اقبال کی صحبت میں ڈاکٹر محمد عبد اللہ چغتائی اقبال اکادمی پاکستان مقدمہ علامہ اقبال کے فکر و فن اور شخصیت پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ اس سے زیادہ لکھا جائے گا، مگر علامہ کے حالات زندگی کے اکثر پہلو ایسے ہیں جن کے بارے میں کماحقہ، تحقیق نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو وہ بے حد تشنہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ کے علمی و فنی کارناموں پر تو سبھی متفق ہیں مگر ان کے سوانح کے معاملے میں خاصا وسیع اختلاف رائے موجود ہے۔ اس ضمن میں اب تک جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے درج ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں: 1اقبال۔۔۔ ایک نظر: مصنف مولوی احمد الدین وکیل 2ذکر اقبال: مصنف عبدالمجید سالک 3روزگار فقیر: مصنف فقیر سید وحید الدین علاوہ ازیں علامہ کی زندگی کے بعض حالات متعدد غیر منظم تحریروں سے بھی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ راقم الحروف نے 1951ء سے 1953ء تک کوشش کی تھی کہ جو کچھ علامہ کے فکر و فن کے بارے میں لکھا گیا ہے اسے محفوظ کر لیاجائے۔ اقبال اکیڈمی نے بھی قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کی ایک کتاب ’’ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘‘ شائع کی تھی۔ انہی دنوں عبدالغنی اور خواجہ نور الٰہی نے لاہور سے اقبال پر کتابیات کا مجموعہ شائع کیا۔ فوراً بعد اقبال اکیڈمی کی طرف سے کتابیات متعلقہ اقبال مرتبہ خواجہ عبدالوحید کا مجموعہ طبع ہوا۔ پھر بہاولپور سے نذیر احمد ملک نے اس سرمائے میں ’’کلید اقبال‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب کا اضافہ کیا۔ بعد میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی اور عبدالقوی دسنوی نے ’’ اقبال ریویو‘‘ 1976ء میں اس سلسلے میں مزید اضافہ کیا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ علامہ کے فکر و فن کے مقابلے میں ان کے سوانح پر نسبتاً کم توجہ صرف کی گئی ہے۔ یوں تو مجھے علامہ اقبال کی نظمیں ابتدا ہی سے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں اور بعض دوسری مجالس میں سننے کا اتفاق ہوا مگر سنہ 1914ء کے اخیر سے مجھے ان سے زیادہ قریب ہونے کا موقع ملا۔ پھر 1923ء سے لے کر ان کی رحلت تک سفر و حضر میں ان کے ہمراہ رہنے کا شرف حاصل ہوا یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی اس تالیف کا نام ’’ اقبال کی صحبت میں‘‘ رکھا ہے۔ میں نے اس میں اپنی یادداشتوں اور مشاہدات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ وقت ہے جب علامہ اقبال کے حالات زندگی پوری صحت کے ساتھ ضبط تحریر میں لائے جا سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کے مداحین و معتقدین سے اب تک اس ضمن میں جو غفلت ہوئی ہے اس کا کفارہ اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے بارے میں جس کو بھی، جتنا کچھ بھی معلوم ہو، اسے وہ مستند حوالوں کے ساتھ، منظر عام پر لے آئے۔ ابھی بعض ایسے لوگ زندہ ہیں جنہوں نے علامہ کے فیض صحبت کا اعزاز حاصل کیا۔ علامہ کی اولاد موجود ہے، علامہ کے اعزہ و اقربا موجود ہیں۔ ان سب کی طرف سے علامہ کے حالات زندگی کی جزئیات یک جا کرنے کا کام ہونا چاہیے تاکہ مستقبل کے محقق کا کام آسان ہو جائے اور وہ علامہ کی زندگی کے بعض ایسے گوشوں کی من مانی تاویلیں نہ کرتا پھرے، جن کے متعلق تحقیق و تفتیش کرنے سے اس دور کے لوگ ہچکچاتے رہے یا سہل انگاری کے شکار رہے۔ راقم الحروف نے کوشش کی ہے کہ علامہ کے حالات زندگی ترتیب و تنظیم اور اختصار کے ساتھ پیش کر دیے جائیں فیصلہ ہمیشہ قارئین کرام کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ کسی مصنف یا مولف کی مساعی کی تحسین یا تنقید کریں۔ مجھے صرف اتنا یقین دلانا ہے کہ میں نے واقعات کی ترتیب اور استخراج نتائج کے ضمن میں حتی الامکان احتیاط سے کام لیا ہے۔ علامہ کا ہر عمل اور ہر قول، اپنے عصر کے حوالے سے، ہمیشہ بہت اہم اور بہت با معنی رہا ہے، چنانچہ علامہ کے حالات زندگی کو قلم بند کرنے والے کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ میں نے یہ ذمہ داریاں کس حد تک نبھائی ہیں، اس کا فیصلہ قارئین کریں گے۔ محمد عبداللہ چغتائی ٭٭٭ 1۔اقبال کے بلند مقام کا اعتراف و احترام آج ہم علامہ اقبال کا سو سالہ جشن ولادت منا رہے ہیں۔ 1977ء کو ’’ سال اقبال‘‘ قرار دیا جا چکا ہے اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنی اپنی بساط کے مطابق تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ علامہ کے کلام اور علمی کارناموں پر، مختلف موضوعات کے تحت،د نیا میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ آج اسے مہیا کرنا تو درکنار، ان تمام نگارشات کی مفصل فہرست مرتب کرنا بھی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ علامہ اقبال کے تبحر علمی کا اعجاز ہے کہ ان کے فکر و فن پر قلم اٹھانے والے ہر صاحب علم نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور ان کے کلام کو انسانیت کی فلاح کے لیے بالعموم اور دنیائے اسلام کی سربلندی کے لیے بالخصوص ایک الہامی پیغام کا درجہ دیا ہے۔ اقبال کے کلام میں اسلامی اخوت و صداقت، عدل و مساوات، جرأت و سرفروشی اور عالم گیر اسلامی اتحاد کا پیغام ہے۔ حضور اکرمؐ سے اقبال کی والہانہ محبت اور اسلام کی سچائی پر ان کا غیر متزلزل ایمان ان کے لیے ہمیشہ سرمایہ افتخار رہا۔ اگرچہ بعض کم فہم اور اقبال نا شناس حضرات نے علامہ کی تخلیقات پر مشکل اور دقیق ہنوے کا الزام بھی عائد کیا ہے مگرحقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اگر سچی لگن کے ساتھ اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کلام اقبال کوئی معمہ نہیں ہے کہ اسے سمجھا نہ جا سکے لیکن اگر کوئی اس پر مائل ہی نہ ہو تو الگ بات ہے۔ علامہ نے خود بھی فرمایا ہے: ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آسان ہوں میں یہ درست ہے کہ اقبال کا ابتدائی کلام حسن و عشق کی شوخیوں سے معمور ہے لیکن اگر بنظر تعمق دیکھا جائے تو اس میں بھی اس غیر فانی پیغام کے نقوش تلاش کئے جا سکتے ہیں جو آگے چل کر عالم انسانیت کو اخوت و مساوات، حریت و سرفروشی اور خودی و خود شناسی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ یہ اقبال ہی کی اقبال مندی ہے کہ انہیں اپنے حین حیات وہ عزت اور عالمگیر شہرت نصیب ہوئی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج نہ وہ اقبال ہمارے درمیان موجود ہے اور نہ وہ صاحبان بصیرت جنہوں نے اقبال کی پیشانی پر ملت کے شاندار مستقبل کی جھلک دیکھی تھی اور انہیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ شبلی نعمانی جیسے نابغہ روزگار نے 1911ء میں انہیں ’’ ملک الشعرا‘‘ کا خطاب دیا تھا جب کہ اقبال کی عمر صرف34برس تھی۔ اسی زمانے میں آزاد بلگرامی نے ’’ حسان الہند‘‘ اور اس کے ایک سال بعد سید سلیمان نے انہیں ’’ فرزدق ہند‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا۔ غالباً یہی زمانہ تھا جب لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی نے ایک موقع پر کہا تھا: حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ خود آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوق معرفت! یہ طریق دوستی، خود داری، یا تمکنت! اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے باخدا تھے، اہل دل تھے، صاحب اسرار تھے آپ کے ایک گرامی قدر دوست حضرت علامہ گرامی نے کہا تھا: در دیدۂ حق نگراں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت اسی پر بس نہیں، بلکہ علامہ کو ان کی زندگی ہی میں قوم نے ’’ ترجمان حقیقت‘‘ اور’’ ترجمان اسلام‘‘ جیسے خطابات سے نوازا جس کی شاہد انجمن حمایت اسلام میں پڑھی جانے والی نظمیں ہیں جو انہی خطابات کے ساتھ شائع ہوئی تھیں: کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ اقبال اول و آخر ایک سچے مسلمان تھے اور اسی نقطہ نظر سے سوچتے تھے۔ وہ اپنی چشم تصور سے ایک ایسی جمہوری دنیا کو دیکھتے تھے جس میں تمام اسلامی ریاستیں مدغم ہو کر ایک نئی عظیم الشان اسلامی دنیا وجود میں آ جائے جس میں باہمی تفرقے اور فرقہ بندی کا کوئی وجود نہیں ہو۔ یہی تصور اقبال کے کلام میں ہمیں جا بجا نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے ’’ انسائیکلو پیڈیا برطانیکا‘‘ میں آپ کو’’شاعر پین اسلامزم‘‘ کہا گیا ہے۔ آپ کے استاد پروفیسر آرنلڈ نے آپ کی شاعری کو ’’انکشاف حقیقت‘‘ کہا ہے اور بعض دوسرے مغربی مفکرین نے آپ کو گوئٹے، نٹشے اور شیکسپیئر سے ملایا ہے۔ ایک امریکی نقاد نے لکھا ہے کہ گزشتہ آٹھ سو سال سے اقبال کے پائے کا شاعر دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ بعض اطالوی یونیورسٹیوں میں پروفیسر نکلسن کا ترجمہ ’’ اسرار خودی‘‘ نصاب میں شامل ہے اور کئی نظمیں ترکی زبان میں منتقل کی گئی ہیں تاکہ انہیں ترک طلبہ کو پڑھایا جا سکے۔ غرض کلام اقبال صرف برعظیم پاک و ہند کے لیے سرمایہ افتخار نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کلام اقبال کی مقبولیت دیکھ کر بہت سے لوگوں نے اس کی تقلید کی کوشش کی مگر اس کا جو نتیجہ نکلا اس کی کیفیت مولانا عبدالمجید سالک کے الفاظ میں یوں ہے: ’’ علامہ اقبال نے اپنی حیات افروز شاعری سے شعر کی دنیا میں جو انقلاب پیدا کر دیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں، لیکن اس کی غلط تقلید نے بہت سے نوجوان شاعروں کی کاوشیں برباد اور عمریں تباہ کی ہیں۔ ان کے نزدیک اقبال کی تقلید صرف اسی بات میں ہے کہ فارسی کی چند ترکیبیں جمع کر کے ایک نظم تیار کر دی جائے۔ اس میں معنی نہ ہوں، اس میں شاعرانہ بلند خیالی اور فطرت کی صحیح مصوری نہ ہو، اس کی پروا نہیں۔۔۔۔ لیکن شعر گفتنی ضرور است‘‘ 1922ء میں نوبل پرائز پر تنقید کرتے ہوئے’’ بمبئی کرانیکل‘‘ نے لکھا تھا: ’’ شاعری کے خداد داد وصف کی بدولت جو اثر مسٹر ییٹس (Yeats) نے اپنے ساتھیوں میں پیدا کیا ہے، اس کی ہمسری اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ہندوستان کا اعلیٰ ترین شاعر اقبال ہے۔‘‘ اسی موقع پر ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے یوں اپنی رائے ظاہر کی تھی: ’’ یہ اعلان کہ اس سال علم و ادب کا نوبل پرائز مسٹر ییٹس کو دیا گیا ہے، ہندوستان میں کسی قدر مایوسی کا باعث ہو گا۔ تین چار مجوزہ ناموں میں سب سے زیادہ قابل وقعت نام ہندوستان اور یورپ کے علمی حلقوں میں سر محمد اقبال کا ہے۔ اگر ہندوستان کی ایک دفعہ اور قدر و منزلت کی جاتی تو اقبال سے بہتر کوئی اور اس کا مستحق نہ ہوتا۔‘‘ راقم الحروف اپنی اس خوش بخشتی پر ہمیشہ ناز کرے گا کہ اسے ایک طویل عرصے تک شاعر مشرق کی جوتیوں میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا۔ خود ان کی مبارک زبان سے ان کا حیات افروز کلام سنا، ان کی بلیغ تقریریں سنیں اور ان کی شگفتہ مجالس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کی۔ آنے والی نسلیں اس خوش بختی پر یقینا رشک کریں گی۔ جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں ٭٭٭ 2۔ تاریخ ولادت علامہ اقبال اپنے آبائی وطن سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی صحیح تاریخ پیدائش تلاش کرنے کی کماحقہ کوشش کی گئی اور آپ کے تمام سرٹیفکیٹ وغیرہ کا پوری طرح جائزہ لیا گیا۔ اس ضمن میں دو تین مرتبہ مولانا غلام رسول مہر مرحوم کی معیت میں سیالکوٹ جانے کا اتفاق بھی ہوا تاکہ آپ کی صحیح تاریخ پیدائش کا تعین ہو سکے۔ اس سلسلے میں ایک میٹنگ لاہور میں ہوئی تھی جس میں علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے بڑے صاحبزادے شیخ اعجاز احمد نے شرکت کی تھی اور انہوں نے مندرجہ ذیل تاریخ پیش کی تھی جو میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کی یادداشتوں میں درج ہے: There is absolutely no reason for us to disregard the date of Iqbals birth as given by him, that is 3rd ziqadah 1294 A.H. Corresponding to 9th November 1877. although the Municipal record of sialkot town make no mention of this date. اس کے بعد میں نے یورپ کے ریکارڈوں سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ مندرجہ بالا ریکارڈ کی میونک یونیورسٹی جرمنی سے بھی تائید ہوتی ہے جہاں سے آپ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری (پی ایچ ڈی) حاصل کی تھی۔ کیونکہ آپ نے خود بھی 3 ذی قعدہ 1294ھ اپنی تاریخ پیدائش بیان کی ہے جو 9نومبر1877ء کے مطابق ہے۔ ان حالات میں3 ذی قعدہ 1294ھ مطابق9نومبر1877ء ہی کو طے شدہ تاریخ پیدائش تصور کرنا چاہیے کہ آپ اسی تاریخ کو مقام سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آئندہ اسی تاریخ کو رواج پانا چاہئے جس کے مطابق پاکستان میں یا دوسرے ممالک میں تقریبات یوم اقبال منائی جائیں۔ ٭٭٭ 3۔ خاندان علامہ اقبال کشمیر کے ایک قدیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مرحوم محمد دین فوق نے اپنی تالیف ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ میں بھی کچھ روشنی ڈالی ہے اور علامہ نے خود بھی اپنے ایک مکتوب (مورخہ 5 اکتوبر1935ء بنام شیخ اعجاز احمد ابن شیخ عطا محمد) میں وضاحت کی ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ’’ لاہور،5اکتوبر1925ء برادر مکرم السلام علیکم آپ کا کارڈ مل گیا ہے جس سے بہت اطمینان ہوا۔ الحمد للہ علی ذالک۔ جاوید اقبال بالکل تندرست ہے۔ آج پورے ایک سال کا ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ آج قربانی دینے میں مصروف ہے۔ آپ اور والد مکرم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مدت کی جستجو کے بعد اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے۔ حضرت بابا لولی حج، کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی ’’ تاریخ کشمیر‘‘ میں اتفاقاً مل گیا ہے۔ والد مکرم نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا تھا وہ بحیثیت مجموعی درست ہے۔ ان کا اصل گاؤں لوچر نہ تھا بلکہ موضع چکو پرگنہ اڈون تھا۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے اور ممالک کی سیر میں مصروف رہے۔ بیوی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے، اس واسطے ترک دنیا کر کے کشمیر سے نکل گئے تھے۔ واپس آنے پر اشارہ غیبی پا کر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے جو حضرت نور الدین ولی کے مرید تھے۔ بقیہ عمر انہوں نے بابا نصر الدین کی صحبت میں گزاری اور اپنے مرشد کے جوار میں مدفون ہیں۔ اب امید ہے کہ مزید حالات معلوم ہو جائیں گے۔ خواجہ اعظم کا تذکرہ مختصر ہے مگر یہ مختصر نشان غالباً مزید انکشافات کا باعث ہو گا۔ ان حالات کے معلوم ہونے کا سبب بھی عجیب و غریب ہے، دہلی یونیورسٹی کے رجسٹرار، الہ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ایک کتاب ’’ کشمیر کی تہذیب و تمدن‘‘ لکھ رہے ہیں۔ میں ان کا ممتحن ہوں۔ باقی دو ممتحن انگلستان اور آئرلینڈ کے پروفیسر ہیں۔ اتفاق سے رجسٹرار صاحب کل آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کسی اپنے دوست کو ہدایت کی تھی کہ خواجہ اعظم کی ’’ تاریخ کشمیر‘‘ کا قلمی نسخہ میرے مکان پر پہنچا دے۔ وہ شخص قلمی نسخہ تاریخ مذکور کا لایا۔ میں اس وقت فارغ بیٹھا تھا، یہی کتاب دیکھنی شروع کر دی۔ دو چار ورق ہی الٹے تھے کہ بابا صاحب کا تذکرہ مل گیا جس سے مجھ کو بڑی خوشی ہوئی۔ غالباً بابا نصر الدین کی اولاد کشمیر میں ہو گی۔ ان سے مزید حالات معلوم ہونے کی توقع ہے، اور کیا عجب کہ ان کے پاس اپنے مریدوں کا سارا سلسلہ موجود ہو۔‘‘ اس خط سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اپنے والد محترم کی روایت کی تصدیق کے لیے اپنے اجداد کا سراغ لگانے کی ٹوہ میں رہتے تھے۔ ویسے ’’ تاریخ کشمیر‘‘ اعظمی (واقعات کشمیر) کے قلمی نسخے مل جاتے ہیں۔ میرے پاس بھی ایک نسخہ موجود ہے یہ کتاب 1166ھ میں تالیف ہوئی تھی۔ علامہ کے اس کشمیری خاندان پر مزید روشنی ڈاکٹر باقر نے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ (17نومبر1974ئ) میں بھی ڈالی ہے جس کے اعادے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کے والدین میں نے علامہ کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب کو پہلی مرتبہ 1911ء میں دیکھا تھا جب وہ رواز ہوسٹل میں علامہ کی نظم ’’ شکوہ‘‘ سننے کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان کا انتقال 1930ء میں سیالکوٹ میں ہوا۔ علامہ اقبال ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ فارسی زبان کی اچھی خاصی استعداد رکھتے تھے اور علامہ کی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کو بآسانی سمجھ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ علامہ نے دوران گفتگو میں فرمایا تھا کہ میں نے والد صاحب کی سہولت کے لیے مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کو جلی قلم سے لکھا ہے تاکہ وہ پڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کریں۔ وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اکثر علامہ کی نظمیں سننے کی غرض سے تشریف لاتے تھے۔ چنانچہ انجمن کی مختصر تاریخ میں لکھا ہے: سنہ 1900ء میں انجمن کی سٹیج پر شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال (علیہ الرحمہ) کا طلوع ہوا اور آپ نے ایک نہایت رقت آمیز نظم موسومہ ’’نالہ یتیم‘‘ اپنے مخصوص رنگ اور درد انگیز آواز میں پڑھی۔ اس وقت سامعین کے تاثر کی حالت احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ ہر دیدہ اشک ریز اور ہر قلب مضطر تھا۔ وجدان کی یہ کیفیت تھی کہ جب منشی عبدالعزیز مرحوم (پیسہ اخبار) نے ممدوح کو نظم کے چند بند پڑھنے کے بعد اس غرض سے روک دیا کہ نظم مذکور کی مطبوعہ کاپیاں، جن کی تعداد کئی صد تھی، فروخت کر لی جائیں (اور قیمت فی جلد چار روپے بتلائی) تو یہ تمام جلدیں آناً فاناً اسی قیمت پر فروخت ہو گئیں لیکن مانگ بدستور تھی۔ چنانچہ بعض حضرات نے خرید کردہ جلدیں اس شرط پر انجمن کو مکرر دے دیں کہ کوئی جلد پچاس روپے سے کم میں فروخت نہ ہو۔ چند لمحوں میں وہ بھی بک گئیں۔ خود علامہ کے والد ماجد مرحوم نے، جو اس وقت گیلری میں تشریف فرما تھے، سولہ روپے میں ایک جلد خریدی تھی۔ میں نے ’’ زبور عجم‘‘ کی اشاعت پر ایک مضمون روزنامہ ’’ انقلاب‘‘ میں 24 جولائی 1927ء کو لکھا تھا۔ جسے علامہ کے والد ماجد نے بھی پڑھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک خط میں کیا جو انہوں نے علامہ کو لکھا تھا۔ علامہ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی امام بی بی تھا۔ وہ ایک ہر دلعزیز خاتون تھیں اور علامہ ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ جب 1914ء میں وہ انتقال فرما گئیں تو علامہ نے ان کی وفات پر ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے نام سے ایک رقت انگیز مرثیہ تحریر فرمایا جو ’’ بانگ درا‘‘ میں شامل ہے۔ حضرت اکبر الہ آبادی نے بھی مرحومہ کی وفات پر ایک قطعہ تاریخ وفات لکھا تھا جو ان کے مزار پر کندہ ہے۔ علامہ کی چار بہنیں تھیں اور ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام شیخ عطا محمد تھا۔ ان سے وزیر آباد اور پھر لدھیانہ میں راقم نے نیاز حاصل کیا تھا۔ میں نے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کو پہلی مرتبہ 1922ء میں لاہور میں دیکھا تھا جب وہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ انہی دنوں علامہ نے انار کلی والے مکان کو چھوڑ کر میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ ان کے بڑے بھائی شعبہ انجینئرنگ میں ملازم رہے تھے لہٰذا ان کی معرفت مذکورہ کوٹھی میں کچھ عمارتی رد و بدل کرانا تھا۔ چنانچہ 1923ء میں جب علامہ کو ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تو یہ مکان بھی درست ہو چکا تھا۔ شیخ عطا محمد کی قوت سماعت کمزور تھی اور وہ اونچا سنتے تھے۔ علامہ صاحب اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے تھے اور انہیں ’’ بھا جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ علامہ اقبال کبھی کبھی اپنے سفر بلوچستان کا تذکرہ بھی کیا کرتے تھے جو انہوں نے 1903ء میں کیا تھا۔ اس سفر میں ان کا پرانا خدمتگار علی بخش بھی ان کے ہمراہ تھا۔ سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب ان دنوں بلوچستان میں تعینات تھے اور بعض شرپسندوں نے سازش کر کے انہیں ایک فوجداری مقدمے میں ملوث کر لیا تھا۔ چنانچہ علامہ خود بلوچستان کے شہر فورٹ سنڈیمن تشریف لے گئے۔ ان کی کوششوں سے ان کے بھائی باعزت طور پر بری ہو گئے اور ملازمت پر بحال رہے۔ اس کے بعد جب شیخ عطا محمد صاحب کا تبادلہ ایبٹ آباد میں ہو گیا تو علامہ بھی ایک مرتبہ وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں کے اہل علم حضرات کے اصرار پر آپ نے وہاں ایک لیکچر بھی دیا جس کا عنوان تھا’’ قومی زندگی‘‘ یہ لیکچر رسالہ ’’ مخزن‘‘ کے دو شماروں یعنی اکتوبر1904ء اور مارچ1905ء میں شائع ہو چکا ہے۔ 1911ء میں شیخ عطا محمد مرحوم کا تبادلہ کمیبل پور میں ہوا تو علامہ وہاں بھی تشریف لے گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کی عزت کرتے تھے اور ان کے لیے تقویت کا باعث بنتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے بڑے بیٹے آفتاب اقبال کو اپنے چچا سے بعض شکایات بھی تھیں۔ یہ خاندانی نوعیت کی شکایات تھیں۔ جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔ شیخ عطا محمد صاحب کا انتقال 22 دسمبر 1941ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر اسی برس کے قریب تھی۔ علامہ کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد مرحوم کی اولاد بھی بہت عزیز تھی اور وہ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام کے زمانے میں انہوں نے شیخ صاحب کے چھوٹے بیٹے مختار احمد کو خود تعلیم دلوائی اور پھر ملازم کروایا۔ جب 1931ئ۔ 1932ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آپ لندن تشریف لے گئے تو مختار احمد ان کے گھر میں موجود تھے۔ ٭٭٭ شعر گوئی کا آغاز اور داغ سے تلمذ 1895ء میں علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور اس طرح لاہور میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ بعض شواہد سے پتا چلتا ہے کہ لاہور میں اپنے قیام (1895ئ) سے خاصا عرصہ پیشتر علامہ اقبال شاعری کا آغاز کر چکے تھے۔ رسالہ ’’ آجکل‘‘ دہلی کے 15جولائی 1944ء کے شمارے میں علامہ کی دو غزلیں ہمیں ملی ہیں جو دراصل رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی کے شمارہ نومبر1893ء اور فروری 1894ء سے نقل کی گئی ہیں۔ نومبر1893ء اور فروری 1894ء وہ زمانہ ہے جب علامہ اقبال سیالکوٹ میں ایف اے کی کلاس میں سال اول اور سال دوم کے طالب علم تھے۔ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی کا مذکورہ شمارہ جس میں سب سے پہلے یہ غزلیں شائع ہوئیں، کتب خانہ ’’ الاصلاح‘‘ دیسنہ ضلع پٹنہ کے مجموعہ رسائل میں محفوظ ہے اور اسی سے نقل کر کے رسالہ ’’ آجکل‘‘ کے 15جولائی 1944ء کے شمارے میں یہ غزلیں شائع کی گئی ہیں۔ رسالہ ’’ آجکل‘‘ کا یہ شمارہ ہمارے پاس محفوظ ہے اس میں شائع شدہ غزلیں ہم ہدیہ ناظرین کر رہے ہیں۔ بقول ’’ آج کل ‘‘ ان غزلوں کے شروع میں ’’ تلمیذ بلبل بند حضرت داغ دہلوی‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال اس زمانے میں داغ کی شاگردی اختیار کر چکے تھے۔ ’’ آجکل ‘‘ کے نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اقبال پہلے پہل صاحب عالم میرزا ارشد گورگانی دودمان مغلیہ سے مشورۂ سخن کیا کرتے تھے، مگر اصلاح کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تو نواب فصیح الملک میرزا داغ دہلوی کو اپنا کلام بھیجنے لگے۔ یہ دونوں غزلیں طرحی ہیں اور علامہ کے کسی مجموعہ کلام میں شائع نہیں ہوئیں: 1 ’’ غزل مندرجہ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی، بابت ماہ نومبر1893ء مصرع مطروحہ زبان دہلی:‘‘ خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا کیا مزہ بلبل کو آیا شیوۂ بیداد کا ڈھونڈتی پھرتی ہے اڑ اڑ کر جو گھر صیاد کا کس بت پردہ نشیں کے عشق میں ہوں مبتلا حسرت دل پر ہے برقع دامن فریاد کا جب دعا بہر اثر مانگی تو یہ پایا جواب غیر رو کر لے گئے حصہ تری فریاد کا ہوں وہ ناداں ڈر سے زیر دام پنہاں ہو گیا دور سے چہرہ نظر آیا اگر صیاد کا سن کے اس کو بیرخی سے بھاگ جاتا ہے مدام کیا اثر معشوق ہے اے دل تری فریاد کا شرم آئی، جب مری رگ میں لہو نکلا نہ کچھ آب میں ہے غرق گویا نیشتر فصاد کا قمریوں نے باغ میں دیکھا ہے اس خوش قد کو کیا ہے چھری ان کے لیے پتا ہر اک شمشاد کا بھول جاتے ہیں مجھے سب یار کے جور و ستم میں تو دیوانہ ہوں اے اقبال! تیری یاد کا 2 غزل مندرجہ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی، بابت ماہ فروری 1894ء مصرع مطروحہ زبان دہلی: یہ اشارے مجھے پیغام قضا دیتے ہیں جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں کوچہ یار میں ساتھ اپنے سلایا ان کو بخت خفتہ کو مرے پاؤں دعا دیتے ہیں بدگمانی کی بھی کچھ حد ہے کہ ہم قاصد سے قسمیں سو لیتے ہیں، جب ایک پتا دیتے ہیں موت بازار میں بکتی ہے تو لا دو مجھ کو ہم نشیں کے لیے جینے کی دعا دیتے ہیں رحم آتا ہے ہمیں قیس کی عریانی پر دھجیاں دامن صحرا کی اڑا دیتے ہیں ایسی ذلت ہے مرے واسطے عزت سے سوا خود وہ اٹھ کر مجھے محفل سے اٹھا دیتے ہیں غیر کہتے ہیں کہ یہ پھول گیا ہے مردہ قبر پر میری جو وہ پھول چڑھا دیتے ہیں موت بولی جو ہوا کوچہ قاتل میں گذر سر اسی راہ میں مردان خدا دیتے ہیں ان کو بیتاب کیا، غیر کا گھر پھونک دیا ہم دعائیں تجھے اے آہ رسا دیتے ہیں گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت اقبال حضرت داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں شاگردی داغ کے سلسلے میں علامہ کا وہ خط خاصا اہم ہے جو انہوں نے مولانا احسن مارہروی کو لکھا تھا۔ اس کا ضروری حصہ نذر قارئین ہے: ’’ ۔۔۔۔ اگر آپ کے پاس استادی حضرت میرزا داغ کی تصویر ہو تو ارسال فرمائے گا۔ بہت ممنون ہوں گا۔ اگر آپ کے پاس نہ ہو تو مطلع فرمائیے گا کہ کہاں سے مل سکتی ہے۔ میں نے تمام دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے فوٹو جمع کرنے شروع کر دیے ہیں۔ چنانچہ انگریز، جرمن اور فرنچ شعرا کے فوٹو کے لیے امریکا لکھا ہے۔ غالباً کسی نہ کسی استاد بھائی کے پاس حضرت کا فوٹو ضرور ہو گا۔ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو از راہ عنایت جلد مطلع فرمائیے۔ حضرت امیر مینائی کے فوٹو کی بھی ضرورت ہے۔ والسلام خاکسار محمد اقبال از لاہور گورنمنٹ کالج بورڈنگ ہاؤس، 28فروری 1899ئ‘‘ حکیم احمد شجاع، جن کا 76سال کی عمر میں4جنوری 1969ء کو انتقال ہوا، اقبال کو اس زمانے سے جانتے تھے جب وہ گزشتہ صدی کے آخر میں بھاٹی دروازہ لاہور کے اندر ان کے ہاں مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ’’ نقوش‘‘ لاہور میں بھی ’’ لاہور کا چیلسی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون اقبال پر لکھا ہے اور اپنی سوانح حیات’’ خوں بہا‘‘ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ رسالہ ’’ نقوش‘‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’ 30نومبر1895ء کو پہلا جلسہ مشاعرہ حکیم امین الدین بار ایٹ لا کے عالی شان مکان پر شام چھ بجے ہوا۔ اس بزم مشاعرہ کے دوسرے مشاعرے میں حضرت اقبال نے بھی شرکت کی تھی اور سب سے پہلے اپنی غزل پڑھی تھی۔ اس محفل مشاعرہ کی روداد ’’ شور محشر‘‘ بابت دسمبر1895ء میں ان کی غزل پر ان کا نام اس طرح درج ہے:‘‘ ’’ جناب شیخ محمد اقبال صاحب اقبال، تلمیذ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی۔‘‘ اس غزل کے مقطع میں اقبال نے داغ کی شاگردی پر اس طرح فخر کا اظہار کیا ہے: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ نازاں نہیں اس پر مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں کا اس زمانے میں اقبال کا قیام بھاٹی دروازہ لاہور کے اندر ایک مکان میں تھا۔ ان مشاعروں میں شاعری سے دلچسپی رکھنے والے اکثر صاحب ذوق حضرات شرکت کرتے تھے اور شعرا کو داد سخن طرازی دیتے تھے۔ اسی قسم کی ایک محفل میں اقبال نے اپنی وہ غزل پڑھی تھی جس کے ا س غیر فانی شعر نے لکھنو اور دلی کے اساتذہ سخن کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اس محفل میں میرزا محمد عبدالغنی، میرزا ارشد گورگانی اور میر ناصر حسین دہلوی جیسے شعرا بھی موجود تھے جو اس شعر کو سن کر تصویر حیرت بنے ہوئے تھے۔ اس وقت کے کم عمر اور نوجوان اقبال کی زبان سے اتنا بلند پایہ شعر واقعی حیرت ناک بات تھی جو اس کے اقبال بلند اور روشن مستقبل کی علامت تھی۔ اس کے بعد بھی اقبال نے بھاٹی دروازے کے بعض مشاعروں میں حصہ لیا اور اپنا کلام سنایا جس سے ان کی شہرت میں خاصا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد آپ نے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں شرکت شروع کی اور 1899ء کے بعد باقاعدگی سے ان جلسوں میں اپنے کلام کا جادو جگاتے رہے۔ اس سے ان کی شہرت و مقبولیت کو جیسے پر لگ گئے اور ملک کے طول و عرض میں اقبال کا نام اور کلام خوشبو کی طرح پھیل گیا جس نے پورے برعظیم کو مہکا دیا۔ ٭٭٭ 6 گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنے زمانہ طالب علمی اور پھر ملازمت کے واقعات اکثر بیان فرمایا کرتے تھے۔ سیالکوٹ کے مشن کالج سے 1895ء میں ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تھا۔ 11فروری 1898ء کو پروفیسر سر ٹامس آرنلڈ گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل کی حیثیت سے آئے جو فلسفے کے معروف استاد تھے۔ اپریل 1899ء کو وہ اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے مگر23نومبر1899ء کو وہ پھر گورنمنٹ کالج میں اپنے سابقہ منصب پر واپس آ گئے۔ پروفیسر آرنلڈ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے علامہ اقبال کی غیر معمولی صلاحیتوں کو پرکھا اور بام عروج پر پہنچنے میں ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ 1897ء میں اقبال نے بی اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور انگریزی اور عربی مضامین میں اول آنے پر تمغے حاصل کیے۔ پھر 1899ء میں فلسفے میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں اقبال گورنمنٹ کالج کے کوڈرینگل ہوسٹل (اب یہ ’’ اقبال ہوسٹل‘‘ کہلاتا ہے) کے کمرہ نمبر1میں مقیم رہے۔ گورنمنٹ کالج میں قیام کے زمانے میں ہی اقبال بھاٹی دروازے کے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ہمیں ان کے اس قدیم ترین خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے اسی ہوسٹل سے مولانا احسن مارہروی کو لکھا تھا اور جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ غالباً یہ آخری خط ہے جو انہوں نے ہوسٹل سے لکھا تھا۔ا س کے بعد وہ بھاٹی دروازے والے مکان میں اٹھ آئے تھے۔ ٭٭٭ 7 انجمن حمایت اسلام میں پہلی نظم اقبال کو بھاٹی دروازہ کی محقل ہاے مشاعرہ میں خاصی شہرت حاصل ہو چکی تھی۔ جو لوگ ان محفلوں میں شامل ہوتے تھے وہی لوگ آپ کو انجمن حمایت اسلام کے ایک سالانہ جلسے منعقدہ 1899ء میں پہلی بار انجمن کی سٹیج پر لے آئے۔ یہ جلسہ انجمن حمایت اسلام کے ہائی سکول واقع شیرانوالہ گیٹ کے اندر میدان میں منعقد ہوا تھا۔ چنانچہ آپ نے یہاں اپنی ایک طویل نظم بعنوان ’’نالہ یتیم‘‘ نہایت درد انگیز آواز میں پڑھی۔ اس وقت سامعین کے تاثرات کی کیفیت احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ ہر چشم اشک آلود اور لوگوں کے قلوب مضطرب تھے۔ تاثر کی یہ کیفیت تھی کہ جب منشی عبدالعزیز (پیسہ اخبار) مرحوم نے آپ کو نظم کے چند بند پڑھنے کے بعد روک دیا تاکہ نظم مذکور کی مطبوعہ کاپیاں، جن کی تعداد کئی صد تھی، فروخت کر لی جائیں (قیمت فی نسخہ چار روپے اعلان کیا گیا) تو یہ تمام جلدیں آناً فاناً اسی وقت فروخت ہو گئی تھیں، لیکن ان کی مانگ بدستور باقی تھی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اپنی خرید کردہ کاپیاں اس شرط پر انجمن کو مکرر عطیے میں دے دیں کہ کوئی جلد پچاس روپے سے کم میں فروخت نہ ہو۔ مگر چند لمحوں میں وہ بھی بک گئیں۔ علامہ کے والد مرحوم نے، جو گیلری میں تشریف رکھتے تھے، سولہ روپے میں ایک جلد خریدی تھی۔ اس کے بعد علامہ نے مسلسل وہ نظم اپنے مخصوص انداز میں ترنم کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد علامہ متواتر انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اپنی نظمیں پڑھتے رہے اور انجمن حمایت اسلام کے ساتھ آپ کا تعلق اخیر تک قائم رہا۔ لاہور میں ایک انجمن ’’ بزم اردو‘‘ کے نام سے قائم تھی جس میں لوگ مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے اور اکثر معاصر شعرا شامل ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ 25مارچ1956ء کو خواجہ دل محمد نے مجھ سے بیان کیا کہ اس بزم کے مشاعرے عام طور پر محمڈن ہال لاہور میں ہوتے تھے۔ اس کے سیکرٹری خان بشیر حسین خاں شاہجہان پوری تھے جو اس وقت تک بقید حیات تھے۔ اقبال نے اس انجمن کے مشاعروں میں اکثر شرکت کی ہے۔ ان کو یاد تھا کہ اقبال نے بھی اس بزم کے ایک جلسے میں نظم پڑھی تھی۔ خواجہ دل محمد نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میں نے بھی ان کی نظم ’’ نالہ یتیم‘‘ تبھی سنی تھی جب انہوں نے شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ ہائی سکول میں پڑھی تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ میں خود بھی اس سکول میں اس وقت پڑھتا تھا۔ ٭٭٭ 8 ملازمت کا آغاز ’’ تاریخ اورینٹل کالج لاہور‘‘ مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین میں لکھا ہے: ’’ شاعر مشرق علامہ اقبال، جنہوں نے 1899ء میں ایم اے (فلسفہ) کا امتحان پاس کیا تھا، اسی سال 13مئی کو میکلوڈ پنجاب عریبک ریڈر مقرر ہوئے اور چار برس تک اسی حیثیت سے تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ واکر کی سیاست مدن کا اردو ترجمہ کیا اور اردو میں علم اقتصاد پر ایک تالیف انہوں نے اسی دوران میں مرتب کی۔1؎‘‘ اس کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو کر چلے گئے جہاں آپ نے 16اکتوبر1902ء کو اپنے اس عہدے کا چارج سنبھالا اور 2جنوری 1908ء تک اس کالج سے وابستہ رہے اگرچہ 1905ء میں آپ بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ تشریف لے گئے تھے مگر جولائی 1908ء کو جب آپ واپس تشریف 1؎ تاریخ یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور، مصنفہ ڈاکٹر غلام حسین، ص44 لائے تو جز وقتی ٹیچر کی حیثیت سے اسی کالج میں تعینات ہوئے۔ بالآخر آپ نے کالج کی ملازمت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اور مستقل طور پر پیشہ وکالت سے منسلک ہو گئے۔ اورینٹل کالج کے زمانہ تدریس کی یادگار کتاب ’’ علم الاقتصاد‘‘ سب سے پہلے 1903ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد1963ء میں اقبال اکیڈمی نے اسے کراچی سے شائع کیا۔ آپ نے اس کتاب میں جو نظریات پیش کئے ان پر وہ زندگی بھر قائم رہے اور انہی نظریات کا پر تو ان کے ایک اور مقالے میں بھی نظر آتا ہے جس کا نام ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ ہے۔ پنجابی کسان اور قائد اعظم کے خطوط میں بھی ان نظریات کی تائید ملتی ہے۔ اورینٹل کالج لاہور میں علامہ اقبال کا دوسرا علمہ کارنامہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے نظریہ توحید مطلق پر وہ بلند پایہ مقالہ ہے جو The Doctorine of the Absolute Inity as Expressed by Al-jillani کے نام سے بمبئی کے ماہوار انگریزی رسالے Indian Antiquity میں 1900ء میں شائع ہوا تھا۔ اس زمانے میں اقبال اورینٹل کالج میں بی او ایل اور انٹرمیڈیٹ کو پڑھاتے تھے۔ 1908ء میں جب اقبال علامہ یورپ سے واپس آئے تو آپ نے چنگڑ محلہ (رائے بہادر سوہن لال روڈ اردو بازار) میں مکان کرائے پر لیا۔ ان ایام میں اقبال کے رہن سہن کے متعلق میر غلام بھیک نیرنگ کا وہ بیان بہت دلچسپ ہے جو انہی دنوں اقبال سے اس مکان میں ملے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اقبال سے ملاقات کی غرض سے لاہور گیا تھا۔ میں دن کے وقت لاہور پہنچا اور سیدھا اقبال کی قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ ملازموں سے معلوم ہوا کہ علامہ گھومنے کے لیے باہر گئے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ اقبال گھر سے نکلنا سیکھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ تشریف لائے تو مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ اقبال نہایت نستعلیق سوٹ میں ملبوس تھے (اس سے پیشتر وہ لباس کے معاملے میں نہ صرف سادگی پسند تھے بلکہ لا پروا واقع ہوئے تھے) خیر ملاقات ہوئی تو بہت گرمجوشی سے گلے ملے۔ اس کے بعد وہ سوٹ اتر گیا اور ہمیشہ کی طرح تہبند اور بنیان کے ساتھ ساتھ کمبل ان کے شانوں پر سوار ہو گیا۔ ان کا دیرینہ ہم نفس حقہ بھی حاضر ہو گیا اور ہم حسب سابق فرش پر بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کرنے لگے۔ 1928ء کے ایک موسم گرما کا ذکر ہے۔ علامہ اقبال راقم الحروف کو ساتھ لے کر کالکا ریلوے سٹیشن سے موٹر میں بیٹھ کر شملے جا رہے تھے۔ دوران سفر ہم کسی وجہ سے ایک موٹر پر رک گئے۔ اسی اثنا میں ایک موٹر آ گئی جو ہمارے قریب آ کر رکی اور اس میں سے غلام بھیک نیرنگ مرحوم برآمد ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم اپنی اپنی موٹروں میں سوار ہو کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہونے لگے تو ایک تیسری موٹر ہمارے قریب آ کر رکی جس میں فلسفے کے معروف پروفیسر دیوان چند سفر کر رہے تھے۔ وہ کانپور سے آ رہے تھے۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی تھی کیونکہ میں نے پہلی مرتبہ ان صاحبان علم کو یکجا دیکھا تھا۔ اس مختصر ملاقات میں غلام بھیک نیرنگ مرحوم نے قدیم دکنی اردو کے کچھ اشعار بھی سنائے تھے۔ ان میں سے ایک شعر میں لفظ ’’ شیشہ‘‘ کو پانی کی بوتل کے معنوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ ولایت سے آ کر جب علامہ نے وکالت کا آغاز کیا تو وکالت کے علاوہ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں جز وقتی طور پر فلسفہ اور انگریزی بھی پڑھاتے رہے۔ کالج نے بطور خاص علامہ کے لیے یہ انتظام کیا تھا کہ چیف کورٹ میں جن مقدمات میں علامہ کو پیش ہونا ہوتا تھا ان کی سماعت کالج کے اوقات کے بعد ہوتی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ برس تک یہ انتظام رہا۔ ان دنوں انڈین سول سروس اگرچہ زیادہ تر انگریزوں کے لیے مخصوص تھی مگر گورنمنٹ نے بطور خاص علامہ اقبال کو یہ اعلیٰ اسامی پیش کی جو انہوں نے قبول نہ فرمائی اور اس کے مقابلے میں اپنے وکالت کے آزاد پیشے کو پسند کیا۔ کیونکہ آپ طبعاً ملازمت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کو بطور مشورہ ملازمت کے متعلق جواب میں جو کچھ لکھا اس میں ملازمت سے اپنے اجتناب کو اس طرح ظاہر فرمایا:ـ ’’ ایک مرتبہ طالب علموں کی حاضری کے متعلق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور نے مجھ سے اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی اپنے کلرک سے کرتا ہے، اس لیے اس دن سے ملازمت سے طبیعت بیزار ہو گئی اور ارادہ کر لیا کہ جہاں تک ہو سکے گا، ملازمت سے پرہیز کروں گا۔‘‘ 1923ء میں جنوری کے مہینے کی پہلی تاریخ کو سرکار انگلشیہ نے علامہ کو’’ سر‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ 1931ء میں پروفیسر چیٹر جی نے لندن سے آ کر گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فلسفہ کا چارج لیا۔ اسی زمانے میں قاضی اسلم علی گڑھ سے بی اے پاس کر کے یہاں ایم اے فلسفہ کی کلاس میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی یاد داشتوں کے ضمن میں ایک مضمون Iqbal at a College Reception in Lahore کے عنوان سے کراچی کے مجلہ ’’ اقبال ریویو‘‘ (اکتوبر1970ئ) میں لکھا تھا جو بڑا دلچسپ ہے۔ انہی کی کوشش سے اقبال کے اعزاز میں ایک استقبالیے کا اہتمام ہوا جو گورنمنٹ کالج کی فلسفلے کی انجمن ’’ بریٹ‘‘ کی طرف سے دیا گیا، کیونکہ یہ خوشی اس مجلس کی بھی تھی۔ اقبال کو’’ سر‘‘ کا خطاب ان کے علمی کارناموں کی بدولت ملا تھا، کسی سیاسی خدمت کا صلہ نہ تھا۔ گورنمنٹ کالج کی مذکور انجمن سے زیادہ تر بی اے کے طلبہ وابستہ ہوتے تھے جن میں ہندو، مسلم اور سکھ سب شامل تھے۔ چنانچہ وہ علامہ کی خدمت میں چیٹر جی کی چٹھی لے کر استقبالیے میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ علامہ اپنے گھر واقع میکلوڈ روڈ پر بے تکلف بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دعوت کا دن اور وقت طے کر آئے اور واپس آ کر انہوں نے مدعوین کی فہرست مرتب کی جس میں شہر کے معززین بھی شامل تھے۔ اس بزم کے سیکرٹری کلیم الرحمن لاہور کے ایک معروف خاندان کے فرد تھے اور اسسٹنٹ سیکرٹری منوہر ناتھ تھے۔ دعوت کا دن 23جنوری 1923ء مقرر ہوا تھا۔ یہ دعوت کالج کے مغربی لان میں منعقد ہوئی تھی۔ ایک گروپ فوٹو بھی ’’ بریٹ‘‘ (Brett) کی طرف سے ہوا تھا جس میں کالج کے عہدے داروں میں سے پرنسپل مسٹر بیمی، پروفیسر چیٹر جی، پروفیسر احمد حسین (جو بعد میں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے پرنسپل 78سال کی عمر تک رہے) اور شرکائے دعوت میں سے شیخ فضل حق اور انور سکندر خاں شامل تھے۔ یہ دعوت بہت سادہ تھی یعنی کالج کی جانب سے استقبالیہ اور پھر علامہ اقبال کا خطاب آپ نے اس موقع پر ایک نظم بھی سنائی تھی ۔ اس دعوت کی مکمل روداد قاضی اسلم نے متذکرہ بالا رسالے میں شائع کر دی ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا بے جا نہ ہو گا کہ اہل لاہور کی طرف سے بھی جنوری 1923ء میں علامہ اقبال کے اعزاز میں ان کو’’ سر‘‘ کا خطاب ملنے پر ایک شاندار عصرانہ مقبرۂ جہانگیر میں منعقد ہوا تھا، جس میں سکول اور کالج کے طلبہ نے نظمیں بھی پڑھی تھیں۔ گورنمنٹ کالج سے علامہ کے تعلق کے ضمن میں عرض ہے کہ جس سال علامہ اقبال نے اس کالج میں داخلہ لیا اسی سال میر غلام بھیک نیرنگ بھی میٹرک پاس کرنے کے بعد اس کالج میں داخل ہوئے۔ ان کے ہمراہ کالج میں اور ہوسٹل میں ان کے ہم جماعت چودھری جلال الدین (ضلع سیالکوٹ، ڈسکہ کے رہنے والے) بھی تھے۔ ایک روز اقبال بھاٹی دروازے سے کالج کی طرف آ رہے تھے کہ چودھری جلال الدین نے اقبال کا تعارف میر غلام بھیک نیرنگ سے اس طرح کروایا کہ آپ مولوی سید میر حسن کے خاص تربیت یافتہ ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ اس کے بعد ان کو اقبال کا کلام سننے یا پڑھنے کا شوق ہوا تو چودھری صاحب اقبال کے کچھ مطبوعہ اشعار ان کے پاس لائے جو اب ’’ بانگ درا‘‘ وغیرہ کتابوں میں نہیں ہیں۔ اسی طرح اقبال نے بھی میر غلام بھیک کے کلام کا نمونہ دیکھنا چاہا۔ آپ کے ہم جماعت طلبہ میں ایک صاحب مولوی ضیاء الدین احمد تھے جو کوچہ ہنومان گمٹی بازار لاہور میں رہتے تھے۔ اقبال اکثر ہوسٹل سے نکل کر ان کے ہاں آ جاتے تھے۔ وہ ان کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے۔ بعد میں وہ بمبئی میں پولیس آفیسر ہو گئے تھے۔ میر غلام بھیک نیرنگ اور مولوی ضیاء الدین احمد گہرے دوست تھے۔ میں اور اقبال اکثر ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج میں اقبال کے زمانہ پروفیسری میں ایک صاحب پروفیسر مدن گوپال سنگھ چاولہ ریاضی پڑھاتے تھے۔ اگرچہ وہ اپنے مضمون میں بہت قابل تھے مگر عام مجلسی آداب سے قدرے عاری تھے۔ ایک مرتبہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں کوئی صاحب اقبال سے ملنے آئے۔ وہ بھی اقبال کو عام آداب سے ذرا عاری نظر آئے تو اس کے جانے پر آپ نے مسکرا کر کہا کہ میں اکثر پروفیسر چاولہ کو کالج میں کہا کرتا تھا، خاص کر جب وہ سٹاف روم میں ہماری طرف پیٹھ کر کے خلاف قاعدہ بیٹھ جاتے ’’ پروفیسر چاولہ! نوازش فرما کر آپ مجھے ریاضی پڑھا دیں اور میں آپ کو عام مجلسی آداب سکھا دوں گا تاکہ آپ ذرا آداب محفل کے مطابق ٹھیک ہو کر بیٹھ جایا کریں۔‘‘ ایک روز علامہ اقبال نے اپنی عادت کتب بینی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میں گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل میں رہتا تھا تو تمام وقت اپنے کمرے میں مطالعے میں گزارتا تھا۔ ایک روز قریب شام جب دیگر طلبائے ہوسٹل گراؤنڈ میں کھیل میں مصروف تھے اور میں پڑھنے میں مستغرق تھا، تو ہمارے پرنسپل صاحب میرے کمرے میں تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ تمام طالب علم باہر گراؤنڈ میں ورزش اور کھیل میں مصروف ہیں اور تم یہاں پڑھ رہے ہو۔ میں نے ادب سے جواب دیا کہ یہ بھی تو اپنی جگہ ایک ورزش ہی ہے۔ اقبال سے جن طلبہ نے گورنمنٹ کالج میں پڑھا وہ اکثر بعد میں بھی آپ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں جناب سلیمان خاں، جو کہیں افسر مال تھے، اور سکندر خاں، جو سابق ہیڈ کلرک پنجاب یونیورسٹی کے صاحبزدے تھے، جب بھی لاہور آتے، علامہ کے یہاں ضرور حاضر ہوتے۔ میں نے ان کو بارہا دیکھا تھا۔ علی بخش بھی ان کی عزت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ علامہ کے سامنے ان کے ایک لیکچر کا ذکر کر رہے تھے جو علامہ نے شیلے پر دیا تھا و ہ دیر تک علامہ کے نظریات شاعری پر گفتگو کرتے رہے۔ علامہ کو انگریزی شعرا میں شیلے بہت پسند تھا۔ غالباً علامہ نے خود یا ان کے کسی شاگرد نے علامہ کی مدد سے شیلے کے نظریات شاعری کے بارے میں ایک کتاب بھی شائع کی تھی۔ میں نے خود علامہ کے ہاں اس کے معمولی طباعت کے نسخے دیکھے تھے۔ اس پر شیخ محمد اقبال بحیثیت مصنف درج تھا۔ مولوی محمد علی قصوری بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے 1909ء سے لے کر 1911ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں علامہ سے پڑھا تھا جب وہ فلسفے کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے کئی انگریزی نظمیں بھی علامہ سے پڑھی تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ علامہ اقبال دوران لیکچر اکثر مطالب سمجھانے کے لیے فارسی اشعار بطور مثال پیش کر کے انگریزی شعروں کا مفہوم واضح کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ملٹن کی نظم ’’ Paradise Lost‘‘ اور ورڈز ورتھ کی نظم ’’Ode to Immortality‘‘ علامہ ہی سے پڑھی تھی۔ آپ نے ان کو اس خوش اسلوبی سے سمجھایا کہ آج تک یاد ہے۔ میں نے اپنی یادداشتوں کو ایک مرتبہ علامہ صلاح الدین سلجوقی افغانی کے سامنے بیان کیا جو ان دنوں بمبئی میں افغان گورنمنٹ کے کونسل تھے، تو ان کو بھی علامہ اقبال سے ملنے کا شوق ہوا۔ علامہ صلاح الدین سلجوقی مرحوم اسلامی رنگ کی خاص شان کے مالک تھے۔ علامہ اقبال کبھی کبھی گورنمنٹ کالج کے ماحول کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ اس کالج میں جہاں اب مسجد تعمیر ہوئی ہے، اس کے قرب میں ایک خانقاہ کسی بزرگ کی تھی جہاں سال میں ایک مرتبہ عرس ہوتا تھا۔ جو لوگ اس میں شرکت کرتے تھے وہ زیادہ تر ’’ ہیر وارث شاہ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ علامہ نے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ایسی بعض مجالس دیکھی تھیں۔ راقم نے خو دبھی آج سے پچاس سال قبل ایسی مجالس دیکھی ہیں جن میں مولوی غلام رسول مصنف’’ سوہنی مہینوال‘‘ جیسے عظیم پنجابی شاعر شامل ہوا کرتے تھے۔ میر سید غلام بھیک نیرنگ بیان کرتے تھے کہ ہماری سہ سالہ صحبتوں میں، جو اسی گورنمنٹ کالج میں ہوتی تھیں، اقبال اپنی ایک تجویز باربار پیش کیا کرتے یعنی وہ ملٹن کی مشہور نظم ’’Paradise Lost‘‘ اور’’ Paradise Regained‘‘ کا ذکر کر کے کہا کرتے تھے کہ میں بھی واقعات کربلا کو اس رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن کی ’’ Paradis Regained‘‘ کا جواب ہو جائے، مگر اس کی تکمیل کبھی نہ ہو سکی۔ بقول سید غلام بھیک نیرنگ، علامہ اس زمانے میں پروفیسر آرنلڈ سے بہت متاثر تھے۔ جب پروفیسر ڈکنسن گورنمنٹ کالج لاہو رمیں شعبہ انگریزی کے صدر ہو کر علی گڑھ سے آئے تو وہ اکثر علامہ سے ملنے کے لیے ان کے گھر آتے تھے اور علمی معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ علامہ نے ان کے دماغ سے ڈراما’’ دارا شکوہ‘‘ کا خیال نکال دیا تھا جس پر وہ بہت مصر تھے۔ علامہ نے تاریخ کی روشنی میں بحث کر کے بہت سے حقائق ان پر واضح کیے۔ علامہ کے یہاں ان کے آنے سے ایک علمی فضا نظر آیا کرتی تھی، اور علامہ کو ان کی خاطر ذرا زیادہ ٹھوس علمی گفتگو کرنا پڑتی تھی۔ عموماً اسلامی ثقافت گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں وہ اپنے زمانے کے بعض یورپین پروفیسروں کے پڑھانے کے طریقے پر بھی گفتگو کیا کرتے تھے۔ 1؎ رسالہ ’’ ہلال‘‘ (فارسی۔ پاکستان) میں ایک قدیم گروپ تصویر گورنمنٹ کالج لاہور سے متعلق چھپی ہے۔ اقبال اس تصویر میں دیگر حضرات کے ہمراہ درمیان میں بیٹھے ہیں۔ غالباً یہ تصویر ان ایام کی ہے جب اقبال وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ کالج میں پروفیسر بھی تھے ۔ (دیکھئے مسلسل شمارہ نمبر100، ج18) ٭٭٭ تجھ پر اے پنجاب نازل ہوں خدا کی رحمتیں اے کہ تو اسلام کی دولت سے مالا مال ہے ہم نے مانا تو نہیں مسحور تہذیب فرنگ تجھ میں سب کچھ ہے اگر اسلام اور اقبال ہے (حضرت علامہ عبداللہ عمادی) ٭٭٭ 9 کوچہ ہنومان کا ایک واقعہ ایک روز علامہ نے برسبیل تذکرہ کسی غیر مذہب پر گفتگو کے دوران میں بیان فرمایا کہ وہ ایک مرتبہ لاہور کے کوچہ ہنومان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہر روز علی الصبح ایک ہندو پنڈت جب نہایت دلکش اور بلند آواز میں کوئی بھجن گاتا تو میں بیدار ہو جاتا اور سوچتا کہ خدا جانے یہ کیا صدا لگاتا ہے۔ آخر ایک صبح میں نے اس سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ محض دلکش آواز میں اپنی صدا کو ادا کرتا ہے۔ علامہ نے خیال کیا کہ اگر یہ شخص اسی سریلی آواز میں اسلام کی حقانیت اور وحدانیت بیان کرتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ وہ زمانہ تھاجب میں ابھی گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اقبال کالج میں قیام کے زمانے میں اکثر اپنے بعض احباب کے ہاں آیا جایا کرتے تھے۔ دراصل کوچہ ہنومان میں مولوی صلاح الدین احمد مرحوم کا مکان تھا جہاں علامہ ان کے بڑے بھائی مولوی ضیاء الدین احمد کی وجہ سے جایا کرتے تھے جو گورنمنٹ کالج کے زمانے میں علامہ کے ہم جماعت تھے۔ یہ مکان لاہور کے گمٹی بازار سے آگے سید مٹھا بازار کو جاتے ہوئے ایک تنگ کوچے (کوچہ ہنومان) کے بائیں طرف واقع تھا میں نے بھی اس مکان کو دیکھا ہے۔ اس کے چاروں طرف ہندوؤں کی آبادی تھی اور صرف یہی ایک مکان تھا جس میں مولوی صلاح الدین احمد کے والد مولوی احمد بخش پروفیسر چیفس کالج رہتے تھے۔ یہاں مولوی صلاح الدین احمد نے اپنے فرزند اکبر وجیہہ الدین احمد کی شادی بھی کی تھی جس کی دعوت ولیمہ میں سر عبدالقادر، پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اور قاضی محمد اسلم وغیرہ بہت سے احباب نے شرکت کی تھی۔ شیخ عبدالقادر اس مکان کے متعلق اپنے تاثرات یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ جس زمانے میں میر غلام بھیک نیرنگ لا کالج میں پڑھتے تھے تو وہ اسی مکان میں رہتے تھے۔ میر صاحب، مولوی ضیاء الدین احمد کے بڑے گہرے دوست تھے۔ اقبال مرحوم اور میں اکثر ان سے ملنے یہاں آیا کرتے تھے۔ ہمارے ایک دوست کدار ناتھ چوپڑا بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ مولوی ضیاء الدین احمد اور میر نیرنگ کو کسرت کا بہت شوق تھا۔ اس کے ایک کونے میں ایک اکھاڑہ بھی انہوں نے بنا رکھا تھا جہاں وہ کشتی لڑتے تھے۔کبھی کبھی اقبال مرحوم کو شوق آتا تو وہ بھی لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں اترتے اور میر صاحب کے ساتھ ان کا دنگل بڑا لطف دیتا تھا۔۔۔۔۔‘‘ افسوس کہ مولانا صلاح الدین احمد کا یہ مکان مارچ1947ء کے فسادات میں جل گیا تھا اور اب وہ موجود نہیں ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد کے ایک بڑے بھائی حافظ فیروز الدین احمد تھے۔ مولوی ضیاء الدین احمد بمبئی پولیس میں ملازم تھے اور حافظ فیروز الدین پنجاب میں پولیس آفیسر تھے۔ میں نے ان کے ہاں امرتسر میں1915ء میں ایک دعوت میں شرکت کی تھی جو انہوں نے حکیم بھورے میاں کے اعزاز میں دی تھی۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اقبال اپنے قیام لاہور کے ابتدائی دنوں میں اور کہاں کہاں آتے جاتے تھے۔ یہ واقعہ محض اتفاق سے یاد رہ گیا ہے۔ ٭٭٭ 10 لاہور میں علامہ کی قیام گاہیں بھاٹی دروازہ:ـ علامہ اقبال گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل کو چھوڑ کر سنہ 1900ء کے فوراً بعد بھاٹی دروازے کے اندر کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہو گئے تھے۔ غالباً بھاٹی دروازے کی ادبی محفلوں نے علامہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہو گا۔ انہوں نے یہاں آ کر کئی مکان بدلے۔ پہلا مکان جس میں وہ قیام پذیر ہوئے، میاں احمد بخش کی ملکیت تھا۔ اس کے ایک طرف مولوی محمد باقر پروفیسر فارسی (مشن کالج) رہا کرتے تھے اور ذرا فاصلے پر آگے جا کر شمس العلماء مولوی محمد حسین (پروفیسر عربی، مشن کالج) کی رہائش تھی۔ اسی بازار میں مولوی حاکم علی پروفیسر اسلامیہ کالج اور مفتی عبداللہ ٹونکی کا قیام بھی تھا۔ موجودہ حالت میں اس مکان کا تعین ہمارے لیے ممکن نہیں۔ البتہ کچھ عرصے کے بعد علامہ جس دوسرے مکان میں آئے اس کے بارے میں حتمی طور پر بعض معلومات پیش کی جا سکتی ہیں۔ بھاٹی دروازے کے اندر جا کر تھوڑے ہی فاصلے پر دائیں طرف یہ مکان موجود ہے۔ آج کل اس کا نمبر417بی ہے۔ مکان کے ساتھ ہی ایک گلی مڑتی ہے جو کوچہ جلوٹیاں کہلاتی ہے۔ کوچے کے موڑ پر ایک کنواں ہے جس کے ساتھ ہی ایک سیڑھی اوپر جاتی ہے۔ اسی کی بالائی منزل پر علامہ اقبال چند مہینے رہے۔ عرف عام میں یہ مکان مولی پٹاں کا مکان کہلاتا ہے۔ اس کا مالک کھنڈو ارائیں تھا جس نے بعد میں اسے رائے بہادر لالہ رام سرنداس کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ تقسیم برعظیم کے بعد یہ متروکہ جائداد میں شامل ہے۔ چند ماہ بعد علامہ اقبال اس مکان کے قریب ہی مکان نمبر597بی میں اٹھ آئے۔ اس مکان کو بھی بعد میں لالہ رام سرنداس نے خرید لیا تھا۔ یہاں علامہ کا قیام انگلستان جانے تک رہا، یعنی 1905ء تک علامہ سے پہلے اس مکان میں مولوی حاکم علی رہا کرتے تھے۔ انہی کے مکان چھوڑنے پر علامہ اس میں آئے تھے۔ مکان کا دروازہ گلی کے اندر ہے۔ اوپر کی منزل میں بازار کے رخ تین کھڑکیاں اور تین بخارچے تھے۔ علامہ اسی مکان میں قیام پذیر تھے جب 1905ء کا زلزلہ آیا تھا مگر وہ بخارچے میں بیٹھے اطمینان سے مطالعہ کرتے رہے، حالانکہ زلزلے کے اثر سے دوسرا بخارچہ ٹوٹ گیا۔ اسی مکان1؎ میں علی بخش ان کی ملازمت میں آیا۔ اس مکان کے قریب ہی علامہ کے ہم وطن شیخ گلاب دین مختار عدالت بھی رہائش پذیر تھے۔ حکیم شہباز الدین کے مکان پر بدستور لطف صحبت 1؎ اس مکان پر میں نے 1952ء میں ’’ بزم اقبال‘‘ لاہور کی معرفت سنگ مر مر کی ایک تختی لگائی تھی جو ہنوز موجود ہے۔ اس پر علامہ کے قیام کی تاریخیں بھی درج ہیں۔ رہتا۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ روزانہ وہاں جاتے تھے۔ مکان کے باہر ایک چبوترا تھا جس پر محفل جمتی تھی۔ حقہ نوشی کے لیے ایک پیسے کا تمباکو منگوایا جاتا اور سب مل کر حظ اٹھاتے۔ علامہ اقبال ان دلچسپ محفلوں کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ چنگڑ محلہ، موہن لال روڈ: 27اگست1905ء کو علامہ اقبال ولایت تشریف لے گئے اور 27جولائی 1908ء کو واپسی ہوئی۔ احباب کے مشورے سے وکالت کرنے کا پروگرام بنا تو موہن لال روڈ پر رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ علی بخش کو بھی بلا لیا گیا۔ اس زمانے میں یہ مکان لالہ چونی لال مونگا کی ملکیت تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس میں بٹ سٹیشنری مارٹ کے نام سے سٹیشنری کی دکان قائم ہوئی۔ آج کل یہ عمارت بدل چکی ہے۔ ستمبر1908ء تک علامہ اقبال کا قیام اسی عمارت میں رہا۔ انارکلی: اکتوبر1908ء کو علامہ موہن لال روڈ(اردو بازار) والے مکان سے انار کلی والے مکان میں اٹھ آئے۔ منشی طاہر الدین کے مشورے سے یہ مکان کرائے پر لیا گیا تھا۔ علامہ سے قبل اس مکان میں سر فضل حسین اور میاں شفیع بھی رہ چکے تھے۔ اب اس مکان کو گرا کر اس کی جگہ نیو مارکیٹ قائم ہو چکی ہے۔ علامہ کے ہاں راقم کی حاضری اسی انارکلی والے مکان سے شروع ہوئی۔ دسمبر1914ء کے آخر میں علامہ کی شادی لدھیانہ میں ہوئی اور میں جنوری 1915ء کی ابتدا میں لدھیانے میں ملازم ہوا۔ مجھے علامہ کی اہلیہ کے عزیزوں کے قریب ہی مکان مل گیا تھا۔ وہ لاہور آتے تھے تو میرا بھی آنا جانا ہو گیا۔ علامہ اقبال مجھے’’ ماسٹر‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اس دور کی اکثر محفلیں میری دیکھی ہوئی ہیں۔ علامہ اس مکان کی بالائی منزل میں بازار والے حصے کی طرف رہتے تھے۔ عقب میں کھڑکیاں تھیں۔ پچھواڑے میں ایک او رمکان بھی تھا جس میں منشی طاہر الدین رہا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے ایک گگ رکھی ہوئی تھی۔ وہ خود ہی اس گگ کو ہائی کورٹ تک لے جاتے تھے۔ 1919ء میں جب امرتسر میں کانگرس کا جلسہ ہوا تو علامہ اقبال اسی مکان سے امرتسر گئے تھے۔ انہی دنوں لاہور میں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کا جلوس نکلا تھا اور انہوں نے انارکلی والے اسی مکان میں آ کر نماز عصر ادا کی تھی۔ کچھ سیاسی گفتگو بھی ہوئی تھی۔ نظم ’’ خضر راہ‘‘ بھی اسی مکان میں لکھی گئی تھی جو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے منعقدہ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ میں پڑھی گئی تھی۔ اقبال نظم پڑھنے کے دوران میں شلوار اور کوٹ پہنے، سر پر لنگی باندھے اور ہاتھ میں چھڑی لیے تھے۔’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بے خودی‘‘ بھی یہیں لکھی گئی تھیں۔’’ پیام مشرق‘‘ کی پہلی اشاعت بھی یہیں سے ہوئی۔ اسی مکان میں آپ کے ہاں مولانا گرامی بھی آیا کرتے تھے۔ میکلوڈ روڈ: 1922ء کے اواخر میں علامہ اقبال انار کلی والے مکان کو چھوڑ کر میکلوڈ روڈ کی کوٹھی میں آ گئے۔ پہلے اکثر ان کا بھاٹی دروازے آنا جانا رہتا تھا مگر یہاں آ کر کم ہو گیا۔ یکم جنوری1923ء کو آپ کو ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ میکلوڈ روڈ کی رہائش کا اس خطاب سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کوٹھی جج سید محمد لطیف مصنف’’ تاریخ لاہور‘‘ کی بیوی کی ملکیت تھی۔ مکان کا کرایہ وصول کرتے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کا کام سید محمود احمد کیا کرتے تھے جو ہائی کورٹ میں ملازمت کرتے تھے اور پھر سبکدوش ہو گئے تھے۔ کوٹھی کا نمبر34تھا۔ اب اسے پاکستان گورنمنٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا ہے۔ کوٹھی کا صرف ایک حصہ حکومت نے لیا ہے اور وہاں اقبال کے متعلق لائبریری قائم کی ہے۔ دوسرا حصہ، جس میں علامہ کی لائبریری، منشی خانہ اور ملازمین کی رہائش تھی، کسی اور کی ملکی تہے۔ اس مکان میں منتقل ہونے کی روداد علامہ اقبال نے اپنے بعض خطوط میں بھی بیان کی ہے۔ مولانا گرامی کو4اکتوبر1922ء کے خط میں لکھتے ہیںـ ’’ میں نے مکان بھی تبدیل کر لیا ہے۔ مرزا جلال الدین صاحب کے قریب ہے۔ ایک کوٹھی ایک سو ستر روپے کرائے پر لے لی ہے۔ آپ تشریف لائیں گے تو آپ کو زیادہ آسائش ملے گی۔ آپ ضرور تشریف لائیے۔۔۔۔۔ مصطفی کمال پاشا کی فتوحات کا مادہ تاریخ یہ ہے:‘‘ شاخ ابراہیم را نم مصطفیؐ سال فتحش اسم اعظم مصطفیؐ 1341ھ اس کے بعد11اکتوبر1922ء کو آپ پھر مولانا گرامی کو لکھتے ہیں: ’’ مصطفی کمال پاشا کی تاریخ فتح پر مصرع ایزاد کر کے آپ نے مادہ تاریخ کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ جب ذرا صحت ہو جائے تو ضرور تشریف لائیے۔ اب تو سردی کا موسم آ رہا ہے۔ میں دو چار روز تک نئے مکان میں منتقل ہو جاؤں گا۔ نواب صاحب (ذوالفقار علی خاں) بھی شملہ سے تشریف لے آئے ہیں۔۔۔۔‘‘ 1؎ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ علامہ دسمبر کے آغاز میں نئے مکان میں آ گئے تھے اور یکم جنوری1923ء کو انہیں ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ مکان کی شکل و صورت بنانے میں علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے بڑا کام کیا تھا۔ وہ اس مکان کو بنانے سنوارنے کے لیے سیالکوٹ سے آ کر کئی مہینے لاہور میں قیام پذیر رہے تھے۔ علامہ کی زندگی کے اہم واقعات اسی مکان کے دوران قیام سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کم و بیش ساڑھے تیرہ برس یہاں رہے اور مئی 1935ء میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوئے۔ میں1924ء سے مستقل طور پر لاہور آ گیا تھا اور اکثر علامہ کی خدمت میں حاضر رہنے کا موقع ملتا تھا۔ اسی مکان میں قیام کے زمانے میں’’ پیام مشرق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن چھپ کر آیا تھا۔ مطبع جامعہ ملیہ نے اسے بڑے اہتمام سے شائع کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد’’ بانگ درا‘‘ کا پہلا ایڈیشن چھپا تھا۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن کے ہنگامے (1927ئ) بھی اسی مکان میں رہائش کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ’’ رنگیلا رسول‘‘ کے خلاف جلسے ہوئے اس وقت بھی علامہ کا قیام یہیں تھا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی گرفتاری اسی کوٹھی کے باہر 1؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی، مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، کراچی 1969ئ، ص230,231 عمل میں آئی تھی۔ مسجد شہید گنج، راؤنڈ ٹیبل کانفرنس اور مدراس لیکچرز کا دور بھی یہی ہے۔ مدراس لیکچرز کی تیاری کے سلسلے میں فراہمی مواد کے ضمن میں بھی راقم کو کچھ خدمت کا موقع ملا اور جنوبی ہند کے اس سفر کی رفاقت بھی نصیب ہوئی۔ لیکچروں کی تیاری کے سلسلے میں علامہ اکثر علمائے دین سے مشورہ کرتے تھے۔ مولانا سید طلحہ مرحوم نے مشورہ دیا تھا کہ امام شاطبی کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کا مطالعہ قیاس کے ضمن میں کیا جائے۔ اسی طرح مولانا اصغر علی روحی کو بھی میں ایک روز علامہ کی کوٹھی پر لے گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ کوٹھی کے درمیانی حصے میں بیٹھے تھے اور حقے کی نے ہاتھ میں تھی۔ مولانا نے بے تکلفی سے حقے کا رخ اپنی طرف کر لیا مگر معلوم ہوا کہ حقہ بجھا ہوا ہے۔ اس پر علامہ نے فرمایا کہ میں تو حقے سے محض باتیں کر رہا تھا۔ یہ کہہ کر علی بخش کو حقہ تازہ کر کے لانے کو کہا اور مولانا روحی اپنے مخصوص رنگ میں گفتگو کرنے لگے۔ بعض حوالوں کے سلسلے میں مولانا نے کہا کہ وہ لوگ بکتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مترادفات سے ایک ہی طرح کے معنی مقصود ہیں۔ نہیں، ہر لفظ الگ الگ اپنا خاص معنی اور مفہوم رکھتا ہے۔ علامہ کے قیام کے دوران میں اس کوٹھی کی مرمت ہوتے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اکثر دیواروں سے پلستر غائب تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، سخت گرمی کا زمانہ تھا۔ پروفیسر ڈکنسن، جو گورنمنٹ کالج لاہور میں ان دنوں تازہ تازہ علی گڑھ سے آئے تھے، علامہ کے ہاں آئے۔ کوٹھی کے درمیانی کمرے میں علامہ کی نشست تھی اور نہایت بے ترتیبی سے کمرے کی دیوار پر ملکہ وکٹوریہ کی رنگین تصویر اور بغیر شیشے کے آویزاں تھی۔ پروفیسر ڈکنسن کی نظر جب تصویر پر پڑی تو مسکرا کر علامہ سے پوچھا کہ آپ کو تصاویر کا ذوق بھی ہے؟ علامہ نے تصویر کو اپنے ہاتھ سے ذرا سی حرکت دی تو پیچھے سے دیوار میں ایک شگاف نمودار ہوا جسے تصویر نے ڈھانپ رکھا تھا اور یہی اس تصویر کا مصرف تھا۔ ڈاکٹر سید محمد حسین ہر روز9-10بجے کے قریب اس کوٹھی میں اپنے ٹانگے میں آتے اور بے تکلفی سے سیدھے زنانے میں چلے جاتے۔ پھر خیر و عافیت معلوم کر کے واپس چلے جاتے۔ علی بخش ان کے ہمراہ رہتا۔ وہ واپس جانے سے پہلے علامہ سے بھی دریافت کرتے ’’ اقبال کیا حال ہے؟‘‘ علامہ اسی طرح ادب سے جواب دیتے ’’ شاہ صاحب خیریت ہے‘‘ ایسا لگتا تھا کہ اس شخص کا اپنا گھر ہے۔ اگر دوا کی ضرورت ہوتی تو علی بخش احمدیہ بلڈنگ میں ان کے مطلب سے لے آتا۔ اپنے بعض احباب سے اقبال کے اسی طرح کے گھریلو تعلقات تھے جن کا عوام کو بالکل علم نہیں تھا۔ ایک روز علامہ درد گردہ میں مبتلا تھے۔ مرحوم بشیر احمد۔۔۔۔ مولوی احمد الدین وکیل کا لڑکا۔۔۔۔۔ مزاج پرسی کے لیے آیا اس وقت اقبال اندرون خانہ بلند آواز سے بیدل کی غزل سکون حاصل کرنے کے خیال سے پڑھ رہے تھے اور بار بار یہ مصرع دہراتے تھے: حرص قانع نیست بیدل ورنہ اسباب جہاں پھر علامہ کو بشیر احمد کی آمد کا علم ہوا تو اسی حالت میں وہ باہر آ گئے۔ منشی طائر الدین نے خیریت دریافت کی تو جواب پھر اسی مصرع سے دیا۔ بشیر مرحوم سے اس طرح ملے جیسے ان کا اپنا لڑکا آ گیا ہو مگر اس کو جسم دبانے کی زحمت نہ دی۔ ایک مرتبہ بیماری سے کچھ افاقہ تھا مگر ہائے ہائے برابر کر رہے تھے۔ منشی طاہر الدین نے دریافت کیا’’ خیر تو ہے؟‘‘ جواب دیا’’ میں ذرا بیماری کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔‘‘ 1924ء میں دیوبند کے علمائے کرام کی آپ نے نہایت شاندار دعوت کی تھی جس میں مولوی احمد علی مرحوم، مولانا سید انور شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ اور ان کے دوسرے رفقائے دیوبند کے علاوہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی اور دیگر حضرات مدعو تھے۔ مسئلہ سود پر گفتگو ہوئی اور نہ معلوم کن کن نکات نے جنم لیا۔ اسی کوٹھی میں قیام کے زمانے میں آپ کابل گئے تھے۔ جب آپ ریلوے سٹیشن جانے کے لیے موٹر میں سوار ہو رہے تھے تو اتفاق سے پوسٹ مین نے آ کر خطوط دیے۔ ان میں سے ایک خط میں کسی نے خاقانی کے اشعار کا مطلب دریافت کیا تھا۔ آپ کو خط کا جواب فوراً دینے کی عادت تھی مگر اس وقت آپ کے لیے جواب دینا ایک مسئلہ بن گیا۔ میں ہمراہ تھا، میں نے فوراً کہا کہ آپ یہ خط پروفیسر محمود شیرانی کے حوالے کر جائیں، وہ اس کا جواب لکھ دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے اسی وقت پروفیسر شیرانی1؎ کے نام چند جملے لکھ کر خط علی بخش کو دے دیا کہ ان تک پہنچا دے۔ اقبال کی مجلس میں ظرافت ہر وقت جلوہ گر رہتی تھی۔ ایک روز میں ان کے ہاں حسب معمول آیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ فلاں کتاب نہیں لائے؟ اور فلاں شخص سے نہیں ملے؟ میں 1؎’’ اقبال نامہ‘‘ میں علامہ اقبال کے یہ جملے محمود شیرانی کی بجائے غلطی سے اختر شیرانی کے نام منسوب ہو گئے ہیں۔ (دیکھئے اقبال نامہ، حصہ دوم، ص351) گرمی کی وجہ سے پوری طرح سنبھلا نہیں تھا۔ میں نے فوراً کہا ’’ دیکھو! جی وقت ملتا ہے مگر فرصت نہیں ملتی‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا اور علی بخش کو آواز دی کہ فوراً مہر اور سالک کو بلا کر لاؤ۔ ماسٹر نے فلسفے کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ساتھ ہی کسی طرح چودھری محمد حسین کو بھی اطلاع دے دو۔ بعد میں احباب میں یہ واقعہ بار بار دہرایا جاتا رہا۔ میں ایک روز صبح صبح پہنچا تو کہنے لگے’’ آؤ آج چودھری شہاب الدین کے ہاں چلیں۔‘‘ ہم موٹر میں چودھری صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ غسل کر کے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے فوراً علامہ سے کہا کہ کوئی ایسی ویسی بات مت کرنا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہماری کیا مجال ہے۔ مگر ساتھ ہی ان کے ننگے بازو پر چٹکی لے کر پوچھا’’ آپ نے یہ صوف کیا بھاؤ لیا ہے؟‘‘ چودھری صاحب بہت سیاہ فام تھے۔ جب علامہ کونسل کے الیکشن میں کامیاب ہو گئے تو حاجی دین محمد کاتب نے ضیافت کی۔ ان کی دعوت پلاؤ بہت مشہور تھی۔ ہم جب کوٹھی سے باہر نکل رہے تھے تو ایک صاحب آگے آ کر ملے اور پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ علامہ نے فوراً جواب دیا ’’ مت پوچھو، آج پلاؤ کی شہادت کا دن ہے۔‘‘ جاوید منزل: علامہ کا آخری قیام ان کی ذاتی کوٹھی ’’ جاوید منزل‘‘ میں تھا جو میو روڈ(موجودہ علامہ اقبال روڈ) پر واقع ہے۔ علامہ نے یہ زمین جاوید اقبال کے نام پر خریدی تھی اور بڑے شوق سے کوٹھی بنوائی تھی۔ آپ اس میں1935ء میں آ گئے تھے۔ ابھی اس میں آئے ہوئے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ والدہ جاوید کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے مرحومہ کی تاریخ وفات ’’ سرمہ ما ذاغ‘‘ سے 1354ھ نکالی تھی جو ان کی لوح مزار پر لکھی ہوئی ہے۔ اس زمانے میں علامہ کی اپنی صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی۔ چنانچہ 21اپریل 1938ء کو اسی مکان میں آپ نے انتقال فرمایا۔ ٭٭٭ 11 اعلیٰ تعلیم کے لیے سفر یورپ جب آپ 1905ء میں لاہور سے اپنے تعلیمی سفر کے لیے یورپ روانہ ہوئے تھے تو پہلے پہل دہلی پہنچے تھے۔ دہلی کے قیام کی تمام تفصیلات میر سید غلام بھیک نیرنگ کے اس مضمون میں ملتی ہیں جو ’’ مخزن‘‘ کے اکتوبر1905ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا (غلام بھیک نیرنگ خود بھی آپ کے ہمراہ تھے)۔ دہلی پہنچنے پر خواجہ حسن نظامی اور محکمہ تعلیم کے منشی نذر محمد نے آپ کا استقبال کیا تھا۔ پھر علامہ نے حضرت نظام الدین اولیا کے آستانے پر حاضری دی اور اپنی نظم ’’ التجائے مسافر‘‘ کو دلکش آواز میں پڑھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے آستانے پر موجود قوالوں نے بہت عمدہ قوالی بھی پیش کی تھی۔ اس کے بعد آپ مرزا غالب کے مزار پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ یہ تمام حالات خواجہ حسن نظامی اور ملا واحدی نے اخباری ’’ وطن‘‘ اور’’ منادی‘‘ میں بھی تحریر کئے ہیں۔ ٭٭٭ 12 عطیہ بیگم ۔ پروفیسر آرنلڈ (ڈاکٹریٹ کی تیاری) علامہ اقبال کے سوانح پر قلم اٹھانے والا کوئی بھی مصنف عطیہ بیگم کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض کھنے والوں نے اس ضمن میں افراط و تفریط سے بھی کام لیا ہے اور واقعات کے پس منظر کو مد نظر نہیں رکھا۔ برعظیم پاک و ہند کی ان دونوں صاحب علم ہستیوں کی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں جو ہماری رہنمائی بوجوہ احسن کرتی ہیں بشرطیکہ سلیم الطبعی سے ان کا تجزیہ کیا جائے۔ علامہ اقبال اور عطیہ بیگم کی پہلی ملاقات یورپ میں یکم اپریل 1907ء کو ہوئی تھی۔ علامہ اقبال ان دنوں پروفیسر آرنلڈ کی زیر ہدایت اپنا مقالہ لکھ رہے تھے اور عطیہ بیگم حال ہی میں ہندوستان سے آئی تھیں۔ چنانچہ عطیہ بیگم اقبال سے اپنی پہلی ملاقات اور سفر یورپ کی بابت لکھتی ہیں: ’’ مجھے لندن مسلم گرلز انسٹیٹیوٹ ڈھاکہ میں استانی مقرر کرنے کے لیے کورنیلیا سہراب جی اور برٹش گورنمنٹ نے ایک وظیفے کا انتظام کیا اور سفر یورپ کے لیے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ مہیا کیا گیا۔ اگرچہ مجھ میں کوئی خاص لیاقت نہیں تھی مگر حکام کو یقین تھا کہ میں ضرور کامیاب رہوں گی۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ لندن میں اقبال سے بھی ملاقات کروں۔ چنانچہ 22 اگست 1906ء کو میں جہاز سے روانہ ہو گئی۔ میں لندن پہنچی تو مس بیک نے، جو علی گڑھ کے پروفیسر بیک کی ہمشیرہ ہیں،21کورن ویل روڈ پر میرے لیے انتظام کیا ہوا تھا جہاں ہندوستان سے آئے ہوئے لڑکے جمع ہوتے تھے۔ یکم اپریل1907ء کو مس بیک نے مجھے مدعو کیا اور بتایا کہ عنقریب تمہاری ملاقات ایک نہایت قابل آدمی اقبال سے ہو گی جو کیمبرج سے تمہیں ملنے کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ تمہیں سید علی بلگرامی کی طرف سے کیمبرج آنے کی دعوت بھی دیں گے۔ سید علی بلگرامی صاحب نے مجھے اپنی کتاب ’’ تمدن عرب‘‘ (ترجمہ از فرانسیسی) کا ایک نسخہ بھی عنایت فرمایا تھا۔ چنانچہ اقبال سے ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں بہت بڑا سکالر پایا۔ وہ عربی، فارسی اور سنسکرت سب زبانیں بخوبی جانتے تھے۔ وہ بہت ظریف الطبع اور قادر الکلام آدمی تھے۔ اقبال نے مجھ سے فرمایا کہ آپ اپنے سفر نامے کی وجہ سے ہندوستان میں اور یہاں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے اپنی آمد کی غرض س غایت بتاتے ہوئے فرمایا کہ میں یہاں آپ سے تعارف کی غرض سے آیا ہوں اور نیز سید علی بلگرامی صاحب کی طرف سے کیمبرج آنے کا دعوت نامہ بھی لایا ہوں۔ آپ ضرور کیمبرج آئیں۔ میں نے دوران گفتگو ان سے پو چھا کہ آپ لندن کس غرض سے آئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے فلسفہ پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ جو کچھ یہاں میسر ہے وہ حاصل کروں گا، پھر جرمنی اور فرانس جاؤں گا کیونکہ وہاں بہت کچھ ہے جو یہاں نہیں ہے۔ اقبال، حافظ کے بہت شائق معلوم ہوتے تھے بلکہ وہ حافظ کے حافظ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے تو حافظ کی سپرٹ مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں۔ میں نے بھی حافظ کو بہت پڑھا تھا لہٰذا گفتگو کے دوران میں جگہ جگہ میں حافظ کے اشعار سناتی رہی۔ اس سفر نامے کا ذکر بھی ہوا جو ’’ تہذیب نسواں‘‘ میں چھپتا تھا اور کہا کہ زہرہ بیگم بہت قابل خاتون ہیں۔ اقبال نے کہا کہ میں ایران میں رہ چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ بابا فغانی کو ضرور پڑھیں۔ ہندوستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فغانی کتنے بڑے پائے کے شاعر ہیں۔‘‘ علامہ اقبال نے بھی اپنی ڈائری میں عطیہ بیگم سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ وہ بھی یکم اپریل1907ء کو عطیہ بیگم سے اپنے مراسم کے آغاز کی تاریخ بتاتے ہیں۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات کو یہ امر ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ علامہ اقبال اور عطیہ بیگم اپنے وقت کے نابغہ روزگار لوگوں میں سے تھے اور وہ عام انسانوں سے بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ ہم جس سطح سے ان کی ذات کو موضوع بحث بناتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی ذہنی سطح ہوتی ہے اور ان بلند پایہ ہستیوں کو بھی ہم اسی سطح پر گھسیٹ لاتے ہیں جو کسی طرح مناسب نہیں۔ عطیہ بیگم قسطنطنیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حسن آفندی ترکی کے دربار سلطانی میں بہت زیادہ اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ عطیہ بیگم کی تعلیم و تربیت ترکی ہی میں ہوئی۔ جب ان کے والد فوت ہو گئے تو یہ خاندان بمبئی میں آ گیا۔ یہاں اس خاندان کے مراسم طیب جی خاندان سے ہو گئے۔ یہ تین بہنیں تھیں جن میں سے عطیہ بیگم سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ذہین تھی۔ وہ ترکی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اردو اور گجراتی زبانیں بہت اچھی طرح جانتی تھی اور ایک اعلیٰ خاندان کی تربیت یافتہ ہونے کی حیثیت سے سوسائٹی میں ایک نمایاں مقام رکھتی تھی۔ اقبال اس کی شائستگی، اعلیٰ ادبی ذوق، ذہانت اور علم و فضل میں اس کے بلند مقام کو سراہتے تھے۔ اور یہ ایسے صفات تھے جو خود اقبال میں بھی بدرجہ اتم موجود تھے اور یہی بات ان دونوں میں قدر مشترک بھی تھی۔ غالباً1946ء میں نواب حسن یار جنگ بہادر (حیدر آباد دکن) کی ملاقات عطیہ بیگم سے ہوئی تو انہوں نے عطیہ بیگم کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حیدر آباد کی بزم اقبال کے سالانہ جلسے میں اقبال سے متعلق اپنی یادداشتیں پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے اقبال سے متعلق اپنی یادداشتیں پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے بادل ناخواستہ اپنی یادداشتوں کو اقبال کے خطوط کی روشنی میں مرتب کیا جو ان کے پاس محفوظ تھے اور اس مقالے کا نام ’’ اقبال‘‘ رکھا۔ عطیہ بیگم اپنے اس مقالے میں لکھتی ہیں کہ 22اگست 1907ء کو ہائیڈل برگ (جرمنی) کا ماحول پر اسرار سا تھا او ریونیورسٹی کے اساتذہ حیران تھے کہ اقبال کو اس خاص کیفیت سے کیسے واپس لایا جائے جس میں وہ گزشتہ رات سے مبتلا ہے۔ اقبال ان دنوں ہائیڈل برگ میں اپنا فلسفے کا تحقیقی مقالہ مکمل کر رہے تھے اور اسی غرض سے ہائیڈل برگ میں وہ مقیم تھے 1؎ اس سے پہلے لندن میں بھی ان سے ملاقات ہو چکی تھی۔ اس کے بعد وہ لندن میں اقبال سے اپنی ملاقات کا حال بیان کرتی ہیں اور کیمبرج میں سید علی بلگرامی کی دعوت کا ذکر بھی کرتی ہیں۔ اس دعوت میں جو تصویر لی گئی تھی، عطیہ بیگم نے وہ بھی اپنی کتاب میں شائع کی ہے۔ اس میں شیخ عبدالقادر اور دیگر حضرات کے علاوہ عطیہ بیگم اور اقبال بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ عطیہ بیگم نے اپنی کتاب میں پروفیسر آرنلڈ کا ذکر بھی کیا ہے جو ہندوستان میں اقبال کے استاد تھے اور جب اقبال یورپ آ گئے تو یہاں بھی انہیں آرنلڈ جیسے مشفق اور مہربان استاد کی رہنمائی 1؎ 1907ئ1908-ء کے دوران میں علامہ لندن سے پیڈل برگ (جرمنی) تشریف لے گئے تھے اور اسی شہر میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنا مقالہ ’’ ڈویلپمنٹ آف میٹا فزکس ان پرشیا‘‘ تحریر فرمایا تھا۔ یہ یونیورسٹی اس زمانے میں بھی علمی خزانوں کے لیے مشہور تھی۔ پروفیسر آرنلڈ چونکہ ہیڈل برگ کے علمی خزانوں سے بخوبی آگاہ تھے لہٰذا انہوں نے علامہ کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا اور ان کو تحقیقی کام کے لیے یہاں قیام کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ ماحول علامہ کے لیے بہت سازگار تھا۔ چنانچہ علامہ نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری میونخ (جرمنی) یونیورسٹی سے حاصل کی جو ہیڈل برگ سے تقریباً چار سو کلو میر کے فاصلے پر واقع ہے۔ علامہ اقبال کے اس قیام کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے اب حکومت جرمنی نے وہاں ایک یادگاری پتھر بھی نصب کرا دیا ہے جس پر علامہ اقبال کا نام اور دیگر تفصیلات درج ہیں۔ میسر رہی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں پروفیسر آرنلڈ کی دعوت پر کیمبرج میں ایک پکنک پارٹی میں شریک ہوئی۔ یہ پارٹی دریا کے کنارے ترتیب دی گئی تھی۔ موت و حیات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کو دعوت دی کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرے۔ پہلے تو اقبال خاموش رہے مگر آخر میں انہوں نے یہ جملہ کہا’’ زندگی دراصل موت کی ابتدا ہے اور موت زندگی کی ابتدا‘‘ اقبال کے اسی فقرے پر بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ آگے چل کر وہ لکھتی ہیں: ’’ میں9جون1907ء کو پروفیسر آرنلڈ کے ہاں کھانے پر مدعو تھی۔ اقبال بھی موجود تھے۔ اس موقع پر پروفیسر آرنلڈ نے ایک اہم عربی مخطوطے کی جرمنی میں موجودگی کا انکشاف کیا اور کہا’’ اقبال! میں تمہیں اس مخطوطے پر کام کرنے کے لیے جرمنی بھیجنا چاہتا ہوں کیونکہ میری نظر میں تم ہی اس مخطوطے پر کام کرنے کے لیے موزوں ترین آدمی ہو۔ مگر اقبال نے کہا کہ میں اپنے استاد کی موجودگی میں ایک مبتدی کی حیثیت رکھتا ہوں اور ان کے سامنے ایسی جسارت نہیں کر سکتا اس پر آرنلڈ بولے کہ اقبال ایک قابل فخر شاگرد ہے جو اس کام کے لیے استاد سے زیادہ موزوں ہے۔ وہ یقینا اپنے استاد کو بھی مات کر جائے گا۔‘‘ اگلے روز اقبال فلسفے سے متعلق عربی اور جرمن زبان کی چند کتابیں ایک جرمن پروفیسر کی معیت میں میرے پاس لائے اور ان میں سے وہ مقامات پڑھ کر سنائے جن میں حافظ کا مذکور تھا۔ اس گفتگو میں ہم سب نے حصہ لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اقبال کو حافظ سے غیر معمولی دلچسپی اور تعلق ہے۔ انہوں نے حافظ کے تصورات کا دوسرے فلسفیوں کے تصورات و نظریات سے تقابل کیا اور یہ بحث تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس بحث و مباحثہ کے اختتام پر اقبال نے کہا کہ اس قسم کی علمی گفتگو سے میرے نظریات کو تقویت ملتی ہے اور وہ زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ 23جون کو میں نے ایک ضیافت کا اہتمام کیا تھا جس میں دوسرے احباب کے علاوہ اقبال بھی شریک ہوئے۔ اس محفل میں ڈاکٹر انصاری نے گیت پیش کئے تھے اور لارڈ سہنا کی لڑکیوں کو مولا اور رومولا نے موسیقی۔ اقبال نے اس موقع پر لطائف سنائے تھے جس سے محفل کا لطف دوبالا ہو گا۔ 27جون کو ایک جرمن خاتون مس شولے نے اپنے گھر میں ہندوستانی کھانے کی دعوت کی۔ دراصل اقبال اسی گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور انہی کے ایماء پر اس ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہاں اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے پر گفتگو کی جس میں حسب مقدور دوسرے لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ 29جون کو لیڈی ایلیٹ نے ایک دعوت کا انتظام کیا۔ اس دعوت میں بھی اقبال موجود تھے اور مس سروجنی داس سے بھی دعوت میں میری ملاقات ہوئی جس نے اقبال کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں تو محض آپ سے ملنے کے لیے یہاں آئی ہوں۔ اس پر اقبال بولے کہ ایسی صورت میں یہاں سے زندہ بچ کر نکل جانا مشکل ہے۔ فلسفے میں میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اقبال نے 13تا 15جولائی 1907ء کے تین دن فلسفے کے مطالعے اور مباحثے کے لئے مخصوص کر دیے تاکہ ہر روز دو گھنٹے اس موضوع پر گفتگو کی جائے۔ چنانچہ پروفیسر ہرشمنٹ، اقبال اور میں مقررہ پروگرام کے مطابق اس موضوع پر بحث مباحثہ کرتے رہے۔ اگلے روز اقبال اپنی کتاب ’’ پولیٹیکل اکانومی‘‘ کا اصل مسودہ مجھے دکھانے کے لیے لائے۔ میں نے اقبال کا پی ایچ ڈی کے مقالے کا مسودہ بھی دیکھا۔ یہ بعد میں جرمن زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہو گیا تھا۔ 23جولائی1907ء کو ایک مقالاتی گفتگو لندن میں ہوئی تھی جس میں کافی تعداد میں ہندوستانیوں نے شرکت کی تھی۔ ایک ہندوستانی طالب علم پرمیشور لال نے بطور خاص ہند سے موصول شدہ خطوط کا ذکر کیا تھا کیونکہ انہی دنوں ہندوستان سے ڈاک آئی تھی جس میں رسالہ ’’ مخزن‘‘ بھی تھا۔ اس میں اقبال کی ایک نظم شائع ہوئی تھی۔ مجھے اقبال کا جرمن زبان میں ایک خط ملا تھا۔ جس کو دیکھ کر پروفیسر آرنلڈ نے خواہش کی کہ یہ مجھے دے دیں کیونکہ اقبال میرا قابل فخر شاگرد ہے۔ چنانچہ میں نے انہیں دے دیا۔ 16اگست1907ء کو پروفیسر آرنلڈ نے مجھے ومبلڈن میں مدعو کیا جہاں انہوں نے اپنے لیے ایک مثالی گھر بنایا ہوا تھا۔ وہاں پروفیسر آرنلڈ کی نو سالہ بچی نے مجھے بہت متاثر کیا جس نے ایک نہایت دل خوش کن سماں پیدا کر دیا۔ ایک جرمن خاتون مس سٹرٹن بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ گفتگو کا موضوع زیادہ تر میری علمی مصروفیات رہیں۔ میں عنقریب ہندوستان واپس جا رہی تھی لیکن پروفیسر آرنلڈ نے مجھے ترغیب دی کہ مجھے اپنا کچھ وقت جرمنی میں اور خاص کر ہائیڈل برگ میں گزارنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اپنے بھائی فیضی کے ساتھ جرمنی جانے کا پروگرام طے کر لیا اور انہیں اس سلسلے میں مطلع بھی کر دیا۔ اس موقع پر پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کے مقالے کے ضمن میں مجھ سے گفتگو کی اور ان کے کچھ مسودات بھی دکھائے۔ اقبال ان دنوں جرمنی میں تھے۔ جب اقبال کو میرے جرمنی جانے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مجھے 6اگست1907ء کو ایک خط لکھا جس میں کتابوں کی ایک فہرست بھی تھی جو انہوں نے میرے مطالعے کے لئے منتخب کی تھیں۔ میں نے اقبال کو لکھا کہ میں19 اگست کو جرمنی روانہ ہو رہی ہوں۔ چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق19اگست کو میں لندن سے روانہ ہوئی اور دوسرے روز شام کے پانچ بجے جرمنی کے شہر ہیڈل برگ پہنچ گئی۔ ہیڈل برگ میں پروفیسر اقبال ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہاں کا ماحول اگرچہ لندن سے بہت مختلف ہے اور اجنبیت کا احساس زیادہ ہوتا ہے مگر میں ہندوستانیوں میں ہونے کی وجہ سے ایک طرح اپنے ہی ماحول میں تھی۔ اقبال نے کہا کہ مس فیضی! آپ نے جو علمی کام اپنے ذمے لے رکھا ہے وہ یہاں مکمل ہو جائے گا۔ ہیڈل برگ یونیورسٹی میں دو نہایت قابل اور خوبصورت عورتیں اقبال کی استاد تھیں جو انہیں مقالے کی تکمیل میں مدد دیتی تھیں۔ 22اگست1907ء کو ایک پارٹی کا انتظام کیا گیا جس میں میں نے بھی حصہ لیا۔ جب ہم لوگ پارٹی میں جانے لگے تو سب شرکا کی قیام گاہوں پر جا کر انہیں ساتھ لیا۔ آخر میں ہم اقبال کے ہاں گئے اور انہیں قدرے مضمحل دیکھا۔ چنانچہ ہم نے انہیں بھی ساتھ لیا اور پھر ہم سب نے اس دعوت میں شرکت کی۔ 23اگست کو زیادہ لمبی سیر کا پروگرام بنا جس کے اختتام پر ہم یونیورسٹی بورڈنگ ہاؤس میں واپس آئے۔ 25اگست باغ فردوس میں جانے کے لیے طے شدہ تاریخ تھی۔ وہاں ایک مسجد بھی تھی جب ہم وہاں پہنچے تو اقبال نے وہاں کے عربی کتبات پڑھے اور ان کی تاریخ بیان کی۔ 28اگست ہم نے میونک میں گزاری جسے اقبال بہت پسند کرتے تھے اور اس کو ’’ عزیز خوشی‘‘ کا نام دیتے تھے۔ اس کے بعد ہم پروفیسر ران کے ہاں گئے جہاں مس ران نے اقبال کے علمی کام کا جائزہ لیا۔ یہ لڑکی غیر معمولی ذہین اور شکل و صورت میں قدرت کا شاہکار تھی۔ میونک میں یہ آخری پروگرام تھا۔ اس کے بعد ہم ہیڈل برگ واپس آ گئے۔ 30اگست1907ء کو ہیڈل برگ میں کشتیوں کی دوڑ تھی جس میں ہم سب شریک ہوئے۔ اقبال اسی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے۔ (کتاب میں دوڑتی ہوئی کشتیوں کی تصاویر بھی دی گئی ہیں)۔ جرمنی میں میرے قیام کی مدت ختم ہو رہی تھی اور میں دوسرے دن ہیڈل برگ کو خیر باد کہنے والی تھی۔ اسی روز ایک باغ میں ایک پارٹی کا اہتمام تھا اور ہم لوگ یہاں جمع ہوئے۔ اس دعوت میں سب نے ایک ایک پکوان تیار کیا۔ اقبال نے بھی ہندوستانی کھانا بنایا۔ آخر میں مجھے الوداع کہا گیا اور اس طرح جرمنی میں میرا یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔ جب میں ہندوستان واپس آ گئی تو اقبال سے ملاقات کا سلسلہ منقطع ہو گی، البتہ ان کے خطوط مجھے ملتے رہے۔ 1908ء میں دوبارہ مجھے یورپ جانا پڑا میرے ساتھ میری بہن رفیعہ سلطان نازلی بیگم اور بہنوئی نواب سیدی احمد خاں بھی تھے۔ اس مرتبہ بھی اقبال ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے میری بہن کے البم میں (9جون1908ء کو) اپنی ایک نظم لکھی۔ (اس نظم کا آخری شعر یہ ہے): شمع بزم اہل ملت را چراغ طور کن یعنی ظلمت خانہ ما را سراپا نور کن اس کے بعد ہم لوگ ہندوستان آ گئے کیونکہ میری والدہ کی بیماری کی اطلاع موصول ہوئی تھی جو بعد میں اسی بیماری میں فوت بھی ہو گئی تھیں۔ جب اقبال واپس ہندوستان آ گئے تو ان سے خط و کتابت جاری نہ رہ سکی مگر وہ برابر اپنی نظمیں مجھے بھیجتے رہے۔‘‘ عطیہ بیگم نے اقبال کو جنجیرہ آنے کی دعوت بھی دی تھی جس کا ذکر13 جنوری1909ء کے ایک خط میں کیا گیا ہے۔ جب عطیہ بیگم کو معلوم ہوا کہ اقبال نے علی گڑھ یونیورسٹی میں فلسفے کا چیئرمین بننے سے معذرت کر دی ہے تو انہوں نے اس موقعے پر بھی اقبال کو ایک خط لکھا تھا۔ اس کے بعد جب اقبال حیدر آباد گئے تھے تو عطیہ بیگم نے انہیں مسٹر اور مسز حیدری کے نام ایک تعارفی خط دیا تھا۔ اپریل 1909ء میں بھی اقبال نے عطیہ بیگم کو ایک خط لکھا تھا۔ جب1931ء میں اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن جا رہے تھے تو بمبئی میں ان کی ملاقات عطیہ بیگم سے بھی ہوئی تھی۔ عطیہ بیگم خود لکھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی قیام گاہ ’’ایوان رفعت‘‘ میں10ستمبر1931ء کو اقبال کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں دیگر احباب بھی مدعو تھے جن سے اقبال کا تعارف کرایا گیا۔ اس موقعے پر اقبال نے ان سے ایک کاغذ طلب کیا جس پر حسب ذیل شعر اپنے قلم سے انہوں نے تحریر فرمایا: بہ طواف کعبہ رفتم، بہ حرم رھم نہ دادند کہ برون در چہ کردی کہ درون خانہ آئی ایک اور شعر بھی انہوں نے لکھا تھا جس پر خصوصیت سے لفظ ’’ پرائیویٹ‘‘ تحریر کیا۔ اس کا دوسرا مصرع یہ ہے: کہیے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں ایک فارسی نظم کے حسب ذیل تین شعر بھی اس موقعے پر ایوان رفعت میں بیٹھ کر انہوں نے لکھے تھے جو اشاعت کی غرض سے کسی رسالے کو بھیجے تھے کیونکہ ان پر’’ براے جریدہ‘‘ تحریر ہے: ترسم کہ تو می رانی زورق بہ سراب اندر زادی پہ حجاب اندر، میری بہ حجاب اندر برکشت و خیاباں پیچ، بر کرہ و بیاباں پیچ برقے کہ بہ خود پیچد، میرد بہ سحاب اندر ایں صوت دلآویزے از زخمہ مطرب نیست مہجور جناں حورے نساند بہ رباب اندر محمد اقبال در دولت کدۂ عطیہ بیگم، بمبئی،10ستمبر1931ء اس سفر میں اقبال بمبئی کے افغان کونسل خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں سے عطیہ بیگم کی مذکورہ دعوت میں شرکت کی غرض سے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ ملوجا جہاز کے ذریعے لندن پہنچے اور کانفرنس میں شرکت فرمائی۔ یہ کانفرنس یکم دسمبر1931ء تک جاری رہی۔ اسی طرح جب1932ء میں اقبال یورپ جا رہے تھے تو اس موقعے پر بھی بمبئی میں عطیہ بیگم کے ہاں وہ سرسری طور پر گئے تھے۔ عطیہ بیگم کا مذکورہ بالا طویل بیان نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عطیہ اور اقبال کی علمی رفاقت اور اقبال کے مقالہ پی ایچ ڈی کی تیاری میں عطیہ بیگم نے جو علمی تعاون کیا اسے قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ اقبال اور عطیہ کی رفاقت دراصل دو صاحب علم ہستیوں کی علمی رفاقت تھی۔ ان کے تبحر علمی نے ہی انہیں ایک دوسرے کے قریب کیا تھا اور یہی علمی افادہ و استفادہ ان کے درمیان قدر مشترک تھی۔ علامہ اقبال کے علاوہ جس ہستی کو عطیہ بیگم کی علمیت نے متاثر کیا وہ مولانا شبلی نعمانی تھے۔ ان کے درمیان جو خط و کتابت اور مراسلت ہوئی وہ چھپ چکی ہے۔ مولانا کے خطوط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عطیہ بیگم کے بہنوئی یعنی نواب جنجیرہ یا ان کی بہن یعنی بیگم جنجیرہ سے ندوۃ العلما کا سنگ بنیاد رکھوانا چاہتے تھے۔ اس تمام کیفیت سے یہی واضح ہوتا ہے اور یہی میرے نزدیک درست بھی ہے کہ عطیہ بیگم ایک غیر معمولی ذہین اور صاحب علم خاتون تھیں اور ان کی اسی ذہانت و علمیت نے اپنے وقت کی ان دونوں صاحب علم اور نابغہ روزگار ہستیوں۔۔۔۔ علامہ اقبال اور مولانا شبلی۔۔۔۔ کو متاثر کیا۔ا ن کے ان علمی روابط کو صرف علمی نقطہ نظر سے پرکھنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں کسی غلط فہمی میں مبتلا ہون یا دور رس نتائج اخذ کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ آخر میں ایک واقعہ اور بھی یاد پڑتا ہے۔ 1929ء میں جب علامہ مدراس لیکچرز کے سلسلے میں بمبئی پہنچے تھے اور راقم الحروف بھی آپ کے ہمراہ تھا تو بمبئی میں انہوں نے عطیہ بیگم سے بھی ملنے کی خواہش کی تھی۔ وہ اس زمانے میں خاصی عمر رسیدہ ہو چکی تھیں۔ مگر وقت چونکہ کم تھا لہٰذا ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ پاکستان بننے کے بعد عطیہ بیگم ہجرت کر کے پاکستان آ گئی تھیں اور کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ ان کی وفات سے قبل، جب وہ ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ علامہ کے قدیم خدمت گار علی بخش نے بھی ان سے ملاقات کی تھی۔ بالآخر اسی ہسپتال میں19اپریل1956ء کو جمعہ کے روز اس نابغہ روزگار خاتون نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔ پروفیسر آرنلڈ: میں نے اپنے اس مضمون کے عنوان میں پروفیسر آرنلڈ کا نام بھی شامل کیا ہے۔ پروفیسر آرنلڈ وہ شخصیت تھی جنہوں نے شروع سے اقبال کی علمی سرپرستی کی تھی۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے آئے تھے اور اقبال بحیثیت ایک طالب علم کے اس کالج میں زیر تعلیم تھے۔ پھر جب اقبال حصول تعلیم کی غرض سے یورپ گئے اور آرنلڈ بھی انگلستان چلے گئے تو انہوں نے قدم قدم پر اقبال کی رہنمائی کی اور خاص کر ڈاکٹریٹ کی تیاری کے سلسلے میں تو انہوں نے مدد کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ چنانچہ جب اقبال کا مقالہ تیار ہو گیا اور میونک یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی تو لندن کے ایک اشاعتی ادارے نے بخوشی اسے شائع کر دیا۔ اقبال نے اظہار تشکر کے طور پر اپنے اس مقالے کو پروفیسر آرنلڈ کے نام معنون کیا اور اس کے انتساب میں لکھا: ’’ میرے پیارے مسٹر آرنلڈ! یہ چھوٹی سی کتاب فلسفے کی اس تعلیم کا نتیجہ ہے جو میں آپ سے گذشتہ دس برسوں سے حاصل کرتا رہا۔ بطور اظہار تشکر میں اپنی اس عاجزانہ کوشش کو آپ کے نام معنون کرتا ہوں۔ آپ نے میرے ساتھ ہمیشہ نہایت فراخ دلی کا سلوک کیا ہے۔ امید ہے کہ میری اس پیشکش کو بھی آپ اسی جذبے سے قبول فرمائیں گے۔ آپ کا پیارا شاگرد، محمد اقبال‘‘ پروفیسر آرنلڈ سے اقبال کی محبت اور عقیدت کا اظہار اس خط سے بخوبی ہوتا ہے جو انہوں نے پروفیسر موصوف کی وفات پر ان کی اہلیہ اور بیٹی کو لاہور سے 16جولائی 1930ء کو ارسال فرمایا۔ چنانچہ لکھتے ہیں (ترجمہ): ’’ میری پیاری لیڈی آرنلڈ! میرے لیے نا ممکن ہے کہ میں آپ سے اور نینسی (دختر پروفیسر آرنلڈ) سے اس سانحہ جانکاہ کا اظہار کر سکوں جو ہم پر گزر گیا ہے۔۔۔ اور وہ ہے ٹامس آرنلڈ کی وفات کی خبر جو ہندوستان میں پہنچی ہے۔ آپ کو علم ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان سے واقف تھے اور ان کے تمام شاگرد ان سے محبت کرتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ الفاظ جو اظہار غم میں استعمال کئے جائیں، اگرچہ بہت تھوڑے سے افاقے کا سبب بنتے ہیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے غم میں انگلستان، ہندوستان اور ان تمام ممالک کے لوگ برابر کے شریک ہیں جو موصوف کی تصانیف سے واقفیت رکھتے ہیں۔ دراصل ان کی وفات برٹش اور اسلامی علمی حلقوں کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ ان کے تخیلات علمی ہم سب کا سرمایہ ہیں اور انہوں نے اخیر دم تک علم و ادب کی خدمت کی ہے۔ میرے لیے ان کی موت کا سانحہ ایک ذاتی حادثہ ہے کیونکہ میری روح کو شاہراہ علم پر ڈالنے والے وہی تھے۔ بظاہر آج وہ شمع مدھم پڑ گئی ہے مگر میرا پختہ عقیدہ ہے کہ محبت اور خدمت کی جو مثال انہوں نے قائم کی اور جس شمع نے میری زندگی کو منور کیا وہ ہمیشہ روشن رہے گی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مرحوم کی روح کو ہمیشہ امن و سکون میں رکھے اور آپ کو اور نینسی کو زیادہ سے زیادہ صبر عطا فرمائے تاکہ آپ اس سانحے کو صبر اور سکون سے برداشت کر سکیں۔1؎ آپ کا خیرہ خواہ محمد اقبال‘‘ پروفیسر آرنلڈ نے 1928ء میں ایک مقالہ ’’ مذہب اسلام‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ اس میں علامہ اقبال کی اسلامی خدمات اور احیائے ملی کے سلسلے میں ان کی شاعری نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، اس کی بابت وہ لکھتے ہیںـ: ’’ ہندوستان میں جدید مذہبی تحریک سر محمد اقبال کی شاعری کی بدولت نہایت شان سے نمودار ہوئی ہے۔ اقبال فلسفے کے ایک سنجیدہ اور مستعد طالب علم ہیں۔ نطشے اور برگساں کے افکار کو اقبال نے ترقی دے کر اپنے نظریات کی بنیاد رکھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقبال کا علم و فضل اور ان کا وسیع مطالعہ و تحقیق محض دوسروں کی آواز بازگشت ہے۔ یہاں ہمیں ان کے فلسفیانہ افکار سے سروکار نہیں بلکہ صرف مذہب اسلام کی طرف ان کا رحجان زیر بحث ہے۔ چنانچہ اپنی شاعری میں وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور وہ ان کی دوسری سب باتوں سے زیادہ ان کے پیغمبر عمل ہونے کی حیثیت سے ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ 1. Letters and Writings of Iqbal, ed. by iqbal Academy Karachi. pp. 115-116 آپؐ کی تعلیمات ایک مثالی معاشرے کی بنیاد بنس کتی ہیں اور خودی کی قوت اور اس کے ارتقا سے ہی عالم اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو گی۔ جتنا کہ ایک مسلمان اپنے آپ کو ایک مکمل و کامل انسان بنانے میں کامیاب ہو گا اتنا ہی وہ دنیا میں اسلام کی سربلندی اور ترقی کا باعث بنے گا۔ عمل کی عظمت کا جو سبق سیرت رسولؐ سے حاصل ہوتا ہے اس میں بے عملی یا سکون کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو اسلامی تصوف کا ایک مخصوص پہلو ہے اور جس کے اقبال شدید مخالف ہیں۔ ہندوستان کے نوجوان مسلم طبقے پر اقبال کا بہت زیادہ اثر ہے مگر جس فلسفیانہ شکل میں ان کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں، طبعاً یہ اثر کسی منظم مذہبی تحریک کی بنیاد نہیں بن سکا اور نہ ہی۔۔۔۔ کسی حد تک ۔۔۔۔ مصنف کا یہ مقصد ہے۔‘‘ 1؎ جب آرنلڈ1903ء میں لاہور سے ریٹائر ہو کر انگلستان چلے گئے تو اقبال نے ان کی یاد میں ایک نظم ’’ نالہ فراق‘‘ کے نام سے تحریر کی جو’’ بانگ درا‘‘ میں چھپ چکی ہے۔ اس کا پہلا اور آخری بند حسب ذیل ہے: جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں ظلمت شب سے ضیاے روز فرقت کم نہیں 1؎ دیکھئے ٹامس آرنلڈ کی کتابThe Faith of Islam ص76-77 نیز اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکیڈمی، 955ع، ص113 تاز آغوش و داعش داغ حسرت چیدہ است ہمچو شمع کشتہ در چشم نگہ خوابیدہ است دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا ٭٭٭ 13 یورپ سے واپسی 27جولائی1908ء کو علامہ اقبال یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آئے تو ان کا شان دار استقبال کیا گیا۔ ان دنوں گرمیوں کی وجہ سے تمام ادارے بند تھے۔ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے لڑکے مسٹر اعجاز لکھتے ہیں: ’’ انگلستان سے واپس آنے کے بعد انہوں نے لاہور میں بیرسٹری شروع کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے تک وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اعلیٰ پروفیسر بھی رہے۔ کالج کی ملازمت کی وجہ سے وہ صبح کے وقت کچہری نہیں جا سکتے تھے۔ گورنمنٹ نے خاص طور پر ہائی کورٹ سے یہ انتظام کرایا تھا کہ ان کے تمام مقدمات دن کے پچھلے حصے میں پیش ہوا کریں۔ چنانچہ قریباً ڈیڑھ سال تک اس پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ اس زمانے میں انڈین ایجوکیشنل سروس میں پنجاب میں غالباً کوئی ہندوستانی نہ تھا اور یہ سروس زیادہ تر انگریزوں کے لیے مخصوص تھی۔ گورنمنٹ نے انہیں اس سروس کی پیشکش بھی کی لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور بیرسٹری کے آزاد پیشے کو پسند کیا۔‘‘ ہائی کورٹ میں ایک قانون داں کی حیثیت سے علامہ کا نام درج ہوا اور اس طرح آپ کے نام کی جو فائل تیار ہوئی وہ اب تک ہائی کورٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس فائل کے مندرجات کی تفصیل آئندہ مضمون میں ملاحظہ فرمائیے۔ یورپ سے واپسی پر علامہ نے 1909ء میں’’ ہندوستان ریویو‘‘ الہ آباد کے دو شماروں میں انگریزی زبان میں ایک مققانہ مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان یہ تھا: ’’ Islam as a Moral and Political Ideal‘‘ یہ مقالہ دو قسطوں میں شائع ہوا تھا مگر عام طور پر لوگوں کو اس مقالے کا علم نہیں ہے۔ اسی رسالے میں1911ء میں بھی آپ نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان یہ تھا: ’’ Political Thought in Islam‘‘ غرض یورپ سے آنے کے بعد آپ نے اپنی خالص اسلامی تحقیقات کا دائرہ وسیع تر کر دیا اور پھر زندگی کے آخری سانسوں تک اسلام کی برابر خدمت کرتے رہے۔ ٭٭٭ 14 لاہور ہائی کورٹ میں علامہ کی فائل جب لاہور ہائی کورٹ میں علامہ اقبال نے بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی تو آپ کا نام باقاعدہ رجسٹر ہوا۔ آپ کی ذاتی فائل کا نمبر284-A-XIII تھا۔ یہ فائل حسن اتفاق سے ہائی کورٹ کے رجسٹرار میاں محمد خلیل صاحب کے ہاتھ لگ گئی اور انہوں نے اسے 1947ء کے فسادات میں ضائع ہونے سے بچا لیا۔ اس فائل میں حضرت علامہ کی تاریخ وفات 21اپریل 1938ء درج ہے۔ نیز مندرجہ ذیل امور کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ 1اقبال نے 1898ء میں لاہور لا سکول کے تمام لیکچر سنے اور کورس مکمل کیا۔ 2انہوں نے 1898ء ہی میں ابتدائی امتحان بھی دیا تھا۔ 3مگر وہ علم قانون (Jurisprudence) کے پرچے میں فیل ہو گئے تھے۔ 4آپ نے لیکچروں میں شمولیت کے بغیر جون1900ء میں ایک مرتبہ پھر آئندہ دسمبر کے امتحان میں شمولیت کی اجازت طلب کی مگر مسٹر جسٹس چیٹر جی نے قواعد کے تحت ان کی یہ درخواست نا منظور کر دی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ آپ بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے لیے 1905ء میں یورپ تشریف لے گئے اور بالآخر1908ء میں یہ امتحان پاس کر کے وطن واپس آئے۔ اکتوبر1908ء میں ایڈووکیٹ کی حیثیت سے ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ مئی 1909ء میں آپ گورنمنٹ کالج میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ مگر بالآخر یہ عارضی اسامی بھی آپ کو چھوڑنی پڑی، کیونکہ چیف کورٹ کے جج صاحبان اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ آپ کے مقدمات ہمیشہ کے لیے کالج کے لیکچروں کے بعد لیے جاتے رہیں۔ ٭٭٭ 15 انجمن حمایت اسلام اور علامہ اقبال یہ ادارہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے نام سے چند اہل دل مسلمانوں نے 1884ء میں قائم کیا تھا۔ سید محمد لطیف نے بھی اپنی ’’ تاریخ لاہور‘‘ میں اس انجمن کی ابتدا کا ذکر کیا ہے۔ اس انجمن سے علامہ اقبال کا تعلق 1899ء سے قائم ہوا جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کا امتحان پاس کر چکے تھے۔ چنانچہ 1900ء میں آپ نے ایک نظم بعنوان ’’ نالہ یتیم‘‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی۔ اس کے بعد آپ کا تعلق انجمن ہذا سے ایک طرح اخیر تک رہا۔ میں نے ان صفحات میں مختلف عنوانوں کے تحت اس ضمن میں لکھا ہے۔ ابتدا میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ عام طور پر اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ میں ہوا کرتا تھا جس میں عموماً اقبال اپنی کوئی تازہ نظم پڑھا کرتے تھے۔ ان سالانہ جلسوں میں ڈاکٹر مولوی نذیر احمد دہلوی، سید سلیمان شاہ پھلواری، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور دیگر مشاہیر بھی اکثر حصہ لیا کرتے تھے اور لاہور کے لوگ ان کے خیالات اور پند و نصائح سے مستفید ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد مرحوم ہم سب بچوں کو وعظ سنانے کے لیے لے جایا کرتے تھے۔1910ء کے بعد یہ جلسے اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں منعقد ہونا شروع ہو گئے تھے۔ علامہ اقبال نے مندرجہ ذیل نظمیں انجمن کے حسب ذیل جلسوں میں پڑھی تھیں: 1۔ 1900ء میں آپ نے اپنی نظم ’’ نالہ یتیم‘‘ پڑھی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ 2۔ 1901ء میں آپ نے ’’ یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘‘ نظم پڑھی تھی۔ 3۔ 1902ء میں ’’ دین و دنیا‘‘ اور ’’ اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘ دو نظمیں پڑھی تھیں۔ 4۔1903ء میں نظم ’’ ابر گوہر بار‘‘ (فریاد امت) پڑھی۔ اس جلسے کی صدارت خان غلام محمد خان مشیر مال کشمیر و جموں نے کی تھی۔ اس موقع پر خواجہ عبدالصمد ککرو کشمیر سے ایک نقرئی تمغہ بنوا کر لائے تھے تاکہ اقبال کو ان کی نظم کے صلے میں پہنائیں۔ میں نے خود بھی خواجہ صاحب کو جلسے میں اقبال کی یہ عزت افزائی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال کو وہ تمغہ پہنا دیا تھا۔ 5۔ 1904ء میں علامہ نے نظم ’’ تصویر درد‘‘ پڑھی تھی۔ اس جلسے میں بڑے بڑے علما اور روسا بیٹھے ہوئے تھے۔ جب مولانا الطاف حسین حالی کی باری آئی تھی تو ان کی آواز ساتھ نہ دے سکی تھی۔ چنانچہ ان کی نظم بھی علامہ اقبال نے پڑھی تھی اور اس نظم سے قبل آپ نے مندرجہ ذیل رباعی فی البدیہ پڑھی تھی: مشہور زمانے میں ہے نام حالی معمور مئے حق سے ہے جام حالی میں کشمور شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلام حالی 1903ء میں یا1904ء میں علامہ نے انجمن کے جلسے میں جب یہ دیکھا کہ انجمن کی دو پارٹیاں۔۔۔ باغبان پورہ اور مزنگ۔۔۔۔ ایک دوسرے پر طعن کرتی ہیں تو آپ نے بطور طنزیہ کہا تھا: ’’دو عملی میں ٹھہرا ہے آشیاں ہمارا‘‘ اس کے بعد علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے اور وہاں سے 1908ء میں واپس آئے۔ اس عرصے میں اسلامیہ کالج کی عمارت بھی تیار ہو گئی تھی اور ساتھ ہی اس کا ہوسٹل بھی، جسے عام طور پر رواز ہوسٹل کہتے ہیں، اس کی عمارت بھی زیر تعمیر تھی۔ چنانچہ1910ء کے بعد انجمن کا سالانہ اجلاس اسی رواز ہوسٹل میں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ یورپ سے واپسی پر1911ء میں آپ نے اپنی نظم ’’ شکوہ‘‘ رواز ہوسٹل ہی میں پڑھی تھی۔ چونکہ یہ ہوسٹل ابھی زیر تعمیر تھا اس لیے اس جلسے کا انتظام پچھلے صحن میں کیا گیا تھا۔ میں بھی اس جلسے میں شریک تھا۔ آپ معمولی لباس میں ملبوس، سر پر ترکی ٹوپی پہنے ہوئے اپنے والد کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ یہ نظم ابھی طبع نہیں ہوئی تھی۔ سر عبدالقادر نے بھی اس کیف کا حال، جو جلسے پر چھایا ہوا تھا، لکھا ہے۔ اس موقع پر بے حد ہجوم تھا۔ جب اقبال ڈائس پر آئے تو چاروں طرف سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ باوجود سامعین کے اصرار کے آپ نے ترنم سے پڑھنے سے اظہار معذرت کر دیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ نظم کا عنوان ’’ شکوہ‘‘ ہے۔ آپ نے نظم کا پہلا بند پڑھا: کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے۔ خاکم بہ دہن۔۔۔ ہے مجھ کو ہزاروں کے مجمع میں ایسا سناٹا چھا گیا کہ کیا مجال ہے کسی کی سانس کی آواز تک سنائی دے۔ غرضکہ جوں جوں نظم آگے بڑھتی گئی، ہر شعر کے بعد تالیوں اور نعروں کا طوفان برپا ہوتا گیا۔ اس سے اگلے سال 1912ء میں آپ نے ’’ جواب شکوہ‘‘ موچی دروازے کے باہر باغ میں جنگ بلقان کے موقع پر پڑھی تھی۔ اس جلسے کی صدارت چودھری شہاب الدین نے کی تھی۔ جب آپ نے اس نظم کا یہ شعر پڑھا: آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں تو چونکہ چودھری صاحب سیاہ فام تھے اس لیے آپ نے یہ شعر پڑھتے ہوئے ان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا۔ اس کے بعد آپ نے یہ شعر پڑھا: رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی غالباً1912ء ہی کا سال تھا جب علامہ نے اپنی نظم’’ شمع و شاعر‘‘ پڑھی تھی۔ اس جلسے کی صدارت فقیر سید افتخار الدین نے کی تھی۔ جب علامہ نظم پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو اس وقت گوجرانوالہ کے حافظ جھنڈا اپنی پنجابی نظم پڑھ رہے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں بھی اس جلسے میں موجود تھے مگر وہ حافظ جھنڈا کی پنجابی نظم کو اچھی طرح نہیں سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں، جو مولانا کے پاس ہی بیٹھے تھے،ا ردو میں اس پنجابی نظم کے مطالب کی وضاحت کرتے جا رہے تھے۔ اس اثنا میں علامہ اپنی نظم پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور انہوں نے نظم کا آغاز ایک فارسی قطعے سے کیا جس کا پہلا شعر یہ ہے: دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ چونکہ اس زمانے میں لاؤڈ سپیکر رائج نہیں ہوئے تھے لہٰذا مجمع میں سے کسی شخص نے، جو دور کھڑا تھا اور پشاور سے آیا تھا، علامہ سے فارسی اشعار میں درخواست کی کہ بلند آواز میں پڑھیں۔ اس پر علامہ نے نظم کا پڑھنا بند کر دیا اور اس آدمی کو شعر کی زبان میں ہی جواب دیا کہ اگر تمہارے کان سنتے ہیں تو سنو، دوسروں کو بد مزہ مت کرو۔ اس پر مجمع میں کچھ شور ہوا مگر پھر سناٹا چھا گیا اور علامہ نے نظم پھر شروع کی۔ اس نظم کے آخری حصے کے دوران جلسے کی صدارت مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا سلطان احمد نے کی تھی جس کو دیکھ کر علامہ نے یہ شعر فی البدیہہ پڑھا تھا: درمیان انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ با سلطان باشی، گاہ باشی با فقیر 1916ء کے اجلاس میں علامہ نے نظم’’ بلال‘‘ پڑھی تھی۔ اس جلسے کی صدارت علامہ کے دوست نواب سر ذوالفقار علی خاں کے سپرد تھی۔ اس سے پیشتر22جولائی1913ء کو حیدر آباد دکن کے وزیراعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد جب لاہور میں آئے تھے تو انجمن کا ایک وفد علامہ کی سرکردگی میں ان سے ملا تھا اور انہوں نے ایک ہزار روپیہ انجمن کو عطیہ دیا تھا۔ انجمن کی خواہش تھی کہ کسی طرح نظام دکن کو انجمن کے کسی جلسے کی صدارت پر آمادہ کیا جا سکے مگر وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے نہ آ سکے۔ اسی طرح علامہ نے نواب صادق والی بہاولپور کو بھی انجمن کے ایک جلسے کی صدارت کی دعوت دی تھی جو انہوں نے منظور کر لی تھی۔ چنانچہ انجمن کے چھیالیسویں جلسے کی صدارت نواب بہاولپور نے کی تھی جو دسمبر1930ء کو ہوا تھا۔ علامہ نے ایک ایڈریس بھی پیش کیا تھا اس جلسے میں نواب صاحب خیر پور (سندھ) اور نواب صاحب ڈھاکہ بھی موجود تھے۔ 1920ء کے سالانہ جلسے کی صدارت نواب حمید اللہ خاں نے کی تھی۔ اس جلسے میں پنجاب کے گورنر سر ہربرٹ امرسن موجود تھے جنہوں نے ایک تقریر بھی کی تھی۔ علامہ علالت کی وجہ سے اس جلسے میں شریک نہ ہو سکے، تاہم گورنر کی اس تقریر پر انہوں نے ایک چٹھی میں تبصرہ کیا تھا جس میں قادیانیت اور پنجاب کے زمینداروں کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔ علامہ کی یہ چٹھی اخبار میں بھی شائع ہوئی اور بعد میں ایک الگ رسالے کی شکل میں بھی طبع ہوئی۔ صدر جلسہ نواب حمید اللہ خاں نے دس ہزار روپے انجمن کو بطور عطیہ دیے تھے۔ غرضکہ علامہ اقبال نے شروع سے ہی انجمن کے لیے اپنی خدمات وقف کر دی تھیں۔ وہ نہ صرف اس کے جلسوں میں باقاعدگی سے نظمیں پڑھتے تھے بلکہ انہوں نے بعض ایسے بلند پایہ لیکچر بھی دیے جو ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ آپ نے انجمن کی جنرل کونسل میں ایک ممبر کی حیثیت سے اکثر شمولیت فرمائی اور اس کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہ۔ چنانچہ 1934ء سے 1937ء تک آپ نے صدر انجمن کی حیثیت سے فرائض انجام دیے مگر بالآخر بوجہ علالت 1937ء میں اس عہدے سے استعفا دے دیا۔ میں نے مختصر طور پر انجمن سے علامہ کی وابستگی کی داستان بیان کی ہے۔ اگر کوئی صاحب اس موضوع پر کام کرنا چاہیں تو انجمن کے ریکارڈ کی مدد سے اس موضوع پر ایک طویل مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انجمن حمایت اسلام ہی کی سٹیج سے علامہ کی شہرت و مقبولیت کا آغاز ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ نے انجمن کے لیے بے مثال کام کیا اور ان کی ذات سے اس ادارے کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے۔ انجمن حمایت اسلام کا چوبیسواں سالانہ جلسہ 11اپریل 1909ء کو ایسٹر کی تعطیلات میں کالج گراؤنڈ میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کی صدارت شیخ عبدالحق وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی ملتان کر رہے تھے۔ صاحب صدر نے سب سے پہلے انگریزی میں علامہ کا تعارف کرایا اور اس کے بعد علامہ سے درخواست کی کہ وہ اپنی تقریر شروع کریں۔ یہ لیکچر علامہ نے انگریزی زبان میں دیا تھا جو بعد میں لاہور کے انگریزی روزنامے ’’ آبزور‘‘ میں شائع ہوا۔ پڑھے لکھے سامعین تو براہ راست علامہ کے لیکچر سے محظوظ ہوئے مگر جو حضرات انگریزی زبان سے واقف نہیں تھے ان کے لیے میاں فضل حسین بیرسٹر ایٹ لا نے لیکچر کا خلاصہ اردو زبان میں پیش کیا جو بہت پسند کیا گیا اور سامعین نے دل کھول کر داد دی۔ اس کارروائی کے بعد یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔1؎ 1؎ روداد چوبیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام لاہور (بطور رسالہ) بابت شعبان المعظم 1327ھ، مطابق ستمبر1909ئ، ص32 16۔ خواجہ عبدالصمد ککڑو خواجہ عبدالصمد ککڑو کو میں نے عام طور پر انجمن حمایت اسلام کے ان جلسوں میں دیکھا تھا جو اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں منعقد ہوتے تھے۔ چھوٹا قد، جسم گول مٹول، کشمیری طرز کا لباس اور اس پر چوغہ اور دستار پہنچتے تھے۔ باریش تھے اور عام طور پر ہاتھ میں تسبیح رکھتے تھے جو ان کا امتیازی نشان تھا۔ وہ بارہ مولا (کشمیر) کے رئیسوں میں شمار ہوتے تھے۔ بارہ مولا کشمیر کا وہ قصبہ ہے جو راولپنڈی سے کشمیر جاتے ہوئے سری نگر کے قریب واقع ہے۔ یہ نہایت حسین اور سرسبز علاقہ ہے۔ خواجہ عبدالصمد انجمن کے جلسوں میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کے والد خواجہ عزیز ککڑو بھی اپنے زمانے میں کشمیری مسلمانوں میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ وہ سلسلہ نقشبندیہ سے متعلق تھے، جیسا کہ کشمیری مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس سلسلے سے وابستہ تھا۔ خواجہ عزیز ککڑو گذشتہ صدی میں لاہور تشریف لائے تھے اور حضرت شاہ محمد غوث کی درگاہ میں قیام کیا تھا کیونکہ حضرت شاہ محمد غوث بھی سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ تھے۔ آپ نے یہیں انتقال فرمایا اور حضرت شاہ محمد غوث کی درگاہ میں دفن ہوئے۔ اس سے پہلے وہ اس درگاہ کی تعمیر میں عملی طور پر حصے لے چکے تھے۔ خواجہ عبدالصمد ککڑو خود بھی ایک عالم دین تھے اور انہوں نے سری نگر کی انجمن نصرت اسلام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ انجمن 1905ء میں سری نگر میں قائم ہوئی تھی۔ وہ انجمن نصرت اسلام کے جلسوں میں اپنی نظمیں بھی سناتے اور افتتاحی تقاریر بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی تقریر بڑی عالمانہ ہوتی تھی۔ ان کی وہ تقریر، جو انہوں نے 1910ء کے جلسہ انجمن میں کی تھی، بہت مشہور ہے۔ اس کی ابتدا ان اشعار سے ہوئی تھی: افتتاح الکلام بسم اللہ الذی لیس فی الوجود سواہ قل ھو اللہ واحد احد الذی لم یلد و لم یولد بعد حمد خداست نعت رسول کہ ازوئیم مقبل و مقبول اسی طرح کی ایک اور تقریر بھی انہوں نے کی تھی جس کی ابتدا میں یہ شعر پڑھا تھا: پھر بہار آئی چمن میں، زخم گل آلے ہوئے پھر مرے داغ جگر آتش کے پرکالے ہوئے تقریر کا خاتمہ اس شعر پر کیا تھا: مصطفیؐ ماہ و صحابہ انجم رضی اللہ تعالیٰ عنھم وہ فارسی میں مقبل اور اردو میں صمد تخلص کرتے تھے۔ خواجہ عبدالصمد مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے بھی سرگرم رکن تھے۔ وہ اس کے جلسوں میں ہمیشہ شرکت فرماتے تھے اور کشمیری مسلمانوں کے حالات سے دوسرے مسلمانوں کو باخبر رکھتے تھے۔ وہ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کشمیر کی سیاست میں اسلامی تحریک کا آغاز کیا تھا اور اپنا نصب العین اشاعت اسلام ٹھہرایا تھا۔ بارہ مولا کی جامع مسجد بھی انہوں نے تعمیر کرائی تھی او رجامع مسجد سری نگر کی مرمت کے موقعے پر بھی کسی سے پیچھے نہ رہے تھے۔ علاوہ ازیں بارہ مولا میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی تھی۔ سری نگر میں ہائی سکول کے بانی بھی آپ ہی تھے۔ جب تک زندہ رہے۔ مسلمانان قلمرو جموں کی امداد کرتے رہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں جب علامہ اقبال اپنی نظم سناتے تو خواجہ عبدالصمد کھڑے ہو کر اس طرح مجمع کو مخاطب کرتے ’’ اقبال میرا ہے۔۔۔۔ مجھے چندہ دو۔ میں اس کی طرف سے انجمن کو دوں گا‘‘ یہ حقیقت ہے کہ ان کے اس طرح کے طرز عمل سے خوب چندہ جمع ہو جاتا تھا۔ ابتدا میں حضرت مولانا سید انور شاہ جیسے مشہور عالم دین بھی مدرسہ فیض عام بارہ مولا میں پڑھاتے رہے تھے۔ بعد میں وہ دیوبند تشریف لے گئے۔ غالباً اقبال کے شیدائی ہونے کی ایک خوجہ خواجہ عبدالصمد ککڑو کی وہ تعلیم و تربیت تھی جس میں سید انور شاہ جیسے بزرگوں کا بھی حصہ تھا اور سید انور شاہ سے ان کی وابستگی کی بدولت علامہ اقبال بھی ان کے گرویدہ تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے تعلقات انجمن حمایت اسلام کے جلسوں کی رودادوں سے واضح ہیں۔ خواجہ عبدالصمد ککڑوں کا فرزند، خواجہ غلام حسن، ایک پابند صوم و صلوۃ اور ذہین نوجوان تھا۔ اس کا انتقال عالم شباب ہی میں ہو گیا تھا جس سے خواجہ عبدالصمد کو ایک ناقابل برداشت صدمے سے دو چار ہونا پڑا۔ اقبال کو جب اس نوجوان کی وفات کی اطلاع ملی تو آپ نے مندرجہ ذیل مرثیہ لکھا: اندھیرا صمد کا مکاں ہو گیا وہ خورشید روشن نہاں ہو گیا بیاباں ہماری سرا بن گئی مسافر وطن کو رواں ہو گیا گیا اڑ کے وہ بلبل خوش نوا چمن پائمال خزاں ہو گیا نہیں باغ کشمیر میں وہ بہار نظر سے جو وہ گل نہاں ہو گیا گیا کارواں اور میں راہ میں غبار رہ کارواں ہو گیا گرا کٹ کے آنکھوں سے لخت جگر مرے صبر کا امتحاں ہو گیا بڑھا اور اک دشمن جاں ستاں دھواں آہ کا آسماں ہو گیا ستم اس غضب کا خزاں نے کیا بیاباں مرا بوستاں ہو گیا ہوئی غم سے عادت کچھ ایسی مجھے کہ غم مجھ کو آرام جاں ہو گیا جدائی میں نالاں ہوں بلبل نہ کیوں وہ گل زیب باغ جناں ہو گیا وہ سرخی ہے اشک شفق رنگ میں حریف مئے ارغواں ہو گیا بنایا تھا ڈر ڈر کے جو آشیاں وہی نذر برق تپاں ہو گیا کروں ضبط اے ہم نشیں کس طرح کہ ہر اشک طوفاں نشاں ہو گیا غضب ہے غلام حسن کا فراق کہ جینا بھی مجھ کو گراں ہو گیا دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے کہ مقبل سراپا فغاں ہو گیا اقبال کا یہ مرثیہ ماہنامہ ’’ مخزن‘‘ لاہور میں1902ء میں شائع ہوا تھا جس پر مدیر’’ مخزن‘‘ شیخ عبدالقادر نے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا تھا: ’’ ہمارے ایک عنایت فرما رئیس بارہ مولا خواجہ عبدالصمد ککڑو ہیں۔ انہیں چند روز ہوئے اپنے چہیتے اور ہونہار بیٹے کی مرگ ناگہانی کا داغ دیکھنا پڑا۔ خواجہ صاحب خود عالم اور علم دوست رئیس ہیں جو فارسی زبان کے طباع شاعر ہیں اور مقبل تخلص کرتے ہیں۔ مگر اس رنج نے ان کی طباعی اور زندہ دلی پر پانی پھیر دیا ہے او رانہیں تصویر غم بنا دیا ہے۔ شیخ محمد اقبال صاحب نے ان کی طرف سے مرحوم کا نوحہ لکھا ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔‘‘ خواجہ عبدالصمد ککڑو سے اقبال کے تعلقات کا ثبوت مندرجہ بالا نوحے سے بھی ملتا ہے۔ ٭٭٭ 17 میر منشی سراج الدین احمد لاہور ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں متعدد ادبی انجمنیں قائم تھیں اور علم و ادب کی اشاعت کے لئے طرح طرح کے علمی اور ثقافتی نوعیت کے جرائد جاری تھے۔ ادبی جلسے اور مشاعرے بھی اکثر منعقد ہوتے رہتے تھے جن میں لاہور کے اہل ذوق اور سر کردہ شعرا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بزم ادب پنجاب کی سرگرمیوں نے، جس کے صدر سالک صاحب اور سیکرٹری حفیظ جالندھری صاحب تھے، مولانا تاجور کی انجمن ارباب علم کا چراغ گل کر رکھا تھا۔ اچھے اچھے شاعر اسی انجمن کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ ایک دفعہ کشمیر ریذیڈنسی کے میر منشی سراج الدین لاہور آئے۔ یہ صاحب پنجاب کے نہایت ممتاز اہل ذوق حضرات میں سے تھے اور ڈاکٹر صاحب کے بے تکلف دوست بھی تھے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کے ان خطوط سے بھی واضح ہے جو انہوں نے خود منشی سراج الدین احمد کو لکھے تھے۔ منشی صاحب کو اردو اور فارسی کے ہزار ہا اشعار از بر تھے جنہیں وہ خوبصورت ادائیگی کے ساتھ اور نہایت برمحل استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لاہور میں ان کی موجودگی کے موقع پر ایک مشاعرہ ایس پی ایس ہال بیرون موری دروازہ میں منعقد ہوا۔ حفیظ جالندھری نے منشی صاحب کو اس مشاعرے کی صدارت پر آمادہ کر لیا اور انہوں نے نہایت عالمانہ اور دلچسپ خطبہ صدارت پیش کیا۔ شعرا نے کلام سنایا اور انہوں نے ہر اچھے شعر پر نہایت دل کھول کر داد دی۔ آپ نے خود بھی اپنا کلام سنایا۔ وہ اس قدر ڈوب کر ذوق سے شعر پڑھتے تھے کہ فنا فی الشعر ہو جاتے تھے۔ آخر میں فرمانے لگے کہ میں اپنی بے بضاعتی کو دیکھتا ہوں اور پھر اس شرف صدارت کو دیکھتا ہوں تو خواجہ حافظ کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے: بہ صدر مصطبہ ام می نشاند اکنوں دوست گدائے شہ رنگہ کن کہ میر مجلس شد حافظ کی غزل کے اشعار کو انہوں نے اس قدر برمحل ادا کیا کہ سارا مشاعرہ داد و تحسین کا ہنگامہ زار بن گیا۔ علامہ اقبال نے منشی سراج الدین صاحب کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں سے چند چھپ بھی چکے ہیں۔ پہلے ہی خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ منشی صاحب نے حضرت علامہ کو ایک انگوٹھی بطور تحفہ ارسال کی تھی جس سے متاثر ہو کر علامہ نے شکریے کے طور پر 1902ء میں ایک طویل نظم لکھی جس کا مطلع یہ ہے: آپ نے مجھ کو جو بھیجی ارمغاں انگشتری دے رہی ہے مہر و الفت کا نشاں انگشتری ممکن ہے یہ نظم’’ مخزن‘‘ میں بھی شائع ہو چکی ہو کیونکہ علامہ نے خود خواہش کی تھی کہ اسے ’’مخزن‘‘ میں بھیج دیجئے۔ سنہ1902ء میں حضرت علامہ نے انہیں ایک خط لکھا جو یوں شروع ہوتا ہے: ’’ آپ کا خط ملا۔ الحمد للہ آپ خیریت سے ہیں۔ آج عید کا دن ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے۔ شیخ عبدالقادر ابھی اٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں اور بشیر حیدر بیٹھے ہیں۔ ’’ ابر گہر بار‘‘ کی اصل علت کی آمد آمد ہے۔ یہ جملہ شاید آپ کو بے معنی معلوم ہو مگر کبھی بوقت ملاقات آپ پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔۔۔ ’’ ابر گہر بار‘‘ شروع کرنے سے پیشتر میں نے اس خیال سے کہ کوئی وہابی اس کے بعض اشعار پر کوئی فتویٰ نہ دے دے۔۔۔۔‘‘ ’’ ابر گہر بار‘‘ چوتھی نظم تھی جو علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے اٹھارھویں سالانہ جلسے (منعقدہ یکم مارچ1902ئ) میں ظہر اور عصر کے درمیان پڑھی تھی۔ یہ ایک طرح کی عاشقانہ نعت تھی جو حضور سرور کائناتؐ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ انجمن کے اس جلسے کی صدارت خان بہادر غلام احمد خاں مشیر مال ریاست جموں و کشمیر نے فرمائی تھی۔ اس نظم کا مطلع یہ ہے: دل میں جو کچھ ہے زباں پر لاؤں کیونکر ہو چھپانے کی جو بات چھپاؤں کیونکر غرضیکہ منشی سراج الدین احمد کے نام حضرت علامہ کے متذکرہ خط میں اسی نظم کی طرف اشارہ ہے جسے وہ ان دنوں انجمن کے مذکورہ جلسے کے لیے لکھ رہے تھے۔ ’’ لفظ وہابی‘‘ سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کی شان میں جو والہانہ اشعار لکھے ہیں، ممکن ہے بعض حضرات کی طبع نازک پر ناگوار گزریں۔ اس خط میں حضرت علامہ نے اپنی محفل کے بعض احباب کا بھی ذکر کیا ہے۔ باقی حضرات کا ذکر تو کہیں نہ کہیں مل جاتا ہے مگر بشیر حیدر کا نام بعض لوگوں کے لیے نیا ہے۔ یہ صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے اور علامہ کے نہایت بے تکلف دوست تھے۔ منشی سراج الدین کے ایک خط کے جواب میں علامہ لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا ذکر ہو رہا ہے: ’’ الحمد للہ کہ مثنوی آپ کو پسند آئی۔ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے، اور اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرۂ شعراء میں پیدا کرتی۔ بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں، بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوق شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف کی شدید تکلیف سے اٹھانی نہیں پڑتی۔۔۔۔۔۔‘‘ آگے چل کر اقبال وضاحت کرتے ہیں: ’’ یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی ہے۔ اس طرف کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی ہے اور یہ ثمر ہے اتوار کے چند فارغ دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا۔ اگر مجھے مکمل فرصت نصیب ہوتی تو یہ مثنوی موجودہ صورت سے کہیں بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہو گا جس کے مضامین میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور یہ حصہ پہلے حصے سے کہیں بہتر ہو گا تو کم از کم مطالب کے اعتبار سے، گو زبان اور تخیل کے اعتبار سے میں نہیں کہہ سکتا کہ کیسا ہو گیا ۔ یہ بات طبیعت کے رنگ پر منحصر ہے، اپنے اختیار کی بات نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کر دوں جس کی اشاعت رسول کریم ؐ کی زبان مبارک سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر حملہ قرار دیا ہے اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ انشاء اللہ دوسرے حصے میں دکھاؤں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا اور صحابہ کرام کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جن کا تصوف حامی ہے۔‘‘ اقبال کے اس خط کے مذکورہ اقتباسات سے دو امور پر روشنی پڑتی ہے ایک تو منشی سراج الدین احمد کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسرے علامہ کے عقیدۂ تصوف کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔ اس خط میں اقبال نے نہایت وضاحت سے تصوف سے متعلق اپنے عقیدے کو لوگوں پر عیاں کر دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک مرتبہ جلیل لکھنوی، نواسہ حضرت میر انیس، لاہور میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ محلہ چہل بیبیاں کی ناصر حویلی میں مجلس تھی اور اس کے قریب ہی منشی سراج الدین احمد کی رہائش تھی۔ اس مجلس میں اقبال، سر عبدالقادر، ڈاکٹر تاثیر اور سالک مرحوم بھی تشریف رکھتے تھے۔ اس محفل میں جس انداز سے منشی سراج الدین نے اپنی سخن فہمی کے جوہر دکھائے اور شاعر کو داد دی اس پر ساری محفل عش عش کر اٹھی۔ غرض جس محفل میں بھی منشی صاحب ہوتے اس میں شعر و سخن کے ایسے ایسے نکات سامنے آتے کہ اہل سخن دنگ رہ جاتے۔ میں1937ء میں پیرس میں تھا۔ وہاں اکثر منشی سراج الدین کی شعر فہمی کا ذکر اقبال شیدائی سے ہوتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ کسی طرح ان سے غالب کے اردو دیوان کی شرح لکھوائی جائے کیونکہ جس طرح وہ شعر کے اندر ڈوب جاتے ہیں، اس معاملے میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ٭٭٭ 18 شکوہ اور جواب شکوہ (جنگ طرابلس اور جنگ بلقان) 1910ء 1911-ء میں جنگ طرابلس اور جنگ بلقان کی وجہ سے ملک کی فضا اچھی نہییں تھی۔ اس وقت دفعہ 30کا نفاذ تھا جس کی وجہ سے کوئی پبلک جلسہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ممالک اسلامیہ میں مسلمانوں پر کھلے عام مظالم ہو رہے تھے اور ہر شخص اس صورت حال سے پریشان تھا۔ چنانچہ 6اکتوبر1911ء کو مسلمانان لاہور شاہی مسجد میں نماز عصر کے لیے جمع ہوئے اور ایک جلسہ کیا۔ اس جلسے میں علامہ اقبال بھی موجود تھے۔ انہوں اس موقع پر اپنی ایک نظم ’’ حضور رسالت مآب میں‘‘ ترنم سے پڑھی تھی۔ یہ نظم سننے کے لیے کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوئے جن میں سر بر آوردہ مسلمان بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ میاں سر محمد شفیع، شیخ عبدالقادر اور انجمن حمایت اسلام سے تعلق رکھنے والے بیشتر سرکردہ ارکان اس موقع پر موجود تھے۔ جب علامہ نے یہ بند پڑھا تو لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے: حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں اس نظم نے مسلمانان لاہور کے دلوں میں ایک قیامت برپا کر دی تھی۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو آنسوؤں سے لبریز نہ ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو مسلمانان طرابلس و بلقان کی مصیبت پر تڑپ نہ اٹھا ہو۔ اس سے قبل علامہ نے اپنی مشہور نظم’’ شکوہ‘‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے منعقدہ رواز ہوسٹل میں اپریل سنہ 1911ء میں پڑھی تھی۔ اس موقع پر آپ کے والد گرامی بھی موجود تھے۔ پھر اکتوبر1912ء میں آپ نے اپنی دوسری نظم’’ جواب شکوہ‘‘ موچی دروازے کے باہر باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں سنائی تھی۔ اس جلسے میں جس قدر چندہ جمع ہوا تھا وہ ساری رقم جنگ بلقان کے مجاہدین کی امداد کے لیے ارسال کر دی گئی تھی۔ میں اس جلسے میں موجود تھا۔ اس کی صدارت چودھری شہاب الدین مرحوم نے کی تھی۔ مولانا ظفر علی خاں بھی جلسے میں شریک تھے۔ علامہ کی نظم سے پیشتر آغا حشر نے بھی اپنی نظم سنائی تھی۔ اس جلسے سے چند دن پیشتر ایک اور جلسہ محمڈن ہال بیرون موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا جس میں اٹلی کی بنی ہوئی ترکی ٹوپیوں کو اظہار ناراضگی کے طور پر ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ جنگ طرابلس و بلقان اٹلی نے چھیڑی تھی اور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ مجھے یاد ہے سب سے پہلے بٹالہ کے رہنے والے اور گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم قاضی محمد حسین نے اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر پھینکی تھی اس کے بعد تمام حاضرین نے جنہوں نے اٹلی کی بنی ہوئی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، اپنی ٹوپیاں اتار کر پھینک دیں اور ہال میں ان ٹوپیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس جلسے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم کثیر تعداد میں شریک ہوئے تھے۔ انہی ایام میں محمڈن ہال میں ایک اور جلسہ بھی ہوا تھا جس میں علامہ نے کسی بیرونی یونیورسٹی کے پروفیسر کی آمد پر فلسفے پر انگریزی زبان میں ایک لیکچر دیا تھا۔ یہ لیکچر زبانی دیا گیا تھا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں لکھے ہوئے ارشادات بھی علامہ کے سامنے نہیں تھے۔ اس کا عنوان یہ تھا:Subjective minad and Objective mind 1 اس لیکچر میں فلسفے کے چند نوجوان طلبہ نے بھی حصہ لیا تھا اور مولوی صدر الدین صاحب نے بھی چند اشارات پیش کئے تھے۔ علامہ نے اس لیکچر میں یورپ کے بعض مشہور اساتذہ فلسفہ کی اغلاط کی نشان دہی فرمائی تھی اور منطق کی شکل اول پر بھی اعتراض کئے تھے۔ یہ لیکچر چونکہ جنگ طرابلس کے زمانے میں دیا گیا تھا لہٰذا علامہ نے دوران تقریر میں اس جنگ کو بھی موضوع سخن بنایا تھا۔ ٭٭٭ 1؎ میرے نزدیک اس انگریزی عنوان کا ترجمہ ’’ نفسی یا اندرونی کیفیت اور خارجی یا نظری کیفیت ‘‘ ہو سکتا ہے۔ 19 اسرار خودی سب سے پہلے ’’ اسرار خودی‘‘ 1915ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ ایک چھوٹے سائز کا نہایت دیدہ زیب ایڈیشن تھا۔ اس کے شروع میں اردو کا ایک مقدمہ بھی شامل تھا۔ اور اسے سر علی امام کے نام منسوب کیا گیا تھا۔ اس میں چونکہ تصوف کے ایک خاص مسلک پر تنقید کی گئی تھی لہٰذا ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ تصوف کے جس مسلک کی علامہ نے مخالفت کی تھی اس کی وضاحت ان اشعار سے ہو گی: ہوشیار از حافظ سہبا گسار جامش از زھر اجل سرمایہ دار بے نیاز از محفل حافظ گذر! الحذر! از گو سفنداں الحذر! صدیوں سے مسلمان حافظ کے مسلک تصوف پر چل رہے تھے اور اس کی سچائی کو شک و شبہ سے بالا سمجھتے تھے۔ جب علامہ نے اس پر تنقید کی تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور علامہ کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی لوگ ان کے اس نقطہ نظر سے کسی طرح اتفاق نہ کر سکے۔ چنانچہ اس سلسلے میں علامہ پر تنقید اور اعتراضات کا ایک ایسا سلسلہ چل نہ نکلا جو اس وقت تک جاری رہا جب تک علامہ ان متنازعہ اشعار کو خارج کرنے پر مجبور نہ ہو گئے۔ ذیل میں ان تنقیدات کی تفصیل دی جا رہی ہے: 1حافظ محمد اسلم جیرا جپوری نے حافظ پر علامہ کی تنقید کو ناپسند کیا اور ’’جوہر اقبال‘‘ نامی رسالے میں اس کے خلاف مضمون لکھا۔ 2شیخ مشیر حسین قدوائی نے، جو انگلستان میں تھے، علامہ کے نظریات کے خلاف ایک زور دار مضمون 23مارچ1916ء کے ’’زمیندار‘‘ میں لکھا۔ علاوہ ازیں دوسرے رسائل میں بھی انہوں نے ’’اسرار خودی‘‘ کے خلاف مضامین شائع کرائے۔ 3حکیم فیروز الدین طغرائی نے ’’ لسان الغیب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں اسلم جیرا جپوری کے اعتراضات کی تائید کی۔ 4پروفیسر محمود علی نے، جو اپنی کتاب ’’ دین و دانش‘‘ کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے اور رندھیر کالج کپور تھلہ میں پڑھاتے تھے، علامہ کے خلاف ایک مضمون لکھا۔ 5ملک محمد کاشمیری، جو جہلم کے باشندے تھے، انہوں نے حافظ کی تائید اور تعریف میں ایک مثنوی لکھی۔ 6خان بہادر مظفر احمد فضل پینشنر ڈپٹی کلکٹر نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے جواب میں ایک نظم لکھی اور حافظ کی مدح سرائی کی۔ 7خواجہ حسن نظامی دہلوی، جو علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے، حافظ پر علامہ کی تنقید برداشت نہ کر سکے اور ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے اخبار’’ وکیل‘‘ امرتسر میں ایک مخالفانہ مضمون لکھا جو 29دسمبر1915ء کو شائع ہوا۔ وہ علامہ کے ساتھ اس مسئلے پر خط و کتابت بھی کرتے رہے۔ 8ایک صاحب، جو علامہ کے احباب میں سے تھے، انہوں نے در پردہ علامہ کی مخالفت شروع کر دی اور کشاف کے نام سے ایک مضمون 22 دسمبر 1915ء کے اخبار’’ وکیل‘‘ امرتسر میں شائع کرایا۔ 9سید سلیمان پھلواری بھی علامہ کے مداح تھے مگر اس موقع پر وہ بھی علامہ کی مخالفت پر اتر آئے اور مسئلہ وحدت الوجود کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ 10ذوق شاہ نے ایک طویل مضمون لکھا جس میں تصوف کو عین اسلام ثابت کرنے کی سعی کی۔ 11 مولانا عبدالمجید سالک نے بھی اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک مضمون بعنوان ’’ اسرار خودی‘‘ ہفت روزہ’’ قندیل‘‘ میں لکھا۔ بالآخر علامہ اقبال نے اپنے نظریات کی وضاحت ایک مضمون میں کی جو امرتسر کے اخبار ’’وکیل‘‘ میں15جنوری1916ء کو شائع ہوا۔ اس کے علاوہ دو مضامین اور بھی اس ضمن میں علامہ نے لکھے تھے۔ ان میں سے ایک کا عنوان ’’ تصوف وجودیہ‘‘ تھا اور یہ بھی اخبار’’ وکیل‘‘ میں 23دسمبر1916ء کو شائع ہوا تھا۔ تاہم علامہ کے ان تمام مضامین اور علمی دلائل کے باوجود معترضین اپنے نقطہ نظر پر اڑے رہے اور بالآخر علامہ کو اندھی عقیدت اور تقلید پرستی کے اس طوفان کے سامنے سپر انداز ہونا پڑا۔ نتیجۃً تصوف کے اس خاص مسلک کے خلاف جو اشعار انہوں نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل کئے تھے انہیں دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا اور یوں یہ طوفان تھم گیا۔ جو مقدمہ علامہ نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں اپنے نظریات کی تائید میں شامل کیا تھا، وہ بھی انہوں نے دوسرے ایڈیشن میں حذف کر دیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ ٭٭٭ 20 ایک مشاعرہ میں نے قبل ازیں بیان کیا ہے کہ علامہ اقبال نے جنگ طرابلس اور جنگ بلقان کے موقع پر نظمیں بعنوان ’’ حضور رسالتؐ مآب میں‘‘ اور’’ جواب شکوہ‘‘ مسلمان پبلک کو بیدار کرنے کی غرض سے پڑھی تھیں، کیونکہ یہ جنگیں دراصل اسلامی ممالک کے خلاف تھیں جن کے ساتھ ہم لوگ مذہبی حیثیت سے تعلق رکھتے تھے۔ جنگ بلقان کے فوراً بعد1914ء سے یورپ میں جنگ عظیم اول شروع ہو گئی۔ اس میں برٹش نے بھی حصہ لیا تھا یا اسے ملوث کر لیا گیا تھا۔ جنگ کا خاتمہ1918ء میں ہوا تو فتح کے جشن کے لیے 18اکتوبر1918ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ اس وقت پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈوائر تھے جنہوں نے اس جشن کا انتظام کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک مشاعرے کا انتظام بھی لاہور کے بریڈ لا ہال میں کیا گیا تھا۔ سرکاری طور پر علامہ اقبال کو اشعار پڑھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ راقم نے اس مشاعرے میں بطور ایک سامع کے شرکت کی تھی۔ پنجاب کے سب چیدہ چیدہ شاعر اس مشاعرے میں مدعو تھے اور اس کی صدارت خود گورنر پنجاب نے کی تھی۔ علامہ چونکہ خاص طور پر اس میں مدعو تھے لہٰذا انہوں نے دو نظمیں اردو کی پڑھی تھیں جو براہ راست اس جنگ سے متعلق نہ تھیں۔ پھر آپ نے ا یک فارسی نظم بھی پڑھی تھی جس کا اول شعر یہ ہے: ہیچ می دانی کہ صورت بند ہستی با فرانس فکر رنگین و دل گرم و شراب ناب داد علامہ کو اس مشاعرے کا جج بنایا گیا تھا اور آپ نے اول انعام تلوک چند مرحوم کو دیا تھا۔ اس تمام مشاعرے کی رپورٹ گورنمنٹ کے اپنے ہفتہ وار اخبار’’ حق‘‘ میں طبع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھی پر ایک جلوس بھی نکلا تھا جس پر پنجاب کے گورنر سوار تھے اور پیچھے عبدالعزیز (ماما جیجی) بیٹھا تھا۔ اسی قسم کے جلسے جنگ کے خاتمے پر پنجاب کے دوسرے اضلاع میں بھی ہوئے تھے۔ ٭٭٭ 21 اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ یہ مسلمہ امر ہے کہ یورپ میں اقبال کی معرکۃ الآرا تصنیف’’ اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ، جو ڈاکٹر نکلسن نے بعنوان ’’ سیکرٹ آف دی سیلف‘‘ کیا تھا، ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور ڈاکٹر نکلسن اس کارنامے کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یورپ کے لیے چونکہ یہ تصنیف غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی لہٰذا ہر پڑھا لکھا آدمی اس ترجمے کی طرف متوجہ ہوا اور اس کا مطالعہ ضروری سمجھا۔ اس کے بعد یورپ کے مختلف جرائد میں جو تبصرے شائع ہوئے چونکہ وہ اہل ہندوستان کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے لہٰذا یہاں کے اہل علم نے فوراً ان تبصروں کے تراجم پر اپنی توجہ مبذول کی اور مولوی سجاد علی انصاری صاحب نے ’’ معارف‘‘ اعظم گڑھ میں ان تبصروں کی اشاعت کا آغاز کیا۔ چنانچہ سب سے پہلا تبصرہ، جو ہفتہ وار’’ اینتھم‘‘ میں1921ء میں شائع ہوا تھا، اس کا ترجمہ جون1921ء کے’’ معارف‘‘ میں طبع ہوا۔ یہ تبصرہ مسٹر ای ایم فارسٹر نے کیا تھا۔ اردو ترجمے کی ابتدا میں مندرجہ ذیل سطور بطور تمہید شائع ہوئی تھیں: ’’ پروفیسر نکلسن کے ترجمہ ’’ اسرار خودی‘‘ کے بعد یورپ میں کلام اقبال پر خاص توجہ ہونے لگی ہے۔ ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ، لندن ایک سے زائد ریویو کر چکا ہے۔ ذیل میں اس ریویو کا ترجمہ درج کیا جات اہے جو مسٹر ای ایم فارسٹر کے قلم سے انگلستان کے مشہور ہفتہ وار ’’ اینتھم‘‘ میں شائع ہوا۔‘‘ پھر جب کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈکنسن کا تبصرہ ایک ہفتے بعد لندن کے ہفتہ وار رسالے ’’ نیشن‘‘ میں شائع ہوا تو اس کا اردو ترجمہ بھی سجاد علی انصاری نے کیا اور یہ بھی ’’ معارف‘‘ کے ستمبر 1921ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ تمہید کے الفاظ یہ ہیں: ’’ اقبال کی کتاب ’’ اسرار خودی‘‘ پر انگلستان کے ادبی رسالے ’’اینتھم‘‘ نے جو ریویو کیا تھا اس کا ترجمہ جون کے معارف میں دیا جا چکا ہے۔ ذیل میں ایک دوسرے ہفتہ وار رسالے نیشن کے ریویو کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے جو کیمبرج کے پروفیسر ڈکنسن کے قلم سے نکلا ہے۔‘‘ مولوی سجاد علی صاحب نے فارسٹر کے تبصرے کے متعلق جو رائے ظاہر کی تھی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے: ’’ ڈاکٹر اقبال پر فارسٹر صاحب کا ریویو مغربی تنقید کی گہرائیوں کی بین مثال ہے۔ ناقد پر اس بات کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ شعر کو صحیح طور پر سمجھے یا شاعر کو۔ انصاف پسندی بس یہی چاہتی ہے کہ تعریف اور مذمت ساتھ ساتھ ہو۔‘‘ البتہ اقبال نے ڈکنسن کے تبصرے کی تعریف کی ہے اور اسے سب سے دلچسپ بتایا ہے۔ ڈاکٹر ملک راج انند نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں، جو رائل اکیڈمی جرنل میں شائع ہوا تھا، نکلسن کے ترجمہ ’’ اسرار خودی‘‘ کے متعلق لکھا ہے: ’’ مسٹر ہربرٹ ریڈ نے مغربی شعرا کے کلام سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا تھا:’’ اقبال کی دو نظموں پر والٹ وہٹمین کے فلسفہ اقدام و عمل کا اثر پڑا ہے وہ لکھتا ہے کہ وہٹمین کا نصب العین اس اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ وہ نظری نہیں بلکہ عملی ہے۔ صرف ایک شاعر ایسا ہے جس کے ہاں یہ چیز نظر آتی ہے اور وہ بھی ہماری نسل اور ہماری قوم سے نہیں ہے۔ میری مراد محمد اقبال سے ہے جن کی نظم ’’ اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ ڈاکٹر رینالڈ نکلسن نے کیا ہے اور میکملن کے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ ادھر ہمارے ملک کے متشاعر تو کیٹس کے زمانے کی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں اور بلیوں اور پرندوں یا دوسرے چھوٹے چھوٹے موضوعات پر نظمیں لکھ رہے ہیں اور ادھر لاہور میں ایک ایسی نظم شائع ہو رہی ہے جس نے ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں پر پوری طرح تسلط کر لیا ہے۔ ایک مسلم نوجوان لکھتا ہے کہ ’’ اقبال اس عہد کا مسیح ہے جس کی آتش نفسی نے مردوں کو زندہ کر دیا ہے۔‘‘ تم پوچھو گے کہ آخر اس میں کون سی ایسی ظاہری کشش ہے جس نے لوگوں کے دل اپنی طرف کھینچ لیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معجزہ اس قسم کی کسی ظاہری کشش کا مرہون منت نہیں ہے جو مبلغوں اور دنیا کو نجات کا پیغام دینے والوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہ اعجاز ایک نظم نے دکھایا ہے جس کے حسن وہ جمال کے آئینہ میں فلسفہ جدید کے اکثر مسائل منعکس نظر آتے ہیں۔ اس میں خیالات کی فراوانی ہے لیکن ان میں اتحاد پایا جاتاہے اور اس کی منطق ساری کائنات کے لیے آواز غیب کا حکم رکھتی ہے۔‘‘ مسٹر ریڈ کا شمار مغرب کے بہترین شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔ اس کا یہ خراج تحسین ایسا ہے جسے اقبال کو اپنی کلاہ کا فخر اور طرۂ امتیاز تصور کرنا چاہئے۔‘‘ مسٹر ای ایم فارسٹر کا تبصرہ 1921ء میں ’’ اینتھم‘‘ کے جس شمارے میں شائع ہوا تھا وہ اتفاق سے مجھے لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں نظر آیا۔ میں نے اسے کسی طرح مستعار حاصل کیا اور اپنے بھائی عبدالرحمن چغتائی مرحوم کے ہمراہ سیدھا علامہ کی خدمت میں پہنچا۔ رسالہ ان کی خدمت میں پیش کیا تو بہت خوش ہوئے کیونکہ ابھی تک انہوں نے یہ رسالہ نہیں دیکھا تھا۔ اسی طرح پروفیسر براؤن نے 1921ء کے رسالہ ایشیاٹک سوسائٹی لندن میں’’ اسرار خودی‘‘ کے اس ترجمے پر تبصرہ کیا تھا جس کا ذکر پروفیسر نکلسن کے تبصرہ ’’ پیام مشرق‘‘ کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نکلسن کے ترجمہ ’’ اسرار خودی‘‘ کو اطالوی زبان میں بھی منتقل کیا گیا تھا۔ یہ ترجمہ اٹلی کے ایک فاضل اے بو نو جی (A. Bonncci) نے کیا اور1921ء میں شائع ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’ اسرار خودی‘‘ کی اولین اشاعت پر ہندوستان کے بعض علمی حلقوں میں اچھا خاصا ہیجان پایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی مخالفانہ تبصرے بھی شائع ہوئے۔ یہ مخالفانہ فضا دراصل حضرت علامہ کے ان نظریات کے خلاف رد عمل کے طور پر پیدا ہوئی جو انہوں نے حافظ شیرازی کے فلسفہ تصوف کے متعلق ’’ اسرار خودی‘‘ میں ظاہر کئے تھے۔ اس سلسلے میں تبصروں پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بعض حضرات نے تو کتابیں بھی لکھ ڈالی تھیں۔ بالآخر ’’ اسرار خودی‘‘ کی دوسری اشاعت کے موقعے پر حافظ کے متعلق تمام مواد حضرت علامہ نے خارج کر دیا اور وہ مقدمہ بھی حذف کر دیا جو اپنے نظریات کی تائید میں انہوں نے ’’ اسرار خودی‘‘ کی پہلی اشاعت میں شامل کیا تھا۔ غیر ملکی تنقید نگاروں میں سے فارسٹر برابر علامہ کے نظریات پر لکھتے رہے۔ انہوں نے 1953ء کے ’’ پاکستان ریویو‘‘ میں اور پھر21اپریل 1959ء کے ’’ پاکستان ٹائمز‘‘ میں ’’ یوم اقبال‘‘ کے موقعے پر مضامین لکھے۔ راقم کا کام اس سلسلے میں فقط اس قدر تھا کہ ’’ اسرار خودی‘‘ کے ضمن میں شائع ہونے والے تبصرے، مضامین اور کتابیں بیشتر راقم نے فراہم کر کے علامہ کی خدمت میں پیش کیں اور اس سلسلے کی خط و کتابت میں بھی برابر ان کے ساتھ تعاون کیا۔ یہاں یہ بھی بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب علامہ نے نکلسن کے ترجمہ ’’ اسرار خودی‘‘ کا مطالعہ کیا تو انہیں کئی جگہ نکلسن کے ترجمے میں سقم نظر آئے۔ چنانچہ انہوں نے کئی بار احباب کی محفلوں میں نکلسن کی ان اغلاط کا ذکر فرمایا تھا۔ میں چونکہ علامہ کی خدمت میں اکثر حاضر رہتا تھا لہٰذا مجھے ان اغلاط کا علم تھا اور ان کا ذکر میں نے اپنے ایک مضمون میں بھی ضمناً کیا تھا اس ترجمے پر مختلف اخبارات و رسائل میں جو تبصرے شائع ہوئے، علامہ نے ان کا مطالعہ بھی کیا اور بالآخر پروفیسر نکلسن کو ایک مفصل خط لکھا جس کا اردو ترجمہ ’’ فلسفہ سخت کوشی‘‘ کے عنوان سے ’’ نیرنگ خیال‘‘ کے سالنامے میں شائع ہوا۔ پھر علامہ نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے ایک نسخے پر وہ تمام تصحیحات درج کیں اور پروفیسر نکلسن کو وہ نسخہ بھیج دیا جو کافی عرصہ ان کے کتب خانے میں پڑا رہا۔ جب 1945ء میں پروفیسر نکلسن کا انتقال ہو گیا تو ان کی لائبریری کا کچھ حصہ کیمبرک کے ایک کتب فروش کے پاس فروخت کی غرض سے پہنچ گیا۔ اتفاقاً ایک روز پروفیسر آربری مذکورہ کتب فروش کی دکان پر پہنچے تو مختلف کتابوں کی ورق گردانی کے دوران میں ’’ اسرار‘‘ کا وہ نسخہ بھی ان کے ہاتھ لگ گیا جو علامہ نے اپنی تصحیحات کے ساتھ نکلسن کو بھیجا تھا۔ پروفیسر آربری نے وہ نسخہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو دکھایا جو ان دنوں کیمبرج میں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس پر ایک مختصر مضمون لکھا اور پھر یہ مواد’’ نوٹس آف اقبالز اسرار خودی‘‘ کے نام سے چھپ گیا۔ اسے لاہور کے ناشر شیخ محمد اشرف نے شائع کر دیا ہے۔ 1932ء میں راقم الحروف لندن میں تھا جبکہ علامہ اقبال بھی گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ ہم کچھ احباب علامہ کے مشورے سے کیمبرج گئے اور پروفیسر نکلسن سے مل کر ان سے درخواست کی کہ وہ علامہ کے چیدہ چیدہ اشعار کا انگریزی ترجمہ کر کے دیں تاکہ ہم انہیں عبدالرحمن چغتائی کی تصاویر سے مزین کر کے شائع کر دیں۔ ہم نے انہیں چغتائی کا تیار کردہ مصور کام غالب بھی دکھایا جو ’’ مرقع چغتائی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا تھا۔ مگر پروفیسر نکلسن نے اپنی دیگر مصروفیات اور خصوصاً بڑھاپے کی وجہ سے معذرت کر دی۔ ہم مایوس لوٹ آئے اور علامہ کو صورت حال سے مطلع کر دیا۔ ’’ اسرار خودی‘‘ نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ میں بھی ایک ہنگامہ برپا کر دیا اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات ہوئے۔ ہندوستان میں جو رد عمل ہوا اس کا ذکر قبل ازیں ہو چکا ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ علامہ کو’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت سے پہلے اس بات کا احساس تھا کہ اس کتاب کی اشاعت کے موقع پر منفی رد عمل ظاہر ہو گا۔ چنانچہ اس کی اشاعت سے پہلے آپ نے اپنے دوست محمد دین فوق کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ’’ طریقت‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کریں۔ اس پر انہوں نے اپنے رسالے ’’ کشمیری میگزین‘‘ کی جگہ اگست1914ء کو یہ رسالہ شائع کیا جس میں تصوف کے متعلق علامہ کا مفصل تبصرہ بھی شائع ہوا۔ یہ تبصرہ سوال و جواب کی شکل میں ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں علامہ کے وہ تمام نظریات موجود ہیں جو’’ اسرار خودی ‘‘ کی بنیاد بنے تھے مگر کہیں بھی اس بات کا اشارہ نہیں کیا گیا کہ ’’ اسرار خودی‘‘ شائع ہو رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ علامہ نے غلط قسم کے تصوف اور وحدت الوجود جیسے نظریات کے مضر اثرات سے لوگوں کو حتی الامکان بچانے کی کوشش کی اور انہوں نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے لیے راستہ بھی ایک حد تک ہموار کیا مگر نتیجہ وہی نکلا جس کی انہیں توقع تھی اور ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت پر مخالفت کا طوفان کھڑا ہو گیا۔ ایک خط وہ اپنے دوست محمد دین فوق مدیر’’ طریقت‘‘ کو لکھتے ہیں۔ اس میں پیر جماعت علی شاہ کا ذکر ملاحظہ فرمائیے: ’’ ڈیر فوق! آپ کبھی ملتے بھی نہیں۔ اب تو آپ ’’ پیر طریقت‘‘بھی بن گئے ہیں۔ خدا کرے جلد حافظ جماعت علی شاہ صاحب کی طرح آپ کے ورود کشمیر کے متعلق بھی اطلاعیں شائع ہوا کریں۔‘‘ 22جولائی1915ء آپ کا خادم، محمد اقبال ٭٭٭ 22 ترک موالات (1920ئ) ہندوستان میں ترک موالات کے اعلان کے بعد جس قوم نے سب سے پہلے اس میں حصہ لیا اور سب سے شدید اثر اس تحریک کا قبول کیا وہ مسلمان تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے اس تحریک میں شمولیت کی اپیل کی تو باوجود یونیورسٹی سے جذباتی لگاؤ اور جوش و خروش کے مسلمان طلبہ نے انگریزی پروفیسروں کا بائیکاٹ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی غیر معینہ عرصے کے لیے بند ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں گاندھی جی نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح بنارس کی ہندو یونیورسٹی بند ہو جائے مگر مدن موہن مالوہ نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور بالآخر انہیں بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔ اسی طرح لاہور کے اسلامیہ کالج کو بند کرنے کی سر توڑ کوشش ہوئی۔ راقم ان دنوں کالج کے سٹاف میں شامل تھا۔ میاں فضل حسین جیسے مدیر سیکرٹری تھے اور علامہ اقبال جنرل سیکرٹری تھے۔ کالج میں طلبہ کا ایک خاص گروپ اس بات پر مصر تھا کہ کالج کو بند کر دیا جائے۔ مجھے حبیبیہ ہال کا جلسہ اچھی طرح یاد ہے جس میں پروفیسر مظفر الدین قریشی اور طالب علم عبدالباری نے ایسی دھواں دھار تقریریں کی تھیں کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی ایسی تقریریں نہیں ہوئی ہوں گی۔ یہ تمام تقریریں انگریزی زبان میں ہوئی تھیں جن میں انگریزوں کے خلاف اور ترک موالات کے حق میں پورا زور خطابت مقررین نے صرف کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ روزنامہ ’’ زمیندار‘‘ نے بھی ایک مقالہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا جس میں اسلامیہ کالج کو غیرت دلائی گئی تھی کہ وہ بھی تحریک ترک موالات میں شامل ہو کر اتحاد ملی کا ثبوت دے۔ اس مقالہ افتتاحیہ کا عنوان یہ شعر تھا: بر در مدرسہ تا چند نشینی حافظ خیز تا از در میخانہ کشادی طلبیم (؟) اس کا اثر یہ ہوا کہ کالج میں مکمل طور پر ہڑتال ہو گئی جس سے میاں فضل حسین سخت برہم ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن، جبکہ ہڑتال پورے شباب پر تھی، ایک ٹرک کا انتظام کیا گیا اور تمام شوریدہ سر لڑکوں کو پکڑ کر ٹرک میں ڈال دیا گیا۔ پھر یہ ٹرک لڑکوں کو دور دراز مقامات پر چھوڑ آیا جہاں سے وہ دوسرے تیسرے روز پیدل چل کر پہنچے۔ ان میں ایک شخص مسٹر نیلسن (ایک آنکھ والا) یعنی مسٹر غلام حسین بھی شامل تھا جو سب سے زیادہ شوریدہ سر تھا۔ اسی زمانے میں دہلی میں جامعہ ملیہ قائم ہوئی تھی، اگرچہ اس کی مالی حالت سخت خراب تھی۔ پروفیسر خوجاہ عبدالحمید لکھتے ہیں:’’ نومبر1920ء میں ہندوستان بھر میں تحریک عدم تعاون زوروں پر تھی۔ لاہور میں کانگریس کے کارکنوں کی خاص توجہ اسلامیہ کالج پر تھی۔ ہندو اور مسلمان اکابر لاہور میں جمع تھے اور ان کی ہدایات پر کانگریسی کارکنوں نے اسلامیہ کالج میں پڑھائی کا کام تقریباً نا ممکن بنا دیا تھا، یہاں تک کہ اسلامیہ کالج کا وجود معرض خطر میں پڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر اقبال ان دنوں انجمن حمایت اسلام کے جنرل سیکرٹری تھے۔ چنانچہ ایک روز کالج کے چند پروفیسروں نے (جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا) یہ فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان متضاد فتووں اور قرار دادوں کے متعلق، جن کی بارش ہر سمت سے کالج میں ہو رہی تھی، ان کی رائے دریافت کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں انار کلی والے مکان میں رہتے تھے۔ جب ہم پہنچے تو حسب عادت آرام کرسی پر بیٹھے تھے اور حقے سے شغل فرما رہے تھے (میں نے انہیں ان کی قیام گاہ میں حقے کے بغیر کبھی نہیں دیکھا) ڈیڑھ دو گھنٹے تک تحریک عدم تعاون کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی۔ معلوم ہوا کہ ابھی انہوں نے اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی۔ گاندھی جی کی انہوں نے بہت تعریف کی اور جو کام وہ ہندو قوم کے لیے کر رہے تھے اسے مد نظر رکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ کوئی تعجب نہ ہو گا اگر ہندوؤں کی آئندہ نسلیں انہیں اوتار تسلیم کر لیں۔ آخر میں ہم لوگوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ظریفانہ انداز میں فرمانے لگے کہ جس قدر کام کالج میں ہو سکتا ہے، کرتے جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کالج ٹوٹ جائے اور آپ لوگوں کو تلاش روزگار کی زحمت اٹھانا پڑے۔ بلکہ میرا مشورہ ہے کہ ایک وقت کا کھانا چھوڑ دو۔ میں نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے اور میری صحت پر اس کا بہت اچھا اثر پڑا ہے۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا اور ہم لوگ سلام کر کے واپس آ گئے۔ ‘‘ یہ بہت ہی ابتلا اور آزمائش کا زمانہ تھا جس میں ہر شخص پریشان تھا۔ راقم بھی ان دنوں ڈی پی سکول لدھیانہ سے طویل چھٹی لے کر لاہور آ گیا تھا۔ لاہور میں پارٹ ٹائم ملازمت تو مل گئی مگر یہاں بھی روز بروز کالج کو بند کر دینے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا۔ تاہم یہ کالج محض میاں سر فضل حسین کے مدیرانہ رویے کی بدولت اس طوفان کی نذر ہونے سے بچ گیا۔ جب تحریک ترک موالات میں شرک ہونے اور کالج کو بند کر دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو 1920ء میں انجمن حمایت اسلام کے زیر اہتمام مناظرانہ نوعیت کے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں تمام سرکردہ ارکان مثلاً میاں سر فضل حسین، شیخ عبدالقادر، علامہ اقبال اور مزنگ پارٹی نے شرکت کی۔ کل تیس ارکان اس مذاکرے میں شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ابو الکلام آزاد کو بطور خاص اس جلسے میں مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے پورے زور شور سے ترک موالات کے حق میں تقریریں کیں۔ مولانا آزاد نے ترک موالات کے حق میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں ان سے ترک موالات کرنا عین ایمان ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے، جو ترک موالات کے حق میں نہیں تھے، خان بہادر شیخ عبدالقادر نے تقریر کی اور کہا کہ مسلمان پہلے ہی تعلیمی لحاظ سے خاصے پس ماندہ ہیں۔ اگر ترک موالات میں حصہ لے کر مسلمان طلبہ کو تعلیم سے محروم کیا گیا تو اس سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ پھر مولانا محمد علی نے ایک طویل تقریر ترک موالات کے حق میں کی جس کے بعد ممبران کی تحریک سے ایک ریزولیوشن پیش کیا گیا۔ اس میں تحریر تھا کہ گورنمنٹ سے آئندہ کوئی مالی امداد نہ لی جائے اور یہ مالی بوجھ مسلمان قوم خود اٹھائے۔ نیز اگر طلبہ کثرت رائے سے منظور کر لیں تو کالج کا الحاق یونیورسٹی سے ختم کر دیا جائے۔ جب یہ ریزولیوشن پیش ہوا تو علامہ اقبال اور دوسرے تمام ہم خیال ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی۔ کیونکہ سوال امدادکا نہیں تھا اور نہ ہی مالی امداد کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اصل مسئلہ طلبہ کی تعلیم اور مستقبل کا تھا جو کالج بند ہونے سے یقینا خطرے میں پڑ جاتا۔ اس موقع پر علامہ نے خود بھی ایک خط روزنامہ ’’ زمیندار‘‘ کو اسلامیہ کالج کے یونیورسٹی سے الحاق کے بارے میں15نومبر1920ء کو لکھا جو’’ زمیندار‘‘ میں18نومبر1920ء کو طبع ہوا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ’’ السلام علیکم! آج کے ’’ زمیندار‘‘ میں جنرل کونسل انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ منعقدہ14نومبر1920ء کی کارروائی پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ایک آدھ فروگذاشت ہو گئی ہے جس کا ازالہ عام مسلمانوں کی آگاہی کے لیے ضروری ہے، لہٰذا یہ چند سطور لکھتا ہوں۔ مہربانی کر کے اپنے اخبار میں درج فرما کر ممنون کیجئے۔ اراکین کونسل کے سامنے تین تجویزیں تھیں: 1۔ اسلامیہ کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے جاری رکھا جائے۔ محرک میاں فضل حسن صاحب سیکرٹری کالج، موید مولوی فضل الدین صاحب وائس پریذیڈنٹ انجمن۔ 2۔انجمن حمایت اسلام اپنے طور پر علمائے پنجاب و ہندوستان کی ایک کانفرنس بلائے جس میں حالات حاضرہ سے واقف کار لوگ بطور مشیر کام کریں تاکہ حضرات علما مسائل متنازعہ فیہ کے ہر پہلو پر پوری بحث و تمحیص کے بعد نتائج پر پہنچیں۔ علما کی اس بحث میں مشیروں کو رائے دینے کا کوئی حق نہ ہو گا اور فیصلہ کثرت آراء سے ہو گا۔ اختتام کانفرنس تک اسلامیہ کالج کا الحاق یونیورسٹی سے قائم رہے۔ محرک مولوی ابراہیم سیالکوٹی۔ 3جمعیت علما کا اجلاس دہلی میں عنقریب ہونے والا ہے۔ان کے فتوے کا انتظار کیا جائے اور چند حضرات انجمن کی طرف سے بطور وفد اس جلسے کے بحث و مباحثہ میں شریک ہوں۔ محرک ڈاکٹر کچلو‘‘ اس طویل خط میں کئی امور زیر بحث آ گئے ہیں۔ ویسے یہ ضروری بھی نہیں کہ ہم اس طویل خط کو مکمل طور پر یہاں نقل کر دیں، تاہم اس خط میں لکھا ہے کہ: مولانا محمود حسن کے فتویٰ میں الحاق کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ اسی طرح مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی خانقاہ کا فتویٰ یا مضمون ترک موالات کے مسئلے پر ایک عام بحث ہے۔۔۔۔ ایک دوست سے سنا کہ پروفیسر حاکم علی صاحب اسلامیہ کالج نے اپنے فتوے کی تصدیق میں مولوی احمد رضا صاحب بریلوے سے ایک فتویٰ حاصل کیا ہے۔ پروفیسر خود بھی بریلی تشریف لے گئے تھے۔ لاہور آنے پر انہوں نے مولوی اصغر علی روحی سے استدعا کی کہ وہ بھی مولوی احمد رضا صاحب کے فتوے پر دستخط کر دیں۔ چونکہ حضرات دیوبند اور مولوی اشرف علی تھانوی صاحب پر اس فتوے میں سب و شتم کیا گیا تھا اس واسطے مولوی اشرف علی صاحب نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز ۔۔۔ لیکن مسلمانان پنجاب سے میری التماس ہے کہ وہ اس کام کو توکل بخدا اپنے ذمے لیں اور لاہور یا باہر کے مسلمانوں میں سے کوئی اللہ کا بندہ اور نبی امیؐ کا عاشق ایسا نکلے کہ اس کانفرنس کا تمام خرچ اپنے ذمے لے لے۔۔۔۔۔۔ اگر تمام حالات سننے کے بعد فقہائے اسلام کی یہی رائے ہو کہ الحاق قائم رکھا جائے تو میں بھی نہایت خوشی کے ساتھ اراکین انجمن کا ہم نوا ہوں۔ محمد اقبال ٭٭٭ 23 خضر راہ حضرت علامہ نے اپنی مشہور نظم’’ خضر راہ‘‘ پہلی جنگ عظیم (1914ئ1918-ئ) کے بعد انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے منعقدہ اپریل 1922ء میں پڑھی تھی۔ برسوں کے بعد انجمن کا یہ جلسہ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔ تمام صحن اور گیلری میں سامعین کا ہجوم تھا۔ سٹیج پر ایک قالین بچھا دیا گیا تھا اور تکیہ بھی رکھ دیا گیا تھا۔ علامہ جب وقت مقررہ پر جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو سامعین کے جوش اور جذبے کی عجیب کیفیت تھی۔ آپ کے ہمراہ سٹیج پر آپ کے عزیز دوست نواب سر ذوالفقار علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ اور خان بہادر سر عبدالقادر بھی آپ کے دائیں اور بائیں موجود تھے۔ علامہ نہایت معمولی لباس یعنی شلوار اور کوٹ میں ملبوس تھے اور سر پر لنگی مع کلاہ تھی۔ چونکہ ان دنوں آپ نقرس کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور زیادہ دیر تک کھڑے نہیں رہ سکتے تھے اس لیے آپ کے لیے بیٹھ کر پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ مبصرین لکھتے ہیں کہ یہ نظم دراصل دنیا کی موجودہ سیاست پر ایک تبصرہ ہے جس میں نہایت دل نشیں انداز میں سلطنت کی حقیقت، جمہوری نظام کی فسوں کاریاں اور قیصریت کے نظر فریب بہروپ دکھائے گئے ہیں۔ مجالس آئین اور اصلاحات وغیرہ کی تمام شعبدہ بازیاں آپ نے بے نقاب کر دی ہیں۔مزدوروں کی کمر شکن محنت اور سرمایہ داروں کے غیر منصفانہ نظریات کی قلعی کھولی ہے۔ علامہ کے نظم شروع کرنے سے پیشتر مسٹر محمد صدیق نے، جو اے جی کے دفتر میں ملازم تھے۔ ایک نعت نہایت دلکش ترنم سے پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے اپنی یہ نظم، جو کتابی صورت میں بھی چھپ چکی تھی، اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ پڑھنی شروع کی تو تمام مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا۔ جب آپ نظم کے بند نہم پر پہنچے اور یہ اشعار پڑھے: کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز تو تمام اطراف سے آہ و بکا کا شور بلند ہوا۔ خود علامہ بھی اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی۔ آپ نے نظم پڑھنا بند کر دی اور تقریباً نصف گھنٹے تک سکتے کا عالم طاری رہا۔ اس کے بعد آپ نے پھر نظم اسی بند نہم سے پڑھنی شروع کی اور اس کے بعض اشعار کی توضیح بھی کی۔ خصوصیت سے اس بند کے آخری شعر کی تشریح فرمائی جو یہ ہے: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کایاداں کنند می نہ دانی اول آں بنیاد را ویراں کنند یہ نظم سننے کے لیے ہمارے دوست پروفیسر کشمیرا سنگھ، بھائی ویر سنگھ اور کاکا ہرنام سنگھ خاص طور پر امرتسر سے آئے تھے۔ چنانچہ ہم ’’ خضر راہ‘‘ کے اس شعر پر دیر تک گفتگو کرتے رہے: اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل ٭٭٭ 24 میاں سر فضل حسین 1931ء میں لندن کی گول میز کانفرنس کے موقع پر گاندھی جی مسلمانوں کے اتحاد سے سخت پریشان تھے۔ وہ بار بار ڈاکٹر انصاری کو یاد کر رہے تھے اور انہیں بھی کانفرنس میں شریک کرنے پر مصر تھے۔ مطلب یہ تھا کہ حقوق کے معاملے میں جداگانہ ا نتخاب کا مطالبہ کرنے والوں کے بالمقابل مخلوط انتخاب کے حامیوں کو سامنے لا کر مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ ڈالا جا سکے۔ مگر ڈاکٹر انصاری کو چونکہ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی اس لیے گاندھی جی کو اپنی کامیابی مشکوک نظر آ رہی تھی۔ جب کانفرنس آئین کے وفاقی حصے پر بحث کرنے کے لیے آمادہ ہو گئی تو مسلمان نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک وفاقی اداروں میں مسلمانوں کا حصہ متعین نہ ہو جائے ہم وفاق کی بحث میں حصہ نہیں لیں گے۔ لیکن جب بعض نمائندے مثلاً چودھری ظفر اللہ خاں وغیرہ مسلمان نمائندوں کے اس مطالبے کو پس پشت ڈال کر بحث میں شمولیت پر تیار ہو گئے تو علامہ اقبال اور مولوی شفیع داؤدی نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور انگلستان سے واپس روانہ ہو گئے۔ مولانا سالک لکھتے ہیں کہ غالباً روم پہنچ کر مہر صاحب نے، جو اس سفر میں علامہ کے ہمراہ تھے، ایک تار دیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے کہ مولوی داؤدی نے بطور احتجاج گول میز کانفرنس سے استعفا دے دیا ہے اور ڈاکٹر اقبال کے ساتھ وطن واپس آ رہے ہیں۔ سالک صاحب لکھتے ہیں:’’ ایک دن لاہور میں ملک فیروز خاں نون نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ سے میاں فضل حسین آج رات آٹھ اور نو بجے کے درمیان دہلی سے ٹیلی فون پر بات کریں گے۔ آپ فون پر موجود رہیے۔ چنانچہ میاں صاحب کا فون آیا اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ سالک صاحب! کیا خیال ہے آپ کا؟ آپ کے دوست ڈاکٹر اقبال احمق ہیں یا نہیں؟‘‘ میں نے کہا’’ آپ دونوں برابر کے دوست ہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں میں آپ دونوں سے چھوٹا ہوں۔ آپ میری تائید کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ میں تو یہاں حکومت ہند میں اقبال کی قابلیت اور علمیت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ انہیں کوئی اچھی اسامی مل جائے مگر اقبال ہمیشہ کلاف توقع کوئی نہ کوئی حرکت ایسی کر بیٹھتے ہیں جس سے سارا کیا دھرا خاک میں مل جاتا ہے۔ اب دیکھئے انہوں نے کانفرنس سے استعفا دے دیا ہے۔ بھلا اس تیزی کی کیا ضرورت تھی۔ دوسرے ممبر بھی تو ہیں۔ جب انہوں نے استعفا دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اقبال کو کیا پڑی تھی کہ استعفا دے کر نکو بنتے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ تار کے الفاظ ایسے ہیں کہ استعفا کا لفظ صرف مولوی شیخ داؤدی کے نام کے ساتھ ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے متعلق صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ واپس آ رہے ہیں۔ میاں صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ یہ اخبار نویسوں کا سا غچا تو آپ کسی اور کو دیجئے۔ حکومت ہند کے ذرائع اطلاعات اخبار نویسوں کے وسائل سے زیادہ معتبر ہیں۔ ہمیں اطلاع مل چکی ہے کہ اقبال نے استعفا دے دیا ہے میرے نزدیک انہوں نے سخت نادانی کی ہے۔‘‘ اصل بات یہ تھی کہ میاں صاحب ہمیں ڈاکٹر صاحب کا نیاز مند سمجھتے تھے اور ہمیشہ ان کے متعلق اپنے طرز عمل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ان کی فروگزاشتیں ہم سے بیان کیا کرتے تھے تاکہ ہم یہ سمجھ لیں کہ میاں صاحب تو ڈاکٹر صاحب کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب ہی انہیں موقع نہیں دیتے لہٰذا قصور ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ بہرحال میں نے ’’ انقلاب‘‘ میں لکھا کہ ’’ابھی یہ معاملہ صاف نہیں ہوا کہ علامہ اقبال نے بھی کانفرنس سے استعفا دے دیا ہے یا نہیں، لیکن اگر یہ خبر درست ہے تو ڈاکٹر صاحب نے بالکل وہی کیا ہے جس کی ان سے بحیثیت نمائندہ مسلمانان ہند توقع کی جا سکتی تھی۔ اور جن لوگوں نے وفاق میں مسلمانوں کے موقف کا کوئی فیصلہ کرائے بغیر کانفرنس سے تعاون کا ارادہ کیا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب جب وطن واپس پہنچ گئے تو کچھ دنوں کے بعد میاں فضل حسین بھی دہلی سے لاہور آ گئے۔ ایک شام ڈاکٹر صاحب اور مہر صاحب ان سے ملنے کے لئے گئے۔ سالک بیان کرتے ہیں کہ دونوں دوستوں میں مزے مزے کی چوٹیں ہوتی رہیں اور ملکی سیاست پر گفتگو بھی جاری رہی۔ اسی دوران میں میاں صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا’’ کیوں بھئی اقبال! تمہاری بیوی پردہ کرتی ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں پردہ کرتی ہے جیسے تمہاری بیوی کرتی ہے۔ میاں صاحب نے یہ سوال اس لیے کیا تھا کہ ان دنوں ایک ایسے ممتاز آدمی کی تلاش تھی جسے جنوبی افریکہ میں گورنر جنرل ہند کا ایجنٹ بنا کر بھیجا جا سکے، اور اس کی بیوی پردہ نہ کرتی ہو تاکہ موجودہ رسوم کے مطابق میزبان کے فرائض انجام دے سکے۔ میں نے فوراً بھانپ لیا اور میاں صاحب سے کہا کہ آپ یہ سوال اس لیے کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو جنوبی افریکہ بھیجنا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے آپ کی تیز فہمی کی داد دینی پڑتی ہے۔ میرے ذہن میں واقعتہً یہی بات تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ میں اب تک تین بیویاں کر چکا ہوں جو پردہ کرتی ہیں۔ آپ کے خیال میں اب ایک چوتھی بھی کر لی جائے جو پردہ نہ کرتی ہو۔ گویا تین بیویاں تو پرائیویٹ ہیں، اب ایک پبلک بیوی بھی ہو جائے۔ اس پر بہت زور دار قہقہہ لگا اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میری تجویز مانو تو بیگم شاہ نواز کو ایجنٹ بنا کر بھیج دو، کیونکہ ان کی سیاسی خدمات بہت قابل قدر ہیں، اور میاں شاہ نواز کو ان کے ساتھ بطور رفیق حیات بھیج دو۔ بہرحال میاں صاحب کی یہ تجویز لطیفے کی حد تک ہی رہی ا ور کچھ عرصے کے بعد سید رضا علی اس عہدے پر مامور کر کے بھیج دئیے گئے۔ انہیں میزبانی کے لئے جنوبی افریکہ ہی کی ایک خاتون سے شادی کرنی پڑی جن کا نام مس کیمبر تھا۔ 25۔ علامہ سید انور شاہ (بحث زمان و مکان) علامہ اقبال کی محفل میں جب کبھی علوم اسلامی کا ذکر آتا تو اکثر علمائے وقت کے علمی کارناموں پر بھی تبصرہ ہوتا۔ چنانچہ آپ کے سامنے اکثر حضرت سید انور شاہ صاحب کا ذکر بھی ہوتاکہ آپ بڑے پائے کے عالم دین ہیں اور علوم دین کے امام زمانہ ہیں۔ اکثر آپ کے تلامذہ دیوبند کے ساتھ بھی اسی طرح کا ذکر ہوتا جو علامہ اقبال کے دل میں ان سے بالمشافہ ملاقات کا ولولہ پیدا کر دیتا۔ سید صاحب دیوبند کے مدرسہ قاسم العلوم میں مدرس اول کے عہدے پر فائز تھے اور علامہ چاہتے تھے کہ آپ سے کسی وقت بالمشافہ مسائل حاضرہ پر گفتگو ہو۔ راقم کا قیام لدھیانہ میں جنوری 1915ء سے لے کر مئی 1923ء تک رہا۔ اس عرصے میں وہاں اکثر طلبا اور علمائے دیوبند سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سلسلے میں مفتی محمد نعیم صاحب اور مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی خاص طور پر قابل بیان ہیں جن کی معرفت 1916ء میں چند علمائے دیوبند سے ملاقات ہوئی۔ یہ علما دیوبند سے لدھیانہ تشریف لائے تھے جن میں مولانا حافظ محمد احمد مہتمم مدرسہ دیوبند بھی تھے جو مولانا محمد قام نانوتوی کے صاحبزادے تھے۔ ان کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا اور وہ علاج کے لیے براستہ لدھیانہ موگا ضلع فیروز پور جانا چاہتے تھے۔ ان کے ہمراہ مولانا سید انور شاہ صاحب اور مولوی حبیب الرحمن عثمانی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمد صاحب کو موگا لے جا کر آپ کی آنکھوں کا آپریشن کروایا جو بہت کامیاب رہا۔ میں1928ء میں حیدر آباد دکن میں تھا جہاں حافظ محمد احمد صاحب بھی مقیم تھے۔ وہیں آپ کا انتقال 18اکتوبر1928ء کو ہوا تھا اور میں نے یہ خبر روزنامہ ’’ رہبر دکن‘‘ میں پڑھی تھی آپ کے لیے حضور نظام عثمان علی خاں نے ایک خاص فرمان جاری کیا تھا کہ آپ کو قبرستان ’’ خطہ صالحین‘‘ میں دفن کیا جائے۔ غرض کہ علمائے دیوبند سے میری یہ ملاقات ایک سعادت کا درجہ رکھتی تھی۔ میں جب 1916ء کا وہ زمانہ یاد کرتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ بطور خاص متذکرہ بالا علمائے لدھیانہ کا بے حد شکر گزار ہوں جن کی معرفت ان سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے 1916ء کی اس ملاقات میں پہلی بار سید انور شاہ صاحب کو دیکھا تھا۔ آپ کا لباس۔ ۔۔۔ چکن اک بڑا کرتہ، شرعی پاجامہ اور سر پر عمامہ۔۔۔ دیکھ کر ان کی شرافت کا اندازہ ہوتا تھا۔ لدھیانہ میں مولوی محمد زکریا والد مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی کو بھی میں نے دیکھا تھا۔ یہ حضرات1924ء میں علامہ اقبال کی زوجہ کی فاتحہ خوانی کی غرض سے آئے تھے جو23مئی 1924ء کو فوت ہوئی تھیں۔ اس کے بعد حضرت سید انور شاہ صاحب اعلی اللہ مقامہ کو میں نے جمعیتہ العلما کے جلسہ1921ء کے موقعے پر لاہور میں دیکھا اور ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس جلسے کا اعلان روزنامہ ’’ زمیندار‘‘ میں اس طرح ہوا تھا: جمعیتہ العلمائے ہند کا تیسرا سالانہ جلسہ بصدارت حضرت ابو الکلام صاحب آزاد 18, 19اور 20نومبر1921ء کو لاہور میں بریڈلا ہال میں ہو گا جلسہ تین دن ہو گا۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہو گا۔ ارکان جمعیتہ العلمائے ہند، حضرات قارئین، معزز مندوبین، علمائے کرام، سجادہ نشینان اور اکابر ملک و ملت کا قیام، طعام اور داخلہ جلسہ بلا قیمت ہو گا۔ علاوہ ازیں شریک ہونے والے حضرات13نومبر تک ہمیں اطلاع دیں۔ عبدالقادر قصوری، صدر مجلس استقبالہ (زمیندار،4نومبر1921ئ) ہندوستان کی تاریخ میں یہ زمانہ بڑے ابتلا کا زمانہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز 1914ء میں ہوا جو اکتوبر1918ء میں ختم ہوئی۔ اس جنگ نے سیاسی ماحول میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا تھا۔ اس کے فوراً بعد جلیاں والا باغ امرتسر میں ہزار ہا بے گناہ لوگوں پر گولی چلنا، رولٹ ایکٹ کی مخالفت اور عدم تعاون کی تحریک کے فروغ سے ہر طرف ایک طلاطم نظر آتا تھا۔ اس سے ہر ذی شعور انسان، جو سیاسیات ملکی سے دلچسپی رکھتا تھا اور اپنے ملک سے محبت کرتا تھا، نہایت بے چین تھا۔ ہر طرف ملک میں آزادی کے نعرے لگ رہے تھے۔ یہی زمانہ تھا کہ یہ کل ہند اجتماع لاہور میں (1921ء میں) تجویز کیا گیا جس کے روح رواں دراصل قبلہ مولوی عبدالقادر قصوری تھے۔ شاہ صاحب سے علامہ کی پہلی ملاقات: جیسے کہ ذکر ہوا، اس جلسے میں داخلہ بذریعہ دعوت نامہ تھا۔ چونکہ ہجوم بے حد تھا لہٰذا تمام علما اور مندوبین بریڈلا ہال کے عقب والے دروازے سے داخل ہو رہے تھے۔ میں اور علامہ اقبال بالکل ساتھ ساتھ تھے۔ جب ہم ہال میں داخؒ ہو رہے تھے تو میںنے دیکھا کہ قبلہ سید انور شاہ صاحب بھی ہمارے دوش بدوش ہیں۔ میں نے فوراً حضرت علامہ سے اشارۃً عرض کیا کہ آپ سید انور شاہ صاحب ہیں۔ چنانچہ دونوں حضرات ایکد وسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ ان کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ اسی وقت جلسے کے بعد ملنے کا پروگرام چند الفاظ میں طے ہو گیا۔ اس کے بعد مولانا سید انور شاہ صاحب سے اکثر علامہ کی ملاقات رہی۔ کبھی اپنے مکان پر اور کبھی دوسرے مقامات پر جہاں لاہور کے قیام کے دوران میں شاہ صاحب ٹھہرے ہوئے تھے، بلکہ خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ اس زمانے میں لاہور میں مولانا احمد علی مرحوم کے ادارہ خدام الدین نے خاصی شہرت اور مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ علما کے ایسے ایسے شاندار اجتماع ہوئے کہ لاہور کی تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ ان اجتماعات میں عموماً لاہور کے رؤسا بھی شرکت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر سر میاں محمد شفیع، سر عبدالقادر اور دیگر حضرات شامل ہو کر مستفید ہوتے تھے اور علامہ اقبال بھی تشریف لاتے تھے۔ اسی ادارے کے تحت ایک ایسا ہی شاندار جلسہ مارچ1925ء میں ہوا تھا جس میں علمائے دیوبند تشریف لائے تھے۔ جب میں نے علامہ سے ان اہل علم حضرات کی تشریف آوری کا ذکر کیا تو آپ نے فوراً علی بخش سے قلم دان طلب کر کے ایک خط حضرت سید انور شاہ صاحب کو لکھا جسے میں ذیل میں درج کرتا ہوں: ’’ مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ مجھے ماسٹر عبداللہ صاحب سے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔ جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمن صاحب قبلہ عثمانی، مولوی بشیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمن صاحب کی خدمت میں بھی یہی التماس ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرف قبولیت بخشیں گے آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔ لاہور، 12مارچ1925ء مخلص محمد اقبال‘‘ 1؎ اس کا جواب قبلہ شاہ صاحب نے فوراً اسی خط کی پشت پر فارسی زبان میں، ذیل کے الفاظ میں دیا: ’’ جناب مستطاب دام عزہ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔۔۔۔ احقر و دیگر حضرات ہمگی ارشاد جناب سامی قبول کردند والسلام احقر محمود انور عفی اللہ عنہ‘‘ اس دعوت کے موقع پر خدام الدین کے مولانا احمد علی صاحب 1؎ اقبال نامہ، حصہ دوم، لاہور1951ئ، ص257 سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی صاحب اور دیگر علمائے دیوبند بھی موجود تھے۔ یہ محفل طعام بہت ہی دلچسپ اور پر از معلومات تھی۔ خاص کر مسئلہ سود پر گفتگو زیادہ مفصل ہوئی۔ا س سے جب فارغ ہوئے تو مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب نے علامہ اقبال سے دریافت فرمایا کہ ایک تبصرہ عنایت اللہ مشرقی کی کتاب ’’ تذکرہ‘‘ پر’’ زمیندار‘‘ اخبار میں پڑھا تھا، وہ کس نے لکھا تھا؟ا س پر علامہ اقبال نے حاضرین میں سے اپنے دوست چودھری محمد حسین کی طرف اشارہ کیا کہ انہوں نے لکھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے انہیں خوب داد دی۔ انجمن خدام الدین کے مذکورہ جلسے کے موقع پر ایک روز صبح کے وقت حضرت سید انور شاہ صاحب مرحوم نے درس حدیث بھی دیا تھا جس میں ہزار ہا علما اور دوسرے حضرات بطور تبرک شامل ہوئے تھے۔ا کثر شرکائے درس کا یہ خیال تھا کہ ان کو زندگی بھر فخر رہے گا کہ وہ حضرت کے درس حدیث میں شامل ہوئے تھے چنانچہ علامہ نے بھی حسب پروگرام صبح کی نماز کے بعد بخاری شریف کی پہلی حدیث’’ انما الاعمال بالنیات‘‘ پر تقریر فرمائی اور مقام حدیث کے متعلق چند ایسے قیمتی نکات ارشاد فرمائے جو عوام کے لیے بالکل نئے تھے۔ آپ کے اس خطبے میں عظمت حدیث، صداقت حدیث اور ضرورت حدیث کو بوضاحت بیان کیا گیا تھا۔ یہ مجلس تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ اس بابرکت محفل کی اب تک لوگوں کے دلوں میں یاد تازہ ہے۔ 1928ء میں آل انڈیا اوینٹل کانفرنس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تو علامہ اقبال نے شعبہ فارسی و عربی کی صدارت فرمائی اور رسم کے مطابق آپ نے ایک صدارتی خطبہ بھی انگریزی میں پڑھا۔ بعد ازاں سنہ 1929ء میں یہ خطبہ حیدر آباد دکن کے مجلہ ’’ اسلامک کلچر‘‘ میں چھپ گیا اور اس کا ایک اردو ترجمہ مسٹر محمد داؤد رہبر نے ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ کے اگست1947ء کے شمارے میں شائع کیا۔ علامہ کا یہ خطبہ بہت اہم تھا۔ آپ نے بڑی مشکل سے اس جلسے کی صدارت قبول فرما کر خطبہ دینا منظور فرمایا تھا۔ اس خطبے کی تیاری میں کسی قدر راقم کا حصہ بھی تھا کہ بعض مسائل کے ضمن میں کچھ حضرات، مثلاً ڈاکٹر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور علامہ سید انور شاہ صاحب دیوبندی سے خط و کتابت کر کے بعض استفسارات کئے تھے۔ اس خطبے کے بعد دسمبر و جنوری 1928-29ء میں علامہ کو لیکچر دینے کی غرض سے سیٹھ جمال محمد کی دعوت پر مدراس جانا تھا۔ چنانچہ ’’ خطبات مدراس‘‘ میں بھی متذکرہ بالا علمی امور کا ذکر موجود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس خطبے کی تیاری میں خاص طور پر احتیات برتی گئی تھی۔ خطبہ اورینٹل کانفرنس لاہور میں بھی آپ نے حدیث ’’ لا تسبو الدھر۔۔۔‘‘ پر بحث کی ہے اور اس حدیث کا ذکر مدراس کے اس خطبے میں بھی کیا گیا ہے جو ’’ زمان و مکان‘‘ کے موضوع پر دیا گیا تھا۔ یہ موضوع آپ کی زندگی میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ علامہ کو مسئلہ زمان و مکان سے کس قدر دلچسپی تھی؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو گا جو اس ضمن میں مسٹر داؤد رہبر مترجم خطبہ اورینٹل کانفرنس بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1938ء میں مارچ کی پہلی یا دوسری تاریخ کو اقبال کے دوست چودھری محمد حسین مجھے علامہ کے گھر لے گئے اور مرحوم نے مجھ سے زمان و مکان کے اسلامی تصور کے متعلق سوال پوچھے۔ ان دنوں چونکہ ان کا گلا خراب تھا اس لیے لکھ کر یہ سوالات کئے گئے تھے۔ اس ضمن میں میرے جوابات کو انہوں نے پسند فرمایا اور خواہش کی کہ میں روزانہ ان کے ہاں حاضر ہوا کروں، مگر میں نے مجبوری ظاہر کی کیونکہ 3مارچ سے رمضان شریف شروع ہو رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ رمضان کے بعد میں ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوا کروں۔ مگر ماہ رمضان کے بعد ان کی صحت زیادہ بگڑ گئی اور 21اپریل 1938ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ غرض کہ علامہ مرحوم 1938ء میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی مسئلہ زمان و مکان کی تحقیق (اسلامی نقطہ نگاہ سے) میں مشغول تھے۔ اس خطبے میں مشہور ایرانی صوفی عراقی کے جس فارسی رسالے ’’ غایتہ الامکان فی درایتہ المکان‘‘ کا ذکر ہے، یہ دراصل راقم نے ہی قبلہ سید انور شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ سے خط و کتابت کے ذریعے حاصل کر کے علامہ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ 1928ء کا زمانہ اس وجہ سے بھی زیادہ اہم نظر آتا ہے کیونکہ اسی زمانے میں جرمنی کے ایک مفکر شپینگلر نے ایک کتاب Decline of the West(’’ مغرب کا تنزل‘‘ یا ’’ انحطاط مغرب‘‘ ) تصنیف کی تھی جس کا انگریزی ترجمہ فوراً علامہ اقبال نے خرید کر اس کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب نے لوگوں کے ذہنوں کو اس وجہ سے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا کیونکہ اس میں بعض فلسفیانہ مسائل کو نہایت انوکھے اور بالکل نئے اندازسے پیش کیا گیا تھا۔ علامہ نے خود بھی مذکورہ خطبے میں مختصر طور پر اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:ـ ’’ پھر مسلمانوں کی سائنس کے تصورات سے ہماری نا واقفیت بعض مرتبہ ثقافت جدید کے باب میں ہمیں غلط طرز خیال کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال میں شپینگلر کی نہایت فاضلانہ تصنیف’’ انحطاط مغرب‘‘ میں پاتا ہوں جس میں اس نے ثقافتوں کی آفرینش اور نشوونما کے بارے میں ایک نیا نظریہ مرتب کیا ہے۔ کلاسیکی عربی اور جدید ثقافتوں میں عدد کا جو تصور ہے اس پر بحث کرتے ہوئے اور مقدار کے یونانی تصور اور عربوں کے ہاں عدد کی غیر مغنیت کے درمیان فرق دکھاتے ہوئے اس کی تائید میں وہ کہتا ہے۔۔۔‘‘ اس کے بعد علامہ نے شپنگلر کی کتاب سے ایک اقتباس بھی پیش کیا ہے جس کے اعادے کی یہاں ضرورت نہیں۔ بقول اقبال اس اقتباس کے آخری تین فقرے دراصل سنگ بنیاد ہیں جن پر شپنگلر کے نظریے کی بلند عمارت زیادہ تر قائم ہے۔ اس ضمن میں علامہ نے یہ تجویز کیا تھا کہ اس مسئلے کے ضمن میں البیرونی سے استفادہ کیا جائے۔ چنانچہ ان کے مشورے سے میں نے ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم کو علی گڑھ لکھا۔ حالانکہ آپ اس زمانے میں یونیورسٹی سے زیادہ وابستہ نہیں تھے مگر پھر بھی محض علامہ کی وجہ سے فوراً انگریزی زبان کے ایک دلچسپ خط کی صورت میں جواب دیا جس کا ماحصل یہ ہے: ’’ البیرونی کی کتاب قانون مسعودی سے متلثیات کے تفاعلوں کے درمیانی زاویوں کے درجے معلوم کرنے کے لیے نیوٹن نے ضابطہ ادراج (یعنی ایک درجے کا ساٹھواں حصہ) کا استعمال کیا ہے اور اپنے خط میں کوٹنگٹن یونیورسٹی کے استاد فلکیات شوارنش کی توجہ اس عبارت کی طرف دلائی ہے۔‘‘ غرضکہ اس مختصر خطبے میں شپینگلر کے نظریے پر بحث کرنا اور یہ دکھانا کہ اس کی فروگزاشت اس کے تاریخی نقطہ نگاہ پر کس اہم حد تک اثر انداز ہے، شپینگلر کے اس دعوے کی تکذیب کرتاہے کہ ثقافتیں بہ حیثیت نامیاتی عمارتوں کے ایک دوسری سے قطعاً بیگانہ ہوتی ہیں۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ بیکن کے جدید ریاضیات کے اہم ترین تصورات میں سے ایک تصور کی طرف اوپر جو اشارہ ہوا، وہ مجھے عراقی کی تصنیف ’’ غایتہ الامکان فی درایتہ المکان‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ مشہور حدیث’’ لا تسبو الدھر ان الدھر ھو اللہ‘‘ میں Time کا جو لفظ آیا ہے، اس کے متعلق مولوی سید انور شاہ صاحب سے، جو اسلامی دنیا کے فاضل ترین علمائے حدیث میں سے ہیں، میری خط و کتابت ہوئی ۔ اس مراسلت کے دوران میں مولوی صاحب موصوف نے مذکورہ کتاب کے ایک مخطوطے کی طرف اشارہ کیا اور بعد میں میری درخواست پر بڑی عنایت سے مجھے اس کی ایک نقل ارسال فرما دی۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس قابل قدر تحریر کے شاملات کا حال آپ کو بتاؤں۔ کچھ اس لیے کہ یہ شپینگلر کے نظریے سے غیر مطمئن ہونے کی مزید دلیل بہم پہنچائے گا اور زیادہ تر اس لئے کہ مشرقی تحقیق کے اس پہلو کی ضرورت آپ کے ذہن نشیں کروں کہ اسلامی دنیا میں خاص خاص علوم کے تصورات کس طرح پر مرتب ہوئے۔ علاوہ ازیں اغلب ہے کہ یہ نہایت قابل قدر مخطوطہ چھان بین کا ایک نیا میدان کھولنے میں ہمارے ان تصورات زمان و مکان کے اصل و آغاز کی تحقیق ہو جن کی اہمیت حال ہی میں جدید طبیعیات نے محسوس کی ہے۔‘‘ اس اہم خطبے کے آخری حصے میں بحث زمان و مکان کے ضمن میں ایک یورپی مصنف پروفیسر الیگزنڈر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ۔۔۔۔۔اس طرح اس کے سامنے فکر کی ایک ایسی راہ کھل جاتی جو اس کے صوفیانہ نقطہ نظر کے لئے زیادہ سازگار ہوتی۔ پھر حقیقت مطلقہ کی ذات میں فوق المکان ’’ یہاں‘‘ اور فوق الدوام ’’ اب‘‘ کے باہمی نفوذ کا تصور ہمیں ’’ مکان و زمان‘‘ کے جدید تصور کا خیال دلاتا ہے جسے پروفیسر الیگزنڈر نے ’’ مکان و زمان او رالوہیت‘‘ پر مقالہ لکھتے ہوئے تمام موجودات کی کوکھ قرار دیا ہے۔ زمان کی ماہیت پر اگر عراقی کو ذرا زیادہ تیز نگاہ نصیب ہوتی تو وہ اس خیال تک پہنچ جاتا کہ زمان، مکان کی نسبت زیادہ بنیادی ہے اور یہ کہتا (جیسا کہ پروفیسر الیگزنڈر نے واقعی کہہ دیا ہے) کہ ’’ زمان مکان کا ذہن ہے‘‘ محض بطور استعارہ نہیں۔ عراقی نے کائنات کے ساتھ خدا کا تعلق روح اور جسم کے تعلق کے مماثل تصور کیا ہے۔‘‘ جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح کر دیا گیا ہے، علامہ مرحوم کو اخیر دم تک اسلامی نقطہ نگاہ سے زمان و مکان کی بحث سے شغف رہا۔ یہ امر بھی خالی از دلچسپی نہیں ہو گا کہ آپ نے ایک طویل خط18 اگست1923ء کو حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی مرحوم کے نام لکھا ہے جس میں کئی امور پر گفتگو کی گئی ہے۔ ان میں سے قابل ذکر امر یہ ہے کہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے نظریات زمان و مکان کے متعلق اپنی مایک تقریر کے ضمن میں استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ خط کے اخیر میں لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ حضرات صوفیا میں سے اگر کسی اور بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا۔ اس کا نام تھا ’’ فی درایتہ الزمان‘‘ جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس واسطے مزید روشنی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (اقبال نامہ، حصہ اول،444-443) ٭٭٭ 26 ۔علامہ کی موٹر علامہ اقبال جب انار کلی والے مکان میں رہتے تھے، اس زمانے میں سواری کے لیے آپ کے پاس گھوڑا گاڑی (کک) کا انتظام تھا۔ اس وقت بیرسٹر کے علاوہ آپ گورنمنٹ کالج میں پروفیسر بھی تھے۔ پھر جب آپ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تشریف لے آئے تو آپ نے ایک سیکنڈ ہینڈ فرنچ گاڑی کا انتظام کیا جس کے آگے ایک سلور کا کلنگ بھی لگا ہوا تھا۔ اس گاڑی کی خرید کا انتظام میرے خیال میں یہاں آنے سے پیشتر ہو گیا تھا۔۔۔ ایک بار جب ان کے ایک عزیز لدھیانہ والے ڈاکٹر غلام محمد، لاہور آئے ہوئے تھے تو انہوں نے ایک روز مجھے ہمراہ لیا اور والٹر لاک کمپنی مال روڈ پر گئے۔ وہاں سید افضال علی حسنی رئیس لاہور بھی آ گئے تھے اور ڈاکٹر غلام محمد کے ہمراہ مستری عبداللہ بھی تھے جو اکثر ڈاکٹر غلام محمد کو ان کی موٹر کے ضمن میں صلاح و مشورہ دیا کرتے تھے۔ کمپنی والوں نے شاہ صاحب کے آنے پر مذکورہ سیکنڈ ہینڈ موٹر نکالی اور اس میں پٹرول ڈالا گیا۔ موٹر کو برائے آزمائش سڑک پر لا کر ہمیں اس میں بٹھا دیا گیا او رہم سیدھے لاہور چھاؤنی کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم سب نے اور خاص کر ڈاکٹر غلام محمد نے اس موٹر کو پسند کیا۔ منشی طاہر الدین بھی ہمراہ تھے۔ چنانچہ وہ موٹر سید افضال علی حسنی کے مشورے اور مستری عبداللہ کے پسند کرنے پر دسمبر1922ء میں خرید لی گئی۔ میرے خیال میں یہی موٹر علامہ کے ہاں ہمیشہ رہی کیونکہ ہم نے اس گاڑی کو میکلوڈ روڈ پر ان کی کوٹھی کے نیچے والے حصے میں اخیر تک دیکھا۔ اس موٹر نے انتخاب کونسل کے زمانے میں بہت ساتھ دیا۔ اس کا پہلا ڈرائیور ایک شخص علم الدین تھا جو پہلے باغبان پورہ کے میاں خاندان کے ہاں بھی رہ چکا تھا۔ اس کے بعد ایک اور شخص رحما ڈرائیور کی حیثیت سے آیا جو غالباً اخیر تک علامہ کی خدمت میں رہا۔ 27۔ پیام مشرق 1922ء میں جب علامہ اقبال انار کلی والے مکان میں رہائش رکھتے تھے، انہوں نے جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے ’’ مغربی دیوان‘‘ کے جواب میں اپنی کتاب’’ پیام مشرق‘‘ شائع کی۔ جب یہ کتاب چھپ گئی تو چودھری محمد حسین مرحوم نے اس پر رسالہ ’’ ہزار داستان‘‘ لاہور کے فروری 1923ء کے پرچے میں ایک مبسوط تبصرہ لکھا۔ ’’ ہزار داستان‘‘ کے مذکورہ شمارے کے شروع میں علامہ کی ایک تصویر بھی شائع ہوئی تھی اور ایک پورے صفحے پر’’ پیام مشرق‘‘ کی ایک رباعی بھی ’’ خود نگرے‘‘ کے عنوان سے طبع ہوئی تھی۔ اس کے بعد چودھری محمد حسین کا مذکورہ تبصرہ صفحہ4سے شروع ہوا جو صفحہ15پر ختم ہوا۔ اس رسالے کے مدیر نے بھی علامہ پر ایک نوٹ سپرد قلم کیا تھا۔ 1922ء میں، جب علامہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں آ گئے تھے، تو انہوں نے مجھے ’’ پیام مشرق‘‘ کے تین نسخے دیے تھے۔ ایک نسخہ ڈاکٹر نکلسن کے لیے تھا جو میں نے انہیں کیمبرج بھیج دیا۔ دوسرا مولانا سید انور شاہ صاحب کے لیے تھا جو میں نے دیوبند کے پتے پر ان کی خدمت میں ارسال کر دیا اور تیسرا نسخہ علامہ نے مجھے عنایت فرمایا تھا جو میں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ ڈاکٹر نکلسن نے جب ’’ پیام مشرق‘‘ کا مطالعہ کر لیا تو انہوں نے اس پر ایک عالمانہ تبصرہ انگریزی زبان میں لکھا جو رسالہ ’’ اسلامیکا‘‘ لپزگ(جرمنی) کے اول نمبر میں1925ء میں شائع ہیں۔ اس تبصرے کا اردو ترجمہ میں نے علامہ کی موجودگی میں اور ان کے مشورے سے کیا تھا جو ’’نیرنگ خیال‘‘ میں شائع ہوا۔ اس پر جو حواشی لکھے گئے ہیں ان کی تیاری میں بھی علامہ نے میری مدد فرمائی تھی۔ یہی ترجمہ 1923ء میں ’’ نیرنگ خیال‘‘ کے سالنامے (صفحہ107-103) میں چھپا اور پھر ماہنامہ ’’ پیغام حق‘‘ کے اقبال نمبر میں فروری 1946ء میں طبع ہوا (صفحہ195-180) ۔ مولانا سید انور شاہ صاحب مرحوم نے نکلسن کے اس تبصرے کے جواب میں عربی زبان میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’ عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسی علیہ السلام‘‘ تھا اور یہ کتاب انہوں نے علامہ کو بھی ارسال فرمائی تھی۔ اس پر یہ عبارت درج تھی: ’’ بعالی خدمت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب دام ظلہ‘‘ 1923ء میں جامعہ ملیہ کے تین پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین، پروفیسر حبیب الرحمن اور پروفیسر غلام السیدین کشمیر جاتے ہوئے لاہور سے گزرے تو بطور خاص علامہ اقبال کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ کا1922ء والا مذکورہ ایڈیشن دیکھا تو اس کی طباعت وغیرہ کو ناپسند کیا۔ پھر انہوں نے جامعہ ملیہ کے پریس کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے علامہ سے درخواست کی کہ’’ پیام مشرق‘‘ کا ایک اور ایڈیشن وہ اپنی نگرانی میں چھاپنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ راضی ہو گئے اور عبدالمجید پروین رقم کی کتابت سے آراستہ یہ نہایت ہی نفیس ایڈیشن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مطبع سے چھپ گیا۔ طباعت اور کتابت کے لحاظ سے یہ ایڈیشن واقعی ایک شاہکار ہے اور اس کا ایک نسخہ راقم کے پاس بھی محفوظ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نفیس ایڈیشن پھر کبھی شائع نہیں ہوا۔ اس کے شروع میں ’’ پیشکش بحضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ فرماں رواے دولت افغانستان خلد اللہ ملکہ واجلالہ‘‘ کی عبارت درج ہے اور کاتب اور کتب فروش کے نام بھی طبع ہوئے ہیں۔ 1932ء میں یورپ بھر میں گوئٹے کی صد سالہ برسی منائی گئی تھی۔ علامہ اقبال بھی اس زمانے میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن میں موجود تھے اور دوستوں کے ساتھ علمی موضوعات پر خوب بحثیں اور مذاکرات ہوتے تھے۔ راقم بھی ان دنوں لندن میں موجود تھا۔ اسی زمانے میں عبدالرحمن چغتائی مرحوم کے ہمراہ ایک جرمن لڑکی ایلزا ھیفنز نامی علامہ سے ملنے آئی جو خاصی پڑھی لکھی تھی۔ اس کے ساتھ دیر تک مفید گفتگو ہوتی رہی۔ اس کا ذکر میں نے اقبال کے قیام لندن (1932ئ) کی یادداشتوں میں بھی مختصراً کیا ہے۔ دوران ملاقات میں’’ گوئٹے کی گفتگو ایکرمین سے‘‘ کا ذکر بھی آیا جسے علامہ بخوبی جانتے تھے۔ اس کا ایک مستند ترجمہ ہیولاک ایلس نے 1930ء میں کیا تھا جو لاہور آ کر میں نے خریدا اور علامہ نے بھی اسے دیکھا اس میں مصوری پر اور آرٹسٹ روبنز پر بڑی مفید بحث ہے۔ جرمن لڑکی ایلزا کے ہاتھ میں رسالہ ’’ نیرنگ خیال‘‘ کا1932ء کا سالنامہ تھا جو اسی سال چھپا تھا اور اس میں نکلسن کے تبصرہ’’ پیام مشرق‘‘ کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا تھا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ اس لڑکی کو’’ نیرنگ خیال‘‘ کی ظاہری شکل و صورت پسند نہیں آئی اور وہ پرچے کی ہیئت کذائی سے ناخوش ہے۔ دراصل احباب نے علامہ کی تعریف و توضیف جس انداز میں کی تھی، اس کے پیش نظر وہ لڑکی سمجھتی تھی کہ اتنے عظیم آدمی کا ذکر اس قسم کے معمولی پرچے میں زیب نہیں دیتا۔ اس کے بعد جب علامہ نے ایک جرمن پروفیسر کیمف میئر پر گفتگو کی اور پھر گوئٹے پر بات چیت چل نکلی تو وہ علامہ کے خیالات سننے کی شائق نظر آنے لگی۔ چنانچہ علامہ نے ’’ آرٹ اینڈ لٹریچر‘‘ پر بھی سیر حاصل بحث کی اور اپنی کتاب ’’ پیام مشرق‘‘ کی تخلیق کی وجوہ پر روشنی ڈالی جو گوئٹے کے ’’ دیوان مغرب‘‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ علامہ نے دوران گفتگو فرمایا کہ مجھے زندگی کے بارے میں میتھیو آرنلڈ کے نظریات سے اختلاف ہے۔ اس ضمن میں آپ نے فارسی شعرا کے کلام سے بہت سے اشعار بھی سنائے۔ پھر لیسنگ کے نظریہ لاؤ کون، سوفولس کے فلوکیٹس اور ورجل کے نظریات پر آپ نے تفصیل سے بحث کی جسے سن کر جرمن لڑکی علامہ کے تبحر علمی کی قائل ہو گئی اور مطمئن ہو کر اٹھی۔ ایک مرتبہ میں نے علامہ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’ پیام مشرق‘‘ کو امیر امان اللہ خاں کے نام ہی معنون کیوں کیا؟ آپ نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام معنون کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ سے زیادہ موزوں شخصیت کس کی ہو سکتی تھی؟ اس پر میں لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا کیونکہ ’’ پیام مشرق‘‘ کے جذبے کو فعال بنانے کے لیے اس کا کسی مرد آزاد کے نام معنون ہونا نہایت ضروری تھا۔ ’’ پیام مشرق کی اشاعت کے بعد دوستوں نے علامہ سے اس کتاب کا ایک مصور ایڈیشن شائع کرنے کی درخواست بھی کی تھی کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ علامہ کو ادب کا نوبل پرائز ضرور ملے گا اور اس کے لیے ایک شایان شان مصور ایڈیشن نہایت ضروری تھا۔ اس سے پہلے ٹیگور کی کتاب ’’ گیتا نجلی‘‘ ‘‘ کا بھی ایک مصور ایڈیشن شائع ہو چکا تھا جس پر ییٹس نے انگریزی زبان میں مقدمہ لکھا تھا۔ مگر نہ تو’’ پیام مشرق‘‘ کا یہ ایڈیشن شائع ہو سکا اور نہ ہی مغرب والوں کی سیاسی مصلحت نے اقبال کو نوبل پرائز کا مستحق گردانا جس سے ہندوستان کے تمام اہل علم کو دکھ ہوا۔ ٭٭٭ 28۔ تبصرہ1؎ بر پیام مشرق (از ڈاکٹر نکلسن، کیمبرج یونیورسٹی انگلستان) عہد حاضر کے ہندی شعرا میں اقبال ایک نہایت بلند مرتبہ رکھتا ہے۔ اس کے ساز سے دو قسم کے نغموں کی صدائیں نکلتی ہیں، پہلی صدا ہندی الاصل (اردو) ہے جو ہندی میں حرمت وطن کے جذبات کے لیے داد طلب ہے، اگرچہ اقبال سیاسی حیثیت سے وطن پرست نہیں ہے۔ اس کا دوسرا سرود خاک ایران کی شیریں اور سریلی زبان میں ہے جو ملت اسلامیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ در حقیقت یہ جدید اور فیضانی سرود، جو اپنی سحر کاریوں سے آتشیں شعلے اور خاکستر دور دور پھیلا رہا ہے، عنقریب ایک الہامی آواز کی حیثیت سے پھیلنے والا ہے۔ 1؎ مطبوعہ رسالہ ’’ اسلامیکا‘‘ (لپزگ، جرمنی) جلد اول، نمبر اول،(1925ئ) اقبال نے پنجاب میں جنم لیا اور تعلیم کی تکمیل انگلستان اور جرمنی میں کی۔ گویا مشرق و مغرب کا اقتران ہوا لیکن یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ وہ متحد ہو گئے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی قدرتی کمالات سے معمور کیوں نہ ہو، وہ یہ امید نہیں کر سکتا کہ ان دونوں تہذیبوں سے، جو مختلف اساسوں پر مبنی ہیں، کماحقہ حظ اٹھائے۔ اگرچہ اقبال مغربی تربیت سے خاصا متاثر ہے مگر اس کی روح خالصتاً مشرقی ہی ہے۔ بے شک گوئٹے، بائرن اور شیلے سے وہ باخبر ہے۔ نیٹشا کی کتاب۔۔۔۔ (جس میں اس نے اپنی تعلیمات کو نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے) اور برگساں کی کتاب ’’ ارتقائے تخلیقی‘‘ سے اتنا ہی آشنا ہے جتنا وہ قرآن اور مثنوی مولانا روم سے، مگر مغربی تہذیب کے ’’اصول انسانیت‘‘ سے وہ نسبتاً کم باخبر معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس کی تنقید اگرچہ کبھی سطحی نہیں ہوتی مگر بعض اوقات جامع بھی نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس کے فلسفے کے معتبر نظریے، جو زیادہ تر’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بے خودی‘‘ میں اشارۃ نہیں بلکہ صراحتہ مذکور ہیں مختصراً یہاں بیان کئے جاتے ہیں کیونکہ ان نظریات کے علم کے بغیر اقبال کے کلام کا سمجھنا آسان نہیں۔ وہ حقیقت کو تکوین کا عمل قرار دیتا ہے کہ ایک دائمی حکومت (ہستی مطلق) کا قصر سکونت اس کے نظام اشیا میں کوئی محل نہیں رکھتا۔ کل حرکت میں ہے کائنات افراد کے اشتراک کا نام ہے جس کا موجد بے ہمتا یعنی خدا ہے۔ وجود کی تشکیل اور تہذیب ان کا مقصد حیات ہے۔ انسان کامل نہ محض مادے کی دنیا پر تسلط جما کر جذب کر سکتا ہے اس لیے حیات کا جوہر محبت ہے جو اپنے اعلیٰ پائے میں تخلیق خواہشات و تخیلات اور ان کے اظہار کی سعی ہے۔ چنانچہ خواہشات ہی خواہ اچھی ہوں یا بری، شخصیت کو کمزور یا قوی کرتی ہیں اور تمام قدر و منزلت اسی معیار ہی سے جانچی جاتی ہے1؎ یہ ضروری نہیں کہ نیٹشا اور برگساں کو اقبال سے نسبت دی جائے۔ یہ واضح نہیں کہ اقبال اپنی خیالی مجلس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصور اسلام کے مطابق کیوں پیش 1؎ یہاں پر یہ جتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر براؤن نے اپنی تالیف’’ تاریخ ادبیات ایران‘‘ کی چوتھی جلد کے صفحہ430پرجہاں ’’ حکمت الاشراق‘‘ مصنفہ شہاب الدین سہروردی کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ڈاکٹر اقبال کی تالیف’’ ما بعد الطبیعیات ایران‘‘ سے کچھ نقل کر کے اقبال کے نظریہ مذہب یابی سے کلی طور پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسی صفحے پر ایک مختصر سا نوٹ بھی اقبال کا تعارف کرانے کی غرض سے لکھا ہے جس میں آپ کی کتاب ’’ اسرار خودی‘‘ کا ذکر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ کتاب لاہور میں یونیورسٹی پریس میں طبع ہوئی ہے (جو غلط ہے) اور یہ مشرقی رنگ میں نٹشا (مشہور جرمن فلسفی) کے فلسفے کا چربہ ہے۔ یہ یاد رہے کہ دو بڑے آدمی جب جزئیات میں ایک دوسرے سے اتفاقیہ طور پر متفق ہو جائیں تو ان کو ایک دوسرے کا کلی طور پر خوشہ چین نہیں کہا جا سکتا۔ ناظرین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ خود ڈاکٹر براؤں نے لندن کے شاہی مشرقی مجلس کے (1921ء صفحہ147) ایک پرچے میں اسی کتاب ’’ اسرار خودی‘‘ مترجمہ نکلسن پر تبصرہ کیا ہے اور جہاں ڈاکٹر نکلسن کو ذرا بھر بھی اس قسم کا شبہ ہوا ہے اس کی کامل طور پر تردید کی ہے چنانچہ براؤن لکھتا ہے: ’’ ڈاکٹر نکلسن بیان کرتا ہے کہ اقبال کا فلسفہ زیادہ تر نیٹشا اور برگساں کا اور بہت کم جدید فلسفہ افلاطون کے ماہرین اور ان کے مشرقی جانشینوں کا مرہون منت ہے حالانکہ یہ کسی حالت میں بھی مغربی فلسفہ نہیں بلکہ صراحتہً فلسفیانہ انداز میں اخوت اسلامی کی تعلیم ہے۔ یہ کتاب استغراق، انسداد خودی اور ہمہ اوست کے امراض کے علاج کے لئے لکھی گئی ہے۔ مصنف کے نظریے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) کرتاہے اور کیوں اس مجلس کی شرکت کا استحقاق مسلمانوں ہی کے لیے مخصوص ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی جدوجہد کرنے والے نے فلسفی کو پسپا کر دیا ہے جس کا منطقی نتیجہ غلط مگر شاعری کے لحاظ سے صحیح ہے۔ شاعر اقبال کو معقولات سے سخت نفرت ہے۔ وہ ابن سینا کا مولانا رومی سے تباین ظاہر کرتا ہے: بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت ابن فرو تر رفت و تا گوہر رسید آں بگردابے چو خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز از دل گرفت ’’ پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اقبال ابتدائی اشعار میں، جو امیر افغانستان کے تہدیے میں کہے گئے ہیں، کہتا ہے: پیر مغرب شاعر المانوی ایں قتیل شیوہ ہائے پہلوی (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) کے مطابق ان نظریات نے پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندہ تعلیم کے تابعین کو مردہ کر دیا ہے۔ اس کا روئے سخن، جیسا کہ ڈاکٹر نکلسن نے بیان کیا ہے، محض مسلمانان ہند کی طرف نہیں بلکہ مسلمانان عالم کی طرف ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے بجائے اردو کے فارسی میں تصنیف کی گئی ہے جو ایک عمدہ مسلک ہے۔ کیونکہ خواندہ مسلمان بہ نسبت اردو زبان کے فارسی سے زیادہ آشنا ہیں جسے انہوں نے اپنے فلسفیانہ افکار و تخیلات کی بلند پروازی اور انہیں دل ربا پیرائے میں ادا کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ (حاشیہ مترجم) بست نقش شاہدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامے از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغام شرق ماہ تابے ریختم بر شام شرق اگرچہ’’ پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے دیوان سے بظاہر مشابہ ہے کیونکہ دونوں کی مختصر نظمیں ابواب میں مرتب ہیں اور ان کے علیحدہ علیحدہ عنوان رکھے گئے ہیں مگر اپنے عام مقصد میں اور نفس مضمون کے لحاظ سے ان میں کوئی مناسبت نہیں۔ گوئٹے کے دیوان میں ’’ حور و شاعر‘‘ اور’’ جوے آب‘‘ صرف دو نظمیں ہیں جو دیوان میں شامل نہیں ہیں اور ’’ پیام‘‘ میں انہیں عنوان دے کر براہ راست جواب دیا گیا ہے۔’’ جلال اور گوئٹے‘‘ کے عنوان کے تحت جو نظم شامل ہے اس میں اقبال مولانا جلال الدین رومی کو، جس کا وہ نہایت مداح ہے، گوئٹے سے بہشت میں ملاقات کرتا ہوا تصور کرتا ہے۔ اس کو ملنے کے بعد ’’ فاؤسٹ‘‘ 1؎ مصنفہ گوئٹے کا مطالعہ کیا ہے۔ رومی اس طرح کلام کرتا ہے: فکر تو در کنج دل خلوت گزید ایں جہان کہنہ را باز آفرید سوز و ساز جاں بہ پیکر دیدہ ای در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای 1؎ گوئٹے کی یہ مشہور و معروف تصنیف ایک ڈراما ہے جس میں شاعر نے حکیم فاؤسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کو قدیم روایات کے پیرائے میں بیان کر کے انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا۔ ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست ’’داند آں کو نیک بخت و محرم است زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است‘‘ ’’ پیام‘‘ کے کثیر حصے کا سمجھنا مشکل ہے اور اس سے زیادہ مشکل اس کا ترجمہ کرنا ہے۔ پیچیدہ جذبات اور مشکل فلسفیانہ تخیلات اکثر اوقات فارسی شاعری کے استعارات و تشبیہات میں پنہاں ہو جاتے ہیں لیکن اس کے آسان اور واضح حصے ہمارے ادراک میں بڑی طلب پیدا کرتے ہیں۔ مزید برآں ہماری ہمدردی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ذیل میں ایک خط کا خلاصہ ہے جو شاعر کو اس کے کسی مسلمان دوست نے لکھا ہے:’’ واقعی ایک اعلیٰ تربیت یافتہ اور فہمیدہ انسان مادے کے اصل اصول کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اگر کسی نے کافی پڑھا ہو، کافی تفکر کیا ہو اور کافی شبہات میں بھی پڑا ہو تو اعلیٰ تخیل تک پہنچ سکتا ہے جس پر آپ اپنے مطالعہ کرنے والوں کو اپنے سادہ طریقے سے لے جانے کی خواہش کرتے ہیں۔ یہ کتاب محض ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی خودی کو ارادۃً مصروف کرنے کے شغل سے کافی واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسے ایک فریب سے دوسرے تک لے جانے کے لیے ذریعہ ایمان بناتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام انسانی جذبات کی غایت، بلندی سے لے کر تنگ و تاریک شکوک تک، تلاش کر لی ہے۔ آپ کے معاملے میں نہایت وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے ’’ دست ازیک شست تا افتاد در بند دگر‘‘ اور ہم ہیں کہ نہ اتنا محسوس کیا ہے اور نہ اتنا مشاہدہ کیا ہے۔ اس لیے ہم اس اعلیٰ روحانی دنیا میںرہنے کی نہ جرأت رکھتے ہیں اور نہ قابلیت ہی رکھتے ہیں، مگر وقتاً فوقتاً اس میں تفکر کرتے ہیں۔‘‘ میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاعر کے تخیل کے اشارات قلم بند کر دوں۔ اس امید پر کہ بعض لوگ جب میرا ترجمہ پڑھیں گے تو اس عجیب و غریب کتاب کو مجموعی حیثیت سے مطالعہ کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ یہ اس قابل ہے کہ اقبال کی بلند اور زبردست شخصیت سے تعارف کرا دے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ جس قدر تکالیف سخت ہوتی ہیں اتنا ہی عظیم ان کا اجر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اقبال کے لیے خود شعوری و انفرادیت ہی اصل اصول ہے۔ وہ ہمیشہ علم ذات، اثبات خودی اور ارتقائے نفس کا سبق دیتاہے۔ اس کا مقصد حیات عمل ہے۔ اس کا انجام روحانی اور اخلاقی قوت ہے جو ضبط نفس و اطاعت سے نشوونما پاتی ہے۔ ہم مادے کو تسخیر کرنے کے بعد آزاد ہو جاتے ہیں اور پھر وحدت زندگی اور وقت کے فضائی تصور کے بعد غیر فانی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ 1 زندگی پرسیدم از بلند نگاہے حیات چیست؟ گفتا مئے کہ تلخ تر او نکو تر است گفتم کہ کرمک است و ز گل سر بروں زند گفتا کہ شعلہ زاد مثال سمندر است گفتم کہ شر بفطرت خامش نہادہ اند گفتا کہ خیر او نشناسی ہمیں شر است گفتم کہ شوق سیر نبردش بمنزلے گفتا کہ منزلش بہ ہمیں شوق مضمراست گفتم کہ خاکی است و بخاکش ہمی دھند گفتا چو دانہ خاک شگافد، گل تر است 2 گدائے جلوہ رفتی بر سر طور کہ جان تو ز خود نا محرمے ہست قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدے بست 3 میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است 4 دل من رازدان جسم و جان است نہ پنداری اجل بر من گران است چہ غم گریک جہاں گم شد ز چشمم ہنوز اندر ضمیرم صد جہان است 5 جہان ما کہ پایائے ندارد چو ماھی در یم ایام غرق است یکے بر دل نظر وا کن کہ بینی یم ایام در یک جام غرق است 6 اے برادر! من ترا از زندگی دادم نشاں خواب را مرگ سبک داں، مرگ را خواب گراں 7 می خورد ہر ذرۂ ما پیچ و تاب محشرے در ہر دم ما مضمر است با سکندر خضر در ظلمات گفت مرگ مشکل، زندگی مشکل تر است 8 حیات جاوید گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں ہزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است چمن خوش است ولیکن چو غنچہ نتواں زیست قبائے زندگیش از دم صبا چاک است اگر ز رمز حیات آگہی، مجوے و مگیر دلے کہ از خلش خار آرزو پاک است بخود خزیدہ و محکم چو کوھساراں زی چو خس مزی کہ ھوا تیز و شعلہ بے باک است 9 بسے زار نالید ابر بہار کہ ایں زندگی گریہ پیہم است درخشید برق سبک سیر و گفت خطا کردہ ای خندۂ یک دم است 10 زندگی و عمل (در جواب نظم ہائنا موسوم بہ سوالات) ساحل افتادہ گفت، گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت ہستم اگر می روم، گر نہ روم نیستم 11 نوائے وقت خورشید بہ دامانم، انجم بہ گریبانم در من نگری ہیچم، در خود نگری جانم در شہر و بیابانم، در کاخ و شبستانم من دردم و درمانم، من عیش فراوانم من تیغ جہاں سوزم، من چشمہ حیوانم چنگیزی و تیموری، مشتے ز غبار من ہنگامہ افرنگی، یک جستہ شرار من انسان و جہان او، از نقش و نگار من خون جگر مرداں، سامان بہار من من آتش سوزانم، من روضہ رضوانم آسودہ و سیارم، ایں طرفہ تماشا بیں در بادۂ امروزم، کیفیت فردا بیں پنہاں بضمیر من، صد عالم رعنا بیں صد کوکب غلطاں بیں، صد گنبد خضرا بیں من کسوت انسانم، پیراہن یزدانم تقدیر فسون من، تدبیر فسون تو تو عاشق لیلاے، من دشت جنون تو چوں روح رواں پاکم، از چند و چگون تو تو راز درون من، من راز درون تو از جان تو پیدایم، در جان تو پنہانم من رہرو و تو منزل، من مزرع و تو حاصل تو ساز صد آہنگے، تو گرمی ایں محفل آوارۂ آب و گل! دریاب مقام دل گنجیدہ بہ جامے بیں، ایں قلزم بے ساحل از موج بلند تو سر بر زدہ طوفانم ٭٭٭ 12 سرود انجم ہستی ما نظام ما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام ما، مے نگریم و مے رویم جلوہ گہ شہود را بت کدۂ نمود را رزم نبود و بود را کشمکش وجود را عالم دیر و زود را، مے نگریم و مے رویم گرمی کار زار ہا خامی پختہ کار ہا تاج و سریر و دار ہا خواری شہریار ہا بازی روزگار ہا، مے نگریم و مے رویم خواجہ ز سروری گذشت بندہ ز چاکری گذشت زاری و قیصری گذشت دور سکندری گذشت شیوۂ بت گری گذشت، مے نگریم و مے رویم خاک خموش و در خروش سست نہاد و سخت کوش گاہ بہ بزم ناؤ نوش گاہ جنازۂ بہ دوش میر جہان و سفتہ گوش، مے نگریم و مے رویم تو بہ طلسم چون و چند عقل تو در کشاد و بند مثل غزالہ در کمند زار و زبون و درد مند ما بہ نشیمن بلند، مے نگریم و مے رویم پردہ چرا؟ ظہور چیست؟ اصل ظلام و نور چیست؟ چشم و دل و شعور چیست؟ فطرت ناصبور چیست؟ ایں ہمہ نزد و دور چیست؟ مے نگریم و مے رویم بیش تو نزد ما کمے سال تو پیش ما دمے اے بہ کنار تو یمے ساختہ ای بہ شبنمے ما بہ تلاش عالمے، مے نگریم و مے رویم آخری حصے کا عنوان ’’ نقش فرنگ‘‘ ہے جس میں مشرقی ناظر کے لیے اہم ترین مغربی تخیل کی توضیح شاعر کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے ۔ (اور مغربی ناظر کے لیے) اپنے آپ کو اس طرح مشاہدہ کرنا جس طرح اس کو دوسرے مشاہدہ کرتے ہیں، بہت بہتر ہے۔ اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ ہم صحیح پیام کو دل سے لگائیں جس میں اقبال خشک عقلی زنجیروں کو اتار پھینکنے اور ہماری حیات و محبت کی اندرونی دنیا میں ظاہر ہونے کی تلقین کرتا ہے: 13 دانش اندوختہ ای، دل زکف انداختہ ای آہ زاں نقد گراں مایہ کہ در باختہ ای حکمت و فلسفہ کارے است کہ پایانش نیست سیلی عشق و محبت بہ دبستانش نیست بیشتر راہ دل مردم بیدار زند فتنہ نیست کہ در چشم سخن دانش نیست دل ز نار خنک او بہ تپیدن نرسد لذتے در خلش غمزۂ پنہانش نیست دشت و کہسار نوردید و غزالے نہ گرفت طوف گلشن زد و یک گل بہ گریبانش نیست چارہ این است کہ از عشق کشادے طلبیم پیش او سجدہ گذاریم و مرادے طلبیم چشم بکشاے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پے تعمیر جہان دگر است ٭٭٭ زندگی جوئے روان است و رواں خواہد بود ایں مئے کہنہ جوان است و جواں خواہد بود آنچہ بود است و نباید زمیاں خواہد رفت آنچہ بادیست و نبود است ہما خواہد بود عشق از لذت دیدار سراپا نظر است حسن مشتاق نمود است و عیاں خواہد بود آں زمینے کہ برو گریہ خونیں زدہ ام اشک من در جگرش لعل گراں خواہد بود ’’مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند‘‘ اقبال ادنیٰ ادنیٰ سیاسی واقعات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ جمعیت الاقوام کے متعلق اس کی سطور خاص اس کا اپنا رنگ رکھتی ہیں: 14 جمعیت الاقوام برفتند تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند ’’ فلسفہ و سیاست‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: 15 فلسفی را با سیاست داں بیک میزاں مسنج چشم آں خورشید کورے، دیدۂ ایں بے نمے مگر فلسفی بذات خود موثر چوٹیں سہتے ہیں خاص کر ہیگل جس کے بلند پرواز دماغ کو کہا جاتا ہے ’’ ماکیاں کز زور مستی خایہ گیرد بے خروس‘‘ مصنف نے جو طریقہ مسلمان ناظرین کو مغربی فلسفے سے آشنا کرنے کی خاطر اختیار کیا ہے،’’ شوپن ہار اور نیٹشا‘‘ کے متعلق اس کے کلام میں پیش کرتا ہوں: 16 شوپن ہار و نیٹشا مرغے ز آشیانہ بسیر چمن پرید خارے ز شاخ گل بہ تن ناز کش خلید بد گفت فطرت چمن روزگار را از درد خویش و ہم زغم دیگراں تپید داغے ز خون بیگنہے لالہ را شمرد اندر طلسم غنچہ فریب بہار دید گفت اندریں سرا کہ بنایش فتادہ کج صبحے کجا کہ چرخ درو شامہا نہ چید نالید تا بحوصلہ آں نوا طراز خوں گشت نغمہ و ز دو چشمش فرو چکید سوز فغان او بہ دل ہدہدے گرفت بانوک خویش خار ز اندام او کشید گفتش کہ سود خویش ز جیب زیاں برابر گل از شگاف سینہ زر ناب آفرید درماں ز درد ساز اگر خستہ تن شوی خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی اقبال بہ صمیم قلب نیٹشا کے ارادۂ قوت سے متفق ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ اسلام ایک خیالی جماعت تصور کی گئی ہے جو خدائی اور جمہوری سلطنت ہے۔ اس کا ’’ دیوانہ بکارگہ شیشہ گر رسید‘‘ سے مقابلہ1؎ کرتا ہے جسے وہ شاید غیر واجب طور پر ایک دہریہ تصور کرتا ہے: 1؎ ڈاکٹر اقبال نے 1916ء میں ایک مضمون بعنوان’’ جمہوریت اسلام‘‘ اخبار ’’ نیو ایرا‘‘ میں لکھا جس میں آپ نے نیٹشا سے اس سلسلے میں اختلاف ظاہر کرتے ہوئے یورپ کی جمہوریت کا بھی نقشہ پیش کیا ہے:’’ مغربی جمہوریت کو معاشرتی بد امنی اور فساد کے خطرے میں پناہ دی گئی ہے جو محض مغربی مجالس کی اقتصادی حیات جدید سے وجود میں آئی ہے۔ نیٹشا جمہوری حکومت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور عام طبقے سے نا امید نظر آتا ہے۔ وہ تمام اعلیٰ تہذیب کو حکومت شخصی کی تربیت و ترقی پر مبنی قرار دیتا ہے۔ مگر کیا عام انسان کلی طور پر اسی طرح نا امید ہیں؟ جمہوریت اسلام ایزدی اقتصادی عصر سے پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ایک روحانی اصول ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ بنی نوع انسان مستور حکومت کا مرکز ہے جس کی ممکنات ایک خاص قسم کے عمل سے پیدا کی جا سکتی ہیں۔پھر کیا جمہوریت ابتدائے اسلام نیٹشا کے نظریات کا عملی بطلان نہیں ہے۔‘‘ 17 نیٹشا گر نوا خواہی ز پیش او گریز در نے کلکش غریو تندر است نیشتر اندر دل مغرب فشرد دستش از خون چلیپا احمر است آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت قلب او مومن دماغش کافر است1؎ خویش را در نار آں نمرود سوز زانکہ بستان خلیل از آذر است میں خیال کرتا ہوں مناسب یہ ہو گا کہ مصنف’’ پیام‘‘ (اقبال) کو بحیثیت زندہ مسلمان کے پیش کروں۔ واقعی کوئی بھی جدید فلسفی نہیں جس سے اسے اتنی ہمدردی ہو جتنی برگسان سے ہے، جس کی تعلیم کو وہ ان سطور میں بیان کرتا ہے: 1؎ نوٹ: ’’ نیٹشا نے مسیحی فلسفہ اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اس کا دماغ اس لیے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے، گو بعض اخلاقی نتائج میں اس کے افکار مذہب اسلام کے بہت قریب ہیں۔ ’’ قلب او مومن دماغش کافر است‘‘ نبی کریم ؐ نے اس قسم کا جملہ امیہ ابن الصلت (عرب شاعر) کی نسبت کہا تھا ’’ امن لسانہ و کفر قلبہ ‘‘ (یعنی اس کی زبان مومن ہے مگر دل کافر ہے)‘‘ ۔(’’ پیام مشرق‘‘ کا نوٹ) 18 پیغام برگساں تا بر تو آشکار شود راز زندگی خود را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار در مرز و بوم خود چو غریباں گذر مکن نقشے کہ بستہ ای ہمہ اوھام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است شگفتہ اور دل کش تنقید کے قدر دان اس میں خاصا سامان تفریح پائیں گے: مثلاً آئن سٹائن کے متعلق کہتا ہے:’’ کردہ زردشتے ز نسل موسیٰ و ہاروں ظہور‘‘ پھر لینن کے متعلق یہ شعر دیکھئے جو قیصر ولیم کو غلبہ اشتراکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ لوگوں نے محض ایک آقا کا دوسرے سے تبادلہ کر لیا ہے: نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوھکن ہست ’’ قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘‘ اور’’ نواے مزدور‘‘ کے عنوانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال دل و جان سے مزدور کا طرف دار ہے۔ یہاں صرف’’ نوائے مزدور‘‘ کے اقتباس پر اکتفا کیا جاتا ہے: 19 ز مزد بندۂ کرپاس پوش و محنت کش نصیب خواجہ ناکردہ کار رخت حریر ز خوے فشانی من لعل خاتم والی! ز اشک کودک من گوہر ستام امیر بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ اصول جو فلسفے میں عقلیت کے خلاف چلتا ہے، وہ سیاسیات میں سلطنت کے خلاف بھی چلتا ہے۔ انتہا و اعتدال قوم پرست اقبال کو اپنے مطالب کے مطابق پیش کر سکتے ہیں۔ جیسے فرقہ سائیڈ کلسٹ برگساں کا حوالہ دیتا ہے۔ مگر روح حیات پھونکنے والے عمل کو لغو تحریک پر بنا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقبال کھلم کھلا ضبط نفس کو بیان کرتا ہے جو خود شعوری کی اعلیٰ شان ہے، اور خیالی آدمی میں تعقل اور فہم ایک ہو جاتے ہیں۔ یقین رکھنا چاہئے کہ یہ اس کے نقاد کی تسلی نہیں کرے گا۔ جو اس کے نظریات کے استعمال کو کافی وضاحت سے جانتے ہیں، ان کو ان کا ’’ خطاب بہ انگلستان‘‘ پڑھنا چاہیے۔ 20 خطاب بہ انگلستان مشرقی بادہ چشید است ز میناے فرنگ عجبے نیست اگر توبہ دیرینہ شکست فکر نو زادۂ او شیوۂ تدبیر آموخت جوش زد خوں بہ رگ بندۂ تقدیر پرست ساقیا تنگ دل از شورش مستاں نشوی خود تو انصاف بدہ ایں ہمہ ہنگامہ کہ بست ’’بوئے گل خود بہ چمن راہ نما شد زنخست ورنہ بلبل چہ خبر داشت کہ گلزارے ہست (’’اسلامیکا‘‘ جرمنی ‘ ترجمہ خاص برائے ’’نیرنگ خیال‘‘) علامہ اقبال کا گھرانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کی ایک اہلیہ(والدہ آفتاب) اپنے والدین کے ہاں گجرات میں تھیں اور آفتاب ابھی ولایت میں زیر تعلیم تھے۔ آپ کی پہلی بیوی کریم بی بی کا انتقام 1946ء میں ہوا تھا۔ دو بیویاں اس مکان میں آ پ کے ہمراہ رہائش رکھتی تھیں۔ اور ان ک ہاں ابھی کوئی بھی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک بیوی لدھیانے والی اور دوسری لاہور والی تھی۔ میں لدھیانے میں 10جنوری 1915ء کو ملازم ہو کر گیا تو وہاں ابھی تک علامہ کی شادی کا ذکر تازہ تھا۔ یہ شادی لدھیانے کے نولکھا خاندان میں 1914ء میں دسمبر کے آخری ہفتے میں ہوئی تھی یعنی میرے وہاں جانے سے چند دن پہلے انجام پائی تھی۔ جناب مولانا عبدالمجید سالک نے بھی اپنی کتاب ’’ذکر اقبال‘‘ کے صفحہ 68-69میں اس شادی کا ذکر لدھیانہ میں تیسری شادی کے عنوان کے تحت کیا ہے ۔ یہ خاتون ڈاکٹر غلام محمد کی بہن اور ڈاکٹر سبحان علی کی سالی کی لڑکی تھیں۔ جب رشتہ طے ہو گیا تو لاہور سے علامہ کی بارات لدھیانے گئی۔ دراصل لدھیانے میں میری ملازمت اور پھر علامہ کے عزیزوں کے ایک مکان میں میری رہائش علامہ سے میرے مراسم کا باعث بی اور ان کا قرب نصیب ہوا۔ پھر جب میں بھی لاہور آ گیا تو یہ تعلقات مزید مستحکم ہو گئے ۔ لدھیانے میں میرا تقرر چونکہ ایک سکول میں ماسٹر کی حیثیت سے ہوا تھا لہٰذا علامہ ہمیشہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب فرماتے تھے۔ میں نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ کو اپنے گھر میں بہت مطمئن زندگی بسر کرتے دیکھاہ۔ میں ابتدائے 1923ء میں لدھیانے سے سبکدوشی لے کر لاہور آ گیا تھا جس کے بعد عموماً صبح و شام آپ کی خدمت میں حاضرہوتا تھا۔ 1924ء کے آغاز میں ہمیں معلوم ہوا کہ علامہ کی لدھیانے والی بیوی نے میکے لدھیانے گئی ہیں۔ اس کے فوراً بعد یہ اطلاع آئی کہ ان کے ہاں لڑکا پیداہوا ہے اور وہ خود بیمار ہیں۔ پھر ای تار کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے ۔ ا س اطلاع پر علامہ اقبال خود لدھیانے تشریف لے گئے اور وہاں سے منشی طاہر الدین کو اطلاع دی کہ بیوی کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ یہ خبر آنے پر لاہور سے میں منشی طاہر الدین اور چوھدری محمد حسین اسیرات بمبئی میل سے لدھیانہ روانہ ہو گئے۔ اس زمانے میں بمبئی میل لدھیانے میں نصف شب کو پہنچتی تھی۔ چنانچہ ہم نصب شب کے بعد لدھیانے میں سبحان منزل پہنچے تو علامہ سبحان منزل کی بیٹھک میں آرام کر رہے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آبدیدہ ہو کر تمام کیفیت سنائی۔ فرمایا کہ مرحومہ کا جنازہ میں نے خود پڑھایا ہے۔ کیونکہ کوئی شخص سلسلہ قادریہ کے متعلق نہیںملتا تھا۔ علامہ نہایت غمگین تھے بلکہ اس وقت تمام ماحول پر افسردگی طاری تھی۔ تھوڑی دیر بعد کھانا ا گیا کھانے سے فارغ ہو کر ہم تینوں الگ مکان میں آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔ مرحومہ اور ان کے بچے کاانتقال سے دنیاوی اعتبار سے علامہ اقبال کا تعلق مرحومہ کے خاندان سے ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا تھا۔ اگلے روز ہم سوئم کے انتظامات میںمصروف تھے۔ پھر اس سے فارغ ہو کر شام کا کھانا وغیرہ کھا چکے تو دس بجے کے قریب علامہ کے نام سیالکوٹ سے ایک تار آیا جس میں لکھا تھا کہ ان کے ہاں سیالکوٹ 1میں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ یہ دراصل جاوید اقبال کے تولد کی اطلاع تھی۔ جب یہ اطلاع زنان خانے میں پہنچی تو ایک کہرام مچ گیا میں نے ایسی آہ و بقا اپنی پوری زندگی میں نہیں سنی ۔ ہم اس گھر میں بیٹھے ہوئے اللہ کی شان دیکھ رہے تھے کہ علامہ کے ایک گھر میں تو صف ماتم بچھی ہوئی تھی اورادھرسیالکوٹ میں نومولود کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں آج کسی کسی کو یہ عل ہے کہ لدھیانے کے اس خاندان سے بھی علامہ کا کوئی تعلق تھا۔ اس کے اگلے روز ہم علامہ کے ہمراہ لاہور میں واپس آ گئے۔ علامہ نے خود مرحومہ کی جو تاریخ وفات کہی وہ ان کی قبر پر آج بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ یہاں ایک ضروری وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور کے 15جنوری 1928 ء کے شمارے میں ایک طویل مضمون بعنوان ’’علامہ اقبال کی دعائوں کا مجسمہ …ڈاکٹر جاوید اقبال‘‘ چھپا ہے جس میں ان کی ولادت کے متعلق مندرجہ ذیل بیان درج ہے: ’’جاوید 5اکتوبر 1924ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم سنٹرل ماڈل سکول میں حاصل کی لیکن میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے پاس کیا…‘‘ لیکن صحیح یہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ یہاں بیا کیا گیا ہے۔ انہوں نے یورپ سے قانون اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور آج کل لاہور ہائی کورٹ کے جج ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موجود ہے ۔ یہ سانحہ ارتحال 2اکتوبر 1924ء کو پیش آیا: اے دریغا کہ مرگ ہم سفرے دل من در فراق او ہمہ درد بہر سال رحیل او فرمود بہ شہادت رسیدہ منزل کرد اس کے بعد ہم تینوں اشخاص علامہ کے ہمراہ مرحومہ کے چالیسویں میں بھی لدھیانے گئے تھے۔ وہاں علامہ کی ہمشیرہ اور ان کے بہنوئی بھی فیروز پور سے آئے تھے اور علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے بڑے صاحبزادے مسٹر اعجاز نے بھی شرکت کی تھی۔ اس سانحے کے بعد دنیاوی اعتبار سے علامہ کے تعلقات لدھیانہ کے نولکھا خاندان سے بالکل ہی منقطع ہو گئے اور اس طرح علامہ کی زندگی کا ایک اہم باب ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیا گیا۔ علامہ کے وہ صاحبزادے (ڈاکٹر جاوید اقبال) جن کی پیدائش کی اطلاع سیالکوٹ سے آئی تھی۔ خود علامہ کی گود میں پروان چڑھے تعلیم پا کر جوان ہوئے یورپ سے بیرسٹری اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر آئے اورآج ہائی کورٹ لاہور کے جج کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہیں۔ علامہ انہیں بچپن میں پیار سے ببا کہا کرتے تھے۔ غرضیکہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ نے اپنے خاندان کے ساتھ نہایت اطمینان اور باوقار طریق سے آخر مئی 1935ء تک قیام پذیر رہ ۔ علامہ کی زندگی کے تمام اہم معاملات کا تعلق اسی کوٹھی سے ہے۔ ٭٭٭ 30 ایک واقعہ ایک روز میں حسب عادت صبح کے وقت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اپنے چھوٹے کمرے میں موجود تھے۔ میں اندر جانے سے بیشتر علی بخش سے خیر و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے رکگیا (یاد رہے پروفسیر شیرانی عموماً علی بخش کو ’’پیر بھائی‘‘ کہا کرتے تھے) علی بخش نے بتایا کہ ابھی تک موٹر ڈرائیور نہیں آیا اس کا انتظار ہو رہا ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کہاں جانا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ علامہ کو نہیں جانا مجھے موٹر لے کر ریلوے سٹیشن جانا ہے کیونکہ جاوید (ببا) اور اس کی والدہ سیالکوٹ سے آ رہے ہیں۔ اس کے بعد میں اندر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ وقت کیا ہوا ہے؟ میں نے علی بخش کو آواز دی کہ وہ گھڑی دیکھ کر وقت بتائے کیونکہ گھڑی لائبریری میں رہتی ہے علی بخش نے آ کر بتایا کہ ابھی 9 نہیں بجے اور ریل گاڑی غالباً گیارہ بجے آتی ہے۔ ہم خاموش ہو گئے ہم باتیں کر رہے تھے کہ منشی طاہر الدی بھی حسب عادت آ گئے علامہ نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وقت ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ غالباً نو بج چکے ہیں۔ پھر علامہ نے کہا کہ ریلوے کے ٹائم ٹیبل میں گاڑی آنے کا وقت ہے دیکھو۔ منشی صاحب نے کہا کہ میں کل گھر جاتے ہوئے عرض کر گیا تھا کہ 11بجے گاڑی آتی ہے۔ پھر کچھوقت گزر گیا مگر ابھی ڈرائیور نہ آیا تو ہم پھرباتوں میں مشغول ہو گئے۔ کچھ وقت اور گزرنے کے بعد علامہ نے پھر علی بخش کو آوا ز دے کر دریافت کیا کہ کیا وقت ہوا ہے؟ اس نے آ کر بتایا کہ شیخ صاحب ابھی تو مشکل سے پونے دس بجے ہیں آپ نے پوچھا کہ ڈرائیور ابھی تک کیوں نہیں آیا؟ علی بخش نے جواب دیا کہ ل ہم نے اس کو گاڑی کا صحیح وقت بتا دیا تھا اس لیے وہ بر وقت پہنچ جائے گا۔ ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ نہ ڈرائیو ر آ گیا۔ اس نے موٹر نکالی اور علی بخش کو ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن چلا گیا۔ مگر اس کے کوئی پون گھنٹے بعد وہ خالی گاڑی لے کر واپس آ گیا۔ گاڑی میں نہ ببا تھے اور نہ ان کی والدہ تھیں۔ اس وقت علامہ کا چہرہ دیکھنے کے لائق تھا مگر جب علی بخش نے اندر آ کر علامہ کو اطلاع دی کہ سیالکوٹ سے آنے والی گاڑی آج کسی وجہ سے کافی لیٹ ہے تو ان کی طبیعت سنبھل گئی اور پرسکون نظر آنے لگے۔ پھرانہوں نے وقت پوچھاتو علی بخش نے گھڑی دیکھ کر بتایا کہ گیارہ بجنے میں کچھ منٹ باقی ہیں۔ آپ نے تاکیداً فرمایا کہ موٹر کو ابھی باہر ہی رہنے عدو۔ بالآخر علی بخش ایک مرتبہ پھر موٹر لے کر ساڑھے گیارہ بجے ریلوے سٹیشن گیا اور میںنے علامہ کو باتوں میں مشغول کر لیا۔ مگر علی بخش 12بجے کے قریب پھر اکیلا موٹر میں واپس آ گیا اور اس نے بتایا کہ گاڑی تو آ گئی ہے مگر ببا اور ان کی والدہ گاڑی سے نہیں آئے۔ یہ سنتے ہی علامہ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ بے چین ہو گئے۔ مگر ابھی وہ تمام روداد علامہ کی خدمت میں پیش کر رہا تھا کہ اسی وقت پوسٹ مین ے آ کر خطوط دیے۔ ان خطوط میں حسن اتفاق سے ایک خط سیالکوٹ کا بھی تھا جس میں سیالکوٹ کے اعز ہ نے علامہ کو لکھا تھا کہ ببا اور ان کی والدہ کسی ضروری کام سے رک گئے ہیں اور آج نہیں آ رہے‘ اب وہ کل آئیں گے۔ میں یہ تمام ماجرادیکھ رہا تھا اور علامہ کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہو رہا تھا مگر اس خط کے آنے پر جب انہیں اطمینان ہو گیا اور ان کے چہرے کا سکون لوٹ آیا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ دراصل علامہ کی بے چینی کی وجہ یہ تھی کہ جاوید بمشکل اس وقت ڈیڑھ برس کے ہوں گے اور ان کی والدہ بچے کے ساتھ بالکل تنہا سفر کر رہی تھیں۔ ایسی صورت میں ان کی پریشانی فطری تھی۔ اسی طرح ایک دلچسپ واقعہ حیدر آباد دکن میں بھی پیش آیا تھا جب آپ تیار ہو کر صبح صبح والی دکن میر عثمان علی خاں سے ملنے جا رہے تھے جب ہم جانے لگے تو ایک بھیک مانگنے والے نے آ کر سوال کیا ۔ میں نے آپ کے فرمانے پر فوراً اپنی جیب سے اس کو پیسے دے دیے مگر اس نے ایک مرتبہ پھر ہاتھ پھیلا دیے۔ اس پر علامہ نے محسوس کیا کہ شاید میں نے اسے کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ میں نے پھر اسے کچھ دیا تو اس کی جرات مزید بڑھ گئی اور اس نے پھر ہاتھ پھیلا دیے۔ نتیجہ کہ جتنی مرتبہ اس نے ہاتھ پھیلایا علامہ کو اتنی مرتبہ یہ شک گزرا کہ شاید میں نے اسے کچھ دیا ہی نہیں۔ جو وہ بار بار ہاتھ پھیلا رہا ہے علامہ چونکہ عجلت میں تھے لہٰذا اس کا مسلسل پھیلاہوا ہاتھ تو تیاری کی مصروفیت کے دوران دیکھ لیتے تھے مگر میرا دینا دلانا وہ ایک مرتبہ بھی نہ دیکھ سکے۔ ٭٭٭ 31 بانگ درا کی طباعت و اشاعت علامہ اقبال کا وہ کلام جو ’’بانگ درا‘‘ کے نام سے موسوم ہے اسے پہلی مرتبہ آپ نے 1924میں شائع کیا جب آپ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں مقیم تھے۔ میں ان دنوںآپ کے ہاں صبح و شام حاضر ہوتا تھا۔ ’’بانگ درا‘‘ کے مسودے کی تدوین و ترتیب اور اشاعت میں چوہدری محمد حسین مرحوم نے علامہ کی زیر ہدایت غیر معمولی محنت کی اور بالآخر اس کام نو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ دراصل اس کتاب کی اشاعت کے کئی محرکات تھے۔ اول ی کہ 1924ء میں آپ کے تمام اردو کلام کو جو وقتاً فوقتا ً مختلف جرائد میں چھپتا رہا تھا مولوی عبدالرزاق حیدر آبادی نے حیدر آباد دکن سے ’’کلیات اقبال‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ اشاعت دسے بیشتر انہوںنے نہ تو کسی علامہ کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہا ر کیا تھا اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی اجازت لی تھی۔ علامہ کو مولوی عبدالرزاق کی اس حرکت پر بہت دکھ پہنچا کیونکہ آپ اپنے کلام کو کانٹ چھانٹ اورترامیم و اصلاح کے بعد شائع کرنے کے عادی تھے او ر مولوی صاحب نے اسے بعینہ شائع کر دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے سر اکبر حیدری وزیر مالیات حیدر آباد سے مولوی صاحب کی اس حرکت کی شکایت کی جو ان کے ماتحت تھے آپ نے انہیں لکھا کہ مولوی صاحب کا یہ عمل اخلاقی اور قانونی طور پر قابل مواخذہ ہے کیونکہ انہیںمیری اجازت اورعلم کے بغیر یہ کام کرنے کا ہرگز اختیار نہیں تھا۔ سر اکبر حیدری نے علامہ اقبال کی شکایت کا فوری نوٹس لیا اور نہ صرف کتاب کی فروخت رکوا دی بلکہ تمام نسخے ایک کوٹھڑی میں مقفل کرا دیے ۔ کلیات اقبال کے اس ایڈیشن پر علامہ کے ایک بہت ہی مخلص دوست اورمداح علامہ عبداللہ الہمادی نے مقدمہ بھی لکھا تھا۔ جس کے ایک ایک لفظ سے عقیدت کا اظہار ہوتا تھا۔ ادھر لاہور میں علامہ کے ایک نہایت ہی مخلص دوست اور مداح مولوی احمد دین نے بھی کچھ اسی قسم کاکام کیا اور آ پ کا اردو کلام جمع کر کے ذاتی تاثرات کے ساتھ ’’اقبال‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ انہوں نے تو اپنے خیال میں یہ کام اقبال کا نام روشن کرنے کی غرض سے کیا تھا۔ مگر اقبال کو ان کی یہ حرکت پسند نہ آئ۔ چنانچہ ابھی یہ کتاب بازار میںنہیں آئی تھی اور نہ ہی ابھی شیخ مبارک علی کی دکان کو اپناکردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا کہ علامہ خود مولوی احمد دین صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور انہٰںبتایا کہ اس طرح بغیر ترمیم و اصلاح اور بغیر نظر ثانی کے کتاب کی اشاعت انہیں ہرگز پسند نہیں آئی۔ نتیجہ مولوی صاحب نے تمام مطبوعہ مواد بغیر کسی پس و پیش کے ضائع کر دیا۔ بلکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوںنے تمام نسخے نذر آتش کر دیے۔ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر علامہ نے نہایت عجلت میں اپنا اردو کلام مرتب کیا۔ بعض اشعار میں تبدیلیاں کیں اور بعض کو سرے سے حذف کر دیا اور اس طرح جو کلام مدون ہوا اسے عبدالمجید پروین رقم سے کتابت کروا کے شیخ عبدالقادرکے مقدمے کے ساتھ شائع کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں علی بخش پروین رقم سے روزانہ لکھی ہوئی کاپیاں لاتا تھا اور پھر ان کی تصحیح اور طباعت کا کام نہایت عجلت سے انجام پاتا تھا۔ ابھی یہ کتاب چھپ کر نہیں آئی تھی کہ علامہ نے مجھے حکم دیا کہ اس کی تقسیم اور فروخت کا انتظام تم سنبھال لو۔ اگرچہ یہ ایک منفعت بخش کام تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میں علامہ کے ساتھ بے تکلفی اور دوستانہ مراسم کی اس نعمت سے محروم ہو جائوں گا جو مجھے اس وقت میسر ہے۔ چنانچہ میں نے نہایت ادب کے ساتھ معذرت کر دی کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔ اسی موقع پر علامہ نے حضرت اکبر الہ آبادی کے خطوط کا مجموعہ شائع کرنے کا ذکر بھی فرمایا تھا جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ یہ ایک بیش بہا علمی خزانہ ہے جو شائع ہو گیا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ فرمایا کہ اس کی فروخت کا کام بھی تم کرو۔ مگر علامہ کایہ ارادہ کبھی عمل میں نہ آیا اوریہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ خطوط کا وہ مسودہ کہاں گیا؟ ان خطوط کی موجودگی کا سراغ تو خود علامہ کے اپنے خطوط سے ملتا ہے۔ مگر بعد کے حالات کسی کو معلوم نہیں۔ بالآخر منشی طاہر الدین کی معرفت شمس العلماء مولوی ممتاز علی کے ادارے دارالاشاعت پنجاب کے ساتھ معاملہ طے ہو گیا اور مولوی ممتاز علی کے صاحب زادے سید حمید علی اور سید امتیاز علی تاج نے کتاب کی فروخت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ دارالاشاعت پنجاب نے بانگ درا کی تشہیر کی غرض سے ایک بڑے سائز کااشتہار بھی نکالا جو لاہور میں جگہ جگہ دیواروں پر چسپاں کیا گیا تھا۔ دلچسپ لطیفہ یہ ہوا کہ بعض نیم خواندہ ہندو بانگ کوبنک پڑھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید علامہ اقبال کوئی بنک کھول رہے ہیںَ جب یہ کتاب مکمل طور پر شائع ہو گئی اور متعدد اخبارات و رسائل میں اس پر تبصرے ہوئے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ علامہ کے اپنے اردو کلام میں نہ صرف ترمیم واصلاح کی ہے بلکہ بہت سے اشعار بھی حذف کر دیے ہیں بعد میں یہ حذف شدہ اشعار بھی عقیدت مندوں نے محفوظ کر لیے اور باقیات اقبال اور سرور رفتہ کے نام سے یہ کلام بھی کتابی شکل میں شائع ہو گیا۔ علامہ نے اپنے اکثر احباب کو بانگ درا کے نسخے تحفتہً بھی دیے تھے اور ان پر اپنے ہاتھ سے اشعار بھی لکھے تھے۔ راقم کے پاس بھی اس ایڈیشن کا ایک نسخہ ابھی تک محفوظ ہے۔ ٭٭٭ 32 تاریخ لاہور کا ایک اہم باب لاہور کی تاریخ میں بعض واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت اہم اور عبرت انگیز ہیں۔ مسلما نو ں کے عزم و ہمت کی یہ داستانیں پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ذیل میں اسی قسم کے تین واقعات پیش کیے جا رہے ہیں: 1 مئی 1927 ء کا ذکر ہے کہ چند شرپسند سکھوں نے لاہور کے گوردوارہ باولی صاحب میں مسلمانوں کے خلاف ایک گھنائونی سازش تیار کی۔ چنانچہ مسلح سکھوں کا ایک گروہ گوردوارہ سے نکل کر حویلی کابلی محل کے بازار میں واقع مسجد میں گھس گیا اور جہاں چند مسلمان عشا کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ ان درندوں نے مسجد سے نکلنے والے نمازیوں کو بہت بیدردی سے شہید کر دیا جس پر تمام لاہور میں ایک کہرام مچ گیا دعلامہ اس زمانے میں لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہو چکے تھے۔ یہ دردناک خبر سن کر ہم اسی وقت آپ کی کوٹھی پر گئے انہیں حالات سے مطلع کیا اور آپ کو ہمراہ لے کر جائے وقوعہ پر آ گئے۔ مسلمان چونکہ بے انتہا مشتعل ہو چکے تھے لہٰذا اقبال نے انہیں صبر کی تلقین کی اور کافی رات گئے واپس آ گئے دوسرے روز صبح نو بجے ہم پھر علامہ کو لے کر آئے اور ااپ نے سنہری مسجد کے سامنے مسلمانوں کے ایک بہت برے ہجوم سے خطاب کیا۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے چند فارسی کے اشعار پڑھے۔ جن میں شاہین کا ذکر تھا۔ پھر آپ نے حاضرین کو بتایا کہ مسلمانوں کا رویہ ایسے موقعوں پر کیا ہونا چاہیے۔ مجمع نے مطالبہ کیا کہ چونکہ سکھوں کے پاس ہر وقت کرپان رہتی ہے جس سے وہ دہشت گردی کرتے ہیں لہٰذا ہمارے پاس بھی تلوار ہونی چاہیے تاکہ ہم ان وحشی حملہ آوروں کی بربریت سے اپنی جانکی حفاظت کر سکیں۔ مگر علامہ نے لوگوں کو پھر صبر و ضبط کی تلقین کی اور مکمل تحقیقات کا یقین دلایا ۔ اسی روز بعد دوپہر شہدا کے جنازے اٹھائے گئے اور یونیورسٹی گرائونڈ میں نماز جنازہ ہوئی۔ جنازے میں لاہور کے تمام رئوسا اور بڑے لوگوںکے علاوہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری بھی شامل تھے۔ ایسا بڑا مجمع اور اتنا دردناک منظر لاہور میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔ 2 اسی طرح کا ایک اور عبرت انگیز اور دردناک واقعہ رنگیلا رسول نامی رسوائے زمانہ کتاب کی اشاعت پر رونما ہوا جس کا ہیرو ایک گمنام محنت کش تہے ۔ علم دین ایک بڑھئی نوجوان تھا۔ جو محلہ چابک سواراں کے قریب بازار سریاں والا میں رہتا تھا۔ اس نے ایک ہندو راجپال نامی کو قتل کر دیا تھا۔ کیونکہ اس نے ایک نہایت ہی توہین آمیز کتاب رنگیلا رسول شائع کی تھی جس میں آں حضرت صلعم کی شان میں گستاخیاں کی گئی تھیں۔ چنانچہ علم دین نے آنحضرتؐ کی شان میں گستاخی کا بدلہ یوں لیا کہ اسن کتاب کے مصنف راجپال کو سربازار قتل کر دیا۔ جب وہ نوجوان پکڑا گیا تو مسلمانوں نے شدید احتجاج کے باوجود گورنمنٹ نے اسے پھانسی کی سزا دے دی۔ گورنمنٹ کی تجویز یہ تھی کہ میانوالی جیل میں اسے پھانسی دی جائے مگر مسلمان لاہور نے اس حکم کے خلاف ہڑتال کر دی اور مطالبہ کیا کہ غازی کو پھانسی لاہور میں دی جائے ۔چنانچہ گورنمنٹ نے علامہ اقبال اور میاں سر محمد شفیع کا امن و امان کا ضامن ٹھہرا کر اپنا فیصلہ بدل دیا اوراسے لاہور میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے بعد علم دین کی نعش چھائونی ریلوے سٹیشن پر مسلمانوں کے حوالے کی گئی اور چوبرجی کے قریب نماز جنازہ ادا ہوئی۔ میںنے اپنی پوری زندگی میں اتنا بڑا جنازہ آج تک نہیںدیکھا۔ مذکورہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘کے خلاف تمام ہندوستان کے مسلمانوں نے احتجا ج کیا۔ اس کے خلاف آواز بلند کی۔ جلسے کیے اور جلوس نکالے جس کے نتیجے میں کئی لوگ قید ہوئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس سلسلے میں ایک بہت بڑا جلسہ دہلی دروازے کے باہر ہوا تھا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ اس جلسے کے مقررین میں مولانا عرفان اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے علماء بھی شامل تھے جلسے کے اگلے روز بعض احباب علامہ کے ہاں ان کی کوٹھی میں جمع ہوئے جن میں سید عطا اللہ شاہ بخاری بھی تھے۔ چنانچہ گزشتہ رات کی تقریر کے ضمن میں دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اسی اثنامیں سید نور حسین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آ گئے اور انہوںنے علامہ کے کان میں کہا کہ میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کو گرفتار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس پر آپ نے واضح طور پر فرما دیا کہ حکومت کے احکام سے کیسے انکارہو سکتا ہے مگر آپ صرف اس قدرمیرے ساتھ رعایت کر دیں کہ ان کو میری کوٹھی سے باہر گرفتارکریں۔ 3 اسی طرح 1936 کا مسجد شہید گنج کا تاریخی واقعہ بھی ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس موقع پر علامہ نے اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ کسی طرح سکھ مان جائیں اور مسجد کو شہید نہ کریں۔ آپ نے اس سلسلے میں بڑے بڑے سرکردہ سکھوں سے بات چیت بھی کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور بالآخر سکھوں نے اس مسجد کو گر ا دیا۔ مسلمانوںنے اس مسجد کو بچانے کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ علامہ نے گاندھی جی وغیرہ سے مل کر بھی مصالحت کرانے کی کوشش کی مگر نہ تو ہندو مانے اور نہ سکھ آمادہ ہوئے۔ بالآخر مسجد کو گرا دیا گیا اور مسلمانوں کو بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ٭٭٭ 33 انتخاب کونسل علامہ کی صحبت میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ آپ نے کبھی کسی انتخاب میں حصہ لینے کی خواہش نہیں کی۔ اور ہمیشہ ایسے ہنگاموں سے اجتناب کیا ہے مگر ہندو ذہنیت نے چونکہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو بہت پست کر دیا تھا لہٰذا ان کی نمائندگی کیلیے کسی مضبوط شخص کی ضرورت تھی۔ چنانچہ 1926 میں لوگوں نے آپ کو پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخابا ت میں حصہ لینے پر آمادہ کر لیا۔ جب آپ نے اعلان کیا تو دوسرے امیدواروں میں سے میاں عبدالعزیز مالواڈا اور ملک محمد حسین ایڈووکیٹ آپ کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ ان میں سے عبدالعزیز تو پہلے ہی ممبر چلے آ رہے تھے اور ملک محمد حسین نئے امیدوار تھے۔ تاہم ملک محمد دین نے جو ارائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے باوجود مسلمانان لاہور کی مخالفت کے آپ کا مقابلہ کیا۔ یہ تمام ہنگامہ انتخاب کونسل کا ایک بہت بڑا معرکہ تھا جس کی مختصر کیفیت ذیل میں در ج کی جاتی ہے۔ اس زمانے میں علامہ کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی پر احباب کا مجمع ہر وقت رہتا تھا۔ اور ایک خاص قسم کی ہنگامی فضانظر آتی تھی۔ یہ حلقہ انتخاب بہت وسیع تھا۔ آپ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں اول رنگ محل میں آئے جہاں مشن ہائی سکول کے قریب ماسٹراللہ بخش آرٹسٹ کے مکان پر آ کے چند احباب جمع ہوئے۔ ان حضڑات میں مصطفی حیرت ملک لال دین قیصر‘ شیخ حسین الدین میونسپل کمشنر اور دیگر سرکردہ مسلمان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہاں احباب سے صلاح و مشورہ ہوا اور پھر اس مکان سے نکل کر مسجد چینیاں والی محلہ چابک سواراں سے گزر کرتکیہ ساھدواں آئے۔ لوگوں سے ملاقات کی تو انہوںنے اپنی بھرپور امداد کا وعدہ کیا۔ وہاں ڈاکٹر محمد امین کے مکان کے قریب علامہ کے ایک پرانے ملنے والے بابو عبداللہ رہائش پذیر تھے۔ جو حال ہی میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ آپ نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ موجود نہ تھے۔ کسی نے بتایا کہ وہ آج کل قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔ اس پر آپ نے حیرت کا اظہار کیا اور ظریفانہ انداز میں فرمایا کہ قرآن کریم سے بابو عبداللہ کا کیا سروکار؟ پھر ہم سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ دیکھ لو قرآن کریم بھی کس قدر مظلوم ہے کہ ہرشخص اس پر قابض ہو جاتا ہے۔ انتخاب کے معرکے میں تمام احباب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس سلسلے میں آپ کے ہم زلف خواجہ نور الدین بیرسٹر‘ حیات (گھی والا) مولوی مسلم‘ مسلک میراں بخش‘ شمس الدین(شم بھولی) ‘ ڈاکٹر تاثیر اور ملک لا ل دین قیصر نے نہایت عمدہ کردار ادا کیا۔ انتخابی جلسے لاہور کے تمام محلوں بازاروں اور احباب کی دعوت پر گھروں مٰں بھی ہوئیے۔ آپ نے ان تمام جلسوں میں تقریریں کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر رات کو دیر ہو جاتی تھی۔ اس زمانے میں لوگ گلی کوچوں میں قبال کے اشعار پڑھتے نظر آتے تھے۔ اسلامیہ کالج کے جے اے وی کے طلبہ نے جن کو یہ کلاس میں پڑھاتا تھا۔ علامہ کے دفتر انتخاب میں تمام فہرستوں کو محلہ وار الگ الگ بنایا ہے۔ مسٹر محمد عاشق دفتر انتخاب کے مہتمم تھے اور ان کے مشیر اعلیٰ پروفیسر تاثیر تھے۔ یہ دفتر خواجہ محمد سلیم کے گھر میں قئام تھا اور جو کشمیری بازار کے کوچہ کوٹھی داراں میں واقع تھا۔ اس سلسلے میں اسلامیہ کالج کے طلبہ نے ایک جلوس نکالا بھی تھا۔ وہ قریب قریب شہر کے تمام بازاروں میں گھومنے اوربلند آواز میں علامہ کے اشعار پڑھتے۔ ترانہ ملی کے مندرجہ ذیل اشعار وہ لہک لہک کر پڑھتے تھے: چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا باطل سے دینے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا ٭٭٭ حرم پاک بھی‘ اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ مختلف قسم کے پروپیگنڈا اشتہار بھی شائع ہوئے تھے جن کی کتابت حاجی دین محمد کیا کرتے تھے جو خواجہ سلیجم ک مکانم کے قریب ہی رہتے تھے ایک انتخابی جلوس میںعلامہ خود بھی شامل ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جلوس کے دوران جب نماز مغرب کا وقت آ گیا تو جلوس رک گیا اورقاضی عبدالرحمن طالب علم اسلامیہ کالج کی امامت میں نماز پڑھی گئی۔ جب انتخابات کا وقت قریب آیا تو سرکاری طور پر پولنگ سٹیشن مقرر کیے گئے۔ اتفاق میں جس سٹیشن پر متعین تھا وہ میکلوڈ روڈ پر علامہ کی کوٹھی کے پاس نیوایرا تھیڑکے باہر میدان میں واقع تھا۔ یہاں سب سے اول خود علامہ نے اپنا ووٹ ڈالا اور ان کے بعد علامہ یوسف علی‘ شیخ اصغر علی اور دیگر احباب نے اپنے اپنے ووٹ ڈالے۔ میرے مددگار اسلامیہ کالج کے جے اے وی کلاس کے تمام طلبہ تھے ۔ ان طلبہ میں سے ایک لڑکے بشیر کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔ مگر علامہ کی ذاتی مداخلت سے اسے چھوڑ دیا گیا۔ غرض کہ شام تک یہ ہنگامہ گرم رہا۔ مختلف مراکز سے جو اطلاعات آ رہی تھیں وہ کافی امید افزا تھیں بالآخر جب گنتی مکمل ہو گئی تو علامہ اقبال نہایت غیر معمولی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئے۔ جب علامہ کی کامیابی کا اعلان ہو گیا تو احباب نے ایک جلوس مرتب کیا جو شہر کے اندر نکالا گیا۔ سنہری مسجد اور کشمیری بازار میں اس جلوس کا بہت زور تھا۔ سنہری مسجد کے میدان میں جو بھنگڑا ڈالا گیا وہ دیکھنے کے قابل تھا۔ احباب کی مسرت کا یہ عالم تھا کہ تاثیر اور دیگر رفقا نے علامہکو بھی اس بھنگڑے میں شامل کر لیا۔ اس خوشی میں احباب نے علامہ کے اعزاز میں کئی ضیافتیں کیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسلامیہ کالج کے سٹاف روم میں ہم نے بھی ایک دعوت کا انتظام کیا تھا۔ جس میں پروفیسر سراج الدین آذر نے بطور خاص حصہ لیا۔ خواجہ عبدالحمید بھی اس ضیافت میں موجود تھے جو فلسفے کے پروفیسر تھے۔ ٭٭٭ 34 اقبال اور بیرونی ممالک کے ارباب علم (ز بور عجم کی اشاعت) حضرت علامہ کی فارسی تصنیف (زبور عجم) پنجاب کونسل کے انتخابات اور ’’پیام مشرق‘‘ کی طباعت کے بعد شائع ہوئی تھی۔ اس کا اعلان روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میںمورخہ 10جون 1927ء کو ہوا تھا اور 17جولائی 1927ء کو لاہور میں یہ شائع ہو گئی تھی۔ میں نے اسی موقع پر ایک مضمون 24جولائی 1927ء کے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں لکھا تھا جس کا عنوان یہ تھا: ’’علامہ اقبال اور بیرونی ممالک کے ارباب علم (کلام اقبال کے تراجم اور اس پر تنقید و تبصرہ)‘‘ بیرونی ممالک کے ارباب علم نے علامہ کے کلام سے جس جس صورت میں اعتنا کیا تھا میں نے اس مضمون میں اس کا ایک خاکہ پیش کیا تھا۔ میںنے یہ بھی بتایا تھا کہ علامہ موصوف کی شخصیت ‘ شاعری اور فلسفے کے متعلق مختلف ممالک کے رسالوں اور مختلف زبانوںمیںاب تک کیا کچھ لکھا گیا ہے۔ اس مختصر مضمون کو جن مختلف ماخذ کی مدد سے مرتب کیاگیا تھا۔ کم سے کم ہمارے ملک کے لوگوں کو ان کے بارے میں بہت ہی کم واقفیت تھی۔ علامہ اقبال کے والد ماجد شیخ نور محمد اس زمانے میں ابھی زندہ تھے انہوںنے اسے پڑھ کرعلامہ کو ایک خط بھی لکھا تھا اور میری اس ناچیز کوشش کو سراہا تھا۔ بعد میںیہ سلسلہ غیر ممالک اور ہندوستان میں بہت وسیع ہو گیا تھا اور آپ کو بے شمار فضلا کے خطوط او ر تبصرے موصول ہوئے جن کی فہرست بہت طویل ہے ۔ بہرحال راقم کا متذکرہ مضمون ذیل میں پیش خدمت ہے۔ شرو ع میں انقلاب کا نوٹ ہے: کلام اقبال کے تراجم اور اس پر تنقید و تبصرہ بیرونی ممالک کے ارباب علم نے علامہ اقبال کے کلام سے جس جس صورت میں اعتنا کیا ہے اس کا ایک مکمل خاکہ مرتب کرنا نہایت ضروری ہے۔ بلکہ ان تمام تنقیدوں اور تبصروں کو مکمل طور پر اردو زبان میں منتقل کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جو علامہ موصوف کی شخصیت و شاعری یا تعلیمات اور فلسفے کے متعلق مختلف زبانوں میں لکھے گئے ہیں اور جن میں سے اکثر کی نسبت خبرداران بند کو علم بھی نہیں۔ ہمارے عزیز دوست پروفیسر محمد عبداللہ چغتائی نے غیر ملکی تنقید و تبصرہ کے متعلق مختصر سی معلومات ذیل میں ترتیب کے ساتھ جمع کر دی ہیں۔ ہماری رائے میں علامہ اقبال کے کلام کے سلسلے میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی خدمت ہے۔ اس سے بیشتر یہ معلومات یکجا نہیں ہوئی تھیںَ امید واثق ہے کہ شائقین کلام اقبال کے اس مطالعے سے محظوظ ہوں گے‘‘۔ (ادارہ انقلاب 24جولائی 1927ء مطابق 23محرم الحرام 1346ھ) (1) حسین دانش ترکی فاضل نے ترکی زبان میں علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کا ترجمہ کیا ہے اور ’’پیام مشرق ‘‘ پر تبصرہ بھی لکھا ہے ۔ ہمیں یہ معلومات ڈاکٹر توفیق بے رکن وفد ہلال احمر سے ملیں۔ ڈاکٹر توفیق بے نے یہ بھی فرمایا کہ اقبال کے نظریات کو شاید ہی کسی نے اس وضاحت کے ساتھ لکھا ہو جس وضاحت سے حسین دانش نے لکھا ہے۔ ایک روز ڈاکٹر توفیق بے نے دوران گفتگو میںفرمایا کہ اقبال کبھی قسطنطنیہ تشریف لائیں تو ان کا شاہانہ استقبال کیا جائے۔ (2) ’’امان افغان‘‘ کابل میں جناب آغا ہادی حسن صاحب وزیر تجارت نے جو پہلے انگلستان میں افغانستان کی طرف سے سفیر تھ‘ ایک سلسلہ میں مضامین ’’پیام مشرق‘‘ پر بطور تبصرہلکھا تھا جو کئی نمبروںمیں شائع ہوا۔ (3)مصر کے مشہور و معروف سیاح جنا ب احمد رفعت جنہوں نے پچھلے دنوں میں ممالک اسلام کی سیاحت ختم کی۔ اپنی سیاحت کے دوران شملہ اور لاہور میںبھی رونق افروز ہوئے۔ جناب احمد رفعت نے علامہ کا بہت سی نظمووں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور یہ تراجم مصڑ کے مشہور جریدے ’’الاھرام‘‘ میں شائع ہوئے۔ (4) مولوی عبدالحق صاحب حقی بغدادی مرحوم سابق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علامہ کی مشہو رنظم ’’ترانہ‘‘ کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ بھی مصر وغیرہ کے عربی اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ (5) ڈاکتر نکلسن پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی نے ’’اسرار خودی‘‘ کو انگریزی لباس پہنایا۔ پھر ’’پیام مشرق‘‘ پر رسالہ ’’اسلامیکا‘‘ (جرمنی) میں تبصرہ لکھا اس تبصر ے کا اردو ترجمہ ’’نیرنگ خیال‘‘ کے عید نمبر میں 1925ء میں شائع ہو چکا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر موصوف پیام مشرق کے انگریزی ترجمے میں مصروف ہیں۔ (6) ڈاکٹر برائون آنجہانی نے ’’اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلہ 1921ء میں تبصرہ لکھا۔ نیز اپنی تازہ ترین تالیف ’’تاریخ ادبیات فارسی‘‘ کی آخری جلد یعنی جلد چہارم میں بھی شہاب الدین سہروردی کے سلسلے میں ذکرکیاہے۔ (7) ڈایشوروسونے پیام مشرق کے مقدمے کو جرمنی زبان کا لباس پہنا کر پیام مشرق کی غرض وغایت کو واضح کر دیا۔ (8) ڈاکٹر فشر پروفیسر لپزگ یونیورسٹی ایڈیٹر ’’اسلامیکا‘‘ نے جرمنی زبان میں ’’پیام مشرق‘‘ پر تبصرہ لکھا اور ڈاکٹر نکلسن سے بھی زیادہ بہتر طریق پر علامہ اقبال کا گوئٹے سے مقابلہ کیا۔ (9) جرمنی کے مستشرق ڈاکٹر ہانسی مامکنکے نے جووہاں کا ایک مشہور فلسفی شاعر ہے ۔ نہایت حسن عقیدت اور فرط محبت سے پیام مشرق کا استقبال یا۔ یعنی اس کے ایک خاص حصے کا ترجمہ جرمن زبان سے کیا پھر اسے چمڑے کے کاغذ پر جس پر عموماً انجیل وغیرہ مقدس کتابیں لکھی جاتی ہیں اپنے ہاتھ سے خوش خط لکھا اور مشرقی انداز میں نقش و نگار بنا کر علامہ اقبال کی خدمت میں بطور تہدیہ ارسال کیا۔ احقر کو بھی اس ہدیہ نادرہ کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ واقعیایسی نایاب چیز کبھی قدیم زمانے میں تیار کی جاتی تھی۔ (10) خان بہادر عبدالعزیز دپٹی کمشنر بندوبست جب انگلستان تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے لندن یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی میں اقبال کی شاعری کے نصب العین پر لیکچر دیے جو بعض یورپی رسائل میں بھی شائع ہوئے۔ (11) جرمنی میں ڈاکٹر اقبا ل کے نام پر ایک سوسائٹی قائم ہوئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ علامہ موصوف کی تعلیمات او رآپ کے کلام کی اشاعت کرے۔ (12) ڈاکتر سکارپا اٹلی کے ایک مشہور فاضل ہیں جو پچھلے دنوں افغانستان میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے اٹلی کے ایک ادبی مجلہ میں اقبال کے متعلق ایک نہایت محققانہ مضمون لکھا ہے۔ (13)حال ہی میں رجرمنی میں ایک بیاض ہندوستانی معلم و ادب سے متعلق شائع ہوئی ہے جس میں مختلف شعرا کے کلام کا انتخاب بصورت تراجم جمع ہے۔ اس مجموعے میں علامہ اقبال کی پانچ نظمیںہیں اور ٹیگور کی محض ایک نظم ہے۔ (14) ایک روسی نے ‘ جو ہندوستان کا سفر کر چکا ہے اور لاہور محض علامہ اقبال سے ملنے کی گرض سے آیا تھا ’’اسرار خودی‘‘ کے نظریات کوروسی زبان میں قلم بند کیا ہے۔ (15) ڈاکٹر کزن نے جو مدراس کی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے روح رواں ہیں اپنی تازہ کتاب ’’ساما دراسن‘‘ میں تبصرہ لکھا ہیکہ اور ٹیگور اور اقبال کا موازنہ کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اقبال اس کا برادر کلاں ہے۔ (16) آں جہانی ڈاکٹر سپونر نے نظم ’’شکوہ‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہے جو ’’انڈین ریویو ‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ ’’پیام مشرق‘‘ کا ترجمہ بھی انگریزی زبان میں کرنا چاہتے تھے۔ (17) رسالہ اینتم 1921ء میں مسٹر فارسٹر نے اسرار خودی کے انگریزی ترجمے پر تبصرہ لکھا ہے اور علامہ اقبال کے کلام پرایک مصلح قوم کی تعلیمات کی حیثیت سے نظر ڈالی ہے۔ اس تبصر ے کا ترجمہ بھی غالباً ’’معارف‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ (18) مسٹرالپسن…سابق مدیر مسلم آئوٹ لک نے بارہا ٹیگور اور اقبال کا موازنہ کیا ہے اور اقبال کو ٹیگور سے بہمہ وجود بہتر ثابت کیاہے۔ (19) کتاب ہندوستان کی بیداری مصنفہ میکنزی میں ایک باب ’’جدید علم و ادب کا طلوع‘‘ کے نام سے بھی ہے جس پر سردار جوگندر سنگھ کی تحریر کی رو سے اقبال کا ذکر بھی نہایت وضاحت سے کیا گیا ہے (ص 159) یہ کتاب امریکہ میں 1927ء میں چھپی تھی۔ اس کا مصنف تمام امریکہ کانمائندہ بن کر ہندوستان آیا تھا۔ (20) 1925ء کے ’’انڈین ریویو‘‘ میں ایک مضمون ’’پیام مشرق‘‘ کے عنوان سے مسٹر مینن کے قلم سے شائع ہوا۔ مصنف نے اس میں ’’اسرار خودی‘‘ کو اخوت اسلامی کے موضوع پر ایک الہامی کتاب قرار دیا ہے۔ (21) علامہ اقبال جب کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے تو ایک جلسے میں ایک مقررنے علامہ اقبال ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے ’’مارننگ پوسٹ‘‘ کی ایک تحریر کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ اقبال ایک بہت بڑی طاقت ہے ۔ ٭٭٭ 35۔مسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد علامہ اقبال تمام زندگی بحیثیت ایک مسلمان کے مسلمانوں کو تعلیم دیتے رہے۔ وہ تمام مسلمانوں کو من حیث القوم ایک برادری تصور کرتے تھے۔ جب کلمہ توحید تمام دنیا میں ایک الگ اسلامی شعار کا مالک ہے تو اس برادر میں سب شامل ہیں۔ آپ نے 1927ء میںپنجاب اسمبلی سے جو انتخاب لڑا تھا وہ بھی اسی اصول پر تھا۔ اس زمانے میں پنجاب کی مسلم آبادی 56فی صد تھی۔ اسی نقطہ نگاہ سے آپ نے ہمیشہ جداگانہ انتخاب انتخاب کا ساتھ دیا اور اسی اصول پر آپ نے وطن کے تصور کو پس پشت ڈال کر اسلام کے واحد جماعتی نظام کو ترجیح دی۔ ہندوستان کی تقسیم بھی اسی اصول پر ہوئی۔آپ نے ’’جواب شکوہ‘‘ میں کس دکھ کے ساتھ کہا ہے: یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو‘ بتائو تو مسلمان بھی ہو؟ اسی اصول پر آپ نے مولانا حسین احمد مدنی کو خطاب کر کے کہا تھا: بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی ‘ تمام بولہبی است چنانچہ آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس 1930ء میں جو خطبہ بمقام الہ آباد دیا اس میںمسلمانوں کے تمام عوارض کا علاج ا س طرح تجویز کیا: ’’… مختصرا ً میں نے یہ کوشش کی ہے کہ راستہ واضح کر دوں‘ میرے نقطہ نگاہ سے ہندوستا ن کے دو مسائل نہایت اہم ہیں برٹش انڈیا کی از سر نو تقسیم ہونی چاہیے۔ جس سے فرقہ وارانہ مسئلے کو حل کیا جائے جو مسلمانان ہندوستان کی بہت بڑی خواہش ہے۔ اور مسلمانوں کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس چاہتی ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمان اس پر اتفاق نہیںکر سکتے کہ ایسی انتظامی تبدیلیاں کی جائیں جو ان کی اکثریت والی آبادیوں پر اثر انداز ہوں‘یعنی جداگانہ انتخابات پنجاب اور بنگال میں ہوں یا مرکز میں تینتیس فی صد نمائندگی دی جائے‘‘۔ اس طرح علامہ نے اپنے خطبہ صدارت میں برٹش انڈیا کی تقسیم کی تجویز پیش کی اور پھر یہ مسئلہ ہندوستان میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ یہی تجویز آ گے چل کر حضرت قائد اعظم کی کوشش سے تقسیم ہند کا موجب بن گئی اور پاکستان ظہور میں آ گیا۔ اس جلسے میں میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ اورلاہور سے والنٹیرز کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ الہ آباد گئی تھی جس میں چودھری محمد حسین لعل دین قیصر اور مصطفیٰ حیرت وغیرہ شامل تھے ۔ الہ آباد میں جب علامہ کی آمد کی خبر شائع ہوئی تھی تو وہاں کے اکثر شعرا نے آپ سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ ہم لوگوں نے الہ آباد کا قلعہ اور جمنا و گنگا دریا کی بھی سیر کی تھی۔ اسی زمانے میں آل ایشیا ایجوکیشنل کانفرنس بغداد میں اور آل انڈیا اورئینٹل کانفرنس پٹنہ میںہوئی تھی۔ جلسہ الہ آباد کے بعد آپ نے 1932ء میں آل انڈیا پارٹیز مسلم کانفرنس لاہور کی صدارت بھی کی تھی۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی آپ نے خطبہ الہ آباد کے مسائل کو دہرایا اور ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی فرمائی۔ ٭٭٭ 36 نور المشائخ ملا شور بازار جس زمانے میں امیر اللہ خان سابق والی افغانستان اپنے ملک کو خیر باد کہہ کر یورپ جا چکے تھے تو لاہور میں ان کے اس فیصلے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح واپس تشریف لے آئیں۔ اس تحریک میں علامہ اقبال سب سے پیش پیش تھے ۔ لاہور میں اس ضمن میں اکثر میٹنگیں بھی ہوتی تھیں ۔ علامہ نے نہ صرف محمڈن ہال والی میٹنگ میں شرکت کی بلکہ ایک دو جلدوں کی صدارت بھی فرمائی۔ اس جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کا انتظا م بھی کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور کے ایک طالب علم مسٹر ممتاز مرزا نے بھی اس مہم میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ وہ آج کل غالباً پاکستان گورنمنٹ کالج کے محکمہ فینانس میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ اس روپے کی فراہمی کے لیے چھوٹی چھوٹی کاپیاں بھی چھپوائی گئی تھیں۔ جن کا عنوان ’’امان اللہ فنڈ‘‘ تھا۔ راقم نے بھی چندہ دیا تھا جس کی رسید آج بھی کہیں کاغذات میں مل جائے گی۔ چنانچہ لاہور میں ان دنوں کافی گہما گہمی تھی اور یہ گہما گہمی محض علامہ کی دلچسپی لینے کی وجہ سے تھی۔ اسی زمانے میں ہم نے یہ سنا تھا کہ ملا شور بازار سے افغانی حضرات بہت عقیدت رکھتے ہیں اور کافی عزت و اکرام کرتے ہیں۔ ایک شام جب میں حسب عادت علامہ کے ہاں گیا تو میں نے غیر معمولی طور پر دوپہر کے بعد بھی منشی شیخ طاہر الدین کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ وہ ہمیشہ دوپہرسے پہلے ہی اپنے فرائض سے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آج ان کی معرفت علامہ اقبال کی ملاقات ملا شور بازار سے ہونے والی ہے۔ چنانچہ وقت مقررہ پر ہم علامہ کے ہمراہ ان کی موٹر میں فلیمنگ روڈ پر میوہ منڈی کے سامنے امیر منزل میں نئے جہاں پر ملا صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ راستے میں ہم نے مولانا غلام رسول صاحب کو بھی ہمراہ لے لیا جو ان دنوں اسی سڑک پر رہتے تھے۔ ملا صاحب اس مکان کے ایک نمبر کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اور یہ مکان اس طرح میوہ منڈی والو ں کا گودام تھا۔ ملا شور بازار صاحب نہایت احترام سے علامہ اقبال کے ساتھ اصحاب سرور کے دستور کے مطابق بغل گیر ہو کر ملے اور نہایت اخلاق سے پیش آئے۔ نشست فرش پر تھی۔ جب گفتگو شرو ع ہوئی تومعلوم ہوا کہ آپ اردو سمجھتے تو ضرور ہیں مگر آسانی سے گفتگو نہیںکر سکتے۔ اسی طرح علامہ فارسی زبان کو خوب سمجھتے تھے مگر اس میں آزادانہ گفتگو کے عادی نہ تھے۔ اور کسی قدر گھبراتے تھے۔ ملا صاحب نے فارسی میں پوچھا کہ آپ فارسی زبان میں گفتگو اچھی طرح سے کر سکتے ہیں؟ علامہ نے جواب دیا ’’قدرے‘‘ اس کے بعد تمام گفتگو فارسی زبان میں ہوئی۔ دوران گفتگو امان اللہ خاں والی افغانستان سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔ چنانچہ قبائل کی اس سے ناراضگی افغانستان میں لوگوں کااس سے مختلف الرائے ہونا اور خاص طور پر امان اللہ خاں کا یورپین لباس اور طور طریق سے شغف رکھنا زیر بحث آیا۔ اس گفتگومیں علم و ادب پر بھی بعض اشارات ہوئے۔ خاص کر میرزا بیدل کا ذکر ہوا کیونکہ افغانیوں کو بید ل کے کلام سے بہت عقیدت تھی۔ علاوہ ازیں اس ملاقات میں بعض صوفیانہ مسائل پر بھی حضرت سید احمد سرہندی کے حوالے زیر بحث آئے۔ پھر علامہ کی بعض تصنیفات کے متعلق بھی تھوڑی سی گفتگو ہوئی۔ ملا شور بازار اکثر سرہند آتے جاتے رہتے تھے۔ واضح رہے کہ علامہ مرحوم کو صوفیائے کرام اور علماء و صلحا سے ملنے کی ہمیشہ تمنا رہتی تھی اورخود ان کے مسکن پر ملاقات کر کے خوش ہوتے تھے۔ ٭٭٭ 37 گاما پہلوان لاہور شہر کی تاریخ عجیب و غریب ہے۔ اس پر جس قدر بھی لکھا جائے کم ہے۔ اس کی تاریخ و ثقافت کے مختلف ادوار میں ایسے ایسے واقعات پنہاں ہیں کہ ان کے ہر پہلو پر ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ لوگوں کو اپنی کشمکش روزگار سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ کہ اس طرف متوجہ ہوں ۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ ہر کام کے لیے قدرت نے انسان میں کچھ نہ کچھ قابلیت ودیعت کی ہے اور یہی تمام جدوجہد مجتمع صورت میں ملک کی جامع و مانع تاریخ بن جاتی ہے۔ لاہور میں علامہ اقبال کے زمانے کے بہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے بہت سے شبق آموز نتائج آج بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ لاہور میں پجاب لیجس لیٹو کونسل کے انتخابات کازمانہ (اپرل تا نومبر 1926ئ) بہت ہی معرکہ خیز تھا۔ اس زمانے میں جو کچھ ہوا وہ ابھی تک آنکھوںکے سامنے ہے۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر بعض احباب نے بہت کچھ لکھا ہے مگر اس زمانے میں ایک خاص پہلو پر لکھنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کو من حیث القوم زندہ رہنے اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تاکید فرمائی ہے۔ انہوںنے کبھی مخلوط انتخابات کی ہامی نہیں بھری اور غیروں کو اپنے معاملات میں کبھی دخل دینے کی اجازت نہیں دی۔ جب انتخاات کا ہنگامہ فرو ہوا اور علامہ لاہور کی پبلک سے پہلے سے زیادہ مانوس ہو گئے تو اہل لاہور نے ہنگامی طور پر ایک جلسے کا انتظا م کیا جس کی صدارت کے لیے انہوں نے علامہ ہی سے درخواست کی ۔ اس جلسے کی غرض و غایت یہ تھی کہ مسلمانوں میں کاروبار سنبھالنے کا شعور پیدا کیا جائے کیونکہ مسلمان اقتصادی طور پر خاصے پریشان تھے اور ہندوئوں کی لوٹ کھسوٹ اور اقتصادی برتری سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جب علامہ نے صدارت کی درخواست قبول فرما لی تو جلسے کا انتظام حسب دستور موچی دروازے کے باہر بغ میں کیا گیا۔ اگرچہ یہ جلسہ کسی خاص انتظام اور اہتمام سے منعقد نہیں کیا گیا تھا اور ایک طرح ہنگامی جلسہ تھا مگر پھربھی کم و بیش پچیس ہزار مسلمان جمع ہو گئے تھے۔ علامہ کے سامنے جلسے کا مختصر پروگرام بھی رکھ دیا گیا جو صرف مقررین کے ناموں پرمشتمل تھا۔ سب سے پہلے ایک صاحب نے تلاوت قرآن کے بعد بھی نظم پڑھی۔ پھر ایک اور شاعر غالباً فیض نے پنجابی زبان کی ایک نظم پڑھی پھر ایک اور شعر غالباً فیض نے پنجابی زبان کی ایک نظم پڑھی اورم ختلف مقررین نے تقریریں کیں۔ اس کے بعد ان صاحب کو بلایا گیا جس نے علامہ کے خطبہ صدارت سے پہلے تقریر کرنا تھی۔ کئی با ر ان کا نام پکاراگیامگر وہ سٹیجپر نہیںآئے اتنے میں سٹیج کے دائیں جانب لوگوں میںذرا ہلچل پیدا ہوئی تو علامہ نے ادھر دیکھا کہ موصو ف شاید اس طرف سے آ رہے ہیں مگر وہاں بھی ہیں تھے۔ پھر اگلی صف میں خھڑے ہوئے لوگوںمیں سے ایک صاحب نے بلند آواز میں پنجابی زبان میں ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ادھر بھی نہیں ہیں۔ علامہ نے غور سے دیکھا ت ویہ ہمارے ملک کے مایہ ناز ہلوان گاما پہلوان تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً ان سے کہا کہ اگر وہ نہیں ہیں تو آپ ہی سٹیج پر تشریف لے آئیں۔ پہلون صاحب علامہ کے ارشاد کی تعمیل میں سٹیج پر تشریف لے آئے تو علامہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو تلقین فرمائی کہ گاما پہلوان صاحب ہمارے ملک کے نامور پہلوان ہیں لہٰذا آپ ان کی تقریر سکون سے سنیں۔ اب تو پہلوان صاحب بہت گھبرائے مگرانہوںنے خود پر قابو پر کا اپنی سیدھی سادی پہلوانی زبان میں پہلے لوگوں کو ورزش اور کسرت کرنے کی تلقین کی اور پھر نہایت مختصر الفاظ میں اپیل کی کہ بھائیو سودا سلف مسلمان دکان داروں سے لیا کرو۔ آخر میں علامہ نے جو صدارتی تقریر فرمائی وہ کچھ یوں ہے: ’’اس جلسے میں سب سے زیادہ جو تقریر مجھے پسند آئی وہ گاما پہلوان کی ہے۔ ان کے الفاظ ایک سچے مسلمان کے الفاظ ہیں جو نہایت موثر ہیں۔ آپ لوگوں کو ان پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ملک کے لوگوں کی صحت اورمسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہو جو نہایت ضروری ہے‘‘۔ ان الفاظ کے بعد علامہ نے اپنی تقریر ختم کر دی اور جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ ٭٭٭ 38 پروفیسر برائون ہندوستان کے ایک پندرہ روز ہ رسالے ’’آج کل‘‘ (بابت 15 جون 1944ئ) میںعیسیٰ صادق صاحب نے ’’پروفیسر برائون‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جو ہر اس شخص کے لیے جو فارسی زبا ن و ادب کی تاریخ سے دلچسپی رکھتا ہے قابل توجہ ہے۔ مضمون نگار کے نقطہ نظر سے ڈاکٹر برائون کی مساعی جمیلہ نے ایرانیوںکے علم و ادب کو چار چاند لگا دیے ہیں اور ان کامحققانہ طرز بیان فارسی زبان کے مطالعے کی ایک خاص رغبت پیدا کرتا ہے۔ آج جو ایرانی فضلا اپنی زبان کی ترقی کے لیے اس کی تحقیق و تدقیق میں منہمک نظر آتے ہیں مضمون نگار کے نزدیک یہ اسی شخص کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور اس سے خاصا فیضان حاصل کیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا امور سے قطع نظرمیں صرف یہ حقیقت بیا ن کرنا چاہتا ہوں کہ سوائے مرزا محمد عبددالواب قزوینی یا چند اور اشخاص کے کوئی اہل علم نظر نہیں آتا جس سے برائون جیسے محقق نے تاریخ ادبیات و زبان فارسی کے ضمن میں استفادہ کیا ہو۔ البتہ علامہ اقبال کے اسلامی نظریات اور مشہور محقق و مورخ مولانا شبلی کی کتاب شعر العجم سے اس نے ضرور استفادہ کیا ہے۔ اس تمہید کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں مقصد یہ ہے کہ جس طرح پروفسیر برائون نے علامہ اقبال کے نظریات کا حوالہ دیا ہے یا دوسروں کے نظریات سے اقبال کے فلسفے کا موازنہ کیاہے اسے بیا ن کیا جائے۔ جب برائون کی مذکورہ کتاب’’تاریخ ادبیات فارسی‘‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی تو ا سوقت اقبال انگلستان کی مشہور یونیورسٹی کیمرج میں زیر تعلیم تھے۔ اقبا ل نے یہ کتاب دیکھی توانہوںنے اس پر ایک فاضلانہ تبصرہ بھی لکھا جو شائع ہو گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی امتیازی علمی خدمت تھی اور اقبال نے اپنے تبصرے میں ایرانیوں کو بطور خاص مخاطب کیا تھا۔ جب اس کتاب کی چوتھی جلد شائع ہوئی تو ملا صدر کے سلسلے میں اقبال کے نظریات کو بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ ملا صدر الدین محمد بن ابراہیم شیرازی (ملا صدرا) کے سوانح حیات بیان کرنے کے بعد برائون لکھتاہے: ’’ان کی تصنیف ’’اسفار‘ ‘ کے دیباچے کے بعض جملوں سے مترشح ہوتا ہے کہ غالی ارقدامت پسند ملائوں ے ہاتھوں انہیں بڑی اذیتیں اٹھانی پڑیں۔ نیز یہ کہ شیخ احمد احسائی بانی فرقہ شیخیہ ان کی دو تصنیفوں حکمت العرشیہ اور مشاعر پر تفسیریں بھی لکھی ہیںَ نظربایں حالات غالباً شیخ محمد اقبال کا یہ قول صحیح ہے کہ: صدار کا فلسفہ ہی ابتدائی بابی مابعد الطبیعیات کا ماخذ ہے (ارتقائے مابعداطبیعیات در ایران‘ انگریزی‘ لندن‘ 1908ء ص 175) آگے چل لکھتے ہیں: ’’اس عجیب و غریب فلسفے کا نقطہ آغاز تلاش کرنا ہو تو شیخیوں کے شیعہ فرقے پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس کا بانی شیخ احمد ملا صدرا کے فلسفے کا پرجوش طالب علم تھا اور جس پر اس نے کئی تفسیریں بھی لکھی ہیں‘‘۔ ملا صدراکے نظریات پر برائون نے مفصل روشنی ڈالی ہے۔ ہمیں چونکہ صرف علامہ اقبال کی علمی عظمت بیان کرنا ہے لہٰذا ہم ا س بحث کو نظر انداز کرتے ہوئے برائون کا وہ بیان نقل کرتے ہیں جس میں اس نے علامہ کے نظریات کی وضاحت کی ہے وہ لکھتاہے: ’’اس سے کسی قدر مختصر مگر نسبتہً زیادہ سنجیدہ بیان شیخ محمد اقبال کا ہے جو پہلے اسی کیمبرج یونیورسٹی میں ڈاکٹر میک ٹگارٹ کے تلمیذ تھے اور اب ہندوستان میں ایک مشہور اور جدت طراز مفکر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہ بحث ان کی کتاب ’’ارتقائے ما بعد الطبیعیات در ایران‘‘ کے صفحہ 157پر موجود ہے جو اسلامی فلسفے کی تاریخ پر ایک منفرد تصنیف ہے۔ انہوںنے ملا صدرا کی نسبت زمانہ حال کے فلسفی حاجی ملا بادی سبزواری کا ذکر زیادہ تفصیل سے کیا ہے۔ و ہ ملا بادی کو ملا صدرا کامعنوی جانشین سمجھتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ برائون نے ایک فٹ نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے: ’’محمد اقبال نے اپنے ذاتی خیالات ایک مختصر فارسی مثنوی اسرار خودی میں بھی ظاہر کیے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہوںنے نطشے کے خیالات کو مشرقی جامہ پہنایا ہے۔ یہ مثنوی یونیورسٹی پریس لاہور سے لتھو میں چھپی ہے۔ میرے دوست ااور شریک کار ڈاکٹر نکلسن نے اس کاانگریزی زبان میںترجمہ کیا ہے اور مقدمہ و حواشی بھی لکھے ہیں‘‘۔ پروفیسر برائون نے خود بھ نکلسن کے متذکرہ بالا ترجمہ اسرار خودی پر تبصرہ کیاتھا جو 1921ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے جرنل (ص 147) میں شائع ہوا تھا۔ اس میں برائون نے نہ صرف اپنے الفاظ کی بلکہ جہاں کہیں ڈاکٹر نکلسن کو ذرہ بھر بھی شبہ ہوا ہے ‘ اس یکی بھی کامل تردید کر دی ہے۔ اسے چونکہ نکلسن کے تبصرہ پیام مشرق کی ذیل میں بیان کر دیا گیا ہے لہٰذا یہاں اعادے کی ضرورت نہیں۔ پھر اقبال نے خود بھی لکھنو کے اخبار نیو ایرا میں 1916ء میں جمہوریت اسلام کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں نطشے کے فلسفے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ انہوںنے اسلامی نقطہ گاہ اور نطشے کے نظریات کو نہایت وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ سید سلیمان ندوی مرحوم ہمارے ملک کے ایک مشہور و معروف دانشور اور اہل علم تھے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کی رائے بھی پیش کر دی جائے۔ اقبال اور نطشے کے نظریات میں یکسانیت کا دعویٰ کرنے والوںکو انہوںنے نہایت مدلل جواب دیا ہے۔ چنانچہ مارچ 1943ء کے شذرات میں لکھتے ہیں: ’’واضح رہے کہ علامہ اقبال مرحوم ہی ایک ایسے فاضل زمانہ اورمرد میدان تھے۔ جنہوںنے فلسفہ مشرق و مغرب کا خالصاً اسلامی نقطہ نگاہ سے نہ صرف مطالعہ ہی نہیںکیا بلکہ ا س پر کماحقہ تنقید بھی کی ہے جس کا ہر لفظ صداقت اسلام پر گواہ ہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض مفسرین نے جن کا اسلامی تاریخ یا فلسفے کا پورا علم نہیں ہے۔ اقبال پر یہ تنقید بے سود کی ہے کہ اقبال نے صرف مغربی فلسفیوں کے نظریات کو اپنی زبان…یعنی اردو یا فارسی… میں پیش کر دیا ہے یہ ان کی کور اندیشی ہے کیونکہ اقبال نے ان اقوال کو اصل پیش کرنے کے بعد پھر اسلامی نقطہ نـظر سے عوام کو ان سے آگاہ کیاہے ۔ اس سے بالوضاحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ہر دو یعنی اسلامی اور غیر اسلامی نقطہ نگاہ میں کیا فرق ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ لوگ ذرابھی وسعت نظر سے کام نہیں لیتے۔ وہ اسلامی نقطہ نگاہ کا مطالعہ کیے بغیر صرف غیر اسلامی نظریات ہی کو پیش کرتے ہیں‘‘۔ عیسیٰ صادق صاحب نے برائون پر اپنے متذکرہ مضمون میں ادبیات فارسی کے سلسلے میں برائون کی خدمات کوبہت سراہا ہے۔ مگر ان کا فرض تھا کہ وہ کسی معاصر ایرانی فاضل کو بھی پیش کرتے ج س کے علم و فضل سیبرائون نے استفادہ کیا ہو‘ جس طرح اس نے اقبال اور شبلی سے کیا۔ شبلی کی کتاب ’’شعر العجم‘‘ کے متعلق اس کا اعتراف کی ا ہے کہ یہ کتاب بذات خود ایک علمی کارنامہ ہے جسے فارسی زبان میں بھی ترجمہ کیاجا چکاہے۔ اگرچہ اس کے بعد ایرانیوںنے اس موضود پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں اور آج ایران میںعلماء و فضلا کی ایک ایسی جماعت موجود ہے جس کے علمی کارنامے بطور سند پیش کیے جا سکتے ہیں مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ یہ فیضان انہیں باہر سے حاصل ہوا۔ جب 1926ء میں پروفیسر برائون کا انتقال ہوا تو دنیا بھرکے اہل علم نے اسے نقصان عظیم قرار دیا اور تعزیتی جلسے منعقد کیے۔ ا س کے کچھ ہی عرصے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی نے ڈاکٹر نکلسن کی معرفت علامہ اقبال سے درخواست کی کہ براہ کرم پروفیسر برائون کی تاریخ وفات کا قطعہ لکھ کر ارسال فرمائیے۔ جب یہ خط حضرت علامہ اقبال کو ملا تو انہوں نے اسی وقت راقم سے تاریخ نکالنے والی کتاب منگوا کر ایک قطعہ تیار کیا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے: نازش اہل کمال ای ۔ جی ۔ برائون فیض او در مغرب و مشرق عمیم مغرب اندر ماتم او سینہ چاک از فراق او دل مشرق دو نیم تابہ فردوس بریں ماویٰ گرفت گفت ہاتف ذالک الفوذ العظیم 1926ء اس قطعے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیسویں صدی کی تخلیق نہیں ہے۔ اس کا انداز ان قطعات جیسا ہے جو تین سو سال پہلے لکھے جاتے تھے اور شاہی درباروں میں پیش کیے جاتے تھے۔ بہرحال جب قطعہ تیار ہو گیا تو پہلے مرقع غالب کے کاتب منشی اسد اللہ مرحوم سے قدیم وصیلو ں کی طرز پر نہایت خوش خط لکھوایا گیا اور پھر عبدالرحمن چغتائی نے نقاشی کے قدیم طریقے پر اسے مطلی و مذھب کیا۔ جب اس شان کے ساتھ یہ قطعہ تیار ہو گیا تو بہت سلیقے سے پیک کر کے راقم ہی اسے ڈاک خانے لے گیا اور کیمبرج یونیورسٹی کے پتے پر ڈاکٹر نکلسن کے نام بھیج دیا گیا۔ آج بھی یہ قطعہ پروفیسر برائون کی یاد میں کسی نمایاں مقام پر آویزاں ہو گا۔ 39۔علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال ہم نے ایک الگ عنوان (لاہور کی علمی مجالس) کے تحت بھی لاہور میں 1927ء میں علامہ سید سلیمان ندوی کی آمد اور علامہ کے ساتھ علمی مذاکرات کو بیان کیاہے۔ جب ہم ’’اقبال نامہ‘‘ کی جلد اول پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے خطوط بنام علامہ سید سلیمان ندوی (ص 71 تا ص 200ٌ) میںکئی ضروری علمی اور اسلامی مسائل و واقعات کو خطوط کے ذریعے طے کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ سید سلیمان ندوی نے اقبال کے ہمراہ افغانستان کا سفر بھی کیا ہے۔ جسے ہم نے سفر افغانستان کے تحت بیان کیا ہے۔ غرض یہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی کی شخصیت کئی لحاظ سے علامہ کے نزدیک بہت اہم تھی۔ سلسلہ خط و کتابت نومبر 1916 ء سے شرو ع ہو کر اگست 1936ء تک پھیلا ہوا ہے۔ علامہ اقبال کی جس قدر نظمیں یاتصنیفات معرض وجود میں آئیں ان سب پر علامہ سید سلیمان ندوی کا بے لاگ تبصرہ موجود ہے۔ سب سے پہلے ’’معارف‘‘ کے اپریل 1918ء کے شمارے میں اقبال کی مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ پر تبصرہ ہے جس کا ذکر آپ نے اپنے 28اپریل 1918ء کے خط میں بھی کیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے معارف کے لیے چند اشعار بھی ارسال کیے ہیں۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ علامہ سید سلیمان ندوی کسی طرح لاہور کے کسی ادارے سے منسلک ہو جائیں تاکہ علامہ کو ان کی صحبت میسر رہے مگر یہ سلسلہ نہ ہو سکا۔ ان خطوط میں بصیری کے قصیدہ بردہ کا ذکر بھی ہے اور دیگر شعراکابھی۔ اس ضمن میں مولوی ذوالفقار علی دیوبندی کا بھی ذکر ہے جنہوںنے بصیری کے قصیدے کا ترجمہ مع شرح کیا تھا۔ اسی طرح مولوی اصغر علی روحی کا بھی ذکر ہے جنہوں نے بصیری کے قصیدے کا ترجمہ طبع کیا تھا۔ ان خطط میں مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی کا بھی ذکر ہے جنہوںنے طرفہ کا ایک مقبول عربی شعر مقام مالطہ سے ارسال کیا تھا(کیونکہ حضرت مولانا محمود حسن ان دنوںمالطہ میں اسیر تھے) اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کا بھی ذکر ہے جو 1919ء میں رانچی میں نظر بند تھے۔ اسناد اشعار کے ضمن میں مولانا گرامی جالندھری کا بھی ذکر ہے اور 29مئی 1922ء کے خط میں مفتی عالم جان اور نظم ’’خضر راہ‘‘ کا ذکر بھی ہے ۔ 5جولائی 1922ء کے خط میں علامہ کی اپنی تصنیف ’’پیام مشرق‘‘ کا ذکر ہے جس پر علامہ سید سلیمان ندوی نے ’’معارف‘‘ میں تبصرہ لکھا تھا۔ 22اگست 1922ء کے خط میں حکیم برکات احمد نے رسالہ ’’زمان ‘‘ کا ذکر کیا ہے جس کے بعد علامہ اقبال کے ہاں ایک نیا سلسلہ تحقیق شروع ہوتا ہے۔ اس خط میں امام رازی کی کتاب ’’مباحث مشرقیہ‘‘ اور ’’شرح موافق‘‘ کا بھی ذکر ہے۔ ان کتب کی طرف سے سید سلیمان ندوی نے علامہ کی توجہ دلائی تھی۔ 24فروری 1924ء کے خط میں علامہ اقبال نے ’’پیام مشرق‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کا ذکر کیا ہے اور آپ نے منطق استقرائی کے متعلق لکھا ہے کہ تحقیق کر رہا ہوں۔ علامہ نے اپنے مکتوب مورخہ 18اگست 1924ء میں امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کی شائع کردہ کتاب مسلمانوں کے نریات متعلقہ مالیات کا ذکر کیا ہے جس میں لکھاہے کہ اجماع امت نص قرآنی کومنسوخ کیا جا سکتا ہے۔ علامہ کی خدمت میں یہ کتاب میں نے وصول کر کے پیش کی تھی جو امریکہ سے چوہدری رحمت علی نے ارسال کی تھی یہ بات کتاب کے صفحہ 91پر لکھی ہے(ویسے حقیقت یہ ہے کہ اجماع سے نص قرآنی کے منسوخ ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ امریکی مصنف نے یہ غلط لکھا ہے۔ البتہ یہ معتزلہ کا قول ہو سکتا ہے)۔ اسی خط سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے بعض امور کے ضمن میں مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی لکھا تھا۔ پھر علاہ نے ان کو اپنے اگلے خط میں اجماع کے ضمن میں لکھا ہے اور کئی سوال پیدا کیے ہیں۔ متذکرہ امریکی کتاب کے متعلق بھی لھکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو ا ہے کہ سید سلیمان ندوی نے آپ سے عنایت اللہ مشرقی کے متعلق بھی دریافت کیا ہے جس پر علامہ نے لکھا کہ وہ امرتسر کے رہنے والے ہیں اور انہوںنے ریاضی کا اعلیٰ امتحا ن پاس کیا ہے۔ اس کے بعد فقہ اسلامی سے متعلق بھی سوال کیا ہے ۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک طویل خط مین جو مسئلہ اجتہاد سے متعلق تھا خصوصیت سے حدیث لا تسو الدھر پر گفتگو کی ہے۔ نیز علامہ کے مدراس کے لیکچرو کاتذکرہ بھی موجود ہے۔ ’’حجۃ اللہ البلاغۃ‘‘ پر بھی گفتگو ہوئی اور علامہ نے لکھا کہ میں امام رازی کی مباحث مشرقیہ دیکھ رہا ہوں علامہ نے لکھا ہے کہ رسالہ ’’اتقان فی ماھیۃ الزمان‘‘ مل گیا ہے یہ ٹونک سے دستیاب ہوا تھا اور اسے مولانا برکات احمد ے لکھا تھا۔ آپ نے مولانا سید سلیمان کو مشورہ دیا کہ ایک کتاب دارالمصنفین کی طرف سے ’’حکمائے اسلام‘‘ پر شائع ہونی چاہیے۔ اسی طرح آ پ نے سید صاحب سے ملا بہاری کی کتاب جوہر الفرد کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ مباحث مشرقیہ علامہ سید سلیمان ندوی نے اقبا ل کو مشورہ دیا تھا کہ کسی طرح امام فخر الدین رازی کی کتاب مباحث مشرقیہ کو دیکھیے ۔چنانچہ ہم نے یہاں لاہور میں یہ کتاب فراہم کر لی مگر جب علامہ نے اس کو دیکھا تو وہ بہت ہی مشکل کتاب تھی۔ اس پر آپ نے سید سلیمان ندوی کو لکھا کہ آپ کا ایک مخلص تیار کر کے ارسال کر دیں۔ ادھر علامہ کو اس کتاب کے مطالب کی اپنے مدراس کے لیکچروں کی تیاری کے ضمن میں سخت ضرورت تھی‘ ادھر سید صاحب کسی اور کام میںمصروف تھے۔ چنانچہ مجھے انہوںنے 25مارچ 1928ء کولکھا: ’’محترم! دامت معالیکم ۔ میں اس وقت مرکز سے دور ہوں ۔ڈاکتر صاحب کے دو والا نامے میرے پاس بھی آئے ہیں میں یکم اپریل کو اعظم گڑھ پہنچ سکوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے امام رازی کی ’’مباحث مشرقیہ‘‘ کا خلاصہ طلب فرمایا ہے۔ اس کی تعمیل بھی وہیں سے ہو سکے گی۔ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دے دیجیے‘‘۔ چنانچہ میں نے خود ایک نسخہ ’’مباحث مشرقیہ‘‘ کا کسی طرح حاصل کر لیا ار جو دائرہ المعارف حیدر آبا د دکن کا مطبوعہ تھا۔ اس کے ضروری حصے کا لفظی ترجمہ مولوی سوید احمد اکبر آبادی صدر مدرس مدرسہ عالیہ کلکتہ سے مل کر اس طرح تیار کیا گیا کہ وہی املا کراتے تھے اور میں راقم لکھتا جاتا تھا۔ اسی سے علامہ نے استفادہ کیا اور مزید استفسار سے وہ سید مولوی طلحہ وغیرہ سے کر لیتے تھے۔ 10دسمبر 1923ء کو علامہ نے سید صاحب کو افغانستان کے سفر کے متعلق لکھا۔ اس سفر میں سید راس مسعود بھی ہمراہ تھے۔ آپ نے افغان کونسل کا دعوت نامہ بھی ارسال کیا اور لکھا کہ پاسپورٹ بنوا لیں۔ سید راس مسعود نے طے کیا کہ لاہور سے 20اکتوبر 1933ء کو چلیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ جب افغانستان سے واپس آئے تو سید سلیمان ندوی نے سفر نامہ کابل بھی لکھا تھا جسے علامہ نے پسند فرمایا تھا۔ اس کے بعد علامہ علاج کے لیے بھوپال چلے گئے کیونکہ 19جولائی 1935ء کا خط بھوپال سے لکھا گیا ہے۔ آخری خطوط قادیانیوں کے متعلق ہیں اور موسیٰ جار اللہ کی کتاب کا ذکر ہے۔ 7اگست 1936 ء کے بعد کوئی خط سید سلیمان ندوی کے نام نہیںلکھا گیا۔ ٭٭٭ 40 علامہ سید سلیمان ندوی لاہور میں انہی صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ سید سلیمان ندوی سے خط و کتابت کے ذریعے علامہ اقبال کے علمی روابط نومبر 1916ء سے شروع ہو ئے جو اخیر دم تک قائم رہے۔ تبسم شخصی ملاقات 1927ء سے قبل نہیں ہو سکی پھر جب سید سلیمان ندوی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں شرکت کرنے کے لیے لاہور تشریف لائے تو ان کی علامہ سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر جو علمی مجالس ہوئی تھیں وہ لاہور کی علمی فضا کی یادگار ہیں۔ اس سے پیشتر بارہا سید صاحب نے معارف میں علامہ کی بعض تصنیفات پر تبصرہ کیا تھا جب لاہور کی علمی سرگرمیاں مفصل تاریخ لکھی جائے گی تو ا س میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک نمایاں حصہ ہوگا۔ سید سلیمان ندوی نے 1927ء کے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں شرکت کی تھی جو اپریل کے مہینے میں (15تا17اپریل) اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں مغربی دیوار کے ساتھ ہوا تھا۔ ان کا قیام ’’زمیندار‘‘ کے دفتر میں تھا۔ راقم نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ یہ انجمن کا بیالیسواں سالانہ جلسہ تھا۔ چنانچہ 15اپریل کی صبح میں علامہ کے ہاں میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں حاضر ہوا تو حسب عادت آپ نے پوچھا’’آج کیا خبر ہے؟‘‘ یہ علامہ کا معمول تھا کہ جب میں حاضر ہوتا تو میرے سلام کرنے سے پہلے ہی وہ پوچھ لیتے کہ ماسٹر صاحب آج کیا خبر ہے؟ راقم کو کبھی یہ موقع نہیں ملا تھا کہ میں آ پ کو پہلے سلام کر لوں ۔ میرے پہنچنے پر فوراً علی بخش کو پکارا اورکہا کہ ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔ (اس زمانے میں ایک شخص علم الدین ان کا ڈرائیور تھا جو باغبانپورہ میں رہتا تھا۔ پہلے وہ میاں خاندان کا موٹر ڈرائیور رہ چکا تھا ۔ اور بعد میں بس سروس میں چلا گیا تھا) چنانچہ علامہ صاحب اورراقم موٹر میں بیٹھ کر ’’زمیندار ‘‘ کے دفتر میں صبح 9-10بجے کے قریب پہنچے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب مولانا غلام رسول مہر اور مولاناعبدالمجید سالک ’’زمیندار‘‘ کو چھوڑ کر اپنا ذاتی اخبار ’’انقلاب‘‘ اسی مہینے لاہور سے جار ی کر چکے تھے۔ چنانچہ میں اور علامہ اس مکان کی اوپر کی منزل میں گئے جہاں سید صاحب کا قیام تھا۔ اختر علی خاں صاحبزادہ مولانا ظفر علی خاں نے بتایا کہ سید صاحب ایک الگ کمرے میں فروکش ہیں۔ اس وقت مولانا ظفر علی خاں کام میں مصروف تھے۔ سیدصاحب سے ملاقات ہوئی تو علامہ اور سید صاحب نہایت اخلاق اور تپاک سے ملے راقم کا بھی علامہ نے تعارف کرایا۔ ہم قریباً ایک گھنٹے تک وہاںرہے اور تمام وقت علم دین اور فلسفہ اسلام کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ ان کی زیادہ توجہ امام رازی کی کتاب مباحث مشرقیہ پر مرکوز تھی کیونکہ ان دنوں علامہ اقبال کا موضوع بطور خاص مکان و زمان کی بحث تھی۔ اس مختصر سی ملاقات کے دوران میں علامہ نے سید صاحب کو اپنے ہاں بعد نماز مغرب دعوت طعا م دی جو سید صاحب نے قبول فرما لی۔ ساتھ ہی ان کے میزبان مولانا ظفر علی خاں کو بی مدعو کیا۔ جب ہم وہاں سے واپس آنے لگے تو سید صاحب کو بھیاسی موٹر میں اپنے ہمراہ بٹھا کر انجمن حمایت اسلام کی جلسہ گاہ تک لائے کیونکہ سید صاحب کو انجمن کے جلسے میں تقریر کرنا تھی۔ چنانچہ علامہ مجھے اور سید صاحب کو وہاں چھوڑ کر خود اپنے گھر چلے گئے اور ہم نے جلسہ انجمن میں شرکت کی۔ جلسے کا ماحول بہت ہی پررونق تھا اور سامعین سے تمام جلسہ گاہ قریب قریب بھری ہوئی تھی۔ سید سلیمان ندوی کی تقریر کا موضوع تھا عہد رسالت میں اشاعت اسلام جس کا خلاصہ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ 1927ء کی روئیدا د میں صفحہ 32پر بعنوان مولانا سید سلیمان ندوی کی تقریر طبع ہو چکا ہے۔ یہ تقریر ایک گھنٹے کی تھی جسے سامعین نے نہایت دل جمعی سے سنا تھا۔ رانا نصر اللہ خاں نومسلم نے اس جلسے کی صدارت کی تھی۔ میں آکر تک جلسے میں موجود رہا کیونکہ بعد تقریر سید صاحب کو ان کے مستقر پر چھوڑ کر آنا میرے ذمے تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا اسی شب سید صاحب کی علامہ اقبال کے مکان پر دعوت تھی۔ اس دعوت میں چوھدری محمد حسین‘ مولانا ظفر علی خاں‘ راقم الحروف‘ خواجہ سلیم‘ مولانا غلام رسول مہر‘ محمد دین تاثیر اور مولانا عبدالمجید سالک شریک ہوئے تھے۔ یہ دعوت بہت ہی پرتکلف اور کامیاب تھی۔ کافی دیر تک علمی مذاکرہ ہوتا رہا۔چنانچہ علامہ عنایت اللہ مشرقی کی تالیف’’تذکرہ‘‘ کا ذکر بحث مکان و زمان اور شعر و شاعری پر بات چیت ہوتی رہی۔ چوہدری محمد حسین مرحوم نے بعض نئے مسائل پر گفتگو کی اور پنجاب کی علمی سرگرمیوں کو سراہا۔ آخر میں امام فخر الدین رازیؒ کی کتاب ’’مباحث مشرقیہ‘‘ پر اس علمی مجلس کا اختتام ہوا اور ہم سید سلیمان صاحب اور مولانا ظفر علی خاں کو علامہ اقبال کی موٹر میں ان کے مکان پر چھوڑ کر واپس آئے۔ علامہ اقبقال کی اسی دعوت میں سید صاحب کو خواجہ سلیم نے اپنے مکان پر واقع کوچہ کوٹھی داراں کشمیری بازار پرانی کوتوالی کے قریب دعوت طعام دی جو اتوار کے دن 17اپریل 1927ء کو بوقت دوپہر طے پائی۔ اس دعوت میں دراصل سید صاحب کو چند علمی خطوطات دکھانا مقصود تھا جو خواجہ سلیم ے سابق پروفیسر انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور کے ہاں محفوظ تھے ۔ اس دعوت میں مندرجہ ذیل حضرات شریک ہوئے۔ پروفیسر حافظ محمود شیرانی پروفیسر شیخ محمد اقبال اورئنٹل کالج‘ پروفیسر سید طلحہ‘ خواجہ عبدالوحید‘ ملک عنایت اللہ۔ ملک محمد امین ایڈووکیت‘ ملک لطیف سٹیشن ماسٹر لاہور‘ مولانا ظفر علی خاں‘ چودھری محمد حسین‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ابوالخیر عبداللہ‘ مسٹر بشیر بھٹی (بھٹی بوٹ ہائوس ڈبی بازار) ملک لال دین قیصر‘ مولانا غلام رسول ہر‘ مولانا عبدالمجید سالک‘ بابو عبدالماجد‘ علامہ سر محمد اقبال‘ سید سلیمان ندوی‘ شیخ عبدالرشید اور سیدواجد علی شاہ ایڈووکیٹ وغیرہ۔ خواجہ سلیم کے ہاں کھانا بہت ہی پرتکلف لذیذ اورانواع و اقسام کا تھا جسے لاہور کے مشہور باورچی پھجو (فضل دین) نے زیر ہدایت خواجہ سلیم مسٹر بشیر اور شیخ رشید تیار کیا تھا۔ یہ دعوت تو شاندار تھی ہی اس میں شامل احباب کی گفتگو بھی علمی اعتبار سے بہت ہی یادگار تھی۔ کھانے کے دوران میں بے شمار لطیفے ہوئے اور کچھ فیصلے بھی ہوئے جو مختصر طور پریہاں درج کیے جاتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان صاحب نے فرمایا کہ اخبار ’’زمیندار‘‘ میں ’’افکار و حوادث‘‘ کے عنوان سے لطائف و حقائق لکھے جاتے ہیں۔ جو عام طورپر سالک لکھتے تھے۔ وہ اس عنوان کو اپنے نئے اخبار ’’انقلاب‘‘میں اختیار کر چکے ہیںَ تاہم زمیندار میں بھی یہی رسم و ہدایت کسی اور عنوان سے جاری رہنی چاہیے۔ مہر و سالک اور علامہ اقبال بھی موجود تھے۔ سب نے اس بحث میں حصہ لیا اور اس موضوع پر لطائف بھ ی ہوئے۔ آخر میں سید سلیمان ندوی نے مملکت اسلامیہ کے بعض اخبارات اور سب سے بڑھ کر موضوع کو مدنظر رکھ کر ایک عنوان فکاھات تجویز کیا جو ’’زمیندار ‘‘ میں آکر تک قائم رہا۔ ضعیف راویوں پر گفتگو ہو رہی تھی کہ علامہ نے بطور تفنن ہا کہ ہمارا راوی(دریائے راوی) بھی اب بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ پھر لطیفہ و لطائف کے ضمن میں سید عبداللہ ملا علی بن حسین واعظ کاشفی کی کتاب ’’لطائف الطوائف‘‘ کا ذکر کیا جس پر علامہ نے ’’لطائف الطوائف‘‘ کے الفاظ کو ذو متنی بنا دیا اور کہا ملا کاشفی کو کیا خبر کہ ’’الطوائف ‘‘ کیا شے ہے۔ اس پر احباب میں خوب قہقہے لگے۔ یہ پر لطف کھانے کی محفل کے بعد دیر تک جمی رہی اور اس کے چرچے احباب میں دیر تک رہے۔ اس کے بعد خواجہ سلیم کے کتب خانے میں خطی نسخوں کا جائزہ لیا گیا۔ سید صٓحب نے نسخہ رباعیات عمر خیام کو پسند فرمایا جس کا ویسے بھی بہت چرچا تھا۔ اسے بغداد میں کاتب خرج اللہ نے 868ھ میں لکھا تھا۔ اس کے علاوہ خواجہ صاحب کے ہاں بعض دیگر مخطوطات بھی بہت بلند پائے کے تھے۔ ان سب مخطوطا ت کو خواجہ صاحب نے لوہے کے ایک ٹرنک میں سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ جو سید صاحب کے سامنے لا کر رکھ دیا اور آپ نے سب کتابوں کو نہایت اشتیاق سے دیکھا ۔ پھر آ پ نے اعظم گڑھ جا کر ان سے متعلق ایک شذرہ بھی لکھا۔ سید سلیمان ندوی صاحب اپنے قیام لاہور کے دوران میں بعض اداروں میں بھی گئے اور اکثر اہل علم حضرات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ ایک الگ روئداد ہے جس کاذکر انہوںنے اعظم گڑھ جا کر معارف کے شذرات میں خود بھی کیا تھا۔ مذکورہ جلسے میں 16اپریل 1927ء کو رات کے وقت علامہ کا لیکچر بعنوان The Spirit of Islamic Cultureہوا۔ آپ کی یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی اور جلسے میں سید سلیمان ندوی بھی موجود تھے۔ علامہ اقبال کے لیکچر کے بعدمیاں سر شفیع نے بھی تقریر کی تھی۔ سید صاحب لاہور کی ان علمی مجالس کے متعلق ’’معارف‘‘ کے شذرات میں لکھتے ہیں: ’’اصحاب علم اور ارباب علم کی جمعیت کے لحاظ سے بھی وہ آج کل ہندوستان کی سب سے بہتر مجلس ہے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال‘ شیخ عبدالقادر ‘ پرنسپل عبداللہ یوسف علی‘ پروفیسر حافظ محمود شیرانی‘ پروفیسر اقبال‘ پروفیسر محمد شفیع‘ پروفیسر سراج الدین آذر‘ مولوی محمد علی ایم اے خواجہ کمال الدین‘ پروفیسر سید عبدالقادر‘ مولوی ظفر علی خاں اور متعدد ایسے باکمال اصحاب کی سکونت کا اس کو فخر حاصل ہے جن کے یکجا مرقع کی مثال کسی اور شہر میں نظر نہیں آتی۔ پرانے لوگوں میں سید ممتاز علی صاحب‘ منشی محبوب عالم صاحب اور مولوی انشاء اللہ خاں اپنی بہار گزار چکے ہیں تاہم ان کی خزاں بھی بہار کی یادگار ہے۔ انشا پردازوں ادیبوں اور شاعروں کی محفل بھی وہاں کچھ کم رونق پر نہیں ہے۔ سالک و مہر‘ تاجور‘ ابوالاثر حفیظ جالندھری ‘ غلام ربانی‘ ڈاکٹر تاثیر‘ حکیم یوس حسن (نیرنگ خیال) مولانا عبداللہ چغتائی‘ سید امیتاز علی تاج‘ اخترشیرانی (بہارستان) اور کئی دوسرے اہل قلم آگے بڑھنے کے لیے مصروف ہیں اور مستقب ان کی کامیابی کا منتظر اور ان کے خیر مقدم کو تیار ہے۔ اور ان میں سے بعض تو آگے بڑھ کر پہلی صف کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ لکھنے میں میرا دل خوشی اور مسرت سے لبریز ہے کہ لاہور کے اہل علم اور اہل قلم نے اپنی برادری کے اس کمترین ممبر کو خوش آمدید کہنے میں پوری فیاضی کا ثبوت دیا۔ مولوی ظفر علی خاں تو اپنے گھر مہمان ہی اتارا اور یہ مناسب بھی نہ ہوا کہ ایک ’’دھقانی‘‘ ایک ’’زمیندار‘‘ کا مہمان بنتا۔ ڈاکٹر اقبال سے میری پہلی ظاہری ملاقات تھی اور مراستل کی باطنی ملاقات تو 1914سے قائم ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کرم کیاکہ ملنے میں پیش دستی فرمائی‘ قیام گاہ میں آئے اور متعدد صحبتوں میں ساتھ رہے اور پھر خود اپنے کاشانے میں مدعو کیا جس کو وہ ’’دارالفقر‘‘ اور میں’دارالقبال ‘‘ کہوں گا۔ افسوس ہے کہ وقت کی قلت کے سبب میں وہاں کے مشہور کتب خانوں کو نہ دیکھ سکا۔ ڈاکٹر اقبال ان تمام صبحتوں میں شمع محفل تھے۔ انہوں نے ’’شمع اور شاعر‘‘ لکھا ہے لیکن میں نے تو لاہور میں خود شاعر کو شمع دیکھا اور قدر شناسوں کو اس کا پروانہ پایا۔ ان کی صحبت لاہور کے نوجوانوں کی دماغی سطح کو بہت بلند کر رہی ہے۔ ان کے فلسفیانہ نکات عالمانہ افکار اور شاعرانہ خیالات ان کی آس پاس کی دنیا کو ہمیشہ متاثر رکھتے ہیں۔ ان کی ’’زمزمہ پردازیوں‘‘ کا نیا مجموعہ’’زبورعجم‘ ‘ کے نام سے عنقریب سامعہ نواز ہونے والا ہے۔ میں نے کہا کہ فلسفہ عجم کے دشمن کو مناسب بھی یہی تھا کہ عجم کے ہاتھ میں زبور دے کر ان کے خیالی فلسفے کو مزامیر دائود کی دعائوں سے بدل دے اور ان کے کانوں کو زبور کا پردہ رکھ کر قرآن کی نغمہ سنجیوں سے مانوس کر دے‘‘۔ ٭٭٭ 41 ایک ملاقات (سر اکبر حیدری ‘ ڈاکٹر سکارپا اور مسٹر ومسز وسوگر) 1926ء میں پنجاب یونیورسٹی نے سر اکبر حیدری کو حیدر آباد دکن سے بلایا کہ وہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد (کانووکیشن) کے موقع پر طلبہ سے خطاب کریں۔ ایک روز میں صبح کے وقت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوںنے سر اکبر حیدری کی لاہور میں آمد کا ذکر فرمایا اور کہا کہ کل ان سے ملنا ہے۔ چنانچہ دوسرے وز میں اور مرحوم عبدالرحمن چغتائی علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سر اکبر حیدری ہائی کورٹ کے قریب سر محمد شفیع کی اقبال منزل میںٹھہرے ہوئے تھے جلسہ کانووکیشن کے بعد جب وہ اپنی قیام گاہ پر پہنچے تو علامہ بھی ہم دونوں کو ساتھ لے کر پہنچ گئے۔ اور ان سے ملاقات کی۔ دوران گفتگو میںعبدالرحمن چغتائی نے دیوان غالب کا ایک مصور ایڈیشن چھاپنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سر اکبرحیدری نے اس تجویز کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ میں اس ضمن میں ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہوں ۔ یہاں سے فارغ ہو کر علامہ اپنی موٹر میں ہمیں فیروز روڈ پر لائے اور بخشی ٹیک چند کے مکان کے بالمقابل ذرا اندر کر کے مکان کے سامنے اتر گئے۔ یہاں ایک پارسی میاں بیوی مسٹر و مسز وسوگر رہتے تھے جن کے ہاں ان دنوں اٹلی کے ایک سکالر ڈاکٹر سکارپا آئے ہوئے تھے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو کا موضوع پہلے سے طے شدہ تھا۔ ڈاکٹر سکارپا افغانستان میں اطالوی سفیر کامادگار تھا اور فلسفہ اقبال پر گہری نظر رکھتا تھا اسے اقبال کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کے سلسلے میں بعض شبہات تھے جو اس ملاقات میں علامہ نے رفع کر دیے۔ مسٹر اور مسز وسوگر بھی علامہ کے عقیدت مند تھے اوروہ ان کے ہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ مسز وسوگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی گریجویٹ تھیں اور ان دنوں ڈی اے وی کالج میںانگریزی کی اعزازی پروفیسر تھیں۔ انہوںنے اس ملاقات میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماسڑ آف دی کالج ڈاکتر لنڈسے کا ذکر کیا جو بھی کلام اقبال سے واقف تھے اور ان دنوں ہندوستان آنے والے تھے۔ڈاکٹر لنڈسے ثقافت کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ اور غالبا ً مسز وسوگر کو پڑھا بھی چکے تھے۔ ٭٭٭ 42 تاریخ گو اقبال میں ایک مرتبہ مئی 1968ء میں علامہ اقبال پر تحقیق کے ضمن میں مظفر آباد(آزاد کشمیر) گیا تھا۔ جناب جسٹس سجاد صاحب اور میاں محمد شفیع (م۔ش) بھی میرے ہم سفر تھے ایک صبح تفریح کے لیے ہم لوگ دریا کے کنارے بھی گئے تھے۔ ایم عبدالرحیم افغانی بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ انہوںنے مندرجہ ذیل استفسار لکھا ہوا مجھے دیا تھا۔ افسوس کہ افغانی صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ بحث اقبال کے ضمن میں بہت اہم اور علمی اعتبار سے ضروری ہے ان کا استفسار یہ تھا: ’’ایک استفسار ‘ بخدمت جناب علامہ چغتائی صاحب کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے کسی کی تاریخ وفات نہیںکہی اور نہ کسی کا سہرا لکھا ہے۔ مگر اپنے استاد (مولوی میر حسن صاحب مرحوم) کی تاریخ وفات ’’وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ (الایۃ) سے نکالی اور ایک کتاب (ذکر حبیب در احوال پیر حیدر شاہ صاحب جلال پوری) میں درج ذیل قطعہ وفات علامہ مرحوم کا کہا ہوا ملتا ہے: ہر کہ بر خاک مزار پیر حیدر شاہ رفت تربت او را امین جلوہ ہائے طور گفت ہاتف از گردوں رسید و خاک او را بوسہ داد گفتمش سال وفات او بگو مغفور گفت میں نے کافی تحقیق کی مگر کسی دوسری تصنیف میںیہ قطعہ نہیںدیکھا۔ اس قطعے کے متعلق میں نے جناب ممتاز حسن‘ ڈاکتر رفیع الدین اور فقیر وحید الدین صاحبان سے بھی استفسار کیا۔ موخر الذکر نے جواب ہی نہیں دیا۔ اول الذکر ہر دو دانش وروں نے بھی ا س سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ آنجناب اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے؟ والسلام ایم عبدالرحیم افغانی مظفر آباد 11-5-68‘‘ مجھے اقرار ہے کہ میں نے بھی مندرجہ بالا قطعے کو اقبال کے ضمن میں کہیں نہیں دیکھا اورنہ کسی سے سنا ہے۔ البتہ افغانی صاحب کے اس جملے ’’علامہ مرحوم نے کسی کی تاریخ وفات نہیں کہی اور نہ ہی کسی کا سہرا لکھا‘‘ کا جواب میں نے ان کو اسی وقت دے دیا تھا یعنی یہ کہ علامہ مرحوم نے بعض احباب اور اعزہ کی تاریخیں کہی ہیں۔ اس سلسلے میں میں نے ان کو حفیظ ہوشیار پوری کے مضمون کا حوالہ بھی دیا تھا۔ ایک دفعہ ’’نوائے وقت‘‘ مورخہ 28 جولائی 1976ء میں ایک مختصر سا مضمون بعنوان سید حیدر علی شاہ جلال پوری (یاد رفتگان) از قلم محمد اشرف ایڈووکیٹ طبع ہوا تھا جس میں علامہ کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا وہ قطعہ بھی شامل تھا جو آپ نے سید حیدر شاہ جلال پوری کی وفات (1326)پر کہا تھا۔ اسی اخبار میں اس کے نیچے ایک اور تاریخی معمہ از لسان العصر خان بہادر اکبر حسین صاحب سیشن جج الہ آباد طبع ہوا تھا مگر جو قطعہ تاریخ آپ نے کہا تھا وہ موجود نہ تھا۔ اس پر میرا ایک مضمون 4نومبر 1976ء کو بعنوان سید حید ر علی شاہ جلال پوری حضرت علامہ اقبال اور حضرت اکبر الہ آبادی‘ چھپا تھا جس میں میں نے لکھا تھا کہ اکبر الہ آبادی اور اقبال والے قطعہ تاریخ کی بات بے بنیاد ہے کیونکہ اکبر کا قطعہ تو نوائے وت میں موجود ہی نہ تھا اور اقبال کے سلسلے میں تو یہ اشتباہ پیدا ہو تا تھا کہ یہ سال (1326)ھ 1908ء کے مطبق ہے جب کہ علامہ یورپ سے تازہ تازہ آئے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے اس قطعہ تاریخ کو کب ارسا کیا اور کب لکھا ہو گا۔ بالآخر مجھے ڈاکٹر عبدالغنی (معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی) کی بدولت اصل کتاب ’’ذکر حبیب‘‘ مصنفہ مک محمد الدین‘ ایڈیٹر صوفی پنڈی بہاء الدین دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اس کے ایک پورے ـصفحے پر یہ دونوں قطعات (از قلم علامہ اقبال و حضرت اکبر الہ آبادی) موجود تھے جو ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ صوفی محمد الدین نے اس کامقدمہ 15مئی 1923ء کو بمقام منڈی بہائو الدین لکھا تھا۔ چنانچہ وہ اس کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’میں ان حضرات کے ساتھ ملک کے نامور شعرا کا بھی رہین منت ہوں کہ جنہوںنے اپنے کلام بلاغت نظام سے مجھ کو ممتاز فرمایا۔ چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اور خان بہادر سید اکبر حسین صاحب الہ آبادی سے لے کر عام نغزگویان اردوتک کے نتائج افکار کتاب کے اوراق میں درج ہیں‘‘۔ چنانچہ افغانی مرحوم کا یہ کہنا کہ علامہ اقبال نے کسی کا قطعہ تاریخ وفات یا سہرا نہیں لکھا واقعات کے خلاف ہے ۔ عبدالحفیظ ہوشیار پوری نے 1952ء میں ایک مفید مضمون روزنامہ ’’آفاق‘‘ لاہور میں لکھا تھا جس کا عنوان تاریخ گو اقبال تھا ہم ذیل میں اس مضمون کا ای ملخص پیش کرتے ہیں اس سے اندازہ ہو گا کہ علامہ نے واقعی تاریخیں کہی ہیں تاہم وہ باقاعدہ تاریخ گو نہیں تھے۔ اقبال نے ارمغان حجاز میں مندرجہ ذیل رباعی لکھی ہے: تو گفتی از حیات جاوداں گوی بگوش مردہ پیغام جاں گوی ولے گویند ایں ناحق شناساں کہ تاریخ وفات این و آں گوی مگرا س کے باوجود اقبال نے اعزہ و احباب اور مشاہیر کے مرنے پر مرثیے بھی لکھے اور تاریخی بھی کہیں۔ ان کے مرثیے ہمارا ادب کا لازوال سرمایہ ہیں لیکن تاریخ گوئی کو اقبال نے بطور فن کبھی اختیار نہیںکیا۔ بعض دفعہ احباب کی فرمائشوں سے مجبور ہو جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی خود بھ کسی واقعے سے متاثر ہو کر تاریخ کہہ دیتے تھے۔ مندرجہ بالا قطعے میں اقبال نے خوبصورت انداز میں ان لوگوں پر طنز کی ہے جو رسمی طور پر ان سے تاریخ گوئی کی فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقبال کی تاریخ گوئی کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں کی۔ اقبال نے اس میدان کو باقاعدگی سے بطور پیشے کے نہیں اپنایا۔ مگر ضرورت پڑنے پر انہوںنے قریبی احباب اور ضروری واقعات کی تاریخیں کہی ہیں جو ذیل میں مختصر طور پر بیان کی جاتی ہیں: 28مارچ 1898ء کو سرسید بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاانتقال ہوا جبکہ اقبال ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھے مگر اقبال نے قرآن مجید کی آیا سے یہ تاریخ برآمد کی تھی جو منشی وجاہت حسین جھنجھانوی کی کتاب کے صفحہ 76پر یوں درج ہے۔ ’’انی متوفیک و رافعک الی و مطہرک‘‘ جس سے 1315ھ کے اعداد نکلتے ہیں جو 1898ء کے مطابق ہیں تاریخ کے اوپر اقبال کا نام اس طرح لکھا ہے: ’’منشی محمد اقبال صاحب طالب علم گورنمنٹ کالج لاہور تلمیذ حضرت داغ‘‘۔ مذکورہ بالا تاریخ علی گڑھ میں سرسید کے لوح مزار پر آج بھی ثبت ہے۔ 17نومبر 1900ء کو امیر مینائی نے انتقا ل کیا تو اقبال نے قرآن کریم کی اس آیت سے تاریخ نکالی: لسان صدق فی الآخرین علامہ کے دوست محمد دین فوق نے ایک کتاب شالامار باغ پر لکھی تھی جس پر علامہ اقبال نے ایک قطعہ تاریخ یوں کہا تھا: میسزد تصویر باغ جانفزا جس سے 1901ء برآمد ہوتے ہیں۔ جب آپ کے استاد حضرت داغ کا انتقال ہوا تو آپ نے بے شمار تاریخی جملے نکالے جن سے ا ن کی تاریخ وفات نکلتی تھی۔ آپ کا انتقال 9 ذی الحجہ 1322ھ کو ہوا تھا۔ آخری مصرع یہ ہے: داغ نواب میرزا کہیے جب کلام فوق شائع ہوا تو اقبال نے ایک طویل نظم لکھی جس کا آخری مصرع تاریخ ہے: ہاتف نے کہا لکھ دے کمال نظر فوق ظہیر دہلوی کا انتقال ہوا تو آپ نے یہ تاریخ کہی: زبدہ عالم ظہیر دہلوی جس سے 1229ھ نکلتے ہیں۔ لاہور کی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جہیں دیکھ کر انسان حیران ہ جاتا ہے۔ لاہور کے نقشہ قدیم میںمسلسل تغیر آتا رہا ہے۔ لاہور کی پرانی کوتوالی اندرون شہر لاہور اور اندرون دہلی دروازہ مسجد وزیر خاں کے نزدیک واقع تھی۔ غالبا ً یہاں قدیم مغل عہد کی کوئی عمارت تھی جسے انگریز نے لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد رومن طرز تعمیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ رنجیت سنگھ کی تاریخ بھی مسجد وزیر خاں کے نزدیک اس پرانی کوتوالی کا یوں ذکر ملتا ہیکہ مائی سداکور قلعہ لاہور کے مشرقی دروازے سے نکل کر قدیم عقبی راستے سے مسجد وزیر خاں تک آئی۔ میں نے یہ پرانی کوتوالی ہر پہلوسے دیکھی ہے۔ حالات بدلے تو انگریز کو بیرون شہر ایک نئی کوتوالی تعمیر کرنے کا خیال آیا۔ اس زمانے میں شہر لاہور کے کوتوال میاں غلام رسول مرحوم تھے اور سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ پرانی کوتوالی کی عمارت کو نہ صرف چھوڑ دیا گیا بلکہ گرا دیا گیا اور بیرون دہلی دروازہ کوتوالی کی وہ نئی عمارت تعمیر ہوئی جو آج بھی موجود ہے۔ میں اس زمانے میں نجی طور پر کوتوال شہر میاں غلام رسول کے بچوں کو پڑھاتا تھا۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ کوتوالی کی نئی عمارت میں سنگ مرمر کی ایک تختی لگائی جائے انہوں نے مجھے بتایا کہ خود انہوںنے مطلوبہ اردو اشعار تو لکھ لیے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس ضمن میں علامہ اقبال سے بھی مشورہ کیا جائے۔ چنانچہ میاں صاحب علامہ کے انارکلی والے مکان میں وہ اشعار لے کر گئے جن میں علامہ نے اصلاح بھی دی اور ان اشعار کا عنوان عمارت فرخ فرجام تجویز فرمایا اور یہ تاریخی عنوان تھا کیونکہ ان الفاظ سے عمارت کی تاریخ تعمیر 1915ء نکلتی تھی افسوس آج نہ وہاں سنگ مرمر کی وہ تختی ہے اور نہ یہ تاریخی نام۔ علامہ کے دوست جسٹس شاہ دین ہمایوں کا جب 2جولائی 1918ء کو انتقال ہواتو آپ نے ان کی تاریخ بھی کہی۔ جو قطعہ مرحوم کے مزار کی لوح پر کندہ ہے اس کا آخری شعر یہ ہے: در گلستاں دہر ہمایون نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چوں بوئے گل رمید‘‘ آپ کے دوست نواب ذوالفقار علی نے لدھیانہ میںایک گنج بنایا تھا جس کی تاریخ کا آخری مصرع یہ ہے: ’’بر زمیں خلد بریں آراستہ‘‘ جس سے 1921ء نکلتے ہیں۔ دو سگے بھائی… ڈاکٹر سید محمد حسین اور سید نادر حسین…علامہ اقبال کے ہم جماعت تھے۔ سید نادر حسین کے انتقال پر جب کسی نے تاریخ کہی تو یہ تاریخ علامہ کی نظر سے بھی گزری جسے انہوںنے ناپسند فرمایا۔ پھر 7فروری 1919ء کوخود ایک قطعہ تاریخ کہاجس کا آخری شعر یہ تھا: گفت ہاتف مصرع سال رحیل کشت سید رایزیدے کافرے جب آپ کے دوست میاں غلام رسول نے مسجد داتا صاحب تعمیر کی تو آپ نے مندرجہ ذیل شعر سے تاریخ نکالی: چشم بہ المسجد الاقصیٰ فگن الذی بارکہ ہم بگو (؟) جس سے 1340ھ نکلتے ہیں۔ جب کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر برائون کا انتقال ہوا تو آپ کے رفیق نکلسن کے کہنے پر آپ نے اس کی تاریخ وفات میں ایک قطعہ قلم بند کیا تھا جس کی کتابت منشی اسد اللہ نے اور نقاشی عبدالرحمن چغتائی نے کی تھی۔ یہ تاریخ قرآن مجید کی اس آیت سے نکلتی تھی: گفت ہاتف ذالک الفوز العظیم‘‘ جس سے 1926ء نکلتے ہیں۔ جب پروفیسر برائو ن کا انتقال ہوا تو انہی دنوں علامہ کی اپنی بیوی کا بھی بچہ پیدا ہونے پر انتقال کر گیا۔ آپ نے ایک قطعہ تاریخ کہاجس کے آخری مصرعے سے تاریخ نکلتی ہے: بشہادت رسید و منزل کرد جس سے 1343ھ نکلتے ہیں۔ آپ نے مولوی محبوب عالم مالک پیسہ اخبار کی تاریخ اس طرح کہی تھی: ’’معلی تربت محبوب عالم‘‘ جس سے 1351ھ نکلتے ہیں۔ جب آپ میو روڈ والی کوٹھی میں آ گئے تو وہاں آپ کی ایک اور بیوی کا انتقال ہو گیا اور ان کو بیبیاں صاحب میں دفن کیا گیا۔ ان کی تاریخ وفات ان الفاظ میں نکالی ہے۔ سرمہ ماذاغ جس سے ہجری سال کے 1354نکلتے ہیں۔ یہ قطعہ اب بھی مرحومہ کی لوح مزار پر کندہ ہے۔ جب 1935ء میں آپ نے مولانا الطاف حسین حالی کے صد سالہ جشن میں شرکت کی تو اس موقع پر ایک قطعہ تاریخ کہا جس کے آخری مصرع سے تاریخ نکالی ہے وہ مصرع یہ ہے: ’’تا لالہ شبنم زدہ را داغ جگر داد‘‘ اس کے علاوہ علامہ نے اپنے والد مرحوم کی تاریک ’’آغوش نور‘‘ کے الفاظ سے نکالی کیونکہ ان کانام ’’نور محمد‘‘ تھا اس سے 1349ھ نکلتے ہیں۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ کی تاریخ رحلت مخدومہ سے نکالی تھی۔ یہ دونوں قطعات سیالکوٹ میں ان کے والدین کی قبروں پر مع تما م اشعار کے کندہ ہیں۔ وہیں ایک اور قطعہ تاریخ آپ کے استاد شمس العلماء مولانا سید میر حسین کی قبر پر بھی کندہ ہے۔ یہ تاریخ قرآن حکیم کی اس آیت پر مشتمل ہے: وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین جس سے 1347ھ نکلتے ہیں۔ بعض تاریخیں مذاحیہ انداز میں بھی آ پ نے کہی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ علامہ کے لدھیانے والے عزیزوں نے اگست 1928ء کو شملے میں آپ کی دعوت کی۔ آپ ان کے ہاں جلسہ پنجاب اسمبلی کے موقع پر مقیم تھے۔ اس دعوت میں راقم کے علاوہ سر فیروز خاں نون اور نواب ذوالفقار علی خاں اور پروفیسر تاثیر بھی موجود تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کھانے میں کباب سرفہرست تھے اور اس دعوت کا تمام مزہ اس کے کبابوں میں تھا۔ جب ہم کھاتے کھاتے تھک گئے تو علامہ نے نہایت بے تکلفی سے میری طرف دیکھا اور فرمایا ماسٹر خورد و مرد۔ پروفیسر تاثیر نے ایک مضمون بعنوان اسماء الرجال اقبال لکھا تھا اس میں انہوںنے لکھا ہے: ’’اس آخری دور میںجو نئے لوگ باقاعدہ آئے تھے ان میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کانام سب سے پہلے آتا ہے۔ چودھری محمد حسین اور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی خوش مزاجی حضرت علامہ کی بے تکلفی کے لیے مہمیز کا کام دیتی تھی اور وہ وہ فقرے ہوتے تھے کہ باید و شاید۔ ایک باب اطمعہ کا تھا جس کا خلاصہ اس مضمون میں پایا جاتا ہے جو اکال الکل کے عنوان سے ’’مخزن‘‘ کے دور حفیظ میں شائع ہوا۔ میں نے محض رپورٹ لکھی ہے۔ فقرے میرے نہیں جو علامہ اقبال کی پھبتیوں کی مثالیں ہیں۔ اس مضمون کو دیکھ لیں‘‘۔ اکال الکل والے مضمون میں پرفیسر تاثیر نے وہ سب کچھ لکھا ہے جو اس دعوت میں ہوا۔ علامہ کی طرف سے ہنسی مذاق بھی ہوا اورپھبتیاں بھی اور خوب محفل جمی رہی۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ماسڑ خورد و مرد والے جملے سے کوئی تاریخ نکلتی ہے یا نہیں مگر علامہ نے بطور تفنن یہ جملہ نہایت بے تکلفی سے کہا اور دیر تک احباب میں اس کا چرچا رہا۔ غرض یہ حقیقت ہے کہ علامہ نے تاریخیںکہی ہیں۔ نہ صرف وفات کی تاریخیںکہی ہیں بلکہ بعض موقعوں پر آپ نے شادیوں پر بھی تاریخیںنکالی ہیں۔ ہم نے ان سطور میں قطعات تاریخ کو مختصراً درج کیا ہے جن حضرات کو تفصیل مطلوب ہو وہ عبدالحفیظ ہوشیار پوری کا اصل مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ ٭٭٭ 43 اکبر الہ آبادی اور اقبال بنگال کی ایک ریاست یا جاگیر ’’آرہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس جاگیر کی ملکیت کے سلسلے میں ایک مقدمہ زیر سماعت تھا۔ جس کی پیروی مشہور وکیل سی آر داس کر رہے تھے۔ جاگیر کی دستاویزات میں بعض فارسی مخطوطات بھی تھے جو اپنے قدیم رسم الخط کی وجہ سے پڑھے نہیںجا رہے تھے۔ وکیل مسٹر سی ۔ آر۔ داس نے عدالت کو تجویز پیش کی کہ ان مخطوطات کو پڑھنے کے لیے علامہ اقبال کی خدمات حاصل کی جائیں اور انہیں لاہور سے بلایا جائے۔ چنانچہ جب علامہ سے خط و کتابت ہوئی توآپ وہاں جانے پر آمادہ ہو گئے علامہ کی اس سفر پر آمادگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس طرح حضرت اکبر الہ آبادی سے ملاقات کی سبیل پیدا ہو رہی تھی جن کا وہ بے حد احترام کرتے تھے ۔ اورانہیں اپنا پیرومرشد تک کہتے تھے۔ اس سے پہلے 1913ء میں بھی وہ اکبر سے ملاقات کر چکے تھے جب مسجد کانپور کے قضیے کے سلسلے میں آپ وکیل کی حیثیت سے کانپور تشریف لے گئے تھے۔ آرہ کے سفر میں منشی طاہر الدین بھی علامہ کے ساتھ تھے۔ آرہ پہنچ کر آپ نے نہایت عجلت میں مقدمے کے کاغذات وغیرہ پڑھے اور ایک رپورٹ لکھ کر فوراً واپس جانے کے لیے تیار ہو گئے چنانچہ واپسی پر آپ سیدھے الہ آباد پہنچے اور مولانا اکبر کے ہاں قیام فرمایا۔ اس زمانے میں راقم الحروف لدھیانے میں ملازم تھا اور علامہ ک اعزہ کے ہاں مقیم تھا ۔ ایک روز معلوم ہوا کہ علامہ کا خط آیا ہے جس میں انہوںنے لکھا ہے کہ میں فلاں تاریخ کو فلاں گاڑی سے لدھیانے سے گزروں گا۔ چنانچہ میں بھی ڈاکٹر غلام محمد مرحوم کے ساتھ ریلوے سٹیشن پر پہنچا مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ علامہ سو رہے ہیں۔ ہم نے انہیں بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا اور منشی طاہر الدین سے ان کی خیریت دریافت کر کے واپس آ گئے۔ الہ آباد میں مولانا اکبرسے ملاقات کا ذکر علامہ نے اپنے دو خطوط میںخود بھی کیا ہے ۔ جو مولانا عبدالماجد دریا بادی اور خان نیاز الدین خاں کے نام ہیں۔ مولانا اکبر سے علامہ اقبا ل کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ خلاف عادت آپ نے ان کے تما م خطوط اپنے پاس محفوظ کر لیے تھے اورتنہائی میں ان کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ’’بانگ درا‘‘ کی اشاعت کے زمانے میں آپ نے ان خطوط کو بھی شائع کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا یہاں تک کہ مسودہ بھی دارالاشاعت پنجاب کے حوالے کر دیا تھامگر اس کے بعد آج تک نہ تو یہ خطوط شائع ہوئے اور نہ ہی مسودے کا سراغ مل سکا۔ البتہ مولانا اکبر کے نام علامہ کے اپنے خطوط ’’اقبال نامہ‘‘ کی دوسری جلد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ملک محمد دین کی کتاب ’’ذکر حبیب‘‘ میں مولانا اکبر اور علامہ اقبال کی کہی ہوئی تاریخ ہائے وفات بھی ان کے ہم مشرب ہونے کی دلیل ہیں۔ مولانا اکبر الہ آبادی 9ستمبر 1921ء کو فوت ہوئے۔ ٭٭٭ 44 آم خوری میاں نظام الدین صاحب رئیس اعظم لاہور نے حسب دستور قدیم اپنے آموں کے باغ میں بعض احباب کو آم کھانے کی دعوت دی ۔ حضرت میاں صاحب کے علاوہ خان صاحب میاں امیر الدین‘ میاں محمد اسلم‘ پروفیسر تاثیر اور میاں امین الدین صاحب آئی ۔ سی ۔ ایس دعوت کے میزبان تھے۔ خان بہادر سردار حبیب اللہ خاں چودھری عبدالکریم‘ چودھری محمد حسین(پریس برانچ) اور بعض دیگر محترم و معز ز حضڑات نہایت ذوق و شوق سے آم کھانے میںمصروف تھے۔ حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی جو زمانہ حاضر میں ’’انبہ پسندی‘‘ کے امام تسلیم کیے گئے ہیں اس پر لطف صحبت کی صدارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ا س صحبت میں ایک دوست کی بڑٰ کمی محسوس ہو رہی تھی… یادش بخیر پروفیسر محمد عبداللہ چغتائی ناسازی طبع کے باعث تشریف نہ لا سکے تھے اور حق یہ ہے کہ آپ کی غیر شعوری حاضری نے لطف محفل کر کرا کر دیا تھا۔ اس کمی کو پور ا کرنے کی تدبیر یہ کی گئی کہ صبح سات بجے سے بارہ بجے تک دوپہر ایک لمحہ بھی ایسا نہ گزراجس میں پروفیسر عبداللہ کا ذکر جمیل نہ ہوا ہو۔علی الخصوص علامہ اقبال نے اتو اپنے اس ہمدم دیرینہ کی غیر حاضری سے بہت متاثر تھے۔ بات یہ ہے کہ پروفیسر عبداللہ آم کھانے کے معامے میں ایک لازوال شہرت حاصل کر چکے ہیں پروفیسر صاحب کا انکسار اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ہمارا دعویٰ ہے ک آج شمالی ہند میں کوئی شخص آم کھانے کے معاملے میں پروفیسر عبداللہ کو شکست نہیں دے سکتا۔ اور آم کھانے کا جو طریقہ آپ نے ایجاد کر رکھا ہے اس کی جدت تو ا س قدر قابل داد ہے کہ آ کواس پر نوبل پرائز ملنا چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ جس طرح قربانی کے گوشت اور خون اللہ تعالیٰ تک نہیںپہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس صحبت میں ہم لوگوں کی انبہ خوری سے اگرچہ آم کا رس تو پروفیسر عبداللہ صاحب کے کام و دہن تک نہ پہنچا ہو مگر ان تمام ہرزار ہا آموں کا تقویٰ ضرور ان کے معدہ معلیٰ تک پہنچ گیا ہو گا۔ کیونکہ یہ فقرہ بار بار حاضرین کی زبان پر آ جاتا تھا کہ الٰہی ان آموں کا ثواب مولوی عبداللہ صاحب کی روح کو پہنچائیو۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کا تخیل عالی بھی اس فضا سے متاثثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور آپ نے ارتجالاً ارشاد فرمایا: انبہ را کہ دریں باغ ندارند نگاہ جائے او باد بہ نار شکم عبداللہ پروفیسر عبداللہ صاحب نے آم کھانے کا جو طریقہ ایجاد کر رکھا ہے وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ اس میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس انداز کا ذکر آج سے دو سال پیشتر ’’افکار‘‘ میں کیا جا چکا ہے۔ اور ہم نے سفارش کی تھی کہ اس کی تصویر متحرک تیار ہونی چاہیے کیونکہ الفاظ اس کو پوری طرح واضح کرنے سے عاری ہیں۔ اس طریق کی تقلید تو خارج از بحث ہے۔ باقی رہا کہ کثرت کا سوال تو یہ امر احباب کے لیے بے انتہا اطمینان کا باعث ہے کہ اس اعتبار سے معنی بہ اعتبار کمیت چوہدری محمد حسین نے اپنی طر ف سے کوئی کمی نہیں کی اور ان میں ارو پروفسیر میں خڈا جھوٹ نہ بلوائے تو صرف کوئی انیس بیس کا فرق رہ گیا ہے ۔ اللھم زد فزد۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہم نے چوہدری صاحب کی رفتار انبہ خوری کا حساب قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آ ج پھر گزارش کرتے ہیں کہ چوہدری صاحب کی رفتار بہت زیادہ تیز نہیں ہے۔ آپ ایک منٹ میں صرف ایک آم نوش فرماتے ہیں اتوار کے دن ساڑھے سات بجے صبح سے ایک بجے بعد دوپہر تک آ پ نے توقف نہیں فرمایا۔ گویا ساڑھے پانچ گھنٹوں میں ساٹھ آم فی گھنٹہ کے حساب سے کل 330آم آپ نے نوش فرمائے۔ اگر اس حساب میں کوئی فروگزاشت ہو گئی ہو تو چودھری صاحب اور دوسرے احباب اس کی تصحیح فرما سکتے ہیں۔ ’’افکار‘‘ کا کالم ہر وقت ان کے لیے کھلا ہے۔ حضرت اقبال سالک اور مہر متوسط درجے کے انبہ خور ہیں تاہم انہوںنے متواتر… آموں سے بھی کیا کم کھائے ہوں گے۔ میاں محمد اسلم اور میاں امیر الدین محض میزبانی فرماتے ہیں۔ آم کھانا ان کا کام نہیں ہے۔ جب دیکھا ہمیشہ کھلاتے ہی دیکھا۔ قرار پایا کہ قلمی آموں کے لیے تو کھانے کا لفظ زیادہ صحیح ہے لیکن تخمی آموں کے لیے یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا چوسنا زیادہ اچھا لفظ ہے۔ گو اہل زبان اسے غلط قرار دیں لیکن آخر تراش کر کھانے اور منہ سے لگا کر چوسنے میں بہت بڑ ا فرق ہے۔ اگر ایک کی جگہ دو لفظ مقرر کر دیے جائیں جو مختلف مفہوم ادا کریں تو یہ کوئی بری با ت نہیں‘ بلکہ اس سے زبان میںوسعت پیدا ہو گی۔ اس پر کہا گیا کہ فارسی میں چوسنے کو مکیدن کہتے ہیں۔ لہٰذا ’’انبہ خوری‘‘ کی بجائے ’’انبہ مکی‘‘ ’’انبہ خورانی‘‘ کی بجائے ’’انبہ مکانی‘‘ (فردوس مکانی‘ جنت مکانی) اور انبہ خور کی بجائے ’’انبہ مک‘‘ کہنا چاہیے۔ مثلاً اگر پروفیسر عبداللہ کو آم کھانے کی ترغیب دینی ہو تو یہ مصرع یوں عرض کیا جا سکتا ہے: لطف ایں انبہ نہ دانی بخدا تا نہ مکی بہرحال یہ صحبت نہایت پر لطف او ر دلچسپ رہی ۔ اللہ تعالیٰ میاں نظام الدین صاحب کے باغوں میں دہ گونہ برکت عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ہی پروفیسر عبداللہ چغتائی کو توفیق دے کہ وہ ایسے موقعوں پر بیان کردہ ناساز ی مزاج کی آڑ میں پناہ لینے کی بجائے مرد میدان بن کر سامنے آیا کریں۔ (منقول از ’’انقلاب‘(افکار و حوادث) 28جولائی 1927ء مطابق 4ربیع الاول 1352ھ) میاںنظام الدین کے باغ میں آموں کی جو دعوت ہوئی تھی اس کے حالات ’’افکار و حوادث ‘‘ میں پڑھ کر مختلف قسم کے خطوط موصول ہو رہے ہیں۔ ایک محترم بزرگ سیالکوٹ سے لکھتے ہیں کہ آموں کی دعوت کا حال اخبار میں لکھ کر دو ر افتادوں کو ترسانا چمہ معنی ندارد؟ اور پھر ایک پرائیویٹ محفل کے حالات کو پبلک کے اخبار میں شائع کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ دنی امیں آ م کھانے والوں خی ایک خاص برادری ہے جن کی کوئی بات (بشرطیکہ وہ انبہ خوری سے متعلق ہو) پرائیویٹ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس محفل میںعلامہ اقبال جیسے رہنمائے جمہور اور اخباروں کے ایڈیٹر اور میونسپل کمشنر موجود ہوں اس کے حالات اخباروں میں نہ چھپنا اپبلک کی توہین کرنا ہے۔ یہ سب لوگ پبلک ے آدمی ہیں اور پبلک کو حق حاصل ہے کہ ان محفلوں کے حالات معلوم کرے۔ ایک صاحب جمیل احمد صاحب میرٹھ سے لکھتے ہیں کہ چغتائی صاحب کے متعلق آپ کے حد سے بڑھے ہوئے خیالات اراکین بزم معدی کرب کے نام سے کھلا ہوا چیلنج تصورکیے گئے ہیں۔ غضب خدا کا جن لگوں نے ساری عمر آم کھانے کے فن میں مہارت پیدا کرنے میں گزار دی۔انہیںنظر انداز کرنا ایک ایسے علاقے کا رہنے والا انسان جہاں آم بمنزلہ نفی کے ہوتا ہے۔ اس فن میں استاد تسلیم کر لیا جائے۔ یعنی میرٹھ میں آم کھانے والوں کی ایک باقاعدہ انجمن بزم معدی کرب کے نام سے قائم ہے جس کے معزز ارکان کو یہ معولم کرنے سے بے حد تکلیف ہوئی کہ ’’افکار‘‘ میں پروفیسر عبداللہ چغتائی کو انبہ خوری کااستاد تسلیم کیا گیا ہے۔ ’’بزم معدی کرب‘‘ کے ایک ضروری اور خاص اجلاس میں قرار پایا کہ: 1۔ چغتائی اینڈ کمپنی کو (حضرت علامہ مدظلہ اس سے مستثنیٰ ہیں) دعوت مقابلہ دی جائے۔ مقام میرٹھ ہو گا اس لیے کہ یہاں آم بکثرت ہوتا ہے۔ صفائی معدہ کے سب اخراجات اراکین ’’بزم معدی کرب‘‘ کے ذمے ہوں گے‘‘۔ 2 ۔ خان بہادر حاتم علی خاں صاحب کا وسیع باغ فریقین کے لیے تمام مقابلے تک وقف ہو گا۔ 3۔ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو ’’نواب پہاڑ جنگ‘‘ بہادر کا خطاب دیا جائے گا۔ اس کے گزٹ کرنے اور مشتہر کرنے کے تمام مصارف کے ہم ذمہ دار ہوں گے۔ 4۔ ہارنے والی ٹیم کو مندرجہ بالا رعایات کے علاوہ مندرجہ ذیل رعایات خصوصی حاصل ہوں گی۔: ٹیم کے معزز ممبروں کی عزت افزائی ان کے کھائے ہوئے آموں کی گٹھلیوں سے گندھے ہوئے ہاروں سے کی جائے گی جن کو زیب گلو کرنے کے بعد انہیں ایک مرتبہ دہلی بازار میرٹھ سے گزرنا پڑے گا۔ فوٹو اتروانے انہیں ملکی اخبارات میں شائع کرانھے اور شہر کے خوش فکروں کو جمع کرنے کے تمام اخراجات بزم کا خزانہ عامرہ نہایت فراخ دلی سے برداشت کرے گا۔ واضح رہے کہ آم خاص قسم کے ہوں گے جن کی گٹھلیاں بہت نازک اور باریک ہوں گی تاکہ ان سے بنے ہوئے ہاروں کی خوبصورتی یو۔ پی کی نزاکت اور نفاست پسندی کو مجروح نہ کرے ہاں درازی بقدر شکم ہو گی اور ہونی بھی چاہیے۔‘‘ اب کیا فرماتے ہیں مولوی عبداللہ چغتائی صاحب اور چودھری محمد حسین بیچ اس مسئلے کے۔ ہمارے نزدیک تو احباب میرٹھ کی تمام شرائط نہایت معقول ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کے تمام مصارف‘ جن میں لاہور کی ٹیم کا کرایہ بھی شامل ہے‘ وہی برداشت کر رہے ہیں اور آم بھی بہرحال انہی کو مہیار کرنے ہوں گے۔ ہمارے نزدیک اس ضروری مسئلے پر غور کرنے کے لیے میاں نظام الدین صاحب ہی کے باغ میں یاران طریقت کی ایک ایمرجنسی میٹنگ منعقد ہونی چاہیے تاکہ اس چیلنج کا جواب بھی دیا جا سکے اور ٹیم انبہ خوری کا ایک ریہرسل بھی کر لے۔ ہم نے لکھنو میں تو آموں کی حد دے زیادہ افراط کا ذکر کرنے کے بعد ملک صحافت کے نواب عبداللہ خاں ڈاکٹر ’’ہمدم‘‘ کی خدمت میں گزارش کی تھی کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے ۔ آموں کے موسم میں اپنے اخبار نویس بھائیوں کو فراموش نہ فرمائیے گا۔ اس ’’ہمدم‘‘ نے اس فروگزاشت پر کہ اس نے آموں کی فصل میں اخبار برادری کو نہ پوچھا‘ معذرت کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے: ’’افسوس کہ برادر عزیز ’’انقلاب‘‘ کو ’’بشت بعد از جنگ‘‘ یاد آیا۔ کیونکہ اب آم کی فصل ختم ہو رہی ہے اور لکھنو کی منڈی بھی باہر کے مال سے چل رہی ہے۔ ورنہ ممکن نہ تھا کہ کچھ ’’آما‘‘ کے ٹوکرے اس سیلاب عظیم میں ادھر بھی نہ بہہ نکلتے‘‘۔ اس تاسف اور ندامت کے بعدہم نے یہ تجویز پیش کی کہ لکھنو میں ایک آم کانفرنس منعقد کی جائے جس میں شرکت کے لیے تمام اخباری برادری کو دعوت دی جائے ۔ اگر ہمارے بھائیوں دکنے آم کانفرنس میں شرکت گوارا فرمائی تو ثمر بہشتر ‘ کھجری اور فجری وغیرہ تو اب بھی باغوں میں موجود ہے۔ ورنہ سال آئندہ انشاء اللہ کسی کو کہنے کا موقع نہ ملے گا کہ : گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ بر انداز چمن‘ کچھ تو ادھر بھی کانفرنس کی اس تجویز کو آل انڈیا بنا دینا اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔کہ لاہور کے رہنے والے اس میں شرکت کے لیے لکھنو پہنچیں۔ نواب صاحب قبلہ کو اخبار نویسوں کی مصروفیات اور ناداری دونوں خصوصیوتوں کا علم ہے: راہ سیدھی تو بتا دی خضر نے اونٹ کا لیکن کرایہ کون دے اور اگر بفرض محال کرایہ بھی دینے پر آمادہ ہو گئے تو ہم لوگوں کی اس شامت اعمال کو کیا کیا جائے جس نے اخباروں کی صورت اختایر کر رکھی ہے۔ اگر ہندوستان بھر کے اخباروں نویس چند روز کے لیے لکھنو پہنچ جائیں تو یہ ظاہر ہے کہ اتن یدن تک اخبارات عدم آباد کی سیر کریں گے اور ملک بھر میں سناٹا چھایا رہے گا۔ آم کانفرنس کیا ہوئی اچھا خاصا آرڈی ننس ہو گیا۔ نواب صاحب قبلہ بھی جانتے ہیں کہ ادبی آدمیوں کو انبہ خوری کا خواہ کتنا شوق ہو‘ بہرکیف پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اور خصوصاً اخبار نویسوں کے لے جن کے پاس نہ روپیہ ہے اور نہ وقت لہٰذا اب کانفرنس کی دعوت دے کر پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ خیر یار زندہ صحبت باقی۔ آیندہ سال بھی سہی۔ لکھنو کے آموں کے لیے ایک سال انتظار ہرگز مشکل نہیں ہے۔ خدا کرے نواب صاحب آئندہ سال ہمیں یاد رکھیں۔ (روزنامہ انقلاب لاہور : 29جولائی و 4اگست 1927ئ‘ اور ’’انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار‘ مطبوعہ اقبال اکیڈمی کراچی 1967 ص 313) ٭٭٭ 45 پروفیسر ہیوم سے ملاقات 1927ء کے موسم سرما کاذکر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے پروفیسر ہیوم کو (تقابل ادیان عالم) کے موضوع پر توسیعی لیکچروں کے سلسلے میں دعوت دی تھی اور انہوںنے یہاں آ کر چار لیکچر دیے تھے۔ ان دنوں سردی بہت زیادہ تھی۔ میں علامہ کے ہاں حسب معمول بعد مغرب موجود تھا ۔ باہر بارش ہو رہی تھی ہمارے پاس مسٹر شفاعت اللہ خاں بھی بیٹحے تھے جو اخباری دنیا کے بہت مشہور رکن تھے۔ وہ مہر و سالک کے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے اجرا میں شریک رہے تھے۔ اس سے پیشتر وہ روزنامہ’’زمیندار‘‘ میں رہ چکے تھے۔ علامہ کے کمرے میں آگ کی انگیٹھی روشن تھی جس کی وجہ سے کمرہ خوب گرم تھا۔ ہم علامہ اقبال کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ اتنے میں علی بخش آیا اور کسی شخص کا تعارفی کارڈ لا کر علامہ کو دیا۔ علامہ نے کارڈ دیکھ کر کہا کہ ان کو بلا لو۔ چنانچہ علی بخش نے کمرے میں دو کرسیاں رکھ دیں جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔ روبرٹ ایلن ہیوم دراصل بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال امریکہ میں بروک لائن کے مقام پر 24جون 1929ء کو ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر علامہ نے کہا کہ وہ تو ایک آدمی ہے تم دو کرسیاں کیو ں رکھ رہے ہو؟ علی بخش نے کہا کہ موٹر میں دو شخص ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں صاحب یعنی ڈاکٹر ہیوم اور ان کے بھائی مسٹر ہیوم سیکرٹری وائی ایم سی اے اندر آئے اور مسٹر ہیوم نے اپنے بھائی ڈاکٹر ہیوم کا تعارف کرایا جو اس سے عمر میں بڑے تھے ۔ وہ دونوں تو کرسیوں پر بیٹھ گئے مگر علامہ اپنی عادت کے مطابق پلنگ پر ہی لیٹے رہے۔ اس وقت وہ دھسہ اوڑھے ہوئے تھے۔ چندلمحے خاموشی رہی پھر علامہ نے خود ہی گفتگو شروع کی اورکہا کہ آپ نے جو لیکچر پنجاب یونیورسٹی میں دیے ہیں ان کا خلاصہ اخبار میں شائع ہو گیا ہے۔ میں نے نہایت توجہ سے ان کا مطالعہ کیا ہے اور مستفید ہوا ہوں۔ پھر علامہ نے اسی طرح پلنگ پر لیٹے لیٹے سوال کیا کہ ڈاکٹر ہیوم آپ کا کیا خیال ہے یکہ عیسائی مذہب تبلیغی مذہب ہے؟ اس پر ڈاکٹر ہیوم خاموش ہو گئے پھر علامہ نے خود ہی کہا کہ میرے خیال میں آج دنیامیں صرف اسلام ہی تبلیغی مذہب ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ عرصہ ہوا عیسائیت ایک تبلیغی مذہب ہونے کی حیثیت سے مردہ ہو چکی ہے اوراسلام ہی اس وقت زندہ مذہب دنیا میں ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ چونکہ آپ Comparative Religionپڑھاتے ہیں اور اسی پر لیکچر دے ہیں تو آپ نے اس نہج پر بھی سوچا ہو گا کہ بدھ مذہب‘ جو آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ افرادکا مذہب ہے وہ بھی اسلام کے مقابلے میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔مگر ڈاکٹر ہیوم نے اس سلسلے میں کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔ جس سے اس کے خیالات اورمعیار علم کا پتہ چلتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہاں آ کر پھنس گیا ہے۔ چنانچہ اس نے مختصر سی گفتگو کے بعد فوراً اجازت طلب کی اور رخصت ہو گیا۔ علامہ کی عظمت ہم نے یہ دیکھی کہ جو گفتگو کسی شخص کے ساتھ ہوتی وہ اس کی موجودتی تک ہی محدود رہتی ۔ اور جب وہ شخص چلا گیا تو اپنا تذکرہ بھی ساتھ لے گیا اور فوراً نیا موضوع گفتگو شروع ہو گیا۔ چنانچہ شفاعت اللہ خان اور میں نے ڈاکٹر ہیوم کے جانے کے بعد کچھ تبصرہ کرنا چاہا لیکن علامہ نے فوراً موضو ع بدل دیا۔ وہ کسی کی پیٹھ کے پیچھے اس پر تنقیدکرنا نہایت معیوب خیال کرتے تھے۔ ٭٭٭ 46 میر جلیل لکھنوی 1926ء میں میر انیس اعلیٰ اللہ مقدمہ کی فقید المثال سخن ورانہ روایات کی زندہ یادگار ’’ان کے نواسے‘‘ میر فرزند حسین جلیل لکھنوی کچھ دنوں کے لیے لاہور وارد ہوئے اور لاہور کے ہر دل عزیز رئسی نواب محمد علی خاں قزلباش کے ہاں مقیم ہوئے۔ میں صاحب کو مرثیہ گوئی کافن اپنے بلند پایہ خاندان سے ورثے میں ملا ہے۔ اور آپ کی نازک خیالی سونے پر سہاگہ ہے آپ نے لاہور میں وارد ہونے پر علامہ بھ ان کی دو مجلسوں میں شریک ہوئے تھ۔ ایک وہ مجلس جو نواب محمد علی خاں نے نواب پیلس میں منعقد کی تھی اور دوسری محلہ چہل بیبیاں میں نثار حویلی میں ہوئی تھی۔ ا س میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے نواب صاحب موصوف خود بھی علامہ کے ہاں حاضر ہوئے تھے۔ اس مجلس میں کئی احباب شامل ہوئے تھے۔ خاص کر پروفیسر دین محمد تاثیر‘ راقم اور بعض دیگر احباب بھی موجود تھے۔ نواب صاحب نے علامہ سے یہ بھی بیان کیا تھا کہ میر جلیل کی خواہش ہے کہ اس مجلس میں لاہور کے اہل علم حضرات ضرور شرکت کریں۔ نواب صاحب نے بعض احباب کو چھپے ہوئے دعوت نامے بھی ارسال کیے تھے۔ نواب پیلس والی مجلس میں میر جلیل تین گھنٹے تک اپنا اور اپنے بزرگوں خاص کرمیر انیس کا کلام پڑھتے رہے۔ یہ نشست اسی طرح تھی جس طرح اہل شیعہ کے ہاں محرم کی مجالس ہوتی ہیں۔ تمام حضرات بہت متاثر ہوئے تھے اور خاص کر علامہ اقبال تو کئی دفعہ اشکبار ہوئے۔ اسی طرح محلہ چہل بیبیاں والی مجلس میں بھی علامہ نے مع احباب کے شرکت کی تھی۔ اسی روز منشی سراج الدین احمد کشمیر والے بھی موجود تھے اور اس محلے میں یہ مجلس ان کے مکان کے بالکل متصل ہوئی تھی۔ یہ مجلس بھی پورے تین گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ حضرت جلیل نے اپنا طبع زاد کلام بھی سنایا تھا جو سب مرثیے تھے۔ آپ کی عمر اس وقت ساٹھ سے تجاوز کر چکی تھی لیکن آپ کی آوازبالکل نوجوانوں کی سی تھی۔ ایسا رنگ جما کہ ایک ایک بند اور ایک ایک شعر پر احسنت اور صلی علیٰ کے پھول برسائے گئے۔ آپ کے لاہور میں وارد ہونے پر اہل لاہور کے ذوق سخن کو تازگی ملی اور آپ کی آمد مبارک تصور کی گئی۔ خاص کر نواب محمد علی خاں قزلباش کا شکریہ ادا کیا گیا۔ ان مجالس کے متعلق روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے 26اگست 1926ء کے شمارے میں ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی۔ ٭٭٭ 47 ناسازی طبیعت عام طور پر ڈاکٹر سید محمد حسین قریباً ہر روز 9-10بجے علامہ اقبال کی کوٹھی میں اپنے ٹانگے پر آتے اور بے تکلفی سے سیدھے زنانہ حصے میں جا کر خیر و عافیت دریافت کرتے۔ وہ سیالکوٹ میں علامہ کے ہم مکتب رہ چکے تھے اور علامہ ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ واپس جانے سے پہلے وہ علامہ کی خیریت بھی دریافت کرتے۔ اور کہتے ’’اقبا ل کیا حال ہے؟‘‘ علامہ ادب سے جواب دیتے ’’شاہ صاحب خیریت ہے‘‘ایسا معلوم ہوتا تھا گویا یہ اس شخص کا اپنا گھر ہے۔ دوائی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو علی بخش ان کے مطب واقع احمدیہ بلڈنگ سے لے آتا۔ اقبال کے اپنے بعض احباب سے اسی طرح کے بے تکلفانہ تعلقات تھے جن کا عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے۔ ایک روز علامہ درد گردہ میں مبتلا تھے۔ کہ مرحوم بشیر احمد ابن مولوی احمد الدین مزاج پرسی کے لیے آیا۔ اقبال اس وقت اندرون خانہ تھے اور سکون حاصل کرنے کے لیے بلند آواز سے بیدل کی غزل کا یہ شعر بار بار دہرا رہے تھے: حرص قانع نیست بیدل ورنہ اسباب جہاں ہر چہ مادر کار داریم اکثرے درکار نیست معلوم نہیںانہیںبشیر احمد کی آمد کا علم کیسے ہو گیا کہ اسی حالت میں باہر آ گئے۔ منشی طاہر الدین نے خیریت دریافت کی تو ان کو بھی جواب سی شعر سے دیا۔ پھر بشیر احمد مرحوم سے اس طرح ملے جیسے ان کا اپنا لڑکا آ گیا ہو۔ اس کو جسم دبانے کی اجازت نہ تھی۔ ایک مرتبہ بیماری سے کچھ اضافہ تھا مگر ہائے ہائے برابر کر رہے تھے۔ منشی طاہر الدین نے دریافت کیا کہ خیر تو ہے؟ جواب دیا میں ذرا بیماری کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ سے ملنے والوں کو تانتا لگا رہتا تھا اور علامہ اپنے ملاقاتیوں سے نہایت اخلاق سے پیش آتے تھے۔ میں نے اس کوٹھی کو کبھی مرمت ہوتے نہیں دیکھا۔ اکثر جگہ دیواروں سے پلستر غائب ہوگیا تھا۔ ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں گورنمنٹ کالج کے پروفیسر ایرک ڈکنسن (جو ان دنوں تازہ تازہ علی گڑھ سے آئے تھے) علامہ کی اسی کوٹھی کے درمیانی کمرے میں بیٹھے تھے۔ کمرے میں نہایت بے ترتیبی چھائی ہوئی تھی۔ اور ایک دیوار پر ملکہ وکٹوریہ کی رنگین تصویر بغیر شیشے کے آویزاں تھی۔ پروفیسر ڈکنسن کی نگاہ تصویر پر پڑی تو مسکرا کر علامہ سے پوچھا کہ آپ کوتصاویر کا بی ذوق ہے؟ علامہ نے مسکرا کر تصویر کو اپنے ہاتھ کی ایک جنبش سے حرکت دی تو اس کے پیچھے سے دیوار کا پلستر غائب نظر آیا اور ایک شگاف نمودار ہو گیا۔ اور یہی اس تصویر کا مصرف تھا گفتگو کا یہ موضوع تھا کہ داراشکوہ پر ایک ڈرامہ تیار کیاجائے مگر علامہ نے یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔ ٭٭٭ 48 سائمن کمیشن ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ کرنے کی غرض سے انگریزوں نے 7نومبر 1927 ء کو ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ جس میں کسی ہنوستانی کو نمائندگی کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے تمام ممبر انگریز تھے اور صدر کا نام سر جان سائمن تھا۔ اس کمشین نے پہلے 3فروری 1928ء سے 31مارچ 1928ء ت پھر 11اکتوبر 1928ء سے 13اپریل 1929ء تک ہندوستان بھر کے دورے کیے اور ہر مذہب و ملت اور ہر طبقہ خیال کے رہنمائوں سے مل کر ان سے ان کے مافی الضمیر کے مطابق تحریری بیانات حاصل کیے۔ پھر 1930ء میں کمیشن کی رپورٹ دو جلدوں میں شائع کر دی گئی۔ ہندوستان پہلے ہی سیاسی بحران کاشکار تھا ۔ اس کمیشن کے قیام کا اعلان ہوا تو اس سے تعاون کے سوال پر مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے اس بات کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا کہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کو نمائندگی کیوں نہیںدی گئی۔ چنانچہ علامہ اقبال نے بھی اس سلسلے میں 9 نومبر 1927ء کو ایک بیان جاری کیا جو 13نومبر کے ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوا۔ اسی روز پنجاب مسلم لیگ کا ایک جلسہ میاں سر محمد شفیع کے مکان پر ہوا۔ اا میں ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں کہا گیا کہ سائمن کمیشن کے تمام ہندوستانی باشندو ں کے مفاد کے لیے بالعموم اور مسلمانان ہند کے لییے بالخصوص نقصان کا باعث ہے اس لیے اس کے مطالعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ قرارداد ملک برکت علی کی ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی اوراخبارات میںبھی شائع ہوگئی۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا علامہ اقبال اس کمیشن کی ہئیت سے تو متفق نہیں تھے اور انہوںنے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا‘ تاہم وہ اس بات کے حق میں بھی نہیںتھے کہ کمیشن سے سراسر بائیکاٹ کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کا بیان گفتار اقبال 1 میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سائمن کمیشن کی یہ رپورٹ دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ پہلی جلد کے صفحات 410ہیں اور دوسری جلد کے 344صفحا ت پر مشتمل ہے۔ اسے کلکتہ کی مرکزی پبلیکیشن نے 1930ء میں شائع کیا تھا اور قیمت چار روپے تھی۔ ٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل‘ شائع کردہ دانش گاہ پنجاب لاہور‘ صفحات 113-114۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ 49 دوسری گول میز کانفرنس (حضرت علامہ اقبال کا ایک فاضلانہ خطبہ) ہندوستا ن کے سیاسی مستقبل سے متعلق انگریز نے تین گو ل میز کانفرنسیں لندن میں منعقد کی تھیں۔ یہ کانفرنسیں سائمن کمشن کے بعد منعقد ہوئی تھیںَ پہلی کانفرنس 19جنوری 1930ء کو ختم ہوئی دوسری 17 ستمبر 1931ء کو شرو ع ہو کر یکم دسمبر 1931ء تک رہی اور تیسر ی نومبر 1932 سے شروع ہو کر 24دسمبر 1932ء تک رہی دوسری اور تیسری کانفرنس میںعلامہ شریک ہوئے تھے۔ پہلی کانفرنس میں جہاں کانگریس اور مسلم کانفرنس کے دوسرے اکابر نے حکومت برطانیہ کے مدبرین سے گفت و شنید کی تھی وہاں مولانا محمد علی جوہر بھی باوجود شدید علالت کے مع اپنی بیگم صاحبہ کے شریک ہوئے تھے۔ لندن کی اس گول میز کانفرنس میں مولانا نے آزادی وطن کے موضوع پر اپنی زندگی کی آخری تقریر کی تھی آپ نے اپنی اس تقریر میں فرمایاتھاکہ میں لندن میںاس عزم کے ساتھ اایا ہوں کہ یہاں سے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ لے کر جائوں گا۔ میں نے عہد کیا ہے کہ یا تو وطن کی آزادی سے کر جائوں گا ورنہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ میں اپنی اہلیہکو اس لیے ساتھ لے کر آیا ہوں تکاہ وہ میری موت کے بعد میری تجہیز و تکفین کا انتظام کریںَ معلوم نہیں کیسے وقت میں اور کس جذبے سے مولانا نے یہ الفاظ اپنی زبان سے کہے تھے کہ آزادی تو اس موقع پر نہ مل سکی مگر 4جنوری 1930ء کو وہیں لندن میں انہوںنے اپنی جان دے دی اور یوں ایک دور کا خاتمہ ہو گیا وہ ذیابیطس کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ مولانا کا جسد خاکی مفتی اعظم فلسطین سے اپنے ہمراہ بیت المقدس لے گئے اور علامہ اقبال اور دیگر اکابر کے مشورے سے انہیں مسجد اقصیٰ کے ایک گوشے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے فرمایا تھا: خاک قدس اور رابہ آغوش تمنا گرفت سوئے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گزشت اس بطل حریت نے جس قدر ازیتیں اور صعوبتیں آزادی وطن کے لیے برداشت کیں وہ ایک الگ داستان ہے۔ شہادت کی جو سعادت انہیںنصیب ہوئی وہ اور کسی کے حصے میں نہ آ سکی۔ جب ان کی وفات کی خبر ہندوستان میں پہنچی تو اہل وطن پھوٹ پھوٹ کر روئے آج بھی ان کی یاد اور ا ن کی قربانیاں یاد کرکر کے دلوں کو ایک تازہ ولولہ نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد 1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس بھی لندن میں منعقد ہوئی جس میں علامہ اقبال نے بھی شرکت کی ۔ آپ کے ہمراہ مولانا غلام رسول مہر مدیر ’’انقلاب‘‘ بھی تھے۔ یہ کانفرنس 17ستمبر سے شرو ع ہو کر یکم دسمبر 1931ء تک رہی تھی۔ اس کانفرنس میں علامہ اقبا ل نے مسلمانوں کے حقوق و مطالبات منوانے کے لیے سب سے پیش پیش تھے۔ سر آغاخاں بھی اس کانفرنس میں آپ کے شریک مشورہ تھے۔ اور وہ بھی لندن میں موجود تھے اس موقع پر متعدد علمی مجالس بھی منعقد ہوئی تھیں ۔ سرفرانسس ینگ اس زمانے میں انڈین سوسائٹی لندن لے صدر تھے۔ اسی زمانے میں علامہ نے ایک مضمون نے اپنے استاد میک ٹیکریٹ کے متعلق لکھا تھا اور جو آپ کے زمانہ طالب علمی کے (کیمبرج 1907ء میں پروفیسر تھا۔ یہ مضمون انڈین سوسائٹی لندن کے مجلے میں طبع ہو چکا ہے۔ لندن میں متعدد حضرات نے آپ سے ملاقاتیں کی تھیں اور کئی انجمنوں نے آپ کے اعزاز میں جلسے کیے تھے۔ چنانچہ ایک متحد جلسہ انڈین سوسائٹی لندن کے زیر اہتمام ہوا تھا جس کی صدارت سوسائٹٰ کے صدر سر فرانسس ینگ نے کی تھی۔ اس جلسے میں علامہ نے اپنی فارسی تصنیفات سے متعدد اشعار بھی سنائے تھے اس جلسے کی رپورٹ مولاناغلام رسول مہر صاحب نے روزنامہ’’انقلاب‘‘ کے لیے بھیجی تھی جو 22نومبر 1931ء کو شائع ہوئی تھی۔ اسے ہم یہاں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہو گا کہ علامہ نے کس طرح اپنے کلام کو مربوط طریق سے پیش کیا ہے: انڈیا سوسائٹی کی دعوت پر علامہ اقبال کا فاضلانہ خطبہ اپنے شعر اور فلسفے کی دلکشا تشریح و تفسیر (مولانا مہر کا مکتوب) شام کو پانچ بجے انڈیا سوسائٹی کی دعوت پر علامہ اقبال نے ایک عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔سر فرانسس ینگ اس جلسے کے صدر تھے ۔ صاحب موصوف نے نہایت موزوں الفاظ میں حضرت علامہ کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ سرزمین مشرق کا نہایت بلند پایہ شاعرو فلاسفر آج اپنے کلام کے متعلق اپنے خیالا ت کا اظہار کرے گا۔ حضرت علامہ اقبال نے خطبے کے آغاز میں فرمایا کہ بے شک میرے اشعار میں مختلف مسائل کے متعلق فلسفیانہ خیالات موجود ہیں لیکن میرا کوئی منظم و مرتب فلسفہ نہیںہے۔ البتہ فلسفے کے ایک مسئلے یعنی حیات بعد الممات کے ساتھ مجھے خاص دلچسپی رہی ہے میں انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔ اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میں آپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا۔ چنانچہ حضرت علامہ نے متعدد اشعار اس عقیدے کی توضیح کے سلسلے میں پیش فرمائے اور ان کا انگریزی میں ترجمہ سنایا: فروغ خاکیاں او نوریاں افزوں شود روزے زمیں از گردش تقدیر ما گردوں شود روزے خیال ما کہ او را پرورش دادند از طوفاں ز گردات سپہر نیلگوں بیروں شود روزے یکے در معنی آدم نگر‘ از من چہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیر او پرخوں شود روزے ٭٭٭ چناں بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام خدا زکردہ خود شرم سار تر گردد ٭٭٭ ازاں مرگے کہ می آید‘ چہ باک است خودی چوں پختہ شد‘ از مرگ پاک است اس کے بعد حضرت علامہ نے فرمایا کہ پروفیسر ڈاکٹر آرنلڈ نے شاعری کی تعریف یہ کی ہے کہ یہ زندگی کا انتقاد ہے (Criticism of Life)میں اس کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں بشرطیکہ محض لائف ہیں بلکہ ڈیوائن لائف کا انتقاد کہا جاے۔ پھر حضرت علامہ نے ڈیوائن لائف کے انتقاد کے اسلوب و انداز کی وضاحت کرتے ہوئے ذیل کے اشعار مع ترجمہ سنائے: ایں جہاں چیست صنم خانہ پندار من است جلوہ او گرو دیدہ بیدار من است ہستی و نیسی از دیدن و نادیدین من چہ زمان و چہ مکاں شوخی افکار من است ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہاں دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است اے من از فیض تو پایندہ نشان تو کجا ست؟ ایں دو گیتی اثر ماست جہان تو کجاست؟ حسن و زوال: پھر حضرت ممدوح نے اپنی نظموں میں سے تین مختلف ٹکڑے اپنی شاعری کے عام انداز و اسلوب کی وضاحت کے سلسلے میں پیش کیے سب سے پہلی اردو نظم حسن تھی اور آپ نے فرمایا کہ آج سے تقریباً 25سال پیشتر کیمبرج میںیہ نظم لکھی گئی تھی۔ اصل خیال جرمن شاعر سے لیا گیا تھا لیکن میںنے اس کو بہت وسیع کر دیا ہے: خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہان میںکیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی حسین ہی ہے حقیقت زوال ہے جس کی حضرت نے فرمایا کہ یہاں تک جرمن شاعر کا خیال تھا آگے جو کچھ ہے وہ میرا ہے: کہیں قریب تھا‘ یہ گفتگو قمر نے سنی فلک پہ عام ہوئی‘ اخیر سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک نے بات بتا دی زمیں کے محرم کو چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا حور و شاعر دوسری نظم’’ حور و شاعر‘‘ سنائی جس کے اشعار درج ذیل ہیں: حور نہ بہ بادہ میل داری‘ نہ بہ من نظر کشائی عجب ایں کہ تو نہ دانی رہ و رسم پارسائی ہمہ ساز جستجوئے ہمہ سوز آرزوئے نفسے کہ می گزاری غزلے کہ می سرائی بہ نوائے آفریدی‘ چہ جہان دلکشائے کہ ارم بہ چشمم آید چو طلسم سیمیائی شاعر دل رہرواں فریبی بہ کلالم نیش دارے مگر ایں کہ لذت او نہ رسد بہ نوک خارے چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام در نسازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوبروے تپد آں زماں دل من پئے خوب تر نگارے ز شرر ستارہ جویم ‘ ز ستارہ آفتابے سر منزلے نہ دارم کہ میرم از قرارے چو زبادہ بہار قدحے کشیدہ خیزم غزلے دگر سرایم بہ ہوائے نو بہارے طلبم ہنایت آں کہ نہایتے نہ دارد بہ نگاہ ناشکیبے بہ دل امیدوارے دل عاشقاں بمیرد بہ بہشت جاودانے نہ نوائے درد مندے نہ غمے‘ نہ غمگسارے بوئے گل تیسری نظم بوئے گل تھی: حورے بہ کنج گلشن جنت تپید و گفت مارا کسے ز آنسوئے گردوں خبر نہ داد ناید بہ فہم من سحر و شام و روز و شب عقلم ربود ایں کہ بہ گویند مرد و زاد گردید موج نککہت و از شاخ گل دمید با ایں چنیں بہ عالم فردا و دی نہاد وا کرد چشم و غنچہ شد و خندہ زد دمے گل گشت و برگ برگ شد و بر زمیں فتاد زاں نازنیں کہ بند زپایش کشادہ اند آھے است یادگار کہ بو نام دادہ اند اسرار خودی رموز بے خودی پیام مشرق یہ تین نظمیں سنانے کے بعد حضرت علامہ نے اپنی فارسی تصانیف کی مختصر سی کیفیت بیان فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ میری مثنوی’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ پروفیسر نکلسن انگریزی زبان میں کر چکے ہیں۔ اس یے اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ میں دوسری مثنووی رموز بے خودی ہے ’’اسرار خودی‘‘ فرد کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے اور ’’رموز بے خودی‘‘ میں قوموں اور جماعتوں کی زندگی کے اسرار و معارف بیان کیے گئے ہیں۔ میری تیسیر تصنیف پیام مشرق ہے جو گوئٹے کے دیوان کے انداز و اسلوب پر لکھی گئی تھی۔۔ اس کے بعض حصوںمیں جرمن شاعر ہائنا او رگوئٹے کا جواب ہے۔ آغاز میں رباعیات ہیں جو مشہور صوفی شاعر بابا طاہر عریاں کے تتبع میں کھی گئی ہیں۔ مثلاًآرٹ اور نیچر کے متعلق یہ رباعی: بہ یزداں روز محشر برہمن گفت فروغ زندگی تاب شرر بود و لیکن کہ نہ رنجی با تو گویم صنم از آدمی پایندہ تر بود ٭٭٭ گدائے جلوہ رفتی بر سر طور کہ جان تو ز خود نامحرمے ھست قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدمے ہست اس کتاب میں یورپین مسائل کے متعلق بھی نظمیں ہیں مثلاً جس زمانے میں سمندروں کی آزادی پر بحث ہو رہی تھی میں نے اس مسئلے کے متعلق لکھا تھا: بطے می گفت بحر آزاد گردید چنیں فرماں ز دیوان خضر رفت نہنگے گفت رو ہر جا کہ خواہی ولے از ما نباید بے خبر رفت ’’زبور عجم‘‘ کے معانی عالیہ ’’پیام مشرق‘‘ کے بعدمیری تصنیف ’’زبور عجم‘‘ شائع ہوئی جس کے تین حصے ہیں اول غزلیات‘ دوم گلشن راز سوم بندگی نامہ۔ حصہ اول پھر تین حصوں میں منقسم ہے: اول خدا‘ دوم انسان‘ سوم بزم قدرت۔ ’’گلشن راز‘‘ سے آپ آگاہ ہوں گے اس لیے کہ اس کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ یہ ایران کے مشہور صوفی اور فلاسفر محمود شبستری کی مثنوی ہے۔ خراسان کے باشندوں نے محمود سے تیرہ سوا ل کیے تھے جن کا جواب ترتیب وار اس نے گلشن راز میں دیا ہے۔ میں نے ان میں سے نو سوال لیے ہیں اور موجودہ زمانے کے مقتضیات و احوال کو مدنظر رکھ کر ان کا جواب دیا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی جمہوریت مذہب و سیاست کی علیحدگی اور اس قسم کے بہت سے اہم مسائل زیر بحث آئے ہیںمثلاً جمہوریت کے متعلق میں نے لکھا ہے: فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گردن دیوے کشاد است گروہے را گروہے در کمین است خدایش یار گر کارش چنین است مذہب و سیاست کی علیحدگی کے متعلق لکھا ہے: خرد را با دل خود ہم سفر کن یکے بر ملت ترکاں نظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دیں ربطے نہ دیدند بہ کف بردن جہان چار سو را مقام نور و صوت و رنگ و بو را فزونش کم کم او بیش کردن دگرگوں بر مراد خویش کردن بہ رنج و راحت او دل نہ بستن طلسم نہ سپہر او شکستن فرو رفتن چو پیکاں در ضمیرش ندادن گندم خود با شعیرش شکوہ خسروی این است این است ہمیں ملک است تو توام بہ این است ’’گلشن راز جدید‘‘ کے اردو اشعار بھی حضرت علامہ نے سنائے لیکن ’’’بندگی نامہ‘‘ کا ذکر نہ کیا۔ ’’جاوید نامہ ‘‘ کا ذکر آخر میں فرمایا کہ میری ایک تازہ تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ بھی مطبع میں جا چکی ہے اور غالباً ایک دو مہینے میں چھپ جائے گی۔ یہ حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے جسے ڈانٹے کی تصنیف یورپ کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف ستاروں کی سیر کرتا ہے اور اس میں مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر ان سے باتیں کرتا ہے۔ پھر جنت میں جاتا ہے اور آکر میں خدا کے سامنے پیچنتا ہے۔ اس تصنیف میں دو حاضر کے تمام جماعتی اقتصادی سیاسی مذہبی‘ اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیر بحث آ گئے ہیںَ اس میں صرف دو شخصیتیں یورپ کی آئی ہیں اول کچنر دوم نٹشا باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ ڈانٹے نے اپنا رفیق سفر یا خضر طریق ورجل کو بنایا تھا۔ میرے رفیق سفر یا خضر طریق ’’مولانا روم‘‘ ہیںَ میں اس تصنیف میں سے صرف ایک دو مثالیں ہی پیش کر سکتا ہوں مثلاً چاند میں ہندوستان کے مشہور ہندو صوفی وشوامتر سے ملاقات ہوتی ہے جس کا نام می نے جاوید نامہ میں ’’جہاں دوست‘‘ رکھا ہے ا س لیے کہ وشوامتر کے معنی جہاںدوست کے ہیں۔ وشوامتر سے جوباتیں ہوئیں انہیں میں نے نہ تا سخن از عارف ہندی کے عنوان سے پیش کیا ہے: گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب ؟ گفتم ترک ذکر گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست گفتم عالم؟ گفتم او خود روبروست گفت ایں عالم و ہنر؟ گفتم کہ پوست گفت حجت چیست؟ گفتم روئے دوست گفت دین عامیاں؟ گفتم شنید گفت دین عارفاں؟ گفتم کہ دید کچنر اور فرعون آپ حیران ہوں گے کہ کچنر اس ضمن میں کیسے آ گیا ہے؟ ’’جاوید نامہ میں کچنر اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں فرعون کچنر کو طعنہ دیتاہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم اور بڑے بے درد ہی ۔انہوںنے ہماری قبریں تک کھود ڈالی ہیں۔ کچنر جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصد سائنس کی خدمت ہے علم الآثار کی خدمت ہے۔ قبریں اس لیے کھودی گئی ہیں کہ یہ معلوم ہو کہ آج سے تین چار ہزار سال قبل دنیا کی حالت کیا تھی۔ فرعون اس کی تشریح کے جواب میں کہتا ہے: قبر مارا علم و حکمت بر شود لیکن اندر تربت مہدی چہ بود؟ (قارئین کرام کو معلوم ہو گا کہ لارڈ کچنر کی قیادت میں جب انگریز ام درمان پر قابض ہوئے تھے تو مشہور ہے کہ انہوں نے سوڈان کی تحریک آزادی کے رہنما حضرت مہدی سوڈانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر تک کھدوا ڈالی تھی۔ اوپر کے شعرکے آخری مصرع میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے)۔ الواح اربعہ حضرت علامہ نے فرمایا کہ ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھی ہیں لوح بدھ مسیح‘ لوح زرتشت اور لوح محمدؐ لوح مسیح میں ٹالسٹائے کا ایک خواب ہے۔ لوح زرتشت میں اسلامی تصوف کے مشہور مسئلے فضیلت نبوت بر ولایت یا ولایت بر نبوت کے متعلق بحث ہے۔ لوح محمدؐ کا مضمون یہ ہے کہ کعبے میں بت ٹوٹے پڑے ہیںَ ابوجہل کی روح گریہ و زار ی کر رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ رہی ہے کہ انہوںنے ہمارے دین کو برباد کر دیا۔ ہماری خاندانی بلند پایگی زائل کر ڈالی اور مساوات کی تعلیم دینی شروع کر دی جو مزدکیوں سے حاصل کی گئی ہے وغیرہ۔ مسٹر عبداللہ یوسف علی کی تقریر آخر میں حضرت علامہ نے فرمایا کہ وقت بہت کم تھا‘ اس لیے کہ آج اسی وقت لارڈ ارون اور لیڈی ارون کی طرف سے بھی ایک پارٹی ہے جس میں بعض دوستوںکو جانا ہے اور خود مجھے بھی جاناہے‘ اس لیے میں اس لیکچر کو ختم کرتا ہوں۔ سر فرانسس ینگ بسینڈ نے آکر میں پھر حضرت علامہ کا شکریہ ادا کیا اور مسٹر عبداللہ یوسف علی کو صدر جلسہ بنا کر صاحب موصوف چلے گئے۔ مسٹر عبداللہ یوسف علی نے سب سے پہلے حاضرین سیکہا کہ اگر کسی صاحب کو علامہ سے سوا ل کرنا ہے تو کرے۔ ایک صٓحب نے ایک دو سوالات انسانی ’’انا‘‘ یا خودی کے متعلق پوچھے اس کے بعد خود مسٹرعبداللہ یوسفی علی نے حضرت علامہ کے بعض اشعار پڑھ کر ان کی تشریح کی۔ آخر میں کہا کہ حضرت علامہ فرانس کے شاعر اور ڈرامہ ٹسٹ پال کلوڈے سے بہت مشابہت رکھتے ہیں جو اس وقت زندہ ہے۔ لیکن افسوس کہ انگلستان کے لو گ اس سے زیادہ باخبر نہیں ہیں پال کلوڈے کی تصانیف کی دو خوبیاں ہیں اولاً وہ جو کچھ کہتا ہے مثال کے رنگ میں لکھتا ہے۔ ثانیاً وہ رومن کیتھولک مذہب کے کسی خیال کو لے کر موجودہ زمانے کے حقائق کے رنگ میں بیان کرتا ہے۔ اس کے تمام جذبات کا محرک دین کا احیا ہے۔ یہی دو خصوصیتیں میرے خیال میں حضرت علامہ اقبال کی ہیں۔ آخر میں مسٹر عبداللہ یوسف علی نے دوبارہ حضرت علامہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ 6نومبر کو حضرت کے اعزاز میں جس خاص تقریب کا انتظام کیاگیا ہے امید ہے کہ اس تقریب میں ہمیں حضرت علامہ سے استفادے کا مزید موقع ملے گا۔ سات بجے کے قریب یہ صحبت ختم ہوئی۔ ٭٭٭ 50 مولوی محمد شفیع دائودی آپ صوبہ بہار کے رہنے والے تھے۔ پٹنے میں ان کا مکان تھا۔ جہاں راقم نے بھی ایک مرتبہ قیام کیا تھا۔ مشہور سیاسی کارکن تھے ۔ اور اکثر اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے رہے تھے۔ 1931ء میں جب علامہ اقبال دوسری گو ل میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گئے تھے تو مولوی محمد شفیع دائودی کو بھی گورنمنٹ نے ا س کانفرنس میں بھیجا تھا۔ اس موقعے پر مولانا غلام رسول مہر مرحوم بھی حضرت علامہ کے ہمراہ تھے۔ مولوی صاحب بڑے دلچسپ آدمی تھے۔ کانفرنس کے موقعے پر ان کی نشست و برخاست بیشتر علامہ کے ساتھ رہتی تھی۔ اور علامہ ہمیشہ انہیں اپنی حس مزاح کا نشانہ بنائے رکھتے تھے۔ اس موقعے پر مولوی صاحب سے بہت سے لطیفے سرزد ہوتے تھے جنہیں حضرت علامہ مزے لے لے کر اپنے دوستوں کو سنایا کرتے تھے۔ ایک روز فرمانے لگے کہ کانفرنس کے دنوں میں ایک دن صبح ہی صبح ایک لیڈی نے مولوی صاحب کو ٹیلی فون کیا اور بتایا کہ آدھے گھنٹے کے بعد ایک جلسہ ہو رہا ہے ۔ جس میں آپ کی شرکت نہایت ضروری ہے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں جواب دیا کہ I am not yet dressedلیڈی ان کی انگریزی سے بہت محظوظ ہوئی اور پوچھنے لگی Dressed? Are you a ........ or whatمولوی صاحب بہت پریشان ہوئے کہ کیا جواب دیں۔ پھرجب انہوںنے علامہ سے اس گفتگو کا ذکر کیا تو وہ بہت ہنسے اور دیر تک انہیں Dressed upکے معنی سمجھاتے رہے۔ مولوی محمد شفیع صاحب جب کانفرنس سے فارغ ہوئے تو پیرس دیکھنے کا ارادہ کیا اور حضرت علامہ اقبال سے درخواست کی کہ پیرس میں اپنے کسی جاننے والے کے نام رقعہ دے دیجیے تاکہ وہ مجھے پیرس کی سیر کرا دے۔ چنانچہ علامہ نے انہیں اقبال شیدائی کے نام رقعہ دے دیا اوروہ پیرس پہنچ گئے۔ اقبال شیدائی نے انہیں پیرس کی جو سیر کرائی۔ مولوی صاحب اس سیر سے کچھ زیادہ مطمئن نہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ شیدائی صاحب! اصل پیرس کی سیر بھی کرا ئیے۔ ’’اصل پیرس‘‘ سے ان ک مراد نائٹ کلب وغیرہ سے تھی۔ چنانچہ شیدائی صاحب نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی ۔ مگر بقول شیدائی کے وہ وہاں کے ہر عمل میں بذات خود شامل ہونا چاہتے تھے۔ چند روز میں جب اقبال خود بھی پیرس پہنچ گئے تو اقبال شیدائی نے وہ تمام لطائف جو مولوی صاحب سے سرزد ہوئے تھے من و عن انہیں سنا دیے جس سے حضرت علامہ بہت محظوظ ہوئے اور پھر ہمیں بھی سناتے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے فرمایا کہ گول میز کانفرنس سے واپسی پر ہم نے عدن کی بندرگاہ پر پہنچے تو جہا ز سے اتر کر کنارے پر آ گئے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے غوطہ خور لڑکے سمندر سے سکے پکڑنے کے کرتب دکھا رہے تھے۔ جہاز کے مسافر چھوٹے چھوٹے سکے سمندر میں پھینکتے اور یہ لڑکے نہایت پھرتی سے غوطہ لگا کر وہ پیسے دانتوں میں پکڑ کر باہر نکال لائے اور پھر انہیں اپنے منہ میں رکھ لیتے۔ ہم لوگ یہ تماشا دیکھ رہے تھے کہ دفعتہ مولوی شفیع دائودی صاحب کے چیخنے کی آواز آئی۔ وہ ان لڑکوں کو مخاطب کر کے مختلف آیتیں پڑھے جا رہے تھے۔ پہلے تو وہ لڑکے کچھ نہ سمجھے مگر جب مولوی صاحب نے عین اپنے سامنے سمندر کی طرف بار بار ہاتھ سے اشارہ کیا تو لڑکے نے وہیں سے غوطہ لگایا اور تھوڑی دیر بعد پانی سے بھیگی ہوئی کتاب نکال لایا او ر اسے مولوی صاحب کی طرف اچھال دیا… ہوا دراصل یوں تھا کہ جب ہم لوگ لڑکوں کے کرتب دیکھ رہے تھے تو مولوی صاحب کے ہاتھ میںایک کتاب تھی جو عالم محویت میں ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر سمندر میں جا پڑی۔ چونکہ مولوی صاحب عربی زبان میں ناواقف تھے لہٰذا پریشانی اور بدحواسی کے عالم میں لڑکوں کو مخاطب کرنے کے لیے انہوںنے عربی کے وہ تمام فقرے اور آیات پڑھ ڈالیں جو انہیں یاد تھیں۔ مثلا ’’یا شیخ ! یا شیخ! …ذالک الکتاب لا ریب فیہ… لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم… ان اللہ علی کل شئی قدیر‘‘ وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جب ہمیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو ہم ہنستے ہنستے لو ٹ گئے۔ ٭٭٭ 51 اٹلی اور مصر و فلسطین کی سیاحت علامہ اقبال جب 1931ء کی دوسری گول میز کانفرنس سے فارغ ہوئے تو مقررہ پروگرام کے تحت موتمر اسلامی (بیت المقدس فلسطین) میں شرکت کرنے کے لیے روانہ ہوئے فلسطین پہنچنے کا پروگرام دراصل فرانس‘ اٹلی اور مصر (قاہرہ) کے راستے طے ہوا تھا۔ چنانچہ اٹلی میں آپ نے امیر امان اللہ خاں اور مسولینی سے ملاقات کی اور پھر وہاں سے قاہرہ آ گئے ۔ آپ نے شیخ جامعہ ازہر پروفیسر مصطفی شلطوط کو اپنی آمد کا خط لکھا تھا اور ملاقات کی خواہش کی تھی۔ چنانچہ جامعہ کے پروفیسر عبدالوہاب عزام پاشا نے آپ کا خیر مقدم کیا (یہ صاحب‘ پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان میںمصر کی طرف سے سفیر بھی رہ چکے ہیں) انہوںنے علامہ اقبال کے جامعہ ازہر جانے پر ہفتہ وار اخبار ’’السبوعہ‘‘ میں تین نہایت جامع مضامین بھی لکھے تھے۔ آپ فارسی زبان کے بھی عال تھے۔ انہوںنے ان مضامین میں علامہ کو پہلی بار عربی دنیا سے روشناس کرایا تھا اور آپ کی کتاب ’’پیام مشرق ‘‘ کا عربی میںترجمہ بھی (1950ء میں) کیا تھا جو پاکستان میں طبع ہوا تھا۔ بعد میں علامہ صاحب وہ مضامین جو ’’السبوعہ ‘‘ میں طبع ہوئے تھے۔ اپنے ہمراہ لے آئے تھے اور مجھے بھی عنایت کیے تھے۔ اخبار ’’السبوعہ‘‘ اقبال اکیڈمی میںمحفوظ ہے۔ قاہرہ میں علامہ نے پروفیسر عزام پاشا کے کہنے پر لیکچر بھی دیے تھے۔ چنانچہ ان ملکوں کی سیاحت کے بعد ڈاکٹرصاحب 5دسمبر 1931ء کو بذریعہ ریل فلسطین پہنچے او ربیت المقدس میںموتمر عالم اسلامی میں شرکت فرما کر ایک دلآویز عالمانہ تقریر فرمائیی۔ موتمر میں علامہ کی شرکت دراصل مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی مساعی جمیلہ کاثمرہ تھی جن کا ڈاکٹر صاحب بہت احترام کرتے تھے وہ اس کانفرنس میں فلسطین میں یہودیوں اور عیسائیوں کی عرب دشمنی اور مسلم کش پالیسیوں کے خلاف تمام دنیائے اسلام کی رائے عامہ بیدار کرنا چاہتے تھے۔ علامہ کی تقریر کا موضوع اتحاد بین المسلمین تھا جو ایک یادگار تقریر تھی۔ اس کانفرنس کے بعد آپ نے بیت المقد س اور فلسطین کے آثار قدیمہ بھی دیکھے جن کا وہ اکثر احباب سے ذکر کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی ایک آیت یخرجونھم من النور الی الظلمات کی تشریح یوں کیا کرتے تے کہ اسلام نے دنیا میں نور اسلام پھیلایا ورنہ اس سے پیشتر یہ دنیا ظلمات یعنی اندھریوں میںلپٹی ہوئی تھی۔ گفتگو میں وہ اکثر وہاں کے آثار کا ذکر کیا کرتے تھے۔ بیت المقدس میں آپ نے مولانا محمد علی جوہر کی قبر پر فاتحہ بھی پڑھا تھا۔ پھر فلسطین سے 15 دسمبر کو بمبئی کے لیے روانہ ہونے اوربمبئی پہنچ کر خلافت ہائوس میں قیام فرمایا۔ 30دسمبر کو آپ لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ ٭٭٭ 52 تیسری گول میز کانفرنس (سید امجد علی کی رفاقت) لاہور کے معروف گھرانوں میں سید مراتب علی شاہ کا خاندان ایک ممتاز خاندان شمار ہوتا ہے۔ 1932ء میں جب علامہ اقبال نے تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل پر غور و خوض کرنے کے لیے انگلستان کا سفر اختیا رکیا تو سید امجدعلی شاہ آپ کے رفیق سفر تھے۔ سید امجد علی صاحب مسلم ڈیلیگیشن کے آنریری سیکرٹری کی حیثیت سے گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے تھے وہ آخر تک علامہ کے ساتھ رہے۔ انہوںنے ایک ساتھ لاہور سے سفر شروع کیا۔ بمبئی پہنچے تو افغانستان کونسل خانے کے سربراہ مسٹر سلجوقی نے آپ کا استقبال کیا۔ قیام بمبئی کے دوران میں عطیہ بیگم کے ہاں بھی سید امجد علی کے ہمراہ گئے۔ پھر بمبئی سے اکٹھے جہاز میں سواز ہو ئے ۔ علامہ راستے میں کچھ علیل بھی ہوگئے تھے۔ جب وینس پہجنچے تو علامہ اقبال نے بقیہ سفر یورپ بذریعہ ریل اختیار کیا اور دو روز بعد یہ دونوں حضرات پیرس پہنچ گئے۔ پیرس کے سٹیشن پر ان کا استقبال سردارامرائو سنگھ شیر گل مجیٹھیا نے کیا جو سردار سندر سنگھ مجیٹحیا کے بھائی تھے اور علامہ کے خاص احباب میں سے تھے۔ علامہ نے پیرس پہنچ کر سابقہ پروگرام کے تحت نپولین بونا پارٹ کا مقبرہ دیکھا اور اس کے بعد پروفیسر لوئی میسینیون سے ملاقات کی۔ امرائو سنگھ اور سید امجد علی بھی آپ کے ہمراہ رہے۔ اس ملاقات میںشیخ اکبر محی الدین ابن العربی کی کتاب’’فصوص الحکم‘‘ پر گفتگو ہوئی۔ اور نظری وحدت الوجود زیر بحث آیا۔ سردار امرائو سنگھ کی لڑکی امرتا شیر گل اس زمانے میں وہاں کے ایک اعلیٰ آرٹ کالج میں مصوری کی تعلیم حاصل رک رہی تھی جو بعد میں ہندوستان کی مایہ ناز مصورہ بنی۔ امرائو سنگھ نے اے وائس فرام دی ایسٹ (نواب ذوالفقار علی خاں نے علامہ کے متعلق انگریزی میں یہ کتاب لکھی تھی) کا مقدمہ بھی انگریزی زبان میں لکھا تھا۔ قیام پیرس کے دوران میں آپ کی ملاقات مسٹر اقبال شیدائی اور ان کی اہلیہ سے بھی ہوئی تھی جو ایک فرانسیسی خاتون تھیں۔ پیرس سے فارغ ہو کر یہ حضرات لندن پہنچ گئے۔ لندن میں آپ نے ملکہ ابن کے محل میں فروکش ہوئے تھے۔ اور وہیں سب احباب آپ کی ملاقات کی غرضسے آتے تھے۔ نو مسلم خالد شیلڈرک اور جان برائٹ نے یہاں آپ کا استقبال کیا تھا۔ لندن میں ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں نیشنل لیگ آف لندن کی جانب سے سینٹ جیمز پیلس میں ایک استقبالیہ دعوت کا انتظام ہوا جس میں متعدد اہلع لم نے شرکت کی تھی۔ اس دعوت میں سر آغا خاں اور گول میز کانفرنس کے بیشتر شرکا کے علاوہ بعض رئوسا غیر ممالک نے بھی شرکت کی۔ اس استقبالیے میں علامہ نے ایک اسلامی نقطہ نگاہ سے اور مسلمانوں کی خدمت کے ضمن میںایک شاندار تقریر کی تھی۔ میں بھی اس دعوت میں موجود تھا۔ سید امجد علی شاہ نے اس کانفرنس کے انعقاد میںبہت کوشش کی تھی۔ لارڈ لیمنگٹن جو صوبہ بمبئی کے گورنر رہ چکے تھے۔ اس کانفرنس کے صدر تھے اور انہوںنے ایک تقریر بھی کی تھی۔ اس جلسے کی تمام مطبوعہ کارروائی اقبال اکیڈمی میں موجود ہے۔ ان ایام میں علامہ لندن میں بیمار پڑ گئے تھے اور ان کی ناک پر بالکل کونے میں ایک پھوڑا سا پیدا ہو گیا تھا۔ جس نے آپ کو بہت پریشان کیا تھا۔ اس کی وجہ سے کچھ بخار بھی آپ کو ہو گیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر رحمت اللہ قریشی جو ایبٹ آباد کے باشندہ تھے لندن میں پریکٹس کرتے تھے اور انہوںنے ہی آپ کا علاج کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی ہدایت کے مطابق میں اور سید امجد علی شاہ علامہ کی ناک پر ٹکور کیاکرتے تھے مگر تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک شام بعض ارکان کانفرنس جن میں سر اکبرحیدری‘ ملک عمر حیات ٹوانہ‘ سر ظفر اللہ خاں او رسر شفاعت احمد خاں شامل تھے آپ کی مزاج پرسی کے لیے آ گئے اور انہوںنے نہایت ہمدردانہ طریقے سے آپ کو حوصلہ دیا۔ دوران گفتگو میں ملک عمر حیات ٹوان نے پنجابی زبان میں از راہ بے تکلفی کہا کہ مرے ایک دوست کی ناک پر بھی اسی طرح پھوڑ ا ہو گیاتھا اور وہ مر گیا تھا جس پر علامہ بہت پریشان ہوئے۔ سید امجدعلی شاہ نے کہا کہ اسی وقت لاہور میں مختار( علامہ کے بھائی کے لڑکے) کو تار دو کہ وہ جاوید اور جاوید کی والدہ کو لے کر فوراً یہاں پہنچ جائے تاکہ وہ میری تیمارداری کریں اور مجھے کسی طرح لاہور لے جائیں۔ ان تمام حضڑت انے یہ دیکھ کر کہ علامہ اقبال نے اس سے بہت برا اثر لیا ہے نہایت متانت سے ان کے صحت مند ہونے کا یقین دلایا مگر وہ بالکل مطمئن نہ ہوئے۔ بیماری کے دنوں میں بھی علامہ کے ہاں ایک را ت رہا تھا کیونکہ اس روز آپ بہت بے چین تھے۔ میں نے اور سید امجد علی نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق عمل کیا تو علامہ کو نیند آ گئی۔ جب وہ سو گئے تو میں سید امجد علی کو ان کے پاس چھوڑ کر اپنے گھر واپس آ گیا مگر لندن کی بسون سے مایوس ہو کر مجھے تمام راستہ پیدل چلنا پڑا۔ علامہ کے شفایاب ہونے پر سید امجد علی شاہ نے یورپ اکیلے سیاحت کا پروگرام بنایا۔ ا س پروگرام میں آسٹریا کا شہر وائنا بھی شامل تھا۔ جس کے متعلق علامہ نے کہا کہ وہاں کے گرم حمام بہت مشہور ہیں۔ چنانچہ جب آپ واپس آئے تو اپنا سارا سفر نامہ علامہ کو سنایا جس سے علامہ بہت محظوظ ہوئے ۔ انہوںنے واپس آ کر تمام بل وغیرہ جو علامہ کے نام تھے ادا کر دیے کیونکہ علام کا تمام حساب کتاب سفر میں وہی کرتے تھے۔ سید امجد علی شاہ صاحب کی وجہ سے علامہ صاحب بہت آرام سے رہے۔ ٭٭٭ 53 پروفیسر لوئی میسنگ نون میں نے جب ایک روز علامہ اقبال سے دوران گفتگو ذکر کیا کہ میرے پاس ’’فصوص الحکم‘‘ مصنفہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ایک قلمی نسخہ ہے توآپ نے مطالعے کی خواہش ظاہر کی۔ جب علامہ کسی کتاب کی بابت سنتے تھے تو اس کے دیکھنے کے لیے بے چین ہو جاتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے مجھے ا س ضمن میں مندرجہ ذیل خط بھی لکھا: ’’22اکتوبر 1927ء ڈیر ماسٹر عبداللہ! آپ ’’فصوص الحکم‘‘ کا قلمی نسخہ‘ جو آپ کے پاس ہے ‘ ایک دن کے لیے مرحمت فرمائیے اوراس کارڈ کے دیکھتے ہی مجھ تک پہنچا دیجیے۔ محمد اقبال‘ لاہور‘‘ بات دراصل یہ تھی کہ ان دنوں علامہ اقبال مسئلہ وحدت الوجود پر تحقیق کر رہے تھے اور اس کاتب کا اسی مسئلے کے سلسلے میں مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ شیخ اکبر کا مسئلہ وحدت الوجود سے بنیادی تعلق تھا اس مسئلے نے یورپ کے بعض محققین کو بھی الجھا رکھا تھا۔ چنانچہ جب علامہ 1932ء میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے سلسلے میں یورپ گئے توآپ نے پیرس میں فرانسیسی پروفیسر میسنگ نون سے بھی ملاقات ی اور گفتگو کا موضوع یہ مسئلہ تھا۔ آپ کے نزدیک یورپ میں مسئلہ وحدت الوجود کو لوگوں نے اپنے لیے سہارا بنا لیا تھا۔ علامہ نے اس عقیدے کی محض اسلامی نقطہ نظرسے مخالفت کی ہے۔ جب میں یورپ میں تھا تو آپ نے پروفسیر میسنگ نون کا ذکر کرتے ہوئے مجھے مندرجہ ذیل خط لکھا تھا: ’’…آج کل پیرس میںخوب موسم ہو گا۔ قادیان کے احمدیوں میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور خلیفہ قادیان رپ ان کے باغی مریدوں کی ایک جماعت نے نہایت فحش الزام لگائے ہیں۔ نقص امن کے احتمال سے وہاں کل سے دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا ہے۔ سید راس مسود وزیر معارف بھوپال دفعتہ ا س جہان فانی سے انتقال فرما گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت رکے۔ بڑے مخلص اور دردمند آدمی تھے پروفیسر میسنگ نون سے آپ کی ملاقات ہو تو میری طرف سے ان کی خدمت میں سلام عرض کیجیے ۔ والسلام محمد اقبال‘‘۔ میں پروفیسر میسنگ نو ن سے اپنے قیام پیرس کے دوران میں 1937ء میں ملا ہوں اور کالج میں مڈل ایسٹ پر ان کا لیکچر بھی سنا ہے۔ پریس کے علمی حلقوں میں ان کو بہت شہرت حاصل تھی اور مشرق وسطیٰ پر ان کومحقق تصور کیا جاتا تھا۔ انہوںنے مسئلہ فلسطین اور یہودیوں کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت پر تحقیق کی ہے اور اس موضوع پر کالج میں لیکچر بھی دیے ہیں۔ غرضکہ علامہ اقبال ان کو مسئلہ وحدت الوجود اور منصور حلاج کے سلسلے میں بہت بڑامحقق تصورکرتے تھے اور ان مسائل سے چونکہ علامہ کو خاص دلچسپی تھی اس لیے وہ ان کے حالات اور ان کی علمی تحقیقات سے باخبر رہنا چاہتے تھے۔ علامہ کے انتقال کے بعد جب پروفیسر میسنگ نون نے 1945ء میں ایشیا کاسفرکیا تو انہوں نے غزنی میں روضہ حکیم سنائی پر بھی حاضری دی تھی جبکہ آپ کے ہمراہ مرحوم سرور گویا اعتمادی بھی تھے۔ 1933ء میں جب علامہ اقبال افغانستان گئے تھے تو اس وقت سرور گویا علامہ کے ہمراہ تھے۔ پروفیسر میسنگ نون جب 1945 ء میں لاہور آئے تھے تو 15جون کو ڈاکٹر جاوید اقبال کی معیت میں علامہ اقبال کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ 54۔قیام لندن کی یادداشت اکتوبر 1932ء میں علامہ اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سید امجد علی کے ہمراہ لندن پہنچے تھے۔ آپ کا قیا م ملکہ این (1700ء ۔1714ئ) کے محل میں تھا۔ میں بھی ان دنوں لندن میں ہائی گیٹ کے ایک مکان میں مقیم تھا۔ سید امجد علی نے جب مجھے علامہ کی لندن آمد سے مطلع کیا تو مجھے بے حد مسرت ہوئی اور میں فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو آ پ کیمبرج میں زیر تعلیم ایک پنجابی نوجوان سے محو گفتگو تھے اور پنجابی میں بات چیت کر رہے تھے۔ مجھے دیکھاتو بہت خوش ہوئے۔ ابھی ہم گفتگو کا آغاز کرنے والے تھے کہ اسی اثنا میں ایک اور صاحب آ گئے۔ علامہ نے ان صاحب کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ آپ سردار اقبال علی شاہ ہیں۔ انہوںنے افغانستان کی صورت حال پر ان دنوں بہت کچھ لکھا تھا۔ اور اس سلسلے میں خاصی شہرت حاصل کی تھی۔ افغانستان کی باگ ڈور ان دنوں جنرل نادر شاہ کے ہاتھ میں تھی اورعلامہ بھی اپنے مہمان کے ساتھ انہی کے متعلق بات چیت کر رہے تھے۔ اس زمانے میں افغانستان کی جو سیاسی صورت حال تھی اس کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ ملک موضو ع گفتگو تھا۔ اسی روز شام کے وقت طلبہ کا ایک گروہ علامہ سے ملنے کی غرض سے آ گیا جن میں ایک طالب علم عبدالوحید صاحب بھی تھے جو بعد میں ڈاکٹر عبدالوحید (فیروز سنز) کہلائے ابھی یہ لوگ بیٹھے ہی تھے کہ مے فیئر ہوٹر میں کسی نے فون کیا اور علامہ کی آمد کی تصدیق چاہی۔ چنانچہ حاضرین میں سے کسی صاحب نے یہ فون سنا اورعلامہ کی آمد کی تصدیق کی۔ ان طلبہ نے اپنے مقالات کے موضوعات کے بارے میں علامہ سے مشورہ کیا آپ نے ان لوگوں کو نصیحت کی کہ فقط ڈگری حاصل کرنے کے لیے مقالہ لکھنا یا امتحان دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کے طلبہ کاوطیرہ ہے۔ آپ لوگ صرف علم حاصل ہی نہ کریں بلکہ علم پیدا بھی کریں تاکہ اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کر سکیں۔ اس گفتگو میں چونکہ خاصا وقت صرف ہو گیا تھا لہٰذا ہم لوگ واپس آ گئے۔ دوسرے روز میں دوپہر کے وقت برٹش میوزیم سے ہوتاہوا علامہ کی خدمت میں پہنچا میرے ساتھ فلسطین کے ایک عرب طالب علم مسٹر اسحاق حسینی بھی تھے جو مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کے عزیزوں میں سے تھے۔ میں نے ان کا تعارف علامہ اقبال سے کرایا اور بتایا کہ وہ ان دنوں ابن قتیبہ کی کتاب المعارف پر پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھ رہے ہیں اس وقت علامہ ہندوستان کے سیاسی مسائل پر کسی صاحب سے گفتگو کر رہے تھے۔ مگر جب انہیں ابن قتیبہ پر سید اسحاق حسینی کی تحقیق کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ ہماری طرف متوجہ ہو گئے انہوں نے اسحاق حسینی سے ابن قتیبہ کی ایک اور کتاب ’’الامامۃ والسیاست‘‘ کا ذکر کیا جس کے مصنف کے بارے میں علماء میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ اسحاق حسینی نے بھی اس سے اتفا ق کیا اور بتایا کہ واقعی ابن خلکان اور بعد کے بعض مصنفین نے اس کتاب کے صحیح مصنف کے بارے میں شبہات ظاہر کیے ہیںَ انہوںںے یہ بتایا کہ اس کتاب کے کچھ نسخے برٹش میوزیم میں بھی موجود ہیں۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ لندن میں ریاست پٹیالہ کے نمائندے مسٹر مقبول علامہ سے ملنے کے لیے آ گئے۔ یہ ایک وجیہ اور خوش گفتار نوجوان تھے اور ان کی آنکھیں ان کی ذہانت کی غماز تھیں ان کے آنے سے محفل نہایت شگفتہ ہو گئی ارو کئی لطیفے انہوںنے ادوسرے لوگوں کو سنائے۔ کئی شعرا کا کلام بھی زیر بحث آیا اور ان کے اشعار سنانے گئے ۔ اسی محفل میں لاہو رکے ایک صاحب میں مقبول بھی تھے جو گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں مختلف مباحث مٰں حصہ لے کر اول آیا کرتے تھے۔ اور واقعی بہت مقبول تھے۔ انہوںنے بہت سے مزاحیہ اشعار سنائے۔ پھر لفظ حلالہ زیر بحث آیا اور انہوں نے حلالہ کے سلسلے مین ایک واقدہ بھی سنایا اور اس سے دوبارہ شادی کرنے کی غرض سے حلالہ کیا۔ چنانچہ حلالہ کرنے کے لیے جس دوسرے شخص سے شادی کی وہ اسے اس قدر پسند آیا کہ اس نے طلاق لینے سے انکار کر دیا اور اسی کے ساتھ رہنے لگی۔ اس واقعے سے محفل زعفاران زار بن گئی اور خوب قہقہہے لگے۔ علامہ نے فرمایا کہ آزادی رائے کا یہ بھی ایک طریقہ۔ اسی زمانے مٰں جب کہ میں اپنی علمی تحقیقات کے سلسلے میں برٹش میوزیم میں بیٹحا تھا ایک روز علامہ کا پیغام موصول ہوا کہ پکتھال نے قرآن مجید کا جو انگریزی ترجمہ کیا ہے اس میں سے سورہ النمل کی حسب ذیل آیت کا ترجمہ درکار ہے: حتی اذا آتوا علی عواد النمل قالت نملۃ یاایھا النل الدخلو مساکنکم… الآیۃ (یہاں تک کہ جب آئے اوپر وادی چیونٹیوں کے کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو داخل ہو جائو اپنے گھروں میں… الخ) چنانچہ میں نے اسی وقت آپ کے ارشاد کی تعمیل کی اور مذکورہ بالا آیا کا ترجمہ انہیں فوراً بھیج دیا۔ پھر جب شام کے وت میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوںنے ترجمہ بھیجنے کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ دراصل یہ ترجمہ ایک عورت کی تشفی کی غرض سے مجھے درکار تھا اور اب وہ ضرورت پور ی ہو گئیہے۔ پھر انہوںنے بتایا کہ اس عورت کا نام مس روزیٹا ہے جس نے علمی تحقیقات کے سلسلے یں دور دراز کا سفر کیاہوا ہے۔ علامہ نے بتایا کہ اس عورت نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا۔ میں اس کا گھر دیکھ کر حیران رہ گیا کیونہ اس نے اپنے گھر کو اسلامی طرز کے مطابق آراستہ کیا ہوا تھا خاص کر ایرانی الین تو اپنی نفاست اور عمدگی میںلاجواب تھے۔ کھانے کے دوران تو اس نے مکان کے بار میں کوئی سوال نہیں کیا لیکن جب مین چلنے لگا تو بولی کہ ڈاکٹر صاحب میرے مکان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا کہ آپ نے تو اپنی زندگی میں بہشت تخلیق کر لی ہے جبکہ میں ابھی اس کی جستجو میں ہوں علامہ نے بیان فرمایا کہ بالکل الف لیلوی اندازمیں مکان کو سجایا گیا تھا۔ ایک روز میں علامہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ایک صٓحب سے مصروف گفتگو تھے جو کیمبرج سے آیئے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ ان صاحب کو دیکھا تھا پھر جب علامہ نے ان سے تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ ٓاپ چوہدری رحمت علی ہیں رحمت علی جو لفظ پاکستان کے خالق ہیں۔ گویا اس وقت تصور پاکستان کے خالق اور لفظ پاکسان کے خالق یکجا ہو گئے تھے یہ طویل القامت اور بارعب شخص اس وقت علامہ کے پاس بیٹح کر اردو زبان کا ایک خط پڑھ رہا تھا جو جرمنی سے آیا تھا اور جس میں جرمن پروفیسر کیمف کا ذکر تھا۔ پروفیسر کیمف علامہ اقبال کی کتاب ’’پیام مشرق‘‘ سے بخوبی واقف تھا اور ہندوستان میں قادیانیوں کی تحریک کو بھی خوب جانتا تھا۔ وہ گاندھی جی کا سخت مخالف تھا۔ چوھدری رحمت علی مسلمانان ہند کے سیاسی مستقبل پر علامہ کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے وہ اپنی گفتگو میں علامہ کے خطبہ الہ آباد کا بار بار حوالہ دیتے تھے۔ ایک رو زمین نے ایک خوبرو جرمن لڑکی کے ساتھ علامہ کو گفتگو کرتے دیکھا جس کانام ایلز تھا۔ ی مصور مشرق عبدالرحمن چغتاء کے ساتھ آئی تھی اور دیر تک علامہ سے مختلف موضوعا ت پر گفتگو کرتی رہی۔ اس کی تفصیل اسی کتاب کے مضمون ’’پیام مشرق‘‘ میں بیان کر دی گئی ہے۔ ایک دن میں علامہ اقبال کے پاس دوپہر سے قبل پہنچا ۔ آپ چھوٹے کمرے میں تشریف فرما تھے اور ایک یورپی کے ساتھ با ت چیت کر رہے تھے۔ گفتگو کا موضوع اسلامی قانون تھا۔ آپ نے میرا تعارف اس شخص سے کرایا۔ اس کا نام مائیکل لورینٹ تھا اور وہ بین الاقوامی ادارہ اطالاعات کا نمائندہ تھا۔ وہ علامہ کی تمام گفتگو نوٹ کرتا جا رہاتھا۔ اور نہایت قابلیت سے ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتاتھا۔ تقریباً دو گھنٹے تک یہ شخص علامہ کے پاس رہا اور پھر یہ کہ کر رخصت ہوا کہ میں دوبارہ آئوں گا اور اس مرتبہ اسلام میں عورت کے مقام کے بار ے میں آپ کے خیالات معلوم کروں گا۔ چنانچہ دور روز بعد جب میں حسب معمول علامہ کے پاس گیا تو مائیل لورینٹ بھی آ گیا۔ اس مرتبہ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اپنی نئی نویلی خوبصورت دلہن کو بھی ساتھ لایا تھا۔ اس نے علامہ کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر اپنی بیوی کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد علامہ سے درخواست کی کہ وہ ان کی ایک تصویر بنانا چاہتاہے۔ چنانچہ علامہ اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی بیوی سے بات چیت میں مصروف ہو گئے اور وہ رنگ اور برش وغیرہ نکال کر ان کی تصویر بنانے لگا۔ میں حیران تھا کہ صحافت سے وابستہ یہ شخص مصوری میں بھی کس قدر درک رکھتاہے۔ وہ واقعی ایک چابک دست مصور تھا۔ اور اس نے نہایت عمدہ تصویر بنائی تھی۔ تصویر مکمل ہوئی تو اس نے علامہ سے اس پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ جو انہوںنے کر دیے۔ میں نے اس سے کہا کہ جب یہ تصویر چھپ جائے تو اس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دے۔ اس کے بعد ا س نے طے شدہ موضوع یعنی ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ پر بات چیت شروع کی۔ علامہ بولتے جا رہے تھے اور وہ لکھتا جا رہا تھا۔ بات چیت مکمل ہوئی تو اس نے اپنے نوٹس علامہ کو سنائے اور پھر کہا کہ یہ مضمون میں ضرور کسی پرچے میں چھاپوں گا۔ چنانچہ 1933ء میں میں بمبئی گیا تو وہاں کے ہفتہ وار انگریزی پرچے’’بمبئی کرانیکل‘‘ میں یہ مضمون متذکرہ بالا عنوان کے تحت چھپا ہوا دیکھا۔ پھر میں نے مائیکل لورینٹ کو اس کے پرانے پتے پر خط بھی لکھاتھا جس کا اس نے فوراً جواب دیا تھا۔ اس کے بعد 10مئی 1975ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میں مائیکل لورینٹ کی بیوی کی تصویر شائع ہوئی تو معلوم ہوا کہ جنگ کے دوران میں دونوںمیاں بیوی کا ڈھاکہ میں خاتمہ ہو گیا ہے۔ لاہور میں ایک مرتبہ عید میلاد النبی ؐ کے موقع پر نماز مغرب کے بعد اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں ایک جلسے کاانتظام کیا گیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے فرمائی۔ دیگر مقررین میں سے دو آدمیوں کے نام مجھے یا د رہ گئے ہیں۔ ایک مولانا ابراہیم سیالکوٹی متوفی 12جنوری 1956ء اور دوسرے مسٹر شمس الدین خاور ۔ حاضرین زیادہ تتر علامہ اقبال کی تقریر سننے کے متمنی تھے۔ علامہ نے اسلام میں عورت کے مقام پر تقریر شروع کی اور قرآ ن مجید کی آیت الرجال قوامون علی النساء کی تلاوت فرمائی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب علامہ نے مذکورہ آیت کی تشریح شروع کی تو مولانا میر ابراہیم سیالکوٹی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس آیت کے ضمن میں ایک نئے اور مفید نکتے کا اضافہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عربی صرف و نحو کی رو سے جب لفظ ’’فام‘‘ کا صلہ’’علی‘ آتا ہے تو اس کے معنی حفاظت یا تحفظ کے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ مرد عورتوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ علامہ نے میر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تقریر جاری رکھتے ہوئے مردوں کو عورتوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا پھر آ پ نے عورتوں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی صورت میں جب کہ عورتیں مردوں کے تحفظ کی محتاج ہیں عورتوں اور مردوں کے حقوق مساوی نہیں ہو سکتیل۔ مردوں کا فرض یہ ہے کہ وہ عورتوں کو صحیح تعلیم وتربیت مہیا کریں ۔ اور عورتیں اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ ایک ہی مقصد کے لیے دونوں فریقوں کو الگ الگ فرائض تفویض دیے گئے ہیں اس لیے ہر فریق کو اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں۔ معاشرے اور خانوادے کی فلاح کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان عورت اسلام کی معاشرتی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے۔ عورت کو اسلام معاشرتی نظام کا آئینہ دار ہونا چاہیے کیونکہ اپنی اولاد کی پرداخت اور تربیت کی ذمہ دار عورت ہی ہے اور اسی کی تربیت پر آئندہ نسلوں کی فلاح و اصلاح کا مدار ہے۔ انہی دنوں ارسطو طولین سوسائٹی لندن کی دعوت پر علامہ نے ایک لیکچر دیا تھا جس کا موضوع تھا ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ اس لیکچر کی دعوت انہیںمس فورک ہارسن نے دی تھی اور انہی نے اس جلسے کا انتظام بھی کیا تھا۔ جب علامہ نے یہ تقریر لکھ لی تو طے پایا کہ پہلے اس کو چھپوا لیا جائے۔ چنانچہ اس کی طباعت کا انتظام میرے سپرد ہوا اور میں نے اسے چئیرنگ کراس لندن میں چھپوایا۔ پہلا پروف میں نے خود پڑھا دوسرا پروف علامہ کو دکھایا اور لیکچر چھپ گیا۔ لاہور میں بھی علامہ نے اس لیکچر کو اپنے لیکچروں کے مجموعے میں شامل کر لیا جو اب تک شامل ہے۔ ٭٭٭ 55 علامہ اقبال اندلس میں جب علامہ اقبال اندلس پہنچے تو روزمانہ ’’الڈیبیٹ ‘‘ 1نے لکھا: ’’ڈاکٹر سر محمد اقبال اندلس میں تشریف لائے ہیںَ آپ نے سپین کے عربی مدرسے کے فضلا سے بھی رابطہ قائم کیا ہے۔ کل شام آپ نے ایک خطبہ شعبہ فلسفہ و ادب کی نئی عمارت میں دیا جس کا عنوان تھا: اسلامی دماغی دنیا اورسپین ۔ کل پروفیسر آسن مائگل آسین پلینس نے بیان کیا کہ سر محمد اقبال ایک نکتہ رس فلسفی اور شاعر ہیں۔ وہ اسلامی دنیا کی ان چند سرگرم اور فعال ہستیوں میں سے ہیں جنہوںنے مساویانہ کامیابی سے شاعری جیسے الہامی فن اور الہیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انہوںنے بتایا کہ گاندھی جی اور دیگر ہندو مسلم مشاہیر کے ہمراہ سر اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ یہ تمام مضمون دراصل میڈرڈ(اسپین) کے ایک روزنامہ ’’ال ڈیبیٹ‘‘ (El-Debate)کی 25جنوری 1933ء کی خبر کا ترجمہ ہے جو علامہ اقبال کے وہاں جانے اور لیکچر دینے پر چھپی تھی ۔ اس ترجمے کے لیے میں اپنے دوست ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ کا ممنون ہوں۔ یہ پرچہ علامہ اقبال خود وہاں سے لائے تھے اور اب یہ اقبال اکیڈمی پاکستان میں محفوظ ہے لاہور پہنچنے پر علامہ نے یہ پرچہ مجھے بھی دیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کی ہے لیکن ہمارا مہمان سر اقبال مہاتما گاندھی سے مختلف نظریات رکھتا ہے۔ نہ صرف مذہب کے معاملے میں بلکہ ہر معاملے میں۔ گاندھی جی ماہر سیاسیات اور ہندوستانی قومیت کے بہت بڑے دیوتا ہیں مگر اقبا ل فکر و تخیل کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ سیاست میں دخل اور رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں ان کی شرکت محض اتفاق ہے۔ وہ یورپین اشیا کے استعمال کی ممانعت نہیںکرتا جیسا کہ گاندھی کرتا ہے۔ مغربی لباس کے متعلق اس کی رواداری اس لیے ہوتی ہے کہ اقبال کی قانونی تعلیم کیمبرج کے مدرسہ قانون میں ہوئی اور وہ بظاہر یورپین نظر آتا ہے۔ ان کے سر کا لباس(ٹوپی) ان کی ملت کا ممتاز لباس ہے۔ اس سفر میں آپ کی لڑکی 1بھی ہم سفر ہے جو ایک نوجوان‘ خوبصورت اور اعلیٰ خدوخال والی یورپین عورت کی طرح ہے۔ آپ نے اپنے خطے میں کامل اطمینان کے ساتھ اس اثرکو بیان فرمایا جو اسلامی شعرا اور فلاسفہ نے مشرق اقصیٰ کی اسلامی دنیا کے مسلمان فضلا پر ڈالا ہے۔ خاص کر انہوںنے ابن خلدون‘ البیرونی‘ مسعودی اور کندی کی تعلیمات کو بیان کیا ہے اور ان کی بہت سی تحقیقات کی طرف اشارہ کیا جو اس ضمن میں کی گئی ہیں۔ پروفیسر آسین مائگل نے اپنی تعارفی تقریر میں علامہ کو ایک مقنن کی حیثیت سے پیش کیا جو مشرق میں اسلامی دنیا کے ایک دور افتادہ گوشے سے تشریف لائے ہیں۔ یہ گویا صدائے بازگشت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ علامہ کی کوئی لڑکی آپ کے ہمراہ نہیں گئی تھی۔ ایک عورت بطور مترجم کے آپ نے لندن سے اپنے ہمراہ لے لیا تھا۔ خبر میں اسی عورت کی وجہ سے یہ مغالطہ ہوا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے اسلامی روح جو دور دراز ملک سے آئی ہے اور اس نے ہمارے اند ر قرونی وسطیٰ کے سپین کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جیسا کہ وطن کا شائق مریض اپنے گم شدہ وطن کو یاد کرے۔ انہوںنے اپنی کتاب ’’ایران میں ارتقائے مابعد الطبیعیات‘‘ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اپنے لیکچر میں آپ نے ایرانی صوفیوں کے نظام تصوف کو ابن العربی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’اسرار خودی‘‘ میں اپنے فلسفیانہ نظریات کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ نیز آپ نے ابن العربی کے سلسلے میں اپنی تحقیقات کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ ہندوستان اور اندلس دنیا کے آخری کناروں پر واقع ہیں مگر ایک مورخ کے لیے ان کے تہذیب و تمدن میں بہت سی مشترک علامتیں پائی جاتی ہیں۔ جہاں ہندوستان کی اسلامی ثقافت میںایرانی اور آرین تہذیب کی ملاوٹ ہے وہاں اندلس میں مغربی یونانی اور مسیحی تہذیب ملی ہوئی ہے اور ابھی تک یہ آمیزش قائم ہے۔ ان دور افتادہ ملکوں کی چیدہ چیدہ ہستیاں آج بھی سائنس اور ادب کے موضوعات میں دلچسپی لیتی ہیں۔‘‘۔ علامہ جس روز یورپ کے اس دور درازسفر سے واپس لاہور آے تو لاہور ریلوے سٹیشن پر احباب کے ایک مجمع کثیر نے آپ کا استقبال کیا۔ بعضوںنے تو فرط محبت سے (اور خاص کر میں نے) آ پ کو ٹرین سے نکلنے سے پیشتر ہی اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس جوش و خروش کا ذکر روزنامہ ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ لاہور نے مکمل چھاپا تھا۔ بعد میں آپ نے بتایا تھا کہ قرطبہ کی مسجد جامع میں نما ز نوافل ادا کرنے سے پیشتر انہوںنے بلند آواز سے اذان بھی دی تھی۔ ان احباب میں پروفیسر خواجہ عبدالحمید مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کے تاثرات ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کی جلد نمبر 42 میں بعنوان ’’اقبال: چند جواہر ریزے‘‘ دو اشاعتوں میں شائع ہوئے تھے۔ قرطبہ میں علامہ جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے اس کے مینجر سے آپ نے پوچھا کہ کیا اس علاقے میں قدیم مراکشی نسل کے لوگ بھی آباد ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ بڑی تعداد میں۔ آپ نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے ان سے ضرور ملایا جائے۔ مینجر مسکر ا کر بولا اس کام کے لیے ہوٹل سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں خود مراکشی الاصل ہوں۔ جنوبی ہسپانیہ کے باشندوں کو ’’مورسکو‘‘ کہا جاتا ہے ۔ آپ کو پرانی عمارتیں دکھانے کے لیے جو رہبر مقرر کیا گیا وہ انگریزی جانتا تھا اور شرط بھی یہی تھی کہ وہ انگریزی زبان جانتا ہو۔ حسن اتفاق سے وہ بھی مراکشی الاصل تھا۔ علامہ نے فرمایا کہ آج بھی اس علاقے میں عربی مراکشی اثر لوگوں کے چہروں کی ساخت سے پوری طرح نمایاں ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارے کیے ہیں۔ ’’بال جبریل‘‘ کی اس نظم یعنی ’’مسد قرطبہ‘‘ میں جو آپ نے وہیں لکھی تھی قرطبہ کی عظیم الشان مسجد کے فن تعمیر کی خوبیاں بیان کرنے کے علاوہ مراکشی باشندوں کی یہ خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ نظم کا پہلا شعر یہ ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب‘ اصل حیات و ممات اس بند کا آخری شعر یہ ہے: اول و آخر بنا ‘ باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو‘ منزل آخر فنا کچھ اور اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے: اے حرم قرطبہ‘ عشق میں تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوۃ و درود‘ لب پہ صلوۃ و درود شوق مری لے میں ہے‘ شوق مری نے میں ہے نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے اقبال نے اس طویل نظم میںمسجد بنانے والوں کا ذکرکرنے کے بعدیہاں کے لوگوں کے حسن کو جس طرح بیان فرمایا ہے اس کی جھلک اشعار ذیل میں دیکھیے: جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی خوش دل و گرم اختلاط‘ سادہ و روشن جبیں آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں بوے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے ٭٭٭ آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب ’’بال جبریل میں یہ پوری نظم گیارہ صفحات میں درج ہے۔ اس کا ایک ایک شعر اندلس کی مسلم تاریخ و ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا کہ ان دنوں ہسپانیہ میں قو میت اور وطنیت کی ایک نئی لہر دوڑ رہی ہے۔ وہاں کے نوجوان اور اہل علم ہسپانیہ میں سات سو سالہ اسلامی حکومت کے کارناموں کو فخریہ بیان کرتے تھے۔ اور اس دور کو اندلس کا بہترین زمانہ کہہ کر یاد کرتے تھے۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ تھا کہ مسجد قرطبہ کو کیتھولک چرچ کے مختلف فرقوں سے چھین لیا گیا تھا حالانکہ کئی سو سال سے ا فرقوں نے مسجد کے مختلف حصو ںمیں اپنی عبادت گاہیں بنا رکھی تھیں۔ وطنیت کی اس تحریک کا چونکہ مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا اس لیے مسجد کو محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں حضر ت علامہ نے قدرت الٰہی کا ایک دل پسند کرشمہ بھی بیان فرمایا ہے مگر سب سے پہلے نظم ’’ہسپانیہ‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ یہ نظم بھی’’بال جبریل‘‘ (ص 140) میں موجود ہے: ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تیری خاک میں مسجد کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنائیں خیمے تھے کبھی جن کے تیرے کوہ و کمر میں غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن تسکین مسافر نہ سفر میں‘ نہ حضر میں حضرت علامہ اقبال نے بیان فرمایا کہ یہ مسجد جو فن تعمیر کے لحاظ سے دنیا کی نادر عمارتوں میں سے ہے۔ جب عیسائی راہبوں کے قبضے میں آئی تھی تو انہوں نے آیات قرآنی پر جو نہایت اعلیٰ عربی رسم الخط میں سنہری حروف سے مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر لکھی گئی تھیں پلستر کرا دیا تھا۔ مگر آج کم و بیش چھ سو سال کے بعد جب وہ پلستر محکمہ آثار قدیمہ نے اکھیڑا گیا تو یہ قدیم نقوش اور آیات قرآنی ایک مرتبہ پھر اپنی سابقہ آب و تاب اورآن بان سمیت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہو گئی ہیں۔ اگر پلستر کے ذریعے انہیں محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو شاید آج یہ نقوش مدھم پڑ گئے ہوتے یا ان میں سے بعض محو ہو گئے ہوتے مگر قدرت کو یہ نقوش محفوظ کرنے تھے لہٰذا انہیں دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ کرایا۔ کیا یہ قدرت کاایک نہایت دل پسند کرشمہ نہیں ہے؟ پروفیسر حمید مرحوم لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ فقرہ میرے دل پر نقش ہو گیا ہے کہ ’’مسجد اور اس کے نقوش کو دیکھ کر اور ان آیات قرآنی کے مفہوم کو سمجھ کر جو لذت حاصل ہوئی ‘ وہ میں بیسیوں تفسیروں سے حاصل نہ کر سکا‘‘۔ ایک بات ڈاکٹر صاحب نے سپین کے سفر میں بطور خاص نو ٹ کی کہ ان دنوں پرانی مساجد بہت ہی کم تھیں انہوںنے فرمایا کہ اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں؟ یا تو مسلمانوں کے ہسپانیہ سے اخراج کے بعد عیسائیوں نے تعصب کی وجہ سے ان تمام مساجد کو بے دردی سے گرا دیا اور یا پھر مراکشی اندلسی مسلمانوں کو بے ضرورت مساجد تعمیر کرنے کا وہ شوق نہیں تھا جو ہندوستانی مسلمانوں کو ہے۔ غالباً پہلا خیال صحیح ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ دو سال سے ہسپانیہ کی سیاسی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ انہوںنے فرمایا کہ آج بھی جنرل فرانکو کی فوج میں بے شمار مراکشی سپاہی اوررضاکار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہسپانیہ کے سفر کو مختلف عنوانات کے تحت مختلف نظموں میں بیان فرمایا ہے جو ’’بال جبریل‘‘ کے صفحہ 123سے 124تک موجود ہیںَ وہ عنوانات یہ ہیں: دعا‘ مسجد‘ قرطبہ‘ قید خانے میں معتمد کی فریاد‘ عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘ ہسپانیہ اور طارق کی دعا۔ ان نظموں کو پڑھ کر علامہ کے جذبات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ جو اسلام کے لیے وہ اپنے دل میں رکھتے تھے۔ اگرچہ تصویر اتروانے سے وہ گھبراتے تھے مگر مسجد قرطبہ میں انہوںنے خاص طور پر تصاویر بھی اتروائی ہیں۔ ٭٭٭ 56 سر علی امام اور جہاز ’’ملوجا‘‘ کے ہم سفر ایک مرتبہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر لند ن جانے کے لیے جب علامہ اقبال 1930ء کے ماہ ستمبر میںبمبئی سے جہازمیں سوار ہوئے تو سر علی امام بھی آپ کے ہم سفر تھے ۔ آپ کے ایک خط سے واضح ہے کہ آپ کے جہاز نے پورٹ سعید سے نکل کر بحیرہ روم میں سیدھا انگلینڈ کا رخ کیا اور قدرتی طور پر خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ بالکل بالمقابل آ گئے تو آ پ نے دیکھا کہ سر علی امام نے آیات قرآنی اور درود شریف پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ سر علی امام علامہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب آ پ نے 1910ء میں مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ شائع کی تھی تو اسے آپ نے سر علی اما م کینام معنون کیا تھا۔ انتساب کا پہلا شعر یہ ہے : اے امام سید والا نسب دودمانت فخر اشراف عرب جب آپ دوسری رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے فارغ ہو کر 1932ء کے اخیر میں واپس آ رہے تھے تو آپ کے جہاز ’’ملوجا‘‘ میں ایک یورپی میاں بیوی سفر کر رہے تھے۔ وہ اکثر کھانے کی میز پر آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان صاحب کا نام Lively Gardenتھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر اکثر وہ میاں بیوی مختلف موضوعات پر آپ سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک روز مسجد پر گفتگو ہوئی تو علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ تمام روئے زمین مسجد ہے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ علامہ کو کرسمس کے موقع پر کارڈ بھیجتے تھے۔ تو اس تہنیت نامے پر یہ عبارت لکھ دیا کرتے تھے: To our good friend of India of Maloja Mr. and Mrs. Lively Garden "The whole Earth is a Mosque" اسی ’’ملوجا ‘ ‘ جہا ز پر نظام حیدر آباد کے دوسرے صاحبزادے شہزادہ معظم جاہ بھی سفر کر رہے تھے۔ ایک روز وہ اپنی امارت کے گھمنڈ میں علامہ کے پاس اپنی ایک غزل لے کر آئے۔ ان کی خواہش تھی کہ علامہ کو اپنی غزل سنائیں تاکہ اس کی اصلاح بھی ہو جائے۔ مگر علامہ نے ان کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ صحیح شعر کہنے کا ذوق صرف تمہارے دادا میر محبوب علی خا ں کو تھا اور بس۔ نہ تمہارے باپ میں یہ ذوق ہے اور نہ کسی اور میں۔ اس طرح ان کی غزل پڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی اور اس کے بعد علامہ نے ان سے دوسری باتیں شروع کر دیں۔ یہ سب باتیں علامہ اقبال نے خود برسبیل تذکرہ بتائی تھیں۔ ٭٭٭ 57 پروفیسر رشید احمد صدیقی علی گڑھ۔ ’سہیل‘ 1911ء میں علامہ اقبال نے سرسید کے علی گڑھ کالج میں ایک خطبہ دیا تھا جسے بعد میں ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے مولوی ظفر علی خاں نے اردو کا جامہ پہنایا تھا۔ اس خطبے میں انہوںنے ملت اسلامیہ کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس سے اسلام سے ان کی گہری وابستگی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یورپ سے واپسی کے بعد تو اسلام سے ان کا والہانہ لگائو عروج پر پہنچ گیا تھا۔ 1922ء میں علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور ا س کے پہلے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر یونیورسٹی کی چانسلر بیگم صاحبہ بھوپال نے 22دسمبر 1922ء کو اسٹریچی ہال میںخطبہ صدارت پڑھا۔ ہم موٹر میں قبل دوپہر علی گڑھ پہنچے اور سیدھے جلسہ کا رخ کیا۔ جب جلسہ گاہ میں پنچے تو بیگم صاحبہ سے یہ کلمات ادا کر رہی تھیں: ’’میرے پیارے بچو! حضرت علیؓ کا قول ہے: من تعلم خرفا من احد فھو مولاہ یعنی جس نے کسی سے ایک لفظ بھی پڑھ لیا وہ (پڑھانے والا) اس کا مولا یا قابل احترام آقا بن گیا‘‘۔ 1925ء میں علی گڑھ کالج کی سلور جوبلی منائی گئی جس میں راقم نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پرپروفیسر رشید احمد صدیقی سے بھی ملاقات ہوئی جو ان دنوں ایک رسالہ ’’سہیل‘‘ کے نام سیجاری کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ انہوںنے مجھ سے بھی اس رسالے کا ذکر کیا اور فرمائش کی کہ میں علامہ اقبال اورم شہور مصور عبدالرحمن چغتائی (مرحوم) سے ’’سہیل‘ ‘ کے لیے ان کے فن پارے عنایت کرنے کی درخواست کروں۔ چنانچہ میں جنوری 1926 ء کو سہ ماہی’’سہیل‘‘ کا پہلا شمارہ مصنفہ شہود پر جلوہ گر ہوا (جو 162صفحات پر مشتمل تھا اور راقم نے لاہور سے چھپوایا تھا ٌٰ) تو اس میںدیگر معروف اہل قلم کے علاوہ میری کوشش سے حضرت علامہ اقبال کے سات فارسی اشعار بھی مصور مشرق چغتائی مرحوم کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ اسی شمارے میں پروفیسر محمود شیرانی کے ایک مضمون ’’فارسی شاعری اور اس کی قدامت‘‘ کی پہلی قسط بھی شائع ہوئی۔ خود رشید احمد صدیقی نے بھی علامہ اقبال کے فکر و فن پر ایک عالمانہ مقالے ’’پیام اقبال‘‘ کی پہلی قسط اس شمارے میں شامل کی جس کی تکمیل دوسرے شمارے میں ہوئی جو اپریل 1926 ء کو شائع ہوا۔ اسی طرح پروفیسر محمود شیرانی کے متذکرہ مضمون کی دوسری اور آخری قسط بھی اسی دوسرے شمارے میں شائع ہوئی تھی اس شمارے کی ضخامت 166صفحات تھی۔ ’’سہیل کے دوسرے شمارے میں ’’اسلامیات‘‘ کے ایک مستقل عنوان کے تحت مباحثے کا آغاز کیا گیا اور پہلے مباحثے کے لیے ’’علوم اسلامیہ‘‘ کا موضوع منتخب ہوا جس میں صاحبزادہ آفتاب احمد خان وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی اور علامہ اقبال نے حصہ لیا۔ شروع میں مدیریعنی صدیقی صاحب کا ایک نوٹ ہے اور اس کے بعد مباحثے کاآغاز ہو گیا ہے۔ چنانچہ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں مجوزہ موضوع کے سلسلے میں سوالات کرتے ہیں اور حضر ت علامہ جواب دیتے ہیں۔ علامہ کے یہ جوابات اس قدر بلند پایہ ہیں کہ علوم اسلامیہ کے باب میں ان کی غیر معمولی بصیرت اور مجتہدانہ اسلوب قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ علامہ 1929ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں لیکچر دینے کی غرض سے تشریف لے گئے تو راقم بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے ڈاکٹر ظفر الحسن کے ہاں قیام فرمایا تھا۔ ان دنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید راس مسعود تھے جو علامہ اقبال کے بہت بڑے قدردان اور عقیدت مند تھے۔ علی گڑھ میں آپ کی تشریف آوری اور آپ کے لیکچروں کی وجہ سے وہاں ایک قابل فراموش علمی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ علامہ کے گرد اہل علم اور طلبہ کا ہجوم جمع رہتا تھا اور مخلف علمی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ ان دنوں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اور پروفیسر رشید احمد صدیقی علیل تھے۔ پہلے آپ صاحبزادہ صاحب کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اورپھر صدیقی صاحب کی مزاج پرسی کی غرض سے ان کے گھر گئے۔ واپسی پر مولانا سلیمان اشرف خاں کے ہاں بھی کچھ دیر قیام کیا اور جنہوں نے مولانا شبلی کے بارے میں بعض واقعات سنائے۔ علی گڑھ کے دوران قیام میں جن حضرات نے علامہ کے اعزاز میں ضیافتوں کا اہتمام کیا ان میں ڈاکٹر غلام محمد بٹ‘ پروفیسر غلام السیدین اور بشیر زیدی صاحب پیش پیش تھے۔ ’’سہیل‘‘ بعض ناگزیر حالات کی بنا پر کچھ عرصہ بند رہا مگر جنوری 1936 ء کو پھر جاری ہو گیا۔ چنانچہ جنوری 1936ء کاشمارہ سال نامے کی شکل میں شائع ہوا۔ انہی دنوں مولانا الطاف حسین حالی کی صد سالہ تقریب پانی پت میں منائی گئی تھی۔ جس میں کئی سرکردہ اہل علم نے شرکت فرمائی تھی۔ اس تقریب کی صدارت نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے فرمائی تھی اور نواب راس مسعود نے اس میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ دوسرے اہل علم میں پروفیسر رشید احمد صدیقی علی گڑھ سے ‘ ڈاکٹر ذاکر حسین خاں دہلی سے اورعلامہ اقبال لاہور سے تشریف لے گئے تھے۔ اس تقریب میں جو مقالاات اور نظمیں پڑھی گئیں ’’سہیل‘‘ کے مذکورہ سال نامے میں وہ تمام شائع ہوئیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی ایک مرتبہ لاہور آئے اور بعض مسائل کے سلسلے میں استفادے کی غرض سے علامہ کی خدمت میں بطور خاص حاضر ہوئے۔ اس صحبت میں انہوںنے جو فیض علامہ سے حاصل کیا اس کی کیفیت ایک مضمون میں بیان کر دی جو ’’بیاد اقبال‘‘ کے نام سے علامہ کی وفات کے بعد رسالہ ’’جوہر‘‘ دہلی میں 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’علامہ نے زیادہ تر وہی باتیں کہی ہیں جو قرآن اور حدیث میں ہیں آئمہ کے اقوا ل یہ ہیں اور بزرگوں کے کارناموں میں ہیں‘‘۔ ایک مرتبہ یوم اقبال کے موقع پر انہوںنے وہاں ایک خطبہ بھی دیا ۔ اسی طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بھی انہوںنے دسمبر 1967ء میں ایک خطبہ علامہ کی شاعری کے موضوع پر دیا تھا۔ غرض پروفیسر رشید احمد صدیقی نے علامہ کے فکر و فن کی اشاعت اور اس کی تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مئی 1935ء میں علامہ کی اہلیہ محترمہ (والدہ جاوید) کا انتقال ہوگیا جس سے علامہ کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ جس سے آپ سخت پریشان تھے۔ انہی دنوں کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ پروفیسر رشید احمدصدیقی کے ہاں ایک جرمن خاتون مس ڈورا قیام پذیر ہیں جو ضرورت مند ہیں اور بچوں کی گورنس کے طور پر نہایت موزوں ہیں۔ علامہ نے احباب کے مشورے کے بعد پروفیسر صدیقی کو لکھا کہ ان خاتون کو فوراً میرے پاس بھیج دیں۔ اور تما م شرائط اور فرائض بھی لکھ دیے ۔ چنانچہ یہ خاتون لاہور پہنچ گئیں اور پوری طرح بچوں کو سنبھال لیا جس سے علامہ کو اطمینان نصیب ہوا اور وہ پروفیسر صدیقی کے بے حد ممنون ہوئے۔ یہ خاتون ریلوے سٹیشن کے قریب رہتی تھیں اور انہیں جاوید منزل تک لانے جانے کا کام میاں محمد شفیع اورعلی بخش کے سپر د تھا۔ مجھے کئی مرتبہ پروفیسر رشیداحمد صدیقی کے ہاں جانے اور قیام کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہ بے حد ملنسار اور خلیق انسان تھے۔ ایک دفعہ میں ڈاکٹر محمود حسین خاں کے ساتھ بھی ان کے ہاں گیا تھا۔ ان دنوں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ کافی عرصہ ان سے خط و کتابت بھی رہی مگر ان کے بیشتر خطوط ضائع ہو گئے ہیں۔ اتفاق سے صرف ایک خط میرے پاس محفوظ رہ گیا ہے جو ذیل میںدرج کر رہا ہوں ۔ یہ خط انہو ںنے ’’مرقع چغتائی‘‘ کی رسید کے طور پر مجھے لکھا تھا۔ دراصل ’’مرقع چغتائی‘‘ کی اشاعت کے فوراً بعد میں نے انہیں اس کا ایک نسخہ بھیجا تھا اور ساتھ ہی مئی 1938ء کو ایک خط بھی لکھا تھا جس نے جواب میں وہ لکھے ہیں: ’’برادرم! سلام مسنون مرقع کاایک نسخہ فضل الٰہی صاحب سے مل گیا تھا اور میری بدنصیبی کہ میں آپ کو شکریے کا خط نہ لکھ سکا۔ میری کل ہی کل میں اتنے دن ہو گئے۔ بہرحال زیادہ دن گزر جانے سے شراب ارو شکر دونو ں پر لطف ہو جاتے ہیں۔ برادرم مکرم چغتائی سے بھی شکریہ عرض کروں گا۔ آپ کے جذبہ لطف و کرم کے بعدیہ بہترین چیز تھی جو آپ اپنے نیاز مندوں کو ہدیہ کر سکتے تھے۔ مزید شکریہ اگر آپ نے اس کا موقع دیا تو یونیورسٹی 15جون سے بند ہو کر یکم اکتوبر کو کھلے گی 20ماہ حال کو آپ کا انتظار رہے گا۔ ایک زمانے میں بہتوں کو یقین تھا کہ علامہ (اقبال) پبلک سروس کمیشن میں آ سکیں گے۔ اب کسی دوسرے کی …ہو رہی ہے۔ آ پ کو کچھ معلوم ہے؟ … علامہ کے دعا گو ہیں۔ ادھر عرصے سے چغتائی صاحب کے نقوش کہیں نظر نہیں آئے۔ آپ کا رشید 5مئی 1938ئ‘‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ان دنوں مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے اور اردو ادب کے نقاد اور محقق کی حیثیت سے ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ اسی زمانے میں دہلی ریڈیوسٹیشن کی نشریات کا آغاز ہوا تھا۔ اور احمد شاہ بخاری مرحوم اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔ فضل الٰہی صاحب لاہور کے رہنے والے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لائبریرین تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے۔ انہوں نے علامہ اقبال پر گفتگو کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو خاصا مقبول ہوا تھا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے پبلک سروس کمیشن میں علامہ کی شمولیت کے بارے میں جو اشارہ اپنے خط میں کیا ہے میرے لیے یہ بات بالکل نئی ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی جونپور کے قریہ مریاہو کے رہنے والے تھے۔ طویل عمر پا کر 16جنوری 1977ء کو علی گڑھ میں انہوںنے انتقال فرمایا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ٭٭٭ 58 خطبات مدراس کا پس منظر رائو علی محمد خاں ‘ جو لدھیانہ کے علاقے رائے کوٹ کے باشندہ تھے ‘ کئی برسوں کے بعد 1922ء میں امریکہ سے وطن واپس آئے اور اپنے ساتھ ایک کتاب بھی لائے جس کا نام تھا: Muhammadan Theories of Finance, by Nicholas P.Aghnider (یعنی ’’مسلمانوں کے نظریات مالیات‘‘ مصنفہ نکولاس پی۔ اغیندر) جو کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے 1916ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب خاص طور پر علامہ اقبا ل کے لیے امریکہ کی مسلم ایسوسی ایشن کے صدر چودھری رحمت علی خاں نے بھیجی تھی اور کتاب کے اندر پہلے ورق پر مندرجہ ذیل الفاظ انہوںنے خود لکھے تھے: ’’اس کتاب کا ماخذ مندرجہ ذیل مستند کتب ہیں: الھدایہ‘ فقہ الاکبر امام اعظم درۃ المختار ‘ قدوری اور مسند امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ…رحمت علی خاں‘‘۔ چودھری رحمت علی خاں عرصہ دراز سے امریکہ میںسکونت پذیر تھے۔ وہ ضلع ہوشیار پور کے باشندہ تھے اور قومی تحریک کے بہت بڑے کارکن تھے انہوںنے لالہ لاجپت رائے اور ٹیگور جیسی ہندوستانی شخصیتوں کو مالی سہولتیں فراہم کر کے امریکہ بلایا تھا ۔ اسی طرح علامہ اقبال کو بھی انہوںنے امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مگر وہ نہ جا سکے۔ میں ان دنوں لدھیانہ کے ٹیکنیکل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ رائو علی محمد خاں‘ امریکہ کی مذکور ہ مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری تھے اور چودھری رحمت علی خاں صدر تھے اور کئی سالوں سے یہ لوگ امریکہ میں مقیم تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح علامہ بھی امریکہ آئیں۔ جب علامہ نے لاہور میں اپنی نظم ’’طلوع اسلام‘‘ 1923ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی تھی تو آپ کی خدمت میں میں نے یہ کتاب رائو علی محمد خاں کی موجودگی میں پیش کی تھی۔ آپ نے کتاب کو دیکھتے ہی خوشی کا اظہار فرمایا تھا اور فوراً عینک لگا کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ یہ صبح قریباً 8-9بجے کا واقعہ ہے۔ میں وہاں سے نکل کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا اور پھر بعد دوپہر 3-4بجے کے قریب ان کی خدمت میں حاضر ہو ا تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’ماسٹر ! وہ کتاب جو تم دے گئے تھے بہت دلچسپ ہے۔ اس میں ایک مقام ایسا بھی ہے جس کی تحقیق لازمی ہے۔ علامہ کا انداز مطالعہ بالکل نرالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مطالعے کے دوران پوری کتاب کا لب لباب انکے سامنے آگیا ہے‘ یعنی یہ کہ کتاب کا اصل موضوع کیا ہے اور مصنف کے ذہن میں کیا ہے؟ حالانکہ اکثر پڑھنے والے مصنف کی تصنیف سے ناآشنا ہی رہتے ہیں‘ خواہ وہ کتاب کو بارہا پڑھیں۔ صفحہ 91پر آپ نے جو نشان رکھا تھا اس کی ضروری عبارت یہ تھی: "As regards the ijma, some Hanifites and the Mu,tazilites held that the ijma can repeal the Koran and the Sunnah". چنانچہ کتاب کی متذکرہ عبارت علامہ کے لیے علمی جستجو کا باعث بن گی اور جو شخص بھی علامہ سے ملنے آتا اس موضوع پر خوب گفتگو اور بحث ہوتی۔ میں اس وقت مستقل طور پر لاہور آ چکا تھا۔ بدقسمتی سے انہی ایام میں علامہ کی لدھیانے والی اہلیہ کی شدید علالت کی خبر لدھیانے سے آئی اورآپ فوراً وہاں تشریف لے گئے ۔ زچگی کا معاملہ تھا لہٰذا نومولود بیٹے اور بیوی دونوں کا انتقال ہو گیا ۔ جب انتقال کی خبر لاہور پہنچی تو راقم‘ منشی طاہر الدین اور چودھری محمد حسین فوراً لدھیانہ روانہ ہو گئے۔ ہم نصف شب کے قریب وہاں پہنچے۔ علامہ ہمارے پہنچنے پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آ پ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اور بے کسی کا عالم تھا۔ اسی شام دونوں ماں اور بچے کو دفنایا گیا تھا۔ علامہ نے نہایت درد انگیز الفاظ میں لحد میں اتارنے تک کے حالات ہم کو آبدیدہ ہو کر سنائے۔ کافی دیر تک ہم بیٹھے رہے مرحومہ کے اعزہ نے بھی کیفیت مرض کو بیان کیا۔ صبح کے وقت لدھیانہ کے اکثر شرفا اور مرحومہ کے رشتہ دار تعزیت کے لیے آئے۔ ان لوگوں میں قابل ذکر حضرات یہ تھے:مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ‘ مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانوی اور میاں عبدالحی لدھیانوی (جو بعد میں وزیر تعلیم بھی ہو گئے تھے) علامہ لدھیانہ میں تین دن رہے ہم لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہر رو ز مجمع احباب لگتا اور کئی موضوعات زیر بحث آتے۔ جب کوئی نکتہ ذہن میںپیدا ہو جاتا تو علامہ اسی پر متواتر گفتگو کرتے رہتے۔ آ پ کا رویہ ایک طرح استصواب کا ہوتا اور کوشش یہ ہوتی کہ موضوع کی تہہ تک پہنچا جائے۔ ان دنوں ’’اجماع فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر گفتگو زیادہ ہوتی تھی۔ اسی زمانے میں لدھیانہ کے مدرسہ اہل حدیث میں ایک مولوی محمدامین صاحب لدھیانوی رہتے تھے۔ یہ مدرسہ میاں عبدالحی کے خسر میاں عبدالرحیم صاحب نے اپنے مکان سے ملحق مسجد میں قائم کر رکھا تھا۔ دوسرے روز علامہ کے فرمانے پر میں مولوی محمد امین مرحوم کو مدرسے سے علامہ کی خدمت یں لے آیا۔ وہ علم معقولات کے ضمن میں نہایت ٹھوس قابلیت رکھتے تھے۔ علامہ نے ان سے بھی اجماع کے موضوع پر گفتگو کی مگر ہنوز گفتگو کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ہم لدھیانہ سے لاہور آ گئے۔ پھر یہاں بھی یہ سلسلہ گفتگو برابر جاری رہا۔ چنانچہ لاہور آ کر میں علامہ کے حکم پر ان کی خدمت میں مولوی سید طلحہ مولوی اصغر علی اور مولوی غلام مرشد صاحب کو لے کر گیا اور ان کے ساتھ طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ اسی طرح بعضدیگر حضرات سے بھی گفتگو اور استصواب کیا گیا۔ میں نے سید طلحہ کے مشورے سے امام شاطبی کی ’’کتاب الموافقات‘‘ خریدی جو علامہ کے زیر مطالعہ رہی افسوس کہ وہ کتاب پروفیسر تاثیر سے کہیں ضائع ہو گئی۔ جب علامہ اس سلسلے میں اپنے طور پر مطمئن ہو گئے تو آپ نے ان تمام بحثوں اور مطالعے کو سامنے رکھ کر انگریزی زبان میں ایک طویل مقالہ بعنوان ’’اجتہاد فی الاسلام‘‘ لکھنا شروع کیا۔ جب تمام مسودہ آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھ لیا تو میں ان کے فرمانے پر اپنے گھر سے ٹائپ رائٹر لے آیا اور میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں بیٹھ کر آپ کے زیر ہدایت مسودے کو ٹائپ کیا۔ گرمیوں کی تعطیلات کے دن تھے۔ علامہ کا انگریزی خط نہایت صاف تھا۔ ٹائپ کے دوران میں وہ خود کہیں کہیں اصلاح بھی فرماتے تھے۔ اس طرح تمام مقالہ آپ نے ٹائپ کرا دیا اور آخر دم تک تصحیح فرماتے رہے۔ پھر اس بحث کو علامہ دیگر تحریروں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ اس دوران میں بعض لطائف بھی ہوئے جن کو یہاں بیان کرنا بے محل ہو گا۔ جب یہ مضمون تیار ہو گیا تو آپ نے اسے دسمبر 1924ء کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں زیر صدارت شیخ عبدالقادر پڑھا۔ اس جلسے میں کافی اہل علم حضرات موجود تھے جن میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ مرحوم اور مولانا محمد علی مرحوم امیر جماعت احمدیہ لاہور قابل ذکر ہیں۔ اس جلسے میں مولانا ظفر علی خاں بھی موجود تھے اور تمام ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ مضمون پڑھنے سے پیشتر علامہ نے اس کی اہمیت اور اس کا پس منظر بھی بیان کیا ۔ پھر مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ میں نے بارہا آپ سے عرض کی ہے کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب کوئی نئی شریعت لے کر آئے ہیں تو آپ لوگوں کافرض تھا کہ آپ اسے پیش کرتے۔ نبی عام طور پر نئی شریعت لاتا ہے اور ماقبل کی شریعت میں ردوبدل کرتاہے مگر آپ کی طرف سے ابھی تک کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ علامہ نے اپنے میکلوڈ روڈ والے مکان پر بھی مولانا محمد علی سے اسی طرح گفتگو کی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات موضوع گفتگو تھی۔ حاضرین نے یہ مضمون نہایت توجہ سے سنا لیکن چونکہ مضمون انگریزی زبان میں تھا اس لیے لوگوںنے اس سے کماحقہ‘ استفادہ نہ کیا ۔ لوگ عام طور پر علامہ سے نظم سننے کے عادی تھے۔ مضمون کے اختتام پر صدر جلسہ شیخ عبدالقادر نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ اقبال کا یہ علمی کارنامہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پھر مولوی ظفر علی خاں نے مشورہ دیا کہ یہ مضمون اردو زبان میں منتقل ہونا چاہیے۔ جس پر علامہ نے کہا کہ میں بہ طبیب خاطر اس کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ مولانا ظفر علی صاحب خود اس کا اردو ترجمہ کرنے کی زحمت فرمائیں‘ کیونکہ وہی اس کا بہتر ترجمہ کر سکتے ہیں۔ اختتام مضمون پر علامہ نے یہ بھی فرمایا کہ مضمون ہنوز نامکمل ہے۔ فی الحال یہ مقصد مدنظر ہے کہ لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اس لیے اس پر کسی قسم کی تنقید یا تبصرے کی ضرورت نہیں تاہم اخبارات میں اس مضمون کا بہت چرچا ہوا۔ اور اس سے لوگوں کو علامہ کی تازہ علمی تحقیقات کا علم ہوا۔ مدراس میں ایک مخیر مسلمان سیٹھ جمال محمد رہتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے تاجر چرم اور ایک دردمند مسلمان تھے انہوںنے مدراس میں اپنے نام پر ایک ’’مدرسہ جمالیہ‘‘ بھی قائم کر رکھا تھا جس کا نظام تعلیم ندوۃ العلوم لکھنو کے طرز پر مرتب کیا جاتا تھا سیٹھ جمال محمد صاحب اکثر علمائے دین کو ہندوستان کے مختلف شہروں سے لیکچروں کی دعوت دیا کرتے تھے۔ علامہ سے پیشتر مولانا سید سلیمان ندوی اور مارما ڈیوک پکتھال جیسے فضلا بھی آپ کی دعوت پر اسلام کی حقانیت پر لیکچر دے چکے تھے۔ جو بصور ت کتاب طبع ہو چکے ہیں۔ جب اخبارات میں علامہ کے مذکورہ مضمون کا چرچا ہوا تو مدراس کے سیٹھ حمید حسن نے سیٹھ جمال کی طرف سے علامہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔ اقبال نامہ‘ حصہ دوم‘ ص 333 ‘ لاہور 1951ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی لیکچر دینے کے لیے دعوت نامہ ارسال کیا۔ جب احباب کو اس دعوت کا علم ہوا تو سب نے مشورہ دیا کہ اس دعوت کوہر حالت میں قبول کرنا چاہیے۔ چنانچہ احباب کے مشورے پر علامہ نے اس دعوت کو قبول فرمالیا اور طے پایا کہ اس موقع پر علامہ چھ لیکچر تیار کر یں گے تاہم مدراس روانہ ہونے سے پیشتر بمشکل تین لیکچر تیار ہو سکے تھے جن کی تیار ی کے سلسلے میں راقم نے بھی بہت تگ و دو کی تھی سب سے پہلے ایک ایسے سٹینو کی ضرورت تھی کہ زیادہ زیر باری بھی نہ ہو اور سب بے ڑھ کر یہ کہ وہ شخص خود علامہ اقبال کے مکان پر آ کر ان سے املا لے سکے۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک دیرینہ ملاقاتی سٹینو محمد یعقوب سے ذکر کیا تو وہ مان گئے۔ وہ ان دنوں کو آپریٹو سوسائٹی کے رجسٹرار سر ڈارلنگ کے اسٹینو تھے۔ ان سے معاملہ اس طرح طے ہوا کہ وہ فرصت کے وقت علامہ کے پاس آ کر ان سے املا لیا کریں گے اور پھر ٹائپ کر کے علامہ کو دکھایا کریں گے۔ اور امر کی تصدیق سے علامہ کے حسب ذیل خط سے بھی ہوتی ہے جو راقم کے نام ہے 1:’’30اپریل 1927ء ڈئر ماسٹر صاحب السلام علیکم کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ مسٹر محمد یعقوب ہر روز کسی ایسے وقت‘ جو ان کے لیے اور میرے لیے موزوں ہو یہاں آیا کریں۔ آپنے آج صبح بتایا تھا کہ وہ 7مئی کو شملہ جانے والے ہیں اور اس واسطے ضروری ہے کہ ان کے جانے سے پہلے جس قدر بھی میں لکھوا سکوں لکھوا لیا جائے۔ مہربانی کر کے ان سے دریافت کر کے مجھے مطلع فرمائیں۔ بلکہ بہتر ہو گا ن کوساتھ لے آئیں تاکہ زبانی گفتگو ہو جائے۔ شاید چار بجے کے بعد وہ آ سکتے ہوں گے۔ میں ان سے پہلا لیکچر ‘ جو دیباچے کے طور پر ہو گا لکھوانا شروع کر دوں گا۔ اس طرح ممکن ہے کہ دسمبر تک سب لیکچر ختم ہو جائیں۔ محمد اقبال ‘ لاہور‘‘ چنانچہ ماسٹر محمد یعقوب نے نہایت محنت اور کاوش سے بغیر کسی اجرت یا معاوضے کے تمام کام انجام دیا۔ یہاں یہ بیان کرنا بے بے محل نہ ہو گا کہ مسٹر محمدیعقوب لدھیانے کے رہنے والے تھے اور علامہ کی لدھیانے والی اہلیہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ وہ علامہ اور اس مرحومہ بیوی سے منسوب بھی رہ چکے تھے مگر علامہ کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ وہ کشمیری برادری کے ایک ممتاز فرد تھے۔ غرضکہ اس طرح تین لیکچر تیار ہو سکے اور یہی لیکچر مدراس‘ حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں دیے گئے تھے۔ باقی تین لیکچر بعد میں تیار ہوئے تھے۔ ایک اور لیکچر آپ نے لند ن میں بھی تیار کیا تھا جو بعد میں ’’مجموعہ خطبات‘‘ میں شامل کیاگیا تھا۔ ٭٭٭ 59 سفر مدراس کا آغاز جیسا کہ پہلے بیان ہوا‘ جب اخبارات میں علامہ کا لیکچر اور تمام حالات شائع ہوئے اور مدراس کے ذی علم حضرات نے ان کا مطالعہ کیا اور خاص طورپر سیٹھ جمال محمد اور ان کے سیکرٹری سیٹھ حمید حسن نے اس خبر کا مطالعہ کیا تو ان کی انجمن ’’مسلم ایسوسی ایشن نے علامہ کو مدراس بلانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہوںنے ایسوسی ایسشن کی طرف سے آپ کو مدراس آ کر لیکچر دینے کی دعوت دی اور لکھا کہ ہم آپ کے تمام اخراجات برداشت کیں گے۔ اس کے علاوہ لیکچروں کا معاوضہ بھی دیں گے۔ اس سے پیشتر ہمارے ہاں سید سلیمان ندوی اور مسٹر مارما ڈیوک پکتھال کے لیکچر بھی ہو چکے ہیں۔ جب یہ دعوت نامہ علامہ اقبال کے پاس آیا تو طویل سفر کی وجہ سے انہوں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔ تاہم احباب نے علامہ کو یہ دعوت قبول کر نے پر آمادہ کر لیا۔ تاریخ اور دن کا معاملہ علامہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ جب آپ نے مدراس میں لیکچر دینے کا پختہ ارادہ کر لیا تو لیکچرز کی تیاری کے سلسلے میں دوڑ دھوپ باقاعدہ شروع کر دی۔ سب سے پہلے آپ نے اسلام کی فلسفیانہ روایات کی تشکیل نو پر اپنی تحقیقات شروع کر دیں حالانکہ ابھی تک کسی لیکچر کا عنوان طے نہیں ہوا تھا اورنہ ہی لیکچر ز کی تعداد کا ذکر ہوا تھا میں ان دنوںآپ ک ہاں صبح شام جاتا تھا۔ اور ضروری ماخذ کے حصول اور بعض علما سے علامہ کی بالمشافہ مشاورت کا اتنظام کرتا تھا۔ میں اس علمی جستجو کی مکمل کیفیت کسی اور جگہ تفصیلاً پیش کرچکا ہوں۔ لیکچرز کی دعوت قبول کرنے کے بعد کئی قسم کی مصروفیات اور ہنگامے حائل ہوئے جن میں انتخاب کونسل‘ مسجد شہید گنج کا واقعہ اور ’’رنگیلا رسول‘‘ کا مقدمہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی خانگی اور گھریلو زندگی کے مسائل بھی گوناگوں تھے جن کی وجہ سے مسفر مدراس میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ انہی مصروفیات کی بدولت مدراس جانے سے پیشتر علامہ صرف تین لیکچر تیار کر سکے تھے حالانکہ اعلان چھ لیکچروں کا ہو چکا تھا۔ چنانچہ باقی تین لیکچر مدراس سے واپسی پر شامل کیے گئے تھے جن کا مواد آپ کے ذہن میں تیار تھا۔ بالآخر دسمبر 1928ء میں علامہ نے مدراس جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ اس ضمن میں مسلم ایسوسی ایشن مدراس کے تمام متعلقہ حضرات اور سیٹھ جمال محمد کو بھی مطلع کر دیا گیا۔ انہی دنوں دہلی میں آل انڈیا مسلم کانفرنس بھی سر آغا خان کی زیر صدارت منعقد ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لیے علامہ صاحب‘ آغاخاں کی دعوت پہلے ہی قبول فرما چکے تھے۔ یہ کانفرنس دسمبر 1928ء کے آخر میں منعقد ہونا قرار پائی تھی۔ اس میں شرکت کے لیے پنجاب سے ملک فیروز خاں نون مولینا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک بھی جا رہے تھے۔ دہلی کے ریلوے سٹیشن پر علامہ کی رہائش کے لیے ملک فیروز خاں نون نے دو کمروں کا انتظام کروایا تھا۔ 30دسمبر 1928ء کو اس طویل سفر کا آغاز ہوا۔ راقم کے علاوہ چودھری محمد حسین کی رفاقت کا پروگرام بھی طے ہو چکا ھتا۔ چنانچہ صبح صبح ہم لوگ ریلو ے سٹیشن پر جانے کے لیے علامہ کی موٹر میں چل دیے ۔ہمارا پروگرام ایکسپرس ٹرین سے جانے کا تھا۔ علامہ کے سفر کا یہ پروگرام بظاہر کسی کے علم میں نہیںتھا۔ مگر جب ہم لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو خواجہ محمد سلیم وہاں ہار لے کر موجود تھے ۔ لاہور سے دہلی تک کا ی سفر ہم نے اور مولانا مہرو سالک وغیرہ نے ایک ہی گاڑی میںطے کیا۔ 8بجے شام ہم لوگ دہلی پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق ہم تو دہلی کے ریلوے سٹیشن کے مخصوص شدہ کمروں میں چلے گئے جبکہ مولانا مہر اور سالک کے لیے شہر میں انتظام کیا گیا تھا۔ وہ وہاں تشریف لے گئے۔ 60۔آل پارٹیز مسلم کانفرنس دہلی (یکم جنوری 1929ئ) یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ جب حضرت علامہ سفر مدراس پر روانہ ہوں گے تو پیشتر ازیںیکم جنوری 1929ء کو دہلی میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں بھی شرکت فرمائیں گے جس کی صدارت سر آغا خاں کر نے والے تھے ہم لوگ (علامہ اقبال‘ چودھری محمد حسین مرحوم اور راقم) 30دسمبر کو مدراس کے لیے لاہور سے رواونہ ہوئے تو سٹیشن پر خواجہ سلیم نے علامہ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر رخصت کیا جن دوسرے لوگوں نے اس کانفرنس میںشرکت کرنی تھی وہ بھی ہمارے ساتھ ہی اسی گاڑی میں سفرکر رہے تھے جس میں ہم لوگ جا رہے تھے۔ ان میں قابل ذکر ہمارے کرم فرما ارو بے تکلف دوست مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک تھے جن کی معیت میں علامہ کے لیے بطور خاص باعث مسرت تھی۔ دوسرے لوگوں میں ملک فیروز خاں نون اور میاں سر محمد شفیع قابل ذکر ہیںَ ملک فیروز خاں نون ان دنوں پنجاب کے وزیر تعلیم بھی تھے۔ 31دسمبر کو ہم لو گ دہلی پہنچ گئے اور ریلوے سٹیشن کے ان کمروں میں آرام کیا جن کاانتظام ملک فیروز خاں نون نے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ ایک طرح ہم لوگ مک صاحب ہی کے مہمان تھے۔ کانفرنس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر حکیم جمیل احمد خاں تھے۔ جو حاذق الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ زمانہ مسلمانوں کے لے بہت آزمائش کا تھا۔ مسلمانوں کی سیاست کا نقشہ یوں تھا کہ مرکزی مجلس خلافت میں مولانا شوکت علی مولانا محمد علی جوہر‘ شیخ عبدالمجید سندھی‘ سیٹھ عبداللہ ہارون اور دوسرے مجاہدین اسلام تھے۔ جمعیت العلمائے ہند کی قیادت اس وقت مولانامفتی کفایت اللہ‘ مولانا حسین احمد مدنی اورمولانا احمد سعید جیسے علما کے ہاتھ میں تھی۔ یہ جماعتیں کانگرس کی مسلم کش پالیسی سے بیزار ہو چکی تھیں جو ایک طرح ہندو مہاسبھا کا کردار ادا کر رہی تھی۔ ادھر مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی ایک گروہ کے صدر مسٹر محمد علی جناح تھے ارو دوسرے کے صدر سر محمد شفیع تھے جن کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اصلاحات کے لیے موزوں فضا اور مناسب وقت آنے والا ہے اس لیے مسلمانوں کو منظم ہوجانا چاہیے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ لیگ کے دونوں دھڑے یک زبان ہوکر مسلمانان ہند کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ان دونوں دھڑوں میں بنیادی اختلاف اس بات پر تھا کہ مسٹر جناح مخلوط انتخابات کے حامی تھے جبکہ سر محمد شفیع کا مطالبہ یہ تھا کہ دونوں قوموں کوجداگانہ نیابت کاحق دے کر جداگانہ انتخابی حلقے قائم کیے جائیںَ مسٹر جناح ان ایام میں کلکتہ کنونشن کی دعوت پر چلے گئے تھے۔ جہاں تمام کانگرسی ہندو جمع تھے۔ انہوں نے وہاں یہ تجویز پیش کی کہ ہر صوبے میں مسلمانوں کے تناسب آبادی کے مطابق نشستیں مخصوص کر دی جائیں مگر انتخاب مخلوط ہی رہے‘ لیکن ان کی اس تجویز پر بھی کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ غرض یہ کہ پس منظر تھا جس میں مسلمانوں نے اپنی الگ آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کر نے کا فیصلہ کیا۔ مولانا سالک اور مولانا مہر 31دسمبر اور یکم جنوری کو دو دن کے لیے اپنا اخبار ’’انقلاب‘‘ بند کر کے اس جلسے میں شامل ہو رہے تھے سالک نے اس سے پہلے دہلی نہیں دیکھی تھی اور وہ مہر کی ترغیب پر پہلی مرتبہ یہاں آئے تھے۔ انہوںنے اپنے قیام کے لیے چاندنی چوک میں دو ہوٹل دیکھے مگر پسند نہ آئے۔ بالآخر وہ بھی ریلوے سٹیشن کے ریٹائرنگ میں آ گئے ان کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظا م کر دیا گیا اور وہ ہمارے ساتھ مقیم ہو گئے۔ ان کی وجہ سے ہماری محفل میں اچھی خاصی گرما گرمی رہتی تھی اور گپ شب میں بڑ ااچھا وقت گزرتا تھا۔ جب ملک فیروز خاں نون کو معلوم ہوا کہ سالک پہلی مرتبہ دہلی آئے ہیں تو وہ بہت حیرانہوئے۔ چنانچہ انہوںنے سالک کو اپنا مہمان بنا لیا اور دہلی میں گھومنے کے لیے ایک ٹیکسی کا بندوبست کر دیا۔ دوسرے روز یکم جنوری کو جامع مسجد دہلی کے سامنے کھلے میدان میں کانفرنس شروع ہو گئی۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے‘ کانفرنس کے صدر سر آغا خاں بطور خاص انگلستان سے آئے تھے اور وائسرائے کے مہمان تھے ۔ سٹیج نہایت عمدگی سے آراستہ کیا گیا تھاصاحب صدر کی سنہری کرسی کے پیچھے خاص نمائندے یعنی علامہ سر محمد اقبال‘ میاں سر محمد شفیع سر ابراہیم رحمت اللہ اور سر عبدالقیوم تشریف فرما تھے۔ صدر کے دائیں بائیں مولانا مفتی کفایت اللہ مولانا احمد سعید اور دیگر علمائے کرام رونق افروز تھے۔ مرکزی مجلس خلافت کے نمائندے مولانا محمدعلی جوہر مولانا شوکت علی ‘ شیخ عبدالمجید سندھی نواب محمد اسماعیل خاں اورتمام صوبوں کی مجالس قانون سازکے منتخب نمائندے بھی سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی یہ کانفرنس ہندوستان کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے بعد آج تک ایسا عظیم الشان اجتماع نہیں دیکھا گیا حتیٰ کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بھی اس پیمانے کی نمئاندہ کانفرنس پھر دیکھنے میں نہیںآئی کافی تعدد میںقادیانی ممبر بھی اس میں شامل ہیں۔ میں اپنے نقطہ نظر سے اس کانفرنس کو ایک طرح پاکستان کی بنیاد تصور کرتا ہوں۔ صاحب صدر سر آغا خاں کا استقبال نہایت جوش و خرو ش سے کیا گیا اور وہ تلواروں کے سائے میں سٹیج پر تشریف لا کر کرسی صدارت پر متمکن ہوئے۔ ان کا خطبہ صدارت بہت مختصر تھا جو صرف چار صفحات پر مشتمل تھا۔ غالباً یہ انگلستان میں لکھا گیا تھا اور وہیں طبع بھی ہوا تھا۔ سب سے پہلے راقم نے اس کی کچھ کاپیاں لے جا کر سٹیج پر بیٹھے ہوئے احباب اور دیگر زعما میں تقسیم کیں۔ خطبے کا آغاز بادشاہ جارج پنجم کی صحت یابی پر اظہار اطمینان سے ہوا تھا۔ پھر سیاسی امور پر عالمانہ انداز میںتھوڑا سا تبصرہ بھی کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو ہر جگہ مسلم نیشن کے الفاظ سے خطاب کیا گیا تھا۔ خطبہ صدارت کے بعد میاں سر محمد شفیع نے مخلوط انتخاب کے مطالبے پر مشتمل قرارداد پیش کی اور اس کی تائید میں ایک مدلل تقریر فرمائی ۔ ان کے بعد مفتی کفایت اللہ صاحب نے قرارداد کی تائید میں نہایت جامع تقریر فرمائی۔ یہ عجیب و غریب اجتماع تھا کہ ایک ہی سٹیج پر مختلف الخیال لوگو جمع تھے مفتی کفایت اللہ صاحب کے بعد مولانا محمد علی کھڑے ہوئے اور مخلوط انتخابات کے حق میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیںنیشنل ازم کے طریق پر ہی زندگی بسر کرنی ہو گی لہٰذا مخلوط انتخابات ناگریز ہیں۔ ان کی اس تجویز کے خلاف ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اگرچہ کوئی بھی انکی بات سننے پر آمادہ نہ تھا۔ مگر وہ ڈٹے رہے۔ ا س تقریر کے بعد کچھ اور زعما نے بھی خطاب کیا۔ اور پھر دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ اس طرح اجلاس کی پہلی نشست اختتام پذیر ہوئی سر آغاخاں لنچ پرجاتے وقت یہ اشارہ کرتے گئے تھے کہ کسی طرح مولانا محمد علی کو ہموار کر لیا جائے۔ مولانامحمد علی کو ہم خیال بنانے کا مسئلہ معمولی نہیںتھا مگر مولانا مہر و مولانا سالک نے اس سلسلے میں جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ بالآخر انہوںنے مولانا کو اس باتر پرآمادہ کر لیا کہ اگر اس قرارداد میں ترمیم کر دی جائے تو وہ بھی متفق ہو جائیں گے۔ترمیم یہ تھی کہ ہندو مسلمانوں کے مطالبات کو تسلیم کر لیں تو پھر مخلوط انتخابات پر بھی انہیں رضامند کیا جا سکے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ صبح کے اجلاس میں سر میاں محمد شفیع اور مفعی کفایت اللہ صاحب کی تقریروں کے بعدمولانا شفیع دائودی اور علامہ اقبال نے بھی خطاب کیا تھا۔ حضرت علامہ کی پرمغز تقریر کا خلاصہ ذیل میں پیشکیا جا رہا ہے: ’’گزشتہ تین چار سال سے ہم کو جو مشاہدات اور تجربات حاصل ہو رہے ہیں وہ نہایت مفید اور نتیجہ خیز ہیں۔ ہم کو جو باتیں برادران وطن کے متعلق قیاسی طورپر معلوم تھیں اب وہ یقینی طورپر ہمارے علم میں آ گئی ہیں۔ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خاںعلیہ الرحمۃ نے مسلمانوں کے لیی جو راہ عمل متعین کی تھی۔ وہ صحیح تھی اور تلخ تجربوں کے بعد اب اسراہ کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔ حضرات! آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میںبحیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹکل پروگرام بنانا چاہیے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے بعض ایسے حصے ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن میں وہ قلیل تعدادمیں ہیں ان حالات میں ہم کو علیحدہ طورپر ایک پولیٹکل پروگرام بنانے کی شدید ضرورت ہے آج ہر قوم اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سعی و کوشش کر رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں ۔ آج ا س کانفرنس میں جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے وہ نہایت صحیح ہے۔ اور اس کی سحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کااجتماع کبھی گمراہی پر نہیں ہو گا۔ ‘‘ (نعرہ ہائے ’’اللہ اکبر‘‘ اور مسلسل اظہار مسرت) دوپہر کے کھانے کے بعد جلسے میں وہ گہما گہمی نہیں تھی جو صبح کے اجلاس میں دیکھنے میں آئی تھی۔ سرآغا خان بھی خود کافی دیر کے بعد آئے تھے۔ آخر میاں محمد شفیع نے آغا خاں کے مشورے سے اس طرح تقریر شروع کی کہ میرے بھائی محمد علی نے جو تجویز کی ہے مجھے منظور ہے۔ اس کے بعد ساحب صدر نے حاضرین کی رائے طلب کی تو متفقہ طور پر یہ قرار داد منظورکر لی گئی۔ اس کانفرنس کی اہمیت مندرجہ ذیل اقتباس سے بھی واضح ہوتی ہے جو سائمن کمیشن کی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔ (سائمن کمیشنکی رپورٹ 1930ء میں منظر عام پر آئی تھی): ’’دو مسلمان ارکان کمیٹی اپنے رفقا سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہر مقام پر جداگانہ انتخاب بحال رکھا جائے‘ موجودہ بنیادوں پر ایسے صوبوں میں جن میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور مردم شماری کی بنیاد پر ایسے صوبوں میں جنمیں وہ اکثریت میں ہیں‘‘۔ سائمن رپورٹ کے جس حصے سے یہ اقتباس نقل کیا گیا ہے اور خاصا طویل ہے۔ کمیشن کی ا س رپورٹ میں مذکورہ کانفرنس کا پورا ریزولیوشن موجود ہے اور اس سے مطالبات کے تمام پہلو واضح ہوتے ہیں۔ اس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ مسٹر جناح‘ جن کوکانگرس کے اجلاس میں کافی خفت اٹھانی پڑی تھی دہلی ضرور تشریف لائیں گے مگر وہ سیدھے بمبئی چلے گئے تھے اور دو تین ماہ تک ان کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ اپریل 1929ء میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے مہر اور سالک کے ذریعے سے کوشش کی کہ لیگ کے دونوں دھڑے یک جا ہو جائیں کیونکہ جناب محمد علی جناح مسلمانوں کے رجحان سے اب بخوبی واقف ہو چکے تھے۔ اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے مطالبات سے ملک بھر کے مسلمان متفق تھے۔ ڈاکٹر کچلو ار مہر اور سالک کی معیت میں علامہ اقبال سے ملے تو پہلے تو کچھ طنز اور استہزاء کی باتیں ہوئیں مگر بالآخر یہ طے پایا کہ دہلی میں دونوں دھڑوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور ایک مرتبہ پھر انہیں ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سرمحمد شفیع جناب جناح کے حق میں صدارت سے دست بردار ہو گئے اور اس طرح مسلم لیگ پھر ایک ہو گئی۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن کی رپورٹ کو دیکھ کر اور ملکی حالات کے پیش نظر 1930ء میں لندن میں گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسلم مندوبین کی فہرست میں مسٹر جناح بھی تھے اور علامہ اقبال بھی تھے۔ مسٹر جناح اس کانفرنس کی ناگوار فرقہ وارانہ بحثوں اور دلآزار کشمکشوں سے اس قدر بیزار ہوئے کہ پہلی گول میز کانفرنس کے بعد لندن میں مقیم ہو گئے اوروہیں وکالت شروع کر دی پھر وہ 1934ء میں ہندوستان واپس تشریف لائے۔ مذکورہ آل انڈیا مسلم کانفرنس میں جو 1929ء میں دہلی میں منعقد ہوئی تھی ایک صاحب حفظ الرحمن بی اے مالک و مدیر ’’علی گڑھ میل‘‘ نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ انہوں نے اس کانفرنس کی ایک مفصل رپورٹ بھی مرتب کی تھی۔ جو میری نظر سے نہیں گزری۔ کانفرنس کا دوسرا اجلاس نومبر 1930ء میں لکھنو میں منعقد ہوا جس کی صدارت نواب محمداسماعیل خاں نے کی تھی۔ ا س کی جو رپورٹ حفظ الرحمن صاحب نے مرتب کی تھی وہ میرے سامنے ہے۔ اس میں انہوںنے کانفرنس کے پہلے اجلاس دہلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں بحیثیت پریس رپورٹر کے شریک ہوا تھا اور سیکرٹری صاحب کے ایما پر اردو اور انگریزی میں ایک باتصویر رپورٹ بھی تیار کی تھی۔ دوسرے اجلاس کے مندوبین میں محترم غلام رسول مہر کا نام بھی شامل ہے اور کانفرنس کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے جداگانہ انتخابات کی تائید کی تھی اور اس سلسلے میں ریزولیوشن بھی پاس ہوئے تھے۔ ٭٭٭ ۶۱۔خطبات مدراس سفر مدراس کی بقیہ روداد یوں ہے، کہ ہم لوگ ۲ جنوری ۱۹۲۹ء کو ساڑھے آٹھ بجے صبح مدراس جانے کے لئے فرنٹئیر میل میں سوار ہوئے۔ہم تینوں ہم سفر ایک ہی کلاس میں سفرکررہے تھے۔ دہلی ریلوے اسٹیشن پرمسٹر جان محمد نے ہماری بڑی مدد کی تھی۔میرا قلم دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک کلرک کے ہاتھ میں رہ گیا تھا۔ جس نے ہماری ٹکٹوں پر کوئی اندراج کرنے کے لئے وہ قلم ہم سے لیا تھا۔گاڑی کے دہلی ریلوے اسٹیشن سے نکلنے کے بعد جب مجھے قلم کا خیال آیا تو میں نے علامہ سے ذکر کیا۔ آپ نے از راہ ظرافت فرمایا ،ماسٹر گویا تمہاری تو بیوی دہلی میں رہ گئی ہے۔اور پھر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔غرض اس طرح یہ تمام سفر لطائف و ظرائف میں بخیر وخوبی کٹا،جو آج بھی یاد ہے۔ اگلے روز صبح کے وقت بمبئی کے ریلوے اسٹیشن کولابا پر ہم گاڑی سے اترے۔ تو وہاں علامہ کے استقبال کے لئے سیٹھ محمد اسماعیل کے صاحب زادے سیٹھ محمد موجود تھے۔ انہوں نے علامہ سے خط وکتابت کرکے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ وہ ان کو اپنے دولت خانے پر لے جائیں گے۔ان کی اہلیہ جوپردہ بھی کرتی تھی۔ جرمنی کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں ۔انہوں نے علامہ کی خدمت میں گوئٹے کی مشہور تصنیف ’’فاوسٹ‘‘ (جرمنی زبان میں ) ارسال کی کہ آپ اس پر اپنا کوئی شعر بطور یاد گار لکھ دیں۔چنانچہ حضرت علامہ نے حسب ذیل اس کتاب پر لکھا: کلام وفلسفہ از لوح دل فروشستم ضمیر خویش کشادم بہ نشتر تحقیق یہ شعر گوئٹے ہی سے متعلق تھا۔ بمبئی میں اسی شام رات کے کھانے کا بڑے وسیع پیمانے پر انتظام کیا گیا تھا۔اس دعوت میں بمبئی کے اکثراکابر اور مشاہیر نے شرکت کی تھی۔جن کی تفصیل یہاں ضرورت نہیں ہے۔ بمبئی سے مدراس جانے کے لئے ہم ۳جنوری ۱۹۲۹ء کی رات کو قریبا دس بجے مدراس میل میں سوار ہوئے۔اس کے بعد دوراتیں اور ایک دن گاڑی میں گزارے۔اور ۵ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح مدراس پہنچے۔ ویسے تو مدراس کے تمام ریلوے اسٹیشنوں پر لوگ علامہ اقبال کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ مگر مدراس کے بڑے اسٹیشن پر استقبال کرنے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔جس میں شہر کے روساء ،علماء اور کالجوں کے طلبہ اور پروفیسر جمع تھے۔ یہ کیفیت تھی کہ علامہ کا گاڑی سے اترنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہاں کے مسلمان علامہ کو دیکھنے کے بے حد مشتاق تھے۔سیٹھ عبد الحمید حسن سیکرٹری مسلم ایسوسی ایشن اور سیٹھ جمال محمد صاحب نے نہایت پر خلوص انداز میں علامہ کا خیر مقدم کیا۔اور انھیں پھولوں کے بڑے بڑے ہار پہنائے۔ پھر لوگوں کے ہجوم سے مخاطب ہو کر سیٹھ حمید حسن نے بلند آواز سے کہا کہ سب حاضرین کو علامہ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ اس استقبال کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے میز بان سیٹھ جمال محمد کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر بوسٹو ہوٹل تشریف لے گئے۔ جن کے مالک خود سیٹھ جمال محمد ہی تھے۔ راقم الحروف اور چودہری محمد حسین ایک الگ موٹر میں سامان کے ساتھ بوسٹو ہوٹل پہنچے۔ جہاں پہلے ہی کافیلوگ جمع ہو چکے تھے۔ یہ ہوٹل مدراس کا سب سے بڑا ہوٹل تھا۔اور شہر کے مرکز میں تھا۔ ہم حیران ہو رہے تھے کہ مدراس میں جنوری میں بھی ہمیں گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ سیٹھ جمال محمد صاحب جن کی دعوت پر ہم یہاں پہنچے تھے۔گونا گوں صفات کے مالک تھے۔ اپنے لباس سے وہ جھنگ اور چنیوٹ کے علاقے کے باشندے معلوم ہوتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے پگڑی، لمبا کرتا اور تہہ بند زیب تن کر رکھا تھا۔ان کی داڑھی بھی تھی۔ ان کی فیاضی سے مدراس میں مدرسہ جمالیہ کے نام سے ایک سکول بھی قائم تھا۔جس مین بہت سے طلباء تعلیم پاتے تھے۔ اس میں ندوۃ العلماء لکھنئو کی طرز پر تعلیم دی جاتی تھی۔ ہم نے ایک شام وہاں آپ کی دعوت پر روسائے شہر اور علماء کے ساتھ چائے بھی پی تھی۔ سیٹھ صاحب بہت پڑھے لکھے اور انگریزی زبان خوب جانتے تھے۔ اور مسلمانوں کی موجودہ مذہبی اور تعلیمی ضروریات سے بخوبی واقف تھے۔ آپ کے تجارتی تعلقات جاپان، آسٹریلیا۔ امریکہ اور یورپ کے تمام بڑے بڑے اداروں سے تھے۔ جیسا کہ ا وپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مدراس کا بوسٹو ہوٹل کا شمار بمبئی اور کلکتہ کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ اور وہ آپ ہی کی ملکیت تھا۔ حضرت علامہ ایک شام سیٹھ صاحب کی دعوت پر مدرسہ جمالیہ بھی تشریف لے گئے۔ اور آپ نے وہاں ’’یتیم اور اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر بھی فرمائی تھی۔یہ تقریر موعودہ خطبات کے علاوہ تھی۔ خطبات کے انتظام کے فرائض سیٹھ حمید حسن کے سپرد تھے۔ جو سیٹھ جمال محمد کے سیکرٹری تھے۔ وہ مدراس ہائی کورٹ میں صدر مترجم کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے۔ اور سیٹھ جمال کی تمام علمی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ وہ مشہور سیاسی لیڈر سیٹھ یعقوب حسن کے بھائی تھے۔ ابھی لیکچر شروع نہیں ہوئے تھے۔ کہ ایک روز سیٹھ حمید حسن نے پہلے لیکچر کا خلاصہ طلب کیا ،جسے وہ وہاں کے اخبارات میں اشاعت کے لئے بھیجنا چاہتے تھے۔مگر ہمارے پاس یہ خلاصہ تیار نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہمیں وہاں کے دستور کا علم تھا۔ چنانچہ میں نے اصل ٹائپ شدہ لیکچر بعنوان ’’دینیات اسلامیہ اور افکار حاضرہ‘‘ علامہ کی اجازت سے ان کے حوالے کردیا۔ چنانچہ انہوں نے دوسری صبح اپنے طور پر اس کا خلاصہ تیار کر لیا اور پھر اصل مسودہ ہمیں لوٹا دیا۔ کیونکہ اسی روز شام کو علامہ نے وہ لیکچر پڑھنا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے وہ خلاصہ وہاں کے تمام روز ناموں کو جو ان دنوں مدراس میں شائع ہوئے تھے۔ بذریعہ بک پوسٹ ارسال کر دیا۔ان میں ’’مدراس میل‘‘ ہندو اور تامل ناڈو کے اخبارات قابل ذکر ہیں۔ مدراس میں اس وقت سب سے بڑا ہال گوکھلے ہال تھا۔ اورا سی میں علامہ کے لیکچروں کا انتظام کیا گیا تھا۔ شام کے وقت جب ہم لوگ علامہ کے ہمراہ وہاں پہنچے تو پورا ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔اس لیکچر کی صدارت حکومت مدراس کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر سوبرا مانین نے کی تھی۔اور جلسے کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا تھا۔اگرچہ حاضرین جلسہ میں بیشتر مسلمان ہی تھے۔ تاہم غیر مسلم بھی کم نہ تھے۔ علامہ کے لیکچر سے پیشتر سیٹھ حمید حسن نے ایک مختصر سی تقریر کی۔ جس میں انہوں نے اس لیکچر کی غرض وغایت پر روشی ڈالی۔اسی سلسلے میں انہوں نے علامہ کا تعارف بھی کرایا اور کہا کہ ’’اقبال‘‘ کا نام بطور شاعر تو آپ کو معلوم ہوگا۔ان کی شاعری نے ہندوستان اور بالخصوص اسلامی دنیا میں زندگی کی جو لہر دوڑا دی ہے۔ اس سے آپ لوگ بھی ملک کے اس دور دراز گوشے میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔مگر آج وہ ایک شاعر کی حیثیت سے آپ کے شہر میں نہیں آئے۔ بلکہ اسلامی ثقافت ،اسلامی فلسفے اور اسلامی تہذیب وتمدن کے پیغام بر کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں۔ اس کے بعد صاحب صدر ڈاکٹر سوبرا مانین نے علامہ صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ کہ انہوں نے اتنا طویل سفر طے کرکے مدراس آنے کی تکلیف گوارا کی۔ساتھ ہی مدراس کی انجمن مسلم ایسوسی ایشن اور سیٹھ جمال محمد کا بھی شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے آپ کو مدراس بلایا تھا۔ پھر صاحب صدر نے پرائیویٹ سیکرٹری آف ہز ایکسلینسی لارڈ گوسن گورنر مدراس کا خط پڑھ کر سنایا۔ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ گورنر صاحب کو افسوس ہے۔ کہ اپنی سابقہ مصروفیتوں کی وجہ سے وہ اس جلسے میں شریک ہو کر سر محمد اقبال کے لیکچروں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔وہ سر محمد اقبال کا ذکر کئی دفعہ سن چکے ہیں۔اور ان کو آپ کے لیکچر سن کر مزید خوشی ہوئی ،مگر مصروفیتوں کی وجہ سے معذرت خواہ ہیں۔ متذکرہ بالا تمہیدی تقریر کے بعد علامہ نے اپنا لیکچر شروع کیا۔ اور ایک گھنٹے سے بھی زیادہ آپ اپنا یہ مقالہ پڑھتے رہے۔جب لیکچر ختم ہوا تو بعض غیر مسلم احباب نے کچھ سوالات بھی کیے۔جن کا مختصر جواب علامہ نے اسی وقت دے دیا تھا۔آپ نے یہ بھی فرمایا ،کہ یہ لیکچر عنقریب بصورت کتاب چھپ جائیں گے۔ اس وقت ان کے تفصیلی مطالعہ کے بعد استفسارات ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد صدر جلسہ ڈاکٹر سوبرا مانین نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا: ’’اس سر زمین میں ہندو اور مسلمان دونوں آباد ہیں۔اگر وہ خود اختیاری حکومت حاصل کرنا اور اسے قائم کرنا چاہتے ہیں تو ان میں اتحاد بہت ضروری ہے۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوؤں کا یہ فرض ہے کہ وہ مسلم اقلیت کو اس بات کا یقین دلائیں کہ وہ بھی اس سر زمین میں بھائیوں کی طرح زندگی بسر کر سکیںگے۔میرے لئے یہ بات باعث عزت ہے کہ اگر چہ میں ہندو ہوں، لیکن اسلامی فلسفے پر لیکچر کی صدارت کے لئے مجھے منتخب کیا گیا ہے۔میں خوش ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا زاویہ نگاہ صحیح ہے۔ اسلام نے نہ صرف مشرق کو بلکہ ساری دنیاکو اخوت کا سبق دیا ہے۔ ہم ہندو ابھی تک زات پات اور قومی امتیازات کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ابھی ہمیں اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر سے اخوت کا سبق سیکھنا ہے۔میں یہاں غیر برہمن کی حیثیت سے تقریر نہیں کر رہا ہوں۔ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکجاکرنے اور تمام ہندوستانی اقوام میں اتحاد کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہمیں اسلامی اخوت کو دلیل راہ بنانا چاہیئے۔‘‘ جلسے کے اختتام پر اخباری نمائندوں نے علامہ صاحب کو گھیر لیا۔ ایسے فلسفیانہ مسائل کو وہ کہاں تک سمجھ سکتے تھے۔ اور کہاں تک لیکچر کو لکھ سکتے تھے۔ اس سے پیشتر انہوں نے اسلامی حقائق ومعارف کو فلسفیانہ انداز میں نہیں سنا تھا۔ چنانچہ لیکچر کا جو خلاصہ سیٹھ حمید حسن صاحب نے تیار کیا تھا۔ اس کی نقول ان کے ھوالے کر دی گئیں۔ جس سے وہ اخبار والے مطمئن ہو گئے۔ لیکچر کے بعد جب ہم ہوٹل میں آئے تو سیٹھ جمال محمد صاحب نے مجھ سے کہا کہ آج شام جولیکچر ہوا ۔وہ آپ مجھے دے دیں۔کیونکہ میں رات کو گھر لے جا کر اس کا مطالعہ کروں گا۔چنانچہ میں نے وہ لیکچر ان کے حوالے کر دیا۔پھر ان کے چلے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ان کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حاجی جمال محمد صاحب کی تجارت ایک کروڑ سالانہ سے کم کی نہیں ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ایک کروڑ سالانہ کی تجارت کرنے والا یہ شخص تہبند اور کرتا پہنتا ہے۔اور حقیقت مادہ وروح جیسے علمی مسائل پر اردو اور انگریزی میں گفتگوکرتا ہے۔اس کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ مسلمانوںکو جو تعلیم دی جائے۔اس میں قدیم اور جدید تعلیم کا حقیقی امتزاج ہو۔ اور اسلام اپنی اصلی شان میں دنیا پر ظاہر ہو۔مسلمانوں میں ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے۔اور جب تک یہ طبقہ پیدا نہ ہوگا۔ہم اپنے نصب العین تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگلے روز ناشتے کے وقت جب سیٹھ صاحب گھر سے ہوٹل آئے۔تو وہ لیکچر انہوں نے مجھے واپس کر دیا۔ جب ڈاکٹر صاحب ناشتے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اس لیکچر کے متعلق ان سے چند استفسار کیے۔ جن کا جواب علامہ نے اسی وقت دے دیا۔ جس سے ان کی تشفی ہو گئی۔اس کے بعد جب وہ چلے گئے تو علامہ نے ہم سے فرمایا کہ اس شخص نے لیکچر کو پڑھ کر بعض ایسے استفسارات کیے ہیں۔جن کا مجھے وہم وگمان بھی نہ تھا۔ علامہ دیر تک ان کے بلند پایہ فہم اور عقل کی تعریف کرتے رہے۔کہ کس طرح اتنے گہرے فلسفیانہ مسائل کو انہوں نے سمجھ لیا ہے۔ دوسرے روز اسی گوکھلے ہال میں علامہ کا دوسرا لیکچر ہوا۔ آج بھی کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ا ور انہوں نے نہایت انہماک سے لیکچر سنا۔ اس لیکچر کا خلاصہ بھی اخبارات کو بھیج دیا گیا۔ جو اگلے روز شائع ہو گیا تھا۔ بلکہ تامل نیڈو زبان کے اخبارات میں بھی علامہ کے ان لیکچروں کے خلاصے شائع ہوئے تھے۔ جو نہایت عمدگی سے ترجمہ کیے گئے تھے۔ تیسرے روز علامہ نے اپنا تیسرا خطبہ بھی اسی ہال میں پڑھا۔ تاہم سامعین نسبتاکم تھے۔ کیونکہ ان لوگوں کو وہاں کے اخبارات میں لیکچروں کے خلاصے میسر آجاتے تھے۔ اخبارات میں علامہ کے بعض نہایت عمدہ فوتو بھی طبع ہوئے تھے۔ بمبئی کے اخبار ویکلی ’’ٹائمز ‘‘ کا فوٹو گرافر خاص طور پر بمبئی سے مدراس آیا تھا۔مدراس کے انگریزی روز نامہ ’’ہندو‘‘ میں علامہ کے تینوں لیکچروں پر تبصرپ بھی کیا گیا تھا۔ ۱۲ جنوری ۱۹۲۹ء کو بمبئی کے اخبار ’’ٹائمز ویکلی‘‘ میں علامہ کا ایک گروپ فوٹو طبع ہوا تھا،جو مدراس سے بوسٹو ہوٹل میں لیا گیا تھا۔ یہ تو مختصر حال علامہ کے لیکچروں کا تھا،جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں علامہ کے مدراس پہنچنے پر متعدد اداروں نے اور خود علامہ کے میز بان سیٹھ جمال محمد کے حلقہ احباب نے علامہ کی ضیافتوں کے کئی پروگرام بنائے تھے۔ جن میں شرکت کے بعد مشکل سے چند منٹ کی فرصت ملتی تھی۔ان معاملات کے انچارج سیٹھ حمید حسن صاحب تھے، جنہوں نے نہایت فراخ دلی سے ان تمام دعوتوں کو جو مختلف افراد اور انجمنوں نے دی تھیں۔ قبول کر لیا تھا۔ اور طے پایا تھا کہ تمام پروگرام کی پابندی سختی سے کی جائے۔علامہ کو بھی اخلاقی طور پر جانا پڑتا تھا۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ اسے ہماری بد اخلاقی نہ سمجھیں۔ اور انہیں کوئی شکایت پیدا نہ ہوجائے۔ چنانچہ تمام دعوتوں کو قبول کرنا پڑا۔ مدراس ہی میں وہاں کے روز نامہ ’’سوراجیہ‘‘ کے نمائندے نے علامہ سے ایک ملاقات کی۔ جس میں ترکی کے حال اور مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ علامہ کا یہ بیان مدراس کے اس اخبار میں ۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو شائع ہوا تھا۔ علامہ کا یہ بیان نہایت دلچسپ ہے۔جس کا خلاصہ مختصرا درج ذیل ہے۔ ’’ ہماری درس گاہوں میں مذہبی تعلیم بھی ضروری ہے۔ ایسے سوراج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو مذہب سے بے نیاز ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ روحانی اور مادی امور کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو سب سے اول ایشیا میں ترکوں کو اس مسئلے سے واسطہ پڑا تھا۔ اگر چہ وہ روحانیت اور مادیت کے مطوبہ اجتماع کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے مگر انہوں نے اس ضمن میں کوشش کی، میرا پختہ عقیدہ ہے کہ باشندگان ہند اس کار عظیم کو انجام دینے کے یقینا اہل ثابت ہوں گے۔کیونکہ ان کے پاس مذہبی روایات موجود ہیں۔ روحانیت اور مادیت کو یک جا کرنے میں ترکوں کی ناکامی کی زبر دست وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یورپ کی نقالی شروع کر دی تھی۔اور اسلامی روایات کو ترک کر دیا تھا۔حالانکہ وہ لوگ بھی عام طور پر مذہب کے دلدادہ تھے۔ اس لحاظ سے ترکی کے مسلمان اور ہندوستان کے مسلمانوں میںکوئی فرق نہیں ہے۔ اس زمانے میں وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو زمانہ حاضرہ میں انسان کے معاملات کو بنانے اور بگاڑنے والی قوتوں سے با خبر ہوں گے‘‘۔ علامہ کی خدمت میں مدراس کی ’’انجمن ترقی اردو‘‘ اور ’’ہندی پرچار سبھا‘‘ کی طرف سے بھی ایڈریس پیش کیے گئے تھے۔ جن کی نقول مدراس اور بنگلور کے اخبارات میں بھی طبع ہو گئی تھیں۔ ان کے جو جوابات علامہ نے دیئے تھے۔ وہ بھی طبع ہو گئے تھے۔مدراس کے اخبار ’’جسٹس‘‘ میں آپ کے جوابات اور ایڈریسوں کے تراجم دونوں چھپے تھے۔ سیٹھ حمید حسن نے مسلم خواتین مدراس کی طرف سے بھی ایک دعوت قبول کی تھی۔ پروگرام یہ تھا کہ وہ علامہ کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کریں گی۔اس جلسے کی روح رواں مسز عبد السلام تھیں۔ جو وہاں کے پوسٹ ماسٹر کی اہلیہ تھیں۔ یہ صاحب جالندھر کے باشندہ تھے۔اور سارا انتظام بھی ان ہی کی طرف سے جالندھر میں ہوا تھا۔اور ان کے مکان پر ہوا تھا۔ چنانچہ علامہ کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا۔ جس میں آپ کی علمی، وادبی اور دینی وسماجی خدمات کو سراہا گیا تھا۔ ہم دونوں رفیق سفر آپ کے ہمراہ تھے۔تمام مستورات پردے میں تھیں ۔اور ہم مع علامہ کے پردے کے باہر بیٹھے تھے۔ آپ نے ایڈریس کے جواب میں جو تقریر فرمائی تھی۔اسے ہم نے احتیاط سے لکھ لیا تھا۔اور پھر وہ روز نامہ ’’انقلاب‘‘ کو اشاعت کے لئے ارسال کر دی گئی تھی۔ یہی تقریر ۱۹ جنوری ۱۹۲۹ء کو اخبار ’’انقلاب‘‘ سے لے کر ’’ گفتار اقبال‘‘ کے صٖحہ ۷۸ سے لے کر صفحہ ۸۵ پر بھی طبع ہو چکی تھی۔ اسی سپاس نامے کا متن بھی جو مستورات نے پیش کیا تھا۔ ’’انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار میں طبع ہو چکا ہے۔ (صفحات ۲۳۳ سے ۲۳۶ تک)۔ مدراس میں مستورات کی طرف سے ایڈریس پیش ہونا اس زمانے کے اعتبار سے واقعی ایک کار نامہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہا یڈریس کے بعد مستورات میں سے کسی عورت نے علامہ سے پردے کے متعلق بھی سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب دیا تھا کہ ’’غص البصر‘‘ یعنی چشم پوشی سے کام لینا چاہیئے۔اور یہ امر مرد عورت دونوں کے لئے ہے۔ پھر عورتوں نے تقاضا کیا کہ آپ اپنی کوئی نظم سنائیں۔ آپ نے جواب دیا مجھے تو اپنا کلام اچھی طرح یاد بھی نہیں ہے۔اور نہ ہی میرے ہمراہ کوئی کتاب ہے۔ مگر جب اندر سے ’’بانگ درا‘‘ کے کئی نسخے باہر پہنچائے گئے تو علامہ بھی سنانے پر مجبور ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے بانگ درا میں سے ’’فاطمہ بنت عبد اللہ‘‘ تحت اللفظ پڑھ کر سنائی۔غرض کہ یہ مجلس بہت کامیاب رہی اور آج تک یاد گار ہے۔ اسی شام ساحل مدراس دیکھنے کا پروگرام تھا۔ یہ واقعی ایک دلفریب نظارہ تھا۔کیونکہ مدراس کا ساحل سمندر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہم نے یہاں علامہ کے ساتھ ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے بھی دیکھا۔ اس کے بعد ہم سمندر کے ساحل پر ہی مچھلیوں کا ایک عجائب گھر دیکھنے گئے۔ جس میں طرح طرح کی اور عجیب وغریب شکل و صورت کی مچھلیاں شیشے کے بکسوں میں رکھی گئی تھیں۔ علامہ نے فرمایا کہ یہ سب مخلوق اپنے خالق حقیقی کے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔ان میں سے ایک بکس میں بحری سانپ بھی تھے۔ کہ یہ عام سانپوں سے کئی ہزار گنا زہریلے ہیں۔ قیام مدراس کے دوران ہم علامہ کے ہمراہ مدراس کے علاقے ’’اڈیار‘‘ بھی گئے ۔جہاں فرقہ ’’تھیسو فسٹ‘‘ کے لوگ رہتے تھے۔ ان کی صدر رانی بیسنٹ تھی۔ یہ علاقہ خاصا وسیع ہے۔ اور یہاں کا عظیم الشان بڑ کا درخت دیکھنے کے قابل ہے۔ جو ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔وہاںکسی نے یہ بھی بیان کیا کہ کلکتے کے علاقے ہور میں بڑ کا جو درخت ہے۔ وہ اس سے بھی بڑا ہے۔ میں نے ۱۹۳۵ء میں اسے خود دیکھا ہے۔ ہم مدراس میں ۴جنوری ۱۹۲۹ع کی صبح آئے تھے۔اور ۸ جنوری ۱۹۲۹ء تک ٹھہرے تھے۔ان پانچ دنوں میں ہر روز رات کاکھانا باہر ہوتا تھا۔ ۷ جنوری کی رات کو مدراس ایسوسی ایشین کی طرف سے الوداعی دعوت تھی۔جس میں مدراس کے اکثرمسلمان روساء شامل تھے۔اس دعوت میں علامہ کے سفر مدراس پر لوگوں نے تبصرہ کیا۔ اور اکثر حضرات نے بہت مفید باتیں الوداعی پیغام کے کہیں۔ چنانچہ یہ بھی کہا گیا کہ علامہ کے مدراس تشریف لانے سے مسلمانوں میں اسلامی تعلیم کے لئے ایک تازہ ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ خاص طور پر سیٹھ عبد الحمید حسن اور خود سیٹھ جمال محمد کی مختصر تقاریر بہت ہی پر معنی تھی۔جیسا کہ اکثر ہوتا تھا،اس دعوت میں بھی اپنی ظرافت آمیز گفتگو سے علامہ نے محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ مسلمانان مدراس کے خاص کھانے بھی اس دعوت میں موجود تھے۔ الوداعی تقریب سے پیشتر چائے کی دو دعوتیں بھی قابل ذکر ہیں۔ایک تو ندرسہ جمالیہ کی طرف سے ہوئی اور دوسری گورنمنٹ کالج مدراس کے طلبہ کی طرف سے ان کے ہوسٹل میں۔ان کے انتظام میں افضل العلماء ڈاکٹر مولانا عبد الحق صاحب نے بطور خاص حصہ لیا تھا۔کالج کے انگریز پرنسپل مسٹر کلارک نے بھی اس میںشرکت کی تھی۔ قیام مدراس کے زمانے میں جہاں بھی ڈاکٹر صاحب کو مدعو کیا گیا،میز بانوں نے کما حقہ ان کی توقیر اور عزت افزائی کی۔کیونکہ آپ وہاں مفکر اسلام کی حیثیت سے تشریف لے گئے تھے۔آپ نے ہر مجلس میں اور ہر محفل کے اختتام پر بلند پایہ تقاریر کی تھیں۔خاص طور پر آخری دعوت میں جو تقریر آپ نے کی وہ کافی ایمان افروز تھی۔ اس میں مسلمانوں کے علوم وفنون کے انحطاط اور مسلمانوں کی بے عملی کو نہایت درد انگیز پیرائے میں بیان کیا گیا تھا۔آخر میں آپ نے مختصر مگر شاندار الفاظ میں سیٹھ جمال کے ایثار کا ذکر کیا۔ اور فرمایا کہ اس شخص کی ذات یہاں کے لوگوں کے لئے مغتمنات روزگار میں سے ہے۔غرض کہ قیام مدراس کا یہ مختصر سا زمانہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ۸ جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو ہم لوگ بنگلور جانے کی تیاری میں مصروف تھے کہ شام سے قبل سیٹھ جمال محمد بوسٹو ہوٹل میں تشریف لائے اور انہوں نے علامہ کو ایک شاندار اونی دھسہ نذر کیا۔ اور ساتھ ہی اخراجات کے لئے ایک چیک بھی پیش کیا۔ مجھے اور چودھری صاحب کو اعلیٰ قسم کی پشمینے کی چادریں عنایت فرمائیں۔آپ کے اس عمل نے پرانے زمانے کی روایات کو زندہ کر دیا تھا۔سیٹھ صاحب اس وقت اپنی صاحب زادی کو بھی علامہ سے تعارف کے لئے ساتھ لائے تھے۔ آخر میں انہوں نے لیکچروں کے لئے مدراس آنے پر علامہ کا دل سے شکریہ ادا کیا۔ ۸ جنوری ۱۹۲۹ء کی شب کو ہم بوسٹو ہوٹل سے مدراس چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پہنچے تو یہاں الوداع کہنے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا۔ان لوگوں نے نہایت خلوص اور محبت سے ہمیں گاڑی میں سوار کرایا۔ اگلے روز صبح کے وقت ہم بنگلور کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو یہاں بھی علامہ کے استقبال کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔جنہوں نے پھولوں کے بڑے بڑے ہار اٹھا رکھے تھے۔ یہ ہار وہاں خاص طور پر تیار کیے جاتے ہیں ۔اور خاصے قیمتی ہوتے ہیں۔ہر ہار کے ساتھ ایک گلدستہ بھی ہوتا ہے۔ گاڑی رکی تو سب سے پہلے فخر التجار حاجی سیٹھ سر اسمعیل اور حاجی سیٹھ عبد الغفور آگے بڑھے،اور انہوں نے علامہ صاحب کو ہار پہنائے۔ جب علامہ مدراس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تھے تو وہاں بھی حاجی سر اسمعیل موجود تھے۔ کیونکہ سیٹھ جمال محمد نے اس علاقے کے تمام سر بر آوردہ لوگوں اور مسلمانوںکو خاص طور پر علامہ کے استقبال کے لئے بلایا تھا۔ حاجی سر اسمعیل نے مدراس ہی میں علامہ کو بنگلور آنے کی دعوت دی تھی۔ اس مجمع میں بنگلور کے اردو اخبار ’’الکلام‘‘ کے عملے کے لوگ بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب حاجی سر اسمعیل اور سیٹھ عبد الغفور کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر ان کے بنگلے کی طرف روانہ ہوئے تو موٹر خاص طور پر آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ تاکہ دیگر حضرات بھی ساتھ ساتھ پیدل چل سکیں اور آپ کو دیکھ سکیں۔بنگلور ریلوے اسٹیشن کو بطور خاص سجایا گیا تھا۔غرض کہ اس طرح مجمع کے ہمراہ ہم لوگ حاجی سر اسمعیل کی کوٹھی پر پہنچ گئے،جہاں ہماری رہائش کا انتظام تھا۔ حاجی سر اسمعیل علاقہ بنگلور کے بہت بڑے رئیس تھے۔ بنگلور کا زنانہ ہسپتال جسے مقامی لوگ گوشہ ہسپتال کے نام سے پکارتے تھے۔ انھی کا قائم کیا ہوا تھا۔اور بہت مشہور تھا۔ ان کی عمر اس وقت اسی سال کے قریب تھی۔اور کانوں سے ذرا بہرے تھے، انہیں گھڑ دوڑ کا بہت شوق تھا۔چنانچہ ان کی کوٹھی میں ہم نے ایک ایسا کمرہ دیکھا ،جس میں بہت سے انعامات رکھے ہوئے تھے۔ جو ان کے گھوڑوں نے جیتے تھے۔ان کا ایک لڑکااسی زمانے میں لندن سے بیمار ہو کر آیا تھا۔اور وہ بھی وہاں موجود تھا۔ صبح کے ناشتے سے فارغ ہو کر دس بجے کے قریب حضرت علامہ بنگلور کی ’’مسلم لائبریری‘‘ میں تشریف لے گئے۔جہاں ان کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔اس جلسے کے روح رواں مرزا اسمعیل چیف کمشنر میسور تھے۔اور ان ہی کی صدارت میں یہ جلسہ ہوا تھا۔اسی روز شام کو انٹر میڈیٹ کالج بنگلور کی طرف سے علامہ کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد ہوا،جس کا انتظام محکمہ تعلیم میسور کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس جلسے میں بنگلور کے بیشتر تعلیم یافتہ لوگ موجود تھے۔ مذکورہ دونوں تقاریب کے اختتام پرحضرت علامہ نے برجستہ تقاریر بھی کیں۔ جو بہت پسند کی گئی تھیں۔اسی رات بنگلور کے ایک مسلمان رئیس ججمان محمد علی کے ہاں کھانے کی دعوت تھی۔ جس میں ہزار ہا لوگ مدعو تھے۔ کھانا وہاں کے دستور کے مطابق فرش پر بیٹھ کر کھایا گیا۔ جو نہایت پر تکلف تھا۔ججمان محمد علی صاحب وہاں کے سر کردہ مسلمان اور ایک ظریف الطبع انسان تھے۔ علامہ اقبال نے سر اسمعیل کے صاحب زادے سیٹھ محمد سے بھی ان کے کمرے میں ملاقات کی تھی۔کیونکہ وہ بیمار تھے۔ ان کی یورپین بیوی ان کے ہمراہ تھی۔یہ نوجوان نہایت پاکیزہ خیالات کا انسان تھا۔اسی روز ہمیں مطلع کیا گیا کہ کل دوپہر کے وقت مہاراجہ میسور کی خاص موٹر ہمیں لینے کے لئے آئے گی۔چنانچہ ۱۰ جنوری کو گیارہ بجے کے قریب ایک بڑی موٹر ہمیں لینے کے آگئی۔مہاراجہ میسور کی طرف سے سٹیٹ کا ایک بڑا آفیسر بھی ہماری رہنمائی کے لئے ساتھ آیا تھا۔ چنانچہ حاجی سر اسمعیل کے بنگلے پر ہمیں بے شمار لوگوں نے الوداع کہا۔اور ہم حسب پروگرام میسور روانہ ہو گئے۔ میسور کا راستہ بہت پر فضا تھا۔ دریائے کاویری کے پل سے گزر کر جب ہم سڑک کا ایک موڑ مڑنے لگے تو چند اشخا ص نے ہماری موٹر کو روک لیا۔ ان کے ہمراہ ایک بوڑھا سا شخص بھی تھا، جس کی بینائی بہت کمزور تھی۔ان کے پاس ایک میلی سی چائے دانی اور چند معمولی سے پیالے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہایت عقیدت سے علامہ سے ملاقات کی اور چائے پیش کی۔ بوڑھے شخص نے علامہ سے کہا کہ میں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں آپ کی نظم نالہ یتیم سنی تھی۔ آج اتنے برسوں بعد بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آج آپ سے ملاقات کر رہا ہوں۔ ہم لوگ ایک دور افتادہ گاؤں میں رہتے ہیں اور آپ سے ملاقات کے لئے صبح سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ جب ہم لوگ قلعہ سرنگا پٹم کے قریب سے گزرے تو سلطان ٹیپو اور سلطان حیدر علی کا مقبرہ دور سے نظر آیا۔ باغ کے باہر مقبرے کے دروازے پر ہر وقت نوبت بجتی رہتی ہے۔یہیں سلطان حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے مرشد کا مزار بھی ہے۔ جو نہایت پر عظمت مقام بھی ہے۔ ہمارا پروگرام چونکہ تفصیلات کے ساتھ ان مزاروں کو دیکھنے کا تھا۔اس لئے یہاں رکے بغیر چار بجے میسور پہنچ گئے۔چونکہ میسور کے راجا سے ملنے کا یہی وقت طے ہوا تھا۔موٹر ہمیں سیدھی گورنمنٹ ہاؤس لے گئی۔ یہ عجیب پر فضا مقام تھا۔ اور پانی اور بجلی کا انتظام قابل دید تھا۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہندوستان بھر میں ایسے پر فضا اور صاف ستھرے مقام بہت کم ہو ں گے۔ نہ صرف قدرت ہی اس مقام پر مہربان تھی۔ بلکہ انسانی حسن انتظام بھی قابل داد تھا۔ علامہ کی ملاقات مہاراجہ میسور سے ہوئی تو کوئی زیادہ تکلف نہ برتا گیا۔ اور نہ زیادہ دیر لگی ۔وہ فورا ہی گیسٹ ہاؤس سے تیار ہو کر گئے۔اور تھوڑی سی دیر کے بعد واپس آگئے۔ اسی شام میسور یونیورسٹی نے علامہ کے لیکچر کا انتظام کیا ہوا تھا۔چنانچہ چھ بجے کے قریب میسور یونیورسٹی کے ہال میں وائس چانسلر مسٹر چاندی کی زیر صدارت یہ جلسہ ہوا۔ جس میں یونیورسٹی کے عام پروفیسروں کے علاوہ حکومت میسور کے اکثر برہمن شرفاء وفضلاء بھی شریک ہوئے۔تمام ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔علامہ کا تعارف مسٹر چاندی نے کرایا جو پنجاب یونیورسٹی کے مسٹر مٹھانی کے خسر تھے۔ اور علامہ کو پہلے سے جانتے تھے۔ غرض کہ علامہ نے مدراس کا خطبہ اول یہاں بھی پڑھا۔اور یہ جلسہ نہایت عمدگی سے اختتام پذیر ہوا۔ اگلے روز صبح نو بجے کے قریب ریاست میسور کی طرف سے سلطان ٹیپو ک اقلعہ سرنگا پٹم اور سلطان کا مزار دیکھنے کا پروگرام تھا۔پھر اسی روز شام کو مسلمانان میسور نے ایک ایڈریس بھی پیش کرنا تھا۔ چنانچہ ۱۱ جنوری ۱۹۲۹ء کو بروز جمعہ قریبا نو بجے ہم لوگ موٹر میں سوار ہو گئے۔ ہمارے ساتھ ایک ا ور موٹر بھی تھی۔ جس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ ریاست میسور کے ایک بہت بڑے ماہر موسیقی علی جان بھی سوار تھے۔جو مہاراجہ میسور کی طرف سے خاص طور پر علامہ کی مصباحت کے لئے بھیجے گئے تھے۔ جیسا کہ ا وپر بیان ہو چکا ہے۔ٹیپو سلطان کے مقبرے کے باغ کے دروازے پر ریاست کی طرف سے ہر وقت نوبت بجتی رہتی ہے۔یہ روضہ سیاہ سنگ مرمر سے تعمیر شدہ ہے۔ جسے عرف عام میں سنگ موسیٰ کہتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کا مدراس کے لیکچروں کی دعوت قبول کرنے کا سب سے بڑا مقصد دراصل سلطان ؁یپو کے مقبرے کی زیارت کرنا تھا۔ علامہ نے مقبرے کے اندر داخل ہو کر اولا قرآن مجید کی وہ آیت پڑھی جو شہدا کے ضمن میں آتی ہے۔؟ یعنی وہ جو اللہ کے راستے میں کام آگئے ہیں۔ان کو مردہ مت کہو ،وہ زندہ ہیں،مگر لوگوں کو شعور نہیں ہے۔ اس مزار میں انسان پر ایک عجیب دہشت طاری ہو جاتی ہے۔گنبد کے نیچے تین قبریں ہیں۔درمیان میں سلطان حیدر علی کی قبر ہے۔ دائیں طرف ٹیپو سلطان شہید کی اور بائیں جانب ان کے والد کی۔ٹیپو سلطان کی قبر پر سرخ رنگ کا کپڑا پڑا رہتا ہے۔ جو دراصل شہادت کی علامت ہے۔ علامہ نے جس عقیدت ،خلوص اور رقت سے فاتحہ خوانی کی۔اس کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔مقبرے کے اندر چاروں طرف اور دیواروں پر بہت سے فارسی اشعار صاحبان مقبرہ کی شان میں اور شہدا کے ضمن میں لکھے ہوئے ہیں۔روضے میں والدہ سلطان ٹیپو کی قبر سنہری ہے۔ سلطان نے خود اپنے والدین کو یہاں دفن کیا تھا۔اور یہ مقبرہ تعمیر کرایا تھا۔(سلطان شہید کے مزار پر حاضری کی مزید تفصیلات اگلے مضمون ’’شمشیر گم شد‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے۔) مقبرے کے قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ فاتحہ خوانی کے بعد ہم سب لوگ مسجد کے صحن میں جا کر بیٹھ گئے۔ اور علی جان صاحب نے ایسے سوز کے ساتھ نظمیں سنائیں کہ علامہ کے آنسو جاری ہو گئے۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی خالی ازا دلچسپی نہ ہوگا کہ پروفیسر حافظ محمود شیرانی مرحوم نے لندن میں اپنے قیام کے دوران ایک عجائب گھر میں ایک تلوار دیکھی تھی۔ جس پر خون جما ہوا تھا۔انہوں نے اسے سلطان ٹیپو کی تلوار سمجھ کر ایک طویل نظم بعنوان ’’تلوار سلطان ٹیپو شہید‘‘ لکھی تھی ،جو رسالہ ’’مخزن‘‘ لاہور میں (۱۹۰۴ع) میں طبع ہوئی تھی۔ بعد میں وہ نظم حکومت برطانیہ نے ضبط کر لی تھی۔ اس کے بعد ایک بجے کے قریب ہم دولت باغ آگئے ۔جہاں ریاست میسور کی طرف سے کھانے کا انتظام تھا۔ دولت باغ مین ابھی تک بہت سے درخت سلطان ٹیپو کے زمانے کے موجود ہیں۔لوگ ان کی طرف اشارہ کرکے عہد سلطان کے واقعات سناتے ہیں۔کہتے ہیں ،سلطان کو اس عمارت اوراس باغ سے خاص لگاؤ تھا۔ اس باغ کے ایک طرف دریائے کاویری بہتا ہے۔ اور بہت پر فضا منظر ہے۔ کھانے کے بعد باغ سے نکل کر ہم لوگ قلعہ سرنگا پٹم میں آگئے۔یہاں وہ مندر ابھی تک موجود ہے۔ جسے سلطان حیدر علی نے مرمت کرکے غیر مسلموں کے حوالے کردیا تھا۔ قلعے میں ’’مسجد اعلیٰ‘‘ کے نام سے ایک مسجدسلطان کے زمانے کی ابھی تک موجود ہے۔ اس مسجد کے امام نے جو ایک بوڑھا سا آدمی ہے۔ اوراس کا دادا بھی ٹیپو سلطان کے زمانے میں اس مسجد کا امام تھا۔ اپنے والد کی روایت سے کیا ہے کہ سلطان شہید عام طور پر مسجد کی عقبی دیوار کی کھڑکی سے مسجد میں نماز کے لئے آتے تھے۔قلعہ سرنگا پٹم کے اندر وہ مقام بھی ہمیں دکھایا گیا۔ جہاں غدار’’میر جعفر‘‘ اپنے انجام کو پہنچا تھا۔ پھر ہم دریائے کاویری پر وہ بند دیکھنے گئے جو سلطان ٹیپو نے ریاست میسور کی زرعی ضروریات کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کی غرض سے تعمیر کرایا تھا۔ مہاراجہ میسور نے وہاں سلطان کے زمانے کا فارسی زبان کا وہ کتبہ بھی نصب کر دیا تھا۔ جو وہاں سے کھدائی کے دوران بر آمد ہوا تھا۔ بند (ڈیم) کے ساتھ ہی ایک باغ بھی بطور سیر گاہ کے بنا دیا گیا ہے۔ جس میں برقی فوارے عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ ہم لوگ مقررہ وقت سے پہلے ہی مہان خانے واپس آگئے۔ کیونکہ اسی روز مسلمانان میسور کی طرف سے ٹاؤن ہال میں علامہ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنا تھا۔ چانچہ یہ جلسہ مولانا غلام احمد کلامی صاحب کی صدارت میں تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوا۔اس کے بعد غلام محمد عرف علی جان نے اپنے تمام سازندوں کے ساتھ علامہ کی دو تین نظمیں نہایت رقت آمیز سروں میں سنائیں۔میں نے اس سے پیشتر علامہ کے اعزاز میں ایسا شاندار جلسہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سماں آج تک آنکھوں کے سامنے ہے۔ آخر میں سیٹھ محمد ابا (عباس) نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اور علامہ نے اس کا جواب دیا۔ (سپاس نامہ اور علامہ کے جواب سمیت بنگلور کے اردو روز نامے) ’’الکلام‘‘ میں بھی طبع ہو گئی تھی۔ علامہ کی یہ تقریر بہت اہم تھی۔ میسور یونیورسٹی کے ایک ہندو پروفیسر نے علامہ کی تقریر کے بعد انگریزی میں آپ کے لیکچروں کی داد دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس موضوع پر آج تک کسی نے اس قدر محققانہ نظر نہیں ڈالی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب کو مسلمان ہزار اپنا کہیں،مگر وہ سب کے ہیں۔ کسی ایک مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں ہیں۔ اگر مسلمانوں کو یہ ناز ہے کہ ا قبال ان کا ہم مذہب ہے۔ تو ہم ہندوستانیوں کے لئے بھی یہ فخر کچھ کم نہیں کہ اقبال ایک ہندوستانی ہے۔ متذکرہ جلسے کے منتظم اور روح رواں میسور کے مشہور تاجر سیٹھ محمد ابا (عباس) تھے۔جنہوں نے یہ جلسہ منعقد کرایا تھا۔ اور خود ہی سپاس نامہ بھی پڑھا تھا۔ اگلے روز میسور کے بعض پرانے محلات علامہ کو دکھائے گئے۔ایک جگہ ٹیپو سلطان کی یاد میں ہم نے ایک مصنوعی شہر بھی دیکھا۔میسور کا بجلی گھر بھی علامہ کو دکھایا گیا۔ جس کا منتظم ایک باشندہ گرگ تھا۔ علامہ نے اس سے گفتگو بھی کی تھی۔ ایک مقام پر ایک پرانا مزار بھی ہم نے بجلی کی ٹرالی میں سفر کرکے دیکھا۔ جہاں ان لوگوں کے مطابق ٹیپو سلطان اکثر آتے تھے۔ پھر ہم نے میسور کا چڑیا گھر بھی دیکھا۔ جس میں شیر بالکل آزاد پھرتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ درمیان میں ایک خندق حائل ہے۔ جو بالکل نظر نہیں آتی تھی۔ علامہ نے میسور کے اہل علم حضرات میں ایک خاص مقام پیدا کر لیا تھا۔ ان کے پرستاروں نے ان کے متعدد فوٹو بھی اتارے تھے۔ علامہ نے میسور یونیورسٹی میں ’’نفسیات علمی‘‘ کا شعبہ بھی اس شعبے کے مہتمم کے ہمراہ دیکھا تھا۔جس نے چند دلچسپ تجربات بھی دکھائے تھے۔ ان تقریبات اور تفریحات کے بعد ہمارا میسور کا سفر ختم ہو گیا۔ ۱۲ جنوری ۱۹۶۹ع کو دوپہر کے وقت ہم کھانا کھا کر موٹر میں بیٹھ کر بنگلور کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں دو تین مقامات پر گاؤں کے باشندے پھولوں کے ہار لئے کھڑے تھے۔جنہیں دیکھ کر علامہ نے بار بار موٹر رکوائی۔پھر جب ہم سلطان ٹیپو کے مقبرے کے قریب پہنچے تو علامہ نے ایک بار پھر موٹر سے اتر کر سلطان کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔بلاخر پانچ بجے کے قریب ہم بنگلور حاجی سر اسمعیل کے مکان پر پہنچ گئے۔ واپسی پر چائے کی دعوت امین الملک سر اسمعیل کے ہاں تھی۔ اور یہ پروگرام پہلے ہی سے طے پا چکا تھا۔چنانچہ ہم سیدھے دعوت میں پہنچے۔دعوت میں پروفیسر شوستری اور ان کے گھر کے لوگ بھی موجود تھے۔اور یہاں کا تمام ماحول ایرانی تھا۔ دعوت سے فارغ ہوکر بنگلور کے بازار سے ہوتے ہوئے ہم لوگ حاجی سر اسمعیل کے مکان پر پہنچے اور وہاں آرام کیا۔ اور پھرواپسی کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ اگلے روز ۱۳ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے کی ریل میں سوار ہو کر ہم عازم حیدر آباد دکن ہوئے۔اور دوسرے روز ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء کو حیدر آباد دکن کی حدود میں پہنچ گئے۔ حضرت علامہ کو عثمانیہ یونیورسٹی کی طرف سے لیکچروں کی دعوت آ چکی تھی۔ جسے آپ نے قبول فر مالیا تھا۔سکندر آباد کے ریلوے اسٹیشن پر ہم گاڑی سے اترے تو دیکھا کہ پلیٹ فارم پر مسلمان بچے قطاروں میں کھڑے علامہ کا کلام ’’چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا‘‘ ترنم سے پڑھ رہے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار انصاری صاحب ،سر اکبر حیدر آبادی، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، مولانا عبد اللہ عمادی، سید ابراہیم ٹونکی، ڈاکٹر مظفر الدین قریشی اور عثمانیہ یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ وہاں موجود تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے سر اکبر حیدری نے آگے بڑھ کر علامہ کو پھولوں کے ہار پہنائے۔اس کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی مصافحہ کیا۔اور ہم ریلوے اسٹیشن سے باہر آکر موٹر میں بیٹھ گئے اور سرکاری مہمان خانے ولادا وسٹا (Vilada Vista) پہنچ گئے۔ جہاں حضرت علامہ کے ٹھہرنے کا بندوبست تھا۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہاں بھی مدراس اور بنگلور کی طرح سارا پروگرام مرتب ہو چکا ہے۔ اس پروگرام میں علاوہ خطابات کے صدر المہام حیدر آباد دکن سر کشن پرشاد سے ملاقات بھی شامل تھی۔سب سے پہلے باغ عامہ کے ہال میں علامہ کا ایک لیکچر ہوا۔ جس کی صدارت مہاراجہ کشن پرشاد نے خود کی تھی۔علامہ نے یہاں مدراس کے لیکچروں کا اعادہ کیا تھا۔ دوسرے روز مہاراجہ کشن پرشاد کے ہاں ایک رسمی دعوت تھی۔ جس میں تمام مدعویں نے ریاست کے سرکاری لباس میں شرکت کی تھی۔ اس لئے ہم دونوں اس دعوت میں علامہ کے ہمراہ نہیں گئے تھے۔اگر چہ علامہ نے اعلان کر دیا تھا۔ کہ وہ اس دعوت میں کوئی نظم یاشعر نہیں پڑھیں گے۔ مگر وہاں کے ماحول کو دیکھ کر آپ نے بھی محفل شعر وسخن میں حصہ لیا۔ اور کچھ اشعار پڑھے۔ علامہ ابھی تک سر کشن پرشاد کی دعوت میں تھے کہ مہمان خانے میں رات نو بجے سرامین جنگ کا خط آیا۔ جس میں لکھا تھا کہ اعلیٰ حضرت نظام دکن نے ۱۸ جنوری کو ۱۱ بجے صبح علامہ سے ملاقات کا وقت مقرر فرمایا ہے۔ جب حضرت علامہ دعوت سے واپس آئے تو ہم نے انہیں حضور نظام کے فیصلے سے آگاہ کیا۔اور یہ بھی بتا یا کہ وہ مشکل سے ہی ۱۹ جنوری کو روانہ ہو سکیں گے۔ قیام حیدر آباد کے دوران میں ایک دوپہر کو سر اکبر حیدر آبادی کے ہاں دعوت تھی۔جس میں ہم دونوں نیاز مندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس دعوت میں زیادہ تر محکمہ تعلیم کے لوگ یا پروفیسر حضرات مدعو تھے۔ہم نے ایک دن گولکنڈہ کی سیر بھی کی تھی، مگر علامہ نے اس میں شرکت نہیں فرمائی تھی۔ کیونکہ مہمان خانہ ولاڈا وسٹا میں ہر وقت مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا۔ علامہ نے میر عثمان علی خان والی دکن سے مقررہ تاریخ کو تفصیلی ملاقات کی تھی۔جس میں آپ نے بہت سے امور پر گفتگو فرمائی تھی۔ بالاخر ۱۹ جنوری ۱۹۲۹ء کو علامہ لاہور تشریف لے گئے۔مگر میں اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے علامہ کے ہمراہ واپس نہ جا سکا۔ جب علامہ کے خطبات مدراس کا بہت چرچا ہوا تو کار پردازان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور خاص طور پر شعبہ فلسفہ کے سر براہ ڈاکٹر سید ظفر حسن نے خواہش کی ۔کہ وہی لیکچر آپ مسلم یونیورسٹی میں بھی پڑھ دیں۔اس زمانے میں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر راس مسعود تھے۔چنانچہ آپ نومبر ۱۹۲۹ء کو علی گڑھ تشریف لے گئے۔ تو راقم بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ہم لاہور سے بذریعہ فرنٹئیر میل پہلے دہلی گئے۔ اور وہاں سے دوسری گاڑی میں سوار ہو کر علی گڑھ پہنچے۔ڈاکٹر سر راس مسعود کسی ضروری کام سے بھوپال گئے ہوئے تھے۔ تاہم ریلوے اسٹیشن پر تمام یونیورسٹی نے آپ کا استقبال کیا۔ اور ہم سید ظفر حسن کے ہاں مقیم ہوئے۔ دوسرے روز ڈاکٹر سر راس مسعود بھی تشریف لے آئے۔اور پروگرام مرتب ہوا۔ چنانچہ علامہ نے یونیورسٹی کے سٹریجی ہال میں اپنے خطبے پڑھے۔ پھر آپ نے کالج کی سوساٹیوں کے جلسوں میں بھی شرکت فرمائی۔یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین نے بطور خاص ایک مجلس قائم کی، اور علامہ کو اس کا لائف ممبر بنایا گیا۔ ان دنوں وائس چانسلر ایک انگریز بگسن بوتھم تھے۔انہوں نے بھی اس پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس موقع پر علامہ نے ایک تقریر بھی کی تھی۔ جو ’’انقلاب‘‘ کے ۱۰ دسمبر ۱۹۲۹ء کے شمارے میں شائع ہو چکی تھی۔ ہم لوگ وہاں تین دن رہے تھے۔ اس دوران میں علامہ نے صاحبزادہ خان آفتاب کی عیادت بھی کی تھی۔ جو اس زمانے میں بیمار تھے۔ ایک تقریب علی گڑھ مسلم ہائی سکول میں ہوئی تھی۔جس کے ہیڈ ماسٹر سر شبیر حسین زیدی تھے۔اس موقع پر کئی عمدہ نظمیں بھی پڑھی گئی تھیں۔ بشیر ہاشمی اور ڈاکٹر غلام محمد بٹ نے اس تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ صاحب سیالکوٹ کے باشندہ تھے۔ ان تمام مصروفیات کے دوران میں علامہ برابر ان لیکچروں پر تحقیق کرتے رہے۔ بالاخر سیٹھ جمال محمد کی درخواست پر ان کو بصورت کتاب چھاپنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔چنانچہ آپ نے لاہور آکر ان کی طباعت کا انتظام کیا۔ اورا س طرح یہ کتاب اسی سال(۱۹۲۹ئ) کے آخر میں چھ لیکچروں پر مشتمل چھپ گئی۔ اور اس کا نام The Reconstruction of Religious Thought of Islam رکھا گیا۔ یہ ایڈیشن لاہور میں عطر چند کے ادارے کی جانب سے ۱۹۲۹ء میں طبع ہوا تھا۔اس کے بعد یہ خطبات لندن میں بھی شائع ہوئے۔ ۱۹۳۲ء کے آخر میں جب علامہ تیسری راونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن تشریف لے گئے تو وہاں کی مجلس ’’ارسطو‘‘ کی درخواست پر آپ نے ایک لیکچر بعنوان ’’کیا مذہب ممکن ہے؟۔‘‘ پڑھا تھا۔ چنانچہ اس لیکچر کو بھی آپ نے بعد میں اس مجموعے میں شامل کر لیا۔ اور آج آپ کے لیکچروں کی یہ کتاب سات خطبات پر مشتمل ہے۔ اس علمی کار نامے کا آغاز دراصل ۱۹۲۴ء سے ہوا۔ اور ۱۹۲۹ء میں یہ اختتام کو پہنچا۔ ٭٭٭ شمشیر گم شد (مزار ٹیپو سلطان شہید کی زیارت علامہ اقبال کی معیت میں) اسلام نے اپنے مجاہدین اور شہدا کو جو انجام پیش کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کی اس آیت سے عیاں ہے۔ ’’ ولاتقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا بل احیا ء ولا کن لا یشعرون۔‘‘ تاریخ اسلام ایسے خوں چکاں واقعات و حوادث سے معمور ہے۔ جو اہل عالم کے لئے سبق اور عبرت کی حیثیت رکھتے ہیں۔دنیا کی کوئی قوم اپنی تاریخ میں ایسے مہتمم بالشان واقعات کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تاریخ اسلام کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا،جس میں سرفروشان اسلام نے ناموس ملت پر اپنے آپ کو قربان نہ کر دیا ہو۔ ’’شمشیر گم شد‘‘ کا یہ عنوان اسلام کیاسی قسم کے ایک سرفروش کے لئے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس نے کہا تھا کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال سے بہتر ہے۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اسلام کی خاطرقربان ہو گیا تھا۔اسلام کے اس مجاہد کا نام ٹیپو سلطان ہے۔ جس نے سرنگا پٹم کے قلعے میں انگریزوں کی جابرانہ قوت سے ٹکر لی اور جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہوا اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔اور یوں اسلام کی یہ تلوار جو دشمنان اسلام کی سرکوبی کے لئے بے نیام ہوئی تھی۔ہمیشہ کے لئے اندھیروں میں کھوگئی۔راقم نے اسلام کے اس مجاہد فرزند کی آخری آرام گاہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔اور خوش بختی یہ ہے کہ مفکر اسلام شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی رفاقت کی سعادت بھی حاصل تھی۔ کسی مرد حق نے اس شہید حق وصداقت کی تاریخ شہادت (۱۲۱۳ھجری۔۱۷۹۹ع) مندرجہ ذیل اشعار سے نکالی ہے۔ جوشہید کے مزار کے باہر ایک کتبے پر کندہ ہیں :۔ آسماں رو خون کے آنسو اس جہاں آباد پر عجائبات میں یاں کے نہ دل کو الجھانا دکن میں آکے سرنگا پٹم چلے جانا کہ جس خاک میں سوتا ہے شیر ہندوستان زمانہ بھول گیا ہائے جس کے سب احسان ۹ رجب المرجب ۱۳۴۷ ھجری مطابق ۱۱ جنوری ۱۹۲۹ء بروز جمعتہ المبارک دوپہر کے وقت ہم سب شریک سفر جزیرہ سرنگا پٹم کے جنوب مشرقی قریے گنجام میں لال باغ کی مشرقی روش سے اس شہید کے مزار کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی ہم باغ میں تھے کہ شمالی دروازے سے نوبت کی آواز آئی۔ جس کی روایت شہید کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ اور غالبا ان کے والد سلطان حیدر کے زمانے میں بھی موجود تھی۔ ۔اس مضمون کے تمام اشعار فاضل مصنف نے جس طرح نقل کیے ہیں۔انہیں اسی طرح شامل کیا جا رہا ہے۔(ادارہ) یہ مقبرہ ٹیپو سلطان شہید نے اپنے والد کی یاد میں تعمیر کرایا تھا۔ جس میں ان کی والدہ بھی دفن ہیں۔مگر قدرت کو یہ منظور تھا کہ اس کے بانی کی آخری آرام گاہ بھی یہی بنے۔ باغ کی روشوں پر ناریل کے درخت دورویہ صف باندھے کھڑے تھے۔ جو خود شہید کے حسن مذاق کی یاد گار تھے۔ یاد رہے کہ سلطان کو باغات لگانے کا اس قدر شوق تھا ۔اور وہ اس سلسلے میں اتنا اچھا ذوق رکھتے تھے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے۔تمام میسور ،سرنگا پٹم اور بنگلور میں درس گاہیں قائم تھیں۔ یہاں ماہرین سے جو باغات لگوائے گئے تھے،ان میں سے بعض ابھی تک موجود ہیں۔ ہمارے رفقاء سفر میں سے ایک صاحب محمد ایاز خاں رئیس میسور نے بیان کیا ہے کہ ان کے باغات میں تقریبا ہر قسم کے میوہ دار درخت تھے۔خود سلطان شہید کا اپنا زاتی باغ اسی سرنگا پٹم میں اب تک موجود ہے۔ سلطان شہید کا مقبرہ جسے حسرت کدہ کہنا چاہیئے۔ ایک بلند چبوترے پر واقع ہے۔ اور اندر سیڑھیوں کے ذریعے راستہ ہے۔: ادب ہے شرط تجھے اس مقام عبرت پر بہا نہ اشک تو اس تاجور کی تربت پر ہم قری بپہنچے تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ا سلام کا یہ شیر ابھی تک جہاد میں مصروف ہے۔ اور یہ جگہ اس نے اپنے وقتی آرام کے لئے منتخب کر رکھی ہے۔اسی قسم کے جذبات لیے پہلے ہم شمالی دروازے کی طرف بڑھے۔ اور السلام علیکم یا اہل القبور کہہ کر دروازے کی پیشانی پر ایک نگاہ ڈالی۔ تو وہاں یہ رباعی نظر پڑی:۔ از آن فاطمہ زوجہ شیر خدا شد سبط نبی سید الشہدا پیدا ایں فاطمہ زاد از علی حیدر ٹیپو سلطان کہ گشت شاہ شہید اس رباعی نے طبیعت پر بڑا گہرا اثر کیا۔ یہ شہید بھی اسی جگر گوشہ رسول جناب فاطمہ زہرا کا ایک لعل تھا۔ جو اپنے جد امجد شہید کربلا کی طرح ناموس اسلام پر فدا ہو گیا تھا۔ جب سے اسلام میں شہادت کی رسم قائم ہوئی ہے۔ہمیشہ اولاد رسول مقبول ہی کو یہ رسم نبھانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ رباعی پڑھ کر ہم سب خاموش ہو گئے۔کسی کو اس دروازے سے اندر داخل ہونے کی جرات نہیں ہو رہی تھی۔اسکے بعد علامہ جنوبی دروازے کی طرف بڑھے تو ہم نے بھی ان کی پیروی کی۔ یہاں پہنچے تو چوکھٹ پر یہ رباعی کندہ تھی:۔ در ملک حجاز از علی حیدر مفتوع شد ھفت قلاع خیبر ایں حیدر دکنی دول کرناتک گشتند مطیع یک خدیو کشور یہ کتبہ سلطان علی حیدر کے متعلق لکھا گیا تھا۔ جس میں ان کی جرات اور بہادری کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ حضرت علامہ نے کچھ دیر ادھر ادھر گرد ونواح پر ایک حسرت بھری نظر ڈالی۔اور پھر مقبرے کے اندر داخل ہو گئے۔ اور پھر ہم بھی علامہ کے پیچھے اسی دروازے سے داخل ہو گئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس مقبرے میں تین قبریں ہیں۔ سلطان شہید کی قبر پر سرخ غلاف تھا۔ جو غالبا ان کی حسرت ناک شہادت کی نشان دہی کے لئے ڈالا گیا تھا۔ زائر کی طبیعت پر اس کو دیکھ کر ایک ناقابل فراموش الم ناک رد عمل ہوتا ہے۔ ہم نے خاموش،مودب اور ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ میں اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جو اس شہید کی آخری آرام گاہ کی قربت سے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔ ہم سب انہی کیفیات کے زیر اثر صحن مزار کے بر آمدے میں چپ چاپ بیٹھ گئے۔میسور کے ایک شاعر اور موسیقار علی جان ہمارے ہمراہ تھے۔ انہوں نے نہایت خوب صورت ترنم کے ساتھ چند اشعار پڑھنے شروع کیے۔ جو اس موقع کی مناسبت سے بہت موزوں تھے۔ ہم سب پر ایسا اثر تھا کہ گویا سرنگا پٹم کے اس شیر کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حضرت علامہ کی آنکھیں پر نم تھیں ،بلکہ اس سے بھی تجاوز کر چکی تھیں۔اور جسم پر لرزے کی کیفیت طاری تھے۔ ہم سب مبہوت اور بے جان تھے۔ یہاں سے ہمت کرکے اٹھے کہ پھر رو ضہ مبارک کی زیارت کی جائے۔اب ہم مغربی دروازے پر پہنچے تو پیشانی پر یہ رباعی جگمگا رہی تھی۔ آں شہید عرب سبط نبیؐ لخت جگر فاطمہؓ وجان علیؓ از فاطمہ وحیدر دکنی ٹیپو سلطان شہیداں شدہ از شوق دلی اس دروازے کی چوکھٹ کے دائیں اور بائیں جانب پتھر پر کچھ اشعار کندہ تھے۔ مندرجہ ذیل اشعار جو دائیں جانب تھے۔ سلطان حیدر علی مرحوم کے متعلق ہیں : بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم اللہ، محمد ،ابوبکر،عثمان علی زہے گنبد و۔۔۔۔۔شکوہ بنا فلک زیر دستش بود در عدو تو خواھی مہ وخواہ خورشید خواں فلک داغ گردید از رشک او بود شمع اش نور چشم فلک قمر یافتہ طلوع تعلیم او کذا تراوش کناں طیر رحمت (؟) ز خاک کروبیان گرد او (؟) کہ گہ کسب فیض وشرف(؟) گزشتم ازیں خواب گاہ نکو چوں آں مضجع تازہ آمد بچشم نمودم چوں اوبیاں جستجو کہ آں شاہ آسودہ را چیست نام چہ تاریخ رحلت نمود است او یکی از میاں گفت تاریخ ونام کہ حیدر علی خان بہادر بگو بائیں طرف کے یہ ا شعار سلطان ٹیپو شہید کے متعلق ہیں :۔ بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم رب ارحم السلطان الکریم ٹیپو سلطان شہید شد ناگاہ خون خود ریخت فی سبیل اللہ ۱۔سلطان حیدر علی کا انتقال چتوڑ کے قریب ۸ دسمبر ۱۷۸۲ء کو ہوا۔ اور سرنگا پٹم میں ان کو دفن کیا گیا۔ ماہ ذی قعد بست وہشتم آں شدہ درروز شنبہ حشر عیاں سیدے اش بینم آہ بگفت (؟) نور اسلام ودیں زدنیا رفت تاریخ کشتہ گشتن سلطان حیدری ٹیپو بوجہ دین محمد شہید شد اس کے بعد عربی زبان کے دو شعر ہیں اور پھر یہ شعر ہے:۔ سال تاریخ او شہید بگفت حامی دیں شہ زمانہ برفت اور آخر میں عربی کی یہ عبارت درج ہے:۔ ’’ من کلام السید الحضری قد صنفہ الحقیر میر حسن علی وحررہ سید عبد القادر با لخط الجلی فی السنۃ ۱۲۱۳ الھجریۃ النبویتہ۔‘‘ جب سلطان ٹیپو راہ خدا مین جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے تو مغرب کے وقت آپ کی نعش کو دیگر مقتولین میں سے تلاش کر لیا گیا تھا۔ مگر ابھی تک جسد خاکی گرم تھا۔ اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ پاس جائے۔بہرحال اسلام کا یہ شیدائی ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ تاریخ شہادت ۲۸ ذیقعد روز شنبہ ۱۲۱۳ھجری ہے۔ یہ اشعار پڑھنے کے بعد الوداعی فاتحہ کے لیے ایک مرتبہ پھر ہم اندر گئے۔ سرخ رنگ کے غلاف پر ایک مرتبہ پھر نظر پڑی،تو خونچکاں تاریخ کے تمام واقعات آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ وہ شہید حق اپنے تمام محاسن سمیت اس غلاف کے نیچے محو استراحت تھا۔اندرونی گنبد کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم شمالی دروازے کی طرف بڑھے تو یہاں بھی ایک کتبہ نظر نواز ہوا۔ مسجد کے صحن کے شمال اور جنوب کی طرف دیگر شہدا کی قبریں ہیں۔ یہ سلطان کے وہ جان نثار ہیں جو آخری دم تک اپنے آقا پر نثار ہوتے رہے۔ اور ان پر چھوٹے چھوٹے کتبات بھی ہیں۔انھی میں ایک قبر نواب بنکی کی تھی۔ جو سلطان کے اعزہ میں سے تھے۔اور ان کا تعلق گورگ سے بھی تھا۔ ان کی قبر کے پیتل کے کتبے پر اردو میں ان کے حالات زندگی کندہ تھے۔ اس کے بعد ہم مقبرے کے شمالی روش پر آگئے۔ اور وہاں سے دولت باغ کی طرف روانہ ہو گئے۔۔پھر لال باغ کے دروازے سے باہر آئے۔ جو اپنے بانی کے زمانے میں ہزاروں رنگینیاں اپنے دامن میں رکھتا تھا۔آج بھی اس دور کی یاد تازہ رکھنے کے لئے لال باغ کے دروازے پر نوبت بجتی ہے۔ مقبرے کی عمارت:۔ فن تعمیر کے نقطہ نگاہ سے اس مقبرے کی عمارت اپنی نظیر آپ ہے۔ یہ ایک مربع چبوترے پر قاعدہ دار بنائی گئی ہے۔ چھتری نما بر آمدہ ،نہایت خوبصورت چھتیں،سیاہ مرمر کے آٹھ آٹھ فٹ مثمن ستونوں پر قائم یہ مقبرہ ہندوستان کی عمارتوں میں بالکل منفرد مقام رکھتا ہے۔اور یہی اس مقبرے کی خوبی ہے۔ اسکی بناوٹ اور چمک دمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ بر آمدے کے اندر چار دیواری ہے۔ جس میں متذکرہ چار دروازے ہیں۔دروازے سیاہ رنگ کی لکڑی کے ہیں۔جن میں ہاتھی دانت سے منبت کاری کی گئی ہے۔اور بیان کیا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی عظمت ووقار کے پیش نظر یہ عطیہ لارڈ ڈلہوزی نے دیا تھا۔ چار دیواری پر کہرا گنبد ہے۔ جیسا کہ دکن کی عام تاریخی عمارتوں میں ملتا ہے۔ اس کے اندر آواقز بہت گونجتی ہے۔ کیونکہ مغلئی عمارتوں کی طرح یہ دوہرا نہیں ہے۔ عمارت بہت بلند نہیں ہے۔ تاہم فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ مقبرہ مسجد کے صحن میں واقع ہے۔ سلطان ٹیپو نے جب یہ مقبرہ اپنے والد کے لئے بنوایا تھا۔ تو غالبا اسی زمانے میں اسے مسجد سے محصور کرادیا گیا تھا۔ تاکہ خانہ خدا میں ذکر واذکار ہو۔ صاحب مزار کی روح ہمیشہ اس سے مستفیض ہوتی رہے۔ مسجد اور مقبرے کے خادم اور متولی ایک ہی خاندان سے نسلا بعد نسلا چلے آرہے ہیں۔ اور شروع سے انہیں جن احکام اور روایات کا پابند بنایا گیا ہے۔ اب تک ان کی تعمیل کر رہے ہیں۔ سلطان ٹیپو نے اپنے زمانے میں جومساجد تعمیر کرائیں،ان میں ایک امتیازی شان اور انفرادیت نظر آتی ہے۔ سرنگا پٹم کی ایک بہت اونچی مسجد جو مسجد اعلیٰ کے نام سے یادکی جاتی ہے۔اس کی تعمیر مصری مساجد سے مشابہ ہے۔ اس کے مینار منفرد شکل کے ہیں۔ جو غالبا سلطان کی اپنی اختراع تھے۔ اسی طرح میسور میں اس دور کی جتنی مساجد نظر سے گزری ہیں،ان سب میں یہی عنصر موجود ہے۔ پھر سلطان کی اولاد نے جتنی مساجد کلکتے میں جا کر بنوائیں۔ان میں بھی یہی بات ہے۔ اور یہ اس دور کی ایک خاص طرز تعمیر ہے۔ عرس مبارک: ۲۸ ذی قعد بروز شنبہ ۱۲۱۳ ھ کو ٹیپو سلطان نے جام شہادت پیا تھا۔ان کی یاد کو دلوں میں تازہ رکھنے کے لئے شروع سے ہی مزار پر سالانہ عرس ہوتا ہے۔ دور دور سے صوفیا کرام اور اہل اللہ اس عرس میں شرکت کی غرض سے آتے ہیں۔ سلطان خود بھی میسور کے ایک بزرگ عاقل شاہ سے عقیدت رکھتے تھے۔جن کا مزار میسور کے راستے میں ایک قریے میں ہے۔ اس لیے عرس میں عاقل شاہی حلقے کے تمام بزرگ شرکت کرتے ہیں۔ اس روز میسور کے نیک نہاد راجہ کی طرف سے ایک ہاتھی پر صندل، لوبان اور پھول آتے ہیں۔اور یہ روایت ابتدا سے چلی آرہی ہے۔روضے کو صندل اور لوبان وغیرہ سے غسل دیا جاتا ہے۔اور کئی روز اس عبرت کدے میں قیام کیا جاتا ہے۔: رہا زمانے میں کچھ روز مہماں کی طرح بہار اس پہ جو آئی تھی تو خزاں کی طرح چھپا نگاہوں سے وہ گنج شائگاں کی طرح دلوں سے محو ہوا یاد رفتگان کی طرح کسی بشر نے نہ کی اس پہ اشک افشانی فرشتے گور پہ کرتے ہیں فاتحہ خوانی ہمارے اس مضمون کے عنوان ’’شمشیر گم شدہ‘‘ کے الفاظ سے دراصل سلطان شہید کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اہل قلم نے سلطان کی وفات کی حسب ذیل تاریخیں بھی کہی ہیں: ٹیپو بوجہ دین محمد شہید شد کف ہاتف زنیم آہ بہ تفت نور اسلام ودیں زدنیا رفت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسل حیدر شہید اکبر شد راقم کو اس سفر کے دوران میں بنگلور کے ایک کتب فروش کے ہاں ’’عروس المجالس‘‘ نام کی ایک منظوم کتاب ملی تھی۔ جو اردو زبان میں ہے۔ مصنف کا نام ’’ افصح الفصحا بلغا ء العالم جناب مرحوم غلام قاسم صاحب بہ تخلص مہری نور اللہ مرقدہ ۱۲۲۹ ھ ‘‘ لکھا ہے۔ یہ زیادہ ضخیم کتاب نہیں ہے۔ تقریبا تین سو صفحات میں آنحضرت کی حیات طیبہ کو نظم میں پیش کیا گیا ہے۔یہ کتاب شاعر نے دراصل ۱۲۰۹ ھجری میں لکھی تھی۔اور سلطان شہید کی خدمت میں پیش کی تھی۔ پھر محمد صالح نامی ایک صاحب نے ۱۲۶۹ ء میں خط نسخ میں لکھوا کر مطبع صالح میں طبع کرائی تھی۔اس میں بادشاہ ظفر کا زمانہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ٹیپو سلطان کے بڑے بیٹے فتح حیدر کے محاسن کو خصوصیت سے نظم میں پیش کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے بھی اس کا مطالعہ فرمایا تھا۔ ٭٭٭ مرقع چغتائی اور عمل چغتائی ۱۹۲۶ء میں پروفیسر محمد دین تاثیر نے مصور مشرق عبد الرحمنٰ چغتائی مرحوم کومشورہ دیا تھا کہ وہ ’’دیوان غالب‘‘ کا ایک مصور ایڈیشن اپنی تصاویر سے مزین کرکے شائع کریں۔ چنانچہ طے پایا کہ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ اس سلسلے میں دیوان غالب کا مستند متن ہونا نہایت ضروری تھا۔انھی دنوں جامعہ ملیہ نے دیوان غالب جرمنی سے چھپوایا تھا۔ مگر اس کا رسم الخط لوگوں کو پسند نہیں تھا۔کیونکہ اس میں یائے مجہول نہیں تھی۔ جس سے پڑھنے والوں کو دقت ہوتی تھی۔ مستند متن کے لئے کئی مطبوعہ اور قلمی نسخے تجویز ہوئے،مگر کسی نسخے پر اتفاق نہ ہوسکا۔بالاخر چغتائی مرحوم کے چھوٹے بھائی نے یہ کام اپنے ذمے لے کر مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر محمود شیرانی وغیرہ اہل علم کی خدمات حاصل کیں۔ جب علامہ اقبال کے سامنے یہ تجویز پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ غالب کے فارسی دیوان کو بھی مصور کیا جائے ۔جس کی آج زیادہ ضرورت ہے۔تاہم چغتائی مرحوم نے لوگوں کے عام مزاق کے پیش نظر اور اردو کو ملک کی عام فہم زبان خیال کرتے ہوئے غالب کے اردو دیوان ہی کو مصور کرنا ضروری سمجھا۔ جب یہ فیصلہ ہو چکا تو میں نے اور تاثیر مرحوم نے یہ طے کیا کہ علامہ سے اس مصور ایڈیشن پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی جائے۔چنانچہ ایک روز ہم نے چغتائی مرھوم کی موجودگی میں علامہ سے یہ درخواست کی تو ایک طویل بحث کے بعد یہ طے پایا ۔اور انہوں نے یہ وعدہ کر لیا کہ وہ اس کا مقدمہ لکھیں گے۔ جب آپ یہ وعدہ کر چکے تو مقدمہ لکھنے کی تیاری شروع ہو گئی۔چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں مجھے مندرجہ ذیل خط لکھا:۔ ۷ ستمبر۱۹۲۶ء ڈیر ماسٹر صاحب ! السلام علیکم اگر آپ کے پاس ہندوستانی مصوروں کی بنائی ہوئی تصویروں کا کوئی مجموعہ ہو تو ایک دوروز کے لئے مرحمت کیجیئے۔میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور اگر آپ کے پاس کوئی ایسا مجموعہ نہ ہو تو چند مشہور تصاویر کے نام ہی سہی۔ان کے ساتھ ان کا مضمون ہونا بھی ضروری ہے۔میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ بنگال سکول کی تصاویر کے نام خاص طور پر چاہیئں۔اس کے علاوہ نقادوں کی آرٹ پر کوئی کتاب ہو تو وہ بھی ساتھ لایئے۔ محمد اقبال‘‘ چنانچہ میں چند تصاویر اور چٹر جی البم کے تمام حصے جس میں بنگال سکول کے مصوروں کی تصاویر کے علاوہ عبد الرحمنٰ چغتائی مرحوم کی وہ تصاویر بھی تھیں جو ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں طبع ہوئی تھیں۔لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس سلسلے میں بعض تصریحات بھی طلب کی تھیں۔ جن کی میں نے وضاھت کر دی تھی۔آپ نے مجھے اس ضمن میں ایک اور خط بھی لکھا تھا۔ جو درج ذیل ہے۔ ’’ ۲۴ فروری ۱۹۲۷ع جناب ماسٹر صاحب ! آپ کے چلے جانے کے بعد اس تصویر پر غور کرتا رہا،جس کے متعلق ہم دیر تک بحث کرتے رہے تھے۔ میری رائے میں شاید اس مقدمے میں یورپ کی تصاویر انٹروڈوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عبد الرحمنٰ چغتائی پھر آئیں گے تو ان سے تفصیلی گفتگو ہو گی۔ محمد اقبال‘‘ غرض کہ اس ضمن میں علامہ نے بہت تحقیق کی۔ اور ہم نے مزید تصاویر بھی مہیا کی تھیں۔ جب آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے تو آپ نے مرقع عبد الرحمنٰ چغتائی پر وہ ’’پیش لفظ‘‘ لکھا جو آج بھی کتاب میں موجود ہے۔ آپ نے اس میں تحریر فرمایا: ’’۔۔۔۔ جہاں تک اسلام کی ثقافتی تاریخ کا تعلق ہے۔ میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ، باستشنا فن تعمیر کے،اسلام کے فنون،یعنی موسیقی ومسوری، بلکہ شاعری نے بھی ابھی نمودار ہونا ہے۔‘‘ ۱۹۲۸ء میں لاہور میں آل انڈیا اورنٹئیل کانفرنس کا جلسہ ہوا۔ جس کے علامہ سدر تھے۔ اس موقع پر آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔اس میں متذکرہ بالا بیان کا اعادہ بھی کیا تھا۔ آپ کایہ خطبہ علاوہ پیش لفظ ’’مرقع چغتائی‘‘ کے ’’اسلامک کلچر‘‘ حیدر آباد دکن میں بھی اپریل ۱۹۲۹ء میں طبع ہو چکا ہے۔ ’’مرقع چغتائی‘‘ کے آخر میں ’’انتخاب اشعار‘‘ کے نام سے جو اشعار شامل ہیں۔ان کا انتخاب اس طرح ہوا کہ تاثیر مرحوم نے غالب کی عظمت فن کے پیش نظر جب اس انتخاب کا مشورہ دیا تو علامہ نے بھی اسے پسند فرمایا۔ تاثیر نے کہا کہ آپ ہی انتخاب کر دیں۔مگر آپ نے کہا کہ پہلے تم کرو۔چنانچہ تاثیر نے تین روز کے اندر تمام دیوان غالب کا انتخاب غزل وار کر ڈالا ۔اور منتخب اشعار الگ کاپی میں لکھ لیے۔ پھر جب میں علامہ کے پاس یہا نتخاب لے کر گیا تو علامہ نے اس میں سے موزوں ترین اشعار پر اپنے ہاتھوں سے نشان لگا دیئے۔ جن کو ’’چغتائی نے ’’انتخاب از شاعر مشرق‘‘ کے تحت چھاپ دیا۔ مگر جب آپ نے اسے ناپسند کیا تو چغتائی نے اس انتخاب کو بغیر کسی نام کے چھاپا۔ ایک مرتبہ ہم نے طے کیا کہ لاہور سے ایک رسالہ ’’سال نامہ‘‘ کے طور پر بہت بلند معیار کا شائع کیا جائے۔ تاثیر اس کے مدیر چنے گئے۔اور ہم نے خواہش کی کہ اس کے ابتداء میں علامہ کے اشعار آنے چاہیئں۔اس کانام ’’سالنامہ کارواں‘‘ طے ہوا۔ جس طرح علامہ سے کلام عنایت فرمانے کی استدعا کی گئی۔ اس کی کیفیت تاثیر ’’کارواں ‘‘ کے مقدمے میں اس طرح بیان کرتے ہیں (خلاصہ) : ’’۔۔۔ ایک شام ہم چار۔تاثیر،چغتائی اور ان کے دو بھائی۔۔۔ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور جاتے ہی غیر مطبوعہ اردو کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔۔۔۔ اردو زبان مستحق امداد ہے۔ آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام شائع نہ ہوا تو ہماری نیاز مندی لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہو جائے گی۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے۔ کہنے لگے ’’ اردو میں شعر نازل نہیں ہوتے۔مگر تمہارے اور دیگر عزیزوں کے اصرار سے اردو کی طرف میلان ہو رہا ہے۔ ہم نے ’’اردو غزل‘‘ لے کر ٹلیں گے کی رٹ لگانی شروع کر دی۔ علامہ اردو غزل سن کر ذرا چونکے اور کہنے لگے یہ تم نے ایک نئی شرط لگا دی۔ہماری اس فقرے سے ہمت بندھی۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ’’ تم اپنے اشعار سناؤ۔بھئی کچھ سناؤ گے تو شاید تمہاری قسمت کی کوئی چیز ہو جائے۔ ہاں ہاں ،سمجھا تھا، میں والی غزل، علامہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے ایک مطلع پڑھا۔ پھر دوسرا ،علامہ اس کا ایک مصرع ’’تم کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں‘‘ دہرانے لگے۔ زلف آوارہ گریبان چاک،اے مست شباب تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں غزل ہی سہی: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں دوران غزل وہ بھی رو رہے تھے اور ہم بھی، تھی وہ اک درماندہ رہ رو کی صدائے درد ناک جس صدا کو ایک رحیل کارواں سمجھا تھا میں اپنی جولان گاہ زیر آسمان سمجھا تھا میں کس رباط کہنہ کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں ان فیضانی لمحات کی یاد ابھی تک تازہ ہے۔ آخر یہ پوری غزل ’’کاروان‘‘ ۱۹۳۳ع کے شمارے میں چھپی۔اور چغتائی نے اسے اپنے نقش و نگار سے مرصع کیا۔ علامہ کا شاہکار ’’جاوید نامہ‘‘ ۱۹۳۲ء کے آخر میں چھپ کر بازار میں آگیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ مصور ہو جائے۔اس سلسلے میں چغتائی اور علامہ کی چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔مگر یہ معاملہ ان کی زندگی میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچا۔اور ان کا انتقال ہوگیا۔ تاہم چغتائی نے کوشش جاری رکھی اور ۱۹۶۹ء میں کلام اقبال کو اپنی تصاویر سے مزین کرکے ایک گراں قدر ایڈیشن ’’عمل چغتائی‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا لا جواب کار نامہ ہے۔ اور شاید عرصہ دراز تک پھر ایسی کتاب شائع نہ ہو سکے گی۔ اس میں قریبا سو تصویریں اور دیگر ڈئزائین ہیں۔ اور بہترین رنگین طباعت ہے۔ کتابت اور جلد دیکھنے کے قابل ہے۔ اگر چہ اس کا مطالعہ کرنے والے بعض حضرات جو معاصرانہ حیثیت سے تمام واقعات سے واقف ہیں۔ اس پر تنقید بھی کریں گے۔ کیونکہ بعض تصاویر کے متعلق مصور نے جو کچھ لکھا ہے۔ ممکن ہے کچھ حضرات اس سے اتفاق نہ کریں۔ تاہم ایک بات وہ بھی ضرور مانیں گے کہ شاعر مشرق کے کلام کو جس محبت وعقیدت اور حسن و خوبی کے ساتھ مصور مشرق نے اپنے فن سے مزین کیا ہے۔ اور جس غیر معمولی فنی چابک دستی سے اسے طبع کرایا ہے۔ ہمارے ملک کی فنون لطیفہ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ٭٭٭ مذہب اور سائنس (اسلامیہ کالج کی ایجوکیشنل یونین میں خطبہ) علامہ اقبال کو انجمن حمایت اسلام کے ساتھ ایک ایسا تعلق خاطر تھا کہ آپ نے ہمیشہ دل وجان سے اس ادارے کے معاملات میں حصہ لیا۔ اسلامیہ کالج سے راقم الحروف کا تعلق بحیثیت معلم ،شعبہ ،جے اے،وی (جونئیر اینگلوورنیکلر) ۱۹۲۵ء سے قائم ہوا۔ ہم نے متذکرہ بالا نام سے اس شعبے کی ایک یونین بھی قائم کی تھی۔جس کے جلسوں میں عموما باہر کے لوگ آکر لیکچر دیتے تھے۔ ایک دفعہ سیکرٹری ایجوکیشنل یونین مسٹر محمد اعظم نے کوشش کرکے مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کو آمادہ کر لیا کہ وہ اس یونین کے جلسے میں ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر دیں گے۔ مجھے مجبور کیا گیا کہ میں حضرت علامہ اقبال کو اس جلسے کی صدارت کے لئے آمادہ کروں۔چنانچہ میں مسٹر محمد اعظم کو اپنے ہمراہ لے گیا۔ اس نے علامہ سے درخواست کی تو آپ نے قبول فرمالی۔ اور طے پایا کہ ۴ مارچ ۱۹۲۷ء کو علامہ اس جلسے کی صدارت کریں گے۔ ان دنوں آپ پنجاب لیجیلسٹو کونسل کے ممبر بھی منتخب ہو چکے تھے۔ جلسے کے اعلان کے بعد ہم نے حاضرین کے لئے نشستوں کا خاص انتظام کیا تھا۔ کیونکہ عام خیال یہ تھا کہ حاضرین کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ لوگ واقعی کافی تعداد میں آئے اور ہمیں حبیبیہ ہال کے فرش پر بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کرنا پڑا۔ جلسے کے اختتام پر علامہ نے اپنی مختصر سی تقریر میں ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔ ’’ مذہب ،فلسفہ، طبیعات اور دیگر علوم سب کے سب مختلف راستے ہیں۔جو ایک ہی منزل پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔مذہب اور سائنس کے متصادم ہونے کا خیال اسلامی نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس (یعنی علوم جدیدہ اور فنون حاضرہ) کا دروازہ کھولنے والے دراصل مسلمان ہی ہیں۔ اسلام ہی نے انسان کو منطق کا استقرائی طریق سکھایا اور علوم کی بنیاد نظریات اور قیاسات پر رکھنے کے طریق کو مسترد کرنے کی تعلیم دی۔اور یہی بات علوم جدیدہ کی ترویج کا باعث بنی۔ ولیم جان ڈریپر کی مشہور ومعروف کتاب ’’معرکہ مذہب وسائنس‘‘ (ترجمہ از مولانا ظفر علی خان) درحقیقت مذہب اور سائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں ہے۔ بلکہ یہ دراصل عیسائیت اور سائنس کی تصادم کی تاریخ ہے۔ اس تصادم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یورپ کے علماء اور حکماء جس مسلمانوں کی علمی ترقی سے مستفید ہوئے تو اہل فرنگ کے خیالات میں زبردست انقلاب پیدا ہوا۔ جس میں رومن کھیتھولک مذہب والے اس علمی انقلاب سے متصادم ہو گئے۔ داکٹر ڈریپر نے اسی انقلاب کی تاریخ لکھی ہے۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کا خیال غیر اسلامی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں قدم قدم پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے بعد علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اور انسان کا منتہائے کمال یہ بتایا گیا ہے۔کہ قوائے فطرت کو مسخر کیا جائے۔ چنانچہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قوائے فطرت پر غلبہ حاصل کر لیں گے تو ستاروں تک پہنچنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ مسلمانوں میں فرقہ معتزلہ اور دیگر فرقوں کے درمیان جو تنازعہ پیدا ہوا تھا۔وہ اس قسم کا نہ تھا۔ جو یورپ کے روشن دماغ علماء اور تاریک خیال پادریوں کے درمیان پیدا ہوا۔ وہ تو ایک علمی بحث تھی جس کا موضوع محض یہ تھا کہ آیا ہمیں الہامی فکر ربانی کو عقل انسانی کے معیار پر پرکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔؟‘‘ علامہ کی مذکورہ بالا تقریر روز نامہ ’’زمیندار‘‘ میں ۶ مارچ ۱۹۲۷ء کو طبع ہوئی تھی۔ جس سے استفادہ کرکے یہاں درج کی گئی ہے۔ جب حضرت علامہ پنجاب لیجس لیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے تھے تو اہل لاہور نے اس خوشی میں یہ جلوس نکالے تھے۔ اس موقع پر اسلامیہ کالج کی طرف سے بھی ایک شام سٹاف روم میں دعوت کا انتظام کیا گیا تھا۔ جس میں تمام اساتذہ شامل ہوئے تھے۔ پروفیسر سراج الدین آزر نے اس دعوت میں کالج کی تمام انجمنوں کی طرف سے نمائندگی کی۔یہ زمانہ عبد اللہ علی یوسف کی پرنسپل کا تھا۔ جنہوں نے علامہ کے حق میں سب سے پہلے اپنا ووٹ قلعہ گوجر سنگھ کے پولنگ اسٹیشن پر ڈالا تھا۔ راقم اس پولنگ اسٹیشن کا منتظم تھا۔ جب دعوت ختم ہوئی تھی تو ہم لوگ آپ کے ہمراہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی تک جلوس کی صورت میں آئے تھے۔ ٭٭٭ شعر سنانے کی فرمائش بعض ناواقف حضرات جو کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے تھے،علامہ کو ایک عام اور روایتی شاعر سمجھ کر ان سے اپنے اشعار سنانے کی فرمائش کرتے تھے۔ جسے آپ بہت ہی ناپسند کرتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ اپنے شاعر ہونے سے ہی انکار کر دیتے تھے۔اسی طرح بعض حضرات آپ سے تاریخ کہنے کی بھی فرمائش کرتے تھے۔ جسے وہ عموما ٹال دیتے تھے۔ اسی قسم کے دو واقعات یہاں مختصر طور پر درج کیے جاتے ہیں: ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں بحری جہاز کے ذریعے یورپ سے وطن واپس آرہا تھا کہ حیدر آباد کے ایک شہزادے معظم جاہ سے جہاز پر ملاقات ہو گئی۔شہزادے نے فورا اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ مگر میں نے معذرت کر دی۔ پھر اس نے اپنی ایک غزل سنائی،تو میں نے کہا، صرف تمہارا دادا میر محبوب علی خان عمدہ شعر کہتا تھا۔ اور اس کی شاعری کے مولانا گرامی بھی قائل تھے۔ ایک دفعہ میں علامہ کے ہمراہ ڈیرہ دون گیا۔چودھری محمد حسین اور ملتان کے ایک صاحب بھی شریک سفر تھے۔ آپ کو حکیم اجمل سے بھی ملاقات کرنی تھی۔چنانچہ آپ نے لاہور سے چلنے سے پیشتر رسمی طور پر ایک تار ان کو بھی دے دیا تھا۔ یہ تار ان کو اس وقت ملا تھا ۔جب وہ نواب صاحب آف رام پور کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ ہم صبح صبح حکیم صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔اور ان سے ملاقات کی۔ اسی دوران میں حکیم صاحب نے کہا کہ چونکہ آپ کا تار مجھے نواب صاحب کی موجودگی میں ملا تھا۔ لہذا وہ بھی آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ جب حکیم صاحب نے علامہ صاحب سے ان کی رائے دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ میں صرف اس شرط پر ان سے ملاقات کروں گا کہ وہ نہ تو مجھ سے اشعار سنانے کی فرمائش کریں۔اور نہ ہی اپنے اشعار مجھے سنائیں۔یہ جواب سن کر حکیم صاحب خاموش ہو گئے۔اور پھر اس موضوع پر بات نہ کی۔ ٭٭٭ ۶۶۔خطبہ عید الفطر ایک مرتبہ علامہ کے بے حد اصرار پر ۱۹۳۲ء میں ماہ رمضان کے اختتام پر عید الفطر کے روز بادشاہی مسجد لاہور میں ایک خطبہ دیا تھا۔ جو بصورت پمفلٹ چھپ کر تقسیم کیا گیا تھا۔ اسی خطبے کو مرزا عبد الحمید نے بھی اسلامیہ کالج کے رسالے ’’کریسنٹ کے‘‘ ’’فروغ اردو نمبر‘‘ میں ۱۹۴۰ء میں تعلیمات اقبال کے تحت شائع کیا تھا۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ علامہ نے سب سے پہلے روزے کے بارے میں قرآن مجید کی مشہور آیت پڑھی اور پھر فرمایا : ’’۔۔۔۔ بے شک مسلم کی عید اوراس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ وہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا اترے۔اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں۔ مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی خوشی مناتی ہے۔ ۱۔ یہ خطبہ ’’مقالات اقبال‘‘ مرتبہ سید عبد الاواحد میں بھی طبع ہو چکا ہے۔جسے شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور نے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا تھا۔ آج کی عید عید الفطر کہلاتی ہے۔ پیغمبر ؐ خدا نے جب عید گاہ میں اکٹھے ہونے کا حکم دیا تھا،تو ساتھ ہی صدقہ عیدا لفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔۔۔ یہ رمضان کا مہینہ آپ لوگوں نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی بھی سیکھ لی اور اپنی صحت بھی درست کر لی۔۔۔۔ باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جاتے ہیں تو واضع رہنا چاہیئے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مد نظر رکھ کر ’’صیام‘‘ کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔۔۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا ہے ۔ ۔ تلک حدود اللہ فلا تقربوھا ، کذلک یبین اللہ آیاتہ للناس لعلھم یتقون۔‘‘ روزہ رکھ کر محض مفلسوں سے ہم دردی کا احساس پیدا کر لینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غرباء کو دو چار دن کاکھانا دے دینا کافی نہ تھا،بلکہ طریقہ وہ اختیار کرنا مقصود تھا،کہ مستقل طور پر دنیاوی مال ومنال سے انتفاع کرکے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جن سے تقسیم وراثت اور زکواۃ سے ملت اسلامیہ کے مال ومتاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو جائے۔۔۔علمائے قرآن نے ’’حکام‘‘ سے مراد مسلمانوں کے ایسے مفتی،قاضی اور سلطان لیے ہیں۔۔۔۔ روزے رکھنے کی غرض یہ تھی کہ آئندہ تمام سال اسی طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بنکر رہو۔۔۔ آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہیئے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی۔ جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے۔ اس کو تم ہمیشہ مد نظر رکھو گے۔ مسلمانان پنجاب اس وقت بھی تقریبا سوا ارب روپے کے مقروض ہیں۔‘‘ ٭٭٭ ۶۷۔ افغانستان کا سفر علامہ اقبال نے اپنی مشہور کتاب ’’پیام مشرق‘‘ کو ۱۹۲۲ع میں شائع کیا تھا۔ آپ نے اس کتاب کو والی افغانستان امان اللہ خان کے نام جس طرح ’’پیش کش‘‘ کیا ،اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ بحضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان فرمانروائے دولت مستقلہ ء افغانستان خلد اللہ ملکہ واجلالہ۔‘‘ یہ کتاب حضرت علامہ نے مشہور المانوی مفکر گوئٹے کے ’’مغربی دیوان‘‘ کے جواب میںلکھی ہے۔ امیر امان اللہ خان ۱۹۱۹ء میں تخت نشین ہوا تھا۔ افغانستان کے سیاسی حالات دوسرے مشرقی ممالک سے قدرے بہتر اور مختلف تھے۔ اور علامہ کی خواہش تھی کہ ’’پیام مشرق‘‘ کو کسی آزاد اسلامی حکومت کے والی سلطنت کے نام معنون کیا جائے۔کیونکہ اس میں اسلامی امور پر والہانہ بحث کی گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی رائے افغانستان کے حق میں تھی۔ آپ نے ایک بیان بھی لاہور کے ایک انگریزی روز نامے ’’ٹربیون‘‘ کو ۲۲ فروری ۱۹۲۹ء کو دیا تھا۔جس میں آپ نے اپنے نقطہ نگاہ سے افغانستان کے حالات پر بھی تبصرہ کیا تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے: ۔۔۔۔نہ صرف افغانستان کے مفاد بلکی ایشیا کے وسیع ترفرائض ومقاصد کے لحاظ سے ضروری ہے کہ شاہ امان اللہ کی حکومت بحال رکھی جائے۔۔۔۔ ہم جو کچھ اخبارات میں دیکھتے ہیں۔میرے خیال میں اس کا بڑا حصہ قابل اعتماد نہیں ہے۔اور نہ میں ان بیانات پ ریقین رکھتا ہوں ،جو کابل سے آنے والے اشخاص کی زبانی ہم تک پہنچتے ہیں۔اماں اللہ کی ناکامی کی و جوہ میری ھد تک یہ ہیں کہ انہوں نے اصلاحات نافذ کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے۔۔۔حضرت شور بازار کو اس شرارت کا سرغنہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود دستخط کیے تھے۔۔۔انسان نے اپنی معاشرتی تہذیب کا سبق حال ہی میں نہیں سیکھا ہے۔ اس لئے جائز حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ اند دنوں بہت سے طالب علم علامہ کے ہاں اسلامیہ کالج پہنچ گئے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح امان اللہ خان کو واپس افغانستان لانا چاہیئے۔ اسی شام ایک جلسہ بھی محمدن ہال میں ہوا تھا،جس میں امان اللہ خان کی واپسی کے لئے ایک فنڈ جمع کرنے کا آغاز کیاگیا تھا۔اسلامیہ کالج کاطالب علم مسٹر ممتاز مرا فنڈ جمع کرنے میں پیش پیش تھا۔ مجھ سے بھی ممتاز مرزا نے چندہ لیا تھا۔اور چھپی ہوئی رسید مجھے دی گئی تھی۔ جلسے میں امان اللہ خان کے نام سے نظمیں بھی پڑھی گئی تھیں۔اس زمانے میں برطانوی حکام غازی امان اللہ خان کے خلاف تھے۔بچہ سقہ کے حامیوں نے اسے تخت پر متمکن کر دیا تھا۔اور ملا شور بازار کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ایک نظم بعنوان ’’خطاب باقوام شرق‘‘ جو ’’انقلاب‘‘ میں چھپی تھی۔ اس کے دو شعر یہ ہیں : درنہاد ما تب وتاب از دل است خاک را بیداری از دل است گیر دامان اللہ را اوجواں مرد است وداند راہ را جو روپیہ اس وقت امان اللہ فنڈ میں جمع ہوا تھا۔اسے امپریل بنک میں جمع کرا دیا گیا تھا۔ ایک اپرٹی جنرل نادر خان کو افغانستان بلا رہی تھی۔ کہ وہ آکر کسی طرح امان اللہ خان کو واپس لائیں۔پہلے خبر آئی کہ جنرل نادر خان بمبئی پہنچ گئے ہیں۔ پھر اطلاع آئی کہ وہ لاہور سے گزریں گے۔ چنانچہ ریلوے اسٹیشن پر لاکھوں مسلمان پہنچ گئے تھے۔ علامہ ا قبال اور مولوی ظفر اللہ خان کے ساتھ راقم بھی وہاں موجود تھا۔ چنانچہ ریل گاڑی کے آنے پر عبد المجید سالک، غلام رسول مہر، نور الحق، ڈاکٹر مرزا یقوب بیگ،مولوی عبد القادر قصوری، اور علامہ اقبال نے ڈبے میں جنرل نادر خان سے ملاقات کی۔ جنرل کے ساتھ ان کے دو بھائی بھی تھے۔سید حبیب اور ان کے بھائی سید عنایت شاہ ان کے ہمراہ تھے۔ اپنے ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہو کر جنرل نادر خان نے لوگوں سے یوں خطاب کیا: ’’ میں بیمار تھا۔ اور اب بھی میری طبیعت ناساز ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں اب اس قابل ہوں کہ اس نازک وقت میں افغانستان کی خدمت کر سکوں۔افغانستان میں اس وقت آگ لگی ہوئی ہے۔اور میں اسی آگ کو بجھانے کی لئے جا رہا ہوں۔ میں اپنی زاتی اغراض کے لئے وہاں نہیں جا رہا ہوں ۔بلکہ میں وہاں امن قائم کرنا چاہتا ہوں۔میری خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے مادر وطن کی خدمت کرنے کی طاقت بخشے۔ میری خدا سے یہی دعا ہے کہ وہ شاہ امان اللہ کوجلد تخت پر واپس لائے۔اس تقریر پر اللہ اکبر کے پر جوش نعرے بلند ہوئے۔ گاڑی چلنے لگی تو مولوی ظفر اللہ خان اور شیخ سراج الدین پراچہ بھی اس میں سوار ہو گئے اور جنرل نادر خان کے ہمراہ پشتون تک گئے۔۔۔ کوئٹہ کے راستے سردار عنایت بھی افغانستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد اس قسم کی افواہیں لوگوں میں عام ہو گئی تھیں۔ کہ امان اللہ خان قندھار میں رہیں گے اور ملا شور بازار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ غرض کہ چند دن بعد نادر خان نے والی افغانستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔ اور علامہ اقبال کے مبارک باد کے ایک خط کے جواب میں ان کو شکریے کا خط بھیجا۔جس کا ترجمہ مندرجہ ذیل پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ رو زشنبہ ،ربیع الثانی ۳۱۴۸ ھجری (۱۹۲۹ئ) کی تحریر ہے:۔ جناب فاضل محترم سر محمد اقبال: آپ کے عالی جذبات ہمدردانہ نے،جو آپ نے موجودہ تباہ حال افغانستان سے متعلق ظاہر کیے ہیں۔ مجھے اور افغانستان کے عام بہی خواہوں کو ممنون ومتشکر بنا دیا ہے۔ افغانستان تباہی کے نزدیک ہے۔ اور اس کی بے چارہ ملت کو بہت بڑے تہلکہ کا سامنا ہے۔افغانستان اپنے ہندی بھائیوں کی ہر قسم کی امداد واعانت کا محتاج ہے۔ایسے وقت میں جو خیر خواہانہ اقدام آپ اٹھا رہے ہیں۔ وہ ہمارے لئے بہت بڑی ڈھارس کا موجب ہے۔ خصوصا مالی امداد جس کے متعلق میں اخبار ’’اصلاح‘‘ میں اپنے ہندی بھائیوں سے اپیل کر چکا ہوں۔ بہت حوصلہ افزا ہے۔ جناب فاضل محترم جس طرح افغانستان کی موجودہ مصیبت میں شریک ہیں۔امید ہے اس موقع پر اپنی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی مصیبت زدہ ملت کو ہمیشہ کے لئے ممنون ومتشکر فرمائیں گے۔با احترمات لائقہ محمد نادر خان نادر خان کی مالی امداد کا کام خود علامہ کی سرپرستی میں ہوا۔ اور جتنا روپیہ اکٹھا ہوا ۔وہ نادر خان کو ارسال کرنے کے لئے بینک آف انڈیا جمع کرا دیا گیا۔اس موقع پر جنرل نادر خان اور علامہ اقبال کے درمیان خاصی طویل خط وکتابت ہوئی،جس کی تفصیل گفتار اقبال میں موجود ہے۔ اواخر سنہ ۱۹۳۳ء میں جب جنرل نادر خان افغانستان میں بر سر اقتدار تھے۔انہوں نے تعلیمی معاملات میں مشورے لینے کے خیال سے علامہ اقبال، سید راس مسعود اور مولانا سید سلیمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔چنانچہ یہ تینوں حضرات افغانستان جانے کے لئے تیار ہو گئے۔جس روز ان حضرات کو روانہ ہونا تھا۔ میں صبح صبح علامہ کی کوٹھی پر پہنچا۔ ڈاکیے نے آپ کو خطوط لا کر دیئے تو ان میں ایک خط ایسا بھی تھا ،جس میں کسی نے آپ سے خاقانی کے چند اشعار کا مطلب دریافت کیا تھا۔آپ چونکہ عجلت میں تھے اور جواب بھی دینا چاہتے تھے ،لہذا میں نے مشورہ دیا کہ اس خط کو پروفیسر شیرانی کے حوالے کر جائیں،تاکہ وہ آپ کی طرف سے مناسب جواب لکھ دیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ خط ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو میرے حوالے کر دیا۔ اور اس کی پشت پر شیرانی کے نام یہ تحریر لکھ دی: ’’ ڈیر شیرانی صاحب ،میں کل کابل جا رہا ہوں ،اس لئے فرصت نہیں ہے ۔آپ مہربانی کرکے اس خط کا جواب راقم کو دے دیں۔اور ان کو یہ بھی لکھ دیں کہ میں کابل جا رہا ہوں۔ اس واسطے خود جواب نہیں لکھ سکا۔ محمد اقبال (انوار اقبال ،ص۲۲۸) ۲۰ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو علامہ کابل پہنچے۔سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی بھی آپ کے ہمراہ تھے۔کابل میں یہ لوگ سرکاری مہمان تھے۔انہوں نے نظام تعلیم کے سلسلے میں وہاں کی ’’وزارت معارف‘‘ کو ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرکے دے دیا۔وہاں ان حضرات نے کابل، غزنی، اور قندھار وغیرہ شہروں کی بھی خوب سیر کی۔جب علامہ نے جنرل نادر خان سے ملا قات کی تو انہوں نے اعلیٰ حضرت کو قرآن کریم کا ایک مطبوعہ نسخہ بھی پیش کیا۔ اعلیٰ حضرت نے اس نسخے کو چوما، سینے سے لگایا اور آب دیدہ ہو کر کہا کہ یہ تحفہ ہمارے لیے دین ودنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس موقع پر دونوں آبدیدہ ہو گئے۔اور دونوں نے عالم ا سلام کی بہبود کے لئے دعائے خیر کی۔ پھر ماہ نومبر میں یہ حضرات کابل سے واپس آگئے۔ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر ایک نظم ’’التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے ا ور دوسری نظم بعنوان ’’پس چہ باید کرد‘‘ اے قوام شرق لکھی۔دوران سفر کابل علامہ صلاح الدین سلجوقی بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ واپسی پر علامہ سید سلمان ندوی نے افغانستان کا سفر نامہ بھی لکھا جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ٭٭٭ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور کشمیر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود قادیانی چلے آرہے تھے۔ لیکن جب احرار نے احمدیوں کے خلاف تحریک شروع کی تو مرزا بشیر الدین محمود نے خود ہی کمیٹی کی صدارت سے استعفا دے دیا۔ان کے مستعفی ہونے پر علامہ اقبال کمیٹی کے صدر اور ملک برکت علی عارضی سیکر ٹری مقرر ہوئے۔اور یہ انتظام ایک سال تک رہا۔ علامہ ا قبال نے کمیٹی کی صدارت اس لئے قبول فرمائی تھی کہ وہ خود بھی کشمیری الاصل تھے۔ اور احرار کے ممنون تھے کہ انہوں نے اس ادارے کو احمدیوں کے تسلط سے نجات دلائی تھی۔علامہ ہمیشہ کشمیریوں کے حقوق کے لئے جد وجہد کرتے رہے تھے۔ اور وہ ان کی خود مختاری،آزادی اور ترقی و خوش حالی کے دل سے متمنی تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ال کشمیر اور اہل مصر کی اصل ایک ہے۔ جون ۱۹۲۱ء میں علامہ خود بھی ایک کیس کے سلسلے میں وکیل کی حیثیت سے کشمیر گئے تھے۔ مولوی احمد دین وکیل اور منشی طاہر الدین آپ کے ہمراہ تھے۔آپ کشمیر کی تاریخ اور اس کے جغرافیے سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ لاہور کی کشمیری برادری اور تمام کشمیر آپ کو اہل کشمیر کا سب سے بڑا بہی خواہ سمجھتے تھے۔ خطہء کشمیر اپنی جغرفیاائی صورت حال کی وجہ سے کئی مرتبہ حملہ آوروں کی دست برد سے محفوظ رہا۔ پہلے سلطان محمود غزنوی نے اور پھر بابر بادشاہ نے کشمیر کو فتح کرنا چاہا۔مگر ناکام رہے۔ بالاخر اکبر اعظم اسے فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اس نے راستوں وغیرہ کا انتظام کیا۔ اس زمانے میں کشمیر پہنچنے کے دو راستے تھے۔ ایک حسن ابدال کی طرف سے تھا۔ جو مظفر آباد تک جاتا تھا۔ اور دوسرا موجودہ منگلا ڈیم کی طرف سے تھا۔ ۶۹۔ ڈاکٹر محمود الخضیری (فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ پر تبصرہ) ۱۹۳۲ء کے اخیر میں جب علامہ اقبال اسلامی عہد کے آثار دیکھنے کی غرض سے ہسپانیہ تشریف لے گئے۔تو ان کی ملاقات ایک نوجوان مصری محقق محمود الخضیری سے ہوئی۔ وہ علامہ کا ایک لیکچر ’’کیا مذہب ممکن ہے؟۔‘‘ دیکھنے کا بے حد شائق تھا ۔جو علامہ نے لندن کی ارسطا طالین سوسائٹی کی تقریب میں انگریزی زبان میں پڑھا تھا۔اور چھپ بھی چکا تھا۔اس نے علامہ سے درخواست کی تھی کہ مذکورہ لیکچر کی ایک کاپی اسے ضرور ارسال کی جائے۔چنانچہ جب علامہ واپس تشریف لائے تو انہوں نے مجھے یہ لیکچر محمود الخضیری کو بھیجنے کاحکم دیا۔جس کی میں نے فورا تعمیل کی اور ڈاک کے ذریعے اسے ایک کاپی بھیج دی۔چونکہ یہ لیکچر راقم کی معرفت بھیجا گیا تھا۔ لہذا اس کی رسید میں علامہ کو جو خط آیا وہ بھی میری معرفت آیا۔ ڈاکٹر محمود الخضیری کا یہ خط جوعربی زبان میں ہے۔ اور جذبات محبت سے لبریز ہے۔ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ خط انہوں نے ۲۶ جنوری ۱۹۳۳ء کو ایسکوریل محل میں بیٹھ کر لکھا ہے۔ جو میڈرڈ (ہسپانیہ) کے قریب واقع ہے۔اور جس میں گزشتہ بادشاہوں کی قبروں کے علاوہ قدیم مخطوطات کا ایک عمدہ کتاب خانہ بھی ہے۔ ڈاکٹر محمود الخضیری اس زمانے میں اس کتاب خانے میں بیٹھ کر تحقیقی کام کر رہے تھے۔اور مخطوطات کی تصویریں حاصل کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ علامہ کو لکھتے ہیں : ’’ ۲۶ جنوری ۱۹۳۳ع کیپٹن گیلن، الاسکوریل (میڈرڈ) السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے جس مہر بانی سے مجھے اپنا مضمون ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ ارسال فرمایا ہے۔ میں اس کے لئے دل وجان سے ممنون ہوں۔ میں نے کمال دل چسپی اور عقیدت سے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح آپ نے اسلامی نظریات کو صحیح رنگ میں پیش کیا ہے۔ اور مذہب اسلام کی حقیقی ،ابدی اور زندہ جاوید خوبیوں کو یورپ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے متعارف کرایا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کار نامہ ہے۔ مجھے بہت مسرت ہوئی ہے۔اور میں اس پر نازاں ہوں کہ آپ نے اپنے اس مضمون میں اشاعت ووسعت اسلام کے سلسلے میں ایک الہامی توانا اور اطمینان بخش دلیل پیش کی ہے۔ جو اس ضمن میں قطعی اور یقینی راہ عمل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ہمارا یہ دور ایسی مشکلات سے لبریز ہے۔جو بنی نوع انسان کے تمام مراحل زندگی پر حملہ آور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ مسلمہ مدارج ومراتب ترقی، جن پر مغرب کے جدید تمدن کا انحصار ہے۔ ہماری معاشرتی اور ذہنی جدوجہد کی قدر ومنزلت کو مشکوک بنا رہے ہیں۔تصوف اور مذہب کے خلاف جدید سائنس کے وسوسے اور شکوک انتہائی مجرمانہ ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سچا مذہب کسی پہلو سے بھی بنی نوع انسان کی ترقی اور خوش حالی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ۔مجھے یقین ہے کہ اس ضمن میں آپ کی مساعی جمیلہ اہل مغرب کو یقینی طور پر قائل کر لیں گی۔ جناب والا آپ نے یہ مضمون ارسال فرما کر میری عزت افزائی کی ہے۔میری طرف سے اس مقدس تحفے کا شکریہ قبول فرمایئے۔ایک ادنیٰ عقیدت مند اور مرید کی حیثیت سے میں آپ کی خدمت میں دلی توقیر اور خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ آپ کاعقیدت کیش ڈاکٹر محمود الخضیری‘‘ اس کے بعد ۱۹۳۶ع میں ڈاکٹر محمود الخضیری سے راقم کی ملاقات پیرس کی ایک دعوت میں ہوئی ۔جہاں اقبال شیدائی نے تعارف کے فرائض انجام دیئے تھے۔اس دعوت میں مشہور ومعروف عالم اور جلیل القدر عرب مفکر شکیب ارسلان مہمان خصوصی تھے۔ اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر محمود الخضیری سے ایک قسم کے مخلصانہ دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔اور ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ پھر ہماری ملاقات پیرس کے ببلو تھیکا نیشنل میں ہوئی تو ڈاکٹر محمود کی زبانی معلوم ہوا کہ مشہور فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (۱۶۵۰ع) کی یاد میں عنقریب ایک کانفرنس ہونے والی ہے۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ علامہ سے بھی اس کانفرنس کے لئے ایک مقالہ لکھنے کی درخواست کی جائے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مجوزہ کانفرنس جولائی ۱۹۳۷ع میں ہو گی۔ اس میں دنیا کے بڑے بڑے مفکر اور فلاسفر شرکت کریں گے ۔چنانچہ میں نے فورا علامہ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا۔اور ان سے ڈیکارٹ کے فکر وفن پر ایک مقالہ لکھنے کی درخواست کی۔علامہ کا جواب فورا آیا ،جس میں انہوں نے اپنی علالت کے پیش نظر مقالہ لکھنے سے معذوری ظاہر کی۔ یہ خط ’’اقبال نامہ‘‘ (جلد دوم، صفحہ ۳۴۰،۳۴۵) میں شائع ہو چکا ہے۔ اور یہاں بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’ ڈیر ماسٹر عبد اللہ چغتائی ! آپ کا خط ملا۔ علمی مشاغل میں مصروف رہنا آپ کو مبارک ہو۔میری صحت بہ نسبت سابق بہتر ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی دائمی المریض کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ تاہم صابر وشاکر ہوں۔ اٹیلن زبان میں جن مضامین کا آپ نے ذکر کیا ہے۔افسوس ہے مجھے ان کا علم نہیں، اگر ممکن ہو تو ان مضامین کا انگریزی میں ترجمہ کرواکر بھیج دیجیئے۔ترجمے اور ٹائپ کا خرچ میں ادا کرو ں گا۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو دونوں رسالے جن میں یہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔بھیج دیجیئے۔میں ان کا یہاں ترجمہ کروانے کی کوشش کروں گا۔اور جب آپ یورپ سے واپس آئیں گے تو دونوں رسالے آپ کے حوالے کر دوں گا۔ ڈیکارٹ پر مضمون لکھنے کی اب مجھ میں ہمت باقی نہیں رہی۔اگر آپ کو پیرس میں نوجوان عمر کا کوئی سکالر مل جائے۔تو اس سے یہ کہنا کہ ڈیکارٹ کی مشہور کتاب Method کا امام غزالی کی کتاب ’’احیا العلوم‘‘ سے مقابلہ کرے۔اور یورپ والوں کو دکھائے کہ ڈیکارٹ اپنے اس Method کے لئے،جس نے یورپ میں نئے علوم کی بنیاد رکھی ہے۔ کہاں تک مسلمانوں کا ممنون احسان ہے۔ مغربی فلسفے کا مورخ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ اگر ڈیکارٹ عربی زبان کا معلم ہوتا تو ہم اسے غزالی کی ’’احیا العلوم‘‘ سے چوری کرنے کا الزام لگاتے۔لیکن اٹلی کا مشہور شاعر دانتے بھی تو عربی نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کی کتاب Devine Comedy محی الدین ابن عربی کے افکار وتخیلات سے لبریز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے نتائج افکار یورپ میں عام تھے ۔ اور یورپ کے بڑے بڑے مفکر اور تعلیم یافتہ آدمی،خواہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،عام طور پر اسلامی تخیلات سے آشنا تھے۔ انگریزی کتابوں نے ہم ہندی مسلمانوں کو یہ سکھایا ہے کہ منطق استقرائی کا موجد بیکن (Bacon)تھا۔ لیکن فلسفہ اسلامی کی تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ میں اس سے بڑا جھوٹ آج تک نہیں بولا گیا۔ ارسطو کی منطق کی شکل اول پر سب سے پہلا اعتراض کرنے والا ایک مسلمان منطقی تھا۔ یہی اعتراض John Stuart Mill کی کتابوں میں دہرایا گیا ہے۔اور مسلمانوں کا استقرائی طریق بیکن سے مدتوں پہلے مسلمانوں کو معلوم تھا۔ ڈاکٹر محمود خضیری سے میں سپین میں ملا تھا۔وہ اس وقت فقہہ اسلامی پر ریسرچ کر رہے تھے۔ نہایت نیک نوجوان ہیں ،مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ وہ نصیر الدین طوسی پر مقالہ پڑھیں گے۔۔۔۔ اس تحقیق سے ان کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ریاضی دان قرون وسطیٰ میں ہی اس نتیجے پرپہنچ چکے تھے ۔یہ ممکن ہے کہ مکان کے ابعاد (Dimensions) تین سے زیادہ ہوں۔اور ہمارے اسلامی صوفیا تو ایک مدت سے تعدد زمان ومکان کے قائل ہیں۔ یہ خیال یورپ میں سب سے پہلے جرمنی کے فلسفی کانٹ (Kant) نے پیدا کیا تھا۔ لیکن مسلمان صوفیا اس سے پانچ چھ سو سال پہلے اس نکتہ سے آگاہ تھے۔ عراق کے رسالے کا قلمی نسخہ غالبا ہندوسان میں موجود ہے۔اور میں نے ان کے ایک رسالے کا جو غالبا زمان ومکان پر ہے۔ اپنے لیکچروں میں ملحض بھی دیا ہے۔اگر ڈاکٹر محمود خضیری بھی اس پر ریسرچ کریں تو مجھے یقین ہے کہ یورپ میں نام پیدا کریں گے۔‘‘ میں نے اور ڈاکٹر محمود خضیری نے علامہ کے اس خط کو سامنے رکھ کر اس کا ایک خلاصہ تیار کیا۔ اور پھر ڈیکارٹ سے متعلق کانفرنس کے منتظمین کو بھیج دیا۔ ج سکی رسید بھی آگئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ علامہ کے نقطہ نظر سے بھی کانفرنس کو مطلع کردیا جائے۔ اپنے قیام پیرس کے دنوں میں ایک روز میں اپنی قیام گاہ کے قریب ایک کتب فروش کی دکان پر کتابیں دیکھ رہا تھا کہ اتفاقا مجھے فرانسیسی زبان کے رسالے ’’مرکری‘‘ کے دوشمارے (بابت مئی ۱۹۳۴ء وجولائی ۱۹۳۴ع) مل گئے۔ یہ پرچے میں نے خرید لیے اور گھر لے آیا۔مئی کے شمارے میں نٹشے پر جولیس ڈی گالیٹر کا ایک مضمون تھا۔ جس میں نشٹے کے نظریات پر ویسی ہی تنقید کی گئی تھی ۔جیسی علامہ اقبال نے کئی مواقع پر کی تھی۔ جن امور کی طرف علامہ نے اپنے متذکرہ خط میں اشارے کیے ہیں،وہ تمام امور اس مضمون میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے ’’حیات شبلی‘‘ کے صفحہ ۵۸۲ پر مجلس علم کلام کی تجویز کے زیر عنوان لکھا ہے کہ ’’ اس مجلس کے لئے علماء میں سے انہوں نے مولوی مفتی عبداللہ صاحب ٹونکی،مولانا شیر علی صاحب حیدر آبادی اور سید رشید رضا مصری کو لیا۔اور نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں سے ڈاکٹر محمد اقبال لاہوری کو لیا۔ ۱۹۱۱ع کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں مولانا شبلی نعمانی موجو دتھے۔علامہ اقبال نے اس میں نظم کے علاوہ منطق پر بھی ایک شاندار تقریر کی تھی۔آپ کی صدارتی تقریر سے پہلے خواجہ کمال نے تقریر کی تھی۔چنانچہ جب آپ نے تقریر شروع کی تو فرمایا: ’’ خواجہ صاحب نے جوتقریر اس وقت کی ہے۔ وہ نہایت دل چسپ اور معنی خیز ہے۔اس زمانے میں مسلمانوں نے اس مبحث پر بہت کچھ لکھا ہے۔کہ اسلام اور علوم جدید کے مابین کیا تعلق ہے؟۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے۔پندرھویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا ہے۔ یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں کی بدولت ہوا تھا۔ ان یونیورسٹیوں میں یورپ کے مختلف ممالک کے لوگ آکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم وفنون کی اشاعت کرتے تھے۔ کسی یورپین کا یہ کہنا کہ ا سلام اور علوم جدید ہ یک جا نہیں ہو سکتے،سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے۔ اور مجھے تعجب ہے کہ علوم اسلامی اور تاریخ اسلام کے موجود ہونے کے باوجود کیوں کر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ علوم جدیدہ اور اسلام ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ بیکن، ڈیکارٹ اور مل یورپ کے سب سے بڑے فلاسفر مانے جاتے ہیں۔ جن کے فلسفے کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ ڈیکارٹ کا (Method)اصول امام غزالی کی ’’احیا العلوم‘‘ میں موجود ہے۔اور ان دونوں میں اس قدر تطابق ہے کہ ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ اگر ڈیکارٹ عربی جانتا ہوتا تو ہم ضرور اعتراف کرتے کہ ڈیکارٹ سرقے کا مرتکب ہوا ہے۔ راجر بیکن خود ایک ا سلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا۔ جان اسٹوارٹ مل نے منطق کی جو شکل اول پر اعتراض کیا ہے۔ بعینہ وہی اعتراض امام فخر الدین رازی نے بھی کیا تھا۔اور مل کے فلسفے کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب ’’الشفا‘‘ میں موجود ہیں۔ غرض کہ تمام وہ اصول جن پر کہ علوم جدیدہ کی بنیاد ہے۔ مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔ بلکہ میرا دعوی ہے کہ نہ صرف علوم جدیدہ کے لحاظ سے بلکہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ،اور اچھا پہلو ایسا نہیں ہے کہ جس پر اسلام نے بے انتہا روح پرور اثر نہ ڈالا ہو۔ ‘‘ ٭٭٭ مسز سروجنی نائیڈو مسز سروجنی نائیڈو کا ہندوستان کے علمی وادبی حلقوں میں جومقام ہے۔ وہ سب پر روشن ہے۔ وہ ہندوسان کے ادبی حلقوں میں بلبل ہند کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔۱۹۲۷ء میں راقم کو علامہ ا قبال کے ساتھ شملہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم وہاں سر فیروز خان نون کے مہمان کی حیثیت سے ان کی کوٹھی ’’گڈول‘‘میں ٹھہرے تھے۔ایک دن سر فیروز خان نے پنجاب کے لاٹ صاحب سر بر ڈوڈ کو اپنی کوٹھی میں ٹینس کھیلنے کی دعوت دی۔اور انہیں بتایا کہ علامہ اقبال بھی میرے ہاں مقیم ہیں ۔اور میں ان سے بھی آپ کی ملاقات کراؤں گا۔ جب علامہ کو اس بات کا علم ہوا تو ملاقات کے تکلف سے بچنے کے لئے یہاں سے نکل جانے کا پروگرام بنایا۔ اور طے پایا کہ ’’سمر ہل ‘‘ پر سردار امرا ؤ سنگھ مجیٹھہ سے ملاقات کی جائے۔چنانچہ ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور خاصا فاصلہ طے کرکے جب سیسل ہوٹل کے قریب پہنچے تو اتفاقیہ طور پر وہاں مسز سروجنی سے ملاقات ہو گئی۔علامہ اقبال اور مسز سروجنی کے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات بہت پرانے تھے۔ اور اب کئی برسوں بعد یہ اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی۔ چنانچہ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے علمی، ادبی اور سیاسی مشاغل کے بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ مسز سروجنی نائیڈو نے اس موقع پر علامہ سے کہا تھا کہ ’’مسز جینا‘‘ (بیگم قائد اعظم محمد علی جناح) بھی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔وہ کافی تعلیم یافتہ اور انگریزی ادب کی فاضل ہیں اور آپ سے ملنے کی مشتاق ہیں ‘‘۔ غرض کہ اس قسم کی باتوں میں خاصا وقت ہو گیا اور ہم ان سے رخصت ہو کر واپس آگئے۔ ذیل میں علامہ اقبال کا ایک قطعہ درج کیا جارہا ہے۔انہوں نے مسز سرجنی نائیڈو کی کتاب ’’شکستہ پر‘‘ (Broken Wings) کے مطالعے کے بعد کہا تھا۔ یہ اشعار انہوں نے مذکورہ کتاب موصول ہونے پر بطور رسید مسز سرجنی نائیڈو کو بھیجے تھے۔ علامہ اقبال کے کسی مجموعہ کلام میں یہ اشعار مجھے نظر نہیں آتے۔ لکھنو سے ایک ادبی مجلے ’’ذخیرہ‘‘ کے اگست ۱۹۱۷ع کے پرچے میں یہ قطعہ شائع ہوا تھا۔اور وہیں سے یہ نقل کیا جا رہا ہے۔ ’’یارب از غارت گل بر دل نرگس چہ گزشت دست بے طاقت و چشم نگران است اورا شبنم ولالہ و گل اشک نگہ آلودش (؟) گریہ بر محنت خونیں جگران است او را خیز وپرزن کہ دریں جلوہ گہہ نکہت رنگ طائرے ہست کہ پرواز گران است او را محمد اقبال لاہور مسز سروجنی نائیڈ جب کبھی لاہور آتیں ،تو عام طور پر پروفیسر مرزا سعید کے ہاں قیام کرتیں۔ایک دن علامہ نے برسبیل تذکرہ ظریفانہ انداز میں فرمایا کہ ایک مرتبہ مسز سروجنی نائیڈ سے ملاقات ہوئی ،تو اس نے دریافت کیا کہ میری غزلیات کیسی ہیں؟۔ میں نے جواب دیا کہ تمہاری چشم غزال تمہاری غزلیات سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ سفر مدراس سے واپسی پر جب علامہ حیدر آباد دکن پہنچے تو وہاں کی تقاریب سے فراغت کے بعد ایک روز آپ نے مسز سروجنی نائیڈ کے گھر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔مگر معلوم ہوا کہ و ہ گھر میں نہیں ہیں۔اور کانگرس کے سالانہ جلسے میں شرکت کی غرض سے کہیں گئی ہوئی ہیں۔تاہم از راہ اخلاق ووضع داری علامہ ان کے گھر گئے اور ان کے شوہر ڈاکٹر نائیڈو اور بچوں سے ملاقات کرکے واپس آگئے۔ جب علامہ اقبال کا انتقال ہوا ،اور یہ خبر حیدر آباد دکن پہنچی تو مسز سروجنی نائیڈونے علامہ کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ اور وہاں کے ماہوار رسالے ’’سب رس‘‘ میں حسب ذیل پیغام شائع کرایا۔ ’’ میں اپنے بہترین دوست اقبال کو ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم ترین شاعر سمجھتی ہوں۔اس شاعر کے اردو اور فارسی شعری کار نامے ہندوستان قوم کے رہرو اور رہنما ثابت ہوں گے۔ اگر چہ اقبال کی نعش کی قیمتی مٹی کو زمین نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔لیکن مرحوم کی زندہ جاوید علمی قابلیت،غیر زوال پذیر نشان عظمت کے طور پر دنیا میں ہمیشہ باقی رہے گی۔میں مرحوم کے علمی کمالاتا ور تحصیلات کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔‘‘ مولانا عرشی نے کتاب ’’نقوش اقبال‘‘ میں لکھا ہے کہ میں ۱۴ اپریل ۱۹۳۵ء کو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ حکیم طالب علی صاحب بھی تھے۔ہمارے حاضر ہونے سے پہلے مشہور شاعرہ مسز سروجنی نائیڈو اور میاں بشیر احمد (ہمایوں) بھی موجود تھے۔اور ان سے انگریزی زبان میں بات چیت ہو رہی تھی۔میں نے اس شاعرہ کو پہلی اور آخری بار یہاں دیکھا تھا۔ اور یہ بات بھی پہلی مرتبہ میرے مشاہدے میں آئی تھی کہ علامہ شاعرہ کو رخصت کرنے کے لئے اپنی کوٹھی سے اٹھ کر کوٹھی کے بر آمدے تک تشریف لے گئے۔ ۱۹۳۵ع میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کی ایک نشست شام آٹھ بجے شروع ہوئی تھی۔ جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔علامہ اس زمانے میں انجمن کے صدر بھی تھے۔ جب علامہ جلسے میں تشریف لائے تو نعرہ ہائے تکبیر سے سارا ماحول گونج اٹھا۔اس جلسے میں مسز سرجنی نائیڈو بھی شریک ہوئی تھیں۔ ’’نقوش اقبال‘‘ کا مندرجہ بالا واقعہ بھی غالبا اسی زمانے کا ہے۔ اور مسز سرجنی نائیڈو نے در اصل علامہ کی دعوت پر جلسے میں شرکت کی تھی۔ جلسے کی یہ نشست بہت پر لطف تھی۔ جس میں علامہ اقبال نے ۱۔یادگار اقبال ،لاہور ،۱۹۳۵ع ،ص ۳۶۔ (۲) نقوش اقبال لاہور ، ۱۹۵۶ ع ،ص ۱۵۱ دوسرے مقررین کی تقاریر اور نظموں کا مختصر سا تجزیہ بھی کیا تھا۔ اور آخر میں صدارتی تقریر بھی فرمائی تھی۔ ۱۹۰۹ع میں کانگرس کا سالانہ اجلاس امرتسر میں ہوا تھا۔ایسا عظیم الشان اجتماع بہت کم دیکھنے میں آیا تھا۔ اس جلسے میں مسز سرجنی نائیڈو اور علامہ اقبال بھی شریک تھے۔ اور گاندھی جی بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ تحریک عدم تعاون کا زمانہ تھا۔اور گاندھی جی ملک میں غیر معمولی شہرت اور اہمیت حاصل کر چکے تھے۔ اس موقع پر مسز سرجنی نائیڈو نے کوشش کرکے علامہ کو گاندھی جی سے ملاقات پر آمادہ کر لیا۔ جب یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ،تو وہ گاندھی جی کے متعلق علامہ کے خیالات معلوم کرنے کے لئے بے تاب نظر آنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ گاندھی جی نے اقبال کو اپنی شخصیت اور علمیت سے بہت متاثر کیا ہوگا۔اور ان کے متعلق علامہ کے نظریات میں تبدیلی آگئی ہو گی۔ چنانچہ جوں ہی علامہ نے گاندھی جی کے کمرے سے باہر قدم رکھا۔مسز سرجنی نائیڈو لپک کر ان کے پاس پہنچیں اور پوچھا کیوں ڈاکٹر صاحب! مہا تما جی کو آپ نے کیسا پایا۔؟‘‘ ۔علامہ کی حس مزاح ایسے ہی موقعوں پر اپنے جوہر دکھاتی تھی۔چنانچہ انہوں نے غیر معمولی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے جواب دیا۔ گاندھی جی اچھے آدمی ہیں۔کھانے پینے میں احتیاط کرتے ہیں ،اور تن درست رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی عمر کے اعتبار سے توانا ہیں۔سروجنی کو اس جواب کی توقع نہیں تھیں۔لہذا بہت بھنائیں،اور کہنے لگی کہ میں نے تو ایک بڑے آدمی کے متعلق ایک بڑے آدمی کی رائے معلوم کرنا چاہی تھی۔ مگر آپ نے میری بات مذاق میں اڑا دی۔ ڈاکٹر صاحب بولے ،سروجنی ! گاندھی جی کے متعلق میری رائے یہی ہے۔ جو میں نے آپ کو بتا دی ہے۔ اور یہ میری آخری رائے ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا کہوں۔‘‘ یہ جواب اور بھی مایوس کن تھا۔ چنانچہ مسز سرجنی نائیڈو خاموش ہو گئیں اور بات یہیں ختم ہو گئی۔ ٭٭٭ ۷۱ محمد عباس لمعہ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ اول (۲۶۴۔۲۹۸) میں ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے نام علامہ اقبال کے انتیس خطوط ملتے ہیں۔پہلا خط اپریل ۱۹۲۹ع کا لکھا ہوا ہے۔ اور آخری جس میں علامہ کی طرف سے معذرت کی گئی ہے۔ اور جو محمد شفیع (م،ش) کے قلم سے ہے۔ ۳۱ اگست ۱۹۳۷ع کا ہے۔ میرا خیال ہے کہا س زمانے (۱۹۲۹ع) سے بھی بہت پہلے یہ شخص علامہ کے ساتھ خط وکتابت کرتا رہا ہے۔ اور میرے نقطہ نظر سے سابقہ خطوط میسر نہیں آئے۔ مجھے بھی علامہ کی خدمت میں حاضر رہنے کا شرف حاصل تھا۔ اور میں جانتا ہوں کہ علامہ کے ساتھ عباس علی لمعہ کا رابطہ اس زمانے سے بہت پہلے قائم ہو چکا تھا۔ مجھے علامہ کے ہاں سے لمعہ کی نظموں کا ایک مجموعہ ملا تھا،جس پر ۲۲ جنوری ۱۹۲۹ء کی تاریخ درج ہے۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ کہ ۱۹۲۳ع سے بھی پہلے ان صاحب نے علامہ کے ساتھ مراسلات ومکاتبت شروع کر دی ہو گئی۔ نظموں کا یہ مجموعہ راقم نے اقبال اکیڈمی کے حوالے کر دیا تھا۔ جو اب بھی وہاں موجود ہے۔ اس لمعہ نے علامہ کی خدمت میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جواس کے سچے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ ان اشعار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علامہ کا عاشق تھا۔ اور ان کی مدح وثناء کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔چنانچہ خطوط سے پہلے جو رباعی درج ہے ۔وہ بھی لمعہ کے مخلصانہ جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ ملا حظہ فرمایئے: نذر لمعہ بحضور اقبال تو ہے شاہ جہان بے نیازی ہے عالم گیر تیری نے نوازی ہیں نازاں تجھ پہ عطار وسنائی مرید پیر رومی ،مرد غازی لمعہ نے حضرت علامہ کی خدمت میں اور کتابوں کے علاوہ قرآن مجید کانسخہ بھی ارسال کیا تھا۔جس کے متعلق علامہ نے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا مطالعہ کروں گا۔ یکم دسمبر ۱۹۳۴ء کے ایک خط میں حضرت علامہ نے اپنی صحت کے بارے میں لمعہ کو اس طرح مطلع کیا تھا: ’’ حکیم نابینا صاحب دہلی والے علاج کر رہے ہیں،فرق ضرور ہے۔ مگر عام طور پر گفتگو کرنے میں سخت تکلیف ہوتی ہے۔ جناب کی گراں رائے کا بہت شکریہ۔‘‘ علامہ نے بھوپال سے بھی لمعہ کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں تحریر فرمایا کہ آپ کی تازہ نظم پڑھ کر بہت خوش ہوا۔اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مولانا روم کو بغور پڑھنے کا مشوورہ دیا۔اور یہ شعر تحریر فرمائے:۔ نگہدار آنچہ در آب وگل تست سرورو سوزو مستی حاصل تست تہی دیدم سبوے ایں وآں را مئے باقی نہ مینائے دل تست ۱۱ مئی ۱۹۳۵ء کے خط میں علامہ نے لکھا : آپ کے ایما پر ٹیگور میری مزاج پرسی کے لئے لاہور آئے تھے۔مگر میں لاہور میں موجود نہیں تھا۔ اس لئے ملاقات نہیں ہو سکی۔اب انہیں مطلع کر دیں ۔‘‘ پھر ۷ جولائی ۱۹۳۵ع کے خط میں علامہ نے تحریر فرمایا کہ ٹیگور آپ سے بے حد خوش ہیں۔‘‘ ایک خط علامہ نے ڈاکٹر لمعہ کے والد کی مزاج پرسی کے سلسلے میں تحریر فرمایا ہے۔ ایک میں لمعہ کی چند نظمیں پہنچنے کا ذکر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علامہ کی مدح میں مسلسل نظمیں لکھتے رہتے تھے۔اور ان کے کلام کے گرویدہ تھے۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس لاہور (۱۹۳۲ع) فروری ۱۹۳۲ء میں لاہور میں ایکک شاندار اسلامی اور قومی اجتماع ہوا۔جسے ’’آل انڈیا مسلم کانفرنس ‘‘ اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ یوتھ کانفرنس‘‘ قائم ہوئی۔اس کے انتظامات میں فیروز الدین خادم خلافت کی مخلصانہ سرگرمیوں کی بدولت حد درجہ قابل ستائش تھے۔اول الذکر کانفرنس کے صدر استقبالیہ خان بہادر حاجی میاں رحیم بخش صاحب اور صدر اجلاس علامہ اقبال تھے۔آخر الذکر کے صدر استقبالیہ سید مبارک علی شاہ تھے اور صدر جلسہ سیٹھ عبد اللہ ہارون سندھی تھے۔ اقبال کا خطبہ انگریزی زبان میں تھا۔ ج وپہلے طبع ہو چکا تھا۔ اب اس کاترجمہ بھی اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ اس خطبے میں ڈاکٹر صاحب نے زیادہ تر ہنگامی نوعیت کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔اور اپنے اس نقطہ نظر کو ایک بار پھر دہرایا ہے۔ جس کا اظہار وہ آلہ آباد میں مسلم لیگ کے جلسے میں کر چکے تھے۔ یعنی یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی صوبوں اور مشرقی بنگال میں،جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار مملکت قائم ہونی چاہیئے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے بعض ایسے مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ جو پورے مسلم معاشرے سء تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا انہون نے علماء کی بے عملی اور تعلیم یافتہ طبقے کی غفلت کا ذکر کیا ہے۔اور فقہ اسلامی کو جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق مدون کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ملت اسلامیہ کے اتحاد اور تنظیم کی اہمیت وضرورت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مسلمان قوم کو متنبہ فر مایا کہ اگر تم سربلندی اور عروج کے خواہاں ہو تو ایک منظم قوم کی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔کیونکہ ایک متحد قوم ہی اقوام عالم میں سربلندی حاصل کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ خطبہ بھی دوسرے خطبوں کی طرح اس قابل ہے کہ اسے بار بار مسلمان قوم تک پہنچایا جائے۔ یوتھ لیگ کانفرنس نہایت کامیاب رہی۔ صدر جلسہ سیٹھ عبد اللہ ہارون ایک نہایت مخلص،درد مند اور احساس قومی رکھنے والے بزرگ تھے۔ انہوں نے مسلمان نوجوانوں کے دلوں کو قومی خدمت کے جذبے سے سر شار کر دیا،اور لیگ کی فیاضانہ امداد فرمائی۔ اس جلسے کے سیکر ٹری چودہری نذیر احمد خان ایڈوکیٹ تھے۔ وہ خود علامہ کو ان کے گھر سے موٹر میں لائے تھے۔اور خطبہ پڑھنے کے بعد ان کے دولت کدے پر چھوڑ آئے تھے۔ ٭٭٭ ۷۳ ۔ادارہ ء معارف اسلامیہ ادارہ ء معارف اسلامیہ کے بانی علامہ اقبال خود ہی تھے۔ ۱۹۳۳ع میں اس ادارے کی ابتداء ہوئی۔اس کے تین اجلاس ۱۹۳۳ ئ، ۱۹۳۶ء ، اور ۱۹۳۸ء ، میں ہوئے۔ پہلا اجلاس لاہور میں اور آخری دہلی میں منعقد ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے جلسے کی صدارت خود فرمائی تھی۔اور انگریزی میں خطبہ بھی پڑھا تھا۔ تینوں جلسوں کی مطبوعہ روداد راقم کے پاس موجود ہے۔ جو ادارے کے سیکر ٹری شیخ محمد اقبال،پروفیسر پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور کی مرتب کردہ ہے۔ یہ رودائد ساڑھے سترہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ جو پروفیسر صاحب موصوف ہی کی کوششوں سے طبع ہو کر منظر عام پر آئی تھی اور احباب تک پہنچی تھی۔ اس ادارے کی ابتدا ء ا ور اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محمد اقبال مر حوم نے لکھا ہے کہ ۱۹۳۸ء میں جو آل انڈیا اورئینٹل کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔اس کے شعبہ عربی اور فارسی کے صدر علامہ اقبال تھے۔ آپ کو اس کانفرنس میں شریک ہو کر علوم کے حقائق کے ضمن میں جو تجربہ ہوا ۔اس نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اسلامی علوم ومعارف کے ضمن میں بھی ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے پروفیسر محمد شفیع، پروفیسر شیخ محمد اقبال، اور پروفیسر محمود شیرانی کے ساتھ اپنے مکان پر مشورہ کیا،اور مالی مشکلات کے باوجود اس ادارے کے قیام کا فیصلہ ہو گیا۔ پروفیسر سید عبد اللہ نے علامہ اقبال اور دیگر احباب کے مشورے سے اس کے اغراض و مقاصد قلم بند کیے۔ اور ادارہ معارف اسلامیہ نام تجویز ہوا۔ ۱۹۲۸ء کے آخر میں جب علامہ اقبال مدراس تشریف لے گئے ۔اور واپسی پر حیدر آباد میں ٹھہرے،تو وہاں سر اکبر حیدری سے بھی اس ادارے کے سلسلے میں مشورہ کیا۔اور انہیں اغراض ومقاصد کا کتابچہ دکھایا ۔ مقصد یہ تھا کہ سرکاری نظام کو اس ادارے کی افادیت پر متوجہ کرکے ان سے مالی امداد کی در خواست کی جائے۔چنانچہ تمام مراحل طے ہو جانے کے بعد ۱۹۳۲ء میں دو ہزار روپے کی مالی امداد منظور ہوئی۔پروفیسر محمد شفیع چونکہ اس سارے کام میں پیش پیش تھے۔ لہذا جب رقم وصول ہو گئی تو علامہ نے ساری رقم ان کے سپرد کر دی اور فرمایا کہ کام شروع کر دو۔ چنانچہ ۱۹۳۳ء میں پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ چونکہ علامہ اقبال خود اس ادارے کے بانی تھے۔ لہذا جلسے کی صدارت بھی خود انہیں قبول کرنا پڑی۔ صدر جلسہ کی حیثیت سے انہوں نے جو انگریزی میں خطبہ پڑھا تھا۔ بد قسمتی سے وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ تاہم مجھے یاد ہے ،علامہ اقبال نے اس خطبے میں قدیم اور جدید علوم پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالی تھی۔ اور مسلمان علماء کے علمی کارناموں کو جدید علوم کا پیش رو ثابت کیا تھا،قبل ازیں مولانا سید سلیمان ندوی نے تاج محل پر ایک طویل مقالہ پڑھا تھا۔جس میں راقم کے تحقیقی کاموں کا ذکر بھی انہوں نے فرمایا تھا۔بہر حال اس جلسے کی تمام تقاریر،پر مغز اور بلند پایہ تھیں۔ جلسے کی روداد میں وہ یاد گار تصویر بھی چھپ چکی ہے۔ جس میں علامہ اقبال درمیان میں موجود ہیں۔سید سلیمان ندویا ور دیگر اہل قلم بھی اس تصویر مین موجود تھے۔ ۱۹۳۶ع میں اس ادارے کا دوسرا اجلاس بھی لاہور میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت میاں فضل حسین نے کی۔ اور ایک پر مغز خطبہ صدارت پڑھا۔علامہ عبد اللہ یوسف علی جو اس ادارے کے صدر تھے۔انہوں نے انگریزی زبان میں مقالہ پڑھا تھا۔ اس کے بعد جن مقررین کے نام نظر آتے ہیں،ان میں پروفیسر حافظ محمود شیرانی، مولوی عبد الرحمن دہلوی،اور اسلم جیراجپوری شامل ہیں۔علامہ اقبال کی علمی خدمات کو بے حد سراہا گیا تھا۔اور اس ادارے کو قائم رکھنے کے سلسلے میں انہوں نے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا گیا تھا۔ مذکورہ جلسوں کے موقع پر ایک نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ جس میں اسلامی عہد کے مسکوکات کے علاوہ علوم اسلامی سے متعلق مخطوطات، اور کتبات بھی رکھے گئے تھے۔ جنہیں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ اس ادارے کا تیسرا جلسہ ۱۹۳۸ع میں دہلی میں منعقد ہوا ،جس کی صدارت سید شاہ سلیمان،چیف جسٹس الہ آباد ہائی کورٹ نے کی تھی۔ انہوں نے اپنے خطبہ صدارت میں علامہ اقبال اور میاں فضل حسین کی رحلت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی وفات کو ایک بہت بڑا قومی سانحہ قرار دیا تھا۔ صدر استقبالیہ ڈاکٹر سر عبد الرحمن (وائس چانسلر دہلی یونیورسٹی) کے علاوہ ایرانی کونسل نے بھی اس جلسہ میں ایک مقالہ پڑھا تھا۔ اس جلسے کے انتظام میں دہلی کے اینگلو انڈین عربیک کالج کے لوگوں نے نہایت جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا تھا ۔ اورا سے کامیاب بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ ٭٭٭ علی برادران اور علامہ اقبال ۱۹۱۹ء کا سال ہندوستان کی تاریخ میں بڑا ہی پر آشوب سال تھا۔ جس کچھ مفکرین نے اس سال کے مختلف پہلوؤں پرلکھا ہے۔ اس میں زیادہ تر ہندو نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ میں دسمبر ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا۔ جب یہ دونوں بھائی (مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی) ہر دولی سے رہا ہو کر آئے تھے۔ وہاں اس قدر ہجوم تھا کہ جو پہلے بہت کم دیکھنے میں آیا تھا۔ لوگوں میں بے پناہ قومی جذبہ تھا۔اور زیادہ تر لوگ جلیانوالہ باغ دیکھنے آئے تھے۔ جہاں سال گزشتہ ہندوستانیوں پر جنرل ڈاٹر نے گولیاں برسائی تھیں۔ اور ہزاروں بے گناہ لوگ جووہاں جلسے میں شریک تھے۔ ،شہید ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء کے جلسہ کانگرس کی صدارت پنڈت موتی لال نہرو نے کی تھی۔ جو جواہر لال نہرو کے والد تھے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی اس جلسے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ ہندوستان کے تمام اطراف سے لوگوں نے اس جلسے میں شرکت کی تھی۔اس جلسے کے فورا بعد امرتسر کے چوک فرید میں مسلم لیگ کاجلسہ بھی ہوا تھا۔ جو اگر چہ کانگرس کے جلسے کے مقابلے میں تو نہ تھا۔مگر ان دونوں بھائیوں(شوکت علی ا ور محمد علی) کی وجہ سے کافی رونق تھی۔ حکیم اجمل اس جلسے کے صدر تھے۔ کاروائی ا بھی شروع ہی ہوئی تھی کہ علی برادران کی آمد کا اعلان ہوا۔ جس سے جلسے میں مزید جان پڑ گئی۔ پھر تھوڑے سے وقفے کے بعد جب علامہ اقبال مع اپنے احباب نواب زوالفقار علی خان، میاں عبد العزیز اور میاں عبد الحی وغیرہ کے ہال میں داخل ہوئے ۔ تو جلسے کا رنگ ہی بدل گیا۔ان حضرات کو پلیٹ فارم پر جگہ دی گئی۔ علامہ ا قبال نے اس موقع پر ان د ونوں بھائیوں کی طرف اشارہ کرکے مندرجہ ذیل ا شعار پڑھے تھے۔: ہے اسیری اعتبار افزا جو فطرت ہو بلند قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند مشک از فر چیز کیا ہے،اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ ء آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند ’’ شہپر زاغ وزغن در بند قید وصید نیست ایں سعادت تست شہباز وشاہیں کردہ اند امر تسر کے ان جلسوں کے بعد مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی لاہور بھی آئے تھے۔لاہور سے کافی لوگ ان کو لینے کے لئے امرتسر گئے۔ان کاجلوس لاہور ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوا۔ جو کشمیری بازار سے ہوتا ہوا تمام بڑے بڑے بازاروں میں گھوما۔نماز عصر کے وقت یہ جلوس انار کلی بازار میں تھا۔جب عین مکان اقبال کے سامنے یہ جلوس پہنچا تو یہ دونوں بھائی اور ان کے رفقا اقبال کے مکان پر چلے گئے۔ جہاں انہوں نے فریضہ نماز ادا کیا۔ ساتھ ہی علامہ سے حالات حاضرہ بھی گفتگو بھی ہوئی۔ ہر دو بھائیوں نے علامہ سے کہا کہ ہم تو جیل کی مصیبت جھیلتے ہیں۔اور آپ کا کلام اس سلسلے میں مہمیز کا کام کرتا ہے۔مگر آپ ہیں کہ اپنی جگہ سے ہلتے ہی نہیں،علامہ مسکرا دیئے اور فرمایا کہ مولانا ’’ ہ ’’ہرگلے را رنگ وبوئے دگیر است‘‘ یہ دونوں بھائی چونکہ کانگرسی نقطہ نگاہ کے ھامی تھے۔اس لیے علامہ اقبال ان کے سیاسی نظریات سے متفق نہیں تھے۔ مولانا محمد علی ایک بار اپنی اہلیہ کے ہمراہ علامہ کے ہاں مہمان رہے تھے۔ یہ زمانہ راونڈ ٹیبل کانفرنس سے پہلے کا تھا۔اسی زمانے میں علامہ نے کوشش کی تھی ۔کہ جداگانہ انتخابات رائج ہوں۔اور اس سلسلے میں اسلامیہ کالج کے ہال میں ایک جلسہ بھی ہوا تھا۔ ایک دن علامہ کے احباب میں جداگانہ انتخابات پرگفتگو ہو رہی تھی۔مولانا محمد علی اندر تھے۔ یہ گفتگو سن کر انہوں نے چلا کر کہا کہ مخلوط انتخابات تم کو کاٹتا ہے۔اس زمانے میں وہ ذیا بیطیس کے مریض تھے۔ وہ اکثر گاندھی جی کی مدح کیا کرتے تھے۔مگر جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی تو دونوں بھائی کانگرس چھوڑ کر علامہ اقبال کے ہمنوا بن گئے۔ ہم راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے تحت بیان کر چکے ہیں ۔کہ مولانا محمد علی کا انتقال اسی موقع پر لندن میں ہوا تھا۔اور انہیں بیت المقدس (فلسطین) میں دفن کیا گیا تھا۔ ۱۹۲۴ء میں جب حجاز پر ابن سعود کا قبضہ ہو گیا تھا۔اور شریف مکہ نے امرتسر میں ایک کانفرنس کی تھی ۔تو مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کے تیسرے بھائی ذوالفقار علی نے بھی قادیان سے آکر یہاں شرکت کی تھی۔تینوں بھائی عرصے کے بعد ملے تھے۔ اخیر میں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ ٭٭٭ ۷۵۔اسلامی ممالک اور علامہ اقبال افغانستان ہم ان صفحات میںافغانستان میں علامہ کی مقبولیت اور ان کے سفر افغانستان کا مفصل حال بیان کر چکے ہیں۔ آپ کو والی افغانستان جنرل نادر شاہ نے بطور خاص وہاں بلایا تھا۔اور آپ سید راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندوی کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے تھے۔ افغانستان کی تعلیمی اصلاحات پر ایک رپورٹ بھی آپ نے مرتب کی تھی۔ عرب ممالک: جب آپ ۱۹۳۱ء کی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے فارغ ہو کر وطن واپس آرہے تھے ۔تو آپ نے مصر اور فلسطین کا سفر بھی کیا تھا۔ اس سے پیشتر شیخ الازھر لندن میں علامہ سے مل چکے تھے۔ اور آپ ان کی دعوت پر یہ طے کر چکے تھے کہ واپسی پر مصر آئیں گے اور جامعہ ازہر کا مشاہدہ کریں گے۔ چنانچہ جب آپ اٹلی سے گزر کر فلسطین جا رہے تھے ۔ تو آپ قاہرہ بھی گئے اور جا معہ ء ازھر کا معائنہ کیا۔علامہ کی پیشوائی ا ور انہیں متعارف کرانے میں وہاں کے ایک پروفیسر الدکتور عبد الوہاب عزام پاشا سب سے پیش پیش تھے۔ الدکتور عبد الوہاب عزام پاشا ہی نے ایک مفید کتاب بھی علامہ پر عربی زبان میں بعنوان ’’محمد اقبال‘‘ : سیرتہ وفلسفتہ ، وشعرہ ‘‘ ۱۹۵۴ع میں لکھی تھی۔ جیسا کہ میں کسی اور جگہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ صاحب حکومت مصر کی طرف سے پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے تھے۔ یہ کتاب بڑے سائز پر نہوں نے پاکستان میں ہی شائع کی تھی۔اسی کتاب نے اقبال کو عرب دنیا میں روشناس کرایا تھا۔ جو بہت بڑا کار نامہ ہے۔ الدکتور عبد الوہاب عزام پاشا نے اقبال پر بعض مفید مجلہ ’’السبوعہ‘‘ قاھرہ میں لکھے،جو دنیائے عرب میں اقبال کی شہرت کا باعث بنے۔ اس کے بعد الدکتور عبد الوہاب عزام پاشا نے ’’پیام مشرق‘‘ کا عربی نظم میں ترجمہ کیا ،کیونکہ وہ فارسی زبان کے بھی بہت بڑے فاضل تھے۔ اس کتاب کا آخری شعر یہ ہے:۔ ادرک الناس بجب و و ثام انک الداعی الی دار السلام ایران : ویسے تو علامہ اقبال تمام اسلامی ممالک میں مقبول تھے۔ لیکن ایران میں ان کے بہت زیادہ پرستار تھے۔ خود علامہ اقبال کو جوفارسی سے تعلق خاطر تھا۔اور جس طرح انہوں نے فارسی کو اظہار جذبات کا ذریعہ بنایا تھا۔اس نے اور بھی اہل ایران کو متاثر کیا۔ میرے نزدیک علامہ اقبال کی مقبولیت کا آغاز اس وقت ہوا ۔جب ن ،م ،راشد کی تحریک پر تہران کے عجائب گھر میں علامہ اقبال پر ایک ادبی نشست کا انتظام کیا گیا۔اس اجلاس میں ملک الشعراء بہار نے بھی شرکت فرمائی۔انہوں نے اپنی ایک نظم کا آغاز غیر منقسم ہندوستان کی ادبی خدمات سے کیا۔ ہندوستان کے دیگر فارسی گو شعراء کا ذکر کرنے کے بعد جب وہ عہد اقبال تک پہنچے تو انہوں نے کلام اقبال کے حسن اور اس کی گہرائی وعظمت کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا : عصر حاضر خاصہ اقبال گشت واھدی کز صد ھزاراں بر گزشت شاعراں گشتند جیش مور ومار ویں مبارز کرد کار صد ھزار ملک الشعراء بہار کے اس خراج تحسین کے زیر اثر ایرانی ادبیات میں اقبال شناسی یا معرفت اقبال کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔اور اہل ایران نے غالبا پہلی مرتبہ کلام اقبال کواپنی سنجیدہ توجہ کا مستحق قرار دیا۔ یہ واقعہ ہے، کہ اقبال نے بر عظیم پاک وہند میں فارسی زبان کو ایک نئی زندگی دی۔فرنگیوں کے ہاتھوں اس زبان کو اس قدر صدمات سے دو چار ہونا پڑا کہ باید وشاید۔صد ہا سال تک برعظیم پر حکومت کرنے والی اس زبان کا نام ونشان تک مٹانے کی کوشش کی گئی۔اور اسے قعر گمنامی میں دھکیل دیا گیا۔ یہ اقبال ہی تھے ،جنہوں نے اس زبان کو اپنے عظیم خیالات کے لئے ذریعہ اظہار بنا کر اس کا کھویا ہوا وقار بحال کیا۔آج حکومت ایران کے ہزاروں نمائندوں اور لاکھوں کروڑوں کے سرمایے کو برعظیم میں فارسی زبان کے احیا کے سلسلے میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔جو اکیلے اقبال کو حاصل ہوئی ۔ مارچ ۱۹۷۳ء میں اورئنیٹل کالج لاہور کا سو سالہ جشن تاسیس منایا گیا۔ جس میں عالمی شہرت کے مالک ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ حکومت ایران کی طرف سے مشہور ایرانی عالم ا ور محقق پروفیسر مجتبیٰ مینوی نے اس جشن میں حصہ لیا تھا۔اس موقع پر کالج مذکور کے فارسی استاد محمد اکرم شاہ نے ان سے درخواست کی تھی کہ ایرانی لہجے میں اقبال کا کلام سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’زبور عجم‘‘ کی معروف نظم ’’ از خواب گراں خیز‘‘ سنائی ،جس سے محفل پر عجیب سرشاری کی کیفیت پیدا ہو گئی۔انہوں نے یوں اس نظم کو شروع کیا۔: اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز کاشانہ ای ما رفت بتاراج غمان خیز از نالہ ای مرغ چمن، از بانگ اذان خیز از گرمیء ہنگامہ ای آتش نفسان خیز اور ان شعروں پر نظم کو ختم کیا: فریاد زافرنگ ودل آویزی افرنگ فریاد زشیرینی وپرویزی افرنگ عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ معمار حرم! باز بہ تعمیر جھان خیز از خواب گران، خواب گران،خواب گران خیز اب ایران میں کلام اقبال کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔حال ہی میں کلیات اقبال تہران میں دوبارہ شائع ہوئی ہے۔اور اقبال پر متعدد تحقیقی مقالات بھی شائع ہو چکے ہیں۔پروفیسر مجتبیٰ مینوی کی معروف کتاب ’’اقبال لاہوری‘‘ نے اقبال کو اہل ایران سے متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اورہم ان کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ۱۹۳۶ء میں راقم اعلیٰ تعلیم کی غرض سے پیرس میں مقیم تھا۔ کہ ایک ایرانی نوجوان ڈاکٹر غلام حسین صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب اقبال کے غائبانہ عقیدت مند تھے۔اور اکثر کلام اقبال پر اور علامہ کی سیرت وشخصیت پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے احمد حمدی بر جندی کی کتاب پر ایک عالمانہ مقدمہ بھی لکھا تھا۔اور فرانسیسی زبان میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ لاہور میں بعض ایرانی فضلا سے علامہ کے بہت اچھے مراسم تھے۔ان میں مولانا محسن علی سبزواری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جو محلہ چہل بیبیاں میں رہائش رکھتے تھے۔اس طرح ابتدائی زمانے میں علامہ کے معروف شعیہ عالم اور مجتہد علامہ عبد العلی ھروی کے ساتھ بھی علامہ کے بہت قریبی دوستانہ تعلقات تھے۔مجھے یاد ہے کہ ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۴ء کے برسوں میں علامہ اکثر ان کے پاس جاتے تھے۔اور وہ بھی علامہ کے پاس آیا کرتے تھے۔ وہ نواب فتح علی خان قزلباش کے ہاں ایمپرس روڈ پرمقیم تھے۔ علامہ کو اکثر اپنے ہاں چائے پر بلاتے ،اور نہایت لذیذ چائے پلواتے تھے۔ایک مرتبہ رقام بھی علامہ کے ہمراہ انکی قیام گاہ پر گیا تھا۔دونوں حضرات میں فارسی زبان میں گفتگو ہوتی تھی۔اور اکثر مختلف فیہ مسائل زیر بحث آتے تھے۔ علامہ عبد العلی ھروی بہت بڑے بلند پایہ شیعہ عالم دین تھے۔ اور انہیں فارسی ادب سے بھی دل چسپی تھی۔ علامہ کی خواہش تھی کہ وہ حیدر آباد دکن میں کوئی اعلیٰ عہدہ قبول کر لیں ،مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ طہران کے دینی ادارے ’’حسینیہ ارشاد‘‘ کے ارکان کو علامہ اقبال سے غیر معمولی عقیدت تھی۔انہوں نے علامہ کی مشہور مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ میں سے منقبت امام حسینؓ ؓکو اپنے ایک رسالے میں بطور ضمیمہ شامل کیا تھا۔اور ادارے کی مسجد کی چھت کو اشعار اقبال سے مزین کیا تھا۔اسی ادارے نے ۱۹۶۸ء میں اقبال کے ترانہ ء ملی کا منظوم ترجمہ کرکے عربی اور فارسی کے ترانوں کے ایک مجموعے میں شامل کیا تھا۔ یہ کتابچہ ۶۵ صفحات پر مشتمل تھا۔ حاجی سید ابو الفضل زنجانی مجتہد اس مجلس کے صدر تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر شہیدی نے بر عظیم میں اسلام کے پائدار اثرات پر تقریر کی تھی۔ اور ڈاکٹر شیر علی نے احیائے فکر اسلامی کے موضوع پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔سید محمد محیط طبا طبائی نے جو ایران میں’’ زبدہ ء اقبال شناسان‘‘ سمجھے جاتے تھے۔اقبال کی ایران شناسی کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی تھی۔ خواجہ عبد الحمید ایرانی کی کتاب ’’اقبال‘‘ ایرانیوں کی نظر میں ایک قابل قدر تصنیف ہے۔جس میں علامہ اقبال کے فلسفے ،تفکر اور ان کی شاعری کے سلسلے میں اہل ایران کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں ڈاکٹر تحقیق کے مقالے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جس نے اقبال شناسی کے ضمن میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سید غلام رضا سعیدی نے علامہ اقبال کے اسلامی تفکر کو فہم قرآن کریم کے سلسلے میں ایک تحریک قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض نے رسالہ ’’فکر ونظر‘‘ میں ایک مفید مضمون ’’ایران میں مطالعہ اقبال‘‘ کے نام سے سپرد قلم کیا ہے۔ جس میں ایران میں اقبا ل ا ور فکر اقبال کی مقبولیت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضمون رسالہ ’’فکر ونظر‘‘ کے اپریل ۱۹۷۶ع کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ آخر میں مجلہ ’’آتش‘‘ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جس میں متعدد ایرانی علماء اور فضلاء نے اقبال کے فکر وفلسفہ پر تحقیقی اور علمی مضامین لکھے۔ اور انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ مضامین رسالہ ء مذکور کی ۱۳۳۰ کی اشاعت میں شامل ہیں۔ ترکی: ایک دفعہ میں نے علامہ سے ذکر کیا کہ لپزگ (جرمنی) کے ایک کتب فروش آٹو ہیر سووٹس کے پاس سلطان محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کا دیوان موجود ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھے حکم دیا کہ یہ دیوان ہر قیمت پر حاصل کیا جائے۔چنانچہ میں مذکورہ کتب فروش کی دکان پر گیا۔ اور دیوان اس سے لے کر علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ دیوان ترکی زبان میں تھا۔ا ور علامہ اس سے واقف نہ تھے۔تاہم وہ شاعر کے خیالات جاننا چاہتے تھے کہ ایک سپاہی شہنشاہ کا کلام کس پایے کا ہے۔ اوراس کے خیالات اور فکر کی گہرائی کی کیفیت کیا ہے؟۔مگر جب وہ کسی نہ کسی طرح وہ دیوان کے مطالب سے آگاہ ہوئے تو یہ کلام انہیں قطعا متاثر نہ کر سکا۔ یہ دیوان آخر تک علامہ کے کتب خانے میں رہا۔ اور اب بھی اسلامیہ کالج لاہور کی لائبریری میں محفوظ ہے۔جب علامہ اقبال نے اپنے شہرہ آفاق خطبات مدراس لکھنا شروع کیے تو اپنے نقطہ نظر کی تائید میں جہاں انہوں نے اور بہت سے علماء وشعراء کے کلام کا حوالہ دیا۔وہاں اپنے پہلے خطبے (علم اور مذہبی تجربہ) ترکی کے مشہور شاعر توفقی فطرت کے کلام سے بھی استشہاد کیا۔ اور اس کا تقابل میرزا بیدل کے فکر وفلسفہ سے کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ کی نظر کس قدر وسیع اور وہ کہاں سے کہاں علم کے موتی تلاش کر لیتے تھے۔ علامہ اہل ترکیہ کی عظمت اور بہادری کے شروع ہی سے معترف تھے۔اور انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آج اگرچہ ترکی زبان ہمارے لئے اجنبی اور غیر مانوس ہے۔ مگر ایک وقت تھا کہ برعظیم میں یہی زبان مقتدر تھی۔ ترکی سے اپنیاس ناواقفیت کی بنا پر آج ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ترکی میں علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ پر کیا کام ہوا۔؟۔اور فکر اقبا ل کی مقبولیت کا وہاں کیا عالم ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہاں علامہ اقبال کے تراجم بھی شائع ہوئے ہیں۔ اور ان کی شخصیت اور شاعری پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔ مگر ہم اس کی کمیت اور کیفیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عبد القادر کراخان ترکی کے معروف اہل علم ہیں۔اور فکر اقبال میں ان کی دلچسپی سے سبھی اہل علم واقف ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کی شخصیت اور فن پر جو شاندار کتاب لکھی ہے۔ اس نے ترکیہ میں علامہ کو متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اس میں نہ صرف انہوں نے اقبال کے فلسفے اور کلام پر عالمانہ تبصرہ کیا ہے۔ بلکہ آخر میں کلام کا کچھ حصہ ترکی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ۲۳۰ صفحات کی یہ کتاب استنبول سے شائع ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے سید سجاد حیدر کے ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ خلیل آفندی نے بھی علامہ کے کلام کا کچھ حصہ ترکی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ مگر اس ضمن میں ہماری معلومات ابھی تک تشنہ ہیں۔ ٭٭ جامعہ ملیہ میں خطبہ صدارت میں ’’پیام مشرق‘‘ کی اشاعت ثانی کے تحت لکھ چکا ہوں۔ کہ ۱۹۲۳ء میں جامعہ ملیہ کے اساتذہ ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر مجیب اور پروفیسر غلام السیدین جب لاہور آئے تھے تو وہ علامہ اقبال سے بھی ملے تھے۔اور انہوں نے ’’پیام مشرق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شایان شان طریقے پر شائع کرنے کی پیش کش کی تھی۔ دراصل علامہ سے ان لوگوں کے گہرے روابط تھے۔ اور وہ ان کے علمی کمالات کے دل سے معترف تھے۔ ۱۹۳۳ء میں جامعہ ملیہ نے توسیعی لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس میں دیگر اہل علم کے علاوہ ترکی کے معروف فاضل غازی روؤف نے بھی شرکت کی تھی۔ جو پیرس سے دہلی تشریف لائے تھے۔اور کم سے کم دو لیکچروں کی صدارت قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔ مارچ ۱۹۳۳ء کا مہینہ ان لیکچروں کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ چنانچہ علامہ نے بخوشی یہ دعوت قبول فر مالی اور ۱۷ مارچ کو لاہور سے دہلی روانہ ہو گئے۔ سید نذیر نیازی بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ جب آپ دہلی پہنچے تو بہت سے زعما اور اہل علم ریلوے اسٹیشن پر آپ کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے۔ان میں ڈاکٹر انساری، ڈاکٹر ذاکر حیسن اور غازی روؤف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ طے یہ پایا تھا کہ ان لیکچروں کا آغاز غازی روؤف کے خطبات سے کیا جائے۔ اور علامہ ان کے دونوں لیکچروں کی صدارت فرمائیں۔ اسی شام محمد علی ہال میں غازی روؤف کے پہلے لیکچر کے اسی سلسلے کا آغاز ہوا،اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر انصاری نے جلسے کا افتتاح کیا۔ جب علامہ ہال میں داخل ہوئے تو نہایت جوش وخروش سے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر انصاری نے اپنے کلمات افتتاحیہ میں غازی روؤف اور اور علامہ اقبال کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ کہ انہوں نے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے ان جلسوں کے لئے وقت نکالا اور اپنے بلند پایہ خیالات سے نوازا۔اس کے بعد جلسہ شروع ہوا۔ اور گازی روؤف نے اپنا خطبہ پڑھا۔ پھر علامہ سے درخواست کی گئی کہ وہ خطبہ صدارت ارشاد فرمائیں۔علامہ کی یہ تقریر خاصی طویل تھی ،ج وکم وبیش ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔علامہ نے اپنی تقریر میں عالم اسلام کی تازی بیداری کا تذکرہ چھیڑا۔اورترکی کے انقلاب کو موضوعگفتگو بنایا۔پھر مسئلہ جہاد، مسئلہ خلافت اور اتحاد بین المسلمین پر نہای تبلن دپایہ اور مدلل تقریر کی۔ علامہ کایہ خطبہ صدارت انگریزی زبان میں تھا، جسے پڑھے لکھے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ اور انہیں دل کھول کر داد دی۔ تاہم مجمع میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس تقریر کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اور وہ لوگ نامطمئمن تھے۔ علامہ نے اپنی تقریر کو ان انشعار پر ختم کیا۔: روح مسلم میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا جلسے کے اختتام پر لوگ علامہ سے لپٹ گئے۔اور ان کے ہاتھوں ک وبسے دے کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ علامہ نے پروگرام کے مطابق غازی روؤف کے دوسرے لیکچر کی صدارت بھی کی تھی۔مگر اس موقعے پر آپ نے کوئی خطبہ صدارت ارشاد نہیں فرمایا۔ غازی روؤف کے اس خطبے کا موضوع ’’جنگ عظیم‘‘ تھا۔ جب تک علامہ جامعہ ملیہ کے مہمان کی حیثیت سے دہلی میں مقیم رہے۔ان کے ارد گرد اہل علم اور معتقدین کی خوب چہل پہل رہتی تھی۔ جب آپ رخصت ہونے لگے تو ڈاکٹر انصاری نے آپ کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ اور درخواست کی کہ جامعہ ملیہ آپ کی مزید توجہ اور التفات کا مستحق ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ آپ پھر بھی تشریف لائیں،اور اس ادارے کے اساتذہ اور طلبہ کو اپنے ارشادات عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے وعدہ کر لیا اور ۵،اپریل ۱۹۳۳ء کو ایک مرتبہ پھر جامعہ ملیہ دہلی تشریف لائے ۔جہاں آپ نے تقریر بھی کی اور جامعہ کے طلبہ سے ملاقات بھی فرمائی۔جامعہ ملیہ کی ان تقریبات کا ذکر علامہ اپنے احباب کی محفلوں میں اکثر کیا کرتے تھے۔ ٭٭٭ ۱۔مکتوبات اقبال،مرتبہ سید نذیر نیازی،مطبوعہ اقبال اکادمی صفحات ۹۷،۱۱۳ ۷۷۔فتوی ترک موالات جمعیۃالعلمائے ہند غالبا ۱۹۴۰ع میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے صدر مفتی مولانا کفایت اللہ صاحب اور ناظم مولانا احمد سعید صاحب مقرر ہوئے تھے۔کم وبیش پانچ سوجلیل القدر علمائے ہند نے اپنے دستخطوں سے ترک موالات کے حق میں فتوی صادر کر رکھا تھا۔ یہ فتوی حکومت نے ضبط کر لیا۔ جس کے خلاف ایک زبردست ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس فتوی کی بنیاد مندرجہ ذیل آیات قرانی پر تھی۔ جو فوج میں نوکری کرنے والوں کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ ’’ ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاؤہ، جھنم خالدا فیھا غضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ، عذابا عظیما ‘‘۔ ترجمہ: جوکوئی قتل کرے کسی مومن،یعنی مسلمان کو جان کر ،پس اس کی سزا دوزخ ہے۔ہمیشہ رہنے والا ہے ،بیچ اس کے، اور غضب ہو اللہ کا اوپر اس کے ، اور لعنت کی اس کو،اور تیار کر رکھا ہے ،واسطے اس کے عذاب بڑا۔‘‘ اس اعتبار سے یہ فتوی حکومت وقت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور فوج میں کام کرنے والے مسلمان جوانوں کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا تھا۔اگر انہوں نے اس غیر مسلم حکومت میں شامل ہو کر کسی مسلمان کی جان لی تو وہ اپنے آپ کو عذاب خدا وندی میں مبتلا کریں گے۔ اس موضوع پر مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی نے علامہ اقبال کے خیالات جاننے چاہے،تو آپ نے فرمایا کہ برٹش گورنمنٹ کے خلاف یہ فتوی اسی روز نافذ ہونا چاہیئے تھا۔ جس روز ہندوستان میں برٹش گورنمنت کا راج ہوا تھا۔ ہزار ہا نوجوان برٹش گورنمنٹ میں بھرتی ہوئے اور ہزار ہا نوجوانوں نے برٹش گورنمنت کے لئے جانیں قربان کیں۔ اس کے علاوہ مسلمان سپاہیوں نے بار ہا حکومت برطانیہ کے تحفظ کے لیے گولیاں بھی چلائی ہیں۔ ۷۸۔نواب احمد یار خان دولتانہ (علامہ اقبال کا مکتوب) شملہ ۲۸ جولائی ۱۹۲۹ع جناب ایڈیٹر صاحب ،انقلاب! السلام علیکم ۲۶ جولائی ۱۹۲۹ع کے انقلاب میں آپ نینواب احمد یار خان دولتانہ کے ایک مکتوب کا حوالہ دیا تھا۔ میں اس مکتوب کے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔اور استدعا کرتا ہوں کہ سطور ذیل اپنے کسی اخبار کے کسی کالم میں شائع فرما کر مجھے ممنون فرمائیں۔ نواب احمد یار خان دولتانہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کسی مطبوعہ پمفلٹ میں وہ تمام تجاویز درج تھیں،جن پر اب انقلاب معترض ہے۔اوراس پمفلٹ کی تجاویز پر تمام مسلم ارکان کونسل نے دست خط ثبت کیے تھے۔اور اسی واسطے نواب صاحب موصوف کے خیال میں اس مسلم کشی کے لئے صرف پنجاب سائمن کمشن کے ممبر ہی ذمہدار نہیں،بلکہ تمام مسلم ارکان کونسل بھی ذمہ دار ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ مطبوعہ پمفلٹ وہی تحریر ہے ،جس پر آپ نے متعدد مضامین ’’انقلاب‘‘ میں لکھے تھے۔اور جس کی تجاویز کے خلاف لاہور کے تمام میونسپل وارڈوںنے ریزولیوشن پاس کیے تھے۔ یہ ریزولیشن بھی غالبا آپ کے اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔پنجاب سائمن کمشن کی سفارشات کا مجھے کوئی علم نہیں۔ان کی رپورٹ ابھی تک شائع نہیں ہوئی،لیکن نواب صاحب کے خط سے جس کا ملحض آپ نے انقلاب میں شائع کیا ہے۔معلوم ہوتا ہ یکہ آپ ک اخطرہ بالکل بجا ہے۔اور غالبا پنجاب سائمن کمیشن کی سفارشات وہی ہیں ۔جو مذکورہ بالا پمفلٹ میں درج ہے۔بہر حال میں نے متعدد اکارن کونسل سے دریافت کیا ہے۔ وہ سب کے سب مذکورہ پمفلٹ کی تجاویز پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نواب احمد یار خان صاحب سے بھی میں نے گفتگو کی۔ وہ فرماتے ہیں کہ کوئی میٹنگ کسی جگہ ہوئی تھی۔ جہاں مسلم ارکان کونسل نے ان تجاویز پر دستخط کیے تھے۔ ممکن ہے نواب صاحب کے پاس ان حضرات کے دست خط محفوظ ہوں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی ایسی میٹنگ میں شریک نہیں ہوا،اور نہ ہی کسی پمفلٹ کی تجویز پر دستخط کیے ہیں۔ جن ارکان کونسل سے میں نے دریافت کیا ہے۔ ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔ سردار حبیب اللہ، مسٹر دین محمد، سید محمد حسین شاہ، مولوی سر رحیم بخش، پیر اکبر علی، ملک محمود الہیٰ، شمس آبادی، مسٹر غلام یاسین۔ ان حضرات نے بڑے زور سے نواب احمد یار خان صاحب کے بیان کی تردید کی ہے۔ مسٹر دین محمد تو شایداسی مضمون کی کوئی تحریر بھی آپ کی خدمت میں اشاعت کے لئے ارسال کر چکے ہیں۔ محمد اقبال (انقلاب ۳۱ جوالئی ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ ۷۹۔ مسٹرگزٹ لاہور سے علامہ اقبال کے زمانے میں ایک صاحب علی بخش نامی ایک اخبار ’’ مسٹرگزٹ‘‘ نکالتے تھے۔ اسی اخبار کے نام کی نسبت سے اس شخص علی بخش کو بھی لاہور کے لوگ ’’ مسٹرگزٹ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ اخبار چونکہ باقاعدگی سے نہیں چھپتا تھا۔لہذا ہم اسے روز نامہ ہفتہ وار نہیں کہہ سکتے۔اکثر اوقات صرف دو ہی ورق ہوتے تھے۔ اور ان میں بھی کوئی خاص مضمون نہیں ہوتا تھا۔ یہی اخبار ان کاذریعہ معاش تھا۔ وہ ابتدا میں کسی اور اخبار میں ملازم بھی رہ چکے تھے۔ ان کی صرف ایک آنکھ تھی۔ اور لاہور کے بدنام علاقے ٹبی میں رہتے تھے۔ وہ نہایت بے اعتدالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو شراب نوشی کی بھی عادت تھی۔ وہ اکثر طوائفوں کے ہاں پڑے رہتے تھے۔ اور ان کی دعا گوئی کرکے کہیں نہ کہیں چسکی لگا لیا کرتے تھے۔ ان کا اخبار ’’ مسٹرگزٹ‘‘ مشکل سے دوسو یا اس سے بھی کم چھپتا تھا۔جس میں عام طور پر اسی بازار سے متعلق قصیدہ خوانی ہوتی تھی۔ اور اکثر اس قصیدہ خوانی سے کچھ نہ کچھ وصول کر لیتے تھے۔ وہ مجمع لگا کر بلند آواز سے اور للکار کر اخبار بیچا کرتے تھے۔ جس سے اکثر ناواقف لوگ خوب متاثر ہو جاتے تھے۔ بہر حال ان کو اخبار بیچنے کا فن خوب آتا تھا۔ کبھی کبھی پریشان ہو کر وہ علامہ اقبال کے ہاں بھی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی پر پہنچ جاتے تھے۔ اور نہایت بلند آواز سے للکار کر کہتے تھے۔ ’’گھر گھر گزٹ، گھر گھر مسٹر ’’ مسٹرگزٹ‘‘ ۔ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا تھا۔جس پر علامہ کا ملازم علی بخش خاموشی سے ان کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کر دیتا،اور وہ دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو جاتے۔غرض کہ ان کا یہ نعرہ گھر گھر ’’ مسٹرگزٹ‘‘ لوگوں میں خوب مشہور تھا۔ ان کا لباس عام طور پر پاجامہ یا ادھڑی ہوئی پتلون قمیض اور سر پر ٹوپی ہوتی تھی۔ بعض اوقات دوسروں کے اشعار بھی الاپتے تھے۔ جو ان کو بہت یاد تھے۔ غرض کہ وہ ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے۔ ٭٭٭ ۸۰۔ فضل کریم درانی لاہور میں ایک متوسط عمر کا شخص فضل کریم درانی رہتا تھا۔ جوریلوے روڈ پر عرب ہوٹل کے قریب قومی کتب خانے میں شیخ محمد نصیر ہمایوں کے ہاں علمی کام کرتا تھا۔بی ،اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اول وہ جموں کے ایک سکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ہو گیا تھا۔ اور وہاں سے احمدیوں کی لاہوری پارٹی کے زیر نگرانی جرمنی میں بطور مبلغ چلا گیا تھا۔ جہاں اس نے مسجد سے ملحقہ ایک حصے کو رہن بھی رکھ دیا تھا۔ ان نے آنحضرت صلم کی حیات طیبہ پر علمی کام بھی کیا، اور کچھ کام انگریزی میں طبع ہو گیا تھا۔ اس کے ا س علمی کام نے اسے کچھ شہرت بھی دی تھی۔ لاہور میں وہ اکثر مفلوک الحال رہتا تھا۔اس کے کھانے کا انتظام عرب ہو ٹل میں تھا، جہاں اس نے کبھی پوری طرح ہوٹل کے بل ا دا نہیں کیے تھے۔ بقول شیخ عبدالسلام (آئینہ ادب لاہور)درانی صاحب نے میرے ہاتھ اپنی تصنیف بنام ’’آنحضرت صلم‘‘ (انگریزی) علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کی اور ہدایت کی کہ کتاب علامہ اقبال کو دے کر فورا واپس آجانا۔چنانچہ شیخ عبد السلام وہ کتاب لے کر آپ کے ہاں میکوڈ روڈ والی کوٹھی پر گیا۔جب انہوں نے کتاب علامہ کو دی۔ تو آپ نے عبد السلام سے دریافت کیا۔ کہ درانی صاحب بخریت ہیں۔ ’’عبد السلام نے کہا کہ وہ بخریت ہیں۔‘‘ پھرعلامہ نے کہا میرے تکیے کے نیچے جو نقدی پڑی ہے۔ وہ اٹھالو۔ اور درانی صاحب کے حوالے کردو۔ چنانچہ جس طرح عبد السلام سے کہا گیا۔اس نے اسی طرح اس پر عمل کیا۔ چونکہ درانی صاحب نے عبد السلام کو ہدایت کر دی تھی کہ کوئی بات نہیں کرنی، لہذا اس نے وہاں سے صرف رقم لی ،جو چھہتر روپے اور کچھ آنے تھی۔پھر خوشی خوشی واپس آکر تمام واقعہ درانی صاحب کو سنایا ،جس پر انہوں نے رونا شروع کر دیا۔اور انہیں مجبور کیا کہ ابھی یہ رقم واپس کر آؤ۔مگر پھر کہا اس میں سے پانچ روپے مجھے دے دو اور اپنی گرہ سے پانچ روپے ڈال کر پوری رقم کل ڈاکٹر صاحب کو واپس کر آنا۔ مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی۔کیونکہ درانی صاحب نے عبد السلام سے بقیہ رقم بھی لے لی۔ جو ان کے پاس تھی ۔اور خود ہی ساری خرچ کر ڈالی۔ اس تمام قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کودرانی کی مالی حالت کا علم تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ درانی نے علامہ کو کوئی خط لکھا ہو۔ جس پر علامہ نے فورا عبد السلام کو رقم دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس تمام واقعے سے درانی کی ابتر مالی حالت،اس کی ناداری اور خود داری عیاں ہے۔ درانی کا انتقال پاکستان بن جانے کے بعد ہوا۔ اس کی بیوی انگریز تھی۔ جس سے ا س کے دوبچے بھی تھے۔ مگر وہ اس کی زندگی میں ہی اس کی حالت دیکھ کر یورپ چلی گئی۔ تاہم وہ بحیثیت بیوی کے اسے برابر خط ارسال کرتی رہی ۔ ٭٭٭ ۸۱۔ چراغ حسن حسرت اہل لاہور آج بھی مولانا چراغ حسن حسرت کے فکاہی کالموں اور ان کے ادبی کار ناموں کا ذکر کرکے لطف لیا کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے خاص رنگ میں ایک چھوٹی سی کتاب ’’اقبال نامہ‘‘ لکھی تھی۔ اس کے صفحہ ۳۳ پر وہ لکھتے ہیں۔ ’’ حضرت کے ساتھ مجھے بے حد اور بے انتہا عقیدت تھی۔ ۱۹۰۸ء کا ذکر ہے ،جب میری عمر ۱۴ سال تھی۔ بزم اردو کے مشاعروں میں چونکہ ان کے تمام معزز حضرات احباب شریک ہوئے تھے۔ اس لیے آپ بھی تشریف لے جاتے تھے۔ ۱۹۱۷ع کا ذکر ہے ۔محمڈن ہال میں بزم اردو کا مشاعرہ تھا۔ میاں شاہ دین ہمایوں مر حوم صدر تھے۔ حضرت علامہ بھی شریک ہوئے تھے ۔میں ان دنوں لاہور کی پبلک سے روشناس نہیں ہوا تھا۔ کسی صاحب نے میاں صاحب مرحوم تک میرا نام بھی پہنچا دیا۔ میں نے مصرع طرح پر ایک غزل پڑھی جس کا مطلع یہ تھا: وہ ہے حیرت فزائے چشم معنی سب نظاروں میں تڑپ بجلی میں اس کی،اضطراب اس کا ستاروں میں مجھے علامہ سے داد کی تمنا تھی۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ لیکن بعض اشعار پر علامہ نے میری بے حد حوصلہ افزائی فرمائی۔۔۔ دنیا بھر کا یہ عظیم الشان انسان جب اپنے معمولی بستر پر تکیہ لگا کر بیٹھتا ہے۔ اور حقے کی رفاقت میں فلسفہ وشعر کی بلندیوں پر پرواز کرتا ہے۔ تو دنیا بھر کے اہل علم اس کی رفعت تخیل کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ جنگ بلقان کے جلسے کا انتظام مولوی ظفر علی خان نے کیا تھا۔ آغا حشر بھی شریک جلسہ تھے۔۔۔ علامہ اقبال نے غازی روؤف کے جلسہ کی صدارت کی تھی۔ لیکچر کا عنوان ’’اتحاد اسلامی اوروطنیت‘‘ وغیرہ قسم کا تھا۔۔۔ ایک گھنٹے کے قریب یہ تقریر رہی۔۔۔ اس کے بعد علامہ اٹھے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک اس موضوع کے ہر پہلو پر ایسی بلیغ انداز میں تقریر کی کہ حاضرین عش عش کر اٹھے۔انہوں نے اتحاد اسلامی کی ضرورت اور اہمیت کو واضع کیا۔ اور پھر ان اعتراضات کاذکر کیا ،جو اہل یورپ اکثر کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے موجود عطنیت کے تخیل کا ذکرکرکے اس کے خوب پرخچے اڑائے۔ تقریر کے آخر میں سب سے پہلی مرتبہ انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ایک بند پڑھا۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔ سلسلہء روز وشب نقش گر حادثات سلسلہ ء روز وشب اصل حیات وممات غازی روؤف کے دوسرے لیکچر کی صدارت بھی علامہ نے کی، مگر مختصر تقریر کی۔ پھر چند ماہ بعد تشریف لائے،اور تقریر کی درخواست کی گئی تو علامہ نے خود ہی اپنی تقریر کا موضوع ’’لندن سے قرطبہ‘‘ تک پسند فرمایا۔‘‘ پھر اقبال کی محفل کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی تصنیف ’’مردم دیدہ‘‘ میں لکھتے ہیں: علامہ سے ملنے والوں میں دو شخص بہت دل چسپ تھے۔ مولوی گرامی، اور عبد اللہ چغتائی۔گرامی صاحب ہوشیار پور کے رہنے والے اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ٭٭٭ ۸۲۔ محمد صدیق نعت خوان لاہور میں عام طور پر منتظمان جلسہ کے ذمے یہ ایک فرض ہو گیا تھا۔ کہ ج بکبھی علامہ سے کوئی نظم سننے کاانتظام کیا جائے ۔تو ان سے پیشتر ایک نعت نما نظم ضرور پڑھی جائے۔اور وہ نظم عام طور پر مسٹر صدیق پڑھا کرتے تھے۔جو بھاٹی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ صدیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں علامہ نے انہیں بلوایا، دراصل انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ان کو ایک نظم پڑھنی تھی۔مگر بیماری کی وجہ سے وہ اونچی آواز میں نہیں بول سکتے تھے۔ان دنوں علامہ اپنی نئی کوٹھی اقبال منزل میں منتقل ہوچکے تھے۔ اور چوہدری محمد حسین بھی آپ کی خدمت میں موجود رہتے تھے۔چنانچہ علا مہ کے اشارے پرچوہدری محمد حسین نے صدیق صاحب کو ان کی یہ مشہور نظم جلسے میں پڑھنے کی فرمائش کی۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا کہ علامہ کی خواہش ہے کہ آپ یہ نظم نعت کے انداز میں پڑھیں۔چنانچہ صدیق صاحب نے ایسا ہی کیا۔ جس کا مجمع پر بہت اچھا اثر ہوا۔ الیکشن کے موقعہ پر ایک جلسے کا انتظام کیا گیا۔ جس میں علامہ بھی تقریر کرنے والے تھے۔جب علامہ تشریف لائے تو جلسہ شروع ہوا۔مگر کسی وجہ سے لوگوں میں ایسا انتشار اور افراتفری مچی کہ لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ صدیق صاحب بھی اس جلسے میں موجود تھے ۔اور علامہ کے قریب بیٹھے تھے۔ آپ نے فورا انہیں پاس بلا کر کوئی نظم پڑھنے کو کہا، چنانچہ صدیق صاحب نے خوش الحانی سے علامہ کی مشہور اور شہرہ آفاق نظم شکوہ جواب شکوہ کا ایک بند پڑھا ،تو ایک دم مجمع میں ٹھہراؤ پیدا ہو گیا۔ اور لوگ خاموش ہو گئے۔ صدیق صاحب ہی کی یہ روایت ہے کہ ایک بار ہندوؤں نے میونسپل کمیٹی کی باقاعدہ اجازت کے بغیر ٹکسالی دروازے کے باہر کمیٹی باغ کے کنارے ایک سبیل لگائی۔ بھاٹی دروازے کے پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کو جب یہ معلوم ہوا تو بہت پریشان ہوئے،چنانچہ صدیق صاحب سمیت نوجوانوں کا ایک وفد علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ایسی ہی ایک سبیل جو ہندوؤں کی سبیل کے سامنے سڑک کے شمالی رخ واقع ہو، ہمیں بھی لگانے کی ضرور اجازت دی جائے۔ جب علامہ نے لڑکوں کا یہ جوش وخروش دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا کہ میں آ پ کی ہمت اور درد مندانہ جذبات کی قدر کرتا ہوں۔مگر ہمارے پاس اس سے بھی اہم امور ہیں ،جو اولین توجہ کے مستحق ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھارنے کی ضرورت ہے۔ جو بہت ہی ناگفتہ بہ ہے۔ مسلمان شادی ،بیاہ اور مرگ کے موقعے پر غیر ضروری بھاری اخراجات کرکے طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں،بلکہ ہندوؤں سے جوہمارے ازلی دشمن ہیں،سے قرض لے کر عمر بھر ذلیل ہوتے ہیں۔پھر شادی بیاہ کے موقعے پر تو کسی حد تک اخراجات جائز بھی ہیں۔ مگر وفات کے موقعے پر دیگیں پکانے کا کیا جواز ہے؟۔ ابھی تجہیز وتکفین کا کام بھی مکمل نہیں ہوتا،اور جنازہ گھر میں موجود ہوتا ہے کہ طرح طرح کے پکوان پکنے شروع ہو جاتے ہیں۔چاہے میزبان کی اپنی اقتصادی حالت کتنی ہی خراب ہو لیکن وہ مہمانوں کے لئے حلوے مانڈے کا انتظام کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ورنہ برادری میں ناک کٹ جانے کا خوف ہوتا ہے۔ علامہ نے فرمایا کہ ان بیہودہ رسموں کو ختم کرنا ہمارا سب سے پہلا فرض ہے۔ تاکہ مسلمان قرض کی لعنت سے نجات پاکر ہندوؤں کی اقتصادی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لیں۔تاہم انہوں نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے خیال سے سبیل لگانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا۔ صدیق صاحب کی ایک اور روایت ہے کہ بہت عرصہ پہلے لاہور میں محمود نام کے ایک شخص ہندو ہو گئے اور انہوں نے اپنا نام دھرم پال رکھ لیا۔کچھ عرصے کے بعد وہ پھر مسلمان ہو گئے۔ اور’’ محمود دھرم پال‘‘ کے نام سے آریہ مذہب کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔جب ان کی کافی تحریریں شائع ہو گئیں ،تو ہندوؤں نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔علامہ ان دنوں موہن لال روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ ایک روزصدیق صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، کہ آپ محمود دھرم پال کے مقدمے کی پیروی کریں۔آپ نے فرمایا کہ میں اس کے رویے سے مطمئن نہیں ہوں ،اور نہ ہی مجھے اس کا طریق کار پسند ہے۔ تاہم صدیق صاحب کی درخواست پر انہوں نے اس کا مقدمہ اپنے ذمے لے لیا، مگر افسوس کہ اس مقدمے کی تفصیلات ہمیں نہیں مل سکیں۔ ایک روز حضرت علامہ کے ہاں تبلیغ اسلام کے موضوع پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی۔ اور علامہ فر مارہے تھے،کہ تبلیغ نہایت موثر انداز میں ہونی چاہیئے۔ آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میں نے ایک خوب صورت ہندو عورت سے کہا کہ تمہیں اللہ نے کس قدر حسین پیدا کیا ہے۔ اگر تمہارے اس خوب صورت جسم کو آگ میں جلا دیا جائے تو کیا تمہیں اچھا لگے گا۔ یا تم اسے برداشت کر لوگی۔ وہ ایک دم چونکی،اور اس کے بعد اسے ہندو مذہب سے نفرت ہو گئی۔آپ نے فرمایا کہ تبلیغ کا اثر بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ سانٹئفک طریقے اور نفسیاتی انداز میں کی جائے۔ صدیق صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے علامہ کو ہمیشہ نہایت شائستہ گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔ حاضرین میں سے کوئی اگر سخن ناگوار قسم کی گفتگو کرتا یا بے موقع بولتا تو آپ اسے بڑی خوب صورتی سے اس کو اس بات کا احساس دلاتیاور اگر وہ پھر بھی باز نہ آتا ،تو اس گفتگو کا موضوع ہی بدل دیتے۔ ۸۳۔اقبال اور حالی (مولانا حالی کا صد سالہ جشن ولادت) اکتوبر ۱۹۳۵ء میں بعض اہل دل بزرگوں نے مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کی صد سالہ تقریب پانی پت میں منانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ یہ تقریب پورے اہتمام سے پانی پت میں منائی گئی ،جس کی صدارت نواب حمید اللہ خان والی بھو پال نے کی،نواب صاحب ایک روشن خیال انسان تھے۔ اور مولانا حالی سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ جن اہل علم نے اس میں شرکت کی،اور مقالات پڑھے،ان میں سید راس مسعود اور علامہ اقبال بھی شامل تھے۔اگر چہ حضرت علامہ ان دنوں خاصے علیل تھے۔اور نقاہت کی وجہ سے سفر کے قابل نہیں تھے۔مگر اس کے باوجود انہوں نے اس تقریب میں شرکت فرمائی اور مولانا حالی کی شان میں اشعار بھی پڑھے۔اگر چہ وہ خود تو یہ ا شعار اپنی علالت کی وجہ سے نہیں پڑھ سکے،مگر وہ شریک ضرور ہوئے۔اشعار یہ ہیں: مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می دانم چوں محمل را گراں بینم،حدی را تیز تر خوانم حمید اللہ خان ،اے ملک وملت را فروغ از تو زالطاف تو موج لالہ خیزد از خیابانم طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را نوائے اوبہ جاں ہا افگند شورے کہ من دانم بیا تا فقر وشاہی در حضور او بہم سازیم تو بر خاکش گہر افشاں ومن برگ گل افشانم علامہ کے ہم زلف خواجہ فیروز بتاتے ہیں کہ میں نے بھی یہ نظم علامہ سے سنی تھی،اور اسے یاد بھی کر لیا تھا۔ ٭٭٭ ۸۴۔منشی دین محمد منشی دین محمد ایڈیٹر ’’میونسپل گزٹ‘‘ لاہور پرانے اخبار نویسوں میں سے تھے۔ان کے والد محترم فتح دین بسمل نے ’’پنجاب پنچ‘‘ کے نام سے ایک ظریفانہ اخبار نکالا تھا۔جو اپنے وقت میں بے حد مقبول تھا۔ ’’میو نسپل گزٹ‘‘اپنی نوعیت کا بالکل منفرد اخبار تھا۔ جس میں بلدیات کی خبریں بالالتزام شائع ہوتی تھیں۔ جب یہ اخبار منشی صاحب کی وفات کے ساتھ ہی بند ہو گیا تو پھر اس قسم کا اخبار جاری کرنے کی کوئی جرات نہ کر سکا۔ دہلی دروازے سے جوپتلی سی سڑک اکبری منڈی کی طرف جاتی ہے۔ اس کے کونے پر یاد گار آفس کے نام سے ان کا ایک دفتر ہوتا تھا۔جہاں ہر اتوار کو آٹھ نوبجے کے قریب محفل شعراء گرم ہوتی تھی۔اور شہر کے چیدہ چیدہ اور اہل ذوق حضرات جمع ہوتے تھے۔راقم نے بھی اکثر ان محفلوں میں شرکت کی ہے اور علامہ اقبال کو بھی یہاں دیکھا ہے۔ دیگر شعراء کے علاوہ خواجہ دل محمد صاحب اور ناظر صاحب جوگی بطور خاص ان مجالس میں اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ ان جلسوں کی کاروائی ،جن میں صرف غزلیں اور نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ ایک مختصر رسالے کی صورت میں چھپا کرتی تھیں۔غزل یا نظم کے عنوان کے ساتھ شاعر کا نام بھی چھپا ہوتا تھا۔زندگی کے آخری ایام میں منشی دین محمد صاحب کے لئے کچھ وظیفہ بھی منظور ہو گیا تھا۔اس سلسلے میں علامہ اقبال نے بھی کوشش کی تھی۔ مگر زیادہ تر سر فضل حسین کی مساعی کو دخل تھا۔ بالاخر ۱۹۳۵ع میں علم وادب کے اس شیدائی کا انتقال ہو گیا۔ ٭٭٭ ۸۵۔مسٹر آپسن مسٹر ڈیوڈ آپسن انگریزی روز نامے ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مرید تھے۔ جو سنہ ۱۹۳۰ء تک باقاعدہ لاہور سے نکلتا رہا۔اس اخبار کے مالک مولوی عبد الحق بن مولانا محمد غوث تھے۔اور یہ شیرنوالہ اور مستی گیٹ کے اندر خضری محلے سے شائع ہوتا تھا۔مسٹر آپسن وقت نکال کر اپنی بیگم کے ساتھ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔اور ان سے سیاسی مسائل پرتبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ مسٹر آپسن صاف گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔ اور نہ ہی پورے طور پر بات سن سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے علامہ اکثر انہیں لکھ کر اپنی بات سمجھاتے تھے۔تاہم وہ سیاسی مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔اور اپنے پیشہ ادارت کی سوجھ بوجھ میں یکتائے روزگار تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مسائل سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ان کا انتقال ۲۰ فروری ۱۹۲۹ء کو لاہور ہی میں ہوا۔ علامہ اقبال کی زبردست خواہش تھی کہ ایک ایسا انگریزی اخبار جاری ہو، جو صرف مسلمانوں کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرے۔ اور وہ ہر لحاظ سے خود کفیل بھی ہو۔ اس کے لیے ایک بے ریا اور صاحب بصیرت ایڈیٹر کی ضرورت بھی تھی،جو خاص طور پرمسلمانوں کے نقطہ نظر اور ان کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اس مقصد کے لئے وہ مسٹر آپسن کو موزوں ترین آدمی سمجھتے تھے۔ اور اس سلسلے میں اکثر ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے مجوزہ اخبار کے لئے چندے کی مہم بھی شروع کر دی تھی۔چنانچہ انہوں نے اپنے احباب سے بھی چندہ وصول کیا۔اور خود بھی حصہ لیا۔ راقم نے بھی اس میں دو سو روپیہ چندہ د یاتھا۔ مگر با خر یہ تجویز پروان نہ چڑھ سکی۔کیونکہ اس مقصدکے لئے جتنا سرمایا درکار تھا۔ وہ علامہ اور ان کے بیشتر درویش صفت احباب مہیا نہ کر سکے تھے۔ مسٹر آپسن باوجود ثقل سماعت اور دوسرے طبعی نقائص کے نہایت ظریف الطبع آدمی تھے۔ ایک روز علامہ سے کہنے لگے کہ ہم ہر روز شیرانوالہ گیٹ سے گزر کر اپنے اخبار کے دفتر پہنچتے ہیں۔مگر ہم نے تو کبھی کوئی شیر نہیں دیکھا۔البتہ پنجاب کاشیر لالہ لاجپت رائے ادھر کہیں رہتا ہوگا۔مگر ہم اس سے بھی محفوظ ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک مرتبہ علامہ سے کہا کہ جب سوراج مل جائے،تو ہندو حضرات آئی،سی ایس (I,c,s)کا مفہوم بدل دیں گے۔اور اس سے مراد ہوگی ’’انڈین کاؤ ہاؤس‘‘اور انڈین کاؤ سروس یعنی گائے کی خدمت کا ادارہ، اس پر علامہ خوب محظوظ ہوئے،اور ان کی نکتہ سنجی کی داد دی۔ جسٹس شادی لال کے زمانے میں ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوا۔اور مالکان اخبار نے علامہ اقبال کو بھی بطور گواہ صفائی پیش کرنا چاہا۔ مگر علامہ نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ میری گواہی آپ کے لئے سود مند ثابت نہیں ہو گی۔مالکان نے علامہ کی اس صاف گوئی کا غلط مطلب لیا اور شکوہ کیا کہ ا تنے عرصے سے ہم آپ کو مفت اخبار بھیج رہے ہیں ،مگر آپ ہمارے لئے اتنا سا کام بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سنتے ہی علامہ نے علی بخش کو بلایا اور فرمایا کہ ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ ک اتازہ پرچہ لے آؤ،اور یہ بھی بتاؤ کہ یہ اخبار کب سے ہمارے پاس آرہا ہے۔چنانچہ علی بخش نے جتنی مدت بتائی علامہ نے اسی وقت اتنی مدت کی قیمت کا چیک کاٹ کر مالکان کے حوالے کر دیا۔ مسٹر آپسن کا انتقال اس واقعہ سے پہلے ہو چکا تھا۔ ورنہ وہ مالکان اخبار کو اس حرکت کی اجازت ہر گز نہ دیتے۔ ٭٭٭ ۸۶۔مولوی احمد الدین وکیل لاہور کے اکثر سر کردہ اہل علم حضرات ایک ایک کرکے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔جو اپنے اعلیٰ مذاق کی وجہ سے اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔علامہ اقبال کے احباب میں سے مولوی احمد الدین وکیل ایک یکتائے روز گار آدمی تھے۔ وہ ہماری تاریخ وثقافت کا ایک درخشندہ ستارہ تھے۔میں نے اکثر ان کو انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں دیکھا تھا۔ اگر چہ وہ باقاعدہ کوئی تقریر نہیں کرتے تھے۔مگر جب کوئی ا علان کسی جلسے کے پلیٹ فارم سے کرتے تو ان کے کلمات موتیوں کے برابر ہوتے،اور اکثر یہ خواہش رہتی کہ وہ بولتے ہی رہیں۔ وہ علامہ اقبال کے ابتدائی احباب اور ان کے مداحوں میں سے تھے۔ان کو علامہ کا کلام بھی خوب یاد تھا۔جو ان کے ہاں جمع ہو چکا تھا۔ وہ علامہ کے راز دان اور ان کی قابلیت کے معترف تھے۔جب کبھی علامہ کو دیوانی امور میں مشورے کی ضرورت ہوتی تو اکثر ان ہی سے کرتے ،مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۱۸ء میں علامہ اقبال کے عزیزوں نے انار کلی میں جائیداد خریدی تو علامہ نے خاص طور اپنے عزیز ڈاکٹر غلام محمد مرحوم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بیع نامہ اور مکمل دستاویزات کا مسودہ مولوی احمد الدین سے لکھوائیں۔چنانچہ منشی طاہر الدین نے ان سے ہی یہ مسودہ لکھوایا تھا اور وہی آخر تک رہا۔ راقم کے ان کے بڑے صاحب زادے مولوی بشیر احمد سے طالب علمی کے زمانے سے ہی بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ جو عمر میں مجھ سے بڑا تھا۔اس طرح ان کے دوسرے صاحبزادوں سے بھی ا چھے مراسم تھے، جب علامہ ۱۹۲۲ء میں انارکلی والے مکان کو چھوڑ کر میکلوڈ روڈ والے مکان میں آگئے تو معلوم ہوا کہ مولوی احمد دین نے اپنے طور پرنہایت احتیاط سے ان کا اردو کلام جمع کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تاثرات اور شرح بھی لکھی ہوئی تھی۔ اسی کاذکر ان کے صاحب زادے بشیر احمد اکثر اپنے احباب سے کیا کرتے تھے۔ اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ بابو جی کا ارادہ اسے شائع کرنے کا ہے۔ اس کے لیے علامہ کی ایک تصویر بھی درکار ہے۔ چنانچہ ان ہی دنوں علامہ نے ’’بانگ درا‘‘ شائع کرائی،جس کی کیفیت میں نے الگ درج کر دی ہے۔ مولوی احمد دین پنجاب کے بہت اچھے انشاء پردازوں میں سے تھے۔ انہوں نے ایک کتاب بعنوان ’’سر گزشت الفاظ‘‘ لکھی تھی، جس پر پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے ان کو انعام دیا تھا،اور علامہ نے اس پر ایک تقریب نامہ بھی لکھا تھا۔ آپ کاچونسٹھ سال کی عمر میں ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو انتقال ہو گیا۔ ٭٭٭ ۸۷۔ پنڈت جواہر لال نہرو ۱۹۳۷ع میں پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے۔ اور مسلمانوں سے رابطے کی تحریک کے سلسلے میں وہ سر سکندر حیات سے ملے۔ انہوں نے سر سکندر حیات خان سے کہا کہ چونکہ مسٹر جناح فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیے کے سلسلے میں بہت متشدد ہیں۔ لہذا آپ ہی ہمارے ساتھ بات چیت کرکے مفاہمت کی کوئی راہ نکالیے۔ سکندر حیات خان نے جواب دیا۔ کہ مسلمانان ہند کے واحد نمائندہ صرف محمد علی جناح ہیں۔اور ان کو صرف وہی فیصلہ منظور ہوگا ،جو جناح کریں گے،لہذا آپ کو یہ بات چیت صرف جناح صاحب سے کرنی چاہیئے۔ اس کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو نے علامہ اقبال سے ملاقات کی۔اور ان کو بھی یہی پیش کش کی۔علامہ نے جواب دیا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اگر شعر اور فلسفے وغیرہ پر کوئی بات چیت کرنی ہے تو میں حاضر ہوں، جہاں تک سیاسی مسائل کاتعلق ہے۔ اس سلسلے میں تمام تر اختیارات ہم نے مسٹر جناح کو دے رکھا ہے۔ان کے علاوہ کوئی بھی دوسرا شخص کانگرس کے ساتھ مفاہمت تو کیا بات چیت بھی نہیں کر سکتا۔ یہ جواب سن کر پنڈت جی مایوس ہو گئے ۔اور انہیں مسلمانوں کی یکجہتی اور اتحاد کو دیکھ کر یقین ہو گیا کہ قائد اعظم سے بالا ہی بالا کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی،چنانچہ وہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گئے۔ اس موقع پر جب کانگرس مسلمانوں کی یک جہتی اور اتحاد کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی۔ تھی۔ شاہ فضل امام واقف نے ایک قطعہ تاریخ کہا تھا ،جس کا آخری شعر یہ ہے:۔ کہہ رہی ہے آج واقف کانگرس ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ۱۳۵۶ ھ ۸۸۔علامہ اقبال اور قائد اعظم علامہ اقبال نے جو خطوط حضرت قائد اعظم کووقتا فوقتا لکھے تھے۔ وہ تعداد میں کل بارہ ہیں۔ اور سب چھپ گئے ہیں۔ یہ ۲۵جون ۱۹۳۶ء سے ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء تک کے عرصے کومحیط ہیں۔ان میں پنجاب کے مسلمانوں کی اقتصادی حالت اور مسلم لیگ کی کیفیت کو وہ خصوصیت سے بیان کرتے ہیں۔خوش قسمتی سے ان کے خطوط پر ایک مقدمہ بھی قائد اعظم نے خود لکھا تھا۔مگر افسوس ہے کہ قائد اعظم کے اپنے جوابات میسر نہیں ہیں۔ یہ امر قابل بیان ہے کہ ان خطوط میں اقبال ایک عملی سیاست دان اور ماہر اقتصادیات کی طرح مسلمانوں کی حالت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں کی عام اقتصادی حالت جاننے کے لئے علامہ اقبال کے ایک انگریز دوست مسٹر ملکو لم لائل ڈارلنگ کی کتاب (انگریزی یا اردو) ’’پنجابی کسان‘‘ کا مطالعہ بھی مفید ہوگا ۔یہ شخص طالب علمی کے زمانے میں علامہ اقبال کا رفیق تھا۔یعنی جن دنوں آپ کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔یہ شخص بھی ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۸ء تک وہاں طالب علم رہ چکا تھا۔ اس شخص کی معرفت بھی علامہ اس ضمن میں کافی با خبر تھے۔ چنانچہ علامہ کی کوشش سے پنجاب گورنمنٹ نے اس زمانے میں خاصی تحقیق کے بعد وہ تمام قرضے،جو مسلمانوں کے ذمے تھے۔ ان کو معاف کر دیا تھا۔ اور قانون سازی کے لئے خاص طور پر سر چھوٹو رام کو وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ ایک دفعہ کوہاٹ اور بنوں میں ہندو مسلم فساد ہو گیا تھا۔ اور یہ خبر بھی چھپی تھی کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے حساب کتاب کی کتابیں بھی جلا دی ہیں۔اس پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ یہ فساد ہندوؤں کی اقتصادی برتری کے خلاف غریب مسلمانوں کا احتجاج ہے۔ قائد اعظم مارچ ۱۹۳۶ء میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کے خیال سے جب لاہور میں رونق افروز ہوئے تو وہ حضرت علامہ سے ملنے جاوید منزل بھی تشریف لائے۔ ان دنوں علامہ کی صحت غیر معمولی طور پر خراب تھی۔اور وہ استھما کے مرض میں مبتلا تھے۔اور ان کی آواز بالکل بیٹھ گئی تھی۔ تاہم وہ چلنے پھرنے سے معذور نہیں تھے۔انھی دنوں انہوں نے اپنے عزیز خواجہ عبد الغنی کے جنازے میں بھی شرکت کی تھی۔ قائد اعظم نے جب ان سے مسلم لیگ کی تنظیم جدید کا ذکر کیا،تو حضرت علامہ نے فرمایا کہ میں آپ کے مشن کی کامیابی کے لیے اپنی رگوں کا آخری قطرہ خون بھی نچوڑ دوں گا۔جب یہ تاریخی ملاقات ہوئی تھی،تو علامہ معمولی قمیض اور تہہ بند میں ملبوس اپنے بستر پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر لیٹے تھے۔اور قائد اعظم ان کے سامنے بید کی کرسی پر فروکش تھے۔ اس ملاقات کے موقع پر میاں محمد شفیع (م،ش) بھی موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ان دنوں ان کی ذہنی کیفیت دھوپ میں بیٹھے ہوئے۔ ۱۔اقبال۔چند یادیں ،از میاں محمد شفیع ،نوائے وقت ،۲۲ اپریل ۱۹۶۲ع یونان کے اس فلسفی سے مختلف نہ تھی،جس نے سکندر اعظم کی اس عرض داشت پر کہ میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟۔ نہایت استغنا سے جواب دیا تھا کہ ’’آپ میرے لئے دھوپ چھوڑ دیں۔‘‘ ٭٭٭ ۸۹۔علی بخش (خدمت گار علامہ اقبال) علامہ اقبال کا ذاتی خدمت گار علی بخش،جس نے اپنی نصف سے زیادہ زندگی علامہ کی خدمت میں رہ کر گزار دی۔ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا۔وہ خود بیان کرتا ہے کہ میں چھوٹا سا تھا۔ جب لاہور آیا۔اور شہاب الدین درزی کے ہاں ٹھہرا ،جس نے مجھے مولوی حاکم علی کے ہاں ملازم رکھوادیا۔ مولوی حاکم علی صاحب ان دنوں مشن کالج میں پروفیسر تھے۔ اور بھاٹی دروازے میں علامہ اقبال کی رہائش گاہ کے قریب ہی رہتے تھے۔علامہ کو خدمت گار کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے علی بخش کو اپنے پاس رکھ لیا۔پھر وہ علامہ کے ولایت جانے تک ان کی خدمت کرتا رہا۔مگر جب آپ چلے گئے تو علی بخش نے کہیں اور ملازمت کر لی۔ تاہم علامہ کے حسن سلوک کو وہ کبھی نہ بھلا سکا۔ اور ان سے بھی رابطہ قائم رکھا۔ چنانچہ ۱۱ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو علامہ نے علی بخش کے خط کے جواب میں ولایت سے لکھا: ’’ عزیزی علی بخش! ۔۔۔ امید ہے کہ وہ کمی جوچوری سے ہو گئی ہے۔اسے پورا کر لو گے۔ مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا،تم نے اپنی شادی کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا ہے۔ میرا خیال تھا تمہاری شادی ہو چکی ہے۔۔۔ علی بخش سن ۱۹۰۰ع میں علامہ کے ہاں ملازم ہوا تھا۔اور سفر یورپ کا زمانہ چھوڑ کر اخیر تک ان کی خدمت میں رہا۔ اس عرصے میں اس نے علامہ کے ہاں کیا کچھ مشاہدہ کیا؟۔ کیسے کیسے واقعات اس کے سامنے ہوئے،اور خود اس نے وہاں کیسے دن گزارے؟۔ یہ داستان وہ خود ہی بیان کر سکتا ہے۔اور حتی المقدور اس نے بیان بھی کی ہے۔چنانچہ جستہ جستہ واقعات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ حضرت علامہ جو کھانا اپنے لئے پسند فرماتے تھے۔ ان کے خدمت گار بھی وہی کھانا کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ علامہ کے لدھیانے والے عزیزوں نے چاہا کہ اگر علامہ اپنے لئے کوئی کوٹھی پسند فرمائیں،تو اس کی قیمت ہم ادا کردیں گے۔مگر علامہ اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ اس کا کرایہ وصول کریں گے۔ علی بخش کے بقول جاوید منزل کی زمین کئی کنالوں پر مشتمل تھی۔ اس کی قیمت پچیس ہزار روپے طے ہوئی تھی۔ اور بنک سے یہ رقم میں ہی لایا تھا۔کوٹھی کے لئے جگہ کا انتخاب علامہ کے دوست سید شبیر حیدر صاحب نے کیا تھا،اور اس کی تعمیر کی نگرانی علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے کی تھی۔ دوران تعمیر علامہ نے ایک دن بھی آکر نہیں دیکھا تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟۔جب کوٹھی تیار ہو گئی تو والدہ جاوید اس میں آکر بہت خوش ہوئیں ،مگر افسوس کہ یہاں ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔اور چند روز کے بعد ہی ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ان کے سنگ مزار پر جو تاریخ کندہ ہے۔ اسے حاجی دین محمد نے کتابت کیا تھا۔ ان کی تاریخ وفات’’ سرمہ ماذاغ ‘‘ (۱۳۵۴ھج) سے بر آمد ہوتی ہے۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کی صبح کو جب علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو ان کا سر علی بخش ہی کی گود میں تھا۔ صبح ہی صبح جب اس نے آکر مجھے علامہ اقبال کے سانحہ ارتحال کی خبر دی تو وہ زار وقطار رو رہا تھا۔ علامہ کے احباب کے ساتھ علی بخش کے تعلقات نہایت مخلصانہ اور دوستانہ تھے۔جب ہم علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو علی بخش ہم سے اس طرح ملتا ،جیسے کوئی اپنے عزیزوں سے ملتا ہے۔ پروفیسر محمود شیرانی تو علی بخش کو پیر بھائی کہتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو لوگ علامہ کی خدمت میںمریدی کا شرف رکھتے ہیں۔ علی بخش بھی ان میں شامل ہے۔ یوں تو علامہ کے ہاں رحما وغیرہ اور بھی ملازم تھے۔ مگر آنے جانے والوں کی تواضع کرنا،اور علامہ کو مہمانوں کے آمد کیا طلاع دینا علی بخش ہی کی ذمہ داری تھی۔اور وہ اس ذمہ داری کو نہایت مستعدی سے نبھاتا تھا۔ وہ علامہ کے ملنے والوں مین بے حد مقبول تھا۔اور سب لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ وقت نکال کر علامہ کے احباب کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھر بھی پہنچ جاتا تھا۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں اس قدر مستعد اور دیانت دار تھا کہ ہم نے کبھی علامہ اقبال کو اس کے ساتھ ترش روئی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ علامہ جب کبھی کوئی کتاب اپنی لائبریری سے لانے کے لئے کہتے تو وہ بالکل صحیح کتاب لاتا۔ہم نے اسے علامہ کے ہاں ہمیشہ خوش اور مطمئن دیکھا۔اور علامہ بھی اس سے پوری طرح مطمئن تھے۔اس کی سب سے بڑی خوبی اسکی دیانت داری تھی ،جس نے اسے سب کی نظروں میں معتمد بنا دیا تھا۔ اور سب لوگ اس پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ حضرت علامہ اور ان کے احباب بعض اوقات علی بخش کے ساتھ دل لگی بھی کرتے تھے۔ اور باتوں ہی باتوں میں اس کی شادی طے ہو جاتی،پھر پلاؤ کا انتظام ہوتا اور یار لوگ دعوت اڑا کر بعد میں افسوس کرتے اور کہتے کہ دلھن والے بہت ہی خراب لوگ تھے۔ انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ مگر خیر کوئی بات نہیں،ایک اور جگہ بات چل رہی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ پھر چل نکلتا۔اور شروع ہو جاتا تھا۔ پاکستان بن جانے کے بعد جب سردار عبد الرب نشتر پنجاب کے گورنر بنے تو انہوں نے علی بخش کی خدمات کے صلے میں دو مربع زمین دینے کی حکومت سے سفارش کی۔یہ سفارش یا مراسلہ کافی دیر تک لینڈ ریکارڈ کے دفتر میں پڑا رہا۔ اور کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔اتفاق سے ایک مرتبہ میری ملاقات مسٹر ظہور الدین بن نظام الدین سے ہو گئی،جو ان دنوں لینڈ ریکارڈ کے دفتر میں متعین تھے۔میں نے ان سے علی بخش کے لئے گورنر کی سفارش کا ذکر کیا۔اور ان سے درخواست کی کہ اس پر عمل در آمد کرانے کے لئے مدد کریں اور فائلوں میں وہ سفارش تلاش کریں۔انہوں نے وعدہ کر لیا اور بالاخر گورنر کی چٹھی تلاش کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ دوبارہ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ مژدہ سنایا کہ چٹھی تو مل گئی ہے۔ مگر ابھی اس پر عمل در آمد ہونا باقی ہے۔ پھر جب زمین کی تلاش شروع ہوئی تو دو کی بجائے صرف ایک مربع لائل پورکے ضلع میں مل سکا۔ چنانچہ اسی کو غنیمت جان کر علی بخش نے قبول کر لیا۔اور دوسرے مربع کے چکر میں نہ پڑا۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ سرخ فیتے کے چکر میں ایک سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے۔ آج کل لائل پور کی اس زمین پر علی بخش کے اعزہ قابض ہیں اور خوب مزے میں ہیں۔ شاعر مشرق کا یہ وفا شعار خدمت گار کم وبیش چالیس برس تک علامہ ا قبال کی خدمت میں رہا۔اور بالاخر ۲ جون ۱۹۶۹ء کو اس نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔اس کا انتقال ضلع لائل پور کے چک نمبر ۸۸ آر،بی میں ہوا۔ جہاں حکومت پاکستان نے اسے اراضی الاٹ کی تھی۔ آخری عمر میں اسے حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہو گئی تھی۔ اور اپنے علاقے میں وہ حاجی علی بخش کے نام سے مشہور تھا۔ ٭٭٭ ۹۰۔ ڈاکٹر سیموئل ایم۔زویمر ۱۹۲۸ء کے موسم سرما میں ایک مرتبہ وائی ،ایم ،سی ۔اے لاہور کی دعوت پر عیسائی مذہب کے مشہور مبلغ اور رسالہ مسلم ورلڈ‘‘ کے مدیر ڈاکٹر سیموئل ایم۔زویمر لاہور تشریف لائے۔اس وقت وائی ،ایم سی ،اے کے سیکر ٹری مسٹر ہیوم تھے۔انہوں نے ڈاکٹر زویمر کے لیکچر کا انتظام کیا۔اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ آپ صدارت کریں۔ ج وکافی تامل کے بعد علامہ نے قبول کر لی۔جلسہ بعد نماز مغرب قرار پایا ،جس میں لاہور کے پڑھے لکھے مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور عیسائی حضرات نے بھی خاصی تعداد میں شرکت کی تھی۔ علامہ وقت مقررہ پر نواب ذوالفقار علی خان ،چودہری محمد حسین اور مرزا جلال الدین وغیرہ کے ہمراہ جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس کے بعد جلسے کی کاروائی بغیر رسمی باتوں کے شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے علامہ نیڈاکٹر زویمر کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر زویمر نے تمام عمر عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے صرف کر دی ہے۔اور وہ ایک سہہ ماہی رسالے ’’دی مسلم ورلڈ‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔اس رسالے کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ مسلمان دیکھیں کہ دوسرے مذاہب ان کے متعلق کیا لکھتے ہیں؟۔کیونکہ اس رسالے کے مضامین میں عیسائیت کی اسلام پر فوقیت دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر زویمر کے لیکچر کا موضوع ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔اور اس طرح منتظمین جلسہ نے نہایت ہوشیاری دکھائی تھی، لیکن علامہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں واضع کر دیا تھا کہ مسلمانوں کو ڈاکٹر زویمر کے لیکچر انتہائی توجہ سے سننے چاہیئے۔ اس میں بہت سے نکات ان کے لئے ایسے ہوں گے کہ جو ان کی گہری توجہ کے محتاج ہوں گے۔ اس مختصر تعارفی تقریر کے بعد جسے حاضرین نے نہایت غور سے سنا، علامہ نے ڈاکٹر زویمر سے تقریر کرنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی کہا اپنے لیکچر کو موضوع بھی خود ہی بیان فرمایئے۔ چنانچہ ڈاکٹر زویمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میرے لیکچر کا موضوع ’’ماخذ مطالعہ اسلام‘‘ ہوگا۔یہ ماننا پڑے گا کہ اس عیسائی پادری کا لب ولہجہ نہایت متین اور تلفظ بہت واضع تھا۔ اس نے نہایت عمدگی سے بغیر کسی ذاتی تنقید کے ماخذ اسلام کے طور پر قرآن کریم، کتب تفاسیر،کتب احادیث،فقہ،اصول فقہ،اور اسلامی تاریخ کی تمام مشہور اور اہم کتابوں کہ فہرست مسلمانوں کے سامنے اس طرح پیش کی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اس نے نہ تو خود کوئی تنقید کی اور نہ ہی دوسروں کے لئے کسی قسم کی تنقید کی گنجائش چھوڑی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک مسلمان ریسرچ سکالر کلاس کے طلباء کو ضروری کتابوں کی فہرست ریسرچ کے لئے لکھوا رہا ہے۔ ہر کتاب اور اس کے مصنف کا نام اور اس کا زمانہء تالیف آپ نے وضاحت سے پیش کیا۔ یہ تقریر ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ جسے لوگوں نے توجہ اور دل چسپی سے سنا،کسی قسم کا شور یا رکاوٹ نہیں ہوئی۔اپنی تقریر میں ڈاکٹر زویمر نے اعتراف کیا کہ مسلمان مصنفین نے علوم کی جو خدمت کی ہے،وہ کسی نے نہیں کی۔ اس کے بعد لوگوں کی نظریں علامہ پر لگی ہوئی تھیں۔کہ آپ کیا ریمارکس اس تقریر پر پیش کرتے ہیں۔دراصل اس جلسے کی رونق بھی ایک طرح علامہ ہی کی وجہ سے تھے۔ ورنہ کون ایک عیسائی مبلغ کی تقریر سننے آتا ہے۔ کیونکہ مسلمان ایک عیسائی کے تبلیغی لیکچر پر ذرا کم توجہ کرتے ہیں۔چنانچہ آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر زویمر کی تعریف کی، اور کہا کہ ڈاکٹر زویمر نے نہایت مفید اور جامع فہرست کتب متعلقہ مطالعہ اسلام پیش کی ہے۔جس سے آپ کی اسلام سے واقفیت واضع ہوتی ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ میرا خیال تھا کہ آپ بحیثیت عیسائی مبلغکسی مذہبی پہلو پر اصولی روشنی ڈالیں گے۔مگر آپ نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنے آپ کو بچا لیا۔آپ نے یہ ا قرار بھی کیا کہ ہم ڈاکٹر زویمر کی تقریر سن کر بہت مستفید ہوئے ہیں۔ تاہم واضع کر دیا کہ یہی فہرست ہمیں ایک کتاب (Finance Theory of Islam) ’از آگسٹس) میں بھی ملتی ہے۔جو کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک سے شائع ہو چکی ہے۔ علامہ نے مسلمانوں کو خاص طور پر ہدایت کی کہ ہم سب کو بھی ایسے مصنفین کی تحریروں سے آگاہ رہنا چاہیئے۔اس کے بعد یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ اس کے دوسرے روز نواب ذوالفقار علی نے ڈاکٹر زویمر کو اپنے مکان پر شام کے کھانے پر مدعو کیا، جس میں علامہ اقبال بھی شریک ہوئے تھے۔ بعد میں انہوں نے دعوت میں ڈاکٹر زویمر سے اپنی بات چیت کی تفصیل بھی سنائی تھی۔ حالات وواقعات سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال ڈاکٹر سیموئیل زویمر کو بحیثیت مبلغ عیسائیت اس سے پیشتر بھی خوب جانتے تھے۔علامہ اپنے طویل مراسلے میں خالد خلیل (ترک فاضل) کو ڈاکٹر زویمر سے متعلق لکھتے ہیں : ۔۔۔اس سلسلے میں ڈاکٹر زویمر کا نام بھی لوں گا، جو قاہرہ میں ایک امریکن مشنری ہیں۔وہ اسلام کی مخالفت میں ایک رسالہ ’’مسلم ورلڈ‘‘ کی ادارت بھی کرتے ہیں۔انہوں نے متعدد کتابوں اور مضامین کی صورت میں ملت اسلامی پر بہت کچھ لکھا ہے۔گزشتہ سال وہ لاہور آئے تھے ،اور انہوں نے مجھے جرمن زبان کی ایک کتاب دکھائی تھی جس میں اسلام اور ملل اسلام پر جوکتابیں لکھی گئی ہیں،ان کے عنوانات درج تھے۔میں اس کے مصنف کا نام بھول گیا ہوں، مگر یہ آسانی سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔اگر آپ ڈاکٹر زویمر کو لکھیں تو وہ آپ کو آسانی سے بتا دیں گے۔یہ کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اور اس سے اغلبا آپ کو ایسی کتابوں کے نام ملیں گے جو آپ کے مضمون سے متعلق ہیں۔غرض کہ علامہ اقبال اپنے گرد وپیش سے خوب واقف تھے۔ اور خصوصا اسلام کے بارے میں یا اس کے خلاف دنیا میں جو کچھ شائع ہوتا ہے۔ اس سے مکمل آگاہی رکھتے تھے۔ ۹۱۔گابا کا قبول اسلام لاہور کے ایک مشہور ومعروف بیرسٹر ،ماہر بنکاری اور لکھ پتی تاجر لالہ ہر کشن کے صاحبزادے مسٹر کنھیا لال گابا نے جب قبول اسلام کا اعلان کیا تو لاہور میں ان کے اعزاز میں کئی دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔علامہ اقبال بھی ان دعوتوں مین شرکت فرمایا کرتے تھے۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مسٹر گابا نے قبول اسلام کے اعلان سے بہت پہلے راولپنڈی کے ایک مسلمان بیر سٹر عبد العزیز کی بیٹی سے شادی کر لی تھی،اور اس سے ان کے کئی بچے بھی تھے۔ مسٹر عبد العزیز کو بیٹی کی اس حرکت سے کوئی ملال نہیں تھا۔کیونکہ بعد میں مسٹر گابا بال بچوں سمیت داخل اسلام ہو گئے تھے۔مسٹر گابا نے مسلمان ہونے کے بعد انگریزی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام پیغمبر ؐ صحرا (دی پرافٹ آف دی ڈیزرٹ ) تھا۔ وہ انگریزی زبان کے بہت اچھے انشاء پرداز تھے۔اور انہوں نے بہت عمدہ کتاب لکھی،اصل میں مسٹر گابا نیشلسٹ تھے۔لہذا جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو وہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ اور بدستور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ چونکہ مجھے پاکستان کے قیام سے اصولی طور پر اختلاف ہے۔اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں رہوں۔ اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب علامہ اقبال راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس آئے تو خواجہ عبد الوحید نے ان کے اعزاز میں گول باغ (میونسپل گارڈن) میں چائے کید عوت کا انتطام کیا، جس میں متعدد اہل علم نے شرکت کی۔اس دعوت میںلاہوری جماعت احمدیہ کے مولوی محمد علی اور دیگر کئی حضرات بھی مدعو تھے۔وہاںلوگوں کو اس بات کا بھی علم تھا کہ آج ہی مسٹر کنھیا لال گابا اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں گے۔ چنانچہ اس دعوت سے علامہ اقبال ،مولوی محمد علی اور وہ تمام حضرات چپکے سے اٹھ کر چلے گئے ،جنہوں نے خاص طور پر اس کے مسلمان کرنے میں حصہ لیا تھا۔ اس کے اگلے ہی روز اخبار میں آگیا کہ مسٹر گابا (گابا کے والد صاحب)مسلمان ہو گئے۔ اس کے فورا بعد خورشید منزل میں ایک نہایت پر تکلف دعوت کا کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں علامہ اقبال اور دیگر احباب نے بطور خاص شرکت کی تھی۔ ٭٭٭ ۹۲۔علامہ کا لباس وحلیہ جب علامہ انار کلی والے مکان میں رہتے تھے تو آپ کے ہاں اپنی ایک گھوڑا گاڑی تھی ،جسے گگ کہا جاتا تھا۔ اور اکثر آپ اسے خود ہی چلاتے تھے۔ جب آپ ہائی کورٹ یا ابتدا میں کالج جاتے تھے تو اسی گاڑی میں سوار ہو کر جاتے تھے۔ ان دنوں آپ سوٹ پہنتے تھے اور سر پر ترکی ٹوپی ہوتی تھی۔میرے خیال میں ۱۹۱۳ع کے بعد آپ نے ترکی ٹوپی ترک کردی تھی۔جب مال روڈ پر اس تزک واحتشام کے ساتھ نکلتے تھے تو اکثر لوگ اس نظارے کا لطف اٹھانے کے لئے تھم جاتے تھے۔ عام طور پر علامہ لنگی اور کلاہ پہنتے تھے۔ اور لنگی کے ساتھ شلوار زیب تن کرتے تھے۔جس سے ایک الگ ہی شان نظر آتی تھی۔ جن لوگوں نے آپ کو خضر راہ نظم پڑھتے سنا ہے، وہ جانتے ہیں کہ آپ اسی لباس میں تھے،اور تکیہ لگا کر بیٹھ کر نظم پڑھی تھی۔جب آپ میکلوڈ روڈ پر آگئے تھے،تو لباس میں یہاں بھی کوئی خاص تغیر نہیں آیا تھا۔آپ کے لباس کا انتظام عام طور پر منشی طاہر الدین اور علی بخش کیا کرتے تھے۔ آپ کے لباس کی پیمائش کمرشل بلڈنگ مال روڈ کے ’’عبد الرحمنٰ اینڈ سن‘‘ کے ہاں موجود تھی۔ ۱۹۲۹ء کی ابتداء میں جب ہم مدراس جانے لگے تو آپ ایک نیا سوٹ بھی ہمراہ لے گئے۔ جو غالبا علی بخش ہی ’’عبد الرحمن اینڈ سن‘‘ سے سلوا کر لایا تھا۔چونکہ وہ پرانی پیمائش پر سلا ہوا تھا۔ اس لئے بہت ڈھیلا تھا۔ مگر آپ نے کوئی خیال نہ کیا اور وہی پہن کر لیکچر دیا۔موسم گرما میں عموما ایک تہہ بند اور ایک بنیان آپ کا گھر کا لباس ہوتا تھا۔ جسے اکثر ملنے والوں نے دیکھا ہے۔ موسم سرما میں آپ ایک صدری ضرور پہنتے تھے۔جیسا کہ اکثر تصاویر میں بھی وہ نظر آتی ہے۔ مگر گھر آکر اسے الگ کر دیتے تھے۔اور کابلی دھسہ اوڑھ لیتے تھے۔ تاہم صدری بھی ہمراہ رہتی تھی۔ غرض کہ نہایت سادہ لباس ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ منشی طاہر الدین نے آپ کے لئے ایک نئے کابلی دھسے کا انتظام کیا تھا ،جو اس زمانے میں پچھتر روپے کا ملتا تھا۔اس کے دونوں حصوں کی سلائی میں نے اپنے گھر سے کروا کر دی تھی۔ اگر نہایت تکلف کا موقع آتا تو آپ تکلف سے بچنے کے لئے ٹائی پر بو کو ترجیح دیتے،جیسا کہ ایک دفعہ علی گڑھ میں مجھے شہربھیج کر اس کا انتطام کیا تھا۔ یہ امر بیان کرنے کے قابل ہے کہ آپ جو بھی کپڑا پہن لیتے ،آپ پر خوب سجتا تھا۔اور آ پ کا لباس باعزت اور بارعب ہوتا جو کسی قسم کے لوازمات کا محتاج نہ ہوتا۔ جیسا کہ ذکر ہوا،نجی دعوتوں میں آپ شلوار قمیض اور لنگی ہی پہنتے تھے۔ ایک دفعہ عبد الرحمن چغتائی سے باتوں باتوں میں سر کے لئے ٹوپی یا عمامے کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’لباس سر ‘‘ ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔اس کا کوئی علاج کرنا چاہیئے۔ علی بخش نے بیان کیا ہے کہ علامہ ابتداء میں زیادہ تر شلوار قمیض اور عام کوٹ پہنتے تھے، مگر کبھی کبھی بند گلے کا فراک کوٹ بھی پہن لیتے تھے۔سر پر موتیے رنگ کی پگڑی بھی ہوتی تھی۔ آپ کی شلوار قمیض قلعہ گوجر سنگھ کا ایک بوڑھا سادرزی نظام الدین تیار کیا کرتا تھا۔ غرض کہ آپ نہایت سادہ مزاج تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ایک مرتبہ علی گڑھ جارہے تھے ۔ لاہور سے ہم بمبئی میل میں سوار ہوئے تھے،ا ور دہلی سے ہمیں گاڑی تبدیل کرنی تھی۔گاڑی میں ابھی خاصا وقت تھا۔آپ نے خواہش ظاہر کی کہ کسی حجام کا انتطام ہ ہوجائے تو شیو کرا لی جائے۔ میں نے حجام کا انتطام کیا تو آپ نے اسے ہدایت دی کہ استرا ایک ہی رخ لگانا ہے۔ مگر اس نے آپ کی مرضی کے خلاف عمل کیا تو آپ بہت ناراض ہوئے۔ اگر کوئی خاص ملنے والا آجاتا تو آپ بہ خندہ پیشانی اس سے گفتگو کرتے،مگر کبھی اس کی وجہ سے اپنا لباس یا حلیہ تبدیل نہیں کیا ۹۳۔علامہ اقبال اور رموزقرآن ہر راسخ العقیدہ مسلمان قرآن کریم کے رموز واشارات کو اپنے طور پر سجھنے کی کوشش کرتا ہے،اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے مطالب کی تشریح کا کام بے انتہا نازک اور غیر معمولی احتیاط کا متقاضی ہے۔ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے علامہ اقبال نے بھی اس وادی پر خار میں قدم رکھا۔اور ایک طویل مدت قرآن مجید اوراس کے رموز واشارات کو سمجھنے میں صرف کر دی۔ان کی خواہش تھی کہ جس طرح انہوں نے خود کلام الہیٰ کے اسرار ورموز تک رسائی حاصل کی ہے، دوسرے مسلمان بھی اسی طرح کتاب اللہ کو اپنے لیے وظیفہ حیات بنا لیں۔وہ اپنے والد ماجد کی ا س نصیحت کو اکثر دہرایا کرتے تھے کہ قرآ ن کریم کو اس طرح پڑھو کہ جیسے وہ خود تمہارے اوپر نازل ہو رہا ہے۔ قرآن پاک کے ساتھ علامہ کی شیفتگی اور اس کی تفسیر وتشریح کے سلسلے میں ان کی کد وکاوش کو اکثر اہل علم نے موضوع گفتگو بنایا ہے۔ اس ضمن میں متعدد مقالات کے علاوہ دو مستقل کتابیں بھی میری نظر سے گزر چکی ہیں،جو غیر معمولی قدر وقیمت کی حامل ہیں۔ایک ابو محمد مصلح صاحب کی کتاب ’’اقبال اور قرآن‘‘ جو ۱۳۵۹ھج (۱۹۴۰ع) میں حیدر آباد دکن سے شائع ہوئی تھی۔اور دوسری قاضی محمد ظریف صاحب کی کتاب ’’اقبال قرآن کی روشنی میں‘‘ جو دسمبر ۱۹۵۰ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ ابو محمد مصلح صاحب کو میں نے پہلی مرتبہ جنوری ۱۹۲۹ع میں حیدر آباد دکن میں دیکھا تھا۔جب وہ علامہ اقبال سے ملنے کے لئے آئے تھے۔انہوں نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ اور دیر تک علامہ کے ساتھ قرآن کریم کے رموز پر گفتگو کرتے رہے تھے۔ اس زمانے میں وہ انگریزی اور اردو زبان میںایک نہایت بلند پایہ مجلہ ’’دی قرانک ورلڈ ‘‘ نکالا کرتے تھے۔ جس کے مضامین اہل علم میں بہت دل چسپی سے پڑھے جاتے تھے۔اس کے بعد سنہ ۱۹۳۶ء میں ابو محمد مصلح صاحب لاہور آگئے تھے۔ جہاں وہ بادشاہی مسجد کے مشرقی حجروں میں رہا کرتے تھے۔یہیں ایک روز ان سے میری ملاقات ہوئی،تو انہوں نے علامہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ میں ان کی خواہش پر انہیں علامہ کی خدمت میں لے گیا تھا۔ انہوں نے کچھ کتابیں اور رسائل بھی اٹھا رکھے تھے۔جو علامہ نے دیکھ کر بہت پسند کیے۔اسی ملاقات میں انہوں نے اپنے ایک قاعدے کا ذکر بھیعلامہ سے کیا،جو بچوں کوقرآن مجید پڑھانے کے سلسلے میں انہوں نے ایجاد کیا تھا۔ اس ضمن میں علامہ کا یہ خط ملاحظہ فرمایئے ،جو انہوں نے راقم کو لکھا تھا:۔ : ڈیر ماسٹر صاحب! مولوی ابو محمد مصلح صاحب کا پتا مجھے معلوم نہیں،اس واسطے آپ کو تکلیف دیتا ہوں۔ان کی خدمت میں عرض کیجیئے،کہ مجھے اس کتاب کی ضرورت ہے۔ جس میں انہوں نے بچوں کوقرآن پڑھانے کا طریق ایجاد کیا ہے۔ جس روز آپ کی معیت میں وہ مجھے ملے تھے۔اسی روز اس کتاب یا قاعدے کا ذکر کیا تھا۔ اس قاعدے کی جاوید کے لئے ضرورت ہے۔ محمد اقبال جب میں اپریل ۱۹۳۸ع میں یورپ سے واپس آیا تو مولوی ابو محمد مصلح صاحب لاہور ہی میں تھے۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ع کو علامہ اقبال کا انتقال ہوا،تو وہ ابھی تک شاہی مسجد میں قیام پذیر تھے۔مجھے یاد ہے ہم کچھ دوست مل کر حاجی رحیم بخش ریٹائرڈ سیشن جج کے مکان پر ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔میں ۱۹۳۸ع کے اخیر میں پونہ (بمبئی) چلا گیا۔اور مولوی ابو محمد مصلح صاحب حیدر آباد دکن چلے گئے۔ جہاں انہوں نے متذکرہ کتاب ’’قرآن اور اقبال‘‘ لکھی اور شائع کرائی۔ ۱۹۴۱ع کے بعد میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی،اور نہ یہ معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں؟۔اور کس حال میں ہیں ۔انہوں نے خود بتایا تھا کہ وہ صوبہ بہار ضلع شاہ پور کے رہنے والے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رموز قرآن کے سلسلے میں علامہ اقبال اپنا ایک مخصوص مزاج رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہمیشہ اجتہاد سے کام لیا،اور تقلید سے مجتنب رہے۔وہ اکثر اپنے دوستوں کو بھی اس سعادت میں شامل کر لیا کرتے تھے۔چنانچہ ’’ملفوظات اقبال‘‘ میں مرزا جلال الدین بیان کرتے ہیں کہ ’’اکثر مجالس میں ڈاکٹر صاحب سے قرآن کریم کے رموز سننے کا ہمیں بھی‘‘ ۱۔ اقبال نامہ ،حصہ دوم ،ص ۳۳۹،۳۴۰ موقع ملا۔ جب علامہ اقبال انار کلی والے مکان میں رہا کرتے تھے تو روزانہ صبح کے وقت پچھلی گلی والی کھڑکی میں بیٹھ کر دل کش انداز اور بلند آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید سے ان کی محبت اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس کا اظہار ان کے اس انگریزی خط سے بھی ہوتا ہے۔جو انہوں نے ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء کو سر راس مسعود کو لکھا تھا۔ اس خط کا مندرجہ ذیل فقرہ قابل توجہ ہے۔: ۔۔۔ میری تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاؤں۔‘‘ جب اس خط کا جواب علامہ اقبال کو موصول ہوا،تو اتفاق سے راقم بھی ان کی میو روڈ والی(موجودہ نام علامہ اقبال روڈ) کوٹھی جاوید منزل میں ان کی خدمت میں موجود تھا۔آپ اس وقت کوٹھی کے صحن میں آرام کر رہے تھے اور منشی طاہر اللدین بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے۔اس خط میں دوسری باتوں کے علاوہ والی بھوپال کی طرف سے وظیفے کی منظوری کا ذکر بھی آیا تھا۔جس پر علامہ نے مسرت اور اطمینان کا اظہار فر مایا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد علامہ اقبال نے منشی طاہر الدین سے کہا ’’آفتاب کی ماں سے کہنا کہ وہ بھی آئندہ ہر مہینے آکرپچاس روپے لے جایا کرے۔‘‘ مگر ابھی آپ نے یہ جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ وہ خود آگئیں۔چنانچہ منشی صاحب نے علامہ اقبال کو ان کے آنے کی اطلاع دی۔اس کے بعد آپ نے راس مسعود کو شکریے کا خط لکھا ،جس میں یہ بھی لکھا: ۱۔ ملفوفات اقبال،مرتبہ محمود نظامی ،لاہور ،ص ۷۱۔ ’’ ڈیر مسعود! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ میں کس زبان سے ا علیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں ۔ میں خود حاضر ہو کر شکریہ ادا کروں گا۔ محمد اقبال‘‘ ابھی ہم علامہ اقبال کے پاس بیٹھے تھے کہ سید افضال علی حسینی کسی ترک شہزادے کو علامہ سے ملانے کے لئے لائے جو حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے تھے۔ اوپر علامہ نے سر راس مسعود کے نام اپنے خط میں قرآن کریم کے متعلق اپنے افکار قلم بند کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا وہ پختہ ارادہ رکھتے تھے۔ مگر ان کی صحت جواب دے گئی۔اور یہ ارادہ عمل میں نہ آسکا۔ ٭٭٭ ۹۴۔علامہ اقبال کے خطوط میرے مشاہدے میں دو شخص ایسے آئے ہیں۔ جو خطوط کاجواب دینے کے سلسلے میں اس قدر باقاعدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تھے۔کہ کوئی دوسرا پڑھا لکھا آدمی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔مکاتیب کی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے بھی شاید ہی کوئی ان کا ثانی ہو۔ ان میں سے ایک تو علامہ اقبال تھے ،جن کا دستور یہ تھا کہ ادھر ڈاکیہ خطوط دے کر جاتا تھا۔ اورا دھر وہ اپنے خدمت گار علی بخش کو فورا قلم دان اور کاغذات کا ڈبہ لانے کی ہدایت کرتے،پھر فورا جواب لکھتے تھے۔ اور اسی وقت علی بخش کے حوالے فرماتے تھے کہ لیٹر بکس میں ڈال آئے۔ علامہ اقبال کا خطوط لکھنے کا لیٹر پیڈ ابتداء میں ایک ہی طرح کا تھا۔جس کے بائیں کونے میں اوپر کی طرف ہاتھی کی چھوٹی سی ابھری ہوئی تصویر بنی ہوئی تھی۔مگر جب آپ لجسلیٹو کونسل کے ممبر بن گئے تو کسی دوست نے آپ کے نام پیڈ بنوادیا۔جس کے ساتھ ایم،ایل، سی ،کے حروف بھی تھے۔(یعنی ممبر لجسلیٹو کونسل)۔ دوسرے صاحب جو خطوط کا جواب نہایت باقاعدگی سے دیتے تھے۔ڈاکٹر مولوی عبد الحق (بابائے اردو) تھے۔ ان کا قاعدہ یہ تھا کہ روزانہ دوپہر کے وقت ان کا ملازم خود ڈاک خانے جا کر ڈاک لے آتا تھا۔ آپ ان کا مطالعہ کرتے ،مگر جواب دوسرے روز صبح کے وقت ناشتے کے فورا بعد لکھتے تھے۔ تاکہ ملازم جب دوسرے روز کی ڈاکل لینے جائے تو ان خطوط کو بھی حوالہ ڈاک کر دے۔ ایک ہی شہر میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے اگر چہ شروع سے ہی راقم کو علامہ سے تعارف کاشرف حاصل تھا۔مگر زیادہق ریب ہونے کا موقع ۱۹۱۴ء میں ملا۔اور پھر یہ تعلقات ان کی زندگی کی آخری سانس تک برقرار رہے۔ میں سفر وحضر میں علامہ کے ایک ادنی مصاحب اور خدمت گار کی حیثیت سے ان کی خدمت میں حاضر رہا۔چنانچہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انہوں نے ہزاروں خطوط اپنے اعزہ ،احباب اور اہل علم کو بصورت جواب لکھے۔ان میں سے بیشتر خطوط علمی استفسارات کے جواب میں ہوتے تھے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عام خطوط کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ عام طور پر لوگ کاتب خط کی اخلاقی حالت اور خط کے مضمون کی اہمیت کے علاوہ ذاتی حالات کو مد نظر رکھ کر جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات عدیم الفرصتی اور جسمانی عوارض بطور خاص جواب لکھنے سے مانع ہوتے ہیں۔مگر حضرت علامہ نے باوجود جسمانی عوارض،علمی مطالعے میں استغراق اور عدیم الفرصتی کے کبھی جواب لکھنے سے گریز نہیں فرمایا، وہ اکثر جسمانی عوارض میں مبتلا رہے۔ جس کا ذکر انہوں نے بار بار اپنے احباب کے نام خطوط میں بھی کیا ہے۔مگر پھر بھی خطوط نہایت باقاعدگی سے لکھتے رہے۔چنانچہ ۱۹۰۲ع میں اپنے دوست منشی سراج الدین احمد کو جو کشمیر میں رہتے تھے ،یوں اپنے حالات سے آگاہ فرماتے ہیں : ’’ ڈیر سراج ! دو تین روز سے طبیعت بسب دورہ درد کے علیل ہے۔ یہ چند شعر قلم برداشتہ آپ کے شکریے میں عرض کرتا ہوں۔میرا ارمغان یہی ہے، اسے قبول کرکے مجھے مشکور کیجیئے۔ چاہیئں تو پیشانی پر چند اردو سطور لکھ کر ’’مخزن‘‘ میں بھیج دیجیئے۔ والسلام آپ نے مجھ کو جو بھیجی ارمغان انگشتری دے رہی ہے مہر والفت کا نشان انگشتری۔۔۔ الخ جہاں تک کم فرصتی یا فارغ البالی کا تعلق ہے یہ دونوں امر زیادہ تر انسان کے ذاتی احساسات اور نفیساتی کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ صورت واقعہ خواہ کچھ ہو،مگر انسان کے اعلیٰ اخلاق وکردار کا تقاضا یہ ہے کہ وہ فرضی یا واقعی موانع کو ادائیگی فرائض کے راستے میں حائل نہ ہونے دے۔ اقبال ھو کچھ تھے اور ان کی مصروفیات جس نوعیت کی تھیں۔ وہ کسی سے پوشیدہ نہ تھیں۔ ہر وقت ان کے گرد احباب کا ایک مجمع رہتا تھا۔ جو طرح طرح کے مسائل پر ان سے گفتگو کرتے تھے۔ نہ صرف علمی اور سیاسی مسائل کے سلسلے میں وہ علامہ سے استمداد کرتے تھے، بلکہ ذاتی اور خانگی مشکلات کے سلسلے میں بھی وہ علامہ کو اپنا مشکل کشا سمجھتے تھے۔ جب اس قسم کی مصروفیات سے کچھ وقت بچتا تھا تو وہ مطالعہ علمی اور فکر شعر وسخن میں منہمک ہو جاتے تھے۔ پھر فکر معاش بھی ساتھ ساتھ تھا۔ جس سے وہ کبھی بھی چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔تاہم وہ ان تمام مصروفیات کے باوجود خط کاجواب بر وقت نہ دینا گناہ سمجھتے تھے۔اور اسے اخلاقی کمزوری پر محمول فرماتے تھے۔ خطوط لکھتے وقت وہ بعض امور پر بطور خاص توجہ فرماتے تھے۔ ایک تو تاریخ نہایت التزام سے لکھتے تھے۔ دوسرے مکتوب الیہ ک اپتا بہت چھان بین کے بعد درج فرماتے تھے۔ اور تیسرے خط کے اختتام پر اپنا نام اور اس کے جزو محمد ؐ پر ’’ص‘‘ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاحرف بہت باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ ان کے تمام خطوط میں یہ امور قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علامہ کے خطوط کے دوتین مجموعے اس وقت میرے پیش نظر ہیں۔ان میں قدیم ترین خط مولانا احسن مارہروی کے نام ہے۔ جن کی کتاب’’ تاریخ ادب اردو ‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔یہ خط بھی ابتدا اسی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس خط کے آخر میں علامہ نے اپنا نام اور متعلقہ کوائف یوں درج فرمائے ہیں: ’’محمد اقبال از لاہور گورنمنٹ کالج بورڈنگ ہاؤس۔۲۸ فروری ۱۸۹۹ع‘‘ اس خط میں وہ تمام لوازم درج ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ دوسرا خط نواب حبیب الرحمان شیروانی کے نام ہے۔ جس میں اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے۔ کہ نواب صاحب کا خط لاہور سے ہوتا ہوا انہیں فورٹ سنڈیمن میں ملا، جو بلوچستان میں واقع ہے۔اپنے جواب میں علامہ نے مقام اور تاریخ اس طرح لکھی ہے:۔ ’’ فورٹ سنڈیمن برٹش بلوچستان،۱۵ مئی ۱۹۳۰ع۔‘‘ آپ ان دنوں اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے ہاں فورٹ سنڈیمن میں مقیم تھے۔ جو بہ سلسلہ ملازمت بلوچستان میں تعینات تھے۔ اور انجئینرنگ کے شعبے میں کام کرتے تھے۔ مذکورہ خط میں نواب صاحب نے علامہ کی کسی نظم پر تنقید کی تھی، جس کے جواب میں علامہ نے نہایت خندہ پیشانی سے انہیںدعوت دی کہ آپ میری ہر نظم پر اسی قسم کا خط لکھ دیا کریں۔ توآپ کا ممنون ہوں گا۔ بعض لوگ خط وکتابت کے ذریعے علامہ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے کے متمنی ہوتے تھے۔اور وہ انہیں حتی الوسع مایوس نہیں فرماتے تھے۔ حیدر آباد سٹی کالج کے پروفیسر ابو الظفر عبد الواحد نے ۱۹۱۸ء میں جو خط علامہ کو لکھا،وہ اسی قسم کی خواہش کا آئینہ دار ہے۔ علامہ نے اس خط کا جو جواب دیا ،اس کے آخری حصے کے الفاظ یہ ہیں : ۔۔۔۔ اگر فن سیکھنا مقصود ہے،تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کا انتخاب ٹھیک نہیں۔شاعری کے دو لوازم ہیں۔ زبان اور مضمون۔۔۔ تاہم خطوط کے ذریعے میں جو کچھ آپ کے لئے کر سکتا ہوں۔اس کے لئے حاضر ہوں۔آپ کبھی کبھی خط لکھ دیا کریں۔جواب میں انشا اللہ کبھی دریغ نہیں کروں گا۔ خطوط کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں عموما تصنع کا عنصر نہیں ہوتا اور لکھنے والے کا مافی الضمیر مکمل بے ریائی کے ساتھ مکتوب الیہ تک منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ خصوصیت تمام اچھے مکاتیب میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں۔جب کہ تصانیف میں یہ ناپید ہوتی ہے۔بقول شخصے خطوط میں انسان ایک طرح خود سے باتیں کرتا ہے۔یہ دلی خیالات و جذبات اور اسرار حیات کا صیحفہ ہوتے ہیں۔ ہمیں بڑے لوگوں کی زندگی کے اہم ترین واقعات زیادہ تر خطوط کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ علامہ کے بعض ایسے خطوط بھی ان کے مجموعہ ہائے مکاتیب میں شامل کر لیے گئے ہیں ،جو بالکل ذاتی اور نجی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے خود ایسے خطوط پر ’’ذاتی‘‘ یا پرائیویٹ کے الفاظ لکھ کر متنبہ فرما دیا تھا۔ کہ ان خطوط کی تشہیر یا اشاعر غیر مناسب ہے۔مگر ناشرین اور مرتبین نے اس قسم کی کسی تنبیہ کی پرواہ نہیں کی،اور انہیں شائع کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ا قبال کی ایک ایک سطر بلکہ ایک ایک لفظ قوم کی امانت ہے۔ مگر جس حصے کو انہوں نے بالصراحت نجی قرار دے کر اس کی تشہیر کی ممانعت کردی تھی۔اسے شائع کرنا نہ صرف بے انصافی ہے۔بلکہ ایک طرح کی خیانت بھی ہے۔ایسے مکاتیب جن پر انہوں نے ’’خفیہ‘‘ یا ’’ذاتی‘‘ کے الفاظ انہوں نے درج کیے تھے۔ دو قسم کے تھے، ایک تو وہ تھے جو خالص سیاسی نوعیت کے تھے۔ اورا س وقت کے قومی اور ملی مفادکے پیش نظر ان پر خفیہ کے الفاظ لکھ کر ان کی تشہیر کی ممانعت کی گئی تھی۔مثلا حضرت قائد اعظم کے خطوط پر صراحتہ خفیہ کے الفاظ درج کیے جاتے تھے۔اور اس وقت واقعی ایسے خطوط کی تشہیر واشاعت مسلمان قوم کے لئے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ دوسری قسم کے خطوط جن پر خفیہ یا ذاتی کے الفاظ درج کیے گئے،بالکل ذاتی نوعیت کے تھے، جوقریبی عزیزوں یا بے تکلف دوستوں کے نام لکھے گئے تھے۔ اول الذکر مکاتیب کی تشہیر وقت کے ساتھ ساتھ جائز قرار پائی ،بلکہ مسلمان قوم کے سیاسی مستقبل کے لئے ان کی اشاعت ناگزیر ہو گئی،مگر ثانی الذکر خطوط کی تشہیر کی گنجائش نہ تو اس وقت تھی،اور نہ ہی بعد کے زمانے میں ملک اور قوم کو ان کی اشاعت سے کسی قسم کے غیر معمولی فائدے کی توقع تھی۔ مثلا سر راس مسعود کے نام خانگی نوعیت کے جو خطوط لکھے گئے تھے۔ دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ مکتوب نگار کی حسب خواہش انہیں کسی صورت میں شائع نہ کیا جاتا ۔یا کم ازکم وہ حصے خذف کر دیئے جاتے ،جو خالص زاتی نوعیت کے تھے۔ خط کا جواب نہ دینا کوئی قانونی جرم نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی قسم کی نالش کا خطرہ ہوتا ہے۔ مگر صاحب کردار لوگوں کے لئے جو اعلیٰ اخلاقی روایات کی پاس داری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ امر کسی کچہری یا استغاثے سے کم نہیں ہے۔ کچہری سے تو ڈگری کے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ گلہ عمر بھر رہتا ہے۔ کہ فلاں صاحب نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔جس طرح مقروض اس وقت تک شرمندہ رہتا ہے ،جب تک وہ قرض ادا نہیں کر دیتا۔اور ہمیشہ قرض خواہ کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے۔اسی طرح جواب خط سے گریز کرنے والا بھی سامنا نہیں کر سکتا۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے ۔ جب انسان اعلیٰ کردار کا مالک ہو۔ اور اپنے اخلاقی فرائض کو پہچانتا ہو۔ ورنہ تو ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں،جو جواب دینا کسر شان سمجھتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال کے سلسلے میں قبل ازیں بتایا جا چکا ہے کہ باوجود جسمانی عوارض اور دوسری مصروفیات کے انہوں نے کبھی خطوط کے جواب لکھنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا۔ نہایت باقاعدگی کے ساتھ وہ خطوط لکھتے تھے، لیکن غیر ضروری طوالت سے مکمل طور پر اجتناب کرتے تھے۔آخر عمر میں جب آپ کی بینائی جواب دے گئی،تو معمول یہ ہوگیا کہ ا پنے احباب اور نیاز مندوں سے خطوط سنتے تھے اور جواب بھی ان ہی کو املا کروا دیتے تھے۔ مکتوب الیہ سے معذرت بھی کر دیتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے جواب لکھنے کے قابل نہیں رہ گیا۔لہذا کسی دوست سے لکھوا کر بھیج رہا ہوں۔ خود راقم الحروف کو جو خط ۱۳ جون ۱۹۳۷ء کو پیرس کے پتے پر علامہ نے ارسال کروایا تھا۔اس میں بھی یہ وضاحت موجود تھی۔چنانچہ اس کے آخری الفاظ یوں تھے: ’’ یہ خط ایک دوست سے لکھوایا ہے کہ میں اب اپنے ہاتھ سے خط بہت کم لکھتا ہوں ۔‘‘ اقبال کا عام مسلک،جس پر انہوں نے عمر بھر عمل کیا،ان کی نظم ’’التجائے مسافر‘‘ کے مندرجہ ذیل شعر سے ظاہر ہوتا ہے۔ شعر یہ ہے:۔ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسمان مجھ کو ان کی زندگی اس شعر کی مکمل تفسیر تھی۔ کیونکہ میرے علم اور مشاہدے کے مطابق کبھی بھی کسی کو اقبال کی زبان یا قلم سے دکھ نہیں پہنچا۔دکھ دینا تو دور کی بات ہے۔ کبھی شکایت کا موقع بھی انہوں نے کسی کو نہیں دیا۔میں اس مسئلے پر الگ بھی لکھوں گا۔ کہ کس طرح انہوں نے صحیح الفہم،صحیح الدین، صحیح الفطرت انسان ہونے کی حیثیت سے اپنے بعض افعال سے رجوع فر مالیا۔ یہاں مجھے ان لوگوں سے بھی کچھ کہنا ہے ،جنہوں نے اقبال کے خطوط شائع کیے ہیں۔ یا شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ان میں اس بات کیکمی بری طرح محسوس ہوتی ہے۔ کہ علامہ کے اسلوب تحریر یا خطوط کے پس منظر جیسے اہم امور درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ اگر یہ مجموعے مکتوب الیہ کے مکمل تعارف اور عصری واقعات وسوانح پر حواشی کے التزام سے شائع ہوتے تو اس علمی کارنامے کی اہمیت دوچند ہو جاتی اور یہ ایک نہایت عمدہ علمی خدمت ہوتی۔موجودہ صورت میں صرف اتنا ہوا کہ خطوط محفوظ ہو گئے ہیں۔ اور اہل علم حسب ضرورت ان کے متن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ان کی اشاعت کا حق اس وقت ادا ہوگا ۔جب مفصل تعارف اور مکمل تخمینے کے ساتھ انہیں شائع کیا جائے گا۔ اب تک علامہ کے کافی خطوط شائع ہو چکے ہیں۔مگر میرے نزدیک اب بھی سینکڑوں مکاتیب ایسے ہیں،جو سامنے نہیں آئے،یا تو وہ ضائع ہو چکے ہیں یا پھربعض لوگوں کے پاس اب بھی محفوظ ہیں۔ کاش یہ خطوط سامنے آتے ،اور کوئی مرد مجاہد ان میں چھپے ہوئے علم ودانش کے موتیوں کی نشان دہی کرکے قوم کو اس خزانے سے مالا مال کر سکتا ہے۔ ایک مرتبہ میں علامہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ علی بخش ڈاک لایا،جس میں کسی صاحب کا ایک دستی رقعہ بھی تھا۔ یہ رقعہ اگر چہ ڈاک سے پہلے آیا تھا۔مگر علی بخش نے فیصلہ کیا کہ معمول کی ڈاک کے ساتھ اسے علامہ کی خدمت میں پیش کروں گا۔علامہ نے ملاقاتیوں سے معذرت کرکے فورا خطوط کا مطالعہ شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے بڑے کمرے سے قلم دان منگوایا اور سب سے پہلے دستی رقعے کی پشت پر اس کا جواب لکھ کر حوالے کیا،کہ جو آدمی یہ رقعہ لے کر آیا ہے۔اسے فورا روانہ کردو۔یہاں یہ وضاحت بھی کر دی جائے کہ علامہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے کونے والے کمرے میں ایک چارپائی پر آرام فرمایاکر تے تھے۔ اور ملاقاتی بھی یہیں آکر بیٹھتے تھے۔دستی تقعے کے جواب سے فراغت پانے کے بعد آپ نے کاغذات کامخصوص ڈبہ کھولا،اور بقیہ خطوط کا جواب بھی اسی وقت لکھ کر علی بخش کے حوالے کیا۔ اس کے بعد پھر ملاقاتیوں سے محو گفتگو ہو گئے۔اور اس تھوڑی سی غیر حاضری پر ایک دفعہ پر معذرت طلب کر لی۔ عام طور پر علامہ خود ہی اپنے لعاب دہن سے لفافوں پرٹکٹ چسپاں فرماتے تھے۔اور اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ٹکٹ لفافے کے دائیں کونے پر چسپاں کیے جائیں ۔اور اگر ٹکٹ ایک سے زیادہ ہو تو ان میں تھوڑا تھوڑا فاصلہ ہو۔ لفافوں کے جو عکس شائع ہو چکے ہیں۔ان سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ کے تمام مطبوعہ خطوط سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ القاب کے سلسلے میں وہ مکتوب الیہ کے رتبے کا بطور خاص خیال رکھتے تھے۔چنانچہ جس قسم کے تعلقات ہوتے۔انداز تخاطب بھی بالکل ویسا ہی ہوتا، بے تکلف دوستوں کو مکاتیب میں اسی نام یاعرف سے مخاطب کرتے تھے۔ جو بالمشافہ گفتگو میں از راہ محبت استعمال کرتے تھے۔مجھے عام گفتگو میں بھی لفظ ’’ماسٹر‘‘ سے مخاطب فرماتے تھے۔اور جو خطوط انہوں نے میرے نام تحریر فرمائے،ان میں بھی یہی لفظ نمایاں ہے۔کم وبیش تمام احباب کے ساتھ ان کا یہی طرز عمل تھا۔ علامہ کا خط نہایت پختہ تھا۔ جیسا کہ قدیم دستاویزات میں دیکھنے میں آتا ہے۔اس قسم کا پختہ منشیانہ خط اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے ابھی بعض پرئیوایٹ خطوط ک اذکر کیا تھا۔ جس کی اشاعت کسی بھی پہلو سے مناسب معلوم نہیں ہوتی، مگر بد قسمتی سے انہیں شائع کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ بعض خطوط ایسے ہوتے ہیں،جنہیں مکتوب الیہ تو اپنے سابقہ تعلقات کی بنا پر آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ مگر عام لوگوں کے لئے وہ ناقابل فہم ہوتے ہیں۔کیونکہ ان میں بعض بعض باتیں اشارۃ بیان کی جاتی ہیں اور جب تک ان باتوں کی حواشی کے ذریعے وضاحت نہ کر دی جائے۔یہ خطوط مہمل معلوم ہوتے ہیں۔ایسے خطوط کو قارئین کوئی علمی کار نامہ یا ادب پارہ سمجھنے کی بجائے بعض اوقات ہدف تنقید بھی بناتے ہیں۔یہی کیفیت ان خطوط کی ہے ۔جو عجلت میں لکھے جاتے ہیں۔لکھنے والے کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہوتا کہ کبھی انہیں شائع کر دیا جائے گا۔ وہ روا روی میں بعض ذاتی مسائل کو اس طرح سپرد قلم کرتا ہے کہ مکتوب الیہ تک ان کا مفہوم منتقل ہو جائے۔اور بس۔ ایسے ذاتی نوعیت کے خطوط کو بغیر نظر ثانی کے شائع کر دینا سراسر زیادتی ہے۔ جب علامہ کو اپنی زندگی میں اس رجحان کا پتا چلا تو انہوں نے اس کو سخت ناپسند کیا۔ چنانچہ نیاز الدین احمد خان کے نام ایک خط میں ،جو لاہور میں ۱۹۔اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لکھا گیا تھا،تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں،کچھ عرصہ ہوا کہ انہوں نے بعض خطوط ایک کتاب میں بھی شائع کر دیئے۔تو مجھے بہت پریشانی ہوئی ،کیونکہ خط عجلت میں لکھے جاتے ہیں۔ ان کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی۔عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کر دیتی ہے۔جس کو پرائیویٹ خطوط میں معاف کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی اشاعت نظر ثانی کیے بغیر نہیں ہونی چاہیئے۔اس کے علاوہ میں پرائیویٹ خطوط کے طرز بیان کے بارے میں لاپرواہ ہوں۔امید ہے آپ میرے خطوط کو اشاعت کے لحاظ سے محفوظ نہ رکھتے ہوں گے۔زیادہ کیا عرض کروں ،امید ہے کہ آپ کامزاج گرامی بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال‘‘ اس خط سے میرے متذکرہ بیان کی پوری تائید ہوتی ہے۔کہ بعض مکاتیب ہر گز شائع نہیں ہونے چاہیئے۔اگر بہت ضروری ہو تو انہیں نظر ثانی کے بعد شائع کیا جائے یا صرف نفس مضمون جو ناگزیر ہو،قارئین تک پہنچایا جائے۔ ایسے خطوط لکھنے والے کی امانت ہوتے ہیں۔اور امانت میں خیانت کسی صورت جائز نہیں۔ جس طرح حضرت علامہ خطوط کا جواب بڑی پابندی سے دیتے تھے۔ اسی طرح وہ موصول شدہ خطوط کو ضائع بھی بڑے التزام سے کرتے تھے۔سوائے اکبر الہ آبادی کے خطوط کے۔ جواب لکھنے کے فورا بعد وہ خطوط کو ضائع کر دیتے تھے۔ میں علامہ کی قربت کی وجہ سے یہ حرکت کرتا تھا کہ بعض اہم شخصیات کے تلف شدہ خطوط کو بھی محفوظ کر لیتا تھا۔مثلا حکیم اجمل خان وغیرہ کے خطوط،مگر بعد میں جب احساس ہوا کہ میں خیانت کا مرتکب ہو رہا ہوں ،تو میں نے انہیں ضائع کر دیا۔ ورنہ اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو جاتا۔اگر وہ تمام خطوط جو علامہ کو موصول ہوئے تھے،محفوظ کر لیے جاتے، تو ایک نادر مجموعہ مرتب ہو سکتا تھا۔ ۱۹۲۴ع میں جب علامہ اقبال کا پہلا ایڈیشن شائع ہونے لگا تو علامہ نے اس کی فروخت کاکام راقم کے سپرد کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ساتھ ہی انہوں نے ایک اور مختصر سی کتاب کا ذکر بھی فرمایا،کہ وہ بھی بانگ درا کے ساتھ ہی شائع ہو گی۔اگرچہ یہ خدمت میرے لئے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر ذاتی طور پر میں اس کے لئے تیار نہ تھا۔کیونکہ اس طرح علامہ کی محفل میں میری حیثیت بالکل مختلف ہو جاتی۔ بالاخر یہ کام میری خواہشات کے عین مطابق ہوا اور ’’بانگ درا ‘‘ کی فروخت کا کام شمس العلماء مولانا سید ممتاز علی کے ادارے دار الاشاعت کے سپرد ہوا۔ مگر وہ چھوٹی سی کتاب پھر کبھی نظر نہ آئی۔جس کاعلامہ نے ذکر کیا تھا۔یہ کتاب دراصل اکبرالہ آبادی کے خطوط کا مجموعہ تھا۔ جس کے متعلق علامہ نے یہ بھی فرمایا تھا، کہ وہ بالکل مرتب شدہ ہے۔اس پر ضروری حواشی بھی ہوں گے۔اور لوگ اسے پسند بھی کریں گے۔ لوگوں میں اس مجموعے کا چرچا کافی دیر رہا۔اور وہ اس کے منتظر رہے۔ مگر میں نے اسے اپنی آنکھوں سے پھرکبھی نہ دیکھا، اور آہستہ آہستہ یہ مجموعہ طاق نسیان کے حوالے ہو گیا۔پھر جب ڈاکٹر پروفیسر غلام حسین ذوالفقار صاحب نے رسالہ ’’اقبال‘‘ کے اپریل ۱۹۶۲ء کے شمارے میں ایک فاضلانہ مضمون ’’اکبر پیش رو اقبال‘‘ کے عنوان سے لکھا تو انہیں بھی اکبر الہ آبادی کے مجموعہ خطوط کے سلسلے میں معلومات یک جا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔انہوں نے اس سلسلے میں راقم سے بھی رابطہ کیا۔ اور اس کے متعلق استفسار کیا۔جس کا ذکر مذکورہ مضمون کے صفحات۲۸۔۳۳ پر موجود ہے ، مگر اور کافی تلاش وجستجو کے باوجود بھی یہ مجوعہ انہیں نہیں مل سکا اور نہ کسی اور کی نظر سے گزرا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ مجموعہ بطور امانت چودھری محمد حسین کے پاس رہا ہوگااور انہوں نے اسے ضائع کردیا ہوگا، کیونکہ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، اقبال لوگوں کے خطوط کو ان کی امانت سمجھتے تھے اور ان کی تشہر پسند نہیں فرماتے تھے ۔ ۱۹۶۴ء کے’’ معارف‘‘ میں اکبر کے وہ تمام خطوط شائع ہو گئے ہیں۔ جو انہوں نے سید سلیمان ندوی کو لکھے تھے ۔ ان خطوط میں علامہ اقبال اور ان کے فکر وفن کا خاصا ذکر ہے ۔ مثلا مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر ملتا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبر اور اقبال کے درمیان اس مسئلے پر اور دیگر علمی مسائل پر اکثر خط و کتابت ہوتی ہوگی۔ اگر اکبر کے خطوط ، جو اقبال کو لکھے گئے تھے ، مل جاتے تو اس امر کی تصدیق ہوجاتی۔ ’’ اقبال نامہ ‘‘ (مجموعہ خطوط اقبال) کے حصہ اول میں صفحہ ۳۴ سے ۷۷ تک وہ خطوط تو ملتے ہیں جو علامہ نے اکبر الہ آبادی کو تحریر فرمائے تھے ۔ اگرچہ میرے نزدیک وہ بھی مکمل خطوط نہیں ہیں۔مگر حضرت اکبر کے خطوط بنام اقبال کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ خیال یہی ہے کہ اول اول تو علامہ اقبال نے ان کے افادیت کے پیش نظر انہیں شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر پھر اس خیال سے انہیں ضائع کر دیا کہ جس طرح وہ اپنے ذاتی خطوط کی تشہیر اور اشاعت کو پسند نہیں فرماتے،اسی طرح دوسروں کے خطوط کی اشاعت بھی مناسب نہیں ہے۔ بہر حال مقصد یہ ہے کہ اقبال حتی الوسع خطوط کی اشاعت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ اور ذاتی خطوط یا عجلت میں قلم برداشتہ لکھے گئے مکاتیب کی اشاعت کو تو سخت معیوب سمجھتے تھے۔ا ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم (ص ۱۵۴،۱۶۹) میں علامہ کے کچھ خطوط پروفیسر اکبر منیر کے نام ہیں۔ تاریخی طور پر یہ خطوط اس زمانے کے ہیں،جب اکبر منیر ہنوذ اسلامیہ کالج میں بی،اے کے طالب علم تھے۔(جنوری ۱۹۱۸ء ) کو راقم کو بھی ان سے نیاز حاصل کرنے کاموقع ملا ہے۔ انہیں فارسی زبان سے بہت شغف تھا۔جب سیاسی دباؤ کے تحت پنجاب یونیورسٹی میں ایم، اے کی کلاسیں شروع ہوئیں تو اکبر ان طلبہ کے ساتھ صف اول میں تھے۔ جنہوں نے ایم۔اے فارسی کے امتحان میں نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔اور ڈگری لی، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں جن لوگوں سے فارسی پڑھی تھی، ان میں مولانا سراج الدین پال، قاضی فضل حق،مولانا محمدشفیع اور علامہ اقبال نمایاں ہیں۔اقبال ان ہی دنوں پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے تھے۔ پروفیسر اکبر اگر چہ فارسی کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے،جس کی تعریف اقبال نے بھی کی ہے۔مگر بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ا نہیں فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں تھا۔ ایم،اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدانہیں ملک سے باہر بحرین میں تعینات کیا گیا تھا۔ کیونکہ دوسرا خط جو ۲۱ اپریل ۱۹۳۰ء کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ بحرین سے لکھا گیا تھا۔ اقبال نے انہیں جو خط ۴۔اگست ۱۹۳۰ء کو لکھا تھا،اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ ایک کتاب غالبا’’ لطائف غیبی‘‘ نام ایران میں شائع ہوئی تھی۔پروفیسر براؤن نے لٹریری ہسٹری میں اس کا ذکر کیا ہے۔یہ کتاب ان اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ جو شیعہ حضرات نے وقتا فوقتا حافظ پر کیے ہیں۔ اگر کہیں سے دستیاب ہو جائے تو میرے لئے خرید کر بھیج دیجیئے۔‘‘ اسی خط میں اقبال نے ایک ا ور کتاب ’’یونانی فلسفہ‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ جو ابھی تک ان کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ پھر نکلسن کے ترجمہ اسرار خودی کا ذکر کیا ہے۔ جو تا حال شائع نہیں ہوا تھا۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ میں گوئٹے کے دیوان کے جواب میں ایک دیوان فارسی لکھ رہا ہوں۔ اس خط میں انہوں نے مکتوب الیہ کو مطلع کیا ہے کہ بے شمار لوگ افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اکبر منیر نے اپنے مکتوب محررہ ۲۰ جنوری ۱۹۲۲ء میں اطلاع دی ہے کہ وہ ایک کتاب فارسی کے انٹرنس کورس کے لئے مرتب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اکبر منیر پنجاب کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ اور ملتان میں ان کا تقرر ہوا۔ کیونکہ ۱۷ مارچ ۱۹۲۵ء کا خط ملتان کے پتے پر لکھا گیا ہے۔اس میں ’’زبور عجم‘‘ کے متعلق اقبال نے لکھا ہے کہ اس کے لئے ابھی کچھ مدت درکار ہے۔ حضرت علامہ کے لئے سٹیشنری کا انتظام بغیر کسی خاص ہدایت کے منشی طاہر الدین خود ہی کر دیا کرتے تھے۔جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ،کہ کافی دیر تک ایک ہی قسم کے کاغذ اور لفافے استعمال ہوتے رہے۔البتہ جب علامہ لیجس لیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے ،تو کسی دوست نے ان کے نام دو،تین لیٹر پیڈ چھپوا کر دے دیئے۔ مگر لفافے پھر بھی وہی سادہ قسم کے استعمال میں رہے۔ اگر کسی خط کا جواب تحقیق طلب ہوتا،اور اس کے لئے کتابوں کے حوالے درکار ہوتے تو خط کی رسید تو فورا بھیج دی جاتی،مگر تحقیق طلب مسائل کے حل کے لئے اہل علم احباب سے مدد لی جاتی۔ اس کا طریق کار یہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی چٹوں پر تحقیق طلب مسائل لکھ کر مختلف اہل علم حضرات کو بھجوا دیے جاتے،اور ان سے کہا جاتا کہ متعلقہ ماخذ سے حوالے نوٹ کرکے ارسال کر دیجیئے۔ ایسے استفسارات کے لئے دیگر اہل علم کے علاوہ پروفیسر مولوی محمد شفیع اور پروفیسر محمود شیرانی یا راقم سے بطور خاص رابطہ کیا جاتا ۔یہ چٹیں اب بھی ان حضرات کے گھروں میں مل جائیں گی۔اس قسم کے استفسارات زیادہ تر اسلامی مسائل کے متعلق یا پھر اشعار کی تشریح کے سلسلے میں ہوتے تھے۔ جب علامہ افغانستان کے سفر پر جانے لگے ،اور اسٹیشن پر پہنچنے کے لئے موٹر میں سوار ہوئے تو اسی وقت ڈاکیا روز مرہ کی ڈاک لے کر آگیا۔ایک خط میں مکتوب نگار نے خاقانی کے بعض اشعار کی شرح کرنے کی درخواست کی تھی۔ فرمانے لگے ،اب اس خط کا جواب کیسے دیا جائے۔ میں قریب ہی کھڑا تھا، میں نے عرض کیا خط اسی طرح شیرانی صاحب کو بھجوادیجیئے۔ وہ آپ کی طرف سے تسلی بخش جواب لکھ دیں گے۔ چنانچہ اسی وقت مجھ سے قلم لے کر لفافے پر مندرجہ ذیل پیغام تحریر فرمایا اور خط شیرانی صاحب کو بھجوا دیا۔ ’’ ڈیر شیرانی صاحب ! میں کابل جا رہا ہوں، اس لئے فرصت نہیں ہے۔ آپ مہر بانی کرکے اس خط کا جواب راقم کو دے دیں۔ اور ان کو یہ بھی لکھ دیں کہ میں کابل جا رہا ہوں۔ اس لئے جواب نہیں لکھ سکا۔ محمد اقبال‘‘ علامہ اقبال ہر مکتوب الیہ کو جواب دینا اخلاقی فرض سمجھتے تھے۔اس معاملے میں مکتوب الیہ کے مقام اور مرتبے ،مثلا سماجی، اقتصادی، علمی یا سیاسی حیثیت کا کوئی معیار مقرر نہیں تھا۔ دنیا کے کسی حصے سے خط آتا ،وہ کاتب کو جواب دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ۱۔’’اقبال نامہ ‘‘ حصہ دوم، ص ،۳۵۱ میں مرتسب نے شیرانی صاحب کے نام خطوط کے عنوان میں حافظ محمود شیرانی کی بجائے ان کے بیٹے اختر شیرانی کا نام لکھ دیا ہے۔ اس سسلے میں ان کے نزدیک وائسرائے ہند اور ملک کے کسی ادنی ترین فرد کو یکساں اہمیت حاصل تھی۔ اتنی ہی عجلت سے وہ علی بخش کو جواب دیتے تھے، جتنی سرعت سے وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو خط کا جواب لکھتے تھے۔ جب ۱۹۰۵ء میں آپ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ تشریف لے گئے تو اپنے خدمت گار علی بخش کو کہہ گئے کہ جب تک میں واپس نہیں آتا ،تم بے کار نہ رہنا اور دوسری کوئی ملازمت اختیار کرلینا۔اسی دوران علی بخش کے ہاں چوری ہو گئی۔ تو اس نے ۱۹۰۷ع کے آخر میں علامہ کو بھی اس کی اطلاع دی۔اس کے جواب میں علامہ نے جو ہمدردانہ خط لکھا ،وہ مندرجہ ذیل ہے۔: عزیز علی بخش! بعد سلام کے واضع ہو کہ خط تمہارا پہنچا، حال معلوم ہوا۔ میرے آنے میں ابھی چھ ،سات ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ تم اس وقت تک فارغ نہ رہو گے ،اور وہ کمی جوچوری سے ہو گئی ہے۔ اسے پورا کر لو گے۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا۔ اگر میں وہاں ہوتا ،تو اس موقع پر ضرور تمہاری مدد کرتا۔ تم نے شادی کے متعلق مجھ سے مشورہ کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے۔ بہر حال انسان کو شادی سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیئے کہ بیوی اور بچوں کی پرورش کے واسطے اس کے پاس سامان ہے یا نہیں، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ا پنی محنت سے تم بیوی کو آسودہ رکھ سکوگے تو ضرور کر لو۔ شادی کرنا عین ثواب ہے، اگر بیوی آسودہ رہ سکے تو۔اگر کوئی شخص ایسا نہ کر سکتا ہو،تو وہ شادی کرکے نہ صرف اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے، بلکہ ایک بے گناہ کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ محمد اقبال ۱۱ دسمبر ۱۹۰۷ع‘‘ حضرت علامہ نے کافی خطوط مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد یمین السلطنت ،مدار المہام ،صدر اعظم حیدر آباد دکن کے لکھے ہیں ،جو چھپ بھی گئے ہیں۔ مندرجہ ذیل خط انہوں نے جناب شبیر حسن جوش ملیح آبادی کی تقرری کے لئے لکھتا ہوں۔ یہ نوجوان نہایت قابل اور ہونہار شاعر ہیں۔ میں نے ان کی تصانیف کو ہمیشہ دل چسپی سے پڑھا ہے۔ اپنی خداد اد قابلیت کے علاوہ لکھنئو کے ایک معزز خاندان سے ہیں۔ جو اثر ورسوخ کے ساتھ لٹریری شہرت بھی رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سرکار ان کے حال پر نظر عنایت فرمائیں گے،اور اگر ان کو کسی امر میں سرکار عالی کے مشورے کی ضرورت ہو گی،تو اس سے دریغ نہیں فرمائیں گے۔ سرکار والا کی شرفا پروری کے اعتماد پر اس سے درخواست کی جرات کی گئی ہے۔ امید ہے مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال ۔لاہور ( منقول از شاد اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ،صفحہ ۱۵۹، مطبوعہ حیدر آباد دکن)۔ چنانچہ جوش صاحب اس کے بعد دار الترجمہ حیدر آباد میں ملازم ہو گئے تھے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں،زندگی کے آخری ایام میں علامہ کی بصارت جواب دے گئی تھی۔مگر خطوط کا جواب پھر بھی اسی عجلت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے احباب اور عقیدت مندوں سے لکھوا کر بھجواتے رہے۔ آخری خط جو حضرت علامہ نے ایک آرٹسٹ کاظمی صاحب کو لکھوایا۔ ۱۸ اپریل ۱۹۳۸ء کا ہے۔ جب کہ تین روز بعد آپ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے۔ چونکہ یہ خط کئی لحاظ سے اہم ہے۔ لہذا اسے درج ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔ ’’ لاہور، ۱۸ ،اپریل ۱۹۳۸ع مکرم بندہ ! السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ آیا۔پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ بدایوں جیسے مردم خیز خطے میں ’’اقبال ڈے‘‘ منا رہے ہیں۔ خدا آپ کو مبارک کرے۔ میں نے اور علامہ یوسف صاحب نے آپ کا آرٹ بابت ’’شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ مولانا حالی کی برسی پر دیکھا تھا۔ میرا اور مبصر زمانہ عبد اللہ یوسف علی صاحب کا خیال ہے کہ اگر آپ نے کافی مشق اور مہارت کے بعد اس فن میں کمال حاصل کرکے ’’شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ کو دنیائے اسلام کے سامنے پیش کر دیا تو آپ فن مصوری میں ایک اور اضافہ کرکے اپنے فن کا ایک نیا سکول قائم کریں گے،اور میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ چیز ایسی شان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی تو دنیا یقینی طور سے اس کو ’’کاظمی سکول‘‘ کے نام سے موسوم کرے گی۔آپ محض فن مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے ،بلکہ دنیائے اسلام میں بحیثیت ’’مصور اقبال‘‘ ایک زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں۔جو کہ قدرت شاید آپ ہی سے لینا چاہتی ہے۔ پوری مہارت فن کے بعد آپ نے ’’جاوید نامہ‘‘ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میری طبیعت پہلے سے ا چھی ہے۔ مگر حالت روز بروز ابتر نظر آتی ہے۔ بوجہ کمزوری کے دوسرے صاحب سے خط لکھوا رہا ہوں۔خدا سے دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کے نیک ارادوں میں کام یابی عطا کرے۔ مجھے آپ کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔آپ میرے لئے اللہ سے دعا کریں کہ یا تو صحت کلی دے یا ایمان کے ساتھ دنیا سے اٹھا لے۔ والسلام محمد اقبال ،جاوید منزل اس خط سے جہاں اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ اقبال اپنی موت سے تین روز پہلے تک برابر خطوط کا جواب دیتے رہے۔ وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخر وقت تک آپ کا حافظہ نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔اور خیالات میں توانائی تھی۔ مصوری کا موضوع جس پر میں کہیں الگ بھی روشنی ڈالوں گا۔ اگر چہ علامہ کا موضوع نہیں تھا، مگر وہ اس موضوع پر بھی نقادانہ بصیرت کے ساتھ اظہار خیال فر ما سکتے ہیں۔ پھر یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اقبال کا حوصلہ آخر وقت تک بلند تھا۔اور دوسرے لوگوں کو بھی وہ عزم وہمت کا پیغام دیتے تھے۔ان سے مل کر اور ان سے گفتگو کرکے ہمیشہ ایک تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ اور انسان کتنے ہی مصائب میں گھرا ہوا ہو۔وہ اس انداز سے مسائل کو حل کرتے تھے، کہ عزم ایک مرتبہ پھر جوان ہو جاتا تھا۔ اور مردہ رگوں میں تازہ خون دوڑنے لگتا تھا۔ بہر حال مکاتیب اقبال کے ضمن میں یہ بات بالکل واضع ہے کہ زندگی کے راز ہائے سر بستہ پر اور زندگی کے حقائق پر جس طرح ان کے خطوط سے روشنی پڑتی ہے۔ وہ دیگر ذرائع اظہار سے زیادہ توانا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مکاتیب اقبال کو ان کے پس منظر سے الگ کرکے صحیح معنوں میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ان کے خطوط جہاں کہیں ان کی شخصی زندگی کا آئینہ ہیں، وہاں متعلقہ عہد کے سوانح اور وقائع کی سچی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ اس لیے میں بار بار اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ اگر اقبال کو ،اور گرد وپیش کے متعلق ان کے نظریات کو صحیح معنوں میں سمجھنا ہے تو مکاتیب اقبال کو ان کے پس منظر سمیت شائع کرنا نہایت ضروری ہے۔ جب ہم علامہ اقبال کے دیگر علمی کار ناموں کے بعد ان کے خطوط پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی کیفیت اور کمیت دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ان کی خطوط نویسی کی ابتدا گزشتہ صدی کے آخر میں ہوئی تھی، آپ کاسب سے پہلا خط ۲۸ فروری ۱۸۹۹ء کا ملتا ہے۔ جو آپ نے گورنمنٹ کالج کے بورڈنگ ہاؤس سے مولانا احسن مارہروی کو لکھا تھا۔ اس کے بعد اخیر دم تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اگر چہ وہ خود نہیں لکھ سکتے تھے۔ تو اپنے کسی رفیق سے لکھوا کر اس فریضے کو انجام دیتے تھے۔ چنانچہ خطوط کے وہ تمام مجموعے جو آج بازار میں دست یاب ہیں،وہ یہ ہیں: ۱۔ اقبال نامہ ،حصہ اول، ۱۹۴۵ع۔ ۲۔ دوم اقبال نامہ ، حصہ دوم، ۱۹۵۱ع ۳۔اقبال ،مصنفہ عطیہ بیگم (انگریزی) ۱۹۴۷ع ۔ ۴۔ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خان ،۱۹۵۴ع ۵۔ مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی ،۱۹۵۷ع۔ ۶۔ یاد گار یوم اقبال ،(کراچی) مرتبہ یعقوب توفیق ،۱۹۶۶ع۔ ۷۔ اقبال کے خطوط وتحریریں (انگریزی) ۱۹۶۷ء ۸۔ انوار اقبال ،۱۹۶۷ع ۔ ۹۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، ۱۹۶۹ع ۱۰۔ خطوط اقبال بنام محمد علی جناح (انگریزی (۱۱) شاد اقبال ۔ ۱۲۔ نوادر اقبال بنام کشن پرشاد شاد۔ ۱۳۔ خطوط اقبال ،مرتبہ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نہ معلوم علامہ کے ابھی کتنے خطوط یا تحریریں گم نامی میں پڑی ہیں۔اور کتنی ہیں جوضائع ہو چکی ہیں ۔عام خطوط کا جواب لکھنا آسان ہوتا ہے۔ جو کسی زیادہ تحقیق یا کسی قسم کی طویل تحریر کا محتاج نہیں ہوتا۔کیونکہ مکتوب الیہ اور مکتوب لکھنے والے میں معاملہ ایک طرح طے شدہ ہوتا ہے۔ اور اس کے کئی پہلو پہلے سے واضع ہوتے ہیں۔ میں نے بار ہا علامہ کے پاس بیٹھے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ آپ نے مکتوب الیہ کو محض ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعے نہایت تسلی بخش جواب لکھ دیا۔ اور اس کو ضرورت بھی اسی کی تھی۔حالانکہ وہ معاملہ بذات خود اہم ا ور طویل تحریر کا محتاج تھا۔ علامہ کے بیشتر خطوط ان کے اپنے کلام اور مختلف علمی مسائل کی تفسیر وتشریح کے حامل ہیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں یہاں ایک مختصر تعارف علامہ کے تمام مکتوب الیہ حضرات کا پیش کروں،مگر یہ کام بذات خود ایک طویل تحریر کا محتاج ہے۔ ٭٭٭ ۹۵۔ متفرق واقعات جب راقم الحروف لدھیانہ سے لاہور آگیا تو ایک روز میرے استاد حبیب الرحمن مکی صاحب میرے ہاں مہمان کی حیثیت سے تشریف لائے۔ان سے اکثر علامہ کے متعلق گفتگو ہوتی تھی۔مگر وہ ابھی تک علامہ سے ملے نہیں تھے۔ وہ عرب نژاد تھے۔اور بعض اوقات ان کو علامہ کی نظموں کا ترجمہ کرکے سمجھانا پڑتا تھا۔ میں جب ان کو علامہ کے پاس لے گیا ،تو وہ بہت خوش ہوئے اور کئی مسائل معرض بحث میں آئے۔دوران گفتگو ج بنماز ظہر اور عصر کا وقت ہو گیا تو مولوی مکی صاحب نے علامہ کو اپنا امام بنا کر ہردو نمازیں ادا کیں۔ علامہ کا یہ شعر انہیں بہت پسند تھا۔ بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خو گر کو پھر وسعت صحرا دے وہ حیران ہوتے تھے کہ کس طرح علامہ نے اس شعر میں معانی کا ایک دریا کو بند کر دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی شخص نے علامہ اقبال سے کہا کہ آپ ’’تفسیر ابن عباس‘‘ کا مطالعہ کریں۔اس زمانے میں چونکہ بہت سے علمی مسائل علامہ کے پیش نظر تھے۔ لہذا آپ نے مجھے مکلف کیا کہ کہیں سے یہ تفسیر پیدا کرو۔ چنانچہ جب وہ کتاب انجمن نعمانیہ کی لائبریری سے مل گئی تو میںوہاں سے مانگ کر لایا۔آپ نے اس کا مطالعہ کیا،اور دوسرے ہی روز واپس کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو پھر ہر گز نہ لانا۔کیونکہ اس کے ہر لفظ کے معنی عجیب وغریب ہیں۔ جن دنوں آپ زمان اور مکان کی بحث کے ضمن میں اہل علم سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ تو میں لاہور کے اکثر علماء کو آپ کی خدمت میں لے کر گیا تھا۔ جن میں سے مولانا سید طلحہ صاحب، مولوی غلام مرشد صاحب اور مولوی حشمت علی اہل قرآن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔مولوی روحی صاحب کو بھی ایک روز تانگے پر لایا جو حقہ پینے کے عادی تھے۔ جب وہ آئے تو علامہ بھی حقے کا کش لگا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے آتے ہی حقے کو اپنی طرف کرکے زور کا کش لگایا،مگر اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس پر مولوی صاحب بہت برہم ہوئے ،اور علامہ سے کہا کہ یہ کیا مذاق ہے؟۔ آپ حقہ اس طرح پیتے ہیں۔علامہ نے کہا حضرت میں اسے پی نہیں رہا تھا۔ بلکہ اس سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سب مولوی صاحبان نے بہت مفید مشورے دیئے تھے۔ سید طلحہ نے آپ کو امام شاطبی کی کتاب الاعتصام اور ’’کتاب الموافقات‘‘ کے متعلق مشورہ دیا تھا کہ بحث زمان ومکان کے ضمن میں ان کا ضرور مطالعہ کریں۔چنانچہ کتاب الموافقات کا حوالہ آپ کے لیکچروں والی کتاب میں اب بھی موجود ہے۔ جب پروفیسر رشید احمد صدیقی لاہور میں ۱۹۲۹ء میں آئے تھے۔ تو بہت سے احباب ان کی وجہ سے علامہ کے پاس آئے تھے۔جن میں پروفیسر احمد شاہ پطرس بخاری، پروفیسر تاثیر ،مجید ملک، اور مہر وسالک وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ میں نے جب ان کولاہور وغیرہ کی سیر کرائی تو انہوں نے لاہور پر اور علامہ پر جو تبصرہ کیا، وہ واقعی عجیب وغریب تھا۔ انہوں نے کہا میں نے تمام لاہور اس شخص کی ذات میں دیکھ لیا ہے۔ ان کے آنے پر علامہ نے اپنے بہت سے احباب کو خود بھی خط لکھ کر مدعو کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک روز ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب حسب معمول دس بجے کے قریب تانگے پر تشریف لائے۔ پہلے وہ اندر چلے گئے، پھر باہر آکر علامہ کی خیریت دریافت کی۔ پھر جاتے جاتے انہوں نے علامہ سے کہا، گوشت سے ذرا پرہیز کیجیئے۔ ابھی وہ جانے کے لئے تانگے میں بیٹھ ہی رہے تھے کہ علامہ نے علی بخش کو آواز دی اور فرمایا کہ جاؤ عمدہ سا گوشت لاؤ۔آج کباب بنائیں گے۔ اس نے عرض کیا کہ ابھی تو شاہ صاحب نے گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ فرمایا کہ ڈاکٹر لوگ تو اس قسم کی باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔ تم فورا گوشت لے آؤ۔پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ماسٹر تم بھی کباب کھا کر ہی جانا۔ جن پنجاب کونسل کے الیکشن میں علامہ کو کامیابی نصیب ہوئی تو دین محمد کاتب مصر ہوا کہ کسی روز میرے غریب خانے پر تشریف لا کر پلاؤ کی دعوت کھائیں۔ دراصل دین محمد نے انتخابات کے دنوں میں بہت کام کیا تھا۔اور نہایت خلوص سے یہ دعوت دی گئی تھی۔ لہذا علامہ راضی ہو گئے ۔اور ایک اتوار اس دعوت کے لئے مخصوص کر دی گئی۔ مقررہ تاریخ کو ہم موٹر میں بیٹھ کر چل دیئے۔مگر ابھی سڑک پر پہنچے ہی تھے،کہ کسی صاحب نے سامنے آکر موٹر روک لی اورقریب آکر عرض کی ،کہ مجھے آپ سے نہایت ضروری کام ہے۔ پہلے میری بات سن لیجیئے۔ آپ نے مذاقا فرمایا کہ آگے سے ہٹ جائے۔ آج کسی کی بات نہیں سنی جائے گی۔ کیونکہ آج پلاؤ کی شہادت کا دن ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ علی بخش کی شادی احباب میں اکثر گفتگو کا موضوع بنی رہتی تھی۔اس سلسلے میں کئی دفعہ پلاؤ بھی کھایا گیا۔ مگر یہ شادی کبھی نہ ہوئی ۔ایک دن منشی طاہر الدین نے نہایت سنجیدگی سے علی بخش سے کہا کہ آج تو تمہاری شادی واقعی ہو جائے گی۔ چنانچہ دوستوں کو بلایا گیا۔جن میں مہر وسالک بھی تھے۔علی بخش بے چارے کو یقین نہیں آرہا تھا۔ بار بار علامہ سے کہتا کہ پہلے مجھے دلھن یا ان کے گھر والوں سے ملایا جائے۔ تب میں یقین کروں گا۔مگر علامہ فرماتے تھے۔ دیکھو علی بخش،جب پلاؤ پک رہا ہے۔ تو پھر تمہیں کس بات کی فکر ہے؟۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ پلاؤ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ غرض کہ علی بخش بیچارہ پلاؤ کا مطلب جاننے کی کوشش میں لگا رہا۔ اور دوست پیٹ بھر کر پلاؤ کھاتے رہے۔ ایک روز میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے فلاں کتاب لانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر آج تک نہیں لائے۔میں نے کہا کیا عرض کروں،اس قدر مصروفیت رہتی ہے۔ کہ فرصت ہی نہیں ملتی ،اور اگر فرصت ملتی ہے تو وقت نہیں ملتا‘‘۔میرے اس جواب پر علامہ نے ایک قہقہہ لگایا اور فرمایا کہ منشی آج تم نے وہ بات کہی ہے جو آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی ہوگی۔واہ ،واہ ’’فرصت ملتی ہے تو وقت نہیں ملتا۔‘‘ کیا بات پیدا کی ہے۔‘‘ پھر علی بخش کو آواز دی اور کہا کہ جاؤ مولانا مہر اور سالک کو بلا لاؤ۔ان کو بھی ماسٹر کا کار نامہ سنائیں۔ میں ایک روز علامہ صاحب کے ہاں پہنچا تو آپ نے موٹر نکلوائی اور مجھے ساتھ بٹھا کر چودھری شہاب الدین کے ہاں پہنچ گئے۔ سردی کا موسم تھا۔ اور چودھری صاحب غسل کرکے باہر دھوپ میں بیٹھے تھے۔ چونکہ وہ بہت زیادہ سیاہ فام تھے۔ لہذا علامہ صاحب اکثر انہیں چھیڑتے رہتے تھے۔ اس روز جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو انہوں نے علامہ سے پہلے ہی کہہ دیا کہ آج کوئی مذاق نہ کرنا۔ مگر علامہ صاحب نے فورا ان کے ننگے سیاہ بازوؤ ں پر چٹکی لی اور پوچھا کہ یہ صوف کیا بھاؤ لیا ہے؟۔ صوف دراصل سیاہ رنگ کا کپڑا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ نواب ذوالفقار علی خان نے مہتر چترال (خان آف چترال) کی دعوت کی۔جس میں دیگر معززین کے علاوہ چودھری شہاب الدین صاحب بھی موجود تھے۔ جب مہتر چترال آگئے تو معززین سے ان کا تعارف کرایا گیا۔ چودھری شہاب الدین کی باری آئی تو نواب ذوالفقار نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آپ مہتر چترال ہیں اور آپ ،علامہ نے فورا گرہ لگائی۔۔۔۔ اور آپ مہتر لاہور ہیں۔بات دراصل یہ تھی کہ ایک تو چودھری صاحب کا رنگ بہت کالا تھا۔ اور دوسرے وہ ان دنوں لاہور میونسپل کمیٹی کے صدر تھے۔ اس دوگونہ مناسبت سے علامہ نے انہیں مہتر لاہور کہہ کر نکتہ سنجی کی داد دی۔ جس پر ساری محفل کشت زعفران بن گئی۔ جب علامہ نے علاج کے لئے حکیم نابینا (حکیم عبد الرزاق انصاری) سے رجوع کیا تو آپ نے حکیم صاحب پر یہ بات واضع کرد ی کہ کھٹائی اور مرچ وغیرہ سے پرہیز میرے لئے ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ چیزیں میری کمزوری ہیں۔ چنانچہ حکیم صاحب نے جو دوا تجویز کی،اس میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھا کہ کھٹائی وغیرہ سے پرہیز اس میں شامل نہ ہو۔ ۱۹۳۸ع میں علامہ کی صحت کا یہ عالم تھا کہ بینائی سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ مگر ان کا سیاسی اور ملی شعور اس قدر بیدار تھا کہ ملک کے طول میں مسلمانوں کے منافی کوئی بات بھی ہوتی تو آپ فورا نوٹس لیتے،اور اس کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار فرماتے۔کانگرس کو آپ ایک خالص فرقہ پرست ہندو تنظیم سمجھتے تھے۔ اور اس کی سرگرمیوں سے پوری طرح با خبر رہتے تھے۔ جو لوگ کانگرسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ ان میں مولانا حسین احمد مدنی بھی شامل تھے۔ مگر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کو علامہ معاف نہیں کر سکتے تھے۔ چاہے اس کا علمی اور سماجی مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو؟۔ چنانچی جنوری ۱۹۳۸ع میں جب کہ بیماری کی وجہ سے آپ مکمل طور پر بستر سے لگ کر رہ گئے تھے۔آپ نے مولانا حسین احمد مدنی کو اس طرح للکارا کہ اس سے پورا ہندوستان گونج اٹھا۔ آپ کا وہ یادگار قطعہ جس میں مولانا موصوف کے نظریات کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا۔ ۳۱ جنوری ۱۹۳۸ع کو روز نامہ ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کا مندرجہ ذیل شعر خاص طور پر قابل ذکر ہے:۔ عجم ہنوز ندانند رموز دین ورنہ زدیو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی ست علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ امیر شکیب ارسلان کو اگر آپ خط لکھیں تو میرا سلام ضرور لکھیے گا۔ میرے دل میں ان کا بہت احترام ہے۔ افسوس کہ قیام یورپ کے زمانے میں باوجود کوشش کے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ان سے یہ بھی دریافت کرکے مجھے اطلاع دیں کہ سید ضیا الدین طبا طبائی آج کل کہاں ہیں ؟۔ اور کیا کام کرتے ہیں۔ اقبال شیدائی اور ان کی بیگم صاحبہ کو میری طرف سے سلام لکھیئے گا۔ان کی بیگم صاحبہ کا قصد تھا کہ وہ اپنی میڈیکل کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ہندوستان آکر پریکٹس کریں گی۔ معلوم نہیں ان کے اس ارادے کا کیا حشر ہوا؟۔ہاں خالدہ ادیب خانم کو بھی میرا بہت بہت سلام کہیئے گا محمد اقبال‘‘ علامہ نے اپنے اس خط میں امیر شکیب ارسلان کا ذکر کیا ہے۔ جو بہت بڑے فاضل تھے ،اور عرب اتحاد کے علم بردار تھے۔انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پیرس کا سفر بھی اختیار کیا۔اور عربوں کو بیدار کرنے کے لئے زبردست جد وجہد کی۔چنانچہ عربوں میں جوبیداری اور حریت فکر پیدا ہوئی، اس میں امیر شکیب ارسلان کی مساعی کا بہت بڑا حصہ ہے۔اسی طرح مسلمانان عالم کی بیداری کے لئے ان کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے اسلامی تاریخ وثقافت پر بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں۔ اور علامہ ان کی انہی خدمت کی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ دوسرے شخص ،جن کا علامہ کے مندرجہ بالا خط میں ذکر ہے۔ اقبال کا شیدائی ہیں۔ یہ صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے اور آزادی کے لئے کام کرنے والے حریت پسندوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ بالاخرا نگریزوں کے تشدد نے انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔وہ افگانستان اور روس کے راستے یورپ پہنچے اور پیرس میں بیٹھ کر انگریزوں کے خلاف سرگرم عمل ہو گئے۔پیرس کے قیام کے زمانے میں انہوں نے ایک ہم خیال یورپین عورت سے شادی کر لی۔ جو میڈیکل کی طالبہ تھیں۔علامہ جب ۱۹۳۲ع میں پرس گئے تھے ،تو انہوں نے اقبال شیدائی کی بیگم سے بھی ملاقات کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اقبال شیدائی وطن واپس آگئے تھے۔ اور روز نامہ امروز میں انہوں نے اپنے حالات زندگی شائع کیے تھے، جو کئی قسطوں پر مشتمل تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے علامہ اقبال کا تعلق بہت قدیم تھا۔اور یونیورسٹی کے ہر شعبے کا عملہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ یونیورسٹی لائبریری کے کارڈ پر آپ ہر قسم کی کتاب جاری کروا سکتے تھے۔حالانکہ عام لوگوں کو یہ سہولت حاصل نہ تھی۔راقم نے کئی مرتبہ علامہ کے لئے لائبریری سے کتابیں جاری کروائیں۔اور ان کی خدمت میں لے گیا۔ ان کی علمی لگن کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی ناگزیر وجہ سے کتاب کے حصول میں تاخیر کا امکان ہوتا ،یا کسی اور کے نام مطلوبہ کتاب جاری ہو چکی ہوتی تو آپ فورا وہ کتاب خرید لیتے۔چنانچہ سپینگلر کی کتاب کے انگریزی ترجمے ’’دی ڈیکلائن آف دی ویسٹ‘‘ (انحطاط) مغرب کے سلسلے میں بھی یہی ہوا۔جب علامہ کو معلوم ہوا کہ یہ کتاب کسی اور کے نام جاری ہو چکی ہے ۔اور فوری طور پر اس کا حصول ممکن نہیں تو آپ نے فورا وہ کتاب خرید لی۔ پنجاب یونیورسٹی سے علامہ کا تعلق ممتحن کی حیثیت سے بھی تھا۔آپ یونیورسٹی کے ایم،اے اور ایل،ایل،بی کے پرچے دیکھتے تھے۔ پرچے دیکھنے کے سلسلے میں آپ کا اصول یہ تھا کہ ہر روز جتنے پرچے دیکھ لیتے تھے۔ انہیں اسی شام کو علی بخش کے ہاتھ رجسٹرار کو بھیج دیا جاتا تھا۔مقصد یہ تھا کہ جس قدر ممکن ہو سفارش کی لعنت سے بچا جائے۔ویسے تو انکا عزیز سے عزیز دوست اور رشتہ دار بھی ان سے سفارشی نمبروں کے لئے جرات نہیں کر سکتا تھا۔پھر بھی وہ اپنے طور پر اس قسم کی پیش بندیاں ضرور خیال فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ایل،ایل، بی کے ایک طالب علم نے جو ہر بار امتحان میں فیل ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر تاثیر اور راقم سے کہا کہ علامہ سے میرے کچھ نمبر بڑھانے کی درخواست کی جائے۔کیونکہ یہ پرچہ بہت ہی مشکل تھا۔ مگر ہم نے اسے صاف کہہ دیا کہ ہم میں سے کوئی اس بات کی جرات نہیں کر سکتا۔تاہم جب اس نے اس بات پر بہت زیادہ اصرار کیا تو ہم صرف اس بات پر راضی ہوئے کہ پورے پرچے پر اصولی بات چیت ہو سکتی ہے۔چنانچہ ہم نے علامہ سے پرچے کی مشکلات پر بات کی تو آپ نے ایک اصول کے تحت تمام امیدواروں کے پرچے پر نظر ثانی کی، اور سب کے نمبر بڑھا دیئے،جس سے اس خاص امیدوار کو بھی فائدہ پہنچا،اور اتفاق سے وہ بھی پاس ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ لاہور میں آل انڈیا سکھ ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ہوا۔جس میں دور دور سے سکھ حضرات شامل ہوئے۔ ایک دن میں علامہ کی خدمت میں حاضر تھا، کہ کچھ سکھ حضرات علامہ سے ملنے کے لئے آئے۔ان میں ڈاکٹر پورن سنگھ،پروفیسر کشمیرا سنگھ، بھائی ٹھاکر سنگھ، اور سردار جوگندر سنگھ بھی تھے۔علامہ ان تمام حضرات سے بہت اچھی طرح پیش آئے۔اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے رہے۔ سردار جوگندر سنگھ علامہ کا شیدائی تھا۔اور علامہ اے بے تکلفی سے جوگی جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ڈاکٹر پورن سنگھ نے بتایا کہ میں نے ایک کتاب لکھی، جس میں آپ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کانام ’’دی سپرٹ آف دی اورئنیٹل پوئٹری‘‘ ہے۔ پھر علامہ نے بطور خاص سردار جوگندر سنگھ،علامہ کے پرستاروں میں سے تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام بھی علامہ کے نام پر اقبال سنگھ رکھا تھا۔اور اس کے گاؤں کا نام اقبال نگر تھا۔ علامہ کی وفات پر سردار جوگندر سنگھ نے ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ جس کے ایک ایک لفظ سے عقیدت ومحبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ریاض الکریم نامی ایک شخص کانگرسی نقطہ نظر کا حامی تھا۔ اس نے انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی تھی۔جس کا نام ’’فار انڈیااینڈ اسلام‘‘ تھا۔ اوراس میں ایک باب ’’اقبال کے نام کھلا خط‘‘ کے عنوان سے شامل تھا۔اس میں علامہ کی معروف نظم ’’چین وعرب ہمارا‘‘ کا حوالہ دے کر متحدہ ہندوستان اور کانگرسی نقطہ نظر کی ترجمانی کی گئی تھی۔اور علامہ پر بھی تنقید تھی۔ یہ کتاب عباس طیب جی اور ڈاکٹر انصاری کے نام معنون تھی۔مگر علامہ اقبال نے اس کتاب یا اس کے مصنف کا کبھی ذکر تک نہ کیا اور نہ ہی انہوں نے اپنے سیاسی نظریات پر نظر ثانی کرنے کے سلسلے میں کسی دباؤ کو قبول کیا۔ علامہ اقبال جب کبھی بارود خانے میاں نظام الدین کے ہاں جاتے تو میاں صاحب ،ان کے صاحب زادے (مشہور ناول نگار ایم،اسلم) میاں امیر الدین اور دیگر اہل خاندان ان سے نہایت محبت واحترام سے ملتے۔ان لوگوں کے درمیان علامہ نہایت خوش و خرم اور بشاش بشاش نظر آتے تھے۔اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنائیت اور یگانگت کے اس ماحول میں علامہ کی طبیعت نہایت شگفتہ ہو گئی ہے۔آموں کے موسم میں امیر الدین اکثر علامہ کو آم کھانے کے لئے مدعو کیاکرتے تھے۔اوراس سلیقے سے آم پارٹی کا انتظام کرتے کہ طبیعت خوش ہو جاتی۔اس خاندان کے ساتھ علامہ کے تعلقات بالاخر رشتہ داری پر منتج ہوئے۔اور آپ کی صاحب زادی کا عقد میاں امیر الدین کے صاحب زادے سے ہو گیا۔ میں نے عام طور پر علامہ کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ابتدا سے دیکھا کہ علامہ جس کمرے میں عموما لیٹے تھے۔ وہاں ایک چمڑے کا بیگ درمیانہ سایز کا قریب ہی پڑا رہتا تھا۔جو دراصل آپ کے اشعار کی بیاض تھی۔جب کبھی کوئی شعر آپ کے ذہن میں آتا تو آپ علی بخش کو آواز دے کر بلاتے اور اس کو فرماتے کہ مجھے یہ رجسٹر دینا۔ساتھ ہی قلم دوات بھی منگاتے اور شعر درج کر لیتے۔ہم نے یہ کبھی نہ پوچھا کہ یہ رجسٹر کیا ہے؟۔ یا اس میں کیا ہے؟۔ یا آپ کیا لکھ رہے ہیں؟۔اس کام کے لئے نہ تو کوئی وقت مقرر تھا۔ اور نہ ہی آپ اس کام کو کسی اور وقت کے لئے ٹالتے تھے۔خواہ آپ کسی سے گفتگو کر رہے ہوتے یا کسی ضروری کام میں مصروف ہوتے۔ ایک دفعہ میں علامہ اقبال کے ساتھ شملہ میں تھا۔ ہم دونوں اتفاق سے ایک ہی کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔نصف شب کا وقت تھا کہ آپ نے مجھے اپنا ایک شعر سنایا اور پھر ہم سو گئے۔ صبح جب ہم ناشتے پر بیٹھے تو آپ نے فرمایا کہ ماسٹر تم کو رات ایک شعر سنایا تھا، میں نے کہا، آپ نے سنایا تو تھا، مگر مجھے وہ پورا یاد نہیں۔آپ نے ذرا توقف کرکے فرمایا کہ ذہن پر ذرا زور دیجیئے۔ چنانچہ میں نے اس شعر کے ایک ،دو الفاظ آپ کو سنادیئے۔ کہ اس طرح وہ شعر تھا۔ آپ نے کہا ’’یہی تو میں آپ سے پوچھتا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے۔ مندرجہ بالا واقعات مشتے از خروارے کے طور پر درج کیے گئے ہیں۔ ورنہ تو اس قسم کے بے شمار سبق آموز اور دل چسپ واقعات کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔ جس طرح علامہ کی زات گوناگوں صفات کی ھامل تھی۔ اس طرح انکی ذات سے منسوب واقعات وسوانح بھی متنوع اور رنگا رنگ ہیں۔ ان کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ان کی جوتیوں میں بیٹھنے والے جو حضرات اس وقت بقید حیات ہیں۔ وہ میری اس بات کی مزید تائید کریں گے کہ علامہ کی طبیعت میں جو اطمینان و استغنا اور ضبط وتحمل کی سدا بہار صفت تھی۔ اس میں ان کی زندگی کے آخری لمحات تک سرمو کوئی فرق نہیں آیا۔انتہائی کٹھن حالات کا مقابلہ بھی انہوں نے ہمیشہ نہایت استقامت سے کیا۔اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔شکل سے مشکل حالات میں بھی ہم نے ان کی پیشانی پر بل نہیں دیکھا۔سچائی اور صاف گوئی کی تمام صفات علامہ اقبال کی ذات میںودیعت کی گئی تھیں۔اور کبھی ہم نے انہیں مصلحت کوشی سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ٭٭ ۹۶۔ علامہ اقبال کی بیماری او ر آخری ایام اگر ہم ابتدا ء علامہ اقبال کی جسمانی صحت اور ان کے شب وروز کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر چہ وہ بظاہر تندرست وتوانا نظر آتے تھے۔اور شروع ایام میں وہ واقعتا تندرست بھی تھے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے وہ اکثر جسمانی تکلیفات کا شکار بھی رہے۔ ہم نے اکثر یہ دیکھا کہ علامہ اقبال نے بعض دعوتوں میں شرکت سے اس لئے معذوری کا اظہار کیا کہ وہ جسمانی طور پر تندرست نہیں ہوتے تھے۔ جن لوگوں نے ۱۹۳۲ء میں آپ سے نظم خضر راہ سنی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان دنوں آپ نقرس کے مرض میں مبتلا تھے۔ لہذا آپ نے یہ نظم بیٹھ کر پڑھی تھی۔ مگر جب آپ نے نظم شروع کی تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بیماری کا نام ونشان تک نہ رہا۔ ۱۹۳۲ع ہی میں جب آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت فرمائی تو آپ کی ناک پر ایک پھوڑا نمودار ہوا ،جس سے علامہ خاصے خوف زدہ ہو گئے۔ مگر اللہ نے کرم کیا اور آپ صحت یاب ہو گئے۔ ۱۹۳۳ع میں راقم الحروف اورنگ آباد میں مولوی عبد الحق کے ہاں مقیم تھا۔ کہ انہیں لاہور سے کسی نے علامہ اقبال کی علالت سے مطلع کیا ۔پھر اخبارات میں بھی اس بیماری کی خبر شائع ہوئی کہ علامہ کا گلا بیٹھ گیا ہے۔ اور وہ بات چیت نہیں کر سکتے۔اس خبر نے ہمیں اس قدر پریشان کیا کہ ہم اسی روز چل پڑے۔ اور دوسرا کوئی کام نہ کیا۔ راستہ بھر دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالی انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور جلد صحت یاب کرے۔پھر جب میں اورنگ آباد سے واپس آکر علامہ کی خدمت میں پہنچا،تو اگر چہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئے تھے۔مگر کسی قدر افاقہ ضرور تھا۔اس زمانے میں آپ حکیم عبد الرزاق نابینا کے زیر علاج تھے۔جس سے آپ کو افاقہ بھی ہوا۔ لاہور میں ڈاکٹر عبد الحمید ملک اور حکیم محمد حسن قرشی آپ کے خصوصی معالج تھے۔اور میاں محمد شفیع،راجا محمد حسن اختر اور دوسرے رفقاء علامہ کے تیمار دار اور نگران تھے۔ ایک مرتبہ علامہ اپنے علاج کے غرض سے بھوپال بھی تشریف لے گئے تھے۔جہاں سید راس مسعود نے آپ کو درخواست کرکے بلایا تھا۔اس سفر میں علامہ اقبال کا قدیمی خادم علی بخش بھی آپ کے ہمراہ تھا۔جب علامہ اقبال اس سفر سے واپس آئے تو احباب کا ایک ہجوم آپ کا منتظر تھا۔ دوسرے ڈاکٹر حضرات جوعلامہ کی صحت کی نگرانی کیا کرتے تھے۔ان میں ڈاکٹر عبد القیوم، ڈاکٹر جمعیت سنگھ، ڈاکٹر محمد یوسف،ڈاکٹر کرنل الہیٰ بخش، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دوستوں میں میاں محمد شفیع، راجا حسن اختر اور سید نذیر نیازی آپ کے تیمار داری اور دیکھ بھال پر مامور تھے۔علامہ کی زندگی کے آخری ایام کی پوری کیفیت مولانا عبد المجید سالک نے اپنی کتاب ’’ذکر اقبال‘‘ میں بیان کر دی ہے۔وہ ان ایام میں اکثر علامہ کے قریب رہتے تھے۔اور ان کی شب وروز کی کیفیت کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ جب میں ۱۹ اپریل ۱۹۲۸ع کو علامہ کی مزاج پرسی کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت بھی سالک مرحوم ان کے پاس بیٹھے تھے۔ علامہ کے آخری وقت میں ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب بھی آپ کے پاس موجود تھے۔ بالاخر ان کا آخری وقت قریب آگیا۔ وہ تبسم بر لب اپنے تمام دوستوں اور عزیزوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔: نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لب اوست ٭٭٭ ۹۷ ۔علامہ اقبال کی وفات جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ع کو میں آخری مرتبہ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔اور ان کی کیفیت مزاج دیکھ کر مجھے یہ اندوہ ناک احساس ہوا تھا، کہ اب وہ ہمارے درمیان زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ ۲۰ اپریل کو میں بعض مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔ کیونکہ یہی دن ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ع کو میں ابھی صبح کی نماز سے فارغ ہی ہوا تھا کہ کسی نے دروازے پر آواز دی، میں نے باہر نکل کر دیکھا تو علی بخش زار وقطار رو رہا تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ شیخ صاحب (علامہ اقبال)کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں اسی حالت میں جاوید منزل کی طرف بھاگا۔اور وہاں پہنچ کر دیکھا تو بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔اور ہر آدمی پریشان اور شکستہ حال تھا۔ میں بغیر توقف کے علامہ کے کمرے میں پہنچا اور ان کا آخری دیدار کیا۔ پھر وہیں بے دم ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اور آپ کے جسد بے روح ک ودیر تک گھورتا رہا۔ وہ بطل جلیل جس نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ایک نئی زندگی دی تھی۔اور حریت ومساوات اور آزادی کا شعلہ ان کے دلوں میں بھڑکایا تھا۔آج اس کا پنا جسد خاکی زندگی کی حرارت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکا تھا۔ علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے عقیدت مندوں کا ایک ہجوم جاوید منزل میں جمع ہو گیا۔ لوگوں کے آہ وبکا کا یہ عالم تھا کہ درودیوار بھی گریہ وزاری کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔لاہور شہر اور گرد ونواح سے اس قدر لوگ جمع ہو گئے کہ میں نے ایسے ایسے چہرے آہ وبکا میں مصروف دیکھے کہ جنہیں اپنی زندگی میں میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب جنازہ تیار ہو گیا ، تو اس ہجوم کے پیش نظر جس کا ہر فرد جنازے کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ تجویز ہوئی کہ چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیئے جائیں،تاکہ ہر فرد یہ سعادت حاصل کر سکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اور انسانوں ک ایہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بعد دوپہر شاہی مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ مسلمانان لاہور کی یہ دلی خواہش تھی کہ علامہ کو شاہی مسجد کے سائے تلے دفن کیا جائے۔اس کے لئے حکومت وقت سے اجازت لینا ضروری تھی۔ ادھر پنجاب کے چیف منسٹر لاہور میں موجود نہ تھے۔ اور حکام بالا اس سلسلے میں لیت ولال سے کام لے رہے تھے۔مگر بالاخر حکام نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ،مگر ساتھ ہی مرکزی حکومت نے محکمہ آثار قدیمہ کے مشورے سے یہ شرط بھی لگا دی کہ علامہ کی قبر پر جوعمارت تعمیر ہو گی ۔وہ شان وشوکت کے اعتبار سے شاہی مسجد کو کسی طرح مات نہ کرے گی۔چنانچہ گورنمنٹ کی اس شرط کو قبول کر لیا گیا اور مسجد کی سیڑھیوں کے پاس بطرف جنوب علامہ کیآخری آرام گاہ تجویز ہوئی۔جب یہ تمام باتیں طے ہو گئیں تو شاہی مسجد میں بھی یہ اطلاع پہنچا دی گئی۔اس سلسلے میں مولوی ابو محمد مصلح رقم طراز ہیں ،جو ان دنوں شاہی مسجد کے کسی حجرے میں مقیم تھے۔: ’’ ایک دن دوپہر کے وقت خطیب مسجد مولوی نور الحق صاحب نے کنڈی کھٹکھائی۔میں باہر آیا تو ان کی زبانی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے انتقال کی خبر ملی۔ خطیب صاحب نے یہ بھی کہا کہ دروازے کے دوسری طرف یعنی جنوبی حجروں کے سامنے جو صحن ہے، وہی مزار کے لئے تجویز ہوا ہے۔ابھی ابھی میاں نظام الدین صاحب بارود خانے والے) سید محسن شاہ صاحب اور مولانا غلام مرشد صاحب اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے۔ بعد دوپہر جاوید منزل سے جنازے کا جلوس روانہ ہوا۔ اس قدر ہجوم تھا کہ الفاظ میں اس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ ہم سب انتہائی مایوسی اور غم زدگی کی حالت میں جنازے کے ساتھ ساتھ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میاں عبد الحی وزیر تعلیم اور بعض دوسرے سرکردہ حضرات بھی میرے ساتھ گردن جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔جوں جوں جنازہ اسلامیہ کالج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہجوم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔اور کلمہ شہادت کے وظیفے سے پوری فضا گونج رہی تھی۔ بالاخر انسانوں کا یہ سمندر اسلامیہ کالج پہنچا اور کالج کی گراونڈ میں جہاں کبھی علامہ کی ترنم ریز آواز میں ہم ان کی ایمان افروز نظمیں سنا کرتے تھے۔نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ سے فراغت کے بعد جنازہ دلی دروازے کی طرف روانہ ہوا اور اسی دروازے سے اندرون شہر داخل ہو گیا۔ جب ڈبی بازار کی سنہری مسجد کے قریب جنازہ پہنچا تو مجھے یاد ہے کہ مرزا جی عطر والے نے بلند آواز میں پکار کر کہا تھا کہ لوگو’’پتلون پوش ولی آج چل بسا ہے۔‘‘ چونکہ آخر میں شاہی مسجد مین بھی نماز جنازہ ادا کرنے کا پروگرام طے ہو چکا تھا۔ لہذا یہاں بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد مسجد کے اندر اور باہر موجود تھی۔بعض لوگ اتنے بڑے ہجوم کے پیش نظر حضوری باغ میں نماز جنازہ ادا کرنے کے حامی تھے۔مگر بالاخر صحن مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اور مولانا غلام مرشد صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد جنازہ قبر کے قریب لا کر رکھ دیا گیا۔ مستری غلام دستگیر قبر تیار کرنے کے کام پر مامور تھے۔قبر کے بارے میں یہ طے پایا تھا کہ اس میں لحد نہ ہو، اور اسے سیدھا بنایا جائے۔چنانچہ جب قبر تیار ہو گئی تو ہم سب عقیدت مند مل کر علامہ کے جسد خاکی کو قبر میں اتارنے لگے۔ اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آنکھیں اشک بار تھیں اور دل جیسے خون کے آنسو رو رہا تھا۔اس ہجوم کا ہر آدمی غم والم کی تصویر بنا ہوا تھا۔ایک اندوہ ناک خاموشی سی ماحول پر طاری تھی۔ ہم لوگ علامہ کے جسد خاکی کو قبر میں اتار چکے تھے کہ عبد الرحمن چغتائی مرحوم نے قبر میں اتر کر علامہ کے جسد بے روح کو بوسہ دیا۔اس کے بعد قبر کو بند کردیا۔ اور ہم لوگ گویا اپنا سب کچھ لٹا کر بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آگئے۔مولوی ابو محمد مصلح لکھتے ہیں:۔ ’’لاہور کی شاہی مسجد ہندوستان کی سب سے زیادہ وسیع مسجد ہے۔ اس کے صحن میں نماز جنازہ ادا ہوئی ۔اس کے بعد تدفین عمل میں لائی گئی۔قلعے اور مسجد کا درمیانی صحن کب سے خالی پڑا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود بادشاہوں نے بھی اس رعایت کو مدنظر رکھا تھا۔ اور کود اورنگ زیب عالم گیر علیہ رحمۃ کو بھی اپنے سوگواراقبال کی خاطر منظور تھی۔اور چونکہ اس کے بعد بھی میں عرصے تک لاہور ہی میں مقیم رہا۔اس لئے میں وہ سب مناظر دیکھتا رہا۔ جو عقیدت مندوں کی طرف سے پیش ہوتے رہے اور آئندہ بھی پیش ہوتے رہیں گے۔ زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک راہ کو میں نے بنایا راز الوندی‘‘ علامہ اقبال کے انتقال پر ہندوستان کے تقریبا تمام شہروں میں تعزیتی جلسے منعقد ہوئے اور اخبارات ورسائل نے خاص نمبر شائع کیے۔ اس قدر لوگوں نے قطعات تاریخ کہے کہ شمار سے باہر ہیں۔ اسی طرح کا ایک قطعہ ملا حظہ فرمایئے۔: زہے کرشمہ ء فیضان مرقد اقبال کہ گشت مرجع تسکین پیر وبرنائے نقیب عظمت مینار مسجد شاہی مزار شاعر مشرق سہپہر آرائے مزار اقبال کے سلسلے میں مولانا عبد المجید سالک مرحوم کی رائے ملا حظہ ہو:۔ ’’ ڈاکٹر اقبال کے مزار کی تعمیر کا معاملہ احباب کے زیر غور تھا ۔چنانچہ نجی طور پر دوستوں نے ایک رقم بھی فراہم کر لی تھی۔کہ انھی دنوں حکومت افغانستان نے ’’ ڈاکٹر اقبال کے مزار کے لئے ایک تعویذ بھیجا۔ یہ سنگ مرمر کی بے شمار سلیں تھیں ،جن پر آیات قرانی کندہ تھیں۔یہ تمام اجزا پچیس صندوقوں میں بحفاظت بند تھے۔ اور ان کا وزن کوئی ڈیڑھ سو من کے قریب ہو گا۔تعویذ کو ترتیب سے جوڑنے کے لئے ایک نقشہ ہمراہ تھا۔ حکومت افغانستان کے افسروں نے تعویذ میاں امیر الدین صاحب اور چودھری محمد حسین غفر لہ کے سپرد کر دیا۔ جو اب مزار پر نصب کیا جا چکا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ ملک بھر میں پزاروں جلسہ ہائے تعزیت منعقد ہوئے۔جن میں شاعر مشرق کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔اسی طرح کا ایک جلسہ ۲۲ اپریل ۱۹۳۸ع کو علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی ہوا تھا۔جس میں ڈاکٹر عبد العزیز نے اپنی تقریر کے دوران میں یہ قطعہ پڑھا تھا۔جو بعد میں ’’انسانیت موت کے دروازے پر‘‘ کے زیر عنوان جلسے کی کاروائی کے ساتھ شائع ہو گیا تھا: یاد داری کہ وقت زادن تو ہمہ خنداں بوند وتو گریاں آنچناں زی کہ وقت مردن تو ہمہ گریاں شوند و تو خنداں ٭٭٭ ۹۸۔آخری ملاقات میں ۱۸ ،اپریل ۱۹۳۸ع کویورپ سے واپس آکر ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ع کی شام کو ایک پارٹی سے فارغ ہو کر چند دوستوں کے ساتھ جاوید منزل میں علامہ کے ہاں گیا۔علی بخش جب آیا تو اس سے میں نے کہا کہ میں علامہ سے ملنا چاہتا ہوں۔چنانچہ مجھے اکیلے کو ملنے کی اجازت دے دی گئی اور میرے ساتھ باہر رہے۔ میں اندر گیا اور دیکھا کہ مولانا غلام مرشد اور مولانا عبد المجید سالک آپ کے پاس بیٹھے ہیں اور آپ ایک گاؤ تکیے کے سہارے لیٹے تھے۔ نہایت بشابشت سے آپ نے ہاتھ ملایا،بیٹھنے کو کہا اور حسب عادت بے تکلفانہ گفتگو کی۔اور فرمایا کہ پیرس میں تم خوب آزاد رہے ہو۔پھر آپ نے اطالوی زبان کے بعض رسائل کا تقاضا کیا ،اور کہا کہ ان کو جلد مہیا کرو۔ دراصل ان رسائل میں آپ کے لیکچروں پر تبصرہ تھا۔پروفیسر لینو کی لڑکی نالینو کی زیر صدارت یہ رسالہ چھپتا تھا۔آپ ویسے علیل ضرور نظر آتے تھے۔ مگر آپ کا دماغ درست تھا۔ اور طبیعت شگفتہ تھی۔ میں نے اپنی تمام کیفیت پیرس یونیورسٹی سے داکٹریٹ حاصل کرنے کی بیان کی۔ اسی دوران میں پیرس یونیورسٹی کے بعض پروفیسروں کا ذکر بھی آیا ،جن کو آپ بھی جانتے تھے۔پھر مجھے کسی نے حاضرین میں سے اشارہ کیا کہ گفتگو مختصر کرو۔چنانچہ میں نے اسی وقت آپ سے اجازت طلب کی اور ہاتھ ملا کر باہر آگیا۔مگر افسوس کہ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ع کو آپ کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرامد روزگارے ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید علامہ کے چالیسویں پر آپ کے دیرینہ دوست چودھری محمد حسین اور منشی طاہر الدین (متوفی ۲۴ مئی ۱۹۴۰ع) کے زیر اہتمام ایک نہایت عمدہ دعوت کا انتظام کیا گیا۔ہم سب احباب اس دعوت سے فارغ ہو کر رخصت ہونے کو تھے کہ میاں شاہ نواز باغبان پورہ والے موٹر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لائے۔ ان کی اہلیہ تو موٹر سے اتر کر ہم لوگوں کے پاس آئیں ۔مگر میاں صاحب موٹر ہی میں بیٹھے رہے۔ پھر انہوں نے موٹر کے اندر بیٹھے بیٹھے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھائے،اور ہم سب لوگ بھی باہر کھڑے کھڑے فاتحہ پڑھنے لگے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔میاں شاہ نواز صاحب بھی اس واقعہ کے چند روز بعد ہی فوت ہو گئے تھے۔ ٭٭٭ ۹۹۔علامہ اقبال کی محفل احباب (چودہری محمد حسین) میں عرصہ دراز تک علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔اور حضر میں بھی ان کے دردولت پر جبیں سائی کی۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے خیریت دریافت کرنے کے سلسلے میں مجھے پہل کرنے کا موقعہ دیا ہو۔میں جب حاضر ہوتا ،ان کی نظر مجھ پر پڑتی، نہایت بے تکلفی اورا پنائیت سے فرماتے ۔’’آؤ ماسٹر کیا حال ہے؟۔ اور آج کی کیا خبر ہے؟۔‘‘ان کے ہاں ہر وقت دوستوں اور ملنے والوں کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا۔ ان میں طرح طرح کے لوگ ہوتے تھے ،اور طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ جو بعض اوقات ناگوار خاطر بھی ہوتی تھیں ،مگر ہم نے علامہ صاحب کو کبھی چیں بہ جبیں یا ترش روئی سے پیش آتے نہیں دیکھا تھا۔ دوستوں سے ان کے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات میں مصروفیات کی وجہ سے ان کی خدمت میں کچھ دن کے لئے حاضر نہ ہو سکتا تو فورا علی بخش کو رقعہ دے کر بھیجتے یا کارڈ لکھتے اور نہایت خوب صورت پیرائے میں غیر حاضری کی شکایت لکھتے۔اس طرح کا ایک رقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمایئے۔اور اس کا پیرایہ بیان بھی دیکھیے۔ ’’ڈیر ماسٹر عبد اللہ‘‘ تمام لاہور میں اس بات کا چرچا ہے کہ ماسٹر عبد اللہ اعلان آزادی کے خوف سے کہیں بھاگ گئے ہیں۔کیا یہ واقعی درست ہے؟۔ ۷ فروری ۱۹۲۹ع محمد اقبال لاہور‘‘ یہی ان کا برتاؤ تھا کہ ہم ان کے گرویدہ تھے۔ ان کی علمی شان اور اخلاقی عظمت کا اندازہ کرنا میرے جیسے ہیچمدان کے لیے ناممکن ہے۔ میں نے توا نہیں علمی معاملات میں ہمیشہ عجز وانکساری سے کام لیتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اور تعلی یا خود نمائی کا شائبہ تک نظر نہیں آیا۔ایسا اکثر ہوتا تھا کہ کسی نظم یا شعرکے معاملے میں کوئی بات مشتبہ نظر آئی یا زبان کے معاملے میں کوئی امر تصفیہ طلب ہوتا،تو وہ علی بخش کو فلیمنگ روڈ بھیجتے کہ جاؤ مہر اور سالک کو بلا لاؤ۔ بعض اوقات پروفیسر شیرانی کو بھی بلا بھیجتے،اور پھر زبان وادب اور شعر وشاعری پر گفتگو شروع ہو جاتی۔ جو بعض اوقات رات گئے تک جاری رہتی تھی۔ شیرانی مرحوم تحقیق کے مرد میدان تھے۔ اور فارسی زبان وادب پر بھی ان کی نظر بہت گہری تھی۔ بعض اوقات بطور تفنن شیرانی مرحوم سے یہ کہتے کہ یار شیرانی اگر تم یہ ثابت کرنے کا تہیہ کر لو کہ اقبال نام کا کوئی شخص وجود ہی نہیں رکھتا تو تم یہ بھی ثابت کر دو گے۔ بعض اوقات شیرانی مرحوم کو اپنا کوئی فارسی شعر سناتے اور ان سے فرمائش کرتے کہ قدما کے کلام سے اسی مضمون کا کوئی شعر تلاش کرو۔ ایک مرتبہ علامہ نے اپنی کوٹھی پر احباب کی ایک خاص محفل شروع کی تھی۔ جس میں روزانہ رات کو آپ کی مشہور مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا درس ہوتا تھا۔مثنوی کا متن مولانا عبد المجید سالک پڑھتے تھے۔اور علامہ اشعار کی شرح کرتے جاتے تھے۔ فلسفہ وتصوف کے ایسے ایسے نکات سے پردہ اٹھتا تھا۔ کہ سننے والے جھوم جھوم جاتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس محفل میں دیگر احباب کے علاوہ مسٹر ممتا حسن ،احمد الدین ازہر اور چودھری محمد علی بھی شریک ہوتے تھے۔ علامہ کے ملاقاتیوں کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا۔اور نہ یہ علامہ حتی الوسع ملاقات سے پہلو تہی کرتے تھے۔معمول یہ تھا کہ دن بھر ملاقاتیوں کی آمد ورفت جاری رہتی۔ دوپہر کو دس اور گیارہ بجے کے دوران آپ کھانا کھا لیتے تھے۔ جو خاصا پر تکلف ہوتا ،اور جس میں اچار جزو لازم کے طور پر شامل ہوتا۔آپ دن بھر میں صرف یہی کھانا کھاتے اور اس سے فارغ ہو کر پھر احباب اور ملاقاتیوں میں گھر جاتے۔ چار بجے کے قریب کسی بھی وقت چودھری محمد حسین کا ان کی خدمت میں حاضر ہونا معمول تھا۔ چودھری صاحب ان دنوں پریس برانچ میں ملازم تھے۔اور قلعہ گوجر سنگھ میں رہائش پذیر تھے۔اگر اس معمول میں گڑ بڑ ہوتی یا چودھری صاحبکسی وجہ سے نہ آسکتے تو لازمی طور پر علی بخش کو ان کے گھر خیریت معلوم کرنے بھیجتے تھے۔ چودھری صاحب چونکہ پریس برانچ میں ملازم تھے۔ جہاں پنجاب بھر کے رسائل واخبارات حکما آتے تھے۔اور ان کا مطالعہ ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔لہذا وہ ھالات حاضرہ سے بخوبی آگاہ رہتے تھے۔علامہ ان کی آمد کا بطور خاص انتظار فرماتے تھے۔ کیونکہ وہ تازہ ترین ملکی حالات اور سیاسی رجحانات سے علامہ کو با خبر رکھتے تھے۔ چودھری صاحب ہندو اخبارات کا بطور خاص مطالعہ کرتے تھے۔اور شام کو حاضر ہو کر ان اخبارات کے اداریوں، مضامین اور خبروں کانچوڑ علامہ کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔ علامہ چونکہ ہندو سیاست اور ہندو ذہنیت کے تازہ ترین رجحانات پر ہر وقت نظر رکھتے تھے۔ لہذا چودھری صاحب آتے ہی بغیر کسی تمہید کے بیان کر دیتے تھے۔جو اخبارات نے لکھا ہوتا۔ اس طرح آپ مسلمانوں کے خلاف ہندو ذہنیت سے آپ آگاہ رہتے تھے۔ اور مناسب تدابیر پر غور وفکر فرماتے تھے۔ چودھری صاحب بعض اوقات شام کے کھانے کے لئے علامہ سے رخصت لیتے اور پھر واپس آجاتے تھے۔اور نصف شب تک ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ چودھری محمد حسین صاحب مرحوم صحیح معنوں میں علامہ کے مزاج شناس تھے۔وہ اس وقت سے علامہ سے عقیدت رکھتے تھے ،جب نواب ذوالفقار علی خان کے بچوں کے اتالیق تھے۔ چودھری صاحب کی دیانت داری اور اخلاص نے انہیں علامہ کا سب سے بڑا معتمد علیہ بنا دیا تھا۔مدراس لیکچرز کے لئے علامہ کی روانگی کے بالکل آخری لمحوں میں جب چودھری محمد حسین صاحب بھی ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے تو بعض لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ شاید حکومت وقت نے انہیں علامہ کی نگرانی کے لئے بھیجا ہے۔ جب علامہ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔کیونکہ انہیں چودھری محمد حسین صاحب پر غیر معمولی اعتماد تھا۔ اور ساتھ یہ یقین بھی تھا کہ چودھری محمد حسین صاحب کبھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔بلاشبہ بھی چودھری محمد حسین صاحب نے بھی وفا کی دنیا میں ایسی مثال قائم کی، جورہتی دنیا تک یاد گار رہے گی۔ انہوں نے نہ صرف علامہ کی زندگی میں ان کے علمی اور شعری کارناموں کو روشناس کرانے میں غیر معمولی جد وجہد کی بلکہ ان کی وفات کے بعد صحیح معنوں میں ان کی جائیداد اور تصانیف کے سلسلے میں ایک دیانت دار ٹرسٹی کے فرائض سرانجام دیئے۔ علامہ نے خود بھی اپنی بعض تصا نیف کے دیباچوں میں چودھری محمد حسین صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ علامہ نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اور تصانیف کے بارے میں جو وصیت کی تھی۔ چودھری محمد حسین صاحب اور منشی طاہر الدین نے اس کے ایک ایک حرف پر عمل کیا۔آمد وخرچ کا حساب کتاب منشی طاہر الدین کے سپرد تھا۔جو ان فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ اور علامہ کو ان کی ذات پر مکمل اعتماد تھا۔میں نے اپنی طویل رفاقت میں علامہ کی جیب میں کوئی نقدی وغیرہ نہیں دیکھی تھی۔ضروریات زندگی کی فراہمی اور آمد وخرچ کا مکمل حساب کتاب بھی ان ہی دو حضرات کی صوابدید پر منحصر تھا۔اور یہی دونوں حضرات علامہ کی زندگی میں ان کی وفات کے بعد بھی یہ فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ محض چودھری محمد حسین صاحب کا کار نامہ تھا کہ علامہ کے انتقال کے بعد ان کا خاندان کسی کا محتاج نہیں رہا۔اسے علامہ اقبال کے خاندان کی خوش قسمتی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علامہ کی شفقت سے محروم ہونے کے بعد بھی انہیں ایک ایسا سر پرست اور منتظم مل گیا کہ جس نے اس خاندان کی دیکھ بھال اور فلاح وبہبود کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ چودھری محمد حسین صاحب ایک علم دوست انسان تھے۔ اور علامہ ان کی علمی جستجو اور تنقیدی بصیرت کے قدر دان تھے۔ انہوں نے علامہ کی بعض کتابوں کے علاوہ دوسرے مضامین کی تصا نیف پر عالمانہ تبصرے لکھے۔ جو پسند کیے گئے۔ وہ سیالکوٹ کے ایک گاؤ ں بھا رنگی کے رہنے والے تھے۔ 1935ء میں علامہ اپنی ذاتی کوٹھی ’’ جاوید‘‘ منزل میں اٹھ آئے تھے۔ اس وقت تک آپ کی صحت کافی متاثر ہو چکی تھی۔ اکثر اوقات خط بھی خود نہیں لکھ سکتے تھے۔ چنانچہ معمول یہ ہو گیا تھا کہ جو دوست حاضر ہوتا، علامہ اسی کو خطوط کا جواب املا کروا دیتے۔ اس سلسلے میں میاں محمد شفیع (م۔ ش) سید نذیر نیازی اور بعض دوسرے احباب بطور خاص اس کام پر مامور تھے۔ ان دنوں راجہ حسن اختر اور مولانا عبدالمجید سالک اکثر علامہ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے کیونکہ علامہ کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ چودھری محمد حسین آخر وقت تک حسب معمول شام کو حاضر ہوتے رہے اور اس معمول میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ ٭٭٭ 100 نتیجہ میں نے ان صفحات میں علامہ اقبال کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر متعدد عنوانات کے تحت روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ حالات و واقعات ہیں جو میرے سامنے وقوع پذیر ہوئے یا جن کا مجھے علم ہے۔ میں1914ء سے سفر و حضر میں علامہ کے قریب رہا اور یہ سوانح میرے ذاتی مشاہدات اور علم پر مبنی ہیں اور میں نے انہیں اپنی بہترین یادداشت کے مطابق قلم بند کیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بعض دیگر حضرات، جو علامہ کے قریب رہے اور اب تک بقید حیات ہیں، ان موضوعات پر زیادہ شرح و بسط کے ساتھ لکھ سکیں۔ اور میرے خیال میں بہتر یہی ہو گا کہ یہ حضرات بھی میرے ان بیانات کی موجودگی میں اپنے مشاہدات بیان فرمائیں، تاکہ قارئین مختلف بیانات کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ میں ان بیانات کو مزید طوالت بھی دے سکتا تھا مگر میں نے یہی بہتر خیال کیا کہ مختصر طور پر قارئین سے علامہ اقبال کو متعارف کرا دیا جائے۔ بعض خیالات و سوانح کو الگ الگ عنوانات کے تحت لکھنے کی بجائے میں نے یکجا کر دیا ہے کیونکہ یہ ایک ہی زمانے میں وقوع پذیر ہوئے تھے:مثلاً’’ عطیہ فیضی‘‘ پروفیسر آرنلڈ اور ’’ تیاری مقالہ برائے پی ایچ ڈی‘‘ کو یکجا کر دیا گیا ہے کیونکہ مقالہ مذکور کی تیاری کے سلسلے میں پروفیسر آرنلڈ اور عطیہ فیضی سے علامہ کو سب سے زیادہ واسطہ پڑا۔ بالآخر جب یہ مقالہ اشاعت پذیر ہوا تو علامہ نے اسے پروفیسر آرنلڈ کے نام منسوب کر دیا۔ پروفیسر آرنلڈ کا انتقال 1930ء میں ہوا۔ اسی طرح ’’ دنیائے اسلام میں علامہ اقبال کی مقبولیت‘‘ کے زیر عنوان ان تمام اسلامی ممالک کو یکجا کر دیا گیا ہے جن میں علامہ کے فکر و فن پر کسی قدر علمی کام ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کا دور ہماری تاریخ کا درخشاں تریں دور تھا۔ اسے ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ کا دور کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ انہوں نے جو کچھ سوچا، جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا، صرف اسلام کی سربلندی کے لیے سوچا، ملت اسلامیہ کی بیداری کے لیے کہا اور برعظیم کے مسلمانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے ہر امر کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا اور اسی نقطہ نظر سے اسے پیش کیا۔ آج کے حالات اور دور اقبال کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے وہ دور دیکھا ہے۔ اسلام کے لیے جو جذبہ اقبال نے اپنے عہد کے مسلمانوں میں بیدار کیا وہ آج پھر سرد پڑتا جا رہا ہے اور یہ بڑی کربناک صورت حال ہے۔ اقبال کا شروع سے یہ نقطہ نظر تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام کے زریں اصول میں مضمر ہے۔ انہوں نے زندگی بھر اسی نقطہ خیال کا پرچار کیا اور اسلام کو ایک عالم گیر مسلک کے طور پر پیش کرتے رہے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ملت اسلامیہ ایک مرکز پر ضرور جمع ہو گی اور پھر یہ ملت پوری دنیا کی رہنمائی کے فرائض انجام دے گی۔ ان کی زندگی میں تو یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا مگر حالات بتا رہے ہیں کہ بالآخر اسلامی دنیا اقبال کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے مجبور ہو جائے گی۔ صہیونیت، سامراج اور دوسری اسلام دشمن طاقتیں آج جس انداز میں اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، یہ حالات یقینا مسلمانوں کو اس نتیجے پر پہنچائیں گے کہ نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اقبال کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے تشخص کو برقرار رکھا جائے۔ اگر یہ ہو گیا تو دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گی اور یہی وہ وقت ہو گا جب اسلام دنیا بھر کی رہنمائی اور امامت کے فرائض انجام دے گا۔ اسلام کے ساتھ علامہ اقبال کی وابستگی کو مشہور عرب شاعر لبید کے مندرجہ ذیل شعر کا مکمل نمونہ سمجھنا چاہیے جس نے اسلام لانے کے بعد رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا: الحمد للہ اذ لم یاتنی اجلی حتی کسانی فی الاسلام سر بالا ترجمہ: خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس وقت تک موت نہیں آئی جب تک میں نے اسلام کا جامہ نہیں پہن لیا۔ یہی حالت اقبال کی تھی جن کا اوڑھنا بچھونا اسلام تھا او روہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت بلالؓ کے متعلق علامہ نے دو نظمیں کہی ہیں۔ ایک نظم میں وہ اس مفلوک الحال اورغریب الوطن حبشی کو محض اس لیے فاتح اعظم سکندر رومی پر ترجیح دیتے ہیں کہ بلالؓ عاشق رسولؐ اور اسلام کا سچا شیدائی تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: لیکن بلالؓ وہ حبشی زادۂ حقیر فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر اقبالکس کے عشق کا یہ فیض عام ہے رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے ٭٭٭ اشاریہ اشخاص آ آرہری، پروفیسر:۱۰۶ آرنلڈ، سرٹامس، پروفیسر: ۳،۲۱، ۳۳، ۵۰، ۵۴، ۵۵، ۵۷، ۵۸، ۶۴تا ۶۷، ۲۵۱، ۵۲۵ آزاد، ابو الکلام، مولانا: ۱۱۲، ۱۲۵، ۲۰۳، ۲۰۴ آزاد بلگرامی:۲ آسن مائیگل آسین پیلنس، پروفیسر: ۲۸۲، ۲۸۳ آغا حشر: ۹۳، ۴۳۱ آغا خان، سر: ۲۴۹، ۲۶۸، ۳۰۸، ۳۱۰ ، ۳۱۲تا ۳۱۵ آفتاب احمد خاں، صاحبزادہ: ۷۷، ۲۹۳، ۲۹۴، ۳۴۳ آفتاب اقبال: ۱۴، ۱۶۲، ۴۶۸ آگسٹس: ۴۵۸ آنحضرت صلعم: (دیکھئے رسالتمآب صلعم ) آئن سٹائن: ۱۵۹، ۴۹۸ الف ابراہیم ٹونکی، سید: ۳۴۰ ابراہیم رحمت اللہ، سر: ۳۱۲ ابراہیم میر سیالکوٹی، مولوی: ۱۰۴، ۲۸۰ ابن العربی: ۲۸۴ ابن خلدون: ۲۸۳ ابن خلکان: ۲۷۶ ابن سعود: ۴۰۶ ابن سینا (دیکھئے بو علی سینا) ابن قتیبہ: ۲۷۵ ابو الخیر عبداللہ: ۲۱۰ ابو الظفر عبدالواحد، پروفیسر: ۴۷۴ ابو الفضل زنجانی مجتہد، حاجی سید: ۴۱۲ ابوجہل: ۹۵۲ ابو محمد مصلح، مولوی: ۴۶۶، ۴۶۷، ۵۱۲، ۵۱۳ اجمل خاں، حکیم، حاذق الملک: ۳۱۱، ۳۶۶، ۳۶۷، ۴۰۴، ۴۸۱ تا ۴۸۳ احسن مارہروی مولانا: ۱۸، ۲۲، ۴۷۳، ۴۹۱ احمد احسائی، شیخ: ۱۹۷، ۱۹۸ احمد الدین ازہر: ۵۲۰ احمد الدین، وکیل، مولوی: ۴۵، ۱۷۰، ۲۴۴، ۳۷۸، ۴۴۴، ۴۴۵ احمد بخش، مولوی، پروفیسر: ۳۶ احمد بخش، میاں: ۳۸ احمد حسین، پروفیسر: ۲۹ احمد حمدی برجندی: ۴۱۱ احمد رضا بریلوی، مولوی: ۱۱۴، ۱۱۵ احمد رفعت:۱۸۳ احمد سرہندی، سید: ۱۹۳ احمد سعید، مولانا: ۳۱۱، ۳۱۲، ۴۲۰ احمد شاہ بخاری (پطرس): ۲۹۷ احمد شجاع، حکیم: ۱۸ احمد علی، مولوی: ۴۶، ۱۲۶، ۱۲۷ احمد یار خاں، نواب: ۴۲۲ تا ۴۲۴ اختر شیرانی: ۴۶، ۲۱۳، ۴۸۶ اختر علی خان: ۲۰۸ ارسطو: ۳۸۴ ارشد گورگانی، مرزا: ۱۶، ۲۰ ارون، لارڈ: ۲۶۰ اسحاق حسینی ، مسٹر: ۲۷۵ اسد اللہ، منشی: ۲۰۱، ۲۲۴ اسلم جیرا جپوری: (دیکھئے محمد اسلم جیرا جپوری) اسلم، قاضی: ۲۸، ۲۹، ۳۶ اسماعیل، امین الملک، سر: ۳۴۰ اسماعیل، حاجی سر سیٹھ: ۳۱۹، ۳۳۲ تا ۳۳۴، ۳۴۰ اسماعیل، مرزا: ۳۳۳ اشرف علی تھانوی، مولانا:۱۱۴، ۱۱۵ اصغر علی روحی، مولانا:۴۴، ۱۱۴، ۳۰۲ اصغر علی، شیخ: ۱۸۰، ۲۰۳ اعجاز احمد، شیخ: ۶،۸، ۲۸، ۶۹، ۱۶۵ اعظم، خواجہ: ۸، ۹ افتخار الدین، سید: ۷۶ افضال علی حسنی، سید: ۱۳۵، ۱۳۶، ۴۶۹ افلاطون: ۱۴۴ اقبال سنگھ: ۵۰۳ اقبال شیدائی: ۹۱، ۲۶۳، ۲۶۸، ۳۸۲، ۵۰۰ اقبال علی شاہ، سردار: ۲۷۴ اکبر اعظم: ۳۷۹ اکبر الہ آبادی: ۲، ۱۲، ۱۷۱، ۲۱۹، ۲۲۸ تا ۲۳۰، ۴۸۱ اکبر حیدری، سر: ۱۶۹، ۱۷۰، ۲۱۵، ۲۶۹، ۳۴۰، ۴۰۰ اکبر علی، پیر: ۴۲۳ اکبر منیر، پروفیسر: ۴۸۳ تا ۴۸۵ البیرونی: ۱۳۱، ۲۸۳ الپسن، مسٹر: ۱۸۶ الحضری، سید: ۴۵۱ الطاف حسین حالی، مولانا: ۷۳، ۷۴، ۲۲۵، ۲۹۵، ۴۳۷، ۴۸۹ اللہ بخش آرٹسٹ، ماسٹر: ۱۷۸ الٰہی بخش، ڈاکٹر: ۵۰۸ الیگزنڈر، پروفیسر: ۱۳۳ امام بی بی : ۱۲ امان اللہ خاں، امیر افغانستان : ۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۵، ۱۹۰، ۱۹۱، ۲۶۵، ۳۷۱ تا ۳۷۴ امتیاز علی تاج، سید: ۱۷۱، ۲۱۳ امجد علی شاہ، سید: ۲۶۷ تا ۲۷۰، ۲۷۴ امراؤ سنگھ شیر گل مجیٹھیا، سردار: ۲۶۷، ۲۶۸، ۳۸۸ امرتا شیر گل: ۲۶۸ امیر الدین، میاں، خان صاحب: ۲۳۱، ۲۳۳، ۵۰۴، ۵۱۵ امیر مینائی: ۱۸، ۲۲۱ امین الحسینی، سید، مفتی اعظم: ۲۴۸، ۲۶۶، ۲۷۵ امین الدین، حکیم: ۱۹ امین الدین، میاں (آئی ۔ سی ۔ ایس): ۲۳۱ امین جنگ، سر: ۳۴۱ امیہ بن الصلت: ۱۵۸ انشاء اللہ خاں، مولوی: ۲۱۲ انصاری، ڈاکٹر، شیخ الجامعہ: ۵۶، ۱۱۹، ۱۲۰، ۴۱۶ تا ۴۱۸، ۵۰۴ انصاری صاحب (رجسٹرار) ۳۴۔ انور سکندر خاں: ۲۹۔ انور شاہ، سید، مولانا: ۴۶، ۸۳، ۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۶ تا ۱۳۰، ۱۳۲، ۱۳۴، ۱۳۸ انیس، میر: ۹۰، ۲۴۲، ۲۴۳ اورنگ زیب عالمگیر: ۵۱۴ اے۔ بونوجی: ۱۰۴ ایلزا ہیفنز، مس: ۱۳۹، ۲۷۸ ایم۔ اسلم: ۵۰۴ ایم۔ عبدالرحیم افغانی: ۲۱۷، ۲۱۸، ۲۲۰ این، ملکہ: ۲۶۸، ۲۷۴ ب بابر بادشاہ: ۳۷۹ بائرن: ۱۴۳ بچہ سقہ: ۳۷۲ براؤن، پروفیسر: ۱۰۴، ۱۴۴، ۱۸۴، ۱۹۶ تا ۲۰۱، ۲۲۴، ۴۸۴ برڈوڈ، سر (لاٹ صاحب): ۳۸۸ بردت احمد، حکیم: ۲۰۳ برکات احمد، مولانا: ۲۰۴ برکت علی، ملک: ۲۴۷، ۳۷۸ برگساں: ۶۶، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۵۸، ۱۶۰ بشیر: ۱۸۰ بشیر احمد ابن مولوی احمد الدین: ۴۵، ۲۴۴، ۲۴۵، ۴۴۵ بشیر احمد ڈار: ۲۳۸، ۳۲۹ بشیر احمد، مولوی: ۱۲۷ بشیر احمد، میاں (ہمایوں): ۳۹۱ بشیر الدین محمود قادیانی، مرزا: ۳۶۲، ۳۷۸ بشیر بھٹی: ۲۱۰ بشیر حسین خان شاہجہانپوری: ۲۴ بشیر حیدر: ۸۸، ۸۹ بشیر زیدی: ۲۹۴ بشیر ہاشمی: ۳۴۳ بصیری: ۲۰۳ بلال، حضرت: ۵۲۶، ۵۲۷ بنکی، نواب: ۳۵۲ بو علی سینا: ۱۴۵، ۳۸۷ بہار، ملک الشعرا: ۴۰۹ بہاری، ملا: ۲۰۵ بھورے میاں، حکیم: ۳۷ بیدل، مرزا: ۴۵، ۱۹۲، ۲۴۴، ۴۱۴ بیسنٹ، رانی: ۳۳۰ بیک، پروفیسر: ۵۱ بیکن: ۱۳۲، ۳۹۴، ۳۸۷ بیگم بھوپال: ۲۹۲ بیگم جنجیرہ: ۶۳ بیگم شاہنواز: ۱۲۲ پ پال کلوڈے (ڈرامہ ٹسٹ): ۲۶۰ پرمیشور لال: ۵۷ پطرس بخاری، احمد شاہ بخاری، پروفیسر: ۴۹۶ پکتھال، مارما ڈیوک: ۲۷۶، ۳۰۷ پھجو (فضل الدین) ۲۱۰ پورن سنگھ، ڈاکٹر: ۵۰۳ پیغمبر خدا (دیکھئے رسالتماب صلعم) ت تاثیر، محمد دین، ڈاکٹر، پروفیسر: ۹۰، ۱۷۸ تا ۱۸۰، ۲۰۹، ۲۱۳، ۲۲۵، ۲۲۶، ۲۳۱، ۲۴۲، ۳۰۲، ۳۵۶ تا ۳۵۹، ۴۹۶، ۵۰۲ تاجور، مولانا: ۸۶، ۲۱۳ تحقیق، ڈاکٹر: ۴۱۲ تشنہ: ۱۹ تلوک چند محروم: ۱۰۰ توفیق بے، ڈاکٹر: ۱۸۳ توفیق فطرت: ۴۱۴ ٹ ٹالسٹائی: ۲۵۹ ٹھاکر سنگھ، بھائی: ۵۰۳ ٹیپو سلطان (شہید): ۳۳۴ تا ۳۴۰، ۳۴۵ تا ۳۴۸، ۳۵۱، ۳۵۳ تا ۳۵۵ ٹیک چند، بخشی: ۲۱۵ ٹیگور: ۱۴۱، ۱۸۵، ۱۸۶، ۲۹۹، ۳۹۶ ج جارج پنجم (بادشاہ): ۳۱۳ جان برائٹ: ۲۶۸ جان اسٹوارٹ مل: ۳۸۴، ۳۸۷ جان محمد: ۳۱۹ جاوید اقبال، ڈاکٹر: ۸، ۴۷، ۱۰۶، ۱۶۴ تا ۱۶۶،۱۶۸، ۲۶۹، ۲۷۳، ۴۶۷ ججمان علی (رئیس) : ۳۳۳ جعفر شہیدی، پروفیسر، ڈاکٹر، سید: ۴۱۲ جعفر، میر: ۳۸ جلال الدین، چودھری: ۳۰ جلال الدین رومی، مولانا: ۱۱۷، ۱۴۵، ۱۴۶، ۲۵۸، ۳۹۵ جلال الدین، مرزا: ۴۲،۴۵۶، ۴۶۷ جلیل لکھنوی، میر: ۹۰، ۲۴۲، ۳۴۲ جماعت علی شاہ، پیر: ۱۰۸ جمال محمد، سیٹھ: ۱۳۹، ۳۰۴، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۲۰ تا ۳۲۳، ۳۲۵، ۳۲۶، ۳۳۰ تا ۳۳۲، ۳۴۲ جمعیت سنگھ، ڈاکٹر: ۵۰۸ جمیل احمد: ۲۳۵ جمیل احمد خاں، حکیم: ۳۳۱ جواہر لال نہرو، پنڈت: ۴۰۳، ۴۴۶ جناح، مسٹر: (دیکھئے قائد اعظم) جوش ملیح آبادی، شیر حسن: ۴۸۸ جوگندر سنگھ، سردار: ۱۸۶، ۵۰۳ جولیس ڈی گالٹیر: ۳۸۵ جھنڈا، حافظ: ۷۷ چ چاندی، مسٹر (وائس چانسلر): ۵۳۳ چغتائی: (دیکھئے عبدالرحمن چغتائی) چھوٹو رام، سر: ۴۴۹ چونی لال مونگا، لالہ: ۴۰ چیٹر جی، پروفیسر: ۲۸، ۲۹ چیٹر جی، جسٹس: ۷۱ ح حاتم علی خاں، خان بہادر: ۲۳۵ حافظ شیرازی: ۵۲، ۵۵، ۵۶، ۸۷، ۹۶، ۹۷، ۱۰۵، ۱۱۰، ۴۸۴ حاکم علی، مولوی، پروفیسر: ۳۸، ۳۹، ۱۱۴، ۴۵۱ حبیب الرحمن، پروفیسر: ۱۳۸ حبیب الرحمن خان شروانی، نواب: ۴۷۳ حبیب الرحمن لدھیانوی، مولوی: ۴۶، ۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۷، ۱۲۸، ۳۰۱ حبیب الرحمن مکی، مولویؒ ۴۹۴ حبیب اللہ خاں، خان بہادر، سردار: ۲۳۱، ۴۲۳ حبیب، سید: (برادر نادر شاہ افغان ): ۳۷۳ حسان:۲ حسرت، مولانا چراغ حسن: ۴۳۰، ۴۳۲ حسن اختر، راجہ: ۵۰۸، ۵۲۳ حسن آفندی: ۵۳ حسن الدین، شیخ: ۱۷۸ حسن علی، میر: ۳۵۱ حسن نظامی، خواجہ: ۴۹، ۹۷، ۴۸۰ حسن یار جنگ بہادر، نواب: ۵۳ حسین احمد مدنی، مولانا: ۱۸۷، ۳۳۱، ۴۹۹، ۵۰۰ حسین دانش: ۱۸۲، ۱۸۳ حسین علیہ السلام، امام: ۳۴۸، ۴۱۲ حشمت علی، مولوی: ۴۹۵ حضور اکرم : (دیکھئے رسالتمآب صلعم) حفظ الرحمن (مدیر) : ۳۱۷ حفیظ جالندھری، ابو الاثر: ۸۶، ۸۷، ۲۲۷ حکیم نابینا: (دیکھئے عبدالرزاق انصاری، حکیم نابینا) حمید اللہ خاں، نواب: ۷۸، ۲۹۵، ۴۳۷ حمید حسن، سیٹھ: ۳۰۴، ۳۰۷، ۳۲۰، ۳۲۲، ۳۲۵، ۳۲۶، ۳۲۸، ۳۳۰ حمید علی، سید: ۱۷۱ حیات (گھی والا): ۱۷۸ حیدر علی شاہ جلال پوری، پیر: ۲۱۷ تا ۲۱۹ حیدر علی، سلطان: ۳۳۴، ۳۲۶، ۴۳۷، ۳۴۶، ۳۴۸تا ۳۵۰ خ خاقانی: ۴۶، ۳۷۵، ۴۸۶ خالد خلیل: ۴۵۹ خالد شیلڈرک (نو مسلم): ۲۶۸ خالدہ ادیب خانم: ۵۰۰ خرج اللہ، کاتب: ۲۱۱ خلیفہ قادیان: ۲۷۲ خلیل آفندی: ۴۱۵ خلیل ؑ (حضرت ابراہیم) ۱۱۷ خواجہ اعظم: (دیکھئے اعظم، خواجہ) خواجہ کمال: (دیکھئے کمال الدین، خواجہ) د دارا شکوہ: ۲۴۵ داغ دہلوی: ۱۵، ۱۶، ۱۸، ۱۹، ۲۲۱ دل محمد، خواجہ: ۲۴، ۴۳۹ دین محمد کاتب، حاجی: ۴۷، ۱۷۹، ۴۳۹، ۴۴۰، ۴۵۳، ۴۹۶ دین محمد (ممبر کونسل): ۴۲۳، ۴۲۴ دیوان چند، پروفیسر: ۲۷ ڈ ڈارلنگ، سر: ۳۰۵ ڈاکٹر انصاری (دیکھئے انصاری، ڈاکٹر) ڈانٹے: ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۸۴ ڈائر، جنرل: ۴۰۳ ڈکنسن، ایرک، پروفیسر: ۳۳، ۴۴، ۴۵، ۱۰۲، ۲۴۵ ڈلہوزی، لارڈ: ۳۵۳ ڈورا، مس: ۲۹۶ ڈیکارٹ: ۳۸۰، ۳۸۲ تا ۳۸۵، ۳۸۷ ڈیوڈ آپسن: ۴۴۱ تا ۴۴۳ ذ ذاکر حسین، ڈاکٹر: ۲۹۵، ۴۱۷ ذوالفقار علی (برادر علی برادران) ۴۰۶ ذوالفقار علی دیوبندی، مولوی: ۲۰۳ ذوالفقار علی خاں، نواب: ۴۳، ۷۷، ۱۱۶، ۲۲۳، ۲۲۵، ۲۶۸، ۴۰۴، ۴۵۶، ۴۵۸، ۴۹۸، ۵۲۱ ذوق شاہ: ۹۷ ر راج آنند ملک، ڈاکٹر: ۱۰۲ راجپال: ۱۷۴، ۱۷۵ راس مسعود، سید: ۲۰۶، ۲۷۲، ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۴۲، ۳۷۵، ۳۷۶، ۴۰۷، ۴۳۷، ۴۶۸، ۴۶۹، ۴۷۵، ۵۰۸ رام سرنداس، رائے بہادر، لالہ: ۳۹ ران، پروفیسر: ۵۹ رحما (ڈرائیور): ۱۳۶، ۴۵۳ رحمت اللہ قریشی، ڈاکٹر: ۲۶۹ رحمت علی خاں، چودھری:۲۰۴، ۲۷۸، ۲۲۹، ۳۰۰ رحیم بخش، خان بہادر، حاجی میاں: ۳۹۷، ۴۲۳، ۴۶۷ رسالت مآب صلعم: ۱، ۶۶، ۶۷، ۸۸، ۹۰، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۵۸، ۱۷۵، ۲۵۹، ۳۱۵، ۳۴۸، ۳۵۵، ۳۶۹، ۴۲۷، ۵۲۶، ۵۲۷۔ رسول کریم ؐ (دیکھئے رسالت مآب صلعم ) رشید احمد صدیقی، پروفیسرـ:۲۹۰ تا ۲۹۸، ۴۹۶ رشید رضا مصری :۳۸۶ رضا علی، سید: ۱۲۲ رفیع الدین، ڈاکٹر: ۲۱۸ رفیع الدین ہاشمی، پروفیسر: ۴۹۲ رفیعہ سلطان نازلی بیگم ، ۶۰ رنجیت سنگھ: ۲۲۲ روبنز، (آرٹسٹ): ۱۳۹ روحی، مولوی: ۴۹۵ روزیٹا فوربس، مس: ۲۷۷ روسو، ڈائیشو: ۱۸۴ رومولا، مس: ۵۶ رومی، مولانا (دیکھئے جلال الدین رومی، مولانا) ریاض الکریم: ۵۰۳ رینو، پروفیسر: ۵۱۶ ز زرتشت: ۲۵۹ زہرہ بیگم: ۵۲ س سالک (مولانا عبدالمجید) : ۴۷، ۸۶، ۹۰، ۹۷، ۱۱۹ تا ۱۲۱، ۲۶۱، ۲۰۸ تا ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۳۴، ۲۳۹، ۳۰۸تا ۳۱۰، ۳۱۲، ۳۱۶، ۳۷۳، ۴۹۶تا ۴۹۸، ۵۰۸، ۵۰۹، ۴۱۵، ۵۱۹، ۵۲۰، ۵۲۳ سائمن، سر جان: ۲۴۶، ۳۱۶ سبحان علی، ڈاکٹر: ۱۶۲ سپونر، ڈاکٹر: ۱۸۵ سنرٹن، مس: ۵۸ سجاد احمد، جسٹس: ۲۱۷ سجاد حیدر، سید: ۵، ۴ سجاد علی انصاری، مولوی: ۱۰۱، ۱۰۲ سدا کور، مائی: ۱۲۲ سروجنی داس، مس: ۵۶ سروجنی نائیڈو، مسز: ۳۸۸ تا ۳۹۳ سرور گویا اعتمادی: ۲۷۳ سراج الدین احمد، میر منشی: ۸۶ تا ۹۱، ۳۴۲، ۴۷۱، ۴۷۲ سراج الدین آذر، پروفیسر: ۱۸۰، ۲۱۲، ۳۶۴ سراج الدین پال، مولانا: ۴۸۴ سراج الدین پراچہ: ۴۷۳ سرسید احمد خاں: ۲۲۱، ۲۹۲، ۳۱۴ سرور کائنات (دیکھئے رسالت مآب صلعم) سعید احمد اکبر آبادی، مولوی: ۲۰۵ سعید مرزا، پروفیسر: ۳۹۰ سکاٹ (ایس پی): ۲۲۲ سکاریا، ڈاکٹر: ۱۸۵، ۲۱۵، ۲۱۶ سکندر اعظم: ۴۵۰، ۵۲۶ سکندر حیات خاں، سر: ۴۴۶ سکندر خاں: ۳۱ سلجوقی: (دیکھئے صلاح الدین سلجوقی) سلطان احمد، مرزا: ۷۷ سلطان شہید( دیکھئے ٹیپو سلطان) سلیمان اشرف خاں، مولانا: ۲۹۴ سلیمان خاں: ۳۱ سلیمان شاہ پھلواری، مولانا: ۷۳، ۹۷ سلیمان ندوی، سید، مولانا: ۲، ۱۹۹، ۲۰۲تا ۱۰۷، ۲۰۹ تا ۲۱۲، ۳۰۴، ۳۰۷، ۳۷۵ تا ۳۷۷، ۳۸۶، ۴۰۱، ۴۰۷، ۴۸۲ سلیم، خواجہ: ۲۰۹تا ۲۱۱ سنائی، حکم: ۲۷۳ سندر سنگھ مجیٹھیا: ۲۶۷ سوبرا مانین، ڈاکٹر: ۳۲۲ تا ۳۲۴ سورج مل: ۴۴۲ سوفولس: ۱۴۰ سہنا، لارڈ: ۵۶ سی۔ آر۔ داس: ۲۲۸ سید علی بلگرامی: ۵۱، ۵۴ سیدی احمد خان، نواب: ۶۰ سیف الدین، ڈاکٹر: ۳۱۶ سیموئل ایم۔ زویمر، ڈاکٹر: ۴۵۶تا ۴۵۹ ش شادی لال، جسٹس: ۴۴۲۔ شاطبی، امام: ۴۴، ۳۰۲، ۴۹۵ شاہ دین ہمایوں، جسٹس: ۲۲۳، ۴۳۰ شاہ سلیمان، سید (چیف جسٹس): ۴۰۱ شاہ نواز، میاں: ۱۲۲، ۵۱۷ شبلی نعمانی، مولانا: ۲، ۶۳، ۷۳، ۱۹۶، ۲۰۰، ۲۹۴، ۳۸۶ شبیر حسین زیدی، سید: ۲۴۳ شبیر حیدر، سید: ۴۵۲ شپینگلر: ۱۳۰ تا ۱۳۲، ۵۰۲ شریف مکہ: ۴۰۶ شفاعت احمد خاں،سر: ۲۶۹ شفاعت اللہ خاں: ۲۳۹، ۲۴۱ شفیع داؤدی، مولوی: (دیکھئے محمد شفیع داؤدی، مولوی) شکیب ارسلان، امیر: ۳۸۲، ۵۰۰، ۵۰۱ شمس الدین خاور: ۲۸۰ شمس الدین (شم بھولی) ۱۷۸ شور بازار، ملا: ۱۹۰ تا ۱۹۲، ۳۷۲، ۳۷۴ شوستری، پروفیسر: ۳۴۰ شوکت علی، مولانا: ۴۱، ۱۱۲، ۳۱۱، ۳۱۲، ۴۰۳، ۴۰۴، ۴۰۶، ۴۲۱ شولے، مس: ۵۶ شہاب الدین، چودھری: ۴۷، ۷۶، ۹۳، ۴۹۸ شہاب الدین درزی: ۴۵۱ شہباز الدین، حکیم: ۳۹ شہاب الدین سہروردی: ۱۴۴، ۱۸۴ شہید کربلا: (دیکھئے امام حسین) شوارنس (استاد فلکیات): ۱۳۱ شوپنہار: ۱۵۶ شیخ الازہر: ۴۰۷ شیکسپیر:۳ شیرانی، پروفیسر: (دیکھئے محمود شیرانی) شیر علی حیدر آبادی، مولانا: ۳۸۶ شیر علی، ڈاکٹر: ۴۱۲ شیلے: ۳۱، ۳۲، ۱۴۳ ص صادق، نواب: ۷۸ صدر الدین محمد بن ابراہیم شیرازی (ملا صدر): ۱۹۷، ۱۹۸ صدر الدین، مولوی: ۹۴ صلاح الدین احمد، مولانا: ۳۵، ۳۶ صلاح الدین سلجوقی افغانی، علامہ: ۳۲، ۲۶۷، ۳۷۷ صمد: (دیکھئے عبدالصمد، خواجہ نکڑو) ض ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر: ۱۲۹، ۱۳۱ ضیاء الدین احمد، مولوی: ۳۰، ۳۵، ۳۶ ضیاء الدین طباطبائی، سید: ۵۰۰ ط طالب علی، حکیم: ۳۹۱ طاہر الدین، منشی: ۴۰، ۴۱، ۴۵، ۴۶، ۱۳۶، ۱۶۳، ۱۶۶، ۱۶۷، ۱۷۱، ۱۹۱، ۲۲۸، ۲۲۹، ۲۴۵، ۳۰۱، ۳۷۸، ۴۴۵، ۴۶۲، ۴۶۳، ۴۶۸، ۴۸۵، ۴۹۷، ۵۱۷، ۵۲۲ طاہر عریاں، بابا: ۲۵۵ طرفہ: ۲۰۳ طلحہ، مولانا، سید: ۲۴، ۲۰۶، ۲۱۰، ۳۰۲، ۴۹۵ طیب جی: ۵۳ ظ ظفر الحسن، ڈاکٹر: ۲۹۴، ۳۴۲ ظفر اللہ خاں، چودھری، سر: ۱۱۹، ۲۶۹ ظفر حسن، ڈاکٹر: (دیکھئے ظفر الحسن، ڈاکٹر) ظفر شاہ، بادشاہ: ۳۵۵ ظفر علی خاں، مولانا: ۷، ۹۳، ۲۰۸تا ۲۱۳، ۲۹۲، ۳۰۲، ۳۰۴، ۲۶۳، ۳۷۳، ۳۷۴، ۴۳۱ ظہور الدین: ۴۵۴ ظہیر دہلوی:۲۲۲ ع علامہ حسین، سید، پروفیسر، ڈاکٹر: ۱۳۸، ۴۱۶ عاقل شاہ: ۳۵۴ عالم جان، مفتی: ۲۰۳ عباس طیب جی: ۵۰۴ عباس علی خاں لمحہ (ڈاکٹر) : ۳۹۴ تا ۳۹۶ عبدالباری: ۱۱۰ عبدالحق بن مولانا محمد غوث: ۴۴۱ عبدالحق حق بغدادی، مولوی: ۱۸۳ عبدالحق، ڈاکٹر، مولانا: ۲۳۱، ۴۷۰، ۵۰۷ عبدالحق، شیخ: ۷۹ عبدالحکیم، ڈاکٹر، خلیفہ: ۲۴۰ عبدالحمید، پروفیسر، خواجہ: ۱۱۰، ۱۸۰، ۲۷۵، ۲۸۸ عبدالحمید عرفانی، خواجہ: ۴۱۲ عبدالحمید، مرزا: ۳۶۸ عبدالحمید، ملک، ڈاکٹر: ۵۰۸ عبدالحی لدھیانوی، میاں: ۳۰۱، ۳۰۲، ۴۰۴، ۵۱۲ عبدالرب نشتر، سردار: ۴۵۴ عبدالرحمن چغتائی: ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۴۹، ۲۰۱، ۲۱۵، ۲۲۴، ۲۷۸، ۲۹۳، ۳۵۶تا ۳۶۱، ۴۶۳، ۳۱۵ عبدالرحمن، ڈاکٹر، سر (وائس چانسلر) ۴۰۱ عبدالرحمن، قاضی:ـ۱۷۹ عبدالرحیم ، میاں: ۳۰۲ عبدالرزاق انصاری (حکیم نابینا) ۳۹۵، ۴۹۹، ۵۰۸ عبدالرزاق حیدر آبادی، مولوی: ۱۶۹، ۱۷۰ عبدالرشید، شیخ: ۲۱۰ عبدالسلام، شیخ: ۴۲۷، ۴۲۸ عبدالسلام، شیخ: ۴۲۷، ۴۲۸ عبدالصمد ککڑو، خواجہ: ۷۴، ۸۱تا ۸۳، ۸۵ عبدالعزیز بیرسٹر: ۴۶۰ عبدالعزیز، خان بہادر: ۱۸۴ عبدالعزیز، ڈاکٹر: ۵۱۵ عبدالعزیز مالواڈہ، میاں: ۱۷۷ عبدالعزیز (ماما جیجی): ۱۰۰ عبدالعزیز، منشی(پیسہ اخبار): ۱۲، ۲۳ عبدالعزیز، میاں: ۴۰۴ عبدالعلی عروی، علامہ: ۴۱۱ عبدالغفور، حاجی، سیٹھ: ۳۳۲ عبدالغنی، خواجہ: ۲۱۹، ۴۴۹ عبدالقادر جیلانی، شیخ: ۲۶ عبدالقادر، سید، کاتب: ۳۵۱ عبدالقادر، سید ، پروفیسر: ۲۱۲ عبدالقادر، شیخ، سر: ۳۶، ۵۴، ۷۵، ۸۵، ۸۸، ۹۰، ۹۲، ۱۱۲، ۱۱۶، ۱۲۶، ۱۷۱، ۲۱۲، ۳۰۳ عبدالقادر کراخان، ڈاکٹر: ۴۱۴ عبدالقیوم، ڈاکٹر، ۵۰۸ عبدالقیوم، سر: ۳۱۲ عبدالکریم، چودھری: ۲۳۱ عبدالماجد، بابو: ۲۱۰ عبدالماجد دربا بادی، مولانا: ۲۲۹ عبدالمجید، پروین رقم: ۱۳۸، ۱۷۱ عبدالمجید سالک (دیکھئے سالک) عبدالمجید سندھی، شیخ: ۳۱۱، ۳۱۳ عبدالواحد، سید: ۳۶۸ عبدالوحید، ڈاکٹر: ۲۷۵ عبدالوہاب عزام پاشا، پروفیسر: ۲۶۵، ۲۶۶، ۴۰۸ عبداللہ، بابو: ۱۷۸ عبداللہ ٹونکی، مفتی: ۳۸، ۳۶۸ عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر: ۱۲۷، ۱۸۲، ۲۱۳، ۲۱۷، ۲۲۶، ۲۳۱تا ۲۳۶، ۲۷۱، ۲۹۷، ۳۰۵، ۳۵۷، ۳۵۸، ۳۸۳، ۴۳۲، ۴۶۶، ۴۹۶، ۴۹۸، ۵۰۵، ۵۱۸، ۵۱۹ عبداللہ خاں، نواب: ۲۳۷، ۲۳۸ عبداللہ، سید، ڈاکٹر: ۲۱۰،۲۱۱، ۴۰۰ عبداللہ عمادی، علامہ: ۳۴، ۱۷۰، ۳۴۰ عبداللہ، ماسٹر (دیکھئے عبداللہ چغتائی) عبداللہ، مستری: ۱۵۳، ۱۳۶ عبداللہ ہارون، سیٹھ: ۳۱۱، ۳۹۷، ۳۹۸ عبداللہ یوسف علی، پرنسپل: ۲۱۲، ۲۶۰، ۲۶۱، ۳۶۴، ۴۰۱، ۴۸۹ عثمان علی خاں، میر (نظام دکن): ۷۸، ۱۲۴، ۱۶۸، ۲۹۱، ۳۴۲، ۴۰۰ عراقی: ۱۳۰، ۱۳۲ تا ۱۳۴، ۳۸۵ عرشی، مولانا: ۳۹۱ عرفان، مولانا: ۱۷۵ عزیز الرحمن، مفتی: ۱۲۷ عطا محمد، شیخ، ۶، ۸، ۱۳، ۱۴، ۴۳، ۶۹، ۱۶۵، ۴۵۲، ۴۷۳، ۵۰۹ عطاء اللہ شاہ بخاری، سید، مولانا: ۴۳، ۴۶، ۱۲۸، ۱۷۴ تا ۱۷۶ عطر چند: ۳۴۳ عطیہ بیگم فیضی: ۵۰، ۵۲ تا ۵۴، ۵۸، ۶۰ تا ۶۳، ۲۶۷، ۴۹۱، ۵۲۵ علم الدین: ۱۳۶، ۲۰۸ علم دین (شہید): ۱۷۴، ۱۷۵ علی امام، سید، سر: ۹۵، ۲۹۰ علی بخش (خدمتگار علامہ): ۱۳، ۳، ۹۳،۴۰، ۴۴ تا ۶۳۴۷، ۱۲۶، ۱۶۶، ۱۶۷، ۱۷۱، ۲۰۸، ۲۳۹، ۴۴۳، ۴۵۱تا ۴۵۵، ۴۶۲تا ۴۶۴، ۴۷۸، ۴۸۷، ۴۹۶تا ۵۹۸، ۵۰۲، ۵۰۵، ۵۰۸، ۵۱۰، ۵۱۶، ۵۱۸ تا ۵۲۰ علی بخش (مسٹر گزٹ): ۴۲۵ علی جان: ۳۳۶ تا ۳۳۸، ۳۴۹ علی بلگرامی، سید: ۵۱، ۵۴ علی بن حسین واعظ کاشفی، ملا: ۲۱۱ علیؓ، حضرت: ۲۹۲ علی محمد خاں، راؤ: ۲۹۹، ۳۰۰ عمر حیات خاں ٹوانہ، ملک: ۲۶۹ عنایت اللہ شیخ، ڈاکٹر: ۲۸۲ عنایت اللہ مشرقی، علامہ: ۱۲۸، ۲۰۴، ۲۰۹ عنایت اللہ، ملک: ۲۱۰ عنایت، سردار: ۳۷۴ عنایت شاہ: ۳۷۳ عیسیٰ صادق: ۱۹۶، ۲۰۰ عیسیٰ علیہ السلام (دیکھئے مسیح علیہ السلام) غ غازی رؤف لے: ۴۱۶ تا ۴۱۸، ۴۳۱ غالب، مرزا: ۴۹، ۹۱، ۱۰۶، ۳۵۶ غزالی، امام: ۳۸۳، ۳۸۴، ۳۸۷ غلام احمد خاں: ۸۸ غلام احمد قادیانی، مرزا: ۷۷، ۳۰۳ غلام احمد کلامی، نواب: ۳۳۸ غلام احمد السیدین، پروفیسر: ۱۳۸، ۲۹۴، ۴۱۶ غلام بھیک نیرنگ، میر، سید: ۲۶، ۲۷، ۲۰، ۳۳، ۳۶، ۴۹ غلام حسن، خواجہ: ۸۳ غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر ۲۵، ۴۸۲ غلام حسین (ایک آنکھ والا): ۱۱۰ غلام حسین صدیقی، ڈاکٹر: ۴۱۱ غلام دستگیر، مستری: ۵۱۳ غلام ربانی: ۲۱۳ غلام رسول، مولوی: ۳۳ غلام رسول مہر، مولانا: ۶، ۴۷، ۱۱۹، ۱۲۱، ۱۹۱، ۲۰۸تا ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۳۳، ۲۳۹، ۲۴۹، ۲۵۰، ۲۶۲، ۳۰۸تا ۳۱۰، ۳۱۲، ۳۱۴، ۳۱۶، ۳۱۸، ۳۵۶، ۳۷۲، ۴۹۶تا ۴۹۸، ۵۱۹ غلام رسول میاں (کوتوال) ۱۲۲، ۲۲۴ غلام رضا سعیدی، سید: ۴۱۲ غلام قاسم، افصح الفصحا: ۳۵۵ غلام محمد بٹ، ڈاکٹر: ۲۹۴، ۳۴۳ غلام محمد خاں مشیر مال: ۷۴ غلام محمد عرف علی جان (دیکھئے علی جان) غلام محمد، ڈاکٹر: ۱۳۵، ۱۶۲، ۲۲۹، ۴۴۴ غلام مرشد، مولوی: ۳۰۲، ۴۹۵، ۵۱۲، ۵۱۳، ۵۱۶ غلام یسین: ۴۲۳ ف فارسٹر، ای ۔ ایم، پروفیسر: ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۸۵ فاطمۃ الزہرا ؑ : ۳۴۸ فتح حیدر: ۳۵۵ فتح دین بسمل، مولوی: ۴۳۹ فتح علی خاں قزلباش، نواب: ۴۱۱ فخر الدین رازی، امام: ۲۰۳ تا ۲۰۵، ۲۰۸، ۲۰۹، ۳۸۷ فرانسس ینک، سر: ۲۵۰، ۲۶۰ فرانکو، جنرل: ۲۸۹ فررزدق:۲ فرعون: ۲۵۹ فشر، ڈاکٹر: ۱۸۴ فضل الدین، مولوی: ۱۱۳ فضل امام واقف: ۴۴۷ فضل الٰہی: ۲۹۷ فضل حسین، میاں، سر: ۴۰، ۸۰، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۹ تا ۱۲۲، ۴۰۱، ۴۴۰ فضل حق، شیخ: ۲۹ فضل حق، قاضی: ۴۸۴ فضل کریم درانی: ۴۲۷، ۴۲۸ فغانی، بابا: ۵۲ فورک ہارسن، مس: ۲۸۱ فیروز الدین، میاں: ۳۹۷ فیروز الدین احمد، حافظ: ۳۶، ۳۷ فیروز الدین احمد طغرائی، حکیم: ۹۶ فیروز خاں نون، ملک: ۱۲۰، ۲۲۵، ۳۰۸تا ۳۱۲، ۳۸۸ فیروز، خواجہ: ۴۳۸ فیض احمد فیض: ۱۹۴ فیضی(برادر عطیہ بیگم): ۵۸ ق قاضی اسلم: ۲۸، ۲۹ (دیکھئے اسلم قاضی) قائد اعظم (محمد علی جناح): ۲۶، ۱۸۸، ۳۱۱، ۳۱۶، ۳۱۷، ۳۸۹، ۴۴۶ تا ۴۴۹، ۴۷۵، ۴۸۷، ۴۹۲ ک کاظمی، آرٹسٹ: ۴۸۹ کانٹ: ۳۸۵ کچلو، ڈاکٹر: ۱۱۴ کچنر، لارڈ: ۲۵۸، ۲۵۹ کدار ناتھ چوپڑا: ۳۶ کریم بی بی: ۱۶۲ کزن، ڈاکٹر: ۱۸۵ کشمیرا سنگھ، پروفیسر: ۱۱۸، ۵۰۳ کشن پرشاد شاد، مہاراجہ سر: ۷۱، ۳۴۱، ۴۸۸، ۴۹۲ کفایت اللہ، مفتی، مولانا: ۳۱۱ تا ۳۱۴، ۴۲۰ کلیم الرحمن: ۲۹ کلارک (پرنسپل): ۳۳۱ کمال الدین، خواجہ: ۲۱۲، ۳۸۶ کندی: ۲۸۳ کنھیا لال گابا: ۴۶۰، ۴۶۱ کورنیلیا سہراب جی: ۵۰ کومولا، مس: ۵۶ کھنڈو ارائیں: ۳۹ کیٹس: ۱۰۳ کیمف میئر، پروفیسر: ۱۴۰، ۲۷۸ گ گاما پہلوان: ۱۹۳، ۱۹۵ گاندھی جی:۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۹، ۱۷۶، ۲۷۸، ۲۸۲، ۲۸۳، ۳۹۲، ۳۹۳، ۴۰۵ گرامی، مولانا: ۳، ۴۱تا ۴۳، ۸۸، ۲۰۳، ۳۶۶، ۴۳۲، ۴۹۲ گلاب دین، شیخ: ۳۹ گوتم بدھ: ۲۵۹ گوشن، لارڈ: ۳۲۳ گوئٹے: ۳، ۱۳۷، ۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۳، ۱۴۵، ۱۴۶، ۱۸۴، ۲۵۵، ۳۲۰، ۳۷۱، ۴۸۴ ل لاجپت رائے، لالہ: ۲۹۹، ۴۴۲ لال دین قیصر، ملک: ۱۷۸، ۱۸۸، ۲۱۰ لبید (عرب شاعر): ۵۲۶ لطیف، ملک (سٹیشن ماسٹر) ۲۱۰ لمعہ(دیکھئے عباس علی خاں لمعہ) لنڈ سے، ڈاکٹر: ۲۱۶ لولی حج، حضرت بابا: ۹، ۱۰ لولی گارڈن: ۲۹۰، ۲۹۱ لوئی میسینیون یا لوئی میسنگ لون، پروفیسر: ۲۶۸، ۲۷۱ تا ۲۷۳ لیڈی ارون: ۲۶۰ لیڈی آرنلڈ: ۶۵ لیڈی ایلیٹ: ۵۶ لیسنگ: ۱۴۰ لیمنگٹن، لارڈ: ۲۶۹ لینن: ۱۵۹ م ماسٹر صاحب (دیکھئے عبداللہ چغتائی) مائیکل اوڈوائر، سر:۹۹ مائیکل لورینٹ: ۲۷۸، ۲۷۹ مبارک علی شاہ، سید: ۳۹۷ مبارک علی، شیخ: ۱۷۰ مٹھائی: ۳۳۵ مجتبیٰ مینوی، پروفیسر: ۴۱۰ مجیب، پروفیسر: ۴۱۶ مجید ملک، پروفیسر: ۴۹۶ محبوب عالم، منشی: ۲۱۲ محبوب عالم، مولوی (پیسہ اخبار): ۲۲۴ محبوب علی خان، میر: ۲۹۱، ۳۶۶ محسن شاہ، سید: ۵۱۲ محسن علی سبزواری، مولانا: ۴۱۱ محمد ابا (عباس)، سیٹھ: ۳۳۸، ۳۳۹ محمد احمد، حافظ: ۱۲۳، ۱۲۴ محمد اسلم جیرا جبوری، حافظ: ۹۶، ۴۰۱ محمد اسلم، قاضی (دیکھئے اسلم، قاضی) محمد اسلم، میاں : ۲۳۱، ۲۳۳ محمد اسماعیل خاں، نواب : ۳۱۳، ۳۱۷ محمد اشرف (ایڈووکیٹ): ۲۱۸ محمد اشرف، شیخ (ناشر): ۱۰۶، ۳۶۸ محمد اعظم (سیکرٹری ایجوکیشنل یونین): ۳۶۲ محمد اقبال، شیخ، پروفیسر: ۲۱۰، ۲۱۲، ۳۹۹، ۴۰۰ محمد اکرم شاہ، سید، پروفیسر: ۴۱۰ محمد الدین، ملک (ایڈیٹر): ۲۱۹، ۲۳۰ محمد امین، ڈاکٹر: ۱۷۸ محمد امین لدھیانوی، مولوی: ۳۰۲ محمد امین، ملک (ایڈووکیٹ) : ۲۱۰ محمد ایاز خان (رئیس میسور) : ۳۴۷ محمد باقر، ڈاکٹر: ۱۰ محمد باقر، مولوی، پروفیسر: ۳۸ محمد ثانی، سلطان: ۴۱۳ محمد حسن قرشی، حکیم: ۵۰۸ محمد حسین، چودھری: ۴۷، ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۳۷، ۱۶۳، ۱۶۹، ۱۸۸، ۲۰۹، ۲۹۰، ۲۲۶، ۲۳۱، ۲۳۳، ۲۳۶، ۳۰۱، ۳۰۹، ۳۱۰، ۳۲۱، ۳۳۱، ۳۶۶، ۴۳۳، ۴۵۶، ۴۸۲، ۵۱۵، ۵۱۷، ۵۲۰ تا ۵۲۲ محمد حسین، سید، ڈاکٹر: ۴۵، ۲۲۳، ۲۴۴، ۴۹۶ محمد حسین، شاہ سید: ۴۲۳ محمد حسین، شمس العلما، مولوی پروفیسر: ۳۸ محمد حسین، قاضی: ۹۴ محمد حسین، ملک (ایڈووکیٹ): ۱۷۷ محمد داؤد رہبر: ۱۲۹ محمد دین تاثیر (دیکھئے تاثیر) محمد دین فوق: ۸، ۱۰۷، ۱۰۸، ۲۲۱، ۲۲۲ محمد دین، ملک: ۱۷۷ محمد رفیق افضل: ۲۴۷ محمد ریاض، ڈاکٹر: ۴۱۳ محمد زکریا، مولوی: ۱۲۴ محمد سلیم، خواجہ: ۱۷۹، ۳۰۹، ۳۱۰ محمد، سیٹھ: ۳۱۹، ۳۳۳ محمد شفیع، پروفیسر: ۲۱۲، ۴۰۰، ۳۸۴، ۴۸۵ محمد شفیع داؤدی، مولوی: ۱۱۹، ۱۲۰، ۲۶۲ تا ۲۶۴، ۳۱۴ محمد شفیع، میاں، سر: ۴۰، ۹۲، ۱۲۶، ۱۷۵، ۲۱۲، ۲۱۵، ۳۱۷ محمد شفیع، میاں (م۔ ش) : ۲۱۷، ۲۹۶، ۳۹۴، ۴۳۹، ۵۰۸، ۵۲۳ محمد صالح: ۳۵۵ محمد صدیق: ۱۱۷ محمد صلعم، حضرت (دیکھئے رسالتماب صلعم) محمد صدیق (نعت خواں): ۴۳۳ تا ۴۳۶ محمد ظریف، قاضی: ۴۶۶ محمد عاشق، ۱۷۹ محمد عبدالغنی، میرزا: ۲۰ محمد عبدالوہاب قزوینی، مرزا: ۱۹۶ محمد عبداللہ چغتائی، (دیکھئے: عبداللہ چغتائی، ڈاکٹرـ) محمد عبداللہ قریشی: ۴۳ محمد علی (ایم اے) مولوی: ۲۱۲ محمد علی جناح (دیکھئے قائد اعظم) محمد علی جوہر، مولاناـ: ۴۱، ۱۰۹، ۱۱۲، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۶، ۳۱۱ تا ۳۱۵، ۴۰۳ تا ۴۰۶، ۴۲۱ محمد علی چودھری: ۵۲۰ محمد علی خاں قزلباش، نواب:۲۴۲،۲۴۳ محمد علی قصوری، مولوی: ۳۲ محمد علی، مولانا (امیر جماعت احمدیہ): ۳۰۳، ۴۶۱ محمد غوث، حضرت شاہ: ۸۱، ۸۲ محمد غوث، مولانا: ۴۴۱ محمد قاسم نانوتوی، مولانا: ۱۲۴ محمد لطیف، سید: ۴۲، ۷۳ محمد محیط طباطبائی، سید: ۴۱۲ محمد نادر خاں (دیکھئے نادر خاں، جنرل) محمد نصیر ہمایوں، شیخ: ۴۲۷ محمد نعیم لدھیانوی، مفتی: ۱۲۳، ۳۰۱ محمد یعقوب (سٹینو): ۳۰۵، ۳۰۱ محمد یوسف، ڈاکٹر: ۵۰۸ محمود احمد، سید: ۴۲ محمود الحسن، حضرت مولانا: ۱۴، ۲۰۳ محمود الخضری، ڈاکٹر: ۳۸۰تا ۳۸۲، ۳۸۴، ۳۸۵ محمود الٰہی شمس آبادی، ملک: ۴۲۳ محمود حسین خاں، ڈاکٹر: ۲۹۶ محمود دھرم پال: ۴۳۵ محمود شستری: ۲۵۶ محمود شیرانی، پروفیسر: ۴۶، ۱۶۶، ۲۱۰، ۲۱۲، ۲۹۳، ۳۳۷، ۳۵۶، ۳۷۶، ۴۰۰، ۴۰۱، ۴۵۳، ۴۸۵، ۴۸۶، ۵۱۹ محمود علی، پروفیسر: ۹۶ محمود غزنوی، سلطان: ۳۷۹ محمود نظامی: ۴۶۸ محی الدین ابن عربی: ۱۳۳، ۲۶۸، ۲۷۱، ۳۸۴ محی الدین قادری زور، ڈاکٹر، سید: ۴۸۸ مختار احمد (برادر زادہ اقبال): ۱۴، ۲۶۹ مدن گوپال سنگھ چاولہ، پروفیسر: ۳۰، ۳۱ مدن موہن مالوہ: ۱۰۹ مراتب علی شاہ، سید: ۲۶۷ مرزا جی (عطر والے): ۵۱۳ مس بیک: ۵۱ مس ران: ۵۹ مسز بولی گارڈن : ۲۹۱ مسز جینا (بیگم جناح): ۳۸۹ مسز حیدری: ۶۱ مسز عبدالسلام: ۳۲۸ مسز وسوگر: ۲۱۵، ۲۱۶ مسعودی: ۲۸۳ مس کیمبر: ۱۲۲ مسلم، مولوی: ۱۷۸ مسولینی: ۲۶۵ مسیح علیہ السلام: ۱۰۳، ۲۵۹، ۳۰۳ مشیر حسین قدوائی، شیخ: ۹۶ مصطفی شلطوط، پروفیسر: ۲۶۵ مصطفی کمال پاشا: ۴۲ مظفر احمد فضلی، خان بہادر: ۹۶ مظفر الدین قریشی، پروفیسر، ڈاکٹر: ۱۱۰، ۳۴۰ معظم جاہ، شہزادہ: ۲۹۱، ۳۶۶ مفتی اعظم، فلسطین (دیکھئے امین الحسینی) مقبل: (دیکھئے خواجہ عبدالصمد ککڑو) مقبول: ۲۷۶ مقبول، میر: ۲۷۶ ملٹن: ۳۲، ۳۳ ملک محمد کاشمیری: ۹۶ ملکولم لائل ڈارلنگ: ۴۴۸ ممتاز حسن:۲۱۸، ۵۲۰ ممتاز علی، سید: ۲۱۲ ممتاز علی، شمس العلمائ، مولوی: ۱۷۱، ۴۸۲ ممتاز مرزا: ۱۹۰، ۳۷۲ منصور حلاج: ۲۷۲ منوہر ناتھ: ۲۹ موتی لال نہرو، پنڈت: ۳، ۴ موسیٰ جار اللہ: ۲۰۶ مہاراجہ میسور: ۳۳۴ تا ۳۳۶، ۳۳۸ مہتر چترال (خان آف چترال): ۴۹۸ مہدی سوڈانی: ۲۵۹ مہر (دیکھئے غلام رسول مہر) مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت پیر: ۱۳۳ مہری نور اللہ (دیکھئے غلام قاسم افصح الفصحا) میتھیو آرنلڈ: ۱۴۰ میراں بخش، ملک: ۱۷۸ میر حسن، مولوی، سید: ۳۰، ۲۱۷، ۲۲۵ میک ٹگارٹ، ڈاکٹر: ۱۹۸، ۲۵۰ میکملن: ۱۰۳ میکنزی: ۱۸۶ مینن: ۱۸۶ ن نادر حسین، سید: رعع نادر خاں، جنرل، غازی: ۲۷۴، ۳۷۳ تا ۳۷۶، ۴۰۷ ناصر حسین، میر، دہلوی: ۲۰ ناظر جوگی: ۴۳۹ نالینو، مس: ۵۱۶ نائیڈو، ڈاکٹر: ۳۹۰ نپولین یونا پارٹ: ۲۶۸ نٹشے: ۳، ۶۶، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۵۶ تا ۱۵۸، ۱۹۸، ۱۹۹، ۲۵۸، ۳۸۵ نذر محمد، منشی: ۴۹ نذیر احمد خاں، چودھری (ایڈووکیٹ): ۳۹۸ نذیر احمد دہلوی، ڈاکٹر مولوی: ۷۳ نذیر نیازی، سید: ۴۱۶، ۴۱۹، ۴۹۲، ۵۰۸، ۵۲۳ نسیم دہلوی: ۱۹ نصر الدین، حضرت بابا: ۹ نصر اللہ خاں نو مسلم، رانا: ۲۰۹ نصیر الدین طوسی، ملا: ۳۸۴ نظام الدین اولیا، حضرت: ۴۹، ۴۷۷ نظام الدین: ۴۵۴ نظام الدین درزی: ۴۶۴ نظام الدین، میاں: ۲۳۱، ۲۳۴، ۲۳۶، ۵۰۴، ۵۱۲ نکلسن، پروفیسر، ڈاکٹر: ۴، ۱۰۱، ۱۰۴تا ۱۰۶، ۱۳۷تا ۱۳۹، ۱۴۲، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۸۳، ۱۸۴، ۱۹۹، ۲۰۱، ۲۲۴، ۲۵۵، ۴۸۴ نکولاس۔ پی۔ اغنیدر: ۲۹۹ ن۔ م۔ راشد: ۴۰۸ نواب آف ڈھاکہ: ۷۸ نواب آف رام پور: ۲۶۷ نواب آف جنجیرہ: ۶۳ نور الحق: ۳۷۳ نور الدین خواجہ، پروفیسر: ۱۷۸ نور الدین ولی، حضرت، ۹ نور حسین، سید (ڈی۔ ایس۔ پی)۱۷۵ نور محمد، شیخ (والد علامہ اقبال): ۱۱، ۱۸۲، ۱۲۲۵ نیاز الدین احمد خان: ۲۲۹، ۴۸۰، ۴۹۲ نیلسن: ۱۱۰ نینسی، مس: ۶۵، ۶۶ نیوٹن: ۱۳۱ و واجد علی شاہ، سید (ایڈووکیٹ): ۲۱۰ واحدی، ملا: ۴۹ واکر: ۲۵ والٹ وہٹمین: ۱۰۳ والدہ آفتاب: ۱۶۲ والدہ جاوید اقبال: ۴۸، ۲۶۹، ۲۹۴، ۴۵۲ والدہ سلطان ٹیپوؒ ۳۳۶ وجاہت حسین جھنجھانوی: ۲۲۱ وجیہ الدین احمد: ۳۶ وجیہ الدین، فقیر: ۲۱۸ ورجل: ۱۴۰، ۲۵۸ ورڈزورتھ: ۳۲ وسوگر: ۵۱۲، ۶۱۲ وشوامتر(جہاں دوست): ۲۸ وکٹوریہ، ملکہ: ۴۴، ۲۴۵ ولیم جان ڈوپیر: ۲۶۳ ولیم، قیصر: ۱۵۹ ویر سنگھ، بھائی: ۱۱۸ ہ ہادی حسن، آغا: ۱۸۳ ہادی سبزواری، ملا: ۱۹۸ ہانسی مامکنکے، ڈاکٹر: ۱۸۴ ہائنا: ۱۵۱، ۲۵۵ ہربرٹ امرسن، سر: ۷۸ ہربرٹ ریڈ: ۱۰۳، ۱۰۴ ہرشمنٹ، پروفیسر: ۵۷ ہرکشن، لالہ: ۴۶۰ ہرنام سنگھ، کاکا: ۱۱۸ ہگسن بوتھم: ۳۴۳ ہیگل: ۱۵۶ ہیمی: ۲۹ ہیولاک ایلس: ۱۳۹ ہیوم، پروفیسر، ڈاکٹر: ۲۳۹ تا ۲۴۱ ہیوم، مسٹر (سیکرٹری): ۳۴۰، ۴۵۶ ی یعقوب بیگ، مرزا، ڈاکٹر: ۳۰۳، ۳۷۳ یعقوب توفیق: ۴۹۲ یعقوب حسن، سیٹھ: ۳۲۲ یوسف حسن، حکیم: ۲۱۳ یوسف علی: ۲۱۲ یوسف علی، علامہ: ۱۸۰ ییٹس: ۴، ۵، ۱۴۱ ٭٭٭ مقالات، ادارے آ آٹو ہیئر سووٹس: ۴۱۳ آرہ: ۲۲۸، ۲۲۹ آزاد کشمیر: ۲۱۷ آسٹریا: ۲۷۰ آسٹریلیا: ۳۲۱ آکسفورڈ یونیورسٹی: ۲۱۶ آل انڈیا اورینٹل کانفرنس: ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۸۹، ۳۵۸، ۳۹۹ آل انڈیا سکھ ایجوکیشنل کانفرنس: ۵۰۳ آل انڈیا کشمیر کمیٹی: ۳۷۸ آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ کانفرنس: ۳۹۷، ۳۹۸ آل انڈیا مسلم کانفرنس : (دیکھئے آل پارٹیز مسلم کانفرنس) آل ایشیا ایجوکیشنل کانفرنس: ۱۸۸ آل پارٹیز مسلم کانفرنس: ۱۸۹، ۳۰۸، ۳۱۰تا ۳۱۳، ۳۱۶تا ۳۱۸، ۳۹۷ آئرلینڈ: ۹ آئینہ ادب، لاہور: ۴۲۷ الف اٹلی: ۹۳، ۹۴، ۱۰۴، ۱۸۵، ۲۱۶، ۲۶۵، ۳۸۴، ۴۰۷ احمدیہ بلڈنگ: ۴۵، ۴۴۲ ادارۂ معارف اسلامیہ: ۳۹۹، ۴۰۰ اڈون، پرگنہ: ۹ اڈیار (مدراس): ۳۳۰ اردو بازار، لاہور: ۲۶، ۴۰ ارسطو طولین سوسائٹی لندن : ۲۸۱، ۳۸۰ استنبول: ۴۱۵ اسٹریجی ہالـ: ۲۹۲ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ: ۲۹ اسلامیہ کالج لاہور: ۳۸، ۷۴، ۷۵، ۱۰۹ تا ۱۱۱، ۱۱۳، ۱۱۴، ۱۷۸ تا ۱۸۰، ۱۹۰، ۲۰۷، ۲۸۰، ۳۰۳، ۳۶۲، ۳۶۴، ۳۶۸، ۳۷۲، ۴۰۵، ۴۱۳، ۴۸۳، ۵۱۲ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ: ۲۳، ۲۴، ۴۱، ۷۳، ۸۱، ۱۱۶ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ: ۱۶۴ اعظم گڑھ: ۱۰۱، ۲۰۵، ۲۱۲، ۲۸۵ افریقہ (جنوبی) ۱۲۱، ۱۲۲ افغانستان: ۱۳۹، ۱۸۳، ۱۸۵، ۱۹۰، ۱۹۱، ۲۰۲، ۲۰۶، ۲۱۶، ۲۷۳، ۲۷۴، ۳۷۱ تا ۳۷۵، ۳۷۷، ۴۰۷، ۴۸۵، ۴۸۶، ۵۱۴، ۵۱۵ افغان قونصل خانہ، بمبئی: ۶۲، ۲۰۶، ۲۶۷ اقبال اکیڈمی (کراچی، لاہور): ۲۶، ۶۶، ۶۷، ۲۳۸، ۲۶۶، ۲۶۹، ۲۸۲، ۳۹۴، ۴۱۹، ۵۰۱ اقبال منزل: ۲۱۵ اقبال نگر: ۵۰۳ اقبال ہوسٹل: (دیکھئے گورنمنٹ کالج ہوسٹل) اکبری منڈی (لاہور): ۴۳۹ الاسکوریل (میڈرڈ): (دیکھئے ابسکوریل محل) الاصلاح (کتب خانہ) ۱۵ الہ آباد: ۷۰، ۱۸۷ تا ۱۸۹، ۲۱۹، ۲۲۹، ۲۷۸، ۳۹۷ الہ آباد ہائی کورٹ: ۴۰۱ الہ آباد یونیورسٹی : ۹ الہ آباد کا قلعہ: ۱۸۸ امپیریل بینک: ۳۷۳ ام درمان : ۲۵۹ امرتسر: ۳۷، ۴۱، ۹۷، ۱۱۸، ۱۲۵، ۲۰۴، ۲۳۹، ۳۹۲، ۴۰۳، ۴۰۴، ۴۰۶ امریکہ: ۱۸، ۱۸۶، ۲۰۴، ۲۹۹، ۳۰۰، ۳۲۱ انٹرمیڈیٹ کالج بنگلور: ۳۳۳ امیر منزل: ۱۹۱ انار کلی، لاہور: ۱۳، ۴۰، ۴۱، ۱۱۱، ۱۳۵، ۱۳۷، ۲۲۳، ۳۰۴، ۴۴۴، ۴۴۵، ۴۶۲، ۴۶۸ انجمن ارباب علم: ۸۶ انجمن اسلامیہ (بارہ مولا): ۸۳ انجمن ترقی اردو (مدراس): ۳۲۸ انجمن حمایت اسلام: ۲۳، ۲۴، ۴۱، ۷۳ تا ۷۵، ۷۸، ۷۹، ۸۱، ۸۳، ۸۸، ۹۲، ۹۳، ۱۱۱ تا ۱۱۶، ۲۰۷، ۲۰۹، ۳۰۰، ۳۳۴، ۳۶۱، ۳۹۱، ۴۳۳، ۴۴۴ انجمن خدام الدین: ۱۲۶ تا ۸۲۱ انجمن نصرت اسلام (سری نگر): ۸۲ انجمن نعمانہ: ۴۹۵ اندلس: (دیکھئے سپین) انڈیا: (دیکھئے ہندوستان) انڈین ایجوکیشنل سروس: ۶۹ انڈین سوسائٹی، لندن: ۲۵۰ انگلستان: ۹، ۲۰، ۳۹، ۴۰، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۹، ۹۶، ۹۹، ۱۰۲، ۱۱۰، ۱۱۹، ۱۴۲، ۱۶۲، ۱۸۳، ۱۸۴، ۱۹۷، ۲۴۸، ۲۶۰، ۲۶۷، ۳۱۲، ۳۱۳، ۳۱۷، ۳۳۷، ۴۲۱، ۴۵۱ انگلینڈ (دیکھئے انگلستان) اورینٹل کالج لاہور: ۲۱، ۲۶، ۲۱۰، ۳۳۹، ۴۱۰ اورنگ آباد: ۵۰۷، ۵۰۸ ایبٹ آباد: ۱۳، ۲۶۹ ایجوکیشنل یونین اسلامیہ کالج: ۳۶۲ اے۔ جی۔ آفس، لاہور: ۱۱۷ ایران: ۵۲، ۱۴۲، ۲۰۰، ۲۵۶، ۴۰۸ تا ۴۱۳، ۴۸۴ ایس۔ پی۔ ایس ہال، لاہور: ۸۶ ایسکوریل محل (میڈرڈ): ۳۸۰، ۳۸۱ ایشیا: ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۷۳، ۳۲۷، ۳۷۱ ایشیاٹک سوسائٹی (لندن): ۱۰۴ اینگلو عریبک کالج، دہلی: ۴۰۲ ایوان رفعت: ۶۱ ایمپریس روڈ (لاہور): ۴۱۱ ب بادشاہی مسجد، لاہور: ۳۶۸ بارہ مولا: ۸۱، ۸۳، ۸۵ باغبان پورہ: ۷۵، ۱۳۶، ۲۰۸، ۵۱۷ باغ عامہ (حیدر آباد): ۳۴۱ باغ فردوس (جرمنی): ۵۹ باولی صاحب (گوردوارہ): ۱۷۳ ببلو تھیکا نیشنل، پیرس: ۳۸۲ بٹالہ: ۹۴ بٹ سٹیشنری مارٹ، لاہور: ۴۰ بحرین: ۴۸۴ بدایوں: ۴۸۹ برٹش انڈیا: ۱۸۸ برٹش میوزیم (لندن): ۲۷۵، ۲۷۶ برطانیہ (دیکھئے انگلستان) برعظیم پاک و ہند: ۴، ۲۰، ۳۹، ۵۰ (نیز دیکھئے ہندوستان) بروک لائن: ۲۳۹ بریٹ (انجمن): ۲۸، ۲۹ بریڈلا ہال، لاہور: ۹۹، ۱۲۵، ۱۲۶ بریلی: ۱۱۴ بزم ادب (پنجاب): ۸۶ بزم اردو، لاہور: ۲۴، ۴۳۰ بزم اقبال، لاہور: ۳۹ بزم اقبال حیدر آباد (دکن): ۵۳ بزم معدی کرب: ۲۳۵ بغداد: ۲۱۱ بلقان: ۷۶، ۹۲، ۹۳، ۹۹، ۴۳۱ بلوچستان: ۱۳، ۴۷۳ بمبئی: ۲۶، ۳۰، ۳۲، ۳۶، ۵۳، ۶۱ تا ۶۳، ۱۶۳، ۲۳۹، ۲۶۶، ۲۶۹، ۲۷۹، ۲۹۰، ۳۱۶، ۳۱۹ تا ۳۲۱، ۳۲۶، ۳۷۳، ۴۶۷ بنارس: ۱۰۹، ۱۸۸ بنگال: ۱۸۸، ۲۲۸ بنگال سکول: ۳۵۷ بنگلور: ۳۲۸، ۳۳۱ تا ۳۳۴، ۳۳۸، ۳۴۰، ۳۴۷، ۳۵۵ بنوں: ۴۴۹ بورسٹو ہوٹل (مدراس): ۳۲۱، ۳۲۶، ۳۳۱، ۳۳۲ بہار (صوبہ): ۲۶۲، ۴۶۷ بھاٹی دروازہ، لاہور: ۱۸ تا ۲۳، ۳۰، ۳۸، ۴۱، ۴۳۳، ۴۳۴، ۴۵۱ بھارنگی: ۵۲۲ بہاولپور: ۷۸ بھٹی بوٹ ہاؤس، ڈبی بازار لاہور: ۲۱۰ بھوپال: ۲۰۶، ۲۷۲، ۲۹۵، ۳۴۲، ۳۹۵، ۴۳۷، ۴۶۸، ۵۰۸ بیبیاں صاحب (قبرستان): ۲۲۵ بیت اللہ: (دیکھئے کعبۃ اللہ) بیت المقدس: ۲۴۹، ۲۶۵، ۲۶۶، ۲۶۷، ۴۰۵ بین الاقوامی ادارۂ اطلاعات: ۲۷۸ بینک آف انڈیا: ۳۷۵ پ پاکستان: ۷۔ ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۶۳، ۱۸۸، ۱۹۰، ۲۶۵، ۲۷۸، ۲۸۲، ۳۱۳، ۴۰۸، ۴۰۹، ۴۲۸، ۴۵۴، ۴۵۵، ۴۶۰، ۵۰۱ پانی پت: ۲۹۵، ۴۳۷ پبلک سروس کمشن، لاہور: ۲۹۷، ۲۹۸ پٹنہ: ۱۵، ۱۸۹، ۲۶۲ پٹیالہ (ریاست): ۲۷۶ پرانی کوتوالی لاہور: ۲۱۰، ۲۲۲ پشاور: ۷۷، ۳۷۴ پنجاب: ۲۵، ۳۷، ۴۳، ۶۹، ۷۱، ۸۶، ۹۹، ۱۰۰، ۱۱۳، ۱۴۲، ۱۸۷، ۱۸۸، ۲۰۹، ۳۰۸، ۳۱۰، ۳۷۰، ۳۸۸، ۴۴۲، ۴۴۵، ۴۴۸، ۴۴۹، ۴۵۴، ۴۸۵، ۵۱۱، ۵۲۰ پنجاب اسمبلی: ۱۸۷، ۲۲۵ پنجاب پبلک لائبریری: ۱۰۴ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی: ۴۴۵ پنجاب مسلم لیگ: ۲۴۶ پنجاب یونیورسٹی، لاہور: ۳۱، ۱۱۳ تا ۱۱۵، ۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۹، ۲۴۰، ۳۳۵، ۳۹۹، ۴۸۳، ۴۸۴، ۵۰۱، ۵۰۲ پنجاب سائمن کمشن: ۴۲۲، ۴۲۳ پورٹ سعید: ۲۹۰ پونہ: ۴۶۷ پیرس: ۹۱، ۲۶۳، ۲۶۷، ۲۶۸، ۲۷۲، ۳۸۲، ۲۸۳، ۳۸۵، ۴۱۱، ۴۱۶، ۴۷۶، ۵۰۱، ۵۱۶ پیرس یونیورسٹی: ۵۱۶ ت تاج محل: ۴۰۱ تحریک ترک موالات: ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۲، ۱۱۴ تحریک عدم تعاون: ۱۱۱، ۱۲۵، ۳۹۲ ترکی: ۵۳، ۳۲۷، ۴۱۳، ۴۱۴، ۴۱۶، ۴۱۷ تکیہ سادھواں، لاہور: ۱۷۸ تہران: ۴۰۸، ۴۱۰، ۴۱۲ تھیوسوفیکل سوسائٹی، مدراس: ۱۸۵ ٹ ٹاؤن ہال، میسور: ۳۳۸ ٹبی بازار (لاہور) : ۴۲۵ ٹکسالی دروازہ : ۴۳۴ ٹونک: ۲۰۴ ٹیکنیکل سکول (لدھیانہ): ۳۰۰ ج جاپان: ۳۲۱ جالندھر: ۳۲۸ جامع مسجد (دہلی): ۳۱۲ جامعہ ازھر: ۲۶۵، ۴۰۷ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی: ۴۳، ۱۱۰، ۱۳۸، ۱۳۹، ۳۵۶، ۴۱۶، ۴۱۸، ۴۱۹ جاوید منزل: ۴۷، ۲۹۶، ۴۳۳، ۴۴۹، ۴۵۲، ۴۶۸، ۴۹۰، ۵۱۰ تا ۵۱۳، ۵۱۶ جرمنی: ۶، ۵۲ تا ۵۵، ۵۸، ۶۰، ۱۳۰، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۲، ۱۶۱، ۱۸۳ تا ۱۸۵، ۲۷۸، ۳۱۹، ۳۵۶، ۳۸۵، ۴۱۳، ۴۲۷ جلیاں والا باغ: ۱۲۵، ۴۰۳ جمعیت الاقوام: ۱۵۵ جمعیت علمائے ہند: ۱۱۴، ۱۲۴، ۱۲۵، ۳۱۱، ۴۲۰ جمنا (دریا): ۱۸۸ جموں: ۷۴، ۸۳، ۸۸، ۴۲۷ جنجیرہ: ۶۰ جنوبی ہند: ۴۴ جنوبی ہسپانیہ: ۲۸۵ جونپور: ۲۹۸ جہلم: ۹۶ جھنگ: ۳۲۱ چ چابک سواراں (محلہ): ۱۷۴، ۱۷۸ چاندنی چوک (دہلی) : ۳۱۲ چتوڑ: ۳۵۰ چک نمبر۸۸ آر۔ بی، لائلپور: ۴۵۵ چنگڑ محلہ، لاہور: ۲۶، ۴۰ چنیوٹ: ۳۲۱ چوبرجی، لاہور: ۱۷۵ چہل بیبیاں، محلہ، لاہور: ۹۰، ۲۴۲، ۲۴۳، ۴۱۱ چیرنگ کراس، لندن: ۲۸۱ چیف کورٹ، لاہور: ۲۷ (دیکھئے ہائی کورٹ) چیفس کالج، لاہور: ۳۶ چین: ۱۷۹، ۳۴۰ چینیاں والی مسجد لاہور: ۱۷۸ ح حبیبیہ ہال، لاہور: ۱۱۰، ۳۰۳، ۳۶۳ حجاز: ۱۱۵، ۱۱۷، ۴۰۶ حسن ابدال: ۳۷۹ حسینیہ ارشاد (تہران): ۴۱۲ حضوری باغ (لاہور): ۵۱۳ حیدر آباد (دکن): ۵۳، ۶۱، ۷۸، ۱۲۴، ۱۲۹، ۱۶۸، ۱۷۰، ۲۰۵، ۲۱۵، ۳۰۶، ۳۴۰ تا ۳۴۲، ۳۵۸، ۳۶۶، ۳۹۰، ۴۰۰، ۴۱۱، ۴۴۰، ۴۶۶، ۴۶۷، ۴۶۹، ۴۸۸ خ خراہان: ۲۵۶ خضری محلہ (لاہور): ۴۴۱ خطہ صالحین (حیدر آباد دکن): ۱۲۴ خلافت ہاؤس: ۲۶۶ خورشید منزل بلال گنج: ۴۶۱ خیر پور (سندھ) ۷۸ د دار الاشاعت پنجاب: ۱۷۱، ۲۲۹، ۴۳۲، ۴۸۲ دار الترجمہ حیدر آباد: ۴۸۸ دار المصنفین (اعظم گڑھ): ۲۰۵ دانشگاہ پنجاب (پریس): ۲۴۷ دائرۃ المعارف (حیدر آباد دکن ): ۲۰۵ دکن: ۵۳، ۷۸، ۱۶۸، ۳۴۲، ۳۵۳ دلی دروازہ لاہور: ۵۱۲ دولت باغ (میسور): ۳۳۷، ۳۵۲ دہلی: ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۴۹، ۱۱۰، ۱۱۴، ۱۲۰، ۱۲۱، ۲۹۵، ۳۰۸ تا ۳۱۰، ۳۱۲، ۳۱۶، ۳۱۷، ۳۱۹، ۳۴۲، ۳۹۵، ۳۹۹، ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۱۶ تا ۴۱۸، ۴۶۴، ۴۷۷ دہلی بازار میرٹھ: ۲۳۶ دہلی دروازہ لاہور: ۱۷۵، ۲۲۲، ۴۳۹ دہلی ریڈیو سٹیشن: ۲۹۷ دہلی یونیورسٹی: ۹، ۴۰۱ دیسنہ: ۱۵ دیوبند: ۴۶، ۸۳، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۲۸، ۱۳۷ ڈ ڈبی بازار لاہور: ۵۱۲ ڈسکہ: ۳۰ ڈھاکہ: ۷۸، ۲۸۰ ڈھاکہ یونیورسٹی: ۲۹۶ ڈی۔ اے۔ وی کالج: ۲۱۶ ڈی۔ پی سکول لدھیانہ: ۱۱۲ ڈیرہ دون: ۳۶۶ ر رانچی: ۲۰۳ رائے کوٹ: ۲۹۹ راولپنڈی: ۸۱، ۴۶۰ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس : (دیکھئے گول میز کانفرنس) راوی، دریا: ۲۱۱ روضہ حکیم سنائی (غزنی): ۲۷۳ رندھیر کالج، کپور تھلہ: ۹۶ رنگ محل، لاہور: ۱۷۸ رواز ہوسٹل، لاہور: ۱۱، ۷۵، ۹۳ روس: ۵۰۱ روم: ۱۱۹، ۲۹۰ ریلوے روڈ (لاہور): ۴۲۷ س سائمن کمشن: ۲۴۶ تا ۲۴۸، ۳۱۶ سبحان منزل، لدھیانہ: ۱۶۳ سپین: ۲۸۲، ۲۸۴، ۲۸۷ تا ۲۸۹، ۳۸۰، ۳۸۴ سٹریچی ہال: ۲۹۲، ۳۴۳ سٹی کالج حیدر آباد: ۴۷۴ سرنگا پٹم، قلعہ: ۳۳۴، ۳۳۵، ۳۳۷، ۳۳۸ ، ۳۴۵تا ۳۴۷، ۳۴۹، ۳۵۰ سرہند: ۱۹۲ سری نگر: ۱۸ تا ۸۳ سریاں والا بازار، لاہور: ۱۷۴ سکندر آباد: ۳۴۰ سمرہل: ۳۸۸ سنٹرل ماڈل سکول: ۱۶۴ سندھ (صوبہ): ۷۸ سنہری مسجد، لاہور: ۱۷۴، ۱۸۰، ۵۱۳ سوڈان: ۲۵۹ سیالکوٹ: ۶، ۷، ۱۱، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۳۰، ۴۳، ۸۹، ۱۶۴ تا ۱۶۸، ۲۲۵، ۲۳۴، ۲۴۴، ۳۴۳، ۵۰۱، ۵۲۲ سید مٹھا بازار، لاہور: ۳۵ سیسل ہوٹل: ۳۸۸ سینٹ جینز، پیلس: ۲۶۸ ش شالا مار باغ: ۲۲۱ شاہ پور: ۴۶۷ شاہی مسجد، لاہور: ۹۲، ۴۶۶، ۴۶۷، ۵۱۱ تا ۵۱۳ شمالی ہند: ۲۳۲ شملہ: ۲۷، ۴۳، ۱۸۳، ۲۲۵، ۳۰۵، ۳۸۸، ۴۲۲، ۵۰۵ شیرانوالہ گیٹ، لاہور: ۲۳، ۲۴، ۴۴۱، ۴۴۲ ط طرابلس: ۹۲ تا ۹۴، ۹۹ ع عبدالرحمن اینڈ سن (مال روڈ لاہور): ۴۶۲، ۴۶۳ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد): ۳۴۰، ۳۴۱ عجم: ۲۱۴ عدن: ۲۶۳ عرب: ۱۱۷، ۱۷۹، ۳۴۰، ۴۰۸ عرب ہوٹل (لاہور)َ: ۴۲۷ علامہ اقبال روڈ (میو روڈ) لاہور: ۴۷، ۲۲۴، ۴۶۸ علی گڑھ: ۲۸، ۳۳، ۴۴، ۵۱، ۸۲، ۱۳۱، ۲۲۱، ۲۴۵، ۲۹۲، ۲۹۴، ۲۹۵، ۲۹۷، ۲۹۸، ۳۰۶، ۳۴۲، ۴۶۳، ۴۶۴ علی گڑھ یونیورسٹی (دیکھئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) علی گڑھ کالج: ۲۹۲، ۲۹۳ علی گڑھ ہائی سکول: ۳۴۳ غ غزنی: ۲۷۳، ۳۷۶ ف فرانس: ۵۲، ۱۰۰، ۲۶۰، ۲۶۵ فرید چوک (امرتسر): ۴۰۳ فلسطین: ۲۶۵، ۲۶۶، ۲۷۲، ۲۷۵، ۴۰۵، ۴۰۷ فلیمنگ روڈ لاہور: ۱۹۱، ۵۱۹ فورٹ سنڈیمن: ۱۳، ۴۷۳ فیروز پور: ۱۲۴، ۱۶۵ فیروز سنز، لاہور: ۲۷۵ فین روڈ (لاہور): ۲۱۵ ق قادیان: ۲۷۲، ۴۰۶ قاسم العلوم، مدرسہ: ۱۲۳ قاہرہ: ۲۶۵، ۲۶۶، ۴۰۷، ۴۵۹ قرطبہ: ۲۸۴، ۲۸۵ قسطنطنیہ: ۵۳، ۱۸۳، ۴۱۳ قلعہ گوجر سنگھ (لاہور): ۳۶۵، ۴۶۴، ۵۲۰ قندھار: ۳۷۴، ۳۷۶ قومی کتب خانہ (لاہور): ۴۲۷ ک کابل: ۴۶، ۱۸۳، ۳۷۲، ۳۷۶، ۳۷۷، ۴۸۶ کابلی محل، حویلی: ۱۷۳ کالکا ریلوے سٹیشن : ۲۷ کانپور: ۲۷، ۲۲۸ کانگریس: ۴۱، ۲۴۸، ۳۱۱، ۳۱۶، ۳۹۰، ۳۹۲، ۴۰۳، ۴۰۵، ۴۴۶، ۴۴۷، ۴۹۹ کاویری، دریا: ۳۳۴، ۳۳۷، ۳۳۸ کراچی: ۲۶، ۲۸، ۴۳، ۶۳، ۶۶، ۲۳۸، ۴۹۲ کربلاے معلی: ۳۳ کشمیر: ۸، ۹، ۷۴، ۸۱، ۸۲، ۸۶، ۸۸، ۱۰۸، ۱۳۸، ۲۴۳، ۳۷۸، ۳۷۹، ۴۷۱ کشمیری بازار، لاہور: ۱۷۹، ۱۸۰، ۲۱۰، ۳۶۸، ۴۰۴ کعبۃ اللہ: ۲۵۹، ۲۹۰، ۴۵۵ کلکتہ: ۲۴۷، ۳۱۱، ۳۲۱، ۳۳۰، ۳۵۳ کلکتہ کنونشن : ۳۱۱ کوٹنگٹن یونیورسٹی: ۱۳۱ کوچہ جلوٹیاں: ۳۹ کوچہ کوٹھی داراں: ۱۷۹، ۲۱۰ کوچہ ہنومان، لاہور: ۳۰، ۳۵، ۳۶ کوڈرینگل ہوسٹل (دیکھئے گورنمنٹ کالج ہوسٹل) کورن ویل روڈ: ۵۱ کولایا (ریلوے سٹیشن، بمبئی): ۳۱۹ کولمبیا یونیورسٹی: ۲۰۴، ۲۹۹، ۴۵۸ کونسل، پنجاب : (دیکھئے لیجس لیٹو کونسل پنجاب ) کوہاٹ: ۴۴۹ کوئٹہ: ۳۷۴ کیمبرج یونیورسٹی : ۵۱، ۵۴، ۵۵، ۱۰۲، ۱۰۶، ۱۳۷، ۱۴۲، ۱۸۳، ۱۸۴، ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۰۱، ۲۲۴، ۲۵۰، ۲۵۲، ۲۷۴، ۲۷۷، ۲۸۳، ۴۴۸ کیمبل پور: ۴۱ گ گجرات: ۱۶۲ گڈول: ۳۸۸ گرگ یا گورگ: ۳۳۹، ۳۵۲ گمٹی بازار، لاہور: ۳۰، ۳۵ گنج: ۲۲۳ گنجام: ۳۴۶ گنگا (دریا): ۱۸۸ گوجرانوالہ: ۷۷ گورنمنٹ کالج لاہور: ۱۵، ۲۱، ۲۵، ۲۷ تا ۳۳، ۳۵، ۳۸، ۶۴، ۶۹، ۷۲، ۹۴، ۱۳۵، ۲۱۰، ۲۲۱، ۲۴۵، ۲۷۶، ۴۹۱ گورنمنٹ کالج ہوسٹل (اقبال ہوسٹل): ۱۸، ۲۱، ۴۷۳ گورنمنٹ کالج مدراس: ۳۳۰ گورنمنٹ ہاؤس میسور: ۳۳۵ گوکھلے ہال (مدراس): ۳۲۲، ۳۲۶ گوشہ ہسپتال (مینگلور): ۳۳۳ گول باغ، لاہور: ۴۶۱ گول میز کانفرنس: ۱۴، ۴۴، ۶۱، ۶۲، ۱۰۶، ۱۱۰، ۱۱۹ تا ۱۲۱، ۱۳۹، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۲، ۲۶۳، ۲۶۵، ۲۶۷ تا ۲۶۹، ۲۷۱، ۲۷۴، ۲۸۳، ۲۹۰، ۳۱۷، ۳۴۳، ۴۰۵، ۴۰۷، ۴۶۱، ۵۰۷ کولکنڈہ: ۳۴۲ ل لا سکول، لاہور: ۷۱ لا کالج، لاہور: ۳۶ لال باغ (گنجام): ۳۴۶، ۳۵۲ لاہور: ۶، ۸، ۱۳، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۴ تا ۲۶، ۲۹ تا ۳۱، ۳۵، ۳۷ تا۳۹، ۴۱، ۴۳، ۴۴، ۴۹، ۶۵، ۶۷، ۶۹، ۷۱، ۷۳، ۷۸، ۷۹، ۸۱، ۸۵، ۸۶، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۹۹، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۰۹ تا ۱۱۱، ۱۱۳ تا ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴ تا ۱۲۹، ۱۲۵، ۱۳۷ تا ۱۳۹، ۱۴۴، ۱۶۲ تا ۱۶۵، ۱۷۰، ۱۷۱، ۱۷۳ تا ۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۸، ۱۸۱، ۱۸۳، ۱۸۵، ۱۸۸ تا ۱۹۰، ۱۹۳، ۱۹۴، ۲۰۲، ۲۰۳، ۲۰۵ تا ۲۰۸، ۲۱۰، ۲۱۲ تا ۲۱۵، ۲۲۰، ۲۲۲، ۲۲۸، ۲۳۱، ۳۳۶ تا ۲۳۸، ۲۴۲، ۲۴۳، ۲۴۷، ۲۶۶، ۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۱، ۲۷۳، ۲۷۶، ۲۸۰، ۲۸۲، ۲۸۴، ۲۹۳، ۲۹۵ تا ۲۹۷، ۳۰۱ تا ۳۰۴، ۳۰۶، ۳۰۹، ۳۱۰، ۳۳۴، ۳۳۷، ۳۴۲، ۳۴۳، ۳۵۸، ۳۵۹، ۳۶۴، ۳۶۶، ۳۷۱، ۳۷۳، ۳۷۸، ۳۸۹ تا ۳۹۱، ۲۹۶، ۳۹۷، ۳۹۹، ۴۰۱، ۴۰۴، ۴۱۱، ۴۱۶، ۴۲۳، ۴۲۵، ۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۳، ۴۳۵، ۴۳۹، ۴۴۱، ۴۴۴، ۴۴۶، ۴۴۹، ۴۵۱، ۴۵۶، ۴۵۹، ۴۶۰، ۴۶۴، ۴۶۶ تا ۴۶۸، ۴۷۳، ۴۸۰، ۴۸۸، ۴۸۹، ۴۹۴ تا ۴۹۶، ۴۹۹، ۵۰۳، ۵۰۷، ۵۰۸، ۵۱۱، ۵۱۳، ۵۱۴، ۵۱۹ لاہور چھاؤنی: ۱۳۵، ۱۷۵ لاہور ریلوے سٹیشن: ۱۶۶، ۱۶۷، ۲۸۴، ۲۹۶، ۳۰۹، ۳۷۳، ۴۰۴ لائل پور: ۴۵۴، ۵۵۴ لپزگ (جرمنی): ۱۳۸، ۱۴۲، ۱۸۳، ۴۱۳ لدھیانہ: ۱۳، ۴۰، ۱۲۳، ۱۲۴، ۱۳۵، ۱۶۲ تا ۱۶۵، ۲۲۳، ۲۲۵، ۲۲۹، ۹۹تا ۳۰۲، ۳۰۶، ۴۵۲، ۴۹۴ لکھنو: ۱۹، ۲۳۷، ۲۳۸، ۳۱۷، ۳۸۹، ۴۸۸ لندن: ۱۴، ۲۸، ۵۱، ۵۲، ۵۴، ۷۵، ۸۵، ۶۱، ۶۲، ۶۴، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۱۹، ۱۴۴، ۱۹۷، ۲۴۸ تا ۲۵۰، ۲۶۲، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۴، ۲۷۶، ۲۹۰، ۳۰۶، ۳۱۷، ۳۳۳، ۳۳۷، ۳۴۳، ۳۴۴، ۳۸۰، ۴۰۵، ۴۰۷، ۳۳۴، ۳۸۰، ۴۰۵، ۴۰۷ لندن مسلم گراز انسٹی ٹیوٹ ڈھاکہ: ۵۰ لندن یونیورسٹی : ۱۸۴ لوجرنہ: ۹ لیجسلیٹو کونسل، پنجاب: ۴۳، ۴۷، ۱۳۶، ۱۷۳، ۱۷۷، ۱۸۱، ۱۹۳، ۳۰۸، ۳۶۲، ۳۶۴، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۷۰، ۴۸۵، ۴۹۶ م مال روڈ، لاہور: ۱۳۵، ۴۶۲ مالطہ: ۲۰۳ مالیر کوٹہ: ۱۱۶ مجلس احرار: ۳۷۸ مجلس ارسطو، لندن: ۳۴۴ محمد علی ہال (دہلی): ۴۱۷ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس: ۳۸۶ محمڈن ہال، لاہور: ۲۴، ۹۳، ۹۴، ۱۹۰، ۳۷۲، ۴۳۰ مدراس: ۶۳، ۱۲۹، ۱۸۵، ۲۰۴، ۲۰۵، ۲۹۹، ۳۰۴ تا ۳۰۸، ۳۱۰، ۳۱۹ تا ۳۲۳، ۳۲۶، ۳۱۰، ۳۱۹ تا ۳۲۳، ۲۲۶تا ۳۳۲، ۳۳۶، ۳۴۱، ۳۹۰، ۴۰۰، ۴۶۳، ۵۲۱ مدرسہ اہل حدیث (لدھیانہ): ۳۰۲ مدرسہ جمالیہ (مدراس): ۳۰۴، ۳۲۱، ۳۳۰ مدرسہ دیوبند: ۱۲۴ مدرسہ عالیہ کلکتہ: ۲۰۶ مدرسہ فیض عام (بارہ مولا): ۸۳ مدینہ منورہ: ۲۹۰ مڈل ایسٹ: ۲۷۲ مرکزی پبلیکیشن، کلکتہ: ۲۴۷ مریاہو(قریہ): ۲۹۸ مزنگ چونگی، لاہور: ۷۵ مز نگ لاہور: ۱۱۲ مستی گیٹ، لاہور: ۴۴۱ مسجد اعلیٰ، سرنگاپٹم: ۳۳۷، ۲۵۳ مسجد اقصیٰ: ۲۴۹ مسجد داتا صاحب: ۲۲۴ مسجد شہید گنج: ۴۴، ۱۷۶ مسجد قرطبہ: ۲۸۴تا ۲۸۹ مسجد کانپور: ۲۲۹ مسجد وزیر خاں: ۲۲۲ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (علی گڑھ) ۸۲ مسلم ایسوسی ایشن (امریکہ): ۲۹۹، ۳۰۰ مسلم ایسوسی ایشن (مدراس): ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۲۳، ۳۳۰ مسلم کانفرنس: ۱۸۸، ۲۴۸ مسلم لائبریری، بنگلور: ۳۳۳ مسلم لیگ: ۱۸۸، ۳۱۱، ۳۱۷، ۳۹۷، ۴۰۳، ۴۰۶، ۴۴۸، ۴۴۹ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ: ۶۱، ۱۰۹، ۱۲۹، ۱۸۳، ۲۲۱، ۲۹۴، ۲۹۷، ۳۴۲، ۵۰۵ مشرق اقصیٰ: ۲۵۳ مشرقی بنگال:ـ ۳۹۷ مشن کالج سیالکوٹ: ۲۱‘۳۸‘۴۵۱ مشن ہائی سکول لاہور: ۱۷۸۔ مصر: ۱۸۳‘۲۶۵‘۳۷۸‘۴۰۷‘۴۰۸۔ مطبع صالح (بنگلور) : ۳۵۵ مظفر آباد (آزاد کشمیر) : ۲۱۷‘۲۱۸‘۳۷۹ مقبرہ جہانگیر: ۲۹ ملتان: ۷۹‘۳۶۶‘۴۸۵ منڈی بہائو الدین: ۲۱۹ منگلا ڈیم: ۳۷۹ موتمر عالم اسلامی: ۲۶۵‘۲۶۶۔ موچی دروازہ لاہور: ۷۶‘۹۳‘۱۹۴۔ موری دروازہ لاہور: ۸۷ موگا: ۱۲۴ مولی پٹاں کا مکان ‘لاہور: ۳۹ موہن لال روڈ‘ لاہور: ۲۶‘۴۰‘۴۳۵ میانوالی: ۱۷۵ میڈرڈ: ۲۸۲‘۱۸۰‘۳۸۱۔ میرٹھ: ۲۳۵‘۲۳۶ میسور: ۳۳۳تا ۳۳۹‘۳۴۱‘۳۴۷‘۳۴۹‘۳۵۳‘۳۵۴ میسوریونیورسٹی: ۳۳۵‘۳۳۸‘۳۳۹ مے فئیر ہوٹل (لندن) : ۲۷۵ میکلوڈ روڈ ‘ لاہور: ۱۳‘۱۴‘۲۹تا ۳۱‘۴۲‘۱۳۵تا۱۳۷‘۱۲۶‘۱۶۳‘۱۶۵‘۱۷۷‘۱۸۰‘۲۰۷‘ ۲۴۵‘۳۰۲‘۳۰۳‘۳۶۵‘۴۲۶‘۴۲۸‘۴۴۵‘۴۶۲‘۴۷۸‘۵۰۴ میو روڈ (دیکھیے علامہ اقبال روڈ) میونک(سٹی) : ۵۹ میونک یونیورسٹی (جرمنی): ۶‘۵۴‘۴ میونسپل کمیٹی ‘ لاہور: ۴۴۹ میونسپل کمیتی‘ ملتان: ۷۹ میونسپل گارڈن (دیکھیے گول باغ) میوہ منڈی (لاہور) : ۱۹۱ ن ناصر حویلی ‘ لاہور: ۹ نثار حویلی : ۲۴۲ ندوۃ العلماء (لکھنو) : ۳۰۴ نواب پیلس لاہور: ۲۴۲‘۲۴۳ نوبل پرائز: ۲۳۲ نیشنل لیگ آف لندن: ۲۶۸ نیو ایرا تھیٹر ‘ لاہور: ۱۸۰ نیو مارکیٹ‘ لاہور: ۴۰ نیو یارک: ۲۲۹‘۴۵۸ و والٹر لا ک کمپنی: ۱۳۵ والنٹئرز: ۱۸۸ وائنا: ۲۷۰ وائی۔ ایم ۔ سی ۔ اے ہال لاہور: ۲۴۰‘۴۵۶ وزیر آباد: ۱۳ ولادا وسٹا: ۲۴۱‘۳۴۲ ولایت: (دیکھیے انگلستان) ومبلڈن: ۵۷ وینس: ۲۶۷ ہ ہائیڈل برگ: ۵۳‘۵۴‘۵۸تا۶۰ ہائیڈل برگ یونیورسٹی: ۵۹ ہائی کورٹ ‘ لاہور: ۲۷‘۴۱‘۴۲‘۶۹تا۷۲‘۱۶۴‘۱۶۵‘۲۱۵‘۴۶۲ ہائی کورٹ مدراس: ۳۲۲ ہائی گیٹ (لندن) : ۲۷۴ ہسپانیہ: (دیکھیے سپین) ہلال احمر: ۱۸۳ ہندوستان: ۴‘۵‘۲۰‘۳۹‘۵۰تا۵۲‘۵۴‘۵۷‘۵۸‘۶۰‘۶۵‘تا۶۷‘۸۹‘۱۰۱‘۱۰۳‘۱۰۴‘۱۰۷‘ ۱۰۹‘۱۱۰‘۱۱۴‘۱۲۰‘۱۲۱‘۱۲۵‘۱۴۱‘۱۴۵‘۱۷۵‘۱۷۹‘۱۸۳‘۱۸۵تا۱۸۸‘۱۹۶‘۱۹۸‘۲۱۲‘۲۱۶‘۲۳۷‘ ۲۳۸‘تا ۲۴۹‘۲۵۸‘۲۶۷‘۲۶۸‘۲۷۵‘۲۷۸‘۲۸۴‘۲۹۱‘۳۰۴‘۳۱۱‘۳۱۳‘۳۱۵‘۳۱۷‘۳۳۳‘۳۲۷‘ ۳۳۵‘۲۴۰‘۳۵۲‘۳۵۸‘۳۸۸‘۳۹۰‘۳۹۷‘۴۰۳‘۴۰۹‘۴۱۲‘۴۱۴‘۴۲۱‘۴۴۶‘۴۶۰‘۴۸۷‘۵۰۰‘ ۵۰۴‘ ۵۱۳‘۵۱۴ ہندو یونیورسٹی بنارس: ۱۰۹ ہندی پرچار سبھا: ۳۲۸ ہوار (کلکتہ): ۳۳۰ ہوشیار پور: ۲۹۹‘۴۳۲‘۴۵۱ ی یادگار آفس: ۴۳۹ یوتھ لیگ کانفرنس: (دیکھیے آل انڈیا مسلم لیگ یوتھ لیگ کانفرنس) یورپ: ۵‘۶‘۲۵‘۲۶‘۴۹‘۵۰‘۶۰‘۶۲‘۶۴‘۶۹‘۷۰‘۷۲‘۷۵‘۹۴‘۹۹‘۱۰۱‘۱۰۷‘۱۳۹‘۱۵۷‘ ۱۶۴‘۱۶۵‘۱۹۰‘۲۱۹‘۲۵۶‘تا۲۵۹‘۲۶۷‘۲۵۰‘تا۲۷۲‘۲۸۴‘۲۹۲‘۳۲۱‘۳۲۷‘۳۵۸‘۳۶۳‘۳۶۴‘ ۳۶۶‘ ۳۸۱‘۳۸۳تا۳۸۷‘۴۲۹‘۴۳۱‘۴۵۲‘۴۶۷‘۴۸۷‘۵۰۰‘۵۰۱‘۵۶۱‘ یونان: ۴۵۰ یونیورسٹی پریس ‘ لاہور: ۱۴۴‘۱۹۸ یونیورسٹی گرائونڈ‘ لاہور: ۱۷۴ یونیورسٹی لائبریری ‘ لاہور: ۵۰۱‘ ۵۰۲ ٭٭٭ کتب اخبارات و رسائل ‘ مقالات و مضامین آ آبزرور: ۷۹ آتش(مجلہ) : ۴۱۳ آج کل: ۱۵‘۱۶‘۱۹۶ آرٹ اینڈ کلچر: ۱۴۰ آفاق: ۲۲۰ آنحضرت صلعم: ۴۲۷ الف اتقان فی ماہیۃ الزمان: ۲۰۴ اجتھاد فی الاسلام (مقالہ): ۳۰۲ احسان: ۵۰۰ احیاء العلوم: ۳۸۳‘ ۳۸۴‘۳۸۷ احیائے فکر اسلامی: ۴۱۲ ارتقائے تخلیقی: ۱۴۳ ارتقائے ما بعد الطبیعیا ت در ایران: ۱۷۹‘۱۹۸‘۲۸۴ ارمغان حجاز: ۲۲۰ اسرار خودی: ۴‘۱۱‘۴۱‘۸۹‘۹۵‘تا ۹۸‘۱۰۱‘ ۱۴۳‘۱۱۴۴‘۱۸۳تا ۱۸۶‘ ۱۹۸‘۲۱۶‘۲۵۵‘۲۸۴‘ ۴۱۲‘ ۵۲۰ اسرار خودی (مضمون): ۹۶ اسفار: ۱۹۷ اسلام ایز اے مارل اینڈ پولیٹکل آئیڈیل (مقالہ): ۷۰ اسلامک کلچر (مجلہ حیدر آباد): ۱۲۹‘۳۵۸ اسلامیات (عنوان رسالہ سہیل): ۲۹۳ اسلامیکا: ۱۳۸‘۱۴۲‘۱۶۱‘۱۸۳‘۱۸۴ اسلامی دماغی دنیا اور سپین: ۲۸۲ اسماء الرجال اقبال (مضمون) : ۲۲۶ اصلاح (اخبار): ۳۷۵ افکار: ۲۳۲‘۲۳۳‘۲۳۵ افکار و حوادث: ۲۱۱‘۲۳۴ اقبال اور قرآن: ۴۶۶ اقبال ایٹ اے کالج ریسیپشن ان لاہور (مضمون) : ۲۸ اقبال…ایرانیوں کی نظر میں: ۴۱۲ اقبال… چند جواہر ریزے: ۲۸۵ اقبال…چند یادیں: ۴۹۹ اقبال (رسالہ): ۴۸۲ اقبال ریویو: ۲۸ اقبال قرآ ن کی روشنی میں: ۴۶۶ اقبال کے خطوط اور تحریریں: ۴۹۲ اقبال لاہوری: ۴۱۱ اقبال(مجموعہ کلام): ۱۷۰ اقبال(مقالہ): ۵۳ اقبال نامہ: ۴۶‘ ۱۳۴۱۲۷‘ ۲۰۲‘۲۲۹‘۳۰۴‘۳۸۳‘۳۹۴‘۴۶۷‘۳۸۳‘۴۸۶‘۴۹۱ اقبال نامہ (از چراغ حسن حسرت): ۴۳۰‘۴۳۲ اقبال کا تنقیدی جائزہ: ۶۷ اکال الکل (مضمون) : ۲۲۶ اکبر پیش رو اقبال: ۴۸۲ الامامۃ والسیاسۃ : ۲۷۵ الاھرام: ۱۸۳ الڈیبیٹ: ۲۸۲ السبوعہ: ۲۶۵‘۲۶۶‘۴۰۸ الشفا: ۳۸۷ الکلام (روزنامہ): ۳۳۲‘۳۳۸ المعارف: ۲۷۵ الموافقات: ۴۴‘۳۰۲‘۴۹۵ النمل (سورۃ قرآن) : ۲۷۷ الھدایہ: ۲۹۹ امان افغان: ۱۸۳ امروز: ۵۰۱ انجیل مقدس: ۱۸۴ انحطاط مغرب: ۱۳۰‘۱۳۱‘۵۰۲ انڈین انٹی کوئٹی: ۲۶ انڈین ریویو: ۱۸۵‘۱۸۶ انسائیکلو پیڈیا برطانیکا: ۳ انقلاب (اخبار) : ۱۲‘۱۲۱‘۱۸۱‘۱۸۲‘۲۰۸‘۲۱۱‘۲۳۷۲۳۴تا۲۳۹‘ ۲۴۶‘ ۲۴۹‘۲۵۰‘۳۱۲‘ ۲۸‘۳۴۳‘ ۳۷۲‘ ۴۲۲تا ۴۲۴۔ انوار اقبال: ۲۳۸‘۳۲۹‘۳۷۶‘۴۹۲ اورئنٹل کالج میگزین: ۱۲۹ ایران میں مطالعہ اقبال: ۴۱۳ ایسٹرن ٹائمز: ۲۸۴ ایشیاٹک سوسائٹی رسالہ: ۱۰۴‘۱۸۴ (نیز دیکھیے رائل ایشیاٹک سوسائٹی) اینتھم: ۱۰۱‘۱۰۲‘۱۰۴‘۱۸۵ اے وائس فرام دی ایسٹ: ۲۶۸ ب باقیات اقبال: ۱۷۲ بال جبریل: ۲۸۵‘۲۸۷‘۲۸۹ بانگ درا: ۱۲‘۳۰‘۴۳‘۶۷‘۱۶۹‘۱۷۱‘۱۷۲‘۲۲۹‘۳۲۹‘۴۴۵‘۴۸۱‘۴۸۲ بخاری شریف: ۱۲۸ بمبئی کرانیکل: ۴‘۲۷۹ بندگی نامہ: ۲۵۷ بہارستان: ۲۱۳ بیاد اقبال: ۲۹۵ پ پاکستان ٹائمز: ۱۰۵ پاکستان ریویو: ۱۰۵ پرافٹ آف دی ڈیزرٹ: (دیکھیے پیغمبر صحرا) پس چہ باید کرد اے اقوام شرق: ۳۷۷ پنجاب پنچ: ۴۳۹ پنجابی کسان : ۲۶‘۴۴۸ پولیٹکل اکانومی : ۵۷ پولیٹکل تھاٹ ان اسلام: ۷۰ پیام مشرق: ۴۱‘۴۳‘۱۰۴‘۱۳۷تا۱۴۲ ‘۱۴۵تا۱۴۷‘ ۱۵۸‘۱۸۱‘۱۸۳تا ۱۸۵‘ ۲۰۳‘ ۲۵۵‘۲۵۶‘۲۶۵‘۲۷۸‘ ۳۷۱‘۴۰۸‘۴۱۶ پیام مشرق(مضمون): ۱۸۶ پیسہ اخبار: ۱۲‘۲۳‘۲۲۴ پیام اقبال (مقالہ): ۲۹۳ پیغام حق: ۱۳۸ پیغمبر خدا: ۴۶۰ ت تاریخ ادب اردو: ۴۷۳ تاریخ ادبیات ایران: ۱۴۴ تاریخ ادبیات و زبان فارسی: ۱۸۴: ۱۹۶‘ ۱۹۷‘ ۲۰۰ تاریخ اورئینٹل کالج لاہور: ۲۵ تاریخ گو اقبال(مضمون) : ۲۲۰ تاریخ کشمیر: ۸تا۱۰ تاریخ لاہور: ۴۲‘۷۳ تبصرہ پیام مشرق: ۱۳۹‘۱۴۲‘۱۹۹ تذکرہ: ۱۲۸ ترجمہ اسرار خودی: ۱۰۱‘۱۰۳تا ۱۰۵‘ ۱۹۹‘۴۸۴ تعلیمات اقبال: ۳۶۸ تصوف وجودیہ: ۹۷ تفسیر ابن عباس: ۴۹۴ تقابل ادیان عالم: ۲۳۹ تمدن عرب: ۵۱ تہذیب نسواں: ۵۲ ٹ ٹائمز آف انڈیا: ۵ ٹائمز (بمبئی): ۳۲۶ ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ: ۱۰۲ ٹریبیون: ۳۷۱ ج جاوید نامہ: ۲۵۷تا ۲۵۹‘۳۶۰‘۴۹۰ جدید علم و ادب کا طلوع: ۱۸۶ جسٹس (اخبار) : ۳۲۸ جمہوریت اسلام (مضمون) : ۱۵۷‘۱۹۹ جوہر (دہلی): ۲۹۵ جوہر اقبال: ۹۶ جوہر الفرد: ۲۰۵ چ چٹان: ۱۶۴ چیٹر جی البم: ۳۵۷ ح حجتہ اللہ البالغہ: ۲۰۴ حق: ۱۰۰ حکمت الاشراق: ۱۴۴ حکمت العرشیہ: ۱۹۷ حیات شبلی: ۳۸۶ خ خطبات مدراس: ۱۲۹‘۲۹۹‘۳۴۲‘۴۱۴ خطبہ اورئینٹل کانفرنس: ۱۲۹ خطوط اقبال بنام محمد علی جناح: ۲۶‘۴۹۲ خطوط اقبال: ۴۹۲ خود نگرے: ۱۳۷ خوں بہا: ۱۹ د داراشکوہ(ڈراما): ۳۳ درۃ المختار: ۲۹۹ دی ڈاکٹرائن آف دی ابسولیوٹ یونٹی ایز ایکسپرسیڈ بائی الجیلانی (مقالہ): ۲۶ دی ری کنسٹرکشن ااف ریلیجئس تھاٹ ان اسلام: ۳۴۳ دی سپرٹ آف اسلامک کلچر: ۲۱۲ دی فیتھ آف اسلام: ۶۷ دی قرآنک ورلڈ: ۴۶۶ دین و دانش: ۹۶ دیوان غالب: ۲۱۵‘۳۵۶‘۳۵۹ دیوان مغرب دیکھیے مغربی دیوان۔ ڈ ڈویلپمنٹ آف میٹا فزکس ان پرشیا: ۵۴ ڈیکلائن آ ف دی ویسٹ: ۱۳۰ (نیز دیکھیے انحطاط مغرب) ڈیوائن کامیڈی: ۲۵۷ ذ ذخیرہ: ۳۸۹ ذکر اقبال: ۱۶۲‘۵۰۸ ذکر حبیب: ۲۱۷‘۲۱۹‘۲۳۰ ر رائل اکیڈمی جرنل: ۱۰۳ رائل ایشیاٹک سوسائٹی جرنل: ۱۰۴‘۱۸۴‘۱۹۹ رباعیات عمر خیام: ۲۱۱ رموز بے خودی: ۴۱‘۲۰۲‘۲۵۵ رنگیلا رسول: ۴۳‘۱۷۴‘۱۷۵ رولٹ ایکٹ: ۱۲۵ روداد چوبیسواں سالانکہ جلسہ انجمن حمایت اسلام ‘ لاہور (بطور رسالہ): ۸۰ رہبر دکن: ۱۲۴ ز زبان: ۱۵تا۱۷‘۱۴۳ زبور: ۲۱۴ زبور عجم: ۱۲‘۱۸۱‘۲۱۴‘۲۵۶‘۴۱۰‘۴۸۵ زمان(رسالہ): ۲۰۳ زمان و مکان: ۱۲۹ زمیندار: ۹۶‘۱۱۰‘۱۱۳‘۱۲۲۵‘۱۲۸‘۲۰۷‘۲۰۸‘۲۱۱‘۲۱۳‘۲۳۹‘۲۴۳‘۳۶۴ س ساما دراسن: ۱۸۵ Subjective mind and Objective mind: ۹۴ سب رس:۳۹۰ سپرٹ آف دی اورئینٹل پوئٹری: ۵۰۳ سرگزشت الفاظ: ۴۴۵ سرود رفتہ: ۱۷۲ سفر نامہ کابل: ۲۰۶ سوراجیہ(اخبار): ۳۲۷ سوہنی مہینوال: ۳۳ سول اینڈ ملٹری گزٹ: ۵۰۲ سہیل: ۲۹۲تا ۲۹۵ سیاست مدن: ۲۵ سیکرٹ آف دی سیلف: ۱۰۱ ش شاد اقبال: ۴۴۸‘۴۹۲ شذرات (معارف) ۱۹۹‘۲۱۲ شرح موافق:۲۰۳ شعر العجم: ۱۹۶‘۲۰۰ شکستہ پر (Broken Wings): ۳۸۹ شور محشر: ۱۹ ص صدائے ہند: ۴۳۹ صوفی: ۲۱۶ ط طریقت: ۱۰۷‘۱۰۸ ع عروس المجالس: ۳۵۵ عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام: ۱۳۸ علامہ اقبال کی دعائوں کا مجسمہ: ڈاکٹر جاوید اقبال: ۱۶۴ علم الاقتصاد: ۲۶ علوم اسلامیہ: ۲۹۳ علی گڑھ میل(رسالہ): ۳۱۷ عمل چغتائی: ۳۶۱ غ غایۃ الامکان فی درایۃ المکان: ۱۳۰‘۱۳۲ ف فار انڈیا اینڈ اسلام: ۵۰۳ فارسی شاعری اور اس کی قدامت: ۲۹۳ فائوسٹ: ۱۴۶‘ ۳۲۰ فروغ اردو نمبر (کریسنٹ) : ۳۶۸ فصوص الحکم: ۲۶۸‘۲۷۱ فقہ الاکبر اما م اعظم: ۲۹۹ فکاہات: ۲۱۱ فکر و نظر: ۴۱۳ فلسفہ سخٹ کوشی: ۱۰۶ فینانس تھیوری آف اسلام: ۴۵۸ فی درایۃ الزمان: ۱۳۴ ق قانون مسعودی: ۱۳۱ قائد اعظم کے خطوط: ۲۶(نیز دیکھیے خطوط اقبال بنام جناح) قدوری: ۲۹۹ قرآن اور اقبال: ۴۶۷ قرآن مجید: ۹۷‘۱۴۳‘۱۸۷‘۱۷۹‘۱۹۴‘۲۱۴‘۲۲۱ ‘۲۲۴‘۲۲۵‘۲۷۶‘۲۸۰‘۲۹۵‘۳۰۰‘ ۳۳۶‘۳۳۸‘۳۴۵‘۳۶۸تا ۳۷۰‘ ۳۷۶‘۳۹۵‘ ۴۱۲‘۴۵۷‘ ۵۶۵‘تا ۴۶۹ قصیدہ بردہ: ۲۰۳ قندیل:۹۷ قومی زندگی: ۱۳ ک کتاب الاعتصام: ۴۹۵ کتاب الموافقات: ۴۹۵ کارواں (سالنامہ): ۳۵۹‘۳۶۰ کریسنٹ(رسالہ): ۳۶۸ کشمیر کی تہذیب و تمدن: ۹ کشمیری میگزین: ۱۰۷ کلام اقبا ل کے تراجم اور اس پر تنقید و تبصرہ (مضمون): ۱۸۱‘۱۸۲ کلیات اقبال: ۱۷۰‘ ۴۱۰ کیا مذہب ممکن ہے؟: ۲۸۱‘۳۴۴‘۳۸۰‘۳۸۱ گ گفتار اقبال: ۲۴۷‘۳۰۸(۳۷۵ گلشن راز: ۲۵۶ گلشن راز جدید: ۲۵۷ گوئٹے کی گفتگو ایکرمین سے: ۱۳۹ گیتا نجلی: ۱۴۱ ل لاہور کاچیلسی(مضمون) : ۱۹ لٹریری ہسٹری: ۴۸۴ لسان الغیب: ۹۶ لطائف الطوائف: ۲۱۱ لطائف غیبی: ۴۸۴ لیٹرز اینڈ رائٹنگز آف اقبال: ۶۶ م مابعد الطبیعیات ایران: ۱۴۴ ماڈرن ریویو: ۳۵۷ مارننگ پوسٹ: ۱۸۶ مباحث مشرقیہ: ۲۰۳تا ۲۰۵‘۲۰۸‘۲۱۰ مثنوی مولاناروم: ۱۴۳ محمد اقبال‘ سیرۃ و فلسفتہ و شعرہ: ۴۰۸ مجموعہ خطبات : ۳۰۶ محمڈن تھیوریز آف فینانس: ۲۹۹ (دیکھیے مسلمانوں کے نظریات مالیات) مخزن: ۱۴‘۴۹‘۴۴۵۷۔۸۵‘۸۷‘۲۲۶‘۳۳۷‘۴۷۲ مدراس میل: ۳۲۲ مذہب اسلام (مقالہ) : ۶۶ مردم دیدہ: ۴۳۲ مرقع چغتائی: ۱۰۶‘۲۹۶‘۲۹۷‘۳۵۶‘۳۵۸ مرقع غالب: ۲۰۱ مرکری: ۳۵۸ مسٹر گزٹ(اخبار) : ۴۲۵ مسلمانوں کے نظریات متعلقہ مالیات: ۲۰۴‘ ۲۹۹ مسلم آئوٹ لک: ۱۸۶ ‘ ۴۴۱تا ۴۴۳ مسلم ورلڈ: ۴۵۶‘ ۴۵۹ مسند امام اعظم: ۲۹۹ مشاعر: ۱۹۷ مشاہیر کشمیر: ۸ معارف: ۱۰۱‘۱۰۲‘۱۸۶‘۲۰۲‘۲۰۳‘ ۲۰۷‘ ۲۱۲‘۲۸۵‘ ۴۸۲ معارف اسلامیہ: ۲۱۹ معرکہ مذہب و ستائش: ۳۶۳ مغربی دیوان (دیوان مغرب): ۱۳۷‘۱۴۰‘۱۴۵‘۳۷۱ مقالات اقبال: ۳۶۸ مکاتیب اقبال بنام گرامی: ۴۳‘۴۹۲ مکاتیب اقبال بنا م نیاز الدین خاں: ۴۹۲ مکان و زمان اور الوھیت (مقالہ): ۱۳۳ مکتوبات اقبال: ۴۱۹‘۴۹۲ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر: ۲۶‘۲۹۲ ملفوظات اقبال: ۴۶۷‘ ۴۶۸ منادی(اخبار) : ۴۹ میتھڈ (Method): ۳۸۳‘ ۳۸۷‘ میونسپل گزٹ: ۴۳۹ ن نقوش: ۱۹ نقوش اقبال: ۳۹۱ نوادر اقبال: ۴۹۲ نوائے وقت: ۱۰‘۲۱۸‘۲۱۹‘۲۷۹‘۴۴۹ نوٹس آف اقبالز آن اسرار خودی: ۱۰۶ نیرنگ خیال: ۱۰۶‘ ۱۳۸‘۱۳۹‘۱۶۱‘۱۸۳‘۲۱۳ نیشن: ۱۰۲ نیو ایرا: ۱۵۷‘۱۹۹ و وطن(اخبار) ۴۹ وکیل: ۹۷‘۹۸ ہ ہزار داستاں: ۱۳۷ ہمدم : ۲۳۷ ہلال: ۳۳ ہندو: ۳۲۲‘۳۲۶ ہندوستان ریویو: ۷۰ ہندوستان کی بیداری: ۱۸۶ ہیر وارث شاہ : ۳۲‘۳۶ ی یاد رفتگان: ۲۱۸ یادگار اقبال: ۳۹۱ یادگار یوم اقبال: ۴۹۲ یونانی فلسفہ: ۴۸۴ ٭٭٭ منظومات الف ابر گوہر بار (فریاد امت) : ۷۴‘۸۸ از خواب گراں خیز: ۴۱ اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے: ۷۴ التجائے مسافر: ۴۹‘۳۷۶‘۴۷۷ انسان: ۲۵۶ اوڈ ٹو امارٹیلٹی: ۳۲ ب بزم قدرت: ۲۵۶ بلالؓ: ۷۷ بندگی نامہ: ۲۵۶ بوئے گل: ۲۵۴ پ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق: ۳۷۷ پیراڈائز ریگینڈ: ۳۳ پیراڈائز لاسٹ: ۳۲‘ ۳۳ پیغام برگساں: ۱۵۹ ت ترانہ ملی: ۱۷۹‘۱۸۳‘۴۱۲ تصویر درد: ۷۴ تلوار سلطان ٹیپوشہید: ۳۳۷ ج جلال اور گوئٹے : ۱۴۶ جمعیت الاقوام: ۱۵۵ جواب شکوہ: ۷۶‘۹۲‘۹۳‘۹۹‘۱۸۷‘۴۸۹ جوئے آب: ۱۴۶ ح حسن: ۲۵۲ حضور رسالت مآبؐ میں: ۹۲‘۹۹ حور و شاعر: ۱۴۶‘۲۵۳ حیات جاوید: ۱۵۰ خ خدا: ۲۵۶ خضر راہ: ۴۱‘۱۱۶‘۱۱۸‘۲۰۳‘۴۶۲‘۵۰۷ خطاب بہ اقوام شرق: ۳۷۲ خطاب بہ انگلستان : ۱۶۰ خود نگرے(رباعی) : ۱۳۷ د دعا : ۲۸۹ دین و دنیا: ۷۴ ز زندگی: ۱۴۸ زندگی و عمل: ۱۵۱ س سرود انجم: ۱۵۳ سوالات: ۱۵۱ ش شکوہ: ۱۱‘۷۵‘۹۲‘۹۳‘۱۸۵‘۴۳۴‘۴۸۹ شمع و شاعر: ۷۶‘۲۱۴ شوپنہار اور نٹشا: ۱۵۶ ط طلوع اسلام: ۳۰۰ ع عبدالرحمن کا اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت: ۲۸۹ ف فاطمہ بنت عبداللہ: ۳۲۹ ق قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور: ۱۵۹ قید خانے میں معتمد کی فریاد: ۲۸۹ ک کچنر اور فرعون: ۲۵۸ گ گلشن راز: ۲۵۶ م مسجد قرطبہ: ۲۸۵‘۲۸۹‘۴۳۱ نالہ فراق: ۶۷ نالہ یتیم: ۱۱‘۲۳‘۲۴‘۷۳‘۷۴‘۳۳۴ نقش فرنگ: ۱۵۴ نہ تا سخن از عارف ہندی: ۲۵۸ نوائے مزدور: ۱۵۹ نوائے وقت: ۱۵۱ نیٹشا: ۱۵۸ و والدہ مرحومہ کی یاد میں: ۱۲ ہ ہسپانیہ: ۲۸۷ ہسپانیہ اور طارق کی دعا: ۲۸۹ ہیر وارث شاہ: ۳۲ ی یتیم کا خطاب ہلال عید سے: ۷۴ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End