The Reconstruction of Religious Thought in Islam علامہ محمد اقبالؒ کے (انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ) تجدیدِ فکریاتِ اسلام ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ہیں ناشر : محمدسہیل عمر ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-311-0 طبع اوّل : ۲۰۰۲ء تعداد: ۱۰۰۰ قیمت: -؍۱۵۰ روپے مطبع: پرنٹ ایکسپرٹ ، لاہور محلِ فروخت -- ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور -فون: 7357214 ’’ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی اِستخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشوونما میں رہنما ہوں‘‘ اقبالؒ فہرست ابتدائیہ ………… ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ۱۱ (۱) علم اور مذہبی مشاہدہ ۱۳ (۲) مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار ۴۵ (۳) خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم ۸۱ (۴) انسانی خودی اس کی آزادی اور لافانیت ۱۱۷ (۵) مسلم ثقافت کی روح ۱۵۱ (۶) اسلام میں حرکت کا اُصول ۱۷۷ (۷) کیا مذہب کا امکان ہے؟ ۲۱۳ عرضِ مترجم ……… ڈاکٹروحید عشرت ۲۳۵ حواشی و حوالہ جات (انگریزی) ۲۳۹ عرض مترجم حکیم الامت ڈاکٹر محمداقبال کے انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ اقبال اکادمی پاکستان کے ابتدائی منصوبوں میں شامل رہا ہے۔ اس منصوبہ پرعمل درآمد کرتے ہوئے جب میں نے پہلے خطبے کاترجمہ مکمل کر لیا تو اسے اقبال اکادمی کی مجلس علمی کے ۲۲ ارکان کے سامنے رکھا گیا۔ مجلس علمی میں ملک کے ممتاز ادیب، نقاد، انشا پرداز، مترجم اور شاعر شامل تھے۔ مسودہ انہیں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا اور پھر ان کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس پر غورہوا ۔ تمام حضرات نے اس ترجمے کو سراہا۔ اسے سہل، مستند اور جدید اسلوب کا حامل قرار دیا گیا۔ ترجمے کے سلسلے میں کچھ مشورے بھی موصول ہوئے جو ترجمہ کرتے وقت میں نے پیش نظر رکھے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۴ء میں پہلا خطبہ اقبال اکادمی پاکستان کے مجلّے ’’اقبالیات‘‘ میں شائع کیا گیا تاکہ اہل علم کے نقد ونظر کے بعد اس میں مزید بہتری ہو سکے۔ دوسرا خطبہ ۱۹۹۵ئ، تیسرا جولائی ۱۹۹۶ئ، چوتھا جنوری ۱۹۹۸ئ، پانچواں جنوری ۱۹۹۹ئ، چھٹا جولائی ۱۹۹۹ء اور ساتواں خطبہ جنوری ۲۰۰۰ء میں ’’اقبالیات‘‘ کے شماروں میں شائع ہوئے۔ اس ترجمے کی مقبولیت کے سبب اس کی اشاعت کی فرمائش آنے لگی۔ ایک صاحب نے تو الگ الگ خطبات کی اشاعت کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کی بھی پیش کش کر دی۔ مناسب ہو گا کہ اس ترجمے کے سلسلے میں چند معروضات یہاں پیش کر دی جائیں۔ ۱- ترجمہ کرنے سے قبل ان تمام تراجم کو پڑھا گیا جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ۔ بعض خطبوں کے الگ الگ بھی ترجمے دستیاب ہوئے انہیں بھی پڑھا گیا۔ خطبات کی تسہیلات اور دیگر متعلقہ کتب بھی دیکھی گئیں۔ ۲- ترجمہ کرنے سے پہلے پوری انگریزی کتاب کو بھی بالاستیعاب پڑھا گیا۔ ۳- فلسفیانہ اصطلاحات کے لیے قاموس الاصطلاحات، فلسفے کی دوسری ڈکشنریاں اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی ترجمہ شدہ فلسفے کی کتب اور آخر پر دی گئی فرہنگوں کو دیکھا گیا۔ ۴- ترجمے کی زبان انتہائی سہل، رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی۔ صرف ناگزیر اصطلاحات کو ہی استعمال کیا گیا ۔ ۵- ترجمہ کرتے وقت ہر فقرے پر غور کیا گیا کہ کہیں ترجمے میں وہ مہمل بے معنی یااصل متن سے ہٹ تو نہیں گیا۔ اور فقرہ با معنی بھی ہے کہ نہیں۔ ۶- کسی مفہوم اور عبارت کے سمجھ میں نہ آنے پر مترجم بعض مقامات پر متن کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اس ترجمے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ ترجمہ لفظی بھی ہے اور بامحاورہ بھی۔ ۷- ترجمہ کرتے وقت یہ بات دامن گیر رہی کہ اگر علامہ اردو میں لکھتے تو اپنا مدعا کس طرح ادا کرتے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اسے ترجمے کی بجائے طبع زاد کتاب کا روپ مل سکے۔ ۸- اقبالیات میں خطبات کی اشاعت مکمل ہونے پر اسے نظر ثانی اور مشاورت کے لیے فلسفے کے جیّد اُستاد اور پاکستان فلسفہ کانگرس کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق، سابق چیئرمین اور اقبال پروفیسر شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور کے پاس بھیج دیا گیا۔ آپ نے نہایت محنت اور انہماک سے تصحیح اور نظرثانی فرماتے ہوئے اس ترجمے کو بہتر بنانے میں میری مدد اور رہنمائی فرمائی، بلکہ کمپوزنگ کے بعد اس ترجمے کی پروف خوانی بھی کی۔ آپ میرے اُستاد ہیں۔ ان کی محبت اور شاگرد پروری کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ۹- اس ترجمے کے لئے وہ ایڈیشن استعمال کیا گیا جو پروفیسر محمد سعید شیخ نے مرتب و مدون فرمایا۔ آپ فلسفے کے ممتاز اُستاد رہے ہیں اور یہ خطبات مدون و مرتب کرکے انہوں نے ایک اعلیٰ محقق ہونے کا بھی ایسا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک لیجنڈ بن گئے ہیں۔ دوسرے مترجمین نے غالباً یہ ایڈیشن استعمال نہیں کیا۔ ترجمے کے صبر آزما مراحل میں اقبال اکادمی پاکستان کے موجودہ ناظم محمد سہیل عمر قدم قدم میرے ساتھ رہے ہیں۔ جب ہم اقبال اکادمی میں آئے تو اقبال کے شعری اور نثری سرمایہ کو جو علامہ کی طبع زاد کتب پر مشتمل ہے، تدوین کے بعد شائع کرنے اور ان کے تراجم کا فیصلہ ہوا۔ سراج منیر مرحوم، پروفیسر محمد منور مرحوم، محمد سہیل عمر اور ہم اس پروگرام کے مرتب تھے۔ اس کے تحت کلیات اقبال اور کئی دوسری کتب شائع ہوئیں۔ پھر نظامتوں کی تبدیلیاں ان پروگراموں پر اثرانداز ہوتی رہیں۔ اور یہ کام رکا رہا۔ ڈاکٹر وحید قریشی جب اکادمی میں آئے تو انہوں نے کام تیز کرنے کو کہا اور اقبالیات میں یہ خطبات شائع ہونے لگے۔ محمد سہیل عمر جب ناظم بنے تو دو خطبے باقی تھے انہوں نے اس منصوبے میں خصوصی دلچسپی لی اور ان کی ہی نظامت میں یہ کام شائع ہو رہا ہے۔ خطبات کے دوسرے تراجم پر ایک سیر حاصل تبصرے کا بھی میں خواہاںتھا مگر میں نے دانستہ اسے ترک کر دیا۔ علامہ اقبال، ڈاکٹر عابد حسین سے خطبات کا ترجمہ چاہتے تھے۔ سید نذیر نیازی کے ترجمے کا کچھ حصہ علامہ نے دیکھا تھاتاہم یہ ترجمہ علامہ کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا۔ سید نذیر نیازی میرے محترم اور بزرگ دوست تھے۔ میرے لیے بڑے شفیق تھے۔ وہ عربی کے عالم تھے، لہٰذا ترجمے میں عربی الفاظ اور اصطلاحات ان کی مجبوری تھی۔ جس زمانے میں انہوں نے یہ ترجمہ کیا اس زمانے میں اردو زبان میں فلسفے کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن میں تراجم ہو رہے تھے۔ لہٰذا ترجمے کی مشکلات سے وہ بھی دوچار تھے۔ ان کے علاوہ بھی لوگوں نے جزواً یا کلاً ترجمے کئے ہیں۔ان میں صرف سید نذیر نیازی ہی نہیں اور بھی بڑے بڑے بزرگ شامل ہیں۔ ان سب کے کام، خلوص اور محنت کا میں قدردان ہوں، اس لیے کہ انہوں نے نو آبادیاتی دور میں ہر طرح کے وسائل سے تہی ہونے کے باوجود یہ کام کیا۔ اب ہم زیادہ باوسائل ہیں، لہٰذا ان پر کچھ کہنا اچھا نہیں لگتا۔وہ سب قابل احترام ہیں کہ انہوں نے اس تاریک دور میں علم و دانش کی شمعیں روشن کیں جن سے ہمارا آج منور ہے۔سید نذیر نیازی کا یہی کیا کم احسان ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کی عمر بھر خدمت کی اور فکر اقبال کو عام کرنے میں شب و روز ایک کر دیئے۔ اس وقت جو ترجمے دستیاب ہیں ان میں’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ از سید نذیر نیازی،تفکیر دینی پر تجدید نظراز ڈاکٹر محمد سمیع الحق (یہ ترجمہ دہلی سے شائع ہوا ہے)، ممتاز شاعر، مترجم سائنس اور نفسیات پر دقیق نظر رکھنے والے مصنف شہزاد احمد کا حال ہی میں شائع ہونے والا ترجمہ اسلامی فکر کی نئی تشکیل، پروفیسر شریف کنجاہی کا ترجمہ مذہبی افکار کی تعمیر نوشامل ہیں۔ اس سلسلے میں انہوںنے خطبات کا پنجابی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ احمد آرام کی احیائے فکر دینی دراسلام نے فارسی میں اور عباس محمود نے تجدید التفکیرالدینی فی الاسلام کے نام سے عربی میں بھی ترجمے کئے۔ مادام ایوا میورو وچ نے فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔پروفیسر محمد عثمان، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، پروفیسر محمد شریف بقا، سید وحید الدین، مولانا سعید اکبر آبادی کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی’ تسہیل خطبات اقبال‘ اور ’متعلقات خطبات اقبال‘ از ڈاکٹر سید عبداﷲ کی بھی قابل ذکر کاوشیں ہیں۔ سید میر حسن الدین، ڈاکٹر محمد اجمل اور متعدد دوسرے حضرات نے ایک دو خطبات کے تراجم بھی کئے ہیں۔ مگر خطبات پر کام ابھی مزید توجہ چاہتا ہے۔ اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر کی کتاب ’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘ بھی اس سلسلے کی اہم کتاب ہے۔ خطبات کے حوالے سے اقبال اکادمی کے زیر اہتمام ۱۹۹۷ء میںا قبال ریویو(مدیر محمد سہیل عمر)اور اقبالیات (مدیرڈاکٹر وحید عشرت) کے دو خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے بھی قرآن اور علم جدید میں خطبات پر نقد و نظر کی ہے۔ خود میرا بھی ارادہ خطبات کے مباحث پر تنقیدی کام کرنے کا ہے۔ خطبات کے حواشی اور تعلیقات اس ترجمے میں اس لیے شامل نہیں کئے گئے کہ وہ ایک الگ کام ہے اور ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے۔ انشاء اﷲ اگلا کام اسی سمت ہو گا۔ میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوں جو اس ترجمے کے مختلف مراحل میں شریک رہے یا میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ڈاکٹر وحید عشرت اقبال اکادمی پاکستان ایوان اقبال لاہور ۲۱- اپریل ۲۰۰۱ء ابتدائیہ قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے خلقی طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس اجنبی کائنات کو ایک حیاتی عمل کے طور پر قبول کرلیں۔ یہ عمل، وہ خاص طرز کا باطنی تجربہ ہے‘ جس پر بالآخر مذہبی ایمان کا دارومدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنا لی ہے ایسی عادت جسے خود اسلام نے اپنی ثقافتی زندگی کے کم از کم آغاز میں خود اپنے ہاں پروان چڑھایا تھا۔ اس عادت کی بنا پر وہ اس تجربے کے حصول کا کم ہی اہل رہ گیا ہے جسے وہ اس لئے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس میں التباس کی گنجائش رہتی ہے۔اس میں شبہ نہیںکہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے‘ مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں۔ وہ انہی طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضع کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطہ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطہ نظر سے مختلف تھا۔قرآن کہتا ہے کہ ’’ تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق و بعثت کی طرح ہے‘‘۔ حیاتیاتی وحدت کا زندہ تجربہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے آج ایسے منہاج کا تقاضا کرتا ہے جو موجودہ دور کے ٹھوس ذہن کے لیے عضویاتی طور پر کم شدت رکھتا ہو مگر نفسیاتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو۔ اس طرح کے منہاج کی عدم موجودگی میں مذہبی علم کی سائنسی صورت کا مطالبہ ایک قدرتی امر ہے۔ ان خطبات میں جو مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے اور مدراس‘ حیدرآباد اور علی گڑھ میں پڑھے گئے، میں نے کوشش کی ہے کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور مختلف انسانی علوم میں جدید ترین تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے مذہبی فکر کی تشکیل نو کروں تاکہ میں __ جزوی طور پر ہی سہی __ اس مطالبے کو پورا کر سکوں۔ اس طرح کے کام کے لیے موجودہ وقت نہایت موزوں اور مناسب ہے۔ کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پر تنقید شروع کر دی ہے۔ اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت جسے ابتدا میں اس نے ضروری سمجھا تھا تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم و گمان بھی نہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات ، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوںجو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے ارتقا پر بڑی احتیاط سے نگاہ رکھیں اور اس کی جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں۔ اقبالؒ (۱) علم اور مذہبی مشاہدہ ’’ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ مذہب نے سائنس سے پہلے ٹھوس تجربے کی ضرورت پر زور دیا ۔ دراصل مذہب اور سائنس میں یہ تنازعہ نہیں کہ ایک ٹھوس تجربے پر قائم ہے اور دوسرا نہیں۔ شروع میں دونوں کا تجربہ ٹھوس ہوتا ہے۔ ان دونوں کے مابین تنازعہ غلط فہمی ہے کہ دونوں ایک ہی تجربے کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ مذہب کا مقصد انسانی محسوسات و تجربات کی ایک خاص طرز کی کہنہ تک رسائی حاصل کرنا ہے‘‘ اقبال ہم جس کائنات میں رہتے ہیں ‘ اس کی خاصیت اور ماہیت کیا ہے‘ کیا اس کی بناوٹ میں کوئی مستقل عنصر موجود ہے؟ اس سے ہمارا تعلق کس طرح کا ہے؟ کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے؟ اور ہم کس قسم کا رویہ اختیار کریں کہ جو کائنات میں ہمارے مقام سے مناسبت رکھتا ہو؟ یہ سوالات مذہب‘ فلسفے اوراعلیٰ شاعری میں مشترک ہیں لیکن جس طرح کا علم ہمیں شاعرانہ وجدان سے حاصل ہوتا ہے، وہ اپنے خواص میں لازمی طور پرانفرادی، تمثیلی، غیر واضح اور مبہم ہوتا ہے۔ مذہب اپنی ترقی یافتہ صورتوں میں خود کو شاعری سے بلند تر منصب پرفائز رکھتا ہے۔ اس کا میلان فرد سے معاشرے کی طرف ہوتا ہے۔ حقیقت مطلقہ کے بارے میں اس کا انداز نظر انسانی تحدیدات سے ترفع کرتے ہوئے حقیقت مطلقہ کے براہ راست مشاہدے تک اپنے دعووں کو بڑھاتا ہے۔اب یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا فلسفے کے خالص عقلی طریق کا اطلاق مذہب پر کیا جا سکتا ہے۔ فلسفے کی روح آزادانہ تحقیق ہے۔ وہ ہر حکم اور دعوے پر شک کرتا ہے۔ یہ اس کا وظیفہ ہے کہ وہ انسانی فکر کے بلا تنقید قبول کئے گئے مفروضات کے چھپے ہوئے گوشوں کا سراغ لگائے--- اس تجسس کا بالآخر انجام چاہے انکار میں ہو یا اس برملا اعتراف میں کہ عقلِ خالص کی حقیقت مطلقہ تک رسائی ممکن نہیں۔ دوسری طرف مذہب کا جو ہر ایمان ہے اور ایمان اس پرندے کی مانند ہے جو اپنا انجانا راستہ عقل کی مدد کے بغیر پالیتا ہے۔ اسلام کے ایک بہت بڑے صوفی کے الفاظ میں عقل تو انسان کے دل زندہ میں گھات لگائے رہتی ہے تاکہ وہ زندگی کی اس ان دیکھی دولت کو لوٹ لے جو اس کے اندر و دیعت کی گئی ہے۔ ۱؎ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایمان احساس محض سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں کسی حد تک وقوف کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔ تاریخ مذہب میں مدرسی اور صوفیانہ، دو متخالف مکاتب کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مذہب میں فکر ایک اہم عنصر کی حیثیت سے موجود ہے۔ یوں بھی مذہب، اپنے اعتقادات میں، جیساکہ پروفیسر وائیٹ ہیڈ نے تشریح کی ہے،عام حقائق کا ایک ایسا نظام ہے جسے اگر خلوص کے ساتھ قبول کیا جائے اور انہماک کے ساتھ اپنایا جائے تو یہ انسانی سیرت و کردارکو بدل سکتا ہے۔ ۲؎ اب چونکہ مذہب کا بنیادی نصب العین انسان کی باطنی اور ظاہری زندگی کوبدلنا اور اس کی رہنمائی کرنا ہے تو یہ لازم ہے کہ مذہب کی تشکیل کرنے والے عام حقائق بے تصفیہ نہ رہ جائیں۔ہم اپنے اعمال کی بنیاد کسی مشتبہ اصول پر نہیں رکھ سکتے۔ یقینی طور پر اپنے وظیفے کے اعتبار سے مذہب اپنے حتمی اصولوں کے لئے عقلی اساس کا زیادہ ضرورت مند ہے اوراس کی یہ ضرورت سائنسی معتقدات کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ سائنس ایک عقلی مابعد الطبیعیات کو نظر انداز کر سکتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ماضی میں اس نے ایسا کیا بھی ہے۔تاہم مذہب کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ مخالف و مختلف تجربات کے مابین توافق کی تلاش نہ کرے اور اس ماحول کا جواز تلاش نہ کرے جس میں نوع انسانی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر وائیٹ ہیڈ کی یہ بات صائب نظر آتی ہے کہ ایمان کے تمام عہد عقلیت کے عہد ہیں ۳؎ مگر ایمان کی عقلی توجیہہ کا مفہوم یہ نہیں کہ ہم مذہب پر فلسفے کی برتری کو تسلیم کر لیں۔ فلسفہ بلا شبہ مذہب کا جائزہ لے سکتا ہے مگر جس کا جائزہ لیا جانا ہے اس کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ خود اپنی متعین کردہ شرائط پر ہی فلسفے کا یہ حق تسلیم کر سکتا ہے۔مذہب کا تجزیہ کرتے وقت فلسفہ، مذہب کو اپنے دائرہ بحث میں کم تر مقام پر نہیں رکھ سکتا۔ مذہب کسی ایک شعبے تک محدود نہیں یہ نری فکر نہیں ہے۔یہ نرا احساس بھی نہیں اور نہ محض عمل، یہ پورے انسان کا پورا ظہار ہے۔ لہٰذا مذہب کی قدر کا تعین کرتے وقت فلسفے کولازمی طور پر اس کی مرکزی حیثیت پیش نظر رکھنی چاہئے۔ فکر کے ترکیبی عمل میں اس کی مرکزیت کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور اس کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فکر اور وجدان (وحی) لازمی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ ایک ہی جڑ سے پھوٹتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک حقیقت کو جزوی طور پردیکھتا ہے اور دوسرا اس کا کلی لحاظ سے مشاہدہ کرتا ہے۔ ایک حقیقت کا لازمانی اور دوسرا زمانی پہلو پیش نظر رکھتا ہے۔ ایک حقیقت کی کلّیت سے براہ راست شاد کام ہوتا ہے، جبکہ دوسرے کا مطمح نظریہ ہے کہ وہ مخصوص مشاہدے کے لئے کلّیت کے مختلف شعبوں میں آہستگی سے ارتکاز اور تخصیص کرتے ہوئے اس کا ادراک حاصل کرے۔ دونوں تازگی اور باہمی طور پر تجدید قوت کے لئے ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں۔ دونوںایک ہی حقیقت کے متلاشی ہیں جو حیات میں ان کے اپنے کرداروں کے حوالے سے اپنا القاء ان پر کرتی ہے۔ درحقیقت، جیسا کہ برگساں نے درست طور پر کہا، وجدان عقل ہی کی ایک برتر صورت ہے۔ ۴؎ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی عقلی بنیادوں کی تلاش کا آغاز حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود فرمایا۔ آپؐ تو اتر سے یہ دُعا فرمایا کرتے تھے ’’اﷲ! مجھے اشیاء کی اصل حقیقت کا علم عطا فرمایا۔‘‘ ۵؎ آپؐ کے بعد صوفیا اور غیر صوفی متکلمین نے اس ضمن میں جو کام کیا وہ ہماری تاریخ ثقافت کا ایک روشن باب ہے کیونکہ اس سے ان کی افکار کے نظام سے دلچسپی ظاہر ہوتی ہے جو سچائی سے ان کی دلی یگانگت کی آئینہ دار ہے۔ اس سے ان زمانی تحدیدات کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی بنا پر اسلام میں ظہور پذیر ہونے والے مختلف الٰہیاتی مکاتب فکر اتنے بار آور نہ ہو سکے جتنے کسی اور عہد میں ہوتے۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں، تاریخ اسلام میں یونانی فلسفہ ایک زبردست ثقافتی قوت رہا ہے۔ قرآن کے محتاط مطالعے اور ان مختلف مدرسی مکاتب، جو یونانی فکر سے متاثر ہوئے،کی الٰہیات کے تجزیے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اگرچہ فلسفہ یونان نے مسلمانوں کے اندر فکر میں بڑی وسعت پیدا کر دی تھی قرآن کے بارے میں مجموعی طورپر مسلم مفکرین کی سوچ کو یونانی فکر نے متاثر کرتے ہوئے دھندلادیا۔ سقراط نے انسانی دنیا پر ہی اپنی توجہ مرتکز رکھی۔ اس کے نزدیک انسان کے مطالعے کا موضوع خود انسان ہے۔ یہ کرئہ ارض، حشرات زمینی اور ستارے وغیرہ اس کے مطالعے کا موضوع نہیں ہیں۔بظاہریہ قرآن کی تعلیم کے کس قدرمنافی ہے جو کہتا ہے کہ شہد کی معمولی مکھی کو بھی وحی ہوتی ہے۔ ۶؎ قرآن نے اپنے قاری کو دعوت دی ہے کہ وہ ہوائوں کے تغیر و تبدل، دن اور رات کی گردش، بادلوں کی آمدورفت ۷؎ اور تاروں بھرے آسمان کا مطالعہ کرے ۸؎ اور ان سیاروں کا جو فضائے بسیط میں تیر رہے ہیں۔ ۹؎ سقراط کے ایک سچے شاگرد کی حیثیت سے افلاطون نے بھی حواسی ادراک کو بہ نظر تحقیر دیکھا جو اس کے خیال میں حقیقی علم کے بجائے محض ایک رائے کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ ۱۰؎ قرآن اس نقطہ نظر کوکس طرح پسند کرسکتا ہے جو سماعت اور بصارت کو خدا کے قابل قدر دو تحفے قرار دیتا ہے۱۱؎ اور انہیں دنیا میں اپنی کارکردگی کے اعتبار سے خدا کے سامنے جوابدہ ٹھہراتا ہے۔ ۱۲؎ یہ اہم نکات تھے جو دور اول کے مسلم مفکرین اور قرآن کے طالب علم کی نظروں سے چوک گئے اور اس کی وجہ کلاسیکی انداز فکر میں ان کا الجھ جانا تھا۔ انہوں نے قرآن کا مطالعہ یونانی فلسفے کی روشنی میں کیا۔ کوئی دو سوسال کے عرصے میں انہیں کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ قرآن کی روح یونانی کلاسیکی فکر سے لازمی طور پر مختلف ہے۔ ۱۳؎ اس ادراک کے نتیجے میں ایک ذہنی بغاوت نے جنم لیا، اگرچہ آج تک اس فکری انقلاب کی مکمل معنی خیزی مسلمان مفکرین پر منکشف نہیں ہوسکی۔ جزوی طور پر کچھ اس فکری انقلاب کی وجہ سے اور کچھ اپنے ذاتی حالات کی بنا پر امام غزالی ؒنے مذہب کی اساس فلسفیانہ تشکیک پر رکھی جو مذہب کے لئے ایک غیر محفوظ بنیاد ہے اور جسے قرآن کی روح کے مطابق کہنے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ امام غزالیؒ کے سب سے بڑے حریف ابن رشد ، جو ارسطو کا پیرو تھا اور جس نے اس فکری بغاوت کے بالمقابل یونانی فلسفے کا دفاع کیا، نے عقل فعال کی بقاء دوام کا نظریہ پیش کیا ۱۴؎ جس نے فرانس اور اٹلی کی فکری زندگی پر گہرے نقوش مرتب کئے ۱۵؎ مگر جو میرے خیال میں انسانی خودی کی منزل مقصود او ر قدر کے بارے میں قرآن کے تصورات کے بالکل خلاف ہے۔ ۱۶؎ یوں ابن رشد اسلام میں ایک عظیم اور بار آور خیال کی بصیرت کھو بیٹھا۔ اس طرح نادانستہ طور پر اس نے ایک ضعیف القوت فلسفہ حیات کو ترقی دینے میں مدد کی جو انسانی بصیرت کو خود انسان کے بارے میں اور خدا اور کائنات کے متعلق دھندلا دیتا ہے۔ اشاعرہ میں کچھ تعمیری سوچ رکھنے والے مفکرین ضرور پیدا ہوئے جنہوں نے بلا شبہ درست راہ پر چلتے ہوئے مثالیت کی جدید تر صورتوں کی راہ ہموار کی تاہم مجموعی طور پر ان کی تحریک کا بنیادی مقصد یونانی جدلیت کے ہتھیاروں سے اعتقادات کا دفاع تھا۔ معتزلہ نے مذہب کو محض عقائدکا ایک نظام تصور کیااور اسے ایک زندہ اور زور دار حقیقت کے طور پر نظر انداز کیا۔ یوں انہوں نے حقیقت تک رسائی کے ماورائے عقل رویوں کو نظر انداز کیا اور مذہب کو محض منطقی تصورات کے ایک نظام میں محدود کر دیا جس کاانجام ایک خالصۃً منفی نقطہ نظر کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ علم کی دنیا میں، خواہ یہ سائنسی ہو یا مذہبی، فکر کو ٹھوس تجربے سے آزاد قرار دینا ممکن نہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غزالیؒ کا مشن کانٹ کی طرح پیغمبرانہ تھا جو موخرالذکر نے اٹھارہویں صدی کے جرمنی میں اپنایا۔ جرمنی میں عقلیت کا مذہب کی حلیف کے طور پر ظہور ہوا مگراسے جلد ہی احساس ہوگیا کہ مذہب کا اعتقادی پہلو دلیل و برہان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کا صرف ایک ہی حل تھا کہ عقیدے کو مذہب کی مقدس دستاویز سے الگ کر دیا جائے۔ مذہب سے عقیدے کو ہٹا دینے سے اخلاق کا افادی پہلو سامنے آیا اور یوں عقلیت نے لادینیت کی فرمانروائی کو مستحکم کر دیا۔ جرمنی میں کانٹ کی پیدائش کے وقت الٰہیات کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔ اس کی کتاب ’’تنقید عقل محض‘‘ نے جب انسانی عقل کی تحدیدات کی وضاحت کی تو عقلیت پسندوں کا تمام کام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ لہٰذا کانٹ کو جرمنی کے لئے بجا طور پر خدا کا عظیم ترین عطیہ قرار دیا گیا ہے۔ غزالیؒ کی فلسفیانہ تشکیک نے بھی، جو کانٹ کے انداز فکر سے کسی قدر بڑھ کر تھی، دنیائے اسلام میں تقریباً اسی قسم کے نتائج پیدا کئے۔ اس نے بھی اس بلند بانگ لیکن تنگ نظر عقلیت پسندی کی کمر توڑ دی جس کا رجحان اسی جانب تھا جس طرف کانٹ سے پہلے جرمنی میں عقلیت پسندی کا تھا، تاہم غزالی اور کانٹ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ کانٹ اپنے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے خدا کے بارے میں علم کے امکان کی توثیق نہ کر سکاجبکہ غزالی نے تجزیاتی فکر میں اس کی امید نہ پا کر صوفیانہ تجربے کی طرف رجوع کیا اور یوں مذہب کے لئے ایک الگ دائرہ کار دریافت کر لیا۔ نتیجتًہاس نے سائنس اور مابعد الطبیعیات سے الگ خود مکتفی حیثیت میں مذہب کے زندہ رہنے کے حق کو دریافت کر لینے میں کامیابی حاصل کر لی۔ تاہم صوفیانہ مشاہدے میں لامتناہی کل کی معرفت نے اسے فکر کی متناہیت اور نارسائی کا یقین دلا دیا۔ لہٰذا اس نے وجدان اور فکر کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ دیا۔ وہ یہ جاننے میں ناکام رہا کہ فکر اور وجدان عضویاتی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور فکر متناہی اور غیر قطعی محض اس بنا پر نظرآتا ہے کہ وہ زمان متسلسل سے وابستہ ہے۔ یہ خیال کہ فکر لازمی طور پرمتناہی ہے لہٰذا اسی وجہ سے وہ لامتناہی کو نہیںپا سکتا، علم میں فکر کے کردار کے بارے میں غلط تصور پر قائم ہے۔منطقی فہم میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ باہم دگر متزاحم انفرادیتوں کی کثرت کو ایک قطعی منضبط وحدت میں تحویل کر سکے۔ یوں فکر کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں ہم تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت منطقی فہم اس قابل نہیں کہ وہ اس کثرت کو ایک مربوط اور منضبط کائنات کی حیثیت سے سمجھ سکے۔ اس کے پاس صرف ایک تعمیم ہی کا طریقہ ہے جو اشیاء کی مشابہتوں پر اپنا انحصار رکھتا ہے۔ مگر اس کی تعمیمات محض فرضی اکائیاں ہیں جو محسوس اشیاء کی حقیقت کومتاثر نہیں کرتیں۔ تاہم اپنی گہری حرکت میں فکر اس لائق ہے کہ لامتناہی کے بطون تک رسائی پا سکے جس کے اظہار کے دوران میں مختلف متناہی تصورات محض آنات ہیں۔ اپنی بنیادی فطرت میں فکر ساکن نہیں ہے، متحرک ہے۔ اور اگر زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فکر اپنی اندرونی لامتناہیت میں اس بیج کی طرح ہے جس میں درخت کی عضویاتی وحدت ابتداہی سے ایک حقیقت کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا فکراپنا بھرپور اظہار کلی طور پر کرتا ہے جو زمانی انداز سے قطعی تخصیصات کے ساتھ سامنے آتا ہے جنہیں دو طرفہ حوالے ہی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کے معانی، ان کی اپنی ذات میں نہیں بلکہ اس وسیع ترکل میں ہیں جس کے وہ مخصوص پہلو ہیں۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں اس کل کو ’’لوح محفوظ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔۱۷؎ اسی لوح محفوظ میں علم کے تمام غیر متعین امکانات ایک حاضر حقیقت کی طرح موجود ہیں۔ یہ کل خود کوزمان مسلسل میں متناہی تصورات کے تواتر میں ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسی وحدت کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں جو پہلے ہی سے ان میں موجود ہے۔ در حقیقت علم کی حرکت میں مکمل لامتناہی کا ہونا ہی متناہی سوچ کو ممکن کرتا ہے ۔ کانٹ اور غزالی دونوں یہ نہ جان سکے کہ فکر، حصول علم کے دوران اپنی متناہیت سے تجاوز کر جاتا ہے۔ فطرت کے متناہی اجزا تو باہم دگر منفرد ہیں، مگر فکر کے متناہی اجزا کی صورت ایسی نہیں۔ یہ اپنی اصل ماہیت میں اپنی انفرادیت کے تنگ دائرے کے پابند نہیں۔ اپنے سے ماورا وسیع دنیا میں ان سے مغائر کچھ نہیں، بلکہ اس بظاہر مغائر زندگی میں سرگرمی سے فکر اپنی متناہی حدود کو توڑ کر اپنی بالقوۃ لامتناہیت سے شاد کام ہوتا ہے۔ حرکت فکر صرف اسی بناپر ممکن ہے کہ اس کی متناہیت میں لامتناہیت مضمر ہے۔ یہی امرلامتناہی فکر کے اندر شعلہ آرزو کو زندہ رکھتا ہے اور بے پایاں جستجو میں اسے سہارا مہیا کرتا ہے۔ فکر کو نارسا تصور کرنا غلط ہے کیونکہ یہ اپنے انداز میں متناہی کے لامتناہی سے ہم کنار ہو جانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ پانچ سو برسوں سے اسلامی فکر عملی طور پر ساکت و جامد چلی آرہی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغربی فکر اسلامی دنیا سے روشنی اور تحریک پاتاتھا۔ تاریخ کا یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ اب دنیائے اسلام ذہنی طور پرنہایت تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہی ہے، گویہ بات اتنی معیوب نہیں کیونکہ جہاں تک یورپی ثقافت کے فکری پہلو کا تعلق ہے، یہ اسلام ہی کے چند نہایت اہم ثقافتی پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ ڈر ہے تو صرف یہ کہ یورپی ثقافت کی ظاہری چمک کہیں ہماری اس پیش قدمی میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس ثقافت کی اصل روح تک رسائی میں ناکام نہ ہو جائیں۔ ہماری ذہنی غفلت کی ان کئی صدیوں میں یورپ نے ان اہم مسائل پر پوری سنجیدگی سے سوچا ہے جن سے مسلمان فلاسفہ اور سائنس دانوں کو گہری دلچسپی رہی تھی۔ ازمنہ وسطیٰ سے لے کر اس وقت تک جب مسلمانوں کی الٰہیات کی تکمیل ہوئی، انسانی فکر اور تجربے میں فروغ کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے۔ ماحول اور کائنات پر اختیار اور فطرت کی قوتوں پر برتری نے انسان کو ایک نئے اعتماد سے سرشار کیا ہے۔ نئے نئے نقطئہ ہائے نظر وجود میں آئے ہیں۔ نت نئے تجربات کی روشنی میں پرانے مسائل کو نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ کئی نئے مسائل نے جنم لیاہے۔ یوں نظر آتا ہے جیسے انسانی عقل، زمان و مکان اور علت و معلول کی خود اپنی حدود پھلانگنے کو ہے۔ سائنسی فکر کی ترقی کے ساتھ علم و ادراک کے ہمارے تصور میں بھی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے ۔۱۸؎ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے کائنات کے بارے میں نیا رویہ سامنے آیا ہے اور یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ مذہب اور فلسفے کے درمیان مشترک مسائل پر نئے زاویوں سے غور کیا جائے۔ اب اگر ایشیاء اور افریقہ میں مسلمانوں کی نوجوان نسل اسلام کی نئی تعبیر چاہتی ہے تو یہ کوئی زیادہ تعجب خیز بات نہیں۔تاہم مسلمانوں کی بیداری کے اس عہد میں ہمیں آزادانہ طور پر یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ یورپ نے کیا سوچا ہے اور جن نتائج تک وہ پہنچا ہے ان سے ہمیں اسلام کی الٰہیاتی فکر پر نظرثانی کرنے یا اگر ضروری ہو تو اس کی تشکیل نو کرنے میں کیا مدد مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ممکن نہیںکہ ہم مذہب، خصوصاً اسلام، کے خلاف وسط ایشیا ( سابقہ اشتراکی روس، جو اب آزاد مسلم ریاستوں میں تبدیل ہو چکا ہے) کے پراپیگنڈے کو نظر انداز کریں جس کی لہر پہلے ہی برصغیر تک آپہنچی ہے۔ اس تحریک کے چند داعی مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے جن میں سے ایک ترک شاعر توفیق فکرت ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل فوت ہواہے۔ ۱۹؎ اس نے تو ہمارے عظیم فلسفی شاعر مرزا عبد القادر بیدل اکبر آبادی کی فکر کو اس دعوت کی تائید میں استعمال کیا۔یقینی طور پر یہ مناسب وقت ہے کہ اسلام کی اساسیات کا جائزہ لیا جائے۔ ان خطبات میں اسلام کے چند بنیادی تصورات پر میں نے فلسفیانہ پہلو سے بحث کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ نوع انسانی کے لئے ایک عالم گیر پیغام حیات کے طور پر یہ اسلام کی تفہیم میں معاون ہوں گے۔ میرے پیش نظر یہ بھی ہے کہ اسلام کے ان اساسی تصورات کے بارے میں ہونے والے آئندہ کے مباحث کے لئے بھی رخ متعین کروں۔چنانچہ اس ابتدائی خطبے میں، میں علم اور مذہبی مشاہدے کی نوعیت کے بارے میں خیالات پیش کروں گا۔ قرآن حکیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور کائنات سے انسان کے مختلف الجہات روابط کا بلند تر شعور اجاگر کرے۔ قرآنی تعلیمات کے اس اساسی پہلو کے پیش نظر ہی گوئٹے نے، اسلام پر بحیثیت ایک تعلیمی قوت کے بات کرتے ہوئے ایکرمن سے کہا تھا ’’دیکھو! یہ تعلیم کبھی نامراد نہیں ٹھہرے گی۔ہمارا کوئی نظام بلکہ کوئی بھی انسان اس سے آگے نہیںجاسکے گا۔‘‘ ۲۰؎ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مسئلہ مذہب اور تہذیب کی دو قوتوں کا پیدا کردہ ہے جو باہم کھچائو اور ساتھ ہی آپس میںلگائو رکھنے والی ہیں۔ اسی طرح کا مسئلہ مسیحیت کو بھی ابتدائی دور میں درپیش تھا۔ مسیحیت کا بنیادی سوال یہ تھا کہ روحانی زندگی کے لئے کسی ایسے مستقل اساسی جوہر کو تلاش کیا جائے جو حضرت مسیح ؑکی بصیرت کے مطابق بیرونی دنیا کی قوتوں کا آفریدہ نہیں بلکہ خود انسان کے اندر روح کے اپنے انکشافات سے عبارت ہے۔ اسلام کواس بصیرت سے پورا اتفاق ہے مگر وہ اس میں اس قدر اضافہ کرتا ہے کہ اس نئے عالم کی دریافت عالم مادی سے بیگانہ نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے۔ پس عیسائیت، جس روح کی بحالی کی خواہاں ہے وہ بیرونی قوتوں کے انکار سے ممکن نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی روحانیت سے منور ہیں۔ اس کے لئے ہمیں اندر سے حاصل کردہ روشنی میں ان قوتوں کے اپنے روابط کو مناسب طور پر استوار کرنا ہو گا۔ عینیت کا پراسرار لمس ہی حقیقت کو زندگی عطا کرتا ہے اور اسے قائم رکھتا ہے اور اسی کے ذریعے عین کی یافت اور تصدیق ممکن ہے۔ اسلام میں عین اور حقیقت‘ دو غیر تطابق پذیر مخالف قوتیں نہیں۔ عین کی حیثیت کا انحصار حقیقت سے مکمل لاتعلقی پر نہیں کیونکہ اس سے زندگی کی عضوی کلیت اذیت ناک اضداد میں بٹ جائے گی۔ بلکہ اس کا مدار حقیقت کے عین کے اندر پیہم انجذاب و ادغام میں ہے تاکہ اس کا وجود کلّی عینیت سے مستنیر ہو سکے۔ موضوع اور معروض‘ ریاضیاتی خارج اور حیاتیاتی باطن میں موجود اس اختلاف نے عیسائیت کو متاثر کیا۔ مگر اسلام نے اس کو زیر کرنے کے لئے اس کا سامنا کیا۔ آج کی صورت حال میں انسانی مسئلے سے متعلق بنیادی رویے کے تعین کے بارے میں ان دو بڑے مذاہب کے نقطۂ نظر میں یہی بنیادی فرق ہے۔ دونوں انسان کے نفس روحانی کا اثبات چاہتے ہیں‘ مگر اسلام کے نقطۂ نظر میں صرف اس قدر فرق ہے کہ وہ عین اور حقیقت کے باہمی تعلق کی بناء پر مادی دنیا سے انسانی تعلق کا اثبات کرتا ہے۲۱؎ اور اس کی تسخیر کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے جس پر چل کر ہم زندگی کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کر سکیں۔ قرآن کی نظر میں اس کائنات کی ماہیت کیا ہے‘ جس میں ہم رہتے ہیں؟ اولاً یہ کہ کائنات کی تخلیق کھیل تماشا نہیں: وَمَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَo مَا خَلَقْنٰھُمَآاِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَo (۳۹-۳۸:۴۴) ۲۲؎ ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے اندر جو کچھ ہے‘ محض کھیل تماشا کے طور پر تخلیق نہیں کیا۔ ہم نے ان کو ایک نہایت سنجیدہ مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر زیادہ تر لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف ناگزیر ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہٰارِ لَأَیٰاتِ لِأُ وْلِی الْأَلْبَابِ o اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَیٰ جُنُوبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالَأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھَذَا بَاطِلاً (۱۹۱- ۱۹۰:۳) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں بڑی نشانیاں ہیں‘‘ اہل عقل کے لیے: وہ عقل مند جو یاد کرتے رہتے ہیں اﷲ تعالیٰ کو کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور پہلوئوں پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے رہتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور (تسلیم کرتے ہیں:) اے ہمارے مالک! نہیں پیدا فرمایا تونے یہ (کار خانہ ٔحیات) بے کار۔‘‘ کائنات کی ترکیب میں اب بھی وسعت کی گنجائش ہے: یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآئُ (۱:۳۵) ’’وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے‘ اضافہ کرتا ہے۔‘‘ ۲۳؎ کائنات کوئی جامد شے نہیں___ ایک تکمیل شدہ چیز___ جس میں کہ کسی تبدیلی یا تغیر کی گنجائش نہ ہو__ بلکہ شاید اس کے اندرون میں تو آفرنیش نو خوابیدہ ہے: قُلْ سِیرُواْفِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثَمَّ اﷲُیُنْشِیُٔ النَّشْأَۃَالْأَخِرَۃَ (۲۰:۲۹) ’’ان سے کہو کہ وہ زمین کی سیر کریں اور دیکھیں کہ خدا نے کس طرح اشیاء خلق کی ہیں۔ اس کے بعد بھی خدا انہیں دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کی یہ پراسرار جنبش و حرکت‘ دن اور رات کے آنے جانے میں نظر آنے والے وقت کا یہ بے آواز سلسلہ‘ خود قرآن حکیم کے نزدیک اﷲ کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے: یُقَلِّبُ اﷲُالَّیْلَ وَالنَّھَارَإِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَعِبْرَۃً لِأُوْلِی الْأَبْصَارِ (۴۴:۲۴) ’’خدا دن کو رات میں اور رات کو دن میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔ اس میں دیکھنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’زمانے کو بُرا مت کہو کیونکہ زمانہ تو خود خدا ہے۔‘‘۲۴؎ زمان و مکان کی یہ فراخی انسان کے سامنے مسخر ہونے کے لیے سرافگندہ ہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ خدا کی ان نشانیوں کو سمجھے اور ایسے ذرائع ڈھونڈ نکالے جن کی بدولت وہ کائنات کو حقیقتاً مسخر کر لے: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اﷲَ سَخَّرَ لَکُْم مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃً (۳۱:۲۰) ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے تمہارے لیے مسخر کر دیا جو کچھ آسمانوں میںہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور عام کردی ہیں اس نے تم پر ہر قسم کی نعمتیں ‘ ظاہری بھی اور باطنی بھی۔‘‘ وَسَخَّرَ لَکُمْ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتُ بِأَمْرِہِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَأَیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ (۱۲:۱۶) ’’ اور اﷲ تعالیٰ نے مسخر فرما دیا تمہارے لیے رات‘ دن‘ سورج اور چاند کو‘ اور تمام ستارے بھی اس کے حکم کے پابند ہیں۔ بے شک ان تمام چیزوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو دانشمند ہے۔‘‘ کائنات کی اس نوعیت کے پیش نظر جس نے انسان کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے‘ خود انسان کی اپنی حقیقت کیا ہے؟ متوازن اہلیتیں رکھنے کے باوجود بھی وہ زندگی کے درجات میں خود کو بہت کمتر پاتا ہے۔ اسے ہر طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہے: لَقَدْخَلَقْنَالإِْنْسَانَ فِیٓ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo ثُمّ رَدَدْنٰہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَo (۴:۹۵) ’’ہم نے انسان کو اعلیٰ صورت پر پیدا کیا۔ پھر اسے پستیوں میں لڑھکا دیا۔‘‘ ہم انسان کو اس ماحول میں کیسا دیکھتے ہیں؟ وہ ایک ایسی بے سکون روح ہے جو اپنے مدعا کو پانے لیے ہر شے کو بھول جاتی ہے۲۵؎ اور اپنے اظہار کے لیے نئے نئے موقعوں کی تلاش میں ہر دکھ درد سہہ جاتی ہے۔ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوصف وہ فطرت پر برتری رکھتا ہے۔ وہ ایک بارِ امانت کا امین ہے جسے قرآن کے الفاظ میں آسمانوں‘ زمین اور پہاڑوں نے اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَعَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَھَا وَأَشْفَقْنَ مِنْھَاوَحَمَلَھَا الإِْنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًاجَھُوْلًا (۷۲:۳۳) ’’ہم نے یہ امانت آسمانوں ‘ زمین اور پہاڑوں کو سونپنا چاہی۔ مگر انہوں نے اس کو اٹھانے سے معذوری ظاہر کر دی۔ اس بار امانت کو انسان نے قبول کر لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جلد باز ہے۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ انسان کی زندگی ایک نقطۂ آغاز رکھتی ہے‘ مگر شاید یہ بھی انسان کا مقدر تھا کہ ہستی کی تشکیل کا ایک مستقل حصہ بن جائے: أَیَحْسَبُ الإِْنْسَانُ أَن یُتْرَکَ سُدًیo أَ لَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَیٰoثُمَّ کَانَّ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّیٰo فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنْثَیٰٓo أَلَیْسَ ذَالَکَ بِقٰدِرٍعَلَیٰٓ أَن یُحْیِ الْمَوْتَیٰ (۴۰-۳۶:۷۵) ’’ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے مہمل چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ (ابتدا میں) منی کاایک قطرہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے۔ پھر اس سے وہ لوتھڑا بنا پھر اﷲ نے اسے بنایا اور اعضاء درست کیے‘ پھر اس سے دو قسمیں بنائیں۔ مرد اور عورت‘ کیا وہ (اتنی قدرت والا) اس پر قادر نہیں کہ مُردوں کو پھر زندہ کر دے؟‘‘ انسان میں یہ صلاحیت ودیعت ہے کہ وہ اپنے گردو پیش میں متوجہ کرنے والی چیزوں کو نئی صورت اور نئی سمت دے سکتا ہے۔ اور جہاں اسے رکاوٹ کا سامنا ہو تو اسے یہ قوت حاصل ہے کہ وہ اپنی ہستی کے اندرون میں زیادہ بڑی دنیا بسا لے جہاں اس کے لیے بے پناہ مسرت اور تحریک کے سرچشمے موجود ہیں۔ گلاب کی پتی سے بھی نازک تر اس وجود کی زندگی مصائب سے بھری پڑی ہے۔ اس کے باوجود بھی حقیقت کی کوئی صورت روح نسانی سے زیادہ باقوت ‘ خیال افروز اور حسین نہیں‘ چنانچہ انسان خود قرآن حکیم کے مطابق اپنی اصل میں ایک تخلیقی فعالیت ہے‘ ایک ارتقاء کوش روح ہے‘ جس کا صعودی سفر ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف جاری رہتا ہے: فَلَآ أُقْسِمُ بِالشَّفَقِo وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَo وَالْقَمَرإِذَا اتَّسَقَo لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ( ۱۹- ۱۶:۸۳) ’’پس میں قسم کھاتاہوں شفق کی‘ اور رات کی اور جن کو وہ سمیٹے ہوئے ہے‘ اور چاند کی جب وہ ماہ کامل بن جائے۔ تمہیں (بتدریج) زینہ بہ زینہ چڑھنا ہے۔‘‘ انسان کے اندر یہ صفت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی گہری اُمنگوں میں شریک ہو اور کائنات کی قوتوں سے مطابقت یا انکو اپنی ضرورتوں اور مقاصد کے تحت ڈھال کر اپنا اور کائنات کا مقدر بنائے۔ اگر انسان اس کام کے آغاز کے لیے جرأت آزما ہو تو ارتقاء کے اس عمل میں خدا بھی اس کے ساتھ ہے: إِنَّ اﷲَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِھِمْ (۱۲:۱۳) ’’بے شک اﷲ تعالیٰ نہیں بدلتا کسی قوم کی حالت کو جب تک وہ لوگ خود اپنے آپ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے۔‘‘ اگر انسان کسی کام کے آغاز کے لیے جرأت آزما نہیں ہوتا ‘ اگر وہ اپنی ذات کے چھپے ہوئے جوہر کو فروغ نہیں دیتا‘ اگر وہ نمو پذیر زندگی کے لیے اپنے اندر کوئی تحریک نہیںپاتا تو اس کی روح پتھر کی طرح سخت ہوجاتی ہے اور وہ خود کو بے جان مادے کی سطح پر لے آتا ہے۔ لہٰذا اس کی زندگی اور اس کی روح کی بالیدگی کا مدار حقیقت سے رابطے پر ہے جس سے اس کا ماحول عبارت ہے۔ ۲۶؎ اس حقیقت سے رابطے کا وسیلہ علم ہے‘ اور علم حسی ادراک ہے جس میں فہم کی مدد سے وسعت پیدا ہوتی ہے: وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَ ٓئِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوٓا أَتَجْعَلُ فِیْھَا مَن یُفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیٓ أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَo وَعَلَّمَ ئَ ادَمَ الْأَسْمَائَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلَآئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسْمَآئِ ھَٰٓؤُلَآئِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo قَالُوْا سُبْحَانَکَ لَاعِلْمَ لَنَآإِلاَّ مَاعَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo قَالَ یٰآَدَمُ أَنبِئْھُمْ بِأَسْمَآئِھِمْ فَلَمَّآ أَنبَأَھُمْ بِأَسْمَآئِھِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیٓ أَعْلَمُ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ (۲۸- ۲۱:۲) ’’اور یاد کرو جب فرمایا تمہارے رب نے فرشتوں سے ’میں مقرر کرنے والا ہوں زمین میںایک نائب۔ کہنے لگے کیا تو مقرر کرتا ہے زمین میں‘ جو فساد برپا کرے گا اس میں اور خونریزیاں کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے لیے‘ فرمایا ’بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیںجانتے۔‘ اور اﷲ نے سکھا دیے آدم کوتمام اشیاء کے نام۔ پھر پیش کیا انہیں فرشتوں کے سامنے اور فرمایا ’بتائو تو مجھے نام ان چیزوں کے‘ اگر تم (اپنے اس خیال میں) سچّے ہو‘۔ عرض کرنے لگے ’ہر عیب سے پاک تو ہی ہے۔ کچھ علم نہیں ہمیں‘ مگر جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا۔ بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے‘۔ فرمایا ’اے آدم بتا دو انہیں ان چیزوں کے نام‘۔ تو اﷲ نے فرمایا ’کیا نہیں کہا تھا میں نے تم سے کہ میں خوب جانتا ہوں سب چھپی ہوئی چیزیں آسمانوںاور زمین کی ‘ اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے تھے‘۔ اِن آیات کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انسان اشیاء کو نام دینے کا ملکہ رکھتا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان‘ تصورات کی تشکیل کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ اشیاء کے تصورات کی تشکیل کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان اشیاء پر تصرف حاصل کر لیتا ہے۔ پس انسان کا علم تصوری ہے۔ اس تصوری علم کے ذریعے انسان قابل مشاہدہ حقیقت سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن حکیم کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ حقیقت کے اس قابل مشاہدہ پہلو پر زور دیتا ہے۔ قرآن کی چند آیات ملاحظہ ہوں: إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاَس وَمَآ أَنْزَلَ اﷲُ مِنَ السَّمَآئِ مِن مَّآئِ فَأَحْیَابِہِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَ تَصْرِیْفِ الرِّیَحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِبَیْنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ لَأَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ (۱۶۴:۲) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کی گردش میں اور جہازوں میں‘ جو چلتے ہیں سمندر میں ،وہ چیزیں اٹھاتے جو نفع پہنچاتی ہیں لوگوں کو‘ اور جو اتارا اﷲ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی ‘ پھر زندہ کیا اس کے ساتھ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد اور پھیلا دیے اس میں ہر قسم کے جانور‘ اور ہوائوں کے بدلتے رہنے میں اور بادل میں جو حکم کا پابند ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان لٹکتا رہتا ہے (ان سب میں) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ وَھُوَالَّذِیٓ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَأَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْ ئٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِھَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَجَنّٰتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِھًا وَغَیْرَ مُتَشٰابِہٍ انُظْرُوٓا إِلَیٰ ثَمَرِہِ إِذَآ أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ إِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَأَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ (۱۰۰:۶) ’’اور وہی ہے جس نے اُتارا بادل سے پانی۔ تو ہم نے نکالی اس کے ذریعے سے اگنے والی ہر چیز‘ پھر ہم نے نکال لیں اس سے ہری ہری بالیں‘ نکالتے ہیں اس سے (خوشہ جس میں) دانے ایک دوسرے پر چڑھے ہوتے ہیں اور (نکالتے ہیں)‘ انگور اور زیتون اور انار کے‘ بعض (شکل و ذائقہ میں) ایک جیسے ہیں اور بعض الگ الگ ۔ دیکھو ہر درخت کے پھل کی طرف جب وہ پھل دار ہو اور (دیکھو) اس کے پکنے کو۔ بے شک ان میںنشانیاں ہیں (اس کی قدرت کاملہ کی) اس قوم کے لیے جو ایماندار ہے۔‘‘ أَلَمْ تَرَ إِلَیٰ رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّالظِّلَّ وَلَوْشَآئَ لَجَعَلَہُ سَاکِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلاً ثُمَّ قَبَضْنٰہُ إِلَیْنَا قَبْضًا یَسِیْرًا (۴۶- ۴۵:۲۵) ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف؟ ایسے پھیلا دیتا ہے سائے کو۔ اور اگر چاہتا تو بنا دیتا اس کو ٹھہرا ہوا۔ پھر ہم نے بنا دیا آفتاب کو اس پر دلیل‘ پھر ہم سمیٹتے جاتے ہیں سائے کو اپنی طرف‘ آہستہ آہستہ!‘‘ أَفَلاَیَنْظُرُوْنَ إِلَی الإِْبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَإِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْo وَإِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْo وَإِلَی الْأَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْo (۲۰- ۱۸:۸۸) ’’کیا یہ لوگ (غور سے) اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے (عجیب طرح) پیدا کیا گیا ہے‘ اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے بلند کیا گیا ہے‘ اور پہاڑوں کی طرف کہ انہیں کیسے نصب کیا گیا ہے‘ اور زمین کی طرف کہ اسے کیسے بچھایا گیا ہے؟‘‘ وَمِنْ ئَ ایَٰتِہِ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَأَیٰتٍ لِلْعَلِمِیْنَ (۲۲:۳۰) ’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے‘ نیز تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف۔ بے شک‘ اس میں نشانیاں ہیں اہل علم کے لیے۔‘‘ بے شک قرآن حکیم کے نزدیک مشاہدۂ فطرت کا بنیادی مقصد انسان میں اُس حقیقت کا شعور اُجاگر کرنا ہے جس کے لئے فطرت کو ایک آیت یا نشانی قرار دیا گیا ہے‘ مگر مقام غور تو قرآن کا تجربی رویہ ہے جس نے مسلمانوں میں واقعیت کا احترام پیدا کیا اور یوں انہیں بالآخر عہد جدید کی سائنس کے بانی کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسلام نے مسلمانوں میں تجربی روح اس دور میں پیدا کی جب خدا کی جستجو میں مرئی کو بے وقعت سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے‘ قرآن حکیم کے مطابق کائنات ایک اہم مقصد رکھتی ہے۔ اس کی تغیر پذیر حقیقتیں ہمارے وجود کو نئی صورتیں قبول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہماری ذہنی کاوش اس راہ کی مشکلات دور کرتی ہے جس سے ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ انسانی مشاہدے کے نازک پہلوئوں کو جان سکیں۔ اور مرور زمانی میں اشیاء کے تعلق ہی سے لازمانی کے بارے میں نظر بصیر پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت خود کو اپنے مظاہرات ہی میں عیاں کرتی ہے۔ چنانچہ انسان جو متزاحم ماحول میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے محسوس کو پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ قرآن حکیم ہی نے ہماری آنکھیں تغیر کی حقیقت کے بارے میں کھولیں کہ صرف اسی کو جان کر اور اس پر حاوی ہو کر ایک پائیدار تہذیب کی بنیاد رکھنا ممکن ہے۔ایشیا کے‘ بلکہ درحقتیقت تمام قدیم دنیا کے سارے تمدن اس لئے ناکام ہوئے کہ انہوں نے حقیقت کو خاص طور پر داخلی تصور کیا اور داخل سے خارج کی طرف رخ کیا۔ اس طریق عمل سے وہ ایسے تصور پر پہنچے جو طاقت سے محروم تھا‘ اور طاقت سے محروم کسی تصور پر کسی پائیدار تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ علم الٰہی کے سرچشمے کے طور پر مذہبی مشاہدہ‘ تاریخی اعتبار سے ‘ اس مقصد کے لیے کیے گئے انسانی تجربے کی دیگر صورتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ قرآن‘ جو انسانیت کی روحانی زندگی میں اختیاری رویے کو ایک امر لازم تصور کرتا ہے حقیقت مطلقہ کے علم کے حصول میں انسانی تجربے کے تمام پہلوئوں کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ جس حقیقت کی علامات انسان کے ظاہر اور باطن میں منکشف ہوتی رہتی ہیں۔۲۷؎ حقیقت کو جاننے کا ایک طریقہ تو بالواسطہ ہے جس میں وہ حواس کے ذریعے ہم سے سابقہ رکھتی ہے اور ادراک بالحواس سے اپنی علامات ہم پرمنکشف کرتی ہے‘ تاہم دوسرا طریقہ حقیقت سے براہ راست تعلق کا ہے جو ہمارے اندرون میں ہم پر اپنا انکشاف کرتی ہے۔قرآن کے مطالعہ فطرت پر زور دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا فطرت سے گہرا تعلق ہے۔ فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے وقت غلبہ محض کے بجائے اس مقصد کو پیش نظر رکھنا زیادہ ضروری ہے کہ روحانی زندگی اعلیٰ مدارج کمال کی طرف آزادی سے بڑھ سکے۔ لہٰذا حقیقت کا ایک مکمل وقوف حاصل کرنے کے لئے ادراک بالحواس کے پہلو بہ پہلو دل، جسے قرآن قلب یا فواد کہتا ہے، کے مشاہدات سے بھی کام لینا چاہئے: الَّذِیٓ أَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَأَ خَلْقَالإِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍo ثُمَّ سُوَّاہُ وَنَفَخَ فَیْہِ مِنْ رُّوْحِہِ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاًً مَّاتَشْکُرُوْنَ (۹-۸:۳۲) ’’وہ جس نے بہت خوب بنایا جس چیز کو بھی بنایا ، اور ابتداء فرمائی انسان کی تخلیق کی گارے سے، پھر پیدا کیا اس کی نسل کو ایک جوہر سے یعنی حقیر پانی سے، پھر اس (قدوقامت) کو درست فرمایا اور پھونک دی اس میں اپنی روح اور بنا دیئے تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل۔ تم لوگ بہت کم شکر بجا لاتے ہو۔‘‘ قلب ایک باطنی وجدان یا بصیرت ہے جو مولاناروم کے خوب صورت الفاظ میں آفتاب حقیقت سے مستنیر ہوتا ہے اور جس کے ذریعے ہمارا حقیقت کے ان گوشوں سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے جو حواس کی حدود سے باہر ہیں۔ ۲۸؎ قرآن کے مطابق وہ دیکھتا ہے۔ اس کی فراہم کردہ اطلاعات کی اگر درست طور پر تعبیر کی جائے تو وہ کبھی غلط نہیں ٹھہرتیں۔ ۲۹؎ پھر بھی اسے کسی مخصوص پر اسرار طاقت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف حقیقت کو جاننے کا ایک طریق ہے جس میں ’عضویاتی مفہوم میں‘ حس کا کوئی دخل نہیں۔۳۰؎ تاہم اس طریق سے حاصل ہونے والا مشاہدہ بھی اتنا ہی ٹھوس اور حقیقی ہے جتنا کوئی دوسرا تجربہ اور مشاہدہ ٹھوس اور حقیقی ہو سکتا ہے۔ اس کے باطنی، صوفیانہ یا فوق الفطرت ہونے سے کسی دوسرے تجربے کے بالمقابل اس کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی۔ ابتدائی دور کے انسان کے لئے تو تمام مشاہدات ہی فوق الفطرت تھے۔ روز مرہ زندگی کی فوری احتیاجات نے اسے اپنے ان تجربات و مشاہدات کی تعبیر و تشریح پر آمادہ کر دیا۔ ان تعبیرات ہی سے بتدریج وہ ہمارے موجودہ تصور فطرت تک پہنچا۔ حقیقت کلی جو ہمارے وقوف میں آتی ہے اور ہماری تعبیر کے نتیجے میں ایک محسوس واقعیت کا روپ دھار لیتی ہے ہمارے شعور میں داخل ہونے کے اور بھی ذرائع اختیار کر سکتی ہے اور دیگر تعبیرات کے بھی امکانات رکھتی ہے۔ نوع انسانی کا الہامی اور متصوفانہ ادب اس حقیقت کی ایک معقول کسوٹی ہے کہ تاریخ انسانی میں مذہبی مشاہدے کا اثر غالب رہا ہے۔ اس لئے اسے محض ایک وہم کہہ کر ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس بات کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ عام انسانی تجربے کو تو حقیقت مان لیا جائے مگر مشاہدے کے دوسرے مراتب کو صوفیانہ اور جذباتی کہہ کر مسترد کر دیا جائے۔ مذہبی مشاہدات کے حقائق بھی دوسرے انسانی تجربات کے حقائق کی طرح ہی معتبرحقائق ہیں۔جہاں تک تعبیر کے نتیجے میں علم مہیا کرنے کا تعلق ہے تمام حقائق یکساں طور پر محکم ہیں۔ نہ ہی انسانی تجربے کے اس شعبے کو تنقیدی نظر سے دیکھنا کوئی بے ادبی کا رویہ ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے نفسی مظاہر کا سب سے پہلے تنقیدی لحاظ سے مشاہدہ کیا۔بخاری شریف اور حدیث کی دوسری کتب میں مفصل طور سے حضورؐ کے اس مشاہدے کی روداد موجود ہے جو مجذوب یہودی نوجوان ابن صیاد سے متعلق تھا جس کی واردات نفسی نے حضور ؐ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ ۳۱؎ آپؐ نے اس کی آزمائش کی، اس سے سوالات کئے اور اس کی مختلف حالتوں کا تجزیہ کیا۔ ایک دفعہ حضورؐ اس کی بڑبڑاہٹ سننے کے لئے درخت کی اوٹ میں چھپ گئے۔ ابن صیاد کی ماں نے حضورؐ کی آمد سے اسے خبر دار کر دیا جس پر اس لڑکے کی یہ حالت جاتی رہی۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا اگر اس کی ماں اس لڑکے کو اسی حال میں تنہا رہنے دیتی تو سارا معاملہ کھل جاتا۔۳۲؎ حضورؐ کے اصحابؓ جن میں سے بعض تاریخ اسلام کے اس پہلے نفسیاتی مشاہدے کے وقت وہاں موجود تھے اور اس کے بعد کے محدثین بھی جنہوں نے اس اہم واقعے کا مکمل ریکارڈ رکھنے میں بڑی احتیاط برتی، حضورؐ کے اس رویے کی نوعیت اور جواز کو درست طور پر نہ جان سکے اور انہوں نے اس کی توجیہہ اپنے اپنے معصومانہ انداز میں کی۔ پروفیسر میکڈونلڈ نے جنہیں شعور نبوت اور شعور ولایت کے بنیادی نفسیاتی فرق کا کوئی علم نہیں، اس واقعے کا یوں خاکہ اڑانے کی کوشش کی کہ جیسے نفسیات کی ریسرچ سوسائٹی ۳۳؎کے انداز میں ایک نبی دوسرے نبی کے بارے میں تحقیق کر رہا ہو میں آئندہ خطبے میں ذکر کروں گا ۳۴؎ کہ اگر پروفیسر میکڈونلڈ قرآن کی روح کو سمجھتے تو انہیں اس یہودی لڑکے کی نفسیاتی کیفیات کے مشاہدے میں اس ثقافتی تحریک کے بیج نظر آتے جس سے عہد جدید کے تجربی رویے نے جنم لیا۔ تاہم پہلا مسلمان جس نے پیغمبرؐ اسلام کے اس مشاہدے کے مفہوم اور قدروقیمت کو سمجھا ابن خلدون تھا۔ اس نے صوفیانہ شعور کے جوہر کو زیادہ تنقیدی انداز سے سمجھا۔ اس طرح وہ ’تحت الشعور‘ کے جدید نفسیاتی مفروضے کے انتہائی قریب پہنچ گیا۔۳۵؎ جیسا کہ پروفیسر میکڈونلڈ کہتا ہے ابن خلدون چند نہایت دلچسپ نفسیاتی خیالات کا حامل تھا اور یہ کہ اس کے نظریات ولیم جیمز کی کتاب ’’نفسیات واردات روحانی‘‘ میں پیش کردہ نظریات سے مماثلت رکھتے ہیں۔۳۶ ؎ جدید نفسیات نے حال ہی میں اس بات کو محسوس کیا ہے کہ اسے صوفیانہ شعور کے مشمولات کا بڑی احتیاط سے مطالعہ کرنا چاہئے مگر ہم ابھی تک اس مقام پر نہیں پہنچے کہ کسی سائنسی منہاج سے شعور کی ورائے عقل حالتوں کے مشمولات کا تجزیہ کر سکیں۔ اس خطبے کے لئے دیئے گئے مختصر وقت میں یہ بھی ممکن نہیں کہ میں اس تجربے کی تاریخ اور باطنی ثروت اور وضوح کے حوالے سے اس کے مختلف درجات کا جائزہ لوں۔ یہاں تو میں مذہبی تجربے کے بنیادی خواص کے بارے میں صرف چند عمومی مشاہدات ہی پیش کر سکوں گا: -1 پہلی اہم بات اس تجربے کا بلا واسطہ اور فوری ہونا ہے۔ اس لحاظ سے یہ تجربہ بھی دوسرے انسانی تجربات ہی کی طرح ہے جو علم کے لئے مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ تمام تجربے بلاواسطہ اور فوری ہوتے ہیں۔ جہاں تک عام تجربے کا تعلق ہے خارجی دنیا کے بارے میں ہمارے علم کا انحصار حسّی مواد کی مختلف تعبیرات پر ہوتا ہے۔ اسی طرح صوفیانہ تجربے کے باب میں تعبیرات ہی خدا کے بارے میں ہمارے علم کا باعث بنتی ہیں۔ صوفیانہ تجربے کے بلاواسطہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا کا اسی طرح سے علم حاصل کرتے ہیں جیسے کسی اور شے کا ۔ خدا کوئی ریاضیاتی قضیہ یا نظام تصورات نہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور جن کا کوئی تجربی حوالہ نہیں ہوتا۔۳۷؎ -2 دوسرا نکتہ صوفیانہ تجربے کی ناقابل تجزیہ کلّیت ہے۔ جب میں اپنے سامنے پڑی ہوئی میز کا مشاہدہ کرتا ہوں تو تجربے کے بے شمار مدلولات میرے اس میز کے تجربے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ مدلولات کی اس کثرت سے میں صرف اُن مدلولات کو منتخب کر لیتا ہوں جو زمان و مکان کے ایک خاص نظام میں آ جاتے ہیں اور اسے میں میز کا تجربہ کہتا ہوں۔ مگر صوفیانہ تجربے میں_ چاہے یہ تجربہ کتنا ہی واضح اور باثروت کیوں نہ ہو__ فکر کا عنصر کم سے کم ہو جاتا ہے اور اس قسم کا تجزیہ ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم جیسا کہ پروفیسر ولیم جیمز نے غلط طور پر سوچا‘ اس صوفیانہ تجربے کے عمومی عقلی شعور سے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عام شعور سے کٹا ہوا ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک ہی حقیقت ہے جو ہمارے روبرو ہوتی ہے۔ ہماری عملی ضرورت کے تحت ہمارا عمومی عقلی شعور ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے جزوی ہوتا ہے اور وہ ردعمل کے لیے مہیجات کے علیحدہ علیحدہ مجموعوں میں کامیابی سے منقسم ہو جاتا ہے جبکہ صوفیانہ حال ہمیں کلی طور پر حقیقت کے روبرو کرتا ہے جس میں مہیجات ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک ایسی ناقابل تجزیہ وحدت میں ڈھل جاتے ہیں جس میں موضوع اور معروض کی عمومی تفریق قائم نہیں رہتی۔ -3 تیسرا قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ صوفی کے لیے صوفیانہ حال ایک ایسا لمحہ ہے جس میں اس کا گہرا رابطہ ایک یکتا وجود دیگر سے ہوتا ہے۔ یہ وجود اس کی ذات سے ماورا مگر اس پر پورے طور پر حاوی ہوتا ہے اور تجربہ کرنے والے کی اپنی نجی شخصیت عارضی طور پر دب جاتی ہے۔ یوں اپنی نوعیت کے اعتبار سے صوفیانہ حال انتہائی معروضی ہوتا ہے اور اسے خاص موضوعیت پر مشتمل خیال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ایک قائم بالذات خدا کا فوری تجربہ کیسے ممکن ہے۔ حقیقت میں تو صوفیانہ حال کی انفعالیت سے زیر مشاہدہ وجود کی غیریت ثابت نہیں ہوتی۔ یہ سوال اس لیے ذہن میں پیدا ہوا کہ ہم نے بغیر کسی تحقیق و تنقید کے فرض کر لیا ہے کہ خارجی دنیا کے بارے میں ہمارا حواس کے ذریعے علم ہی تمام تر علم ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں اپنے وجود کی حقیقت کے بارے میں بھی یقین نہ ہو سکتا۔ تاہم اس کے جواب میں روزمرہ زندگی کی ایک مثال پیش کروں گا: ہم اپنے عمرانی تعلقات میں ایک دوسرے کے ذہن کو کیسے جانتے ہیں! یہ بات یقینی ہے کہ ہم اپنے وجود اور فطرت کو بالترتیب اپنے اندرونی تاثرات اور حواس کے ذریعے جانتے ہیں۔ دوسرے اذہان کے علم کے لئے کوئی حس ہمارے پاس نہیں ہے۔ میرے اس علم کی بنیاد میری جیسی ہی طبیعی حرکات ہیں جن پر میں دوسرے کی طبیعی حرکات کو قیاس کر لیتا ہوں‘ اور اس طرح اپنے شعور کے حوالے سے دوسرے کے شعور تک ابلاغ حاصل کرتا ہوں۔ یا ہم پروفیسر رائس کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ابنائے جنس ہمیں اس لیے حقیقی معلوم ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے اشاروں کا جواب دیتے ہیں اور اس طرح وہ مسلسل اپنے عمل کے ذریعے ہمارے اظہارات کو بامعنی بناتے ہیں۔ بے شک ردعمل ایک باشعور وجود کی موجودگی کا معیار ہے۔ قرآن حکیم کا بھی یہی ارشاد ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ (۶۰:۴۰) ’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو‘ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإِنِّی قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعَوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (۱۸۶:۲) ’’اور جب پوچھیں آپ سے (اے میرے حبیبؐ) میرے بندے‘ میرے متعلق تو (انہیں بتائو) میں (ان کے) بالکل نزدیک ہوں‘ قبول کرتا ہوں دعا‘ دعا کرنے والے کی جب وہ دعا مانگتا ہے۔‘‘ اب یہ بات واضح ہے کہ ہم طبیعی معیار کا اطلاق کریں یا غیر طبیعی کا‘ اور زیادہ مناسب طور پر پروفیسر رائس کے معیارکا‘ ہر صورت حال میں دوسروں کے بارے میں ہمارا علم استدلالی ہوگا۔ اس کے باوجود ہم محسوس کرتے ہیں کہ اذہان دیگر کے بارے میں ہمارا تجربہ بلاواسطہ ہوتا ہے اور اس امر میں ہمیں کبھی شبہ نہیں ہوتا کہ ہمارے عمرانی تجربے حقیقی ہیں۔ اس بحث سے میرا اس موقع پر مطلب یہ نہیں کہ ہم نفوس دیگر کے بارے میں علم کے ان مباحث کا اطلاق ایک محیط کل ہستی کے وجود حقیقی کے لئے ایک عینی دلیل فراہم کرنے پر کریں گے۔ میں تو محض یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صوفیانہ احوال کا تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ یہ ہمارے روزمرہ کے تجربے سے کسی طور مشابہت رکھتا ہے‘ اور شاید یہ دونوں تجربے ایک ہی قسم کے ہیں۔ ۴۔ چونکہ صوفیانہ تجربہ اپنی کیفیت میں بلاواسطہ تجربہ ہے لہٰذا اس کا ابلاغ ممکن نہیں۔۳۸؎ صوفیانہ احوال فکر سے زیادہ احساس ہیں‘ چنانچہ پیغمبر یا صوفی اپنے مذہبی شعور کے مشتملات کی تعبیر دوسروں تک قضایا کے ذریعے ہی پہنچا سکتا ہے مگر مذہبی شعور کے مشتملات کو بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ قرآن کی درج ذیل آیات کریمہ میں اس صوفیانہ تجربے کے مشمول کے بجائے اس کی نفسیات ہی بیان کی گئی ہے: وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَہُ اﷲُ إِلَّاوَحْیًا أَوْمِنْ وَرَآیِ حِجَابٍ أَوْیُرْسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ مَا یَشَآئُ إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ (۵۱:۴۲) ’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ (براہ راست) مگر وحی کے طور پر یا پس پردہ بھیجے کوئی پیغامبر فرشتہ اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اﷲ تعالیٰ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے۔‘‘ وَالنَّجْمِ إِذَا ھَوَیٰo مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوَیٰo وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰٓo إِنْ ھُوَ إِلَّاوَحْیٌ یُوحَیٰo عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُوَیٰo ذُوْمِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰo وَھُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَیٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیٰo فَأَوَحَیٰٓ إِلَیٰ عَبْدِہِ مَآ أَوْحَیٰ oمَاکَذَبَ الْفُئَوادُ مَارَأَیٰٓo أَفَتُمَٰرُوْنَہُ عَلَیٰ مَایَرَیٰo وَلَقَدْ رَئَ اہُ نَزْلَۃً اُخْرَیٰo عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھَیٰo عِنْدَھَا جَنَّۃَ الْمَأَوَیٰٓ oإِذَ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَایَغْشَیٰo مَازَاغَ الْبَصَرَ وَمَا طَغَیٰo لَقَدْ رَأَیٰ مِنْ ئَ ایَٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرَیٰٓo (۱۸-۱:۵۳) ’’قسم ہے اس (تابندہ) ستارے کی جب وہ نیچے اترا۔ تمہارا (زندگی بھر کا) ساتھی نہ راہ حق سے بھٹکا اور نہ بہکا۔ اور وہ تو بولتا ہی نہیں اپنی خواہش سے۔ نہیں ہے یہ مگر وحی جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ اسے سکھایا ہے زبردست قوتوں والے نے‘ بڑے دانا نے‘ پھر اس نے (بلندیوںکا) قصد کیا اور وہ سب سے اونچے کنارے پر تھا‘ پھر وہ قریب ہوا‘ اور قریب ہوا یہاں تک کہ صرف دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پس وحی کی اﷲ نے اپنے (محبوب) بندے کی طرف جو وحی کی۔ نہ جھٹلایا دل نے جو دیکھا (چشم مصطفیٰﷺ نے) کیا تم جھگڑتے ہو اس سے اس پر جو اس نے دیکھا۔ اور اس نے اسے دوبارہ بھی دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا‘ نہ درماندہ ہوئی چشم (مصطفیٰ ؐ) اور نہ (حد ادب سے) آگے بڑھی۔ یقینًا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ صوفیانہ مشاہدات کے ناقابل ابلاغ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر احساسات ہیں جن میں عقلی استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ صوفیانہ محسوسات میں بھی دیگر محسوسات کی طرح ادراکی عنصر موجود ہوتا ہے۔ اورمحسوسات میں ادراک کا یہ عنصر ان صوفیانہ مشاہدات کو تصورات علم میں متشکل کر سکتا ہے۔ درحقیقت احساس کی فطرت میں ہے کہ وہ فکر میں ڈھل جائے۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ احساس اور فکر دونوں داخلی مشاہدے کی وحدت کے علی الترتیب غیر زمانی اور زمانی پہلو ہیں۔ مگر یہاں میں اس ضمن میں بہتر ہو گا کہ پروفیسر ہاکنگس کا حوالہ دوں‘ جنہوں نے نہایت فاضلانہ طور پر مذہبی شعور کے مشمولات کے عقلی جواز میں محسوسات کے کردار کا مطالعہ کیا ہے: احساس سے سوا وہ کیا ہے جہاں احساس ختم ہو سکتا ہے‘ میرا جواب ہے ’کسی معروض کا شعور‘۔ احساس مکمل طور پر کسی با شعور ہستی کی بے قراریت ہے جس کا قرار اس کی اپنی حدود میں نہیں بلکہ اس سے ماورا ہے۔ احساس کا دبائو خارج کی طرف ہے جیسا کہ فکر باہر کی خبر دینے والا ہے۔ احساس اتنا اندھا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی معروض کے بارے میں فکر سے عاری ہو۔ احساس پیدا ہوتے ہی ذہن پر حاوی ہو جاتا ہے۔ احساس کے ایک اٹوٹ جزو کی حیثیت سے فکر وجہ تسکین بنتا ہے۔ احساس کا بے سمت ہونا اسی طرح ممکن ہے جیسے کسی عمل کا بے سمت ہونا۔ اور سمت کا مطلب ہے کوئی مقصود یا مطلوب۔ شعور کی کچھ ایسی مبہم حالتیں بھی ہیں جہاں ہمیں مکمل بے سمتی نظر آتی ہے مگر ایسے معاملات میں یہ بات غور طلب ہے کہ احساس بھی حالت التوا میں رہتا ہے۔ مثال کے طور پر میں کسی گھونسے سے حواس کھو دوں اور اس بات کا شعور نہ ہو کہ کیا ہوا ہے اور نہ مجھے کوئی درد محسوس ہو مگر اتنا شعور ہو کہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ تجربہ میرے شعور میں ایک حقیقت کے طور پر تو موجود ہو مگر اس کا مجھے احساس نہ ہو حتیٰ کہ کوئی خیال اسے اپنا لے اور وہ ایک ردعمل کی صورت اظہار پائے۔ اس لمحے اس کا تکلیف دہ ہونا ظاہر ہوگا۔ اگر میں اس بات کے اظہار میں درست ہوں تو احساس بھی فکر کی طرح معروضی شعور ہے۔ اس کا اشارہ ہمیشہ کسی ایسی چیز کی طرف ہو گا جو صاحب احساس کی ذات سے ماورا ہے اور جس کی طرف گویا رہنمائی کر رہا ہے اور جہاں پہنچ کر اس کا اپنا وجود ختم ہوجاتا ہے۔۳۹؎ لہٰذا آپ دیکھیںگے کہ احساس کی اس فطرت لازمہ کی وجہ سے مذہب اگرچہ احساس کے طور پر سامنے آتا ہے تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے خود کو محض احساس کے طور پر محدود رکھا ہو۔ بلکہ وہ تو مابعد الطبیعیات کی طرف راجع ہوتا ہے۔ صوفیاء کی علم کے معاملے میں عقل کی تنقیص حقیقت میں تاریخ مذہب میں کوئی جواز نہیں رکھتی۔ تاہم پروفیسر ہاکنگس کا محولہ بالااقتباس مذہب میں فکر کا جواز ثابت کرنے سے زیادہ وسعت رکھتا ہے۔ احساس اور فکر کے نامی تعلق سے ’’وحی باللفظ‘‘ کے اس پرانے الہیاتی تنازعہ پر بھی روشنی پڑتی ہے جو کبھی ہمارے متکلمین کے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔۴۰ ؎ غیر واضح احساس خود کو فکر کے ذریعے ہی ظاہر کرتا ہے جو اپنے لیے پیکر اظہار خود اپنے بطون میں سے تراشتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کوئی استعاراتی بات نہیں کہ احساس کے بطون ہی سے فکر اور لفظ بیک وقت پھوٹتے ہیں‘ اگرچہ منطقی تفہیم انہیں زمانی ترتیب میں الگ الگ رکھ کر اپنے لیے خود متعدد مشکلات کھڑی کر لیتی ہے۔ اسی مفہوم میں تو کہا جاتا ہے کہ وحی لفظًا ہی نازل ہوتی ہے۔ ۵۔ ذات ازلی سے ایک صوفی کا تعلق اسے زمان متسلسل کے غیر حقیقی ہونے کا احساس دلاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمان متسلسل سے اس کا رشتہ بالکل کٹ جاتا ہے۔ صوفیانہ تجربہ اپنی یکتائی کے باوجود کسی نہ کسی انداز میں عام تجربے سے متعلق رہتا ہے۔ اسی بناء پر یہ تجربہ جلد ہی ختم ہو جاتا ہے اگرچہ صاحب حال پر وثوق و اعتماد کا ایک گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ صوفی اور نبی دونوں تجربے کی عام سطح پر واپس آ جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ نبی کے واپس آ جانے سے بنی نوع انسان کے لئے بڑے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ جہاں تک حصول علم کاتعلق ہے صوفی کا تجربہ اتنا ہی حقیقی اور وقیع ہے جتنا کہ انسانی زندگی کا کوئی اور تجربہ ۔ اسے محض اس لیے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ حسی ادراک پر اٹھان نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ صوفیانہ تجربے کو متشخص کرنے والی عضوی کیفیات کی بنا پر اس کی روحانی قدرومنزلت کم کی جائے۔ اگر نفسیات جدید کے جسم اور ذہن کے تعامل کے بارے میں مفروضات کو بھی درست مان لیا جائے تو بھی انکشاف حقیقت کے بارے میں صوفیانہ تجربے کی قدرو قیمت کم نہیں ہوتی۔ نفسیات کی رو سے مذہبی اور غیر مذہبی مشمول رکھنے والے تمام احوال عضویاتی لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔۴۱؎ ذہن کی سائنسی صورت اصل کے اعتبار سے اتنی ہی عضویاتی ہے جتنی کہ مذہبی صورت۔ چنانچہ خود نفسیات دانوں کے عضویاتی قواعد بھی فطین اور عبقری انسانوں کی تخلیق کے بارے میں حکم لگاتے ہوئے ساقط ہو جاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی قبولیت کے لیے ایک خاص طرز کا مزاج لازم ہوتا ہے مگر یہ درست نہیں کہ جو کچھ قبول کیا جاتا ہے اس کی حقیقت اُس خاص مزاج کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری ذہنی حالتوں کی عضویاتی تعلیل کا ان معیارات سے کوئی تعلق نہیں جن سے ہم اقدار کے اعلیٰ و ادنیٰ ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ پروفیسر ولیم جیمز کہتا ہے کہ ’’کشف اور الہام میں سے بھی کچھ عام طور پر مہمل ہوتے ہیں۔ اور سیرت و کردار کے حوالے سے استغراق‘ وجد اور بے خودی یا تشنج کی بعض حالتیں بھی بے نتیجہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کو الوہی کہنا یا اہم کہنا بھی کسی طور پر مناسب نہیں ہوتا۔ مسیحی تصوف کی تاریخ میں بھی یہ ایک مشکل اور لایخل مسئلہ رہا ہے کہ الہام اور ایسے اعمال جو خدائی معجزات پر مشتمل ہیں اور وہ جو کسی بدروح کی طرف سے شیطانی عمل کے نتیجے میں وارد ہوتے ہیں اور کسی مذہبی انسان کو دوگونہ جہنمی بنا دیتے ہیں کے درمیان فرق کیسے کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے بہترین ذہنوں کی دانائی اور تجربے کو بروئے کار لانا پڑا۔ بالآخر انہوں نے ہمارا تجربی معیار اپنایا تم انہیں ان کی جڑوں سے نہیں بلکہ پھل سے پہچانو گے۔ ۴۲؎ درحقیقت پروفیسر ولیم جیمزنے مسیحی تصوف کے جس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے‘ وہ تصوف کا عمومی مسئلہ ہے کیونکہ شیطان اپنے بغض کی وجہ سے صوفی کے مشاہدات میں ایسی تبدیلی کر سکتا ہے کہ صوفی اس سے فریب کھا جائے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَانَبِیٍّ إِلَّآ إِذَا تَمَنَّیٰٓ أَلْقَی الشَّیْطَانُ فِیٓ أُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اﷲ ُمَایُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اﷲُ ئَ ایَٰتِہِ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (۵۲:۲۲) ’’ اور نہیں بھیجا ہم نے آپؐ سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر اس کے ساتھ کہ جب اس نے پڑھا تو ڈال دیے شیطان نے اس کے پڑھنے میں (شکوک) پس مٹا دیتا ہے اﷲ تعالیٰ جو دخل اندازی کرتا ہے شیطان‘ پھر پختہ کر دیتا ہے اپنی آیات کو۔‘‘ ۴۳؎ سگمنڈ فرائڈ کے پیروکاروں نے صوفی کے الوہی مشاہدات سے شیطانی وسوسوں کو خارج کرنے کے ضمن میں مذہب کی بے پناہ خدمت کی ہے۔ اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ نفسیات جدیدہ کے بنیادی نظریے کی تصدیق کسی ٹھوس شہادت سے ابھی تک نہیں ہو سکی۔ اگر خواب یا بعض دوسری حالتوں میں جب ہم پورے طور پر اپنے آپ میں نہ ہوں کچھ منتشر مہیجات ہم پر حاوی ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے تحت الشعور کے کسی کباڑخانے میں پڑے ہوئے تھے۔ اگر ہمارے یہ دبے ہوئے مہیجات تحت الشعور سے کبھی شعور میں آ جائیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ ہمارے روزمرہ نظام عمل میں قدرے تغیر واقع ہو گیا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ذہن کے کسی تاریک کونے میں مسلسل دبی پڑی تھیں۔ المختصر اس نظریے کا ماحصل یہ ہے کہ ماحول سے مطابقت پذیری کے دوران ہمیں مختلف قسم کے محرکات سے سابقہ پڑتا ہے۔ ہمارا معمول کا ردعمل آہستہ آہستہ ایک لگے بندے نظام میں تحویل ہو جاتا ہے۔اس طرح تسلسل کے ساتھ ان محرکات کو قبول کرنے سے ردعمل کا ایک مستقل نظام قائم ہو جاتا ہے۔ یہ مسترد محرکات ہمارے ذہن کے ’’لاشعور‘‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہاں وہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں جب موقع ملے وہ ہمارے ماسکۂ نفس پر اپنے انتقام کے لیے دبائو ڈالیں۔اس طرح وہ ہمارے فکروعمل میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں‘ ہمارے خواب و خیال کی تشکیل کر سکتے ہیں یا وہ ہمیں بہت پیچھے انسانی رویے کی ان ابتدائی صورتوں کی طرف لے جا سکتے ہیں جنہیں ہم اپنے ارتقاء کے دوران بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ مذہب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ محض افسانہ ہے جو نوع انسانی کی طرف سے مسترد محرکات کا پیدا کردہ ہے جن کا مقصد ایک طرح کے ایسے پرستانِ خیال کی تشکیل ہے جہاں بلا روک ٹوک حرکت کی جا سکے۔ اس نظریے کے مطابق مذہبی اعتقادات اور ایمانیات کی حیثیت فطرت کے بارے میں انسان کے ابتدائی تصورات سے زیادہ کچھ نہیں جس سے انسان حقیقت کو ابتدائی آلائشوں سے پاک کرکے اس کی تشکیل اپنی امنگوں اور آرزئوں کے حوالے سے دیکھنا چاہتا ہے جس کی تصدیق زندگی کے حقائق سے نہیں ہوتی۔ مجھے اس امر سے انکار نہیں کہ مذہب اور فن کی مختلف ایسی صورتیں موجود ہیں جن سے زندگی کے حقائق سے بزدلانہ فرار کی راہ ہموار ہوئی۔ میرا دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ یہ بات تمام مذاہب کے بارے میں درست نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مذہبی ایمانیات اور اعتقادات مابعد الطبیعی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی حیثیت ان تعبیرات کی سی نہیں جو علوم فطرت سے متعلقہ تجربات کا موضوع ہیں۔ مذہب طبیعیات یا کیمیا نہیں کہ وہ علت و معلول کے ذریعے فطرت کی عقدہ کشائی کرے۔ اس کا مقصد تو انسانی تجربے کے ایک بالکل ہی مختلف میدان سے ہے۔ یعنی مذہبی تجربہ جسے کسی سائنسی تجربے پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت یہ کہنا درست ہے کہ مذہب نے سائنس سے بھی پہلے ٹھوس تجربے کی ضرورت پر زور دیا۔ مذہب اور سائنس میں یہ تنازعہ نہیں کہ ایک ٹھوس تجربے پر قائم ہے اور دوسرا نہیں۔ شروع میں دونوں کا تجربہ ٹھوس ہوتا ہے۔ ۴۴؎ ان دونوں کے مابین نزاع کا سبب یہ غلط فہمی ہے کہ دونوں ایک ہی تجربے کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب کا مقصد انسانی محسوسات و تجربات کی ایک خاص نوع کی کنہہ تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ مذہبی شعور کی تشریح و تفہیم اس کے مافیہ کو جنسی تہیجات کا نتیجہ قرار دے کر بھی نہیں کی جا سکتی۔ شعور کی دونوں صورتیں ’جنسی اور مذہبی‘ زیادہ تر ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہیں یا دونوں اپنے کردار ‘ مقاصد اور اس طرز عمل کے لحاظ سے جو ان سے مترتب ہوتا ہے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جذب مذہبی کی حالت میں ہم ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں جو ایک مفہوم میں ہماری ذات کے تنگ دائرے سے باہر موجود ہے۔ مگر ماہر نفسیات کے نزدیک جذب مذہبی اپنی شدت کی بنا پر جو ہمارے وجود کی گہرائی میں تہلکہ مچا دیتی ہے لازمی طور پر ہمارے تحت الشعور کی کارفرمائی معلوم ہوتی ہے۔ ہر نوع کے علم میں جذب کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس کی شدت میں اتار چڑھائو سے علم کے موضوع کو اپنی معروضیت میں اتار چڑھائو کا سامنا رہتا ہے۔ ہمارے لئے تو وہی حقیقی ہے جو ہماری شخصیت کو ہلا دیتا ہے جیسا کہ پروفیسر ہاکنگس نے نکتہ آفرینی کی ہے کہ اگر کسی صوفی یا عام انسان کو اپنے محدود اور بے بصیرت نفس زمانی میں کوئی ایسا جلوہ نظر آتا ہے جس سے اس کی اور ہماری زندگی ایک نئے دھارے میں بدل جاتی ہے تو اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ حقیقت سرمدی اپنی تمام تر محسوسیت کے ساتھ اس کی روح پر حاوی ہو گئی ہے۔ اس تجلی سے بلاشبہ تحت الشعوری آمادگی کااظہار ہوتا ہے۔ اور یوں تحت الشعور نوازی کا۔ لیکن غیر استعمال شدہ ہوا کے پھیلائو کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم باہر کی ہوا میں سانس لینا ہی تر ک کر دیں بلکہ اس کے برعکس ہمیں اس تازہ ہوا میں سانس لینا چاہیے۔ ۴۵؎ لہٰذا نرے نفسیاتی منہاج سے جذب مذہبی کو علم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے جدید ماہرین نفسیات کے لیے ناکامی اسی طرح مقدر ہے جس طرح جان لاک اور لارڈ ہیوم کے لئے تھی۔ متذکرہ بالابحث سے آپ کے ذہن میں لازمی طور پر ایک اہم سوال پیدا ہوا ہوگا۔ میں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی مشاہدہ ایک ایسی کیفیت احساس ہے جس میں ادراک کا پہلو موجود ہوتا ہے اورجسے دوسروں کے سامنے تصدیقات کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے مگر اس کے مافیہ کا ابلاغ ممکن نہیں۔ اب اگر ایک تصدیق جو انسانی تجربے کے کسی ایسے خاص عالم کی توضیح و تعبیر ہونے کا دعویٰ کرتی ہو، جو میری پہنچ سے باہر ہواور اسے میرے سامنے تسلیم کرنے کے لئے پیش کیا جائے تو مجھے یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ اس کی صداقت کی ضمانت کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا معیار ہے جو اس کی صداقت ہم پر ظاہر کر دے۔ اگر ذاتی تجربہ ہی اس طرح کی تصدیق کی قبولیت کی اساس ہوتا تو اس صورت میں مذہب چند افراد کی ملکیت ہی ہو سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایسے معیارات ہیں جو ان معیارات سے مختلف نہیں ہیں جن کا اطلاق دوسرے علوم پر بھی ہوتا ہے ۔ انہیں میں عقلی اور نتائجی معیارات کہوں گا۔ عقلی معیار سے میری مراد کسی مفروضہ کے بغیر ایک تنقیدی تعبیر و تشریح ہے جس کا مقصد اس امر کی یافت ہے کہ کیا ہماری تعبیرات بالآخر ہمیں اسی حقیقت تک لے جاتی ہیں جو مذہبی تجربے سے ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ نتائجی معیار اس کے ثمرات کے حوالے سے اس کا جائزہ لیتا ہے ۔پہلے معیار کا اطلاق فلسفی کرتے ہیں، دوسرے کا انبیا۔ اگلے خطبے میں، میں عقلی معیار کا اطلاق کروں گا۔ (۲) مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار ’’ مذہب کے عزائم فلسفے کے عزائم سے بلند ہوتے ہیں۔ فلسفہ اشیاء کے بارے میں عقلی نقطۂ نظر ہے اور وہ اس تصور سے آگے نہیں بڑھتا جو تجربے کی کثرث کو ایک تنظیم میں لا سکے۔ وہ گویا حقیقت کو قدرے فاصلے پر دیکھتا ہے۔ مذہب حقیقت سے زیادہ گہرے تعلق کا متلاشی ہے،، اقبالؒ مدرسی فلسفے نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں تین دلائل دیئے ہیں۔ یہ دلائل جو کونیاتی یا علتی ‘ غایتی یا مقصدی اور وجودیاتی کے ناموں سے معروف ہیں حقیقت مطلقہ کی جستجو میں انسانی فکر کی حقیقی پیش رفت سے عبارت ہیں۔ مگر میرے خیال میں منطقی دلائل کی حیثیت سے ان پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں ان کی بنیاد تجربے کی محض سطحی تعبیر ہے۔ کونیاتی یا علتی دلیل دنیا کو ایک متناہی معلول تصور کرتی ہے اور ایک دوسرے پر منحصر مقدمات و موخرات جنہیں علل و معلولات کہتے ہیں کے سلسلے میں سے گزرنے کے بعد ایک ایسی علت اولیٰ پر رُک جاتی ہے جس کی اپنی کوئی علّت نہیں اور یہ اس بنا پہ کہ لامتناہی پس روی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ متناہی معلول کی علت بھی متناہی ہو گی یا زیادہ سے زیادہ ایسی علّتوںکا ایک لامتناہی تسلسل ہو گا۔ علل و معلولات کے سلسلے کو کسی ایک نکتے پر روک دینا اور سلسلے کے کسی ایک رکن کو علّت العلل کا درجہ دے دینا تعلیل کے خود اس قانون کی نفی ہے جس پر یہ دلیل استوار ہے۔ مزید برآںیہ دلیل جس علّت اوّل تک پہنچتی ہے اس کا معلول اس سے لازمی طور پر خارج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معلول اپنی علّت کی تحدید کرتے ہوئے اسے محدود بنا دیتا ہے۔ اور پھر اس استدلال سے نتیجۃً حاصل ہونے والی علّت اوّل لازمی طور پر ایک واجب الوجود ہستی نہیں ہو گی کیونکہ ایک علتی رشتے میں علت اور معلول برابر طور پر ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس استدلال سے صرف یہ مترشح ہوتا ہے کہ علّیت کا تصور ناگزیر ہے، یہ نہیں کہ ایک واجب الوجود ہستی حقیقۃً موجود بھی ہے۔ اس دلیل کی اصل کوشش یہ ہے کہ وہ متناہی کی نفی سے لامتناہی تک پہنچے۔ اب اگر لامتناہی تک متناہی کو رد کرتے ہوئے پہنچا گیا ہے تو وہ ایک کاذب لامتناہی ہوگا جو نہ تو خود اپنی توضیح کرتا ہے اور نہ متناہی کی جو کہ لامتناہی کے مخالف کھڑا ہے۔ ایک سچا لامتناہی‘ متناہی کو اپنے سے خارج نہیں سمجھتا۔ وہ متناہی کی حیثیت پر اثر ڈالے بغیر اس پر حاوی ہوتا ہے اور اس کے وجود کو توضیح اور جواز فراہم کرتا ہے۔ منطقی طور پر یوں کہا جائے گا کہ متناہی سے لامتناہی تک اس استدلال کا مجوزہ سفر ناجائز ہے۔ اس طرح یہ دلیل مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے۔ غایتی دلیل اس کونیاتی دلیل سے کچھ بہتر نہیں۔ یہ معلول کو جانچتی ہے تاکہ اس کی علت کی نوعیت کو دریافت کر سکے۔ فطرت میں موجود پیش بینی، مقصدیت اور تطابق کے آثار سے یہ ایک ایسی ہستی کو ثابت کرتی ہے جو شعور بالذات اور علم و قدرت کی حامل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ دلیل ہمیں ایک ایسے ماہر کاری گر کا تصور دیتی ہے جو پہلے سے موجود مردہ اور بے تربیت مادے پر کام کرتا ہے جس کے اجزا اپنی فطرت میں اس قابل نہیں کہ وہ خود ترتیب پا سکیں اور ایک ڈھانچہ متشکل کر سکیں۔ یہ دلیل ایک صانع کا تصور دیتی ہے، ایک خالق کا تصور نہیں دیتی۔ اور اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ وہ اس مادے کا پیدا کرنے والا بھی ہے تو یہ اس کی حکیمانہ ذات کے لئے کوئی اعزاز کی بات نہیں ہو گی کہ وہ پہلے تو ایک بے ترتیب مادے کی تخلیق اور پھر اس متزاحم مادے کی اصل فطرت سے متغائر منہاجوں کے اطلاق سے اسے اپنے قابو میں کرنے کی مشکل میں پڑے۔ ایک ایسا صانع جسے اپنے خام مواد سے الگ تصور کیا جاتا ہے اُسے یہ خام مواد لازمی طور پر محدود کر دیتا ہے۔ اس محدود صانع کے محدود ذرائع اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لئے وہی رویہ اختیار کرے جو ایک انسان بحیثیت صانع کے اختیار کرتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ دلیل جس نہج پر آگے بڑھتی ہے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ انسانی صنعت گری اور مظاہر فطرت میں کوئی باہمی مشابہت نہیں۔ انسانی صناعی اپنے مواد کو اس کے قدرتی علائق اور مقام سے علیحدہ کئے بغیر کسی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر سکتی جبکہ فطرت ایک ایسا نظام ہے جس کے مظاہر ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں۔ اس کا طریق عمل کسی کاریگر کے کام سے کوئی بھی مشابہت نہیں رکھتا کیونکہ اس کا انحصار اپنے خام مال کو الگ الگ کرنے اور پھر جوڑنے سے ہو گا لہٰذا فطرت کی نامیاتی وحدتوں کے ارتقاء سے اس کی کوئی مماثلت نہیں۔ وجودیاتی دلیل، جو مختلف مفکرین کی طرف سے مختلف شکلوں میں پیش کی جاتی ہے، نے بہت سے اہل فکر حضرات کو متاثر کیا ہے۔اس دلیل کی کارتیسی صورت کچھ یوں ہے: ’’جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی شے کی ہیئت یا اس کے تصور میں اس کی صفت موجود ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے یہ کہا جائے کہ اس کی یہ صفت درست ہے اور یہ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ صفت اس کے اندر موجود ہے۔ اب خدا کی ہیئت اور تصور میں وجود لازم موجود ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ خدا کے لئے وجود لازم ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں خدا موجود ہے۔ ‘‘ ۱ ؎ ڈیکارٹ اس دلیل کے ساتھ ایک اور دلیل کا اضافہ کرتا ہے: ’’ہمارے ذہن میں ایک اکمل ہستی کا تصور موجود ہے۔ اس تصور کا مبداء کیا ہے۔ یہ تصور فطرت نے پیدا نہیں کیا کیونکہ فطرت تو محض تغیر ہے۔ وہ ایک اکمل ہستی کا تصور پیدا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس تصور کے مقابل ایک معروضی ہستی موجود ہے جو ہمارے ذہن میں اس اکمل ہستی کا تصور پیدا کرتی ہے‘‘۔ یہ دلیل بھی اپنی فطرت میں ایک طرح سے کونیاتی دلیل جیسی ہے جس پر پہلے ہی تنقید کی جا چکی ہے۔ تاہم اس دلیل کی جو بھی صورت ہو یہ بات تو واضح ہے کہ کسی وجود کا تصور اس وجود کی معروضی موجودگی کا ثبوت ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جیسے کانٹ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین سو ڈالروں کا میرے ذہن میں تصور یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میری جیب میں تین سو ڈالر واقعۃً موجود ہیں۔ ۲؎ جو کچھ اس دلیل سے مترشح ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک مکمل وجود کے تصور میں اس کی ہستی کا تصور موجود ہے۔ میرے ذہن میں ایک مکمل ہستی کے تصور اور اس ہستی کی معروضی حقیقت کے درمیان ایک خلیج ہے جو محض فکر کے ماورائی عمل سے نہیں پاٹی جا سکتی۔ یہ دلیل، جیسا کہ اسے بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں ایک مغالطہ ہے جسے منطق میں مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں ۳؎ کیونکہ اس میں دعوی کو جس کے لیے ہم دلیل چاہتے ہیں پہلے ہی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس طرح منطقی حقیقت کو واقعی حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ میں نے غایتی اور وجودیاتی دلائل، جیسا کہ وہ عام طور پر بیان کئے جاتے ہیں، کے بارے میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ہمیں کہیں بھی نہیں پہنچاتے۔ ان کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ فکر کو ایک ایسی قوت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو چیزوں پر خارج سے عمل کرتی ہے۔ یہ طرز فکر ایک جانب ہمیں محض ایک میکانکیت عطا کرتا ہے اور دوسری جانب یہ حقیقت اور تصور میں ایک ناقابل عبور خلیج حائل کر دیتا ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ ہم فکر کو محض ایک اُصول کی طرز پر نہ لیں جو خارج سے اپنے مادہ کی تنظیم و تربیت کرتا ہے بلکہ بطور ایک ایسی استعداد کے دیکھیں جو اپنے مادہ کی صورت گری خود کرتا ہے۔ اس مفہوم میں فکر یا تصور اشیاء کی اصل فطرت سے متغائر نہیں رہے گا بلکہ ان کی حتمی اساس اور اشیاء کے جوہر کا تشکیل کرنے والا ہو گا جو ان کے کرداروں میں شروع سے ہی اثر انداز ہے اور انہیں ان کے متعین کردہ نصب العین کی طرف حرکت زن رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ مگر ہماری موجودہ صورت حال تو فکر اور وجود کی ثنویت کو ناگزیر تصور کرتی ہے۔ انسانی عمل کا ہر سانحہ صحیح تحقیق و تفتیش کے بعد ایک وحدت ثابت ہونے والی حقیقت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے: ایک نفس جو کہ جانتا ہے اور ایک شی دیگر جسے کہ جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے بالمقابل معلوم کو معروض گرداننے پر مجبور ہیں، جواز خود موجود ہے‘ جو نفس سے خارج بھی ہے اور خود مختار بھی اور جانے جانے کے عمل سے بے نیاز ہے۔ غایتی اور وجودیاتی دلائل کی صحیح نوعیت اس وقت ظاہر ہو گی جب ہم یہ ثابت کر سکیں کہ موجودہ انسانی صورت حال حتمی نہیںاور یہ کہ فکر اور وجود بالآخر ایک ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم قرآنی منہاج کے مطابق احتیاط کے ساتھ تجربے کا تجزیہ کرکے اس کی توجیہ کریں__ وہ منہاج جو باطنی اور خارجی دونوں قسم کے تجربات کو اُس حقیقت کی نشانیاں تصور کرتا ہے ۴؎ جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی، جو نظر بھی آتا ہے اور جو نظروں سے اوجھل بھی ہے ۔ ۵؎ اس خطبہ میں یہی چیز میرے پیش نظر ہے۔ مشاہدہ جب زمان میں اپنی گرہیں کھولتا ہے تو وہ خود کو تین درجات میں ظاہر کرتا ہے: ۱- مادی سطح پر ۲- زندگی کی سطح پر ۳- ذہن و شعور کی سطح پر جو بالترتیب طبیعیات ، حیاتیات اور نفسیات کے موضوعات ہیں۔ آئیے سب سے پہلے مادہ کی طرف توجہ دیں۔جدید طبیعیات کے حقیقی مقام کو جاننے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم واضح طور پر یہ سمجھیں کہ مادہ سے ہماری مراد کیا ہے۔ طبیعیات ایک تجربی علم ہے جو حسی تجربے کے حقائق سے بحث کرتا ہے۔ طبیعیات کا آغاز محسوس مظاہر سے ہوتا ہے اور انہی پر اس کی انتہا ہے جن کے بغیر ماہر طبیعیات کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے نظریات کی تصدیق کر سکے۔ وہ ناقابل ادراک موجودات مثلاً ایٹم وغیرہ کو مفروضے کے طور پر قبول کر سکتا ہے۔ مگر وہ ایسا اسی وقت کرتا ہے جب حسی تجربے کو واضح کرنے کے لیے اُس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ طبیعیات مادی دنیا کا مطالعہ کرتی ہے ‘ یعنی وہ دنیا جو ہمارے حواس سے منکشف ہوتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے ذہنی عوامل اور اسی طرح مذہبی اور جمالیاتی مشاہدات بھی متعلق ہوتے ہیں لیکن یہ اُس کے دائرہ بحث میں شامل نہیں ہوتے کیونکہ یہ دائرہ بحث مادی دنیا یعنی اشیائے مدرکہ کی کائنات تک محدود ہے۔ مگر جب میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ مادی دنیا میں کن چیزوں کا ادراک کرتے ہیں تو یقینی طور پر آپ اپنے اردگرد کی معروف اشیاء کا حوالہ دیں گے مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ‘ کرسی‘ میز وغیرہ۔ جب میں پھر آپ سے پوچھوں کہ آپ حقیقتًا ان اشیاء کی کس بات کا ادراک کرتے ہیں تو آپ کا جواب ہو گا کہ ان اشیاء کی صفات کا۔ اب یہ واضح ہے اس طرح کے سوال کے جواب میں ہم اپنے حسی انکشافات کی توجیہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تعبیر شے اور اس کی صفات کے درمیان امتیاز پر مشتمل ہے جو دراصل ایک مادی نظریہ ہے۔ یعنی مدلولات حواس کیا ہے۔ ادراک کرنے والے ذہن سے ان کا کیا تعلق ہے اور ان کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یوں ہے۔ حواس کے معروض مثلاً رنگ اور آواز وغیرہ ادراک کرنے والے ذہن کی اپنی حالتیں ہیں اور یوں وہ فطرت کی معروضیت سے خارج ہیں۔ اس بنا پر وہ کسی بھی مفہوم میں مادی اشیاء کے خواص نہیں ہوتے۔ جب میں کہتاہوں ’’آسمان نیلا ہے‘‘ تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آسمان میرے ذہن پر نیلے پن کی حس مرتسم کرتا ہے ورنہ نیلا رنگ کوئی ایسی صفت نہیں جو آسمان میں پائی جاتی ہے۔ ذہنی حالتوں کے بطور یہ ارتسامات ہیں جو ہمارے اندرتاثرات پیدا کرتے ہیں۔ ان تاثرات کی وجہ مادہ یا مادی اشیاء ہیں جو ہمارے اعضائے حس، اعصاب اور دماغ کے ذریعے ہمارے ذہن پر عمل کرتی ہیں۔ یہ مادی علت چونکہ تعلق یا تصادم کے ذریعے عمل پیرا ہوتی ہے لہٰذا یہ شکل، حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات رکھتی ہے۔ ۶؎ یہ فلسفی برکلے تھا جس نے مادہ کو ہمارے حواس کی ایک نامعلوم علت ماننے کے نظریے کا ابطال کیا۔ ۷؎ ہمارے اپنے عہد میں وائٹ ہیڈ ایک ممتاز ماہر ریاضی اور سائنس دان ہے جس نے حتمی طور پر یہ واضح کیا ہے کہ مادیت کا روایتی نظریہ کاملاً ناقابل قبول ہے۔ واضح رہے کہ اس نظریے میں رنگ‘ آوازیں وغیرہ محض موضوعی حالتیں ہیں، وہ فطرت کا حصہ نہیں۔ جو کچھ آنکھ اور کان کی وساطت سے موصول ہوتا ہے وہ نہ رنگ ہے اور نہ آواز: وہ ایتھر کی نظر نہ آنے والی اور ہوا کی سنائی نہ دینے والی لہریں ہیں۔ فطرت وہ نہیں جو ہمیں معلوم ہے۔ ہمارے ادراکات ہمارے واہمے ہیں۔ انہیں کسی طور بھی فطرت کے ترجمان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس نظریے کے تحت فطرت دو حصوں میں تقسیم ہے: ایک طرف ذہنی ارتسامات ہیں تو دوسری طرف ناقابل تصدیق اور ناقابل ادراک اشیاء ہیں جو ان ارتسامات کو پیدا کرتی ہیں۔ اگر طبیعیات فی الواقعہ اشیائے مدرکہ کے مرتب اور منظم علم پر مشتمل ہے تو مادے کے روایتی نظریے کو اس بنا پر مسترد کر دینا چاہیے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعیات مشاہدہ اور تجربہ کرنے والے کی حیثیت سے لازمی طور پر انحصار کرتا ہے مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی ارتسامات میں تحویل کر دیتا ہے۔یہ نظریہ فطرت اور شاہد فطرت کے مابین ایک خلیج حائل کرتا ہے جسے عبور کرنے کے لیے اسے کسی ناقابل ادراک شے کا ایک بے اعتبار مفروضہ گھڑنا پڑتا ہے جس نے مطلق مکان کو خلا میں پڑی کسی شے کی طرح گھیر رکھا ہے اور جو کسی تصادم کے سبب حواس کی علت ہے۔ پروفیسر وائیٹ ہیڈ کے الفاظ میں اس نظریے کی رو سے فطرت کا نصف ایک خواب اور نصف ظن و تخمین تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ ۸ ؎ چنانچہ طبیعیات کے لئے اب خود اپنی ہی بنیادوں پر تنقید ناگزیر ہو گئی ہے جس کی بنا پر اس کے اپنے بنائے ہوئے بت بھی از خود ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اور حواسی رویہ جو سائنسی مادیت کی احتیاج کے طور پر ظاہر ہوا تھا اب مادہ کے خلاف ہو گیا ہے۔ اب چونکہ اشیاء موضوعی حالتیں نہیں جن کا سبب ناقابل ادراک شے یعنی مادہ ہے وہ حقیقی مظاہر ہیں جن سے فطرت کا ہیولیٰ متشکل ہوتا ہے اورجن کو ہم فطرت کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ تاہم ایک اور ممتاز ماہر طبیعیات آئن سٹائن نے تو مادہ کے تصور کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ اس کی دریافتوں نے انسانی فکر کے پورے نظام میں ایک دور رس انقلاب کی بنیادیں فراہم کر دیں ہیں۔ لارڈ ولیم برٹرینڈ رسل کے بقول ’’نظریہ اضافیت نے زمان کو ’مکان۔ زمان‘ میں مدغم کرکے جواہر کے روایتی نظریے پر کاری ضرب لگائی ہے جو فلاسفہ کے دلائل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فہم عامہ کے نزدیک مادہ زمان میں ہے اور مکان میں حرکت کرتا ہے مگر جدید اضافیت کی طبیعیات میں یہ امر اب قابل قبول نہیں۔ مادے کا ایک ٹکڑا اب بدلتی ہوئی حالتوں میں برقرار رہنے والی چیز نہیں رہا بلکہ باہم مربوط واقعات کا ایک نظام ہے۔ مادہ کی ٹھوس جسمیت مہمل ہو کر رہ گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ خواص بھی جو مادئیین کے نزدیک مادے کو خیالات پریشان سے زیادہ حقیقی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ پروفیسر وائیٹ ہیڈ کے نزدیک فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں جو ایک غیر متحرک خلا میں واقع ہو بلکہ واقعات کا ایک ایسا نظام ہے جو ایک مسلسل تخلیقی بہائو کی صفت رکھتا ہے جسے فکر انسانی جدا جدا ایسے ساکنات میں بانٹ دیتا ہے جن کے آپس کے تعلق سے زمان و مکان کے تصورات وجود پاتے ہیں۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح جدید سائنس نے برکلے کی تنقید کو درست مانا جسے کبھی سائنس کی بنیادوں پر حملہ کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ فطرت کو خالص مادی سمجھنے کا سائنسی رویہ نیوٹن کے اس نظریہ سے متعلق ہے جس کے مطابق مکان ایک خلائے مطلق ہے جس میں اشیاء رکھی ہیں۔ سائنس کے اس رویے سے یقینی طور پر اس کی ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے مگر تجربے کی وحدت کی دو مخالف خانوں ذہن اور مادہ میں تقسیم نے اب اسے اپنی داخلی مشکلات کے تحت مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر دوبارہ غور کرے جسے اس نے شروع میں مکمل طور پر نظر اندازکر دیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کی بنیادوں پر تنقید نے واشگاف طور پر اس مفروضے کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے کہ مادہ مکان مطلق میں واقع کوئی قائم بالذات شے ہے۔ کیا مکان ایک قائم بالذات خلا ہے جس میں اشیاء موجود ہیں اور اگر تمام اشیاء اس میں سے نکال لی جائیں تو وہ پھر بھی موجود رہے گا؟ ۹؎ قدیم یونانی فلسفی زینو نے مکان کو مکان میں حرکت کے مسئلے کے حوالے سے دیکھا۔ حرکت کے غیر حقیقی ہونے کے بارے میں اس کے دلائل سے فلسفے کے طلبا پوری طرح آگاہ ہیں۔ اس کے عہد سے لیکر اب تک یہ مسئلہ تاریخ فکر میں موجود چلا آ رہا ہے اور اس نے مفکرین کی کئی نسلوں کی گہری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہاں اس کے دو دلائل کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ زینو‘ جس نے مکان کو لامحدود طور پر قابل تقسیم کہا تھا‘ نے استدلال کیا کہ مکان میں حرکت ممکن نہیں۔ اس سے قبل کہ حرکت کرنے والا جسم اپنی منزل کے نقطہ تک پہنچے اسے اس مکان کے اس نصف تک پہنچنا ہو گا جو آغاز منزل اور اختتام منزل کے مابین ہے اور قبل اس کے کہ وہ اس نصف میں سے گزرے اسے اس کے نصف تک پہنچنا ہو گا۔ چنانچہ اس طرح یہ سلسلہ لامحدود طور پر جاری رہے گا۔ یوں ہم مکان کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک مکان کے لامحدود درمیانی نکات سے گزرے بغیر حرکت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم محدود زمان میں لامحدود نکاتِ مکان سے گزرسکیں۔ وہ مزید استدلال کرتا ہے کہ ایک اڑتا ہوا تیر کبھی حرکت نہیں کرتا کیونکہ اپنی اڑان کے دوران کسی وقت بھی وہ مکان کے کسی نکتہ پر ضرور ساکن ہو گا۔ یوں زینو کا خیال تھا کہ حرکت بظاہر تو دکھائی دیتی ہے لیکن دراصل یہ محض ایک التباس ہے۔ حقیقت ایک ہے جس میں کوئی حرکت نہیں۔ حرکت کے غیر حقیقی ہونے کا مطلب مکان کے قائم بالذات ہونے کے تصور کا غیر حقیقی ہونا ہے۔ اشعری مکتب کے مسلم مفکرین زمان و مکان کے غیر محدود طور پر منقسم ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں زمان و مکان اور حرکت جن نکات اور لمحات سے وجود پاتے ہیں وہ مزید تقسیم نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ بے حد خفیف اور ناقابل تقسیم سالمات کی موجودگی کے مفروضہ پر حرکت کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔ اب اگر زمان و مکان کے منقسم ہونے پر کوئی حد ہے تو زمانِ محدود میں مکان کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک حرکت ممکن ہو گی۔ ۱۰؎ تاہم ابن حزم نے اشاعرہ کے نقطہ نظر کو ردّ کر دیا تھا جس کی جدید ریاضی دانوں نے توثیق کر دی ہے چنانچہ اشاعرہ کی دلیل منطقی طور پر زینو کے متناقضات کا حل نہیں ہے۔ ۱۱؎ عہد جدید کے دو مفکرین فرانس کے فلسفی ہنری برگساں اور برطانیہ کے ریاضی دان لارڈ ولیم برٹرینڈ رسل نے زینو کے دلائل کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ برگساں تو حرکت بحیثیت تغیر محض کو ہی اصل حقیقت قرار دیتا ہے۔ زینو کے متناقضات کی بنیاد زمان و مکان کے غلط تصور پر ہے جنہیں برگساں حرکت کے محض ایک عقلی ادراک سے تعبیر کرتا ہے۔ یہاں یہ ممکن نہیں کہ برگساں کی دلیل کو حیات کے اُس مابعد الطبیعیاتی تصور کو پوری طرح بیان کئے بغیر آگے بڑھایا جاسکے جس پر یہ دلیل قائم ہے۔ ۱۲؎ رسل کی دلیل کانٹور کے ریاضیاتی تسلسل کے نظریے پر مبنی ہے ۱۳؎ جسے اس نے جدید ریاضیاتی دریافتوں میں سے اہم ترین گردانا ہے۔ ۱۴؎ واضح رہے کہ زینو کی دلیل اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ زمان و مکان لا محدود نکات اور لمحات پر مشتمل ہیں۔ اس مفروضہ پر یہ استدلال کرنا آسان ہے کہ چونکہ دو نکات کے درمیان حرکت کرنے والی شے بے مکان ہو گی اس لئے حرکت ناممکن ہے کیونکہ وہاں کوئی جگہ ہی نہیں ہو گی جہاں وہ حرکت کر سکے۔ کانٹور کی دریافت بتاتی ہے کہ زمان و مکان مسلسل ہیں۔ مکان کے کسی بھی دو نکات کے درمیان لاتعداد نکات ہیں اور ایک غیر محدود سلسلہ ہائے نکات میں کوئی نکتہ بھی ایک دوسرے سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتا۔زمان و مکان کے غیر محدود قابل تقسیم ہونے کا مطلب نکات کی ایک متسلسل پیوستگی ہے: اس کا مطلب یہ نہیں کہ نکات آپس میں الگ تھلگ ہیں یعنی یہ کہ وہ ایک دوسرے کے درمیان خلا رکھتے ہیں۔ چنانچہ رسل زینو کی دلیل کے جواب میںکہتا ہے: زینو کہتاہے آپ کس طرح ایک لمحے میں ایک مقام سے دوسرے لمحے میں دوسرے مقام تک جا سکتے ہیں جبکہ آپ کسی لمحے کسی ایک مقام پر موجود ہی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک مقام سے آگے کوئی دوسرا مقام نہیںاور کوئی لمحہ دوسرے لمحے کے بعد نہیں۔ کیونکہ کسی بھی دو کے درمیان کوئی تیسرا ضرور موجود ہوتا ہے۔ اگر لایتجزات کا وجود ہوتا تو حرکت ناممکن ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔ اس طرح زینو یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اپنی پرواز کے ہر لمحے میں تیر ساکن ہو گا مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ وہ حرکت نہیں کرتا۔ یہ اس لیے کہ لمحوںکے غیر محدود سلسلے اور نقاط کے غیر محدود سلسلے کے پس منظر میں دوران حرکت میں ہر نقطے کے بالمقابل ایک لمحہ ضرور ہو گا۔ اس نظریے کی روشنی میں زینو کی دلیل کے متناقضات سے بچتے ہوئے زمان و مکان اور حرکت کی حقیقت کا اثبات کیا جا سکتا ہے۔ ۱۵؎ اس طرح برٹرینڈ رسل نے کانٹور کے نظریۂ تسلسل کی بنیاد پر حرکت کی حقیقت کو ثابت کیا۔ حرکت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مکان ایک خود مختار حقیقت ہے اور فطرت کی حیثیت معروضی ہے مگر تشخصِ تسلسل اور مکان کے لامحدود تجزیہ کے بعد بھی حرکت کے مسئلے میں درپیش مشکل حل نہیں ہوتی۔ یہ فرض کر لینے کے بعد کہ وقت کے ایک محدود وقفے میںواقعات کی لامحدود کثرت کے مابین اور ایک محدود حصہ مکان میں لامحدود نکات کی کثرت کے اندر ہر لمحے کے مقابلے میں ایک نکتہ اور ہر نکتے کے مقابلے میں ایک لمحہ موجود ہے مکان کے تجزیہ سے پیدا ہونے والی مشکل تو ویسے ہی رہے گی۔ تسلسل کے ریاضیاتی تصور کا بطور ایک لامحدود سلسلے کے حرکت بطور عمل پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ حرکت کی اس تصویر پر ہوتا ہے جسے ہم خارج سے دیکھتے ہیں۔عمل حرکت یعنی حرکت جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں نہ کہ جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں‘ کسی تجربے اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تیر کی پرواز مکان میں سفر کی حیثیت سے قابل تقسیم ہے۔ مگر بحیثیت ایک عمل، قطع نظر اس تعلق کے جو اسے مرور فی المکان سے ہے، اسے ایک وحدت اور کسی قسم کی کثرت میں ناقابل تقسیم قرار دینا پڑے گا۔اس کی تقسیم اس کو ختم کرنے کے مترادف ہو گی۔ آئن سٹائن کے خیال میں مکان ایک حقیقت ہے مگر اس کائنات کا مشاہدہ کرنے والے کے نزدیک اضافی ہے۔ وہ نیوٹن کے مکانِ مطلق کے تصور کو مسترد کرتا ہے۔ مشاہدہ کیا جانے والا معروض تغیر پذیر ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے والے کے لیے اضافی ہے۔ اس کی کمیت‘ شکل اور حجم میں مشاہدہ کرنے والے کی حالت و رفتار اور ماہیت کے مطابق تغیر آتا جائے گا۔ حرکت اور سکون بھی مشاہدہ کرنے والے کے لیے اضافی ہیں۔ لہٰذا قدیم طبیعیات کے نظریے کے مطابق خود مختار مادہ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ متذکرہ بالا مفہوم میں مشاہدے کے لفظ کے استعمال نے ولڈن کار کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ نظریہ اضافیت لازمی طور پر جو ہر واحد کو تصوریت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نظریہ اضافیت کی رو سے اشیاء کی شکلیں ان کے حجم اور دوران مطلق نہیں مگر‘ جیسا کہ پروفیسر نن نے نشاندہی کی ہے‘ نظمِ زمان و مکان شاہد کے ذہن پر منحصر نہیں: اس کا انحصار اس مادی کائنات کے اُس نقطے پر ہے جس سے اس کا جسم وابستہ ہے۔در حقیقت شاہد کی جگہ پر بڑی آسانی کے ساتھ ایک ریکارڈنگ کرنے والے آلے کو رکھا جا سکتا ہے۔ ۱۶؎ ذاتی طور پر میرا یقین یہ ہے کہ حقیقت کی اصل روحانی ہے۔ تاہم ایک بڑی اور عام غلط فہمی سے بچنے کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ بطور ایک سائنسی نظریے کے محض اشیاء کی ترکیب سے معاملہ کرتا ہے: وہ ترکیب میں شامل اشیاء کی حتمی فطرت کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں دیتا۔ اس نظریے کی فلسفیانہ اہمیت دو طرح سے ہے۔ اوّل تو یہ کہ یہ فطرت کی موضوعیت کو مسترد نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اس سادہ تصور کو مسترد کرتا ہے کہ جو ہر مکان میں واقع ہے: اس نقطہ نظر نے قدیم طبیعیات کے نظریۂ مادیت کو جنم دیا تھا۔ جو ہر جدید اضافی طبیعیات میں تغیر پذیر حالتوں کے ساتھ کوئی جامد شے نہیں بلکہ باہم دگر مربوط واقعات کا ایک نظام ہے۔ وائٹ ہیڈ کی پیش کردہ اس نظریے کی صورت کے مطابق تصور مادہ کی جگہ اب مکمل طور پر تصور وجود نامی نے لے لی ہے۔ دوسرے‘ اس نظریے کی رو سے مکان کا انحصار مادہ پرہے۔ آئن سٹائن کے مطابق کائنات غیرمحدود مکان میں کسی جزیرے کی طرح نہیں: یہ متناہی مگر غیر محدودہے۔ اس سے ماورا مکان محض کا کوئی وجود نہیں۔مادہ کی عدم موجودگی میں کائنات ایک نقطہ میں سمٹ جائے گی۔ تاہم اُس نکتہ نظر سے دیکھتے ہوئے جسے میں نے ان خطبات میں پیش کیا ہے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں ایک بڑی مشکل ہے اور وہ یہ کہ اس کے لحاظ سے زمان بھی غیر حقیقی ہو جائے گا۔ ایک نظریہ جو زمان سے مکان کے چوتھے بُعد کی قسم کی کوئی چیز مراد لیتا ہے وہ لازماً مستقبل کو پہلے سے طے شدہ شے کی حیثیت میں قبول کرے گا ۱۷؎ جس طرح ماضی کو متعینہ حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق زمان بحیثیت ایک آزاد تخلیقی حرکت ایک بے معنی تصور ہو گا۔ گویا وہ گزرتا نہیں۔ اس میں واقعات رونما نہیں ہوتے: صرف ہم ان واقعات سے دو چار ہوتے ہیں۔ تاہم لازمی طور پر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ نظریہ زمان کے ان ضروری خواص کو نظر انداز کرتا ہے جو ہمارے تجربے میں آتے ہیں۔ اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ زمان کی فطرت ان خواص سے محتوی ہے جنہیں یہ نظریہ فطرت کے ان پہلوئوں کو ایک باقاعدہ ترتیب دینے کے لئے بیان کرتا ہے جن کا ریاضیاتی مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک عام آدمی کے لیے ممکن ہے کہ وہ آئن سٹائن کے نظریہ زمان کی حقیقی نوعیت کو سمجھ سکے۔ یہ بات حتمی ہے کہ آئن سٹائن کا تصور زمان، برگساں کا تصور امتداد خالص نہیں۔ اور نہ ہم اسے ایک زمان مسلسل کہہ سکتے ہیں۔ زمان مسلسل تو بقول کانٹ قانون علت و معلول کی بنیاد ہے۔ علت و معلول آپس میں یوں متعلق ہیں کہ اوّل الذکر ترتیب زمانی میں موخر الذکر کا مقدم ہے۔ لہٰذا اگر اوّل الذکر موجود نہیں تو لازم ہے کہ موخر الذکر بھی موجود نہیں ہو گا۔ اگر ریاضیاتی زمان و مکان مسلسل ہے تو پھر اس نظریے کے تحت ممکن ہو گا کہ مبصر کی رفتار کے محتاط انتخاب کے ساتھ اور اس نظام کی رفتار کے ساتھ جس میں واقعات رونما ہو رہے ہیں معلول علت سے مقدم ہو جائے۔۱۸؎ مجھے ایسا لگتا ہے کہ زمان کو مکان کے بُعد رابع کے طور پر لینا درحقیقت زمان کو ختم کرنا ہے۔ ایک جدید روسی مصنف اوسپنسکی نے اپنی کتاب میں جس کا نام ’’تیسرا نظام‘‘ ہے کہا ہے کہ بُعد رابع سے مراد ایک سہ بعدی شکل کی اُس جانب حرکت ہے جو اس شکل کے اپنے اندر موجود نہیں۔ جیسے نکتہ‘ خط اور سطح کی اس سمت حرکت جو ان میں نہیں پائی جاتی ہمیں مکان کی تین عام ابعاد کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح سہ بعدی شکل کی ایسی سمت حرکت جو اس میں موجود نہیں۱۹؎ ہمیں مکان کے بعد رابع کا پتہ دیتی ہے۔ اب چونکہ زمان ایک فاصلہ ہے جو واقعات کو ایک دوسرے سے جدا اور ان کی ترتیب یکے بعد دیگرے کرتا ہے اور انہیں مختلف خانوں میں بانٹتا ہے یہ واضح ہے کہ یہ فاصلہ اُس سمت میں ہے جو سہ بُعدی مکان میں موجود نہیں۔ اس طرح فاصلہ جو ایک نئے بُعد کی حیثیت سے واقعات کو یکے بعد دیگرے میں منقسم کرتا ہے سہ بُعدی مکان کے ابعاد سے اُسی طرح متبائن ہے جس طرح سال سینٹ پیٹرس برگ سے متبائن ہے۔ یہ سہ بُعدی مکان کی تمام سمتوں کے لیے عمودی ہے اور کسی کے بھی متوازی نہیں۔ اسی کتاب میں کسی اور مقام پر اوسپنسکی نے ہمارے حس زمانی کو ایک مبہم حس مکان بتایا ہے اور ہماری نفسیاتی ساخت کو بنیاد بناتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ایک‘ دو اور تین بُعد والی ہستیوں میں سے ہر ایک کو بلند تر بُعد ہمیشہ زماتی تواتر ہی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم سہ بُعدی ہستیاں جسے زمان کہتے ہیں وہ دراصل مکان کا ہی ایک بُعد ہے جسے ہم کما حقہ ‘ محسوس نہیں کرتے لیکن جو فی الحقیقت اقلیدس کے ابعاد سے‘ جن کو صحیح طور پر محسوس کرتے ہیں‘ بالکل مختلف نہیں۔ دوسرے الفاظ میں زمان ایک صحیح تخلیقی حرکت نہیں اور جنہیں ہم مستقبل کے واقعات کہتے ہیں وہ کوئی تازہ واقعات یا وقوعات نہیں بلکہ ایک نامعلوم مقام میں مقیم پہلے سے موجود اشیاء ہیں۔ تاہم اقلیدس کے سہ ابعاد سے مختلف ایک نئی سمت میں اپنی تحقیق کے دوران اوسپنسکی کو حقیقی تسلسل زمان کی ضرورت محسوس ہوئی__ ایک ایسا فاصلہ جو تسلسل کے لحاظ سے واقعات کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ چنانچہ زمان جس کو ایک مقام پر اس لئے متسلسل ٹھہرا یا گیا کہ وہاں اس حیثیت سے اس کی ضرورت تھی۔ لہٰذا اس کا وجود بھی تسلیم کر لیا گیا دوسرے مقام پر یہ اس خصوصیت سے محروم ہو گیا حتیٰ کہ اس میں اور خطوط و ابعاد مکانی میں فرق ختم ہو گیا۔ یہ زمان کی خاصیت تواتر کی وجہ سے تھا کہ اوسپنسکی نے اسے مکان کی ایک نئی سمت کے بطور قبول کیا۔ اگر درحقیقت یہ خاصیت ایک فریب ہے تو اس سے اوسپنسکی کی وہ ضرورت کہ اسے واقعۃً ایک نیا بُعد قرار دے کیسے پوری ہو سکتی ہے؟ آئیے اب تجربے کے دوسرے مدارج یعنی حیات اور شعور پر نظر ڈالیں۔ شعور کو یوں بھی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ زندگی سے ہی متفرع ہے۔ اس کا وظیفہ یہ ہے کہ ایسا دائرہ نور فراہم کرے جس سے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کو روشنی ملتی رہے۔ ۲۰؎ یہ ایک ایسے تنائو کی کیفیت __ خود اپنے آپ میں مرتکز ہونے کی کیفیتہیجس کے ذریعے زندگی ان تمام یادوں اور علائق سے خود کو علیحدہ کر لیتی ہے جن کا اس کے موجودہ عمل سے رشتہ نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی واضح اور متعینہ حدود نہیں۔ یہ موقعہ اور ضرورت کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اس کو اعمال مادی کے پس مظہر کے طور پر بیان کرنا اس کی خود مختارانہ فعالیت سے انکار ہے اور اس کی خود مختارانہ فعالیت سے انکارکا مطلب علم کی صحت سے انکار ہے جو صرف شعور کا ہی ایک مربوط اظہار ہے۔ چنانچہ شعور زندگی کے خالص روحانی اُصول کی ایک نوع ہے جوہر نہیں بلکہ ایک اُصول ناظمہ ہے، ایک مخصوص طریق کار جو لازمی طور پر اس کردار سے مختلف ہے وہ میکانکی لحاظ سے خارج سے کام کرتا ہے۔ چونکہ ہم ایک خالصتًا روحانی توانائی کا تصور نہیں کر سکتے ماسوائے ایک متعین محسوس عناصر کی ترتیب کے تعلق سے جن کے ذریعے وہ خود اپنا اظہار کرتی ہے ہمارے لیے یہی موزوں ہے کہ ہم اس ترتیب کو روحانی توانائی کی حتمی اساس کے طور پر قبول کر لیں۔ نیوٹن کی مادہ کے میدان میں اور ڈارون کی تاریخ فطرت کے ضمن میں دریافتیں ایک خاص میکانکیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ تمام مسائل دراصل طبیعیات کے مسائل ہیں۔ توانائی اور جوہر‘ ان خواص کے ساتھ جو ان کے اندر قائم بالذات موجود ہیں‘ ہر شے‘ بشمول حیات‘ فکر‘ ارادہ اور احساس ‘ کی توجیہ کر سکتے ہیں۔ میکانکیت کا تصور جو ایک خالصتًا طبیعی تصور ہے فطرت کے بارے میں کلیۃً توضیح کرنے کا دعویدار تھا۔ اس میکانکیت کے خلاف اور حمایت میں علم حیاتیات کے میدان میں ایک زبردست جنگ آج بھی جاری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حقیقت تک رسائی کا راستہ جو حواس کا مرہون منت ہے کیا اُس حقیقت مطلق تک پہنچتا ہے جو لازمی طور پر مذہب کی حقیقت مطلق سے مختلف ہے۔ کیا فطری علوم آخرش مادیت سے وابستگی رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں۔ مگر ہمیں یقیناً یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کے جزوی مطالعات کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک کلی تجربے کے جزوی مطالعات جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ فطری علوم کا تعلق مادہ، زندگی اور ذہن سے ہے لیکن جونہی آپ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ مادہ، زندگی اور ذہن کس طرح آپس میں متعلق ہیں تو آپ کو ان علوم کے جزوی رویوں کا یقین ہو جاتا ہے اور اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی علم آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ حقیقتاً ان علوم کی حیثیت فطرت کے مردہ جسم پر منڈلانے والی گِدھوں کی سی ہے جو اس کے جسم سے گوشت کے مختلف ٹکڑے ہی حاصل کر سکی ہیں۔ سائنس کے موضوع کے طور پر فطرت ایک مصنوعی سی بات بن جاتی ہے۔ اس تصنع کی وجہ وہ انتخابی عمل ہے جو سائنس کو اپنے نتائج میں حتمیت حاصل کرنے کی خاطر اپنانا پڑتا ہے۔ جس لمحے آپ سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ اپنا ایک بالکل مختلف کردار ظاہر کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ مذہب، جو حقیقت کو کلی طور پر جاننا چاہتا ہے اور جو انسانی تجربے کی کلیت میں یقینی طور پر ایک مرکزی مقام رکھتا ہے، کو حقیقت کے کسی جزوی نقطہ نظر سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔فطری علوم اپنی فطرت میں جزوی ہیں۔ اگر یہ علوم اپنی فطرت اور اپنے وظیفے کے بارے میں سچے ہیں تو وہ کلی نہیں ہو سکتے اور نہ کوئی ایسا تصور قائم کر سکتے ہیں جو حقیقت کے کلی تصور پر مشتمل ہو۔ لہٰذا علم کی تشکیل میں جو تصورات ہم کام میں لاتے ہیں وہ اپنی نوعیت میں جزوی ہوتے ہیں اور ان کا اطلاق کسی تجربے کی مخصوص سطح کی مناسبت سے اضافی ہوتا ہے۔ مثلاً علّت کا تصور جس کا لازمی خاصہ یہ ہے کہ وہ معلول سے پہلے ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی طبیعی علم کے مخصوص موضوع اور مواد کے حوالے سے اضافی ہوتا ہے۔ جب ہم زندگی اور ذہن کی سطح پر آتے ہیں تو یہ علت کا تصور ہمیں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا ہم اس کے لیے ایک دوسرے طرز کے نظام تصورات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ایک زندہ عضویہ کے عمل کی تحریک اور منصوبہ بندی اس کے مقصد کے حوالے سے ہوتی ہے جو ایک علت و معلول والے عمل سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے مطالعے کا موضوع‘ مقصد اور نصب العین کے تصورات کا متقاضی ہے جن کا عمل داخل سے ہوتا ہے جبکہ علت معلول پر خارج سے اثرانداز ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زندہ عضویہ کی سرگرمیوں کے ایسے بھی پہلو ہیں جو فطرت کی دوسری اشیاء جیسے ہوتے ہیں۔ان پہلوئوں کے مطالعہ میں طبیعیات اور کیمیا کی ضرورت پڑتی ہے مگر عضویہ کا کردار لازمی طور پروراثت سے متشکل ہوتا ہے اور اس کی توضیح سالماتی طبیعیات کی رو سے نہیں کی جا سکتی۔ تاہم میکانکیت کے تصور کا اطلاق زندگی پر کیا گیا ہے اور ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس سلسلے میں کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے میں ماہر حیاتیات نہیں ہوں لہٰذا مجھے مدد کے لیے ماہرین حیاتیات کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ زندہ عضویہ اور ایک مشین میں بنیادی فرق کی نشاندی کرتے ہوئے کہ محض مقدم الذکر ہی اپنی ہستی کو برقرار رکھتا ہے اور توالدو تناسل کا اہل ہے جے۔ ایس ہالڈین کہتا ہے: کہ اول الذکر اپنے وجود کو خود سنبھالنے والا، اپنی نسل خود قائم رکھنے والا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگرچہ ہم ایک زندہ عضویہ کے اندر بہت سے مظہر پاتے ہیں جن کی __ اگر ہم بنظر غائرنہ دیکھیں__ اطمینان بخش طریقے سے طبیعیاتی اور کیمیاوی میکانکیت کے تحت تشریح ہو سکتی ہے۔ ان کے پہلو بہ پہلو دوسرے مظاہر ہیں (مثلا خود کو قائم رکھنے والا اور توالدو تناسل کی صلاحیت رکھنے والا مظہر) جن کی ایسی توضیح کے امکانات عنقا ہیں۔ ماہرین میکانکیت فرض کر لیتے ہیں کہ جسمانی مشین اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ خود کو قائم رکھ سکے‘ اپنی مرمت کر سکے اور اپنی نسل کو بڑھا سکے۔ ان کاخیال ہے کہ طبیعی انتخاب کے طویل عمل کے بعد آہستہ آہستہ اس قسم کے میکانکی جسموں کا ارتقاء ہوا۔ آئیے اس مفروضے کا تجزیہ کریں۔ جب ہم کسی واقعہ کو میکانکی اصطلاحات میں بیان کرتے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ علیحدہ علیحدہ اجزاء کے ان مخصوص سادہ خواص کا لازمی نتیجہ ہے جو اُس واقعہ میں باہم دگر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس توضیح یا واقعے کو دوبارہ بیان کرنے کا جو ہر یہ ہے کہ مناسب تحقیق و تفتیش کے بعد ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ واقعات میں جو اجزاء ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ کچھ مخصوص اور متعین خواص رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس طرح کی صورت حال میں اسی طریقے سے اثرانداز ہوں گے۔ میکانکی توضیح کے لیے رد عمل دینے والے اجزا کو لازمی طور پر پہلے موجود ہونا چاہیے۔ جب تک ان اجزا کی ترتیب اور ان کے حتمی خواص کا علم نہ ہو اس وقت تک اس میکانکی توضیح کے بارے میں کچھ کہنا بے معنی ہے۔ اس تولید و تناسل کی اہل اور خود کو برقرار رکھنے والی میکانکیت کے وجود کے بارے میں کوئی دعوی ایک ایسا دعوی ہے جس کے ساتھ کسی قسم کے معنی وابستہ نہیں کئے جا سکتے۔ ماہرین عضویہ نے اس سلسلے میں بعض اوقات بے معنی اصطلاحات استعمال کی ہیں مگر ’تولید و تناسل‘کی میکانکیت سے زیادہ لغو کوئی اور اصطلاح نہیں۔ جو میکانکیت والدین کے عضویوں میں ہوگی وہ تناسل کے عمل میں مفقود ہو جائے گی اور وہ ہر نسل کے لیے از سرنومتشکل ہو گی کیونکہ اسلاف کے عضویے کا کوئی حصہ اگر پھر سے پیدا ہوتا ہے تو اپنے ہم جنس کے ایک جرثومے سے۔ تولید و تناسل کی کوئی میکانکیت نہیں ہوتی۔ ایسی میکانکیت کا تصور جو اپنبے آپ کو برقرار رکھنے اور اپنے توالدو تناسل کی اہل ہو ایک ایسا تصور ہو گا جو خود تردیدی کا شکار ہے۔ایک ایسی میکانکیت جو اپنی تولید و تناسل کی اہل ہو وہ بغیر اجزاء کے ہو گی لہٰذا وہ میکانکیت ہی نہیں ہو گی۔۲۱؎ زندگی ایک منفرد مظہر ہے اور اس کے تجزیہ کے لیے میکانکیت کا تصور ناکافی اور غیر موزوں ہے۔ ایک اور ممتاز ماہر حیاتیات دریش کی اصطلاح میں اس کی حقیقی کلیت ایک ایسی وحدت ہے جو ایک دوسرے نقطہ نظر سے کثرت بھی ہے۔ نشوونما اور ماحول سے تطابق کے تمام غایتی طریق ہائے عمل میں، چاہے یہ تطابقت تازہ عادات کی تشکیل کی بنا پر ہو یا پرانی عادات کی تبدیل شدہ صورت کی بنا پر، یہ ایک ایسا کردار رکھتی ہے جو مشین کی صورت میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کردار کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سرگرمیوں کے منبع کی توضیح کرنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس کا حوالہ ماضی بعید کو بنایا جائے اور یہ کہ اس کا مبدا روحانی حقیقت میں تلاش کیا جائے جو مکانی تجربے میں منکشف تو ہوتی ہے لیکن اسے اس تجربے کے تجزیاتی مطالعے سے تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی ایک اساسی حقیقت ہے اور طبیعیات اور کیمیا کے معمول کے دستور العمل سے متقدم ہے جسے ایک طرح سے منجمد روش سے تعبیر کر سکتے ہیں جو ارتقاء کے ایک طویل عمل میں متشکل ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ میکانکی تصور حیات جو اس نظریہ کو جنم دیتا ہے کہ عقل خود ارتقاء کی پیدا وار ہے اس طرح خود سائنس کو اپنے ہی اُصول تحقیق و تفتیش سے متصادم کر دے گا۔ اس جگہ میں ویلڈن کار کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس نے اس تصادم کے بارے میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے: اگر عقل ارتقا کی ہی پیداوار ہے تو زندگی کی نوعیت اور اس کے آغاز کے بارے میں تمام میکانکی تصور لغو ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا وہ اُصول جسے سائنس نے اختیار کیا اس پر یقینًا نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود متناقض بالذات ہے۔ عقل جسے ادراک حقیقت کا رویہ کہا جاتا ہے کس طرح بجائے خود کسی ایسی چیز کے ارتقا کا نتیجہ ہو سکتی ہے جو اگر موجود ہے تو اس طریق ادراک یعنی عقل کی ایک تجرید کی حیثیت سے۔ اگر عقل زندگی کا ارتقا ہے تو زندگی کا یہ تصور کہ اس سے عقل کا ارتقا ادراک حقیقت کے ایک مخصوص طریق کی صورت میں ہوا ہے لازمی طور پر کسی مجرد میکانکی حرکت کی نسبت زیادہ محسوس فعالیت کا تصور ہونا چاہیے تھا جو اپنے محتویات کے ادراک کے تجزیے کے ذریعے عقل خود اپنے آپ ظاہر کر سکتی ہے۔ اور پھر مزید اگر عقل زندگی کے ارتقا کا نتیجہ ہے تو یہ مطلق نہیں بلکہ زندگی کی سرگرمی کے حوالے سے اضافی ہے۔ اب اس صورت میں سائنس ادراک کے موضوعی پہلو کو خارج کرکے ایک مطلق معروضی تصور پر کس طرح اپنی عمارت استوار کر سکتی ہے؟ ایسے میں ظاہر ہے کہ علوم حیات کے لیے لازم ہے کہ وہ سائنسی اُصولوں پر دوبارہ غور کرے۔۲۲؎ اب میں کوشش کروں گا کہ زندگی اور فکر کی اوّلیت تک ایک دوسرے راستے سے پہنچوں اور تجربے کے تجزیے میں آپ کو ایک قدم مزید آگے بڑھائوں۔ اس سے حیات کی اوّلیت پر مزید روشنی پڑے گی اور زندگی کی نوعیت بطور ایک نفسی فعلیت کے بارے میں ہمیں مزید بصیرت حاصل ہو گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نزدیک کائنات ایک ساکن وجود نہیں بلکہ واقعات کا ایک نظام ہے جو ایک مسلسل تخلیقی بہائو سے عبارت ہے۔ زمان میں فطرت کے مرور کی یہ صفت تجربے کی وہ معنویت ہے جس پر قرآن حکیم خاص طور پر زور دیتا ہے اور جو، جیسا کہ میں اب بیان کرنے کی کوشش کروں گا، حقیقت کی نوعیت کی جانب نہایت بلیغ اشارہ مہیا کرتا ہے کچھ آیات قرآنی(۱۸۸:۳‘ ۱۵۹:۲‘ ۴۴:۲۴) جو اس نکتہ سے متعلق ہیں کی طرف میں پہلے ہی آپ کی توجہ دلا چکا ہوں۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں ان میں کچھ مزید اضافہ کرتا ہوں۔ إِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَا لنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اﷲُ فِی السَّمٰوٰتِ والْأَرْضِ لَأَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَّقُوْنَ(۶:۱۰) بے شک رات اور دن کے ادل بدل میں اور اﷲ نے جو کچھ پیدا فرمایا‘ اس میں‘ نشانیاں ہیں‘ ان لوگوں کے لیے جو متقی ہیں۔۲۳؎ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَخِلْفَہً لِّمَنْ أَرَادَ أَنْ یَذَّکَّرَأَوْأَرَادَ شُکُوْرًا (۶۲:۲۵) اور وہی ہے جس نے دن اور رات کو بنایا‘ ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا‘ ہر اس شخص کے لیے جس نے ارادہ کیا نصیحت لینے کا یا وہ شکر گزاری کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اﷲَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُولِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیٓ إِلَیٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّی (۲۹:۳۱) کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ رات کو دن میں دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے چاند اور سورج کو مسخر کر رکھا ہے‘ ایک وقت مقرر تک کے لیے۔ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُالنَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ (۵:۳۹) اور وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے۔ وَھُوَ الَّذِی یُحْیِ وَیُمِیْتُ وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ (۸۰:۲۳) اور وہی ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اسی کے لیے ہے گردش لیل و نہار۔ کچھ اور بھی ایسی آیات ہیں جن میں ہمارے زمان کے حساب کے متعلق اضافیت کی نشان دہی کی گئی ہے اور جو شعور کی نامعلوم سطحوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ۲۴؎ تاہم میں خود کو انہی مباحث تک محدود رکھوں گا جن سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن جو تجربے کے اس پہلو سے تعلق رکھتے ہیں جن میں گہری معنویت پائی جاتی ہے جیسا کہ محولہ بالا آیات میں اشارۃً کہا گیا ہے۔ ہمارے عہد کے نمائندہ مفکرین میں سے صرف ہنری برگساں ہی وہ مفکر ہیں جس نے امتداد فی الزمان کے مظہر کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ سب سے پہلے میں مختصر طور پر آپ کے سامنے امتداد کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کی وضاحت کروں گا اور پھر اس کے تجزیہ کی ناموزونیت کی نشان دہی کروں گا تاکہ وجود کے زمانی پہلو کے بارے میں کامل تر نقطہ نظر کی تصریحات کو سامنے لایا جا سکے۔ ہمارے سامنے وجودیاتی مسئلہ یہ ہے کہ ہم کس طرح وجود کی حتمی ماہیت کی تعریف کر سکتے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ کائنات زمان میں واقع ہے۔ تاہم چونکہ یہ ہمارے خارج میں ہے لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس کے وجود کے بارے میں شک و شبہ ظاہر کریں۔اس ’زمان میں وقوع‘ کے معنی کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ہمیں وجود کی ایک ایسی مثال کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا اور جو ہمیں دوران کی بلاواسطہ بصیرت عطا کرتی ہے۔ میرا ان اشیاء کا ادراک جو میرے سامنے موجود ہیں ایک تو سطحی ہو تا ہے اور دوسرے وہ خارج سے ہوتا ہے مگر میری اپنی ذات کا میرا ادراک داخلی‘ قریبی اورگہرا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعوری تجربہ وجود کی اُس خاص سطح سے تعلق رکھتا ہے جہاں ہمارا حقیقت کے ساتھ مطلق اتصال قائم ہو جاتا ہے۔ وجود کی اس سطح کے تجزیے سے وجود کی حتمی نوعیت کے بارے میں بڑی رہنمائی حاصل ہو گی۔میں اس وقت کیا محسوس کرتا ہوں جب میں خود اپنے شعوری تجربے پر اپنی توجہ مرتکز کرتا ہوں؟ برگساں کے الفاظ میں: ’’میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتا ہوں۔ میں سرد یا گرم ہوتا ہوں۔ میں خوش یا افسردہ ہوتا ہوں۔ میں کام کرتا ہوں یا کچھ بھی نہیں کرتا۔ میں ان اشیاء پر نظر ڈالتا ہوں جو میرے ارد گرد ہیں یا کچھ اور سوچتا ہوں۔ حسیات، احساسات‘ ارادے‘ خیالات__ یہ وہ متغیرات ہیں جن میں کہ میرا وجود منقسم ہے اور جو اپنی باری پر اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ میں مسلسل متغیر ہوتا رہتا ہوں‘‘۔ ۲۵؎ چنانچہ میری حیات باطنی میں سکوت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب کچھ حرکت پیہم ہے۔ حالتوں کا ایک منقطع نہ ہونے والا بہائو، ایک ایسا دائمی دھارا جس میں قیام و قرار نام کی کوئی چیز نہیں۔ تاہم زمان کے بغیر تغیر مسلسل کا تصور ممکن نہیں۔ ہمارے باطنی تجربے کی ماہیت کے بارے میں گہرے علم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نفس انسانی اپنی حیات باطنی میں مرکز سے خارج کی طرف حرکت زن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دو رخ ہیں جو ’بصیر ‘ اور ’فعال‘ کے طور پر بیان کئے جا سکتے ہیں۔ اپنے فعالی رخ کے اعتبار سے اس کا تعلق دنیائے مکان سے ہے۔ نفس فعال تلازماتی نفسیات کا موضوع ہے۔ روزمرہ زندگی میں نفس فعال اپنے معاملات میں خارج کی دنیا سے سروکار رکھتا ہے جو ہمارے شعور کی گزری ہوئی حالتوں کو متعین کرتی ہے اور ان حالتوں پر الگ الگ رہنے والی اپنی مکانی خصوصیت کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔ اس صورت میں نفس انسانی گویا خارج میں رہتا ہے اور بطور کلیت کے اپنی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو محض مخصوص اور قابل شمار کیفیتوں کے ایک سلسلے کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ زمان، جس میں کہ نفس فعال رہتا ہے، ایسا زماں ہے جسے ہم ’مختصر‘ اور ’طویل‘ کہتے ہیں۔ یہ مکاں سے مشکل سے ہی متمیّز کیا جا سکتا ہے۔ ہم اسے ایک خط مستقیم کے طور پر بھی تصور کر سکتے ہیں جو ان نکات مکانی سے ترتیب پاتا ہے جو سفر کی مختلف منازل کی طرح ایک دوسرے سے خارج ہوتے ہیں۔ برگساں کے مطابق اس طرح کا زماں‘ زمان حقیقی متصور نہیں ہو گا۔ وجودِ زمانِ مکانی غیر حقیقی ہو گا۔ شعوری تجربے کا گہرا تجزیہ ہم پر نفس انسانی کا بصیر پہلو منکشف کرتا ہے۔ خارجی اشیاء کے نظام میں ہماری محویت، جو ہماری موجودہ صورت حال کے لئے لازمی ہے‘ کے پیش نظر یہ نہایت مشکل ہے کہ ہم نفس انسانی کے بصیر پہلو کی کوئی جھلک دیکھ سکیں۔ خارجی اشیا کے ساتھ مسلسل معاملات کے نتیجے میں بصیر نفس انسانی کے گرد ایک پردہ سا حائل ہو جاتا ہے اور یوں ہم سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا محض عمیق استغراق کے لمحات میں ہوتا ہے کہ جب نفس فعال تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور ہم اپنے نفس کی گہرائی میں ڈوب جاتے ہیں اور تجربے کے داخلی مرکز تک پہنچ جاتے ہیں۔ انائے عمیق کے اس حیاتیاتی عمل میں کیفیات شعور ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ بصیرا نا کی وحدت کی نوعیت ایک جرثومے کی وحدت کی طرح کی ہوتی ہے جس میں اس کے اپنے اسلاف کے تجربات موجود ہوتے ہیں__ بطور کثرت کے نہیں بلکہ ایک ایسی وحدت کے طور پر جس میں ہر تجربہ سرایت کئے ہوئے ہوتا ہے۔ خودی کی کلیت میں عددی امتیازات نہیں ہوتے۔ اس کے عناصر کی گونا گونی، نفس فعال سے مختلف، کلیتًا صفاتی ہوتی ہے۔ اس میں تغیر اور حرکت تو ہوتی ہے مگر یہ ناقابل تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے عناصر ایک دوسرے سے گھلے ملے ہوتے ہیں اور اپنی نوعیت میں تقدیم و تاخیر سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے نفس بصیر میں زمان ایک آنِ واحد ہے جسے نفس فعال خارجی دنیا سے تعلق کے دوران آنات کے ایک سلسلے میں اس طرح تقسیم کر دیتا ہے جس طرح ایک دھاگے میں موتی پرو دیئے جاتے ہیں۔یہ دورانِ خالص ہے جو بلا آمیزش مکان ہے۔ قرآن نے اپنے مخصوص سادہ طرز بیان میں ’’دوران‘‘ کے ان متواتر اور غیر متواتر پہلوئوں کی جانب مندرجہ ذیل آیات میں اشارہ کیا ہے۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہِ وَکَفَیٰ بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہِ خَبِیْرًاo الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمَٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا (۵۹- ۵۸:۲۵) اور آپ‘ ہمیشہ زندہ رہنے والے پر بھروسہ کریں جسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کریں اور کافی ہے اس کا باخبر ہونا اپنے بندوں کے گناہوں سے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پھر وہ متمکن ہوا عرش پر (جیسے اس کی شان ہے) وہ رحمان ہے سو پوچھ اس کے بارے میں کسی واقف حال سے إِنَّا کُلَّ شَیْ ئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍo وَمَآ أَمْرُنَآ إِلَّاوَاحِدَۃٌ کَلَمْحِ بِالْبَصَرِ (۵۰- ۴۹:۵۴) ہم نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘ ایک اندازے سے اور نہیں ہوتا ہمارا حکم مگر ایک بار جو آنکھ جھپکنے میںواقع ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس لمحہ کو خارج سے دیکھیں جس میںکہ تخلیق ہوئی اور اس کا عقلی طور پر تصور کریں تو کہا جائے گا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے کیونکہ خدا کا ایک دن قرآن کی اصطلاح میں، اور جیسا کہ عہد نامہ قدیم میں بھی آیا ہے، ہمارے ایک سال کے برابر ہے۔ ۲۶؎ ایک دوسرے نقطہ نظر سے ہزاروں سالوں پر پھیلا ہوا عمل تخلیق ایک ایسا واحد ناقابل تقسیم عمل ہے جو پلک جھپکنے کی طرح تیز ہے۔ تاہم زمان خالص کے اس باطنی تجربے کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے کیونکہ زبان کی تشکیل تو ہمارے نفس فعال کے روزمرہ زمان متسلسل کی مطابقت میں ہوئی ہے۔ شاید ایک مثال کے ذریعے اس امر کی مزید تشریح ممکن ہو۔ طبیعیات کے مطابق انسانی حس سرخ کی علت لہروں کی حرکت کی وہ سرعت ہے جس کی رفتار چار سو کھرب فی سیکنڈ ہے۔ اگر آپ اس شدید تیزی کو خارج سے مشاہدہ کر سکیں اور اس کا شمار بحساب دو ہزار فی سیکنڈ کر سکیں جو روشنی کی حد ادراک ہے تو آپ کو چھ ہزار سال اس کی گنتی کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوں گے ۲۷؎ مگر ہم اپنے ادراک کے یک لمحی ذہنی عمل کے ذریعے سے لہروں کی حرکت کی زود رفتاری دیکھ لیتے ہیں جن کی گنتی عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس طرح ہمارا ذہنی عمل تسلسل کو دوران میں بدل دیتا ہے۔ نفس بصیر نفس فعال کی اس مفہوم میں اصلاح کرتا ہے کہ یہ تمام آن واین کو یعنی زمان و مکان کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو جو نفس فعال کے لئے ناگریز ہیں شخصیت کی مربوط کلیت میں سمو دیتا ہے۔ یوں دوران خالص جسے ہم اپنے شعوری تجربے کے عمیق تجزیے سے دریافت کرتے ہیں کوئی الگ تھلگ اور رجعت ناپذیر آنات کا سلسلہ نہیں۔ یہ ایک ایسا نامیاتی کل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیںرہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ ہی متصل ہو کر کام کرتا ہے اور مستقبل کوئی ایسی چیز نہیں جو سامنے رکھی ہو اور جسے ابھی طے کرنا باقی ہے: یہ پہلے سے موجود صرف اس معنی میں ہے کہ فطرت کے اندر اس کی حیثیت ایک کھلے امکان کی ہے۔ ۲۸؎ یہ زمان بحیثیت ایک نامیاتی کل ہے جسے قرآن نے تقدیر یا مقدّر کہا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں نے بہت غلط سمجھا ہے۔ دراصل مقدّر وہ زمان ہے جس کے امکانات کا انکشاف ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ ایسا زمان ہے جو علت و معلول کی گرفت یعنی منطقی فہم کے عائدکردہ خاکوں کے کردار سے آزاد ہے۔ مختصراً یہ وہ زمان ہے جو محسوس ہوتا ہے نہ کہ وہ زمان جس کے بارے میں فکر کیا جائے یا جس کا حساب کتاب رکھا جائے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ شہنشاہ ہمایوں اور ایران کے شاہ طہماسپ کیونکر ہم عصر تھے تو میرے پاس اس کی کوئی علتی توجیہ موجود نہیں۔ صرف یہی جواب ممکن ہے کہ حقیقت کی ماہیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس کے وجود پذیر ہونے والے لامتناہی امکانات میں سے صرف دو امکانات جنہیں ہم ہمایوں اور شاہ طہماسپ کی زندگیوں کی صورت میں جانتے ہیں ایک ساتھ منصّۂ شہود پر آئے۔ لہٰذا بطور تقدیر زماں کو اشیاء کا بنیادی جوہر گردانا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: ’’خدا نے تمام اشیاء کو خلق کیا اور اس نے ہر ایک شے کا مقدر طے کیا‘‘۔ ۲۹؎ یوں اشیاء کا مقدر کوئی متشدد قسمت نہیں جو کسی سخت گیر آقا کی طرح باہر سے کام کر رہی ہو بلکہ یہ تو اشیاء کی اپنی باطنی رسائی ہے یعنی ان کے قابل ظہور امکانات جو خود ان کی اپنی فطرت کی گہرائی میں موجود ہوتے ہیں اور بغیر کسی بیرونی دبائو کے احساس کے خود کو ایک تواتر کے ساتھ معرض وجود میں لاتے ہیں۔ چنانچہ امتداد کی نامیاتی کلیت کا مطلب یہ نہیں کہ تمام واقعات پورے کے پورے طور پر گویا حقیقت کے پیٹ میں موجود ہوتے ہیں اور وہ ریت گھڑی سے ریت کے ذرات کی طرح ایک ایک کرکے گرتے جا رہے ہیں۔ اگر زمان حقیقی ہے اور وہ ایک ہی طرح کے لمحات کی تکرار نہیں‘ جن سے شعور کا تجربہ فریب محض بن جاتا ہے‘ تو حقیقت کی زندگی میں ہر لمحہ طبع زاد ہوتا ہے اور ایسی شے کو جنم دیتا ہے جو بالکل ہی نادر اور پہلے سے نہ دیکھی جا سکنے والی ہوتی ہے۔قرآن کے مطابق ’’ ہر دن وہ اپنی نئی شان رکھتا ہے‘‘ (کُلَّ یَوْم ھُوَ فِی شَان)۔ ۳۰؎ زمانِ حقیقی میںموجودگی کے لیے زمانِ متواتر کی پابندی لازم نہیں بلکہ یہ تو لحظہ بہ لحظ تخلیق ہے جو مکمل طور پر آزاد اور اپنی نوعیت میں طبع زاد ہے۔ درحقیقت ہر تخلیقی عمل ایک آزاد عمل ہوتا ہے۔ تخلیق اور تکرار دونوں متضاد عمل ہیں۔ اس لیے کہ تکرار میکانکی عمل کی خاصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے تخلیقی عمل کو میکانیاتی اصطلاحوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ سائنس تو اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ تجربے میں ہم آہنگیوں کو قائم کرے اور میکانیاتی تکرار کے قوانین کو دریافت کرے۔ زندگی اپنی برجستہ تدوین کے عمیق احساس کے ساتھ کلیۃً آزاد ہے۔ یہ جبریت کی حدود سے باہر ہے۔ لہٰذا سائنس زندگی کا ادراک نہیں کر سکتی۔ ایک ماہر حیاتیات جو زندگی کی میکانیاتی توضیح کا متلاشی ہوتا ہے وہ ایسا کر سکتا ہے کیونکہ اس کا مطالعہ زندگی کی محض ابتدائی صورتوں تک محدود ہے جن کا رویہ میکانیاتی عمل سے مشابہت کا اظہار کرتا ہے۔ اگر وہ حیات کا مطالعہ خود اپنے داخل کے حوالے سے کرے کہ کس طرح اس کا ذہن آزادانہ طور پر انتخاب کرتا ہے۔ ردّ کرتا ہے۔ سوچتا ہے۔ ماضی اور حال کا جائزہ لیتا ہے اور حرکی انداز میں مستقبل کا تصور کرتا ہے تو یقینی بات ہے کہ وہ اپنے میکانیاتی تصورات کے ناکافی ہونے کا معترف ہو جائے گا۔ ہمارے اس شعوری تجربے کی مناسبت سے کائنات ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے۔ مگر ہم حرکت کرنے والی کسی ٹھوس شے کے حوالے کے بغیر حرکت کا تصور کس طرح کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب یوں ہے کہ شے کا تصور بھی مستخرج اور ماخوذ ہے۔ ہم اشیا کا حرکت سے استخراج کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی مادی جوہر کو فرض کریں جیسا کہ دیما قریطس نے جواہر کا تصور کیا تھا کہ وہ بنیادی حقیقت ہیں تو ہمیں ان میں حرکت کہیں خارج سے لانی پڑے گی جو ان کی فطرت سے مغائر ہو گی۔ اس کے برعکس اگر ہم حرکت کو اصل تسلیم کر لیں تو ساکن اشیاء اس سے اخذ ہو سکتی ہیں۔ درحقیقت طبیعیاتی علوم نے تمام اشیاء کو حرکت میں تحویل کر دیا ہے۔ جدید سائنس میں جوہر کی اصل ماہیت برق ہے‘ کوئی برقیائی ہوئی چیز نہیں۔ اس کے سوا بھی اشیاء کا کوئی فوری تجربہ اس طرح نہیں ہوتا کہ وہ لازمی طور پر کوئی خاص متعین خدوخال رکھتی ہوں کیونکہ فوری تجربہ ایک ایسا تسلسل ہوتا ہے جس میں کوئی امتیازات نہیں ہوتے۔ جہنیں ہم اشیاء کہتے ہیں وہ فطرت کے عملِ تسلسل میں واقعات ہیں جنہیں فکر مکانیت عطا کرتا ہے اور انہیں عملی مقاصد کے پیش نظر ایک دوسرے سے علیحدہ قرار دیتا ہے۔ کائنات جو ہمیں مختلف اشیاء کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے کوئی ایسا ٹھوس مواد نہیں جو خلا میں جگہ گھیرے ہوئے ہو۔ یہ کوئی شے نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔ برگساں کے نزدیک فکر کی نوعیت متسلسل ہے: وہ حرکت کے ساتھ معاملہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے ساکن نکات کے سلسلے کی صورت میں دیکھے۔ لہٰذا فکر جو ساکن تصورات کے ساتھ کام کرتا ہے ان اشیا کو جو اپنی فطرت میں متحرک ہیں ساکن اور غیر متحرک بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان غیر متحرک اشیا کا باہم ہونا اور ان کی یکے بعد دیگرے وقوع پذیری ہی وہ اساس ہے جن سے زمان و مکان جنم لیتے ہیں۔ برگساں کے نزدیک حقیقت آزاد‘ ناقابل تعین‘ تخلیقی اورحیاتی قوت محرکہ ہے جس کی ماہیت ارادہ ہے جسے فکر حدودِ مکان میں لا کر کثرت اشیا کی صورت میںدیکھتا ہے۔ یہاں اس نظریہ پر مکمل بحث ممکن نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ برگسانی حیاتیت کی انتہا ارادے اور فکر کی ناقابل مفاہمت دوئی ہے۔اس کی وجہ فکر کے بارے میں اس کا جزوی نکتہ نظر ہے۔ اس کے نزدیک فکر ایک میکانکیت بخش سرگرمی ہے جس کی ہیئت خالص مادی ہے اور جو مقولات اس کے تصرف میں ہیں وہ محض میکانکی ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے اپنے اوّلین خطبہ میں ذکر کیا ہے فکر اپنی حرکت میں ایک عمیق تر پہلو بھی رکھتا ہے۔ ۳۱؎ یہ اگرچہ حقیقت کو ساکن اجزا میں منقسم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس کا اصل کام یہ ہے کہ تجربے کے عناصر کی تالیف و ترکیب کرے۔ اور اس مقصد کے لئے وہ تجربے کی مختلف سطحوں کے لئے مناسب مقولات کا استعمال کرتا ہے۔ وہ زندگی کی طرح ہی نامیاتی ہے۔ زندگی کی حرکت جو کہ نامیاتی نشو و نما ہے اپنے مختلف درجات میں مرحلہ در مرحلہ ترکیب و ائتلاف سے عبارت ہے۔ اس ترکیب کے بغیر اس کا عضویاتی ارتقا ممکن نہیں۔اس کا تعین اس کے مقاصد سے ہوتا ہے اور مقاصد کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ فکر پر اسکا مدار ہے۔ فکر کی سرگرمیاں مقاصد پر منحصر ہیں۔ شعوری تجربے میں زندگی اور فکر ایک دوسرے میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ ایک وحدت کی تشکیل کرتے ہیں۔ چنانچہ فکر اپنی ماہیت میں زندگی ہی ہے۔ پھر برگساں ہی کے الفاظ میں چونکہ حیاتیاتی قوت خلّاقانہ آزادی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے لہٰذا وہ فوری یا بعید مقاصد کی روشنی سے مستنیر نہیں ہوتی۔ وہ نتائج کی بھی خواہاں نہیں۔ وہ اپنے رویے میں مکمل طور پر ایک مطلق العنان‘ بے سمت‘ ہیولائی اور ناقابل پیش بینی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں برگساںکا ہمارے شعوری تجربے کاتجزیہ نامناسب اور ناکافی محسوس ہوتا ہے۔ وہ شعوری تجربے کو یوں سمجھتا ہے گویا ماضی حال کے ساتھ حرکت پذیر اور عمل پیرا ہے۔ وہ یہ بات نظر انداز کر دیتا ہے کہ شعور کی وحدت میں آگے دیکھنے کا پہلو بھی ہے۔ زندگی تو محض اعمالِ توجہ کا تسلسل ہے اور توجہ کا عمل شعوری یا لاشعوری مقصد کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حتی کہ ہمارا عمل ادراک بھی ہماری فوری دلچسپیوں اور مقاصد سے متعین ہوتا ہے۔ فارسی شاعر عرفی نے انسانی ادراک کے اس پہلو کا بہت ہی خوبصورت انداز میں اظہار کیا ہے۔ زنقص تشنہ لبی داں بعقل خویش مناز دلت فریب گر از جلوہ سراب نخورد ۳۲؎ شاعر یہ مفہوم ادا کرنا چاہتا ہے کہ اگر تمہاری پیاس میں خامی نہ ہوتی اور تم سچی پیاس رکھتے تو صحرا کی ریت بھی تمہیں جھیل دکھائی دیتی۔ فریب خوردگی سے تو تم اس لئے بچ گئے کہ تمہارے اندر پانی کے لیے طلب صادق نہیں تھی۔ تم نے صورت حال کا ایسا ہی ادراک کیا جیسی کہ وہ ہے کیونکہ تمہیں اس کا ایسا ادراک کرنے میں دلچسپی نہیں تھی جیسی کہ وہ نہیں ہے۔ پس مقاصد اور اغراض جو شعوری یا غیر شعوری رجحانات کی صورت میں موجود ہیں وہ ہمارے شعوری تجربے کا تانا بانا ہیں۔ اور مقصد کا تصور مستقبل کے حوالے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کے بارے میں تو کوئی شبہ نہیں کہ وہ حال میں کارفرما ہوتا ہے مگر ماضی کی حال میں یہ کارفرمائی ہی تمام شعور نہیں ہے۔ مقاصد نہ صرف شعور کی موجودہ حالت بلکہ اس کے مستقبل کی طرف بڑھنے کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ہماری زندگی کی آگے کی طرف حرکت کی تشکیل کرتے ہیں اور یوں پیشگی ہی ان حالتوں پر اثر انداز ہو جاتے ہیں جو ابھی ظاہر ہونے والی ہیں۔ مقاصد سے ہمارے اعمال کا متعین ہونا دراصل اس بات سے متعین ہونا ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ لہٰذا ماضی اور مستقبل دونوں شعور کی موجودہ حالت میں عمل پیرا ہوتے ہیں اور جیسا کہ برگساں نے ہمارے شعوری تجربے کے تجزیے سے ظاہر کیا ہے مستقبل مکمل طور پر غیر متعین نہیں ہوتا۔ شعور میں توجہ کی حالت میں بازیافت اور تخیل دونوں محرکات شامل ہوتے ہیں چنانچہ ہمارے شعوری تجربے کی اس نسبت سے حقیقت کوئی اندھی قوت نہیں جو مکمل طور پر فکر سے غیر منور ہو۔ اس کی فطرت سرتاپا غایاتی ہے۔ تاہم برگساں حقیقت کے غایتی کردار کو اس بنا پر قبول نہیں کرتا کہ غایت زمان کو غیر حقیقی بنا دیتی ہے۔ اس کے مطابق مستقبل کی راہ حقیقت کے لیے کھلی رہنی چاہیے ورنہ حقیقت آزاد اور خلّاق نہیں رہے گی۔اس میں شبہ نہیں کہ اگر غایت سے مطلب یہ ہو کہ کسی پہلے سے متعین مقصد یا منزل کی روشنی میں کسی منصوبہ پر کام ہو رہا ہے تو یہ زمان کو غیر حقیقی کر دے گا اور کائنات کو بھی ایک ایسی پہلے سے موجود ازلی و ابدی سکیم یا ڈھانچے کی تخلیق نو تک محدود کر دے گا جس میں انفرادی واقعات پہلے سے ہی اپنی مناسب جگہ پر موجود ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ اپنی باری پر ایک زمانی سیل میں جسے تاریخ کہا جاتا ہے ظاہر ہوں۔ سب کچھ پہلے ہی ازل میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ واقعات کا مترتب زمانی ظہور ازلی و ابدی سانچے کی محض ایک نقل ہے۔ یہ نقطہ نظر اس میکانکیت سے مختلف نہیں جسے ہم پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔۳۳؎ درحقیقت یہ نقاب پوش مادیت ہے جس میںتقدیر یا قسمت متشدد جبریت کی جگہ لے لیتی ہے، جس میں انسانی حتی کہ الوہی آزادی کی بھی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر کائنات فی الواقعہ کسی متعین مقصد کی طرف رواں دواں ہے تو پھر یہ آزاد اور ذمہ دار افراد کی دنیا نہیںہو سکتی۔ یہ محض ایک سٹیج ہو گی جس پر پتلیاں ایک قسم کے پیچھے سے نچانے والے کی حرکت پر ناچتی ہیں۔تاہم غایت کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ ہم اپنے شعوری تجربے میں دیکھتے ہیں کہ زندگی کرنا مقصد اور غایات کی صورت گری کرنا اور انہیں تبدیل کرتے رہنا اور ان کی فرمانروائی میں آنا ہے۔ ذہنی زندگی اس مفہوم میں غایتی ہے کہ اگرچہ کوئی ایسا نہایت بعید مقصد موجود نہیں جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیںتاہم جوں جوں زندگی کے عمل میں پھیلائو اور ترقی ہوتی رہتی ہے توں توں نئے نئے مقاصد‘ غایات اور آدرشی اقداری سلسلوں کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ ہماری نئی تشکیل ہماری پچھلی تشکیل کے انہدام سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جو اموات کے سلسلوں میں سے گذرتا ہے۔ لیکن اس راستے کے تسلسل میں بھی ایک نظم موجود ہے۔ اشیاء اور ان کی قدروقیمت کے ضمن میں دفعۃً تبدیلیوںکے باوجود اس نظام کی مختلف منازل باہم عضویاتی طور پر مربوط ہوتی ہیں۔ فرد کی تاریخ حیات اپنی کل میں ایک وحدت ہے: وہ باہمی طور پر منتشر واقعات کا کوئی سلسلہ نہیں۔ اگر مقصد سے ہم پہلے سے معلوم اور پہلے سے متعین کوئی منزل مقصود مراد لیں جس کی جانب ساری مخلوق رواں دواں ہے تو پھر یقینی طور پر عمل کائنات یا کائنات کی زمان میںحرکت بے مقصد ہو گی۔ کیونکہ یوں تمام خلائق کسی متعینہ منزل کی طرف پہلے سے ہی حرکت زن ہوں گی۔ عمل کائنات کو مقصد سے اس مفہوم میں آشنا کرنا اس عمل کی طبع زاد حیثیت اور اس کے خلاّق کردار کو برباد کرنا ہے۔ اس کے پہلے سے متعین مقاصد کا مطلب اس کے عمل کی تحدید ہے۔ اس کے مقاصد محض اس لیے ہیں کہ وہ وجود میں آئیں جو ضروری نہیں کہ پہلے سے متعین ہوں۔ زماں کا عمل ایک پہلے سے کھینچی ہوئی لکیر کی طرح نہیں بلکہ ایک ایسی لکیر کی طرح ہے جو کھینچی جا رہی ہو، جو کھلے امکانات کو وقوعات میں لاتی ہے۔ وہ تو اس مفہوم میں مقصدی ہے کہ وہ اپنا ایک انتخابی کردار رکھتی ہے اور وہ خود کو حال میں لاتے ہوئے مستعدی کے ساتھ ماضی کو بھی باقی رکھتی ہے اور اس میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ میرے ذہن کے مطابق قرآنی نقطہ نگاہ سے اس تصور سے زیادہ اور کوئی تصور مغائر نہیں کہ کائنات ایک پہلے سے طے شدہ منصوبے کی محض ایک زمانی تفصیل ہے۔ جیسا کہ میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ قرآن کی نظر میں کائنات میں بڑھتے رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔۳۴؎ یہ ایک نشو و ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ ایک بنا بنایا مصنوع جسے اس کے بنانے والے نے اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے بہت پہلے سے چھوڑ دیا ہو اور وہ اب مکان میں ایک مردہ مادی تودے کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کا زمان سے کوئی تعلق نہیں اور اس لئے وہ عملاً لاشے ہے۔ اب ہم اس مقام پر ہیں کہ اس آیت کا مطلب سمجھ سکیں وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَأَن یَذَّکَّرَ أَوْأَرَادَ شُکُوْرًا (۶۲:۲۵) ’’ اور یہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا ہے ان کے لیے جو خدا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۳۵؎ تواتر زمانی کا اظہار جس طرح ہماری ذات میں ہوتا ہے اس کی تنقیدی تعبیر ہمیں حقیقت مطلق کے اس تصور تک لے جاتی ہے کہ وہ ایک خالص استدام ہے جس میں فکر و حیات اور غایت ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو کر ایک عضویاتی وحدت قائم کرتے ہیں۔ ہم اس وحدت کا ادراک نہیں کر سکتے ما سوا اس کے کہ ہم اسے وحدت نفس گردانیں جو سب پر محیط ایک موجود فی الخارج نفس ہے اور جو تمام افراد کی زندگی اور فکر کا منبع مطلق ہے۔میرے نزدیک برگساں کی غلطی یہ ہے کہ اس نے زماں خالص کو نفس پر متقدم جانا حالانکہ اسی کے لئے خالص دوران قابل اثبات ہے۔نہ خالص مکان اور نہ ہی خالص زمان اشیاء اور واقعات کی گونا گونی کو ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا رکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ذات ازلی کا ایک عمل بصیر ہے جو استدام کی کثرت کو جو کہ لا تعداد موجود لمحات میں منقسم ہے ایک مرکب نامیاتی کل میں بدل دیتا ہے۔ استدام خالص میں موجودگی کا مطلب خودی کی موجودگی ہے اور خودی سے مراد یہ کہنے کے قابل ہونا ہے کہ ’’میں ہوں‘‘۔ وہی صحیح معنوں میں وجود رکھتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ ’’میں ہوں‘‘ ۔ یہ ’’میں ہوں‘‘ کی سطح ہی ہے جو میزان ہستی میں شے کے مقام کا تعین کرتی ہے۔ ہم سب بھی کہتے ہیں ’’میں ہوں‘‘ مگر ہمارا ’’میں ہونا‘‘ نفس اور غیر نفس کے مابین امتیاز سے ظہور پاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں نفس مطلق غنی عن العٰلمین ہے۔ ۳۶؎ اس کے لئے نفس غیر کوئی متقابل ذات نہیں ورنہ وہ ہمارے متناہی نفوس کی طرح ہوتا اور اسے بھی تعلق مکانی میں ذات غیر سے متقابل ہونا پڑتا۔ جسے ہم فطرت یا نفس غیر کہتے ہیں وہ تو حیات خداوندی میں محض ایک لمحہ گزراں ہے۔ اس کا ’’میں ہونا‘‘ تو خود منحصر‘ اساسی اور مطلق ہے۔ ۳۷؎ ہمارے لیے ایسے نفس کا ایک واضح اور مکمل تصور ناممکن ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْ ئٌ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۱۱:۴۳) نہیں کوئی شے اس جیسی پھر بھی وہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ ۳۸؎ اب نفس، کردار کے بغیر ناقابل فہم ہے یعنی ایک یکساں طرز کے رویے کے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں عالم فطرت مادے کا کوئی ڈھیر نہیں ہے جو خلا میںواقع ہے بلکہ یہ حوادث کی ایک ترکیب ہے، کردار کا ایک منظم انداز ہے اور یوں نامیاتی طور پر نفس مطلق سے متعلق ہے۔ فطرت کا ذات الٰہیہ سے وہی تعلق ہے جو کردار کا نفس انسانی سے ہے۔ قرآن نے ایک دل آویز انداز میں اسے سنت اﷲ قرار دیا ہے۔ ۳۹؎ انسانی نقطہ نظر سے ہمارے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ انائے مطلق کی تخلیقی فعلیت کی ایک تعبیر ہے۔ جب یہ آگے کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے تو ایک خاص لمحے میں یہ متناہی ہوتی ہے مگر چونکہ جس نفس سے اس کا نامیاتی تعلق ہے وہ خلّاق ہے اس میں توسیع ممکن ہے۔ نتیجۃً یہ اس مفہوم میں لا محدود ہو جاتی ہے کہ اس کی توسیع کے لیے کوئی سی بھی حد آخری نہیں ہوتی۔ اس کی لامحدودیت بالقوہ ہے، فی الواقع نہیں۔ لہٰذا فطرت کو ایک ذی حیات اور پیہم ارتقا پذیر عضویہ سمجھنا چاہیے جس کے ارتقاء کی خارج میں کوئی آخری حد نہیں۔ وہ صرف باطنی طور پر محدود ہے یعنی اس محیط کل خودی کے طور پر، جو کل کو زندہ اور قائم رکھتی ہے، وہ نفس مشہود جس نے کل میں اپنی روح پھونک رکھی ہے اور اسے سہارا دے رکھا ہے۔ جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے۔ وَأَنَّ إِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی (۴۲:۵۳) اور بے شک پہنچنا ہے ( سب کو) اﷲ تک یوں وہ نقطہ نظر جو ہم نے اپنایا ہے وہ طبیعیاتی سائنس کو ایک تازہ روحانی مفہوم عطا کرتا ہے۔ فطرت کا علم سنت اﷲ کا علم ہے۔ فطرت کے مطالعے کے دوران ہم انائے مطلق کے ساتھ قرب و اتصال کی تلاش میں ہوتے ہیں جو عبادت کی ہی ایک دوسری قسم ہے۔ ۴۰؎ اوپر کی بحث میں زمانے کو ہم نے حقیقت مطلق کے ایک اساسی عنصر کی حیثیت سے لیا ہے۔ دوسرا نقطہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کی اس دلیل کا جائزہ لیں جو اس نے زمانے کے غیر حقیقی ہونے کے متعلق پیش کی ہے۔ ۴۱؎ ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کے مطابق زمانہ غیر حقیقی ہے کیونکہ ہر واقعہ ماضی حال اور مستقبل بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ملکہ این کی موت ہمارے لیے ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ اس کے معاصرین کے لیے وہ حال تھا اور ولیم سوم کے لیے وہ مستقبل کی بات تھی۔ لہٰذا ملکہ این کی موت کا واقعہ ان خواص کو جامع ہے جو باہم متناقض ہیں۔ واضح رہے کہ یہ دلیل اس مفروضے پر قائم ہے کہ زمان کی متسلسل نوعیت قطعی ہے۔ اگر ہم ماضی و حال اور مستقبل کو زمان کے لیے لازم تصور کریں تو ہمیں زمان کی تصویر ایک خط مستقیم کی صورت میں نظر آئے گی جس کے کچھ حصوں پر ہم سفر کر آئے ہیں اور انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور جس کے کچھ حصے ایسے ہیں جن پر ہمیں ابھی سفر کرنا ہے۔ یہ زمان کو بطور ایک زندہ تخلیقی لمحے کے نہیں بلکہ ایسے ساکت مطلق کے طور پر قبول کرنے کے مترادف ہے جس میں واقعات اپنی متعین شدہ صورت میں ایک ترتیب سے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اب ایک تسلسل سے ظاہر ہو رہے ہیں جس طرح خارج میں موجود ناظر کے سامنے فلم کی تصاویر چل رہی ہوں۔ ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ ملکہ این کی موت ولیم سوئم کے لیے مستقبل کا واقعہ ہے بشرطیکہ ہم اس واقعے کو ایک ایسا واقعہ سمجھیں جو بنا بنایا مستقبل میں پڑا ہے اور اپنے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔مگر جیسا کہ براڈ نے درست طور پر نشان دہی کی ہے مستقبل کے واقعے کو ہم بطور واقعہ شمار نہیں کر سکتے۔ ۴۲؎ ملکہ این کی موت سے قبل اس کی موت کا واقعہ موجود نہیں تھا۔ این کی زندگی کے دوران اس کی موت کا واقعہ فطرت میں ایک ایسے امکان کی حیثیت سے موجود تھا جو ابھی ظہور میں نہیں آیا تھا۔ اس کو ہم اس وقت واقعہ شمار کریں گے جب وہ اپنے دوران ظہور اس نکتہ پر پہنچا جبکہ وہ حقیقی طور پر ایک واقعہ کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ مستقبل تو محض ایک کھلے امکان کی صورت میں موجود ہوتا ہے: وہ ایک حقیقت کی حیثیت سے قائم نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعہ کو جب ہم ماضی اور حال کے طور پر بیان کرتے ہیں تو وہ ایسے خواص کا مجموعہ بن جاتا ہے جن کا اکٹھا ہونا محال ہے۔ جب ایک واقعہ مثلاً ا رونما ہوتا ہے تو وہ قبل ازیںظہور شدہ تمام واقعات کے ساتھ ایک ایسے تعلق کو قائم کرتا ہے جو ناقابل تحویل ہے۔ یہ تعلق اس تعلق سے متاثر نہیں ہوتا جو ا کا آئندہ آنے والے واقعات کے ساتھ ہو گا۔ ان تعلقات کے بارے میں کوئی صحیح قصہ کبھی غلط اور کوئی غلط قصہ کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔اب اس سلسلے میں کوئی منطقی سقم نہیں رہا کہ ہم کسی واقعہ کو بطور ماضی اور حال دونوں کے لیں۔ گو یہ تسلیم ہے کہ یہ نکتہ اشکال سے خالی نہیں ہے اور ابھی مزید سوچ بچار چاہتا ہے۔ زمان کی سریت کے مسئلہ کو حل کرنا کوئی اتنا آسان بھی نہیں۔ ۴۳؎ آگسٹائن کے پرمغز الفاظ آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جتنے اس وقت تھے جب کہ وہ کہے گئے: اگر کوئی زمان کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرے تو میں اس کو جانتا ہوں اور اگر کوئی مجھے اس سوال کی وضاحت کرنے کو کہے تو میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیںجانتا۔۴۴؎ ذاتی طور پر میری سوچ کا رجحان یہ ہے کہ زمان حقیقت کا ایک لازمی عنصر ہے مگر زمان حقیقی متسلسل نہیں ہے جس کی تخصیص ماضی حال اور مستقبل میں کی جائے: وہ خالص استدام ہے، یعنی بغیر تواتر کے تغیر جسے میک ٹیکرٹ کی دلیل چھوتی بھی نہیں۔ زمان متسلسل وہ خالص استدام ہے جسے فکر اجزا میں منقسم کرتا ہے __ ایک ایسی ترکیب جس کے ذریعے حقیقت اپنی ناقابل انقطاع خلّاق سر گرمی کا کمیتی پیمانوں میں اظہار کرتی ہے۔ یہی وہ مفہوم ہے جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے۔ وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ یہ اختلاف رات اور دن اسی کے لیے ہے۴۵؎ مگر ایک سوال جو آپ پوچھنا چاہیں گے یہ ہے کہ کیا تغیر کا اسناد انائے مطلق سے ہو سکتا ہے۔ ہم بطور نوع انسانی اپنے وظیفہ میںایک خود مختار عمل پذیر دنیا سے وابستہ ہیں۔ ہماری زندگی کے حالات و ظروف زیادہ تر ہمارے لیے خارجی ہیں۔ ہم جس زندگی کو جانتے ہیں وہ محض خواہش و جستجو، ناکامی یا کامیابی سے عبارت ہے۔ یعنی ایک صورت حال سے دوسری صورت حال تک لگاتار تغیر۔ ہمارے نقطہ نظر سے زندگی نام ہے تغیر کا اور تغیر لازمی طور پر نقص اور محرومی سے عبارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا شعور ہی چونکہ وہ واحد نقطہ ہے جہاں سے علم شروع ہوتا ہے۔ ہم اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں تغیر و تشریح کی پابندی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا زندگی کے فہم و ادراک کے لیے تشبیہی اور تجسیمی تصور سے گریز ممکن نہیں۔ زندگی صرف باطنی طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ سرہند کے شاعر ناصر علی نے بت کو برہمن سے یہ کہتے ہوئے تصور کیا: مرا بر صورت خویش آفریدی بروں از خویشتن آخر چہ دیدی ۴۶؎ (تونے مجھے اپنی صورت پر بنایا ہے۔ تونے اپنے آپ سے باہر آخر کیا دیکھا ہے)؟ انسانی زندگی کے قیاس پر حیات الٰہیہ کو سمجھنے کا یہی اندیشہ تھا جس کے پیش نظر اسلامی سپین کے مسلمان ماہر الٰہیات علامہ ابن حزم نے خدا سے حیات کو منسوب کرنے میں تامل کیا۔ اس نے کمال ذہانت سے یہ تجویز کیا کہ خدا کو زندہ کہا جائے مگر اس طرح کا زندہ نہیں جس طرح کا تجربہ ہمیں زندہ ہونے کا ہے بلکہ اس طرح سے جس طرح کہ قرآن میں اُسے ذی حیات بیان کیا گیا ہے۔ ۴۷؎ اپنے آپ کو شعوری تجربے کی سطحی تعبیر تک محدود کرتے ہوئے اور اس کی گہرائی کے رخ کو نظرانداز کرتے ہوئے علامہ ابن حزم نے زندگی کو لازماً بطور ایک تغیر متسلسل کے لیا ہو گا۔ جو ایک مزاحم ماحول کی جانب ہمارے رویوں کے تسلسل پر مشتمل ہے۔واضح رہے کہ تغیر متسلسل عدم تکمیل کی علامت ہے اور اگر ہم اپنے آپ کو اس نظریۂ تغیر تک محدود کر لیں تو کمال الٰہیہ اور حیات الٰہیہ میں موافقت پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ابن حزم نے بھی لازمی طور پر محسوس کیا ہو گا کہ خدا کے کمال کو اس کی حیات کی قیمت پر ہی باقی رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس مشکل سے بچنے کا ایک راستہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے انائے مطلق حقیقت کی کلیت کا نام ہے۔ وہ کوئی ایسا وجود نہیں کہ جو کائنات سے مغائر کہیں اور واقع ہے اور باہر سے اسے دیکھ رہا ہے۔ نتیجۃً اس کی زندگی کی پرتیں خود اس کی اپنی ذات کے اندرون سے متعین ہوں گی۔ چنانچہ تغیر کے اس مفہوم کا کہ یہ نامکمل حالت سے مکمل حالت کی طرف یا مکمل سے نامکمل کی طرف انتقال کا نام ہے خدا پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ مگر تغیر کا یہ مفہوم ہی زندگی کی واحد ممکن صورت نہیں۔ زیادہ گہری نظر سے دیکھئے تو ہمارا شعوری تجربہ یہ ظاہر کرے گا کہ استدام متسلسل کی ظاہریت کے نیچے ایک حقیقی استدام ہے۔ انائے مطلق کا وجود استدام خالص میں ہے جہاں تغیر تبدیل ہوتے ہوئے رویوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے۔ اس سے انائے مطلق کو نہ تھکن ہوتی ہے۴۸؎ نہ اسے اُونگھ آ سکتی ہے اور نہ نیند اس کی راہ میں روک بن سکتی ہے۔۴۹؎ تغیر کے اس مفہوم میں انائے مطلق کے بے تغیر ہونے کا اگر ہم تصور کریں تو ہم اسے غیر متحرک‘ بے ارادہ، جامد‘ بے تعلق اور مطلق لاشے بنا دیں گے۔ نفس خلاّق کے لیے تغیر کا مطلب غیر مکمل ہونا نہیں ہو سکتا۔ نفس خلاّق کا مکمل ہونا اس کے میکانکی طور پر بے حرکت ہونے کا نام نہیں جیسا کہ ارسطو کے انداز میں ابن حزم نے سوچتے ہوئے تصور کیا ۔ یہ کمال اس کی تخلیقی کارکردگی کی وسیع تر بنیاد اور اس کی تخلیقی ویژن کے غیر متناہی دائرہ عمل میں ہے۔ خدا کی حیات انکشاف ذات سے عبارت ہے نہ کہ کسی تصور اعلٰیٰ تک پہنچنے کی تگ و دو سے۔ انسان کا ’’ابھی نہیں‘‘ تو یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ کسی مقصد کی جستجو میں ہے یا وہ اس کو حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔ مگر خدا کے ہاں ’’ابھی نہیں‘‘ کا مفہوم اس کی ذات کے لامحدود تخلیقی امکانات کا ناقابل انقطاع ظہور ہے اور اس کی کلیت اس کے اس تمام عمل میں قائم رہتی ہے۔ خود اپنے ہی تکرار متسلسل میں وہ ہمیشہ سے ایک ہی طرح سے موجزن ہے‘ لکھوکھا محرابیں جست لگا کر اور مل جل کر اسے سہارے ہوئے ہیں زندگی کرنے کی محبت تمام اشیاء سے پھوٹ رہی ہے بڑے بڑے ستارے اور بے مایہ قطرے‘ یہ تمام کھچائو اور یہ تمام تگ ودو خدا میں ابدی سکون ہے (گوئٹے) ۵۰؎ چنانچہ تجربے کے فعال اور قدری پہلوئوں سے متعلقہ تمام حقائق پر محیط فلسفیانہ تنقید ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتی ہے کہ حقیقت مطلقہ وہ تخلیقی زندگی ہے جس کے پیچھے حکمت و بصیرت کارفرما ہے۔ اس زندگی کو بطور ایک انا کے تعبیر کرنا اسے انسان پر قیاس کرنے کے مترادف نہیں۔ یہ محض تجربے کی اس ایک سادہ حقیقت کو قبول کرنا ہے کہ زندگی ایک بے ہیٔت سیال شے نہیں بلکہ وحدت کی تنظیم کا ایک اصول‘ ایک ترکیبی سرگرمی ہے جو ایک تعمیری مقصد کے پیش نظر زندہ عضویوں کے انتشار پذیر میلانات کو مربوط کرتی ہے اور انہیں ایک نقطے پر مرکوز رکھتی ہے۔فکر کا عمل جو لازمی طور پر اپنی نوعیت میں اشاراتی ہے زندگی کی اصل فطرت کو اوجھل کر دیتا ہے اور اسے ایک خاص قسم کے ایسے عالمگیر بہائو میں دکھاتا ہے جو تمام اشیاء میں موجود ہے۔ یوں زندگی کا فکری منظر نامہ لازمی طور پر وحدت الوجودی ہے۔ مگر ہم زندگی کے قدری پہلو کا علم براہ راست باطن سے حاصل کر سکتے ہیں۔ وجدان زندگی کو ایک خود مرکوز انا کی حیثیت سے منکشف کرتا ہے۔ یہ علم گو نامکمل ہے کیونکہ یہ محض ایک نکتہ آغاز ہے یہ حقیقت کی فطرتِ مطلق ہم پر براہ راست منکشف کرتا ہے۔ چنانچہ تجربے کے حقائق اس نتیجہ تک پہنچنے کا جواز فراہم کرتے ہیں کہ حقیقت کی فطرت مطلقہ روحانی ہے اور یہ کہ اسے لازمی طور پر ایک انا کی حیثیت میں تصور کرنا چاہیے۔ مگر مذہب کے عزائم فلسفے کے عزائم سے بلند ہوتے ہیں۔ فلسفہ اشیاء کے بارے میں عقلی نقطہ نظر ہے اور وہ اس تصور سے آگے نہیں بڑھتا جو تجربے کی کثرتیت کو ایک تنظیم میں لا سکے۔ وہ گویا حقیقت کو قدرے فاصلے سے دیکھتا ہے۔ مذہب حقیقت سے زیادہ گہرے تعلق کا متلاشی ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے جبکہ دوسرا ایک زندہ تجربہ، تعلق اور اتصال ہے۔ اس اتصال کو پانے کے لیے فکر کو اپنی سطح سے بہت بلند اُٹھنا ہو گااور اپنی تسکین ایک ایسے ذہنی رویے میں کرنا ہو گی جس کو مذہب ’’دُعا‘‘ کہتا ہے۔ یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو پیغمبر اسلامؐ کے لبوں پر تھے۔۵۱؎ (۳) خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم ’’انسان کی انفرادی اور اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے ۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جوازکی یافت کرتی ہے،، اقبالؒ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ حکم جس کی اساس مذہبی تجربے پر ہو عقلی معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔ جب ہم اس تجربے کے زیادہ اہم گوشوں کا تجزیہ ایک ایسی آنکھ سے کرتے ہیں جو ترکیبی زاویۂ نگاہ رکھتی ہے تو تمام تجربات کے لیے قطعی بنیاد حکمت اور بصیرت رکھنے والے تخلیقی ارادے کی صورت میں منکشف ہوتی ہے جسے ہم نے بوجوہ ایک انا کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ انائے مطلق کی انفرادیت پر زور دینے ہی کے لئے قرآن اسے اﷲ کا نام دیتا ہے اور مزید اس کی توضیح یوں کرتا ہے: قُلْ ہُوَ اﷲُ أَحَدٌo اﷲُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْo وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌo (۴-۱:۱۱۲) ’’کہہ دو! اﷲ ایک ہے اﷲ ہی پر ہر شے کا مدار ہے‘ نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ اس نے کسی کو جنا اور کوئی نہیں جو اس کی ہمسری کر سکے،، مگر یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ حقیقتًا فرد کیا ہے۔ جیسا کہ برگساں اپنی کتاب ’تخلیقی ارتقائ‘ میں ہمیں بتاتا ہے‘ فردیت کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ اور انسانی وجود کی بظاہر الگ تھلگ اکائی کی صورت میں بھی اس کا مکمل اظہار نہیں ہوتا۔ ۱؎ برگساں کے بقول فردیت کے بارے میں خاص طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ: ’’اگرچہ اس منظم دنیا میں فردیت کی جانب میلان ہر کہیں موجود ہے تاہم تولید کا رجحان اس کی راہ میں مزاحم ہوتا ہے۔ فردیت کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عضویے کا کوئی بھی حصہ اس سے جدا ہو کر زندہ نہ رہے۔ لیکن ایسی صورت میں تولید ناممکن ہو جائے گی۔ تولید اس کے سوا کیا ہے کہ پرانے عضویہ سے جدا ہو کر ایک نئے عضویہ کی تعمیر ہو۔ اس طرح فردیت خود اپنے گھر میں اپنے دشمن کو پالتی ہے‘‘۔ ۲؎ اس اقتباس کی روشنی میں یہ تو واضح ہے کہ ایک مکمل فرد جو انا کی صورت میں اپنے آپ میں محدود‘ بے مثل اور یکتا ہے‘ اس کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے دشمن کو اپنے گھر میں پال رکھا ہے۔ اس کا تصور تو لازمی طور پر اس معاندانہ رجحانِ تولید سے برتر ہونا چاہیے۔ مکمل خودی کی یہ خصوصیت قرآن کے تصور خدا کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے اور قرآن اسے بار بار دھراتا ہے__ معاصر مسیحی تصور کی تردید کے لئے نہیں بلکہ محض خود اپنے تصور فرد کامل پر اصرار کی خاطر۔ ۳؎ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی فکر کی تاریخ حقیقت مطلق کے فردیت پسندانہ تصور سے فرار کی مختلف راہوں سے عبارت ہے جسے روشنی کی طرح مبہم‘ بے کراں اور ہر جگہ سرایت کرنے والے عنصر کے طور پر خیال کیا گیا ہے۔ ۴؎ یہ وہ نقطہ نظر ہے جسے اپنے گیفرڈ لیکچرز میں فارنل نے اپنایا‘ جن کا موضوع ’صفات خدا‘ تھا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ تاریخ مذہب میں فکر کے رجحانات وحدت الوجود کی طرف رہے ہیں۔ مگر میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ جہاں تک قرآن کے‘ خدا کے نور میں متشخص کرنے کا تعلق ہے فارنل کا نقطہ نظر درست نہیں۔ وہ پوری آیت‘ جس کے اس نے محض ایک حصے کا حوالہ دیا‘ یہ ہے: اﷲُ نُورُالسَّمٰوٰت وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَوٰۃِ فِیْھَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُکَأَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ (۳۵:۲۴) اﷲ ہی زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو وہ چراغ شیشے کے فانوس میں پڑا ہو وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے جو موتی کی طرح چمک رہا ہو۔ ۵؎ اس میں شک نہیں کہ اس آیت کا پہلا جملہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ خدا کی فردیت کے تصور سے انحراف کیا گیا ہے مگر جب ہم آیت کے اگلے حصے میں نورکے استعارے کا بیان دیکھتے ہیں تو یہ پہلے کے برعکس تاثر دینے لگتی ہے۔ اس استعارے کے مزید آگے بڑھانے سے اس مفہوم کو زائل کرنا مقصود ہے کہ خدا کوئی بے ہیئت کونی عنصر ہے کیونکہ نور کو شعلے میں مرتکز کر دیا گیا ہے جسے مزید فردیت یوں دی گئی ہے کہ وہ ایک فانوس میں ہے جو ایک واضح طور پر بیان کئے گئے ستارہ کی مانند ہے۔ ذاتی طور پر میری سوچ یہ ہے کہ خدا کی نور کے طور پر جو تشریح یہودی‘ عیسائی اور اسلامی ادبیات میں کی گئی ہے اب ہمیں اس کی تعبیر مختلف انداز میں کرنی چاہیے۔ جدید طبیعیات کے مطابق نور کی رفتار میں اضافہ ممکن نہیں اور یہ ہر مشاہدہ کنندہ کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے‘ خواہ اس کا اپنا نظام حرکت کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ تغیر کی دنیا میں نور ذات مطلق کے قریب ترین ہے۔ نور کے استعارے کا جہاں تک خدا کے لیے استعمال کا تعلق ہے اس کا مفہوم‘ علم جدید کے پس منظر میں‘ خدا کی مطلقیت ہونا چاہیے نہ کہ اس کا ہر جگہ موجود ہونا۔ ۶؎ موخرالذکر ہمیں آسانی سے وحدت الوجودی تشریح کی طرف لے جاتا ہے۔ اب یہاں اس سلسلے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فردیت سے مراد متناہیت نہیں ہے۔ اگر خدا ایک انا ہے اور یوں ایک فرد ہے تو ہم اس کو لامتناہی کیسے تصور کر سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو مکانی لا متناہیت کے مفہوم میں ہم لامتناہی تصور نہیں کر سکتے۔ روحانی قدر کے تعین میں وسعت اور پہنائی کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں، جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں‘ زمانی اور مکانی لامتناہیت مطلق نہیں ہوتی۔ جدید طبیعیات فطرت کو کسی لامتناہی خلا میں واقع ساکن خیال نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے سے باہم مربوط واقعات کا ایک نظام تصور کرتی ہے جن کے باہمی روابط سے زمان و مکان کے تصورات ابھرتے ہیں اور یہ اس حقیقت کو بیان کرنے کا ایک مختلف انداز ہے کہ زمان و مکان وہ توجہیات ہیں جو فکر، انائے مطلق کی تخلیقی فعلیت پر لاگو کرتی ہے۔ زمان و مکان انائے مطلق کے امکانات ہیں جن کا ہماری زمان و مکان کی ریاضیاتی شکل میں جزوی طور پر ہی اظہار ہوتا ہے۔ خدا سے ماورا اور اس کی خلّاقی فعلیت سے الگ نہ تو مکان ہے اور نہ ہی زمان جو اسے دوسری انائوں سے الگ ٹھہرا سکے۔ انائے مطلق نہ تو مکانی لحاظ سے لامتناہی ہے اور نہ ہی اس مفہوم میں متناہی ہے جس طرح انسان مکاناً محدود اور جسماً دوسرے انسانوں سے الگ ہوتے ہیں۔انائے مطلق کی لامتناہیت اس کی تخلیقی قوت کے لامتناہی اندرونی امکانات سے عبارت ہے جن کا ہماری معروف کائنات ایک جزوی اظہار ہے۔ مختصراً خدا کی لامتناہیت وسیع نہیں عمیق ہے۔ وہ ایک لامتناہی سلسلے کا باعث تو ہے مگر خود یہ سلسلہ نہیں۔ اس میں لامتناہی تسلسل کا دخل ہے، خود کوئی تسلسل نہیں۔ عقلی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قرآن کے تصور خدا میں دیگر اہم عناصر خالقیت ’علم‘ قدرت کاملہ اور ابدیت ہیں۔ ان کی یہاں بتدریج وضاحت کروں گا۔ متناہی اذہان فطرت کو خود سے باہر ایک متقابل چیز سمجھتے ہیں جسے ذہن جانتا تو ہے مگر اس کو تخلیق نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہم عمل تخلیق کو ماضی کا ایک عمل سمجھتے ہیں اور کائنات ہمیں ایک ایسی مصنوع شے دکھائی دیتی ہے جس کا اپنے صانع کی زندگی سے کوئی عضویاتی ناطہ نہیں اور صانع کا اس سے تعلق محض ایک تماشائی کا ہے۔ وہ تمام بے معنی کلامی مباحث‘ جو تصور تخلیق کے بارے میں اٹھائے گئے‘ وہ اسی متناہی ذہن کی محدود سوچ کی پیدا وار ہیں۔ ۷؎ اس نقطہ نظر کے مطابق کائنات خدا کی زندگی کا محض ایک حادثہ ہے اور ممکن ہے کہ یہ حادثہ رونما نہ ہوا ہوتا۔ وہ بنیادی سوال جس کا ہم جواب دینا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کیا کائنات خدا کی ذات سے متقابل کوئی غیر ذات ہے اور دونوں کے درمیان کیا کوئی بُعد مکانی موجود ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ الوہی نقطہ نظر سے تخلیق کوئی ایسا خاص واقعہ نہیںجس کا کوئی ماقبل اور کوئی مابعد ہو۔ کائنات کو ایسی خودمختار حقیقت تصور نہیں کیا جا سکتا جو خدا کے متقابل موجود ہو‘ کیونکہ یہ نقطہ نظر خدا اور دنیا کو دو ایسی اکائیوں میں بدل دیتا ہے جو لامتناہی مکان کی وسعتوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل پڑے ہوں۔ ہم قبل ازیں دیکھ چکے ہیں کہ زمان و مکان اور مادہ‘ خدا کی آزادانہ خلّاق توانائی سے متعلق فکر کی محض مختلف تعبیرات ہیں۔ ۸؎ وہ قائم بالذات نہیں بلکہ حیات خداوندی کی تفہیم کے عقلی پیرائے ہیں۔ ایک بار معروف بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے مریدوں میں تخلیق کا سوال سامنے آیا۔ ایک مرید نے فہم عامہ کے نقطہ نظر کے مطابق کہا: ’’ایک ایسا لمحہ وقت تھا جب خدا ہی موجود تھا اور خدا کے سوا کچھ نہ تھا‘۔ جواباً حضرت بایزید بسطامی نے فرمایا: ’’اب بھی تو وہی صورت ہے جو اس وقت تھی‘‘ یہ مادی دنیا کوئی ایسا مواد نہیں جو خدا کے ساتھ ہمیشہ سے تھا اور خدا گویا فاصلے پر بیٹھا اس پر عمل پیرا ہے۔ بلکہ اس کی حقیقی فطرت تو ایک مسلسل عمل کی ہے جسے فکر نے الگ تھلگ چیزوں کی کثرت میں بانٹ رکھا ہے۔ پروفیسر اڈنگٹن نے اس اہم مسئلہ پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس موقع پر اس کی کتاب ’’زمان و مکان اور کشش ثقل‘‘ کا حوالہ دوں: ’’ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں نقاط و حوادث ہیں جن کے باہمی وقفوں میں بنیادی طور پر کچھ نسبتیں قائم ہیں۔ ان میں حسابی طور پر بے شمار مزید پیچیدہ تر روابط اور صفات کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ان ارتباطات اور خاصیتوں کی موجودگی کی نوعیت اسی طرح ہے جیسے کسی دورافتادہ زمین میں بے شمار پگڈنڈیاں موجود ہوں لیکن ان کی موجودگی اس وقت تک پوشیدہ رہتی ہیں جب تک کوئی ان پر چل کر انہیں معنویت نہ دے۔ اسی طرح صفات عالم میں سے کسی صفت کی موجودگی اس وقت معنویت حاصل کر تی ہے جب کوئی ذہن اس کو الگ سے اپنا کر معنویت دے۔ صفات کے بے معنی مجموعے سے ذہن مادے کی تقطیر کرتا ہے جس طرح منشور سفید روشنی کے بے راہ ارتعاشات سے قوس و قزح کے رنگ تقطیر کر لیتا ہے۔ ذہن مستقل اشیاء کو تو باقی رکھتا ہے مگر عارضی چیز کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اور نسبتوں کے ریاضیاتی مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طریقہ جس سے ذہن اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک خاص صفت کو قابل ادراک دنیا کے مستقل جوہر کے طور پر انتخاب کر لیتا ہے اور پھر ان کو زمان اور مکان کے ادراکات میں تقسیم کرتا ہے تاکہ ان کے لئے کوئی دوامی جگہ پیدا کرے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر کشش ثقل‘ میکانکیت اور جیومیٹری کے قوانین کی فرمانروائی معرض وجود میں آتی ہے۔کیایہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ ذہن کی طرف سے دوامیت کی تلاش ہی طبیعیات کی کائنات کی تخلیق کار ہے۔‘‘ ۹؎ اس اقتباس کا آخری فقرہ پروفیسر اڈنگٹن کی کتاب میں نہایت گہری سوچ کی حامل چیز ہے۔ کیونکہ ماہر طبیعیات نے اپنے طریق کار سے ابھی یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا بظاہر دکھائی دینے والی طبیعیات کی ثابت دنیا‘ جسے ذہن نے ثبات کی تلاش میں تخلیق کیا ہے‘ کی جڑیں کہیں اور زیادہ دائمی ہستی سے پیوست تو نہیں ہیں جسے صرف ایک ذات کی حیثیت سے تصور کیا جا سکتا ہو۔ صرف اسی میں تغیر اور ثبات جیسی متضاد صفات یکجا ہیں۔ استقلال اور تبدیلی دونوں اس سے موسوم ہیں۔ تاہم یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ جس کا جواب آگے بڑھنے سے پہلے دینا ضروری ہے۔ خدا کی تخلیقی فعالیت سے کار تخلیق کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے؟ الٰہیات کے سب سے زیادہ قدامت پسند اور تاحال مقبول مکتب فکر‘ میری مراد اشاعرہ سے ہے‘ کا نظریہ یہ ہے کہ الہیاتی توانائی کا تخلیقی طریق جوہری ہے۔ اور ان کے اس نظریے کی بنیاد قرآن حکیم کی یہ آیت دکھائی دیتی ہے: وَإِن مِّنْ شَیْ ئٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَآئِنُہُ وَمَانُنَزِّلُہُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۲۱:۱۵) ایسی کوئی شے نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں جو چیزیں ہم نازل کرتے ہیں وہ ایک مقررہ معلوم مقدار میں ہوتی ہے۔ اسلام میں تصور جوہریت کا نشوونما پانا ارسطو کے ساکن و ثابت کائنات کے خیال کے خلاف پہلی اہم عقلی بغاوت کا اشارہ ہے۔ اس نے اسلامی فکر کی تاریخ کا سب سے اہم اور دلچسپ باب رقم کیا ہے۔ اس نقطہ نظر کی سب سے پہلی صورت گری بصرہ کے مکتبہ فکر کے ابوہاشم (م ۹۳۳) ۱۰؎ اور بغداد کے مکتبہ فکر کے سب سے جرأت مند اور سلامت فکر کے مالک الہیاتی فلسفی ابوبکر باقلانی (م ۱۰۱۲) ۱۱؎ نے کی۔ بعد میں تیرھویں صدی کے آغاز میں ہمیں اس کی ایک مربوط توضیح موسی میموندس کی کتاب دلیل الحائر میں ملتی ہے۔ وہ ایک یہودی الٰہیاتی مفکر تھا جس نے سپین کی مسلم یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی۔ ۱۲؎ اس کتاب کا فرانسیسی ترجمہ ۸۶۶ء میں مونک نے کیا۔ حال ہی میں امریکہ کے پروفیسر میکڈونلڈ نے اس کے مشمولات کی عمدہ توضیح ’آئی سیس‘ میں کی جہاں سے ڈاکٹر زومر نے اسے لیکر جنوری ۱۹۲۸ء کے ’’مسلم ورلڈ‘‘ رسالے میں شائع کیا۔ تاہم پروفیسر میکڈونلڈ نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کونسی نفسیاتی قوتیں تھیں جو مسلم علم کلام میں جوہریت کے نشوونما کا سبب بنیں۔ ۱۳؎ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یونانی فکر میں اسلام کے تصور جواہر جیسی کوئی شے نہیں مگر چونکہ وہ مسلمان مفکرین کو کسی طبع زاد نظریے کے خالق ہونے کا اعزاز نہیں دینا چاہتا ۱۴؎ اور چونکہ اُس کے نزدیک ایک بڑی ہی سطحی قسم کی مشابہت اس اسلامی تصور اور بدھوں کے ایک خاص فرقے کے مابین پائی جاتی ہے لہٰذا اُس نے دفعۃً یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ تصور اسلامی فکر پر بدھ مت کے اثرات کے باعث ہے۔ ۱۵؎ بدقسمتی سے اس خطبے میں اس انتہائی فلسفیانہ تصور کے منابع پر مکمل بحث ممکن نہیں۔ میں یہاں اس کے چند نمایاں پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان خطوط کی طرف اشارہ کروں گا جن پر میری رائے میں جدید طبیعیات کی روشنی میں اس کی تشکیل نو کا کام آگے بڑھنا چاہیے۔ اشعری مکتب کے مفکرین کے مطابق دنیا ان ذرات سے بنائی گئی ہے جنہیں وہ جواہر کہتے ہیں یعنی لاتعداد چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یا ایٹم جو مزید ناقابل تقسیم ہیں۔ چونکہ خدا کا عمل تخلیق لامحدود ہے جواہر کی تعداد متناہی نہیں ہو سکتی۔ ہر لمحہ نئے جواہر وجود میں آ رہے ہیں اور کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَائُ (۱:۳۵) خدا اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ ۱۶؎ جوہر کی حقیقت اس کی ہستی سے الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہستی ایک صفت ہے جو جوہر کو خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ اس صفت کو پانے سے قبل جوہر خدا کی تخلیقی توانائی کے طور پر گویا خوابیدہ پڑا ہوتا ہے۔ اس کے ہست میں آنے سے مراد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ خدا کی تخلیقی توانائی مشہود ہو گئی ہے۔ چنانچہ جوہر اپنی حقیقت میں کوئی جسامت نہیں رکھتا۔ اس کا محل تو ہے لیکن مکان سے بے نیاز۔ اپنے اجتماع کے ذریعے جواہر وسعت پذیر ہوتے ہیں اور مکانیت کو جنم دیتے ہیں۔ ۱۷؎ ابن حزم‘ جو نظریہ جواہر کا نقاد تھا‘ بڑے بامعنی انداز میں کہتا ہے کہ قرآن حکیم کی زبان عمل تخلیق اور خلق شدہ شے میں تمیز نہیں کرتی۔ جس کو ہم شے کہتے ہیں وہ اپنی ماہیت اصلیہ میں ان اعمال کا مجموعہ ہے جنہیں جواہر کہتے ہیں۔ جوہری عمل کے تصور میں مشکل یہ ہے کہ اس کی کوئی ذہنی تصویر نہیں بن سکتی۔ جدید طبیعیات بھی ایک خاص جسمی کمیت کے جوہر کا ادراک بطور ایک عمل کے کرتی ہے۔ مگر‘ جیسا کہ پروفیسر اڈنگٹن نے نشاندہی کی ہے، جہاں تک ایک مکمل نظریۂ مقادیر عمل کی تشکیل کا تعلق ہے وہ ابھی تک ممکن نہیں ہوا گرچہ ایک غیر واضح تصور موجود ہے کہ عمل کی جوہریت خود ایک عام قانون ہے اور یہ کہ الیکٹرون کا ظہور بھی کسی نہ کسی طور اس پر منحصر ہے۔ ۱۸؎ ہم نے دیکھا ہے کہ ہر جوہر ایک محل رکھتا ہے جس میں مکان کا دخل نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر حرکت کی نوعیت کیا ہے کیونکہ حرکت کا معروف مطلب ہے مرور فی المکان۔ چونکہ اشاعرہ نے مکان سے مراد جواہر کا اجتماع لیا تھا یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ حرکت جسمانی طور پر اوّل سے آخر تک مکان کے تمام درمیانی نکات میں سے سفر کرنے کا نام ہے کیونکہ ایسی تشریح کا مطلب لازمی طور پر یہ فرض کرنا ہے کہ خلا کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ خلا کی مشکل پر قابو پانے کے لئے ہی نظام نے طفرہ یا زقند (چھلانگ) کا تصور وضع کیا اور جسم کی حرکت کا یوں تصور کیا کہ یہ مکان کے تمام متعین مقامات سے نہیں گزرتا بلکہ خلا میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جست لگاتا ہے۔ نظام کے مطابق حرکت تیز ہو یا آہستہ اس کی رفتار ایک سی ہو گی اس کی وجہ محض یہ کہ موخر الذکر کے رکنے کے مقامات زیادہ ہوں گے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مشکل کے اس حل کو میں نہیں سمجھ پایا۔ ۱۹؎ تاہم میں یہ واضح کردوں کہ موجودہ جوہریت کو بھی اسی طرح کی مشکل کا سامنا تھا اور اس نے بھی اسی طرح کا حل پیش کیا ہے۔ پلانک کے نظریۂ مقادیر کے تجربات کے پیش نظر ہم کسی جوہر کی خلا کے کسی مخصوص راستے پر متسلسل حرکت کا تصور نہیں کر سکتے۔ پروفیسر وائٹ ہیڈ نے اپنی کتاب ’’سائنس اور جدید دنیا‘‘ میں نئی سمت میں ایک امید افزا تشریح یوں کی ہے کہ ’’ایک الیکٹرون مکان میں اپنے راستے پر سے مسلسل نہیں گزرتا۔ اس کی ہستی کا متبادل تصور یہ ہے کہ وہ خلا میں مختلف مخصوص مقامات پر مختلف زمانی مدتوں کے لئے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ایک موٹر گاڑی کی طرح ہے جو فرض کیجئے اوسطاً ۳۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سٹرک پر جا رہی ہو مگر وہ سڑک پر مسلسل نہ گزر رہی ہو بلکہ یکے بعد دیگرے مختلف سنگ میلوںپر ظاہر ہو رہی ہو‘ اور ہر سنگ میل پر دو منٹ کے لیے ٹھہرے‘‘۔ ۲۰؎ اس نظریۂ تخلیق کا ایک اہم پہلو اس کا تصور ’عرض‘ ہے جس کی دوامی تخلیق پر جواہر کی ہستی کے تسلسل کا انحصار ہے۔ اگر خدا اعراض کی تخلیق سے ہاتھ اٹھا لے تو جوہر کی ہستی بطور جوہر ختم ہو جائے گی۔ جوہر منفی اور مثبت صفات رکھتے ہیں جنہیں علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ۲۱؎ یہ متضاد جوڑوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ مثلاً زندگی اور موت ‘ حرکت وسکون اور عملاً کسی دوران کی حامل نہیں ہوتیں۔ اس سے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں: (ا) اپنی فطرت میں کسی شے کو ثبات نہیں۔ (ب) جواہر کا ایک ہی نظام ہے۔ یعنی جسے ہم روح کہتے ہیں یا تو وہ مادہ کی کوئی لطیف صورت ہے یا محض ایک عرض ہے۔ میرا خیال ہے کہ تخلیق مسلسل کے تصور کی رو سے جسے قائم کرنے کی طرف اشاعرہ راغب تھے پہلے نتیجے میں کسی قدر سچائی موجود ہے۔ میں قبل ازیں بھی کہہ چکا ہوں کہ میری رائے میں قرآن کی روح یونانی کلاسیکیت کے مکمل طور پر منافی ہے۔ ۲۲؎ میں اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کو اس کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک سنجیدہ کوشش تصور کرتا ہوں جس کی بنیاد مشیت مطلقہ یا قدرت مطلقہ ہے اور جو ساکن کائنات کے ارسطوی نظریے کی نسبت قرآن کی روح کے زیادہ قریب ہے۔۲۳؎ میرے نزدیک اسلام کے ماہرین الٰہیات کا یہ فرض ہے کہ وہ مستقبل میں اس خالصتًا فلسفیانہ نظریے کی از سر نو تشکیل کریں اور اس کو جدید سائنس کے تصورات کے قریب تر لائیں جو خود اسی سمت میں آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دوسرا نتیجہ مادیت کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اشاعرہ کا یہ نقطہ نظر کہ نفس ایک عرض ہے‘ ان کے اپنے نظریے کے حقیقی رجحان کے منافی ہے جس کے تحت جوہر کی مسلسل ہستی عرض کی تخلیق مسلسل پر منحصر ہے۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ حرکت‘ زمان کے بغیر ناقابل تصور ہے اور چونکہ زمان کا تعلق حیات نفسی سے ہے موخرالذکر‘ حرکت سے زیادہ بنیادی ہے۔ اگر حیات نفسی نہیں تو زمان بھی نہیں اور اگر زمان نہیں تو حرکت نہیں۔ پس اشاعرہ جسے عرض کہتے ہیں درحقیقت جواہر کے تسلسل کا ذمہ دار ہے۔ جواہر اس وقت مکانی ہوتے ہیں یا ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب وہ ہستی کی صفت پالیتے ہیں۔ قدرت الٰہی کی ایک صورت کی حیثیت سے وہ لازمی طور پر روحانی ہوں گے۔ نفس خالصتًا ایک عمل ہے‘ جسم محض ایک ایسا عمل ہے جو نظر آتا ہے اور قابل پیمائش ہے۔ درحقیقت اشاعرہ نے ’نقطے۔ لمحے‘ کے جدید نظریے کی ایک دھندلی سے پیش بینی کی‘ مگر وہ نقطے اور لمحے کے باہمی تعلق کی نوعیت کو درست طور پر جاننے میں ناکام ہو گئے۔ ان دونوں میں لمحہ زیادہ بنیادی ہے مگر نقطے کو لمحے سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اُس کے اظہار کا ایک لازمی انداز ہے۔ نقطہ کوئی شے نہیں ہے بلکہ یہ لمحہ کو دیکھنے کا ہی ایک انداز ہے۔ رومی‘ غزالی کی نسبت اسلامی روح کے زیادہ قریب ہے جب وہ کہتا ہے: پیکر از ما ہست شد‘ نے ما ازو بادہ از ما مست شد‘ نے ما ازو بدن ہم سے موجود ہواہو نہ کہ ہم بدن سے ، شراب میں نشہ ہم سے ہے، شراب سے ہم نشہ حاصل نہیں کرتے۔ ۲۴؎ بقول ایک اردو شاعر کے ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل چنانچہ حقیقت بنیادی طور پر روحی ہے‘ تاہم روح کے درجات ہوتے ہیں۔ تاریخ فکر اسلامی میں حقیقت کے درجات کا تصور شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ عصر جدید میں ہم اس موضوع پر وسیع پیمانے پر کام فریڈرک ہیگل کے ہاں اور زیادہ قریب زمانے میں آنجہانی لارڈ ہالڈن کی کتاب ’’اضافیت کا دور‘‘ میں جو اس کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے چھپی،۲۵؎ دیکھتے ہیں۔ میں نے حقیقت مطلقہ کو ’’انا‘‘ کے طور پر لیا ہے اور اب میں مزید یہ اضافہ کرتا ہوں کہ انائے مطلق سے انائوں کا ہی صدور ہو رہا ہے۔ انائے مطلق کی تخلیقی قدرت جس میں فکر اور عمل ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں‘ انائی اکائیوں کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ یہ کائنات اپنی تمام تر تفصیل میں مادی جوہر کی میکانکی حرکت سے لے کر انسانی انا میں فکر کی آزادانہ حرکت تک ایک عظیم اور برتر انا کا انکشاف ہے۔ ۲۶؎ قدرت الٰہیہ کا ہر جوہر خواہ وہ اپنی ہستی میں کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو خود ایک انا ہے۔ تاہم انائیت کے اظہار کے درجات ہیں۔ ہستی کے سارے سرگم میں انائیت کاسُر بتدریج بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان میں اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید انائے مطلق کو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب قرار دیتا ہے۔ ۲۷؎ حیات الہیہ کے دوامی بہائو میں ہماری ہستی موتیوں کی طرح رہتی ہے اور حرکت کرتی ہے۔ لہٰذا مسلم فکر کی بہترین روایات سے پیدا ہونے والی تنقید سے اشاعرہ کی جوہریت روحانی کثرتیت میں بدلتی ہوئی نظر آتی ہے جس کی تفصیلات مرتب کرنا مستقبل کے مسلم الہیین کا فریضہ ہے۔ تاہم یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا جو ہریت خدا کی قدرت خالقیہ میں کوئی حقیقی مقام رکھتی ہے یا ہمیں ہمارے ایک خاص متناہی انداز میں ادراک کرنے کے سبب اس طرح دکھائی دیتی ہے۔ میںیہ نہیںکہتا کہ خالصتًا سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال کا کیا جواب ہو گا۔ مگر نفسیاتی لحاظ سے ایک بات میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ اصلاً حقیقی وہی ہے جو اپنی حقیقت کا براہ راست شعور رکھتا ہے۔ حقیقی ہونے کے درجات خودی کے احساس کے درجات کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ خودی کی ماہیت ایسی ہے کہ باوجود اس امر کے کہ اس میں دوسری خودیوں کے ردعمل پیش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ اپنی ذات میں مرتکز رہتی ہے اور انفرادیت کا ایک اپنا ذاتی نظام رکھتی ہے جس میں سے اپنے علاوہ دیگر تمام انائوں کو خارج کر دیتی ہے۔ ۲۸؎ خودی کی یہی خصوصیت اس کی اصل حقیقت کا راز ہے۔ انسان جس میں خودی اپنی اضافی اکملیت تک پہنچتی ہے خدا کی قدرت خالقیہ میں ایک مستقل مقام رکھتا ہے اور اس طرح وہ حقیقت کے اس اعلیٰ درجے کا حامل ہے جو اس کے ارد گرد کی اشیاء کو نصیب نہیں۔ خدا کی تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی ہے جو اپنے بنانے والے کی حیات خالقیہ میں شعوری طور پر حصہ لے سکتا ہے۔ ۲۹؎ ایک بہتر دنیا کے تصور کی صلاحیت کے ساتھ جو اسے ودیعت کی گئی ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ کہ وہ موجود کو مطلوب میں بدل سکتا ہے اس کی خودی انفرادیت کی طرف بڑھنے اور یکتائی حاصل کرنے کے لئے اس ماحول سے پورا استفادہ کرنا چاہتی ہے جس میں اسے غیر معینہ مدت کے لیے کام کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مسئلے پر میں اپنے خطبے ’’انسانی خودی اس کی آزادی اور لافانیت‘‘ میں تفصیلی اظہار خیال کروں گا۔ دریں اثناء میں چند الفاظ جو ہر زماں کے نظریے کے بارے میں کہنا چاہوں گا جو اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کا کمزور ترین پہلو ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی صفت ابدیت کا کوئی معقول نقطہ نظر اپنایا جا سکے۔ زمان کا مسئلہ مسلم مفکرین اور صوفیا کے لئے ہمیشہ توجہ طلب رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ قرآن حکیم کے مطابق دن اور رات کا یکے بعد دیگرے آنا خدا کی نشانیوں میں سے گردانا گیا ہے اور دوسری جزوی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے ایک معروف حدیث میں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے خدا کو دہر (زماں) کے مترادف قرار دیا ہے۔۳۰؎ یقینا کچھ عظیم مسلم صوفیاء دہر کے لفظ کی صوفیانہ خصوصیت کے قائل تھے۔ محی الدین ابن عربی کے بقول ’’دہر‘‘ خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے اور امام رازی اپنی تفسیر میں ہمیں بتاتے ہیں کہ بعض مسلم صوفیا نے انہیں لفظ دھر‘ دیہور یا دیہار کا وظیفہ کرنے کو کہا۔ اشاعرہ کا نظریہ تاریخ فکر اسلامی میں زمان کو فلسفیانہ سطح پر جاننے کی اوّلین کوشش ہے۔ اشاعرہ کے مطابق زمان مفرد آنات کا ایک سلسلہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر مترشح ہوتی ہے کہ دو منفرد آنات یا زمان کے دو لمحوں کے درمیان زمان کا ایک خالی لمحہ بھی ہے جس کو ہم گویا زماں کا خلا کہیں گے۔ اس نتیجے کی لغویت کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے موضوع تحقیق کو مکمل طور پر معروضی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے یونانی فکر کی تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھا جنہوں نے یہ نقطہ نظر اختیار کیا تھا اور وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے تھے ۔ ہمارے زمانے میں نیوٹن نے زماں کو ایک ایسی چیز قرار دیا جو اپنی ذات میں اور اپنی ہی فطرت میں برابر رواں دواں ہے۔ اس بیان میںجو ندی کی تشبیہ میں پوشیدہ ہے اس بنا پر نیوٹن کے معروضی نقطہ نظر پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک چیز اس ندی میں غوطہ زن ہونے پر اثر پذیر ہوتی ہے اور کس طرح وہ ان اشیاء سے مختلف ہے جو اس بہائو میںشریک نہیں ہیں۔۳۱؎ اور اگر زماں کو ندی قیاس کریں تو ہم زماں کے آغاز‘ انجام اور اس کی حدود کے بارے میں کوئی تصور قائم نہیںکر سکتے۔ اس کے علاوہ اگر بہائو‘ حرکت یا مرور ہی زماں کی ماہیت کے لیے حتمی لفظ ہیں تو پھر زماں کا ایک دوسرا زماں بھی ہوگا جس میں پہلے زماں نے حرکت کی ہو گی اور پھر اس زماں کا بھی ایک اور زماں ہو گا۔ یوں یہ سلسلہ لا انتہا تک چلا جائے گا۔ لہٰذا زماں کا مکمل معروضی تصور انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ عملی رجحانات رکھنے والا عربی ذہن یونانیوں کی طرح زماں کو غیر حقیقی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس بات کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ گو ہم کوئی ایسی حس نہیں رکھتے جس سے زمان کا ادراک کیا جا سکے یہ ایک طرح کا بہائو ہے جو ایک واقعی جوہری پہلو رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس کا نقطہ نظر بھی بالکل وہی ہے جو اشاعرہ کا تھا۔ زماں کی ماہیت کے بارے میں طبیعیات کے جدید انکشافات کے مطابق مادہ تسلسل سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر رونگئیر کی کتاب ’’فلسفہ اور طبیعیات‘‘ کی یہ عبارت قابل غور ہے: ’’قدما کے نقطہ نظر کے برعکس کہ فطرت جست نہیں لگاتی اب واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کائنات میں اچانک جست لگانے سے ہی تبدیلی کا عمل رونما ہوتا ہے، بظاہر نظر نہ آنے والے تدریجی ارتقا سے نہیں ہوتا۔ طبیعیاتی نظام تو صرف مخصوص متناہی حالتوں کی ہی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ دو مختلف اور یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی حالتوں کے درمیان کائنات غیر حرکت پذیر ہوتی ہے اور زماں معطل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمان بذاتہ غیر متسلسل ہے اور اس کا بھی جوہر ہوتا ہے۔‘‘ ۳۲؎ تاہم نکتہ یہ ہے کہ اشاعرہ کی تعمیری کوشش ہو یا جدید مفکرین کی‘ دونوں مکمل طور پر نفسیاتی تجزیے سے محروم ہیں اور اس محرومی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ زمان کے موضوعی پہلو کے ادراک میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ سے ان کے نظریات میں مادی جواہر اور زمانی جواہر کے نظامات الگ الگ ہو گئے اور ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی عضویاتی رشتہ نہیں رہا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر ہم زمان کو خالص موضوعی نقطہ نظر سے دیکھیں تو متعدد مشکلات پیدا ہو جائیں گی اس لیے کہ ہم جوہری وقت کا خدا پر اطلاق کرتے ہوئے اُسے ایسی زندگی کا حامل قرار نہیں دے سکتے جو ابھی معرض تکوین میں ہے۔ جس طرح ’’مکان‘ زماں اور ذات خداوندی‘‘ پر اپنے ایک خطبہ میں پروفیسر الیگزنڈر نے کہا ہے، ۳۳؎ متاخرین مسلمان الہین ان مشکلات سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ ملا جلال الدین دوّانی نے اپنی کتاب ’’زورا‘‘ کے ایک پیرے میں‘ جو ایک جدید طالب علم کو پروفیسر رائس کے تصور زمان کی یاد دلاتا ہے‘ ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم زمان کو ایک قسم کی مدت تصور کریں تو یہ ہمیں واقعات کا ظہور ایک جلوس کی صورت میں حرکت کرتے ہوئے نظر آنا ممکن بنا دے گا۔ اور یوں یہ مدت ایک وحدت دکھائی دے گی۔ تب ہم اسے ایک الوہی عمل کی طبع زاد صورت کہنے کے سوا اور کوئی توضیح نہ کر سکیں گے جو اپنے پورے تواتر کے ساتھ تمام مراحل سے گزر رہی ہے۔ مگر ملّا دوّانی یہاں تسلسل کی فطرت کے بارے میں زیادہ گہری بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اضافی ہے۔ لہٰذا وہ خدا کے معاملے میں غائب ہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے سامنے تو تمام واقعات ایک ہی عمل ادراک میں مستحضر ہوتے ہیں۔ صوفی شاعر عراقی کا بھی تقریباً یہی نقطہ نظر ہے۔۳۴؎ وہ خالص مادیت اور خالص روحانیت کے درمیان زمان کی لاتعداد انواع کا تصور پیش کرتا ہے جو مختلف متغیر درجات وجود کے لئے اضافی ہیں۔ تاہم گردش افلاک سے پیدا ہونے والے کثیف اجسام کا وقت ماضی حال اور مستقبل میں قابل تقسیم ہوتا ہے۔ اس کی فطرت یوں ہے کہ جب تک ایک دن نہیں گزرتا دوسرا دن وجود میں نہیں آتا۔ غیر مادی وجودوں کا وقت بھی تسلسل میں ہوتا ہے مگر ٹھوس اجسام کا پورا ایک سال غیر مادی اجسام کے ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس طرح جب غیر مادی اجسام کے درجات میں آگے بڑھتے جائیں گے تو ہم زمان الٰہی کے درجے تک پہنچ جائیں گے جہاں زمان مرور کی خاصیت سے کلیتاً آزاد ہوتا ہے۔ نتیجۃً اس زمان میں تقسیم‘ تغیر اور تواتر طرز کی کوئی بھی چیز موجود نہیں۔ یہ ابدیت کے تصور سے بھی بالا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ابتدا و انتہا کے زمانی تصورات بھی منسلک نہیں کئے جا سکتے۔ خدا ایک ہی ناقابل تقسیم عمل ادراک میں تمام چیزوں کو دیکھتا اور سنتا ہے۔ خدا کی اوّلیت زمان کی اوّلیت کے سبب نہیں بلکہ اس کے برعکس وقت کی اوّلیت خدا کی اوّلیت کی محتاج ہے۔۳۵؎ لہٰذا زماں الہیہ وہ ہے جسے قرآن ’’اُم الکتاب‘‘ کے نام سے بیان کرتا ہے۳۶؎ جس میں تمام تاریخ علت و معلول کے تانے بانے سے آزاد ایک برتر ابدی آن میں مرتکز ہے۔ تمام مسلمان متکلمین میں سے فخرالدین رازی نے زمان کے مسئلے کو سب سے زیادہ سنجیدگی سے موضوع بحث بنایا۔ اپنی کتاب ’’مباحث مشرقیہ‘‘ میں امام رازی نے اپنے تمام معاصر نظریات زمان پر بحث کی مگر چونکہ وہ بھی اپنی منہاج فکر میں معروضی تھے لہٰذا کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ حتی کہ انہیں کہنا پڑا: ’’میں اس قابل نہیں ہوا کہ زمان کی ماہیت کے بارے میں کوئی حقیقی چیز دریافت کر سکوں۔ میری اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ میں کسی کی جانبداری کئے بغیر وہ سب کچھ بیان کردوں جو نظریے کے حق میں یا خلاف کہا جا سکتا ہے۔ وقت کے مسئلہ پر بالخصوص میں نے دانستہ طور پر کسی کی طرف داری کرنے سے خود کو باز رکھا ہے‘‘۔ ۳۷؎ اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خالص معروضی انداز فکر زمان کی ماہیت کو سمجھنے میں جزوی طور پر ہی معاون ہو سکتا ہے۔ اس کا صحیح راستہ ہمارے شعوری تجربے کا محتاط نفسیاتی تجزیہ ہے جو زمان کی ماہیت کو عیاں کرنے کا واحد راستہ ہے۔ میرا خیال ہے آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے نفس کے دو پہلوئوں نفس بصیر اور نفس فعال میں فرق کیا تھا۔ نفس بصیرخالص دوران یعنی بے تواتر تغیر میں رہتا ہے۔ نفس کی زندگی کا مدار اس کے بصیر ہونے سے فعال ہونے اور وجدان سے تعقل کی طرف حرکت زن ہونے پر ہے۔ اسی حرکت سے زمان جوہری پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارا شعوری تجربہ جو ہمارے تمام علوم کا نقطہ آغاز ہے ہمیں ایک ایسے تصور کا سراغ دیتا ہے جو ثبات و تغیر یعنی زمان بحیثیت ایک وحدت نامیہ یا بحیثیت دیمومت اور زمان بحیثیت مجموعۂ جواہر کے مابین تطبیق پیدا کر دیتا ہے۔اب اگر ہم اپنے شعوری تجربے کی رہنمائی کو قبول کرتے ہوئے انائے مطلق کو انائے متناہی پر قیاس کر لیںتو ہم دیکھتے ہیں کہ خودی مطلق کا زمان ایک ایسا تغیر ہے جو بغیر تسلسل کے ہے یعنی یہ ایسا نامیاتی کل ہے جس میں خودی کی تخلیقی حرکت کی وجہ سے جوہریت ظاہر ہوتی ہے۔ یہی میر داماد اور ملا باقر کے پیش نظر تھاجب وہ یہ کہتے ہیں کہ وقت عمل تخلیق سے پیدا ہوتا ہے جس سے خودی مطلق اپنے لا انتہا اور غیر متعین تخلیقی امکانات کو جانتی ہے اور گویا ان کی پیمائش کرتی ہے۔ پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی لامحدود قوت و ثروت لا تعداد تخلیقی امکانات پر محیط ہے۔ چنانچہ ایک طرف خودی ’ابدیت‘ میں رہتی ہے جس سے میری مراد ہے بے تواتر تغیر اور دوسری طرف وہ ’زمان متسلسل‘ میں رہتی ہے جس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ عضویاتی طور پر ابدیت سے متعلق ہے کیونکہ یہ بے تواتر تغیر کا پیمانہ ہے۔ صرف اسی مفہوم میں یہ ممکن ہے کہ ہم قرآن کی اس آیت کو سمجھ سکیں: لَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَاِر (۸۰:۲۲) (دن رات کا آنا جانا اس کے سبب سے ہے)۳۸؎ مسئلے کے اس مشکل پہلو پر میں اپنے پچھلے خطبہ میں بات کر چکا ہوں۔ اب ہم خدا کے علم اور اس کی قدرت مطلقہ پر بات کریں گے۔ علم کا اطلاق اگر متناہی خودی پر کیا جائے تو اس سے مراد ہمیشہ استدلالی علم ہو گا: ایک زمانی عمل جو ایک ایسے حقیقی ’غیر‘ پر مرکوز رہتا ہے جو عام نقطہ نظر کے مطابق انائے مدرکہ کے روبرو اپنی ذات سے قائم ہے۔اب اس مفہوم میں اگر علم کو علمِ کل تک وسعت دے دی جائے تو بھی یہ ’غیر ‘ کی مناسبت سے اضافی ہی رہے گا ۔ اس لئے انائے مطلق سے اسے منسوب نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ وہ ہر شے پر محیط ہے اور متناہی خودی کی طرح اس کا پس منظر متصور نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں یہ کائنات خود خدا کے روبرو اور اس سے غیر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایسی محض اُس وقت نظرآتی ہے جب ہم تخلیق کے عمل کو یوں دیکھتے ہیں کہ یہ خدا کے ہاں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ لا محدود اور لا متناہی خودی یعنی خدا کی نگاہ سے دیکھیں تو اس سے غیر کوئی چیز موجود نہیں۔ خدا کے ہاں فکر اور عمل، جاننے کا عمل اور تخلیق کا عمل باہم مترادف ہیں۔ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ خودی خواہ وہ محدود ہے یا لامحدود، وہ غیر خودی کے تقابل کے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی اور اگر خودی مطلق کے باہر کچھ نہیں تو خودی مطلق کی بطور خودی تفہیم نہیں ہو سکتی۔ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایک مثبت تصور کی تشکیل میں منطقی انکار سے کوئی مدد حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ تصور لازمی طور پر تجربے میں آنے والی حقیقت کی نوعیت پر اپنا انحصار رکھتا ہے۔ تجربے پر ہماری تنقید سے حقیقت مطلق کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک حیات بالبصرہے جو ہماری زندگی کے تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو سوائے ایک نامیاتی کل کے جانی نہیں جا سکتی__ اپنے آپ میں پیوست اور ایک نقطے پر مرتکز۔ حیات کی اس نوعیت کے پیش نظر حیات مطلق کی تفہیم بطور ایک خودی کے ہی ممکن ہے۔۳۹؎ علم اپنے استدلالی مفہوم میں لامحدود ہونے کے باوجود ایک ایسی خودی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا جو بیک وقت جس شے کو جانتی ہے اس کی ہستی کے لئے بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں زبان کوئی مدد نہیں کرتی۔ ہمارے پاس کوئی لفظ نہیں جو ایسے علم کی نوعیت کو بیان کر سکے جو معلوم شے کا تخلیق کار بھی ہو۔ علم الٰہی کی وضاحت کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا علم کلی ادراک کا وہ واحد ناقابل تجزیہ عمل ہے جو ایک ابدی آن کی صورت میں اسے واقعات کے مخصوص نظام کی حیثیت سے آگاہ رکھتا ہے۔ جلال الدین دوّانی اور ہمارے زمانے میں پروفیسر رائس نے خدا کے علم کے بارے میں یہی تصور پیش کیا ہے۔ ۴۰؎ اس میں سچائی کا ایک عنصر ضرور موجود ہے مگر اس سے ایک مکمل طے شدہ‘ منجمد‘ متعین مستقبل والی کائنات کا تصور ابھرتا ہے جس میں متعین واقعات کا نظم ناقابل تبدیل ہے اور جس نے تقدیر اعلیٰ کی طرح خدا کی تخلیقی فعالیت کی سمت کو ہمیشہ کے لئے متعین کر دیا ہے۔ درحقیقت علم الٰہی کوانفعالی قسم کی ہمہ دانی قرار دینا آئن سٹائن سے قبل کی طبیعیات کے اس ساکت خلا کی طرح ہے جس میں بظاہر جملہ موجودات کی وحدت موجود ہے یا جوایک آئینہ ہے جو انفعالی طور پر چیزوں کی پہلے سے تشکیل شدہ تفصیل منعکس کرتا ہے جن کا انعکاس متناہی شعور میں صرف ٹکڑوں میں ہوتا ہے۔ علم الٰہی کی تفہیم لازمی طور پر ایک زندہ تخلیقی عمل کی حیثیت سے ہونی چاہئے جس سے اپنے طور پر موجود نظر آنے والی اشیاء نامیاتی طور پر وابستہ ہیں۔ بلاشبہ خدا کے علم کو ایک منعکس کرنے والا آئینہ تصور کرنے سے ہم مستقبل کے واقعات کے بارے میں خدا کے پہلے سے موجود علم کو تو محفوظ بنا سکتے ہیں بگر یہ لازمی بات ہے کہ ہم ایسا خدا کی آزادی کی قیمت پر ہی کر پائیں گے۔ خدا کی حیات تخلیقی کے نامیاتی کل میں مستقبل لازمی طور پر پہلے سے موجود ہوتا ہے مگر اس کی موجودگی ایک یقینی طور پر لگے بندھے اور متعین نظامِ واقعات کی بجائے ایک کھلے امکان کے طور پر ہوتی ہے۔ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں ایک مثال سے واضح ہو جائے گا۔ فرض کیجئے، جیساکہ انسانی فکر کی تاریخ میں بعض اوقات ہوتا ہے، کہ آپ کے نور شعور میں ایک ایسا بار آور تصور پیدا ہوتا ہے جو اپنے اندر اطلاق کی بے پناہ باطنی قوت رکھتا ہے۔ آپ اس تصور سے ایک پیچیدہ کل کے طور پر فوری طور پر آگاہ ہو جاتے ہیں۔ مگر تعقلاتی طور پر اس کی مختلف تفصیلات کو بروئے کار لانے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ تصور وجدانی طور پر تمام امکانات کے ساتھ ذہن میں موجودہوتا ہے۔ اگر کسی لمحے کسی خاص امکان کو آپ عقلی سطح پر نہیںجانتے تو یہ اس بنا پر نہیں کہ آپ کا علم ناقص ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی اس امکان کے جاننے کی صورت ہوئی ہی نہیں۔ تجربے کے ساتھ ساتھ کسی تصور کے اطلاق کے امکانات ظاہر ہوتے جاتے ہیں ۔ بعض دفعہ تو اس تصور کے امکانات جاننے کے لئے مفکرین کی کئی نسلیں درکار ہوتی ہیں۔ مزید برآں خدا کے علم بطور انفعالی معرفت کے خالق ہونے کے تصور تک بھی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اگر تاریخ کو پہلے سے طے شد ہ واقعات کی ایک ایسی تصویر کہا جائے جو تاریخ بتدریج سامنے لارہی ہے تو واقعات میںتنوع اور بدیعیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نتیجۃً ہم لفظ تخلیق کا کوئی مفہوم متعین نہ کر سکیں گے جسے ہم اپنے طبع زاد عمل کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قضا و قدر کے تمام الہیاتی اختلافات کا تعلق خالصتاً نظریاتی مباحث سے ہے جس میں ہمارے مشاہدے میں آنے والی اس زندگی پر ہماری نظر نہیں جو از خود عمل کی استعداد رکھتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انائوں کے ظہور سے جو ازخود اعمال اور یوں ان اعمال کی اہل ہیں جن کا پیش از وقت تعین ممکن نہیں محیط کل اناکی آزادی پر ایک حد قائم ہو جاتی ہے۔ مگر اس پر یہ حد کوئی باہر سے لاگو نہیں ہوتی بلکہ یہ خود اسی کی تخلیقی آزادی سے پیدا ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ محدود انائوں کواسی بات کا اہل بناتی ہے کہ اس کی زندگی، قوت اور آزادی میں حصہ لے سکیں۔ مگر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ قدرت کاملہ کے تصور کے ساتھ اس تحدید کے تصور کی تطبیق کیونکر کی جا سکتی ہے۔ ہمیںتحدید کے اس لفظ سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجرد کلیات کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر ٹھوس حقائق پر رہتی ہے جس کا نظریہ اضافیت نے جدید فلسفے کو سبق دیا ہے۔ تمام فعالیت خواہ وہ تخلیقی ہو یا کسی اور قسم کی ہو ایک قسم کی حد ہے جس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا کو بطور ایک موجود فعال خودی کے دیکھ سکیں۔ اگر ہم مجرد معنوں میں خدا کی قدرت کاملہ کو دیکھیں تو یہ ایک اندھی، بے راہ اور غیر محدود طاقت ہو گی جبکہ قرآن حکیم کا باہم دگر مربوط قوتوں کے نظام کی حیثیت سے فطرت کا ایک صاف اور یقینی تصور ہے۔ اس نقطہ نظر سے خدا کی قدرت کاملہ خدا کی حکمت سے مربوط ہے۴۱؎ جسکی بنا پر اس کی لامحدود طاقت اپنا اظہار کسی غیر متعین من مانے انداز سے کرنے کی بجائے ایک ہموار متناسب اور متواتر نظام میں کرتی ہے۔ قرآن خدا کو تمام خیر کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔۴۲؎ اب اگر حکیمانہ طور پر اپنی متعین کردہ راہ پر چلنے والی مشیت ایزدی سرتا سرخیر ہے تو ایک اہم مسئلہ سامنے آئے گا۔ جیسا کہ جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے ارتقا کی راہ ہمہ گیر دکھوں اور غلط کاریوں سے عبارت ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غلط کاریوں کا تعلق صرف انسانوں سے ہے مگر درد اور دُکھ تو تقریباً سب کے لئے ہیں۔ گرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان نے جس چیزکو اچھا سمجھا ہے اس کی خاطر اس نے بڑے اذیت ناک دکھ برداشت کئے ہیں اور کر سکتا ہے۔چنانچہ دنیا کی زندگی میں ہمیں اخلاقی اور طبیعی دو طرح کی برائیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ شر کی اضافیت اور ان قوتوں کی موجودگی، جوہمارے دکھ میں موجب تسکین بنتی ہیں، بھی اس اذیت کا مداوا نہیں، کیونکہ اضافیت اور تسکین کے باوجود خدا کی قدرت کاملہ اور اس کا خیر کل ہونے کے ساتھ اس شر کی مطابقت کس طرح پیدا کر سکتے ہیں جس کی کائنات میں فراوانی ہے۔ درحقیقت یہ المناک مسئلہ ہی دین و مذہب کے لئے سب سے سنجیدہ عقدہ ہے۔ جدید مصنفین میں نارمن سے بڑھ کر کسی نے بھی اس مسئلہ پر روشنی نہیںڈالی۔ اس نے اپنے ایک مختصر مذہبی مکتوب میں لکھا ہے: ’’ہم دنیا کا علم رکھتے ہیں جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدا باقوت اور طاقتور ہے جو بیک وقت زندگی اور موت کو اس طرح بھیجتا ہے جس طرح روشنی اور تاریکی۔ پھر وحی اور ایمان بھی ہے جو ہماری نجات کا باعث ہے اور جو اسی خدا کو باپ کہتا ہے۔ خدائے دنیا کی پیروی نے زندہ رہنے کی جدوجہد کی اخلاقیات پیدا کی اور حضرت مسیح علیہ السلام کے باپ کی خدمت، رحمت کی اخلاقیات کی باعث ہے۔ اب خدا دو تو نہیںہیں بلکہ خدا تو ایک ہی ہے تاہم کسی نہ کسی طرح دونوں آپس میںضم ہوگئے ہیں۔ مگرکوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں کے ضم ہونے کی نوعیت کیا ہے۔‘‘ ۴۳؎ رجائیت پسند برائوا ننگ کے خیال میں دنیا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۴۴؎ مگر یاسیت زدہ شوپنہار کے نزدیک دنیا ایک نہ ختم ہونے والی خزاں ہے جس میں ایک اندھی ارادی قوت اپنا اظہار لامتناہی قسم کی زندہ اشیاء میں کرتی ہے جو چند ثانیوں کے لئے اپنے ظہور کا ماتم کرتی ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتی ہیں۔۴۵؎ قنوطیت اور رجائیت میں اس جدل کا ہم کائنات کے بارے میں موجود علم کی روشنی میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہماری فکری تشکیل ایسی ہے کہ ہم چیزوں کا جزوی علم ہی رکھتے ہیں۔ ہم ان عظیم کائناتی قوتوں کی مکمل اہمیت کو نہیں جان سکتے جو ایک طرف تو تباہی لاتی ہیں اور دوسری طرف زندگی کو باقی رکھنے اور اسے برقرار رکھنے میں کام آتی ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیمات جو انسان کے روّیوں میں بہتری کے امکانات اور فطرت کی قوتوں پر اس کے اختیار پر یقین رکھتی ہیں نہ قنوطیت کی حمایت کرتی ہیں اور نہ رجائیت کی۔ وہ تو بہتری پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ ایک اضافہ پذیر کائنات کی تعلیم دیتی ہیں اور اس امید کو بڑھاتی ہیں کہ بالآخر انسان بدی پر فتح حاصل کر لے گا۔ تاہم اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس مشکل کو کسی بہتر انداز میں سمجھ سکیں تو ہمیں اس روایت کی طرف دیکھنا چاہئے جو حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے زمین پر اترنے سے متعلق ہے اور جسے ہبوط آدم کہا گیا ہے۔ اس واقعے میں قرآن نے جزوی طور پر قدیم علامتوں کو باقی رکھا ہے مگر نفس مضمون کو بدل دیاہے تاکہ اسے بالکل نئے معانی دیئے جا سکیں۔ قرآن حکیم کا روایات کو جزوی یا کلی طور پر تبدیل کرنے کا طریق کار تاکہ اس میںنئے معانی پیداہو جائیں اور یوں اسے روح عصر کے بالکل مطابق بنا دیا جائے ایک ایسی حقیقت ہے جس کو اسلام کے مسلمان اور غیر مسلم طالب علموں نے ہمیشہ نظرانداز کیا ہے۔ ان داستانوں کے بیان سے قرآن کا مقصد تاریخی واقعات کا بیان نہیںہوتا بلکہ اس سے مقصود ان کی آفاقی، اخلاقی اور فلسفیانہ اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قرآن ان واقعات سے افراد اور مقامات کے نام حذف کر دیتا ہے کیونکہ وہ انہیں معانی کے لحاظ سے محدودکرنے کا باعث بن سکتے ہیں اور ان کو محض تاریخی واقعات تک محدود کر دیتے ہیں۔ اس طرح قرآن ان تفصیلات کو بھی حذف کر دیتا ہے جو ان واقعات کے بارے میں ہمارے محسوسات کو کسی اور سمت لے جا سکتی ہیں۔ بعض روایات اور واقعات کے ساتھ ایسا کرنا کوئی غیر معمولی اور انوکھا عمل نہیں بلکہ یہ غیر مذہبی ادب میں بھی ایک عام سی بات ہے۔ اس کی مثال فاوسٹ کا قصہ ہے۴۶؎ جس میں گوئٹے کی غیر معمولی ذہانت نے بالکل ہی نئے معانی پیدا کر دیئے ہیں۔ ہبوط کے واقعے کی طرف لوٹتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم دنیا کے ادب میں اس قصے کی مختلف شکلیں ہیں۔ یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس واقعے کے ارتقا کی مختلف سطحوں کا تعین کر سکیں۔ اور نہ ہی ہم مختلف انسانی محرکات کی نشاندہی واضح طور پر کر سکتے ہیں جو لازمی طور پر اس قصے کی مختلف صورتوں کو پیش کرنے میں کارفرما رہے ۔ لیکن ہم خود کو سامی صنمیات تک محدود کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ انسان کی اس ابتدائی آرزو سے نمو پذیر ہوا ہوگا جس کا تعلق ایک ایسے معاوندانہ انسانی ماحول سے رہا ہے جس میں موت اور بیماری عام تھی اورجس میں اپناآپ باقی رکھنے کے لئے ہر طرف سے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں تھیں۔ فطرت پر کوئی اختیار نہ ہونے کی بنا پر وہ قدرتی طو پر زندگی کے بارے میں قنوطی اور مایوسانہ انداز نظر رکھتا تھا۔چنانچہ بابل سے ملنے والے کتبے میں ہم سانپ (لنگ) درخت اور عورت کو ایک سیب (علامت بکر) ایک مرد کو دیتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اس دیومالا کے مطالب واضح ہیں کہ مفروضہ خوشی اور انبساط کے مقام سے انسان کے نکلنے کا سبب اس انسانی جوڑے کا جنسی عمل تھا۔ جس طریقے سے قرآن اس قصے کو بیان کرتا ہے اس کا تقابل اگر ہم عہد نامہ قدیم کے باب پیدائش سے کریں ۴۷؎ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کا بائبل میں بیان کردہ قصے سے کس قدر اختلاف ہے اور یہ کہ اس قصے کے بیان سے قرآن کے مقاصد بائبل کے مقاصد سے کس قدر مختلف ہیں۔ ۱ - قرآن نے سانپ اور پسلی کی کہانی کو یکسر حذف کر دیا ہے۔ سانپ کے ذکر کو نظر اندازکرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس قصے کو جنسی ماحول سے پاک کر دیا جائے اور زندگی کے بارے میں یا سیت کے نقطہ نظر کو ختم کیاجائے۔ پسلی کے ذکر کوحذف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کا اس قصے سے مقصود کسی تاریخی واقعہ کا بیان نہیں جیساکہ بائبل کے عہد نامہ قدیم میں اس قصے کے بیان کا مقصد اسرائیلی قوم کی تاریخ کے ابتدائیے کے طور پر پہلے انسانی جوڑے کے آغاز کے بارے میں بتانا ہے۔ قرآ ن میں بالعموم نوع انسانی کے آغاز سے متعلقہ آیات میں آدم کی بجائے بشر اور انسان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آدم کا مفہوم اس روئے ارض پر خدا کے خلیفہ یا نائب کے تصور سے مخصوص ہے۔۴۸؎ آدم اور حوا جیسے اسمائے معرفہ کو، جو بائبل میں آئے ہیں، ۴۹؎ حذف کرنے سے قرآن کا مزید مقصد اصل موضوع پر توجہ کو محفوظ کرنا تھا۔ آدم کا لفظ باقی رکھا گیا اور مستعمل بھی رہا مگر یہ محض کسی خاص مرد کے نام کے طور پر نہیں بلکہ نسل انسانی کے تصور کے طور پرباقی رہا۔ قرآن پاک سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور ذیل کی آیت اس کا ایک واضح ثبوت ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓا إلَّا إِبْلِیْسَ (۱۰:۷) ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں صورت دی پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ۲- قرآن نے اس واقعے کو دو الگ الگ قصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جس میں محض درخت کا ذکر ہے اور دوسرا جس میں شجر ابدیت کا بیان ہے۵۰؎ اور اس سلطنت کا جسے زوال نہیں۔ ۵۱؎ پہلے کا ذکر قرآن کی ساتویں اور دوسرے کا تذکرہ قرآن کی بیسویں سورہ میں ہوا ہے۔ قرآن کے مطابق آدم اور اس کی بیوی شیطان کے بہکاوے میں آگئے۔ شیطان کا تو کام ہی انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالناہے۔ انہوں نے دونوں درختوں کا پھل چکھا۔ جبکہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے مطابق آدم کو اس کی پہلی نافرمانی کے نتیجے میں فوری طور پر باغ عدن سے نکال باہر کیا گیا اور خدا نے باغ کے مشرقی حصے میں فرشتوں کو تعینات کر دیا۔ ایک آتشیں تلوار اس باغ کے گرد گردش کرتی رہتی تاکہ زندگی کے درخت تک رسائی ممکن نہ رہے۔۵۲؎ ۳- عہد نامہ قدیم میں آدم کی نافرمانی کے عمل کے سلسلے میں زمین پر پھٹکار کی گئی ہے۔۵۳؎ قرآن نے زمین کو انسان کا ٹھکانا ظاہر کیا ہے جو اس کے لئے فائدہ رسانی کاذریعہ ہے۵۴؎ جس کی ملکیت کے لئے اسے چاہئے کہ خدا کا شکر گزار ہو: وَلَقَدْ مَکَنّٰکُمْ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْنَالَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّاتَشْکُرُوْنَ (۱۰:۷) اور ہم نے تمہیں زمین پر اختیار کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں زندگی گزارنے کا سامان رکھا مگر تم شکر گزاری کم ہی کرتے ہو۔۵۵؎ اس بات کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ یہ تصور کر لیا جائے کہ جنت کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے،اس سے مراد بالائے حواس کوئی مقام ہے جہاں سے انسان کو زمین پر پھینکا گیا تھا۔ قرآن حکیم کے مطابق انسان زمین پر اجنبی نہیں تھا: وَاﷲُ أَنبَتَکُمْ مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا (۱۷:۱۷) اور اللہ نے زمین سے تمہیں افزائش دی ۵۶؎ اس قصے میں جس جنت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ نیکو کاروں کا ابدی مسکن نہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ نیکوکاروں کے ابدی مسکن کے طور پر جس جنت کا قرآن میں ذکر ہے اس کے لئے قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں: یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأَسًا لَّالَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَأْثِیْمٌ (۴۳:۴۸) اور لَایَمَسُّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ وَمَاہُم مِّنْھَا بِمُخْرِجِیْنَo (۴۸:۲۲) وہ لپک لپک کر ایک دوسرے سے پیالے پکڑ رہے ہوں گے۔ جس میں نہ یا وہ گوئی ہوگی نہ غلط کاری کے لئے کوئی محرک ہوگا۔۵۷؎ اور وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں نہ کوئی مشقت ہوگی اور نہ کسی کو وہاں سے خارج کیاجائے گا۔۵۸؎ قصہ ہبوط آدم میں جس جنت کا تذکرہ ہے وہاں تو پہلا واقعہ ہی انسان کی طرف سے نافرمانی کا گناہ ہے جس کے نتیجے کے طور پر وہ وہاں سے نکال باہرکیا گیا۔ درحقیقت قرآن اس لفظ کا مطلب خو د بیان کرتا ہے۔ قصے کے دوسرے حصے میں جنت کا لفظ محض ایک ایسی جگہ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس جہاں نہ گرمی ہے اور نہ ہی عریانی۔۵۹؎ چنانچہ میں سمجھتا ہوںکہ قرآنی بیان میں جنت ایک ایسی ابتدائی حالت ہے جہاں انسان اپنے ماحول سے بیگانہ تھا اور انسانی خواہشات کا دبائو نہ تھا جن کی افزائش ہی انسانی ثقافت کے آغاز کا واحد نشان ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے قصہ میں ہبوط آدم کا واقعہ ہماری زمین کے اس کرہ پر انسان کے ظہور اول سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ انسان کی اپنی ابتدائی جبلی خواہش کی سطح سے آزادی خودی کی شعوری سطح تک ارتقا کو ظاہر کرتا ہے جس سے وہ شک کرنے اور نافرمانی یاانکار کرنے کے قابل ہوا۔ ہبوط کا مطلب اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ یہ انسان کی سادہ شعوری کیفیت سے خود آگہی تک ارتقا کے سفر کی آئینہ دار ہے۔ یہ ایک قسم کی خواب فطرت سے بیداری ہے جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہستی کے اندر بھی اسباب و علل کا سلسلہ موجود ہے ۔نہ ہی قرآن کی نظر میں یہ زمین ایک اذیت گاہ ہے جہاں انسان جس کا خمیر ہی بدی سے اٹھایاگیا ہے اپنی پہلی نافرمانی کے عذاب کے لئے قید کیاگیا ہے۔ انسان کی نافرمانی کا پہلا عمل دراصل اس کی آزادئ ارادہ کا پہلا اظہار تھا چنانچہ اسی وجہ سے قرآن کے بیان کے مطابق انسان کی پہلی خطا سے درگزر کی گئی۔ ۶۰؎ نیکی کوئی جبری معاملہ نہیں بلکہ یہ آزاد نفس کا اخلاقی کمال کے سامنے سرتسلیم خم کردینے سے عبارت ہے اور آزاد خودیوں کے آزاد تعاون سے معرض وجود میں آتی ہے۔ ایک ایسا وجود، جس کی تمام حرکات و سکنات ایک مشین کی طرح پہلے سے متعین ہوتی ہیں نیکی پیدا کرنے کے قابل نہیںہوتا۔ نیکی کی اولین شرط آزادی یا اختیار ہے۔ مگر متناہی خودی کے وجود کی اجازت دینا جو اختیار رکھتی ہو اس پس منظر میں کہ اس پر مختلف راستوں کے اچھا یا برا ہونے کے پیش نظر عمل کے امکانات کھلے ہیں ایک بہت بڑا خطرہ مول لینا ہے کیونکہ اس میں نیکی کے انتخاب کی آزادی کے ساتھ ساتھ برائی کے انتخاب کی آزادی بھی موجود ہے۔ یہ کہ خدا نے انسان کے بارے میں یہ خطرہ مول لیا انسان پر اس کے بھر پور اعتماد کی علامت ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اس اعتماد پر پورا اترے۔ شاید یہ خطرہ ہی اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی مخفی قوتوں کو ترقی دے، ان کو آزمائے جواسے ’’احسن التقویم‘‘ کی حیثیت سے عطا کی گئی ہیں اور جن کے غلط استعمال سے وہ اسفل السافلین کی منزل کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔۶۱؎ جیسا کہ قران کہتا ہے : وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِفِتْنَۃً (۳۵:۲۱) نیکی اور بدی دونوں کے ذریعے تمہارا امتحان لیں گے۔۶۲؎ نیکی اور بدی گرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر یہ دونوں اسی اختیار کلی کی ذیل میں آتی ہیں۔ الگ تھلگ حقیقت کا کوئی بھی وجود نہیں ہوتا۔ حقائق منظم کل کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں باہمی حوالوں سے ہی جانا اور سمجھاجا سکتا ہے۔ منطقی حکم سے حقائق کے حصے بخرے محض یہ دکھانے کے لئے کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یہ خودی کی فطرت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور خودی قائم رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ علم کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے، اپنی نسل کو بڑھاتی ہے اور قوت حاصل کرتی ہے جس کے لئے قرآن نے ’’ملک لا یبلی ‘‘ (سلطنت جو کبھی ختم نہیں ہوتی) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ پہلی سطح پر ہبوط آدم کے قصے کو قرآن پاک نے انسان کے علم حاصل کرنے کی خواہش سے اور دوسری سطح پر قوت حاصل کرنے کی اور نسل بڑھانے کی خواہش سے منسلک کیا ہے۔ اس پہلی سطح کے حوالے سے دو چیزوں کا بیان ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ اس بات کا ذکر اس کے فوراً بعد آتا ہے جہاں آدم کی فرشتوں پر فضلیت جتائی جا رہی ہے کہ انساں یاد رکھتا ہے اور چیزوں کے نام دوبارہ بیان کر سکتا ہے۔۶۳؎ ان آیات کے بیان کا مقصد، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، انسانی علم کے تصوری کردار کا اظہار ہے۔ ۶۴؎ دوسرے، مادام بلواتسکائی جو قدیم علامات کا بے نظیر علم رکھتی ہیں۶۵؎ اپنی کتاب ’’پر اسرار عقائد‘‘ میں بتاتی ہیں کہ قدماء کے نزدیک درخت سرّی اور رمزی علم کی مخفی علامت تھا۔ آدم کو اس درخت کے پھل کا ذائقہ چکھنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ یقینی طور پر اس کی متناہی خودی اس کے آلات حس اور اس کی عقلی صلاحیتیں مجموعی طور پر ایک مختلف قسم کے علم کے لئے موزوں تھیں۔ یعنی ایسا علم جس کے لئے صبر آزما مشاہدے کی مشقت ضروری ہے اور جس میں بڑی سست رفتاری سے اضافہ ہوتا ہے۔ مگر شیطان نے اکسایا کہ وہ ممنوع پھل کھائے جو سری علم سے عبارت تھا اور آدم نے ایسا ہی کیا۔ اس لئے نہیں کہ بدی اس کی فطرت میں داخل تھی بلکہ اپنی فطری عجلت پسندی کی بنا پر اسے علم کے حصول کے لئے مختصر راستے کی خواہش تھی۔ اس کی اس عجلت پسندی کی اصلاح کے لئے محض ایک ہی راستہ تھا ۶۶؎ کہ اسے ایک ایسے ماحول میں رکھا جائے جہاں تکلیف تو ہو مگر جو اس کی عقلی استعدادوں کو پروان چڑھانے میں بہتر طور پر معاون ہو سکے۔ چنانچہ آدم کو تکلیف دہ طبیعیاتی ماحول میں رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ایسا کرکے کوئی سزا دی گئی۔ ۶۷؎ یہ تو شیطان کے مقاصد کی شکست تھی جو انساں کے عیار دشمن کی حیثیت سے اسے وسعت افزائش نسل کے لازوال لطف سے محروم رکھنا چاہتا تھا۔ مگر ایک محدود و متناہی خودی کی اس متزاحم ماحول میںزندگی ایسے وسعت پذیر علم پر منحصر ہے جس کی اساس حقیقی تجربے پر ہو۔ اور متناہی خودی کا تجربہ جس کے سامنے لاتعداد امکانات کھلے ہیں سعی و خطا کے طریقے سے آگے بڑھتا ہے۔ اس لئے غلطی یا خطا، جس کو عقلی شر کی ایک قسم کہا جا سکتا ہے، انسانی تجربے کی تعمیر میں ایک ناگزیر عنصر ہے۔ قرآن کے اس قصے کا دوسرا حصہ یوں ہے: فَوَسْوَسَ إِلَیْہِ الشَّیْطَانُ قَالَ یَاَ آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَیٰ شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلَیٰ oفَأَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْئٰ تُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَعَصَیٰٓ ئِ ادَمَ رَبَّہُ فَغَوَیٰ oثُمَّ اجْتَبَٰہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَیٰ (۱۲۲-۱۲۰:۲۰) مگر شیطان نے اسے بہکایا۔ کہنے لگا: اے آدم! میں تم کو بتائوں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال حکومت ملتی ہے۔ چنانچہ دونوں نے اس درخت کے پھل کو کھایا جس کی بنا پر فوراً ہی ان کے پردے ایک دوسرے کے سامنے عیاں ہوگئے اور دونوں میاں بیوی اپنے آپ کو جنت کے درختوں کے پتوں سے چھپانے لگے۔ آدم نے اپنے رب کا کہنا نہ مانا وہ ٹھیک راہ سے ہٹ گیا پھر اس کے رب نے اسے فضلیت دی، اس کی توبہ منظور فرمائی اور اسے ہدایت سے نوازا۔ یہاں جو بنیادی خیال ظاہر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کی لازوال خواہش ہے کہ اس کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والی حکومت کا اختیار ہو اور ٹھوس فرد کے بطور اس کا لامتناہی کردار ہو۔ ایک عارضی وجود کے لئے جسے موت کے ہاتھوں اپنے ملیامیٹ ہو جانے کا خوف ہے نجات کی ایک واحد راہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسل کو بڑھا کر ایک اجتماعی لافانیت حاصل کرتا رہے۔ ابدیت کے درخت کے ممنوعہ پھل کو کھانے سے جنسی تمیز پیدا ہوئی جس کے ذریعے مکمل فنا سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وہ اپنی نسل کو بڑھاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح زندگی موت سے کہتی ہے۔ ’’اگر تم زندہ اشیاء کی ایک نسل کا صفایا کروگی تو میں دوسری پیدا کردوں گی‘‘۔ قرآن نے قدیم فن کی علامت لنگ (تناسل کی علامت) کے نظریے کو مکمل طورپر ردّ کر دیا۔ مگر شرم و حیا کے احساس کی پیدائش واضح کر کے کہ آدم کو اپنے جسم کی برہنگی چھپانے میں کس قدر تشویش ہوئی اس نے اوّلین جنسی عمل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اب زندگی کرنا ایک مخصوص صورت‘ ایک ٹھوس انفرادیت اختیار کرنا ہے۔ یہ ٹھوس انفرادیت ہی ہے جو زندگی کی لاتعداد جہتوں میں اپنا اظہار کرتی ہے اور جس میں خودی مطلق اپنی ذات کی لامتناہی ثروت کی نشانیاں مہیا کرتی ہے۔ تاہم انفرادتیوں کا ظہور اور ان میں وسعت و کثرت جن میں سے ہر فرد کی نظر اپنے امکانات کے اظہار پر ہے اور ہر فرد اپنی سلطنت کا خواہاں ہے اس سے ہر دور میں خطرناک جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ قرآن بھی یہ کہتا ہے: ’’تم ایک دوسرے کے دشمن بن کراترو‘‘۔ ان متخالف انفرادتیوں کا باہمی تصادم وہ دنیائے الم ہے جو زندگی کے روشن اور تاریک دونوں پہلوئوں سے عبارت ہے۔ انسان کے معاملے میں جس کی انفرادیت اس کی شخصیت کی گہرائی میں جاگزیں ہوتی ہے اور یوں اس کے لئے غلط کاری کے راستے کھل جاتے ہیں‘ زندگی کے المیے کا احساس بہت شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مگر خودی کی شکل میں زندگی کی قبولیت کا مطلب خودی کی متناہیت سے جنم لینے والے ہر طرح کے نقص کو قبول کر لینا ہے۔ قرآن انسان کو ایک ایسی ہستی کے بطور پیش کرتا ہے جس نے شخصیت کی امانت کا بوجھ اٹھایا جبکہ آسمانوں‘ زمین اور پہاڑوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَھَا وَأَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْإِ نْسَانُ إنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (۷۲:۳۳) ہم نے یہ امانت آسمانوں‘ زمین اور پہاڑوں کو پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذوری ظاہر کی اور اس سے خوف زدہ ہو گئے مگر انساں نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ کیا ہم اس شخصیت کی امانت کو اس کے تمام تر خطرات کے ساتھ ’ہاں کہیں یا نہ‘۔ قرآن کے نزدیک سچی جوانمردی صبر کے ساتھ مصائب اور سختیاں برداشت کرنے میں ہے۔۶۸؎ ارتقائے خودی کی موجودہ منزل میں ہم اس نظام کی اہمیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے جو قوتِ کرب سے وجود پاتا ہے۔شاید وہ ممکنہ انتشار کے خلاف خودی کو سخت جان کر دیتی ہے۔ مگر یہی وہ نکتہ ہے جہاں نیکی کی بالآخر فتح پر ایمان ایک مذہبی روایت بن کر نمودار ہوتا ہے۔خدا اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے مگر بہت سے انسان اس کو نہیں جانتے: وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَیٰٓ أَمْرِہِ وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (۲۱:۱۲) اور اﷲ ہر امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے میں نے اب آپ پر واضح کر دیا کہ خدا کے اسلامی تصور کا فلسفیانہ جواز کیونکر ممکن ہوا۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہاہے‘ مذہبی عزائم فلسفیانہ عزائم سے کہیں بلند ہیں۔۶۹؎ مذہب محض تصورات پر قناعت نہیں کرتا۔ یہ اپنے مقصود کے زیادہ گہرے علم اور اس کی قربت کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ ذریعہ جس سے یہ قربت حاصل ہوتی ہے عبادت یا نماز ہے جو روحانی تجلی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم عبادت کا عمل شعور کی مختلف اقسام کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ نبی کے شعور کے معاملے میں یہ زیادہ تر تخلیقی ہوتا ہے یعنی وہ ایک نئی اخلاقی دنیا کی تخلیق کرتا ہے جہاں پیغمبر گویا اپنی وحی پر نتائجی معیار کا اطلاق کرتا ہے۔ میں اس نکتہ پر مزید روشنی اگلے خطبے ’’مسلم ثقافت کی روح ‘‘ میں ڈالوں گا۔ ۷۰؎ صوفی کے شعور کی صورت میں یہ زیادہ تر وقوفی ہوتا ہے۔ وقوف کے نقطہ نظر سے میں دُعا کے معنی کی دریافت کی کوشش کروں گا۔ دعا کے حتمی مقصد کے پیش نظر یہ نقطہ نظر اپنا مکمل جواز رکھتا ہے۔ میں آپ کی توجہ اس اقتباس کی طرف دلانا چاہوں گا جو ایک عظیم امریکی ماہر نفسیات پروفیسر ولیم جیمزسے لیا گیا ہے: ’’یوں نظر آتا ہے کہ شاید تمام سائنس کے علی الرغم انساںآخری وقت تک دُعا کو جاری رکھے گا بشرطیکہ اس کی ذہنی حالت میں کسی طور تبدیلی نہیں ہوتی‘ تاہم ابھی اس تبدیلی کے امکان کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں۔ دُعا کی تحریک کے پیچھے ہماری تجربی ذاتوں میں سے ہماری عمرانی ذات کی حقیقت کارفرما ہے جسے صحیح رفاقت عالم ارفع کی مثالی دنیا میں ہی میسر ہے۔ بہت سے انسان ہمیشہ یا بعض مواقع پر اس کی گرمی اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں۔ اس برتر وقوف کے ذریعے سب سے گھٹیا ذات کا انساں بھی جو اس زمین پر موجود ہو سکتا ہے خود کو موزوں اور حقیقی تصور کرتا ہے۔ دوسری طرف ہم میں سے زیادہ تر کے لئے اگر یہ باطنی سہارا نہ ہو تو، جب ہمارا نفس اجتماعی ناکام ہو جائے اور ہمارا ساتھ چھوڑ دے، یہ دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے۔ میرا کہنا ہے ’زیادہ تر کے لئے‘ کیونکہ ایک برتر بینا ہستی کا احساس بعض لوگوں میں مضبوط لیکن بعض میں خفیف ہوتا ہے۔ یہ بعض لوگوں میں بعض کی نسبت شعور کا زیادہ لازمی حصہ ہوتا ہے۔ جس شخص میں یہ جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی وہ زیادہ مذہبی ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ خود کو مکمل دھوکے اور فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ وہ کسی نہ کسی درجے پر اس کے حامل نہ ہوں۔‘‘ ۷۱؎ اب آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نفسیاتی حوالے سے بات کی جائے تو دعا اپنی اصل میں جبلی ہے۔ علم حاصل کرنے کی حیثیت سے دُعا کا عمل تفکر سے مشابہت رکھتا ہے لیکن اپنی اعلیٰ ترین صورت میں یہ مجرد فکر سے کہیں زیادہ ہے۔ دعا اپنی انتہا میں مجرد تفکر کی طرح ہے۔ یہ اپنے عمل میں انجذاب و اکتساب ہے۔ تاہم دعا کا اکتسابی عمل بعض اوقات بڑھ کر ایسا نقطہ ارتکاز بن جاتا ہے کہ فکر خالص کے لیے اس کی حیثیت اجنبی رہتی ہے۔ فکر میں ذہن مشاہدہ کرتا ہے اور حقیقت کی کارگزاری کو دیکھتا ہے۔ دُعا کے عمل میں یہ سست خرام کلیت کے متلاشی کے بطور اپنا کردار ترک کر دیتا ہے اور حقیقت کی زندگی میں ایک شعوری کردار ادا کرنے کے نقطہ نظر سے اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فکر سے بلند تر اٹھتا ہے۔ اس امر میں کچھ بھی پراسرار نہیں۔ دعا روحانی تابندگی کے لیے ایک معمول کا عمل ہے جس کے ذریعے ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ زندگی کے بڑے کل میں اچانک اپنا مقام پا لیتا ہے۔ یہ خیال نہ فرمائیے گا کہ میں خود ایمائی کی بات کر رہا ہوں کیونکہ خود ایمائی انسانی خودی کی گہرائی میں زندگی کے ذرائع کو وا کرنے میں کچھ بھی کارگر نہیں ہوتی۔ روحانی تابندگی جو انسانی شخصیت کی صورت گری کے ذریعے نئی قوت لاتی ہے کے علی الرغم یہ اپنے بعد کوئی حیات افروز اثرات نہیں چھوڑتی۔ نہ ہی میں کسی مخفی‘ خصوصی ذریعہ علم کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ بلکہ میری ساری تگ وتاز یہ ہے کہ آپ کی توجہ ایک ایسے حقیقی انسانی تجربے کی طرف مبذول کرائوں جو اپنے پیچھے پوری تاریخ رکھتا ہے اور جس کے سامنے ایک پورا مستقبل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف نے اس تجربے کے خصوصی مطالعے کے ذریعے خودی کی نئی سطحوں کو منکشف کیا ہے۔ اس کا ادب تابندہ ہے‘ تاہم اس کی ایسی شکل بن گئی ہے جو ایک فرسودہ مابعد الطبیعیات کے نظام فکر سے متشکل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں جدید ذہن اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرتا ہے۔ اب ذہن جدید، جسے ٹھوس اور فطرتیت پسندانہ غور کی عادت ہے‘ خدا کے بارے میں بھی ایک ٹھوس اور زندہ تجربے کا طلب گار ہے۔ اس کو مسلم یا مسیحی تصوف مطمئن نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں مردہ اور ازکار رفتہ نو افلاطونی تصوف سے اپنا رشتہ رکھتے ہیں جو ایک بے نام ہستی کا متلاشی ہے۔ نسل انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عبادت کے لیے ایک مخصوص ذہنی رویہ ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت دعا فطرت کے عقلی مشاہدے کا حتمی تتمہ تصور کی جانی چاہیے۔ فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت کے کردار سے قرب عطا کرتا ہے اور یوں ہمارے اندرونی ادراک کو اس کے گہرے وقوف کے لیے تیز کرتا ہے۔ میں یہاں صوفی شاعر مولانا روم کے خوبصورت اشعار کا حوالہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتا جن میں وہ حقیقت کی متصوفانہ جستجو کو بیان کرتا ہے: دفتر صوفی سواد و حرف نیست جز دل اسپید مثل برف نیست زاد دانشمند ! آثار قلم زاد صوفی چیست؟ آثار قدم ہمچو صیادے سوئے اشکار شد گامِ آہو دید و بر آثار شد چند گامش گام آہو در خور است بعد ازاں خود ناف آہو رہبر است راہ رفتن یک نفس بر بوئے ناف خوشتر از صد منزل گام و طواف ۷۲؎ (صوفی کی کتاب سیاہی اور حروف سے عبارت نہیں‘ یہ صرف ایک دل کی طرح ہے جو برف کی مانند سفید ہے۔ عالم یا عقلمند کا سرمایہ قلم ہے جب کہ صوفی کی ساری دولت اس کا قدم یعنی عمل ہے۔ صوفی شکاری کی طرح اپنے شکار کے پیچھے رہتا ہے‘ جو ہرن کے قدموں کو دیکھتا ہوا اس کا پیچھا کرتا ہے۔ کچھ دیر تک اس کو ہرن کے پیروں کے نشان درکار ہیں اور اس کے بعد ہرن کے نافے کی خوشبو منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ ہرن کے پائوں کے نشانات سے قدم قدم طواف کرنے کی نسبت اس کی ناف کی خوشبو سے منزل کا حصول بہتر ہے)۔۷۳؎ سچائی تو یہ ہے کہ علم کی تلاش کی تمام صورتیں دعا ہی کی مختلف اشکال ہیں۔ فطرت کا سائنسی مشاہدہ کرنے والا بھی ایک طرح کا صوفی ہے جو دعا میں مشغول ہے گرچہ موجودہ صورت میں وہ مشکیں ہرن کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اپنی تلاش میں وہ بہت کوتاہ اندیش ہے۔ علم کے لیے اس کی پیاس بالآخر اسے اس مقام پر لے جائے گی جہاں ہرن کے قدموں کی بجائے اس کے نافے کی خوشبو اس کی رہبری کرے گی۔ صرف اسی سے فطرت پر اسے قوت حاصل ہو گی اور اسے اُس مکمل لامتناہیت کی ویژن حاصل ہو گی جس کی فلسفے کو تلاش تو بہت ہے مگر وہ اسے پا نہیں سکتا۔ قوت کے بغیر ویژن اخلاقی بلندی تک پہنچا سکتی ہے مگر کسی پائیدار ثقافت کو وجود میں نہیں لا سکتی۔ طاقت ویژن کے بغیر تباہی اور انسان کُشی کے سوا کچھ نہیں۔ انسانیت کے روحانی استخلاص کے لیے دونوں میں امتزاج اور ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ تاہم دعا یا عبادت کاحقیقی مقصد اس وقت بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے جب دعا میںاجتماعیت کی شان پیدا ہو۔ ہر سچی دعا کی روح عمرانی ہے۔ حتیٰ کہ وہ تارک الدنیا راہب جو انسانی معاشرے سے قطع تعلق کر لیتا ہے وہ بھی امید رکھتا ہے کہ اسے عبادت کے ذریعے خدا کی قربت نصیب ہو۔ جماعت انسانوں کا وہ اجتماع ہے جو ایک ہی آرزو کے زیر اثر اپنے آپ کو کسی ایک مقصد پر مرتکز کر لے اور کسی ایک تحریک کے لیے کام کی خاطر اپنے باطن کو کھول لے۔ یہ ایک نفسیاتی سچائی ہے کہ اشتراک عمل ایک عام آدمی کی قوت ادراک کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اس کے جذبات میں عمق پیدا کرتا ہے اور اس کے ارادے کو اس درجے تک متحرک کرتا ہے جس کا اسے تنہا ہونے کی صورت میں احساس بھی نہیں ہو سکتا۔ یقیناً ایک نفسیاتی مظہر کی حیثیت سے دعا ابھی تک ایک راز ہے کیونکہ ابھی تک اجتماعی حالت میں انسانی احساس میں شدت کے بارے میں نفسیات کوئی قوانین دریافت نہیں کر سکی۔ اسلام میں روحانی تجلی کا یہ اشتراک جو اجتماعی دعا میں ہوتا ہے خصوصی دلچسپی کا نکتہ ہے۔ جب ہم روزانہ کی اجتماعی نماز سے مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام کے طواف کی سالانہ عبادت (حج) تک کا سفر کرتے ہیں تو آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کا یہ اسلامی ادارہ انسانی اجتماعیت کے دائرے کو کس طرح وسعت عطا کرتا ہے۔ کائنات کے دہشت ناک سکوت میں انسان کی انفرادی یا اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جواز کی یافت کرتی ہے۔ عبادت میں ذہنی رویے کی نفسیات ہی کے عین مطابق اسلام کی عبادات میں نفی اور اثبات کے رموز موجود ہیں۔ تاہم نوع انسانی کی عبادت کے تجربے سے جو حقیقت کھلی ہے اس کے پیش نظر باطنی عمل مختلف صورتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: لِّکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا ھُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِوَادْعُ إِلَیٰ رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَیٰ ھُدًی مُسْتَقِیْمٍ oوَإِنْ جٰدَ لُوکَ فَقُلِ اﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o اﷲُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقَِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ (۶۹- ۶۷:۲۲) ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت رکھا وہ جس کی پیروی کرتی تھی لہٰذا اے محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑیں نہیں۔ اپنے رب کی طرف سے تم انہیں دعوت دو۔ یقیناً تم راہ راست پر ہو۔ اور اگر وہ تم سے لڑیں تو کہہ دو کہ تم جو کچھ کرتے ہو خدا خوب جانتا ہے۔ اﷲ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ عبادت کے انداز کو نزاع کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔۷۴؎ آپ کس طرف اپنی چہرہ رکھیں یہ عبادت کی روح کے لیے لازم نہیں ہے۔ قرآن نے اس نقطے کو مکمل طور پر واضح کر دیا ہے: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ (۱۵: ۲) مشرق اور مغرب سب اﷲ کے لیے ہیں‘ جس طرف بھی تم اپنا رخ کرو اسی طرف خدا کا چہرہ ہے۔ لَّیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ وَالْمَلَٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِّیِنَ وَء َاتَی الْمَالَ عَلَیٰ حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتٰمَیٰ وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَئَ اتَی الزَّکَوٰۃَ وَالْمُوفُوْنَ بِعَہْدِ ھِمْ إِذَا عَا ھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَأَسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحَیْنَ الْبَأْسِ أُوْلَئِٰٓکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَأَوْلَئِٰٓکَ ہُمْ الْمُتَّقُوْنَ (۱۷۷:۲) نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا چہرہ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کر لو‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اﷲ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اﷲ کی نازل کی ہوئی کتابوں کو اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اﷲ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں یتیموں‘ مسکینوں‘ مسافروں کی مدد کے لیے‘ ہاتھ پھیلانے والوں اور غلاموں پر خرچ کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں اسے پورا کریں اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں تاہم اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ عبادت میں جسم کی حالت ہمارے ذہنی رویے کا تعین کرنے میں بڑی اہم ہے۔ اسلامی عبادت میں ایک خاص سمت کا چنائو اجتماع کے احساسات میں یک جہتی یا وحدت کے تحفظ کے لئے ہے۔ اور اس کی شکل لوگوں میں سماجی مساوات کے احساس کی پرورش کرتی ہے اور عبادت کرنے والوں میں مرتبے اور نسل کے امتیاز کو مٹاتی ہے۔ کس قدر بڑا روحانی انقلاب دفعتاً برپا ہو جائے اگر جنوبی ہندوستان کا مغرور برہمن اچھوتوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر روزانہ عبادت کرے! وہ ایک محیط کل خودی جو تمام خودیوں کی تخلیق کرتی اور انہیں برقرار رکھتی ہے اس سے تمام بنی نوع انسان کی وحدت مترشح ہوتی ہے۔ ۷۵؎ انسانوں کی رنگ و نسل، قبائل اور اقوام میں تقسیم قرآن حکیم کے مطابق محض ان کی پہچان کے لیے ہے۔ ۷۵؎ اسلام میں عبادت کی اجتماعیت اپنی وقوفی اہمیت کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کی اسی وحدت کو نمایاں کرنے کی کوشش ہے اور اس کا مقصد وہ تمام دیواریں اور امتیازات ختم کر دیتا ہے جو انساں اورانسان کے درمیان حائل ہیں۔ (۴) انسانی خودی اس کی آزادی اور لافانیت ’’ خودی کی تشکیل زندگی کے محسوسات سے ہوتی ہے اور یوں وہ نظام فکر کا حصہ ہے۔ فکر کا ہر موجود اور گزرا ہوا ارتعاش ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور یادداشت دونوں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا گزرے ہوئے ارتعاش سے اُبھرتے ہوئے ارتعاش اور اُبھرتے ہوئے ارتعاش سے اس کے بعد اُبھرنے والے ارتعاش سے کام لینے کا نام خودی ہے‘‘ اقبالؒ قرآن حکیم اپنے سادہ مگر پرزور اسلوب میں انسان کی فردیت اور یکتائی پر اصرار کرتا ہے اور میرے خیال میں وہ زندگی کی وحدت کے لحاظ سے انسانی تقدیر کا ایک قطعی تصور رکھتا ہے۔۱؎ انسان کی یکتائی کا یہی منفرد نظریہ اس بات کو بالکل ناممکن بناتا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کا بوجھ اٹھائے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہر انسان صرف اُسی کا حقدار ہے ۲؎ جس کے لئے اس نے ذاتی کوشش کی ہو گی۔ ۳؎ سی وجہ سے قرآن نے کفارے کے تصور کو ردّ کر دیا ہے۔ قرآن حکیم سے تین چیزیں بالکل واضح ہیں: ۱ ۔ انسان خدا کی منتخب مخلوق ہے۔ ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی (۱۲۲:۲۰) پس اسے خدا نے آدم کے برگزیدہ کیااور اس کی توبہ قبول کی اور اسے ہدایت عطا کی ۲۔ انسان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب ) ہے۔ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیٓ أَعْلَمُ مَالاَ تَعْلمُوْنَ (۳۰:۲) ’’جب کہا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں تو انہوںنے کہا کہ آپ زمین پر اسے خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرنے والا ہے اور خون بہانے والا ہے اور ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں اور آپ کی تقدیس بیان کرتے ہیں۔ اﷲ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تمہارے علم میں نہیںہے۔‘‘ وَھُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَٰٓئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَٰتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَآئَ تَٰکُمْ (۱۶۵:۶) وہی ہے جس نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے ہیں تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۳- انسان کو ایک آزاد شخصیت امانت کی گئی ہے جو اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قبول کی ہے۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الإِْنْسَانُط إِنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (۸۲:۳۳) ہم نے امانت کا یہ بوجھ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھا تو وہ اسے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ تاہم یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انسانی شعور کی وحدت جو انسانی شخصیت کے مرکز کو متشکل کرتی ہے وہ کبھی بھی مسلم فکر کی تاریخ میں دلچسپی کا باعث نہیں رہی۔ متکلمین نے روح کو ایک لطیف قسم کا مادہ یا محض عرض ہی تصور کیا ہے جو جسم کے ساتھ ہی مر جاتا ہے اور قیامت کے دن جسے دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔ مسلمان فلاسفہ نے ان نظریات میں یونانی فلسفے کے رحجانات کو قبول کیا تھا۔ جہاں تک دوسرے مکاتب فکر کا تعلق ہے تو یہ یادرکھنا چاہئے کہ اسلام کی جغرافیائی حدود میں وسعت کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام کے لوگ اس میں شامل ہوتے گئے جن کے عقائد و نظریات میں اختلاف تھا۔ ان میں نسطوری، زرتشتی اور یہود شامل تھے جن کا فکری نکتہ نگاہ ایک ایسی ثقافت کا پروردہ تھا جس کا پورے وسطی اور مغربی ایشیا میں غلبہ رہا۔ اس ثقافت کی اصل اور اس کا عمومی ارتقاء مجوسی تصورات سے وابستہ تھا۔ اس کی روح کی بنت میں ثنویت سموئی ہوئی تھی جسے ہم اسلام کے الہیاتی فکر میں بھی کم و بیش جھلکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ ۴؎ البتہ صرف عبادت و ریاضت میں مُستغرق تصوف نے ہی باطنی تجربے کی وحدت کے معانی جاننے کی سعی کی جسے قرآن نے تین ذرائع علم میں سے ایک شمار کیا ہے: ۵؎ دوسرے دو ذرائع تاریخ اور فطرت ہیں۔ اسلام کی مذہبی زندگی میں اس تجربے کی نمو حلاّج کے ان معروف الفاظ میں اپنے کمال تک پہنچی: ’’انا الحق‘‘ (میں ہی حق ہوں) ۔حلاّج کے ہم عصروں نے اوراس کے اخلاف نے ان الفاظ کی وحدت الوجودی تعبیر کی مگر حلاّج کی تحریریں جو فرانسیسی مستشرق ایل میسی نون نے جمع کرکے شائع کی ہیں وہ اس باب میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیتیں کہ اس شہید صوفی نے خدا کے وراء الورا ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ ۶؎ اس کے تجربے کی سچی تعبیر یہ نہیں کہ قطرہ سمندر میں جا ملا ہے بلکہ اس کا مفہوم ناقابل تردید الفاظ میں اس امر کا ادراک اور اس کی جرأت مندانہ تصدیق ہے کہ ایک گہری شخصیت کے اندر انسانی خودی واقعی اور پائیدار وجود رکھتی ہے۔ چنانچہ حلّاج کا جملہ متکلمین کے خلاف ایک چیلنج دکھائی دیتا ہے۔ مذہب کے جدید عہد کے طالب علم کی مشکل یہ ہے کہ اس طرح کا تجربہ اگرچہ اپنی ابتداء میں مکمل طور پر عمومی ہوتا ہے وہ پختگی میں شعور کی نامعلوم پرتوں کو کھولتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ابن خلدون نے ایک ایسے موثر سائنسی طریق کار کی ضرورت کو محسوس کیا تھا جو شعور کی ان نامعلوم پرتوں کی تحقیق کرے۔ ـ ۷؎ جدید نفسیات نے حال ہی میں اس طریق کار کی ضرورت کا احساس کیا ہے مگر وہ ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ شعور کی صوفیانہ پرتوں کے مخصوص پہلوئوں کے علاوہ کچھ دریافت کر سکے۔ ۸؎ چونکہ ہمارے پاس ابھی تک کوئی ایسا سائنسی طریق کارنہیں ہے جو اس نوعیت کے تجربات کا مطالعہ کر سکے جن پر مثلاً حلّاج کے دعوے کی بنیاد ہے ہم علم کے سرچشمے کی حیثیت سے ان کے اندر پنہاں امکانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی الہٰیاتی نظام کے وہ تصورات جو عملی طور پر ایک مردہ مابعد الطبیعیات کی اصطلاحوں میں بیان کئے جاتے ہیں ان افرادکے لئے مددگار ہو سکتے ہیں جو ایک مختلف قسم کے فکری و ذہنی پس منظر کے مالک ہوں۔ لہٰذا آج کے مسلمان کے سامنے کرنے کا کام بہت زیادہ ہے۔اسے چاہئے کہ ماضی سے مکمل طور پر رشتہ توڑے بغیر پورے نظام اسلام کے بارے میں دوبارہ تفکر و تدبر کرے۔ غالباً سب سے پہلے مسلمان شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تھے جنہوں نے اپنے آپ میں ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ مگر وہ شخص جس کو اس کام کی وسعت اور اس کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ تھا اور جو مسلم فکر کی تاریخ اور مسلمانوں کی حیات ملّی کے باطنی مفاہیم کی گہری تفہیم رکھتا تھا جسے اس نے گہری بصیرت اور وسیع انسانی تجربے سے ہم آہنگ کرکے ماضی اور مستقبل کے مابین ایک زندہ تعلق کی صورت میں منضبط کر دیا وہ جمال الدین افغانی تھا۔ اس کی انتھک مگر منقسم توانائی اگر اسلام کو انسانی اعتقادات اور تعلقات کے نظام کی حیثیت میں پیش کرنے پر مرتکز رہتی تو کہا جا سکتا ہے کہ آج دنیائے اسلام فکری طور پر زیادہ مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوتی۔ ہمارے سامنے اب صرف یہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہم جدید علوم کے لئے احترام کا لیکن بے لاگ روّیہ رکھیں اور ان علوم کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اگرچہ نتیجۃً ہمیں اپنے سے پہلے لوگوں سے اختلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ میرے آج کے خطبے کا یہی موضوع ہے۔ عصر حاضر کی فکری تاریخ میں بریڈلے نے خودی کی حقیقت سے انکار کے ناممکن ہونے کے بیّن شواہد دیئے۔ اپنی تصنیف ’’مطالعہ اخلاق‘‘ ۹؎ میں اس نے خودی کی حقیقت کو قبول کیا ہے۔ البتہ اپنی کتاب ’’منطق‘‘ ۱۰؎ میں وہ اسے محض ایک کارآمد مفروضہ گردانتا ہے۔ اپنی کتاب ’’شہود اور حقیقت‘‘ میں اس نے خودی کو اپنی تحقیقی جستجو کا موضوع بنایا ہے۔ ۱۱ ؎ یقینا اس کتاب کے دو ابواب جو خودی کے معانی اور اس کی حقیقت پر ہیں کسی جیو آتما ۱۲ ؎ کی عدم حقیقت کے حوالے سے عہد جدید کی اُپنشد شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے نزدیک حقیقت کا معیار اس کا تضادات سے پاک ہونا ہے اور چونکہ اس کی تنقید نے دریافت کیا کہ تجربے کا محدود مرکز تغیر و ثبات اور وحدت و کثرت کی ناقابل تطبیق حالتوں کا حامل ہے یہ محض ایک واہمہ ہے۔ خودی کا ہم کوئی بھی مفہوم لیں: محسوسات، تشخص ذات، روح یا ارادہ، اس کا صرف فکر کے قوانین کے تحت ہی تجزیہ کیا جا سکتا ہے جو اپنی فطرت میں نسبتی ہوتا ہے اور تمام نسبتیں تضادات کے گرد گھومتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کی بے رحم منطق خودی کو ابہامات کا ملغوبہ گردانتی ہے بریڈلے کو یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ خودی لازمی طور پر کسی نہ کسی مفہوم میں ایک حقیقت ہے اور یہ کسی نہ کسی پہلو سے ایسی حقیقت ہے ۱۳؎ جسے ایک ناقابل انکار امر واقعی کہہ سکتے ہیں۔ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ خودی اپنے محدود مفہوم میں زندگی کی وحدت کے لحاظ سے نامکمل ہے۔ یقینا اپنی فطرت میں وہ ایک ایسی وحدت کی اُمنگ رکھتی ہے جو زیادہ سے زیادہ ہمہ گیر، موثر، متوازن اور منفرد ہو۔ کون جانتا ہے کہ ایک اکمل وحدت کی تنظیم کے لئے کتنی قسم کے مختلف احوال سے گزرنے کی ضرورت ہوگی۔ اپنی تنظیم کے موجودہ مرحلے پر یہ اطناب کی حالت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک اسے نیند کی صورت میں برابر آسودگی نہ ملتی رہے۔ تاہم ایک معمولی سا مہیج بعض اوقات اس کی وحدت کو ضرور پارہ پارہ کرسکتا ہے اور ایک موثر قوت کے طور پر اسے ختم کر سکتا ہے۔ بہرحال تجزیہ جو کچھ بھی ہو ہمارا خودی کا احساس اتنا بنیادی اور طاقتور ہے کہ بریڈلے کو بادلِ ناخواستہ اس کی حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔ چنانچہ تجربے کا متناہی مرکز حقیقی ہے، اگرچہ اس کی حقیقت اتنی گہری ہے کہ اسے عقل کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔ خودی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ خودی اپنے آپ کو ایسی وحدت میں ظاہر کرتی ہے جسے ہم ذہنی حالتوں کی وحدت کہہ سکتے ہیں۔ ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں۔ یہ ایک دوسرے سے متعلق اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ کل کی کیفیات کی طرح رہتی ہیں جسے ہم ذہن کہتے ہیں۔ تاہم ان منسلک حالتوں یا واقعات کی عضویاتی وحدت ایک خاص قسم کی وحدت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مادی شئے کی وحدت سے مختلف ہے کیونکہ ایک مادی شئے کے حصے الگ سے وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ذہنی وحدت بالکل ہی منفرد چیز ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اعتقاد میرے دوسرے اعتقاد کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری تاج محل کے حسن کی تعریف کا تعلق میرے آگرے سے کم یا زیادہ فاصلے پر موجود ہونے پر منحصر ہے۔ میری فکری مکانیت کا کوئی تعلق بھی مکان سے نہیں ہے۔ یقینا خودی ایک سے زیادہ نظامات مکانی کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔ مگر بیدار شعور کی مکانیت اور خواب کی مکانیت کا آپس میں کوئی باہمی تعلق نہیں، وہ ایک دوسرے کی حدود نہیں پھلانگتیں اور نہ ہی ایک دوسرے کی حدود میں دخل اندازی کرتی ہیں۔ البتہ جسم کے لئے تو ایک ہی مکان ہے۔ چنانچہ خودی ان معنوں میں مکان کی پابند نہیں جن معنوں میں جسم پابند ہے۔ مزید برآں اگرچہ ذہنی اور جسمانی واقعات دونوں زمان کے پابند ہیں، مگر خودی کا زمان، طبیعی واقعات کے زمان سے ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ طبیعی واقعات کا دوران ایک حاضر حقیقت کے لحاظ سے مکان کے حوالے سے متعین ہے مگر خودی کا دوران خود اسی میں مرتکز ہوتا ہے اور اس کے حال اور مستقبل سے ایک منفرد طریق سے منسلک ہوتا ہے۔ طبیعی واقعات کی بناوٹ بعض خاص نشانات کو منکشف کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زمان کے دوران سے گزرے ہیں مگر یہ نشانات محض زمان کے دوران کی علامات ہیں خود دوران زمان نہیں ہیں۔ زمان خالص کے دوران کا تعلق صرف خودی سے ہے۔ خودی کی وحدت کی ایک اور اہم خصوصیت اس کی قطعی خلوت ہے جو ہر خودی کی انفرادیت کو منکشف کرتی ہے۔ ایک خاص نتیجے تک رسائی کے لئے قیاس کے تمام قضیوں کا ایک ہی ذہن کے لئے قابل قبول ہونا لازم ہے۔ اگر میں اس قضیے پر یقین رکھتا ہوں کہ ’’تمام انسان فانی ہیں‘‘ اور ایک دوسرا ذہن اس قضیے پر یقین رکھتا ہے کہ ’’سقراط ایک انسان ہے‘‘ تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ نتیجہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب دونوں ہی قضایا یعنی ’’تمام انسان فانی ہیں‘‘ اور ’’سقراط ایک انسان ہے‘‘ ایک ہی ذہن میں جمع ہوں۔ پھر میری کسی خاص شئے کی خواہش بھی لازمی طور پر میری ہی ہے۔ اس کی تسکین کا مطلب میری ذاتی مسرت ہے۔ میرے علاوہ اگر تمام انسانیت ایک ہی چیز کی خواہش کرنے لگے تو ان کی خواہش کی تسکین کا مطلب میری خواہش کی تسکین نہیں جب تک کہ وہ شئے مجھے دستیاب نہیں۔ دانتوں کے ڈاکٹر کو دانت درد میں مجھ سے ہمدردی ہو سکتی ہے مگر وہ میری دانت درد کا تجربہ تو نہیں کر سکتا۔ میری خوشیاں ،تکالیف اور خواہشات خالصتاً میری ذاتی ہیں جو خالصتاً میری ذاتی انا یا خودی کی تشکیل کرتی ہیں۔ میرے احساسات، میری نفرتیں اور محبتیں، تصدیقات اور فیصلے خالصتاً میرے ہیں۔ خدا بھی میرے احساسات کو میری طرح محسوس نہیں کر سکتا اور جب ایک سے زیادہ متبادل راستے میرے سامنے موجود ہوں تو میری بجائے وہ فیصلہ نہیں کر سکتا اور انتخاب نہیں کر سکتا۔ اسی طرح آپ کی پہچان کے لئے لازم ہے کہ میں آپ کو پہلے سے جانتا ہوں۔ کسی جگہ یا کسی فرد کی پہچان کا تعلق میرے ماضی کے تجربے سے ہے نہ کہ کسی اور شخص کے ماضی کے تجربے سے۔ میری ذہنی حالتوں کے مابین رابطوں کی یہی انفرادیت ہے جسے ہم لفظ ’’میں‘‘ کے ذریعے بیان کرتے ہیں ۱۴؎ اور یہیں سے نفسیات کے بہت بڑے مسئلے کا آغاز ہوتا ہے کہ اس ’’میں‘‘ کی نوعیت و ماہیت کیا ہے؟ اسلامی مکتب فکر، جس کے امام غزالی رہنما ہیں، ۱۵؎ کے مطابق خودی سادہ، ناقابل تقسیم اور غیر متغیر روحانی جوہر ہے جو ہماری ذہنی حالتوں کی کثرت سے بالکل مختلف اور زمانے کے دوران سے بالکل محفوظ ہے۔ ہمارا شعوری تجربہ ایک وحدت ہے کیونکہ ہماری ذہنی حالتیں وہ خواص ہیں جو اس سادہ جوہر سے متعلق ہیں اور یہ ان خاصیتوں کے تغیرو تبدل کے دوران میں تبدیل نہیں ہوتا۔ آپ سے میری پہچان اس وقت ممکن ہے جب میں بنیادی ادراک اور موجودہ بازیافت کے عمل کے دوران تبدیل نہ ہوں۔ تاہم اس مکتب فکر کی دلچسپی نفسیاتی سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی تھی۔ لیکن خواہ ہم رو ح کی ہستی کو اپنے شعوری تجربے کے حقائق کی وضاحت مان لیں یا ہم اسے اپنی بقائے دوام کی اساس گردانیں یہ نہ کسی نفسیاتی اور نہ ہی مابعد الطبیعیاتی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ کانٹ کے عقل محض کے مغالطے جدید فلسفے کے طلباء کے لئے اجنبی نہیں ہیں ۔۱۶؎ ’’میں سوچتا ہوں‘‘ کانٹ کے مطابق ہر فکر کو لازم ہے اور فکر کی خالص صوری شرط ہے اور ایک خالص صوری شرط سے وجودی جو ہر کا استنتاج منطقی طور پر جائز نہیں۔ ۱۷؎ موضوعی تجربہ کے تجزیے کے بارے میں کانٹ کے نقطہ نظر سے قطع نظر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی جوہر کا ناقابل تقسیم ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ معدوم نہیں ہو سکتا کیونکہ کانٹ کے اپنے الفاظ میں یہ کسی شدید کیفیت کی طرح آہستہ آہستہ لاشیئت میں معدوم ہو سکتا ہے یا یک دم ختم ہو سکتاہے۔ ۱۸؎ جوہر کا یہ ساکت و صامت نکتہ نظر کسی نفسیاتی مقصد کو بھی پورا نہیں کرتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شعوری تجربے کے عناصر کوروح کی صفات اس انداز سے سمجھنا مشکل ہے جس طرح مثال کے طور پر وزن کسی جسم کی صفت ہوتا ہے۔ مشاہدہ مخصوص عوامل کے حوالے کے گرد گھومتا ہے اور یوں یہ عوامل اپنی ایک مخصوص ہستی رکھتے ہیں۔ جیساکہ لیرڈ بیان کرتا ہے وہ پرانی دنیا میں اپنی نئی تشکیل کی بجائے ایک نئی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔ دوسرے اگر ہم تجربے کو خواص کے طور پر شمار کرتے ہیں تو ہم یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ وہ روح میں کس طرح موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا شعوری تجربہ روح کے جواہر کی حیثیت سے خودی کی نوعیت کی جانب رہنمائی نہیں کرتا۔ مزید برآں چونکہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک ہی جسم مختلف اوقات میں مختلف ارواح سے کنٹرول کیا جاسکے یہ نظریہ متبادل شخصیت جیسے مظاہر کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کرتا جن کے بارے میں قبل ازیں یہ بات کہی جاتی تھی کہ وہ بد روحوں کے جسم پر قبضہ کرلینے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بایں ہمہ خودی تک پہنچنے کے لئے شعوری تجربے کی توجیہہ ہی واحد راستہ ہے۔ لہٰذا آئیے اس کے لئے جدید نفسیات کی طرف متوجہ ہوںاور دیکھیں کہ وہ خودی کی نوعیت پر کیا روشنی ڈالتی ہے۔ ولیم جیمز کے تصور میں شعور ’’جوئے خیال‘‘ ہے‘ تغیرات کا ایک مسلسل شعوری بہائو۔ اس کے نزدیک یہ ایک مجتمع کرنے والا اُصول ہے جو ہمارے تجربے میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ ۱۹؎ جس پر لگی ہوئی گویا مختلف طرح کی کڑیاں آپس میں پیوست ہو کر ذہنی زندگی کا بہائو بناتی ہیں۔خودی کی تشکیل زندگی کے محسوسات سے ہوتی ہے اور یوں وہ نظام فکر کا حصہ ہے۔ فکر کا ہر موجودہ یا گزرا ہوا ارتعاش ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور یادداشت دونوں موجود ہوتے ہیں لہٰذا گزرے ہوئے ارتعاش سے ابھرتے ہوئے ارتعاش اور اس ابھرتے ہوئے ارتعاش سے اس کے بعد ابھرنے والی ارتعاش سے کام لینے کا نام خودی ہے۔ ذہنی زندگی کے بارے میں یہ نقطہ نظر بڑا عالمانہ ہے ۲۰؎ لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ شعور کے میرے ذاتی تجربے پر یہ صادق نہیں آتا۔ شعور ایک وحدت ہے اور ہماری ذہنی زندگی کی اساس ہے: وہ اجزا میں منقسم نہیں کہ جو ایک دوسرے کو باہمی طور پر آگاہ کرتے رہیں۔ شعور کا یہ نقطہ نظر خودی کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہونے کے علاوہ تجربے کے مقابلتاً دائمی عناصر کو بھی پورے طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ ۲۱؎ گزرے ہوئے خیالات کے مابین تسلسل نہیں ہوتا کیونکہ جب ایک خیال موجود ہوتا ہے تودوسرا مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا گزرا ہوا خیال جو پلٹ نہیں سکتا حاضر خیال سے کیسے جان کر اس سے کام لے سکتا ہے۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ خودی باہم دگر پیوست تجربات ومدرکات کی کثرت سے بالا تر ہے۔ باطنی تجربہ خودی کا ہی عمل ہے۔ خودی ایک تنائو ہے جو خودی کی ماحول پر اور ماحول کی خودی پر یلغار سے عبارت ہے۔ ان باہمی یلغاروں کے دوران خودی کہیں باہر موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ سمت نما کے طور پر موجود رہتی ہے اور خود اپنے تجربے سے منظم ہوتی ہے اور تشکیل پاتی ہے۔ قرآن خودی کے اس سمت نمائی کرنے والے کردار کے بارے میں بڑا واضح ہے۔ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ أُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً (۸۵: ۱۷) یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے مگر تم لوگوں کو بہت کم علم ملا ہے۔ اس ’امر ‘ کے معنی کی تفہیم کے لئے ہمیں اس تفریق کو سمجھنا چاہئے جو قرآن نے امر اور خلق کے درمیان قائم کی ہے۔ پرنگل پیٹی سن کو افسوس ہے کہ انگریزی زبان میں صرف خلق ہی ایک ایسا لفظ ہے جو ایک طرف تو خدا اور وسیع کائنات کے مابین تعلق کو ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف خودی سے خدا کے تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ عربی زبان اس بارے میں زیادہ خوش قسمت ہے کہ اس میں خلق اور امر دونوں الفاظ موجود ہیں جن کے ذریعے خدا کی دونوں طرح کی تخلیقی سرگرمیاں ہم پر اپناآپ ظاہر کرتی ہیں۔ خلق‘ تخلیق ہے اور امر‘ ہدایت ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ ’خلق اور امر (تخلیق اور ہدایت) اسی کے ہیں۔ ۲۲؎ جو آیت اوپر بیان کی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہدایت روح کی فطرت لازمہ ہے کیونکہ اس کا صدور خدا کی رہنمایانہ قدرت سے ہوتا ہے۔ اگرچہ ہم اس حقیقت سے واقف نہیں کہ خدا کا حکم (امر) خودی کی وحدتوں میں کیونکر کارفرما ہے۔ خودی کی ماہیت اور کردار پر مزید روشنی ضمیر متکلم (ربّی: میرا رب) کے استعمال سے پڑتی ہے۔ اس سے یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ اکائی کے تاثر‘ توازن اور وسعت میں تمام تر اختلافات کے باوجود روح ایک منفرد اور مخصوص جوہر ہے۔ ۲۳؎ قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاْکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَأَھْدَیٰ سَبِیْلاً ( ۱۵۴:۱۷) ہر شخص اپنے مخصوص طریقے پر عمل کرتا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ لہٰذا میری حقیقی شخصیت کوئی شے نہیں بلکہ یہ عمل سے عبارت ہے۔ میرا تجربہ صرف میرے اعمال کا تسلسل ہے جو ایک دوسرے کا حوالہ ہیں اور جنہیں رہنما مقصد کی وحدت آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ میری تمام تر حقیقت کا انحصار میرے اسی با امر رویئے میں ہے۔ آپ مجھے مکان میں رکھی ہوئی کسی شے کی طرح نہیں سمجھ سکتے یا تجربات کے ایک مجموعہ کے طور پر جو محض زمانی ترتیب رکھتا ہو۔ اس کے برعکس آپ میری توجیہ‘ تفہیم اور تحسین میری تصدیقات‘ میرے ارادوں‘ مقاصد اور آدرشوں سے کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ زمان و مکان کے نظم میں خودی کا بروز کیونکر ہوا۔ اس بارے میں قرآن حکیم کی تعلیم بالکل عیاں ہے۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍمَّکِیْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا ء َاخَر (۱۴- ۱۲: ۲۳) ہم نے انسان کی تخلیق مٹی کے جوہر سے کی پھر اسے ایک محفوظ مقام پر ٹپکی ہوئی بوند کی صورت میں رکھا پھر اسے لوتھڑے کی شکل دی پھر اس لوتھڑے کو گوشت بنایا اور پھر اس گوشت کو ہڈیاں دیں اور گوشت کو ہڈیوں پر منڈھا اور پھر اسے ایک دوسری صورت میں کھڑا کیا انسان کی یہ ’’دوسری صورت‘‘ طبیعی قوت نامیہ کی بنیاد پر ارتقایاب ہوتی ہے___کمتر خودیوں کی وہ بستی جن کے اندر سے ایک برتر خودی مسلسل مجھ پر عمل پیرا رہتی ہے جس سے مجھے تجربے کی مترتب وحدت کی تعمیر کا موقع ملتا ہے۔ کیا ڈیکارٹ کے مفہوم میں روح اور وجود نامیہ، جو ایک دوسرے سے کسی طرح پر اسرار طور پر ملے ہوئے ہیں‘ الگ اور خود مختار چیزیں ہیں۔ میرے نزدیک مادے کے خود مختار وجود کا مفروضہ یکسر لغو ہے۔ اس کا جواز صرف حس ہے جس کی مادہ کو مجھ سے الگ کم از کم ایک جزوی علّت گردانا جا سکتا ہے۔ یہ جو مجھ سے الگ ہے اس کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ کچھ ایسے خواص سے بہرہ ور ہے جو میرے اندر کے حواس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اور ان خواص پر اپنے اعتقاد کی توجیہ یوں کرتا ہوں کہ علت کی اپنے معلول سے کچھ تو مشابہت ہونی چاہیے۔ لیکن علّت اور معلول کی ایک دوسرے سے مشابہت ضروری نہیں۔ اگر زندگی میں میری کامیابی کسی دوسرے کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہے تو میری کامیابی اور اس کے دکھ میں کوئی مشابہت نہیں۔ تاہم روزمرہ تجربہ اور طبیعیاتی سائنس مادے کے مستقل بالذات تصور پر انحصار کرتے ہیں۔ آئیے یہ مفروضہ قائم کریں کہ روح اور جسم ایک دوسرے سے الگ اور آزاد ہیں اور کسی سریت نے ان دونوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ یہ ڈیکارٹ تھا جس نے سب سے پہلے اس مسئلہ کو اٹھایا۔ میں اس کے بیان اور حتمی نقطہ نظر کے بارے میں یقین رکھتا ہوںکہ یہ زیادہ تر مانویت کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو ابتدائی مسیحیت نے اس سے وراثت میں قبول کئے۔ تاہم اگر وہ ایک دوسرے سے الگ اور آزاد ہیں اور باہم اثرانداز نہیں ہوتے تو ان کی تبدیلیاں بالکل متوازی خطوط میں آگے بڑھیں گی جس کے بارے میں لائی بنیز کا خیال تھا کہ ان کے درمیان کوئی پہلے سے طے شدہ ہم آہنگی کام کر رہی ہو گی۔ اس سے روح کا کردار جسم کے تغیرات کے ایک انفعالی تماشائی کا ابھرے گا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہم فرض کرتے ہیں کہ روح اور بدن ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں تو ہم کن مشہود حقائق کی بنا پر تعین کر سکتے کہ یہ تعامل کیسے اور کہاں جنم لیتا ہے اور ان میں کون پہلے اثر انداز ہوتا ہے؟ روح جسم کا ایک عضو ہے جو اسے عضویاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یا جسم روح کا ایک آلہ ہے۔ نظریہ تعامل کی رو سے دونوں ہی قضیے ایک جیسے درست ہیں۔ لانگے کے نظریہ ہیجان کا رخ اس طرف ہے کہ اس باہمی تعامل میں ابتداء جسم کی طرف سے ہوتی ہے ۲۴؎ تاہم کافی شواہد موجود ہیں جن سے اس نظریئے کی تردید ہوتی ہے۔ یہاں ان شواہد کی تفصیل دینا ممکن نہیں۔ یہاں اتنی وضاحت ہی مناسب ہے کہ اگر جسم ابتداء کرے بھی تو ہیجانات کی نمو کے ایک خاص مرحلے پر ذہن اس میں دخل اندازی کرتا ہے اور یہ بات دوسرے مہیجات کے بارے میں بھی اتنی ہی درست ہے جو ذہن پر متواتر کار فرما رہتے ہیں۔ کیا ہیجان مزید نمو کرے گا یا یہ کہ کوئی مہیج اپناکام کرتا رہے گا اس کا دار و مدارمیرے اس سے ربط پر ہے۔ کسی ہیجان یا مہیج کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے اس کا آخری دار مدار بھی ذہن کی رضامندی کا ہی مرہون منت ہے۔ یوں نظریہ ہائے متوازیت اور تعامل، دونوں غیر تسلی بخش ہیں۔ جسم اور ذہن دونوں عمل کے دوران ایک ہو جاتے ہیں۔ جب میں اپنی میز پر سے کوئی کتاب اٹھاتا ہوں تو میرا عمل ایک اور ناقابل تقسیم عمل ہے۔ اس عمل میں جسم اور ذہن کے درمیان کسی خط کو کھینچنا بالکل ناممکن ہے۔ کسی نہ کسی طرح دونوں کا تعلق ایک ہی نظام سے ہے اور قرآن حکیم کے مطابق بھی دونوں ایک ہی نظام کے تحت ہے۔ ۲۵؎ خلق (تخلیق) اور امر (حکم) ۲۶؎ اسی کے ہیں‘ اس صورت حال کا تصور کس طرح ممکن ہے؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جسم مطلق خلا میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں : یہ واقعات یا اعمال کا ایک نظام ہے۔ ۲۷؎ تجربات کا وہ نظام بھی جسے ہم روح کہتے ہیں اعمال کا ایک نظام ہے۔یہ امر واقعہ روح اور جسم میں امتیاز ختم نہیں کرتا بلکہ انہیں ایک دوسرے کے قریب تر لاتا ہے۔ خود روی خودی کی خصوصیت ہے۔ جسم اپنے اعمال کو دہراتا رہتا ہے۔ جسم روح کے اعمال کی مجتمع صورت یا اس کی عادت ہے: اس لئے وہ اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتا۔ یہ شعور کا مستقل حصہ ہے جو اپنے اس مستقل حصہ ہونے کی وجہ سے باہر سے اپنی جگہ پر نظر آتا ہے۔ اب مادہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کمتر خودیوں کی ایک بستی ہے جن میں سے باہمی عمل اور میل جول کے ایک خاص درجۂ ارتباط پر پہنچنے کے بعد ایک برتر خودی جنم لیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کائنات کسی خارجی ہدایت کی طلب گار ہونے کی بجائے اپنی رہنمائی میں خود مکتفی ہو جاتی ہے اورحقیقت اعلیٰ اس پر اپنے تمام اسرار کھول دیتی ہے اور یوں اپنی ماہیت کے انکشاف کا راستہ دکھا دیتی ہے۔ کمتر خودیوں سے برتر خودی کا نکلنا برتر خودی کے وقار اور اس کی قدر میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ کسی چیز کا مبدا اہم نہیںہوتا بلکہ اس کی صلاحیت، موزونیت اور اس کی آخری رسائی یا مرتبہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم روحانی زندگی کی اساس خالص طبیعی بھی تسلیم کر لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اپنی پیدائش اور نشو و نما کے بنیادی عنصر میں تحویل ہو سکتی ہے۔ بروزی ارتقاء کا نظریہ رکھنے والوں کے دلائل کی روشنی میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ارتقا یافتہ شے اپنی ہستی کے اعتبار سے ایک پہلے سے عقل میں نہ آنے والی اور نادر حقیقت ہے جسے میکانکی انداز میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یقینا ارتقائے حیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے ذہن پر مادہ کی برتری ہوتی ہے۔ پھر جب ذہن قوت پکڑتا ہے تو وہ مادہ پر غلبہ کا رجحان حاصل کر لیتا ہے اور بالآخر وہ اس مادہ پر مکمل برتری حاصل کرکے مکمل طور پر خود مختار ہو سکتا ہے۔ خالص طبیعی سطح کی ایسی کوئی شئے نہیں جو محض مادیت سے عبارت ہو اور جو کسی ایسے تخلیقی مرکب کی نمو نہ کر سکے جسے ہم زندگی اور ذہن کہتے ہیں اور جسے ذہن اور حواس کی آفرینش کے لئے ایک ماورا ہستی کی احتیاج ہو۔ مطلق خودی، جو نمو پانے والی ہستی کا فطرت میں بروز کرتی ہے فطرت کے اندر ہے۔ قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ ’’ہُوَ الاوّل والاخروالظاہر والباطن‘‘ (۳:۵۷) وہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی) ۲۸؎ مادے کے بارے میں اس نقطہ نظر سے ایک نہایت اہم سوال اٹھتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خودی کوئی جامد شئے نہیں ہے۔ وہ اپنی تنظیم زماں میں کرتی ہے اور اپنی تشکیل خود اپنے تجربے کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ فطرت سے جوئے تعلیل کا بہائو اسکی طرف اور اس سے فطرت کی طرف رہتا ہے۔ اب کیا خودی اپنی سرگرمیوں کا تعین خودکرتی ہے؟اگر ایسا ہے تو خودی کی اس خود جبریت کا زمان و مکان کے نظام جبریت سے کیا تعلق ہے؟ کیا علتِ ذات ایک مخصوص قسم کی علت ہے یا محض فطرت کی میکانکیت کی ہی ایک مخفی صورت ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دونوں قسم کی جبریت ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔ لہٰذا انسانی اعمال پر بھی سائنسی منہاج کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ انسانی سوچ کا عمل محرکات کے تصادم سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ یہ محرکات خودی کے اپنے موجودہ یا موردثی عمل یا بے عملی کے رحجانات پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ یہ بہت سی بیرونی قوتیں ہوتی ہیں جو ذہن کے محاذ پر آتی ہیں اور برسرپیکار رہتی ہیں۔ آخری انتخاب سب سے زیادہ طاقت ور قوت کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ وہ محرکات کی مسابقت کے نتیجے میں خالص طبیعیاتی نہیں ہوتا۔ ۲۹؎ تاہم میری حتمی رائے یہ ہے کہ جبریہ اور قدریہ کے حامیوں کے تصورات، شعوری عمل کے بارے میں غلط خیالات کا نتیجہ ہیں جنہیں جدید نفسیات اس لئے نہیں سمجھ سکی کہ اگرچہ سائنس ہونے کے ناطے اس کی اپنی ایک آزادانہ حیثیت ہے اور اس کے سامنے مشاہدے کے لئے اپنے حقائق ہیں اس نے علوم طبیعی کا غلامانہ اتباع کیا ہے۔ یہ نکتہ نظر کہ خودی کی سرگرمی تصورات اورخیالات کے تسلسل پر مشتمل ہے جنہیں حواس کی اکائیوں میں تحویل کیا جا سکتا ہے جوہری مادیت کی ایک صورت ہے جس نے موجودہ سائنس کی تشکیل کی ہے۔ یہ نکتہ نظر شعور کی جبری تعبیر کے مفروضہ کو تقویت دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم جرمنی کی تشاکلی نفسیات میں اس سوچ کی کچھ گنجائش موجود ہے ۳۰؎ کہ نفسیات کو بطور سائنس ایک آزادانہ حیثیت حاصل ہو جائے ۔ اس نئی جرمن نفسیات کی ہمیں تعلیم یہ ہے کہ اگر شعوری کردار کا محتاط مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ اس میں حواس کے تواترکے ساتھ ساتھ بصیرت بھی کار فرما ہوتی ہے۔ ۳۱؎ یہ بصیرت اشیاء کے زمانی، مکانی اور تعلیلی رشتوں کے ادراک کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس عمل انتخاب سے عبارت ہے جس سے خودی اپنے متعین کردہ مقاصد کے پیش نظر گزرتی ہے۔ کسی بامقصد عمل کے تجربے کے درمیان ملنے والی کامیابی کا احساس جو مجھے میرے مقاصد تک رسائی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے مجھے اپنی ذاتی علیت اور عمدہ کارکردگی کا یقین دلاتا ہے کہ ایک بامقصد عمل کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستقبل کی صورت حال کے بارے میں وژن موجود ہو جس کی علم عضویات کی اصطلاحوں میں کسی قسم کی کوئی توضیح ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم علتی سلاسل میں خودی کے لئے جو گنجائش نکالتے ہیں وہ خودی کے اپنے مقاصد کے لحاظ سے خود اس کی اپنی وضع کردہ مصنوعی تشکیل ہے۔ خودی ایک پیچیدہ ماحول میں زندگی کرتی ہے اور اس وقت تک خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک وہ اس ماحول کو نظم میں نہ لے آئے تاکہ اسے ارد گرد کی چیزوں کے کردار کے بارے میں کچھ نہ کچھ وثوق اور اعتماد حاصل ہو جائے۔ ماحول کوعلت و معلول کا نظام خیال کرنا خودی کا ایک ناگزیر آلہ ہے نہ کہ فطرت کی ماہیت کا حتمی اظہار۔ یقینا فطرت کی یوں تعبیر کرتے ہوئے خودی اپنے ماحول کو بہتر سمجھتی ہے اور اس پر حاوی ہو جاتی ہے اور اس طرح آزادی اور اختیار حاصل کرتی ہے اور اسے وسعت دیتی ہے۔۳۲؎ خودی کے عمل میںرشد و ہدایت اور بامقصد نظم و ضبط کا عنصر یہ ظاہر کرتا ہے کہ خودی ایک آزاد علتِ ذاتی ہے جو خودی مطلق کی زندگی اور آزادی میں شریک ہے۔ مطلق خودی نے آزاد و خود مختار و متناہی خودی کا بروز گوارا کرکے خود اپنی آزادی کو محدود کر لیا ہے۔ اس شعوری کردار کی آزادی کی تائید قرآن حکیم کے نقطہ نظر سے بھی ہو جاتی ہے جو وہ خودی کے عمل کے بارے میں رکھتا ہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیات اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتیں: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ وقف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُئْو مِنْ وَمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ (۲۹:۱۸) کہئے یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے۔ اب تم میں سے جو چاہے تسلیم کرے اور جو چاہے کفر کرے۔ إِنْ أَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ وَإِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا(۷:۱۷) تم نے احسان کیا تو اپنے ہی نفس پرکیا اور بدی کی تو خود اپنے آپ سے کی۔ یقینا اسلام انسانی نفسیات کی اس نہایت اہم حقیقت کوتسلیم کرتا ہے کہ آزادیِ عمل کی قوت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ تاہم خودی کی خواہش یہ ہے کہ اس کی زندگی میں یہ قوت ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والے عنصر کی حیثیت سے بحال رہے۔ قرآن کے مطابق ہماری روزانہ نماز کے اوقات میں یہ خوبی ہے کہ وہ زندگی اور آزادی دینے والے مبداء سے خودی کو قریب تر کرکے اسے اپنی ذات پر قابو پانے کا موقعہ دیتے ہیں اور اسے نیند اور کاروبار زندگی کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسلام میں نماز ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذریعے خودی کو میکانکی جبر سے آزادی کی طرف گریز کا موقع ملتا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ قرآن میں تقدیر کا تصور جا بجا ملتا ہے۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ فریڈرک اشپنگلر نے اپنی معروف کتاب ’’زوال مغرب‘‘ میں اس نکتہ نظر کا اظہارکیا ہے کہ اسلام خودی کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ۳۳؎ میں نے قبل ازیں تقدیر کے بارے میں قرآن کے نکتہ نظر کی توضیح کی ہے۔۳۴؎ اب جیسا کہ اشپنگلر خود بیان کرتاہے ہم اپنی دنیا کی تعمیر دو طرح سے کر سکتے ہیں، ایک طریقہ عقلی ہے اور دوسرے کو ہم کسی بہتر لفظ کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے ’حیاتیاتی‘ کہہ سکتے ہیں۔ عقلی طریقے میں دنیا علّت و معلول کے ایک جامد نظام کی تفہیم کا نام ہے جبکہ حیاتیاتی طریقے میں ہم زندگی کے ناگزیر جبر کو قبول کر لیتے ہیں جو اپنے داخلی تنوع کا اظہار کرتے ہوئے زمان مسلسل کی تخلیق کرتی ہے۔ کائنات کو اپنانے کا یہ طریق کار قرآن میں ’ایمان‘ سے تعبیر ہوا ہے۔ ایمان مختلف نوع کے قضیوں پر مشتمل محض ایک انفعالی اعتقاد نہیں بلکہ یہ ایک نادر تجربے سے حاصل شدہ زندہ ایقان ہے۔ اس تجربے اور اس سے منسلک ارفع قسم کی جبریت کی اہلیت صرف مضبوط اور مستحکم شخصیات ہی کو میسر ہوتی ہے۔ روایت ہے کہ نپولین کہا کرتا تھا کہ ’’میں شئے ہوں شخص نہیں‘‘۔ یہ بھی ایک انداز ہے جس سے وحدت کا تجربہ اپنا اظہارکرتا ہے۔ اسلام میں مذہبی تجربہ آنحضرت ﷺکے مطابق صاحب تجربہ میں خدائی صفات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس تجربے کا اظہار ایسے جملوں میں ہوا ہے کہ : ’’انا الحق‘‘’میں ہی تخلیقی سچائی ہوں‘‘ (حلاّج) ’’اناالدھر‘‘ ’’میں وقت ہوں‘‘ (محمد ﷺ) ’’میں قرآن ناطق ہوں‘‘ (علیؓ) ’’میں عظیم الشان ہوں‘‘ (بایزید بسطامی)۔ اسلام کے اعلیٰ تصوف میں وحدت کا یہ تجربہ متناہی خودی کے لامتناہی خودی میں گم ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ لامتناہی خودی ہے جو متناہی کو اپنی آغوش میںلے لیتی ہے۔ ۳۵؎ جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی اپنی مثنوی کے اس شعر میں اظہار کرتے ہیں: علم حق در علم صوفی گم شود ایں سخن کے باور مردم شود علم حق صوفی کے علم میں گم ہو جاتا ہے مگر یہ بات عام آدمی کو کس طرح باور کرائی جا سکتی ہے۔ تاہم جیسا کہ اشپنگلر کا خیال ہے تقدیر کا اس رویے پر اطلاق خودی کی نفی نہیں بلکہ یہ زندگی اور غیر محدود قوت ہے جو کسی رکاوٹ کو نہیں جانتی۔ وہ ایک انسان کو اطمینان سے اس کی نمازوں کی ادائیگی کے قابل بنا دیتی ہے خواہ اس کے چاروں طرف گولیوں کی بوچھاڑ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ صدیوں سے اسلامی دنیا میں تقدیر کا ایک نہایت پست تصور رائج ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے۔ اس کے پیچھے بھی ایک تاریخی پس منظر ہے جس پر الگ بحث ہوسکتی ہے۔ یہاں صرف اتنا ہی کہہ دیناکافی ہے کہ اسلام میں اس طرح کی تقدیر پرستی جس پر اہل یورپ معترض ہوتے ہیں اور جسے ایک لفظ قسمت میں بیان کیا جا سکتا ہے وہ کچھ تو فلسفیانہ فکر اور کچھ سیاسی مصلحت بینی کے باعث ہے اور کچھ اس حیات بخش قوت کے بتدریج زوال کا نتیجہ ہے جو ابتداء میں اسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی تھی۔ فلسفے نے جب علّت کے مفہوم کی خدا پر اطلاق کی بحث چھیڑی اور زمان کو علت و معلول کے درمیان رشتے کا جوہر تصور کیا گیا تو ایک ایسے خدا کا تصور لازمی طور پر ابھرا جو کائنات سے ماوراء ہے، اس سے متقدم ہے اور باہر سے اس پرعمل کر رہا ہے۔ خدا کو علت و معلول کی زنجیر کی آخری کڑی تصور کیا گیا۔ نتیجۃً یہ کہا گیا کہ جو کچھ بھی کائنات میں ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی اور منشا ہے۔ دمشق کے موقع پرست اموی حکمرانوں کی عملی مادیت کو ایک ایسے کھونٹے کی ضرورت تھی جس پر وہ کربلا جیسے اپنے مظالم کو ٹانک سکیں اور ان ثمرات کو تحفظ دے سکیں جو حضرت امیر معاویہؓ کی بغاوت کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئے تھے تاکہ ان کے خلاف کوئی عوامی انقلاب جنم نہ لے سکے، روایت ہے کہ قدر یہ کے ایک ممتاز عالم معبد الجیہنی نے حضرت حسن بصری سے سوال کیا کہ اموی حکمران مسلمانوں کو بلاوجہ قتل کرتے ہیں اور اس قتل کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ’’وہ خدا کے دشمن اور جھوٹے ہیں‘‘۔ ۳۶؎ علمائے حق کے کھلے احتجاج کے باوجود تب سے یہ تقدیر پرستی کا فتنہ پروان چڑھا ہوا ہے اور وہ دستوری نظریہ بھی جسے ’مراعات یافتہ‘ کہا جاتا ہے۳۷؎ تاکہ بالادستوں کی آقائی اور مفادات کو عقلی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ کوئی اتنی حیران کن بات نہیں کیونکہ خود ہمارے اپنے زمانے میں بعض فلاسفہ نے موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرے کی قطعیت کے لئے ایک طرح کا عقلی جواز فراہم کیا ہے۔ ہیگل کا حقیقت مطلقہ کو عقل کی لامتناہیت سے عبارت قرار دینا جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ معقول ہی حقیقت ہے اور آگست کامت کا معاشرے کو جسم نامی قرار دینا جس میں جسم کے ہر عضو کو دوامی طور پر کچھ مخصوص صفات سے متصف کیا گیا ہے اس کی مثالیں ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایسی ہی صورت حال اسلام میں بھی پیش آئی مگر چونکہ مسلمان اپنے ہر بدلتے ہوئے روّیے کا جواز قرآن سے لانے کے عادی ہیں خواہ اس کے دوران انہیں اس کے سادہ مفہوم کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے ان کی تقدیر پر ستانہ تاویل کا مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ یہاں میں اس حوالے سے غلط تاویلات کی متعدد مثالیں پیش کر سکتا تھا۔ تاہم یہ موضوع خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بقائے دوام کے سوال پر توجہ کروں۔ بقائے دوام کے سوال پر کسی بھی عہد میں اس قدر ادب تخلیق نہیں ہوا جس قدر کہ ہمارے اپنے عہد میں ضبط تحریر میں آیا ہے۔ جدید مادیت کی فتوحات کے باوجود اس موضوع پر تحریروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم خالصتًا مابعد الطبیعیاتی دلائل ہمیں ذاتی بقائے دوام پر مثبت ایقان نہیں دے سکے۔ دنیائے اسلام میں قاضی ابن رشد نے مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے بقائے دوام کے مسئلہ پر غور کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ نتیجہ خیز نہیں رہا۔ اس نے حس اور عقل میں امتیاز کیا جس کی اساس شاید قرآن میں نفس اور روح کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ سے بظاہر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انسان میں ایک دوسرے کے مخالف دو اصول کارفرما ہیں۔ اس سے بہت سے مسلمان فلاسفہ نے غلط معانی نکالے ہیں۔ اگر ابن رشد نے اس ثنویت کی بنیاد قرآن کو بنایا ہے تو اس نے غلط کیا ہے کیونکہ قرآن میں نفس تکنیکی طور پر ان معانی میں استعمال نہیں ہوا جو مسلم متکلمین نے خیال کیا ہے۔ ابن رشد کے نزدیک عقل جسم کا کوئی خاصہ نہیں: اس کا تعلق کسی اور نظام وجود سے ہے اور یہ انفرادیت سے ماورا ہے۔ لٰہذا یہ ایک ہے۔ یہ آفاقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس کا لازمی طور پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ وحدانی عقل ماورائے انفرادیت ہے اس کا انسانی شخصیت کی متعدد وحدتوں میں ظہور فریب نظر ہے۔ عقل کی وحدت کی دوامیت کا مفہوم جیسا کہ رینان کا خیال ہے انسانیت اور تہذیب کی ابدیت سے عبارت ہے۔ اس کا مطلب ذاتی بقائے دوام ہرگز نہیں۔ ۳۸؎ درحقیقت ابن رشد کا نقطہ نظر ولیم جیمز کی شعور کی ماورائی میکانکیت کی طرح ہے جو تھوڑی دیر کے لئے طبیعی معمول پر عمل کرتی اور پھر وہ اسے خالص کھیل کے انداز میں چھوڑ دیتی ہے۔۳۹؎ دور جدید میں ذاتی بقائے دوام کے لیے مجموعی طور پر دلیل کا رخ اخلاقی ہے۔ مگر کانٹ کی طرح کے اخلاقی دلائل اور ان دلائل کی ترمیم شدہ صورتیں اس اعتماد کو اپنی بنیاد بناتی ہیں کہ عدل کے تقاضوں کی تکمیل ہو گی یا یہ کہ لامتناہی مقاصد کے متلاشی ہونے کی حیثیت سے انسان کے اعمال کی مثال اور ان کا کوئی بدل ممکن نہیں۔کانٹ کا تصور بقائے دوام قیاس و دلیل کی حدود سے پرے ہے۔ وہ محض عقلِ عملی کا مسلمہ اُصول اور انسان کے اخلاقی شعور کی بدیہی اساس ہے۔ انسان خیر اعلیٰ کا طلب گار اور متلاشی ہے جو نیکی اور مسرت دونوں پر مشتمل ہے مگر کانٹ کے نزدیک مسرت اور نیکی‘ فرض اور میلان مختلف النوع تصورات ہیں۔ حواسی دنیا میں انسانی زندگی کے نہایت مختصر عرصے میں ان کی وحدت کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذا ہم ایک ابدی زندگی کا تصور اپنانے پر مجبور ہیں تاکہ انسان بتدریج نیکی اور مسرت کے متباعد تصورات کو باہم یکجا کر سکے اور ایک ایسے خدا کا وجود ثابت ہو سکے جو اس اتصال کو موثر بناتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ نیکی اور مسرت کی تکمیل کے لیے لامتناہی وقت کیوں درکار ہے اور خدا سے کس طرح متبائن نظریات کا اتصال اور ان کی تکمیل ہو سکے گی۔ مابعد الطبیعیات کے غیر نتیجہ خیز دلائل کے پیش نظر بہت سے مفکرین نے اپنے آپ کو جدید مادیت کے اعتراضات کا جواب دینے تک محدود کر لیا ہے جو بقائے دوام کو مسترد کرتی ہے۔ اس کے نزدیک شعور محض دماغ کا وظیفہ ہے جو دماغ کے ختم ہونے کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ولیم جیمز کا خیال ہے کہ بقائے دوام پر یہ اعتراض محض اسی صورت میں درست ہو گا کہ وظیفہ سے مراد ثمر آور وظیفہ ہو۔ ۴۰؎ یہ حقیقت کہ بعض ذہنی تغیرات بھی جسمانی تغیرات کے ساتھ متوازی طور پر رونما ہو تے ہیں اس بات کے لیے کافی دلیل نہیں کہ ذہنی تغیرات جسمانی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ وظیفہ کا بار آور ہونا ہی ضروری نہیں‘ یہ جوازی یا ترسیلی بھی ہو سکتا ہے جس طرح عکس ریز شیشے یا بندوق کے گھوڑے کا عمل ۔ ۴۱؎ یہ نقطہ نظر جس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری باطنی زندگی ہمارے اندرونی عمل کے باعث ہے جو شعور کی ماورائی جبریت کی طرح کی کوئی چیز ہے جو اپنے عمل کے دوران کچھ دیر کیلئے طبیعیاتی وسیلہ بھی اپنا لیتی ہے ہمارے اصل عمل کے اجزائے ترکیبی کے برقرار رہنے کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کراتا۔ میں نے مادیت کے مسئلے سے نپٹنے کے لیے ان خطبات میں پہلے ہی اشارات دیئے ہیں۔ ۴۲؎ سائنس لازمی طور پر حقیقت کے مخصوص پہلوئوں کواپنے مطالعہ کے لئے منتخب کر لیتی ہے اور دوسرے پہلوئوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہ سائنس کی محض ادعائیت ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ حقیقت صرف وہی ہے جس کو سائنس اپنے مطالعہ کے لئے منتخب کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زندگی کا ایک پہلو مکانی بھی ہے مگر اس کا صرف یہی پہلو نہیں ہے۔ کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں مثلاً قدر پیمائی، بامقصد تجربے کی یکتائی اور صداقت کی تلاش جنہیں سائنس لازمی طور پر اپنے مطالعے کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے اور جنہیں جاننے کے لئے کچھ ایسے مقولات کی ضرورت ہے جو سائنس استعمال نہیں کرتی۔ ۴۳؎ جدید دور کی تاریخ فکر میں بقائے دوام کے بارے میں ایک مثبت نکتہ نظر سامنے آیا ہے۔ میری مراد فریڈرک نیٹشے کا نظریہ رجعت ابدی ہے۔ ۴۴؎ اس نظریے کا حق ہے کہ اس پر بات کی جائے، صرف اس لئے نہیں کہ نیٹشے نے پیغمبرانہ عزم سے اس کو پیش کیا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں جدید ذہن کے رحجانات کا سراغ ملتا ہے۔ یہ تصور جب شاعرانہ الہام کی طرح نیٹشے پر اترا عین اسی وقت یہ اور بھی بہت سے ذہنوں میں پیدا ہوا ۔ اور اس کے جراثیم ہربرٹ سپنسر کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ ۴۵؎ یقینا منطقی استدلال سے کہیں بڑھ کر اس خیال کی اپنی قوت تھی جس نے عصر جدید کے اس پیامبر کو متاثر کیا۔ یہ خود اس حقیقت کی بھی دلیل ہے کہ بنیادی حقیقتوں کے بارے میں مثبت نکتہ نظر مابعد الطبیعیاتی سے زیادہ القائی اور الہامی ہوتا ہے۔ تاہم نیٹشے نے جو نظریہ پیش کیا وہ مدلّل اور جچا تلا ہے اور اس لئے میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ یہ نظریہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ کائنات میں توانائی کی مقدار متعین ہے اور اس لئے متناہی ہے۔ مکان کی صرف ایک موضوعی صورت ہے۔ چنانچہ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ دنیا خلا کے اندر واقع ہے۔ زمان کے بارے میں اپنے نکتہ نظر میں نیٹشے، عمانومل کانٹ اور شوپہنار سے الگ ہو جاتا ہے۔ زمان کی کوئی موضوعی صورت نہیں۔ یہ ایک حقیقی اور لامتناہی عمل ہے جو صرف امتداد میں متصور ہوتا ہے۔ ۴۶؎ یہ بات واضح ہے کہ ایک لامتناہی سنسان خلا میں توانائی کا انتشار ممکن نہیں۔ مراکز توانائی بہت گنے چنے ہیں اور ان کے مرکبات بھی شمار کئے جا سکتے ہیں۔متغیر توانائی کی کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی نہایت اور نہ ہی یہ متوازن ہے اور اس میں اول و آخر بھی نہیں۔ اب جب کہ زمان لامتناہی ہے تو توانائی کے تمام ممکنہ مرکبات بھی اب تک بن چکے ہیں۔ کائنات میں کوئی شئے نئی واقع نہیں ہو رہی۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ پہلے بھی لاتعداد مرتبہ ہو چکا ہے اور آئندہ بھی لاتعداد مرتبہ ہوگا۔ نیٹشے کے نکتہ نظر سے کائنات میں واقعات کے رونما ہونے کا نظام لازمی طور پر متعین اور ناقابل تغیر ہونا چاہئے۔ چونکہ لامتناہی زمان گزر چکا ہے توانائی کے مراکز اب تک کردار کے مخصوص اور متعین رویے اپنا چکے ہوں گے۔ ’رجعت‘ کے لفظ میں تعین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ مزید، ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ توانائی کے مراکز کا جو مرکب بن گیا ہے وہ ہمیشہ ناگزیر طور پر بار بار آتا ہے ورنہ فوق البشر کی واپسی بھی ناممکن ہوگی۔ ’’ہر شئے لوٹ آتی ہے شکاری کتا ہو یا جالا بننے والی مکڑی اور وہ خیالات جو اس لمحے آپ کے ذہن میں ہیں یا آپ کا آخری خیال، ہر شئے لوٹ آنے والی ہے۔ دوستو! تمہاری تمام زندگی ایک ریت گھڑی کی مانند ہے جو ہمیشہ بھرتی اورخالی ہوتی رہتی ہے یہ چکر وہ دانہ و دام ہے جس میں آپ اسیر ہیں، جو چمکتا رہے گا اور ہمیشہ تروتازہ رہے گا‘‘۔۴۷؎ یہ ہے نیٹشے کا نظریۂ رجعت ابدی، یہ ایک متشدد قسم کی جبریت سے عبارت ہے۔ اس کی بنیاد کسی تحقیق شدہ علمی حقیقت پر نہیں بلکہ سائنس کے ایک آزمائشی مفروضے پر قائم ہے۔ نہ ہی نیٹشے نے زمان کے سوال کو سنجیدگی سے اپنی فکر کا مرکز بنایا ہے۔ وہ اسے موضوعی سمجھتا ہے اور محض واقعات کے لامتناہی تسلسل کے مفہوم میں لیتاہے جوخود ہی بار بار تکرار کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اس طرح زمان کو گردش مستدیر مان لینے سے بقائے دوام بالکل ہی ناقابل برداشت تصور بن جاتا ہے۔ نیٹشے کو خود اس کا احساس تھا۔اور اس نے اپنے نظریے کو بقائے دوام کے طور پر نہیں لیا بلکہ نظریۂ حیات کے طور پر بیان کیا ہے جو بقائے دوام کے تصور کو قابل برداشت بنا دیتا ہے۔ ۴۸؎ نیٹشے کے نزدیک بقائے دوام کا یہ نظریہ قابل برداشت کیونکر ہو سکتا ہے؟ نیٹشے کی توقع یہ ہے کہ توانائی کے مراکز مرکب کی تکرار جو میرے وجود میں رکھی گئی ہے لازمی طور پر وہ محرک ہے جومثالی مرکب کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جس کو نیٹشے سپر مین یا فوق البشر کہتا ہے۔ مگر فوق البشر پہلے ہی لاتعداد دفعہ معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس کی پیدائش ناگزیز ہے۔ ایسے میں مجھے اس کے ہونے سے کیا آدرش مل سکتاہے۔ کیونکہ ہم تو صرف اس سے آدرش پاتے ہیں جو بالکل نیا ہو۔ جبکہ نیٹشے کے فکر میں کسی ’نئے‘ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ نیٹشے کا نظریہ تقدیر اس تصور سے بھی بدتر ہے جسے ہمارے ہاں قسمت کے لفظ میں بیان کیاجاتا ہے۔ ایسا نظریہ انسان کو زندگی کی تگ و تاز میں سرگرم رکھنے کی بجائے اس کے عملی رجحانات کو برباد کرنے اور خودی میں سست روی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ۴۹؎ آئیے اب قرآن کی تعلیمات کی طرف لوٹ کر دیکھیں کہ انسانی تقدیر کے بارے میں اس نے کیا نکتہ نظر اختیار کیا ہے۔ یہ جزوی طور پر اخلاقی اور جزوی طور پر حیاتیاتی ہے۔ میں نے اسے جزوی طور پر حیاتیاتی اس لئے کہا ہے کہ قرآن نے اس ضمن میں حیاتیاتی نوعیت کے بیانات دیئے ہیں کہ ہم انہیں اس وقت تک سمجھ نہیں سکے جب تک ہم زندگی کی ماہیت کے بارے میں گہری بصیرت کا مظاہرہ نہ کریں۔ مثلاً یہاں برزخ کی حقیقت کا ذکر مناسب ہوگا ۵۰؎ جو موت اور حشر کے درمیان توقف کی ایک التوائی کیفیت قرار دی جا سکتی ہے۔ حشر کا تصور بھی مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ قرآن کا حشر کا تصور اس امکان پر منحصر نہیں جو عیسائیت کی طرح کسی تاریخی شخصیت کے حقیقی حشر کی شہادت پر اپنی اٹھان رکھتا ہو۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک حشر ایک عالمگیر مظہر حیات ہے بلکہ کسی حد تک اس کے مفہوم کا اطلاق پرندوں اور حیوانات پر بھی ہوتا ہے۔ (۳۸:۶) اس سے پہلے کہ ہم قرآن کے ذاتی بقائے دوام کے نظریہ کی تفصیلات پر اظہار خیال کریں ہمیں تین چیزوں کو ذہن نشین کر لینا چاہئے جو قرآن حکیم میں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں اور ان کے بارے میں نہ تو کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف رائے ہونا چاہئے۔ -i خودی کی شروعات زمان میں ہوئی اور اس کا مکانی و زمانی نظم سے پہلے وجود نہ تھا۔ یہ بات اس آیت سے واضح ہے جس کا میں نے چند منٹ قبل حوالہ دیا ہے۔ ۵۱؎ -ii قرآن کے نقطہ نظر سے زمین پر واپسی کاکوئی امکان نہیں یہ بات مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے۔ حَتّٰیٰٓ إِذَا جَآئَ اَحَدَہُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِo لَعَلِّیٓ أَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّآط اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَاط وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ إِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (۱۰۰- ۹۹:۲۳) حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آگے گی تو وہ کہے گا۔ اے میرے رب مجھے دنیا میں لوٹا دے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ کر آیا ہو اس میں نیک کام کروں، بالکل نہیں یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے ان کے پیچھے ایک برزخ ہے جو موت کے بعد حشر میں ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک ہے۔ وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ o لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹-۱۸:۸۳) اور چاند کی قسم جب وہ پورا ہو جائے۔ بلا شک تمہیں ایک کے پیچھے ایک چڑھائی چڑھنا ہے۔ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّاتُمْنُوْنَoئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ o نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمْ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلَیٰٓ أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (۶۱-۵۶:۵۶) پھر کیاتم نے دیکھا کہ تم جو قطرہ ٹپکاتے ہو اسے زندگی ہم دیتے ہیں یا تم، ہم نے تم میں موت رکھی ہم تمہاری تخلیق کو نہیں بدلیں گے تمہیں اس انداز سے اٹھائیں گے کہ جو تم نہیں جانتے -iii متناہی ہونا بدقسمتی کی بات نہیں إِنَّ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ اِلَّآ ء َاتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا o لَقَدْ اَحْصٰہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا o وَکُلُّہُمْ ئَ اتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا (۹۵-۹۳:۱۹) آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں کہ وہ بندہ ہو کر اس کے ہاں نہ آئے۔ اس نے سب کچھ گھیر رکھا ہے اور انہیں گن رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلا اکیلا آنے والا ہے۵۲؎ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے اور اسلام کے نظریہ نجات کے بارے میں ایک شفاف بصیرت حاصل کرنے کے لئے اس کو صحیح طریقے سے جاننا بہت ضروری ہے۔ اپنی فردیت کے ناقابل تغیر اکلاپے کے ساتھ متناہی خودی، لامتناہی خودی کے سامنے پیش ہو گی، تاکہ اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھ لے۔ وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰئِٓرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِکِتٰبًا یَلْقٰہُ مَنْشُوْرًاo اِقْرَأْ کِتٰبَکَط کَفَیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۱۴-۱۳:۱۷) ہر انسان کے مقدر کا طوق ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے اور ہم روز حساب اس کے اعمال کی کتاب نکالیں گے جوایک نوشتہ ہوگا اور اسے کہا جائے گا کہ اس کتاب کو پڑھو اب تو خود اپنا حساب کرنے کے لئے کافی ہے ۵۳؎ انسان کا حتمی مقدر جو کچھ بھی ہو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اپنی انفرادیت کھو دے گا۔ قرآن نے انسان کی مسرت کی انتہائی حالت متناہت سے مکمل آزادی کو قرار نہیں دیا۔۵۴؎ ا نسان کا اعلیٰ ترین مقام اس کی انفرادیت اور ضبط نفس میں بتدریج ارتقاء اور خودی کی فعالیت کی شدت میں اس قدر اضافہ ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے کی عالمگیر تباہی بھی اس کی ارتقایاب خودی کے کامل سکون کو متاثر نہیں کر سکے گی۔ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اﷲُط ( ۶۸:۳۹) اس دن جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مرکر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے گا ۵۵؎ یہ استثنیٰ کس کے لئے ہے؟ یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کی خودی اپنی شدت کے نقطہ عروج پر ہوگی۔ ترقی کا یہ ارفع مقام صرف اس صورت میں آتا ہے جب خودی اپنے آپ کو مکمل طور پر خود برقرار رکھ سکے گی: اس صورت میں بھی جب خودی کا براہ راست تعلق سب پر محیط خودی سے ہوگا جیسا کہ قرآن حکیم، رسول پاک ﷺ کے خودیِ مطلق کے دیدار کے بارے میں کہتا ہے: مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ o (۱۷:۷۳) نہ تو نگاہ ہٹی اور نہ اس نے تجاوز کیا ایک مثالی اور مکمل انسان کا اسلام میں یہی تصور ہے۔ ادبی اسلوب میں اس منظر نامے کا فارسی زبان کے اس شعر میں سب سے بہتر اظہار ہوا ہے جس میں نبی پاک ﷺ کے تجلی الٰہی کے روبرو ہونے کا تجربہ بیان ہوا ہے۔ موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوئہ صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی خدا کی صفات کے ایک ہی جلوے سے حضرت موسٰیؑ کے ہوش اڑ گئے جب کہ آپؐ نے خدا کی ذات کو مُتبسّم ہوکر دیکھا ۵۶؎ یہ واضح رہے کہ وحدت الوجودی تصوف اس نکتہ نظر کی حمایت نہیں کر سکتا۔ وہ اس میں فلسفیانہ نوعیت کے اشکالات کی جانب اشارہ کرے گا۔ لامتناہی خودی اور متناہی خودی کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ کیامتناہی خودی اپنی متناہیت کو لامتناہی خودی کے بالمقابل برقرار رکھ سکتی ہے۔ یہ اشکال لامتناہی خودی کی ماہیت کے بارے میں غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقی لامتناہیت کا مفہوم لامتناہی وسعت نہیں جس کا میسر متناہی وسعتوں کا احاطہ کئے بغیر تصور کرنا ممکن نہیں۔ اس کی ماہیت کا انحصار اس کی شدت میں ہے وسعت میں نہیں۔ جس لمحے ہم اپنی توجہ شدت کی جانب کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ متناہی خودی لازمی طور پر لامتناہی خودی سے ممتاز اور منفرد ہے گرچہ وہ اس سے الگ نہیں۔ وسعت کے لحاظ سے میں اپنے زمان و مکان کے نظام کا حصہ ہوں لیکن اگر شدت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو میں زمان و مکان کے اس نظام کے مقابل کھڑا ہوں اور یہ نظام میرے لئے یکسر غیر ہے۔ میں اس سے امتیازی حیثیت بھی رکھتا ہوں اور اس سے وابستہ بھی ہوںجس پر میری زندگی اور وجود کا دار و مدار ہے۔ ان تین نکات کو واضح طور پر سمجھ لیا جائے تو باقی کا نظریہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے یہ انسان کے بس میں ہے کہ کائنات کے مقصود و مدعا میں حصہ لیتے ہوئے بقائے دوام حاصل کر لے۔ أَیَحْسَبُ الإِْنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنَیٰ o ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّیٰo فَجَعَلَ مِنْہُ الّزَوْجَیْنِ الذَّکَرَوَالْأُنْثَیٰٓo أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلَیٰٓ أَنْ یُحْیِ الْمَوْتَیٰ (۴۰- ۳۶:۷۵) کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا کیا وہ ٹپکا ہوا منی کا ایک قطرہ نہ تھا پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی صورت بنائی گئی پھر اس سے دونوں جنسیں بنائی گئیں مرد اور عورت۔ کیا خدا اس پر اختیار نہیں رکھتا کہ وہ مُردوں کو زندگی بخش دے یہ کس قدر بعید از قیاس بات ہے کہ وہ ذات جس کے ارتقا کو کروڑوں سال لگے اسے ایک بے کار شے کی طرح پھینک دیا جائے۔ تاہم صرف ہر دم ترقی کرتی ہوئی خودی ہی کائنات کے مقصود سے وابستہ ہو سکتی ہے۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوّٰھَا o فَأَلْھَمَہَا فَجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰہَا (۱۰- ۷:۹۱) نفس کی قسم ہے اور جیساکہ اس کو بنایا گیا پھر اسے فسق وفجور اور بچ بچا کر چلنے کی سمجھ الہام کی گئی ہے۔ فلا ح پائی اس نے جس نے اپنے آپ کو بچایا اور گھاٹے میں رہا وہ شخص جس نے اپنی راہ کھوٹی کی۔ روح اپنے آپ کو کس طرح ترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے اور بربادی سے بچ سکتی ہے؟ جواب ہے: عمل سے تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلَیٰ کُلِِِِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ (۳-۱:۶۷) وہ ذات بابرکت ہے جس کے ہاتھوں میں بادشاہت ہے اوروہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، وہی ذات ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو اچھے عمل سے آزمائے اور وہ باقوت اور بخش دینے والا ہے۵۷؎ زندگی خودی کی سرگرمیوں کے لئے مواقع فراہم کرتی ہے اور موت خودی کے ترکیبی عمل کا پہلا امتحان ہے۔ کوئی عمل بھی مسرت افزا یا اذیت ناک نہیں ہوتا: وہ صرف خودی کو قائم رکھنے والا یا اس کو برباد کرنے والا ہوتا ہے۔ خودی کو اعمال ہی زوال کی طرف لے جاتے ہیں یا انہیں مستقبل کے کردار کے لئے تربیت فراہم کرتے ہیں۔ خودی کو برقرار رکھنے والے عمل کا اصول ہے کہ ہم دوسروں کی خودی کے احترام کے ساتھ ساتھ اپنی خودی کابھی احترام کریں۔ چنانچہ ذاتی بقائے دوام ہمارا کوئی حق نہیں: یہ محض ذاتی کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اس کے لئے صرف ایک امیدوار ہے۔ مادیت کی سب سے مایوس کن غلطی یہ مفروضہ ہے کہ متناہی شعور اپنے موضوع کا ہر طرح سے مکمل احاطہ کر لیتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس موضوع تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ موضوع تک پہنچنے کے کئی اور راستے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال نے خودی کو اس قدر مستحکم کر دیا ہے کہ ہمارے جسم کے ختم ہونے پر بھی یہ برقرار رہ سکے تو موت بھی ایک راستہ ہے۔ قرآن اس راستے کو برزخ کہتا ہے۔ صوفیانہ تجربے کا ریکارڈ برزخ کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ بھی شعور کی ایک حالت ہے جس میں زمان و مکان کے حوالے سے ہماری خودی کے روّیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات کوئی اتنی بعید از قیاس بھی نہیں۔ یہ ہلم ہولئس تھا جس نے پہلی بار یہ دریافت کیا تھا کہ اعصابی ہیجان کے شعور تک پہنچنے میں بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔۵۸؎ اگر ایسا ہے تو ہماری موجودہ اعصابی ساخت ہمارے موجودہ تصور زمان کی تہ میں کارفرما ہے اور اگر اس ساخت کی بربادی کے باوجود خودی باقی رہتی ہے تو زمان اور مکان کے بارے میں ہمارے روّیے میں تبدیلی بالکل فطری ہے۔ اس طرح کی تبدیلی ہمارے لئے کوئی زیادہ اجنبی بھی نہیں۔ ہمارے عالم خواب میں تاثرات کا اس قدر ارتکاز اور اس لمحے جب موت وارد ہو رہی ہوتی ہے ہماری یادداشت میں تیزی زمان کے مختلف درجات کے لئے خودی کی استعداد کو واضح کرتے ہیں۔ ایسے میں عالم برزخ انفعالی امید کی محض ایک حالت نظر نہیں آتی بلکہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں خودی حقیقت مطلقہ کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں تازہ بتازہ جھلک سے بہرہ یاب ہوتی ہے اور اپنے آپ کو ان پہلوئوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے تیار کرتی ہے ۔ نفسیاتی طور پر یہ ایک زبردست اختلال کی کیفیت ہے خصوصاً ان خودیوں کے لئے جو ذاتی نشود ارتقاء کے انتہائی مدارج حاصل کر چکی ہیں اور جو نتیجہً زمان و مکان کے مخصوص نظام میں ایک مخصوص طرز عمل کی عادی ہو چکی ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ کم نصیب خودیوں کے لئے یہ برزخ مکمل فنا کا مقام بھی ہے۔ تاہم خودی اس وقت تک جدوجہد کرتی رہتی ہے جب تک کہ وہ خود کو مجتمع کرکے بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتی اور اپنی حیات بعد الموت کی منزل نہیں پالیتی۔لہٰذا حیات بعد الموت کوئی خارجی واقعہ نہیں بلکہ یہ خودی کے اندرون میں زندگی کے عمل کی تکمیل ہے۔ خواہ انفرادی سطح ہو یا آفاقی، یہ خودی کی ماضی کی کامیابیوں اور اس کے مستقبل کے امکانات کا حساب کتاب ہے۔ قرآن خودی کی باردگر تخلیق کے مسئلے کے حل کے لئے اس کی اوّلین تخلیق کی مثال دیتا ہے: وَیَقُوْلُ الإِْنْسَانُ أَئِ ذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیًّاo أَوَلَا یَذْکُرُ الإِْنْسَانُ أَ نَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیئًا(۶۷- ۶۶:۱۹) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جائوں گا تو پھر کیونکر زندہ کرکے نکال لایا جائوں گا۔ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے بھی اس کوپیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلَیٰٓ اَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَالَا تَعْلَمُوْنَo وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشَأَۃَ الْأُولَیٰ فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَo (۶۲-۶۰:۵۶) ہم نے تمہارے لئے موت مقدر کی اور ہمارے بس سے باہر نہیں کہ تمہاری خلقت تبدیل کر دیں اور تم کو کسی اور روپ میں کھڑا کریں جسے تم جانتے تک نہیں اور تم اپنی پہلی سرشت کو تو جان چکے ہو پھر کیوں تم نصیحت حاصل نہیں کرتے انسان پہلی بار کیسے وجود میں آیا۔ اوپر دیئے گئے دو اقتباسات کی آخری آیات میں اس اشاراتی دلیل کوبیان کر دیا گیا ہے جس سے مسلم فلاسفہ کے سامنے مباحث کے نئے دروازے کھل گئے۔ جاحظ (متوفی ۲۵۵ ہجری) پہلا شخص تھا جس نے حیوانی زندگی میں ماحول اور نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ۵۹؎ پھر اس جماعت نے جسے اخوان الصفا کہا جاتا ہے جاحظ کے اس خیال کو مزید آگے بڑھایا۔۶۰؎ ابن مسکویہ (متوفی ۴۲۱ ہجری) پہلا مسلمان مفکر ہے جس نے انسان کی ابتداء کے بارے میں صاف صاف اور جدید نظریات سے کئی مفاہیم میں ہم آہنگ تصور پیش کیا۔ ۶۱؎ یہ بالکل فطری ہے اور مکمل طور پر قرآن کی روح سے میل کھاتا ہے جو مولانا جلال الدین رومی نے بقائے دوام کے مسئلے کو انسان کے حیاتیاتی ارتقا کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں جس کا فیصلہ محض مابعدالطبیعیاتی دلائل سے ہوسکے جیساکہ بعض مسلم مفکرین کا خیال تھا۔ ارتقاء کے نظریے نے جدید دنیا میں کسی امید اور جوش کو بیدار کرنے کی بجائے مایوسی اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ اس جدید اور بے جواز مفروضہ میں تلاش کرنا پڑے گی جس کے مطابق انسان کی موجودہ ذہنی اور طبیعی ساخت حیاتیاتی ارتقا کی آخری منزل ہے اور موت بحیثیت ایک حیاتیاتی واقعہ کا کوئی تعمیری مفہوم نہیں۔ آج کی دنیا کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو امید اور رجائیت کے روّیوں کی تخلیق کرے اور انسانی زندگی میں جوش اور ولولے کی آگ دہکائے۔ اس سلسلہ میں ان کے بے مثال اشعار کو یہاں پیش کیا جاتا ہے: آمدہ اوّل باقلیم جماد وز جمادی در نباتی او فتاد سال ہا اندر نباتی عمر کرد وز جمادی یاد نآورد از نبرد وز نباتی چوں بحیوانی فتاد نآیدیش حال نباتی ہیچ یاد جز ہمیں میلی کہ دارد سوئے آن خاصہ در وقت بہار ظمیران ہمچو میل کودکاں با مادراں سرمیل خود نداند در لباں ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت تا شد اکنوں عاقل و دانا و زفت عقل ہائے اولینش یاد نیست ہم ازین عقلش تحول کرد نیست ۶۲؎ سب سے اوّل انسانی زندگی جمادات کی اقلیم میں آئی اور اس کے بعد نباتات کی دنیا میں وارد ہوئی۔ سالوں تک حیات انسانی اسی نباتاتی حالت میں رہی یہاں تک کہ جماداتی حالت کے اثرات سے آزاد ہوگئی پھر نباتاتی حالت سے انسانی زندگی حیوانی حالت میں آئی اور سال ہاسال اس حالت میں رہی۔ حیوانی زندگی کے دوران اس کی رغبت نباتاتی زندگی کی طرف نظر آتی ہے جب بہار کے موسم میں یا خوشنما اور روح پرور پھولوں کو دیکھ کر وہ ان سے اپنی محبت اسی طرح چھپا نہیں پاتی جس طرح بچے ماں سے محبت کوپوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ پھر خدا نے انسانی زندگی کو حیوانی سطح سے بلند کرکے اسے انسانی زندگی عطا کی اور اس طرح انسان فطرت کے ایک نظم سے نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہوا۔ پھر اسے علم کی فضلیت دے کر حکمت عطا کی اور وہ عقل رکھنے والا، جاننے بوجھنے والااور مضبوط شخصیت رکھنے والا بن گیا جس حالت میں کہ وہ اب ہے۔ اب اسے گزری ہوئی زندگی کا کچھ قصہ یاد نہیں مگر اسے پھر ایک بار نفس کی موجودہ حالت میں لایا جائے گا۔ ۶۳؎ تاہم مسلمان فلاسفہ اور ماہرین الہٰیات کے درمیان جس نکتہ پر اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ کیا روز قیامت انسان کو ہماری موجودہ دنیا کی طبیعی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ ان میں سے بہت سارے جن میں آخری بڑے ممتاز ماہر الہٰیات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی شامل ہیں کا رحجان فکر اس طرف ہے کہ قیامت کے دن ہمیں ہماری خودی کے نئے ماحول کی مناسبت سے کسی موزوں جسمانی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ مجھے تویوں نظر آتا ہے کہ اس نقطہ نظر کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ خودی کی فردیت کسی حسی اور تجربی پس منظر یا کسی ٹھوس مقامی حوالے کے بغیر تصور ہی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیات اس نقطہ نظر پر کچھ روشنی ڈالتی ہیں: ذٰالِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌo قَدْ عَلِمْنَا مَاتَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌo (۴-۳:۵) ۶۴؎ )پھر منکرین کہتے ہیں کہ یہ تو عجیب سی بات ہے کہ کیا جب ہم سب مرجائیں گے اور مٹی میں مل چکے ہوں گے تودوبارہ زندگی دیئے جائیں گے( یہ زندگی کی طرف واپسی تو قرین عقل نہیں۔ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھا جاتی ہے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں ہر شئے کا حساب کتاب محفوظ کر دیا گیا ہے میرے خیال میں یہ آیات کائنات کی اس ماہیت کے بارے میں ہمیں کھلے طور پر بتاتی ہیں کہ انسانی اعمال کے حتمی حساب کتاب کے لئے کسی اور قسم کی انفرادیت کا قائم رکھنا نہایت ضروری ہے خواہ اس موجودہ ماحول میں اس کی انفرادیت کو متشخص کرنے والی شئے منتشر ہی کیوںنہ ہو جائے۔ وہ دوسری قسم کیا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اپنی دوسری بار جسمانی تخلیق کی نوعیت کے بارے میں کچھ مزید علم رکھتے ہیں__ ۶۵؎ خواہ یہ جسم کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو__کہ وہ کس طرح وقوع پذیر ہوگی۔ قرآن کی تمثیلات اس کو ایک حقیقت قراردیتی ہیں: وہ اس کی ماہیت اور کردار کے بارے میں کچھ ظاہر نہیںکرتیں۔ فلسفیانہ انداز سے بات کریں تو ہم اس سے زیادہ آگے نہیںجا سکتے کہ انسانی تاریخ کے ماضی کے تجربے کی روشنی میں یہ نقطہ نظر غیر اغلب ہے کہ انسان کے جسم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہستی بھی انجام کو پہنچ جائے گی۔ تاہم قرآن کی تعلیمات کے مطابق انسان کو جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو اس کی نظر بہت تیز ہوگی (۵۰:۲۲) جس کے باعث وہ صاف طور پر اپنی گردن میں پڑی ہوئی خود اپنے اعمال سے بنائی ہوئی تقدیر کو دیکھ لے گا۔ ۶۶؎ جنت اور دوزخ دونوں حالتیں ہیں مقامات نہیں۔ قرآن میں ان کی تصویر کشی انسان کی داخلی کیفیت یعنی کردار کا بصری اظہار ہے۔ ۶۷؎ قرآن کے الفاظ میں دوزخ دلوں پر مسلط خدا کی دہکائی ہوئی آگ ہے ۶۸؎ جوانسان کو اس کی ناکامی کے اذیت ناک احساس میںمبتلا رکھتی ہے اور جنت انسانی خودی کو تباہ کرنے والی قوتوں پر قابو پانے کا احساس کامرانی و شادمانی ہے۔ اسلام میں ابدی عذاب ایسی کوئی چیز نہیں۔ بعض آیات میں دوزخ سے متعلق ’ہمیشہ‘ (خالدین) کالفظ استعمال ہوا ہے جو قرآن نے کئی اور مقامات پر خود واضح کر دیا ہے کہ اس کا مطلب بھی ایک مخصوص عرصہ ہے ۔ انسانی شخصیت کے ارتقاء سے وقت کوبالکل غیر متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیرت کا رحجان پختگی کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا نئی صورت میں ڈھلنا وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ دوزخ، جیسا کہ بیان کیا ہے، ایسا گڑھا نہیں جو ایک منتقم مزاج خدا نے انسان کو مستقلاً عذاب دینے کے لئے بنایا ہے ۶۹؎ بلکہ یہ انسان کی اصلاح کا تجربہ ہے جو خدا کی رحمت کے حصول کے لئے ایک پتھرائی ہوئی خودی کو زیادہ حساس بنا سکتا ہے۔ ۷۰؎ نہ ہی جنت کوئی تعطیل ہے۔ زندگی یکتا اور متسلسل ہے۔ انسان ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے تازہ روشنی حاصل کرنے کے لئے آگے کی سمت بڑھتا رہتا ہے جو ہر لحظہ نئی آن اورنئی شان سے ظاہر ہوتی ہے ۷۱؎ اور خدا سے روشنی کاحصول محض انفعالی نہیں۔ آزاد خودی کا ہر عمل ہر دم ایک نئی صورت حال پیدا کرتا ہے اور یوں وہ تخلیقی کشود کے مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔ (۵) مُسلم ثقافت کی رُوح ’’اسلامی فکر کے تمام ڈانڈے ایک متحرک کائنا ت کے تصور سے آ ملتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ابن مسکویہ کے ارتقائی حرکت پر مبنی نظریہ ٔ حیات اور ابن خلدون کے تصور تاریخ سے مزید تقویت پاتا ہے‘‘ اقبالؒ ’’حضرت محمد مصطفٰی ﷺ بلند ترین آسمان پر تشریف لے گئے اور واپس پلٹ آئے‘ خدا کی قسم اگر میں وہاں جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔‘‘ ۱؎ یہ الفاظ عظیم مسلم صوفی عبدالقدوس گنگوہی کے ہیں۔(الف) غالباً پورے صوفیانہ ادب میں پیغمبرانہ ادراک اور صوفیانہ شعور میں موجود واضح نفسیاتی فرق کو ایک جملے میں ادا کرنے کی کوئی اور نظیر ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ صوفی نہیں چاہتا کہ وہ اس واردات اتحاد کی لذت اور سکون سے واپس لوٹے۔ اور جب وہ کبھی لوٹتابھی ہے__ اور اسے لوٹنا پڑتا ہے__ اس کی واپسی نوع انسانی کے لیے کوئی بڑا مفہوم نہیں رکھتی۔ نبی کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس لیے لوٹتا ہے کہ زماں کی قلمرو میں داخل ہو اور تاریخ کی قوتوں کو قابو میں رکھتے ہوئے مقاصد کی تازہ دنیا تخلیق کرے۔صوفی کے لیے اتحاد کی لذت اس کی آخری منزل ہے مگر نبی کے لیے یہ تجربہ اپنے آپ میں دنیا کو ہلا دینے والی نفسیاتی قوتوںکو بیدار کرنے کا عمل ہے جس سے عالم انسانیت کو مکمل طور پر تبدیل کیاجا سکے۔ یہ خواہش کہ اس کا مذہبی تجربہ ایک زندہ عالمگیر قوت میںتبدیل ہو جائے، نبی میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی واپسی اس کے روحانی تجربے کی قدر و قیمت کے لیے ایک طرح کا نتائجی معیار بن جاتی ہے۔ اپنے تخلیقی عمل میں نبی کی قوت ارادی اپنا اور محسوس حقائق کی دنیا کا بھی جائزہ لیتی ہے جس میں وہ اپنے آپ کا معروضی طور پر اظہار کرتی ہے۔ اپنے سامنے موجود غیر اثر پذیر مادے میں نفوذ سے پہلے وہ خود کو خود اپنے لئے دریافت کرتا ہے اور پھر تاریخ کی آنکھ کے سامنے خود کو ظاہر کرتا ہے۔ نبی کے مذہبی تجربے کی قدر کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُس انسان کو دیکھا جائے جو اس نے تیار کیا اور اُس تہذیب و تمدن کو دیکھا جائے جو اس کے پیغام کی روح کو اپنانے کے بعد وجود میں آئی۔ اس خطبے میں اسی دوسرے پہلو پر ہی میں اپنی توجہ مرکوز رکھوں گا۔ میرا مقصد علم کی دنیا میں اسلام کی کامیابیوں کا بیان ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس میں آپ کی توجہ اسلامی ثقافت کے رہنما تصورات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بصیرت پیدا ہو جس سے ہم ان تصورات کے بنیادی فکر کے خطوط کو سمجھ سکیں اور اُس روح کی جھلک دیکھ سکیں جس نے ان میں اپنا اظہار کیا۔ تاہم پیشتر اس کے کہ میںایسا کروں یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام کے ایک عظیم تصور کی ثقافتی قدروقیمت کا ادراک حاصل کریں۔ میری مراد ہے عقیدہ ختم نبوت۔ ۲؎ نبی کی تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ وہ ایک طرح کا صوفیانہ شعور ہے جس میں وصل کا تجربہ اپنی حدود سے تجاوز کا رجحان رکھتا ہے اور ایسے مواقع کا متلاشی رہتا ہے جن میں اجتماعی زندگی کی قوتوںکو نئی تازگی اور نیا رخ دیا جا سکے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا متناہی مرکز اس کی اپنی لا متناہی گہرائی میں ڈوب کر دوبارہ نئی تازگی کے ساتھ ابھرتا ہے تاکہ فرسودہ ماضی کو ختم کر دے اور زندگی کی نئی جہات کو منکشف کرے۔ اس کا اپنی ہستی کی جڑوں سے اس طرح کا رابطہ انسان سے کسی طرح بھی مخصوص نہیں۔ یقینا جس طریقے سے قرآن میں ’وحی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اسے عالمگیر خاصۂ زیست کے طور پر بیان کرتا ہے ۳؎ اگرچہ زندگی کے ارتقا کے مختلف مدارج پر اس کے کردار کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ پودے فضا میں آزادانہ اُگتے بڑھتے ہیں‘ حیوانات کے اعضا ماحول کی موزونیت سے نشوونما پاتے ہیں اور انسان زندگی کے باطن سے روشنی پاتے ہیں۔ یہ تمام وحی کی مختلف مثالیں ہیں جو اپنے کرداروں میں مختلف ہیں۔ وحی کے کردار کا تعین وحی وصول کرنے والی شے کی ضرورت اور نوعیت کے مطابق ہوتا ہے یا اس نوع کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے جن پر وحی ہوتی ہے۔ نوع انسانی کے عہد طفولیت میں وہ نفسیاتی توانائی فروغ پاتی ہے جسے میں شعور نبوت کہتا ہوں۔ یہ انفرادی سوچ اور انتخاب کا ایک کفایتی رجحان ہے تاکہ بنے بنائے فیصلے انتخاب اور طریق ہائے عمل میسر آ سکیں۔ تاہم استدلال اور تنقیدکی صلاحیت کی آفرینش کے ساتھ ہی زندگی اپنے مفاد کی خاطر شعور کے ورائے عقل ان طریقوں کی پیدائش اور صورت گری روک دیتی ہے جن میں انسانی ارتقا کی ابتدائی منازل پر نفسیاتی توانائی کا اظہار ہوتا تھا۔ انسان پر ابتدائی سطح پر جبلت اور جذبات حکمرانی کرتے ہیں۔ استقرائی عقل تنہا وہ ذریعہ ہے جس سے وہ ماحول پر تسلط حاصل کرتا ہے۔ یہ کامیابی کی ایک علامت ہے۔ جب ایک دفعہ یہ پیدا ہو جائے تو پھر دوسرے ذریعہ ہائے علم کو رک جانا چاہیے تاکہ یہ مزید مستحکم ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے ایک وقت میںبعض بہت بڑے فلسفیانہ نظام پیش کئے‘ جبکہ انسان اپنی ابتدائی منازل پر تھا اور اس پر کم و بیش روایات کا غلبہ تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرانی دنیا میں یہ نظام بندی مجرد فکر کا نتیجہ تھی‘ جو مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کی ترتیب و تنظیم سے آگے نہیں جا سکتی اور اس سے ہمیں زندگی کے ٹھوس حقائق پر گرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس معاملہ پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ہمیں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ قدیم اور جدید دنیائوں کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک آپؐ کی وحی کے منابع کا تعلق ہے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے۔ جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے آپ کا تعلق دنیائے جدید سے ہے۔ آپ میں زندگی نے علم کے کچھ دوسرے ذرائع کو دریافت کرلیا جو نئی سمتوں کے لیے موزوں تھے۔ اسلام کی آفرنیش‘ عقل استقرائی کی آفرینش ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیونکہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کر لیا ہے۔ ۴؎ اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے پر نہیں رکھا جا سکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اس کے اپنے وسائل کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا باربار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا‘ ان سب کا تصور ختم نبوت کے مختلف پہلوئوں سے گہرا تعلق ہے۔ اس صورت حال کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ شعور ولایت جو کیفیت کے اعتبار سے نبی کے تجربے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں اب ایک موثر قوت کے طور پر ختم ہو گیا ہے۔ یقیناً قرآن انفس اور آفاق کو علم کے منابع کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ۵؎ خدا اپنی آیات (نشا نیوں) کو باطنی اور ظاہری دونوں تجربات میں عیاں کرتا ہے اور یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ تجربے کے ان تمام پہلوئوں کی صلاحیتوں کو پرکھے جو افزائش علم کا باعث ہیں۔ چنانچہ ختم نبوت کے تصور کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ زندگی کی حتمی تقدیر یہ ہے کہ عقل مکمل طور پر جذبات کی جگہ لے لے۔ یہ چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ مطلوب ہے۔ تصور ختم نبوت کی عقلی اہمیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ صوفیانہ تجربے کے بارے میں ایک آزادانہ تنقیدی روّیے کو پروان چڑھایا جائے کیونکہ انسانی فکر کی تاریخ میں اب ہر قسم کا شخصی تحکم جو کسی مافوق الفطرت سرچشمے کا دعویٰ کرتا ہے ختم ہوچکا ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ ایک نفسیاتی قوت ہے جو ایسے تحکم کی نفی کرتی ہے۔ اس تصور کا وظیفہ انسان کے باطنی تجربے کی حدود میںتازہ مظاہر علم کا درکھولنا ہے۔ ۶؎ جیساکہ اسلام کے کلمہ توحید کے نصف اوّل میں فطرت کی قوتوں کو قدیم تہذیبوں کے روّیے کے علی الرغم الوہیت کا رنگ دینے سے احتراز کرتے ہوئے انسان میں خارجی دنیا کے تنقیدی مشاہدے کی روح کو تخلیق کیاگیا ہے ۔ چنانچہ صوفیانہ واردات کیسی ہی غیر معمولی کیوں نہ ہوں وہ ایک مسلمان کے لیے مکمل طور پر طبیعی اور فطری تجربہ ہیں جو اسی طرح تنقیدی تجزیے کے لیے کھلا ہے جس طرح انسانی تجربے کے بہت سے دوسرے پہلو۔ یہ بات پیغمبر اسلام ﷺ کے اپنے اس رویے سے بھی عیاں ہے جو خود انہوں نے ابن صیاد کے نفسیاتی تجربوں کے بارے میں اپنایا۔ اسلام میں تصوف کا وظیفہ یہ رہا ہے کہ وہ صوفیانہ تجربے کو ایک نظم میںلائے ۔ ۷؎ اگرچہ یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ ابن خلدون وہ واحد مسلمان مفکر ہے جس نے اس طرف مکمل سائنسی انداز میں توجہ مبذول کی ہے۔ ۸؎ تاہم باطنی تجربہ انسانی علم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق علم کے دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں: فطرت اور تاریخ ۔ ان دو ذرائع علم سے استفادہ کی بنا پر ہی اسلام کی روح اپنے اعلی مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے۔ قرآن حقیقت اعلیٰ کی نشانیاں سورج میں دیکھتا ہے، چاند میں دیکھتا ہے، سایوں کے گھٹنے اور بڑھنے اور دن اور رات کے آنے جانے میں دیکھتا ہے، انسانوں کے مختلف رنگ و نسل اور زبانوں کے تنوع میں اور مختلف اقوام کے عروج و زوال اور دنوں کے الٹ پھیر میں دیکھتا ہے۔ ۹؎ درحقیقت فطرت کے تمام مظاہر میںدیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غورو فکرکرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے۔ کیونکہ وہ انسان جو ان آیات الٰہی کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجۃً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اورمتناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انہوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتداء میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بات کا اداراک نہ کرتے ہوئے کہ قرآن کی روح اساسی طور پر یونان کی کلاسیکی فکر کے خلاف ہے اوریونانی مفکرین پر پورے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسلم فلاسفہ کی پہلی کوشش یہی رہی کہ وہ فکر یونان کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں۔ اس طرز فکر نے تو ناکام ہونا ہی تھا کیونکہ قرآن کی ٹھوس روح کے برعکس یونانی فکر کی نوعیت محض تصوراتی ہے جو حقیقت الامرکی بجائے نظریے پر زیادہ زور دیتی ہے۔ اس ناکامی کے نتیجے میں ہی ان کے اندر اسلامی ثقافت کی اصل روح بیدار ہوئی جس سے جدید عصری ثقافت کے بعض نہایت اہم پہلوئوں کو خشت اوّل میسر آئی۔ یونانی فلسفے کے خلاف اس عقلی بغاوت نے فکر کے دوسرے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ مجھے احساس ہے کہ میںاتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ میں ریاضی‘ فلکیات اور طب میں ہونے والی اس بغاوت کے اثرات کو نمایاں کر سکوں۔ یہ اشاعرہ کے مابعد الطبیعیاتی افکار میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر یہ زیادہ واضح طور پر یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید میں نظر آتی ہے۔ یہ بالکل فطری تھا کیونکہ خالص ظنّی فلسفے سے غیر مطمئن ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی زیادہ قابل اعتماد ذریعہ علم کی تلاش کی جائے۔ میرے خیال میں یہ نظام تھا جس نے سب سے پہلے تشکیک کے اصول کو تمام علوم کے آغاز کے لیے بنیاد کے طور پر وضع کیا۔ ۱۰؎ غزالی نے اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین ‘‘ میں اس اصول کو مزید وسعت دی اور ڈیکارٹ کے طریق تشکیک کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مگر منطق میں عمومی طور پر غزالی نے ارسطو کی منطق کی پیروی کی۔’’قسطاس‘‘ میں موصوف نے قرآن کے کچھ دلائل کو ارسطوئی منطق کی اشکال میں پیش کیا ہے ۱۱؎ اور قرآن کی سورہ الشعرا کو بھول گئے کہ جہاں اس قضیے کے لئے کہ انبیاء کی تکذیب سے عذاب لازم آتا ہے تاریخی امثال کے حوالے سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہ اشراقی اور ابن تیمیہ تھے جنہوں نے یونانی منطق کا نہایت منظم طریقے سے ابطال کیا ۱۲؎ غالباً ابوبکر رازی وہ پہلا شخص ہے جس نے ارسطو کی ’’شکل اوّل‘‘ پر تنقید کی۔ ۱۳؎ ہمارے اپنے زمانے میں اس کے اعتراض کو خالصتہً استقرائی انداز میں لیتے ہوئے جان سٹوارٹ مل نے ازسرنو دہرایا ہے۔ ابن حزم نے اپنی کتاب ’’منطق کی حدود‘‘ ۱۴؎ میں حسی اوراک پر علم کے ذریعے کے طور پر اصرار کیا ہے اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’الرّدعلی المنطقیین‘‘ میں کہا ہے کہ استقراہی وہ واحد صورت ہے جسے علم کا قابل اعتماد ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح مشاہدے اور تجربے کا طریق سامنے آیا۔ یہ محض ایک نظری بحث نہیں تھی۔ البیرونی کی دریافت، جسے ہم ’ردّعمل کا وقت‘ کہتے ہیں اور الکندی کی یہ دریافت کہ احساس مہیج کے تناسب سے ہوتا ہے وہ مثالیں ہیں جو اس طریق کار کے نفسیات میں اطلاق پر مشتمل ہیں۔ ۱۵؎ یہ خیال کرنا غلط فہمی پر مبنی ہے کہ تجربی طریق اہل یورپ نے دریافت کیا تھا ۔ ڈوہرنگ ہمیں بتاتا ہے کہ روجربیکن کے تصورات سائنس اپنے ہم نام فرانسس بیکن کے تصورات سے کہیں زیادہ قطعی اور واضح تھے۔ اب یہ کہ روجر بیکن نے اپنی سائنسی تعلیم کہاں سے حاصل کی تو اس کا واضح جواب ہے کہ اندلس کی اسلامی درس گاہوں سے۔ روجر بیکن کی کتاب ’’اوپس ماژس‘‘ (Opusmajus) کے پانچویں باب میں مرایا کی جو بحث ہے وہ ابن الہیثم کے باب بصریات کی نقل ہے۔ ۱۶؎ یہ کتاب مجموعی طور پر مصنف پر ابن حزم کے اثرات کی شہادتوں سے خالی نہیں ہے۔ ۱۷؎ یورپ کو اپنے سائنسی طریق کا رکے اسلامی مآخذ کو تسلیم کرنے میں تامل رہا ہے‘ تاہم بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑا۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہاں رابرٹ بریفالٹ کی کتاب ’’تشکیل انسانیت‘‘ سے ایک دو پیرے نقل کروں۔ …آکسفورڈ سکول میں ان کے جانشینوں کے زیر اثر روجربیکن نے عربی زبان اور عربی علوم و حکمت کا مطالعہ کیا ہے۔ خواہ روجر بیکن ہو یا اس کے بعد پیدا ہونے والا اس کا ہم نام دونوں میں سے کوئی بھی تجربی طریق کے معلم اوّل کا خطاب پانے کا مستحق نہیں ہے۔ روجر بیکن کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ اُس کا شمار مسیحی یورپ کے لئے اسلامی علوم اور طریق کار کے مبلغین میں ہوتا ہے۔ وہ یہ اعلان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا کہ اس کے ہم عصروں کے لیے عربی زبان اور عربی سائنس ہی حقیقی علم کا واحد راستہ ہے۔ تجربی علم کا معلم اوّل کون تھا؟ اس موضوع پر جو بحثیں ہوئیں وہ مغربی تمدن کی آفرینش سے متعلق زبردست مبالغہ آرائی کے ابواب ہیں۔ بیکن کے عہد تک عربوں کا تجربی طریقہ سارے یورپ میں پھیل چکا تھا اور بڑے ذوق و شوق سے لوگ اس کی طرف مائل تھے۔ (ص ص ۲۰۰۔۲۰۱) معاصر دنیا کے لیے عربی تمدن کا سب سے مہتم بالشان عطیہ سائنس ہے۔ لیکن اس کے پھلوں کے پکنے میں کافی دیر لگی۔ اندلسی تمدن کے غار تاریکی میں ڈوبنے کے بہت بعد جس سائنس کے دیو کو اس نے جنم دیا تھا وہ بھرپور توانائی کے ساتھ نمودار ہوا۔ تنہا سائنس ہی کی وجہ سے یورپ میں زندگی کی لہریں پیدا نہیں ہوئیں۔ اسلامی تمدن کے دوسرے کثیر النوع اثرات ہیں جن کی بدولت یورپ میں زندگی کی روشنی نمودار ہوئی (ص ۲۰۲) اگرچہ مغربی ترقی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس پر اسلامی تمدن کے فیصلہ کن اثرات نمایاں نہ ہوں۔ اس کی توانائی کے اصل الاصول یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اصول کے میدان میں جتنا واضح اور مہتم بالشان اثر ہے ویسا اور کہیں نظر نہیں آتا اور یہی وہ اثر ہے جس پر عصری دنیا کی مستقل امتیازی قوت اور فتوحات عظیم کے وسائل کا انحصار ہے (ص ۱۹۰) ہماری سائنس پر عربوں کا احسان محض انقلاب آفرین نظریات کے چونکا دینے والے انکشافات پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ سائنس پر عربی تمدن کا قرض اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کا وجود ہی عربوں کا مرہون منّت ہے۔ قدیم عہد کے بارے میں ہم سب جان چکے کہ وہ قبل سائنسی عہد ہے۔ یونانیوں کے فلکیات و ریاضی کے علوم ممالک غیر سے لائے ہوئے تھے اور یونانی تمدن کی زمین میں ان کی جڑیں کبھی پیوست نہیں ہوئی تھیں۔ یونانیوں نے ترتیب و تعمیم و تاسیسِ نظریات کا کام کیا لیکن تجسس کا صبر آزما عمل، مثبت علم کا ارتکاز‘ سائنس کے باریک بین طریق ہائے کار‘ تفصیلی اور دیر طلب مشاہدہ اور تجربی تحقیق، ان سب سے یونانی مزاج قطعی نا آشنا تھا۔ کلاسیکی دنیا میں یونان کا صرف ایک شہر اسکندریہ تھا جہاں کسی طور سائنسی علوم تک رسائی پانے کی کوشش ہوئی تھی۔ ہم جسے سائنس کہتے ہیں اس کی یورپ میں نمود کا باعث تحقیق کی ایک نئی روح‘ تجسس کے نئے ضوابط‘ تجربی طریقہ استدلال‘ مشاہدہ‘ پیمائش اور علم ریاضی کی وہ ہیئت تھی جن کا یونانیوں کو قطعی علم نہیں تھا۔ مغربی دنیا میں اس روح اور ان طریق ہائے کار کا تعارف عربوں نے کرایا۔ (ص ۱۹۱) مسلم ثقافت کی روح کے بارے میں پہلی اہم چیز جو غور طلب ہے وہ علم کے حصول کے مقصد میں ٹھوس اور متناہی پر توجہ مرتکز رکھنا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسلام میں مشاہدے اور تجربے کے طریق کار کی آفرینش یونانی فکر سے موافقت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس سے مسلسل عقلی جنگ کا حاصل تھا۔ درحقیقت، جیسا کہ رابرٹ بریفالٹ کہتا ہے، یونانیوں کی زیادہ تر دلچسپی نظریات میں تھی نہ کہ حقائق میں۔ اس سے مسلمانوں کی قرآن کے بارے میں بصیرت دھندلا گئی۔ نتیجۃً عربوں کے عملی مزاج کو اپنی اصل کی طرف لوٹنے میں کم از کم دو صدیاں لگ گئیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میں اس غلط فہمی کو دور کر دوں کہ یونانی فکر نے کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کی ثقافت کو متعین و مدّون کرنے میں کوئی حصہ لیا۔ میری دلیل کے ایک رخ کو تو آپ پہلے ہی ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اب آپ دوسرا رخ ملاحظہ کریں گے۔ علم کے آغاز کا لازمی طور پر تعلق ٹھوس اشیاء سے ہے۔ یہ ٹھوس اشیا پر حاوی قوت اور عقلی گرفت ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ٹھوس اشیا سے آگے بڑھ سکے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کا فرمان ہے۔ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ أَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوْ لاَ تَنْفُذُوْنَ إِلاَّ بِسُلْطٰانٍ (۳۳:۵۵) اے گروہ جن و انسان اگر تم قوت رکھتے ہو تو تم آسمانوں اور زمینوں کے دائرے سے باہر نکل جائو۔ مگر تم بغیر ’’سلطان‘‘ کے ایسا نہیں کر سکتے لیکن کائنات جو متناہی اشیا کے مجموعے پر مشتمل ہے ہمیں کچھ اس قسم کے جزیرے کی مانند دکھائی دیتی ہے جو محض ایک خلا میں واقع ہے جس کے لیے وقت باہم دگر منفرد آنات کے ایک سلسلے کی حیثیت سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کا کوئی مصرف ہے۔ کائنات کے بارے میں اس طرح کا تصور ذہن کو کہاں لے جائے گا۔ مرئی زمان و مکان کے بارے میں یہ سوچ کہ یہ محدود ہیں ذہن کو اُلجھا دے گی۔ متناہیت ایک بت کی طرح ہے جو ذہن کی حرکت اور اس کے ارتقا میں ایک رکاوٹ ہے۔ یا پھر یہ کہ اپنی حدود سے باہر نکلنے کے لئے ذہن کو زمان متسلسل اور مکان مرئی کی خلائیت محض سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ قرآن کے فرمان کے مطابق ’آخری حد تو خدا کی طرف ہی ہے‘ ۱۸؎ یہ آیت قرآن کے ایک انتہائی گہرے خیال کو سموئے ہوئے ہے کیونکہ اس سے لازمی طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری حد ستاروں کی جانب نہیں بلکہ لامحدود حیات کونی اور روحانیت کی جانب تلاش کرنی چاہیے۔ اب اس مطلق حد کی طرف عقلی مسافرت ایک لمبا اور مشکل عمل ہے۔ اس ضمن میں بھی مسلمانوں کی فکری کوششیں یونانیوں سے بالکل ہی مختلف سمت میں متحرک ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ہمیں اشپنگلر بتاتا ہے یونانیوں کا آئیڈل تناسب تھا، لامتناہیت ان کا مسئلہ نہ تھا۔ اپنی واضح حدود کے ساتھ متناہی کی طبیعی موجودگی نے ہی یونانی ذہن کو مکمل طور پر گرفت میں لے رکھا تھا۔ دوسری جانب مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ میں عقل محض اور مذہبی نفسیات (اس اصطلاح سے میری مراد اعلیٰ تصوف ہے) دونوں کا مدعا یہ ہے کہ لامتناہی کو حاصل کیا جائے اور اس سے لطف اندوز ہوا جائے۔ زمان و مکان کا مسئلہ ایسی ثقافت میں زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ میں نے ان خطبات میں سے ایک میں پہلے ہی مسلمان مفکرین خاص طور پر اشاعرہ کا زمان و مکان کے مسئلہ پر نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ ویمو قریطس کے جوہری نظریات کو اسلامی دنیا میں جو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اس کا ایک سبب اس کا مکان مطلق کا مفروضہ ہے۔ چنانچہ اشاعرہ نے ایک مختلف نوعیت کی جوہریت کو پروان چڑھایا اور انہوں نے مکان مدرکہ کی مشکلات پر قابو پانے کی کوششیں کیں جس طرح کہ جوہریت جدیدہ میں اس قسم کی مساعی ہوئی ہیں۔ ریاضی کے میدان میں بطلیموس (۸۷۵- ۱۶۵ قبل مسیح) سے نصیرالدین طوسی (۱۲۷۴- ۱۲۰۱ عیسوی) تک کسی نے بھی اس جانب بھرپور توجہ نہیں دی کہ اقلیدس کے پیش کردہ متوازیت کے مفروضے کو مکانِ مدرکہ کی بنیاد پر ثابت کرنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں۔ ۱۹؎ نصیر الدین طوسی وہ مفکر ہے‘ جس نے پہلی بار اس خاموشی کو توڑا جو ریاضی کی دنیا میں گذشتہ ایک ہزار سال سے چھائی ہوئی تھی۔ اس مفروضے کو بہتر بنانے کی کوشش میںاسے مکان مرئی کے تصور کو چھوڑ دینے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ یوں اس نے ایک اساس فراہم کی، گرچہ یہ کیسی ہی معمولی تھی‘ جس پر ہمارے عہد کے مختلف الجہات حرکت کے خیال کی عمارت استوار ہوئی۔ ۲۰؎ مگر یہ ابو ریحان البیرونی تھا جس نے جدید ریاضی کے تصور تفاعل تک جانے کی کوشش میں ایک خالص سائنسی نکتہ نظر سے کائنات کے سکونی نظریے کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ یہ بھی یونانی تصور سے واضح اختلاف کی ایک صورت ہے۔ تفاعل کا یہ تصور کائنات کی تصویر میں وقت کے عنصر کو شامل کرتا ہے۔ یہ متعین کو متغیر قرار دیتا ہے اور کائنات کو ایک کونی شے کی بجائے تکوینی شے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اشپنگلر کا خیال ہے کہ ریاضی کا تفاعلی نظریہ مغرب کا دریافت کردہ ہے جس کا کسی اور تمدن یا ثقافت میں ایک اشارہ بھی نہیں ملتا۔ نیوٹن نے جو ادراج کا فارمولا پیش کیا تھا ۲۱؎ البیرونی نے اس کی تعمیر کرکے جو اس کو تکونی تفاعل کے علاوہ ہر قسم کے تفاعل پر لاگو کیا تھا ۲۲؎ تو اس سے اشپنگلر کا دعویٰ باطل قرار پاتا ہے۔ عدد کے بارے میں اہل یونان کے تصورکمیت کے محض تصور نسبت خالص میںبدلنے کا آغاز الخوارزمی کی اس تحریک سے ہوا جس سے حساب کے علم کا رخ الجبرا کی طرف مڑ گیا۔ ۲۳؎ البیرونی نے اس سمت بھی واضح پیش رفت کی‘ جسے اشپنگلر تقویمی عدد کے نام سے بیان کرتا ہے اور جو ذہن کی کونیت سے تکوین کی جانب سفر کی نشاندہی کرتا ہے۔ یقیناً یورپ میں ریاضی میں ہونے والی نئی تحقیقات سے وقت اپنے تاریخی کردار کو کھو چکا ہے اور یہ مکان ہی کی ایک شکل میں تحویل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہیڈ کا نظریہ اضافیت مسلمان طلباء کے لئے آئن شٹائن کے نظریہ اضافیت سے زیادہ پُرکشش ہو گا جس کے مطابق زمان اپنا دوران کا کردار کھو کر پراسرار طور پر مکان محض کی صورت میں ہی ڈھل جاتا ہے۔ اسلام میں ریاضیاتی فکر کی ترقی کے ساتھ ساتھ ارتقا کا نظریہ بھی ہمیں بتدریج اپنی صورت گری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جاحظ وہ پہلا شخص ہے جس نے پرندوں کی زندگی میں نقل مکانی کی بنا پر تبدیلی نوٹ کی۔ اس کے بعد ابن مسکویہ نے، جو ابو ریحان البیرونی کا ہم عصر تھا ، اس نظریے کو ایک شکل دی اور الٰہیات کے موضوع پر اپنی تصنیف الفوز الاصغر میں اسے اپنایا۔ میں اس کے نظریہ ارتقا کے مفروضے کا خلاصہ یہاں بیان کروں گا: اس کی سائنسی اہمیت کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے کہ ہم دیکھ سکیں کہ مسلم فکر کی حرکت کس سمت میں بڑھ رہی تھی۔ ابن مسکویہ کے مطابق نباتاتی زندگی بالکل ہی ابتدائی سطح پر اپنے نمو کے لیے بیج کی محتاج نہیں اور نہ ہی محض بیجوں کے ذریعے اس کی انواع کا تسلسل ہوتا ہے۔ اس طرح کی نباتاتی زندگی کا معدنی یا جمادی اشیا سے یہی فرق ہے کہ نباتاتی زندگی میں تھوڑی سی حرکت کی طاقت ہوتی ہے جو اعلیٰ مدارج میں مزید بڑھ جاتی ہے جب پودا اپنی شاخیں پھیلاتا ہے اور بیج کے ذریعے اپنی نوع کا تسلسل قائم رکھتا ہے۔ حرکت کی قوت جب آہستہ آہستہ مزید بڑھتی ہے تو ہم درختوں کو دیکھتے ہیں کہ جو تنے‘ پتے اور پھل رکھتے ہیں۔ نباتاتی زندگی اپنے ارتقا کی اعلیٰ سطح تک بڑھنے کے لیے عمدہ زرخیز زمین اور مناسب موسم کا تقاضا کرتی ہے۔ نباتاتی زندگی اپنی اعلیٰ ترین صورت میں انگور اورکھجور کے درختوں میں نظر آتی ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز بھی واضح طور پر موجود ہو جاتا ہے۔ اس میں جڑوں اور ریشوں کے ساتھ ساتھ وہ شے بھی نشوونما پالیتی ہے جس کا وظیفہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دماغ کا اور جس کی صحت پر اس کے حفظ و بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ کھجور نباتاتی زندگی کی اعلٰی ترین سطح اور حیوانی زندگی کا ابتدائیہ ہے۔ حیوانی زندگی کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے کہ زندگی زمین پیوستگی سے آزاد ہوجاتی ہے اور اس سے شعوری حرکت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ حیوانی زندگی کی ابتدائی سطح ہے جس میں سب سے پہلے چھونے کی حس اور آخری سطح میں دیکھنے کی حس پیدا ہوتی ہے۔ حواس کی آفرینش سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے جیسا کہ کیڑوں‘ رینگنے والے جانوروں‘ چیونٹیوں اور مکھیوں میں ۔ حیوانی زندگی کی تکمیل چوپائیوں میں گھوڑے اور پرندوں میں عقاب کی صورت میں ہوتی ہے اور آخر میں حیوانی زندگی کا ارتقا بوزنوں اور بن مانسوں کی صورت میں ہوتا ہے‘ جو انسان کے درجے سے ذرا سا نیچے ہوتے ہیں۔ ارتقا کی اگلی منزل پر ایسی عضویاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ انسان کی قوتِ تمیز اور روحانیت بڑھتی ہے حتیٰ کہ وہ دور بربریت سے تہذیب کی طرف قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ ۲۴؎ مگر یہ درحقیقت مذہبی نفسیات ہے‘ جیسا کہ عراقی اور خواجہ محمد پارسا کے ہاں نظر آتا ہے، ۲۵؎ جو ہمیں زمان کے مسئلے پر دور جدید کے انداز نظر کے قریب تر لے آتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں عراقی کا وقت کا تصور طبقاتی ہے۔ ۲۶؎ اب میں ذیل میں مکاں کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ عراقی کے نقطہ نظر کے مطابق خدا کے حوالے سے مکان کی ایک خاص قسم کا وجود قرآن کی ان آیات سے واضح ہوتا ہے۔ أَ لَمْ تَرَ أَنَّ اﷲَ یَعْلَمُ مَا فَی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَایَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَیٰ ثَلٰثَۃٍ إِلاَّ ھُوَرَابِعُھُمْ وَلاَ خَمْسَۃٍ إِلاَّ ھُوَسَادِسُھُمْ وَلآَ أَدْنَیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلآَ اَکْثَرَإِلاَّ ھُوَمَعَھُمْ أَیْنَ مَاکَانُوْا (۷:۵۸) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں پوشیدہ ہے۔ کوئی راز دارا نہ گفتگو تین آدمیوں میں ایسی نہیں ہو سکتی جس میں چوتھا وہ خود نہ ہو اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی گفتگو ایسی ہو گی جس میں چھٹا وہ نہ ہو اور نہ کوئی اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی ایسی ہوگی جس میں وہ نہ ہو جہاں کہیں بھی وہ لوگ موجود ہوں۔ وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْئَ انٍ وَلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا إِذْتُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ وَلَآ أَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلآَ اَکْبَرَ اِلاَّفِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن (۶۱:۱۰) اور تم جس بھی حالت میں ہوتے ہو اور قرآن سے جو کچھ بھی پڑھ کر سناتے ہو اور تم جو کچھ بھی کام کرتے ہو ہم تم کو دیکھ رہے ہیں‘ جب تم اس میں لگے ہوتے ہو اور ذرا بھر بھی کوئی چیز یا اس سے بھی چھوٹی یا بڑی زمین اور آسمانوں میں ایسی موجود نہیں جو تیرے رب سے پوشیدہ ہو۔ سب کچھ اس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ۲۷؎ وَلَقَدْ خَلَقْنَاالإِْنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَاتُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۱۶:۵۰) ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم جانتے ہیں جو کچھ بھی اس کے جی میں آتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات بالکل فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ’قربت‘ ’اتصال‘ اور ’باہمی انفعال‘ کے لفظ جن کا اطلاق مادی اجسام پر ہوتا ہے خدا ان سے بے نیاز ہے۔الوہی زندگی اسی طرز پر کل کائنات سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ ۲۸؎ روح نہ تو جسم کے اندر قید ہے اور نہ اس سے باہر ہے۔ نہ اس سے متصل ہے نہ منفعل۔ مگر اس کا جسم کے روئیں روئیں سے تعلق حقیقی ہے۔اور اس تعلق کا جاننا بالکل ممکن نہیں ۲۹؎ سوائے کسی ایسے مکان کے تصور کے حوالے سے جو روح کی لطافت سے مناسبت رکھتا ہو۔ حیات خدا وندی کے حوالے سے مکان کے وجود کا انکار ممکن نہیں، صرف اس مکان کی نوعیت کا تعین کامل احتیاط سے کرنا چاہیے تاکہ خدا کی مطلقیت کا اظہار و اثبات درست طور پر ہو۔ مکان کی تین اقسام ہیں: مادی چیزوں کا مکان، غیر مادی اشیاء کا مکان اور خدا کا مکان۔ ۳۰؎ مادی اشیاء کا مکان پھر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ٹھوس اجسام کا مکان جس میں ہم وسعت کا اثبات کرتے ہیں۔ اس مکان میں حرکت وقت لیتی ہے۔ چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ہوتی ہیں اور اپنی جگہ چھوڑنے میں مزاحمت کرتی ہیں۔ دوسرے، لطیف اجسام کا مکان ، مثلاً ہوا اور آواز کا ایک مکان ہے۔ اس مکان میں بھی اجسام ایک دوسرے سے مزاحم ہوتے ہیں اور ان کی حرکت وقت کے پیمانے سے ناپی جا سکتی ہے گو ان کی حرکت کا وقت ٹھوس اجسام کی حرکت کے وقت سے مختلف ہوگا۔ ایک ٹیوب میں موجود ہوا کو خارج کرکے ہی اس میں مزید ہوا داخل ہو سکتی ہے۔ اور آواز کی لہروں کے وقت کا ٹھوس اجسام کے وقت سے عملی طور پر کوئی مقابلہ ممکن نہیں۔ تیسرے، روشنی کا مکان ہے۔ سورج کی روشنی زمین کے کونوں کھدروں میں فورًا پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا روشنی کی اور آواز کی رفتار میں وقت یا زمان گویا واقعۃًصفر ہوکر رہ جاتا ہے۔ یوں یہ بات بڑی واضح ہے کہ روشنی کا مکان ہوا اور آواز کے مکان سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں اس سے بھی زیادہ قوی دلیل دی جا سکتی ہے۔ موم بتی کی روشنی کمرے کی تمام اطراف میں کمرے میں موجود ہوا کو وہاں سے خارج کئے بغیر پھیل جاتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روشنی کا مکان ہوا کے مکاں سے زیادہ لطیف ہے ۳۱؎ جس کا روشنی کے مکان میں کوئی دخل نہیں۔ ان مختلف مکانوں کے ایک دوسرے کے قریب ہونے کی بنا پر یہ بالکل ممکن نہیں کہ ایک کو دوسرے سے ممیز کیا جائے سوائے خالصتاً عقلی تجزیے اور روحانی تجربے سے۔ ایک اور مثال لیں۔ گرم پانی میں دو متضاد خاصیتیں ہیں یعنی آگ اور پانی کی ۔یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے میں داخل ہوگئے ہیں ۔حالانکہ اپنی الگ الگ ماہیتوں کی وجہ سے وہ ایک ہی مکان میں نہیں رہ سکتے۔ ۳۲؎ اس حقیقت کو سوائے اس مفروضے کے کسی طرح بیان نہیں کیا جا سکتا کہ دو مادی اشیاء کے مکان گرچہ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہوں تاہم مختلف ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن روشنی کے معاملے میں مکانی فاصلے کے عنصر کی موجودگی کے باوجود باہمی مزاحمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ موم بتی کی روشنی صرف ایک خاص فاصلے تک جا سکتی ہے اور سو موم بتیوں کی ایک ہی کمرے میں روشنی آپس میں مدغم ہو جاتی ہے، ایک دوسرے کو اپنی جگہ سے ہٹائے بغیر ۔ عراقی مختلف درجات کے لطافتیں رکھنے والے طبیعی اجسام کے مکانات کے بیان کے بعد مختصراً مکان کی ان مختلف انواع کا ذکر کرتا ہے جو غیر مادی اجسام سے متعلق ہیں۔ مثلاً فرشتے۔ ان مکانات میں بھی فاصلے کا عنصر بالکل غائب نہیں ہوتا۔ اگرچہ غیر مادی وجود آسانی کے ساتھ پتھر کی دیواروں میں سے گزر سکتے ہیں، وہ حرکت سے یکسر بے نیاز نہیں ہوتے۔ عراقی کے مطابق حرکت نامکمل روحانیت کی علامت ہے۔ ۳۳؎ مکانیت سے آزادی کی آخری منزل انسانی روح کو حاصل ہے جو اپنی منفرد نوعیت کے اعتبار سے نہ ساکن ہے اور نہ حرکت پذیر ۳۴؎ یوں مکان کی لامحدود انواع سے گزرتے ہوئے ہم الوہی مکان تک پہنچ جاتے ہیں جو مکمل طور پر ہر طرح کے ابعاد سے پاک ہے اور جو تمام لامتناہیات کے نقطہ اتصال کی تشکیل کرتا ہے۔ ۳۵؎ عراقی کے افکار کی اس تلخیص میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک مسلم صوفی نے اس عہد میں زماں و مکان کے اپنے روحانی تجربے کی عقلی تعبیر و تشریح بیان کی جو جدید ریاضی اور طبیعیات کے تصورات کا کوئی ادراک نہ رکھتا تھا۔ عراقی دراصل اس کوشش میں تھا کہ وہ مکان کے ایک ایسے تصور تک پہنچے جو اپنے ظہور میں حرکی ہو۔ نظریوں آتا ہے کہ مبہم طور پر اس کا ذہن اس کوشش میں تھا کہ وہ مکان کے لامتناہی تسلسل کے تصور تک رسائی حاصل کرے۔ تاہم وہ اپنی فکر کی تصریحات کو پانے میں کچھ اس لئے ناکام رہا کہ وہ ایک ریاضی دان نہیں تھا اور کچھ اس کا باعث یہ ہوا کہ وہ ارسطو کی کائنات کے ساکن ہونے کی روایت کی حمایت کا اپنے اندر فطری تعصب رکھتا تھا۔ مزید برآں حقیقت مطلقہ میں فوق المکان ’’یہاں‘‘ اور فوق الابد ’’اب‘‘ کا باہم دگر ادغام موجودہ دور کے تصور ’زمان ۔ مکان‘ کی نشاندہی کرتا ہے جسے پروفیسر الیگزنڈر’’مکان ، زمان اور ذات الٰہیہ‘ پر اپنے خطبات میں ہر شئے کا مغز اور مرکز قرار دیتا ہے۔ ۳۶؎ عراقی کو اگر زمان کی ماہیت میں زیادہ گہری بصیرت حاصل ہو جاتی تو اسے یقین ہو جاتا کہ زمان ان دونوں میں زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور یہ جو پروفیسر الیگزنڈر کہتا ہے کہ زمان تو مکان کا مغز ہے تو یہ کوئی اتنی زیادہ استعاراتی بات نہیںہے۔ ۳۷؎ عراقی خدا کے کائنات سے تعلق کو اسی طرح کا سمجھتا ہے جس طرح کا انسان کی روح کا تعلق اس کے جسم سے ہے ۔ ۳۸؎ مگر تجربے کے زمانی اور مکانی پہلوئوں پر تنقید کے ذریعے اس فلسفیانہ نتیجے پر رسائی کی بجائے وہ اپنے روحانی تجربے کی بنیاد پر اسے محض فرض کر لیتا ہے۔ یہ بالکل کافی نہیں کہ زمان و مکان کو ایک معدوم ہو جانے والے نقطے میں محدود کر دیا جائے۔ اس کی بجائے فلسفے کی وہ راہ جو خدا بطور ایک روح کل تک جاتی ہے ایک ایسے زندہ فکر کی یافت پر منحصر ہے جو ’زمان۔ مکان‘ کا بنیادی اُصول ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی کے ذہن نے درست سمت میں سفر کیا۔ مگر اس کے ارسطوی تعصبات اور نفسیاتی تجزیے کی اہلیت کے فقدان کی وجہ سے اس کے ذہن کی ترقی رک گئی۔ اس کا یہ تصور کہ زمان الٰہی حرکت سے یکسرعاری ہے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ شعوری تجربے کے تجزیے کی پوری صلاحیت نہیںرکھتا تھا۔ اس تصور کی بنیاد پر وہ زمان الٰہی اور زمان متسلسل میں تعلق کی نوعیت کو دریافت نہیں کر سکتا تھا۔ ۳۹؎ اور نہ ہی اس حقیقت کو پا سکتا تھا کہ مسلسل تخلیق اسلامی تصور کا لازمہ ہے، جس کا مطلب ایک ہر لحظہ نشو و نما پاتی ہوئی کائنات ہے۔ اسلامی فکر کے تمام ڈانڈے ایک متحرک کائنات کے تصور سے آملتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ابن مسکویہ کے ارتقائی حرکت پر مبنی نظریہ حیات اور ابن خلدون کے تصور تاریخ سے مزید تقویت پاتا ہے۔ تاریخ یاقرآن کی زبان میں ’’ایام اللہ‘‘ قرآن کے مطابق انسانی علم کا تیسرا بڑا ماخذ ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم کا ایک بڑا لازمی حصہ ہے کہ اقوام کا اجتماعی حساب ہوتا ہے اور انہیں اپنے اعمال کی جزا و سزا یہاں اسی دنیا میں دی جاتی ہے۔ ۴۰؎ اس بات کو محکم طور پر واضح کرنے کے لئے قرآن تاریخی حقائق سے مثالیں دیتاہے اور اپنے قاری سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نوع انسانی کے ماضی و حال کے تجربات پر غور کرے۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسَیٰ بِأَیٰتِنَآ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّورِط وَذَکِّرْہُمْ بِأَ یّٰمِ اﷲِ ط إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لْأَیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ (۱۴:۵) اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور انہیں ایام اللہ کی یاد دلائے،بے شک صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَo وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَo وَاُمْلِیْ لَہُمْط إِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ ( ۱۸۳-۱۸۱:۷) ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو حق کی راہ دکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔ ہم انہیں آہستہ آہستہ نیچے اتارتے ہیں، اس طرح کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، بے شک میری چال مضبوط ہے قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ( ۱۳۷:۳) تم میں سے پہلے کتنی مثالیں گزر چکی ہیں۔ زمین پر چل کر تو دیکھو جھٹلانے والوں کا حشر کیا ہوتا ہے إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِج ( ۱۴۰:۳) اگر تمہیںزک پہنچی ہے تو انہیں بھی (تمہارے مخالفوں کو)بھی تو ایسی ہی زک لگ چکی ہے اور یہ دن ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج (۳۴:۷) ہر قوم کے لئے ایک وقت ہے ۴۱؎ آخری آیت اس مخصوص تاریخی تعمیم کی واضح مثال ہے جس کا حکیمانہ بیان اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہر انسانی معاشرے کا ایک عضویہ کی حیثیت سے سائنسی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا بڑی فاش غلطی ہے کہ قرآن میں تاریخیت کے تصورات موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن خلدون کے مقدمے کی ساری روح اس فیضان کا حاصل ہے جو اس کے مصنف نے قرآن حکیم سے حاصل کی۔ حتٰی کہ جب وہ عادات و خصائل کے ضمن میں حکم لگاتا ہے تو بھی وہ قرآن سے کم متاثر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس نے عرب قوم کے کردار کا جو جائزہ لیا ہے وہ سارا بیان قرآن کی اس آیت کا مرہون منت ہے۔ اَلْأَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقًا وَّأَجْدَرُ أَ لَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ أَنْزَلَ اﷲُ عَلَیٰ رَسُوْلِہٖط وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o وَمِنْ الْأَعْرَابِ مَنْ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ مَغْرَمًا وَیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَط عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ ط وَاﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (۹۸- ۹۷:۹) بدو عرب کفر اورنفاق میں بہت ہی متشدد ہیں اوراس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ اس کے حدود کو نہ جان سکیںجسے اللہ نے اپنے رسولؐ پر اتارا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمتوں والاہے۔ اور عرب بدووں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اسے جرمانہ یا تاوان گردانتے ہیں اور تمہارے بارے میں گردشوں کے انتظار میں ہیں حالانکہ وہ خود برے چکر میں پھنسنے والے ہیں۔ اور اللہ سنتا ہے، جانتا ہے تاہم انسانی علم کے ماخذ کی حیثیت سے قرآن کی تاریخ میں دلچسپی کا دائرہ تاریخی تعلیمات کی نشاندہی سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہے۔ قرآن نے ہمیں تاریخ پر تنقید کا ایک بنیادی اصول دیا ہے۔ چونکہ تاریخ کی بطور سائنسی قطعیت کی شرط یہ ہے کہ بیان شدہ حقائق جن سے تاریخ کا مواد مرتب ہوتا ہے وہ مکمل طور پر درست ہوں اور حقائق کے درست علم کا دار و مدار بالآخر ان پر ہے جو ان کو بیان کرتے ہیں تاریخ پر تنقید کابنیادی اصول یہ ہے ان حقائق کو بیان کرنے والوں کی شہادت کے سلسلے میں ان کا ذاتی کردار اہم گردانا جائے۔ قرآن کہتا ہے: یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوٓا ( ۶:۴۹) اے اہل ایمان! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو پرکھ لیا کرو اس آیت میں پیش کردہ اُصول کے آنحضرتؐ کے راویان حدیث پر اطلاق سے تاریخ کی تنقید کے قواعد بتدریج وجود میں آئے۔ اسلام میں تاریخ کے بارے میں شعور کا ارتقا ایک نہایت دلچسپ موضوع ہے۔ ۴۲؎ قرآن حکیم کا تجربے پر اصرار، پیغمبر اسلامؐ کی احادیث کے بیان کی صحت کو متعین کرنے کی ضرورت اور یہ خواہش کہ آنے والی نسلوں تک یہ مستقل فیضان کا منبع موجود رہے ان تمام عناصر نے ابن اسحاق ۴۳؎ طبری ۴۴؎ اور مسعودی جیسی شخصیتوں کو جنم دیا۔ ۴۵؎ لیکن تاریخ بطور ایک ایسے فن کے جو قاری کے تخیل کو مہمیز دیتاہے تاریخ کی سائنسی حیثیت کے ارتقاء میں محض ایک مرحلہ ہے۔ تاریخ کی سائنسی حیثیت کو پوری طرح اجاگر کرنے کے لئے وسیع تجربہ، عقل عملی کی پختگی اور زندگی اور زمان کے بارے میں بنیادی تصورات کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں دو تصورات بنیادی ہیں اور دونوں ہی کی بنیاد قرآن کی تعلیمات پر ہے۔ ۱- وحدت اصل انسانی۔ قرآن کا فرمان ہے: ’اور ہم نے تمہیں زندگی کی ایک ہی سانس سے پیدا کیا‘ ۴۶؎ مگر زندگی کا ایک وحدت نامیہ کے طور پر ادراک کچھ دیر کے بعد ہی ہوتا ہے اور واقعات عالم کی مرکزی رو میں کسی قوم کے داخل ہونے پر اس کی نشو و نما کا انحصار ہے۔ اسلام کو یہ موقعہ اس وقت ملا جب وہ تیزی کے ساتھ ایک بہت بڑی سلطنت میں تبدیل ہوا ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام سے بہت پہلے عیسائیت نے نسل انسانی کو مساوات کا پیغام دیا تھا۔ مگر مسیحی روما نے انسانیت کے نسبی اور عضوی طور پر ایک ہونے کا پورا ادراک حاصل نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ فلنٹ یہ بات بالکل درست طور پر کہتا ہے کہ ’’کسی بھی عیسائی مصنف اور یقینا اس سے بھی کم کسی رومی بادشاہ کو یہ اعزاز نہیں جاتا کہ اس کے پاس ایک عمومی اور مجردانسانی وحدت سے زیادہ کا کوئی تصور ہو‘‘۔ اور رومی حکمرانوں کے عہد سے لے کر اب تک اس تصور نے یورپ میں اپنی جڑیں گہرے طور پر ثبت نہیں کیں۔ دوسری طرف علاقائی قومیت نے اپنے قومی خصائص پر اصرار کرتے ہوئے یورپ کے ادب و فن میں وسیع تر انسانیت کے تصورات کو تباہ کر دیا۔ اسلام میں اس سے بالکل مختلف صورت حال ہوئی۔ یہاں وحدت انسانی کا تصور نہ تو فلسفیانہ تھا اور نہ ہی یہ شاعرانہ خواب تھا۔ بلکہ ایک عمرانی تحریک کے طور پر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی روز مرہ کی زندگی میں اس تصور کو ایک زندہ قوت میں بدل دیا جائے۔ اور یوں یہ خاموشی کے ساتھ اور غیر شعوری طور پر اپنی بار آوری کی طرف بڑھتاچلا جائے۔ ۲- زمان کی حقیقت کا گہرا شعور اور زمان میں زندگی کی مسلسل حرکت کا تصور۔ ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں دلچسپی کا بنیادی نکتہ زندگی اور زمان کا یہی تصور ہے اور یہی تصور فلنٹ کے تعریفی کلمے کا جواز بنتا ہے کہ افلاطون، ارسطو اور آگسٹائن کاابن خلدون سے کوئی مقابلہ ہی نہیں، جبکہ دوسرے تو اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان کا اس سلسلے میں نام بھی لیا جا سکے۔ ۴۷؎ ان آراء سے جو میں نے اوپر ظاہر کی ہیں، میرا مقصد یہ نہیں کہ مجھے ابن خلدون کے طبع زاد ہونے میں کوئی کلام ہے بلکہ میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ اسلامی ثقافت نے جس سمت میں سفر کیا اس کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات صاف طور پر کھل جاتی ہے کہ صرف ایک مسلمان ہی تاریخ کے ایک مسلسل اور کلی حرکت ہونے کا نظریہ اختیار کر سکتا تھا جو زمان کے اندر ایک ناگزیر نشوو ارتقا پر مشتمل ہے۔ تاریخ کے اس تصور میں دلچسپی کا نکتہ وہ انداز ہے جس میں ابن خلدون تبدیلی کے عمل کو سمجھتا ہے۔ اس کا تصور بے حد اہم ہے کیونکہ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ تاریخ، زمان میں ایک مسلسل حرکت کی حیثیت سے حقیقی طور پر ایک تخلیقی حرکت ہے۔ وہ ایسی حرکت نہیں جس کی راہ پہلے سے متعین ہوتی ہے۔ ابن خلدون مابعد الطبیعیاتی فلسفی نہیں تھا بلکہ وہ مابعد اطبیعیات کا مخالف تھا۔۴۸؎ مگر زمان کے بارے میں اس کے تصور کی ماہیت کے حوالے سے اسے برگساں کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔ میں تمدن اسلام کی تاریخ میں اس تصور کے عقلی سوابق کے بارے میں پہلے ہی بحث کر چکا ہوں۔ قرآن کا یہ تصور کہ دن اور رات کا ادل بدل حقیقت مطلقہ کی علامت ہے ۴۹؎ جس میں ہر لحظہ اس کی نئی شان کی جھلک نظر آتی ہے‘ ۵۰؎ مسلم الٰہیات میں یہ رجحان کہ وقت کی حیثیت معروضی ہے‘ ابن مسکویہ کا زندگی کے بارے میں تکوینی تسلسل کا تصور ۵۱؎ اور آخری بات کہ البیرونی نے تصورفطرت تک رسائی کے معاملے کو بیان کیا کہ وہ سلسلہ آنات ہے ۔ ۵۲؎ یہ تمام ابن خلدون کی عقلی اور علمی وراثت ہیں۔ اس کا اصل امتیاز اُس تہذیب و تمدن کی روح کا نکتہ رس ادراک ہے اور اس ادراک کا منضبط اظہار ہے جس کی سب سے تابناک پیداواروہ خود تھا۔ اس کے اس عقلی کارنامے نے یونانی کلاسیکیت کے خلاف قرآن کی روح کو اس پر آخری کامیابی عطا کی کیونکہ یونانیوں کے ہاں زماں یا تو غیر حقیقی ہے، جیسا کہ افلاطون اور زینو کا خیال تھا‘ یا وہ ایک دائرے میں حرکت کرتا ہے جیسا کہ ہر اقلیطس اور رواقی کہتے تھے۔ ۵۳؎ تخلیقی حرکت کو پرکھنے کا جو بھی معیار مقرر کر لیا جائے حرکت کو بذات خود اگر دوری تصور کیا جائے تو وہ تخلیقی نہیں ہوگی۔ دوامی رجعت دوامی تخلیق نہیں بلکہ دوامی تکرار ہے۔ اب ہم اس مقام پر ہیں کہ یونانی فلسفے کے خلاف اسلام کی عقلی بغاوت کی صحیح معنویت کو جان سکیں۔ یہ کہ اس عقلی بغاوت کا آغاز خالصتًا مذہبی بنیادوں پر ہوا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کی یونانی کلاسیکیت کے منافی روح نے بالآخر غلبہ حاصل کیا باوجود اس امر کے کہ شروع میں بعض کی یہ خواہش تھی کہ اسلام کو یونانی فکر کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اب ایک بہت بڑی غلط فہمی کو دور کرنا باقی ہے جو بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’زوال مغرب‘‘ کے مصنف فریڈرک اشپنگلر نے پھیلا رکھی ہے۔ اس نے اپنی کتاب کے دو ابواب عربی ثقافت پر لکھے ہیں ۵۴؎ جو ایشیا کی ثقافتی تاریخ پر اُس کی نہایت اہم تحریر ہیں۔ جو یہ ’’فطرت اسلام بحیثیت مذہبی تحریک‘‘ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقافتی فعلیت کے بارے میں مکمل غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ اشپنگلر کا بنیادی موقف یہ ہے کہ ہر ثقافت اپنی ایک مخصوص عضویاتی تشکیل رکھتی ہے جس کا تاریخی لحاظ سے اپنے سے پہلے اوراپنے بعد آنے والی ثقافتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یقینًا اس کے مطابق ہر ثقافت کا اشیاء کو دیکھنے کا اپنا ایک مخصوص اور مختلف نقطہ نظر ہوتا ہے جو کوئی دوسری ثقافت رکھنے والا شخص سمجھ نہیں سکتا۔ اپنے اس دعوے کی تائید حاصل کرنے کی بے چینی میں اس نے مختلف طرح کے حقائق اور ان کی تعبیرات کا انبار لگا دیا ہے تاکہ ثابت کیاجا سکے کہ یورپی ثقافت کی روح کلاسیکی ثقافت کے خلاف تھی اور یہ کہ یورپی ثقافت کی کلاسیکیت کے منافی روح کا سبب یورپ کی اپنی مخصوص فطانت تھی نہ کہ کوئی ایسا تاثر جو اس نے ’اسلامی ثقافت‘ سے قبول کیا ہو جو اشپنگلر کے نقطہ نظر کے مطابق اپنی روح اور اپنے کردار میں مجوسی ہے۔ اشپنگلر کا جدید ثقافت کی روح کے بارے میں نقطہ نظر میرے نزدیک بالکل درست ہے۔ تاہم میں نے اپنے ان خطبات میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جدید دنیا کی کلاسیکیت کے خلاف روح کا ظہور حقیقتاً یونانی فکر سے اسلام کی عقلی بغاوت کا نتیجہ ہے۔ ۵۵؎ یہ بات واضح ہے کہ اشپنگلر کو یہ نقطہ نظر بالکل قبول نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ ثابت کرنا ممکن ہو کہ کلاسیکیت کی روح کے منافی جدید ثقافت کا احیا اس سے ماضی میں قریب تر ثقافت کا نتیجہ ہے تو ثقافتوں کی باہمی خود مختارانہ حیثیت کا اشپنگلر کا نقطہ نظر مکمل طور پر باطل ٹھہرے گا۔ میری رائے میں اشپنگلر کے اپنے موقف کو ثابت کرنے پر اصرار نے اسلام بحیثیت ایک ثقافتی تحریک کے بارے میں اس کی بصیرت کو بری طرح مسخ کر دیا۔ مجوسی ثقافت سے اشپنگلر کا مطلب وہ ثقافت ہے جو یہودیت‘ قدیم کلدانی مذہب‘ ابتدائی مسیحیت‘ زرتشت کے مذہب اور اسلام میں مشترک ہے جنہیں وہ مجوسی مذاہب کا گرویدہ قرار دیتا ہے۔ ۵۶؎ مجھے اس سے انکار نہیں کہ اسلام پر بھی مجوسیت کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ یقیناً ان خطبات سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ میں اسلام کی روح کو اس انداز نگاہ سے محفوظ کروں اور اس پر سے مجوسیت کی چادر کو اتار پھینکوں جس سے میری نظر میں اشپنگلر گمراہ ہوا۔ اس کی مسئلہ زمان پر مسلم فکر سے نا آشنائی اور اس طرح اُس ’’میں‘‘ سے لاعلمی جس میں تجربے کے ایک آزاد مرکز کی حیثیت سے اسلام کے مذہبی تجربے کا اظہار پایا جاتا ہے‘ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ۵۷؎ مسلم فکر اور تجربے سے روشنی حاصل کرنے کی بجائے وہ زمان کے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے استدلال کی بنیاد کسی ژولیدہ عقیدے پر رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ذرا ایک ایسے شخص کا تصور کیجئے جو نہایت پڑھا لکھا ہے ۵۸؎ لیکن اسلام کی مفروضہ تقدیر پرستی کی تائید میں ’’وقت کی گردش‘‘ اور ’’ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے‘‘ جیسی مشرقی ضرب الامثال اور کہاوتوں کا سہارا لیتا ہے! ۵۹؎ میں نے اسلام میں تصور زمان کی ابتدا اور اس کے ارتقا‘ اور ایک آزاد قوت رکھنے والی انسانی خودی کے بارے میں ان خطبات میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے بارے میں اشپنگلر کے نقطہ نظر اور اس سے جنم لینے والی ثقافت کا مکمل تجزیہ کرنے کے لیے ایک پوری کتاب چاہیے۔ تاہم جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں اضافہ کرتے ہوئے میں اس کی عمومی ماہیت کے بارے میں ایک اور اضافہ کرنا چاہوں گا۔ اشپنگلر کے کہنے کے مطابق نبی پاک ﷺ کی پیغمبرانہ تعلیمات اصلاً مجوسیانہ ہیں۔ خدا ایک ہے: اسے بے شک ’’یہواہ ‘‘ کہیں ’’آھور مزد‘‘ یا مردوک بعل۔ ۶۰؎ یہ نیکی یا خیر کا ایک اصول ہے۔ دوسرے تمام دیوتا یا تو بے بس ہیں یا شر ہیں۔ اسی عقیدے سے بذات خود مسیح کے آنے کی امید وابستہ ہے جو یسیعاہ میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے جو انسان کی باطنی ضرورت کے تحت اگلی کئی صدیوں میں ہر کہیں سامنے آتی رہی ہے۔ یہ مجوسی مذہب کا ایک بنیادی تصور ہے کیونکہ یہ نیکی اور بدی میں عالمگیر تاریخی آویزش کا تصور لیے ہوئے ہے جس کے تحت درمیانی عرصے میں بدی کی قوت حاوی رہتی ہے مگر بالآخر نیکی یوم حساب کو فتح یاب ہوگی۔ اگر پیغمبرانہ تعلیمات کا یہ نظریہ اسلام پر لاگو کیا جائے تو یہ ایک غلط فہمی ہوگی۔ جو نکتہ بنیادی طور پر ذہن میں رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجوسی جھوٹے خدائوں کے وجود کو بھی تسلیم کرتے تھے لیکن وہ ان کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ مگر اسلام ہر طرح کے جھوٹے خدائوں کے وجود کا منکر ہے۔ اس تناظر میں اشپنگلر اسلام کے ختم نبوت کے تصور کی ثقافتی قدر کا اندازہ کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجوسی ثقافت کا ایک مستقل نمایاں پہلو اُمیدکا رویہ بھی ہے‘ جس کے حوالے سے مستقل طور پر نظریں زرتشت کے ایسے بیٹوں کی آمد کی طرف لگی رہتی ہیں جو اس نے جنے نہیں۔ یہ مسیح یا چوتھی انجیل کا فارقلیط بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی نشاندہی کی ہے کہ اسلام کے طالب علم کو اسلام میں ختم نبوت کے عقیدے کے ثقافتی معنی کی تلاش کس سمت میں کرنی چاہیے۔ ممکن ہے عقیدہ ختم نبوت کی وساطت سے پیہم اُمید کے اُس مجوسی رویے کا نفسیاتی علاج بھی ہو سکے جس سے تاریخ کا ایک غلط تصور وجود میں آیا ہے۔ ابن خلدون نے اپنے تصور تاریخ کی روح کے پیش نظر اُس تصور کی نام نہاد قرآنی اساس پر بھرپور تنقید کی جو بنیادی مجوسی تصور سے ــ کم ازکم نفسیاتی اثرات کے حوالے سے ــ مشابہت رکھتا ہے۔ یہ مجوسی تصور مجوسی فکر کے دبائو کے تحت اسلام میں پھر سے نمودار ہوا۔ ۶۱؎ حاشیۂ مترجم (الف) قدوسی‘ اعجاز الحق ’’شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات‘ ناشر اکیڈیمی آف ایجوکیشنل ریسرچ کراچی‘ بار اوّل ۱۹۶۱ ص ۳۲۷‘ ۳۲۸ مرحوم سید نذیر نیازی نے اپنے ترجمے میں یہ الفاظ لکھے ہیں ’’محمد عربی بر فلک الافلاک رفت و باز آمد‘ واﷲ اگر من رفتمے ہر گز باز نیامدے‘‘ دراصل یہ الفاظ ممتاز صوفی ابو سلیمان الدارانی (متوفی ۲۱۵ھ) کے ہیں جو اس طرح ہیں ’’لو و صلوامارجعوا‘‘ خود سید نذیر نیازی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں حضرت گنگوہی کے اصل الفاظ نہیں ملے‘ انہوں نے انگریزی الفاظ کا فارسی میں محض ترجمہ کیا ہے۔ جبکہ اعجاز الحق نے محولہ بالا اصل الفاظ بھی درج کر دیئے ہیں۔ جن کا حضرت گنگوہی نے ابو سلیمان الدارانی کے محولہ بالا عربی الفاظ سے اکتساب کیا۔ (وحید عشرت) (۶) اسلام میں حرکت کا اُصول ’’ اجتہاد کی یہ آزادی کہ ہم اپنے شر عی قوانین کو فکر جدید کی روشنی اور تجربے کے مطابق ازسر نو تعمیر کریں بہت ناگزیر ہے‘‘ اقبالؒ اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کا ئنات کے ساکن ہونے کے قدیم تصور کو مسترد کرتاہے اور اس کے حرکی نظریے کو تسلیم کرتا ہے ۔ وحدت کے ایک جذباتی نظام کے طور پر یہ فرد کی اہمیت کا اعتراف کرتا ہے اور خونی رشتے کو انسانی وحدت کی اساس کے طور پر ردّ کرتا ہے۔ خونی رشتے کی پیوند زمین سے ہوتی ہے ۔ انسانی وحدت کی خالص نفسیاتی بنیاد کی تلاش اسی وقت ممکن جب ہم انسانی زندگی کے اپنی اصل میں روحانی ہونے کا ادراک حاصل کریں۔ ۱؎ یہ نئی وفا داریوں کا ایک ایسا تخلیقی ادراک ہو گا جسے باقی رکھنے کے لیے رسوم ورواج کی احتیاج نہیں۔اس سے انسان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو زمینی وابستگیوں سے آزاد کر لے۔ ابتدا میں عیسائیت رہبانی نظام کی صورت میں ظاہر ہوئی جسے قسطنطین نے وحدت کے نظام میں بدلنے کی سعی کی ۔ ۲؎ چونکہ ایسا نہ ہو سکا لہٰذا شہنشاہ جولین نے واپس روم کے پرانے دیوتائوں کی طرف رجوع کیا ۳؎ جن کی اس نے نئی فلسفیانہ تعبیرات کیں ۔ تہذیب وتمدن کے ایک جدید مورخ نے مہذب دنیا کی اْس صورت حال کا جو تاریخ کے اس سٹیج پر اسلام کے نمودار ہونے کے وقت تھی نقشہ اس طرح کھینچا ہے: یوں نظر آتا تھا کہ وہ عظیم تہذیب جس کی تعمیر میں چار ہزار برس لگے انتشار کے دھانے پر پہنچ گئی تھی اور انسانیت بربریت کی اس حالت کو واپس پہنچاہی چاہتی تھی جہاں ہر قبیلہ اور فرقہ ہر دوسرے قبیلے اور فرقے کے خون کا پیاسا تھا، جہاں نظم ونسق کو کوئی نہ جانتا تھا، پرانے قبائلی احکام اپنی قوت کھو کر بے اثر ہو چکے تھے۔ چنانچہ پرانے انداز حکمرانی اب بے سود اور غیر موثر تھے۔ عیسائیت کے نئے قواعد وضوابط اتحاد اور تنظیم پیدا کرنے کی بجائے تقسیم در تقسیم اور بربادی کا باعث بن چکے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب آشوب اور المیے کے سوا کچھ نہ تھا۔ تہذیب اس چھتنار درخت کی طرح زوال آمادہ تھی جو کبھی پوری دنیا پر چھایا ہوا تھا اور جس کی شاخیں فنون لطیفہ، سائنس اور ادب کے سنہری پھولوں سے لدی پھندی تھیں۔اس کا تنا عزت واحترام اور لگن کے رس کے بہہ جانے سے مردہ ہوچکا تھا۔اس کی جڑیں اندر سے گل سڑ چکی تھیں۔جنگ کے تھپیڑوں کی وجہ سے یہ تہذیب پارہ پارہ ہو چکی تھی۔اس کی زندگی پرانے قوانین اور رسومات کی ان رسیوں سے یکجا تھی جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی تھیں۔کیا کوئی ایسی جذبات پر مبنی ثقافت تھی جو یہاں پروان چڑھ سکے۔اور نوع انسانی کو دوبارہ کسی اتحاد میں منسلک کر سکے اور انسانی تہذیب کو تباہی سے بچا سکے ۔لازمی بات ہے کہ یہ ثقافت کسی نئی طرز کی ہونی چاہیے تھی کیونکہ پرانی حدود و رسومات مر چکی تھیں اور اس طرح کی متبادل حدودو رسومات کی تعمیر کے لیے صدیاں درکار تھیں۔ ۴؎ مصنف اس کے بعد ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دنیا کو ایک نئی ثقافت کی احتیاج تھی جو ملوکانہ ثقافت کی جگہ لے سکے اور اس نظام کی جگہ لے جہاں وحدت کے سارے نظامات خونی رشتوں پراستوار تھے۔وہ کہتا ہے کہ یہ بہت حیران کن بات تھی کہ ایسی ثقافت عربوں کے ہاں سے نمودار ہوئی اور وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ اس کی ضرورت بہت زیادہ تھی۔ تاہم اس میں تحیر کی کوئی بات نہیںکیونکہ روح عصر و ہبی طور پر اپنی ضرورتوں کو خود جان لیتی ہے اور انتہائی کڑے لمحات میں اپنی سمت کا خود تعین کرلیتی ہے ۔یہی وہ چیز ہے جسے ہم مذہب کی زبان میں پیغمبرانہ وحی کہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ اسلام نے انتہائی سادہ لوگوں کے شعور کو جلا بخشی جنہیں پرانی ثقافتوں میں سے کسی نے چھوا تک نہیںتھااور جغرافیائی طور پر ایک ایسے مقام سے تعلق رکھتے تھے جہاں تین براعظم آپس میںملتے ہیں۔نئی ثقافت نے دنیا کی وحدت کی بنیاد اُصول توحید میں دریافت کی۔ ۵؎ انسانیت کی عقلی اور جذباتی زندگی میں اسی اُصول کو زندہ قوت بنانے کے لیے اسلام بحیثیت نظام سیاست کے ایک عملی ذریعہ ہے ۔یہ کسی تخت و تاج کی بجائے خدا سے وفاداری کا طالب ہے اور خدا پر ہی زندگی کی تمام مطلق روحانی بنیادوں کا انحصار ہے۔ خدا سے وفاداری کا مطلب خود انسان کی مثالی فطرت سے وفاداری ہے ۔ جیسا کہ اسلام نے سمجھا ہے زندگی کی مطلق روحانی اساس ازلی ہے اور تغیر اور تنوع میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ ایک معاشرے کے اندر جو حقیقت مطلق کے اس تصور پر استوار ہوتا ہے سکون و ثبات کے دونوں عناصر میں باہم موافقت پائی جانی چاہیے۔ وہ لازمی طور پر کچھ ایسے ابدی اُصول رکھتا ہے جن پر وہ اپنی اجتماعی زندگی کو استوار کرتا ہے کیونکہ اس مسلسل تغیر پذیر دنیا میں نہ بدلنے والے اُصولوں کی وجہ سے ہمارے قدم جمے رہتے ہیں اوراکھڑنے نہیں پاتے ۔ لیکن ان ابدی اُصولوں میں سے ہم تغیر کے سارے امکانات کو ختم کر دیں گے جو قرآن کے مطابق خدا کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے تو اس سے ایک فطرتاً متحرک شے کوغیر متحرک بنانے کا رویہ سامنے آئے گا۔ یورپ کی سیاست اور سماجی علوم میںناکامی اس مقدم الذکر اُصول کے سبب ہے۔اور گذشتہ پانچ سو سالوں میں اسلام کی غیر حرکت پذیری موخرالذکر اُصول کے سبب ہے۔ اسلام میں حرکت کا اُصول کیا ہے ؟ اس کو عرف عام میں اجتہاد کہتے ہیں۔ اس لفظ کے لغوی معنی سعی و جہد کے ہیں۔ اسلامی قانون کی اصطلاح میں اس کا مطلب ایسی کوشش ہے جو ایک قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنے سے عبارت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تصور کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے: وہ جو ہماری طرف کوشش کریں گے ہم ان کو ان کا راستہ دکھائیں گے۔ نبی پاک ﷺکی ایک حدیث اس سلسلے میں ہمیں زیادہ واضح مفہوم دیتی ہے۔ ۶؎ جب جضرت معاذ ؓبن جبل کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ ان معاملات کا کس طرح فیصلہ کریں گے جو ان کے سامنے پیش ہوں گے۔ حضرت معاذ ؓنے عرض کیا کہ میں ان کے فیصلے کتاب اﷲ کے مطابق کروں گا۔ لیکن کتاب اللہ سے آپ کو کسی معاملے کے بارے میں رہنمائی نہ ملے تو کیا کریں گے؟ حضرت معاذ ؓنے جواب دیا تو پھر میں خدا کے رسول ﷺ کی سنت پر عمل کروں گا۔اوراگر وہاں سے بھی کچھ نہ ملا تو؟ حضرت معاذ ؓ نے کہا تو پھر میں خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ ۷؎ اسلامی تاریخ کا طالب علم یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کی جغرفیائی اور سیاسی وسعت کے ساتھ ساتھ ایک باضابطہ قانونی فکر (فقہ) کی ضرورت ناگزیر ہو گئی اور ہمارے اولین دور کے فقہا خواہ وہ عربی تھے یا غیر عربی انہوں نے لگا تار کوششیں کیں یہاں تک کہ فقہی افکار کا ایک ذخیرہ جمع ہو گیا جو ہمارے معروف مکاتب فقہ کی صورت میں سامنے آیا۔ان فقہی مکاتب فکر نے اجہتاد کی تین منازل یا مدارج کو تسلیم کیا ہے۔ ۱۔ قانون سازی کا مکمل اختیار،جو عملی طور پر آئمہ فقہ تک محدود سمجھا گیا۔ ۲۔ اضافی اختیار جس میں کسی مخصوص فقہ کے مکتب کے دائرہ کار میں رہ کر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ۳۔ خصوصی اختیار جس کا تعلق کسی مخصوص معاملہ سے ہے جوآئمہ فقہا کی طرف سے بیان ہونے سے رہ گیا ہو۔ اس مقالہ میں، میں نے اپنے آپ کو اجہتاد کے پہلے درجے تک محدو رکھاہے یعنی قانون سازی میں مکمل اختیار۔ ۸؎ اہل سنت نظری طور پر اس درجے کے اجہتاد کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں مگر عملی طور پر فقہ کے مکاتب فکر کے قیام کے بعد سے اس کی کبھی بھی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ اجہتاد کی کامل آزادی کو یوں مشروط کردیا گیا ہے کہ کسی فرد واحد کا ان شرائط کو پورا کرنا قریب قریب ناممکن ہے اس طرح کا رویہ ایک ایسے قانونی نظام کے پیش نظر عجیب لگتا ہے جس کا انحصار زیادہ تر قرآن پر ہو جو زندگی کے متحرک نقطہ نظر کو لازم گردانتا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے پیشتر بہت ضروری ہے کہ اس ذہنی روّیے کی وجوہات کو دریافت کیا جائے جس نے اسلامی قانون کو عملاً غیر متحرک کر دیا۔ بعض یورپی مصنفین کا خیال ہے کہ اسلامی قانون کے جمود کا سبب ترک ہیں۔ یہ بالکل ہی سرسری سا نقطہ نظر ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں فقہی مکاتب فکر ترکوں کے اثرات سے بہت پہلے مرتب ہو چکے تھے۔ میرے نقطہ نظرکے مطابق حقیقی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱- ہم سب اس عقلی تحریک سے اچھی طرح واقف ہیں جو عباسیوں کے ابتدائی ایام میں اسلامی الہیات میں ظاہر ہوئی اور ان تلخ اختلافی مباحث سے جنہیں اس تحریک نے جنم دیا۔ مثال کے طور پر ان اختلافی مباحث میں ایک بڑا مسئلہ قدم قرآن کے روائیتی عقیدے سے متعلق تھا۔عقلیت پسند قدم قرآن کا انکار کرتے رہے۔ اس لیے کہ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی عیسائیوں کے قدم کلام کے پرانے نظریے کی باز گشت ہے۔ دوسری طرف قدامت پسند مفکرین، جن کی عباسی خلفاء نے عقلیت پسندوں کے نظریات کے سیاسی مضمرات کے خوف سے مکمل حمایت کی، سوچتے تھے کہ عقلیت پسندوں کے قدم قرآن کے نظریے سے انکار کی وجہ سے مسلم معاشرے کی بنیادیں ہل کررہ جائیں گی۔ ۹؎ مثال کے طور پر نظام نے عملی طور پر احادیث کا انکار کر دیا تھا اور اس نے کھلم کھلا حضرت ابوہریرہؓ کو ناقابل اعتماد رادی حدیث قرار دے دیا تھا۔ ۱۰؎ چنانچہ جزوی طور پر عقلیت پسندوں کے حتمی مقاصد کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے اور جزوی طور پربعض عقلیت پسندوں کی بے مہارسوچ کی بنا پر قدامت پسند مفکرین اس تحریک کواسلام میں افتراق وانتشار کی تحریک گردانتے تھے اور اسے اسلام کے سیاسی اور سماجی استحکام کے منافی تصور کرتے تھے۔ ۱۱؎ ان کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی سماجی وحدت کو قائم رکھنا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ کھلا تھا اور وہ یہ کہ وہ شریعت کی مجتمع کرنے والی قوت کو باقی رکھنے پر زور دیں اور اسلام کے قانونی نظام کو جس قدربھی ممکن ہو سخت کر دیں ۲- مسلم تصوف میں ترک دنیا کے نظریے کا آغاز اور نشوونما بھی، جو آہستہ آہستہ غیر اسلامی عناصر کے زیر اثر پروان چڑھتا چلا گیا اور خالصتاً ایک فکری روّیے تک محدود ہو کر رہ گیا، بہت حد تک اس رحجان کا ذمہ دار ہے۔ خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے تصوف نے اسلام کے دور اوّل کے علماء کے لفظی تنازعات کے خلاف ایک قسم کی بغاوت کی ۔ اس سلسلے میں حضرت سفیان ثوری کی مثال دی جا سکتی ہے جو اپنے عہد کے ایک نہایت ژرف نگاہ قانون دان تھے اور ایک فقہی مکتب فکر کے قریباً بانی تھے۔ ۱۲؎ لیکن چونکہ وہ روحانیت میں بھی گہرا انہماک رکھتے تھے لہٰذا وہ اپنے عہد کے فقیہوں کی خشک اور بے کیف بحثوں کے سبب تصوف کی طرف زیادہ متوجہ ہو گئے۔اپنے غور وفکر کے رخ پر جو بعد میں زیادہ نمایاں ہوا تصوف ایک آزاد رو اور عقلیت سے مربوط رویہ بن گیا۔اس کے ظاہر وباطن میںتمیز پر اصرارنے ہر اس چیز سے بے توجہی کا رحجان پیدا کر دیا حس کا تعلق باطن سے نہیں بلکہ ظاہر سے ہے۔دنیا سے مکمل بے رخی کی کیفیت نے بعد کے صوفیا میں اس قدر غلبہ کیا کہ ان کی نظروں سے اسلام کے سماجی اور سیاسی پہلو اوجھل ہو گئے اور فکر و قیاس کی طرف رحجان کو ان کے ہاں اسقدر اہمیت حاصل ہوئی کہ اسلام کے بہترین دماغ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس میں جذب ہو گئے ۔ اس سے مسلم ریاست اوسط درجے کے اہل دانش کے ہاتھوں میں چلی گئی اور چونکہ مسلم عوام کو رہنمائی دینے والے اعلی سطح کے دماغ اور شخصیات کم یاب ہوگئے انہوں نے محض فقہی مکاتب کے اندھے مقلدبن جانے میں عافیت محسوس کی۔ ۱۳؎ ۳- ان وجوہ میں تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں مسلمانوںکی فکری زندگی کے مرکز بغدار کی تباہی سب سے بنیادی وجہ ہے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔تاتار کی یلغار کے زمانے کے تمام معاصر تاریخ دان صرف بغداد کی ہولناک تباہی کا ہی تذکرہ نہیں کرتے بلکہ وہ دھیمے لہجے میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں ۔مزید انتشاروافتراق کے خوف سے جس کا ایسے سیاسی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے قدامت پسند مسلم مفکرین نے اپنی تمام تر توجہ ایک ہی نکتہ پر مرکوز کر دی اور وہ یہ کہ دور اوّل کے علمائے اسلام کے تجویز کردہ قانون شریعت کو ہر قسم کے ترمیم و اضافے سے محفوظ قرار دیتے ہوئے عوام کی سماجی زندگی کی یک رنگی کو بچایا جائے ۔ سماجی نظم و ضبط ان کے پیش نظر تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جزوی طور پر وہ درست تھے کیونکہ تنظیم کسی حد تک تباہی کی قوتوں کا تدارک کرتی ہے۔ مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا اور نہ ہی ہمارے عہد کے علماء اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ عوام کے مقدر کا حتمی انحصار تنظیم پر اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ انفرادی شخصیات کی صلاحیت اور قوت پر ہوتا ہے۔ ایک ضرورت سے زیادہ منظم معاشرے میں فرد کی شخصیت مکمل طور پر کچلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہتا۔ وہ سماجی فکر کی دولت سے تو مالا مال ہو جاتا ہے مگر اس کی روح مرجھا جاتی ہے۔ لہٰذا گزری ہوئی تاریخ کا جھوٹا احترام اور اس کا مصنوعی احیا کسی قوم کے زوال کا علاج نہیں ہو سکتا۔تاریخ کا فیصلہ، جس طرح عصر جدید کا ایک مصنف شگفتہ انداز میں لکھتا ہے، یہ ہے کہ وہ فرسودہ تصورات جنہیں ایک قوم نے مسترد کر دیا ہو خود اس قوم کے اندر کبھی طاقت نہیں پکڑ سکتے۔کسی قوم میں انحطاط روکنے کے لیے ایسے افراد کی قوت ہی موثر ہو سکتی ہے جواپنے من میں ڈوب جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسے افراد ہی زندگی کو گہرے طور پر جان سکتے ہیں۔یہی لوگ ایسے نئے معیارات کا تعین کرتے ہیں جن کی روشنی میں ہم دیکھنا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا ماحول مکمل طور پر ناقابل تغیر نہیں اور یہ کہ اس کی تجدید نو کی ضرورت ہے ۔یہ رحجان کہ ماضی کی تعظیم کرتے ہوئے معاشرے کو کچھ زیادہ ہی منظم کر دیا جائے جیسا کہ تیرھویں صدی اور اس کے بعد مسلمان فقہانے کیا خود اسلام کے اپنے مزاج کے منافی ہے۔ نتیجۃً ابن تیمیہؒ کی فکر کی صورت میں اس کے خلاف شدید رد عمل ظاہر ہوا جو اسلام کے مبلغین اور نہایت سرگرم اہل قلم میں سے تھا۔وہ ۱۲۶۳ھ میں سقوط بغداد کے کوئی پانچ سال بعد پیدا ہوا۔ ابن تیمیہؒ حنبلی روایت میں پروان چڑھا۔ اپنے لیے آزادانہ اجتہاد کا دعوی کرتے ہوئے اس نے مکاتب فقہ کی قطعیت کے خلاف بغاوت کی اور اپنے اجتہاد کے آغاز کے لیے اسلام کے اوّلین اُصولوں کی طرف رجوع کیا۔ ظاہری مکتب فکر کے بانی ابن حزم کی طرح اس نے قیاس اور اجماع کے مطابق استدلال کرنے کے اُصول پر حنفی استدلال کو مسترد کر دیا ۱۴؎ جیسا کہ پرانے فقہا نے انہیں سمجھا ہوا تھا۔ کیونکہ اس کی فکر کے مطابق اجماع ہی تمام تر توہم پرستی کی بنیاد ہے ۔ ۱۵؎ جب ہم اس کے زمانے کی اخلاقی اور فکری صورت حال کو دیکھتے ہیں تو اس میںکوئی شک نہیں رہ جاتا کہ وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھا۔ ۱۶؎ سولہویں صدی میں جلال الدین سیوطی نے بھی اپنے لیے اجتہاد کے حق کا دعویٰ کیا اور اس میں اس خیال کا اضافہ کیا کہ ہر صدی کے آغاز میں ایک مجدد پیدا ہوتا ہے ۔ ۱۷؎ مگر ابن تیمیہ کی تعلیمات کا مکمل اظہار بے شمار امکانات رکھنے والی اٹھارویں صدی کی اس تحریک میں ہوا جو نجد کے صحرا سے شروع ہوئی جس کو میکڈونلڈ نے اسلام کے زوال پذیر دور کا سب سے روشن خطہ قرار دیا ہے ۔حقیقت میں بھی یہ جدید اسلام کی زندگی کی پہلی دھڑکن تھی ۔اس تحریک کی تعلیمات کے اثرات ایشیا اور افریقہ کی تمام بڑی اور جدید تحریکات میں بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر تلاش کئے جا سکتے ہیں مثلا سنوسی تحریک، پان اسلامک تحریک اور بابی تحریک جو عربی احتجاجیت کی عجمی صدائے بازگشت تھی۔ ۱۸؎ عظیم مصلح محمد بن عبدالوہاب ۱۷۰۰ء میں پیدا ہوا۔ مدینہ میں تعلیم حاصل کی ۱۹؎ ایران کا بھی سفر کیا اور بالآخر پورے عالم اسلامی میں اپنی روح میں دبی ہوئی آگ کو دہکانے میں کا میاب ہو گیا۔ وہ اپنی روح میں امام غزالی کے پیرو کار محمد بن تومرت کی طرح تھا ۲۰؎ بربر مصلح اسلام جو مسلم سپین کے زوال کے زمانے میں ظاہر ہوا اور اسے ایک نئے ولولے سے سرشار کیا ۔ تاہم ہمیں اس تحریک کے سیاسی کردار سے کوئی سروکار نہیں جو محمد علی پاشا کی فوجوں کے ہاتھو ں ختم ہو گیا۔ اس میں قابل توجہ بنیادی بات یہ ہے کہ غوروفکرکی آزادی اس کی بنیادی روح ہے اگرچہ اپنے اندرون میں یہ تحریک ایک قدامت پسندانہ مزاج رکھتی تھی ۔ اس نے مکاتب فقہ کی قطعیت کے خلاف بغاوت کو فروغ دیا اور شخصی حق استدلال پر بہت زور دیا۔ لیکن ماضی کی جانب اس کا رویہ تنقیدی نہیں تھا اور قانونی معاملات میں بھی زیادہ تر وہ احادیث نبویؐ کی طرف ہی دیکھنے کا رحجان رکھتے تھا۔ اب ترکی کی طرف نظر کیجئے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اجتہاد کا تصور جو جدید فلسفیانہ نظریات کے نتیجے میں زیادہ وسیع اور موثر طور پر پیش ہوا ہے ترک قوم کے سیاسی اور مذہبی افکار میں طویل عرصے سے زیر عمل تھا۔ یہ امر سعید حلیم ثابت کے پیش کردہ محمڈن قانون کے نئے نظریے سے بالکل واضح ہے جو جدید عمرانی تصورات پر مبنی ہے۔ اگر اسلام کی نشاۃ ثانیہ ایک حقیقت ہے۔ اور میرا ایمان ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے__ تو ہمیں بھی ایک نہ ایک دن ترکوں کی طرح اپنے فکری ورثے کی ازسر نو قدر متعین کرنا ہو گی۔اور اگر ہم اسلام کے عظیم فکر میں کوئی طبع زاد نیا اضافہ نہیں کر سکتے تو ہمیں صحت مند قدامت پسندانہ تنقید کے ذریعے کم از کم اتنی خدمت توکرنی چاہیے کہ ہم اسلامی دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی آزاد پسندی (لبرل ازم) کی تحریک کو روک سکیں۔ اب میں آپ کو ترکی میں مذہبی اور سیاسی فکر کے ارتقا کا کچھ تصور دیتا ہوں جس سے آپ پر ظاہر ہو گا کہ کس طرح اجتہاد کی قوت نے ملک میں سیاسی اور فکری سرگرمیوں کو متحرک کیا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ترکی میں فکر کے دو انداز تھے جن کی نمائندہ جماعتیں نیشنلسٹ پارٹی اور اصلاح مذہب پارٹی تھی ۔ نیشنلسٹ پارٹی کی تمام تر دلچسپی صرف ریاست سے تھی، مذہب سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔ان مفکرین کے مطابق مذہب کا اپنے طور پر الگ سے کوئی کردار نہیں۔قومی زندگی میں ریاست کا ہی بنیادی کردار ہے جو تمام دوسرے عناصر کے وظیفے اور ان کی نوعیت کا تعین کرتی ہے ۔چنانچہ وہ ریاست اور مذہب کے تعلق سے پرانے تمام تصورات کو ردّ کرتے ہوئے ان دونوں کی علیحدگی پر زور دیتے ہیں۔ اب مذہبی اور سیاسی نظام کی حیثیت سے اسلام کے بارے میں اس طرح کا نقطہ نظر قابل قبول ہو سکتاہے اگرچہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے کہ ریاست کا ادارہ زیادہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور یہ کہ یہ اسلامی نظام کے باقی تمام تصورات پر حاوی ہے ۔اسلام میں روحانی اور مادی دو الگ الگ خطے نہیں ہیں۔کسی عمل کی ماہیت جو بظاہر کتنی ہی سیکولرکیوں نہ ہو اس کا تعین عامل کے ذہنی روّیے سے ہوگا۔ ۲۱؎ ہر عمل کا ایک نظر نہ آنے والا ذہنی پس منظر ہوتا ہے جو بالآخر اس عمل کی ماہیت کا تعین کرتا ہے ۔ وہ عمل دنیوی شمار ہوگا جسے اس کے پس منظر میں زندگی کی لامتناہی کثرت سے الگ کر کے دیکھا جائے ۔ اگر اس پس منظر کا لحاظ رکھا جائے تو یہ روحانی ہو گا ۔اسلام میں حقیقت ایک ہی ہے: اگر اسے ایک نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مذہب ہے اور دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ریاست ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کلیسا اور ریاست ایک ہی چیز کے دو رخ یا حقیقتیں ہیں۔ اسلام ایک واحد ناقابل تقسیم حقیقت ہے جس کا مذہب یا ریاستی نظام ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کا اپنا نقطہ نظر کیا ہے۔ یہ نکتہ بہت دور رس ہے اور اسے مکمل طور پر بیان کرنا ہمیں اعلیٰ پیمانے کی فلسفیانہ بحث میں لے جائے گا ۔ یہاں صرف یہ کہنا کافی ہو گا کہ قدیم غلطی انسان کی وحدت کو دو علیحدہ اور مختلف حقیقتوں میں تقسیم کرنے سے پروان چڑھی جن میں ہم آہنگی کا ایک نقطہ بھی ہے مگر جو اپنی اصل میں ایک دوسرے سے متضاد اور متخالف ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمان و مکان کے حوالے سے مادہ بھی روح ہے۔وہ وحدت جسے آپ انسان کہتے ہیں وہ جسم ہے جب آپ اسے خارجی دنیا میں عمل پیرا دیکھتے ہیں اور وہ ذہن یا روح ہے جب آپ اسے اس عمل کے مقصد اور نصب العین کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ توحید کا جوہر اپنے عملی تصور میں مساوات، یک جہتی اور آزادی ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے ریاست ان اعلیٰ اُصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تبدیل کرنے کی جدو جہد سے عبارت ہے یعنی اسے ایک مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔ صرف اسی اکیلے مفہوم میں اسلام میں ریاست تھیوکریسی ہے: اس مفہوم میں ہر گز نہیں کہ ریاست کا سربراہ زمین پر خُدا کا کوئی نائب یا نمائندہ ہو گا جو اپنی مطلق العنان استبدادیت پر اپنی مفروضہ معصومیت کا پردہ ڈال دے۔اسلام کے نقادوں کو یہی اہم بات نظر نہیں آتی۔ قرآن کی رو سے حقیقت مطلقہ روحانی ہے اور اس کی زندگی زمانی فعلیت سے عبارت ہے۔ روح کو فطرت، مادیت اور دینوی اُمور میں ہی اپنے اظہار کے لیے مواقع ملتے ہیں۔ اس طرح یہ دنیاداری بھی اپنی ہستی کی اساس کے حوالے سے روحانی ٹھہرتی ہے۔ فکر جدید نے اسلام بلکہ درحقیقت تمام مذاہب کی جو خدمت کی ہے وہ اس تنقید کے حوالے سے ہے جو اس نے فطرتیت یا مادیت پر کی ہے یعنی یہ کہ نرا مادہ کوئی حقیقت نہیں جب تک ہم اس کی جڑوں کی روحانیت کو دریافت نہیں کر لیتے۔ نجس دنیا نام کی کوئی بھی چیز نہیں ۔ مادے کی یہ تمام بے کرانی روح کی خود آگاہی کی وسعت پر مشتمل ہے اورجو کچھ بھی ہے مقدس ہے ۔نبی پاک ﷺنے اس کو نہایت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے کہ یہ ساری زمین مسجد ہے۔ ۲۲؎ چنانچہ اسلام کے نزدیک ریاست انسانی تنظیم میں روحانیت کو بروئے عمل لانے کی ہی ایک کوشش ہے۔ مگر اس مفہوم میں کوئی بھی ریاست جس کی بنیاد محض غلبہ پر نہ ہو اور اس کا مقصد مثالی اُصولوں کو عملی جامہ پہناناہو وہ تھیاکر ٹیک (حکومت الہیہ)ہو گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ترکی کے قوم پرستوں نے کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا تصور یورپی سیاسی افکار کی تاریخ سے لیا ہے۔ ابتدائی مسیحیت ایک سیاسی اور تمدّنی وحدت کی بنیاد پر قائم نہیں تھی بلکہ ان کے ہاں دنیا کے ناپاک ہونے کے تصور پر قائم ایک راہبانہ نظام تھا جس میں تمدّنی معاملات کی کوئی گنجائش نہ تھی اور جس کے اندر تمام معاملات کے سلسلے میں عملی طور پر رومی حاکمیت کی اطاعت کی جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مسیحی دنیا میں ریاست وجود میںآئی تو ریاست اور کلیسا ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے جن کے درمیان اپنے اپنے اختیارات کی حدود کے تعین کا ناقابل اختتام تنازعہ تھا۔ اسلام میں اس طرح کی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام نے شروع میں ہی ایک تمدنی معاشرے کی تشکیل کر لی تھی جس کے لیے قرآن نے انتہائی سادہ شرعی اُصول دے دیے تھے جو رومیوں کی بارہ لوحوں کی طرح، جیساکہ تجربے نے بعد میں ثابت کیا، تعبیرات کے حوالے سے وسعت اور ارتقاء کے بے پناہ امکانات کے حامل تھے۔ چنانچہ نیشنلسٹوں کا ریاست کے بارے میں نظریہ گمراہ کن ہے جو ایک طرح کی ثنویت کی طرف لے جاتا ہے جو اسلام میں موجود نہیں۔ دوسری طرف اصلاح مذہب پارٹی ہے، جس کی قیادت سعید حلیم پاشا کر رہا ہے، جو اس بنیادی حقیقت پر اصرار کرتی ہے کہ اسلام میں تصوریت اور اثباتیت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور آزادی و حریت، مساوات اور سلامتی و یک جہتی کے متنوع ابدی تصورات کی وحدت کی حیثیت سے اس میں وطنیت کی گنجائش نہیں۔ ترکی کے وزیراعظم کے بقول چونکہ انگریزی ریاضیات، جرمن فلکیات اور فرانسیسی کیمیا کا کوئی تصور نہیں لہٰذا ترک، عرب، عجمی یا ہندی اسلام بھی نہیں ہو سکتا ۔ جس طرح سائنسی حقائق کا عالمگیر کردار مختلف النوع سائنسی حقائق اور قومی ثقافتیں پیدا کرتا ہے جو اپنی کلیت میں نوع انسانی کے علم کی نمائندہ ہیں بالکل اسی طرح اسلام بھی اپنے عالمگیر کردار میں مختلف النوع قومی، اخلاقی اور سماجی نصب العین معرض وجود میں لاتا ہے۔ جدید ثقافت جو قومی انا پرستی کے اُصول پراپنی بنیاد اٹھاتی ہے اس گہری نظر رکھنے والے مصنف کے مطابق بربریت کی ہی ایک دوسری صورت ہے۔ یہ حد سے بڑھی ہوئی صنعتیت کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی بنیادی جبلتوں اور میلانوں کی تسکین کرتا ہے۔ تاہم وہ افسردگی سے کہتاہے کہ تاریخ کے عمل کے دوران میں اسلام کے اخلاقی اور عمرانی آدرش مقامی نوعیت کے اثرات اور مسلم اقوام کے قبل اسلامی توہمات کی وجہ سے رفتہ رفتہ غیراسلامیت کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ آج ہمارے آدرش اسلامی ہونے کی بجائے ایرانی، ترکی اور عربی بن کر رہ گئے ہیں۔ توحید کے اُصول کی شفاف پیشانی شرک کے دھبوں سے کم وبیش آلودہ ہوگئی ہے اور اسلام کے اخلاقی آدرشوں کا عالمگیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے۔ ہمارے سامنے اب صرف ایک ہی راہ کھلی ہے کہ ہم اسلام کے اوپر جمے ہوئے کھرنڈ کو کھرچ ڈالیں جس نے زندگی کے بارے میں اساسی طور پر حرکی نقطہ نظر کو غیر متحرک کردیا ہے اور یوں ہم اسلام کی حریت، مساوات اور یک جہتی کی اصل صداقتوں کو باردگردریافت کرلیں۔اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ اس میں صداقتوں کی اصل سادگی اورعالمگیریت کی بنیاد پر ہم اپنے اخلاقی، سماجی اور سیاسی نصب العینوں کی دوبارہ تعمیر کر سکیں۔یہ ترکی کے وزیراعظم کے تصورات ہیں۔آپ دیکھیں گے کہ فکر کی جس راہ کو اس نے اپنایا ہے، وہ اپنے آہنگ میں اسلام کی روح کے مطابق ہے۔ وہ بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے جس پر نیشنلسٹ پارٹی پہنچی ہے ۔یعنی اجتہاد کی آزادی تاکہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدید اور تجربے کی روشنی میں ازسر تعمیرکر سکیں۔ آئیے اب دیکھیں کہ قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجہتاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔اہل سنت کے قوانین (فقہ)کی رو سے امام یا خلیفہ کا تقرر قطعاً ناگزیر ہے۔اس سلسلے میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خلافت فرد واحد تک محدود رہنی چاہیے ۔ترکوں کے اجہتاد کی روسے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یاامامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے ۔جہاں تک میں جانتا ہوں برصغیر پاک وہند اور مصر کے علمائے اسلام اس مسئلے پر ابھی تک خاموش ہیں ۔ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف یہ کہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ یہ عالم اسلام میں ابھرنے والی نئی طاقتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔ ترکوں کے اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے آئیے ابن خلدون سے رہنمائی حاصل کریں جو تاریخ اسلام کا پہلا تاریخ دان فلسفی ہے۔ اپنے مشہور مقدمہ میں ابن خلدون نے اسلام میں عالمی خلافت کے تصور کے بارے میں تین واضح نقطہ ہائے نظر پیش کئے ہیں۔ ۲۳؎ ۱- عالمی امامت ایک الوہی ادارہ ہے۔لہٰذا اس کا وجود ناگزیرہے۔ ۲- یہ مصلحت زمانہ کی پیداوار ہے۔ ۳- اس ادارے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت ہی نہیں۔ آخری نقطہ نظر خوارج نے اپنایا تھا- ۲۴؎ کچھ یوں نظر آتا ہے کہ ترک پہلے نقطے سے دوسرے نقطہ پر آ گئے ہیں جو معتزلہ کا نقطہ نظر تھا جو عالمی امامت کومحض مصلحت زمانہ تصورکرتے تھے۔ ترکوں کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی افکار میں اپنے ماضی کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے جو بغیر کسی شک و شبہ کے ہمیں بتاتا ہے کہ عالمی امامت کا تصور عملی طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ یہ تصور اس وقت قابل عمل تھا جب مسلمانوں کی سلطنت متحد تھی۔ جونہی یہ سلطنت بکھری تو خود مختار سیاسی حکومتیں وجود میں آ گئیں۔ یہ تصور اب اپنی عملی افادیت کھو بیٹھا ہے اور جدید اسلام کی تنظیم میں ایک زندہ عنصر کی حیثیت نہیں رکھتا ۔ چہ جائیکہ یہ کسی مفید مقصد کے لیے کارگر ہو یہ آزاد مسلم مملکتوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔ ایران خلافت سے متعلق اپنے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ترکوں سے الگ تھلگ کھڑا ہے۔ مراکش نے بھی ان سے بے توجہی کا رویہ رکھا ہے اور عرب اپنی ذاتی خواہشوں کا اسیر رہا ہے۔ یہ سب دراڑیں اسلام کی محض ایک علامتی قوت کے لیے ہیں جو عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے۔ استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیںکہ کیوں نہ ہم اپنی سیاسی سوچ کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ کیا قریشیوں کے سیاسی زوال کے باعث اور عالم اسلام پر حکمرانی کی اہلیت کے فقدان کے تجربے کے پیش نظر قاضی ابوبکر باقلانی نے خلیفہ کے لیے قرشیت کی شرط کو ساقط نہیں کر دیا تھا؟ کئی صدیاں قبل ابن خلدون جو ذاتی طور پر خلافت کے لیے قرشیت کی شرط کا قائل تھا نے بھی اسی انداز میں استدلال کیا تھا۔ اس نے کہا کہ چونکہ قریش کی طاقت ختم ہو چکی ہے اس کا متبادل اس کے علاوہ کوئی نہیں کہ کسی طاقتور انسان کو اس ملک میں امام بنا لیا جائے جہاں اس کو قوت حاصل ہو۔ یوں ابن خلدون حقائق کی درشت منطق کو سمجھتے ہوئے وہ نقطہ نظر پیش کرتا ہے جسے آج کے بین الاقوامی اسلام کے حوالے سے بصیرت کی پہلی مدہم سی جھلک کہا جا سکتا ہے۔ یہی جدید ترکوں کا روّیہ ہے جس کی بنیاد تحربی حقائق پر ہے نہ کہ ان فقہا کے مدرسی استدلال پر جن کی زندگی اور فکرکا تعلق ہم سے ایک مختلف زمانے سے تھا۔ میرے خیال کے مطابق یہ دلائل، اگر ان کا درست طور پر ادراک کیا جائے، ایک بین الاقوامی نصب العین کی آفرینش کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے جو اگرچہ اسلام کا اصل جوہر ہے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں عرب ملوکیت نے اسے پس پشت ڈال دیا تھا یا دبا رکھا تھا۔ یہ نیا نصب العین ممتاز نیشنلسٹ شاعر ضیا کے کلام میں صاف طور پر جھلکتا ہے جس نے آگسٹ کومت کے فلسفے سے جلا پاکر جدید ترکی کے موجودہ افکار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں یہاں اس کی ایک نظم کا خلاصہ پروفیسر فشر کے جرمن ترجمے سے پیش کرتا ہوں: ’’اسلام کی حقیقی طور پر مؤثر سیاسی وحدت کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ممالک خود آزادی حاصل کر لیں۔ تب اپنی مجموعی صورت میں وہ اپنے آپ کو ایک خلیفہ کے تحت لے آئیں۔ کیا یہ چیز موجودہ حالات میں ممکن ہے؟۔اگر آج نہیں توپھر لازماً انتظار کرنا ہوگا۔دریں اثنا چاہیے کہ خلیفہ خود اپنی اصلاح احوال کرلے اور ایک قابل عمل جدید ریاست کی بنیاد رکھے۔ بین الاقوامی دنیا میں کمزوروں سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں صرف طاقتور کو ہی احترام حاصل ہے۔‘‘ ۲۵؎ ان سطور سے جدید اسلام کے رحجانات واضح طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میںگہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتی کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوجائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچّا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کومشترک روحانی اُمنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت بلکہ ایک مجلس اقوام ہے ۲۶؎ جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کردیا جائے۔ اسی شاعر کی نظم مذہب اور سائنس سے مندرجہ ذیل اقتباس عام مذہبی نقطہ نظر پر جو آج کی دنیائے اسلام میں آہستہ آہستہ اپنی صورت گری کے عمل میں ہے مزید روشنی ڈالتا ہوا دکھائی دیتا ہے: نوع انسانی کے اوّلین روحانی قائد کون تھے۔ بلا کسی شک وشبہ کے وہ پیغمبر اور مقدس لوگ تھے۔ ہر دور میں مذہب نے فلسفے کی رہنمائی کی ہے۔ صرف اسی سے اخلاقیات اور فن نے روشنی پائی ہے۔ مگر پھر مذہب کمزور ہو جاتا ہے اور اپنا حقیقی ولولہ اور جوش کھو دیتا ہے۔ پاک باز لوگ ختم ہو جاتے ہیںاور روحانی سربراہی برائے نام حد تک ورثے میں فقبیوں کو مل جاتی ہے۔فقہا کے نمایاں رہنما ستارے بھی روایات ہوتی ہیںجو مذہب کو بالجبر اپنی راہ پر لگا دیتی ہیں۔ مگر فلسفہ کہتا ہے کہ میرا رہنما ستارہ عقل واستدلال ہے ۔ تم دائیں جانب چلو گے، تو میں بائیں جانب چلوںگا۔ مذہب اور فلسفہ دونوں انسانی روح کی فلاح کے دعوے دار ہیں اور دونوں اسے اپنی اپنی سمت میں کھینچتے ہیں۔ جب تگ و دو جاری ہوتی ہے تو تجربے کے بطن سے مثبت سائنس جنم لیتی ہے۔ افکار کا یہ تازہ دم قائد کہتا ہے کہ روایات تاریخ ہیں اور استدلال تاریخ کا منہاج ہے۔ دونوںکسی غیر متعینہ شے تک پہنچنے کے لیے تعبیرات کرتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں۔مگر جس شے تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟ کیا وہ روحانیت سے معمور دل ہے۔اگر وہ ایسا ہے تو میرے قطعی الفاظ یہ ہیں مذہب ایک مثبت سائنس ہے جس کا مقصد انسان کے دل کو روحانیت سے لبریز کرنا ہے‘‘ ۲۷؎ ان سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس خوبصورتی سے شاعر انسان کے عقلی ارتقا کی تین منازل سے متعلق کومت کے خیال کو اسلام کے مذہبی فکر پر منطبق کرتا ہے یعنی الہیاتی، مابعد الطبیعیاتی اور سائنسی۔ مذہب کے بارے میں شاعر کے نقطہ نظر کا ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے روّیے سے ترکی کے نظام تعلیم میں عربی کی حیثیت کیا متعین ہوتی ہے ۔وہ کہتا ہے۔ ’’وہ سر زمین جہاں نماز کے لیے اذان ترکی زبان میں گونجتی ہے جہاں نماز پڑھنے والے اپنے مذہب کے مفہوم کو بھی سمجھتے نہیں، وہ سر زمین جہاں قرآن ترکی زبان میں پڑھا جاتا ہے، جہاں چھوٹے اور بڑے سب خدا کے احکام کو مکمل طور پر سمجھ لیتے ہیں، اے ترکی کے سپوتو! یہ سر زمین تمہارے اجداد کی زمین ہے۔‘‘ ۲۸؎ اگر مذہب کا مقصد دل کو روحانیت سے لبریز کرنا ہے تو اسے لازمی طور پر انسان کی روح میں گھر کرنا چاہیے۔شاعر کے خیال کے مطابق یہ انسان کے باطن میں تبھی اتر سکتا ہے جب روحانی تصورات اس کی مادری زبان میں بیان کیے جائیں۔ برصغیر میں اکثر مسلمان عربی کی جگہ ترکی کی تبدیلی پر معترض ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر جن کا ذکر بعد میں آئے گا اجتہاد کے بارے میں شاعر کا یہ اجتہاد قابل اعتراض ہے۔ مگریہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جن اصلاحات کی اس نے سفارش کی ہے اس کی مثالیں اسلام کی ماضی کی تاریخ میں ناپید نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب محمد بن تومرت نے جو اسلامی اندلس کا مہدی کہلاتا تھا اور جو قومیت کے اعتبار سے بربر تھا اقتدار میں آیا اور موحدین کی حکومت قائم کرلی تو اس نے ان پڑھ بربروں کی خاطر حکم دے دیا تھا کہ قرآن کا بربر زبان میں ترجمہ کر لیا جائے اور بربر زبان میں ہی اسے پڑھا جائے، اذان بھی بربر زبان میں دی جایا کرے ۲۹؎ اور تمام مذہبی اداروںکے سربراہ بربر زبان سے آگاہی حاصل کریں۔ ایک دوسرے بند میں شاعر عورتوں کے بارے میں اپنے تصورات پیش کرتا ہے عورتوں اور مردوں کی برابری کے ضمن میں وہ اسلام کے عائلی قوانین میں فوری تبدیلی کا خواہاں تھاجس طرح کا وہ اس کے عہد میں مروج تھے۔ ’’عورت___جو میری ماں’بہن یا میری بیٹی ہے’یہی ہے جو میری زندگی کی گہرائیوں سے میرے نہایت پاکیزہ جذبات کو پکارتی ہے۔وہ میری محبوبہ بھی ہے وہ میرا سورج ’میرا چاند اور میراستارہ ہے۔ وہ مجھے زندگی کی شعریت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔خداکے مقدس احکام اس خوبصورت مخلوق کو کس طرح ایک قابل نفرت ہستی گردان سکتے ہیں۔یقینا علما سے قرآن کی تشریح و تعبیر میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ ۳۰؎ قوم اور ریاست کی بنیاد خاندان ہے۔ جب تک عورت کی صلاحتیں مکمل طور پر سامنے نہیں آتیں۔ قومی زندگی اُدھوری رہے گی۔ خاندان کی نشونما لازماً انصاف کے اُصولوں پر ہونی چاہیے۔لہٰذا تین امور میں مساوات نہایت ضروری ہے۔ طلاق میں ،علیحدگی میں اور وراثت میں۔جب تک وراثت میں عورت مرد کا نصف شمار کی جائے گی اور حق ازدواج میں مرد کی ایک چوتھائی سے نہ تو خاندان کو اور نہ ملک کو توقیر ملے گی ۔آخر ہم نے دوسرے حقوق کے لئے بھی تو انصاف کی قومی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ان کے برعکس خاندان کو ہم نے مکاتب فقہ کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے ۔میں بالکل نہیں جانتا کہ ہم نے عورت کو اس طرح بے یارومددگار کیوں چھوڑ رکھا ہے۔کیا وہ وطن کی خدمت بجا نہیں لاتی یا وہ اپنی سوئی کو کسی ایسے تیز دھار خنجر میں تبدیل کر لے جس سے وہ انقلاب برپا کرتے ہوئے ہمارے ہاتھو ں سے اپنے حقوق خود چھین لے۔‘‘ ۳۱؎ سچ تو یہ ہے کہ آج کی مسلمان اقوام میں سے صرف ترکی نے ہی عقیدہ پرستی کی خفتگی کو توڑا ہے اور خود آگاہی حاصل کی ہے ۔صرف ترک قوم نے فکری آزادی کے حق کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف اسی نے تخیل سے حقیقت پسندی کی طرف قدم بڑھایا ہے ۔ایک ایسا اقدام جو شدید فکری اور اخلاقی جدوجہد کا مقتضی ہے ۔متحرک اور وسعت پذیر زندگی کی پیچیدگیاں یقینا انہیں نئے حالات کے بارے میں نئے نئے نقطہ ہائے نظر سے آشنا کرتی رہیں گی اور وہ ان اُصولوں کی نوع بنوع تعبیرات کی ضرورت کا احساس کرتے رہیں گے جن میں ان لوگوں کی دلچسپی ابھی تک محض علمی سطح کی ہے جنہوں نے وسعت روحانی کی مسرت کا تجربہ ابھی تک حاصل نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ انگریز مفکر تھا مس ہابس تھا جس نے یہ گہرا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک جیسے افکار اور احساسات کا تواتر،احساسات اور افکار کے یکسر عدم و جود کی طرف دلالت کرتا ہے۔آج کے اکثر مسلم ممالک کی بھی تقریباً یہی حالت ہے ۔وہ میکانکی انداز میں پرانی اقدار سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ ترک نئی اقدار تخلیق کر رہے ہیں۔وہ عظیم تجربات سے گزرے ہیں جو ان کے اندرون ذات کو ان پر منکشف کر رہا ہے۔ان کے ہاں زندگی نے جو حرکت شروع کر دی ہے۔وہ تغیر پذیر اور وسعت پذیر ہے اور نئی خواہشو ں کو جنم دے رہی ہے۔اس سے نئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کے حل کی نئی تدابیر اور نئی تعبیرات سامنے آرہی ہیں۔جو سوال آج انہیں درپیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقیناً اس کا جواب اثبات میں ہو گا بشرطیکہ ہم اس سوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمرؓ کے ہاں ملتی ہے ، جو اسلام میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنہوں نے پیغمبر اسلام ﷺکی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی: خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے ۔ ۳۲؎ ہم جدید اسلام میں حریت فکر اور آزاد خیالی کی تحریک کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں،مگر اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلام میں آزاد خیالی کا ظہور تاریخ اسلام کا ایک نازک لمحہ بھی ہے۔ لبرل ازم میں یہ رحجان موجود ہوتا ہے کہ یہ انتشار کی قوتوں کو فروغ دے۔اور نسلیت کا تصور بھی جو پہلے سے کہیں زیادہ ایک قوت بن کر جدید اسلام میں ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے ممکن ہے کہ بالآخر اس وسیع تر انسانی نقطہ نظرکو معدوم کر دے جو مسلم قوم نے اپنے دین سے حاصل کیا ہے۔ مزید اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی مصلح لبرل ازم کے نہ رکنے والے جوش میں اصلاحات کی مناسب حدود کو بھی پارکر جائیں۔ آج ہم بھی اس دور سے گزر رہے ہیں جس دور سے یورپ میں پروٹسٹنٹ انقلابی گزرے تھے اور مارٹن لوتھرکی اس تحریک کے عروج اور نتائج میں ہمارے لیے جو سبق ہے اس سے ہمیں نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ تاریخ کے ایک محتاط مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اصلاح کلیسا اپنی اصل میں ایک سیاسی تحریک تھی اور اس کا قطعی انجام یورپ میں یہ ہوا کہ قومی اخلاقیات نے آہستہ اہستہ مسیحیت کی عالمگیراخلاقیات کی جگہ لے لی۔ ۳۳؎ ہم یورپ کی جنگ عظیم اوّل میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں جوان دونوں متصادم نظامات میں مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے انہیں دوناقابل برداشت انتہاؤں پر لے گئی۔ اب یہ دنیائے اسلام کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ یورپ میں جو کچھ ہواہے اس کے حقیقی معنی سے آگاہی حاصل کریں اور ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور نظام مدنیت اسلام کے مقاصد کا پورا ادراک رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ میں نے آپ کے سامنے اسلام کے دور جدید میں اجہتاد کی تاریخ اور اس کے طریق کار سے متعلق کچھ تصورات پیش کئے ہیں۔ اب میں اس طرف آتاہوں کہ کیا اسلامی قانون کی تاریخ اور اس کا ڈھانچہ ایسے امکانات کا جواز پیش کرتے ہیں کہ اسلام کے اُصولوں کی تازہ تعبیرات کی جا سکیں۔ دوسرے الفاظ میں، جو سوال میں اُٹھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی فقہ میں ارتقا کی کوئی صلاحیت موجود ہے۔ جرمنی کی بون یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر ہارٹن نے اسلامی فلسفے اور الہٰیات کے حوالے سے بالکل اسی قسم کا سوال اٹھایا ہے۔ مسلمان مفکرین کے خالصتاً مذہبی افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اسلامی تاریخ کی یوں تشریح کی جاسکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ قوتوں یعنی ایک طرف آریائی علم وثقافت اور دوسری طرف سامی مذہب کے درمیان بتدریج تواُفق، ہم آہنگی اور تعاون سے عبارت ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے مذہبی زاویہ نگاہ کو اس ثقافت کے اجزائے ترکیبی سے ہم آہنگ رکھا ہے جو اس کے اِرد گِرد پھیلے ہوئے لوگوں میں موجود رہے ہیں۔ پروفیسر ہارٹن کے بقول آٹھ سو سے گیارہ سو عیسوی تک مسلم الہٰیات کے کم از کم ایک سو نظام ہائے فکر مسلمانوں میں پیدا ہوئے ۔یہ حقیقت اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ اسلامی فکر میں لچک کی گنجائش موجود ہے اور یہ کہ ہمارے ابتدائی مفکرین بھی انتھک لگن سے کام کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسلم فکر اور ادبیات کے عمیق مطالعے کے انکشافات سے یہ یورپی مستشرق جو اس وقت زندہ ہے (اقبال کے زمانے کی بات ہے ) مندرجہ ذیل نتیجے تک پہنچا: اسلام کی روح اس قدر وسیع ہے کہ عملی طور پر اس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ لادینی افکار کے استثنیٰ کے ساتھ یہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے تمام قابل قبول افکار کو جذب کر لیتی ہے اور پھر انہیں ارتقا کی اپنی ایک مخصوص جہت دیتی ہے اسلام کی جذب وقبول کی صلاحیت کا قانون کے دائرے میں زیادہ واضح اظہار ہوا ہے۔ اسلام کا ایک ولندیزی نقاد پروفیسر ہرگرونژے کہتا ہے: جب ہم محمڈن لا (اسلامی قانون ) کے ارتقا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو ہر عہد کے فقہا معمولی سے معمولی بات پر ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہوئے تکفیر کر دیتے ہیں اور دوسری طرف وہی لوگ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اسلاف فقہا کے اسی قسم کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یورپ کے جدید نقادوں کے ان نقطہ ہائے نظر سے بالکل واضح ہے کہ ہمارے فقہا کے قدامت پسندانہ روّیے کے باوجود نئی زندگی کی طرف رجوع کرنے کے ساتھ ہی اسلام کی باطنی ہمہ گیری اپنے آپ کو منوا کر رہے گی۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے وسیع فقہی ادب کے گہرے مطالعے سے جدید نقاد اپنی سطحی رائے سے یقیناً نجات پالیں گے کہ اسلام کا قانون ساکن ہے اور ارتقا کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ بدقسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام ابھی تک فقہ پر تنقیدی بحث کے لیے تیار نہیں۔اگر یہ بحث چھڑ جائے تو زیادہ تر عوام کی ناراضی کا باعث بنے گی اور اس سے فرقہ وارانہ تنازعات جنم لیں گے۔ تاہم اس وقت میں آپ کے سامنے اس موضوع پر کچھ اہم نکات پیش کروں گا۔ ۱- سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ابتدائی دور سے لے کر عباسیہ کے عہد تک سوائے قرآن حکیم کے اسلام کا کوئی لکھا ہوا قانون عملاً موجود نہ تھا۔ ۲- دوسرے یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پہلی صدی کے نصف سے لیکر چوتھی صدی ہجری کے آغاز تک اسلام میں فقہ وقانون کے کم از کم انیس مکاتب کا ظہور ہوا۔ صرف یہی حقیقت یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ تہذیب و تمدن کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ہمارے دور اوّل کے فقہا کس طرح کام کرتے تھے۔ ۳۴؎ فتوحات کی توسیع کے ساتھ ساتھ نتیجۃً اسلام کے نقطہ نظر میں بھی وسعت آگئی۔ چنانچہ اوّلیں فقہا کو وسعت نظر سے چیزوں کو لینا پڑتا تھا اور مقامی لوگوں کی زندگی کے حالات اور ان نئے لوگوں کی عادات کا بھی مطالعہ کرنا پڑتا تھا جو دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ معاصر سماجی اور سیاسی تاریخ کی روشنی میں فقہ کے مختلف مکاتب کے محتاط مطالعے سے یہ امرمترشح ہوتا ہے کہ وہ تعبیر وتاویل کی کوششوں میں رفتہ رفتہ استخراجی روّیے کی بجائے استقرائی روّیہ اختیار کرتے چلے گئے۔ ۳۵؎ ۳۔جب ہم اسلامی قانون کے چار تسلیم شدہ مآخذ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے مسلم فقہی مکاتب فکر کا مفروضہ جمود اور مزید اجہتاد کے امکانات اور ارتقا کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے۔ آئیے یہاں ان مآخذ فقہ اسلامی کا مختصر سا جائزہ لیں۔ الف۔ قرآن حکیم- قرآن حکیم اسلامی قانون کا سب سے بنیادی ماخذ ہے۔ تاہم قرآن حکیم قانون کا کوئی ضابطہ نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، خدا اور کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق کا اعلیٰ شعور بیدار کرنا ہے۔ ۳۶؎ اس میں شک نہیں کہ قرآن نے چند عام بنیادی اُصولوں اور قانونی نوعیت کے قواعد کا ذکر کیا ہے، بالخصوص جن کا تعلق خاندان سے ہے جس پر بالآخر سماجی زندگی کی اساس ہے۔ مگر یہ قوانین وحی کا حصہ کیوں بنے، جبکہ اس کا مقصد اولیٰ انسان کی اعلیٰ ترین زندگی کی تعمیر ہے۔اس سوال کا جواب عیسائیت کی تاریخ نے دے دیا ہے جس کا ظہور یہودیت کی قانون پرستی کے خلاف ایک مضبوط ردّعمل کے طور پر ہوا۔ دنیا سے بے رغبتی کو اپنا آئیڈیل بنا کر یہ بلاشبہ زندگی کو روحانی بنانے میں تو کامیاب ہو گئی مگر اس کی انفرادیت پسندی سماجی تعلقات کی پیچیدگیوں میں کہیں بھی روحانی اقدار کی موجودگی کا ادراک نہ کرسکی۔ ۳۷؎ نومین اپنی کتاب ’’مذہبی مکتوب ‘‘ میں قدیم عیسائیت کے بارے میں رقم طراز ہے کہ اس نے ریاست کے قانون، تنظیم اور پیداوار سے متعلق کسی قسم کی اقدار وابستہ نہیں کیں۔ یہ انسانی معاشرے کے حالات کو درخور اعتنا بالکل نہیں سمجھتی۔ اس سے نومین یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں یا توریاست کے بغیر رہنے کی جرأت اپنانا ہوگی اور یوں ہمیں جان بوجھ کر خود کو انار کی کے حوالے کرنا ہوگا یا ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا اپنے مذہبی عقائد سے الگ کچھ سیاسی عقائد بھی اپنا لئے جائیں ۔۳۸؎ چنانچہ قرآن یہ ضروری سمجھتا ہے کہ مذہب اور ریاست، اخلاقیات اور سیاسیات کو وحی سے ملا کر رکھے جس طرح افلاطون نے اپنی کتاب ’جمہوریہ‘ میں کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو نکتہ سب سے زیادہ ذہن نشین رکھنے کے قابل ہے وہ قرآن کے زاویہ نگاہ کا حرکی ہونا ہے۔ میں اس کے مآخذ اور تاریخ پر پہلے ہی سیر حاصل بحث کر چکا ہوں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اس قسم کا نقطہ نظر رکھنے والی اسلام کی مقدس کتاب ارتقاکے تصورکے خلاف نہیں ہو سکتی۔ واحد چیز جو ہمیں نہیں بھولنی چاہیے وہ یہ کہ زندگی محض تغیر نہیں۔ اس کے اندر تحفظ اور ثبات کے عناصر بھی موجود ہیں۔جب انسان اپنی تخلیقی سرگرمیوں سے بہرہ یاب ہورہا ہوتاہے اور اپنی توانائیاں زندگی کے نت نئے مناظر کی دریافت میں صرف کر رہا ہوتا ہے تو خود اپنی دریافت کے اس عمل میں بے چینی محسوس کرتاہے۔ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماضی کی طرف لازمی طور پر مڑ کر دیکھتا ہے۔ وہ اپنی باطنی وسعتوںکا سامنا کرتے ہوئے کسی قدر خوف محسوس کرتا ہے ۔ آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انسان کی روح ان قوتوں کا دباؤ محسوس کرتی ہے جو اس کے مخالف سمت میں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ اس حقیقت کو بیان کرنے کا دوسرا انداز ہے کہ زندگی اپنے ہی ماضی کے دباؤ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور یہ کہ سماجی زندگی کے کسی بھی نظریے کی رو سے قدامت پسندی کی قوتوں کی قدر اور ان کے عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کی بنیادی تعلیمات کی اسی بصیرت کی روشنی میں جدید عقلیت کو ہمارے موجودہ اداروں کا جائزہ لینا چاہیے۔کوئی بھی قوم اپنے ماضي کو یکسر فراموش نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ماضی ہی ہے جو انہیں ذاتی شناخت دیتا ہے۔ اور اسلامی طرز کے معاشرے میں پرانے اداروں کو از سرنو مرتب کرنے کا مسئلہ اور بھی زیادہ نازک ہے۔ اس سلسلے میں ایک مصلح کی ذمہ داری نہایت سنجیدہ ہے۔ اسلام اپنی ساخت اور کردار میں علاقائیت پسند نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کے ذریعے متحارب نسلوں کے باہمی اشتراک سے انسانیت کا ایک حتمی، کامل اور مثالی نمونہ پیش کرے اور پھر ان مجموعہ توانائیوں کو ایک ایسی قوم میں تحویل کر دے جس کا اپنا شعور ذا ت ہو۔ اس کام کی تکمیل کوئی آسان بات نہیں تھی۔ پھر بھی اسلام نے ان اداروں کے ذریعے جن کی تاسیس میں بڑی حکمت سے کام لیا گیا تھا کافی حد تک کامیابی سے اپنے مختلف خصائل رکھنے والے عوام میں ایک اجتماعی ارادہ اور شعور پیدا کردیا ہے۔ ایسے سماج کے ارتقاء میں، حتیٰ کہ کھانے پینے کے سماجی طور پر بے ضرر قواعد میں بھی، حلال و حرام کا غیر متبدل ہونا بھی بجائے خود ایک زندگی بخش قدر ہے کیونکہ یہ معاشرے کو مخصوص داخلیت سے بہرہ مند کرتی ہے۔ مزید برآں یہ داخلی اور خارجی ہم آہنگی پیدا کرکے ان قوتوں کی مزاحمت کرتی ہیں جو مختلف خصائل کے مخلوط معاشرے میں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے نقادوں کو چاہیے کہ تنقید سے پہلے وہ اسلام میں وجود پذیر ہونے والے اس سماجی تجربے کی اہمیت کے بارے میں ایک واضح بصیرت حاصل کر لیں ۔ ان کی ساخت پر غور کرتے ہوئے انہیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان سے اِس یا اُس ملک کو کیا فائدے حاصل ہوں گے بلکہ انہیں ان وسیع مقاصد کے حوالے سے دیکھیں جو بطور کل نوع انسانی کی زندگی میں بتدریج کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اب قرآن کے قانونی اُصولوں کے بنیادی ڈھانچے کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ بالکل واضح ہے کہ ان میں انسانی فکر اور قانون سازی کے عمل کی گنجائش کا نہ ہونا تو ایک طرف ان میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ از خود انسانی فکرکو بر انگیخت کرتے ہیں۔ ہمارے ابتدائی دور کے فقہا نے زیادہ تر اسی ڈھانچے سے رشتہ قائم کرتے ہوئے مختلف نظام و ضع کئے۔ اور تاریخ اسلام کے طلباء بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سماجی اور سیاسی قوت کے طور پر اسلام کی نصف کے قریب فتوحات انہی فقہا کی قانونی ذہانت کا نتیجہ تھیں ۔وان کریمر کہتا ہے کہ رومنوں کے بعد سوائے عربوں کے دنیا کی کوئی قوم یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کا قانونی نظام اسقدر احتیاط کے ساتھ بنا ہے۔ مگر آخر کار اپنی تمام تر جامعیت کے باوجود یہ فقہی نظام انفرادی تعبیرات پر ہی تو مشتمل ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ہر طرح سے حتمی اور قطعی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ علمائے اسلام مکاتب فقہ اسلامی کو حتمی گردانتے ہیں، اگرچہ انہوں نے نظری طور پر مکمل اجہتاد کے امکان سے کبھی انکار بھی نہیںکیا۔ میں نے وہ تمام وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو میری رائے میں اجہتاد کے بارے میں علما کے اس روّیے کا باعث بنیں۔ لیکن اب چونکہ صورت حال بدل چکی ہے اور عالم اسلام کو ان نئی قوتوں کی طرف سے آج نئے مسائل و حوادث کا سامنا ہے جو انسانی فکر کے ہمہ جہت اور غیر معمولی ارتقا کی آفریدہ ہیں لہٰذا مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس طرح کا رویہ اپنائے رکھیں۔کیا ہمارے آئمہ فقہ نے اپنے استدلال اور تعبیرات کے لئے قطعیت کا کبھی کوئی دعویٰ کیا تھا؟ بالکل نہیں۔ موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلام کے بنیادی اُصولوں کی ازسرنو تعبیرات ہونی چاہئیں میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے خود اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر نسل کو اپنے اجداد کی رہنمائی میں انہیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔ میرے خیال میں یہاں آپ مجھے ترک شاعر ضیا گو کلپ کی طرف متوجہ کریں گے جس کا اوپر میں نے حوالہ دیا ہے اور پوچھیں گے کہ کیا عورتوں اور مردوں کی برابری کا مطالبہ جو وہ طلاق، خلع اور وراثت کے حوالے سے کرتا ہے اسلام کے عائلی نظام میں ممکن ہے ؟ میں بالکل نہیں جانتا کہ آیا ترکی میں عورتوں کی بیداری نے واقعۃً ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس سے بنیادی اُصولوں کی نئی تعبیرات کے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوا جا سکتا۔ پنجاب میں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کچھ ایسے واقعات ضرور رونما ہوئے ہیں جن میں مسلمان خواتین کو اپنے ناپسندیدہ خاوندوں سے جان چھڑانے کے لیے ارتداد کی راہ اختیار کرنا پڑی ۔ ۳۹؎ اسلام جیسے تبلیغی مذہب کے لیے اپنے مقصد سے دوری کی اس سے زیادہ بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔ اندلس کا عظیم فقیہہ امام شاطبی اپنی کتاب ’’الموافقات‘‘ میں لکھتا ہے کہ اسلامی قانون کا مدعا پانچ چیزوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دین، عقل، نفس، مال اور نسل ۔ ۴۰؎ اس معیار کو اپناتے ہوئے میں پوچھنا چاہوں گا کہ فقہ کی معروف کتاب ’’ہدایہ‘‘ میں ارتداد سے متعلق جو اُصول بیان کیے گئے ہیں کیا وہ اس ملک میں دین کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ۴۱؎ برصغیر کے مسلمانوں کی سخت ترین قدامت پسندی کے پیش نظر برصغیر کے جج صاحبان فقہ کی معروف کتابوں تک ہی خود کو محدود رکھنے پر مجبور ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ تو بدل رہے ہیں لیکن قانون جامد اور ساکن نظر آتا ہے۔ ترک شاعر کے مطالبات کے حوالے سے میں سمجھتا ہو ں کہ اسے اسلام کے عائلی قوانین کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں اور نہ ہی وہ قرآن کے قانون وراثت کی معاشی معنویت کو سمجھتا ہے۔ ۴۲؎ اسلامی قانون کی رو سے شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ ۴۳؎ بیوی اپنی شادی کے موقع پر یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ طلاق کا حق کچھ بیان کردہ شرائط پر اپنے پاس بھی رکھے اور یوں اپنے خاوند کے ساتھ حق طلاق کا مساوی درجہ حاصل کرلے۔وراثت کے قانون میں اس شاعر کی مجوزہ اصلاحات غلط فہمی پر مبنی ہیں۔وراثت کے حق میں قانونی حصوں میں عدم مساوات سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ اس میں عورت پر مرد کو کوئی فوقیت دی گئی ہے کیونکہ ایسا مفروضہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔قرآن حکیم کا فرمان ہے : وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِِ (۲۲۸:۲) اور عورتو ں کے مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں۔ وراثت میں بیٹی کاحق کسی کمتر حیثیت کی وجہ سے متعین نہیں کیا گیا بلکہ اس کے معاشی مواقع اور اس سماجی تشکیل میں اس کے مقام کے پیش نظر مقرر ہوا ہے جس کا وہ لازمی حصہ ہے۔ علاوہ ازیں شاعر کے خود اپنے نظریہ سماج کے حوالے سے بھی وراثت کے اُصول کو تقسیم دولت سے الگ تھلگ جزو کے طور پر نہیں لینا چاہیے، بلکہ ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والے مختلف اجزا میں سے ایک کی حیثیت میں لینا چاہیے۔ مسلم قانون کے مطابق بیٹی کو اس کی شادی کے موقع پر باپ اور خاوند کی طرف سے ملنے والی جائیداد کا مکمل مالک تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے مہرکی رقم چاہے، وہ معجل ہو یا غیر معجل، اپنے تصرف میں رکھنے کا حق حاصل ہے اور اس سلسلے میں وہ اس وقت تک اپنے شوہر کی پوری جائیداد پر قبضہ رکھ سکتی ہے جب تک اسے اس کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ ان مراعات کے ساتھ ساتھ بیوی کے تمام عمر کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس کے خاوند پر ہے۔ اب اگر آپ اس نقطہ نظر سے وراثت کے اُصول کو دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ بیٹیوںاور بیٹوں کی معاشی صورت حال کے بارے میں مادی طور پر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وراثت کے اُصول میں بیٹے اور بیٹی کے قانونی حصوں میں بظاہر نظر آنے والی عدم مساوات میں ہی ترک شاعر کی طرف سے طلب کی جانے والی مساوات کی وجہ جواز ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ وراثت کے ان اُصولوں پر، جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اورجنہیں وان کریمراسلامی قانون کی نہایت اُچھوتی شاخ گردانتا ہے، مسلم قانون دانوں کی مکمل توجہ نہیں پڑی، حالانکہ وہ اس کے پوری طرح حقدار تھے۔ ۴۴؎ جدید سماج کی تلخ ترین طبقاتی کشمکش کے پیش نظر ہمیں سوچنا چاہیے۔ جدید معاشی زندگی میں ناگزیر انقلاب کے پیش نظر اگر ہم اپنے قوانین کا مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ ہم بنیادی اُصولوں کے ایسے پہلو دریافت کر لیں جو ابھی تک منکشف نہیں ہوئے اور جن کی تفصیلات کے ادراک سے ان اُصولوں کی حکمت پر ہمارا ایمان پختہ ہو جائے۔ (ب) حدیث___اسلامی قانون کا دوسرا بڑا ماخذ۔ رسول پاک ﷺکی احادیث ہیں جو قدیم اور جدید دونوں زمانوں میں مباحث کا ایک بڑا موضوع رہی ہیں ۔جدید نقادوں میں سے پروفیسر گولڈ زہیر نے انہیں تاریخی تنقید کے جدید اُصولوں کی روشنی میں تحقیقی تجزیے کا موضوع بنایا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ تمام ساقط الاعتبار ہیں۔ ۴۵؎ ایک اور یورپی مصنف احادیث کی صحت کے تعین کے سلسلے میں مسلمان حکماء کے طریق کار کا تجزیہ کرنے کے بعد اور نظریاتی اعتبار سے غلطی کے امکانات کی نشاندہی کرنے کے بعد مندرجہ ذیل نتیجے پر پہنچا ہے: نتیجے کے طور پر یہ کہا جانا چاہیے کہ زیر غور مباحث محض نظری امکانات کو پیش کرتے ہیں اور یہ سوال کہ کیوں اور کیسے یہ امکانات واقعی حقائق بنے یہ عموماً اس سے متعلق ہے کہ موجود صورت حال نے کس حد تک انہیں یہ ترغیب دی کہ ان امکانات کواستعمال میں لایا جائے۔بے شک مقابلتاً ایسے امکانات بہت کم تھے جنہوں نے سنت کے بہت ہی محدو دحصے پر اثر ڈالا۔ لہٰذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مسلمانوں میں احادیث کے جو مجموعے قابل اعتبار گردانے گئے وہ مسلمانوں کے عروج اور ابتدائی نشووارتقا کے صحیح ریکارڈ پر مبنی ہیں ۔ (محمڈن تھیوریز آف فنانس) ۴۶؎ تاہم جہاں تک ہمارے موجودہ مقاصد کا تعلق ہے ہمیں خالصتاً قانونی اہمیت کی حامل احادیث کو ان احادیث سے الگ متشخص کرنا ہوگا جو قانونی اہمیت کی مالک نہیں ۔اوّل الذکر کے حوالے سے یہ اہم سوال اُبھرتا ہے کہ وہ کہاں تک عرب کی قبل ازاسلام روایات پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض کو جوں کا توں رکھا گیا اور بعض کو پیغمبر اسلام ﷺ نے تبدیلی کے بعد باقی رکھا۔ یہ دریافت بہت مشکل ہے، کیونکہ احادیث کے اوّلین لکھنے والے قبل اسلام کی روایات کو ہمیشہ بیان نہیں کرتے اور نہ ہی یہ دریافت کرنا ممکن ہے کہ جن رسوم ورواج کو آنحضرت ﷺ کی صریح یا خاموش منظوری حاصل تھی کیا وہ اپنے اطلاق میں عالمگیر ہیں۔ اس نکتے پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی بصیرت افروز بحث کی ہے ۔میں یہاں ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ پیش کرتا ہوں: پیغمبر کا منہاج تعلیم یہ ہے کہ جو قانون یا شریعت بطور پیغمبر ان پر نازل ہوتی ہیٗ وہ خصوصی طور پر ان لوگوں کی عادات ٗ طور طریقوں اور ان کی شخصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھیجی جاتی ہے جن میں کہ وہ پیغمبر مبعوث کیا جاتاہے ۔وہ پیغمبر جن کا مقصد و مدعا یہ ہوتاہے کہ وہ ہمہ گیر اُصولوں کی تبلیغ کریںوہ نہ تو مختلف اقوام کے لیے مختلف اُصولوں کو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اُصولوں کی دریافت کا کام خود ان پر چھوڑدیتے ہیں ۔ان کا منہاج یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص قوم کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں عالمگیر شریعت کی تعمیر کے لیے مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ ان اُصولوں پر زور دینے کی تاکید کرتے ہیں جو تمام نوع انسانی کی سماجی زندگی میں کار فرما ہوتے ہیں اور ان اُصولوں کا اطلاق ان کے سامنے فوری طور پر موجود لوگوں کی مخصوص عادات و اطوار کی روشنی میں ٹھوس معاملات پر کرتے ہیں۔ ان شرعی اقدار(احکام)کو جوان کے عہد سے مخصوص لوگوں پر اطلاق کے نتیجے میں (خاص طور پر وہ اُصول جن کا تعلق جرائم کی سزاؤں سے ہے) وضع ہوتے ہیں ایک لحاظ سے انہی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور چونکہ ان کا نفاذ مقصود بالذات نہیں ہوتا ان کا آئندہ نسلوں کے معاملات میں سختی سے نفاذ نہیں ہو سکتا۔ ۴۷؎ شاید اسی نقطہ نظر سے امام ابو حنیفہ نے جو اسلام کے عالمگیر کردارکے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے عملی طور پر احادیث کو استعمال نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے استحسان کے اُصول کو متعارف کرایا یعنی فقیہانہ ترجیح جس سے قانونی فکر میں حقیقی یا اصلی صورت حال کے محتاط مطالعے کی ضرورت سامنے آئی۔ اس سے ان محرکات پر مزید روشنی پڑتی ہے جن سے اسلامی فقہ کے اس ماخذ کے بارے میں ان کے روّیے کا تعین ہوتا ہے ۔عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے احادیث کا اس لیے استعمال نہیں کیا تھا کہ ان کے عہد تک احادیث کا کوئی مجموعہ موجود نہ تھا۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ بالکل درست نہیں کہ ان کے عہد میں احادیث کا کوئی مجموعہ موجود نہ تھا کیونکہ ان کی وفات سے کم از کم تیس سال پہلے تک امام مالک اور امام زہری کے مجموعے وجود میں آچکے تھے۔ اور اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ ان تک ان کی رسائی نہیں تھی یا یہ کہ ان میں قانونی اھمیت کی احادیث نہیں تھیں تو بھی امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک اور امام احمد بن حنبل کی طرح خود بھی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب کر سکتے تھے بشرطیکہ وہ اسے اپنے لیے ضروری خیال کرتے۔ مجموعی طور پر میرے خیال میں اس وقت امام ابو حنیفہ کا احادیث کے حوالے سے روّیہ نہایت مناسب تھا۔اب اگر جدید لبرل سوچ رکھنے والے ان احادیث کو بغیر سوچے سمجھے قانون کے مآخذ کے طور پر لینے کے لیے تیار نہیں تو وہ اسلامی قانون کے سنی مکتب فکر کے ایک بہت بڑے نمائندے کی پیروی کررہے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ محدثین نے قانون میں مجردفکر کے رحجان کے خلاف ٹھوس واقعات کی قدر پراصرار کرکے اسلامی قانون کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔اور اگر احادیث کے ذخیرۂ ادب کا بڑی عقلمندی سے مزید مطالعہ کیا جائے اور اس روح کو سامنے لایا جائے جس کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ نے وحی کی تشریح کی تو اس سے فقہی اُصولوں کی ان اقدار حیات کے مطالعہ میں مدد ملے گی جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ان اقدار حیات پر مکمل عبورہی ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم اپنی جدوجہد بنیادی اُصولوں کی نئی تعبیروتشریح کے لیے کریں۔ (ج) اجماع___اسلامی قانون کا تیسرا ماخذ اجماع ہے جو میری نظر میں شاید اسلام کا سب سے بنیادی قانونی نظریہ ہے۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ یہ اہم نظریہ اوائل اسلام میں علمی مباحث میں تو شامل رہا مگر عملاً وہ محض ایک تصور کی سطح پر ہی رہا۔ یہ کسی بھی اسلامی ملک میں ایک مستقل ادارے کے طور پر متشکل نہیں ہوا۔غالباً اس کی وجہ چوتھے خلیفہ راشد کے فوراً بعد اسلام میں پرورش پانے والی مطلق العنان ملوکیت تھی جس کے سیاسی مفادات اس مستقل قانونی ادارے سے ہم آہنگ نہیں تھے۔میرا خیال ہے کہ یہ اموی اور عباسی خلفا کے ز یادہ مفاد میں تھا کہ وہ اجہتاد کے اختیار کو انفرادی طور پر مجہتدین کے پاس رہنے دیتے بجائے اس کے وہ کسی مستقل اسمبلی کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اسمبلی ان سے بھی زیادہ طاقت ور ہوجاتی۔ تاہم یہ نہایت اطمینان کی بات ہے کہ آج عالمی دباؤ ڈالنے والی قومیں اور یورپی اقوام کے سیاسی تجربات اسلام کے جدید ذہن پر اجماع کے نظریے کے امکانات اور اس کی قدروقیمت کو واضح کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں جمہوری روح کے پروان چڑھنے اور قانون ساز اسمبلیوں کی تشکیل سے اس سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے پیش نظر اجتہاد کے اختیارکے انفرادی نمائندہ فقہی مکاتب سے مسلم قانون سازاسمبلیوں کو منتقلی ہی اجماع کی وہ واحد صورت ہے جو عصر حاضر میں ممکن ہے۔ اس سے عام آدمی کا قانونی مباحث میں حصہ لینے کا حق بھی محفوظ ہو گا، جو ان مباحث میں گہری بصیرت رکھتا ہے ۔صرف اس طریقے سے ہم اپنے قانونی نظام میں روح حیات کو بیدار کر سکتے ہیں اور اسے ایک ارتقائی صورت دے سکتے ہیں۔تاہم برصغیر میں مشکلات ابھرنے کا امکان موجود ہے کیونکہ وہاں یہ بات غیر یقینی ہو گی کہ آیا ایک غیر مسلم قانون ساز اسمبلی اجتہاد کی طاقت کو استعمال کر سکتی ہے یا نہیں۔ تاہم اجماع کے حوالے سے ایک دو سوال ایسے ہیں جنہیں اٹھانا چاہیے اور جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔کیا اجماع قرآن کی تنسیخ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماع کے سامنے ایسا سوال اُٹھانا غیر ضروری ہے۔تاہم میں اس کو اس وجہ سے ضروری خیال کرتا ہوں کیونکہ کولمبیا یونیورسٹی سے شائع ہونے والی کتاب ’’ مسلمانوں کے معاشی نظریات‘‘ (محمڈن تھیوریز آف فنانس)میں ایک یورپی نقاد نے ایک نہایت غلط فہمی پیدا کرنے والا بیان دیا ہے۔اس کتاب کا مصنف کسی سند کا حوالہ دیئے بغیر کہتا ہے کہ کچھ حنبلی اور معتزلی مصنفین کے مطابق اجماع قرآن کا ناسخ ہو سکتا ہے۔ ۴۸؎ ا سلام کے فقہی ادب میں اس دعویٰ کا کوئی معمولی جواز بھی موجود نہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ کا کوئی قول بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ مصنف ناسخ کے لفظ سے گمراہ ہوا ہے جو ہمارے ابتدائی دور کے فقہا کی تحریروں میں موجود ہے اور جس کی طرف امام شاطبی نے اپنی کتاب ’’الموافقات ‘‘جلد نمبر ۳ص۶۵پراشارہ کیا ہے۔جب یہ لفظ اجماع صحابہ کے مباحث کے حوالے سے استعمال ہو گا تو اس کا مفہوم قرآن کے کسی قانون کے اطلاق میں توسیع یا تحدید ہو گا: اس سے کسی قانون کی تنسیخ یا اس سے کسی دوسرے قانون سے تبدیل کرنے کا اختیار مراد نہیں ہو گا۔اس توسیع و تحدید کے عمل کے لئے بھی یہ ضروری ہے، جیسا کہ ایک شافعی فقہیہ آمدی، جس کا انتقال ساتویں صدی کے وسط میں ہوا تھا اور جس کا کام حال ہی میں مصر سے شائع ہوا ہے، نے ہمیں بتایا ہے کہ صحابہ جواز کے طور پر کوئی شرعی حکم رکھتے ہوں۔ ۴۹؎ اب فرض کریں کہ صحابہ کرامؓ کسی نکتے کے بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو مزید سوال یہ پیدا ہو گا کیا آنے والی نسلیں اس فیصلے کی پابند ہیں ۔امام شوکانی نے اس نقطے پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور اس سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کے خیالات کے حوالے دیئے ہیں۔ ۵۰؎ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں حقیقت الامر سے فیصلے اور کسی قانونی نوعیت کے فیصلے کے مابین امتیاز کیا جانا ضروری ہے۔ جہاں تک اوّل الذکر کا تعلق ہے مثال کے طور پر جب یہ سوال اٹھا کہ کیا دو چھوٹی سورتیں جنہیں معوذتین کہا جاتا ہے ۵۱؎ قرآن کا حصہ ہیں یا نہیں تو صحابہ کرامؓ نے متفقہ فیصلہ کر دیا کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں تو ہم ان کے فیصلے کے پابند ہیں: لازمی بات ہے کہ صرف صحابہ ہی اس پوزیشن میں تھے کہ اس سلسلے میں امر واقعہ کو جان سکیں۔ موخرالذکر معاملے میں مسئلہ صرف تعبیروتشریح کا ہے ۔معروف کرخی کی سند پر میرا خیال ہے کہ بعد کی نسلیں صحابہ کرامؓ کے فیصلہ کی پابند نہیں ہیں۔امام کرخی کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی سنت کے ہم ان معاملات میں پابند ہیں جو قیاس سے واضح نہیں ۔ مگر ہم ان معاملات میں جو قیاس سے طے ہو سکتے ہیں صحابہ عظام ؓ کی سنت کے پابند نہیں ہیں۔ ۵۲؎ جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ (قانون) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی ان غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم سے کم کر سکتے ہیں ۔ایران کے ۱۹۰۶ء کے آئین میں علماء کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی جنہیں امور دنیا کے بارے میں بھی مناسب علم ہو اور جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظامات غالباً ایران کے نظریہ قانون کے حوالے سے ناگزیر تھے۔ اس نظریے کے مطابق بادشاہ مملکت کا محض رکھوالا ہے جس کا وارث درحقیقت امام غائب ہے ۔علما امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو معاشرے کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ جاننے میں ناکام ہوں کہ امامت کے سلسلے کی عدم موجودگی میں علماء امام کی نیابت کے دعوے دار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایرانیوں کا نظریہ قانون کچھ بھی ہو، یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ تاہم اگر سنی ممالک بھی یہ طریق اپنانے کی کوشش کریں تو یہ انتظام عارضی ہونا چائیے۔ ۵۳؎ علما ء مسلم مجلس قانون ساز کے طاقتور حصے کی حیثیت سے قانون سے متعلقہ سوالات پر آزادانہ بحث میں مدد گار اور رہنما ہو سکتے ہیں۔غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اس میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔ د- قیاس___فقہ کی چوتھی بنیاد قیاس ہے۔ یعنی قانون سازی میں مماثلتوں کی بنیاد پر استدلال۔اسلام کے مفتوحہ ممالک میں موجود مختلف عمرانی اور زرعی حالات کے پیش نظر امام ابو حنیفہ کے مکتب فکر نے یہ دیکھا کہ عمومی طور پر حدیثوں کے سرمایے میں جو نظائر ریکارڈ ہوئے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں یا ان سے مناسب رہنمائی میسر نہیں تو ان کے سامنے صرف یہی متبادل راہ تھی کہ وہ عقلی یا تمثیلی استدلال کو اپنی تعبیرات میں استعمال کریں ۔ تاہم ارسطوی منطق کا اطلاق، اگرچہ عراق میں نئے حالات کے پیش نظر ناگزیر معلوم ہوتا تھا، قانونی ارتقا کے ابتدائی دور میں نہایت نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ زندگی کے تہ در تہ کردار کو ایسے لگے بندھے قوانین کے تحت نہیں لایا جا سکتا جو بعض عمومی تصورات سے منطقی طور پر استخراج کئے گئے ہوں ۔اگر ہم ارسطو کی منطق کے حوالے سے دیکھیں تو زندگی داخلی طور پر حرکت پذیر ہونے کی بجائے خالصتاً ایک سادہ میکانکیت دکھائی دے گی۔ لہٰذا امام ابو حنیفہ کے مکتب فقہ نے زندگی کی تخلیقی آزادی اور آزادانہ روش کو نظر انداز کر دیا جس کی اساس یہ اُمید تھی کہ خالصتاً استدلال کی بنیاد پر منطقی طور پر ایک جامع اور مکمل قانونی نظام وضع کیا جائے۔ تاہم حجاز کے فقہا نے اپنی عملی فطانت کی بنیاد پر جو انہیں نسلی طور پر ودیعت ہوئی تھی عراق کے فقہا کی مدرسی موشگافیوں اور غیر واقعی معاملوں پر تخیلاتی عبارت آرائی کی ذہنیت کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلندکی جن کے بارے میں وہ درست طور پر سمجھتے تھے کہ یوں ایسے اسلامی قوانین بن جائیں گے جو بے روح میکانکیت سے عبارت ہوں گے ۔تلخ تنقیدی مباحث اولین دور کے فقہائے اسلام کو قیاس کی تعریف متعین کرنے اور اس کی حدود ‘ شرائط اور صحت کے تنقیدی مباحث کی طرف لے گئے۔ ۵۴؎ گرچہ ابتدائی طور پر قیاس کا طریق کارمجتہد کی ذاتی رائے (اجتہاد) کا ہی دوسرا نام تھا ۵۵؎ مگر بالآخر یہ اسلامی قانون کے لیے زندگی اور حرکت کا باعث بن گیا۔ امام ابو حنیفہ کے اُصول قیاس بطور ماخذ قانون پر امام مالک اورامام شافعی کی سخت تنقید کی روح‘ واقعہ کی نسبت خیال اور ٹھوس کی نسبت مجرد کی طرف آریائی رحجان کے خلاف موثر سامی مزاحمت ہے۔ در حقیقت یہ منطق استخراجی اور منطق استقرائی کے حامیوں کے درمیان قانونی تحقیق کے طریق کار کی بحث ہے۔ عراقی فقہا بنیادی طور پر نظریے اور تصور کی دوامیت پر زور دیتے تھے جبکہ اہل حجاز اس کے زمانی پہلو پر زیادہ زور دیتے تھے۔تاہم موخرالذکر خود اپنے نقطہ نظر کی اہمیت سے ناآشنا رہے اور حجاز کی قانونی روایت کی طرف ان کی جبلی جانبداری نے ان کی بصیرت کو ان نظائر تک محدود کر دیا جو دراصل پیغمبر اسلامﷺ اور ان کے اصحابؓ کے ہاں رونما ہوئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ٹھوس کی اہمیت سے آگاہ تھے مگر ساتھ ہی انہوں نے اسے دوامیت کی طرف لے جانا چاہا اور انہوں نے ٹھوس کے مطالعے کی بنیاد پر قیاس سے شاید ہی کبھی کام لیا۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے مکتب فقہ پر ان کی تنقید نے ٹھوس کی اہمیت بحال کردی، اور یوں وہ قانونی اُصولوں کی تعبیر کے دوران زندگی کے تنوع اور اس کی حقیقی حرکت کے مشاہدے کی ضرورت کو سامنے لائے ۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ کے مکتب فقہ نے ان اختلافی مباحث کو اپنے اندر سموتے ہوئے بھی خود کو اپنے بنیادی اُصولوں میں مکمل طور پر آزاد رکھا اور یہ کسی بھی دوسرے مسلم فقہی مکتب کے مقابلے میں ہر قسم کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے زیادہ تخلیقی قوت کا حامل ہے ۔مگر اپنے ہی مکتب فقہ کی روح کے برعکس عصر حاضر کے حنفی فقہا نے اپنے بانی یا ان کے فوراً بعد کے فقہا (غالباً مراد امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ ہیں) کی تعبیرات و تشریحات کواسی طرح دوامی تصور کر لیا جس طرح امام ابو حنیفہؒ کے اوّلین نقادوں (مراد امام مالکؒ اور امام شافعیؒ ) نے ٹھوس معاملات کے بارے میں دیئے گئے‘ اپنے فیصلوں کو قطعی اور دوامی بنا لیا تھا۔ اگر صحیح طور پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو حنفی مکتب فقہ کا یہ بنیادی اُصول یعنی قیاس‘جسے شافعیؒ نے درست طور پر اجتہاد ہی کا دوسرا نام کہا ہے ‘قرآنی تعلیمات کی حدود کے اندر مکمل طور پر آزاد ہے ۔اور بطور اُصول اس کی اہمیت اس حقیقت سے عیاں ہے کہ متعدد فقہا کے نزدیک جیسا کہ حضرت امام قاضی شو کانی ہمیں بتاتے ہیں خود حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی اس کی اجازت تھی۔ ۵۶؎ اجتہاد کے دروازے کا مقفل ہونا محض ایک افسانہ ہے جو کچھ تو اسلام میں فقہی فکر کے ایک مخصوص قالب میں ڈھل جانے اور کچھ اس فکری کاہلی ہو جانے کے سبب گھڑا گیا جو خاص طور پر روحانی زوال کے دور میں ممتاز مفکرین کو بتوں میں تحویل کر دیتی ہے۔ اگر بعد کے کچھ مسلم فقہا نے اس افسانہ طرازی کو باقی رکھا ہے تو جدید اسلام اس بات کا پابند نہیں ہو گا کہ وہ اپنی ذہنی اور عقلی خود مختاری سے رضاکارانہ طور پر دست بردار ہو جائے۔آٹھویں صدی ہجری میں امام زرکشی نے اس بات کا درست طور پر مشاہدہ کیا تھا: اگر اس افسانہ طرازی کو باقی رکھنے والوں کا یہ مطلب ہے کہ متقد مین کو زیادہ سہولتیں تھیں‘جبکہ متاخرین کی راہ میں زیادہ مشکلات ہیں تو یہ محض ایک لایعنی بات ہے کیونکہ یہ دیکھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں کہ متقدمین فقہا کی نسبت متاخرین فقہا کا کام کہیں زیادہ آسان ہے۔کیونکہ یقینی طور پر قرآن کی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے مرتب ہو چکے ہیں اور اس قدر پھیل گئے ہیں کہ آج کے مجتہد کے سامنے تعبیرو تشریح کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ مواد موجودہے ۵۷؎ مجھے یقین ہے کہ یہ مختصر سی بحث آپ پر اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ نہ ہمارے نظام کے بنیادی اُصولوں میں اور نہ ہی اس کے ڈھانچے میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہمارے موجودہ رویے کے لیے کسی قسم کا جواز مہیا کرسکے۔گہرے فکر اور تازہ تجربے سے لیس ہو کر دنیائے اسلام کو جرات مندانہ انداز میں اپنے پیش نظر تشکیل جدید کا کام کرنا چاہیے۔ تاہم تشکیل جدید کا زندگی کے موجودہ حالات سے مطابقت و موافقت کے علاوہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ تر پہلو بھی ہے۔ یورپی جنگ عظیم (اوّل)جو اپنے جلو میں ترکی کی بیداری لائی ہے ۵۸؎ جسے ایک فرانسیسی مصنف نے حال ہی میں دنیائے اسلام میں استحکام کے عنصر کا نام دیا ہے اور وہ نیا معاشی تجربہ جو مسلم ایشیا کے ہمسائے میں ہو رہا ہے اسلام کی منزل اور اس کی باطنی معنویت کو اُجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے:کائنات کی روحانی تعبیر ‘فرد کا روحانی استخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشونما میں رہنما ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ جدید یورپ نے ان خطوط پر عینیتی نظام تشکیل دے رکھے ہیں مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عقل محض پر اساس رکھنے والی صداقت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اس زندہ لگن کی آگ کو بھڑکا سکے جوانسان کواس کے ذاتی الہام سے حاصل ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالص فکر نے انسان کو بہت کم متاثر کیا ہے جبکہ مذہب نے انسانوں کو ہمیشہ بلندی کی طرف اٹھایا ہے اور تمام سماجوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یورپ کی مثالیت پسندی اس کے لئے کبھی بھی زندہ عنصر نہیں بن سکی جس کے نتیجے میں ان کی بگڑی ہوئی خود غرضی ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والی ان جمہورتیوں کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہے جن کا مقصدِ وحید امیر کے مفاد کے لیے غریب کا استحصال ہے۔یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسان کی اخلاقی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس ایک مسلمان وحی کی بنیاد پر ایسے قطعی تصورات رکھتاہے جو زندگی کی گہرائیوں میں کارفرما ہیں اور اپنی بظاہر خارجیت کو داخلیت میں بدل سکتے ہیں ۔اس کے لیے زندگی کی روحانی اساس ایمان کا معاملہ ہے جس کی خاطر ایک نہایت کم علم انسان بھی اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے۔ اسلام کے اس بنیادی نظریے کی رو سے کہ اب مزید کسی نئی وحی کی حجیت باقی نہیں رہی ہمیں روحانی اعتبار سے دنیا کی سب زیادہ آزاد اور نجات یافتہ قوم ہونا چاہے۔قرونِ اولیٰ کے مسلمان جنہوں نے قبل اسلام کے ایشیا کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس بنیادی نظریے کی اصل معنویت کو جان سکیں ۔ ۵۹؎ آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں، بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی ازسرنو تشکیل کریں اور اسلام کے اس مقصد حقیقی کو حاصل کریں جس کی تفصیلات تاحال ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہیں یعنی روحانی جمہوریت کا قیام۔ (۷) کیا مذہب کا امکان ہے؟ ’’ہر زمانے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ اگر اس قسم کے حیات بخش شعور اور علم افروز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا۔‘‘ اقبالؒ وسیع معنوں میں بات کریں تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو سکتی ہے۔ ان کو اعتقاد، فکر اور کشف کے دور گردانا جا سکتا ہے۔ پہلے دور (اعتقاد) میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جس کی تعمیل ایک فرد یا ایک پوری جماعت، اس کے حتمی معنی اور مدعا کی عقلی تفہیم کے بغیر بھی، ایک غیر مشروط حکم کے طور پرکرتی ہے۔ یہ رویہ ممکن ہے کہ کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑے اہم نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جائے، مگر جہاں تک کسی فرد کی باطنی نشو ونما، ارتقاء اور وسعت کا تعلق ہے، اس میں یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کسی نظام کی مکمل اطاعت کے بعد وہ دور آتا ہے جب اس نظام اور اس کے تحکم کے حتمی سرچشمے سے کوئی بات عقلی طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی ایک طرح کی مابعد الطبیعیات میں اپنی بنیاد تلاش کرتی ہے یعنی منطقی طور پر ساری کائنات کے بارے میں ایک مربوط نقطہ نظر۔ تیسرے دور میں مابعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے۔ اور مذہبی زندگی میں یہ امنگ پرورش پاتی ہے کہ وہ حقیقت مطلقہ سے براہ راست شاد کام ہو۔ یہاں آکر مذہب، زندگی اور قوت کے ذاتی سطح پر انجذاب کا معاملہ بن جاتا ہے جس سے فرد کی خود اپنی ایک آزاد شخصیت نکھرتی ہے__ قانون کے شکنجوں سے رستگاری حاصل کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ قانون کی اساس خود اپنے شعور کی گہرائیوں میں تلاش کرنے کی بنا پر، جیسا کہ ایک مسلمان صوفی کا قول ہے کہ قرآن پاک کو اس وقت تک سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ وہ ایمان لانے والے پر اس طرح نازل نہ ہو جس طرح کہ نبی پاک ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ ۱؎ ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف مذہبی زندگی کی نشو و نما کے اس آخری مرحلے سے مترشح ہونے والے مذہب کے مفہوم کو میں زیر عنوان مسئلے پر بحث کے دوران پیش نظر رکھو ںگا۔ بدقسمتی سے اس مفہوم میں مذہب کو تصوف کا نام دیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ ہمارے عہد کے یکسر تجربی نقطہ نظر کے بالکل الٹ ایک ایسا ذہنی رحجان ہے جو زند گی کی نفی اور حقائق سے گریز پر مشتمل ہے ۔ تاہم مذہب کا اعلیٰ تصور جو زندگی کی وسعتوں کا متلاشی ہے لازمی طور پر ایک تجربہ ہے اور تاریخی طور پر اس نے سائنس سے بھی پہلے اسے اپنی لازمی بنیاد کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا۔ اس سطح پر مذہب انسانی شعور کو نکھارنے کی ایک سچی کوشش سے عبارت ہے اور یوں تجربے کی اپنی مختلف سطحوں کے لئے اسی طرح ناقدانہ رویہ رکھتا ہے جس طرح کہ خود اپنے مختلف مدارج پر فطرتیت (نیچرل ازم) جرح و تنقید کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہ ممتاز جرمن فلسفی عمانویل کانٹ تھا جس نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ ’’کیا مابعد الطبیعیات کا امکان ہے؟‘‘ ۲؎ اس نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تھا۔ اس کے دلائل کا اطلاق ان حقائق پر بھی اتنا ہی موثر ہے جو خصوصی طور پر مذہب کی دلچسپی کے حقائق ہیں۔ اس کے مطابق موجوداتِ حواس کو علم کا روپ دھارنے کے لئے کچھ صوری شرائط لازمی طور پر پوری کرنی چاہیں ۔ شئے بذا تہٖ ایک تحدیدی تصور ہے۔ اس کا وظیفہ صرف ایک نظم پیدا کرنا ہے۔ اگر اس تصور کے مقابل کوئی حقیقت موجود ہے بھی تو وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے اور نتیجۃً اس کے وجود کا عقلی ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ کانٹ کا یہ نظریہ آسانی کے ساتھ قبول کرنا ممکن نہیں۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نئے انکشافات کے پیش نظر، کانٹ کی سوچ کے علی الرغم، عقلی بنیادوں پر الٰہیات کا ایک نظام استوار کرنا ممکن ہے۔ مثلاً یہ کہ مادہ اپنی ماہیت میں روشنی کی منضبط لہروں یعنی نوری امواج سے عبارت ہے، کائنات محض فکر کا ایک عمل ہے، زمان و مکان متناہی ہیں اور ہیزن برگ کا فطرت کے غیر متعین ہونے کااُصول۔ ۳؎ مگر ہمارے موجودہ مقاصد کے لئے ضروری نہیں کہ ہم اس نقطہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔ شئے بذا تہٖ کا جہاں تک معاملہ ہے کہ عقل محض اس تک رسائی نہیں رکھتی کیونکہ وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے، کانٹ کا موقف صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب ہم یہ فرض کر لیں کہ تمام تجربات سوائے معمول کے تجربے کے ناممکن ہیں۔ چنانچہ واحد سوال جو سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ کیا تجربے کی معمول کی سطح پر ہی علم کا حصول ممکن ہے؟ کانٹ کے شئے بذا تہٖ، اور شے جیسی کہ ہمیں نظر آتی ہے کے بارے میں کانٹ کے نقطہ نظر میں ہی مابعد الطبیعیات کے امکان کے بارے میں اٹھنے والے سوال کی صحیح نوعیت پوشیدہ ہے۔ مگر اس وقت کیا صورت حال ہوگی جب معاملہ اس کے الٹ ہو جیسا کہ کانٹ نے سمجھ رکھا ہے۔ سپین کے عظیم مسلم صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی کا قول بلیغ ہے کہ خدا’ محسوس و مشہود‘ اور کائنات ’معقول‘ ہے۔ ۴؎ ایک دوسرا مسلم صوفی، مفکر اور شاعر عراقی نظام ہائے مکاں اور نظام ہائے زمان کی کثرت پر اصرار کرتا ہے اور خود خدا کے اپنے زمان اور مکان کی بات کرتا ہے۔ ۵؎ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جسے ہم خارجی دنیا کہتے ہیں محض ہماری عقل کی آفریدہ ہو اور انسانی تجربے کے کئی دوسرے مدارج بھی ہوں جو زمان و مکاں کے دوسرے نظاموں نے کسی اور انداز میں ترتیب دے رکھے ہوں __ ایسے مدارج جن میں تصور اور تجزیہ ایسا کردار ادا نہ کرتے ہوں جیسا کہ ہمارے معمول کے تجربے میں ہوتا ہے۔ تاہم کہا جا سکتا ہے کہ تجربے کا وہ درجہ جس میں تصورات کا عمل دخل نہیں ہوتا کلی انداز کے علم کی بنیاد نہیں بن سکتا کیونکہ محض تصورات ہی تجربے کو سماجی اور عمرانی تفہیم دیتے ہیں۔ حقیقت تک رسائی کا انساں کا دعویٰ جس کی اساس مذہبی تجربے پر ہے وہ لازمی طور پر انفرادی اور ناقابل ابلاغ رہے گا۔ اس اعتراض میں کچھ قوت ہے بشرطیکہ اس سے مراد یہ ہو کہ صوفی مکمل طور پر روایتی طریقوں،رویوں اور توقعات کے تابع ہے۔ قدامت پسندی مذہب میں بھی ویسی ہی بری ہے جیسی انسانی سرگرمیوں کے دوسرے شعبوں میں ۔ یہ خودی کی تخلیقی آزادی کو برباد کر دیتی ہے اور تازہ روحانی کوششوں کے دروازوں کو مقفل کر دیتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے عہد وسطیٰ کے صوفیاء کے انداز اب قدیم سچائی کو دریافت کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتے۔ تاہم مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی آدمی کی جستجو عبث اور بے کار ہے۔ یقینا مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے سے خودی کی حتمی نوعیت کے بارے میں ہمیں سراغ ملتا ہے ۔ روزمرہ کے عمرانی معاملات میںہم عملاً گویا تنہا ہوتے ہیں۔ ہم دوسرے انسانوں کی انفرادیت کے عمق تک رسائی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم انہیں محض وظائف کے طور پر لیتے ہیں اور ان کی شناخت کے ان پہلوئوں کے حوالے سے ہی ان تک پہنچتے ہیں جن سے ہم ان سے محض تصوراتی سطح پر معاملہ کر سکتے ہیں۔ مذہبی زندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہم فرد کو ایک ایسی خودی کے طور پر دریافت کریں جو اس کی تصوراتی سطح پر قابل بیان روزمرہ کی عادی فردیت سے کہیں زیادہ گہری ہو۔ ’’حقیقی ذات‘‘ سے تعلق کی بنا پر خودی اپنی انفرادیت، اپنی مابعد الطبیعیاتی حیثیت کو دریافت کرتی ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ اس مرتبے اور حیثیت میں زیادہ بلند مقامات کے حصول کے امکانات کیا ہیں۔ ٹھیک طور پر یوں کہیں گے کہ تجربہ جو اس انکشاف کی طرف لے جاتا ہے وہ اس عقلی حقیقت کو تصوراتی سطح پر منظم نہیں کرتا، یہ ایک بین حقیقت ہے، ایک رویہ ہے جو اس باطنی حیاتیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہوتا ہے جو منطقی حدود کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ وہ بذات خود ایک نئی دنیا تشکیل کرنے والے یا دنیا کو ہلا دینے والے عمل میں خود کو متشکل کرتا ہے اور محض اسی صورت میں اس لازمانی تجربے کے محتویات حرکت زماں میں خود کو جذب کر لیتے ہیں اور تاریخ ان کے مشاہدے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ’’حقیقت‘‘ تک تصورات کے ذریعے سے پہنچنا کوئی بالکل سنجیدہ طریق کار نہیں ہے۔ سائنس کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے برقی خلیے (الیکڑون) کوئی حقیقی شئے ہیں یا نہیں: یہ محض نشانات یا اشارات محض ایک روایت بھی ہو سکتے ہیں۔ صرف مذہب ہی جو لازمی طور پر ایک طریق زندگی ہے حقیقت تک پہنچنے کا سنجیدہ انداز ہے ۔ ایک اعلیٰ تجربے کی حیثیت سے وہ ہماری فلسفیانہ الٰہیات کے تصورات کی صحت کا ضامن ہے یا کم از کم وہ ہمیں خالص عقلی طریق کار کے بارے میں شک و شبے میں ڈال دیتا ہے جس سے وہ تصورات تشکیل پاتے ہیں۔ سائنس مابعد الطبیعیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر سکتی ہے یا ’لانگے کے الفاظ میں‘ اسے شاعری کی ایک صائب شکل یا نیٹشے کے الفاظ میں اسے بالغوں کا ایک ایسا کھیل قرار دے سکتی ہے جسے کھیلنے کا انہیں حق پہنچتا ہے۔ ۶؎ مگر ایک ماہر مذہب، جو ان اشیاء کی ترتیب و تشکیل میں اپنے ذاتی مرتبہ کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے تاکہ اپنی کوششوں کا حتمی مقصد حاصل کر لے، اس بات پر قناعت نہیں کر سکتا ۷؎ جس کو سائنس ایک در و غ ناگزیر کہہ دے یا محض ’جیسا کہ ‘ سے تعبیر کر دے۔ جہاں تک حقیقت کی فطرت مطلقہ کا تعلق ہے سائنس کو اپنی مہم میں کچھ بھی دائو پر نہیں لگانا پڑتا لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے خودی کا، ایک ایسے مرکز کی حیثیت سے جس کا کام ذاتی طور پر زندگی اور تجربے میں تصرف کرنا ہے، سارا مستقبل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کردار کو، جو کہ صاحب کردار کی قسمت کے فیصلے پر مشتمل ہے، وہم و التباس پر منحصر نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایک غلط تصور تفہیم کو غلط راہ پر لے جا سکتا ہے مگر ایک غلط کام پورے انسان کو پستیوں میں گرا دیتا ہے اور بالآخر انسانی خودی کے پورے ڈھانچے کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایک خیال محض انسانی زندگی کو جزوی طور پر متاثر کرتا ہے۔ مگر عمل کا تعلق حرکی طور پر حقیقت مطلقہ سے ہے اور اس سے عام طور پر حقیقت کی طرف ایک پورے انسان کا ایک مسلسل رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ بلاشبہ عمل، یعنی نفسیاتی اور عضویاتی افعال پر کنٹرول رکھتے ہوئے خودی کی تعمیر کر کے اس کا حقیقت مطلقہ کے ساتھ فوری طور پر ربط پیدا کرنا،اپنی صورت اور ماہیت کے اعتبار سے انفرادی ہوتا ہے بلکہ اسے لازمی طور پر انفرادی ہونا چاہئے۔ تاہم اس کے اندر یہ خصوصیت موجود ہے کہ دوسروں کو اپنے ساتھ شریک کر لے اور وہ اس طرح کہ دوسرے بھی اس عمل کو کرنا شروع کر دیں تاکہ وہ اپنے طور پر دریافت کر سکیں کہ وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں کس قدر موثر ہے۔ہر زمانے کے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ اگر اس قسم کے حیات بخش شعور اور علم افروز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا ۔ اس سوال کے جواز سے ہٹ کر بھی کچھ اہم وجوہ ہیں کہ جدید ثقافت کی تاریخ کے اس موجودہ لمحے پر یہ سوال کیوں اٹھایا گیا ہے۔ پہلی بات تو اس سوال کی سائنسی نوعیت ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہر ثقافت کے دنیاکے بارے میں اپنے محسوسات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک فطریتی صورت بھی موجود ہوتی ہے۔ مزید یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فطرتیت کی ہر صورت بالآخر ایک طرح کی جوہریت پر منتج ہوتی ہے۔ ہمارے پاس برصغیر کا ایک تصور جو ہریت ہے، یونانی جوہریت ہے، مسلم جوہریت اور پھر جدید تصور جوہریت ہے۔ ۸؎ تاہم جدید جوہریت کا تصور بالکل منفرد ہے۔ اس کا محیر العقول ریاضیاتی پہلو جس نے کائنات کو ایک مبسوط تفرقی مساوات بنا دیا ہے اور اس کی طبیعیات جس نے اپنا ایک طریق کار استعمال کرتے ہوئے خود اپنے ہی معبد کے پرانے خدائوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ہمیں اس سوال تک لے آئے ہیں کہ کیا علت و معلول کی اسیر فطرت ہی تمام تر سچائی ہے؟ کیا حقیقت مطلقہ ہمارے شعور پر کسی اور طرف سے بھی حملہ آور نہیں ہوتی؟ کیا تسخیر فطرت کا خالص عقلی منہاج ہی واحد منہاج ہے۔ پروفیسر اڈنگٹن کہتا ہے کہ ہمیں تسلیم ہے کہ ’’طبیعیات کے حقائق اپنی بنیادی ماہیت میں حقیقت کے محض جزوی پہلو ہو سکتے ہیں: ہم اس کے دوسرے پہلو سے کس طرح معاملہ کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے پہلو سے ہمارا تعلق طبیعیات والے حصے سے کم ہے۔ محسوسات، مقاصد اور اقدار بھی ہمارے شعور کو بناتے ہیں اسی طرح جس طرح کہ حسی ادراکات ان کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہم حسی ادراکات کی راہ پر چلتے ہیں اور وہ اس بیرونی دنیا کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس سے سائنس بحث کرتی ہے۔ ہم اپنے وجود کے مختلف عناصر کی بھی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی دنیا کی طرف رہنمائی نہیں کرتے، مگر یقینی طور پر وہ کہیں نہ کہیں لے جاتے ضرور ہیں‘‘ ۹؎ دوسرے یہ کہ ہمیں اس سوال کی عظیم عملی اہمیت پر غور کرنا چاہئے۔ دور جدید کا انسان تنقیدی فلسفوں اور سائنسی اختصاص کی بنا پر ایک عجیب قسم کی اذیت کا شکار ہے۔ اس کی فطرتیت نے اسے فطرت کی قوتوں پر بے مثال کنٹرول عطا کیا ہے، مگر اس کے اپنے مستقبل پر ایمان سے اسے محروم کردیا ہے۔ یہ کس قدر عجیب ہے کہ ایک ہی تصور مختلف ثقافتوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ اسلام میں ارتقا کے نظریے کی تشکیل و تدوین نے مولانا جلال الدین رومی کی انسان کے حیاتیاتی مستقبل کے بارے میں زبردست امنگ میں ولولے اور جوش کو جنم دیا۔ کوئی بھی مہذب مسلمان جذب و شوق میں آئے بغیر ان اشعار کو نہیں پڑھ سکتا۔ زمین میں بہت نیچے اس کی تہوں میں میں کچے دھات (سونا) اور پتھروں کی دنیا میں زندگی کرتا تھا پھر میں نوع بنوع پھولوں کی مسکراہٹ میں ظاہر ہوا پھر میں جنگلی جانوروں اور آوارہ وقت کے ساتھ اڑا پھرا زمین میں، فضا میں اور سمندروں کے دوش پر چلا ہر بار ایک نئی زندگی سے شاد کام ہوا کئی بار ڈوبا اور ابھرا رینگا اور بھاگا میرے جواب کے تمام بھید کھل رہے کیونکہ شکل و صورت نے انہیں دیدنی بنا دیا اور اب … ایک انسان اور میری منزل دبیز بادلوں اور چرخ نیلی فام سے پرے ہے اس دنیا میں جہاں نہ تغیر ہے اور نہ موت فرشتے کی شکل میں اور پھر ان سے بھی دور لیل و نہار کی حدبندیوں سے ماوراء دیدنی نا دیدنی موت و حیات کی قید سے آزاد جہاں سب کچھ ہے سب کچھ جو پہلے دیکھا نہ سنا بالکل ایک اور اس کل میں سب کچھ سمایا ہوا ہے۔ ۱۰؎ دوسری طرف یورپ میں اسی نظریہ ارتقا کی زیادہ منظم اور منضبط تشکیل نے اس اعتقاد کو جنم دیا ہے کہ اس نقطہ نظر کے لئے کوئی سائنسی بنیاد نہیں کہ انسانی زندگی کی موجودہ ہمہ رنگ گو نا گونی میں مستقبل کے اندر مزید کوئی اضافہ ہوگا۔ اس طرح جدید انسان کے اندر چھپی ہوئی مایوسی نے خود کو سائنسی اصطلاحات کے پردے کے پیچھے چھپا لیا ہے ۔ جرمن فلسفی فریڈرک نیٹشے نے گرچہ یہ سوچا تھا کہ ارتقا کا نظریہ اس یقین کو جواز نہیں دیتا کہ انسان کے آگے کوئی نہیں جاسکتا۔ لیکن اس سلسلے میں نیٹشے کی کوئی استشنائی حیثیت نہیں۔ انساں کے مستقبل کے بارے میں اس کے جوش و ولولے کا اظہار تکرار دوامی کے تصور میں ہوا جو کسی انسان کا وضع کردہ بقائے دوام کے بارے میں شاید سب سے زیادہ مایوس کن تصور ہے۔ تکرار دوامی کوئی دوامی تکوین کا عمل نہیں۔ کون وہستی کے بارے میں یہ وہی پرانا تصور ہے جو تکوین کے بہروپ میں آگیا ہے۔ لہٰذا جدید دور کا انساںاپنی عقلی سرگرمیوں کے نتائج سے مکمل طور پر مسحور ہونے کی بنا پر باطنی لحاظ سے روحانیت سے محروم زندگی گزار رہا ہے۔ فکریات کے میدان میں وہ خود اپنے آپ سے تصادم میں مبتلا ہے اور معاشی اور سیاسی دنیا میں وہ دوسروں سے کھلے تصادم کا شکار ہے۔ اپنی بے مہارا نانیت اور زروسیم کی بے پناہ بھوک اس کی ذات میں و دیعت شدہ تمام اعلیٰ محرکات و اقدار کو بتدریج مسل اور کچل رہی ہے۔ اور اسے سوائے زندگی سے اکتاہٹ کے اور کچھ دینے سے قاصر ہے۔ موجودہ حقائق میں کھو جانے کی وجہ سے وہ مکمل طور پر خود اپنے اعماق وجود سے کٹ گیا ہے۔ منظم مادیت کے روّیے نے اس کی توانائیوں کو مفلوج کر دیا ہے جس کے بارے میں ہکسلے نے پہلے ہی خدشے اور تاسف کا اظہار کر دیا تھا۔ مشرق میں بھی صورت حال کچھ کم ناگفتہ بہ نہیں ہے۔ عہد وسطیٰ کا وہ صوفیانہ اسلوب جس میں مذہبی زندگی نے اپنا اعلیٰ ترین اظہار کیا تھا اور مشرق و مغرب دونوں جگہ اس نے خوب نشو و نما پائی اب عملی طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اور شاید اسلامی مشرق میں اس سے جس قدر بربادی ہوئی کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بجائے اس کے کہ وہ عام آدمی کی باطنی زندگی کی قوتوں کو مجتمع کرکے اسے تاریخ کے دھارے میں عملی شرکت کے لئے تیار کرتا اس نے اسے جھوٹی رہبانیت سکھائی ہے اور اسے جہالت اور روحانی غلامی پر قانع رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں اگر جدید ترکی، مصر اور ایران کے مسلمان اپنے لئے توانائی کے نئے سرچشموں کی تلاش میں نئی وفاداریوں کی تخلیق کریں جیسے حب الوطنی اور قومیت جنہیں نطشے بیماری اور پاگل پن اور تمدن و ثقافت کے خلاف مضبوط ترین قوتیں گردانتا ہے۔ ۱۱؎ روحانی احیا کے اس خالص مذہبی طریق سے مایوس ہو کر جو تنہا ہمارے جذبات اور افکار کو وسعت دے کر زندگی اور قوت کے ازلی سرچشمے سے ہمیں مربوط کرتا ہے۔ جدید مسلمان اپنے جذبے اور فکر کو محدود کرکے توانائی کے تازہ ذرائع کے قفل توڑنے کی امید پر ریجھا ہوا ہے۔ جدید لا دین سوشلزم جس کے اندر ایک نئے مذہب کا سارا ولولہ اور جوش موجود ہے ایک وسیع نظر رکھتا ہے مگر چونکہ وہ اپنی فلسفیانہ بنیاد ہیگل کی بائیں بازو کی سوچ پر رکھتا ہے وہ اس بنیاد ہی کے خلاف عمل پیرا ہے جس نے اسے قوت اور مقصدیت بخشی ہے۔ قومیت اور لادین سوشلزم دونوں، کم از کم انسانی روابط کی موجودہ صورت میں‘ تشکیک اور غصے کی نفسیاتی قوتوں سے توانائی حاصل کرنے کے لئے مجبور ہیں جس سے انسان کی روح مرجھا جاتی ہے اور توانائی کے چھپے ہوئے روحانی خزانوں تک اس کی رسائی ممکن نہیں رہتی۔ نہ تو قرون وسطیُ کے متصوفانہ اسلوب‘ نہ نیشنلزم اور نہ ہی لا دین سوشلزم اپنی بیماری سے مایوس انسانیت کو صحت بخش سکتا ہے۔جدید ثقافت کی تاریخ میں یہ لمحہ یقیناً ایک بہت بڑے بحران کا لمحہ ہے۔ حیاتیاتی احیا آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور مذہب، جو کہ اپنی اعلیٰ ترین صورت میں نہ تو ایک اندھا اذعانی عقیدہ ہوتا ہے اور نہ رہبانیت اور نہ رسم و رواج، تنہا جدید انسان کو اخلاقی طور پر وہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل بنا سکتا ہے جو جدید سائنس کی ترقی کے نتیجے میں اس پر آن پڑی ہے اور انسان کے ایمان کو بحال کرکے ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرسکتا ہے جسے وہ موت کے بعد بھی باقی رکھ سکے۔ انسان اپنی اصل اور اپنے مستقبل‘ اپنے آغاز اور انجام کے بارے میں بلند نگاہی حاصل کرکے ہی اس سماج پر فتح پانے کے قابل ہو سکے گا جو غیر انسانی مسابقت کا شکار تھے اور اس تہذیب پر جو مذہبی اور سیاسی اقدار کے تنازعات اور تصادم کے نتیجے میں اپنی روحانی وحدت گم کر چکی ہے۔ جیساکہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں ۱۲؎ کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مذہب ایک اقدام ہے جو اخلاقی اقدار کے مطلق اصولوں کو اپنی گرفت میں لاکر شخصیت کی خود اپنی قوتوں کو متحد کرتا ہے۔ دنیا کا تمام مذہبی ادب جس میں ماہرین کے اپنے ذاتی تجربات کاریکارڈ بھی شامل ہے،اگرچہ ان کا اظہار نفسیات کی ایسی فکری صورتوں میں ہوا ہو جواب مردہ ہو چکی ہے، اس امر کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ تجربات مکمل طور پراس طرح فطری ہیں جس طرح کہ ہمارے معمول کے تجربات فطری ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں وقوف کی قدر مشترک موجود ہے۔ اور جو چیز اس سے بھی بہت زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ خودی کی قوتوں میں مرکزیت پیدا کرکے شخصیت کی تعمیر نو کر دیتے ہیں۔ یہ تصور کہ یہ تجربے عصبی خلل کا اظہار یا صوفیانہ اور پُراسرار ہوتے ہیں اس سے ان تجربات کے معنی یا قدر کا سوال طے نہیں ہوتا۔ اگر ورائے طبیعیات کوئی نقطہ نظر ہو سکتا ہے تو ہمیں پوری جرأت سے اس امکان کا بھی سامنا کرنا چاہئے خواہ اس سے ہمارا معمول کا طرز زندگی اور انداز فکر بدل ہی کیوں نہ جائے ۔ سچ کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے موجودہ روّیے کو تبدیل کر دیں۔ اس بات سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر مذہبی روّیہ بنیادی طور پر کسی طرح کے عضویاتی خلل کا نتیجہ ہو۔ جارج فاکس ذہنی مریض ہو سکتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے عہد میں انگلستان کی مذہبی زندگی میں پاکیزگی کو فروغ دینے والی قوت تھا۔ ۱۳؎ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بھی اسی قسم کے مفروضات قائم کئے جاتے ہیں۔ درست: مگر اگر کوئی شخص یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے پورے عمل کی سمت تبدیل کرکے رکھ دے تو یہ نفسیاتی تحقیق و ریسرچ میں بہت دلچسپ نکتہ ہے کہ آپ ﷺ کے ان تجربات کے بارے میں تحقیق ہو جن کی بنا پر انہوں نے غلاموں کو آقا بنا دیا اور نوع انسانی کی تمام نسلوں کے کردار اور عمل کو نئی صورت بخش دی۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف سے اٹھائی گئی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی مختلف طرح کی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی روحانی کشمکش اور ان کے کردار کو ایسا رد عمل نہیں گردانا جا سکے گا جو محض ذہن کے اندر کے کسی سراب کا نتیجہ قرار دے دیا جائے۔ اس کو سمجھنا بھی ناممکن ہے، سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ یہ کسی معروضی صورت حال سے پیدا ہونے والا رد عمل ہے جو نئے جوش و ولولہ، نئی تنظیموں اور نئے نقطہ ہائے آغاز پر مشتمل ہے۔ اگر ہم علم بشریات کے حوالے سے اس نکتہ پر غور کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ انسان کی سماجی تنظیم میں وقت کی بچت کے پہلو سے سائیکو پیتھ ایک بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا کام حقائق کی ترتیب اور ان کی وجوہات کی دریافت نہیں۔ وہ زندگی اور حرکت کے حوالے سے سوچتا ہے تاکہ نوع انسانی کے لئے رویّوں کے نئے انداز تخلیق کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اپنے خطرات اور التباسات ہیں۔ اسی طرح سائنس دان جو حسّی تجربے پر اعتماد کرتے ہیں ان کے ہاں بھی خطرات اور التباسات ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے طریق کار کے محتاط مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کو التباس کے کھوٹ سے پاک کرنے کا اہتمام اسی طرح کرتا ہے جتنا کہ ایک سائنس دان کرتا ہے۔ اس باطنی مشاہدے کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم تحقیق کا کوئی ایسا موثر طریق کیونکر دریافت کریںجو اس غیر معمولی تجربے کی ماہیت اور جواز کے بارے میں کچھ بتا سکے۔ عرب تاریخ دان ابن خلدون، جس نے جدید تاریخ کی علمی بنیادیں رکھیں، پہلا شخص ہے جس نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کی جانب دھیان دیا اور اس تصور تک پہنچا جسے ہم نفس تحت الشعور کہتے ہیں۔ بعد میں انگلستان کے سرولیم ہملٹن اورجرمن فلسفی لائی بنیز ذہن کے دوسرے نامعلوم مظاہر کی تلاش میں دلچسپی لینے لگے۔ غالباً ژونگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ مذہب کی بنیادی ماہیت تحلیلی نفسیات کی حدود سے باہر ہے۔ تحلیلی نفسیات اور فن شاعری کے تعلق کے بارے میں ہونے والے مباحث کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ فن کا صوری پہلو ہی نفسیات کا موضوع بن سکتا ہے۔ اس کے نزدیک مطالعہ فن کی بنیادی ماہیت نفسیات کے طریق کار کا موضوع نہیں بن سکتی۔ ژونگ کے بقول یہ امتیاز ’’لازمی طور پر مذہب کی حدود میں بھی قائم رہنا چاہئے۔ یہاں بھی مذہب کے جذباتی اور علامتی اظہارات کو نفسیاتی مطالعے کاموضوع بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن سے مذہب کی اصل نوعیت کا نہ تو انکشاف ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو نہ صرف مذہب بلکہ آرٹ بھی نفسیات کا ایک ذیلی شعبہ متصور کیا جاتا‘‘۔ ۱۴؎ ژونگ نے اپنی ہی تحریروں میں خود اپنے اس اصول کو کئی بار پامال کیا ہے۔ اس طریق کار کے نتیجے میں ہمیں مذہب کی بنیادی ماہیت کے بارے میں حقیقی بصیرت اور انسانی شخصیت کے بارے میں علم فراہم کرنے کی بجائے جدید نفسیات نے نئے نظریات کا پنڈورا باکس ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے، جنہوں نے اعلیٰ الہامی مظاہر کی حیثیت سے مذہب کی ماہیت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں اور ہم مکمل طور پر نااُمیدی کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان نظریات سے بالعموم یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مذہب کا انسانی خودی سے ماوراء کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیںرہا ۔ اب یہ محض ایک طرح کا معروف حیاتیاتی آلہ ہے جو انسانی معاشرے کے گرد اخلاقی نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تاکہ خودی کی غیر متزاحم جبلتوں کے خلاف ایک حفاظت کرنے والا سماجی پردہ قرار پاسکے۔ اسی لئے نئی نفسیات کے مطابق مسیحیت نے اپنا حیاتیاتی منصب پورا کر دیا ہے۔ جدید دور کے انساں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی اساسی نوعیت کو سمجھ سکے۔ ژونگ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ: ’’اگر ہماری رسومات میں پرانی بربریت کا شائبہ بھی موجود ہوتا تو یقینی طور پر ہم اسے سمجھ لیتے۔ آج ہمارے لئے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ بے مہار انسانی نفس کی توانائی (لبیڈو) کیا کرے گی۔ جو سیزرز (رومی بادشاہوں) کے قدیم روم میں گونجتی تھی۔ آج کے عہد کا مہذب انساں اس سے بہت دور جا چکا ہے۔ وہ شکستہ اعصاب اور جنونی ہو چکا ہے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے وہ تقاضے جنہوں نے مسیحیت کو جنم دیا تھا وہ ختم ہو چکے ہیں۔ اب ہمیں ان کے مفہوم کا علم نہیں۔ ہم بالکل نہیں جانتے کہ عیسائیت ہمیں کس چیز سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ اہل علم لوگوں کے لئے یہ نام نہاد مذہبیت پہلے ہی اعصابی جنونیت تک پہنچ چکی ہے۔ گذشتہ دو ہزار سال کی عیسائیت نے اپنا کام کر لیا ہے اور اس نے ایسے بند باندھ دیئے ہیں جن سے ہماری گنہ گاری کے منظر ہم سے اوجھل ہو جاتے ہیں ‘‘۔ ۱۵؎ مذہبی زندگی کے اعلیٰ تصور میں یہ نکتہ مکمل طو پر غائب ہے۔ خودی کے ارتقا میں جنسی ضبط نفس تو بالکل ابتدائی سطح کی چیز ہے۔ مذہبی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد انسان کے موجودہ ماحول کی تشکیل کرنے والے سماجی تانے بانے کی اخلاقی صحت سے زیادہ اس کے ارتقا کو خودی کی زیادہ اہم منزل کی طرف حرکت پذیر کرنا ہے۔ وہ بنیادی ادراک جس سے مذہبی زندگی آگے کی جانب حرکت کرتی ہے وہ موجودہ خودی کی نازک اندام وحدت ہے جسے شکستگی کا خوف رہتا ہے، جس میں اصلاح کے امکانات ہیں اور جو یہ اہلیت بھی رکھتی ہے کہ کسی معلوم یا نامعلوم ماحول میں نئی صورت حال کی تخلیق کے لئے اپنی آزادی کو استعمال کرے۔ اس بنیادی ادراک کے پیش نظر اعلیٰ مذہبی زندگی اپنی توجہ ان تجربات پر رکھتی ہے جن سے حقیقت کی ان لطیف حرکتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جو حقیقت کی تعمیر کے ممکنہ مستقل عناصر کے طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ خودی کے مقدر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ہم معاملے پر اس نکتہ نظر سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جدید نفسیات مذہبی زندگی کی دہلیز تک کو بھی نہیں چھو پائی۔ اور وہ اس سے جسے مذہبی تجربے کی گونا گونی اور ثروت کہا جا سکتا ہے سے بہت دور ہے۔ اس کے باثروت ہونے اور اس کی انوع و اقسام سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے میں آپ کے سامنے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو سترہویں صدی کے ایک ممتاز مذہبی عبقری شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کا ہے۔ انہوں نے اپنے معاصر صوفیا کا بلاکسی خوف اور جھجک کے ایک تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی صوفیانہ تکنیک وجود میں آئی ہے۔ تمام مختلف قسم کے صوفیانہ مسلک جو برصغیر پاک و ہند میں مروّج ہیں وہ وسطی ایشیا اور عرب سے آئے۔ شیخ احمد سرہندی کا واحد مسلک ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کی سرحد عبور کی اور جو آج بھی پنجاب، افغانستان اور ایشیائی روس میں زندہ ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ جدید نفسیات کی زبان میں اس اقتباس کے حقیقی مفاہیم اُجاگر نہ کر سکوںگا کیونکہ ایسی زبان اس وقت موجود نہیں۔ تاہم چونکہ میرا سادہ سا مقصد یہ ہے کہ اس تجربے کے لامتناہی تنوع کے بارے میں کچھ اظہار کروں جن سے الوہیت کی تلاش میں خودی گزرتی اور ان کی چھان بین کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے اگر میں بظاہر نامانوس مصطلحات میں بات کروں کیونکہ ان میں معانی کا اصل جوہر موجود ہے اگرچہ یہ ایک ایسی مذہبی نفسیات کی تحریک پر متشکل ہوئی ہیں جو ایک مختلف ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ اب میں اس اقتباس کی طرف آتا ہوں۔ حضرت شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کے سامنے ایک شخص عبد المومن کا تجربہ یوں بیان کیا گیا: ’’مجھے یوں لگتا ہے جیسے آسمان اور زمین اور خدا کا عرش اور دوزخ اور جنت میرے لئے تمام ختم ہو چکے ہیں۔ جب میں اپنے اِرد گرد دیکھتا ہوں تو انہیںکہیں موجود نہیں پاتا۔ جب میں کسی کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی بھی موجود نہیں۔ یہاں تک کہ خود مجھے اپنا وجود گم نظر آتا ہے۔ خدا لامتناہی ہے کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اور یہ روحانی تجربے کی آخری حد ہے۔ کوئی بھی ولی اس حد سے آگے نہیں جا سکا‘‘۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس کایوں جواب دیا کہ: ’’یہ تجربہ جو بیان کیا گیا ہے اس کا ماخذ ہر لحظہ اپنی حالت بدلتا ہوا قلب ہے۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ تجربے کا حامل قلب کے لاتعداد مقامات میں سے ابھی تک ایک چوتھائی بھی عبورنہیں کر سکا۔ روحانی زندگی کے محض پہلے مقام کو پانے کے لئے باقی تین چوتھائی منازل بھی طے کرنا ضروری ہیں۔ اس مقام سے پرے اور مقامات بھی ہیں جو روح، سرخفی اور سرا خفی کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں سے تمام مقامات، جنہیں مجموعی طور پر عالم امر کہتے ہیں،کے اپنے اپنے مخصوص احوال اور واردات ہیں۔ ان مقامات سے گزرنے کے بعد سچائی کا طالب بتدریج خدا کے اسماء حسنیٰ اور صفات الہٰی سے منور ہوتا ہے اور بالآخر ہستی باری تعالیٰ کے نور سے فیضیاب ہوتا ہے‘‘۔ ۱۶؎ حضرت مجدد الف ثانی کے فرمودہ اس اقتباس میں جس بھی نفسیاتی بنیاد پر امتیازات قائم کئے گئے ہیں اس سے ہمیں باطنی تجربے کی پوری کائنات کے بارے میں کچھ نہ کچھ تصور تو ملتا ہے جسے اسلامی تصوف کے ایک عظیم مصلح نے پیش کیا۔ ان کے ارشاد کے مطابق عالم امر یعنی رہنمائی دینے والی توانائی کی دنیا سے گزرنا ضروری ہے تاکہ اس منفرد تجربے تک رسائی حاصل ہو سکے جو وجود حقیقی کا مظہر ہے۔ اسی بنا پر میں کہتا ہوں کہ جدید نفسیات نے ابھی تک اس موضوع کی بیرونی حد کو بھی چھوا تک نہیں۔ ذاتی طور پر میں حیاتیاتی یا نفسیاتی سطح پر تحقیق کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی پرامید نہیں۔ تخیل کے عضویاتی کوائف، جن میں مذہبی زندگی بعض اوقات اپنا اظہار کرتی ہے، کی جزوی تفہیم کی بنا پر محض تجزیاتی تنقید سے ہم انسانی شخصیت کی زندہ جڑوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ جنسی تخیّل مذہب کی تاریخ میں اہم کردار کا حامل ہے یا یہ کہ اس نے زندگی کے حقائق سے گریز یا اس سے موافقت کے تخیلاتی ذرائع مہیا کئے ہیں اس معاملے کے بارے میں اس طرح کے خیالات مذہبی زندگی کے حتمی مقصد کو متاثر نہیں کرتے۔ یہ مقصد ہے اپنی متناہی خودی کو زندگی کے دائمی عمل سے منسلک کرکے اس کی تعمیر نو کرنا اور اسے ایک مابعد الطبیعیاتی مقام دینا جس کا ہم موجودہ گھٹن کی فضا میں ہلکا سا تصور ہی کر سکتے ہیں ۔ اگر نفسیات کا علم نوع انسانی کی زندگی میں عمل دخل کا کوئی حقیقی جواز رکھنے کا خواہش مند ہے تو اسے ہمارے عہد کے ماحول کے مطابق کوئی زیادہ موزوں نئی تکنیک دریافت کرنی ہوگی جو ایک نپے تلے خود مختار منہاج پر مشتمل ہو۔ ایک خبطی جوعالی دماغ بھی ہو___اس طرح کا امتزاج (خبط اور عالی دماغی کا) کوئی ناممکن چیز نہیں___شاید ہمیں اس تکنیک کا کوئی سرا پکڑا سکے۔ آج کے جدید یورپ میں نٹیشے، جس کی زندگی اور سرگرمیاں کم از کم ہم اہل مشرق کے لئے مذہبی نفسیات میں ایک نہایت دلچسپ مسئلے کی تشکیل ہیں، اس قسم کے کسی کام کے لئے موزوں تھا۔ اس کی ذہنی ساخت کی مثالیں مشرقی تصوف کی تاریخ میں بھی ملتی ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے اندر الہیاتی عنصر کا جلوہ اپنے پورے تحکم کے ساتھ اس پر عیاں تھا۔ میں نے اس پر اترنے والی تجلی کے لئے تحکم کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس سے اسے ایک خاص طرح کی پیغمبرانہ بصیرت ملی تھی جو ایک مخصوص قسم کی تکنیک کی بدولت اسے زندگی کی مستقل قوتوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ تاہم نٹیشے ایک ناکام شخص تھا اور اس کی ناکامی کا سبب اس کے فکری پیش رو تھے جن میں شوپن ہار، ڈارون اور لانگے شامل ہیں جن کے اثرات نے اس کی بصیرت کی اہمیت کو اس سے اوجھل رکھا۔بجائے اس کے کہ وہ کسی روحانی اصول کی طرف دیکھتا جس کے مطابق ایک عام آدمی کے اندر بھی الوہیت کا عنصر پیدا ہو سکتا ہے اور یوں وہ ہمارے سامنے کسی لامتناہی مستقبل کے دروازے کھولتا ۱۷؎ نٹیشے نے اپنی بصیرت کی تعبیر ایک انتہائی امارت پسندی کے نظام کی شکل میں دیکھی جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں کسی اور مقام پر لکھا ہے: آنچہ او جوید مقام کبریا ست ! ایں مقام از علم و حکمت ماوراست خواست تا از آب و گل آید بروں خوشہ کز کشت دل آید بروں ’’اگرچہ وہ مقام کبریا (خدا کی قربت کے اعلیٰ مقام کا متلاشی ہے مگر یہ مقام تو علم و حکمت سے بہت بلند و بالا ہے۔ یہ پوداانسان کی نظر نہ آنے والی دل کی کھیتی میں پیدا ہو تا ہے:اس کی پیدائش محض مٹی کے ڈھیرسے نہیں ہوتی‘‘۔ ۱۸؎ پس (نٹیشے جیسا) ذہین آدمی، جس کی بصیرت مکمل طور پر محض اس کی اندرونی قوتوں کی پروردہ تھی، ناکام ہوگیا اور وہ اس لئے بے ثمر رہ گیا کہ اس کی روحانی زندگی کسی مرد کا مل کی خارجی رہنمائی سے محروم تھی۔ ۱۹؎ ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ یہ آدمی اپنے دوستوں کے سامنے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی ایسے ملک سے آیا ہو جہاں کوئی بھی انسان زندگی نہ کرتا ہو مگر وہ اپنی روحانی احتیاج سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’صرف مجھے ہی یہ عظیم مسئلہ درپیش ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے میں جنگ میں کھو گیا ہوں جو ازلی جنگ ہے۔ مجھے مدد کی شدید ضرورت ہے۔ مجھے پیرو کار چاہئیں، میں ایک آقا کا متلاشی ہوں جس کی اطاعت میں مجھے لطف محسوس ہو۔‘‘ ۲۰؎ اور پھر وہ کہتا ہے: ’’مجھے زندہ انسانوں میں ایسے لوگ نظر کیوں نہیں آتے جو مجھ سے بلند دیکھ سکیں اور پھر وہ ان بلندیوں سے نیچے مجھے حقارت سے دیکھیں۔ یہ محض اس وجہ سے ہے کہ میری تلاش میں کوتاہی ہے۔ اور میں ان کے لئے مارا مارا پھرتا ہوں‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مذہب اور سائنس اگرچہ مختلف طریق ہائے کار استعمال میں لاتے ہیں مگر وہ اپنے مقصد و مدعا میں ایک دوسرے سے متماثل ہیں۔ دونوں کا مقصد حقیقت مطلق تک رسائی ہے۔ درحقیقت بعض وجوہات کی بنا پر جن کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں، مذہب، سائنس سے کہیں زیادہ اس تک رسائی کا آرزو مند ہے۔ ۲۱؎ اور دونوں کے لئے خالص معروضیت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے تجربے کی تطہیر اور چھان بین کی ضرورت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں تجربے کی دو سطحوں کے مابین امتیاز قائم کرنا چاہئے۔ ایک تجربہ وہ ہے جو حقیقت کے ظاہر، قابل مشاہدہ کردار یا فطری امر واقعہ کا عمومی نقشہ پیش کرتا ہے اور دوسرا وہ جو حقیقت کی باطنی ماہیت کے بارے میں ہمیں اطلاع دیتا ہے۔ ایک فطری امر واقعہ کی حیثیت سے نفسیاتی اور عضویاتی سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت کی باطنی ماہیت کو معلوم کرنے کے لئے ہم اس سے مختلف معیارات کو استعمال کرتے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ہم حقیقت کے خارجی کردار کے حوالے سے ہی معانی کی تفہیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مذہب کے میدان میں اسے کسی حقیقت کا نمائندہ سمجھ کر اس کے معانی کی دریافت ہم اس لئے کرتے ہیں کہ حقیقت کی باطنی ماہیت کا ادراک کر سکیں۔ سائنسی اور مذہبی طریق کار دونوں گویا ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔ دونوں درحقیقت ایک ہی دنیا کی تشریح و تعبیر ہیں۔ ان میں اختلاف یہ ہے کہ سائنسی عمل میں خودی ایک تماشائی کا سا نکتہ نظر رکھتی ہے، جبکہ مذہبی عمل میں خودی اپنے مختلف رجحانات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اور ایک یکتا اور منفرد کردار سامنے لاتی ہے جس میں مختلف تجربات مرکب دعویٰ کی صورت میں ایک ہمہ گیر رویے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں روّیوں، جو دراصل ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، کے محتاط مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی اپنے اپنے میدان میں تجربے کی تطہیر کا عمل کرتے ہیں۔ ایک مثال میرے مطالب کی واضح طور پر تشریح کرے گی۔ انگلستان کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی نظریہ علت پر تنقید کو فلسفے کی بجائے سائنس کی تاریخ کا ایک باب سمجھا جانا چاہیے۔ سائنسی حسّیت کی روح کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہم کسی ایسے تصور پر کام نہیں کر سکتے جو موضوعی نوعیت کا ہو۔ ڈیوڈہیوم کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تجربی سائنس کو ’قوت‘ کے تصور سے رہائی دلائی جائے جس کا حسی تجربے میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ سائنسی عمل کی تطہیر کی جانب جدید ذہن کی یہ پہلی کاوش تھی۔ کائنات کے بارے میں آئن سٹائن کے ریاضیاتی نکتے نے تطہیر کا وہ عمل مکمل کر دیا جس کا ڈیوڈہیوم نے آغاز کیا اور ہیوم کی تنقید کی حقیقی روح کے مطابق اس نے قوت کے تصور سے نجات دلائی۔ ۲۲؎ وہ پیرا گراف جو میں نے ممتاز مسلمان صوفی کے حوالے سے اوپر دیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی نفسیات کا عملی طالب علم بھی تطہیر کے بارے میں ایسا ہی نکتہ نظر رکھتا ہے۔ اس کی معروضی حس بھی اسی طرح انہماک رکھتی ہے جس طرح کا انہماک کوئی سائنس دان اپنے میدان عمل میں رکھتا ہے۔ وہ ایک تجربے کے بعد دوسرے تجربے سے محض ایک تماشائی کے طور پر نہیں گزرتا بلکہ ایک ناقد کا کردار ادا کرتا ہے جو اپنے دائرہ تحقیق سے مخصوص تکنیکی مہارت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربے سے ہر طرح کے نفسیاتی اور عضویاتی موضوعی عناصر ختم کر دیتا ہے تاکہ بالآخر وہ ایک مطلق معروضیت تک پہنچ جائے۔ یہ حتمی اور قطعی تجربہ نئے عمل حیات کا انکشاف ہوتا ہے جو طبع زاد، اساسی اور فوری ہوتا ہے۔ خودی کا حتمی رازیہ ہے کہ جس وقت بھی وہ اس حتمی انکشاف تک پہنچتی ہے وہ اسے بغیر کسی معمولی سی ہچکچاہٹ کے اپنے وجود کی انتہائی اساس کے طور پر شناخت کر لیتی ہے۔ تاہم اس تجربے میں بذاتہ کسی قسم کی کوئی سرّیت نہیں اور نہ ہی جذبات انگیخت کوئی چیز ہے۔ اس تجربے کو جذبات سے محفوظ رکھنے کے لئے یقینا مسلمان صوفیا کی تکنیک یہ رہی ہے کہ انہوں نے بالالتزام عبادت میں موسیقی کے استعمال کو ممنوع قرار دیا اور معمول کی روزانہ پڑھی جانے والی باجماعت نمازوں کی ادائیگی پر زور دیا تاکہ خلوت کے مراقبے سے غیر معاشرتی اثرات کا تدارک ہو سکے۔ یوں یہ تجربہ ایک مکمل طور پرفطری تجربہ ہے اور خودی کے لئے ایک اہم ترین حیاتیاتی جواز کا حامل ہے۔ یہ تجربہ انسانی خودی کی فکر محض سے بلند تر پرواز اور دوامیت کے انکشاف کے ذریعے اپنی نا پائیداری پر قابو پالینے سے عبارت ہے۔ اس مقدس الوہی تلاش میں خودی کو جو واحد خطرہ درپیش ہے وہ اس کی اپنی کوشش میں سست خرامی ہے جواس تجربے میں لطف اندوزی کے سبب پیدا ہوتی ہے کیونکہ آخری تجربے کی طرف بڑھتے وقت مختلف کم تر تجربات اسے جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرقی صوفیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے برصغیر کے اس عظیم صوفی نے اصلاح کی ابتدا کی جس کی تحریر سے میں پہلے ہی اقتباس پیش کر چکا ہوں ۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ خودی کا حتمی مطمع نظرکسی شئے کا دیدار کرنا نہیں بلکہ خود کچھ بننا ہے۔ خودی کی اپنی کوشش کہ وہ کچھ بن جائے اسے یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی معروضیت کا زیادہ گہرا ادراک پیدا کرتے ہوئے زیادہ مستحکم بنیاد پر ’’میں ہوں‘‘ کہہ سکے۔ اس ’ میں ہوں‘ کی شہادت اسے ڈیکارٹ کی ’میں سوچتا ہوں‘ میں نہیں بلکہ کانٹ کی ’میںکر سکتا ہوں‘ میں ملتی ہے۔ خودی کی جستجو کی انتہا انفرادیت کی حدودوقیود سے آزادی نہیںبلکہ اس کے برعکس خود اپنی انفرادیت کا صحیح فہم ہے۔ آخری عمل محض عقلی عمل نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی عمل ہے جو خودی کے وجود کو اور گہرائی میں لے جاتا ہے اور اس کے ارادے کو اس تخلیقی ایقان سے تیز تر کرتا ہے کہ دنیا محض دیکھنے یا تصورات کے ذریعے جاننے کی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم مسلسل عمل سے پیہم تعمیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ خودی کے لئے یہ ایک اعلیٰ روحانی مسرت اور ساتھ ہی ساتھ ابتلا اور آزمائش کا ایک عظیم لمحہ بھی ہے۔ زندۂ یا مردۂ یا جان بلب از سہ شاہد کن شہادت را طلب شاہد اول شعورِ خویشتن خویش را دیدن بنورِ خویشتن شاہد ثانی شعور دیگرے خویش را دیدن بنور دیگرے شاہد ثالت شعور ذاتِ حق خویش را دیدن بنور ذاتِ حق پیش ایں نور اربمانی استوار حیّ و قائم چوں خدا خود را شمار برمقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است مرد مومن درنسازد با صفات مصطفی راضی نشد اِلاّ بذات چیست معراج ؟ آرزوئے شاہدے امتحانے رو بروئے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیقِ او زندگی ما را چو گل را رنگ و بو در حضورش کس نماند استوار ور بماند ہست او کامل عیار ذرئہ از کف مدہ تابے کہ ہست پختہ گیر اندر گرہ تابے کہ ہست تابِ خود را بر فزودن خوشتر است پیشِ خورشید آزمودن خوشتر است پیکرِ فرسودہ را دیگر تراش امتحانِ خویش کن ’موجود‘ باش ایں چنیں ’’موجود‘‘ محمود است و بس ورنہ نار زندگی دودِ است و بس ۲۳؎ (جاوید نامہ)