشتر اس کے کہ ہم اس شعر کی فنی اور شاعرانہ دل آویزیوں کو دیکھیں اس شعر کی معنوی وسعتوں کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال اسی غزل میں جہاں سے یہ شعر لیا گیا ہے۔ ایک اور جگہ کہتا ہے۔ تپش است زندگانی، تپش است جاودانی ہمہ ذرہ ہائے خاکم دل بیقرار بادا یعنی زندگی؟ ایک تڑپ ہے، ایک جاودانی تڑپ ہے۔ اللہ کرے کہ میری خاک کا ہر ذرہ، ایک دل بیقرار بن کر رہ جائے۔ اقبال اسی دل بے قرار کی مزید تصریح کرتا ہے اور اسے اپنا مسافر کہہ کر پکارتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کا اس بے قرار دل، اس مسافر دل سے کیا مقصد ہے؟ اور وہ اس کا اطلاق انسانی زندگی کے کون سے پہلو پر کرتا ہے۔ پیام مشرق میں اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ اس نظم کا عنوان زندگی ہے اسی میں وہ کہتا ہے کہ میں نے بلند نظر سے پوچھا کہ زندگی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ زندگی وہ شراب ہے کہ جتنی زیادہ تلخ اتنی ہی زیادہ اچھی ہوتی ہے پھر میں نے کہا کہ یہ تو ایک چھوٹا سا کیڑا اور مٹی سے ابھرتا ہے اس نے جواب میں کہا کہ نہیں یہ تو سمندر کی طرح آگ میں جنم لیتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی فطرت خاموش میں شر پوشیدہ ہے اس نے کہا یہ شر ہی تو اس کا خیر ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی پیہم تگ و دو، اس کو کسی منزل پر نہیں پہنچاتی۔ اس نے جواب دیا کہ اس کا شوق تگ و دو ہی اس کی منزل ہے میں نے آخر میں کہا کہ یہ تو خاکی ہے اور اسے آخر خاک ہی کے سپرد ہونا ہے۔ اس نے کہا تو نہیں جانتا کہ دانہ جب خاک کو چیر کر باہر آتا ہے تو ایک تازہ پھول کا روپ لے کر آتا ہے۔ اقبال نے اس چھوٹی سی نظم میں زندگی کے جس پہلو کو اجاگر کیا ہے وہ نہ مٹنے والا شوق ہے ایک کوشش کے بعد دوسری جدوجہد کا آغاز ہے۔ بلند سے بلند تر نصب العین کی تلاش ہے۔ جستجو اور مسلسل جستجو۔ اقبال ایک اور نظم میں جس کا عنوان ’’ حور و شاعر‘‘ ہے۔ اسی خیال کی وضاحت کرتا ہے۔ حور شاعر سے کہتی ہے کہ تو کیا انسان ہے کہ میری طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ شاعر کہتا ہے، مانا کہ تیرا انداز کلام بڑا نیش دار ہے۔ مگر اس میں ایک معمولی کانٹے کی سی بھی کسک نہیں۔ اور میں ہوں کہ صحن گلشن سے صبا کی طرح آزاد گزر جاتا ہوں اور کسی کانٹے کو میرے دامن سے الجھنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ میری نظر ایک خوبرو معشوق پر پڑتی ہے تو میرا دل اس سے زیادہ حسین نظارے کے لئے تڑپتا ہے میں چنگاری سے ستارے اور ستارے سے آفتاب کی طرف لپکتا ہوں۔ میرا کسی ایک منزل پر پہنچنے کا ارادہ نہیں، کہیں رک جاؤں تو مر جاؤں۔ اب ذرا اس شعر کے فنی محاسن پر نظر ڈالئے۔ شعر دوبارہ سنئے۔ نہ بہ جادۂ قرارش، نہ بہ منزلے مقامش دل من مسافر من کہ خداش یار بادا اور دیکھئے کہ اقبال نے اپنے نظریہ حیات کو جس کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے کس طرح معجزانہ اختصار کے ساتھ دو سادہ سے لفظوں میں سمو دیا ہے۔ اور وہ دو لفظ’’ مسافر من‘‘ ہیں یعنی میرا مسافر وہ اپنے دل بیقرار کو میرا مسافر کہہ کر پکارتا ہے کہ زندگی کی رہ پر چلا جا رہا ہے اور چونکہ اس مسافر کا سفر کہیں ختم ہونے کا نہیں۔ اس لئے اس کے لئے بڑے پیار سے اور درد مندی کے ساتھ یہ دعا بھی کرتا ہے کہ اللہ میرے اس مسافر کا نگہبان ہو۔ ذوق سلیم رکھنے والے حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ اس شعر میں اپنی جذباتی کیفیتوں کو کس حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ٭٭٭ (14) دل بدوش و دیدہ برفردا ستم درمیان انجمن، تنہا ستم ( یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ اسرار خودی میں ’’ دعا‘‘ کے عنوان سے دئیے گئے حصے سے یہ شعر ماخوذ ہے) اقبال ’’ اسرار خودی‘‘ میں فلسفہ خودی پر بحث کرنے اور اس کے ارتقاء کے مختلف مرحلوں پر روشنی ڈالنے کے بعد اس طویل نظم کو ختم کرتا ہے اور پھر چند دعائیہ اشعار لکھتا ہے ان دعائیہ اشعار کا اس کے باقی اشعار کی طرح، ایک منفرد اور جداگانہ رنگ اور انداز ہے۔ ان اشعارمیں دو چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ ایک اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق اس کے اور ملت کے باہمی ربط سے ہے یوں کہنا چاہئے کہ ایک میں، جو بطور تمہید کے ہے۔ اقبال ایک فرد کی حیثیت سے بات کرتا ہے۔ اور دوسری میں فرد اور ملت یعنی اجتماعی حیثیت سے۔ خدا سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ میرا دل ماضی میں اٹکا ہوا ہے اور نگاہیں فرداً یعنی مستقبل پر لگی ہوئی ہیں۔ اور اس کیفیت نے مجھ میں وہ اجنبیت پیدا کر دی ہے کہ میں انجمن میں تنہا رہ گیا ہوں۔ یہی الفاظ آج کے شعر کا مفہوم ہیں۔ اس شعر پر سرسری غور کرنے سے شاعر کی تنہائی کا سبب واضح ہو جاتا ہے جو شخص حال یا امروز کو چھوڑ کر ماضی کی تاریخ روایات اور مستقبل میں رونما ہونے والے حالات اور امکانات میں کھویا ہوا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ دوسروں سے، جو زمانہ حال کے کاروبار حیات میں منہمک ہیں۔ کس قدر بیگانہ ہو گا اور ا سکی اس بیگانگی سے اس کی تنہائی کا احساس کس قدر شدید ہو گا۔ تنہائی، خلوت میں اکیلے ہونے کا نام نہیں ایک انسان جلوت کے ہجوم میں رہ کر بھی تنہا ہو سکتا ہے۔ یہ ذہنی تنہائی ہوتی ہے اور ہر بڑا انسان، اپنے وقت سے پہلے پیدا ہو جاتا ہے۔ اور دنیا والوں کے لئے اجنبی ہوتا ہے اور ان میں اپنی ذہنی یکتائی کے باعث تنہا محسوس کرتا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عالم تھا۔ چنانچہ وہ خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ ’’من صدائے شاعر فرداستم‘‘ اقبال نے اس تمہید کے بعد دوسری بات دعا کے رنگ میں کی ہے۔ وہ خدا کی بارگاہ میں التجا کرتا ہے کہ تو نے مجھے یہ دل و دماغ عطا کیا لیکن میرا کوئی ہمنوا پیدا نہ کیا۔ یا تو یہ امانت مجھ سے چھین لے یا پھر میرا کوئی ہمدم پیدا کر۔ اس کے بعد اقبال کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ دیکھ کہ دنیا میں ہر شے کا ایک ساتھی ہے۔ سمندر میں لہر، لہر سے ہمکنار ہے۔ آسمان پر ستارے ایک دوسرے سے چشمک زنی کر رہے ہیں۔ ماہ تاباں رات کے زانو پر سر رکھے محو راحت ہے۔ دن رات سے ہم پہلو اور امروز، فردا دست در دست۔ ندی دریا اور دریا سمندر سے پیوست ہو رہا ہے۔ موج صبا، بوٹے گل میں کھوئی جا رہی ہے، غرض اس وسعت ارضی کے ہر گوشے میں ایک رقص برپا ہے اور دیوانہ دیوانے سے الجھا ہوا ہے۔ اے خدا ہر چند تیری ذات یکتا ہے لیکن تو نے بھی دنیا کو خلق کر کے اپنا ندیم تلاش کر لیا مجھے کیوں تنہا رکھا ہے۔ میں کیوں اس محفل میں تنہا ہوں۔ اس کے بعد اقبال کہتا ہے۔ ’’ میری تجھ سے التجا ہے کہ مجھے بھی کوئی ہمدم عطا کر۔ جو میری فطرت کو سمجھ سکے۔ جو میرا محرم راز ہو۔ تاکہ میں اس سے اپنے ’’ دل کی بات کر سکوں۔ ‘‘ میں اپنا سوز دل اسے سونپ دوں اور پھر مجھے اس کی صورت میں اپنا چہرہ نظر آئے اقبال اس دعا میں اپنے افکار کی اثر انگیزی کی تمنا کر رہا ہے۔ اور اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اس کے اشعار دوسروں کے دل میں اتر جائیں۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو اسے اپنی دعا کی اثر انگیزی کا پتہ چلتا۔ آج ہر دل میں اقبال جاگ اٹھا ہے۔ (15) تو کہ از اصل زماں آ کہ نہ از حیات جاوداں آ کہ نہ (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ جو ’’ الوقت سیف‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ تو وقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں، اس لئے تو نہیں سمجھ سکتا کہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کیا ہے؟‘‘ اسرار خودی کے ایک نہایت اہم باب کا عنوان ہے۔ الوقت سیف یہ عنوان دراصل امام شافعی کے ایک قول سے ماخوذ ہے امام شافعی کا ارشاد ہے کہ وقت ایک تیز تلوار ہے۔ اقبال مذکورہ بالا باب کی ابتدا امام شافعی ہی کے تذکرے سے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ امام موصوف کے تخیل نے کیا بلند پروازی دکھائی ہے کہ یہ فرمایا کہ وقت ایک تیغ براں ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ حضرت موسی ؑ نے جب بحر قلزم کا سینہ چاک کیا تھا تو ان کے ہاتھ میں یہی تلوار تھی اور جب حیدر کرار نے خیبر کی تسخیر کی تھی تو ان کی قوت بازو یہی شمشیر تھی۔ اقبال کے نزدیک ہر وہ انسان جو وقت پر غالب آ جاتا ہے۔ اس شمشیر کا دھنی ہوتا ہے۔ صوفیائے کرام کے یہاں زیر بحث موضوع کے متعلق دو طرح کے تصور ملتے ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ صوفی ابن الوقت ہوتا ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ صوفی ابو الوقت ہوتا ہے۔ صوفی کے ابن الوقت کا تصور یہ ہے کہ صوفی وہ ہے جو اپنے آپ کو حالات کے مطابق بنا لیتا ہے دوسرا تصور یہ ہے کہ صوفی وقت کا باپ ہے یعنی وہ وقت پر چھا جاتا ہے۔ اور اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یہی تصور مولانا روم کا ہے اور اقبال اسی تصور کا حامی ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں ایک اہم حدیث قدسی کا حوالہ دیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ دہر یعنی وقت کو برا نہ کہو۔ میں دہر یعنی وقت ہوں۔ یہ الفاظ خداوندی ہیں جو آنحضرت ؐ کی زبان سے بیان ہوئے ہیں۔ اس میں خدائے ذوالجلال اپنے وقت اور عظمت کا اعلان کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک وہ عظیم انسان جو زمان و مکان پر حاوی ہوتا ہے وہ گویا کائنات کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے۔ آنحضرت ؐ کے معراج کا واقعہ بھی اسی زمان و مکان پر تصرف ہی کی تو مثال ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ وقت روز و شب کی گردش کا نام نہیں اسے ان محدود پیمانوں سے ناپا نہیں جا سکتا وقت ایک جاوداں چیز ہے اور زندگی وقت ہی کے اسرار کا ایک پرتو ہے۔ اس لئے جو انسان وقت پر قابو پا لیتا ہے اس کی زندگی وقت کی طرح ابدی اور جاوداں بن جاتی ہے۔ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اقبال زندگی اور وقت کے بارے میں ایک جیسے تصورات کا اظہار کرتا ہے۔ اس لئے دونوں کی ابدیت اور دونوں کے جاوداں ہونے کا قائل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ مقام بلند ایک حر یعنی ایک آزاد انسان کو نصیب ہوتا ہے۔ غلام اس سے محروم ہے۔ چنانچہ وہ وقت اور زندگی پر بحث کرتے ہوئے اس موضوع کی طرف بھی آتا ہے۔ کہ ایک بندہ یا عبد لیل ونہار میں کھو جاتا ہے اور اس کے برعکس روزگار یا زمانہ حر کے دل میں سمایا ہوتا ہے۔ عبد روز و شب کی زنجیر میں اسیر ہوتا ہے۔ اور کار زار حیات کو تقدیر سے تعبیر کرتا ہے۔ قضا مرد آزاد کی ہمنوا ہوتی ہے اور حادثات زمانہ اس کے اشاروں پر رونما ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد اقبال کہتا ہے۔ غیب و حضور کیا ہے؟ زمانہ اور مردر زمانہ کیا ہے؟ یہ سب کچھ ایک مرد آزاد، ایک مرد مومن کے دل کی کائنات ہے، وقت کے ساز کی آواز خاموش ہوتی ہے۔ وقت کے راز کو سمجھنے کے لئے دل میں غوطہ میں لگانا پڑتا ہے۔ وہیں ہماری نظر حیات جاودانی پر پڑتی ہے۔ ٭٭٭ (16) عاشقی آموز و محبوبے طلب چشم نوحے، قلب ایوبے طلب (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ جو ’’ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ عشق کا درس لے اور کسی محبوب کی تلاش کر۔ عشق کے لئے چشم نوح اور قلب ایوب درکار ہے ۔ اسے طلب کر۔ اب ذرا اس شعر کے پس منظر اور اس پس منظر کی جزئیات کی طرف آئیے۔ یہ شعر اقبال کی مثنوی اسرار خودی کے ایک باب سے ماخوذ ہے جس میں اقبال یہ بیان کرتا ہے۔ کہ انسان کی خودی، عشق و محبت سے مستحکم ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے یہاں عشق سے کیا مراد ہے اور اس عشق سے انسان کی ’’ خودی‘‘ کیوں کر استحکام حاصل کرتی ہے۔ اقبال کے ہاں عشق کے تصور میں بڑی گہرائی اور وسعت ہے۔ اس کے ہاں عشق کا ایک پہلو عرفان کا ہے جس میں وہ مولانا روم کا ہمنوا ہے اسرار خودی میں، جہاں سے یہ شعر لیا گیا ہے۔ اقبال عشق سے مراد عشق الٰہی لیتا ہے اور عشق کی مستی و ذوق کو قرآن پاک کے الفاظ سے تطبیق دیتا ہے جہاں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے شدت کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق کی شدید ترین صورت محبوب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھی۔ تمام اولیاء اور صوفیاء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ کی جو محبت رسول پاکؐ کے دل میں تھی ان میں سے کوئی بھی اس مقام کو حاصل نہ کر سکا۔ خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ: ’’ عشق کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور، محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔ عاشق الٰہی رسول اللہ کی یہ صفت قرآن پاک میں اچھی طرح بیان کی گئی ہے، عشق و عرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضی معشوق کی مرضی میں ضم ہو جائے۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں، کہ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم و رضا ہو۔ اسی تسلیم و رضا کی بدولت رسول اکرم ؐ کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ : گفتہ او گفتہ اللہ بود جو عشق رسول پاک ؐ کو اللہ تعالیٰ سے تھا وہی عشق صحابہؓ کو ان کی ات سے تھا۔ اس عشق میں وہی شدت تھی۔ اس عشق نے ان کی نظروں میں رسول ؐ کے سوال دنیا کی ہر شے کو ناقابل اعتنا بنا دیا تھا۔ گویا اسلام، عشق ہی سے پیدا ہوا اور عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔‘‘ اقبال اسی تصور کے ماتحت آنحضرت ؐ کے بارے میں کہتا ہے کہ: در دل مسلم مقام مصطفی است آبروئے ما ز نام مصطفی است اقبال، اس سلسلے میں آنحضرت کے بلند مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں رسول پاک کی محبت پیدا کرے اور اس عشق میں اپنے محبوب کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ یہ جذبہ محبت اسے خدا تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دے۔ اس سلسلے میں اقبال یہ مثال دیتا ہے کہ جس طرح رسول اکرم ؐ غار حرا میں خلوت نشین ہوئے تھے اور اس محویت کے عالم میں اپنے آپ کو بھلا کر حق کی طرف ہجرت کی تھی۔ اور پھر حق سے استحکام خودی حاصل کیا تھا تو بھی اے انسان اپنے دل میں خلوت نشین ہو اور ترک نفس کر کے حق سے پیوست ہو جا۔ اس طرح اپنی خودی کو استوار کر۔ اسی طرح تو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ جسے خلافت الیہ کا مقام کہتے ہیں یعنی رآن پاک کے ارشاد کے مطابق تو ’’ انی جاعل فی الارض خلیفہ‘‘ کا نمونہ بن جائے گا۔ (17) ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ حیات خودی از تخلیق و تولید مقاصد است‘‘ کے تحت درج ہے) خدائے عزوجل، اس کائنات کا خالق ہے اور اقبال کے نزدیک اس کی ذات اقدس ایک نفس خلاق ہے۔ اس نے انسان کو تخلیق کیا اور اپنے جیسا ایک ایسا نفس بنایا جو خود بھی تخلیق کرتا ہے۔ انسان، صفات الٰہیہ کا حامل ہوتے ہوئے اپنے خالق کی طرح، اس کائنات میں، اپنی تخلیقات سے نہ صرف اضافہ کرتا ہے بلکہ اس کی تہذیب و تزئین بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ اقبال اس جذبہ تخلیق میں، مقاصد کی تخلیق کو بنیادی قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد سے زندہ ہیں۔ زندگی میں اگر کوئی مقصد، کوئی مدعا نہ ہو تو زندگی مردہ ہو کر رہ جائے۔ اسی مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے کے لئے انسان کے دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے اور اس آرزو کی تڑپ، اسے جستجو پر مجبور کرتی ہے اور اس طرح آرزو اور جستجو کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک نصب العین کے حاصل ہونے پر ایک دوسرا بلند تر نصیب العین سامنے آ جاتا ہے اور انسان کی بے تابیاں برقرار رہتی ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ مقصد کے حصول کی آرزو اور جستجو ایک تڑپ ہے جو زندگی کو حرارت بخشتی ہے۔ اگر یہ سوز نہ ہو تو زندگی کا سارا مشغلہ افسردہ ہو کر رہ جائے۔ اقبال کے نزدیک زندگی کی ساری حرکات و سکنات، اسی جذبے سے ظہور میں آتی ہیں وہ کہتا ہے کہ ہماری آنکھیں کیا ہیں؟ شوق دید کی بیتابی اور دیدار کی لذت ہی تو ہے جس نے ایک مادی صورت اختیار کر لی ہے۔ خوش خرام کبک کو اس کی شوخی رفتار اور شوق رفتار نے نازک پاؤں عطا کئے ہیں اور بلبل کی نغمہ سرائی سے اس کی منقار وجود میں آئی۔ یہ فکر و ہوش، یہ تخیل، یہ احساس و شعور، یہ عقل و خرد کی شعبدہ کاریاں، یہ علوم و فنون یہ دانش و حکمت، سب کے سب انسانی آرزوؤں اور جستجوؤں کے معجزے ہیں۔ چمن کا مقصد چند کلیوں اور پھولوں ہی کی نمود نہیں، بلکہ چمن کے وجود کی زینت اور آرائش استواری ہے۔ علم و فن فقط آگاہی کا سرچشمہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تحفظ اور استحکام اور ان سے اپنے آپ کو آراستہ کرتی ہے اور پھر تنومند اور توانا بناتی ہے۔ یہ فکر و دانش، یہ علم و حکمت، بقول اقبال، زندگی کے خانہ زاد ہیں اور انسانی مقاصد کی بلندیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ انسانی قلب کی آرزوؤں اور جستجوؤں کی بے تابیوں کی عملی صورت ہیں۔ یہ مقاصد، بلند مقاصد ہیں۔ آسمان سے بالاتر مقاصد، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں یہی مقاصد ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کرتے چلے جاتے ہیں۔ انہی سے ہماری زندگی میں تیز رفتاری اور سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کا ہر بلند اور اعلیٰ مقصد ایک نئی اور تازہ صبح کی نمود ہوتا ہے۔ اس صبح کے طلوع ہونے سے، زندگی کا ایک نیا راستہ کھلتا ہے۔ یہ صبح ایک نئی کشمکش کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ یہ صبح ایک قیامت کی طرح ہوتی ہے جس سے پرانی اور فرسودہ قوتیں تہ و بالا ہو جاتی ہیں اور تازہ، زیادہ محکم اور موثر قوتیں ظہور میں آتی ہیں۔ افراد میں نئے ولولے اور امنگیں ابھرتی ہیں اور قوم کے آئیں اور ان کی رسوم میں زندگی اور تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ٭٭٭ (18) بنور دوش بیں امروز خود را ز دوش امروز را نتواں ربودن (یہ شعر ارمغان حجاز سے لیا گیا ہے) اقبال کے اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ اپنے آج کے دن کو گزرے ہوئے کل کی روشنی میں دیکھ گزرے ہوئے کل سے آج کے دن کو چھین نہیں سکتے۔‘‘ اقبال کے اس شعر کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے، ہمیں اس کے فلسفہ زماں، یا تصور وقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں اور موشگافیوں میں جانے کی بجائے سادہ انداز میں یہ جان لینا چاہیے کہ اقبال وقت کو ایک مسلسل رو خیال کرتا ہے اور اسے ندی یا پانی کے دھارے سے تشبیہہ دیتا ہے۔ جس میں دوش، امروز اور فردا، یعنی گزرا ہوا کل کا دن، آج اور آنے والا کل کا دن، یہ روز و شب کا سلسلہ، سب کے سب اسی بہتے ہوئے مسلسل دھارے کے مختلف روپ ہیں جو ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں کہ ایک سے ایک متصل ہی نہیں، بلکہ ایک سے دوسری کڑی، اور دوسری کڑی سے تیسری کڑی خود بخود ابھرتی چلی جاتی ہے۔ اسی سلسلے میں واقعات و حادثات ظہور میں آتے ہیں۔ اسی سلسلے سے ہستی کے مختلف روپ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ سلسلہ روز و شب، نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب، اصل حیات و ممتا یہ شعر’’ مال جبریل‘‘ کی نظم مسجد قرطبہ کے پہلے بند سے ہے اور اسی شعر سے اس بند کا آغاز ہوتا ہے جس میں اقبال’’ وقت‘‘ کی تصویر کھینچتا ہے اور اس کی غایت اور اصلیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی مجموعے میں اس کی ایک نظم’’ زمانہ‘‘ کے عنوان سے بھی ہے جس میں وقت اپنی زبان سے اپنی نوعیت اور کیفیت بیان کرتا ہے اور کہتا ہے: جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف مجرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ زمانے کی رو میں ایک لہر مٹ جاتی ہے اور دوسری نمودار ہوتی ہے اور پھر وہ غائب ہو جاتی ہے۔ شاعر اسے زمانے کی تسبیح روز و شب کے مختلف دانے کہتا ہے لیکن اس میں وہ یہ مصرع بھیکہتا ہے۔ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ یہ ’’ قریب تر کی نمود‘‘ امروز یاآج کا دن ہی ہے جو بڑا اہم ہے اور جس کا زمانہ مشتاق ہے۔ اقبال ہی کہتا ہے کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ لیکن اقبال نے آج کے شعر میں امروز کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ امروز یعنی آج کا دن ہی، اصل شے ہے لیکن آج کا دن دوش یعنی کل کے دن سے ابھرا ہے اسے کل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال نے ’’ دوش‘‘ کے لفظ کو ماضی کے مفہوم میں بیان کیاہے جو ایک دن پہ نہیں بلکہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے جس میں قرنہا قرن کی روایات پنہاں ہیں۔ انہی روایات نے آج کو جنم دیا ہے اور انہی روایات سے ہمارے آج کے دن کے خط و خال سنور سکتے ہیں۔ آض کے دن کو بسر کرنے والے کو اس ماضی سے مفر نہیں کیونکہ آج کا دن ان روایات ہی کی پیداوار ہے اور انہی کا ایک اہم جزو ہے جس کی الگ ہو کر کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اقبال اسی اعتبار سے رموز بیخودی میں، ماضی اور اس کی روایات کو ملت کا ’’ حافظہ‘‘ کہتا ہے کہ حافظے کے بغیر انسان ذہنی طور پر ایک صحیح قدم آگے کو نہیں اٹھا سکتا۔ اقبال نے اپنے شعر کے دوسرے مصرعے میں ز دوش امروز را نتواں ربودن کہا ہے یعنی کل سے آج کو چھینا نہیں جا سکتا حالانکہ وہ آسانی سے کہہ سکتا تھا ز دوش امروز را نتواں جدا کرد یعنی کل سے آج جدا نہیں کر سکتے۔ لیکن پہلے انداز بیان میں جو فصاحت و بلاغت ہے اہل ذوق سے پوشیدہ نہیں۔ ٭٭٭ (19) بایں بہانہ بدشت طلب زپا منشیں کہ در زمانہ ما آشنائے راہے نیست (یہ شعر’’ پیام مشرق‘‘ سے لیا گیا ہے) اس بہانے سے طلب کی منزل میں ہمت ہار کر نہ بیٹھ جا کہ ہمارے زمانے میں کوئی راستے سے آشنا نہیں ہے۔ اس خیال کو اقبال نے جگہ جگہ نئے نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ اور خیال کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ ہے کہ یہ اس کے فلسفہ حیات کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ جہاں زندگی کشمکش کا نام ہو وہاں خود شناسی، خود اعتمادی اور خود کاری لازمہ حیات ہوتے ہیں اور انسانوں کی کامیابی کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعمیر و تکمیل میں کسی دوسرے کے دست نگر نہ ہوں۔ اپنی منزل کا سراغ خود لگائیں اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے خود راستہ تلاش کریں اور سفر کے لئے کسی غیر کو راہنما بنانے کی زحمت بھی گوارا نہ کریں۔ درت نے ہر فرد بشر کے لئے اس کی زندگی کی تکمیل کے لئے برابر کے وسائل مہیا کئے ہیں۔ ان و سائل سے استفادہ کرنا انسان کا کام ہے جتنا کسی کا ظرف ہو گا اتنا ہی فیض یاب ہو گا اور جتنی ہمت سے کام لے گا اتنی ہی کامیابی ہو گی۔ بقول اقبال یہ دنیا ایک بزم مے ہے اور: ’’قسمت بادہ باندازۂ جام است اینجا‘‘ یہاں شراب میخواروں کے ظرف جام کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے وہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگر تیرا دامن تنگ بھی ہے تو تو اس پر قناعت نہ کر بلکہ اپنی تنگ دامانی کی فکر کر اور اس میں وسعت اور کشائش پیدا کرنے کی کوشش کر تاکہ تیرے دامن میں زیادہ سے زیادہ چیزوں کو سمیٹنے کی گنجائش پیدا ہو سکے۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے: تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی ہے قدرت کی عطا کی ہوئی استعدادوں اور قوتوں کو بروئے کار لانا، اور ان سے کماحقہ، مستفید ہونے اور زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کے لئے عزم و ہمت اورخود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے اور خود اعتمادی خود نگری کا دوسرا نام ہے یعنی یہ کہ انسان دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو دیکھے اپنی ہمت کو کام میں لائے اپنا رہنما آپ ہو۔ وہ کہتا ہے۔ ’’زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست‘‘ اپنی خاک سے وہ آگ تلاش کر جو نہیں ملتی اسے باہر تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے شاعر نے ایک اور غزل کے دو شعروں میں اسی نکتے پر روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ دونوں شعروں کا اسلوب الگ الگ ہے۔ سنئیے: تا کجا در تہ بال دگراں می باشی در ہوائے چمن آزاہ پریدن آموز آپ نے ننھے پرندوں کو بڑے پرندوں کے پروں کے نیچے آسودہ دیکھا ہو گا اور ان پرندوں پربھی نظر ڈالی ہو گی جو کھلی فضا اور ہوا میں اپنے بال و پر کے سہارے پرواز کرتے ہیں۔ اور جدھر چاہتے ہیں نکل جاتے ہیں۔ اقبال انسان کو دوسرے کے بال و پر میں سر چھپا کر بیٹھ جانے والوں کو تنبیہہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چمن کی کھلی فضا میں نکلو اور آزادانہ اڑنا سیکھو۔ یہی زندگی ہے۔ اسی غزل کا دوسرا شعر ہے: در بتخانہ زدم، مغ بچگانم گفتند آتشے در حرم افروز و تپیدن آموز یعنی میں نے بتخانے کا دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے مغ بچوں نے آواز دی کہ ہمارے آتشکدہ میں تلاش آتش کے لئے کاہے کو آیا ہے آگ کی حاجت ہے تو حرم ہی میں آگ بھڑکا اور وہیں تڑپنا سیکھ۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہے: حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپائے مردی ہمسایہ در بہشت اللہ کی قسم ہمسائے کی مدد سے بہشت میں جانا دوزخ کی عقوبت سہنے کے برابر ہے۔ انسان کی اپنی سعی و کوشش کے نتائج ہی اسے صحیح مسرت پہنچا سکتے ہیں۔ سفر زندگی میں منزل پہ چلنا اور اپنی ہمت سے چلنا زندگی میں بامراد ہونا ہے یہ سمجھ کر بیٹھ جانا کہ راستہ دکھانے والا کوئی نہیں تو راہ کیسے چلیں، زبوں ہمتی کی دلیل ہے۔ ٭٭٭ (20) فرد و قوم آئینہ یک دیگر اندر سلک و گوہر، کہکشاں و اختراند (یہ شعر ’’ رموز بیخودی ‘‘ سے لیا گیا ہے) فرد اور قوم ایک دوسرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ وہ موتی اور لڑی اور ستارے اور کہکشاں کی طرح ایک دوسرے سے باہمی ربط اور رشتہ رکھتے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے سے الگ نہیں کئے جا سکتے۔ ایک مشہور حکایت ہے جو عام طور پر تمثیل کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انسانی جسم کے اعضا نے یہ سوچا کہ ہم سب تو کام کرتے ہیں۔ جان کھپاتے ہیں اور یہ پیٹ بے کار بیٹھا ہماری محنتوں کا ثمر چٹ کر جاتا ہے۔ اس کا مقاطعہ کرنا چاہئے اور اسے نکھٹو ہونے کا مزہ چکھانا چاہیے۔ چنانچہ تمام اعضاء نے جدوجہد کرنا چھوڑ دیا۔ا ور رزق کا سلسلہ بند ہو گیا۔ جب پیٹ میں کچھ نہ گیا تو پیٹ کا جو حال ہونا تھا ہوا سارے کے سارے اعضاء نڈھال اور بیجان ہو کر رہ گئے۔ آخر ان کی ابتر حالت اور بے چارگی کو دیکھ کر انسانی دماغ کو ترس آیا۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو تم اس پیٹ سے الگ نہیں ہو تم سب کے سب انسانی جان کی خدمت کے گزار ہو۔ ہر ایک عضو جو کام انجام دیتا ہے اس سے اسے خود بھی فائدہ پہنچتا ہے اور سارے جسم کو بھی۔ اس تمثیلی حکایت سے فرد اور جماعت کے باہمی ربط کی نوعیت اور اہمیت واضح ہو جاتی ہے جماعت کے ساتھ ربط رکھنے ہی میں ہر عضو میں قوت اور زندگی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم اس ربط کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ زندگی کی اقدار کا سرمایہ، ملت ہی کے گنجینے میں ہوتا ہے۔ بنی نوع انسان صدیوں میں اپنے ارتقاء کے لئے جو کچھ پیدا کرتے رہتے ہیں فرد اس ورثے کا وارث بن جاتا ہے۔ اور اس ورثے سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔‘‘ زبان کو دیکھ لیجئے۔ یہ چیز ہزار ہا سال کے انسانی تجربات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ ایک شخص کی پیدا کی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ قیمتی دولت بھی جماعت ہی کا اندوختہ ہوتی ہے۔ جب فرد جماعت میں آتا ہے تو اس کی تنہائی، صحبت میں بدل جاتی ہے وہ خلوت سے جلوت میں آ جاتا ہے گویا اس کی وحدت کثرت میں بدل جاتی ہے۔ اور اس طرح اس میں وسعت آ جاتی ہے۔ اس کے کردار، اس کی شخصیت میں پھیلاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وسعت کے علاوہ، فرد ملت کے ربط کے سہارے، صحیح نشوونما بھی حاصل کرتا ہے۔ جماعت سے وابستہ ہونے سے اسے اس آئین کی پابندی کرنی پڑتی ہے جس کو جماعت ترتیب دیتی ہے۔ ندی کو دیکھ وکہ کس طرح کنارے اسے ادھر ادھر بھٹکنے سے روکے رکھتے ہیں اور حدود کی اس پابندی سے ندی کی روانی بلکہ اس کا وجود قائم رہتا ہے۔ اور وہ رواں دواں رہتی ہے۔ کناروں کی یہ پابندیاں نہ ہوں تو اس کا پانی ادھر ادھر بکھر کر رزق خاک ہو جائے۔ گویا یہ ربط جماعت فرد کے لئے ایک رحمت ہے اور اس کی زندگی کا کمال اس میں پوشیدہ ہے۔ ٭٭٭ (21) فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب، قلزم شود (یہ شعر’’ رموز بیخودی‘‘ سے لیا گیا ہے) فرد جب جماعت میں گم ہو جاتا ہے تو وہ ایک قطرے سے سمندر بن جاتا ہے۔ جس طرح خودی کے بارے میں اقبال کے پیش کئے ہوئے تصور سے بعض لوگوں کو دھوکا ہوا۔ اسی طرح بیخودی کے بارے میں غلط فہمی ہوئی۔ ہمارے ادب میں خودی، پندار اور غرور کا نام تھا اور تصوف اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی خودی مٹا کر اپنے روحانی جوہر کو ابھارنا چاہیے۔ گویا خودی، خود پرستی تھی اور خدا پرستی کے منافی تھی۔ لیکن اقبال نے اس تصور کے خلاف جہاد کیا۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کے بعد، جب اقبال نے ’’ رموز بیخودی‘‘ لکھی تو لوگ اور مخمصے میں پڑ گئے۔ کیونکہ انسانی زندگی میں دو متضاد صفات، یعنی خودی اور بیخودی کے بیک وقت پیدا ہونے سے ذہنوں میں خلجان پیدا ہوا۔ ان دونوں کا امتزاج لوگوں کے نزدیک ایک نا ممکن بات تھی، لیکن اقبال اس بات سے آشنا تھا کہ بیخودی بھی خودی کی طرح انسانی زندگی کا ایک پہلو ہے۔ یہ دونوں پہلو، مل کر انسانی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کرتے ہیں بیخودی کے معاملے میں بھی اقبال کا تصور، بیخودی کا روایتی تصور سے مختلف تھا۔ اس میں اقبال نے فرد اور ملت کے ربط کے بارے میں اپنا نقطہ نگاہ پیش کیا ہے۔ فرد کی ایک انفرادی حیثیت ہوتی ہے اور ساتھ ہی وہ ایک جماعت کا رکن یا حصہ بھی ہوتا ہے۔ یہیں آ کر خودی اور بیخودی کے ڈانڈے ملتے ہیں۔ فرد اپنے لئے زندہ ہوتا ہے اور قوم کے لئے بھی۔ اس مسئلے پر حکماء میں دو مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ ایک گروہ جس میں نطشے بھی تھا، وہ تھا جو فرد کو مطلق العنان رکھنے کا قائل تھا۔ تاکہ جماعت اس پر کسی طرح کی پابندیاں عائد نہ کرے اور وہ آزادانہ اپنے ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا جائے۔ دوسرے گروہ نے جس میں ہیگل بھی شامل تھا۔ جماعت کو غیر معمولی اہمیت دے کر فرد کی انفرادیت کو بے حقیقت بنا دیا۔ یہ مسئلہ صرف نفسیات کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے کا تعلق اخلاقیات، سیاسیات، اور معاشیات سے بھی ہے۔ اور اشتراکیت کے نظریات بھی اس کی ضد میں آ جاتے ہیں۔ جہاں جماعت کی حیثیت کے سامنے فرد کی آزادی ضمیر اور آزادی عمل بے حیثیت ہو کر رہ جاتی ہے۔ مغرب میں فرد کی حقوق طلبی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ جماعت کا حریف اور مقابل بن گیا۔ اقبال نے بیخودی کے مسئلے کی وضاحت کر کے اس تضاد کو مٹا دیا۔ا ور خودی اور بیخودی میں ایک صحت مندانہ امتزاج پیدا کیا۔ اقبال کا یہ تصور، حقیقت میں، اسلامی تصور پر مبنی ہے اسلام، اعتدال اور میانہ روی کا نام ہے۔ا س اعتدال اور میانہ روی سے اسلام نے فرد اور جماعت کو ایک دوسرے سے اس طرح پیوست کر دیا کہ دونوں کا تضاد اور دونوں کی باہمی مخاصمت کی صورت بدل گئی۔ اسلام دنیا کے مذاہب میں پہلا مذہب ہے جس نے عملی طور پر یہ واضح کر دیا۔ کہ فرد اور جماعت کا مفاد الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہے۔ دونوں کے وجود ایک دوسرے سے اس طرح سے مربوط ہیں کہ ایک کی زندگی کے ارتقا اور استحکام کا تصور، دوسرے کی زندگی کے ارتقاء اور استحکام کے بغیر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ آج کے شعر میں اقبال فرد کی زندگی کے ارتقا کو جماعت سے وابستہ ہونے ہی کو قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فرد کا جماعت میں گم ہو جانا ایسا ہی ہے جیسا ایک قطرے کا، جو اپنے آپ میں پھیلاؤ پیدا کرنے کا خواہاں ہے، سمندر میں گم ہو جانا تاکہ وہ قطرۂ ناچیز سے ایک وسیع قلزم بن جائے۔ ٭٭٭ (22) فردمی گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می پابند نظام (یہ شعر ’’ رموز بیخودی‘‘ سے لیا گیا ہے) یعنی ملت ہی سے فرد کا وقار ہوتا ہے اور ملت کا نظام افراد سے وابستہ ہے اقبال نے اپنی مثنوی ’’ رموز بیخودی‘‘ کے دیباچے میں چند جملے اس کتاب کے مقاصد کی تشریح کے سلسلے میں لکھے ہیں یہاں اس تشریح کا خلاصہ چند سادہ لفظوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ افراد کی زندگی میں تسلسل، وسعت اور استحکام پیدا کرنے کے لئے چند باتیں ضروری ہوتی ہیں۔ نفع بخش چیزوں سے فائدہ حاصل کرنا، ضرر رساں چیزوں کی روک تھام کرنا، عمل کی سمت متعین کرنا اور بلند حقیقتوں سے آشنا ہونا۔ اسی طرح قوموں کی زندگی بھی فرد کی زندگی کی طرح، انا یا خودی کی حفاظت، اس کی تربیت اور اس کے استحکام میں پوشیدہ ہے۔ قومی زندگی کا انتہائی کمال یہ ہے کہ قوم کے افراد کسی مسلم آئین کے پابند ہوں۔ اور اس پابندی کے ماتحت اپنے ذاتی جذبات اور خواہشات و مقاصد کی حدیں مقرر کریں تاکہ مختلف افراد کے انفرادی اعمال میں جو باہمی تباین ہے وہ مٹ جائے اور ساری قوم ایک مشترکہ قلب کے ماتحت سرگرم عمل ہو سکے ایک فرد کی صورت میں اس کا احساس نفس یعنی انا یا خودی کا احساس اور اس احساس کا تسلسل، اس کی قوت حافظہ سے ہوتا ہے اقوام کا احساس خودی اور اس کا تسلسل اور استحکام قومی روایات قومی تاریخ سے ہوتا ہے۔ گویا قومی تاریخ، قومی زندگی کے لئے قوت حافظہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے قوم کے جملہ اعمال میں ربط و نظم پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی سے قومی انا کا زمانی تسلسل محفوظ اور قائم ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ علم الحیات اور عمرانیات کا ایک اہم نکتہ ہے اور اسی کو مد نظر رکھ کر میں نے ملت اسلامی کی تنظیم اور اس کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالی ہے اور اس سے امت اسلامی کا صحیح تصور ذہن میں آتا ہے۔ اقبال، اس تمہید کے بعد مثنوی کے آغاز میں فرد اور ملت کے باہمی ربط کے معنی پر بحث کرتا ہے۔ اور پھر اس کی عملی صورتیں پیش کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک، جیسا کہ آج کے شعر کے مفہوم سے واضح ہے، فرد اور ملت کی تربیت اور استحکام کا انحصار اسی باہمی ربط پر ہے۔ ملت کے بغیر فرد کے کردار اور شخصیت کی صحیح تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی اور افراد کے بغیر ملت کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ فرد کا تنہا رہنا اور ملت سے بیگانہ ہونا، گویا زندگی کے مقاصد سے غافل ہونا ہے۔ اس سے اس کی ساری عملی قوتیں پریشان ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور مرکز سے دور جا پڑتی ہیں۔ قوم، فرد کی زندگی میں ضبط و نظم پیدا کرتی ہے اور اسی ضبط و نظم اور پابندی میں اس کی شان آزادی پوشیدہ ہے۔ شاخیں، کونپلیں، شگوفے پتے، درخت کے تنے سے پیوست ہو کر ہی پھیلتے پھولتے ہیں۔ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ ہر شاخ اور ہر پتے کی اپنی بھی ایک مخصوص حیثیت ہوتی ہے لیکن شجر سے منقطع ہو کر نہ شاخ میں روئیدگی رہتی ہے اور نہ پتا سر سبز رہ سکتا ہے۔ لفظ جب شعر سے الگ ہو جاتے ہیں تو ان کے معافی کا شیرازہ بکھر بکھر جاتا ہے۔ ٭٭٭ (23) اے امانت دار تہذیب کہن پشت پا بر مسلک آبا مزن (یہ شعر ’’ اسرار خودی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جو حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگا و جمنا کے تحت درج ہے) اقبال قومی اور ملی روایات کی اہمیت کا بہت قائل ہے۔ اور انہیں ملی زندگی کے استحکام کا ایک زبردست ذریعہ قرار دیتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ملی زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان روایات کو ملحوظ رکھا جائے اور آئندہ زندگی کی ترقی اور نشوونما میں انہیں مشعل ہدایت بنایا جائے چنانچہ آج کے شعر میں وہ اسی نقطے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے انسان تو اپنے آپ کو تہذیب کہن کا امین سمجھتا ہے۔ تجھے اپنے آباؤ اجداد کے مسلک اور طریقوں کو ٹھکرانا نہیں چاہیے۔ اقبال اس ضمن میں ایک حکایت لکھتا ہے جس میں وہ ایک شیخ او رایک برہمن کا ذکر کرت اہے اور پھر گنگا اور کوہ ہمالہ کا مکالمہ درج کرتاہے۔ وہ کہتا ہے کہ بنارس میں ایک برہمن تھا جو قدیم علوم کا ماہر اور فلسفہ و حکمت میں یکتا تھا۔ اسے حق پرستوں سے محبت تھی اور اس سلسلے میں اس کے خیالات اور افکار کا طائر بلند پروازیاں دکھاتا تھا۔ لیکن اس کے ذہن کی یہ کدو کاوش اسے کسی منزل پر نہ پہنچا سکی۔ وہ دانشمندوں اور فلسفیوں کی طرح مختلف مسائل کی گتھیاں ہی سلجھاتا رہا لیکن کوئی تسکین کا پہلو نظر نہ آیا اسی مایوسی کے عالم میں ایک دن وہ ایک شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنی بے سود کوششوں کا تذکرہ کیا اور اپنی حرماں نصیبی کا رونا رویا شیخ نے اس کی گفتگو سن کر فرمایا۔ ’’ تیرا ذہن ہمیشہ فضا میں پرواز کرتا ہے کبھی تجھے اس زمین کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ تجھے اس خاک سے بھی عہد وفا باندھنا چاہیے۔ ستاروں کی تلاش چھوڑ کر، زمین کے ذروں کو کریدنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بتوں سے بیزار ہو تو کافر ہے۔ کفر کا بھی ایک سلیقہ اور قرینہ ہوتا ہے۔ تجھے اپنے آپ کو اس کافری زنار پہننے کے لائق بنانا چاہیے۔ تو تو کافری میں بھی کامل نہیں ہو سکا ایمان کی دولت تجھے کیسے نصیب ہو گی؟ دیکھ ملی زندگی کا انحصار ایک مرکزیت اور جمعیت پر ہے۔ اور کفر میں بھی یہ شان پیدا ہو سکتی ہے تو پرانی تہذیب کا شیدائی ہے اس امانت کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اسی کے تحفظ میں آئندہ زندگی کی ترقیوں کا راز پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ تو اور میں دونوں اس راہ سے دور ہیں۔‘‘ اس کے بعد اقبال گنگا اور ہمالہ کا مکالمہ درج کرتا ہے۔ گنگا کی ندی اپنے پہ ناز کرتی ہوئی ہمالہ سے کہتی ہے کہ تیری بھی کیا زندگی ہے۔ بے حس و حرکت ایک جگہ کھڑا ہے مجھے دیکھ کہ کیسے خراماں خراماں دنیا بھر گھومتی ہوں۔ زندگی تو یہی ہے۔ ہمالہ نے جواب دیا کہ تجھے اپنے پر بڑا ناز ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ تیرا یہ خرام ناز ہی تیرے لئے سامان فنا ہے۔ تو اسی خرام ناز میں مست، اپنے آپ کو سمندر کی نذر کر دیتی ہے۔ زندگی تو اپنے آپ کو قائم رکھنے میں ہے مجھے دیکھ کہ صدیوں سے جم کر کھڑا ہوں کیسے کیسے سیلاب آتے ہیں اور گذر جاتے ہیں لیکن مجھے ہلا نہیں سکتے۔ میرے سینے میں لاکھوں پتھر ہے اور ان پتھروں میں چنگاریاں پوشیدہ ہیں۔ میرے سینے کی آگ تک سیلاب کی رسائی نہیں۔ اسی کشمکش نے میرے اندر ہزاروں، لاکھوں لعل و جواہر بھر دئیے ہیں تیری زندگی کی کیفیت یہ ہے کہ سمندر میں ڈوب کر ختم ہو جاتی ہے۔ اور آسماں کے ستارے میری چوٹیوں کو چومتے ہیں۔ میں صدیوںکی روایات زندگی کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں اور اس لئے مضبوطی سے قائم ہوں۔ (24) گر نہ گردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را نا ارجمند (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ مقصد حیات مسلم اعلائے کلمتہ اللہ و جہاد است‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال کا یہ شعر اس کی مثنوی اسرار خودی کے جس باب سے لیا گیا ہے وہ کئی ایک اعتبار سے اہم ہے اس باب میں وہ اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد کلمہ حق کا اعلان ہے اسی ضمن میں وہ جہاد کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر جہاد کا محرک جوع الارض ہو یعنی محض کسی خطہ زمین کو حاصل کرنا ہو تو ایسا جہاد مذہب اسلام میں حرام ہے چنانچہ آج کے شعر میں اقبال، جہاد کے اس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ہماری تلوار حق کی خاطر نہ اٹھے تو ہماری جنگ ہماری قوم کے لئے، ناشائستہ بات ہو گی۔ اقبال اس باب کے آغاز میں لکھتا ہے کہ مسلمان تو اللہ کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے اور اس کی طبیعت میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بڑا پیارا مصرع کہتا ہے۔ ’’مسلم ار عاشق نباشد کافر است‘‘ کہ مسلمان اگر عاشق نہ ہو تو وہ کافر ہے پھر اس کے بعد کہتا ہے کہ مسلمان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، غرض ہر عمل اور ہر حرکت حق کے تابع ہوتی ہے۔ اور اس کی ہر خواہش میں رضائے حق سما جاتی ہے۔ مومن کا یہی انداز، یہی کردار، گویا اعلان حق ہوتا ہے۔ یعنی وہ زبان سے نہیں وعظ سے نہیں۔ بلکہ اپنے عمل سے اپنے کردار کی قوت سے اعلان کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کی ہر حرکت سے، راہ حق تلاش کرتا دکھائی ہے۔ اور اس کا ہر قدم اسے حق کے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے۔ زندگی کے دو اہم پہلو ہوتے ہیں۔ صلح و جنگ مومن کی صلح کا مقصود اگر اللہ کی رضا جوئی کے علاوہ کچھ ہو تو وہ صلح، شر ہے۔ اور اگر جنگ سے مقصود، حق ہے تو وہ جنگ بھی خیر ہے نیکی ہے۔ اقبال نے اسی باب میں ایک شاہنشاہ کا تذکرہ کیا ہے جو تسخیر ممالک میں مصروف تھا۔ وہ حضرت میانمیرؒ کا مرید تھا۔ مہم پر جانے سے پہلے وہ حضرت موصوف کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور دعا اور برکت کی التجا کی۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے اس جنگ میں فتح مندی عطا کرے حضرت میانمیرؒ نے اس کی گفتگو سنی اور خاموش رہے۔ ایک مرید باصفا نے بڑھ کر ایک درہم خدمت میں پیش کیا اور عرض کی کہ یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں حضرت شیخ میانمیرؒ نے فرمایا کہ یہ نذرانہ بادشاہ کا حق ہے اسے دو۔ وہ دولت کے لئے محتاج ہے اور شہنشاہ ہو کر بھی گدا ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہونے کے باوجود مفلس ہے۔ زمین کو تاراج کر رہا ہے اور اس کا نام تسخیر رکھا ہے جو تلوار غیر اللہ کے لئے اٹھائی جائے وہ تلوار اٹھانے والے کے سینے پر ہی آگے لگتی ہے۔ اقبال کے ان افکار میں جو حقائق بھرے ہوئے ہیں۔ ان کا اظہار اٹھارہ دن کی جنگ میں ہوا۔ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ حق کے لئے لڑنا اور ہے اور زمین کے لئے لڑنا اور۔ ٭٭٭ (25) غافل از حفظ خودی یک دم مشو ریزۂ الماس شو، شبنم مشو (یہ شعر’’ اسرار خودی‘‘ سے لیا گیا ہے جو ’’ حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال خودی کو قائم رکھنے اور اس کی نگہداشت اور حفاظت کے سلسلے میں دو اور داستانیں بیان کرتا ہے، ایک پیاسے پرندے کی داستان اور دوسری ہیرے اور کوئلے کی، پہلی داستان میں وہ ایک طائر تشنہ کام کا تذکرہ کرتا ہے جو پیاس سے نڈھال ہو کر پانی کی تلاش میں نکلتا ہے۔ پہلے اس پرندے کی نظر ایک الماس کے ٹکڑے پر پڑتی ہے جسے وہ پیاس کی تیزی میں پانی کا قطرہ سمجھ لیتا ہے۔ اور اس پر بے ساختہ لپکتا ہے لیکن چونچ مارے ہی اسے اپنی غلط فہمی کا احساس ہو جاتا ہے۔ پارۂ الماس اسے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اے اسیر ہوس تو لالچ میں آپ ہی بھول گیا۔ میں قطرۂ آب نہیں ہوں کہ کسی کی پیاس بجھاؤں۔ میری آب سے پرندوں کی منقاریں ٹوٹ جاتی ہیں اور انسانوں کا خون ہو جاتا ہے۔ پرندہ مایوس ہو کر آگے کو اڑتا ہے اور ایس پھول کی پتی پر شبنم کا ایک قطرہ نظر آتا ہے جو سورج کی شعاعوں سے لرزاں ہے۔ یہ یوں ہے جیسے کوئی ستارہ آسمان سے ٹوٹ کر روئے زمین پہ آ گرا ہو اور لمحہ بھر کی نمود کی خواہش میں کہیں ابھر آیا ہو۔ زندگی سے لذت اندوزی کی خواہش میں یونہی کلیوں اور پھولوں سے لپٹ کر اپنا دل بہلا رہا ہو۔ اور حیثیت یہ ہو کہ گویا کسی عاشق غم دیدہ کے آنسو کی طرح، نوک مژہ پر پہنچ کر، یوں لرز رہا ہو کہ اب گرا کہ گرا۔ لیکن پیشتر اس کے کہ شبنم کا یہ قطرہ رزق خاک بنتا، طائر تشنہ کام نے اسے دبوچ لیا۔ اقبال اس داستان کو ختم کرنے کے بعد اس سے جو نتیجہ نکالتا ہے وہ ہمارے آج کے شعر کا مضمون ہے اقبال کہتا ہے کہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری خودی سلامت رہے تو اس کی حفاظت سے ایک لحظہ بھی غافل نہ ہو۔ تجھے اس خودی کی حفاظت میں ریزۂ الماس بننا چاہیے، قطرۂ شبنم نہیں بننا چاہیے۔ اسی بات کی تائید میں اقبال ایک اور داستاں سناتا ہے جس میں کوئلہ، الماس سے یعنی ہیرے سے کہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ہمدم و ہمسر ہیں۔ ایک جگہ رہتے سہتے ہیں پھر کیا بات ہے کہ میں رزق کان ہو کر رہ گیا ہوں اور تو شہنشاہوں کے تاج کی زینت بنتا ہے میری زندگی کا انتہائی کمال یہ ہے کہ کسی چولہے کے سینے کو چمکا دوں اور پھر خاکستر کا ڈھیر بن جاؤں اور پھر جو وہاں سے گذرے مجھے پامال کرتا ہوا چلا جائے میری ہستی کیا ہے۔ دھوئیں کی ایک لہر کہ منجمد ہو کر رہ گئی ہو۔ اور تو ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے کبھی شاہوںکی آنکھوں کا نور اور کبھی کسی جری سپاہی کے دستہ خنجر کی آرائش۔ الماس نے جواب دیا۔ ہم دونوں خاک ہیں لیکن خاک پختگی سے اپنی قسمت چمکاتی ہے۔ میں اپنے گرد و پیش سے ٹکراتا رہا اور اس کشمکش میں سخت پتھر بن کر ابھرا۔ اسی پختگی نے مجھ میں نور بھر دیا اور میرے سینے کو منور کر دیا۔ تو اس لئے خوار و ذلیل ہے کہ تیرا وجود ناپختہ اور خام ہے تجھے تیری نرمی نے مارا ہے اس نرمی، اس انفعالی حالت کو چھوڑتاکہ تو میری طرح ہیرا بن جائے۔ دیکھتا نہیں کہ کعبے کا سنگ اسود خاک ہی تو ہے لیکن اپنی صلابت اور سختی سے حرم کی زینت بن گیا ہے اور اس کا رتبہ طور سے بھی بلند ہے اور آج اسود و احمر سب اسے چومتے ہیں۔ در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی، ناکسی، ناپختگی است ٭٭٭ (26) ہر کہ دانائے مقامات خودی است فضل حق داند،ا گر دشمن قوی است (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ نوجوانے از مرو کہ پیش حضرت سید مخدوم علی ہجویریؒ آمدہ از ستم اعدا فریاد کرد‘‘ ) اقبال اس شعر میں کہتا ہے کہ جو شخص خودی کے مقامات سے آشنا ہوتا ہے اگر اس کا دشمن قوی اور زبردست ہو تو وہ اس بات کو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھتا ہے۔ اقبال نے اپنی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کے ایک باب میں جہاں سے یہ شعر ماخوذ ہے ایک حکایت بیان کی ہے حکایت یہ ہے کہ ایک شخص، ایران سے چل کر لاہور آیا اور حضرت سید مخدوم علی ہجویری، داتا گنج بخشؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کہا۔ یا حضرت میں دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں، میری جان پہ بنی ہوئی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان مصائب سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں۔ آپ سے امداد کے لئے حاضر خدمت ہوا ہوں۔ حضرت سید مخدوم نے اس کی داستان سنی اور پھر ارشاد فرمایا۔ اے نوجوان تو زندگی کے راز سے نا آشنا ہے۔ اس کے نشیب و فراز کو نہیں سمجھتا۔ تو دشمنوں کی طاقت اور قوت سے اس لئے خائف ہے کہ تو نے اپنی چھپی ہوئی اور پوشیدہ قوتوں کا اندازہ نہیں لگایا۔ پتھر جب اپنے آپ کو شیشہ سمجھ لے تو پھر وہ شیشے ہی کی طرح نازک شے بن جاتا ہے۔ اور ٹوٹ جاتا ہے ایک رہو جب اپنے آپ کو کمزور خیال کرتا ہے تو اس کے جان و مال رہزن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ تو اپنے آپ کو آب و گل کا پتلا کیوں سمجھتا ہے۔ اپنی اس مٹی سے شعلہ طور پیدا کر۔ تیری نظر دشمنوں پہ کیوں پڑتی ہے۔ نظر اپنوں، عزیزوں اور دوستوں پہ کیوں نہیں پڑتی۔ تجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس انسان کو تو اپنا دشمن تصور کرتا ہے وہ دراصل تیرا یار ہے اور اس کے وجود سے تیری زندگی کی رونق قائم ہے انسانی زندگی میں اگر تصادم نہ ہو، اگر رکاوٹوں کا سامنا نہ ہو، تو اس کی قدرتی اور فطری استعدادیں کبھی خواب سے بیدار نہ ہوں۔ انسان کے لئے سب سے اہم چیز اس کی خود اعتمادی ہے۔ اگر اسے اپنا یقین ہے تو اس کا اللہ پر بھی بھروسا ہے۔ اگر اس کی ہمت قوی ہے تو اس کے راستے کا ہر بڑے سے بڑا پتھر پانی کی طرح اس کے آگے بہہ جاتا ہے۔ ایک باہمت انسان تو ایک تند رو سیل کی طرح ہے جس کے بلند و پست کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ زندگی کی راہوں میں رکاوٹیں نہ ہوں تو زندگی کا کارواں سست پڑ جائے۔ حیوان کی طرح کھانا پینا اور سونا کیا شے ہے۔ اگر تیری خودی استوار نہیں تو تیرے زندہ رہنے کا کیا فائدہ؟ اقبال اس داستان سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انسانی شخصیت اور خودی کی تعمیر اور اس کے استحکام کے لئے خود اعتمادی بے حد لازمی ہے۔ اس خود اعتمادی سے انسان کی قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اور اہمت ابھرتی ہے۔ اور جب ہمت ابھر کر قوی ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے۔ بلکہ جب مشکلات شدید ہو جائیں تو بلند حوصلہ انسان، بجائے اس کے کہ ہمت ہار کے بیٹھ جائے وہ زیادہ دلیری اور جسارت اور فخر کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ان مشکلات سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ مرزا غالب ایسے ہی مقام کے بارے میں کہتا ہے۔ ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر پاؤں میں آبلے پڑے ہوں اور منزل ابھی دور ہو اور پھر اچانک سامنے خار زار آ جائے تو یہی وہ مرحلہ ہے جہاں قوی ہمت انسانوں کے جوہر کھلتے ہیں اسی طرح قوی دشمن کے مقابلے پہ آنے ہی سے انسان کو اپنی شجاعت دکھانے کا موقع ملتا ہے اور یہ فضل حق ہے۔ (27) از سوال آشفتہ اجزاے خودی بے تجلی نخل سینائے خودی (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ دربیان اینکہ خودی از سوال ضعیف میگردد کے تحت درج ہے‘‘ ) اقبال کا یہ شعر جس جگہ سے لیا گیا ہے وہاں وہ اس مسئلے پر بحث کرتا ہے کہ احتیاج، بہادر انسانوں کو بھی بزدل بنا دیتی ہے۔ بمصداق اس شعر کے کہ: آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج احتیاج است، احتیاج است احتیاج یعنی جو چیز شیروں کو لومڑی مزاج بنا دیتی ہے وہ حاجت مندی ہے جس سے ہر انسان وک بچتے رہنا ضروری ہے آج کے شعر میں اقبال یہ کہتا ہے کہ سوال کرنے سے انسان کی خودی کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور خودی کا طور بے نور ہو کر رہ جاتا ہے۔ بلند ہمت انسان کسی دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور اپنی حاجت مندی کا اظہار نہیں کرتا۔ وہ ذرا سی ضرورت کے لئے بھی کسی دوسرے کا دست نگر نہیں ہوتا۔ کینکہ اس ذرا سی حرکت سے بھی اس کی غیرت کو ٹھیس لگتی ہے اور غیرت کا تقاضا یہ ہوت اہے کہ انسان اپنی ہمت سے کام لے اور اپنی بلند نظری کو قائم رکھے۔ اقبال اس مسئلے کے بارے میں کہ سوال سے انسان کی شخصیت کی عظمت میں فرق آ جاتا ہے اور اس کی خودی ضعیف ہو جاتی ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ ایک مرتبہ جناب حضرت عمر فاروق اونٹ پر سوار جا رہے تھے کہ ان کا تازیانہہاتھ سے گر گیا وہ بجائے اس کے کہ کسی دوسرے سے کہیں خود اونٹ سے اترے اور زمین پر سے تازیانہ اٹھا لیا۔ اور کسی اور کا احسان نہ اٹھایا۔ اس لئے کہ ایسا کرنا ان کی بلند ہمتی کے شایان شان نہ تھا۔ اقبال اس سلسلے میں ان تمام خامیوں کو جو دست سوال دراز کرنے سے انسان میں پیدا ہوتی ہیں بڑی خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو انسان ایسا کرتا ہے وہ اس بچے کی طرح ہے جو چھوٹی سی چھڑی کی سواری کرتا ہوا چلتا ہے۔ جسے طفل نے سوار کہا جاتا ہے۔ ایسا مفلس آدمی گدائی سے اور بھی مفلس ہو جاتا ہے۔ تشنہ لب بر ساحل دریا ز غیرت جاں دہم گر بہ موج افند گمان چین پیشانی مرا کہ اگر میں سمندر سے پانی لینے جاؤں اور مجھے یہ شبہ ہو جائے کہ یہ سطح آب پر ابھرتی ہوئی لہریں نہیں ہیں بلکہ یہ سمندر کی پیشانی پر تیوری پڑی ہوئی ہے تو میں یہ گوارا نہ کروں اور پیاسا رہ کر اپنی جان دے دوں۔ اسی بات کو غالب نے اردو میں یوں کہا۔ دیوار بار منت مزدور سے ہے خم اے خانماں خراب نہ احسان اٹھائیے عرفی شیرازی نے بلند ہمتی کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ اقبال کے نظرئیے کی بڑی صراحت سے وضاحت کرتی ہے عرفی کہتا ہے۔ اقبال کرم می گزد ارباب ہمم را ہمت نخورد نیشتر لا و نعم را جب انسان کسی سے کچھ مانگنے جاتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سوال کو قبول کر لے اور کوئی چیز بخشش کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انکار کر دے عرفی کے نزدیک یہ دونوں صورتیں اہل ہمت کی نظر میں مذموم ہیں۔ عربی میں لا نہیں اور نعم ہاں کے معنوں میں آتا ہے جو کسی سوال کے جواب کی دو مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں عرفی کہتا ہے: کہ بخشش کو قبول کرنا ارباب ہمت کو کاٹ کھاتا ہے ان کی ہمت’’ نہیں‘‘ اور’’ ہاں‘‘ کے سننے کی تاب نہیں لا سکتی۔ ٭٭٭ (28) در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو مرحلہ اول ’’ اطاعت‘‘ کے تحت درج ہے) اے غفلت شعار انسان، اطاعت کو اپنا شعار بنا لے۔ کیونکہ اس اطاعت میں جو بظاہر ایک طرح کا جبر ہے اختیار کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اقبال اس شعر میں اطاعت کا وہ تصور پیش کرتا ہے جو اسلامی الہیات کے تصور سے مناسبت رکھتا ہے جس میں جبر و اختیار کے مسئلے میں اس چیز کی وضاحت کی جاتی ہے کہ صحیح، سچی اور بلند آزادی، حقیقت اور اطاعت ہی میں پوشیدہ ہے۔ اقبال کے نزدیک ا طاعت سے مراد پابندی فرائض ہے۔ جو ایک مومن کے لئے اشد ضروری ہے بلکہ ہر انسان کے لئے لازمی ہے۔ اقبال مثنوی اسرار خودی میں، خودی کی تعمیر و تربیت کے سلسلے میں تین مرحلوں کا ذکر کرتا ہے وہ تین مرحلے حسب ذیل ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت کا دوسرا ضبط نفس کا اور تیسرا نیابت الٰہی کا اطاعت کے سلسلے میں وہ اونٹ کی مثال پیش کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اس جانور کو دیکھو کہ اس کی زندگی کا شعار خدمت اور محنت ہے جسے وہ نہایت صبر و استقلال سے انجام دیتا ہے۔ کس سبک خرامی سے چلتا ہے اور صحرائے ریگ میں ربرو کو اپنے دوش پہ اٹھائے چلا جاتا ہے اپنے خرام کی سر مستی میں غرق منزل کی طرف چلا جاتا ہے۔ اور اپنے سوار سے کہیں زیادہ صابر ہوتا ہے یہ کہنے کے بعد اقبال اس نکتے کی طرف آتا ہے کہ اونٹ کی اطاعت ہمارے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ہوا کو دیکھو کہ زندان گل میں اسیر ہو کر خوشبو کو آغوش میں لے لیتی ہے۔ قطرۂ خون جب نافہ آہو میں بند ہو جاتا ہے تو مشک بن جاتا ہے سیارے دستور و آئین کے ماتحت گھومتے ہے۔ اور اپنے منصب میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ یہی پابندی آئین ہے جو قطروں کو بہم کر کے سمندر بنا دیتی ہے اسی پابندی آئین سے ذرے ایک دوسرے سے پیوست ہو کر صحرا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ آئین و نظام کی پابندی اور اطاعت ہر شے میں ایک قوت بھر دیتی ہے بلکہ قوت کا سرچشمہ ہی یہی اطاعت آئین ہوتی ہے۔ اس کے بغیر کسی جماعت یا ملت میں استحکام پیدا نہیں ہوتا۔ اطاعت سے قوائے انسانی میں مرکزیت پیدا ہوتی ہے اور عمل کی قوتوں میں بیداری اور شدت آ جاتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسلام کے پیش کردہ احکام کی اطاعت کرے اور اس آئین کی پابندی کرے جو دین اس کے لئے وضع کرتا ہے جب تمام افراد اس پابندی میں ایک دوسرے کے برابر کے شریک ہوں گے تو ان میں یگانگت اور یکجہتی پیدا ہو گی اور یگانگت اور یکجہتی بذات خود ایک قوت ہے۔ ٭٭٭ (29) کارواں ہا از درایش گام زن در پے آواز نایش گام زن (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ قافلے اس کی بانگ درا سے رواں دواں ہیں۔ اور اس کے ساز کی آواز پر کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی ضمیر اور اشارہ اس شعر میں شاعر کی طرف ہے۔ اقبال اس شعر میں شاعر کے منصب اور اس کے کلام کی اثر انگیزی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ شعر اقبال کی مثنوی اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ جس میں ایک با شعر و ادبیات کی حقیقت اور اس کی اصلاح کے بارے میں ہے۔ فنون لطیفہ اور بالخصوص فن شعر و ادب کے بارے میں اقبال کا ایک مخصوص نظریہ تھا۔ جسے ہم نظریہ افادیت کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ صرف اس شاعری کا مداح ہے جو انسان کے کردار اور اس کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہو۔ جو انسان کی خودی کو محکم اور استوار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ چنانچہ وہ اپنی ایک چھوٹی سی نظم جس کا عنوان ’’ دین و ہنر‘‘ ہے کہتا ہے۔ سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا شانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و افسانہ گویا اگر شاعری ہمارے کردار، ہماری شخصیت اور ہماری خودی کی حفاظت کرے تو وہ شاعری سراپا زندگی ہے۔ اور اگر اس میں یہ جوہر نہیں ہیں تو شعر و فنون یہاں تک کہ حکم و حکمت، دین و سیاست سبھی افسانہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ جس کا مصرف تفریح کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اقبال فنون لطیفہ اور شعر و ادب کو ایک بلند مقام دیتا ہے چنانچہ انہی تین شعروں میں جب وہ یہ کہتا ہے کہ: گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یکدانہ کہ یہ سب چیزیں نایاب موتیوں کی طرح ہیں اور بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ تو وہ ان کے بلند مقام ہونے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ اسرار خودی میں مذکورہ بالا باب میں شاعر کے متعلق کہتا ہے۔ سینہ شاعر تجلیز ار حسن خیزد از سیناے او انوار حسن از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از افسون او محبوب تر اقبال شاعر کے دل و دماغ کو حسن کی تجلی زار کہہ کر پکارتا ہے۔ اس کے قلب کو انوار حسن کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ شاعر کی نگاہیں حسین شے کو حسین تر بنا دیتی ہیں۔ شاعر فطرت کی باز آفرینی اور نقش آفرینی میں بھی شریک ہوتا ہے۔ البتہ اقبال اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ اس کے اشعار میں جادو کا سا اثر ہونا چاہیے وہ سحر ہونا چاہیے۔ جو افراد اور ملت کو ایک زندگی عطا کرے۔ اگر شعر انسان کو کمزور، کم ہمت اور سکون طلب بنا دے تو وہ بے کار ہے۔ وہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ: ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دین ہوئے ہیں بیگانہ شعر میں علم و حکمت کے جو گوہر ہوتے ہیں وہ قوم و ملت کے لئے زندگی کے خزانے بھی ہونے چاہئیں۔ شاعر کا کام قوم کو بیدار کرنا ہے سلانا نہیں۔ ٭٭٭ (30) ایں علف زار جہاں ہیچ است ہیچ تو بریں موہوم اے ناداں مپیچ! (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ جو ’’ مسئلہ نفی خودی از مخترعات اقوام مغلوبہ بنی نوع انسان است‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال اپنی مثنوی اسرار خودی کے ایک باب میں جہاں سے یہ شعر لیا گیا ہے اس بات پہ بحث کرتا ہے کہ وہ نظریہ حیات جو خودی کی نفی کرتا ہے۔ دراصل مغلوب اقوام کا وضع کیا ہوا ہوتا ہے۔ مغلوب اور محکوم قومیں اپنے میں اتنی سکت نہیں پاتیں کہ وہ غالب قوموں کا مقابلہ کر سکیں چنانچہ وہ بجائے اس کے کہ خود ابھریں اور ابھر کر اپنی زندگی میں توانائی پیدا کریں۔ وہ یہ کوشش کرتی ہیں کہ غالب اقوام کو ایسے رستے پہ چلائیں جس سے ان کی خودی کی تمام قوتیں رفتہ رفتہ ضعیف ہو جائیں۔ اقبال اس سلسلے میں ایک دلچسپ قصہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں کسی سبزہ زار میں بھیڑیں رہتی تھیں۔ سبزہ زار میں چراگاہوں کی کثرت تھی اور کھانے پینے کے لئے ہر شے وافر تھی۔ اس آزاد فضا میں زندگی کی کوئی راحت ایسی نہ تھی جو انہیں میسر نہ تھی۔ کسی دشمن کا کھٹکا نہ تھا۔ اچانک بدقسمتی سے ساتھ کے جنگل سے شیروں نے سر اٹھایا۔ اور بھیڑوں کی چراگاہوں پر جھپٹ پڑے۔ شیر کا کام تشدد اور تندہی سے شکار پر جھپٹنا۔ اسے مار گرانا اس کا روز مرہ کا مشغلہ ہے جنگل کے شیروں کی اس یلغار نے بھیڑوں کی آزادی چھین لی اور خونریزیوں سے سبزہ زار کو ایک خونیں میدان بنا دیا عجب بے چارگی کا عالم تھا۔ بھیڑوں کو کوئی مداوا نہ سوجھتا تھا۔ آخر ایک بھیڑ کو جو زیرک، یعنی تجربہ کار یعنی گرگ باراں دیدہ تھی۔ ایک تدبیر سوجھی وہ زمانے کی ستائی ہوئی اور گردش تقدیر سے نالاں تھی۔ اس نے سوچا کہ جب تک کوئی حیلہ نہ سوچا جائے ان شیروں سے نمٹنا مشکل ہے۔ عقل سے کام لینا چاہیے۔ کمزوری اور غلامی میں قوت حیلہ ہی کارگر ہو سکتی ہے۔ انتقام کا جذبہ جب زور پکڑتا ہے تو عقل غلام فتنہ اندیشی پہ اتر آتی ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ: ’’ ہماری مشکلات کا کوئی حل نہیں۔ بھیڑ کا شیر سے مقابل ہونا ساعد سمیں کا فولادی پنجے سے نبرد آزما ہونا ہے۔ وعظ و نصیحت سے شیر کو رام نہیں کیا جا سکتا۔ شیر نر بھیڑ نہیں بن سکتا۔ جسمانی توانائی کا فرق یوں نہیں مٹ سکتا۔ البتہ شیروں کے آگے کوئی اور چال چلنی چاہیے۔‘‘ چنانچہ اس نے شیروں سے خطاب کر کے کہا کہ دیکھو ہمیں قدرت نے روحانی قوتیں عطا فرمائی ہیں اور ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ تک وہ آسمانی پیغام پہنچا دیں۔ تمہیں ان برے کاموں سے، جو تمہارا شعار بن چکا ہے توبہ کرنی چاہیے۔ اس میں تمہارے لئے سراسر خسارہ ہے۔ تمہیں اپنی بہتری کی کوئی صور سوچنی چاہیے۔ زور آور اور تندی اور سختی کرنے والا، شقی ہوتا ہے۔ زندگی تندی سے نہیں بلکہ نرمی سے بنتی ہے۔ خودی کو یکسر ترک کرنے ہی میں فلاح ہے نیک روحیں گھاس پھوس کھاتی ہیں۔ ترک گوشت خوری کی عادت خدا کی نظروں میں مقبول ہے۔ جنت ضعیفوں کے لئے ہے عظمت اور سطوت غرور کی علامت ہے تنگدستی ہی میں امیری کا راز پوشیدہ ہے۔ دیکھ لو ایک تنہا دانے پر کبھی بجلی نہیں گرتی۔ بجلی کھلیان ہی کو جلاتی ہے۔ بھیڑوں کو مارنے کی بجائے اپنے آپ کو مارو۔ا سی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ایں علف زار جہاں ہیچ است، ہیچ تو بریں موہوم، اے ناداں مپیچ دنیا کی یہ چراگاہ کبھی بھی نہیں، ہیچ اے نادانوں اس موہوم شے کے پیچھے کیا پڑے ہو۔ شیر اپنی سخت کوش زندگی سے اکتا چکے تھے اس نصیحت سے ان کے دل میں آسائش کا احساس تیز ہو گیا۔ اور آخر کار وہی زندگی اختیار کر لی اور ایک عرصے کے بعد یہ غالب حیوان بھیڑ بن کر رہ گیا ایک بیدار قوم کا فرد، شیر، بھیڑ بن گیا اور اس انحطاط کو فخریہ طور پر تہذیب کا نام دیا۔ ٭٭٭ (31) از محبت چوں خودی محکم شود قوتش فرماں دہ عالم شود (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے۔ جو ’’ خودی از عشق و محبت محکم میگردد‘‘ کے تحت درج ہے) اس مسئلے پر بحث کرنے کے بعد کہ خودی سوال کرنے سے ضعیف ہو جاتی ہے اقبال اس موضوع کی طرف آتا ہے کہ جب خودی عشق و محبت سے استحکام حاصل کرتی ہے تو نظام عالم کو مسخر کر لیتی ہے۔ اس ضمن میں اقبال حضرت بو علیؒ قلندر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ حضرت بو علی قلندر کے ایک مرید بازار میں گذر رہے تھے۔ اور اپنے مرشد کی یاد میں سرشار تھے۔ آگے سے عامل شہر کی سواری آ رہی تھی۔ جلو میں چوبداروں اور غلاموں کا ہجوم تھا۔ ان کے پیشرو نے آواز دی کہ آگے سے ہٹ جاؤ۔ حضور کی سواری آ رہی ہے۔ لیکن وہ مرید باصفا اپنے خیالات میں محو بدستور چلتے رہے اور اس نعرے کی کوئی پروا نہ کی عامل شہر کے چوبدار نے، جو کبر و نخوت کا پتلا تھا لاٹھی اٹھا کر ان کے سر پر ماری اور انہیں زخمی کر دیا۔ فقیر با صفا دل آزردہ ہو کر اپنے مرشد کامل حضرت بو علیؒ کے حضور میں پہنچے اور فریاد کی اور زار زار روئے کہ مجھ پر عامل شہر کے نوکروں نے یہ ستم ڈھایا ہے۔ یہ المناک داستان سن کر حضرت بو علیؒ جوش میں آئے اور ان پر جلال کی کیفیت طاری ہو گئی غصے میں آ کر انہوں نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا کہ ’’ قلم اٹھاؤ اور اس فقیر کی طرف سے بادشاہ کو خط لکھو کہ تمہارے عامل شہر نے میرے ایک خادم کو یوں زد و کوب کیا ہے یہ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔ اس عامل کو واپس بلا لو ورنہ میں تمہارا ملک کسی اور کو سونپ دوں گا۔‘‘ بادشاہ وقت نے جب اس درویش حق پناہ کا خطر پڑھا تو لرزہ بر اندام ہو کر رہ گیا اس کے دل میں غم و اندوہ کا طوفان اٹھا۔ فوراً عامل شہر کی گرفتاری کا حکم دیا اور پھر حضرت امیر خسرو جیسے شاعر شیریں بیان اور صوفی باکمال سے درخواست کی کہ وہ سفیر کے فرائض سر انجام دیں۔ اور حضرت بو علیؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر معافی کی التجا کریں حضرت امیر خسرو نے ان کے حضور میں چنگ اٹھایا اور اپنی جادو بیانی اور سحر خوانی سے وہ نغمہ گایا کہ حضرت کا شیشہ دل پگھل گیا۔ وہ شوکت اور تمکنت جو چٹان کی طرح محکم اور پر وقار تھی ایک نغمے کی تاب نہ لا سکی۔ اقبال نے اس واقعہ میں حضرت بو علیؒ کی شخصیت کی عظمت اور ان کی خودی کے بلند مقام کی طرف اشارہ کای جس کے آگے شہنشاہ وقت کا سر جھک گیا تھا۔ اس سارے واقعہ میں مرید باصفا کی اپنے مرشد کامل سے محبت اور مرشد کامل کا محبوب حقیقی سے عشق نمایاں ہوتا ہے۔ جس کے سہارے ان کی شخصیت اور خودی کی عظمت ابھرتی اور بلند و محکم ہوتی ہے۔ اور اس میں اتنی قوت آ جاتی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس کے آگے جھک جاتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے دست و بازو میں تصرف الٰہی کی شان آ جاتی ہے۔ پنجہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود یعنی اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے اور اس سے معجزہ شق القمر ظہور میں آتا ہے ایسے عالم میں دارا و جمشید ایسے جلیل القدر شہنشاہ اس کے تابع فرمان ہوتے ہیں۔ اقبال خود ہی ایک اور جگہ کہتا ہے۔ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشاں کار ساز (32) زندگانی را بقا از مدعا ست کار دانش را درا از مدما ست (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ دربیان اینکہ حیات خودی از تخلیق و تولید مقاصد است‘‘ کے تحت درج ہے ) اقبال کائنات کے وجود کو خودی ہی کے اظہار کا نتیجہ سمجھتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ انائے ازلی یا انائے حقیقی کی خواہش نمود تھی جس سے یہ دنیا آشکار ہوئی اور زندگی وجود میں آئی۔ وہ خودی کو نظام عالم کی بنیاد قرار دینے کے بعد اس بحث کی طرف آتا ہے کہ خودی مدعا مقصد کی تخلیق سے قائم رہتی ہے۔ چنانچہ اس شعر میں اسی نکتے کو بیان کیا ہے اقبال کہتا ہے کہ زندگی کو مدعا ہی سے دوام حاصل ہوتا ہے زندگی کے کارواں کو رواں دواں رکھنے والی آواز درا مدعا ہی ہے اس کی تشریح اور توضیح کو ذرا اسی کے الفاظ میں سنئے جو اس نے ایک باب میں، جہاں سے یہ شعر لیا گیا ہے۔ لکھے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی کا راز جستجو میں پوشیدہ ہے اور جستجو کسی مقصد، کسی مدعا، کسی نصب العین کے حاصل کرنے کی آرزو سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مقصد، یہ نصب العین بلند سے بلند تر ہونا چاہیے۔ اور ایک مقصد کا حصول دوسرے بلند تر مقصد کا پیش خیمہ ہونا چاہیے تاکہ آواز کی تڑپ اور آگ ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔ آرزو سے انسانی دل زندہ رہتا ہے اور سینے میں رقص کرتا ہے آرزو اس جہاں رنگ و بو میں روح کی طرح ہے فطرت کی ہر شے اس آرزو کی کسک کو سینے میں چھپائے بیٹھی ہے آرزوؤں اور تمناؤں سے ہی خاک میں زندگی کی پرواز آتی ہے اقبال کے نزدیک انہی آرزوؤں اور تمناؤں سے زندگی کی حرکات ابھرتی ہیں۔ اور یہ حرکات حیات مقصد کے حصول کے لئے کمند کا کام کرتی ہیں۔ آرزو کی تڑپ اور کسک نہ ہو تو زندگی افسردہ اور مردہ ہو جائے۔ یہاں اقبال بڑے مزے کی بات کرتا ہے کہتا ہے کہ جانتے ہو ہمارا دیدۂ بیدار کیا ہے؟ یہ ہمارا شوق دیدار ہے۔ شوق دیدار کی بے تابی اور اس کی لذت ہے جس نے دیدۂ بیدار کی صورت اختیار کر لی ہے۔ کسک کے پاؤں کسک کو خوش خرامی پہ مجبور نہیں کرتے بلکہ خود خرامی کا ذوق شوق کسک کے پاؤں کو پاؤں بناتا ہے۔ ورنہ وہ بے سکت ہوتے۔ بلبل کی نغمہ سرائی کا شوق اس کی منقار کو کھلنے پر مجبور کرتا ہے۔ یعنی منقار، نغمے کا سرچشمہ نہیں بلکہ نغمہ منقار کا اصل سراغ ہے۔ آرزو کا سوز او راس کی تڑپ ہی انسانی ذہن کو شعور، فکر، تخیل او رہوشمندی بخشتی ہے۔ اور پھر اس سے انسانی دماغ، اس کا ادراک اور اس کے گوش و لب و چشم وجود میں آتے ہیں۔علم و فن بھی اسی سے ظہور پاتے ہیں اور یہ سب کچھ زندگی کے استحکام کے لئے ہوتا ہے اقبال کے نزدیک چمن کا مقصد غنچہ و گل کی نمود نہیں ہے۔ علم و فن سے صرف آگاہی اور معرفت حاصل کرنا نہیں۔ علم و فن زندگی کے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ آلات ہیں جس سے زندگی اپنی حفاظت کرتی ہے۔ اقبال یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اے انسان اگر تو راز زندگی سے نا آشنا ہے تو تجھے کسی مقصد کو سامنے رکھنا چاہیے ایسا مقصد جو آسمان سے بلند اور دل کو لبھانے والا ہو۔ جس میں اتنی دلکشی ہو کہ اس کے حصول کے لئے آرزوئیں بے تاب ہوں۔ اور زندگی سراپا تڑپ اورکسک بن کر رہ جائے یہی اس کا صحیح شعور ہے اور اسی میں زندگی کی لذت پوشیدہ ہے۔ زندگانی را بقا از مدعاست کار دانش را درا از مدعاست ٭٭٭ (33) تا قیامت قطع استبدا کرد موج خون او چمن ایجاد کرد (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا‘‘ کے تحت درج ہے) کہتے ہیں کہ اسلامی حریت کا مفہوم کیا ہے اور حادثہ کربلا کی تہہ میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ ذرا اس باب کا پہلا شعر ملاحظہ ہو۔ ہر کہ پیماں با ہو الموجود بست گردنش از بند ہر معبود رست جس کسی نے اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان باندھا، اس کی گردن دوسرے ہر معبور کے پھندے سے آزاد ہو گئی۔ اس باب میں اقبال حریت اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اسلامی آزادی در حقیقت، اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ہے۔ ایک مرد مومن جب بندۂ خدا بنتا ہے تو وہ دنیا کی تمام غلامیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور پھر اقبال، حضرت امام حسین کی طرف آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہا یک وقت ایسا آیا کہ خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا اور حریت اسلامی کی روح پر ضرب کاری لگی۔ ایسے نازک وقت میں امام حسین ایک ابر رحمت کی طرح ابھرے، کربلا کے صحرا میں برسے اور اس ویرانے پر لالہ کاری کر کے رخصت ہوئے۔ اقبال اس کی تصویر یوں کھینچتا ہے۔ خاست آں سر جلوۂ خیر الامم چوں سحاب قبلہ باراں در قدم بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ در ویرانہ ہا کارمد و رفت اور پھر یہ آج کا شعر آتا ہے۔ تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد کہ اس نے اپنا خون بہا کر جور و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے خون کی لہروں سے ایک نیا چمن رونما ہوا۔ اسلام میں جہت کی ایک تازہ روح پیدا ہوئی۔ دنیا کو معلوم ہے کہ وہ امام عاشقاں، پور بتولؓ، وہ بستان رسول کا سرو آزاد، امام حسین کسی دنیاوی غرض کے لئے میدان کربلا میں سربکف نہیں آئے تھے۔ ان کے پیش نظر، کوئی مادی حشمت و جاہ ہوتی، یا ان کا مقصود حصول سلطنت ہوتا تو وہ یوں بے سر و سامانی کے عالم میں، چند عزیزوں کے ہمراہ سفر نہ کرتے۔ وہ تو باطل کے خلاف اعلان کرنے آئے تھے۔ ان کا مقصد حق کا علم بلند کرنا تھا۔ وہ حق و صداقت کی خاطر ہی، دشمنوں کے مقابل آئے تھے، حق کی خاطر ہی خاک و خون میں غلطاں ہوئے اور شہادت پا گئے اور ان کی شہادت نے لا الہ کی بنیاد رکھی۔ اسی پر تو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری نے فرمایا تھا۔ شاہ است حسین، بادشاہ است حسین دین است حسین، دیں پناہ است حسین سر داد نداد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین اقبال کے اس شعر میں بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است پس بنائے لا الہ گردیدہ است اس امر کی طرف اشارہ ہے اور اسی حقیقت کی وضاحت ہمیں آج کے شعر میں ملتی ہے۔ ٭٭٭ (34) رمز قرآن از حسیں آموختیم ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ در معنی حریت اسلامیہ و حادثہ کربلا‘‘ کے تحت درج ہے) اس میں بھی حضرت امام حسین کی زندگی کے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے اور وہ ان کی شہادت کا واقعہ ہے۔ اس شہادت نے نہ صرف انہیں زندہ ٔ جاوید بنا دیا بلکہ اس سے ملت کو ایک نیا درس حیات بھی ملا۔ اسی بنا پر مولانا محمد علی جوہر نے فرمایا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد اقبال کا شعر پھر سے سنئے: رمز قرآن از حسین آموختیم ز آتش او شعلہ با اندوختیم ترجمہ ہے کہ قرآن پاک کے رموز و اسرار کو ہم نے حسین ہی سے سیکھا اور اسی کی آگ سے ہم نے بہت سے شعلے سمیٹے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے وہ کون سے رموز و اسرار تھے جن کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے اور وہ کونسی آگ تھی جسے شاعر حسینؓ کی طرف منسوب کرتا ہے اور جس آگ سے قوم و ملت کو شعلے سمیٹنے کا موقع ملا۔ شاعر کے نزدیک،قرآن پاک کی تعلیمات کا لب لباب، حق کی پرستاری ہے۔ اسی پر اسلام کی بنیاد ہے۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے۔ اسی حق کا اعلان تھا جسے حسین نے برملا کیا اور اس اعلان حق میں انہوں نے جس جرأت و ہمت کا ثبوت دیا اس کی مثال تاریخ اسلام میں کم ملتی ہے۔ انہوں نے اس اعلان میں، باطل اور باطل کے جور و استبداد کا جس طرح مقابلہ کیا، اسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اس مقابلے میں انہوں نے اپنی جان کی قربانی دی اور صرف اپنی جان کی قربانی ہی نہیں دی بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کر دیا۔ حق کا اعلان آسان بات نہیں ہوتی۔ صائب نے کیا خوب کہا۔ گفتار راست باعث آزار می شود چوں حرف حق بلند شود دار می شود منصور نے حق بات کہی تو دار پر چڑھ گئے۔ حسین کا یہ اعلان حق ان کے لئے باعث آزار ثابت ہوا اور انہوں نے خندہ پیشانی سے اسے قبول کیا ان کی یہ قربانی ان کے صفائے قلب کی وجہ سے تھی جس میں ایمان کی حرارت تھی، یہ حرارت بقول اقبال کے ایک ایسی آگ تھی جس نے ملت کے رگ و ریشہ میں شعلے دوڑا دئیے۔ اس ایثار اور قربانی کی یاد بھی آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم میں وہی حرارت پیدا کرتی ہے اور ہمارے خون کو گرماتی ہے۔ اقبال کا یہ کہنا کہ ہم نے حسین ہی سے قرآن پاک کے اسرار کو سمجھا ہے، اسی بات کی وضاحت کرتا ہے۔ اقبال نے اپنے شعر کے دوسرے مصرعے میں ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم فقط شعلہ نہیں کہا، بلکہ شعلہ ہا کہا ہے جو جمع کا صیغہ ہے۔ جو کثرت کی علامت ہے حسین علیہ السلام کی زندگی او ران کی شہادت سے ہمیں ایک درس حیات نہیں ملتا بلکہ کئی ایک سبق ملتے ہیں۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے جو ہمیں زندگی کے مرحلے پر کام دے سکتا ہے اور ہم میں انفرادی اور ملی زندگی بسر کرنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے۔ (35) اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ عرض حال مصنف بحضور رحمتہ للعالمین‘‘ کے تحت درج ہے) اس میں آنحضرت سے خطاب کیا گیا ہے۔ اقبال وک رسول پاک ؐ سے عشق تھا، انہوں نے اپنے کلام میں جہاں کہیں بھی آپ ؐ کا ذکر کیا ہے، انتہائی پیار اور خلوص سے کیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اقبال کے یہ اشعار فنی اعتبار سے بھی اس کے بہترین اشعار ہیں او ران میں انتہائی شدت جذبات پائی جاتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر ایک مخصوص روحانی تجربے میں ڈوب کر شعر کہہ رہا ہے۔ جب کبھی بھی گفتگو میں رسول اکرم ؐ کا ذکر آ جاتا تھا تو ان پر ایک رقت طاری ہو جایا کرتی تھی اور وہ زار و قطار رونے لگتے تھے اور بعض اوقات تو ایسا ہوتا تھا کہ یہ کیفیت و حالت دیر تک طاری رہتی اور گفتگو کا سلسلہ یکسر منقطع ہو جاتا اور ان کے پاس بیٹھنے والے خاموشی سے ان کی حالت کو دیکھتے اور پھر رفتہ رفتہ، ایک ایک کر کے، وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے اور انہیں تنہا ان کی حالت پر چھوڑ جاتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے ایک روحانی ربط تھا، ایک گہرا روحانی ربط۔ زیر بحث شعر ان کی ایک مناجات کا شعر ہے جس میں انہوں نے رسول پاک ؐ سے یوں خطاب کیا ہے جیسے کوئی بچہ اپنی پیاری ماں سے پیار کے ساتھ باتیں کر رہا ہو اور اپنا دکھڑا سنا رہا ہو۔ دیکھئے اس شعر میں کتنا حسن بیان ہے۔ پہلے اس کا اردو ترجمہ سنئے تیری ذات کا ظہور، زندگی کا شباب ہے۔ تیرا جلوہ، خواب زندگی کی تعبیر ہے جب بھی کوئی بڑی ہستی معرض وجود میں آتی ہے تو اس ایک واحد ہستی سے کائنات کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ زندگی میں ایک تازگی آ گئی ہے۔ ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے کہ ایسی ہستی اپنی شخصیت کی عظمت سے زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دیتی ہے بلکہ خود اس کی ذات ایک انقلاب ہوتی ہے۔ پھر ایک نبی کی ذات اور وہ بھی ’’ ختم المرسلین‘‘ کی ذات مبارک جو ایک شاہکار فطرت تھی۔ ان کے آنے سے دنیا میں کتنا بڑا انقلاب آ گیا، ان کی ذات سے زندگی میں تازہ روح آ گئی۔ شباب آ گیا جب تک وہ مبعوث نہ ہوئے تھے زندگی گویا ایک خواب تھی۔ ان کے آنے سے زندگی کے سارے خواب، حقیقت میں بدل گئے۔ خوابوں کی تعبیریں حقائق بن گئیں۔ دوسرے مصرعے میں جلوہ ات تعبیر خواب زندگی ان کی ذات سے پتا چلا کہ زندگی کیا ہے ٭٭٭ (36) نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ مرحلہ سوم نیابت الٰہی‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال خودی کے سلسلے میں اطاعت اور ضبط نفس پر بحث کرنے کے بعد نیابت الٰہی کی طرف آتا ہے۔ آج کا شعر نیابت الٰہی کے تصور اللہ ہی کے متعلق ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ انسان کے لئے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں نائب حق کا کردار ادا کرے۔ اس منصب کے طفیل اس مادی دنیا پر حکمرانی کرے۔ خلیفہ عبدالحکیم اسرار خودی پر بحث کرتے ہوء نیابت الٰہی کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں۔ ’’ اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک، ذرہ و خورشید، سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی ایسا آدم ہے جس کے آگے فرشتے سر جھکاتے ہیں۔ جس طرح وہ خدا کے آگے سر جھکاتے ہیں بظاہر اس میں تضاد نظر آتا ہے۔ لیکن اس تضاد سے توحید میں کوئی فرق نہیں آتا جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اقتدار کا سرچشمہ بادشاہ ہوتا ہے۔ لیکن رعایا کو وزیر یا نائب کی اطاعت اسی طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی، انسان کا نصب العین یہ ہے کہ چاند، سورج، شجر، حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں۔ سب کے سب اس کے لئے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ انسان مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے۔ اس تسخیر کی قوت کی کوئی حد نہیں۔ نباتات، حیوانات اور اجرام فلکی پر قدرت و اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ اور انبیاء اور آخر میں خدا کے ساتھ ہمکنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں اقبال کہتا ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ایسا انسان ہی صحیح معنوں میں نائب حق یا خلیفتہ اللہ ہو گا۔ ایسا انسان اقبال کے نزدیک اسی عالم ہی کی تسخیر نہیں کر سکے گا بلکہ وہ نئے عالم کی تخلیق بھی کرے گا۔ اس سلسلے میں اقبال نے جذبے اور جوش میں آ کر ایسے اشعار کہے ہیں جن میں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملتے نظر آتے ہیں۔ قرآن پاک میں بعض آیات میں ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر عبودیت میں کامل ہو جائے تو وہ خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو لیتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اندر اخلاق الٰہیہ پیدا کرے اور انہیں اس حد تک بڑھاتا چلا جائے کہ وہ خدا کے قریب تر ہو جائے۔ مولانا روم بھی ایک جگہ یہ فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بڑی حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے ۔ لوہا اگر ایسی حالت میں جب وہ آگ کی طرح گرم اور سرخ ہو، اپنے آپ کو ’’ من آتشم‘‘ یعنی میں آگ ہوں، کہے تو وہ حق بجانب ہو گا۔ اگرچہ اس کے باوجود آگ اور گرم لوہے میں امتیاز باقی رہے گا۔ اسی طرح جو بندہ، اخلاق الٰہیہ کے پیدا کرنے میں سعی بلیغ کرتا ہے۔ اور کامیاب ہوتا ہے اس میں اور خدا میں ذاتی امتیاز بدستور قائم رہے گا۔ یعنی خالق و مخلوق کا امتیاز۔‘‘ ٭٭٭ (37) ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں می شود فرماں پذیر از دیگراں (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو ’’ مرحلہ دوم ضبط نفس‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال خودی کی تعمیر، اس کے استحکام اور تربیت کے سلسلے میں تین مرحلوں کا ذکر کرتاہے۔ یعنی اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ کل کے شعر میں، میں نے اطاعت کے بارے میں شاعر کے خیالات اور افکار بیان کئے تھے۔ آج کے شعر میں آپ کو ضبط نفس کی تشریح ملے گی۔ اقبال اس شعر میں کہتا ہے۔ جس شخص کا فرمان اپنے اوپر نہیں چلتا وہ دوسروں کے فرمان کا تابع ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی انسان کے لئے لازم ہے کہ اسے اپنے نفس پر پوری طرح قابو ہو تاکہ دوسرے عناصر اور اثرات اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اسی حالت کو اقبال ’’ ضبط نفس‘‘ کہتا ہے۔ انسان خاک کا پتلا ہے اور اس کی تعمیر آب و گل سے ہوئی ہے اس مٹی اور پانی کے امتزاج نے اس میں ایک ایسے عنصر کو جنم دیا ہے جسے تن پروری کہتے ہیں اور تن پروری اسے طرح طرح کی لغزشوں پر آمادہ کرتی ہے۔ رنگا رنگ کی خواہشات اسے ایسے اعمال پر اکساتی ہیں جس سے وہ غلط راستے پر چلنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ مال و دولت کی محبت، خویش و اقارب، بیوی اور بچوں کی محبت، اسے بلند نصب العین سے ہٹا کر ایک محدود راستے پر لے آتی ہے۔ اس کے کردار سے بلند ارادے اور بلند ہمتیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی خود غرضانہ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے پیش نظر بڑے بڑے مقاصد کو چھوڑنے پر مجبور ہو جات اہے۔ ان حقیر محبتوں میں خوف کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اسے ہر قوم پر اپنی ناکامی کا ڈر ہوتا ہے۔ اسے خوف دنیا، خوف عقبیٰ زمین و آسمان کی گردش کا خوف ستاتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اس میں خوف جان پیدا ہو جاتاہے اسے اپنی زندگی مخدوش اور غیر محفوظ نظر آتی ہے اور اس پریشانی کے عالم میں اس سے بہت سے ایسے اعمال سر زد ہوتے ہیں جو دینی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے فواحش یعنی اعمال بد کے تحت آ جاتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ اس خوف سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ انسان کے دل میں حق کی محبت ہو تاکہ اس کا دل ہر قسم کے وسوسوں سے نجات حاصل کر لے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا خوف اسے دنیا بھر کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے۔ محبت خدا کا سارا راز لا الہ یعنی توحید میں پوشیدہ ہے۔ نماز کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد یہ ہے کہ یہ انسان کو گناہوں سے روکتی ہے۔ ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء اس آیہ شریفہ میں نماز کو گویا ضبط نفس کا بہترین ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال صوم یعنی روزے کا تذکرہ کرتا ہے کہ روزہ بھی نماز کی طرح تلقین ضبط کا موثر ذریعہ ہے۔ زکوۃ بھی حب دولت کے جذبے کو فنا کر دیتی ہے اور افراد میں مساوات کا احساس ابھارتی ہے۔ یہ دولت میں برکت پیدا کرتی ہے لیکن دولت کی محبت کو کم کرتی ہے۔ حج میں ملت کی جمعیت کا جذبہ مضمر ہوتا ہے اور ملی جمعیت کا جذبہ اسی وقت تیز ہوتا ہے جب انسان کو اپنے جذبات اور ذاتی اغراض سے قطع نظر کرنے کا ڈھب آتا ہے اور یہ ڈھب اسی وقت آتا ہے جب انسان کو اپنے نفس پر قابو ہو اقبال کے نزدیک یہ تمام اوصاف ایک مومن کے کردار کو سنوارتے اور اسے توانا اور مستحکم کرتے ہیں۔ اور اسی سے اس کی شخصیت اور خودی میں توانائی آتی ہے۔ (38) قوم را اندیشہ ہا باید یکے در ضمیرش مدعا باید یکے (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ ارکان اساسی ملیہ، اسلامیہ، رکن اول توحید‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ قوم کے خیالات اور سوچنے کا انداز ایک ہونا چاہئے اور قوم کے دل میں ایک مقصد کو حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہونا چاہئے۔ اقبال مثنوی رموز بے خودی میں ملت اسلامی کے بنیادی ارکان کا تذکرہ کرتے ہوئے توحید کے عقیدے کو پہلا اور ہم ترین رکن قرار دیتا ہے اس کے نزدیک یہ عقیدۂ توحید نہ صرف اسلام ہی کا رکن اولین ہے بلکہ اسے ملت کی تشکیل، تعمیر اور تکمیل کا سنگ بنیاد کہنا چاہئے کیونکہ اسی عقیدے سے قومی تصورات کے خط و خال واضح ہوتے ہیں اور اسی سے قوم اور ملت کی زندگی کی عملی صورتیں متعین ہوتی ہیں۔ انسانی عقل، انسان کی آنکھوں کو کھولتی اور اسے بصارت عطا کرتی ہے لیکن وہ بصیرت عطا نہیں کرتی جس سے اسے صحیح منزل کا سراغ مل سکے۔ انسانی عقل اس جہان کیف و کم میں بھٹکتی رہتی ہے۔ ایک الجھن کی عقدہ کشائی سے دوسری الجھن کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اقبال کے نزدیک توحید کا عقیدہ ہی منزل پر پہنچنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہم اس عقیدے کے طفیل، اپنے آپ کو ایک ایسی ہستی سے وابستہ کر لیتے ہیں جو اٹل ہے اور جس کے بھیجے ہوئے آئین و قوانین اٹل ہیں اور جب ہم اٹل قوانین کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ہماری زندگی کی ہر حرکت انہی کے مطابق سمت تلاش کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ دنیا میں مختلف قومیں اپنی قومیت کی بنیاد کے لئے کبھی فقط ایک خطہ زمین، وطن کو تلاش کرتی ہیں۔ کبھی نسب اور خاندان کو اس کا معیار قرار دیتی ہیں۔ کبھی رنگ روپ اور خط و خال سے اس کا تصور قائم کرتی ہیں۔ لیکن ملت اسلامی کی بنیاد کچھ اور ہی ہے۔ یہ بنیاد ہمارے دلوں میں پوشیدہ ہے۔ ہم خود ’’ حاضر‘‘ ہیں لیکن ہم نے دلوں کو ایک ہستی غائب سے وابستہ کر رکھا ہے اور ہماری شان ’’ یومنون بالغیب‘‘ ہے اس وابستگی نے ہمیں ایں و آں کے امتیاز سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ ہم ایک ایسے رشتے میں منسلک ہیں جو نظر نہیں آتا لیکن بے حد استوار ہے۔ یہ رشتہ اجرام کے فلکی رشتے کی طرح ہے کہ جس میں تمام اجرام فلکی بندھے ہوئے ہیں او را س سے ان کا نظام قائم ہے اور وہ رشتہ نظر نہیں آتا۔ اقبال کے نزدیک یہ مستحکم رشتہ، عقیدۂ توحید ہے۔ جو ہم میں نہ صرف ایک ذہنی وحدت عطا کرتا ہے بلکہ ہماری زندگی کے تمام اعمال میں یکجہتی کا انداز پیدا کرتا ہے اس عقیدے سے ہم میں فکر و نظر کی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے سوچنے، ہمارے دیکھنے اور ہمارے اٹھنے بیٹھنے۔ چلنے پھرنے، غرض زندگی کی ساری حرکات میں یگانگت، یک رنگی اور یک جہتی آ جاتی ہے ہماری زندگی کا ایک مدعا اور مقصد ہوتا ہے اور اس مدعا اور مقصد کے حصول کا طریق کار ایک ہو جاتا ہے۔ ہماری اخلاقی، سیاسی، معاشرتی قدریں ایک ہوتی ہیں۔ پست و بلند خوب و زشت کا معیار ایک ہوتا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں سوز حق نہ ہو تو ایسے انداز فکر کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں۔ اسی عقیدے سے ہمارا دیں، ہماری حکمت، ہمارا آئین سنورتا ہے۔ اور اسی سے ہماری سیاسی زندگی میں وقار توانائی اور قوت آتی ہے۔ اس بنیاد پر مضبوطی سے قدم جمانے کے بعد ہم زندگی کی مختلف راہوں پر نظر ڈال سکتے ہیں علم و دانش کے نئے نئے دریچے کھول سکتے ہیں۔ حکمت اور سائنس کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ انسانی تہذیب اور شائستگی سے اپنی قومی زندگی کے خط و خال سنوار سکتے ہیں۔ ان تمام شاہراہوں پر گامزن ہونے کے لئے ہماری رہنمائی کرنے والا، یہی عقیدۂ توحید ہے۔ ہم زندگی کی ہر پیشرفت اور ترقی، ادب و علم و فن کے ارتقاء کی ساری منزلیں اسی زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور پھر ان کے بہم پہنچائے ہوئے خزانوں سے اپنی ملی زندگی کو مالا مال کر سکتے ہیں ہمارے اسلاف نے یہی کیا تھا اور دنیا میں سربلندی حاصل کی تھی ہم بھی یہی کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭ (39) گر خدا داری ز غم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ یاس و حزن و خوف ام الخبائث است‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اگر تیرا خدا ہے تو تجھے کیا غم ہے اور تجھے بیش و کم کا کیا اندیشہ ہے اقبال خدا پر ایمان رکھنے والے انسان کی دو صفتیں بیان کرتا ہے۔ پہلی یہ کہ ایسے انسان کو کسی طرح کا غم اور مایوسی نہیں ہوتی۔ا ور دوسری یہ اس کے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ مومن کا بے خوف ہونا اور یاس و غم سے آزاد ہونا ہی اسے حریت کی طرف لے جاتا ہے۔ اقبال ایسے انسانوں یا مومنوں کو احرار کے لفظ سے یاد کرتا ہے۔ آزادی یا حریت کا جذبہ اقبال کے نزدیک توحید ہی کا ثمرہ ہے۔ مومن کے نزدیک نا امیدی کفر ہوتی ہے قرآن پاک میں مومنوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ فلا خوف علیھم ولا ہم یحزنون کہ انہیں نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے۔ لا تقنطو امن رحمتہ اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اقبال نے مثنوی رموز بیخودی کے اس باب میں جہاں سے یہ شعر ماخوذ ہے۔ یہ بیان کیا ہے کہ حزن و یاس اور خوف برائیوں کا باعث ہوتے ہیں وہ انہیں ام الخبائث کہتا ہے اور یہ برائیاں انسانی زندگی کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ ان سے انسانی قویٰ سست پڑ جاتے ہیں۔ ذات واحد پر ایمان رکھنے والا اور اس پر بھروسہ کرنے والا انسان ان تمام برائیوں سے دور ہوتا ہے۔ اور اس کے دل میں کوئی خدشہ جگہ نہیں لیتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اور اس پر یقین بلند ہمتی اور عالی حوصلگی کا سرچشمہ ہے۔ جدید نفسیات کی تازہ ترین تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سی بیماریاں خوف ہی کے باعث جنم لیتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک خوف نتیجہ ہوتا ہے انسان کے مایوس دل کا، مایوسی انسان کو خوف زدہ کرتی ہے اور انسان سے خوف کے باعث طرح طرح کی حرکات سرزد ہوتی ہیں۔ اقبال کہتا ہے لابہ و مکاری و کین و دروغ ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ چاپلوسی، مکاری، بغض و کینہ، جھوٹ یہ سب کے سب خوف ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور خوف زدہ انسان برائیوں کو اپنا سازگار بنا لیتا ہے اور ان میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور جب انسان کا خدا پر ایمان ہو اور بھروسا ہو تو یاس اور خوف اس کے پاس نہیں پھٹکتے اور زمانے کے حوادث کے تیر اس کے لئے بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اقبال ایک مثال دیتاہے کہ تیر نے ایک دن تلوار سے کہا کہ دیکھو کہ میں کسی کے سینے کو چیرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتا ہوں کہ اس کے دل میں خوف و یاس ہے کہ نہیں اگر ہو تو بے باک اس کا خون بہا دیتا ہوں۔ اور اگر کہیں قلب مومن نظر آئے تو خود اس کی قوت اور گرمی سے پگھل کر موم ہو جاتا ہوں۔ اقبال نے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی زندگی کا ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے ایک دن عالمگیر صبح سویرے جنگل میں سیر کو نکلے۔ ایک وفادار نوکر ہمراہ تھا۔ سحر کی کیفیت، درختوں پر طائر محو تسبیح خوانی تھے۔ شہنشاہ صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ نماز کیا تھی نماز عاشقاں تھی سراپا محویت کا عالم۔ اور یکسر تسلیم و رضا اتنے میں جنگل کے کسی گوشے سے ایک شیر ادھر آ نکلا اور اس نے آ کر ان کی پیٹھ پر پنجہ مارا۔ شہنشاہ نے فے الفور اپنا خنجر نکالا اور اس سے شیر کا سینہ چاک کر دیا۔ اقبال کہتا ہے۔ دل بخود راہے نداد اندیشہ را شیر قالیں کرد شیر بیشہ را یعنی بادشاہ کے دل پر کوئی خوف طاری نہ ہوا۔ اس نے شیر بیشہ کو شیر قالین بنا دیا۔ یعنی سجدے پر یوں مار گرایا جیسے قالین پر شیر نہیں شیر کی تصویر کھینچی ہو۔ یہ حکایت بیان کرنے کے بعد اقبال کہتا ہے کہ ایسا دل رکھنے والا انسان خودنما بھی ہوتا ہے اور خود شکن بھی۔ اس کی خودی استوار بھی ہوتی ہے اور بیخودی بھی وہ اپنی شخصیت کی عظمت کو آشکار بھی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس پر بیخودی کا عالم بھی طاری ہوتا ہے یہیں خودی اور بیخودی کا اجتماع اور امتزاج ہوتا ہے۔ ٭٭٭ (40) ہریکے از ما امین ملت است صلح و کینش صلح و کین ملت است (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ حکایت بو عبید و جابان در معنی اخوت اسلامیہ‘‘ کے تحت درج ہے) سادہ ترجمہ اس شعر کا یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص قوم کا امین ہے ہر فرد کی صلح اور جنگ ملت کی صلح و جنگ ہے۔ اقبال یہ شعر، ایک داستان کے سلسلے میں لکھتا ہے مثنوی رموز بیخودی میں اس نے دو حکایتیں یکے بعد دیگرے بیان کی ہیں اور ان دونوں حکایتوں کو بطور تمثیل کے استعمال کیا ہے جس سے خودی اور بیخودی میں باہمی ربط کی وضاحت ہوتی ہے۔ بظاہر ایک فرد کی خودی اور پھر بے خودی میں تضاد پایا جاتا ہے اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ایک انسان اپنی خودی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ملت میں گم کر سکتا ہے لیکن اقبال نے ان دو حکایتوں سے جو تاریخی واقعات پر مبنی ہیں نہایت عمدہ اور واضح نتیجے برآمد کئے ہیں۔ پہلی مثال یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں عربوں کی فوجیں ایران میں ایرانیوں سے بر سر پیکار تھیں۔ دوران جنگ میں ایک عرب سپاہی نے ایک ایرانی پر شدید حملہ کر کے اسے گھوڑے سے گرا لیا۔ جب وہ اسے مارنے لگا تو ایرانی نے امان طلب کی۔ عرب نے اسے امان دی اور کہا کہ ایک شرط پہ میں تیری جان بخشی کرتا ہوں کہ تجھے ہمارے سالار لشکر کے روبرو جانا ہو گا چنانچہ جنگ ختم ہوئی اور اس قیدی کو اسلامی لشکر کے سپہ سالار کے سامنے لایا گیا۔ سالار لشکر نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وہ ایرانیوں کا سپہ سالار جابان تھا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کو قتل کرنا لازمی ہے۔ لیکن سالار لشکر نے کہا کہ اے مسلمانو! ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے اسے پناہ دینے والا ایک معمولی سپاہی ہی سہی لیکن وہ ہماری ملت کا فرد ہے اس لئے ملت کو اس کے فیصلے کر احترام کرنا لازمی ہے۔ اس واقعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح ایک ملت، ایک فرد کے سامنے جھک جاتی ہے۔ دوسرا واقعہ سلطان مراد کا اور ایک معمار کا ہے سلطان مراد نے ایک معمار یعنی انجینئر کو ایک مسجد کے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ مسجد تعمیر ہوئی لیکن سلطان کو پسند نہ آئی اس نے طیش میں آ کر معمار کے ہاتھ کٹوا دئیے۔ معمار مظلوم، فریاد لے کر قاضی کے پاس گیا۔ قاضی نے بادشاہ کو اپنی عدالت میں طلب کیا۔ اب عدالت میں ایک سلطان تھا اور دوسری طرف ستم رسیدہ فریادی تھا۔ قاضی نے قرآن پاک سے ایسے جرم کے بارے میں فرمان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ قصاص لازم ہے سلطان نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا اور اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے کہ کاٹ لئے جائیں کیونکہ شریعت، سلطان اور ایک عام فرد یا انسان میں فرق نہیں کرتی۔ مدعی کو یہ دیکھ کر رحم آیا اس نے کہا کہ خدا جہاں قصاص کا حکم دیتا ہے وہاں رحم اور احسان کا بھی ذکر کرتا ہے بلکہ رحم اور احسان کو بدلے سے بہتر اور افضل قرار دیتا ہے یہ کہہ کر اس نے کہا کہ میں نے اسے بخش دیا۔ اقبال یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: یافت مورے بر سلیمانے ظفر سطوت آئین پیغمبر نگر یعنی پیغمبرؐ کے شرع و آئین کا دبدبہ دیکھو کہ ایک چیونٹی نے سلیمان پر فتح پائی۔ ایک معمولی انسان بادشاہ پر غالب آ گیا۔ شرع و آئین کیا ہے؟ ملت کا متفقہ مسلمہ فیصلہ اور قانون ہے اس واقعے میں ایک فرد یعنی سلطان اپنی خودی کو قائم رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ملت کے فیصلے کے سپرد کر دیتا ہے اور سر تسلیم خم کر دیتا ہے گویا اس طرح خودی اور بیکودی کے ڈانڈے مل جاتے ہیں اور دونوں کا ظاہری تضاد ختم ہو جاتاہے۔ (41) مردماں خوگر بیک دیگر شوند سفتہ در یک رشتہ چوں گوہر شوند (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو ’’ ملت از اختلاط افراد پیدامی شود و تکمیل تربیت او از سر نبوت است‘‘ کے تحت درج ہے) سادہ ترجمہ اس شعر کا یہ ہے کہ: لوگ ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں اور آپس میں گھل مل جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے اسی طرح سے پیوست ہو جاتے ہیں جس طرح موتی ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اقبال کا نظریہ ہے کہ انسان کی فطرت میں یکتائی کا جوہر ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنی یکتائی کو محفوظ اور قائم رکھنے کے لئے انجمن کا سہارا لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں ایک دوسرے کی باہمی مدد اور تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کاروبار حیات کا اس کے بغیر چلنا مشکل ہے۔ زندگی جوں جوں قدم آگے کو بڑھاتی ہے۔ ضروریات زندگی میں اسی رفتا رسے اضافہ ہوتا چلا جات اہے اور ان میں پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سلجھانے کے لئے مزید اور مختلف قوتیں درکار ہوتی ہیں اور ان مختلف النوع قوتوں کے بہم پہنچانے کے لئے انسان دوسروں کی امداد کو تلاش کرتا ہے۔ مختلف استعدادیں بہم مل کر ایک دوسرے کی احتیاجوں کو رفع کرتی ہیں اور اس طرح انسان ایک دوسرے کے ہمکار بن جاتے ہیں۔ نظام ملکی میں انجم کی زندگی بھی باہمی کشش اور تجاذب سے قائم ہے ایک ستادہ دوسرے ستارے کے سبب محکم ہوتا ہے۔ محفل انجم ز جذب باہم است ہستی کو کب ز کو کب محکم است اقبال اس مسئلے سے ابتدا کر کے اس کے دوسرے پہلو کی طرف آتا ہے جو بہت اہم ہے وہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان ابتد امیں جنگلوں اور پہاڑوں میں آوارہ گھومتا تھا۔ اور اس حالت میں اس کی خواہشیں اور آرزوئیں بھی سادہ، مختصر اور محدود تھیں۔ انسان میں ابھی زندگی کی پوری توانائی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کے خون میں یہ حرارت نہیں تھی۔ وہ دیو و پری کے خوف سے لرزاں رہتا تھا۔ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک سے سہم جاتا تھا اپنے ہاتھوں کی محنت اور کوشش سے فطرت سے ضرورت کی اشیاء حاصل نہ کر سکتا تھا۔ خود رو چیزوں پر گذران تھی۔ جو میسر آ گیا اسی پر قانع ہو گیا۔ کسی شے کی جستجو اور تلاش کی اس میں سکت نہ تھی۔ جو زمین سے ابھرا دبوچ لیا اور جو آسمان سے گرا اٹھا لیا۔ انسان کی یہ حالت اس وقت تک رہی جب تک کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔ اس بیان سے اقبال نبوت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور قرآنی تصور بھی یہی ہے کہ انسانیت اور آدمیت کا آغاز بھی نبوت ہی سے ہوا۔ رسول اکرم ؐ کے بارے میں بھی یہی عقیدہ کار فرما ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انہی کے وجود مقدس کے لئے تخلیق کیا۔ اقبال کے نزدیک ایسی ہستی انسانوں کو انتشار سے نکال دیتی ہے اور ان میں وحدت پیدا کرتی ہے اور اسی سے توحید کے عقیدے کی بنیاد پڑتی ہے۔ ٭٭٭ (42) خطر تاب و تواں را امتحان است عیار ممکنات جسم و جان است (یہ شعر رموز بیخودی سے لیا گیا ہے جو اس کی ایک نظم ’’ اگر خواہی حیات اندر خطرزی‘‘ کا آخری شعر ہے) آج جی چاہتا ہے کہ اقبال کی ایک چھوٹی سی مگر بے حد خوبصورت نظم کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اس نظم کا عنوان ہے: ’’اگر خواہی حیات، اندر خطر زی‘‘ یعنی اگر حیات چاہتا ہے تو خطر میں زندگی بسر کر پہلے آج کے شعر کا سادہ اردو ترجمہ سن لیجئے۔ خطرہ انسانی قوتوں کا امتحان ہے اسی سے ہمارے جسم و جان کی تمام امکانی صلاحیتوں اور ان کے نتائج کی پرکھ ہوتی ہے۔ یہ شعر اقبال کی نظم کا آخری شعر ہے اس نظم میں اقبال دو غزالوں کے درمیان ایک مکالمہ درج کرتا ہے جنگل کا یہ حسین جانور غزال اپنے ہم جنس یعنی دوسرے غزال سے اپنا درد دل بیان کرتا ہے اور کہتا ہے میں تو اس جنگل کی زندگی سے تنگ آ گیا ہوں۔ یہاں تو ہر لحظہ شکاریوں کا ڈر لگا رہتا ہے۔ صیاد ہیں کہ آٹھوں پہر کمین لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں کی نہ صبح ہمیں سازگار ہے نہ شام اس فتنہ صیاد سے نجات چاہتا ہوں۔ جی چاہتا ہے کسی آزاد فضا میں سانس لوں جہاں کوئی مخمصہ کوئی خدشہ نہ ہو۔ ارادہ ہے حرم میں جا کر پناہ لے لوں۔ اس کے رفیق نے جواب میں کہا، دوست یہ سب سچ ہے لیکن اگر تجھے زندگی چاہئے تو تجھے انہی خطروں میں رہنا ہو گا۔ انہی مشکلات اور خطرات سے ٹکرائے چلا جا یہ خطرناک مرحلے تو سان کی طرح ہیں۔ جو تجھے تلوار کی طرح تیز تر کر دیں گے۔ کیونکہ انہی خطرات میں زندگی کے جوہر کھلتے ہیں۔ اقبال کے تصور حیات میں سب سے نمایاں چیز یہی ہے جس کا اس شعر میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ قدر ت نے انسان میں بہت سی استعدادیں جبلتوں کی صورت میں ودیعت کی ہیں، ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ یہ تمام جبلتیں اور ان کی نشوونما انسانی زندگی کے تحفظ کے لئے ہیں۔ یہ پوشیدہ استعدادیں سب کی سب بیک وقت ظہور میں نہیں آتیں۔ اور ان کی نشو و ارتقاء کا وقت اور رفتار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے جو سوال اہم ہوتا ہے وہ اس کا زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کے لئے اسے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ فطرت بچے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی دودھ پینے کا ڈھب سکھا کر بھیجتی ہے اگر پیدائش کے بعد یہ کام سکھانا پڑتا تو بہت سی ننھی جانیں ضائع ہو جاتیں۔ بچے کو خوراک مانگنے کی ضرورت تھی اس کے لئے جو زبان عطا کی گئی وہ اس کا ’’ رونا‘‘ ہے جس کا مفہوم ہر ماں سمجھ لیتی ہے۔ ان دو ضروری جبلتوں کا ظہور اور ارتقا ابتدا ہی میں ہو جاتا ہے باقی اپنے اپنے وقت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بہت سی صلاحتیں دبی رہ جاتی ہیں اور اگر ظاہر بھی ہوتی ہیں تو ان کی نشوونما پورے طور پر نہیں ہوتی۔ اقبال جب نظریہ حیات کے سلسلے میں زندگی کی کشمکش کشاکش جدوجہد اور تگ و دو کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ’’اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام‘‘ تو اس کے پیش نظر یہ نفسیاتی نکتہ بھی ہوتا ہے۔ جس کا ذکر ابھی ابھی کیا گیا۔ زندگی کی رو اگر آرام سے بہتی چلی جائے تو زندگی افسردہ ہو جائے۔ اگر کوئی ہتھیار استعمال میں نہ لایا جائے تو وہ زنگ آلود ہو جاتا ہے او ربیکار ہو جاتا ہے اسی طرح انسان کی طبعی قوتیں بھی افسردہ ہو جاتی ہیں۔ قوتوں کے ابھارنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب زندگی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آئے۔ صاف ہموار راستہ ہو تو رہرو کی رفتار دھیمی پڑ جاتی ہے اور خار زار میں سے چلنا ہو تو اچھل کود کر گزرتے ہیں اسی لئے تو مرزا غالب نے کہا تھا کہ ’’جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر‘‘ چنانچہ اقبال کا یہ کہنا کہ انسان کی پوشیدہ استعدادوں اور قوتوں کی پرکھ خطروں میں رہ کر اور کٹھن مشکلات کا سامنا کرنے ہی سے ہوتی ہے ایک واضح حقیقت ہے۔ ٭٭٭ (43) آدمیت، احترام آدمی باخبر شو، از مقام آدمی (یہ شعر جاوید نامہ سے لیا گیا ہے جو ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کے تحت درج ہے) شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے ’’ آدمیت، احترام آدمی کا نام ہے۔ اے انسان تجھے مقام آدمی سے باخبر ہونا چاہیے۔‘‘ اقبال نے آدمیت کو محض آدمی ہونا قرار نہیں دیا بلکہ اس نے آدمیت کو احترام آدمی سے تعبیر کیا ہے کہ آدمیت اس چیز کا نام ہے کہ انسان، آدمی کی عظمت کو پہچانے اور اس کا احترام کرے۔ احترام آدمی کے الفاظ میں جو مفہوم پوشیدہ ہے اس کا اطلاق کس پر ہوتا ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک آدمی اسی وقت دوسرے آدمی کا احترام کر سکتا ہے جب اسے آدمیت کی عظمت کا احساس ہو، دوسرے لفظوں میں جب اس میں خود اپنا احترام ہو، وہ اپنی عظمت کو پہچانتا ہے۔ قرآن پاک نے آدم کی عظمت کو بہت نمایاں کر کے دکھایا ہے۔ اسے احسن تقویم کے لقب سے نوازا گیا، اسے مسجود ملائک دکھایا گیا۔ اعلان کیا گیا کہ دونوں جہاں کی نعمتیں اسی کے لئے ہیں بشرطیکہ وہ ان سے تمتع حاصل کر کے اپنے فرائض سے غافل نہ ہو۔ ابر و باد و مہ و خورشید و فلک در کاراند تا تو نانے بکف آری و بہ غفلت نخوری تکوین کائنات کا مرکزی کردار انسان ہی ہے اور یہی انسان باوا آدم اقبال کی شاعری کا مرکزی کردار بھی ہے، اور باقی سب کردار اسی ایک کردار کے گرد گھومتے ہیں۔ اقبال نے بنی نوع انسان کو جو پیغام دیا ہے اس پیغام کے اہم اجزا یہ ہیں: 1انسان کی عظمت، اس کی فطرت کی بلندی کی وجہ سے ہے نہ کہ رتبہ، حیثیت، قوم، وطن یا نسل و رنگ کی وجہ سے 2انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں سے بالاتر ہو جائے اور اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ اسی سے اس کی شخصیت استوار ہوتی ہے اور اسی کا نام تکمیل خودی ہے۔ فطرت نے انسان میں بے پناہ استعدادیں اور صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہی اس کا فرض منصبی ہے۔ اسی سے وہ آدمی بلکہ دوسرے لفظوں میں انسان بننے کا مستحق ہے۔ فطرت کا منشا بھی یہی ہے کہ انسان، اپنے نمایاں کردار سے اپنی عظمت کو پا لے۔ انسان کے سامنے، بلند اخلاقی اور روحانی اقدار ہوں تاکہ وہ اپنی منزل سے بھٹک نہ جائے۔ سعدی نے کہا تھا۔ اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی میر نے کہا کہاں ہے آدمی عالم میں پیدا خدائی صدقے کی انسان پر سے اقبال نے کہا گدائے جلوہ رفتی بر سر طور کہ جان تو ز خود نا محرمے ہست قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدمے ہست یعنی اے انسان تو تلاش جلوہ میں طور پر گیا اس لیے کہ تو اپنے آپ سے نا محرم ہے تجھے آدم کی جستجو کرنی چاہیے کہ خدا کو خود بھی آدم ہی کی تلاش ہے۔ یہی تلاش آدمیت دراصل احترام آدمی ہے۔ اسی احترام آدمی، اسی عظمت آدمی کو ملحوظ رکھنے میں، انسان کی عظمت پوشیدہ ہے۔ اس زریں اصول کو ملحوظ رکھنے سے انسانوں کی زندگی کی پست کشمکشوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ (44) منکر حق نزد ملا کافر است منکر خود نزد من کافر تر است (یہ شعر جاوید نامہ سے لیا گیا ہے۔ جو ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کے تحت درج ہے)اقبال کہتا ہے کہ ملا کے نزدیک خدا کی ذات سے انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک اپنی ذات سے انکار کرنے والا اس سے بھی زیادہ کافرہے۔ یہ شعر جاوید نامے سے لیا گیا ہے۔ اور جاوید نامے کا آخری باب ہے جس کا عنوان ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ ہے جو اصل کتاب کے مضمون کا لازمی جزو تو ہیں لیکن اس کا ایک موزون تتمہ ضرور ہے۔ اقبال نے اس کتاب کا نام بھی اپنے بیٹے ’’ جاوید اقبال‘‘ کے نام کی مناسبت سے رکھا ہے۔ اور اس اعتبار سے لازم تھا کہ کتاب میں موضوع کی تکمیل کے بعد وہ بطور نتیجے کے جاوید سے خطاب کرتا۔ میں ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کے حصے کو ایک پیشکش کی حیثیت سے دیکھتا ہوں البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ پیشکش معمول کے مطابق کتاب کے شروع میں نہیں بلکہ اخیر میں آئی ہے اور زیادہ مناسب بھی ہے کہ کتاب میں بیان کئے ہوئے مطالب کے بعد شاعر اپنے بیٹے کو ان مطالب کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان پر کاربند ہونے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ فی الحقیقت یہ پیشکش جاوید ہی کے لئے نہیں بلکہ اس کے ذریعے نئی نسل کے لئے ہے اور شاعر نے ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کے بعد ایک اور ذیلی عنوان بھی درج کیا ہے اور وہ یہ ہے: ’’سخنے بہ نژاد نو‘‘ یعنی نئی نسل سے دو ایک باتیں: اقبال اس باب کے ابتدا میں ایک بڑی خوبصورت بات کہتا ہے کہ میں نے سخن آرائی تو کی ہے لیکن جو کچھ میرے دل میں ہے وہ زبان تک نہیں آ سکا۔ ہزاروں نکتے بیان تو کئے لیکن ایک نکتہ ایسا ہے جو تحریر و کتاب میں نہیں سما سکتا۔ بیان کرنے کی کوشش کروں تو اور بھی الجھ جاتا ہے۔ یہ نکتہ لطیف تجھے یا تو میری نگاہ یا میری آہ صبح گاہ میں ملے گا یہ کہنے کے بعد شاعر دو نہایت دلآویز باتیں لکھتا ہے۔ کہ بیٹا تو نے اپنی ماں کے لب سے لا الہ سیکھا اور دولت جاوید پائی مجھ سے ذوق نظر لے اور اس لا الہ الا اللہ کے سوز میں جلنے کا طریق حاصل کر۔ اس کلام لطیف میں اقبال بعض اہم مسائل کی وضاحت کرتا ہے اس ساری تفصیل کا خلاصہ اس ایک شعر میں پوشیدہ ہے۔ منکر حق نزد ملا کافر است منکر خود نزد من کافر تراست دیکھئے شاعر نے اس شعر میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ایک حق شناسی ہے اور دوسری خود شناسی۔ ذرا اس قول کو سامنے لائیے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا۔ گویا عرفان نفس ہی دراصل عرفان حق کی بنیاد ہے۔ جو شخص حق کو نہیں پہچانتا وہ گویا حق کا منکر ہے اور کافر ہے لیکن شاعر کی نگاہ میں ایک اور کافر بھی ہے جو اس سے کہیں بڑھ کر کافر ہے اور وہ اپنی ذات کو نہ پہچاننے والا انسان ہے اقبال کے نزدیک خود شناسی ہی میں انسانیت کی تکمیل کا راز پوشیدہ ہے اسی کو وہ خودی سے تعبیر کرتا ہے اب ذرا اس اجمال کی تفصیل سنئے وہ کہتا ہے۔ کہ اے بیٹے اخلاص بڑی شے ہے اسے شعار بنا لو۔ فقر و غنا کو نہ چھوڑ اپنے قلب کی روشنی کو اپنی مشعل راہ بنا لے۔ ضبط نفس سے تن کی اور ذکر و فکر سے روح کی حفاظت ہوتی ہے اس جان و تن کی حفاظت ہی سے انسان عالم بالا و پست پر غالب آتا ہے۔ غرض اقبال کے نزدیک یہی وہ اوصاف ہیں جن کے ذریعے انسانی خودی کی تعمیر و تکمیل ہوتی ہے اور یہی خود شناسی ہے اور جو انسان اس نعمت سے محروم ہے وہ گویا اپنی عظمت سے انکاری ہے اور یہ انکار ایک بہت بڑا کفر ہے۔ (45) از نالہ بر گلستاں اشوب محشر آور تادم بہ سینہ پیچد مگذار ہاوہو را (یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے جو ’’ مئے باقی‘‘ کے ایک بند کا شعر ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ فریاد کر اور اپنی فریاد سے اس گلستان میں قیامت برپا کر دے۔ جب تک دم میں دم ہے ہاہو کو مت چھوڑ‘‘ اقبال زندگی کو مسلسل جستجو قرار دیتا ہے اور جذبہ عشق کو سوز دوام کہہ کر پکارتا ہے اسی پیہم جستجو سے زندگی میں حرکت آتی ہے اور اسی سوز دوام سے اس میں لذتیں اور راحتیں ابھرتی ہیں۔ مرزا غالب کا شعر ہے۔ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی، درد لادوا پایا یعنی عشق کا سوز دوام ہی زندگی میں سرشاری پیدا کرتا ہے۔ عشق کا درد، زندگی کے چھوٹے چھوٹے دکھوں کو دور کر دیتا ہے لیکن عشق خود ایک ایسا درد ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔ وہ درد لا دوا ہے اور اسی درد لادوا سے زندگی میں جوش و خروش ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔ شاد باش اے عشق خود سودائے ما اے طبیب جملہ علت ہائے ما مولانا روم، عشق کو ایک درد خوشگوار کہتے ہیں جو درد تو ہے لیکن زندگی کے تمام دکھوں کا طبیب بھی ہے اس لئے اس درد عشق کو زندہ اور تازہ رہنا چاہیے۔ تاکہ زندگی کی تازگی برقرار رہے۔ اقبال،ا سی غزل میں جہاں سے آج کا شعر لیا گیا ہے ایک اور شعر میں کہتا ہے: شادم کہ عاشقاں را سوز دوام دادی درماں نیافریدی آزاد جستجو را خدا سے خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ میں خوش ہوں کہ تو نے عاشقوں کو سوز دوام عطا کیا ہے اور زندگی کے آزار جستجو کا کوئی درماں پیدا نہ کیا۔ تاکہ سوز دوام کی تپش اور تڑپ بدستور قائم رہے۔ اب ذرا اس شعر کی طرف آئیے: از نالہ برگلستان، آشوب محشر آور تا دم بہ سینہ پیچد مگذار ہا و ہوار جب انسان کے دل میں عشق کی گرمی ہو گی تو اس سے ہر لحظہ فریادیں ابھریں گی یہ فریادیں سننے والوں کے دلوں کو تڑپائیں گی اور دنیا میں گویا ایک ہنگامہ محشر بپا ہو گا۔ اقبال اس نالہ و فریاد کو ہاوہو سے تعبیر کرتا ہے۔ ہاو ہو ہنگامہ آفرینیوں کا نام ہے اور یہی زندگی کی علامت بھی ہے بات سادہ سی ہے لیکن آئیے ذرا دیکھیں کہ شاعر نے اس بات کو کتنے حسین شاعرانہ پیرائے میں بیان کیا ہے پہلے مصرعے میں آشوب محشر کی ترکیب لایا ہے آشوب کے لفظ میں درد و کرب کا پہلو بھی ہے او رہنگامہ آرائی بھی ہے۔ گویا عشق کا جذبہ رکھنے والے زندگی میں تڑپ بھی پیدا کرتے ہیں اور اس تڑپ کی بدولت زندگی کو تازہ بھی رکھتے ہیں جب اقبال کہتا ہے کہ فریاد سے اس گلستان عالم میں قیامت کا ہنگامہ پیدا کر تو اس کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ تپش عشق ہی سے زندگی میں لذت ہے اور اسی تپش میں راز حیات بھی پوشیدہ ہے۔ رمز حیات جوئی جز در تپش نیابی یعنی تو راز زندگی کو تلاش کر رہا ہے وہ تپش اور تڑپ کے سوا کہیں نہیں ملے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تپش دل میں کیسے زندہ اور تازہ رہ سکتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے دل میں مقصد کی نارسائی کا دکھ بدستور قائم ہے جسے مرزا غالب ’’ اندوہ نایافت‘‘ کے لفظ سے یاد کرتا ہے انسان منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہے لیکن ہر بار، نایابی اور نارسائی کے باعث ایک تازہ جستجو لے کے نکلتا ہے ہر مرحلے پر یہ تازہ جستجو ہی زندگی میں تازگی اور سرگرمی پیدا کرتی ہے اگر یہ سلسلہ رک جائے تو زندگی افسردہ ہو کر رہ جائے۔ ٭٭٭ (46) زخاک تا بہ فلک ہر چہ ہست رہ پیماست قدم کشائے کہ رفتار کارواں تیز است (یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے جو ’’ صحبت رفتگان‘‘ میں کوہکن کے تحت درج ہے) ’’ زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز مسلسل رواں ہے تو بھی قدم اٹھا کہ قافلہ بڑی تیزی سے چل رہا ہے۔‘‘ اقبال کے فلسفہ حیات میں یہ خیال ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اس خیال کو جگہ جگہ مختلف اسلوب میں بیان کرتا ہے اور اس میں اثر انگیزی پیدا کرتا ہے ذرا اقبال کے اس شعر کو دیکھئے: ہر شے مسافر، ہر چیز راہی کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی زندگی کی کشاکش میں ہر چیز اسیر ہے اور اسی کشاکش میں ہر چیز کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے رہ پیمائی ہی گویا زندگی ہے۔ اقبال اس شعر میں اس کشاکش حیات کو فقط رہ پیمائی تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ ایک اور لطیف اور اہم امر کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے جو شعر کے دوسرے مصرعے میں پوشیدہ ہے۔ کائنات کی ہر شے کارواں ہونا ایک کارواں کانقشہ ہماری نظروں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ کارواں جو صرف چل ہی نہیں رہا بلکہ بڑی تیزی اور تندہی سے چل رہا ہے۔ اور اگر ا س کارواں میں شریک ہونے والا کوئی راہی، کسی مرحلے پر، کسی ایک لمحے کے لئے غافل ہو جائے تو اس کا قافلے سے الگ ہو جانا اور پیچھے رہ جانا یقینی ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دور شد یعنی میں نے چاہا کہ چلتے چلتے میرے پاؤں میں جو کانٹا چبھ گیا ہے اسے نکال لوں اتنے میں محمل نظروں سے غائب ہو گیا۔ میں ایک لمحے کے لئے غافل ہوا تھا کہ سو سالہ مسافت کا فرق پڑ گیا۔ گویا کارواں کہیں کا کہیں نکل چکا تھا۔ یہ شعر بھی زندگی ہی کے قافلے کے بارے میں ہے۔ دنیا کا ہر انسان، بلکہ ہر چیز، ہر ذرہ اسی قافلے کا رہ رو ہے اور کوئی چیز اس کارواں سے ادھر ادھر بھٹک جاتی ہے تو وہ اپنا مقام کھو دیتی ہے۔ اس اصول کا اطلاق اقبال کے نزدیک صرف افراد ہی پر نہیں بلکہ اقوام پر ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کے اس تیز رو قافلے کی کوئی منزل نہیں ہر قافلہ یونہی چلتا رہتا ہے اور اگر اس کی کوئی منزل مقصود ہے تو وہ اس کا شوق سفر ہی ہے۔ اقبال نے ایک شعر میں اس کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کای ہے۔ گفتم کہ شوق سیر نبردش بہ منزلے گفتا کہ منزلش بہ ہمیں شوق مضمراست یعنی زندگی کے بارے میں میں نے سوال کیا کہ زندگی اس شوق سفر میں کسی منزل پر پہنچتی بھی ہے کہ نہیں جواب ملا کہ اس شوق سفر ہی میں اس کی منزل ہے گویا زندگی کی کشاکش ہی زندگی ہے اور وہی مقصود بالذات ہے۔ ٭٭٭ (47) نغمہ عافیت از بربط من می طلبی از کجا برکشم آں نغمہ کہ در تارش نیست (یہ شعر پیام مشر ق سے لیا گیا ہے جو ’’ مئی باقی‘‘ کی ایک غزل میں درج ہے) یہ شعر اقبال کے مجموعہ کلام پیام مشرق سے لیا گیا ہے۔ اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے ’’ تو میرے ساز بربط سے نغمہ امن و سکون طلب کر رہا ہے میں اس ساز سے وہ نغمہ کیسے پیدا کر سکتا ہوں جو اس کے تاروں میں موجود نہیں۔‘‘ اس شعر کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اقبال کے تصور شاعری کو سمجھا جائے۔ ذرا اس کے اس شعر کو سنئیے: مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے تب و تب جاودانہ بہار کا موسم جنون خیز ہوتا ہے لیکن یہ جنون، بہار کی طرح ہنگامی ہوتا ہے ادھر بہار رخصت ہوئی ادھر اس کا جوش بھی مدھم پڑ گیا۔ اقبال اپنے ہم صفیروں یعنی شعراء کے جوش کلام کو اسی جنون سے تعبیر کرتا ہے جو آمد بہار کا محتاج ہوتا ہے اور اپنے کلام کا سرچشمہ تب و تاب جاودانہ کو قرار دیتا ہے جس کی گرمی مسلسل دل کو گرمائے رکھتی ہے۔ اس تب و تاب جاودانہ سے وہ شعلے ابھرتے ہیں جو دوسروں کے دلوں کو گرما اور تڑپا سکتے ہیں۔ ایسی شاعری ہی اثر انگیز ہوتی ہے اور اسی اثر انگیزی سے زندگی میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔ذرا آج کے شعر کو ایک بار پھر سن لیجئے: نغمہ عافیت از بربط من می طلبی از کجا برکشم آں نغمہ کہ در تارش نیست اس میں اقبال نے نغمہ عافیت کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی سے شعر کا آغاز کیا ہے اقبال نے عافیت کے لفظ کو مخصوص معنوں میں استعمال کیا ہے اس کے نزدیک، زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو عافیت کوشی کا ہے اور دوسرا جفا طلبی کا۔ بعض لوگ زندگی کا تصور۔ امن و سکون کے انداز میں کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک زندگی کشمکش کا نام ہے۔ اقبال کا تصور حیات یہی کشمکش ہے یہی کشاکش پیہم ہے چنانچہ اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام اس کا مقولہ ہے ہر وہ شعر جو انسان کو اس کشاکش پیہم سے دور لے جائے وہ اس کے نزدیک انسانی زندگی کے لئے ضرر رساں ہے۔ ابتدا میں اقبال نے اپنی مثنوی اسرار خودی میں، حافظ شیرازی کے بارے میں بعض ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جو نازیبا تصور کئے گئے اور بالخصوص اس کے اس مصرعے پر کہ الخدر از گو سفنداں الحذر لوگ بہت برہم ہوئے تھے اور اقبال نے یہ اشعار بعد میں خارج کر دئیے لیکن ساتھ یہ بھی لکھا کہ لوگوں نے میری بات کی غلط توجیہہ کی ہے میری مراد حافظ علیہ الرحمتہ کی شاعری کی تنقیص نہیں تھی۔ میں ان کی ممتاز شخصیت اور ان کی شاعرانہ عظمت و کمال کا معتقد اور معترف ہوں۔ میری مراد صرف یہ تھی کہ پڑھنے والوں نے حافظ کے کلام سے جو اثر لیا ہے اور اس کے جو معانی مراد لئے ہیں وہ غلط ہیں۔ میرا اصل مقصود فارسی شاعری کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرنا ہے جس نے ہماری قوم میں سہل نگاری اور بے ہمتی پیدا کر دی ہے اور تقدیر اور تسلیم کا غلط تصور دلا کر ہماری قوت عمل کو پست کر دیا ہے۔ اقبال جب اپنے شعر میں ’’ نغمہ عافیت‘‘ کی ترکیب استعمال کرتا ہے تو اس کی مرا دیہی طرز حیات ہے جسے اس نے سہل انگاری کا مترادف قرار دیا ہے۔ اقبال اپنے دل و دماغ اور اپنی شاعری کے لئے بربط اور نغمے کا استعارہ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے دل و دماغ سے ایسے نغمے جن سے لوگوں کو سہل انگاری کا درس ملے اور وہ اس کے نشے میں کھو جائیں کیسے ابھر سکتے ہیں؟ میرے ساز دل کے تار اس نغمے سے بیگانہ ہیں۔ وہ نغمہ ان میں موجود ہی نہیں، میرے مضراب کے لگانے سے وہ آوازیں کہاں سے سنائی دیں۔ ٭٭٭ (48) دریں محفل زمن تنہا ترے نیست بچشم دیگرے بینم جہاں را (یہ شعر پیام مشرق کے چھپن ویں قطعہ کا دوسرا شعر ہے) یہ شعر اقبال کے فارسی قطعات میں سے ماخوذ ہے اقبال کہتا ہے کہ مجھ سے زیادہ اس محفل میں تنہا کوئی نہیں ہو گا۔ میں اس جہان کو او رہی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ تنہائی کئی طرح کی ہوتی ہے تنہا ہونے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ ایک انسان جسمانی یا مادی طور پر دوسرے انسان سے الگ تھلگ اور واحد ہو۔ جسمانی تنہائی کے علاوہ ذہنی تنہائی بھی ہوتی ہے اور ایک انسان ایک بھری محفل میں موجود ہوتے ہوئے بھی تنہا ہو سکتا ہے اگر کوئی شخص ذہنی طور پر محفل میں بیٹھنے والوں کا شریک نہ ہو تو وہ شخص یقینااس محفل میں تنہا ہے۔ دنیا میں جس انسان کو نابغہ جینیئس (Genius) کہا جاتاہے وہ ہمیشہ اپنے وقت سے ایک عرصہ پہلے پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو دنیا والے اس کی قدر و اہمیت کو نہیں پہچان سکتے۔ اور ا سکی باتوں سے نا آشنا ہوتے ہوئے اس سے بے رخی برتتے ہیں۔ بے رخی ہی نہیں بلکہ بسا اوقات اس کی باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے اس سے غلط سلوک کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ ایک ذہین اور غیر معمولی قابلیت رکھنے والے انسان کی ذہنی سطح عام انسانوں کی ذہنی سطح سے بہت بلند ہوتی ہے اور جب یہ عالم ہو تو پھر ایسے انسان اور تمام انسانوں کے خیالات میں افترا ق کا ہونا ناگزیر ہے۔ بلند نظر انسان اپنی سطح سے نیچے نہیں دیکھ سکتا اور نیچی سطح پر رہنے والے اسے پریشان نظروں سے دیکھتے ہیں اور اکثر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس احساس کمتری کا ظہور مختلف صورتوں میں ہوتا ہے اور اس کا رد عمل خطرناک نتائج پیدا کرتاہے۔ تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ ایسی عظیم الشان ہستیاں دنیا والوں کے ہاتھوں کس طرح رنج و کرب میں مبتلا ہوئی ہیں او ردنیا والوں نے ان پر کیا کیا جور و ستم ڈھائے ہیں۔ قدرت کی یہ ستم ظریفی ہے کہ جب وقت گذر جاتا ہے اور انسان اپنی طبعی ترقی کے مراحل طے کرنے کے بعد ایسے ذہن انسانی بلندی تک پہنچتے ہیں تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت ان کا افسوس کرنا بے فائدہ ہوتا ہے۔ یونان کے فلسطی سقراط کو دیکھئے کہ اس کے ہمعصر اس کے خیالات اور افکار کی بلندی تک نہ پہنچ سکے اور انہوں نے اپنی جہالت اور غفلت سے اسے جام زہر پلا دیا۔ لیکن صدیاں گزرنے کے بعد جب وہ ترقی کر کے اس سطح پر پہنچے تو انہیں سقراط اور اس کے فلسفیانہ افکار و عقائد کی عظمت اور اہمیت کا احساس ہوا۔ اور دور کیوں جائیں۔ مرزا غالب نے جب فارسی اور اردو شاعری میں نئے نئے افکار اور نیا نیا اسلوب بیان پیش کیا تو اس کے ہم عصروں نے اسے مہمل گو کا لقب دیا اور اسے: گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل کے الفاظ کہنے پڑے۔ لیکن وہی غالب تھا اور وہی اس کا کلام تھا کہ پچاس سال گزرنے کے بعد لوگوں کو اس کے اشعار کی عظمت کا پتا چلا اور لوگوں نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ وہ اس کے تتبع کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرنے لگے۔ اقبال نے اپنے بارے میں یہ کہا کہ من صدائے شاعر فرد استم یعنی میں کل آنے والے شاعر کی صدا ہوں جس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ میں آج جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے اس عہد کے لوگ نہیں سمجھ سکتے اس لئے کہ یہ باتیں ان کے ذہن و فکر سے بالاتر ہیں۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ میرے افکار اور کلام کی گہرائیوں تک پہنچ سکیں گے۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ ایک انسان جس کے گرد و پیش رہنے والے اس سے ذہنی طور پر اتنے دور ہوں تو وہ انسان ان سے کتنا بیگانہ اور اجنبی ہو گا۔ اسی بیگانگی اور اجنبیت کا نام تنہائی ہے اور ایسی تنہائی، مادی تنہائی سے کہیں زیادہ رنج دہ ہوتی ہے۔ اقبال اسی تنہائی کا ذکر کرتا ہے وہ کہتا ہے۔ دریں محفل زمن تنہا ترے نیست بچشم دیگرے بینم جہاں را کہتا ہے میں اس محفل میں یعنی دنیا میں موجود تو ہوں لیکن اس کے باوجود اکیلا ہوں میرے اکیلے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرا انداز فکر سب سے الگ ہے وہ بھی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں اور زندگی اور زندگی کے کاروبار کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن میں دنیا اور زندگی کو اور ہی طرح دیکھتا ہوں میرا تصور کچھ اور ہی ہے اور اس معاملے میں میرا کوئی ہمراز نہیں۔ ہمراز تو درکنار کوئی میری بات کو سمجھنے کے بھی قابل نہیں۔ اس شعر میں اقبال نے اس بات کو بڑے شاعرانہ اور فنکارانہ حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: بچشم دیگرے بینم جہاں را دنیا کو ایک اور ہی آنکھ سے دیکھنے میں جوبلاغت ہے وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ٭٭٭ (49) نواز ز حوصلہ دوستاں بلند تر است غزل سرا شدم آنجا کہ ہیچکس نشنید (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اس شعر کا اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ میرے نغموں کے سر میرے دوستوں کے حوصلے سے زیادہ اونچے ہیں، میں نے ایک ایسی جگہ غزل سرائی کی کہ جہاں اسے کسی نے نہیں سنا۔‘‘ یہ بات عام تجربے کی ہے کہ دنیا میں ایک غیر معمولی ذہانت رکھنے والا انسان جسے نابغہ کہتے ہیں اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے عہد کے لوگوں کی ذہنی سطح اس کی ذہنی سطح سے بہت نیچی ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہم عصر لوگ اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے اور اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس کی آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر یہ معاملہ بات نہ سمجھنے تک ہی محدود رہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا لیکن اس بیگانگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات کرنے والا نہ صرف خود کو اس فضا میں اجنبی محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے گرد و پیش کے رہنے والے لوگ اس سے اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان میں غیر شعوری طور پر نفرت کا جذبہ جنم لے لیتا ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے اس احساس کو چھپانے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو اس بلند شخصیت انسان کے لئے ضرر رساں ہوتی ہیں۔ انسانی طبیعت کا یہ خاصا ہے کہ وہ عموماً رسمی اور روایتی چیزوں کو پسند کرتی ہے سہولت کے علاوہ روایت پسندی ایک ایسا شعار بن جاتا ہے جس کی پابندی کرنا وضعداری شرافت اور عظمت کی نشانی خیال کیا جاتا ہے اور جب کوئی غیر معمولی ذہانت رکھنے والا انسان زندگی کے مسائل پر نئے انداز میں سوچتا ہے اور اس کے خیالات اور اس کے طرز عمل میں کوئی جدت ہوتی ہے تو لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں اور یہ ناپسندیدگی اکثر شدت اختیار کر لیتی ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا والے نئے انداز میں سوچنے والوں سے کیا کیا بدسلوکیاں کرتے رہے ہیں۔ وحی الٰہی کے لانے والے انبیا کو انسانوں نے کیا کیا اذیتیں پہنچائی ہیں۔ اولیاء کرام ان کی زد سے نہیں بچے۔ بڑے بڑے فلسفی، فنکار اور دانشور دنیا والوں کی کم فہمی کے باعث ان کی بے رخی اور بے اعتنائی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ ایک زمانہ گزر جانے کے بعد جب دنیا کی ذہنی سطح بلند ہوئی تو لوگوں کو ہوش آیا اور انہیں اپنے کئے پر ندامت ہوئی اور انہوں نے گم شدہ جواہر ریزوں کو تلاش کر کے گلے سے لگایا۔ ابھی کوئی پچاس برس پہلے اسی سر زمین میں مرزا غالب کو مہمل گو کہا جاتا تھا۔ اقبال نے جب اپنی شاعری میں فکر اور اسلوب کا رنگ بدلا تو لوگوں نے اسے وہی طعنہ دیا جو مرزا مرحوم کو دیا تھا۔ اقبال کے اس شعر پر کہ نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی پھبتیاں کسی گئیں۔ لوگوں نے طنزاً کہا کہ سیب خام تو سنتے آئے تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ’’نالہ خام‘‘ کیا بلا ہے انہیں کیا خبر تھی کہ بلبل شوریدہ کا استعارہ اقبال خود اپنے لئے استعمال کر رہا ہے۔ وہ محسوس کر رہا ہے کہ اس کے نغمے ابھی خام ہیں پختہ نہیں ہوئے۔ ابھی ان نغموں کو سینے میں روک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی فضا سازگار بھی نہیں کہ ان کا اظہار کیا جائے۔ اقبال کے نغمے پختہ بھی ہو گئے ہیں لیکن سننے والوں کی کم فہمی اور بے رخی کا وہی عالم رہا۔ اور اسے یہ کہنا پڑا: ’’من صداے شاعری فردا ستم‘‘ میں آنے والے کل کے شاعر کی آواز ہوں۔ میرے اشعار آج کے لوگ نہیں، آئندہ نسل سمجھ سکے گی۔ اب ذرا آج کے شعر کو سنئے! نوا ز حوصلہ دوستاں بلند تر است غزل سرا شدم آنجا کہ ہیچ کس نشنید اس کے نغموں کی آواز، اس کے سننے والوں کے کانوں کے لئے نا مانوس تھی اس لئے کوئی انہیں سن نہ سکا۔ اس شعر میں اقبال نے ایسے نا آشنا لوگوں کے لئے دوستوں کا لفظ استعمال کیا ہے جو بہت پیارا ہے وہ ان کی کم فہمی کے لئے حوصلہ کا لفظ لایا ہے۔ ’’ حوصلہ دوستاں‘‘ کے لفظوں سے صاف عیاں ہے کہ ان لوگوں میں شاعر کی باتیں سننے کا حوصلہ یا تاب نہیں۔ نظیری نیشاپوری نے کیا خوب کہا ہے: نوا فزود ز اندیشہ بریشم عود غزل بہ زمزمہ خوانم کہ پردہ ہا پست اند عود ساز کا نام ہے زمزمہ دھیمے سروں میں گائے ہوئے راگ کو کہتے ہیں۔ پردہ سر ہے نظیری کہتا ہے: ’’ کہ میرے نغموں کی آواز ساز کے سروں سے اونچی ہے اس لئے مجھے دھیمے سروں میں راگ گانا پڑا کیونکہ سازوں کے سر نیچے سر ہیں۔‘‘ نظیری اور اقبال دونوں زمانے کے ستم رسیدہ تھے لیکن نظیری زمانے کی ناقدری سے تنگ آ کر اپنے آپ کو ان کی سطح پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٭٭٭ (50) مکتب و میکدہ جز درس نبودن ندہند بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود (یہ شعر ضرب کلیم کی ایک چھوٹی سی نظم ’’ وجود‘‘ کا آخری شعر ہے) اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود کون سمجھائے تمہیں کیا ہیں مقامات وجود انسان کی ہستی اس دنیا میں ایک شرر کی طرح ہے کہ ایک لمحے کے لئے نمودار ہوتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ اسے کیوں کر بتایا جا سکتا ہے کہ ہستی کیا ہے اور ہستی کے مختلف مقامات کیا ہیں۔ پہلے زیر بحث شعر کو پھر سے سن لیجئے۔ مکتب و میکدہ جز درس نبو دن ندہند بودن آموز، کہ ہم باشی و ہم خواہی بود بودن، ہونا وجود کی حالت کو ظاہر کرتا ہے کہ نبودن، بودن کی ضد ہے جس سے وجود کی نفی مقصود ہے یعنی نہ ہونا۔ شاعر کہتا ہے کہ مکتب اور میکدہ دو مقام ایسے ہیں جہاں تجھے ایسا درس ملتا ہے جو تیری ہستی کو ختم کر دیتا ہے۔ تجھے اپنے وجود کو قائم رکھنے کا درس لینا چاہیے جس سے تیرا وجود آج بھی ہو گا اور آئندہ بھی قائم رہے گا۔ اقبال نے وجود کے لیے جو عربی زبان کا کلمہ ہے فارسی کا لفظ’’ بودن‘‘ استعمال کیا ہے مکتب، درسگاہ ہے جہاں انسان علم و دانش حاصل کرتا ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان علم تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔ دوسری طرف میکدہ ہے جہاں شراب انسان کو بے خود کر دیتی ہے دونوں مقام، انسان سے اس کی خودی کو چھین لیتے ہیں اور وجود نام ’’ خودی‘‘ اور شخصیت کے استحکام کا ہے۔ جو چیز انسان کی شخصیت اور اس کی انا کو کمزور یا ختم کرتی ہو وہ انسان کو ترک کر دینی چاہیے۔ اقبال کے نزدیک علم بھی وہی اچھا ہے جس سے انسان کی شخصیت اور خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہنر اور فن بھی وہی جو صاحب ہنر کی شخصیت کی عظمت کا آئینہ دار ہو اور ہنر و فن کے پرستاروں میں ایسی ہی عظمت کو بیدار کرنے میں معاون ہو۔ا گر یہ نہیں تو فن جو بھی ہو گا، غلط ہو گا۔ گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر واء صورت گری، و شاعری و ناے و سرود اقبال نے ایک اور چھوٹی سی نظم میں اسی نوع کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو تیری سپہ انس و جن تو ہے امیر جنود شاعری میں لفظی شعبدہ بازیاں، کوئی مستحن کام نہیں لیکن نفس انسانی کی باریک اور بو قلموں کیفیات اور افکار کی گہرائیاں الفاظ ہی کے ذریعے ابھرتی ہیں۔ اقبال نے اپنے شعر میں لفظی صناعی سے بڑے لطیف اور گہرے خیال کو اجاگر کیا ہے۔ ’’ وجود‘‘ کے تصور کو واضح کرنے کے لیے اس نے مصدر بودن اور اس کے مشقات متعلقات کو اس خوبی سے استعمال کیا ہے جیسے کوئی مصور اپنی تصویر میں مختلف رنگ آمیزیاں کرتا ہے۔ ٭٭٭ (51) بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت (یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے جو ایک قطعہ ’’ حکمت و شعر‘‘ میں درج ہے) اقبال نے اس شعر میں اپنے فلسفیانہ افکار کی وضاحت کے لیے ایک پرانی عشقیہ داستان عرب کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے اور وہ عشقیہ داستان، مجنوں اور لیلیٰ کی داستان ہے۔ لیلیٰ محمل میں سوار جا رہی ہے اور مجنوں، یعنی قیس عامری اس کی تلاش میں سرگرداں ہے اقبال نے لیلیٰ اور ناقہ اور محمل کو بطور علامتوں کے استعمال کیا ہے لیلیٰ در حقیقت حق کی علامت ہے اور بو علی اور رومی دونوں تلاش حق میں محو ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بو علی (کہ اس سے مراد مشہور مفکر اسلام، بو علی سینا ہے) اس راہ میں کھو گیا ہے جسے اقبال اپنے شاعرانہ انداز میں یوں بیان کرتا ہے کہ ’’ بو علی اندر غبار ناقہ گم‘‘ بو علی محمل اور ناقہ کی تلاش میں سرگرداں ہے گویا وہ اسے پاجانے کے عوض، راہ کے گرد و غبار میں الجھ کر راہ بھول گیا ہے اور لیلیٰ تک اس کی رسائی کی کوئی صورت نہیں۔ بالفاظ دیگر اس راہ محبت میں بو علی کی سعی و کوشش اور تگ و دو ایک صاحب عقل و خرد کی جدوجہد ہے جس کا انجام حقیقت سے محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ بو علی، فارابی، رازی سب کے سب، حقیقت ازلی کو عقل و خرد کی روشنی میں تلاش کرنے والے ہیں۔ یہ ایسے ہیں جیسے کوئی دھندلا سا چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔ اقبال خود فلسفی تھا اور علم و حکمت اور فلسفے کا دلدادہ تھا ۔ لیکن اس علم و حکمت کی بصیرت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں سوز عشق بھی تھا وہ خود کہتا ہے۔ اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی پیام مشرق میں ایک جگہ وہ فلسفے اور عقلیت کے گرداب سے باہر آنے کا تذکرہ بھی کرتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے مرشد روحانی مولانا رومی کو رہنما تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب فلسفے کے سمندر میں میری عقل کی کشتی ڈگمگانے لگی تو عارف رومی نے آگے بڑھ کر مجھے سنبھالا اور کہا کہ دیکھ تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے۔ اس طرح ساحل مراد پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس کے لیے راہ عشق کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور سفر عشق، عقل و خرد سے طے نہیں ہوتا۔ راہ حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے، رمز شناس عشق ہونا شرط ہے۔ اقبال کو رومی کے کلام میں یہی جذبہ کار فرما نظر آیا۔ اور اس میں اسے اپنا نظریہ حیات دکھائی دیا۔ وہ رومی کے طرز فکر و عمل اور اس کے سوز عشق کو تصوف کی روح سمجھتا ہے اور فلسفے اور سائنس کی مظاہر پرستی اور مذہب کی ظاہر داری کے خلاف، اسی سوز عشق کو سرچشمہ حیات قرار دیتا ہے۔ اسی سے انسان میں حقیقی بصیرت پیدا ہوتی ہے اور روحانی قوت آتی ہے۔ انسان بو علی کی طرح لیلیٰ کے محمل کی تلاش میں راہ کے گرد و غبار میں نہیں کھو جاتا، بلکہ رومی کی طرح آگے بڑھ کر پردۂ محمل کو اٹھا لیتا ہے اور اپنے شاہد مقصود کے دیدار سے لذت یاب ہوتاہے۔ ٭٭٭ (52) با سکندر خضر در ظلمات گفت مرگ مشکل، زندگی مشکل تر است (یہ شعر پیام مشرق کے ایک قطعہ کا شعر ہے ’’ جو خردہ‘‘ کے تحت درج ہے) ’’ تلمیح‘‘ شعر و ادب کی ایک اصطلاح ہے۔ اس میں کسی تاریخی واقعہ یا قصے کہانی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر یا ادیب اس اشارے کے اختصار میں بڑی بڑی باتیں کر دیتا ہے۔ جب تک پڑھنے والے کے ذہن میں تلمیح کا پورا پس منظر موجود نہ ہو اس کے لیے کسی شعر یا ادب پارے کو کماحقہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس شعر میں سکندر اورخضر کے ایک مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ خضر، سکندر کے ہمراہ آب حیات کی تلاش میں نکلے۔ چونکہ آب چشمہ حیواں، ظلمات میں تھا جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔ کہ آب چشمہ حیوان درون تاریکی است سکندر تشنہ لوٹے اور خضر نے آب حیات نوش کر لیا اور اس سے زندگی جاودانی حاصل کر لی۔ مرزا غالب نے اسی واقعے یا تلمیح پر اپنے مخصوص انداز میںلطیف سی طنز کی ہے۔ کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی خضر کی یہ تلمیح، فارسی اور اردو شاعری میں کثرت سے آتی ہے اور اس سے ہمارے شعرا نے بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں پیدا کی ہیں۔ دور کیوں جائیں اقبال ہی کا ابتدائی دور کا ایک شعر ہے۔ تجھے کیا بتائیں اے ہم نشیں ہمیں موت میں جو مزا ملا نہ ملا مسیح و خضر کو بھی وہ نشاط عمر دراز ہیں یہاں ضمنی طور پر یہ بتا دینا نا مناسب نہ ہو گا کہ خضر کا لفظ، خضر اور خضر دونوں طرح آتا ہے۔ بہرحال اقبال کا شعر پھر سنئے با سکندر خضر، در ظلمات گفت مرگ مشکل زندگی مشکل زاست شعر کا اردو ترجمہ ہے: ’’ ظلمات میں خضر نے سکندر سے کہا۔ موت بڑی کٹھن چیز ہے لیکن زندگی اس سے کہیں زیادہ کٹھن ہے۔‘‘ اقبال اس واقعے کے ایک نئے پہلو کو ہمارے روبرو لاتا ہے۔ سکندر خضر کے ہمراہ اس لیے گیا تھا کہ وہ موت سے خائف تھا اور چاہتا تھا کہ آب حیات پی کر ہمیشہ رہنے والی زندگی حاصل کرے تاکہ اسے موت سے نجات مل جائے۔ لیکن وہ چیز اسے نصیب نہ ہو سکی۔ خضر اس راز سے واقف تھے اسی لیے اقبال اس نکتے کو خضر کی زبان سے ادا کرتا ہے۔ خضر، سکندر سے کہتے ہیں کہ موت کٹھن شے ہے اور تو اس سے خوف زدہ ہے اور اس سے بچنا چاہتا ہے لیکن یہ بھی سن لے کہ موت سے بچ کر تو جدھر کا رخ کرنا چاہتا ہے وہ راستہ اور بھی دشوار ہے۔ یہ زندگی کا راستہ ہے جو تجھے موت کے مقابلے میں آسان نظر آتا ہے۔ زندگی تو بڑی کڑی منزل ہے اور پھر زندگی بھی زندگی جاوداں اس کی تو تاب نہیں لا سکے گا۔ زندگی کی کیا مشکلات ہیں انہیں ذرا اقبال ہی کی زبان سے سنئیے: می خورد، ہر ذرۂ ما پیچ و تاب محشرے در ہر دم ما مضمر است یعنی ہمارے وجود کا ہر ذرہ، پیچ و تاب کھا رہا ہ۔ ہمارے ہر سانس میں ایک محشر بپا ہے۔ ایک اور شعر میں کہتا ہے: مرید ہمت آن رہر دم کہ پانگذاشت بہ جادۂ کہ درو، کوہ و دشت و صحرا نیست کہ میں تو اس باہمت رہرو کا مرید ہوں جو ایسے راستے میں قدم نہیں رکھتا جہاں پہاڑ، جنگل، اور بیابان نہ ہوں۔ شاعر اس انداز کی باتوں سے اپنے سامعین سے زندگی میں جدوجہد، تنومندی اور استقلال پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ٭٭٭ (53) زندگی را چیست رسم و دین و کیش یک دم شیرے بہ از صد سال میش (یہ شعر جاوید نامہ سے لیا گیا ہے جو ’’ پیغام سلطان شہید بہ رود کا ویری حقیقت حیات و مرگ و شہادت‘‘ کے تحت درج ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ زندگی کے رسوم و آئین کیا ہیں؟ سو سال بکری بن کر جینے سے ایک لحظہ شیر بن کر جینا بہتر ہے۔ یہ شعر جاوید نامے سے ماخوذ ہے جاوید نامے میں ایک جگہ سلطان شہید، سلطان ٹیپو دریائے کلویری سے خطاب کرتے ہیں اور اس میں موت و حیات کی حقیقت پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی شہادت کا ذکر کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اے انسان اگر تیرا سینہ تیر کھانے کے قابل ہے تو شاہیں بن کر زندگی بسر کر اور شاہین کی موت حاصل کر۔ اس لئے کہ تسلیم جان ہی زندگی کا ثبات ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے طویل زندگی کی خواہش نہیں کی سو سالہ بزدلانہ زندگی گزارنے سے تو ایک لمحہ کی دلیرانہ زندگی بہتر ہے۔ اس عبارت کے یہ آخری الفاظ آج کے شعر کا ترجمہ ہیں اس شعر میں اقبال نے سلطان شہید کے اس قول کو فارسی کا جامہ پہنایا ہے کہ گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ اقبال اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ زندگی تسلیم و رضا سے محکم ہوتی ہے۔ تسلیم و رضا کی شان رکھنے والا مومن انسان موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ موت کو موت نہیں سمجھتا۔ بلکہ موت کو زندگی کے مختلف مقامات میں سے ایک مقام خیال کرتا ہے۔ بندۂ حق موت سے مرعوب ہونے کی بجائے موت پر غالب آ جاتا ہے ایک غلام انسان موت کے خوف سے ہر لحظہ مرتا ہے۔ موت کے خوف سے اس کی زندگی حرام ہو جاتی ہے لیکن ایک مرد آزاد کی زندگی ہر آن ایک نئی شان ہوتی ہے۔ موت اسے ایک حیات تازہ عطا کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی عظمت کو پہچانتا ہے وہ ’’ خود اندیش‘‘ ہوتا ہے ’’ مرگ اندیش‘‘ نہیں ہوتا۔ او خود اندیش است مرگ اندیش نیست مرگ آزاداں ز آنے بیش نیست ایک بندۂ حق، ایک مرد مجاہد کی موت تو ایک لمحے سے زیادہ نہیں ہوتی وہ ایک آن میں نئی اور وسیع تر زندگی کے میدان میں قدم رکھتا ہے مرزا غالب کا شعر ہے۔ کار فرمائی شوق تو قیامت آورد مردم و باز بایجاد دل و جاں رفتم ایک موت وہ ہوتی ہے جو لحد سے ہمکنار ہوتی ہے اور یہ موت دام و دو کی موت ہے مرد مومن کی موت اسے خاک سے بلند تر مقام پر لے جاتی ہے یہ موت، راہ شوق کا سفر ہے جو عاشق کو محبوب کی طرف کشاں کشاں لے جاتا ہے یہ دوست کی طرف ہجرت کرنے کا نام ہے یہ دنیا کو ترک کرنے اور کوئے دوست کی طرف قدم اٹھانے کا نام ہے۔ مومن کا جہاد دوست کی طرف ہجرت کرنا ہے آنحضرت ؐ کا فرمان ہے: ’’الجہاد رھبا فیتہ الاسلام‘‘ جہاد اسلام کی رہبانی کا نام ہے اس اعلیٰ مقام کی عظمت کو شہید کے سوا کوئی نہیں پہچانتا کیونکہ وہ اسے اپنا خون دے کر خریدتا ہے۔ ایسے بندگان حق اور مردان مجاہد کی زندگی ہزاروں انسانوں کی زندگی پر بھاری ہوتی ہے اور اس زندگی کا ایک لمحہ دوسروں کی صدیوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہ زندگی، حسین ابن علی ہی کی زندگی ہے اور اسی کا عکس ہمیں سلطان شہید کی زندگی میں نظر آتا ہے شہید کربلا کی شہادت نہ صرف ان کی ایک تازہ زندگی کا پیش خیمہ تھی بلکہ پوری ملت اور دین اسلام کی زندگی کا پیغام تھی۔ اسلام زندہ ہوتا ہے کربلا کے بعد (54) بہ کیش زندہ دلاں زندگی جف اطلبی است سفر بہ کعبہ نہ کردم کہ راہ بے خطر است (یہ شعر پیام مشرق کی غزل سے ماخوذ ہے) اقبال کا یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اس کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے کہ زندہ دلوں کے دین میں زندگی جفا طلبی کا نام ہے۔ میں نے کعبے کا سفر اس لئے نہیں کیا کہ کعبے کی راہ میں کوئی خطرہ نہیں۔ اقبال نے اپنی ا ردو اور فارسی کی شاعری میں بہت سے الفاظ، اصطلاحات اور تلمیحات کے معنی بدل دئیے ہیں۔ اگرچہ اس کی نظموں کی ظاہری ہیئت قدیم انداز کی ہے اور وہ بڑی سختی سے پرانی اضاف اور بحروں کی پابندی کرتا ہے لیکن جہاں تک اس کے خیالات اور شعری معتقدات کا تعلق ہے۔ اس کا رنگ بالکل نیا ہے وہ قدیم تلمیحات کو استعمال کرتا ہے لیکن ان تلمیحات کی توجیہات اس کی اپنی توجیہات ہیں جن میں وہ نئے نئے معنے بھر کر اپنے افکار کو سموتا ہے۔ اس کے کلام میں کلیم، فرہاد، لیلیٰ، قیس، شیریں، بے ستوں، نئے معنوی لباس میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ بالکل نئی شعری علامتوں کے رنگ میں استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس شعر میں زندہ دلاں کے لفظ ہی کو لے لیجئے۔ یہاں اس لفظ کا مفہوم اس زندہ دل سے بالکل مختلف ہے جو اس شعر میں ہے۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں ظاہر ہے کہ اس شعر میں زندہ دلی سے مراد محض خوش خوش زندگی بسر کرنا ہے لیکن اقبال کے شعر میں زندہ دل کا مفہوم بالکل اور ہے او رزندہ دل مردہ دل کی ضد نہیں بلکہ زندہ دل سے مراد وہ انسان ہے جو زندگی کے ذوق و شوق سے بھرپور ہے۔ جو خطرات میں بھی افسردہ ہونے یا گھبرانے کی بجائے اور بھی آمادۂ کار ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک تازہ زندگی آ جاتی ہے بلکہ اس کے لئے یہ خطرات ہی زندگی ہیں اور ان خطروں کی جستجو اور تلاش میں لگے رہنے ہی کو وہ زندگی سمجھتا ہے۔ زندگی کے بارے میں اقبال کا یہ تصو ر تو اس کے اس مصرعے سے واضح ہے کہ ’’اگر خواہی حیات اندر خطر زی‘‘ وہ تو زندگی کو مسلسل کشاکش ہی سے تعبیر کرتا ہے مرزا غالب نے اپنے ایک شعر میں گویا اقبال ہی کی ہمنوائی کی ہے۔ وہ کہتا ہے۔ بے حجابا در بلا بودن بہ از بیم بلاست قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است کہ مصیبتوں میں بے دھڑک کود پڑنا، مصیبتوں کے خوف سے لرزاں رہنے سے بدرجہا بہتر ہے سمندر میں سطح آب پر ابھرتی لہروں کے طوفاں سے ہراساں ہونے سے کیا فائدہ یہ نظارہ تو بڑا آتش ناک ہے۔ سمندر کی تہہ میں غوطہ لگاؤ تو معلوم ہو کہ وہاں گویا سلسبیل کی نہر بہہ رہی ہے۔ اقبال نے پیام مشرق ہی میں ایک نظم بہشت کے عنوان سے لکھی ہے اور اس میں اپنے نظریہ حیات یا تصور زندگی کو سامنے رکھ کر بہشت کی زندگی پر اظہار خیال کیا ہے کہتا ہے کہ جنت میں نہ تو کوئی یوسف قید و بند میں پڑا ہوتا ہے اور نہ کسی زلیخا کا دل یوسف کے لئے فریاد کرتا ہے نہ وہاں خلیل کو آتش نمرود سے گزرنا پڑتا ہے اور نہ کلیم کے سینے میں شعلے ابھرتے ہیں وہاں کشتیاں طوفان سے دو چار نہیں ہوتیں اور وصال کو فراق کے صدمے نہیں اٹھانے پڑتے اور پھر کہتا ہے ایسی جگہ زندگی کا لطف مزی اندر جہانے کور ذوقے کہ یزداں وارد و شیطاں نہ وارد چنانچہ اقبال نے اسی تصور کے ماتحت آج کے شعر میں کعبے کا لفظ استعمال کیا ہے سفر کعبہ سے اس کی مرا دکوئی دینی فریضہ نہیں بلکہ وہ اسے بطور ایک علامت کے استعمال کرتا ہے جس طرح ا سنے بہشت کی نظم میں بہشت کو بطور ایک علامت کے استعمال کیا ہے۔ یعنی ایسی جگہ جو زندگی کی تمام کشمکشوں سے خالی ہے۔ وہ زندگی کی کشاکش کے مقابلے میں سفر کعبہ کو ایک آسان اور سہل راہ خیال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ راہ چونکہ بے خطر ہے اس لئے ایسی راہ پہ چلنے کا کیا فائدہ ہے۔ ٭٭٭ (55) چساں در مشت خاکے تن زند دل کہ دل دشت غزالان خیال است (یہ شعر پیام مشرق کے ایک قطعہ سے ماخوذ ہے) اقبال کہتا ہے کہ دل اس مشت خاک یعنی جسم انسانی میں کیونکر خاموش اور سکون سے رہ سکتا ہے کہ یہ تو ایک ایسے دشت کی حیثیت رکھتا ہے جہاں خیالات کے غزل دوڑتے پھرتے ہیں۔ رابرٹ براؤننگ، انگریزی کے ایک مشہور شاعر نے اپنی ایک نظم میں ایک لطیف نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نظم میں دو یکدل دوست ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہیں اور وصال کی اس انتہائی کیفیت میں عاشق کا دل بیتاب ہے۔ جس پر براؤننگ لکھتا ہے کہ اس بے تابی کی وجہ یہ ہے کہ ایک غیر فانی شے یعنی محبت، ایک فانی شے یعنی انسان میں سما گئی ہے اور اسی لئے تڑپ رہی ہے۔ اقبال بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک اور جگہ اپنی نظم سرود انجم میں انسان کے متعلق ستاروں کی زبان سے یہ کہلواتا ہے۔ ’’خاک خموش و در خروش ست نہاد و سخت کوش‘‘ یعنی انسان ہے تو ایک بے جان مٹھی بھر خاک لیکن سر تا پا خروش، ایک ہنگامہ ہے۔ ست نہاد یعنی اتنا کمزور اور بے بنیا دکہ ٹھیس لگے تو ٹوٹ جائے لیکن اتنا سخت کوش کہ پہاڑ سامنے آئے تو کاٹ کر رکھ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کا سارا جوش و خروش ہی انسانی قلب کے طفیل ہے اور اسی لئے اس قالب خاکی میں جان ہے۔ انسانی دل ہی جذبات کا سرچشمہ ہے اور افکار اور خیالات کی آماجگاہ ہے۔ علم و حکمت اور عقل و خرد انسان کی آنکھوں میں بصارت اور بصیرت پیدا کرتے ہیں لیکن انسانی زندگی کی تکمیل بغیر جذبے کے نہیں ہو سکتی اور دل جذبات کا سرچشمہ ہے عقل اور جذبے کی باہمی ہم آہنگی اور امتزاج ہی سے زندگی میں جان آتی ہے۔ جذبے ہی سے انسان دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے۔ عقل محض، انسان کو یا تو خود غرض بنا دیتی ہے یا پھر کار زار حیات میں ایک بزدل سپاہی جو خطرات کا سامنا کرنے سے پہلے سور بار سوچتا اور قدم قدم پر رکتا ہے۔ اقبال اسی جذبے کو عشق بھی قرار دیتا ہے۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق ومحبت کی ساری بے تابیاں دل ہی کے طفیل ہیں۔ اگر یہ بے تابیاں ختم ہو جائیں تو زندگی افسردہ اور بے کیف ہو کر رہ جائے۔ اقبال نے اس شعر میں اس خیال کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے جس سے اس کا یہ شعر ایک حسین مرقع بن گیا ہے ذرا غور کیجئے: چساں در مشت خاکے تن زند دل کہ دل دشت غزالان خیال است تن زون فارسی میں خاموش اور آسودہ ہونے کو کہتے ہیں۔ یہ مصدر تن زون سے مرکب ہے۔ اور مشت خاک کے ساتھ یہ مصدر جس میں تن کا لفظ آیا ہے بڑا موزون ہے دوسرے مصرعے میں اقبال انسانی تخیلات اور جذبات کو غزالوں سے تشبیہہ دیتا ہے غزال میں حسن بھی ہوتا ہے۔ اور سبک رومی اور سبک خرامی بھی پائی جاتی ہے۔ جنگل میں ہرنوں کے خرام ناز کو کسی نے نہیں دیکھا اور اس کے تگ و دو کے ہنگامے کس کی نظر سے نہیں گزرے ۔ اقبال نے دل کو خیال آفرینیوں کا سرچشمہ ٹھہرایا ہے اور جذبات کی ہنگامہ آرائیوں کا مرکز قرار دیا ہے۔ ذرا ان لفظوں کے حسن و خوبی کو دیکھئے: ’’دشت غزالان خیال‘‘ دل کو غزالان خیال کا دشت کہنا کتنا فصیح ہے اس میں کتنی شاعرانہ رعنائی پائی جاتی ہے اس سے انسان کے قلب کی وسعتوں کی تصویر ہماری نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ ٭٭٭ (56) زخود گذشتہ اے قطرۂ محال اندیش شدن بہ بحر و گہر برنخاستن ننگ است (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے ماخوذ ہے) یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل کا ہے اس کا اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ اے محال اندیش قطرۂ آب! تو اپنے آپ سے گذر تو چکا لیکن سمندر میں غوطہ زن ہونا اور پھر موتی بن کر نہ ابھرنا یہ تیرے لئے باعث شرم ہے۔‘‘ اقبال نے اس شعر میں انسان کے لئے قطرے کا استعارہ اور خدائے بزرگ و برتر یا یوں کہئے کہ بلند ترین مطح حیات کے لئے سمندر کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ یہ استعارہ اگرچہ کوئی نیا استعارہ نہیں تاہم اقبال نے اسے بڑی فنی مہارت کے ساتھ برتا ہے اور اس کے لئے خوبصورت اسلوب بیان اختیار کیا ہے، صوفیاء کے ہاں یہ تصور عام ملتا ہے اور وہ اس استعارے سے انسان کی زندگی کے سارے سفر کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ قطرہ سمندر ہی سے ابھرتا ہے اور پھر اپنی زندگی کی مختلف منزلیں طے کرتا ہوا آخر سمندر میں جا ملتا ہے۔ وہ بخارات کی صورت میں آتا اور پھ ربادل بن کر برستا ہے اور بارش کے پانی کا سیلاب بن کر ندی، نالے، اور دریا کا روپ دھار کر سمندر میں جا گرتا ہے۔ سمندر سے لے کر سمندر تک اس کی زندگی سرتاپا فراق کی زندگی ہے جس میں وہ اپنے اصلی مرکز سے جدا رہ کر تڑپتا ہے اور اس سے دوبارہ پیوست ہونے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ صوفی شعراء نے انسان کے اس فراق و وصال کے لئے اور بھی کئی ایک استعارے استعمال کئے ہیں لیکن قطرے اور سمندر کا استعارہ بہت عام ہے اور اس لئے عام ہے کہ یہ بہت نمایاں ہے قطرہ بظاہر سمندر میں گر کر اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے لیکن اس کا اس طرح فنا ہو جانا ہی اس کے لئے معراج حیات ہے۔ غالب کہتا ہے: ’’عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘‘ سمندر سے الگ ہو کر اپنے اصلی سرچشمے تک پہنچنے کے لئے تڑپتا ہے لیکن اس ساری تگ و دو میں بظاہر یہ ناچیز سا قطرہ اپنے میں سمندر کو سمیٹے ہوتا ہے۔ دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا گویا جس طرح منصور نے انا الحق کہا ہے اسی طرح قطرہ، انا البحر کا نعرہ لگاتا ہے کہ میں سمندر ہوں۔ یہ تمام باتیں اقبال کے شعر کا پس منظر ہیں شعر کو دوبارہ سنئے: زخود گذشتہ اے قطرۂ محال اندیش شدن بہ بحر و گہر بر نخاستن ننگ است وہ کہتا ہے کہ قطرہ اپنی ہستی کو کھو کر سمندر میں غرق تو ہو جاتا ہے لیکن اسے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے آپ کو فنا نہیں کر دینا چاہئے بلکہ سمندر کو اپنے آپ میں جذب کر لینا چاہئے چنانچہ وہ اس عقیدے کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ قطرے کو سمندر میں غوطہ زن ہو کر وہیں کا نہیں ہو رہنا چاہیے بلکہ پھر ابھرنا چاہیے اور صرف ابھرنا ہی نہیں بلکہ گوہر بن کر باہر آنا چاہیے۔ اقبال نے اس شعر میں قطرے کے ساتھ’’ محال اندیش‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ محال اندیش، فارسی زبان کا مرکب ہے جسے گرامر میں اسم فاعل ترکیبی کہا جاتا ہے کیونکہ اس مرکب میں دو لفظ مل کر اسم فاعل کے معنے دیتے ہیں۔ محال اندیش وہ شخص ہے کہ جو ایک امر محال کا تصور کرتا ہے ایک محال بات کے حصول کے درپے ہوتا ہے۔ بلند ہمت طبیعتیں عموماً مشکل پسند ہوتی ہیں۔ اور ایسے مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتی ہیں جن کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اقبال ’’مشکل پسند‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ محال اندیش کا لفظ لاتا ہے۔ یعنی محال پسند۔ قطرے کا اپنے آپ سے گذر جانا اور اس کا محال پسند ہونا ظاہر ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ امر محال نہیں۔ ایسا قطرہ ہی سمندر کی تہ تک پہنچتا ہے اور پھرسمندر کے تلاطم کے ہوتے ہوئے بھی موتی بن کر باہر آتا ہے۔ اقبال انسانی زندگی کے ارتقا میں کسی ایسے مقام یا منزل کا تصور نہیں کرتا جہاں زندگی یا زندگی کا ارتقاء ختم ہو جائے یا رک جائے بلکہ وہ ارتقاء کے تسلسل اور اس کے استحکام کا قائل ہے۔ ٭٭٭ (57) بہ آں دین و بہ آں دانش مپرداز کہ از ما می برد چشم و دل و دست (یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے) اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اس دین و دانش میں مشغول نہ ہو جو ہم سے آنکھ، دل اور ہاتھ چھین لیتا ہے۔ جس طرح، اقبال کا زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق اپنا ایک نظریہ ہے اسی طرح تعلیم کے بارے میں بھی اس کے خیالات مخصوص ہیں۔ چنانچہ اس شعر میں علم کے بارے میں وہ اپنا زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی دین کے متعلق بھی اظہار رائے کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب کے پیرو صحیح راستے سے بھٹک چکے تھے۔ عقائد کی غلط ترجمانی نے اعمال کی صورت مسخ کر دی تھی۔ دینی علوم محدود اور مخصوص افراد کی وراثت بن گئے تھے۔ اور دینی راہ نما خالق اور مخلوق کے درمیان حائل تھے۔ دین جس کا مقصد انسانوں کی مادی اور روحانی زندگی کو سنوارنا تھا۔ ایک نا ممکن الحصول شے بن کر رہ گیا تھا۔ اور خود عائد کردہ کڑی شرائط نے انسانوں کے دلوں میں زندگی سے بیزاری پیدا کر دی تھی۔ اس بیزاری اور نفرت نے حیات سوز نظریات کو فروغ دیا اور زندگی سے گریز کی نئی نئی راہیں نکل آئیں اور انسان زندگی کی عملی صورتوں سے بیگانہ ہو کر رہ گیا۔ علم و دانش کے مقاصد بھی اسی غلط دینی نظریے کے ماتحت تغیر پذیر ہوئے اور دانش و حکمت ذہنی عیاشی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اسلام نے آ کر دین و دانش دونوں کے نظریات کو بدل دیا اور اقبال انہی نظریات کا حامی تھا۔ا س شعر میں وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ وہ دین اور وہ علم کس کام کا جو انسانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر معطل کر دے۔ اقبال ایک اور جگہ کہتا ہے کہ وہ علم و دانش اور وہ مکتب بیکار ہے جو انسان کے ہاتھ سے روزی اور جسم سے روح چھین لے۔ اقبال کا تصور دانش و دین یہ ہے کہ وہ انسان کو بہتر انسان بناتے ہیں اور اس کی مادی اور روحانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے کار زار حیات میں ابھرنے اور سر بلند ہونے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔ ایک جگہ کہتا ہے کہ اپنے بیٹے کو دین و دانش سے اس طرح آراستہ کر کہ وہ دنیا میں ماہ و انجم کی طرح چمکے۔ اگر تو نے یہ ہنر اس کے ہاتھ میں دے دیا تو گویا اس کی آستیں میں ید بیضا رکھ دیا۔ اقبال نے آج کے شعر کے دوسرے مصرعے میں تین لفظ استعمال کئے ہیں۔ چشم دل اور دوست۔ یہ تینوں انسان کے تین مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چشم سے مراد انسانی بصیرت ہے، دل، وجدان اور عرفان کا سرچشمہ ہے اور دست، جسمانی قوت کی علامت اگر علم و دین سے انسان میں بصیرت پیدا نہ ہو اور وہ غلط اور صحیح، درست و نا درست، سزا اور نا سزا میں تمیز نہ کر سکے تو وہ انسان کس کام کا؟ اقبال کے نزدیک ایک اندھا شخص ایک ایسے شخص سے جو بینائی رکھتا ہے لیکن غلط بیں ہے بہتر ہے ایک نیک کردار نادان ایک بے دین دانشور سے بدرجہا بلند ہے۔ جو علم انسان کو بے کار کر دے اور اسے بیدست و پا کر دے اور اس کی طبعی قوتوں کو سلب کر لے اس علم سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ دل کا لفظ، انسانی جذبات کی نشاندہی کرتا ہے اور اقبال کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ ٭٭٭ (58) ز جان خاور آں سوز کہن رفت دمش وا ماند و جان او زتن رفت (یہ شعر زبور عجم سے لیا گیا ہے جو ’’ گلشن راز جدید‘‘ کے تحت تمہید میں درج ہے) اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ: ’’ مشرق کی سر زمین کی روح، سوز کہن سے عاری ہو چکی ہے اب اس میں فقط سانس ہی سانس ہے اس کے تن میں من نہیں رہا۔‘‘ فارسی زبان میں تصوف کی ایک مختصر لیکن بڑی اہم کتاب ’’ گلشن راز‘‘ ہے جو محمود شبستری کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کو فلسفہ و تصوف کی تشریح و توضیح کے اعتبار سے علماء کے طبقے میں خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت میں فرق نہیں آتا اور آج بھی اکثر صوفیاء کی نظروں میں یہ مستند سمجھتی جاتی ہے۔ اس کتاب کی تحریر کا ایک خاص اسلوب ہے اس میں مختلف مسائل پر سوالات اور جوابات کے رنگ میں بحث کی گئی ہے۔ اقبال کی نظر میں محمود شبستری کے نظریات، روح اسلام کے منافی ہیں۔ چنانچہ اس نے ان سوالوں کے جواب اپنے زوایہ نگاہ سے دئیے ہیں اور ان جوابات میں، تعلیم قرآن حکیم اور حیات رسول کریم ؐ کو سامنے رکھ کر علم عشق اور مقصود حیات انسانی کو نئے انداز میں پیش کیا ہے اور اس کا نام ’’ گلشن راز جدید‘‘ رکھا ہے۔ آج کا شعر گلشن راز جدید کی تمہید میں سے لیا گیا ہے اقبال اس تمہید میں اس امر پر افسوس کرتا ہے کہ مشرق کی سر زمین پر موت کا عالم طاری ہے۔ یہ سر زمین مشرق کبھی روحانیت کا سرچشمہ تھی۔ بڑے بڑے مذاہب اور عالم اسی سر زمین سے ابھرے تھے۔ یہی سر زمین تھی جو کبھی علوم و فنون، حکمت و دانش، اخلاق فاضلہ اور روحانیت کا گہوارہ تھی اور جسے اپنی اس تاریخی عظمت پر آج بھی فخر و ناز ہے یہ مشرق آج بے روح ہو کر رہ گیا ہے۔ زندگی سے عاری ہو چکا ہے بے جان اور بے حرکت ہے۔ اقبال کے نزدیک محمود شبستری کے نظریات اب مشرق کی سر زمین میں بالعموم اور انسانی زندگی میں بالخصوص وہ روح نہیں پھونک سکتے۔ زمانے کے تیور بدل چکے ہیں، ضروری ہے کہ انسانی افکار کا انداز بھی بدلا جائے۔ اور زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھا جائے تاکہ اس میں وہی پرانی زندگی کی سی تازگی آ جائے۔ کہا جاتا ہے کہ عالم اسلامی میں او ربالخصوص مشرق اور ایران کی سر زمین میں تصوف کے خیالات کا چرچا تاتاری حملوں کی تباہ کاریوں کے بعد ہوا۔ ان تباہ کاریوں نے جہاں مسلمانوں کی سلطنت و حکومت، علوم و فنون کو فنا و برباد کر دیا وہاں انسانی زندگی سے جوش و خروش اور بلند امنگوں کو بھی چھین لیا۔ طبیعتوں میں زندگی سے بیزاری پیدا ہوئی اور دنیا کی بے ثباتی دلوں پر نقش ہو کر رہ گئی۔ اس افسردہ ماحول نے ایسے نظریات حیات کو جنم دیا جو زندگی کی قوتوں کو افسردہ کرنے والے تھے یہی نظریات تھے جنہوں نے مشرق سے روح زندگی کو سلب کر لیا۔ اقبال کہتا ہے کہ ایسے انقلاب کے بعد زندگی کروٹ لیا کرتی ہے حالات بدل جائیں تو انسانوں کی نظریں بھی بدلتی ہیں اور نئے نئے گوشے سامنے آتے ہیں چنانچہ وہ کہتا ہے کہ میری فکر و نظر میں بھی ایک انقلاب آیا ہے۔ نگاہم انقلابے دیگرے دید طلوع آفتابے دیگرے دید یعنی میری نظر ایک تازہ انقلاب دیکھ رہی ہے میرے سامنے ایک تازہ سورج طلوع ہو رہا ہے میں اپنے افکار سے مشرق میں زیادہ زندگی کی روح پھونک دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ اسے سوز کہن پھر نصیب ہو۔ (59) عقل است چراغ تو در راہگذارے نہ عشق است ایاغ تو بنابندۂ محرم زن (یہ شعر زبور عجم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے جو زبور عجم حصہ دوم میں درج ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ سنئے: عقل تیرا چراغ ہے اسے راستے میں رکھ دے عشق ترا جام ہے اسے کسی محرم کے ساتھ بیٹھ کر پی۔ اقبال انسان کے لئے عقل اور عشق دونوں کو ضروری خیال کرتا ہے۔ وہ عقل و خرد کی بصیرت افروزیوں سے واقف ہے اور ان کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ وہ عقل کو علم و حکمت کا سرچشمہ خیال کرتا ہے اور اس سے فطرت کے مشاہدے اور اس کی تسخیر کی جو راہیں کھلتی ہیں، ان سے آشنا ہے۔ لیکن تنہا عقل کی رہنمائی ہمیں صرف راستہ دکھاتی ہے۔ یہ صرف اس چراغ کی طرح ہے جو راستے میں جل رہا ہو تاکہ راہروؤں کو راستہ صاف صاف نظر آنے لگے اور راہ چلنے میں آسانی ہو لیکن راہرووں کو صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرنے اور انہیں منزل مقصود پر پہنچانے کے لئے وجدان و عرفان کی ضرورت ہے اور وجدان و عرفان ہی سے انسان کے دل کی کشاد ہوتی ہے۔ مولانا روم کا ایک شعر ہے: علم را برتن زنی مارے بود علم را بردل زنی یارے بود یعنی اگر تیرا علم صرف تیرے جسم تک ہی محدود ہے تو وہ ضرر رساں ہے اور اگر وہی علم تیرے دل پر اثر انداز ہے تو وہ تیرا دمساز ہے۔ عقل کی پرواز محدود ہے اور صرف محدود ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے۔ جس علم و حکمت کا سرچشمہ محض عقل ہوتی ہے وہ کائنات کی عقدہ کشائیوں کی بجائے، بسا اوقات الجھنیں ڈال دیتی ہے فلسفہ و حکمت سے انسانی ذہن کی اتنی کشائش نہیں ہوئی جتنی اس سے پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ یقین کی بجائے تشلک کا رنگ ابھرتا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے اور عظیم الشان کارنامے عقل کے نہیں، عشق و جذبہ کے طفیل رونما ہوئے ہیں۔ اقبال خود کہتا ہے۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی جہاں عشق کا جذبہ ابراہیم علیہ السلام کو بے خوف و خطر آگ میں کودنے پر مجبور کرتا ہے وہاں عقل گومگو کی حالت میں کھڑی دیکھتی رہ جاتی ہے اور اس بات کا فیصلہ نہیں کر پاتی کہ اسے کیا کرنا ہے بلکہ وہ عشق کے اس جذبہ ایثار کو حیرت سے تکتی ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانی زندگی کی رہنمائی کے لئے عقل اور عشق کا امتزاج نہایت ضروری ہے آج کے شعر میں وہ عقل اور عشق دونوں کے افادی پہلوؤں کو واضح کرتا ہے اس نے بڑی فنکارانہ خوبی کے ساتھ دونوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے پہلے عقل کو چراغ کہا ہے اور چراغ رہگذر سے تعبیر کیا ہے ایک سالک کے لئے جومنزل حیات پر گامزن ہے چراغ راہگذر کی ضرورت واضح ہے کیونکہ تاریکی میں راستے کا سراغ نہیں مل سکتا۔ لیکن سالک کے لئے صرف راستہ چلنا ہی کافی نہیں۔ راستے پر چلنے کے لئے جذبہ کی ضرورت ہے عزم و ثبات کی حاجت ہے، مسلسل تگ و دو درکار ہے جسے وہ عشق کے نام سے پکارتا ہے۔ عقل کے لئے وہ چراغ کا لفظ لایا ہے اور عشق کے لئے ایاغ کا اور یہ لفظ نہ صرف چراغ کا ہم قافیہ ہے اور اس سے شعر میں ترنم پیدا ہوا ہے بلکہ اس کی معنویت نے شعر میں بلا کی بلاغت پیدا کی ہے ایاغ یعنی جام، سرور و کیف کی علامت ہے اور اس علامت سے عرفان و وجدان کی کیفیت ذہن میں آ جاتی ہے۔ اب اقبال نے عقل اور عشق کے منصب کی بھی وضاحت کی ہے چراغ عقل کا صحیح مقام رہگذار ہے اور عشق کا منصب دل کو سرور سرمدی عطا کرتا ہے اور اس سرمدی نشے سے دل کی سوئی ہوئی قوتوں کو ابھارتا ہے۔ اب جس طرح اقبال چراغ عقل کو رہگذار میں مشعل راہ بنانے کی تلقین کرتا ہے اسی طرح عشق کے جام کو کسی رمز آشنا ندیم کے ساتھ پینے کی ہدایت فرماتا ہے اس لئے کہ بادہ خوری کا صحیح لطف یاران آشنا ہی کی صورت میں نصیب ہو سکتا ہے دل ،دل کی باتیں سمجھتا ہے۔ ایک دل کے عشق کا جذبہ دوسرے دل کے جذبہ عشق ہی سے ابھرتا اور فروغ پاتا ہے ذرا بندۂ محرم کے الفاظ پر غور کیجئے۔ اس میں کتنی یگانگت گرمجوشی اور خلوص ٹپکتا ہے۔ اقبال کا یہ شعر فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ تغزل کا ایک حسین نمونہ بھی ہے۔ ٭٭٭ (60) بہ نوریاں زمن پا بہ گل پیامے گو حذر زمشت غبارے کہ خوریشتن نگرست (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اقبال کے ہاں ’’ خودی‘‘ کا مفہوم اس لفظ کے مروجہ مفہوم سے بالکل مختلف ہے لغوی طور پر اور بالعموم صوفیاء کی اصطلاح میں ’’ خودی‘‘ کے معنی انانیت کے ہیں۔ جسے نفس پرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے اسی لئے اولیاء انانیت کو قرب الٰہی کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاؤٹ خیال کرتے ہیں اور ترک نفس اور ترک خودی کی تلقین کرتے ہیں، لیکن اقبال کے ہاں خودی کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے اور اس میں غرور و نخوت کا شائبہ تک نہیں خودی دراصل انسانی کردار اور شخصیت کی تکمیل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی تمام صفات ودیعت کی ہیں انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان خدائی صفات کی تکمیل کرتا چلا جائے اور اس طرح خدا کے قریب تر ہوتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ترقی کی بے پناہ استعدادیں انسان کو عطا کی ہیں وہاں اسے یہ وصف بھی عنایت فرمایا ہے کہ اسے اپنی عظمت اور بزرگی کا احساس ہو۔ یہ احساس اس میں خود شناسی اور خود اعتمادی کے دو جوہر پیدا کرتا ہے جسے اقبال آج کے شعر میں خویشتن نگری یا خود نگری کہتا ہے یعنی اس کی نظر اپنے آپ پر پڑتی ہے اقبال اپنی ایک نظر’’ تسخیر فطرت‘‘ میں ’’ میلاد آدم‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ آدم کا پیدا ہونا کیا تھا گویا ایک ایسی ہستی کا معرض وجود میں آنا تھا کہ جو خود گر، خود شکن اور خود نگر ہے یعنی وہ ایک ہی ہستی ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا بھی ہے اور اس عرفان نفس کے بل پر وہ اپنی ترقی کی راہ میں بڑی سرگرمی اور تیزی کے ساتھ معروف عمل بھی ہوتا ہے وہ اپنی تعمیر کی دھن میں کبھی خود شکنی کرتا ہے اور کبھی خود گری کرتا ہے۔ یعنی بدلتا سنورتا ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھتا چلا جاتا ہے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کے لئے اسے اپنی ایک حالت کو توڑ کر بگاڑ کر دوسری حالت کو سنوارنے اور استوار کرنے کے سامان مہیا کرنے پڑتے ہیں اور یہی اس کی خود شکنی اور خود نگری ہے۔ اس شعر میں نوریاں کا لفظ، قدسیوں یعنی فرشتوں کے لئے استعمال ہوا ہے اقبال آدم یا انسان کے لئے پابہ گل کا لفظ لایا ہے جو بہت خوبصورت اور موزوں ہے۔ اس میں دو خوبیاں ہیں اس لفظ میں انسان کے خاکی ہونے کی طرف اشارہ ہے اسی لئے دوسرے مصرعے میں مشت غبارے کا لفظ بھی آیا ہے اور پھر چونکہ انسان کا مسکن جہان آب و گل ہے اس لئے بھی وہ پابہ گل ہے۔ بہرحال انسان، خاک کا پتلا تو ہے لیکن وہ ’’ خویشتن نگر‘‘ ہے اور یہ خود شناسی کا وصف ایک ایسا وصف ہے جو فرشتوں کو بھی نصیب نہیں۔ اقبال اس شعر میں کہتا ہے کہ مجھے خاک کے پتلے کی طرف سے فرشتوں کو یہ پیغام سنا دو کہ اس مشت غبار سے ڈرو کہ اس مشت غبار کو اپنی عظمت کا احساس ہے۔ یہ احساس اسے نہ جانے کتنی بلندیوں پر لے جائے گا۔ اقبال کا یہ شعر بھی انہی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے۔ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے انسان کی ترقی اور عروج کی کوئی انتہا نہیں اس عروج سے ستارے اور نوری اور قدسی سب حیرت زدہ ہو جاتے ہیں اور سہم جاتے ہیں لیکن اس ترقی اور عروج کی منزل بڑی کٹھن ہے اور بقول مولانا حالی فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ اگرچہ یہ منزل کٹھن ہے اور اس میں محنت زیادہ پڑتی ہے لیکن انسانی زندگی کی ساری لذتیں اسی محنت میں پوشیدہ ہیں اسی محنت اسی تگ و دو، اسی تجسس و جستجو سے زندگی میں سوز و ساز کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یہی سوز و ساز زندگی ہے اگر زندگی کی ہنگامہ آفرینیاں نہ ہوں درد تڑپ اور کسک نہ ہو تو زندگی سونی ہو جائے اور انسان فرشتوں کی فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو بن کر رہ جائے۔ ٭٭٭ (61) بہر زمانہ بہ اسلوب تاہز می گوید حکایت غم فرہاد و عشرت پرویز (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) ہر دور میں، غم فرہاد اور عشرت پرویز کی داستان نئے اور تازہ انداز میں دہرائی جاتی ہے اقبال کے اس شعر کو پڑھتے ہی، اسی کے دو ایک اور شعر فی الفور ذہن میں آتے ہیں۔ وہ شعر یہ ہیں۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لہی زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہے تو کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ان دو شعروں میں سے پہلے شعر میں شاعر نے چراغ مصطفوی اور شرار بولٰہی کی ستیزہ کاری سے حق و باطل کی دیرینہ مخاصمت کو واضح کیا ہے اور دوسرے شعر میں اہم حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ فرہادی اور پرویزی دو الگ الگ مستقل طریق حیات ہیں اور کسی وقت ایک مزدور کو زمام اختیار مل جائے تو وہ بھی یقینا وہی کرے گا جو پرویز نے کیا تھا۔ آج کے فارسی شعر میں فرہاد اور پرویز کے لفظ آئے ہیں۔ اور یہ دونوں لفظ ہماری فارسی اور اردو شاعری کے معروف شعری علامتیں ہیں جن کا پس منظر فرہاد اس کی محبوبہ شیریں اور شیریں کے شوہر، خسرو پرویز کی داستان ہے۔ یہ داستان ہمارے ادب و شعر کی ایک بے حد مقبول تلمیح ہے جس سے ہمارے شعرا نے بڑے بڑے مطالب بیان کرنے میں مدد لی ہے بظاہر خسرو پرویز اور فرہاد دونوں شیریں کے حسن و جمال کے شیدائی تھے لیکن فی الحقیقت اس عشق و محبت سے دونوں کا تاثر الگ الگ تھا، پرویز کے لئے شیریں کی محبت، زندگی کے عیش و عشرت تک محدود تھی لیکن فرہاد کے لئے یہی محبت، غم و الم کا سرمایہ تھی جو انسان کے دل کو معراج تک لے جاتے ہیں۔ اقبال پرویز اور فرہاد کے ناموں کی جگہ غم فرہاد اور عشرت پرویز لایا ہے کیونکہ ان دونوں کی زندگی کی مابہ الامتیاز یہی شے تھی اور اس کے نزدیک غم فرہاد، عشرت، پرویز سے کہیں بڑھ کر اہمیت رکھتا ہے اور جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہو سکتا۔ وہ خود ہی کہتا ہے۔ خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت پرویز خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد اقبال غم فرہاد کے لئے سرمایہ کا لفظ استعمال کرتا ہے گویا یہ غم فرہاد ایک بہت بڑی دولت ہے۔ دنیا میں عیش و نشاط کی زندگی تو بہتوں کو میسر آتی ہے لیکن سوز قلبی کسی کسی کا حصہ ہوتا ہے لیکن اقبال نے اس شعر میں عشرت پرویز اور غم فرہاد کا فرق ہی نمایاں نہیں کیا بلکہ ایک اور نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اس ساری حکایت یا داستان کی بنیاد ہے۔ پرویز فرہاد کے خلوص محبت سے آشنا تھا او راسے اپنے عشق ہوس پرست کا احساس بھی تھا۔ چنانچہ اس نے فرہاد کو پہاڑ کاٹنے پر مامور کیا۔ بظاہر اس کام سے فرہاد کا امتحان مقصود تھا لیکن جب وہ اس امتحان میں پورا اتر اتو اس نے مکار بڑھیا جس کا نام محتالہ تھا بھیج کر فرہاد سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ محتاد نے فرہاد کو شیریں کی موت کی غلط اطلاع دی اور وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں تیشے سے اپنا سر پھوڑ کر مر گیا۔ اس ساری داستان میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایمان و کفر، حق و باطل، عشق و ہوس ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے ہیں اور ہوسکاری اخلاص محبت کو طرح طرح کے حیلوں سے کچلنے کی سبیلیں سوچتی رہی ہے اور ان حیلوں کے تیور ہمیشہ بدلتے رہے ہیں اور ہر دور میں بدلتے رہیں گے ۔ گویا یہ داستان فرہاد و پرویز دہرائی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی دہرائی جاتی رہے گی۔ اب ذرا شاعر کے کمال فن پر نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ اس نے کتنی فنکارانہ خوش اسلوبی سے اس خیال کو ادا کیا ہے۔ فارسی میں بالعموم صیغہ جمع غائب فعل مجہول کے معنے دیتا ہے اور اس کے ساتھ فاعل استعمال نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ اس مصرعے میں کہا: ’’بہر زمانہ بہ اسلوب تازہ می گویند‘‘ می گویند ایسا ہی صیغہ جمع غائب ہے اور یہ محاورۃً آیا ہے اس کے معنے ’’ وہ کہتے ہیں نہیں‘‘ بلکہ ’’کہی جاتی ہے‘‘ ہیں شاعر نے ’’ اسلوب تازہ‘‘ کے الفاظ استعمال کر کے بڑی بلاغت پیدا کی ہے گویا حکایت فرہاد و پرویز فقط دہرائی ہی نہیں جاتی بلکہ ہر بار اس داستان میں بڑی حسین اور جمیل دل آویزیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ پرویز نے فرہاد کو ایک فریب دیا تھا۔ اب یہی فریب کئی ایک رنگین صورتوں میں ابھرتا ہے اور آئے دن فرہاد دھوکا کھاتے رہتے ہیں۔ ٭٭٭ (62) بتان تازہ تراشیدۂ دریغ از تو درون خویش نہ کاویدۂ دریغ از تو (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اس شعر کا اردو ترجمہ یہ ہے۔ تو نے نئے نئے بت تراشے ہیں، تجھ پر افسوس ہے لیکن تو نے اپنا آپ چیر کر نہیں دیکھا، تجھ پر افسوس ہے۔ اقبال نے اپنی غزلیات، خصوصاً فارسی غزلیات، اساتذہ کی زمین میں لکھی ہیں۔ حافظ، سعدی اور نظیری کی بعض شاہکار غزلوں کے مقابلے میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے افکار کو بڑی چابکدستی سے سمویا ہے کہیں کہیں اس نے طرحیہ غزلیں لکھتے وقت قافیے کو بدل دیا ہے چنانچہ آج کا شعر جس غزل کا مطلع ہے وہ نظیری نیشاپوری کی مشہور و معروف غزل کے تتبع میں ہے لیکن اس میں قافیے کو بدل دیا ہے نظیری کا مطلع ہے۔ بدست طبع عناں دادۂ دریغ از تو بچنگ صید ہوس افتادۂ دریغ از تو اقبال نے دادۂ اور افتادۂ کی جگہ تراشیدۂ اور کاویدہ کے قوافی استعمال کئے ہیں جو میرے نزدیک زیادہ مترنم ہیں۔ ان قافیوں کی موسیقی نے ساری غزل میں ایک خاص کیفیت پیدا کی ہے اور چونکہ اس غزل میں دریغ از تو کی ردیف بھی ایک مخصوص ترنم کی حامل ہے اس لئے غزل کی صوتی کیفیت میں اور بھی موسیقیت پیدا ہو گئی ہے۔ آج کے شعر میں، اقبال کے افکار میں تصوف کے ایک اہم نکتے کا رنگ پایا جاتا ہے وہ نکتہ عرفان نفس کا ہے صوفیاء انسان کو اپنے آپ کو دیکھنے اور اس کو پہچاننے کی تلقین کرتے ہیں۔ سعدی کہتے ہیں۔ اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی! کہ تیرا تو اپنا حسن تماشا گاہ عالم ہے تو نظارے کی تلاش میں کہاں جا رہا ہے بیدل کا مشہور و معروف مطلع ہے۔ ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ تو ز غنچہ کم ندمیدۂ در دل کشا بہ چمن در آ کہتا ہے کہ بڑے ستم کی بات ہو گی اگر ہوس تجھے سرو و سمن کی سیر کے لئے کھینچے کھینچے پھرے تو بھی تو کسی کھلی ہوئی کلی سے کم شگفتہ نہیں۔ اپنے دل کا دروازہ کھول اور دیکھ کہ وہاں ایک چمن زار کھلا ہے۔ اقبال اپنی ایک نظم ’’ سرود انجم‘‘ میں ستاروں کی زبانی انسان کو یوں خطاب کرت اہے۔ اے بکنار تویمے ساختہ بہ شبنمے اے انسان تو تو اپنے آغوش میں ایک عظیم سمندر لئے ہوئے ہے پھر کس لئے اس دنیا پر جس کی حیثیت ایک حقیر قطرۂ شبنم کی ہے قناعت کر گیا ہے۔ اقبال اور عام تصوف کے عقیدے میں بظاہر کچھ فرق نظر نہیں آتا لیکن تصوف میں اس عقیدے سے مقصود یہ ہے جسے غالب نے اپنے شعر میں بیان کیا ہیـ: دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا گویا انسان جو اگرچہ بظاہر ایک قطرہ ہے لیکن اپنے آغوش میں سمندر کو چھپائے بیٹھا ہے گویا خدائے پاک کی ذات خود انسان کے دل میں سمائی ہوئی ہے اور اسے باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا اقبال کے ہاں یہ خیال کسی قدر وسیع تر معنے رکھتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ تو نئے نئے بت تراشتا پھرتا ہے اور اپنے آپ کو کرید کر نہیں دیکھتا تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی فطرت عظمت کا احساس ہونا چاہیے دوسروں کی عظمت سے مرعوب ہو کر انہیں اپنا بت بنا لینا انسانیت کی توہین ہے انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور احسن تقویم اس کا لقب ہے قدرت نے اسے بہت کچھ عطا کیا ہے اس کا کام اپنی قدر کو پہچاننا ہے دوسروں کو اپنی تحسین کا معبود بنانا نہیں۔ انسان کی خود نگری، خود شناسی اور خود کاری ہی میں اس کی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل پوشیدہ ہے۔ ٭٭٭ (63) در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست آں تیشہ فرہادے ایں حیلہ پرویزے (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اقبال کا یہ شعر’’ پیام مشرق‘‘ کی ایک غزل سے ماخوذ ہے۔ اس کا آسان اردو ترجمہ یہ ہے۔ ’’ تجھے معلوم ہے کہ عشق و ہوس میںکیا فرق ہے وہ تیشہ فرہاد ہے اور یہ حیلہ پرویز ہے۔‘‘ اس شعر کی تشریح کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کے دو لفظوں آں اور ایں کی وضاحت کر دی جائے۔ جن کا ترجمہ ہم نے وہ اور یہ کیا ہے دستور یہ ہے کہ جب شاعر کسی شعر کے پہلے مصرع میں دو چیزوں کا ذکر کرتا ہے اور پھر انہی دو چیزوں کے لئے دوسرے مصرعے میں ان کا اعادہ کرنے کی بجائے اسم اشارہ استعمال کرتا ہے، جیسا کہ اس شعر میں کیا گیا ہو۔ اور ’’ ایں‘‘ کا اشارہ بعد میں مذکورہ چیزکی طرف ہوتا ہے کیونکہ پہلی چیز دوسرے مصرعے سے دور ہوتی ہے اور دوسری چیز قریب ہوتی ہے چنانچہ اس شعر میں آں کا لفظ عشق کے لئے ہے اور ایں کا ہوسناکی کے لئے آیا ہے کیونکہ ہوسناکی کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ اقبال نے عشق کے لئے تیشہ فرہاد کا اور ہوس یا ہوسناکی کے لئے حیلہ پرویز کا استعارہ استعمال کیا ہے اور ان دو استعاروں سے شعر کا مفہوم شعر پڑھنے والے کے ذہن کے قریب تر ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں استعاروں میں تلمیح موجود ہے اور اس تلمیح کا تعلق فرہاد، شیریں اور خسرو پرویز کے واقعہ سے ہے فرہاد اور خسرو پرویز دونوں شیریں کے عشق کے مدعی تھے۔ لیکن فرہاد کا عشق سچا عشق تھا اور خسرو کے عشق میں ہوس کا شائبہ تھا اس بات کی دلیل یہ ہے کہ فرہاد نے شیریں کی محبت میں ایسے جذبے کا اظہار کیا جس میں خلوص تھا۔ جب محبت میں خلوص ہو تو انساں ہر طرح کی قربانی اور ایثار پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ بے خطر آتش نمرود میں بھی کود پڑتا ہے۔ لیکن جہاں عشق میں خلوص نہ ہو وہاں حیلوں سے کام لیا جاتا ہے فرہاد، شیریں کے حسن سے اس قدر مسحور تھا کہ وہ نہ صرف خود اس کے خیال میں دیوانہ ہو گیا تھا بلکہ ہر مدعی کے جھوٹے دعوے کو بھی سچا تصور کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دعویٰ عشق کی برتری ثابت کرنے کے لئے ہر بڑی سے بڑی قربانی کرنے پر آمادہ تھا اور رقیب کے کہنے پر تیشے سے پہاڑ کاٹنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ برعکس اس کے خسرو پرویز کے دل میں شیریں کی محبت کا وہ جذبہ خالص نہ تھا اور جب جذبہ خالص نہ ہو تو ایسے عاشق میں جرات اور ہمت کا فقدان ہوتا ہے اور وہ اپنے محبوب و مقصود کو حاصل کرنے کے لئے حیلے بہانے سوچتا ہے ایسے انسان میں خود اعتمادی کا جوہر نہیں ہوتا۔ وہ اپنے حریفوں پر اپنی فوقیت جتانے کے لئے خود کوئی ایثار نہیں کرتا بلکہ فریب کاری سے دوسروں کو ناکام بنانے کی سعی و کوشش کرتا ہے۔ جب ایک فریب کارگر نہ ہو تو کوئی اور حیلہ سوچتا ہے۔ پرویز نے جب دیکھا کہ فرہاد اس کی زد سے نکل گیا ہے تو اس نے ایک بڑھیا، فریب کار عورت، قتالہ کو بھیج کر فرہاد کی موت کا سامان مہیا کیا۔ غرض شاعر نے فرہاد و پرویز کی تلمیح سے بڑا کام لیا ہے اور عشق و ہوس کے لطیف فرق کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ دونوں کی تصویر نظر کے سامنے آ جاتی ہے۔ شاعر نے شعر میں تیشہ فرہاد اور حیلہ پرویز کی جگہ تیشہ فرہادے اور حیلہ پرویزے کہا ہے۔ یعنی دونوں جگہ یاے تنکیری کو استعمال کیا ہے گویا فرہاد اور پرویز اب اسمائے معرفہ نہیں رہے اور فرہاد اور پرویز دو مخصوص ہستیاں نہیں رہیں ۔ فرہادے اور پرویزے کہہ کر ان کا اطلاق شاعر نے ہر مخلص عاشق اور ہر ہوسکار مدعی پر کیا ہے۔ یعنی عشق جہاں کہیں ہو گا۔ ایک تیشہ فرہاد ہو گا او رہوس جہاں بھی ہو گی حیلہ پرویز کی صورت اختیار کرے گی۔ (64) دریں چمن دل مرغان، زماں زماں دگر است بہ شاخ گل دگر است و بہ آشیاں دگر است (یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ اس چمن میں، پرندوں کا دل ہر لحظہ اور سے اور ہو جاتا ہے آشیانے میں اس کی حالت کچھ اور ہوتی ہے اور شاخ گل پر کچھ اور اقبال کا ایک مصرعہ ہے کہ: ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ اقبال کے نزدیک دنیا کی ہر شے تغیر پذیر ہے۔ زندگی کے تیور ہر لحظہ بدلتے رہتے ہیں اور اسی میں زندگی کی روح پوشیدہ ہے جہاں اس تغیر پذیری میں فرق آیا وہیں زندگی کی رو رک جاتی ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ زمانے میں صرف ایک چیز کو ثبا ت حاصل ہے یعنی صرف ایک چیز برقرار رہتی ہے اور وہ تغیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تغیر ہی ایک مستقل شے ہے۔ چنانچہ آج کے شعر میں اقبال نے اسی مسئلے کو ایک نئے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ اور اس کے لئے ایک نیا استعارہ لایا ہے۔ اور وہ استعارہ ایک طائر خوشنوا کا ہے جو اس تغیر کے زیر اثر ہر لحظہ اور ہر لمحہ ایک نئے انداز میں نغمہ سرا ہونے پر مجبور ہے۔ آشیانے میں ہو تو اس کے دل کی کیفیت اور ہوتی ہے اور آشیاں سے نکل کر کسی شاخ پہ جا بیٹھے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ اور دیکھئے کہ آشیاں سے، جو خود کسی ایک شاخ درخت ہی پر بنا ہوا ہے۔ اسی شاخ کے کسی اور نقطے تک کتنا فاصلہ ہو گا لیکن زندگی کے تغیرات کی بو قلمونی دیکھئے کہ یہی مختصر سا فاصلہ گویا دو مختلف دنیاؤں کا فاصلہ بن جاتا ہے مرزا غالب کا ایک شعر ہے۔ درہر مژہ برہم زدن ایں خلق جدید است نظارہ سگالد کہ ہمان است و ہماں نیست یعنی پلک جھپکنے میں یہ دنیا اور کی اور ہو جاتی ہے۔ انسانی نظریں سمجھتی ہیں کہ دنیا وہی ہے ج وپہلے تھی لیکن وہ نہیں ہوتی۔ وہ آن کی آن میں بدل جاتی ہے۔ مرزا غالب نے اپنے اس شعر میں ایک نفسیاتی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ زندگی بڑی تیزی سے بدلتی چلی جاتی ہے لیکن انسانی نظریں اس تغیر کو محسوس نہیں کرتیں۔ اقبال بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اپنے شعر میں مرغان خوشنوا کی نظر کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان کے دل کی حالت بیان کرتا ہے جو آشیانے سے شاخ تک اور وہاں سے دوسری شاخ تک پہنچنے میں بدلتی رہتی ہے اور اسی میں ان کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے کہ نغمہ سنج طائر کا دل ہر نئے ماحول میں، ایک تازہ قضا میں سانس لیتا ہوا نظر آئے اور اس سے تازہ سے تازہ نغمے ابھریں۔ آج کا شعر اقبال کی ایک فارسی غزل کا مطلع ہے۔ اس شعر کے بعد دو شعروں میں اقبال اسی مضمون کے دو مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ تو دنیا کے انقلابات کا کیا گلہ کرتا ہے؟ تو اپنے آپ پر نظر ڈال اگر تیری نظر بدل جائے تو یہ دنیا بھی بدل سکتی ہے۔ گویا انسان کی زاویہ نگاہ کے بدلنے سے دنیا کا انقلاب وہ انقلاب ہو گا جسے دیکھنے والا گوارا کر لے گا۔ گویا وہ جہاں، وہ جہاں ہو گا جس کے دیکھنے کی اسے آرزو تھی۔ اسی طرح بعد کے شعر میں وہ کہتا ہے کہ زمانے کے طور کچھ بھی ہوں اگر تیری آنکھ صحیح بصیرت رکھتی ہے تو تجھے معلوم ہو گا کہ اس دنیا کا میکدہ اور اس میکدے کا طریق مشرب بدل چکا ہے۔ یہ وہ میکدہ نہیں جو بظاہر تجھے نظر آ رہا ہے۔ اقبال انہی تغیرات اور انقلابات کو زمانے کی زبان سے یوں بیان کرتا ہے۔ مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ (65) ہر کہ برخود نسیت فرمانش رواں می شود فرماں پذیر از دیگراں (یہ شعر اسرار خودی سے لیا گیا ہے جو مرحلہ دوم ضبط نفس کے تحت درج ہے) اقبال خودی کی تعمیر، اس کے استحکام اور تربیت کے سلسلے میں تین مرحلوں کا ذکر کرتاہے۔ یعنی اطاعت ضبط نفس او رنیابت الٰہی۔ کل کے شعر میں میں نے اطاعت کے بارے میں شاعر کے خیالات اور افکار بیان کئے تھے۔ آج کے شعر میں آپ کو ضبط نفس کی تشریح ملے گی۔ اقبال اس شعر میں کہتا ہے۔ جس شخص کا فرمان اپنے اوپر نہیں چلتا وہ دوسروں کے فرمان کے تابع ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی انسان کے لئے لازم ہے کہ اسے اپنے نفس پر پوری طرح قابو ہو تاکہ دوسرے عناصر اور اثرات اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اسی حالت کو اقبال ’’ ضبط نفس‘‘ کہتا ہے۔ انسان خاک کا پتلا ہے اور اس کی تعمیر آب و گل سے ہوئی ہے اس مٹی او رپانی کے امتزاج نے اس میں ایک ایسے عنصر کو جنم دیا ہے جسے تن پروری کہتے ہیں اور تن پروری اسے طرح طرح کی لغزشوں پر آمادہ کرتی ہے۔ رنگا رنگ کی خواہشات اسے ایسے اعمال پر اکساتی ہیں جس سے وہ غلط راستے پر چلنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ مال و دولت کی محبت، خویش و اقارب بیوی اور بچوں کی محبت، اسے بلند نصب العین سے ہٹا کر ایک محدود راستے پر لے آتی ہے۔ اس کے کردار سے بلند ارادے اور بلند ہمتیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی خود غرضانہ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے پیش نظر بڑے بڑے مقاصد کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان حقیر محبتوں میں خوف کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اسے ہر قدم پر اپنی ناکامی کا ڈر ہوتا ہے۔ اسے خوف دنیا خوف عقبے اور زمین و آسمان کی گردش کے خوف ستاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس میں خوف جاں پیدا ہو جاتا ہے اسے اپنی زندگی مخدوش اور غیر محفوظ نظر آنے لگتی ہے اور ا س پریشانی کے عالم میں اس سے بہت سے ایسے اعمال سرزد ہو جاتے ہیں۔ جو دینی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے فواحش یعنی اعمال بد کے زمرہ میں آ جاتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ اس خوف سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ انسان کے دل میں حق کی محبت ہو تاکہ اس کا دل ہر قسم کے وسوسوں سے نجات حاصل کر لے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا خوف اسے دنیا بھر کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے خدا کی محبت کا سارا راز لا الہ یعنی توحید میں پوشیدہ ہے۔ نماز کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد یہ ہے کہ یہ انسان کو گناہوں سے روکتی ہے ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر اس آیتہ شریفہ میں نماز کو گویا ضبط نفس کا بہترین ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال صوم یعنی روزے کا تذکرہ کرتا ہے کہ روزہ بھی نماز کی طرح تلقین ضبط کا موثر ذریعہ ہے۔ زکوۃ بھی حب دولت کے جذبے کو فنا کر دیتی ہے اور افراد میں مساوات کا احساس ابھارتی ہے۔ یہ دولت میں برکت پیدا کرتی ہے لیکن دولت کی محبت کو کم کرتی ہے۔ حج میں ملت کی جمعیت کا جذبہ مضمر ہوتا ہے اور ملی جمعیت کا جذبہ اسی وقت تیز ہوتا ہے جب انسان کو اپنے جذبات اور ذاتی اغراض سے قطع نظر کرنے کا ڈھب آتا ہو۔ اور یہ ڈھب اسی وقت آتا ہے جب انسان کو اپنے نفس پر قابو ہو اقبال کے نزدیک یہ تمام اوصاف ایک مومن کے کردار کو سنوارتے اور اسے توانا اور مستحکم کرتے ہیں۔ اسی سے اس کی شخصیت اور خودی میں توانائی آتی ہے۔ ٭٭٭ (66) بود و نبود ماست زیک شعلہ حیات از لذت خودی چو شرر پارہ پارہ ایم (یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اس کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ ہم سب زندگی کے ایک ہی شعلے سے وجود میں آئے ہیں لیکن خودی کی لذت نے ہمیں چنگاریوں کی طرح پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس شعر کے مفہوم و معنی پر غور کرنے سے پہلے ذرا اس شعر کے محاکاتی پہلوؤں پر نظر ڈالئے۔ تصور کیجئے کہ کہیں آگ جل رہی ہے اور اس سے ایک شعلہ بلند ہو رہا ہے۔ اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے سے چنگاریاں ابھر ابھر کر ادھر ادھر ہوا میں منتشر ہو رہی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب تک شعلے میں تھیں ایک دوسری سے پیوست تھیں، ان سب کا سرچشمہ حیات ایک تھا۔ سب کی ایک ہی زندگی تھی لیکن اس مشترک انداز حیات سے اکتا گئی تھیں، اور ہر ایک چنگاری یہ چاہتی تھی کہ اس کی الگ نمود حیات ہو۔ چنانچہ چنگاریوں کا جو سمٹ کر ایک شعلے میں سمائی ہوئی تھیں،ا تنی بے چینی سے ایک دوسری سے الگ ہو کر فضا میں بکھر جانا ان کی تمنائے نمود کے انتہائی جوش کی دلیل ہے۔ خدا تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ہے اور جس سے ہر چیز وجود میں آئی ہے ایک شعلہ حیات ہے جس سے مخلوقات شراروں کی طرح ابھر ابھر کر الگ الگ ہو گئی ہیں۔ شاعر کے تصور خودی میں یہ مسئلہ بڑا اہم ہے وہ خالق ازلی کی خودی کو مرکزی خودی خیال کرتا ہے جس نے اس کائنات میں انسان کو اپنی ہی صورت میں تخلیق کیا ہے گویا اس عظیم خودی نے بیشمار خودیوں کو جنم دیا ہے دوسرے الفاظ میں یہ ہستیاں چنگاریوں کی طرح شعلہ حیات سے ابھری ہیں۔ شاعر کے نزدیک خودی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی نمود ہو کائنات کی تخلیق بھی خودی کے اسی جذبہ نمود کا تقاضا تھا۔ اور اسی جذبہ نمود کو لے کر ہر چیز خود نمائی پر مجبور ہے۔ اقبال خود ہی کہتا ہے۔ ’’لذت گیر وجود ہر شے سرمست مے وجود ہر شے‘‘ یعنی ہر شے وجود میں آنے کی لذت سے سرشار اور بے تاب ہے اور اسی نمود کے نشے میں مست ہے۔ اقبال نے شعلے سے ابھر کر بکھر جانے والے شراروں کے لئے پارہ پارہ کا لفظ استعمال کیا ہے او ریہ نہایت ہی بلیغ لفظ ہے کہ یہ شرارے شعلے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اس کے ہر ٹکڑے میں اصل شے موجود رہتی ہے لیکن وہ ٹکڑا وہ چیز بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کا الگ وجود بھی ہوتا ہے۔ اور پھر یہ سارے ٹکڑے، چھوٹے بڑے مختلف شکلوں کے ٹکڑے، اصل کے اعتبار سے ایک ہی ہوتے ہیں صر ف ان کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ یہ وحدت اور کثرت کا مسئلہ ہے اقبال ہی کا ایک اور شعر سنئے جس میں اسی طرح کا تصور حیات پیش کیا گیا ہے۔ کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے، قطرہ انسان کے لہو کا یعنی اس کائنات کی کثرت میں بھی وحدت انتہائی انداز میں نمایاں ہے ہر شے دوسری سے مختلف ہوتے ہوئے بھی دوسری سے جدا نہیں بلکہ سب اشیاء کا وجود ایک ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر تو نوک نشتر سے رگ گل کو چیرے تو اس سے انسان کے لہو کا قطرہ لپکے گا۔ گویا رگ گل اور رگ انسنا میں ایک ہی خون حیات دوڑ رہا ہے۔ (67) نشان مرد حق دیگر چہ گویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست (یہ شعر ارمغان حجاز سے لیا گیا ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: میں تجھے سچے انسان کی نشانی بتاتا ہوں وہ نشانی یہ ہے کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ موت ایک گھناؤنی شے ہے۔ اکثر انسان اس کے نام سے ہراساں ہو جاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ موت ایک اٹل شے ہے اور اس سے کسی مخلوق کو مفر نہیں۔ اس لئے چاہیے یہ تھا کہ انسان اس ناگزیر شے کو برضا و رغبت قبول کر لیتا۔ لیکن انسان کو زندگی سے ایسا لگاؤ ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے خاتمے کا تصور کرتے ہوئے بھی گھبراتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت ہی سے زندگی کے ہنگامے قائم ہیں۔ اور یہی بظاہر ناگوار شے، حیات انسانی کو خوشگوار بناتی ہے اور اس کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتی ہے غالب کہتا ہے۔ ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا یعنی موت کا احساس، انسان کو مختلف کاموں کے انجام دینے اور جلد از جلد انجام دینے پر اکساتا ہے۔ اور جب کبھی بھی کوئی چھوٹا بڑا کام تکمیل پا لیتا ہے تو انسانی قلب کو نہ صرف تسکین ہوتی ہے بلکہ وہ یک گونہ نشاط کا باعث بنتا ہے اگر موت نہ ہوتی تو انسان کی قوت عمل بے کار ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندگی کے طویل اور ختم نہ ہونے والے لمحات اسے کسلمند بنا دیتے یہ موت ہی ہے جس سے جینے میں مزہ ملتا ہے۔ لیکن اقبال کی نظر موت و حیات کے اس پہلو سے بہت آگے پڑتی ہے۔ وہ زندگی کے اس تسلسل کا قائل ہے جس میں موت، زندگی کے مختلف مراحل ہی میں سے ایک مرحلہ ہے اور اس سے زندگی کے سلسلے کے قطع ہو جانے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک آدمی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے تو اگرچہ وہ پہلی جگہ کے رہنے والوں کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ جانے والا یہ محسوس نہیں کرتا کہ وہ کوئی اور انسان بن گیا ہے۔ اسی طرح اقبال کے نزدیک موت کوئی ایسا حادثہ نہیں جس سے زندگی کے رشتے کے ٹوٹ جانے کا خدشہ ہو۔ پھر اس سے ہراساں ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ البتہ اس میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ زندگی، مسلسل ارتقا کا نام ہے اور اس کا ہر نیا قدم پہلے قدم سے آگے پڑتا ہے اور اسے بہتر سے بہتر بناتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ارتقا موت سے پہلے اور موت کے بعد بدستور جاری رہتا ہے ۔ اس لئے بجائے اس کے کہ موت، انسانی عروج و ارتقاء کا خاتمہ کر دے نئی نئی ترقیوں کی راہیں کھول دیتی ہے چنانچہ ایک بلند ہمت اور عالی حوصلہ انسان کے لئے موت ایک خوشی کا پیغام ہے کیونکہ یہ ایک بہتر مستقبل کا پیغام لاتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: یاد داری؟ بوقت زادن تو ہمہ خنداں بودند و تو گریاں آں چناں زی کہ وقت مردن تو ہمہ گریاں بوند و تو خنداں کہتا ہے تجھے یاد ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو سب ہنس رہے تھے اور تو رو رہا تھا تجھے اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے کہ جب تجھے موت آئے تو سب تیرے لئے رو رہے ہوں اور تو ہنس رہا ہو۔ ایک مومن کی نشانی یہی ہے کہ جب موت آئے تو مسکراہٹ اس کے چہرہ پر کھیل رہی ہو۔ (68) ہست ایں میکدہ و دعوت عام است اینجا قسمت بادہ باندازۂ جام است اینجا (یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے جو ’’ جہان عمل‘‘ کے تحت درج ہے) اقبال کا یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے اس کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: یہ دنیا ایک میکدہ ہے۔ یہاں صلائے عام ہے یہاں شراب جام یعنی ظرف کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنی اس غزل کا جس کا یہ مطلع ہے ایک عنوان قائم کیا ہے اور وہ عنوان ’’ جہان عمل‘‘ ہے۔ اس غزل کے تمام اشعار ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ یوں اقبال کی بیشتر غزلیں مسلسل ہی ہیں اور غزلوں کے تمام اشعار ایک ہی فکری اور جذبات سلسلے کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں تاہم اس غزل میں یہ تسلسل بڑا واضح ہے۔ ان تمام اشعار میں ایک ہی رو بہتی چلی جاتی ہے۔ لیکن جس طرح ندی کا بہاؤ اس کی تمام منزلوں پر قائم رہتاہے اسی طرح اس غزل کے اشعار بھی ایک دوسرے کے بعد ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر جس طرح ندی کا سارا بہاؤ سر چشمے ہی سے ابھرتا اور فیضیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح اس غزل کا یہ مطلع ساری غزل کا سرچشمہ ہے اس شعر کو باقی تمام اشعار کا خلاصہ کہنا چاہیے او رباقی اشعار کو اس اختصار و اجمال کی تفصیل سمجھنا چاہیے۔ا قبال کے اس شعر کو پڑھتے ہی دو شعر ذہن میں آتے ہیں ایک شعر مرزا غالب کا ہے اور دوسرا شاہ عظیم ا ٓبادی کا۔ مرزا غالب کا شعر ہے: بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا خمیازہ انگڑائی کو کہتے ہیں اور یہ علامت ہوتی ہے خمار کی جو نشے کے پورا نہ ہونے یا اترنے کی نشانی ہے۔ غالب کہتا ہے کہ اے ساقی یہ اندازہ کرنے کے لئے کہ پینے والے کی پیاس یا پیاس کا خمار کتنا ہے اس کا انحصار پیاسے کے ظرف پر ہے کہ اسے کتنی شراب پی کر نشہ ہو جاتاہے۔ میری کیفیت یہ ہے کہ اگر تو شراب کا سمندر بھی ہو تو میں ساحل کی طرح، جو سمندر کو آغوش میں لئے ہوتا ہے، خشک لب ہی رہوں گا۔ اور خمار کے باعث انگڑائی پہ انگڑائی لوں گا۔ یہاں ساحل کا خم گویا انگڑائی کی صورت کو پیدا کرتا ہے شاد عظیم آبادی کا شعر سنئے: یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے اقبال کے شعر کی طرح ان دو شعروں میں بھی ایک ہی استعارہ استعمال ہوا ہے اور وہ مے کا استعارہ ہے اور اس استعارے کے ہمراہ ساقی اور ظرف بادہ خواراں اس استعارے کے لوازمات ہیں۔ غالب کے شعر کا پس منظر اگرچہ حسن و عشق کا باہم ربط ہے لیکن اس سے عاشق کی عالی حوصلگی اور بلند نظری کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ شاد کے شعر میں عالی حوصلگی کی جگہ جدوجہد کا تذکرہ ہے کہ بزم مے سے فیضیاب ہونے کے لئے ساقی کا منہ تکنے کی بجائے ہمت سے آگے بڑھ کر جام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے شعر میں مذکورہ دونوں شعروں کا امتزاج پایا جاتا ہے اس کے یہاں جام و مے اور میکدہ کے استعارے زندگی کے لئے ہیں جس سے تمتمع حاصل کرنے کے لئے سعی و عمل کی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں قدرت نے ہر فرو بشر کے لئے زندگی کے تمام دروازے وا کئے ہوئے ہیں۔ البتہ اس دعوت عام سے انسان صرف اسی قدر مستفیض ہو سکتا ہے جس قدر اس کا انداز عمل ہو۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کسی میخوار کو شراب اس کے جام کے مطابق مل سکتی ہے۔ (69) من بتلاش تو روم یا بتلاش خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوئی تو (یہ شعر زبور عجم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے) اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ میں تیری تلاش میں نکلوں یا اپنی تلاش میں جاؤں۔ کیا کروں، میری عقل، دل اور نظر سب کی سب تیرے کوچے میں کھو گئے ہیں۔‘‘ اس شعر میں اقبال نے، رہر و محبت کے انتہائی ذوق و شوق کی تصویر کھینچی ہے۔ یہ موضوع شعراء کا مرغوب موضوع ہے جسے انہوں نے ہزار طرح باندھا ہے۔ اور اس کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ راہ عشق میں چلنے والے کی کل انتہائے شوق، اس کی وارفتگی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی دھن میں اپنے آپ کو کھو دے۔ غالب کہتا ہے۔ مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال تاز باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے گویا عشق اپنے محبوب کے خیال میں اس قدر غرق ہے۔ اور اس میں اسے اتنی لذت نصیب ہے کہ اس عالم خیال سے باہر آنا نہیں چاہتا۔ صوفیاء نے اسی استغراق اور مہویت کو محبوب حقیقی کے عشق کا مرکز قرار دیا ہے۔ اقبال کے شعر کا پس منظر بھی یہی متصوفانہ تصور ہے۔ اقبال اور صوفیاء دونوں کا ابتدائی نظریہ ایک ہے کہ وہ اپنا مقصود حیات، خالق کائنات ہی کو ٹھہراتے ہیں اور اس تک رسائی حاصل کرنے کو زندگی کی تعمیر و تکمیل قرار دیتے ہیں۔ لیکن صوفیاء کے نزدیک انسان کی اخلاقی اور روحانی نشو و ارتقائے حیات اور اس کی انتہا یہ ہے کہ انسان آخری مقام پر پہنچ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ میں فنا کر دے۔ اقبال یہاں ان سے اختلاف کرتا ہے اس کے نزدیک، انسانی زندگی اور اس کے ارتقا کا سفر کہیں ختم نہیں ہوتا اس لیے کہ انسانی زندگی میں نشو و ارتقا کی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ کسی مقام پر بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ دوسرے یہ کہ انسان کی زندگی کی غایت یہ نہیں کہ وہ مقام اعلیٰ پر پہنچ کر اپنی انا یا خودی کو فنا کر دے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ مسلسل ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جائے۔ اب ذرا اقبال کے شعر کو دوبارہ سنئے اور دیکھئے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ من بتلاش تو روم یا بتلاش خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوئی تو ایک طرف انسان خدا کا جوہا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنی تلاش ہے۔ اس نے اللہ کی تلاش میں اپنی زندگی اور خودی کی تکمیل بھی کرنی ہے دیکھئے اس متضاد کیفیت کو اقبال نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔ پھر استفہامیہ انداز بیان سے اس میں مزید حسن پیدا کیا ہے کہ اے خدا میں تجھے ڈھونڈوں کہ اپنے آپ کو؟ حالت یہ ہے کہ محویت اور وارفتگی کا عالم طاری ہے۔ میرا دل، عقل اور نظر سب اس محویت میں کھو گئے ہیں۔ نہ تیری خبر ہے نہ اپنا ہوش۔ کہان یہی ہے کہ راہ شوق کی محویت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ پتہ نہیں چلتا کیا کروں۔ حالانکہ شاعر کا مقصود یہی ہے کہ یہ محویت ہی اصل رسائی ہے۔ جسے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ ٭٭٭ (70) زیاں بینی ز سیر بوستانم اگر جانب شہید جستجو نیست نمایم آنچہ ہست اندر رگ گل بہار من طلسم رنگ و بو نیست (یہ پیام مشرق کا ایک قطعہ ہے جو اپنے اندر ایک خاص موضوع کو سموئے ہوئے ہے) اس قطع کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے ’’ اگر تیری روح میں جستجو کی تڑپ موجود نہیں تو تجھے میرے گلستان کی سیر کرنے میں بجائے نفع کے نقصان ہو گا۔ میری بہار رنگ و بو کا طلسم نہیں۔ میں تو تجھے رگ گل کو کھول کر دکھاؤں گا کہ اس میں کیا ہے۔‘‘ ظاہر پرست انسانوں کی نظریں سطحی ہوتی ہیں وہ سطح سے گذر کر اشیاء کی تہ تک نہیں پہنچ سکتیں وہ ان کی ظاہریت میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ اس دنیا کو عالم رنگ و بو اسی لئے کہتے ہیں کہ رنگ و بو اس کی ظاہریت ہے اور اکثر دیکھنے والوں کی نظریں رنگ و بو ہی پہ قانع ہوتی ہیں۔ شاعر اس قطعے میں دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ایک شوق تجسس و جستجو کا اور دوسرے کائنات کے ظاہر اور باطن کا۔ کائنات کو ایک گلستان فرض کرتے ہوئے، اس کے ظاہر کو وہ رنگ و بو سے تعبیر کرتا ہے اور اس گلستان کی باطنی حقیقت کو ’’ اندرون رگ گل ‘‘ سے تشبیہہ دیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اقبال کے نظریہ حیات کی بنیادی چیزیں ہیں۔ ایک تلاش حقیقت اور دوسری اس تلاش حقیقت کے لئے جستجو۔ اقبال کے نزدیک حقیقت کی تلاش، زندگی کا ایک بلند اور ارفع اور اعلیٰ نصب العین ہے۔ اسی بلند اور اعلیٰ نصب العین سے زندگی کی اقدار بلند ہوتی ہیں اور اس میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے او رانسان دنیا کی سطحی باتوں سے گذر کر زیادہ متین اور سنجیدہ اور اہم امور پر غور کرنے کے قابل ہوتا ہے اس کا مشاہدہ عمیق ہوتا ہے۔ اور یہ عمیق مشاہدہ، اس پر اشیاء کے مختلف حقائق کی وضاحت کرتا ہے۔ حقائق اشیاء کا یہ گہرا مطالعہ انسان کو تسخیر کائنات پر آمادہ کرتا ہے اور ا سکی سوئی ہوئی فطری قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو شوق جستجو ہے جب کوئی نصب العین سامنے ہو تو قدرتی طور پر انسان اس نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور یہ جدوجہد اسے زندگی کی منزل ارتقا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال نے ان دو اہم نکتوں کو ایک بڑے رنگیں استعارے کے ذریعے بیان کیا ہے استعارہ توضیح کا کام دیتا ہے اور اس کے ذریعے لطیف اور پیچیدہ مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔ استعارہ ایک قسم کی مادی مثال ہوتا ہے وہ مثال مجسم صورت اختیار کر کے ہماری نظروں کے سامنے آ جاتی ہے اور ہم یوں محسوس کرتے ہیں جیسے ہم خود اس لطیف تجربے سے گذر کر آئے ہیں۔ اس قطعے میں شاعر اپنے تخیلات کی دنیا کو ایک باغ سے تشبیہہ دیتا ہے اس کے افکار پھول ہیں اور جیسا کہ دنیا کا دستور اور معمول ہے لوگوں کی نظریں بالعموم پھولوں کے رنگ و بو ہی پر پڑتی ہیں ان کی گہرائی پر نہیں جاتیں۔ لوگوں کو رگ گل کی حقیقت کا پتا نہیں ہوتا۔ جہاں سے یہ رنگ و بو معرض وجود میں آتے ہیں۔ اقبال کے افکار یا اشعار پر ظاہری نظر ڈالنے والے خیالات کی گہرائیوں سے محروم رہتے ہیں۔ وہ بقول اس کے اسے بھی ایک عام شاعر تصور کرتے ہیں۔ مرے ہمصفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے تب و تاب جاودانہ اقبال کی شاعری یا دوسرے لفظوں میں اس کا جنوں، بہار کے اثر کا نتیجہ نہیں۔ یہ اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے ابھرا ہوا جوش و خروش ہے۔ جو شخص اس کے خیالات کے ظاہری پن کو دیکھتا ہے وہ خسارے میں رہتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے تہ در تہ افکار پر غور سے نظر ڈالی جائے تاکہ زندگی کے اہم حقائق کا راز ہم پر آشکار ہو جائے۔ رگ گل کے چیر کر دیکھنے کے یہی معنی ہیں۔ ٭٭٭ (71) ترا از خویشتن بے گانہ سازد من آں آبے طرب ناکے ندارم ببا زا رم مجو دیگر متاعے چو گل جز سینہ چا کے ندارم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کے دوسرے مصرعے میں آبے طرب ناکے الفاظ آئے ہیں، آب طربناک کی جگہ شاعر نے آبے طرب ناکے یعنی یائے مجہول کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہ یائے مجہول تنکیری ہے جو دونوں لفظوں یعنی آب کو، جو اسم ہے اور طربناک کو جو صف ہے نکرہ بنا دیتی ہے۔ آپ طربناک مرکب توصیفی ہے اس کا معنی ہے وہ پانی جو طرب و انبساط اور خوشی بخشتا ہے جب ہم اسے یائے تنکیری کے ساتھ لاتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کوئی سا آب طرب ناک۔ فارسی میں آب طربناک، شراب کے لئے استعارہ ہے۔ حافظ کہتا ہے۔ خیز و در کاسہ زر آب طربناک انداز پیشتر زانکہ شود کاسہ سر خاک انداز یعنی اے ساقی اٹھ او رسنہری جام میں شراب انڈیل دے۔ پیشتر اس کے کہ ہم مر جائیں اور ہمارا کاسہ سر کوڑے کرکٹ کا برتن بن کر رہ جائے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، آب طربناک کا استعارہ معروف ہے اور فارسی اور اردو شاعری میں کثیر الاستعمال استعارہ ہے۔ اقبال نے اس استعارے کو ارادۃً استعمال کیا ہے اور اس میں ایک طنز خفی بھی ہے۔ اقبال کہتا ہے میرے پاس شراب یا کوئی سا ایسا آب طربناک نہیں جو تجھے مست بنا دے اور اپنے آپ سے بے گانہ کر دے۔ میرے بازار میں کوئی اور جنس و متاع تلاش نہ کر، میرے پاس تو پھول کی طرح ایک سینہ چاک ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اقبال نے جب خودی کا نظریہ پیش کیا تو لوگوں کو مغالطہ ہوا۔ وہ لوگ اس بارے میں معذور بھی تھے اس لئے کہ خودی کا مفہوم، انانیت کے لئے وقف تھا۔ اور لوگ اس سے غرور و تمکنت مراد لیتے تھے۔ طریقت میں زندگی کا مقصد خودی کو مٹانا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے کو فنا کرنا تھا۔ا قبال کا نظریہ حیات اس کے بالکل برعکس ہے وہ خودی سے احساس ذات مراد لیتا ہے۔ ایسا احساس جو انسان میں خود شناسی پیدا کرے اور فطرت کی ادا کی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی قوت عطا کرے۔ تاکہ انسان کی شخصیت استوار ہوتی چلی جائے اور ا سکی زندگی، بقا اور ارتقا کی منزل پہ گامزن ہو سکے۔ اقبال شراب کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے پاس شراب نہیں کہ تجھے پلا دوں اور مست بنا دوں میرے پاس تو درد و سوز و گداز ہے جسے وہ سینہ چاک کے ذریعے نمایاں کرتا ہے ظاہر ہے کہ آب طربناک صرف اس آب تند و تیز ہی کا نام نہیں جو انسان میں مستی اور کیف پیدا کرتا ہے اور اسے مدہوش کر دیتا ہے۔ ہر وہ شے، وہ شعر و ادب ہو یا کوئی طرز حیات، جو انسان کی طبعی اور فطری قوتوں کو سلا دیتی ہے وہ آب طربناک ہے اقبال کے نزدیک زندگی کا تصور بیداری اور ہوشیاری ہے۔ وہ زندگی کو جہاد سمجھتا ہے زندگی کشمکش کا نام ہے۔ مشکلات سے ٹکرانے اوران سے عہدہ برآ ہونے کا نام ہے۔ زندگی، انہی رکاوٹوں، انہی مشکلوں، انہی صدموں کو کہتے ہیں۔ اہل ہمت لوگ ان آفتوں سے نہیں گھبراتے بلکہ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ راستے کی دشواریاں ان کے عزم کو اور بھی مضبوط کر دیتی ہیں اور ان کا سفر شوق تیز تر ہو جاتا ہے۔ ان آبلوں سے پاؤں کے گھرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر اس شعر میں مرزا غالب اسی بلند ہمتی کی نشان دہی کرتا ہے۔ اقبال اپنی اس متاع حیات کو ’’ سینہ چاک‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ زندگی، اس کے نزدیک ذوق و شوق، آرزو و جستجو درد و سوز کا نام ہے۔ جس کے لئے ’’ سینہ چاک‘‘ ایک نہایت ہی حسین و جمیل استعارہ ہے اور اس میں بڑی بلاغت ہے۔ اس میں لا انتہا معنی پوشیدہ ہیں۔ سینہ چاک کیا ہے؟ بقول اقبال کے من کی دنیا ہے جس میں درد و مستی، جذب و شوق کے سوا اور کچھ نہیں۔ ٭٭٭ (72) بہ کویش رہ سپاری اے دل، اے دل مرا تنہا گذاری اے دل، اے دل دما دم آرزو ہا آفریدی مگر کارے نہ داری اے دل، اے دل (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال نے اس قطعے میں بڑی خوبصورت بات کہی ہے اور بڑے خوبصورت انداز میں کہی ہے بعض ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ حسین سوچ حسین الفاظ کا جامہ پہن کر آتی ہے اور اچھا شعر اچھے افکار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں فکر اور جذبے کی بڑی لطیف آمیزش ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے خیالات کی گہرائی غالب آ جاتی ہے وہ تہ دار بات کرتا ہے اور جذبہ اس کے فکر کی گہرائی میں دب کر رہ جاتا ہے اور کبھی اس کے جذبات کی فراوانی اس کے افکار پر چھا جاتی ہے ایسے اشعار میں اس کا غزلیہ اندا زبہت نمایاں ہو جاتا ہے آج کا قطعہ اسی کی ایک مثال ہے۔ اقبال اپنے دل کو خطاب کر کے کہتا ہے: اے دل، اے دل تو اس کے کوچے کی طرف چلا جاتا ہے اور مجھے تنہا چھوڑ جاتا ہے تو آرزوؤں میں الجھا ہوا ہے اور مسلسل ایک آرزو کے بعد دوسری آرزو، اور پھر تیسری آرزو کی تخلیق کرتا جا رہا ہے شاید اس تخلیق آرزو کے سوا تجھے اور کوئی کام نہیں ہے۔ اس شعر کے پہلے مصرعے ہی میں، کویش کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی ’’ اس کا کوچہ‘‘ اس کی ضمیر محبوب حقیقی کے لئے آئی ہے محبوب حقیقی ہی کی طرف جانا اور اس کا قرب حاصل کرنا انسانی زندگی کی منتہا ہے۔ انسان میں صفات الٰہیہ جبلی طور پر موجود ہیں ان صفات کی تکمیل حیات انسان کا مقصد ہے جوں جوں انسان ان صفات کی تکمیل کرتا چلا جاتا ہے وہ اپنے مرکز کے قریب تر ہوتا جاتا ہے اس بلند مقصد کے حصول کے لئے انسان جو جدوجہد کرتا ہے اقبال اسے سفر محبت قرار دیتا ہے اور کوئے دوست کو منزل قرار دیتا ہے اس سفر محبت میں رہرو عشق کی محویت کا یہ عالم ہے کہ دل کو اپنا بھی ہوش نہیں۔ جسے اقبال شاعرانہ انداز میں یوں بیان کرتا ہے کہ گویا اس کا دل اسے تنہا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ قطعے کے آخری دو مصرعوں میں کہ دما دم آرزو ہا آفریدی مگر کارے نہ داری اے دل، اے دل اقبال اصل مقصد کی طرف آتا ہے اور وہ آرزو اور جستجو کی تخلیق ہے عام انسان کسی خواہش، کسی آرزو کے پورا ہونے ہی کو زندگی کی سرخوشی خیال کرتا ہے لیکن اقبال کے نزدیک زندگی کی غایت آرزوؤں کا پورا ہونا نہیں بلکہ ان کا مسلسل ابھرتے چلے جانا ہے کیونکہ زندگی اسی کا نام ہے اگر انسان کا دل ان آرزوؤں سے خالی ہو جائے تو زندگی سرد اور افسردہ ہو کر رہ جائے۔ کسی نہ کسی آرزو کو سینے سے لگائے رکھنا ہی انسان کو گرمائے رکھتا ہے۔ اقبال نے اس خیال کو بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ اے دل تو آرزو پہ آرزو پیدا کرتا چلا جا رہا ہے تجھے اور کوئی کام نہیں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی قلب کا فی الحقیقت کوئی اور کام ہوتا ہے یا ہونا چاہئے۔ وہ دراصل اس استفہامی انداز میں، انکار کی صورت پیدا کرتا ہے۔ یعنی جب وہ دل سے یہ پوچھتا ہے کہ اے دل تجھے دنیا میں آرزو آفرینی کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انسانی قلب کی زندگی اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ آرزوؤں سے لپٹا رہے۔ اقبال کے اس قطعے کا انداز غزل کا سا ہے اس میں شاعر کے ذہن اور اس کے فکر سے اس کے احساسات اور جذبات زیادہ نمایاں ہیں۔ اس قطعے کے اسلوب سے ہمیں فارسی کے ایک رباعی گو شاعر، بابا طاہر عریاں کا اسلوب یاد آ جاتا ہے اس میں بابا طاہر کے جذبات کی سی فراوانی اور والہانہ پن پایا جاتا ہے الفاظ کی نشست اور الفاظ کا صوفی آہنگ بھی اسی کا سا ہے اور اسی اسلوب نے اس قطعے کو خوبصورت بنا دیا ہے۔ ٭٭٭ (73) رہے در سینہ انجم کشائی ولے از خویشتن نا آشنائی یکے بر خود کشا چوں دانہ چشمے کہ از زیر زمیں نحلے بر آئی (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) انساں میں علم کی پیاس اور ذوق جستجو فطری ہے۔ حقیقت میں یہی ذوق جستجو ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے اور اسے دوسری مخلوقات پر شرف بخشتی ہے اور وہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتا ہوا ناز کرتا ہے۔ قدرت کے خزانے عجائبات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر شے عجیب سے عجیب تر ہے انسان کا ذہن پیاسا ہے۔ اس کی پیاس کسی طرح نہیں بجھتی، وہ معلوم سے نامعلوم کی طرف لپکتا ہے اور پوشیدہ اشیاء کو عریاں کر کے دیکھنا چاہتا ہے انسان کی جستجو اور تجسس کا یہ جذبہ اس کو ایک پل چین لینے نہیں دیتا وہ دن رات، اسرار کائنات کے واشگاف کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ علم و سائنس کی ترقی سے پہلے انسان کی قوتیں محدود تھیں۔ ابتدائی انسان بے چارگی کے عالم میں تھا۔ وہ کائنات کے عجائبات سے مرعوب تھا۔ لیکن اس کے اشرف و افضل ہونے کے احساس نے اس کی آنکھیں کھولیں، اسے بیدار کیا۔ اس نے اپنے بڑھتے ہوئے شعور، اور عقل و دانش اور علم کے بل پر رفتہ رفتہ فطرت پر قابو پانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ برق و بخارات کا زمانہ آ گیا۔ اور انسان کا زبردست آلہ کار بن گیا۔ اس آلہ کار کی بے پناہ قوتوں کے بل پر اس نے سمندروں کے سینوں کو چیر ڈالا۔ آسمانوں میں پرواز کر کے ستاروں کی خلوتوں میں نظر ڈالی چنانچہ قدرت کے راز یکے بعد دیگرے آشکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن فطرت اپنے راز بڑی مشکل سے کھولتی ہے اور اپنی حقیقت پوشیدہ رکھنا چاہتی ہے ادھر انسان کی خواہش ہے کہ ہر وہ شے جو اس کی گرفت سے باہر ہو اس کے ہاتھ میں آ جائے اور جب کوئی راز اس سے دور رہتا ہے تو اس کی آتش شوق تیز تر ہو جاتی ہے۔ یہی آتش شوق ہے جو انسان کے ذہن کو بیدار اور اسے ہمیشہ ا ور مسلسل آمادہ کار رکھتی ہے لیکن انسان کا قدم جوں جوں آگے کو بڑھتا ہے اور انکشافات اس کی آنکھوں سے پردوں کو اٹھاتے ہیں۔ اس کی حیرت زیادہ ہوتی جاتی ہے اور اس کی جستجو کا شوق بے تاب ہو جاتا ہے۔ انسان حقیقت کی تلاش میں لگا ہوا ہے اور ہمیشہ لگا رہے گا۔ لیکن حقیقت کو کبھی نہ پا سکے گا۔ یہ گومگو کی حالت ، یہ ذہنی بے قراری، یہ جستجو اور تجسس کا عالم اضطراب انسان کی فطرت ہے اور اسی میں اس کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن انسان اپنی جستجو اور تجسس کی دھن میں یہ بات اکثر نظر انداز کر دیتا ہے کہ کائنات کے تمام چھپے ہوئے خزانوں کے کھولنے کا راز خود اس کی ذات میں پوشیدہ ہے یہ عالم ، یہ آفتاب، یہ چاند ستارے، یہ سیارے سب کے سب اس کے حضوری ہیں۔ ان کی غایت کو جاننے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے جاننے اور پہچاننے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں وہ ان پر غور کرتا ہے اسے اپنے آپ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ آج کے قطعے میں اقبال اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ کہتا ہے: تو نے ستاروں کے سینے چاک کر دئیے لیکن اپنی ذات کی پردہ کشائی نہ کر سکا۔ کائنات کی اشیا سے تو آشنا ہو گیا لیکن اپنے آپ سے بیگانہ رہا۔ دیکھ کہ ’’ دانہ‘‘ بظاہر کتنا حقیر ہے لیکن اپنی قدر و قیمت کو جانتا ہے اس کی نظر اپنے آپ پر پڑتی ہے اس کی یہی خود شناسی اسے اکساتی ہے ابھارتی ہے اور وہ زمین سے پھوٹ کر، ابھر کر، ایک تنومند درخت بن جاتا ہے تجھے بھی اپنے آپ پر کبھی نظر ڈال لینی چاہیے اور اپنی ہستی کی عظمت کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ تو بھی اسی شان سے اس دنیا میں نمودار اور آشکار ہو سعدی کا ایک شعر ہے: اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی یعنی تیرا اپنا روے زیبا تو خود ایک تماشا گاہ ہے۔ تو پھر کس کا نظارہ کرنے کے لئے جا رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ لیکن سعدی کے شعر میں جس خود بینی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اقبال کی خود بینی سے مختلف ہے اقبال دنیا سے آنکھیں ہٹا کر اپنے آپ میں گم ہو جانے کی تلقین نہیں کرتا اس کی خود بینی دراصل، کائنات بینی ہے۔ انسان کی خود شناسی ہی میں عالم شناسی کا راز پوشیدہ ہے اسی خود شناسی کے بل پر انسان اپنی صلاحیتوں سے آشنا ہوتا ہے اور پھران صلاحیتوں کے بل پر کائنات کو مسخر کرتا ہے۔ اس خود آشنائی میں اس کی خود نمائی ہے۔ عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں ٭٭٭ (74) مسلماناں! مرا حرفے است در دل کہ روشن تر زجان جبرئیل است نہانش دارم از آذر نہاداں کہ ایں سرے ز اسرار خلیل است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال کے شعری افکار کا انداز ابتدا ہی سے عام اسلوب شاعری سے الگ تھلگ تھا ان کی ابتدائی غزلوں میں بھی، جو روایتی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، ایک آدھ شعر ایسا آ جاتا تھا جو اس کی جدت طبع کا پتہ دیتا تھا اور اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ شعر کہنے والے کا تصور فن عام تصور فن سے مختلف ہے۔ اور وہ شعر کو تفریحی مشغلہ نہیں بلکہ ’’یک نوائے سینہ تاب‘‘ یعنی دل و جگر میں آگ لگا دینے والا نغمہ آتشیں خیال کرتا ہے۔ اس اعتبار سے اسے اپنی تنہائی کا احساس تھا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ اس کے آشنا اس سے بے گانہ ہیں اور اس کی ذہنی کیفیت اور اس کی سوچ اور زندگی اور فن کے بارے میں اس کے تصورات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پیام مشرق کے آغاز میں پیشکش کو ترتیب دیتے ہوئے وہ المانوی شاعر گوئٹے کا تذکرہ کرتا ہے اور ا س سے اپنا مقابلہ اس طرح کرتا ہے کہ گوئٹے چمن زادہ ہے اور اس نے گل و گلزار کے آغوش میں پرورش پائی ہے اور میں ایک مردہ سر زمین کی پیداوار ہوں وہ باغ میں بلبل کی طرح چہچہاتا رہا اور میری شاعری صدا ابصحرا کی حیثیت رکھتی ہے۔قدرت نے ہم دونوں کو ضمیر کائنات کے پوشیدہ اسرار سے آگاہ کیا ہے۔ ہم دونوں شمشیر آبدار کی طرح ہیں لیکن وہ تیغ برہنہ ہے اور میں ابھی نیام میں پوشیدہ ہوں۔ ہم دونوں موتی ہیں لیکن وہ صدف سے نکل کر امواج بحر سے ہمکنار ہے اور میں ابھی آغوش صدف میں آسودہ ہوں۔ اقبال عام روش شاعری کو ’’ حدیث دلبری‘‘ کہہ کر پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ہمنوا مجھ سے رنگ و آب شاعری کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ کوتاہ نظر ہیں میرے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور باطن کو نہیں دیکھتے۔ مرے ہمصفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ یہی نوائے عاشقانہ ہے جس کی توضیح اقبال نے آج کے قطعے میں کی ہے وہ کہتا ہے۔ مسلماناں! مرا حرفے است در دل کہ روشن تر زجان جبرئیل است نہانش دارم از آذر نہاداں کہ ایں سرے ز اسرار خلیل است اے مسلمانو! میرے سینے میں ایک راز پوشیدہ ہے ایسا راز کہ جبرئیل کی روح روشن سے بھی زیادہ فروزاں ہے میں اس راز کو ان بت تراش انسانوں سے چھپا کے رکھتا ہوں کیونکہ یہ راز خلیل اللہ کا راز ہے۔ راز خلیل اللہ کیا تھا؟ وہ راز حق آگاہی تھا۔ انہوں نے اس کفرستاں میں انسانوں کی حق کی طرف رہنمائی کی تھی۔ انہوں نے دنیا والوں کے جنہیں وہ آذر نہاد کہتا ہے، بنائے ہوئے بت توڑے تھے۔ اور دنیا کے بتکدے میں خدا کا گھر آباد کیا تھا۔ یہ سنت ابراہیمی تھی اور اسی سنت ابراہیمی پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ اقبال کی شاعری اس راز خلیل اللہ کا انکشاف ہے۔ وہ کہتا ہے۔ حق رموز ملک و دیں برمن کشود نقش غیر از پردۂ چشمم ربود کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ملک اور دیں کے رموز منکشف کر دئیے او رمیری آنکھوں سے غیرت کا پردہ یکسر اٹھا دیا۔ برگ گل رنگیں ز مضمون من است مصرع من قطرۂ خون من است میرے افکار کی رنگینی ہی سے گلوں میں رنگینیاں پیدا ہوئی ہیں۔ میرے اشعار کا ہر مصرعہ میرے خون جگر کا ایک قطرہ ہے میرے شوق سخن کو دیوانگی خیال نہ کرو۔ اس جنوں میں ہزاروں خرد مندیاں اور فرزانگیاں پوشیدہ ہیں۔ میرے اشعار، محض ذہن کی خیال آفرینیاں نہیں بلکہ ان میں زندگی کے اسرار پنہاں ہیں۔ ٭٭٭ (75) شنیدم در عدم پروانہ می گفت دمی از زندگی تاب و تبم بخش پریشاں کن سحر خاکسترم را و لیکن سوز و ساز یک شبم بخش (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال کے نزدیک زندگی تب و تاب اور سوز و ساز کا نام ہے۔ اگر یہ تڑپ یہ سوز و گداز نہ ہو تو زندگی افسردہ ہو کر رہ جاتی ہے اور انسان کی طبعی استعدادیں بے کار ہو جاتی ہیں۔ اس قطعے میں اقبال اسی اہم نکتے کی وضاحت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تڑپ یہ سوز ایک لمحے ہی کا کیوں نہ ہو، زندگی کا ماحصل ہوتا ہے شاعر اسے پروانے کی زبان سے یوں ادا کرتا ہے۔ ’’ میں نے سنا کہ پروانہ عدم میں خدا سے یہ کہہ رہا تھا کہ زندگی کا ایک لمحہ بے تابانہ عطا کر۔ صبح کو تو چاہے تو میری راکھ کو غبار بنا کر اڑا دینا لیکن مجھے ایک رات کا سوز و ساز میسر آ جائے۔‘‘ نفسیات کا ایک نظریہ ہے جسے انگریزی میں Concentrated Emotion یا اردو میں جذبات کا بھرپور تجربہ کہا جا سکتا ہے اس نظریے کا ماحصل یہ ہے کہ نفسیاتی طور پر یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان اپنی ساری جذباتی زندگی ایک دو لمحوں میں بسر کر دے۔ کسی شاعر کا شعر ہے۔ یہ زندگی، زندگی نہ سمجھو کہ زندگی سے مراد ہیں بس وہ عمر رفتہ کی چند گھڑیاں جو ان کی صحبت میں کٹ گئی ہیں اس شعر میں شاعر،ا پنی عمر گذشتہ کی ان چند گھڑیوں کو جو محبوب کے حضور گزری ہیں اپنی ساری زندگی سے گراں تر سمجھتا ہے بلکہ ان چند لمحوں کو ہی زندگی سے تعبیر کرتا ہے اور باقی عرصے کو زندگی قرار نہیں دیتا۔ حافظ کے اس شعر کو دیکھئے۔ بفراغ دل زمانے نظرے بہ ماہ روئے بہ ازاں کہ چتر شاہی ہمہ عمر ہا و ہوئے یعنی اگر ساری عمر ہمارے سر پر چتر شاہی سایہ کئے ہو اور عیش و نشاط کے ہنگامے گرم رہیں تو بے سود ہیں۔ ان سب سے بہتر وہ ایک لمحہ ہے جس میں محبوب کا دیدار ہو اور سکون دل نصیب ہو۔ گویا فراغت دل یا اطمینان قلب کا ایک لمحہ زندگی کی ساری ہنگامہ خیزیوں پر حاوی ہوتا ہے۔ اب ذرا ان تصورات کی روشنی میں آج کے قطعے پر نظر ڈالئے۔ اقبال جذبات کے اس بھرپور لمحے کو ایک پروانے کی التجا کی صورت میں ہمارے سامنے لاتا ہے پروانہ خدا سے رات بھر کی زندگی طلب کرتا ہے ایسی زندگی جو سراپا سوز و ساز ہو۔ پروانہ دن بھر نظر نہیں آتا۔ رات ہی کو اس میں سوز حیات پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ذوق و شوق کی حرارت انتہا کو پہنچتی ہے اور جہاں کہیں اسے شمع نظر آتی ہے وہ اس پر بے ساختہ لپکتا ہے اور اس کی آگ میں جل کر اپنے آپ کو راکھ بنا دیتا ہے۔ اقبال پروانے کے استعارے کو جگہ جگہ لاتا ہے اور ہر جگہ نئے نئے اسلوب فکر کو اس استعارے کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کہیں وہ پروانے کو آتش بیگانہ کا در یوزہ گر کہتا ہے کیونکہ وہ جلنے کے لئے شمع سے آگ کی بھیک مانگتا ہے کہیں وہ پروانے کی زندگی کو سراپا سوز و ساز قرار دیتا ہے۔ استعارہ بہرحال استعارہ ہوتا ہے اور شاعر اسے اپنے افکار کی وضاحت کا آلہ کار بناتا ہے۔ اس قطعے میں پروانہ وہ ننھا سا کیڑا نہیں جو رات کی تاریکیوں میں چمکتا دکھائی دیتا ہے بلکہ ہر وہ انسان ہے جو کسی عظیم الشان نصب العین کے حصول کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تسلیم و ایثار کا یہ لمحہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جو جان پر کھیل جانے والے انسان کی ساری زندگی پر بھاری ہوتا ہے۔ حضرت اسمعیل نے جب رضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا تھا اور حضرت امام حسین جب باطل سے ٹکرانے کے لئے میدان شہادت میں سربکف نکلے تھے تو ان کی زندگی کا وہ لمحہ وہی بھرپور لمحہ تھا جسے اقبال پروانے کا ’’ سوز و سازیک شب‘‘ قرار دیتا ہے۔ سوز و ساز کی یہ ایک رات صدیوں پہ بھاری ہوتی ہے اور اسی کو زندگی کی معراج کہتے ہیں۔ ٭٭٭ (76) چہ لذت یا رب اندرہست و بود است دل ہر ذرہ در جوش نمود است شگافد شاخ را چوں غنچہ گل تبسم ریز از ذوق وجود است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا پس منظر کنت کنزاً مخفیاً کی حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ کوئی میرا دیکھنے والا ہو۔ میں نے اس غرض کے لئے دنیا کو خلق کیا۔ صوفیائے کرام کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ پاک حسن ہے اور حسن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کی نمائش چاہتا ہے اقبال انہی عقائد کے پس منظر میں اپنا نظریہ حیات پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرۂ اسی شوق نمود سے سرشار ہے کیونکہ زندگی کی ساری لذت اسی کشمکش میں پوشیدہ ہے شاخ درخت سے جب کوئی پھول کی ننھی کونپل پھوٹتی ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ اس کی ہستی اسی نشے سے سرشار ہے اور اس کے لبوں کا تبسم اسی جذبہ نمود کا آئینہ دار ہے۔ ہربود کا وجود اسی نمود سے وابستہ ہے۔ ہر چیز فطرتاً اپنی خود نمائی پر مجبور ہے فی الحقیقت اسی خود نمائی پر ہر چیز کی زندگی کا مدار ہے اور اسی سے وہ ظہور میں آتی ہے اور اسی سے اس کا دوام اور استحکام وابستہ ہے جوش نمود ہی سے میدانوں میں سبزہ لہلہاتا ہے چمن زاروں میں پھول کھلتے ہیں اور آسمان پر ستارے جگمگاتے ہیں۔ آگ کے شعلوں سے شرر ابھر ابھر کر فضا میں رقص کرتے ہیں۔سطح دریا پر لہروں کی روانی، حبابوں کا خرام اور قطروں کی سرفرازی اور خود افشانی سب کی سب اسی جذبہ نمود کے کرشمے ہیں۔ مرزا غالب ایک قصیدے کے مطلع میں جس کی تشہیب میں انہوں نے فلسفہ و حکمت کی بڑی گلکاریاں دکھائی ہیں، اسی نکتے کی یوں وضاحت کرتے ہیں۔ دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں اگر حسن از لی کی نظر اپنے آپ پر نہ پڑتی اور وہ خود بینی کے نشے سے سرشار نہ ہوتا تو یہ کائنات معرض وجود میں نہ آتی اور اس صفحہ ہستی پر انسان کا ظہور نہ ہوتا انسان حسن ازلی کے جذبہ نمود ہی سے وجود میں نہیں آیا بلکہ خودی کے اظہار و نمائش کے جذبے کو بھی ہمراہ لے کر آیا ہے اقبال کے نزدیک جس طرح وجود ازلی کی تخلیقی قوتیں ابھی تک کار فرما ہیں اسی طرح انسان بھی اسی تخلیق میں اس کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہے ’’ کل یوم ہو فی شان‘‘ کی شان بدستور قائم ہے اور اسی اعتبار سے انسان کی حالت بھی ہر لحظہ نئی آن و نئی شان میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان یہ نئی آن اور نئی شان، انسان کی تکمیل کرتی چلی جاتی ہے اور اس کے نشو و ارتقا کی کڑیاں استوار تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اقبال اس دنیا کو کبھی جلوہ گہ شہود کا نام دیتا ہے، کبھی اسے بتکدۂ نمود کہتا ہے اور پھر اسی شہود و نمود کی کارگاہ کو رزم نبود و بود بھی کہہ کر پکارتا ہے اس لئے کہ یہاں جو شے موجود ہے اور جو شے ابھی وجود میں نہیں آئی، دونوں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے اور اسی کشمکش سے کائنات کی اشیاء یا مٹ جاتی ہیں یا استحکام پذیر ہو کر اپنی خودی کو استوار کر لیتی ہیں۔ اس ساری کشمکش میں ذوق نمود ہی کار فرما ہوتا ہے۔ اس قطعے کے پہلے مصرعے میں: ’’چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است‘‘ اے خدا اس ہست و بود یعنی کارگاہ حیات یعنی زندگی میں کتنی لذت پوشیدہ ہے چہ کا لفظ تحسین کا ہے یعنی اس کی لذت بڑی مزے کی ہے گویا انسان کا وجود، زندگی کی کشمکش میں سمویا ہوا ہے اور یہی کشمکش اسے اپنی خود نمائی پر مجبور کرتی ہے اس خود نمائی میں صرف انسان ہی شامل نہیں بلکہ کائنات کا ہر ذرہ اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ٭٭٭ (77) ترا اے تازہ پرواز آفریدند سراپا لذت بال آزمائی ہوس مارا گراں پرواز وارد تو از ذوق پریدن پر کشائی (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال کا یہ قطعہ اس کے حسین ترین قطعات میں سے ہے اور فکر اور اسلوب بیان کے اعتبار سے ایک فنی شہپارہ ہے اس قطعے میں شاعر ایک ایسے پرندے سے خطاب کرتا ہے جس نے ابھی ابھی اپنے بال و پر کھولے ہیں اور پرواز کی ابتدائی کوششیں کر رہا ہے اور پھر اس نو پرواز پرندے کا مقابلہ انسانوں سے کرتا ہے۔ اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ ’’ اے تازہ پرواز طائر! تجھے قدرت نے سراپا اڑنے کی لذت بنا کر دنیا میں پیدا کیا ہے۔ ہمیں دیکھ کہ ہم ہوس کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور تیرا بال و پر کھولنا، محض اڑنے کے لئے ہے۔‘‘ تازہ پرواز کا لفظ ایسے پرندے کے لئے استعمال ہوا ہے جو ابھی نو آموز ہے اور پرواز کے ابتدائی مرحلے طے کر رہا ہے آپ نے ایسے ننھے منے پرندے کو دیکھا ہو گا کہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جا بیٹھتا ہے اور کہیں نہیں ٹھہرتا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دیوانہ ہو گیا ہے اس کی حالت اس بچے کی سی ہوتی ہے جس نے ابھی ابھی چلنا سیکھا ہو۔ بڑے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کریں تو ہاتھ چھڑا کر آگے نکل جاتا ہے وہ راستے میں گر پڑتا ہے لیکن پھر اٹھتا ہے اور مسکرا کر دوڑنے لگتا ہے۔ چلنے کی لذت اس کے ننھے سے دل میں اٹھکیلیاں کرتی ہے۔ نو پرواز پرندے کی اڑان کسی چیز کی تلاش کے لئے ہوتی ہے۔ وہ دانے دنکے کی جستجو میں نہیں اڑتا۔ آشیانے کے لئے تنکے جمع نہیں کرتا۔ اس کے ماں باپ اس کے لئے سب چیزیں پیار سے مہیا کرتے ہیں وہ تو صرف اڑنے کے شوق میں اڑتا ہے جیسے اپنے بال و پر کی صلاحیتوں کو آزما رہا ہو ادھر انسان ہے کہ دنیا میں آ کر جگہ جگہ الجھ جاتا ہے دنیا اور دنیا کی نعمتیں انسان ہی کے لئے ہیں اور اسلام ان نعمتوں سے تمتع حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا انتباہ بھی کرتا ہے کہ کہیں ان دنیاوی لذتوں میں الجھ کر زندگی کا اصل مقصد نہ بھول جانا۔ قوت لا یموت ہی درکار نہیں۔ دولت کا ہونا بھی ضروری ہے لیکن جب انسان اپنے گرد دولت کے انبار لگاتا چلا جائے تو وہی چیز اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ایسے ہوس کار انسان کی حالت اس مسافر کی سی ہوتی ہے جو سفر میں اپنے ساتھ بے تحاشا ساز و سامان لے کر چلتا ہے زندگی بھی ایک سفر ہے اور ناگزیر سفر ہے وہی مسافر اس سفر میں آسودہ حال رہتے ہیں جو ضروریات سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھائے اور بقول اقبال کے ’’ہوس مارا گراں پرواز وارد‘‘ یعنی ہوس کے ہاتھوں اپنے پہ بوجھ لاد لیتے ہیں اور پھر رک رک کے، دب دب کے اڑتے ہیں۔ ناصر علی سربندی کا شعر ہے تو رہ از کثرت اسباب بر خود تنگ می سازی سبک روحاں چو بوئے گل رہا کردند محماسا یعنی تو نے کثرت اسباب سے اپنا راستہ تنگ کر لیا ہے سبک روح لوگ تو اس دنیا سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے پھولوں سے خوشبو خراماں خراماں نکل جاتی ہے۔ لیکن اقبال قناعت کی تلقین نہیں کرتا وہ تو گلشن میں علاج تنگی داماں کی ترغیب بھی دیتا ہے البتہ اس بات کی ضرورت ہے کہ بقول غالب ہرچہ در مبدء فیاض بود، آن من است گل جدا ناشدہ از شاخ بدامان من است یعنی جو کچھ سرچشمہ فیض ازلی سے ابھرا ہے وہ میری ملکیت ہے۔ جو پھول ابھی شاخ سے نہیں پھوٹا وہ بھی میرے دامن میںپڑا ہے غالب کہتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور لذتوں پر قبضہ جمانے کے بجائے نفس میں اتنی وسعت پیدا کرنی چاہئے کہ ساری کائنات، ذوق و شعور کے ذریعے انسان کے دامن میں آ جائے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ انسان کی ہوس پرستی اسے دبائے رکھتی ہے اور وہ جگہ جگہ ٹھہرتا اور رکتا ہے۔ پھولوں سے لذت اندوز ہوتے ہوئے کانٹوں میں الجھ جاتا ہے اور بقول اقبال کے گراں پرواز ہو جاتا ہے۔ اور اڑتے ہوئے دکھ محسوس کرتا ہے اور اڑنے کی لذت سے بے نصیب رہتا ہے زندگی کی پرواز کو ایک نو آموز طائر کی پرواز ہی رہنا چاہئے کہ اسی میں زندگی کا لطف پوشیدہ ہے۔ ٭٭٭ (78) تنے پیداکن از مشت غبارے تنے محکم تراز سنگین حصارے درون او دل درد آشناے چوں جوے در کنار کوہسارے (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ اے انسان اپنی مشت خاک سے ایک جسم پیدا کر۔ ایک ایسا جسم جو پتھر کی دیوار سے زیادہ پختہ، مضبوط اور محکم ہو، اور اس تن محکم کے اندر ایک ایسا دل ہو جو اس نرم رفتار اور سبک روندی کی طرح ہو جو پہاڑوں کے دامن میں بہتی چلی جاتی ہے۔‘‘ اقبال عشق کا لفظ زندگی کی تڑپ کے لئے استعمال کرتا ہے او راسی زندگی کی تڑپ کو وہ عشق کی خوں ریزی کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کی یہ تڑپ کائنات کی ہر شے میں سمائی ہوئی ہے اور اسی سے ہر شے کی زندگی میں توانائی پیدا ہوتی ہے اور اس کی تعمیر اور اس کے ارتقاء کا سامان مہیا ہوتا ہے چنانچہ اس تصور کے ماتحت اقبال کے کلام میں خودی اور عشق دونوں اکثر ہم معنی استعمال ہوتے ہیں ۔ خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور عشق، خودی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ جذبہ عشق انسان کے اندر سے ابھرنا چاہیے اور انسان کی خودی کا اظہار ہونا چاہیے۔ دوسروں سے سوز عشق طلب کرنا یا دوسروں کی آگ میں جلنا خودی کی کمزوری کی دلیل ہے۔ غرض عشق جہاں انسان کی خودی کو استوار اور محکم بناتا ہے وہاں اس میں انتہا درجے کی نرمی، گداز اور رقت بھی پیدا کرتا ہے۔ ایک طرف عاشق زبردست قوت سے ٹکرا جاتا ہے اور بڑے سے بڑے حادثے اس پر اثر انداز نہیں ہوتے او را سکی متانت اور پختگی عزم اور طبیعت کی محکمی میں فرق نہیں آتا۔ دوسری طرف وہی انسان دوسروں کے غم و درد سے متاثر ہو کر آنسو بھی بہاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہاں کا درد اس کے دل و جگر میں سمایا ہوا ہے۔ سختی اور نرمی کی باہمی آمیزش ہی کو اقبال، کوہسار اور جوئے کہسار سے تشبیہہ دیتا ہے اقبال اپنے ان دو شعروں میں اسی لطیف آمیزش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اور: جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان گویا مومن میں ابر یشم کی نرمی بھی پائی جاتی ہے اور فولاد کی سی سختی بھی، وہ لالے کے پھول کے سوز جگر کو ٹھنڈک پہنچانے والا شبنم کا قطرہ بھی ہے اور سمندروں کے دل کو لرزا دینے والا طوفان بھی۔ اقبال اپنے قطعے میں جب تن محکم اور دل نرم کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ انسان مومن کی شخصیت کے انہی دو پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق سے خودی میں محکمی اور توانائی تو آ جاتی ہے لیکن دل کی نرمی اور اس کا سوز و گداز ایک ایسا مقام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ سینے میں ایک نرم و نازک دل کا ہونا ایک ارفع اور اعلیٰ شخصیت اور کردار کی دلیل ہے اسی سوز و ساز سے زندگی میں رونق اور چہل پہل ہے اور اسی سے انسانی اخوت اور محبت کے رشتے استوار ہوتے ہیں۔ خلیفہ عبدالحکیم نے اقبال کی زبانی ایک درویش کا واقعہ یوں بیان کیاہے کہ وہ بازار میں سے گذر رہا تھا دیکھا کہ ایک شخص زور سے ایک گائے کی پیٹھ پر لٹھمار رہا ہے درویش نے پکارا کہ ارے کیا کرتا ہے۔ رکو، مت مارو، اس نے کہا کہ گائے کو مار رہا ہوں تجھے تو نہیں مار رہا اس درویش نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دکھایا کہ مجھے ہی تو مار رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پر ویسے ہی چوٹ کے نشان تھے۔ اس نفسیاتی کیفیت کی مثال شعر العجم میں مولانا شبلی نے امیر خسرو اور حسن دہلوی کے بارے میں لکھی ہے۔ امیر خسرو اور حسن میں دوستی اور محبت کا رابطہ بہت گہرا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ امیر خسرو، ملتان میں خان شہید کے دربار سے وابستہ تھے اور حسن بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس بات کا چرچا عوام میں ہو گیا تھا۔ خان موصوف نے حسن کو امیر کے ملنے سے روک دیا لیکن وہ اس ممانعت کے باوجود خسرو سے ملے۔ خان شہید کو خبر ملی تو انہوں نے حسن کے ہاتھ پر کوڑے لگوائے۔ حسن سیدھے خسرو کے پاس گئے۔ خان شہید نے خسرو کو طلب کیا اور ملاقات کے بارے میں پوچھا۔ امیر خسرو نے آستیں سے ہاتھ نکال کر دکھایا۔ جہاں حسن کے کوڑے لگے ہیں خسرو کے ہاتھ پر بھی کوڑے کے نشان تھے۔ یہ عشق صادق کی نشانی تھی اسی عشق صادق کے سوز و گداز اور نرمی اور رقت کو اقبال اپنے قطعے میں دل درد آشنائے کہہ کر پکارتا ہے ٭٭٭ (79) دلا نارائی پروانہ تاکے نگیری شیوۂ مردانہ تاکے یکے خود را بسوز خویشتن سوز طواف آتش بیگانہ تاکے (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) نارا کا لفظ فارسی میں ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو دور اندیش نہ ہو اور معاملہ فہمی میں کوتاہی کرے۔ نارائی اسی سے حاصل مصدر ہے اور کم فہمی اور نادانی کے معنوں میں آتا ہے پروانہ شمع کے شعلے پر لپکتا ہے اور اپنی جان قربان کر دیتا ہے گویا اسے جلنے کے لئے غیر سے آگ طلب کرنی پڑتی ہے اس واقعہ سے متاثر ہو کر شاعر کہتا ہے۔ اے دل، تو کب تک پروانے کا شیوہ اختیار کرتا رہے گا۔ اور شمع کی آگ کی بھیک مانگے گا۔ کبھی اپنے آپ کو اپنی آگ میں بھی جلا کر دیکھ۔ یہ آتش بیگانہ کا طواف کب تک جاری رہے گا۔ کوئی مردانہ طریق عمل اختیار کرنا چاہیے۔ مولانائے روم کا مشہور شعر ہے: آنچہ شیراں را کند روبہ مزاج احتیاج است، احتیاج است احتیاج حاجت مندی شیروں کو لومڑی بنا دیتی ہے۔ اقبال ’’ اسرار خودی‘‘ میں خودی کی تعمیر اور تکمیل کے لئے جہاں مختلف وسائل کا تذکرہ کرتا ہے وہاں ایک جگہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ احتیاج انسان کی خودی میں رخنہ پیدا کرتی ہے اور سوال کرنے سے خودی میں ضعف پیدا ہو جاتا ہے اقبال رسول پاک کے ارشاد کو کہ ’’ الکاسب حبیب اللہ‘‘ کی وضاحت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان کے لئے خود کار ہونا بے حد لازمی ہے۔ اقبال اسی نکتے کی تائید میں حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کا وہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں جب ایک دفعہ اونٹ کی سواری کرتے ہوئے ان کا تازیانہ ہاتھ سے گر پڑا تو اسے زمین پر سے اٹھانے کے لئے آپ خود اونٹ سے اترے اور اس معمولی کام کے لئے کسی اور کا احسان اٹھانا گوارا نہ کیا اقبال کہتا ہے: از سوال افلاس گردد خوارتر از گدائی، گریہ گر نادار تر سوال کرنے سے انسان کا افلاس اور بھی ذلیل ہو جاتا ہے گدائی، گداگر کو اور بھی نادار بنا دیتی ہے کتنا خوش نصیب ہے وہ انسان جو انتہائی پیاس کے عالم میں بھی خضر سے پانی کا ایک پیالہ طلب نہیں کرتا اور تشنہ لب جان دینا گوارا کرتا ہے کیونکہ بلند ہمت انسان کی غیرت کا یہی تقاضا ہے بقول مرزا غالب تشنہ لب بر ساحل دریا زغیت جان دہم گربہ موج افتد گمان چیں پیشانی مرا یعنی اگر میں پیاس بجھانے کے لئے سمندر کے پاس جاؤں اور سطح آب پر لہروں کو دیکھ کر مجھے یہ خیال ہو کہ یہ لہریں نہیں بلکہ چند گھونٹ پانی دینے کے لئے سمندر کی پیشانی پر تیوری پڑ گئی ہے تو میں غیرت سے ساحل دریا پر پیاسا مر جانا گوارا کر لوں گا اور پانی نہیں پیوں گا غالب ہی کا ایک اردو شعر ہے۔ دیوار بار منت مزدور سے ہے خم اے خانماں خراب نہ احساں، اٹھائیے عرفی کہتا ہے: اقبال کرم می گزد ارباب ہمم را ہمت نہ خورد نیشتر لا و نعم را یعنی کسی کی سخاوت کو قبول کرنا اہل ہمت کو کاٹنے کو دوڑتا ہے کیونکہ ان کی ہمت اور غیرت ’’ نہ‘‘ اور ’’ ہاں‘‘ کوئی سے جواب کی بھی تاب نہیں لا سکتی کسی سے کچھ مانگنے جائیں اور وہ انکار کر دے تو شرمساری نصیب ہو اور اگر مان جائے تو گردن احسان سے جھک جائے۔ عشق و محبت میں پروانے کی جاں نثاری ضرب المثل ہے لیکن اقبال کے نزدیک، یہ جان نثاری بھی غیر کی شرمندۂ احسان ہے اس لئے کہ جلنے کے لئے آتش بیگانہ درکار ہے مزہ اس میں ہے کہ انسان کے دل و جان اپنے ہوں اور ان کا اندرونی جذبہ اور اس جذبے کا سوز بھی اپنا ہو۔ انسانی کردار اور شخصیت کی تعمیر کے جملہ سامان، انسان ہی کی ذات میں پوشیدہ ہیں اور ان کی نشوونما اور تکمیل کے لئے اسے کسی دوسرے کے دست نگر ہونے کی حاجت نہیں۔ اقبال نے اس بلند ہمتی کے جذبے کی وضاحت کے لئے ایک نہایت خوبصورت استعارہ استعمال کیا ہے اور وہ استعارہ حجاب کا ہے۔ پانی کا بلبلہ جس سطح آب پر نمودار ہوتا ہے تو اس کی شکل و صورت اس پیالے کی طرح کی ہوتی ہے جو اوندھا دھرا ہو۔ اوندھا پیالہ ظاہر ہے خالی ہوتا ہے اقبال کہتا ہے کہ حباب کو دیکھو اور ا س سے غیرت مردانہ کا درس لو۔ سمندر میں رہ کر بھی یہ سمندر سے کتنا بے نیاز ہے کہ اپنا پیالہ الٹ کر رکھا ہے کہ کہیں کوئی قطرہ اس کی عزت کو داغدار نہ کرے۔ چوں حجاب از غیرت مردانہ باش ہم بحر اندر نگوں پیمانہ باش ٭٭٭ (80) گذشتہ تیز گام اے اختر صبح مگر از خواب ما بیزار رفتی من از نا آگہی گم کردہ راہم تو بیدار آمدی بیدار رفتی (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے میں شاعر ستارۂ صبح سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے: اے اختر سحر تو کتنی تیزی کے ساتھ گذر گیا۔ ہم لوگ نیند کے مزے لے رہے تھے، شاید تجھے ہمارا اس طرح سے غفلت میں سونا پسند نہیں آیا۔ تو اس سے بیزار ہو گیا۔ اور آگے نکل گیا۔ میں اپنی نادانی کے باعث راستے میں بھٹک گیا ہوں۔ اور تو ہے کہ نہایت ہوشمندی کے عالم میں آیا اور اسی ہوشمندی کے عالم میں آگے قدم بڑھاتا چلا گیا اس قطعے میں اقبال ستارۂ صبح کی زندگی اور اپنی زندگی، دوسرے لفظوں میں انسانی زندگی کا مقابلہ کرتا ہے اور ستارے کی رفتار حیات کو اپنی رفتار حیات پر ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔ اقبال کا نظریہ حیات، کہ وہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، تین اہم بنیادی عناصر پر مشتمل ہے۔ اول ذوق یقیں، دوم طلب و جستجو، سوم ذوق عمل، ذوق یقیں سے اس کی مراد یہ ہے کہ انسان میں خود اعتمادی کا جوہر چاہیے تاکہ وہ پختہ ارادے کے بل پر اپنی خدا داد استعدادوں کو بروئے کار لا سکے۔ دوسرے یہ کہ انسان کے دل میں اپنے مقررہ کردہ نصب العین کے حصول کے لئے بے پناہ آرزو، جستجو اور تڑپ ہونی چاہیے۔ تاکہ وہ اس دھن میں صحیح راستے پر چلا جائے۔ اور اس کی راہ میں بھٹکنے یا رکنے کا کوئی احتمال باقی نہ رہے۔تیسرے یہ کہ اس طلب و جستجو کی منزل میں انسان کو انتہائی جدوجہد سے کام لینے کا خوگر ہونا چاہیے کیونکہ زندگی کے تیور سعی و عمل ہی کی نوعیت سے سنورتے اور بگڑتے ہیں۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے درس عمل کی تلقین کو موثر بنانے کے لئے اقبال، اپنے گرد و پیش سے واقعات تلاش کرتا ہے اور ان میں بعض الفاظ بطور علامات استعمال کرتا ہے۔ اس قطعے میں ’’ ستارۂ صبح‘‘ کی علامت سے کام لیا گیا ہے شاعر کی نظر’’ اختر سحر‘‘ پر پڑتی ہے جو عین وقت معینہ پر رونما ہوتا ہے کچھ دیر اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور آمد سحر کا پیغام دے کر بڑی تیزی سے آگے نکل جاتا ہے اس لئے کہ اس کا فرض منصبی کہیں ایک جگہ ختم نہیں ہو جاتا۔ زمین کی گردش ہر لمحہ اس کے سامنے ایک نئی دنیا لاتی چلی جاتی ہے۔ اور وہ اپنا پیغام ہر جگہ ہر مقام پر مسلسل سناتا اور اہل عالم کو بیدار کرتا چلا جاتاہے۔ اس کا سفر دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کسی ایک مرحلے پر نہیں تھمتا۔ اختر صبح اپنے دھن کا پکا ہے اسے ایک لمحہ کے لئے چین نصیب نہیں۔ ایسی ہستی کے مقابلے میں اہل عالم کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ انسان تو قدم قدم پر تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور ستارے کی نظر تو جب بھی اس پر پڑتی ہے وہ خواب ناز میں ہوتا ہے نظیری نیشاپوری نے کتنی پتے کی بات کہی: زبیقراری افلاک داغہا دارم کہ تابیاد تو برخاستند ننشتند انسان اپنے آپ کو خالق دو جہاں کا برگزیدہ عاشق تصور کرتا ہے اور اپنے ذوق شوق پر نازاں ہے نظیری کہتا ہے کہ میں تو ان ستارگان فلک کی بیقراری کو دیکھ کر رشک کے باعث جل گیا ہوں کہ یہ جب سے تیری یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت میں بیقرار ہو کر اس کی تلاش میں گھومنے لگے ہیں۔ ایک پل بھی چین نہیں پایا اور کہیں نہیں بیٹھے۔ زندگی تو ایک کٹھن سفر ہے اور اس راہ میں چلنے والوں کے لئے ایک ذرا سی لغزش بھی خطرناک ہے۔ ذرا کہیں رکے اور کاروان حیات آگے نکل گیا۔ رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شداز نظر یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دورشد ایک مسافر قافلے کے ساتھ چلا جا رہا ہے اس نے دم بھر کے لئے سوچا کہ پاؤں میں چبھا ہوا کانٹا نکال لوں، اتنے میں محمل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک لحظے کی غفلت سے سو سالہ مسافت کا فرق پڑ گیا۔ اقبال ستارۂ صبح کی مسلسل تگ و دو کے پیش نظر انسان کی کسلمندی، سست رفتاری اور کج روی کا مقابلہ کرتے ہوئے۔ اعتراف عجز کرتا ہے اور ستارے کو خراج تحسین یوں پیش کرتا ہے۔ تو بیدار آمدی، بیدار رفتی تو بے دار آیا اور بے دار چلا گیا کیا کہنے تیرے سفر زندگی کے ہم بے چارے کس کام کے ہیں۔ ٭٭٭ (81) نہ من انجام ونے آغاز جویم ہمہ رازم، جہان راز جویم گر از روئے حقیقت پردہ گیرند ہمہ بوک و مگر را باز جویم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ مجھے نہ انجام کی تلاش ہے نہ آغاز کی میں سرتاپا راز ہوں اور دنیائے راز کی تلاش میں ہوں۔ اگر حقیقت کے چہرے سے پردہ بھی اٹھ جائے پھر بھی مگر اور شاید کی الجھن میں پڑا رہوں گا۔‘‘ اس قطعے میں بوک اور مگر کے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ بوک، بودکہ کا مخفف ہے اور اس کے معنے شاید کے ہیں۔ فارسی میں مگر کا لفظ بھی شاید کے معنوں میں مستعمل ہے شاید اور مگر ایسے ہی الفاظ ہیں جیسے چوں و چرا۔ ان کا استعمال منطق و فلسفہ میں، ایک مفکر اور فلسفی اس ذہنی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو حقیقت کی تلاش میں بالعموم طاری رہتی ہے یعنی انسان جوں جوں علم میں ترقی کرتا جاتا ہے اسے اپنی نادانی ا ور جہالت کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس کے شکوک بڑھتے چلے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ علم کی ترقی کا مدار ہی تشکیک پر ہے۔ اسے ہر مرحلے پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا: ’’جاتا تو یہ جانا کہ نہ جانا کچھ بھی‘‘ اقبال کے قطعے کا پس منظر یہی نکتہ ہے اس نکتے میں اسے زندگی کی صحیح تصویر نظر آتی ہے اس کے نزدیک زندگی طلب و جستجو میں پوشیدہ ہے اور اسی طلب اور جستجو سے زندگی میں لذت ہے اگر کسی مرحلے پر طلب و جستجو کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے تو زندگی بے کیف ہو کر رہ جائے چنانچہ اس قطعے میں وہ کہتا ہے کہ ’’ میں افشائے راز کا خواہاں نہیں ہوں‘‘ اس میں شک نہیں کہ میں حقیقت کی تلاش میں ہوں۔ لیکن اگر کہیں یہ حقیقت مجھ پر پوری طرح منکشف بھی ہو جائے تو میں حقیقت کو بے نقاب دیکھنے کی بجائے اس بات کی آرزو کروں گا۔ کہ میری ذہنی کیفیت وہی ہے جس میں شک و شبہ کا عالم ہوتا ہے اور طبیعت میں بے چینی اور بے قراری ہوتی ہے کیونکہ یہی زندگی کا ماحصل ہے اور اسی میں زندگی کی لذت پنہاں ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے جرمنی کے ایک فلسفی کا قول نقل کیا ہے جو کہتا ہے: ’’ اگر خدا اپنے ایک ہاتھ میں صداقت کلی اور دوسرے ہاتھ میں تلاش حق رکھ کر مجھ کو اختیار دے کہ ان دونوں میں سے جو چاہو منتخب کر لو تو میں بصد عجز و نیاز عرض کروں، کہ اے خدا حقیقت کلی کو تو اپنے پاس رہنے دے۔ کیونکہ عالم الغیب والشہادۃ ہونے اور حقیقت کلی سے آشنا ہونے کے باوجود توحیی و قیوم رہ سکتا ہے لیکن میں اس حقیقت کلی سے واقف ہو کر زندگی سے بے بہرہ ہو جاؤں گا‘‘ غرض اقبال کے نزدیک زندگی کا تمام لطف طلب ا ور جستجو ہی میں ہے۔ وہ ایک جگہ کہتا ہے۔ ہمائے علم تا فتد بدامت یقیں کم کن، گرفتار شکے باش فارسی میں ’’ کم کن‘‘ کا مفہوم نفی کا ہوتا ہے۔ یقین کم کن کے معنی یقین کم کر نہیں بلکہ یقین نہ کر کے ہیں، کہتا ہے کہ اگر علم کا ہما ترے جال میں پھنس بھی جائے تو تو اس کا یقین نہ کرنا بلکہ شک و شبہ میں گرفتار رہنا۔ گرفتار شکے میں شکے کی ’’ ے‘‘ یاے تنکیری ہے۔ یعنی کوئی نہ کوئی شک اور اقبال کے نزدیک شک علم کی غایت شک ہی رہنا چاہیے تاکہ انسان کی جستجوئے حق جاری رہ سکے۔ اسی لئے تو اس نے کہا۔ گر از روے حقیقت پردہ گیرند ہمہ بوک و مگر را باز جویم حقیقت منکشف ہونے پر بھی میں طلب و جستجو کی الجھوں کو سینے سے لگائے رکھوں گا۔ ٭٭٭ (82) تہی از ہاؤ ہو میخانہ بودے گل ما از شرر بیگانہ بودے نبودے عشق و ایں ہنگامہ عشق اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) ہاؤ ہو کا لفظ رونق، چہل پہل، جوش و خروش اور ہنگامے کے لئے آتا ہے میخانے سے مراد یہ دنیا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ا گر انسان کا دل، عقل و خرد کی طرح دانا اور عاقبت بیں اور دور اندیش ہوتا تو اس دنیا میں نہ عشق کا وجود اور نہ عشق کے ہنگامے ہوتے۔ یہ میخانہ ہستی، ہاؤ ہو سے خالی ہوتا اور زندگی سنسان پڑی ہوتی اور انسان کا جسم زندگی کی حرارت سے عاری ہوتا۔ انسانی عقلی ہمیشہ باریک بینی سے کام لیتی ہے اور زیر کی استعمال کرتی ہے۔ ہر صورت حال غور سے دیکھتی اور بھانپتی ہے اس کی نظر ہمیشہ سامنے نظر آنے والے سود و زیاں پر پڑتی ہے اور وہ حال اور حاضر ہی کے نفع و ضرر کو تولتی ہے صاحب خرد انسان دنیا والوں کو چھوڑ کر اپنے پہ نظر ڈالتا ہے اور اجتماعی اور عالمگیر مفاد کے مقابلے میں اپنے مفاد کو سوچتا ہے اور اسی غرض کو لے کر قدم اٹھاتا ہے۔ اس کی نگاہیں اسی مرکز پہ جمی رہتی ہیں۔ اور اس سے زیادہ دیکھنے اور آگے بڑھنے کی جرأت نہیں رکھتا۔ برعکس اس کے انسانی قلب جذبات کی آماجگاہ ہوتا ہے اس میں زندگی کی تڑپ ہوتی ہے اس کی نظریں دور رس ہوتی ہیں۔اور ہمت بلند ہوتی ہے وہ کسی عظیم نصب العین یا اصول کے لئے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کر دینے پر آمادہ ہوتا ہے اور ہر بڑے سے بڑے خطرے میں کود پڑتا ہے اور جان پر کھیل جاتا ہے۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق دل ہی میں پرورش پایا ہے خرد کی آغوش اسے سازگار نہیں۔ عقل کی لوریاں اسے سلا نہیں سکتیں۔ وہ ہر سرد کر دینے والی فضا سے بھاگتا ہے۔ اقبال اس قطعے میں کہتا ہے کہ اگر دل بھی خرد کی طرح فرزانگی سے کام لیتا تو زندگی بے کیف ہو کر رہ جاتی۔ اس کا سارا سوز و ساز ختم ہو جاتا اور زندگی کے ہنگامے سرد پڑ جاتے۔ دل چشمہ عشق ہے اور عشق سر تاپا ایثار اور قربانی ہوتا ہے۔ عقل و خرد سے تنگ نظری جنم لیتی ہے اور خود غرضی کا ظہور ہوتا ہے اور خود غرضی اور ذاتی مفاد انسان کی وسیع صلاحیتوں کو مجروح و مسلوب کر دیتا ہے اس سے کوئی بڑا کام، وجود میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس عشق کی طبیعت انقلاب آفریں ہوتی ہے تاریخ عالم پر نظر ڈالئے دنیا کا ہر عظیم الشان کارنامہ جذبہ عشق کا ہی مرہون احسان نظر آئے گا۔ عشق ہی نے خلیل اللہ کو آتش نمرود میں کود پڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ عشق ہی سے فرعونی نخوت کی شکست کے لئے موسیٰ کو ضرب کلیمی عطا ہوئی تھی۔ حق و باطل کی رزمگاہ میں عشق ہی کی بدولت شبیر اپنے خون سے اسلام کو دوبارہ زندہ کر گئے۔ زندگی کی تازگی، اس کا ارتقائ، اس کا جوش و خروش، دل اور عشق ہی کا فیضان ہے برنارڈشا نے اپنے انداز میں کیا خوب کہا۔ ’’ کہ دنیا میں جو انقلابات بھی آتے ہیں وہ ان ہستیوں کی بدولت ظہور میں آتے ہیں۔ جن کے اعمال کو دنیا والے نامعقولیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ایسے لوگوں کے اعمال کی معقولیت ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی میں کسی اہم اقدام کا دار و مدار عقلمندوں کی رائے شماری پر ہوتا تو ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھ سکتا عقلمند لوگ اپنے کمال احتیاط پسندی میں چھوٹے مفاد ہی میں الجھے رہتے۔ اور ان سے کوئی جرات مندانہ عمل ظہور میں نہ آ سکتا۔‘‘ اقبال نے خرد و عقل کا فرق بڑے شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے اور جیسا کہ اس کا معمول ہے وہ اس خیال کو نئے نئے ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ اس قطعے میں غزلیہ انداز فکر اور اسلوب بیان بہت نمایاں ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قطعہ نہیں بلکہ غزل کے دو شعر ہیں۔ اس قطعے میں ’’ بودے‘‘ کا لفظ ردیف ہے۔ ’’ بودے‘‘ فعل تمنائی کی صورت ہے یہاں اس فعل میں’’ شرطیہ‘‘ پہلو نمایاں ہے۔ یعنی اگر دل خرد کی طرح ہوتا تو دنیا زندگی کے ہنگاموں سے محروم رہ جاتی۔ ٭٭٭ (83) جہاں مشت گل و دل حاصل اوست ہمیں یک قطرۂ خوں مشکل اوست نگاہ ما دور بیں افتادہ ورنہ جہان ہر کسے اندر دل اوست (یہ قطرہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو مفہوم یہ ہے۔ یہ دنیا ایک مشت خاک ہے صرف دل ایک چیز ہے جسے اس مشت خاک کا سرمایہ کہنا چاہیے۔ یہ دل ایک قطرۂ خون ہے لیکن یہی ایک قطرۂ خون ہے کہ جس نے زندگی کے اتنے بڑے ہنگامے بپا کئے ہوئے ہیں اور انسانوں کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے ہماری نگاہیں دوربین واقع ہوئی ہیں۔ وہ خارجی عالم کو دل کی دنیا سے الگ خیال کرتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ہر انسان کا جہاں اس کے دل کے اندر پنہاں ہے۔ دیدانت کا فلسفہ یہ تھا کہ دنیا اور انسانی زندگی ایک نمود بے بود ہے اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک قریب نظر یا فریب ادراک ہے ایک ا ور حیثیت سے یہ انسانی آرزو کی پیداوار ہے اقبال اس فلسفے کے اس پہلو سے متفق ہے اس کے نزدیک زندگی جہاں بھی ہے وہ آرزو ہی کی پیداوار ہے وہ ان آرزوؤں کے ہنگاموں کو جو زندگی کے مختلف مصائب پیدا کرتے ہیں۔ انسان کے لئے بڑی نعمت خیال کرتا ہے وہ ترک آرزو کی بجائے، آرزو کی فراوانی چاہتا ہے اور اسی کو زندگی کی وسعت اور عروج کا ذریعہ سمجھتا ہے انسانی دل آرزو کا یا دوسرے لفظوں میں عشق کا مرکز اور آماجگاہ ہے۔ آرزو اور عشق کے سوز ہی سے اس جہان میں جس کی حیثیت محض ایک مشت خاک کی ہے جان آتی ہے گویا اس دنیائے بے جان میں دل ہی کام کی چیز ہے۔ بظاہر انسان کا دل ایک قطرۂ خون ہے لیکن یہی ایک قطرۂ خون ہے جس سے ایک دنیا آباد ہے۔ اقبال اس قطرۂ خوں کو کائنات کا اور زندگی کا حاصل خیال کرتا ہے۔ اب ذرا اس تصور کو مرزا غالب کے تصور کے مقابل لائیے اور تقابل کیجئے غالب کہتا ہے: بساط عجز پر تھا ایک دل، یک قطرۂ خون وہ بھی سو رہتا ہے بانداز چکیدن سرنگوں وہ بھی غالب اس دنیا کو بساط عجز کہتا ہے اور اس بساط عجز میں ایک ہی چیز موجود ہے وہ دل ہے اور دل کی حقیقت یہ ہے کہ ایک قطرۂ خون ہے اور وہ قطرۂ خوں بھی ایسا کہ جس میں انداز چکیدن ہے کہ اب گرا کہ گرا۔ اقبال ایک مجاہد ہے اس کے تصور میں دل کی یہ قوت، استحکام اور محکمی عشق اور آرزو سے ہے۔ عشق ہزاروں رنگوں میں جلوہ گر ہوتا ہے اور ہر رنگ میں زندگی کو سنوارتا چلا جاتا ہے۔ عشق سے دل کے تیور بدلتے ہیں۔ دل میں نئی سے نئی کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں او رہرکیفیت ایک دنیا ہوتی ہے۔ نطشے نے کہا ہے کہ دنیا کے مذاہب دو طرح کے ہیں۔ ایک مذہب زندگی کو قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے اور دوسرا اسے رد کرنے کی۔ گویا ایک میں اثبات حیات پایا جاتا ہے اور دوسرے میں نفی حیات اقبال کا تصور دل یا تصور عشق، اثبات کا ہے اور اسی اثبات حیات کا تصور ہے جو ایک دنیا ہمارے سامنے لا کر کھڑی کر دیتی ہے۔ ہر لحظہ ایک نیا جہاں ہمارے سامنے لاتا ہے۔ گویا یہ جہان، ہمارے دل میں ہوتا ہے اور دل کی کیفیت ہی سے اس کا وجود قائم ہوتا ہے خارجی دنیا اور دل کی دنیا دو نہیں ایک ہے اور وہ ایک دنیا ہمارے دل میں آباد ہے۔ ’’جہان ہر کسے اندر دل اوست‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔ (84) نوائے عشق را ساز است آدم کشاید راز و خود راز است آدم جہاں او آفرید، ایں خوب تر ساخت مگر با ایزو انباز است آدم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: انسان وہ ساز ہے جس سے نوائے عشق بلند ہوتی ہے انسان کائنات کے راز فاش کرتا چلا جاتا ہے لیکن اس کی اپنی ہستی ایک راز ہے اللہ تعالیٰ نے اس جہاںکو بنایا لیکن انسان اس جہان کو حسین تر بنانے میں مصروف ہے۔ قرآن پاک میں آدم کو مسجود ملائک دکھایا گیا ہے گویا آدم کا یہ تصور ایک ایسے آدم کا تصور ہے جو انسان کامل کا تصور ہے بعض آیات قرآنی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے اور تخلقوا باخلاق اللہ کے ارشاد کی رو سے انسان کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے میں ایسی صفات پیدا کرتا چلا جائے کہ وہ بتدریج اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہو جائے۔ قرآنی ارشاد کے مطابق انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انداز میں پیدا کیا ہے انسان میں خدائی صفات موجود ہیں اور ان صفات کو فروغ دینا اور ان کی تکمیل کرنا انسان کے فرائض میں شامل ہے انہی صفات میں ایک صفت تخلیق بھی ہے اور وہ صفت انسان میں پائی جاتی ہے۔ ’’ خدا کی ایک صفت‘‘ کل یوم ھو فی شان ہے چونکہ آدم کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے اس لئے ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ کی صفت بھی آدم کی فطرت میں پوشیدہ ہے او روہ بھی ہر لحظہ ایک نئے عالم میں ہوتا ہے اقبال خود ہی کہتا ہے: ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان‘‘ یہ انسان کی جدت آفرینی ہے وہ ہر لحظہ اور ہر لمحہ احوال نو کا شائق اور طلب گار ہے اسے ایک حالت پہ رہنا گوارا نہیں۔ وہ ہر لمحہ ایک نیا جہان پیدا کرنا چاہتا ہے: حافظ کہتا ہے: بیا تاگل بیفشا نیم وے در ساغر اندازیم فلک راسقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم فلک کو تہ و بالا کرنے اور ایک نئی بنیاد رکھنے کی خواہش کیا ہے یہی جہان نو پیدا کرنے کی خواہش ہے۔مرزا غالب بھی یہی کہتا ہے: ’’بیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیم‘‘ آکہ اس آسمان کے انداز بدل ڈالیں۔ اقبال ایک اور شعر میں انسان کی اسی جدت پسندی کا تذکرہ یوں کرتا ہے۔ طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی آج کے قطعے کے آخر میں اقبال انسان کی اس تخلیقی قوت کو بڑے حسین پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ کہتا ہے: ’’جہاں او آفرید، ایں خوب تر ساخت‘‘ کہ اللہ نے جہاں بنایااور انسان نے اسے سجایا: ’’مگر باایزد انباز است آدم‘‘ انباز کا لفظ ہم باز کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ ’’ ہم باز‘‘ لغوی طور پر ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو بچپن کا دوست ہو، جس سے بچپن میں انسان مل کر کھیلتا رہا ہو۔ ایک نظم میں اقبال کا انسان خدا سے یوں خطاب کرتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیاباں و کوہسار و راغ آفریدی خیاباں و گلزار و باغ آفریدم تو نے رات بنائی میں نے چراغ جلایا تو نے ٹھیکری بنائی میں نے پیالا بنایا تو نے جنگل پہاڑ اور بیاباں بنائے میں نے انہیں گلزاروں، سبزہ زاروں اور باغوں سے سجایا۔ ٭٭٭ (85) دریں گلشن پریشاں مثل بویم نمی دانم چہ می خواہم، چہ جویم برآید آرزو یا برنیاید شہید سوز و ساز آرزویم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے میں شاعر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ شہید سوز و ساز آرزو ہے۔ اس قطعے کا مفہوم سادہ اردو میں یہ ہے: اس گلستان جہاں میں میں بو کی طرح پریشاں گھوم رہا ہوںَ عجب بے خودی کا عالم ہے کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں کیا چاہتا ہوں اور مجھے کس شے کی تلاش ہے میں اس بات سے بھی بے نیاز ہوں۔ کہ میری آرزو، جو بھی ہے وہ پوری ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ میں تو سرتاپا سوز و ساز ہوں۔ اور یہی زندگی کا ماحصل ہے۔ گویا اقبال کے نزدیک سوز و ساز ہی کا دوسرا نام ہے زندگی کسی نصب العین کے لئے پیہم آرزو رکھنے اور اس کے حصول کے لئے مسلسل جستجو کرتے رہنے کا نام ہے۔ یہ آرزو، یہ جستجو، اس آرزو کی کسک اور تڑپ جو ہر لحظہ انسان کو بے تاب اور بے چین رکھتی ہے یہی زندگی ہے اور شاعر کے نزدیک اس سے زندگی میں چمک آتی ہے اور اسی سے زندگی کو لذتیں نصیب ہوتی ہیں۔ اور اگر یہ آگ سرد پڑ جائے تو زندگی بھی افسردہ ہو کر رہ جائے۔ گلشن پر نظر ڈالئے اور پھولوں کی خوشبو کو فضا میں لہراتے دیکھئے۔ کس وارفتگی اور پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر اور ادھر ادھر دیوانہ وار چلی جاتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی مقصود و منزل نہیں فقط یہی آوارگی منتہا ہے جسے اقبال قطعے کے دوسرے مصرعے میں یوں بیان کرتا ہے۔ ’’نمی دانم چہ می خواہم چہ جویم‘‘ یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ میری آرزو کیا ہے؟ اور مجھے کس چیز کی تلاش ہے۔ پھر اسی کے ساتھ اس احساس کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ اگر کوئی آرزو پویشہ ہی میرے دل کے کسی گوشے میں سمٹ کر بیٹھی ہے تو مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ وہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ اصل شے تو شہید آرزو رہنا ہے اسی میں زندگی ہے۔ ’’صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ‘‘ اقبال کے اس مصرعے میں سارے قطعے کا مفہوم سمویا ہوا ہے۔ ’’ تب و تاب جاودانہ‘‘ ایک کسک، ایک تڑپ، مسلسل اور پیہم تڑپ، یہ ہے تب و تاب جاودانہ، جو کسی مرحلے، کسی مقام پر مدھم نہیں پڑتی شاعر کے نزدیک اسی تب و تاب جاودانہ کا نام عشق ہے اور اسی جذبہ عشق سے زندگی کی بقا اور اس کے ارتقا کے مختلف پہلو ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ جذبہ عشق، اس جذبہ عشق کی بیقراری اور تڑپ انسان کو کسی ایک حالت پہ قائم رہنے نہیں دیتی۔ ہر لمحہ اس کے سامنے ایک جہان تازہ، ایک نئی دنیا ہوتی ہے اسی لئے اقبال کہتا ہے۔ طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی ٭٭٭ (86) نہ ہر کس از محبت مایہ دار است نہ ہر کس را محبت ساز گار است بروید لالہ با داغ جگر تاب دل لعل بدخشاں بے شرار است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو مفہوم یہ ہے۔ ہر کسی کو محبت کا سرمایہ نصیب نہیں ہوتا اور نہ ہی محبت ہر ایک فرد بشر کو راست آتی ہے۔ لالے کا پھول زمین سے اگتا ہے تو جگر کو سوز اور تاب بخشنے والا داغ لے کر آتا ہے لیکن لعل بدخشاں کو دیکھو کہ بلا کی سرخی رکھتے ہوئے بھی اس سوز کی چنگاری سے عاری ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم اس قطعے پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ شاعرانہ تمثیلیں اور تشبیہیں کبھی استدلال کے مقابلے میں زیادہ یقیں آفرین اور دلنشین ہوتی ہیں او رکبھی ثبوت کو کمزور بھی کر دیتی ہیں۔ ابھی اقبال کہہ چکا ہے کہ ذرے کا بھی دل چیریں تو اس کے اندر بھی زندگی کی تڑپ دکھائی دے جسے وہ خوں ریزی عشق کہتا ہے لیکن اس کے بعد ہی کے قطعے میں محبت کے عالمگیر ہونے پر شک پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ہمیں خلیفہ مرحوم سے اس بارے میں اختلاف ہے اول تو ایک قطعے کا دوسرے قطعے کے بعد آنے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی اس ظاہری ترتیب میں مضمون کا تسلسل ہونا لازمی ہو جاتا ہے یہ قطعے صرف کتاب میں درج کرتے ہوئے ایک دوسرے کے بعد اتفاقاً آ گئے ہیں، دوسرے یہ کہ اقبال کے اس قطعے سے اس کے خیالات کا اختلاف یا تضاد کا پہلو نہیں نکلتا۔ اس لئے یہ کہنا کہ محبت یا عشق کے جذبے کے عالمگیر ہونے کے بارے میں اس کے دل میں کوئی شک پیدا ہو گیا تھا۔ غلط ہے، بات صرف اتنی ہے کہ اقبال، جذبہ عشق کی عالمگیری کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس قطعے میں یہ کہتا ہے کہ قدرت نے ہر دل کو عشق کی دولت عطا کی ہے لیکن ہر ایک دل کو اس دولت کا صحیح معنوں میں سرمایہ دار نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ ضروری نہیں کہ ہر دل کو یہ دولت راس آ جائے۔ دل اسی وقت اس دولت سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور یہ جذبہ اسی وقت سازگار اور موافق اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب اس جذبے کی صحیح تربیت کی جائے۔ اگر یہ جذبہ اس چیز سے محروم رہ جائے تو اس کی افادیت کے کھو جانے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ اقبال نے ایک جگہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عشق کے مختلف طبائع پر مختلف اثرات ہوتے ہیں، اس کے لئے اس نے مرزا غالب کے ایک شعر کو تضمین بھی کیا ہے وہ شعر یہ ہے: قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے لالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے اقبال نے غالب کے شعر کے مصرعہ ثانی میں ادنیٰ تبدیلی کی ہے اور ’’ اے لالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟‘‘ کی جگہ: ’’اے لالہ نشان جگر سوختہ چیست؟‘‘ کہہ کر اسے فارسی زبان کے قالب میں ڈھال لیا ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں’’ زندہ رود‘‘ جو اقبال کا اپنا کردار ہے غالب سے کہتا ہے کہ تجھے درد جستجو عطا ہوا ہے۔ اپنے ایک شعر کا مفہوم تو بتا دو۔ اور پھر یہ شعر لکھا ہے غالب جواب میں کہتا ہے۔ ’’ سوز جگر سے جو فریاد ابھرتی ہے ہر جگہ اس کی تاثیر الگ الگ ہوتی ہے قمری کو دیکھو کہ عشق کے سوز سے جل کر خاکستر بن گئی ہے اور بلبل پر نظر ڈالو پھولوں کے رنگ و بو میں کھیل رہی ہے عشق کہیں موت کے رنگ میں آتا ہے اور کہیں حیات کے انداز میں۔ یہ کائنات مقام رنگ و بو ہے ہر دل کو اس کے ہاؤ ہو کے مطابق حصہ ملتا ہے اب ذرا اس توضیح کی روشنی میں آج کے قطعے کے آخری دو مصرعوں پر غور کیجئے:‘‘ بردید لالہ با داغ جگر تاب دل لعل بدخشاں بے شرار است لالے میں محبت کی گرمی، اس کے داغ سے نمایاں ہے ادھر لعل بدخشاں ہے کہ بظاہر اس کا چہرہ دمک رہا ہے لیکن یہ آگ اس کے سینے میں افسردہ پڑی ہے۔ ٭٭٭ (87) شہید ناز او بزم وجود است نیاز اندر نہاد ہست و بود است نمی بینی کہ از مہر فلک تاب بسیمائے سحر، داغ سجود است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال عشق کا لفظ مختلف معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کہیں وہ عشق کو عشق مجازی کے برعکس عشق حقیقی کے لئے لاتا ہے اور یہ وہی تصور ہے جو ہمارے بیشتر شعرائے متصوفین کا ہے کہیں وہ عشق کو عقل کی ضد قرار دیتا ہے اور اس سے وجدان و عرفان مراد لیتا ہے۔ کہیں وہ اسے سوز آرزو اور جستجو کی تڑپ اور کسک کے مفہوم میں استعمال کرتا ہے جو کسی بلند سے بلند تر اخلاقی اور روحانی اقدار کے حصول کے لئے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اقبال کے اس قطعے میں، جسے وہ رباعی کا نام دیتا ہے، جس عشق و محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق کا جذبہ ہے جو مخلوق کے دل میں اپنے خالق حقیقی و ازلی کے لئے پیدا ہوتی ہے۔’’ پیام مشرق‘‘ کی رباعیوں میں یہ پہلی رباعی ہے اس رباعی کو حمدیہ رباعی کہنا چاہئے کیونکہ اس میں باری تعالیٰ کی حمد و ثنا پائی جاتی ہے۔ اس رباعی کا اردو ترجمہ یہ ہے: یہ بزم وجود، یہ کائنات، اسی شاہد حقیقی کی شہید ناز ہے۔ نیاز مندی کائنات کی ہر شے میں مضمر ہے۔ کائنات کی کوئی شے بھی اس سے خالی نہیں۔ کیا تو نہیں دیکھت اکہ آسمان کو روشن کرنے والا یہ سورج بھی، صبح کی پیشانی پر داغ سجدہ ہے۔ گویا کائنات کا ہر ذرہ، اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہے اور اس کے آگے بڑی نیاز مندی سے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے ۔ کیونکہ یہ عجز و نیاز، اس دنیائے ہست و بود کے خمیر میں پوشیدہ ہے اور وہ فطرتاً اس کے اظہار پر مجبور ہے۔ اقبال کا یہ تصور عشق اس قدیم عقیدے پر مبنی ہے کہ خدا حسن ہے اور حسن کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اسے کوئی دیکھنے والا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اسی لئے تخلیق کیا اور جب کائنات کا ہر ذرہ اس کے جلوۂ حسن کا گرویدہ ہو گیا تو وہ خود پردے میں چھپ گیا اور دنیا کو محو حیرت کر گیا۔ مرزا غالب کہتے ہیں: دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں گویا حسن کی خود بینی کا شوق ہی تخلیق کائنات کا باعث بنا۔ اگر حسن میں یہ شوق خود نمائی نہ ہوتا تو ہم کیوں کر معرض وجود میں آتے۔ نظیری نیشا پوری کہتا ہے۔ حدیث حسن و مشتاقی درون پردہ پنہاں بود برآمد شوق از خلوت، نہاد این راز بر صحرا یعنی حسن و عشق کی داستان پردے میں چھپی ہوئی تھی۔ حسن کا شوق نمود آگے بڑھا اور اس نے پردے کو اٹھا دیا اور اس راز کو فاش کر دیا۔ اب کائنات کی ہر شے اسی شاہد ازلی کے دیدار اور ا س سے ہمکنار ہونے کے لئے بیقرار ہے۔ انسان اپنے کو اشرف المخلوقات کہتا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عشق کی جو گرمیاں اس کے دل میں ہیں وہ دنیا کی کسی او رمخلوق کو نصیب نہیں۔ لیکن نظیری نے ایک اور شعر میں اس جذبہ محبت کی عالمگیری وسعت اور شدت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ زبیقراری افلاک داغہا دارم کہ تا بیاد تو برخاستند، ننشستند یعنی میں تو ان افلاک کی بیقراری محبت کو دیکھ کر جل گیا ہوں اور میرے دل پر ایک نہیں، ہزاروں داغ رشک ہیں کہ جب سے تیری یاد میں اٹھے ہیں انہوں نے ایک پل دم نہیں لیا۔ گویا سیاروں کی پیہم گردش خالق حقیقی کی محبت ہی کا نتیجہ ہے۔ افلاک اس کی محبت کی منزل سے مسلسل سرگرداں ہیں اور کہیں رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اب ذرا قبال کی رباعی کے شاعرانہ اور فنکارانہ تیور ملاحظہ فرمائیے۔’’ نہاد ہست وبود‘‘ میں نہاد کا لفظ فطری افتاد کے معنوں میں آیا ہے اور اس جگہ بڑا حسین معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ اظہار عجز و نیاز اس عالم ہست و بود کی فطرت میں شامل ہے، بڑا بلیغ انداز بیان ہے۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے میں: نمی بینی کہ از مہر فلک تاب بسیمائے سحر، داغ سجود است کائنات کی اس عالمگیر نیاز مندی کو نمایاں کرنے کے لئے شاعر ایک خوبصورت اور نمایاں استعارہ استعمال کرتا ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ دنیا کی ہر شے، شجر و حجر، شام و سحر سبھی اپنے خالق کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ اس کے لئے وہ یہ شاعرانہ اسلوب بیان اختیار کرتا ہے کہ یہ سورج نہیں بلکہ سحر کی پیشانی پر سجدے کا داغ ہے کیوں کہ سحر بھی اپنے خالق کے آگے سجدہ ریز ہے۔ ٭٭٭ (88) دل من روشن از سوز درون است جہاں بیں چشم من از اشک خون است ز رمز زندگی بیگانہ تر باد کسے کو عشق را گوید جنون است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) یہ ’’ پیام مشرق‘‘ کے باب ’’ لالہ طور‘‘ کا دوسرا قطعہ ہے۔ اس کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: میرا دل میرے سوز درون ہی سے روشن ہے اور میری آنکھوں کو بصیرت عطا کرنے والے یہی میرے خونیں آنسو ہیں جو میری آنکھوں سے بہہ رہے ہیں۔ جو شخص عشق کو جنون کہتا ہے اللہ کرے وہ راز حیات سے بیگانہ رہے۔ اس قطعے کے پہلے دو مصرعوں میں سوز درون، اور اشک خوں کے الفاظ آئے ہیں اور شاعر نے انہی کے لئے پھر چوتھے مصرعے میں عشق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دراصل سوز درون، اشک خون اور عشق تینوں ایک ہی کیفیت کے نام ہیں۔محبت کا جذبہ کبھی آگ بن کر انسانی قلب کی گہرائیوں میں بھڑکتا ہے اور کبھی ابھرتا ہے اور خون کے آنسو بن کر عاشق کی آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے۔ دنیا والوں کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو دیوانہ کہتے ہیں لیکن شاعر کے نزدیک یہی دیوانگی، اصل حیات ہے اور اسی دیوانگی اور وفور شوق سے زندگی، زندگی بنتی ہے اور اس میں توانائی آتی ہے۔ غالب کہتا ہے: عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا گویا زندگی ایک درد تھی، عشق اس درد کا مداوا بن کر آیا۔ اور اگرچہ عشق خود ایک درد لا دوا ہے لیکن اس درد لادوا نے زندگی کو مسلسل لذتوں سے لبریز کر دیا۔ عشق متضاد کیفیتوں کا حامل ہوتا ہے ایک طرف یہ جذبہ عشق انسان کے قلب میں ایسی قوت اور توانائی پیدا کرتا ہے کہ بڑے سے بڑے حوادث اور مصائب اس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ دوسری طرف یہی جذبہ انسان کے دل میں رقت، نرمی اور گداز پیدا کرتا ہے اس سختی اور نرمی کے یکجا ہونے سے کمال عشق کی کیفیت نمودار ہوتی ہے۔ برٹرینڈرسل کہتا ہے کہ زندگی میں ذوق و شوق اور قوت پیدا کرنے والی دو ہی اقدار ہیں ’’ علم اور عشق‘‘ فرائد نے کبھی یہ کہا تھا کہ خدا کا عقیدہ ایک فریب ہے یہ عقیدہ تو انسانوں نے اپنی زندگی کی ناکامیوں کی تلخیوں کو مٹانے کے لئے وضع کر لیا ہے لیکن یہی مفکر بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا کا وجود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے جو خلاق ہے اور زندگی کی بقا اور ا سکے ارتقا کا ضامن ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اس جذبہ عشق کو اپنے رگ و پے میں سمو لے۔ یہی جذبہ ہے جو انسان کو حیوانیت کی سطح سے ابھارتا ہے اسی سے زندگی میں ذوق و شوق اور لطافت اور لذت پیدا ہوتی ہے ایسے ہی ملحدوں اور منکروں کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ قلب ا و مومن دماغش کا فراست یعنی ان لوگوں کا دماغ تو کافر ہے لیکن ان کا دل مومن ہے۔ غرض اقبال جیسا کہ اس قطعے سے عیاں ہے عشق اور اس کے سوز اور درد کو زندگی کی روح رواں سمجھتا ہے اس کے نزدیک اسی جذبہ عشق کی بدولت زندگی کے قدم آگے بڑھتے ہیں اور علوم و فنون میں ترقی اور تہذیب میں نزاکت اور لطافت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ اقبال محبت اور عشق ہی کو راز زندگی یا رمز زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص عشق کو دیوانگی سمجھتا ہے تو وہ گویا راز زندگی سے آشنا نہیں ہے۔ اس قطعے کے تیسرے مصرعے میں اقبال نے نا آشنا کے لئے ’’ بیگانہ تر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بظاہر’’ تر‘‘ کا حرف تفضل بعض کے لئے مستعمل ہے یعنی دو صفتوں میں مقابلے کے لئے آتا ہے۔ جیسے خوب اور خوب تر۔ یعنی اچھا اور پھر اس اچھے سے زیادہ اچھا۔ لیکن بیگانہ تر میں لفظ تر ان معنوں میں نہیں آیا۔ اس سے مقصود انتہائی بے گانگی ہے۔ شعر کا مفہوم یہ نہیں کہ عشق کو جنون کہنے والا عشق سے بہت بیگانہ یا بہت نا آشنا ہے بلکہ یہ ہے کہ ایسا شخص بے انتہا نا آشنا ہے یا سخت ناواقف ہے۔ ٭٭٭ (89) زخوب و زشت تو نا آشنایم عیارش کردۂ سود و زیاں را دریں محفل زمن تنہا ترے نیست بچشم دیگرے بینم جہاں را (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے۔ اس قطعہ کا دوسرا شعر پہلے بھی 48 ویں شعر کے طور پر آ چکا ہے) اس قطعے کا خطاب خدا سے نہیں، انسان سے ہے، دنیا کے عام انسان سے، جو دنیا کے طور و طریقوں کا پابند ہے اور جس کی زندگی، رسم و رواج زمانہ کی گود میں پلی اور جوان ہوئی ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کی چیزوں کو ماحول ہی کے پیدا کئے ہوئے زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پہلے اس قطعے کا سادہ اردو مفہوم سنئے، شاعر کہتا ہے۔ میں تیرے اچھے اور برے کے تصور سے نا آشنا ہوں۔ کیونکہ تو نے سود و زیاں اچھائی اور برائی کا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی تو اس چیز کو اچھا سمجھتا ہے جس میں سود یعنی نفع ہو اور اس نشے کو برا خیال کرتا ہے جس میں زیاں یعنی نقصان ہو۔ لیکن میرا خوب و زشت، کا معیار کچھ اور ہے۔ میں دنیا کو کسی اور ہی نظر سے دیکھتا ہوں، ایک ایسی نظر سے جو تجھے نصیب نہیں۔ میرا زاویہ نگاہ تم سب سے الگ تھلگ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی فرد بشر ایسا نہیں جو میرا ہم نگاہ، یا ہم فکر اور ہم خیال ہو۔ اس لئے ایس امحسوس ہوتا ہے کہ میں اس دنیا میں تنہا ہوں اور دنیا میں مجھ جیسا اور کوئی انسان تنہا نہیں۔ جب کوئی انسان، اس دنیا میں غیر معمولی ذہانت لے کر آتا ہے تو اس کے سوچنے کا انداز دنیا سے انوکھا ہوتا ہے اس کے فکر کی پرواز عام انسانوں سے بہت بلند ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے معاملات پر نئے انداز سے نظر ڈالتا ہے پرانی ڈگر کو چھوڑ کر نئی داہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فلسفہ و حکمت،علوم و فنون، شعر و ادب، کسی شعبے سے وابستہ ہو، اس میں جدت پیدا کرتا ہے اور پرانی روایات کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور باغی کہلاتا ہے ایسا انسان ہمیشہ اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں اجنبی کہلاتا ہے اقبال نے اسی بنا پر کہا تھا کہ من صدائے شاعر فرداستم کہ میں آئندہ آنے والے شاعر کی آواز ہوں، میرے نغمے، میرے ہم عصروں کے لئے نئے ہیں۔ ایک مدت درکار ہے کہ دنیا والے ذہنی طور پر آگے بڑھیں اور نشو و ارتقا کی مختلف منزلیں طے کر کے میری بات کو سمجھ سکیں۔ دنیا میں ہر بڑے فلسفی، ہر بڑے مفکر، ہر بڑے شاعر اور ادیب کے ساتھ یہی سانحہ پیش آتا ہے۔ دور کیوں جائیں خود مرزا غالب نے جب شاعری میں نئی راہ نکالی تو اس کے ہم عصر اپنی اعلیٰ علمی اور ادبی صلاحیتوں کے باوجود ان کے افکار کی گہرائیوں تک نہ پہنچ سکے اور عوام نے تو اسے مشکل گو بلکہ مہمل گو کا لقب دیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ: ’’گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘‘ اقبال نے جب شعر و ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کے تیور نرالے تھے۔ اس کی ابتدائی ادبی کاوشوں کے عنوان بتا رہے تھے کہ وہ فن شعر کو کسی اور ہی نقطہ نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کی شاعری نے ہمارے ادب میں نئی ادبی اقدار کو جنم دیا۔ اس پس منظر میں ہم باسانی سمجھ سکتے ہیں کہ اقبال اس قطعے میں اپنے ذہن کی کونسی کیفیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ شاعر نے اس خیال کو بڑی فنی خوبی سے بیان کیا ہے اور یہی فنکارانہ مہارت ہے۔ جو اسے ایک طرف مفکروں میں اور دوسری طرف شعراء میں ممتاز کرتی ہے دیکھئے کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ اپنے ہم عصروں کے فرسودہ اور روایتی انداز فکر پر تنقید کرتا ہے اور کتنی طنز کے ساتھ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں کی اقدار کتنی پست ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے خوب و زشت اور نیک و بد کو نفع و نقصان کی ترازو سے تولتے ہیں اور ان کی فنی اخلاقی، یہاں تک کہ مذہبی اقدار سبھی اسی معیار سے قائم ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں رہنے والا وہ انسان جسے قدرت نے غیر معمولی بالغ نظری عطا کی ہو۔ ان لوگوں کا کیونکر ہم نوا ہو سکتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر یقینا ان سے الگ تھلگ ہو گا۔ ایسا انسان اگر اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کرے تو اور کیا کرے۔ ٭٭٭ (90) بباغاں باد فروردیں دہد عشق براغاں غنچہ چو پرویں دہد عشق شعاع مہر او قلزم شگاف است بماہی دیدۂ رہ بیں دہد عشق (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) پیام مشرق کے باب لالہ طور کا یہ تیسر قطعہ ہے اس کا اردو ترجمہ یہ ہے: ’’ عشق ہی باغوں اور چمن زاروں کو باد بہاری عطا کرتا ہے اور سر سبز میدانوں اور وادیوں میں ستاروں جیسی کلیاں کھلاتا ہے اس کے سورج کی شعاعیں سمندر کے سینے کو چیر ڈالتی ہیں اور مچھلی کو گہرے پانی کی تاریکیوں میں بینائی بخشتی ہیں۔‘‘ اقبال اس قطعے میں عشق کا ارتقائی نظریہ پیش کرتا ہے اور یہ ارتقائی نظریہ ہے کہ جمادات، نباتات، حیوان اور انسان یہ سب کے سب زندگی کے ذوق و شوق میں سرشار ہیں۔ ان میں زندہ رہنے اور زندگی سے لذت اندوز ہونے کا ایک فطری جذبہ موجود ہے اور یہ ذوق حیات زندگی کی راہ میں بڑھنے اور ترقی کرنے کا زبردست محرک ہے۔ ڈارون کا ارتقائی نظریہ مادیاتی تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ہر جاندار اپنے ماحول سے موافقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ اسی کوشش میں کبھی کبھی اتفاق سے بعض جانداروں میں ایسے اعضاء پیدا ہو جاتے ہیں جو زندگی کی کشمکش میں ان کے لئے مفید ہوتے ہیں اور پھر یہ اعضاء آئندہ نسل میں بطو روراثت کے چلتے ہیں، جانداروں کی زندگی خود بخود ارتقاء کی طرف قدم نہیں اٹھاتی۔ اقبال اس نظرئیے کے خلاف ہے وہ اس اتفاقی امر کا قائل نہیں، اس کا عقیدہ یہ ہے کہ جانداروں کا ذوق حیات، ان میں ارتقا کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اس جذبے سے ان میں نئے نئے احساس اور نئے نئے اعضاء پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے نزدیک یہ اتفاق کی بات نہیں کہ چکور کو اتفاق سے خوش خرامی کے لئے مناسب ٹانگیں اور بلبل کو خاص وضع کی منقار مل گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ کبک کے ذوق خرام نے اسے رقص کرنے والے پاؤں اور بلبل کو اس کے ذوق نغمہ سرائی نے منقار عطا کی ہے اقبال ہی کا ایک شعر ہے۔ کبک پا از شوخی رفتار یافت بلبل از ذوق نوا منقار یافت یعنی کبک نے اپنی شوخی رفتار کے شوق سے پاؤں اور بلبل نے اپنے انتہائی ذوق نغمہ سے منقار پائی ہے۔ غرض جانداروں کا یہی ذوق و شوق انہیں ارتقا کی راہ پر گامزن رکھتا ہے اور اسی ذوق و شوق کا دوسرا نام عشق ہے۔ چنانچہ جمادات و نباتات، حیوان اور انسان کی زندگی میں جو نظم و نسق پیدا ہوتا ہے وہ عشق سے ہوتا ہے ان میں نشو و ارتقا عشق ہی کا نتیجہ ہے۔ عشق سے باغوں میں پھول کھلتے ہیں اور بہار آتی ہے سبزہ زاروں میں غنچے چٹکتے ہیں، عمیق سمندر کی گہری تاریکیوں میں مچھلیوں کی آنکھوں میں بینائی پیدا ہو جاتی ہے۔ انسان علوم و فنون کے نقش سنوارتا ہے اور تہذیب میں رنگ آمیزیاں کرتا ہے۔ عشق کا یہ رنگ کائنات کی ہر شے میں کسی نہ کسی صورت میں ضرور نمایاں ہو کر رہتا ہے یہ جذبہ عشق فطری طور پر ہر چیز کے رگ و ریشہ میں سمایا ہوا ہوتا ہے اور اپنی کار فرمائیوں میں مصروف رہتا ہے جو جذبہ سبزہ و گل میں ہے وہی انسان میں ہے۔ ناصر سرہندی کہتا ہے: محبت جادۂ وارد، نہاں در خلوت دلہا چو تار سبحہ گم گردید ایں رہ زیر منزلہا کہ محبت کی راہ، دلوں کی خلوت میں، اندر ہی اندر پوشیدہ ہے منزلیں دکھائی دیتی ہیں۔ راہ نظر نہیں آتی۔ تسبیح کے تار کی طرح جو دانوں کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ٭٭٭ (91) عقاباں را بہاے کم نہد عشق قدرداں را ببازاں سر دہد عشق نگہ دارد دل ماخویشتن را و لیکن از کمینش بر جہد عشق (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) ’’ عشق عقاب و شہاب کو بے وقار سمجھتا ہے اور اس کے برعکس کمزور سے کمزور پرندے کو اٹھا کر بازوں سے لڑا دیتا ہے ہمارا دل اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن عشق ہے کہ وہ دل کے کسی نہ کسی گوشے سے اچھل پڑتا ہے۔‘‘ اقبال کے نزدیک عشق، جیسے کہ پہلے دو ایک مرتبہ بیان کیا جا چکا ہے۔ ذوق حیات یا زندگی کے جوش و خروش کا دوسرا نام ہے یہی ذوق حیات یا عشق ایک اور زبردست قوت ہے جو حقیقت محض بھی ہے اور وہی خیر محض بھی ہے اس بارے میں اقبال یورپ کے معروف فلسفی برگساں کا ہمنوا ہے اور یہاں ہمیں دونوں کے خیالات میں بڑی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ برگساں، شر کو ایک بے جان مادہ قرار دیتا ہے اور خیر یا نیکی کو ایک تخلیقی قوت سمجھتا ہے جس کا کام اس مادے کو تسخیر کرنا ہے خیر کی یہ قوت تسخیر بے جان مادے سے چل کر نباتات حیوانات کے مراحل کو طے کرتی ہوئی انسانیت کے مرحلے پر پہنچ جاتی ہے بے جان مادہ ابھر کر نباتات کا مرتبہ حاصل کرتا ہے اور نباتات سنور کر حیوانات کا درجہ حاصل کرتی ہیں، خیر کی قوت اپنی تسخیر کے بل پر حیوانات کو انسانیت کے مقام پر لاتی ہے۔ اس ذوق حیات، اس قوت تسخیر، اس خیر، اس عشق کا مرکز انسان کا دل ہے یہ عشق ایک ایسی زبردست قوت ہے کہ عقاب جیسا قوی حوصلہ پرندہ بھی اس کی نظر میں نہیں جچتا اور اگر یہ جذبہ پوری طرح معمولی سے کمزور بٹیر اور چکور کے دل میں سما جائے تو وہ شہبازوں پر بھی بھاری ہو جاتے ہیں اور ممولا شہباز سے لڑ جاتا ہے۔ اقبال اس قطعے کے تیسرے مصرعے میں کہتا ہے کہ: ’’نگہ دارد دل ما خویشتن را‘‘ یعنی ہمارا دل اپنے آپ کو بچا بچا کر رکھنا چاہتا ہے لیکن نہیں بچا سکتا سوال یہ ہے کہ اگر کائنات کے ہر ذرے کا دل عشق سے سرشار ہے تو پھر کسی دل کے اس سے بچنے یا اس دل کے اپنے آپ کو بچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ اقبال ایک اور جگہ کہتا ہے۔ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں ظاہر ہے کہ بعض انسانی دل، عشق کا مرکز ہونے کے باوجود ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اپنی نگہداشت اور تحفظ کا گاہے گاہے احساس ابھر آتا ہے یعنی وہ زندگی کی اس کشمکش سے گریز کرنا چاہتے ہیں اور یہ احساس اس حالت میں پیدا ہوتا ہے جب انسان، انسانیت کی کسی پست سطح پر ٹھہر جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اولئک کالانعام بل ہم اضل ’’ یہ لوگ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر‘‘ اقبال جب اس قطعے میں یہ کہتا ہے کہ ہمارا دل عشق سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے لیکن عشق غالب ہی ہو کر رہتا ہے تو گویا شاعر اس وقت دل کی اس حالت کو نمایاں کر رہا ہوتا ہے جو بعض انسانوں میں قوت تسخیر کے دب جانے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال عشق ایک ایسی زبردست قوت ہے کہ غالب آ کر رہتی ہے اور اس کی اس تسخیر کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور اسی طرح بدستور چلتا رہے گا۔ (92) بہ برگ لالہ رنگ آمیزی عشق بجان ما بلا انگیزی عشق اگر ایں خاکداں را واشگافی درونش بنگری خونریزی عشق (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو مفہوم یہ ہے: گل لالہ کی پتیوں میں عشق ہی کا رنگ گھلا ہوا ہے ہم انسانوں کی روح میں محبت ہی نے ہنگامے بپا کئے ہوئے ہیں غرض اس زمین کو چیر کر دیکھیں تو ہمیں اس کے اندر بھی عشق کی خونریزیاں نظر آئیں گی۔ اقبال نے اسی قطعے میں عشق کے لفظ کو ذوق حیات کے معنوں میں استعمال کیا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر شے زندہ رہنے اور زندگی کی لذت سے آشنا ہونے کے لئے بے تاب اور بے قرار ہے اور محبت ہی کے نشے سے سرشار ہے اور اسی دھن میں چلی جا رہی ہے۔ باغوں میں پھولوں کا کھلنا، کھیتوں میں سبزے کا لہلہانا، سورج کا طلوع ہونا، رات کا شعاعوں میں رقص کرنا، دریا کی لہروں کا تلاطم، اور اس تلاطم میں قطرۂ نیساں کا گذر کر صدف کے آغوش میں سما کر دریکدانہ بن کر ابھرنا یہ سب اسی جذبہ نمود اور ذوق حیات کے کارنامے ہیں۔ حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں وہ ذرۂ ناچیز جس کی ہستی بظاہر سورج کی درخشندہ شعاعوں کے بغیر متصور نہیں ہوتی اسی جذبے سے سرشار رہتا ہے اور اس اعتبار سے وہ خورشید کا ہمسر ہے کیونکہ اس کے دل میں بھی عشق ہی کا سوز اور گرمجوشی ہے اور اس کے اور خورشید کے دل میں ایک ہی خون رواں دواں ہے۔ یہ جذبہ، نباتات، حیوانات اور انسان بلکہ کائنات کے ذرے ذرے کی خلقت میں پوشیدہ ہے۔ فقط انسان ہی اس بات کا دعویدار نہیں کہ وہ اپنی محبت کے طفیل ساری دنیا میں ممتاز ہے بلکہ بقول غالب۔ ’’دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر‘‘ کے اعلان کا حق رکھتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اپنی سعی نمود اور زندگی کے جوش و خروش میں آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ارتقاء کی منزلوں پر گامزن ہے اور اس ارتقا میں وہ اپنے مرکز کے قریب تر ہونے کی کوشش میں محو ہے۔ انسان ہی کو تنہا یہ شرف حاصل نہیں، نظیری نیشا پوری کہتا ہے۔ زبیقراری افلاک داغہا دارم کہ تابیاد تو برخاستند ننشستند یعنی مجھے ان آسمانوں کی پیہم بیقراری اور گردش دیکھ کر رشک آتا ہے کہ جب سے تیری محبت کی دھن میں اٹھے ہیں پھر نہیں بیٹھے۔ غرض یہی تب و تاب جاودانہ زندگی کا سرمایہ ہے بلکہ زندگی ہے اقبال ایک اور جگہ کہتا ہے کہ اس ہست و بود میں کیا لذت ہے کہ جو شے ہے وہ اپنی خود نمائی کے نشے میں سرشار ہے درخت کی شاخ پر جب کوئی کونپل نکلتی ہے اور جب کوئی کلی چٹکتی ہے تو اس کے لبوں پر ذوق حیات ہی تبسم کناں نظر آتا ہے۔ ہاں انساں تو کائنات میں ایک بلند مقام رکھتا ہے اور اس بلند مقام کی وجہ سے اس کی زندگی کے مقاصد بھی اعلیٰ اور ارفع ہیں اور ان مقامات بلند کے باعث اس کی زندگی کی تگ و دو بھی تیز تر ہے، یہی وہ فضیلت ہے جس سے اسے ملائکہ پر فوقیت حاصل ہے۔ زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے اور یہی زندگی، پائندگی اور تابندگی افلاک پر آج بھی لرزاں ہے۔ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ٭٭٭ (93) خرد بر چہرۂ تو پردہ ہا بافت نگاہے تشنہ دیدار دارم در افتد ہر زماں اندیشہ باشوق چہ آشوب افگنی درجان زارم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال کا یہ قطعہ اس کے بہترین قطعوں میں سے ہے اس قطعے میں اس نے اپنے دل و دماغ کی کیفیت کے خط و خال بڑے شوخ اور واضح انداز میں دکھائے ہیں اور بڑے فنکارانہ انداز میں دکھائے ہیں۔ اقبال ایک فلسفی بھی تھا اور ایک صاحب دل اور درد مند انسان بھی۔ وہ عمر بھر خرد اور عشق کی کشمکش کا تذکرہ کرتا رہا اور عشق کی عظمت بیان کرتا رہا لیکن یہ کشمکش اس کے اندر جاری رہی۔ وہ خود ہی کہتا ہے۔ اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی اس کی ذہنی اور قلبی زندگی عقل کے پیچ و تاب اور دل کے سوز و ساز کی کشاکش رہی اور یہی انسانی زندگی کا صحیح مرقع ہے خود اقبال کو عقل و خرد کی بصیرت افروزیوں سے انکار نہیں لیکن وہ خرد کو دل کے روبرو لا کر اس کو سوز و ساز عشق سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے انسان کی ذہنی صلاحیتیں، موثر انداز میں بروئے کار آ سکتی ہیں۔ صوفیاء اس بات کے قائل تھے کہ علم حقائق اشیا کی عقدہ کشائیاں کرنے کی بجائے اکثر انہیں اور بھی الجھادیتا ہے اور ان پر پردے ڈال دیتا ہے۔ العلم حجاب الاکبر کہ علم سب سے بڑا حجاب ہے۔ اقبال کے اس قطعے کا پس منظر یہی عقیدہ ہے۔ بڑے بڑے مفکر، فلسفی اور حکیم عمر بھر اپنی دانش و حکمت سے حقیقت کائنات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں سرگرداں رہے اور انجام کار اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’معلوم شد ایں کہ ہیچ معلوم شد‘‘ اقبال اس قطعے میں خالق کائنات سے اسی بات کا شاکی ہے اور کہتا ہے۔ ’’ عقل و خرد نے اس کے سوا کچھ نہ کیا کہ تیرے چہرے کی نقاب کشائی کرنے کی بجائے س پر پردہ ڈال دیا اور اسے پوشیدہ تر بنا دیا۔ ادھر میری حالت یہ ہے کہ میں اسے دیکھنے کے لئے بے تاب ہوں۔ مجھے تو نے وہ نگاہ عطا کی ہے کہ تشنہ دیدار ہے اور اس کی تشنگی کسی طرح نہیں مٹتی۔ میری یہ حالت ہے کہ ہر لحظہ میرے حکیمانہ افکار میرے والہانہ جذبات شوق سے الجھتے رہتے ہیں اور میرے قلب میں ایک کشمکش پیدا کر دیتے ہیں۔ اے خدا، یہ تو نے میری جان زار میں کیا قیامت بپا کر دی ہے۔‘‘ انسانی زندگی کا اصل مرقع یہی ہے، اقبال اس جگہ کشمکش سے کچھ آزردہ سا نظر آتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ آزردگی فطری شے ہے لیکن جیسا کہ ہمیں اس کے افکار اور اس کے سوچنے کے انداز کا پتا ہے وہ دراصل ان تمام نارسائیوں اور بے تابیوں کو زندگی کی غایت قرار دیتا ہے۔ بلکہ انہی کو زندگی سمجھتا ہے۔ اگر انسانی ذہن اور قلب کی یہ کشمکش ختم ہو جائے۔ اگر عقل و دل کی یہ کشاکش جاتی رہے اگر ذہنوں کو سکون اور دلوں کو اطمینان حاصل ہو جائے تو زندگی پر جمود طاری ہو جائے۔ فطرت کا منشا یہی ہے کہ انسان کی زندگی قیامت خیزیوں کی آماجگاہ ہی بنی رہے۔ وہ جب یہ کہتا ہے۔ ’’چہ آشوب افگنی در جان زارم‘‘ میری جان زار میں یہ کیا ہنگامہ بپا کر دیا ہے تو وہ مرزا بیدل کی طرح: چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بکنار ما اس بات سے نالاں نہیں کہ اسے حقیقت ازلی تک رسائی حاصل نہیں ہوئی وہ دراصل انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کی نقاب کشائی کر رہا ہے وہ انسانی فطرت کی لا انتہا آرزوؤں اور بے تابیوں کو نمایاں کرنا چاہتا ہے جو انسان کو زندہ اور تازہ رکھتی ہیں۔ علم و فضل اور حکمت و دانش کے پیچ و تاب بھی ضروری ہیں اور وجدان و عرفان کا سوز و ساز بھی لازمی ہے ان ہنگاموں کو گرم رہنا چاہئے انہی ہنگاموں میں زندگی ہے۔ سفر حیات میں سفر کی صعوبتیں اور راستے کی پیچیدگیاں ہی رہرو کے لئے سامان راحت ہیں۔ منزل پر پہنچنا اتنا ضروری نہیں جتنا اس سفر میں عزم و استقلال کے ساتھ چلتے رہنا۔ ز منزل، جادۂ پیچیدہ خوشتر منزل سے تو الجھا ہوا راستہ زیادہ خوش آئند ہوتا ہے۔ ٭٭٭ (94) مرا فرمود پیر نکتہ دانے ہر امروز تو از فردا پیام است دل از خوبان بے پروا نگہدار حریمش جز باو دادن حرام است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ ایک نکتہ داں بزرگ نے مجھ سے یہ فرمایا کہ تیرا ہر آج تیرے آنے والے کل کا پیام ہے۔ اپنے دل کو ان بے نیاز اور بے پروا حیسنوں سے بچا کے رکھ کیونکہ تیرا دل خالق دو جہاں کا مسکن ہے اس چار دیواری میں کسی اور کس لا کر بٹھانا حرام ہے۔ اس قطعے کو پڑھتے ہی ذہن فارسی کے اس شعر کی طرف جاتا ہے۔ جہانے مختصر خواہم کہ در وے ہمیں جائے من و جائے تو باشد کہ میں ایک ایسی مختصر سی دنیا میں رہنا چاہتا ہوں جہاں صرف تیرے اور میرے لئے جگہ ہو اور بس۔ اس شعر کے متصوفانہ پس منظر سے قطع نظر کیجئے۔ اس میں مجازی پہلو بہت نمایاں ہے اور یہ عاشق کے اس جذبے کی ترجمانی کر رہا ہے کہ عاشق کی نظر محبوب کے سوا کسی اور پر نہیں پڑتی اور وہ کائنات کی ان وسیع پہنائیوں میں اپنی محدود دنیا آباد کرنا چاہتا ہے جہاں کسی اور کا گذر نہ ہو اور عاشق و معشوق محبت کے اس خلوت کدے میں سکون و طمانیت کا سانس لے سکیں۔ حکیم مومن کے شعر کو دیکھئے: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا انسان کے لئے اس دنیا کے گوناگوں ہنگاموں میں کبھی کبھی اپنی محبوب ترین چیز ایک لمحے کے لئے فراموش ہو جاتی ہے۔ لیکن تنہائی کے عالم میں جب یکسوئی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو محبوب کی یاد پوری شدت کے ساتھ ابھرتی ہے اور پھر اس عالم محویت میں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہمارا محبوب، ہمارے پاس بیٹھا ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت کوئی فریب نظر نہیں، حقیقت ہے۔ اسی کے پیش نظر اس شعر کے ڈانڈے ایک طرف مجازی اور دوسری طرف حقیقی یا روحانی تجربے سے مل جاتے ہیں۔ اقبال اپنے قطعے کا آغاز اپنے انداز میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے اہم شے ’’ امروز‘‘ ہے کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ انسانی زندگی کی تیز رو کا نام ہے موجودہ لمحہ کیا ہے۔ ماضی ہی کے وجود سے نمودار ہوا ہے اور مستقبل یا فردا کیا ہے؟ امروز یا آج ہی کی بدلتی ہوئی صورت کا نام ہے۔ وقت کی یہ بدلتی ہوئی حالت دن و رات یا صبح و شام کے حدود کی پابند نہیں۔ ہر لمحہ ماضی سے، حال میں اور حال سے مستقبل کے قالب میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ یوں کہئے کہ امروز فردا کا روپ اختیار کرتا رہتا ہے اور شاعر کے اپنے الفاظ میں ہر امروز آنے والے کل کا اعلان کر رہا ہے۔ ایسے ہنگامہ خیز عالم میں جہاں دوش، امروز اور فردا بڑی تیزی سے بنتے، سنورتے بدلتے اور پھر گذرتے چلے جا رہے ہوں۔ انسان کا ایک لمحے کے لئے بھی زندگی سے غافل ہونا گویا زندگی سے عاری ہو جانا ہے۔ قافلے کے ساتھ چلنے والے کسی رہرو کا اپنے ہم سفروں سے ایک لحظہ کے لئے بھٹک کر الگ ہو جانا۔ منزل مقصود کو کوسوں دور جا پھینکتا ہے۔ رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دور شد اس چیز کو اقبال نے عشقیہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ: دل از خوبان بے پروا نگہدار حریمش جز باؤ دادن حرام است کہ دیکھو ایک لمحے کے لئے بھی اپنے محبوب کے خیال سے غافل نہ ہو اور کسی اور کی یاد کو دل میں جگہ نہ دو، کیوں کہ دل محبوب ہی کی خلوت گاہ ہے اس حریم ناز میں دنیا کی کوئی شے، کوئی ہستی قدم نہیں رکھ سکتی۔ قرآنی الفاظ کے مطابق ہمارا محبوب حقیقی ہمارے قریب تر ہے اور ہمارے دلوں میں سمایا ہوا ہے اسے دل کی خلوت سے نکال کر کسی ایسے معشوق کو وہاں لا بٹھانا جس کا حسن اور دیدار حسن ’’نظرے خوش گذرے‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، صرف بے وفائی نہیں بلکہ گناہ ہے۔ ’’دل از خوبان بے پروا نگہدار‘‘ کے مصرعے میں’’ دل نگہدار‘‘ کے الفاظ بہت پر زور ہیں۔ گویا بول رہے، پکار رہے ہیں بڑی بلند آہنگی سے اعلان کر رہے ہیں کہ ’’ کہیں ایسا نہ کرنا‘‘ ادب و شعر کا مذاق سلیم رکھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہو گی کہ اقبال نے چوتھے مصرعے میں: ’’حریمش جز باؤ دادن حرام است‘‘ حریم اور حرام کے لفظوںمیں بڑی حسین رعایت لفظی ہے جس میں صرف لفظی حسن ہی پوشیدہ نہیں بلکہ معنوی گہرائی بھی پائی جاتی ہے محبوب کے ’’ حریم ناز‘‘ میں کسی غیر کا گذر کتنا بڑا جرم ہے اس جرم یا گناہ کو حرام کہہ کر اقبال نے اپنے بڑے فنکار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ٭٭٭ (95) رگ مسلم ز سوز من تپید است ز چشمش اشک بے تابم چکید است ہنوز از محشر جانم نداند جہاں را بانگا من ندید است (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال کے ابتدائی کلام ہی سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ وہ شعر میں ایک خاص نقطہ خیال کو پیش کرنا چاہتا ہے چنانچہ ایسی غزلوں میں بھی جو محض نو مشقی کے دور میں رسمی طور پر لکھی گئی تھیں دو ایک شعر ایسے ضرور آ جاتے تھے جن سے شاعر کے دل و دماغ کی یہ کیفیت نمایاں ہو جاتی تھی۔ جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ شاعر ایک ایسے فنکار کا تصور رکھتا ہے جس کی نظر فن کے افادی پہلو پر پڑتی ہے۔ اقبال کے کلام سے یہ بات بھی واضح ہوتی تھی کہ جن نظریات اور خیالات کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے لوگ ان سے نا آشنا ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے خیالات ان کے لئے اجنبی ہوں گے اور وہ یا تو ان خیالات سے روگردانی کریں گے یا محض اپنی بے التفاتی کا اظہار کریں گے۔ ایسے ماحول سے متاثر ہو کر ہی وہ یہ شعر کہہ سکتا تھا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے وہ ابھی پورے طور پر پختہ نہیں ہوا۔ ابھی اس کے اظہار کے لئے مناسب موقع نہیں۔ نالہ ہے بلبل شورید ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی دوسری طرف جب یہ خیالات اور افکار اس کے ذہن میں واضح ہوئے اور پختہ ہو گئے تو اسے اس بات کی شکایت ہوئی کہ لوگ ان افکار کو سننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ انہیں زیادہ جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ وہ بے ساختہ کہہ اٹھا۔ نوائے نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی لوگوں کو لطف بے خوابی سے آشنا کرنے کے لئے اسے عرفی کا یہ شعر دہرانا پڑا کہ: نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی شاعر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جب یہ دیکھے کہ سننے والے اس کی طرف پورے متوجہ نہیں ہوتے تو وہ خاموش ہو جانے کی بجائے اپنے نغموں کو اور بھی تیز تر کر دے۔ اقبال نے یہی کچھ کیا اور پھر وہ وقت آ گیا کہ اسٹیج پر، تصویر درد، شکوہ، جواب شکوہ، شمع و شاعر، خضر راہ اور طلو ع اسلام ایسی نظمیں پڑھی گئیں اور لوگوں نے انہیں ذوق و شوق سے سنا۔ ان نظموں نے ایک سازگار فضا پیدا کی اور لوگوں میں اقبال کے کلام کو پڑھنے، اس پر غور کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ لیکن اقبال جو چاہتا تھا وہ اس فضا میں بھی موجود نہ تھا لوگ اس کے افکار کو ذہنوں میں جگہ تو دیتے تھے لیکن دل میں ان کے لئے جگہ نہ تھی اس کے لئے اقبال کو ہمیشہ شکایت رہی۔ آج کے قطعے میں یہ بات بڑی وضاحت سے آ گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مسلمانوں کی رگوں میں میرے شعروں نے ایک تڑپ تو پیدا کر دی ہے اور ان کی آنکھوں سے اشک بے تاب بھی ٹپکے ہیں۔ لیکن جس بات کا میں متوقع ہوں وہ مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ مسلمان میرے کلام کے ظاہری معنوں تک تو جا پہنچا لیکن اس کی نظر میرے قلب و جگر کی گہرائیوں تک نہیں گئی۔ ابھی اس کو اس تڑپ اور سوز کا پتہ نہیں جس نے میری روح میں ایک قیامت بپا کرر کھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف میرے افکار کو دیکھتا ہے۔ وہ میرے افکار کے سرچشمے تک نہیں پہنچا۔ اقبال کا سرچشمہ افکار کیا شے تھا؟ اقبال نے اس کی وضاحت اسی قطعے کے آخری مصرعے میں کر دی ہے کہ: ’’جہاں را از نگاہ من نہ دید است‘‘ یعنی مسلمان نے اس دنیا کو میری نظر سے نہیں دیکھا۔ اقبال کا زندگی کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ تھا۔ زندگی کے متعلق اس کی خاص اقدار تھیں۔ اسی نظریہ حیات اور انہی اقدار کے مطابق وہ ہر شے کو دیکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر انسان اس پر عمل کرے اور ہر قوم اس رستے پر گامزن ہو۔ فقط ذہنی طور پر اقبال کے خیالات اور افکار سے آشنا ہونا اور اس کے فنی محاسن سے لذت اندوز ہونا اس کے نزدیک کافی نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس کے قلب و جگر کے سوز کو بھی اپنے سینے میں پیدا کر لے اور اس کے لئے زندگی کے زاوئیے کو بدلنا اور زندگی کی اقدار کو بدلنا لازمی ہے وہ چاہتا ہے کہ میرے کلام کو پڑھنے والے زندگی کو اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ دیکھتا ہے۔ ٭٭٭ (96) سفالم رائے او جام جم کرد درون قطرہ ام پوشیدہ یم کرد خرد اندر سرم بتخانہ یرخت خلیل عشق دیرم را حرم کرد (یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے) میں ایک ٹھیکری کا ٹکڑا تھا۔ اس کی شراب نے مجھے جام جم بنا دیا۔ میں ایک قطرہ تھا اس قطرے میں اس نے ایک سمندر چھپا کر رکھ دیا۔ عقل نے میرے دماغ میں ایک بت خانہ بنا ڈالا لیکن خلیل عشق کو دیکھو کہ اس نے میرے بتخانے کو حرم میں تبدیل کر دیا۔ اقبال فلسفی اور مفکر بھی تھا اور شاعر بھی، اس کے دل و دماغ پر ایک طرف عقل و خرد کی گرفت تھی اور دوسری طرف وجدان و عشق کا گہرا اثر تھا۔ اس کی زندگی ایک طرح عقل و روحانیت کی کشمکش تھی جس کا ذکر وہ جگہ جگہ مختلف انداز اور پیرائے میں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی آج کے قطعے میں وہ پیچ و تاب رازی، اور سوز و ساز رومی ہی کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عقل و خرد نے میرے دماغ کو ایک بت خانہ بنا دیا تھا لیکن سوز و ساز عشق نے اس بت خانے کو ابراہیم خلیل اللہ کی طرح توڑ ڈالا اور اس کی جگہ ایک حرم تعمیر کیا گویا عقل نے مجھے محسوسات کی دنیا میں مقید کرنا چاہا لیکن وجدان و عرفان نے مجھے اس محسوسات کے بت خانے سے نجات دلائی اور روحانیت نے مجھے حرم کی راہ دکھائی۔ اقبال کے یہاں تصوف کا ایک پہلو نمایاں نظر آتا ہے جو تمام اقوام کے تصوف میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ اقبال اس بات کا قائل ہے کہ محسوسات اور معقولات کے علاوہ اور بھی ایسے ذریعے ہیں جن سے حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور وہ ذریعے وجدانی ہیں۔ یعنی انسان کے ظاہری حواس کے علاوہ کچھ باطنی حواس بھی ہیں۔ ان باطنی حواس کے ذریعے انسان کی نظر عالم ہستی کے بعض ایسے پہلوؤں پر پڑتی ہے جہاں عقل و خرد کی رسائی نہیں۔ یہ وجدانی قوت، اقبال کے نزدیک عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ عشق کو محض ایک تیز جذبہ یا تاثر ہی نہیں سمجھتا بلکہ اسے معرفت اور بصیرت کا سرچشمہ خیال کرتا ہے۔ زندگی کا مقصد اسی عشق کو ترقی دینا ہے عشق کی بدولت ہی عرفان نفس پیدا ہوتا ہے۔ انسان میں خود شناسی آتی ہے خود شناسی سے آگے چل کر انسان جہاں شناس اور خدا شناس بنتا ہے۔ خود شناسی سے چل کر خدا شناسی تک جتنے مرحلے ہیں وہ سب کے سب انسانی زندگی کے ارتقا کے مرحلے ہیں اور زندگی کی غایت اور مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات تک رسائی ہے۔ ذات الٰہی کے تصور اور عقیدے ہی سے دین کے تصور میں گہرائی اور ارتقا پیدا ہوتا ہے اور یہی شے در حقیقت وہ تصوف ہے جس کا اقبال قائل ہے اور جو اسے پیر رومی میں نظر آتا ہے۔ اقبال آج کے قطعے میں اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ایک مشت خاک تھا ایک سفال تھا اللہ تعالیٰ کی محبت نے جسے وہ ’’ مے او‘‘ اس کی شراب کہہ کر پکارتا ہے، جام جم بنا دیا۔ ہمارے ادب میں’’ جام جم‘‘ گویا ایسی شے ہے جس میں حقائق منکشف ہوتے ہیں اس استعارے کے ذریعے، اقبال اللہ تعالیٰ کی محبت کو ایسا سرچشمہ خیال کرتا ہے جس سے حقائق ابھرتے ہیں اور انسان میں وجدان و عرفان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ عقل و خرد نے تو میرے دل و دماغ کو غلط راہوں پر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن عشق الٰہی نے، یا روحانیت نے مجھے گمراہی سے بچا لیا۔ عقل و خرد کی اس گمراہی کو اقبال ایک بت خانے کی تعمیر قرار دیتا ہے۔ یہ بت خانہ کیا ہے؟ عقل و خرد کی ظاہر پرستی ہے۔ یہ ظاہر پرستی کبھی کبھی دین میں بھی آ جاتی ہے جب ظاہری شعار ہی معیار دین بن جاتا ہے تو دین کی روح دب کر رہ جاتی ہے۔ اس روح کو بیدار کرنے کے لئے عشق کا ہونا ضروری ہے تاکہ انسان کو دین کی صحیح حقیقت کا احساس ہو۔ یہی احساس ہماری عقل و خرد کے تراشے ہوئے بتوں کو توڑ کر ہمارے قلب میں حرم کو تعمیر کرتا ہے جسے اقبال یوں ادا کرتا ہے۔ ’’خلیل عشق دیرم را حرم کرد‘‘ ٭٭٭ (97) بخود باز آورد رند کہن را مے برنا کہ من درجام کردم من ایں مے چوں مغان دور پیشیں زچشم مست ساقی وام کردم (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے کہ وہ شراب تازہ و جوان جو میں نے ساغر میں ڈالی ہے، ایک رند کہن کو بجائے بدمست بنانے کے ہوش میں لے آتی ہے عہد کہن کے بادہ خواروں کی طرح، میں نے یہ شراب، ساقی کی چشم مست سے قرض لی ہے۔ اس قطعے کا پس منظر فارسی کے مشہور صوفی اور قلندر شاعر، عراقی کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ وہ مطلع یہ ہے۔ نخستیں بادہ کاندر جام کردند زچشم مست ساقی دام کردند یعنی سب سے پہلی شراب جو جام میں ڈالی گئی وہ ساقی کی چشم مست سے لی گئی تھی۔ یعنی رندوں کو سرمست و سرشار کرنے والی شراب، ساقی کا حسن اور اس کی آنکھوں کی سرمستی تھی عراقی کی اس غزل کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے جسے یہاں بیان کرناضروری معلوم ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ فخر الدین عراقی ہمدان سے قلندروں کے ایک قافلے کے ہمراہ ملتان پہنچے اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا کے مرید ہوئے۔ مرشد نے چلہ کاٹنے کے لئے کہا۔ ابھی عراقی کو خلوت نشیں ہوئے دس روز ہی گذرے تھے کہ مریدوں نے دیکھا کہ وہ ذکر اذکار چھوڑ کر اپنی یہ تازہ غزل والہانہ انداز میں پڑھ رہے ہیں، اور وہ غزل شہر میں جگہ جگہ مشہور ہو گئی ہے جب یہ خبر حضرت بہاء الدین زکر کو ملی تو انہوں نے عراقی کو بلایا اور وہ غزل سنی۔ جب وہ آخری شعر چو خود کردند راز خویشتن فاش عراقی را چرا بدنام کردند کہ جب انہوں نے اپنا راز خود ہی فاش کر دیا تو عراقی کو کس لئے بدنام کیا؟ حضرت بہاء الدین نے جب عراقی کی یہ حالت اور ان کے کلام کی یہ کیفیت دیکھی تو اسے خرقہ عطا کیا اور اپنا جانشین نامزد کیا۔ اس غزل کے مطلع اور مقطع میں جس روحانی تجربے کا ذکر ہے۔ اس کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ خالق کائنات نے جو حسن ازلی ہے، سب سے پہلے اپنا جلوہ دکھایا اور اسی حسن کا شوق نمود تھا کہ یہ کائنات ظہور میں آئی۔ اسی حسن کے جلوے نے کائنات کے ہر ذرے کو سرشار کیا۔ اسی کے جلوے سے آدم، مسجود ملائک بنا اور اسی حسن کے دیکھنے کو عشق اب تک بے تاب و بے قرار ہے۔ یہ جلوۂ حسن گویا پہلی شراب تھی جو جام میں ڈالی گئی اور وہ شراب اور شراب کی مستی ساقی ازل کی سرمست نگاہوں کی مستی تھی۔ اقبال حسب معمول، اس قدیم نظریہ تصوف سے اپنے تصور حیات کی تائید میں ایک نیا پہلو نکالتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے جام میں ایسی تازہ شراب ڈالی ہے۔ جو رندان کہن کو جو پرانی طرز کی بیخود اور اپنے سے بیگانہ کر دینے والی شراب پینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ بجائے مست بنا دینے کے ہوش میں لے آئے گی۔ اقبال نے اس شراب تازہ کے لئے بڑا موزوں اور خوبصورت لفظ استعمال کیا ہے اسے مے برنا یعنی شراب جوان کہا ہے اس لئے کہ وہ پرانے پینے والوں کو نئی زندگی اور جوانی اور تازگی بخشتی ہے۔ یہ کہنے کے بعد اقبال اس شراب کے سرچشمے کا تذکرہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ میں نے یہ شراب رسم قدیم، یا رندان قدیم کے دستور کے مطابق چشم ساقی سے ادھار لی ہے۔ یعنی اس شراب میں ساقی کی آنکھوں کی مستی ہے۔ یہ ساقی جس کی آنکھوں کی سرمستی کا ذکر اقبال کرتا ہے وہی سرمستی ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ اس کے کلام پاک سے ہے اس کے دین فطرت سے ہے۔ جس میں کسی طرح کی آلودگی نہیں جس میں زندگی کو تازگی اور جوانی بخشنے کے جوہر پوشیدہ ہیں۔ یہ شراب انسانوں کو نشے میں لا کر سلا نہیں دیتی بلکہ انہیں ہوش میں لے آتی ہے بال جبریل کی نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں وہ اس شراب کہن کا ذکر یوں کرتا ہے۔ شراب کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیؓ سوز صدیقؓ دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینے میں بیدار کر جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے ٭٭٭ (98) بحرف اندر نگیری لامکاں را درون خود نگر، ایں نکتہ پیداست بہ تن، جاں آں چناں دارد نشیمن کہ نتواں گفت اینجا نیست، آں جاست (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے کہ: ’’ لامکاں‘‘ کی بات الفاظ میں نہیں سموئی جا سکتی۔ اگر تو اس نکتے کو سمجھنا چاہے تو ذرا اپنے اندرنظر ڈال، یہ نکتہ تجھ پر واضح ہو جائے گا۔ انسانی جسم میں روح اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں نہیں ہے وہاں ہے۔ ہمارے فارسی اور اردو کے شعراء نے اس مضمون کو سو طرح سے باندھا ہے اور بالخصوص تصوف کے غزل گو شاعروں نے اس میں عشقیہ انداز پیدا کر کے اسلوب بیان کی بڑی بڑی رعنائیاں پیدا کی ہیں۔ قرآن پاک کا یہ ارشاد کہ ’’ ہم تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘ ان تمام نکتہ آفرینیوں کا مرکزی خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب ہونے کے باوجود اس سے دوری کا احساس، انسانی قلب کی بے تابیوں اور بے چینیوں کی بنیاد ہے مرزا بیدل کہتا ہے۔ ہمہ عمر با تو مدح زدیم و نہ رفت رنج خمار ما چہ قیامتی کہ نمی رسی ز کنارما، بہ کنار ما کہ عمر بھر تیرے ہم نشیں رہ کر تیرے ساتھ مے نوشی میں شریک رہے لیکن تجھ سے ہماری دوری اور جدائی کا احساس دور نہ ہو سکا۔ خمار فراق بدستور باقی رہا تو کیا قیامت ہے کہ ہمارے آغوش میں ہوتے ہوئے بھی ہمارے آغوش میں نہیں آتا ایک لامکاں اور بے نشاں ذات کا ایک مکانی شے اور مادی جسم میں سما جانا ایک ایسی بات ہے جو بیان میں نہیں آ سکتی اہل دل کے نزدیک ایک لامکان ذات کا ایک محدود ہستی میں سما جانا ہی اس ہستی کے قلب کو بے قرار رکھتا ہے۔ انگریزی کا مشہور شاعر، براؤننگ، اپنی ایک نظم میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عاشق محبوب کے قریب بیٹھا ہے اور وصال کی اس حالت میں بھی عاشق کا دل بے قرار ہے کیوں؟ براؤننگ کہتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی قلب محدود اور فانی ہے اور اس میں محبت کا جذبہ سما گیا ہے جو غیر محدود اور غیر فانی ہے۔ لامکان اور مکان کا یہ باہمی ملاپ ایک معمہ ہے اور اس معمے کو کسی طرح حل نہیں کیا جا سکتا۔ سوائے اس کے کہ انسان صرف اپنے اندر نظر ڈالے۔ یعنی اس نکتے کو وجدانی طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔ یہ ایک ایسا روحانی اور وجدانی تجربہ ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے، سمجھایا نہیں جا سکتا۔ نظیری نیشاپوری نے کتنے خوبصورت انداز میں بات کہی ہے: نہ چناں گرفتہ جا بہ میان جان شیریں کہ تواں ترا و جاں را زہم امتیاز کردن یعنی تو میری جان میں اس طرح سما گیا ہے کہ تجھ میں اور جان میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے اس قطعے میں نظیری کے اس شعر کا عکس نظر آتا ہے اور اس قطعے کے آخری دو مصرعوں میں تو کم و بیش وہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ روح انسانی بدن میں اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ بتایا نہیں جا سکتا کہ کہاں ہے؟ کیسے ہے؟ یہاں ہے وہاں نہیں ہے۔ بالخصوص چوتھا مصرعہ۔ ’’کہ نتواں گفت اینجا نیست، آنجاست‘‘ گویا روح جو لامکاں ہے انسانی بدن کے رگ و ریشہ میں پیوست ہے اور اسے کسی محدود نقطے میں مقید اور محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال اپنے نظریہ حیات کی رو سے انسان کی لامحدود صلاحیتوں کا قائل ہے جو قدرت نے اس میں ودیعت کی ہوئی ہے اور انسان کا کام ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اور انہیں ترقی دینا ہے انسان کی یہی خوبی اس کی ذات میں لا مکانیت کا وصف پیدا کرتی ہے اور اسی سے بقول اقبال عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ’’ سرود انجم‘‘ کی نظم کے ایک بند میں ستارے، انسان کو خطاب کر کے کہتے ہیں۔ ’’اے بکنار تویمے، ساختہ بہ شبنمی‘‘ کہ اے انسان تیرے آغوش میں تو ایک وسیع سمندر ہے تو ایک حقیر قطرۂ شبنم پر قناعت کر گیا ہے۔ یہ وسیع سمندر کیا ہے؟ یہی انسان کی پوشیدہ استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں، جن سے اس کی شخصیت اور خودی کی تعمیر اور تکمیل ہوتی ہے۔ ٭٭٭ (99) مرا ذوق سخن خوں در جگر کرد غبار راہ را مشت شرر کرد بگفتار محبت لب کشودم بیاں این راز را پوشیدہ تر کرد (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اس قطعے کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے: ذوق گویائی نے مجھے تڑپا دیا، میں ایک مٹھی بھر غبار راہ تھا،ا س مٹھی بھر غبار راہ میں ان بے تابیوں نے چنگاریاں بھر دیں۔ میں اس ذوق سخن کے بل پر چاہتا تھا کہ محبت کا افسانہ سناؤں لیکن شرح و بیان کی کوشش نے اس راز یعنی راز محبت کو اور بھی چھپا دیا۔ اس کا اظہار نہ ہو سکا۔ اقبال جگہ جگہ اس کیفیت یا جذبے کو جسے وہ عشق کا نام دیتا ہے بیان کرتا ہے۔ اس جذبے اور کیفیت کی کوئی حد نہیں۔ اس کا ظہور طرح طرح سے ہوتا ہے اور ہر ظہور میں اس کا رنگ بھی الگ الگ ہوتا ہے کہیں یہ ماں باپ اور اولاد کی محبت کے اندازمیں ابھرتا ہے کہیں زن و شوہر کے پیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ کہیں وطن کی محبت ہے کہیں نوع انسان کی محبت کا اظہار ہے کہیں کسی نصب العین سے گرویدگی ہے۔ کہیں یہ حیات و کائنات کے خالق سے عشق کی صورت اختیار کرتا ہے افلاطون کا خیال ہے کہ خالق کائنات سے محبت، سرمدی محبت ہے باقی سب محبتیں اس کے مقابلے میں مجازی ہیں، غرض محبت کا کوئی بھی رنگ ہو اس کی رنگارنگی سے کیسے انکار ہے۔ اور اس کے اثرات کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔ محبت اور عشق سے انسانی قلب و جگر میں قوت آتی ہے۔ عشق ہی سے عقل کی بصیرت کو جلا ملتی اور اسے تقویت پہنچتی ہے۔ غرض عشق کا جذبہ ایک بے پناہ کیفیت ہے اور اقبال اس جذبے اور کیفیت کو ہزار اسلوب سے بیان کرتا چلا جاتا ہے لیکن اس جذبے کی کیفیت گوناگونی ختم نہیں ہوتی اور اس کی وسعتیں کسی تفسیر و بیان کے دامن میں سمیٹی نہیں جا سکتیں۔ انسانی زبان و بیان اس کے اظہار سے عاجز ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے اور یہی قوت نطق و گویائی اسے تمام دوسرے حیوانات کے مقابلے میں اشرف بناتی ہے اور پھر شاعر تو اس کو قوت نطق و گویائی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اظہار و بیان کی بات آئے اور عشق و محبت کے اسرار کی کشود کا سوال در پیش ہو تو شاعر کی بھی ساری قوتیں عاجز ہو کر رہ جاتی ہے، یہ جذبہ محبت دلوں میں چٹکیاں لیتا ہے اور قلب و جگر کو تڑپاتا ہے لیکن انسانی قلب و جگر کی خلوتوں میں راز بن کر رہتا ہے۔ اس کے اظہار کی کوشش اسے اور بھی معما بنا دیتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ذوق سخن نے مجھ میں تڑپ تو پیدا کر دی اور میری مشت خاک کو مشت شرر بنا دیا لیکن میرے سینے میں جو محبت کا راز ہے میں نے اس کا اظہار کرنا چاہا اور اس خواہش نے بجائے اظہار کے اس راز کو اور بھی پوشیدہ کر دیا۔ در حقیقت یہ راز صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ راز صرف وہی جانتا ہے جس کے دل پر یہ کیفیت طاری ہو۔ خلیفہ عبدالحکیم اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’ جس کے اندر یہ چیز موجود نہیں اسے بیان کی لطافت اور نزاکت بھی اس سے آشنا نہیں کر سکتی۔ تمام عمر بھی روشنی کی کیفیت کسی مادر زاد اندھے کے سامنے بیان کی جائے تو وہ اس کی حقیقت کو کہاں پہنچے گا اور چشم بینا کے لئے روشنی کی توجیہہ کی ضرورت نہیں۔‘‘ غرض اقبال سا نکتہ داں مفکر اور جادو بیان شاعر بھی اظہار و بیان کے سلسلے میں اپنے عجز کا اظہار کرتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ محبت وہ راز ہے کہ: در گفتن نمی آید مولانا روم فرماتے ہیں: گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است ایک عشق بے زبان روشن تر است مولانا روم نے اس نکتے کو اور ہی پیرائے میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ انسانی قوت بیاں اور توجیح و تشریح، پوشیدہ باتوں کو روشن کر دیتی ہے لیکن عشق کا معاملہ دگرگوں ہے مولانا روم عشق کو بے زبان کہتے ہیں، لیکن اس کی بے زبانی خود گویائی ہے کسی دوسرے کے اظہار و بیان کی محتاج نہیں اور محتاج ان معنوں میں نہیں کہ کسی بڑے سے بڑے شاعر کی فصاحت اورسحر بیانی بھی یہاں کام نہیں دے سکتی۔ بلکہ اس کے اظہار میں اور بھی رکاوٹ ڈال دیتی ہے جسے اقبال یوں بیان کرتا ہے کہ اس راز کو اور پوشیدہ تر بنا دیتی ہے۔ ٭٭٭ (100) بہردل عشق رنگ تازہ بر کرد گہے باسنگ کہ باشیشہ سر کرد ترا از خود ربود و چشم تر داد مرا با خویشتن نزدیک تر کرد (یہ قطعہ پیام مشرق سے لیا گیا ہے) اقبال عشق کی گوناگوں کیفیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: ’’ ہر دل پہ عشق کی ایک نئی کیفیت ہوتی ہے ایک تازہ رنگ ہوتا ہے عشق کہیں چٹان بن کر ظاہر ہوتا ہے اور کہیں اس میں شیشے کی سی نرمی اور گداز آ جاتا ہے تجھے اس نے بے خود بنا دیا اور چشم تر دے دی، مجھے عشق نے خود آگاہی عطا کی اور مجھے اپنے سے قریب تر کر دیا۔‘‘ خلیفہ عبدالحکیم ایک جگہ عشق و محبت کی بوقلمونی اور اس کی کیفیتوں کی گوناگونی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: معرض شہود میں عشق کی بوقلمونی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عشق کہیں قوت قلب و جگر پیدا کرتا ہے، کہیں عقل کی پست پناہی کرتا ہے، کہیں چشم نمناک میں ظہور کرتا ہے کہیں بے خودی کا رنگ اختیار کرتا ہے اور کہیں خودی کو استوار کرتا ہے اقبال کہتا ہے کہ مجھ پر تو اس نے یہی عمل کیا کہ مجھ پر میری خودی کو آشکار کر دیا۔ مرزا غالب کا ایک شعر ہے: قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے لالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟ اقبال نے ’’ جاوید نامے‘‘ میں ایک مقام پہ مرزا غالب سے اس شعر کے معنی پوچھے ہیں اور پھر اس کا جواب درج کیا ہے قمری اور بلبل کو شعراء عاشق باندھتے ہیں۔ قمری کا رنگ خاکستری ہوتا ہے اور بلبل پھولوں کی رنگ و بو میں کھلتی ہے۔ غالب کہتا ہے کہ قمری اور بلبل دونوں عشق میں غرق ہیں لیکن ان کی ظاہری حالت سے ان کے دلوں کے سوز عشق یا جگر سوختہ کا سراغ نہیں مل سکتا۔ اور مل بھی کیسے سکتا ہے قمری کو دیکھو عشق کی آگ میں جل کر راکھ ہو گئی ہے ادھر بلبل ہے کہ پھولوں پہ چہچہاتی ہے اور ان کے رنگ و بو میں غوطہ زن ہے اس ظاہری حالت سے کیا اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس کے سینے میں جگر سوختہ ہے اور کس کے جگر میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قمری اور بلبل دونوں عاشق ہیں، اور عشق کے سوز میں جل رہے ہیں۔ لیکن اس سوز عشق کا اثر ایک جگہ کچھ ہے اور دوسری جگہ کچھ۔ اب کون کہہ سکے کہ ظاہری نشان جگر سوختہ کیا ہے؟ ایک شاعر کہتا ہے: یہ عجیب عشق کا راز تھا، یہ عجیب حسن کا رمز تھا وہ نقاب الٹ کے جو آ گیا کوئی جی اٹھا کوئی مر گیا غرض حسن و عشق کی کیفیات ہر جگہ الگ الگ ہیں کوئی حسن کو دیکھ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور کسی کو حیات تازہ مل جاتی ہے فارسی کا شاعر عرفی شیرازی، اپنی ’’ انفرادیت‘‘ کے لئے بہت معروف ہے۔ غالب کی طرح اس کے مشاہدات میں جدت پائی جاتی ہے اس کی نظر زندگی کے مختلف گوشوں پر پڑتی ہے اور وہ واقعات کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے کا خوگر ہے۔ فرہاد اور مجنون، دنیائے عشق کے ہیرو تسلیم کئے جاتے ہیں، فرہاد نے شیریں کے لئے جان دے دی اور مجنوں دنیائے عشق کے ہیرو تسلیم کئے جاتے ہیں، فرہاد نے شیریں کے لئے جان دے دی اور مجنوں، لیلیٰ کی محبت میں صحراؤں کی خاک چھانتا ہوا مر گیا ان کی یہ قربانیاں ضرب المثل بن گئی ہیں، فرہاد نے تیشے سے سر پھوڑ لیا تھا اور مجنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتظار لیلیٰ میں کھڑا کھڑا سوکھ گیا اور پرندوں نے اس کے تن لاغر کو ایک خشک درخت سمجھ کر اس پر آشیانہ بنا لیا۔ کیا ایثار اور قربانی ہے لیکن عرفی کی ستم ظریفی دیکھئے وہ اپنے قصیدے کی تشبیب میں ان واقعات کو بڑے طنز سے یوں بیان کرتا ہے کہ وہ فرہاد نہیں ہوں کہ تیشے سے پہاڑ کاٹتا پھروں اور چٹان سے ٹکرا کر جان دے دوں، مجنوں نہیں ہوں کہ پرندوں کو اپنے سر پر آشیانہ بنانے دوں میں تو چٹانوں کو پامال کرتا ہوا میدان عشق سے گذر جاتا ہوں اور خار زار وں کو روندتا ہوا رقص کرتا ہوا آگے بڑھتا ہوں۔ عرفی نے اپنے عشق و محبت کے جذبے کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے جو ایک خود شناس خود دار قلب میں ابھرتا ہے۔ لوگ عشق میں آنسو بھی بہاتے ہیں لیکن وہ عاشق بھی ہیں جو عشق میں آنسو بہانا اور ہمت ہار کر بیٹھ جانے کو عشق غیور کا شیوہ نہیں سمجھتے وہ عشق سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ اقبال اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ترا از خود ربود و چشم تر داد مرا با خویشتن نزدیک تر کرد کہ تجھے تو محبت نے آنسو دے دئیے اور تو ان میں ڈوب گیا۔ مجھے ہمت نے اپنے سے قریب تر کر دیا ہے۔ دیکھئے اس شعر میں ’’ چشم تر‘‘ اور’’ نزدیک تر‘‘ میں’’ تر‘‘ کے حرف سے جو رعایت لفظی پیدا ہوئی ہے وہ کتنی خوبصورت ہے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End