موضوعاتِ خطباتِ اقبال (ترتیب وار بلحاظ حروفِ تہجی) ترجمہ و تشریح محمد شریف بقا اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-356-0 طبع اوّل : ۲۰۰۶ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۲۵۰روپے مطبع : دارالفکر ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ دیباچہ ……………… ۱ آئین سازی ………… ۵ اپنے بارے میں ………… ۷ اجتہاد ……………… ۹ اسلام ……………… ۱۵ اشاعرہ ……………… ۲۱ انسان ……………… ۲۲ باطن ……………… ۲۷ بقا ………………… ۲۹ تاریخ ……………… ۳۱ تصوف ……………… ۳۳ تقدیر ……………… ۴۲ توحید ……………… ۵۰ ثقافت ……………… ۵۴ جسم و جان (روح و بدن) … … ۵۶ جفا کشی ……………… ۶۸ جلال و جمال…………… ۷۰ جمہوریت …………… ۷۳ خدا………………… ۷۸ خطبات……………… ۸۲ خودی ……………… ۸۵ خیر و شر ……………… ۱۰۸ دُعاو نماز ……………… ۱۱۰ دورِ حاضر …………… ۱۱۳ دین و سیاست ………… ۱۱۶ دین و مذہب…………… ۱۱۹ رسول کریم ﷺ………… ۱۲۳ روحانیت …………… ۱۲۵ زمان …… ………… ۱۲۸ زندگی ……………… ۱۴۴ سائنس……………… ۱۴۷ سائنس اور مذہب ……… ۱۵۵ سرمایہ داری …………… ۱۶۲ شریعت اور طریقت ……… ۱۶۵ شعور ……………… ۱۶۸ صُوفی ……………… ۱۷۲ عقل و خرد …………… ۱۷۳ علم ……………… ۱۷۷ فراریت …………… ۱۸۲ فلسفہ ……………… ۱۸۴ فکر اور وجدان ………… ۱۸۷ فقہ ……………… ۱۹۴ فلسفہ اور مذہب ………… ۲۰۱ قرآن حکیم …………… ۲۰۴ قوم ……………… ۲۱۹ کائنات …………… ۲۲۱ مادہ پرستی …………… ۲۳۴ ماضی ……………… ۲۴۲ مسلم ممالک …………… ۲۴۵ مغربی کلچر …………… ۲۴۹ مکان ……………… ۲۵۲ نفسیات …………… ۲۶۳ وحی و الہام …………… ۲۶۷ وطنیت و قومیت … ……… ۲۷۱ یورپ ……………… ۲۷۴ یورپی فلسفہ …………… ۲۷۷ دیباچہ مفکر اسلام اور شاعرِ انسانیت علامہ اقبالؒ زیادہ تر اپنی شاعری کی بنا پر مشہور و معروف ہوچکے ہیں اس لیے اُن کی نثری تصانیف کو وہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا جواُن کی شعری تصانیف کو دیا جاتا ہے۔ایک عظیم فلسفی،دور اندیش مفکر اور اعلیٰ مدبر کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنے افکار عالیہ کو نثر میں بھی بیان کرکے اپنی فکر ی عظمت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔اس نقطہ نظر سے اُنکی نثری نگارشات کا گہرا مطالعہ بھی ہمارے لیے بہت زیادہ مفید اور فکر انگیز ثابت ہوگا۔اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اب اُن کے نثرپاروں کو بھی عوام میں مقبول بنایا جائے تاکہ ہم اُن کے اعلیٰ خیالات کی وسعت اور گہرائی سے آگاہ ہوسکیں۔ علامہ اقبالؒ کی نثری تصانیف میںاُن کی کتاب’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کو فلسفیانہ، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے بلند ترین مقام کی مستحق قرار دیا جاتا ہے۔اس بات میں ہرگز کوئی کلام نہیں کہ اُن کی یہ بے مثال اور خیال افروز تصنیف اُن کے پختہ خیالات،زندگی کے عمیق مشاہدات ،سیاست کے اعلیٰ تجربات،گہری روحانی واردات اور گوناگوں حقائق و معارف کا ایک انمول خزانہ ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کتاب میں اُنھوں نے فکر وفن،سیاست ودین اور تہذیب وثقافت کے مختلف اہم امور کے بارے میں اپنے عملی نظریات کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔بلاشبہ اُن کی یہ کتاب اُن کے فکر و نظر کی معراج اور اُنکی عمیق ذہنی کیفیات کا عکس تمام ہے۔ یہ ہمارا عظیم قومی المیہ ہے کہ اس کتاب کی کماحقہ،اشاعت وفروغ کا انتظام نہیں ہوسکا۔اس امر سے تو انکار نہیں کہ فلسفیانہ مسائل، سیاسی حقائق اور دینی غوامض پر مبنی ہونے کے باعث اس کی تفہیم اُن کی شاعری کی طرح آسان نہیں تاہم اقبالیات سے بخوبی آشنا حضرات اور مداحین اقبال ؒ کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ اُس کے متنوع مندرجات کو عوام الناس کی سمجھ کے قریب تر لانے کی ہرممکن کوشش کرتے۔ہمارے فضلا اور عقیدت مندان اقبال ؒشاعر مشرق کی شاعری کی دنیا میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ اُنھوں نے دور حاضر میں اسلام کے اس نابغہ شارح کی نثر کی طرف چنداں توجہ نہ دی۔ کیا یہ امر مسلمہ نہیں کہ کسی ممدوح اور محبوب کی ہر بات لائق التفات اور باعث کشش تصور کی جاتی ہے؟ شاعر مشرق،مفکر اسلام حضرت علامہ اقبالؒ سے عقیدت و محبت رکھنے والوں کیلیے اُن کی نثر بھی اتنی ہی اہم ہونی چاہیے جتنی کہ اُن کی شاعری ہے۔اُن کی نظم سے بے پناہ لگائو اور اُنکی نثر سے اس قدر کھچائو کا انداز اب راہ ِاعتدال پر چلنے کامتقاضی ہے۔کیا ہمارے یہ عظیم شاعر اور فلسفی اپنے نور بصیرت کو عام کرنے کے خواہش مند نہیں تھے؟ نظم ہو یا نثر وہ دونوں اظہار کے علاوہ ابلاغ کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔خدا کرے کہ ہمارے دانشور اب علامہ اقبالؒ کی اس کتاب کو بھی مقبول عام بنانے کی طرف متوجہ ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے دنیائے اسلام کے اس شہرہ آفاق مفکر اور عظیم المرتبت فلسفی کی مذکورہ بالا مشہورکتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے اہم مندرجات کی ترجمہ نما تشریح کرکے اسے آسان زبان میں پیش کرنے کی حتی الامکان سعی کی تھی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ مشکل اصطلا حات سے کافی حد تک دامن چھڑا کر اسے عام فہم بنادوں تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک حضرت علامہ اقبالؒ کے افکارو احساسات کا ابلاغ ممکن ہوجائے۔میں نے اُن کے سات خطبات پر مشتمل اس کتاب کی تلخیص وتشریح کو اپنی کتاب’’ خطبات اقبالؒ پر ایک نظر‘‘ میں بیان کردیا تھا۔میری یہ حقیر علمی کتاب اپریل1974 ء میں لاہور سے شائع ہوگئی تھی۔اس کا دیباچہ مشہورماہراقبالیات،ممتازتعلیم دان اورصدر شعبہ اُردو ،دائرہ معارف اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر سیّد عبداﷲ مرحوم نے تحریر کیا تھا۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن اب اقبال اکیڈمی پاکستان شائع کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔اس کتاب کو مزید واضح کرنے کے لیے میں نے اپنی یہ موجودہ کتاب’’موضوعات خطبات اقبالؒ ‘‘ تیار کی ہے جس میں علامہ اقبالؒ کے مختلف موضوعات سے متعلق افکار کو ترتیب وار درج کردیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اُن کے فکری ارتقا کا پتہ چل سکے۔اُن تمام موضوعات کو حروف تہجی کے لحاظ سے قلم بند کردیا گیا ہے۔ان موضوعات کی وضاحت کے دوران،میں نے کہیں کہیں علامہ اقبالؒ کے وہ اشعار بھی بطور حوالہ درج کردئیے ہیں جن کا متعلقہ موضوع کے کسی نہ کسی پہلو سے گہرا ربط ہے۔ اس لحاظ سے اُن کی شاعری اور اُن کی نثر کے درمیان اس فکری یگانگت اور اتحاد خیال پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ یہ موجودہ کتاب بھی اقبالیات کی تسہیل اور تفہیم کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔خد ا تعالیٰ کرے میری یہ موجودہ سعی بار آور ہو اور اس سے زیادہ سے زیادہ آسان ابلاغ کی راہ ہموار ہوجائے۔ اب قارئین کرام اس کا بخوبی فیصلہ کرسکیں گے کہ میں کس حد تک اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں۔میںنے تو اپنی متاعِ فکر کو اُن کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اب اس کی کمی اور بیشی کاحساب وہ جانیں:۔ ؎ سپردم بتو مایۂ خویش را تُو دانی حسابِ کم وبیش را 18 اگست1988ء محمد شریف بقاؔ آئین سازی (۱) ’’ جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سرچشموں اور اُن سے متعلقہ عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں توفقہی مذاہب کے مفر وضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی‘‘۔ (چھٹا خطبہ) (۲)’’کوئی قوم بھی مکمل طور پر ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی‘‘۔ (ایضاً) (۳)’’ یہ امر ہمارے لیے بہت زیادہ اطمینا ن کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتوں اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظر یہ اجماع کے امکانات اور اسکی قدروقیمت مرتسم کررہے ہیں۔اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘ (ایضاً) ٭…٭ اس امر سے انکار کرنا محال ہے کہ اسلامی آئین کی تدوین وترتیب میں قرآن حکیم، احادیث نبویؐ ،اجماع اور قیاس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اسلامی آئین کو بناتے وقت سب سے پہلے آسمانی ہدایت کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔اگر قرآن مجید میں کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہوتا تو پھر اسلامی شریعت اور اسلامی قوانین کے ماہرین اور علماء نبی اکرمؐ کے اقوال واعمال یعنی احادیث سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔اگر احادیث سے بھی کسی خاص امر پر روشنی نہ پڑتی تو فقہائے اُمتّ اجماع(اجتماعی مشاورت) کو آئین محمدی ؐ کا تیسرا اہم منبع قرار دیتے تھے۔اگر قرآن مجید،احادیث ، اور اجماع سے بھی متعلقہ مسئلے کا حل نہ نکلتا تو وہ قیاس(ذاتی رائے) سے کام لیا کرتے تھے۔اس لحاظ سے قرآن اسلامی قانون سازی کا پہلا سرچشمہ،احادیث رسول ﷺ اس کا دوسرا ضروری منبع،اجماع اس کا تیسرا بڑا ماخذ اور قیاس اس کی اساس کا درجہ رکھتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒنے اسلامی آئین کو زیادہ جامع،متحرک اور وسیع بنانے میں جو نمایاں حصہ لیا تھا وہ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان علما اور فقہا کی کوششوں سے اسلامی آئین سازی کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمود کی بجائے اجتہاد کے زبردست قائل تھے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی قانون زندگی کی حرکت پذیری اور کائنات کے ارتقاء کومدنظر رکھتے ہوئے ہمیں نئے نئے مسائل اور بدلتے ہوئے سماجی حالات کی اہمیت کا احساس دلا کر اجتہاد پر اُبھارتا ہے تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے رہیں۔اس لحاظ سے اس کا حال اور مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ علامہ اقبال ؒہم پر یہ حقیقت بھی منکشف کرتے ہیں کہ زندگی اور آئین سازی کا صرف حال اور مستقبل پر انحصار ہی نہیں بلکہ وہ ماضی سے بھی وابستہ ہیں۔ماضی کی اعلیٰ قدروں اس کے تعمیری اُصولوں اور انسانیت ساز روایات کو مکمل طور پر نظرانداز کردینے سے اسلامی آئین ،توازن اور ثبات کی صفت سے محروم ہوجائے گا۔اس نقطہ نظر سے متقدین اور علمائے سلف کی قانونی تعبیرات وتشریحات سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ علامہ اقبالؒ ہمیشہ جمود اور ذہنی کاہلی کے زبردست مخالف تھے۔وہ اسلامی آئین سازی کو جمود اور ذہنی سستی کی زنجیروں سے آزاد کروانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے کیونکہ وہ متحرک نظریہ حیات اور ارتقاء پذیر زندگی کو فرد اور جماعت کے لیے بے حد اہم تصور کرتے تھے۔ جب زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس وقت ہمیں نئے حالات اور نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نئے مسائل کے تسلی بخش اور بہتر حل کے لیے انفرادی رائے کی بجائے اجتماعی مشاورت کے اصول کو اپنانا حقیقت پسندی اور دانش مندی کی دلیل ہے۔مسلم ممالک میں نئے حالات کے پیش نظر قانون ساز مجالس کا قیام علامہ اقبال ؒ کے لیے وجہ شادمانی بن گیا تھا۔ اپنے بارے میں (۱) ’’ ممکن ہے میرے پیش کردہ نظریات سے بہتر اور مناسب تر نظریات پیش کیے جائیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم فکر انسانی کی روز افزوں ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریق کار اختیار کریں‘‘ (دیباچہ) مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒنے کبھی اپنے ذاتی افکار ونظریات کو حرف ِآخر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ایک حقیقت پسند مفکر اور دور اندیش مدبر کی حیثیت سے وہ دوسروں کے بہتر اور زیادہ مفید خیالات کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔اُن کے ذاتی نظریات کسی اندھا دھند تقلید، تعصب اور کم علمی پر مبنی نہیں تھے بلکہ اُن میں ہمیں جابجا صداقت طلبی، فراخ دِلی ،وسیع النظری،وسعت مطالعہ اور خلوص نیت کے عناصر گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں ۔جو انسان خوب سے خوب تراور اعلیٰ حقائق پر پختہ یقین رکھتا ہو وہ کیسے اپنے نظریات کو حرف آخر قرار دے سکتا ہے؟۔کیا ہر دور میں انسانی نظریات اور فلسفیانہ خیالات میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی رہی؟ کیا زندگی کی ارتقا پذیری اور گونا گوں تغیرات نے ہمیں نئے افکار سے روشناس نہیں کیا؟ کیا انسانی عقل کی تگ وتاز کا میدان ہمیشہ محدود نہیں رہا؟جب کوئی انسان زندگی کی تمام حقیقتوں کو نہیں جانتا تو وہ اپنے ذاتی خیالات کو کیسے دائمی قرار دے سکتا ہے؟ دانائے راز ہونے کے باوجود علامہ اقبالؒ اپنے ذاتی خیالات کو آخری حد قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سے اُن کی عظمت کردار ،صداقت پسندی،عاجزی اور علم دوستی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں اس امر کو واضح کردینا اشدضروری ہے کہ وہ اپنی رائے کو آخری سند تونہیں کہتے لیکن وہ قرآنی حقائق اور آسمانی ہدایت کی آفاقیت اور ابدی اہمیت و افادیت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ انسانی عقل کی محدود اور ناقص سرگرمیاں وحی والہام کی غیر محدود اور کامل صداقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ کہاں عقل انسانی کے نئے نئے آراستہ بت اور کہاں الہام رّبانی کی بت شکن ضربیں؟ علامہ اقبال ؒ اپنی ذاتی اور فکری رائے کی تغیر پذیری اور محدودیت کے تو قائل تھے لیکن وہ اسلام کے پیش کردہ حیات بخش اور حقیقی نظریات میں تمام انسانوں کی دنیوی اور اخروی نجات کا راز پوشیدہ سمجھتے تھے۔وہ قرآنی حقائق کی ہمہ گیر افادیت اور ابدیت کا یوں برملا اظہار کرتے ہیں۔ ؎ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت ِاُو لایزال است وقدیم (ترجمہ: قرآن حکیم وہ زندہ کتاب ہے جس کی حکمت لازوال اور قدیم ہے)۔ ( کلیات اقبال فارسی،ص ۱۳۱؍۱۱۵) یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زندگی اور حرکت پذیری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی حرکت ہے اور جمود موت ہے۔جب زندگی کا تغیر کے ساتھ اتنا گہرا ربط ہے تو اس کے مختلف گوشے بھی لازمی طور پر تبدیلی کے مظہر ہوں گے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی اعمال اور انسانی افکار کی روز افزوں ترقی کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ آزادنہ… تنقید کے طریق کار کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔وہ ہمیں ہر نئی بات اور نئے نظریے کو اندھا دھند اختیار کرنے سے روکتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں نہ تو ماضی کی ہر بات اٹل ہے اور نہ ہی حال اور مستقبل کا ہر نظریہ کلیتہً درست ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہر بات کی اچھائی اور برائی کا جائزہ لینا ہوگا۔ اجتہاد (۱)’’اگر افریقہ اور ایشیا کے موجودہ مسلمان دین کی تجدید کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ نئے زمانے کے حالات کا یہی تقاضا ہے۔ہمارے پاس اب بھی یقینا کافی وقت ہے کہ ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات کا بخوبی جائزہ لیں‘‘ (پہلا خطبہ) (۲) ’’اگر اسلام کی نشاۃ ثانیہ حقیقت ہے اور یہ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا احیا ایک حقیقت ہے تو ہمیں بھی کسی نہ کسی دن ترکوں کی مانند اپنے ورثے کی قدر وقیمت کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا‘‘ (چھٹاخطبہ) (۳)’’پہلی صدی کے تقریباً نصف سے لے کر چوتھی صدی کے آغاز تک کم وبیش اُنیس فقہی مذاہب موجود تھے۔اس حقیقت سے ہمیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیم علما نے ارتقا پذیر اسلامی تہذیب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کس قدر جاں فشانی سے کام لیا تھا۔ اسلامی فتوحات اورنتیجتاً اسلامی نقطہ نگاہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ ہمارے ان متقدین کو حالات و واقعات کا بنظر غائر مطالعہ کرنا پڑا تھا۔علاوہ ازیں اُنھیں حلقہ بگوش اسلام ہونے والی نئی نئی قوموں کی عادات اور مقامی حالات زندگی کا بھی جائزہ لینا پڑا‘‘ (ایضاً) (۴)’’جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سرچشموں اور اُن کی عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو فقہی مذاہب کے مفروضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی‘‘ (ایضاً) (۵)’’ آجکل دنیائے اسلام اُن نئی نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہے جو انسانی خیالات کی ہمہ گیر اور غیرمعمولی ترقی کی بنا پر برسر عمل ہیں۔ اندریں حالات میرے خیال میں فقہ کی خاتمیت پر یقین رکھنا معقول بات نہیں۔کیافقہی مذاہب کے بانیوں نے کبھی اپنے دلائل اور تعبیرات کو حرف آخر ماننے کا مطالبہ کیا تھا؟ہرگز نہیں‘‘ (ایضاً) (۶)’’ اگر موجودہ دور کے آزاد خیال مسلمان حیات نو کے بدلے ہوئے حالات اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسلام کے بنیادی قانونی اُصولوں کی نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں تو اُن کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے‘‘ (ایضاً) (۷)’’یہ امر ہمارے لیے زیادہ اطمینا ن کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتوں کا دبائو اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظریہ اجماع کے امکانات اور اس کی قدر وقیمت مرتسم کررہے ہیں‘‘ (ایضاً) (۸)’’ آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام رفیع کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘ (ایضاً) (۹)’’ دور جدید کے مسلمان کے سامنے بہت بڑا کام ہے۔اس کا اولین فریضہ ماضی سے مکمل طور پر رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام کے تمام نظام کے بارے میں ازسر نو غور کرنا ہے۔شاید پہلا مسلم جس نے اپنے اندر اس نئی سپرٹ کی شدت کو محسوس کیا تھا وہ شاہ ولی اﷲ دہلویؒ تھا‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۰)’’ہمارے لیے اب ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم علوم جدیدہ کی طرف ادب واحترام کے ساتھ آزادی رائے کو برقرار رکھتے ہوئے بڑھیں اور اسلام کی تعلیمات کو ان علوم کی روشنی میں بیان کریں۔ ہوسکتا ہے کہ اس ضمن میں ہم اپنے متقدمین سے اختلاف رائے کریں‘‘ (ایضاً) دین اسلام کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا یہ پختہ ایمان تھا کہ وہ ایک عالمگیر‘ فطری،متحرک اور ارتقاء پذیر ضابطہ حیات ہے جس کی تعلیمات کسی خاص دور اور کسی خاص ملک تک محدود نہیں۔اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت اور رسول کریم ؐ کی عالمینی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآنی حقائق کو بھی آفاقی تناظر میں دیکھتے ہوئے اُن کی اہمیت وافادیت کو ہر دور اور ہر زمانے کے تقاضوں کے لیے تسلی بخش پائیں۔ ہادی اعظمؐ کی نبوت چونکہ آفاقی اور ابدی شان کی حامل ہے اس لیے آئین محمدیؐ میں دوام اور ابدیت کا رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ آئین محمدیؐ ہی اب تمام انسانوں کی فلاح وبہبود کا ضامن قرار پایا ہے۔اس عقیدے کی رو سے زندگی کے بدلتے ہوئے حالات میں نت نئے مسائل کا حل ہمیں قرآن وسنت میں تلاش کرنا ہوگا۔قرآن حکیم میں جابجا کائنات اور زندگی کی نیرنگیوں اور تبدیلیوں کی طرف واضح اشارات موجود ہیں۔اس امر سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی جوئے رواں کی مانند ہر وقت رواں دواں ہے۔قرآن چونکہ مکمل ضابطہ حیات تصور کیا جاتا ہے بنابریںاس کتابِ ہدایت میںزندگی اور کائنات کی بدلتی ہوئی حالتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خالق کائنات کا ارشاد ہے:’’کل یوم ھو فی شان‘‘(ترجمہ:خدا تعالیٰ ہر روز نئی جلوہ گری کرتا رہتا ہے)۔خدا تعالیٰ کی اس خلاقی صفت کی بدولت دنیا میں نت نئے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں۔اگر وہ اپنی صفت تخلیق کو ظاہر نہ کرے تو جہان رنگ وبو میں تنوع اور بوقلمونی کا عنصر بھی ختم ہوجائے۔اس قرآنی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیائے جدید کے عظیم اسلامی مفکر اور قرآنی حقائق ومعارف کے بے نظیر شارح علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا تھا:۔ ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون (کلیات اقبال ،ص ۳۲۰) علامہ اقبالؒ قرآنی تعلیمات اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں زندگی کے نئے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے اور جدید علوم کی افادیت کو پیش نظر رکھ کر اسلام کی نئی تعبیر کی سعی کرنے کے حق میں تھے۔اُن کے تصورِ اجتہاد میں اسلامی نظریات اور ماضی کی شاندار روایات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔وہ کسی طرح بھی لاد ین نظریہ اجتہاد کے قائل نہیں تھے۔وہ بڑے خلوص کیساتھ اس امر پرپختہ یقین رکھتے تھے کہ صحیح اسلامی تصور زندگی میں ہی ہماری گو ناگوں مشکلات اور عصری مقتضیات کے تسلی بخش حل کا راز پوشیدہ ہے۔اُنھیں ان لوگوں کی کج فہمی اور جہالت پر رونا آتا ہے جو قرآن حکیم کو موجودہ دور میں ناقابل عمل خیال کرتے ہیں۔اُنکی نظر میں قرآن نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والے تمام زمانوں اور لوگوں کی دنیوی اور اخروی فلاح ونجات کا مظہر ہے جیسا کہ اُن کے اس شعر سے بھی ثابت ہوتا ہے۔وہ قرآن حکیم کے بارے میں فرماتے ہیں:۔ ؎ صد جہاں پوشیدہ در آیاتِ اُو عصر ہا پیچیدہ در آنات اُو (ترجمہ: اس کی آیات میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اور اس کی آنات میں کئی زمانے لپٹے ہوئے ہیں)۔ یہ کتاب الٰہی چونکہ آخری کتاب ہدایت ہے اس لیے اب یہی تمام انسانوں کے گوناگوں مسائل کا حل پیش کرتی رہے گی۔اگر ہمارا یہ عقیدہ درست ہے کہ قرآن مکمل دستور حیات اور خدا تعالیٰ کا آخری پیغام ہے تو پھر لامحالہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی ابدی اور آفاقی تعلیمات کی پیروی میں ہی ہماری اہم مشکلات کا حل موجود ہے۔علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کے چار بڑے اور مسلمہ منابع(قرآن پاک،احادیث، اجماع اور قیاس) کی روشنی میں ہی ہمیں غور وفکر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہمیں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘۔کیا قرآن مجیدہمیںبار بار فکر وتدبر کی دعوت نہیں دیتا؟کیا ہمیں اپنے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنی عقلی صلاحیتوں کو بروے کار نہیں لانا چاہیے؟کیا خدا نے ہمیں عقل کی نعمت دے کر اُسے صحیح انداز میں استعمال کرنے کا حکم نہیں دیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خدا تعالیٰ نے تدبر اور تفکر نہ کرنے والوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے؟اس امر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ موجودہ دور کے مسلمانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق’’اسلام کی بنیادی تعلیمات کا بخوبی جائزہ‘‘ لینا چاہیے۔ وہ مستقبل کو خوشگوار اور بہتر بنانے کے لیے ماضی اور حال دونوں کے امتزاج پر یقین رکھتے تھے۔ ’آئین نو‘ سے ڈر کر’ طرز کہن‘ پر اڑنا قومی اور ملی زندگی کے لیے کسی قدر کٹھن تو ہوا کرتا ہے مگر تبدیلی کو اختیار کئے بغیر بھی کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔شاعر مشرق اور ترجمان فطرت علامہ اقبالؒ نے قوموں کی اس ذہنی کشمکش اور اندرونی تذبذب کی یوں عکاسی کی ہے:۔ ؎ آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں (بانگ ِدرا) جو قوم زندگی کے نئے حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتی وہ لازماً ترقی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔اگر موجودہ مسلمان ممالک نئے علوم اور نئے فنون میںکمال حاصل کرتے تو ہ آج غیر مسلم قوموں کے حاشیہ بردار،دست نگر اور غلام نہ ہوتے۔ ہمارے اس ملی زوال کا ایک بڑا سبب ہماری علمی پس ماندگی اور ذہنی جمود بھی ہے۔ اسلامی آئین اور شریعت محمدی ؐ کو زیادہ جاذب،متنوع اور وسیع بنانے کے لیے ہمارے قدیم علما اور فقہا نے جو اہم کردار ادا کیا تھا وہ ہم سے مخفی نہیں رہا۔جب تک اسلام جزیرۃ العرب تک محدور رہا اس وقت تک اسلامی آئین بھی وسعت پذیر نہ ہوسکا۔ بعد ازاں اسلامی فتوحات اور اسلامی نظریات کا حلقہ اثر وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ نومسلموں اور غیر مسلموں سے میل جول بھی بڑھتا گیا۔ اس میل جول کی بنا پر قدیم مسلمانوں کو نئے تہذیبی،ثقافتی،معاشرتی ،اقتصادی اور سیاسی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔اسلامی خلافت اور حکومت کے تحت زندگی بسر کرنے والے نئے لوگوں کے نظریاتی اور تمدنی حالات میں کافی فرق تھا اس لیے ہمارے دور اندیش اور ذہین علما اور فقہا نے قرآن اور اُسوہ رسو لؐ کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی آئین میں بھی تبدیلیاں پیدا کیں۔اگر وہ ہماری طرح کلیتہً قدامت پسند اور جمود پسند ہوتے تو وہ مختلف فقہی مکاتب فکر کی بنیاد نہ رکھتے اور آج اسلامی آئین ہمہ گیریت کے عنصر سے خالی ہوتا۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ،امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو یوسفؒ نے نئے نئے حالات سے دوچار ہوکر علمی بحثوں اور فقہی سرگرمیوں کا قابل قدر آغاز کیا۔ان بزرگوں کی عملی بحثوں اور فکری کاوشوں سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ وہ جمود کی بجائے اجتہاد کے زبردست علم بردار تھے۔ان فقہا نے کبھی اپنی فکری کاوشوں اور علمی نتائج کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیاتھا۔وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ صرف قولِ خدا ہی حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔انسانی عقل محدود ہونے کے باعث کبھی دائمی نظریات اور ابدی حقائق کو جنم نہیں دے سکتی۔کیا انسان کی محدود عقل غیر محدود خیالات کو جنم دے سکتی ہے؟ وحی والہام کی صداقتوں کو ہی دوام کی صفت عطا کی گئی ہے۔بقول علامہ اقبالؒ انسانی عقل ’’چراغ راہ ‘‘تو ہے لیکن یہ’’منزل‘‘نہیں ہوسکتی۔قرآنی تعلیمات کے عمیق مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآنی حقائق تغیر وثبات کے عالمگیر اُصول کی اہمیت وافادیت کے عکاس ہیں۔زندگی نہ تو محض تغیرات کا مجموعہ ہے اور نہ ہی محض مثبت اقدار کی حامل ہے۔اس میں تغیر کا رنگ بھی ہے اور دوام کی شان بھی۔ جو آئین تغیر وثبات کی صفت کا حامل نہیں وہ کبھی بھی آنے والے ادوار کی گتھیاں نہیں سلجھا سکتا۔ علامہ اقبالؒ قدیم مسلمان علما، فقہا اور شریعت کے رمز شناس بزرگوں کی علمی عظمت، فکری اصابت ِرائے اور خلوص کے بے حد قدر دان ہیں۔وہ بار بار اُن کا نام بڑے ادب واحترام کے ساتھ لیتے ہیں۔اس قدر دانی کے ساتھ ساتھ وہ انسانی افکار کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ اسلام کو ایک حرکی، انقلاب آفرین، ارتقا پذیر اور جاندار ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔اس تصور کے پیش نظر وہ شاہ ولی اﷲ کی اجتہادی فکر کے مداح ہیں۔رسول خدا ؐکے عہد میں بھی ہمیں اس اجتہاد فکر ونظر کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے اجتہاد کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔علامہ اقبال ؒاپنی ایک مختصر نظم’’ اجتہاد‘‘ میں ہمارے ذہنی جمود اور فکری زوال کے ضمن میں یوں شکوہ طراز ہیں:۔ ہند میں حکمت دیںکوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذتِ کردار نہ افکارِ عمیق حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں آہ! محکومی و تقلید و زوال تحقیق خود بدلتے نہیں،قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق (ضرب کلیم، کلیات اقبال ص ۴۸۴) دورِ جدید میں ترکوں نے سب سے پہلے اجتہاد کو بروئے کار لاکر اپنے ذہنی ورثے کی قدروقیمت کا جب ازسر نو جائزہ لیا تو علامہ اقبالؒ نے اسے بہت سراہا تھا۔وہ ترکوں کی مانند دیگر مسلم ممالک کو بھی اجتہادی فکر سے کام لینے پر زور دیتے رہے۔اس بات سے یہ ہرگز نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ترکوں کے لادینی نظریات سے بھی متفق تھے۔جب مصطفیٰ کمال پاشا نے جدّت پسندی کی رو میں بہہ کر سب سے پہلے غیر اسلامی قوانین نافذ کئے تو علامہ اقبالؒ نے اس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ کہا تھا:۔ لادینی ولاطینی!کس پیچ میں اُلجھا تو دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب الّا ھوُ (ضرب کلیم،کلیات اقبال ،ص ۶۴۳) وہ اسی اجتہاد فکر ونظر کے قائل تھے جس کی اسلامی نظریات اور قرآنی تعلیمات پر بنیاد ہو۔ اقبالؒ کے تصورِاجتہاد کے ضمن میں یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہر کس وناکس کو اجتہاد کا حق دینے کے قائل تھے۔اُنکی نگاہ میں اجتہاد کرنے کے لیے چند بنیادی اُمور اور شرائط کی پابندی لازمی ہوا کرتی ہے۔قرآن وحدیث،اجماع اور قیاس کے تاریخی پس منظر،قرآنی حقائق،نئے مسائل کے حل اور درست ادراک اور نئے علمی اکتشافات کے گہرے علم کے بغیر اجتہاد کرنا یقینا مفید نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔دینی تبحر اور مومنانہ فراست کی مشعل فروزاں کو چھوڑ کراجتہاد کی وادی میں سرگرداں ہونے کی سعی کم علمی کی واضح دلیل ہوگی۔ علامہ اقبالؒ ایسے تنگ نظر اور کم سواد علما کی اجتہادی فکر پر قدیم علما اور فقہا کی تقلید کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ز اجتہادِ عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگان محفوظ تر عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست کارِ پاکاں از غرض آلودہ نیست فکر ِشاں رَلسید ہمے باریک تر ورعِ شاں بامصطفی نزدیک تر تنگ برما رہگذار دین شدہ است ہر لئیمے راز دارِ دین شداست ( رموزِ بے خودی،کلیات اقبال ص ۱۲۵) اسلام (۱)’’ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ (پانچواںخطبہ) (۲)’’یورپی ترقی کا ایک بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی کلچر کے اثرات موجود نہیں‘‘ (ایضاً) (۳)’’یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ میں قطعی طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین کیا ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’یہ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا احیا ایک حقیقت ہے‘‘ (ایضاً) (۶)’’اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے‘‘ (ایضاً) (۷) ’’اسلام میں روحانی زندگی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ ۔ (ایضاً) (۸)’’عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات،حریت اور استحکام ہے۔اسلام کے زاویہ نگاہ سے ریاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے۔گویا کہ مساوات،حریت اور استحکام کو محضوص انسانی تنظیم میں متشکل کرنے کی یہ آرزو ہے‘‘ (ایضاً) )۹)جس طرح محض انگریزی ریاضیات،جرمن فلکیات اور فرانسیسی علم کیمیا کاو جود نہیں ہوتا اسی طرح ترکی،عربی، ایرانی ا ور ہندوستانی اسلام کا بھی کوئی و جود نہیں ہوتا‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ فی الحال ہر ایک مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پرمرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ اس قدر طاقت ور ہوجائیں کہ جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘ (ایضاً) (۱۱) ’’اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشائیت پر منحصر ہے بلکہ یہ تو ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف تعارف کی سہولت کے لیے تسلیم کرتی ہے۔ یہ اپنے ارکان کے سماجی اُفق کو محدود نہیں کرتی‘‘ (ایضاً) (۱۲)’’ اسلام کی روح اتنی وسیع ہے کہ یہ عملی طور پر بے پایاں ہے۔الحاد پرستانہ تصورات کے علاوہ اس نے گردوپیش کی قوموں کے قابل جذب نظریات کو اپنے اندر جذب کرکے اور اُنھیں اپنے مخصوص رنگ میں رنگ کر ترقی دی ہے‘‘ (ایضاً) علامہ اقبالؒ کی رائے میں ختم نبوت کے عقیدے کی رو سے اب انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مسائل حیات کی گرہ کشائی کے لیے مطالعہ تاریخ اور مشاہدہ کائنات سے بھی رہنمائی حاصل کرے۔ جب انسانی ذہن طفولیت کے عالم میں تھا اُس وقت وہ مظاہر فطرت کی تسخیر سے بے خبر تھا۔قدرت کے ان عجیب وغریب اور ہولناک نظاروں کو دیکھ کروہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہوجایا کرتا تھا۔انبیاء کرام ؑ ایسے حالات میں ان حقیقت ناشناس اور مظاہر پرست انسانوں کو غیر اﷲ کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے واحد کا پرستار بنانے کی جدوجہد کرتے رہے۔جب نبی اکرمؐ کی بعثت کا اعلان کیا گیا تو اُنھوں نے انسانوں کو غیر اﷲ کی محکومیت سے چھڑا کر خدا کا معتقد بنایا اور اُنھیں یہ بتایا کہ یہ تمام مظاہر فطرت ہماری خدمت اور تسخیر کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔قرآن حکیم کی اس آیت ’’ وسخر لکم ما فی السمٰوٰت وما فی الاِرض جمیعا‘‘(الجاثیہ ۴۵:۱۳):( خدا نے تمھارے لیے تما م سماوی اور ارضی اشیاء مسخر کردی ہیں) کے مصداق ہمیں تسخیر آفاق کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تسخیر کائنات عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے بغیر ناممکن تھی اس لیے انسان کو تفکر وتدبر سے کام لینے کا درس دیاگیا ۔یونانی حکما خصوصاً سقراط اور افلاطون نے ظاہری عالم کی بجائے باطنی دنیا کو لائق مطالعہ قرار دیا تھا۔اسلام نے آکر ہمیں بتایا کہ انفس(باطنی دنیا) اور آفاق(خارجی دنیا) دونوں کا مطالعہ یکساں طور پر ضروری ہے۔ اس امرِ قرآنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفکر اسلام علامہ اقبال ؒنے بجا کہا ہے کہ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کاظہور ہے‘‘ یورپی سائنس اور یورپی ترقی کے ایک اہم منبع یعنی اسلامی ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ عربی ثقافت نے ہی موجودہ یورپی ترقی کو جنم دیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ کی ظاہری ترقی اور سائنسی پیش رفت دراصل عرب مسلمانوں خصوصاً ہسپانوی مسلمانوں کی مرہوں منت ہیں کیونکہ یورپ میں علم و حکمت کی روشنی پھیلانے والے مغربی مصنفین نے ہسپانیہ کے مسلمان حکما سے تربیت حاصل کی تھی۔اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں یورپی مصنفین نے کئی صدیوں تک بخل اور بددیانتی سے کام لیا تھا۔بعد ازان چند مغربی مفکرین خصوصاً بریفالٹ وغیرہ اس امر کا ببانگِ دہل اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ونثر میں اس کو اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ درج ذیل اشعار اس بات کے شاہد ہیں۔ حکمت ِ اشیا فرنگی زاد است اصلِ اُوجز لذّت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دستِ ما افتادہ است چوں عرب اندر ارو پا پر کشاد علم و حکمت رابنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشنیاں کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشئہ اسلاف ماست باز صید ش کن کہ اُو ازقاف ماست لیکن از تہذیب لا د ینی گریز زاں کہ اُو با اہل حق دارد ستیز (کلیات اقبال ، فارسی ص ۸۸۰) وہ اپنی نظم’’مسجد قرطبہ‘‘میں اسپین کے مسلمانوں کی مختلف صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کی علمی اور فکری خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:۔ ؎ آہ! وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل’’خلق عظیم‘‘ صاحب صدق ویقین جنکی نگاہوں نے کی تربیت شرق ومغرب ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں (بال جبریل،کلیات ،ص ۳۹۰) فلسفہ یونان نے اگرچہ مسلم تصوف اور مسلم ادیبات پر کافی گہرے اثرات ڈالے ہیں مگر سائنسی نقطہ نظر سے اسلامی ثقافت پر اس کی گہری چھاپ نہیں۔اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات نے باطن اور خارج دونوں کو انسانی زندگی کے لیے اہم قرار دیا تھا جبکہ فلسفہ یونان نے زیادہ تر باطن پر توجہ مرکوز کی تھی۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سائنسی ترقی کی بنیاد باطن کا مطالعہ نہیں بلکہ خارجی مظاہر کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ ہے۔کیا یہ درست نہیں کہ سائنس کا دارومدار محسوسات اور خارجی مظاہر پر ہوتا ہے؟ قرآن حکیم کی بے شمار آیات میں کائنات کے خارجی پہلو کے مطالعہ اور مشاہدہ پر بار بار زور دیاگیا ہے تاکہ ہم خدا کی صفت تخلیق پر غور و خوض کرکے اس کی کبریائی اور اس کے وجود پر ایمان لاسکیں۔ انسانی نگاہوں میں یہ تاب کہاں کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ سکیں؟ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات کی خارجی نشانیاں بھی اس کی عظمت و ہستی پر دلالت کرتی ہیں۔اس لحاظ سے قرآن نے مسلمانوں کو مطالعہ کائنات کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے تجرباتی علوم کی بنیاد ڈالی۔ان حقائق کی رو سے علامہ اقبالؒ نے یہ کہا:’’یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے اور فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین نہیں کیا‘‘۔ تاریخ اسلام کے بے لاگ اور گہرے مطالعہ سے ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ صحیح قسم کا اسلام وہی ہے جس کی تصدیق قرآن حکیم اور اُسوہ رسولؐ سے ہو۔اگر کوئی نظریہ قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ ہرگز درست قرار نہیں دیا جاسکتا خواہ اس کا پیش کرنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ مغربی تہذیب وتمدن کے غلبہ کے سبب مسلمانوں میں بھی ایسے نظریات کو فروع دیا گیا جو قرآن اور اُسوہ رسولؐ کے بالکل خلاف تھے مثلاًقوم پرستی،وطینت، لادین سیاست اور مغربی طرز کی جمہوریت وغیرہ۔علامہ اقبال ؒکے افکار ونظریات کا تارو پود چونکہ اسلامی تعلیمات سے تیار ہوا تھا اور اُنکی ذہنی تربیت میں قرآن نے خاص کردار ادا کیا تھا اس لیے وہ غیر قرآنی اور غیر اسلامی نظریات کو قبول نہ کرسکے۔نہ صرف یہ بلکہ اُنھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ غیر اسلامی تصورات کی دھجیاں بکھیر دیں۔بعض لوگ ریاست اور حکومت کے تصور کو اسلام کے دیگر تمام تصورات پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔اسی طرح لادین سیاست کے علم بردار دین و سیاست کی جدائی کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا کرتے ہوئے مذہب کو ایک پرائیویٹ معاملہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ یہ دوئی پرست روحانی دنیا اور مادی دنیا کی تفریق کی بھی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔اسلام کا عظیم مبلغ اور قرآنی تعلیمات کا شارح ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ مذہب پر سیاست کی برتری، لادینیت، مذہب وسیاست کی ثنویت،مادہ وروح کی تفریق اور دنیا ودین کی تمیز کی ہمیشہ واضح الفاظ میں مذمت کرتے رہے۔مندرجہ ذیل چند اشعار یہاں بطور مثال پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے:۔ جلال بادشاہی ہو کہ جمہو ری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی پھرسیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر (بانگ درا، کلیات اقبال ص ۲۶۵) ہوئی دین ودولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری،ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامراد ی دوئی چشم تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشین کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری ( بال جبریل،کلیات اقبال ص ۴۱۰) علامہ اقبالؒ کی رائے میں عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات اور استحکام میں ہے۔اسلامی تعلیمات کی رُو سے دین زندگی کا مکمل دستور ہے اور باقی اُمور مثلاً معاشیات،سیاسیات اور عمرانیات وغیرہ اس کے اہم اجزا ہیں۔ دین چونکہ زندگی کے تمام شعبہ جات پر حاوی ہے اس لیے وہ کسی طرح بھی سیاست اور حکومت کے نظام کے ماتحت نہیں ہوسکتا۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں ریاست اسلام کے تین زرّیں اُصولوں اُخوت، مساوات اور حریت کو عملی شکل دینے والے نظام کا دودسرا نام ہے۔ان اساسی تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے جغرافیائی خطے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی سیاسی طرز حکومت خلا میں قائم نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے جغرافیائی اہمیت کے باوجود اسلام اپنے آپ کو کسی خاص خطہ زمین اور خاص قوم تک محدود نہیں رکھتا۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎رہے گاراوی ونیل وفرات میںکب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے (بال جبریل، کلیات اقبال) دنیاکی تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی،ارتقا پذیر اور انقلابی دین ہے۔ خدا کا آخری اور سچا دین ہونے کی حیثیت سے یہ ابد تک انسانوں کی دنیوی اور دینی فلاح و سعادت کا باعث بنتا رہے گا۔ یہ دین جہاں بھی گیا وہاں کے لوگوں کی ظاہری اور باطنی زندگیوں میں حیرت انگیز انقلاب برپاہوگیا۔فطری اور جاندار مذہب ہونے کے طور پر اس نے ہمیشہ مفتوح قوموں کے افراد کو اپنے خاص رنگ میں تبدیل کرنے کے علاوہ ان کی اچھی قدروں کو بھی اپنے اندر جذب کرکے اپنی عالمگیری کا ثبوت بہم پہنچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات نو مسلموں اور مفتوح لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنے بعض تہذیبی اُصولوں اور رسومات کو نہیں چھوڑا تھا تاہم وہ اسلام کے گہرے رنگ کو اختیار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اخذ وجذب کی یہ صلاحیت اسلام کی وسعت پذیری اور توانائی کی نمایاں صفت ہے۔بعض مقامی اثرات قبول کرنے کے باوجود اسلام دین حق ہی رہا۔علامہ اقبالؒ بجاکہتے ہیں کہ جس طرح علوم وفنون، قومیت اور وطینت کی چھاپ نہیں رکھتے اسی طرح حقیقی اسلام ایک ہی ہے اور ہم اسے عربی، ترکی اور ہندوستانی اسلام نہیں کہہ سکتے۔مسلمان کااوڑھنا بچھونا اسلام ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں کیا خوب کہا ہے:۔ ع :اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے۔ ( بانگ درا،کلیات اقبال) اسلام دنیا میں انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا تھا۔جب تک مسلمان دل وجان سے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے رہے، وہ دنیا میں حکمران اور غالب رہے لیکن جونہی انھوں نے اس کے حیات پرور اور حریت ساز اُصولوں سے رو گردانی کی وہ ذلیل وخوار ہوگئے اور دوسری قوموں کے چنگل میں برح طرح پھنس گئے۔موجودہ دور میں مغربی قوموں نے علمی تحقیق، ذوق جستجو،عمل پرستی،ہمت آزمائی اور مہم جوئی کے جذبات کے تحت سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی میدان میں بہت زیادہ ترقی کرکے مشرقی ملکوں خاص طور پر مسلمان ممالک کو اقتصادی، سیاسی،عسکری اور ذہنی طور پر اپنا دست نگر بنادیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو اپنا مفتوح بناکر اُنھوں نے ملت اسلامیہ کی مرکزیت کو پارہ پارہ کیا اور اُنھیں مختلف گروہوں اور متحارب قوموں میں تقسیم کردیا ہے۔ اسلام سے دوری، اپنوں کی سادہ لوحی اور غداری اور غیروں کی حکمت عملی نے اُن کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان ممالک کی اس زبوں حالی اور پس ماندگی پر علامہ اقبالؒ خون کے آنسو بہانے کے علاوہ اُن کی پریشان نظری کا علاج بھی تلاش کرتے رہے۔نباض ملت ہونے کی حیثیت سے اُنھوں نے محکوم اور درماندہ ملت کے مختلف امراض کی تشخیص بھی کی اور نسخہ شافی بھی تجویزکیا۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اُن کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔سیاسی قوت سے محروم ہونے کے علاوہ خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں آزادی کے حصول کے بعد مسلمان ممالک کو مرکزیت کی طرف آنے میں کافی دیر لگ سکتی ہے اس لیے اُنھوں نے ہنگامی طور پر اُنھیں’’اپنی اپنی ذات پر اپنی نگاہ مرتکز‘‘کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ بعد میں ’’طاقتور‘‘ ہوکر جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔خلافت کے خاتمے کے بعد یہی ایک عملی شکل باقی رہ گئی تھی۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں ملت ا سلامیہ کے قیام کاایک اہم مقصد آفاقی بنیادوں پر انسانیت کی تشکیل اور ایک ایسے عالمگیر نظام حکومت کی تاسیس ہے جو نسلی، لساِنی، جغرافیائی،لونی اور قبائلی گروہ بندیوں سے بے نیاز ہو۔اسی لیے وہ اسلام کے بارے میں یہ درست کہتے ہیں کہ اسلام ایک’’ عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف سہولت کیلیے تسلیم کرتی ہے‘‘ وہ اس عظیم تنظیم کے افراد کو عالمی قیادت سنبھالنے کا مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں:۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا (بانگ ِدرا) اشاعرہ (۱)’’اشاعرہ کی تحریک کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اُصولوں کی یونانی جدلیات کی مدد سے حمایت کرنا تھا‘‘ (پہلا خطبہ) قرون اولیٰ کے مسلمان قرآنی تعلیمات اور اُسوہ رسول کریمؐ پر بڑے خلوص کیساتھ عمل پیرا تھے۔اُن کی پاکیزہ زندگیاں خدا اور اُس کے آخری نبیؐ کی خوشنودی کے حصول پر مبنی تھیں۔اُس دور میں اسلام عرب کی حدود سے باہر پھیلنے لگا تو دوسری قوموں اور دوسری تہذیوں کے اثرات مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی نمایاں ہونے شروع ہوگئے۔شروع شروع میںا سلام کی تعلیمات غیر عربوں کے فلسفیانہ افکار اور متصوفانہ نظریات سے عاری رہیں مگر آہستہ آہستہ اُن میں بھی عیسائی، ہندو، بدھ اور یونانی افکار سرایت ہونے لگے۔عباسی خلفاء کے دور میں اسلام میں عجمی تصورات کا عمل دخل کافی بڑھ گیا تھا چنانچہ یونانی فلسفہ کے تحت مسلمان مفکرین نے اسلامی عقائد اور قرآنی نظریات کو بھی فلسفہ ومنطق کی ترازو میں تولناشروع کردیا۔معتزلی مفکرین کے افکار یونانی فلسفے سے اس قدر متاثر ہوگئے کہ اُنھوںنے اسلام کے مروجہ عقائد کو یونانی تصورات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے فلسفیانہ بحثوں اور فکری موشگافیوں کا بازار گرم کردیا۔اُنھوں نے خدا تعالیٰ کی ذات،اُس کی صفات،اُس کے وجود،اس کی مشیت اور جبر وقدر سے متعلق بحث وتمحیص کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔اس کے برعکس اشاعرہ نے معتزلہ کی یونان پرستی اور بے لگام فلسفہ طرازیوں کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کیا۔ اُنھوں نے معتز لہ کے منطقی طریق کار ہی کو اپنا کر اُنکے افکار کی تردید شروع کردی تھی۔ اُن کا واحد مقصد اسلام کے عقائد اور اُصولوں کو ثابت کرنا اور یونانی فلسفے کی خامیوں کو بے نقاب کرنا تھا۔معتزلہ نے اسلام کو منطقی تصورات کا مجموعہ بنانے کے علاوہ حقیقت مطلقہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عقل وفکر کی رہنمائی کو ہی کافی خیال کیا تھا۔اس کے علی الرغم اشاعرہ نے عقل پرستی کی بجائے وحی والہام کی برتری اور ہمہ گیر اہمیت کو ثابت کرنے کی ان تھک کوشش کی۔ علامہ اقبالؒ عقل کے جائزاستعمال کے تو خلاف نہیں تھے مگر وہ اس کی حاکمیت اور ہمہ گیریت کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھے۔اُن کی نظرمیں عقل وفکر وحی والہام کے حقائق اور نادیدنی اُمور کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ اُنھیں ایک ایسے سست رو مسافر کی مانند قرار دیتے ہیں جو منزل حقیقت کی طرف رواں دواں تو ہے مگر وہ ہنوز اس سے کافی دور ہے۔وہ عقل اور عشق کی اس چپقلش اور حقیقت جوئی کے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو امیر کارواں عقل بہ حیلہ می برُد،عشق برد کشاں کشاں (پیام مشرق،کلیات اقبال ص ۴۱۲) ؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں (بال جبریل،کلیات اقبال ص ۳۳۵) مختصر طور پر یوں سمجھ لیجئے کہ معتزلہ عقلیت کے پرستار تھے اور اشاعرہ اس عقل پرستی کو انتہا پسندی کی دلیل خیال کرتے تھے۔علامہ اقبال ؒ’’الاشعری‘‘ کی جاری کردہ تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی اوّلین فلسفیانہ نثری تصنیف’’مابعد الطبیعیات ایران کا ارتقا ئ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ "The movement initiated by Al-Ashari was an attempt not only to purge Islam of all non-Islamic elements which had quietly crept intoit,but also to harmonize the religious consc- -ionsness with the religious thought of Islam.Rationalism was an attempt to measure reality by reason alone." (The Development of Metaphysics in Persia, PP.53-54) انسان (۱)’’مزاحمت پیدا کرنے والی اس دنیا میں انسان کی نوعیت واصلیت کیا ہے؟قدرت نے اُسے موزوں ترین دماغی صلاحتیں ودیعت کررکھی ہیں۔اگرچہ اُسے یہاں قدم قدم پر مشکلات وموانعات کاسامنا کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اِس قدر منہمک ہوتا ہے کہ وہ اُن کو پرکاہ کے برابر نہیں سمجھتا‘‘ (پہلاخطبہ) (۲)’’اپنے تمام نقائص ومعائب کے باوجود وہ دیگر مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہے کیونکہ وہ اُس امانت الہٰی کا حامل ہے جسے قرآن کے الفاظ میں آسمانوں زمین اور پہاڑوں نے بھی اُٹھانے سے انکار کردیا تھا‘‘ (پہلاخطبہ) (۳) اس میں کوئی کلام نہیں کہ انسان کی زندگی کا آغاز تو حقیر ہے لیکن اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ اگر انسان اس اقدام میں پہل نہ کرے اور وہ ترقی پذیر زندگی کی باطنی حرکت کو محسوس نہ کرے تواُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے اور انجام کار وہ انسان بے جان مادّے کی سطح پر آجاتا ہے لیکن اس کی زندگی اور اس کی خارجی ترقی کا دارومدار کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری پر ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’ علم کی بدولت ہی انسان حقیقت کے قابل مشاہدہ پہلو تک رسائی حاصل کرتا ہے‘‘ (ایضاً) (۶)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں،نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) (۷)’’مطالعہ قرآن سے ہمیں تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق ہے۔دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب بن سکتا ہے۔تیسری یہ ہے کہ انسان آزادشخصیت کا امین ہے جسے اس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا‘‘ (چوتھا خطبہ) (۸)’’دور جدید کا انسان اپنے فلسفہ تنقید اور سائنسی مہارت کے باوجود اپنے آپ کو عجیب وغریب مخمصے میںپاتا ہے۔اس کے فلسفہ فطرت نے اُسے قدرت کی طاقتوں پر بے نظیر تسلط عطا کیا ہے لیکن ان تمام علوم نے اُسے اپنے مستقبل سے نااُمید کردیا ہے‘‘ (ساتواں خطبہ) (۹)’’اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے کلیتہً متاثر ہوکر عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے یعنی اس کا باطن زندہ نہیں رہا۔جہاں تک افکار ونظریات کا تعلق ہے وہ اپنی ذات سے متصادم ہے اور اقتصادی اور سیاسی زندگی کے میدان میں وہ دوسرے لوگوں سے برسر پیکار ہے ۔ وہ اس قدر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ اپنی بے رحم انانیت اور غیر محدود ہوس زر کو قابو میں نہیں لاسکتا‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ بے رحم انانیت اور نہ ختم ہونے والی ہوس زر آہستہ آہستہ اس کے تمام اعلیٰ مقاصد کا قلع قمع کرکے اُسے زندگی سے بیزار کررہی ہیں‘‘ (ایضاً) علامہ اقبالؒ اُن مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے انسانی عظمت اور انسانی صفات کے گیت گائے ہیں۔خدا تعالیٰ نے انسان کو بہت سی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے جنکی بدولت وہ تسخیر کائنات کے قابل ہوسکا ہے۔اُسے یہ بلند مقام یونہی نہیں مل جاتا بلکہ اُسے اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور موانعات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ جذبہ ترقی اور ذوق انقلاب سے فارغ ہوجائے تو بلاشبہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتا۔ یہ جذبہ ترقی ہی ہے جس نے اُسے جفاکشی،بلند ہمتی، انقلاب آفرینی اور ارتقا پذیری کی صفات سے آشنا کرکے دنیا کی رعنائی اور ترقی کے قابل بنادیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تمام ہماہمی اور نئی نئی ایجادات اسی جذبہ انقلاب کی مرہون منت ہیں۔شاعر مشرق ؒ انقلاب کے ذوق کی ا ہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات،کشمکش انقلاب ( بال جبریل) ذہنی صلاحیتوں کے مناسب استعمال،جفاکشی،خواہش ترقی، مقاصد آفرینی اور انقلاب پسندی کے سبب انسان حیوانی سطح کی زندگی سے بلند ہوکر بقائے دوام اور شہرت عام کا مستحق بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے:’’ اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘۔ انسان کی عظمت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اُسے’’امانت الٰہی‘‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس امانت الٰہی کی حقیقی نوعیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں ’’امانت الٰہی‘‘ سے مراد خودی کی تربیت اور اس کے استحکام کی صلاحیت ہے۔تمام کائنات میںسے صرف انسان کو عقل وشعور اور آزادی انتخاب کی نعمت دی گئی ہے۔جمادات، نباتات اور حیوانات میں عقلی سرگرمی،شعوری کوشش اور خیرو شر کو اختیار کرنے کی صلاحیت اور آزادی انتخاب کی صفات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہستی کے ادنیٰ مدارج میں ہیں۔ علم،فکر،شعوری عمل اور آزادی کو بروئے کار لاکر انسان نہ صرف مادی ترقی کے مراحل طے کرسکتا ہے بلکہ وہ روحانی بلندیوں کو بھی حاصل کرکے ’’ خلیفتہ اﷲ علی الارض ‘‘بن سکتا ہے۔ اگر انسان غور وفکر اور علم سے کام نہ لے تو وہ کبھی بھی مظاہر فطرت کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ کی بدولت قدرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔اس علمی صلاحیت کی بنا پر وہ خدا تعالیٰ کی نشانیوں کو خارجی دنیا میں تلاش کرتا ہے اور اپنے علمی نتائج کی بنیاد پر سائنس کے میدان میں حیرت انگیز ترقی بھی کرتا ہے۔اس لحاظ سے حقیقت مطلقہ کی حکمت بالغہ، خلّا قی صفات،ربویت ِعامہ اور ہمہ گیر کرم گستریوں کا اُسے انکشاف ہوتا ہے۔کیا یہ قرآنی حقیقت نہیں کہ علم کی بدولت ہی آدم کو فرشتوں پر برتری دی گئی تھی؟ علامہ اقبالؒ کا یہ تصور بھی کس قدر درست دکھائی دیتا ہے کہ’’نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘۔ اگر خداتعالیٰ نے انسان کو خیر وشر کی تمیز کی صلاحیت اور آزادی انتخاب سے نہ نوازا ہوتا تو اس میں اور مشین میں پھرکیا فرق ہوتا؟ یہ ہمار اروز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مشین اپنی مرضی اور آزادی سے حرکت نہیں کرتی بلکہ اس کی حرکت کسی ا ور کی محتاج ہوتی ہے۔اگر انسان کی حرکات وسکنات بھی مشین کی طرح بلا ارادہ ہوتیں تو وہ اپنے اچھے برے اعمال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔باز پرس تو اسی سے کی جاسکتی جسے کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہو اور نیکی اور بدی کے انتخاب کی آزادی بھی دی گئی ہو۔انسانی عظمت کا یہ پہلو بھی علامہ اقبالؒ کے کلام میں جابجا بیان کیاگیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق، زمین پر ا سکا نائب اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔انسانی عظمت کے ان مختلف گوشوں کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں بھی موضوع سخن بنایا ہے۔چند اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’انسان‘‘ میں انسان کی گرمئی عمل،ترقی پذیری،انقلاب آفرینی، دانائی،علم اور توانائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت‘ سرگرم تقاضا ہے اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرّہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی یہ ہستی دانا ہے،بینا ہے، توانا ہے (بانگِ درا، کلیات اقبال ص۱۷۹) علامہ اقبالؒ اپنی ایک اور نظم’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں انسانی عظمت کو ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہیں:۔ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل!کوشش پیہم کی جزا دیکھ (بالِ جبریل،کلیات اقبال ص۴۲۵) اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر جدیدکے انسان نے اپنی خدا داد ذہنی وعملی صلاحیتوں سے کام لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیران کن ترقی کی ہے۔زمینی طاقتوں کو زیر کرنے کے بعد اب انسان چاند پر بھی کمند ڈال چکا ہے اور وہ مزید خلائی تسخیر کے منصوبے بنارہا ہے۔خارجی دنیا میں اس کی یہ ترقی اور کامیابی لائق تعریف ہیں۔ ان کامرانیوں کے باوجود موجودہ دور کا انسان ذہنی سکون اور روحانی راحت سے محروم ہوچکا ہے کیونکہ مادہ پرستی اور زر پرستی کی بنا پر انسان خود انسان کا ہر شعبے میں بری طرح استحصال کررہا ہے۔دولت کی دوڑ نے انسانوں کو باہمی تصادمات اور باہمی رقابتوں میں مبتلا کرکے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ یہ یک طرفہ ترقی بلاشبہ اس کے مستقبل کے لیے بھی خوشگوار نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی اس لیے علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے کہ’’عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے‘‘ ۔شاعر مشرق کے درج ذیل اشعار یہاں بے محل نہیں۔ وہ اپنی ایک مختصر نظم’’ زمانہ حاضر کا انسان‘‘ میں انسان کے روحانی اضطراب،انتشار فکر ونظر اور تاریکی حیات کو یوں بیان کرتے ہیں۔ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم وپیچ میں اُلجھا ایسا آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا (ضرب کلیم،کلیات اقبال ص۵۳۱) باطن (۱)’’ وقت کی ماہیت کو سمجھنے میں خالصتاً معروضی زاویہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں صحیح طریق یہ ہے کہ ہم اپنے اُن شعوری تجربات و واردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لیں جو وقت کی اصلیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ) باطنی دنیا سے مراد ہماری تمام قلبی واردات اور ذہنی کیفیات ہیںجن کا ہماری ذات کے اندرونی پہلو پر دارومدار ہوتا ہے۔دنیاصرف وہی نہیں جو ہمیں ظاہری طور پر دکھائی دیتی ہے۔من کی دنیا بھی خارجی عالم کی طرح ایک مسلّمہ حقیقت ہے ۔قرآن حکیم نے خالق کائنات کی نشانیوں کو خارجی اور باطنی دونوں دنیائوں میں جلوہ گر کہا ہے۔ جس طرح ہم ظاہری آنکھوں سے محسوسات کی دنیا کا جائزہ لیتے ہیں اسی طرح ہماری باطنی آنکھیں ہمیں من کی دنیا سے آشنا کرتی ہیں۔خدا تعالیٰ اس لحاظ سے’’ھوالظاہر‘‘ بھی ہے اور’’ھو الباطن‘‘بھی۔مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت کی طرح ہماری قلبی وارادات بھی ہم پر گوناگوں حقائق منکشف کیا کرتی ہیں۔’’سمع‘‘ اور ’’بصر‘‘ کی طرح’’فواو‘‘بھی حقیقت رسی اور اسرار جوئی کا اہم موثر اور عالم گیر ذریعہ ہے۔ جس طرح سائنس کا علم ہمیں مادی اسرار سے واقف کرتا ہے اسی طرح باطن کا علم ہم پر اسرار حیات اور حقائق کائنات کو ہویدا کرتا ہے۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:۔ ع اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ز ندگی (بال جبریل) ہر دور اور ہر قوم میں ایسے خدا پرست انسان ضرور گزرے ہیں جنہوں نے قلبی واردات اور ذہنی تجربات کی صداقت کو بیان کیا ہے۔مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیں اکثر اوقات اُن کی روحانی واردات میںخیالات کی یکسانیت اور باطنی کیفیات کی آفاقی صداقت کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔ خیالات کی یہ یکسانیت اور باطنی تجربات کی یہ ہم آہنگی کوئی واہمہ نہیں۔ علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا قول میں وقت کی ماہیت کے صحیح ادارک کا پیمانہ شعوری واردات اور باطنی کیفیات کو قرار دیا گیا ہے۔ہماری زندگی کے خارجی اور باطنی پہلوئوں کی مانند وقت بھی ایسے دو پہلوئوں کا مظہر ہے۔وقت کے خارجی پہلو کا تعلق سورج اور چاند کی گردش سے ہوتا ہے، اسکے برعکس اس کے باطنی پہلو کا قلبی واردات پر انحصار ہوا کرتا ہے۔ظاہری وقت کو ہم ’’زمان مسلسل‘‘ کہتے ہیں جسے ہم ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ باطنی وقت(زمان خالص) اس طرح تقسیم پذیر نہیں ہوسکتا۔ زمان خالص میں واقعات یکے بعد دیگرے رونما نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک ابدی لمحہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاعر مشرق اور مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ وقت کی حقیقت کو سمجھنے میںخالصتاً معروضی اور خارجی نقطہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے تاہم اس کی بدولت ہمیں ماہیت وقت کا کلی ادراک نہیں ہوسکتا۔اس ضمن میں وہ شعوری تجربات اور داخلی واردات کو خارجی زاویہ نگاہ پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی ایک فارسی نظم’’الوقت سیف‘‘ میں کہتے ہیں:۔ اے اسیر دوش وفردا درنگر دردلِ خود عالم دیگر نگر باز با پیمانہ لیل و نہار فکر تو پیمو وطول روزگار (اِسرار خودی،کلیات اقبال،ص ا۷۔۷۲) دن ،رات اور ماہ وسال کا تو سورج کی گردش پر دارومدار ہوتا ہے لیکن حقیقی وقت تو اس وقت بھی تھا جبکہ خارجی وقت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔زمان الٰہی تو سورج کی پیدائش سے پہلے بھی تھا۔انسانی ذات میں چونکہ نورِ ایزدی پایا جاتا ہے اس لیے یہ زمان الٰہی کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوسکتی ہے۔ بقا (۱)’’ بقائے ذات ہمارا پیدائشی حق نہیں بلکہ ہمیں اسے کوشس کی بدولت حاصل کرنا پڑے گا۔انسان اس کے لیے صرف امید وار ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) بعض مذاہب کے ماننے والے اور نفی پسند مفکرین اور صوفیا انسانی ذات کی بقاکی بجائے اس کی فنا کے زبردست قائل ہیں۔ ان لوگوں کی نگاہ میں انسانی ذات کا کمال فنا اور ذات خداوندی میں مکمل ادغام ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی شخصیت کا منتہائے مقصود خدا تعالیٰ کی ذات میں کامل اتصال کے بعد اپنے آپ کو مٹا دینا ہے۔حضرت علامہ اقبالؒ نفی ذات (self-negation) کی بجائے اثبات ذاتِ(self-assertion) کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ اثباتِ ذات، بقائے ذات اور استحکام ذات کے تصورات ان کے نظام فکر کی اساس اور جان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اثباتِ ذات سے مراد خودی کا اثبات ہے۔وہ انسانی ذات کی تربیت واستحکام کے زبردست حامی ہونے کے سبب اسکی بقا میں بھی پختہ ایمان رکھتے ہیں۔اُن کی نظر میں یہی اثبات ذات انسانی خودی کی معراج اور زندگی کی پہچان ہے۔وہ انسانی ذات کو’’انائے محدود‘‘(Limited ego) اورخدا تعالیٰ کی ذات کو’’انائے لامحدود‘‘ (Unlimited Ego) یا ’’انائے مطلق‘‘کہتے ہیں۔وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان اپنی محدود ہستی میں خدائی صفات کا رنگ پیدا کرکے اسے باقی اور دائمی بناسکتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ فانی اشیاء اور فانی انسانوں کے ساتھ محبت کرکے انسان خود ہی فانی بن جاتا ہے؟اس کے برعکس اس امر سے انکار نہیں کیا سکتا کہ انسان خدا اور اسکے رسول مقبول ؐ کے عشق کی بدولت بقائے دوام کامستحق بن سکتا ہے۔ اقبالؒ کے مرشدمولانا رومؒ نے اس بات کی یوں صراحت کی ہے۔ عشق ہائے کزئپے رنگے بود عشق نبود، عاقبت ننگے بود عشق را برحیّ و بر قیوم دار عشق پرمردہ نبا شد پائیدار (ترجمہ: وہ عشق جو کسی رنگ کے لیے ہو وہ عشق نہیں ہوتا بلکہ وہ تو آخر کار باعث شرم ہے۔ اے مخاطب!تو زندہ اور قائم رہنے والے خدا سے عشق کر کیونکہ کسی مردار کا عشق پائیدار نہیں ہوا کرتا(۔ علامہ اقبالؒ انسانی خودی کی بقا کے تو زبردست قائل ہیں مگر وہ اس کے لیے سعی وعمل کو لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔وہ اسے انسان کا پیدائشی حق تصور نہیں کرتے بلکہ وہ انسان کو اس کے لیے امید وار سمجھتے ہیں۔خودی کی بقا سے اُن کی مراد یہ ہے کہ اگر خودی کو مضبوط بنایا جائے تو موت بھی اسے فنا نہیں کرسکتی۔خودی کے استحکام کے لیے یہ دنیا میدان عمل کاکام دیتی ہے۔اس دنیا میں ہی خودی کی تربیت کا فریضہ سرانجام دنیا ہوگا کیونکہ یہ دارالعمل ہے۔اس لحاظ سے کوشش اور عمل اس کے استحکام کی لازمی شرطیں ہیں۔کوشش اور عمل سے پہلے مقاصد کا تعین ضروری ہے۔جب کسی مقصد کے حصول کے لیے دل میں تڑپ اور ولولہ پیدا ہوجائے تو پھر انسان اس کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔جب خودی عشق ومحبت کی بدولت تربیت یافتہ اور مستحکم ہوجاتی ہے تو موت بھی اس کا خاتمہ نہیں کرسکتی بلکہ یہ اس کے لیے ایک مرحلہ وار حیات کا کام دیتی ہے۔علامہ اقبال ؒنے خودی کی بقا کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس کا خلاصہ اُن کے اپنے چند اشعار میں یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم’’ حیات ِابدی‘‘ میں خودی کو زندگی کی معراج خیال کرتے ہوئے اس کے دوام پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:۔ زندگانی ہے صدف ‘قطرہ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہرُ کر نہ سکے ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے (ضرب کلیم،کلیات اقبال ص۴۹۳) وہ انسانی خودی کا کمال ذات خداندوی سے عشق پر منحصر خیال کرتے ہیں اور اس کی بقا کو انائے مطلق سے وابستہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں:۔ خودی را از و جود ِحق وجودے خودی را از نمودِ حق نمودے نمید ا نم کہ ایں تابندہ گوہر کجا بودے اگر دریا بنودے (ارمغان حجاز،کلیات اقبال، ص۱۰۰۳) (ترجمہ: انسانی خودی کی ہستی کا خدا کی ہستی پر دارمدار ہے۔اس خودی کی نمود خدا کی نمود سے وابستہ ہے۔ اگر یہ دریا نہ ہوتا(خدا نہ ہوتا) تو مجھے معلوم نہیں پھر یہ چمکدار موتی(انسان کی خودی) کہاں ہوتی)۔ تاریخ (۱)ابن خلدون کا نظریہ تاریخ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تاریخ کو پہلے سے مقرر کردہ راستے کی بجائے مسلسل حرکت زمانی اور صحیح طور پر تخلیقی سمجھتا ہے۔اپنے تصورِ زمان کی نوعیت کے اعتبار سے اُسے بجا طورپر برگساں کا پیش رو کہا جاسکتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالاقول میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابن خلدون (۱۳۳۲۔۱۴۰۶) کا نظریہ تاریخ اور اس کے اس حرکی تصور کا برگساں کے نظریہ زمان پر تقدم۔علامہ اقبالؒ کے نظام فکر میںحرکت اور تخلیقی صلاحیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسی لیے وہ ہر اس تصور کی حمایت کرتے ہیں جو زندگی کی حرکت‘ ارتقا پذیری،رعنائی،توانائی،استحکام اور تخلیقی رو پر مبنی ہو۔وہ زندگی کو جوہڑ کی بجائے جوئے رواں سمجھ کر حرکت،عمل اور سعی کے مدح خواں ہیں۔ ابن خلدون کا نظریہ تاریخ مشہور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں(۱۸۵۹۔۱۹۴۱ئ) کے نظریات حرکت وارتقا کامظہرہے ،اسی باعث وہ ان دونوں کی یہاں تعریف وتوصیف کرتے ہیں۔ تاریخ کے بارے میں عام طور پر دو مکاتب خیال پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب فکر کے حامی تاریخ کو ماضی کے واقعات کی تکرار سمجھتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ تاریخ اور وقت کو ایک چکر کی مانند قرار دیتے ہیں جس میں پرانی چیزیں اور پرانے واقعات ہی کودہرایا جاتاہے۔اس تصور تاریخ میں تنوع اور جدت طرازی کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔دوسرے مورخین اور مفکرین تاریخ اور وقت کو ارتقائی،حرکی اور تخلیقی خیال کرتے ہیں۔اس طرح جدت ،حرکت،ارتقا اور تخلیق اس کی لازمی صفات قرارپاتی ہیں۔ زیادہ تر یونانی فلاسفہ وقت کی عدم حرکت کے قائل تھے۔اس لیے علامہ اقبالؒ نے یونانی تصور تاریخ کو ہدف تنقید وتنقیص بنایا ہے۔ان یونانی فلسفیوں کے برعکس مشہور عرب مورخ ابن خلدون نے اپنے انقلاب خیز اور سائنسی نظریات کی بناء پر تاریخ کے میدان میں نمایاں کردارادا کیا تھا۔ ابن خلدون نے اسلامی نظریہ تاریخ کی روشنی میں اسے پہلے سے مقررکردہ راستے کی بجائے وقت کی مسلسل حرکت اور تخلیقی رو قرار دیا تھا۔ قرآن حکیم نے گردش لیل ونہار اور کائناتی تبدیلیوں کو’’ایاّم اﷲ‘‘ کہہ کر اس کی اہمیت اور اس کے تخلیقی عنصر کو واضح کیا ہے۔خداتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی نشانیاں نہ صرف باطن میں بلکہ خارج میں بھی ظاہر کرتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی یہ نشانیاں(آیات اﷲ) تکرار اور بے مقصدیت سے خالی ہیں۔خدا تعالیٰ کے بارے میں قرآن حکیم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہر لمحہ جلوہ گری کرتا رہتا ہے۔’’کل یوم ھو فیِ شان‘‘۔ (الرحمن ۵۵:۲۹)اس نقطہ نظر سے خدا کائنات میں بھی تنوع ،تغیر،جدت اور ارتقاء وحرکت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مفکر اسلام اس قرآنی تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ کو بھی انسانی علم کا ایک اہم سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔قرآن نے صرف گذشتہ قوموں کے واقعات ہی بیان نہیںکئے بلکہ اُن کے زوال وعروج اور موت وحیات کے اسباب ونتائج پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے تاریخ کی زمانی حرکت اور ارتقاء پذیری کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہاں چند اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔وہ تاریخی روایات کے تحفظ،وقت کے تسلسل اور شعوری حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ربط ایاّم است مارا پیرہن سوزنش حفظِ روایات کہن چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ د استانے ، قصۂ ، افسانۂ ایں ترا از خویشین آگہ کند آشنائے کار و مردِ رہ کند مشکن ار خواہی حیات لازوال رشتہ ماضی زا استقبال وحال موج ادراک تسلسل زندگی است میکشاں را شور قلقل زندگی است (رموز بیخودی،کلیات اقبال،ص۱۴۸۔۱۴۷) فرانس کے شہرہ آفاق فلسفی ہنری برگساں نے بھی ابن خلدون کی طرح وقت کے بارے میں انقلاب آفریں تصورات پیش کئے ہیں۔اس نے’’قوت حیات‘‘ کو ارتقا کا اُصول قرار دیا اور وقت کی حرکت اور ارتقا پذیری کو ناقابل تقسیم کہا تھا۔ابن خلدون نے بھی اپنے نظریہ تاریخ کو بیان کرتے ہوئے وقت کی مسلسل حرکت،ارتقا پذیری،جدت،تغیر اور تخلیق پر کافی زور دیا تھا۔اس لحاظ سے علامہ اقبال ؒنے اسے بجا طورپر’’برگساں کا پیش رو‘‘ کہا ہے۔ برگساں کے تصور زمان کی یہ جھلکیاں ملاخطہ ہوں۔ "----For a conscious being to exist is to chang, to chang is to mature to mature is to go on creating one's self endlessly" (Creative Evolution) "Each moment is not only something new, but something unforeseeable----change is far more radical than we suppose". (Creative Evolution) تصوف (۱)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے مذہبی تجربات کے ارتقا کی تشکیل کرنے اور اُسے درست نہج پر چلانے کے لیے تصوف کے حقیقی مکاتب فکر نے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن دور حاضر کے صوفیا جدید افکار و نظریات سے لاعلمی کی بنا پر جدید تصورات وتجربات سے اکتساب فیض کرنے کے اہل نہیں رہے‘‘۔ (دیباچہ) (۲)’’ حقیقت مطلقہ کے کلی ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حسی علم کے علاوہ علم باطن بھی سیکھنا چاہیے۔قرآن اس علم باطن کا سرچشمہ’فواد‘ یا’قلب‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ یہ باطنی علم بھی اتنا ہی ٹھوس اور حقیقی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی خارجی علم،تمام بنی نوع انسان کا الہامی اور متصوفانہ ادب اس حقیقت کا شاہد ہے کہ تاریخ انسانیت میں مذہبی تجر بات کو اس قدر دوام اور غلبہ حاصل رہا ہے کہ ہم اُنھیں محض دھوکہ اور باطل تصور کرکے رّد نہیں کرسکتے۔مذہبی تجربات و مشاہدات بھی دیگر انسانی تجربات کی طرح مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں‘‘ (پہلا خطبہ) (۳)’’صوفیانہ مشاہدہ حقیقت کے کلی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ چونکہ صوفیانہ تجربے کی خاصیت کا براہ راست تجربے سے تعلق ہے اس لیے یہ امر بالکل واضح ہے کہ ا سکا ابلاغ ناممکن ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’ محمد ؐ عربی عرش معلی پر پہنچ کر واپس آگئے تھے لیکن اگر میں اس مقام تک پہنچتا تو خدا کی قسم میں ہرگز واپس نہ آتا‘‘ (عبدالقدوس گنگوہیؒ کا قول ،پانچواں خطبہ) (۶)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذہبی آدمی کی یہ تلاش بے فائدہ ہے۔درحقیقت مذہبی واردات کی اس صفت کی بدولت ہم خودی کی ماہیت کا سراغ لگا تے ہیں۔ مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے…انکشاف ذات کا پتہ دینے والا تجربہ ایک ایسی عقلی حقیقت ہے جسے تصورات میں قابو نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ طریق عمل باطنی حیاتیاتی انقلاب پر منتج ہوتا ہے جسے منطقی مقولات کاپابند نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ (ساتواں خطبہ) (۹) ’’قدیم قسم کا تصوف،قومیت اور لادین اشراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘ (ایضاً) (۸) یہ مذہبی تجربات ومشاہدات ہمارے دیگر عام تجربات کی مانند بالکل قدرتی ہیں‘‘۔ (ایضاً) تصوف انسانی زندگی کے اُن اہم موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں زمانہ قدیم اور دور حاضر میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ایک گروہ انسانی تصوف کی اہمیت کے بارے میں بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے اور اسے دیگر علوم اور ذرائع معرفت الٰہی پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کا دوسرا گروہ اس کی تنقیدمیں انتہا پسندی کا مرتکب ہوگیا ہے۔ یہ دونوں مکاتب فکر افراط وتفریط کا شکار ہوکر حقیقت کی منزل سے دور ہوگئے ہیں۔ جہاں تک مسلم تصوف کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی دوجداگانہ نقطہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ صحیح اسلامی نظریہ حیات کے علم بردار ہونے کی حیثیت سے اعتدال کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہر اُس تصور کی تعریف کرتے ہیں جس کی اساس قرآنی تعلیمات اور نبی اکرمؐ کے اُسوہ حسنہ پر استوار کی گئی ہو۔جو نظریہ اُنھیں اس معیار کے مطابق درست نظر نہیں آتا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ مسلم اورغیر مسلم اہل علم اور مفکرین کی آراء کو قرآنی معیار پر پرکھنے کے عادی ہیں۔وہ اپنے اس مسلک حق گوئی اور حق بینی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔ کہتا ہوں وہی بات،سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں ،نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (بال جبریل ،کلیات اقبال،ص۳۱۳) وہ اس بات کے تو معترف ہیں کہ’’اسلام کے مذہبی تجربات کے ارتقا کی تشکیل کرنے اور اُسے درست نہج پر چلانے کے لیے تصوف کے حقیقی مکاتب فکر نے بہت اچھا کام کیا ہے‘‘مگر اُنھیں اس امر کی شکایت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان صوفیا اپنی لاعلمی کی بنا پر نئے نئے تصورات سے فیض حاصل کرنے کے لائق نہیںرہے۔ہم اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ تصوف کے حقیقی مکاتب فکر کی چونکہ قرآن اور اُسوہ رسول ؐ پر بنیاد تھی اس لیے وہ ہر دور میں اسلامی روح کے مطابق انقلاب آفریں، حیات ساز، اور ظاہر وباطن کی پاکیزگی کا مظہر تھے۔ ان نیک روحوں نے دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں دیرپا انقلاب پید اکرنے سے قبل اپنی زندگی کو اسلام کے موزوں ترین سانچے میں ڈھالا اور صحیح انداز میں مرد مومن کا کردار ادا کیا تھا۔ان کی زندگی محض ذہنی پاکیزگی اور روحانی بالیدگی کی آئینہ دار نہیں تھی بلکہ وہ علمی ترفع کے بھی مالک تھے۔اُن کے مرشد اعظم اور ہادی اکبر یعنی رسولؐ خدا نے حصول علم کی اہمیت وافادیت پر زور دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا: ’’اُطلبواُلعلم منِ المھد الیِ اللحد ‘‘( ترجمہ: تم پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرتے رہو)۔ ان سچے اور جاں نثار صوفیائے کرام نے اس حدیث پر پوری طرح عمل کرکے علم حاصل کیا اور اسے دوسرے متلاشیان حق تک بڑے خلوص کے ساتھ پہنچایا۔ ان بزرگوں کی عملی وجاہت اور عملی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر لاتعداد انسان حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے۔اُنھوں نے اپنے اپنے دور کے مروجہ علوم سے پوری آگاہی حاصل کرکے باطل پرستوں کے غلط اور غیر اسلامی افکار و نظریات کی بھی پرزور تردید کی اور لاکھوں انسانوں کے دماغ سے باطل کا زنگ دور کرکے انھیں حقیقت شناس بنادیا تھا۔ اس نقطہ نگاہ سے وہ ذکر وعمل کی اہمیت کے ساتھ ساتھ فکر کی افادیت کے بھی زبردست قائل تھے۔کیا قرآن حکیم نے’’ذکر‘‘ کے ساتھ ساتھ فکر وتدبر پر بھی بار بار زور نہیں دیا؟کیا ہمیں یہ آیت قرآنی ’’رب زدنی علما‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)(اے میرے پروردگار!میرے علم میں اضافہ فرما)۔اضافہ علم یاد نہیں دلاتی؟ علامہ اقبالؒ ’’ذکر وفکر‘‘ کے اس قرآنی اختلاط کی طرف واضح اشارہ کرکے نظم’’ ذکر وفکر‘‘ میں ان دونوں کو سالک کی حستجو کا ایک ہی مقام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔ یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسما مقام ذکر ، کمالات رومیؒ و عطارؒ مقام فکر ، مقالاتِ بو علی سیناؒ مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکاں مقام ذکر ہے سجان ربی الاعلی (ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص۴۸۵) ایک اور جگہ وہ موجودہ دور میں حقیقی تصوف کے زوال اور بے عمل نام نہاد صوفیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:۔ ’’قم باذن اﷲ‘‘ کہہ سکتے تھے جو،رخصت ہوئے خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۴۵۳) علامہ اقبالؒصدق دل سے اس بات کے خواہش مند تھے کہ موجودہ زمانے کے پیران طریقت اور دعوے داران معرفت دور حاضر کے علوم سے آشنا ہوکر اسلامی تعلیمات اور قرآنی نظریات کی روشنی میں لوگوں کے دلوں سے وہ شکو ک وشبہات دور کریں جو لادین نظام حیات اور مادہ پرستانہ نظریات نے پید اکردئیے ہیں۔مومن کا وظیفہ حیات تو قبر تک علم حاصل کرتے رہنا ہے۔ اس لیے صوفیا کے لیے بھی جدید افکار ونظریات سے آگاہی لازم ہے۔ اُن کا یہ قول بھی اُنکے دل کی گہرائیوں اور خلوص نیت کا آئینہ دار ہے۔وہ پرانی طرزکے تصوف کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں:’’قدیم قسم کا تصوف،قومیت اور لادین اشتراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔ قوم پرستی کی بیماری نے انسانوں کو رنگ،نسل،زبان اور جغرافیائی حد بندی کے سبب مختلف متحارب گروہوں میں تقسیم کرکے انسانی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔آفاقی تصور اُخوت اور عالمگیر ملت کے تصور کے حامل مسلمان بھی عہدحاضر میں آپس میں برسر پیکار ہیں۔ اس لیے قومیت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مایوس اور منقسم انسانیت کے دکھوںکا مداوا کرے۔اسی طرح لا دین اشتراکت مذہب کو افیون قرار دیتی ہے۔وہ بھی پریشان حال اورسکون دل سے محروم انسانوں کے روحانی اضطراب اور ذہنی انتشار کا علاج کرنے سے قاصر ہے۔اس نے بھی انسانوں کو دو فحاصَمَت پسند گروہوں… بورژوا اور پرولتاری میں تقسیم کرکے غریبوں اور امیروں کے درمیان نفرت کی خلیج پید اکردی ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں قدیم قسم کا یک طرفہ تصوف بھی موجودہ زمانے کے مایوس اور پریشان انسانوں کی جملہ بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ محض گوشہ نشینی،ترک دنیا اور ذکر سے یہ کارنامہ سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔موجودہ زمانے میںتصوف کو موثر،دل نشین اور مفید بنانے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف رجوع کرکے نبی نوع انسان کے اقتصادی، نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کاصحیح اور تسلی بخش حل پیش کیا جائے۔اس مقصد کے لیے انسانوں کے موجودہ مسائل کا علمی ادراک بھی بے حد لازم ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اُن کے نظریہ تصوف کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرسکیں گے۔وہ قدیم غیر اسلامی تصوف کے چند عناصر مثلاًرقص،سرور اور جذب ومستی پر تنقیدی نگاد ڈالتے ہوئے قرآنی فقر و تصوف کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ فقر قرآں، احتساب ہست وبود نے رباب ومستی ورقص وسرور فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر اُو مولاصفات فقر کافر، خلوت ِدشت و دراست فقر مومن لرزہ بحر وبراست (پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق، کلیات اقبال،ص۸۱۸) قرآنی فقر وتصوف تو تسخیر کائنات،لرزہ بحر وبر ا ور خدائی صفات میں رنگنے کا دوسرا نام ہے۔اگر صوفی کی ذات میں خدائی صفات کا پرتو نظر نہیں آتا تو وہ انقلاب خیز اور معرکہ آرا ثابت نہیں ہوسکتا۔خدا خالق،علیم،حکیم اور مالک ہے۔اگر تصوف واقعی صفات ایزدی کا عکس ہو تو لازمی طور پر صوفی بھی خلاقی صفت،علم، حکمت اور تسخیر کا حامل ہوکر مایوس اور مضطراب انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرسکے گا۔ علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا اقوال میں علم باطن کی اہمیت، اس کے اثبات اور اس کی آفاقیت کے علاوہ باطنی مشاہدات اور قلبی واردات کے ابلاغ کے عدم امکان کو بھی بیان کیا گیا ہے۔حقیقت مطلقہ یعنی ذات خداوندی کے کلی ادراک اور دیدار کے لیے حسی علم اور علم باطنی دونوں لازمی ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی کائنات اور دنیائے محسوسات کا علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں حواس خمسہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ حسی علم ہمیں قدرت کے خارجی حقائق سے روشناس کرواتا ہے۔یہ علم بھی ہماری زندگی کے لیے بہت زیادہ ضروری اور مفید ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں ہمیں علم باطن بھی سیکھنا چاہیے کیونکہ’’ قرآن اس علم باطن کا سرچشمہ’’فواد‘‘ یا’’قلب‘‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ یہ باطنی علم بھی اتنا ہی ٹھوس اور حقیقی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی خارجی علم‘‘ ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے :’’ سنر یھم ایا تنا فی انفسھم وفی الاٰفاق‘‘ (فُصِلت:۴۱:۵۳)( عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں ان کے انفس اور آفاق میں دکھائیں گے)۔اس قرآنی آیت کے مطابق خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ،حکمت بالغہ اور ہستی کی نشانیاں عالم محسوسات میں بھی ظاہر کرتا ہے اور ہمارے باطن میں بھی۔اس لحاظ سے ہمارا دل بھی حصول علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔جس طرح زنگ آلودہ آئینے میں ہماری شکل اچھی طرح دکھائی نہیں دیتی اسی طرح ہمارے معصیت آلود دل میں بھی نور الہٰی کا عکس نظر نہیں آسکتا۔خدا ئی انوار واسرار کا حامل ہونے کے لیے پہلے دل سے حسد ،بغض،شرک،نفرت اور دیگر برائیوں کی کدورت کو صاف کرنا ہوگا۔اس زاویہ نگاہ سے پہلے تزکیہ نفس ضروری ہوا کرتا ہے۔ کسی نے اس سلسلے میںکیا خوب کہا ہے:۔ ؎ فانّ العلم نور منِ اِلٰہ ونوُر اﷲ لایعطیٰ لعاِصی (ترجمہ:’’بے شک علم خدا کا نور ہے اور یہ خدائی نور کسی گناہگار کو عطا نہیں کیا جاتا‘‘) علم باطن کو حقائق ومعارف کا آئینہ دار بنانے کے لیے دل سے گناہوں کا پردہ چاک کرنا ہوگا۔ جب دل صاف وشفاف آئینے کی مانند ہوجائے گا تو پھر اس میں حقائق اور اسرار منعکس ہوسکیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے مرشد مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل کے چشمے سے مختلف حقائق خودبخود اُبھر آئیں گے۔ ان کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:۔ خویش را صافی کن از اوصافِ خود تابہ بینی ذاتِ پاکِ صافِ خود بینی اندر دِل علوم انبیا بے کتاب وبے معید و اوستا پس چو آہن گرچہ تیر ہ ہیکلی صیقلی کن، صیقلی کن ، صیقلی علامہ اقبالؒظاہری علم پر باطنی علم کی ترجیح کے قائل ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ظاہری علم کا مقصد عقل وخرد کی پاکی ہے مگر فقر وتصوف کا مقصود قلب ونگاہ کی پاکیزگی ہے۔ وہ ظاہری علم کو حقیقت کا متلاشی اور فقر کو دانائے منزل قرار دیتے ہیں۔خارجی علم اور باطنی علم کا یہ موازنہ ومقابلہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں: علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب ونگاہ علم فقیہہ و حکیم، فقر مسیح ؑ و کلیمؑ علم ہے جویائے راہ،فقر ہے دانائے راہ ( بال جبریل،کلیات اقبال،ص۳۶۹) وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر تم دین وشریعت کے اسرار ورموز کو جاننے کے خواہش مند ہو تو پھر تم اپنے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر دیکھو۔وہ تصوف وطریقت کو شریعت کی گہرائیوں سے آگاہی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں:۔ پس طریقت چیست اے والاصفات! شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات فاش می خواہی اگر اسرارِ دیں جز بہ اعماقِ ضمیر خود مبیں تو یکے در فطرت خود غوطہ زن مرد حق شو، برظن وتخمیں متن (پس چہ باید کرداے اقوام شرق،کلیات اقبال،ص۸۲۷) تصوف اور علم باطن کے مخالفین کی رائے میں صرف خارجی اور حسی علم ہی حقیقی اورقابل اعتماد ہے۔وہ علم باطن کی اہمیت وافادیت کے منکر ہونے کی حیثیت سے اس کے مطالعہ کی طرف توجہ نہیںدیتے۔ یہ لوگ صوفیا اور اولیا کی کرامات اور کشف کو محض مشق اور مہارت تجربہ کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کو اُن کی اس رائے سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ وہ خارجی علم کی طرح باطنی علم کو بھی ٹھوس ،حقیقی اور لائق مطالعہ قرار دیتے ہیں۔اُن کا استدلال یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کا الہامی اور صوفیانہ لٹریچر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تاریخ میں مذہبی تجربات اور روحانی مشاہدات کو ہمیشہ ہی غلبہ حاصل رہا ہے، اس لیے ہم انھیں محض دھوکہ کہہ کر ردّ نہیں کرسکتے۔ علامہ اقبالؒ تو اس باطنی علم کو خارجی علم پر ترجیح دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں: ’’صوفیانہ مشاہد ہ حقیقت کے کلی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے‘‘ وہ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اپنی ایک اور فلسفیانہ کتاب میں لکھتے ہیں:۔ "Besides sense and reason,however,there is another source of knowledge called "Dhauq" the innerperception which reveals non-temporal and non-spatial planes of being." (The Development of Metaphysics in Persia: p.111) اس زاویہ نگاہ سے وہ اس باطنی احساس کو ہستی کے غیر فانی اور غیر زمانی مدارج کے انکشاف کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آخر میںوہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’’یہ مذہبی تجربات ومشاہدات ہمارے دیگر عام تجربات کی مانند بالکل فطری ہیں‘‘۔ صوفیانہ تجربات اور قلبی واردات کے بارے میں علامہ اقبالؒ کی یہ رائے ہے کہ اُن کی نوعیت بالکل ذاتی تجربے کی ہوتی ہے اس لیے اُن کا ابلاغ اور بیان ممکن نہیں۔ ہر انسان کی قلبی واردات اور صوفیانہ تجربات یکساں نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کو صحیح طور پر بیان کرنا اور اُنھیں دوسروں کے فہم کے قریب لانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ان تجربات کی نوعیت ہر انسان کی اپنی استعداد اور تزکیہ نفس کے درجے کے مطابق ہوتی ہے۔کوئی اعلیٰ تجربات کا حامل ہوتا ہے اور کوئی ادنیٰ مقام کا سالک ہوتا ہے۔جذب وسلوک کی یہ منزلیں اور درجے برابر نہیں ہوتے۔ اختلاف مدارج کے سبب اُن کے تجربات بھی مختلف ہوتے ہیں اوراُن کے بیان وابلاغ کے ذرائع بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔کیاہم ایک ہی چیز کی لذت سے بہرہ ور ہونے کے بعد اُسے یکساں انداز میں بیان کرسکتے ہیں؟ایسا ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ ایک ہی چیز سے لطف اندزو ہونے کی سب میں ایک جیسی طاقت اور استعداد ممکن نہیں۔یہی حال صوفیانہ تجربات اور روحانی مشاہدات کا بھی ہے۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں اگرچہ مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں تاہم ہم مذہبی انسانوں کی اس تلاش حقیقت کو بے کار تصور نہیں کرسکتے۔اکثر اوقات ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی خوشی اور اپنے غم کی تمام کیفیات کو دوسروں تک کماحقہ منتقل نہیں کرسکتے۔اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے یہ باطنی تجربات اور ذہنی کیفیات عبث ہیں۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:’’مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذہبی آدمی کی یہ تلاش بے فائدہ ہے‘‘۔ خودی کا نظریہ علامہ اقبالؒ کے نظام فکر کا محورو مرکز ہے جس کے گرد اُن کے باقی تصورات گردش کرتے ہیں۔اس لحاظ سے خودی کی یہ مرکزی حیثیت اُن کے نثر پاروں اور منظومات میں پوری طرح اجاگر ہے۔اُن کی رائے میں بلاشبہ خودی ہر ایک چیزکے لیے کسوٹی کا کام دیتی ہے۔ جو چیز خودی کو کمزور کرے وہ اُسے برا خیال کرتے ہیں اور جو چیز اس کے استحکام کا باعث ہو وہ اُسے اچھا سمجھتے ہیں۔وہ مذہبی واردات کو بھی اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔وہ باطنی علم کے ذریعے حاصل شدہ تجربات اور مشاہدات کو اس لیے بھی مستحن،اہم اور مفید کہتے ہیں کہ یہ ہمیں خودی کی ماہیت کا سراغ دیتے ہیں۔اُن کے الفاظ میں’’مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے‘‘۔ عرفان ذات کے اس تجربے اور باطنی انقلاب کو فلسفہ ومنطق کی ترازو میں نہیں تولا جاسکتا کیونکہ قلبی واردات اور روحانی مشاہدات عقل وخرد کی گرفت سے باہر ہیں۔حوا س ظاہری کی مانند حواس باطنی بھی حقیقت کے ان پہلوئوں کو منکشف کرتے ہیں جو حواس ظاہری کے قابو میں نہیں آتے۔ بقول مولانا رومیؒ ؎ پنج حسیّ ہست جز اِیں پنج حسِ آں چوں زرّ سرُخ وایں حس چومسِ آئینہ دِل چوں شود صافی وپاک نقش ہا بینی بروں از آب وخاک ًً(ترجمہ:پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پانچ باطنی حواس بھی ہیں۔ یہ باطنی حواس سرخ سونے کی مانند ہیں اور خارجی حواس تانبے کا درجہ رکھتے ہیں۔جب دل کا آئینہ پاک اور صاف ہوجائے تو توُ مٹی اور پانی(جسم)سے کئی نقوش باہر آتے ہوئے دیکھے گا)۔ یہ اسرار خارجی حواس کی پیداوار نہیں ہوتے کیونکہ جب انسانی قلب مقام خدا ٹھہرا تو پھر وہاں بھی نورانی کرنیں لازماًموجود ہوں گی۔قرآن حکیم میں ارشادخدا وندی ہے:’’ اِن اﷲ یحول بین المرئِ وقلبہ‘‘(الانفال۸:۲۴)(ترجمہ: بیشک اﷲ انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے)۔علامہ اقبالؒ خودی کو بھی انسانی جسم میں ایک’’نوری نقطہ‘‘ اور’’زندگی کا شرار‘‘قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔ نقطہ نورے کہ نامِ اُو خودی است زیر خاک ماشرار ِزندگی است (اسرار خودی، کلیات اقبال ص۱۸) جب خودی ہمارے پیکر خاکی میں شرارے کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر اس کی اصل عالم باطن پر منحصر ہے۔اس امر کو پیش نظر رکھ کر علامہ اقبالؒ نے یہ کہا ہے:’’ درحقیقت مذہبی واردات کی اس صفت کی بدولت ہم خودی کی ماہیت کا سراغ لگاتے ہیں‘‘ وہ تصوف کو خودی کی بیداری اور اسکی حفاظت کا ذریعہ خیال کرکے فرماتے ہیں:۔ یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سجود تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں ( کلیات اقبال ص۴۹۶) صوفی اور ولی کی مذہبی واردات اور اُن کے روحانی مشاہدات کا منتہائے مقصود ذات خداوندی کا وصل ہوتا ہے۔اُن کی یہ زبردست خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت ذکر الٰہی اور تزکیہ نفس میں مصروف رہ کر خداوندتعالیٰ کا قرب حاصل کرلیں اور اپنی ذات کے قطرے کو ذات ایزدی کے بحر بیکراں میں مدغم کردیں۔وہ عموماً خلوت اور ذاتی نجات کے طالب ہوتے ہیں۔اس کے برعکس نبی یا پیغمبر ذات خداوندی سے مضبوط رابطہ قائم کرنے کے باوجود انسانی سوسائٹی میں بھی حیات ساز انقلاب کا خواہاں ہوتاہے کیونکہ اس کا فریضہ ہی بنی نوع انسان کو صراط مستقیم دکھا نا اور ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا ہوتا ہے ۔ نبی کی مذہبی واردات اس لحاظ سے اجتماعی بہبود اور اجتماعی فلاح و فوز کا باعث بنا کرتی ہیں۔علامہ اقبالؒ نے یہاں برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور صوفی اور ولی کا قول نقل کیا ہے۔عبدالقدوس گنگوہیؒ نے عرش معلی پر جاکر واپس نہ آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔اس قول سے علامہ اقبالؒ صوفیانہ شعور اور پیغمبرانہ شعور کا فرق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کی قلبی واردات کا نتیجہ معاشرتی سدھار،اجتماعی زندگی کے نکھار اور وحی والہام پر مبنی بے مثال نظام اقدار کی ہمہ گیری کی شکل میں رونما ہوتا ہے جبکہ ایک صوفی کی مذہبی واردات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔ وہ رسالت ونبوت محمدی ﷺ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:۔ از رسالت در جہاں تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما زندگی قوم از دم اُو یافت است ایں سحر از آفتابش تافت است فرد ازحق،ملت از وے زندہ است از شعاع مہر اُو تا بندہ است (رموز بے خودی، کلیات اقبال،ص۱۰۱) وہ صوفی کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ حجرے اور خانقاہ سے باہر آکر بیرونی حالات کا نہ صرف مشاہدہ کرے بلکہ وہ یہاں فعال اور انقلاب آفرین کردار بھی ادا کرے۔اگر کوئی صوفی اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کا سچا عاشق کہتا ہے تو پھر وہ ہادی اعظم محمدؐ کے نقش قدم پر چل کر موجودہ باطل نظام کو مٹانے اور صالح اقدار حیات کو فروع دینے کے لیے عملی ثبوت دے۔اسلام میں صرف خلوت ہی نہیں جلوت بھی ہے کیونکہ اجتماعیت ہی سے اس کی شان وشوکت نمایاں ہوتی ہے۔اس بات کوملحوظ خاطر رکھ کر علامہ اقبالؒ صوفی کو یوں دعوت عمل دیتے ہیں:۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ ودلگیری (ارمغانِ حجاز،کلیات اقبال،ص۶۸۰) تقدیر (۱)’’میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے زیادہ خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچی سمجھی تجویز کی ہوبہو نقل قرار دے۔قرآن کی رو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ تکمیل یافتہ شے جسے بناکرخدا صدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘ (دوسرا خطبہ) (۲)’’ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل خدا کی نامیاتی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ہے لیکن یہ ایک واضح امکان کے طور پر موجود ہے نہ کہ محضوص خدوخال رکھنے والے واقعات کے متعینہ نظام کی حیثیت سے‘‘ (تیسرا خطبہ) (۳)’’ اگر ہم تاریخ کو پہلے سے متعین واقعات وحادثات کے نظام کی ایک ایسی تصویر خیال کریں جو بتدریج ظہورپذیر ہوتی ہو تو پھر اس میں جدت اور تازہ کاری کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘ (تیسرا خطبہ) (۴)’’ اس قسم کی تقدیرپرستی خودی کی نفی نہیں جیسا کہ اسپنگلر کا خیال معلوم ہوتا ہے ‘اس کے علی الرغم یہ ایسی زندگی اور بے پایاں قوت ہے جو کسی رکاوٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑے سکون کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے جبکہ اس کے اردگرد گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی ہو‘‘ (چوتھا خطبہ) تقدیر کا مسئلہ صدیوں سے فلسفہ، الٰہیات اور اخلاقیات کا اہم موضوع رہا ہے۔ ہر دور میں مفکرین، اہل دانش اور اخلاق وتصوف کے میدان کے شہسواروں نے اپنے اپنے مخصوص نظریہ زندگی اور اپنی سمجھ کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی کہ آیا ایک انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے یا مختار ۔ جبر واختیار کا مسئلہ ابھی تک حل طلب اور موضوع بحث ہے۔ جبر وقدر کی بحثوں سے اسلامی لٹریچر اور مسلم تصوف کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔اشاعرہ اور معتزلہ کے نظریات جبر وقدر سے کون واقف نہیں۔جبر پسند حکما اور قدرت واختیار کے حامی اپنے اپنے دلائل کے حق میں قرآن وسنت کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔مسلم حکما کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ خدا نے اسے قوت عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے نوازا ہے۔اس کے برعکس مسلمان مفکرین اور متصوفین کا دوسر ا گروہ اس امر میں ایمان رکھتا ہے کہ انسان بالکل مجبور ہے کیونکہ جو کچھ تقدیر میں روزِ ازل سے لکھا گیا ہے ۔وہ اُسے کرنے پر مجبور ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ دونوں مکاتب فکر انتہا پسندی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ افراط وتفریط کسی طرح بھی مناسب اور مفید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی۔ وہ نہ تو ہر کام میں کلیتہً مجبور ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر مختار ہے۔اس لحاظ سے انسانی زندگی جبرا ور اختیار کامجموعہ ہے۔ علامہ اقبالؒ کے تصور تقدیر کا ایک اہم عنصر جدت کوشی،تازہ آفرینی،ارتقا پذیری اور مسلسل تخلیقی عمل ہے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات کوئی پہلے سے تیار شدہ یا تکمیل یافتہ سکیم نہیں ہے بلکہ یہ آج بھی ترقی اور تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے۔اُنھوں نے بجا ہی کہا تھا:۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون (بال جبریل،کلیات اقبال) علامہ اقبالؒ کائنات کے عمل کو خدا تعالیٰ کی سابقہ تجویز کی ہوبہو نقل قرار نہیں دیتے کیونکہ اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خالق ارض وسماوات اسے بنا کر الگ بیٹھا ہوا ہے اور اب اس کا تخلیقی عمل ختم ہوگیا ہے۔علاوہ ازیں اس نظریہ کائنات کی رُو سے یہ کارخانہ قدرت ایک مشین کی مانند بن جاتا ہے۔میکانکی عمل ایک دفعہ شروع کردینے کے بعد خودبخود جاری رہتا ہے۔ یہ اسی وقت ختم ہوتا ہے جب اسے روکنے کے لیے اس کا بٹن دبادیا جائے۔ یہ میکانکی طریق کار مادیت اور جبریت کی علامت ہے۔یہ ایک ایسے خط مستیقم کی طرح ہے جو ابھی تک تشکیل پارہا ہے۔مفکر اسلام ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ کا تصور کائنات بھی قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔قرآن حکیم کا ارشادہے: ’’کل یوم ھو فی شان‘‘(الرحمن ۵۵:۲۹) ،(خدا تعالیٰ ہر روز نئی جلوہ گری کرتا رہتا ہے)۔ اس لحاظ سے دنیائے رنگ وبو میں ہر روز نئے نئے واقعات اور حادثات پر دہ عدم سے معرض ظہور میں آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم کائنات کو خدا کے سابقہ تخلیقی عمل کی ہوبہو کاپی قرار دیںتو پھر اس میں سعی پہیم،عمل مسلسل اور ارتقا پذیری کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی ایک اور آیت میں کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تخلیقی عمل میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔علامہ اقبالؒ تو زندگی کو ’’جوئے رواں‘‘ اور’’ مے جواں‘‘ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔ ؎ زندگی جوئے رواں است ورواں خواہد بود ایں مئے کہنہ جوان است وجواں خواہد بود (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۳۶۲) وہ چشم بصیرت رکھنے والوں کو زندگی اور کائنات کی تعمیر وترقی کا بنظر غائر مطالعہ ومشاہدہ کرنے کی یوں تلقین کرتے ہیں:۔ ؎ چشم بکشاے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی درپئے تعمیر جہاں دگر است (ایضاً) خدا تعالیٰ کی تخلیقی صفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات میں بھی یہ عمل تخلیق ابھی تک جاری ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا ہے’’قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے‘‘کیاموجودہ زمانے کی نئی نئی اور حیرت انگیز سائنسی ایجادات واکتشافات ،فضائی تسخیر اور بحری دریافتوں نے قرآن حکیم کے اس ارتقائی اور انقلابی نظریے کی توثیق نہیں کردی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کائناتی تبدیلیوں اور زمانی تبدیلیوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ارتقائی تصور کے مخالفین کی رائے میں حال اور ماضی محض گذشتہ واقعات کی تکرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس طرح وہ جدت طرازی اور تازہ آفرینی کی اہمیت کے منکر بن جاتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ماضی پرستی دراصل جبریت کی ہی ایک شکل ہے۔علامہ اقبالؒ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ زمانہ ہر لمحہ تغیر پذیر ہوکر نئے نئے حوداث کو جنم دیتا رہتا ہے۔تاریخ پہلے سے متعین واقعات کے نظام کا نام نہیں جو آہستہ آہستہ منصہ شہود پر آتے رہتے ہیں بلکہ یہ تو ہر آن بدلنے والے حوادث کے ارتقائی عمل کی مظہر ہے۔ مفکر اسلام مستقبل کو خدا کی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ایک واضح امکان کے طور پر تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اُسے مخصوص خدو خال رکھنے والے واقعات کے متعینہ نظام کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے ۔وہ اپنی نظم’’ زمانہ‘‘ میں وقت کی تغیر پذیری کو زمانے ہی کی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں:۔ جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا،یہی ہے اک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسیج روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ (بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۴۲۱) تقدیر کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام آنے والے حالات وواقعات کو’’لوح محفوظ‘‘ پر درج کردیا تھا اور اب ہر واقعہ اس مقررہ پروگرام کے مطابق آہستہ آہستہ رونما ہورہا ہے۔ جب دنیا میں ہونے والے واقعات اسی طرح’’لوح محفوظ‘‘ میں تھے تو اُن کا ظہور بھی لازمی قرار دیا جاتا ہے۔اس نظریے کی رُو سے جبر پرست انسان اپنے تمام کاموں خصوصاً برے اعمال اور بدحالی کا ذمہ دار خدا کوٹھہراتے ہیں اور وہ خود بری الذمہ ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں۔اس مکتب فکر کے حامیوں کے چند خیالات ملاخطہ ہوں۔ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا (میر تقی میر) درکوئے نیک نامی مارا گذرند اوند گر تو نمی پسندی، تغییر کن قضارا ( حافظ شیرازی) در گردش است بعتُ ولعاب درکمیں در حرکت است خامہ ونقاّش درقضا (قآنی) اس نظریہ تقدیر سے انسان قوت واختیار کے مالک نہیں رہتے بلکہ وہ اُن کٹھ پتلیوں کی مانند بن جاتے ہیں جنہیں بازی گر اپنی مرضی سے حرکت میں لاتا ہے۔ جبر پرست اس نظریے کی تائید میں اکثر اوقات یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں۔’’ اِنّ اﷲ علیٰ کلّ شی ء قدِیر ‘‘ (بیشک اﷲ ہر ایک چیز پر قادر ہے) ۔ تقدیر پرستوں کے برعکس انسانی اختیار وقوت کے حامی بھی اپنے اپنے دلائل بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہاں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔وہ انسانی اختیار کے حق میں یہ کہتے ہیں :۔ (۱) خدا تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ پائوں اور عقل کی نعمت دی ہے تاکہ ہم کوئی کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہ کام غلط تونہیں ۔ اس کام کو کرنے کے لیے ہمیں ہاتھ پائوں دئیے گئے ہیں۔خدا کا کوئی بھی فعل چونکہ حکمت سے خالی اور بے کار نہیںہوتا اس لیے اس نے ہمیں ہاتھ اور پائوں بھی استعمال کرنے کے لیے دئیے ہیں۔ (۲) خدا تعالیٰ نے ’’لوح محفوظ‘‘ میں مستقبل کا خاکہ تو بنایا تھا مگر خاکے میں اچھا یا برا رنگ بھرنے کے لیے اس نے ہمیں اختیار بھی دیا ہے۔ (۳)خداتعالیٰ آئین پسند ہے اس لیے اس نے اس وسیع وعریض کائنات کو بطریق احسن چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے ہیں تاکہ یہاں بگاڑ اور فساد رونما نہ ہو۔ یہ خاص اُصول اور قاعدے خاص نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔وہ بلاتمیز مذہب وملت سب انسانوں کے لیے یکساں نتائج پیدا کیا کرتے ہیں مثلاً آگ کی خاصیت جلانا ہے۔جوشخص بھی آگ میں ہاتھ ڈالے گا،اُس کا ہاتھ جل جائے گا مگر معجزات کا ظہور قوانین فطرت کا پابند نہیں ہوتا۔ (۴)اگر دنیا میں سب کچھ خدا کررہا ہے تو پھر کفار کا کفر اور فاسقین کا فسق قابل اعتراض کیوں؟ اس کے علاوہ پھر دنیا میں انبیائے کرام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا نزول عبث ٹھہرتے ہیں کیونکہ جب یہ بد کار انسان اور کفار بدکاری اور کفر کرنے پر مجبور ہیں تو پھر تبلیغ وہدایت کا کیا فائدہ؟ (۵) جب ہم کتے کو پتھر مارتے ہیں تو وہ کتا پتھر کی طرف نہیں دوڑتا بلکہ پتھر مارنے والے کو ذمہ دار خیال کرتے ہوئے اس کی جانب جاتا ہے۔گویا کہ ایک جانور بھی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ پتھر مجبور ہے اور انسان مختار ہے۔ (۶) کسی ناکامی پر ہمارا احساس ندامت اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے تھے وہ ہم سے ہماری کوتاہی کے سبب نہ ہوسکا۔ یہ احساس غم ہمارے اختیار کی دلیل ہے۔ (۷) قرآنی احکام سے بھی انسانی اختیار کا ثبوت ملتا ہے مثلاً نماز پڑھنے‘زکوٰۃ دینے‘نیکی کرنے اور بدی سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔اگر ہم بالکل مجبور ہوتے تو پھر حکم دینے کی کیا ضرورت تھی؟ (۸) تقدیر کا مادہ ’’قدر‘‘ ہے۔اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے’’لوح محفوظ‘‘ میں مختلف اعمال کے لیے خاص اقدار مقرر کی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں وہاں اچھے اور برے کاموں کا پیمانہ مقرر کیا گیا تھا نہ کہ متعین کاموں کا لازمی ظہور۔ (۹) اگر انسان بالکل مجبور ہے تو پھر اسے جزا اور سزا دینے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔جزا اور سزا سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اکتساب عمل کی قوت اور آزادی انتخاب کی دولت سے نوازا گیا ہے۔ (۱۰) خدا تعالیٰ خالق کائنات ہے اور وہ ہر وقت تخلیقی عمل میںمصروف رہتا ہے اس لیے کائنات بھی مختلف مراحل سے گزرتی جارہی ہے۔انسان کو چونکہ خلیفتہ اﷲ علی الارض کہا گیا ہے‘اس واسطے یہ نائب کوئی کٹھ پتلی نہیںبلکہ خاص اختیارات کا حامل ہے۔ علامہ اقبالؒ انسانی جبر کی نسبت انسانی اختیار کے زیادہ قائل ہیں۔ اگر وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی نہ سمجھتے تو اُسے نائب حق کا فریضہ سرانجام دینے اور سعی وعمل کی بار بار تلقین نہ کرتے۔وہ اُس زندگی کو موت کے مترادف خیال کرتے ہیں جس میں ذوق انقلاب نہ ہو۔وہ خود فرماتے ہیں: ع: جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی (بال جبریل) علامہ اقبالؒ تقدیر کا ایک مفہوم وہ قانون قدرت بتاتے ہیں جس کی پابندی تمام جمادات‘نباتات اور حیوانات کررہے ہیں۔ یہ مخلوقات خدا کے مقرر کردہ قوانین کے تحت عمل کرنے پر مجبور ہیں۔چاند‘ سورج‘ستارے اور دیگر اشیاء اسی قسم کی’’ تقدیر ‘‘ کے پابند ہیں۔اُن کی نگاہ میں تقدیر کا دوسرا مفہوم خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے ارادہ و اختیار سے کام لینا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم’’ احکام الہٰی‘‘ میں تقدیر کے ان دو پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں:۔ پابندی تقدیر کہ پابندی احکام؟ یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند اِک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند تقدیر کے پابند نباتات وجمادات مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند (ضرب کلیم ‘کلیات اقبال‘ ص۵۲۶) خدا تعالیٰ کے مستند احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کی رضا چاہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مسلمان حرکت و عمل کو چھوڑ دے ۔قرآن حکیم نے تو ہمیںیہ انقلابی درس دیا ہے:’’ و اِنّ یس للانسان الا ماسعٰی‘ ‘(النجم ۵۳:۳۹)،(انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی ہو)۔اس قرآنی درس عمل کی رو سے ہماری سعی ضرور نتیجہ خیز ہوگی۔کیا ہمارے ہادی اعظمؐ نے اپنی تمام حیات طیبہ اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں صرف نہیں کردی تھی؟ کیا اُنھوں نے حصول مقاصدکے لیے عمل مسلسل ‘سعی پیہم اور ان تھک جدوجہد سے کام نہیں لیا تھا؟ کیا خدا تعالیٰ نے اُن کی حیات طیبہ کو ہمارے لیے اُسوہ حسنہ قرار نہیں دیا؟ نبی آخرالزمان ﷺ کا سچا عاشق اور اُمتی اور جمود وتساہل؟ قدرت نے نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات تک میں نشو ونما اور ترقی کی امکانات رکھ دئیے ہیں۔ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ بیج کو زمین کی تاریکی میں دبایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی قوت نمو کا اظہار کرتے ہوئے’’ظلمت کدہ خاک‘‘ سے اپنا سر باہر نکالتا ہے۔اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے انسان میں تو جذبہ نمود کا شدید ترین اظہار ہونا چاہیے۔علامہ اقبالؒ اس موضوع کی طرف بڑا بلیغ اشارہ کرتے ہوئے اپنی نظم’’ تسلیم ورضا‘‘ میں کہتے ہیں:۔ ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا ظلمت کدہ خاک پہ شاکر نہیں ر ہتا ہر لحظ ہے دانے کو جنوں نشو ونما کا فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم ورضا کا جرأت ہو نموکی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مرد خدا ! ملک خدا تنگ نہیں ہے ( ضرب کلیم ‘کلیات اقبال‘ ص ۵۱۴۔۵۵۱) جرمنی کے ایک مشہور فلسفی اسپنگلر(۱۸۸۰۔۱۹۳۶) نے انسانی تہذیب وتمدن کے بارے میں ایک اہم کتاب The Decline of the West لکھی تھی جس میں اس نے مختلف تہذیبی اور ثقافتی تاریخی واقعات کو بیان کرکے اسلامی تہذیب وثقافت کے متعلق بحث کی تھی۔اس بحث کے دوران اس نے مسلمانوں کے تصورِ تقدیر کو ہدف تنقید بنایا اور اسے نفی خودی کے مترادف قرار دیا تھا۔علامہ اقبالؒ کو اس کی اس تنقید سے مکمل طور پر اتفاق نہیں۔وہ یہ تو مانتے ہیں کہ غلط نظریہ تقدیر نے مسلمانوں کے زوال میں نمایاں حصہ ادا کیا ہے لیکن وہ تقدیر کے اسلامی اور صحیح نظریے کو اس زو ال کا باعث نہیں سمجھتے۔ابھی بتایا گیا ہے کہ علامہ اقبالؒ مومن کو فقط’’احکام الٰہی کاپابند‘‘ خیال کرتے ہیں ۔ احکام ا لہٰی کی اس پابندی کو وہ جبر اور تقدیر پرستی نہیں کہتے بلکہ وہ اسے تقدیر کی اعلیٰ اور تعمیری قسم تصور کرتے ہوئے اس کی یوں تعریف کرتے ہیں:۔ ہر کہ از تقدیر دارد ساز و برگ لرزد ا ز یزوئے اُو ابلیس و مرگ جبر دین مرد صاحب ہمت است جبر مرداں از کمال قوت است پختہ مردے پختہ تر گر د ر ز جبر جبر مر د خام را آغوش قبر جبر خالدؓ عالمے برہم زند جبر ما بیخ و بن ما بر کند کار مردان است تسلیم و رضا بر ضعیفاں راست ناید ایں قبا (جاوید نامہ‘کلیات اقبال‘ص۷۰۹) کمزور اور بے عمل کا نظریہ جبر تو اس کے لیے موت کا پیغام لاتا ہے مگر مضبوط‘ بلند ہمت‘ اور باعمل انسان ہر بات میں خدائے قادر کے احکام کی پابندی کرکے خود صاحب قدرت بن جاتا ہے۔ جب وہ کسی کام میں خدا کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے تو پھر خدا ایسے عاشق صادق پر خود فریفتہ ہوکر اس کی رضا کا خواہش مند ہوجاتا ہے۔ایسے مقام پر خدا اپنے اس بندے سے پوچھتا ہے کہ کس چیز میںتیری رضا ہے۔پہلے پابندی احکام کرکے انسان خدا کی رضا کا طالب ہوتا ہے بعد میں خدا اس کی اطاعت سے خوش ہوکر اس کے مطابق اپنا طریق بدل لیتا ہے۔اس بات کو مدنظر رکھ کر شاعر مشرقؒ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے جبر یعنی کامل اطاعت خداوندی کو ہنگامہ آفرین اور انقلاب خیز قرار دیاہے اور ہمارے جبری نظریات کو ہماری برباری کا پیش خیمہ بتایا ہے۔وہ ایک جگہ انسانی جبر وقدر کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔ نہ مختارم تواں گفتن‘نہ مجبور کہ خاک زندہ ام‘ در انقلابم توحید (۱)’’ عقید توحید کا نچوڑ مساوات‘ حرّیت اور استحکام میں ہے۔اسلام کے زاویہ نگاہ سے سیاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے‘‘۔ (چھٹاخطبہ) اسلام ایک عالمگیر اور انسانیت سا زانقلابی دین ہے جو زندگی کے تمام اہم شعبہ جات مثلاًمعاشرت،سیاست،تہذیب،ثقافت،اقتصادیات اور اخلاقیات میں رہنما اُصول مہیا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے زندگی کا مکمل ضابطہ کہا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کی بنیاد عقیدہ توحید ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:’’خلقکم منِ نفس واحدہ‘‘ (النساء ۴:۱)(خدا نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے)۔ تمام انبیائے کرام ؑ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی محکومیت اختیار کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔وہ اپنی قوم کو خدائے واحد کی غلامی کا درس دیتے ہوئے یہ کہتے تھے’’ یٰقوم اعبد واﷲ‘‘ (ھود ۱۱:۸۴)(اے قوم! تم سب اﷲ کی غلامی اختیار کرو)۔یہ قرآنی آیت بھی خدا کی وحدانیت پر زور دیتی ہے’’ الٰھکم اِلہ واحدِ‘‘ (الحج ۲۲:۳۴) ( تمہارا اِلہ خدائے واحد ہے)۔اس زاویہ نگاہ سے آسمانی کتب اور انبیائے کرام کی تعلیمات کا خلاصہ عقیدہ توحید ہی تھا۔ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ بھی لوگوں کو ایک خدا کے عقیدے کی طرف متوجہ کرتے رہے۔ جب خدائے واحد ہی تمام انسانوں کا خالق‘مالک اوررزّاق ہے تو پھر کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنائے۔ بقول علامہ اقبالؒ :۔ سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری علامہ اقبالؒ کو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کا صحیح فہم عطا کیا تھا اس لیے اُن کے نظریات وافکار میں ہمیں جابجا اسلامی تعلیمات کا عکس نظر آتا ہے۔وہ دوسرے انسانوں کو بھی اسلام کی انقلابی‘ تعمیری اور آفاقی قدروں سے روشناس کرانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔اُن کا یہ کہنا بجا ہے کہ:’’عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات‘حریت اور استحکام میں ہے‘‘ خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے تمام انسان اُس کی نگاہ میں برابر ہیں البتہ تقویٰ کی بنیاد پر ہمیں دوسروں پر فوقیت حاصل ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں جب مسلمان خدائے واحد کے عقیدے کے علم بردار بن جاتے ہیں تو وہ سب آئین خداندوی کی رُو سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔رنگ‘نسل‘ زبان اور جغرافیائی حدود کے اختلاف کے باوجود ہم سب مساوات کے مستحق ہوجاتے ہیں کیونکہ’’لا اِلہ اِلا اﷲ‘‘( اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں) کی اساس ان تمام ظاہری امتیازات پر نہیں ہے۔ اسلامی آئین کسی عجمی اور عرب‘کسی گورے اور کالے‘کسی امیر اور غریب‘کسی حاکم ورعایا کی تمیز نہیں کرتا۔علامہ اقبالؒ نے اس اسلامی مساوات کو مزید واضح کرتے ہوئے اپنی کتاب’’ رموز بے خودی‘‘ میں سلطان مراد اور ایک مسلمان معمار کی کہانی بیان کی ہے جس میں بادشاہ کو اس معمار کی درخواست پر عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ کہانی کے آخر میں وہ اسلامی مساوات پر اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ پیش قرآں بندہ و مولا یکے است بوریا ومسندِ دیبا یکے است (رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص۱۰۸) وہ اپنے ایک انگریزی مضمون میں بھی اسلامی برابری کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: "--This principle of equality of all believers made the early mussalmans the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it elevated those who were socially low" (Islam As A Political Ideal, P 109) اسلامی عقیدہ توحید کے دو لازمی ثمرات اخوت(بھائی چارہ) اور حریت(آزادی) ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اسلامی اخوت کو واضح کرنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ سے مددلی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں نے ایران فتح کرلیا تھا۔ایران مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو گوارہ نہ کرسکا چنانچہ ایرانی بادشاہ یزدجرد کی فوج اور مسلمان فوج کے درمیان ایک معرکہ میںایرانی فوج کا ایک لیڈر جابان ایک مسلمان مجاہد کے ہاتھوں قیدی ہوگیا تھا۔ مسلمان مجاہد کو اس ایرانی لیڈ ر کے بار ے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے۔جابان مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔اُس نے بڑی مکاری سے کام لیتے ہوئے اپنے نام اور مرتبے کو ظاہر نہ کیا اور اُس مسلمان فوجی سے جان بخشی کی درخواست کی جسے اُس نے قبول کرتے ہوئے اُس کی جان بخش دی۔جب دوسرے مسلمان فوجیوں کو جابان کی گرفتاری کاعلم ہوا تو وہ اُسے قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔مسلمان فوج کے امیر حضرت ابو عبیدؓ نے اُنھیں کہا کہ ہم اُسے قتل نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے ایک بھائی نے اس کی جان بخشی کا وعدہ کرلیا ہے۔ اس لیے اس کا وعدہ ہم سب کا وعدہ ہے۔علامہ اقبالؒ اس کہانی کا خاتمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔ ہریکے ازما امین ملت است صلح وکینش‘صلح وکینِ ملت است ملت ار گردو اساسِ جانِ فرد عہد ملت می شود پیمان فرد ( رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۶) توحید کے تصور کا تیسرا لازمی نتیجہ حریت فکر وعمل ہے۔اس لحاظ سے مسلمان خدا کی حاکمیت کے سوا کسی اور کی حاکمیت قبول نہیں کرسکتا۔فکر اور عمل کی یہ آزادی قرآنی تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں اس کی جگہ لفظ’’استحکام‘‘ استعمال کیا ہے۔اس سے اُن کی مراد غالباًملی استحکام ہے جو مساوات اور حریت کی بدولت مسلمانوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنی نظم میں اُنھوں نے عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات، حریت اور اُخوت کو قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ فارسی نظم’’ درمعنئی ایں کہ مقصودِرسالت محمدّیہ تشکیل وتاسیسِ حرّیت ومساوات و اُخوت آدم است‘‘ میں نبی اکرمؐ کی رسالت کی برکات(اُخوت‘حریت ومساوات) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ کلّ مومنِ اِخوۃ اندر دِلش حریت سرمایہ آب وگلشںِ ناشکیب امتیازات آمدہ در نہادِ او مساوات آمدہ ہمچو سرو آزاد فرزندانِ اُو پختہ از قالو بلیٰ پیمانِ اُو (مورز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۴) اسلامی تصور حریت کی وضاحت کے لیے اُنھوں نے واقعہ کربلا بیان کیا ہے کہ کس طرح حضرت امام حسینؒ نے خدائی حاکمیت کی بجائے انسانی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں خلافت راشدہ کے مثالی اور بابرکت دور میں خدائی حاکمیت کا تصور عام تھا مگر بعد ازاں جب خلافت کی جگہ بادشاہت(ملوکیت) نے لی تو مسلمانوں کو آزادی فکر وعمل سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔وہ خلافت کے زوال اور خدائی حاکمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ چوں خلافت رشتہ از قرآں گیخت حریت را ز ہر اندر کام ریخت ماسو اﷲ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست (رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۱۰۔۱۱۱) سیاست کو اسلامی تصور حیات میں کافی اہم مقام دیا گیا ہے۔ قرآنی تعلیمات اور اُسوہ رسول ؐ کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سیاست اسلام کا جزو ہے کل نہیں۔اسلام چونکہ زندگی کا ایک جامع نظام ہے اس لیے انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس پرفوقیت نہیں رکھتا۔ جو لوگ مغربی نظام سیاست سے مرغوب ہوکر دین اور سیاست کی جدائی یا دین پر سیاست کی بالا تری کے حامی ہیں وہ اسلامی تصور سیاست سے بخوبی آگاہ نہیں ۔اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید اور رسالت محمدیؐ ہے۔باقی تمام نظریات اسی محور کے گردگردش کرتے نظر آتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طاقت کے زوال کی بنا پر اُمت مسلمہ کو گوناگوں مشکلات درپیش آئیں مگر اسے اسلام کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔علامہ اقبالؒ کے اپنے دور میں ترکی میں دو بڑی جماعتیںقوم پرست اور مذہبی اصلاح کی پارٹی تھیں۔ قوم پرست پارٹی مذہب پر سیاست کی فوقیت کی علم بردار تھی جبکہ دوسری پارٹی سیاست پر مذہب کو ترجیح دینے کی حامی تھی۔علامہ اقبالؒ بھی موخر الذکر مکتب فکر کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ اسلام کے زاویۂ نگاہ سے سیاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے‘‘۔ دوسرے لفظوں میں وہ سیاسی نظام کو اسلامی تعلیمات کے تین اہم اور زرّیں اُصولوں مساوات،حرّیت اور اُخوت کو عملی اور خارجی شکل دینے کا موثر ذریعہ قرار دیتے ہیں۔اس عملی کوشش کے بغیر مساوات،آزادی اور بھائی چارے کے تین اُصول محض نظریات اور فلسفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔عقائد ونظریات کو نافذ کرنے اور اُن کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک موثر اور طاقتور سیاسی نظام اور حکومت کا قیام لازمی ہوا کرتے ہیں۔ طاقت واقتدار کے بغیر مذ ہب محض فلسفہ رہ جاتا ہے جیسا کہ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:۔ نہ ہو مذہب میں گر زورِ حکومت نرا اک فلسفہ ہی فلسفہ ہے اسلامی نظام حکومت کے لیے بھی اقتدار اور طاقت ضروری ہیں۔اسلام کا اخلاقی نظام اگر اس کا جمالی پہلو ہے تو نظام غلبہ اسکے جلالی پہلو کا مظہر ہے۔خدا تعالیٰ اپنی پیدا کردہ کائنات میں کسی غیر خدائی نظام حکومت کے نفاذ و قیام کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنے آخری نبی ﷺکی رسالت کا ایک اہم مقصد دین حق کا اظہار وغلبہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ھوُ الذّی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحقّ لیظھرہ علی الدّین کلہ‘‘ (التوبہ۹:۳۳)(خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حقیقی کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو دیگر تمام ادیان پر غالب کردے)۔ اس لحاظ سے دین اسلام ایسے نظام حکومت کا حامی ہے جو دنیا میں انسانی برابری، انسانی آزادی اور انسانی بھائی چارے کے سنہری اُصولوں کو نافذ بھی کرے اور اس انسانیت ساز،قدرتی اور عالمگیر دین کو باقی نظامہائے حیات پرغالب بھی کردے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اگر کوئی طرز حکومت ان اسلامی اُصولوں کے عملی نفاذ وغلبہ کا ذریعہ نہیں تو وہ اسلامی کہلانے کا ہرگز مستحق نہیں۔وہ تو حقیقی مسلمان کی پہچان یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ آفاقی غلبہ کے بغیر ایک لمحہ بھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔ علامہ اقبالؒ کا یہ شعر ملاخطہ ہو:۔ تانخیزد بانگ ِحق از عالمے گر مسلمانی نیآ سائی دمے (ترجمہ:جب تک دنیا سے حق کی آواز بلند نہ ہو جائے تو اگر مسلمان ہے تو ایک لمحہ کے لیے آرام نہ کر)۔ ثقافت (۱)’’ یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے‘‘ (بریفالٹ) (پانچواںخطبہ) (۲)’’ میں قطعی طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ یونان نے اسلامی ثقافت کی حدود کومتعین کیا ہے‘‘ ( ایضاً) ثقافت سے متعلق علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا الفاظ سے دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔یورپی سائنس پر عربی ثقافت کے اثرات کے اثبات اور اسلامی ثقافت پر فلسفہ یونان کے حدود ساز اثر سے انکار کا تذکرہ۔مغرب کے اکثر متعصب حکما اور مستشرقین اوّل تو یورپی سائنس پر اسلامی ثقافت کے اثرات کا اعتراف نہیں کرتے اور اگر وہ ایسا کربھی لیں تو وہ اسلامی ثقافت کو فلسفہ یونان کی مرہون منت قرار دینے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس اخفائے حقیقت سے اُن کا مقصد اسلامی تعلیمات کی اہمیت وافادیت کو کم کرنا اور مسلمانوں کواُنکے اسلاف کے عملی کمالات سے بے خبر کرکے اُن کو احساس کمتری میں مبتلاکرنا ہے۔ چند حقیقت پسند مغربی حکماء نے چارو وناچار زمانہ قدیم کے ممتاز مسلمان حکما اور فلاسفہ کی عظیم علمی خدمات اور فکری عظمت کا اعتراف کیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بریفالٹ کی مشہور زمانہ تصنیف’’ تشکیل انسانیت‘‘ کے متعدد اقتباسات اس امر کی گواہی میں پیش کئے ہیں کہ عربی ثقافت نے یورپ کی سائنس کی ابتدائی ترقی میں نمایاں حصہ لیا تھا۔اس ضمن میں اس مغربی دانشور کے یہ اقتباسات دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے:۔ (1)"Roger Bacon was no more than one of the apostles of Muslim science and method to Christian Europe------" (2)"Science is the most momentous contribution of Arab civilization to the modern world". (3)"It was not science only which brought Europe back to life. Other and manifold in influences from the civilization of Islam communicated its first glow to European life" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam ;p.130) اس طرح بریفالٹ اپنے نتائج فکر ی کویوں بیان کرتا ہے:’’یورپی سائنس کافی حد تک عربوں کی شرمندہ احسان ہے‘‘۔ علامہ اقبالؒ اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ یونانی افکار نے اسلامی ادیبات خصوصاً تصوف کو کافی متاثر کرکے اس میں غیر اسلامی عناصر شامل کردئیے ہیں مگر وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ فلسفہ یونان نے صحیح قسم کی اسلامی ثقافت کی حدود کو متعین کیا تھا۔اُن کا استدلال مختصراً یہاں درج کیا جاتا ہے۔ (۱) اسلامی ثقافت کی رُوح حرکت ہے اس لیے یہ یونانی جامد تصور کائنات کی ضد ہے۔ (۲) اسلامی ثقافت عالم محسوسات کو غیر حقیقی اور غیر مفید قرار نہیں دیتی ہے۔ (۳) اسلامی ثقافت نے یونانی فلسفے کے علی الرغم تجرباتی علوم کو جنم دیا تھا۔ یونانی مفکرین خصوصاً ارسطو‘ افلاطون اور سقراط ’’جامد تصور کائنات‘‘ کے حامی تھے۔قرآنی تعلیم کی رو سے یہ کائنات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے۔ یہ تغیر پذیری اس کے ارتقائے مسلسل کا سبب بنتی ہے۔تاریخ فلسفہ سے آگاہی رکھنے والے اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ افلاطون’’اعیان ثابتہ‘‘ کا زبردست علم بردار ہونے کی حیثیت سے اس ظاہری کائنات کے حسّی علم کو واہمہ خیال کرتا تھا۔اس کے برعکس قرآنی نظریہ اس عالم محسوسات کو حقیقی اور مفید قرار دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ: ’’ رّبنا ما خلقت ھذا باطلاً ‘‘ (آلِ عمران ۳:۱۹۱)(اے ہمارے پروردگار!تو نے اس دنیا کو باطل پیدا نہیں کیا)۔ علامہ اقبالؒ افلاطون کے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گر وہِ گوسفندانِ قدیم آنچناں افسون نامحسوس خودر اعتبار از دست وچشم و گو ش برُد منکرِ ہنگامہ موجود گشت خالقِ اعیان نامشہود گشت (اسرار خودی‘کلیات اقبال‘ص۳۳۔۳۲) قدیم یونانی فلسفے میں مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت کی بجائے انسان کی باطنی دنیا کو لائق توجہ کہا گیا تھا۔ اسلام باطن کی دنیا کے علاوہ ظاہری علم کے مطالعہ پر بھی زور دیتا ہے۔اس تائید کا اثر یہ ہوا کہ مسلمان حکما نے مشاہدہ کائنات کے ذریعے تجرباتی علوم کی بنیاد ڈالی جس کا تذکرہ بریفالٹ نے بھی کیا ہے۔ان اُمور کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت علامہ اقبالؒ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یورپ کی موجودہ ترقی میں ہمارے اسلاف کا بھی نمایاں کردار ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔ عصرِ حاضر زا وئہ ایاّم تست مستئی اُو از مئے گلفام تست شا رح اسرارِ او تو بودئہ اوّلین معمار اُو تو بودئہ ( پس چہ باید کرد…کلیات اقبال ص۸۳۸) جسم وجان( روح وبدن) (۱)’’ جوہر صفت حیات حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اس کی ماہیت روحانی ہے۔نفس خالصتاً ایک عمل ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمائش پذیر عمل ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات اور خارجی مظاہر کی اصل کو روحانی سمجھتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی اس نظریے کو قبول نہیں کرتے جو مادی تصور کائنات سے تعلق رکھتا ہو۔ بیشتر یونانی فلاسفہ خصوصاً ارسطو اور اس سے قبل دیمقر اطیس(Democritus) نے کائنات کو جامد اور مادی قرار دیا تھا۔ مسلم حکما خاص طور پر اشاعرہ نے اس یونانی تصور کائنات کو قرآنی تعلیمات کی ضد قرار دیتے ہوئے حرکی اور ارتقا پذیر تصور دیا۔ اشاعرہ کا نظریہ جواہر کائنات کی تغیر پذیری کے ساتھ ساتھ روح کو لطیف شکل بھی قرار دیتا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اشاعرہ کے تصور روح کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جوہر کی ماہیت کو روحانیت پر مبنی کہا ہے۔مندرجہ بالا اقتباس میں اس مرکزی خیال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اس کی وضاحت درج ذیل ہے:۔ (الف) اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کے ایک پہلو کا تو اس بات سے گہرا تعلق ہے کہ یہ کائنات لاتعداد چھوٹے چھوٹے غیر منقسم ذرّات کا مجموعہ ہے اور چونکہ خدا ہر لمحہ تخلیقی سرگرمی کا اظہار کرتا رہتا ہے اس لیے نئے نئے جواہر معرض وجود میں آکر اس کی تغیر پذیری اور ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔ اُن کے اس نظریہ کے دوسرے پہلو میں روح کو مادے کی لطیف تر صورت کہا گیا ہے۔ وہ یہ رائے بھی رکھتے تھے کہ جوہر خدا کی خلاقی صفت کی بدولت موجود ہوکر مکانی نظر آتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ مکانیت کو جواہر کے مجموعہ پر منحصر خیال کرتے تھے۔ (ب) اشاعرہ کی رائے میں جواہر کا مسلسل وجود اصل میں حادثات وواقعات کی پیہم تخلیق پر دارومدار رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے’’ تصور روح‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "It is my belief that the Ash'arite view that the 'Nafs' is accident is opposed to the real trend of their own theory which makes the continuous existence of the atom dependent on the continuous creation of accidents in it" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p70) علامہ اقبالؒ کی رائے میںاشاعرہ کا تصور روح ان کے بنیادی نظریہ تخلیق کائنات کی خود تردید کررہا ہے۔علاوہ ازیں وہ ایک اور دلیل کے ذریعے اس کا ردّ کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ اشاعرہ حرکت کائنات کے زبردست قائل ہیں۔حرکت وقت کے بغیر اور وقت نفسی زندگی کے بغیر ممکن نہیں اس لیے نفسی زندگی حرکت سے زیادہ بنیادی ہے۔نفسی زندگی عالم محسوسات اور مادّے کی حدود میں نہیں آتی کیونکہ حقیقت کاملہ صورت،مادّہ، زمان ومکان کی پابند نہیں۔اس استدلال کا سہارا لیتے ہوئے وہ جوہر کے بارے میں کہتے ہیں:۔ "Regarded as a phase of Divine energy,it is essentially spiritual" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.71) )ج) علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ روح کی تردید کے لیے ایک اور دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اشاعرہ نے مکانی لمحہ کا نظریہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مکان کو وقت پر ترجیح دیتے تھے۔ وہ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ لمحہ(وقت) مکان سے مقدم اور ارفع ہوتا ہے اور اسے زمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔حضرت علامہ اقبالؒ(مکان‘جگہ) کو مادی شے خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اسے صرف اندازِ فکر قرار دیتے ہیں۔اس لحاظ سے مکان(space) مادی نہیں بلکہ یہ ایک عمل بن جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ عمل مادیت پر مبنی نہیں بلکہ مادہ اس کی خارجی صورت ہے۔ مولانارومؒ نے بھی قلب کو قالب اور روح کو جسم پر ترجیح دیتے ہوئے کائنات کی روحانی اصل کی طرف لوٹ جانے کی طرف ہماری توجہ دلائی تھی۔علامہ اقبالؒ زمان کو مکان پر‘شعور کو مادے پر اور روح(نفس) کو جسم پر ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.Rumi is far more true to the spirit of Islam than Ghazali when he says: پیکر ازما ہست شد نے ما ازو بادہ از ماست شدنے ما ازو "Reality is,therefore,essentially spirit,but,of course,there are degrees of spirit." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam.p.71) (د) علامہ اقبالؒ نفس انسانی(روح) کو باطنی اور نادیدنی کہتے ہیں لیکن وہ جسم کو نظر آنے والا خارجی اور قابل پیمائش عمل قرار دیتے ہیں۔روح کے لیے موجودہ سطح زندگی پر جسم کا ساتھ لازمی اور مفید ہے مگر موت کے بعد ان دونوں میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جسم فنا ہوجاتا ہے اور روح حیات بعد الممات کے سفر کے لیے کوئی اور سواری اختیار کرلیتی ہے۔جسم وجان کے بارے میں علامہ اقبال ؒفرماتے ہیں:۔ تن وجاں را دو تاگفتن کلام است تن وجاں را دو تادیدن حرام رات بہ جاں پوشیدہ رمزِ کائنات است بدن حالے زا حوال حیات است (کلیات اقبال، ص ۵۴۷) (ر) ’’متوازیت اور تعامل دونوں غیر تسلی بخش تصورات ہیں کیونکہ کوئی کام کرتے وقت جسم اور ذہن ایک ہوجاتے ہیں مثلاً جب میں میز سے کتاب اُٹھاتا ہوں تو میرا یہ فعل واحد اور ناقابل تقسیم ہوگا۔اس کام کے سلسلے میں جسم اور ذہن کے الگ الگ اعمال کو متعین کرنے کے لیے کوئی خط فاصل کھینچنا قطعی ناممکن ہوگا۔کسی نہ کسی طرح وہ دونوں ایک ہی نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کی رُو سے ان دونوں یعنی امردخلق کا سرچشمہ خدا ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے جسم وروح کی بحث کے دوران یہاں ایک اہم مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے۔جسم وروح کے باہمی ربط اور اُن کی جدائی کے بارے میں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب فکر روح کو جسم کی ترقی یافتہ شکل تصور کرتا ہے جبکہ اس نقطہ نظر کے مخالفین روح کو جسم پر فوقیت دیتے ہوئے جسم کو روح کا خادم قرار دیتے ہیں۔ فلاسفہ اور مفکرین کا تیسرا گروہ کہتا ہے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔چوتھا مدرسہ خیال اس بات کا حامی ہے کہ جسم وروح دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔مندرجہ بالا اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے جن جن اہم باتوں کا تذکرہ کیا ہے،اُن کی توضیح حسب ذیل ہے:۔ (ا) متوازیت اور تعامل دونوں کو علامہ اقبال نے غیر تسلی بخش نظریات کہا ہے۔متوازیت کے نظریے کی رو سے جسم اور روح پراسرار طور پر متحد ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ یہ نظریہ مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے پیش کیا تھا۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اسے عیسائیت سے متاثر مانی کی ثنویت سمجھتے ہوئے ردّ کردیتے ہیں۔اسی طرح وہ تعامل(باہمی اثر اندازی) کے نظریے کو بھی مستحسن خیال نہیں کرتے کیونکہ اس طرح یہ پتہ لگانا مشکل ہوجا تا ہے کہ پہلے کون اثر انداز ہو ااور اس اثر کی نوعیت کیا ہے۔اسی ضمن میں وہ لانگے کے تصور جذبہ کو درست قرار نہیں دیتے جس کی رُو سے اثر اندازی کا آعاز جسم سے ہوتا ہے۔ (ب)علامہ اقبالؒ متوازیت اور تعامل دونوں کوثنویت (جسم اور روح کی تفریق) کا آئینہ دار خیال کرتے ہوئے ردّ کردیتے ہیں۔قرآن حکیم توحید اور وحدت فکر وعمل اور وحدت جسم وروح کی تعلیم دیتا ہے۔اس لحاظ سے متوازیت اور تعامل دونوں غلط ہیں۔اُن کے نزدیک کوئی کام کرتے وقت جسم اور دماغ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔جسم وروح کی یہ ہم آہنگی اُنکی ناقابل تقسیم وحدت کار پر دلالت کرتی ہے۔وہ ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان دونوں کو ’’عالم امر‘‘ اور’’عالم خلق‘‘ سے وابستہ تصور کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فرماتے ہیں : "According to the Quran they do belong to the same system. "To Him belong' Khalq (creation) and 'amr'(direction)."Thus my real personality is not a thing, it is an act. My whole reality lies in my directive attitude. You cannot perceive me like a thing in space" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam p.103) شاعر مشرق ’’خلق ‘‘و’’امر‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دونون طریقوں سے خدا اپنی تخلیقی فعالیت کو ہم پر منکشف کرتا رہتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کو انائے مطلق اور تمام نفوس وارواح کا منبع ومصدر تصور کرتے ہیں۔اس لحاظ سے تخلیق کا پہلا مرحلہ’’امر‘‘ ہے جہاں اشیا کی صورتوں کی تدبیر کی جاتی ہے اور اُن کے لیے خاص قوانین اور پیمانے (تقدیرات) وضع کئے جاتے ہیں۔عالم ’’امر‘‘ میں مادہ اور صورت کا جوود نہیں ہوتا۔خدا کی تخلیقی صلاحیت کا دوسرا مرحلہ عالم’’خلق‘‘ ہے جہاں غیرمادی اور نادیدنی قوانین اور تقدیرات اشیاء کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔اس طرح عالم’’امر‘‘ عالم معانی بن جاتا ہے اور عالم ’’خلق‘‘ صورتوں کا مظہر ہوجاتا ہے۔ان دونوں کا خالق ایک ہی ہے۔امر اور خلق کے بعد تیسرا مرحلہ’’ہدایت‘‘ کا ہے۔ بے جان اشیا اور حیوانات میں جبلت اس کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسان میں عقل ‘شعوراور وجدان اور وحی اس ہدایت کے مراتب ومراحل ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں ان اہم کڑیوں کو ان الفاظ کا جامہ پہنایا ہے ‘وہ فرماتے ہیں: ترا تن روح سے ناآشنا ہے عجب کیا آہ تیری نارسا ہے تن بے روح سے بیزار ہے حق خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے ( کلیات اقبال،ص ۲۸۲) (۳)’’جسم کوئی ایسی چیز نہیں جو خلائے مطلق میں واقع ہے بلکہ یہ حادثات اور اعمال کا نظام ہے جو جسم وجان کے امتیاز کو تو ختم نہیں کرتا بلکہ یہ اُنھیں ایک دوسرے کے قریب تر کردیتا ہے… بدن چونکہ روح کے اعمال وعادات کا مجموعہ ہے اس لیے اُسے روح سے جدا نہیں کیا جاسکتا‘‘ (چوتھا خطبہ) اس اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ علامہ اقبال ؒ جسم وروح کے مسئلے میں کتنی گہری دلچسپی لیتے تھے۔وہ کائنات،زندگی اور روح سے متعلق مادہ پرستانہ تصور کے شدید مخالف تھے۔اُنھوں نے اپنی اس عظیم فلسفیانہ کتاب’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ میں اکثر مقامات پر ا س مشکل مگر اہم موضوع پر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے غور وفکر کیا ہے۔اس عبارت میں بھی اُنھوں نے اسی موضوع پر اظہار خیال کیا ہے جس کے اہم نکات مختصراً یہ ہیں: (ا) جسم کوئی ایسی چیز نہیں جو خلائے مطلق میں واقع ہے۔ متعدد فلسفیوں،سائنس دانوں اور اہل دانش نے کائنات کی مادی انداز میں توضیح کی ہے۔اس کے برعکس دوسرے اصحاب فکر ونظر نے اس کی روحانی تعبیروتشریح پر خاص زور دیا ہے۔ علامہ اقبالؒ روحانی تصور کائنات کے عظیم علم بردار ہونے کی حیثیت سے جسم کو بھی اسی انداز سے دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ نیوٹن نے کائنات اور اس کی اشیا کی مادی تعبیر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’مادہ ہی سب کچھ ہے‘‘ علامہ اقبالؒ اس کے تصور کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ "The scientific view of nature as pure materiality is associated with the Newtonian view of space as an absolute void in which things are situated." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.34) روحانیت پر پختہ یقین رکھنے کے باعث علامہ اقبالؒ اس مادی تصور کو کسی طرح بھی پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جسم کے مادی تصور کے بھی خلاف ہیں۔ (ب)علامہ اقبال جسم کو حادثات اور اعمال کا نظام قرار دیتے ہیں۔وہ کائنات کے حرکی اور ارتقائی نظریے اور اس کی روحانی اصل کے بہت بڑے حامی تھے۔وہ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے تصورِکائنات کے روحانی‘حرکی اور تخلیقی پہلو کی تعریف میں یہ کہتے ہیں: "--Professor Whitehead describes the universe, not as something static, but as a structure of events posessing the character of a continuous creative flow" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.45) اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کی بحث کے ضمن میں اُنھوں نے جوہر کی اصل مکانیت کو نہیں بلکہ خدا کے تخلیقی عمل کو قرار دیا تھا جو مادہ وصورت سے بالکل پاک ہوتا ہے۔جسم ظاہر میں مادی شے دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی اصل بھی خدا کا تخلیقی عمل ہے۔ (ج) خدا تعالیٰ ہر وقت جلوہ گری اور تخلیقی عمل میںمصروف رہتا ہے۔ تخلیقی عمل مشین کے برعکس تکرار اور یکسانیت سے مبرا ہوتا ہے۔تخلیق نئی اشیا اور واقعات کی صورت گری کا دوسرا نام ہے۔اس لحاظ سے خدا کے تخلیقی عمل کو میکانکی اور مادی طریق پر نہیں سمجھا جاسکتا جیسا کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: " Creation is opposed to repetition which is a characteristic of mechanical action. That is why it is imposible to explain the creative activity of life in terms of mechanism". )د) بدن روح کے اعمال وعادات کا مجموعہ ہوتا ہے اس لیے اسے روح سے جدا نہیںکیا جاسکتا۔ارتقائے حیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں شعور طبعی حالات سے مغلوب ہوتاہے لیکن بعد ازاں تدریجی ترقی کے سبب وہ طبعی حالات پر غالب آجاتا ہے۔روح اور جسم کے باہمی ربط کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’ نخن اقربُ الیہ من حبل الورید‘‘ (ق ۵۰:۱۶) (ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں)۔ خدا اگر ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو اس نزدیکی اور ربط کی نوعیت کیا ہے؟اس ضمن میں علامہ اقبالؒکا قول دیکھئے: "But we must not forget that the words proximity,contrast and mutual sepration,which apply to natural bodies do not apply to God. Divine life is in touch with the whole universe on the anal- -ogy of the soul's contact with the body, The soul is neither inside nor outside the body; neither proximate nor separate from it". (Thoughts And Reflections of Iqbal,p.154) علامہ اقبالؒ کے مرشد روحانی مولانا رومؒ جسم اور روح کے اس تعلق پر یوں گوہر فشانی کرتے ہیں: اتصال بے تخیل بے قیاس ہست ربّ الناس را باجانِ ناس (۴)’’خودی کی نمایاں صفت اختیار ہے۔اس کے برعکس جسمانی اعمال اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ جسم اور روح کی بحث کے دوران خودی کا بھی ضمناً تذکرہ کردیتے ہیں۔و ہ خدا کی ذات بے ہمتاکو ارواح اور نفوس کا حصہ وسرچشمہ خیال کرتے ہوئے نفس انسانی( روح انسانی) کو بھی’’انائے مطلق‘‘ یا ’’انائے کامل(خدا)کی تخلیقی سرگرمی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔خدا کی اس تخلیقی فعالیت کے دو اہم مراحل’’امر‘‘اور’’خلق‘‘ہیں۔عالم امر کا تعلق محسوسات سے نہیں ہوتا لیکن عالم خلق میںمحسوسات اور مظاہر سے واسطہ پڑتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا الفاظ میں جن باتوں کو اجمالاًبیان کیا گیا ہے اُن کی تفصیل یہ ہے:۔ (الف)خودی(انسانی نفس)کی امتیازی خصوصیت ارادہ واختیارہے۔علامہ اقبا ل ؒ روحانی تجربات اور باطنی کیفیات کے نظام کو روح یا خودی کہتے ہیں اور وہ اس نظام کو نظام اعمال کہتے ہیں۔روح اور خودی کو اپنے افعال و اعمال کے اظہار کے لیے کسی خارجی اور محسوس پیکر کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے جسم،روح وخودی کے اعمال کا مظہر ہوتا ہے۔چونکہ انسانی خودی انائے مطلق سے خارج ہوئی ہے بنا بریں اسے بھی اپنے باطن کے اظہار کے لیے جسم اور بدن کی حاجت ہوتی ہے۔عالم امر میں روح،جسم ، مادے اور صورت کے بغیر ہوتی ہے مگر عالم خلق میں آکر اسے ان سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے۔علامہ ؒمرحوم خودی کی ذاتی آزادی کے بارے میں کہتے ہیں: "The element of guidance and directive control in the ego's activety clearly shows that the ego is a free personal causality" )ب)حضرت علامہ اقبالؒ کے خیال میں جسمانی اعمال تکرار کے مظہر ہوتے ہیں جبکہ خودی تخلیق کی عادی ہوتی ہے۔خودی چونکہ گوناگوں مقاصد کی تخلیق سے بھی عبارت ہے اس لیے وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ یہ جدت آفرینی اور تازہ کاری تکرار نہیں بلکہ یہ ارتقائی عمل ہے۔روح اپنے اعمال کے اظہار کے لیے جسم کو بمنزلہ آلہ استعمال کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کے مختلف گوشوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: بجا نِ من کہ جاں نقشِ تن انگیخت ہوائے جلوہ ایں گل را دو رُو کرد ہزاراں شیوہ دارد جان بے تاب بدن گرد دچو بایک شیوہ خو کرد (کلیات اقبال،ص ۲۴۵) خودی شیر مولا‘جہاں اس کاصید زمیں اس کی صید‘آسماں اس کاصید (کلیات اقبال،ص۴۲۰) پسند روح وبدن کی ہے وانمود اس کی کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی (ایضاً) وہ اپنی ایک اور نظم ’’جان وتن‘‘ میں روح اور بدن کی اصلیت اور ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں اُلجھی ہوئی روح کس جوہر کی؟خاک تیرہ کس جوہر سے ہے ارتباط حرف و معنی ؟ اختلاط جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے (ایضاً ص ۵۱۷) جو لوگ خودی پر بیرونی اثرات اور اُصول علت ومعلول کے قائل ہیں وہ خودی کی آزادی اور اصلیت سے آگاہ نہیں۔ وہ غلط فہمی کی بنا پر روح کو جسم کی مانند خیال کرکے اُسے بھی پابند زمان ومکاں بنادیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اُن کے اس نظریے کو جبریت اور میکانیت پر مبنی سمجھ کر ہدف تنقید بناتے ہیں: (۵) ’’اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مادہ کیا ہے۔مادہ دراصل پست درجہ رکھنے والی خودیوں کی ایک ایسی بستی ہے جن میں سے بلند مرتبہ خودی اُس وقت منصّہ شہود پر آتی ہے جبکہ اُن کا اتصال اور باہمی ردّ عمل یگانگت کے خاص مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں ہدایت نفس اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔یہی وہ دنیا ہے جس میں حقیقت مطلقہ اپنا راز فاش کرتی ہے اور ہمیں اپنی ماہیت یا کنہ کا پتہ دیتی ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبال ؒنے اس اقتباس میں خودی اور جسم یا روح و بدن کی بحث پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کئی ا ہم اُمور کی طرف اشارے کئے ہیں۔اُنھوں نے اس میں مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے: (ا) علامہ اقبالؒ نے بدن کو پست مرتبہ رکھنے والی خودیوں کی بستی کہا ہے جن کے اتصال اور باہمی رد عمل سے بلند تر خودی کی نمود ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ خودی اس زمانی اور مکانی نظام میں سے کیسے نمودار ہوتی ہے؟اس سوال کا جواب علامہ اقبالؒ نے ان قرآنی آیات(۱۴۔۱۲/۲۸) کا حوالہ دیا ہے جن میں شکم مادر میں انسانی پیدائش کے ارتقائی مدارج کا ذکر ہے۔ان آیات کے آخر میں خدا تعالیٰ کو ’’اُحسن الخا لقین‘‘کہا گیا ہے۔ان آیات کی روشنی میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "Physical organism--that colony of sub egos through which a profounder Ego constantly acts on me,and thus permits me to build up a systematic unity of experience: (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.104) علامہ اقبالؒ ڈیکارٹ کی طرح جسم اور روح کو الگ الگ نہیں سمجھتے بلکہ وہ جسم کو روح کے عملی اغراض کے لیے مفید اور لازمی آلہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان دونوں میں وحدت اور یگانگت پائی جاتی ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں: "mind and body become one in action----It is the mind's consent which eventually decides the fate of an emotion or a stimnlus" مولانا رومؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں: آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد وز جمادی در نباتی او فتاد وز نبا تی چوں بہ حیواں او فتاد نا مدش حالِ نباتی ہیچ یاد ہمچنین اقلیم تا ا قلیم رقت تاشداکنوں عاقل ودانا وزفت جمادات سے نباتات،نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسانیت کی طرف ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی قانو ن ارتقا ہے۔تمام کائنات میں درجات اور مراتب کا سلسلہ ہے۔ بہت سی اشیا میں ارتقا اور عروج کی طرف میلان پایا جاتا ہے ۔آخر کار یہی سلسلہ خدا تعالیٰ تک جاپہنچتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ واِلی رّبک المنتھیٰ‘‘(النجم ۵۳:۴۲) (اور تیرے پروردگار کی طرف ہر شے کی انتہاہے)۔ جسم(قالب) روح (قلب) کے لیے اس مادی دنیا میں ایک آلہ ہے۔غیر مادی عالم میں اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ مادی دنیا عالم صور ہے اور غیر فانی دنیا عالم معانی ہے۔ تمام موجودات کا ارتقا کثافت سے لطافت کی طرف ہوتا ہے۔ (ب) جب ہدایت نفس اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو حقیقت مطلقہ اپنا راز فاش کرتی ہے۔قرآن حکیم نے نفس انسانی کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔نفس اماّرہ،نفس لوّامہ اور نفس مطمئنہ۔ یہ خودی کے تین مراحل ومدارج ہیں۔نفس مطمئنہ خودی کا آخری مرحلہ ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ اے نفس مطمئنہ!تو اپنے رب کی طرف خوشی خوشی آجا‘‘۔ خدا کی خلاقی صفت کے تین مراحل یہ ہیں:امر‘خلق اور ہدایت: تخلیق سے پہلے اشیا عالم امر میں موجود ہوتی ہیں اور خدا نے ان کی ہدایت کا بھی انتظام کیا ہے۔روح سے متعلق دو قرآنی آیات قابل غور ہیں۔’’لیسئلونک عن الرّوح قل الرّوح من امر رّبی‘‘(بنی اسرایل۱۷:۸۵) (اے نبی ؐ آپ سے روح کے بارے میں لوگ پوچھتے ہیں‘آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے ربّ کے ’’امر‘‘ سے ہے)۔’’ ونفخ فیہ منِ روحہ‘‘ (السجدہ ۳۲:۹)(اس میں خدا نے اپنی روح پھونکی)۔ بعض مفسرین اس روحِ خدا وندی کو ایزدی توانائی کا نام دیتے ہیں۔ جوں جوں روح میں خدا کی صفات کا پرتو نظر آتا ہے اس میں انکشاف حقیقت کی قوت بھی بڑھ جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اسرار خداوندی کا عرفان حاصل کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں: برمقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است مردِ مومن در نسازد باصفات مصطفی راضی نشد اِلاّ بذات ( کلیات اقبال‘ص۶۰۷) (۶)’’اسلام میں روحانی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں… اسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (چھٹاخطبہ) علامہ اقبالؒ نے بار بار اس امر کی وکالت کی ہے کہ اسلام روح اور مادے کی ثنویت اور دین وسیاست کی جدائی کا قائل نہیں ہے۔ ہماری نیت اور نقطہ نگاہ کے مطابق کوئی چیز سیکولر یا مذہبی صورت اختیار کرتی ہے۔مفکر اسلام اس اہم نکتے کی یوں وضاحت کرتے ہیں: "It is the invisible mental background of the act which ultimately determines its character. An act is temporal or profane if it is done in a spirit of detachment from the infinite complexity of life behind it; it is spiritual if it is inspired by that complexity." (The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p.154) علامہ اقبالؒ زندگی کو ناقابل تجزیہ واحد حقیقت مانتے ہوئے مادہ اور روح اور دین وسیاست کے جداگانہ وجود کے زبردست خلاف ہیں۔ اُن کی رائے میں عیسائیت شریعت اور سیاسی نظام سے عاری تھی اس لیے اس کے پیروکاروں نے مذہب اور سیاست اور دنیا اور دین میں تمیز پیدا کردی تھی۔ اسلام تو مکمل ضابط حیات ہے اس لیے یہ اس قسم کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: "In Islam it is same reality which appears as church looked at from one point of view and the State another.It is not true to say that Church and State are two sides or fcets of the same thing" (The Reconstrustion of Religious thought in Islam-p.154) ترکی کی دو سیاسی جماعتوںقوم پرست پارٹی اور جماعت اصلاح مذہب کے نقطہ ہائے نگاہ کی بحث کے دوران مفکر اسلام نے اسلام کی ناقابل تجزیہ وحدت پر اظہار خیال کیا ہے۔ ترکی کی قوم پرست جماعت مذہب وسیاست کی جدائی پر یقین رکھتے ہوئے سیاست اور ریاست کو مذہب پر ترجیح دینے کے حق میں تھی جبکہ مذہبی اصلاح کی جماعت مذہب وسیاست کی یک رنگی اور مذہب کی سیاست پر بالاتری کی علم بردار تھی۔علامہ موصوف مذہبی اصلاح کی پارٹی کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ریاست اسلامی اُصول حکمرانی کے نفاذ وترویج کا عملی اور موثر ذریعہ ہے اس لیے دین کو سیاست پر فوقیت دینی چاہیے‘‘۔اس لحاظ سے وہ اسلامی عقیدہ توحید کے تین اہم معاشرتی اُصولوںمساوات‘استحکام اور حریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "The essence of"Tauhid" as a working idea is equality, solid- -arity, and freedom.The state, from the Islamic stand point, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces" (The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p154) علامہ اقبالؒ کائنات کی حقیقت کو روحانی اور اس کے زمانی‘ مکانی اور خارجی مظاہر کو مادہ کہتے ہیں۔ ہمارا فکر ان خارجی اور مادی مظاہر کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعے ترقی کرتا ہوا انکشاف کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ جب خدا ظاہر کے علاوہ باطن کا بھی مظہر ہے تو پھر باطنی حقائق‘ قلبی واردات اور روحانی کیفیات کی اہمیت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔ جب حقیقت مطلقہ اپنے آپ کوخارجی طور پر منکشف کرتی ہے تو ہمیں عالم خلق میں اشیامادہ اور کثرت پر مشتمل دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارا ذہن اُنھیں زمان ومکان میں تقسیم کرکے مادی تصور کرنے لگتا ہے حالانکہ عالم امر یا عالم معنی میں نہ مادہ ہے اور نہ صورتیں اور نہ ہی کثرت۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات کی روحانی اساس اور کثرت کو ان فکر انگیز اشعار میں پیش کررہے ہیں: یکی را آں چنان صد پارہ دیدیم عد د بہر شمارش آ فریدیم کہن دیرے کہ بینی مشت خاک است دمے از سرگذشت ذات پاک است (کلیات اقبال‘ص ۵۴۸) علامہ اقبا لؒ تخلیق کائنات کو خدا کے جذبہ عشق کا کرشمہ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہی جذبہ عشق روحانیت کا مظہر ہے: بہ برگ لالہ رنگ آمیزئی عشق بجان ما بلا انگیزی عشق اگر ایں خاکداں را وا شگافی در ونش بنگری خوںریزی عشق (کلیات اقبال‘ص ۱۹۶) جفاکشی (۱)’’ قرآنی نقطہ نظر سے صحیح قسم کی مردانگی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مشکلات و مصائب کو صبر وسکون کے ساتھ برداشت کرلیں‘‘۔ (تیسرا خطبہ) زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں کہ انسان کو کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ اعلیٰ قسم کی زندگی اعلیٰ مقاصد کے حصول پر مبنی ہونے کے سبب جفاکشی اور جفا طلبی کا دوسرا نام ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو دیگرتمام مخلوقات پر ترجیح دے کر اُسے روئے زمین پر اپنانائب بنایا ہے۔جس قدر انسان کا مرتبہ ومقام عظیم ہوگا اسی قدر اسے زیادہ سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا ہوگا۔بقول شاعر:۔ ؎بجلی کی زد میں آتے ہیں پہلے وہی طیور جو اس چمن سرا میں بلند آشیاں ہوئے علامہ اقبالؒ بھی حیات جادواں کے حصول کا راز خطرات مول لینے میں مخفی پاتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اس مصرع میں کہتے ہیں: ؎ اگر خواہی حیات اندر خطرزی قرآن حکیم نے انسان کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ تمام موانعات اور مصائب کا مقابلہ کرتا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے:’’ لقد خلقنا الاِ انسان فی کبد‘‘(البلد۹۰:۴)( تحقیق ہم نے انسان کو جفاکشی کے لیے پیدا کیا ہے)۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ذات کی نشو ونما سختیوں سے متصادم ہونے میں ہے۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ بلند ہمت انسان ہمیشہ اپنی مخفی صلاحیتوں کا امتحان لیاکرتا ہے۔اس راہ میں اسے لازمی طور پر متوقع اور غیر متوقع خطرات اور تکالیف سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔شاعر مشرق صحیح قسم کی مردانگی کا یہی معیار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: آز ما ید صاحب قلب سلیم زورِ خود را از مہمات عظیم مرد خود دارے کہ باشد پختہ کار بامزاج خود بساز د رو زگار گرنسا زد بامزاج اُو جہاں می شود جنگ آزما با آسماں گردش اّیام را د رہم کند چرخ نیلی فام را بر ہم زند می کند از قوت خود آشکار روزِ گارِ نو کہ باشد ساز گار ( اسرار خودی،کلیات اقبال، ص ۴۹) قرآن پاک میںکہا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں‘زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو اُنھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ اُسے اُٹھانے سے گھبرا گئے۔ایسے حالات میں انسان نے اس بارِ امانت کو اُٹھالیا۔ حافظ شیرازیؔ کے الفاظ میں: ؎ آسماں بارِ امانت نتو انست کشید قرعہ فال بنام منِ دیوانہ زدند اس امانت الہٰی کی اصل نوعیت کے بارے میں مختلف مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔مسلمان مفکرین اور صوفیا نے اس سے کئی مفاہیم اخذ کئے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اس بارِ امانت سے مراد ’’انسانی شخصیت ‘‘ہے جیسا کہ وہ اپنی معرکہ آرا فلسفیانہ تصنیف میں کہتے ہیں: "The Quran represents man as having accepted at his peril the trustof personality which the heavens,the earth, and the moun- -tains refused to bear" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.88) اُنھوں نے جس قرآنی آیت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے۔سورۃ احزاب میں ہے:’’اَّنا عرضنا الاما نتہ علی السٰمٰوتِ والارضِ والجبالِ فابین ان یحملنھا واشفقن منھاِ وحملھا الاِ نسانُ انّہ کان ظلوماً جھوُلاً ‘‘ )الاحزاب ۳۳:۷۲)(بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں‘ زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اُنھوں نے اُسے اُٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اُسے اُٹھا لیا۔بے شک وہ بڑا ہی ظالم اور نادان ہے(۔ اقبالؒ کے خیال میںخدا تعالیٰ انائے مطلق ہے اور اس خدائی خودی سے باقی خودیوں(اّنائوں) کا ظہور ہوا ہے۔مختلف مخلوقات میں مختلف مدارجِ خودی پائے جاتے ہیں۔ انسان کی ذات میں پہنچ کر یہ خودی باقی تمام مخلوقات سے بالا تر ہوجاتی ہے۔ اس لیے انسانی شخصیت کی نشو نما اور تکمیل کے لیے نا ساز گار ماحول میں رہ کر گوناگوں مشکلات کا صبر وسکون سے مقابلہ کرنا اشد ضروری ہے۔ اُن کی رائے میں یہ جفاطلبی انسانی خودی کے استحکام کامتحان لینے کے مترادف ہے۔اس امر کے پیش نظر وہ دنیا کو’’ میدانِ جنگ‘‘ تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ یہ زوِر دست وضربتِ کاری کا ہے مقام میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ خونِ دل وجگر سے ہے سرمایۂ حیات فطرت ’لہو ترنگ‘ ہے غافل نہ’جل ترنگ‘ (ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۴۷۲) جلال وجمال (۱)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ جلال کے بغیر بصیرت اخلاقی بلندی پیدا کرتی ہے لیکن وہ پائیدار کلچر کو جنم نہیں دے سکتی۔اس کے برعکس جمال کے بغیر جلال تباہ کن اور انسانیت سوز ثابت ہوتا ہے۔بنی نوع انسان کی روحانی ترقی کے لیے دونوں کا امتزاج ناگزیر ہے‘‘۔ (تیسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ ایک ایسے نابغہ انسان تھے جن کی ذات میں قدرت نے بہت سی خوبیاں پیدا کردی تھیں۔ شعر وفلسفہ کے علاوہ اُنھیں تاریخ‘ عمرانیات اور اسلامی تعلیمات کا بھی گہرا ادراک حاصل تھا۔قوموں کے عروج و زوال کے اسباب ونتائج سے بھی اُنھیں گہری دلچسپی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی نظم ونثر میں ان کی عظمت فکر وعمل کے بارے میں کافی غور وخوص کیا ہوا تھا۔ مندجہ بالا قول میں اُنھوں نے جمال وجلال کے باہمی ربط اور پائیدار کلچر کے سلسلے میں اُن کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔جمال کا عام مطلب حسن ہے۔حسن صرف ظاہری پہلو ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ انسانی ذات کی باطنی زیبائی کا بھی عکاس ہوتا ہے ۔اسی لیے ہم حسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حسنِ سیرت کی افادیت کے بھی قائل ہوتے ہیں۔یہاں’’جمال‘‘ سے مراد حسنِ سیرت اور اخلاقی صفات ہیں جن کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔’’جلال‘‘ سے عام طور پر عظمت اور رعب داب مراد لی جاتی ہے۔ وسیع معنوں میں اسے طاقت‘سیاسی اقتدار اور اجتماعی دبدبہ کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے جمال انسانی شخصیت کا باطنی حسن قرار پاتا ہے اور جلا ل سیاسی غلبہ ودبدبہ کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ جہاں تک لفظ’’کلچر‘‘ کے مفہوم کا تعلق ہے اس میں بنیادی نظریۂ حیات اور اس کے خارجی مظاہر واعمال شامل ہوتے ہیں۔’’تہذیب‘‘ انسان کی باطنی شائستگی کی مظہر ہے اور’’تمدن‘‘ ہماری خارجی زندگی کا عکاس ہوتا ہے لیکن کلچر باطنی اور خارجی دونوں پہلوئوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ جمال اخلاقی بلندیوں اور بصیرت پید اکرنے کا موثر طریقہ ہے مگر طاقت واقتدار کے بغیر اخلاقی نظام اور زندگی کی اعلیٰ قدروں کی نہ تو تبلیغ واشاعت ہوسکتی ہے اور نہ ہی اُنھیں نافذ وغالب کیا جاسکتا ہے۔ پائیدار کلچر کی تشکیل واستحکام کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں اور اخلاق کے عمدہ اُصولوں کو عملی شکل بھی دی جائے وگرنہ وہ مجرد خوبصورت افکار وخیالات ہی رہیں گے۔کلچر محض اساسی تصور حیات ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنی نشو ونما کے لیے ساز گار ماحول اور عملی تنفیذکا بھی محتاج ہوتا ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے اسے’’جلال‘‘ کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جلالی صفات کو جمالی صفات سے ہم آہنگ نہ کیا جائے تو سیاسی غلبہ تباہ کن اور انسانیت سوز ثابت ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے اندرصرف غلبہ وحکومت کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہو اور اس خواہش پر اخلاقی پابندیاں عائد نہ کی جائیں تو وہ خواہش بے لگام ہوکر انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بن جاتی ہے۔کیاسکندر اعظم‘ہلاکو خاں‘چنگیز خاں‘نیرو اور موجودہ دور میں دو عالمگیر جنگوں نے اس امر کی حقیقت کو بے نقاب نہیں کردیا کہ مذہب واخلاق سے عاری اقتدار انسانی قدروں کی زبردست پامالی اور ہمہ گیر تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔طاقت بذات خودبری نہیں مگر ا سکا غلط استعمال اُسے برا بنادیتا ہے۔اگر طاقت وحکومت کو اعلیٰ انسانی صفات‘ مذہبی اقدار اور اخلاقی بلندیوں کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ نیکی کی غماز ہوجاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم’’قوت ودین‘‘ میںحکومت اور غلبہ اقتدار کے اچھے اور برے پہلوئوں کے چہرے سے یوں پردہ ہٹایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔ اسکندر وچنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں سو بار ہوئی حضرتِ انساںکی قبا چاک تاریخِ اُمم کا یہ پیام ازلی ہے ’صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک اس سیلِ سبک سیرو ز میں گیر کے آگے عقل و نظر وعلم وہنر ہیں خس وخاشاک لادیں ہو تو ہے زہرِہلاہل سے بھی بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک ( ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۴۹۱) جلال وجمال کی بحث کے ضمن میں جرمنی کے مشہور ومعروف فلسفی نطثے(۱۹۰۰۔۱۸۴۴) کے سپرمین اور اقبالؒ کے مردِ مومن کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔نطثے اپنے دور کے انسانوں سے بے زار ہوکر فوق البشر(Superman) کی آمد کا منتظر رہا اور اس کی صفات کو بیان کرتا رہا۔اس کا سپرمین محض جلال کا مظہر ہے اور اس میں جمالی صفات مفقود ہیں جبکہ علامہ اقبالؒ کا بندئہ مومن جلالی صفات کا بھی حامل ہے اور جمالی محاسن کا بھی آئینہ دار ہے۔علامہ اقبالؒ کسی طرح بھی مذہب واخلاق سے عاری اور اندھی طاقت کے حامی نہیں تھے۔وہ پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں یوں رقم طراز ہیں: "I believe in the power of the spirit, not brute force." (Letter to Dr. Nicholson,24th january 1921) علامہ اقبالؒ کی رائے میں ایک مردِمومن اور سچے مسلمان کی زندگی جمال وجلال کی صفات کی مظہر ہونی چاہیے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے دل ودماغ میں پاکیزہ جذبات وخیالات پیدا کرکے اُنھیں پاکیزہ سوسائٹی کے بنانے پر بھی اُبھارتا ہے کیونکہ اسلامی نظریہ حیات محض تبلیغ ہی نہیں بلکہ یہ عملی تنفیذ بھی ہے۔ فکر وعمل کی یہ ہم آہنگی اور جلال وجمال کی یہ یک رنگی اسلامی نظام حکومت اور اسلامی معاشرت کی نمایاں ترین صفت ہے۔ وہ مسلمان کی زندگی میں یہ حسین امتزاج دیکھنے کے شدید آرزو مند تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے مترشیخ ہوتا ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں‘ کردار میں اﷲ کی برُہان قہاّری و غفاّری و قدّوسی وجبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان (ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص ۵۲۲) ؎ مومناں را تیغ باقرآں بس است (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۷۴۵) خدا تعالیٰ نے انسانوں کی دنیوی اور دینی فلاح وترقی اور مثالی ہدایت کے لیے محض قرآن ہی نازل نہیں کیابلکہ اس کو عملی شکل دینے کے لیے جہاد کا بھی حکم دیا ہے اور’’حدید‘‘(لوہے یعنی شمشیر) کو بھی نازل فرمایا ہے۔اسلام راہبانہ مذہب نہیں بلکہ یہ ایک جامع‘ عالمگیر‘انسانیت ساز اور انقلابی نظام فکر وعمل اور دین ہے۔ جمہوریت (۱)’’جمہوری نظام حکومت نہ صرف مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کی رُوح سے ہم آہنگ ہے بلکہ دنیائے اسلام کے موجودہ حالات ومسائل کے پیش نظر یہ اشد ضروری ہے‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) (۲)’’ فی الحا ل ہر مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پر مرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ سب اس قدر طاقتور ہوجائیں کہ جمہوری سلطنتوں کے ایک زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔ ( ایضاً) (۳)’’ اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘۔ (ایضاً) (۴)’’ آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام ومرتبے کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں اُنھیں اُس روحانی جمہوریت کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے جواسلام کی غایت اُولیٰ ہے‘‘۔ (ایضاً) علامہ اقبالؒ کو ہمیشہ سے ملت اسلامیہ کے مسائل سے گہری دلچسپی رہی ہے۔اُنھوں نے مسلمانوں کے زوال کے مختلف اسباب اور اُن کی اخلاقی اور سماجی بیماریوں کا سراغ لگا کر اُنھیں رفع کرنے کے لیے مخلصانہ مشورے بھی دئیے۔ اس لیے اُنھیں بجا طور پر’’نباض ملت‘‘ اور’’حکیم الامت‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔وہ ایک وسیع المطالعہ اور دور اندیش مفکر تھے جنہوں نے مشرق اور مغرب کے علو م کا بنظر غائر مطالعہ کرکے اپنے نظریات کی ٹھوس حقائق اور قرآنی تعلیمات پر عمارت استوار کی تھی۔ان چار اقوال میں اُنھوں نے جمہوری نظام حکومت کے قیام، مسلم ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما‘مضبوط اور آزاد مسلم ممالک کے اتحاد اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں نت نئے سماجی مسائل کے حل کی ضرورت واہمیت کو بیان کیا ہے۔ہم یہاں ان اہم اُمور پر بڑے اختصار کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ اس بات کی یہاں شروع ہی میں وضاحت کردینی چاہیے کہ اسلامی طرز جمہوریت اور مغربی نظام جمہوریت میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت میں خدا کی حاکمیت کی بجائے انسانی حاکمیت اور وحی والہام کی رہنمائی کی بجائے محض انسانی عقل کی رہنمائی کو قبول کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مغربی جمہوریت میں اکثریت کی رائے کوا قلیت کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے خواہ اقلیتی گروہ کے حامی حق و صداقت کے مسلک پر گامزن ہی کیوں نہ ہوں۔اس کے برعکس اسلام میں دین حق وباطل کامعیار کثرت اور تعداد نہیں بلکہ حق ہے۔اگر کوئی مغربی ملک جمہوری فیصلے کے مطابق قوم پرستی اور وطینت کی آڑ میں کسی کمزور ملک کا استحصال کرتا رہے تو اس ملک کے اکثر باشندے اس استحصال کوعین جمہوریت خیال کریں گے ۔اس کے برعکس اسلام کسی قسم کے استحصال کی اجازت نہیں دیتا۔جمہوریت میں جمہور کی بہتری اور جمہور کے اتفاق رائے کو ہر صورت میں اس ملوکیت اور آمریت پر ترجیح حاصل ہے جس کے پردے میں ایک فرد واحد دوسروں کے جائز مفادات اور بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے۔اجتماعی مشاورت کا اُصول بھی اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ اسلام کے بنیادی اُصولوں کی ر وشنی میں سماجی زندگی کی تشکیل نو کے حامی تھے اور وہ’’روحانی جمہوریت‘‘کی تکمیل کو اسلام کی غایت اولیٰ تصور کرتے تھے۔مغربی جمہوریت پر اُنھوں نے جو تنقید کی ہے اس کی چند جھلکیاں قابل غور ہیں۔وہ اپنی طویل اور بصیرت افروز نظم’’خضر راہ‘‘ میں مغرب کی ملوکانہ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے استبدادی اور پرزور ہتھکنڈوں کی یوں قلعی کھولتے ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طبِّ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری گرمئی گفتارِ اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری وہ اپنی ایک مختصر فارسی نظم بہ عنوان’’جمہوریت‘‘ میں مغربی جمہوریت کی مذمت اور ہادی اعظم ﷺ کی قیادت کی ستائش میں کیا خوب کہتے ہیں:۔ متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز‘ دوصد خر‘ فکر انسانے نمی آید (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۳۰۵) مغربی جمہوریت کے اُصول کثرت رائے پر کتنی عمدہ تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ’’دو سو گدھے مل کر بھی انسانی فکر کی تخلیق نہیں کرسکتے۔کہاں ایک پختہ کار اور عظیم شخصیت کے انسانیت ساز افکار اور کہاں دو سو گدھوں کا بیکار مغز؟ اب فرنگی جمہوریت کے عالمی استبداد اور کمزور قوموں کے استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ وائے بر دستورِ جمہورِ فرنگ مردہ ترشد مردہ از صورِ فرنگ حُقہ بازاں چوں سپہر گرد گرد از اُمم برتختہ خود چیدہ نرد شاطراں ایں گنج ور آں رنج بر ہر زماں اندر کمین یک دگر (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۶۶۰) یہ تو مغربی جمہوری نظام کا حال ہے اب ذرا علامہ اقبالؒ کی زبان سے اشتراکی جمہوریت کی عوام فریبی اور استحصال پسندی کی حقیقت بھی سن لیں۔وہ اشتراکی جمہوریت کو بھی مغربی جمہوریت کی طرح امپیریلزم کی دوسری شکل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ؎زمام کار اگر مزدور کے ہاتھووں میں پھر کیا؟ طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیںپرویزی مغربی جمہوری نظام حکومت اور اشتراکی جمہوریت کی بجائے علامہ اقبالؒ نے روحانی جمہوریت کو ’’اسلام کی غایت اولیٰ‘‘ کہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت اور اسلامی نظام حکومت کے بارے میں اُن کے نظریات کا خلاصہ کیا ہے۔وہ نئی تہذیب کے استحصال اور آدم کشی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے چند اہم پہلوئوںکو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شیوہ تہذیب نو آدم دری است پردہ آدم دری سوداگری است تاتہ و بالا نہ گر دو ایں نظام دانش وتہذیب ودیں سودائے خام آدمی اندر جہاں خیر و شیر کم شناسہ نفع خود را از ضرور کس نداند زشت وخوبِ کار چیست جادہ ہموار و ناہموار چیت شرع بر خیز د ازِ اعماق حیات روشن از نورش ظلام کائنات گرجہاں داند حرامش را حرام تا قیامت پختہ ماند ایں نظام (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۸۲۶ ) فرد را شرع است مرقات یقیں پختہ تراز وے مقامات یقیں ملت از آئین حق گیرد نظام از نظام محکمے خیزد دوام (رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۲۶) تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست زیر گردوں سرِّ تمکین تو چیست؟ آں کتاب زندہ ‘قرآن حکیم حکمت ا و لایزال است وقدیم نسخہ اسرارِ تکویں حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات (رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص ۱۲۱) اس لحاظ سے علامہ اقبالؒ کی رائے میں قرآنی تعلیمات ہی میںمسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا رازمخفی ہے۔وہ مغربی جمہوریت کی جگہ اسلام کے بنیادی اُصولوں پر مبنی روحانی جمہوریت کے قائل تھے۔ علامہ اقبالؒ آمریت اور ملوکیت کے سخت مخالف تھے اس لیے وہ اسلامی نظام حکومت کی عدم موجودگی میں جمہوریت کو آمرانہ اور ملوکانہ طرزحکومت پر ترجیح دینے کے لیے مجبور تھے۔وہ دلی طور پر تو اسلامی نظام حیات کے قیام کے علم بردار تھے تاہم وہ وقتی طور پر جمہوریت کے حامی بن گئے تھے جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘۔ خلافت راشدہ کے فوراًبعد ہی بادشاہت کا نظام قائم کردیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شورائی نظام کو بدل کر شخصی مشاورت کو پروان چڑھایا گیا۔مسلمان بادشاہ اس طرح ہر قسم کی پابندی سے بے نیاز ہوکر من مانی کرنے لگے تھے۔کہنے کو تو مسلمان خلیفہ تھے مگر دراصل وہ خلافت کے پردے میں بادشاہت کیاکرتے تھے۔ اس ملوکانہ نظام نے اُنھیں خودغرضی کے تحت ایک دوسرے سے متصادم کردیا۔اس طرح مسلمان حکومتیں آپس میں ہی لڑنے لگیں اور رفتہ رفتہ مسلمان زوال پذیر ہوتے گئے۔ دور جدید میں مغربی طاقتیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کرکے مسلمان ممالک پر قابض ہوگئیں اور اُنھوں نے ملت اسلامیہ کے اتحاد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو اپنا دست نگر بنانے کے للیے مسلم ممالک کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ مسلم اتحاد ختم ہوتے ہی مسلم ممالک مختلف علاقوں اور قومیتوںمیں بٹ گئے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل دو اشعار اسی اندوہناک حقیقت کے مظہر ہیں۔وہ اپنی نظم’’خضر راہ‘‘ میں عیسائی طاقتوں کے عروج اور مسلم ممالک کے زوال وانتشار کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں: لے گئے تثیلت کے فرزند میراث خلیلؑ خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز (بانگ درا،کلیات اقبال،ص۲۶۴) دنیائے اسلام کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر علامہؒ جمہوری نظام حکومت کو اسلامی تعلیمات کی روح سے ہم آہنگ کرنے کے خواہاں تھے۔اُن کے روحانی اضطراب اور اسلام دوستی کو ان الفاظ سے اخذ کیا جاسکتا ہے :’’آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام رفیع کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘ ۔وہ بادشا ہوں کی بیجا حمایت کی بجائے عوام الناس کی ذہنی بیداری اور فلاح وبہبود کے خواہش مند تھے ۔اس لیے وہ عوام کی بیداری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں: نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش قصّہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں!ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک (بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۶۳) جہاں تک موجودہ زمانے کے مسلمان ممالک اور خلافت کا تعلق ہے، علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے اتحاد ومرکزیت کے زبردست حامی تھے مگر وہ اس کے عملی حل کے بارے میں فی الحال زیادہ پراُمید نہ تھے۔اُن کی رائے یہ تھی کہ مسلمان ممالک اپنی ملی وحدت کھونے کے بعد مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور وہ آسانی سے ایک مرکز پر جمع نہیں ہوسکتے۔ترکوں نے اجتہاد سے کام لے کر وہاں پارلیمانی نظام کو جاری کیا تھا اوراُن کا خیال تھا کہ موجودہ عہد میں پرانی طرز کی جمہوریت قابل عمل نہیں رہی۔علامہ اقبالؒ کو اُن کے خیال سے کافی حد تک اتفاق تھا۔مرکزیت پانے سے پہلے وہ مسلمان ممالک کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے من کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مضبوط بنالیں تاکہ بعد میں یہ سب مستحکم مسلمان ملک زندہ خاندان کی شکل اختیار کرسکیں۔ اس ملی استحکام کے لیے وہ ذاتی اجتہاد کی بجائے اجماع اُمت کے قائل تھے۔اُنکی یہ دیرنیہ خواہش تھی کہ مسلمان ممالک موجودہ حالات اور مسائل کے تسلی بخش حل کے لیے اسلامی آئین کے چار منابع(قرآن پاک،احادیث مبارکہ، قیاس اور اجماع) کو مدنظر رکھیں اور اسلام کے بنیادی اُصولوں اور حدود کے اندر رہ کر اجتہاد اور اجماع سے کام لیں۔ خدا (۱)’’عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اُس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ) (۲)’’ غایتی اور وجودیاتی دلائل ہمیں ہستی مطلق کا قائل نہیں کرتے۔اُنکی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ’’فکر‘‘ کو اشیا پر خارج سے اثر انداز ہونے والی قوت قرار دیتے ہیں۔ اس تصور سے ایک طرف تو ہمیں میکانیت کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ خیال اور حقیقت کے درمیان ناقابل عبور خلیج حائل کردیتا ہے۔اس طرح فکر اور وجود کی ثنویت جنم لیتی ہے‘‘۔ ( دوسرا خطبہ) (۳)’’ قرآن حکیم ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات کو اس حقیقت کاملہ کے نشانات سمجھتا ہے جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی،جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘‘۔ (ایضاً) (۴)’’ آئن سٹائن کا سائنسی تصور اگرچہ اشیا کی بناوٹ کو بیان کرتا ہے لیکن وہ اشیا کی ماہیت اور کنہ پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا۔ذاتی طور پر میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہستی مطلق کی نوعیت وماہیت روحانی ہے۔اُس کا یہ نظریہ ہمیں بہت بڑی مشکل سے دوچار کرتا ہے۔وہ مشکل یہ ہے کہ یہ زمانے کو غیر حقیقی بنادیتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۵)’’ فطرت کو ذات ایزدی کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات کے ساتھ ہے۔ قرآن پاک اسے اپنے خوبصورت لہجے میں’’سنتہ اﷲِ‘‘ (الفتح ۴۸:۲۳)،(خدا کی عادت) کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۶)’’ قرآن حکیم کاارشاد ہے’’والیٰ ربک المنتھی‘‘(النجم ۵۳:۱۴) ہمارا یہ نقطہ نگاہ طبیعی سائنس کو نئے روحانی مفہوم سے آشنا کرتا ہے‘‘۔ (ایضاً) (۷)’’ قرآن پاک کی رو سے حقیقت مطلقہ کی بنیاد روحانیت پر ہے اور اس کی ز ندگی دنیوی سرگرمیوں پر مشتمل ہے‘‘ (چھٹا خطبہ) قرآن حکیم کی رُو سے یہ کائنات اِرض وسما خدا تعالیٰ کی حکمت‘ طاقت اور تخلیق کی بے شمار نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔آسمان وزمین کی آفرنیش اور دیگر اشیائے کائنات کی بناوٹ اور خود انسانی تخلیق میں اہل دانش وفکر کے لیے علم وحکمت کے لاتعداد اسرار ورموز پوشیدہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تجلیات کی تاب انسانی آنکھوں میں کہاں کہ وہ اُن کا نظارہ کرسکیں؟ لامحالہ ہم خدا کے وجود اور کمالات کی معرفت اس کی پیدا کردہ ظاہری اور خارجی نشانیوں کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔قرآن حکیم کی متعدد آیات میں ہماری توجہ حقیقت مطلقہ کے ظاہری اور خارجی مظاہر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔یہاں صرف دو قرآنی مثالیں پیش کی جاتی ہیں:۔ ’’انّ فی خلق السمٰوات و الارِض واختلاف ا ِلّلیل والنھا رِ والفلک الّتی تجری فیِ البحر بما ینفع النّاس وما انزل اﷲ منِ السّما ئِ من مّا ئِ فاحیا بہِ الارض بعد موتھِا و بث فیھا من کّل دابّہ وّ تصریف الرّ یاحِ والسّحابِ المسخر بین السّمائِ والارضِ لایاتِ لّقوم یعقلون‘‘ (البقرہ ۲۰:۱۶۴) (ترجمہ :بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے،رات اور دن کے بدلنے،سمندر میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو( یعنی مال تجارت) لے کر چلنے والے جہازوں، آسمان سے خدا کے بھیجے ہوئے پانی(بارش) جس سے مردہ زمین میں جان پڑتی ہے،زمین میں پھیلے ہوئے طرح طرح کے جانوروں، ہوائوں کے بدلنے اور آسمان اور زمین کے درمیان گھرے ہوئے بادلوں میں سمجھ دار لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں‘‘)۔ ’’من ایٰتہ خلق الّسموات والارضِ واختلاِفُ السنتِکم و الو انکمُ‘‘ (الروم ۳۰:۲۲) (ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمھاری بولیوں اور رنگوں کا مختلف ہونا اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے‘‘)۔ رواں دواں ندیوں، بہتے چشموں، حسین مرغزاروں،آسمانو ںپر تیرتے ہوئے رنگ برنگے بادلوں، انواع واقسام کے پھلوں اور پھولوں اور ارض وسما کی آفرنیش میں ہمارے لیے خدا تعالیٰ کی کبریائی اور وجود کو ثابت کرنے کے لیے دعوت مطالعہ ہے۔خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی،وہ اّول بھی اور آخر بھی،اس لیے ان مظاہر فطرت کے گہرے مشاہدے سے ہمیں بہت سے علوم وفنون کا سراغ ملتا ہے۔اس زاویہ نگاہ سے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ’’عمیق مشاہدہ کے ذریعے قرآن پاک انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہریہ کائنات ہے‘‘اُنھوں نے دوسری ضروری بات یہ بیان کی ہے کہ یہ فطرتی مناظر اور قدرتی اشیاء دراصل خدا کی عادت اور تخلیقی صفت کی آئینہ دار ہیں۔ یہ دنیا خدا کی مختلف صفات کی جلوہ گاہ اور حکمت ومعرفت کا بے بہا خزانہ ہے۔ اُن کی رائے میںجس طرح ہم انسان کے اعمال واطور کو دیکھ کر اُس کی شخصیت کا اندازہ لگایا کرتے ہیں اسی طرح مطالعہ فطرت اور مشاہد ہ کائنات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم کائنات بھی خدا کی فعالیت اور کردار کی ترجمان ہے۔قرآن پاک اسے’’سنتہ اﷲ‘‘(اﷲ کی عادت) قرار دیتا ہے۔ شاعر مشرق کے مندرجہ ذیل اشعار اُن کے تصور کائنات کے چند گوشوں کوبے نقاب کرتے ہیں: گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ کھولی ہیں ذوق ِدید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگذر میں نقشِ کف پائے یار دیکھ (بانگِ درا ،کلیات اقبال،ص۹۸) ؎ خاک چمن وا نمود‘ رازِ دل ِ کائنات بود وبنودِ صفات جلوہ گری ہائے ذات آنچہ توُ دانی حیات آنچہ توُ خوانی ممات ہیچ ندارد ثبات خاک چمن وا نمود، رازِ دلِ کائنات ( پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۲۶۴) خدا تعالیٰ کے وجود کو فلسفیانہ انداز سے تین طرح بیان کیا گیا ہے۔کائناتی طریق، غایتی طریق اور وجویاتی طریق۔ کائناتی طریق یہ ہے کہ ہم کائنات کے مطالعہ ومشاہد ہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت علّت ومعلول کا استدلال ہوتا ہے جس میں ہم معلول سے علّت کی طرف جاتے ہیں اور خدا کو ہر چیز کی آخری علّت فرض کیا جاتا ہے۔خدا پر جاکر یہ سلسلہ ختم کردیا جاتا ہے حالانکہ ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی اُبھر تا ہے کہ خدا کی ہستی کی علّت کیا ہے؟ اس طریق کی خامی یہ ہے کہ یہ خدا پر جاکر ختم ہوتا ہے جبکہ خالص منطقی لحاظ سے اسے آگے بھی جانا چاہیے۔غایتی طریق میں ہم کائنات کی تخلیق کی غرض وغایت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔وجویاتی طریق میں ہم پہلے خدا کا وجود فرض کرلیتے ہیں اور بعد ازاں اسے بنیاد بناکر خدا کے خیال کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں یہ فلسفیانہ انداز ہمیں خدا کی ہستی کا قائل نہیں کرتا کیونکہ اس میں اشیائے کائنات اور فکر کو الگ الگ خیال کیا جاتا ہے۔اس طرح فکر اور مادّے کی دوئی اور میکانیت کا احساس ہوتا ہے۔خدا تو اب بھی اپنی خلاقی صفت کا مظاہرہ کررہا ہے اس لیے کائنات کو ایک مشین کی طرح خیال کرکے خدا کو خارج سے اس پر اثر انداز تصور کرنا درست نہیں۔ یہ تصورغلط ہے کہ خدا اس کارخانہ قدرت کو چلا کر اب آرام کررہا ہے۔خدا کے مقابلے میں کسی اور چیز کا مستقل وجود نہیں کیونکہ مادّہ کوئی ازلی شے نہیں بلکہ یہ عالم ’’امر‘‘ سے عالم’’خلق‘‘ کی طرف سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ خدا کے وجود اور خودی کے باہمی ربط پر روشنی ڈالتے ہیں: تری نگاہ میں ثابت نہیں خد اکا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا وجود کیا ہے؟فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا (ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص۴۹۶) مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ کی رائے میں کائنات کی بنیاد روحانیت ہے مگر اس کی زندگی دنیوی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔انسان کے دل اور کائنات کے خارج میں ایک ہی ہستی کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کائنات کی ساخت اور نوعیت کے بارے میں مختلف مفکرین کے خیالات کا جائزہ لیا ہے۔نیوٹن(۱۷۲۷۔۔۱۶۴۲) نے آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۔۱۸۷۹) سے کافی عرصہ پہلے کائنات کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ خلائے بسیط کے درمیان واقع ہے۔آ ئن سٹائن نے اس مادی تصور کائنات پرضرب کاری لگائی اور نظریہ اضافیت پیش کیا جس کی رُو سے کسی چیز کی نوعیت اور حقیقت دیکھنے والے کی حالت کے مطابق بدل دی جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ چونکہ زمان کو بھی مکان کی طرح حقیقی خیال کرتے ہیں اس لیے وہ آئن سٹائن کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے مکان کو تو حقیقی ثابت کردیا مگر اس نے زمان کو غیر حقیقی بنادیا تھا۔تاہم وہ اپنی نظم’’ حکیم آئن سٹائن‘‘ میں اس کے نظریہ اضافیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ جلوہ می خواست مانندِ کلیم ناصبور تاضمیر مستینر اوکشود اسرار نور ( پیام مشرق،کلیات اقبال، ص ۳۹۶) خطبات (۱)’’ یہ خطبات میں نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی درخواست پر تیار کئے ہیں اور میں نے انھیں مدراس،حیدر آباد اور علی گڑھ میں پڑھا ہے۔ان خطبات میں میں نے اسلام کی فلسفیانہ روایات اور انسانی علم کے مختلف شعبوں میں ارتقاء کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی فلسفہ کی تشکیل جدید کی جزوی کوشش کی ہے۔موجودہ دور اس کام کے لیے بالکل ساز گار ہے‘‘ (دیباچہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے مخصوص افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہر ممکن ذریعہ ابلاغ کو اختیار کیا تھا۔ اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے شاعری میں زیادہ تر خیالات کا اظہار کیا ہے تاہم اس امر سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ اُنھوں نے اپنی نثری نگارشات‘خطبات‘تقریروں‘ بیانات اور خطوط میں بھی ان کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔اس ضمن میں اُن کی ایک فلسفیانہ اور عظیم نثری تصنیف’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کو بڑی وقعت سے دیکھا جاتا ہے۔اس فکر انگیز اور تنوع آمیز انگریزی کتاب کو خطبات(لیکچرز) بھی کہا جاتا ہے۔مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر اُنھوں نے یہ خطبات تیار کیے تھے اور اُنھیں مدراس‘ حیدر آباد اور علی گڑھ میں پڑھ کر سنایا تھا۔شروع شروع میں یہ کتاب چھ خطبات پر مشتمل تھی اور یہ پہلی مرتبہ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی۔بعد ازاں اس میں ایک اور لیکچر کا اضافہ کرکے اسے دوسری مرتبہ۱۹۳۴ء میں زیور طباعت سے آراستہ کیا گیا تھا۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کی یہ بے نظیر فلسفیانہ کتاب اسلام کی تعلیمات کی جدید تعبیر و تشریح میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔اگر وہ اسے اسلامی علوم وفنون کے کسی زرّیں عہد میں لکھتے تو اُنھیں گراں قدر انعام واکرام سے نوازا جاتا۔ ان خطبات کی تصنیف کے پس منظر سے آگاہ ہونے کے لیے لییاُن کے دو خطوط کے یہ الفاظ قابل غور ہیں جو اُنھوں نے اپنے ایک مداح مسٹر جمیل کے نام تحریر کئے تھے۔ایک خط مورخہ ۴نومبر ۱۹۲۹ء سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے چھ لیکچرز ۱۹۲۹ء میں تیار کرلیے تھے جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں:۔ "My Lecturs are now finished" (Letters and Writings of Iqbal,p.29) پھر وہ اپنے دوسرے خط مورخہ ۴ مارچ ۱۹۳۰ء میں تحریر کرتے ہیں:۔ "My Lecturs are in the presss. I hope they would be printed and published in about two months' time (Letters and Writings of Iqbal,p.31) کائنات میں ہر دم تغیر وتبدل کا عمل کاجاری رہتا ہے۔ نہ صرف ظاہری دنیا میں بلکہ ہمارے خیالات اور احساسات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام چونکہ حرکی اور ارتقاپذیر نظریہ حیات کا علم بردار ہے اس لیے اس کی حیات بخش تعلیمات میں بھی موجودہ دور کے مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہم نے اب تک کیوں ان مسائل کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھا۔اس فکری جمود اور ذہنی سستی کے ہم خود ذمہ دار ہیں نہ کہ اسلام۔ علامہ اقبالؒ کا فرمانا ہے کہ اُنھوں نے اسلام کی درست فلسفیانہ روایات اور مختلف عصری ترقیات کی روشنی میں فلسفہ اسلام کی نئی تشکیل کی جزوی کوشش کی ہے۔اب اس طریق فکر کو مزید عام کرنے کے لیے دوسرے مسلم علما اور حکما کو بھی جدوجہد سے کام لینا چاہیے۔ (۲)’’ ان خطبات میں ‘میں نے اس امر کی سعی کی ہے کہ اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کروں تاکہ لوگ باآسانی اسلام کے عالمگیر پیغام کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں‘‘۔ (پہلا خطبہ) شاعر مشرقِ علامہ اقبالؒ نے اپنی معروف انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں فلسفہ،سیاست معیشت، معاشرت ، تصوف، مذہب، نفسیات، اور سائنس سے متعلق متعدد موضوعات پر اپنے گہرے اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ وہ دین اسلام کی تعلیمات کی ابدیت، ہمہ گیری اور اہمیت کے دل وجان سے قائل تھے اس لیے وہ انھیں جدید فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کے بھی زبردست علم بردار تھے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ سچے اور مخلص مسلمان تو اسلام کے بنیادی نظریات اور عقائد کو بلا چون وچرا ںماننے کے عادی تھے مگر جدید تعلیمیافتہ مسلمان اور غیر مسلم اسلام کے اساسی نظریات کو موجودہ سائنسی ترقی اور فکری پیش رفت کی روشنی میں جاننے اور سمجھنے کی ضرورت کا مطالبہ کررہے تھے۔ان حالات میں اسلام کی نئی تعبیر وتشریح کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا تھا۔علامہ اقبالؒ ایسے لوگوں کی سہولت کے لیے اسلام کے آفاقی پیغام اور انسانیت ساز اُصولوں کی فلسفیانہ تعبیر اور سائنسی توضیح کے حامی تھے۔اُنھوں نے ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں جو صدارتی خطبہ دیا تھا،اس کے چند الفاظ اس نظریے کی یوں حمایت کرتے ہیں۔ "-----I suggest the formation of an assembly of ulama which must include Muslim lawyers who have received education in modern jurisprudence.The idea is to protect, expand and, if necessary, to reinterpret the law of Islam in the light of modern conditions, while keeping close to the spirit embodied in its fundamental principles." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.219) اس اقتباس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ اسلام کے محکم اساسی تصورات کی روشنی میں نئے مسائل کے حل کے حامی تھے تاکہ بنی نوع انسان کے لیے انھیں زیادہ قابل فہم اور مفید بنایا جاسکے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی منظومات اور نثری نگارشات کو ذکرو فکر کا امتزاج قرار دیاہے۔ وہ اپنی اس عظیم فلسفیانہ نثری تصنیف’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے موضوعات اور دقیق انداز بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی کتاب’’جاوید نامہ‘‘ میں کہتے ہیں:۔ حرف پیچاپیچ وحرف نیش دار تاکنم عقل ودلِ مرداں شکار تامزاج عصرِ من دیگر فتاد طبع من ہنگامہ دیگر نہاد (کلیات اقبال، (فارسی)، ص۷۹۰) دور حاضر میں سائنس کی روز افزوں اکتشافات اور نئی نئی ایجادات نے نئے نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں اس لیے اُن کو حل کرنے کے لیے بھی نئی فکری تفیہم لازمی تھی۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے اسلام کے ابدی حقائق اور تغیر پذیر پہلوئوں کی آفاقی اہمیت کو اجاگر کرنے کی خاطر اور انسانی ہدایت کے لیے اس کتاب میں فلسفیانہ انداز بیان اختیار کیا ہے۔ خودی (۱)’’ نفس انسانی کے دو پہلو ہیںفعال پہلو اور قدر آشنا پہلو،اپنے فعال پہلو کے لحاظ سے انسانی (خودی) کا مکانی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) خودی(نفس انسانی) کا موضوع علامہ اقبالؒ کے نظام افکار کا محور ومرکز اور اُن کی شاعری کی جان ہے۔اُنھوں نے اس دقیق،اہم اور دلچسپ موضوع کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرنے کی ہر ممکن سعی ہے۔اس امر کی وضاحت کے لیے اُنھوں نے اپنے خودی آمیز خیالات کو شعر کے حسین اور وجد آور قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ بے اختیار اُنکی مہارت فن اور عظمت فکر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔اس لحاظ سے اُنھوںنے اپنی شاعری کو اپنے مخصوص نظریات کی تشریح وتبلیغ کا موثر ذریعہ بنایا ہے۔فلسفیانہ موشگافیوں سے ناواقف قارئین بھی اُنکے اشعار کی چاشنی اور جاذبیت سے مسحور ہونے لگتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس اقتباس میں خودی کے دو بنیادی پہلوئوں اور زمان ومکان کے ساتھ اُن کے باہمی ربط کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے جس کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔درج ذیل اُمور کا مطالعہ قابل توجہ ہے: (الف) نفس انسانی(خودی) کے دو پہلو ہیں۔فعال پہلو(efficient self) اور قدر آشنا پہلو(appreciative self )۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کی رائے میں خودی کا خارجی پہلو فعال ہونے کی حیثیت سے عالم خلق یا مظاہر کائنات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔اس کے برعکس اس کا قدر آشنا پہلو ہماری باطنی کیفیات، ذہنی واردات اور روحانی تجربات کا ترجمان ہوتا ہے۔اس نقطہ نظر سے ہماری ذات کا ایک باطن ہوتا ہے اور ایک ظاہر۔ (ب)خودی (نفس انسانی یا انسانی ذات) کا فعال پہلو( خارجی پہلو) مادی اور مکانی دنیا سے گہرا رابطہ رکھتا ہے کیونکہ خارجی اشیاء اور ظاہری واقعات ہی سے اس کی فعالیت(سرگرمی) کا پتہ چلتا ہے۔کائنات کا ظاہری گوشہ کثرت‘تعداد‘ مقدار‘تقسیم پذیری‘ تجزیہ‘تقدم وتاخر‘ تنوع واختلاف اور زمان غیر حقیقی کا ترجما ن ہوتا ہے جبکہ اس کے باطن میں ایسا نہیں ہوتا۔ (ج)خودی کا خارجی پہلو زمان ومکان کاپابند ہوکر کثرت اشیا کو جنم دیتا ہے۔چونکہ کائنات میںحرکت وتغیر کا اُصول کارفر ماہوتا ہے۔ اس لیے تبدیلی اور حرکت کو وقت کے بغیر محسوس نہیںکیا جاسکتا۔زندگی تغیر پر اور تغیر وقت پر منحصر ہیں۔ اس سے وقت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک یہ حکانیت آمیز وقت خارجی‘ظاہری‘محدود اور ماضی‘حال اور مستقبل میں تقسیم ہوکر تقدم وتاخر کا باعث بن جاتا ہے۔وہ انسان کی شعوری زندگی کو وقت پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس قسم کی زندگی کو غیر حقیقی کہتے ہیں۔وہ مکانی وقت کی مختلف حالتوں کو سفر حیات کے مختلف مراحل سمجھتے ہیں اور برگساں کاحوالہ دیتے ہوئے اس کے بارے میں یوںرقم طراز ہیں:۔ "Existence in spatialized time is spurious existence" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.47) جب ہم دنیا کے معاملات اور مختلف دھندوں میں بری طرح پھنس جاتے ہیں تو اس وقت قدر آشنا خودی کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہماری پوری توجہ بیرونی اشیا پر مرتکز ہوتی ہے۔ جب ہم فرصت اور تنہائی میں مراقبہ میں چلے جاتے ہیں تو بیرونی دنیا سے ہم وقتی طور پر لاتعلق ہوکر اپنی باطنی کیفیات اور روحانی واردات کے عمیق تر مرکز میں پہنچ جاتے ہیں۔ایسے لمحات میں ہم سراغِ زندگی پالیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ : ؎ اپنے من میںڈوب کر پاجا سراغ زندگی۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ باطن میں غوطہ زن ہوکر ہماری تمام شعوری کیفیات آپس میں یک رنگ اور متحد ہوجایا کرتی ہیں اور باطنی حرکت وتغیر کا سلسلہ ناقابل تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی ملاخطہ ہوں۔وہ فرماتے ہیں:۔ اے اسیرِ دوش و فردا در نگر در دل خود عالمِ دیگر نگر وقت را مثل مکاںِ گسترد ئہ امتیاز دوش وفردا کردئہ ( کلیات اقبال،ص ۷۱،۷۲) (۲) خودی اپنے قدر آشنا پہلو کے اعتبار سے وہ ’’آن واحد‘‘ہے جسے خودی کا فعال پہلومکانی عالم کے ساتھ گہرے تعلق کی بناء پر لاتعداد ’’آنات‘‘ میں بدل دیتا ہے۔ یہ’’آنات‘‘ دھاگے میں پروے ہوئے تسبیح کے دانوں کی مانندمسلسل ہوتے ہیں۔(دوسرا خطبہ) اس سے قبل علامہ اقبالؒ ہمیں بتاچکے ہیں کہ خودی(نفس انسانی) کے دو اہم پہلو خارجی(فعال)پہلو اور باطنی( قدر آشنا)پہلو ہیں۔خودی کا خارجی پہلو بیرونی دنیا کے واقعات وکیفیات کی ترجماتی کرتا ہے جبکہ ا سکا اندرونی پہلو ہماری باطنی کیفیات اور قلبی واردات کا عکاس ہوتا ہے۔اس اقتباس میں بھی خودی اور زمان ومکان سے بحث کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:۔ (الف)خودی کے اندرونی پہلو(آن واحد) کو خودی کا ظاہری پہلو لاتعداد’’آنات‘‘ میں بدل دیتا ہے۔خودی دو طرح کے زمان سے رابطہ قائم رکھتی ہے۔ایک زمان باطنی اور دوسرا زمان خارجی ۔زمانِ باطنی مکانیت کی آمیزش سے پاک ہوتا ہے۔اس حقیقی زمان کو شب وروز،مہ وسال اور ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔اس کے برعکس زمان ظاہری مکانی، تقسیم پذیر اور غیر حقیقی ہوتا ہے۔’’آن واحد‘‘ میں بیرونی وقت کے لاتعداد آنات ولمحات تسبیح میں پروئے ہوئے موتی کے دانوں کی مانند مسلسل ومتحد ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ زمان خارجی کو مکانی اور غیر خالص کہتے ہیں مگر وہ زمان باطنی کو حکانیت سے پاک ہونے کے سبب زمان خالص قرار دیتے ہیں۔ (ب)خارجی وقت مختلف لمحات اور نقاط پر پھیلا ہوتا ہے۔ہم اسے ثانیہ، دقیقہ اور ساعت پر مبنی خیال کرتے ہیں ۔چونکہ یہ وقت مکانیت پر منحصر ہوتا ہے اس لیے یہ مرورِوقت غیر خالص وقت تصور کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس باطنی وقت ایسا نہیںہوتا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں قرآن حکیم نے اپنی دو آیات(۶۰؍۲۵،۵۰؍۵۴) میں وقت کی دو قسموں…وقت مسلسل اور وقت غیر مسلسل… کی طرف اشارہ کیا ہے۔باطنی وقت مسلسل ہوتا ہے اس لیے اسے تقسیم نہیں کیا جاتا۔ خارجی وقت کو ہم تقسیم کرسکتے ہیں اس لیے یہ غیر مسلسل بن جاتا ہے۔ (ج)علامہ اقبالؒ انسانی وقت کو مرورِ زمان اور خدائی وقت کو مرورِ خالص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدائی زمان کا ایک دن انسانی زمان کے ہزاروں سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ہمارے ہزاروں سال پر پھیلا ہوا خدائی تخلیق کا عمل اتنا تیزہوتا ہے جتنا چشم زدن میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے۔ علامہ اقبالؒ کے اپنے الفاظ میں انسانی اور خدائی زمان کا فرق ملاخطہ ہو:۔ "---one Divine day, in the terminology of the Quran, as of the 0ld Testament, is equal to 1,ooo years. From another point of view the process of creation, lasting through thousands of years, is a single indivisible act, 'swift as the twinkling of an eye" (The Reconsturstion of Religious thought in Islam,p.48) قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ کی مشیت اور اس کے فوری عمل تخلیق کو’’کُن فیکون‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہماری ذات کا خارجی پہلو چونکہ بیرونی حالات سے متعلق ہوتا ہے بنا بریں ہم اس مرورِ خالص کو اپنی زبان میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔علامہ اقبالؒ لہروں کی حرکت کی تیزی کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ اگرچہ لہروں کی تیز حرکت کو شمار نہیں کیا جاسکتا تاہم ہمارا ذہنی عمل ان کے تسلسل کو مرورِ وقت میں تبدیل کردیتا ہے۔ (د)’’ وقت کی بحث کے دوران مفکر قرآن علامہ اقبالؒ تقدیر کو ایسا وقت قرار دیتے ہیں جو علت ومعلول اور تقدم وتاخر سے آزاد اور غیر منقسم ہوتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ حالات ضمیر روزگار میں ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ خودبخود معرض شہود میں آتے رہتے ہیں۔ اس مثالی وقت کے بارے میں اُنکی رائے کس قدر حقیقت آشنا ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔ "It is time regarded as an organic whole that the Quran describes as 'Taqdir' or the destiny. It is time freed from the net of causal sequence (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.48) خارجی اور باطنی زمان کے عقلی تصور اور وجدانی کیفیت کے فرق کے متعلق اُن کے یہ اشعار خاصے خیال افروز ہیں: حقیقت را چو ماصد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیّارہ کردیم خرد در لامکاں طرحِ مکان بست چوزنا رے زماں را بریساں بست زماں راِد ر ضمیر خود ندیدیم مہ و سال و شب وروز آفریدیم (کلیات اقبال،ص ۵۴۷) (۳)’’جہاں نفسی زندگی موجود نہیں ہوتی وہاں وقت نہیں ہوتا اور جہاں وقت کا وجود نہیں ہوتا وہاں حرکت محال ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) اس عبارت میں علامہ اقبال ؒ نے نفسی زندگی کو وقت اور حرکت وتغیر پر فوقیت دیتے ہوئے اُسے کائنات کی روحانی بنیاد قرار دیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ’’نفس ‘‘سے کیا مراد ہے اور نفسی زندگی کا مفہوم کیا ہے؟’’نفس‘‘عربی لفظ ہے جس کے ویسے تو کئی معنی ہیں لیکن زیادہ معروف معانی یہ ہیں۔ نرم و ہلکی ہوا،دل، روح اور انسانی ذات۔قرآن حکیم نے کہا ہے کہ یہ روح یا انسانی ذات خدا کے عالم امر سے تعلق رکھتی ہے اور یہ خدائی توانائی کا کرشمہ ہے۔دو قرآنی آیات کا حوالہ اس کی مزید وضاحت کرسکے گا۔تخلیق انسان کے بارے میں ارشاد خداندوی ہے:’’نفع فیہ منِ روحہ‘‘(السجدہ ۳۲:۹)(خدا تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح میں سے پھونک ماری)۔ دوسری آیت مبارکہ میں کہا گیا ہے کہ’’ نفخت فیہ من روحی‘‘(الحج۱۵:۲۹)( میں نے انسان میں اپنی روح سے کچھ پھونکا)۔ اس خدائی پھونک سے مراد انسانی طاقتوں اور قوتوں کی عطائے ایزدی ہے۔خدا نے انسان کو جو آزادی عطا کی ہے اس کا اس کی مادی اور طبعی دنیا اور اس کے قوانین سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ تو عالم امر سے گہرا رابطہ رکھتی ہے۔اس لحاظ سے انسانی ذات مادہ کی پیدا وار نہیں اور نہ ہی یہ جسم کی فنا کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس اقتباس میں نفسی زندگی کو وقت اور حرکت کائنات کی اصل قرار دیا ہے۔قرآن حکیم کی رُو سے خدا ہر وقت کائنات میں اپنی خلاقی صفت کی بدولت نئے نئے واقعات وحادثات کی تخلیق کرتا رہتا ہے۔اس لحاظ سے اس طبعی دنیا میں ہر روز حرکت اور تغیر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ان خارجی واقعات کے قوانین اور حقیقی اسباب عالم امر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وحدت،تسلسل زمان اور جدت آفرینی انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ عالم امر کا معانی اور عالم خلق کا صورتوں اور خارجی اشکال پر دارومدار ہوتا ہے۔معانی اور باطنی حقائق نادیدنی ہوتے ہیں جبکہ خار جی اور مادی حقائق کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور محسوسات کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں۔ ہماری عقل محدود باطنی حقائق سے بے خبر ہوکر خارجی مظاہر میں علّت ومعلول کے اُصولوں کی جستجو کرتی ہے اور وہ حقیقت مطلقہ(خدا) کے خارجی مظاہر کو زمان ومکان میں تقسیم کرکے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔اشاعرہ نے نے ارسطو کے نظریہ جمود کائنات کی تردید کرتے ہوئے نظریہ جواہر پر مبنی حرکی اور تغیر پذیر تصورکائنات پیش کیا تھا جسے علامہ موصوف نے بہت سراہا ہے مگر اُنھیں اشاعرہ کے تصور روح سے سخت اختلاف ہے جس کی رُو سے روح مادیت کی شکل بن جاتی ہے۔وہ مادی تصور زندگی کوردّ کرتے ہوئے روحانی نظریہ حیات کا یہاں پرچار کررہے ہیں۔اشاعرہ نے مکانیت آمیز وقت کو مکان کے تحت بنادیا تھا جو علامہ اقبالؒ کی تنقید کا ہدف بن جاتا ہے۔اُنکے مندرجہ ذیل اقوال اس موضوع کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔اُن کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:۔ (1)"Motion is inconceive able without time. And since time comes from psychic life, the latter is more fundamental than motion" (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.70) (2)"The 'Nafs' is the pure act, the body is only the act bcome visible and hence measurable" (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.71) (3)"The instant is the more fundamental of the two; but the point is inseparable from the instant as being a necessary mode of its manifestation. The point is not a thing, Reality is therefore, essentially spirit. (The Reconsturstion of Religious Thought in Islam,p.71) علامہ اقبالؒ کا استدلال یہ ہے کہ کائناتی تبدیلیوں کا احساس وقت کے بغیر ناممکن ہے اور وقت کو نفسی زندگی جنم دیتی ہے ۔اس لیے نفس(خودی) ،روح،(انسانی ذات) ہی حقیقت کائنات ہے۔چونکہ نفس غیر مادی چیز ہے اس لیے کائنات کی اساس بھی روحانی ہے۔روح کو اس طبعی دنیا میں اپنے اعمال ومظاہر کے لیے جسم کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے جسم اس کا خارجی پہلو ہے جو ہمیں مادی دکھائی دیتا ہے۔ نفس مادہ نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے اور عمل مجرد اور غیر مادی امر ہوتا ہے۔ اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ لمحہ نقطے سے زیادہ بنیادی اور اہم ہے۔دوسرے الفاظ میں وہ وقت کو مکان سے بالاتر اور زیادہ اساسی تصور کرتے ہیں۔ مکان حرکت وتغیر کا ذریعہ بنتا ہے اور وقت اپنی نمود مکانی پیمانوں میں کیاکرتا ہے۔ مکان مادی ہے لیکن وقت غیر مادی اور نفسی۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں جب ہم اپنے من کی گہرائی میں ڈوب کر بیرونی مظاہر کو بھول جاتے ہیں تو ہمارا رابطہ خدا کی ذات کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔اس وقت ہمیں باطنی حقائق،قلبی واردات اور روحانی تجربات کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسرار کائنات بھی منکشف ہونے لگتے ہیں۔ اس نفسی زندگی کا وقت حقیقی‘باطنی اور غیر منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ؎ حقیقت لازوال و لامکاں است (۴)’’ خودی اپنا اظہار ذہنی کیفیات کی وحدت میں کرتی ہے۔ یہ ذہنی کیفیات ایک دوسرے سے الگ تھلگ موجود نہیں ہوتیں۔ ان باہم دیگر مربوط کیفیات وحادثات کی وحدت خاص قسم کی وحدت ہے۔ یہ بنیادی طورپر اشیا کی وحدت سے مختلف ہے کیونکہ مادی شے کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہوکر بھی موجود رہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذہنی وحدت ہر لحاظ سے بے مثال ہے‘‘ ۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا قول سے خودی کے چند اہم پہلوئوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔اُنھوں نے اس ضمن میں ذہنی وحدت اور مادی اشیا کی وحدت کے فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان اُمور کی تشریح وتعبیر کے لیے یہاں ضروری باتیں درج کی جارہی ہیں۔ (ا) خودی اپنا اظہار ذہنی کیفیات کی خاص وحدت کے ذریعے کرتی ہے۔انسانی ذات یا خودی ہمارے گوناگوں احساسات،خیالات، باطنی کیفیات اور اُن کے خارجی مظاہر یعنی اعمال وافعال پر محیط ہوتی ہے۔ہر انسان کی ذات محضوص اور منفرد جذبات واحساسات کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے خودی کی انفرادیت کا سراغ ہاتھ آتا ہے۔کیا یہ لازمی ہے کہ ہر انسان کے میلانات اور احساسات ونظریات دوسرے انسانوں کے احساسات سے مشابہ ہوں؟ اس وقت میری سوچ لازمی طور پر آپ کی سوچ نہیں ہوسکتی کیونکہ میری ذات اور ہے اور آپ کی شخصیت مجھ سے الگ ہے۔دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے خیالات اور باطنی کیفیات کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ہماری ذات(خودی) کی اساس ہماری اندرونی کیفیات اور ذہنی واردات پر استوار ہوتی ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری یہ ذہنی کیفیات الگ نہیں ہوتیں بلکہ وہ آپس میں اس طرح متحد اور مربوط ہوتی ہیں کہ اُنھیں منقسم نہیں کیاجاسکتا۔ مشہور امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمس نے اسے مسلسل تغیرات کی شعوری رو اور’’جوئے خیال ‘‘ کا نام دیا تھا جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے:۔ "William James conceives consciousness as 'a stream of thought'--a conscious flow of changes with a felt continuity" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102) علامہ اقبالؒ اس نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے خود اپنی رائے کا یوںاظہار کرتے ہیں۔ "Consciousness is something single,presupposed in all mental life, and not bits of consciousness mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102) علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی خودی کی نوعیت کی کسی قدر صراحت کرتے ہیں۔ نقطہ نورے کہ نامِ اُوخودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است (کلیات اقبال،ص۱۸) جوہر نور یست اندر خاک ِتو یک شعاعش جلوئہ ادراکِ تو واحد است و برنمے تابد دُوئی من زتابِ اُومن ہستم، توُ توئی (کلیات اقبال، ص۸۷) (ب) خودی ہماری ذات کی باطنی کیفیات اور تمام خیالات کو ایک مرکزی نقطہ نوری پر لا کر متحد ومربوط بنادیتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ہماری مخفی طاقتوں کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ خودی کی اس بے مثال ذہنی وحدت کو مادی چیزوں کی وحدت سے مختلف خیال کرتے ہیں۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ مادی شے کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہوکر بھی موجود رہ سکتے ہیں مگر ذہنی وحدت اس تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔ذہنی کیفیات آپس میں اس طرح مربوط ہیں کہ ہم اُنھیں جدا نہیں کرسکتے۔مادی شے ایک مکان(space) سے وابستہ ہوتی ہے لیکن خودی اس طرح مکان سے وابستہ نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں:۔ "we cannot say that one of my beliefs is situated on the right or left of my other belief. Nor is it possible to say that my appreciation of the beauty of the Taj varies with my distance from Agra" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) تاج محل کے حسن وجمال سے متعلق ہمارا جذبہ تحسین محض آگرہ تک محدود نہیں بلکہ یہ کسی دوسری جگہ بھی موجود رہتا ہے۔تاج محل کی عمارت تو صرف آگرہ میں محدود ہے کیونکہ یہ ہمارے احساس اور خیال کی طرح حرکت کرکے کہیں اور نہیں جاسکتی۔علامہ اقبالؒ جسم میں خیال کی اس بے مکانی اور غیر زمانی سیر وحرکت کو ان الفاظ میں بیان کرکے مادی اور ذہنی کیفیات کے فرق کو مزید واضح کرتے ہیں: ؎ خیال اندرِ کفِ خاکے چسان است؟ کہ سیرش بے مکاں و بے زمان است (کلیات اقبال، ص۵۵۴) (۵)’’خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کا تصور کرسکتی ہے لیکن جسم کے لیے صرف ایک ہی مقام ہوسکتا ہے۔ اس لیے خودی اس طرح وابستہ مکاں نہیں جس طرح کہ جسم پابند مقام ہوتا ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ) اس عبارت میں بھی علامہ اقبالؒ خودی اور جسم کے اختلاف مکانی پر اظہار خیال کرتے ہیں۔اُن کی رائے میں خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کی حامل ہوسکتی ہے جبکہ جسم صرف ایک ہی مقام سے وابستہ ہوسکتا ہے۔خودی اور نفس انسانی کا عالم’’امر‘‘ سے تعلق ہوتا ہے جہاں وحدت کارفرما ہوتی ہے۔علاوہ ازیں عالم’’امر‘‘ میں ترکیب‘ تعدّد‘ اور زمان ومکان کے وہ پیمانے نہیں جنہیں ہماری عقل نے اپنی سمجھ کے لیے تراش رکھا ہے۔اس کے برعکس جسم کا عالم ’’خلق‘‘ اور عالم مادی پر دارومدار ہوتا ہے جہاں اشیا میں ترکیب اور تعدد کا عنصر شامل ہوتا ہے۔آئیے ذرا ان دونوں کے اختلافی اُمور کا جائزہ لیں۔اس اقتباس کے اہم نکات یہ ہیں: (ا)خودی ایک سے زیادہ مکانی نظامات کا تصور کرسکتی ہے۔خودی( نفس انسانی) کا تعلق عالم ’’امر‘‘ یا عالم معنی سے ہے۔ وہاں ذہنی کیفیات اور قلبی واردات میں ناقابل تقسیم وحدت موجود ہوتی ہے۔خودی کا باطنی پہلو قدر آشنا ہونے کی حیثیت سے حقیقت مطلقہ کے قرب کی لذت سے فیض یاب ہوسکتا ہے۔وہاں صورتوں اور جہات کا وجود نہیں ہوتا۔علامہ اقبالؒ کے روحانی مرشد مولانا رومؒ اس عالم’’امر‘‘ کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بے جہت داں عالم امرو صفات عالم خلق است حسِ ہا و جہات خودی کا باطنی پہلو محسوسات اور جہات سے آزاد ہوتا ہے۔عالم محسوسات میں اشیاء صرف ایک ہی مکان سے وابستہ ہوتی ہیں مگر خودی حواس کی زد سے باہر ہونے کے سبب ایک مکان میں محدود نہیں ہوتی ۔اس بارے میں علامہ اقبال ؒنے یہ دلائل پیش کئے ہیں: "My thought of space is not spatially related to space" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) (ب)’’ اُنھوں نے تاج محل کی مکانیت اور جذبہ تحسین کی لامکانیت کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ تاج محل ایک ہی جگہ موجود ہے مگر ہمارا احساس جمال دوسرے مقام پر بھی قائم رہ سکتا ہے۔اس ضمن میںاُنھوں نے بیداری اور خواب کی مثال سے بھی اس بات کی طرف مبہم اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے: "The space of waking consciousness and dream-space have no mutual relation. They do not interfere with or overlap each other" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) کیا یہ ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ بیداری شعور کی حالت میں ہم ایک وقت میں ایک ہی جگہ ہوتے ہیں مگر خواب میں ہمارا شعور ایک ہی جگہ موجود نہیں ہوتااور ہماری روح ہماری خواب گاہ ہی سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ وہ آسمانوں اور دیگرمقامات کی بھی سیر کیا کرتی ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارا جسم پابند مقام ہوتا ہے مگر ہماری روح آزاد ہوتی ہے۔ علامہ اقبالؒ فلسفی اور سائنس دان سے اس فرق کا سبب دریافت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎ درونم جلوئہ افکار ایں چیست برون من ہمہ اسرار ایں چیت؟ بفرما اے حکیمِ نکتہ پرداز! بدن آسودہ،جاں سّیارا ایں چیت (کلیات اقبال،ص۲۳۶) (ج)’’ خودی اور مادی اشیاء کا وقت بھی مختلف ہوتا ہے۔خودی اور مکان کی بحث کے دوران علامہ اقبالؒ خودی اور زمان کا بھی تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طبعی اور ذہنی کیفیات کا وقت سے گہرا تعلق ہوتا ہے مگر طبعی واقعہ اور ذہنی واقعہ کا وقت مختلف ہوتا ہے۔ طبعی واقعہ خارجی دنیا اور حکانیت آمیز وقت میں پیش آتا ہے۔ اس لیے یہ خارجی وقت ماضی‘ حال اور مستقبل میں تقسیم ہوتا ہے۔اس کے برعکس ذہنی واقعہ مسلسل وقت میں رونما ہوتا ہے اور مسلسل وقت یا مرورِ خالص ناقابل تقسیم ہوتا ہے۔اس میں ماضی حال سے اور حال مستقبل سے متصل ہوتاہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ خودفرماتے ہیں: "True time-duration belongs to the ego alone" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.99) خودی کی زد میں محض ایک مکان نہیں ہوتا بلکہ یہ تو افلاک پر محیط ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ: ؎ زمین وآسمان وکرسی وعرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی (کلیات اقبال،ص ۳۷۵) (۶) اگرچہ ذہنی اور طبیعی واقعات وقت میں رونما ہوتے ہیں تاہم خودی کا زمان اساسی طور پر طبیعی واقعات کے وقت سے مختلف ہوتا ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا اس کائنات کو بناکر بیکار نہیں بیٹھ گیا بلکہ وہ اب بھی اپنی خلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کی بدولت ہر روز نئے نئے واقعات وحادثات کی تخلیق میں مصروف ہے۔ہم خدا کی ذات کو تو نہیں دیکھ سکتے البتہ ہم اس کے پیدا کردہ خارجی مظاہر فطرت کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ کرکے اس کی صفات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔خدا نے اس لیے ہمیں بار باراپنی پیدا کردہ اشیائے کائنات کے مطالعے کاحکم دیا ہے۔ اس لحاظ سے کائنات کی آفرنیش ہمارے لیے بصیرت افروز اور تسخیر فطرت کا سبب بن جاتی ہے۔قرآنی نظریے کے مطابق یہ کائنات حرکی‘ ارتقا پذیر اور تغیر آشنا ہے۔ یہ اُصول تغیرو تنوع خدا کی قدرت کاملہ کا آئینہ دار ہے۔ یہ تغیر وتبدل ظاہری کائنات ہی میں جاری وساری نہیں بلکہ اس کا اثر ہمارے باطن میں بھی نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم نے آفاق کے علاوہ انفس میں بھی اپنی نشانیوں کو ظاہر کیا ہے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خارجی واقعات اور ذہنی کیفیات وقلبی واردات خدا کی ظاہری اور باطنی نشانیوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ان ظاہری اور باطنی تبدیلیوں کا احساس وقت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں کا وقت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ ذہنی واردات اور طبعی واقعات کو وقت سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔وقت ایک ایسا فکری پیمانہ ہے جس سے ہم واقعات وحادثات کو ناپتے ہیں۔حقیقی وقت کا تعلق تو صرف ہمارے باطن سے ہے جس میں امروز وفردا اور شب وروز کی تقسیم نہیں ہوتی۔ وہاں تو وحدت ہی وحدت اور ہماری نفسی کیفیات کا گہرا اربتاط موجود ہوتا ہے۔ خارجی حالات کی شکل اختیار کرکے یہ ہمیں منقسم اور غیر مسلسل دکھائی دیتا ہے۔خارج میں مرورِ وقت ہے مگر باطن میں مرورِ خالص۔علامہ اقبالؒ نے ایک صوفی شاعر عراقی کے تصورِ زمان کا ذکر کرتے ہوئے مختلف اشیا کے مختلف اوقات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔کیثف اور ٹھوس اشیا اور اجسام کا وقت لطیف اشیا کے وقت سے مختلف ہوتا ہے۔ اشیا کی طرح زمان کے بھی کئی مراتب ہیں۔غیر مادی اشیا کا وقت مادی اشیاء کے وقت سے زیادہ اہم قرار پایا ہے۔ آخر میں زمان ایزدی کا مرحلہ آتا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال ؒنے لکھا ہے : "Divine time--time which is absolutely free from the quality of passage, and consequently does not admit of divisibility, sequence, and change" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.74) خودی(نفس انسانی) اپنے اندر خدائی صفات کا رنگ پیدا کرکے زمان حقیقی کی مالک بن جاتی ہے۔ اس لیے خودی کا یہ وقت بنیادی طور پر طبعی واقعات کے خارجی وقت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ اس حقیقی زمان کی اہمیت کی یوں مدح سرائی کرتے ہیں: "To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.50) جب ہم اپنے من میں غوطہ لگاتے ہیں تو اس وقت ہم پر اس حقیقی زمان کی بے چگونی‘ بے جہتی اور عدم تقسیم کا احساس ہوتا ہے۔ (۷)’’کسی چیزکے لیے میری خواہش بنیادی طور پر میری خواہش ہے۔اس خواہش کی تکمیل سے مجھے ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح اگر میرے دانت میں درد ہو تو ممکن ہے کہ اس سلسلے میں دندان ساز میرے ساتھ اظہارہمدردی کرے لیکن اسے میری تکلیف کا احساس نہیں ہوسکتا۔ قصہ کوتاہ میری خوشیاں’تکلیفیں اور خواہشات مکمل طور پر میری اپنی ہیں۔ یہ تمام چیزیں میری ذاتی خودی کا جزو لاینفک ہیں۔ میرے احساسات محبت ونفرت‘میرے فیصلے اور عزائم صرف میری ذات سے متعلق ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) (۸)’’ آپ میرا ادراک اُس شے کی طرح نہیں کرسکتے جو زمان ومکان کی پابند ہے۔آپ میری ذات کا ادراک اور اس کی تعبیر صرف میرے فیصلوں ‘عزائم اور میرے مقاصد کی روشنی میں کرسکتے ہیں‘‘ (چوتھاخطبہ) ان دو اقتباسات میں انسانی ذات کی انفرادی پسند اور اس کی غیر مادی حقیقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان دو بنیادی اُمور کی وضاحت کے ضمن میں مندرجہ ذیل نکات خاص اہمیت کے حامل ہیں:۔ (الف ) ہر انسانی ذات دوسری انسانی ذات سے مختلف اور منفرد ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خدا ہر لمحہ اپنی تخلیقی جلوہ گری کو ہستی کے نئے نئے پیکروں میں پیش کرکے اپنی تازہ آفرینی اور عدم تکرار کا ثبوت بہم پہنچاتارہتا ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ خدا کے قانون مکافات کی رُو سے ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار قرار دیا جائے گا ۔ اس کے لیے یہ لازمی تھا کہ اسے اختیار وا رادہ کی طاقت دینے کے ساتھ ساتھ الگ ذات کا مالک بھی بنادیا جائے۔ہرانسانی ذات کا تشخص اور اسکی انفرادیت کا انحصار اس کی مخصوص ذاتی خواہشات، تکالیف، احساسات وجذبات، افکار و نظریات،عزائم، مقاصد، فیصلہ جات، اعمال اور میلانات پر ہوتا ہے۔ میری کسی خاص خواہش کی تکمیل صرف میری ذات سے بنیادی،حقیقی اور گہرا تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے انسان بھی میری اس خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں لیکن ان کے احساس راحت اور میرے احساسِ مسرت کی شدت میں یکسانیت نہیں ہوسکتی۔یہی حال میرے ذاتی غموں کا ہوگا۔ یہ چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ میری ذاتی خواہشات صرف میری ہیں اورمیرے احساسات، جذبات اور خیالات ہی میری ذات(خودی )کی تشکیل‘تعمیر اور تخریب کا باعث ہوں گے۔علامہ اقبالؒ نے مندرجہ ذیل اشعار میں خودی کی انفرادیت اور خلوت پسندی کے متعلقہ گوشوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔وہ انائے مطلق کے بارے میں کہتے ہیں: پسند اس کو تکرار کی خو نہیں کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں من وتو سے ہے انجمن آفریں مگر عین محفل میں خلوت نشیں ( کلیات اقبال، ص ۴۱۸) واحد استِ و برنمی تابد دوئی من زتابِ اومن ، ستم تو توئی خویش دار وخویش بازو خویش ساز تاز ہا می پرورد اندر نیاز (کلیات اقبال،ص ۸۷) اگر میں روزانہ ورزش کروں تو اس سے میری صحت پر اچھا اثرپڑے گا نہ کہ آپ کی صحت پر۔ من وتو کی یہ تمیز خودی کی انفرادیت اور خلوت پسندی کی واضح دلیل ہے۔علامہ اقبالؒ کا یہ بیان بھی خودی کی انفرادیت کا غماز ہے۔وہ فرماتے ہیں:۔ "The nature of the ego is such that, in spite of its capacity to respond to other egos, it is self-centred and possesses a private circuit of individuality excluding all egos other than itself. In this alone consists its reality as an ego" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) )ب) علامہ اقبالؒ نے خودی(انسانی ذات) کو مادی اشیا کی طرح زمان ومکان کا پابند قرار نہیں دیا۔ خودی اور مادی شے کے زمان ومکان یکساں نہیں ہوتے۔ اُنکی رائے میں کسی انسانی ذات کا فہم اور تغیر کسی کے ذاتی عزائم،مقاصد، فیصلہ جات،احساسات،جذبات اور افکار واعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر انسان کی ذاتی پسند اور ناپسند دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ایک پر دوسرے کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مادی شے کو پابہ گل اور مجبور محض خیال کرتے ہیں مگر وہ انسانی اختیار وارادہ اور آزادی انتخاب کے زبردست قائل ہیں۔اسی بنا پر اُنھوں نے یہ کہا کہ انسانی ذات کا پابند زمان ومکان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔وہ انسا ن کی آزادی عمل اور اختیار کا راگ الاپتے ہوئے کہتے ہیں: "God himself cannot feel, judge, and choose for me when more than one course of action are open to me" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) انسانی قوت عمل کی ایک جھلک ملاخطہ ہو: تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرمِ تقاضا ہے (کلیات اقبال،ص ۱۷۹) (۹)’’جب میںکسی جگہ یا شخص کو پہچانتا ہوں تو یہ میری شناخت میرے گذشتہ تجربات کی ترجمان ہوتی ہے۔ ا سکا تعلق میری ذات سے ہوتا ہے نہ کہ کسی اور خودی کے گذشتہ تجربات سے ہم اپنی اپنی کیفیات کے اس بے مثال باہمی ربطہ کو لفظ’’ میں‘‘ یا’’انا‘‘ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں اور یہاں سے نفسیات کا ایک اہم مسئلہ ظہور پذیر ہونے لگتا ہے۔اس ’’میں‘‘ یا ’’انا‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۰)’’ میری شخصیت کوئی شے نہیںبلکہ یہ ایک عمل ہے۔میر ی باطنی کیفیات اُن اعمال کا ایک وسیع سلسلہ ہیں جو ایک دوسرے پر دلالت کرتے اور ایک رہنما مقصد کی وحدت کی بنا پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔میری تمام حقیقت میرے ہدایت کوش طرزِعمل میں پوشیدہ ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ کی رائے میں کسی جگہ یا شخص کے بارے میں ہماری شناخت ذاتی نوعیت اور ہمارے گذشتہ تجربات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس شناخت کا تعلق کسی اور ذات کی بجائے صرف ہماری ذات سے ہوتا ہے۔ہمارا یہ اندازِ شناخت ہماری ذات کی انفرادیت پر دلالت کرتا ہے اس لیے دوسروں کی شناخت ہماری ذات کی شناخت قرار نہیں دی جاسکتی۔وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم اپنی تمام کیفیات کے اس بے نظیر باہمی ربط اوراتحاد کو لفظ’’انا‘‘(میں) کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام ذہنی کیفیات میری ذات کی بنیاد اور شناخت کا کام دیتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس’’میں‘‘یا ’انا‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟امام غزالیؒ کی رائے میں خودی ایک سادہ،ناقابل تقسیم اور غیر تغیر پذیر روحانی جوہر کا نام ہے جو ہماری تمام ذہنی حالتوں کے مجموعے سے مختلف اور مرورِ زماں سے غیر متاثر ہوتا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ’’ ہمارا شعوری تجربہ وحدت آمیز ہے اور ہماری ذہنی حالتیں اس روحانی جوہر کی صفات ہیں‘‘۔علامہ اقبالؒ امام غزالیؒ کے اس تصورِ نفس(نظریہ خودی) کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہیں کیونکہ اگر ہم ان تجربات کو روحانی جوہر کی صفات سمجھیں تو ہم اس کا پتہ نہیں لگا سکتے کہ یہ صفات نفس میں پوشیدہ کیسے ہیں اور یہ مختلف اوقات میں ایک ہی جسم پر تصرف کیونکر کرتی ہیں۔وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نفس کی عدم تقسیم کا نظریہ روح کی بقا کو ثابت نہیں کرتا ۔ علامہ موصوف کے خیال میں شعوری تجربے سے ہمیں خودی کی اصلیت معلوم نہیں ہوسکتی جیسا کہ وہ خو د فرماتے ہیں:۔ "Our conscious experience can give us clue to the ego regarded as a soul-substance; for by hypothesis the soul-substance does not reveal itself in experience" (The Reconstrurction of Religious Thought in Islam,p.101) اس شعوری تجربے پر تنقید کے باوجود علامہ اقبالؒ اسے ہی خودی کے سراغ کا راستہ قرار دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں: "Yet the interpretation of our conscious experience is the only road by which we can reach the ego, if at all" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.101-102) خودی کی ماہیت سے متعلق مشہور امریکی نفسیات دان ولیم جیمس نے شعور کو ’’جوئے خیال‘‘ قرار دیا تھا جس میں احساس کے تسلسل کے ساتھ تغیرات کیشعوری رو ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں خودی ذاتی زندگی کے احساسات پر مشتمل ہونے کے سبب نظام فکر کا حصہ ہے جس میں ہر غائب اورموجودہ خیال کا ارتعاش علم اور حافظے پر منحصر ناقابل تقسیم وحدت کا حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ ولیم جیمس کے اس تصور کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح غائب خیال علم کے حصول اور یاداشت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ علامہ موصوف کا ذاتی نظریہ شعور یہ ہے: "consciousness is something single, presupposed in all mental life, and not bits of consciousess mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) اگر ہم اپنی تمام ذہنی کیفیات کو متغیر اور غائب تصور کریں تو پھرہم کسی ثبات کے بغیر پائیدار تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھ سکیں گے۔قرآن کے ابدی قوانین اثبات اور ضرورت اجتہاد تغیر کے آئینہ دار ہیں۔ محض ثبات اور محض تبدیلی انتہا پسندی کیغماز ہیں۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ بدلتی ہوئی ذہنی کیفیات کے ساتھ ساتھ نفس انسانی(خودی) کے عنصرثبات کے بھی حامی ہیں۔اگر خودی میں یہ ثبات نہ رہے تو پھر ہم انسانوں اور چیزوں کی شناخت کیسے کرسکیں گے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: "My recognition of you is possible only if I persist unchanged between the original perception and the present act of memory" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.100) مادی شے اور انسانی شخصیت میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ انسان شعور‘عمل اور مقصد آفرینی کا حامل ہے۔انسانی ذات (خودی) محض خارج ہی نہیں بلکہ یہ باطن کی بھی حامل ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری باطنی کیفیات کی وحدت‘یک رنگی اور مقصد کوشی ہی ہماری خودی سے عبار ت ہیں۔باہر تو تبدیلی ہی تبدیلی ہے مگر باطن میں تغیر کے ساتھ ساتھ ثبات بھی ہے۔ہماری حیات کا تانا بانا ہمارے وحدت پرور مقاصد سے تیار ہوتا ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ: "My whole reality lies in my directive attitude." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.103) اس تمام بحث کو اُن کے ایک مصرعے میں یوں پیش کیا گیا ہے: ؎ جہانِ ہرکسے اندر دلِ اُوست (۱۱)’’ اگر ہم خودی کو روحانی جوہر خیال کریں تو پھر ہمارا شعوری تجربہ ہمیں اس کی صحیح نوعیت کا سراغ نہیں دے سکتا۔اس کے باوجود ہمارے شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۲)’’ولیم جمیزکی رائے میں خودی ہمارے ذاتی احساسات وجذبات پر مشتمل ہونے کی حیثیت سے ہمارے نظام فکر ہی کاحصہ ہے۔علاوہ ازیں گذشتہ اور موجودہ خیال کا ارتعاش ایک ایسی ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور حافظہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ولیم جمیز کا یہ تصور انتہائی ذہانت وفطانیت پر مبنی ہے لیکن میرے ناقص خیال میں اس کا یہ نظریہ اس شعور کی صحیح طور پر عکاسی نہیں کرتا جسے ہم اپنے اندر پاتے ہیں۔دراصل شعور وحدت اور ذہنی کیفیات کی بنیاد ہے… اس لییولیم جمیز کا مذکورہ بالا تصور خودی کی ماہیت کا کھوج نہیں لگاتا ۔علاوہ ازیں یہ ہمارے مدرکات کے اضافی طور پر مستقل عنصر کو کلیتہً نظر انداز کردیتا ہے‘‘۔ اس سے پہلے خودی اور شعور کی بحث کے ضمن میں امام غزالیؒ اور امریکی ماہر نفسیات ولیم جمیز کے افکار ونظریات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے تاہم قند مکرر کے طور پر اس اہم اور دقیق موضوع کے لازمی اور بنیادی اُمور کا یہاں خلاصہ پیش کیا جاتا ہے: (ا) امام غزالیؒ نے خودی(نفس انسانی) کی تعریف کرتے ہوئے اسے روحانی جوہر کہا تھا جو سادہ‘ ناقابل تقسیم اور ساکن ہوتاہے۔علاوہ ازیں اُنھوں نے اسے شعوری تجربے کی وحدت کانام بھی دیا ہے۔علامہ اقبال ؒ کی رائے میں اگرچہ شعور ہماری خودی کی نوعیت کا سراغ نہیں دیتا تاہم شعوری تجربے کی بنا پر ہی ہم خودی کی منزل تک جاسکتے ہیں۔ شاعر مشرق ؒ خودی کی نوعیت کو معلوم کرنے کے لیے عقلی طریق کار کی اہمیت وافادیت کے بھی قائل ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ وہ اسے محض ’’چراغ راہ‘‘ خیال کرتے ہیں۔عقل وعشق،فکر وذکر، فلسفہ و ایمان کا یہ فرق دیکھئے۔وہ فرماتے ہیں: گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ را ہ ہے منزل نہیں ہے خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں (کلیات اقبال،ص ۳۳۹) (ب) ولیم جمیز کے نزدیک ہماری ذات(خودی) ذاتی احساسات وجذبات کی حامل ہونے کے باوجود ہمارے نظام فکر ہی کا حصہ ہے۔ اس کے تصور میں موجودہ خیال اور گذرے ہوئے خیال میں وحدت موجود ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ اس کے تصور شعور کو بھی اطمینان بخش خیال نہیںکرتے کیونکہ اس میں ہمارے مدرکات کے مستقل عنصر کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ہماری ذہنی حالتوں کی تبدیلی کے باوجود ہماری ذات میں ایک ایسا مستقل عنصر ضرور موجود ہوتا ہے جو ان تمام حالتوں کا شیرازہ بند اور ناظم ہے۔وہ ہمارے انتشار فکر وعمل کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ہماری خودی(ذات) کا یہ مستقل عنصر تمام ذہنی کیفیات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنیکی قوت رکھتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ خود فرماتے ہیں: "Inner experience is the ego at work.We appreciate the ego itself in the act of perceiving, judging, and willing." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.72) )ج) علامہ اقبالؒ کے خیال میں شعور ہماری تمام ذہنی کیفیات کی بنیاد اور قوت ناظمہ ہے۔ وہ اسے’’نقطہ نورے‘‘ اور ہمارے جسم خاکی کے نیچے’’شرار زندگی‘‘ بھی کہتے ہیں۔نور کا یہ نقطہ ہمارے جسم کے خاکی شبستان میں روشنی پھیلانے کے علاوہ’’شرارہ حیات‘‘ بھی ہے۔ یہ’’ رازِ درون حیات‘‘ بھی ہے اور ’’بیداری کائنات‘‘ بھی۔ یہ’’میں‘‘ اور’’ توُ‘‘ کی ظاہری تمیز کے علاوہ من وتوُ سے پاک بھی ہے۔انسانی خودی چونکہ خدائی خودی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اپنے مرکز حقیقی سے ظاہری دوری کے باوجود بہت قریب ہے ۔ہر سینہ اسرارِ معانی اور رموزِ خودی کا گنجیہ ہوتا ہے۔بیرونی دنیا کی طرح ہمارے من کی دنیا میں بھی جذبات واحساسات کی رونق اور جذبات وخیالات کی ہنگامہ آرائی کی کیفیت موجود ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ : ؎ نہاں در سینئہ ماعالمے ہست جذبات وافکار کی ان تمام کیفیات کی باگ ڈور ہماری ذات کے مستقل عنصر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اس لحاظ سے خودی ہماری شخصیت کی گوناگوں حالتوں کی تبدیلی کے باوجود ثبات کی مالک رہتی ہے۔ (۱۳)’’ خودی کی زندگی دراصل ایک قسم کی کشمکش ہے جو خودی اور ماحول کی باہمی آویزش کی بنا پر معرض وجود میں آتی ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) قدرت نے اس جہان رنگ وبو میں محض صلح و آشتی اور خیر کی طاقتوں ہی کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے اس کی ہنگامہ خیزی اور ترقی کے لیے یہاں جنگ وجدل اور شر کی قوتوں کو بھی تخلیق کیا ہے۔اگر نیکی کو اپنی ترقی کی راہ میں گوناگوں مشکلات ‘موانعات اور بدی سے واسطہ نہ پڑے تو اس کی اہمیت کیسے دوبالا ہوگی اور اسے منزل شناسی کیسے نصیب ہوگی؟ آدمؑ اور ابلیس کی باہمی معرکہ آرائی دراصل معرکہ خیر وشر کا دوسرا نام ہے۔دنیا میں نیکی کو عام کرنے والوں کو ہمیشہ بدی کے حامیوں کے ساتھ نبرد آزمائی کی آزمائش کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ازل سے لے کر اب تک یہی چپقلش جاری ہے: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز چراغ مصطفوی ؐ سے شرارِ بولبیی علامہ اقبالؒ نے اس عبارت میں خودی اور ناساز گار ماحول کی باہمی آویزش کی طرف بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے۔اُنکی رائے میں خودی(انسانی ذات) کی زندگی ایک قسم کی کشمکش ہے جو خودی اور ماحول کی باہمی آویزش کی بنا پر پیش آتی ہے۔خودی کو ترقی کی راہ میں دو قسم کی بڑی رکاوٹوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔اندرونی رکاوٹیں اور بیرونی رکاوٹیں۔نفس مطمنّہ کے عظیم مرتبے تک پہنچنے سے قبل اسے نفس امّارہ اور نفس لّوامہ کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح بیرونی طور پر اسے تسخیر کائنات اور تسخیر مکان وزمان سے پہلے نا سازگار ماحول اور حوصلہ شکن واقعات سے پنجہ آزما ہونا پڑتا ہے۔مفکر اسلام کی اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :۔ (الف)خودی ماحول اور ماحول خودی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کشمکش میں خودی کی شرکت اس کی ہدایت و توانائی کی مظہر ہوتی ہے اور وہ اپنے تجربات کی بدولت تشکیل پاتی ہے اور نطم وضبط کی حامل بن جاتی ہے۔اس بات کے ثبوت میں علامہ اقبالؒ نے ایک قرآنی آیت(۸۷:۱۷) کا حوالہ دیا ہے جس میںروح کو’’امر ربی‘‘کہا گیا ہے۔اس کی اصل عبارت یہ ہے: ’’یسئلو نک عنِ الرّوح قلِ الرّوح من امر ربیٰ وما او تیتم منِ العلم الا قلیلا‘‘ (بنی اسرایل ۱۷:۸۵) (ترجمہ:اے نبیؐ! لوگ !آپ سے روح کے باے میں پوچھتے ہیں۔آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار کے امر(حکم) سے ہے اور تمھیں قلیل علم دیا گیا ہے)۔ (ب)علامہ اقبال نے روح(خودی) کو ’’امر ربی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلق کا مطلب آفرنیش اور امر کا مفہوم ہدایت ہے۔’’روح(نفس۔خودی) کی اصلیت ہدایت کوشی بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "As the Quran says: To Him belong creation and direction. The verse means that the essential nature of the soul is directive as it proceeds from the directive energy of God; though we do not know how divine'Amr'functions as ego-unities" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p103) اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ خودی کی تعمیر وتشکیل اور ماحول کے درمیان گہرا ربط ہے۔ خودی کو اپنے استحکام اور ارتقا کے لیے ماحول سے پنجہ آزمائی کے ذریعے ضروری تجربات حاصل کرنے ہوں گے۔ علامہ موصوف خدا کو انسانی خودی کا منبع قرار دیتے ہیں۔وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ خودی مادی شے کی مانند نہیں بلکہ یہ عمل ہے اور تبدیلیوں کے باوجود خودی اپنی وحدت‘ انفرادیت اور خصوصیات کو ترک نہیں کرتی۔جفاطلبی سے خودی کی مخفی صلاحتیں بیدار ہوا کرتی ہیں۔بقول حضرت علامہ اقبالؒ:۔ کشت انساں را عدو باشد سحاب ممکنا تش را برانگیزد زخواب (کلیات اقبال‘ص ۵۳) (۱۴)’’ خودی کی نمایاں صفت اختیار ہے۔اس کے برعکس جسمانی اعمال اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں‘‘ ( چوتھا خطبہ) (۱۵)’’ فطرت کے ادراک اور تسخیر کی بنا پر خودی کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔خودی کی سرگرمی میں ہدایت کاری اور مقصد کوشی کا جو عنصر پایا جاتا ہے اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ خودی ایک آزاد شخصی تعلیل ہے اور وہ’’انائے مطلق‘‘کی آزادی میں شریک ہے‘‘ (ایضاً) (۱۶)’’ اسلام روز مّرہ نما ز کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے تاکہ ہماری خودی اختیارات وحیات کے آخری سرچشمے کا قرب و اتصال حاصل کرے۔اس کااصل مقصد یہ ہے کہ خودی کو نیند اور کسب معاش کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ نماز حقیقت میں خودی کا میکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘ (ایضاً) جسم اور روح کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒنے ہمیں بتایا ہے کہ اگرچہ روح جسم سے بالا تر ہے تاہم اُسے اپنے مقاصد اور اعمال کی تکمیل اور ماحول سے نبرد آزمائی کے ذریعے تجربات حاصل کرنے کے لیے جسم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے جسم اور روح کے درمیان جدائی درست نہیں ہے۔قرآن حکیم ہمیں دنیوی اور دینی حسنات کے حصول کی تاکید کرتا ہے۔ نیز وہ مادہ وروح دونوں کو ہماری متوازن زندگی کے لیے لازم قرار دیتا ہے۔علامہ موصوف جسم اور روح دونوں کو اعمال وحادثات کا نظام خیال کرتے ہوئے انکے ظاہری فرق کے باوجود ان کے باہمی قرب اور ربط کی اہمیت کے قائل ہیں۔وہ دونوں کے ایک واضح اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی ارادہ واختیار کی حامل ہے جبکہ جسمانی اعمال اس خصوصیت کے مالک نہیں۔ روح یا خودی کی روحانی نوعیت اور جسم وروح کے باہمی ربط کے بارے میں اُن کا یہ قول بہت اہم ہے۔وہ کہتے ہیں: "The system of experiences we call soul or ego is also a system of acts. The body is accumulated action or habit of the soul; and as such undetachable from it." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.106) روح وبدن سے متعلق اُن کے مندرجہ ذیل اشعار ہماری خاص توجہ کے طالب ہیں: دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موج دُود گراں گرچہ ہے صبحت آب وگل خوش آئی اسے محنت آب و گل (کلیات اقبال،ص ۴۱۷) خودی کے جبر واختیار کی بحث کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے تین اہم مکاتب فکر کا ذکر کیا ہے۔میکانیت پرست خودی کو بھی میکانکی اُصولوں پر قیاس کرکے اسے علت ومعلول کا پابند قرار دیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ علت ومعلول تو خودی نے خود پیدا کئے ہیں تاکہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو پابند قوانین تصور کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل میں سہولت اور خود اعتمادی محسوس کرے۔ دوسر امکتب فکر خودی کو بھی اشیائے کائنات کی طرح مجبور سمجھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ خودی کو ارادہ واختیار اور آزادی انتخاب کی مالک تصور کرتے ہوئے نظریہ جبریت کو بھی ردّ کردیتے ہیں۔وہ نئی جرمن نفسیات کے ’’تصور بصیرت‘‘ کی روشنی میں خودی کے انتخاب عمل،مستقبل بینی اور مقصد کوشی کی حمایت کرتے ہیں۔جب خودی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے اپنی آزادی عمل،شخصی ذمہ داری‘خود اعتمادی اور تسخیر کائنات کی خواہش کا احساس ہوتا ہے۔ جب خودی کو اپنی طاقت تسخیر کائنات کا پتہ چلتا ہے تو وہ کائنات کو زیرکرنے کے درپے ہوجاتی ہے اور اس طرح زمان ومکان کے اشہب کی سوار بن جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ خودی کی اس طاقت کے احساس اور جذبہ تسخیر کائنات کو سراہتے ہیں:۔ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار اسی مقام سے آدم ہے ظّل سجانی ( کلیات اقبال،ص ۴۹۴) کائنات کو مسخر کرکے انسان اپنے عظیم مقام‘تخلیقی سرگرمی اور آزای انتخاب کو ظاہر کرتا ہے۔اس بات کے ثبوت میں علامہ اقبالؒ نے دو قرآنی آیات( ۲۸:۱۸، ۷:۱۷) کا حوالہ دیاہے۔ خودی کو نیند اور کسب معاش کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور جبر سے آزادی کی طرف لانے کے لیے اسلام نے نماز پنجگانہ کا حکم دیا ہے تاکہ ہماری خودی روزانہ انائے مطلق یعنی خدا سے رابطہ قائم رکھے اور اپنے اندر موجود ایزدی توانائی کو برقرار رکھ سکے۔سچ بھی یہی ہے کہ جب ہم اپنے خارجی،مادی اور میکانکی ماحول کو بھول کر خدا کی بارگاہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ حاضر ہوتے تو اس وقت ہماری باطنی کیفیت میں خد اکی موجودگی اور قرب کا گہرا احساس ہوتا ہے جو ہماری خودی کو زوال پذیر نہیں ہونے دیتا۔اگر نماز استحکام خودی کا باعث نہ بنے تو پھر ہمیں یہی کہا جائے گا: یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے، یہ سجود تری خودی کے نگبہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں (کلیات اقبال‘ص ۴۹۶) (۱۷)’’ مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے۔ خودی جب حقیقت کاملہ کے ساتھ اپنا رابطہ استوار کرتی ہے۔اس وقت اُسے اپنی یکتائی‘مابعد الطبیعیاتی مرتبے اور ارتقا کے امکانات کا پتہ چلتا ہے۔انکشاف ذات کا پتہ دینے والا تجربہ صرف دنیا ساز اور دنیا سوز عمل کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے ۔اس صورت میں یہ لازمانی تجربہ اپنے آپ کو زمانے کی رو میں پھیلا کر موثر طور پر تاریخ کے سامنے بے نقاب ہوسکتا ہے‘‘ (ساتواں خطبہ) اس عبارت میں علامہ اقبالؒ نے مذہبی واردات اور باطنی تجربات،خودی اور انکشاف ذات پر منحصر اعمال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان اہم اُمور کی تشریح درج ذیل ہے: (الف)مذہبی زندگی کا منتہائے مقصود خودی کا انکشاف ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں مذہبی تجربہ فکری تجربے اور سائنسی تجربے سے زیادہ عمیق اور اہم ہوتا ہے۔اس لحاظ سے مذہب کو فلسفہ اور سائنس پر برتری حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کا تعلق صرف عالم محسوسات سے نہیں بلکہ محسوسات سے ماوراء بھی حقائق موجود ہوتے ہیں جنہیں عقل اور سائنس مادی نقطہ نگاہ اور میکانکی انداز سے نہیں پاسکتے۔زندگی صرف علت ومعلول کی حکمرانی نہیں۔ علامہ موصوف مذہبی طریق انکشاف ہی کو سب سے زیادہ سنجیدہ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ "Religion----is the only serious way of handling reality. As a from of higher experience. It is corrective of our concepts of philosophical the ology" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.184) (ب) خودی کے دو اہم پہلو ہیں: فعال پہلو اور قدر آشنا پہلو۔خودی کے فعال پہلو کا خارجی‘مادی ‘ظاہری اور دیدنی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے جبکہ اس کا قدر آشنا پہلو باطنی دنیا‘ قلبی واردات اور روحانی تجربات سے متعلق ہوتا ہے۔خودی جب محسوسات سے ماورا باطنی تجربات کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اس وقت اس کا حقیقت مطلقہ(خدا )کے ساتھ گہرا رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔ایسی حالت میں اسے اپنی انفرادیت، مقام رفیع اور ترقی کے امکانات کی خبر ہوتی ہے۔ شاعر مشرق اس امر کے قائل ہیں کہ عقلی اور سائنسی طریق کے علاوہ دیگر ذرائع بھی انکشاف حقائق میں مدد دیتے ہیں۔اُنکا کہنا ہے کہ ہر دور اور ہر قوم میں ایسے غیر حّسی اور باطنی تجربات کا ثبوت ملتا ہے جو مذہبی تجربات کی حقانیت اور آفاقیت کا آئینہ دار ہے۔اُن کی یہ رائے ملاخطہ ہو: "The Ultimate Reality-reveals its symbols both within and without" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.15) (ج) خودی کو جب اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے تو یہ لازمانی تجربہ دنیا میں عظیم تاریخ ساز انقلاب کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔خودی اپنی خلوت سے باہر آکر اپنی انقلاب خیز جلوت کی مظہر بن جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ اپنے ایک مطبوعہ مضمون بعنوان’’اضافیت کی روشنی میں خودی‘‘ مطبوعہ رسالہ کریسنٹ لاہور ‘۱۹۲۵ء میں تحریر کرتے ہیں کہ اس انقلاب آفریں عظیم عمل کی کیا اہمیت ہے:۔ "In great action alone the self of man becomes united with God without losing its own identity and transcends the limits of space and time. Action is the highest form of contemplation" (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.115) اس ساری بحث سے متعلق شاعر مشرق کے یہ اشعار دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے:۔ تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر ( کلیات اقبال،ص ۳۵۱) خویش را چوں از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی (کلیات اقبال،ص۵۳) کمال ذاتِ شے موجود بودن برائے شاہدے مشہود بودن (کلیات اقبال،ص۵۴۴) خیر و شر (۱)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں‘نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) انسان کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی اور بدی کا مجموعہ ہے۔خیر اور شر میں عقیدہ ایمان کا لازمی جزو ہے۔ اگرچہ نیکی اور بدی کی اصل طاقتوں کا اصل خالق خدا تعالیٰ ہے تاہم اس نے انسانون کو نیک اور بد راہ اختیار کرنے کی آزادی عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے نوازا ہے۔جمادات‘ نباتات اور حیوانات خدا کے مقرر کردہ راستے پر چلنے اور اس کے قوانین کی اندھی تقلید کرنے پر مجبور ہیںلیکن انسان کو عقل‘ تدبر‘ تفکر اور شعور کی دولت دی گئی ہے تاکہ وہ ہدایت اور ضلالت کی راہ پر چلنے سے پہلے اچھائی اور برائی کے مخصوص نتائج کو جان لے۔اس لحاظ سے انسان کو خیر اور شر دونوں کا مرکب بنایا گیا ہے بقول سعدیؒ:۔ ؎آدمی زادہ طُرقہ معجون است وز فرشتہ سرشتہ و ز حیوان آدمی اگر چاہے تو وہ عقل اور آزادی انتخاب سے کام لے کر نیکی کرسکتا ہے اور بدی کی طاقتوں کو مغلوب کرسکتا ہے۔ اسی طرح ملائک سے بھی افضل بن جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ آزدی عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے بدی سے مغلوب ہوجائے تو وہ شیطان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ سورہ دہر میں قرآن حکیم نے انسان کی شر پسندی اور خیر پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:۔’’اّنا ھدیناہ السبیل اِمّا شاکرِاً واِمّا کفُوراً‘‘(الدھر۷۶:۳) (ہم نے انسان کو صحیح راستہ دکھا دیا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ چاہے اسے اختیار کرے چاہے اس سے انکار کردے)۔ اﷲ تعالیٰ کسی کے عمل کوضائع نہیں کرتا خواہ وہ عمل اچھا ہو یا برا ہو‘ خوشگوار اور ناخوشگوار۔ زندگی کا زیادہ تر انحصار ہمارے اپنے ہی اچھے اور برے اعمال پر ہوتا ہے جیساکہ شاعر مشرقؒ نے کہا تھا:۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا قول میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ نیکی کے کام کرنے کے لیے عمل کی آزادی اور خیرو شر کے انتخاب کی آزادی لازمی ہوا کرتی ہیں۔ اگر انسان کو بالکل مجبور خیال کیا جائے تو اس کی نیکی کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔ مشین بے جان اور بے شعور ہونے کی حیثیت سے صرف وہی کام کرتی ہے جو اس کے سپرد کیا جائے۔اگر انسانوں کو مجبور محض سمجھا جائے تو پھر عقل کا عطیہ، آسمانی کتب کا نزول،انبیائے کرام ؑ کی بعثت اور جزا وسزا بے کار ہوجاتے ہیں۔ انسان نائب خدا ہے اس لیے وہ مشین کی طرح مجبور محض ہوکر نیابت کا اہم فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا۔بہشت اور دوزخ میں ہمارے اعمال کے مطابق ہی ہمیں بھیجا جائے گا۔نیک اعمال کے بغیر جو بہشت ملے وہ علامہ اقبالؒ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔بہشت وہی قابل قدر اور قابل ستائش ہوتی ہے جو انسانی اعمال ہی کا لازمی نتیجہ ہو۔ آں بہشے کہ خدائے بتو بخشد ہمہ‘ ہیچ تاجزائے عمل تُست جناں‘ چیزے ہست (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص ۶۳۵) انسان کو صاحب اختیار تصور کرکے علامہ اقبالؒ نے اسے سعی وعمل کی بدولت اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اسے اپنے اندر ایزدی صفات پیدا کرنے کی بار بار تلقین کی ہے۔اگر انسان باختیارہستی نہ ہوتا تو وہ اسے یہ بلند مقام پانے کا مشورہ دیتے ہوئے کبھی یہ نہ کہتے:۔ ؎ یزداں بہ کمند آور اے ہمّت مردانہ دُعا ونماز (۱)’’دُعا کا حقیقی مقصد اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب دُعا کا عمل اجتماعیت کا حامل ہو۔تما م حقیقی عبادات کی رُوح اجتماعیت پر مبنی ہوتی ہے‘‘ ( تیسرا خطبہ) (۲)’’ اسلام روز مرہ نماز کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے تاکہ ہماری خودی اختیار وحیات کے آخری سرچشمے کا قرب واتصال حاصل کرلے…نماز حقیقت میںخودی کا میکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘ ( چوتھا خطبہ) اجتماعیت اسلامی تعلیمات کی ایک نمایاں خوبی ہے۔اسلام نے نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ کے ذریعے ہم پر اجتماعی زندگی کی اہمیت وافادیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اجتماعی نماز کو ہر لحاظ سے انفرادی نماز پر اور انفرادی عبادت پر اجتماعی عبادت کو ترجیح دے کر اسلام نے دراصل اجتماعی دعا کے تصور کو اجاگر کردیا ہے۔اسلام کے نقطہ نظر سے مسلمانوں کی فلاح وترقی کا راز اُن کی اس اجتماعی زندگی میں پوشیدہ ہے جو وہ قرآن حکیم اور اُسوہ رسول ؐ کے مطابق بسرکرتے ہیں۔ پنجگانہ نماز،نماز جمعہ اور نماز عیدین اس اجتماعیت کی مظہر ہیں۔اسی طرح حج کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے اور مختلف بولیاں بولنے والے مسلمان اکٹھے ہوکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ جغرافیائی حدود، نسلی امتیازات، لونی اختلافات اور لساِنی فرق اسلامی مساوات ووحدت کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتے۔اس لحاظ سے ا سلام واقعی اجتماعیت کی شان رکھنے والا عالمگیر دین ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں دعا کے حقیقی مقصد کو دعا کے اجتماعی عمل سے وابستہ قرار دیا ہے کیونکہ وہ تمام حقیقی عبادات کی روح کو اجتماعیت پر منحصر خیال کرتے ہیں۔زیادہ تر قرآنی دعائوں میں صیغہ واحد متکلم کی بجائے صیغہ جمع متکلم استعمال کیا ہے مثلا’’ رّبنا اٰ تناِ فی الّدنیا حسنہً وّ فی الاٰ خرۃ حسنتہ‘‘ ( البقرہ ۲:۰۱ ۲)(اے ہمارے پالنے والے تو ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا کر)۔ اسی طرح ہم کو مل کر خدا سے یہ دعا بھی مانگنے کا درس دیا گیا ہے: ’’ رّبنا افرِغ علینا صبراً وّ ثبت اقدامنا و انصر نا علی القومِ الکفرینِ‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۰) (اے ہمارے پرودگار!تو ہمارے دلوں میں صبر ڈال اور ثابت قدمی عطا کر اور کافروں سے مقابلہ میں ہماری مدد فرما )۔اسلام چونکہ انفرادی نجات ہی کا قائل نہیں بلکہ وہ اجتماعی نجات کا بھی علم بردار ہے اس لیے اس نے دعائوں کو بھی اجتماعی شکل دے دی ہے۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :’’ یُد اﷲِ علی الجما عہ ‘‘( اﷲ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے)۔ شاعر مشرق ؒ فرد کے لیے اجتماعی اور ملّی ربط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا کہتے ہیں:۔ فرد تا اندر جماعت گم شود قطرئہ و سمت طلب قلزم شود فرد تنہا از مقاصد غافل است قُوتش آشفتگی را حائل است (رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۸۶) فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ( بانگ دراِ،کلیات اقبال،ص۱۹۰) دُعا کی اہمیت سے باخبر ہونے والے اسے زندگی کی مشکلات اور خطرات کے موقع پر ایک ڈھال سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ایک نفسیاتی حقیقت نہیں کہ انسان ہمیشہ دعا اور خدا کی امداد وعنایت کا محتاج ہوا کرتا ہے؟ یہ کائناتی نظام ہماری حسین تمنائوں اور دلی آرزوئوں کے مطابق تو نہیں چل رہا بلکہ اسے خدا اپنی مرضی اور عظیم تر پروگرام کے مطابق چلا رہا ہے کیونکہ وہی اس کا خالق‘رازق اور حقیقی مالک ہے۔جب ہمارے ارادے پورے نہیں ہوتے اور انتہائی کوشش کے باوجود بھی ہم اپنے مخصوص عزائم میں کامیاب نہیں ہوتے تو اُس وقت ہمیں شدید احساس ہوتا ہے کہ کوئی عظیم ترین ہستی ہمارے مقاصد کو ناکام بنارہی ہے۔ یہ احساس ہمیں خدا کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ساتھ دعا کے ذریعے سچا رابطہ قائم کرنے پر اُبھارتا ہے۔اس طرح ہمیں خدا کی ہستی اور اس کی ہمہ گیر طاقت کی معرفت نصیب ہوتی ہے بقول حضرت علی ؓ :’’ عرفُت ربی یفسخ العز ائم‘‘ (میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کی شکست کے ذریعے پہچانا)۔ کمزور انسانی سہارے ہمیں کامل اطمینان نہیں دے سکتے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:۔ ؎تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے تما م عمر سہارے فریب دیتے ہیں دُعا کی معاشرتی اہمیت یہ ہے کہ جب سب انسان مل کر خدا سے دُعا مانگتے ہیں تو اُن کے جذبات میں شدت،ملی ہمدردی کے گہرے اثرات اور انقلاب خیز خیالات پیدا ہوکر اُنکی زندگیوں میں تعمیری تبدیلیاں رونما کردیتے ہیں۔مذہبی نقطہ نگاہ سے انسان دعا کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرلیتا ہے۔اس طرح بقول علامہ اقبالؒ ’’ ہماری خودی اختیار وحیات کے سرچشمے کا قرب واتصال ‘‘حاصل کرتی ہے۔انسان خدا کے ساتھ گہرا رابطہ قائم کرکے روحانی سکون پانے کے علاوہ اپنے اندر عظیم طاقت کا بھی سراغ لگا لیتا ہے‘‘۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ نخن اقربُ اِلیہ ِ منٰ جبل الوریدِ‘‘( ق ۵۰:۱۶)(ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں)۔ مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا انسان جب خدا کے قرب اور اس کی معیت کو محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر صبرو استقلال اور جفاکشی کاجذبہ بیدار ہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی کی بجائے بلند ہمتی کاحامل بن جاتا ہے۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مایوسی انسان کے دل ودماغ میں تاریکی، بے عملی اور سستی کو جنم دیتی ہے۔ اس کے برعکس دعا انسان کے باطن میں اُمید کی کرن،سعی وعمل اور خود اعتمادی کا باعث بن کر اس کی زندگی کو خوشگوار بنادیتی ہے۔نماز اصل میں دعا ہی ہے جس کے ذریعے ہم انائے مطلق(خدا) کی نزدیکی، معیت اور فضل وکرم کے طلب گار ہوتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں ۔اس لحاظ سے نماز اور دعاہمیں جبر سے نجات دلا کر باعمل بناتی ہیں۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں’’ نماز حقیقت میں خودی کامیکانیت یعنی جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے‘‘۔ عام طور پر مسلما ن دعا پر اتنا تکیہ کرتے ہیں کہ سعی وعمل کی لازمی شرط کو بالکل ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔قرآنی تعلیمات اور رسول کریم ؐکے اُسوہ حسنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سعی اور عمل کے بغیر تو کل اور دعا درست نتائج پیدا نہیں کرتے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربّانی ہے کہ: ’’یس الا نسان اِلا ماسعی‘‘(انجم ۵۳:۲۹)( انسان کو اس کی کوشش کا پھل ملا کرتا ہے)۔ اس قانون خداوندی کی رُو سے ہر انسان کو خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو، اس کی محنت کا ضرور صلہ ملتا ہے۔خدا نے اس کائنات کو چلانے کے لیے کچھ قوانین اور اُصول بنائے ہیں جو ہمہ گیر اور ابدی ہیں۔خدا مسلمانوں کے لیے اپنے قوانین نہیں توڑتا کیونکہ اُسکے قوانین سب انسانوں کی فلاح وہدایت کے ضامن ہیں۔ اگر کوئی بے عمل مسلمان یہ توقع کرے کہ سعی وعمل کے بغیر اُسے خوشگوار زندگی کی کامرانیاں نصیب ہوجائیں تو یہ احمقوںکی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ دعا کی نتیجہ خیزی اور تاثر کے لیے محض زبانی جمع خرچ ہی کافی نہیں بلکہ کوشش اور صحیح عمل بھی ضروری ہیں جیسا کہ کسی صاحبِ بصیرت انسان نے کہا ہے:۔’’السعی منّیِ و الاِ تمامُ منِ اﷲِ‘‘(کوشش کرنا میرا کام ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا اﷲ کے اختیار میں ہے)۔کیا ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے محض دعائوں پر ہی بھروسا کیا تھا؟کیا اُنھوں نے جنگ بد راور دوسرے مواقع پر خود عمل کرکے نہیں دکھایا تھا؟ہمارے نیک مقاصد اور حسین آرزوئوں سے سعی وعمل کے بغیر خوشگوار اور انقلابی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔علامہ اقبالؒ نے ہمارے اس غلط طریق دُعا پر بڑے بلیغ انداز میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:۔ تری دُعا ہے کہ ہوتیری آرزو پوری مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے (ارمغان حجاز،کلیات اقبال،ص ۶۲۸) دورِ حاضر (۱)’’ یہ امر ہمارے لیے بہت زیادہ اطمینان کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتیں اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظریہ اجماع کے امکانات اور قدر وقیمت مرتسم کررہے ہیں‘‘ (چھٹا خطبہ) (۲)’’آجکل بنی نوع انسان کو تین چیزوں کی ضرورت ہے…کائنات کی روحانی تعبیر‘فرد کی روحانی آزادی اور روحانی بنیاد پر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بنانے والے اساسی اور عالمگیر اُصول‘‘ (ایضاً) (۳)’’ دورجدید کا انسان اپنے فلسفہ تنقید اور سائنسی مہارت کے باوجود اپنے آپ کو عجیب وغریب مخمصے میں پاتا ہے۔اُس کے فلسفہ فطرت نے اُسے قدرت کی طاقتوں پر بے نظیر تسلط عطا کیا ہے۔ لیکن اِن تمام علوم نے اُسے اپنے مستقبل سے نااُمید کردیاہے‘‘ ( ایضاً) (۴)’’ اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے کلیتہً متاثر ہوکر عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے یعنی اس کا باطن زندہ نہیں رہا…بے رحم انانیت اور نہ ختم ہونے والی ہوس زرِ آہستہ آہستہ اُس کے تمام اعلیٰ مقاصد کا قلع قلمع کرکے اُسے زندگی سے بیزار کررہی ہیں‘‘ ( ایضاً) (۵)’’ قدیم قسم کا تصوف‘قومیت اورلا دین اشتراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘ ( ایضاً) اجماع کا نظریہ اسلامی آئین کا تیسرا بڑامنبع ہے۔قرآن وحدیث نبویؐ کے بعد مسائل کے حل کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اقبالؒ اس کی قدر ومنزلت سے بخوبی آگاہ ہونے کے سبب اس امر کے خواہش مند تھے کہ مسلمان دنیا میں رونما ہونے والے نئے نئے حالات اور سائنسی ترقی اور جدید سیاسی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گوناگوں مسائل کو اجتماعی مشوروں سے حل کریں۔رسول کریم ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میری اُمت کبھی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوگی‘‘ علاوہ ازیں قرآن حکیم نے بھی باہمی مشاورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان اپنے اُمور کا فیصلہ باہمی مشورے سے کیاکرتے ہیں۔ یہ قرآنی ارشاد ملاخطہ ہو’’وامر ھم شُوریٰ بینھم‘‘(الشوریٰ ۴۲:۳۸) (اور اُن کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں)۔باہمی مشاورت کی اہمیت وافادیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ خود شارع اعظم ﷺ کو جماعت مومنین سے مشورہ کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا:’’ و شاوِر ھم فیِ الامر‘‘(آل عمران ۳:۱۵۹)(اور آپؐ مسلمانوں سے معاملات میں مشورہ کریں)۔جب باہمی مشورے پر رسول کریمؐ خود بھی عمل پیرا تھے تو بعد میں آنے والے مسلمان اس حکم سے کیسے مستثنیٰ قراد دئیے جاسکتے ہیں؟ یہ باہمی مشاورت صرف انہی معاملات میں ہوسکتی ہے جن کی قرآن وحدیث میں وضاحت نہ ہو۔قرآن کی حدود(حدود اﷲ) کے اندر رہ کر ہی مسلمانوں کو باہمی مشورے اور اجماع کی اجازت ہے۔ یہ بات مدنظر رہے کہ قرآن نے ہمیں کچھ ابدی اُصول اور قوانین دئیے ہیں‘اُن میں کسی قسم کے ردّ وبدل اوراضافہ کی گنجائش نہیں۔ البتہ جزوی اُمور میں اجماع اور قیاس کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔اسلامی آئین کی یہی لچک اس کی جاذبیت اور قبولیت عامہ کی دلیل ہے۔جب کوئی ضابطہ قوانین بالکل جامد ہوجائے تو وہ زندگی کے متغیر اور نئے حالات کا ساتھ نہ دے کر اپنی اہمیت وقدر کھو بیٹھتا ہے۔اس لیے علامہ اقبال اس بات پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں کہ نئے حالات اور ’’سیاسی تجربات دور جدید کے مسلمانوں کے ذہنوںپر نظریہ اجماع کے امکانات اور قدر وقیمت مرتسم کر رہے ہیں‘‘۔ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور حقائق سے منہ موڑ کر سابقہ روش اور غیر اہم سیاسی نظریات سے چمٹے رہنا دانش مندی اور حقیقت پسندی کی علامت نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اسی لیے تو کہا تھا:۔ آئین نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اُڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموںکی زندگی میں (بانگ درا، کلیات اقبال،ص۱۷۴) علامہ اقبالؒ کی موجودہ زمانے سے بیزاری کی ایک وجہ مادہ پرستی بھی تھی۔وہ اسلامی تصور زندگی کی روشنی میں مادّہ وروح کی ثنویت اور چپقلش کے مخالف تھے کیونکہ اُنکی رائے میں زندگی کی اکائی ناقابل تقسیم ہے۔اسلامی نظریہ توحید کی رُو سے تمام کائنات میں وحدت کا اُصول کارفرما ہے جب ہم خدائے واحد کو اس کائنات کا خالق،رزاق اور مالک خیال کرتے ہیں تو پھر کسی اور ہستی کی حاکمیت کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے؟زندگی بذات خود ایک ایسی وحدت ہے جسے موت بھی ختم نہیں کرسکتی۔کائنات کی مادی تعبیر نے انسانوں کو اس قدر مادہ پرست، زر پرست، خود غرض،اخلاق ناآشنا اور انسان دشمن بنادیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کے اعلیٰ جذبات‘شرف آدم کے احساس اور اخلاقی حسِ سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔دور حاضر کا انسان اپنے علمی کمالات‘ سائنسی اکتشافات اور تسخیر کائنات کے باوجود قنوطیت‘ خوشگوار مستقبل سے مایوسی‘احساس تنہائی اور قلبی اضطراب اور کئی نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکا ہے۔کیا یورپی قوموںکے اکثر افراد دولت کی فرا وانی‘ بلند معیار زندگی اور زندگی کی گوناگوں آسائشات کے ہوتے ہوئے دلی بے سکونی‘ذہنی انتشار‘باہمی تصادم‘ معاشرتی ابتری اور اخلاقی دیوالیہ پن کے شاکی نہیں؟ کیا حد سے بڑھی ہوئی مادہ پرستی سے تنگ آکر وہ منشیات اور دیگر مذاہب کی طرف رجوع نہیں کررہے ہیں؟ کیا مشرقی ممالک بھی اُنکی پیروی کرتے ہوئے انہی الجھنوںکا شکار نہیں ہورہے ہیں؟ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال ؒیہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے:۔ آدمیت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ یورپ از شمشیر خو د بسمل فتاد زیرِ گردوں رسمِ لادینی نہاد مشکلات حضرت انساں ازوست آدمیت ر ا غمِ پنہاں ازوست در نگاہش آدمی آب وگلِ است کاروانِ زندگی بے منزل است (پس چہ باید کرد اے اقوام شرق،کلیات اقبال،ص ۸۳۹) لادینی افکار اور مادیت کے سبب نہ صرف یورپ خود’’بے منزل‘‘ اور اپنی تلوار سے خود گھائل ہوچکا ہے بلکہ اس مادہ پرستانہ اور بے خدا تہذیب وتمدن نے باقی انسانوں کو بھی مختلف مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔اس لیے علامہ اقبالؒ کائنات اور انسانی زندگی کی روحانی تعبیر پر زور دیتے ہوئے ہوئے بجا فرماتے ہیںکہ’’موجودہ زمانے کے لوگوں کو کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور روحانی بنیادوں پر انسانی سوسائٹی کو چلانے کے لیے ان اساسی اور آفاقی اُصولوں کی اشد ضرورت ہے جو انسانی معاشرت کو ارتقا پذیر بناسکیں۔اُنھیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ قومیت،لادین اشتراکیت اور قدیم قسم کی رہبانیت اور نفی ذات پر مبنی تصوف بھی مایوس اور پریشان انسانوں کی روحانی اور ذہنی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتے۔ قرآن حکیم نے آج سے صدیوں پہلے یہ کہا تھا:’’ اَلا بذِ کرِ اﷲِ تطمئن القلوب‘‘ (الرعد ۱۳:۲۸)( آگاہ ہوجائو کہ اﷲ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے)۔ جب دل ودماغ کو خدا ئی ذکر اور خدائی قربُ سے لاتعلق رکھا جائے تو اسکا لازمی نتیجہ بے چینی اور پریشانی کی صورت میں رونما ہوگا۔جب تک خدا ہماری آرزو اور ہماری جستجو نہیں بنے گا اس وقت تک ہماری زندگی سو زوسکون سے آشنا نہیں ہوگی۔بقول علامہ اقبالؒ: تجھ سے مری زندگی،سوز و تب ودرد وداغ تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۳۸۴) دین و سیاست (ا)’’ اسلام کے زاویہ نگاہ سے ریاست ان مثالی اُصولوں(مساوات، حّریت اور استحکام) کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے ۔گویا کہ یہ مساوات،حریت اور استحکام کو محضوص انسانی تنظیم میں متشکل کرنے کی آرزو ہے‘‘ (چھٹا خطبہ) (۲)’’ میری ذاتی رائے ہے کہ اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے کیونکہ اسلام میں تو روحانی دنیا اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ (ایضاً) (۳)’’ یہ بات درست نہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں ہیں۔اسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا‘‘ ( ایضاً) علامہ اقبالؒ کی اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ پر گہری نظر تھی۔وہ کسی تردید کے خوف کے بغیر اپنے اسلامی نظریات کی تبلیغ واشاعت کرنے کے عادی تھے۔اُن کی رائے میں اسلام محض عقائد اور عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں معاشرتی زندگی کے تمام اہم معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے ریاست کو ہماری اجتماعی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے؟ علامہ اقبالؒ کے دور میں ترکی میں دو سیاسی جماعتیں قوم پرست پارٹی اور مذہبی اصلاح کی پارٹی بڑی اور مقبول عام سیاسی تنظیمیں تھیں۔ قوم پرست پارٹی اس بات کی حامی تھی کہ سیاست اور ریاست کو دین ومذہب پر برتری حاصل ہونی چاہیے جبکہ دوسری جماعت ریاست وسیاست پر دین ومذہب کو ترجیح دینے کے حق میں تھی۔ان دو جماعتوں کو سامنے رکھ کر شاعر مشرقؒ علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا قول میں اپنے پختہ سیاسی عقیدے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے‘‘۔اُن کا کہناہے کہ اسلامی زاویہ نگاہ سے ریاست اور مملکت کا اّولین فرض اسلام کے مثالی اُصولوں خصوصاًمساوات‘ حریت اور استحکام ملّت کو عملی شکل دینا ہے۔دوسرے لفظوں میں مملکت ایک ایسی سیاسی تنظیم ہے جو اسلامی تعلیمات کے ان ارکانِ ثلاثہ(برابری‘آزادی اور استحکام) کو خارجی شکل میں پیش کرکے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نکھا راور ترقی کا باعث بنتی ہے۔اس لحاظ سے وہ بانی پا کستان محمد علی جناح کے نام ایک خط مورخہ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ "----The enforcement and development of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states" (Letters of Iqbal to Jinnah,p.18) وہ دین ومذہب کو کسی طرح بھی حکومت کے ماتحت رکھنے اور اسے ایک نجی معاملہ قرار دینے کے حق میں نہیں تھے۔ اسلامیعقیدہ توحید کی رُوسے مادہ وروح ‘جسم وجان‘ دنیا وآخرت اور سیاست ودین الگ الگ شعبہ جات حیات نہیں بلکہ وہ اسلامی تعلیمات کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں اور فکر وعمل کے مظہر ہیں۔اسلام محض عقیدہ نہیں بلکہ یہ سعی وعمل کا نام ہے۔ایمان اور عمل صالح کے باہمی ربط سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر فکر بے جان ہوتا ہے اور فکر کے بغیر عمل بے بنیادہوا کرتا ہے ۔جو مذہبی نظام قوت وطاقت سے محروم ہو وہ صرف فلسفہ بن جاتا ہے اور دین ومذہب سے عاری سیاسی نظام چنگیزیت اور استبداد کی شکل اختیار کرلیا کرتا ہے۔مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ نے اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا:۔ جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی حکومت خواہ فرد واحد کی ہو یا محضوص انسانوں کے گروہ کی وہ دین و اخلاق کے اعلیٰ اُصولوں،بلند اقدار اور انسانیت ساز سرگرمیوں کے بغیر ظلم،خود غرضی‘ ہوس زرِ اور استحصال کی سب سے بڑی علامت بن جاتی ہے جسے مٹانے کے لیے سوسائٹی میں کئی انقلابی طبقے پیدا ہوجاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒکی رائے میںاسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جسے تجزیہ و تقسیم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ذرا دیکھئے اُن کا یہ قول کس قدر بصیرت افروز اور حقیقت کشا ہے۔وہ بجا کہتے ہیں:’’ یہ بات درست نہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں ہیں‘‘ ۔دین اور سیاست کی یہ تفریق اور دُوئی دراصل عیسائیت سے نفور مغربی سیاست کا شاخسانہ ہے۔عیسائیت کی تعلیم کے عمیق مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس میں دنیوی زندگی خصوصاً سیاسی مسائل کے حل کاکوئی جامع نظام نہیں۔اس مذہب کے ماننے والے تو زیادہ تر رہبانیت کے پرستا ر تھے ۔اس لیے اُن کو دنیوی اور سیاسی مسائل سے کیسے گہری دلچسپی ہوسکتی تھی؟ اُنھوں نے اپنی ایک نظم’’دین وسیاست‘‘میں عیسائی رہبانیت اور مذہب ودین کی جدائی کے چند اسباب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تصورِ سیاست کی روشنی میں دین و سیاست کے حسین اور ہمہ گیر نظریے کو بیان کیا ہے۔ان دونوں مذاہب کا یہ تقابلی مطالعہ بڑا ہی حقیقت پسندانہ اور فکر انگیز ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سربلندی ہے یہ سر بزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیر ی ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری‘ ہوس کی وزیری دُوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دُوئی چشم تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری اس میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیّدی وارد شیری (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۱۰) دین ومذہب (۱)’’ وھائٹ ہیڈ کے بقول ’’دین اپنے اُصولوں کے لحاظ سے ان عام حقائق کا نظام ہے جنہیں اگر کامل خلوص کے ساتھ مانا اور واضح طور پر سمجھا جائے تو وہ ہمارے کردار کی کایا پلٹنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں‘‘۔ ( پہلا خطبہ) (۲)’’ دین وایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے‘‘ ( ایضاً) (۳)’’ دین ایک شعبہ جاتی معاملہ نہیں‘نہ ہی یہ محض فکر اور نہ ہی صرف جذبہ وتاثر ہے اور نہ یہ صرف عمل کانام ہے بلکہ یہ انسان کی مکمل زندگی کا اظہار ہے‘‘ ( ایضاً) (۴)’’ ینگ کا خیال ہے کہ مذہب کی ماہیت تجزیاتی نفسیات کے دائرہ عمل سے باہر ہے‘‘ (ساتواں خطبہ) (۵)’’ جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا‘‘ ( ایضاً) (۶)’’ مذہب کلی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اُسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ (دوسرا خطبہ) دین و مذہب کو ہماری انفرادی اورا جتماعی زندگی میں نمایاں حیثیت دیجاتی ہے۔ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ ان کے بغیر زندگی کی اعلیٰ قدریں‘ انسان دوستی کے زرّیں اُصول‘معاشرتی روابط کے گہرے احساسات اور خدا شناسی کے پاکیزہ جذبات بے بنیاد اور غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو حیرت ہوتی ہے کہ مذہب نے ہر دور میں لاتعداد انسانوں کے افکار واعمال اور سیرت وکردار کی تشکیل میں کتنا قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔اگر مذہب کے اُصولوں اور دین کے عقائد میں اتنی کشش اور دل پسندی کا غالب عنصر نہ ہوتا تو لوگوں کے دل ودماغ ہرگز ان کی طرف راغب نہ ہوتے اور نہ ہی وہ اپنے اپنے مذہب کے تحفظ وفروغ کے لیے جانی اور مالی قربانیاں دیتے۔اگر انسان کسی چیز پر اپنا مال اور جان نچھاور کرنے کے لیے تل جاتا ہے تو لازماً اس کی نظر میں وہ چیز اسے جان ومال سے زیادہ عزیز ہے۔کہا جاتا ہے کہ’’مال نثارِ جاں‘جاں نثارِ آبرو‘‘۔(مال جان پر قربان ہے اور جان آبرو پر نچھاور ہے)۔ جب انسان مذہب کی قربان گاہ پر مال اور جان کے علاوہ اپنی آبرو بھی قربان کردے تو پھر دین ومذہب کی ہمہ گیریت اور قدرتی جاذبیت میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔ ان اُمور کی روشنی میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان پروفیسر وہائٹ ہیڈ(۱۹۴۷۔۱۸۶۱) کے اس قول کی صداقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اگر دین ومذہب کے عام حقائق کو اچھی طرح سمجھ کر پورے خلوص کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جائے تو وہ انسانی کردار کی کایا پلٹنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے نظریہ مذہب کے پردے میں دراصل اپنے تصور دین کی تائید وحمایت کی ہے۔اُن کے خیال مین دین ایک پرائیویٹ اور جزوی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مکمل زندگی کا اظہار ہے جس میں محض خیال اور جذبہ شامل نہیں بلکہ اس کا عمل پر بھی انحصار ہوتا ہے۔فلسفہ اورشاعری ہماری زندگی کی مکمل رہنمائی نہیں کرسکتے کیونکہ فلسفہ کی صرف خیالات اور شاعری کی الہام اور جذبات پرستی پر بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دین ہمارے خیالات اور احساسات کے علاوہ ہمارے اعمال کی بھی شیرازہ بندی کرکے کامل ہدایت وفلاح کا ضامن بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے دین اسلام کی اس بے مثال اور عالمگیر وحدت کو اپنے خطبہ الہٰ آباد میں یوں بیان کیاہے:۔ "In Islam it is the same reality which appears as the church looked at from one point of view and the state, from another. It is not true to say that the church and the state are two sides or facets of the same thing" مذہب نہ صرف فرد کی منتشر قوتوں کو متحد ومنظم کرتا ہے بلکہ وہ افراد ملت کے لیے بھی موثر اور پائیدار ذریعہ ثابت ہوتا ہے جیسا کہ شاعر مشرق ؒ اپنی نظم’’فردوس میں ایک مکالمہ‘‘ میں کہتے ہیں: مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی دیں زخمہ ہے،جمعیت ملت ہے اگر ساز بنیاد لرز جائے جو دیوار چمن کی ظاہر ہے کہ انجام گلستان کا ہے آغاز (بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۴۵) علامہ اقبالؒ کی رائے میں اسلامی حقائق اور قرآنی معارف کو سمجھنے کے لیے عقل وخرد کے استعمال کی اجازت ہے مگر عقل کو لازمی طور پر الہامی صداقتوں کا آخری اور یقینی معیار قرار نہیں دیا گیا۔عقل انسانی حقیقت مطلقہ کے ظاہری اور خارجی پہلوئوں کے انکشاف کا ایک اہم وسیلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے بار بار مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر زور دیا ہے۔عقل اپنے علم کے لیے ظاہری حواس اور مادی دنیا کے مظاہر پر انحصار رکھتی ہے اور وہ خیال آرائی اور ظن وقیاس سے کام لیتی ہے۔اس کے برعکس دین وایمان کا خارجی عالم کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور باطنی دنیا کے ساتھ بھی۔علاوہ ازیں یہ خیال آرائی اور شکوک وشبہات کا حامل نہیں ہوتا۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ کوئی انسان بھی محض خیال پرستی اور ظن وتخمین پر اپنی زندگی کی زیادہ عرصہ تک بنیاد نہیں رکھ سکتا؟اگر وہ ایسا کرے تو وہ یقینی اور حتمی افکار اور ٹھوس اعمال سے محروم ہوکر صحیح منزل حیات سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ عقل انکشاف حقیقت کے لیے بڑی دیر لگاتی ہے اور یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ آخر میں حقیقت کو پاسکے۔علامہ اقبالؒ ظن وتخمین پر مبنی عقل کی راہنمائی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اپنی مختصر نظم’’وحی ‘‘ میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:۔ عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن وتخمیں تو زبوں کارِ حیات (ضرب کلیم،کلیات اقبال، ص۵۰) سائنس اور مذہب کی آویزش کا معاملہ اہل دانش سے مخفی نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ مسئلہ اہل کلیسا اور سائنس دانوں کے درمیان وجہ نزاع بنارہا۔ بعد میں اسے مسلمانوں کے درمیان بھی موضوع بحث بنایا گیا۔علامہ اقبالؒ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اور حقیقت رسی کے منکر نہیں ہیں لیکن وہ اسے کلی حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔اُنکی رائے میں مادی دنیا کے خارجی اور حّسی پہلوئوں کا عمیق مطالعہ اور گہرا مشاہدہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں کیونکہ قرآن حکیم کی لاتعداد آیات میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اسی قرآنی تعلیم کا لازمی اور منطقی نتیجہ تھا کہ ہمارے متقدمین نے مختلف علوم وفنون میں حیرت انگیزنظریات پیش کئے جو بعدازاں یورپی ترقی کا سبب بنے تھے۔سائنس صرف ظاہری دنیا کو لائق توجہ قرار دیتی ہے مگر اسلام باطنی دنیا کو بھی قابل قدر تصور کرتا ہے۔سائنس حقیقت شناسی کا محض جزوی پہلو ہے لیکن اسلام تو حیات انسانی کے مختلف گوشوں پر محیط ہے۔اسی لیے علامہ اقبالؒ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسلام کے ٹھوس حقائق کو سائنس کے جزوی نقطہ نگاہ سے ڈرنے کی قطعاًضرورت نہیں۔وہ تو قرآنی حقائق کو آنے والے ادوار کا بھی پیش رو خیال کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں قطعی اور ناقابل تردید معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ وہ قرآن کو سائنسی حقائق کا معیار اور راہنما خیال کرتے ہیں۔اُن کا مندرجہ ذیل شعر قرآنی صداقتوں کے امین مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے:۔ صد جہانِ تازہ در آیاتِ اُوست عصر ہا پیچیدہ در آنات اُوست (جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص۶۵۴) کارل ینگ(۱۹۶۱۔۱۸۷۵) سوئٹزرلینڈ کا شہرہ آفاق نفسیات دان تھا جس نے ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶) کے ساتھ مل کر تجزیاتی نفسیات کی بنیاد ڈالی تھی۔ علامہ اقبال ؒنے ینگ کے اس نظریے سے کامل اتفاق کیا ہے کہ تجزیاتی نفسیات دین ومذہب کی ماہیت اور کنہ سے ناواقف ہے۔مذہبی مشاہدات اور وجدانی کیفیات کا تعلق اگرچہ انسان کے باطن یعنی روح‘ دل اور دماغ سے ہے تاہم وہ نفسیاتی تجزیے کے دائرہ عمل سے باہر ہیں۔ ماہرین نفسیات ہمارے افکار وخیالات کو جاننے کی کوشش میں ہمارے اعمال اور ظاہری حرکات وسکنات کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ وجدان اور مذہب جس طرح انسان کی شخصیت میںحیرت انگیز انقلاب پیدا کرتے ہیں وہ جدید نفسیات دانوں کے ادراک میں ابھی تک نہیں آسکے۔ علامہ اقبالؒ اس ضمن میں بندہ مومن کی نگاہ اور مرد حق کی صحبت کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دراصل اسی نفسیاتی وانقلابی معجزے کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ؎ من نمے دانم چہ افسوں می کند روح را درتن دگرگوں می کند ؎ نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں رسول کریم ﷺ (۱)’’ پیغمبر اسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وہ اپنے وحی کے سرچشمے کے اعتبار سے عالم قدیم سے متعلق ہیں۔ لیکن جہاں تک اُن کی وحی کی سپرٹ کا تعلق ہے ۔وہ عصر حاضر سے مربوط ہیں۔اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے لیے مناسب علوم کے نئے نئے سرچشمے دریافت کئے ہیں۔ دراصل اسلام کاظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) رسول کریم ﷺ کی نبوت کسی ایک دور یا کسی ایک انسانی گروہ تک محدود نہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے اُن کو’’ ر حمت العٰلمین ‘‘ بنا کر بھیجا تھا۔اب قیامت تک نبی کریمؐ کی نبوت کی حکمرانی رہے گی۔ اب کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دو اہم اُمور… رسالت محمدیؐ میں وحی کے سرچشمے کی قدامت اور اس کی جدید اور ابدی حیثیت، کو بیان کیا ہے۔اُنھوں نے رسول کریمؐ کی ذات گرامی کو قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان ایک مقام اتصال قرار دیتے ہوئے اُن کی رسالت ونبوت کی ہمہ گیر اہمیت اور عظمت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کے خیال میں پیغمبر اسلام اپنی وحی کے سرچشمے کی بدولت قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہادی اعظمؐ نے دوسرے انبیاء ورسل ؑ کی طرح خدا کی طرف سے الہام ووحی کے ذریعے پیغام ہدایت حاصل کرکے لوگوں کو توحید کا انقلاب آفریں درس دیا تھا۔سابقہ انبیائے کرام ؑ بھی اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو توحید کا پیغام سناتے رہے تھے۔وحی والہام کا یہ اشتراک حضرت محمد ﷺ کو گزرے ہوئے نبیوں سے ملا دیتا ہے۔اس زاویہ نگاہ سے اُن کی وحی کا سرچشمہ بھی وہی تھا جہاں سے سابقہ انبیائے کرامؑ فیض ربانی حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ تو نبوت محمدی ﷺکا ایک پہلو ہے۔اسکا دوسر اپہلو یہ ہے کہ ختم نبوت نے رسول کریمؐ کے پیغام اور سیرت طیبہ پر ابدیت اور آفاقیت کی مہر ثبت کردی ہے۔اب موجودہ دور ہو یا آنے والے ادوار ان سب میں رسالت محمدیؐ آخری سند کا درجہ رکھے گی۔ جس طرح محسن انسانیتؐ کی نبوت آخری ہے۔اسی طرح قرآن حکیم بھی تمام انسانوں کے لیے آخری کتاب ہدایت کی حیثیت کا حامل ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس امر کی مزید صراحت ان اشعار میں کی ہے:۔ دین فطرت از نبیؐ آمو ختیم در رہِ حق مشعلے افر و خیتم پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولؐ ما رسالت ختم کرد رونق ازما محفل ایّام را اُو رُسل را ختم و ما اقوام را خدمت ساقی گری باما گذاشت داد مارا آخریں جامی کہ داشت ( رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۰۲) علامہ اقبالؒ نے اپنے قول میں یہ بھی کہا ہے کہ رسو ل خداؐ کی بدولت’’زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے لیے مناسب علوم کے نئے سرچشمے دریافت کئے ہیں۔دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ ختم نبوت کے عقیدے کی عملی اور ثقافتی قدر وقیمت یہ ہے کہ اب کوئی شخص بھی وحی والہام کے پردے میں اپنی ذاتی رائے ٹھونس نہیں سکتا۔ انسانیت جب عہد طفولیت میں تھی تو اس وقت وہ بچے کی مانند نبوت کی انگلی پکڑ کر چلنے پر مجبور تھی لیکن جب وہ بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئی تو اسے اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کی تلقین کی گئی۔ نبی کریمؐ کی نبوت کی تکمیل دراصل اس بات کی شاہد ہے کہ اب انسانوں کو آپؐ کی نبوت کی روشنی میں اپنے نت نئے مسائل اور حالات کو اپنی عقلی استعداد کی بدولت سمجھ کر حل کرنا ہوگا۔اب کوئی انسان وحی والہام کا سہارا لے کر انسانی عقل وفکر کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا۔اسی عقل خداداد سے کام لے کر مسلمانوں نے نئے نئے علوم کے باب کھولے اور استقرائی عقل کی افادیت کو ظاہر کیا۔علامہ اقبالؒ رسالت محمدیہ ؐکے چند پہلوئوں پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:۔ ؎ تاز ہ جاں اندر تن آدم دمید بندہ را با ز از خداونداں خرید زا دنِ اُو مرگ دنیائے کہن مرگ آتش خانہ و دیر دشمن حریت زاد ازضمیر پاکِ اُو ایں مئے نوشیں چکید از تاکِ اُو نقش ِنو بر صفحہ ہستی کشید اُمّتے گیتی کشائے آفرید (رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۰۴) اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریم ؐ کی بعث نے مجبور ومحکوم انسانوں کو کئی چھوٹے چھوٹے خدائوں اور آقائوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے واحد کا پرستار بنایا اور قدیم باطل نظریات کے خرمن کو جلا کر راکھ کردیا ہے۔ جب اُن کی نبوت کے طفیل انسانوں کو آزادی فکر نصیب ہوئی تو مسلمانوں نے علمی کمالات کے فیضان سے دوسری قوموں کو بھی متمتع کیا۔جدید دور کی ذہنی بیداری اور فکری آزادی اصل میں ہادی اعظمؐ کی نبوت ورسالت کا فیض ہی تو ہے۔اسی طرح زمانہ تاریک کے گمراہ کن نقوش کو مٹا کر زندگی کی راہ کو رشک کہکشاں بنادیا گیا اور ایک عالمگیر اُمت معرض وجود میں آگئی۔علامہ اقبالؒ کے ان ولولہ انگیز اور حقیقت کشا اشعار سے عشق ِرسول ﷺ کی فکری شدت کا پتہ چلتا ہے۔ روحانیت (۱)’’ جوہر صفت حیات کو حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ (تیسر اخطبہ) (۲)’’ اسلام میں روحانی اورمادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ ( چھٹا خطبہ) (۳)’’ آجکل بنی نوع انسان کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔کائنات کی روحانی تعبیر‘ فرد کی روحانی آزادی اور روحانی بنیادوں پر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بناے والے اساسی اور عالمگیر اُصول‘‘ (ایضاً) خدا تعالیٰ کائنات کی ہر ظاہری اور پو شیدہ چیز کی تخلیق کا باعث ہے۔نو رایزدی ہی کی کرنوں نے تمام روحوں کو پیدا کرکے یہ فرمایا تھا:’’ الستُ برِبکّم قالُوا بلیٰ‘‘ (الاعراف ۷:۱۷۲) (کیامیں تمھارا پرودگار نہیں ہوں؟ سب ارواح نے مل کر جواب دیا کہ ہاں تو ہی ہمارا پرودگار ہے)۔روح کی تخلیق کے بارے میں دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب خیال کے حامیوںکی رائے میں روح دراصل مادّے ہی کی لطیف تر شکل ہے۔اس کے برعکس دوسرے مکتب خیال کے علم بردار روح کی اصل غیر ماد ی سمجھتے ہیں۔پہلا گروہ روح کو مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ روح کو روحانی انداز سے بیان کرتا ہے۔جہاں تک علامہ اقبالؒ کے تصورِ روح کا تعلق ہے وہ روحانیت پر مبنی ہے۔تاریخ فلسفہ سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی مفکرین خصوصاً ارسطو اور اس کے پیروکار کائنات کو ازلی اور ابدی تصو رکرکے اس کی تغیر پذیری اور ارتقا پسندی کے مخالف تھے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات پہلے سے بنائی ہوئی ہے اس لیے اس میں مزید تخلیق کی ضرورت نہیں۔ علامہ اقبالؒ چونکہ کائنات کے حرکی اور ارتقائی نظریے کے قائل تھے ۔بنا بریں وہ ان جمود پسند یونانی مفکرین کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔یونانی مفکرین کی تردید کرتے ہوئے اشاعرہ نے کائنات کی حرکت پذیری اور خدائی خلاقی صفت کے دوام کو ثابت کرنے کے لیے جوہریت (Atomism)کا تصور دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جوہر (ناقابل تقسیم ذرّہ) معرض وجود میں آنے سے قبل خدا کی خلاقی صفت میں پوشیدہ ہوتا ہے اور خدائی عمل تخلیق اسے نیست سے ہست بنادیتا ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ جواہر کے حرکی اور ارتقائی پہلو کی تو تعریف کرتے ہیں لیکن وہ اسے مادّیت کی شکل قرار دیتے ہوئے اس کے مادی پہلو پر تنقید کرتے ہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ کا خیال یہ ہے کہ اسلام میں مادہ وروح کی ثنویت موجود نہیں کیونکہ روح کا خارجی پہلو زمان ومکان میں آکر مادّہ دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہ روح کا محض مکانی اور زمانی پہلو ہے۔قرآن حکیم کا اس بارے میں ارشاد ہے:’’ ونفخ فیہ منِ رُوحہ‘‘(السجدہ ۳۲:۹) (اور اس میں خدا نے اپنی روح میں سے پھونکا)۔روح انسانی کا مصدر ومنبع چونکہ خدا ہے اس لیے وہ غیر مکانی‘ غیر زمانی‘ غیر مادی ‘نادیدنی اور ابدی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندر جہ بالا قول میںاس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے:’’ جوہر صفت حیات کو حاصل کرنیکے بعد مکانی نظر آتا ہے۔اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ وہ اپنی ایک رباعی میں مادیت پر تنقید اور روحانیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ترا تن روح سے ناآشنا ہے عجب کیا آہ تیر ی نارسا ہے تن بے رُوح سے بیزار ہے حق خدائے ز ندہ زندوں کا خدا ہے (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۳۸۲) وہ اپنی ایک فارسی رباعی میں قدرے فرق کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:۔ تو می گوئی کہ آدم خاک زاد است اسیر عالمِ کون و فساد است ولے فطرت ز اعجازے کہ دارد بنائے بحر بر جویش نہاد است ( پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۶۶) اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ توحید کا تصور ہے جس کی رُو سے مادہ وروح، دنیا ودین، جسم و جاں، دین وسیاست ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے:’’ اسلام میں تو روحانی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ دین اور دنیا کو ایک دوسرے سے جدا اور لاتعلق ظاہر کرنا تو ان مذاہب کی تعلیم ہے جن کی بنیاد ثنویت اور رہبانیت پر ہے۔عیسائیت کی اصل تعلیم تو قرآن کے مصداق رہبانیت نہ تھی مگر عیسائی علما نے اپنے ذاتی مفاد،اقتدار پرستی اور زر طلبی کے لیے اس تعلیم کو بدل کر رہبانیت کی شکل دے دی جو بعد ازاں اس مذہب کی پہچان بن گئی۔ انسانی ذات کی نفی کرنے والے مذاہب نے اس مادی اور حقیقی دنیا کو سراب، نظر کا دھوکہ اور مایا قرار دے کر لوگوں کا استحصال شروع کردیا تھا۔اس منفی نظریہ زندگی کے برعکس اسلام نے اس خارجی دنیا کو بھی حقیقی کہا اور ہمیں اسکی بھلائی مانگنے کا بھی درس دیا۔رسول برحقؐ نے اس دنیا کو آخرت کی کھیتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا تھا’’ الّدینا مزرعتہ الاخِرۃ‘‘ (دنیا آخر ت کی کھیتی ہے )۔اس لحاظ سے دنیا میں ہم جو کچھ کریں گے اس کی سزا اور جزا آخرت میں پائیں گے۔اسلام کی تعلیمات تو موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک ا ہم مرحلہ خیال کرکے تسلسل حیات کی دلالت کرتی ہیں۔جسے ہم مادی دنیا کہتے ہیں وہ اصل میں حقیت مطلقہ کا خارجی مکانی اور زمانی پہلو ہے۔علامہ اقبالؒ اس روحانی اور مادی دنیا کے باہمی ربط کو اپنے محضوص فلسفیانہ رنگ میں یوں بیان کرتے ہیں:۔ "All this immensity of matter coustitutes a scope for the self- realization of spirit" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.155) علامہ اقبالؒ مادہ پرستی،عقلیت،قومیت،وطینت،ملوکیت، اشتراکیت، سرمایہ داری اور لادینیت کو دور حاضر کے انسانوں کی پریشانیوں،اُلجھنوں،باہمی جنگوں اور اخلاقی برائیوں کا ذمہ دار خیال کرتے تھے۔اُنھوں نے ساری عمر انسانیت سوز،استحصالی۔ظالمانہ اور تخریبی نظامہائے فکر وعمل کی شدید مذمت کی تھی۔اُن کی رائے میں جب تک انسان خدائی آئین اور انسانی قدروں کی پابندی نہیں کرتے وہ ہرگز خوشگوار اور پرامن زندگی بسر نہیں کرسکتے۔اس کے لیے وہ روحانی اقدار خصوصاً اسلام کے حیات بخش‘تعمیری اور انقلاب آفریں اُصولوں کو لازمی خیال کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ فرد کی روحانی آزادی اورروحانی بنیادوںپر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بنانے والے اساسی اور عالمگیر اُصولوں کی اہمیت کے زبردست قائل تھے۔ اُنھوں نے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو دنیا کے بھیانک حالات اور انسانی تذلیل پر اظہار افسوس کیا اور نام نہا دسیاست دانوں کو مطعون کرتے ہوئے کہا تھا:۔ "The so-called statesmen to whom government and leadership of men was entrusted have proved demons of bloodshed, tyranny and oppression" (S.A. Vahid,Thoughts and Reflections of Iqbal,p.373) اس نشری تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دور حاضر کی بربریت اور استبداد سے کس قدر نالاں تھے۔اُنھوں نے بجا ہی کہا تھا کہ آجکل بنی نوع انسان کو روحانیت اور انسانیت کی شدید ضرورت ہے:۔ ع: قیامت ہے کہ انساں نوع کا شکاری ہے (اقبالؒ) زمان (۱)’’ جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کیساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زمانِ مسلسل کے عدمِ حقیقت کا احساس ہوتا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) (۲)’’ وہ نظریہ جو وقت کو مکان کا چوتھا بُعد قرار دے وہ لازماً ماضی کی طرح مستقبل کو بھی پہلے سے متعین سمجھے گا… آئن سٹائن کے اس تصور کو پڑھ کر یہ حقیقت نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ اس کا وقت برگساں کے زمان کی مانند مرورِ خالص نہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر وقت کو مکان کا چوتھابُعد خیال کیاجائے تو وہ حقیقت میں وقت نہیں رہتا‘‘ (دوسرا خطبہ) (۳)’’ وقت کے بغیر مسلسل تغیر وتبدل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ہم اپنے باطنی تجرنے کی مثا ل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ شعوری زندگی کا مطلب ہے حیاتِ فی الّزمان‘‘ (ایضاً) (۴)’’ یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ وقت کے بغیر حرکت کا تصور ناممکن ہے اور چونکہ وقت کو نفسی زندگی جنم دیتی ہے اس لیے وقت حرکت سے زیادہ اساسی ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) تصوف ا ور معرفت کی راہ پر گامزن ہونے والوں کی زندگی کا عظیم ترین نصب العین خدا تعالیٰ کا قرب ووصال ہے۔اس خدائی تقرب اور گہری وابستگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ مختلف مراحل ومراتب سے گزر کر وہاں پہنچا کرتے ہیں۔ جب اُنھیں کائنات کی حقیقت مطلقہ اور روح الارواح یعنی خدا تعالیٰ کا وصل نصیب ہوجاتا ہے تو اُن کی زندگی کے اعلیٰ مقصد کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ایسے عالم میں وہ اپنے آپ کو فنا فی اﷲ تصور کرکے خدائی صفات کے حامل ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے وہ دنیا ومافیہا سے لاتعلق ہوکر اس کے ظاہری اثرات کو بھی بھول جاتے ہیں۔خود فراموشی کی ایسی حالت میں صوفی کو یہ احساس بھی ہوجاتا ہے کہ زمان ومکان اس کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے صوفیاء کی اس حالت جذب پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا ہے کہ خدا کی ذات سرمدی سے واصل ہونے کے وقت صوفی کو شب وروز کے تسلسل اور لیل ونہار کی گردش کی حقیقت کا کوئی احساس نہیں ہوتا حالانکہ عام انسان اس وقت زمان ومکان کی حدود سے اپنے آپ کو باہر خیال نہیںکرتے۔علامہ اقبالؒ اپنے مندرجہ ذیل شعر میں زمان ومکان کی پابند عقل اور لازمانی عشق کی واردات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎خرد ہوئی ہے زمان ومکاں کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ اِلّا اﷲ یہ شعر بھی ایسے صوفیاء کے تصور زمان مسلسل کا بخوبی آئینہ دار بن جاتا ہے۔شاعر مشرق کا یہ قطعہ بھی زمان کے خارجی پہلو کی عکاسی کرتا ہے: جہانِ ما کہ پایا نے ندارد چوماہی دریمِ اّیام غرق است یکے بردل نظر واکن کہ بینی یمِ اّیام دریک جام غرق است (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۱۷) آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۱۸۷۹) مشہور امریکی ماہر طبیعیات تھا۔وہ اگرچہ جرمنی میں پیدا ہوا تھا تاہم اس نے بعد ازاں امریکی شہریت حاصل کرلی تھی ۔اس لیے اُسے امریکی سائنس دان ہی تصور کیا جاتا ہے۔اس کا نظریہ اضافیت سائنسی اور فلسفیانہ لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اُس کی رائے تھی کہ کسی چیز کے وجود اور اہمیت کا دارو مدار دیکھنے والے کی حالت اور خیال پر ہوا کرتا ہے۔ اس لیے اس چیز کا بذات خود کوئی وجود نہیں۔آئن سٹائن سے قبل ایک نامور انگریز طبیعیات دان نیوٹن(۱۷۲۷۔۱۶۴۲) نے مادے(matter) کو خلا میں واقع ایک مستقل بالّذات شے قرار دیا تھا۔آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اس قدیم تصورِ مادہ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔اب مادہ خود کوئی مستقل وجود رکھنے والی چیز نہیں رہا۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں آئن سٹائن کا یہ علمی کارنامہ بہت بڑا انقلاب ہے کیونکہ اس نے مادیت کے پرانے نظریے کا ابطلال کردیا ہے۔اس کے باوجود اُنھیں آئن سٹائن کے نظریہ زمان سے اتفاق نہیں۔ آئن سٹائن نے وقت کو مکان کاچوتھا بُعدقراردے کرعلامہ اقبالؒکی رائے میںبے حقیقت بنادیا ہے۔ مکان(space) کے ابعاد ثلاثہ(طول،عرض اور گہرائی) کی طرح اگر زمان(time) بھی اس کا جزو بن جائے تو پھر وہ ماضی کی طرح متعین مستقبل کا حامل ہوکر حرکت وارتقاسے عاری ہوجائے گا۔اقبالیات سے شغف رکھنے ولے حضرات سے یہ امر مخفی نہیں کہ حرکت وارتقا کو علامہؒ کے فکری نظام سے خاص ربط ہے۔وہ تو حرکت وعمل کو زندگی کی نمایاں ترین خوبی خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے و ہ زندگی روحِ اُمم کی حیات ،کشمکش انقلاب ع: ہستم اگرمی روم،گرنروم نیستم (اگر میں حرکت کروں تو میں زندہ ہوں وگرنہ میں مردہ ہوں) قرآن حکیم نے زمانے کی حرکت اور تبدیلی کی اہمیت کو اپنے ان فکر انگیز اوردائمی الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ تِلک الاّیام نُدا ولھاِ بین النّاس‘‘(آل عمران۳:۱۴۰)( ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتے رہتے ہیں)۔ مشہور فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں (۱۹۴۱۔۱۸۵۹) نے اپنے اُصول ارتقا کی بنیاد پر زمانے کو ارتقا پذیر اور حرکی قرار دیا تھا۔مزید برآں اس نے اسے ناقابل تقسیم اور تخلیقی بھی کہا تھا ۔اس لیے علامہ اقبالؒ نے وقت کو چوتھا بُعد بنانے پر تنقید کی اور برگساں کے حرکی‘تخلیقی اور ارتقا پذیر نظریہ وقت کو سراہاہے۔ وقت اور انسانی زندگی کا آپس میںبہت گہرا تعلق ہے۔وقت کے سبب ہی یہاں ہر لمحہ نئے نئے واقعات اور انقلابات آتے رہتے ہیں۔اس لحاظ سے علامہ اقبالؒ کا یہ کہنا کس قدر حقیقت افروز ہے:’’ وقت کے بغیر مسلسل تغیر وتبدل کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اگر غور کیاجائے تو پتہ چلے گاکہ ہماری زندگی دم بدم وقت کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ یہ ’’حیات فی الزماں‘‘ یقینا ہماری شعوری زندگی کی ترجمان اور مقصد کوش ہے۔اس زاویہ نگاہ سے وقت کے بغیر نہ تو کسی تبدیلی کا تصور کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی حرکت کا۔ چونکہ وقت تبدیلی اور حرکت کا باعث بنتا ہے اس لیے وہ حرکت اور تبدیلی سے زیادہ اساسی ہے۔علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اشعار وقت کی انہی صفات پر روشنی ڈالتے ہیں۔وہ اپنی نظم’’ ساقی نامہ میں کہتے ہیں: دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی فریب نظر ہے سکون وثبات تڑپتا ہے ہر ذرّہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان ِوجود کہ ہر لحظ ہے تازہ شانِ وجود (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۱۸۔۴۱۷) (۵)’’قرآن حکیم میں ایسی آیات موجود ہیں جو ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتی ہوئی شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں۔دور حاضر کے مفکرین میں سے صرف برگساں ہی ایسا مفکر ہے جس نے مرورِ خالص کے مظہرکا عمیق مطالعہ کیا ہے‘‘۔ (دوسرا خطبہ) (۶)’’ قرآن مرورِ خالص کے مسلسل اور غیر مسلسل پہلوئوں کیطرف اپنے مخصوص سادہ انداز میں اشارہ کرتا ہے۔ اگر ہم تخلیق کے عمل میں مخفی حرکت پر خارج سے نظر ڈالیں یعنی ہم اس کا عقلی طور پر ادراک کریں تو پھر یہ ہزاروں سالوں پر مشتمل طریق کار معلوم ہوتا ہے۔اس کے برعکس اگر ہم باطنی طور پر اس طریق تخلیق پر نگاہ ڈالیں جو ہزاروں سالوںپر منحصر ہے تو یہ واحد ناقابل تقسیم عمل دکھائی دیتا ہے اور یہ چشم زدن میں وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ مرور ِ خالص کے اس باطنی تجربے کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے‘‘ (ایضاً) (۷)’’ وقت کی ماہیت کو سمجھنے میں خالصتاً معروضی زاویہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں صحیح طریق یہ ہے کہ ہم اپنے اُن شعوری تجربات وواردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لیں جو وقت کی اصلیت کوظاہر کرتے ہیں‘‘ ( تیسرا خطبہ) گردش شمس وقمر کی بدولت معرض وجود میں آنیوالا وقت صدیوں‘سالوں‘مہینوں‘ہفتوں اور دنوں میں تقسیم ہوجاتا ہے لیکن حقیقی وقت کو اس طرح تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔جس طرح حصول علم کے لیے مطالعہ کائنات کے ساتھ ساتھ مطالعہ باطن بھی لازمی ہے اسی طرح وقت کو بھی خارجی اور داخلی پہلوئوں کا آئینہ دار خیال کیاجاتا ہے۔خارجی وقت کو ہم زمان مسلسل،مرورِ زماں، جوہری وقت، غیر حقیقی، سطحی، تقسیم پذیر اور مکانی وقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعینہٖ ہم باطنی وقت کو زمان غیر مسلسل، زمانِ ایزدی، زمان خالص،حقیقی،تقسیم ناپذیر اور لامکانی جیسے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔قرآن حکیم کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ دو پہلو رکھتا ہے ۔خارجی اور باطنی،انسانی ا ور ایزدی۔شب وروز کے بندحصاروں میں گرفتار انسان وقت کے خارجی پہلوئوں کو ہی اصلی اور اہم سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقی وقت لیل ونہار کی گردش کی گرفت سے بالکل آزا دہے۔خارجی وقت میں تواتر وتسلسل کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس باطنی وقت میں واقعا ت وحوادث ایک’’ابدی لمحہ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن حکیم نے آفاق اور انفس دونوں کو لائق مطالعہ اور قابل مشاہدہ کہا ہے۔اس لحاظ سے خالق ارض وسماوات اپنی حکمت اور قدرت کی نشانیاں ظاہری دنیا میں بھی دکھاتا ہے اور باطنی دنیا میں بھی۔ ایک شمارِ وقت تووہ ہے جس سے ہمارا شعور آشنا ہے اور دوسرا وقت وہ ہے جس کے امکان کو ہمارے شعور کی دیگر نامعلوم سطحیں ظاہر کرتی ہیں۔کیا انسان پر ایسا وقت نہیں آیا جبکہ اس کا کوئی ذکروجود ہی نہیں تھا۔یہ قرآنی آیت اس امر کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتی ہے’’ھل اتیٰ علی الاِ نسان حینُ مّن الدھرِلم یکن شیئا مّذکورا‘‘(الدھر ۷۶:۱) خارجی وقت کو تو ہم عقل وشعور کے ذریعے محسوس کرتے ہیں مگر باطنی وقت کو بقول برگساں ہم وجدان کے ذریعے محسوس کرسکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک فارسی نظم’’پیغام برگساں‘‘ میںفرانس کے مشہور ومعروف فلسفی کی عظیم شخضیت اور اس کے نظریہ زمان کے چند گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا: تابر تو آشکار شود رازِ زندگی خودرا جدا ز شعلہ مثالِ شرر مکن بہر نظارہ جز نگہِ آشنا میار در مر ز و بومِ خود چوں غریباں گذر مکن نقشے کہ بستہٰ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ دلِ است (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۳۷۷) شاعر مشرقؒ کا ایک اور شعر عقل پر عشق کی ترجیح اور عشق کی حقیقت کشائی کی یوں ترجمانی کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں: ؎ رہِ عاقلی رہا کن کہ باوُ تواں رسیدن بدلِ نیاز مند ے، بہ نگاہِ پاکبازے (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۳۲۰) قرآن پاک میں انسانی تصورِ زمان اور زمانِ ایزدی کی ماہیت کے صحیح ادراک میں واضح تفاوت کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خدا کا ایک دن ہمارے عام ہزاروں سالوں کی مقدار کے برابر ہے۔وہ قرآنی آیت یہ ہے:’’یوم کان مُقداررُہ‘ الف سنتہ مّما تَعُدون‘‘ (۵:۳۲)(خدا کے ایک دن کی مقدار تمہاری گنتی کے ہزارسالوں کے برابر ہے)۔ایک او ر قرآنی آیت ہے(۴:۷۰) میں ’’خدائی یوم‘‘ کوپچاس سالوں پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اگر ہم خدا کے تخلیقی عمل پر خارج سے نظرڈالیں یعنی ہم اس کا عقلی طور پر ادراک کریں تو پھر یہ عمل ہزاروں سالوں پرپھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔وقت کا یہ عقلی اور شعوری ادراک ایک لمبی مدت پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے علی الرغم اگر ہم اس تخلیقی عمل پر باطنی انداز سے نگاہ ڈالیں تو یہ طریق ایک واحد، ناقابل تقسیم اور فوری واقعہ معلوم ہوتا ہے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ ’’جب خالقِ کائنات کسی شے کو پردئہ عدم سے منّصئہ شہود پر لانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس شے سے کہتا ہے کہ’’کُن‘‘ (ہوجا) تو وہ شے فوراًہی لباسِ وجود سے آراستہ ہوجاتی ہے‘‘۔ہم انسانوں کو اشیا بنانے کے لیے کافی وقت لگتا ہے مگر خدا کے لیے لمبی مّدت درکار نہیں ہوتی۔ ہم مخلوق ہیں اور وہ ہمارا خالق ہے۔اس لیے مخلوق کے طریق تخلیق اور خالق کے عملِ تخلیق میں لازماً فرق ہونا چاہیے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کی اس فوری اور حیرت انگیز خلاقی صفت کو ان الفاظ میں بیان کرتاہے’’ واِذا قضٰی امراً فاِ نّما یقُول لہ‘کُن فیکُون‘‘(آل عمران ۳:۴۷)( جب وہ کسی ’’امر‘‘ کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اُسے کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے )۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ عالم امر میں اشیا بے صورت رہتی ہیں لیکن جب وہ عالم خلق میں آتی ہیں تو اُنھیں صورت عطا کی جاتی ہے۔خدا حجاب میں ہونے کے باوجود بے حجاب ہونے میں لذت محسوس کرتا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: ؎ حقیقت روئے خود را پردہ باف است کہ او را لذّتے در انکشاف است ( زبو عجم،کلیات اقبال،ص ۵۴۷) علامہ اقبالؒ کے نقطہ نظر سے وقت کی اصلیت کو جاننے کے لیے خالصتاً معروضی یا خارجی طریق فہم بھی مفید اور ضروری ہے لیکن یہ ہمیں پوری حقیقت سے آگاہ نہیں کرتا۔ یہ عقلی طریقہ’’چراغ راہ‘‘ تو ضرور ہے مگر اسے’’منزل‘‘قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ وقت کی ماہیت کو ظاہر کرنے والے شعوری تجربات وواردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لینا چاہیے۔لامکان میں مکانیت کی متلاشی اور مہ وسال کی زنجیروں میں اسیر عقل کو چاہیے کہ وہ اپنے سوا انکشاف حقیقت کے دوسرے ذرائع کے وجود کی اہمیت کو بھی تسلیم کرے۔علامہ اقبالؒ اس ضمن میں کیا خوب فرماتے ہیں: خرد در لامکان طرحِ مکاں بُست چو زناّ رے زماں رابر میاں بُست زماں دا د ر ضمیر خود ندیدم مہ و سال و شب و روز آفریدم بخود رس ازسر ہنگامہ برخیز تو خو د را درِ ضمیر خود فرو ریز (زبور عجم،کلیات اقبال،ص۵۴۷) (۸)’’نفس انسانی کے دو پہلوہیں۔ فعّال پہلو اور قدر آشنا پہلو۔اپنے فعّال پہلو کے لحاظ سے نفسِ انسانی(خودی) کا مکانی دنیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لیے وہ وقت جس میں نفس فعّال رہتا ہے اُسے ہم طویل اور مختصر کہہ سکتے ہیںلیکن برگساں کے خیال میں اس قسم کا وقت حقیقی وقت نہیں ہوتا۔مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۹)’’ وقت دراصل ممکنات کے پردئہ عدم سے جلوہ گاہِ شہود پر آنے کا نام ہے۔ یہ اس مفہوم میں بامقصد ہے کہ قوت انتخاب اس کی سرشت میں داخل ہے۔ یہ ماضی کو محفوظ رکھ کر اور اس میں اضافہ کرکے حال میں ناممکن الحصول بنتا ہے‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ زمان ومکان توانائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں۔ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زما ن ومکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔(ایضاً) (۱۱)’’ زمان ومکان اور مادہ خدا کی آزادانہ تخلیقی قوت کی فکری تعبیریں ہیں‘‘۔ (تیسرا خطبہ) مادی دنیا سے تعلق رکھنے والا وقت اور عالم اقدار پر منحصر وقت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔انسانی ذات یا نفسِ انسانی کا وقت بھی دو مختلف حیثیتوں کا حامل ہوتا ہے۔خودی کے فعال پہلو کا مادی دنیا اور وقت کے خارجی پہلو سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خودی کا قدر آشنا پہلو باطنی دنیا یا عالمِ اقدار اور وقت کے اندرونی پہلو پر انحصار رکھتا ہے۔جب خودی مکانی دنیا سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا وقت طویل بھی ہوتا ہے اور مختصر بھی۔کہیں مختصر دن اس کی تشکیل کرتے ہیں اور کہیں یہ سالوں پر محیط ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں برگساں اس قسم کے وقت کو حقیقی وقت خیال نہیں کرتا تھا کیونکہ مکانی اور خارجی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔زمانِ مسلسل میں واقعات یکے بعد دیگرے تقسیم پذیر ہوکر غیر حقیقی بن جاتا ہے۔ جس قدر کوئی چیز مادیت اور کثا فت سے دُور ہوتی جائے گا‘وہ اسی قدر تغیر ناآشنا اور مظہر حقیقت بنتی جائے گی۔علامہ اقبال برگساں کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں: "It is the essence of matter to submit to the law of change: the freer a thing is from matter, the less liable it is to chanqe, God therefore, being absolutely free from matter, is absolutely changeless" (The Development of Metaphysics In Persia,p.26) مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ حقیقی امروز ِو فردا کے پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا کیونکہ بقول برگساں’’یہ ایک تخلیقی رو ہے جسے ہم ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں کرسکتے۔حضرت علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں: ؎ تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ جاودواں پیہم رواں، ہر دم جواں زندگی (بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۵۹) ؎ تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو‘ جس میں نہ دن ہے نہ رات (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۳۸۵) اشیائے کائنات کی تخلیق کے بارے میں عام طور پر دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں…مادی نظریہ کائنات اور روحانی نظریہ کائنات۔مادی نظریہ کائنات کی رُو سے مادہ بھی خدا کی طرح ازلی وابدی ہے۔ یہ کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہوتا۔مادہ مختلف چیزوں میں مختلف شکلیں اختیار تو کرسکتا ہے لیکن یہ خود ہمیشہ موجود رہتا ہے۔اس کے برعکس روحانی نظریہ تخلیق اشیائے عالم کی آفرنیش کا باعث مادّہ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ خدا کے جذبہ نمود یا عشق کو اس کا محرک قرار دیتا ہے۔روحانی تصورِ کائنات کے مطابق ظاہری اشکال اختیار کرنے سے پہلے اشیا علمِ الہٰی میں تو موجود تھیں لیکن وہ ہنوذ پردئہ غیب میں تھیں۔اس حالت کو ’’عالم امر‘‘ کہا جاتا ہے۔جونہی وہ علمِ الہٰی سے باہر آکر صورت اختیار کرتی ہیں تو اُنکا تعلق’’عالم خلق‘‘ سے ہوجاتا ہے۔ جب کوئی چیز لباسِ وجود سے آراستہ ہوجاتی ہے تو مکانی زمان بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ مکانی زمان حقیقی زمان کی خارجی شکل اور شاخ کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں’’ وقت دراصل ممکنات کے پردئہ عدم سے جلوہ گاہِ شہود پر آنے کا نام ہے‘‘ علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یہاں بے محل نہ ہوگا۔وہ باطن میں مضمر سینکڑوں جہانوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ چہ غم گریک جہاں گم شد زچشمم ہنوز اندر ضمیرم صد جہان است (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۲) اقبالؒ کے مرشد مولانا رومؒ کے خیال میں کائنات کی تمام رونق اور حرکت عشق کی بدولت ہے۔اس زاویہ نگاہ سے وہ جذبہ عشق کو باعث تخلیق حیات تصور کرتے ہیں۔وہ عشق کو تمام اشیائے کائنات کی اصل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں’’صورت‘فرعِ عشق است کہ بے عشق این صورت را قدر نبود۔فرع آں باشد کہ بے اصل نتواند بودن پس اﷲ را صورت نگویند‘‘ (ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم،حکمت رومی،ص۱۸۹) علامہ اقبالؒ مولانا روم سے ہمنوا ہوکر کائنات کی روحانی بنیاد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ برگساں کے تصورِ زمان کے مطابق وقت کی ارتقائی اور تخلیقی رو کسی مقصد کی حامل نہیں۔علامہ اقبالؒ کو برگساں کی اس رائے سے شدید اختلاف ہے کیونکہ وہ تو مقاصد کی تخلیق کو اشیا اور زندگی کی نمایاں ترین صفت خیال کرتے ہیں: ؎ جہاں یک نغمہ زارِ آرزوئے بم و زیرش زتارِ آرزوئے بہ چشمم ہرچہ ہست و بُود باشد دمے از روز گا رِ آرزوئے (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۳) اُنھیں برگساں کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کہ زمانہ ماضی اور حال کی کیفیات کا تو آئینہ دار ہوتا ہے لیکن مستقبل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حضرت علامہ اقبالؒ آرزو کی مستقبل آفرینی کے بھی زبردست قائل تھے۔وہ وقت اور مقصدیت وآرزو کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہیں: زندگی د ر جستجو پوشیدہ است اصل ِ اُو در آرزو پوشیدہ است آرزو را در دلِ خود زندہ دار تانگرد مشت خاک تو مزار آرزو جانِ جہان رنگ وبو است فطرتِ ہر شے امینِ آرزو است (اسرار خودی،کلیات اقبال،ص۱۶۔۱۵) خدا تعالیٰ ہر لمحہ کائنات کو ارتقا پذیر‘ حرکی اور تخلیقی سرگرمی کی حامل بنانے کے لیے نئے نئے حوادث معرض وجود میں لاتا رہتا ہے۔اس کی خلاقی صفت کا تقاضا نئی جلو ہ گری میں مصروف ہوکر کائنات کے تنوع اور حسن میں اضافہ کرنا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے کہ :’’کُل یوم ُھو فی شانِ‘‘(۲۹:۵۵)(وہ ہر روز نئی شان کا اظہار کرتا ہے )۔جب خدا کی تخلیقی صفت کا اظہارہوتا ہے تو اشیا اور واقعات معرض وجود میں آکر مختلف اشکال اور مختلف صفات اختیار کرلیتے ہیں۔ زمان ومکاںبھی خدا کی خلاقی صفت کے مظہر ہیں۔ انسانی عقل زمانِ ایزدی کے معجزات کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے وہ اپنی سہولت اور حدود کے مطابق انائے مطلق یعنی خدا کی تخلیقی سرگرمیوں اور طریقہ ہائے آفرنیش کی فکری تعبیریں پیش کرنے پر مجبور ہے۔ یہ کائنات چونکہ حقیقت کا پرتو ہے بنابریں اسکی فکری تعبیرات روحِ کائنات کی صحیح طور پر آئینہ دار نہیں ہوسکتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل کی تگ وتاز جزوی طور پر اس کا ادراک کرسکتی ہے۔ ہم شب وروز کے تغیر وتبدل اور گردشِ ماہ ومہر کو اپنے ریاضیاتی زمان اور مکان کی مدد سے کسی قدر محسوس کرکے اس احساس کو اپنے افکار ونظریات میں بیان کرنے کے عادی ہیں۔ غالباًاسی لیے علامہ اقبالؒ نے یہ کہا تھا: ؎ ایں جہاں چیت؟صنم خانہ پندارِ من است جلوئہ اُو گر وِ دیدئہ بیدارِ من است ہستی و نیسی از دیدن و نادیدنِ من چہ زمان وچہ مکان شو خی افکارِ من است اے من از فیضِ تو پائندہ!نشانِ تو کجاست ایں دو گیتی اثرِ ماست،جہانِ تو کجاست (زبو عجم،کلیات اقبال،ص۴۰۹) دنیا کی موجودات اور یہ ہنگامہ ہائے نو بہ نو دراصل ہمارے افکار وخیالات کا عکس ہیں۔ہم محدود ہستی کے حامل خدائے لامحدود کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکتے۔ اُس وقت ہم اپنی عقل محدود سے کام لے کر ظن وتخمین کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ یہ زمان ومکان بھی ہماری شوخی افکار کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہیں۔خدا کی ہستی بے جہت اور بے رنگ ہے۔چونکہ ہم جہات سِتّہ اوررنگ وبو کی دنیا میں مقید ہوتے ہیں اس لیے ہم خدا کو اپنے وہم وقیاس میں لانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ خدا کے بارے میں ہماری قیاس آرائی اور خود پرستی کی طرف اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں اشارہ کرکے بجا کہتے ہیں: تراشیدم صنم برصورتِ خویش بشکل خود خدا را نقش بستم مرا ازخود بروں رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم، خو د پرستم (پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۳۸) کائنات کی چیزوں اور حوادث کی تہ میں تو وحدت کا اُصول کارفرما ہے مگر ہم اپنی تجزیاتی فکر کے ہاتھوں مجبور ہوکر وحدت کو کثرت اور عدمِ جہات کو بالا وپست اور چپ وراست پر قیاس کرنے لگتے ہیں۔شاعر مشرق انسانی فکر کی اس تنگ نظری اور بے چارگی اور انائے مطلق(خدا تعالیٰ) کی حقیقت کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں: مجو مطلق دریں دیرِ مکافات کہ مطلق نیست جُز نور الّسمٰوات حقیقت لازمان و لامکان است مگو دیگر کہ عالم بیکراں است کرانِ اُو دردنِ است وبروں نیست درونش پست و بالا کم فزوں نیست در ونش خالی از بالا وزیر است ولے بیرونِ اُو وسعت پذیر است ابد را عقل ما نا ساز گار است ’یکی‘ از گیر و دارِ اُو ہزار است حقیقت را چوما صد پارہ کردیم تمیز ثابت و سّیار کردیم (زبو رعجم،کلیات اقبال،ص۵۴۷۔۵۴۶) (۱۲)’’ اگر ہم مقصد سے یہ مراد لیں کہ وہ ایک متعین منزل ہے جس کی جانب مخلوقات رواں دواں ہیں تو پھر کائنات کی حرکت زمانی مقصد سے عاری ہوجاتی ہے۔ہم وقت کی حرکت اور طریق کو پہلے سے کھینچا ہوا خط خیال نہیں کرسکتے بلکہ یہ ایک ایسا خط ہے جو ہمیشہ معرض وجود میں آتا رہتا ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۱۳)’’ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل خدا کی نامیاتی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ہے لیکن یہ ایک واضح امکان کے طور پر موجود ہے نہ کہ محضوص خدوخال رکھنے والے واقعات کے متعینہ نظام کی حیثیت سے‘‘ (تیسرا خطبہ) (۱۴)’’ اگر ہم تاریخ کو پہلے سے متعین واقعات وحادثات کے نظام کی ایک ایسی تصویر خیال کریں جو بتدریج ظہور پذیر ہوتی ہو تو پھر اس میں جدت اور تازہ کاری کے واسطے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘ (تیسرا خطبہ) (۱۵)’’ ابن خلدون کا نظریہ تاریخ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تاریخ کو پہلے سے مقرر کردہ راستے کی بجائے مسلسل حرکت ِزمانی اور صحیح طور پر تخلیقی رو سمجھتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ کے فلسفیانہ نظام میں حرکت‘عمل ‘سعی‘ خودی کے استحکام‘آزادی انتخاب اور زندگی کی ارتقا پذیر ی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔تقدیر کے بارے میں بھی اُن کا تصور روایتی انداز کا نہیں ہے۔وہ زمانے کو حرکی اور ارتقا پذیر سمجھتے ہوئے اس کی مقصدیت کے تو زبردست قائل ہیںلیکن وہ اسے پہلے سے معین نقشے کی ہوبہو نقل تصور کرنے کے شدید مخالف ہیں۔اگر ہم وقت کی گردش کے مقصد سے یہ مراد لیں کہ وہ ایک معین منزل کی طرف رواں دواں ہے تو پھر حرکت و ارتقا کا کیا فائدہ؟اگر ہمارے مقاصد حیات روز ازل سے ہی مقرر کردئیے گئے ہیں تو پھر ہم آزادی انتخاب اور آزادی عمل کے مالک کب ٹھہرتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری زندگی نئے نئے مقاصد کی تولیدو تخلیق پر منحصر ہے۔ جب ہم ایک مقصدحاصل کرلیتے ہیں تو دوسرا نیا مقصد پیدا ہوکر ہمیں سرگرم عمل رکھتا ہے۔مقاصد کی تخلیق کا یہی سلسلہ انسانی حیات کے لیے تارو پود کی حیثیت رکھتا ہے۔ان مقاصد کا زیادہ تر تعلق ہمارے مستقبل کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ حرکی اور ارتقائی سلسلہ ہی ہماری شخصیت کے اثبات، ہماری فکری عظمت اور ہماری زندگی کی خوشگواریوں پر دلالت کرتا ہے۔اگر ہمارا مستقبل ہمارے ماضی اور حال سے بہتر نہیں اور وہ ان کی تکرار کا آئینہ دار ہو تو یہ امر حیات جادواں کا غماز نہیں بن سکتا بقول اقبالؒ: دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرارِ زندگی نیست اگرامروز تو تصویرِ دوش است بخاک تو شرارِ زندگی است ( پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۰۷) انسانی زندگی اگر خیر وشر کو انتخاب کرنے کی آزادی اور اختیار سے عاری ہوجائے اور وقت کی حرکت پہلے سے کھنچے ہوئے خط پر ہی جاری رہے تو پھر انسان مجبور محض ہوکر کچھ نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں خدا کی خلاقی صفت بھی ختم ہوجائے گی۔خدا جب کائنات کو ایک ہی بار بناکر فارع ہوگیا تو پھر تخلیقی سرگرمی کا حامل کیسے رہا؟ قرآن حکیم کا ارشاد ہے : ’’ یزِ یُد فیِ الخلق ما یشائ‘‘(۱:۳۵) (خدا جس طرح چاہے اپنے عمل تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے) ۔ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا اور اس کی صفات ازلی اور ابدی ہیں۔ اگر خدا کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ ماضی میں کائنات کو مکمل کرکے بیٹھ گیا ہے تو پھر اس کی صفتِ تخلیق معطل ہوجاتی ہے۔ایسا خیال کرنا تو قرآن حکیم کی رو سے غلط ہوگا۔لامحالہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا اب بھی ہر لمحہ تخلیقی عمل اور جلوہ گری میں لگا ہوا ہے۔ ایک حدیث مبارک میں ہمیںحکم دیا گیا ہے: ’’ تخلّقوا باِ خلاقِ اﷲ‘‘ (تم اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کرو)۔جب خدا خّلاق ابدی ٹھہرا تو پھر اس کے بندوں میں بھی اس خدائی صفت کا عکس پایا جانا چاہیے۔اس لحاظ سے انسان کے لیے آزادی عمل اور ارتقائی سرگرمی کا لزوم ماننا پڑے گا۔ جب انسان کو اِزل سے متعین پروگرام کا اندھا دھند عامل قر ار دیا جائے تو اُس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی جیسی ہوجاتی ہے۔ایسی بے جان اور بے اختیار مخلوق سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ زمین پر نیابت الہٰی کا فریضہ سرانجام د ے سکے؟ علامہ اقبال ؒکی رائے میں گردش لیل ونہار کا مقصد تو انسانی خودی کی نمود کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ ساقی نامہ میں کہتے ہیں: ؎ یہ ہے مقصد ِ گردشِ روز گار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۲۱) خدا تعالیٰ کے علم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ وہ’’عالمِ الغیب والشہادہ‘‘ ہونے کے لحاظ سے مستقبل سے بخوبی آگاہ ہے۔مستقبل سے پوری آگاہی کے باوجود اس نے اُسے مخصوص خدو خال رکھنے والے واقعات کا متعینہ نظام نہیں بنایا بلکہ یہ ایک واضح امکان کے طور پر علمِ الہٰی میں موجود ہے۔اُنھوں نے خدا کے تخلیقی عمل کو’’نامیاتی‘‘ کہہ کر اُسے پودے کے بیج سے تشبیہ دی ہے جو اپنے اندر مستقبل کی نشو ونما کے تمام امکانات کا حامل ہوتا ہے۔ جس طرح بیج میں پودے کی نشو ونما کی تمام صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں‘اسی طرح مستقبل بھی پورا پورا نہیں بنایا جاتا بلکہ اس کے اندر آئندہ ترقی وارتقا کے امکانات پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔خدا کے اس نامیاتی تخلیقی عمل کا مقصد انسانی زندگی کو حرکی‘ ارتقا پذیر ‘باعمل اور بااختیار بنانا مقصود ہے تاکہ انسان آزادی عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے بہر ہ ور ہوکر تسخیر کائنات کا فریضہ سرانجام دے اور صحیح معنوں میں خدا کا نائب ثابت ہوسکے۔ اُن کا یہ قطعہ اس امر کا آئینہ دار ہے: جہان ما کہ جز انگارئہ نیست اسیرِ انقلاب صبح و شام است زسوہانِ قضا ہموار گردو ہنوز ایں پیکر گل ِ نا تمام است (پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۲۸) تاریخ کو بھی علامہ اقبالؒ پہلے سے مقررہ کردہ واقعات وحادثات کی نقل خیال نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اسے جرمن فلسفی نطشے(۱۹۰۰ئ۔۱۸۴۴ئ) کی طرح’’تکرار ابدی‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔اُن کی رائے میں اگر تاریخ کو پہلے سے طے شدہ واقعات کی تکرار اور نقل مانا جائے توپھر اس میں جدت طرازی اور تازہ آفرینی کی گنجائش نہیں رہتی اور انسان حادثات عالم کا محض تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔اگر انسان کو مجبور محض اور تاریخ کو انسانی تخلیق سے عاری خیال کیا جائے تو ایک طرف خدا تعالیٰ اور دوسری طرف انسان تماشا گاہ عالمِ کے ناظر بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کوشہرہ آفاق عرب تاریخ دان ابن خلدون(۱۴۰۶ئ۔۱۳۳۲ئ) کے نظریہ تاریخ کے حرکی اور تخلیقی پہلو کے بہت زیادہ مداح ہیں کیونکہ اس نے تاریخ کو مسلسل حرکتِ زمانی اور تخلیقی رُو قرار دیا تھا۔زمانے کا یہ تصور قرآنی تعلیمات سے کامل ہم آہنگی رکھتا ہے اس لیے حضرت علامہ اقبالؒ نے اُسے درست خیا ل کرتے ہوئے ابن خلدون کو مشہور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں کا پیش رو کہا ہے۔ (۱۶)’’ وقت کے راز ِسر بستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں‘‘ (دوسرا خطبہ) (۱۷)’’ جہاں تک وقت کی ماہیت واصلیت کا تعلق ہے‘میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہ کرسکا‘‘۔ (امام فخر الدین رازی کا قول) (تیسرا خطبہ) (۱۸)’’ زمان ومکان کا مسئلہ زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ونثر میں زمانے اور وقت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ موضوع اُن کی تقریباً تمام تصانیف‘ملفوظات‘ اور خطوط میں کسی نہ کسی رنگ میں ضرور بیان ہوا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسفہ زمان سے اُنھیں اپنی عمر کے تمام مراحل میں کس قدر گہری دلچسپی رہی ہے۔ اُنھوں نے وقت کے موضوع پر زیادہ تر’’اسرارِخودی‘‘اور اپنی مشہور زمانہ انگریزی تصنیف’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں اظہار خیال کیا ہے۔ اپنے خطبات میںاُنھوں نے زمان کے مختلف گوشوںپر مذہبی اور فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے اور مشرق ومغرب کے نامور مفکرین اور اہل مذہب کے افکار کے بارے میں بھی اپنے محضوص خیالات کا اظہار کیاہے۔ یونانی فلاسفہ سے لے کر دور حاضر کے اہل فکر ودانش تک زمان کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا‘ وہ علامہ اقبالؒ کے زیر مطالعہ تھا۔وقت سے متعلق تمام اہم مفکرین کے خیالات ونظریات پر اُنھوں نے خالصتاً قرآنی،سائنسی،روحانی اور فکری طور پر اپنی رائے کو بیان کرنے کے بعد آخر یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ وقت کے راز کو نہیں سمجھ سکے۔اُن سے پہلے امام شافعیؒ ، اشاعرہ، یونانی فلاسفہ ، زینو، عراقی، ابن حزم، امام فخر الدین رازیؒ ، آئن سٹائن‘‘میک ٹیگرٹ، کنیٹر، برٹرنڈر رسل،برگساں اور ملا جلال الدین دوانی نے وقت کے موضوع کو چھیڑا تھا۔علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں قرآنی آیات اور احادیث نبویؐ سے بھی استشہاد کیا ہے۔اُن سے کئی صدیاں قبل عالم اسلام کے نامور مفسر قرآن امام فخر الدین رازیؒ نے بھی مختلف حکما کے افکارِ زمان کو موضوع بحث بنانے کے بعد جو کچھ کہا تھاوہ علامہ اقبالؒ نے اپنے قول کی تائید میں پیش کردیا ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ فلسفہ زمان کی روشنی میں وقت کی ماہیت کو درست طورپر سمجھنا کوئی آسان بات نہیں۔اپنے عجز فہم کا اعتراف کرنے کے بعد اُنھوں نے امام فخر الدین رازیؒ کے عجز ادراک کو خود ان کے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:’’ جہاں تک وقت کی ماہیت و اصلیت کا تعلق ہے،میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہ کرسکا‘‘۔علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک فارسی نظم’’ نوائے وقت‘‘ میں وقت کی زبان سے اس کی حقیقت وماہیت کو یوں قلم بندکیا ہے:۔ خورشید بہ د ا مانم‘ انجم بہ گریبانم در من نگر ی ہیچم‘در خود نگری جانم من تیغِ جہاں سوزم‘ من چشمہ حیوانم آسودہ و سیّارم‘ایں طر فہ تماشا بیں دربادئہ امروز م‘کیفیت فردا بیں من کسوتِ انسانم‘پیراہن یزدانم آوارئہ آب وگل! دریاب مقام ِ دل گنجیدہ بہ جامے بیں‘ایں قلزم بے ساحل ازموج بلند تو سر برزدہ طوفانم زمان ومکان کے مسئلے کو علامہ اقبالؒ نے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا ہے۔آئیے ہم ذرا اس بات کا جائزہ لیں کہ زمان و مکان کا مسئلہ اُن کی رائے میں زندگی اور موت کا مسئلہ کیسے ہے۔ زمان ومکان کو اگر غیر حقیقی،غیر اہم اور غیر متحرک خیال کیا جائے تو وہ تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے زوال اور محکومیت کا باعث بنے گا۔جب ہم دنیا کو غیر حقیقی اور غیر ضروری سمجھیں گے تو ہم دینوی کامرانیوں،تسخیر کائنات،مشاہدہ فطرت اور بلندیوں کے حصول سے لازماً دُور رہیں گے۔ یہ راہبانہ نظریہ انجام کار ہماری غلامی، پسماندگی،ہمہ گیر انحطاط اور تقدیر پرستی کو جنم دے گا۔زمان ومکان کو اگر ہم حرکی اور ارتقا پذیرتصور نہ کریں تو ہم لامحالہ خود حرکت‘عمل‘ سعی اور آئندہ ترقی کے جذبات سے عاری ہوکر موت وجمود کو دعوت دیں گے۔فکر اقبالؒ سے وابستگی رکھنے والے حضرات سے یہ امر مخفی نہیںکہ علامہ اقبالؒ حرکت مسلسل، سعئی پیہم،عمل مدام اور ارتقا و عروج کے کتنے مّداح اور تسخیر کائنات کے نظریے کے کتنے عظیم مبلغ تھے۔اُن کی رائے میں نفی خودی کا یہ انداز ہماری قومی زندگی کے انحطاط کا سبب تھا۔اس لیے وہ مسلمانوں کے اندر اثبات ِذات‘تعمیر خودی، ملّی استحکام، عشق رسول ﷺ خدا پرستی اور انقلاب آفرینی کے جذبات موجزن کرتے رہے۔اُنھوں نے ہر اس تصور کی شدید مذمت کی جو ضعف خودی،تقدیر پرستی اور کاہلی پر مبنی ہوتا ہے۔وہ تو مومن کی شان،تسخیر کائنات اور زمان ومکان کی فتح قرار دیتے تھے۔ وقت تلوار کی مانند ہر چیز کو تباہ وبرباد کردیتا ہے لیکن خودی شناس، بلند ہمت اور آزاد بندوں کو حیات جادواں سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں چند اشعار درج کئے جاتے ہیں جو وقت اور انسانی زندگی کے باہمی تعمیری یا تخریبی روابط پر روشنی ڈالتے ہیں:۔ ؎ اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا! اے فروغ دیدئہ امکان بیا ( اسرارِ خودی، کلیات اقبال، ص۴۶) ؎ اگر امروزِ تو تصویرِ دوش است بخاک تُو شرارِ زندگی نیست (پیام مشرق، کلیات اقبال،ص۲۰۷) علامہ اقبالؒ اپنی ایک معرکہ آرااور فکرا نگیز نظم’’مسجد قرطبہ‘‘ میں فرماتے ہیں:۔ سلسلہ روز وشب ،نقش گرِ حادثات سلسلہ روز و شب ، اصل حیات و ممات تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب، صیرفئی کائنات تو ہو اگر کم عیار ، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل ِحیات، موت ہے اس پر حرام ( بال جبریل،کلیات اقبال، ص۳۸۶۔۳۸۵) زندگی (۱)’’ شعور کا کام ایسا نقطہ نوری مہیا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ اس طرح شعور زندگی کے خالصتاًروحانی اُصول کے تنوع کا نام ہے جو مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اُصول اور مخصول طریق عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) انسان دیگر تما م مخلوقات پر برتری رکھتا ہے اس لیے اسے اشرف المخلوقات اور نائبِ حق کہا جاتا ہے۔اُسے یہ بلند مقام یونہی نہیں دیا گیا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی اہم غرض وغایت ہے۔خدا نے اُسے عقل،فکر اور شعور کی نعمت سے بھی نوازا ہے تاکہ وہ اُن کو خدائی احکام کی روشنی میں استعمال کرکے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بناسکے۔شعور کا کام زندگی کی حرکت ِارتقا کو منور کرکے اُسے راستے کی دشواریوں اور اُلجھنوں سے باخبر کرنا ہے۔علامہ اقبالؒ نے شعور کو ایک نوری نقطے سے تشبیہ دے کر اس کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔زندگی چونکہ ارتقا پذیری، حرکت مدام، عمل مسلسل اور سعئی پیہم کا دوسرا نام ہے۔ بنابریں اس کی راہوں کو درخشاں بنانے والا شعور بھی ایک مقام پر نہیں رُک جاتا۔اس’’نقطہ نور‘‘ کو شاعر مشرقؒنے اپنی مشہور فارسی تصنیف ’’اسرارِ خودی‘‘ میں لفظ’’خودی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:۔ نقطہ نورے کہ نامِ اُو خودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است اِز محبت می شود پایندہ تر زندہ تر، سو زندہ تر، تابندہ تر عشق را از تیغ وخنجر باک نیست اصلِ عشق از آب وباد وخاک نیست (اسرار خودی،کلیات اقبال،ص۱۸) نوری نقطہ ہونے کے سبب خودی انسانی جسم کے اندر زندگی کا شرارہ ہے۔اس لحاظ سے یہ روشن نقطہ زندگی کی تاریک راہوں کو روشن بناکر آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔شعور کی یہ تابانی اور حرارت دراصل جذبہ عشق پر منحصر ہیں جن کا مبداء جسم خاکی ہرگز نہیں۔آب ،باد اور خاک کی صفات کا حامل جسم تو ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتا ہے مگر عشق پر مبنی یہ نورانی نقطہ اپنی درخشانی سے محروم نہیں ہوتا۔علامہ اقبالؒ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے زندگی کے روحانی اُصول کا تنوع قرار دیتے ہیں۔ اس کی اصل روحانی ہے اس لیے یہ شعور مادہ کی پیدا وار نہیں بلکہ یہ الگ وجود رکھتا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کاان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں: "--To deny it as an independent activity is to deny the validity of all knowledge which is only a systematized expression of consciousness" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.41) انسانی علم درحقیقت شعور کے باضابطہ اظہار کا دوسرانام ہے۔ اگر ہم شعور کو مادیت سے جدا تسلیم نہ کریں تو پھر ہمیں شعور سے پیدا ہونے والے علم کی صداقت سے بھی انکا رکرنا ہوگا۔علم صرف وہی نہیں جو عالم محسوسات سے حاصل ہو بلکہ اس کا ایک اہم منبع محسوسات کی دنیا سے ماورا بھی ہے۔جسم اور روح کی جداگانہ واردات بھی اُن کی دوئی کی ترجمان ہیں۔ جیسا کہ شاعر مشرقؒ ؒنے اپنی ایک رباعی میں کہا ہے: در و نم جلوئہ افکار ایں چیت برونِ من ہمہ اسرارایں چیت بفر ما اے حکیمِ نکتہ پرداز! بدن آسودہ ،جاں سیّار ،ایں چیت یہ روشن نقطہ ہمارے تمام احساسات اور شخصیت کے مختلف عناصر کی شیرازہ بندی کرکے اپنی قوت ناظم کا بھی ثبوت مہیا کرتا ہے:۔ حیات کیا ہے؟خیال ونظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں ( بال جبریل ،کلیات اقبال،ص۳۱۹) (۲)’’اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں‘‘۔ (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ) علامہ اقبالؒ کائنات اور زندگی کی روحانی اساس کے زبردست قائل ہیں۔ یہ محض اُنکا مذہبی عقیدہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ اُن کے وسیع مطالعہ اور عملی تحقیق کا بھی لازمی ثمر تھا۔اس عقیدے کی تشکیل میں اُنھوں نے سائنس اور فلسفیانہ نظریات کے کافی گہرے مطالعہ سے مدد لی تھی۔ وہ حقیقت مطلقہ کے خارجی مظاہر اور مکانی اور زمانی پہلوئوں کے ہرگز منکر نہیں تھے مگر وہ اُنھیں ہی واحد معیار صداقت قبول کرنے کے خلاف تھے۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی حیران کن نشانیوں کو مادی اور روحانی دونوں دنیائوں میں ظاہر کرتا رہتا ہے۔ مادی دنیا کا تعلق ہمارے حواس خمسہ اور اُن سے پیدا شدہ تجربات ومشاہدات سے ہے۔اس کے برعکس روحانی دنیا کا ہمارے باطنی احساسات وتجربات سے ربط ہوتا ہے۔سائنس کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ صرف سائنسی معیار ہی صداقت کو واضح کرسکتا ہے کیونکہ سائنس ہمیں جزوی اور ظاہری نظریات دیتی ہے۔کائنات کی بنیاد روحانیت پر ہے۔ اس لیے مادی دنیا سے ماورا حقائق سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں سائنس کو حقیقت مطلقہ کے خاص پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرنا چاہیے اور باقی نادیدنی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق کے صحیح ادراک کے بارے میں اپنے عجز کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: "Science must necessarily select for study certain specific aspects of reality only and exclude others" (The Reconstruction of Religious Th ought in Islam, P.113) اگرچہ انسان اس خاکدانِ عالم میں اپنی زندگی گزارتا ہے مگر فی الحقیقت اس کا’’شرارِ زندگی‘‘ اور ’’نوری نقطہ‘‘ اس مادی دنیا کی پیدا وار نہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔ تری آگ اس خاک داں سے نہیں جہاںتجھ سے ہے، تُو جہاں سے نہیں ( بال جبریل، کلیات اقبال، ص۴۲۰) انسان کاکام مختلف مراحلِ ترقی طے کرتے ہوئے’’منزل کبریا‘‘ تک پہنچنا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ کے روحانی مرشد مولانا رومؒ نے کہا تھا۔ ؎ مابہ فلک بودہ ایم، یار ملک بودہ ایم باز ہماں جارویم باز کہ آں شہرِ ماست ماز فلک برتریم، وز ملک افزوں تریم زیں دوچرا نگذریم، منزلِ ماکبریاست علامہ اقبالؒ بھی انسان کی روحانی بلندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎درد دشتِ جنوںِ من،جبریل ؑ زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ! قرآن حکیم نے انسان کی زندگی کے روحانی پہلو کو یوں بیان کیا ہے: ’’والیِ رّبک المنتھی‘‘ (النجم ۵۳:۴۲) (اور تیرے پرودگار کی طرف انتہا ہے) سائنس (۱)’’طبیعیات نے اپنے اساسی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کرکے آخر کار اپنے ہی بت کو پاس پاش کردیا ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۲)’’ جدید سائنس کی رو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جن کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں‘‘ ( تیسرا خطبہ ) مادی دنیا کے علم کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ بعض اہل دانش مادی ذریعہ علم کو باقی ذرائع پر ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مادّہ(matter) ہی ہماری باطنی کیفیات اور خارجی اثرات کا لازمی اور بنیادی سبب ہے۔ مادہ پرست حکما خدا کی طرح مادّے کو بھی ازلی اور ابدی قرار دیتے ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف اشکال تو اختیار کرسکتا ہے مگر یہ فنا نہیں ہوتا۔وہ اُسے ہی سرچشمہ حیات تصور کرتے ہیں۔سائنس دان اپنے نظریات کی خارجی مشاہدات‘حسّی تجربات اور محسوسات پر بنیاد رکھتے ہیں ۔اس لیے وہ حواس خمسہ ہی کو اوّلین ذریعہ علم سمجھتے ہیں۔وہ شعور اور روح کو بھی مادیت ہی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس حکماء کا دوسرا گروہ مادّے پر شعور، نفس اور روح کو فوقیت دیتے ہوئے مادی تغیرات اور خارجی اشیاء کے علم کو نفس اور شعور کے تحت خیال کرتا ہے ۔ علامہ اقبالؒ فلاسفہ اور مفکرین کے اس مکتب فکر کے حامی ہیں جو مادّے پر شعور کی برتری تسلیم کرتا ہے۔ وہ اپنے مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ع: جہانِ رنگ وبُو گلدستہ ما ( کلیات اقبال، فارسی،ص ۵۴۴) وہ اس جہان رنگ وبو کو شوخی افکار کا نتیجہ اور ’’صنم خانہ پندار‘‘ قرا ردیتے ہیں۔اس سے پہلے ان کے مرشدِ روحانی مولانا رومؒ نے اس عقیدے کا یوں اظہار کیا تھا: ع: بادہ از مامست شد نے ماازو علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں طبیعی علو م کے ایک اہم‘قدیم اور بنیادی نظریے یعنی تصور ِمادہ کی تردید کو بیان کیا ہے۔ طبیعیات اپنے تجربات اور مشاہدات کے لیے عالمِ محسوسات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے۔اس کے سائنسی نظریات مادی دنیا کے عمیق مطالعہ ومشاہدہ پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔مادی اشیا کی نوعیت اور حقیقت کے بارے میں دو باتوں‘مادّہ اور اس کے خواص‘ کو مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔اشیاء کی پہچان ہم ان کی صفات کی بناء پر کرتے ہیں۔ مثلاًرنگ اور آواز اگرچہ خارجی وجود کی حامل ہیں مگر ان کی حقیقت ان کی صفات میں پنہاں ہے۔ کسی چیز کا محضوص رنگ ہمارے احساس پر مبنی ہوتا ہے جیسے کسی نیلی چیز کو دیکھ کر ہمارے احساس کے اندر وہ خاص رنگ پیدا ہوتا ہے جس کے سبب ہم اسے نیلگوں قرار دیتے ہیں۔اسی طرح آواز کا وجود بھی ہمارے احساس پر ہوتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذہن نے اس شے کو اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ مشہور انگریز فلسفی جان لاک نے علم کو حسّی تجربات پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا تھا: "---There is nothing in the mind except what was first in the senses" (Will Durant,Outline of Philosophy,p.229) مادہ پرستوں کی نگاہ میں ہمارا ذہن ہماری پیدائش کے وقت اُس سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر ابھی کچھ لکھا نہ گیا ہو۔جوں جوں ہم اردگرد کی چیزوںکو دیکھتے‘سنتے‘چھوتے اور سونگھتے ہیں‘ توں توں ہمارے دماغ پر اُن کے خواص کے محسوسات ہمارے تصورات کا سبب بنتے ہیں ۔اس لیے مادّہ ہی ہماری معلومات کا اوّلین اور لازمی سرچشمہ ہے۔مادہ پرست شعور اور عقل کو بھی مادے کی کرشمہ سازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے عالمِ محسوسات سے ماورا اشیا اور حقائق مثلاً روح‘ حیات بعد الموت‘وحی والہام اور خدا اُن کی رائے میں کوئی اہم اور مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔وہ روح کو مختلف عناصر کی خاص ترکیب اورمادّے کی ترقی یافتہ صورت سمجھتے ہیں۔ طبیعیات نے اشیائے کائنات کی دوگونہ تقسیم۔مادّہ اور اُس کی صفات کو تسلیم کیا تھا۔مادّے کے وجود کو اس کی خاص صفت کے ادراک سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔اگر غور کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ ادراک پرہی کسی شے کے وجودکا انحصار ہے۔ مثلاًاندھے کے لیے کسی تصویر کا وجود بے معنی ہوتا ہے گویا وہ اس کے وجود کا ادراک نہیں کرسکتا۔اسی طرح ایک بہرا شخص عمدہ گیت سے لطف نہیں اُٹھا سکتا۔ اس کی نظر میں گیت کا وجود ہی نہیں۔جان لاک نے مادّے کو شعور پر فوقیت دی تھی ۔آئر لینڈ کے ممتاز فلسفی جارج برکلے(۱۷۵۳۔۱۶۸۵) نے مادّے کے وجود کو ادراک کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے کہا تھا:’’To be is to be perceived‘‘) یعنی کوئی چیز اس وقت موجود ہوتی ہے جب اس کا ادراک کیا جائے(۔ اس طرح اس نے ثابت کردیا کہ مادّے کاوجود ایک خیالی شکل اور ادراک کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس نے مادّے کی بجائے شعور اور ادراک کے وجود کی حقیقت اورا ہمیت پر زور دیا اور مادہ پرستی کے اس قدیم بت کے تصور کو پاش پاش کردیا تھا۔علامہ اقبالؒ نے اسی لیے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں انہی امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ برکلے کے بعد پروفیسر وہائٹ ہیڈ(۱۹۴۷۔۱۸۶۱) نے بھی مادّیت کو ردّ کرکے برکلے کی تائید کی تھی۔ مادہ پرستوں کی رائے میں مادہ(matter) زمان ومکان میں ایک ایسی چیز کا نام ہے جو اپنی ذات میں مستقل وجودکی مالک ہو۔وہ اسے فرد کی طرح ازلی اور ابدی تصور کرتے تھے۔انگلستان کے معروف ریاضی دان اور ماہر طبیعیات نیوٹن(۱۷۲۷۔۱۶۴۲ئ) کو جدید فزکس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔اس نے قانون کششِ ثقل کی رُو سے سّیاروں اور سورج کی گردش کی وضاحت کی تھی۔اس کے نظریے کے مطابق کائنات کی تمام اشیا اور واقعات کسی نہ کسی شکل میں حرکت کے حامل ہیں۔ جہاں تک اس کے نظریہ مادہ کا تعلق ہے وہ مکان(space) کو ایک وسیع خلا تصور کرتا تھا جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے مادہ زمان ومکان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی مختلف چیزوں کا مجموعہ تھا۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جدیدطبیعیات نے مادّے کے اس قدیم تصور کو غلط قرار دے کر ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کی رُو سے مادّہ آپس میںملے ہوئے واقعات کانظام اور حوادث کا مجموعہ ہے۔واقعات وحوادث کا یہ مجموعہ مسلسل تخلیقی رو کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں واقعات کا یہ نظام زمان ومکان کے مختلف نظریات کی تشکیل کے لیے اساس کاکام دیتا ہے۔مادیت کے حامیوں کی نگاہ میں زمان ومکان مادّے کی بنا پر معرض وجود میں آتے ہیں مگر علامہ اقبالؒ زمان ومکان اور مادّے کو خدا تعالیٰ کی تخلیقی قوت کی فکری تعبیریں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ خرد ہوئی ہے زمان ومکان کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ الّا اﷲ علامہ اقبالؒپروفیسر وہائٹ ہیڈ کے ا س تصور سے کلیتہً اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت خلا میں جامد مادہ نہیں بلکہ یہ واقعات کا ایک ایسا نظام ہے جو تخلیقی رو کا حامل ہے اور جسے عقل جداگانہ غیرمتحرک اشیاء میں قطع کرتی ہے اور جس کے باہمی روابط سے زمان ومکان کے نظریات جنم لیتے ہیں۔ (۳)’’ فی الحقیقت مختلف فطریتی علوم لاتعداد گدھوں کی طرح ہیں جو فطرت کی لاش کو نوچ رہے ہیں اور ہر علم اس لاش کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر الگ ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کّلی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اُسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ ( دوسرا خطبہ) (۴)’’ سائنس کا یہ دعویٰ بالکل بے جا اور غلط ہے کہ وہ حقیقت الحقائق کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کا موضوع بنا سکتی ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان دو اقوال میں سائنس کی جزئیت‘ محدودیت اور غلط نگری کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے مختلف علوم طبعی وظاہری کو ان گِدھوں سے تشبیہ دی ہے جو فطرت کی لاش کے مختلف ٹکڑوں کو انکشاف کلّی خیال کرتے ہیں۔طبیعیات،علم نباتات،علم حیوانات،علم کیمیا اور نفسیات وغیر ہ کسی ایک شعبہ حیات کے علم کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ علوم اپنے جزوی نظریہ کائنات کو مکمل نہیں سمجھ سکے۔اگر کوئی سائنس دان طبعی علوم کے کسی حصے کو حقیقت مطلقہ کے کّلی ادراک ومعرفت کا ذریعہ قرار دے تو یہ دعویٰ بالکل غلط اور بے جا ہوگا۔ایسے سائنس دان پر ہاتھی اور اندھوں والی مثال بالکل صادق آتی ہے جنہوں نے ہاتھی کے جسم کے ہر ایک حصے کو ہاتھی کی حقیقت کلّی قرار دیا تھا۔ یہ علوم زندگی کے تمام حقائق اور اُن کے باہمی ربط کی اصل نوعیت کے بارے میں کوئی جامع تصور پیش نہیںکرسکتے۔ اس کے برعکس دین اور مذہب کائنات، انسان اور خدا کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہمیں جامع تصور دیتے ہیں۔وحی والہام کے حقائق کسی ایک شعبہ حیات پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ وہ ظاہر وباطن،مادہ و روح،دنیا وآخرت،فرد وجماعت کے حسین اور کامل امتزاج پرمبنی ہوتے ہیں۔خدائی دین ہی ان صفات کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ انسانی ذہن کے تراشیدہ اعتقادات وتصورات کلیت اور دوام کی صفت سے محروم ہوتے ہیں۔ سائنسی علم اور الہامی علم میں جزو وکل کافرق ملاخطہ ہو: (ا) سائنس کائنات کے ظاہری مطالعہ ومشاہدہ کی محتاج ہے۔اس کے برعکس مذہب کائنات اور زندگی کے ظاہری پہلوئوں کے ساتھ ساتھ باطنی حقائق اور محسوسات سے ماورا پہلوئوں کا بھی حامل ہوتا ہے۔ (ب) سائنس کائنات کے جزئی علم کی نشان دہی کرتی ہے جبکہ دین تمام گوشوں پر محیط ہوتا ہے۔ (ج) سائنس صرف عالم ِ محسوسات کا مطالعہ کرتی ہے۔دین عالم محسوسات کے علاوہ غیر طبیعی حقائق سے بھی باخبر کرتا ہے۔ (د) سائنسی قوانین جبر ومیکانیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔اس کے بر خلاف دینی قوانین انسانی اختیار کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔ (ہ) سائنسی علم میکانکی اُصولوں کے تحت یکسانیت اور تکرار پر منحصر ہوتا ہے۔اس کے علی الرغم دین زندگی کو ارتقا پذیر‘ متنوع اور تغیر پذیر قرار دیتا ہے۔ (و) سائنس محض علم عطا کرتی ہے جبکہ مذہب ہم سے عمل کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ (ز) سائنس کائنات کی اشیا کے مطالعہ ومشاہدہ کے لیے محض عقل کی قیادت کو مانتی ہے جبکہ دین عقل کی محدودیت کے پیش نظر وحی والہام کی افادیت واہمیت پر زور دیتا ہے۔ (ح) سائنس مادی توجیہات پر تکیہ کرتی ہے جبکہ دین غیر مادی تعبیرات کا بھی قائل ہے۔ یہاں اس بات کی تشریح ضروری ہے کہ علامہ اقبالؒ سائنس کی اہمیت اور خارجی علوم کی افادیت کے ہرگز منکر نہیں تھے۔قرآن حکیم نے جابجا مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر زور دیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے شارح ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ مطالعہ کائنات کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیںکرسکتے تھے۔ تاہم وہ سائنسی علم کی یک طرفہ ترقی اور کل حقیقت دانی کے زبردست مخالف تھے۔عقلیت اور مادیت چونکہ زندگی اور کائنات کے بارے میں محدود نظریات کی ترجمان ہیں اس لیے وہ ان کی بجائے دین کے آفاقی اور ابدی حقائق کے مدح خواں ہیں۔سائنس ایک طرف تو عقل کو مادی اور میکانکی ارتقا کی پیدا وار خیال کرتی ہے اور دوسری طرف اسے مادیت پر غور کرنے اور مکمل راہنمائی کا حق دینے پر بھی زور دیتی ہے۔اگر ہم عقل کی ماہیت کو مدنظر رکھیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ مادی اشیاء پر غور کرنے والی عقل خود مادے کی پید اوار نہیں ہوسکتی۔مادہ حواس اور میکانیت پر منحصر ہوتا ہے جبکہ عقل کو محسوس کرنے والا کوئی حاسّہ نہیں اور نہ ہی اس میں میکانیت موجود ہے۔اس کے علاوہ حواس کا دائرہ عمل بہت محدود ہے مگر عقل پاتال سے نیچے اور افلاک سے آگے بھی چلی جاتی ہے۔اگر یہ مادی ہوتی تو اس کی پرواز عالم مادی سے ماورا کیسے ہوسکتی تھی؟ اس لحاظ سے عقل خالص مادیت سے بلند تر ہوجاتی ہے۔ سائنس کا یہ دعویٰ کہ صرف یہی حقیقت کاملہ کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرسکتی ہے درست نہیں ہے۔علامہ اقبالؒ کے یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور بصیرت افروز ہیں۔وہ فرماتے ہیں:۔ "Natural science is by nature sectional; it cannot, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.41) )۵)’’ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریق عمل کا علم ہے۔مشاہدہ فطرت کے وقت فی الحقیقت ہم انائے مطلق کے ساتھ گہرے تعلق کے طالب ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ یہ گہرا لگائو عبادت ہی کی دوسری شکل ہے‘‘ انسان کو علم کی بنا پر نہ صرف تما م جمادات ‘بناتات او رحیوانات پر فوقیت دی گئی ہے بلکہ اسے ملائکہ سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق جب آدم ؑکی تخلیق کی گئی تو فرشتوں کو اس کے سامنے سر بسجود ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اُنھوں نے خدا سے انسانی آفرنیش کا راز جاننے کی خواہش کی تو خدا تعالیٰ نے اس کے علم کو اس کی وجہ فضلیت بتایا۔ آدمؑ اور ملائکہ کاجب امتحان ہوا تو ملائکہ اشیاء کے نام نہ بتا سکے اور آدمؑ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔زمین پر خدا کی نیابت کے لیے علم کا حصول لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس قرآنی واقعہ سے علم کی فضلیت اور انسانی عظمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ خدا نے انسانوں پر اپنے احسانات گنواتے ہوئے یہ کہا ہے’’ وعلّم الا نسان بالقلم‘‘ )العلق ۹۶:۴)( اور خدا نے انسان کو قلم کے ذریعے علم دیا( ۔اشرف المخلوقات بننے کے لیے علم‘ عقل اور شعور لازمی تھے ‘جس دین نے انسانوں کو حصول علم کی اتنی تاکید کی ہو وہ مطالعہ فطرت اور مشاہدہ کائنات کی اہمیت اور افادیت کو کیسے نظرانداز کرسکتا تھا؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ ہم اپنی مادی اور ظاہری آنکھوں سے یہاں خداتعالیٰ کا دیدار نہیں کرسکتے ہیں؟ ایسی صورت میں خالقِ کائنات نے اپنے حسنِ لازوال کی نمود کے لیے یہ عالم مادی پیدا کیا تاکہ ہم مظاہر فطرت میں اس کے جمال بے مثال کا پرتو دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ اس نقطہ نگاہ سے یہ کائنات ذات خدا وندی کی صفات کی جلوہ گاہ اور آئینہ حسن ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس کائنات کوخدا تعالیٰ کا طریق اور اس کی عادت کہا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں مذکور ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے کردار کو ہماری ذات کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ‘اسی طرح یہ کائنات بھی فعل ایزدی ہے۔ کسی کے کردار کو دیکھ کر ہی اس کی شخصیت کا اچھا یا برا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قرآن حکیم نے نیچر کو’’سُنتہ اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کی عادت اور طریق کہا ہے۔جب ہم کائنات کے مختلف مظاہر اور حوادث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کی صفت، قدرت، حکمت اور ربوبیت کے قدم قدم پر آثار ملتے ہیں جو ہمیں اس کی کبریائی اور وجود کا احساس دلا کر اس کی اطاعت پر مائل کرتے ہیں۔اسی طرح علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں کہ’’فطرت کا علم دراصل خدا کے طریق عمل کا علم ہے‘‘۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں مشاہدہ فطرت کو خدا کے ساتھ گہرے ربط کے مترادف قرار دیا ہے۔ جب ہم کائنات کے اسرار ِورموز کو جاننے اور اپنے ذوق تجسس کی تسکین کے لیے صحیفہ فطرت کاعمیق مطالعہ کرتے ہیںتو اس وقت اصل میں ہم خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرت ِکاملہ کی حیرت انگیز نشانیوں کو دیکھنے میں محو ہوجاتے ہیں۔ یہ محویت ہمیں اردگرد کے ماحول سے بے خبر کرکے اس کے حسنِ لازوال کی تجلیات دکھانے لگتی ہے۔اس عالمِ فراموشی میں ہمارا ظاہری رابطہ عالمِ مادی سے کٹ جاتا ہے اور ہم مادی اشیا کے پس پردہ کارفرما ذات کی نیرنگیوں میں کھو جاتے ہیں عالمِ مادیت اورظاہریت سے وقتی طور پر لاتعلق ہوجانے کے بعد ہم عالم باطن میں چلے جاتے ہیں جہاں ہم اس ذات کی کرشمہ سازیاں ملاخطہ کرتے ہیں جو بے جہت اور بے صورت ہے۔عالمِ مادی میں ہمیں اشیاء کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں مگر محسوسات سے ماورا دنیا میں ان کاایسا وجود نہیں ہوتا۔ حقیقت کے طالبوں کے لیے مشاہدہ فطرت کے یہ فیضانی لمحات خدا سے گہرے ربط کا سبب بن جاتے ہیں۔ایسے عالم میں ہر ورق معرفت کردگار کا دفتر ثابت ہوتا ہے۔جہالت کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور طالب حقیقت اشیا کے پیچھے چھپی ہوئی ہستی مطلق کے یقین کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس گہرے ربط کو عبادت ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ یہ گہرا ربط عبادت ہی کی ایک شکل کیسے ہے؟ ذیل میں چند توجہ طلب اُمور کا ذکر کیا جاتا ہے:۔ (۱) مشاہد ہ فطرت کے ذریعے ہم خدا کے ساتھ گہرے تعلق کے طالب ہوتے ہیں۔عبادت کے وقت بھی ہم اپنے خالق ‘مالک اور رازق سے گہرے ربط کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ (۲)عبادت کے وقت کامل محویت اور ماحول سے بے نیازی اّولین شرط ہے۔فطرت کا مشاہدہ کرتے وقت طالب حقیقت پر بھی محویت اور خود فراموشی کا طاری ہونا لازمی ہے۔ (۳) عبادت یکسوئی کا تقاضا کرتی ہے۔اسی طرح اسرارِ کائنات کا جویا بھی یکسوئی کے ساتھ نیچر کی اشیا کا مطالعہ اور تجربہ کرتا ہے۔ (۴) عبادت کے لیے ظاہری صفائی کے علاوہ قلب ونظر کی پاکیزگی بھی لازم ہے۔ جو انسان خدا کے عمل تخلیق یعنی فطرت سے گہرا لگائو رکھتا ہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب کو چھوڑ کر نیک نیتی اور صفائے دل کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرے۔ (۵) ہر عابد اپنے معبود کے وجود کا معترف ہوکر اس کی عبادت کیاکرتا ہے۔مطالعہ فطرت بھی اس صورت میں عبادت بن سکتا ہے جبکہ اس کا طالب حقیقت اسرارِ قدرت دیکھ کر خالقِ کائنات کے وجود پر بھی ایمان لے آئے۔ (۷)’’ جس طرح عبادت خدائی قرب کا ذریعہ ہے اسی طرح مطالعہ فطرت بھی خدائی قرب کا وسیلہ ہونا چاہیے۔ سائنس اور مذہب (۱)’’ ان حالات میں مذہبی حقائق کی سائنسی تعبیر قدرتی معلوم ہوتی ہے‘‘ (دیباچہ) (۲)’’ مذہب طبیعیات یاکیمسٹری نہیں ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ دین ومذہب کو انسانی زندگی کا کوئی محضوص گوشہ خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اسے کُل کا درجہ دیتے ہیں۔اُن کی نظر میں مذہب محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ یہ جذبہ،فکر اور عمل کا حسین امتراج ہے۔اس کے برعکس وہ سائنس کو حقیقت مطلقہ کے صرف خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر مبنی قرار دیتے ہیں جو عالم مادّی ہی کو حقیقت تسلیم کرتی ہے۔سائنس اور مذہب کے بعض اہم پہلوئوں کی مطابقت وعدم مطابقت ملاخطہ ہو: عدم مطابقت کے اُمور یہ ہیں: (الف ) سائنس عالم مادی کے خارجی اور حسّی اُمور کا مطالعہ ومشاہدہ ہے جبکہ مذہب کا زیادہ تر انحصار باطنی اور محسوسات سے ماوراء دنیاپر ہوتا ہے۔ (ب) سائنس اپنی معلومات کو حاصل کرنے کے لیے محض عقل کا سہارا لیتی ہے۔ اس کے برعکس مذہب کی زیادہ تر جذبہ عشق پر بنیاد ہوتی ہے۔ (ج) سائنس کائناتِ خارجی کے مختلف شعبہ جات تک محدود ہے،اس کے علی الرغم دین زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ (د) سائنس مادیت کی علم بردار ہے جبکہ مذہب روحانیت کا بھی قائل ہوتا ہے۔ سائنس کائنات اور زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ نہ کرنے کے باوجود مطالعہ وتحقیق پر زور دیتی ہے۔اس لحاظ سے مذہبی حقائق کا علمی اور سائنسی جائزہ اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا احاطہ اثر سائنس سے زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور عملی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔موجودہ زمانے میں انسان نے قدرت کی مختلف طاقتوں کو مسخر کرکے عقل کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔ بنا بریں موجود ہ زمانے کا انسان مذہب کے پیش کردہ حقائق کی بھی عقلی تعبیر کا مطالبہ کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اس عقلی تعبیر کے مطالبے سے مذہب کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ صحیح الہامی مذہب ہو۔ طبیعیات اور کیمسٹری کا مادی اشیا کی ترکیب وتجزیے کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ ہے۔سائنس قدرت کے گوناگوں مظاہر وصور میں معنی کی تلاش کے لیے کوشاں ہوتی ہے لیکن عالم مظاہر کے بنیادی قوانین کا رشتہ بے صورت اور نادیدنی حقائق سے ملا ہوتا ہے۔علاوہ ازیں سائنس کے دو اہم پہلوطبیعیات(Physics) اورکیمسٹری(Chemistry)باقی سائنسی علوم کی مانند علّت ومعلول پر مبنی ہوتے ہیں ۔علّت ومعلول کو جاننے کے لیے عقل کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ مذہب حقّہ کا تعلق طبیعیات یا کیمسٹری کی طرح محض خارجی،حسّی،دیدنی اور تغیر پذیر حقائق سے نہیںہوتا بلکہ مابعد الطبیعیاتی اُمور بھی اس کی حد میں آتے ہیں۔مذہب محض علّت ومعلول کی حمایت نہیں کرتا بلکہ یہ معجزات کا بھی قائل ہوتا ہے جو عقل اور علّت ومعلول کی حدود سے باہر ہوتے ہیں۔اس نقطہ نگاہ سے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر کلیتہً سائنس کے اُصولوں کا پابند نہیں۔ (۳)’’ فی الحقیقت مختلف قد رتی علوم لاتعداد گِدھوں کی طرح ہیں جو فطرت کی لاش کو نوچ رہے ہیں اور ہر ایک علم اس لاش کا ایک ٹکڑا لے کر الگ ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۴)’’ سائنس کو حقیقت مطلقہ کے مطالعہ کے لیے چند محضوص پہلوئوں کا انتخاب کرلینا چاہیے اور باقی مسائل کو چھوڑ دینا چاہیے۔سائنس کا یہ دعویٰ بالکل بے جا اور غلط ہے کہ وہ حقیقت الحقائق کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرسکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) اس امر سے کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ مختلف فطرتی علوم کائنات کے مختلف شعبہ جات کے مطالعہ ومشاہدہ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ کائنات، زندگی اور حقیقت کاملہ کے محدود اور جزوی نقطہ ہائے نگاہ کے حامل ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اس بات کو سمجھانے کے لیے ایک بہت عمدہ مثال دی ہے۔وہ فطرت کو ایک لاش اور مختلف سائنسی علوم کو اُن لاتعداد گِدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو فطرت کی لاش کے مختلف ٹکڑوں کو لے کر الگ ہوگئے ہیں۔علم نباتات کا محض نباتات سے تعلق ہوتا ہے۔اسی طرح علم حیوانات کا حیوانوں کی دنیا سے رشتہ ملا ہوا ہے۔اس کے برعکس دین زندگی کے تمام شعبہ جات پر حاوی ہوتا ہے خواہ یہ شعبہ جات ظاہری ہوں یا باطنی اور مادی ہوں یا روحانی۔ دین کُل ہے اور سائنس جزو۔کُل کو اپنے جزو سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی مذہب انسانوں کاخود ساختہ نہیں تو وہ سائنس اور فلسفہ کے تحقیقی اُصولوں سے خوف زدہ نہیں ہوسکتا۔فلسفہ اور سائنس کے اس تحقیقی جائزے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فلسفہ وسائنس کو دین پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔دین تو زندگی کی اجتماعیت کا نام ہے اور فلسفہ وسائنس جزویت کے ترجمان ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ دین کی ہمہ گیریت،برتری اور کلیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "White sitting in judgement on religion, philosophy cannot give religion an inferior place among its data. Religion is not a departmental affair." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.2) مندرجہ بالا بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علامہ اقبالؒ سائنس کے اس دعویٰ کو بے جا اورغلط قرار دیتے ہیں۔ سائنس حقیقت مطلقہ کے تمام پہلوئوں کا بخوبی مطالعہ کرسکتی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ سائنس کا علم یک طرفہ اور جزوی ہوتا ہے اور دین کا علم ہمہ پہلو اور کامل ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔حضرت علامہؒ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ انسان میکانیت سے گہرا رشتہ رکھتا ہے لیکن وہ اسے زندگی کا واحد پہلو تسلیم نہیں کرتے۔ مکان(space) مادیت پر دلالت کرتا ہے۔انسان چونکہ اس مادی دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے اس لیے مادہ پرست اس کے روحانی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے صرف مادہ کے عناصر کا مجموعہ خیال کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اس بات کو درست خیال نہیں کرتے کیونکہ وہ انسان کو مادّہ کے علاوہ روح کا بھی حامل قرار دیتے ہیں۔ عقل دنیائے رنگ وبو میں مست ہوکر نادیدنی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق سے بے خبر ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔ نگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں خرد کھوئی ہوئی ہے چار سُو میں (کلیات اقبال،ص۳۷۵) (۳)’’ قرآن کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت عالم کے خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔اس عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے۔قرآن نے اپنے مقلدین کے اندر یہ تجرباتی طریق کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ ان مسلم مفکرین کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے قرآنی تعلیمات کی ہمہ گیر افادیت کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو مطالعہ کائنات کی اہمیت سے روشناس کرایا ہے۔اُن کی رائے میں قرآن حکیم ہماری تمام مادی اور روحانی ضرورتوں کی کفالت اور انفرادی واجتماعی مسائل کے حل کا مجموعہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نے ہماری روحانی تربیت،ذہنی پاکیزگی اور رفعت ِکردار پر بہت زور دیا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ہماری دنیوی فلاح، مادی ترقی،تسخیر کائنات اور مطالعہ فطرت کی اہمیت کو بھی بار بار اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اسلام چونکہ زندگی کا مکمل ضابطہ خیال کیا جاتا ہے اس لیے وہ صرف ہماری اخروی نجات اور روحانی ترفع ہی کا قائل نہیں بلکہ وہ ہماری دنیوی کامرانی اور معاشرتی بہتری کا بھی علم بردار ہے۔قرآن نے بار بار ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ بہترین اور مثالی زندگی کا آغاز دنیوی حسنات کے حصول ہی سے عبارت ہے۔قرآنی ارشاد ہے کہ’’جو انسان اس موجودہ زندگی میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا‘‘۔ رسول کریمؐ کا مبارک قول ہے:’’ الدُّنیا مزرِعتہ الآخرِۃ‘‘( دنیا آخرت کی کھیتی ہے )۔فصل سے فیض یاب ہونے سے قبل ہی کھیتی کو سنوارنا اور اس کی طرف خاص توجہ دینا اشدضروری ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح آخرت میں عمدہ نتائج حاصل کرنے سے پہلے دنیا میں بہترین اعمال ضروری ہوتے ہیں۔عمل صالح صرف آخروی نجات ہی کا ضامن نہیں بلکہ یہ دنیوی فلاح کا بھی حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ قرآن حکیم کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ یہ حقیقت کاملہ کے خارجی مظاہر کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔قرآن کا یہ ارشاد ملاخطہ ہو: ’’اِن فیِ خلُق اَلّسٰمٰوتِ والارضِ واُختلاف الّلیُل والّنھارِ وا لفُلک الّتیِ تجرِِی فیِ البحر ِبما ینفُع النّاس وما انزل اﷲ من الّسمآئِ مِن ماء فاحُیا بہِ الارضِ بعُد موتِھا و بّث فیھا منِ کّل دابّہ وّ تصریف الّرِ یاح وا لسّحا بِ المُسّخّر بین السّمآئِ والارضِ لاٰ یات لّقوِم یعقلون‘‘(البقرہ: ۱۶۴) (بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، رات اور دن کے بدلنے،سمندر میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لے کر چلنے والے جہازوں،آسمان سے خدا کے بھیجے ہوئے پانی جس سے مردہ زمین میںجان پڑتی ہے، زمین میں پھیلے ہوئے طرح طرح کے جانوروں،ہوائوں کے بدلنے اور آسمان اور زمین کے درمیان گھرے ہوئے بادلوں میں سمجھ دار لوگوں کے لیے نشانیاںموجود ہیں)۔ کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ پر زور دینے سے قرآن حکیم کا اوّلین مقصد ہمارے دل ودماغ میں خالق کائنات کی ہستی کا احساس بیدار کرکے ہمیں اسکا مطیع بنانا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں اس کے قوانین کی پاس داری کریں اور اسے ہر لحاظ سے مثالی بناسکیں۔ قرآن حکیم کا کہنا ہے کہ’’خدا تعالی اوّل بھی ہے اور آخر بھی اور وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘‘۔اس نقطہ نظر سے مادی اور خارجی دنیا حقیقت میں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نشانیوں کا حیرت انگیز اور حسین مجموعہ ہے۔ جب ہم اشیائے کائنات کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں قدم قدم پر خدا کی بے مثال حکمت کاملہ اور قدرت بالغہ کے نشانات دکھائی دیتے ہیں جو ہمارے اندر عظیم ذات خدا وندی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔اُس وقت ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسرارِ فطرت اور رموزِ کائنات ہرگز بلا مقصد اور بے کار نہیں جیسا کہ قرآن حکیم خود کہتا ہے:۔’’ افجسبُتم انّما خلقنا کُم عبثًا‘‘(پارہ۱۸، سورۃ۲۳، آیت ۱۱۵)( تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں یونہی پیدا کیا ہے)۔ علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں کہ’’قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے)۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن حکیم نے مطالعہ کائنات اور مشاہد فطرت پر بار بار زور دے کر اپنے ماننے والوں کے دل ودماغ میں اس عالم ظاہری کی تسخیر اور تجرباتی طریق کار کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں خدا کی خّلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کی جلوہ گری پائی جاتی ہے۔اس بات کو مدنظر رکھ کر ہمارے اسلاف نے کائنات کے پوشیدہ اسرار ورموزِ کو بے نقاب کیا اور اپنے تجربات کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے مختلف سائنسی طریقے بھی بتائے ۔اس لحاظ سے علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے اپنے مقلدین کو جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا۔ مغرب کے غیر متعصب مورخین اور مفکرین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ مغربی سائنس کا فروغ قدیم مسلمانوں‘ خصوصاً ہسپانوی مسلم حکما کا،مرہون منت ہے۔علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اقوال اور اشعار اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں: "---Europe took up the task of research and discovery . Intell- -ectual activity in the world of Islam practically ceased from this time and Euorpe began to reap the fruits of the labours of Muslim thinkers." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.104) ؎ عصر حاضر زادئہ اّیام تُست مستی اُو از مئے گلفام تُست شارحِ اسرارِ او تو بو دئہ اوّلین معمارِ او تو بودئہ (کلیات اقبال،فارسی،ص ۸۳۸) حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل اُو جز لذّت ایجادنیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از است ما افتادہ است چوں عرب اندر ارد پا پرکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد ( ایضاً،ص ۸۸۰) مسلمانوں نے تجرباتی طریق کار کے ذریعے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی تھی مگر بعد ازاں مغربی قوموں نے اسے اختیار کرکے اس میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔اس لحاظ سے اُن کی یہ سعی قابل تقلید ہے۔اگر وہ سائنس کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ اُن کا اپنا قصور ہے نہ کہ سائنس کا۔ سرمایہ داری (۱)’’ ہمارے اپنے زمانے میں فلسفیوں نے سوسائٹی کے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز پیش کیا ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) سرمایہ داری ایک ایسا نظام معیشت ہے جس میں سرمایہ کو باقی تمام عوامل پیداوار پر ترجیح دی جاتی ہے۔اقتصادی نظام میں اُسے جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ارباب فکر ونظر پر بخوبی عیاں ہے۔سرمایہ داری کے نظام کے حامی سرمائے کو محنت پر فوقیت دیتے ہوئے سرمائے ہی کو سب کچھ خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس محنت کی عظمت کے علم بردار محنت کو سرمائے کی اصل سمجھتے ہیں۔ان دونوں مکاتب فکر نے دو مختلف نظام ہائے معیشت کو جنم دیا ہے۔ویسے تو ازمنہ قدیم ہی سے سرمایہ ومحنت کے درمیان جنگ جاری رہی ہے مگر عصرِ جدید میں اُن کی باہمی کشمکش نے بین الاقوامی منافرت اور جنگ وجدال کی صورت اختیار کرلی ہے۔ محنت پرستوں اور استحصال زدہ طبقوں کو چین،روس اور اُن کے حواریوں کی تائید حاصل ہے جبکہ سرمایہ پرستوں کو امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت پر ناز ہے۔روس اور اس کے ہم نوا اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کررہے ہیں۔اس کے برعکس امریکہ اور اس کے حاشیہ بردار ممالک سرمایہ داری کے نظام کو دنیا میں غالب رکھنے کے حق میں ہیں۔ علامہ اقبالؒ اُن کی باہمی چپقلش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ محنت وسرمایہ دنیا میں صف آراہوگئے دیکھئے ہوتا ہے کس کس کی تمنائوںکا خوں (کلیات اقبال،ص۲۸۹) علامہ اقبالؒ کی ہمدردیاں زیادہ تر سوسائٹی کے مظلوم، مجبور، اور مقہور انسانوں کے ساتھ وابستہ ہیں کیونکہ اسلام کسی طرح بھی ظلم واستبداد کے نظام کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ تو زکوٰۃ، اِنفاق فی سبیل اﷲ اور صدقات کے ذریعے معاشی ناانصافی اور عدمِ مساوات کو ختم کرکے عادلانہ نظام اقتصادیات کے قیام کے زبردست حامی ہے۔ وہ تو دولت کی تقسیم کے اُصول کی حمایت کرتے ہوئے دولت میں غربائ،مساکین، والدین، قریبی عزیزوں،بیوائوں،جاجت مندوں اور مسافروں کا حق بھی تسلیم کرتے ہوئے یہ اعلیٰ تعلیم دیتا ہے:’’ ما انفقتُم منِ خیر فٰللو الدینِ والا ُقربینِ والیتٰمٰی والمسٰکین وابن الّسبُیل‘‘(البقرہ ۲:۲۱۵)( جو کچھ تم خرچ کرو اس میں والدین،رشتہ داروں،یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے)۔ علامہ اقبالؒ نے یہاں اس امر پر اظہارِ تاسف کیا ہے کہ تہذیب وترقی کے اس دور میں بھی بعض مفکروں اور فلسفیوں نے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز پیش کیا ہے حالانکہ کسی بھی انسانیت سوز اور اخلاق سے عاری نظام حیات کی حمایت انسان دشمنی سے کم نہیں ۔ یہاں جرمنی کے مشہور ومعروف فلسفی نطشے کی مثال دی جاسکتی ہے جو سوسائٹی میں عدم ِمساوات کا زبردست حامی اور سوشلزم کا عظیم ترین مخالف تھا۔وہ تو بس فلسفہ طاقت اور سپرمین ہی کو خلاصہ حیات خیال کرتا تھا۔وہ کمزور انسانوں کے وجود کو سپرمین کے وجود کے لیے لازمی شرط قرار دیتا تھا۔علامہ اقبالؒ بھی طاقت کی قدر کے حامی تھے مگر وہ اسے اخلاقی صفات اور انسانی اقدار کے تابع رکھنے کے حق میں تھے۔ نطشے کی طرح وہ محض جلال کے قائل نہیں تھے بلکہ جمال(اخلاقیات) کے بھی حامی تھے۔نطشے کا ایک قول ملاخطہ ہو: "There are some that preach my doctrine of life but at the same time are preachers of equality.----- I do not wish to be confounded with these preachers of equality. For within me justice saith,Men are not equal." (Outline of Philosophy,p.374) غریبوں، مزدوروں،کسانوں اور مظلوم انسانوں کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی ہمدردی کی چند مثالیں دیکھئے۔وہ فرماتے ہیں: ؎کارخانے کا ہے مالک مردک ناکردہ کار عیش کا پُتلا ہے‘ محنت ہے اسے نا ساز گار حکمِ حق ہے یس لْلِد نسانِ اِلاّ ماسعیٰ کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار (کلیات اقبال،ص ۲۹۱) ؎ دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو ذکات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات ( ایضاً،ص۲۶۳۔۲۶۲) اب سرمایہ دارانہ نظام کے عقلی جواز کی نوعیت سے متعلق چند اور اُمور پر غور وفکر کیا جاتا ہے۔آئیے ہم یہاںمجملاً پر اس امر کا جا ئزہ لیںکہ بعض فلاسفہ اور اہل دانش سرمایہ داری کے جواز میں کیا کہتے ہیں۔اُن کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے: (۱)سرمایہ داری کوئی غلط نظام نہیں کیونکہ محنت کی طرح سرمایہ بھی ہماری زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ (۲)محنت سرمائے کو پیدا نہیں کرتی بلکہ سرمایہ محنت کو پیداکرتا ہے۔ (۳) کائنات میں کہیں بھی مساوات نہیں اس لیے معاشی نظام میں بھی مساوات کا اُصول درست نہیں۔ (۴) دنیا کا نظام چلانے کے لیے حاکم ومحکوم اور اعلیٰ وادنی کی تمیز لازمی ہے۔اگر کوئی بھی محکوم اور غریب نہ رہے تو یہ نظام کیسے چلے گا؟ (۵) اسلامی معیشت میں انفرادی ملکیت کو غلط نہیں کہا گیا۔زکوٰۃ‘صدقات اور اِنفاق فی سبیل اﷲ کے احکام خود معاشی عدم مساوات کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں۔ (۶) غریبی اور امیری قدرت کی پید اکردہ ہیں۔غریبوں کی قسمت میں غریبی ہی لکھی تھی۔ (۷)غریب خود سستی ‘کاہلی اور ذاتی کوتاہیوں کے سبب غریب بن جاتے ہیں۔ (۸) دنیا میں طاقت کا اُصول کارفرما ہے۔ہر طاقتور وغالب اور ہر کمزور مغلوب ہوگا۔ یہ سارے دلائل درست قرار نہیں دئیے جاسکتے کیونکہ خدا کسی بھی طرح ظلم واستحصال کے نظام کو خیر نہیں کہتا۔چالاک،ہوشیار اور زر پرست انسان ہمیشہ مکاری سے کام لے کر اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور اُسے خدا کے سر تھوپنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ : ؎ تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاںجن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر (کلیات اقبال،ص۴۷۸) شریعت اور طریقت (۱)’’عبدالقدوس گنگوہیؒ نے کہا تھا:’’ محمد عربیؐ عر شِ معلّٰی پر پہنچ کر واپس آگئے تھے لیکن اگر میں اُس مقام تک پہنچتا تو خدا کی قسم ہرگز واپس نہ آتا‘‘ (پانچواں خطبہ) برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور ولی عبدالقدوس گنگوہیؒ تصوف اور معرفت کے اسرار ورموزِ سے باخبر تھے۔اُنھوں نے ایک بار قلبی واردات اور روحانی مکاشفات کی اہمیت اور غایت الہٰی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے مقام نبوت عطا ہوتا اور میں رسول کریمؐ کے مانند معراج کے لیے عرش معلّٰی تک پہنچتا تو میں ہرگز وہاں سے واپس نہ آتا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ ذیل قول میں اسی صوفیانہ شعور اور شعور نبوت کے بنیادی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ صوفی کامقصد حیات خدا تعالیٰ کا وصال اور ذاتِ الہٰی میں ادغام ہوتا ہے۔ تمام صوفیانہ تربیت اور روحانی مدارج کا نقطہ کمال ذاتِ خداوندی میں اس طرح مل جانا ہے جیسے قطرہ سمندر میںجاکر مل جاتا ہے۔تصوف ومعرفت کا یہی سب سے بڑا نصب العین قرار دیا جاتا ہے۔اس کے برعکس نبی اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے بعد واپس آجاتا ہے تاکہ وہ خدائی قرب کی بدولت حاصل ہونے والے فیوض واثرات سے سب انسانوں کی زندگیوں میں تعمیری اور دیرپا انقلاب پیدا کرسکے۔ صوفی اور نبی کے فرق مقاصد کے اہم پہلو درج ذیل ہیں: (۱) صوفی کی نظر میںقلبی واردات اور وجدانی کیفیات کی غایتِ اُولی محض دیدار الہٰی اور وصال ابدی ہے۔اس کے برعکس نبی یا پیغمبر دیدار خداوندی اور قرب الہٰی کو منتہائے مقصود سمجھ کر اسی دنیا میں گم نہیں رہتا بلکہ وہ معاشرے میں حیرت انگیز انقلاب کا علم بردار بن جاتا ہے۔ (۲) صوفی صرف اپنی ذاتی نجات کے لیے زیادہ تر تگ ودو کرتا ہے جبکہ نبی باقی انسانوں کی نجات اور فلاح کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے۔ (۳)صوفی خدا کا قرب پانے کے بعد دنیا میں رجعت کا خواہاں نہیں ہوتا۔اس کے برعکس نبی کی رجعت انسانیت ساز، تعمیری،دیرپاا ور عظیم معاشرتی اور ذہنی انقلاب کی تخلیق کا باعث بن جاتی ہے۔ (۴) نبی یاپیغمبر اپنی وجدانی کیفیات اور روحانی واردات کو ایک عملی اور زندہ شکل میں دیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔یہی اس کے روحانی مکاشفات اور عہد آفریں کمالات کی قدر وقیمت کا عملی امتحان ہوتا ہے۔ (۵) صوفی خلوت پسندی کا دلدادہ ہوتا ہے جبکہ نبی جلوت آرائی کو بھی پسند کرتا ہے۔ (۶) صوفی زیادہ تر روحانی تطہیر پر زور دیتا ہے۔نبی روحانی پاکیزگی کے علاوہ باقی شعبہ جات زندگی میں بھی تطہیر چاہتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اس بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔ "The Prophet's return is creative" (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.124) علامہ اقبالؒکے مندرجہ ذیل اشعار نبوت کے چند اہم اور نمایاں پہلوئوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:۔ ؎ پختہ ساز و صحبتش ہر خام را تازہ غوغائے دہد اّیام را حکمتش برتر زعقلِ ذوفنون از ضمیرش اُمّتے آید بروں بحر و بر از زورِ طوفانش خراب در نگاہ اُو پیام انقلاب من نمے دانم چہ ا فسون می کند روح را در تن دگرگوں می کند (کلیات اقبال، (فارسی )،ص ۸۰۹۔۸۰۸) (۲)پیغمبر اسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے ہادئی اعظم اور محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات کے کمالات نبوتّ اور صفات حسنہ کا بار بار اپنی شاعری اور نثر میں بڑے احترام کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔محبوبؐ خداکا ذکر کرتے ہی اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رسول کریمؐ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اُنھوں نے ذاتِ محمدیؐ کے گوناگوں محاسن کا محض جذباتی انداز ہی سے نہیں بلکہ فکری اور تاریخی طور پر بھی بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔جوں جوں وہ محمدیؐ تعلیمات اور کردارِ رسول کریمؐ کا مطالعہ کرتے گئے تو ں توں اُن پر عظمت رسولؐ کے اسرار منکشف ہوتے گئے۔اس لحاظ سے اُن کا تذکرہ رسولؐ جذ بہ و فکر کا حسین اور روح پرور امتزاج ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو علامہ اقبالؒ نے قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان مقام اتصال قرار دیا ہے۔ اُن کی رائے میں رسول کریمؐ کی نبوت ماضی اور حال دونوں سے پیوستہ ہے کیونکہ اپنے سرچشمہ الہام کی بدولت وہ دنیائے قدیم سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنے الہام کی سپرٹ کی رُو سے وہ دنیائے جدید کے بھی قائد ہیں۔شاعر مشرق اور مفکر اسلامؒ کا خیال ہے کہ نبی کریمؐ کی ختم نبوتّ نے ہمیں اس بات کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے کہ انسانیت ذہنی بلوغ کی حامل ہوگئی ہے اس لیے اب انسانوں کو خدائی ہدایت کے ابد ی اُصولوں کی روشنی میں جدید مسائل کے حل کے لیے فکر وتدبر‘ مطالعہ کائنات اور تاریخ سے بھی کام لینے کی اجازت مل گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں نبوتّ محمدیؐ موجودہ اور آئندہ ادوار کے لیے بھی روشنی کا عظیم ترین مینار ثابت ہوگی۔ آئیے پیغمبر اسلام ؐ سے پہلے کی قدیم دنیا اور جدید دنیا کے اختلاف اور رحمتِ دوعالم ﷺ کی مرکزی حیثیت کا اجمالی جائزہ لیں: (۱) ازمنہ قدیم میں انسانی ذہن طفولیت کے عالم میں تھا اس لیے وہ اسرارِ کائنات اور ادق مسائل حیات کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ان حالات میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیائے کرام ؑکا سلسلہ جاری کیا گیا ۔ (۲) دنیائے قدیم کے لوگوں کے لیے خدائی ہدایت کی رُو سے الہام ووحی پر مبنی احکام دئیے گئے تاکہ لوگ ان بنے بنائے اُصولوں پر بلاچون وچرا عمل کرتے جائیں۔ (۳)رسول کریم ﷺ کی نبوتّ اس بات کی غماز تھی کہ اب انسانوں کو ذہنی بلوغت حاصل ہوچکی ہے اس لیے وہ الہام کے ساتھ ساتھ وحی کی روشنی میں اپنے نئے نئے مسائل کی گرہ کشائی کے لیے غور وفکر‘مشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت سے بھی کام لے سکتے ہیں۔ (۴) قرآن مجید کا نزول فی الحقیقت عقل استقرائی اور تفکر وتدبر کا آغاز ہے۔قرآن مجید نے جا بجا ہمیں کائنات کے عمیق مشاہدے اور تاریخ کے گہرے مطالعہ کی دعوت دی ہے تاکہ ہم تسخیر کائنات کے لائق بن جائیں۔ اس قرآنی تعلیم کی بدولت مسلمان تجرباتی سائنس کے بانی بنے اور بعد ازاں مغربی ملکوں نے اُن سے فیض حاصل کرکے جدید علوم کو بہت فروغ دیا۔ (۵) سابقہ انبیائے کرامؑ کی طرح رسول کریمؐ بھی سرچشمہ الہام سے فیض یاب ہوئے مگر اُنکی نبوتّ مقامی اور ہنگامی نہیں کیونکہ اب اُن کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔موجودہ اور آنے والے ادوار کے انسان اب نبوتّ محمدیؐ ہی کے زیر اثر رہیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بھی ملاخطہ ہوں۔و ہ کہتے ہیں: ؎پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بررسولؐ ما رسالت ختم کرد رونق ازما محفل اّیام را او رسل را ختم و ما اقوام را (کلیات اقبال،(فارسی،ص۱۰۲) شعور (۱)’’شعور کاکام ایسا نقطہ نور مہیا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔یہ نقطہ موقع ومحل کے مطابق پھیلتا اور سکڑتا ہے۔اس طرح شعور ِزندگی کے خالصتاً روحانی اُصول کے تنوع کا نام ہے جو مادّہ نہیں بلکہ ایک نتظیمی اُصول اور محضوص طریق عمل ہے‘‘۔ (دوسراخطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی کتاب’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں ہر قسم کے اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔اس کتاب میں صرف دین ومذہب اور سیاسیات ہی پر روشنی نہیں ڈالی گئی بلکہ معاشرت،معیشت، تاریخ، تصوف ومعرفت اور نفسیات کے بارے میں بھی خیالات کو بیان کیا گیاہے۔ مندرجہ بالا الفاظ میں اُنھوں نے شعور کی نوعیت اور اہمیت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے جسے فوراً سمجھ لینا کسی قدر دشوار نظر آتا ہے۔شعور کی بحث کے ضمن میں اُنھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے: (۱) شعور ایک ایسا نورانی نقطہ ہے جوزندگی کی پیش رفت اور ارتقائی حرکت کو منور کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی کتاب’’اسرار خودی‘‘ میں خودی کو بھی’’نقطہ نورے‘‘اور ہمارے جسم میں اُسے’’شرارِ زندگی کا نام دیاہے: ؎ نقطہ نورے کہ نامِ اُو خود ی است زیر خاکِ ماشرارِ زندگی است(کلیات اقبال‘فارسی) (ب) اپنے خطبات میں اُنھوں نے اسے حالت کشمکش اور ارتکازِ ذات کی حالت بھی کہا ہے: "It is a case of tension, a state of self-concentration--" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.40) (ج) علامہ اقبالؒ کی رائے میں شعور(نقطہ نوری) موقع ومحل کے مطابق بڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ساز گار اور ناسازگار حالات سے اس کے پیدا شدہ رّدعمل پر اس کی فراخی اور تنگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ وہ ’’اسرارِ خودی‘‘ میں اس کی پائندگی‘شعور‘سوزِزندگی اور تابندگی کو جذبہ عشق ومحبت پر مبنی خیال کرکے فرماتے ہیں: ؎ از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر‘سوزندہ تر‘تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکناتِ مضمرش (ایضاً) علامہ اقبالؒ شعور کو زندگی کے روحانی اُصول کی قسم قرار دیتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے شعور مادّے کی پیدا وار نہیں۔اگر ہم اسے مادّے کی پیدا وار خیال کریں تو پھر ہم اس کی آزادی اور سرگرمی کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ شعور اور مادّے کے باہمی ربطہ وامتیاز کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ چہ نورے جاں فروزے سینہ تابے نیر زد با شعاعش آفتابے بخاک آلودہ وپاک ازمکان است بہ بندِ روز وشب پاک از زمان است (کلیات اقبال،فارسی،ص۵۴۰) جرمنی کا ایک مشہور فلسفی شوپنہار(۱۸۶۰۔۱۷۸۸ئ) شعور کی نوعیت کی یوں تعریف کرتا ہے: "Consciousness is the mere surface of our minds, of which, as of the earth, we do not know the inside but only the crust." (Will Durant,Outline of Philosophy,p.274) (ہ) شعور کو علامہ اقبالؒ نے ایک’’تنظیمی اُصول‘‘ اور’’محضوص طریق عمل‘‘ کا نام دیا ہے۔اس لحاظ سے شعور ایک ایسی قوت ناظمہ ٹھہرتی ہے جو ہمارے خیالات اور احساسات کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کرتی ہے۔ہمارے گوناگوں افکار وجذبات کی یہ شیرازہ بندی شعور کی خاص امتیازی حیثیت ہے۔ جس طرح عقل کی کئی قسمیں ہیں اسی طرح شعور کے بھی کئی مدارج ہیں ۔ شعور ناقص اور شعور کامل ‘عام انسانی شعور‘ صوفیانہ شعور اور پیغمبرانہ شعور وغیرہ۔ (۲) ولیم جیمز شعور کو ’’جوئے خیال‘‘تصور کرتا ہے۔اس سے اُس کی مراد مسلسل تغیرات کی شعوری رُو ہے…دراصل شعور ایک وحدت ہے اور ذہنی کیفیات کی بنیاد ہے۔ یہ شعور کے اُن اجزا کا مجموعہ نہیں جو ایک دوسرے کو اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) امریکہ کے نامور فلسفی اور ماہر نفسیاتWilliam James(۱۹۱۰۔۱۸۴۲ئ) نے اپنی کتاب’’ اُصول نفسیات‘‘مطبوعہ ۱۸۹۰ء میں تجرباتی نفسیات کی بنیاد ڈالی تھی۔وہ ہر نظریے کو اس کی عملی قدر وقیمت کے مطابق اچھا،برا،مفید یا مضر خیال کرنے کا حامی تھا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا الفاظ میںولیم جیمز کے نظریہ شعور کو بیان کرنے کے علاوہ اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ ولیم جیمز کو انگریز نفسیات دانوں کے ایک مکتب فکر کی جوہر پرستانہ(atomistic) نفسیات سے سخت اختلاف تھا جس نے خیال کو میکانکی طور پر آپس میں مربوط الگ نظریات کا سلسلہ قرار دیا تھا۔ یہ ماہرین نفسیات خیال کو جداگانہ نظریات کے میکانکی ربط کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ ولیم جیمز نے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’خیال منتشر تصورات کا سلسلہ نہیں بلکہ یہ ندّی کی مانند رواں دواں ہے‘‘۔ باالفاظ دیگر یہ جذبات واحساسات کی ایسی وحدت ہے جس میں تصورات بھی شامل ہوتے ہیں۔ولیم جیمز کے اس نظریے کی روح یہ ہے: "Consciousness is not an entity, not a thing, but a flux and system of relations; it is a point at which the sequence and relationship of thoughts coincide illuminatingly with the sequence of events and relationship of things." (Outline of Philospphy,p.436) علامہ اقبال ؒنے ولیم جیمز کے تصورِ شعور کے بارے میں جو کچھ اوپر کہا ہے اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل اُمور لائق مطالعہ ہیں: (ا) ولیم جیمز شعور کی تعریف کرتے ہوئے اسے’’جوئے خیال ‘‘کہتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ’’جوئے خیال ‘‘سے ولیم جیمز کی مراد مسلسل تغیرات کی شعوری رو ہے۔ (۲) ولیم جیمز کی رائے میں شعور(جوئے خیال) یا خودی ہمارے ذاتی احساسات وجذبات پر مشتمل ہونے کی حیثیت سے ہمارے نظام فکر ہی کا حصہ ہے۔اس لحاظ سے خودی فکر کا حصہ قرار پاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ ولیم جیمز کے اس نظریہ شعور وخودی سے مکمل طور پر متفق نہیں کیونکہ وہ خودی اور شعور(نقطہ نوری) کو ایک ناقابل تقسیم وحدت اور ذہنی کیفیات کی بنیاد سمجھتے ہیں۔’’جوئے خیال‘‘ سے تو حضرت علامہ اقبالؒ کو اتفاق ہے مگر وہ اسے خیال وفکر کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔اُن کی رائے میں خودی اور شعور کو ذہنی کیفیت اور خیال پر تقدم حاصل ہے اس لیے ولیم جیمز کا یہ تصور مکمل طور پر ہمارے باطنی شعور(خودی) کی ماہیت کا انکشاف نہیں کرتا۔وہ اس کو ہدف تنقید بناتے ہیں:۔ "Consciousness is something single, presupposed in all mental life, and not bits of consciousness mutually reporting to one another" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.102) صوفی (۱)’’ جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کے ساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زمانِ مسلسل کے عدم تحفظ کا احساس ہوتاہے۔اس کے باوجود اُس کا زمانِ مسلسل کے ساتھ تعلق مکمل طور پر منقطع نہیں ہوتا‘‘۔ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں صوفیانہ واردات اور وجدانی کیفیات پر مشتمل روحانی تجربات کی چند اہم خصوصیات کو بڑے ہی مختصر انداز میں بیان کیا ہے۔اُن کی رائے میں باطنی تجربات بھی خارجی تجربات کی مانند حصول علم کا مفید اور حقیقی ذریعہ ہیں کیونکہ قرآن حکیم نے ’’آفاق‘‘ کے علاوہ’’انفس‘‘ کو بھی اپنی نشانیوں کا حامل قرار دیا ہے۔ خداوند تعالیٰ ہر لمحہ اپنی تجلیات کو ظاہر کرتا ہے۔اس کی قدرت کاملہ،حکمت بالغہ،رحمت عامّہ اور ربوبیت تامّہ کی حیرت انگیز نشانیاں مادی دنیا میں بھی عیاں ہیں اور روحانی دنیا میں بھی۔حضرت علامہ اقبالؒ کی رائے میں جس طرح حواس کے ذریعے ہمیں خارجی اور مادی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں اسی طرح قلبی واردات اور وجدانی لمحات کی وساطت سے ہمیں باطنی اور روحانی دنیا کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ وہ خارجی اور سائنسی علم کی طرح باطنی اور صوفیانہ واردات کو بھی حقیقی اور مفید خیال کرتے ہیں۔اُنھوںنے اپنے مندرجہ بالا قول میں جو کچھ بیان کیا ہے‘ اس کے اہم نکات یہ ہیں: (الف ) علامہ اقبالؒ قلبی وارادات کی بنا پر صوفی کی خدا کے ساتھ گہری وابستگی اور قرب کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب صوفی جذب وشوق کی حالت میں ہو تو اسے اُس وقت خدا کے ساتھ وقتی طور پر مضبوط وصال کا شدید احساس ہوتا ہے۔چونکہ یہ تجربات شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے وہ ناقابل تجزیہ اور ناقابل ابلاغ ہیں۔ (ب)خدا کے ساتھ گہری وابستگی کے وقت صوفی کو جذب وشوق کی اس حالت میں زمانِ مسلسل(serial time) کے عدم حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ زمانِ مسلسل دنوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن زمانِ حقیقی میں روز وشب،ماہ وسال،ماضی،حال اور مستقبل کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ صوفی پر جب وجد اور ذوق کی حالت طاری ہوجاتی ہے تو و ہ شدت احساس کے تحت فکر کو فراموش کردیتا ہے۔ایسی حالت میں اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خارجی وقت حقیقت نہیں رکھتا۔ خدا کے ساتھ گہری وابستگی اسے چند لمحات کے لیے زمانِ جاودانی کا احسا س دلاتی ہے اس لیے اسے زمان مسلسلِ کی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ دیدار الہٰی کو کمال ِزندگی اور زمان ومکان سے بے نیازی کا سبب گردانتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ کمال زندگی دیدارِ ذات است طریقش رستن از بند جہات است (کلیات اقبال،(فارسی)ص ۵۵۹) (ج) صوفی جذب ومستی کے عالم میں جب خدا کا قرب اور معیت محسوس کرتا ہے تو اُسے عارضی طور پر زمان ِ مسلسل کے غیر حقیقی ہونے کا احسا س ہوتا ہے۔ خدائی قرب کے عارضی مگر فیضانی لمحات گزرنے کے بعد دوبارہ اُسے زمانِ مسلسل سے واسطہ پڑتا ہے۔حیات دنیوی میں ہم تسخیر زمان کے باوجود مکمل طور پر زمانِ مسلسل کی حدود سے باہر نہیں جاتے۔ عقل وخرد (۱)’’اسلام میں عقلی بنیادوں کی تلاش کا سلسلہ رسول کریمؐ کی ذاتِ بابرکات سے شروع ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتے تھے الّٰلھم ارِنیِ حقائق الاشیا ء کما ھی (اے اﷲ! تو مجھے چیزوں کی اصلیت سے آگاہ کر)۔ (پہلا خطبہ) فلسفہ‘سائنس اور دین ومذہب کی ساری تگ ودو کا اوّلین مقصد تلاش حقیقت اور صداقت طلبی ہے۔اگرچہ تینوں کی منزل مقصود ایک ہی ہے مگر وہ مختلف ذرائع اختیار کرتے ہیں۔سائنس محسوسات کے ذریعے خارجی حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے جبکہ فلسفہ ظن وتخمین پر مبنی عقل استدلالی ہے۔اس کے برعکس حقیقی مذہب ظاہر وباطن‘مادہ وروح‘ دنیا وآخرت اور جذبہ و فکر کا دلکش امتزاج ہوتا ہے۔فلسفہ محض عقل وخرد کا زنّاری ہوتا ہے لیکن مذہب کا زیادہ تر انحصار اعمال و عقائد پر ہوتاہے۔عمل وعقیدہ کے ساتھ ساتھ یہ عقل ِ انسانی کی جائز اہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے ان مندرجہ بالا الفاظ میں اسلام اور عقل کو ایک دوسرے کا مخالف قرار نہیںدیا بلکہ اُنھیں ایک دوسرے کا معاون کہا ہے۔اس ضمن میں اُنھوں نے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کی ایک دعا کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام میں عقل کی افادیت اور حقیقت طلبی کی اہمیت پر تبصرہ کیا ہے۔ اسلام کے بارے میں جہاں اور غلط فہمیاںپیدا کی گئی ہیں‘وہاں یہ غلط تصور بھی عام کردیا گیا ہے کہ اسلام میں عقل کو کوئی دخل نہیں۔اپنوں کی جہالت اور غیروں کے تعصب وعناد نے اس غلط فہمی کو پھیلانے میں نمایاںکردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کی متعدد آیات میں ہمیں غور وفکر،تدبر و تعقل، مطالعہ تاریخ،مشاہدہ کائنات اور حوادثِ زمانہ کے عمیق ادراک کی تلقین کی گئی ہے۔ کیا یہ امر واقعی نہیں ہے کہ تسخیر کائنات سے قبل علِم کائنات بھی ضروری ہوا کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ علم کائنات حاصل کرنے کے لیے مطالعہ‘مشاہدہ اور غور وفکر کو بروئے کار لائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔قرآنی تعلیمات کے علاوہ رسول کریمؐ کے ارشادات نے بھی عقل وفکر کے جائز استعمال پر کافی زور دیا ہے۔ اس بارے میں علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کے ان مبارک اور فکر انگیز الفاظ کا یہاںحوالہ دیا ہے جن سے ہمیں اشیائے کائنات کے مطالعہ اوران سے واقفیت کی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔نبی کریمؐ کی ذات باقی انسانوں کی نسبت حقائق حیات سے زیادہ باخبر ہوا کرتی ہے۔عام انسان تو عقل سست رفتار کی بدولت حقائق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں مگر نبی کریم ﷺ کو وحی والہام کے فوری اور یقینی ذریعے سے مطلوبہ حقا ئق معلوم ہوجاتے ہیں۔اس وسعت علم کے باوجودہ نبی کریمؐ خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اُنھیں چیزوں کی اصلیت سے آگاہ کردے۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ بجا کہتے ہیں کہ اسلام میں عقل وخرد کی اہمیت پر اصرار کا آغاز خود رسول کریم ؐ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا۔ بعد میں مسلمان حکماء اور فلاسفہ نے اطاعت رسول ؐ کا ثبوت دیتے ہوئے علم وحکمت کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دے کر اہل دنیا کو حیران کردیا تھا۔علامہ اقبال نے درست ہی کہا تھا:۔ ؎ بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے؟ یہ ہے نہایت اندیشہ وکمالِ جنوں (کلیات اقبال،اُردو،ص۵۱۰) (۲) کانٹ کی’’تنقید عقل محض‘‘ نے انسانی عقل کی حدود کو واضح کرتے ہوئے عقلیت پسندوں کے کام پر پانی پھر دیا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے فلسفیانہ نظام کا ایک پہلو عقل پرستی(Rationalism) کی تنقید سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی کے لیے عقل وخرد کے عام استعمال کے تو قائل تھے مگر وہ اسے حق وباطل کا واحد اور مکمل معیار نہیں مانتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن حکیم نے غور وفکر اور تدبر وتعقل کا حکم دیاہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے عقل پر وحی والہام کی برتری پر بار بار زور دیا ہے۔انسانی عقل تمام مرئی اور غیرمرئی حقائق کے بارے میں ہمیں یقینی اور کامل معلومات بہم نہیں پہنچاسکتی۔ مادی دنیا کے کئی اہم اُمور ابھی تک ا س سے طے نہیں ہوسکے چہ جائیکہ وہ مابعد الطبیعیاتی اُمور،عالم آخرت کے احوال اور روحانی حقائق کو منکشف کرے۔علاوہ ازیں عقل کے پیش کردہ افکار ونظریات ہر دور میں تغیر پذیر ہوکر اپنی ناکامی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔اس کے برعکس وحی والہام پر مبنی حقائق تغیر وثبات کے حامل ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ عقل وخرد کو بھی انکشافِ حقیقت کا ذریعہ خیال کرتے ہیںلیکن عقل جن حقائق کو عرصہ دراز کے بعد دریافت کرسکتی ہے وحی اُنھیں پہلے ہی سے ظاہر کردیتی ہے۔شاعر مشرقؒ نورِ عقل اور نورِ دل کے فرق کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں: ؎ عقل گو آستاں سے دُور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں (کلیات اقبال،(اُردو) ص۳۳۵) جرمنی کے ایک عظیم اور شہرت یافتہ فلسفی کانٹ(۱۸۰۴۔۱۷۲۴ئ)نے اپنی مایہ ناز کتاب’’تنقید عقل ِمحض‘‘ لکھی تھی جو۱۷۱۸ء میں شائع ہوئی۔اُس نے اس کتاب میں اشیا کی اصلیت اور اُن کی ظاہری حالت کے درمیان فرق واضح کرنے کے علاوہ حسّی معلومات اور ظاہری تجربات کے عدم تیقّن پر بھی روشنی ڈالی تھی۔اس کے فلسفیانہ افکار کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ محسوسات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات حقیقی اور یقینی نہیں اور محسوسات سے ماورا ذریعہ علم ہی حقیقی اور یقینی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عقل پرست اپنے نظریات کی بنیاد پر حوا س سے حاصل معلومات رکھتے ہیں۔کانٹ نے اس ذریعہ علم ہی کو غیر یقینی قرار دے کر عقل پرستوں کی عمارت کو مہذم کردیا ہے۔عقل پرستوں نے عقل ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔وہ اُسے معیار حق و صداقت قرار دیتے ہوئے اُن حقائق کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھے جو حواس اور عقل کی حد میں نہیں آتے۔ کانٹ نے اٹھارہویں صدی میں عقلیت کے خلاف جو قدم اٹھایا تھا،اس کے دیر پا اثرات رونما ہوئے ہیں۔اس سے چند صدیاں قبل عالم اسلام میں بھی امام غزالیؒ نے فلسفہ یونان کی پروردہ عقل پرستی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرکے مذہبی حقائق کا اثبات کیا تھا۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کانٹ عقل پرستی کے قلعہ کو مسمار کرنے کے بعد مذہب میں پناہ نہ لے سکا مگر امام غزالیؒ عقل کی گرفت سے آزاد ہوکر تصوف کی دنیا میں داخل ہوگئے تھے۔علامہ اقبالؒ نے کانٹ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب’’پیامِ مشرق‘‘ میں یہ کہا ہے: ؎ فطرتش ذوقِ مئے آئینہ فامے آوُرد ازشبستانِ ازل کو کبِ جامے آورد (کلیات اقبال،فارسی،ص ۳۸۱) علم (۱)’’انسان کی زندگی اور اس کی خارجی ترقی کا دارومدار کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری پر ہے۔صرف علم کی بنا پر ہی یہ تعلقات قائم کئے جاتے ہیں۔علم کی بدولت ہی انسان حقیقت کے قابل مشاہدہ پہلو تک رسائی حاصل کرتا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ بلاشبہ مشرقی اور مغربی علوم سے واقف اور قوموں کے عروج وزوال کے اُصولوں سے باخبر تھے۔وہ ملّی ترقی کی بنیاد فرد کی ترقی تصور کرتے تھے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ اُنھوں نے اپنے کلام میں عمل پر بہت زور دیا ہے مگر وہ علم کی اہمیت وافادیت کے بھی زبردست قائل تھے۔ان کا یہی توازن خیالات اُن کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا واضح ثبوت ہے۔اُنکی رائے میں علم کی بدولت ہی انسان اپنی زندگی کو بہتر اور خوشگوار بناسکتا ہے۔وہ انسانی عظمت اور تسخیر کائنات کاایک اہم ذریعہ علم کو قرار دیتے ہوئے انسانی ارتقاء اور برتری کے یوں گن گاتے ہیں:۔ ؎ عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہشاں، یہ ستارے،یہ نیلگوں افلاک (کلیات اقبال،ص۳۵۸) وہ حصول علم کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے ہمیں کائنات کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ہم اشیاء فطرت میں نور خداوندی اور حکمتِ ایزدی کے اسرارِ وحقائق ملاحظہ کریں۔قرآن حکیم نے بیشتر مواقع پر فطرت کے حسین و حیرت انگیز واقعات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے مثلاً یہ آیت دیکھئے:’’ افلا ینظرون اِلی الابل کیف خلقت واِلی السّماء کیف رفُعت‘‘(الغاشیہ ۸۸:۱۷) قرآن حکیم کی اس سورہ(غاشیہ) میں ہمیںنظام فطرت کا بغور مطالعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔جب تک مسلمان اس حکم پر کاربند رہے وہ دنیا میں عظمت وسطوت کے مالک رہے لیکن جب اُنھوںنے تسخیر کائنات سے منہ موڑ لیا تووہ مغلوب ومحکوم ہوکر قعر مذلت میں جاگرے۔علامہ اقبالؒ اس بات پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎ خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں ہُوا نہ کوئی خدائی کار راز داں پیدا علم اور انسانی زندگی کی بہتری ‘مادی ترقی اور مطالعہ فطرت کے باہمی ربط کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا مندرجہ بالا قول حقیقت کشا اور خیال افروز ہے۔اُنھوں نے اس میں درج ذیل اُمور پر روشنی ڈالی ہے۔ (الف) انسانی زندگی اور خارجی ترقی کا کائنات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں یونہی نہیں بھیجا بلکہ اس کی ایک غرض وغایت یہ بھی ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی تخلیقی اور عملی قوتوں کو بروئے کار لائے اور اپنی زندگی میں نکھار پیدا کرے۔کائنات کو سراب اور بے کار خیال کرنے والا انسان کبھی بھی اس کے ساتھ گہرا تعلق نہیں رکھے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مادی اور سائنسی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ (ب) علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ علم کے بغیر کائنات سے مضبوط تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔جب ہم کائنات کو حقیقی،مفید اور اہم خیال کریں گے تو لامحالہ اس کی نوعیت اور اسرار کو جاننے کے خواہش مند ہوں گے۔اس طرح علم کی بدولت ہم کائنات کے مطالعہ میں منہمک ہوجائیںگے۔کائنات کو واہمہ قرار دینے والے ہرگز اس کے حقائق کو دریافت کرنے کے درپے نہیں ہوں گے۔ (ج) علم کے جذبے سے سرشار ہوکر ہی ہم خدا کی اس بنائی ہوئی کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ میں مصروف ہوں گے۔خدا تعالیٰ اپنی حکمت اور قدرت کی نشانیاں مادی دنیا میں بھی دکھاتا رہتا ہے ۔کیا اس حسین، وسیع اور حیران کر دینے والی کائنات اور اس کے گوناگوں مظاہر میں ہمیں خدا کی نشانیاں نظر نہیں آتیں؟کیا یہ مطالعہ کائنات اس طرح سائنسی اور خارجی ترقی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتا؟۔ (۲)’’ باطنی مشاہدہ تو انسانی علم کا صرف ایک ذریعہ ہے۔قرآن کی رُو سے علم کے دو اور ذرائع ہیں یعنی فطرت اور تاریخ‘‘۔ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے حصول علم کے تین اہم منابع کاذکر کیا ہے۔اُ ن کی رائے میں ایک ذریعہ علم کا تعلق ہمارے باطن سے ہے جبکہ باقی ذرائع خارجی دنیا سے متعلق ہیں۔خداتعالیٰ نے جب آدم کو پیدا کیا تو اسے اشیا کے ناموں سے آگاہ کیا۔یہی علم فضیلت آدم کا سبب بتایا گیا۔رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وحی والہام کا آغاز بھی ان آیات سے ہوا جن میں علم کا بیان ہے۔قرآن مجید میں ہمیں علم کے حصول کی یہ دعا سکھائی گئی ہے:’’ ربِّ زِدنیِ علِماً‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)،( اے پروردگار !مجھے اور زیاد ہ علم دے)۔ حصول علم کے لیے ہمیں وحی والہام،مطالعہ باطن، مطالعہ کائنات اور تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ وحی خداوندی کا سلسلہ تو رسول کریم ﷺ کی نبوت نے ختم کردیا ہے البتہ باقی ذرائع سے ہم فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا الفاظ میں جن تین اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے،اُن کی وضاحت ملاخطہ ہو۔ان تین اُمور کا تعلق باطنی مشاہدات،مطالعہ فطرت اور مطالعہ تاریخ سے ہے۔ (الف ) شاعر مشرق اور حکیم الاّمت علامہ اقبالؒ باطنی مشاہدات کو بھی ایک اہم ذریعہ علم خیال کرتے ہیں۔ باطنی مشاہدات اصل میں ہماری قلبی واردات اور روحانی تجربات کے آئینہ دار ہیں۔ قرآن نے’’آفاق‘‘ کے علاوہ’’ انفس‘‘ کو بھی خدا کی نشانیوں کا مظہر کہا ہے۔ ان باطنی مشاہدات پر زیادہ تر صوفیا اور اولیانے زور دیا ہے۔ صوفیانہ باطنی مشاہدہ وحی خداوندی سے برتر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نبی کو ہر لحاظ سے صوفی اور ولی پر فوقیت حاصل ہے۔ (ب) مطالعہ فطرت کو علامہ اقبالؒ نے حصول علم کا دوسرا اہم اور مفید ذریعہ کہا ہے۔مطالعہ فطرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اُنھوں نے قرآن حکیم کا بھی حوالہ دیا ہے۔ خالقِ کائنات نے باطنی دنیا کے علاوہ خارجی دنیا کو بھی اپنی خلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کا مظہر کہا ہے۔ اسلام زندگی کا جامع نظام ہونے کی حیثیت سے مادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔اتنی عظیم اور وسیع کائنات سے منہ موڑ کر ظلمت کدئہ خلوت میں بیٹھنا کسی طرح بھی قرآنی تعلیمات کے مطابق نہیں۔علامہ اقبالؒ مطالعہ فطرت کے بارے میں مزید فرماتے ہیں: ؎ ہر چہ مے بینی ز انوار حق است حکمتِ اشیا ز اسرار حق است ہرکہ آیاتِ خدا بیند حر است اصلِ ایں حکمت زحکم اُنظراست (کلیات اقبال،ص ۸۳۹) (ج) قرآن حکیم نے تاریخی واقعات(تذکربایام اﷲ) کو بھی علم حاصل کرنے کا ایک اہم منبع کہا ہے۔قرآن حکیم نے اکثر مقامات پر سابقہ اقوام اور تہذیبوں کے چیدہ چیدہ حالات کو بیان کیا ہے تاکہ ہم گذشتہ لوگوں کے غلط اطوار سے پرہیز کریں اور خدائی ضابطہ حیات کو مشعل ِ راہ بنائیں۔نوحؑ، لوطؑ، یونسؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، ابراہیم ؑ ‘ موسٰیؑ، عیسیٰ ؑ اور دیگر انبیائے اکرام کی اُمتوں کی مختلف خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔غلط قوموں پر گوناگوں عذاب نازل کئے گئے اور ان کی بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا۔قرآن ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنے کے لیے اُن کے تباہ شدہ مقامات کی سیاحت کا حکم دیتا ہے:’’ سیرِوا فی الارضِ فانظر وکیف کان عاقبتہ المکذبین‘‘ حضرت علامہ اقبالؒ تاریخ کے بارے میں یہ کہتے ہیں: ؎ چیت تاریخ! اے ز خود بیگانہ داستانے‘ قِصّہ ، افسانہ؟ ایں ترا از خو یشتن آگہ کند آشنائے کار و مردِ رہ کند (۳) حقیقت مطلقہ کے کّلی ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔قرآن اس علمِ باطن کا سرچشمہ’’فواد‘‘ یا ’’قلب‘‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ ’’دل‘‘ ایک قسم کا وجدان یا باطنی بصیرت ہے جو ہمارا تعلق حقیقت مطلقہ کے غیر حسّی پہلوئوں سے جوڑتی ہے۔اس کی اطلاعات کی اگر صحیح طور پر وضاحت کی جائے تو وہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہیں‘‘۔ (پہلا خطبہ) اس اقتباس میں علامہ اقبال ؒنے علم باطن اور قلبی واردات کی اہمیت کے چند اہم گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔حصول علم کا ایک ذریعہ’’قلب‘‘ یعنی دل بھی ہے جسے وہ ایک قسم کا’’وجدان‘‘ یا’’باطنی بصیرت‘‘کہتے ہیں۔ قلبی واردات کی درست وضاحت سے اُن کی معلومات کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی ذاتِ خداوندی کا عرفان صرف محسوسات کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا بلکہ غیر حسّی علم بھی اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اس اقتباس کے اہم اُمور یہ ہیں:۔ (ا)حسّی علم یعنی محسوسات پر مبنی علم کے علاوہ علم ِباطن بھی خداکے ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔خدا الظاہر بھی ہے اور الباطن بھی۔اس لحاظ سے اس کی نشانیاں ہمارے باطن یعنی نفس میں بھی پائی جاتی ہیں جیسا کہ ارشاد رباّنی ہے:’’ سنُرِ یھم اٰ یا تنا ‘‘ (عنقریب ہم اُنھیں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے )۔علامہ اقبالؒ وجدان یا باطنی بصیرت کو ’’خدا کے کامل دیدار‘‘ کا سبب خیال کرتے ہیں۔ وہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں واقعہ معراج کے ضمن میں کہتے ہیں:۔ ’’مردِ مومن در نساذ دباصفات… مصطفی راضی نشداِلّٰا بذات‘‘ مرد مومن کسی طرح بھی مصطفی کا ہم مرتبہ نہیںہوسکتا۔علاوہ ازیں حضرت موسیٰؑ کو تو اس دنیا میں کامل دیدار ایزدی نصیب نہ ہوسکا پھر صوفی کیسے پیغمبر پر بازی لے جاسکتا ہے؟۔ (ب)علامہ اقبالؒ ’’فواد‘‘ یا’’قلب‘‘(دل )کو علمِ باطن کا سرچشمہ کہتے ہیں۔وہ ’’دل‘‘ کو ایک قسم کا وجدان یا باطنی بصیرت قرار دیتے ہیں۔اس میںکوئی شک نہیں کہ قرآ ن کی رُو سے’’فواد‘‘(دل)’’سمع‘‘ (سماعت) اور’’ بصر‘‘(بینائی) کے بارے میں قیامت کے روز باز پرس ہوگی۔اپنے روحانی مرشد مولانارومؒ کی طرح علامہ اقبالؒ بھی دل کو انکشافِ حقائق کا آلہ سمجھتے ہیں۔مولانا رو مؒ بھی صاف اور پاکیزہ دل کو علوم انبیا کے حصول کا ذریعہ جانتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ خویش راصا فی کن از اوصاف خود تابہ بینی ذاتِ پاکِ صافِ خود بینی اندر دل علوِم انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا (رومیؒ) (ج)خدا تعالیٰ کو جاننے کا ایک طریقہ تو حسّی(perceptual) ہے جس کی حواسِ خمسہ پر بنیاد ہوتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ ہوتا ہے جو حواس کی دنیا سے ماوراہے۔ دوسرے لفظوں میں باطنی دنیا کا تعلق حواسِ خمسہ سے نہیں ہوتا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ دل ہمارا تعلق غیر حسّی پہلوئوں یعنی باطنی اور نادیدنی حقائق سے جوڑ دیتا ہے۔اس نقطہ نگاہ سے نادیدنی حقائق کا عکس ہمارے آئینہ دل پر پڑتا ہے اور ہمیں غیب کے اُمور سے آگاہی ہوجاتی ہے۔اُن کی ایک نظم’’ عقل ودلِ‘‘ میں عقل اور دلِ کا مناظرہ دکھایا گیا ہے اس کے یہ چار اشعار بے محل نہیں ہوں گے۔ ؎ عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں (کلیات اقبال،ص۴۱۔۴۲) (د)علامہ اقبال دل یا وجدان یا باطنی بصیرت کی معلومات کو ظاہری علم کی مانند حقیقی‘ اہم اور مفید سمجھتے ہیں بشرطیکہ ہم اُنھیں صحیح انداز میں بیان کریں۔اس ضمن میں اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوفیانہ واردات کسی ایک قوم یا کسی ایک دور تک محدود نہیں بلکہ یہ آفاقی نوعیت کی حامل ہیں اس لیے باطنی مشاہدات غلط یا اتفاقی نہیں ہوسکتے۔ فراریت (۱)’’ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ بعض مذاہب اور فنون ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے بزدلانہ گریز کا سبق دیتے ہیں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ یہ بات تمام مذاہب کے بارے میں درست نہیں‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ ان مفکرین میں سے ہیں جو زندگی کے مسائل اور اس کے تلخ حقائق سے مردانہ وار نبرد آزما ہونے کا درس دیتے ہیں۔اُن کی شاعری کے تاروپود میں ہمیں جفاکشی‘جفاطلبی اور عمل پرستی کے عناصر بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وہ زندگی کو حرکت وعمل کی ایک زندہ علامت سمجھتے ہوئے اس کی جابجا مدح سرائی کرتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔ ع: ہستم اگر می روم‘گر نروم نیستم ؎ جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ یہ زورِ دست وضربت کاری کا ہے مقام میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ (کلیات اقبال،ص ۴۷۲) ؎ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ِسرّ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر وتیشہ وسنگِ گراں ہے زندگی قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی (کلیات اقبال،ص۲۵۹) علامہ اقبالؒ کسی بھی طرح اس نظامِ حیات اور ضابطہ اخلاق کے حامی نہیں جو ہمیں زندگی کے فرائض اور اس کے حقائق سے گریزپر آمادہ کرے۔ فراریت(escapism) ایک ایسا انداز فکر ہے جو اس کائنات اور زندگی سے گریز کا درس دیتا ہے۔بزدلی اور خلوت گزینی اس کی دو واضح شکلیں ہیں۔وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض مذاہب،نظامہائے فکر اور فنون(arts) مسائل حیات اور حقائقِ زندگی سے منہ موڑنے کی تلقین کرتے ہیں مگر وہ ہرمذہب کو ایسا خیال نہیں کرتے۔علامہ اقبالؒ یہاں آسٹریا کے شہرہ آفاق ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶ئ) کی رائے پر تبصرہ کررہے تھے جس نے مذہب کو فراریت پر مبنی‘قدیم لوگوں کے دماغ کی بیکار اختراع اور ہمارے تحت الشعورمیں دبی ہوئی خواہشات کی پیداوارقرار دیا تھا۔حضرت علامہ اقبالؒ جس دین کے پیروکار تھے ‘اس میں عمل بہادری، سعی پیہم اور جفاکشی کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے۔وہ دین حق تو انسانی سعی اور اس کی ثمرات کی اہمیت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے: ’’لیس للا نساِن اِلاّ ما سعیٰ‘‘(انسان کے لیے صرف اس کی سعی کا ثمرہ ہے)۔ اس قرآنی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اسلام کے فلسفہ جفاکشی کو یوں بیان کیا ہے:۔ "True manhood, according to the Quran, consists in patience under ills and hardships'." (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.88) فلسفہ (۱)’’ فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیت موجود نہیں ہوتی‘‘ (دیباچہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی معروف ترین انگریزی تصنیف’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے دیباچہ میں یہ کہا ہے کہ اُن کے پیش کردہ افکار ونظریات حرفِ آخر کا درجہ نہیں رکھتے کیونکہ فلسفیانہ نظریات یقینی نہیں ہوسکتے۔ اس بیان سے اُن کی شخصیت کا ایک انتہائی دلکش اور اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہم پر اپنے نظریات ٹھونسنے کے قائل نہیں۔وہ ہمیں یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہم انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے اور نئے تصورات کا کسی تعصب یا تنگ نظری کے بغیر گہرا مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کریں۔اگر موجودہ تصور ہمارے پہلے سے قائم کردہ نظریات سے بہتر‘ زیادہ ٹھوس اور حقیقت پر مبنی ہو تو ہمیں بلا چون و چرا اس نئے تصور کو قبول کرلینا چاہیے اور پرانے نظریے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔وہ اندھا دھند تقلید اور تعصب آمیز اندازِ فکر کے زبردست مخالف ہیں کیونکہ اس سے حقیقت طلبی اور علمی ترقی کی راہ مسدود ہونے لگتی ہے۔ مشرق کے اس عظیم مفکر کے مندرجہ بالا قول میں فلسفیانہ افکار کی عدمِ قطعیت کی طرف غیرمبہم اشارہ کیا گیا ہے۔آئیے ہم ذرا اس کا اجمالی جائزہ لیں کہ اُنھوں نے ایسا کیوں کہا ہے۔تاریخ فلسفہ کے عمیق مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فلاسفہ اور مفکرین نے خدا، کائنات،انسان اور زندگی کے مختلف اہم اُمور کے بارے میں جونظریات پیش کئے ہیں وہ وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ایک نظریہ جو اپنے دور میں بے حدمقبول تھا،وہ دوسرے دور میں آکر اپنی سابقہ اہمیت کھو بیٹھا۔اہل فکر ودانش اپنی اپنی محضوص طرزِ فکر اور ثقافتی روایات کے پیش نظر اپنے افکار کو حکمت ودانش کی معراج خیال کرتے تھے مگر بعد ازاں اُن افکار کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا۔یونانی مفکرین کی مثال لیجیے۔ہیرکلیٹس نے کہا کہ کائنات میں ہر چیز تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے اس لیے کسی کو بھی یہاں ثبات حاصل نہیں۔ گویا اس تغیر پذیر دنیا میں صرف’’اُصول تغیر‘‘ کو دوام حاصل ہے۔دوسرے لفظوں میں تبدیلی کا اُصول اٹل ہے اس لیے اشیائے کائنات مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔اس کے برعکس ایک اور یونانی مفکر پارمنڈیز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات میں جو تبدیلی نظر آتی ہے وہ فریب ِنگاہ ہے کیونکہ یہاں دوام اور ثبات کا اُصول کارفرما ہے۔اس کے شاگرد زینو نے بھی حرکت وتغیر کوغلط ٹھہرایا۔بعد ازاں ایک اور ممتاز یونانی فلسفی ڈیمقریطس کی رائے میں کائنات لاتعداد ناقابل تقسیم چھوٹے چھوٹے ذرّات یعنی جواہر(atoms) سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ وہ ان جواہر کو تو ٹھوس اور غیر تغیر پذیر سمجھتا تھا لیکن وہ خالی جگہ میں ان کی مسلسل حرکت کا بھی قائل تھا۔اس طرح اُس نے تغیرو ثبات کے اُصول کو اپنے نظامِ فکر کا مرکز ومحور بنایا ۔سقراط،افلاطون اور ارسطو اور دیگر یونانی فلاسفہ نے بھی ایسے نظریات بیان کئے جوجزوی مماثلت کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مسلم تاریخ فلسفہ میں بھی ہمیں فکری اختلافات کی دلچسپ داستان ملتی ہے۔اشاعرہ اور معتزلہ کی فلسفیانہ بحثوں سے کون آگاہ نہیں ہے۔ اسلام میں یونانی اثرات کی مخالفت وحمایت کا طویل تاریخی پس منظر بھی ارباب فکر ودانش سے مخفی نہیں۔ اسی طرح مغربی تاریخِ فلسفہ میں ڈیکارٹ،جان لاک، ہیوم، برکلے، روسو، والیٹئر، کانٹ، ہیگل، کارل مارکس، نطشے، شوپنہار، سپینوزا، پروفیسروہائٹ ہیڈ اور برٹرنڈ رسل وغیرہ کے افکار ونظریات بھی اسی فلسفیانہ کشمکش اور اختلاف کے آئینہ دار ہیں۔ایران میں زرتشت ‘مانی اور مزدک کے نظامہائے فکر میں ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے۔ان بدلتے ہوئے افکار کو کیسے یقینی اور حتمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا تھا کہ’’فلسفیانہ افکار میںکوئی قطعیت موجود نہیں ہوتی‘‘۔ فلسفیانہ افکار کی بے یقینی اور تشکیک آمیز میلانات کا سب سے بڑا سبب کیا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ عظیم المرتبت اہل دانش اور ذہانت وفطانت کے مالک یقینی اور دائمی نظریات ہمیں کیوں نہ دے سکے؟ شروع میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ انسانی عقل اورخدائی عقل آپس میں ہم پلہ نہیں ہوسکتیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں غور وفکر کرنے کے لیے دماغی قوتیں عطا کی ہیں مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تسخیر کائنات کے باوجود انسانی عقل بہت سے مسائلِ حیات کے حل میں ناکام رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلِ محدود کی تگ وتاز بھی محدود ہی رہتی ہے۔ یہ کسی صورت میں بھی وحی والہام کی طرح کامل اور یقینی راہنما ثابت نہیں ہوسکتی۔ اقبالؒ اسے’’چراغ راہ‘‘ تو مانتے ہیں لیکن وہ اسے منزل سے نا آشنا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے دوسری ضروری بات یہ ہے کہ عقل حقیقت کو پانے کے لیے ہمیشہ اٹکل پچو، قیاس اور خیال آرائی سے کام لینے کی عادی ہے۔ تاریکی میں اکیلا ٹامک ٹوئیاں مارنے والا اندھا کبھی راہ راست کو نہیں پاسکتا۔اندھا اگر کسی دانائیِ راہ کی معیت میں چلے تو وہ لازمی طور پر گمراہ ہونے سے بچ جائے گا۔یہی حال اس عقل کا ہے جو وحی والہام کی مدد کے بغیر حقائقِ حیات اور اسرارِ کائنات کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ عقل محض حواس کی دنیا سے اپنا قریبی ربط رکھتی ہے۔حواس سے ماورا حقائق وحی والہام کے بغیر دریافت نہیںکئے جاسکتے۔ اب آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے’’حکمت ودانائی کی محبت‘‘۔کائنات،مابعد الطبیعیاتی اُمور اور انسانی معلامات وعقائدکے بارے میںحقیقت جوئی اور حکمت طلبی فلسفیانہ اساس کا درجہ رکھتے ہین۔انسان اپنے گردو پیش کی اشیا،اپنے عقائد وخیالات،مرئی وغیر مرئی حقائق کی اصلیت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔فلسفی عام انسانوں کی نسبت اشیا اور خیالات کو جاننے کے لیے کیا،کب،کتنا،کیوں اور کیسے جیسے الفاظ استعمال کرکے اپنے ذوقِ استفہام اور جذبہ تجسس کا ثبوت دیتا ہے۔سقراط زندگی کی بلاتحقیق روش کو ناپسند کرتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ باقی لوگ بھی ہر کام کرنے سے قبل اس کی صحیح نوعیت کو ضرور جانیں۔اس کا یہ قول ملاخطہ ہو:۔"The unexamined life is not worth living" آنکھیں بندکرکے زندگی کی ڈگر پر چلتے رہنا کوئی دانش مند انہ فعل نہیں ہوسکتا۔فلسفہ کی تغیر پذیری اور اس کے ’’نغمہ ہائے بے صوت‘‘ کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: ؎ ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات (کلیات اقبال،ص۳۹۸) ؎ انجام ِخرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری افکار کے نغمہ ہائے بے صو ت ہیں ذوق ِعمل کے واسطے موت (کلیات اقبال،ص۳۹۸) فکراور وجدان (۱)’’ فکر اور وجدان کو اساسی طور پر ایک دوسرے کا مخالف سمجھنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے اور وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ عقل حقیقت کاملہ کا جزوی طور پر ادراک کرتی ہے لیکن وجدان کلی طور پر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ) (۲)’’وجدان حقیقت الحقائق کے ابدی اور باطنی پہلو پر نظر رکھتا ہے۔اس کے برعکس عقل اس کے خارجی اور عارضی پہلو کو مدنظر رکھتی ہے۔اس کے باوجود یہ دونوں ایک ہی حقیقت کی رویت کے طالب ہوتے ہیں۔ برگساں درست کہتا ہے کہ وجدان تو صرف عقل کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘۔ (ایضاً) ان دواقتباسات سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ فکر اور وجدان یا فلسفہ ومذہب کو ایک دوسرے کامخالف اور دشمن خیال نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں ایک ہی منبع سے متعلق اور ایک دوسرے کا معاون سمجھتے ہیں۔بعض لوگ دین اور فلسفہ یا عقل وایمان میں کوئی مطابقت نہیں پاتے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ مذہب کے حقائق اور عقلی نتائج دو مختلف دنیائوں کے مظہر ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایسے اہل دانش کی اس رائے سے ہرگز متفق نہیں کیونکہ وہ اسلام میں عقل کی علمی جستجو کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اُن کے خیالات کی تلیخص یہ ہے:۔ (الف) فکر(فلسفہ) اور وجدان(الہام) بنیادی طور پر ایک دوسرے کے ہرگز مخالف نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے اس بیان کی تائید میں کہا ہے کہ اسلام میں عقلی بنیادوں کی تلاش کا آغاز رسول کریمؐ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اسلام میں عقل کے جائز استعمال کی ممانعت نہیں ہے۔قرآن حکیم کی لاتعداد آیات میں عقل، فکر اور تدبر سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ (ب)علامہ اقبال فکر اور وجدان(فلسفہ ومذہب) دونوں کا ایک ہی سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔فلسفہ اورمذہب دونوں ہی انسانی زندگی کی بہتری اور حقیقت جوئی کے دعوے دار ہیں۔ اس لحاظ سے وہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔وہ اپنے ایک انگریزی مضمون‘‘میک ٹیگرٹ کا فلسفہ‘‘ میں ان دونوں کے باہمی تکمیل وتعاون پر روشنی ڈالتے ہیں: "Knowledge and direct revelation are not mutually opposed: they are complementary to each other. when the mystic Sultan abu sa'id met the philosopher abu Ali Sina he is reported to have said, "I see what he knows" (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.120) علامہ اقبالؒ فکر اور وجدان(عقل وعشق) کو ایک ہی’’ منزل حقیقت ‘‘کے دو مسافر قرار دیتے ہیں مگر ان میں طریق کار کا ضرور فرق ہے۔وہ ان دونوں کا اپنی کتاب’’ زبور ِعجم‘‘ میں یوں موازانہ ومقابلہ کرتے ہیں: ؎ ہر دو بہ منزلے رواں، ہر دو امیرِ کارواں عقل بہ حیلہ می برد، عشق برُد کشاں کشاں (کلیات اقبال، ص۴۱۲) علامہ اقبال ؒکی رائے میں عقل حقیقت کاملہ کا جزوی طور پر ادراک کرتی ہے ۔اس کے برعکس وجدان اسے کلیتہً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔عقل جس حقیقت کو بڑی دشواری اور منزلوں سے گزرنے کے بعد جزوی انداز میں سمجھتی ہے ۔وجدان اور الہام کی بدولت اس بات کا یک لخت ادراک ہوجاتا ہے۔ا ن دونوں میں سست روی اور تیز رفتاری،جزویت وکلیت اور قیاس ویقین کا فرق ہوتاہے۔عقل ہر بات کو پہلے سے حقیقی اور یقینی خیال نہیں کرتی بلکہ وہ شک وشبہ،ظن وتخمین،تذبذب اور بے یقینی سے کام لیتے ہوئے اپنی تحقیق و تنقید کا آغاز کرتی ہے۔اس کے برعکس الہام ووجدان حقیقت کا براہِ راست ادراک کرکے عزم ویقین کی دولت کے حامل بن جاتے ہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ ان کے باہمی فرق کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ؎عقل در پیچاک اسبابِ وعلل عشق چوگا بازِ میدان عمل عقل راسرمایہ از بیم وشک است عشق را عزم ویقیں لاینفک است (کلیات اقبال، ص۱۰۹) (د) عقل ووجدان کے ایک اور فرق کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ وجدان حقیقت الحقائق(تمام حقائق کی آخری حقیقت یعنی خدا) کے ابدی اور باطنی پہلو پر نظر رکھتا ہے جبکہ عقل اس کے عارضی اور خارجی گوشوں کو مدنظر رکھتی ہے۔خدا تعالیٰ اپنی قدرت کی محیر العقول نشانیاں آفاق یعنی ظاہری اور مادی دنیا میں بھی ظاہرکرتا ہے اور ہمارے انفس یعنی باطنی اور ابدی دنیا میں بھی۔انسانی زندگی کی خوشگواری،کامیابی اور متوازن ترقی کے لیے ہمارا ان دونوں کے ساتھ گہرا تعلق ہونا چاہیے۔علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ان کے ایک اور فرق کو ذرا ملاخطہ کیجیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دیدار کے طالب ہوتے ہیں مگر فرق یہ ہے : ؎ عقل گو آستاں سے دُور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل ِبینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور‘ دل کا نور نہیں علمِ میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں (کلیات اقبال،ص ۳۳۵) (ہ) فرانس کے مشہور فلسفی برگساں نے وجدان(intuition) کو عقل کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا تھا۔علامہ اقبالؒ برگساں کی اس رائے سے متفق ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وجدان کیا ہے۔مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اشیائے کائنات کا براہ راست ادراک ہے۔چند آراء کا یہاں ذکر بے محل نہ ہوگا۔ سپینوزاکا قول ہے : (1)"----In so far as the mind sees things in their eternal aspect it participates in eternity." (The Outline of Philosophy,p.295) (2)"---The intellect divides everything, intuition unites everything" (The Outline of Philosophy,p.297) (3)"We see life in its subtle and penetrating flow--This direct perception, this simple and steady looking upon a thing, is intuition; not any mystic process, but the most direct exam- -ination possible to the human mind" (The Outline of Philosophy,p. 392) علامہ اقبالؒ کی طرح ان کے روحانی مرشد مولانا رومؒ بھی عقل کی د وبڑی قسموں کے قائل تھے… عقل جزوی یا عقل استدلالی اور عقل کلّی یا عقلِ عرفانی۔وہ کہتے ہیں کہ حکمت کا طالب ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر جاپہنچتا ہے جہاں وہ کتاب واسباب تحصیل علم سے بے نیاز ہوکر خود منبع حکمت بن جاتا ہے۔حکمت کی ترقی اس کو عشق کے مقام پر لے جاتی ہے جو وحی والہام کا تصادم ہے۔ایسی حالت میں اس کے آئینہ دلِ پر براہ راست حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ؎ مبنعِ حکمت شود حکمت طلب فارغ آید اوز تحصیل وسبب (۳)’’غزالیؒ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ عقل اور وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ کانٹ اور غزالیؒ دونوں اس بات کا ادراک حاصل نہ کرسکے کہ فکر حصول علم کے وقت ہی اپنی محدودیت کے احاطے سے باہر نکل جاتی ہے‘‘۔ (پہلا خطبہ ( عقل ووجدان کی مشکل بحث کے دوران علامہ اقبالؒ امام غزالیؒ اور جرمن فلسفی کانٹ کے نظریہ فکر ووجدان کوہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ دونوں اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ فکر اور وجدان آپس میں مربوط ہوتے ہیں‘نیز حصول علم کے وقت ہمارا خیال اپنی محدودیت کے میدان سے باہر چلا جاتا ہے۔اس مشکل بحث کو سمجھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ فکر اور وجدان(عقل و قلبی واردات) کے بارے میں ان دوعظیم فلسفیوں کے نظریات کا خلاصہ کیا ہے۔سب سے پہلے ہم امام غزالیؒ کی فکری خدمات کا جائزہ لیتے ہیں:۔ امام غزالیؒ (متوفی۱۱۱۱ئ) عالم ِ اسلام کی ممتاز ترین علمی اور مذہبی شخصیات میں سے تھے۔ شروع شروع میں وہ فلسفہ طرازی اور عقلی تگ وتاز میںگہری دلچسپی لیا کرتے تھے۔بعد ازاں اُنھوں نے عقل پرستی کو خیر باد کہہ کر تصوف ومعرفت کے میدان میں قدم رکھا اور اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا مدلل انداز میں اثبات کیا۔عقلیت سے نکل کر جب وہ کوچہ تصوف میں آئے تو اُنھوں نے یہاں آکر اپنے قدیم شکوک وشبہات کا ازالہ پایا اور اس طرح اُنھیں سکون قلب نصیب ہوگیا۔متصوفانہ تجربات اور قلبی واردات نے اُن پر عقل کی محدودیت کا راز فاش کیا اور بعد ازاں اُنھوں نے مذہب کو سائنس اور مابعد الطبیعیات سے الگ کرکے آزادانہ زندگی کا حق دلایا۔ امام غزالیؒ کے بیشتر پیش رو مسلم مفکرین نے فلسفہ یونان سے مرغوب ہوکر اسلام کے عقائد کو یونانی فلسفے کی ترازو میں تولنا شروع کردیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفے کو مذہب پر برتری حاصل ہوگئی اور لوگوں کے عقائد میں تزلزل آگیا۔اس تذبذب نے اُنھیں شک پرستی میں مبتلا کرکے عملی جدوجہد سے نفور کردیا تھا۔امام غزالیؒ نے فلسفہ یونان اور عقلیت کا ابطال کرکے مذہب کے حقائق کو منکشف کیا تھا۔علامہ اقبالؒ اُن کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں: "He was the first to write a systematic refutation of Philosophy, and completely to annihilate that dread of intellectualism which had characterised the orthodox." (The Development of Metaphysics in Persia,p.59) جہاں تک جرمنی کے عظیم المرتبت فلسفی کانٹ کے تصورِفکر ووجدان کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ دو انگریز فلسفیوںجان لاک اور ڈیوڈ ہیوم نے کہا تھا کہ ہمارے حواس ہی علم کا واحد ذریعہ ہیں۔وہ حسّی علم ہی کو سب کچھ خیال کرتے تھے۔کانٹ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حواس کے ذریعے حاصل شدہ علم اپنی اصلی حالت میں ہم تک نہیں پہنچتا۔اس لیے یہ غیر خالص اور غیر یقینی ہے۔وہ حسّی تجربات سے آزاد علم کو اگرچہ عقل خالص قرار دیتا تھا تاہم وہ اس کی محدودیت کا بھی قائل تھا۔وہ شعور کی مادّے اور حواس پر برتری کے علاوہ شعور کے تقدم میں بھی پختہ یقین رکھتا تھا۔اس کی رائے میں انسانی دماغ موم کی مانند نہیں جس پر حواس اور مادی تجربات اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں بلکہ یہ ایک فعال چیز ہے جو ہمارے احساسات کو خیالات کی شکل میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ہمارے منتشر اور کثیرتجربات میں نظم وضبط اور وحدت پیدا کرتی ہے۔اس لحاظ سے وہ فکر(thought) کو ایک قوت ِناظمہ کہتا ہے۔ جان لاک نے حواس کو عقل پر ترجیح دیتے ہوئے کہا تھا: "There is nothing in the intellect except what was first in the sense." (The Outline of Philosophy,p.241) کانٹ نے جان لاک کے اس مادّی نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا:۔ "Perceptions without conceptions are blind" (The Outline of Philosophy,p.241) ماہرین فلسفہ کے خیال میں کانٹ کا سب سے بڑا کارنامہ اشیاء کی حقیقت اور اُن کے مظاہر کے فرق کو بیان کرنا ہے۔جرمنی کا مشہور قنوطیت پسند فلسفی شوپنہار اُسے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے:۔ "Kant's greatest merit, says schopenhauer, "is the distinction of the phernomenon from the thing-in-itself." (The Outline of Philosophy,p.241) علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ عقلیت کے بت کو پاش پاش کرنے کے بعد امام غزالیؒ نے تصوف و معرفت کی دنیا میں آکر پناہ لے لی تھی مگر کانٹ عقلیت کا قلعہ مسمار کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے علم اور معرفت کے امکان کو ثابت نہ کرسکا۔ علامہ اقبالؒ نے امام غزالیؒ اور کانٹ پر جو تنقید کی ہے،اس کے دو اہم اجزا یہ ہیں: (ا)امام غزالیؒ اور کانٹ عقل اور وجدان کے باہمی ربط کو سمجھنے سے قاصر رہے۔حضرت علامہ اقبالؒ کی نظر میں عقل اور وجدان(فلسفہ اور مذہب) ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔اسلام میں فکر وتدبر کے استعمال کے بارے میں لاتعداد قرآنی آیات اور رسول کریمؐ کی ایک حدیث مبارکہ کا وہ حوالہ دے چکے ہیں۔عقل جن حقائق ِکائنات اور اسرارِ حیات کی تلاش میں عرصہ دراز گذار دیتی ہے، وحی والہام کی بدولت اُنکا فوراً براہ راست ادراک ہوجاتا ہے۔ عقل اور وجدان میں فرق یہ ہے کہ عقل انکشافِ حقائق کا اوّلین مرحلہ ہے جبکہ الہام و وجدان آخری مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس بات کو فرانسیسی مفکر برگساں نے یوں بیان کیا تھا کہ’’ وجدان عقل کی ترقی یافتہ اور اعلیٰ صورت ہے‘‘۔علامہ اقبالؒ اپنے ایک انگریزی مضمون ’’انسانی ذات اضافیت کی روشنی میں‘‘ میں عقل کی جزویت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: "The intellectual self is only one aspect of the activity of our total self." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.115) علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’ ذکر وفکر‘‘ میں اس اہم موضوع کو یوں بے نقاب کرنے کی سعی کرتے ہیں: ؎ یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علّم الاسما مقامِ ذکر، کمالات رومی ؒ و عطار مقام ِفکر، مقالاتِ بوعلی سیناؒ مقامِ فکر ہے، پیمائش زمان ومکاں مقامِ ذکر ہے، سبحان رّبی الاعلیٰ (کلیات اقبال،ص۴۸۵) علامہ اقبالؒ کی رائے میں امام غزالیؒ اور کانٹ اس امر سے باخبر نہ ہوسکے کہ حصول علم کے وقت عقل اپنی محدودیت کے میدان سے باہر نکل جاتی ہے۔حضرت علامہ ؒ کی اس تنقید کا لب لباب یہ ہے کہ عقل جب وحدت کو کثرت میں جلوہ گر اورزمانِ مسلسل کے حساب سے دیکھتی ہے تو اس میں محدودیت پائی جاتی ہے۔عقل محدود عالمِ محسوسات کی کثرت آرائی کے پیچھے پوشیدہ وحدت کّلی کو نہ پاکر اپنی محدودیت سے آگاہ ہوتی ہے لیکن جب اس کی حرکت عمیق تر ہوتی جاتی ہے تو وہ حقیقت مطلقہ کی معرفت سے بہرہ ور ہوجاتی ہے۔ اس ہستی کاملہ اور ذاتِ لامحدود سے گہرا رابطہ قائم کرکے وہ اپنی محدودیت کے احاطے سے باہر جاتی ہے۔اس وقت مخفی حقائق فوراً عیاں ہوجاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ ایسی حالت علم میں عقل بھی وسعت پذیر اور غیر محدود ہوتی ہے۔ یہ عقل اپنی اوّلین منزل میںحواس تک محدود رہتی ہے لیکن جوںجوں وہ حواس سے بالاتر ہوتی جاتی ہے اس کی افادیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ عقل شروع میں حسّی عقل یا عقلِ استدلالی ہوتی ہے لیکن آخر کار وہ عقلِ عرفانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔شاعرِ مشرق اور مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ امام غزالیؒ اور کانٹ فکر اور وجدان کو آپس میں مربوط نہ دیکھ سکے اس لیے اُنھوں نے عقل کو وجدان سے الگ کرکے محدود ہی سمجھا اور وہ اس کی ارتقائی اور اعلیِ صورتوں سے آگاہ نہ ہوسکے۔قرآن حکیم نے اسی وجہ سے بھی مطالعہ فطرت اور تفکر وتدبر کا حکم دیا تھا تاکہ ہم شانِ ایزدی کے ظاہری جلوئوں کے پس پردہ پوشیدہ ہستی کامل سے گہرا رابطہ قائم کرسکیں اور اس کا عرفان پاسکیں۔ ذات را بے پردہ دیدن زندگی فِقہ (۱)’’آغاز اسلام سے لے کر عباسیوں کے ابتدائی دورِ حکومت تک ہمارے پاس قرآن حکیم کے علاوہ عملی طور پر کوئی مدوّن آئین نہیں تھا‘‘ (چھٹا خطبہ) اسلامی تاریخ خصوصاً تاریخِ فقہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فقہ یعنی دینی اُمور کی سوجھ بوجھ کا صحیح آغاز اُموی سلطنت کے اختتام پر ہوا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں ہمارے جلیل القدر فقہائے اسلام مثلاً امام ابو حنیفہؒ(۵۰ھ سے۸۰ھ تک) امام مالکؒ(۹۳ھ سے۱۷۹ھ تک) امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو یوسفؒ(۱۱۳ھ سے۱۸۳ھ تک) نے علمِ فقہ کے میدان میں نمایان ترین خدمات سرانجام دیں تھیں۔اس کے علاوہ اسی دور عباسیہ میں احادیث کے تمام مشہور مجموعے یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی، سنن ابو دائو،مشکوٰۃ اور مئوطا امام مالک مرتب ہوئے۔اس لحاظ سے عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دورِ حکومت تک ہمارے پاس قرآن حکیم کے علاوہ کوئی مدوّن قانون نہیں تھا۔اسلامی فقہ کی تدوین اور برتری کا اصل دور دوسری صدی ہجری سے لے کر چوتھی صدی ہجری کے نصف پر مشتمل ہے۔اُس زمانے میں فقہ نے مستقل علم کی حیثیت اختیار کی اور بڑے بڑے علما اور فقہا نے اُصول فقہ پر کتابیں لکھیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عباسیوں کا یہ عہد علمی ترقیات کا سنہری زمانہ تھا۔مختلف قوموں کے باہمی میل جول،توسیع سلطنت اور یونانی علوم کی ترویج و اشاعت نے لوگوں کے ذہنوں میں نئے نئے خیالات اور نئے مسائل کے حل کے جذبات کو جنم دیا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب تمدن،تہذیب اور کلچر میں تبدیلیاں رونما ہوجائیں تو اُس وقت نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں جن کے تسلی بخش حل کے لیے ارباب فکر ودانش نئے نئے زاویہ ہائے نگاہ اختیارکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔عباسی شاہوں کے اسی دور میں تدوین حدیث اور فن جرح وتعدیل کے قواعد بھی مکمل ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں تاریخِ اسلام کے ایک خاص دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریمؐ کے دور ہمایوں‘ خلافتِ راشدہ اور اُموی خلفا وسلاطین کے آخری دور تک مسلمانوں کے پاس فقہ اور حدیث کے علوم کا باقاعدہ کوئی ذخیرہ موجود نہیں تھا۔لامحالہ مسلمانوں کو اپنے سیاسی،معاشرتی،اقتصادی اور مذہبی معاملات کو طے کرنے کے لیے قرآن حکیم کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔اسی نقطہ نگا ہ سے یہ کتاب ہدیٰ ہی اسلامی آئین کا اوّلین اور واحد منبع تھی۔مسلمان نئے نئے مسائل حل کرنے کے لیے قرآن حکیم کی بنیادی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا کرتے تھے۔اُموی سلطنت کے خاتمہ پر عباسی خاندان برسرِ اقتدار آیا اور اُس عہد میں بڑے بڑے ائمہ اور فقہا پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن حکیم کے علاوہ احادیث، قیاس، استحسان اور اجتہاد سے کام لے کر بڑھتی ہوئی تمدنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سعی بلیغ کی تھی۔اُس زمانے میں یونانی علوم کا چرچا ہوا اور بغداد کی عملی درس گاہ’’بیت الحکمت‘‘ نے اس ضمن میں بہت معیاری کام کیا۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں ہمارے بلند نظر، دُور اندیش اور حقیقت پسند فقہا نے زمانے کے نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے اساسی اور ابدی قوانین سے رہنمائی حاصل کی اور نئے حالات سے پیدا شدہ مسائل کا حل پیش کیا۔ یہ فکری اجتہاد اور فقہی کاوش اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی آئین ہرگز جامد نہیں بلکہ یہ تغیر وثبات کا حسین امتزاج ہے۔قرآن حکیم چونکہ آخری کتاب ِہدایت ہے اس لیے اب اس کی اساسی تعلیمات کی روشنی ہی میں انسانو ںکے سارے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ (۲) پہلی صدی کے تقریباً نصف سے لے کر چوتھی صدی کے آغاز تک کم وبیش انیس فقہی مسالک موجود تھے‘‘ (چھٹا خطبہ) (۳)’’کیا فقہی مذاہب ومسالک کے بانیوں نے کبھی اپنے دلائل اور تعبیرات کو حرفِ آخر مامنے کامطالبہ کیا ہے؟ ہر گز نہیں‘‘۔ (ایضاً) علامہ اقبالؒ اسلام اور زندگی کو حرکی‘ارتقائی اور تغیر پذیر خیال کرتے ہوئے اسلامی آئین کو حرکت وارتقاء اور لچک کی خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہیں۔خدا کی خلاقی صفت اب بھی اپنی جلوہ گری کے ذریعے نئے نئے مظاہر پیش کررہی ہے۔خدا کے بارے میں قرآن حکیم نے کہا ہے: ’’کُّل یوم ھُو فی شانِ‘‘(ہر روز نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے)۔ اگر خدا ہر لمحہ نئی شان سے ظاہر ہورہا ہے تو پھر کائنات اور زندگی کے مختلف گوشے اس کی خلاقی صفت کے مظہر کیوں نہیں ہیں؟ اس کائنات رنگ وبو میں تغیر وارتقا کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ موجود ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکوں (کلیات اقبال،ص۳۲۰) اس قانو ن تغیر وارتقا کے سبب دنیامیں نئے نئے واقعات رونما ہوکر نئے مسائل پیدا کرتے ہیں جن کے تسلی بخش حل پر ہماری سماجی زندگی کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہے۔اسلام چونکہ ہماری دنیا وآخرت کی کامرانی کا ضامن اور کامل کتاب ہدایت کا دعوے دار ہے اس لیے ہمیں اس کے اساسی نظریات کی روشنی میں ہی پنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کی لچک اور وسعت پذیر ی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "The assimilative spirit of Islam is even more manifest in the sphere of law." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.164) علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ عباسی حکمرانوں کے دور خصوصاً چوتھی صدی ہجری کے آغاز تک عالم اسلام میں کم وبیش انیس فقہی مسالک اور مذاہب موجود تھے۔اتنے فقہی مکاتب فکر کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے قدیم فقہا اور بانیان فقہ نے بڑھتے ہوئے تمدنی حالات اور نئے تہذیبی مسائل کو حل کرنے کی خاطر غور وفکر اور تدبر وتفکر سے خوب فائدہ اُٹھایا۔کیا قرآن حکیم نے جگہ جگہ ہمیں غور وفکر کی دعوت نہیں دی؟ کیا عقل ایک اہم عطیہ خداوندی نہیں؟ کیا ہمیں اسکے جائز استعمال کی اجازت نہیں دی گئی۔علامہ اقبالؒ نے تو انیس فقہی مکاتب خیال کا ذکر کیا ہے مگر اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بون یونیورسٹی میں سامی زبان کا ماہر پروفیسر ہورٹن (Horten) کہتا ہے: "From 800 to 1100, not less than one hundred systems of theology appeared in Islam, a fact which bears ample estimony to the elasticity of Islamic thought as well as to the ceaseless activity of our early thinkers." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.164) اب علامہ اقبالؒ یہاں ایک اور سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا ان مختلف فقہی مکاتب فکر کے بانیوں نے کبھی اپنے نتائج فکر ی کو حرفِ آخر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا؟وہ اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے قدیم فقہا نے ایک ہی مسلک کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بڑے خلوص کے ساتھ کیا تھا اور اُنھوں نے کبھی اپنی رائے کو دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ اپنی وقتی رائے کو حرف ِ آخر کا درجہ نہیں دے سکتے تھے کیونکہ تمام حقائق حیات کا کّلی اور یقینی علم صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے اس لیے قرآن حکیم نے انسانی علم کو قلیل اور محدود قرار دیتے ہوئے کہا :۔’’وما اُوتیتم منِ العلمِ اِلاّٰ قلِیلاً ‘‘ (الاسراء ۱۷:۸۵)، (تمھیں تو قلیل علم دیا گیا ہے)۔ (۳) ’’اب زمانہ بدل چکا ہے اور آجکل دنیائے اسلام… نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہے۔اندریں حالات میرے خیال میںفقہ کی خاتمیت میں یقین رکھنا معقول نہیں‘‘ ۔ ( چھٹا خطبہ) اس امر سے انکار محال ہے کہ’’قانون تغیر‘‘ کی رُو سے تمام کائنات میں تغیر وتبدل کا عمل جاری رہتا ہے۔لمحہ بہ لمحہ ماضی،حال اور مستقبل میں بدلتا رہتا ہے۔جوئے حیات ہر وقت رواںدواں رہتی ہے اس لیے اس کی گذشتہ لہر دوبارہ واپس نہیں آتی۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ بیرونی تبدیلیاں لانے سے پہلے ہمیں اپنے دل ودماغ میں بھی تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں زندگی ہر دم متغیر، حرکت پذیر اور آگے بڑھتی رہتی ہے کیونکہ ماضی حال میں واپس نہیں آسکتا:۔ ؎ جو تھا نہیں ہے،جو ہے نہ ہوگا۔ علامہ اقبالؒ اسلام کو ایک جاندار، قابل عمل،حرکی اور لچک دار ضابطہ حیات اور مجموعہ قوانین سمجھتے ہیں ۔اس لیے وہ بار بار زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور نئے تقاضوں کے مطابق ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نیا اندازِفکر اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ بجا کہتے ہیں: ؎ آئین نو سے ڈرنا،طرز ِکہن پہ اُڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں وہ اپنی ایک نظم’’ اجتہاد‘‘ میں تقلید پرستی کی مذمت کرتے ہوئے اجتہاد کی اہمیت کو یوں اجاگر کرتے ہیں: ؎ ہند میں حکمت دین کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذّت کردار نہ افکار ِعمیق حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں آہ ! محکومی و تقلید وزوالِ تحقیق ( کلیات اقبال،ص۴۸۴) علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں جن اُمور کا تذکرہ کیا ہے،اُن کی کسی قدر یہاں وضاحت کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے اس میں ان باتوں کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے: (الف ) اب زمانہ بدل چکا ہے اور مسلم ممالک نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہیں۔ ابھی بیان کیا جاچکا ہے کہ زمانہ ہمیشہ حرکت وارتقا کے اُصول کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔موجودہ زمانے کی نئی نئی ایجادات اور حیرت انگیز اکتشافات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اب زمانہ کافی بدل چکا ہے۔وہ کونسا شعبہ زندگی ہے جس میں جدت ِفکر اور تازگی خیال کے اثرات نمایاں نہیںہیں۔اب گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرنے کی بجائے زیادہ تر لوگ کاروں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کو استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح ٹیلی فون، ٹیلی ویثرن، بجلی،گیس اور کمپیوٹر نے مشینی زندگی کی برتری اور مقبولیت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔علاوہ ازیں اب تیغ وسنان کی بجائے نئے نئے آلات جنگ معرضِ وجود میں آچکے ہیں۔زمان ومکان کی دُوری اب کوئی خاص دشواری پیش نہیںکرتی۔زمین پر بسنے والا انسان اب چاند پر بھی اپنی کمند ڈال چکا ہے۔ایسے نئے حالات میںمسلم ممالک کا بھی متاثر ہونا لازمی اور قدتی امر ہے۔علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں اب مسلمانوں کو بھی بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے علمی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے وگرنہ اُنھیں بعد ازان کفِ افسوس ملنا پڑے گا۔کیا یہ امرِ واقعی نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ کر مسلم ممالک غیروں کے محتاج،غلام اور کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں؟ اب تواُنھیں اپنے دفاع کے لیے بھی غیروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔غیر مسلم ممالک نے اُنھیں مختلف قوموں اور متحارب گروہوں میں تقسیم کرکے اُن کی مذہبی اور سیاسی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ایران وعراق کی حالیہ باہمی جنگ،افغانستان میں روسی جارحیت اور کشمیر وفلسطین و بیروت میں خون ِمسلم کی ارزانی ہماری علمی پسماندگی،سیاسی بے چارگی‘اقتصادی غلامی اور ذہنی محکومیت پر دلالت کرتے ہیں۔ان نئی قوتوں سے ہم بری طرح دوچار اور متاثر ہیں۔ (ب) علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ موجودہ بین الاقوامی واقعات اور سائنسی ترقیات کے پیش نظر فقہ کی خاتمیت میں یقین رکھنا اور اجتہاد سے کام نہ لینا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔کیا ائمہ اربعہ(امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، اور امام شافعیؒ ) اور اُن کے شاگردوں نے مختلف فقہی، بحثوں اور کئی مکاتب ِفکر کے قیام سے یہ ثابت نہیں کردیا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات ومسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اسلامی آئین کے چار اہم سرچشموں(قران، احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس) کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟کیا اُنھوں نے اجماع، قیاس اور استحسان کے اُصول اپنا کر انسانی فکر وتدبر کی اہمیت وافادیت کا اعتراف نہیں کیا تھا ؟ کیا اُنھوں نے کبھی اپنی رائے کو حرفِ آخر کا درجہ دیا تھا؟ہرگز نہیں۔علامہ اقبالؒ کو بے حد افسوس ہے کہ بعد کے زمانے کے سست، کاہل، کم عقل، تنگ نظر، جمود پسند، تقلید پرست اور شخصیت پرست علما نے یہ کہا کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔کیا چاروں اماموں نے اپنے محضوص حالات اور نئے تمدنی مسائل کو مد نظر رکھ کر ان کا اسلامی حل تلاش کرنے کے لیے ذاتی غور وفکر سے رہنمائی حاصل نہیں کی تھی؟کیا موجودہ دور کے نئے حالات کے لیے ہمیں بھی وہی طریق کار اختیار نہیں کرنا چاہیے؟اگر ہم نے خواہ مخواہ فکر ی جمود پر اصرار کیااور قرآنی تعلیمات اور اُسوئہ رسول کریمؐ کی روشنی میں غور وفکر سے کام نہ لیا تو ہمیں مزید رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔اس بارے میں حضرت علامہ ؒ کے درج ذیل ارشادات کا مطالعہ بصیرت افروز اور حقیقت کشا ثابت ہوگا۔وہ فرماتے ہیں: (1)"The only course open to us is to approach modern know- -ledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that know- -ledge, even though we may be led to differ from those who have gone before us." (The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam, p.168) (2)"The teaching of the Quran that life is a process of progres- -sive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems." (The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam, p.168) (3)"Spiritually we are living in a prison house of thoughts and emotions which during the course of centuries we have woven round ourselves." (Presidential Address,21march 1932) علامہ اقبالؒ نے اجتہاد فکر ونظر کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآنی تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں سورئہ عنکبوت کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’والّذین جا ھُد و فِینا لنھدِ ینّھُم ُسلبنا‘‘ )اور جو لوگ ہمارے لیے جدوجہد کرتے ہیں ہم اُنھیں اپنا راستہ ضرور دکھاتے ہیں)۔جدوجہد کا تعلق صرف عسکری جہاد ہی سے نہیں بلکہ زندگی کے نئے معاملات میں قرآنی رہنمائی کے لیے کوشش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس میں زندگی کے تمام معاملات… معاشرتی‘معاشی سیاسی‘عسکری اور علمی اُمورکے لیے بھی رہنمائی کا سامان موجود ہے۔نبی کریمؐ کا بھی ارشاد ہے:’’ من یُّردِ اﷲ ُ بہِ خیراً یُفقِّھہ فیِ الّذِین‘‘ ( اﷲ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ اُسے دین کا فہم وشعور عطا کرتا ہے)۔ لفظ فقہِ کا لغوی مطلب ہے فہم وادراک اور سوجھ بوجھ لیکن اس کا اصطلاحی مفہو م ہے’’شرعی احکام کا علمِ‘‘۔ فقہ تو دین اور قرآنی تعلیمات کا فہم ہے مگر ہمارے فقہا نے اسے شریعت کے فروغی اُمور تک محدود کردیا ہے۔ تفقّہ فی الدین واقعی خدا کی طرف سے عظیم خیر ہے اس لیے اسے استعمال نہ کرنا خدائی نعمت کے کفر کے مترادف ہے۔ فلسفہ اور مذہب (۱)’’ چونکہ فلسفہ کی آزادانہ تحقیق وتجسس پر بنیاد ہے اس لیے وہ مذہبی اعتقادات اور دیگر مفروضات کی حاکمیت کوتسلیم نہیں کرتا۔وہ انسانی افکار ونظریات اور مسلّمہ اُمور پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے ان کی بنیاد کا سراغ لگانا چاہتا ہے۔ہوسکتا ہے انجام کار وہ اس حقیقت کو برملا تسلیم کرلے کہ عقل ِ انسانی حقیقت مطلقہ یا روح تک پہنچنے سے قاصر ہے۔اس کے برعکس مذہب کا نچوڑ ایمان ہے۔ایمان محض جذبے یا تاثر ہی کا نام نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی آمیزش ہوتی ہے‘‘۔ (پہلاخطبہ) علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا اقتباس میں بہت سی باتوں کو یکجا کردیا ہے جن کا زیادہ تر تعلق فلسفہ ومذہب کی بحث وتنقید سے ہے۔اُنھوں نے اس میں ان اُمور کو بیان کیا ہے: (الف) فلسفہ کی اساس آزادانہ تحقیق وجستجو پر استوار ہوتی ہے۔فلسفہ پہلے سے قائم کردہ نظریات اور مفروضات کی حقیقت وافادیت کو اس وقت تک نہیں مانتا جب تک کہ وہ اُنھیں تحقیق وتنقید کے مقرر اُصولوں پر نہ جانچ لے۔ یہ دل سے مانی ہوئی باتوں کو بھی من وعن تسلیم نہیں کرتا بلکہ ان کے بارے میں کافی سوالات اُٹھاتا ہے۔اگر ان سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ پائے تو وہ انھیں قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ (ب) فلسفہ مذہبی اعتقادات اور دیگرمفروضات کی حاکمیت اور برتری کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ تمام نظریات کو پہلے تحقیق وتنقید کے معیار پر پرکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔فلسفہ پہلے عقلی معیار قائم کرتا ہے اور بعد ازاں اس کے درست نتائج کو مانتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کی بنیاد اعتقاد وایمان پر ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں مذہب پہلے سے مانی ہوئی باتوں(اعتقادات) پر زور دیتا ہے اور بعد ازاںغور وفکر کی اجازت دیتا ہے۔ کبھی یہ غور وفکر کی پہلے دعوت دیتا ہے تاکہ ہم مطالعہ فطرت اور مشاہدہ کائنات کے باعث خدا کی قدرت، حکمت اور وجود کے نشانات کو دیکھ کر بندگی اختیار کریں۔ (ج) فلسفہ،مذہب اور اعلیٰ شاعری کی طرح زندگی کے چند اہم سوالات سے دوچار ہوتا ہے مثلاً ان تینوں میں کائنات کی نوعیت، انسان اور کائنات،انسان اور خدا، خدا اور کائنات کے باہمی روابط اور دنیا میں انسانی کردار کے مختلف پہلوئوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔فلسفہ عقل کی بدولت حقیقت مطلقہ یا روح کائنات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی تو یہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مادہ ہی حقیقت ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہستی اس کی خالق نہیں اور کبھی یہ خدا کے وجود کو تو مانتا ہے مگر عقل کی نارسائی اور ناکامی کا اعتراف نہیں کرتا۔ (د)فلسفہ کا نچوڑ عقلی استدلال ہے لیکن مذہب کا لب لباب ایمان ہے۔فلسفہ حواس اور عقل پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے طر یق تحقیق کا مظہر ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایمان کا لازمی طور پر حسّی علم اور استدلال پسند عقل سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب باطن کے علاوہ ظاہر کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔اس کا زیادہ تر زور باطن کی پاکیزگی،اخلاق کی درستگی،نظریاتی صحّت اور عزم ویقین پر ہوتا ہے۔ (ہ) علامہ اقبالؒ آخر میں فرماتے ہیں کہ ایمان صرف جذبے کا نام نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں مذہب عقل کے معقول استعمال کا مخالف نہیں ہوتا۔اس نقطہ نگاہ سے یہ ذکر وفکر،فکر ووجدان اور ظاہر وباطن پر محیط ہوتا ہے۔ (۲)’’ دین وایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے‘‘۔ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی مشہور انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں فلسفہ،اعلیٰ درجے کی شاعری اور مذہب تینوں کو کائنات اور زندگی کی بنیادی حقیقتوں کامتلاشی قرار دیتے ہوئے مذہب کو فلسفے اور شاعری پر ترجیح دی ہے۔اُنھوں نے اپنے اس مطمع نظر کی تائید میں دلیل وبرہان سے کام لیا ہے اور محض اپنے ذاتی عقائد پر تکیہ نہیں کیا۔وہ فلسفے کو محض تفکر اور شاعری کو شدید جذبے کا مظہر خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس وہ مذہب کو فکر‘جذبہ اور عقیدہ وایمان کا مجموعہ کہتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں دین ومذہب کا احاطہ اثر شاعری اور فلسفے سے زیادہ وسیع ہے۔مندرجہ بالا اقتباس سے دو باتیں ظاہر ہیں… دین وایمان کا عقلی جائزہ اور عقل پر ان کی برتری۔آئیے سب سے پہلے ہم دین وایمان کے عقلی جائزے کی اہمیت کو بیان کریں۔ (الف) علامہ اقبالؒکہتے ہیں کہ دین ومذہب کی ٹھوس حقائق اور یقینی اُمور پر بنیاد ہوتی ہے جن کا اوّلین مقصد انسانوں کے اذہان وقلوب میں انقلاب لاکر اُن کی اجتماعی زندگی اور ظاہری و باطنی فلاح وہدایت کا سامان بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ مذہبی حقائق اور دینی عقائد انسان کی بھرپور شخصیت کے مظہر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں کی فکری اور جذباتی تطہیر کرتے ہیں بلکہ وہ اُنھیں اعمالِ صالح اور درست عقائد بھی عطا کرتے ہیں۔اس لحاظ سے ان مذہبی اُمور کی عقلی جانچ پڑتال بے حدضروری ہے کیونکہ کوئی باشعور انسان محض غیر یقینی‘شک آمیز اور نامعقول باتوں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا پسند نہیں کرے گا۔سائنس کسی امر کو نظر انداز کرسکتی ہے مگر مذہب ایسا نہیں کرسکتا۔ (ب) اب ہم فلسفے پر مذہبی برتری کا جائزہ لیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں فلسفہ اور مذہب میں تطابق ہے اور اختلاف بھی۔اگرچہ وہ فکر وایمان(فلسفہ ومذہب) کے مشترک منبع کے قائل ہیں اور وہ وجدان(الہام) کو عقل کی ترقی یافتہ شکل قرا ردیتے ہیں تاہم وہ مذہب کو فلسفے اور ایمان کو عقل سے بالا تر خیال کرتے ہیں۔اس برتری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ فلسفہ جزویت کا ترجمان ہے اور مذہب کلیت کا۔فلسفہ عقلِ محدود پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ مذہب کو وحی والہام کی رہنمائی حاصل ہے۔فلسفہ محسوسات میں اُلجھا رہتا ہے لیکن مذہب محسوسات سے ماورا حقائق پر بھی پختہ یقین رکھتا ہے۔فلسفہ ظن وتخمین کا حامل ہوتا ہے جبکہ مذہب یقین کامل کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔فلسفہ عقلی موشگافیوں کا شکار ہوکر خدا کے وجود کو نہیں مانتا جبکہ مذہب وجودِ باری تعالیٰ کا زبردست مبلغ ہوتا ہے۔اکبر نے کیا خو ب کہا تھا:۔ ؎فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سراِ ملتا نہیں عقل پر ایمان کی فوقیت کے متعلق علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بے محل نہ ہوں گے۔ ؎محسوس پر بناِ ہے علوم جدید کی اِس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش مذہب ہے جس کانام وہ ہے اک جنوںِ خام ہے جس سے آدمی کے تخیل کو ارتعاش (کلیات اقبال،ص ۲۴۶) علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین وظن علم مقام صفات‘ عشق تماشائے ِذات علم ہے پیدا سوال‘ عشق ہے پنہاں جواب (ایضاً،ص ۴۸۳۔۴۸۲) قرآن حکیم (۱)’’ قرآن ِحکیم وہ کتاب ہے جو تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیتی ہے‘‘ (دیباچہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور نثر میں قرآنِ حکیم کی درخشاں اور حیات بخش تعلیمات کے متعدد گوشوں کو اپنے مخصوص انداز بیان میں بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔اُنھوں نے اپنے خطبات کے آغاز میں یہ کہا ہے کہ قرآن حکیم نے تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیا ہے۔قرآن حکیم چونکہ زندگی کے تمام پہلوئوں میں مشعلِ ہدایت ثابت ہوتا ہے اس لیے وہ ہماری زندگی کے کسی بھی اہم گوشے کو نظر انداز نہیں کرتا۔انسانی زندگی کے بارے میں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ انسان کی زندگی جذبات، احساسات اور خیالات کے علاوہ اعمال سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔جس قدر ہمارے جذبات اور افکار اہم ہیں‘اسی قدر ہمارے اعمال وافعال بھی اہمیت کے حامل ہیں۔قرآن حکیم نے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خوشگواری اور فلاح کے لیے بنیادی محکم اور ابدی اُصول دئیے ہیں جو ہر دور میں انسانیت کی فلاح وبہبود کا باعث بنتے رہیں گے۔آئیے ہم دیکھیں کہ قرآن حکیم نے ہمارے عقائد واعمال کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے۔ (ا) قرآن حکیم خدا تعالیٰ کا عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات اور صحیفہ ہدایت ہے۔قرآن حکیم نے ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے افکار،نظریات،احساسات،جذبات بلکہ خیالات کی اصلاح وتطہیر پر زور دیا ہے۔چونکہ ہمارے اعمال ہمارے افکار ہی کے غماز ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ان کی پاکیزگی ضروری ہے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کو ہمارے ہر فعل میں ہمارا حاکم بنانے پر زور دیتا ہے تاکہ ہم لامحالہ ہر شعبہ حیات میں کی بلا شرط اطاعت اختیار کرسکیں۔جب خدا تعالیٰ کا تصور ہمارے دل ودماغ میں اچھی طرح جاگزیں ہوجائے گا تو ہم اپنی عملی زندگی میں اس کا ثبوت بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔خدائی قوانین کی ابدی صداقت کا یقین اور اس کی ہمہ وقت اطاعت کا تصور ہی ہمارا عقیدہ اور ایمان ہوتا ہے۔ایسی حالت میں ہم بلا چون وچرا اس کو ہر کام میں اپنا حاکم خیال کرنے لگتے ہیں۔ (ب) ایمان، عقیدے، اور تصور کی پختگی کے بعد قرآن حکیم ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل سے بھی اپنے قول کا ثبوت دیں۔ کسی بات کو محض عقلی طور پر ماننے کے بعد اس کے مطابق عمل نہ کرنا منافقت اور بزدلی کی علامت ہے۔علامہ اقبالؒ خرد کے ساتھ ساتھ ہمارے دل ونگاہ کو بھی مسلمان دیکھنے کے خواہاں ہیں جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں: ؎ خرد نے کہہ بھی دیا لا اِلہٰ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں (کلیات اقبال،ص ۴۹۷) قرآن میں ہمیں حکم ہوتا ہے:’’ لقد خلقٰنا اِلا نسان فیِ کبد‘‘ (البلد ۹۰:۴)(ہم نے انسان کو جفاکشی کے لیے پیدا کیا ہے)۔ قرآن حکیم نے ہمیں زمین پر اپنا نائب قرار دیا ہے۔کیانائب ایزدی کو بے عمل اور ناکارہ تصور کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔اب عمل کے بارے میں حضرت علامہؒ کے یہ اشعار دیکھئے: ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے ؎ تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر (ایضاً،ص۴۷۸) (۲)’’قرآن کی رُو سے اس کائنات کی اصلیت کیا ہے جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں؟ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے… قرآن گردش لیل ونہار کو خدا کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان آیات الہٰی پر غور وخوض کرکے تسخیر فطرت کے لیے نئے نئے ذرائع معلوم کرے‘‘۔ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے اس قول میں چند ضروری کائناتی حقیقتوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کی گئی ہے؟اُنھوں نے کائنات، مظاہر فطرت اور خدا کی خلاقی صفت کو اہل دانش کے لیے عظیم نشانی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں قرآنی نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے: (الف) کائنات کی آفرنیش محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہے۔ بعض اہل فکر ودانش کائنات کے وجود کے تو قائل ہیں مگر وہ اس کے خالق کی ہستی پر یقین نہیں رکھتے۔حکماء کا دوسرا گروہ اسے محض حادثہ کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس لیے وہ اسے مقصدِ تخلیق سے عاری کہتا ہے۔مفکرین کا تیسرا گروہ کائنات کی تخلیق کو برحق ماننے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ شر اور غم کو عیاں دیکھتا ہے۔قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ خدا کا کوئی فعل بھی حکمت بالغہ اور مقصدیت سے خالی نہیں ہوتا اس لیے اس کائنات کی پیدائش کی بھی خاص غرض وغایت ہے۔ارشاد ربانی ہے:’’ما خلُقت ھٰذا باطلاً‘‘ (اے خدا! تو نے اسے بیکار پیدا نہیں کیا)۔کیا یہ ہماری حماقت نہیں کہ ہم اپنے کاموں کو تو بامقصد سمجھیں اور خدا کے کاموں کو غبث خیال کریں؟ ع: بریں عقل ودانش ببایدگر یست۔ علامہ اقبالؒ ہر نوع کی زندگی اور مقصدیت کے باہمی تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ آرزو جانِ جہان رنگ وبو است فطرت ہر شے امینِ آرزو است (کلیات اقبال،ص۱۶) (ب) حضرت علامہ اقبالؒ مزید کہتے ہیں کہ دن اور رات کی تبدیلی کو قرآن حکیم خدا تعالیٰ کی عظیم نشانی قرار دیتا ہے۔قرآن حکیم نے بار بار اشیائے کائنات کی تخلیق، گردش ِروز وشب،تبدیلی موسم،نباتات،حیوانات اور انسان کی پیدائش اور فطرت کے حسین مناظر کے گہرے مطالعہ پر زور دیا ہے تاکہ انھیں دیکھ کر ہم خدا کی ہستی پر بھی ایمان لائیں اور اپنی زندگی کے مادی پہلو کو بھی بہتر بناسکیں۔ (ج) خدا کی ظاہری اور باطنی آیات(نشانات) ہمارے انفس اور آفاق میں موجود ہیں۔ اسلام چونکہ زندگی کا متوازن نظریہ پیش کرتا ہے اس لیے یہ مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل پر زور دیتا ہے۔روحانیت پرستوں اور رہبانیت کے علم برداروں کے برعکس یہ خارجی اور مادی زندگی کو بھی انفرادی اور اجتماعی خوشحالی اور بہتری کا ذریعہ خیال کرتا ہے۔یہ باطن اور ظاہر دونوں کی افادیت کا معترف اور تسخیر فطرت کے نئے نئے ذرائع تلاش کرنے کا نقیب ہے۔سقراط اور اس کے پیروکار صرف باطنی دنیا ہی کو لائق مطالعہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے بتایا کہ زندگی محض باطن پر ہی منحصر نہیں بلکہ خارجی دنیا بھی ہمارے غور وفکر کی مستحق ہے۔زمانہ قدیم میں جب انسانی شعور ہنوز طفولیت کے عالم میں تھا تو انسانوں نے مختلف طاقتوں کی پوجاشروع کردی تھی مگر جوں جوں شعور میں پختگی آتی گئی‘اُنھوں نے مظاہر فطرت کو مسخر کرنا شروع کردیا۔ قرآن حکیم نے تسخیر کائنات کا درس دیتے ہوئے یہ انقلابی اعلان کیا تھا:’’سخّر لکُم ما فی السٰمٰوات وما فیِ الارضِ جمعیًا‘‘(الجاشیہ۴۵:۱۳)(ہم نے تمھارے لیے ارض وسما کی تمام اشیا ء کو مسخر کردیا ہے )۔ اقبالؒ کا یہ وجد آور شعر پڑھیے:۔ ؎ مذہب زندہ دلاں خوابِ پریشانے نیست از ہمیں خاک جہانِ دگرے ساختن است (کلیات اقبال،ص۴۹۱) (۳)’’ قرآن کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت عالم کے خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔اس عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے۔ قرآن نے اپنے مقلدین کے اندر یہ تجرباتی طریقِ کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا‘‘ (پہلاخطبہ) قرآن حکیم نے کائنات کے خارجی مظاہر کے مطالعہ پر زور دے کر مسلمانوں کے اندر سائنسی تحقیق کا ذوق وشوق پید اکردیا تھا جسکا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جدید سائنس کے بانی بن گئے تھے۔ کیا یہ اس حکمتِ قرآنی کا اعجاز نہیں کہ مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے نباتیات‘ حیوانیات، طب، ریاضیات اور دیگر علوم وفنون میں یہ طولیٰ حاصل کیا اور مغربی قوموں کو ان سے آشنا کیاجبکہ یورپ میں جہالت کا دور دورہ تھا۔نزولِ قرآن سے پہلے وہی عرب ہر قسم کے جرائم اور توہمات کا شکار تھے مگر حامل ِ قرآن بن کر وہ صحرانشین دوسروں کوعلم وحکمت کا درس دینے لگے تھے۔علامہ اقبالؒ نے یہاں قرآن کی تین اہم صفات کا ذکر کیا ہے: (ا) و ہ کہتے ہیں کہ قرآن حقیقت مطلقہ کے خارجی‘مادی اور دیدنی پہلو کے مطالعہ ومشاہد ہ پر بہت زور دیتا ہے۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہر نظام کو چلانے کے لیے چند قوانین اور اُصول وضع کئے جاتے ہیں۔کیا خدا تعالیٰ نے بھی اس عظیم کائنات کو چلانے کے لیے خاص قوانین وضع نہیں کئے؟ہمارا جواب یقینا اثبات میں ہوگا کیونکہ یہ کائنات لگے بندھے اُصولوں کے مطابق رواں دواں ہے۔ارشارباری تعالیٰ ہے:’’ لن تجدِ لسنتہ اﷲِ تبدیلاِ‘‘(الاحزاب۳۳:۶۲) (تو اﷲ کی سنّت یعنی(قوانین خداوندی) میں کبھی تبدیلی نہیں پائے گا‘‘)۔ (ب) کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ کی بنا پر قرآن انسان کے اندر خدا تعالیٰ کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی آئینہ دار یہ کائنات ہے۔قرآن حکیم نے خالقِ کائنات کے بارے میں یہ کہا ہے:’’ ھُو الّظاہرُ والباِطنِ‘‘(۳:۵۷)( اﷲ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی )۔جب ہم مظاہر فطرت کو دیکھتے ہیں تو ہم خدا کی قدرت ِکاملہ اور حکمتِ بالغہ کی نشانیاں دیکھ کر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور ناظم ہے۔اسی طرح ہمارے دل ودماغ میں خدا کی معرفت پیدا ہوتی ہے اور ہم اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔خدا اپنی نشانیوں کے ذریعے ظاہر تو ہے مگر اس کی حقیقت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اس لیے وہ باطن بھی ہے۔ (ج) قرآن نے مطالعہ فطرت کے سبب مسلمانوں کے اندر تجرباتی طریق کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا۔قرآن کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’ وما خلقنا السّمآ و الارضِ وما بینھما لِٰعبیُن‘‘ (الانبیا۲۱:۱۶) (اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان چیزوں کو کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا)۔ اس طرح قرآن نے ہمیں بتایا کہ اس کائنات کی پیدائش بلا مقصد نہیں۔ہندو فلسفہ میں تخلیق کائنات کو’’رام لیلا‘‘ قرار دیا گیا ہے یعنی یہ دنیا خدا کا رچایا ہوا ناٹک ہے۔قرآن اس تصور کی پر زور انداز میں تردید کرتا ہے۔ یہ دنیا بالحق بنائی گئی ہے اور انسان کو قدرت نے تخلیقی سرگرمی سے نوازا ہے۔اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اجتماعی مفاد،زندگی کی خوشحالی اور اپنی خودی کے استحکام کے لیے مسخر کرے۔کائنات کو حقیقی، بامقصدا ور نظم وضبط کی پابند پاکر مسلمان ان قوانین قدرت کو بے نقاب کرنے لگے تھے جن کے مطابق یہ چل رہی تھی۔ بعد ازاں اُنھوں نے اپنے نتائج فکری کی جانچ پڑتال کے لیے آلات بھی بنائے۔اس طرح اُنھوں نے تجرباتی سائنس کی بنیاد ڈالی تھی۔ علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’ انسان‘‘ میں فطری قوانین کی ہمہ گیری اور انسانی سرگرمی کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:۔ ؎ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرم ِ تقاضا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی یہ ہستی دانا ہے‘بینا ہے‘ توانا ہے (کلیات اقبال،ص۱۷۹) علامہ اقبالؒ کا ایک ا ور اقتباس بڑا ہی فکر انگیز ہے۔ وہ تسخیر فطرت کے ضمن میں قرآنی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں: "The Quran opens our eyes to the great fact of change, through the appreciation and control of which alone it is possible to build a durable civilization." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.14) (۴)’’ قرآن حکیم ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات کو اس حقیقت کاملہ کے نشانات سمجھتا ہے جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی‘ جو ظاہربھی ہے اور باطن بھی‘‘ (دوسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں قرآن‘ کائنات اور خدا کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا ہے اس کی قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے اس میں تین اہم اُمور کا انکشاف کیا ہے: (الف ) قرآنی تعلیمات کی رُو سے ہمارے ظاہری اور باطنی تجربات ومشاہدات حقیقت کاملہ(خدا) کے نشانات اور مظاہر ہیں۔قرآن نے کہا:’’ سنُریم اٰ تِنا فیِ الافاقِ وفیِ انفُسھم‘‘ (فُصِلت۴۱:۵۳)،)ہم عنقریب اُنھیں اپنی نشانیاں دنیا میں اور خود ان کے اندر دکھائیں گے(۔ اس آیت قرآنی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت کی نشانیاں مادی دنیا میں بھی دکھاتا ہے اور ہماری ذات کے اندر بھی۔ خدا کی بعض نشانیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں اور بعض مادہ اور حواس کی حدود سے ماورا ہوتی ہیں۔ظاہری نشانات دیدنی، مادی، حسّی اور عارضی ہوتے ہیں جبکہ باطنی نشانیاں نادیدنی‘غیر مادی‘حواس سے ماورا اور ابدی ہیں۔ (ب)قرآن کی تعلیمات کے مطابق خدا اوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ سائنس اور فلسفہ علّت ومعلول اور محسوسات کا شکار ہوکر خدا کی ہستی کو جاننے سے قاصر ہیں۔ قرآ ن حکیم خدا تعالیٰ کو علّتِ غائی اور ابدی قرار دیتا ہے جس سے قبل کچھ بھی نہیں۔ جس طرح اس کی ابتدا نہیں اسی طرح اس کی کوئی انتہا بھی نہیں۔ اس مشکل سے نجات پانے کے لیے ہم اسے اوّل اور آخر تصور کرنے پرمجبور ہیں۔ ارشادقرآنی ملاخطہ ہو: ’’ ھُو الاوّل والآ خُرِ‘‘(اﷲ اوّل بھی ہے اور آخر بھی )۔خدا تعالیٰ کو اوّل سمجھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو پھر یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ریاضیات میں ہم صفر کو ابتدا خیال کرکے آگے بڑھتے ہیں۔اگر کوئی نقطہ آغاز فرض نہ کریں تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔خدا کو ہر چیز اور حقیقت کی انتہا قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم ہمیں یہ عظیم حقیقت بتاتا ہے کہ: ’’ واِلی رّبک المنتھٰی‘‘( اور تیرے پروردگار کی طرف منتھٰی ہے)۔ (ج) قرآن خدا کو ظاہر اور باطن قرار دیتا ہے۔ اس پر پہلے بحث کی گئی ہے۔ اب ذیل میں اس موضوع سے متعلق علامہ اقبالؒ کے چند اقوال واشعار بطور حوالہ پیش کئے جاتے ہیں: (1)"It is the mysterious touch of the ideal that animates and sustains the real, and through it alone we can discover and affirm the ideal." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.9) (2)"---The Ultimate Reality which reveals its symbols both within and without." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.14) ؎گلزارِہست و بُود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگذر میں نقشِ کف پائے یار دیکھ (کلیات اقبال،ص ۹۸) ؎ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہے دیکھنا تو دیدئہ دل ِ وا کرئے کوئی ہودید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی (کلیات اقبال،ص۱۰۲) ؎ جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانو ں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں حقیقت ا پنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی مکاں نکلا ہما رے خانہ دل کے مکینوں میں (کلیات اقبال،ص۱۰۳) (۵)’’میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچی سمجھی تجویز کی ہوبہو نقل قرار دے۔قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ کوئی تکمیل یافتہ شے جسے بناکر خدا صدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘ ( دوسرا خطبہ) اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تقدیر کے غلط تصور اور کائنات کی عدم حرکت وارتقا کے زبردست مخالف ہیں۔وہ ان دونوں نظریات کو قرآنی تعلیمات کی روح سے ہم آہنگ نہیں پاتے۔اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ قرآن کی رو سے اس کائنات کی تخلیق بلا مقصد نہیںاور نہ ہی یہ جامد اور غیرارتقا پذیر ہے۔علاوہ ازیں زمین پر خدا کا نائب ہونے کی حیثیت سے انسان عمل، اختیار، آزادی انتخاب، تخلیقی سرگرمی اور مخفی صلاحیتوں کا حامل ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو آزادی عمل اور خیر وشر کی تمیز دے کر اسے مسئولیت کا ذمہ دار بنایا ہے۔علامہ اقبال ؒ کے اس اقتباس کے اہم اجزا یہ ہیں: (الف)کائنات پہلے سے سوچی سمجھی سکیم کی ہوبہو نقل نہیں کیونکہ ایسا خیال قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام آنے والے واقعات کو’’لوح محفوظ‘‘ پر تحریر کردیا تھا اور بعد ازاں یہ واقعات خودبخود اس سکیم کے مطابق نمودار ہوتے رہتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اس نظریے میں جبریت اور میکانیت کا عکس پاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تصور سے خدا اب بالکل فارغ اور بیکار ہوجاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ ایک مشینی عمل قرار پاتا ہے کیونکہ مشین کوایک بار چلاکر چلانے والا آرام کرنے لگتا ہے۔اگر واقعات خدا کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ہی ظہور پذیر ہورہے ہیں تو پھر ہم اپنے اچھے اور برے اعمال کی جزا وسزا کے کیسے ذمہ دار ہوتے ہیں؟علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ تقدیر کا مطلب پیمانہ عمل اور قدر وقیمت ہے جس کی رُو سے ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہوں گے اور قوانین فطرت اپنے مخصوص نتائج پیدا کرتے رہیں گے۔وہ بیج کی مثال دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اپنی مخفی صلاحیتوں کو خود بروئے کار لانے کی آزادی بھی رکھتے ہیں۔ (ب) وہ کائنات کے اندر بڑھنے اور آگے جانے کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں۔وہ اسے کوئی تکمیل یافتہ چیز خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اس کی ارتقائی قوت کے قائل ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ خدا تعالیٰ کائنات کو اب بھی صفت ربوبیت اور خلاقی صفت کے سبب مراحل ترقی وارتقا سے گزار رہے ہیں۔ کیا اب خدا نے کائنات میں اپنی قدرت اور حکمت کی نشانیوں کو دکھا نا ختم کردیا ہے؟کیا خدائی صفات بھی ازلی اور ابدی نہیں ہیں؟خدا تو اب بھی اپنی جلوہ گری اور تخلیقی عمل میں مصروف ہے جیسا کہ قرآن پا ک میں ارشاد ربانی ہے:’’ خلق کّل شیی ء ً فقّد رہ‘ تقدِیراً‘‘ ( ترجمہ:اﷲ نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور اُن کے لیے پیمانے اور اندازے مقرر کئے )۔اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے اشیاء کی تخلیق کے بعد اُن کی آئندہ ترقی ورفتار کے لیے خاص خاص قوانین بھی بنائے۔ آزادی اور ارتقائی صفت سے محروم کائنات کو علامہ اقبالؒ کٹھ پتلیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔وہ فرماتے ہیں: "The world regarded as a process realizing a pre-ordained goal is not a world of free, responsible moral agents; it is only a stage on which puppets are made to move by a kind of pull from behind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.54) علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ بھی دلچسپی کا حامل ہوگا۔وہ کہتے ہیں: ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ع: تقدیر کے پابند جمادات ونباتات (۶)’’ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آغازِ اسلام سے لے کر عباسیوں کے ابتدائی دور حکومت تک ہمارے پاس قرآنِ حکیم کے علاوہ عملی طور پر کوئی مدوّن آئین نہیں تھا‘‘۔ (چھٹاخطبہ) اس موضوع پر اس سے قبل علامہ اقبالؒ کے افکار وخیالات کا خلاصہ بیان کیا جاچکا ہے۔اُنھوں نے اسلامی آئین کے چار اہم منابع قرآن،احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن حکیم کی اوّلیت اور ہمہ گیر افادیت کے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔اُن کی نگاہ میں رسول کریمؐ کے مبارک عہد سے لے کر عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دور حکومت تک مسلمانوںکے پاس قرآن کے علاوہ اور کوئی ایسا آئینی ذریعہ نہیں تھا جو اس کی طرح مدوّن اور مرتب ہوتا۔جب مسلم حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوگیا اور نئے علاقوں کے رہنے والے حلقہ بگوش اسلام ہوئے یا ذمّی رعایا کی حیثیت سے مسلم مملکت میں زندگی گذارنے لگے تو باہمی میل جول نے نئے نئے مسائل کو جنم دیا۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب مختلف رسم ورواج اور تہذیب وتمدن رکھنے والے لوگ آپس میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے اطوار و نظریات سے متاثر ہوتے ہیں۔اسی طرح پرانے طرز ِزندگی اور اندازِ فکر میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ایسے ہی حالات سے جب مسلمان اہل دانش وفکر اور فقہا کو دوچار ہونا پڑا تو اُنھوں نے قرآن حکیم کے اساسی نظریات اور بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اسلامی آئین کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ قرآن اسلامی آئین کا واحد اور اوّلین سرچشمہ ہے۔تاہم ہمارے قدیم فقہا نے احادیث کی تدوین اور اجماع و قیاس کی طرف خاص توجہ دی اور اس طرح اسلامی آئین کی حرکت، ارتقا پذیری،وسعت، لچک، ہمہ گیریت اور جاذبیت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کو تغیر وثبات اور آفاقی اقدار کا مظہر خیال کرتے ہوئے قرآن کے ابدی اُصولوں کی روشنی میں نئے حالات کو سنوارنے کے لیے غور وفکر کے حامی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کے مندرجہ ذیل اقوال واشعار کا حوالہ کافی مفید رہے گا: (1)"The ultimate spiritual basis of all life, as conceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.147) (2)"Omar---the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: "The Book of God is sufficient for us." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.162) (3)"---The Quran considers it necessary to unite religion and state, ethics and politics in a single revelation." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.166) ؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اﷲ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار (کلیات اقبال،ص۱۲۶) ؎ ملّت از آئین حق گیرد نظام اِز نظام محکمے خیز د دوام (کلیات اقبال،ص۱۲۶) قرآن حکیم محض عقائد وعبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں حیاتِ اجتماعی کی ترقی وکامرانی کی بھی تعلیم ہے۔ اس لحاظ سے دین اور سیاست و آئین میں کوئی ثنویت نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بجا فرمایا تھا:’’ حسبنا کتاُب اﷲِ‘‘۔ اس نقطہ نگاہ سے قرآن حکیم ہی ہمارے قوانین کا اوّلین اور بنیادی سرچشمہ ہونا چاہیے۔ (۷)’’ قرآن میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جو ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتی ہوئی شعور کی دیگر سطحوں کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں‘‘ (دوسرا خطبہ) وقت کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے مدتوں سے انسان غور وفکر کررہے ہین۔بعض فلاسفہ اور مفکرین کی رائے میں وقت ہی سب کچھ ہے ۔اس لیے وہ زمانے ہی کو موت وحیات کا سبب خیال کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ہم طبعی موت کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے۔قرآن حکیم اس مادی نظریہ حیات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ اوما لھُم بذِ الکِ منِ علُم اِن ھُم اِلاّٰ لیظُنّون‘‘(الجاشیہ۵ ۴:۲۴) (یہ محض ظن وقیاس سے کام لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس صحیح علم نہیں)۔دوسرا گرو ہ کہتا ہے کہ زمان کوئی ذاتی وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ توہمارے احساس کی پیدا وار ہے۔معروف جرمن فلسفی کانٹ کے خیال میں زمان ومکان محسوس ہونے والی اشیا نہیں بلکہ یہ تو ہمارے احساس کے سانچے اور طریقے ہیں۔اس لحاظ سے زمان کی خارجی شکل محض ہمارے احساس کی حالت ہے۔برگساں کے خیال میں چونکہ ہم مادیت کی طرف مائل ہوتے ہیں اس لیے ہم زمان ومکان کو بھی اسی ترازو میں تولتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کا تصورِ زمان کافی حد تک قرآنی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔ اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے قرآنی تصورِ زمان اور شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کی طرف اشارہ کیا ہے۔اُنھوں نے امریکہ کے مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کے ذکر کے دوران زمان کے قرآنی تصور پر روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر وائیٹ ہیڈ نے کائنات کو حرکی قرار دیتے ہوئے اسے ان حوادث کا مجموعہ کہا تھا جو مسلسل تخلیقی رو کے حامل ہوتے ہیں۔ زمان میں فطرت کے مرور ِکی یہ خاصیت باطنی تجربات کا ایک ایسا اہم پہلو ہے جس پر قرآن حکیم نے خاص زور دیا ہے۔حضرت علامہؒ کے نزدیک یہ تصورِ زمان ہمیں حقیقت کاملہ(خدا) کا بہترین سراغ دیتا ہے۔اس بارے میں اُنھوں نے قرآن حکیم کی پانچ آیات(۶:۱۰،۶۳:۲۵۵،۲۸:۳۱،۸۲:۲۳) کا حوالہ دیا ہے جن میں شب وروز کے تغیر وتبدل کو خدا کی نشانیوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ خدا کی ذات انسانی ذہن میں سما نہیں سکتی۔ کائنات میں اس کی پیدا کرہ لاتعداد نشانیوں(آیات) اور خارجی مظاہر ہی سے اس کے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قرآن حکیم نے لیل ونہار کی گردش کو اسی لیے دو واضح نشانیاں قرار دیتے ہو ئے یہ فرمایا:’’ وجعلُنا اللُّیل والنّھار ٰا یٰتین‘‘(الاسراء ۱۷:۱۲)(ہم نے رات اور دن کو دو نشانیوں کے طور پر بنایا ہے)۔ کیا ان قرآنی آیات سے یہ بات روِزروشن کی طرح عیاں نہیں ہوجاتی کہ یہ کائنات جامد اور غیر متحرک نہیں بلکہ اس میں ہر وقت تغیر وتبدل کا اُصول کارفرما رہتا ہے؟۔ برگساں نے اپنے فلسفیانہ نظام میں وقت کے موضوع پر بہت کچھ کہا ہے۔علامہ اقبالؒ مجموعی طور پر اس کے نظریہ زمان کو سراہتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں فرانس کے اس عظیم فلسفی نے وقت کی اصلیت بیان کرنے کے لیے قابل قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُنھوں نے اس بحث کے ضمن میں برگساں کا ایک طویل اقتباس بھی نقل کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارے مختلف اور لاتعداد احساسات‘جذبات‘کیفیات اور خیالات ہماری باطنی دنیا میں ظہور پذیر ہوکر ہماری زندگی کو اپنے رنگ میں رنگتے ہیں۔اسی طرح ہماری زندگی بے شمار کیفیات اور تغیرات کی عکاس بن جاتی ہے۔ ہنری برگساں کے یہ الفاظ ہماری زندگی اور تغیر مسلسل کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہیں: "I pass from state to state. I am warm or cold. I am merry or sad---Sensations, feelings, volitions, ideas--such are the changes into which my existence is divided and which color it in turns. Ichange, then, without ceasing." (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.45-46) علامہ اقبالؒ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمارے شعور اور ہماری زندگی کو اس مسلسل تغیر وارتقا کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔حرکت وارتقا سے عاری زندگی کو وہ کسی طرح بھی حقیقی اور مفید زندگی خیال نہیںکرتے۔جب ہماری زندگی کے تاروپود میں خدا کی تخلیقی سرگرمی کارفرما رہتی ہے تو ہم اپنے باطن میں اس کے اثرات کیوں محسوس نہیں کرسکتے؟ ایسے حالات میں انسان کو بھی تخلیقی صلاحیت کا مالک قرار دینا پڑے گا۔اس ضمن میں ہنری برگساں کے یہ الفاظ کس قدر بصیرت افروز ہیں۔ وہ کہتا ہے: "--for a conscious being to exist is to change, to change is to mature, to mature is to go on creating one's self endlessly." (The Outline of Philosophy,p.388) زندگی اور کائنات کی اس حرکت اور ارتقاء پذیری کا تصور وقت کے بغیر ممکن نہیں۔ علامہ اقبالؒ نے وقت کی بحث کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ بعض قرآنی آیات کی رُو سے ہمارا شمارِ وقت شعور کی دوسری نامعلوم سطحوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات مختلف حالات میں ہمارا شعورِ وقت دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔ رات ایک ہی ہوتی ہے مگر ایک نشہ باز اور فرقت زدہ انسان اس کے مرورِ کے بارے میں مختلف احساس رکھتے ہیں۔ ایک کے لیے ے رات فوراًگزر جاتی ہے لیکن ہجرزدہ عاشق کے لیے وہی رات طویل ہوجاتی ہے۔شاعرِ مشرق ؒ علامہ اقبالؒکے ایک شعر سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔وہ کہتے ہیں: ؎ مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گذرتی ہیں مہینوں میں (کلیات اقبال،بانگ ِ درا) جب انسانوں کے شعور ِ وقت کا یہ حال ہے تو انسانی وقت اور خدائی وقت میں کیوں فرق نہیں؟ زمان کی حقیقت پر غوروفکر کرنے والوں نے اس کی قسمیں بیان کی ہیں ۔مثلاً انسانی زمان اور خدائی زما ن ۔انسانی تصورِ وقت خارجی‘غیر حقیقی اور مکانی نوعیت کا ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایزدی زمان باطنی‘حقیقی‘غیر مکانی اور ناقابل تقسیم ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جب ہم اردگرد کی چیزوں سے لاتعلق ہوکر حقیقت مطلقہ کے ساتھ گہرا ربط قائم کرتے ہیں تو اُس وقت ہمارا شعورِ وقت بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔من کی گہرائیوں میں ڈوبنے ہی سے ہمیں اس حقیقی وقت کا احساس حاصل ہوتا ہے: ؎ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی قرآن حکیم کی ایک آیت میں خدائی زمان کو ہمارے ایک ہزار سال کے برابر کہا گیا ہے ا ور دوسری آیت میں اس کی مدت کئی ہزار سال بتائی گئی ہے۔ اس سے علامہ اقبالؒ کے قول کی تائید ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم نے ہمارے شمارِ وقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعور کی دیگر نامعلوم سطحوں کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمارا عام اور خارجی شمار ہی معیار حقیقت نہیں بلکہ باطنی کیفیات میں یہ شمارِ وقت مختلف شعور کی ترجمانی کرتا ہے۔شاعر ِمشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم’’ الوقتُ سیف ‘‘ میں فلسفہ زمان پر کسی قدر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں صرف دو اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں: ؎ اے اسیر دوش وفردا درِنگر درلِ خود عالم دیگر نگر باز با پیمانہ لیل ونہار فکرِ تو پیمود طولِ روزگار ( کلیات اقبال) قوم (۱)’’ کوئی قوم بھی مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی ہی سے اس کے وجود کی تشکیل ہوتی ہے‘‘ (چھٹا خطبہ) زندگی کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا نظریہ یہ ہے کہ اس کو حرکت وارتقا کے ساتھ خاص نسبت ہے۔ یہ کبھی جامد نہیں رہتی بلکہ ہر دم متغیر رہتی ہے۔زندگی اور جمود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں زندگی ہوگی وہاں حرکت کا وجودہوگا اور جہاں جمود ہوگا وہاں زندگی رُک جائے گی۔اس لحاظ سے جمود افراد اور قوم دونوں کے لیے پیام موت ثابت ہوتا ہے بقول علامہ اقبالؒ: ہستم اگرمی روم، گر نہ روم نیستم۔( یعنی اگر میںحرکت کروں تو میں زندہ ہوں اور اگر میں رُک جائوں تو یہ جمود میری موت کے مترادف ہوگا)۔قرآن حکیم نے خداتعالیٰ کی لگا تار جلوہ گری اور اس کے مسلسل عمل تخلیق پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا ہے:’’ یزیُد فیِ الخلق مایشآئ‘‘(ناظر ۳۵:۱)(وہ اپنی مشّیت کے مطابق تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے )۔جب خالق کائنات ہر لمحہ کائنات میں اپنی مخلوقات میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور نئے نئے واقعات کو جلوہ گر کرتا ہے تو پھر یہ دنیا تغیر وتبدل سے کیسے محروم ہوسکتی ہے؟زندگی کے بارے میں اکثر فلاسفہ کا یہ نظریہ ہے کہ زندگی ایک دوری حرکت ہے۔ اس لیے یہاںتکرار کا چکر پایا جاتا ہے۔قرآن اس تصور کو غلط قرار دیتا ہے۔اس کی رُو سے زندگی حرکی اور ارتقا پذیر ہے۔علامہ اقبالؒ زندگی اور تغیر کے باہمی تعلق کے علاوہ اس میں ثبات و دوام کے عنصر کے بھی زبردست قائل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ثبات و دوام کے بغیر دائمی تغیر پر مبنی ہوکر زندگی کسی قسم کے دیرپا کلچر کو جنم نہیں دے سکتی۔شجر حیات کی شاخوںمیں ہوا کی جبنش تو لازمی ہے مگر اس کی جڑوں کا مضبوطی کے ساتھ زمین میں پیوست رہنا بے حد لازم ہے۔ اگر اس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں تو اس کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔اسی طرح تغیر وثبات کے ساتھ زندگی کا ربط ہونا چاہیے۔اُن کی رائے میں اسلام نے ہمیں ابدی اور عالمگیر قوانین دئیے ہیں تاکہ ہم ان کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی کی بدلتی حالتوں اور نئے مسائل کو بخوبی حل کرسکیں۔وہ زندگی اور قوم کے لیے تغیر وثبات کے اس لازمی اور مفید امتزاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "----We should not forget that life is not change, pure and simple. It has within it elements of conservation also." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.166) علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا اقتباس میں اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی قوم بھی تغیر واجتہاد کے اُصول پر چل کر اپنے ماضی کو کلیتہً نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی کی روایات کی کوکھ ہی سے اس نے جنم لیا ہوتا ہے۔ جس طرح بچہ بڑا ہوکر اپنی ماں کے وجود سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔اسی طرح کوئی قوم بھی اپنی سابقہ روایات اور تاریخی ورثے کی قدر وقیمت سے منہ نہیں موڑ سکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کا مستقبل کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کا حال اس کے ماضی ہی کا پروردہ ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ زندگی کو ایک اسی ناقابل تقسیم وحدت خیال کرتے ہیں ۔ قوموں کی ارتقائی حرکت بلا روک ٹوک آگے نہیں بڑھتی بلکہ یہ اپنے دوش پر ماضی کا بوجھ بھی اُٹھائے ہوتی ہے۔ہر مصلح اور مجدد کو قومی اصلاح کے وقت اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے قومی ماضی کی اہم اور بنیادی روایات،عقائد،اقدار اور مخصوص اطوار کو نظر انداز نہیںکرسکتا۔اگر اس نے اپنے ماضی سے مکمل طور پر رشتہ توڑدیا تو یہ قوم کے حق میں مفید اور دیرپا ثابت نہ ہوگا۔علامہ اقبالؒ ہی کے الفاظ میں قوم اور اُس کے اس باہمی اور ناگریز تعلق کی اہمیت ملاخطہ کیجیے۔وہ فرماتے ہیں: "-----In any view of social change the value and function of the forces of conservatism cannot be lost sight of. It is with this organic insight into the essential teaching of the Quran that modern Rationalism taught to approach our existing intstitutions." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.166) ماضی کی شاندار روایات اور اعلیٰ اقدارِ حیات کی اہمیت سے متعلق علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس بات کی مزید صراحت کرسکیں گے۔ وہ عہدِ ماضی کو کسی قوم کا حافظہ قرار دیتے ہوئے اپنی فارسی تصنیف ’’رموز بے خودی‘‘ میں فرماتے ہیں: فرد چوں پیوند اّیا مش گسیخت شانہ ادراک اُو دندانہ ریخت قوم روشن از سوادِ سرگزشت خود شناس آمد زیادِ سرگزشت سرگزشت اُو گر ا ز یادش رود باز اندر نیستی گم می شود ربط اّیام است ما را پیرہن سوزنش حفظ روایات کہن (کلیات اقبال، ص۱۴۷) اگر کسی انسان کی یادداشت ہی ختم ہوجائے تو وہ اپنی شناخت اور شعور سے محروم ہوکر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح قومیں اپنے ماضی کو فراموش کرکے اپنی شناخت کو کھو بیٹھتی ہیں۔ شاعرِ مشرق اسلام کے شاندار ماضی سے اپنی قلبی اور ذہنی وابستگی کا اپنی نظم’’مسلم‘‘ میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں: ؎ ہاں یہ سچ ہے، چشم بر عہدِ کہن رہتا ہوں میں اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں یاد عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ( کلیات اقبال ، ص ۱۹۶) کائنات (۱)’’ سقراط نے اپنی توجہ انفس پر مرکوز کی تھی۔اُس کی رائے میں پودوں، حشرات الارض اور ستاروں کی دنیا ہیچ ہے۔ وہ کائنات میں صرف انسان کی ذات کو لائق مطالعہ خیال کرتا تھا۔سقراط کا یہ خیال روحِ قرآنی کے کسی قدر خلاف ہے‘‘ (پہلا خطبہ ) اسلام کے نقطہ نظر سے خدا تعالیٰ اپنی نشانیوں کو ظاہری اور باطنی دنیائوں میں ظاہر کرتا ہے۔اس لحاظ سے انفس اور آفاق دونوں کا مطالعہ یکساں انداز میں مفید اور ضروری ہے تاکہ ہماری زندگی کے دونوں پہلوئوں میں جاذبیت اور وسعت پیدا ہوسکے۔زندگی محض جسم ہی کا نام نہیں اور نہ ہی یہ صرف روح پر منحصر ہے بلکہ یہ ان دونوں کا مجموعہ ہے ۔بنابریں کامیاب،مثالی،خوشگوار زندگی کے لیے روحانی اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کی اہمیت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ اقبالؒ قرآنی نظریہ حیات کا عظیم علم بردار ہونے کی حیثیت سے کسی بھی غیر متوازن اور یک طرفہ تصورِ کائنات کو بنظر تحسین نہیں دیکھتے۔اُنھوں نے سقراط کے نظریہ کائنات کو بھی اسی معیار حقیقت کے تحت ہدف تنقید بنایا ہے۔ ان کے مندرجہ بالا قول میں ان اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے:۔ (الف) یونان کے شہرہ آفاق فلسفی اور افلاطون کے استاد سقراط کے نظریات اور اس کے طریق استدلال کو تاریخ فلسفہ میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔اُس نے اپنے مطالعہ کے لیے انسان اور اُس کی ذات کو اس قدر اہمیت دی کہ اس نے خارجی دنیا اور اس کی اشیاء کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اُس کے نظریات کا لب لباب یہ مقولہ تھا’’Gnothi seauton (Know Thyself)‘‘ یعنی وہ معرفت نفس کا سب سے بڑامبلغ تھا۔ جب کوئی انسان باطن پرست ہوجائے تو وہ باطنی دنیا میں اس قدر مستغرق ہوجاتا ہے کہ اُسے بیرونی دنیا سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہتی۔ یہ اندازِ فکر بعد ازان رہبانیت،گوشہ نشینی اور دنیا سے بیزاری کے جذبات پیدا کرتا ہے جو معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لیے خطرناک اور غیر مفید ثابت ہوتے ہیں۔ (ب)علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ سقراط پودوں، حشرات الارض اور ستاروں کی دنیا کو ہیچ قرار دیتا تھا۔قرآن حکیم نے تو ہمیں تمام اشیائے کائنات کے عمیق مطالعہ اور تسخیر فطرت کا درس دیا ہے اس لیے سقراط کا یہ نظریہ یک طرفہ اور غیر مناسب ہے۔چند قرآنی آیات ملاحظہ ہوں:’’وھُو الّذی انزل منِ السّمائِ ماًء فاخرج بہِ نباتُ کُلّ شییً‘‘( انعام۶:۹۹)،(اﷲ وہ ذات ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمام نباتی اشیاء اُگائیں)۔ الشّمُس تجُرِی لمئسُتقّر لّھاِ‘‘( یٰسین۳۶:۳۸)،(سورج ایک مرکز کے اردگرد حرکت کرتا ہے )۔ ’’فلاینظُرون اِلی الاِبلِ کیف خُلقتُ‘‘(الغاشیہ۸۹:۱۷)(کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اُونٹ کو کس طرح بنایا گیا ہے)۔ ان تمام قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام خارجی ‘مادی اور مرئی دنیا کے حقائق کے مشاہدے اور غور وفکر پر کس قدر زور دیتا ہے۔ (ج) سقراط کائنات میں صرف انسان کی ذات ہی کو لائق مطالعہ سمجھتا تھا۔ قرآن حکیم کی رُو سے کائنات کی تمام اشیا جمادات، نباتات، اور حیوانات مطالعہ کے لائق ہیں نہ کہ صرف انسانی ذات۔علامہ اقبالؒ سقراط کے اس نظریہ کائنات کو بجا طور قرآنی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں۔سقراط کی طرح اس کے شاگرد افلاطون نے بھی عالم محسوسات کو فریبِ نظر اور غیر حقیقی کہا تھا حالانکہ قرآن حکیم’ سمُع‘’ فواد‘ اور’ بصر‘ سے حاصل شدہ علم کی مسئولیت کا قائل ہے۔اس بحث سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ قرآنی بصیرت کے مطابق ہی کسی تصور کو حق یا باطل سمجھنے کے عادی تھے۔وہ تخیل کی دنیا کو عجیب کہنے کے ساتھ ساتھ عالم مادی کو بھی عجائبات کا حامل قرار خیال کیاکرتے تھے۔ وہ ہماری توجہ اس ظاہری دنیا کی طرف مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎ تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا تخیلات کی دنیا غریب ہے لیکن غریب تر ہے حیات وممات کی دنیا (کلیات اقبال،ص ۴۹۵) (۲)’’ قرآن کی رُو سے… اس کائنات کی تخلیق محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کائنات اپنی ساخت کے لحاظ سے وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کوئی تکمیل یافتہ‘ بے حرکت اور غیر تغیر پذیر چیز نہیں۔قرآن گردشِ لیل ونہار کو خدا کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان آیات الہٰی پر غوروخوض کرکے تسخیر فطرت کے لیے نئے نئے ذرائع معلوم کرے‘‘ (پہلاخطبہ) علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس پر اس سے قبل اظہار خیال کیا جاچکا ہے تاہم قند مکرر کے طور پر یہاں اس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔اس اقتباس میں درج ذیل اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی گئی ہے:۔ (ا) قرآنی تعلیمات کے مطابق اس وسیع وعریض کائنات کی پیدائش محض لہو ولعب نہیں بلکہ یہ حقیقت اور مقصدیت کی حامل ہے۔ بعض مفکرین اور سائنس دانوں کے نزدیک کائنات کی آفرنیش ایک حادثاتی اور ہنگامی چیز ہے ۔اس لیے وہ اس کی حقیقت ‘دوام اور مقصدیت کے قائل نہیں۔ایک اور قرآنی آیت ملاحظہ ہو جس میں اہل دانش اور صاحبان بصیرت کی تحسین کائنات کی طرف یوںاشارہ کیا گیا ہے۔وہ ہر جگہ قدرت کے حسین وجمیل مناظر اور عجائبات کو دیکھ کر اس کی مقصدیت اور خدا کی خلاقی صفت کا ان الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں:’’ رّبنا ما خلقت ھٰذا باطلاً ‘‘( آل عمران۳:۱ ۱۹)،( اے ہمارے پروردگار!تو نے اس کائنات کو بلا مقصد پیدا نہیں کیا)۔ (ب)کائنات کوئی تکمیل یافتہ، بے حرکت اور غیرتغیر پذیر شے نہیں بلکہ ہر وقت وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔قرآن حکیم میں شمس وقمر کی گردش،ہوائوں کی تبدیلی،بادلوں کی روانی، نباتات کی روئیدگی اور حیوانات کی تلاشِ رزق اور خدا کی مسلسل تخلیق کا بار بار تذکرہ کرکے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تغیر پذیر کائنات حرکت وارتقا کے قانون کے مطابق ترقی کے مراحل طے کرتی رہتی ہے۔زندگی بند پانی کا جوہڑ نہیں بلکہ یہ ایک جوئے رواں ہے۔خدا تعالیٰ کی صفتِ تخلیق اب بھی اپنی کرشمہ سازیوںاور جلوہ گریوں میں مصروف ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ابھی تک تکمیل کی جانب رواںدواں ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔ ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کنُ فیکوں (بال جبریل، کلیات اقبال) (ج)علامہ موصوفؒ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم گردشِ لیل ونہار کو خدا تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔قرآن کی دو آیات بطور ثبوت پیش کی جاتی ہیں:’’ اِنّ فیِ خلُق السّمٰوات والارضِ واخِتلاف الّلیل والنّھارِ لٰا یٰت لّا ولیِ الالباب‘‘( آلِ عمران۳:۱۹۰)، (بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور لیل ونہار کے فرق میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں)۔’’تُو لج الّلیل فی النّھار وتو لج النّھار فیِ الّلیل‘‘( آل عمران ۳: ۲۷)،( اے اﷲ! تو رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتا رہتا ہے)۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ شب وروز کی تبدیلی کو اپنے مفکرانہ انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ؎ سلسلہ روز وشب،نقش گرِ حادثات سلسلہ روز وشب،اصل حیات و ممات سلسلہ روز وشب،تارِ حر یر دو رنگ جس سے بنا تی ہے ذات اپنی قبائے صفات (کلیات اقبال،ص۳۸۵) (د)قرآن حکیم اس بات پر زو ر دیتا ہے کہ انسان خدائی نشانیوں پر غور وفکر کرکے فطرت کی مختلف طاقتوںکو مسخر کرے۔انسان دنیا میں خدا کا نائب ہے اور خدا’’ احسن الخالقین‘‘کہلاتا ہے۔اس لحاظ سے انسان کو بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ اس منصب کا صحیح معنوں میں حقدار نہیں کہلا سکتا‘بقول شاعرِ مشرق ؒ: ؎ چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے ( کلیات اقبال، ص ۱۷۹) اس موضوع پرحضرت علامہ اقبالؒ نے جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہیں:۔ (۳۸:۴۴، ۱۱۸:۳،۱:۳۵،۱۹؛۲۹،۴۴:۲۴)۔ (۳)’’ وھائٹ ہیڈ کائنات کو جامد تصور نہیں کرتا بلکہ وہ اسے ان حوداث کا سلسلہ کہتا ہے جن میں مسلسل تخلیقی رُو شامل ہوتی ہے۔فطرت کے مرورِ فی الزمان کی یہ خوبی ہمارے تجربے کا وہ واضح ترین پہلو ہے جس پر قرآن خاص زور دیتا ہے‘‘ ( دوسرا خطبہ) انگریز ریاضی دان اور سائنس دان پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے تصورِ کائنات کی علامہ اقبالؒ بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں کیونکہ اُن کی رائے میں وہائٹ ہیڈ کا یہ نظریہ قرآنی تعلیمات اور موجودہ سائنسی حقائق کے مطابق ہے۔پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کا خلاصہ یہ ہے: (ا) وھائٹ ہیڈ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مادے کا قدیم ترین نظریہ مکمل طور پر کمزور ہوچکا ہے کیونکہ اشیا اور اُن کی خصوصیات آپس میں ایک نہیں ہیں۔ اب حواس پر مبنی معلومات اور اُنکو محسوس کرنے والا ذہن الگ الگ وجود کو ظاہر کرتے ہیں۔ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کا کہنا یہ ہے کہ اشیا کا رنگ اور آواز بذات خود کچھ بھی نہیں بلکہ وہ ہماری ذہنی کیفیات کی آئینہ دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چیزوں کی صفات کا وجود محض ہمارے احساس پر ہے۔علامہ اقبالؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "--The traditional theory of matter must be rejected for the obvious reason that it reduces the evidence of our senses--to the mere impression of the observer's mind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.33) (ب)پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے مطابق کائنات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔کائنات اب خلا میں پھیلا ہوا مواد نہیںبلکہ یہ آپس میں مربوط واقعات کا ایک نظام قرار دی گئی ہے۔اس نے قدیم مادی تصورِ کائنات کو ختم کردیا ہے۔اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کائنات میکانیت کا ایسا خلا ہے جس میں چیزیں واقع ہیں۔ مختلف حالتوں کی تبدیلی کے باوجود مادّے کومستقل بالذات سمجھا جاتا تھا۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے مادہ پرستی کے قدیم اور مقبول تصور کے پرخچے اُڑا دیئے ہیں۔ علامہ اقبالؒ مادّے کے نئے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں : A piece of matter has become not a persistent thing with varying system of inter-related events.The old solidity is gone. (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.34) )ج) پروفیسر وھا ئٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کی رُو سے کائنات میں مسلسل تخلیقی عمل موجود ہے۔علامہ موصوفؒ اسے بھی قرآنی تعلیم کے مطابق پاتے ہیں کیونکہ خدا ہر آن نئی شان میں جلوہ گر ہوکر اپنی خلاقی صفت کا اظہار کرتا رہتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:’’کُّل یوم ھُو فی شان‘‘ ۔ خدا کی اس دائمی خّلاقی کی بدولت کائنات کا ذرّہ ذرّہ عدم سے وجود میں آنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎ چہ لذّت یارب! اندر ہست وبُو داست دلِ ہر ذرّہ در جوشِ نمود است شگا فد شاخ ر ا چوں غنچہ گل تبسم ریز از ذوقِ و جود است (کلیات اقبال ، ص۲۰۱) (د)علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ فطرت کا اپنے آپ کو زمانے کے تغیرات اور مسلسل تخلیقی عمل کے ذریعے منکشف کرنا ہمارے باطنی تجربے کا اہم پہلو ہے جس پر قرآن حکیم نے خاص زور دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ اپنی صفات کی جلوہ گری ہمارے نفس(self (میں کرتے رہتے ہیں اور ظاہری دنیا میں بھی اُن کی نمود زمانی تبدیلی کی آئینہ دار ہے۔ اس لیے قرآن حکیم ہماری توجہ لیل ونہار کی مسلسل تبدیلی کی طرف مبذول کراتا ہے تاکہ ہم ان مظاہر زمانی پر غور وفکر کرکے خدا کی قدرت وعظمت کے قائل ہوجائیں۔علامہ ؒ کہتے ہیں کہ مسلسل تبدیلی اور شعوری زندگی کاتصور وقت کے بغیر محال ہے: ع: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں (۴) جنہیں ہم اشیاء کہتے ہیں وہ فطرت کے واقعات ہیں جن کو فکرِ انسانی مکانیت کا رنگ دے کر عملی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے الگ قرار دیتا ہے۔کائنات جو ہمیں اشیا کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے وہ خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادہ نہیں۔کائنات چیز نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۵)’’ جدید سائنس کی رُو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جس کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں زمان ومکان تو ’’انائے مطلق‘‘ کی تخلیقی سرگرمیوں کی فکری تعبیرات ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ ) ان دو اقتباسات میںجن اہم اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔ (الف) مادی اور ظاہری چیزیں اصل میں فطرتی تسلسل کے واقعات وحادثات ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں بلکہ یہ مسلسل حادثات کا اٹوٹ نظام ہے۔اس لحاظ سے مادّے کا قدیم تصور ختم ہوگیا ہے۔ (ب) انسانی عقل فطرتی حادثات کو اپنی عملی ضرورتوں کے تحت مکانیت کا رنگ دے کر ایک دوسرے سے جدا قرار دیتی ہے۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں اگر باطن میں جھانکا جائے تو وہاں ہمیں زندگی کی وحدت، عدم ِتقسیم، تسلسلِ واقعات اور غیر مادی حقیقت کا احساس ہوتا ہے لیکن جب زندگی خارجی اشکال اختیا ر کرتی ہے تو اُس وقت وہ مختلف نقاط کی صورت میں مکان اور مختلف لمحات کے رنگ میں زمان دکھائی دیتی ہے۔گویا زمان ومکان ہماری عقلی تعبیرات ہیں۔غالباًا س امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:۔ ؎ خرد ہوئی ہے زماں ومکان کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ اِلاّ اﷲ (کلیات اقبال،‘ص ۴۷۷) (ج)کائنات خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادّہ نہیں بلکہ یہ تو ایک عمل ہے۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک جدید سائنسی تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اشیا کا مجموعہ دکھائی دینے والی کائنات ٹھوس چیز نہیں بلکہ یہ حادثات اور اعمال کا مجموعہ ہے۔اس ضمن میں اُنھوں نے برکلے‘ پروفیسر وھائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار کا بھی حوالہ دیا ہے۔و ہ کہتے ہیں: "It was the philosopher Berkeley who first undertook to refute the theory of matter as the unknown cause of our sensations. In our own times professor White-head---has conclusively shown that the traditional theory of materialism is wholly untenable.----But the concept of matter has received the gre- atestblow from the hand of Einstein." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp 33-34) (د) ترجمانِ فطرت علامہ اقبالؒ مزید فرماتے ہیں کہ سائنس کے نئے نظریات کے مطابق فطرت یعنی کائنات کوئی جامد شے نہیں بلکہ یہ تو ہر وقت حرکت وارتقا کے مراحل سے گزرتی رہتی ہے۔ اُن کی رائے میں حرکت کی بدولت اشیا معرض وجود میں آتی ہیں اور ساکن چیزوں سے حرکت محال ہے۔ اُنکے اپنے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیاہے:۔ "---Universe is a free creative movement,----we can derive 'thi- -ngs' from movement; we cannot derive movement from immobile things." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P51) خدا تعالیٰ اپنی تخلیقی فعیلت کی بدولت نئی چیزوں اور نئے واقعات کو پردئہ عدم سے منّصئہ شہود پر لاکر اس کائنات کو بھی متحرک اور متغیر رکھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ زندگی کے اس تنوّع‘ جدت کاری‘ تاز ہ آفرینی اور حرکتِ مسلسل کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں : ؎ دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرارِ زندگی نیست (کلیات اقبال، ۸ص ۲۰۷) (۶)’’ میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے زیادہ خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کی ہُو بہو نقل قرار دے۔قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقاء پذیر کائنات ہے نہ کہ تکمیل یافتہ شے جسے بنا کر خداصدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘ (دوسرا خطبہ) کائنات کی تشکیل وتکمیل کے بارے میں دو اہم متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔ حکما اور اہل دانش کا ایک گروہ اس بات کا حامی ہے کہ یہ کائنات خدا کے متعین پروگرام کے مطابق روزِ ازل ہی سے بنائی گئی تھی اس لیے اس کے تمام واقعات اسی پروگرام کے مطابق کسی تبدیلی کے بغیر رونما ہورہے ہیں۔ یہ حضرات کائنات کی طرح انسان کو بھی مجبور خیال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا مکتب خیال کائنات کو حرکی، ارتقا پذیر اور انسان کو صاحب اختیار قرار دیتا ہے۔علامہ اقبالؒ دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔اُنھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں یہ اُمور بیان کئے ہیں: (الف) قرآنی تعلیم اس نظریے کی حمایت نہیںکرتی کہ یہ کائنات پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہوبہو نقل ہے۔اگر ہم ایسا خیال کریں گے تو پھر ہم کائنات کو جبریت(determinism) اور میکانیت(mechanism) کی آئینہ دار بنادیں گے۔جبری امر اور مشینی طریق میں تکرار‘ یکسانیت اور عدم اختیار کا عنصر شامل ہوتا ہے جبکہ اختیاری امر جدت کاری‘ تازہ آفرینی ‘تغیر ِمسلسل،آزادی انتخاب اور انسانی عظمت کی دلیل بن جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒکی رائے میں کائنات خدا کے بنائے ہوئے قوانین کی پابند توہے لیکن اسے تبدیل کرکے بنانے اور سنوارنے کی صلاحیت انسان کو عطا کی گئی ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کے مطابق اپنا کردار بھی واضح کرسکے۔ کیا قرآن نے انسان کو’’خلیفۃ اﷲ علی الارض‘‘ قرار نہیں دیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نائبِ خدا کٹھ پتلی کی طرح بے اختیار ہوسکتا ہے؟ کیا خدا نے انسان کو دل ودماغ کی صلاحیتوں سے نواز کر اسے اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے فکر وعمل کے استعمال کا حکم نہیں دیا؟کیا امر ونہی کے قرآنی احکام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کو صاحب اختیار بنا کر ہی اس سے اطاعت کا مطالبہ کیاگیا ہے؟ یہ دو قرآنی آیات تقدیر کے مفہوم پر مزید روشنی ڈالتی ہیں:۔ (الف)’’خلق کّل شیًء فقّدرِہ تقِدیراً ‘‘(الفرقان ۲۵:۲)’(ﷲ نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اُن کے لیے پیمانے اور اندازنے مقرر کئے)(ب)’’ قد جعل اﷲ لّکل شییء قدراً‘‘(الطلاق ۶۵:۳)(اﷲ نے ہر شے کے لیے ایک پیمانہ مقرر کردیا ہے)۔ اس لحاظ سے تقدیرکامطلب ہے اشیائے کائنات اور اعمال کے پیمانے اور اندازے۔ دوسرے الفاظ میں اشیاء کے لیے قوانین فطرت کی پابندی اور اعمال کے محضوص نتائج کا نظام کائنات میں جاری کردیا گیا ہے۔ انسان کو کفر وایمان اختیار کرنے کا حق دیتے ہوئے قرآن نے یہ بھی کہا ہے:’’ فمن شاء فلیُومن شاء فلیکفُر‘‘(الکہف ۱۸:۲۹)( جس کا جی چاہے ایمان کی راہ اختیار کرلے اور جس کا جی چاہے کفر کی راہ اختیار کرلے ۔)علامہ موصوفؒ کا یہ شعر اشیا اور مومن کی تقدیر کو یوں بیان کرتا ہے: ؎ تقدیر کے پابند جمادات ونباتات مومن فقط احکامِ الہٰی کا ہے پابند (کلیات اقبال) (ب)علامہ اقبالؒ کائنات کو جامد نہیں بلکہ ارتقا پذیر‘ تنوع پسند اور وسعت طلب سمجھتے ہیں۔اُن کے نزدیک خدا اسے بنا کر الگ تھلگ نہیں بیٹھ گیا ہے۔خدا چونکہ خالق، ربّ‘ رحیم ومصّور بھی ہے اس لیے وہ اب بھی ہر لمحہ اپنی تخلیقی سرگرمی ربوبیت، رحم وکرم اور نئی نئی صورتوں کی ساخت میں مصروف ہے۔سورہ رحمن میں اسے’’ کّل یو م ھُو فی ِ شان‘‘(الرحمن۵۵:۲۹) کہا گیا ہے جس کی رو سے وہ ہر روز اپنی جلوہ گری کرتا ہے۔ قرآن حکیم نے خدا تعالیٰ کی پاک اور عظیم ذات کو ’’بدیع السمٰوت والارض‘‘(۲:۱۱۷) قرار دیاہے اس لیے وہ کسی آلہ اورمادّہ کے بغیر نئی نئی چیزوں کو پیدا کررہا ہے۔ جب یہ دنیا جلوہ گہ شہود ہے تو پھر یہ تکمیل یافتہ کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر نئی چیزوں کی تخلیق کی کیا ضرورت ہے؟ اس سلسلے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "The world regarded as a process realizing a pre-ordained goal is not a world of free, responsible moral agents; it is only a state on which puppets are made to move by a kind of pull from behind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.54) علامہ اقبالؒ اپنے درج ذیل اشعار میں کائنات کی تغیر پذیری اور اس کی ناتمامی کے بارے میں یوں سخنِسرا ہوتے ہیں: ؎ جہانِ ما کہ جزُ انگا رئہ نیست اسیرِ انقلاب صبح وشام است زسوہان قضا ہموار گردو ہنوزایں پیکر گلِ ناتمام است (کلیات اقبال،ص۲۲۸) وہ کائنات کو ’’انگارہ‘‘ یعنی نقش ناتمام قرار دے کر اپنے تصورِ کائنات کی مزیدتائید کرتے ہیں۔ (۷)’’فطرت کو ذاتِ ایزدی کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات کے ساتھ ہے۔قرآن اسے اپنے خوبصورت انداز میں سنت اﷲ(خدا کی عادت) کہتا ہے۔فطرت کو ایک زندہ اور ہمیشہ بڑھنے والا جسم نامی سمجھنا چاہیے جسکی ترقی اور نشو ونما کی کوئی آخری حد نہیں۔اس کی حد صرف باطنی ہے یعنی وہ ذاتِ مشہود ہے جو اسے قائم ودائم رکھے ہوئے ہے جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشادہے:’’ واِلیٰ رّبکالمنتھٰی‘‘(۵۰: ۱۴ ) ۔ہمارا یہ نقطہ نگاہ طبعی سائنس کو نئے روحانی مفہوم سے آشنا کرتا ہے‘‘۔ (دوسرا خطبہ ) علامہ اقبالؒ نے اس اقتباس میں فطرت‘قوانین فطرت‘ خدا تعالیٰ اور سائنس کے بارے میں اپنے مخصوص تصورات کا اظہار کیا ہے۔اُن کی قدرے یہاں وضاحت کی جاتی ہے تاکہ یہ اہم اُمور بخوبی ادراک میںسما سکیں۔اُنھوں نے اپنے ان الفاظ میں جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں: (الف)فطرت یعنی کائنات خداوندتعالیٰ کی ذات کا خارجی پہلو ہے۔کائنات کو خدا کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات(self) کے ساتھ ہوسکتا ہے۔قرآن ذات خداوندی کے اس فعل کو ’’سُنّتہ اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کی عادت قرار دیتا ہے۔ جس طرح انسانی ذات کو ہم سیرت وکردار کے بغیر بطریق احسن نہیں سمجھ سکتے اسی طرح مطالعہ کائنات کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی گوناگوں صفات حسنہ کا علم حاصل نہیں کرسکتے۔یہ جہان آب وگل خدا کی لاتعداد صفات مثلاً امر،خلق، ہدایت، رحم،قہر، ربوبیت، کبریائی وغیرہ کا عکاس ہے۔ ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھ سکتے البتہ اس جلوہ گاہ ِصفات کو دیکھ کر اس کی صفات کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔اس طرح یہ بزم وجود بصد عجز ونیاز خدا کی عظمت اور وجود کی شہادت دے رہی ہے جیساکہ علامہ اقبالؒ خود فرماتے ہیں: ؎ شہید نازِ اُو بزمِ وجود است نیاز اندر نہادِ ہست وبود است (کلیات اقبال، ص۱۹۵) (ب) فطرت یعنی کائنات ایک زندہ اور ہمیشہ بڑھنے والے جسم نامی کی طرح ہے۔جس طرح جسم کو اپنی نشو ونما کے لیے خوراک اور مرُبی کی اشد ضرورت ہے اسی طرح یہ کائنات بھی اپنی نشو ونما کے لیے خدا تعالیٰ کی محتاج ہے۔خدا محض اشیائے کائنات کا خالق اور مالک ہی نہیں بلکہ وہ ان کا رزاق اور ربّ بھی ہے جیسا کہ قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے ’’الحمد ﷲِ ربِّ الٰعٰلمِین‘‘(۱:۱ ) خدا نے چیزوں کوپیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی ربوبیت کا ایسا انتظام کیا ہے کہ ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ سمندروں،پہاڑوں، جنگلوں،بیابانوں، شہروں اور فضائوں کی تمام مخلوقات کی پرورش کررہا ہے۔کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ تمام کائنات جسم نامی کی مانندخدا کے نظام ربوبیت سے فیض یاب ہورہی ہے؟۔ (ج)کائنات کی ترقی اور نشو ونما کی کوئی آخری بیرونی حد نہیں۔اس کی حد تو صرف باطنی ہے۔دوسرے الفاظ میں خدا تعالیٰ اسے قائم ودائم رکھے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم کے نظریے کے مطابق خدا کی ذات غیر محدود،حّی وقیوم،احد اورصمد(بے نیاز) ہے۔ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات اپنے وجود اور نشو ونما کے لیے اس کی چشم کرم کی محتاج ہیں جیسا کہ قرآن حکیم نے کہا ہے:’’ اِ نّ اﷲ لغنی عنِ العالمین‘‘(العنکبوت ۲۹:۶)۔(بلاشبہ اﷲ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے)۔ کائنات بذات خود غیر محدود نہیں بلکہ اس کی غیر محدودیت امکانی ہے نہ کہ حقیقی۔اس نقطہ نگاہ سے کائنات اور اس کی تمام اشیا اپنے وجود، ارتقا اور وسعت کے لیے خدا پر منحصر ہیں۔انتہائی ترقی کے باوجود مخلوقات خالقِ کائنات کی ہم پلہ نہیں ہوسکتیں۔ (د) قرآن کائنات کا نقطہ انتہا خدا کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:’’واِلیٰ ربّکء المُنتھٰی‘‘(النجم ۵۳:۴۲)۔ (اور تیرے پروردگار کی طرف تیری حد اور انتہا ہے)۔ خدا اوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ وہی ہر شے کا منبع ومنتہا ہے۔ایسی حالت میں مادّے کی ازلی اور ابدی اہمیت کا نظریہ بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مادیت کی جگہ روحانی تصورِ کائنات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔طبعی سائنس اور محسوسات کے اسیرخود محجوب ہیں ورگرنہ خدا کی شان کا ظہور تو ہر ذرّے میں ہورہا ہے‘بقول علامہ اقبالؒ:۔ ؎ کرا جوئی‘ چرا درِ پیچ و تابی کہ اُو پیدا ست تو زیرِ نقابی (کلیات اقبال،ص ۲۲۲) ؎ تو می گوئی کہ من ہستم‘ خدا نیست جہانِ آب وگلِ را انتہا نیست ہنوذ ایں راز برمن ناکشود است کہ چشمم آنچہ بیند‘ہست یا نیست (کلیات اقبال ،ص۲۴۷) مادہ پرستی (۱)’’ طبیعیات نے اپنے اساسی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کرکے آخر کار اپنے ہی بت کو پا ش پاش کردیا ہے اور وہ تجرباتی طریقِ کار جو سائنسی مادیت کی حمایت کرنے کے لیے معرض شہود میں آیا تھااُس کا انجام یہ ہوا کہ اس نے اب مادہ پرستی کے خلاف علم ِ بغاوت بلندکردیا ہے۔ لیکن مادّے کے نظریے کو آئن سٹائن کے ہاتھوں ضربِ کاری لگی ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان الفاظ میں مادّے کے قدیم روایتی تصور کے خلاف سائنس کے موجودہ نظریہ مادہ کی بغاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادہ پرستی کو آئن سٹائن کے نظریات نے مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس میں جن اُمور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (الف )طبیعیات نے اپنے بنیادی نظریات کی تنقید کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طبیعیات کیا ہے؟ مختصر طور پر یہ سمجھ لیں کہ اس علم کا عالم ِطبیعی(مادی یا خارجی دنیا) کے ساتھ نہ ٹوٹنے والارشتہ ہوتا ہے۔ علم طبیعی کی مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر بنیاد استوار کی جاتی ہے۔ اس طرح اس کی نظریاتی اساس محسوسات اور ظواہر کے بغیر تصور نہیںکی جاسکتی۔ طبیعیات مادی اشیا کے باہمی تعلقات اور ان کے قوانین کی وضاحت وتعبیر کا نام ہے۔ اس میں مادّہ کی نوعیت، اس کی صفات اور توانائی کی مختلف شکلوں سے بحث کی جاتی ہے۔ یہ تمام اُمور طبیعیات کے بنیادی نظریات کا درجہ رکھتے ہیں۔مادّے(matter) کے بارے میں قدیم نظریہ یہ تھا کہ مادّہ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق کی اصل ہے اور یہ مختلف تبدیلیوں کے باوجود کبھی ختم نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں مادّے کو شعور کا باعث خیال کرکے اسے شعور پر تقدم دلایا جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں بشپ جارج برکلے ‘پروفیسر وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے نظریات نے طبیعیات کے ان بنیادی تصورات پر زبردست تنقید کرکے مادّہ پرستی کا ابطا ل کیا ہے۔ (ب)طبیعیات نے آخر کار اپنے ہی بت کو پاش پاش کردیا ہے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ طبیعیات نے عالمِ محسوسات اور مادی اشیا کو بت کی طرح پوجنا شروع کردیا تھا۔ یہ علم مادّہ اور حواس پر ہی ہر شے کا وجود منحصر خیال کرتا تھا۔ مگر جدید نظریات نے حسّی علم اور مادّی نقطہ نگاہ کے کھوکھلے پن کو بری طرح آشکار ا کردیا ہے۔ شاعرِ مشرق علم طبیعی اور محسوسات کے بنیادی اور گہرے ربط کی اہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: "---Physics studies the material world; that is to say, the world revealed by the senses--phyics is restricted to the study of the material world, by which we mean the world of things we perceive." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p32) اس سے معلوم ہوا کہ محسوسات کے بغیر طبیعیات کے نظریات کا تانا بانا تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ محسوس پرستی کا بت تھا جس کی طرف علامہ اقبالؒ نے یہاں اشارہ کیا ہے۔وہ اپنی ایک نظم’’مذہب‘‘ میں حسّی اور ظاہری علوم اور مذہبی عقائد کے بارے میں کہتے ہیں: ع: اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش (کلیات اقبال، ص۲۴۶) آئر لینڈ کے مشہور ومعروف فلسفی جارج برکلے نے سب سے پہلے مادہ پرستی کے بت پر ضرب ِکاری لگاتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادی اشیا کا وجود اور ان کی خصوصیات کا احساس ہماری فکری تعبیر کے سبب ہیں۔دوسرے الفاظ میں اس نے مادّہ اور اسے محسوس کرنے والے ذہن میں باہمی ربط ثابت کیا۔اُس کی رائے میں مادے کی صفات درحقیقت وہ احساسات اور تاثرات ہیںجوہمارے ذہن میںجنم لیتے ہیں۔برکلے سے پہلے ایک انگریز فلسفی جان لاک نے۱۶۹۰ء میں ایک مضمون انسانی فہم وادراک کے بارے میں لکھا تھا جس کا عنوان تھا’’انسانی ادراک کے متعلق مضمون‘‘ اس میں اُس نے یہ ثات کرنے کی کوشش کی تھی کہ علم کاحسّی تجربات پر دارومدار ہوتا ہے۔وہ حواس ہی کو حصول علم کا واحد معتبر ذریعہ سمجھتا تھا۔بعد ازاں آئرش فلسفی بشپ جارج برکلے(۱۷۵۳۔۱۶۸۵ئ) نے جان لاک کے تصور مادّہ کی زبردست تردید کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مادی اشیا کا وجود محض ہمارے باطنی احساس پر منحصر ہوتا ہے۔اسی طرح ’’داخلی عینیت‘‘ Subjective Idealism)) کا علمِ بردار بن گیا تھا۔ اُس کا ایک بہت مشہورمقولہ ہے:to be is to be percived یعنی موجود ہونا باطنی احساس کے مترادف ہے۔اس ضمن میں اسکی تحریر ’’Treatise Concerning the Principles of Human Knowledge‘‘ کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔برکلے کے خیال میں نفسی کیفیات اور باطنی تغیرات کی مادّے پر بنیاد نہیں بلکہ شعور ان کی اساس ہے۔وہ مادی چیزوں کی صفات مثلاً رنگ‘آواز‘ ذائقہ وغیرہ کو نفسی کیفیات اور باطنی تاثرات قرار دیتا تھا۔اُس نے مزید کہا کہ مادّے سے ہمارے ذہن میں جو تصورات پیدا ہوتے ہیں ان کے وجود پر ہم کو کوئی اختیار نہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصلی خالق کوئی اور عظیم ترین ہستی ہے۔وہ اسے آفاقی ذہن یا خدا کہتا ہے۔علامہ اقبالؒ برکلے کے اس عملی کارنامے کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: "It was the philosopher Berkeley who first undertook to refute the theory of matter as the unknown cause of our sensations." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.33) اس موضوع سے متعلق شاعرِ مشرق کے مندرجہ بالا اشعار بھی ہماری خاص توجہ کے طالب ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ؎ بہار برگِ پراگندہ را بہم بربست نگاہِ ماست کہ برلالہ رنگ وآب افزود (کلیات اقبال، ص۳۱۳) ؎ جہاں کوراست واز آئینہ دلِ غافل افتاد است ولے چشمے کہ بینا شدنگاہش بردلِ افتاد است (کلیات اقبال،ص ۴۹۴) (ج)سائنسی مادیت کے حامل تجرباتی طریقِ کار نے اب خود مادیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا ہے۔سائنس سے آگاہ حضرات جانتے ہیں کہ طبیعیات تجرباتی علم کی حیثیت سے محسوسات پر مبنی معلومات اور حقائق سے بحث کرتی ہے۔ ماہر طبیعیات مادی اشیاء اورخارجی مظاہر سے اپنے مطالعہ ومشاہدہ کا آغاز کرتا ہے اور یہی اس کا منتہائے نظر بھی ہے۔ اس لیے وہ محسوس اور دیدنی چیزوں کے بغیر اپنے نظریات کی تصدیق نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپنے مطالعہ کائنات کے دوران طبیعیات اپنے حسّی تجربات سے ذہنی،جمالیاتی اور مذہبی تجربات کو خارج کردیتی ہے کیونکہ اس کا مطالعہ محسوسات تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اس سائنسی تجربے نے مادیت کو فروغ دیا تھا۔ اب اسی تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ حقیقی علم کا دار ومدار مادّے اور اس کی خصوصیات پر نہیں بلکہ ہمارے باطنی احساس اور اندرونی تصور پر ہے۔اسی طرح مادیت ایک ذہنی خیال کی پیداوار بن جاتی ہے۔شاعرِ مشرق کے یہ اشعار بھی بے محل نہ ہوں گے۔وہ کہتے ہیں: ؎ نگہِ اُ لجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں خرد کھوئی ہوئی ہے چار سُو میں نہ چھوڑ اے دل! فغان صبح گاہی اماںِ شاید ملِے اﷲ ھُو میں (کلیات اقبال،ص ۳۷۵) ؎ بچشمِ عشق نگر تا سراغِ اُو گیری جہاں بچشمِ خرد سیمیا ئو نیرنگ است (کلیات اقبال،ص۷۲۱) مادّے کے نظریہ کو آئن سٹائن کے ہاتھوں ضربِ کاری لگی ہے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ دورِ حاضر کا ایک معروف طبیعیات دان آئن سٹائن(۱۹۵۵۔۱۸۷۹ئ) مادیت کا زبردست مخالف ہے۔آئن سٹائن نے۱۹۱۶ء میں مادّے اور توانائی کے بارے میں اپنا نظریہ اضافیت پیش کرکے زبردست فکری انقلاب پیدا کیا اور مادہ پرستی کو ضربِ کاری لگائی ہے۔ مادّے کا قدیم تصور یہ تھا کہ مادہ زمان میں مستقل رہ کر مکان میںحرکت کرتا ہے۔آئن سٹائن کے نظریے نے اسے غلط قرار دیا تھا۔اب مادہ بدلتی ہوئی حالتوں کی مستقل بالذات چیز نہیں بلکہ یہ باہمی روابط کا نظام ہے۔ اب اسے ٹھوس چیز نہیں سمجھا جاتا۔علامہ اقبالؒ کی ذاتی رائے اور تنقید ملاحظ ہو: "---the traditional theory of matter must be rejected for the obvious reason that it reduces the evidence of our sences--to the mere impressions of the observer's mind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p 33) علامہ اقبالؒ اسے شوخی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بچشمِ ماچمن یک موجِ رنگ است کہِ می دا ند بچشمِ بلبلاں چیت؟ (کلیات اقبال،ص ۲۱۸) (۲)’’ اسلام میں روحانی دنیا اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ (چھٹا خطبہ) قرآن حکیم نے انسانوں کی زندگی کے تمام اہم شعبہ جات کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہمیں عطا کیا ہے جس میں دین ودنیا، مذہب وسیاست، جسم وروح اور فرد اور جماعت کے تقاضوں کی تکمیل شامل ہے۔اسلام ایک ایسی وحدت ہے جس کا تجزیہ وتقسیم ناممکن ہے۔علامہ اقبالؒ ترکی کی دو اہم سیاسی جماعتوں نیشنلسٹ پارٹی اور مذہبی اصلاح پارٹی کے نظریات حکومت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست اور دین کو جداگانہ تصور نہیںکرتے جیسا کہ ترکی کی نیشلسٹ پارٹی کا تصور تھا۔مذہبی اصلاح کی حامل جماعت سیاست کو اسلام سے الگ کرنے کے خلاف تھی۔اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے اس امر کی نشاندہی کی ہے۔ان اُمور کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے: (الف)دنیا اور آخرت اسلام کی تعلیمات کی رُو سے ایک ہی حقیقت کے دو مظاہر ہیں۔ایک کا تعلق خارجی،مادی،ظاہری اور نظر آنے والی دنیا سے ہے جبکہ دوسری دنیا کا تعلق باطنی‘روحانی اور دکھائی نہ دینے والی دنیا سے ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس سے پہلے بیان کیا ہے کہ خارجی اشیاء کی اصل روحانیت ہے۔اُنھوں نے اشاعرہ کے تصورِ تخلیق کائنات کے ضمن میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ کائنات کا جواہر پر،جواہر کا مکانیت پر، مکانیت کا زمان پر اور زمان کا نفسی زندگی پر دار و مدار ہے اس لیے کائنات کی اصل روحانی ہے۔علاوہ ازیں اُنھوں نے جوہر کی مکانی اور خارجی صورت کو ایزدی توانائی(Divine energy) کا کرشمہ قرار دیا تھا۔اس نقطہ نظر سے مادہ خدا کی تخلیقی سرگرمی اور ایزدی فعلیت ہے۔ (ب)اسلام کی عقیدہ توحید پر بنیاد ہے اس لیے یہ کسی قسم کی ثنویت(dualism) کو برداشت نہیں کرسکتا۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ اُدخلوا فی السِّلم کافتہ‘‘(تم اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوجائو)۔اس خدائی حکم کے تحت ہماری زندگی کا کوئی گوشہ بھی قرآنی تعلیمات کی نورانی کرنوں سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں حکومت اور سیاست کو مذہب سے خیال کرنا کسی طرح بھی مفید نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔عیسائیت میں چونکہ سیاسی زندگی کی راہنمائی کی تعلیم نہیں تھی اس لیے عیسائیوں نے مجبوراً مذہب اور سیاست کو الگ کردیا مگر اسلام شروع ہی سے معاشرتی،اخلاقی اور اجتماعی فلاح کا علم بردار رہا ہے اس لیے اس میں ایسی تفریق درست نہیں۔اس موضوع سے متعلق شاعرِ مشرقؒ کے یہ افکار دیکھئے۔ و ہ کہتے ہیں : (1)"In Islam God and universe, spirit and matter, church and state, are organic to each other." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.163) (2)"Islam is not a creed, it is social code," (Letters and Writings of Iqbal,p.59) (3)"The Ultimate Reality, according to the Quran, is spiritual , and its life consists in its temporal activity." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p155) قرآن حکیم نے تو ہمیں تسخیر کائنات کا حکم دیا ہے مثلاً’’ سخّر لکُم ما فیِ السّموٰات وما فیِ الارضِ جمِیعًا‘‘(۱۳:۴۵))آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ تمھارے لیے مسخر کردیا گیا ہے(۔ظاہر ہے کہ تسخیر فطرت مطالعہ فطرت کے بغیر ناممکن ہے۔مطالعہ فطرت کے لیے اس مادی دنیا کو حقیقی‘ قابل اعتبار اور مفید خیال کرنا اشد ضروری ہے وگرنہ یہ کام ممکن نہیں ہوسکے گا۔اب اس سے اغماض کی مذمت کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ وپرویں کا امیں (کلیات اقبال،ص۴۷۸) اسلام میں ہر وہ فعل روحانی ہے جو خدا طلبی اور خدا تعالیٰ کی رضا اور حکم کے مطابق کیا جائے۔ (۳)’’ جوہر‘صفت حیات کو حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے‘اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ (تیسرا خطبہ ) اس کائنات کے طریق کار کے بارے میں ہر فلسفی اور مفکر نے اپنی اپنی فکر کے مطابق رائے زنی کی ہے۔بعض دانشور اس کی تخلیق کے مادّی تصور کے حامی ہیں یعنی وہ مادّی ذرّات ہی کو ازلی خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس بعض اہل فکر اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو لفظ’’کُن‘‘ سے پیدا کیا ہے اور مادہ بعد میں ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لحاظ سے فلاسفہ اور مفکرین کے دو بڑے گروہ مادہ پرستوں اور روحانیت پرستوں میں بٹ گئے۔اس اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے مشہور مسلمان فلاسفہ(اشاعرہ) کے نظریہ تخلیق کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس بیان میں دو اہم اُمور وضاحت طلب ہیں یعنی جوہر کیا ہے اور اس کی ماہیت روحانی کیسے ہے۔ذیل میں چند تصریحات درج کی جارہی ہیں :۔ (الف) زندگی پانے کے بعد جوہر(atom) مکانیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔اشاعرہ کا نظریہ کائنات دراصل جوہریت پر مبنی ہے۔ارسطو اور اس کے پیروکاروں کی رائے میں کائنات کو ازلی اور ابدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ حضرات کائنات کو حرکت اور ارتقا پذیری کا مظہر خیال نہیں کرتے۔اشاعرہ نے اس غیر قرآنی تصورِ کائنات پر تنقید کرتے ہوئے نظریہ جواہر پیش کیا جس کی رُو سے خدا کی تخلیقی سرگرمی کی بدولت لاتعداد چھوٹے چھوٹے ذرّات معرض وجود میں آکر کائنات کو حرکی اور ارتقا پذیر بناتے ہیں۔اشاعرہ کی رائے میں جوہر قائم بالذّات نہیں ہوتا بلکہ حصول زندگی سے پیشتر وہ خدا کی تخلیقی فعلیت میں مخفی رہتا ہے اور جب خدا اسے صفت حیات عطا کرتا ہے تو وہ خارجی پیکر میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک لاتعداد جواہر( چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرّات) اور نقاط مکان کے وجود اور پھیلائو کا باعث بنتے ہیں اس لیے وہ خود مکانیت سے خالی ہیں۔اس لحاظ سے مکان درحقیقت مادی شے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے۔اشاعرہ حرکت مسلسل کی بجائے طفرہ(جست یا چھلانگ) کے قائل تھے۔دوسرے الفاظ میں وہ مکان(space) کے مستقل وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے۔علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کو حرکی اور ارتقا پذیر خیال کرتے ہوئے اسے ارسطو کے تصورِ جمود کائنات سے بہتر اور قرآن کے زیاد ہ نزدیک قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں قرآن حکیم کی یہ آیت قابل غور ہے :’’ یزیُد فی الُُخلق مایشائ‘‘(۱:۳۵)( اﷲ اپنی مشیت کے مطابق تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے)۔ علامہ اقبال اس قرآنی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اشاعرہ کے تصورِ تخلیق کائنات کا ان الفاظ میں خلاصہ پیش کرتے ہیں: "Fresh atoms are coming into being every moment, and the universe is therefore constantly growing. As the Quran says: 'God adds to His creation what He wills'. The essence of the atom is independent of its existence." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.68) علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے بجاکہتے ہیں کہ وہ جوہر کی پیدائش سے قبل اس کی مکانیت کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ جب جوہر خدائی خلاقی کی بدولت نمودار ہوتا ہے تو وہ مکانی بن جاتا ہے۔ (ب)اشاعرہ کی رائے میں جوہر کی ماہیت روحانی ہے۔ اشاعرہ نے اپنے نظریہ آفرنیش کائنات میں اُصول حادثاتِ کو بھی شامل کیا تھا۔ وہ حادثاتِ وواقعات کی مسلسل تخلیق کے بغیر جواہر کے وجود کے تسلسل کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس نقطہ نگاہ سے اگر خدا حادثات کی تخلیق کا سلسلہ بند کردے تو پھر جواہر کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔علامہ اقبالؒ کو اُن کے اس پہلو سے اتفاق نہیں کیونکہ حضرت علامہؒ کے نزدیک روح یا تو مادّے کی لطیف ترین شکل بن جاتی ہے یا وہ حادثہ ہوجاتی ہے۔وہ روح کو مادّے کی لطیف ترین قسم قرار دینے کوخالص مادیت خیال کرتے ہیں اور اگر اسے حادثہ کہا جائے تو یہ اشاعرہ کے تصورِ کائنات کے خلاف ہے۔علامہ اقبالؒ جوہر کی مکانی حرکت کو وقت کے بغیر اور وقت کو نفسی(psychic) زندگی کے بغیر ممکن خیال نہیں کرتے۔چونکہ جوہر کی مکانی شکل خدائی توانائی کا ایک خارجی پہلو ہے اور جوہر کا نفسی زندگی پر دارومدار ہے اس لیے اس کی ماہیت روحانی ہے۔اس استدلال کا سہارا لیتے ہوئے علامہ اقبالؒ نفس(روح) کو خالص عمل اور جسم کو اس کا خارجی اور قابل پیمائش پہلو قرار دیتے ہیں۔ اُن کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: "The 'Nafs' is the pure act; the body in only the act become visible and hence measurable." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.70) علامہ اقبالؒ اشعار میں اسے یوں بیان کرتے ہیں: ؎ بجاں پوشیدہ رمزِ کائنات است بدن حالے زا حوالِ حیات است عروس معنی از صورت حناِ بست نمود خویش را پیرایۂ بست (کلیات اقبال ص ۵۴۷) ماضی (۱)’’ کوئی قوم مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی سے اُس کے وجود کی تشکیل ہوئی ہے‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) قوموں کے لیے اپنے شاندار ماضی کی روایات کا تحفظ اور احساس انسانی ذات میں حافظہ کا درجہ رکھتا ہے۔حافظہ ہمارے مختلف جذبات، احساسات اور خیالات کی شیراز ہ بندی کرنے کے علاوہ اُن کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہوتا ہے ۔اگر کسی کی یادداشت ہی کام نہ کرے تو وہ انسان نہ صرف دوسروںکی شناخت سے عاجز آجاتا ہے بلکہ وہ اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی صداقت ہے کہ ذاتی تشخص کے بغیر ہماری شخصیت کی صحیح خطوط پر تشکیل وتعمیر ناممکن ہوجاتی ہے۔ جس طرح ذاتی تشخص فرد کی ذات کی تعمیرو استحکام کا باعث بنتا ہے بالکل اسی طرح کسی قوم کا ماضی بھی اس کے حال ومستقبل سے نہ ٹونٹے والا رشتہ رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی اس اقتباس میں قوم اور اس کے ماضی کے باہمی ربط کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔اُنھوں نے اپنے اس قول میں دو اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے:۔ (الف) کوئی قوم بھی کلیتہً اپنے ماضی کو نظر انداز نہیںکرسکتی۔علامہ اقبالؒ نے ماضی کا تذکرہ اسلامی تعلیمات میں تغیرو ثبات کی بحث کے دوران کیا ہے۔اُن کے نزدیک اسلامی تعلیمات میں ابدی اور عالمگیر اقدار کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کی بھی گنجائش ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میںابدی قوانین کا وجود اثبات پر دلالت کرتا ہے جبکہ اجتہاد کی ضرورت اس کے تغیر کی علامت ہے۔ اُنھوں نے یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا ہے کہ اجتہا دکرتے وقت قوم کے ماضی کو مکمل طور پر فراموش نہیںکرنا چاہیے کیونکہ زندگی صرف آگے ہی نہیں دیکھتی بلکہ یہ پیچھے بھی دیکھتی ہے۔ اس نقطہ نگا ہ سے حال کا ایک سرا ماضی سے ملا ہوتا ہے اور اس کا دوسرا سرا مستقبل سے جاملتا ہے جسے اب ہم ماضی کہتے ہیں۔وہ سابقہ قوموں کے لیے بمنزلہ حال تھا۔کچھ عرصہ بعد ہمارا حال بھی ضمیر روزگار میں چھپ کر ماضی بن جائے گا۔علامہ اقبالؒ ’’ رموزِ بیخودی‘‘ میں ماضی‘حال اور مستقبل کے باہمی روابط کی اہمیت اور ماضی کے تحفظ کے بارے میں فلسفہ طرازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ دوش را پیوند با ا مروز کن زندگی را مُرغ دست آموز کُن رشتہ اّیام را آور بدست ورنہ گردی روز کوروَ شب پرست سر زند از ماضی تو حالِ تُو خیز د از حالِ تو، استقبالِ تو مشکن اَر خواہی حیاتِ لازوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال (کلیات اقبال،ص۱۴۸) ماضی سے مکمل طور پر رشتہ منقطع کرکے ہماری حالت اُس شاخ کی مانند ہوجاتی ہے جو درخت سے الگ ہوکر موسمِ بہار میں دوبارہ ہری نہیں ہوسکتی۔فرد ربط ملّی کی بدولت ہی زندہ وقائم رہتا ہے۔موج کی مثال لیجیے کہ وہ اس وقت تک موجود ہوتی ہے جب تک وہ دریا کی حدود کے اندر رہ کر دریا سے اپنا رشتہ استوار رکھتی ہے بقول علامہ اقبالؒ: ؎ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں حضرت علامہؒ نے اس میں ایک اہم نکتہ یہ پیدا کیا ہے کہ ماضی کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔اس سے معلوم ہوا کہ ماضی کی ساری روایات‘ اقدار اور فکری میلانات کی پیروی لازمی نہیں کیونکہ اس زمانے کے بعض حالات اور واقعات کافی بدل جاتے ہیں جن کا موجودہ دور سے تعلق باقی نہیں رہتا۔علامہ اقبالؒ کی یہ اعتدال پسندی اور میانہ روی اُن کی دور اندیشی اور جدت ِفکر کی غماز ہے۔بعض حضرات تو ماضی کی ہر بات کو قابلِ عمل خیال کرتے ہیں جبکہ اُن کے مخالفین ماضی کو سراسر مردود ونامنظور قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ افراط وتفریط کا شکار ہوکر حقیقت کی منزل سے دور چلے گئے ہیں۔ (ب)علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول کے دوسرے جزو میں یہ کہا ہے کہ قومی وجود کی تشکیل ماضی ہی سے ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے ماضی کو مکمل طور پر نظر انداز کردینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی احسان فراموش بچہ بڑا ہوکر اپنی ماں کے وجود سے ہی انکار کردے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ وہ اجتہاد کے زبردست قائل ہیں لیکن وہ اسلامی قوانین کی حدود کے اندر ہی زمانے کے نئے نئے مسائل کا حل دریافت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ کیاکبھی کوئی درخت اپنی جڑوں کی حفاظت و استحکام کاخیال رکھے بغیر زیادہ دیر تک زند ہ رہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میںہی دیا جائے گا۔علامہ اقبالؒ کے افکار اتنہاپسندی پر مبنی نہیں بلکہ وہ توازن بدوش ہونے کی حیثیت سے ماضی و مستقبل، جدت وقدامت،ذکر وفکر اور ایمان و آگہی سے پیوستہ ہیں۔وہ سوسائٹی کی نئی تبدیلیوںکی حمایت میں اسلام کی درخشاںدیرینہ روایات کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ ثبوت کے طورپر اُن کے چند اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں: ع: میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو ؎عطا اسلام کا جذب دروں کر شریک زمرئہ لا یحز نوں کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں مرے مولا!مجھے صاحب جنوں کر ؎ شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمتّ ترا با شوخی ٔ رندانہ گفتم علامہ اقبالؒ اجتہاد کا رشتہ ماضی سے استوار رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "---in any view of social change the value and function of the forces of conservatism cannot be lost sight of." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.167) اُن کی رائے میں کم نظرعلما کے اجتہاد سے تو اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ اور بہتر ہے کیونکہ کم نظر علما غلط قرآنی تعبیرات اور ذاتی مفادات کے تحت قومی انتشار کا سبب بن جائیں گے۔ یہ خود اُن کی زبانی سنیئے اور اُن کی میانہ روی کی داد دیجیے: ؎ زا جہتاد عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر (کلیات اقبال،ص ۱۲۵) مسلم ممالک (۱) فی الحال ہر ایک مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پر مرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ سب طاقتور ہوکر جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) تاریخ اسلام اس امر کی شاہد ہے کہ خلافتِ راشدہ کے مثالی اور سنہری دور حکومت کے بعد مسلمانوں میں ملوکیت کو رائج کردیا گیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان مختلف سیاسی نتظمیوں اور متحارب یونٹوں میں تقسیم ہوگئے اور اُن کی طاقت وشوکت کا سورج گہنا گیا۔قرآن حکیم نے مسلمانوں کو اجتماعی اتحاد اورمرکزیت کا حیات بخش‘ قوت خیز اور باطل شکن درس دیتے ہوئے کہا تھا:۔ ’’واعتصُمو ابحبل اﷲ جمیعًا وّ لا تفرّ قُوا‘‘)آل عمران ۳:۱۰۳)، ( تم سب اکٹھے ہوکر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہوجائو )۔خدا کی رسی سے مرادقرآن حکیم ہے۔ جب تک مسلمانوں نے اسے تھامے رکھا وہ دنیا میں غالب رہے اور جونہی وہ مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں میں بٹ گئے، وہ محکوم،پسماندہ اور زوال پذیر بن گئے۔ دور حاضر میں جب مغربی ملکوں نے عالم اسلام کو اپنا غلام بنالیا تو مسلمان مختلف قوموں اور چھوٹے چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کردئیے گئے تاکہ وہ دوبارہ قوت وشوکت کو حاصل نہ کرسکیں۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو شکست ہوئی اور خلافت کے نظام کی رہی سہی مرکزیت کو بھی ختم کردیا گیا۔ترکی میں خلافت کے خاتمہ پر دنیائے اسلام میں صف ماتم بچھ گئی۔ترکی میں خلافت کا نظام ختم ہوتے ہی وہاں سیاسی اور مذہبی انتشار پھیل گیا۔وہاں کی دو بڑی جماعتوں نیشلسٹ پارٹی اور مذہبی اصلاح کی جماعت نے خلافت کو موضوع بحث بنایا۔قوم پرست پارٹی دین کو سیاست سے جدا کرنے کی حامی تھی جبکہ دوسری جماعت دین وسیاست کے امتزاج پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ترکوں کی رائے میں جدید دور میں پرانی طرز کی خلافت اب ناقابل عمل ہے اس لیے انھوں نے پارلیمانی جمہوری نظام کو پسند کیا۔علامہ اقبالؒ ترکوں کے اس نقطہ نظر سے متفق ہیں اور وہ ترکی شاعر ضیاء کی اس بات کی بھی تائید کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں آفاقی طرز کی خلافت مشکل نظر آتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ سب مسلمان ممالک آزاد‘ خود مختار اور مضبوط ہوکر آپس میں حلیفانہ اتحاد پیدا کرلیں۔وہ ان مسلم ممالک کو اسلامی طرز کی جمہوریت پر مبنی ایک زندہ خاندان کا درجہ دیتے ہیں۔یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ اس صورتحال کو کچھ عرصہ تک قائم رکھنے کے بعد اسلام کے آفاقی تصورِ خلافت کو بروئے کار لانے کے علمِ بردار ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تووہ کبھی یہ نہ کہتے : ؎ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ خلافت حفظ ِ ناموسِ الہٰی ؎ سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ؎ تاخلافت کی بنا ِ دنیا میں ہو پھر استوار لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر (کلیات اقبال ، ص۲۶۵) دنیا کی امامت کا فریضہ بخوبی سرانجام دینے کے لیے مسلمانوں میں کامل اتحاد اور مرکزیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ مرکزیت کے بغیر قومیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں جیسا کہ شاعرِ مشرقؒ نے خود کہا ہے:ع: قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی۔ علاوہ ازیں علامہ اقبالؒ اسلاف کا قلب وجگر تلاش کرکے خلافت کے قیام کے حامی ہیں۔ظاہر ہے کہ خلافت کا مثالی نظام خلافت راشدہ کا نظام وحدانی ہی تھا۔تیسری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ قومیت کی جغرافیائی،لسانی اور نسلی تفریق کی بجائے توحید کا پرچار کرتے رہے۔چوتھی اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی موجودہ تقسیم غیر مسلم طاقتوں نے کی تھی۔ بقول علامہ اقبالؒ: ؎ حکمت مغرب سے ملّت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز (کلیات اقبال،ص ۲۶۴) ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآنی نظام حکومت میں عوامی حاکمیت کی بجائے خدائی حاکمیت کو تسلیم کیاجاتا ہے۔ (۲)’’ اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشاہیت پر منحصر ہے بلکہ یہ عالمگیر مجلسِ اقوام ہے ۔یہ اپنے ارکان کے سماجی اُفق کو محدود نہیں کرتی‘‘ (چھٹا خطبہ) قرآنی تعلیمات کی رُو سے خدا رب العٰلمین(سب جہانوں کا ربّ)،قرآن ہُدی اللنّاس(لوگوں کے لیے ہدایت) کعبہ بیت اللنّاس( لوگوں کے لیے خدا کا گھر) اور نبی اکرم ؐ رحمتہ العالمین(تما م جہانوں کے لیے رحمت) ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام محض کسی خاص دور، ملک اور انسانی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کی دنیوی اور دینی نجات وفلاح کی خاطر ہے۔ایسی آفاقی اقدار اور انسانی اُصولوں کا علم بردار دین انسانون کی جغرافیائی،لسانی، نسلی، گروہی اور لونی تمیز اور تقسیم کا کیسے قائل ہوسکتا ہے؟قرآن حکیم تو تمام دنیا میں ایسا مثالی اور کامل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے جو ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی باہمی محبت، اُخوت اور امن کا سبب ہو۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ قوم پرستی اور شنہشائیت کی وجہ سے انسانوں کو مختلف قوموں اور مختلف معاشرتی طبقات میں تقسیم کرکے حکومت کی جاتی ہے؟ہر انسانی مجموعہ قوانین سہو وخطا کے علاوہ خود غرضی اور استحصال کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔اس کے برعکس خدائی ضابطہ زندگی تمام نقائص ومعائب سے پاک ہوتا ہے اور وہ صرف خدائی حاکمیت کے تصور کو فروغ دیتا ہے۔ایسی مثالی ہستی کامل ہی ہماری اطاعت اور عقیدت کامرجع بن سکتی ہے۔ بقول شاعرِ مشرق ؒ: ؎ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اِک وہی باقی بتان آزری علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا اقتباس میں جن اہم اُمور کی نشاندہی کی ہے وہ مختصر طور پر یہ ہیں: (ا) اسلام قومیت پر مبنی نہیں ہے۔قرآن حکیم نے انسانوںکی تفریق(کافر ومومن) دین کی بنیاد پر ہی کی ہے نہ کہ کسی رنگ،نسل، وطن اور زبان کے اختلاف پر۔ اس لیے قرآن حکیم نے مختلف ملکوں‘ نسلوں‘ رنگوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو عالمگیر اخوت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے:’’ اِنّما المُومِنُون اِخوۃ‘‘(الحجرات ۴۹:۱۰)،( سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ (ب )اسلام شہنشائیت پر منحصر نہیں ہے۔قرآن حکیم ہمیں خدائی حاکمیت کا درس ان الفاظ میں دیتا ہے :’’اِن الحُکُم اِلاّ ﷲِ‘‘(یوسف ۱۲:۸۷)،( حاکمیت صرف اﷲ کے لیے ہے)۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہمارا خالق اور رازق تو خدا ہو اور ہم کسی انسان کو اپنا آقا ومالک تسلیم کریں؟ کیا کوئی انسان خدا کی طرح غیر محدود طاقتوں اور نعمتوںکا مالک ہوسکتا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیںکہ ہم بے شمار چھوٹے چھوٹے خدائوں کی بجائے ایک ہی بڑے خدا کی اطاعت کریں؟ شہنشائیت میں انسانوںکے جائز حقوق سلب بھی کئے جاتے ہیں اور اُنھیں جانوروں سے بھی بدتر بنادیا جاتا ہے۔ایسا انسانیت سوز اور ظالمانہ نظام اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ (ج)اسلام ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے۔اسلامی نظام میںمسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی پر امن زندگی بسر کرنے کا بہترین موقع دیا جاتا ہے۔ جو غیر قوم اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور اپنی رعایا پر ظلم نہ کرے اسے زبردستی حلقہ اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔اسلام تو تمام انسانوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار کرنے اور حقیقی قیام امن عالم کا قائل ہے کیونکہ یہ تو عالمگیر بنیادوں پر اپنے تعمیری اور مثالی پروگرام کی عملی شکل پسند کرتا ہے۔ جب خدا ہی سب کا خالق اور رزاق ہے تو وہی سب انسانوں کا حقیقی مالک ہونا چاہیے اور اس کا آفاقی آئین دنیا میں پائیدار اور حقیقی اُخوت ومساوات کے اُصولوں کو فروغ دے سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اپنے ایک انگریزی مضمون"Political Thoughts In Islam" میں بجا فرماتے ہیں: "The political ideal of Islam consists in creation of people born of a free fusion of all races and nationalities." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.60) مغربی کلچر (۱) ہمیںصرف اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہوکر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچنے میں ناکام نہ کردے‘‘ ( پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ ہمیشہ زندگی کی حرکت، ارتقائی پہلوئوں اور تعمیری انداز ِفکر کے مدح خواں تھے۔وہ تہذیب وتمدن کی اعلیٰ اقدار،عملی کمالات،انسانی اُخوت ومحبت، حکمت جوئی اور رواداری پر یقین رکھتے تھے۔اُنھیں جہاں کہیں بھی کوئی فکری تعمیر، ذہنی جلا‘عملی درستگی اور انسانی فلاح وبہبود کا جوہرِ حکمت ملتا وہ اُسے مومن کی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے فوراًحاصل کرنے کے خواہاں ہوتے تھے۔دنیا کے سب سے بڑے محسن اور ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ الحکمتہ ضالتہ المومن‘‘( حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے)۔ اس فرمان نبوی ؐ کی روشنی میں وہ عہد حاضر کے پس ماندہ ذہنی کاہلی کے شکار اور تنگ نظر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق علم وفن‘تہذیب وتمدن اور حکمت ودانش کے انسانت ساز اُصولوں اور اعلیٰ اقدار حیات کو مغربی کلچر سے بھی حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ مغربی کلچر اسلامی کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچنے میں رکاوٹ ثابت نہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپی کلچر کی آنکھوں کوخیرہ کردینے والی چمک دمک کیا ہے اور اسلامی کلچر کے باطن کی نوعیت کیا ہے اور علامہ اقبالؒ ہمیں مغربی کلچر کے کن پہلوئوں کو حاصل کرنے کا سبق دے رہے ہیں۔سب سے پہلے ہم مغربی کلچر کی ترقی کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے مندرجہ بالا بیان میں ان بنیادی اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے: (الف) یورپی کلچر کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کررہی ہے۔اس بحث کے آغاز میں علامہ اقبالؒ نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ پانچ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد ہوگیاہے اور مسلمان نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے غافل ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام اہم شعبہ جات علم وفن، سیاست، معیشت، تعلیم، مطالعہ فطرت،تسخیر کائنات اور غلبہ وتفوق میں چنداں دلچسپی نہیں لے رہے ۔وہ یورپی کلچر اور عملی کمالات کے اچھے پہلوئوں کے تو قدر دان ہیں مگر وہ اس کی ظاہریت کو’’جھوٹے نگوں کی ریزی کاری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے یہ جھوٹے نگینے لادینی نظام حکومت، مادہ پرستی، ظاہریت، نیشنل ازم، کمیونزم، سرمایہ پرستی، مغربی جمہوریت، زندگی اور کائنات کی میکانکی تعبیر، فرد کش اجتماعیت اور جنس پرستی وغیرہ سے عبارت ہیں۔ مغربی کلچر کی ان خامیوں سے تو وہ نفور ہیں لیکن وہ اہل مغرب کی بلند ہمتی‘ علم جوئی‘ تحقیق پسندی‘دنیوی ترقی‘سائنسی اکتشافات،تسخیرکائنات اور جہاں بینی کے مدّاح ہیں۔اس نقطہ نظر سے اُن کے یہ اشعار بھی ملاخطہ کریں: ؎ خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں ہو ا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا ؎ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق اُن کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی وتقلید سے کور (کلیات اقبال،ص۵۳۱) علامہ اقبالؒ مسلمانو ں کو یہ بتاتے ہیں کہ مغربی کلچر کی خوبیاں اور اس کا فروغ قدیم مسلمانوں خصوصاًہسپانیہ کے مسلمان حکماء کے مرہون منت ہیں۔وہ اہل مغرب کی تحقیق پسندی، علم جوئی اور مطالعہ فطرت کو اصل میں مومن کی گم شدہ میراث خیال کرکے ہمیں اسے دوبارہ پانے کی یوں تلقین کرتے ہیں: ؎ حکمت اشیا فرنگی زاد نیست ا صلِ او جز لّذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ا یں گہر از دست ما افتادہ است لیکن از تہذیب ِلادینی گریز زاں کہ اوبا اہل حق د ارد ستیز (کلیات اقبال،ص۸۸۰) علامہ موصوفؒ اس کے علمی کمالات اور سائنسی اکتشافات کے حصول پر تو زور دیتے ہیںلیکن وہ اس کے لادینی عناصر سے ہمیں دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ یورپی کلچر پر اسلامی احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے بجا فرماتے ہیں: "There was a time when European thought received inspira- tion from the world of Islam---European culture,on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.6) )ب) اسلام کلچر کے حقیقی باطن کے تحفظ کے پیش نظر علامہ اقبالؒ یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک کو رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔اسلامی کلچر کے حقیقی باطن کی نمایاں ترین حقیقی خصوصیات کی نوعیت کیا ہے؟اس کی تفصیل یہ ہے: (۱) اسلامی کلچر دین ودنیا،مادہ وروح، فکر وعمل، فرد وجماعت اور عقل وایمان کا خوبصورت‘ دل کش اور مثالی امتزاج ہے۔ (۲)اسلامی کلچر اس مادی دنیا کو فریب نظر یا واہمہ خیال نہیں کرتا بلکہ یہ باطنی علم کی طرح ظاہری اور حسّی علم کو بھی مفید اور ضروری خیال کرتا ہے۔قرآن دنیوی فلاح اور ترقی کا ہرگز مخالف نہیں۔ (۳) قرآن کائنات کو حقیقی، بامقصد، حرکی، تغیر پذیر،ارتقائی عمل کی حامل اور خدائی صفات کی مظہر قرار دیتا ہے۔ (۴) اسلامی کلچر میں کائنات کے عمیق مطالعہ اور مشاہدہ پر بہت زور دیا گیا ہے تاکہ ہم علم و بصیرت کی روشنی میں فطرت کی طاقتوں کو حیات بخش اور انسانیت ساز مقاصد کے لیے مسخر کرسکیں۔ (۵) اسلامی کلچر زندگی کو دوری حرکت نہیں سمجھتا بلکہ وہ اسے خط مستقیم کی مانند آگے بڑھنے والی لکیر اور ارتقائی شکل سمجھتا ہے۔ (۶) اسلامی کلچر دین وسیاست کی جدائی‘ ملوکیت‘ سرمایہ داری‘ قوم پرستی اور لادینیت کا زبردست مخالف ہے۔ (۷) اسلامی کلچر میں عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت کو بنیاد ی اہمیت حاصل ہے۔ (۸) اسلامی کلچر میں حصول علم کے تین اہم ذرائع،انفس، آفاق اور تاریخ ہیں۔ (۹) اسلامی کلچر میں تغیر کے ساتھ ساتھ ثبات کا عنصر بھی شامل ہے۔اسلامی ثقافت میں ابدی اُصولوں کی حدود میں رہ کر اجتہاد فکر ونظر کی اجازت تغیر کے پہلو کو واضح کرتی ہے۔ مکان (ا)’’ کیا مکان ایک آزاد خلا کا نام ہے جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں؟‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۲) جدید سائنس کی رُو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جس کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں زمان ومکان تو انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ) مکان کا مسئلہ بھی علامہ اقبالؒ کے نظام فلسفہ کا ایک وقیع اور مشکل موضوع ہے۔اُنھوں نے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے نگاہ ڈالی ہے۔مذہب،فلسفہ، تصوف اور سائنس نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے، علامہ موصوفؒ نے اس کا لب لباب اپنی نثر اور نظم میں پیش کردیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اُنھوں نے تمام گوشوں کا احاطہ کرلیا ہے تاہم اس کا خاکہ ضرور پیش کردیا ہے۔یہاں پہلے اقتباس میں اُنھوں نے سوال پوچھا ہے کیا مکان ایک آزاد خالی جگہ کا نام ہے جس میں مختلف اشیا واقع ہیں۔دوسرے اقتباس میں بھی اُنھوں نے نیچر اور زمان و مکان کی نوعیت کے بارے میں اظہار خیال کیاہے۔ان دونوں اقتباسات کے اہم اُمور مختصراً یہ ہیں: (ا) قدیم یونانی فلسفی زینو نے مسئلہ مکان کو مکانی حرکت کی رُو سے حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میںکامیاب نہ ہوسکا۔اُس کی رائے میں مکان لاتعداد قابل تقسیم نقاط پر مشتمل ہے اس لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک حرکت ناممکن ہے۔اس طرح اُس نے مکانی حرکت کو فریب نگاہ قرار دے کر مکان کو بھی غیر حقیقی قرار دیا تھا۔اشاعرہ کو زینو سے اختلاف تھا۔وہ مکان کی بے پایاں تقسیم پذیری اورمکان کی عدم حرکت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ برٹرنڈرسل(۱۸۷۲۔۱۹۷۰ئ) نے Cantor کے نظریہ تسلسل کا سہارالے کر حرکت مکانی کو ثابت کیا ہے جس سے مکان کی آزادانہ حقیقت اور نیچر کی معروضیت کانتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ آئن سٹائن کے انقلابی نظریہ اضافیت کاتذکرہ کرتے ہیں جس نے مکان کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے مگر مادیت پر ضربِ کاری لگائی ہے۔ (ب)سائنس کے جدید نظریات کی بنا پر فطرت متحرک ہے اور مربوط واقعات کی تنظیم کا دوسرا نام ہے۔نیوٹن(۱۷۷۲۔۱۶۴۲ئ) کے نظریہ کائنات کی مادہ پرستی پر بنیاد ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے: "The scientific view of nature as pure materiality is associated with the Newtonian view of space as an absolute void in which things are situated." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.34) بشپ جارج برکلے نے مادیت کے پرانے تصور کی دھجیاں بکھر کرر کھ دی ہیں۔اس طرح علامہ اقبالؒ کی رائے میں آئن سٹائن اور پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے افکار ونظریات نے مادہ پرستی پر مزید ضرب لگائی ہے۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو متحرک اور مسلسل تخلیقی رو کیحامل واقعات کا نظام قرار دیا ہے۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے خیال میں انسانی فکر کائنات کو علیحدہ علیحدہ اجزا میں کاٹ کر زمان اور مکان کے افکار کو جنم دیتی ہے۔اس طرح جدید سائنس نے برکلے کے مادیت شکن تصور کی حمایت کردی ہے۔اس حقیقت کے مدنظر علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ زمان ومکان تو خدا کی خلاقی صفت کی فکری تعبیریں ہیں۔وہ خودی کے امکانات اور زمان ومکان کے بارے میں مزید کہتے ہیں: "Space and time are possibilities of the ego, only partially realized in the shape of our mathematical space and time." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.64) (۳)’’ جنہیں ہم اشیاء کہتے ہیں فی الحقیقت وہ مسئلہ فطرت کے واقعات ہیں جن کو فکرِ انسانی مکانیت کا رنگ دے کر عملی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے الگ الگ قرار دیتا ہے۔کائنات جو ہمیں اشیا کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔وہ خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادّہ نہیں۔کائنات چیز نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۴)’’ جگہ کے متعلق میرا خیال مکانی طور پر جگہ سے وابستہ نہیں ہوتا۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں کہ تاج محل کے حسن وجمال کے بارے میں میرا جذبہ تحسین آگرہ سے مسافت کے مطابق بدلتا ہے‘‘۔ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ چونکہ کائنات کی روحانی اساس میں پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اس لیے وہ زمان ومکان کی اصل بھی مادی خیال نہیں کرتے۔وہ برکلے‘وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار کے اس پہلو کی مدح سرائی کرتے ہیں جس کی رُو سے مادہ پرستانہ تصورِ کائنات پر زد پڑتی ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کا یہ نظریہ کائنات بھی قرآنی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔وہ زمان ومکان کو خدا کی تخلیقی سرگرمی کے مادی اور خارجی پیمانے قرار دیتے ہیں جن کے ذریعے خدا اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا اظہار کرتا ہے۔ کائنات کی حقیقت وحدت کی عکاس ہے مگر جب وہ خارجی طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے تو وہ کثرت دکھائی دیتی ہے۔اُس کی باطنی حقیقت حرکت، تغیر اور مسلسل تخلیق پر مبنی ہے مگر خارج میں فکرِ انسانی اسے ساکن اور جامد نقاط میں تقسیم کردیتا ہے جس سے وقت اور مکان جنم لیتے ہیں۔اس لحاظ سے زمان ومکان انسانی فکر کی کرشمہ سازی اور تعبیر کے مظہر بن جاتے ہیں حالانکہ حقیقت مطلقہ(خدا) زمان ومکان کی حدود سے ماورا ہے۔علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات کو حادثات کا غیر مادی نظام اور خدا کی تخلیقی صفت کا عمل قرار دیتے ہوئے اس کی روحانی بنیاد کے قائل ہیں۔ان کے درج ذیل افکار بھی لائق مطالعہ ہیں: (1)"Nature is not a static fact situated in an a-dynamic void, but a structure of events possessing the character of a continuous creative flow which thought cuts up into isolated immobilities out of which arise the concepts of space whose mutual relations are time." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.34) (2)"With Einstein space is real, but relative to the observer. He rejects the Newtonian concept of an absolute space." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.37) (3)"Personally, I believe that the ultimate character of Reality is spiritual." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.98) (ب) خودی اور مکان کی بحث کے دوران علامہ اقبالؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ جسم ایک مقام کا پابند ہے مگر خودی ایک سے زیادہ مقامات کا تصور کرسکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خودی مکان کی حدود میں مقید نہیں ہوتی۔اس بات کو وہ تاج محل کی مثال دے کر سمجھانا چاہتے ہیں کہ تاج محل کے حسن وجمال کے بارے میں میرا خیال ایک ہی ہوگا خواہ میں اس سے کتنی دُور جاکر کسی دوسرے مقام سے وابستہ ہوجائوں۔کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہمارا جسم تو زمین پر ہوتا ہے اور ہماراخیال آسمان سے بھی آگے چلا جاتا ہے؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوجاتا کہ ہماری فکر ایک ہی مکان سے وابستہ نہیں رہتی۔علامہ موصوف کا کہنا ہے کہ خودی اپنے آپ کو ذہنی کیفیات کی وحدت کے طور پر ظاہر کرتی ہے جو مادی شے کی طرح ایک دوسری سے الگ ہوکر قائم نہیں رہ سکتیں۔اُن کے یہ مزید خیالات بھی فکر انگیز ثابت ہوںگے: (1)"Mental states do not exist in mutual isolation--the parts of a material thing can exist in mutual isolation. Mental unity is obsolutely unique." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.99) (2)"My thought of space is not spatially related to space. Indeed, the ego can think of more than one space-order." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.99) علامہ اقبالؒ خودی‘ طبعی واقعہ اور مکان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی طبعی حادثہ مرورِ زمان کے سبب مکان میں پھیل کر وجود حقیقت بن جاتا ہے لیکن خودی کا مرورِ خالص ایک جگہ مرتکز ہوکر حال اور مستقبل سے مربوط ہوجاتا ہے۔ (۵)’’وہ نظریہ جو وقت کو مکان کا چوتھا بُعد قرار دے وہ لازماً ماضی کی طرح مستقبل کو بھی پہلے سے متعین سمجھے گا۔اس طرح آزاد تخلیقی حرکت سے اس نظریے کے لیے کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ اگر وقت کو جگہ کا چوتھا بُعد خیال کیا جائے تو وہ حقیقت میں وقت نہیںرہتا‘‘۔ ( دوسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے پیداشدہ مکانیت آمیز زمان(space-time) کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ’’انسانی افکار کی ساری دنیا میں دُور رس انقلاب کی اساس‘‘ قرار دے کر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اُن کی رائے میں آئن سٹائن کے اس تصور نے مادہ پرستی کے قدیم نظریے کی بیخ کنی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اس مدح سرائی کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اس کے نظریہ اضافیت کے اس پہلو پر تنقید بھی کی ہے جس کی رُو سے مکانی وقت چوتھا بُعد بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ زمان کو مکان سے ارفع اور حیات وممات کا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے اُنھیں آئن سٹائن کا مکانی وقت ہرگزپسند نہیں آیا۔اس کے وہ اسباب یہ بیان کرتے ہیں:۔ (الف) اگر وقت کو مکان کا چوتھا بعُد تسلیم کرلیا جائے تو پھر ماضی کی طرح مستقبل بھی پہلے سے مقررہ کردہ خیال کیا جائے گا۔یاد رہے کہ مکان کو تین چیزوں‘لمبائی‘چوڑائی اور موٹائی‘ پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔ان تینوں کو’’ابعادِ ثلاثہ‘‘ کہا جاتا ہے۔چوتھے بعُد سے مراد وہ خیالی سمت ہے جس میں اقلیدسی جیومیٹری کے تین معروف ومقبول ابعاد کے علاوہ مادّے کے پھیلائو کو فرض کیاجاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں آئن سٹائن نے وقت کو مکان کا چوتھا بُعد بنادیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مستقبل کے واقعات بھی ماضی کی طرح تکرار اور لگے بندھے طریق پر رونما ہونے والے خیال کئے جائیں گے۔شاعرِ مشرق تو مستقبل کو ایک کھلے ہوئے امکان کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ اُنھوں نے خود کہا ہے: "The future certainly pre-exists in the organic whole of God's creative life, but it pre-exists as an open possibility, not as a fixed order of events with definite outlines." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.79) (ب) اگر وقت کو مکان کا چوتھا لازمی عنصر تصور کیا جائے تو اس میں تخلیقی حرکت کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔اگر وقت مکان کا چوتھا بُعد بن جائے تو پھر اس میں تغیر وحرکت کیسے ہوسکے گی؟ علامہ اقبالؒ کے نزدیک تغیر وحرکت ہی زندگی کی علامت اور کائنات کی اصل ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی خلاقی صفت کی بنا پر نئے نئے واقعات کو معرض وجود میں لاکر زندگی اور کائنات کو رواں دواں رکھتے ہیں۔اگر زندگی میں جدت اور تنوع نہ رہیں تو پھر مستقبل پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہوبہو تصویر بن جائے گا۔ علامہ اقبالؒ مرحوم ومغفور تو ’’نقش ہائے تازہ‘‘ کو زندگی کی علامت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرارِ زندگی نیست (ج) جگہ کا چوتھا بُعد بن کر وقت حقیقت میں وقت ہی نہیں رہتا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں تو وقت تخلیقی حرکت کا حامل ہوتا ہے۔اگر اس میں حرکت موجود نہ ہو تو وہ اپنی اصلیت کھو بیٹھتا ہے۔آئن سٹائن کے تصورِ زمان میںاُنھیںیہی خامی نظر آتی ہے۔وہ آئن سٹائن کے وقت کو برگساں کے وقت کی طرح مرورِ خالص نہیں سمجھتے۔ (۶)’’ہم اّنائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔ (تیسرا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے فلسفہ کائنات کی رُو سے خدا تعالیٰ(انائے مطلق) اپنے باطنی امکانات کو زمان ومکان کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔اُن کا یہ تصور قرآنی تعلیمات کا عکاس ہے جس میں خدا کو ظاہر وباطن اور اوّل وآخر کہا گیا ہے۔جب وہ ہر شے کی ابتدا وا نتہا ہے تو پھر ہر شے اپنے وجود اور نمود کے لیے اس کی ذات وصفات کی محتاج رہتی ہے۔ وہ اپنی تجلیات کو ہمارے انفس(ذات،خودی) میں بھی اور آفاق(کائنات)میں بھی ظاہر کرتا ہے۔خدا تعالیٰ کو تمام نفوس وارواح کا مصدور ومنبع خیال کرکے علامہ اقبالؒ انسانی خودی کو بھی اسی کا آئینہ دار کہتے ہیں۔زمان اور مکان وہ مادی اور ظاہری پیمانے ہیں جن کی وساطت سے انائے مطلق اپنے باطنی امکانات کو عیاں کرتی ہے۔اس موضوع کی وضاحت کے لیے فکر اقبال کی روشنی میں درج ذیل اُمور کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ (الف) علامہ اقبالؒکہتے ہیں کہ مکانی غیر محدودیت کے معنوں میں خدا کی لامحدودیت تصور نہیں کی جاسکتی کیونکہ زمانی اور مکانی بے پایانی مطلق نہیں ہوتی۔ہمارے زمان ومکان کا اطلاق خدا کی ذاتِ لامحدود پر نہیں ہوسکتا جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ؎ حقیقت لازوال ولامکان است مگو د یگر کہ عالم بیکراں است درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرونِ اُو وسعت پذیر است (کلیات اقبالؒ) (ب) زمان ومکان خدا کی خلاّقی شان کی فکری تعبیریں ہیں۔ہم اپنی محدود عقل کے سبب خدا کی لامحدود ذات کے باطنی امکانات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے ہماری عقل انھیں اپنے طور پر سمجھ کر پیش کردیتی ہے۔کائنات کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "---- Space, time, and matter are interpretations which thought puts on the free creative energy of God. They are not independent realities existing perse, but only intellectual modes of apprehending the life of God." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.65) (ج) انسانی زمان ومکان خدائی تخلیق کے اسرار ورموز کاکامل ادراک نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اپنی محدودیت کے سبب غیر محد ود ہستی ایزدی کے امکانات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ہمارے ریاضاتی زمان ومکان انائے مطلق کے جزوی احساسات ہیں۔وہ خدا کی محدودیت کو عمیق خیال کرتے ہیں نہ کہ وسیع۔اس نقطہ نظر سے وہ کائنات کو خدا کی تخلیقی فعالیت کا جزوی اظہار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "The infinity of the Ultimate Ego consists in infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe, as known to us, is only a partial expression. In one word god's infinity is intensive, not extensive" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.64) ہمارا ریاضیاتی زمان تقسیم پذیر‘ محدود اور خارجی ہوتا ہے۔اس میں ماضی، حال اور مستقبل کی تمیز ہوتی ہے ۔اس کے برعکس خدائی زمان میں ایسی حالت نہیں ہوتی۔اسی طرح ہمارا ریاضیاتی مکان اشیا کی لمبائی،چوڑائی اور موٹائی سے وابستہ ہوتا ہے۔ہمارے یہ دونوں فکری پیمانے محدود اور نا تمام ہیں۔ (۷)’’برقیہ مکان سے لگاتار اپنا راستہ طے نہیںکرتا‘‘۔ (تیسرا خطبہ) (۸)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں‘‘۔ کائنات کی تخلیق کے طریق کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان کئے جاتے ہیں۔یہاں علامہ اقبالؒ نے قدیم مسلمان حکما یعنی اشاعرہ کے نظریہ آفرنیش کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اشاعرہ کی علمی تحریک دراصل ارسطو اور اس کے متبعین کے نظریہ جمودِ کائنات کے خلاف عقلی بغاوت تھی۔ارسطو نے کائنات کو ساکن اور جامد بنادیا تھا۔ اس نظریہ کائنات کو علامہ اقبالؒ نے ہدف تنقید بنایا ہے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات جامد نہیں بلکہ تغیر پسند اور ارتقا پذیر ہے۔ارسطو کے نزدیک خدا چونکہ مطلق طورپر کامل اور آرزو کے بغیر ہے اس لیے وہ کائنات میں اب کچھ نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ اشیا کی ماہیت کے بارے میںغور وفکر کرتا رہے۔ ظاہر ہے کہ علامہ موصوفؒ تو خدا کی مسلسل تخلیقی فعالیت پر یقین رکھتے ہوئے ارسطو کے اس نظریہ جمودِ کائنات کو پسند نہیں کرسکتے تھے۔ لازماً اُنھوں نے اشاعرہ کے تصورِ کائنات کو ارسطو کے نظریہ کائنات پر ترجیح دی ہے۔مکان میں حرکت کے تصور سے متعلق اُنکے افکار کی تلخیص یہ ہے:۔ (الف) اشاعرہ کا نظریہ تخلیق ِکائنات جوہریت پر مبنی ہے۔اُن کی رائے میں کائنات جواہر یعنی چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرّات سے مل کر بنی ہوئی ہے۔خدا چونکہ ہرلمحہ تخلیقی سرگرمی میں مصروف رہتا ہے اورکائنات میں لاتعداد جواہر معرض وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اس لیے کائنات ہمیشہ متحرک اور ارتقا پذیر رہتی ہے۔ اشاعرہ کے خیال میں جوہر صفت ہستی حاصل کرنے سے قبل خدا کی تخلیقی طاقت میں مخفی رہتا ہے اور وہ مکانیت سے عاری ہوتا ہے۔ جب وہ خارجی پیکر میں نمودار ہوتا ہے تو اس کی نمود دراصل ایزدی طاقت کی نمود کے مترادف ہوتی ہے۔ جواہر مل کر مکان(space) کو جنم دیتے ہیں۔اس طرح مکان مادی شے نہیں بلکہ یہ خدا کے تخلیقی عمل کا دوسرا نام ہے۔ (ب) علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے تصور حرکت جوہر کو زیادہ واضح خیال نہیں کرتے۔مکان میں سے جوہر کے گزرنے کا نام حرکت ہے۔اشاعرہ چونکہ جواہر کے اجتماع پر مکان کو منحصر خیال کرتے تھے اس لیے وہ جوہر کی حرکت کا تسلی بخش نظریہ پیش نہ کرسکے۔ نظام نے کہا کہ جوہر ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک طفرہ(جست،چھلانگ) کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور اسکا گذر مسلسل نہیں ہوتا۔نظام کی رائے میں حرکت کی دو قسمیں ہیں… تیز حرکت اور آہستہ حرکت۔ (ج)نظام کے تصورطفرہ(نظریہ جست) سے ملتا جلتا نظریہ نئے زمانے میں میکس پلانک(۱۹۴۷۔۱۸۵۸ئ) اور پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے پیش کیا تھا۔پلانک جرمن ماہر طبیعیات تھا جس نے جواہر میں درخشاں توانائی کا تصورِ مقدار دے کر ۱۹۱۸ء میں نوبل پرائز حاصل کیا تھا۔پلانک کے نظریہِ مقدار کے مطابق جوہر کی توانائی مسلسل طور پر نہیں بلکہ مطلوبہ مقدار میں خارج ہوتی ہے۔قرآن حکیم کی ایک آیت نے صدیاں پہلے بتادیا تھا:’’ وانِ مّنِ شییً اِلاّ عندنا خزائِنہ‘ وما نُنزّ لہ‘ اِلاّ بقدرِ معلوم‘‘(الحج۱۵:۲۱)( کوئی شے ایسی نہیں جس کے ہمارے ہاں خزانے موجود نہ ہوں لیکن ہم اسے ایک متعین اندازے اور پیمانے کے مطابق باہر لاتے رہتے ہیں)۔ ایسا لگتا ہے کہ اشاعرہ نے اس قرآنی آیت کو مدنظر رکھ کر ایزدی توانائی کے جوہری طریق تخلیق کانظریہ پیش کیا تھا۔پلانک کی طرح پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے بھی یہ کہا تھا کہ برقیہ مکان میں سے اپنا راستہ لگا تار طے نہیں کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اس بات سے تو انکار نہیں کرتے کہ انسان کا تعلق خارجی دنیا سے بڑا گہرا ہے لیکن وہ اسے محض زمانی ومکانی پہلوئوں کا مجموعہ قرار نہیں دیتے۔انسان کی زندگی کے دو اہم پہلو مادہ اورروح ہیں۔وہ صرف جسم ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ روح کا بھی حامل ہے اس لیے کامیاب، بہتر اور مثالی زندگی گزارنے کے لیے انسان کو مادی تقاضوں کے علاوہ اپنے روحانی تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔قرآن حکیم کی رُو سے انسانی زندگی اعتدال وتوازن پر مبنی ہونی چاہیے۔رسول کریمؐ نے اسے خیر الامور فرمایا ہے۔انسان جب اپنے باطن میں غوطہ زن ہوتا ہے تو اس کا خدا کے ساتھ ربطہ قائم ہوجاتا ہے جو اُس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور جب وہ خارجی دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو اسے خدا کے گوناگوں مظاہر سے واسطہ پڑتا ہے۔مادی دنیا اصل میں زمان ومکان کے روابط کا دوسرا نام ہی ہے۔اس لحاظ سے انسانی زندگی محض خارجی ہی نہیں بلکہ وہ باطنی پہلو بھی رکھتی ہے۔ (۹)’’ زمان ومکان کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبال ؒ نے اپنی نظم ونثر میں زمان ومکان کے موضوع پرا تنا کچھ لکھا ہے کہ وہ ایک ضخیم کتاب میں ہی سما سکتا ہے۔اس اقتباس میں اُنھوں نے زمان ومکان(time and space) کو مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال قرار دیا ہے۔آئیے ہم یہاں اس امر کا جائزہ لیں کہ اُنھوں نے ان دونوں کو مسلمانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں کہا ہے۔سب سے پہلے ہم مکان کا مسئلہ زیر بحث لاتے ہیں۔ مکان: (۱) علامہ اقبالؒ مکان کے قدیم مادی نظریے کے زبردست مخالف ہیں کیونکہ اس نظریے کی رُو سے مکان ایک خلا کی حیثیت رکھتا ہے جس میں چیزیں واقع ہیں۔علاوہ ازیں مادے کو مکان میں مستقل بالذات ازلی اور ابدی شے تصور کیا جاتا ہے۔ (۲) بیشتر قدیم یونانی مفکرین خصوصاً سقراط، افلاطون اور ارسطو نے جمودِ کائنات کا نظریہ پیش کیا تھا۔اس نقطہ نظر سے وہ کائنات کو ساکن اور جامد قراردیتے تھے۔اگر ہم کائنات کو غیر متحرک،غیر ارتقا پذیر اور پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہو بہو تصویر سمجھیں تو یہ نظریہ قرآنی تعلیمات اور جدید سائنسی اُصولوں کے خلاف جاتا ہے۔ (۳) آئرش فلسفی برکلے اور بعد ازاں پروفیسر وہائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار نے مادیت کے قدیم نظریے کو غلط قرار دیا۔نیوٹن نے مادے کو مکان میںپھیلی ہوئی مستقل بالذات شے کہا تھا مگر ان تینوں نے مادیت کاابطال کیا۔ وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو واقعات کا ایک ایسا مربوط نظام قرار دیا جس میں مسلسل تخلیقی رو جاری وساری رہتی ہے۔ یہ نظریہ خدا کی خلاّ قی فعالیت پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔ (۴) علامہ اقبالؒ کی رائے میں قدیم مسلمان حکما مثلاً اشاعرہ،نصیر الدین محقق طوسی، البیرونی، جاحظ اور ابن مسکویہ کے نظریات حرکت کائنات نے یونانی مفکرین کے تصورِ جمود کائنات کی تردید کی۔اُن کی یہ عقلی بغاوت اور تردید قرآنی تصورِ کائنات کی آئینہ دار تھیں۔ (۵) قرآن حکیم مادی کائنات کے حسّی علم اور کائنات کے وجود کو حقیقی،مفید اور قابل مطالعہ قرار دیتا ہے۔مطالعہ کائنات کے بغیر تسخیر کائنات ممکن نہیں۔قرآن حکیم نے ہمیں اشیائے کائنات کو انسانی فلاح وبہبودکے لیے مسخر کرنے کا حکم دیا ہے۔ زمان: (۱) علامہ اقبالؒ زمان کو مکان پر ترجیح دیتے ہوئے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے اس پہلو پر تنقید کرتے ہیں جن کی رُو سے زمان مکان کا چوتھا بُعد بن جاتا ہے۔ وہ لمحہ کو نقطہ سے مقدم اور برتر تصور کرتے ہیں۔ (۲) مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ کائنات میں حرکت و ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ حرکت وارتقا زمان کے بغیر ممکن نہیں۔وہ نفسی زندگی کے بغیر وقت کی حقیقت کے ادراک کو ممکن نہیں سمجھتے۔اس لیے وہ زندگی کی روحانی اساس کے قائل ہیں۔ (ج) وہ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے تصورِ کائنات اور برگساں کے نظریہ زمان سے کافی حد تک متفق ہیں۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے کائنات کو مربوط واقعات کا نظام سمجھا جس میں ہر وقت تخلیقی رو کار فرما رہتی ہے۔قرآن حکیم نے خدا کے بارے میں کہا تھا:’’ کّل یوم ھُو فی ِ شان‘‘اس لحاظ سے خدا کی تخلیقی سرگرمی ہمیشہ جاری رہتی ہے اور زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ (د) علامہ اقبالؒ کو نطشے کے تصور زمان سے اختلاف ہے کیونکہ نطشے نے اسے تکرار ابدی کا حامل کہا تھا۔ اس مختصر سے جائزے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زمان ومکان کی حقیقت روحانی ہے اور قرآن نے ہمیں کائنات کی تسخیر کا حکم دیا ہے تاکہ ہم بھی اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرکے اُنھیں مسخر کرلیں۔قرآن حکیم نے ہماری منزل مقصود خدا تعالیٰ بتائی ہے مثلاً’’واِلیٰ ربک المنتھٰی‘‘(انجم ۵۳:۴۲) اگر مسلمان زمان ومکان اور کائنات کو غیرحقیقی خیال کریں تو وہ لازماً رہبانیت کا مسلک اختیار کرکے دنیا ودین کی حسنات سے محروم ہوجائیں گے اور ہر قسم کی پسماندگی کا شکار ہوکر غیروں کے محتاج رہیں گے۔ مومن چونکہ خدا ئے ِواحد ہی کو اپنا آقا تسلیم کرتا ہے اس لیے وہ کبھی بھی غیر اﷲ کی غلامی پر رضا مند نہیں ہوگا۔ نفسیات (۱)’’ ینگ کا خیال درست ہے کہ مذہب کی ماہیت تجزیاتی نفسیات کے دائرہ عمل سے باہر ہے‘‘۔ ( ساتواں خطبہ) سوئٹزز لینڈ کے ایک معروف نفسیات دان کارل ینگ نے شروع شروع میں ایک اور ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶ئ) کے ساتھ مل کر تجزیاتی نفسیات کی بنیاد ڈالی اور بعد ازاں ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے تصور جنسیات کو چھوڑ کر بروں بینی اور اندروں بینی کو دو نفسیاتی قسمیں قرار دیا۔ینگ نے کہا تھا کہ ہم نفسیات کی مدد سے آرٹ اور مذہب کی ماہیت کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں اگر چہ ہم آرٹ اور مذہب کی خارجی شکل اور علامتی مظاہر کو بیان کرسکتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں ینگ کا یہ نظریہ مذہب اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ تجزیاتی نفسیات‘ مذہبی واردات اور صوفیانہ تجربات کی حقیقت کو نہیں جان سکتی۔علامہ اقبالؒ سائنس کے خارجی تجربات و مشاہدات کی طرح مذہبی اور صوفیانہ تجربات کو بھی حقیقی‘ اہم‘قابل قدر‘ مفید اور لائقِ مطالعہ خیال کرتے ہوئے اپنی مشہور انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے آخری خطبہ ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ میں کہتے ہیں: "These experiences are perfectly natural, like our normal experience--If an outlook beyond physics is possible we must courageously face the possibility, even though it may disturb or tend to modify our normal ways of life and thought. The interests of truth require that we must abandon our present attitude." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp.189-190) علامہ اقبالؒ نے اس مختصر اقتباس میں مذہبی اور صوفیانہ تجربات اور قلبی واردات کی برتری اور موجودہ تجزیاتی نفسیات کی کم مائیگی کو بیان کیا ہے۔مذہبی واردات کو وہ قدیم اور مفید خیال کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ دنیا کی تمام قوتوں میں صوفیانہ لڑیچر کا وجود اس کی اہمیت،حقانیت اور افادیت کو ظاہر کرتا ہے۔جس طرح سائنس دان اپنے خارجی تجربات کی صداقت کا خیال رکھتا ہے اسی طرح اہل مذہب اور صوفیا بھی اپنے روحانی مکاشفات کی صداقت کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔بعض نفسیات دان مذہبی حقائق اور باطنی کیفیات کو واہمہ کی پیداوار‘ لاشعور میں دبے ہوئے جذبات اور خیالات کی نمود اور دماغی اختلال قرار دیتے ہین۔علامہ اقبالؒ کو اس نظریے سے اتفاق نہیں کیونکہ وہ معاشرتی، روحانی،اخلاقی اور نفسیاتی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کرنے والے مذہبی تجربات اور پیغمبرانہ طریق عمل کو دماغی اختلال اور اعصابی تنائو کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔وہ اپنی ایک مختصر نظم’’ ماہر نفسیات سے‘‘ میں نفسیات دانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں۔ ؎ جر ات ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے کھلتے نہیں اس قلزمِ خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے (کلیات اقبال ،ص ۴۵۹) علامہ اقبالؒ کی رائے میں نفسیات دانوں کو اپنی کم عملی کا اعتراف کرنا چاہیے نہ کہ وہ اُن نادیدنی حقائق کے وجود سے ہی انکار کرین یا اُن کے بارے میں غلط نظریات قائم کریں۔ اُنھوں نے بجا ہی کہا ہے:ع: نگاہ چاہیے اسرارِ لااِلٰہ کے لیے۔اپنی بات کی وضاحت کے سلسلے میں اُنھوں نے رسول کریمؐ کی مثال دی ہے اور کہا ہے کہ ہادی اعظم ؐ کی تعلیمات نے غلاموں کو دنیاکا راہنما بنایا اور کروڑوں انسانوں کے دل ودماغ میں ہدایت کی شمع جلا کر بہترین انسان بننے میں مدد دی ہے۔کیا ایسے عظیم اور مثالی انسان کی شخصیت کو کم مایہ نفسیات دانوں کے ناقص پیمانوں سے ناپا جاسکتا ہے؟ہرگز نہیں۔آخر میں اُنکے یہ الفاظ دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے۔وہ فرماتے ہیں:۔ ؎ضمیرِ اُمتّاں را می کند پاک کلیمے یا حکمیے نے نوازے ؎ من نمے دانم چہ افسوں می کند روح را در تن دگرگوں می کند (کلیات اقبال ، ص۸۰۹) (۲)’’جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا۔بنابریں اگر نفسیات کو انسانوں کی زندگی کے لیے حقیقی مفہوم کا حامل ہونا ہے تو اُسے ہمارے زمانے کے مزاج کے مطابق نئے نئے آزادانہ طریقے اور ذرائع اختیار کرنے چاہئیں‘‘۔ ( ساتواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اس سے پیشتر ایک مشہور ماہر نفسیات ینگ کا نظریہ مذہب بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی تجربات کی کنُہ سے واقفیت حاصل نہیں کی۔وہ اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدید نفسیات کو دور حاضر کے مزاج کے مطابق نئے اور زیادہ موثر طریقہ ہائے تحقیق استعمال کرنے چاہئیں۔ان اہم اُمور کی یہاں قدرے وضاحت کی جاتی ہے: (الف) جدید نفسیات نے تاہنوز مذہبی وجدان اور اس کے باطنی حقائق کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ علم النفس کا ہماری نفسی کیفیات اور ذہنی واردات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔نفسیات دان اس علم کی روشنی میں ہمارے فکری میلانات،باطنی تصورات اور اُن کے خارجی اثرات کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان یعنی ہماری باطنی واردات اور صوفیانہ تجربات کی مکمل حقیقت کا سراغ نہیں لگایا۔ اس ضمن میں اُنھوں نے سترہویں صدی کے ایک عظیم مذہبی مصلح اور صوفی شیخ احمد سرہندیؒ کے بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں شیخ احمد سرہندیؒ نے کہا تھا کہ روحانی اور قلبی ترقی کے کئی مدارج ہوتے ہیں جن کا تعلق ’’عالم امرِ‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ روحانی مراحل روح‘سِّر حنفی اور سِّرِ احنفی ہیں۔اُنھیں طے کرنے کے لیے طالبِ حقیقت درجہ بدرجہ اسمائے ایزدی‘صفاتِ خداوندی اور آخرمیں ذاتِ الہٰی کی تجلّیات حاصل کرتا جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ نفسیات نے ابھی روح اور قلب کے اُن مراتب ومراحل کی حقیقت کو جاننا ہے جو اس کی سرحد سے بہت پرے ہیں۔ (ب) نفسیات کو ہمارے زمانے کے مزاج اور انسانی زندگی کے حقیقی مفہوم کی وضاحت کے لیے اب نئے اور آزادانہ نوعیت کے طریقہ ہائے تحقیق کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال نفسیات کے موجودہ طریقوں سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ (ج) وہ مذہب کو جنس،دماغی اختراع اور فراریت کی پیداوار قرار دینے کے حق میں نہیں۔وہ تو جنس کے ضبط کو خودی کا اوّلین مرحلہ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے نفسیات خودی یعنی معرفت نفس کے کافی اسرار ورموز سے ناواقف ہے۔وہ خودی کے چند پہلوئوںکو بیان کرکے اسے نفسیاتی تجزیے سے بالا تر قرار دیتے ہیں مثلاً: ؎ پیکر ہستی زآثارِ خودی است ہرچہ می بینی ز اسرارِ خودی است (کلیات اقبال،ص۱۲) ؎ صد جہاں پوشیدہ اندر ذاتِ اُو (کلیات اقبال،ص۱۷) ؎ زمین وآسمان وکرسی وعرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی (کلیات اقبال،ص۳۷۵) علامہ اقبالؒ کی نظر میں مذہب کا مقصد انسانی خودی کا ذاتِ خداندوی سے گہرا تعلق جوڑ کر اسے مستحکم بنانا ہے۔جب خودی یہ مقام حاصل کرلیتی ہے تو اسے اپنی زد میں ساری خدائی(زمین وآسمان وکرسی وعرش) دکھائی دیتی ہے۔ یہ بصیرت حاصل کرنے کے لیے محض عقل کافی نہیں ہوتی بلکہ جذبہ عشقی یعنی وجدان کو اپنا رہنما بنانا پڑتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:۔ ؎ خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے؟ چراغ رہگذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے؟ (کلیات اقبال،ص۳۷۷) وحی والہام (ا)’’ جس طرح قرآن حکیم میں لفظ’’وحی‘‘ استعمال ہوا ہے،اُس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن اُسے زندگی کی عالمگیر صفت قرار دیتا ہے۔اگرچہ ارتقائے حیات کے مختلف مراحل پر اس کی نوعیت اور مدارج مختلف ہوتے ہیں: (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے شعور ولایت اور شعور نبوت کی بحث کے ضمن میں کہا ہے کہ صوفیانہ وارادات کی نوعیت محض ذاتی، باطنی، ہنگامی اور سوسائٹی کے لیے غیر انقلابی ہوتی ہے کیونکہ صوفی خدا کے ساتھ گہرا تعلق استوار کرکے بیٹھ رہنے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ ایزدی وصال ہی اس کی روحانی معراج اور مقصود حیات ہوتا ہے‘اس لیے صوفی کی قلبی واردات اور روحانی تجلیات سوسائٹی میں انقلاب خیزی کا موجب نہیںبن سکتیں۔اس کے برعکس نبی خدا سے قرب کا فیض پاکر خارجی دنیا میں زبردست معاشرتی اور اجتماعی انقلاب اور ایک نئی قوم کی تشکیل کا باعث بنا کرتا ہے۔وہ نبی کے اس انقلاب آفریں وسیع اصلاحی پروگرام کی ہمہ گیر افادیت پر یوں رائے زنی کرتے ہیں: "The desire to see his religious experience transformed into a living world-force is supreme in the prophet." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.124) اس بحث کے دوران اُنھوں نے وحی والہام کے بارے میں اپنے خیالات بھی بڑے مختصر انداز میںبیان کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: (الف)قرآن حکیم لفظ’’وحی‘‘ کے استعمال کو زندگی کی آفاقی صفت قرار دیتا ہے۔اُ نکی رائے میں فضا میں آزادی سے نشوونما پانے والا پودا‘نئے ماحول کے مطابق نئے ارتقاپذیر جزو ِبدن کاحامل جانور اور اپنی زندگی کی باطنی گہرائی سے نور حاصل کرنے والا انسان اپنی نوع کی مختلف ضرورتوں کے مطابق وحی کی حالتوں کے آئینہ دار ہیں۔اس نقطہ نظر سے وہ وحی کو انسان کی ذات تک محدود اور مخصو ص نہیں سمجھتے جیسا کہ وہ ’’وحی‘‘ کے ذکر کے آغاز میں لکھتے ہیں: "This contact with the root of his own being is by no means peculiar to man." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.125) (ب) ارتقائے حیات کے مختلف مراحل پر وحی کی نوعیت اور مدارج مختلف ہوتے ہیں۔ وحی اور الہام کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے بس یہی کچھ کہا ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم‘مشکل اور متنازعہ ہے کہ اس کی یہاں تھوڑی بہت وضاحت ضروری ہے۔علامہ اقبالؒ نے قرآن حکیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وحی کو عالمگیر صفت کہا ہے۔آئیے ذرا قرآن حکیم کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔خدا نے اپنی باشعور اور بے شعور مخلوق کی ہدایت کے لیے خاص قوانین وضع کئے ہیں۔ بے جان اور بے شعور اشیا کو اُس نے پیغمبرانہ وحی کے بغیر زندگی کی روش پر چلانے کے لیے جو قاعدے اور اُصول بنائے ہیں وہ چیزیں اُنھیں بلا چو ن وچرا کرنے پرمجبور ہیں مثلاً سورج‘چاند‘ ستارے‘دریا‘نباتات اور حیوانات قدرت کے لگے بندھے قوانین کی اطاعت کررہے ہیں۔قرآن حکیم کی یہ آیات ملاحظہ ہوں: (ا)’’ الّذِی خلق فسوّیٰ و الّذِی قدّر فھدیٰ‘‘( سورہ اعلیٰ۸۷:۲،۳) ۔ (اﷲ وہ ہے جس نے کائنات کو بنایا اور اسے تسویہ عطا کیا اور اس نے اس کے لیے دستور العمل بنایا اور اسے اس پر چلایا)۔ (۲)’’ سخرّ الّشُمس و القّمر کّل یجُری لاِ جل مُسمّی‘‘(لقمان ۳۱۷:۲۹) (اﷲ نے سورج اور چاندکو مسخر کیا اور یہ مقررہ میعاد تک محوِ حرکت رہیں گے)۔ (۳)’’کُّل قدُ علمِ صلاتہ وتسبیحہ‘‘( نور۲۴:۴۱)۔ ( کائنات کی ہر چیز اپنی صلوٰہ اورتسبیح(مقررہ فرائض) سے واقف ہے) ۔ (۴)’’اِنّا کُّل شییء خلقنہ بقدرِ‘‘( قمر۵۴:۴۹)۔ ( ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا ہے)۔ (۵) ’’ واوحیٰ ربّک اِلی النحل انِ تّخذیِ منِ الجبالِ بُیو تا و منِ الّشجرِ ومِمّا یعر شُون‘‘۔(النحل ۱۶: ۶۸) (اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ پہاڑوں،درختوں اور بیلوں میں اپنے گھر بنائے)۔ ان تمام آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جمادات‘ نباتات او رحیوانات کی جبّلت میں اپنے بنائے ہوئے خاص قوانین کی اطاعت پذیری پیدا کردی ہے۔علامہ اقبالؒ بے جان‘ بے شعور اور بے اختیار اطاعت پذیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ع: تقدیر کے پابند جمادات ونباتات ع:ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانی ٔ تقدیر ہے۔ قرآن حکیم نے ان اشخاص کی طرف بھی وحی کے ذریعے پیغام دیا ہے جو نبوت ورسالت سے سرفراز نہیں ہوئے مثلاًارشادر رباّنی ہے:’’ اوحینا اِلیٰ اُمّ مُو سیٰ۔‘‘(القصص۲۸:۷)( ہم نے موسیؑ کی والدہ کی طرف وحی کی)۔ علامہ اقبالؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ زندگی کی مختلف سطحیں اور درجے ہیں۔جمادات کی زندگی کی سطح پست ہے کیونکہ اس میں روئیدگی اور نشو ونما کی صفت ہے۔اس سے بلند تر ارتقائی صورت پودوں کی ہے اور بعد ازاں حیوانات کی زندگی کا درجہ ہے۔ جمادات‘نباتات او رحیوانات مختلف مدارج حیا ت کے ترجما ن ہیں۔انسان اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے عقل وشعور‘ علم‘قوت تسخیر اور دیگر صفات کا حامل ہے۔ اس لیے اس کا درجہ حیات سب سے زیادہ بلند ہے۔مولانا رومؒ کی طرح شاعرِ مشرقؒ بھی مدارج حیات اور مراحل الہام ووحی کے قائل ہیں۔ انسانوں میں اولیا اور اس کے بعد انبیا کے درجات عام انسانوں سے بلند ہیں۔مدارجِ زندگی کی مانند وحی والہام کے بھی مدارج ہیں۔انبیاء اور رسل کی وحی کا درجہ بلند ترین ہے اور اس کا ذریعہ ابلاغ بھی مختلف ہے۔جبرئیل ؑ خدا تعالیٰ کی وحی انبیاء کرام ؑاور رسل ؑ تک پہنچانے پر مامور تھے۔چونکہ اب نبوت کا سلسلہ رسول کریمؐ پر ختم ہو چکا ہے بنابرین وحی کی یہ قسم بھی ختم ہوگئی ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎ پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولِؐ ما رسالت ختم کرد (کلیات اقبال،صفحہ ۱۰۲) مولانا رومؒ کا نظریہ ہے کہ نبوت پر مبنی وحی تو ختم ہے مگر باقی انسان اس سے اب بھی فیض یاب ہوتے ہیں اگرچہ اس کی نوعیت وہ نہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام علوم وفنون اصل میں وحی ہی کی پیداوار ہیں۔مثال کے طور پر وہ تمام علمی کمالات اور ایجادات کا سرچشمہ محسوسات کی بجائے وحی یعنی اچانک اشارئہ غیبی یا شعور میں نور کا بلا ارادہ ظہورخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ قابل تعلیم وفہم است ایں خرد لیک صاحب وحی تعلیمش دہد اس طرح کے اچانک فیضانی لمحات کو علامہ اقبالؒ اگرچہ صوفیانہ تجربات اور روحانی کیفیات سے بھی منسوب کرتے ہیں مگر وہ اُنھیں وحی نبوت کی طرح سند تسلیم کروانے کے حق میں نہیں۔صوفیا کی طرح وہ بھی نفس(self) کو ذریعۂ علم تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎ من اے دانش وراں درپیچ و تابم خرد را فہم ا یں معنی محال است چساں درمشتِ خاکے تن زند دلِ کہ دل دشتِ غزالانِ خیال است (کلیات اقبال،ص ۲۱۴) وطینت وقومیت (۱)’’اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشائیت پر منحصر ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف تعارف کی سہولت کے لیے تسلیم کرتی ہے‘‘۔ (چھٹا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان الفاظ میںدرج ذیل اُمور کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔اگرچہ موجودہ دور میں قدیم طرز کی شہنشائیت تو باقی نہیں رہی تاہم نئے نظامہائے حکومت میں اس کی روح ابھی تک موجود ہے۔قومیت کا آج کل دور دورہ ہے۔ایک نہ ایک دن یہ بھی اسلام کے آفاقی اور انسانی اخوت پر مبنی نظام میں جاکرمدغم ہو جائے گی۔ان اہم اُمور کی یہاں وضاحت کی جاتی ہے: (الف) اسلام کی اساس قومیت پر نہیں رکھی گئی۔اسلام نے تو کلمئہ توحید کو بنیاد بناکر دنیا بھر کے مسلمانوں کو آفاقی رشتہ اُخوت میں منسلک کردیا ہے۔رسول کریمؐ کے اپنے ہم وطن‘ ہم زبان‘ہم نسل اور ہم رنگ انسان دین وایمان کو قبول نہ کرکے ملّت کفر کے افراد بن گئے اور سلمان فارسیؓ اورصہیبؓ رومیؓ غیر وطن اور غیر نسل ہوکر اسلامی ملّت میں داخل ہوگئے تھے۔علامہ اقبالؒ نے اسلامی قومیت کے تصور کی یوں ترجمانی کی ہے: ؎ اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت گئی اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی (ب) اسلام صرف خدائی حاکمیت اور خدائی آئین کی بالا دستی کا نقیب ہے۔ یہ کسی انسان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا محتاج اور غلام بنائے۔ علامہ اقبالؒ شنہشائیت کو قدیم دور تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسکی روح کو جدید نظاموں قومیت،فاشزم، اشتراکیت، مغربی طرز جمہوریت اور سرمایہ داری میں بھی جاری وساری دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ؎ ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میںنہیںغیراز نوائے قیصری دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری (کلیات اقبال،ص۲۶۱) ؎ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا؟ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ؎ کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجودِ میرو سلطاں پر نہیں ہے منحصر مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر (کلیات اقبال،ص ۶۵۰۔۶۴۹) مغرب کے جمہوریت پرست اور قوم پرستی کے حامل ملکوں کا پارلیمانی نظام حکومت ہو یا کیمونسٹ ممالک کا آمرانہ طرزِ حکومت یہ دونوںہی کمزور اور غریب ملکوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔کیا افغانستان، چیکوسلواکیہ اور پولینڈ میں روسی یلغار اور توسیع پسندی اس بات کی واضح دلیل نہیں؟سرمایہ دارانہ ممالک بھی اس روش پر گامزن ہیں۔ (ج)اسلام ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو پرُامن بقائے باہمی کے اُصول پر انسانی براداری اور انسانی احترام کی تعلیم دیتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: "Islam does not recognise the differences of race, of caste or even of sex. It is above time and above space and it is in this sense that all mankind are accepted as brothers," (B.A.Dar, Letters and Writings of Iqbal,pp.75-76) (د) اسلام اپنے ماننے والوں کے سماجی اُفق کومحدود نہیں کرتا۔یہ محض تعارف کے لیے مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کرتا ہے۔اس کے نزدیک معیار فضلیت نیکی ہے خواہ وہ کسی بھی علاقے کا مسلمان ہو اور وہ مختلف زبان بولتا ہو۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیازِ رنگ وخوں مٹ جائے گا ترکِ خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر (کلیات اقبال‘ص ۲۶۵) (۲)’’موجودہ دور کا مسلمان روحانی احیاء کے اس خالصتاً مذہبی طریق عمل سے مایوس ہوچکا ہے جو اس کے افکار و احساسات میں وسعت پیدا کرکے اسے زندگی اور قوت کے لازوال سرچشمے سے ہم کنار کرتا ہے۔وہ اپنے جذبہ وفکر کو محدود کرکے طاقت کے نئے نئے ذرائع کا انکشاف کرنے کی غلط توقع وابستہ کئے ہوئے ہے‘‘۔ ( ساتواں خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور نثر میں اکثر مقامات پر عصر جدید خصوصاً مغربی نظامِ فکر وعمل کے مختلف پہلوئوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔وہ مادیت،عقلیت،اشتراکیت،سرمایہ داری،ملوکیت، دین وسیاست کی جدائی، لادینیت اور غلط اقدار ِحیات کے سخت مخالف ہیں۔حقیقت پسند اور مسلک اعتدال کا حامی ہونے کے طور پر وہ قدیم تصوف، مذہبی اجارہ داری،مذہبی استحصال، مسلمانوں کی جہالت،روحانی غلامی اور رہبانیت پسندی کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی مذہبی بے زاری کا سبب بتاتے ہیں۔ اُن کے اس اقتباس کی چند جھلکیاں ملاخطہ ہوں: (الف) روحانی احیا اور فکر واحساس میں وسعت پیدا کرکے خدا سے رابطہ قائم کرنے میں تصوف بھی نمایاں کردار ادا کرتاہے۔علامہ اقبالؒ مذہبی واردات اور صوفیانہ تجربات کی اہمیت وافادیت کے زبردست علم بردار تھے۔اُن کے نزدیک باطنی تجربات ہمیں حقیقت الحقائق یا حقیقت کاملہ(خدا) کے ساتھ گہرا ربط قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اس طرح ہم زندگی کی اصل سے قریب ہوکر روحانی سکون کے حامل بن جاتے ہیں۔ (ب) موجودہ دور کا مسلمان ان باطنی تجربات سے مایوس ہوچکا ہے۔علامہ موصوفؒ مذہب اور تصوف کے باطنی تجربات کو زندگی اور قوت کے لازوال منبع یعنی خدا سے ہمکنار کرانے کی اہمیت کے دعوے دار تھے۔ قرآن حکیم کی رُو سے باطن کی طرح خارجی دنیا بھی اہم اور مفید ہے۔ اس لیے خارجی ترقی کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی متوازن‘ بہتر اور زیادہ جاذب نظر زندگی بسر کرنے کرنے کے لیے درست نہیں۔اسلام چونکہ زندگی کا مکمل ضابطہ خیال کیا جاتا ہے اس لیے اسے ہماری مادی اور خارجی ترقی اور خوشحالی کا بھی ضامن ہونا چاہیے۔جب تصوف اور اسلام کو محض داخلیت‘ باطنی واردات‘رہبانیت اور مذہبی سیادت کا ذریعہ بنایا جائے تو لا پروائی جنم لے گی۔مغربی لوگ عقل پرستی اور مادیت کا شکار ہوکر روحانی سکون کھو بیٹھے ہیں اور مشرقی لوگ کھوکھلی روحانیت اور فرار عن الحیات کے سبب مذہب سے بری طرح مایوس ہوگئے ہیں۔بقول علامہ اقبالؒ ؎ نہ مشرق اس سے برُی ہے نہ مغرب اس سے برُی جہاں میں عام ہے قلب ونظر کی رنجوری (ج) مذہب کی غلط تعبیر اور تصوف سے بے زار ہوکر مسلمان محدود حب الوطنی اور قوم پرستی میں طاقت کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی غلط توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو بے حد افسوس ہے کہ اہل مذہب اور اہل تصوف کی غلط نگری اور استحصال پسندی نے مسلمانوں کو مذہب سے بیزارکرکے سکیولر زم(لادینیت) اور نیشنل ازم کی گود میں دھکیل دیاہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔اُن کی رائے میں مسلمانوں کی نجات اور تسکین قلب کا سامان لادینی اور قوم پرستانہ نظام میں نہیں مل سکے گا۔ روح وجسم کے تقاضوں کی تکمیل ہی میں رازِ حیات ہے۔علامہ اقبالؒکے دو اقتباسات اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہیں: (1)"Neither the technique of medieval mysticism nor nationalism nor atheistic socialism can cure the ills of a despairing humanity." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.189) (2)"If the Muslim countries keep true to their ideals of Islam they are likely to do the greatest service to humanity." (Letters and Writings of Iqbal,p.60) یورپ (۱)’’ بریفالٹ کہتا ہے کہ یورپی ترقی کا ایک بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی کلچر کے اثرات موجود نہیں۔یورپی سائنس کافی حد تک عربی ثقافت کی شرمندہ احسان ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) اسلامی نظریات نے یورپی ترقی خصوصاً سائنس اور فلسفہ وحکمت کے میدان میں جو انقلابی اور بنیاد ی کردار ادا کیا ہے علامہ اقبالؒ اس کے ہمیشہ ہی معترف اور مبلغ رہے ہیں۔ زمانہ وسطیٰ میں یورپ جہالت وبربریت کا آئینہ دار بن گیا تھا۔ہر طرف توہمات، تنگ نظری، علم دشمنی اور آزادی فکر پر پابندیوں کا دور دورہ تھا۔بادشاہ اور اہل کلیسا دونوں کم علم‘ کمزور اور مجبور انسانوں کا بری طرح استحصال کررہے تھے۔مذہب اور سیاست کے پردے میں مکاری اور سیہ کاری سے کام لیا جاتا تھا۔ایسے حالات میں یہ فریاد کئے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا: ؎ خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری اُس دور کو مورخین ’’ازمنہ ظلمت‘‘(Dark Ages) کا نام دیتے ہیں کیونکہ جہالت کی تاریکی ہر سو محیط تھی۔جن اہل فکر ودانش نے عقل وحکمت پر مبنی نئے سائنسی حقائق اور انقلابی نظریات پیش کئے اُنھیں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔عقل اور مذہب کے درمیان سخت چپقلش پائی جانے لگی تھی۔ گلیلیونے جب گردشِ زمین کا انقلابی اور نیا نظریہ بیان کیا تو اسے زیر عتاب لایا گیا۔سائنس اور عیسائیت کی اس باہمی رزم آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے تنگ آکر مذہب اور سیاست ‘سائنس اور مذہب کو الگ الگ کردیا۔اس کے بعد یورپ میں عملی نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح کا آغاز ہوگیا۔ یورپ کی اس علمی ترقی‘ذہنی بیداری اور سیاسی حرکت میں اسلامی افکار کا بھی کافی اثر ہے جس کی طرف اقبالؒ نے اشارہ کرتے ہوئے اپنی ایک نظم’’ جزیرہ سسلی‘‘ میں کہا ہے: ؎ رولے اب دل کھول کر اے دیدئہ خوننابہ بار! وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی اکِ جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور کھا گئی عصرِ کہن کو جن کی تیغ ناصبور کو مردہ عالم زندہ جن کی شورشِ قُم سے ہوا آدمی آزاد زنجیرِ توہّم سے ہوا (کلیات اقبال،ص ۱۳۳) علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا اقتباس میں اس امر کو بیان کیا ہے کہ بریفالٹ نے یورپی ترقی کو اسلامی کلچر کا مرہون منت قرار دیا ہے۔اس کے دو اہم اُمور یہ ہیں: (الف) ایک یورپی مفکر بریفالٹ نے اپنی ایک بلند پایہ کتاب’’ تشکیلِ انسانیت‘‘ میں اس بات کا بڑے صدق دل سے اعتراف کیا ہے کہ یورپی ترقی کے مختلف گوشوں پر اسلامی کلچر کے اثرات موجود ہیں۔ (ب) بریفالٹ نے یورپی سائنس کی ترقی اور فکری انقلاب کو عربی ثقافت کا شرمندہ احسان قرار دیا ہے۔ یہاں اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے بریفالٹ کے چند اقتباسات کا نچوڑ پیش کیا جاتا ہے۔یہ تلخیص ان تمام اقتباسات پر مشتمل ہے جو علامہ موصوف نے اپنی معروف انگریزی کتاب’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں دئیے ہیں: (1)"Roger Bacon was no more than one of the apostles of Mulsim science and method to Christian Europe. The experimental method of Arabs was by Bacon'---time widespread and eagerly cultivated through out Europe." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.130) (2)"It was not science only which brought Europe back to life. Other and manifold influences from the civilization of Islam communicated its first glow to European life." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.130) (3)"Science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. The ancient world was, as we saw,pre-scientific." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.130) (4)"The Greek systematized, generalized, and theorized, but the patient ways of investigation, the accumulation of positive knowledge, the minute methods of science, detailed and prolonged observation and experimental inquiry were altogether alien to the Greek temperament." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.130) صلیبی جنگوں کے بعد سے عیسائی طاقتوں نے مسلمانوں کی طرح غلبہ ونفاذ حاصل کرنے کے لیے اپنی مساعی کی رفتار کو تیر تر کردیا تھا تاکہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح علوم وفنون میںمہارت حاصل کرکے اس اہم مقصد کو پالیں۔چنانچہ اُنھوں نے عقل وفکر سے کام لینے اور سائنسی میدان میں ترقی کرنے کی نیت سے ایک ٹھوس اور وسیع پروگرام بنایا۔اس ضمن میں اُنھوں نے عربوں کے عملی ثمرات سے بھی فائدہ اُٹھایا اور سائنس کو مزید ترقی دی ۔ علامہ اقبالؒ صاحب زادہ آفتاب احمد خاں،سیکرٹری،آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس،علی گڑھ کے نام اپنے ایک خط مورخہ ۴ جون۱۹۲۵ء میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "The Humanist movement in Europe was due to a large extent to the force set free by Muslim thought. It is not at all an exaggeration to say that the fruits of modern European humanism in the shape of modern science and philosophy are in many ways only a futher devolpment of Muslim culture." (Syed Abdul Vahid, Thoughts and Reflections of Iqbal,p.401) اس میں کوئی شک نہیں کہ کافی عرصہ تک یورپی مورخین اور مصنفین قدیم مسلمانوں کے علمی کمالات اور یورپی ترقی پر احسانات کے ذکر سے تعصب کی بنا پر گریز کرتے رہے ۔لیکن پھر بھی کہیں سے یہ حق ظاہر ہوہی جاتا ہے۔وہ اپنی علمی ترقی کو یونانی فلسفے سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ عربی تراجم نے بھی یورپ کی نشا ۃِ ثانیہ میں عظیم کردار ادا کیا تھا۔اس کے علاوہ مغربی اور یورپی کتب خانوں میں ہمارے اسلاف کی قدیم کتابیں‘محظوطات اور نسخہ جات اس بات کی واضح طور پر گواہی دے رہے ہیں کہ اہل مغرب نے اُن سے خوشہ چینی کی تھی۔ یورپی فلسفہ (ا)’’ گذشتہ پانچ صدیوں سے مسلمانوں کے مذہبی افکار عملی طور پر جامد ہوچکے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب کہ فلسفہ یورپ عالم اسلام سے متاثر ہوا تھا‘‘۔ (پہلاخطبہ) قرآن حکیم کی تعلیمات نے مسلمانوں کو مطالعہ انفس(مطالعہ باطن) کے ساتھ ساتھ مطالعہ آفاق کا بھی حکم دیا تھا اور دنیا میں بکھری ہوئی آیاتِ الہٰی یعنی مظاہر فطرت کے غور وفکر کو ارباب دانش اور صاحبانِ ایمان کی ایک اہم صفت بتایا تھا۔جب تک مسلمان صحیفہ فطرت کے حسین وجمیل اوراق کو بغور دیکھ کر اسرارِ حکمت اور رموزِ کائنات سے آگاہ ہوتے رہے،وہ مختلف علوم وفنون کے بانی اور مربی ثابت ہوئے۔اس مطالعہ کائنات نے اُنھیں دنیا کی دیگر اقوام کا معلّم بنادیا تھا۔ جب سیاسی غلامی‘کاہلی‘رہبانیت اور دیگر اسباب کے پیش نظر اُنھوں نے حکمت جوئی‘علم طلبی اور تحقیق پسندی کا دامن اپنے ہاتھوں سے چھوڑ دیا تو وہ ذہنی جمود‘فکری کم مائیگی،معاشرتی انحطاط اور سیاسی زوال کا بری طرح شکار ہوگئے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں جابجا عہد حاضر کے مسلمانوں کے فقدان اجتہاد‘تقلید پرستی‘ تنگ نظری اور ہمہ گیر پستی کا بڑے پرسوز انداز میں رونا رویا ہے۔ وہ جب اپنے اسلاف کے عملی موتی غیروں کے کتب خانوں میں دیکھتے ہیں تو وہ بے اختیار ہوکر پکارتے اُٹھتے ہیں:۔ ؎ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئین مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علمِ کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا (کلیات اقبال،ص ۱۸۰) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دو اہم باتوں کو بیان کیا ہے۔ایک بات کا تعلق تو موجودہ مسلمانوں کے مذہبی افکار کے جمود سے ہے اور دوسری بات کا تعلق فلسفہ یورپ پر اسلامی اثرات سے ہے۔ ہم ان دونوں اُمور کے پس منظر کا کسی قدرے سراغ لگاتے ہیں۔اُنھوں نے جو کچھ یہاں کہا ہے ۔اُس کی تفصیل یہ ہے:۔ (ا) گذشتہ پانچ صدیوں سے مسلمانوں کے مذہبی افکار عملاً جمود پرستی کے آئینہ دار ہیں۔قرآن حکیم نے تو ہمیں کائنات کے حیرت انگیز اور بصیرت افروز مظاہر وکمالات کے مطالعہ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا: (۱)’’…لاٰیٰت لقوم یعقلون‘‘(الروم ۳۰:۲۴)( عقل مندوں کے لیے نشانیاں موجود ہیں)۔ (۲) ’’قل سیرُ و فیِ الارضِ فانظرُ واکیف بداُ الخلقُ‘‘(العنکبوت۲۹:۲۰)۔ ( اے رسولؐ آپ فرمادیجیے کہ زمین میں چل پھر کر غور سے دیکھو کہ خدا نے کس طرح آفرنیش کا آغاز کیا تھا)۔ (۳) وکُا یّن منِ اٰیتہ فیِ السّموٰات والارضِ یمّرون علیھا وھُم عنُہا مُعرِضُون‘‘( یوسف۱۲:۱۰۵)(آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ منہ پھیر کر گذر جاتے ہیں)۔ بے شمار قرآنی آیات میں ہمیں خدا تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ اور حکمتِ بالغہ کی ظاہری نشانیوں پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے ہم نے محض اُن کی تلاوت پر ہی تکیہ کیا ہے اور وہ بھی اُن کامطلب سمجھے بغیر۔کیا ان آیات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے ان ظاہری نشانات مثلاً چاند،سورج، ستاروں، بادلوں،ہوائوں، زمینی دفائن اور بحری خزانوں،عالم نباتات، اور عالمِ حیوانات وغیرہ کا بغور مطالعہ کرکے اپنی حکمت پسندی اور دانش مندی کو ثابت کرنا چاہیے؟ کیا یہ آیات تلاوت کے علاوہ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ ہم ان احکام خداوندی پر عمل بھی کریں؟ زندگی کی کامیابی کے لیے محض فکر و عقیدہ ہی کافی نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہوا کرتا ہے۔ کیا قرآن حکیم ایمان کے ساتھ ساتھ عمل کا مطالبہ نہیں کرتا؟جب کبھی فکر کو عمل سے الگ رکھا جاتا ہے تو پائیدار تہذیب وتمدن کی عمارت استوار نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ نے یہاں اسی فکری جمود پر اظہار تاسف کیا ہے۔اس مذہبی اور فکری جمود کی کئی وجوہات ہیں…سیاسی انتشار‘معاشرتی انحطاط، سلاطین کا آزادی فکر وخیال سے خوف‘ عوام کی تقلید پسندی‘تنگ نظر علما کی مخالفت‘ مذہبی اجارہ داری کا جذبہ اور غیر اسلامی تصوف خصوصاً رہبانیت کا اثر وغیرہ۔تنگ نظر اور خو دغرض لوگوں نے اپنے آپ کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بجائے قرآن حکیم کی ایسی تعبیر کی جو اُن کے مزعومات اور مفروضات کی تائید کرسکے۔ علامہ موصوف ؒ نے کیا خوب کہا ہے: ؎ خود بدلتے نہیں قرآںکو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق (ب)علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دوسری بات یہ کہی ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب یورپی فلسفہ اسلامی نظریات کے زیر اثر آیا تھا۔اس ضمن میں اُنھوں نے بریفالٹ کی کتاب’’’تشکیل انسانیت‘‘ سے متعدد اقتباسات اپنے اس قول کی تائید میں پیش کئے ہیں۔مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں جو کچھ بھی کہا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے: (۱) سقراط اور اس کے شاگرد افلاطون نے عالمِ محسوسات اور خارجی دنیا کو لائقِ مطالعہ خیال نہیں کیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے خارجی دنیا اور محسوسات کے عالم کو بھی باطن کی طرح اہم‘مفید اور لازم قرار دیاتھا جس کااثر یہ ہوا کہ قدیم مسلمانوں نے تجرباتی علوم کی بنیاد رکھی جو یورپ میں بعد ازاں مقبول ہوئے تھے۔ (۲)قرآن حکیم نے کائنات میںحرکت اور ارتقا کا نظریہ پیش کیا جسے بعد میں یورپ میں اختیارکیاگیا۔اس سے پہلے بیشتر یونانی مفکرین نے جمود کائنات کا تصور پیش کیا تھا جو قرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے خلا ف تھا۔ (۳)قرآن حکیم نے اشیائے کائنات خصوصاً نباتات‘ حیوانات اور انسانوں کی زندگی کے اہم پہلوئوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی تھی۔ یورپی سائنس نے اس قرآنی پہلو کے زیر اثر ہی قدرتی علوم کو فروغ دیا۔ (۴)انگریز فلسفی راجر بیکن(۱۲۹۲۔۱۲۱۵ئ) کو جدید فلسفہ اور سائنسی طریق کار کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے کہ فرانسس بیکن نے ہسپانوی مسلمان مفکرین سے ہسپانیہ کی درس گاہوں میں یہ فیض پایا تھا۔عرب مفکرین نے اس پر کافی اثر ڈالا تھا۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "And where did Roger Bacon receive his scientific training? In the Muslim universities of spain. Indeed part v of his 'Opus Maju's Practically a copy of Ibn-I-Haitham's Optics." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.129) (۵) نّظام اور امام غزالی ؒکے اُصول تشکیک کاپرتو ہمیں ڈیکارٹ کے طریق استدلال میں دکھائی دیتا ہے۔ (۶) ابن حزم اور ابن تیمیہ کی تصانیف نے مشاہدہ وتجربہ کو فروغ دیا تھا۔جدید یورپی فلسفہ میں تجربیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ (۷)البیرونی نے ریاضیاتی انداز میں کائنات کے جمود پرستانہ نظریے کو ناکافی قرار دیا تھا۔ یہ چیزبھی یونانی فلسفے سے انحراف کا ثبوت ہے۔ (۸) جاحظ نے سب سے پہلے پرندوں کی زندگی میں ترکِ مکانی کی تبدیلیوں کو بیان کیا‘بعد ازاں ابن مسکویہ نے اسے مزید ترقی دے کر اپنا مشہور تصورِ ارتقا پیش کیا۔ (۹) قرآنی تعلیم کے زیر اثر ابن خلدون نے اپنا نظریہ تاریخ پیش کیا جس کی رُو سے اس نے تاریخ کو زمان میں ایک مسلسل تخلیقی حرکت قرار دے کر زندگی کی دوری شکل اور جبریت کی تردید کی۔اس لحاظ سے اسے برگساں کا پیش رو خیال کرنا چاہیے۔ اس بحث کا خاتمہ علامہ اقبالؒ کے ان الفاظ سے کیا جاتا ہے: "The anti-classical spirit of the modern world has really arisen out of the revolt of Islam against Greek thought." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.142)