تذکار اقبال از منشی محمد الدین فوق مرتب محمد عبد اللہ قریشی اقبال اکادمی پاکستان فوق ابتدائیہ ’’ تذکار اقبال‘‘ منشی محمد الدین فوق مرحوم کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کے بارے میں اپنے اخباروں، اپنے رسالوں، اپنی کتابوں اور اپنی قلمی یاد داشتوں (سرگذشت فوق) میں1901ء سے لے کر 1943ء تک مختلف وقتوں میں لکھیں اور اپنی یادگار چھوڑیں۔ یوں ان کی زندگی کا کوئی لمحہ اقبال کے ذکر سے خالی نہیں گیا۔ فوق صاحب کا ارادہ حضرت علامہ کی مستقل اور مکمل سوانح عمری لکھنے کا بھی تھا، مگر ان کا یہ خواب پورا نہ ہوا۔ وہ صبح شباب سے لے کر شام پیری تک اپنی شاعری، اخبار نویسی اور تصنیف و تالیف میں اقبال کے متعلق اتنی قلمی یادگاریں چھوڑ گئے ہیں: کہ دنیا دیکھتی ہے اور ان کو یاد کرتی ہے میں پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ اقبال اور فوق دو دوست بلکہ قلبی دوست تھے۔ دونوں کے آباؤ اجداد خطہ جنت نظیر کے رہنے والے تھے۔ دونوں نے کشمیر سے ہجرت کر کے پہلے سیالکوٹ اور پھر لاہور میں اقامت اختیار کی۔ دونوں محبت کی ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ دونوں شاعری کے میدان میں فصیح الملک میرزا داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ دونوں رفیق ادبی، سماجی اور معاشرتی محفلوں میں ایک ساتھ شریک رہے۔ دونوں کی عمر اپنے وطن اور قوم کی خدمت اور فلاح کے لیے وقف رہی۔ دونوں نے لاہور کی خاک میں آسودۂ ہو کر جنت دیگر خریدی1؎ اسی ہم سفری، ہم قدمی اور ہم سخنی کی ایک یادگار کے طور پر میں نے یہ کتاب ترتیب دی ہے تاکہ اہل دل محبت کے ان نقوش کو کاغذ کے صفحات پر بھی یکجا دیکھ سکیں۔ آج کل بعض حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ علامہ اقبال کا سب سے پہلا سوانح نگار کون تھا اور اس باب میں کس کو اولیت کا فخر حاصل ہے؟ اس بحث کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو مگر ڈور سلجھ جائے گی اور اس کا سرا مل جائے گا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اور حقائق و شواہد اس کے گواہ ہیں، منشی محمد الدین فوق، مدیر ’’ اخبار کشمیری‘‘ لاہور سب سے پہلے صحافی اور مورخ ہیں جنہوں نے اقبال میں ترقی پسندی اور اقبال مندی کے جوہرد یکھ کر ان کے نام اور کام وک عالم آشکارا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مرتے دم تک اس کا حق ادا کیا۔ فوق صاحب اقبال کے ہم وطن بھی تھے، ان کے ہم سن دوست بھی اور ہم صفیر و ہمنوا بھی۔ انہوں نے 1897ء سے اقبال کے ساتھ لاہور کے مشاعروں میں شرکت شروع کی اور کشمیری مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی سال انجمن کشمیری مسلمانان میں شانہ بشانہ کام کیا۔ ڈاکٹر اقبال اس انجمن کے سیکرٹری اور فوق صاحب لاہور را بجان برابر خریدہ ایم جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم نائب سیکرٹری تھے۔ دونوں کی مساعی سے پنجاب میں آنے والے کشمیریوں کو پہلی دفعہ زرعی اراضی حاصل کرنے کے حقوق حاصل ہوئے اور فوج اور میں بھرتی ہو کر سپاہیانہ کارنامے دکھانے کے دروازے کھلے۔ فوق صاحب کے یہ اشعار اسی زمانے کی سرگرمیوں کی یادگار ہیں: ناقابل افواج ہیں اس قوم کے فرزند؟ جس قوم سے محمود کا بھاگا تھا رسالہ! کشمیر ہے اک شیر، مگر سویا ہو اہے جاگے گا تو مشکل سے وہ جائے گا سنبھالا جس دم وہ دہاڑے گا تو گونج اٹھے گی دنیا لرزے گی زمیں، ہوں گے سمندر تہ و بالا فوق صاحب کی خدمات کشمیر کے اعتراف میں اقبال انہیں ’’ مجدد کشامرہ‘‘ کہا کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے مزاج، عادات، مذاق اور خاندانی حالات سے بخوبی واقف تھے۔ دونوں نے اخلاص و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھا۔ دونوں میں بے تکلفی اتنی تھی کہ اگرچہ اقبال کا دروازہ کسی ملنے والے پر بند نہ تھا مگر یہ بات اقبال نے فوق صاحب کے سوا کسی دوسرے کو نہیں لکھی: بصحن گلشن ما صورت بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہر انتظار بیا اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ فوق صاحب نے اپنی خود نوشت سرگذشت1؎ کے صفحہ132پر لکھا ہے: 1؎ سرگذشت فوق ابھی طبع نہیں ہوئی۔ فوق صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی یہ سرگذشت میرے پاس موجود ہے۔ ’’ ڈاکٹر اقبال کے مختصر حالات ان کی چند غزلوں کے ہمراہ ان کی اجازت1؎ سے سب سے پہلے میں نے ’’ بہار گلشن‘‘ نام ایک مختصر سے مجموعہ اشعار میں چھاپے تھے۔ ان غزلوں میں سے ایک دو غزلوں کے سوا کوئی غزل بھی ان کے مجموعہ کلام میں نہیں ہے۔ یہ 1898ء کا ذکر ہے۔‘‘ اس زمانے میں اس قسم کے طرحی اور غیر طرحی غزلوں کے گلدستوں کا عام رواج تھا۔ فوق صاحب نے بھی 1898ء سے 1901ء تک تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد کوئی چھ کتابچے مرتب کر کے شائع کیے۔ اقبال کا کلام پر گلدستے میں شامل ہوتا تھا۔ یہی علیحدہ علیحدہ گلدستے بعد میں منشی رام اگروال پریس لاہور نے دو جلدوں میں ’’ گلشن نو بہار‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کئے۔ جلد دوم میں حصہ چہارم، پنجم اور ششم شامل ہیں اور اس کے صفحہ36پر اقبال کے مندرجہ ذیل مختصر حالات کے نیچے چار غزلیں درج ہیں: ’’ نام: شیخ محمد اقبال ایم اے‘‘ تخلص: اقبال وطن: سیالکوٹ ابھی بالکل نوجوان ہیں، عمر26سال کے قریب ہے۔ 1؎ اجازت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اقبال کو اپنے حالات زندگی کی تشہیر سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ اس معاملے میں کسی سے تعاون نہ کرتے تھے۔ ان کے نزدیک خیالات کے تدریجی انقلاب کے سوا ان کی زندگی میں کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں جو دوسروں کے لیے سبق آموز ہو سکے۔ عربی، فارسی، انگریزی میں مکمل استعداد رکھتے ہیں۔ ملکہ معظمہ کے انتقال پر ملال پر آپ نے جو ایک دلگداز نظم ’’ اشک خوں‘‘ لکھی ہے، گورنمنٹ پنجاب نے اپنے صرف سے اس کی کئی ہزار کاپیاں مختلف زبانوں میں چھپوائی ہیں۔ آپ فصیح الملک حضرت داغ سے اصلاح لیتے ہیں۔ انگریزی خیالات اردو شاعری میں بڑی خوبی سے ظاہر کرتے ہیں۔ آج کل قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور ہیں۔ چند سطور کے اس تعارف میں سوانح نگاری کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ ان حالات کے نیچے جو چار غزلیں ہیں، ان کے مطلعے اور مقطعے یہ ہیں۔ پوری غزلیں ’’ باقیات اقبال‘‘ کے صفحات 422, 421, 388اور441پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ پہلی غزل: تم آزماؤ ’’ہاں‘‘ کو زباں سے نکال کے یہ صدقے ہو گی میرے سوال ’’وصال‘‘ کے اقبال لکھنو سے، نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے اسی غزل میں وہ مشہور شعر بھی ہے جس پر مرزا ارشد گورگانی پھڑک اٹھے تھے اور انہوں نے بے ساختہ داد دیتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ میاں صاحبزادے! اس عمر میں یہ مضمون! اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘ شعر یہ ہے:ـ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے دوسری غزل: عبادت میں زاہد کو مسرور رہنا مجھے پی کے تھوڑی سی، مخمود رہنا وہ سو ناز اقبال پر کر رہے ہیں زمانے میں ہے ان کو مشہور رہنا تیسری غزل: تم نے آغاز محبت میں یہ سوچا ہو گا کس طرح کا یہ نیا چاہنے والا ہو گا تیرے اشعار میں اقبال یہ رنگت تو نہ تھی تو نے کم بخت کسی شوخ کو تاکا ہو گا چوتھی غزل: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی؟ مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا کوئی سحر تھا، تیری گفتار کیا تھی اس غزل کے سترہ اشعار میں سے چند’’ بانگ درا‘‘ میں رکھے گئے ہیں۔ باقی حذف کر دئیے گئے ہیں۔ ’’ بانگ درا‘‘ میں اقبال نے آخری مصرع کو یوں کر دیا ہے:’’ فسوں تھا کوئی، تیری گفتار کیا تھی۔‘‘ ’’ بہار گلشن‘‘ میں دئیے گئے حالات میں اگرچہ تاریخ ولادت کا ذکر نہیں مگر لکھتے وقت عمر26سال کے قریب بتائی گئی ہے۔ فوق صاحب نے اپنی تمام دوسری کتابوں میں جہاں بھی اقبال کا ذکر کیا ہے، ان کی تاریخ ولادت1875ء لکھی ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر کشمیر، تاریخ اقوام کشمیر (جلد اول و دوم( اور ماثر لاہور جو نقوش کے لاہور نمبر میں شائع ہو چکی ہے، ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ رسالہ 1901ء میں مرتب ہوا اور اسی سال شائع کیا گیا۔ دوسری بات جو میرے بیان کی تائید و تصدیق کرتی ہے، یہ ہے کہ اس رسالے میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر مرثیے کا ذکر ہے۔ یہ بالکل تازہ واقعہ تھا جو انہی دنوں وقوع پذیر ہوا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ نے 22جنوری1901ء کو انتقال کیا۔ اتفاق سے اس روز عید الفطر بھی تھی۔ اقبال نے اپنے مرثیے کے پہلے بند میں اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک شعر میں کہا ہے: آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آ گیا کل عید تھی تو آج محرم بھی آ گیا اس حوالے سے بھی یہ حالات1901ء کی تحریر ہیں اور اس صداقت کو جھٹلانا بڑا مشکل ہے۔ ان تمام قرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوق صاحب اپنے دعوے میں بالکل سچے ہیں کہ اقبال کے حالات سب سے پہلے انہوں نے لکھے اور اقبال کی اجازت سے لکھے۔ یہ دراصل حالات لکھنے کی ابتدا تھی۔ فوق صاحب نے اس سلسلے کو یہیں نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کو اور بڑھایا اور بڑھاتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے اقبال کی زندگی کا کوئی واقعہ ایسا نہیں چھوڑا جس کا ذکر انہوں نے اپنے اخبار، اپنے رسالوں اور اپنی کتابوں میں نہ کیا ہو۔ انہوں نے اس تواتر سے لکھا ہے کہ شاید ہی کوئی لکھ سکے۔ کسی پہلو کو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ انہوں نے جہاں کہیں اقبال کا تذکرہ کیا ہے، احترام کے پاکیزہ جذبات کے ساتھ کیا ہے، جس کے حرف حرف سے محبت کا آب حیات ٹپکتا ہے۔ انہوں نے اقبال کے خاندانی بزرگوں کی ٹوہ لگانے میں بھی محنت کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کشمیری برہمنوں کی سپرو گوت سے تعلق رکھتے تھے۔ جبھی تو اقبال کہتے ہیں: میں اصل کا خاص سوماتی آبا مرے لاتی و مناتی اور یہ کہ: میر و مرزا بہ سیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرم اسرار کجاست فوق صاحب کی ان منتشر تحریروں سے اقبال کی طالب علمی، ان کے لطائف و ظرائف، ان کے اقوال و ارشادات اور ان کے اخلاق و عادات کا بالکل ایک نیا مرقع تیار ہو سکتا ہے۔ اقبال کو فوق صاحب کے لکھے ہوئے حالات پر کامل اعتماد ہوتا تھا۔ اسی لیے جب کوئی ان سے حالات کا تقاضا کرتا تھا تو وہ فوق صاحب ہی کی طرف اشارہ کر دیتے یا ان کا حوالہ دے دیتے تھے۔ 1932ء میں مشاہیر کشمیر کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا اور اقبال کے حالات میں بھی اضافہ کیا گیا۔ انہی دنوں نیرنگ خیال کا اقبال نمبر شائع ہو رہا تھا۔ اقبال کے توجہ دلانے پر حکیم یوسف حسن نے فوق صاحب کے مضمون کو اولیت کا درجہ دیا اور یہ اولیت آج تک قائم ہے۔ اس امتیاز میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ اس بات کو جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’ زندہ رود‘‘ کی پہلی جلد کے پیش لفظ میں بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’ اقبال کے اپنے احباب میں سب سے پہلے ان کے حالات زندگی پر مضمون محمد دین فوق نے تحریر کیا۔‘‘ فوق صاحب اس کی ابتدا1901ء ہی میں کر چکے تھے۔ فوق صاحب اپنی 20جون 1940ء کی قلمی یادداشت میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے اقبال کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، وہ سب سطحی ہے۔ ابھی مجھے اور بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ ’’ حیات اقبال‘‘ لکھنے کا ارادہ تھا، لیکن یہ کام قدرت نے شاید کسی اور کے لیے ودیعت کر رکھا ہے۔‘‘ 1؎ ہمارے خیال میں تو یہ سعادت جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے حصے میں آ چکی ہے، جنہوں نے ’’ زندہ رود‘‘ کی تین جلدیں لکھ کر سوانح اقبال کا حق ادا کر دیا ہے۔ ’’ تذکار اقبال‘‘ کی طباعت و اشاعت کا اہتمام بزم اقبال نے کیا ہے، جس کے لیے ہم جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اعزازی سیکرٹری بزم اقبال کے سپاس گزار ہیں جن کی بدولت یہ بکھرے اوراق بھی محفوظ ہو گئے ہیں۔ محمد عبداللہ قریشی لاہور،20مئی1987ء 1؎ سرگذشت فوق، ص138 ٭٭٭ مقدمہ منشی محمد الدین فوق (شخصیت اور کردار) 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دلی کے آسمان ادب کے چند ٹوٹے ہوئے ستارے گردش روزگار کے ہاتھوں لاہور پہنچے۔ ان میں مولانا الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا فیض الحسن سہارنپوری اور مرزا ارشد گورگانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں نے دلی مرحوم کی یاد میں یہاں بھی شعر و سخن کی محفلیں جمائیں اور اس طرح سر زمین پنجاب کے لوگ ان ادبی روایات اور تہذیبی و ثقافتی قدروں سے پہلی مرتبہ واقف ہوئے جو اس سے پیشتر دہلی سے نکل کر اودھ، مرشد آباد، عظیم آباد (پٹنہ) اور حیدر آباد (دکن) میں اپنا گھر بنا چکی تھیں۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ پنجاب میں پہلی نسل کے لوگوں نے تو حالی، آزاد، فیض اور ارشد وغیرہ کو اردو بولتے ہوئے سنا اور دوسری پشت میں ہمارے ہاں جو لوگ پیدا ہوئے ان میں سر عبدالقادر، علامہ اقبال، خان احمد حسین خاں، مولوی ظفر علی خاں، چودھری خوشی محمد ناظر، میر غلام بھیک نیرنگ، میاں شاہ دین ہمایوں، مولوی محبوب عالم، مولوی انشاء اللہ خاں، مولوی محرم علی چشتی، پنڈت شیو نرائن شمیم اور منشی محمد الدین فوق وغیرہ کا نام سر فہرست ہے۔ یہ بزرگ اس وقت بھی کمال فن کے اعتبار سے خداوندان سخن تھے اور آج بھی اس میدان میں ان کا کوئی مد مقابل نظر نہیں آتا۔ مولانا ظفر الملک علوی مدیر ’’ الناظر‘‘ لکھنو، جو مئی یا جون1935ء میں لاہور آئے، پنجاب میں اردو کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اب سے پچیس تیس سال قبل منشی محمد الدین فوق اور میر غلام بھیک نیرنگ کے سوا شاید کوئی تیسرا پنجابی شاعر ایسا نہ تھا جس کا کلام زبان کی معمولی غلطیوں سے پاک اور جس کی انشاء صحیح اردو میں شمار ہونے کے لائق ہو۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب اس وقت اہل پنجاب میں شمار نہیں کیے جا سکتے تھے۔ مگر نئی نسل نے بہت سے ایسے اہل قلم پیدا کر دیے ہیں جن کی نظم و نثر اہل زبان کے معیار پر اگر نہیں تو زباں دانوں کے معیار پر ضرور پوری اترتی ہے اور آثار ظاہر بتاتے ہیں کہ ایسے اصحاب کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا۔‘‘ (نیرنگ خیال، لاہور، بابت اگست1935ئ) منشی محمد الدین فوق فروری 1877ء میں موضع کوٹلی پر نارائن (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے اور 14ستمبرسنہ 1945ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ انہوں نے ایک صحافی، ایک ادیب، ایک مورخ اور ایک شاعر کی حیثیت سے اردو زبان کی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے پیچھے اپنے اتنے کارنامے چھوڑ گئے ہیں کہ دنیا انہیں مدتوں نہیں بھلا سکتی۔ ان کی تصانیف کے انمٹ نقوش کو اگر نکھارنے اور اجالنے کا موقع ملتا رہا تو وہ ہمارے ادب کا نہایت قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گے اور منشی صاحب کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ منشی صاحب سے میرا خون کا کوئی رشتہ نہ تھا۔ محض دوستی تھی جس میں خود غرضی کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ ان سے میری پہلی ملاقات کو بھی ایک اتفاق ہی سمجھنا چاہیے۔ علامہ تاجور نجیب آبادی نے میسرز عطر چند کپور اینڈ سنز کے سرمائے کی مدد سے اردو مرکز کی بنیاد رکھ کر برصغیر کی مقتدر ادبی شخصیتوں اصغر گونڈوی، یاس عظیم آبادی، جگر مراد آبادی اور سیماب اکبر آبادی وغیرہ کو لاہور بلایا۔ اپریل 1926ء میں علامہ سیماب کے نامور شاگرد ساغر نظامی نے مجھے یہ مژدہ سنایا کہ دفتر پیمانہ آگرہ سے مستقلاً لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ چونکہ علامہ سیماب اور ساغر نظامی سے میرے نیاز مندانہ تعلقات تھے اس لیے ان کے لاہور آنے کی خبر میرے لیے مسرت انگیز تھی۔ ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے گیا۔ وہ یکی دروازے کے اندر ایک مکان میں اقامت گزیں تھے۔ یہ مکان اس حویلی کے بالکل قریب تھا جہاں سے کسی زمانے میں منشی پر سکھ رائے پنجاب کا سب سے پہلا ہفتہ وار اردو اخبار ’’ کوہ نور‘‘ شائع کیا کرتے تھے۔ وہاں سیماب، ساغر اور منظر صدیقی کے علاوہ ایک اور بزرگ تشریف فرما تھے۔ دہراجسم، میانہ قد، کھلتا ہوا رنگ، بھرا ہو اصحت مند اور با وقار چہرہ، موزوں ترشی ہوئی ڈاڑھی جس کے کالے بال کچھ کچھ بھیگ رہے تھے۔ سادہ لباس، سر پر ترکی ٹوپی، یہ ایسی شخصیت تھی جس نے مجھے غیر ارادی طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ تعارف کا مرحلہ آیا تو علامہ سیماب نے ان الفاظ میں ان کی جان پہچان کرائی۔ ’’ کیا آپ انہیں نہیں جانتے؟ یہ آپ کے لاہور کے مشہور اخبار نویس اور مورخ منشی محمد الدین فوق ہیں۔‘‘ یہ میری اور منشی صاحب کی پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد میں نے علامہ سیماب، ساغر نظامی اور منظر صدیقی کے اعزاز میں دعوت کی، جس میں چودھری خوشی محمد ناظر، پروفیسر تاثیر، پروفیسر محمد علم الدین سالک، حکیم یوسف حسن اور دیگر دوستوں کے علاوہ منشی محمد الدین فوق بھی شریک تھے۔ اس محفل میں مختلف موضوعات پر جی بھر کر باتیں ہوئیں۔ سب نے اپنا اپنا کلام سنایا اور پہلی ملاقات میں منشی محمد الدین فوق کے متعلق میرے دل میں جو تاثیر پیدا ہوا تھا وہ اور گہرا ہو گیا۔ اور یہی تعلق خاطر مجھے آہستہ آہستہ ان کے قریب لے گیا۔ منشی صاحب شیرانوالہ دروازہ کے باہر رہتے تھے۔ جب تک ’’ اخبار کشمیری‘‘ جاری رہا، نیچے دفتر میں بیٹھتے تھے۔ اس کے بعد مکان کی پہلی منزل میں اپنی نشست کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر لیا تھا جس کی بڑی بڑی الماریوں میں ہر قسم کی کتابیں بھری رہتی تھیں۔ ان میں ان کی اپنی مطبوعات بھی تھیں اور دوسری کتابیں بھی۔ منشی صاحب کو کتابیں جمع کرنے کا اتنا شوق تھا کہ لاہور کے تمام اخبار نویسوں میں مولوی محبوب عالم مدیر ’’ پیسہ اخبار‘‘ اور مولوی انشاء اللہ خاں مدیر’’ وطن‘‘ کے بعد آپ ہی کی ذاتی لائبریری قابل ذکر تھی جس میں ہر سال مزید کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ میرا معمول تھا کہ ہفتے میں ایک بار ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ پریشان و ملول جاتا تو ان کی صحبت سے ہشاش بشاش اٹھتا۔ جی گھبراتا تو وہاں جاتا اور ان کی پر لطف باتوں سے غم غلط ہو جاتا۔ خالی الذہن جاتا تو معلومات کے ایسے نادر و لطیف نکتوں سے پہرہ مند واپس آتا جو شاید مدتوں کے مطالعے یا مشاہدے سے حاصل نہ ہو سکتے۔ خوش ہوتا تو وہاں ضرور جاتا اور جب کہیں اور نہ جاتا ہوتا تب بھی وہاں جاتا۔ جب واپس آنے کی اجازت چاہتا تو اٹھنے نہ دیتے۔ چائے، شربت، ستو جو کچھ ہوتا اس سے تواضع کرتے اور اگر کسی وجہ سے میرے جانے میں ناغہ ہو جاتا تو دوسرے دن خود میرے ہاں تشریف لاتے اور نہ آنے کا سبب دریافت کرتے۔ ان کے اس معمول میں مرتے دم تک فرق نہ آیا۔ فوق صاحب کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے کشمیر کی محبت میری رگ رگ میں سما گئی اور میں دن رات کشمیر کے خواب دیکھنے لگا۔ میں ہر سال کشمیر جاتا۔ پروفیسر محمد علم الدین سالک اکثر میرے ساتھ ہوتے۔ کبھی وہ نہ جاتے اور میں اکیلا ہوتا تو فوق صاحب مجھے ہوٹل کا کھانا نہ کھانے دیتے اور گھرمیں جو کچھ پکتا وہ باصرار کھلاتے۔ کسی عزیز یا دوست کے ہاں دعوت ہوتی تو گھر کے فرد کی طرح مجھے شریک کرتے۔ گاؤں جاتے تو اپنے ہمراہ لے کر جاتے، انڈا، مرغی، سیب، ناشپاتی، بگو گوشہ، انار، بادام، اخروٹ وغیرہ جی بھر کے کھلاتے۔ پھلوں کے لیے تو ان کے چچا منشی غلام محمد خادم کا وسیع باغ موجود تھا۔ انڈے مرغی کا انتظام وہ یوں کرتے کہ لاہور سے اپنی روانگی کے تین ماہ قبل کسی عزیز کو لکھ دیتے کہ میرے نام کی ایک دو مرغیاں خرید کر انڈوں پر بٹھائیں اور بچے نکلوائیں۔ اس طرح جب وہ وہاں پہنچتے تو دس بیس مرغیاں تیار ملتیں اور گوشت کی حاجت نہ رہتی۔ یہ ان کی دور اندیشی اور کفایت شعاری کی ایک ادنیٰ مثال تھی۔ فوق صاحب اپنے گھر میں نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے زہن سہن کے طریقوں میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی زندگی باقاعدہ اور باوقار نظر آتی تھی۔ عام طور پر علی الصبح بیدار ہو جاتے تھے۔ صبح کی سیر کو جانا ان کی پختہ عادت تھی جسے انہوں نے مجبوری کے سوا کبھی ترک نہ کیا۔ لکھنے پڑھنے کے سلسلے میں بھی وہ کوئی خاص اہتمام نہ برتتے تھے۔ کبھی میز کرسی پر بیٹھ کر، کبھی چھوٹی سی پلنگڑی پر نیم دراز ہو کر اور کبھی تخت پوش یا زمین پر دری بچھا کر تصنیف و تالیف کا شغل جاری رکھتے تھے۔ البتہ ان کی ایک عادت قابل ذکر ہے کہ جب کوئی کتاب یا رسالہ پڑھتے تو یونہی سرسری طور پر پڑھ کر ایک طرف نہ رکھ دیتے بلکہ اس میں سے قابل استعمال مواد پر نشان کرتے جاتے تھے۔ کس موضوع پر کون سی چیز کہاں استعمال ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں ان کی نظر بہت گہری تھی۔ انہوں نے الگ الگ لفافے بنا رکھے تھے جن میں الگ الگ مضامین کے تراشے جمع کرتے رہتے تھے۔ پھر جب کوئی کتاب لکھتے تو ان تراشوں اور یادداشتوں کی وجہ سے حوالے تلاش کرنے میں انہیں کوئی دشواری نہ ہوتی۔ مہینوں کا کام دنوں میں ختم ہو جاتا۔ گھر والوں سے ان کا سلوک بہت مشفقانہ تھا۔ انہوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی کے مرنے کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری۔ پہلی دونوں بیویاں صاحب اولاد تھیں۔ تیسری سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سوتیلی اولاد ایک ایسا معاملہ تھا جسے گھریلو جھگڑوں کے لیے معقول وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ فوق صاحب کی زندگی میں یہ جھگڑے نہایت زور شور سے سر اٹھاتے تھے، لیکن ان کا ذہنی توازن ایسے حالات میں برقرار رہتا تھا اور وہ ہر ایک کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرتے تھے۔ فوق صاحب ہنگامہ خیزیوں سے الگ اپنے گوشہ عافیت میں رہ کر خاموش کام کرنے کے علاوہ خلوص و محبت، استقلال و ہمت، ظرافت و شوخی اور جذبہ ایثار و ذوق خدمت کی دولت سے مالا مال تھے: بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے ان کی بذلہ سنجی، حاضر جوابی، خوش اخلاقی، خوش مذاقی اور خواش مزاجی کی وجہ سے ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے میں ایک خاص لطف حاصل ہوتا تھا۔ یہ باتیں کچھ میرے ساتھ ہی خاص نہیں تھیں۔ ان کے تمام دوست اور ملنے والے ان کی شگفتہ مزاجی سے متمتع ہوتے تھے۔ وہ بچپن ہی سے ہنس مکھ تھے۔ ایسی بات بناتے اور اس قسم کے برجستہ فقرے چست کرتے تھے کہ بس مزا آ جاتا تھا ۔ اور خود سنایا کرتے تھے کہ جب وہ گھڑتل کا پرائمری سکول پاس کرنے کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قصبہ جامکے کے مڈل سکول میں داخل ہوئے تو بورڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے۔ بورڈروں کی زندگی عام طور پر شرارتوں سے بھری ہوتی ہے۔ دن رات دل لگی، تفریح اور ہنسی مذاق کے سینکڑوں پہلو نکلتے رہتے ہیں۔ لڑکے عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ استادوں سے دو دو ہاتھ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک رات بورڈنگ ہاؤس میں رہنے والے لڑکوں کو شرارت جو سوجھی تو انہوں نے ایک تماشا کیا۔ کوئی استاد بنا اور کوئی شاگرد۔ ایک لڑکے نے سبق سنانا شروع کیا اور غلط پڑھا۔ ماسٹر نے ٹوکا، اس نے پھر غلط پڑھا، استار نے بنچ پر کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد ایک طالب علم نے دوسرے طالب علم کو چھیڑا۔ اس نے ماسٹر سے شکایت کی۔ ماسٹر نے ایک کو جرمانہ کیا اور دوسرے کو رجسٹر سے نام خارج کرنے کی دھمکی دی۔ پھر ایک لڑکے نے بتایا کہ گھروں میں جا کر کس طرح جھوٹے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ جیب خرچ کے لیے کس طرح پیسے طلب کیے جاتے ہیں۔ کسی نے سیدھے سادے درویش صفت ہیڈ ماسٹر بابو گنڈا مل کی نقل اتار کر میز پر ٹانگیں پھیلائیں۔ کسی نے بورڈنگ کا نگران بن کر بورڈنگ کا معائنہ کیا اور لنگر کی روٹیاں دیکھیں۔ غرض کسی نے کوئی حرکت کی اور کسی نے کوئی۔ سب اپنے اپنے جوہر دکھاتے، ہنستے اور شور مچاتے رہے اور یہ بھول گئے کہ ان کا کوئی نگران ابھی ہے۔ ابھی یہ کھیل تماشا ہو ہی رہا تھا کہ کسی نے چغلی کھا کر بورڈنگ ہاؤس کے سپرنٹنڈنٹ حافظ اللہ بخش کو اطلاع دی۔ وہ فارسی کے استاد مولوی غلام محی الدین کو ہمراہ لے کر وہاں آ گئے۔ اب جس طرح ہوا کے آتے ہی مچھر غائب ہو جاتے ہیں، اسی طرح استادوں کی شکلیں دیکھتے ہی لڑکے تتر بتر ہو گئے۔ فوق صاحب سکول کی چھت پر جا بیٹھے۔ جو لڑکے قابو آ گئے ان کو پٹتے ہوئے دیکھتے رہے اور بغیر پٹے ہی کانپتے رہے۔ صبح ان کی بھی حاضری ہوئی۔ مولوی غلام محی الدین چھڑی لے کر اٹھے۔ فوق صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’ گو رات کو مار نہیں پڑی، لیکن خدا کی قسم مار کھانے والوں سے زیادہ نادم ہوں اور ان سے زیادہ درد محسوس کر کے روتا رہا ہوں‘‘ مولوی صاحب نے پھر پوچھا ’’جب مار نہیں پڑی تو رونا کس طرح آیا؟‘‘ کہا ’’ آپ ہی نے تو گلستان میں پڑھایا ہے:‘‘ بنی آدم اعضائے یک دیگر اند کہ در آفرینش ز یک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضوہا را نماند قرار مولوی صاحب اس جواب سے ہنس پڑے اور آپ کو سزا سے نجات مل گئی۔ سچ کہا مولانا حالی نے: بڑھاپے کی دانائی لے کر کوئی بدل دے وہ بچپن کی نادانیاں 1897ء کا ذکر ہے، فوق صاحب پیسہ اخبار کے دفتر میں ملازم تھے۔ تنخواہ اس وقت نو روپیہ ماہوار تھی۔ بعد میں تو انہوں نے اس سے کئی گناہ زیادہ مشاہرے پر خود ملازم رکھے اور لاہور اور کشمیر میں بہت سی جائیداد بھی پیدا کر لی۔ بہرحال جیسا کہ عام پرائیویٹ فرموں کا دستور ہے، آٹھویں دسویں دن پر ملازم کو دو روپے بطور خرچ مال کرتے تھے جو مہینے کے آخر میں تنخواہوں سے وضع ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ اکاؤنٹنٹ نے تمام ملازمین کے خرچ کی فہرست بنائی۔ اس میں فوق صاحب نے پانچ روپے اپنے نام لکھوائے حالانکہ جانتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ دو روپے ملیں گے۔ اکاؤنٹنٹ نے اعتراض کیا۔ فوق صاحب نے کہا آپ لکھ دیجئے۔ مینجر صاحب منظور نہ کریں گے تو نہ سہی۔ مولوی محبوب عالم کے چھوٹے بھائی عبدالعزیز مینجر تھے۔ ان کے پاس فہرست پیش ہوئی۔ وہ فوق صاحب کے نام پانچ روپے دیکھ کر چونک اٹھے۔ انہیں بلایا اور کہا’’ آپ اس سے پہلے تین روپے لے چکے ہیں اب یک مشت پانچ کس طرح مل سکتے ہیں؟ کیا کسی اور نے بھی پانچ روپے لکھوائے ہیں؟ اس وقت ایک روپے سے سے زیادہ نہیں ملے گا۔‘‘ فوق صاحب نے کہا، ’’ ایک روپیہ کیا، میں تو آٹھ آنے قبول کرنے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن خواہش صرف یہ ہے کہ ایک مرتبہ زندگی میں پانچ روپے اکٹھا دیکھ لوں۔‘‘ منشی عبدالعزیز صاحب ہنس پڑے اور ایک کی بجائے دو روپے دے دیے۔ اس واقعے سے بھی یہ پتہ چل سکتا ہے کہ ابتدا میں فوق صاحب کی مالی حالت کیا تھی اور کس طرح انہوں نے ترقی کی۔ لالہ دینا ناتھ حافظ آبادی، جو ہندو اخبار نویسوں میں بڑے کامیاب اخبار نویس اور جرنلسٹ تھے، ’’ پیسہ اخبار‘‘ کے دفتر میں فوق صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انہوں نے 1905ء میں اخبار’’ ہندوستان‘‘ جاری کیا جس سے ان کی بہت شہرت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ’’ ہمالہ‘‘ اور ’’ دیش‘‘ وغیرہ اخبار بھی نکالے۔ ایک روز فوق صاحب ان سے ملنے گئے۔ وہ ایک گول میز کے گرد چھ سات آدمیوں کے ساتھ بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ان میں دو وکیل بھی تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ فوق صاحب نے مزاج پرسی کے بعد پانی طلب کیا۔ لالہ دینا ناتھ نے کہا’’ پانی تو ہے مگر کتے کا جوٹھا ہے‘‘ فوق صاحب نے کہا’’ کوئی پرواہ نہیں تمہارا جوٹھا تو نہیں۔‘‘ لالہ دینا ناتھ نے جب فوق کو اس قسم کا جواب دیا تھا تو سب اہل مجلس حیران تھے کہ پانی کی طلب پر اس کو ایسے مذاق کی کیا سوجھی۔ لیکن جب فوق صاحب نے نہلے پر دہلا مارا تو سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور سمجھ گئے کہ ان دونوں میں بے تکلفی کی وجہ سے باہم مذاق ہے۔ لالہ دینا ناتھ بھی جو بڑے حاضر جواب تھے اس جواب پر نادم ہوئے اور انہوں نے فوق صاحب کے برجستہ اور لطیف فقرے کی داد دی۔ فوق صاحب سیر و سیاحت کے بڑے شوقین تھے۔ ان کی زندگی کا بہت بڑا حصہ سفر میں گزرا۔ کشمیر تو ان کا وطن ہی تھا۔ وہاں وہ ہر سال نہایت باقاعدگی سے جاتے اور کئی کئی مہینے وہاں رہتے۔ اس کے گوشے گوشے میں گھومتے، قابل دید مقامات کی سیر کرتے، لوگوں کے حالات دریافت کرتے اور اپنے تجربات و مشاہدات سے اخبار بیں حضرات کو فائدہ پہنچاتے۔ کشمیر کے علاوہ انہوں نے وسط ہند، راجپوتانہ اور کانگڑہ کی ریاستوں مثلاً سمتہرا، ناگور، میہر، ریوال، سکیت، منڈی وغیرہ۔ شملہ، لکھنو، دہلی، بھوپال، بنگال اور صوبہ سرحد کے بھی متعدد سفر کئے جس سے ان کے دوستوں کا حلقہ وسیع ہو گیا اور اخبار کو بھی فائدہ پہنچا۔ فوق صاحب بڑے محنتی تھے۔ شعر و شاعری کا شوق انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے پڑھائی کی طرف خیال بہت کم رہتا تھا۔ چنانچہ 1895ء میں مڈل کا امتحان دینے کے بعد جو اس وقت یونیورسٹی کا امتحان تھا، سیالکوٹ میں جا کر پٹوار کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ پھر وہاں سے کسی اور ملازمت کی توقع پر جموں کا رخ کیا اور کئی ماہ کی لگاتار کوششوں سے محکمہ پرمٹ و چونگی میں سردار پری سنگھ رئیس و ٹھیکیدار کے پاس ملازمت حاصل کی۔ یہاں قاضی فقیر علی عاقل کی ہم نشینی میسر آ جانے سے جموں میں چند دن خوب شعر و شاعری کے چرچے رہے۔ جب چونگی کا ٹھیکہ ٹوٹ گیا تو بے کاری کے چند ماہ گھڑ تل میں گزار کر 31جنوری1897ء کو اپنے بڑے بھائی کے پاس لاہور چلے آئے۔ یہاں ’’ پیسہ اخبار‘‘ کے دفتر میں ملازمت مل گئی جو چار سال تک رہی۔ اس عرصے میں اخبار نویسی کی مزید مشق کے لیے اخبار’’ بھارت سیوک‘‘ جالندھر کی نامہ نگاری بھی کرتے رہے اور ’’ اخبار عام‘‘ اور’’ خالصہ بہادر‘‘ میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ ان کے علاوہ ہر ہفتے مندرجہ ذیل چار اخبار خود مرتب کرتے رہے: 1’’ کوہ نور‘‘ جو پنجاب کا سب سے پہلا اردو ہفتہ وار اخبار تھا اور جس کے آخری ایڈیٹر فوق ہی تھے۔ 2’’ گلزار ہند‘‘ جو اگست1901ء میں جاری ہوا۔ 3’’ آفتاب پنجاب‘‘ جو1905ء یا1906ء میں بند ہوا۔ 4’’ بہاول گزٹ‘‘ جو منشی محمد جان قریشی نے عشرہ وار جاری کیا۔ اسی زمانے میں آپ نے ’’ شالا مار باغ کی سیر‘‘ ایک چھوٹی سی کتاب لکھی۔ اس سے حوصلہ اتنا بڑھا کہ کتابوں کی تصنیف و تالیف کا خیال دل میں چٹکیاں لینے لگا۔ چونکہ ان دنوں ناولوں کی گرم بازاری تھی، آپ نے بھی انارکلی، غم نصیب، عصمت آراء اور اکبر وغیرہ چند ناول لکھے جن سے شہرت پر لگا کر اڑنے لگی اور ان کی مالی حالت بھی اچھی ہو گئی۔ اکتوبر1901ء میں آپ نے ’’ پیسہ اخبار‘‘ کی ملازمت ترک کر کے نومبر میں اپنا اخبار اور پریس جاری کیا۔ا س اخبار کا نام ’’ پنجہ فولاد‘‘ تھا۔ پہلا پرچہ صرف پچیس تیس کی تعداد میں چھاپا گیا جس کا افتتاحیہ یہ تھا: ’’ خدا کے گھر پر سرکار کا قبضہ‘‘ مضمون اس شاہجہانی مسجد کے متعلق تھا جو دائی انگا کی مسجد کے نام سے مشہور ہے اور لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہونے کی وجہ سے اس وقت محکمہ ریل کے قبضے میں تھی۔ ریل والوں نے اس میں ٹریفک سپرنٹنڈنٹ کا دفتر قائم کر رکھا تھا۔ اخبار کے آزادانہ لب و لہجہ پر تمام اخبار نویس دنگ رہ گئے۔ آخر رفتہ رفتہ دیگر اخبارات بھی اس معاملے میں ہم نوا ہوئے اور لارڈ کرزن نے پبلک آواز سے متاثر ہو کر اس مسجد کو واگزار کر دیا۔ آج کل یہ مسجد آباد ہے اور اس پر محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ پنجہ فولاد کا مطبع، کاغذ اور لکھائی چھپائی وغیرہ سب ادھار تھے۔ گویا بغیر کسی سرمائے کے کام شروع کیا تھا۔ تقریباً نصف پرچے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو وی پی کئے گئے تھے، باقی لاہور میں تقسیم ہوئے تھے جن کی اس قدر دھوم مچی تھی کہ پرچہ دوبارہ چھاپنا پڑا تھا۔ پہلے پرچے کی قیمت وصول ہو جانے پر دوسرا پرچہ پچاس کی تعداد میں چھاپا گیا۔ اسی طرح دسمبر میں اس کی تعداد بڑھا کر سو کر دی گئی۔ ڈیڑھ ماہ تک یہ اخبار پنارہ روزہ رہا۔ جنوری 1902ء میں ہفتہ وار ہو گیا ۔ جولائی 1902ء میں اس کی اشاعت پانچ سو تک پہنچ گئی۔ 1904ء میں سات سو ہو گئی اور رفتہ رفتہ اس کی اشاعت اتنی بڑھی کہ دسمبر1905ء میں بارہ سو سے بھی بڑھ گئی۔ اتنی اشاعت اس زمانے میں بڑی کافی سمجھی جاتی تھی۔ کیونکہ اخبار بینی کا مذاق آج کل کی طرح اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ اخبار کی پالیسی صلح کل تھی۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ اسے احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اکثر والیان ریاست اور پولیٹیکل ایجنٹ اس کی سرپرستی کرتے تھے۔ خریداروں میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور عیسائی بھی موجود تھے۔ حضرت داغ دہلوی، احسان شاہجہان پوری اور علامہ اقبال نے اس کی تعریف میں نظمیں لکھیں ۔ لیکن افسوس کہ وسط ستمبر میں یہ اخبار ایک دوست نما دشمن کی مہربانی سے بند ہو گیا۔ فوق صاحب کا اپنا بیان ہے: ’’ ایک شخص جو بڑا چالاک اور گرگ باراں دیدہ تھا، چند دنوں کی آمد و رفت کے بعد میرا ہمدرد بن گیا۔ وہ ہر سیر و سیاحت اور سفر و حضر میں میرے ساتھ ہوتا تھا اور ایک معمولی سا برائے نام پندرہ روزہ اخبار نکال کر بہت فائدے میں رہتا تھا۔ میں نے اس کی ’’ ریش سفید‘‘ پر اعتبار کیا او ریہ نہ سمجھا کہ یہ محض ’’ ظلمت فریب‘‘ سے بھری ہے۔ میں اس کے چہرے کو ’’ صبح صادق‘سمجھتا رہا حالانکہ وہ محض ’’ مکر چاندنی‘‘ کا مظہر تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے اخبار پر ٹکٹیں لگانے کا کام اس کے سپرد کر دیا اور پھر اخبار شماری بھی اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دی۔ حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ ٹکٹیں وہ لگاتا اور اخبار کو گننے والا کوئی اور ہوتا جو دیکھتا کہ اس نے جتنی ٹکٹیں لی تھیں اتنی لگائی بھی ہیں یا نہیں۔ اس طریق سے وہ سفید ریش بزرگ سال بھر تک بیس روپے ماہوار کے ٹکٹ ہضم کرتا رہا، جس کا اثر اخبار پر اس قدر پڑا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے۔ اخبار میں نے مجبور ہو کر مطبع پنجہ فولاد اور اخبار ’’ پنجہ فولاد‘‘ دونوں بند کر دیے۔ اسی زمانے کا ایک شعر ہے:‘ ‘‘ اخبار بند ہونے سے کہتے ہیں نازنیں اے فوق اب وہ پنجہ فولاد کیا ہوا؟ 1903ء یا 1904ء میں لالہ منشی رام اگروال نے ایک اخبار بنام ’’ اردو اخبار‘‘ جاری کیا۔ جس کی ادارت فوق صاحب کے سپرد تھی۔ چنانچہ وہ پنجہ فولاد کے ساتھ اس اخبار کو بھی چار ماہ تک نہایت قابلیت سے چلاتے رہے۔ مگر بعد میں اپنے کاروباری مشاغل سے مجبور ہو کراس سے الگ ہو گئے۔ 1899ء میں میاں جان محمد گنائی نے ’’ کشمیری گذت‘‘ کے نام سے ایک ماہوار رسالہ جاری کیا جسے تین سال تک فوق صاحب مدیر اعزازی کی حیثیت سے مرتب کرتے رہے۔ آخری چودھری جان محمد گنائی کی وفات کے ساتھ اس رسالے کا تو خاتمہ ہو گیا، البتہ اس کی داغ بیل پر ایک اور رسالہ ’’ کشمیری مخزن‘‘ نکل آیا جس کے ایڈیٹر خواجہ کمال الدین بی اے، مسلم مشنری انگلستان اور اسسٹنٹ ایڈیٹر فوق صاحب تھے۔ یہ رسالہ 1905ء تک جاری رہا۔ اس کے بند ہوتے ہی 1906ء میں آپ نے ماہنامہ کشمیری میگزین جاری کیا جو غالباً پنجاب کا سب سے پہلا رسالہ ہے جس نے ہاف ٹون بلاک کی تصاویر چھاپنے کے علاوہ خاص نمبر نکالنے کی جدت شروع کی۔ چنانچہ اس کا ایڈیٹر نمبر جو اردو رسائل و جرائد کے ایڈیٹروں کے حالات زندگی سے متعلق شائع ہوا تھا، اب تک ایک یادگار تاریخی پرچہ تصور کیا جاتا ہے۔ 1912ء میں کشمیری میگزین نے ماہوار سے ہفتہ وار اخبار کشمیری کی شکل اختیار کی اور اپنی مفید اور کار آمد تحریروں سے اہل خطہ میں علم و عمل کی روح پھونکی۔ اس اخبار نے کشمیر میں بیگار کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور متواتر کئی سال پر زور مخالفت کر کے اس کی منسوخی کے احکام جاری کرائے۔ ریاست جموں و کشمیر میں محکمہ امداد باہمی کا قیام، زمیندارہ سوسائٹیوں کا اجرا اور قانون انتقال اراضی کا نفاذ بھی اسی اخبار کی تحریروں کا ثمرہ ہے۔ 1915ء میں جب سری نگر کی پتھر مسجد کے اندر تھانہ پولیس کے لیے پختہ عمارت بننے لگی تو اسی اخبار نے پبلک آواز پیدا کر کے اسے رکوایا۔ اب چند برس سے یہ مسجد مسلمانوں کو واپس مل چکی ہے۔ اسی اخبار کی کوششوں سے مسلمانوں کو حکومت کی طرف سے میڈیکل وظائف ملنے شروع ہوئے۔ کشمیر میں زبان اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی اس اخبار نے کچھ کم کام نہیں کیا۔ جب یہ جاری ہوا تو جتنے خطوط اس کے دفتر میں آتے تھے ان میں فی صدی پچاس خط عربی اور فارسی میں ہوتے تھے۔ اب ہر شخص اردو بولتا، سمجھتا اور لکھتا ہے۔ لاہور کی انجمن کشمیری مسلماناں، مسلم کشمیری کانفرنس اور بیرون جات کی کشمیری انجمنوں کا قیام بھی فوق صاحب ہی کی تحریکوں کا نتیجہ ہے۔ اور جس آنے والے دور کی مدھم اور دھندلی سی تصویر وہ آج سے پچاس ساٹھ سال پیشتر لوگوں کو اپنی نظم و نثر میں دکھایا کرتے تھے وہ اب بڑا صاف اور روشن نظر آ رہا ہے۔ اخبار کشمیری کے ساتھ ساتھ فوق صاحب نے یکے بعد دیگرے ’’ طریقت‘‘ اور’’ نظام‘‘ دو ماہانہ رسالے جاری کیے جو تین چار سال تصوف کی خدمت کر کے بند ہو گئے۔ فوق صاحب عملی سیاست میں عموماً حصہ نہیں لیتے تھے۔ لیکن قومی معاملات کے سلسلے میں ان کا احساس بہت گہرا تھا۔ وہ ان لوگوں میں تھے جو مسلمانوں کی زبوں حالی سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ بالخصوص کشمیری مسلمانوں کی پستی اور ڈوگرہ شاہی کی غلامی ان کے لیے سوہان روح تھی۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ اس لیے بھی انہیں کشمیر سے والہانہ عشق تھا۔ انہوں نے ساری عمر کشمیرا ور کشمیریوں کی خدمت کی۔ کشمیری تعلیم میں کورے، اخلاق میں پست اور تہذیب و تمدن میں دنیا کے لوگوں سے بہت پیچھے تھے۔ فوق صاحب نے انہیں تعلیم کا شوق دلایا۔ ان کو دنیا کی ترقیوں سے آگاہ کیا۔ا ن کی سوئی ہوئی قوتوں کو جگایا اور ان کو ترقی یافتہ قوموں کے برابر لا کھڑا کرنے میں اپنی زندگی وقف کر دی۔ فوق صاحب اعتدال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ انہوں نے تخریبی کاموں میں الجھنے کو کبھی پسند نہ کیا۔ اختلاف عقائد کی بنا پر کسی فرقے کو برا بھلا نہ کہا، تمام عمر تعمیری اسکیموں کو چلانے میں مشغول رہ کر اپنے آپ کو ایک ایسا ثالث بالخیر ثابت کیا جو حاکم و محکوم کو بہتر سے بہتر مشورہ دے سکتا تھا۔ ان کا منشا صرف یہ تھا کہ کشمیر میں واقفیت عامہ ترقی کرے۔ اہل خطہ روشن خیال ہو جائیں اور واقعات عالم پر ان کی نظریں وسیع ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ توقعات ان کی زندگی ہی میں پوری ہو گئیں اور کشمیر میں ایک وسیع ذہنی، سیاسی اور مجلسی انقلاب پیدا ہو گیا۔ فوق صاحب نے کشمیر کے متعلق بہت سی کتابیں لکھیں جن میں تاریخ کشمیر، مشاہیر کشمیر، خواتین کشمیر، راہنمائے کشمیر، حکایات کشمیر، شباب کشمیر، تاریخ اقوام کشمیر اور تاریخ بڈشاہی وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے سے انہوں نے کشمیر کے بھولے ہوئے افسانے نوجوانوں کو سنائے، کشمیریوں کے شاندار کارناموں سے قوم کو روشناس کیا اور کشمیر کا نام ساری دنیا میں روشن کر دیا۔ اس ادبی اور لٹریری کام کے علاوہ فوق صاحب نے کشمیری مزدوروں کو منظم کرنے اور ان کی پریشانیاں دور کرنے کے سلسلے میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ غالباً ان کی انہی بے لوث خدمات کا اثر تھا کہ علامہ اقبال انہیں مجدد کشامرہ کہا کرتے تھے۔ فوق صاحب کی دیانت فکر اور پابندی وضع کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اگر وہ کشمیر کے چکر سے نکل کر اپنے محدود دائرۂ عمل کو وسعت دیتے تو ہندوستان کے بہترین اخبار نویسوں اور مصنفوں کی صف میں شمار ہوتے۔ لیکن اس صورت میں وطنی تاریخ کی تدوین کا کام معرض التوا میں پڑ جاتا کیونکہ اس دائرے میں بھی ان کا نعم البدل دستیاب ہونا مشکل تھا۔ پھر بھی جب ہم ان کی تصانیف ’’ لاہور عہد مغلہ میں‘‘ ،’’ تذکرہ علمائے لاہور‘‘ یاد رفتگاں (تذکرہ صوفیائے لاہور) حیات داتا گنج بخشؒ، تاریخ سیالکوٹ، تذکرۃ الصالحین، مہاراجہ رنجیت سنگھ، شالا مار باغ، مآثر لاہور اور فاتح ملتان وغیرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ لاہور اور پنجاب کی تاریخ کے متعلق بھی ان کی معلومات بی وسیع تھی۔ تاریخ حریت اسلام، وجدانی نشتر اور تاریخ کا روشن پہلو بھی ان کی بڑی مقبول کتابیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فوق صاحب انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف نہ تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر اس کا اعتراف کرتے ہوئے خود ہی کہتے ہیں: انگلش زباں ہی سے جو نا آشنا تھے تم اے فوق! پھر ایڈیٹر اخبار کیوں ہوئے اور عربی، فارسی بھی بقدر ضرورت ہی جانتے تھے۔ لیکن تجربے اور مشق سے انہیں اخبار نویسی کا ڈھنگ خوب آتا تھا۔ معمولی معمولی واقعات میں انتہائی دلچسپی پیدا کر دینا ان کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھا۔ تاریخ کے خشک واقعات بھی آپ اس خوبی اور ایسے انداز سے لکھتے تھے کہ پڑھنے والا پہروں مزے لیتا رہتا تھا۔ اس لحاظ سے انہیں تاریخ اور صحافت کا مجمع البحرین کہا جاتا تھا۔ حضرت احسان شاہجہان پوری فرماتے ہیں: فوق کی مضموں نگاری میں کشش ہے حسن کی کود فدا ہونے کو آتی ہے خبر اخبار پر یہی وجہ ہے کہ آپ کا دفتر ہمیشہ اخبار نویسی سکھانے کا سکول بنا رہا ہے۔ یوں تو آپ کے پرتو فیض سے سینکڑوں ذرے آسمان ادب و صحافت پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے، لیکن مندرجہ ذیل نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں: 1چودھری رحمت علی بی اے جو بعد میں انگلستان چکے گئے اور جنہوں نے ’’ پاکستان‘‘ کا لفظ وضع کر کے یورپ میں ا س کی تشہیر کی۔ 2مولانا نازش بدایونی،3ملک مقبول احمد (جو بعد میں رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز صوبہ کشمیر ہو گئے)4 سید حبیب مالک اخبار سیاست لاہور 5 ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی جنہوں نے بعد میں اخبار پولیس ریویو جاری کیا اور آج کل انگلستان میں ہیں۔6میر نیاز کاشمیری 7مسٹر محمد حنیف خمار جو نیرنگ خیال، شاہکار لاہور اور اخبار ریاست دہلی کے بھی ایڈیٹر رہے۔ 8 ماسٹر محمد بخش مسلم بی اے 9رشید صحرائی 10بابو محمد الدین بی اے وغیرہ۔ فوق صاحب محض تخلص ہی کے گنہگار نہ تھے بلکہ فطری شاعر تھے اور غزل، نظم، قصیدہ، مرثیہ، رباعی وغیرہ تمام اصناف سخن پر حاوی تھے۔ ان کے کلام کے دو مجموعے ’’ کلام فوق‘‘ اور’’ نغمہ و گلزار‘‘ چھپ چکے ہیں۔ کلام فوق کے محاسن پر اکبر الہ آبادی کی اس رائے کے ہوتے ہوئے ایک لفظ کا اضافہ کرنا بھی مشکل ہے: ’’ کلام فوق بلاشبہ قابل داد ہے۔ جب خیالات اچھے ہوں تو کلام کیوں نہ اچھا ہو۔ کلام فوق میں فطری آرزوئیں بھی ہیں شوخی کا اظہار بھی ہے۔ قافیے برجستہ ہیں، بغیر تکلف کے کلام کا اکثر حصہ ہے، اور اثر پیدا کرنا ایسے ہی کلام کا کام ہے۔ بعض اشعار سے دلچسپ رندانہ رنگ قطرہ ہائے مے کی طرح ٹپک رہا ہے۔ کئی اشعار گنجینہ معانی ہیں۔ اخلاقی و ہمت افزا اشعار کی بھی کمی نہیں۔ بعض اشعار پر تو جی چاہتا ہے کہ داد دوں اور لوٹوں۔ بہت سے اشعار میرے حسب حال ہیں۔ نیچرل کیفیتوں کے اظہار اور کشمیر کے نظاروں میں خوب جوش دکھایا ہے۔ اور نظموں کے شان نزول نے تو آپ کی جدت آفرینی کا رتبہ بہت بلند کر دیا ہے۔‘‘ (نقوش، شخصیات نمبر، حصہ دوم ) ٭٭٭ دیوان عشق از محمد یوسف ٹینک فوق اور اقبال:ـ محمد الدین فوق نے اپنی خود نوشت سرگزشت میں اس شعر کا کئی بار استعمال کیا ہے: ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ با رسوا شدیم میں جب جب فوق اور اقبال کے ربط باہم پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ شعر ان کی اپنی روداد معلوم ہوتا ہے۔ اس تعلق کے کئی پہلو اور کئی شاخیں ہیں۔ لیکن بالآخر بہ پنج شاخا اس خوب صورت شاخ آہو میں ضم ہو کر نظروں کے سامنے ابھرتا ہے جس پر اس نوع کے عاشقان پاک طینت کا پر آشوب آشیانہ ہمیشہ بنتا آیا ہے۔ عشق کے اس ربط باہم کا مرکزی کردار ایک پری پیکر معشوقہ ہے جس کے متعلق عرفی نے کہا تھا ’’ صباحی دلکشا از خندہ حور‘‘ دونوں نے ایک کافر ادا حسینہ سے محبت کی اور محبت کی اسی شاہراہ پر دونوں ایک دوسرے کے ہم سفر بن گئے۔ لیکن ان کی محبت نے رقابت کا نہیں بلکہ رفاقت کا روپ اختیار کیا اور اس عشق کا جو نتیجہ نکلا اس کا ذکر کسی شاعر کے ان خوب صورت الفاظ میں ہی کیا جا سکتا ہے: تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کوئی ہوئی ساحر آنکھیں تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے ٭٭٭ ہم پہ مشترکہ ہیں احسان، غم الفت کے اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے، کیا پایا ہے جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں اس عشق کا مرکز وہی شوخ نازنین تھی جس نے بڑے بڑے شاعروں اور بادشاہوں کو تڑپایا ہے اور جس کا نام کشمیر ہے۔ اقبال اگرچہ اس ماہ وش کی محبت میں عمر بھی سرگرداں رہے لیکن بعد میں ان کے درد مہجوری نے حیرت اور مستی کے کچھ اور رنگ بدلے۔ مگر فوق عمر کی آخری سانس تک کشمیر، کشمیر پکارتے رہے اور فنا فی الکاشمیر ہو گئے۔ اس حد تک کہ خواجہ غلام نبی گلکار انور نے آج سے بارہ سال قبل مظفر آباد کے یوم فوق پر اس دل ناصبور کی پریشانی کا اندازہ کرتے ہوئے تجویز کیا تھا کہ جب حالات موافق ہوں تو فوق کے جسد خاکی کو لاہور کی تربت سے نکال کر کشمیر کے کسی چنار کی چھاؤں میں منتقل کر دیا جائے۔ اقبال اور فوق کا عشق ان کے بچپن میں شروع ہوا۔ انسٹا لجیا کی ایک تیز لہر کی صورت میں دونوں نے ہوش سنبھالا تو انہیں اپنے کشمیر کی یاد آئی۔ کشمیر کا یزداں شکار حسن انہیں برانگیختہ کرنے کے لیے کیا کم تھا کہ انہیں ایک اور سیل بے پناہ نے اپنی زد میں لے لیا۔ ان کا محبوب اغیار کے تلسط میں ہی نہیں، اس کے استبداد کے اندر تڑپ تڑپ کر بلک رہا تھا۔ اقبال پکار اٹھے: توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا اور فوق چلا اٹھے: بے یار و مددگار کی جو یار رہی ہے اس قوم کا اب کوئی نہیں پوچھنے والا اکسیر کو تقدیر نے گو خاک بنایا یہ خاک بنا دے گی کبھی جم کا پیالا فوق کے آبا افغانوں کے عہد میں پنجاب پہنچے اور فوق کی تحقیق کے مطابق اقبال کے اجداد بھی افغانوں کے عہد میں ہی کشمیر سے ترک وطن کر کے سیالکوٹ پہنچے۔ فوق کی تحقیق کے مطابق ان کے جد امجد علاقہ زینہ گیر میں علم دار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی کے ارشاد پر ہی آباد ہوئے اور ان کا تعلق حضرت شیخ سے اس قدر گہرا تھا کہ حضرت شیخ نے ان کے گاؤں کا نام شیو رکھا، جو اب ہر دو شیوہ کہلاتا ہے۔ فوق کے ساتھ ساتھ اقبال خود بھی اس بات کے راوی ہیں کہ اقبال کا خاندان بابا لولی حاجی سے شروع ہوتا ہے جو علمدار کشمیر کے خلیفہ چہارم بابا نصر الدین کے خلیفہ تھے۔ اس طرح سے فوق اور اقبال دونوں کا وجود معنوی تاریخ کشمیر کی اس مشترکہ شاخ نبات سے استوار ہوتا ہے اور ان کے دل میں محبت کا سوز علمدار کشمیر کی نے نوازی سے ابھرتا ہے۔ مجھے اس موقع پر کشمیر کی ایک لوک روایت، جسے بابا کمال نے اپنے ’’ ریشی نامہ‘‘ میں بھی درج کیا ہے، یاد آتی ہے۔ روایت کے مطابق میرزا حیدر کاشغری نے اپنے کشمیر آنے کا سبب اس بات کو بتایا کہ ایک دن خواب میں ایک بزرگ نے انہیں کہا کہ میرا ملک اس وقت بڑی بے چینی اور بیزاری کی حالت سے گزر رہا ہے۔ تم آ کر یہاں امن و امان قائم کرو۔ میرزا حیدر نے جب بزرگ سے نام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں شیخ نور الدین ہوں اور کشمیر میرا وطن ہے۔ اگر حضرت شیخ خواب میں میرزا حیدر جیسے بیگانے کو کشمیر آنے کی ترغیب دے سکتے ہیں تو خود اس خیابان کی مٹی سے کھلے ہوئے دو پھولوں میں کشمیریت کی مہک کیوں نہیں جگا سکتے۔ فوق صاحب فروری 1877ء میں سیالکوٹ کے نزدیک ایک گاؤں گھڑتل میں پیدا ہوئے اور علامہ اقبال نومبر1873ء میں سیالکوٹ کے قصبے میں پیدا ہوئے۔ اس بات کی شہادت موجود ہے کہ یہ دو کشمیری خاندان ان دونوں لڑکوں کے بچپن میں ہی ایک دوسرے سے آشنا تھے۔ چنانچہ فوق اور اقبال کا پہلا تعلق سیالکوٹ میں انجمن کشمیریاں کی تاسیس سے ہوتا ہے، جو بعد میں لاہور کی مشہور انجمن کشمیری مسلمانان میں ضم ہو گئی، جس کے علامہ اقبال جنرل سیکرٹری اور محمد الدین فوق جوائنٹ سیکرٹری رہے۔ اگرچہ فوق کے بیان کے مطابق اقبال عمر میں ان سے چار سال بڑے تھے لیکن دونوں کا رحجان طبعی شعر و سخن کی طرف بچپن سے ہی تھا چنانچہ جب دونوں پچھلی صدی کی آخری دہائی میں لاہور منتقل ہو گئے، تو یہ تعلق کچھ اور استوار ہونے لگا۔ دونوں نے اپنا کلام اصلاح کے لیے نواب مرزا داغ دہلوی کو بھیجنا شروع کیا اور دونوں داغ سے شرف تلمذپر فخر کرتے رہے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ فوق ’’ پیسہ اخبار‘‘ کی ادارت سے الگ ہو گئے اور انہوں نے 19001ء میں اپنا الگ اخبار’’ پنجہ فولاد‘‘ جاری کیا۔ پنجہ فولاد گویا کشمیریت کی منزل حاصل کرنے کے لیے فوق کے لانگ مارچ کی ابتدا تھی۔ چنانچہ د اغ کے علاوہ اس کا قطعہ تاریخ علامہ نے بھی لکھا۔ داغ کے قطعے کا پہلا شعر تھا: ہوا ہے پنجہ فولاد جاری خدیدارو نیا اخبار دیکھو اور بعد میں اقبال نے لکھا: پنجہ فولاد اک اخبار ہے جس سے سارا ہند واقف کار ہے ہے روش اس کی پسند خاص و عام واہ واہ کیا معتدل اخبار ہے رنگ آزادی ہے ہر مضمون میں سرو ہو کر بھی یہ میوہ دار ہے کون ہے اس بانکے پرچے کا مدیر بات یہ بھی قابل اظہار ہے نام ہے اس کا محمد دین فوق عمر چھوٹی ہے مگر ہشیار ہے پنجہ فولاد کے بعد فوق نے کشمیری گزٹ سے تعلق پیدا کیا اور اسی رسالے کے کھنڈرات پر 1906ء میں ’’ کشمیری میگزین‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جو1934ء تک پوری مستعدی اور جانفشانی سے کشمیریوں کا ترجمان بنا رہا۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں کشمیر سے متعلق جو قطعات ملتے ہیں، وہ فوق سے ان کے ربط سیالکوٹ و لاہور کے دوران ہی لکھے گئے: موتی عدن سے، لعل یمن سے ہوا ہے دور یا نافہ، غزال ختن سے ہوا ہے دور ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور شاید کسی ایسی ہی لطف صحبت کے بعد اقبال کا یہ قطعہ طلوع ہوا ہو گا: کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے اک لڑی میں آ کے گوہر مل گئے واہ واہ کیا محفل احباب ہے ہم وطن غربت میں آ کر مل گئے فوق نے ان دنوں اقبال کی ادبی سرگرمیوں کے کچھ دلچسپ گوشے بے نقاب کیے ہیں۔ اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ 1894ء یا 1895ء میں اقبال لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے۔ ان دنوں نواب غلام محبوب سبحانی رئیس اعظم لاہور کی سرپرستی میں مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اقبال بھی ان مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال جیسے نو آموز نے جب: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے جیسا شعر پڑھا تو مرزا ارشد گورگانی دہلوی جیسے کہنہ مشق چونک اٹھے۔ فوق نے ان مشاعروں میں پڑھے جانے والے اقبال کے کچھ اور شعروں کو محفوظ کر دیا ہے جو کہیں اور محفوظ نہ تھے۔ مثلاً انہی دنوں اقبال نے ایک دن یہ مقطع پڑھا: شعر اقبال کو آتا نہیں کہنا، لیکن تم جو کہتے ہو سخن ور تو سخن ور ہی سہی اس مشاعرے میں ایک بار مصرع طرح تھا: مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا اس پر اقبال نے ایک طویل غزل کہی جس کا مقطع تھا: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا یہاں نسیم سے منشی امیر حسن نسیم بھرت پوری اور تشنہ سے تشنہ بلند شہری کی طرف اشارہ مقصود ہے جو داغ کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ فوق نے اس طرح پر اپنے دو شعر بھی نقل کیے ہیں: حشر تک کیونکر نہ سینے میں خلش باقی رہے جب ترازو دل میں ہو کانٹا ترے پیکان کا صاحب خانہ بنا ہے دل میں گویا درد دل میزباں کی طرح یاں آیا قدم مہمان کا فوق کا کہنا ہے کہ اقبال کے کچھ مضامین کشمیری میگزین میں شائع ہوئے۔ چنانچہ بعد میں یہ مضامین بشیر احمد ڈار نے پاکستان اور جگن ناتھ آزاد نے ہندوستان میں شائع کیے۔ 1908ء میں جب علامہ اقبال ولایت سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے لوٹے تو مجان کشمیر میں پھر ایک نئی ہلچل مچ گئی اور1909ء میں مسلم کشمیری کانفرنس قائم کی گئی، جس کے اقبال جنرل سیکرٹری اور بعد میں نائب صدر اور صدر بن گئے۔ اس کے راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور اور گوجرانوالہ میں اجلاس ہوئے اور ڈھاکہ کے نواب سر سلیم اللہ خاں جو کشمیری نژاد تھے اور ا س پر فخر کرتے تھے، اس کانفرنس کے سرپرست مقرر ہوئے۔ کانفرنس کے سامنے کشمیر کی زبوں حالی کو دور کرنے کے علاوہ ہندوستان میں بسنے والے کشمیریوں کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا شامل تھا، جس میں اولین اہمیت دو باتوں کو حاصل تھی۔ ایک یہ کہ پنجاب میں کشمیری مسلمانوں کو حقوق اراضی عطا ہوں اور دوسرے یہ کہ ان پر فوجی ملازمت کے دروازے کھول دیے جائیں۔ اقبال نے اس سلسلے میں کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کام لیا، اس کا ماجرا اس خط سے معلوم ہو جاتا ہے جو خطوط اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی میں شامل ہے۔ خط یوں شروع ہوتا ہے: ’’ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی طرف سے پہلے بھی مسئلہ زمیندار کے متعلق ایک مطبوعہ چٹھی بعض قومی کمیٹیوں اور بزرگان قوم کی خدمت میں ارسال کئے جانے کے علاوہ کشمیری میگزین بابت مئی 1909ء میں شائع ہوئی ہے۔‘‘ اس کانفرنس اور ان کارروائیوں میں فوق کیا رول ادا کرتے ہیں، اس کا ماجرا نواب سلیم اللہ کے بہنوئی خان بہادر نواب خواجہ محمد اعظم رئیس ڈھاکہ کے اس خراج تحسین سے ظاہر ہوتا ہے جو ایک بھری مجلس میں انہوں نے فوق کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا: ’’ ہم کشمیر سے بہت دور تھے اور اہل کشمیر سے بے خبر۔ یہ صرف فوق کی ہستی ہے جس نے ہمیں اپنے قدیم وطن کی یاد دلائی اور نئے سرے سے کشمیری بنایا۔‘‘ (سرگزشت فوق: انصاف، راولپنڈی، قسط9) کشمیری مسلم کانفرنس کی سرگرمیاں تیز تر ہوتی گئیں اور آخر حکومت کو ان کے مطالبات مان لینے پڑے۔ لیکن کانفرنس پھر بھی سرگرم رہی اور اسی کے بطن سے اس کشمیر کمیٹی کا جنم ہوا جو کشمیر میں 1931ء کی تحریک آزادی شروع ہونے کے بعد بنی، جس کے صدر علامہ اقبال مقرر ہوئے اور جس کا تعلق آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ سے استوار ہوا۔ علامہ اقبال، فوق کے کشمیریات سے شغف کے زبردست قائل تھے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر کا اپنا واحد سفر بھی فوق کی بالواسطہ تحریک پر ہی کیا۔ فوق نے ’’ رہنمائے کشمیر‘‘ نام کا کتابچہ لکھا۔ اس میں انہوں نے کشمیر کے تاریخی کوائف، جغرافیائی محل وقوع، ثقافتی پس منظر اور قابل دید مقامات کو اس خوبی سے بیان کیا کہ علامہ اقبال کے دل میں کشمیر جانے کی آرزو بھڑک اٹھی۔ انہوں نے فوق کو لکھا: ’’ ڈیئر فوق!‘‘ ’’ السلام علیکم آپ کا خط ابھی ابھی ملا ہے۔ کشمیر اور اہل کشمیر پر مختلف مضامین لکھ کر آپ نے ان کے لٹریچر پر احسان کیا ہے۔ البتہ کشامرہ کی قبر پرستی ایک ایسا موضوع ہے، جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے، آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا۔ اس طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ رسالہ ’’ رہنمائے کشمیر‘‘ جو حال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے، نہایت مفید اور دلچسپ ہے۔ طرز بیان بھی دلکش ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ عام لوگوں کے لیے نہایت مفید ہو گا۔ افسوس ہے کہ میں آج تک کشمیر کی سیر نہیں کر سکا۔ امسال ممکن ہے کہ آپ کا رسالہ مجھے بھی ادھر کھینچ لے جائے۔‘‘ مخلص اقبال اقبال کو کشمیر کے ایک فرزند کی حیثیت سے پہلی بار روشناس کرانے کا سہرا بھی فوق کے ہی سر بندھتا ہے۔ فوق نے یہ کوشش شعوری طور پر کی ہے۔ چنانچہ تاریخ اقوام کشمیر، جو علامہ اقبال کی وفات کے پانچ سال بعد چھپی، میں فوق لکھتے ہیں کہ اقبال کے حالات میں جس قدر کتابیں یا مقالات اس سے قبل چھپے ہیں، کشمیر کا ان میں کوئی خاص ذکر نہ تھا اور نہ ان کے خاندانی حالات درج تھے۔ چنانچہ یہاں صرف ان کے وہی حالات زیر قلم لائے گئے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر کشمیر اور اہل کشمیر سے ہے۔ فوق، اقبال کے ہم وطن، ہم سایہ، ہم عمر اور ہم مشرب تھے اور ان سے زیادہ کام کرنے کے لیے کوئی اور شخص موزوں نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اقبال کا شجرہ نسب پہلی بار مرتب کیا جو اب کچھ بے احتیاط تذکرہ نگار فوق کے ذکر کے بغیر بڑی بڑی جگہوں پر مشتہر کرتے رہتے ہیں اور اپنا بول بالا کرتے ہیں۔ فوق نے اقبال کا سنہ ولادت 1873ء بتایا اور پاکستان کی سرکاری مہر1877ء کے سنہ پر پڑنے کے باوجود بھی اب فوق کا بیان کردہ نہ ولادت ہی سمتند تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ اقبال اور فوق کے ذاتی تعلقات بھی بڑے قریبی تھے، اور جو بات اقبال کسی اور سے کہتے ہوئے ہچکچاتے تھے، اسے فوق کے سامنے بڑی بے تکلفی سے بیان کر دیتے تھے۔ حضرت مہجوری کاشمیری فوق کے بڑے قریبی دوست تھے۔ چنانچہ ان کے فرزند نے ایک گفتگو روایت کی ہے جو مہجور اور فوق کی صحبت میں اس نے سنی۔ فوق صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ جب اقبال کا جوانی کا زمانہ تھا، مجھے حضرت علامہ نے بلا بھیجا۔ میں دوڑا دوڑا ان کے پاس گیا تو اقبال کو کسی قدر فکر مند پایا۔ میں نے فکر مندی کی وجہ پوچھی تو بولے کہ ہیرا منڈی کی ایک مغینہ، جس کے پر سوز گانے سن کر میں بے حد لطف اندوز ہوا، آج کل التفات نہیں کر رہی ہے۔ اب اس کا دماغ ٹھیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اس کی ہجو لکھو جو اس کو کسی طرح سے بھیج دی جائے گی۔ میں تم کو یہ زحمت اس لیے دے رہا ہوں کہ خود ہجو نہیں لکھتا۔ فوق کا بیان ہے کہ میں نے ارشاد کی تعمیل کرنا مان لیا۔ لیکن اچھی ہجو لکھنے میں دو تین دن صرف ہو گئے۔ لیکن جب ہجو مکمل ہو گئی تو میں اقبال کے پاس گیا، تو وہاں یہ دیکھ کر کچھ مایوس سا ہو گیا کہ انہوں نے اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ آخر میرا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور میں نے عرض کی کہ میں ہجو لکھ کر لایا ہوں۔ اقبال نے ایک پر لطف تبسم کر کے فرمایا۔۔۔۔’’ اب اس کی ضرورت نہیں اس کا دماغ ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘ فوق صاحب نے ایک اور واقعے کی روایت کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیریت کس طرح اقبال کی رگوں میں تھی۔ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے بیٹے شیخ اعجاز احمد کی شادی کا معاملہ تھا جس نے فوق کو بلا کر کہا کہ آپ کسی کشمیری خاندان کی لڑکی کا سراغ لگائیے۔ اسی کے ساتھ شادی ہو گی۔ فوق کا بیان ہے کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو چھیڑنے کی غرض سے کہا کہ اس میں تخصیص کیا ہے؟ تو بولے کہ پنجابی مسلمان ہم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، لہٰذا ہمیں رشتہ داری کے لیے اپنی برادری کا انتخاب ہی کرنا پڑتا ہے۔ اقبال اور فوق کا ذکر جب بھی آئے گا، کشمیر کے توسط سے آئے گا۔ دونوں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ دونوں لاہور کی سر زمین میں خوابیدہ ہیں۔ اقبال دنیائے ادب کے درخشاں ستارے ہیں لیکن جہاں تک کشمیر اور کشمیریات کے مطالعے کا تعلق ہے، انہوں نے تحریری طور پر فوق کی فوقیت کو تسلیم کیا ہے۔ فوق کو یاد کر کے ہم اقبال کی یاد کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اس عشق بلا خیز کا بھی جس نے ان دونوں رہروان محبت کو ناصبور اور بے قرار کر رکھا تھا۔ میرا بس چلے تو میں اقبال کے اس شعر میں تحریف کر کے ان مجنوں و فرہاد کو مخاطب کروں: گیسوائے کشمیر ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے (فوق نمبر،’’ شیرازہ‘‘ سرینگر کشمیر) ٭٭٭ (1) ڈاکٹرشیخ سر محمد اقبال علامہ اقبال اپنے 22جولائی سنہ 1915ء کے ایک خط میں منشی محمد الدین فوق کو تحریر فرماتے ہیں: ڈیئر فوق! آپ آج کل لاہور میں ہیں یا امیر اکدل (سرینگر کشمیر) میں؟ ایک دفعہ آپ نے کشمیری میگزین میں میرے حالات شائع کئے تھے۔ اگر اس نمبر کی کوئی کاپی آپ کے پاس رہ گئی ہو تو ارسال فرمائیں۔ پھر واپس کر دی جائے گی۔ اگر آپ کے پاس نہ ہو تو کہیں سے منگوا دیجئے۔ خیال ہے کہ فوق صاحب نے اس خط کی تعمیل کر دی ہو گی۔ یہ حالات اپریل 1909ء کے کشمیری میگزین میں باتصویر شائع ہوئے تھے۔ جناب بشیر احمد ڈار مرحوم نے اس کی نقل اپنی کتاب ’’ انوار اقبال‘‘ میں دے دی ہے، جو اس کتاب کے صفحات89-87پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کشمیری میگزین ختم ہو گیا تو فوق صاحب نے یہی حالات ایک آدھ لفظ کی کمی بیشی سے اپنی کتاب ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ حصہ اول میں شائع کر کے محفوظ کر دیے۔ یہ کتاب جون 1911ء مطابق جمادی الثانی 1329ھ موافق سمت1968بکرمی میں اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوئی تھی۔ اقبال کے حالات اس کتاب کے صفحہ127سے 136تک موجود ہیں۔ اقبال کی عمر اس وقت37سال اور تاریخ ولادت 1875ء بتائی گئی ہے۔ بیس سال بعد ان حالات میں مزید اضافہ ہوا۔ اس وقت اقبال کی عمر 56برس تھی۔ اب یہ مکمل صورت میں مشاہیر کشمیر مطبوعہ1932ء کا حصہ ہیں۔ انہی دنوں نیرنگ خیال کا اقبال نمبر، اقبال کی زندگی میں شائع ہوا۔ حکیم یوسف حسن مرحوم نے یہی اوراق اقبال نمبر کے شروع میں شائع کر دیے۔ اس کے بعد کی تمام سوانح عمریوں کا ماخذ یہی حالات ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ (محمد عبداللہ قریشی) خاندان کا مشرف بہ اسلام ہونا: شیخ صاحب کو کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے جس کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں موجود ہے۔ شیخ صاحب کے جد اعلیٰ قریباً سوا دو سو سال ہوئے کہ مسلمان ہو گئے تھے۔ گوت ان کی ’’ سپرو‘‘ ہے۔ ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا او روہ حسن عقیدت اس وقت تک اس خاندان میں موجود ہے۔ ولادت اور تعلیمی زندگی: آپ 1875ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر پورے 56سال کی ہے۔ ابتدا میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح کچھ دنوں آپ نے بھی مکتب کی ہوا کھائی۔ پھر مدرسے میں داخل ہوئے اور پانچویں جماعت کا امتحان وظیفہ لے کر پاس کیا۔ مڈل کے درجوں میں بھی نہ صرف تعریف کے ساتھ کامیاب ہوتے رہے بلکہ مڈل کے آخری درجے میں بھی وظیفہ حاصل کیا۔ اس کے بعد باب العلم شروع ہوتا ہے، یعنی انٹرنس کلاس، جو کالج کا دروازہ ہے، دروازے کو کھولنا ہمت و استقلال اور فتح و شکست کے بہترین آثار کا ایک عمدہ نمونہ ہے، اور خوشی کی بات ہے کہ اقبال بھی جب کالج کا دروازہ کھول کر کالج کے مدارج میں داخل ہوئے یعنی جب انہوں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا، تو پرائمری اور مڈل کی طرح یہاں بھی سرکاری وظیفہ لے کر کامیاب ہوئے۔ آپ کی طبیعت ابتدا ہی میں ذکاوت و ذہانت کا ایک نمونہ تھی۔ جب آپ ایف اے (سکاچ مشن کالج سیالکوٹ) میں داخل ہوئے تو مولانا سید میر حسن1؎ جیسے قابل سخن شناس، عالم متبحر اور استاد شفیق کی توجہ خاص اور فیاض صحبت و تربیت نے ان جوہروں کو جلا دینے میں جو قدرت نے آپ کی طبیعت میں امانت رکھے تھے، کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ سیالکوٹ کالج سے فارغ ہو کر آپ لاہور گورنمنٹ کالج کی بی اے کلاس میں داخل ہوئے۔ طبیعت چونکہ فلسفیانہ پائی تھی اس لیے بی اے کے امتحان میں فلسفے کا مضمون لے کر نہ صرف پاس ہی ہوئے بلکہ انگریزی اور عربی میں با تعریف کامیاب رہنے کے لئے دو طلائی تمغے اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ انہی دنوں مسٹر ڈبلیو آرنلڈ صاحب علی گڑھ کالج سے گورنمنٹ کالج میں چلے آئے تھے۔ فلسفہ دانی میں آرنلڈ صاحب کی شہرت عالمگیر ہے۔ اس شہرت نے اقبال کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا۔ آرنلڈ صاحب بھی اس ہونہار طالب علم کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو گئے اور اقبال کو شاگردی کے مراتب سے گزار کر رفتہ رفتہ دوستی کے اعزاز تک پہنچا دیا۔ آرنلڈ صاحب اقبال کی تحقیقات علمی اور اس کی فلسفیانہ طبیعت کے متعلق ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد، استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔ غرض یونیورسٹی کی آخری تعلیم (امتحان ایم اے) کا مرحلہ بھی طے کیا اور تمام پنجاب میں فسٹ (اول) رہنے کی وجہ سے ایک تمغہ بھی حاصل کیا۔ 1؎ شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب1935ء میں انتقال فرما گئے۔ سلسلہ ملازمت: ایم اے پاس ہونے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاست مدن کے مضامین پر آپ لیکچر دینے کے لیے مقرر کئے گئے۔ پھر گورنمنٹ کالج میں فلسفہ اور انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ افسران کالج اور عہدہ داران تعلیم کی رائے ان کی خدمات اور ان کی لیاقت علمی کے متعلق بہت اچھی ہے۔ علمی مشاغل آپ کی زندگی کا جزو ضروری ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اکثر طالب علموں کو آپ اپنے مکان پر بھی اوقات کالج کے بعد پڑھایا کرتے تھے۔ جب تک آپ طالب علم رہے نیک، سعادت مند اور ذہین و محنتی رہے۔ اور جب استاد کی حیثیت میں آئے تو ایک شفیق اور بے تکلف اور مہربان استاد ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں سیاست مدن پر ایک کتاب اردو زبان میں بنام ’’علم الاقتصاد‘‘ لکھی جو اپنے فن کی ایک بیش قیمت اور جامع کتاب ہے۔ سفر ولایتـ: تحقیقات علمی کا شوق جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا علاج یہاں بھی کثرت مطالعہ کے ذریعہ ہوتا رہا۔ لیکن: مریض علم پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی آخر فلسفہ قانون اور تحقیقات علم کے لیے انہوں نے ولایت کا سفر اختیار کیا اور محض علم اور صرف علم کی خاطر ہی نہ صرف وطن سے، دوست و احباب سے بلکہ والدین، بال بچوں اور دیگر اعزہ سے ہزار ہا میل کی مفارقت اختیار کی۔ اور دنوں اور مہینوں کے لیے نہیں بلکہ کامل دو سال تک وہاں رہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے بذریعہ تحقیقات علمی فلسفہ، اخلاق کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ پھر جرمنی کی میونک یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی فسٹ کلاس ڈگری ایک کتاب بنام فلسفہ ایران لکھنے سے حاصل کی۔ یہ کتاب جو لندن میں شائع ہو چکی ہے، انگریزی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ولایت کے بڑے بڑے اہل الراؤں نے انگلستان کے مشہور پرچوں میں اس پر نہایت عمدہ ریویز لکھے۔ فضلائے یورپ نے اس کتاب کو نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے افسوس ہے کہ ایسی لاجواب تصنیف ہنوز اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہوئی۔ جرمنی سے واپس آنے کے بعد لندن کے سکول آف پولیٹیکل سائنس میں داخل ہوئے اور وہاں کے پروفیسروں اور عالموں اور بڑے بڑے سائنس دانوں اور انگلستان کے دیگر فضلا، حکما، علما اور مدبرین سے استفادہ کیا اور بیرسٹری کا امتحان بھی کامیابی کے ساتھ پاس کیا۔ انگلینڈ میں بطور لیکچرار و پروفیسر: بہت کم لوگ ایسے ہیں جو تحریر و تقریر اور نظم و نثر میں یکساں روانی اور یکساں قابلیت رکھتے ہیں۔ اور ایسے صاحب کمال لوگوں میں جو دونوں اوصاف سے متصف ہوں، ہمارے اقبال بھی امتیاز خاص رکھتے ہیں۔ دوران قیام انگلینڈ میں باوجود کثرت مشاغل ’’ اسلام‘‘ پر چھ پبلک لیکچر دیے جو نہایت مقبول ہوئے۔ اور جس سے آپ کی مذہبی تحقیقات کی بھی دھوم مچ گئی۔ تین ماہ تک لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ1؎ صاحب کے قائم مقام کی حیثیت میں آپ عربی پروفیسر بھی رہے۔ 1؎ افسوس ہے، آرنلڈ صاحب جون1930ء کو بمقام لندن انتقال کر گئے۔ ولایت سے واپسی: صرف32-33سال کی عمر میں اتنے علمی اعزاز، اس قدر ڈگریاں اور فارسی، عربی، سنسکرت کے علاوہ یورپ کی کئی زبانوں میں ماہر ہونا اور مقبولیت اور شہرت حاصل کرنا معمولی دماغ اور تربیت کا کام نہیں ہے۔ اقبال کی عزت جو عالم متبحر ہونے کی حیثیت سے آج کل ہندوستان اور یورپ میں ہے، وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہے۔ آخر آپ ولایت سے واپس وطن کو روانہ ہوئے اور بمبئی، دہلی، انبالہ ٹھہرتے اور اپنے دوستوں سے ملتے ہوئے 27جولائی1908ء کو بروز پیر شام کی گاڑی میں لاہور تشریف لائے، جہاں ان کے احباب اور دیگر بزرگان لاہور بلاتخصیص مذہب ان کے خیر مقدم کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے۔ شام کو ان کے اعزاز میں ایک پارٹی منعقد ہوئی، جہاں اکثر احباب نے نظمیں بھی پڑھیں۔ ایک دن کے قیام کے بعد آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے جہاں آپ نے ایک لیکچر بھی دیا۔ اہل اللہ سے ارادت: انگریزی تعلیم نے نوجوانان ملک و قوم کے عام (بالخصوص مذہبی) خیالات کو نقصان عظیم پہنچایا ہے۔ یہ ایک حد تک بالکل درست ہے۔ لیکن جب غور کیا جائے گا تو معلوم ہو گا: مے کہ بدنام کند اہل خرد را غلط است بلکہ مے میشود از صحبت نادان بدنام در حقیقت یہ ہمارا اپنا قصور ہے۔ ہماری تعلیم و تربیت اگر اچھے پیمانے پر ہو، صحبت نیک ہو، مذہبی تعلیم سے اچھی واقفیت ہو تو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی کسی کو صراط مستقیم سے گمراہ نہیں کر سکتا۔ آج کل مشائخ اور علمائے کرام کی طرف سے جو بدگمانی بلکہ نفرت سی تعلیم یافتہ گروہ میں پھیل رہی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن اقبال اور اس کا خاندان اس کا زندہ نمونہ موجود ہے کہ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت بھی اور واقعیت بھی ہو تو مشائخ و اولیاء سے حسن عقیدت کے اثر کو انگریزی اعلیٰ تعلیم، سائنس اور فلسفہ اور ممالک یورپ کی سیر و سیاحت اور نئی روشنی اور تہذیب بھی زائل نہیں کر سکتی۔ چنانچہ آپ ولایت جاتے ہوئے بھی بمقام دہلی آستانہ حضرت محبوب الٰہی پر حاضر ہوئے۔ وہاں ایک خالص صوفیانہ نظم بھی پڑھی اور واپسی کے وقت بھی، جبکہ علاوہ علمی قابلیتوں کے اضافے کے آزادی یورپ کی ہوا بھی کھا چکے تھے، درگاہ حضرت نظام الدین اولیا (محبوب الٰہی) پر بصد عجز سر تسلیم و نیاز خم کیا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بزرگ صحیح معنوں میں صوفی ہو، دوکاندار نہ ہو: زر کیا کہ سر بھی دے دیں مریدان باصفا علم و عمل کا وصف کسی پیر میں بھی ہو اعجاز بیاں شاعر کب پیدا ہوتے ہیں: مغرب1؎ کے نقادان سخن کہتے ہیں کہ زمانہ اپنی رفتار کے مطابق شاعر پیدا کرتا رہتا ہے اور ہر شاعر اپنے زمانے کے حالات کا ایک مجسمہ ہوتا ہے۔ شاعری کی تاریخ اس دعوے کا ایک بین ثبوت پیش کرتی ہے اور اقوام عالم کے مختلف زمانوں کی حالت اس کی 1؎ از مضمون فلسفہ اقبال، اکرام الحق صاحب سلیم بی اے صداقت کی ایک مکمل دلیل ہے۔ جب کسی قوم میں شجاعت اور جواں مردی کا جوہر کمال پر ہوتا ہے، اس کے افراد میدان کار زار کو عیش و نشاط کا ایوان خیال کرتے ہیں۔ شمشیر کی عریانی ہلال عید کی تابانی کا لطف پیدا کرتی ہے، تو شاعر نعرۂ جنگ بلند کرتا ہے اور قتل و غارت کا طبل بجاتا ہوا اٹھتا ہے۔ وہ گوہر افشاں نہیں، شرر ریز ہوتا ہے۔ اس کے منہ سے پھول نہیں جھڑتے، انگارے برستے ہیں۔ اس کے اشعار خنجر براں سے تیز تر ہوتے ہیں۔ اس کی شعلہ بیانی میں ایک داستان شجاعت پنہاں ہوتی ہے جو ملکوں اور قوموں کو زیر و زبر کر دیتی ہے۔ اس نوع کے شاعر از منہ تاریک میں سینکڑوں کی تعداد میں پیدا ہوئے ہیں۔ سپارٹا کی فتوحات کا باعث ایک نحیف البدن شاعر تھا جسے یونانیوں نے فوجی خدمت کے ناقابل سمجھ رکھا تھا۔ عرب کا نابینا شاعر قیس اعشیٰ، قبیلوں کی قسمت کا مالک سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اس کا ایک شعر ہنگامہ قتال کی آتش افروزی کے لیے کافی تھا۔ قوم کی ہستی میں ایک اور دور آتا ہے جب قوم حکمران ہوتی ہے۔ اس وقت جدوجہد زندگانی اور مقابلے کا فقدان قوائے حیات میں اضمحلال اور سکون پیدا کرتاہے اور ابتدائی ذوق نشوونما مسلک قناعت سے مبتذل ہو جاتاہے۔ شاعر ایک بے قاعدہ ہستی ہوتی ہے جو ارباب دولت اور ثروت کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرتی رہتی ہے۔ صنف شاعری میں قصائد اور غزل کو فروغ ہوتا ہے۔ مگر اول الذکر کو کسی صاحب اقبال کی تعریف و توصیف اور موخر الذکر کو حسن و عشق کے چرچے کی قدر ہوتی ہے۔ حقیقتاً شاعری میں ایک تنزل شروع ہو جاتا ہے جس کی ابتدا قوم کے آفتاب ترقی کے زوال کے ساتھ ہی ہونے لگتی ہے۔ اس حالت سے گزرنے پر ایک تیسرا دور آتا ہے جب قوم کی حالت ایک عبرت انگیز انجام کو پہنچ چکتی ہے۔ اسے اپنی پستی اور تنزل کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ غیر ٹھوکریں مارتے ہیں، ظلم کرتے ہیں، ان کا حق دبا بیٹھتے ہیں، مگر افراد قوم کچھ ایسے قعر مذلت میں گرے ہوتے ہیں کہ چپکے سے بے شرمی کی باتیں سہے جاتے ہیں اور اپنے انحطاط کو انتہائی تہذیب اور اپنی بے غیرتی کو قناعت اور صبر کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں۔ اس وقت نظام طبعی کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے قدرت کروٹ بدلتی ہے اور اس زمین شور سے ایسے ایسے پیغمبران سخن اٹھاتی ہے جو اپنی اعجاز بیانیوں سے نیم مردہ قوم کے یخ بستہ جذبات کو سخن کی آگ سے گرما دیتے ہیں اور ملت کی مردہ رگوں میں خون زندگی کی ایک لہر دوڑا دیتے ہیں۔ قوم کو اسلاف کے کارناموں کی خبر دے کر یقین دلاتے ہیں کہ اس قوم میں اب تک بھی ترقی کے اجزا موجود ہیں: تو از دمید گل و لالہ نا امید مشو کہ شاخ زندگی ما ہنوز نم ناک است اقبال کی ابتدائی شاعری: اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا اور شاعری کی ابتدا بھی وہیں سے ہوئی تھی۔ لیکن طبع خدا داد کے شاعرانہ جوہر گورنمنٹ کالج لاہور آ کر ظاہر ہوئے۔ علم کی روشنی اور لاہور کی سوسائٹی نے طبیعت کو وہ جلا دی کہ ذرہ آفتاب بن کر چمکا اور ایسا چمکا کہ ایک عالم کو طرز جدید کی شاعری سے منور کر گیا۔ آپ کی شاعری کا چرچا ابتدا میں ہم جماعت طلبا تک ہی محدود تھا۔ فروری1896ء میں جبکہ آپ بی اے میں پڑھا کرتے تھے، آپ کی شاعری کی دھوم طلبا اور خاص خاص احباب کے حلقے سے نکل کر اپنی برادری یعنی اہل خطہ کی مجلس میں پہنچی، جس کے دور ایک جلسوں میں آپ نے چند ایک نظمیں اور چند رباعیاں پڑھیں۔ ایک رباعی ذیل میں درج کی جاتی ہے: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر اسی زمانے میں لاہور کے مشاعروں میں بھی شامل ہوتے رہے۔ مرزا داغ مرحوم سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ ایک طویل غزل میں جو رسالہ ’’ شور محشر‘‘ میں چھپی تھی، آپ شاگردی داغ کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں کا ابتدائی کلام میں زیادہ تر غزلیں ہی ملتی ہیں اور چونکہ آپ نے اپنے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ میں پرانے کلام اور خصوصاً غزلوں کو بہت کم جگہ دی ہے، اس لیے وہ بھی نایاب ہیں۔ سب سے پہلے مشاعرے میں آپ نے جو غزل پڑھی اس کا مقطع یہ ہے: اقبال لکھنو سے، نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے اور حق یہ ہے کہ آپ نے دلی اور لکھنو کی قید سے آزاد ہو کر اپنے لیے ایک الگ دنیائے شاعری پیدا کی ہے۔ اور آج تمام ہندوستان میں ہر شاعر اپنی شاعری کو آپ ہی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے۔ بیس بائیس سال کی عمر تھی جب آپ نے یہ غزل پڑھی تھی۔ جب اس شعر تک پہنچے: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے تو مرزا ارشد گورگانی مرحوم بے اختیار واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ اٹھے اور بولے:’’ میاں اقبال اس عمر میں اور یہ شعر!‘‘ یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے بامذاق اور سخن فہم لوگوں کو اس نوجوان اور ہونہار شاعر سے شناسائی ہوئی۔ جو شاعر ملکوں اور قوموں کو بیدار کرنے اور نفس و حیات کا اعادہ کرنے کے لیے آتے ہیں، وہ زیادہ دیر تک غزلوں اور محض عشقیہ غزلوں کی دلدل میں نہیں رہ سکتے۔ آخر اقبال بھی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ 1899ء میں آپ نے ’’ نالہ یتیم‘‘ کے نام سے انجمن حیات اسلام لاہور کے جلسے میں جو نظم نہایت وسوز و گداز سے پڑھی، اس نے آپ کی شاعرانہ و علمی شہرت کو ہندوستان و پنجاب کی ہر علمی سوسائٹی تک پہنچا دیا۔ا س کے بعد انجمن کے ہرسالانہ جلسے میں نظم اقبال ایک ضروری جزو ہو گئی۔ اس معجز نما شاعر نے چاروں طرف نگاہ دوڑا کر ملت کی پر درد اور عبرت انگیز تباہی کو دیکھا اور قوم کے جمود و سکون کو دور کرنے کے لیے انجمن حمایت اسلام کے جلسے کا پلیٹ فارم پسند کیا، جہاں اس کے پر درد نغمے اور دلگداز نعرے خون کے آنسو رلاتے تھے۔ اور ملک کی حالت پر نوحہ خوانی کرنے کے لیے ’’ مخزن‘‘ کے صفحات پر کلیجہ نکال کے رکھ دیا۔ اور ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ اور’’ ہمالہ‘‘ اور’’ نیا شوالہ‘‘ کے نام سے وہ نظمیں لکھیں کہ ہر اہل دل، ہر اہل علم اور بلا تخصیص مذہب و ملت ہر شخص کی زبان پر اقبال ہی اقبال تھا۔ اقبال کی وطن پرور شاعری: علامہ اقبال نے وطنیت کے جذبات سے لبریز نظم ’’ ہمالہ‘‘ کے نام سے دنیا میں پیش کی۔ یہ پہلا ہی شعر ہے اور کس محبت اور جوش و جذبہ کا اظہار کرتا ہے: اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں زیب دیتا ہے تجھے کہیے اگر سارا جہاں یہ نظم ایک وطن پرست انسان کے مردہ حسیات کو زندہ کرنے کے لیے برقی رو کا کام دیتی ہے۔ اس نظم میں ہمارا شاعر کس بے تکلفانہ انداز میں ہمالہ سے خطاب کرتا ہے: اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا اقبال نے وطنی اتحاد اور قومی مواخاۃ پیدا کرنے کے لیے کئی نظمیں لکھیں۔ خصوصاً قیام یورپ کے ایام میں وطن کی زبوں حالی سے بہت متاثر تھے۔ فرماتے ہیں: میر عرب کی آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے پھر’’ ہندوستان ہمارا‘‘ میں لکھتے ہیں: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا اقبال کی شاعری اسلامی رنگ میں: 1910ء و1911ء کی تاریخ نے مسلمانان عالم کے لیے کربلائے جدید کا ایک نیا باب کھولا۔ بلقان کی جنگ اور طرابلس الغرب کی لڑائیاں مسلمانوں کا خون نچوڑ رہی تھیں۔ خلافت اسلامیہ کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے کو اور اسلام کا سیاسی اقتدار مٹنے کو تھا۔ ہمارے قومی شاعر کے دل میں بھی جذبات موجزن تھے۔ اس عالم مصیبت پر کون سا مسلمان نہ تڑپ اٹھا ہو گا۔ پھر ہمارا شاعر اس تیر کی زد سے کس طرح بچ سکتا تھا۔ نظمیں لکھیں اور پڑھیں۔ محفلوں میں شور و شین بپا کر دیا۔ مجلسیں صف ماتم بن گئیں۔ خصوصاً6اکتوبر1911ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں ’’ خون شہداء کی نذر‘‘ کے عنوان سے جو نظم آپ نے پڑھی، اس نے ایک قیامت بپا کر دی۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو آنسوؤں سے لبریز نہ تھی اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو تڑپ نہ اٹھا تھا۔ مسلمان، اسلام اور اسلامی ممالک کو خطرے میں دیکھ کر سہمے ہوئے تھے۔ اقبال بھی انہی میں تھے۔ اور شاعر چونکہ فطرۃ ذکی الحسن ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اس عالمگیر اسلامی مصیبت کو سب سے زیادہ محسوس کیا۔ اب وہ ’’ وطن‘‘ کو ایک ’’ بت‘‘ کہتے تھے اور ان کے نزدیک’’ فرد‘‘ کا وجود ایک عالمگیر’’ ملت‘‘ میں مدغم ہونے کے لیے تھا۔ اب وہ ’’ ترانہ ہندی‘‘ کی بجائے ’’ ترانہ ملی‘‘ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں: چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا اور وطنیت کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:ـ مسلم ہے اگر تو تو ’’وطن‘‘ سے کیا کام؟ کچھ شک نہیں کہ اقبال کی شعلہ نوائی سے یہ آگ دنیائے اسلام کے گوشے گوشے تک پہنچ گئی لیکن وطن پرستوں کو ان سے شکوہ پیدا ہوا۔ اور اس کا اظہارجس نظم1؎ میں کیا گیا، اس کے چند شعر ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا، حجازی بن بیٹھا اپنی محفل کا رند پرانا آج نمازی بن بیٹھا محمل میں چھپا ہے قیس حزیں دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں پیغام جنوں جو لایا تھا اقبال وہ اب دنیا میں نہیں 1؎ مصنف پنڈت انند نرائن صاحب ملا ایم اے ایل ایل بی اے مطرب تیرے ترانوں میں اگلی سی اب وہ بات نہیں وہ تازگی تخئیل نہیں، بے ساختگی جذبات نہیں علامہ اقبال کے کلام کی شہرت اور اس پر تضمینیں: علامہ ممدوح کا کلام اپنی سحر طرازی اور سوز و گداز کی وجہ سے شہرت کے پر لگا کر اڑ رہا تھا اور ہمالہ کی فلک پیما چوٹیوں کو عبور کر کے ہندوستان سے باہر بھی اپنی قبولیت کی فضا پیدا کر رہا تھا۔ مئی 1924ء میں جبکہ شاہ امان اللہ خان اپنی حکومت کے انتہائی عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے، ڈاکٹر اقبال کا کلام کابل کی ایک عظیم الشان مجلس میں پڑھا گیا، جس میں شاہ ممدوح، سفرائے دول خارجہ، عمائدین شہر اور وزیر تعلیم ا ور دوسرے وزراء بھی شامل تھے۔ یہ جلسہ طلبا کے تقسیم انعامات کا تھا۔ اس میں ہمارے ملک الشعرائے ہند کا مشہور قومی ترانہ ’’ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ بچوں نے اپنے پیارے اور سادے لہجے میں سنایا۔ پھر جب فوجی باجے نے اسے دہرایا تو حاضرین پر رقت طاری ہو گئی۔ جس طرح ہندوستان کی ہر قومی و ملکی محفل میں ’’ ہندوستاں کے ہم ہیں ہندوستان ہمارا‘‘ کا ترانہ پڑھا جات اہے، اسی طرح ہندوستان کی ہر اسلامی مجلس میں ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ ایک جزو لاینفک ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے یہ دونوں ترانے بے حد مقبول ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کی کئی اور اردو فارسی نظموں پر بھی شاعروں نے تضمینیں لکھی ہیں بلکہ اسلامی ترانہ کا ترجمہ عربی کی نظم میں بھی ہو گیا ہے۔ آغا شاعر قزلباش دہلی کے ایک نامور شاعر ہیں۔ وہ مہاراجہ جھالراپٹن (آنجہانی) کے مصاحب بھی اور درباری شاعر بھی تھے۔ 1926ء یا1927ء میں وہ کلکتہ کے گرانڈ ہوٹل میں مقیم تھے، جہاں امریکن سیاحوں کی ایک پارٹی بھی قیام پذیر تھی۔ ان میں اور ایک سیاح میں کچھ بات چیت ہوتی ہے۔ا مریکن سیاح ان سے پوچھتا ہے ’’ آپ کون ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ آغا شاعر جواب دیتے ہیں ’’ میں ایک مہاراجہ کا مصاحب اور اس کا ایک مشہور شاعر ہوں۔‘‘ امریکن سیاح کہتا ہے ’’ تو کیا آپ اقبال ہیں؟ مسٹر اقبال‘‘ آغا صاحب لکھتے ہیں ’’ یہ سنتے ہی میں متحیر ہو گیا اور مجھے ڈاکٹر اقبال کی اس عظیم الشان مقبولیت اور لافانی شخصیت کا دل سے اعتراف کرنا پڑا۔‘‘ کوئی دن اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا جب ہمارے اس مشہور عالم مگر گوشہ نشین شاعر کے پاس اقطاع ہند کے سیاحوں کے علاوہ فرانس، جرمن، ٹرکی، انگلینڈ، بخارا، افغانستان، ایران، امریکہ اور دیگر ممالک کے اہل علم ملاقات کے لیے نہ آتے ہوں۔ اقبال شعرائے ہند کی نظروں میں: اقبال کی الہامیہ شاعری کی قبولیت عامہ کا یہ عالم ہے کہ اس کی زندگی ہی میں اس کے سوانح حیات انگریزی اور اردو میں لکھے گئے۔ اس کے کلام پر بڑے بڑے اہل علم و اہل دماغ اصحاب نے تبصرے کئے۔ اس کی حیات افروز نظموں کی وجہ سے اس کی شان میں اس کے ہم عصر شعرا نے قصائد لکھے اور واقعات و حقائق کا پہلو لیے ہوئے لکھے۔ مولانا غلام قادر گرامی نے، جو عہد حاضرہ کے نامور فارسی شاعر گزرے ہیں، اقبال کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے، لیکن ایک شعر میں تو کمال ہی کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں: در دیدۂ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت ان کے ایک ہم وطن فگار صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں: از خمستان کہن جام شراب آوردہ ای نغمہ داؤد از تار رباب آوردہ ای اے حکیم روح ملت از دوائے فلسفہ دین ابراہیم را عہد شباب آوردہ ای از رموز بیخودی سر خودی کردی عیاں از سراب اے بو الحکم دریائے آب آوردہ ای مولانا گرامی کی معنی اس نظروں میں اقبال کی جو وقعت ہے، وہ ان اشعار سے بھی معلوم ہو سکتی ہیـ: درس ماضی از کتاب حال گیر ساغر از خم خانہ اقبال گیر از نوایش بزم یورپ در خروش حکمت امریکہ اور را سفتہ گوش نالہ ہائے آتشین آں حکیم سوخت رخت فتنہ امید و بیم ساخت بادلہا و بودش ہیچ نیست سوخت دلہا را و دودش ہیچ نیست سید بشیر احمد صاحب اخگر جالندھری ’’ اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں لکھتے ہیں: تیری ہستی کیا ہے؟ پیغام بقا میرے لیے تیرے ’’اسرار خودی‘‘ ہمت فزا میرے لیے ہیں ’’رموز بے خودی‘‘ عقدہ کشا میرے لیے راہبر سی بن گئی ’’بانگ درا‘‘ میرے لیے روح غالب درد میر، اقبال! تیرے دل میں ہے حسن لیلائے سخن پنہاں اسی محمل میں ہے فارسی کا ایک قطعہ مشہور ہے: در شعر سہ تن پیمبرانند ہر چند کہ لانبی بعدی ابیات قصیدہ و غزل را فردوسی و انوری و سعدی یہ تو اصناف شاعری کی تحسین کا انداز تھا۔ مولانا حامد حسن قادری نے خصائص و محاسن شاعری میں جن تین اردو شاعروں کا انتخاب کیا ہے، اس کا انداز مدح و بیان بھی قابل تعریف ہے۔ میر و غالب کے کمالات شعر کو کس خوبی سے اقبال کی ذات میں دکھاتے ہیں: تین شاعر مختلف اوقات میں پیدا ہوئے جن کے فیض طبع نے اردو کو گنج زر دیا ایک اثر میں بڑھ گیا، ایک رفعت تخیل میں تیسرے کی ذات میں دونوں کو حق نے بھر دیا کائنات شعر میں ہیں بس یہی دونوں کمال تیسرے میں اس لیے دونوں کو یک جا کر دیا خان اصغر حسین خان صاحب نظیر لدھیانوی فارسی اور اردو دونوں زبانوں کی شاعری پر عبور کامل رکھتے ہیں، بلکہ فارسی میں ان کا درجہ اردو سے بھی زیادہ بلند ہے۔ وہ اقبال کے متعلق اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں: جان و دل را از نوائے خود گداز آشیاں در گلشن اقبال ساز آں چمن آرائے اسرار و رموز آسماں پیرائے اسرار و رموز خیمہ زن در وادی طورش کلیم شعر او تفسیر قرآن حکیم حاصل خم خانہ ہا زیر برش مے بہ تاک اندر نہاں در ساغرش در تن ماگر رواں بینی ازوست آنچہ در ہندوستان بینی ازوست گرامی مرحوم اپنے مرض الموت میں بھی (26مئی 1927ء کو) علامہ اقبال کو اکثر یاد کرتے رہے۔ آخری لمحوں میں یہ شعر ان کی زبان پر تھا: صبا بہ حضرت اقبال ایں پیامم دہ کہ رفت جان گرامی و تو ہنوز خموش ہمارے قومی شاعر کو ’’ سر‘‘ کا خطاب: 1901ء میں جبکہ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر ڈاکٹر اقبال نے ایک درد انگیز ترکیب بند لکھا، تو سرکاری حلقوں میں اقبال کی شاعر نے ایک دھوم مچا دی۔ پھر انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں جب سر میگورتھ ینگ اس زمانے کے لاٹ صاحب تشریف لائے تو اقبال نے ان کی شان اور علم کی تعریف میں ایک قطعہ لکھا۔ یہ غالباً1903ء کا ذکر ہے۔ یورپ کے جنگ عظیم میں آپ نے ایک نظم لکھی۔ یہ نظم گورنمنٹ پنجاب کے سرکاری اخبار ’’ حق‘‘ میں چھپی اور اپنی طرز خاص کے لحاظ سے سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ لیکن گورنمنٹ زیادہ تر اقبال کے علم و فضل اور اس کی قدر و قیمت سے اس وقت واقف ہوئی جب ان کی فارسی تصانیف (اسرار خودی اور رموز بیخودی) نے یورپ کے اخبارات اور اہل علم طبقے میں جگہ پیدا کر لی۔ ان دونوں مثنویوں کے ترجمے یورپ کی کئی ایک زبانوں میں ہو ئے۔ اور جب جب اہل مغرب نے مشرق کے ایک شاعر کا فلسفہ، حیات ایک نئی زبان اور نئے انداز میں دیکھا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکل گیا: آتشے از سینہ اہل عجم افروختی در فضائے غرب سیل اضطرب آوردہ ای چنانچہ۔۔۔۔۔ آپ کو نائٹ (سر) کا عظیم القدر خطاب ملا۔ یہ خطاب ایک ایسے شاعر کو ملا تھا جس نے کبھی خطابات اور ہوس چاہ کی خواہش نہ کی تھی، بلکہ جو ہمیشہ آزادی و حریت کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ اس لیے اس پر اخبارات اور شعرا نے بہت کچھ طبع آزمائیاں کیں۔ ایک نظم کے تین شعر یہاں بھی درج کئے جاتے ہیں: او مدرسہ علم ہوا قصر حکومت افسوس کہ علامہ سے ’’سر‘‘ ہو گئے اقبال پہلے تو سر ملت بیضا کے تھے وہ تاج اب اور سنو ’’تاج‘‘ کے سر ہو گئے اقبال کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال لیکن آپ کی اس عزت افزائی پر جو عظیم الشان پارٹی مقبرۂ جہانگیر میں لاہور کے سکھوں، مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرف سے آپ کو دی گئی، اور جس میں نہ صرف لاہور کے معززین بلکہ پنجاب کے مختلف شہروں کے اکابر اور اہل علم شریک تھے، اور اکثر انگریز حکام اور لیڈروں کے علاوہ خود گورنر پنجاب بھی مدعو تھے، وہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک نے ایک شاعر کی عزت کو کس وقعت و فخر کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس پارٹی میں ڈاکٹر صاحب نے انگریزی زبان میں ایک دلچسپ تقریر کی اور اسی تقریر سے پہلی مرتبہ لوگوں کے کان آپ کی مشہور تصنیف ’’ پیام مشرق‘‘ سے آشنا ہوئے، جو آپ جرمن شاعر گوئٹے کے جواب میں تصنیف کر رہے تھے۔ علامہ اقبال کا سفر میسور، مدراس و حیدر آباد دکن: دسمبر1928ء کے آخری ایام میں چند لیکچر دینے کے لیے سر اقبال کو مدراس میں مدعو کیا گیا۔ تین دن آپ وہاں رہے۔ مختلف افراد اور انجمنوں نے ایڈریس اور دعوتیں دیں۔ مدراس، بنگلور، میسور کے قریباً ہر انگریزی و رنیکلر اخبار نے آپ کے فوٹوز شائع کیے۔ اخبارات کے نمائندوں اور مذہب و فلسفہ کے بڑے بڑے عالموں نے آپ سے مذہب و فلسفہ اور سیاسیات پر گفتگو کی۔ مدراس میں انجمن ترقی اردو کے علاوہ ہندی پرچار سبھا اور جنوبی ہند کے برہمن عالموں نے آپ کو سپاس نامے پیش کیے۔ 9جنوری1929ء کو جب ڈاکٹر صاحب بنگلور کے سٹیشن پر پہنچے تو ہزار ہا آدمی شمالی ہند کے اس نامور عالم کو دیکھنے کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے۔ یہاں آپ کو مسلم لائبریری کی طرف سے جس جلسے میں ایڈریس دیا گیا، اس کے صدر امین الملک دیوان مرزا اسماعیل چیف منسٹر میسور تھے۔ طالب علموں اور تعلیم یافتہ لوگوں نے آپ کے خیالات سے مستفیض ہونے کے لیے جس جلسے کا اہتمام کیا، اس کے صدر ڈاکٹر سبرائن ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات میسور تھے۔ مہاراجہ میسور کا دعوت نامہ آپ کو بنگلور ہی میں مل چکا تھا، اس لیے 10جنوری کو آپ گورنمنٹ کے مہمان خانے میں فروکش ہونے کے لیے میسور روانہ ہوئے۔ خاص شہر میسور میں میسور یونیورسٹی نے آپ کے لیکچر کا انتظام کیا۔ دوسرے دن ٹاؤں ہال میں مسلمانان میسور نے اپنا ایڈریس پیش کیا جہاں ہندو بھی مدعو کئے گئے تھے۔ میسور یونیورسٹی کے فلسفے کے پروفیسر نے جو غیر مسلم تھے، اپنی تقریر میں کہا۔ ڈاکٹر اقبال کو مسلمان ہزار اپنا کہیں، مگر وہ ہم سب کے ہیں۔ کسی ایک مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں۔ اگر مسلمانوں کو یہ ناز ہے کہ اقبال ان کا ہم مذہب ہے تو ہم ہندوستانیوں کو یہ فخر کم نہیں ہے کہ اقبال ہندوستانی ہے ’’ میسور، بنگلور، سری رنگ پٹن اور دوسرے مقامات دیکھنے کے بعد آپ14جنوری کو حیدر آباد پہنچے، جہاں اسٹیشن پر ہی مسلمان بچے ایک قطار میں کھڑے ہو کر ’’ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا‘‘ کی نظم خوش الحانی کے ساتھ گا رہے تھے۔‘‘ اسٹیشن پر عوام کے علاوہ عثمانیہ یونیورسٹی کے تمام ارکان موجود تھے۔ یہیں آپ کو اطلاع دی گئی کہ آپ نظام گورنمنٹ کے مہمان ہیں اس لیے سیدھے گورنمنٹ کے مہمان خانے میں جانا ہو گا۔ 18جنوری کی صبح کو11بجے آپ اعلیٰ حضرت حضور نظام سے ملے۔ حیدر آباد دکن، میسور اور مدراس کے اخباروں نے آپ کی علمی فضیلت پر مضامین شائع کیے۔ آپ کی تصویریں چھاپیں اور میسور کے اخبار ’’ الکلام‘‘ نے اقبال نمبر چھاپا۔ مذہب اور سیاست کے متعلق علامہ اقبال کے خیالات: مدراس کے سفر میں7جنوری1929ء کو مدراس کے مشہور روزانہ اخبار’’ سوراجیہ‘‘ کے ایک نمائندے نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کے متعلق علامہ اقبال سے ایک سوال کیا۔ آپ نے اس کا جواب بڑی تفصیل سے دیا۔ ہم یہاں اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں: میں اس امر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ ہماری درس گاہوں میں مذہبی تعلیم بھی ہونی چاہیے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ میں بحیثیت ایک ہندوستانی کے مذہب کو سوراج پر مقدم خیال کرتا ہوں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے سوراج سے کوئی واسطہ نہ ہو گا، جو مذہب سے بے نیاز ہو۔ یورپ میں تعلیم کا خالصتہً دنیوی طریق بڑے تباہی آمیز نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا ملک بھی ان تلخ تجربات سے دو چار ہو۔ یہ امر صاف ظاہر ہے کہ باشندگان ایشیا، یورپ کے خالص مادی رویے کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ روحانی اور مادی امور کو کس طرح یک جا جمع کیا جائے۔ سب سے پہلی ایشیائی قوم جسے اس مسئلے کو حل کرنے سے واسطہ پڑا تھا، ترک تھی۔ میں کہوں تھا کہ ترک روحانیت و مادیت کے مطلوبہ اجتماع کو حاصل کرنے میں ناکامیاب رہے۔ تاہم میں ترکوں کی طرف سے مایوس نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تاتاری نسل اس تیزی فہم و ادراک اور اس عمق ضمیر سے محروم ہے جو اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری تھا۔ میں فی الحال اس مسئلے کے متعلق ایران، عرب اور افغانستان کی آئندہ روش پر بھی اظہار خیال نہیں کر سکتا، جو اقوام ایشیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ باشندگان ہند اس کار عظیم کو انجام دینے کے اہل ثابت ہوں گے۔ کیونکہ ان کی مذہبی روایات، ان کے ادراک کی تیزی اور ان کے جذبات کی شدت اس کام کی اہلیت کا ثبوت دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوع انسان کی عام بھلائی کے لیے میں یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی مفاہمت کا متمنی رہتا ہوں اور اسے اشد ضروری خیال کرتا ہوں۔ صرف باشندگان ہند ہی پرانی دنیا کے کھنڈروں پر نئے آدم کے لیے نئی دنیا تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی باتیں کہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر توجہ سیاسیات پر دینی چاہیے۔ یورپ کی غلامانہ تقلید کے سوا اور کچھ نہیں، جس کی مادہ پرستی یورپ کی روحانیت اور دوسری اقوام کی مادیت کے لیے پیام موت ثابت ہو چکی ہے۔ علامہ اقبال کی تصنیفات: علامہ ممدوح نے سب سے پہلے اردو میں ’’ علام الاقتصاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج کل نایاب ہے۔ انگلستان میں ’’ فلسفہ ایران‘‘ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی جس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی انگلستان سے واپس آ کر ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بیخودی‘‘ کے نام سے دو مثنویاں شائع کیں، جن پر ملک کے ہر گوشے سے احسنت و مرحبا کی صدا بلند ہوئی۔ پھر ’’ بانگ درا‘‘ کے نام سے اپنے اردو کلام کا مجموعہ شائع کیا۔ اس کے بعد ’’ پیام مشرق‘‘ اور ’’ زبور عجم‘‘ نے آپ کی شہرت و عظمت کو اور بھی چار چاند لگا دیے۔ آپ نے 1929ء میں جو چھ لیکچر انگریزی میں مدراس میں دیے تھے، وہ بھی کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ سیالکوٹ کا وہ لڑکا جس کی ابتدا نہایت معمولی تھی، بڑھتے بڑھتے شہرت کے اس فلک الافلاک تک جا پہنچے گا، جہاں ان سے پہلے کوئی ہندوستانی نہ جا سکا تھا۔ کس کو علم تھا کہ خاموش وضع کا یہ تنہائی پسند لڑکا اپنے دماغ میں کیا کیا فیضان وہی چھپائے ہوئے ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس پر خطہ کشمیر کو ناز ہے۔ یہ وہ نادر وجود ہے جس پر سیالکوٹ، جو اس کا جنم بھوم ہے، فخر کرتا ہے۔ یہ وہ لاثانی شخصیت ہے جس کا نام لے کر پنجاب بلکہ تمام ہندوستان پھولا نہیں سماتا۔ علامہ اقبال اور بیرونی ممالک کے ارباب علم1؎: 1حسین دانش، ترکی فاضل نے ترکی میں علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کا ترجمہ کیا اور ’’ پیام مشرق‘‘ پر تبصرہ لکھا۔ ہمیں یہ معلومات ڈاکٹر توفیق بے رکن وفد ہلال احمر سے ملیں۔ ڈاکٹر توفیق نے یہ بھی فرمایا کہ اقبال کے نظریات کو شائد ہی کسی نے اس وضاحت سے لکھا ہو جس وضاحت سے حسین دانش نے لکھا ہے۔ ایک روز ڈاکٹر توفیق بے نے دوران گفتگو میں کہا کہ اگر اقبال کبھی قسطنطنیہ تشریف لائیں تو ان کا شاہانہ استقبال کیا جائے۔ 2امان افغان (کابل) میں جناب آغا ہادی حسن صاحب وزیر تجارت نے جو پہلے انگلستان میں افغانستان کے سفیر تھے، ایک 1؎ انقلاب،4جولائی1927ئ، مضمون مرتبہ پروفیسر محمد عبداللہ صاحب سلسلہ مضامین ’’ پیام مشرق‘‘ پر بطور تبصرہ لکھا تھا جو کئی نمبروں میں چھپا۔ 3مصر کے مشہور و معروف سیاح جناب احمد رفعت بھی ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں ممالک اسلامیہ کی سیاحت ختم کی۔ اس سیاحت کے دوران میں وہ شملہ و لاہور میں بھی رونق افروز ہوئے۔ جناب احمد رفعت نے علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کا عربی میں ترجمہ کیا اور یہ تراجم مصر کے مشہور جریدہ ’’ الاہرام‘‘ میں شائع ہوئے۔ 4مولوی عبدالحق صاحب حقی بغدادی مرحوم سابق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علامہ کی مشہور نظم ترانہ کا ترجمہ عربی میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ بھی مصر وغیرہ کے عربی اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ یورپ و امریکہ: 1ڈاکٹر نکلسن پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی نے اسرار خودی کو انگریزی لباس پہنایا۔ پھر ’’ پیام مشرق‘‘ پر رسالہ اسلامیکا (جرمنی) میں تبصرہ لکھا۔ اس تبصرے کا اردو ترجمہ ’’ نیرنگ خیال‘‘ کے عید نمبر1925ء میں شائع ہو چکا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر موصوف ’’ پیام مشرق‘‘ کے انگریزی ترجمے میں مصروف ہیں۔ 2ڈاکٹر براؤں آنجہانی نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلہ 1921ء میں تبصرہ لکھا۔ نیز اپنی تازہ ترین تالیف ’’ تاریخ ادبیات فارسی‘‘ کی آخری جلد یعنی جلد چہارم میں شہاب الدین سہروردی کے سلسلے میں ذکر فرمایا۔ 3ڈایشو روسو نے ’’ پیام مشرق‘‘ کے مقدمے کو جرمنی زبان کا جامہ پہنا کر’’ پیام مشرق‘‘ کی غرض و غایت کو واضح کر دیا ہے۔ 4ڈاکٹر فشر، پروفیسر لپزگ یونیورسٹی (ایڈیٹر اسلامیکا) نے جرمنی زبان میں ’’ پیام مشرق‘‘ پر تبصرہ لکھا اور ڈاکٹر نکلسن سے بھی زیادہ بہتر طریق پر علامہ اقبال کا گوئٹے سے مقابلہ کیا۔ 5جرمنی کے مستشرق ڈاکٹر بائنے مائیکے نے جو وہاں کا ایک مشہور فلسفی شاعر ہے، نہایت حسن و عقیدت اور فرط محب سے ’’ پیام مشرق‘‘ کا استقبال کیا یعنی اس کے ایک خاص حصے کا ترجمہ جرمنی زبان میں کیا۔ پھر اسے چمڑے کے کاغذ پر، جس پر عموماً انجیل وغیرہ مقدس کتابیں لکھی جاتی ہیں، اپنے ہاتھ سے خوش خط لکھوا کر اور مشرقی انداز میں نقش و نگار کر کے علامہ اقبال کی خدمت میں بطور تہدیہ ارسال کیا۔ احقر کو اس ہدیہ نادرہ کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ واقعی ایسی نایاب چیز کبھی قدیم زمانے میں تیار کی جاتی تھی۔ 6خان بہادر عبدالعزیز ڈپٹی کمشنر بندوبست جب انگلستان تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے لندن یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی میں اقبال کی شاعری کے نصب العین پر لیکچر دیے، جو بعض یورپی رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ 7جرمنی میںڈاکٹر اقبال کے نام سے ایک سوسائٹی قائم ہوئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ علامہ موصوف کی تعلیمات اور آپ کے کلام کی اشاعت کرے۔ 8ڈاکٹر سکاریہ اٹلی کے مشہور فاضل ہیں جو پچھلے دنوں افغانستان میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے اٹلی کے ایک ادبی مجلے میں اقبال کے متعلق ایک نہایت محققانہ مضمون لکھا۔ 9حال ہی میں جرمنی میں ایک بیاض ہندوستانی علم ادب کے متعلق شائع ہوئی ہے جس میں مختلف شعرا کے کلام کا انتخاب بصورت تراجم جمع ہے۔ اس مجموعے میں علامہ اقبال کی پانچ نظمیں ہیں اور ٹیگور کی محض ایک نظم ہے۔ 10ایک روسی نے جو ہندوستان کا سفر کر چکا ہے اور لاہور محض علامہ اقبال ہی سے ملنے کی سے غرض سے آیا ’’ اسرار خودی‘‘ کے نظریات کو روسی زبان میں قلم بند کیا۔ 11ڈاکٹر کنرن نے، جو مدراسی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے روح و رواں ہیں، اپنی تازہ کتاب ساما وارسن میں تبصرہ لکھا اور ٹیگور و اقبال کا مقابلہ بھی کیا۔ وہ فرماتے ہیں:’’ بنگالی شاعر نے دنیا پر قبضہ کر لیا ہے مگر اقبال اس کا برادر کلاں ہے۔‘‘ 12ڈاکٹر سپوز آنجہانی نے شکوہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا جو ’’ انڈین ریویو‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ ’’ پیام مشرق‘‘ کا بھی انگریزی ترجمہ کرنا چاہتے ہیں۔ 13’’ انتھنیم‘‘ 1921ء میں مسٹر فارسٹر نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے پر تبصرہ لکھا اور علامہ اقبال کے کلام پر ایک مصلح قوم کی تعلیمات کی حیثیت سے نظر ڈالی۔ اس تبصرے کا ترجمہ بھی غالباً ’’ معارف‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ 14مسٹر اپسن سابق مدیر’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ نے بارہا ٹیگور اور اقبال کا مقابلہ کیا اور اقبال کو ٹیگور سے بہمہ وجود بہتر ثابت کیا۔ 15کتاب’’ ہندوستان کی بیداری‘‘ مصنفہ میکنزی میں ایک باب جدید علم ادب کا طلوع کے نام سے بھی ہے جس میں سردار جوگندر سنگھ کی تحریر کی رو سے اقبال کا بھی نہایت وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے (ص159) یہ کتاب امریکہ میں 1927ء میں چھپی۔ اس کا مصنف تمام امریکہ کا نمائندہ بن کر ہندوستان آیا تھا۔ 16 1925ء میں ’’ انڈین ریویو‘‘ میں ایک مضمون پیام اقبال کے عنوان سے مسٹر مینن کے قلم سے شائع ہوا۔ مصنف نے دراصل ’’ اسرار خودی‘‘ پر اپنے خیالات قلم بند کیے ہیں۔ وہ ’’ اسرار خودی‘‘ کو اخوت اسلامی کے موضوع پر ایک الہامی کتاب قرار دیتا ہے۔ 17علامہ اقبال جب کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے تو ایک جلسے میں ایک مقرر نے علامہ ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے ’’ مارننگ پوسٹ‘‘ کی ایک تحریر کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ اقبال بہت بڑی طاقت ہے۔‘‘ سر اقبال اور پنجاب کونسل: علامہ اقبال ذہنی طور پر ہمیشہ احرار کے طبقے میں شامل رہے ہیں مگر عملی طور پر ان کو میدان سیاست میں آنے کا کوئی موقع نہ ملا تھا۔ وہ خود ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں: یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش پھر ایک اور نظم میں اپنی خاموش زندگی کا اس طرح ثبوت دیتے ہیں: اقبال بڑا اپدبشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا غازی بن تو گیا، کردار کا غازی بن نہ سکا لیکن باوجود یہ سب کچھ جاننے کے ان کے دوستوں اور عقیدت مندوں نے بڑے اصرار کے ساتھ ان کو کونسل کی انتخابی جدوجہد کے لیے تیار کیا، اور اہل لاہور واقف ہیں کہ 1926ء میں لاہور کے ہر محلے اور کوچے میں حمایت اقبال کے لیے ان کے دوستوں نے کس قدر جلسے کیے۔ کونسلوں نے انتخابات کے موقع پر امیدواروں کی طرف سے ہزار ہا روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور ووٹروں کی خوشامدین اور ان کی خاطر داریاں علیحدہ ہوتی ہیں۔ لیکن اہل لاہور خوب جانتے ہیں کہ اقبال ہی پہلا ممبر کونسل ہے جس کے لیے نہ صرف دو جلیل القدر امیدواروں نے اپنے نام واپس لے لیے بلکہ لاہور شہر کی تمام مسلمان برادریوں نے اقبال کی حمایت میں علیحدہ علیحدہ اشتہارات شائع کیے اور اقبال ایک پیسہ خرچ کیے بغیر23نومبر1926ء کے پولنگ میں اپنے مد مقابل پر اتنے کثیر ووٹروں کے ساتھ کامیاب ہو گیا جو اس بات کا مظہر ہے کہ جمہور اسلام، طبقہ اعلیٰ اور تعلیم یافتہ نوجوان آپ کی قابلیت پر اور آپ پر پورا پورا اعتماد رکھتے ہیں۔ اخبارات نے علامہ اقبال کی کامیابی پر تعریفی مضامین لکھے۔ ’’ زمیندار‘‘ نے جو آج بعض سیاسی وجوہ کے اختلاف پر آپ کی تمام خوبیوں، قابلیتوں اور شہرتوں کو’’ منم کردہ ام رستم داستاں‘‘ کا سبب بتا رہا ہے، آپ کے کامیاب ہو جانے پر ایک افتتاحیہ مقالے میں آپ کے متعلق اپنی 5دسمبر1926ء کی اشاعت میں لکھا:’’ ساری دنیا جانتی ہے کہ علامہ ممدوح ایسی نادر الوجود شخصیتیں صدیوں کے بعد پیدا ہوا کرتی ہیں۔ موجودہ مسلمانان ہند میں سے شاید علامہ ممدوح ہی وہ ممتاز ترین ہستی ہیں جن کے علم و فضل کے روبرو یورپ و امریکہ کی کلاہ افتخار کو بھی مضطرہانہ جھکنا پڑا ہے۔ ایک ایسے وجود کا کونسل کی رکنیت کے لیے امیدوار بننا مسلمانان لاہور کے لیے علی الخصوص اور مسلمانان پنجاب کے لیے اعلیٰ العموم بڑی ہی خوش قسمتی اور سعد بختی کا موجب ہے۔‘‘ سر اقبال کا ملکی و قومی خدمات کونسل میں: سر اقبال کونسل میں مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گئے تھے۔ انہوں نے کونسل کے مختلف اجلاس میں کئی سوالات اور استفسارات مسلمانوں کی ترقی و فلاح کے لیے کیے۔ لیکن ان کا دل چونکہ ملکی درد سے بھی لبریز ہے، خصوصاً غریب طبقے (مزدور اور کاشت کار) کے ساتھ ان کو فطری انس و ہمدردی ہے، اس لیے انہوں نے زمینداروں کے سود و بہبود اور ان کے مالیہ کو کم کرانے اور انکم ٹیکس اور معاملہ اراضی میں فرق بتانے کے لیے کونسل کے قریباً ہر اجلاس میں کوئی تحریک خود پیش کی ہے یا کسی اور محرک کی کسی تحریک کی تائید کی ہے اور تحریک و تائید کے وقت اپنی مدلل اور زبردست تقریروں سے بہت سے ممبروں کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے۔ ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو حکومت کو مشکلاتمیں ڈالنے اور قوموں میں تفرقہ اور ملک میں بد امنی پیدا کرنے کے لیے مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں پر کمینے حملے کرتا رہتا ہے۔ آپ نے اس کے متعلق تحریک پیش کی کہ گورنر جنرل باجلاس کونسل سے سفارش کی جائے کہ بانیان مذاہب پر توہین آمیز، شر انگیز اور کمینہ حملوں کی اشاعت کا سد باب کرنے کے لیے ایک ریگولیشن نافذ کیا جائے۔ چنانچہ 1927ء ہی سے یہ قانون نافذ چلا آتا ہے۔ تلوار کو قانون اسلحہ ہند سے مستثنیٰ کرانے کی بھی آپ نے تحریک پیش کی۔ شراب کی لعنت کو دور کرنے کے لیے یہ قرار داد پیش کی کہ شراب نوشی کے انسداد کی حکمت عملی کا منتہائے نظر امتناع تسلیم کیا جائے اور اس کی میعاد پندرہ سال سے متجاوز نہ ہو۔ نیلی بار منٹگمری کے ضلع میں سوا تین لاکھ ایکڑ رقبہ سرکار نے فروخت کیا ہے۔ اس کا زیادہ حصہ سرمایہ داروں نے ہی خریدا ہے ۔ اس کے متعلق علامہ اقبال نے یہ تحریک پیش کی کہ اس کا نصف مزارعین یعنی کسانوں کے لیے، جو اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں، مخصوص کیا جائے۔ شہروں میں جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو اس کے سد باب کے لیے سرکاری و غیر سرکاری انتظامات شروع ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کی طبی امداد پر مریض کو مل سکتی ہے۔ لیکن دیہاتوں میں ایسی بات نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے دیہاتیوں کے مفاد کے لیے یہ تحریک پیش کی کہ سرکاری و غیر سرکاری ارکان کی ایک مجلس مقرر کی جائے جو دیہات میں حفظان صحت کے طریقوں کی ترقی کی رپورٹ پر غور کرے۔ زمینیں حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ قوموں کی ملکیت ہوتی ہیںـ: 28فروری1927ء کے اجلاس کونسل میں وزیر مالیات نے جو میزانیہ پیش کیا، اس پر علامہ اقبال نے ایک زبردست تبصرہ کرتے ہوئے نظام محاصل کے بے ضابطگیوں کی نقاب کشائی کی اور تخفیف محاصل کرتے ہوئے فرمایا: بے ضابطگی یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں یہ نظریہ قائم کر لیا جاتا ہے کہ ساری زمین ملکیت حکومت ہے۔ اس ملکیت عامہ کا دعویٰ نہ عہد قدیم میں کسی نے کیا اور نہ سلاطین مغلیہ کے زمانے میں ایسا مطالبہ پیش کیا گیا۔ یہ اس مسئلے کا تاریخی پہلو ہے جسے مجلس تحقیقات محاصل بھی تسلیم کر چکی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں حکمران طاقت نے کبھی اس قسم کے حقوق کا مطالبہ نہیں کیا (نعرہ ہائے تحسین) ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغلوں نے ایسا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پنجاب کے باشندے اس ملک کی زمین کے اس وقت سے مالک چلے آتے ہیں جبکہ بابر کی نسل نے تاریخ کے ایوان میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ا س سے صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ بادشاہتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں اور صرف قوم زندہ و سلامت رہتی ہے (نعرہ ہائے تحسین) اور اگر کسی وقت کسی ملک کے اندر یہ نظریہ رائج بھی تھا تو بیسویں صدی میں اسے جائز نہیں مانا جا سکتا۔ اس وقت زمین کے ہر چھوٹے بڑے قطعے کے لیے معاملہ لیا جاتا ہے۔ خواہ کسی شخص کے پاس دو کنال زمین ہو، خواہ دو سو کنال، بہر صورت اسے معاملہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس انکم ٹیکس کے باب میں صلاحیت و استطاعت کے اصول یا مدارج کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک تدریجی پیمانہ قائم ہے۔ بعض لوگوں سے قطعاً کوئی انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ میری گزارش یہ ہے کہ کونسل کو اس اصول کی روشنی میں تخفیف محاصل کے مسئلے پر نظر ڈالنی چاہیے۔ (نعرہ ہائے تحسین) 1928ء میں سرکاری ملکیت کا نظریہ پھر زیر بحث آیا۔ اس پر علامہ اقبال نے پھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اس نظریے پر سب سے پہلے جس یورپین مصنف نے تبصرہ کیا، وہ پیرن تھا۔ 1887ء میں اس نے پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اس نظریے کو بالکل مسترد کر دیا۔ 1830ء میں بریگر نے ہندوستان کے اندر ملکیت کے قانون و رواج کی پوری تحقیقات کی۔ یہ مصنف اپنی کتاب میں منوجی کے قوانین، اسلامی شریعت اور ہندوستان کے مختلف حصص بنگال، مالوہ، پنجاب وغیرہ کے متعلق رواجی پابندیوں کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تاریخ ہند کے کسی دور میں بھی سلطنت زمین کی ملکیت کی مدعی نہیں ہوئی۔‘‘ پنجاب کے وزیر مالیات سے علامہ اقبال کی پر لطف بحث: زمین کا لگان معاف یا کم کرانے اور انکم ٹیکس اور معاملہ اراضی کا فرق بتانے اور زمین کو سرکاری ملکیت سے مستثنیٰ قرار دینے پر علامہ اقبال کی تقریر بڑی زور دار اور بڑی طویل تھی۔ تقریر کے دوران میں فاضل رکن مالیہ (آنریبل سر فضل حسین) سے خطاب ہوتا تھا۔ ہم اس تقریر کے چند پر لطف ٹکڑے ناظرین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ رکن مالیہ نے اپنے دلائل میں دو باتوں پر زور دیا۔ (1) صوبے کی ترقی کے لیے روپے کی اشد ضرورت ہے۔ 2اور حکومت کیمیا گری نہیں جانتی۔ اس کا جو جواب علامہ اقبال نے اپنی تقریر کے دوران میں دیا، اس کا کوئی جواب نہیں ہو سکا۔ا ٓپ نے فرمایا ’’ میری رائے میں حکومت کو اس وقت تک کیمیا گری سیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں جب تک کہ ملک کے تمام محنت کش کسان، جن کا پسینہ مٹی کو سونا بنا دیتا ہے، اس کے قبضے میں ہیں۔‘‘ وزیر مال نے علامہ اقبال کے دلائل سن کر جب کہا کہ مال گزاری کا یہی طریق کار جاری رکھا جائے گا یا اسے بالکل چھوڑ دیا جائے گا، اس کے سوا تیسرا راستہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا’’ اگر آپ اس امر کو تسلیم کر لیں کہ مال گزاری عائد کرنے کا یہ طریق غیر منصفانہ ہے تو اس بے انصافی کو دور کرنے کے لیے کچھ علاج شروع کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اور اس کا علاج آپ نے یہ بتایا کہ ایک ایسے شخص کو جس کے پاس پانچ بیگہ سے زیادہ زمین نہیں۔۔۔ بشرطیکہ زمین ایسے رقبوں میں نہ ہو جہاں آبپاشی نہیں کی جا سکتی اور اس کی پیداوار کی تعداد بھی معین ہو۔۔۔۔۔ لگان معاف کر دینا چاہیے۔ جب وزیر مال نے یہ خوف اور احتمال پیش کیا کہ یہ قرار داد مسودۂ قانون مال گزاری کے شیر خوار بچے کی موت کا باعث بن جائے گی اور ارکان کونسل بچہ کشی کے جرم کے مرتکب ہوں گے، تو آپ نے فرمایا:’’ آج کل جیسا کہ منع حمل کی تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے، کسی ایسے بچے کا قتل کر دینا جس کے متعلق ہمیں علم ہو کہ یہ بڑا ہو کر شریر ہو گا، نہایت معمولی بات ہے۔ میری رائے میں یہ مطالبہ کہ پانچ بیگھہ تک کی زمین کا مالیہ معاف کر دیا جائے، کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘ اڑھائی ایکڑ زمین والے شخص کا لگان معاف کرنے پر وزیر مالیات نے کہا کہ یہ گناہ بے لذت ہو گا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’ اگر آپ گناہ بے لذت کا ارتکاب کریں گے تو اتنا تو ثابت کر دیں گے کہ آپ میں انصاف کا کچھ نہ کچھ احساس ہے۔‘‘ اخیر میں آپ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان بے چاروں کے لیے کچھ کرے جو اپنی زمین سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی پیداوار حاصل نہیں کر سکتے۔ سر اقبال اور خطہ جنت نظیر کشمیر: سر اقبال کو آج سارے جہان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سارے جہان میں کشمیر کا چھوٹا سا ملک، جو بارہ تیرہ لاکھ فاقہ کشوں کا وطن ہے، کیا حیثیت رکھ سکتا ہے، تاہم آپ نے اپنے وطن قدیم کے لحاظ سے اس غریب ملک اور اس غریب قوم کے لیے بھی اپنے اس قلب میں، جو سمندر سے بھی زیادہ وسیع ہے، تھوڑی بہت جگہ ضرور دی ہے۔ جو نظمیں آپ کی سب سے پہلے کسی اخبار یا رسالے کی زینت ہوئیں وہ کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق ہی تھیں۔ انگلستان سے واپس آ کر آپ پہلے کشمیری انجمن کے اور بعد ازاں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے سیکرٹری قرار پائے۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ ظفر وال کے ایک تحصیل دار نے ایک مقدمے میں کشمیریوں کے متعلق مفسد اور بہادر کے لفظ لکھے۔ واقعہ یہ تھا کہ دس بارہ آدمیوں نے تین کشمیریوں پر مار پیٹ کا دعویٰ کیا۔ تحصیل دار نے فیصلے میں لکھا کہ بظاہر یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ دس بارہ آدمی تین آدمیوں سے کس طرح مار کھا سکتے ہیں، لیکن عام طور پر چونکہ کشمیری مفسد اور بہادر پائے جاتے ہیں، اس لیے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان تین کشمیریوں نے اپنے سے چوگنی تعداد کے حریفوں کو زخمی نہ کر دیا ہو۔ ایک منچلے کشمیری نے اس فیصلے کی مصدقہ نقل لے کر کانفرنس کے دفتر میں بھیجی کہ اس تحصیل دار نے ہم کو مفسد قرار دیا ہے۔ اس پر ہتک اور توہین کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ سر اقبال سیکرٹری تھے۔ آپ نے فرمایا تحصیل دار نے جو کچھ لکھا ہے، وہ صحیح ہے۔ جو قوم بہادر ہے، وہ ضرور مفسد ہے، اور جو مفسد ہے وہ بہادر اور دلیر ہے۔ اس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا کشمیریوں کی طرف سے نہیں تھی۔ اس لیے وہ ’’ لاتفسدوا فی الارض‘‘ کی ذیل میں نہیں آ سکتے۔ بلکہ انہوں نے قومی غیرت سے کام لے کر اپنی مدافعت کی ہے۔ اس فیصلے پر مقدمے کی تجویز پاس نہ ہو سکی۔ نواب سر سلیم اللہ جی سی آئی ای نواب آف ڈھاکہ جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسے پر امرتسر تشریف لائے تھے تو کشمیریان پنجاب کی طرف سے سر اقبال نے ہی آپ کی خدمت میں خیر مقدم کا ایڈریس فارسی زبان میں پڑھا تھا۔ راقم الحروف نے کشمیر کے متعلق جس قدر کتابیں لکھی ہیں، ان کو سر اقبال نے ہمیشہ پسند کیا اور اپنی ز رین راؤں سے کتابوں کی وقعت کو دو چند کر دیا ہے۔ میری اخباری خدمات اور تصنیفات متعلقہ کشمیر کی وجہ سے آپ نے مجھے بارہا مجدد الکشامرہ لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خطہ کشمیر کے بارہ تیرہ لاکھ انسانوں کی تعلیمی و اخلاقی ہستی کو دور کرانے اور ان لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے والوں کی خدمات کو پسند فرماتے ہیں۔ مہاراجہ سر پرتاب سنگھ آنجہانی سے بھی ایک دو دفعہ ملاقات کر چکے ہیں۔ مہاراجہ نے کشمیر آنے اور سرکاری مہمان بننے کی دعوت بھی دی تھی۔ ایک دفعہ کشمیر تشریف بھی لے گئے تھے۔ وہاں اپنی آنکھوں سے کشمیر کی جو حالت دیکھی، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نشاط باغ کی سیر میں جہاں سر اقبال اہل دل کے دل ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیںـ: شرابے کتابے ربابے لگارے وہاں نشاط کی سیر کے دوران میں بدنصیب کشمیریوں کی المناک حالت کے متعلق اسی نظم میں لکھتے ہیں: کشیری1؎ کہ با بندگی خو گرفتہ بتے مے تراشد ز سنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدۂ او فروغ نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرارے ازاں مے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے غنی شاہجہان کے زمانے میں کشمیر کا نامور شاعر گزرا ہے جس کا سکہ ہندوستان و ایران تک بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بادشاہ کے بلانے پر بھی اس کے دیار میں نہیں گیا۔ اس کا قاعدہ تھا کہ جب اپنے مکان پر ہوتا تھا تو دروازہ بند کر لیتا تھا اور جب باہر جاتا تھا تو دروازہ کھلا چھوڑ دیتا تھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو کہا’’ متاع گراں تو میں ہی ہوں۔ جب میں گھر میں نہیں تو حفاظت کس کی‘‘ اس واقعے کو سر اقبال نے ذیل کی نظم میں کسی خوبی سے ادا کیا ہے: 1؎ کشمیری، کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں، جیسے ’’ کشیر اندر سٹھاتور‘‘ کشمیر میں سخت سردی ہے، اسی لحاظ سے آپ نے کشمیری کو کشیری کہا ہے۔ غنی آن سخن گوی بلبل صفیر نوا سنج کشمیر مینو نظیر چو اندر سرا بود در بستہ داشت چو رفت از سرا تختہ را واگزاشت یکے گفتش اے شاعر دل رسے عجب دارد از کار تو ہر کسے پہ پاسخ چہ خوش گفت مرد فقیر فقیر و بہ اقلیم معنی امیر زمن آنچہ دیدند یاراں رواست دریں خانہ جز من متاعے کجا است غنی تانشیند بہ کاشانہ اش متاع گرانے است در خانہ اش چو آں محفل افروز در خانہ نیست تہی تر ازیں ہیچ کاشانہ نیست سر اقبال نے سیاحت کشمیر کے دوران میں ایک اور نظم بھی لکھی۔ وہ بھی اپنی روانی اور منظر آفرینی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس میں فرماتے ہیں: رخت بہ کاشمر کشا، کوہ و تل دمن نگر سبزہ جہاں جہاں بہ بیں لالہ چمن چمن نگر باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج بر سر نارون نگر تانہ فتد بہ زیتنش چشم سپہر فتنہ باز بستہ بہ چہرۂ زمین برقع نسترن نگر لالہ ز خاک بر دمید موج بہ آب جو تپید خاک شرر شرر بہ ہیں آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساز زن بادہ بہ ساتگین بریز قافلہ بہار را انجمن انجمن نگر دختر کے برہمنے، لالہ رخے، سمن برے چشم بروئے او کشا باز بہ خویشتن نگر سر اقبال نے اہل کشمیر اور کشمیر کے متعلق اپنی طالب علمی (بی اے) کے زمانے میں جو رباعیات کہی ہیں وہ ان کے مطبوعہ کلام میں نہیں ہیں۔ ہم یہاں چند ایک درج کرتے ہیں: رباعیات کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے اک لڑی میں آ کے گوہر مل گئے واہ وا کیا محفل احباب ہے ہم وطن غربت میں آ کر مل گئے ٭٭٭ موتی عدن سے، لعل ہوا ہے یمن سے دور یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستاں میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور ٭٭٭ سامنے ایسے گلستاں کے کبھی گر نکلے جیب خجلت سے سر طور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلی گہ مولائے جلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے ٭٭٭ پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا بن کے مقراض ہمیں نے پر و بے بال کیا توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا چند اشعار یہ بھی ہیں: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر ٭٭٭ بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے یاد ایام گزشتہ مجھے تڑپاتی ہے ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے ٭٭٭ (2) مسلمان سپرو خاندان علامہ اقبال ڈاکٹر سر محمد اقبال کشمیری برہمنوں کی سپرو گوت سے تعلق رکھتے تھے۔ منشی محمد الدین فوق نے 1914ء کی ابتدا میں جب ’’ تاریخ اقوام کشمیر‘‘ لکھنے کا ڈول ڈالا، تو اس وقت جو مختصر سی کتاب سامنے آئی، اس میں صرف کشمیر کی مسلمان اقوام ہی کا ذکر تھا جو نوے کے قریب تھیں۔ باقی کسی قوم کا ذکر نہیں تھا۔1930ء میں انہوں نے اس کتاب کو از سر نو ترتیب دیا، جو 1934ء میں تکمیل کو پہنچی۔ اس میں پانچ سو کے قریب ذاتوں اور گوتوں کا ذکر ہے، جن میں کشمیری پنڈت، سکھ، ڈوگر، راجپوت، بوبرے اور مسلمان سب فرقے شامل ہیں۔ اس کتاب میں ’’ سپرو‘‘ قوم کا ذکر بھی موجود ہے جو فوق صاحب نے اس طرح کیا ہے: ’’ بڈ شاہ بادشاہ (سلطان زین العابدین) سے بیشتر کشمیر کے ہندو، مسلمانوں کو اور ان کی زبان کو اجنبی زبان اور اجنبی حکومت سمجھتے تھے لیکن جب بڈ شاہ نے بادشاہ ہو کر تالیف قلوب کے لیے ان کو خاص مراعات عطا کیں اور نظم و نسق سلطنت میں شامل کرنے کے لیے ان کو فارسی زبان پڑھنے پر آمادہ کیا، تو برہمنوں کے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی علم میں مہارت تامہ حاصل کی، وہ ’’ سپرو‘‘ کہلایا۔ کشمیر میں پڑھنے کو اب بھی پرنا کہتے ہیں۔ ’’ سپر‘‘ کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے سب کچھ پڑھ لیا یا پڑھنے میں سبقت کی۔ سپرو کے معنی یہ بھی بتائے جاتے ہیں کہ وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانت دکھائے۔ 1؎‘‘ فوق صاحب نے اس لفظ کی مزید تحقیق کے لیے علامہ اقبال کو بھی خط لکھا تھا۔ علامہ نے 16جنوری1934ء کو جواب میں جو کچھ ارقام فرمایا، اس سے بھی مندرجہ صدر بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کشمیری برہمنوں کی جو گوت سپرو ہے، اس کی اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا، عرض کرتا ہوں۔ جب ‘‘ 1؎ تاریخ اقوام کشمیر، جلد1، صفحات45-43(طبع1934ئ) مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا، تو برہمہ، کشمیر، مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے، اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومت اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا، وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ’’ س‘‘ تقدم کے لیے کئی اور زبانوں میں بھی آتا ہے اور ’’ پرو‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر ’’ پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے بھائی بندوں کو از راہ تعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیم رسوم و تعصبات قومی اور مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا۔ سپرو گوت کی وجہ کے متعلق ایک نئی بات بھی ڈاکٹر اقبال کے خط سے معلوم ہوئی، جس کا علم غالباً کشمیر میں کسی کو نہ ہو گا۔ فرماتے ہیں: ’’ دیوان ٹیک چند ایم اے نے، جو پنجاب میں کمشنر تھے اور جن کو زبانوں کی تحقیق کا شوق تھا، ایک دفعہ انبالہ میں مجھ سے کہا کہ لفظ سپرو کا تعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاپور سے ہے اور سپرو حقیقت میں ایرانی ہیں، جو اسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہو گئے۔‘‘ کچھ شک نہیں کہ ’’ سپرو‘‘ اور’’ شاپور‘‘ کی باہم تطبیق ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ دیوان ٹیک چند ایم اے جو انگریزی، فارسی، عربی اور سنسکرت کے علاوہ یورپ کی اور بھی کئی زبانیں جانتے تھے، آج زندہ ہوتے تو شاید اس مشکل کو حل کر سکتے۔ کشمیر کے سپروؤں کے علاوہ ہندوستان اور پنجاب میں بھی سپرو گوت کے چند ہندو مسلمان خاندان ملتے ہیں۔ مسلمانوں میں ڈاکٹر محمد اقبال کا خاندان بہت مشہور ہے۔ ان کے جد اعلیٰ قریباً سوا دو سو سال ہوئے عالمگیر کے عہد میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ کا نام نہ صرف کشمیر کے لیے بلکہ تمام ہندوستان کے لیے مایہ ناز ہے۔ آپ اپنی حریت آموز مثنویوں اور اپنے اعلیٰ شاعرانہ تخیلات کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد صاحب کے صاحب زادے شیخ اعجاز احمد بی اے، ایل ایل بی پنجاب میں سب جج تھے۔ (بلکہ اس سے بھی اعلیٰ عہدوں پر ممتاز رہے اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور کراچی میں مقیم ہیں) تاریخ اقوام کشمیر کی جلد دوم جولائی1943ء میں علامہ اقبال کی وفات کے پانچ سال بعد شائع ہوئی۔ اس میں ’’ مسلمان سپرو خاندان‘‘ کے تحت ڈاکٹر اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے خاندان کا ذکر صفحہ319سے339تک کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ’’ عرض حال‘‘ کے آخر میں لکھا ہے کہ ’’ راقم تو اب چراغ سحری ہے۔ معلوم نہیں تیسری جلد کون لکھے گا اور کب لکھے گا۔ البتہ جب کوئی اس قسم کی کتاب لکھنا چاہے گا تو اسے راقم ناچیز کی تصانیف پر بھی نظر ڈالنی پڑے گی۔‘‘ من آں ستارۂ صبحم کہ در محل طلوع ہمیشہ پیش رو آفتاب می باشم اس کے باوجود تیسری جلد شروع کر دی گئی مگر ابھی ابتدا ہی تھی کہ 14ستمبر1945ء کو مولف کی اپنی زندگی کا چراغ بجھ گیا اور ان کی پہلی برسی کے موقعہ پر14ستمبر1946ء کو میں نے تیسری جلد مکمل کر کے مرحوم کی وصیت پوری کر دی۔ (محمد عبداللہ قریشی) سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے زمانے (تخت نشینی 824ھ، وفات 874ھ) میں حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین ولی کے ارادت مندوں میں حضرت بابا نصر الدین ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت شیخ العالم نے اپنے اشعار (کشمیری) میں اپنے اس نامور خلیفہ کا بہت کچھ ذکر کیا ہے۔ بابا نصر الدین کے مریدوں میں بابا لولی حاجی ایک بزرگ تھے جنہوں نے کئی حج کیے تھے اور بارہ سال تک کشمیر سے باہر سیر و سیاحت ہی میں رہے تھے۔ چنانچہ مصنف ’’ تاریخ اعظمی‘‘ صفحہ72پر لکھتا ہے:’’ دوازدہ سال سیاحت کردہ بہ کشمیر آمدہ بہ اشارت غیبی مرید حضرت بابا نصر الدین شد و بقیہ عمر در خدمت و صحبت او گزرانید‘‘ ان کا اصل نام معلوم نہیں ہو سکا۔ لول حج یا لولی حاجی کے نام سے انہوں نے زیادہ شہرت پائی۔ انہوں نے کئی حج پا پیادہ کئے تھے۔ لول یا لالہ یا لال کشمیر میں پیار اور عزت کا لفظ ہے، جیسے بڑے بھائی کو کاک لال بھی کہتے ہیں۔ وطن ان کا پرگنہ اڈون کے موضع چکو میں تھا۔ قبول اسلام سے قبل ذات کے برہمن تھے، گوت سپرو تھی۔ پیشہ ان کا زراعت کاری اور زمینداری تھا۔ لیکن جب فقر اختیار کیا تو سب باتوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ آپ کی قبر چرار شریف میں احاطہ مزار شیخ نور الدین ولی کے اندر ہے، جہاں ان کے مرشد بابا نصر الدین بھی مدفون ہیں۔ چنانچہ صاحب ’’ تاریخ اعظمی‘‘ لکھتے ہیں ’’ وقت رحلت در آستانہ چرار در جوار پیر بزرگوار آسود‘‘ بابا لول حج کی اولاد میں ایک بزرگ شیخ اکبر کے نام سے ہوئے ہیں۔ باعمل صوفی اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے تھے۔ ان کے تقدس و اتقا اور ان کی خاندانی نجابت کی وجہ سے ان کی شادی ان کے مرشد نے جو سید تھے اپنی صاحبزادی سے کر دی تھی۔ مرشد کی وفات پر ان کے فرزند سید میر نام نابالغ تھے، اس لیے وہی اپنے مرشد کے جانشین قرار پائے۔ شیخ اکبر سیلانی طبع تھے۔ کئی دفعہ انہوں نے پنجاب کا سفر بھی کیا۔ ان کی چوتھی پشت، میں جیسا کہ شجرے سے معلوم ہو گا، چار بھائی تھے۔ وہ ان ایام میں جب کشمیر افغانوں کے ماتحت تھا، ترک وطن کر کے پنجاب آئے۔ اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کا وطن چونکہ تحصیل کولگام کے علاقے میں تھا، اس لیے وہ بانہال کو طے کرتے ہوئے جموں کے راستے سیالکوٹ آئے اور یہیں آ کر مقیم ہو گئے۔ فرزند اول شیخ محمد رمضان اور شیخ محمد رفیق فرزند دوم نے سیالکوٹ کو ہی مستقل وطن قرار دے لیا۔ شیخ عبداللہ ضلع سیالکوٹ کے موضع جیٹھے کی میں سکونت پذیر ہو گئے۔ چوتھے بھائی نے جو سب سے چھوٹے تھے اور جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا لاہور میں سکونت اختیار کی شیخ محمد رمضان صوفی منش بزرگ تھے۔ انہوں نے تصوف پر فارسی زبان میں چند ایک کتابیں بھی لکھی ہیں۔ شیخ محمد رفیق نے سیالکوٹ میں بزازی کی دکان کھول لی۔ ان کے فرزند شیخ نور محمد بھی والد کی دکان پر ہی کام کرتے رہے۔ البتہ شیخ محمد رفیق کے چھوٹے فرزند شیخ غلام محمد محکمہ نہر کے میں ملازم ہو گئے اور روپڑ میں تھے کہ شیخ محمد رفیق، جو اپنے فرزند کی ملاقات کو آئے ہوئے تھے یہیں بیمار ہوئے اور یہیں انتقال کر گئے آپ کی آخری آرام گاہ بھی روپڑ ہی میں ہے۔ تیسرے فرزند شیخ عبداللہ کی اولاد کا کثیر حصہ ریاست حیدر آباد دکن میں رہتا ہے۔ وہیں اس کی بود و باش ہے اور زراعت ان کا پیشہ ہے۔ چوتھے بھائی جو لاہور میں تھے، وہ لاولد ہی انتقال کر گئے۔ شیخ محمد رفیق کے والد کا نام سیالکوٹ میں نہ کسی عمر رسیدہ آدمی کو معلوم ہے اور نہ ان کی اولاد اور دوسرے قرابت داروں کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد پنجاب نہیں آئے تھے بلکہ یہ خود ہی اپنے بھائیوں کے ہمراہ آئے تھے۔ اس لیے کسی کو ان کے والد کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ شیخ محمد رفیق کے متعلق مولانا عبدالعزیز ملک (گوجرانوالہ، عمر94سال) کا بیان ہے کہ وہ درمیانہ قد کے بزرگ تھے اور نہایت وجیہ اور خوبصورت تھے اور خد و خال، لب و لہجہ اور درخشاں چہرے سے ان کی کشمیریت ٹپکی پڑتی تھی۔ شیخ محمد رفیق کے فرزند شیخ نور محمد تجارت پیشہ ہونے کے باوجود صوفیا اور علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اوران کی صحبتوں میں رہنے کی وجہ سے شریعت و طریقت کے نکات و رموز سے پورے آگاہ اور علم مجلس سے پورے واقف تھے۔ کلام اللہ کی تلاوت کرتے اور اسی کو دین و دنیا کی ترقی کا باعث سمجھتے تھے۔ ان کی یہی تاکید اپنے فرزندوں کو بھی تھی چنانچہ سر اقبال خود فرماتے ہیں: ’’ والد مرحوم ہمیشہ قرآن حکیم کی تلاوت کی تلقین فرمایا کرتے اور تاکید کرتے بیٹا قرآن کو اس طرح پڑھا کرو گویا وہ تمھی پر نازل ہوا ہے یا خدا تم سے ہم کلام ہے1؎‘‘ کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ میں سنگرمشین (سلائی والی) سب سے پہلے شیخ نور محمد ہی نے منگوائی تھی۔ راقم کو خود بھی شیخ صاحب سے نیاز حاصل تھا۔ 1899ء یا1900ء کی گرمیوں میں 1؎ البیان، امرتسر، بابت دسمبر1939ئ، ص82 جب سر اقبال نے راقم کو ایک خاص کام کے لیے سیالکوٹ بلوایا تو تین دن تک انہی کے مکان پر رہا اور ان کے صوفی منش والد محترم کی صحبتوں سے مستفید ہوتا رہا۔ جب سر اقبال نے ’’ نالہ یتیم‘‘ کے نام سے پہلی مرتبہ اپنی نظم انجمن حمایت اسلام کے وسیع صحن میں ترنم سے پڑھی تو شیخ نور محمد بھی جلسے میں موجود تھے اور با اقبال فرزند کی قبولیت عامہ، ان کے اشعار دلگداز کے تاثرات اور ان کی ترنم ریزی سے بے خود ہو رہے تھے۔ شیخ نور محمد کا چہرہ نورانی تھا،ا چھے قد آور تھے، داڑھی سفید تھی، خوش پوش اور خوش مذاق تھے۔ ایک سو سال کی طویل عمر پا کر 7اگست1930ء کو بمقام سیالکوٹ وفات پا گئے۔ شیخ عطا محمد آپ کے فرزند کلاں تھے۔ ان کو اپنے عزیز بھائی کے ساتھ محبت نہیں عشق تھا۔ ان کو علمی لحاظ سے اقبال کو پروان چڑھانے یعنی ان کی اعانت کرنے میں بہت کچھ دخل ہے۔ شیخ عطا محمد سرکاری ملازم تھے۔ وہ پنشن کے بعد کافی عرصے تک زندہ رہے۔ آپ احمدیت سے دلچسپی رکھتی تھے اور سر اقبال احمدیت کے مخالف تھے اور یہ بات ان کے برادر بزرگ کو ناگوار گزرتی تھی۔ لیکن اقبال اس پر بھی ہمیشہ ان کا ادب ملحوظ رکھتے اور اس بارے میں ان سے گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے1؎ 1؎ البیان، امرتسر، بابت دسمبر1939ئ، ص16 شیخ عطا محمد بھی اقبال کے علم و فضل کا بڑا ادب کرتے اور ان کی محبت میں سرشار رہتے تھے۔ چنانچہ اپنے ایک خط بنام خان صاحب منشی سراج الدین احمد مرحوم کشمیر مورخہ13اگست 1939ء میں لکھتے ہیں:’’ برادر عزیز اقبال کے وصال نے مجھے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ کسی دوست احباب سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہ عزیز مرحوم کا ذکر یا ان کا کوئی کلام پڑھ دیتے ہیں تو میری قلبی حالت کا اندازہ قیاس سے باہر ہو کر میری آنکھوں سے خود بخود دریا بہہ نکلتا ہے۔ اسی وجہ سے میری بینائی میں فرق آ گیا ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ اقبال کی یاد میری حالت کو متغیر کر کے مجھے گھنٹوں تک غوطے میں نہ لے جاتی ہو۔ خدا نے مجھے شاید مرحوم کے بعد اس کے غم میں رونے کے لیے ہی زندہ رکھا ہے۔‘‘ اسی خط کے آخری حصے میں لکھتے ہیں:’’ ایک شخص نے جبکہ ہم دونوں بھائی گفتگو کر رہے تھے، ہم کو مخاطب کر کے سوال کیا:’’ تم دونوں میں بڑا کون ہے؟‘‘ میں نے اقبال کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کہنے لگے ’’ یہ کس طرح؟‘‘ میں نے فوراً اس کو جواب دیا ’’ یہ مول میں بھاری ہیں میں تول میں مکرر آنکہ یہ علم میں میں عمر میں ‘‘ اقبال بے بہا ہیرا تھا جو مجھ سے چھین لیا گیا۔ میرے دل کی انگوٹھی بے نگینہ ہے جسے دیکھ کر روتا ہوں۔‘‘ ایسے بے بہا ہیرے کی گم شدگی کے بعد بھائی کا یہ قدر دان جوہری ہمیشہ دلگیر اور غمگین ہی رہا اور آخر22دسمبر1941ء کو قریباً بیاسی سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ شیخ عطا محمد مرحوم کے فرزند اول شیخ اعجاز احمد12جنوری 1899ء کو پیدا ہوئے۔ بی اے پاس کرنے کے بعد1921ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ 1926ء تک سیالکوٹ میں وکالت کرتے رہے۔ اسی سال پنجاب ہائی کورٹ نے آپ کو جوڈیشل سروس کے لیے منتخب کیا۔ مارچ1927ء میں آپ سب جج مقرر ہوئے اور مختلف مقامات پر جولائی 1942ء تک جوڈیشل کام کرتے رہے۔ اسی مہینے میں گورنمنٹ ہند نے آپ کو پنجاب اور سندھ کے صوبوں کے لیے ویٹ کمشنر (کمشنر گندم) مقرر کیا۔ اب یکم مارچ1943ء سے آپ دہلی کے محکمہ خوراک میں ڈپٹی کنٹرولر پرچیز ہیں۔ آپ کی شادی کے معاملے میں قابل تذکرہ یہ امر ہے کہ آپ کے رشتے کی تلاش میں اقبال مرحوم کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ کسی مسلمان سپرو خاندان کا سراغ ملے تو وہاں رشتہ کیا جائے۔ لیکن تلاش و کوشش کے باوجود پنجاب میں کسی مسلمان سپرو خاندان کا پتہ نہ چل سکا۔ چنانچہ راقم کو آپ 16جنوری1934ء کے خط میں لکھتے ہیں:’’ اعجاز کی شادی کے وقت پنجاب میں کسی مسلمان سپرو خاندان کی جستجو کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔‘‘ اقبال کی زندگی ہی میں ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ نامی کتاب راقم نے لکھی تھی، جس میں کشمیر کے اور مشاہیر کے علاوہ ان کے حالت بھی درج تھے۔ اس میں ان کا سال پیدائش1875ء درج ہے۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ’’ میونسپلٹی کے رجسٹروں اور علامہ مرحوم کے قابل اعتبار قریبی رشتہ داروں سے مکمل تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ علامہ مرحوم کی تاریخ ولادت22فروری1873ء ہے۔1؎‘‘ 1؎ آخری تحقیق یہ ہے کہ تاریخ پیدائش جمعہ3ذیعقد 1294ھ مطابق9نومبر1877ء ہے۔ ابتدا میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح آپ بھی مکتب کی ہوا کھاتے رہے۔ پھر مدرسہ میں داخل ہو کر پانچویں جماعت میں اور پھر مڈل اور انٹرنس میں بھی وظیفہ حاصل کیا۔ میٹرک کے بعد مشن کالج میں داخل ہوئے۔ وہاں مولانا سید میر حسن (بعد میں شمس العلمائ) جیسے شفیق استاد کی توجہ خاص اور فیضان صحبت و تربیت نے ان جوہروں کو جلا دینے میں جو قدرت نے آپ کی طبیعت میں امانت رکھے ہوئے تھے، کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ سیالکوٹ کالج سے ایف اے پاس کر کے آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں آئے اور فلسفے کے علاوہ انگریزی اور عربی میں بہ اعزاز بی اے پاس کرنے پر دو طلائی تمغے اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ا نہی ایام میں مسٹر ڈبلیو آرنلڈ علی گڑھ سے گورنمنٹ کالج میں آ گئے تھے۔ وہ اقبال کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو کر کہا کرتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے۔ آپ نے ایم اے کے امتحان میں بھی یونیورسٹی بھر میں اول رہنے کی وجہ سے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد1901ء میں آپ نے امتحان مقابلہ (ای اے سی) کی تیاری کی۔ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ امتحان سے ایک روز قبل منظور شدہ امیدواروں کی جسمانی صحت کا معائنہ کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر نے کسی وجہ سے طبی لحاظ کو مد نظر رکھ کر آپ کا نام فہرست امیدواران سے خارج کرا دیا۔ اس پر اکتوبر1901ء کے ’’ کشمیری گزٹ‘‘ ستمبر1901ء کی کسی اشاعت کے ’’ پیسہ اخبار‘‘ نے میڈیکل بورڈ کے اس رویے کے خلاف زور دار مضامین لکھے۔ اس کے بعد آپ اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ، فلسفہ اور سیاست مدن کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1903ء میں آپ گورنمنٹ کالج میں جہاں پہلے شاگرد تھے فلسفے اور انگریزی کے استاد (اسسٹنٹ پروفیسر) بن کر آئے۔ 1905ء میں آپ ولایت گئے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے آنرز اور میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا اعزاز حاصل کیا۔ 1908ء میں ہندوستان واپس آئے پیسہ اخبار کے وسیع صحن میں عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں آپ کے احباب نے نظمیں پڑھیں۔ انہی ایام میں آپ کو علی گڑھ کالج میں آنے کے لیے کہا گیا۔ اخبارات میں مضمون بھی چھپے لیکن آپ نے بیرسٹری شروع کر کے آزاد زندگی کو ترجیح دی۔ چنانچہ آپ 29اگست1908ء کے گرامی نامہ میں سیالکوٹ سے راقم کو لکھتے ہیں:’’ آپ جموں کے راستے (کشمیر) جائیں تو ضرور سیالکوٹ تشریف لائیں تاکہ مجھے آپ کی دوستانہ قدر و منزلت کرنے کا موقع مل سکے۔ میں قانونی کتب کی طرف متوجہ ہوں۔ روٹی تو خدا ہر ایک کو دیتا ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں اس فن میں کمال پیدا کروں آپ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مہم میں میرا شامل حال ہو۔‘‘ امتحان مقابلہ میں ان کی ناکامی بظاہر افسوس کا باعث تھی اور ان کو خود بھی اس کا ملال تھا۔ بعد ازاں وہ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے لیکن ترقی کرتے تو زیادہ سے زیادہ پروفیسر ہو جاتے۔ ولایت سے بیرسٹر ہو کر آئے۔ بیرسٹروں کی ہندوستان میں کمی نہ تھی۔ وہ اس فن میں کمال بھی پیدا کر لیتے تو ان کے اپنے لیے ہی ہوتا۔ علی گڑھ کالج میں جانے سے بھی حکمت الٰہی نے کسی نہ کسی وجہ سے روک رکھا۔ کشمیری انجمن اور بعد ازاں کشمیری کانفرنس کے جنرل سیکرٹری بنے۔ پھر انجمن حمایت اسلام کے پریذیڈنٹ بھی رہے۔ پنجاب کونسل میں بھی گئے اور لوگوں کے اصرار سے بادل نخواستہ گئے۔ لیکن آخر ان سب امورات کی تہہ میں کیا یہ سر بستہ راز نہ تھا کہ مشیت ایزدی نے مسلمانان ہند ہی نہیں، مسلمانان عالم بلکہ ہر غافل قوم کو بیدار کرنے کا کام ان کے سپرد کر رکھا تھا۔ اور جب انہوں نے اپنے وجد آفریں، بیدار کن، حریت آموز اور پر جوش کلام کے ذریعے عوام الناس اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنا پیغام سنانا شروع کیا تو زبان خلق نے کہیں ترجمان حقیقت، کہیں حکیم الامت، کہیں حقائق آگاہ، کہیں شاعر اسلام اور کہیں شاعر مشرق کا خطاب دیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے مشہور اور نامی فارسی شاعر مولانا گرامی (جالندھری) نے ’’ پیغمبری کرد و پیغمبر نتواں گفت‘‘ سے مخاطب کیا۔ا ور حکومت نے بھی 1923ء میں آپ کی یہ عالمگیر عزت و شہرت دیکھ کر جو ہندوستان سے باہر یورپ، امریکہ اور تمام ممالک اسلامیہ میں آپ کی مثنویوں کے ترجموں کے ذریعے جا پہنچی تھی، آپ کو نائٹ (سر) کا معزز خطاب عطا کیا۔ اور اس تقریب پر جو جلسہ مقبرہ جہانگیر میں ہوا اس میں اکابر و رؤسا نے ملک کے علاوہ سر ایڈورڈ میکلگن گورنر پنجاب بھی شامل تھے۔ سر اقبال کے بزرگ گو صدیوں سے مسلمان چلے آتے تھے لیکن ہندوؤں اور بالخصوص برہمنوں کو ان کے اسلاف کے برہمن ہونے پر بھی فخر رہا ہے۔ چنانچہ پنڈت رام چندر دہاوی مشہور مذہبی مناظر، فاضل عربی و سنسکرت27جولائی1938ء کے روزنامہ ’’ احسان‘‘ (اقبال نمبر) میں لکھتے ہیں ’’ ایشوری گیانا ور کلام ربانی کو برہمن زادہ ہی سمجھ سکتاہے۔ اس میں اقبال نے کیا راز پنہاں رکھا ہے (یہی کہ) اقبال کشمیری پنڈت تھے۔ ہزاروں برس تک ان کے آبا و اجداد نے روحانیت کی تربیت میں اقبال کو اپنے اندر پرورش کیا۔ ‘‘ اقبال خود بھی لکھتے ہیں: میر و مرزا بہ سیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرم اسرار کجاست لیکن اس کے باوجود اقبال کو اپنے مسلمان ہونے پر جو فخر ہے وہ اسی کے اشعار ذیل سے معلوم ہو گا: بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے یاد ایام گذشتہ مجھے شرماتی ہے ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے اقبال1909ء میں انجمن کشمیری مسلمانان پنجاب کے سیکرٹری تھے۔ دسمبر کے آخری ایام میں بصدارت نواب بہادر نواب خواجہ سر سلیم اللہ نواب آف ڈھاکہ امرتسر میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کا سالانہ اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے انجمن کی طرف سے نواب بہادر کی خدمت میں جو سپاس نامہ بہ آواز بلند پڑھا، اس کے چند الفاظ ذیل میں درج ہیں: ’’ پوشیدہ نیست کہ اسلاف ما بہ غرض سیر و سیاحت و ترقی تجارت و حصول روزگار راہ غربت گرفتند و از خطہ جنت نظیر خویش انفراق نمودہ، دریں ملک ہندوستاں بہ مقامات مختلفہ اقامت و رز یدند، و در صورت اجنبی زندگانی مے کردند۔ ہنگامیکہ آفتاب مغربیہ بہ ہندوستان طلوع نمود و اقوام مختلفہ ایں دیار از علوم مغربیہ بہرہ اندوز گشتند دراںزماں بزرگان خطہ باوجود مشکلات مہاجرین دریں راہ قدم بہ نہادند، و افتاں و خیزاں خویشتن را بجائے رسالیدند کہ امروز بہ اعتبار علوم و فنون و حصول مراتب و وجاہت دنیویہ و ادائے فرائض دینیہ و بہ نظر تہذیب اخلاق در صف اقوام ترقی یافتہ جا گرفتند‘‘ اقبال کئی سال تک کشمیری مسلمانان پنجاب کی انجمن کے سیکرٹری رہے اور فوجی مسئلے اور حصول اراضی کی ضرورت و اہمیت کو برادری اور حکام دونوں پر ظاہر کرتے رہے۔ چنانچہ اس بارے میں ان کی کئی تحریریں کشمیری میگزین میں موجود ہیں۔ یہاں ان کی ایک مطبوعہ چٹھی کا جو اہل خطہ پنجاب کی فوجی، زمینداری اور مردم شماری کے مسئلے پر ہے، کچھ اقتباس درج کیا جاتا ہے: ’’ گورنمنٹ آف انڈیا اور خود کمانڈر انچیف تسلیم کر چکے ہیں کہ کشمیری مسلمان فوجوں میں ملازم ہیں۔ ان کے لیے کوئی بندش اور رکاوٹ نہیں ہے، البتہ ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ کشمیری زمینداروں کی فہرست اقوام بندی کی بھی کوشش ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ امر بھی مد نظر ہے کہ قوم کے خواندہ اور نا خواندہ اور بے کار اور بے کار اصحاب کا حال بھی معلوم ہو جائے تاکہ کمیٹی حتی المقدور اپنے بھائیوں کو کوئی مدد دے سکے۔ آپ کو یاد رہے کہ آپ کی قوم میں بھی وہ سچے موتی اور جواہر موجود ہیں، جن کی چمک دمک سے دنیا حیران اور خیرہ ہو سکتی ہے لیکن صرف جلا کی ضرورت ہے اور جلا تعلیم ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔‘‘ آپ کبھی کشمیر تشریف نہیں لے گئے تھے۔ چنانچہ8جون 1917ء کے ایک خط میں، جو راقم کے نام ہے، راقم کی تصنیف ’’ رہنمائے کشمیر‘‘ کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں’’ افسوس ہے، میں آج تک کشمیر نہیں جا سکا۔ لیکن آپ نے رہنمائے کشمیر میں جس انداز سے کشمیر و اہل کشمیر کے حالات لکھے ہیں، ممکن ہے ان کی کشش مجھے بھی کسی وقت ادھر کھینچ لے جائے۔‘‘ آخر آپ جولائی1921ء کی گرمیوں میں مولوی احمد الدین (لون) بی اے ایل ایل بی پلیڈر مرحوم اور اپنے منشی شیخ طاہر دین مرحوم کے ہمراہ کشمیر آئے۔ اہل کشمیر کو وہاں جس حال میں آپ نے دیکھا اس کا کچھ تذکرہ ذیل کے چند اشعار سے معلوم ہو سکے گا: کشیری کہ بابندگی خو گرفتہ بتے مے تراشد ز سنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدہ او فروغے نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرارے ازاں مے فشاں قطرہ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے ’’ بتے مے تراشد ز سنگ مزارے‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپ نے راقم کو لکھا کہ کشمیر اور اہل کشمیر پر کتابیں لکھ کر آپ نے مسلمانوں پر اور ان کے لٹریچر پر بڑا احسان کیا ہے، البتہ کشامرہ کی قبر پرستی ایک ایسا مضمون ہے جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا۔ اس طرف سب زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ آپ کو اہل کشمیر میں بیداری کی روح پیدا کرنے کا بڑا خیال تھا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں اس ملک کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اگر اس ملک کے لوگ بیدار ہو گئے تو وہ انشاء اللہ سارے ہندوستان کی رہنمائی کریں گے۔ مجھے 19دسمبر 1922ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کے لوگوں میں خود داری کی روح پیدا کی جائے۔ میں نے بھی ایک نظم اس موضوع پر لکھی ہے جو عنقریب فارسی مجموعے میں شامل ہو گی۔‘‘ آپ کے ایک خط کا فوٹو بھی آپ کے فوٹو کی پشت پر ہے۔ اس سے بھی معلوم ہو گا کہ آپ کو کشمیر و اہل کشمیر کی ترقی و فلاح اور ان کے لٹریچر کا کس قدر خیال تھا۔ آپ نے اہل خطہ پنجاب اور مسلمانان کشمیر کو ہمیشہ شجر اسلام کی ایک شاخ بلکہ شاخ ثمرور تصور کیا ہے۔ ان کے باہمی اتحاد اور ان کی بیداری اور ان کی قومی ضروریات پر نظم و نثر میں اپنے بیش قیمت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں: کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے اک لڑی میں آ کے گوہر مل گئے واہ وا کیا محفل احباب ہے ہم وطن غربت میں آ کر مل گئے ٭٭٭ موتی عدن سے لعل یمن سے ہوا ہے دور یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستاں میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور ٭٭٭ سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر ٭٭٭ پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا ان کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا ایک اور نظم انہوں نے انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے قیام پر فروری 1896ء میں انجمن کی ایک میٹنگ میں پڑھی تھی، جو ان کے ولایت سے واپس آنے کے بعد مارچ1909ء کے کشمیری میگزین میں ان کی نظر ثانی اور اجازت کے بعد چھپی تھی۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں: ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم یقیں ہے راہ پہ آئے گا طالع واژوں مثال شانہ اگر میری سو زبانیں ہوں نہ طے ہو زلف رہ شکر ایزد بے چوں خدا نے ہوش دیا متفق ہوئے سارے سمجھ گئے ہیں تری چال گنبد گردوں چراغ عقل کو روشن کیا ہے ظلمت میں ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا در مکنوں بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب کبھی نہ ہو قدم تیز آشنائے سکوں جو تیری قوم کا دشمن ہو اس زمانے میں اسے بھی باندھ اے اقبال صورت مضموں سیالکوٹ میں جب اپریل1928ء کے ایام میں مسلم کشمیری کانفرنس کا جلسہ ہوا تو آپ نے الفاظ ذیل میں اپنے ہمدردانہ خیالات کا اظہار کیا1؎: ’’ میں کانفرنس کے ہر ایک معاملے میں ہم خیال ہوں اور کانفرنس کے کاموں میں شامل ہو کر عملی طور پر حصہ لینے کی کوشش کروں گا۔ ہر ممکن اعانت کو تیار ہوں۔ خدا مجھے اپنی قوم کے نیک کاموں میں حصہ لینے کی توفیق عطا کرے۔ میری دلی دعائیں کانفرنس کی کامیابی کے لیے وقف ہیں۔‘‘ تحریک حریت کشمیر (1931ئ) کے ایام میں آپ حالات کشمیر کا بڑے غور سے مطالعہ کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، توقع کے خلاف نہیں ہے۔ ممکن ہے کبھی اس سے بھی زیادہ انقلاب کشمیر میں پیدا ہو۔ آپ ذات پات اور اونچ نیچ کے جھگڑوں سے سخت متنفر تھے اور حب وطن کو مذہب کا کفن تصور کرتے تھے۔ لیکن بقول علامہ سلیمان ندوی جب تک آپ کا ہندی ترانہ موجود ہے، ان کے وطنی جذبے سے کوئی انکار نہیں کر 1؎ آپ انہی تاریخوں میں کسی ضروری کام کے لیے شملہ جا رہے تھے، اس لیے خود جلسے میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ سکتا۔ کیا وہ اقبال ہی نہیں ہیں جنہوں نے ہماری نوجوان نسلوں کو یہ سکھایا ہے:’’ خاک وطن کا مجھ کو پر ذرہ دیوتا ہے۔‘‘ پھر ہندوستانی بچوں کو یہ گیت عنایت کیا ہے:’’ میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔‘‘ ہندی مسلمانوں کو بھی کہتے ہیں:’’ ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘ اپنی موت سے کچھ عرصہ پیشتر شیخ الہند مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ محمد اقبال کے درمیان ’’ قوم و ملت‘‘ کی بحث نے ایک ناگوار صورت اختیار کر لی تھی۔ لیکن آخر میں سر اقبال نے مولانا سے کئی امور میں اختلاف رائے کے باوجود اپنے بیان میں فرمایا: ’’ مولانا کا یہ ارشاد کہ ’’ اقوام اوطان ہی سے بنتی ہیں‘‘ قابل اعتراض نہیں۔ اس لیے کہ قدیم الایام سے قوم اوطان کی طرف سے اوطان اقوام کی طرف منسوب ہوتے چلے آئے ہیں۔ ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں، کیونکہ ہم سب کرہ ارضی کے اس حصے میں بود و باش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے موسوم ہے۔ علیٰ ہذا القیاس چینی، عربی، جاپانی اور ایرانی وغیرہ میں وطن کا لفظ محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا۔۔۔۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس کے لیے قربانی کرنے کو تیار رہتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سر اقبال ’’ مغربی نظریہ وطن‘‘ کے خلاف تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ دینی وحدت کو پارہ اپرہ کر کے قومی زندگی کی بنیاد وطن کو قرار دیا جائے۔ اور اس طرح ایک تو لادینی اور دہریت کا چرچا ہو کر مذہبی روح کو فنا کر دیا جائے، دوسرے ہر قوم اور ہر ملک کا وطن علیحدہ قرار دے کر اقتصادی مخالفتیں شروع کرا دی جائیں جن کا نتیجہ آخر میں جنگ، بلکہ جنگ عظیم ہو۔ اقبال کی غرض شاعری سے اپنی سخن وری کا اقبال کرانا نہ تھا۔ وہ خود اپنے ابتدائی کلام میں کہتے ہیں: شعر اقبال کو آتا نہیں کہنا لیکن تم جو کہتے ہو سخنور تو سخنور ہی سہی اس کے بعد بھی جب ان کی شہرت کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں سے گزر کر ممالک غیر تک جا پہنچتی ہے، لکھتے ہیں: خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کی اہے جن دنوں’’ اودھ پنچ‘‘ لکھنو میں ان کے کلام پر اعتراض ہوا کرتے تھے مجھے انہوں نے لکھا ’’لکھنو والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے، مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں، نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعر سمجھا ہے۔ حقیقت میں فن شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ پھر تمہیں کیونکر کامیاب ہو سکتا ہوں جسے روزی کے دھندوں ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ میرا مقصود گاہ گاہ نظم لکھنے سے صرف اسی قدر ہے کہ چند مطالب جو میرے ذہن میں ہیں میں ان کو مسلمانوں تک پہنچا دوں اور بس۔۔۔۔۔6مارچ1917ئ‘‘ اقبال کی زندگی کا بیشتر حصہ فکر معاش میں ضائع ہوا اور یہ ہندوستان کی بد نصیبی ہے کہ وہ پریشانیوں سے نجات حاصل کر کے ان اعلیٰ علوم کی طرف زیادہ آزادی و اطمینان کے ساتھ متوجہ نہ ہو سکے جن کے لیے فطرت نے آپ کو پیدا کیا تھا۔ لیکن ان حالات کے باوجود آپ کی غیر معمولی قوت تخلیق ہمیشہ بلندی کی طرف مائل پرواز رہی اور یہ آپ کی عظمت کی روشن دلیل ہے۔ اس کا ثبوت آپ کی سادہ، بے تکلف اور خود دار زندگی کے ہر لمحے میں ملتا رہا۔ چنانچہ انتقال سے کچھ عرصہ پیشتر سر اکبر حیدری مرحوم مدار المہام حضور نظام دکن نے آپ کو ایک ہزار روپے کا چیک بھیج کر لکھا کہ یہ روپیہ آپ کو ایک خاص فنڈ سے، جس کا میں نگران ہوں، بھیج رہا ہوں۔ اقبال درویش صفت ضرور تھے لیکن ’’ فقر غیور‘‘ اس جملے کی تاب نہ لا سکا۔ اشعار ذیل کے ساتھ وہ چیک واپس کر دیاـ: تھا یہ فرمان الٰہی کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہ اس نے ’’یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ‘‘ علامہ حسین احمد مدنی کا علمی فضل و کمال اور تقویٰ اور ان کا احترام آج ہندوستان میں مسلم ہے۔ لیکن ان کے سیاسی خیالات پر مخالفانہ تبصرہ کرنے اور اسلام کی محبت کے سامنے اظہار حق میں یہ بہت بڑی شخصیت بھی ان کو مرعوب نہ کر سکی۔ کوئی دن ایسا نہ جاتا تھا کہ غیر ممالک سے مختلف عقائد و خیالات کے لوگ ان کے پاس آ کر تبادلہ خیالات نہ کیا کرتے تھے: کیوں وہ صیاد کسی صید پہ توسن ڈالے خود بخود صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے آخر ایک طویل علالت کے بعد21اپریل1938ء کی صبح کو، جبکہ آفتاب طلوع ہونے والا تھا، پانچ بج کر چودہ منٹ پر65سال دو ماہ کی عمر میں انسانی زندگی کا یہ آفتاب درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مزار آپ کا روشنائی دروازے کے اندر بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس ہے۔ آپ کی وفات پر عربی، فارسی، اردو اور پشتو میں مرثیے لکھے گئے۔ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اہل علم نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔ جنازے میں ساٹھ ستر ہزار سے کم آدمی نہ تھے۔ اقبال کی بلند مرتبہ اور عالمگیر شخصیت اور اس کی بلند فطرت اور روشن دماغ تعلیم پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا1؎ اور شاید ایک وقت ایسا بھی آئے کہ اس کی مثنویاں 1؎ راقم کا خود بھی کئی دنوں سے خیال ہے۔ اسی بنا پر خطوط اقبال بھی بہم پہنچا رہا ہوں۔ یہاں صرف ان کے وہی حالات زیر قلم لائے گئے ہیں، جن کا تعلق زیادہ تر کشمیر و اہل کشمیر سے ہے اور ان کو بھی مختصر ہی کیا گیا ہے۔ اقبال کے حالات میں جس قدر کتابیں یا مقالے اس سے قبل چھپے ہیں، کشمیر کا ان میں کوئی خاص ذکر اور تھا اور نہ ان کے خاندانی حالات درج تھے۔ اور اس کا کلام اسلامی درسگاہوں میںبطور نصاب پڑھایا جائے۔ اس لیے اقبال کے چند اقوال و کلمات پر اس حکایت لذیذ کو ختم کیا جاتا ہے: 1اسلام دنیا میں پہلا مذہب ہے جس نے انسان کو کھلی فضا، تازہ ہوا اور سورج کی جاں بخش روشنی میں عبادت کی تلقین کی ہے۔ 2دنیا میں انسان کی زندگی کا مقصد صرف عمل ہے۔ 3ہر انسان چھوٹے پیمانے پر خود خالق ہے اور ان تخلیقی قوتوں کو ضائع کرنے کا نام گناہ ہے۔ 4ہر ہندوستانی مسلمان کا فرض ہے کہ ہر عقیدے کے مسلمان کے پیچھے، جس کا توحید و رسالت پر ایمان ہے، نماز پڑھے۔ 5ہر ہندوستانی مسلمان کا فرض ہے کہ بیکاری کو خدا حافظ کہہ کر اپنے دست و بازو سے کچھ نہ کچھ ضرور کمائے۔ 6ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کرتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ 7پیر و مرید کا عمل اس پر ہونا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے گناہوں سے بچنے کا اقرار کریں اور پھر دعا کریں کہ قیامت کے دن خدا ہمیں رسوا نہ کرے۔ 8اس زمانے میں اولیائے اسلام کی اولاد نے اپنے اسلاف کے تمام اوصاف کھو کر ان کی بزرگی کو اپنی ریاست و امارت کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ 9درویشوں کے قافلے میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیوں کر نصیب ہو سکتی ہے۔ 10اطمینان قلب ذکر الٰہی سے پیدا ہوتا ہے۔ 11شمال مغربی ہندوستان میں جن بزرگوں نے علم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں۔ 12اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآب صلعم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ اپنی دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کیا جائے۔ 13مسلمان اگر مسلمان ہے تو وہ کبھی محکوم و مغلوب نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس کا محکوم و مغلوب ہونا گویا حق کا محکوم و مغلوب ہونا ہے۔ 14وطن کی محبت انسان کا ایک فطرتی جذبہ ہے جس کی پرورش کے لیے اثرات کی کچھ ضرورت نہیں۔ 15جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کا ہی داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے۔ 16قرآن ہی کی یہ تعلیم ہے کہ انسان فطرتاً نیک ہے۔ اس کو کسی کفارے کی ضرورت نہیں۔ وہ بالطبع آزاد ہے اور آزادی کا حق رکھتا ہے۔ 17خوشامد، منت یا مانگے سے کبھی کچھ نہیں ملا۔ خدا کے سوا اور کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں۔ 18جو قوم ایک بہت بڑا مقصد لے کر پیدا ہوئی ہے، یاد رکھو کسی کے مٹانے کے باوجود نہیں مٹ سکتی۔ 19لیڈر گروں کی بھی ایک جماعت ہے۔ وہ اپنے کارخانے سے نت نئے لیڈر نکالتی رہتی ہے لیکن اس کارخانے کی اجناس دیرپا نہیں ہوتیں۔ 20اغیار کے تمدن کو ہر وقت اپنا رفیق بنائے رکھنا اس کی حلقہ بگوشی و غلامی کا مترادف ہے۔ 21مذہب کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر توجہ سیاست کے لیے وقف کر دی جائے، یہ یورپ کی غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ اور دوسری اقوام کے اخلاق کے لیے پیام موت ہے۔ 22 تمام علوم و کمالات اور مقاصد عالیہ جو نوع انسان کے لیے کسی نہ کسی رنگ میں مفید ہوں، ان کے حصول کی سعی جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ 23اسلامی تصوف مجوس، ہنود اور نصاریٰ کے تعلقات سے کافی حد تک متاثر ہو چکا ہے۔ 24عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔ 25بزرگوں کی آمد ثانی کے عقیدے میں یہ مصلحت رکھی گئی ہے کہ جب کوئی مصلح و مجدد کھڑا ہو، وہ لوگوں کے امن انتظار و اعتقاد سے فائدہ اٹھا کر ان کو ایک مرکز پر لا سکے۔ لیکن قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ 26موجودہ دنیا اپنے تمام علم و تہذیب اور صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی ’’ مخلوق‘‘ ہے۔ 27اس ملک کے بے کار ملا اور نکمے مسلمان اگر مذہبی بحث و پیکار، فتویٰ بازی اور لمبے لمبے درود و وظائف میں اپنا وقت صرف نہ کریں تو کیا کریں۔ 28لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام (کی تفسیر) میں ہندی اور یونانی تخیلات داخل کر دیے ہیں۔ کاش رسول اللہ صلعم پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کر دیں۔ 29جس قوم سے طاقت و توانائی مفقود ہو جائے، اس قوم کا نقطہ نگاہ بھی بدل جایا کرتا ہے۔ ترک دنیا، سستی، کاہلی اور تصوف کی شاعری کو وہ موجب تسکین سمجھتی ہے۔ 30ایک سادہ اور غیر تعلیم یافتہ اور بد شکل دہقانی لڑکی جو طاقتور، غیور اور حق پرست بچے پیدا کرتی ہے، اس خوب صورت عورت سے بدرجہا بہتر ہے جو تعلیم و تمدن کی روشنی سے تو بہرہ ور ہے مگر مرد کی نقالی میں مصروف اور حقیقی فرائض زندگی کی تکمیل سے جان چراتی ہے۔ 31ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کے ایثار کا ایک عظیم امتحان ہے اور دراصل اسی کا نام تصوف ہے کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی ہی سے روح کو تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ 32اگر دنیا کو ایک تاش سے نسبت دی جائے تو اسلام یکے کا پتا ہے، جس کے نقطہ توحید کے آگے تاش کے بڑے بڑے نہلے، دہلے، بادشاہ اور غلام کٹ جاتے ہیں۔ 33کشمیر کے مسلمانوں کو برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی کی اعانت اور رہنمائی کی لازمی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ (3) کچھ ذکر ڈاکٹر سر محمد اقبال کا (سرگذشت فوق) اقبال1875ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے1؎ ان کے بڑے بھائی کا نام شیخ عطا محمد ہے، جو اب تک صاحب حیات ہیں2؎ شیخ اعجاز احمد، اقبال کا بھتیجا ہے جو دہلی یا کسی اور جگہ سب جج ہے۔3؎ اقبال کے دادا کا نام محمد رفیق تھا۔ پست قد اور سفید پوش تھے۔ اقبال کے والد کا اصل نام شیخ نتھو تھا، لیکن بعد میں یہ نام شیخ نور محمد کے نام سے بدل دیا گیا۔ وہ کچھ پڑھے لکھے نہ تھے۔ 1؎ اقبال کی وفات کے بعد جو21اپریل1938ء کو واقع ہوئی، مرحوم کے قریبی رشتہ داروں نے میونسپل کمیٹی کے رجسٹروں کی جانچ پڑتال کے بعد اعلان کیا کہ ان کی تاریخ ولادت 22فروری 1873ء ہے۔ 1972ء کے لگ بھگ حکومت پاکستان نے صحیح تاریخ پیدائش کی تعیین کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی، جس نے تحقیق کے بعد یہ فیصلہ کیاکہ ولادت کی صحیح تاریخ9نومبر1877ء مطابق3ذی قعدہ1294ھ ہے۔ اب اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ 2شیخ عطا محمد کا22دسمبر1941ء کو قریباً اسی سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ 3شیخ اعجاز احمد اب ملازمت سے سبکدوش ہو کر کراچی میں مقیم ہیں۔ وہ اقبال کی جائیداد کے ٹرسٹی بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن صوفیاء اور علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی صحبتوں میں رہنے کی وجہ سے علم مجلس سے پورے آگاہ اور شریعت و طریقت کے نکات و رموز سے پورے واقف تھے۔ وہ ابتدا میں سلائی کا کام کیا کرتے تھے اور ’’ نتھو ٹوپیاں والے‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ سیالکوٹ میں سب سے پہلے سلائی کی مشین آپ ہی نے منگوائی تھی۔ اقبال کے والد نے بعد میں کچھ لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا1؎ ایسے ان پڑھ شخص کو خدا نے وہ فرزند عطا کیا، جس کے علم و فضل کی شہرت پر لگا کر اڑی اور سارے جہان میں آفتاب عالم تاب بن کر چمکی۔ اس کا نام بھی اقبال تھا اور وہ آخر عمر تک با اقبال ہی رہا، بلکہ اپنے خاندان تک کو با اقبال بنا گیا۔ میرے والد اور میرے والد کے حقیقی چچا مولوی اللہ دتا نائب قانون گو اور قانون گو کی حیثیت سے کافی مشہور تھے اور سیالکوٹ کی کشمیری برادری میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ اس لیے اقبال میرے بزرگوں کے نام سے تو واقف تھے لیکن میر اان کا تعلق1897ء یا1898ء میں بھاٹی دروازہ لاہور کے مشاعروں میں ہوا۔ میں نے پیسہ اخبار کی ملازمت کے دوران ہی میں تصنیف و تالیف کا شغل جاری کر رکھا تھا۔ انہی ایام میں ایک چھوٹی سی انگریزی کتاب ’’ How to pass Examination‘‘ کا اردو ترجمہ بابو دینا ناتھ حافظ آبادی سے ’’ امتحان پاس کرنے کا گر‘‘ کے نام سے کرایا اور اصلاح کے لیے شیخ محمد اقبال کے حوالے کیا۔ جو گورنمنٹ 1؎ اقبال کے والد کا انتقال7اگست1930ء میں ایک سو سال کی عمر میں ہوا۔ کالج میں عربک پروفیسر تھے۔ آپ نے اصلاح بھی کی اور بہت سی مفید باتوں کا اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کر دیا1؎ ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد اقبال درد ریج یا درد گردہ سے تڑپ رہے تھے۔ انارکلی میں ان کا قیا م تھا۔ میں گیا تو بہت مضطرب اور بے چین تھے، بلکہ تکلیف کی شدت سے رو رہے تھے۔ میں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! یہ کیا؟‘‘ فرمایا’’ اللہ میاں سے بصد عجز والحاح (زاری) کہہ رہا ہوں کہ بار الٰہا! اگر دوزخ سے نجات دینا ہے، تو بے شک اس تکلیف میں مبتلا رکھ اور اگر دوزخ میں ڈالنا ہے تو یہاں اس عذاب سے نجات دے۔‘‘ میں نے کہا’’ اس حال میں بھی خدا سے راز و نیاز کی باتیں ہو رہی ہیں!‘‘ اقبال کی طبیعت میں ظرافت بھی تھی اور اس کا اظہار اکثر موقعوں پر ہوا کرتا تھا۔ ایک دن میں گیا تو آپ کتابوں کی الماری کو اس طرح دیکھ رہے اور کتابوں کو اس طرح ٹٹول رہے تھے جیسے کسی خاص کتاب کی تلاش ہے۔ جب ذرا دیر لگی تو میں نے پوچھا’’ حضرت! کیا تلاش ہو رہی ہے؟‘‘ فرمایا’’ شراب کی ایک بوتل تھی کل شمس العلماء مفتی عبداللہ ٹونکی آئے تھے۔ دیکھ رہا ہوں وہی نہ لے گئے ہوں۔‘‘ مئی 1910ء کا واقعہ ہے، میں نے اور وجاہت حسین صاحب وجاہت جھنجھانوی مرحوم نے ایک ہی طرح میں غزلیں لکھیں۔ 1؎ اتفاق سے اس کتابچے کی ایک کاپی محمد عبداللہ قریشی (مولف کتاب ہذا) کے پاس موجود ہے۔ میری غزل صوفیانہ رنگ میں تھی1؎ اور وجاہت صاحب کی غزل دوسرے رنگ میں۔ ہم دونوں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے اور ان کو اپنا اپنا کلام سنایا۔ اس اثنا میں ان کے قانونی منشی شیخ طاہر دین آ گئے، جنہوں نے بعد میں حکیم طاہر دین2؎ ہو کر اور ’’ دلروز‘‘ کی دوا ایجاد کر کے خوب نام پیدا کیا تھا۔ منشی طاہر دین نے کہا۔ ایک موکل آیا ہوا ہے اور ملنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس کو بٹھاؤ۔ یہاں سے فارغ ہو کر ان کو بلاؤں گا۔ ہم نے کہا بابا! پہلے پیٹ کی فکر چاہیے، یہ شغل تو ہوتا ہی رہے گا۔ فرمایا یہ شغل تو غذائے روح ہے۔ روح ہے تو سب کچھ ہے۔ موکل اگر میرا ہی نام سن کر آیا ہے، تو کہیں بھاگ نہیں جائے گا۔ چنانچہ ہمارے بعد انہوں نے اپنا تازہ کلام سنایا اور جب ہم اٹھ کر چلے آئے تو موکل کو بلایا۔ ایک دفعہ میں اور بابو حیدر محمد ہیڈ کلرک ریلوے (برادر کلاں خان بہادر جسٹس دین محمد) شام کو سیر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب 1؎ یہ غزل کلام فوق (مطبوعہ1934ئ) کے صفحہ129-128پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کا مطلع اور مقطع یہ ہے: مصدر فکر و پریشانی ہوں میں مرجع تشویش و حیرانی ہوں میں میں غلام صاحب لولاکؐ ہوں فوق شان اعظم الشافی ہوں میں انہی دنوں اقبال نے یہ اشعار کہے تھے: دہ مرا فرصت ہو حق دوسہ روزے دگر 2؎ شیخ طاہر دین مئی1940ء میں انتقال کر گئے۔ وہ اقبال کی جائیداد کے ٹرسٹی بھی تھے۔ کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں مولوی محمد انشاء اللہ خاں مالک و مدیر ’’ اخبار وطن‘‘ بھی موجود تھے۔ کچھ باتیں ابتدائے اسلام کے متعلق ہو رہی تھیں۔ مولوی صاحب اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلام میں ایسی کشش نہ تھی کہ لوگ خود بخود اس طرف کھنچے آتے۔ اگر کشش حقیقی ہوتی تو ابتدا ہی میں بعض لوگ مرتد نہ ہو جاتے اور نہ لوگوں کو نبی بننے کی جرأت ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب واقعات و دلائل سے مولوی صاحب کے ان اعتراضات کی تردید کرتے تھے۔ آخر جب مولوی صاحب نے یہ کہا کہ چونکہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کی حمایت لازم ہے اور یہی کچھ اخبار میں کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب نہیں ہو سکتا، تو ڈاکٹر صاحب کو اس پر سخت طیش آیا۔ مولانا سے کہا’’ اگر آپ اس وقت یہاں سے تشریف لے جائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ میں اس وقت غصے سے کانپ رہا ہوں۔ شاید مجھ سے کوئی گستاخی ہو جائے۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جو اپنے اخبار میں روزوں کے فضائل اور ماہ رمضان کی برکات پر مضامین لکھتا ہے اور خود ایک بھی روزہ نہیں رکھتا، بلکہ دفتر میں ڈٹ کر حقہ پیتا ہے، وہ اگر اس کو عالمگیر مذہب نہیں کہتا تو کون سے تعجب کی بات ہے۔‘‘ غرض مولوی صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ ایک دفعہ کشمیری کانفرنس کا ڈیپوٹیشن مہاراجہ کشمیر کی خدمت میں بمقام کشمیر ہاؤس جانے والا تھا۔ میں اقبال کو بلانے کے لیے گیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جو مہاراجہ بارہ بجے سے پہلے مسلمان کا منہ دیکھنا گوارا نہیں کرتا میں کسی وقت بھی اس کا منہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ تعجب ہے کہ ایک ایسا شخص، جس کے شہر (جموں) کا نام صبح ہی صبح لینا نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی منحوس سمجھتا ہے، اس منحوس شہر کا رہنے والا مسلمان کو منحوس سمجھ کر اس کی شکل سے نفرت کرتا ہے۔ میں نے کہا یہ بات تو صحیح ہے کہ مسلمان بارہ بجے سے پہلے ان کے پاس نہیں جا سکتا، لیکن اس کی ایک وجہ بھی ہے، وہ یہ کہ مہاراجہ صبح عبادت اور پوجا کرتے ہیں۔ برہمن ان کے گرد ہوتے ہیں۔ ان میں ان کا کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اشنان کرتے ہیں، پھر حقہ بھرا جاتا ہے، پھر کچھ نوش بھی فرمایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کھانے کا وقت آ جاتا ہے اور خواہ مخواہ بارہ بج جاتے ہیں۔ جب جا کے ان کو برہمنوں اور رسوئی کے کاموں سے فرصت نصیب ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایک نہ سنی اور نہ آئے۔ لیکن ایک مرتبہ ان کے دوست آخر ان کو مہاراجہ سر پر تاب سنگھ کے پاس لے ہی گئی۔ یہ لاہور ہی کا واقعہ ہے۔ مہاراجہ کشمیر ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کا مہاراجہ سے تعارف کرایا گیا۔ ان کے دوستوں نے اس ملاقات سے پہلے ہی مہاراجہ صاحب سے ڈاکٹر صاحب کی شہرت اور ان کی شاعری کا کچھ ذکر کر رکھا تھا۔ مہاراجہ صاحب بے تکلف کہنے لگے: ’’ ڈاک دار صاحب! سنا ہے آپ ’’ بیت‘‘ بناتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی شوخی سے جواب دیا:’’ بیت‘‘ نہ کبھی میں نے بنائے، نہ کبھی میرے بزرگوں نے۔ اس کے علاوہ میں ڈاک دار بھی نہیں۔ نہ میں نے نہ میرے بڑوں نے کبھی ڈاک کا کام کیا ہے۔ مہاراجہ صاحب ان کے ساتھیوں کا منہ دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا: سرکار! یہ شاعر ہیں اور شعر کہا کرتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بیت کو وہ بیت سمجھا ہے جس سے کرسیاں بنی جاتی ہیں۔ مہاراجہ صاحب: ٹھیک کہا آپ نے۔ انہوں نے یہی سمجھا ہو گا اچھا کوئی شعر ہی سنائیے۔ ڈاکٹر صاحب شعر پڑھنے لگے تو مہاراجہ نے فرمایا: نہیں صاحب! گا کر پڑھیے، اسی لیے میں جس کی آپ کے دوست تعریف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جی میں کہا: جی تو یہ چاہتا تھاکہ کہوں: میرے دوستوں کے پاؤں میں گھنگھرو باندھیے تو میں بڑھوں، لیکن مہاراجہ کے احترام نے شوخی کا منہ بند کر دیا۔ بہرحال آپ نے پانچ سات شعر لے ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مہاراجہ نے خود بھی فارسی کے چند اشعار سنائے۔ پھر فرمایا: ’’ ڈاکٹری میں کون سا امتحان آپ نے پاس کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ میں تو فلسفے کا ڈاکٹر ہوں۔ فزیشن اور سرجن ڈاکٹر نہیں ہوں۔‘‘ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا: سرکار! یہ بھی آپ کی رعایا ہیں۔ فرمایا: وہ کس طرح؟ یہ لاہور کے رہنے والے ہماری رعایا کس طرح ہو گئے؟ ساتھی نے کہا: ان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے ہیں۔ ان کی ذات سپرو ہے۔ پنجاب میں ان کا وطن سیالکوٹ ہے۔ فرمایا: بہت اچھا ڈاکٹر صاحب! سرکار آپ کو کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ضرور آئیں۔ یہ قصہ مجھے ڈاکٹر سر محمد اقبال نے خود سنایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مختصر سے حالات ان کی چند غزلوں کے ہمراہ ان کی اجازت سے سب سے پہلے میں نے ’’ بہار گلشن‘‘ نام ایک مختصر سے مجموعہ اشعار میں چھاپے تھے۔ ان غزلوں میں سے ایک دو غزلوں کے سوا کوئی غزل بھی ان کے مطبوعہ کلام میں نہیں ہے۔ یہ 1898ء کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ کے32صفحوں پر مشتمل میں نے کسی قدر تفصیل سے ان کے سوانح زندگی، ان کی شاعری اور ان کی خدمات کا ذکر کیا، جو پنجاب کونسل میں ان سے ظہور میں آتی رہیں۔ یہ حالات ماہنامہ ’’ نیرنگ خیال‘‘ کے ایڈیٹر نے اپنے رسالہ کے ’’ اقبال نمبر‘‘ میں جو شاید1932ء میں چھپا تھا، طبع کیے اور ڈاکٹر اقبال کو ملاحظہ کرا کے چھاپے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے جب کوئی ان کے حالات طلب کرتا تھا تو وہ اس کو میرا پتہ لکھ کر دے دیا کرتے تھے۔ اقبال کی وفات کے بعد ’’ پیام اقبال‘‘ ، حیات اقبال، جوہر اقبال، دور اقبال اور اسی قسم کی اور کئی کتابیں ان کے حالات اور ان کی تعلیم کے متعلق لکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر اقبال کا سب سے پہلا فوٹو رسالہ ’’ خدنگ نظر‘‘ لکھنو میں چھپا تھا، جس میں ایک عجیب انداز سے وہ نشست فرما تھے۔ ان کا دوسرا فوٹو1909ء میں جب وہ ولایت سے واپس آئے تھے، میں نے کشمیری میگزین میں چھاپا تھا اور ان کے حالات بھی لکھے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے 1901ء میں ملکہ وکٹوریہ کا ایک درد انگیز مرثیہ لکھا تھا، جو علیحدہ پمفلٹ کی صورت میں چھاپا گیا۔ پھر گزشتہ جنگ یورپ (1914ء تا1918ئ) کے موقع پر انہوں نے جنگی بھرتی کے متعلق ایک نظم لکھی تھی، جو سرکاری اخبار’’ حق‘‘ نے چھاپی تھی۔ یہ دونوں نظمیں بھی ان کے کلام میں نہیں ہیں۔ لیکن میرے پاس موجود ہیں۔ میرے اخبار’’ پنجہ فولاد‘‘ میں ان کی غزلیں اور نظمیں چھپتی رہی ہیں۔ ایک منظوم خط بھی ’’ پیغام بیعت کے جواب‘‘ کسی دوست کے نام ان کا چھپا تھا۔ وہ بھی ان کے کلام میں نہیں ہے۔ 1902ء میں ’’ تاج الاخبار‘‘ راولپنڈی میں ان کے کلام پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا، تو ’’ پنجہ فولاد‘‘ نے ان اعتراضات کا جواب لکھا۔ ’’ اودھ پنج‘‘ میں تو ’’ ادیار‘‘ کے نام سے کلام اقبال پر مسلسل مضامین شائع ہوتے رہے۔ پھر وزیر آباد کے ایک گوشہ نشین نے اور پنڈت لبھو رام جوش ماسیانی نے ’’ اقبال کی خامیاں‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں۔ اقبال میں یہ خوبی تھی کہ اگر کوئی غلطی قابل تسلیم ہوتی تو اس کے مان لینے میں انہیں عذر نہ ہوتا تھا۔ بہرحال جن لوگوں نے اقبال کی خامیاں نکالیں یا ان کے کلام پر اعتراضات کیے آج ان میں سے کوئی کسی کا نام بھی نہیں جانتا۔ اقبال زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اس نے اپنے کلام کے ذریعے جو پیغام اہل ملک اور مسلمانوں کو دیا ہے، وہ کسی قوم، کسی ملک اور کسی ملت کو بیدار کرنے کے لیے جادو کا اثر رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے 1918ء میں ایک نظم ’’ ایثار صدیق‘‘ لکھی تھی جو حضرت ابو بکر صدیق اکبرؓ کے اسلامی خدمات میں اپنا سارا مال و متاع خرچ کر دینے کے متعلق ہے۔ اور جب آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں کہ صدیقؓ اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے، تو وہ عرض کرتے ہیں: پروانوں کو چراغ، عنادل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس حالانکہ حضرت صدیق اکبرؓ کے اصل الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں‘‘ مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، جو اقبال کے ہم وطن اور دوست تھے 25اکتوبر18ء کے ’’ اہل حدیث‘‘ امرتسر میں لکھا کہ اگر دوسرے مصرعے کو اس طرح بدل دیا جائے: صدیقؒ کے لیے ہیں خدا و رسول بس تو شعر میں کوئی نقص وارد نہ ہونے کے علاوہ روایت کا ترجمہ بھی برقرار رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولانا کے اس مصرع کو تو روایت کے مطابق صحیح تسلیم کیا، لیکن فرمایا’’ مولوی صاحب یہی بات مجھے براہ راست لکھ دیتے تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘ گزشتہ جنگ عظیم یورپ کے موقع پر ڈاکٹر اقبال نے جو نظم جنگی بھرتی کے متعلق لکھی تھی، وہ چونکہ ان کے کلام کے مجموعے میں نہیں ہے اس لیے اس کا پہلا اور آخری بند یہاں درج کیا جاتا ہے: بند اول اے تاجدار خطہ جنت نشان ہند روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند محکم ترے قلم سے نظام جہان ہند تیغ جگر شگاف تری پاسبان ہند ہنگامہ وغا میں مرا سر قبول ہو اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو بند آخر جب تک چمن کی جلوۂ گل پر اساس ہے جب تک فروغ لالہ و احمر لباس ہے جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے جب تک کلی کو قطرۂ شبنم کی پیاس ہے قائم رہے حکومت آئیں اسی طرح دبتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح بیرسٹری پاس کرنے کے بعد پہلے پہل انہوں نے موہن لال1؎ روڈ پر ایک کوٹھی کرائے پر لی۔ میں ان سے جب ملنے گیا تو خلاف معمول، مگر یہ سمجھ کر کہ شاید ولایت جا کر اور بیرسٹر ہو کر حالات بدل گئے ہوں اور سیدھا ہی دندناتے ہوئے چلا جانا گستاخی میں داخل نہ ہو، اپنا ملاقاتی کارڈ ان کے آدمی کو دیا۔ آدمی واپس آیا اور کہنے لگا کہ فرماتے ہیں۔ ابھی فرصت نہیں، ذرا تشریف رکھیے۔ چنانچہ چار پانچ منٹ کے بعد مجھے بلایا گیا۔ میں نے کہا: یا حضرت! یہ کیا؟ فرمایا: آپ خود سوچیں آپ نے کیا کیا؟ ایک بے تکلف دوست یہ تکلف کرے تو اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے، ورنہ آپ کے لیے تو میں اس شعر کی صورت میں حاضر ہوں: بصحن گلشن ما صورت بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہر انتظار بیا 1؎ اس سڑک کا موجودہ نام اردو بازار ہے اور یہ کوٹھی گلاب سنگھ کے چھاپے خانے کے قرب و جوار میں تھی۔ جب اقبال کو 1923ء میں سر ایڈورڈ میکلیگن گورنر پنجاب کے عہد میں نائٹ (سر) کا خطاب ملا تو اخباروں میں ان پر بڑی لے دے ہوئی، اس لیے کہ وہ ہمیشہ اس قسم کے خطابات کو خودی اور خود داری کے خلاف سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خطابات سچی بات کے اظہار میں ضمیر کو مردہ کر دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ شمس العلماء کے خطابات پر ذیل کا قطعہ لکھا تھا: بخت مسلم کی شب تار سے ڈرتی ہے سحر تیرگی میں ہے یہ شب دیدۂ آہو کی طرح ہے اندھیرے میں فقط مولوی صاحب کی نمود بن کے شمس العلماء چمکے ہیں جگنو کی طرح لطف یہ ہے کہ جس سال ان کو خطاب ملا، اسی سال ان کے استاد مولانا میر حسن سیالکوٹ کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے نوازا گیا بلکہ مشہور یہ ہے کہ انہی کی تحریک سے یہ خطاب ان کے استاد کو ملا۔ 17جنوری کو لاہور کے ہندو، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور انگریزوں کی طرف سے مقبرۂ جہانگیر میں اس خوشی میں آپ کو ایک عظیم الشان پارٹی دی گئی۔ میں بھی اس پارٹی میں مدعو تھا۔ مہمانوں کی تعداد پانچ چھ سو سے کم نہ تھی۔ خود گورنر اور سر جان میٹارڈ اور وزرائے پنجاب وغیرہ موجود تھے۔ بلکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی پرنس دلیپ سنگھ بھی پارٹی میں شامل تھی۔ خطابات سب کو ملا کرتے ہیں لیکن جو بحث مباحثہ نظم و نثر میں آپ کے خطاب پر عرصہ دراز تک ہوتا رہا، وہ کسی خطاب پر نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ اخبارات نے اس خطاب پر انہی کے اشعار میں ان کو مخاطب کرنا شروع کر دیا۔ حسب ذیل چند اشعار یاد رہ گئے ہیں: وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو ٭٭٭ نہیں یہ شان خود داری، چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیب گلو کر لے ٭٭٭ تو اگر خود دار ہے، منت کش ساقی نہ ہو عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر بلکہ بعض اخبارات نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے 1918ء میں جو نظم فوجی بھرتی کے متعلق لکھی تھی، یا تو یہ خطاب اس کا صلہ ہے یا ممکن ہے ان کی طویل خاموشی ہی گورنمنٹ کے حضور میں قابل انعام سمجھی گئی ہو۔ لیکن یہ خطاب دراصل ان کی علمی و ادبی خدمات کی شہرت کی وجہ سے تھا اور ان کی ’’ اسرار خودی‘‘ کی دھوم ان کی کتاب کے انگریزی ترجمے کی وجہ سے تمام یورپ میں ہو چکی تھی۔ 1910ء میں ایک بڑا لطیفہ ہوا۔ اخبار’’ الحکم‘‘ قادیان مورخہ 28اگست1910ء میں ایک خبر چھپی کہ فلاں صاحب کی نواسی کا نکاح بعد نماز مغرب پانچ سو روپے مہر پر ڈاکٹر محمد اقبال سے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس بیسیوں استفسار کے خطوط آئے اور کئی لوگوں نے زبانی میں شکایت کی کہ ہمیں اس موقع پر کیوں یاد نہ کیا اور چونکہ وہ شادی شدہ بلکہ صاحب اولاد تھے، اس لیے ان کے رشتہ داروں کو بھی بڑا تعجب بلکہ صدمہ پہنچا بلکہ ایک تو انہوں نے نکاح ثانی کر لیا حالانکہ بیوی موجود تھی (گو اس سے تعلقات اچھے نہ تھے) دوسرے وہ قادیان جا کر اور انہی میں رشتہ کر کے احمدی ہو گئے۔ اقبال کو آخر اس کی تردید چھپوانی پڑی۔ چنانچہ انہوں نے10ستمبر1910ء کو مولوی محبوب عالم مالک و ایڈیٹر پیسہ اخبار کے نام دستی چٹھی لکھی، جو15ستمبر کے روزانہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ میں ’’ وہ ڈاکٹر محمد اقبال اور ہوں گے‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ اس میں آپ نے لکھا’’ میرے اکثر احباب و اعزہ کو ’’ الحکم‘‘ قادیان کی اس عبارت سے غلط فہمی ہوئی ہے، اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں۔ جن ڈاکٹر محمد اقبال کا ذکر ایڈیٹر ’’ الحکم‘‘ نے کیا ہے، وہ کوئی اور صاحب ہوں گے۔‘‘ لیکن آخر ایک وقت ایسا آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو پہلی بیوی کی موجودگی میں ایک نہیں دو نکاح کرنے پڑے: کٹ کے دو مرتبہ زنجیر نئے سر سے بنی میری قسمت ہی میں ہے پائے بہ جولاں رہنا ڈاکٹر اقبال کو قطعہ تاریخ کہنے میں بڑا ملکہ تھا۔ سرسید احمد خاں اور حضرت امیر مینائی مرحوم اور بعض اور اکابر کی تاریخیں انہوں نے قرآن کریم ہی کے بعض الفاظ سے نکالیں۔ فی البدیہہ تاریخ بھی کہہ دیتے تھے۔ ’’ نواب میرزا داغ‘‘ ان کے استاد تھے۔ ان کا ایک لاجواب مرثیہ بھی لکھا اور انہی کے نام سے ان کا سنہ وفات1322ھ نکالا۔ ظہیر دہلوی جو داغ کے استاد بھائی تھے، ان کی وفات19مارچ1911ء کو ہوئی۔ ان کے ماتمی جلسے کے لاہور میں آپ ہی صدر تھے اور وہیں ’’ زبدہ عالم ظہیر دہلوی‘‘ سے ان کا سنہ وفات نکالا۔ میں نے جب 1910ء میں تاریخ شالا مار باغ کا دوسر ایڈیشن چھاپا تو میرے بیٹھے بیٹھے یہ دو شعر کہہ دیے: حسن سعی فوق را صد مرحبا ہست ہر سطر کتابش دلربا از سر نازش پئے تاریخ او مے سزد ’’تصویر1؎ باغ جانفرا‘‘ اقبال ابتدائے عمر بلکہ عالم شباب کے اخیر تک راگ رنگ کے بڑے شائق تھے۔ بربط اور ستار ہمیشہ ان کے پاس موجود رہتی تھی۔ شیریں سخن تو تھے ہی، لے بہت اچھی رکھتے تھے، آواز میں ترنم تھا۔ان کے خاص خاص دوست ان کی ایسی صحبتوں سے مستفیض ہوتے تھے۔ 1903ء و 1904ء میں یہ شعر اکثر ان کے ورد زباں رہتا تھا: لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال راگ ہے دین مرا، راگ ہے ایماں میرا آخر جب گرد و پیش کے حالات اور مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر ان کے قلب پر خاص اثر ہوا تو غزلیات بھی چھٹ گئیں، راگ رنگ بھی موقوف ہو گیا اور جس مقصد کے لیے مبدہ فیاض نے اقبال کا وجود ودیعت کیا تھا، وہ ان کی خداد داد قابلیت کے ذریعے پورا ہونے لگا۔ 1؎’’ تصویر باغ جانفزا‘‘ کے 1851عدد ہیں۔ ان میں سر ’’ نازش‘‘ یعنی ’’ ن‘‘ کے پچاس عدد جمع کیے جائیں تو کتاب کی تاریخ طبع1901ء بنتی ہے۔ اقبال طویل عرصے تک بیمار رہے۔ آخر21اپریل1938ء کی صبح کو نماز فجر کی اذان کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے جنازے پر ساٹھ ستر ہزار سے کم مخلوق نہ تھی، جن میں ہندو، مسلمان، سکھ سب شامل تھے۔ حضوری باغ کے سامنے بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس دفن کیے گئے۔ افسوس ہے مجھے ان کے آخری ایام میں ان کی ملاقات نصیب نہ ہو سکی۔ 1936ء کی گرمیوں میں شامل کے بعد میں ان کی نئی کوٹھی ’’ جاوید منزل‘‘ میں بہت عرصے کے بعد ان سے ملنے گیا۔ اس وقت بھی وہ بیمار تھے۔ کوٹھی کے باہر چارپائی پر بیٹھے ہوئے میاں غلام رسول خاں بیرسٹر اور ایک دو اور اصحاب سے اسلامیہ کالج کے پرنسپل کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔آواز بہت باریک او رکمزور تھی۔ محض ہڈیوں کا ڈھچر نظر آ رہے تھے۔ میں السلام علیکم کہہ کے بیٹح گیا۔ قریباً نصف گھنٹہ یا کچھ زائد عرصہ بیٹھا رہا، لیکن مجھ سے مخاطب نہیں ہوئے۔ چونکہ میں کشمیر ایسوسی ایشن کا سیکرٹری تھا، جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے کھنڈروں پر قائم ہوئی تھی اور جس میں احمدی جماعت کا بھی کافی اثر تھا، میرا خیال تھا کہ شاید وہ اس وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں۔ میں السلام علیکم کہہ کے چلا آیا۔ 1937ء کی سردیوں میں، غالباً جنوری کا مہینہ تھا۔ میرے چچا قبلہ خادم صاب ان کی ملاقات کو گئے۔ حالانکہ ابھی عصر کا وقت تھا لیکن پہچان نہ سکے اور کہا’’ آپ کون ہیں؟‘‘ جب خادم صاحب نے اپنا نام1؎ بتایا تو فرمایا کہ میری نظر کمزور ہے۔ میں 1؎ غلام محمد خادم پہچان نہیں سکا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہا’’ فوق کہاں ہے؟ ایک سال سے وہ نہیں آیا‘‘ میں ان دنوں بیمار تھا انہوں نے کہا وہ بیمار ہیں، اس لیے میرے ساتھ نہیں آ سکے۔ یہ واقعہ مجھ قبلہ خادم صاحب نے بتایا تو میں نے عرض کیا کہ میں مئی 1926ء میں شام کے بعد ان کے پاس گیا تھا، لیکن انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا اور میں واپس چلا آیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ان کو ضعف بصر کی شکایت ہے۔ وہ تو مجھے بھی نہ پہچان سکے۔ ان کی وفات کے دن بھی مجھے سخت بخار تھا۔ ان کی کوٹھی تک تو نہ جا سکا لیکن اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ تک چلا گیا، جہاں تمام لوگ جمع تھے۔ وہاں سے جنازہ بادشاہی مسجد میں لایا گیا اور رات کے دس بجے تک جب تک وہ سپرد خاک نہیں ہو چکے وہیں رہا۔ ڈاکٹر اقبال کا کلام عام فہم نہیں ہے۔ فارسی ہو یا اردو وہ دقیق اور شرح طلب ہے۔ ان کی سلیس اور آسان نظمیں بھی ہیں، جیسے ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ ، ملی ترانہ، نیا شوالہ اور پرندے کی فریاد وغیرہ مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اب جس طرح مثنوی ’’ مولانا روم‘‘ کے ترجمے اور ان کی شرحیں چھپ رہی ہیں یا جس طرح ’’ دیوان غالب‘‘ کی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں، اسی طرح اقبال کا کلام بھی شرح و تفسیر کا محتاج ہے۔ خصوصاً ان کی فارسی مثنویاں اور ان کا فارسی کلام۔ اقبال ڈے کی تقریبوں پر بعض اصحاب نہایت قابلیت سے ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہیں اور اس وقت انگریزی اور اردو میں ان کے پیغامات کی تشریح میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ اقبال کشمیریوں کو یہودی تصور کرتے تھے اور اگر اور کسی امر میں نہیں تو اس بات میں میرزا غلام احمد قادیانی سے ان کو اتفاق تھا۔ لیکن اس معاملے میں میرا ان سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ وہ کہتے تھے افغان بھی بنی اسرائیل ہیں کیونکہ ان کے عادات و خصائل، شکل و شمائل کشمیریوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کویہاں تک غلو تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کے پاس میموریل بھیجنا چاہیے کہ تم بھی بنی اسرائیل ہو اور کشمیر کے لوگ بھی۔ ان کے لیے کوئی نیکی، بھلائی اور بالآخر ان کی آزادی کی یادگار چھوڑتے جاؤ۔ میں ہمیشہ ان سے یہی کہتا رہا کہ آپ کشمیر کی تاریخ مطالعہ فرمائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کی رائے ان کے اسرائیل ہونے کے متعلق کہاں تک درست ہے۔ کشمیر کی تاریخ سے چنداں واقف نہ ہونے کے باوجود وہ کشمیر کے روشن اور درخشاں مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے جب کبھی کہا یہی کہا کہ ایسا روشن دماغ ملک، ایسے ذہین و ذکی لوگ اور ایسی صناح و ہشیار قوم ہمیشہ کے لیے کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔ بلکہ ان کا نظریہ اس معاملے میں تو یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ لوگ بیدار ہو گئے اور ان کو زمانے کا ساتھ دینے کی توفیق ہوئی اور اگر ذرا بھی انہیں آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا تو یہ سارے ہندوستان کو بیدار کر دیں گے اور ان کے رہنما ثابت ہوں گے آج ثابت ہو رہا ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کی چھ کروڑ آبادی میں سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں ہی نے جبر و استبداد کے خلاف تحریک حریت کا جھنڈا بلند کیا ااور ان کی دیکھا دیکھی اب دوسری ریاستوں کے لوگ بھی پرانا نظام حکومت بدلوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں او رپنڈت جواہر لعل نہرو عہد حاضر کا سب سے بڑا آل انڈیا اور ریاستی رعایا کا جو لیڈر ہے، وہ ایک کشمیری نوجوان ہی ہے۔ اقبال کے بعد اب کوئی ایسی علمی، ادبی، ملکی اور قومی اہلیت اور درد رکھنے والی مجلس نظر نہیں آتی، بلکہ انفرادی طور پر بھی کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جہاں جا کر علمی و اسلامی معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اقبال چارپائی پر لیٹے لیٹے گھنٹوں بولتے رہتے تھے۔ مذہبی گفتگو شروع ہے تو کوئی پہلو نہیں جو چھوڑ دیا ہو۔ ملکی بحث ہے تو اس میں بے تکان بولتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی بات چیت ہے تو اپنے دلائل سے مخاطب کو قائل کیے جا رہے ہیں۔ فلسفہ ہو یا منطق، اپنے ملک کا معاملہ ہو یا کسی غیر ملک کا، ان میں معلومات کی کمی نہ تھی قرآن اور حدیث کو نوجوانان ملک میں جتنا انہوں نے سمجھا اور پھر جس طریق سے خدا کا یہ کلام اور نبیؐ کا یہ پیغام لوگوں تک انہوں نے پہنچایا اور سمجھایا، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ میرے ساتھ تو عموماً معاملات کشمیر ہی کے متعلق گفتگو رہتی تھی۔ میں نے اقبال کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ سب سطحی باتیں ہیں۔ جن لوگوں نے ان کے حالات لکھے ہیں غالباً انہوں نے ان میں سے کوئی بات بھی اس کے متعلق نہیں لکھی۔ ابھی اور بہت کچھ لکھنا باقی تھا۔ لیکن گرمی کی وجہ سے ٹھہر ٹھہر کے دن میں کئی بار لکھتا ہوں اور اب تو تھک گیا ہوں1؎ حیات اقبال لکھنے کا 1؎ یہ 19,20جون1940ء کی بات ہے جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں۔ ارادہ تھا، لیکن یہ کام قدرت نے شاید کسی اور کے لیے ودیعت کو رکھا ہے۔ یہاں تو جو کچھ لکھا ہے بطور یادگار اور یاد داشت لکھا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی اپنی ملاقاتوں کا ذکر علیحدہ علیحدہ لکھے تو دفتروں کے دفتر تیار ہو سکتے ہیں، جن میں مذہب اور سیاست اور ظرافت اور منطق و فلسفہ غرض ہر قسم کی چاشنی دیکھی جا سکتی ہے۔ میں نے ان کے بعض لطائف بھی لکھے ہیں، جو میری کتاب ’’استادوں اور شاگردوں کے لطیفے‘‘ میں درج ہیں۔ وہ لطائف صرف اس زمانے کے ہیں جب آپ طالب علم تھے یا پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم کے متعلق پھر چند الفاظ: (جو سرینگر کشمیر میں15جولائی1940ء کو لکھے گئے) یقینا یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال1900ء میں ای اے سی (ایکسٹر اسسٹنٹ کمشنر) کے امتحان مقابلہ میں بھی شامل ہوئے تھے اور ضعف نظر کی وجہ سے اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ اس زمانے میں ان کی قابلیت، لیاقت اور ان کی شاعری کا چرچا ان کے احباب تک ہی تھا۔ چنانچہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ اور’’ کشمیری گزٹ‘‘ کے سوا کسی اور اخبار نے اس واقعے کا ذکر تک نہ کیا۔ا س زمانے میں آپ گورنمنٹ کالج میں عربک پروفیسر تھے لیکن ان کی قابلیتوں نے کالج کے دائرے کو محدود دیکھ کر بعد میں ولایت کا رخ کیا، جہاں آپ نے بیرسٹری کا امتحان بڑی تعریف اور کامیابی کے ساتھ پاس کیا، بلکہ وہاں لیکچرار بھی رہے اور فلسفے پر ایک مضمون لکھ کر پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری بھی حاصل کی۔ آپ جب ولایت سے واپس آئے تو علی گڑھ کالج میں آپ کو پروفیسر پیش کی گئی مگر آپ نے بیرسٹری میں کمال حاصل کرنے کی خاطر اس پیش کش کو قبول نہ کیا۔ آپ کے اس انکار پر روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ میں چند ایک مضامین بھی چھپتے رہے اور ان میں قومی کالج کی اس خدمت سے انکار کرنے پر افسوس کا اظہار کیا جاتا رہا۔ لیکن قدرت کو ان سے کوئی اور مفید کام لینا تھا۔ امتحان میں ان کی ناکامی بظاہر افسوس ناک تھی اور ان کو خود بھی اس پر افسوس تھا۔ وہ کالج میں پروفیسر تھے اور زیادہ سے زیادہ پروفیسری سے ترقی کر کے پرنسپل ہو سکتے تھے۔ پھر بھی ان کی شہرت کالج کے در و دیوار تک ہی رہتی۔ علی گڑھ کالج نے ان کو پانچ سو روپیہ ماہوار پیش کیا تھا لیکن وہاں بھی حکمت الٰہی نے ان کو جانے سے روکا۔ وہاں بھی وہ رہتے تو پروفیسر ہی کہلاتے۔ مولانا شبلی نعمانی نے علی گڑھ کالج میں اور شمس العلما مولانا آزاد نے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسری کی ہے لیکن آج ہندوستان میں ان کی جو شہرت ہے، وہ ان کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ادبی اور تاریخی خدمات و تصنیفات کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ڈاکٹر اقبال کی خداداد لیاقت کے آگے کسی کالج کی پروفیسری کی کوئی ہستی نہ تھی، بلکہ اگر وہ کامیاب بیرسٹر بھی ہو جاتے تو ان کی شہرت ان کے حلقہ اثر تک ہی رہتی اور قوم کو ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا۔ ان تمام امور کی تہہ میں یہی راز سر بستہ تھا کہ مشیت ایزدی ان کو اس کام کے لیے تیار کر رہی تھی جس کے لیے قدرت نے ان کو پیدا کیا تھا اور اس میں وہ اس حد تک کامیاب ہوئے کہ ان کی لیاقت و ذکاوت کی دھوم ہندوستان سے باہر یورپ، امریکہ اور تمام اسلامی ممالک میں پر لگا کر پہنچی۔ ان کی تصانیف کے انگریزی، فارسی، عربی، فرانسیسی، جرمنی، اطالوی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ پبلک نے ان کو ترجمان حقیقت اور علامہ دہر کا خطاب دیا اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے پر ساٹھ ستر ہزار مخلوق زبان حال سے ان کی موت کو قومی اور ملکی ماتم ظاہر کر رہی تھی۔ اقبال کے ارادت مندوں کی تعداد ہندوستان میں ہر جگہ موجود ہے اور نوجوان طبقہ تو ان کو اپنا حقیقی رہنما تصور کرتا ہے۔ انہی نوجوانوں پر قوم کی آئندہ توقعات کا انحصار ہے اور وہ غلو سے کام لے کر ان کو ولایت کے درجے تک پہنچا رہا ہے اور ولی اللہ اور عارف باللہ کہہ رہا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اقبال کی تعلیم، اقبال کے پیغام اور اقبال کی شاعری نے مردہ دلوں کو زندہ کیا، تن بے جان میں روح حیات پھونکی، مور بے مایہ کو ہمدوش سلیمان، جنگل کو چمنستان، غلام کو آزاد اور انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کی تعلیم دی اور بتایا کہ آزادی ہر مسلمان ہی کا نہیں بلکہ ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے عقیدت مندوں او رشیدائیوں کی بے حد مبالغہ سرائی کی وجہ سے ایک طبقہ مرحوم کی خامیوں اور کمزوریوں ہی کا متلاشی رہتا ہے۔ چنانچہ جب آپ نے ’’اسرار خودی‘‘ میں خواجہ حافظ شیرازی کے متعلق طعن آمیز اشعار لکھے تو ان کے خلاف ایک شور عظیم بلند ہوا اور آپ اس سے یہاں تک متاثر ہوئے کہ دوسرے ایڈیشن میں اس قسم کے تمام ا شعار آپ نے اپنی مثنوی سے خارج کر دیے۔ اقبال نے اپنی مثنویوں میں سر علی امام کی تعریف کی، کنگ امان اللہ خاں کا قصیدہ لکھا، نادر شاہ بادشاہ افغانستان کی مدح کی تو ان تمام باتوں کو ذاتی اغراض پر محمول کیا گیا۔ اور جب آپ نے 1923ء میں ’’ سر‘‘ کا خطاب قبول کر لیا تو ان کے دوستوں تک نے کہنا شروع کر دیا کہ: سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال اسی طرح’’ ضرب کلیم‘‘ میں جب نواب بوپال ہزہائی نس سر محمد حمید اللہ خاں کی تعریف میں آپ نے چند اشعار کہے تو ان کو نواب بھوپال کا قصیدہ گو بتایا گیا او رکہا گیا کہ نواب بھوپال نے ان کا جو ماہوار وظیفہ پانچ سو روپے مقرر کر رکھا ہے یہ اس کا تھوڑا سا صلہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواب بھوپال کو ان سے بے حد محبت تھی۔ اقبال سخت بیمار ہوئے تو انہوں نے ان کو بھوپال میں بلوا کر ان کا علاج اپنی زیر نگرانی کرایا اور پانچ سو روپے ماہوار وہ ایک تصنیف کے صلے میں دیا کرتے تھے جو اقبال کی علالت اور بعد میں ان کی وفات کی وجہ سے تشنہ تکمیل رہی۔ نواب بہادر نواب خواجہ سر سلیم اللہ، نواب آف ڈھاکہ، جب 1909ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے سالانہ جلسے کی تقریب پر امرتسر میں تشریف لائے تو انجمن کشمیری مسلمانان لاہور نے کشمیری مسلمانان پنجاب کی جانب سے نواب صاحب کی خدمت میں ایک سپاس نامہ پیش کیا تھا جو فارسی زبان میں تھا۔ اس کا مسودہ ڈاکٹر محمد الدین ناظر نے لکھا تھا اور ڈاکٹر محمد اقبال نے جو ان دنوں انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے جنرل سیکرٹری تھے، کسی قدر تغیر و تبدل کے بعد نواب صاحب کی خدمت میں بہ آواز بلند پڑھا تھا۔ اس مجلس خاص میں انجمن کے ممبر اور عہدے دار او رپنجاب کے مختلف اضلاع کے معزز اہل خطہ حضرات کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ وہ سپاس نامہ چونکہ نایاب تھا،ا س لیے وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی ایک یادگار سمجھ کر ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ’’ الحمد للہ امروز ساعت سعید ست بل روز عید کہ ما اہل خطہ از مختلف مقامات صوبہ پنجاب بخدمت اقدس برائے خیر مقدم جناب والا حاضر شدیم و از شرف ملاقات مشرف گشتیم:‘‘ اے آمدنت باعث آبادی ما ذکر تو بود زمزمہ شادی ما پوشیدہ نیست کہ اسلاف ما بغرض سیر و سیاحت و ترقی تجارت و حصول روزگار راہ غربت گرفتند و از قطعہ جنت نظٰر خویش انفراق نمودہ دریں ملک ہندوستان بمقامات مختلفہ اقامت و رزیدند، و در صورت اجنبی زندگانی می کردند۔ ہنگامیکہ آفتاب اقبال مغربیہ بہ ہندوستان طلوع نمود و اقوام مختلفہ ایں دیار از علوم مغربیہ بہرہ اندوز گشتند، دراں زماں این بزرگان خطہ باوجود مشکلات مہاجرت دریں راہ قدم بنہادند و افتاں و خیزاں خویشتن را بجائے رسانیدند کہ امرو زبہ اعتبار علوم و فنون و حصول مراتب و وجاہت دنیویہ و ادائے فرائض دینیہ، بہ نظر تہذیب اخلاق و خیر خواہی دولت انگلشیہ در صف اقوام ترقی یافتہ جا گرفتند۔ ازاں جا کہ اہل خطہ را از فضل ایزد منان در ملک ہندوستان جمعیت قومی بہ حصول پیوستہ کشمیر یان صوبہ پنجاب بہ کمال آرزو مندی برائے قبولیت عہدہ پیترن (مربی) بحضور والا عرض رساں اند و امیدوارند کہ جناب والا از منظوری ایں درخواست جملہ برادران خطہ را مشکور و ممنون بسازند و از انصرام ضروریات قومی و حفاظت حقوق اہل خطہ بیشتر از بیشتر سعی فرمایند۔ ما ازاں خیر خواہی دولت برطانیہ کہ از طریق عمل جناب ظاہر و ثابت شدہ است و می شود بر خود نازیم: از بیم جان و مال ہراساں نگشتہ ای ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند گورنمنٹ عالیہ کہ از راہ الطاف خسروانہ اعزاز بزرگ یعنی عہدہ ممبر کونسل ہائے جناب والا صفات را عطا فرمودہ است، ما اہل خطہ شکریہ ایں نعمت ادا کردن نمی توانیم و بدرگاہ خداوند کریم دعا می کنیم کہ حکومت برطانیہ را بر جادۂ مستقیم برقرار داراد: ایں دعا از ما و از جملہ جہاں آمین باد اقبال پیشہ ور شاعر نہ تھے کہ شاگردوں کا جمگھٹا ہر وقت ساتھ رکھتے۔ نہ ان کو شاگرد بنانے کا شوق تھا۔ تاہم بعض احباب ان سے مشورہ ضرور لیا کرتے تھے۔ ان میں رائے بہادر پنڈت شیو نرائن شمیم اور چودھری محمد حسین بھی تھے اور حاجی میر شمس الدین مرحوم بھی، جو انجمن حمایت اسلام لاہور کے سیکرٹری تھے۔ حاجی صاحب نے افغانستان کے کنگ امان اللہ خاں کے متعلق فارسی میں جو نظم لکھی تھی اس پر ڈاکٹر اقبال نے نظر ثانی کی تھی۔ یہ نظم انہوں نے کود کابل جا کر، جہاں ان کا فرزند میر رحمت اللہ ہمایوں، بادشاہ افغانستان کا سیکرٹری تھا، امان اللہ خاں کے حضور پڑھی تھی۔ اقبال کے خیالات نے بتدریج وسعت اختیار کی۔ ابتدا میں وہ ’’ مشاعروں کے شاعر‘‘ تھے اور اپنے رنگین و جمیل خیالات کی وجہ سے غزلیں کہا کرتے تھے۔ اس وقت ان کی شہرت کا دائرہ ان کے خاص احباب یا پھر ان کی برادری کی انجمن کشمیریاں تک محدود تھا، جہاں انہوں نے کشمیریان پنجاب اور اہل کشمیر کے متعلق چند نظمیں لکھیں۔ وہ نظمیں ان کے مطبوعہ کلام میں نہیں ہیں، لیکن ’’کشمیری میگزین‘‘ میں چھپ چکی ہیں۔ اس کے بعد وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے پلیٹ فارم پر آئے اور سب سے پہلے ’’ نالہ یتیم‘‘ کے نام سے بہ تحریک مولوی محبوب عالم مرحوم مدیر’’ پیسہ اخبار‘‘ آپ نے ایک تڑپا دینے والی نظم پڑھی۔ یہ نظم پیسہ ا خبار والوں ہی نے چھاپی۔ اس نظم خوانی کے دوران میں اقبال کے والد مرحوم شیخ نور محمد بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس موقع پر انجمن کو چندہ بھی دیا۔ انجمن کو اس نظم پر معقول آمدن ہوئی اور اس کے بعد ہر سال اقبال کی نظم انجمن کے سالانہ اجلاس کا جزو اعظم بن گئی۔ بعد ازاں اقبال کچھ اور آگے بڑھے تو انہوں نے ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ کے عنوان سے ایک قومی ترانہ لکھا جو اس قدر مقبول ہوا کہ بنگال ایجی ٹیشن کے زمانے میں جب انقلابی خیالات کی رو تمام ہندوستان میں چکر لگا رہی تھی، پر سیاسی جلسے میں سب سے پہلے پڑھا جاتا تھا۔ یہ نظم اب تک بھی مقبول عام ہے اور اقبال کی لاجواب مثنویوں اور ’’ زبور عجم‘‘ اور’’ بال جبریل‘‘ جیسی تصنیفات کے باوجود اب تک ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ا سی طرز اور اسی ردیف قافیہ میں ہندوستان کے اور بہت سے شعرا نے بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن مقبولیت کا وہی حال ہے جو شیخ سعدی کی ’’ گلستان‘‘ اور۔۔۔۔ کی ’’ خارستان‘‘ کا ہے۔ 1908ء کی جنگ بلقان اور سلطان عبدالحمید والی ٹرکی کی معزولی اور مسلمانان عالم کے اضطراب انگیز حالات دیکھ کر اقبال کی طبیعت یک لخت پلٹا کھاتی ہے اور وہ ملی ترانہ لکھتے ہیں۔ ان کے قومی ترانے کا مشہور شعر ہے: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا اب ملی ترانہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے: چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا خیالات کا یہ ارتقا یہاں آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے متعلق ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے: در مطلب ہے اخوت کے صدق میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر پھر مہاجرین کشمیر مقیم پنجاب کے متعلق فرماتے ہیں: ہم وطن غربت میں آ کر مل گئے کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے لیکن جب خیالات نے پرواز کی تو ہندوستان ہی نہ رہا، پھر کشمیر کس شمار میں تھا۔ ان کی نظر سارے ایشیا بلکہ سارے عالم پر چھا گئی۔ اسی میں ہندوستان اور اسی میں کشمیر کا شمار ہونے لگا۔ تصوف کے رسالہ طریقت کا اجراء اور ڈاکٹر اقبال کے مشورے: ڈاکٹر محمد اقبال کے پاس، جب وہ سر محمد اقبال نہیں تھے، میری آمد و رفت اکثر رہا کرتی تھی۔ ان کو اور ان کے خاندان کو پیران عظام اور اولیائے کرام سے بے حد عقیدت تھی، بلکہ جب وہ بیرسٹری کی تعلیم کے لیے ولایت گئے تھے تو دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے آستانے پر حاضر ہوئے تھے اور واپسی پر بھی وہاں فاتحہ کے لئے گئے تھے اور ایک نظم بھی پڑھی تھی جس کا یہ مصرع مشہور ہے: ’’لاج رکھ لینا مری اقبال کا ہم نام ہوں‘‘ 1؎ (اقبال، حضرت محبوب الٰہی کے خادم کا نام بھی تھا جن پر ان کی خاص نظر عنایت تھی) مگر ان سب باتوں کے باوجود وہ ایسے صوفیوں، پیروں اور دکاندار ولیوں سے سخت متنفر تھے، جنہوں نے اپنا پیشہ گرد اوری بلکہ گدا گری بنا رکھا ہے اور اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں پر سالانہ ٹیکس لگا کر ان کا کچومر نکال رہے ہیں۔ وہ مریدوں کو تو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ دنیا مردار ہے، یہ کافروں کے لئے ہے، مومنوں کو اگر عیش و راحت ہے تو وہ بہشت میں ہے، لیکن ان کو یہ تعلیم دے کر آپ محل کھڑے کر رہے ہیں، عالی شان عمارتیں بنا رہے ہیں اور جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ انہوں نے بار ہا مجھ سے کہا کہ اس قسم کا کوئی رسالہ جاری کرو جس سے اس فرقے کی کچھ 1؎ مکمل نظم ’’ برگ گل‘‘ کے عنوان سے باقیات اقبال کے صفحات169تا177پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اصلاح ہو سکے۔ انہوں نے اپنی غلط تعلیم سے مسلمانوں کو مردہ دل بنا رکھا ہے۔ ایسے اسلام کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جس پر صدہا غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ جب اسلام کی صحیح تعلیم سے خود بھی واقف نہیں تو مریدوں کو کیا تعلیم دیتے ہوں گے۔ ان کا طلسم توڑنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں اپنی مجبوریاں ظاہر کیا کرتا تھا کہ مجھے اخبار کی وجہ سے اتنی فرصت نہیں ہے اور نہ ہی حالات ایسے ہیں کہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو سکوں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ یہ طبقہ بہت ہوشیار اور جہاں گرد ہے۔ وہ رسالے کے مضامین دیکھ کر ہوا کا رخ پہچان جائے گا۔ اور پھر اس کو خریدے گا کون؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ شوگر کوٹڈ مضامین لکھو اور اپنے آپ کو بالکل ان کا عقیدت مند بنا کر اس کام کو ہاتھ لگاؤ۔ لیکن مقصد یہی رکھ وکہ ان کی اصلاح مطلوب ہے۔ دیکھو، مولانا روم کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ ایک طرف مولوی اور واعظ، شریعت و فقہ کے مسائل بیان کرتے تھے اور دوسری طرف مولانا روم اپنی مثنوی کا وعظ لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ مثنوی میں بھی وہی باتیں ہوتی تھیں جو دوسرے واعظ سنایا کرتے تھے۔ لیکن مولوی کے وعظوں میں جہاں قال اللہ قال الرسول کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تھا، لوگوں کی جمعیت کم ہوتی تھی اور مولانا روم کی مثنوی کے وعظ میں صد ہا لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مولانا نے وہ اصلاحی رنگ اختیار کیا جس کو لوگ جلد قبول کر سکتے تھے۔ انہوں نے عوام کا مذاق تاڑ لیا تھا اور وہ اسی مذاق کے موافق کتاب و سنت کے مسائل بیان کرتے تھے۔ لیکن دوسرے مولوی خشک ملا تھے، اس لیے ناکام رہتے تھے۔ تم بھی پیروں اور صوفیوں میں ’’ گھل مل‘‘ جاؤ گے تو وہ تمہاری بات سن لیا کریں گے۔‘‘ میں کئی دنوں تک اس پر غور کرتا رہا۔ میرے والد صاحب چونکہ صوفی مزاج تھے، انہوں نے بھی امداد کا وعدہ کیا۔ آخر ڈاکٹر صاحب کے سامنے میں نے ایک دن اجرائے رسالہ کی حامی بھر لی: اقبال بڑا آپدیشک میں، من باتوں میں موہ لیتا ہے اگست1914ء میں رسالہ ’’ طریقت‘‘ جاری کر دیا گیا۔ پہلے یا دوسرے پرچے میں صوفیائے کرام کے متعلق ان کے خیالات چھاپنے کے لیے ان سے انٹرویو کیا اور وہ انٹرویو بطور مضمون رسالے میں چھاپا گیا۔ پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اور ان کی وساطت سے حیدر آباد دکن اور میسور کے اکثر صاحبان اثر نے معقول مدد دی۔ پھر محمد حسین شاہ صاحب سجادہ نشین آلو مہار شریف بھی ایک رسالہ اسی قسم کا جاری کرنا چاہتے تھے۔ وہ چونکہ میرے ہم مکتب تھے اور خود میرے واقف تھے بلکہ ان کے والد اور ان کے دادا صاحب سے میرے والد اور میرے چچا منشی غلام محمد خادم کے ارادت مندانہ تعلقات تھے، ان کو خبر ہوئی تو انہوں نے حافظ جھنڈا مرحوم سکنہ گوجرانوالہ کو جن کی پنجابی نظمیں ان کی خوش الحانی کے ذریعے مقبول عام تھیں، میرے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر آپ ہمارے ہاں کے بھی کچھ حالات چھاپا کریں تو ہم سر دست ایک سو خریدار دے سکتے ہیں۔ آو ان شریف والوں سے بھی مدد ملی۔ بہاول پور اور کپور تھلہ میں بھی اہل دل حضرات نے کافی خریدار دیے۔ میں پیر جماعت علی شاہ کی انجمن خدام الصوفیہ کے جلسوں میں بمقام علی پور سیداں جاتا رہا۔ا س جماعت کے علاوہ اور لوگوں نے بھی پسند کیا اور صرف پنجاب تک ہی اس کا حلقہ محدود نہ رہا بلکہ ہندوستان کے ہر گوشے تک پہنچا۔ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ دو ہزار تک تھی۔ ہندو بھی اس کے خریداروں میں تھے۔ مولوی محمد عظیم سکنہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ، حضرت پیر جماعت علی شاہ کے مریدوں میں سے تھے اور بڑے خوش الحان واعظ تھے۔مثنوی شریف کا وعظ کہنے میں بہت کم واعظ ان کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ ان کو حضرت شاہ صاحب یا ان کے بعض منہ لگے مشیروں سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور انہوں نے ’’ طریقت‘‘ میں اصلاحی مضامین کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ابھی اس کے دو ہی نمبر چھپے تھے کہ بعض اطراف سے اس قسم کے مضامین پر اعتراضات ہونے لگے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا دیکھئے آثار اچھے نظر نہیں آتے بلکہ آپ نے ’’ اسرار خودی‘‘ میں خواجہ حافظ شیرازی کی تعلیم کو جو ’’ الحذر از گو سفنداں الحذر‘‘ بتایا ہے، اس پر بھی لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں۔ پیر جماعت علی شاہ بلکہ اکثر لوگ جن کا صوفیاء سے تعلق بھی نہیں ہے، ناراض ہیں اور میرے پاس جہلم سے ایک نظم بھی آپ کے اعتراضات کے جواب میں آئی ہے اور وہ نظم چھاپنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ (اقبال نے) فرمایا، نظم ضرور چھاپو اور اگر مناسب سمجھو تو مجھے بھی دکھا لو1؎ لیکن آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی 1؎ یہ نظم ملک محمد کاشمیری ٹھیکیدار جہلم نے لکھی تھی جو ایک علم دوست کشمیری بزرگ تھے۔ نظم چھپ گئی تھی۔ اس کے چند اشعار میرے مضمون ’’ معرکہ اسرار خودی‘‘ مطبوعہ مجلہ اقبال لاہور بابت اکتوبر1952ء کے صفحہ83پر دیکھے جا سکتے ہیں۔(مرتب) اصلاح، خدا کی قسم! ایک تو ثواب کا کام ہے اور اگر اس اثنا میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو یہ جہاد اکبر کا کام دے گا۔ غرض کچھ تو اس وجہ سے کہ مجھے ہر سال گرمیوں میں کشمیر رہنا پڑتا تھا، اخبار اور رسالے میں وہ دلچسپی نہ رہ سکی تھی اور کچھ اصلاحی مضامین اور ڈاکٹر صاحب کی ان غازیانہ باتوں سے، جن کے متعلق وہ خود کہتے ہیں: گفتار کا تو غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا آخر چار پانچ سال کے بعد یہ رسالہ بند کر دینا پڑا۔ ٭٭٭ مولف کتاب ہذا (محمد عبداللہ قریشی) نے ’’ اقبال اور طریقت‘‘ کے زیر عنوان ایک مفصل مضمون لکھا تھا جو پہلے مجلہ اقبال ریویو کراچی (حال لاہور) میں شائع ہوا تھا اور اب کتاب ’’ حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اس میں اقبال کاانٹرویو بھی موجود ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ حسب ذیل ہے: اگست 1914ء میں جب فوق صاحب نے رسالہ طریقت جاری کیا، اس کے پہلے پرچے میں ابو الاعجاز حضرت احسان شاہجہانپوری خواجہ حسن نظامی دہلوی، لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی، خان احمد حسین خاں (مدیر شباب اردو) مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد، خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی جیسے نامور بزرگوں کے مضامین نظم و نثر کے علاوہ ایک دلچسپ مکالمہ بھی شائع ہوا، جو اقبال اور فوق کے درمیان ہے۔ یہ سب حضرات اب باقیات الصالحات میں شامل ہو چکے ہیں۔ فوق صاحب کے اپنے ادارتی مضمون کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پرچہ نکالنے سے قبل حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر صوفیائے کرام، تصوف، مراسم عرس، ضرورت مرشد اور زیارت قبور وغیرہ کے متعلق ان کے خیالات دریافت کئے تھے۔ اقبال نے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا، وہ بھی لکھ لیا تھا اور ان کی نظر ثانی کے بعد رسالے میں درج کر دیا تھا۔ اقبال نے اپنے جوابات میں حقائق و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ یہ شراب اگرچہ کسی قدر پرانی ہو چکی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے یہ زریں خیالات آج بھی ہر تعلیم یافتہ نوجوان کے غور و فکر کے قابل ہیں۔ اس لیے میں فوق صاحب کے سوالات اور اقبال کے جوابات اس رسالے سے لے کر یہاں پیش کرتا ہوں: فوق: صوفیوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ اقبال: اہل تصوف خصوصاً ہندوستان کے صوفیائے عظام نے اسلام کو وہ رونق بخشی اور بجائے تیر و تلوار کے محض حسن عمل اور اخلاق محمدیؐ کے ریعے اس کی وہ اشاعت کی کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں چھ کروڑ یقینا ان ہی بزرگوں کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں۔ فوق: صوفیوں سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ اقبال: مسلمانوں کی اخلاقی زندگی پر صوفیائے کرام نے بہت بڑا اثر ڈالا۔ تمام ایسے اوصاف جو اخلاقی پہلو سے انسانیت کا خاصہ ہیں، محض انہی بزرگوں کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو انسان اور پھر مسلمانوں کو مسلمان بنایا۔ فوق: مسلم پالیٹکس کو ان سے کیا فائدہ ہوا؟ اقبال:صوفیوں کا گروہ پولیٹکل معاملات سے ہمیشہ علیحدہ رہا ہے۔ تصوف کا مقصد تزکیہ نفس، اصلاح باطن اور نفس کشی ہے اس لیے اس نے ملکی الجھنوں میں بہت کم بلکہ بالکل دخل نہیں دیا۔ البتہ بعض بعض سلاطین کو جو اپنے شاہانہ فرائض سے غافل ہو کر ملک میں فتنہ و فساد کا باعث ہوتے رہے ہیں، تادیبی ہدایات فرماتے رہے ہیں۔ جیسا کہ تواریخوں کے مطالعے اور صوفیائے کرام کے حالات سے اکثر ظاہر ہوتا ہے۔ فوق: اسلامی تصوف دنیا داری کے متعلق کیا تعلیم دیتا ہے؟ اقبال: اسلامی تصوف کی یہی تعلیم ہے کہ وہ دین کے ساتھ دنیا بھی رکھے۔ اسلام رہبانیت کے خلاف ہے اور گھر بار، اہل و عیال کو ترک کر کے جنگلوں اور بیابانوں میں زندگی بسر کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلامی تصوف ایسے یوگ کو، جو صرف اپنی ذات کے لیے ہو، ایک بے فیض اور خشک چشمے سے تشبیہہ دیتا ہے۔ بے شک یک سوئی حاصل کرنے کے لیے خلوت و عزلت نشینی کی ضرورت ہے، لیکن تمام لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے۔ دراصل ترک دنیا ایک برا نمونہ ہے اہل دنیا کے کاروبار کے لیے، بلکہ یہ صریح خلاف ورزی ہے الٰہی قانون کی جو انسانی نسل کے بڑھتے رہنے اور اس کے پھولنے پھلنے کا متمنی ہے۔ فوق: عرس کی رسم کب سے جاری ہے؟ اقبال: عرب اور دیگر ممالک اسلامیہ کی تو خبر نہیں، لیکن ہندوستان کے عرسوں کے متعلق یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں چونکہ جاترا کی رسم عرصہ دراز سے چلی آتی ہے اور دور دراز ممالک سے بعض خاص تیرتھوں پر جاترا کے لیے جایا کرتے تھے اس لیے جب وہ رفتہ رفتہ مشرف بہ اسلام ہونے لگے تو ان کو اسلام سے مانوس کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کئے گئے جو ان کے مذہبی اور قوی شعائر سے کسی قدر مشابہ تھے۔ یہ میرا قیاس ہے، یقین نہیں ہے۔ فوق: عرس کا مقصد کیا ہے؟ اقبال:عرس کا مقصد تو دراصل یہ ہے کہ جس بزرگ کا عرس ہو، اس کے سبق آموز حالات بیان کئے جائیں۔ لوگوں کو اس کے اچھے عمل کی تقلید و پیروی کی ترغیب دی جائے۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ عرسوں کا بیشتر حصہ اپنے اصلی مقصد سے دور ہٹ چکا ہے اور محض بے خبر ہے۔ فوق: صوفی لوگ موجودہ زمانے کی جدوجہد میں ہمارے لئے کس طرح مفید ہو سکتے ہیں؟ اقبال: اہل تصوف خصوصاً ان بزرگوں کا، جو صاحب اثر ہیں، اور اپنے عقیدت مندوں کا بہت بڑا حلقہ رکھتے ہیں، یہ نہایت ضروری فرض ہے کہ وہ اپنے معتقدوں اور ارادت مندوں کو اپنے حلقہ اثر میں رکھیں اور ان کی زندگی کو مذہبی اور اخلاقی پہلو سے ایک کامیاب زندگی بنا دیں۔ سوشل ترقی کے لیے جدوجہد کرنا بھی ایک قسم کی بیداری ہے اور یہ بیداری جب کبھی ہو گی، حضرت صوفیاء کے پاک نفوس ہی سے ہو گی۔ فوق: اولیاء کی کرامتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اقبال: میں کرامتوں کا قائل ہوں اور میرا خیال ہے کہ وہ پاک نفوس، جن کو اللہ تعالیٰ نے خاص دل اور خاص دماغ عطا کیا ہے اور جو تزکیہ نفس میں صاحب کمال ہیں، تیر از کمال جستہ اور آب از جسو راتہ واپس لا سکتے ہیں: اولیاء را ہست قدرت از الہ تیر جستہ باز گرداند ز راہ فوق: قبروں پر جانا چاہیے یا نہیں؟ اقبالـ: اگر مراد اس سے قبر پرستی ہے یعنی صاحبان قبور سے حاجات طلب کی جائیں جس طرح خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر کی جاتی ہیں تو میں اس کے سخت خلاف ہوں بلکہ اس کو سخت گناہ سمجھتا ہوں۔ اور اگر قبروں پر جانے سے مطلب فاتحہ پڑھنا، عبرت حاصل کرنا اور موت کو یاد کرنا ہے تو میرے نزدیک اس میں کوئی ہرج نہیں۔ بلکہ ایسا ضرور ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی قائل ہوں کہ قبرستانوں پر خصوصاً کسی صاحب دل کے مزار پر جانے سے صفائی باطن بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ فوق: پیر کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اقبال: پیر یا مرشد کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کوئی صحیح اور کامل راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ روحانی فائدہ تو ان بزرگوں سے صرف ان ہی لوگوں کو ہو گا جو اہل دل ہیں، جن کے دل میں درد ہے، جن کے قلب میں گرمی اور روح میں تڑپ ہے۔ لیکن کم سے کم اخلاقی فائدہ تو ہر مرید حاصل کر سکتا ہے۔ پیر کی صحبت سے (بشرطیکہ پیر دوکانداری نہ کرتا ہو) ہر مرید اپنا اخلاق سنوار سکتا ہے۔ اور جس کا اخلاق درست ہے، جس کے افعال ٹھیک ہیں اور جس کے اعمال ’’ اعمال حسنہ‘‘ کہے جاتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کون بہترین انسان ہو سکتا ہے۔ فوق: از منہ سلف کے سے اب پیر کیوں نہیں ہوتے؟ اقبال:اس کی وجہ یہ ہے کہ سوسائٹی ان اوصاف سے معراً ہے جن سے ایسے نیک وجود پیدا ہو سکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے عالم، فلاسفر اور موجد پیدا ہوتے ہیں۔ بلکہ دنیا کی کاروباری زندگی میں مشینوں، انجنوں اور نت نئی ایجادوں کے ذریعے جس قدر انقلاب ان لوگوں نے پیدا کیا ہے اس نے تمام دنیا اور بالخصوص اہل ہند کو عالم حیرت میں ڈال دیا ہے۔ مگر اس پر کبھی غور بھی کیا گیا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے عالموں، فلاسفروں اور موجدوں کی طرح اور ممالک میں ایسے لوگ کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اس کے جواب میں سوائے سوسائٹی کے تاثرات کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں علم و ہنر کا چرچا نہیں، جہاں دماغوں سے سوچنے اورغور کرنے کا کام نہیں لیا جاتا وہان ایک فلاسفر، ایک عالم اور ایک موجد کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟ لیکن بعض مسنثیات بھی ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ دکھانے کے لیے بعض دفعہ ایسے امور کا اظہار بھی کر دیتا ہے کہ سوسائٹی کا ثر بالائے طاق رہ جاتاہے اور انسان کو اپنی عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً گوتم بدھ کا ایک بادشاہ کے گھر میں پیدا ہونا اور پھر فقیری اختیار کر لینا سوسائٹی کے اثر پر اگر غور کیا جائے تو گوتم کے گرد و پیش جس قسم کی سوسائٹی تھی، وہ دکھ، بیماری، فقر و فاقہ اور درد دل سے بالکل لا علم اور عیش و عشرت اور تفریح و مسرت میں محو رہا کرتی تھی۔ ایک بادشاہ کا بیٹا دکھ محسوس کرتا ہے۔ ایک عالم کی تکلیفوں کو اپنی ذاتی تکلیف سمجھتا ہے اور اسی قلق سے مضطرب ہو کر سلطنت ترک کر دیتا ہے۔ عرب جیسے جاہل اور اجڈ ملک میں جہاں دنگہ فساد، خون خرابا، لڑکیوں کا قتل اور دنیا جہان کے دیگر عیوب ایک معمولی بلکہ تفریح کی بات سمجھے جاتے تھے، وہاں ایک شخص درگاہ رب العزت سے اس قسم کا غیر معمولی دماغ و دل لے کر آتا ہے جو ایک عالم میں نہ مٹنے والا انقلاب اور دلوں میں نہ محو ہونے والی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ میری مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے جو دنیا کے سب سے بڑے آدمی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کا ایک روشن نمونہ تھے۔ ان کے گرد و پیش اور نواحیات میں جس قسم کے خیالات تھے ان کا خاکہ مولانا حالی نے اپنی ایک نظم میں اتارا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اہل عرب بات بات پر لڑتے تھے اور لڑائی کا سلسلہ صدیوں تک جاری رکھتے تھے۔ ایک خدا کی جگہ کئی کئی خدا اور اپنے ہی ہاتھ کے بنائے ہوئے بت پوجتے تھے۔ شخصیت پرستی کا دور دورہ تھا۔ شراب اور خواہشات کی گرم بازاری تھی۔ انصاف اور قانون کا نام و نشان نہیں تھا۔ ان حالات کی موجودگی میں ایسے رحمتہ للعالمین کے وجود ذی جود کی کس طرح توقع ہو سکتی تھی جس نے عرب جاہل عرب کو وہ قابل فخر خطہ بنا دیا کہ آج تمام دنیا کے مسلمان سر زمین عرب کو دنیا کا بہترین و افضل ترین ٹکڑا تصور کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر اپنی جان فدا کرنے کو تیار ہیں۔ در حقیقت یہ ایک الٰہی قانون ہے کہ بڑے بڑے آدمی وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں ان کے پیدا ہونے کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہوتی۔ اس مکالمے سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کی صحبتوں میں وہ باتیں معلوم ہوتی تھیں جن کی آپ کے اشعار میں محض کہیں کہیں دھوپ چھاؤں سی ملتی ہے۔ رسالہ طریقت کی علمی حیثیت چونکہ بہت بلند تھی اس لیے ملک کے گوشے گوشے میں اس کی پذیرائی ہوئی۔ پیر سید جماعت علی شاہ مرحوم و مغفور محدث علی پوری کی وساطت سے پنجاب، حیدر آباد دکن، کشمیر اور میسور کے اکثر صاحبان اثر نے معقول امداد دی۔ پیر سید محمد حسین سجادہ نشین آلو مہار شریف نے حافظ جھنڈا مرحوم سکنہ گوجرانوالہ کو جن کی پنجابی نظمیں ان کی خوش الحانی کی وجہ سے مقبول عام تھیں۔ فوق صاحب کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر آپ ہمارے ہاں کے کچھ حالات چھاپ دیا کریں تو ہم سر دست ایک سو خریدار دے سکتے ہیں۔ آوان شریف والوں سے بھی مدد ملی، بہاولپور، تونسہ شریف اور کپور تھلہ کے اہل دل حضرات نے بھی کافی خریدار دیے۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں اس رسالے کی اشاعت دو ہزار تک پہنچ گئی۔ عام لوگوں نے بھی اسے پسند کیا اور ہندو بھی خاصی تعداد میں اس کے خریدار بنے۔ اقبال اپنے لگائے ہوئے پودے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ فوق صاحب کاروبار میں زیادہ مصرف رہنے کی وجہ سے کچھ عرصہ ان کی ملقات کو نہ جا سکے۔ اس پر آپ نے خط لکھا2؎: ڈیر فوق! ۔۔۔۔۔آپ کبھی ملتے ہی نہیں اب تو آپ پیر طریقت بھی بن گئے۔ خدا کرے جلد حافظ جماعت علی شاہ صاحب 1؎ یہاں یہ بات شاید آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہو کہ اقبال خود بھی بچپن سے سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود صاحب دربار آوان شریف کے مرید تھے جو سلسلہ قادریہس ے تعلق رکھتے تھے۔ 2؎ رسالہ نقوش مکاتیب نمبر، جلد اول، ص294 کی طرح آپ کے ورود کشمیر کے متعلق اطلاعیں شائع ہوا کریں۔ والسلام 23جولائی1915ء آپ کا خادم محمد اقبال پیر جماعت علی شاہ صاحب کا نام آ گیا ہے تو لگے ہاتھوں فوق صاحب کے اپنے الفاظ میں ان کی چند صحبتوں کا ذکر بھی سن لیجئے جو دلچسپی سے کالی نہیں فرماتے ہیں: ’’ 1915ء کا ذکر ہے، میں انجمن اسلامیہ پونچھ کی دعوت پر پونچھ جانے والا تھا۔ اور مولوی محمد عظیم گکھڑوی مرحوم کو بھی، ان کی تحریری خواہش کے مطابق، اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ مولوی محمد عظیم میرے دوستوں میں سے تھے۔و عظ بہت اچھا کہتے تھے اور حضرت شاہ صاحب کے ممتاز مریدوں میں تھے۔ پہلے ہم دونوں کو جموں پہنچنا تھا۔ وہاں بھی انجمن اسلامیہ کا جلسہ تھا جہاں میری نظم تھی اور ان کا وعظ۔ وہاں گئے تو حضرت شاہ صاحب بھی اسی سلسلے میں تشریف فرما تھے۔ جلسے سے فارغ ہو کر میں نے مولوی محمد عظیم سے روانہ ہونے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں تو حاضر ہوں لیکن حضرت صاحب سے اجازت کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا، اگر اجازت نہ ملی تو پھر؟ وہ کھسیانے سے ہو گئے لیکن یہی کہا کہ آپ بھی حضرت صاحب سے ذکر کریں۔ میں نے ذکر کیا تو جواب ملا کہ سیالکوٹ تک تو چلو۔ غرض وہاں گئے مگر وہاں دعوتوں کی کثرت اور لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے کسی گفتگو کا موقع ہی نہ مل سکا۔ آخر ایک دن ہمت کر کے ان سے عرض کیا کہ پونچھ میں جلسے کا دن نزدیک آ رہا ہے۔ پرسوں تک وہ کہوٹہ میں ہمارے لیے سواری اور اپنے آدمی بھیج دیں گے اور یہاں کچھ عرض کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ بات صرف اتنی ہے کہ پونچھ کے مسلمانوں کو، جو اسلامی احکام و تعلیم سے بے خبر ہیں، سیدھا راستہ بتانے کے لیے آپ کے ایک مرید و عقیدت مند کو ہمراہ لے جانے کی ضرورت ہے۔ فرمایا اچھا صبح دیکھا جائے گا۔‘‘ میں نے صوفی کرم الٰہی بی اے وکیل سیالکوٹ سے جو ان کی انجمن خدام الصوفیہ کے سیکرٹری اور ان کے مرید خاص تھے، اپنی روحانی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی حضرت صاحب سے سفارش کریں۔ آپ نے جواب دیا میری تو اس قدر جرات نہیں۔ میں نے کہا آخر وجہ؟ کہا مرید ہو کے دیکھ لو۔ میں نے کہا ایسی مریدی سے باز آیا جو تھوڑی بہت جرأت اور رہی سہی آزادی کا بھی خاتمہ کر دے۔ اس زمانے میں پسرور اور علی پور تک ریل نہ جاتی تھی۔ لوگ اکوں (یکوں) پر آمد و رفت رکھتے تھے۔ صبح ہوئی تو قریباً چھ اکے تیار دیکھے گئے جن پر حضرت صاحب کے مرید اور ملازم مع اسباب وغیرہ سوار تھے لوگ اپنے مطالب و مقاصد کے لیے حضرت صاحب کے گرد جمع تھے اور یہ شور سنائی دے رہا تھا کہ حضرت! میرے لیے بھی دعا فرمائیے۔ حضرت صاحب دعا فرماتے اور وہ شخص ہاتھ چوم کر علیحدہ ہو جاتا۔ جب سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو میں بھی حضرت صاحب سے ملا اور عرض کیا ’’حضرت! میرے لیے بھی دعا فرمائیے‘‘ فرمایا’’ کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا’’ بس یہی کہ خداوند کریم جو مقلب القلوب ہے اور ایک پل میں دلوں کو پھیر سکتا ہے، آپ کو یہ توفیق رفیق کرے کہ آپ میری خاطر نہیں، مولوی صاحب کی خاطر نہیں بلکہ پونچھ کے پہاڑی خطے کے مسلمانوں کو اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرنے کی خاطر مولوی صاحب کو پونچھ جانے کی اجازت عطا فرمائیں۔‘‘ حضرت صاحب ہنس پڑے اور کہا ’’ بہت اچھا۔ مولوی صاحب! آپ کو اجازت ہے، آپ ان کے ساتھ ابھی روانہ ہو جائیں‘‘ میں نے کہا’’ حضرت! دیکھیے اتنے لوگوں میں سب سے پہلا خوش نصیب میں ہی ہوں جس نے اپنی دعا کی مقبولیت یہیں کھڑے کھڑے دیکھ لی۔‘‘ ’’ ایک مرتبہ میں (فوق) سرینگر میں خواجہ اکبر شاہ عشاوری رئیس زینہ کدل کے ہاں مقیم تھا۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب بھی کشمیر تشریف لائے۔ وہ حسب دستور خواجہ غلام مصطفیٰ بچھ مرحوم فتح کدلی کی کوٹحی میں جو برلب دریا ہے، فروکش ہوئے۔ مجھے خبر ہوئی تو میں سلام کو گیا۔ فرمایا جب تک ہم سری نگر میں مقیم ہیں، یہیں آ رہو فرمایا میں نے کچھ عذر کیا۔ آپ نے آدمی میرے ساتھ بھیجا اور وہ خواجہ اکبر شاہ کوپیر صاحب کا پیغام دے کر میرا بستر اٹھوا لایا۔ پیر صاحب کے ہاں ہر وقت بھیڑ بھاڑ رہتی تھی۔ تنہائی میں لکھنے پڑھنے کا سب لطف جاتا رہا۔ پابندی کی نمازیں، ان کے ساتھ نفل، ختم اور نعت خوانی، پھر مجلس کی باقاعدہ حاضری میں ا سقید بے زنجیر اور ان تکلفات کا عادی نہ تھا۔ ایک دن پیر صاحب نے خود ہی ’’ فرمایا کہیے، یہاں کوئی تکلیف تو نہیں؟‘‘ میں نے کہا’’ آپ روشن ضمیر ہیں۔ جو تکلیف ہے وہ آپ سے چھپی ہوئی نہیں‘‘ فرمایا اچھا نفل ختم، اور نعت خوانی کی مجالس میں آپ اپنی خوشی سے بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘ کشمیر میں پیر صاحب کی مجلس میں جو آتا تھا، قہوہ یا چائے ضرور پی کے جاتا تھا۔ ویسے بھی عوام کے علاوہ بڑے بڑے لوگ ان کے پاس آتے تھے۔ میں نے ہندواڑہ کے علاقے میں جو سری نگر سے پچاس میل کے فاصلے پر ہے، ایک مرد اور ایک عورت کو پیدل آتے دیکھا جو سری نگر میں صرف ان کی زیارت کرنے اور تعویذ لینے کے لیے جا رہے تھے۔ کشمیر کے پیروں اور ان مولویوں اور واعظوں کو جو نذر نیاز لینے کے عادی ہیں، پیر صاحب کی یہ ہر دلعزیزی اور مقبولیت دیکھ کر بہت فکر ہوئی کہ رفتہ رفتہ ہمارے سب مرید اس طرح تو جماعت شاہی سلسلے میں داخل ہوتے چلے جائیں گے اور ہم ٹھن ٹھن گوپال رہ جائیں گے۔ چند پیر صاحبان نے مشورہ کر کے یہ صلاح کی کہ چلو خود پیر صاحب کی ملاقات کو جائیں۔ چنانچہ روانہ ہوئے اور مشہور یہ کیا کہ پیر صاحب نے ہم کو بلا بھیجا ہے۔ سری نگر آئے، پیر صاحب سے ملے اور قہوہ پی کر چلے گئے۔ واپس جا کر دیہات میں مشہور یہ کیا کہ پیر صاحب نے ہمیں اپنے علاقے کی خلافت عطا کرنے کے لیے بلایا تھا، اور اپنی طرف سے لوگوں سے بیعت لینے کے اختیارات دیے ہیں۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ دور دراز مقامات سے شہر میں آنے کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ان کے کام میں ہرج ہوتا ہے۔ لوگ غریب ہیں اس لیے گو آپ پہلے ہی بیعت لینے کے مجاز ہیں لیکن ہماری طرف سے بھی آپ کو اجازت ہے۔ پیر صاحبان کی یہ تجویز کارگر ہوئی اور دیہاتی لوگ، جو فوج در فوج پیر صاحب کے پاس سرینگر میں دوڑ دوڑ کر جایا کرتے تھے، وہ وہیں بیعت ہونے لگے1؎ خواجہ حسن نظامی دہلوی کا مدت سے یہ دستور تھا کہ وہ روحانی یادگار کے طور پر ہر سال بعض آدمیوں کو کسی علمی کارگزاری، انسانی خدمت یا خلوص قلب کے صلے میں خطابات دیا کرتے تھے۔ جنوری 1915ئ1333/ھ کے ’’ طریقت‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال انہوں نے اقبال کو ’’سر الوصال‘‘ اور فوق صاحب کو ’’ وحدتی‘‘ کا لقب عطا کیا تھا۔ یہ انہی خدمات کے اعتراف میں تھا جو وہ ’’ طریقت‘‘ کے ذریعے سے اسلام، تصوف اور صوفیوں کی کر رہے تھے۔ چار پانچ سال تک یہ رسالہ بڑی شان سے نکلتا رہا۔ فوق صاحب خود بھی صوفیاء کی ملسوں میں بلائے جاتے رہے۔ آپ نے تصوف 1؎ سرگذشت فوق(قلمی) ص120-122 کے متعلق کئی مفید کتابیں بھی لکھیں جن میں ’’ تذکرۃ الصالحین‘‘ ’’ تذکرہ علمائے لاہور‘‘ ،’’ حیات گنج بخش‘‘ ، ناصح مشفق اور وجدانی نشتر خاص طور پر مشہور ہیں۔ اقبال نے ’’ وجدانی نشتر‘‘ کا نام سوز و گداز تجویز کیا تھا۔ یہ کتاب صوفیوں کے حلقے میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے چھ حصے تھے۔ پہلے کا نام تجلی دوسرے کا برق طور تیسرے کا پیام وصال ، چوتھے کا تیر و نشتر، پانچویں کا درد دل اور چھٹے کا حال و قال تھا اس میں قرآن مجید کی وہ انقلاب انگیز آیتیں اور عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے وہ دلگداز وجد آفریں، درد انگیز اور پر اثر اشعار مع اپنی پوری کیفیتوں کے جمع کئے گئے تھے جن کے پڑھنے یا سننے سے صاحب دل بزرگوں اور پاک باطن لوگوں پا خاص اثر ہوا یا جو دم واپسیں کی طرح مرنے والوں کے آخری کلمات ثابت ہوئے۔ اقبال کو اس کتاب کے دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ چنانچہ آپ نے فوق صاحب کو لکھا: ’’ ڈیر فوق! السلام علیکم1؎‘‘ آپ کا کارڈ ابھی ملا ہے۔ بھلا آپ کو آنے کی کیونکر مخالفت ہو سکتی ہے۔ میں نے اس خیال سے لکھا تھا کہ آپ مصروف آدمی ہیں۔ آنے میں ہرج ہو گا، اور تکلیف مزید کہ انارکلی شیرانوالہ دروازے سے دور ہے۔ کتاب جب آئے تو ضرور ہمراہ لائیے، بلکہ اس کے آنے میں دیر ہو تو بلا کتاب تشریف لائیے۔ 21دسمبر کا کشمیری نہیں ملا ار نہ آپ کی تازہ کتاب وجدانی نشتر نظر سے گزری ہے۔ والسلام لاہور 21دسمبر1915ء آپ کا خادم محمد اقبال 1؎ نقوش، مکاتیب نمبرص295 فوق صاحب نے کتاب بھیجی ۔ اقبال نے اسے بہت پسند کیا اور اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ’’ مولوی محمد الدین فوق ایک صاحب ذوق آدمی ہیں۔ ان کی جدت پسند طبیعت ہمیشہ انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ حال میں انہوں نے ایک کتاب موسوم بہ وجدانی نشتر لکھی ہے جس میں ایسے عربی، فارسی، اردو، پنجابی اشعار جمع کر دیے ہیں جو تاریخی اعتبار سے ایک خاص اثر اور سوز و گداز کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں ان کو بہت محنت کرنی پڑی ہو گی مگر مولوی محمد الدین محنت سے گھبرانے والے نہیں۔ کتاب نہایت اچھی ہے اور دلچسپ۔ فوق صاحب کی تلاش قابل داد ہے اور انسانی قلب کی گوناگوں کیفیات پر روشنی ڈالتی ہے۔‘‘ اس کتاب کے چوتھے باب میں کہیں فوق صاحب نے حضرت میاں میر کے مرید اور شہزادہ دار اشکوہ کے مرشد ملا شاہ بدخشانی کا یہ واقعہ بھی لکھ دیا تھا کہ ایک دفعہ آپ نے کسی خاص جذبے کے ماتحت یہ شعر کہا: پنجہ در پنجہ خدا دارم من چہ پروائے مصطفی دارم شاہ جہان نے علمائے دہلی سے فتویٰ طلب کیا اور ملا شاہ کو بلا کر کہا کہ اس شعر سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ حضرت ملا شاہ نے جواب دیا کہ توہین تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے اور مصطفیٰؐ اور خدا میں تفریق کرتے ہیں خدا کے پنجے میں آپ بھی ہیں، میں بھی اور مصطفیؐ بھی۔ پھر پروا کس کی اور خوف کس بات کا۔ اس پر بادشاہ خاموش ہو گیا اور لوگوں نے سمجھا کہ ملا شاہ کا جادو چل گیا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ اس واقعے کا کتاب سے کوئی خاص تعلق نہ تھا اس لیے اقبال نے اس کے متعلق فوق صاحب کو علیحدہ خط کے ذریعے توجہ دلاتے ہوئے لکھا: ’’ ڈیر فوق! السلام علیکم1؎‘‘ دونوں کتابیں مل گئی ہیں۔ انگریزی کتاب پہلے سے میرے پاس موجود ہے۔ افسوس ہے کہ آپ کو مفت میں تکلیف ہوئی۔ وجدانی نشتر خوب ہے۔ مگر تعجب ہے کہ شیخ ملا کے ملحدانہ و زندیقانہ شعر: من چہ پروائے مصطفی دارم کو آپ اس کتاب میں جگہ دیتے ہیں اور ملا کی تشریح کس قدر بیہودہ ہے۔ یہی وہ وحدت الوجود ہے جس پر خواجہ حسن نظامی اور اہل طریقت کو ناز ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے اور ہم غریب مسلمانوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ وجدانی نشتر پر ریویو دوسرے صفحے پر درج ہے۔ لاہور23دسمب1915ء محمد اقبال اقبال نے اپنے کلام میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ بتائی ہے کہ وہ نائب حق ہیں۔ ان کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔ ہر شے ان کے تابع فرمان ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اشارۂ انگشت سے 1؎ نقوش، مکاتیب نمبرص295 چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز ٭٭٭ پنجہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود اسی اثناء میں اقبال کی مثنوی’’ اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی جس میں انہوں نے مسلمانوں کو عرفان نفس، تعین ذات اور قوت عمل کا احساس دلاتے ہوئے فلسفہ اشراق، عجمی تصوف اور صوفیانہ شاعری پر تنقید کی کہ انہی چیزوں کے اثر سے مسلمانوں کی پوری قوم قوت عمل سے یکسر محروم ہو گئی ہے۔ چونکہ یونان میں فلسفہ اشراق پھیلا اور ایران میں تصوف، اس لیے حکیم افلاطون یونانی اور حافظ شیرازی کا ذکر بھی آیا، اور یہ ذکر کرنا کسی حد تک ناگزیر بھی تھا۔۔۔ چنانچہ اقبال نے تصوف کے بعض معتقدات سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں بر اور گو سفند قرار دیا۔ اس پر طبقہ صوفیا بھڑک اٹھا اور ہر طر ف سے مثنوی کی مخالفت میں مضامین شائع ہونے لگے1؎ اقبال نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے بہت سے مضامین اخبار’’ وکیل‘‘ امرتسر میں شائع کرائے۔ 15جنوری1916ء کے شمارے میں اقبال کا جو مضمون’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ کے عنوان سے نکلا، اس کا آخری حصہ چونکہ فوق صاحب کے ایک استفسار کے جواب میں ہے اس لیے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔ اقبال 1؎ اس سلسلے میں میرا مضمون ’’ معرکہ اسرار خودی‘‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جو مجلہ اقبال لاہور میں شائع ہو چکا ہے۔(مرتب) لکھتے ہیں: ’’ میرے دوست منشی محمد دین فوق ایڈیٹر(اخبار کشمیری اور) رسالہ طریقت نے مجھ سے سوال کیا کہ تم نے حافظ پر کیوں اعتراض کیا ہے۔ وہ رسالہ طریقت کے ایڈیٹر ہیں، اس حیثیت سے ان کو تصوف میں دلچسپی ہے۔ اس وقت فرصت کم تھی اور چونکہ مضمون طویل تھا، میں نے ان کو کوئی جواب نہ دیا۔ عام مسائل تصوف پر گفتگو کرتا رہا۔ بعد میں انہوں نے اپنی تازہ تصنیف وجدانی نشتر نام میرے دیکھنے کے لیے ارسال فرمائی تو معلوم ہوا کہ ان کے سوال کا جواب ان کی تصنیف میں موجود ہے۔ صفحہ94پر مصنف لکھتے ہیں:‘‘ ’’ اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ نے، جو بڑا متشدد بادشاہ تھا، ایک مرتبہ حکم دیا کہ اتنی میعاد کے اندر جتنی طوائفیں ہیں، سب نکاح کر لیں، ورنہ کشتی میں بھر کر سب کو دریا برد کر دوں گا۔ سینکڑوں نکاح ہو گئے مگر پھر بھی ایک بڑی تعداد رہ گئی۔ چنانچہ ان کے ڈبونے کے لئے کشتیاں تیار ہوئیں اور صرف ایک دن باقی رہ گیا۔ یہ زمانہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تھا۔ ایک حسین، نوجوان طوائف روز مرہ آپ کے سلام کو آیا کرتی۔ آپ ورد و وظائف سے فارغ ہوتے، وہ طوائف سامنے آ کر دست بستہ کھڑی ہو جاتی۔ جب آپ نظر اٹھاتے وہ سلام کر کے چلی جاتی۔ آج جو وہ آئی تو بعد سلام عرض رساں ہوئی کہ آج خادمہ کا آخری سلام قبول ہو۔ آپ نے حقیقت دریافت فرمائی۔ جب تمام کیفیت بیان کر دی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ حافظ شیراز کا یہ شعر:‘‘ در کوئے نیکنامی مارا گذر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را تم سب یاد کر لو اور کل جب تمہیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتے جاؤَ ان سب طوائفوں نے اس شعر کو یاد کر لیا۔ جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کیا۔ جس نے یہ شعر سنا دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کان میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا سب کو چھوڑ دو۔ منشی محمد دین صاحب فوق کو معلوم ہوا کہ جو ان کے نزدیک حافظ کا حسن ہے وہی میرے نقطہ نظر سے قبح ہے۔ اور وہ یہ کہ مسئلہ تقدیر کی ایک ایسی غلط مگر دل آویز تعبیر سے حافظ کی شاعرانہ جادو گری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو، جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو اس بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا، قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کر دیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی۔ اور اگر عالمگیر دارا کے معاملے میں بھی ’’ بادشمناں مدارا‘‘ پرعمل کرتا تو ہندوستان میں شریعت اسلامیہ کی حکومت کبھی قائم نہ ہوتی۔ ’’ مجھے امید ہے کہ اس تحریر سے آپ کے ناظرین کو میرا نقطہ نظر سمجھنے میں مدد ملے گی اور وہ اسی اعتبار سے اسلامی ادبیات کا مطالعہ کر کے اپنے نتائج خود پیدا کریں گے۔‘‘ اقبال کے گہرے دوست ہونے کی وجہ سے اہل طریقت فوق صاحب سے بھی آہستہ آہستہ بدظن ہو گئے اور انہوں نے رسالے کا مقاطعہ شروع کر دیا، جس سے یہ پرچہ ڈولنے لگا اور اس کی جان کے لالے پڑ گئے۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ یہ ہوا کہ انہی دنوں مولوی محمد عظیم گکھڑوی مرحوم، جو پیر سید جماعت علی شاہ کے مریدوں میں بڑے خوش بیان واعظ تھے، حضرت شاہ صاحب کے بعض منہ لگے مشیروں سے کسی بات پر ناراض ہو گئے اور انہوں نے طریقت میں اصلاحی مضامین کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ابھی اس کے چند ہی نمبر نکلے تھے کہ چاروں طرف سے اس قسم کے مضامین پر اعتراض ہونے لگے۔ فوق صاحب نے اقبال سے مل کر کہا کہ آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ لوگ آپ کی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ پر پہلے ہی لے دے کر رہے تھے کہ آپ نے خواجہ حافظ شیرازی کی تعلیم پر: الحذر از گوسفنداں الحذر کا فقرہ چست کر دیا ہے۔ اب ان اصلاحی مضامین سے صوفیاء کے حلقوں میں ناراضی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقبال نے فرمایا کہ فضا کی تاریکی سے ڈرنا ٹھیک نہیں ، مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی اصلاح فی الحقیقت ثواب کا کام ہے۔ اگر اس اثناء میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو اسے جہاد اکبر سمجھنا چاہیے۔ آخر یہ رسالہ کسی طرح سنبھل نہ سکا اور جتنی تیزی سے یہ ترقی کی طرف بڑھا تھا اتنی ہی جلدی بند ہو گیا۔ اس کے بند ہوتے ہی فوق صاحب نے اسی قسم کا ایک اور رسالہ ’’ نظام‘‘ جاری کر دیا، مگر اقبال کو ’’ طریقت‘‘ کے بند ہونے کا افسوس ہی رہا۔ چنانچہ ایک خط 1؎ میں آپ نے اس کا اظہار اس طرح کیا: ’’ ڈیر فوق! السلام علیکم‘‘ آپ کا خط معہ ملفوف اخبار مل گیا ہے، جس کے لیے شکریہ ہے۔ رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے بعض نمبر پنجاب پبلک لائبریری اور شاید یونیورسٹی لائبریری میں بھی ہوں۔ آپ کسی روز جا کر خود دیکھیں۔ رسالہ نظام کا اجراء مبارک ہو۔ میرے خیال میں تو آپ 1؎ رسالہ نقوش، مکاتیب نمبر، جلد اول، صفحہ97 طریقت ہی کو فروغ دیتے تو شاید حضور نظام تصوف کی اشاعت کا صلہ عطا فرماتے۔ محمد دین صاحب (صوفی پنڈی بہاؤ الدین) آپ سے بہتر نہیں، لیکن وہ آدمی معاملہ فہم اور کاردان ہیں۔ میں بھی آپ کے لئے انشاء اللہ کچھ لکھوں گا۔ حکیم محمد دین کئی روز سے نہیں ملے۔ خدا کرے اچھے ہوں آپ سے ملیں تو میری طرف سے استفسار حال کیجئے۔ والسلام 12دسمبر1918ء محمد اقبال فروری1919ء میں رسالہ نظام کا پہلا پرچہ شائع ہوا جس میں مکافات عمل کے عنوان سے اقبال کے مندرجہ ذیل شعر درج تھے جو اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں: ہر عمل کے لیے ہے رد عمل دہر میں نیش کا جواب ہے نیش شیر سے آسمان لیتا ہے انتقام غزال و آشتر و میش سرگزشت جہاں کا سر خفی کہہ گیا ہے کوئی نکو اندیش شمع پروانہ را بسوخت ولے زود بریاں شود بہ روغن خویش مگر اس رسالے کا نظام جلد ہی درہم برہم ہو گیا۔ (بشکریہ اقبال ریویو) ٭٭٭ (4) حکیم الامت سر محمد اقبال (مآثر لاہور) کر گیا مردوں کو زندہ جس کا پیغام حیات آج وہ اقبال زیر خاک پنہاں دیکھئے شیخ1؎ محمد اقبال 22فروری1873ء کو صوبہ پنجاب کے مردم خیز شہر سیالکوٹ میں ایک معزز کشمیری خاندان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے اسلاف پشت ہا پشت سے صوفی منش اور درویش صفت بزرگ چلے آتے تھے۔ سب سے پہلے ان کے اسلاف میں ایک بزرگ نے جو برہمن تھا اور ذات سے سپرو900ھ یا اس کے قریب اسلام قبول کیا۔ ان کا وطن کشمیر میں موضع چکو تحصیل کولگام تھا اور ان کا مزار چرار شریف میں مزار احاطہ شیخ نور الدین ولی میں اب تک موجود ہے۔ شیخ محمد اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ راقم کو ان سے بمقام سیالکوٹ شرف ملاقات کی عزت حاصل رہی ہے۔ ان کے صوفیانہ مجلسیں آج بھی کئی لوگوں کو یاد ہیں۔ شیخ محمد اقبال کے دادا شیخ محمد رمضان مصنف بھی تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فارسی میں چند ایک کتابیں بھی لکھی تھیں اور تصوف ان کو وراثت میں ملا تھا۔ 1؎ڈاکٹر سر محمد اقبال کے مفصل حالات’’ مشاہیر کشمیر‘‘ اور’’ تاریخ اقوام کشمیر‘‘ جلد دوم مصنفہ راقم سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ شیخ محمد اقبال نے ایف اے تک سیالکوٹ میں تعلیم حاصل کی اور بی اے اور ایم اے کے امتحانات گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیے۔ اپنے اسلاف کی طرح تصوف ان پر بھی غالب تھا۔ سیالکوٹ ہی میں بزمانہ طالب علمی شعر کہتے تھے۔ لاہور میں آ کر علمی ترقیوں کے ساتھ شاعری کو اور بھی جلا ہوئی۔ 1899ء میں جبکہ راقم کی عمر بائیس سال اور ان کی عمر چھبیس سال تھی، راقم نے ’’بہار گلشن‘‘ نامی غزلوں کی ایک کتاب میں ان کی چند ایک غزلیں شائع کیں اور سب سے پہلے ان کے حالات کے متعلق اسی کتاب میں چند سطور لکھیں۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد اس زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ عربک پروفیسر تھے۔ وہ موسیقی اور قوال کے دل دادہ تھے اور بزرگان دین کے حالات سے انہیں دلچسپی تھی۔ چنانچہ جب 1904ء میں راقم نے یادرفتگاں، اپنی ایک تصنیف ان کے پاس سیالکوٹ بھیجی، جہاں وہ گرما کی رخصتوں کی وجہ سے مقیم تھے، تو مجھے اخیر ستمبر کے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ بعض بعض باتوں نے جو آپ نے اس چھوٹی سی کتاب میں درج کی ہیں، مجھے اتنا رلایا کہ میں بے خود ہو گیا خدا کرے آپ کی توجہ اس طرف لگی رہے۔ زمانہ حال کے مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ اہل اللہ کے حیرت ناک تذکروں کو زندہ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے زوال کی اصل علت حسن طن کا دور ہو جانا ہے۔ بھائی فوق! خود بھی اس گوہر نایاب کی تلاش میں رہو جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں مل سکتا بلکہ کسی خرقہ پوش کے پاؤں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔‘‘ اسی زمانے کی ایک غزل میں انہوں نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے: تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں نہ ہو چھان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدبیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں 1905ء میں جب وہ بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے لیے ولایت روانہ ہوئے تو دہلی میں حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کے روضے پر حاضر ہو کر فاتحہ کے بعد دیر تک دعا مانگتے رہے اور اس تقریب پر جو انہوں نے حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں نظم لکھی اس سے ان کی بے انتہا عقیدت اور صوفیائے کرام سے لازوال ارادت کا اظہار ہوتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ طلب ہیں: فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں کیا جنہوں نے محبت کا راز داں مجھ کو وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے آپ بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے 25جولائی1908ء کی رات کو دہلی پہنچے اور علی الصبح اپنے احباب کے ساتھ خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاء میں حاضر ہوئے،ا سی شوق و عقیدت کے ساتھ جو ولایت روانہ ہونے کے وقت آپ سے ظاہر ہوئی تھی۔ حضرت کے مزار کے پہلو میں کھڑے ہو کر دیر تک دست بہ دعا رہے۔ سارا دن یہیں قیام کیا اور قوالی کا لطف بھی اٹھایا۔ شام کو میرزا غالب کی قبر پر بھی گئے۔ میر نیرنگ اور مقبول احمد نظامی نے آمد اقبال پر نظمیں پڑھیں۔ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کا احترام آپ کی رگ و پے میں سما چکا تھا۔ آپ 1؎ کا عقیدہ تھا کہ صوفیا نے محض حسن عمل اور اخلاق محمدیؐ کے ذریعے اسلام کو وہ رونق دی ہے کہ ہندوستان کے سات آٹھ کروڑ مسلمان یقینا انہی بزرگوں کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں۔ تصوف کا مقصد تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ہے۔ وہ رہبانیت 1؎ از رسالہ طریقت لاہور، جولائی1914ء کے خلاف ہے اور اہل و عیال کو ترک کر کے جنگلوں اور بیابانوں کی زندگی کو ناپسند کرتا ہے۔ یکسوئی حاصل کرنے کے لیے بے شک خلوت اور عزلت نشینی کی ضرورت ہے لیکن ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوتا۔ میں کرامتوں کا قائل ہوں اور میرا خیال ہے کہ وہ پاک نفوس جن کو اللہ تعالیٰ نے تزکیہ نفس میں صاحب دل کیا ہے، وہ تیر از کماں جستہ اور آب از جو رفتہ واپس لا سکتے ہیں: اولیاء را ہست قدرت از الہ تیر رفتہ باز گرداند ز راہ اس بارے میں ان کا اپنا شعر بھی ہے: جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں صاحبان قبور سے حاجات طلب کرنا، جس طرح خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر کی جاتی ہیں، سخت ترین گناہ ہے۔ یہاں تک البتہ درست ہے کہ فاتحہ پڑھی جائے، عبرت حاصل کی جائے اور موت کو یاد کیا جائے۔ بلکہ میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ کسی صاحب دل کے مزار پر جانے سے صفائے باطن بھی حاصل ہو سکتی ہے: ترستی ہے نگاہ نارسا جس کے نظارے کو وہ رونق انجمن کی ہے انہی خلوت گزینوں میں پیر کی صحبت سے، بشرطیکہ وہ پیر دکاندار نہ ہو، مرید اپنے اخلاق و اعمال سنوار سکتا ہے۔ لیکن پیر روشن ضمیر اور اہل اللہ اور مرید اہل دل اور اہل درد ہو اور اس کے قلب میں گرمی اور اس کی روح میں تڑپ ہو۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں مہاراجہ کشن پرشاد کے نام آپ کے چند ایسے خطوط بھی ہیں جن میں آپ نے اہل اللہ بزرگوں کے متعلق اپنی عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے۔ 6دسمبر1916ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں ’’ دیار پیر سنجر 1؎‘‘ کی ضرورت زیارت کیجئے۔ میں بھی ایک روز تخیلات کی ہوا میں اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ فضائے آسمانی سے یہ آواز آ رہی تھی: فرشتوں نے کانوں سے جس کو سنا تھا ہم آنکھوں سے وہ زیر و بم دیکھتے ہیں 5جنوری1917ء کے خط میں ایک پنجابی پیر کے متعلق مہاراجہ کشن پرشاد کو ان کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ وہ بڑے ہشیار آدمی ہیں اور پیری مریدی کے فن کو خوب سمجھتے ہیں۔ بے اعتنائی ان لوگوں کی بالعموم مصنوعی ہوتی ہے اس میں سینکڑوں اغراض پوشیدہ ہوتی ہیں۔‘‘ 7مارچ1917ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ دہلی گیا دو دفعہ روضہ حضرت خواجہ نظام الدین کی درگاہ پر بھی حاضر ہوا مگر افسوس کہ پیر سنجر کے دربار میں حاضر نہ ہو سکا۔ انشاء اللہ پھر جاؤں گا اور اس آستانے کی زیارت سے شرف اندوز ہو کر واپس آؤں گا۔ دہلی میں خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنائی۔ سرکار بہت یاد آئے۔‘‘ ڈاکٹر اقبال نے 20جنوری1918ء کے طویل خط میں، جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، مہاراجہ کشن پرشاد کو ایک جگہ لکھا ہے: ’’ دو سال کا عرصہ ہوا، میں نے تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیا تھا اور وہ اختلاف ایک عرصے سے صوفیائے اسلام میں چلا آتا ہے۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔‘‘ مگر اس بحث نے بہت طویل کھینچا۔ نثر و نظم میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھے گئے اور کہا گیا: وائے بر ایں پختگان عقل خام اولیا را میش و بز کردند نام از دم مکر شغالاں الحذر الحذر از بد سگالاں الحذر مخالفانہ مضامین کے جواب میں ڈاکٹر اقبال نے ایک طویل مضمون ’’ اسرار خودی‘‘ کے نام سے لکھا جس میں ظاہر کیا کہ: ’’ میرا مذہب یہ ہے کہ اسلام نے دین و دنیا کے فرائض کو یک جا کیا ہے اور اس طرح بنی نوع انسان کے لیے معتدل راہ قائم کی ہے۔ جہاں یہ سکھایا ہے کہ تمہارا مقصود اعلیٰ اعلائے کلمتہ اللہ ہے، وہاں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ’’ لاتنس نصیبک فی الدنیا‘‘ (دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر) دنیا ہیچ است و کار دنیا ہمہ ہیچ اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ صحیح اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ’’ ترک الاسباب جہالتہ والاعتماد علیہا شرک‘‘ یعنی اسباب دنیا کا ترک کرنا جہالت ہے اور ان پر اعتماد کرنا شرک ہے۔ اسلام نے دنیا میں جس حصے کو حاصل کرنے کی تاکید کی ہے، اس کا جو طریق بتایا ہے اسی کا نام شریعت اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘ عجمی تصوف (عجمی اس لیے کہ اس کے تدوین کرنے والوں میں بیشتر عجمی تھے) سے اور وحدت الوجود کے مسئلے سے اسلام کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں سے قوت عمل مفقود ہو گئی ہے۔ تصوف کا تو لفظ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا۔ اس کا استعمال سب سے پہلے 150ھ میں شروع ہوا۔ اس کے عجمی حامیوں نے آخر اس کو مسلمانوں کی بربادی کا باعث بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک اور مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں لکھتے ہیںـ: ’’ میں اگر صوفیاء کا مخالف ہوں تو صرف اس گروہ کا جس نے محمدؐ عربی کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جو مذہب اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔ حضرات صوفیہ میں جو گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر قائم ہے اور سیرت صدیقی کو اپنے سامنے رکھتا ہے، میں اس گروہ کا خاک پا ہوں اور ان کی محبت کو سعادت دارین کا باعث تصور کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیاء کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔۔۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نظام عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ وہ نظام عالم کا خالق ہے اور اسی کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے۔ جب وہ چاہے گا اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہو سکتا ہے کوئی مسلمان ہے جو ان لوگوں کو برا سمجھے جن کا نصب العین محب رسولؐ ہے اور جو اس ذریعے سے ذات باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر میں تمام صوفیاء کا مخالف ہوتا تو مثنوی میں ان کی حکایات و مقولات سے استدلال نہ کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال جیسا کہ انہوں نے بار بار اقرار کیا ہے، تصوف اسلامیہ کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ مسئلہ وحدت الوجود کو جس نے تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا تھا، اسلام کا سب سے بڑا دشمن اور ہر وحدت الوجودی کو زندیق سمجھتے اور فی الواقعہ اکثر اہل تصوف اسی مسئلے کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ اس مسئلہ کا اقتضا یہ ہے کہ ہستی مطلق مختلف مظاہر میں رونما ہے اور اس کے علاوہ دیگر تمام ہستیاں محض تخیل اور وہم ہیں۔ اس مسئلے نے علماء و اہل فلسفہ کے علاوہ اہل دل اور اہل درد کے دربار میں بھی قبولیت حاصل کر لی۔ فارسی شعرا کے کلام اور اہل وجد کی محفلوں میں اس مسئلے کو سر آنکھوں پر جگہ دی گئی۔ چنانچہ اسی مسئلہ کی بدولت جس کو شعرائے ایران اور ہندوستان کے فارسی شعرا اور اہل وجد کی محفلوں نے زیادہ فروغ دیا، کار دنیا ہمہ ہیچ سمجھا جانے لگا۔ اعمال و افعال کی پابندی، نیک و بد کی ذمہ داری سب کچھ ذات باری کو سونپ دی گئی۔ نتیجہ یہ کہ بقول مولانا محمود علی ایم اے پروفیسر کپور تھلہ قوم کے کابلا ور عیش پسند افراد نے کہ انہی کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، اپنے تئیں اس پتے سے بھی حقیر سمجھا جو درخت سے ٹوٹ کر ہوا کے زور سے اڑتا پھرتا ہے۔ اور قوت عمل کے ہر ایک جذبے اور تہذیب نفس کی ہر ایک کوشش سے بیگانہ رہ گئے۔ اقبال لکھتے ہیں زندگی نام ہی دکھ اٹھانے اور دکھ پہنچانے کی قوت کا ہے۔ زندگی کا مقصد زندگی ہے نہ کہ موت اور وحدت الوجود اور سکر کا مسئلہ موت سے بھی بدتر ہے۔ وحدت الوجودی ایک تنکا اس لیے نہیں توڑ سکتا کہ تنکے کو دیکھ پہنچے گا۔ اسی مسئلے نے خود داری اور خود شناسی اور قوت عمل سے مسلمانوں کو محروم کر دیا۔ ایک پٹھان وحید خان، جو ایک ہندو جوگی کا مرید اور فلسفہ ویدانت (وحدت الوجود) کا قائل تھا، اس عقیدے کا نتیجہ ان الفاظ میں بیان کرتاہے: تھے ہم پوت پٹھان کے دل کے دل دیں موڑ شرن پڑے رگناتھ کے، سکیں نہ تنکا توڑ یعنی میں پٹھان تھا اور فوجوں کے منہ موڑ سکتا تھا مگر جب سے رنگاتھ جی کے قدموں میں آیا ہوں، اب ایک تنکا تک بھی نہیں توڑ سکتا۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کی بربادی کا بوجھ ایک حد تک ایسے ہی صوفیوں اور شاعروں پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں: کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی اقبال کو کسی سے خواہ مخواہ ضد نہ تھی۔ وہ ظاہر نما صوفیوں اور بے مصرف شاعروں کی طرح اس زمانے کے ظاہر پرست ملاؤں سے بھی اس لیے ناراض تھے کہ انہوں نے اپنے پیٹ کے لیے مذہبی اکھاڑے بنا رکھے ہیں، بحث و تکرار، بدگوئی و غیبت ان کے دلوں میں حرارت اور ان کے کلام میں اخلاص نہیں۔ وہ ان کے متعلق اپنے نرالے انداز بیان میں کس جلے دل سے کہتے ہیں: میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت عرض کی میں نے الٰہی! مری تقصیر معاف خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب لب کشت نہیں فردوس مقام جدل قال و اقول بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت ڈاکٹر اقبال خود صوفی تھے، درویش منش تھے۔ مولانا روم کو پیر طریقت سمجھتے، بزرگوں کا بے حد ادب اور اولیاء اللہ کی کرامتوں کے قائل تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن البتہ ان کو موجودہ دور کی پیری مریدی اور آج کل کے خانقاہی مشرکانہ مذہب سے نفرت تھی۔ وہ موجودہ پیروں کو جو سال بھر غریب مریدوں کی گرداوری کرتے اور دعوتیں اڑاتے اور ان سے نذرانے لیتے رہتے ہیں، قوم کے لیے وبال جان تصور کرتے تھے۔ فرماتے ہیں: ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن شہری ہو، دہاتی ہو مسلمان ہے سادہ مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن علامہ اقبال نے تمام عمر درویشانہ زندگی بسر کی اور اس درویشی میں وہ مرتبہ حاصل کیا کہ ایک طرف تو ان کو سرکار نے سر کا معزز خطاب عطا کیا اور دوسری طرف دنیا کے بڑے بڑے شاعروں اور فلسفیوں کے ساتھ ان کا نام لیا جانے لگا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ قوم مردہ کو اپنی نظموں کے ذریعے ایسا پیغام دے گئے کہ آج ہر مسلمان کا منجمد خون حرکت میں آ رہا ہے: اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشم خود بربست و چشم ماکشاد اقبال نے شاعری کی پرانی ڈگر سے ہٹ کر اپنے خیالات کی دنیا الگ بسائی۔ ان کے کلام میں جو قوت و توانائی ہے وہ مشرق کے کسی اور شاعر کے کلام میں نہیں۔ انہوں نے فلسفے میں فلسفہ خودی کو اچھوتے تصور کا اظہار کیا اور اس مردہ تصوف میں جو ایک طویل زمانے سے ہماری خود دار زندگی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا تھا، نئی روح پھونک دی۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ سکون و جمود کی ہر دلدادہ قوم کو عمل و حرکت کی تعلیم دے کر حیات جاوداں کا پیغام سنایا۔ مثنوی مولانا روم اکثر آپ کے زیر مطالعہ رہتی۔ اس کے اکثر اشعار و نتائج پر آپ کی حالت متغیر ہو کر بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے تھے۔ قرآن شریف کی تلاوت ایسے ذوق و شوق، ایسے درد و محبت اور ایسے سوز و گداز سے کرتے تھے کہ آنسوؤں کا تار بندھ جاتا تھا روتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے، حتیٰ کہ زندگی کے آخری دنوں میں جب بیماری کا زور بڑھ گیا اور گلا خراب ہو جانے کے باعث آواز میں پتی لگ گئی تو ڈاکٹروں کے منع کرنے سے آپ کا یہ طریق تلاوت بھی چھوٹ گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے آپ کو والہانہ عشق تھا۔ ان کے کلام سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سے جھلک نظر آتی ہے۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے ایک رباعی لکھی کہ بار الہا! قیامت کے دن میرے گناہوں کی پرسش سے درگزر کر۔ لیکن اگر تو ایسا نہ کر سکے تو کم از کم نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے میرا مواخذہ نہ ہو۔ فرماتے ہیں: تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر روز محشر عذر ہائے من پذیر یا اگر بینی حسابم ناگزیر از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر خدا ہی کو اس بات کا علم ہے کہ ان کے سینے میں عشق و عرفان کا کیسا تلاطم خیز چشمہ نہیں سمندر تھا۔ بقول مدیر رسالہ (دسمبر1939ئ) ان کے دل میں درد تھا، ان کے لبوں پر آہیں تھیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو۔ انہوں نے ملت مرحومہ کے غم میں جس ساز کو چھیڑا ہے اس سے ماتم سرائی کی آوازیں بھی نکلتی ہیں اور امید و رجا کے نغمے بھی بلند ہوتے ہیں۔ وہ قوم کے بہترین فیاض اور قرآن کے بہترین مبلغ تھے۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کا صحیح اور اصل مرض ترک قرآن ہے اور اس کا صحیح اور اصلی علاج ارجعو الی القرآن۔ آخر یہ مرد حق آگاہ21اپریل1938ء کی صبح کو پینسٹھ سال دو ماہ کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ جنازے میں ساٹھ ستر ہزار سے کم مخلوق نہ تھی۔ ان کے ماتم کی وجہ سے تمام اسلامی مدارس بند ہو گئے۔ ان کے جنازے کے آگے انہی کے اشعار پڑھے جاتے تھے۔ بہت سے ہندو اور سکھ بھی ان کو ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے لئے جنازے کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ پنجاب کے تمام وزراء اور وزیراعظم (سر سکندر حیات) اور دیگر بڑے بڑے لوگ بھی جنازے میں شامل تھے۔ جنازہ بادشاہی مسجد میں پڑھا گیا اور رات کے گیارہ بجے ہندوستان کے اس فلاسفر شاعر اور صوفی اور علامہ دہر کو مسجد کی سیڑھیوں کے پاس بائیں طرف سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے عالمگیر ماتم پر شعرائے ہندو پنجاب نے اس قدر نظمیں لکھیں کہ ان کی گنتی دشوار ہے۔ آپ کے متعلق کچھ ماتمی نظمیں ایک کتاب کی صورت میں بھی طبع ہو چکی ہیں: (مرتب کا نوٹ): حکیم الامت علامہ اقبال کا مزار سرخ پتھر سے نہایت خوبصورت بنایا گیا ہے عمارت شاعر مشرق کی وفات کے تیرہ سال بعد مکمل ہوئی۔ اس کے جنوب کی طرف دروازہ اور باقی تین طرف جالیاں ہیں۔ تعویذ کا پتھر افغانستان کی حکومت نے سردار صلاح الدین سلجوقی افغان کونسل کی تحریک پر تحفتہً دیا تھا۔ یہ اسی قسم کا قیمتی پتھر ہے جیسا بابر کی قبر پر بھی لگا ہوا ہے۔ روشنی میں اس سے لاجوردی رنگ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ قبر کے سرہانے قرآن پاک کی آیات اور اقبال کے دو شعر ہیں جو افغانستان والوں نے منتخب کر کے کندہ کرائے تھے: نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم اندرونی دیواروں پر زبور عجم کی ایک غزل کے یہ شعر نہایت خوش خط نقش ہیں جو اقبال کے پیغام کا نچوڑ ہیں: دم مرا صفت باد فرودیں کردند گیاہ را ز سرشکم چو یاسمیں کردند نمود لالہ صحرا نشیں ز خوننابم چنانکہ بادۂ لعلیں بساتگیں کردند بلند بال چنانم کہ بر سپہر بریں ہزار بار مرا نوریاں کمیں کردند فروغ آدم خاکی ز تازہ کاری ہاست مہ و ستارہ کنند آنچہ پیش ازیں کردند چراغ خویش برا فروختم کہ دست کلیم دریں زمانہ نہاں زیر آستیں کردند درا بسجدہ و یاری ز خسرواں مطلب کہ روز فقر نیاگان ما چنیں کردند مقبرے کی تعمیر پر قریباً ایک لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ اپنے ملک کے لوگوں کے علاوہ بیرونی ممالک کا کوئی سیاح، کوئی سرکاری مہمان، کوئی سیاسی یا ثقافتی مشن یا وفد لاہور آ کر علامہ کی قبر پر حاضر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔۔۔۔ مرتب) (نقوش، لاہور نمبر) ٭٭٭ (5) لطائف 1941ء میں منشی محمد الدین فوق نے ’’ استادوں اور شاگردوں کے لطیفے‘‘ کے نام سے ایک دلچسپ کتاب مرتب کی تھی۔ علامہ اقبال چونکہ کالج میں پروفیسر رہ چکے تھے، اس لیے اس کتاب میں چند لطیفے ان کے نام سے بھی ہیں جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں (مرتب) (1) ایک مرتبہ ایک مدراسی طالب علم ڈاکٹر اقبال کے پاس آیا وہ گرمی کی چھٹیاں گزارنے کے لیے کشمیر جاتے ہوئے لاہور اپنے کسی مدراسی دوست کے ہاں ٹھہرا تھا۔ ڈاکٹر اقبال نے پوچھا: ’’ آپ کی تعریف:‘‘ مدراسی نے جواب دیاـ: ’’ چیتن نارائینم وینکٹا پبا سنگر ایلورا جکو پالم چیٹی آئینگر‘‘ (کچھ اسی قسم کا لمبا نام تھا۔ صحیح الفاظ یاد نہیں رہے) ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر کہا: ’’ میں نے رامائین کا کوئی اشلوک تو نہیں پوچھا، آپ کا نام دریافت کر رہا ہوں۔‘‘ (2) ایک دفعہ کالج کے چند ہندو مسلمان طالب علم، جن کی داڑھی مونچھ کا صفایا تھا، آئے اور پردے کے نقصانات اور بے پردگی کے فوائد بیان کرنے لگے۔ قریباً ایک گھنٹے تک لڑکوں کا مکالمہ جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب خاموشی سے سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ آخر لڑکوں نے کہا ہم آپ سے پردے اور بے پردگی کے متعلق رائے دریافت کرنے آئے ہیں۔ آپ نے ہمارے خیالات سن لیے ہیں آپ کی کیا رائے ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: میرا مختصر جواب یہ ہے کہ میرا بس چلے تو میں آپ سب کو بھی پردے میں بٹھا دوں۔ (3) اقبال کی طالب علمی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ سکول میں دیر سے پہنچے استاد نے کہا: ’’ اقبال ! تم دیر سے آئے ہو‘‘ اقبال نے جواب میں کہا: ’’ حضرت! اقبال دیر ہی سے آیا کرتا ہے۔‘‘ (4) اقبال کے ابتدائی ہم جماعتوں میں ایک ہم جماعت کا نام جھنڈے خاں تھا۔چند لڑکے جمع ہوئے اور اس نام کو تبدیل کرنے کے مشورے ہونے لگے۔ کسی نے کوئی نام بتایا، کسی نے کوئی، لیکن جب اقبال سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے قد و قامت کے لحاظ سے تو یہی نام موزوں ہے۔ اس کو تھوڑا سا بدل کر علمدار خاں کر دیجئے۔ اس نام کو سب نے پسند کیا استاد کو معلوم ہوا تو اس نے اقبال کی ذہانت کی بہت تعریف کی۔ لیکن جھنڈے خاں جھنڈے خاں ہی کے نام سے مشہور رہا۔ (5) ڈاکٹر اقبال جب انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، ان ایام کا ایک دلچسپ واقعہ آپ نے سنایا۔ فرمایا: لندن میں ایک پنجابی مسلمان اچار، مربہ اور چٹنی بیچا کرتا تھا۔ میں اس کا ایک مستقل گاہک تھا۔ ایک مرتبہ اس نے میرا نام اور مقام پوچھا۔ میں نے اقبال اور سیالکوٹ بتایا۔ اقبال کا نام سن کر اس نے کہا: اقبال اور وطن سے باہر۔ آہ! یوسف کوچہ و بازار میں میں نے کہا: گوہر کی ہوئی قدر سمندر سے نکل کر۔ چٹنی فروش نے کہا: آپ کس قبیلے سے ہیں؟ اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا: مسلمانوں کے قبیلے سے۔ چٹنی فروش نے کہا: یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ آپ کس قوم، کس گوت یا ذات سے ہیں۔ اقبال نے کہا: اقبال کا تعلق کسی قوم اور کسی ذات سے نہیں ہوتا۔ (6) اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ انہی ایام میں لاہور میں انجمن کشمیری مسلماناں قائم ہوئی۔ اقبال بھی اس میں دلچسپی لیتے تھے بلکہ ایک میٹنگ میں آپ نے چند رباعیات بھی پڑھیں، جن میں سے ایک رباعی کا یہ مصرع: ’’مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر‘‘ اخبار کشمیری لاہور کا چونتیس سال تک ماٹو رہنے کی وجہ سے آج تک زباں زد خلائق ہے۔ ایک دفعہ کارکنان انجمن کے پاس چونڈہ ضلع سیالکوٹ سے کسی صاحب نے شکایت لکھ کر بھیجی کہ تحصیل دار نے اپنے ایک فیصلے میں کشمیریوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بڑے فسادی اور بہادر ہوتے ہیں۔ فسادی کا لفظ ہٹانے کے لیے اس فیصلے کے خلاف انجمن کو اپیل کرنی چاہیے۔ اقبال جو اس زمانے میں صروف محمد اقبال تھے، اس تجویز کے خلاف تھے۔ انہوں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا: میں اس فیصلے کے حق میں نہیں ہوں۔ دلیل یہ ہے کہ جو قوم فساد کرنا نہیں جانتی وہ بہادر نہیں ہو سکتی۔ فساد سے مراد بہادری کی سپرٹ ہے۔ اگر آپ بہادر اور شجاع کہلانا چاہتے تو بے شک اپیل دائر کر دیں۔ سب نے ان کی رائے کو پسند کیا اور اپیل دائر کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔ اس وقت اقبال کی عمر غالباً 21یا22سال سے زیادہ نہ تھی۔ (7) اقبال دوسری یا تیسری جماعت میں تھے۔ استاد نے تختی پر کچھ عبارت لکھنے کو دی۔ اس میں ایک لفظ’’ غلط‘‘ بھی آتا تھا۔ آپ نے غلط کو غلت لکھ دیا۔ استاد خفا ہوا کہ تم نے یہ لفظ غلط لکھا ہے۔ اقبال نے کہا غلط کو صحیح کس طرح لکھ دوں۔ اسے تو غلط ہی لکھا جائے گا۔ اس کو بچپن کی سادگی سمجھیے یا ہونہار بچے کی شوخی۔ ٭٭٭ ضمیمے (1) خطوط اقبال بنام فوق بشیر احمد ڈار مرحوم نے جب اقبال اکادمی کی طرف سے علامہ اقبال کے چند اردو خطوط ’’ انوار اقبال‘‘ کے نام سے جمع کئے تو مکتوب الیہ کا تعارف یوں کرایا: ’’ محمد دین فوق سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ 1896ء میں لاہور آ کر ’’پیسہ اخبار‘‘ میں ملازم ہوئے۔ 1901ء میں اپنا ہفتہ وار اخبار ’’ پنجہ فولاد‘‘ جاری کیا جو 1906ء میں بند ہو گیا۔ اس کے بعد ماہنامہ ’’ کشمیری میگزین‘‘ جاری کیا جو بعد میں ہفتہ وار اخبار ’’ کشمیری‘‘ بن گیا۔ 1914ء میں رسالہ ’’ طریقت‘‘ نکالا جو6سال تک چلتا رہا۔ 1918ء میں رسالہ ’’نظام‘‘ شروع کیا جو جلدی بند ہو گیا۔ ان کی بے شمار تصنیفات میں سے یاد رفتگاں، وجدانی نشتر، رہنمائے کشمیر، حریت اسلام، تذکرۂ شعرائے کشمیر، شباب کشمیر وہ کتابیں ہیں جن کا تذکرہ اقبال نے ان خطوط میں کیا ہے۔ ’’ تاریخ اقوام کشمیر‘‘ ان کی دوسری مشہور تصنیف ہے۔‘‘ (مرتب) ٭٭٭ ڈیر فوق! اہل اللہ کے حالات نے، جو آپ نے بنام ’’ یاد رفتگاں‘‘ 1؎ تحریر فرمائے ہیں، مجھ پر بڑا اثر کیا اور بعض باتوں نے تو، جو آپ نے اس چھوٹی سی کتاب میں درج کی ہیں، مجھے اتنا رلایا کہ میں بے خود ہو گیا۔ خدا کرے آپ کی توجہ اس طرف لگی رہے۔ زمانہ حال کے مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ ان لوگوں کے حیرت ناک تذکروں کو زندہ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل علت حسن ظن کا دور ہو جانا ہے۔ بھائی فوق! خود بھی اس گوہر نایاب کی تلاش میں رہو جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں مل سکتا بلکہ کسی خرقہ پوش کے پاؤں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔ والسلام آپ کا دوست از سیالکوٹ (شیخ) محمد اقبال، ایم اے 7اکتوبر1904ء پروفیسر گورنمنٹ کالج، لاہور ٭٭٭ ڈیر فوق! آپ کا کارڈ ملا۔ الحمد للہ کہ آپ خیریت سے ہیں۔ مجھے بھی یہ خیال تھا کہ جاتی دفعہ آپ سے ملاقات نہ ہو سکی، افسوس ہے۔ 1؎’’ یاد رفتگاں‘‘ فوق صاحب کی کتاب بزرگان سلف کے متعلق تھی۔ اس کا دوسرا نام ’’تذکرہ صوفیائے لاہور‘‘ بھی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے متاثر ہو کر اقبال نے وہ نظم لکھی تھی جس کا ایک شعر ہے: تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں مجھے اس موقع پر فرصت کم تھی ورنہ کہیں نہ کہیں آپ سے ملنے کو آ جاتا۔ اچھا ہوا آپ نے وہ پرچہ1؎ اپنی ذمہ داری پر چلانا شروع کیا۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ یہاں کے مشاغل سے مطلق فرصت نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں مضامین لکھنے کی کہاں سوجھتی ہے۔ البتہ شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہو جاتا ہے۔ سو شیخ عبدالقادر (ایڈیٹر مخزن) لے جاتے ہیں۔ ان سے انکار نہیں ہو سکتا۔ آپ سے بھی انکار نہیں ہو سکتا۔ اگر کچھ ہو گیا تو حاضر کروں گا۔ والسلام محمد اقبال ٹرینٹی کالج، کیمبرج انگلینڈ ٭٭٭ از سیالکوٹ 29اگست1908ء ڈیر فوق! السلام علیکم ۔ آپ کا نواز ش نامہ مجھے کل ملا۔ میں ایک دو روز کے لیے بغرض مشورہ لاہور گیا ہوا تھا کیونکہ وہیں کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ میگزین میں جو کامیابی آپ کو ہوئی اور ہو رہی ہے اس کے لیے مبارک باد دیتا ہوں۔ اور جو کچھ آپ گاہے گاہے میری نسبت اپنے کالموں میں تحریر فرماتے ہیں اس کا 1؎ پرچہ جس کی طرف خط میں اشارہ ہے وہ ’’ کشمیری میگزین‘‘ ہے جو 1906ء میں شروع ہوا تھا اور جس کے لیے فوق صاحب نے اقبال سے مضمون یا اشعار کی فرمائش کی تھی۔ شکریہ ادا کرتا ہوں۔1؎ آپ جموں کے راستے جائیں تو ضرور سیالکوٹ تشریف لائیں تاکہ مجھے آپ کی دوستانہ قدر و منزلت کرنے کا موقع ملے۔ افسوس ہے کہ میں ابھی کچھ عرصے تک آپ کے لیے کچھ نہ کر سکوں گا کیونکہ ہمہ تن قانون کی کتب کی طرف متوجہ ہوں۔ چونکہ اس کام کو شروع کیا ہے، اس واسطے ارادہ ہے کہ اس کو حتی الامکان پورے طور پر کروں۔ روٹی تو خدا ہر ایک کو دیتا ہے، میری آرزو ہے کہ میں اس فن میں کمال پیدا کروں۔ آپ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مہم میں میرا شامل حال ہو۔ انشاء اللہ نومبر میں لاہور چلا جاؤں گا اور مستقل طور پر کام شروع کروں گا۔ اس وقت آپ سے ملاقات ہوا کرے گی جیسے کبھی کبھی پہلے ہوا کرتی تھی اور میں کشمیری گوت کے متعلق بھی چند باتیں آپ سے کروں گا۔ باقی خیریت ہے۔ اللہ یار صاحب جوگی کی خدمت میں میرا شکریہ پہنچائیے۔ علاوہ ازیں تارا چند صاحب کی خدمت 1؎ مراد کشمیری میگزین سے ہے جس کے مختلف پرچوں میں فوق صاحب اقبال کے متعلق لکھتے رہتے تھے۔ فروری1908ء کے پرچے میں صفحہ21پر لکھتے ہیں کہ فخر قوم و ملک شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے نے ولایت جا کر علمی میدان میں جو کچھ نام پیدا کیا ہے اس کا وقتاً فوقتاً ذکر میگزین میں ہوتا رہا ہے۔۔۔۔ لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ کی جہگ جو چند ماہ کے لیے مصر گئے ہیں، عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ہیں۔ اپریل 1909ء کے شمارے میں اقبال کی ان دنوں کی تصویر اور ان کے تفصیلی حالات درج کئے ہیں۔ میں۔ والسلام1؎ محمد اقبال ٭٭٭ 1’’ کشمیری میگزین‘‘ بابت ماہ اگست1908ء (صفحہ35-33) میں بہ عنوان ’’ اقبال لاہور میں‘‘ اقبال کی انگلستان سے واپسی کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جا رہا ہے جس سے اس خط کے بعض مندرجات کی وضاحت ہو جائے گی۔ شیخ محمد اقبال 27جولائی1908ء کو بروز پیر شام کی گاڑی پر لاہور تشریف لائے۔ وقت مقررہ سے پیشتر ان کے احباب استقبال کے لئے اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ باہر اور اندر خاصا ہجوم تھا۔ اقبال نہایت خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے سب سے ملے۔ بھاٹی دروازے کے باغ میں شیخ گلاب دین صاحب وکیل چیف کورٹ پنجاب کی جانب سے خیمے وغیرہ ایستادہ تھے۔ خان بہادر میاں محمد شفیع صاحب بیرسٹر ایٹ لاء نے شیخ صاحب کی قابلیت کے متعلق چند الفاظ فرمائے۔ اللہ یار جوگی نے خیر مقدم کرتے ہوئے نظم پڑھی: کدھر ہے کیف مسرت مجھے سنبھال سنبھال کہ ہو کے آئے ولایت سے ڈاکٹر اقبال چڑھی ہوئی ہیں خوشی کے خمار سے آنکھیں نشے میں چور ہوں دل ہے مرا نہال نہال خدا کے فضل سے وہ کیں ہیں ڈگریاں حاصل کہ اس زمین میں جن کا ہے اندراج محال گزشتہ پیر کو لاہور کے سٹیشن پر رئیس سارے کھڑے تھے برائے استقبال وہ لیٹ گاڑی کا ہونا، وہ انتظار شدید وہ ہر زباں پہ ترا ذکر سب کو تیرا خیال دھوئیں کا اٹھنا وہ گاڑی کا یک بیک آنا نکلنا کمرے سے تیرا بشکل بدر کمال ترس گئی تھیں یہ آنکھیں کسی کے درشن کو دوبارہ لایا یہ موقع وہ ایزد متعال (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) ڈیر فوق! مرزا افضل احمد صاحب کا خط ملفوف ہے۔ وہ اس خط کو (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) وہ کشمکش تھی احبا کو دیکھنے کی ترے رسائی پانا بھی تجھ تک تھا ایک امر محال گلے سے ملتے تھے تیرے اچھل اچھل کر دوست کوئی تھا دور کے نظارے ہی سے تیرے نہال ترس ترس کے یہ موقع خوشی کا پایا ہے کہ آئے خیر سے گھر، پھر کے حضرت اقبال تھی حاجت ایسے ہی لیڈر کی اہل خطہ کو جواں خیال، جواں سال اور جواں اقبال تری ترقی کی دنیا ہے سامنے تیرے زمانہ اب ہوا موافق سنبھل ہمیں بھی سنبھال گئے وہ دن کہ جو کہتے تھے اب مٹی یہ قوم اڑا وہ رنگ جو سنتے تھے اب گرے پر و بال یہی دعا ہے، یہی آرزو، یہی امید کہ دوست شاد ہوں دشمن ترے رہیں پامال اس کے بعد منشی غلام علی خاں غلامی خوشنویس ’’ پیسہ اخبار‘‘ لاہور نے مندرجہ ذیل نظم پڑھی: آمد اقبال سے جشن طرب گھر گھر ہوا اوج پر ہے آج پھر لاہور کا اختر ہوا دوست اور احباب خرم ہیں ترے دیدار سے جبکہ تو مثل ہلال عید جلوہ گر ہوا ڈگریاں پا کر ولایت سے تو آیا کامیاب فلسفے میں خاص کر بیکن کا تو ہمسر ہوا کیوں نہ ہو ہندوستاں میں تیرا شہرہ چار سو تیرا علم و فضل اور اخلاق جب برتر ہوا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) کمیٹی میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔1؎ اس کے علاوہ ایک اور کارڈ آیا ہے۔ مہربانی کر کے اس کی تعمیل بھی کریں۔ جو خط آپ نے میری طرف سے میگزین میں شائع کیا ہے، اس کی چند کاپیاں (اگر وہ علیحدہ) (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) ہو گیا پنجاب میں ممتاز شہر سیالکوٹ فخر اس کو جبکہ تیرے نام نامی پر ہوا فاضلان دہر میں پایا ہے تو نے امتیاز کامیابی کا قلعہ ہمت سے تیری سر ہوا حبذا! تو خیریت سے واپس آیا پھر یہاں حق میں دن لاہور کے یہ عید سے بڑھ کر ہوا آ کہ تیری جا ہماری چشم و دل میں ہے مدام تیرا استقبال بزم عیش کا منظر ہوا ہے غلامی بھی ترا محلص قدیم اے نیک خو خیر مقدم کو ترے یہ بھی بدل حاضر ہوا تارا چند تارا، دہلی دروازہ لاہور کا حلوائے سوہن فروش تھا، جس کو شاعری کا بھی ذوق تھا۔ فوق صاحب نے اپنی کتاب ’’ کلام فوق‘‘ (صفحہ105-106) میں ذکر کیا ہے کہ لاہور کی انجمن سخن جو پہلے بھاٹی دروازے ہوا کرتی تھی، بعد میں دہلی دروازے ہونے لگی اور اللہ یار جوگی اور تارا چند لاہوری اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ 1؎ 10جنوری 1909ء کو کشمیری مسلمانان لاہور کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں اقبال بھی ایک رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ 22جنوری کو سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایک انجمن بنام ’’ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور‘‘ قائم کی گئی۔ 6فروری کو انجمن کے عہدہ داروں کا انتخاب ہوا اور اقبال اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انجمن کے سامنے سب سے اہم مسئلہ پنجاب کے زراعت پیشہ کشمیری مسلمانوں کا تھا۔ اس سلسلے میں وہ گورنر جنرل کے پاس وفد لے جانے پر غور کر رہے تھے۔ مرزا افضل احمد کا خط اسی سلسلے میں تھا۔ شائع ہوا ہو) مندرجہ ذیل پتے پر ارسال کریں: غلام محمد ڈار متصل گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ۔ یہ صاحب آپ کے خریدار ہیں۔ اگر علیحدہ شائع نہ ہوا ہو تو ان کو جواب دے دیں۔ راقم 11مئی1909ء محمد اقبال ٭٭٭ برادر مکرم و معظم! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ، آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ ہمارے مربی و محسن جناب نواب سر آنریبل خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب نواب بہادر، نواب ڈھاکہ نے 5فروری 1909ء کو وائسرائیگل کونسل میں کشمیریوں کے متعلق فوج اور زمینداری کی بابت سوالات پیش کیے تھے۔ فوج کے متعلق تو لارڈ کچنر کمانڈر انچیف افواج ہند نے فرمایا کہ ’’ کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اگرچہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکواڈرن علیحدہ موجود نہیں۔‘‘ اس امر کے متعلق انجمن کشمیری مسلمانان لاہور علیحدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر فی الحال میں آپ کی توجہ دو سوالوں کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں۔ زراعت پیشہ اقوام کے متعلق جو جواب نواب صاحب کے سوال کا دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ جس قوم کو مناسب سمجھتی ہے اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیتی ہے۔ گورنمنٹ پنجاب کو یہ دونوں سوال اور جواب زمینداری کے متعلق حضور وائسرائے بہادر نے بھیج دیے تھے۔ گورنمنٹ ممدوح نے حکم جاری فرمایا ہے کہ کمشنر اپنے اپنے علاقے کی مفصل رپورٹ پیش کریں کہ آیا کشمیری مسلمان اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیے جائیں یا کیے جانے کے لائق ہیں۔ کمشنر صاحب بہادر نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس معاملے میں مدد دیں۔ ڈپٹی کمشنروں نے تمام کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کرائی ہے جس سے ان کو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں کتنے کشمیری زراعت پیشہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کا حکم نہایت صاف ہے۔ انہوں نے تحصیل داروں سے چار امور دریافت فرمائے ہیں۔ یعنی: 1قوم کشمیری کے افراد کا عموماً کیا پیشہ ہے؟ 2کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کا گزارہ صرف زراعت کاری پر ہے؟ 3اگر وہ مالکان اراضی ہیں تو کب سے انہوں نے زمین حاصل کی ہے؟ 4کوئی کشمیری دخیل کار ہے یا نہیں؟ اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصلات اور شہروں میں بود و باش رکھنے والے زراعت پیشہ کشمیریوں کی جو فہرست تیار ہو گی اس میں مندرجہ بالا چار امور کا خیال کیا جاتا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر تحصیل دار صاحبوں کو اس فہرست کے مرتب کرنے میں خود بھی امداد دیں اور دیکھیں کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تیار کی جاتی ہے یا نہیں۔ تمام اہل خطہ کو جو آپ کے علاقے میں رہتے ہیں ان کو مفصل طور پر یہ سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں بھی فہرست کے تیار کرنے میں امداد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو اور ہماری عادل گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی، تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مودبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کو بموجب حکم کے تیار کرانے کا حکم صادر فرمائیں۔ جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقل انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔ یہ چٹھی اپنے بھائیوں کو، جو مفصلات میں رہتے ہیں، جلدی بھیج دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ کس قسم کی فہرست تیار ہونی چاہیے۔ اگر وہ دیکھیں کہ فہرست بموجب حکم بالا تیار نہیں ہوئی یا ہوتی تو وہ آپ کی معرفت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے خط و کتابت کریں۔ اس غرض کے لیے کہ مندرجہ بالا امر میں تمام قوم کے افراد متفتہ طور پر اپنی بہبودی کے لیے کوشش کر سکیں اور نیز دیگر امور کے لیے جو قوم سے بحیثیت مجموعی تعلق رکھتے ہوں، میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ سینٹر میں ضرور کشمیری مجلس قائم کریں۔ اس کے علاوہ ہر ایسے مقام میں جہاں آپ کا اثر ہو، اپنے دیگر بھائیوں کو کشمیری مجلس قائم کرنے کی ترغیب بھی دیں کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا ہو گی بلکہ قومی حقوق کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی: خاکسار محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا جنرل سیکرٹری انجمن کشمیری مسلمانان لاہور1؎ ٭٭٭ بصحن گلشن ما صورت بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہر انتظار بیا اقبال 7مارچ1912ء ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم کیا آپ آج کل لاہور میں ہیں یا میرا کدل میں؟2؎ ایک دفعہ آپ نے ’’ کشمیری میگزین‘‘ میں میرے حالات شائع کئے تھے۔ اگر اس نمبر کی کوئی کاپی آپ کے پاس رہ گئی ہو تو ارسال فرمائیے، پھر واپس کر دی جائے گی۔ اگر پاس نہ ہو تو کہیں سے منگوا دیجئے 3؎ زیادہ کیا عرض کروں، آپ کبھی ملتے ہی نہیں۔ 1؎ یہ وہی خط ہے جس کا حوالہ اقبال نے اپنے خط مورخہ11مئی 1909ء میں دیا ہے اور جو فوق صاحب نے کشمیری میگزین بابت مئی 1909ء میں چھاپا تھا۔ 2؎ دریائے جہلم سرینگر کے وسط میں سے گزرتا ہے اور اس پر کئی پل ہیں۔ امیر اکدل ان پلوں میں سے ایک مشہور پل ہے۔ 3؎ کشمیری میگزین بابت اپریل 1909ء میں اقبال کی اس زمانے کی تصویر اور حالات شائع ہوئے تھے۔ یہ حالات زیر نظر تالیف میں شامل ہیں۔ اب تو آپ پیر طریقت بھی بن گئے 1؎ خدا کرے کہ جلد حافظ جماعت علی شاہ2؎ صاحب کی طرح آپ کے ورود کشمیر کے متعلق اطلاعیں شائع ہوا کریں۔ والسلام اس کارڈ کا جواب جلد ملے۔ آپ کا خادم محمد اقبال لاہور،23جولائی1915ء ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم آپ کا کارڈ ابھی ملا ہے۔ بھلا آپ کو کیونکر آنے کی ممانعت ہو سکتی ہے۔ میں نے اس خیال سے لکھا تھا کہ آپ مصروف آدمی ہیں اس لیے آنے میں ہرج ہو گا اور تکلیف مزید کہ انار کلی، شیراں والے دروازہ سے دور ہے۔ کتاب جب آ جائے تو ضرور ہمراہ لائیے بلکہ اس کے آنے میں دیر ہو تو بلا کتاب تشریف لائیں۔ 1؎ فوق صاحب نے 1914ء میں تصوف کے موضوع پر ایک رسالہ ’’ طریقت‘‘ جاری کیا تھا جو تقریباً4سال تک شائع ہوتا رہا۔ 2؎ حافظ جماعت علی شاہ اس زمانے کے مشہور پیر تھے جن کا حلقہ مریدین بہت وسیع تھا۔ 21دسمبر کا ’’ کشمیری‘‘ 1؎ اور ’’ وجدانی نشتر‘‘ 2؎ میری نظر سے نہیں گزرے۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال لاہور،21دسمبر1915ء ٭٭٭ لاہور23دسمبر15ء ڈیر فوق! السلام علیکم دونوں کتابیں مل گئی ہیں۔انگریزی کتاب پہلے سے میرے پاس موجود ہے۔ افسوس ہے کہ آپ کو مفت میں تکلیف ہوئی۔ 1؎ 21دسمبر1915ء کے’’ کشمیری‘‘ (ہفتہ وار) میں فوق صاحب نے ایک واقعے کا ذکر کیا تھا جس کا عنوان تھا:’’ ڈاکٹر اقبال کی ایک نظم کا اثر‘‘ واقعہ یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بہاول پور نے ایک لوکل زنانہ اخبار کی ایڈیٹر صاحبہ سے اثنائے گفتگو میں فرمایا:’’ جب سے میں نے:‘‘ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ والی نظم پڑھی ہے میں نے تیتر، بٹیر اور چڑیوں کا کھانا قطعی چھوڑ دیا ہے، بلکہ جب میں کسی بلبل یا چڑیا کو اسیر دیکھتی ہوں تو میرے دل پر بہت چوٹ لگتی ہے اور فوراً مجھے یاد آ جاتا ہے: آزاد کر دے مجھ کو او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے 2؎ فوق صاحب کی ایک تصنیف جس کا دوسرا نام ’’ سوز و گداز‘‘ بھی ہے اس میں عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ایسے اشعار جمع کئے گئے ہیں جن کو بزرگان دین نے وجد و حال کے طور پر استقبال کیا ہے۔ ’’ وجدانی نشتر‘‘ خوب1؎ ہے مگر تعجب ہے کہ شیخ2؎ ملا کے ملحدانہ و زندیقانہ شعر’’ من چہ پروائے مصطفی دارم3؎‘‘ کو آپ اس کتاب میں جگہ دیتے ہیں اور پھر ملا کی تشریح کس قدر بیہودہ ہے۔ یہی وہ وحدت الوجود ہے جس پر خواجہ نظامی اور اہل طریقت کو ناز ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے اور ہم غریب مسلمانوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ ریویو دوسرے صفحے پر درج ہے۔ محمد اقبال 1؎ ’’ وجدانی نشتر‘‘ کے متعلق اقبال کی تفصیلی رائے ’’ طریقت‘‘ بابت جون 1917ء میں یوں درج ہے: ’’ مولوی محمد دین فوق ایک صاحب ذوق آدمی ہیں۔ ان کی جدت پسند طبیعت ہمیشہ انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ حال میں انہوں نے ایک کتاب موسوم بہ ’’ وجدانی نشتر‘‘ لکھی ہے جس میں عربی، فارسی، اردو اور پنجابی اشعار جمع کر دیے ہیں جو تاریخی اعتبار سے ایک خاص اثر و سوز و گداز کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں ان کو بہت محنت کرنی پڑی ہو گی مگر مولوی محمد الدین محنت سے گھبرانے والے نہیں۔ کتاب نہایت اچھی اور دلچسپ ہے اور انسانی قلب کی گوناگوں کیفیات پر روشنی ڈالتی ہے۔ فوق صاحب کی تلاش قابل داد ہے۔‘‘ 2؎ اصلی نام ملا شاہ بدخشی ہے جو دار شکوہ کا استاد اور میاں میر صاحب کا مرید تھا۔ ملا شاہ بدخشی کا مختصر حال ’’ دبستان المذاہب‘‘ میں مل سکتا ہے جہاں میاں میر صاحب اور ملا شاہ کی عجیب و غریب تاویلات کا ذکر موجود ہے۔ 3؎ پورا شعر یہ ہے: پنجہ در پنجہ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیؐ دارم مکرم بندہ! کتاب ’’ مشاہیر کشمیر1؎‘‘ مل گئی ہے۔ شکریہ قبول کیجئے۔ مولوی محمد دین صاحب کی خدمت میں میرا سلام لکھیے۔ والسلام خاکسار محمد اقبال لاہور26جولائی16ع ٭٭٭ لاہور6مارچ1917ء ڈیر فوق! السلام علیکم آپ کا دستی خط مل گیا ہے۔ منشی قمر الدین2؎، جن کو آپ نے سفارشی خط دے کر بھیجا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو اجازت دی جائے۔ مجھے یہ بات گزشتہ تجربے سے معلوم ہے۔ ورنہ میری عادت میں کسی کو محروم کرنا داخل نہیں۔ علاوہ اس کے یہ لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح۔ اس کے بعد اعتراض مجھ پر ہوتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان نظموں کو میں نے شائع کیا ہے۔ اس سے پیشتر میں اس شخص پر مقدمہ دائر کرنے کو تھا مگر 1؎ ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ فوق صاحب کی ایک کتاب ہے جس میں اقبال کے مفصل حالات زندگی درج ہیں۔ 2؎ منشی قمر الدین ایک مقامی تاجر کتب جس نے بلا اجازت اقبال کی نظمیں کتابی صورت میں شائع کی تھیں۔ یہ واقعہ ’’ بانگ درا‘‘ کی اشاعت سے قبل کا ہے۔ ’’ بانگ درا‘‘ پہلی بار ستمبر 1924ء میں شائع ہوئی تھی۔ مولوی ظفر علی1؎ خاں کے کہنے سے باز رہا۔ اس نے اس سے پیشتر میری نظموں کو میری اجازت کے بغیر شائع کر دیا تھا۔ اب یہ سب معاملہ مولوی احمد دین2؎ وکیل کے سپرد کیا ہے کہ اگر کوئی میر اکلام میری اجازت کے بغیر چھاپے تو اس پر دعویٰ کر دیا جائے۔ اخباروں میں جو کچھ شائع ہوا ہے، اسے میں نے پڑھا ہے۔ مگر سب اخبار میری نظر سے نہیں گزرتے۔ ’’ مخبر دکن‘‘ کے لیے شکر گزار ہوں۔ مجھے اس معاملے کا مطلق علم نہیں۔ نہ میں نے حیدر آباد میں کسی کو لکھا ہے، نہ وہاں سے مجھے کسی نے تحریک کی ہے۔ میرے خیال میں یہ بات محض اخباری گپ شپ ہے۔ حیدر آباد میں تو مجھ سے بہتر آدمی موجود ہوں گے۔ 3؎ 1؎ مولوی ظفر علی خاں اخبا ر ’’ زمیندار‘‘ لاہور کے مالک اور ایڈیٹر اور سیاسی راہنما تھے۔ 2؎ مولوی احمد دین بھاٹی دروازے لاہور کے مشہور وکیل اور اقبال کے عزیز دوست تھے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے ایک کتاب ’’ اقبال‘‘ لکھی تھی لیکن اقبال کے آزردہ ہونے پر اسے جلا ڈالا تھا۔ 1926ء میں یہی کتاب ترمیم کرنے کے بعد دوبارہ شائع کی۔ ’’ سرگزشت الفاظ‘‘ ان کی دوسری مشہور کتاب ہے۔ 3؎ اخبار’’ مخبر دکن‘‘ میں یہ خبر چھپی تھی کہ حیدر آباد دکن ہائی کورٹ کی ججی کے سلسلے میں اقبال کا نام اکثر لیا جا رہا ہے۔’’ شاد اقبال‘‘ کے مطالعے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے (خط نمبر18صفحہ 37) خط نمبر21(صفحہ42) میں اقبال لکھتے ہیں ’’ یہاں پنجاب اور یو پی کے اخباروں میں چرچا ہوا تو دور دور سے مبارک باد کے تار بھی اڑ گئے۔‘‘ اسی طرح خط نمبر23(صفحہ44) میں اقبال لکھتے ہیں: ’’ مخبر دکن سے معلوم ہوا ہے کہ حیدر آباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام حضور نظام کے سامنے پیش کئے گئے ہیں جن میں ایک خاکسار کا بھی ہے۔۔۔۔‘‘ ’’ اودھ پنچ‘‘ (لکھنو) نے جو اعتراضات مجھ پر کیے ہیں ان کا مجھے علم نہیں۔ وہ پرچہ تلاش کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ان اعتراضوں میں کوئی کام کی بات ہو۔ لکھنو والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے۔ مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں، نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعر سمجھا ہے۔ حقیقت میں فن شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ پھر میں کیونکر کامیاب ہو سکتا ہوں جسے روزی کے دھندوں ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ میرا مقصود گاہ گاہ نظم لکھنے سے صرف اسی قدر ہے کہ چند مطالب، جو میرے ذہن میں ہیں ان کو مسلمانوں تک پہنچا دوں اور بس۔ والسلام1؎ امید ہے کہ آپ قمر الدین صاحب کو اجازت نہ دینے سے ناراض نہ ہوں گے۔ غالباً آپ کو ان کے حالات کا پہلے علم نہ تھا ورنہ آپ ان کی سفارش نہ کرتے۔ کسی روز ضرور ملیے۔ آپ کی ’’ فوقیت‘‘ اب اس قدر بلند ہو رہی ہے کہ نظر ہی سے غائب ہو گئی۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ 1؎ ’’ اودھ پنچ‘‘ لکھنو کا مشہور مزاحیہ ہفتہ وار اخبار جو 1916ء میں جاری ہوا۔ اس میں اقبال کی شاعری پر اعتراضات شائع ہوتے رہے۔ لاہور،8جون1917ء ڈیر فوق! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ کشمیر اور اہل کشمیر پر مختلف کتابیں لکھ کر آپ نے مسلمانوں پر اور ان کے لٹریچر پر احسان کیا ہے۔ البتہ کشامرہ کی قبر پرستی ایک ایسا مضمون ہے جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا۔ اس طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ رسالہ ’’ رہنمائے کشمیر‘‘ جو حال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے، نہایت مفید اور دلچسپ ہے۔ طرز بیان بھی دلکش ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ عام لوگوں کے لیے نہایت مفید ہو گا۔ افسوس ہے کہ میں نے آج تک کشمیر کی سیر نہیں کی لیکن امسال ممکن ہے کہ آپ کا رسالہ مجھے بھی ادھر کھینچے۔ اسرار خودی کی کوئی کاپی اب موجود نہیں۔ مدت ہوئی پہلا ایڈیشن، جس کی تعداد بہت نہ تھی، ختم ہو گئی۔ میں نے ارادۃً کم تعداد میں چھپوائی تھی، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ عربی اسلام ہندوستان میں ایک فراموش شدہ چیز ہے، اس واسطے اس کے مضمون سے بہت کم لوگوں کو دلچسپی ہو گی۔ ممکن ہے کہ دوسری ایڈیشن شائع ہو۔ ایسا ہوا تو سب سے پہلے ایک کاپی آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔ اس مثنوی کا دوسرا حصہ بھی قریب الاختتام ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال، لاہور ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم آپ کا خط مع ملفوف اخبار مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ ہے۔ رائل ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال (جرنل) کے بعض نمبر پنجاب پبلک لائبریری اور شاید یونیورسٹی لائبریری میں بھی ہیں۔ آپ کسی روز جا کر خود دیکھیں۔ رسالہ ’’ نظام‘‘ کا اجرا مبارک ہو۔ میرے خیال میں آپ ’’ طریقت‘‘ کو ہی فروغ دیتے تو شاید حضور نظام تصوف کی اشاعت کا صلہ عطا فرماتے۔ محمد دین صاحب صوفی1؎ آپ سے بہتر نہیں ہیں لیکن وہ آدمی معاملہ فہم اور کارداں ہے۔ میں بھی آپ کے لیے انشاء اللہ کچھ لکھوں گا۔ حکیم محمد دین صاحب کئی روز سے نہیں ملے۔ خدا کرے کہ اچھے ہوں۔ آپ سے ملیں تو میری طرف سے استفسار حال کیجئے۔ والسلام محمد اقبال لاہور 16دسمبر1918ء ٭٭٭ لاہور،28دسمبر1918ء ڈیر فوق صاحب! السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے جس میں اودھ پنچ کا ایک صفحہ ملفوف تھا۔ میں لاہور میں ہوں، سردی کی وجہ سے کہیں باہر نہیں گیا۔ 1؎ مولوی محمد دین مدیر رسالہ ’’ صوفی‘‘ منڈی بہاء الدین نظم زیر تنقید میری ابتدائی نظموں سے ہے۔ اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ معترض نے ان میں سے ایک پر بھی اعتراض نہیں کیا۔ اور جس قدر اعتراض ہیں غالباً کتابت کی غلطیوں پر ہیں۔ لوگ اس نظم کو بار بار چھاپتے ہیں اور بغیر میری اجازت کے ۔ کم از کم مجھے پروف ہی دکھا لیا کریں۔ اس کا علاج میرے پاس کچھ نہیں۔ والسلام محمد اقبال، لاہور ٭٭٭ ڈیر فوق ! السلام علیکم خط دستی ابھی موصول ہوا۔ کل گور کھپور سے حکیم برہم کا خط آیا تھا۔ انہوں نے مجھے 8کا ریاض الاخبار ارسال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر ابھی پہنچا نہیں۔ اس پرچے سے حضرت ریاض کی رائے معلوم ہو گی۔ حکیم برہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کے بہت مشکور ہیں1؎ والسلام آپ کا اقبال ٭٭٭ اس انگریزی مضمون کا ترجمہ بھی انشاء اللہ ضرور شائع ہو گا غالباً شیخ عبدالقادر صاحب کریں گے کیونکہ انہوں نے یہ کام اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری نیوز کا میری طرف سے شکریہ ادا کر دیں۔ آپ کا اقبال 1؎ حکیم برہم گور کھپور کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ایک ہفتہ وار اخبار’’ مشرق‘‘ جاری کیا تھا جو نہایت سنجیدہ، باوقار اور مہذب پرچہ تھا۔ میں ایڈیٹر صاحب سول اینڈ ملٹری نیوز کا دل سے ممنون ہوں۔ جو رائے انہوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی نسبت اپنے قیمتی اخبار میں ظاہر فرمائی ہے، حقیقت میں میں اس کے قابل نہیں: ’’حق تو یوں ہے کہ وہ ہیں سب شعرا سے بدتر آپ اچھے ہیں جو کہتے ہیں جلال اچھا ہے‘‘ میں ایڈیٹر صاحب کو اطمینان دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ اس انگریزی مضمون کا ترجمہ شیخ عبدالقادر صاحب ایڈیٹر’’ مخزن‘‘ کریں گے1؎ اقبال لفافے پر نوٹ: علی گڑھ منتھلی کا آخری نمبر ضرور دیکھیے۔ اس میں حسرت موہانی نے ایک نہایت بزدلانہ حملہ آپ پر کیا ہے۔ اقبال ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم ایک کاپی اس نظم کی مجھے بھی ارسال کیجئے جو میں نے آپ کو ’’ نظام‘‘ میں شائع کرنے کے لیے بھیجی تھی۔ اس کا مسودہ بھی 1؎ اس خط پر اگرچہ تاریخ درج نہیں لیکن مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 1917ء یا 1918ء میں تحریر کیا گیا ہے کیونکہ بعد میں شیخ عبدالقادر صاحب کو سر کا خطاب دیا گیا تھا۔ میرے پاس موجود نہیں1؎ والسلام مخلص محمد اقبال، لاہور 25فروری1919ء ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم دونوں کتابوں کا پیکٹ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ نے تاریخ حریت2؎ 1؎ ’’ نظام‘‘ کا پہلا شمارہ فروری 1919ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں اقبال کی مندرجہ ذیل نظم شائع ہوئی تھی: مکافات عمل ہر عمل کے لیے ہے رد عمل دہر میں نیش کا جواب ہے نیش شیر سے آسمان لیتا ہے انتقام غزال و اشتر و میش سرگزشت جہاں کا سر خفی کہہ گیا ہے کوئی نکو اندیش شمع پروانہ را بسوخت ولے زود بریاں شود بہ روغن خویش 2؎ ’’ تاریخ حریت اسلام‘‘ میں زمانہ رسالت، عہد خلافت راشدہ، بنی امیہ اور بنی عباس سے لے کر عہد حال تک کے راست باز، حق پرست، حق گو بزرگوں کے حیرت خیز، جرأت آفریں، استقلال اور جوش و ایثار کے عبرت آموز حالات درج ہیں۔ اس کتاب پر اقبال کی تفصیلی رائے درج کی جاتی ہے: ’’ فوق کو اسلامیات سے ہمیشہ شغف رہا ہے۔ اس سے پہلے ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں لیکن حق یہ ہے کہ حریت اسلام‘‘ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) اسلام بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب لاجواب ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تازیانے کا کام دے گی۔ آپ بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس کا اجر خدا تعالیٰ کی درگاہ سے ملے گا۔ والسلام محمد اقبال لاہور27اکتوبر1920ء ٭٭٭ لاہور،12مارچ1922ء مکرم بندہ! السلام علیکم مجھے یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیں۔ میں کئی سالوں سے اس کے لکھنے کی تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس کسی نے ادھر توجہ نہ کی۔ آپ کے ارادوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) ان کی بہترین تصنیف ہے۔ دلیری اور بے باکی سے اعلان حق کرنا گزشتہ مسلمانوں کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو تھا، مگر افسوس کہ عصر حاضر کے عام مسلمان تو تاریخ اسلامی سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ موئے موئے واقعات سے بھی بے خبر ہیں۔ ان حالات میں فوق صاحب کی تصنیف پنجاب کے اسلامی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلمان خاندان اس بیش بہا کتاب کے مطالعے سے محروم نہ رہے گا۔ اسلامی سکولوں اور کالجوں کے کتب خانے خاص طور پر اس کے مطالعے کی طرف توجہ کریں۔ اس زمانے میں جبکہ جمہوریت کی روح ہندوستان میں نشوونما پا رہی ہے، دیگر اہل ملک کے لیے بھی یہ کتاب سبق آموز ہو گی۔ (13مارچ1921ئ) افسوس ہے کہ کشمیر کا لٹریچر تباہ ہو گیا۔ اس تباہی کا باعث زیادہ تر سکھوں کی حکومت اور موجودہ حکومت کی لاپروائی اور نیز مسلمانان کشمیر کی غفلت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وادی کشمیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اب بھی موجودہ لٹریچر کی تلاش و حفاظت کے لیے ایک سوسائٹی بنائیں؟ ہاں ’’ تذکرہ شعرائے کشمیر‘‘ لکھتے وقت مولانا شبلی کی شعر العجم آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ محض حروف تہجی کی ترتیب سے شعرا کا حال لکھ دینا کافی نہ ہو گا۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعر کی تاریخ لکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بار آور ہو گی اور اگر کبھی خود کشمیر میں یونیورسٹی بن گئی تو فارسی زبان کے نصاب میں اس کا کورس ہونا یقینی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے۔ امید ہے کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ میرے پاس کوئی مسالہ تذکرۂ شعرا کے لیے نہیں ہے ورنہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ والسلام محمد اقبال، لاہور ٭٭٭ لاہور،19دسمبر1922ء ڈیر فوق صاحب! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ آپ کے مصائب1؎ کا حال سن کر 1؎ یہ خط اقبال نے محمد دین فوق کے لڑکے کی وفات پر تعزیت کے لیے لکھا تھا۔ بہت افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے۔ مولوی عبداللہ غزنوی1؎ حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کی خبر موصول ہوئی۔ ایک منٹ تامل کیا۔ پھر طلباء کو مخاطب کر کے کہا: ’’ ما برضائے او راضی ہستیم، بیائید کہ کار خود بکنیم‘‘ یہ کہہ کر پھر درس میں مصروف ہو گئے۔ مخلص مسلمان اپنے مصائب کو بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ ’’ شباب کشمیر2؎‘‘ ضرور لکھیے۔ بہت مفید کتاب ہو گی۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کے لوگوں میں خود داری کی روح پیدا کی جائے۔ میں نے بھی ایک نظم اس مضمون پر لکھی ہے جو عنقریب فارسی مجموعے3؎ میں شامل ہو گی۔ افسوس ہے کہ مجھے 1؎ مولوی عبداللہ غزنوی، غزنوی خاندان کے اولین فرد ہیں جو افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آ کر آباد ہوئے۔ مولانا غزنوی توحید و سنت کے علم بردار تھے اور انہوں نے ساری عمر بدعت کے خلاف جہاد کیا اور اسی وجہ سے انہیں افغانستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ بڑے فاضل اور صاحب دل بزرگ تھے۔ 2؎ ’’ شباب کشمیر‘‘ کشمیر کے اس دور کی تاریخ ہے جب مشہور بادشاہ زین العابدین المعروف بہ بڈ شاہ حکمران تھ ااور جسے کشمیر کا دور زریں کہا جاتا ہے۔ 3؎ فارسی مجموعے سے مراد’’ پیام مشرق‘‘ ہے جو پہلی بار1924ء میں شائع ہوئی۔ اس میں کشمیر کے عنوان سے ایک نظم ہے (صفحہ155) جس کا مطلع ہے: رخت بہ کاشمر کشا، کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں بہ بیں لالہ چمن چمن نگر (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) تاریخ کشمیر سے بہت کم آگاہی ہے۔ ممکن ہے پنڈب شو نرائن آپ کی مدد کر سکیں۔ راج ترنگی1؎ غالباً ان کے پاس ہے۔ اگر نہ ہوتی تو پنجاب پبلک لائبریری سے ضرور مل جائے گی۔ ’’اسلام میں سیاست‘‘ 14سال ہوئے انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا، یعنی 1908ء میں جب ترکی میں انقلاب ہو رہا تھا، جس کا نتیجہ آخر کار 1909ء میں عبدالحمید خاں کی معزولی ہوا۔ یہ مضمون لندن کے سوشیا لاجیکل ریویو میں شائع ہوا تھا۔ ’’ پیسہ اخبار‘‘ نے اس کا ترجمہ بہت غلط شائع کیا ہے۔ صحیح ترجمہ ’’ زمیندار‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ ترجمہ چودھری محمد حسین صاحب ایم اے سیکرٹری نواب سر ذوالفقار علی صاحب نے کیا تھا جو معتبر ہے۔ اگر آپ چھاپنا چاہیں تو بڑی خوشی سے پمفلٹ فارم میں شائع کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ چودھری صاحب سے بھی اجازت لے لیں تو بہتر ہے۔ وہ ایک آدھ روز کے لیے سیالکوٹ جانے والے ہیں۔ وہاں سے جنوری کے شروع میں واپس آئیں گے۔ ان کو اجازت دینے میں مجھے یقین ہے، تامل (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) اس کے علاوہ ساقی نامہ ہے جو نشاط باغ کشمیر میں لکھا گیا۔ اس میں وہ جذبات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار اس خط میں اقبال نے کیا ہے۔’’ ساقی نامہ‘‘ کے چند آخری اشعار یہ ہیں: کشمیری کہ با بندگی خو گرفتہ بتے می تراشد ز سنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے ازاں مے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے 1؎’’ راج ترنگنی‘‘ کشمیر کی مستند تاریخ ہے جس کے انگریزی اور اردو ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ نہ ہو گا۔1؎ انگریزی اصل چند روز ہوئے ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ میں چھپا تھا۔ وہ مطلوب ہو تو ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ سے طلب فرمائیں۔ باقی رہے میرے حالات، سو ان میں کیا رکھا ہے۔ میرا طرز رہائش مشرقی ہے، آپ شوق سے تشریف لا سکتے ہیں۔ والسلام محمد اقبال ٭٭٭ ڈیر فوق! السلام علیکم مخدومی جناب مولوی صاحب2؎ نے جو نام لکھے ہیں ان میں سے میں کسی کو نہیں جانتا، سوائے عشق پیچہ شاعر کے جو کوئی شاعر نہ تھا، ہاں تک بند ضرور تھا۔ سیالکوٹ کے قدیم مشہور شعرا میں سے شیخ محمد علی رائج تھے۔ ان کا دیوان فارسی میں بہت ضخیم میں نے خود دیکھا ہے۔ غالباً شاہ جہان یا عالمگیر کے عہد میں تھے۔ ٹیک چند نے ’’ بہار عجم‘‘ میں جابجا ان کے اشعار کو محاورات فارسی کی سند میں لکھا ہے۔ ایک شعر ان کا مجھے بھی یاد ہے: از جوانے سرو قد دیگر بہ بند افتادہ ام دوستاں! رحمے کہ از بام بلند افتادہ ام غالباً کسی نہ کسی تذکرے میں ان کا ذکر آپ کو ضرور مل جائے گا۔ مولوی صاحب قبلہ میر حسن صاحب کے متعلق جہاں 1؎ یہ مضمون ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ کے نام سے منشی محمد دین فوق نے 1923ء میں شائع کر دیا تھا۔ 2؎ مولانا میر حسن (اقبال کے استاد) تک مجھے یاد ہے میری کوئی نظم نہیں۔ شاید کوئی شعر اشارتاً کسی نظم میں ہو1؎ والسلام محمد اقبال، لاہور 4مارچ1923ء ٭٭٭ ڈیر فوق صاحب! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ تاحال ہر طرح خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اگر آپ نے خواب میں مجھے دوزخ میں دیکھا ہے تو یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ آج کل لاہور دوزخ سے کم نہیں۔ باقی خیریت ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال، لاہور 30جون1924ء ٭٭٭ ڈیر فوق! ’’ اودھ پنچ‘‘ کا مضمون’’ بیماران لکھنو‘‘ کے جواب میں ہے۔ مجھے پہلے سے خیال تھا کہ اس کا جواب لکھا جائے گا۔ بہرحال موجودہ لٹریری مذاق کی حالت قابل ماتم ہے۔ 1؎ فوق صاحب سیالکوٹ کے شعرا کے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک خط لکھ کر مولانا میر حسن سے مشورہ چاہا۔ ان کا جواب آنے پر فوق نے اقبال کو خط لکھا۔ اقبال کا یہ خط اسی کے جواب میں ہے۔ ذخیرۃ الملوک1؎ کے دیکھنے کا میں بھی مشتاق ہوں۔ کوئی شخص کشمیر میں اس کا ترجمہ اردو زبان میں کر رہا ہے۔ والسلام محمد اقبال 5مئی1926ء ٭٭٭ لاہور،20اپریل1929ء ڈیر فوق صاحب! السلام علیکم اخبار انقلاب میں آپ کی اہلیہ کے انتقال کی خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ خدا تعالیٰ مرحومہ کو جنت عطا فرمائے اور آپ کو صبر جمیل۔ تقدیر الٰہی سے کوئی چارہ نہیں۔ مسلمان کے لیے تسلیم کے سوا کوئی راہ نہیں اور یہی راہ انسب و اولیٰ ہے۔ والسلام محمد اقبال ٭٭٭ ڈیر فوق صاحب! مجھے معلوم نہیں لفظ سپرو کے معانی کشمیری زبان میں کیا ہیں۔ ممکن ہے اس کے معنی وہی ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں، یعنی وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانت دکھائے۔ البتہ 1؎’’ ذخیرۃ الملوک‘‘ امیر کبیر سید علی ہمدانی کی مشہور تصنیف ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال نے انہیں شاہ ہمدان کے نام سے پکارا ہے۔ نوٹ: اقبال کا یہ خط نظام الدین ریٹائرڈ ڈپٹی انسپکٹر پولیس جموں کے اس اشتہار پر تحریر ہے جس میں14کتب کے قلمی نسخے (بشمول ذخیرہ الملوک) طبع کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ کشمیری برہمنوں کی جو گوت سپرو ہے اس کی اصل کے متعلق جو کچھ میں نے اپنے والد مرحوم سے سنا تھا وہ عرض کرتا ہوں۔ جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمہ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف بوجہ قدامت پرستی یا اور وجوہ کے توجہ نہ کرتے تھے۔ اس قوم میں سے پہلے جس گروہ نے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومت اسلامی کا اعتماد حاصل کیا وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے (یا جس نے سب سے پہلے پڑھنا شروع کیا) ’’ س‘‘ تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’ پرو‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر پڑھنا کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو ازہ راہ تعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیم رسوم و تعلقات قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ نام ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا ہے۔ دیوان ٹیک چند (ایم اے) جو پنجاب میں کمشنر تھے، ان کو تحقیق لسان کا بڑا شوق تھا۔ ایک دفعہ انبالہ میں انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ لفظ سپرو کا تعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاہ پور سے ہے اور سپرو حقیقت میں ایرانی ہیں جو اسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہو گئے، واللہ اعلم پنجاب میں جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی گھر مسلمان سپرو خاندان کا نہیں ہے۔ اعجاز1؎ کی شادی کے وقت اس امر کی جستجو کی گئی تھی مگر ناکامی ہوئی۔ محمد اقبال 16جنوری1934ء (انوار اقبال) ٭٭٭ 1؎ اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب (2) قوم کا اقبال 24مئی1938ء کو بمقام لاہور منشی محمد الدین فوق نے سترہ اشعار کی غزل کہی1؎ جس کا مطلع تھا: برق کی آماج گہ کو آشیاں سمجھا تھا میں تھا وہی صیاد جس کو باغباں سمجھا تھا میں علامہ اقبال کے انتقال (21اپریل1938ئ) کا صدمہ ابھی تازہ تھا۔ چنانچہ ذیل کے اشعار میں اسی کا اظہار ہے: قوم سے جاتا رہا وہ قوم کا اقبال بھی فطرت حق کا جسے کچھ رازداں سمجھا تھا میں یا اسے سمجھا تھا میں ’’پیغمبر دین خودی‘‘ 1938ء یا ’’چراغ محفل ہندوستاں‘‘ سمجھا تھا میں 1938ء دل ہی میں عین الیقیں بن کر چھپا بیٹھا تھا وہ فوق جس کو برتر از وہم و گمان سمجھا تھا میں ٭٭٭ 1؎ نغمہ و گلزار، ص68 (3) ندائے اقبال اگست 1938ء کی کسی تاریخ کو سری پرتاپ کالج سرینگر کشمیر میں علامہ اقبال مرحوم کی یاد میں ایک عظیم الشان مشاعرہ فوق صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر تاثیر، صوفی غلام مصطفی تبسم، فیض احمد فیض، حفیظ ہوشیار پوری اور چند مقامی شعرا کے بعد فوق صاحب نے مندرجہ ذیل نظم سنائی جو6جون سے 2جولائی 1938ء کے درمیان مختلف اوقات میں کہی گئی تھی: گزر میرا ہوا جب جانب دروازہ روشنائی مزار حضرت اقبال سے مجھ کو ندا آئی مرے پیغام کے عاشق مرے شعروں کے شیدائی عمل بھی کر کبھی ان پر، نہ بن خالی تماشائی قدم تیرا اگر اٹھے، ترے زیر قدم آئے جہانگیری، جہاں بانی، جہاں داری و دارائی وہ دولت رحمت حق جس پر بے دولت تونگر ہو کرے جو ناتواں کو توانا، وہ توانائی تو پہلے خود شناسی کا کوئی جوہر تو پیدا کر وہ کیا جانے اسے، جس کو نہیں اپنی شناسائی پر پرواز کو اپنے فلک سے بھی پرے لے جا تخیل کر بلند اتنا کہ پربت بھی بنے رائی جہاں غیرت وہاں ہمت جہاں ہمت وہاں نصرت جہاں نصرت وہاں باقی نہ محکومی نہ رسوائی مری فرزانگی نے مبتلائے غم مجھے رکھا تری دیوانگی پر ہے تصدق میری دانائی ادھر وہ ہیں کہ انسانیت و انساں کو ناز ان پر ادھر ہم ہیں جہاں انسانیت آتے ہی شرمائی جو انساں ہو کے انساں سے تعصب مذہبی رکھے نہ وہ مسلم نہ وہ ہندو نہ موسائی نہ عیسائی وہ آزادی جسے ناگن سمجھ کر ڈر گئے دشمن شہیدان وطن کے خون کی موجوں میں لہرائی اگر ہے قوت اظہار حق، باطل شکن ہو جا یہ وہ قوت ہے جو فرعون کی قوت سے ٹکرائی بتا دوں گا تجھے میں کیا ہوں اور کیا میری ہستی ہے اگر قسمت کو رستے پر مری تدبیر لے آئی تو خود سینے کے اندر اپنے، کوہ طور پیدا کر کلیم اللہ بنا دے گی تجھے خود تیری سنائی ترے احساں سے ہم عہدہ برا کیونکر ہوں اے ظالم کہ تیرے ظلم سے ہے از سر نو زندگی پائی وہ قومیت وہ مذہب اور وہ ملت قابل نفرت ہے انسانوں کو انسانوں سے نفرت جس نے سکھلائی اگر کچھ کام کرنا ہے تجھے تو یاد رکھ اتنا نہ خوئے خامشی اچھی، نہ اچھی کنج تنہائی یہی قانون قدرت ہے یہی آئین فطرت ہے ہمیشہ رہ نہیں سکتی کسی آقا کی آقائی جہاں خندہ زنی ہوتی تھی مظلوموں کے رونے پر وہیں اے جذب دل ہونے لگی ہے آج شنوائی پھنسی ہو زندگی کی کشمکش میں قوم جب کوئی نوائے مرگ ہے اس وقت اس کو نغمہ آرائی کہاں سطحی مضامیں فوق کے بے کیف شعروں کے کہاں اقبال تیرے دل کے دریاؤں کی گہرائی1؎ ٭٭٭ 1؎ نغمہ و گلزار، صفحات 75-76 (4) اخبار کشمیری کے چند تراشے منشی محمد الدین فوق مرحوم نے اپنے اخباروں اور رسالوں میں حضرت علامہ اقبال کے بارے میں وقتاً فوقتاً جو خبریں شائع کی تھیں، ان میں سے چند ایک، جو دستیاب ہو سکیں، ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔ یہ ان کے سوانح نگاروں کے کام آ سکتی ہیں۔(مرتب) 1۔ اصول تمدن: شنبہ 15اپریل1911ء کو ڈاکٹر اقبال نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں ’’ اصول تمدن‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ تقریر پہلے سے لکھی ہوئی نہ تھی، اس لیے ان نوٹوں سے جو تقریر کے دوران میں لئے گئے، حسب ذیل خلاصہ روئداد میں درج ہوا: جناب صدر انجمن و معززین! میرا مقصد اس لیکچر میں یہ دکھانا ہے کہ صحیح اصول تمدن کیا ہے اور دنیا میں پہلے پہل ان اصولوں کی بنیاد کس نے رکھی؟ فطرت انسانی کے تین پہلو ہیں یعنی 1عقل و تدبیر، جس کے عمل سے نتائج علمیہ پیدا ہوتے ہیں۔ 2 جذبات جو علم ادب و دیگر فنون لطیفہ مثلاً شعر، مصوری اور تعمیرات وغیرہ کی صورت میں صفحہ ظہور پر آتے ہیں اور 3عمل جس کے اثر سے اقوام عالم کا نظام تمدن مرتب و منظم ہوتا ہے۔ چونکہ تہذیب و تمدن انسان کی فطرت کے عمل کا ایک نتیجہ ہے، اس واسطے ہر تہذیب میں اگر اس کا تجزیہ کیا جائے، یہی تینوں پہلو فطرت انسانی میں عمل کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ پس ایسے اصول تمدن معلون کرنے کے لیے، جن پر کسی قوم کی تہذیب کا دار و مدار ہو، اس تہذیب کا پورا پورا تجزیہ کرنا لازم ہے۔ مثال کے طور پر قرون وسطیٰ میں مغربی تہذیب کو لیجئے۔ عقلی پہلو سے اس کو دیکھئے تو اس تہذیب میں آزادانہ تحقیقات کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ جو لوگ جرأت کر کے نئی علمی راہیں پیدا کرتے ہیں، زندہ جلا دیے جاتے ہیں۔ فلسفہ موجود ہے کلیسا کے مسلمات میں بگڑا ہوا مشاہدہ ہے اور تجزیہ سے غافل محض نظریات کی بھول بھلیوں میں گمراہ۔ پس عقلی لحاظ سے قرون وسطیٰ کی مغربی تہذیب کا ابتدائی مسلمہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحیح علم تجزبے اور مشاہدے سے نہیں پیدا ہوتا۔ بلکہ مسلمات کلیسا سے باہر کسی علم کا وجود ہی نہیں ہے۔ علی ہذا القیاس اس تہذیب کو جذباتی اعتبار سے جانچئے تو یہاں بھی اسی مسلمہ کا اثر محسوس ہو گا۔ علم ادب اور دیگر فنون لطیفہ کا مواد تجزیے اور مشاہدے سے پیدا نہیں کیا جاتا بلکہ کلیسا کے قصے کہانیاں اس کا مسالہ ہیں۔ فنون کا مقصد ہے حسین اشیاء کا پیدا کرنا۔ قرون وسطیٰ کے اہل فن اس اصول کے معتقد معلوم ہوتے ہیں کہ محض قدرت میں حسین اشیاء پیدا کرنے کا مسالہ موجود نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ ان کا ابتدائی مفروضہ یا مسلمہ یہ اصول ہے کہ قدرت میں حسن نہیں ہے۔ جس طرح علمی یا عقلی اعتبار سے علمائے قرون وسطیٰ اس اصول پر کاربند معلوم ہوتے ہیں کہ نظام عالم کے قویٰ کا مشاہدہ کرنے سے انسان کوئی مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتا۔ اسی طرح جذباتی اعتبار سے اس زمانے کے اہل فن نظام عالم میں وجود حسن کے قائل نہیں معلوم ہوتے یا کم از کم اس مفروضے کے نادانستہ کاربند معلوم ہوتے ہیں۔ عملی اعتبار سے قرون وسطیٰ کی تہذیب میں صرف حکومت کی صورت کو لیجئے۔ تمام یورپ کے ممالک میں مطلق العنان حکومتیں نظر آتی ہیں، جو اس سلسلہ پر مبنی ہیں کہ انسان آزادی کا حق نہیں رکھتا اور انفرادی حیثیت سے حاکموں کا ایک غلام ہے۔ پس قرون وسطیٰ کی تہذیب کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس تہذیب کا دار و مدار ان تین مسلمات ابتدائیہ پر ہے: 1عقلی اعتبار سے، تجربہ و مشاہدہ سے صحیح علم نہیں پیدا ہوتا یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ انسان نظام عالم کی قویٰ کا مشاہدہ کر کے ان سے مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتا، اور اس طرح نظام عالم سے دکھ درد کے ان اسباب کو زائل نہیں کر سکتا جو ان قویٰ کے عمل سے جاہل ہونے کی وجہ سے اسے متاثر کرتے ہیں۔ 2جذباتی اعتبار سے نظام عالم میں حسن موجود نہیں ہے۔ 3 عملی اعتبار سے انسان غلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ میں مغربی تہذیب کے مسلمات ہو بھی یہی سکتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ سب مسلمات نتیجہ ہیں مذہب عیسائی کے ایک اصول کا۔ یعنی یہ کہ انسان فطرۃً بد ہے اور وہ اس دنیا میں اپنے ابتدائی گناہ کے عوض میں بھیجا گیا ہے۔ اگر انسان فطرۃً بد ہے تو ظاہر ہے کہ عملی لحاظ سے اس پر ہر وقت پہرا قائم رہنا چاہیے۔ اس اصول کا لازمی نتیجہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے انسان ایک مطلق العنان حکومت کے تابع رہے اور مذہبی لحاظ سے ایک معصوم عن الحطا امام یعنی پوپ کا مطیع و منقاد ہو، جو ہر حیثیت سے انسان کے عمل کو متیقن کر دے تاکہ وہ احکام کی زنجیروں میں جکڑا رہے اور ادھر ادھر نہ ہونے پائے۔ اس اصول سے یہ نتیجہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان نظام عالم کے قویٰ کے مشاہدے اور تجربے سے دنیا سے تکلیف کے اسباب کو زائل نہیں کر سکتا، کیونکہ عیسائی مذہب کے اصول کے مطابق یہ دنیا دکھ درد کا گھر ہے، جہاں انسان اپنے گناہ کے عوض بھیجا گیا ہے۔ جس قید خانے کی حالت انسانی کوشش سے اچھی ہو سکتی ہے، وہ قید خانہ ہی کیا۔ پس یہ اصول کہ نظام عالم سے اسباب درد زائل نہیں ہو سکتے اور یہ کہ نظام عالم میں حسن نہیں ہے، مذہب عیسائی کے مسلمہ اولیہ سے بطور ایک لازمی نتیجے کے پیدا ہوتے ہیں۔ زمانہ حال کی مغربی تہذیب ان مسلمات پر مبنی نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زمانہ حال میں ان مسلمات سے، جن پر قرون وسطیٰ کی تہذیب مبنی تھی، قطعی انکار کر دیا گیا ہے۔ یرپ میں پہلے پہل لیکن اور ڈیکارٹ نے اس بات کا اعلان کیا کہ صحیح علم تجربے اور مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی کوشش سے دنیا کے دکھ درد کو زائل کر سکتا ہے علیٰ ہذا القیاس عملیات میں مذہبی دائرے میں لوتھر نے انسان کی جبلی آزادی کا اعلان کیا اور اس کو پوپ کی زنجیروں سے آزاد کیا۔ سیاسی دائرے میں روسو نے وہی کام کیا جو لوتھر نے مذہبی دائرے میں کیا تھا، یعنی سیاسی لحاظ سے اس نے انسان کی آزادی کا اعلان کیا اور بالآخر اس کی تعلیم نے نپولین کو پیدا کیا، جس نے زمانہ حال میں مطلق العنان حکومت کی بنیادوں کو متزلزل کر کے جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ ڈیکارٹ اور بیکن کی تعلیم کے اثر سے نہ صرف علمی اغراض کے لیے نظام عالم کا مشاہدہ شروع ہوا، بلکہ فنون لطیفہ کے اغراض کے لیے بھی لوگوں نے نظام عالم کی طرف توجہ کی اور علم ادب اور فنون لطیفہ کی بنیاد مشاہدہ فطرت پر قائم کی گئی۔ پس زمانہ حال کی مغربی تہذیب اصولاً قرون وسطیٰ کی تہذیب سے مختلف ہے کیونکہ اس کی مسلمات اولیہ ان مسلمات اولیہ سے متناقض ہے جن پر قرون وسطیٰ کی تہذیب مبنی تھی۔ حال کی مغربی تہذیب صحیح اصول تمدن پر مبنی ہے، جو مندرجہ ذیل ہے: 1صحیح علم مشاہدے اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔ 2نظام عالم میں حسن ہے۔ 3انسان فطرۃً آزاد ہے۔ ان اصولوں کو تہذیب کا روح و رواں قرار دینا اور قرون وسطیٰ کے اصول تہذیب کو ترک کر دینا حقیقت میں مذہب عیسائی کے اس اصول کو ترک کر دینا ہے کہ انسان فطرۃً بد ہے۔ چونکہ اس مذہبی اصول کے انکار سے کفارے کا انکار بھی لازم آتا ہے، اس واسطے زمانہ حال کی تہذیب کے بانیوں کی سخت مخالفت کی گئی۔ لوتھر پر تو یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے اور مذہب اسلام کے اصولوں کی ترویج کرتا ہے۔ اب میں یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ صحیح اصول تمدن پہلے پہل دنیا کو کس نے سکھلائے؟ میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تمام اصول جن کے عمل سے تہذیب کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوتی ہیں، قرآن سے اخذ کئے گئے ہیں اور قرآن ہی نے ان تمام اصولوں کی اشاعت دنیا میں سب سے پہلی کی ہے۔ قرآن ہی نے دنیا کو پہلے پہل سکھلایا کہ انسان فطرتاً نیک ہے۔ اس کو کسی کفارے کی ضرورت نہیں۔ یہ اپنی کوشش سے اپنی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ نہ مذہبی دائرے میں اسے محافظ راہبوں کی ضرورت ہے، نہ سیاسی دائرے میں اسے ایک مطلق العنان حاکم چاہیے۔ یہ بالطبع آزاد ہے اور آزادی کا حق رکھتا ہے۔ پس اسلام نے اول اول رہبانیت کے خلاف جہاد کر کے مذہبی دائرے میں انسانی آزادی کے حق کو قائم کیا اور سیاسی دائرے میں اس جمہوریت کی بنیاد رکھی جو زمانہ حال کی تہذیب و تمدن کی روح و رواں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس قرآن ہی نے پہلے پہل بنی نوع انسان کی توجہ تجربے اور مشاہدے کی طرف مبذول کی اور ان کو سکھلایا کہ تدبر کرنے والوں کے لیے اس نظام عالم میں آیات ہیں اور کہ اس نظام کے قویٰ انسان کے فائدے کے لیے تسخیر کئے گئے ہیں۔ شرک کو اسلام کیوں گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے؟ اس وجہ سے کہ جب تک کسی فطری قوت کو معبود تصور کی اجائے گا تب تک اس کو معبود اور خدا تسلیم کرنے والا اس کی حقیقت پر غور نہیں کر سکتا، اس کو تجربے کا مطیع و منقاد نہیں کر سکتا۔ اس کو عام استعمال کی چیزوں کی طرف بوجہ اس عزت و تکریم کے جو اس قوت فطری کے لیے وہ اپنے دل میں رکھتا ہے، چھو نہیں سکتا۔ علوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی روک شرک تھی اور اسلام نے جس زور سے اس کا قلع قمع کیا ہے وہ تاریخی لحاظ سے حیرت ناک ہے اور میرے نزدیک علمی اعتبار سے دنیا پر سب سے بڑ ااحسان مذہب اسلام کا یہی ہے۔ اس حقیقت سے متاثر ہو کر مذہب اسلام کے پیروؤں نے ملک سپین میں ان تمام علمی اصولوں کی تدوین کی جن کا تعلق تجربے اور مشاہدے سے ہے، بلکہ بعض ایسے علوم کی بنیاد بھی رکھ دی (مثلاً کیمسٹری) جن کی روح و رواں صرف مشاہدۂ فطرت ہے۔ اگر پوری تحقیق و تدقیق کی جائے تو ہر اعتبار سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یورپ میں تہذیب و تمدن کے صحیح اصول مسلمانوں کے اثر سے ہی مروج ہوئے۔ نتیجہ اس تمام تقریر کا یہ ہے کہ تہذیب کی اعلیٰ صورتیں صرف انہی اصولوں کے عمل سے پیدا ہو سکتی ہیں، جو اسلام نے سکھلائے ہیں اور اگر حال کے مسلمان یہ آرزو رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کی طرح دنیا کی مہذب اقوام میں شمار ہوں تو ان کو لازم ہے کہ وہ قرآن کو مضبوط پکڑیں اور ان اصولوں پر کاربند ہوں جو خدا تعالیٰ نے انہیں سکھلائے ہیں۔ز ندگی انہی اصولوں پر عمل کرنے سے ہے۔ ان کے مخالف عمل کرنا موت ہے۔ اس وقت جو اسلامی دنیا کی حالت نہایت افسوس ناک ہے، اس کے اسباب پر بھی اگر غور کیا جائے تو یہی معلوم ہو گا کہ مسلمان ان اصولوں سے غافل ہو گئے جو شارع اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو سکھائے تھے۔ 3علامہ اقبال کا ایک مکتوب: یہ علامہ اقبال کاوہ مکتوب گرامی ہے جو آپ نے اراکین انجمن حمایت اسلام لاہور کے نام اس وقت لکھا تھا جب آپ کو انجمن کا صدر منتخب کرنے کے بعد اس عہدۂ جلیلہ پر فائز ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ یہ مکتوب11جولائی1934ء کے ہفت روزہ حمایت اسلام میں شائع ہوا تھا۔ اس سے علامہ مرحوم کے ان خیالات اور احساسات کا اندازہ ہوتا ہے جو مرحوم کے دل میں مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق موجزن تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ مرحوم نونہالان قوم کی تعلیم کن خطوط پر چلانا چاہتے تھے اور آج ہم اسے کن خطوط پر چلا رہے ہیں۔ (مرتب) حضرات! مجھ کو انجمن حمایت اسلام لاہور کا صدر انتخاب کرنے سے آپ نے میری نسبت جس حسن ظن اور اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس کے لیے میں آپ کا تہہ دل کے شکر گزار ہوں۔ اگرچہ اس وقت میری صحت کچھ ایسی اچھی نہیں تاہم جو کچھ خدمت بھی مجھ سے ہو سکتی ہے، میں اس کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ گزشتہ پچاس سال میں آپ کے پیشروؤں نے مسلمانان پنجاب کے اس عظیم الشان ادارے کی بیش بہا خدمت کی ہے، جس کے لیے پنجاب کے تمام مسلمان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، اس واسطے اس کے مقتضیات بھی بدلتے رہتے ہیں، جن کی وجہ سے قومی اور ملکی اداروں کے طریق کار میں مناسب تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے۔ نظر بایں حالات مجھے یقین ہے کہ انجمن کے موجودہ ارکان دور رس تغیرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جو ملک کی زندگی میں آنے والے ہیں، مسلمانان پنجاب کے اس ادارے کو صحیح معنوں میں اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس عظیم الشان کام کے انصرام کے لیے توفیق الٰہی آپ کے شامل حال ہو۔ اس وقت چند امور ہیں جو آپ کی فوری توجہ کے محتاج ہیں۔ اول: دینیات کی تعلیم۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جدید تعلیم نے مسلمان نوجوانوں کی اخلاقی زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں کیا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایک مسلمان نوجوان کی تعلیم کی اساس اگر دینی اور اخلاقی نہ ہو تو اس میں سیر چشمی، بلند نظری اور خود داری کے وہ اوصاف حسنہ نہیں پیدا ہو سکتے جو اسلامی سیرت کے مابہ الامتیاز ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان تھوڑا بہت اپنی مسلی روایات کا حامل ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق لتکونو شہداء علی الناس کا مقصد کیونکر پورا ہو سکتا ہے۔ گزشتہ تجربات کے انہی افسوس ناک نتائج کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ بارٹوک کمیٹی‘‘ نے یہ تجویز کی تھی کہ کالجوں اور سکولوں میں مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کا خاص انتظام ضروری ہے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور مسئلے کے اس پہلو سے غافل نہیں رہی مگر افسوس ہے کہ جو انتظام اس مقصد کے حصول کے لیے اب تک کیا گیا ہے، وہ بار آور ثابت نہیں ہوا۔ اب میری استدعا آپ سے یہ ہے کہ اس معاملے پر کافی غور و خوض کے بعد زمانہ حال کے مقتضیات کے مطابق انجمن کے کالج اور سکولوں میں دینی اور اخلاقی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ مجھے یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ انجمن حمایت اسلام کی آئندہ کامیابی بلکہ ایک قومی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کی آئندہ زندگی صرف اسی ایک مسئلے کے کامیاب عمل پر انحصار رکھتی ہے۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ اراکین کالج کمیٹی اس ضروری امر کے متعلق کچھ فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب آپ کا اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانا باقی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ایسا کیا جائے گا۔ دوئم: دوسرا امر جو آپ کی فوری توجہ کا محتاج ہے، وہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، مسلمانوں کا متوسط طبقہ اب کافی بیدار ہو چکا ہے اور اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ ان کی اولاد کی صحیح اسلامی اصول کے مطابق تعلیم و تربیت کی جائے۔ میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ انجمن حمایت اسلام فی الحال مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اپنا نصاب تجویز کرے اور مجوزہ نصاب کے مطابق ان کا سالانہ امتحان لے کر خود ہی سندات تقسیم کیا کرے۔ جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کا تعلق ہے فی الحال آپ صرف ایک امتحان لینے والے ارادے کے طور پر کام شروع کر دیں اور رفتہ رفتہ اسی ادارے کو مسلمان عورتوں کی ایک آزاد یونیورسٹی کی صورت میں منتقل کر دیں، بلکہ آپ کا مجوزہ انڈسٹریل گرلز اسکول بھی اسی یونیورسٹی کی ایک شاخ قرار پائے۔ اس تجویز کے متعلق میں اپنے مفصل خیالات پھر کسی موقع پر عرض کروں گا۔ فی الحال میں اسی قدر چاہتا ہوں کہ اراکین کونسل اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اگر ضروری ہو تو اس کے ابتدائی مراحل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمیٹی کا تقرر عمل میں لائیں۔ سوئم: تیسرا امر جو آپ کی توجہ کا محتاج ہے (وہ) اسلامیہ کالج کی موجودہ حالت ہے۔ کالج کے انتظام کے متعلق بعض نہایت ضروری سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر گذشتہ تجربے کی روشنی میں غور و خوض ضروری ہے۔ لیکن اس وقت ان سوالات پر بحث کرنے کا موقع نہیں۔ فی الحال پرنسپل شب کا معاملہ نہایت اہم ہے، جس کا فیصلہ جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہیے۔ مسٹر عبداللہ یوسف علی اگر اس عہدۂ جلیلہ پر واپس آ سکتے تو ہماری بہت سی مشکلات کا حل ہو جاتا، مگر امید نہیں کہ وہ واپس آ سکیں۔ اور جہاں تک میری نظر ہے ہندوستان سے کسی مسلمان پرنسپل کا ملنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ہم کو ایک ایسے پرنسپل کی ضرورت ہے، جو علم و فضل کے علاوہ صاحب اثر و رسوخ ہو، مسلمانوں کی آرزوؤں سے ہمدردی رکھتا ہو اور ہمارے بچوں کی ان تمام امور میں تربیت کر سکتا ہو جو ملک کی آئندہ سیاسی تغیرات کی وجہ سے قومی زندگی کے لیے اب بے انتہا ضروری ہو گئے ہیں۔ اگر مسلمانان ہند میں کوئی ایسی شخصیت مل سکتی ہو، تو اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے لیکن اگر ہماری بد قسمتی سے مسلمانوں میں ایسی شخصیت فی الحال دستیاب نہ ہو سکے، تو میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ ہم کو اطلبو العلم و لو کان بالصین پر عمل درآمد کرنے میں قطعاً تامل نہ ہونا چاہیے۔ یہ حدیث تو شاید روایت کے اعتبار سے مشتبہ ہے لیکن اس کے معانی کی صداقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟ ’’للہ المشرق والمغرب‘‘ مشرق ہو یا مغرب ہو، جہاں سے اپنے مطلب کا آدمی ملے لے لینا چاہیے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ معاملے کا آخری فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ان چند الفاظ کے ساتھ میں پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دلوں میں قومی خدمت سے نام و نمود کی خواہش ہو، تو خدائے تعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کے طفیل اس خواہش کو ہمارے دلوں سے نکال دے اور ہماری روح کو اسلام کی محبت سے اس طرح لبریز کر دے کہ ہماری حرکات و سکنات کا مقصد اولین سوائے رضائے الٰہی کے اور کچھ نہ ہو۔ 3پنجاب کے امتحان مقابلہ میں ایک کشمیری مسلمان: بزرگان قوم سے مخفی نہیں ہے کہ قوم میں کیسے کیسے لائق اور ہونہار نوجوان، جن سے قوم کو فخر قوم ہونے کی توقع اور امید ہے، موجود ہیں۔ منجملہ اور بہت سے نوجوانوں کے اس وقت شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے، جو اپنی بے نظیر لیاقتوں کے باعث چند ہی دنوں میں بہت کچھ شہرت حاصل کر چکے ہیں، پنجاب کے امتحان مقابلہ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر میں شامل ہوئے تھے۔ اس مقابلے کے امتحان میں وہ چیز، جس سے باوجود دلسوزی، قابلیت اور عملیت ہونے کے ناکامیابی کا نہایت ہی خطرہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ امتحان سے ایک دن پہلے میڈیکل بورڈ، امتحان میں شریک ہونے والے امیدواروں کی صحت کا معائنہ کرتا ہے اور جس کی صحت میں اسے شک ہوتا ہے اسے امتحان کے ناقابل قرار دے کر امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے۔ امسال بھی دو امیدوار، ایک ہندو اور ایک مسلمان (محمد اقبال صاحب ایم اے) اس طبی معائنے کی نذر ہوئے ہیں، افسوس!: قسمت تو دیکھنا کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا ’’ پیسہ اخبار‘‘ لکھتا ہے (اور جو بالکل سچ ہے) کہ ان ’’ شیخ محمد اقبال صاحب‘‘ کی صحت ایسی اچھی ہے کہ جس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا۔ لیکن ڈاکٹر صاحبان کے فیصلے کے سامنے (جن کو انسانی اور حیوانی تقدیروں میں الٹ پھیر کر دینے کا بہت کچھ اختیار ہے۔۔۔۔ ایڈیٹر) جھکنا پڑتا ہے۔ معزز ہم عصر’’ پیسہ اخبار‘‘ سچ اور بہت سچ لکھتا ہے اور میری رائے میں معزز ہمعصر کی یہ قابل وقعت رائے اس قابل ہے کہ پنجاب کے تمام اخبارات اس کی تقلید کر کے پر زور مضامین لکھیں معزز ہمعصر کی رائے درج ذیل کی جاتی ہے: پنجاب کے امتحان مقابلہ اکسٹر اسسٹنٹ کمشنری کے امیدواروں کی مصیبتوں میں یہ سب سے بھاری اور درد ناک ہے کہ امتحان سے ایک روز پہلے میڈیکل بورڈ امتحان میں شریک ہونے والے امیدواروں کی صحت کا معائنہ کرتا ہے اور جس کی صحت میں اسے شک ہوتاہے، اسے ناقابل امتحان قرار دے کر نکال دیتا ہے۔ اس ہفتے میں جو امیدوار طبی لحاظ سے خارج کئے گئے ہیں ان میں ایک شیخ محمد اقبال ایم اے بھی ہیں۔ ان کی صحت ایسی اچھی ہے کہ جس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا لیکن ڈاکٹر صاحبان کے فیصلے کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔ بجائے اس کے کہ امیدواروں کے امتحان کی تیاری کر لینے کے بعد ان کا ڈاکٹری امتحان کیا جاتا ہے، نہایت بہتر ہو کہ امتحان سے پہلے ایسے امیدواروں کی جسمانی صحت کا امتحان کر کے انہیں خارج کر دیا جائے۔ موجودہ صورتوں میں جب کہ وہ امتحان کے لیے محنت شاقہ اور صرف کثیر اٹھا کر تیاری کر لیتے ہیں، انہیں آخری وقت میں جواب ملنا کس قدر روحانی تکلیف کا باعث ہوتا ہو گا۔1؎ 4ہمارا جنرل سیکرٹری: نہایت خوشی کی بات ہے کہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے آنریری جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لاء عارضی طور پر بہ منظوری صاحب وزیر ہند پروفیسر 1؎ کشمیری گزٹ، بابت ماہ اکتوبر1901ء مطابق جمادی الثانی 1319ھ فلاسفی گورنمنٹ کالج لاہور بہ مشاہرہ پانچ سو روپیہ ماہوار مقرر ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں آپ کو بیرسٹری کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ 1؎ 5تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی حفاظت: (محمڈن یونیورسٹی کی تائید ایک عجیب پیرائے میں) ڈیر فوق! محمڈن یونیورسٹی میں خدا نے کچھ ایسی مقناطیسی کشش رکھی ہے کہ اس وقت کل مسلمانوں کی توجہ اس نے اپنی طرف کھینچ لی ہے اور میرے خیال میں یہی اس کی عنقریب عملی صورت اختیار کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لاہور میں محمڈن یونیورسٹی کے متعلق اسلامیہ کالج اور محمڈن ہال میں پے در پے بہت سے جلسے ہو چکے ہیں اور آئندہ ہوتے رہیں گے۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا جلسہ 25فروری کالاہور کیا، تمام پنجاب میں ہمیشہ یادگار تصور کیاجائے گا کیونکہ اس جلسے میں ہزہائی نس سر آغا خان مع تمام قومی لیڈروں کے موجود تھے۔ لیکن 19 فروری کا جلسہ بھی اپنی اہمیت و رونق کے لحاظ سے پچھلے جلسوں پر فوق رکھتا ہے۔ اس جلسے میں مسلمانان پنجاب کے فخر اور ہماری برادری کے سرمایہ ناز ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب نے ایک پر اثر تقریر فرمائی۔ علاوہ اس امر کے ڈاکٹر صاحب اہل خطہ ہیں، اس میں کلام نہیں کہ ان کا علم و تبحر مسلمہ ہے اور ان کی تقریر، جیسی کہ توقع کی جا سکتی تھی، نہایت عالمانہ اور پر مغز تھی۔ سب سے بڑی 1؎ کشمیری میگزین، بابت جون 1909ء جلد3نمبر6صفحہ41 خوبی اس تقریر کی یہ تھی کہ نئی تہذیب سے متاثر نوجوانوں کے سامنے نہایت ہی قابلیت اور فلسفیانہ طریق سے اصول اسلام کی خوبیوں کو ثابت کیا۔ سب سے بڑھ کر قابل تعریف وہ جوش اور سچی حمیت تھی جو شیخ صاحب کا خاص حصہ ہے اور جو ان کے ہر ہر لفظ سے ٹپک رہی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ جس انگریزی خواندہ نوجوان مسلمان نے اس تقریر کو سن لیا ہو گا، وہ ہمیشہ کے لیے دوسرے مذاہب کی دست برد سے محفوظ ہو گیا ہو گا۔ چونکہ اس کا ایک دفعہ پڑھ لینا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، اس لیے جہاں تک مجھے یاد رہا ہے، میں ناظرین کشمیری میگزین کے لیے ذیل میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات کا مختصر طور پر اعادہ کرتا ہوں: شیخ صاحب نے سب سے پہلے بیان کیا کہ ہر قوم اپنی اپنی قومیت کا معیار رکھتی ہے۔ یہ معیار مختلف قوموں میں مختلف ہے۔ مثلاً کسی کا معیار قومی ان کا وطن ہے، کسی کا ان کی زبان، کسی کا مشترکہ آباؤ اجداد رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ مثال کے طور پر فرمایا کہ انگریزوں کا معیار قومی ان کا وطن ہے۔ جب کسی انگریز سے پوچھیں کہ تمہیں انگریز کیوں کہتے ہیں، تو وہ کہے گا کہ میں اس لیے انگریز ہوں کہ انگلستان کا باشندہ ہوں۔ مگر مسلمان کو پوچھو تو وہ کسی وطن خاص کا نام نہیں لے سکتا۔ نہ عرب اس کا وطن ہے، نہ تاتار، نہ چین، نہ ہندوستان۔ اسی طرح مسلمان کسی خاص زبان رکھنے کے باعث مسلمان نہیں۔ نہ یہ کہ تمام مسلمان مشترکہ آبا و اجداد کی اولاد ہیں۔ غور کرنے پر صحیح معلوم ہو گا کہ تمام مسلمانوں میں مشترکہ صفت، جس سے وہ مسلمان کہلاتے ہیں، یعنی جس پر ان کی قومیت کا دار و مدار ہے، وہ اعتقاد فی التوحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے۔ ایمان بالتوحید صرف وہ مشترک صفت ہے جو تمام مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ فرمایا: ایمان کا تعلق روح یا قلب سے ہے۔ یعنی توحید قلب کی ایک کیفیت کا نام ہے، جو غیر مرئی اور نا محسوس شے ہے۔ برخلاف دوسری اقوام کے معیار قومیت کے کہ وہ تمام مادی اشیاء ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ دوسری اقوام کا معیار قومیت مثلاً وطن وغیرہ ان کے اپنے نفس سے خارج ہے۔ کوئی انگریز جب ہندوستان میں آتا ہے تو ا سکی قومیت سات ہزار میل پرے رہ جاتی ہے مگر مسلمان کی قومیت کا معیار اس کی اپنی ذات میں موجود ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے اپنی قومیت ساتھ لے جاتا ہے۔ اصولاً ایک مادی چیز جس کو انسان دیکھ سکتا ہو یا چھو سکتا ہو، بہت کم بھولتا ہے، مگر ایک غیر مرئی اور روحانی شے سے وہ بہت جلد غافل ہو جاتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی قومیت اس لحاظ سے معرض خطر میں تھی کہ وہ غیر جنس ہونے کے باعث نسیاً منسیا ہو جائے۔ شارع علیہ السلام نے اس بات کو مد نظر رکھ کر حکم لگا دیا کہ مسلمان جب صبح اٹھے یا دن میں کام میں مشغول ہو یا شام کو گھر آئے یا رات کو سوئے، ہر وقت اعادۂ توحید کرتا رہے۔ بلکہ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے غرض ہر حالت کے لئے کوئی نہ کوئی دعا مقرر کر دی تاکہ مسلمان اپنے معیار قومی سے غافل نہ ہو سکیں۔ ہر قوم کی زندگی کا دار و مدار اس کی قومیت پر ہے۔ اور اس کی حفاظت بڑی لازمی تھی، جس کا شارع علیہ السلام نے کافی طور پر انتقام کر دیا۔ مسلمانوں میں ایمان کی دو شقیں ہیں: اول اعتقاد فی التوحید و رسالت اور دوسری معاشرت، تمدن، سیاست وغیرہ کا علم۔ ان دونوں کی موجودگی سے ایک مسلمان کامل مسلمان بن سکتا ہے۔اگرچہ شق اول دراصل اصول اسلام ہے مگر دوسری شق کی نفی یا عدم موجودگی اگر نقیض ایمان نہ بھی مانی جائے، تاہم اس میں کلام نہیں کہ اس کے بغیر کوئی کامل مسلمانی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آپ نے علم کی اہمیت پر مذہبی دلائل دیں۔ فرمایا: سب سے پہلا ثبوت جو شارع علیہ السلام نے علم کے ضروری اور لابدی جزو ہونے کا دیا وہ یہ تھا کہ آپ نے جنگ بدر کے خواندہ قیدیوں کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ ناخواندہ اور جاہل مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ پھر فرمایا کہ ابن عباسؓ نے سب سے پہلے علی مرتضیٰؓ کے زمانے میں مکہ میں ایک سکول کھولا، جس میں قرآن اور حدیث کا درس ہوتا تھا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے نظامیہ کالج کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد مستنصریہ کالج قائم ہوا۔ مگر یہ کالج ان معنوں میں یونیورسٹی نہ تھے جو موجودہ زمانے میں یونیورسٹی کا مفہوم ہے۔ آخر کار سپین میں ایک بہت بڑی یونیورسٹی بنام قرطبہ یونیورسٹی مسلمانوں نے قائم کی۔ اس میں یورپ کے تمام اطراف سے عیسائی آتے اور مستفیض ہوتے تھے۔آخر عیسائیوں نے قرطبہ یونیورسٹی کے نمونے پر ایک یونیورسٹی پیرس میں قائم کی جو اس وقت تک موجود ہے۔ تمام دنیا میں سب سے پہلے یونیورسٹی کا خیال مسلمانوں میں پیدا ہوا۔ ان سے عیسائیوں نے حاصل کیا۔ فرمایا: سب سے عجیب بات یونیورسٹی میں یہ تھی کہ اس کے نصاب میں عربی زبان لازمی قرار دی گئی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام علوم و فنون کا خزانہ عربی زبان میں تھا۔ یہاں سے پھر اس مطلب کی طرف رجوع کیا کہ دوسری شق اسلام کی مسلمانوں کا ادب، تمدن، معاشرت اور سیاست عربی زبان میں ہے مگر سلطنت چونکہ اب ہاتھ سے جاتی رہی اور غیر اقوام کے محکوم ہو گئے، اس لئے دوسری قوموں کا تمدن ان کو پڑھنا اور سیکھنا پڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے اسلامی شعار اور تمدن کو بالکل بھول گئے اور یہ شق ان سے بالکل مفقود ہو گئی اپنے تمدن سے غافل ہو کر دوسری اقوام کے تمدن سے متاثر ہوئے اور ایمان ضعیف ہو گیا۔ چنانچہ موجودہ زمانے کے انگریزی خوان نوجوان، جن میں میں خود بھی شامل ہوں، اس دوسرے ایمان سے معراً ہوتے گئے، جس نے پہلے بد اعتقادی پیدا کی، پھر رفتہ رفتہ بے دین کر دیا۔ مسلمانوں کے مقتدر اور ذہین لیڈروں نے اس مضرت کو سمجھا اور یہ خیال کیا کہ جب تک اس دوسرے شق کی کافی نگہداشت نہ کی جائے گی، اسلام متزلزل ہوتا جائے گا۔ چنانچہ اس کی حفاظت کی بہترین تدبیر یہی تھی کہ مسلمانوں کے نصاب میں ان کی مذہبی یعنی قومی یا اسلامی معاشرت اور تمدن و سیاست کو داخل کیا جائے اور یہ محمڈن یونیورسٹی قائم کئے بغیر کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسلامی یونیورسٹی ہو گی تو نصاب بھی اسلامی ہو گا اور انگریزی پڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کا ایمان اور اسلام اسی ایک طریق سے محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ 1؎ (غلام محمد امرتسری از لاہور) 1؎ کشمیری میگزین لاہور، اپریل 1911ء 6مسلمانوں کا امتحان: اسلامی قربانیوں کا عظیم الشان سلسلہ جو تیرہ سو برس سے نہ صرف سالانہ بلکہ شبانہ روز جاری ہے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال سے، جو یورپین فلسفے کی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہیں، ایک دن اسلامی تصوف کے متعلق دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ جو قیمتی معلومات اس قابل ترین گریجویٹ اور بہت بڑے عالم نے اس وقت ظاہر کیں۔ ان کا جس قدر حصہ قوت حافظہ یاد رکھ سکی وہ دماغ کے خزانے میں آج تک محفوظ چلا آتا ہے۔ مگر یہ دیکھ کر کہ اکثر پرانے فیشن کے بزرگ بعض نئے تعلیم یافتہ حضرات کے ملحدانہ اور بالکل آزادانہ خیالات سے بدگمان ہو کر ان کے متعلق قوم میں اس قسم کا چرچا کر رہے ہیں، جو ہمارے ان نوجوانوں کی شہرت اور عزت کے لیے بھی نہایت بدنما دھبہ ہے، جن پر ہماری ترقیوں اور امنگوں کا انحصار ہے۔ قوم کی بدقسمتی سے بے شک ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے مگر مذہبی تعلیم سے بالکل کورے رہنے کے باعث خدا، رسولؐ، نماز، روضہ، بہشت، دوزخ، سزا و جزا وغیرہ کے قائل نہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے فرقہ علماء کو نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ تمام نوجوانان قوم کی طرف سے بدظن کر کے اسلام کی ترقی میں روڑا اٹکا دیا ہے، لیکن ہم ڈاکٹر اقبال کو، جو انگریزی میں ایم اے کی اور فلسفے میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری رکھتے ہیں، بطور نمونہ پیش کرتے ہیں اور ان کے چند مذہبی خیالات پیش کرتے ہیں۔ ہم امید کرت ہیں کہ ہمارے علمائے عظام خصوصاً اہالی کشمیر، جو انگریزی تعلیم کی بے جا آزادی سے گھبرا کر انگریزی تعلیم ہی سے پناہ مانگ رہے ہیں، ہر ایک انگریزی تعلیم یافتہ کو مسٹر محمد ظریف1؎ کا نمونہ ہی نہ سمجھ لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: اگر مذہبی پہلو سے اسلامی زندگی کو دیکھاجائے تو وہ قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لو۔ یہ بھی ایک قربانی ہے۔ خدا نے صبح کی نماز کا وقت مقرر کیا جب انسان نہایت مزے کی نیند میں ہوتا ہے اور بہتر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ خدا کے نیک بندے اپنے مولیٰ و آقا کی رضا کے لیے خواب راحت کو قربان کر دیتے ہیں اور نماز کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر نماز ظہر کا وہ وقت مقرر کیا جب انسان اپنی کاروباری زندگی کے انتہائے کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے، یعنی اپنے کام میں نہایت مصروف ہوتا ہے۔ عصر کا وقت وہ مقرر کیا جب دماغ آرام کا خواستگار ہوتا ہے اور تمام اعضا محنت مزدوری کی تھکاوٹ کے بعد آسائش کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ پھر شام کی نماز مقرر کر دی جب انسان کاروبار سے فارغ ہو کر بال بچوں میں آ کر بیٹھتا ہے۔ عشاء کی نماز کا وہ وقت مقرر کیا جب بے اختیار سونے کو بھی جی چاہتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کو آزمایا ہے کہ وہ میری راہ میں اپنا وقت اور اپنا آرام قربان کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد زکوۃ و صدقات مقرر کیے، یہ دیکھنے کے لیے کہ میرے بندے میری رضا پر میری راہ میں ار میری خاطر اپنا مال بھی دے سکتے ہیں یا نہیں۔ 1؎ مسٹر محمد ظریف نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ جہاں ان کے لیے مختلف قسم کی نعمتیں مہیا کیں، وہاں روزوں کی شرط بھی لگا دی کہ یہ لوگ میری خاطر بھوکے بھی رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ میری خاطر ان گوناگوں نعمتوں سے، جن کو یہ زبان کا چٹخارہ سمجھتے ہیں، منہ موڑ سکتے ہیں یا نہیں؟ پھر یہ دیکھا کہ ان کو ان کے وطن اور ان کے بال بچوں کی محبت نے جکڑ رکھا ہے، گھر سے باہر قدم نکالنا ان کے لیے دشوار ہو رہا ہے، کیا میری خاطر یہ علائق دنیوی ترک کر سکتے ہیں؟ اس کی آزمائش کے لیے اپنے بندوں پر حج کا اضافہ کر دیا کہ دیکھیں کون کون اپنے وطن اور اپنے اہل و عیال سے میری خاطر ایک عرصے تک کی مفارقت اختیار کر سکتا ہے اور راستے کے مصائب برداشت کر سکتا ہے؟ جب دیکھا کہ یہ لوگ اپنے آرام و آسائش، اپنے وقت، اپنے مال، اپنے وطن اور اپنے عیال کو مجھ پر قربان کر سکنے کے قابل ہیں تو جہاد مقرر کر دیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا اب میری خاطر یہ لوگ اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز عزیز نہیں۔ غرض ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کا ایک عظیم امتحان ہے اور دراصل اسی کا نام اسلامی تصوف ہے۔ کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی سے روح کو وہ تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں تبتل الی اللہ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔1؎ (ابوظفر) 1؎’’ اخبار کشمیری‘‘ لاہور،14جنوری1913ئ، جلد8، نمبر2، صفحہ9 7ڈاکٹر اقبال اور ہندو مسلمانوں کا اتحاد: مہاراجہ سر کشن پرشاد یمین السلطنت حیدر آباد دکن، جن کی غیر متعصبانہ اور صوفیانہ پالیسی سوائے سماجی حضرات کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں یکساں طور پر ہر دلعزیز ہے، پنجاب کی سیر کے بعد اب دہلی گئے ہیں۔ 23جولائی کی شام کو لاہور میں آپ کے آنر (اعزاز) میں ہندو مسلمانوں کا ایک مشترکہ جلسہ ہوا، جس میں تین ہزار حاضرین موجود تھے۔ مقررین میں پنڈت دین دیال شرما، آغا حشر کاشمیری، میر جالب آف’’ پیسہ اخبار‘‘ اور ڈاکٹر اقبال کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب (اقبال) نے مہاراجہ بہادر (جو راجہ ٹوڈرمل کی اولاد سے ہیں) کے خاندانی اور ذاتی قابل تقلید حالات بیان کرنے کے بعد ہندو مسلمانوں کے اتحاد پر اپنے مندرجہ ذیل خیالات ظاہر فرمائے: ’’ صاحبان! پنجاب کے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں آج کا جلسہ یادگار رہے گا۔ اختلاف کا ناگوار مسئلہ اہل پنجاب کے اطمینان اور سکون کا دشمن ہو رہا ہے اور اگر غور کر کے دیکھا جائے، تو اختلاف کی چنداں وجہ بھی کوئی نظر نہیں آتی۔ ہندوؤں کے مذہب، تاریخ، لٹریچر اور فلسفے سے بخوبی روشن اور ظاہر ہے کہ غیر مذہب کے پیشواؤں کی عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی زبردست تائید فرماتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے سرمایہ حیات قرآن مجید میں بھی یہی ہدایت پائی جاتی ہے۔ تو پھر اختلاف کے کیا معنی ہیں؟ اگر دونوں قومیں ایک دوسرے کی روایات سے آگاہ ہیں، تو کسی کو ایک دوسرے سے وجہ شکایت نہیں ہو سکتی۔ اور اگر مغربی تعلیم، جس کو مادی تاریخ کہا جاتا ہے، کی وجہ سے بے دینی شروع ہو گئی ہے اور اس کے باعث نہ کافر کفر میں پورا ہے اور مسلمان مسلمانی میں، تو اس حالت میں بھی کوئی وجہ شکایت نہ ہونی چاہیے۔ یہ تو وہی بات ہوئی:‘‘ بوٹ ڈان نے بنایا، میں نے اک مضموں لکھا میرا مضموں تو نہ پھیلا لیک جوتا چل گیا اگر سیاسی اختلاف ہے تو میں کہوں گا کہ دونوں کی حالت قابل رحم ہے۔ اب آہستہ آہستہ دونوں کو معلوم ہونے لگا ہے کہ اختلاف کی تہہ میں پولیٹکل وجوہ بھی کوئی ہستی نہیں رکھتیں۔ جیسا جیسا ہندو مسلمان ملک کی حیثیت کو سمجھیں گے، زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آتے جائیں گے۔ اب کچھ عرصے سے پنجاب میں اتحاد کی خوشگوار تحریک کام کر رہی ہے اور یقینا یہ تحریک بار آور ہو گی۔ مہاراجہ صاحب کی تشریف آوری ایسے موزوں موقع پر واقع ہوئی ہے کہ جس سے ہم لوگوں کو اتحاد کے متعلق نیک نتائج مرتب کرنے چاہئیں۔ خدا کرے آریہ اخبارات پر مہاراجہ سر کشن پرشاد، ڈاکٹر اقبال اور پنڈت دین دیال کی تقریریں کچھ اثر کر سکیں اور وہ باہمی اتحاد ہی میں اپن اور ہندوستان کا فائدہ سمجھ سکیں۔ 1؎ 1؎ اخبار کشمیری لاہور، 28جولائی 1913ئ، جلد8، نمبر28، ص11 8ڈاکٹر اقبال کے مجموعہ کلام کی اشاعت کا انتظام: اکثر احباب ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لاء کا کلام منگوانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے اب لکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مجموعہ کلام کو، جس میں ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نظمیں شامل ہیں، نظر ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد اپنے ہی اہتمام میں چھپوانے کا انتظام فرما رہے ہے۔ چنانچہ کتابت شروع ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ دو 1؎ ماہ تک مجموعہ مذکور کا نفیس و نادر ایڈیشن پبلک کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔ ڈاکٹر اقبال کا کلام کسی تعریف و توصیف کا محتاج نہیں ہے، آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ ان کے نام ہی میں ایک کشش ہے، جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ انسان کے پاک ترین قومی و مذہبی جذبات کے چمنستان کی سیر میں مصروف رہ کر وہ نقش و نگار پیش کرتے ہیں کہ عقل دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ کبھی وہ ’’ نالہ یتیم‘‘ بن کر رلاتے ہیں، کبھی پیغام سروش کی صورت میں جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں، کبھی ’’ شکوہ‘‘ اور’’ جواب شکوہ‘‘ کے پردے میں وہ راز و نیاز ظاہر کرتے ہیں کہ ’’ کراماً کاتبین راہم خبر نیست‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔ 2؎ 9ڈاکٹر محمد اقبال اور جلسہ انجمن حمایت اسلام لاہور: انجمن کے سالانہ جلسے کا پروگرام کسی دوسری جگہ درج کیا 1؎ یہ مجموعہ اس خبر کے کوئی آٹھ نو سال بعد1924ء میں ’’ بانگ درا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ 2؎ اخبار کشمیری لاہور 14مارچ1915ئ، جلد10، نمبر10، ص6 جاتا ہے جس میں ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے ، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لاء اپنے نام کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ میں نے ابھی انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے کا پروگرام دیکھا ہے، جس میں میرا نام بھی درج ہے۔ جب مجھے اس سے کئی دن پیشتر پروگرام کمیٹی کے اجلاس کی کیفیت مولوی احمد دین صاحب پلیڈر سے معلوم ہوئی تو میں نے اسی روز پروگرام سیکرٹری صاحبان کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ میں سالانہ جلسے میں نظم پڑھنے کی غرض سے شامل نہیں ہو سکتا، اس واسطے مہربانی کر کے میرا نام درج پروگرام نہ فرمایا جائے۔ باوجود اس کے میرا نام پروگرام میں شائع کر دیا گیا ہے۔ چونکہ اس سے پیشتر میرا نام کئی پروگراموں میں بغیر میری اطلاع اور اجازت کے شائع کر دیا جاتا ہے، جس سے پبلک کو غلط فہمی ہوتی ہے، لہٰذا بذریعہ اس خط کے میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوں کہ کار پردازان انجمن نے میرا نام بغیر میری اجازت کے شائع کر دیا ہے۔ میں امسال انجمن کے لیے کوئی نظم نہیں لکھ سکا اور نہ جلسے میں شریک ہو سکتا ہوں۔‘‘ ابھی خدا جانے قابضان انجمن کی مہربانیوں سے اور کیا کچھ ہونے والا ہے۔1؎ 1؎ اخبار کشمیری لاہور28مارچ1915ئ، جلد10، نمبر12، ص4 10لاہور کے مسلمانوں کا عظیم الشان جلسہ، ڈاکٹر اقبال کی تقریر: مسلمانان لاہور کا ایک عام جلسہ زیر صدارت خان بہادر میاں فضل حسین بیرسٹر جشن صلح میں مسلمانوں کی شمولیت پر غور کرنے کے لیے 30نومبر1919ء کو تین بجے بعد دوپہر باغ بیرون موچی دروازہ لاہو رمیں منعقد ہوا۔ جس میں تاج الدین صاحب تاج نے ایک پر درد نظم پڑھی اور ڈاکٹر اقبال، میاں شاہ نواز، آغا محمد صفدر وکیل سیالکوٹ، مولوی غلام محی الدین قصوری، میاں حق نواز بیرسٹر، مولوی محبوب عالم ایڈیٹر ’’ پیسہ اخبار‘‘ اور چودھری شہاب الدین نے تقریریں کیں۔ تاج الدین تاج کی دلگداز نظم کے بعد ڈاکٹر اقبال نے صدر جلسہ کے ایما پر پہلا ریزولیوشن یہ شعر پڑھ کر پیش کیا: جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چکے گا جو رو رہا ہے وہ رو چکے گا سکون دل سے خدا خدا کر جو ہو رہا ہے وہ ہو چکے گا برداران اسلام! جو ریزولیوشن اس وقت میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ مسلمانان لاہور اس جلسے میں اس عظیم پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنت عثمانیہ اور خلیفتہ المسلمین کے متعلق قابل اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے۔ اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم برطانیہ نے جنوری 1918ء میں تمام اسلامی دنیا سے سلطنت ٹرکی کے متعلق کئے تھے، اور پیرس کی صلح کانفرنس کو ان اصولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو پریذیڈنٹ ولسن نے اپنے اعلانوں میں قائم کئے تھے اور جن کی بنا پر اس عظیم جنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ اور باصرار تمام درخواست کرتے ہیں کہ جن اصولوں پر اتحادیوں نے اپنی عیسائی اور مفتوحہ سلطنتوں سے قرار داد کی ہے، انہی اصولوں پر مسلمان سلطنتوں سے بھی صلح سر انجام پانی چاہئے اور سلطنت عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارتاً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اس ریزولیوشن کی تحریک میں آپ نے حسب ذیل تقریر کی: ’’ صاحبان! جس قوم نے دنیا میں آزادی اور حریت کی اشاعت کی تھی، آج اس کی آزادی چھینی جا رہی ہے۔ جب بنی نوع انسان کو پامال کیا جاتا تھا۔ اس وقت اس قوم نے مساوات کا پرچار کیا۔ مسلمانو! تم کو یاد رہے جب عرب میں نبی آخر الزمانؐ پیدا ہوئے، اس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی۔ قسطنطنیہ میں قیصر کی سختی یورپ کی قوموں کا گلا گھونٹ رہی تھی، اس وقت یہ امر واضح کیا گیا کہ خدائی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت نہ کی جائے۔ تمہارا مذہبی عقیدہ ہے کہ انسان کو آزادی ملنی چاہیے۔ آج وہ قوم دوسری قوموں کے سامنے یہی کہہ رہی ہے کہ جن اصولوں کا اعلان کر کے میں نے بنی نوع انسان سے فیصلہ کیا تھا، انہی اصولوں کو میرے ساتھ بھی برتا جائے ۔ ہو گا تو وہی جو قرآن میں نبی آخر الزمانؐ فرما گئے ہیں، مگر اسباب کا ترک کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ ہم کیوں کسی بندے کے سامنے شکایت کریں۔ ہمیں خدا کے سامنے شکایت کرنی چاہیے۔ خوشامد، منت یا مانگے سے کبھی کچھ نہیں ملا۔ خدا کے سوا اور کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں۔ یاد رکھو کہ جو قوم ایک بڑا مقصود لے کر پیدا ہوئی ہے، وہ یونہی مٹ نہیں سکتی۔ بادشاہیاں مٹ رہی ہیں۔ انسان نے اپنے فطری حقوق کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ تمہاری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ پریذیڈنٹ ولسن نے چودہ اصول قائم کئے جن کے مطابق عالمگیر جنگ کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ ہر ایک قوم اپنے معاملے کو خود فیصل کر لیا کرے۔ ہماری سرکار نے بارہا اس بات کا اعلان کیا کہ ہم حق، انصاف اور صداقت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہماری جنگ اس لیے ہے کہ بین الاقوامی معاہدے قائم رکھے جائیں۔ چھوٹی قوموں کو بڑی قومیں ہڑپ نہ کر جائیں۔ ہم بھی یہی کہتے تھے کہ ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کو پامال نہ کیا جائے 1؎ 11ڈاکٹر اقبال میدان سیاست میں: ڈاکٹر سر محمد اقبال نے نیشن کے ایک خاص نمائندے سے ملاقات کے دوران میں کہا کہ جب میں یہ خبریں سنتا ہوں کہ بھائی بھائیوں 1؎کشمیری میگزین لاہور،7دسمبر1919ئ، جلد4، نمبر45، ص4 کے خلاف ہو گئے ہیں اور جس ملک میں امن کا دور دورہ تھا، وہاں اب انسانوں کا خون بہہ رہا ہے اور مکانوں کو آگ لگائی جا رہی ہے، تو میر ادل خون ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں عوام کے دلوں کی حالت ٹھیک ہے۔ یہ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقے ہیں جنہوں نے اقتدار اور دولت کی پیاس بجھانے اور اپنے ہتھیار تیز کرنے کے لیے لوگوں کو بھڑکایا ہے۔ میں اسے ایک بہت بڑی قومی مصیبت سمجھتا ہوں کہ مسٹر گاندھی سابرمتی کے گوشہ عافیت میں چلے گئے ہیں۔ ہمیں اس وقت ایک جگہ بیٹھنا، واقعات حاضرہ پر غور کرنا اور ایک میثاق مقرر کرنا چاہیے، جو اتحاد کے لیے عارضی طور پر سنگ بنیاد کا کام دے۔ بعض ایسے بزدل ہندو ہیں، جن کو مسلمانوں پر یہ شبہ ہے کہ اگر ہندوستان پر افغانستان نے حملہ کر دیا تو مسلمان اپنے ملک سے غداری کریں گے۔ اگر ہندوستان کے باشندے متحد ہوں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کریں تو سب اپنے ملک کی حفاظت کے لیے دشمن کے مقابلے پر کمر بستہ ہو جائیں گے، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اگر کوئی سیاسی اولو العزم شخص میرے گھر کی تباہی اور اپنی آزادی کے در پے ہو، تو میں ایسے شخص سے اپنے گھر کو بچاؤں گا۔ جہاد کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ لوگ جہاد کی آڑ میں اپنی سیاسی آرزوؤں اور امنگوںکو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ ہماری مشکلات کا حل یہ ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو بحیثیت مجموعی اپنی کمزوری کا احساس کرنا چاہیے۔ اگر دوستداری کے جذبے سے ہم ایک قومی میثاق تیار کر لیں، تو میرے خیال میں وقتاً فوقتاً اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے اور ممکن ہے کہ اخیر میں اسے ترک کر دیا جائے۔ جب نمائندہ مذکور نے ڈاکٹر اقبال سے یہ دریافت کیا کہ اس وقت ہندوستان میں کون سی جماعت ملک کی راہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ایک ’’ متحدہ کانگرس‘‘ ! آپ نے فرمایا کہ صرف ایک متحدہ کانگرس ہی حقیقی معنوں میں قومی مجلس قرار دی جا سکتی ہے۔ اس وقت کانگرس کے اقتدار میں کمی پائی جاتی ہے۔ 1؎ 12علامہ اقبال کے ارشادات گرامی: علامہ ممدوح نے 11اکتوبر کے ایک جلسے میں حکیمانہ و عالمانہ انداز میں بیان فرمایا کہ: ’’ میں انگریزی، اردو، فارسی میں برنگ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور نا امیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے 25سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب میں ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ اسلامیان ہند پر عجیب دور گزر رہا ہے۔ 1929ء میں ایک شاہی مجلس تحقیقات اصلاحات، جسے رائل کمیشن کہتے ہیں، یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں۔ ضرورت ہے۔‘‘ 1؎ اخبار کشمیری لاہور11مئی 1926ئ، جلد21، نمبر18، ص6 ’’ کہ مسلمان بھی اس بات میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصد پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ میں اغراض ملی کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں پر مر مٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں۔‘‘ 1؎ 13علامہ اقبال ممالک غیر کی نظر میںـ: معزز ہمعصر ’’ ابزرور‘‘ میں مسٹر آر اے نکلسن پروفیسر ادبیات کیمبرج یونیورسٹی کے قلم سے فلسفہ اقبال پر ایک مسلسل مضمون چھپ رہا ہے۔ جس میں پروفیسر ممدوح لکھتے ہیں: ’’ ہندوستانی شعرا میں صرف اقبال ہی ایک ایسا فرد ہے، جو پین اسلام ازم (اتحاد بین المسلمین ) کی مرتفع چٹان پر کھڑا آتشیں نغمے فضا میں بکھیر رہا ہے، جس کے منور شعلے اسلامی جذبات و حسیات کو اندھیرے سے اجالے میں لا رہے ہیں۔ سر اقبال نے گو اپنی تعلیم جرمنی اور انگلستان میں پایہ تکمیل کو پہنچائی ہے، لیکن اس کی اسلامی تعلیم بھی ایسی ارفع و اعلیٰ اور ایسی پاک و منزہ 1؎ اخبار کشمیری، 21اکتبور1926ئ، جلد21، نمبر36، ص5 ہے کہ اس دور میں، اور شاید آئندہ زمانے میں بھی، اس قابلیت کا انسان ہندوستان میں پیدا ہونا مشکل ہے۔‘‘ پروفیسر ممدوح آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’ روح حیات عشق ہے اور یہی عشق ایک دن تمام مسلمانوں کے روحانی اتحاد کا باعث ہو گا۔ پیام مشرق کو شاہ افغانستان کے نام پیش کش کر کے حسیات کو بھی سر اقبال نے بیدار کر دیا ہے۔‘‘ سر اقبال کے متعلق نہ صرف ایک انگریز کی یہ رائے ہے بلکہ افغانستان، ایران، ٹرکی اور یورپ کے اکثر ممالک کے ادیب، فلاسفر اور قدر دانان علم ان کے کمالات کے معترف اور ان کی قابلیت کے مداح ہیں۔ لیکن اب کے قوم کی عملی خدمت کے لیے وہ پنجاب کونسل کی ممبری کے امیدواروں میں شامل ہیں۔ لاہور کی ایک اسلامی برادری فرقہ بندی کا سوال پیدا کر کے اس مقتدر ہستی کی خدمات سے مسلمانوں کو محروم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، حالانکہ اس برادری کے بھی کئی فہمیدہ اشخاص علامہ اقبال کے ساتھ ہیں۔ 23نومبر کو امیدواروں کا انتخاب عمل میں آنے والا ہے۔ حق و باطل کا نتیجہ اگلے ہفتے تک ظاہر ہو جائے گا۔ 1؎ 14گانے، باجا اور تبدیل مذہب: 27,28,29اکتوبر27ع کو مندرجہ بالا مسائل پر ملک کے برگزیدہ ہندو مسلم نمائندوں کی ایک موتمر اتحاد کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس نے اپنے اجلاس میں چند قرار دادیں پاس کر کے ایک 1؎ اخبار کشمیری، 21نومبر1926ئ، جلد21، نمبر41، ص6 خوشگوار مفاہمت کا فیصلہ کیا اور اتحاد بین الہنود والمسلمین کے لیے ایک کمیٹی بنائی تاکہ اتحاد کانفرنس کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر صوبے کا دورہ کرے۔ اس فیصلے کو پنجاب کے سوا، جہاں لالہ لاجپت رائے، بھائی پرمانند، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ اور ڈاکٹر مونجے کا بڑا اقتدار تھا، ہر جگہ پسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اس فیصلے کے متعلق مندرجہ ذیل خیالات ظاہر کیے: ڈاکٹر سر محمد اقبال کابیان جہاں تک ان قرار دادوں کا حلقہ اثر ہے، میری رائے میں وہ تسلی بخش ہیں۔ قرار داد کے بعض الفاظ مبہم اور مشکوک ہیں، تاہم میں اس موتمر میں شامل ہونے والے افراد کی روح اور ان قرار دادوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میری رائے میں یہ قرار دادیں معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچیں۔ کیونکہ مصیبت تو زیادہ تر اقتصادی اور سیاسی ہے، مذہبی نہیں۔ مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ میں ان مسائل کے متعلق کسی مفاہمت کے قرار و قیام کی طرف سے اس وقت تک مایوس ہوں جب تک برا بھلا کہنے کا پراپیگنڈہ جاری ہے۔ میں نہایت دیانتداری سے اس پر یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان جارحانہ اقدام کرنے والے نہیں اور میرا یقین ان حقائق کی بنا پر ہے جو اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ ہندو جرائد نے ہندوؤں کے قتل کے متعلق مسلمانوں کی سازش کا واویلا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات فضا کو صاف کر دے گی اور ہم باہمی سمجھوتے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔ باقی رہے سیاسی اختلافات، میری رائے میں ان کے تصفیے کی صورت یہی ہے کہ کسی قسم کی مفاہمت کر لی جائے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ مذہبی حیثیت کے غیر حقیقی مسائل ہماری توجہ کو بہت حد تک مبذول کر الیتے ہیں اور اس وجہ سے سیاسی مسائل کی قطعی اور معین مفاہمت خواہ مخواہ معرض التوا میں ڈالی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی مفاہمت ہو جانے کے متعلق سمجھوتہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ اگر یہی صورت حال قائم رہی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بہترین دل و دماغ عوام کو اپنے حال پر چھوڑ کر بالکل علیحدہ نہ ہو جائیں۔ اگر ہندو اور مسلمان راہنما ایک دفعہ پھر جمع ہو کر اپنی تمام تر توجہات سیاسی مسائل کے حل پر مرکوز کر دیں اور دوسرے مسائل کو چھوڑ دیں، تو میری رائے میں بہت اچھا ہو گا۔ اس وقت میں مذہبی بحثوں میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ میں انہیں حقیقی خیال نہیں کرتا۔1؎ 15شاہی کمیشن کے متعلق لیڈروں کی رائیں: لارڈ ارون وائسرائے ہند نے جو دعوت قائد ہند کو دی ہے اور اس کے بعد جو اعلان شاہی کمیشن کے متعلق شائع کیا ہے، اس پر تمام اطراف ہند بلکہ انگلستان کے اخبارات و جرائد میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اس کمیشن کے لیڈر سرجان سائمن اور 1؎ اخبار کشمیری، 7نومبر1972ئ، جلد22، نمبر39، ص4-3 پارلیمنٹ کے چھ رکن ہیں۔ ہندوستانی، جن کی فلاح و بہبود اور ترقی و آزادی کے لیے اس کمیشن کا تقرر عمل میں آیا، ایک بھی نہیں ہے۔ انگلستان کے اخبارات اور ہندوستان کے اینگلو انڈین جرائد سب یہی خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کمیشن ہندوستانیوں کے لیے مفید ہے۔ لیکن ہندوستان میں وائسرائے کے اعلان نے ایک تلاطم پیدا کر دیا ہے۔ کوئی اخبار اٹھاؤ، جس کا مالک کوئی ہندوستانی ہے، وہ ضرور اس کمیشن کی تقرری پر نکتہ چینی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ تمام سیاسی لیڈروں نے بھی اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے، جن میں مسٹر گوسوامی ممبر اسمبلی، پنڈت موتی لال نہرو، مسٹر محمد میر روٹھار ممبر کونسل مدراس، مسٹر عبدالحمید خاں سیکرٹری کانگرس پارٹی مدراس کونسل، سر چمن لال سیتلوار لبرل لیڈر بمبئی، مسٹر سکلات والا ممبر پارلیمنٹ، ڈاکٹر اینی بینٹ، ڈاکٹر انصاری، ڈاکٹر مونجے، ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولانا ظفر علی خاں، سردار سردول سنگھ کولیشر، سردار جوگندر سنگھ، ڈاکٹر گوکل چند، سر پرشوتم داس، منوہر داس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سر محمد اقبال کا بیان حسب ذیل ہے: ’’ ایسے کمیشن میں، جو ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا ہے، کسی ہندوستانی کا نہ ہونا، انگریزی قطہ خیال سے بھی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ بلاشبہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کا نہ لیا جانا ہندوستان کے وقار پر حملہ حملہ ہے۔ لیکن اس کی وجہ ہندوستانی اقوام کی باہمی بے اعتمادی اور بدظنی ہے۔‘‘ 1؎ 16اکثریت کی ہوائی فیاضیاں: شاہی کمیشن کے مقاطعے اور تعاون کی پالیسی نے سیاسی مسلمانوں کے دو فریق کر دیے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ چاہتی ہے کہ اسلامی حقوق کے تحفظ کے بعد کمیشن کے مقاطعے کا فیصلہ کیا جائے اور اس میں سر محمد شفیع، سر ذوالفقار علی خاں اور سر محمد اقبال پیش پیش ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ بغیر کسی سوچ بچار کے مقاطعے پر آمادہ ہے اور میں مسٹر جناح، سر علی امام، مولانا ظفر علی خاں اور مولانا شفیع داؤدی اول نمبر پر ہیں۔ سر ذوالفقار علی خاں سر محمد اقبال اور بعض دیگر سر بر آوردہ حضرات نے ایک مشترکہ اعلان کے ذریعے مسٹر جناح کے اعلان کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے، اور حق یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلی جذبات و خیالات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے بالکل بجا لکھا ہے کہ: ’’ ہم اس بات کو نظر نہیں کر سکتے کہ دولت، رسوخ، سیاسی قوت اور تعداد کے لحاظ سے ہم ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے جب تک ہم ہندوؤں اور انگریزی حکومت دونوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سرگرمی سے نہ کریں گے، ہماری سیاسی موت مسلمہ ہے۔ بعض مسلمان ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اکثریت کی ہوائی فیاضی پر اعتماد نہیں کر سکتے (اور یہ 1؎ اخبار کشمیری لاہور،14نومبر1927ئ، جلد22، نمبر40، ص3 بالکل صحیح ہے) اب قیاسات اور جذبات کی گنجائش نہیں، ہمیں ٹھوس دلائل کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات کو زمانہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں، جو ہمارے اس استقلال کا انصاف کرے گا، جو ہم نے فرقہ وار مفاد کو مستحکم بنیاد پر رکھنے میں دکھلایا ہے۔‘‘ 1؎ 17سر اقبال کا تازہ لطیفہ: چند روز کا ذکر ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے ایم اے کلاس کے چار طالب علم سر اقبال کی زیارت کا شوق دل میں لیے ان کی کوٹھی پر حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک حسن و جمال کا مرقع تھا (میں ساتھ نہیں تھا)۔ جب یہ لوگ ’’ بارگاہ شاعری‘‘ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دور حاضر کا شاعر اعظم مغلیہ گاؤ تکیہ لگائے ایک کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔ سب کورنش بجا لانے اور فرش پر بیٹھ گئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ آخر ان میں سے ایک، جو کمسن تھا، گویا ہوا: ’’ ڈاکٹر صاحب! آپ پردہ سسٹم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے: بھئی! میں تو آج کل اس فکر میں ہوں کہ لڑکوں کو بھی پردے میں بٹھایا جائے۔‘‘ 2؎ (راقم بقال۔ نیو ہوسٹل پارس) 1؎ اخبار کشمیری، 21دسمبر1927ئ، جلد22، نمبر46، ص5 2؎ اخبار کشمیری، 17اپریل1930، جلد25، نمبر13، ص3 18حضرت اقبال کے والد محترم کا انتقال: نہایت رنج و اندوہ سے اطلاع دی جاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد صاحب 17اگست1930ء کو سیالکوٹ میں دن کے تین بجے اس دنیائے فانی سے رہگرائے عالم جاودانی ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے تقریباً ایک سو برس عمر پائی۔ بے حد متقی، متورع اور حق آگاہ بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کے صاحبزادوں (شیخ عطا محمد اور علامہ اقبال) اور دیگر افراد خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے 1؎ ٭٭٭ 1؎اخبار کشمیری، 21اگست1930ئ، جلد25، نمبر30، ص5 اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End