اقبال کا منتخب فارسی کلام منظوم اردو ترجمہ انجم رومانی اقبال اکادمی پاکستان پیام مشرق نوٹ: پیام مشرق/زبور عجم کے صفحات نمبر کلیات اقبال (فارسی) اکادمی ایڈیشن کے مطابق ہیں! ٭ ہے دل روشن مرا سوز دروں سے جہاں بیں آنکھ میری اشک خوں سے وہ کیا سمجھے گا رمز زندگی جو ملائے عشق کے رشتے جنوں سے گل و لالہ میں رنگ آمیزی عشق مری جاں میں بلا انگیزی عشق کرے گر چاک تو اس خاکداں کو تو اس میں پائے گا خونریزی عشق پریشاں اس چمن میں مثل بو ہوں نہ جانے کیوں میں محو جستجو ہوں برائے آرزو بر نہ آئے شہید سوز و ساز آرزو ہوں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ ۳۱؍۳۲ ٭ جہاں ہے مشت گل دل اس کا حاصل یہی اک قطرہ خوں اس کی مشکل نظر ہی اپنی دو بیں ہے وگرنہ جہاں ہر شخص کا ہے محفل دل کہا یہ روز محشر برہمن نے فروغ زندگی تاب شرر تھا نہ ہو ناراض یا رب تو کہوں میں صنم انسان سے پائندہ تر تھا تو گزرا تیز گام اے اختر صبح مرے سونے سے کیا بیزار گزرا ہوا گمراہ نا آگہی سے تو بیدار آیا اور بیدار گزرا کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ : ۳۲؍ ۳۴ ٭ تہی ہنگامے سے میخانہ ہوتا یہ خاکی شعلے سے بیگانہ ہوتا نہ ہوتا عشق اور ہنگامہ عشق خرد ساں دل اگر فرزانہ ہوتا تجھے جو خود سے بھی بیگانہ کر دے نہیں رکھتا میں وہ آب طرب ناک مرے بازار میں کچھ اور مت ڈھونڈ کہ مثل گل نہیں جز سینہ چاک برون ورطہ بود و عدم ہو فزوں تر از جہان کیف و کم ہو خودی تعمیر کر پیکر میں اپنے بن ابراہیم معمار حرم ہو! کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۳۴؍۳۶؍۳۷ ٭ گدائے جلوہ پہنچا تو سر طور مری جاں خود سے ہی نامحرمی ہے جہاں میں جستجوے آدمی کر خدا کو بھی تلاش آدمی ہے کہو جبریل سے میری طرف سے کہ پیکر گو مرا نوری نہیں ہے ملی ہے تاب و تب ہم خاکیوں کو پر اس کو ذوق مہجوری نہیںہے نبود و بود میں اپنی ہوں خاموش یہ کہنا بھی کہ ہوں ہے خود پرستی نو اے سادہ یہ کس کی ہے لیکن میں ہوں سینے میں یہ کہتا ہے کوئی کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۴۰؍۴۱ ٭ نہیں معلوم خوب و زشت تیرا کیا معیار ہے سود و زیاں کو نہیں تنہا تر اس محفل میںمجھ سا کہ چشم غیر سے دیکھا جہاں کو تو خورشید اور میں سیارہ تیرا کہ میرا نور ہے نظارہ تیرا ہوں دور آغوش سے تیری ادھورا تو قرآں اور میں سی پارہ تیرا زانجم تا بہ انجم صد جہاں تھا خرد پہنچی جہاں تک آسماں تھا مگر جب اپنے اندر میں نے جھانکا کران بے کراں مجھ میںنہاں تھا کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۴۲؍۴۵؍۴۶ ٭ نفس آوارہ موج اک اس کے یم سے نے و نغمہ ہمارا اس کے دم سے لب جوے ابد ہیں مثل سبزہ رگ و ریشہ ہمارا اس کے نم سے ہے پیچاں درد یہ سینے میں تیرے بنایا کیوں جہان رنگ و بو کو ہے وجہ رنج کیوں بے باکی عشق کہ خود پیدا کیا اس ہائو ہو کو تو اے کودک منش اپنا ادب ہے مسلماں زادہ ہے ترک نسب کر بہ رنگ احمر و خون و رگ و پوست عرب اترائے تو ترک عرب کر کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ: ۴۶؍۴۷ ٭ نہاں سینے میں اپنے ایک عالم ہے اپنی خاک میں دل دل میں ہے غم فروغ جاں ہوئی صہبا جو اس سے سبو میں اپنے باقی اب بھی ہے نم وہ جو رکھتا نہیں ہے درد پنہاں ہے رکھتا تن نہیں رکھتا مگر جاں اگر جاں کی ہوس ہے تو طلب کر وہ تاب و تب کہ جس کو ہو نہ پایاں نہیں معلوم بادہ ہوں کہ ساغر ہیں دامن میںگہر یا خود ہوں گوہر نظر ڈالوں جو دل پر دیکھتا ہوں ہے میری جان دیگر میں ہوں دیگر کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۴۷؍۴۸؍ ۵۰ ٭ میں جب جنت میں پہنچا بعد از مرگ نظر میںیہ زمیں تھی آسماں تھا در آیا جان حیراں میں عجب شک جہاں تھا وہ کہ تصویر جہاں تھا مرا دل رازدان جسم و جاں ہے گماں مت کر اجل مجھ پر گراں ہے جہاں اک ہو گیا اوجھل تو کیا غم مرے دل میں ہجوم صد جہاں ہے مرا دل بے قرار آرزو ہے مرے سینے میں برپا ہائو ہو ہے سخن کیا ہمنشیں! مجھ سے کہ مجھ کو بس اپنے آپ ہی سے گفتگو ہے کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۵۱؍۵۳؍۵۴ ٭ ہے اندر جلوہ افکار یہ کیا بروں اسرار ہی اسرار یہ کیا بتا کچھ اے حکیم نکتہ پرداز! بدن آسودہ جاں سیار یہ کیا کہو ان صوفیان باصفا کو خدا جویان معنی آشنا کو غلام اس خود نگر انساں کا ہوں جو خودی کے نور سے دیکھے خدا کو کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۵۵؍۵۶ ٭ میرا سلام کہنا اس ترک تند خو کو پھونکا نگہ جس نے اک شہر آرزو کو یہ نکتہ جانتا ہے اک درد مند غدر دل ہی کی ہے اگرچہ توبہ توڑا نہیں سبو کو اس کی وفا پہ تکیہ اے عندلیب کب تک لیتی ہے تو بغل میں پھر اس رمیدہ بو کو رمز حیات کیا ہے ؟ اک پیچ و تاب پیہم آسودگی قلزم ہے ننگ آبجو کو خوش ہوں کہ عاشقوں کو سوز دوام بخشا اولاد و ابنایا آزار جستجو کو برتر وصال ہے ہوں بالا خیال سے ہوں کیا عذر نو دیا ہے اشک بہانہ جو کو نالے سے گلستاں پر آشوب محشر آئے جب تک کہ دم میں دم ہے مت چھوڑ ہائو ہو کو ہیں خا پہ رو میں مثال شرارہ ہیں بحر خلا میں محو تلاش کنارہ ہیں اک شعلہ حیات سے بود و نبود ہے ذوق خودی سے مثل شرر پارہ پارہ ہیں عقل بلند دست سے اے نوریو! سنو ہم اہل خاک چاند پہ محو نظارہ ہیں ہم عشق میں وہ غنچہ کہ جھومے صبا کے ساتھ گرکار زندگی ہو تو ہم سنگ خارہ ہیں نرگس کی طرح لائے ہیں ہم بھی چمن میں آنکھ رخ سے نقاب الٹ کر سراپا نظارہ ہیں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ : ۱۲۶ صوفیوں میں سے ایک کے لیے ہوس منزل لیلیٰ نہ تو رکھتا ہے نہ میں جگر گرمی صحرا نہ تو رکھتا ہے نہ میں میںنیا ساقی ہوں تر پیر خرابات کہن تشنہ بزم اپنی پہ صہبا نہ تو رکھتا ہے نہ میں دل و دیں ہے گرو زہرہ و شان عجمی آتش شوق سلیمیٰ نہ تو رکھتا ہے نہ میں اک خزف تھی کہ جو ساحل سے اٹھا لائے ہم دانہ گوہر یکتا نہ تو رکھتا ہے نہ میں اب کرے کون یہاں یوسف گم گشتہ کی بات تپش خون زلیخا نہ تو رکھتا ہے نہ میں ہم کو ہے نور چراغ تہ داماں ہی بہت طاقت جلوہ جاناں نہ تو رکھتا ہے نہ میں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ ۱۳۲ ٭٭٭ زبور عجم دعا سینے میں اے خڈا باہو دل باخبر عطا دیکھوں نشے کو مے میں کر ایسی نظر عطا اس بندے کو کہ بے نفس دیگراں جیا اک آہ خانہ زاد ہو مثل سحر عطا ہوں سیل مجھ کو جوئے تنک مایہ میں نہ ڈال کر سیر گاہ وادی و کوہ و کمر عطا مجھ کو کیا حریف یم بیکراں تو کر با اضطراب موج سکون گہر عطا شاہیں کو صندوق صید پلنگاں دیا تو کیا ہمت بلند پنجہ ہو کچھ تیز تر عطا نکلا ہوں طائران حرم کے شکار کو دے بن چلائے کام جو وہ تیر کر عطا کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ ۱۰ ٭ ہوں خاک نور نغمہ دلود سے دے آب ذروں کو میرے ہو پر و بال شرر عطا اے کہ کیا ہے مجھ سے تیز گرمی آہ و نالہ کو میری صدا سے زندہ کر خاک ہزار سالہ کو دل سے نہ جانے کیا کرے تو کہ مے حیات سے مستی شوق دے گیا آب و گل پیالہ کو غنچہ دل گرفتہ کی کر مرے دم سے واگرہ میرے نفس سے تازہ کر داغ درون لالہ کو مہر و مہ ستارہ سے آگے ہے کچھ مرا خیال گھات میں سو رہا ہے کیا صید کر اس غزالہ کو خواجہ مرے نظر میں رکھ اپنے گدا کی آبرو راہ کی آبجو سے جو بھرتا نہیںپیالہ کو کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ ۱۱ ٭ اب اس محفل میں جس کو ہو نہ ذوق بادہ ساقی ندیم ایسا کہاں رکھتا ہو جو ظرف مے باقی پیے جو زہر شیریں جام زریں سے وہ کب لے گا شراب تلخ کوزے سے کسی کے بہر تریاقی کہاں برسائوں اٹھتا ہے شرر جو خاک سے میری بہت بیجا دیا مجھ کو دیا گر سوز مشتاقی مکدر کر دے مغرب نے چشمے علم و عرفاں کے جہاں کو تیرہ کرتے ہیں ہوں مشائی کہ اشراقی دل گیتی! انا المسموم انا المسموم چیخ اس کی خرد نالاں کہ ماعندی بتریاق ولا راقی ہو ملائی کہ درویشی ہو سلطانی کہ دربانی فروغ کار کی خاطر ہے سالوسی و رزاقی ہے چشم صیر فی کم نور جس بازار میں اس میں نگیں میرا ہے خوار اتنا فزوں ہے جتنی براقی کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ : ۲۱ ٭ نہیں عاشق کہ جو لب گرم فغاں رکھتا ہے ہے وہ عاشق جو کف پر دو جہاں رکھتا ہے ہے وہ عاشق کہ جو تعمیر کرے اپنا جہاں اس جہاں میں نہیں رہتا جو کراں رکھتا ہے دل بیدار نہ داناے فرنگی کو ملا صرف اتنا ہے کہ چشم نگراں رکھتا ہے عشق ناپید ڈسے اس کو خرد صورت مار کاسہ زر میں وہ گر لعل رواں رکھتا ہے مجھ سے یہ درد ہی لے کہ جا نہیں میکدوں میں مرد ایسا کہ مے تند جواں رکھتا ہے کلیات اقبال ! زبور عجم صفحہ : ۵۶ ٭ دل طیور یہاں ہے ہر اک زماں دیگر ہوں شاخ گل پہ تو دیگر ہو آشیاں دیگر نہ کر شکایتیں دنیا کی اپنے آپ کو دیکھ تری نگاہ جو بدلے تو ہو جہاں دیگر ہر ایک دور میں ہے غور سے اگر دیکھیں طریق میکدہ و شیوہ مغاں دیگر دعا کے بعدہے سالار قافلہ کو پیام ہے گرچہ راہ وہی پر ہے کارواں دیگر کلیات اقبال ؍ زبور عجم صفحہ : ۵۶ ٭ انقلاب اے انقلاب! خون سے مزدور کے خواجہ بنائے لعل ناب وہ خدائوں کی جفا سے کشت دہقاناں خراب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! رشتہ تسبیح سے ہے شیخ ضد مومن بدام کافران سادہ دل کو برہمن زنار تاب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! میر و سلطاں نرد باز اور کعبتین ان کے دغل ہاتھ ان کے شہ رگ محکوم پر وہ محو خواب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! ہے پدر مسجد میں واعظ مدرسے میں ہے پسر واں بڑھاپے میں ہے بچپن ننگ پیری یاں شباب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! فتنہ ہائے علم و فن سے اے مسلمانو! فغاں دندناتا اہرمن پھرتا ہے یزداں دیریاب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! ہے کمین حق میں کیا کیا شوخی باطل تو دیکھ اندھے چمگادڑ کے شبخوں کی ہے زد میں آفتاب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! ابن مریمؑ کو کلیسا میں چڑھائیں دار پر مصطفیٰؐ ہجرت کریں کعبے سے با ام الکتاب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! شیشہ ہائے عصر حاضر نظر آیا مجھے زہر ایسا جس سے سانپ اور اژدہے کو پیچ و تاب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! گاہ دیتے ہیں ضعیفوں کو بھی چیتے کا جگر کیا عجب پیدا کرے شعلہ یہ فانوس حباب انقلاب! انقلاب‘ اے انقلاب! کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ: ۵۷ ٭ کہاں تک میکشی کو صحبت بیگانہ پے در پے یہ نور غیر سے کیا جلوہ پیمان پے در پے کبھی تو دیکھ ساقی خاور سے بھی پی کر اٹھے مٹی سے تیری نالہ مستانہ پے در پے وہ دل جو آشنا ہو کچھ تب و تاب تمنا سے الجھتا ہے شرر سے صورت پروانہ پے در پے ہے اشک صبحگاہی سے ہی برگ و بار ہستی کا ہو تیری کشت ویراں گر نہ ڈالے دانہ پے در پے پیالہ بھر نہ کر ہنگامہ افرنگ کی باتیں رہا ہے قافلوں کی راہ یہ ویرانہ پے در پے کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ: ۶۴ ٭ میں رسم و راہ شریعت نہ کر سکا تحقیق سوائے اس کے کہ منکر ہے عشق کا زندیق مقام آدم کی نہاد کا سمجھیں مسافران حرم کو خدا جو دے توفیق طریق کی نہیں کہتا رفیق چاہتا ہوں کہ کہہ گئے ہیں کہ پہلے رفیق بعد طریق حکیم غرب نے کی بھی تو یوںتلافی ذوق فروغ بادہ زیادہ کیا بہ جام عقیق ہزار درجہ ہے بہتر متاع بے بصری اس آگہی سے کہ جس کی نہ دل کرے تصدیق ہے پیچ و تاب خردمیں اگرچہ لذت اور یقین سادہ دلاں بہ زنکتہ ہاے دقیق کلام و فلسفہ کو لوح دل سے دھو ڈالا پے کشاد ضمیر آب نشتر تحقیق کنارہ گیر ہوں میں آسمان سلطاں سے یہ کافری ہے کہ پوجوں خداے بے توفیق دیار شوق کہ درد آشنا ہے خاک اس جا ہے ذرے ذرے میں دیدار جان پاک اس جا رہین منت مغ زاد گاں نہیں ہے شراب نگاہ توڑتی ہے شیشہ ہائے تاک اس جا ہے ضبط جوش جنوں شرط ہے مقام نیاز! رکھ اتنا ہوش نہ جا با قباے چاک اس جا کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ: ۶۶ ٭ ہنگامہ زار کس سے ہے یہ دیر دیرپا زناری اس کے کرتے ہیں سب نالہ و بکا ہو بنگہ فقیر کہ کاشانہ امیر غم ہیں کریں کمر کو جوانی میں جو دوتا درماں کہاں کہ بڑھتا ہے درماں سے درد اور دانش تمام حیلہ و تدبیر و سیمیا بے زور سیل کشتی آدم نہ ہو رواں محو ہزار عربدہ ہر دل بہ ناخدا مجھ سے حکایت سفر زندگی نہ پوچھ رکھی بنا کے درد سے گزرا غزل سدا باد سحر کے سانس میںاپنا ملا کے سانس گھوما چمن میں پھولوں پہ رکھے بغیر پا نظارہ اس کا کیا چشم ماہ سے آوارہ کاخ و کو میں جدا کاخ و کو سے تھا کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ: ۷۷ ٭ اے لالہ! اے چراغ کہستان و باغ و راغ لے مجھ سے زندگی کا اگر چاہیے سراغ کچھ رنگ و بوسے پریشاں نہیں ہیں ہم ہم وہ ہیں جو بپا ہے درون دل و دماغ مستی شراب سے ہے نہیں ہے ایاغ سے ممکن شراب نوشی نہیں گرچہ بے ایاغ سینے کا داغ لا شب تار وجود میں! اپنی شناخت کے لیے لازم ہے یہ چراغ اے موج شعلہ! سینہ نسیم سحر پہ کھول شبنم نہ ڈھونڈ سوز سے دیتی ہے جو فراغ کلیات اقبال؍ زبور عجم صفحہ: ۷۸ ٭ کرتا ہوں خود کو سجدے دیر و حرم نہیں ہے یہ اب نہیں عرب میں وہ در عجم نہیں ہے لالے کی پتیوں میں وہ رنگ و نم نہیں ہے نالوں میں طائروں کے وہ زیر و بم نہیں ہے ہستی کی کارگہ میں دیکھا نہ نقش تازہ شاید کہ نقش دیگر اندر عدم نہیں ہے اب انقلاب سے ہیں بے ذوق ماہ و انجم شاید کہ روز و شب کو توفیق رم نہیں ہے منزل نہیں پڑے ہیں پائے طلب گڑے ہیں شاید کہ خاکیوں کے سینے میں دم نہیں ہے خالی ورق نہیں یا رکھتی بیاض امکاں یا خامہ قضا کو تاب رقم نہیں ہے کلیات اقبال ؍ زبور عجم صفحہ: ۷۹ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End