اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات جلد نمبر۴۱ جنوری ، مارچ ۲۰۰۰ء شمارہ نمبر ۱ مندرجات سوانح اقبال ٭ - علامہ اقبال کی زندگی پر رسائل کے ادارئیے ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری ۱ خطبات ٭ - کیا مذہب کا امکان ہے ؟(خطبہ ہفتم) خطبہ :ڈاکٹر محمد اقبال ترجمہ :ڈاکٹر وحید عشرت ۳۱ تسہیل و تشریح ٭ - کلیات (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۵۱ فکریات ٭ - صحت احادیث ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری جوزف شاخت کی ’’دلیل سکوت‘‘ محمد سہیل عمر ۷۱ کا تنقیدی جائزہ ٭ - خلیفہ عبدالحکیم اور اسلامی فطریت ڈاکٹر روبینہ کوثر لودھی ۹۵ نقد و نظر ٭ - علامہ اقبال پر جوش ملیح آبادی کے اعتراضات کا جائزہ پروفیسر ایوب صابر ۱۰۷ ٭ - علامہ اقبال کے بارے میں چند اہل مدرسہ کا تذبذب وحید الدین سلیم ۱۳۳ مباحث و استفسارات ٭ - ڈاکٹر این میری شمل گبرئیلزونگ ادارہ ۱۴۳ (Gabriel's Wing) اور بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈ اخبار اقبالیات مرتبہ: ڈاکٹر وحید عشرت ۱۵۱ ٭ -اقبال - بین الایشیائی سیمینار ۱۵۳ ٭ -علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ۱۵۴ اسلام آباد کی سلور جوبلی تقریبات ٭ -علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ۱۵۵ کی سلور جوبلی کے موقع پر اقبال اکادمی کی نمائش کتب ٭ - ننکانہ صاحب میں کتب کی نمائش ۱۵۵ ٭ - تاجکستان میں یوم اقبال ۱۵۵ ٭ -کلام اقبال کے چینی ترجمے کی اشاعت ۱۵۶ وفیات ٭ - پروفیسر کرار حسین ۱۵۶ ٭ - پروفیسر حسنین کاظمی ۱۵۷ ٭ - پروفیسر محمد یونس حسرت ۱۵۷ قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری ہمدانیہ کالونی بمنہ سری نگر ۱۹۰۰۱۰ کشمیر ۲ - ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ڈائریکٹر جنرل، ادارہ تحقیقات اسلامی،فیصل مسجد ، اسلام آباد ۳ - پروفیسر ایوب صابر ۲۸ - لنک روڈ - ایبٹ آباد - پاکستان ۴ - وحید الدین سلیم پوسٹ بکس نمبر ۳۶۵ - حیدر آباد دکن، ۱۵۰۰۰۰۰۱ اتر پردیش بھارت ۵ - ڈاکٹر روبینہ کوثر لودھی چیئرمین، شعبہ فلسفہ ، بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ ۶ - محمد سہیل عمر ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۷ - ڈاکٹر وحید عشرت نائب ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور ۸ - احمد جاوید معاون ناظم، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور قارئین کرام توجہ فرمائیں ! نئی صدی کے آغاز پر مجلہ اقبالیات (جلدنمبر۴۰، شمارہ نمبر۴) جنوری ۲۰۰۰ء کا نمبر شمار بدل کر جلدنمبر ۴۱ ، شمارہ نمبر ۱ کر دیا گیا ہے - اقبال ریویو اکتوبر ۱۹۹۹ء (جلدنمبر۴۰ ،شمارہ نمبر۳) کو یکجا کر کے ۳،۴ کر دیا گیا ہے- اس طرح جلد نمبر ۴۰ تین شماروں پر مشتمل ہو گی تاہم جلد نمبر کا تسلسل حسب سابق برقرار رہے گا - قارئین کرام شمارہ نمبر کی ترتیب میں تبدیلی نوٹ فرمالیں - ۱ - رومی - مرشد اقبال ۲ - کیا مذہب کا امکان ہے ؟ ۳ - علامہ کی زندگی کا ایک دن ۴ - علامہ پر جوش کے اعتراضات کا جائزہ ۵ - کلیات (اردو) فرہنگ و حواشی ۶ - علامہ اور علم حدیث ۷ - آئین سٹائن ۸ - مسلم نظریہ علم ’’ ملا صدرا اور اقبال‘‘ ۹ - علامہ اور ریاست بہاولپور کے امیروں اور مشاہیر سے تعلقات - محمد اکبر ملک ۱۰ - پین اسلامک سوسائٹی اور ڈاکٹر اقبال - ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری ۱۱ - علامہ اقبال کے شاگرد نواب احمد یار خان دولتانہ ۱۲ - نئی دریافت اقبال کے ایک شاگرد پنڈت چاند نرائن چاند - ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری ۱۳- اقبال کی ایک نادر الوجود نظم ’’ تاج محل‘‘ ۱۴ - گذشتہ صدی کا عظیم ترین حادثہ یعنی علامہ اقبال کی المناک موت کا واقعہ ۱۵ - اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور علامہ اقبال ۱۶ - اقبال اورشوقی کی اندلیسات کا تقابلی مطالعہ ۱۷- محمد اقبال اورقاضی ندر الاسلام کا تقابلی مطالعہ ۱۸ - اقبال کی شاعری میں ’’ شاہین ‘‘ کا تصور از محمد محمود الاسلام ۱۹ - درجہ بندی سکیم ۲۰ - اقبال کی منہاج کے بارے میں چند باتیں : خطبات اقبال : نئے تناظر میں کے حوالے سے ۲۱ - علامہ اقبال کے بارے میں (چند اہل مدرسہ کا تذبذب - وحید الدین سلیم ۲۲ - اقبال کے خطوط میں تحریف تازہ مثال - ڈاکٹر وحید عشرت ۲۳ - استفسارات ۱- جاوید نامہ کی تمہید زمینی میں ؎ چیست معراج آرزوئے شاہدے کے بعد والا شعر ہے ۲ - شیخ عبدالماجد (لاہور) ۲۴ - اخبار اقبالیات ۱ - اقبال - بین الایشیائی سیمینار ۲ - علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی تقریبات ۳ - صلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی کے موقع پر اقبال اکادمی کی نمائش کتب ۴ - ننکانہ صاحب میں کتب کی نمائش ۵ - تاجکستان میں یوم اقبال ۶ - کلام اقبال کے چینی ترجمے کی اشاعت ۷ - وفیات ۱ - پروفیسر کرار حسین ۲ - پروفیسر حسنین کاظمی ۳ - پروفیسر محمد یونس حسرت ۴ - ڈاکٹر ابوسعید نورالدین ۲۵ - بین الاقوامی کانفرنس - ماریشس ۲۶ - مباحث : ڈاکٹر ایم میری شمل گبرئیلز وند اور بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈ (۴۷ - ۱۹۹۱ئ) ۲۷ - تبصرہ از نیر مسعود : نام کتاب اقبال کی صحت زبان ۲۸ - پروفیسر محمد منور ۲۹ - مرزا منور کی باتیں ۳۰ - مرزا محمد منور - اقبال کے شیدائی ۳۱ - مرزا محمد منور - ایک مطمئن مزاح نگار ۳۲ - پروفیسر محمد منور - ایک مرد حق آگاہ ۳۳ - پروفیسر محمد منور - چند باتیں ۳۴ - استاد المکرم پروفیسر محمد منور صاحب جوش ملیح آبادی نے اپنی سوانح عمری ’’ یادوں کی بارت ‘‘ اپنی منظومات ، انٹرویو اور کالم میں علامہ اقبال کے فکری انہدام کی سخت کوشش کی ہے - یادوں کی برات میں لکھتے ہیں کہ ’ روح ادب ‘شائع ہوئی تو اقبال نے میری شاعری کی تعریف کی اور یہ بھی فرمایا کہ حافظ اورٹیگور کی پیروی ترک کر کے فکری شاعری کی طرف آبائوں میری تخیل کا دھارا زمد شور سے تصوف کی وادیوں کی طرف بہہ رہا تھا - ان کی نصیحت پر عمل پیرا نہ ہو سکا - لیکن یہ نصیحت مجھ پر اثر کرتی رہی اور جب تصوف سے روگردانی کر کے میں سیاسی شاعری کرنے لگا اور سیاست سے مڑ کر میری شاعری تجسس اور تشکک کی جانب گامزن ہوئی تو میرے ناصح حضرت اقبال کی شاعری اقوال ، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس تصوف اور مابعد الطبیعیات سے انہوں نے مجھے روکا تھا ، اس پر ’حرکی‘ کالیبل لگا کر وہ خود اسی طرف چلے گئے اور عقل کو بولہب اور عشق کو مصطفٰے کا خطاب دے کر اسلام اے عشق خود سودائے ما - کے نعرے لگانے لگے - اس کے بعد جوش ملیح آبادی لکھتے ہیں : چونکہ وہ اعلٰی درجے کے پڑھے لکھے اور بلا کے ذہین انسان تھے ، اس لیے شروع شروع میں انہوں نے مغرب کے الحاد اور مشرق کے مابین مصالحت کی برے خلوص کے ساتھ کوشش کی - لیکن جب ان کی سعی مشکور نہیں تو انہوں نے ، نٹشے کے ’’ مافوق البشر ‘‘ کو مشرف باسلام کر کے ‘‘ بنا دیا - قرآن کے مردود لفظ ’’ عشق ‘‘ کو آسمان پر چڑھا کر اسے تمام انسانی شرف و مجد کا مرکز تسلیم کیا اور قرآن کے محبوب لفظ ’’ عقل ‘‘ کو خاک میں ملا کر ، اس کو تمام مقاسد کا سرچشمہ ٹھہرا دیا اور میں چیخ اٹھا : چیست ، یاران طریقت ، بعد ازیں تدبیر ما ؟(۱) اس کتاب میں ، آگے چل کر ، ’’ پلان چٹ ‘‘ کے ذریعے اقبال کو آدھا شاعر قرار دیا ہے - بقول جوش ’’ پلان چٹ لکڑی کا ایک ، قلب صورت ، آلہ ہوتا ہے ، جس کے ایک طرف ، پنل لگانے کا سوراخ ہوتا ہے اور جب کسی کو روح بلانے کے واسطے ، ذہن پر زور ڈالا جاتا ہے تو ، وہ آلہ خود بخود معرض حرکت میں آ جاتا اور کاغذ پر جوابات لکھنے لگتا ہے ‘‘ (۲) اس پلان چٹ کے مدد سے غالب کو مغلوب اور فانی کو ایک فاحشہ عورت کا عاشق قرار دیا ہے - پلان چٹ کا اعتبار قائم کرنے کے لیے تلک کی ایک پیش گوئی بیان کی جو آزادی کے بارے میں تھی اور سچی ثابت ہوئی - یہ تمہید اٹھانے کے بعد علامہ اقبال پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں : ’’ فانی صاحب ایک رات کو میر تقی میر کی ’ روح ‘ کو بلا کر پوچھا اقبال کییس شاعر ہیں ، پلان چٹ نے لکھا ٹ میں ان کو آدھا شاعر مانتا ہوں ‘ اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اوران کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے‘‘-(۳) ’’ یادوں کی برات ‘‘ ہی میں ، علامہ پر کچھ قاضی خورشید احمد کے حوالے سے عائد کئے ہیں - اقبال کا شعر ہے : کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں بقول جوش ، قاضی خورشید احمد نے یہ شعر سن کر زور سے منہ جھٹکا ، لاحول پڑھی اور کہا کہ بھلا یہ بھی کوئی شعر ہے - شاعر صاحب اللہ تعالٰی سے فرما رہے ہیں کہ ہر چند میرے ماتھے میں ہزاروں سجدے پھدک رہے ہیں لیکن تو جب تک چانکی بائی آف الہ آباد کے لباس میں ، انگیا کرتی پہن کر نہیں آئے گا ، میں تیری بارگاہ میں سجدہ نہیں کروں گا - اس سے زیادہ مادہ پرستی اور اہانت الہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا - سوانح اقبال علامہ اقبال کی وفات پر رسائل کے اداریے کلیم - دہلی معارف - اعظم گڑھ شاہکار - لاہور سب رس - حیدر آباد مست قلندر - لاہور زمانہ - کانپور جامعہ - دہلی علی گڑھ میگزین - علی گڑھ اخبار حمایت اسلام - لاہور منادی - دہلی اکبر حیدری کشمیری مشیت ایزدی کو دیکھیے کہ اقبال کا انتقال اس وقت ہوا جب قوم کا سفینہ طوفانی سیاست کے سمندر میں ہچکولے کھا رہا تھا اور ملت اسلامیہ کو ان کے افکار و خیالات اور تجربات کی اشد ضرورت تھی - ان کا انتقال ۶۱ سال کی عمر میں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو ہوا - موصوف کی موت سے اسلامی دنیا سیاہ پوش ہو گئی تھی - ملک کے طول و عرض میں تعزیتی جلسے کیے گئے - عقیدت مندوں نے خون کے آنسو بہا دیے - اخباروں اور رسالوں نے ان کے فکروفن اورملی خدمات پر مفید اور معرکۃ ا لآرأ اداریے قلمبند کیے - ان میں بعض ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے اقبالیات میں اچھا خاصا اور قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے- یہ رسائل اب عنقا ہو رہے ہیں - ہم نے نہایت دیدہ ریزی اور جانفشانی سے ان میں سے چند معیاری رسالے حیدر آباد دکن اور لکھنؤ کے کتب خانوں میں ڈھونڈ نکالے ہیں - بعض کی حالت بہت ہی خستہ اور ابتر ہے اور بعض آزادی سے دیمک کی نذر ہو رہے ہیں - تیز دوائوں کی وجہ سے ان کی ورق گردانی اور مطالعہ کرنا اتنا دشوار ہے کہ گویا اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے - دوائوںکی ادنیٰ تاثیر یہ ہے کہ ناک فوراً بہہ جاتی ہے، سر میں درد ہوتا ہے اور آخر میں آواز گلوگیر ہو جاتی ہے - رسائل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے مالکان ، مدیران اور صاحبان قلم کے ساتھ علامہ کے تعلقات نہایت مربوط بنیادوں پر استوار تھے - ان کی تحریریں اقبال کے بارے میں دستاویزات کا حکم رکھتی ہیں - یہ رسالے قابل ذکر ہیں : ۱ - کلیم دہلی - ایڈیٹر جوش ملیح آبادی - ۲ - معارف اعظم گڑھ - سید سلیمان ندوی- ۳- شاہکار لاہور ، تاجور نجیب آبادی -۴- سب رس ،حیدرآباد -۵- مست قلندر لاہور،ملا رموزی -۶- زمانہ ، کانپور دیا نرائن نگم -۷- جامعہ - دہلی ،ڈاکٹر عابد حسین -۸- علی گڑھ میگزین ، ابوللیث صدیقی -۹- اخبار حمایت اسلام لاہور ، رشید اختر ندوی -۱۰- منادی- دہلی ، خواجہ حسن نظامی یہ بات قابل ذکر ہے کہ جوش ملیح آبادی نے علامہ کی یاد گار قائم کرنے کے لیے ’’ ائرئہ اقبال ‘‘ اور تاجور نجیب آبادی نے ’’ اقبال اکادمی ‘‘ کا مطالبہ کیا تھا - شکر ہے کہ اقبال کے انتقال کے عرصۂ دراز کے بعد دونوں بزرگوں کی پیش گوئیاں ’’ اقبال اکادمی پاکستان‘‘ کے قیام سے پوری ہو گئی ہیں - ذیل میںمتذکرہ بالا رسالوں سے اقبال کے سانحۂ ارتحال کے بارے میں اقتباسات درج کیے جاتے ہیں تاکہ یکجا محفوظ رہ سکیں - ٭٭٭ ۱ - کلیم - دہلی (صفحہ ۳۵۴) بابت مئی ۱۹۳۸ء جوش ، اپنے اداریے ’’ اشارات‘‘ کے تحت ’’عہد حاضر کی ادبی دنیا کا سب سے بڑا حادثہ- اقبال کی موت ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں : ’’جس وقت ریڈیو نے اقبال کے انتقال کی خبر سنائی ،ایک تیر سا دل و جگر کے پار ہو گیا اور ضبط کی انتہائی سعی کے باوجود میری آنکھوں سے آنسوئوں کے چشمے ابلنے لگے - یہ دیکھ کر حضرت آزاد (الطاف احمد تخلص آزاد) نے مجھ سے کہا ’’ آپ کو اقبال کی قدر اب ہوئی‘‘؟ میں نے جواب دیا ، آزاد صاحب ! کس روز اقبال میری نگاہوں میں ذی قدر نہ تھا- ہر چند مجھے اس کے مسلک و خیالات سے شدید اختلاف تھا ، لیکن اس اختلاف کے باوجود مجھے اس کے شاعرانہ کمال اور اس کی مفکرانہ عظمت سے کب انکار تھا ؟ اقبال ہر حالت اور ہر رنگ میں اقبال تھا - ا فسوس کہ ہماری شاعری کا آفتاب غروب ہو گیا - اقبال ان لوگوں میں سے تھا جو صدیوں اور قرنوں کی سعی پیہم کے بعد پیدا ہوتے ہیں ؎ مت سہل ہمیں جانو ، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں اس میںکوئی شک نہیں کہ مجھے اس کی روش اور اس کے دائرئہ عمل سے شدید اختلاف تھا - ابتداء میں ہر عظیم شاعر کی طرح اقبال کی شاعری بھی وسیع اور آفاقی شاعری تھی - اس کی نظر دور رس اور اس کا سینہ چوڑا تھا - مگر اس کے بعد بعض وجوہ کی بنا پر اس کی شاعری کا دائرہ تنگ ہونے لگا ، اور آخر کار یہاں تک تنگ ہو گیا کہ اس کی تمام تر شاعری مذہب تک محدود ہو کر رہ گئی - آج اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ، لیکن جب تک اس دنیا کے کسی گوشے میں علم و ادب کا نام باقی رہے گا ، اقبال زندہ و پائندہ رہے گا - اس کے گیت ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کرتے رہیں گے اور اس کا نام انسانی ذہن کے افق پر آفتاب کی طرح جگمگاتا رہے گا - اس میں شک نہیں کہ ہندوستان نے اقبال کو اس کے تمام ہمعصر شعراء سے زیادہ سراہا اور سب سے بڑھ کر اس کی قدر کی ، لیکن عجیب الخلقت ہندوستان کی قدر شناسیاں محض رسمی اور تفریحی بھی ہوتی ہیں ، اور بعض اوقات تو ان کا دائرہ ذاتی تعلقات یا صوبوی افتخار تک محدود ہوتا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کی مالی حالت تمام عمر خراب رہی اور بھوپال کے وظیفہ کے باوجود ہمیشہ تنگدست ہی رہا - لیکن اب آسانی کے ساتھ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہندوستان اس کی قبر کو زر و جواہر سے پاٹ دے گا - محض اس خوشی میں زر و جواہر سے پاٹ دے گا کہ شاعر مر چکا ہے ! اقبال ، بلند مرتبہ اقبال ! تو مر گیا - بہت اچھا ہوا - اس کم بخت ملک میں تیری مٹی پلید تھی - ہر چند تیری موت نے ہمارے سینوں کو سنسان اور آنکھوں کو ویران کر دیا ہے ، مگر خود تیرے حق میں یہ بہت اچھا ہوا کہ تو مر گیا ، اور مر کر ناقدر شناس غلام ہندوستان کی سرد مہریوں سے تونے نجات حاصل کر لی ! میرے دوستو! کیا اقبال کی موت کو بھی معمولی سمجھ کر ٹال دیا جائے گا - کیا اس عظیم مرتبت انسان کی کوئی یادگار قائم نہیں کی جائے گی - محض کسی شخص کا اسٹیچو نصب کر دینا یا اس کی قبر پر کوئی منارئہ تعمیر کر دینا یا ہر سال مرنے والے کی برسی منا دینا تو کوئی بہتر یادگار نہیں ہے - کیا یہ ممکن نہیں کہ ’’دائرہ اقبال ‘‘ کے نام سے ایک ایسی مستقل انجمن کی بنیاد ڈالی جائے جو ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں ، اپنی شاخیں قائم کرکے، ہر جگہ ترجمہ و تالیف اور تصنیف کا کام جاری کر دے ؟ اس انجمن کی بقا کی سب سے زیادہ آسان صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اردو زبان کے ہر سمجھنے اور بولنے والے پر یہ فرض عاید کر دیا جائے کہ وہ اپنی آمدنی سے صرف ایک روپیہ فی صد سالانہ چندہ دیا کرے - اگر ہندوستان کے وسیع براعظم میں سے جہاں (۳۵) کروڑ انسان آباد ہیں ، ہمیں صرف پچاس ہزار آدمی ہی ایسے مل جائیں جو ایک روپیہ فی صد کے حساب سے چندہ دینا شروع کر دیں تو اندازہ لگائیے کہ ’’ دائرئہ اقبال ‘‘ میں کتنی خطیر دولت جمع ہو سکتی ہے ، اور اس دولت سے ہم اردو زبان کو کس آسانی اور حیرت ناک سرعت کے ساتھ فروغ دے سکتے ہیں ، اور اس کے دوش بدوش اقبال کے متعلقین کی کس قدر خدمت انجام دی جا سکتی ہے اور ہر سال بہترین تصانیف پر ہم انعام بھی دے سکتے ہیں - فی صد ایک روپیہ بھی بڑی چیز ہے - اگر پچاس ہزار ایسے ہی آدمی مل جائیں جو صرف ایک روپیہ سالانہ چندہ دیں ، پھر بھی اس دائرے کی آمدنی پچاس ہزار سالانہ ہو سکتی ہے اور پچاس ہزار سالانہ کی رقم بھی اتنی ہے کہ ہم اپنی زبان کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا سکتے ہیں-‘‘ ٭٭٭ ۲ - معارف اعظم گڑھ صفحہ ۳۲۲، بابت مئی ۱۹۳۸ء ’’ شذرات‘‘ - ’’ ماتم اقبال ‘‘ از سید سلیمان ندوی ’’ وقعت الواقعۃ ‘‘آخر موت اور حیات کی چند ہفتوں کی کشمکش کے بعد ڈاکٹر اقبال نے دنیائے فانی کو الوداع کہا - صفر کی انیسویں اور اپریل کی اکیسویں کی صبح کو عمر کی اکسٹھ(۶۱) بہاریں دیکھ کر اور شاعری کی دنیا میں چالیس برس چہچہا کر یہ بلبل ہزار داستان اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا - وہ ہندوستان کی آبرو ، مشرق کی عزت اور اسلام کا فخر تھا - آج دنیا ساری عزتوں سے محروم ہو گئی - عارف فلسفی ، عاشق رسولؐ ، شاعر ، فلسفۂ اسلام کا ترجمان اور کاروان ملت کا حدیٰ خوان صدیوں کے بعد پیدا ہوا تھا اور شاید صدیوں کے بعد پیدا ہو - اس کے دہن کا ہر ترانہ بانگ درا ، اس کی جان حزیں کی ہر آواز زبور عجم ، اس کے دل کی ہر فریاد پیام مشرق، اس کے شعر کا پرپرواز بال جبریل تھا - اس کی فانی عمر گو ختم ہو گئی لیکن اس کی زندگی کا ہر کارنامہ ، جاوید نامہ بن کر ان شاء اللہ باقی رہے گا - امید ہے کہ ملت کا یہ غمخوار شاعر اب عرش الٰہی کے سایہ میں ہو گا اور قبول و مغفرت کے پھول اس پر برسائے جا رہے ہوں گے - خداوندا ! اس کے دل شکستہ کی ، جو ملت کے غم سے رنجور تھا ، غم خواری فرما ! اور اپنی ربانی نوازشوں سے اس کے قلب حزیں کو مسرور کر! مرحوم کی زندگی کا ہر لمحہ ملت کی زندگی کے لیے ایک نیا پیام لاتا تھا - وہ توحید خالص کا پرستار ، دین کامل کا علمبردار اور تجدید ملت کا طلبگار تھا - اس کے رونگٹے رونگٹے میں رسول انامؐ کا عشق پیوست تھا، اور اس کی آنکھیں جسم اسلام کے ہر ناسور پر اشکبار رہتی تھیں - اس نے مستقبل اسلام کا ایک خواب دیکھا تھا - اسی خواب کی تعبیر میں اس کی ساری عمر ختم ہو گئی - آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں کہنے کو تو ہم میں ملت کے غم خواروں کی کمی نہیں اور نہ امت کے دوستداروں کی قلت ،مگر واقعہ یہ ہے کہ نئی تعلیم نے اپنے ساتھ ستر(۷۰) برس کے طویل عرصے میں دو ہی سچے مسلمان غم خوار پیدا کیے - ایک محمد علی مرحوم اور دوسرا اقبال مرحوم ، دونوں مرحوموں پر خدا کی بڑی رحمت ہو ! ان کے دلوں میں اسلام کا حقیقی سوز تھا اور رسول رحمتؐ کے ساتھ سچا عشق - زمانہ کی جھوٹی آب و تاب اور نئے تمدن کی ظاہری چمک دمک سے ان کی آنکھیں خیرہ نہ تھیں - آفتاب اسلام کی ضیا باری کے مقابلہ میں ان کے سامنے جدید تہذیب و تمدن اور زمانہ ٔ حال کی تجدیدات کی نئی روشنی مہ نخشب کے مصنوعی نور سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تھی - خدا ان کی قبروں کو اپنے نور سے بھر دے ! اقبال کی قومی شاعری بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئی - بیسویں صدی کے اس پیغام رساں نے اڑتیس (۳۸) برس کے شاعرانہ پیغاموں سے ملت کے نوجوانوں میں نئی امنگ بھردی اور نئے سفر کے قطع منزل کے لیے ان میں نئے سرے سے ہمت پیدا کر دی - اقبال کا یہ دعویٰ حرف حرف سچا تھا ؎ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا اقبال کی تصنیفات زمانہ میں یاد رہیں گی -و ہ اسلام کا غیر فانی لٹریچر بن کر ان شاء اللہ زندہ رہے گا- ان کی شرحیں لکھی جائیں گی ، تشریحیں کی جائیں گی، نظریے ان سے بنیں گے- ان کا فلسفہ تیار ہو گا ، اس کی دلیلیں ڈھونڈھی جائیں گی - قرآن پاک کی آیتوں،احادیث شریفہ کے جملوں ، مولانا رومی اور حکیم سنائی کے مآثرات سے ان کا مقابلہ ہو گا ، اور اس طرح اقبال کا پیام اب دنیا میں ان شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اقبال زندئہ جاوید ! اقبال صرف شاعر نہ تھا - وہ حکیم تھا - وہ حکیم نہیں جو ارسطو کی گاڑی کے قلی ہوں یا یورپ کے نئے فلاسفروں کے خوشہ چیں ، بلکہ وہ حکیم جو اسرار الٰہی کے محرم اور رموز شریعت کے آشنا تھے - وہ نئے فلسفہ کے ہر راز سے آشنا ہو کر اسلام کے راز کو اپنے رنگ میں کھول کر دکھاتا تھا ، یعنی بادئہ انگور نچوڑ کر کوثر وتسنیم کا پیالہ تیار کرتا تھا - وفد کابل جن تین ممبروں سے بنا تھا ، افسوس ہے کہ اس میں سے یکے بعد دیگرے دو چل دیے سرراس مسعود اور اقبال - اب صرف ایک رہ گیا ہے ، اور معلوم نہیں کہ وہ بھی کتنے دن کے لیے ہے - آہ ! حریفاں بادہ ہا خوردند و رفتند مولانا شبلی مرحوم نے اقبال کو اسی وقت پہچان لیا تھا جب ہنوز ان کی شاعری کے مرغ شہرت نے پر و بال نہیں پیدا کیے تھے - چنانچہ انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ حالی و آزاد کی جو کرسیاں خالی ہوں گی، ان میں سے ایک اقبال کی نشست سے پر ہو جائے گی - افسوس کہ آج اڑتیس برس کے بعد وہ کرسی خالی ہو گئی ہے ، اور اب اس کے بھرنے کی کوئی صورت نہیں ! اقبال ! ہندوستان کا فخر اقبال، اسلامی دنیا کا ہیرو اقبال ، فضل و کمال کاپیکر اقبال ، حکمت و معرفت کا دانا اقبال ،کاروان ملت کا رہنما اقبال ، رخصت رخصت ،الوداع ، الوداع‘! ٭٭٭ ۳ - شاہکار - لاہور بابت مئی ۱۹۳۸ء ص ۷۰ تاجور نجیب آبادی - شمس العلمأ مولانا احسان اللہ خان تاجور ، نجیب آباد کے رہنے والے تھے - ۱۸۹۴ء میں نینی تال میں پیدا ہوئے - ۳۰ جنوری ۱۹۵۱ء کو لاہور میں انتقال ہوا - تاجور ادیب ، شاعر اور صحافی تھے - دیال سنگھ کالج ، لاہور میں پروفیسر تھے - اردو مرکز کے مشہور سلسلے کی کتابیں آپ ہی کے اہتمام سے شائع ہوئی تھیں - مدتوں رسالہ ’’ شاہکار ‘‘ لاہور کے ایڈیٹر رہے - ’’ ہمایوں ‘‘ لاہور کے دفتر میں نہایت معمولی تنخواہ پر کام شروع کیا - مخزن ، لاہور کے بھی ایڈیٹر تھے (نقوش ، لاہور نمبر ص ۹۲۴ مطبوعہ ۱۹۶۲ئ) رسالہ ’’ زمانہ ‘‘ کانپور بابت اکتوبر ۱۹۴۰ء میں ص ۲۵۷ میں ’’ علمی خبریں اور نوٹ ‘‘ کے تحت درج ہے : ’’گورنمنٹ نے امسال نامور اردو ادیب و محقق علامہ تاجور کو شمس العلماء کا گرانقدر خطاب دے کر اپنی علمی قدردانی کا ایک دل خوش کن ثبوت دیا ہے جس پر ہم اپنے محترم دوست اور قدرشناس وزیر اعظم پنجاب ، دونوں کو تہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں - علامہ تاجور جو فارسی اور عربی کے بلند پایہ ادیب ہونے کے علاوہ علوم قرآن اور فقہ پر ماہرانہ عبور رکھتے ہیں ، اردو ادب کی انہوں نے عظیم الشان خدمت کی ہے - ’’ادبی دنیا‘‘ اور’’ شاہکار‘‘ اور لاہور کے کئی قابل قدر رسالے انہی کی کوششوں سے وجود میں آئے ہیں - اردو مرکز لاہور بھی ان کی ادبی خدمات کا رہین منت ہے - اور اردو ادب کے منتخبات کی ۳۰ جلدوں میں جو اس مرکز سے شائع ہوئی ہیں ، آپ نے صدیوں کے لٹریچر کو نچوڑ کر جمع کر دیا ہے ‘‘ - تاجور نجیب آبادی ’’ شاہکار ‘‘ میں ’’ اقبال کی موت ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’اقبال کی موت اس صدی کا سب سے بڑا حادثہ ہے جس سے عالم انسانیت ، دنیائے مشرق،جہان اسلام اور ہندوستان درجہ بہ درجہ ، اپنے قرب و بعد کے اعتبار سے، اثر پذیر ہوئے ہیں - حضرت پیغمبر اسلام ؐ کے ارشاد گرامی ’’ موت العالم موت العالم ‘‘ کے مطابق یوں تو معمورئہ عالم کے گوشے گوشے میں علم و حکمت پر موت طاری ہو گئی ہے ، لیکن عالم اسلام تو اس قیامت صغریٰ سے سب سے زیادہ خلفشار کاحصہ دار بن رہا ہے ، کیونکہ اقبال کی الہامی تعلیمات کے پہلے مخاطب پیروان اسلام ہی تھے - وہ اصطلاحی معنی میں صاحب شریعت نہ تھا ، لیکن اس کی اعجاز نوائی قطعاً پیغمبرانہ انداز رکھتی ہے ، بقول گرامی ؎ در دیدئہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت اقبال کی موت سے دنیا کا سب سے بڑا مفکر اور فلسفی اٹھ گیا - یورپ اور ایشیا کے بڑے بڑے اہل علم اس سے ملنے کی خاطر بحری و بری سفر کی زحمت گوارا کرتے تھے - اس کا کلام ترجموں کے ذریعہ اقصائے عالم میں سیلاب نور کی طرح پھیل چکا ہے - افسوس ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نتائج کو عملی حیثیت میں دیکھنے کی تمنا دل میں لے گیا ، لیکن اس صحیح یقین سے پہلے موت اس پر مسلط نہیں ہوئی کہ ایک نہ ایک دن دنیا اس کی آسمانی تعلیمات کو اپنا نصب العین بنائے گی ! ہندوستان کے سطح بیں اشخاص اسے صرف ملت اسلام کا شاعر کہتے ہیں، حالانکہ وہ دراصل ملل و اقوام کا شاعر تھا - کہا جاتا ہے کہ اس نے ہندوستان کو اپنا وطن نہیں سمجھا، یہ سچ ہے، کیونکہ وہ ساری دنیا کے رہبر کی حیثیت سے تمام عالم کو اپنا وطن تصور کرتا تھا - ہندوستان سے اس کی محبت کسی وطن پرست ہندوستانی سے کم نہ تھی ، لیکن وہ وطن دوست ضرور تھا ، وطن کا پجاری نہ تھا کہ اس کا جذبۂ پرستاری صرف خدائے واحد کے آستانے کے لیے وقف تھا - دنیا کے موجودہ خلفشار اور اقوام عالم کی باہمی خوں ریزی کے آئینے میں اس نے ، سرحدی جھگڑوں کو دیکھ کر ، پورے عالم انسانیت سے محبت کرنے کی تعلیم دی - اس کی عالم گیر محبت بڑھتے بڑھتے جغرافیائی حدود سے بلند ہو کر تمام بنی نوع انسان پر چھا گئی - اب اسے حسن اتفاق کہیے کہ اس کی پاکیزہ تعلیم ، اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی الہامی تعلیمات سے ہمنوا ہو گئی - اسلام کے تصور کو جن تنگ نظر حضرات نے اپنے دل کی بیماری بنا رکھا ہے ، وہ اگر اس پر اقبال کو ’’ ملی شاعر‘‘ کا خطاب دیں تو ’’چشمہ ٔآفتاب را چہ گناہ ‘‘ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم اقوام کے ساتھ ہی تمام دنیا کی قوموں سے بھی محبت و ہمدردی کی زندگی بھر تبلیغ کرتا رہا - وہ اپنے وطن ہندوستان کے ساتھ ہی تمام ان ملکوں کو جو غلامی کی ذلیل زندگی بسر کر رہے ہیں، آزادی اور آزاد زندگی حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے - اگر اسے ہندوستان سے محبت نہ ہوتی تو اپنے مجموعۂ کلام سے ’’ نیا شوالہ‘‘ اور ’’ ہندوستاں ہمارا ‘‘ کی ولولہ انگیز نظمیں خارج کر دیتا - ایک عام انسان بھی پہلے اپنے نفس سے ، پھر اولاد سے ، پھر اپنے خاندان، اپنے شہر اور بڑھتے بڑھتے اپنے ملک سے محبت کرنے لگتا ہے - یہ انسانی فطرت کا اقتضاء ہے - پھر اقبال جیسے بلند فطرت انسان سے یہ بعید توقع کیوں کر وابستہ کی جا سکتی ہے کہ اسے اپنے ملک سے محبت نہ تھی - اس کی خدمت میں اکثر اوقات حاضر رہنے والے حضرات جن میں اس کے غیر مسلم نیاز مند بھی شامل ہیں ، یہ جانتے ہیں کہ اسے اپنے آبائی وطن کشمیر اور وطن ثانی سیالکوٹ سے بھی محبت تھی - پھر ہندوستان سے ، جس کا ایک حصہ کشمیر اور سیالکوٹ بھی ہے ، اس کا عالم گیر جذبۂ محبت کیوںکر دامن بچا سکتا تھا - بات وہی ہے کہ انسان کی بلند نظری اس کی فطرت کے ارتقا کا ساتھ دیتی ہے - فطرت میں بلندی کے ساتھ ہی اس کی نگاہ میں بھی رفعت و ہمہ بینی پیدا ہو جاتی ہے- اقبال کی محبت بھری نگاہیں اس کی بلند فطری کے تقاضے سے جاوید منزل سیالکوٹ، کشمیر ، پنجاب اور ہندوستان سے بڑھتے بڑھتے پورے عالم انسانیت پر پڑتی ہیں - مگر افسوس ہے کہ اس کی اس طبعی سعادت کو بھی کم بینوں نے اپنی بے بصری کا سبب بنا لیا ہے ! اقبال ، حضرت پیغمبر اسلام ؐ سے والہانہ شیفتگی رکھتا ہے کیونکہ وہ اس مقدس ائینے میں صداقت کے ایک جلوئہ راز کو دیکھتا ہے - اس کے کلام میں حجازی نغمے سب سے زیادہ بلند آہنگ ہیں ؛ یہاں تک کہ زندگی کی آخری ساعت پر بھی وہ اپنی محبوب ترین تمنائوں کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ؎ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید ارض پاک حجاز اس کا مذہبی گہوارئہ تربیت ہے - حجاز سے اس کی محبت بھی اقتضائے فطری ہے - اگر ہم چین اور جاپان کے محب وطن باشندوں کو گیا کے بدھ مندر کی یاترا پر تحسین و آفرین کرتے ہیں تو اقبال یا ہندوستانی مسلمانوں کو ارض حجاز سے اظہار عقیدت پر طعنہ زنی کا ہمیں کیا حق حاصل ہے! اقبال کی حب الوطنی کسی ہندوستانی محب وطن سے کسی درجے میں بھی کم نہیں کہ حضرت پیغمبر اسلامؐ کے ارشاد ’’حب الوطن من الایمان و من احب العرب فقد احبنی‘‘ کے مطابق وطن سے محبت کرنا جزو ایمان ہے ، اور اقبال حضرت نبی کریمؐ کی تعلیمات کا دنیا میں نقیب اعظم ہے - اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ہندوستان سے محبت نہیں رکھتا ، بڑی دیدہ دلیری بلکہ دریدہ دہنی ہے - نعمت آزادی اور لعنت غلامی کے متعلق اظہار خیالات سے اس کا کلام معمور ہے - اس کی ان تعلیمات کا مخاطب اول درحقیقت ہندوستان ہی ہو سکتا ہے - اصل یہ ہے کہ اقبال ایسا بلند نظر محب وطن ہے کہ اہل ہندوستان کے ساتھ ہی ساری غلام دنیا کو آزادی کا درس دیتا ہے - وہ جب دیکھتا ہے کہ دنیا کی استبداد پسند حکومتیں جوع الارض کے مرض میں مبتلا ہیں اور کمزور ممالک پر تسلط جما کر اپنے اپنے ملکوں کی جغرافی حدود کو وسعت دینا چاہتی ہیں اور اپنے اپنے ملک کو ’’ وطن پرستی ‘‘ کے فریب آمیز الفاظ سے دھوکا دے کر کمزور قوموں کی خوں ریزی پر ابھارتی ہیں تو وہ اس حقیقت نفس الامری کو سمجھ لیتا ہے کہ طاقتور اقوام امن عالم کو اس نام نہاد وطن پرستی کے نام پر زیر و زبر کر رہی ہیں ، اس لیے وہ انسانی برادری کی محبت اور خدمت پر اہل عالم کو ابھارتا ہے - اس پاکیزہ اور محبت آموز تعلیم پر کار بند ہو کر عالم انسانیت امن و امان اور رفاہیت عام کی نعمتوں سے بہرہ ور ہو سکتا ہے - اقبال کا نعرہ ’’ تنازع للبقاء ‘‘ کی بجائے ’’تصالح للحیات ‘‘ ہے - یقینا دنیا ایک نہ ایک دن اسی اصول کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گی ! اقبال کی ساری زندگی قناعت و کم گیری کے زیر اثر بسر ہوئی - وکالت ان کا معاشی مشغلہ تھا - وہ مال و دولت کا حریص ہوتا تو اسی پیشے میںجی لگا کر اسے جاہ و مال کا ذریعہ آسانی سے بنا سکتا تھا - لیکن سرمایہ داری اس کی طبعیت اور تعلیم کے خلاف تھی - اس کے علاوہ وکالت کو کامیاب بنانے کے لیے جن ہتھکنڈوں کی ضرورت ہے ، وہ ان سے متنفر بھی تھا - قناعت گزینی نے اسے بے نیاز این و آں بنا دیا تھا - اس کی غیور فطرت ان غیر انسانی وسائل سے نفور تھی جن پر تحصیل مال و منال کا انحصار ہے - اس کا اندازہ اس امر واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ مرض الموت میں ایک بڑی ریاست کے وزیر اعظم نے انہیں ایک ہزار روپیہ منی آرڈر کے ذریعہ بھیجا اور ساتھ ہی خط میں ایک فقرہ بھی لکھ دیا کہ میرے کنڑول میںجو ریاست کا فنڈ ہے ، اس میں سے بھیج رہا ہوں- ’’Under my Control ‘‘ کا فقرہ مرحوم کی غیور طبیعت برداشت نہ کر سکی --- آپ نے منی آرڈر واپس کرا دیا- اس عالم اضطراب میں ذیل کے اشعار ارشاد کیے ؎ تھا یہ اللہ کا فرمان کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے ، اور شہنشاہی کر حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات! حقیقت یہ ہے کہ ۲۱ اپریل کی صبح آباد دنیا کے لیے ایک ہولناک شام غم سے کم نہ تھی - عالم انسانیت کا سب سے بڑا اتحاد و اخوت کا بلند نظر رہنما ، ایسا معجز بیان شاعر جس کے نغمے ازل سے ہم آہنگ تھے ، اسی ظلمت کار صبح نے ہم سے چھین کرموت کے حوالے کر دیا - اقبال کی زندگی میں اقبال کی رفعت و قدر کا دنیا صحیح اندازہ نہ کر سکی ، لیکن زمانہ جس قدر آگے بڑھتا جائے گا ، اقبال کو پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہو گا - تہی مغزان امروز اسے نہ سمجھ سکے ، مگر قدر شناسان فردا اس ’’ شاعر فردا ‘‘ کو ضرور سمجھیں گے اور اس کی تعلیم کو راہ مستقبل کے لیے شمع بنائیں گے - آج تمام ایشیا اور اکثر حصہ یورپ میں اس کا ماتم ہو رہا ہے - ہندوستان ، اور خاص طور پر اسلامی ہندوستان اس بزم ماتم میں سینہ چاک نظر آتا ہے ، لیکن اقبال سے محبت و عقیدت کا مظاہرہ اس سہ روزہ ماتم تک ختم نہیں ہوجانا چاہیے - ضرورت ہے کہ سب مل جل کر ’’ اقبال اکیڈمی ‘‘ کے نام سے اس کی ایک عظیم الشان یاد گار جو بیدار مغز نقادوں اور عالی مرتبت مصنفین و مفکرین پر مشتمل ہو ، قائم کریں - اقبال کے ملفوظات مطبوعہ وغیر مطبوعہ غائر نگاہ نقادوں کے بلند تبصروں کے ساتھ لاگت کی برابر قیمت پر اقبال اکیڈمی سے شائع کئے جائیں تاکہ ان کی عام اشاعت ہو - انگریزی ، فرانسیسی ، جاپانی اور عربی میں ان کے صحیح تراجم کی اشاعت کا انتظام کیا جائے ، اور اس طرح مغرب اور مشرق کے گوشے گوشے تک اقبال کا الہامی پیغام پہنچایا جائے - ملک کے ہر صوبے میں ذی اقتدار حضرات کی کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان کے زیر اہتمام برطانوی اور ریاستی ہندوستان سے چندہ وصول کیا جائے - ریاستوں کے حکمرانوں سے اقبال اکیڈمی کے لیے مستقل وظائف حاصل کیے جائیں - یہ کام بے دلوں کے لیے مشکل ہو گا ، لیکن قدر آشنا اور مردان کار ہمت کریں تو اس سال کے ختم تک یہ مہم سر ہو سکتی ہے - اقبال کسی زندہ قوم کا فرد ہوتا تو اس کی موت پر ’’ ہائے اور وائے ‘‘ کرنے کی بجائے اس کے مشن کے قیام کا اس کی عالم گیر شخصیت کے مطابق انصرام سب سے پہلے ضروری سمجھا جاتا‘‘- ص ۱۱۲- ’’اقبال کی سناونی سن کر‘‘ یاس یگانہ چنگیزی لکھنوی کیا پوچھتے ہو حال مسلمانوں کا دل ہو گیا پامال مسلمانوں کا اسلام غریب ، ہائے اسلام غریب رخصت ہوا اقبال مسلمانوں کا! ٭٭٭ ۴ - سب رس حیدر آباد - بابت جون ۱۹۳۸ء ص ۱۱۰ صغریٰ بیگم صاحبہ حیدر آباد کی نامور سماجی خاتون اور سید ہمایوں مرزا صاحب بیرسٹر کی اہلیہ محترمہ تھیں - موصوفہ نے ۱۹۲۲ء میں حیدرآباد سے ایک اردو رسالہ ’’ النسائ‘‘ کے نام سے جاری کیا اور ایک پرچہ اقبال کی خدمت میں روانہ کیا - اقبال نے رسالے کی رسید خط کی صورت میں ۲۸ نومبر ۱۹۲۲ء کو ارسال فرمائی - اس کے بعد دونوں میں خط و کتابت رہی ---- اقبال کے خطوط صغریٰ بیگم کے نام ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی کتاب ’’ شاد اقبال ‘‘ میں موجود ہیں - صغریٰ بیگم ’’ یاد اقبال ‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں : ’’موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ ، کل ہماری باری ہے سر محمد اقبال مرحوم ہمارے شہر کے رہنے والے نہ تھے ، لیکن ان کے انتقال کی خبر جب حیدر آباد میں پہنچی تو تمام شہر میں بجلی کی طرح گونج گئی - بڑے بڑے تعزیتی جلسے ہونے لگے - نوجوانان دکن نے بہت بڑا جلسہ کیا ، اور گائوں گائوں میں جلسے ہوئے - بہت سے اسکولوں میں جلسے ہوئے - سب سے پہلا جلسہ میں نے انجمن خواتین دکن کی جانب سے ۲۵ اپریل کو محل ممتاز یار الدولہ کی صدارت سے اسکول صفدریہ واقع ہمایوں نگر میں کیا - یہ جلسے وغیرہ آخر کس لیے ہوئے ---- اس کی وجہ یہ تھی کہ سر محمد اقبال جب تک زندہ رہے ، انہوں نے اپنا وقت دوسروں کی بھلائی کے لیے دیا - ایسی ایسی نظمیں جوشیلی لکھیں جن کی وجہ سے ہم بیدار ہوئے - انہوں نے سونے والوں کو جگایا اور اپنے ملک سے محبت کرنا سکھایا- انہوں نے زندگی کس طرح گزارنی چاہیے ، بتایا - جو انسان دوسروں کے لیے محنت کرتا ہے ، جس کے دل میں خلوص رہتا ہے ، اس کی زندگی میں بھی اس کی قدر ہوتی ہے - اس کے بعد بھی اس کی عزت ہوتی ہے- فردوسی نے شاہنامہ لکھ کر ایران کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا - اس کی سالگرہ ہزار سالہ ہوئی - اس کی یاد پارسی ، مسلمان سب کے دلوں میں تازہ ہے - یہ کس لیے ، صرف اس کی نیت اور خلوص کا سبب ہے کہ فردوسی کے مرنے کے بعد سالگرہ ہوئی - لیکن اقبال مرحوم کی وہ عزت ہوئی کہ زندگی میں یوم اقبال منایا گیا - میرے خیال میں کسی شاعر کی زندگی میں ایسی قدر و عزت نہ ہوئی ہو گی - مرنے کے بعد جلسے ہوئے تو کیا ، نہ ہوئے تو کیا - مرنے والے کو کچھ اس کی خبر نہیں ہوتی - بقول شاعر ؎ ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہے کہ ہم تو یہاں بھی اکیلے رہے یہ اقبال کی اقبال مندی تھی جو ان کی زندگی میںیوم اقبال منایا گیا - ان کو ضرور خوشی ہوئی ہو گی، بلکہ روحانی خوشی ان کو ان کی زندگی میں حاصل ہوئی - اب بھی وہ مرے نہیں- وہ زندئہ جاوید ہیں - ان کا کلام اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا - اقبال کشمیر کے رہنے والے تھے - انہوں نے اپنے بچپن میں جو اشعار کہے ، وہ لکھتی ہوں ؎ موتی عدن سے ، لعل ہوا ہے یمن سے دور یا نالۂ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستان آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور کشمیر کا چمن جو مجھے دل پذیر ہے اس باغ جانفزا کا یہ بلبل اسیر ہے ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد جو ہے وطن ہمارا ، وہ جنت نظیر ہے موت اور زندگی پر مرحوم نے جو اشعار لکھے ، وہ قابل داد ہیں ؎ زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوشنوا شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچہایا ، اڑ گیا آہ ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے ۱۹۲۳ء تک بیرسٹر صاحب (ہمایوں مرزا) اور سر محمد اقبال صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی - ۱۹۲۸ء میں جب ہم کشمیر گئے ، راستے میں لاہور چند روز ٹھہرنا ہوا - ہمارے ہوٹل کے بازو میں سر محمد اقبال مرحوم کا مکان تھا - پھاٹک پر بورڈ لکھا ہوا تھا - بیرسٹر صاحب ، اقبال سے ملنے گئے - اس کے بعد ان کی بیگم صاحبہ نے اپنی موٹر بھیج کر مجھے بلوایا - میں نے ایک نظم نور جہاں کے مزار پر چڑھانے کے لیے لکھی تھی ، وہ ان کو دکھائی - اس میں مرحوم نے اصلاح دی- اس لیے وہ میرے استاد بھی ہوئے - اور میرے آٹو گراف البم میں سر محمد اقبال صاحب نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس کا اردو ترجمہ لکھتی ہوں : ’’ اسلام کی تعریف ، میں چند الفاظ میں ظاہر کرتا ہوں - ذات باری پر پورا بھروسا ہے، اور موت سے مطلق نہیں ڈرتا ‘‘- (’’محمد اقبال لاہور‘‘ - ۱۱ جولائی ۱۹۲۸ئ) اس سے ظاہر ہے کہ ان کے دل میں موت کا ڈر کبھی نہ تھا - ۱۹۲۸ء میں جو میرے آٹو گراف میں لکھا تھا ، وہی جملے ان کے آخر وقت بھی زبان سے نکلے- وہ اپنی بیوی کو کہیں نہیںبھجواتے تھے اور نہ کسی سے ملاتے تھے - دوران گفتگو میں لیڈی عبدالقادر صاحب (ایڈیٹر مخزن لاہور) سے ذکر آیا - میں نے کہا ، میں محمد اقبال صاحب کی بی بی کے ہاں گئی تھی ، انہوں نے چائے پر مجھے بلایا تھا ، تو لیڈی عبدالقادر صاحب کو سخت تعجب ہوا - انہوں نے کہا ہمارے صاحب سے اور محمد اقبال سے بہت دوستی ہے ، مگر آج تک ہم نے بیگم محمد اقبال کو نہ دیکھا ، اور آپ مل آئیں - اس سے ظاہر ہے کہ وہ مہمان نواز دل رکھتے تھے اور مسافر کی قدر ان کے دل میں تھی ‘‘- ٭٭٭ ۵ - مست قلندر ، عورت نمبر ، لاہور - بابت مئی ۱۹۳۸ء ’’ ڈاکٹر سر محمد اقبال وفات پا گئے‘‘ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کا ترانہ لکھنے والا قومی شاعر ، مشرق کو پیام وطنیت دینے والا پیغمبر ، افسوس ! اب ہمارے درمیان نہیں رہا ‘‘ - ’’ لاہور ۲۱ اپریل - ڈاکٹر سر محمد اقبال آج صبح یہاں وفات پا گئے - گزشتہ تین چار برسوں سے ان کی صحت خراب چلی آتی تھی ، اس لیے وہ تمام پبلک سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو گئے تھے - وہ دمہ کی بیماری میں مبتلا تھے جس نے گزشتہ تین ماہ میں زیادہ شدید صورت اختیار کر لی - آج صبح چار بجے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی - آخری وقت میں ڈاکٹر اور ان کے وفادار ملازم کے علاوہ ان کے تین دوست بھی موجود تھے - شاعر کے آخری الفاظ مندرجہ ذیل تھے : میںموت سے خوف زدہ نہیں -میں مسلمان ہوں اورخندہ پیشانی سے فرشتہ ٔ اجل کا خیر مقدم کرتا ہوں - آخری تصنیف غیر مکمل رہ گئی - گو ڈاکٹر اقبال یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ دیر تک جہان فانی میں رہنے کے نہیں ؛ تاہم انہوں نے اپنے ادبی مشاغل کو ترک نہ کیا - موت سے چند ہی روز پہلے انہوں نے ایک شخص کو ملازم رکھا تاکہ وہ اس سے اپنی نئی تصنیف کا مسودہ لکھائیں - ڈاکٹر صاحب شعر بولتے جاتے تھے اور یہ شخص نوٹ کرتا جاتا تھا - یہ تصنیف جو قرآن سے متعلق ہے ، غیر مکمل ہی رہ گئی ہے - سر محمد اقبال کی یاد گار ان کے دو بیٹے اور ایک لڑکی ہے - ان کا نام دنیائے اسلام میں ، اور خصوصاً فارسی اور اردو ادب کے سرکاری حلقوں میں زبان زد عام تھا - ۱۹۳۵ء میں نواب بھوپال نے ان کی ادبی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے تاحیات پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا - تصنیفات -- انہوں نے اردو اور فارسی میں متعدد تصنیفات شائع کیں جن میں ’’بانگ درا‘‘، ’’پیام مشرق‘‘، ’’ بال جبریل‘‘، ’’اسرار خودی‘‘، ’’ رموز بیخودی‘‘، ’’جاوید نامہ‘‘ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں - ان میں سے بعض جرمن اور دیگر یورپین زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں - ڈاکٹر سر اقبال کی وفات پر ہندوستان بھر میں ماتم منایا جا رہا ہے اور ملک کے سر کردہ اصحاب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے - ڈاکٹر ٹیگور کا بیان - کلکتہ ۲۱ اپریل - ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور نے جب سر اقبال کی موت کی خبر سنی تو کہا :’’ڈاکٹر اقبال کی وفات سے دنیائے ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو ایک مہلک زخم کی طرح پر ہونے کے لیے بہت طویل عرصہ لے گا - ہندوستان کی جگہ بہت تنگ اور محدود ہے اس لیے ایک ایسے شاعر کی موت کا صدمہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہے جس کی شاعری عالمگیر حیثیت رکھتی ہے - ‘‘ ڈاکٹر اقبال کی آخری رباعی مرنے سے کچھ لمحے پہلے ڈاکٹر اقبال نے ذیل کی رباعی کہی جسے ان کی زندگی کی آخری نشانی سمجھنا چاہیے ؎ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگارے این فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید (اصل ’’ باز‘‘) ٭٭٭ ۶ - زمانہ - کانپور بابت اپریل ۱۹۳۸ء ص ۲۷۸ ڈاکٹر اقبال مرحوم ’’ ۲۱ اپریل کو صبح پانچ بجے شاعر اعظم ڈاکٹر اقبال کے انتقال پر ملال سے اردو ادب کو جو صدمۂ ٔعظیم پہنچا ہے اس پر تمام ملک میں ماتم برپا ہے - ڈاکٹر اقبال موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے اردو شاعر تھے ، اور گو کئی سال سے اردو کی بہ نسبت فارسی کلام کی طرف ان کی توجہ بہت زیادہ مبذول ہو گئی تھی- تاہم اردو میں جو کچھ لکھ دیتے تھے ، وہ اس ہر دلعزیز زبان کے لیے مایۂ ناز و باعث فخر ہوتا تھا - ایک عرصے سے آپ کی صحت خراب تھی اور مہینوں سے علالت کا سلسلہ برابر جاری تھا جس سے بے حد نقابت ہوگئی تھی ؛ تاہم کسی کو بھی یہ اندیشہ نہ تھا کہ آپ کا انجام اس قدر قریب ہے - ابھی جنوری گزشتہ میں ہندوستان کے اکثر شہروں میں معتقدین اقبال نے ’’ اقبال ڈے ‘‘ منایا تھا - ہم نے بھی زمانہ مارچ ۱۹۳۸ء میں ’’ اقبال کی شاعری اور تصوف ‘‘ پر دو خاص مضامین شائع کیے تھے جن کو ہمارے دو عزیز دوستوں نے ہماری استدعا پر بڑی کاوش و تحقیق سے لکھا تھا - آہ ! کس کو خبر تھی کہ اس اظہار عقیدت مندی اور مضامین کی اشاعت کے بعد اس قدر جلد یہ شاعر اعظم داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنے مشتاقان کمال کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے جائے گا - مگر خدا کی مرضی میں کس کو دخل ہے - سچ ہے ؎ کیا بھروسہ ہے زندگانی کا آدمی بلبلہ ہے پانی کا اس حادثے نے طبیعت کو افسردہ کر دیا ہے کیونکہ گو علالت اور عدیم الفرصتی کے باعث ایک عرصہ سے زمانہ کو ڈاکٹر اقبال کے کلام کی اشاعت کی عزت نصیب نہیں ہوسکی؛ تاہم یہ ناچیز رسالہ آپ کی خدمت میں ہمیشہ باریاب ہوتا رہتا تھا ، اور آپ نے اس کے ’’ جوبلی نمبر‘‘ اور اس کے خاص نمبروں کے لیے اپنے اشعار عطا فرمائے تھے - ۱۹۰۴ء میں آپ نے اپنا مشہور گیت ’’ ہندوستاں ہمارا‘‘ کا صحیح ایڈیشن بھی سب سے پہلے زمانہ ہی کو اشاعت کے لیے مرحمت فرمایا تھا - کلام اقبال پر زمانہ میں کئی مفصل تبصرے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے - لیکن اب ان مضامین کو کون داد دے گا - اصل یہ ہے کہ اقبال کا اردو میں کوئی جواب پیدا نہیں ہوا ہے - ان کے کلام میں میر تقی میر کا سوز و گداز ، خواجہ درد کا تصوف اور مرزا غالب کا حکمت و فلسفہ کچھ اس طریقے سے یکجا ہو گیا تھا کہ اس کی نظیر کم سے کم اردو میں کہیں دیکھنے میں نہیں آتی ہے - ان کی پیدائش کی تاریخ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء تحقیق ہوئی ہے - اس حساب سے موت کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال دو۲ ماہ تھی - کہتے ہیں وفات سے کچھ قبل آپ نے یہ اشعار ارشاد فرمائے تھے ؎ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگار این فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لوح مزار پر نقش کرانے کے لیے خود ہی یہ قطعہ کہا تھا ؎ چو رخت خویش بر بستم ازیں خاک ہمہ گفتند با ما آشنا بود ولیکن کس نہ دانست ایں مسافر چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود‘‘ ٭٭٭ ’’ زمانہ ‘‘ کا پہلی مرتبہ فروری ۱۹۰۳ء میں اجراء ہوا تھا - فروری ۱۹۲۸ء میں اس کی جوبلی منائی گئی- دیا نرائن نگم ، جوبلی نمبر میں ’’ علامہ اقبال اور زمانہ ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’علامہ اقبال بھی زمانہ کے اولین قلمی معاون ہیں - آپ کا مشہور و معروف قومی ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ سب سے پہلے ’’ زمانہ‘‘ میں ستمبر ۱۹۰۴ء کے پرچے میں شائع ہوا تھا - اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً آپ کی قلمی عنایات کا سلسلہ جاری رہا - چنانچہ ۱۹۲۵ء میں زمانہ کا جو قومی نمبر شائع ہوا تھا ، اس کے لیے آپ نے یہ شعر خاص طور پر عنایت فرمایا تھا ؎ نہ کنم دگر نگاہے بہ رہے کہ طے نمودم بسراغ صبح فردا روش زمانہ دارم ٭٭٭ ۷ - جامعہ ملّیہ ، دہلی سید نذیر نیازی اپنے ایک مضمون ’’ اقبال اور جامعہ ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو مولانا محمد علی جوہر نے جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور اس کا افتتاح حضرت شیخ الہند کے بابرکت ہاتھوں نے کیا - اس کے ساتھ ہی ، اور غالباً اسی روز مولانا مرحوم نے اقبال کو تار دیا کہ علی گڑھ آئیں اور جامعہ کی تعلیمی ذمہ داریاں سنبھالیں- اقبال نے شیخ الجامعہ کا عہدہ قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی ، تو جامعہ ان سے روٹھ گئی- ۱۹۲۵ء میں جامعہ علی گڑھ سے دہلی منتقل ہوئی تو اقبال سے روابط کا دوسرا دور شروع ہوا - اقبال کی نظمیں رسالہ جامعہ میں چھپنا شروع ہوئیں - علامہ کو جامعہ ملیہ سے ہمیشہ ہمدردی رہی تھی - ۱۹۲۷ء میں اس کی امداد کے لیے جو اپیل کی گئی تھی ، اس پر صرف پانچ چھ اشخاص کے دستخط تھے جن میں علامہ بھی شامل تھے- مارچ ۱۹۳۳ء میں امیر جامعہ ڈاکٹر انصاری کی دعوت پر جنگ طرابلس اور بلقان کے نامور مجاہد یعنی مشہور ترک محب وطن غازی رؤف پاشا جامعہ کے توسیعی خطبات کی صدارت کے لیے دہلی تشریف لائے اور یہاں صرف دو روز ٹھہرے - یعنی ایک صبح کو آئے اور دوسری صبح واپس چلے گئے - پھر ۱۵ اپریل (سال مذکور) ۵ بجے شام کو جامعہ تشریف لائے اور جامعہ کی انجمن اتحاد کا سپاس نامہ قبول فرمایا -اس کے جواب میں چند کلمات سے لوگوں کو محظوظ کیا - اسی دن ساڑھے آٹھ بجے شب کو موصوف نے اپنے سفر یورپ کے حالات پر تقریر کی - اس کا موضوع تھا ’’لندن سے غرناطہ تک ‘‘ - اس کے دو دلچسپ حصے تھے - ایک وہ جس میں آپ نے فرانس کے مایہ ناز فلسفی برگسان سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا - دوسرا وہ جس میں آپ نے جدید اسپین کے حالات بیان فرمائے - خصوصاً اس رجحان پر روشنی ڈالی جو وہاں کے باشندوں کو اسلامی تمدن کی طرف تھا - آپ کا قول تھا کہ جو لوگ تہذیب اور معارف اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے ، ان کے لیے اسپین میں جا کر رہنا ناگزیر تھا ، اور انہیں وہاں کی حکومت اور وہاں کے ارباب علم سے ہر طرح کی مدد مل جائے گی - علامہ ۱۹۳۴ء میں بیمار ہوئے اور دل کے عارضے نے ضیق الدم کے علاوہ حبس گلو کی شکل اختیار کر لی جس سے وہ ہمیشہ کے لیے صاحب فراش ہو گئے - لیکن اس کے باوجود ۱۹۳۵ء کے آغاز میں جب ان کا مرض ابھی زیادہ نہیں بڑھا تھا ، پھر وہ جامعہ تشریف لائے اور ایک مشہور ترک خاتون خالدہ ادیب خانم کے ایک خطبہ کی صدارت کی - گو آواز کی خرابی کے باعث رسمی طور پر چند کلمات کے سوا اور کچھ نہ کہہ سکے ‘‘ - (حوالے - جوہر جوبلی نمبر ، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی مرتبہ محمد عرفان خان نوری جامعہ دہلی ، جلد ۲۰ نمبر ۴ بابت اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۸۶ ٭٭٭ جامعہ ، دہلی ،جلد ۲۹ نمبر ۶ بابت جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۲۳ علامہ کے انتقال پر جامعہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر عابد حسین نے یہ تاریخ کہی تھی ؎ ’’ قطعہ تاریخ وفات علامہ اقبال مرحوم ‘‘ لطف مجلس کیا رہا جب میر مجلس اٹھ گیا وائے ناکامی کہ بزم اہل دل برہم ہے آج تھا جہاں کل نغمۂ مستانہ کا جوش و خروش ہے وہاں آہ مسلسل ، نالۂ پیہم ہے آج سینۂ مسلم کہ تھا گنجینۂ شوق امید ہے وفور یاس اس میں اور ہجوم غم ہے آج فکر کی جب سال رحلت کی تو دل نے دی صدا ’’ملت اسلام میں اقبال کا ماتم ہے آج‘‘ ۷ ۵ ۳ ۱ ہجری ایضاً صفحہ ۵۲۳ - ’’ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم ‘‘ --- ڈاکٹر محمد مجیب بی - اے آکسن ’’ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اپنی آخری سانس میں فرمایا تھا کہ مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ موت آئے تو مسکراتا دیکھے اور موت نے ان کے ایمان کو اتنا ہی پختہ پایا جتنا کہ زندگی نے- ہم موت سے ڈرنے اور بھاگنے والے بھلا ماتم کا اتنا سلیقہ کہاں سے لائیںگے کہ ایسے مرنے والے کا حق ادا کر سکیں - ڈاکٹر مرحوم نے عمر بھر ہمیں جینے کے گر سکھائے اور ان کے دن پورے ہو گئے ، تو مرنے کا ایک طریقہ بھی بتا گئے کہ ہزار زندگی سے بہتر ہے - خدا کرے جینے کی یہ مثال زندہ رہے اور مرنے کی یہ مثال - در اصل اس وقت جب محبت اور عقیدت جوش پر ہے اور مرحوم کی صورت بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہی ہے ، ہمیں چاہیے کہ ان کی صورت اور شخصیت کا ایک ایسا خاکہ بنا کر محفوظ کر لیں جسے برسوں بعد دیکھنے پر بھی ہم پہچان سکیں اور دنیا بھی مان لے کہ اس کا ہر نقش اصل سے ملتا ہے - یہ کام محبت اور عقیدت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا ،لیکن اس کے لیے محبت اور عقیدت ہی کافی نہیں ہیں - محبت اپنی ہی آنکھ سے دیکھتی ہے - دوسرے کے نقطہ ٔنظر کی پروا نہیں کرتی اور عقیدت کو سہرے پہنانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ اکثر آدمی کی صورت ہی چھپا دیتی ہے - اس طرح کی تعریف اگر دو چار خصوصیتوں کو ابھارتی ہے تو بہتری مٹا بھی دیتی ہے - ڈاکٹر اقبال مرحوم کی شخصیت کا صحیح خاکہ بنانے کے لیے تنقید کا ضبط بھی درکار ہے - کیونکہ اس وقت عقیدت اور تعریف صورت گری کی ہر مشکل آسان کر سکتی ہیں تو آگے چل کر یہی آسانی ہزار مشکلیں پیدا کر دے گی -‘‘ اس کے بعد مجیب صاحب لکھتے ہیں : ’’ مثنوی اسرار و رموز میں ڈاکٹر اقبال نے شخصیت کی تعمیر کے تمام گر بتائے ہیں اور حکایتوں اور مکالموں اور مقالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسان کا دل جس فلاح اور نجات کا آرزو مند ہے وہ صرف جسمانی اور روحانی قوت سے حاصل ہو سکتی اور اپنے اندر یہ قوت پیدا کرنا خودی ہے - لیکن انسان کامل اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ خودی سے بھی گزر کر انسانیت کے اعلیٰ اخلاقی مقاصد میں اپنی ذات اور اپنے ارادے کو کھپا دے - اپنی خودی کو بے خودی میں ڈبو دے اور اسی کو اپنا کمال اپنی نجات اور اپنے وجود کا اصل مقصد جانے - خودی کے لیے شخصی ارادے کی ضرورت ہے - بیخودی کے لیے ایسی ملت ایسے اخلاقی مقاصد اور ایسا دین چاہیے جو افراد میں خودی کا حوصلہ پیدا کرے اور ایک بڑا میدان فراہم کرے کہ اس میں وہ اپنی صلاحتیں استعمال کر کے بے خودی کا جام پئیں- اقبال کے نزدیک اسلام خودی اور بے خودی کی اس تعلیم کا نام ہے اور ملت اسلامی کی بڑی شخصیتوں نے جو مرتبہ حاصل کیا اور انسانیت کی جو خدمت کی اس کا راز بھی یہی ہے - اس تعلیم میں اقبال کا حصہ یہ ہے کہ انہوں نے مذہب تصوف اور تاریخ سے رس کی طرح نکال کر ایک رنگین اور مد بھری شراب بنا دیا کہ اسے دیکھتے ہی چکھنے کو بے اختیار جی چاہتا ہے اور جس نے ایک بار بھی پیالہ منہ سے لگایا وہ پھر اسے مست ہو کر ہی چھوڑتا ہے - مثنوی ’’اسرار و رموز‘‘ میں علم ، اخلاق اور دین کے مسئلے بیان کیے گئے ہیں - لیکن ایسے شاعرانہ انداز ، ایسی محبت اور ایسے درد کے ساتھ پڑھنے والا خیالات کی گہرائی دیکھ کر جھکتا نہیں - بلکہ اس میں شوق سے غوطے لگاتا ہے ‘‘ ٭٭٭ ۸ - علی گڑھ میگزین اقبال نمبر بابت اپریل ۱۹۳۸ء ملک کے طول و عرض کی طرح ۲۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو اقبال کی زندگی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی یوم اقبال شایان شان طریقہ سے منایا گیا تھا - اس موقع پر جو مقالے اور نظمیں پڑھی گئیں ، وہ ایڈیٹر صاحب ابواللیث صدیقی نے مرتب کر کے علی گڑھ میگزین اقبال نمبر کی صورت میں شائع کیں - میگزین کا یہ اسپیشل نمبر اپنی جدت کے لحاظ سے اقبالیات میں دوسرا اقبال نمبر تھا - اس سے چند سال پہلے نیرنگ خیال لاہور کا اقبال نمبر شائع ہو چکا تھا - علی گڑھ میگزین کے اقبال نمبر میں لکھنے والے علی گڑھ کے اساتذہ اور طالب علم تھے - اس شمارے میں اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کے عکس بھی موجود ہیں - ڈاکٹر عبدالحق ’’اردو‘‘ سہ ماہی ’’ اقبال نمبر ‘‘ بابت اکتوبر ۱۹۳۸ ء کے صفحہ ۷۷۲ میں لکھتے ہیں : ’’ یہ نمبر اقبال کی وفات کے بعد ہی فوراً شائع ہوا - خیال ہوا کہ علی گڑھ والوں نے کمال کیا کہ اتنی جلدی اقبال نمبر مرتب کر کے شائع کر دیا ، لیکن شذرات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ۲۹ جنوری کو علی گڑھ یونیورسٹی میں جو یوم اقبال منایا گیا تھا اور اس میں جو مقالے ، نظمیں پڑھی گئیں اور جو تقریریں کی گئیں ، وہی جمع کر کے اقبال نمبر کی صورت میں شائع کر دیاگیا - یہ اقبال کے کلام اور خیالات پر نظم و نثر کا بہت نفیس مجموعہ ہے ، اور ان تمام مضامین کے لکھنے والے علی گڑھ ہی کے ہیں - یہ نمبر مطالعہ کے قابل اور بہت پاکیزہ چھپا ہے ‘‘- اقبال نمبر اپریل کے دوسرے ہفتے میں چھپ گیا تھا - صفحہ ۱ میں ایڈیٹر صاحب کا ذیل کا انتساب بھی چھپا تھا : ’’ شاعر مشرق ، علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی خدمت میں ، علی گڑھ کا یہ ہدیۂ عقیدت‘‘ ابواللیث صدیقی یہ خصوصی نمبر علامہ اقبال کی خدمت میں پیش کرنے ہی والے تھے کہ علامہ کا انتقال ۲۱ اپریل کوہوا - موصوف کو نہایت حزن و ملال سے میگزین کی ابتدا میں کئی صفحوں کا اضافہ کرنا پڑا - چنانچہ ’’ آہ اقبال ‘‘ کے تحت ۲۲ اپریل ۱۹۳۸ ء کو لکھتے ہیں : ’’ آج اس نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہا ہے اور قلم تھراتا ہے - آہ، کسے معلوم تھا کہ مشرق کی امیدوں کا یہ آفتاب موت کی بدلی میں اس قدر جلد چھپ جائے گا - ہندوستان میں مولوی پیدا ہوں گے ، عالم پیدا ہوں گے ، شاعر اور ناظم پیدا ہوں گے ، فلسفی پیدا ہوں گے - لیکن دوسرا اقبال پیدا نہ ہو گا - اس پر ہندوستان کو ناز تھا ، بلکہ دنیائے اسلام کے لیے اس کا وجود باعث فخر تھا- میگزین کی طباعت کے آخری مراحل طے ہو کر شیرازہ بندی شروع ہو چکی تھی کہ ۲۱ اپریل کی شب میں اس سانحہ ٔعظیم کی خبر پہنچی - افسوس کہ علی گڑھ کا یہ ہدیۂ عقیدت علامہ موصوف کی بارگاہ میں ان کی حیات میں پیش نہ ہو سکا - جس نے مغربیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے مقابلے میں اپنے جادونگار قلم سے سد سکندری قائم کر دی تھی ، جس کی ذات الحاد اور بے دینی کی عالم گیر و با میں ہماری محافظ تھی، جس کا وجود ہم تن آسانوں میں جدو جہد اور عمل و استقلال کا انقلاب پیدا کر رہا تھا ، آج رخصت ہو گیا - ہماری امیدوں کا یہ سب سے روشن چراغ تھا جسے موت کے ظالم ہاتھوں نے گل کر دیا ‘‘- میگزین میں مولانا احسن مارہروی کی ایک طویل نظم ’’ نذر اقبال ‘‘ موجود ہے - انہوں نے اقبال کے انتقال کے فوراً بعدمورخہ ۲۳ اپریل ایک اور نظم ’’ قطعہ تاریخ انتقال ڈاکٹر سر محمد اقبال ‘‘ لکھی - آخری دو شعر یہ ہیں ؎ ہے دعا تربت پہ اس کی پھول برساتی رہے مرحمت اللہ کی ، الفت رسولؐ و آل کی کہیے احسن سال رحلت اور کیا اس کے سوا ہے زوال علم و حکمت مرگ سے اقبال کی ۷ ۵ ۳ ۱ ہجری ٭٭٭ ۹ - اخبار حمایت اسلام لاہور جلد ۱۴ ،نمبر ۱۸ - یوم پنجشنبہ ۴ مئی ۱۹۳۹ء ایڈیٹر رشید اختر ندوی ’’ رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے ‘‘ ۲۰ اپریل ۱۹۳۹ء - آج پورے ایک سال کا زمانہ گزرا کہ ’’ میکدئہ اسلام ‘‘ کا یہ بدمست ساقی ’’ساقی کوثر ‘‘ کے عشق و محبت میں سرشار حیات مستعار سے بیزار ،ملک فنا کو چھوڑ چھاڑ ، راہی ملک بقا ہو گیا - ’’ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ‘‘ ! جس نے مرنے والے کو دنیا میں ’’ بااقبال ‘‘ رکھا ’’ با اقبال ‘‘ اٹھایا ، وہ آخرت میں بھی اس کو اپنی رحمت سے سرفراز کرے ، اور اپنی مغفرت کی نعمت سے مالا مال کرے - آمین ! این دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد شاعر اسلام اور ان کے متعلق جو رائے چاہے ، قائم کرے لیکن جس نے اقبال کو ان کے عشق درد مند کے آئینے میں دیکھا ہے ، وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اقبال کا اصلی جوہر ، ان کی سب سے بڑی کامیابی ، اور ان کا سب سے بڑا کمال مذہب پرستی ، اسلام کی شیفتگی اور ملت بیضا کی غمگساری ہے - اسلام کا شاندار ماضی ، عبرتناک حال اور خوفناک مستقبل ان کے پیش نظر تھا - وہ خود تڑپتے تھے- دوسروں کو تڑپاتے تھے - خود روتے تھے - دوسروں کو رلاتے تھے - آنکھ اٹھا کر دیکھ لو ، قرطبہ و غرناطہ کے کھنڈروں پر کون خون کے آنسو بہا رہا ہے - بغداد اور اندلس کی یاد کس کے عیش کو رنج سے بدل رہی ہے - دلی مرحوم کی دیرانی کس کے دل کو برمائے دے رہی ہے - ذرا کان لگا کر سننا مجدد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر کھڑا کون صدائے نالہ وشیون بلند کر رہا ہے اور زائر مدینہ کے ذریعے سرکار مدینہ میں کیا پیغام بھیجا جا رہا ہے - اللہ اللہ ! اس مذہبی دیوانے کی شو ریدہ سری کا کیا ٹھکانا ! اس کا جوش جنوں اسے کہاں کہاں نہ لے گیا ! اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا خجل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا اقبال یورپ گیا - لیکن وہ دوسروں کی طرح یورپ سے مرعوب نہیں ہوا - بلکہ اسلام اور علوم اسلامیہ کی یاد وہاں بھی اس کے ساتھ رہی - وہاں بھی وہ تڑپا اور دین و ملت کی یاد میں مصروف گریہ و ماتم رہا ؎ مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا غلط فہمی نہ ہو ، اقبال ، مرزا انیس (کذا) و دبیر کی طرح محض مرثیہ خواں نہ تھے - اس بندئہ خدا نے تو مرثیہ خوانی کے پردہ میں ملت بیضا کی پاسبانی کا کام انجام دیا - اس نے اپنی آہوں کو ’’ نفخ صور‘‘ کا ہم پلہ بنایا اور آنسوئوں کے چھینٹوں سے مدت کے بخت خفتہ کو بیدار کیا - اس نے امت کے نوجوانوں سے صاف صاف احساس و شعور اور عمل کا مطالبہ کیا- علی الاعلان کہہ دیا ؎ یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے شرکائے بزم ! مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے - کہ یہی ولولہ ، یہی جوش حریت اور یہی مطالعۂ احساس و عمل درحقیقت اقبال کی زندگی کا وہ روشن ترین پہلو ہے کہ جس کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے میں ملت اسلامیہ کا بہترین نفع مضمر ہے کہ ملت بیضا کا حقیقی مفاد اسی انقلاب ---- اور پرکیف نغمات سے وابستہ ہے - ضرورت اس امر کی ہے کہ فرزندان امت محمدیہ کو اقبال ہی کے طرز میں اقبال ہی کے درد میں ، ان کے حقیقی منصب سے مطلع کیا جائے ، راز حیات سے آشنا کیا جائے کہ امت کے نوجوانوں کی بیداری درحقیقت امت ہی کی بیداری ہے - نوجوانان ملت ! مردوں کا ماتم کرنا ’’ مردہ قوم ‘‘ کا شیوہ ہے - ’’ زندہ قومیں ‘‘ تو ’’مردوں ‘‘ کو زندہ کر دیتی ہیں - پس اگر تم ’’ زندہ ‘‘ ہو تو اقبال کے مشن کو زندہ کردو - امت کے بخت خفتہ کو بیدار کردو - ملت کے جسم مردہ میں زندگی کی روح پھونک دو - دیر کیوں ہو رہی ہے؟ ’’میکدئہ اسلام‘‘ کی جانب آئو - خم کے خم چڑھائو اور دیوانہ وار ، اللہ کے واسطے ، میدان عمل میں آ جائو ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا سچ ہے اقبال سا ’’دیدہ ور ‘‘ مسلم ہندوستان کو بہت کچھ کھونے کے بعد ملا تھا - پس مبارک ہیں وہ جو اقبال کی اصل تصویر دیکھتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں - (اخبار آفتاب ، لکھنؤ ) ٭٭٭ ۱۰ - منادی - دہلی ، خواجہ حسن نظامی ، اپریل ۱۹۳۸ء خواجہ حسن نظامی مرحوم علامہ اقبال کے معتبر اور مخلص ترین دوستوں میں تھے - وہ صف اول کے ممتاز ادیب ،بے شمار تصنیفات کے مصنف اور مایہ ناز صحافی تھے - انہوں نے متعدد رسائل و اخبارات جاری کیے - ان میں سے توحید میرٹھ ، خطیب دہلی، نظام المشائخ دہلی، منادی دہلی قابل ذکر ہیں - پرانے ، نادر و نایاب رسالوں میں موصوف کے لاتعداد مضامین میری نظر سے گزرے ہیں - خواجہ صاحب بسیار نویس اور صاحب طرز انشا پرداز تھے - وہ شرافت اور رواداری کے مجسم تھے - جب اقبال سفر ولایت کے سلسلے میں ۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو بمبئی میل میں دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو خواجہ صاحب نے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ درگاہ خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ تشریف لے گئے - یہاں اقبال نے ۳۶ شعر کی ایک طویل نظم پڑھی جو ’’ التجائے مسافر ‘‘ کے عنوان سے مخزن لاہور جلد ۱۰ نمبر ۱۰ (ص ۴۹) بابت اکتوبر ۱۹۰۵ء میں نیرنگ انبالوی کے تفصیلی نوٹ کے ساتھ موجود ہے - ذیل میں چند شعر درج کیے جاتے ہیں ؎ کرم کرم کہ غریب الدیار ہے اقبال مرید پیر نجف ہے ، غلام ہے تیرا مرے سفینے کو تونے کنارہ بوس کیا اماں نہ دیتا ہے غنچے کا آشیاں مجھ کو یو نہی بنی رہے محفل مرے احبا کی ہرا بھرا نظر آئے یہ بوستاں مجھ کو بھلا ہو دونوں جہاں میں حسن نظامی کا ملا ہے جس کی بدولت یہ آستاں مجھ کو قسم ہے اس کے دل درد مند کی آقا تری ثنا کے لیے حق نے دی زباں مجھ کو اقبال جب یورپ کی واپسی پر ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء کو دہلی پہنچے تو اور لوگوں کے علاوہ خواجہ حسن نظامی نے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ درگاہ نظام الدینؒ میں حاضری دینے کے لیے گئے - اس کی تفصیلات میر نیرنگ نے اپنی نظم ’’ ترانۂ مسرت یعنی آمد اقبال‘‘ کے تمہیدی نوٹ میں بیان کیں جو مخزن جلد ۱۵ نمبر ۵ (ص ۶۲ - ۶۳) بابت اگست ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی تھی - خواجہ صاحب نے اقبال کو ۱۹۱۵ء میں ’’ سرالوصال ‘‘ کا خطاب دیا اور انہی نے اسرار خودی کا نام تجویز کیا تھا - خواجہ صاحب نے ۱۳۵۵ہجری (مطابق ۱۹۳۶ئ) میں میلادی جنتری مرتب کر کے شائع کی - اس میں انہوں نے اقبال کا قلمی چہرہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا - خواجہ صاحب کو اپنے رسائل و اخبارات میں کلام اقبال کو شائع کرنے کا بھی شرف حاصل تھا- وہ ان کے اشعار پر تبصرہ بھی کیا کرتے تھے - انہوں نے ’’ منادی ‘‘ ہفتہ وار اخبار کی حیثیت سے ۱۹۲۶ء میں جاری کیا جو بعد میں ماہنامہ رسالے کی صورت میں چھپنے لگا تھا - اس کے متعدد شمارے سالار جنگ میوزیم میں میری نظر سے گزرے ہیں - ’’ منادی ‘‘ مورخہ ۱۱ فروری ۱۹۳۸ء کالم ۳ صفحہ ۶ میں خواجہ صاحب نے مولوی حسین احمد مدنی صاحب کی تقریر کا ذکر بھی کیا جس کا عنوان تھا : ’’ قوم مذہب سے نہیں بنتی ‘‘ موصوف نے عوام کی آگہی کے لیے علامہ کے وہ شعر بھی درج کیے ؎ عجم ہنوز نداند رموز دیں ، ورنہ ز دیو بند حسین احمد ! ایں چہ بوالعجبی است سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است بمصطفٰی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر بہ او نر سیدی ، تمام بولہبی است جب علامہ اقبال کا انتقال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو ہوا تو انہوں نے ’’ منادی ‘‘ کے ۲۲ اپریل کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی : ’’ آج ۲۱ اپریل کی صبح کو دلی ریڈیو نے یہ المناک خبر سنائی کہ تمام اسلامی دنیا کے مسلمہ قومی شاعر نے ، جنہوں نے ساری اسلامی دنیا میں ترقی و زندگی کی لہر پیدا کر دی ، اس دنیا سے انتقال فرمایا - یہ خبر نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کو غمگین کرنے والی ہے ، بلکہ ایشیائی قوموں کو اس کا صدمہ ہوگا کیونکہ مرحوم اقبال ، ایشیا کی پرانی تہذیب کے حامی اور مددگار تھے ، اس لیے ان کی وفات سے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی ‘‘- اس کے ایک ہفتہ بعد خواجہ صاحب ہفت روزہ ’’ منادی‘‘ دہلی مورخہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء مطابق ۲۷ صفر ۱۳۵۷ھ کو پھر لکھتے ہیں : ’’اقبال کے وفات کے وقت آخری الفاظ یہ تھے ’’ میں موت سے نہیں گھبراتا - میں مسلمان ہوں- ہنسی خوشی موت کا استقبال کروں گا ‘‘ - میرے دوست اور فلسفیانہ شاعری کے آفتاب جناب ڈاکٹر شیخ سر اقبال صاحب نے جمعرات کے دن ۱۹ صفر ۱۳۵۷ھ صبح صادق کے وقت اس دنیا سے کوچ فرمایا - وہ چونکہ محب اہل بیت تھے اور تفضیلی عقائد رکھتے تھے ، اس لیے قدرت نے ان کو چہلم سیدالشہدا علیہ السلام سے ایک دن پہلے کی تاریخ عطا فرمائی - ہندوستان کے ہر باشندے نے چھوٹا ہو یا بڑا اس صدمے کو قومی اور ملکی صدمہ محسوس کیا ، اور ہندوستان کے باہر بھی ایک تہلکہ برپا ہو گیا جس سے ان کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے - مرحوم جب تعلیم کے لیے یورپ جا رہے تھے تو درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ میں حاضر ہوئے تھے اور ایک نظم بھی نذر کی تھی جس کے حسب ذیل اشعار بہت مقبول ہوئے تھے ؎ ہند کا داتا ہے تو ، تیرا بڑا دربار ہے کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار گوہر بار سے محو اظہار تمنائے دل ناکام ہوں لاج رکھ لینا کہ میں اقبال کا ہمنام ہوں اس سفر کے وقت مرحوم کے ساتھ میر نیرنگ صاحب وغیرہ شعراء بھی تھے جو سب جمع ہو کر مرزا غالب کے مزار پر گئے تھے ، اور میں نے دلی کے مشہور قوال ولایت خان کو بلوایا تھا - ولایت خان اس وقت نو عمر لڑکا تھا - سر محمد اقبال نے غالب کی لوح مزار کو دونوں ہاتھوں کے حلقہ میں لے کر سر جھکا لیا تھا اور ولایت خان نے غالب کی یہ غزل گائی تھی ؎ وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی اس شعر کو ولایت خان نے اس طرح ادا کیا تھا کہ سب پر ایک الم کا کیف طاری تھا- مگر آج جب اقبال کے مرنے کی خبر آئی تو ولایت خان قوال نے جو اب بوڑھا ہو گیا ہے ، دلی ریڈیو میں خود اقبال کی ایک غزل گائی اور ایسے درد انگیز لہجہ میں کہ سب سننے والے رونے لگے- آج رات کو پروفیسر مرزا سعید صاحب ایم - اے نے دہلی ریڈیو میں مرحوم اقبال کی نسبت ایک بہت اچھا مضمون سنایا تھا جس کے بعد ریڈیو والوں نے خبریں سناتے وقت کہا کہ مرحوم اقبال نے اپنے قدیمی خدمت گزار نوکر الٰہی بخش ( صحیح علی بخش) کی گود میںجان دی - یہ سن کر مجھ پر بہت اثر ہوا ، اتنا اثر جو گورنر پنجاب اور سر ٹیگور اور کانگریس اور مسٹر جناح کے بیانات سے بھی نہیں ہوا تھا کیونکہ آقا اور نوکر کی یہ وفاداریاں اور باہمی الفتیں اب خواب و خیال ہو گئی ہیں - ہر چیز میں ظاہر داری اور نمائش ہوتی ہے ، دلی تعلق بہت کم ہوتا ہے - پس مجھ پر اثر اس لیے ہو اکہ اقبال سچ مچ ہماری مٹنے والی تہذیب کی ایک نشانی تھے جن کے مستقل طرز عمل اور برتائو نے ان کے نوکر الٰہی بخش ( علی بخش) کو ایسا گرویدہ کر لیا تھا کہ وہ آخر وقت تک ساتھ رہا ؛ اس لیے میں نے تعزیت نامہ الٰہی بخش (علی بخش) کو بھیجا ہے ، مرحوم کی اولاد کو نہیں بھیجا - اولاد کے پاس میں خود ماتم پرسی کرنے جائوں گا - اس وقت تو خطاب کے قابل میں نے الٰہی بخش (علی بخش) نوکر کی محبت دیکھی ، کیونکہ میرے کان میں اقبال کی ایک آواز گونج رہی تھی : ’’ الٰہی بخش (علی بخش) حقہ بھرلا - اندر سے جاوید کو لا ، خواجہ صاحب سے ملا‘‘- اقبال کے مرنے سے ہندوستان ہی سونا نہیں ہو گیا، بلکہ ایشیا بھر میں اندھیرا چھا گیا - ہزہائنس نواب صاحب بھوپال تمام ایشیا کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے اقبال کی قدر کی اور پانچ سو روپے ماہوار پیش کرتے تھے - امید ہے کہ مرحوم کے اہل و عیال کو بھی نواب صاحب فراموش نہیں کریں گے ‘‘- (حسن نظامی ، ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ئ) حواشی ۱ - علامہ اقبال کو علی گڑھ کالج اور بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی کا ادارہ بے حد عزیز تھا- انہوں نے یہاں کئی مرتبہ خطبہ بھی دیا - یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی ملی تھی - موصوف کی ایک طویل نظم ’’ مخزن ‘‘ لاہور جلد ۱۳ شمارہ ۴ (ص ۵۷) بابت جون ۱۹۰۷ء میں ایڈیٹر صاحب کے طویل نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی - یہ نوٹ نہایت اہم ہے اور لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہے-نظم کا عنوان ہے ’’طلبائے علی گڑھ کالج کے نام‘‘- خطبات خطبہ ہفتم کیا مذہب کا امکان ہے ؟ خطبہ : ڈاکٹر محمد اقبال ترجمہ : ڈاکٹر وحید عشرت ’’ ہر زمانے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں ہیں - اگر اس قسم کے شعور زندگی سے بھر پور اور علم سے لبریز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا‘‘- (اقبال) ڈاکٹر محمد اقبال کے مشہور زمانہ خطبات کا ترجمہ اقبال اکادمی پاکستان کے اہم منصوبوں میں شامل رہا ہے - ڈاکٹر وحید عشرت تمام خطبوں کا ترجمہ مکمل کر چکے ہیں یہ تراجم اقبالیات میں بالترتیب شائع ہوتے رہے ہیں - یہ اس سلسلے کا آخری خطبہ ہے جو شائع کیا جا رہا ہے - ۱ - پہلا خطبہ ’’علم اور مذہبی مشاہدہ‘‘ جولائی ۱۹۹۴ء ۲ - دوسرا خطبہ ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ جنوری ۱۹۹۵ء ۳ - تیسرا خطبہ ’’خدا کا تصور اور دعا کا مفہوم‘‘ جولائی ۱۹۹۶ ء ۴ - چوتھا خطبہ ’’انسانی خودی اس کی آزادی اور لافانیت‘‘ جنوری ۱۹۹۸ء ۵ - پانچواں خطبہ ’’مسلم ثقافت کی روح‘‘ جنوری ۱۹۹۹ ء ۶ - چھٹا خطبہ ’’اسلام میں حرکت کا اصول‘‘ جولائی ۱۹۹۹ء ۷ - ساتواں خطبہ ’’کیا مذہب کا امکان ہے ؟ ‘‘ جنوری ۲۰۰۰ ء (مدیر) وسیع معنوں میں بات کریں تو مذہبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتا ہے - ان کو(۱) ایمان، (۲) فکر اور (۳) افشا کے دور گردانا جا سکتا ہے - پہلے دور (ایمان) میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ جس میں فرد یا ایک پوری جماعت اس حکم کے مدعا کے حتمی معنی کی عقلی تفہیم کے بغیر حکم کی غیر مشروط تعمیل کرتی ہے - یہ رویہ ممکن ہے کہ کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑے نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جائے ، مگر جہاں تک کسی فرد کی باطنی ترقی اور پھیلائو کا تعلق ہے ، اس میں یہ کوئی معنی نہیں رکھتا - کسی نظام کی مکمل اطاعت کے پیچھے اس نظام اور اس کے اختیار کے حتمی سر چشمے کی عقلی تفہیم ہوتی ہے - دوسرے دور میں مذہبی زندگی ایک طرح کی مابعدالطبیعیات میں اپنی بنیاد تلاش کرتی ہے خدا کے ساتھ وابستہ دنیا کا ایک ایسا پائیدار منطقی تصور ، جو اس مابعدالطبیعیات کا حصہ ہو - تیسرے دور میں مابعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے- اور مذہبی زندگی میں یہ امنگ پرورش پاتی ہے کہ وہ حقیقت مطلقہ سے براہ راست شاد کام ہو - یہاں آ کر مذہب ، زندگی اور قوت کے ذاتی سطح پر انجذاب کا معاملہ بن جاتا ہے جس سے فرد کی خود اپنی ایک آزاد شخصیت نکھرتی ہے - ایسے میں اسے قانون کی چھلنی سے گزارنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ قانون کے حتمی ذرائع کی دریافت خود اپنے شعور کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے - ایک مسلمان صوفی کے قول کے مطابق ، قرآن پاک کی اس وقت تک تفہیم ممکن نہیں ، جب تک کہ وہ ایمان لانے والے پر اس طرح نازل نہ ہو جس طرح کہ نبی پاک ﷺ پر نازل ہوا تھا - ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف مذہبی زندگی کی نشو و نما کے اس آخری حصے سے مترشح ہونے والے مذہب کے مفہوم کو میں آئندہ اٹھائے جانے والے سوالوں کے لیے ،بدقسمتی سے تصوف کے نام سے معروف معانی میں استعمال کروں گا ، جس کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ زندگی سے محروم اور حقیقت سے دور ایک ذہنی رویہ ہے ، جو ہمارے عہد کے حواسی نقطہ نظر کے بالکل الٹ ہے - تاہم مذہب کے اعلیٰ تصور میں جو زندگی کی وسعتوں کا متلاشی ہے یہ لازمی طور پر ایک تجربہ ہے اور تجربے کو سائنس سے بھی پہلے اپنی بنیاد کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے - جو انسانی شعور کو نکھارنے کی ایک سچی کوشش سے عبارت ہے اور تجربے کی اپنی مختلف سطحوں پر ، اسی طرح تنقیدی ہے ، جس طرح کہ اپنے مختلف مدارج پر فطرتیت (نیچرل ازم) تنقیدی ہے - جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ ممتاز جرمن فلسفی عمانویل کانٹ تھا جس نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ کیا مابعد الطبیعیات کا امکان ہے ؟ ’’ اس نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تھا - اس کے دلائل کا اطلاق ان حقائق پر بھی اتنا ہی موثر طور پر لاگو ہوتا ہے جو خصوصی طور پر مذہب کی دلچسپی کے ہیں - اس کے مطابق حواس کی مختلف سطحیں لازمی طور پر وہ صوری شرائط پوری کرتی ہیں جن سے علم کی تشکیل ہوتی ہے - شے بذاتہ ایک محدود تصور ہے اس کا وظیفہ صرف نظم پیدا کرنا ہے - اگر کسی تصور کو بڑھانے والی کوئی حقیقت موجود ہے تو وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے ، تو لازمی بات ہے کہ اس کے وجود کا عقلی ادراک نہیں کیا جا سکتا - تاہم کانٹ کا یہ بیان آسانی کے ساتھ قبول کرنا ممکن نہیں یہ صاف دلیل دی جا سکتی ہے کہ سائنس کی نئی ترقیات کے پیش نظر ، مادہ اپنی ماہیت میں روشنی کی منضبط لہروں یعنی نوری امواج سے عبارت ہے اور کائنات محض فکر کا ایک عمل متصور ہوتی ہے ، زمان و مکان کا متناہی ہونا اور ہیسن برگ کا فطرت کے غیر متعین ہونے کے اصول کا معاملہ عقلی بنیادوں پر استوار الہیات کے نظام کے لیے کانٹ کی سوچ کے لحاظ سے کچھ برا نہیں مگر ہمارے موجودہ مقاصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نقطہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں - شے بذاتہ کا جہا ں تک معاملہ ہے ، عقل محض اس تک رسائی نہیں رکھتی کیونکہ وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے - کانٹ کا بیان صرف اسی صورت میں قابل قبول ہو گا جب ہم یہ فرض کر لیں کہ تمام تجربات سوائے عمومی تجربے کے نا ممکن ہیں تب واحد سوال جو سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ کیا عمومی سطح ہی علم کی وہ سطح محض ہے جو تجربے سے حاصل ہوتی ہے کانٹ کا شے بذاتہ کا نقطہ نظر اور اشیا جیسی کہ ہمیں نظر آتی ہیں میں ہی مابعد الطبیعیات کے امکان کے بارے میں اٹھنے والے سوال کا جواب پوشیدہ ہے مگر اس وقت کیا صورت حال ہو گی ، جب معاملہ اس کے الٹ ہو جیسا کہ کانٹ نے سمجھ رکھا ہے - سپین کے ممتاز مسلم صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی نے اپنے ایک تیز اور گہرے مشاہدے میں خدا کو محسوس اور مدرک اور دنیا کو تصور کہا تھا جبکہ ایک دوسرے مسلم صوفی،مفکر اور شاعر عراقی نظام ہائے مکاں اور نظام ہائے زمان کی کثرت پر اصرار کرتا ہے - اور خدا کے زمان اور خدا کے مکاں کی بات کرتا ہے - یہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے ،جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ خارجی دنیا محض ایک عقلی تشکیل ہے اور انسانی تجربے کے کئی دوسرے مدارج بھی ہیں ، جو دوسرے زمان و مکاں کے نظاموں نے کسی اور نظم میں ترتیب دے رکھے ہیں - تاہم یہ ممکن ہے کہ ایسے مدارج میں تصور اور تجزیہ وہ کردار نہ رکھتا ہو جو ہمارے معمول کے تجربے میں وہ ادا کرتا ہے - اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تجربے کے اس درجے میں تصورات عالمگیر نوعیت کے علم کا کوئی کردار رکھنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں جس طرح کا کردار وہ عمومی تجربے میں رکھتے ہیں - کیونکہ محض تصورات ہی اس تجربے کو سماجی اور عمرانی تفہیم دیتے ہیں - انسان کا حقیقت تک رسائی کا دعویٰ جس کی اساس مذہبی تجربے پر ہے وہ لازمی طور پر انفرادی اور ناقابل ابلاغ رہے گا - اس اعتراض میں کچھ قوت ہے ، اگر اس سے مراد یہ ہو کہ صوفی مکمل طور پر روایتی طریقوں ، رویوں اور توقعات کے تابع ہوتا ہے - قدامت پسندی مذہب میں بھی ویسی ہی بری ہے جیسی انسانی سرگرمیوں کے دوسرے شعبوں میں بری ہے - یہ خودی کی تخلیقی آزادی کو برباد کر دیتی ہے اور وہ تازہ روحانی کوششوں کے دروازوں کو مقفل کر دیتی ہے سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے عہد وسطی کے صوفیا کی کاوشیں قدیم سچائی کی طبع زاد دریافتوں کو سامنے نہ لا سکیں - تاہم یہ حقیقت ہے کہ مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی آدمی کی کوشش رائیگاں ہوتی ہے - یقینا مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے سے خودی کی حتمی نوعیت کے بارے میں ایک سرا ہمارے ہاتھ میں آتا ہے - جیسے بھی ہو ہمیں روز مرہ کے عمرانی معاملات میں بھی خلوت میں رہنا اور چلنا پڑتا ہے - ہم انساں کی انفرادیت کے عمق تک رسائی کرنے کی کوشش نہیں کرتے - ہم انہیں وظائف اعمال کے طور پر لیتے ہیں اور ان کی شناخت کے ان پہلوئوں سے ہی ان تک پہنچتے ہیں - جن سے ہم ان سے محض تصوراتی سطح پر معاملہ کر سکتے ہیں - مذہبی زندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہم خودی کو ایک فرد کے بطور دریافت کریں جو اس کی تصوراتی سطح پر قابل بیان روز مرہ کی عادی ذاتیت سے کہیں زیادہ گہری ہو - اس کا تعلق زیادہ حقیقی ’’ ذات ‘‘ سے ہوتا ہے ، جس سے خودی اپنی انفرادیت کو دریافت کرتی ہے - اس کے مابعد الطبیعیات میں مرتبے اور اس مرتبے میں زیادہ بلند مقامات کے حصول کے امکانات رہتے ہیں - ٹھیک طور پر یوں کہیں گے کہ تجربہ جو اس حقیقت کے انکشاف کی طرف لے جاتا ہے وہ اس عقلی حقیقت کو تصوراتی سطح پر منظم نہیں کرتا ، یہ ایک بین حقیقت ہے کہ یہ رویہ ایک باطنی حیاتیاتی تبدیلی کے باعث ہے جو منطقی حدود میں نہیں آسکتیں - وہ بذات خود دنیا ساز اور دنیا کو دہلا دینے والے عمل میں خود کو متشکل کرتا ہے اور محض اس صورت میں ابھی لا زمانی تجربے کے محتویات ایک حرکت زماں کی صورت میں خود کو جذب کرلیتے ہیں - اور تاریخ کی آنکھ میں موثر طور پر قابل دید بن جاتے ہیں - یوں نظر آتا ہے کہ ’’ حقیقت ‘‘ سے تصورات کے ذریعے معاملہ بندی کوئی بالکل سنجیدہ طریق کار نہیں ہے - سائنس کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے برقی خلیے (الیکٹرون) کوئی حقیقی شے ہیں یا نہیں یہ محض نشانات بھی ہو سکتے ہیں محض ایک روایت بھی ہو سکتے ہیں - مذہب جو لازمی طور پر ایک حقیقی زندگی کا نمونہ ہے صرف وہی حقیقت سے معاملہ بندی کا ایک سنجیدہ طریقہ ہے - ایک اعلیٰ تجربے کی حیثیت سے وہ ہماری فلسفیانہ الٰہیات کے تصورات کا تصحیح کنندہ ہے یا کم از کم وہ ہمیں خالص عقلی طریق کار کے بارے میں شک میں ڈال دیتا ہے جس سے کہ وہ تصورات تشکیل پاتے ہیں - سائنس مابعد الطبیعیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر سکتی ہے اور اس کی صداقت پر یقین بھی کر سکتی ہے کہ ایک طرح کی شاعری کا جواز رکھتی ہے جیسا کہ لانگے اس کی تعریف کرتا ہے یا جس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ ایک بالغوں کا ایک جائز کھیل (ناٹک) ہے مگر ماہرین مذہب جو ان اشیا کی ترتیب و تشکیل میں اپنے ذاتی مرتبہ کی تلاش میں سرگردان رہتے ہیں- تاکہ اپنی کوششوں کا حتمی مقصد حاصل کر لیں مگر وہ ایسا کر نہیں سکتے وہ کر لیتے ہیں جیسے سائنس سیرت و کردار کو متوازن و متسلسل کرنے کے لیے محض سفید جھوٹ اور محض گویا کہ کہہ دیتی ہے - اب جہاں تک حقیقت کی فطرت مطلقہ کا تعلق ہے - سائنس کو اپنی مہم میں کچھ بھی دائو پر نہیں لگانا پڑتا مذہب کی راہ میں خودی کا سارا ہی کردار (اندوختہ) تجربے اور زندگی کو جذب کرنے والا ایک ذاتی مرکز ہے ، دائو پر لگ جاتا ہے - جو کسی حتمی قسمت کے فیصلے کا نتیجہ ہے وہ محض تو ہم نہیں ہو سکتا - ایک غلط تصور تفہیم کو غلط راہ پر لے جا سکتا ہے مگر ایک غلط کام پورے انسان کو پستیوں میں گرا سکتا ہے - اور بالآخر انسانی خودی کے پورے ڈھانچے کو تباہ کر سکتا ہے - ایک خیال محض انسانی زندگی کے ایک حصے کو جزوی طور پر متاثر کر سکتا ہے - مگر فعل جس کا تعلق حرکی طور پر حقیقت مطلقہ سے ہے - جس سے عام طور پر حقیقت کی طرف ایک پورے انسان کا ایک مسلسل رویہ ظاہر ہوتا ہے- اعمال نفسیاتی اور عضویاتی طریق ہائے کار پر کنٹرول رکھتے ہیں تاکہ وہ خودی کی تعمیر کرکے اس کا حقیقت مطلقہ کے ساتھ فوری طور پر ربط بڑھا سکیں مگر وہ اپنی صورت اور تعلق میں انفرادی ہوتا ہے - جبکہ اعمال میں بھی اجتماعی اور معاشرتی رنگ پیدا کیا جا سکتا ہے - جب ان کے ساتھ دوسرے رہنا سہنا شروع کر دیں - تاکہ وہ بھی اپنے آپ کو پا سکیں اور ان کی حقیقت تک رسائی کا طریق کار موثر ہو سکے ہر زمانے کے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحتیں ہیں - اگر اس قسم کے شعور زندگی سے بھرپور علم اور تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا - اس سوال کے جو از سے ہٹ کر بھی کچھ اہم وجوہ ہیں کہ جدید ثقافت کی تاریخ کے موجودہ اس لمحے پر یہ سوال کیوں اٹھایا گیا ہے ؟ پہلی سطح پر جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے اس کا دلچسپ پہلو اس کا سائنسی ہونا ہے یوں نظر آتا ہے کہ ہر ثقافت کے دنیا کے بارے میں اپنے محسوسات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک فطرتیاتی صورت بھی ہے - مزید یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فطرتیت ہر صورت میں بالآخر ایک طرح کی جوہریت پر منتج ہوتی ہے - ہمارے پاس برصغیر کا ایک تصور جوہریت ہے ، یونانی جوہریت ہے ، مسلم جوہریت اور پھر جدید تصور جوہریت ہے - تاہم جدید جوہریت کا تصور بالکل منفرد ہے - اس میں اچنبھے کی بات ریاضی تھی- جس کی وجہ سے کائنات میں مختلف سوالات کی توضیح ہوئی اور اس کی طبیعیات نے خود اپنا ایک طریق کار وضع کیا اور خود اپنے ہی معبدکے پرانے خدائوں کو برباد کر کے رکھ دیا اور ہمیں اس سوال تک لے آئی کہ کیا علت و معلول کی اسیرفطرت ہی تمام تر سچائی ہے ؟ اور کیا حقیقت مطلقہ ہمارے شعور میں اسی انداز سے کسی اور طرف سے حملہ آور نہیں ہو تی کیا تسخیر فطرت کی خالص عقلی منہاج ہی واحد منہاج ہے - پروفیسر اڈنگٹن کہتا ہے کہ ہمیں تسلیم ہے کہ طبیعیات کے حقائق اپنی بنیادی ماہیت میں حقیقت کے محض جزوی پہلو ہو سکتے ہیں ہم اس کے باقی دوسرے جزو سے کس طرح معاملہ کر سکتے ہیں - یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دوسرے حصے سے ہمارا تعلق طبیعیات والے حصے سے کم ہے - محسوسات ، مقاصد اور اقدار بھی ہمارے شعور کو بناتے ہیں - اسی طرح جس طرح کہ حسی ادراکات ان کی تعمیر کرتے ہیں - ہم حسی ادراکات کی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح بیرونی دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں جیسے کہ سائنس ان سے بحث کرتی ہے - ہم اپنے وجود کے مختلف عناصر کی بھی پیروی کرتے ہیں - اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی دنیا کی طرف رہنمائی نہیں کرتے ، مگر یقینی طور پر وہ کہیں نہ کہیں ضرور لے جاتے ہیں ‘‘ دوسری سطح پر ہم اس سوال کی بہت زیادہ عملی اہمیت پر غور کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ دور جدید کا انسان اپنے اندر فلسفوں کے تنقیدی اور سائنسی اختصاص کے ذریعے ایک عجیب قسم کی اذیت کا شکار ہے اس کی فطرتیت نے اسے فطرت کی قوتوں پر بے مثال کنٹرول عطا کیا ہے ،مگر اس کے اپنے مستقبل پر ایمان کو لوٹ لیا ہے یہ کس قدر عجیب ہے کہ ایک ہی تصور مختلف ثقافتوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے -ا سلام میں ارتقا کے نظریے کی تشکیل و تدوین نے مولانا جلال الدین رومی کی انسان کے حیاتیاتی مستقبل کے بارے میں زبر دست امنگ کو جنم دیا - کوئی بھی مہذب مسلمان جذب و شوق کے بغیر ان اشعار کو نہیں پڑھ سکتا - از جمادی مردم و نامی شدم وز نماں مردم بحیوان سر زدم مردم از حیوانی و آدم شدم پس چہ ترسم کہ ز مردن کم شدم حملۂ دیگر بمیرم از بشر پس بر آرم از ملائک بال د پر بار دیگر از ملک پران شدم آنچہ اندر وہم ناید آن شدم پس عدم گردم عدم چون ارغنون گویدم کانا الیہ راجعون ترجمہ : زمین میں بہت نیچے اس کی تہوں میں میں کچے دھات (سونا) اور پتھروں کی دنیا میں زندگی کرتا تھا پھر میں نوع بنوع پھولوں کی مسکراہٹ میں ظاہر ہوا پھر میں جنگلی جانوروں اور آوارہ وقت کے ساتھ اڑا پھرا زمین میں ، فضا میں اور سمندروں کے دوش پر چلا ہر بار ایک نئی زندگی سے شاد کام ہوا کئی بار ڈوبا اور ابھرا رینگا اور بھاگا میرے جوہر کے تمام بھید کھل کر رہے کیونکہ شکل و صورت نے انہیں دیدنی بنا دیا اور اب ---- ایک انسان اور میری منزل دبیز بادلوں اور چرخ نیلی فام سے پرے ہے اس دنیا میںجہاں نہ تغیر ہے اور نہ موت فرشتے کی شکل میں اور پھر ان سے بھی دور لیل و نہار کی حد بندیوں سے ماورا دیدنی نا دیدنی موت و حیات کی قید سے آزاد جہاں سب کچھ ہے سب کچھ جو پہلے دیکھا نہ سنا بالکل ایک اور اس کل میں سب کچھ سمایا ہوا ہے - دوسری طرف یورپ میں اسی نظریہ ارتقا کی تشکیل زیادہ منظم اور منضبط صورت میں ہوئی جس سے یہ یقین ہو گیا ہے جیسے اس نظریے کے لیے کوئی سائنسی بنیاد نہیں کہ انسانی زندگی کی ہمہ رنگ گونا گونی میں مزید کوئی مادی اضافہ ہو - اس لیے جدید انسان کی پوشیدہ مایوسی نے خود کو سائنس کے پردے کے پیچھے چھپا لیا ہے - جرمن فلسفی فریڈرک نطشے نے گرچہ یہ سوچا تھا کہ ارتقا کا نظریہ اس یقین کو جواز نہیں دیتا کہ انسان کے آگے کوئی نہیں جا سکتا - اس کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی - انسان کے مستقبل کے بارے میں مادی امنگ خود اس کے تکرار دوامی کے تصور سے ختم ہو جاتی ہے- کیونکہ اس سے کسی انسان کا بقائے دوام کے بارے میں وضع کردہ یہ تصور شاید سب سے زیادہ مایوس کن بن جاتا ہے - تکرار دوامی کوئی ازلی تکوینی عمل نہیں ہستی کے بارے میں یہ وہی پرانا تصور ہے جو تکوین کے بہروپ میں آ گیا ہے - لہٰذا جدید دور کا انسان اپنی عقلی سرگرمیوں کے نتائج سے مکمل طور پر مسحور ہونے کی بنا پر باطنی لحاظ سے روحانیت سے محروم زندگی گزار رہا ہے - فکریات کے میدان میں وہ خود اپنے آپ کو کھلے تصادم میں مبتلا پاتا ہے اور معاشی اور سیاسی دنیا میں اس کی زندگی دوسروں سے کھلے تصادم میں بسر ہو رہی ہے - وہ خود کو اپنی بے مہارا انانیت کو قابو میں رکھنے میں لا چار پاتا ہے اس کی زر وسیم کی بے پناہ بھوک اس کی ذات میں ودیعت شدہ تمام اعلیٰ محرکات و اقدار کو بتدریج مسل اور کچل رہی ہے -اور اسے سوائے زندگی کی پریشانیوں کے اور کچھ دینے سے قاصر ہے - در حقیقت وہ بظاہر نظر نہ آنے والے محسوسات میں جذب ہو چکا ہے وہ مکمل طور پر خود اپنے اعماق وجود سے کٹ گیا ہے - اس منظم مادیت کے جلو میں خود اس نے اپنی توانائی مفلوج کر لی ہے جس کے بارے میں ہکسلے نے پہلے ہی خدشے اور تاسف کا اظہار کیا تھا - مشرق میں بھی صورت حال ناگفتہ بہ ہے - عہد و سطٰی کا وہ صوفیانہ اسلوب جن میں مذہبی زندگی نے اپنا اعلیٰ ترین اظہار کیا ، مشرق اور مغرب دونوں جگہ اس نے خوب نشو و نما پائی مگر اب وہ عملی طور پر ناکام ہو گیا ہے - اور شاید مسلمانوں کے مشرق میں اس سے جس قدر بربادی ہوئی ، کہیں اور اس کی نظر نہیں ملتی بجائے اس کے کہ وہ عام آدمی کی باطنی زندگی کی قوتوں کو مجتمع کر کے اسے تاریخ کے میدان میں عملی شرکت کے لیے تیار کرتا اس نے اسے جھوٹی رہبانیت سکھائی ہے اور اسے جہالت اور روحانی غلامی پر قانع رہنے کی تعلیم دی ہے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں - اگر جدید ترکی ، مصر اور ایران کے مسلمان اپنے لیے توانائی کے نئے سرچشموں کی تلاش میںنئی وفاداریوں کی تخلیق کریں - اس طرح کی حب الوطنی اور قومیت کو نطشے بیماری اور خلاف عقل تعبیر کرتا ہے اور اسے تمدن و ثقافت کے خلاف مضبوط قوتیں گردانتا ہے وہ روحانی احیا کے اس خالص مذہبی طریق سے مایوس ہے حالانکہ صرف وہی ہمارے جذبات اور افکار کو پھیلا کر زندگی اور قوت کے ازلی چشمے سے ہمیں مربوط کر کے سیراب کرتا ہے - جدید مسلمان اپنے جذبے اور فکر کو محدود کر کے توانائی کے تازہ ذرائع کے قفل توڑنے کی امید پر ریجھا ہوا ہے - جدید بے دین سوشلزم جس کے اندر ایک نئے مذہب کا ولولہ اور جوش ہے ایک وسیع نظر رکھتی ہے مگر وہ اپنی فلسفیانہ بنیاد ہیگل کی بائیں بازو کی سوچ پر رکھتی ہے - اس نے اس ذریعے کے خلاف بغاوت کی ہے جس نے اسے نصب العین اور قوت بخشی ہے - قومیت اور بے دین سوشلزم دونوں کم از کم موجودہ صورت حال میں انسانی تعینات میں نفرت ، تشکیک اور غصے کی نفسیاتی قوتوں سے توانائی کے لیے مجبور ہیں جس سے انسان کی روح مرجھا گئی ہے اور توانائی کے روحانی ذرائع چھپ کر رہ گئے ہیں - نہ تو قرون وسطٰی کے متصوفانہ اسلوب،نیشنلزم اور نہ ہی بے دین سوشلزم اپنی بیماری سے مایوس انسانیت کو صحت بخش سکتا ہے جدید ثقافت کی تاریخ میں یہ لمحہ ایک بہت بڑے بحران کا شاخسانہ ہے - یقینا حیایتاتی احیا آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور مذہب اپنی اعلیٰ ترین صورت میں جب اظہار کرتا ہے تو نہ تو وہ ایک اندھا اذعانی عقیدہ ہوتا ہے اور نہ رہبانیت اور نہ رسم و رواج وہ اکیلے ہی جدید انسان کو اخلاقی طور پر بڑی سے بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بنا دیتا ہے ، جو جدید سائنس کی ترقی کے نتیجے میں اس پر آن پڑی ہیں - وہ انساں کے ایمان کو بحال کر سکتا ہے جس سے وہ ایک ایسی شخصیت حاصل کر سکتا ہے جسے وہ موت کے بعد بھی باقی رکھ سکتا ہے - صرف وہی ہے جو اس کو ایک ایسی بلندبصیرت دے سکتا ہے یہ سب کچھ محض اپنی اصل اور مستقبل کے بارے میں بلند نگاہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور اس سے یہاں وہاں انسان بالآخر اس سماج پر فتح پانے کے قابل ہو جائے گا جو غیر انسانی مسابقت پر حرکت کرنے والی تہذیب ہے اور جو مذہبی اور سیاسی اقدار کے تنازعات اور تصادم کے نتیجے میں اپنی روحانی وحدت گم کر چکی ہے - جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں مذہب تو اخلاقی اقدار کے مطلق اصولوں کو غور و فکر کے کار عظیم کو تصرف میں لا کر کسی شخصیت کی خود اپنی قوتوں کو متحد کرتا ہے جن کا حقیقت میں انکار نہیںکیا جا سکتا - دنیا کا تمام مذہبی ادب جن میں ماہرین کے اپنے ذاتی تجربات کا ریکارڈ بھی شامل ہے گرچہ ان میں ازکار رفتہ نفسیات کی فکری صورتیں بھی موجود ہوں ، کو پرکھنے کی اشد ضرورت ہے - یہ تجربات مکمل طور پر اس طرح فطری ہیں جس طرح کہ ہمارے دوسرے تجربات فطری ہیں - اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں وقوف کی قدر مشترک موجود ہے - اور جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ خودی کی ان قوتوں میں مرکزیت پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جس سے ان میں ایک نئی شخصیت کے محاسن پیدا ہو جاتے ہیں - یہ تصور کہ یہ تجربے عصبی خلل کے کسی مریض کے یا صوفیانہ ہوتے ہیں - اس سے ان تجربات کے معنی یا قدر کا سوال طے نہیں ہوتا - اگر ورائے طبیعیات کوئی نقطہ نظر ہو سکتا ہے تو ہمیں پوری جرات سے اس کے امکان کا بھی سامنا کرنا چاہیے خواہ اس سے ہمارا معمول کا طرز زندگی اور انداز فکر بہتر ہو جائے یا ہمیں پرانی راہیں کیوں نہ تبدیل کرنا پڑیں- سچ کی دلچسپی تو اسی میں ہے کہ ہم اپنے موجودہ رویے (ڈگر) کو تبدیل کر دیں - کم از کم اس سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر مذہبی رویہ کسی طرح کی عضویاتی خرابی کا نتیجہ ہو - جارج فاکس ذہنی مریض ہو سکتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے عہد میں انگلستان کی مذہبی زندگی میں پاکیزگی کو فروغ دینے والی قوت تھا - حضرت محمد ﷺ کے بارے میںہمیں بتایا جاتا ہے کہ آپ نفسیاتی عوارض کا شکار تھے درست ؛ مگر اگر کوئی ذہنی عوارض کا شکار یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے پورے عمل کی سمت تبدیل کر کے رکھ دے، تو یہ نفسیاتی تحقیق و ریسرچ میں زیادہ دلچسپ نکتہ ہے کہ ان کے اس طبع زاد تجربے کے بارے میں تحقیق ہو کہ کس طرح انہوں نے غلاموں کو آقا بنا دیا - انہوں نے طرز عمل بدل دیئے اور نوع انسانی کی تمام نسلوں کے کردار اور عمل کو نئی صورت بخش دی - پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف اٹھائی گئی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی مختلف طرح کی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی روحانی کشمکش اور ان کے کردار کو وہ رد عمل نہیں گردانا جا سکے گا جو محض ذہن کے اندر کے کسی سراب کا نتیجہ قرار دے دیا جائے - اس کو سمجھنا بھی نا ممکن ہے ، سوائے اس کے کہ یہ کسی معروضی صورت حال سے پیدا ہونے والا رد عمل ہے جو نیا جوش و ولولہ ، نئی تنظیم سازی اور نیا نکتہ آغاز ہے - اگر ہم علم بشریات کے حوالے سے اس نکتہ پر غور کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ انسان کی سماجی تنظیم میں بچت کے پہلو سے ذہنی اختلال ایک بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے - اس کا کام حقائق کی ترتیب اور وجوہات کی دریافت نہیں - وہ زندگی کے حوالے سے سوچتا اور اس خیال سے حرکت کرتا ہے کہ وہ نوع انسانی کے رویوں کے نئے طریقے اور راستے بنائے - اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اپنی مجبوریاں اور التباسات ہیں - اسی طرح ان سائنس دانوں کی یعنی اپنی مجبوریاں اور التباسات ہیں جو حواسی تجربے پر اعتماد کرتے ہیں - ان کے طریق کار کے محتاط مطالعے سے تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ان کے تجربے کو بھی التباس کے کھوٹ سے پاک کر دیا جائے تو وہ بھی سائنس دانوں سے کم تبدیلی لانے والے نہیں - ہم اجنبیوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم تحقیق کا کوئی ایسا موثر طریق کیونکر دریافت کریں جو اس غیر معمولی تجربے کی ماہیت اور جواز کے بارے میں کچھ بتا سکے - عرب تاریخ دان ابن خلدون ،جس نے جدید تاریخ کی علمی بنیادیں رکھیں وہ پہلا شخص ہے جس نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کی انسانی نفسیات کی اس سمت دھیان دیا اور اس تصور تک پہنچا جسے ہم نفس متناہیہ (زیر شعورنفس ، ذات کشفی) کہتے ہیں - بعد میں انگلستان کے سر ولیم ہملٹن اور جرمن فلسفی لائی بنیز ذہن کے کسی نامعلوم مظہر کی تلاش میں دلچسپی لینے لگے تاہم غالباً ژونگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ مذہب کی بنیادی ماہیت تحلیلی نفسیات کی حدود سے باہر ہے - تحلیلی نفسیات اور فن شاعری کے تعلق کے بارے میں ہونے والے مباحث کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف فنی پیرا یہ ہی نفسیات کا موضوع بن سکتا ہے اس کے مطابق فن کی بنیادی ماہیت نفسیات کے طریق کار کا موضوع نہیں بن سکتی ژونگ کے بقول یہ امتیاز ’’ لازمی طور پر مذہب کی حدود میں بھی قائم رہنا چاہیے - یہاں بھی مذہب کے علامتی و جذباتی مظہر کی نفسیاتی توجیہ کی اجازت دینا ہو گی - مذہب کی بنیادی فطرت کے بارے میں نفسیاتی استدلال کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں اور یقینا ایسا ہو بھی نہیں سکتا - اگر ایسا ممکن ہوتا تو نہ صرف مذہب بلکہ آرٹ بھی نفسیات کا ایک ذیلی شعبہ متصور کیا جاتا ‘‘- ژونگ نے اپنی ہی تحریروں میں خود اپنے اس اصول کو کئی بار پامال کیا ہے - اس طریق کار کے نتیجے میں ہمیں مذہب کی بنیادی ماہیت کے بارے میں حقیقی بصیرت اور انسانی شخصیت کے بارے میں جاننے کی بجائے جدید نفسیات نے نئے نظریات کا پنڈورا باکس ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے ، جس سے اعلیٰ الہامی مظاہر کی حیثیت سے مذہب کی ماہیت کو سمجھنے میں مکمل طور پر غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اور اس سے ہم مکمل طور پر نا امیدی کی طرف چلے گئے ہیں - ان نظریات کے عام پر اطلاق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذہب کا انسانی خودی سے ماورا کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رہا - اب یہ محض ایک طرح کا معروف حیاتیاتی آلہ ہے جو انسانی معاشرے کے گرد ایک اخلاقی نوعیت کی روکاوٹیں کھڑی کرتا ہے - تاکہ وہ خودی کی غیر متزاحم جبلتوں کے خلاف ایک حفاظت کرنے والا سماجی پردہ قرار پا سکے - اسی لیے نئی نفسیات کے مطابق مسیحیت نے اپنا حیاتیاتی مقصد پورا کر دیا ہے - جدید دور کے انساں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کے اصل جواز کو سمجھ سکے - اس طرح ژونگ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ :- ’’ اگر ہماری رسومات میں پرانی بربریت موجود ہو گی تو یقینی طور پر ہم اسے سمجھ لیتے- آج کل ہمارے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ بے مہار انسانی نفس کی توانائی (لبیڈو) کیا کرے گی - جو سیزرز (رومی بادشاہوں) کے قدیم روم میں گونجتی تھی - آج کے عہد کا مہذب انساں اس سے بہت دور جا چکا ہے - وہ شکستہ اعصاب اور جنونی ہو چکا ہے جہاں تک ہمارا معاملہ ہے وہ ضروریات جنہوں نے مسیحیت کو آگے بڑھایا تھا وہ ختم ہو چکی ہیں - اب ہم زیادہ دیر تک ان کے معانی نہیں جان سکتے - ہم بالکل نہیں جانتے کہ کیا چیز ہماری حفاظت کرے گی اہل علم لوگوں کے لیے یہ نام نہاد مذہبیت پہلے ہی اعصابی جنونیت تک پہنچ چکی ہے - گذشتہ دو ہزار سال کی عیسائیت نے اپنا کام کر لیا ہے اور اس نے بند باندھ دیا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے گناہگار ہونے کے تصور سے بچا لے ‘‘- مذہبی زندگی کے اعلیٰ تصور میں یہ نکتہ مکمل طور پر غائب ہے - خودی کے ارتقا میں حسی ضبط نفس تو بالکل ابتدائی سطح کی چیز ہے - مذہبی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد انسان کے موجودہ ماحول کی تشکیل کرنے والے سماجی تانے بانے کی اخلاقی صحت سے زیادہ اس کے ارتقا کو خودی کی زیادہ اہم منزل کی طرف حرکت پذیر کرنا ہے وہ بنیادی ادراک جس سے مذہبی زندگی آگے کی جانب حرکت کرتی ہے وہ موجودہ خودی کی نازک اندام وحدت ہے جسے شکستگی کا خوف رہتا ہے- اس میں دوبارہ احیا کی صلاحیت بھی ہے اور وہ یہ اہلیت بھی رکھتی ہے کہ کسی معلوم یا نہ معلوم ماحول میں نئی صورت حال کی تخلیق کے لیے وافر آزادی رکھے - اس کے اس بنیادی ادراک کے پیش نظر اعلیٰ مذہبی زندگی اپنی توجہ اس تجربے پر رکھتی ہے جس سے اس حقیقت کی لطیف حرکتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے - جو حقیقت کی تعمیر کے ممکنہ مستقل عناصر کے بطور نہایت سنجیدگی کے ساتھ خودی کے مقدر پر اثر انداز ہوتے ہیں - اگر ہم معاملے پر اس نکتہ نظر سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جدید نفسیات نے مذہبی زندگی کے بیرونی غلاف تک کو ابھی چھوا تک نہیں اور وہ اس سے جسے کہ مذہبی تجربہ کہا جاتا ہے کی انواع و اقسام اور ثروت سے بہت دور ہے اس کے باثروت ہونے اور اس کی انواع و اقسام سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے میں آپ کے سامنے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو سترہویں صدی کے ایک ممتاز مذہبی عبقری شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کا ہے - انہوں نے اپنے معاصر صوفیا پر بلا کسی خوف اور جھجک کے ایک تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے - جس کے نتیجے میں صوفیا نہ ادب پر تنقید کی ایک نئی تکنیک وجود میں آئی ہے - تمام مختلف قسم کے صوفیانہ مسالک جو برصغیر پاک و ہند میں مروج ہیں وہ وسطی ایشیا اور عرب سے آئے - وہ واحد تکنیک ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کی سرحد عبور کی اور جو آج بھی پنجاب ،افغانستان اور ایشیائی اسلامی روس میں زندہ ہے - میں ڈرتا ہوں کہ جدید نفسیات کی زبان میں اس اقتباس کے حقیقی مفاہیم اجاگر نہ کر سکوں گا- کیونکہ وہ زبان اس وقت موجود نہیں - تاہم میرا سادہ سا مقصد یہ ہے کہ اس تجربے کی متناہی دولت کے بارے میں کچھ اظہار کروں جس سے الوہیت کی تلاش میں خودی گزرتی اور ادلتی بدلی رہتی ہے - مجھے امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے کیونکہ میں بظاہر نامانوس مصطلحات میں بات کر رہا ہوں کیونکہ اس میں معانی کا اصل جوہر موجود ہے - مگر جو مذہبی نفسیات کی تحریک پر متشکل ہوئی ہے او ر جو ایک مختلف ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھی ہے - اب میں اس اقتباس کی طرف آتا ہوں - حضرت شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کے سامنے ایک شخص عبدالمومن کا تجربہ یوں بیان کیا گیا :- مجھے یوں لگا جیسے آسمان اور زمین اور خدا کا عرش اور دوزخ اور جنت میرے لیے تمام ختم ہو چکے ہیں - جب میں نے اپنے اردگرد دیکھا تو میں نے انہیں کہیں موجود نہ پایا - جب میں کسی کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی بھی موجود نہیں - یہاں تک کہ خود مجھے اپنا وجود گم نظر آتا ہے - خدا لامتناہی ہے کوئی چیز اس کا احاطہ نہیں کر سکتی - یہ روحانی تجربے کی آخری حد ہے - کوئی بھی ولی اس حد سے آگے نہیں جا سکتا - حضرت مجدد الف ثانی نے اس کا یوں جواب دیا کہ یہ تجربہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے - اس کا ماخذ ہر لحظہ اپنی حالت بدلتا ہوا قلب ہے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ تجربے کا حامل ، قلب کے لا تعداد مقامات میں سے ایک چوتھائی بھی عبور نہیں کر سکا - روحانی زندگی کے پہلے مقام کو پانے کے لیے باقی تین چوتھائی منازل بھی طے کرنا ضروری ہیں - اس مقام سے پرے ایک اور مقام ہے جو روح سر خفی اور سر اخفا کے نام سے معروف ہے یہ مل کر تصوف کی فنی اصطلاح میں عالم امر کی تشکیل کرتے ہیں - ان کی حالتوں اور تجربے کی اپنی خصوصیات ہیں - ان مقامات سے گزرنے کے بعد سچائی کا طالب بتدریج خدا کے اسما حسنٰی اور صفات الٰہی سے منور ہوتا ہے اور وہ ہستی باری تعالیٰ کے نور سے شاد کام ہوتا ہے - حضرت مجدد الف ثانی کے فرمودہ اس اقتباس میں، جس بھی نفسیاتی بنیاد پر یہ امتیازات قائم کیے گئے ہیں اس سے ہمیں پوری کائنات کے باطنی تجربے کے بارے میں کچھ نہ کچھ تصور تو ملتا ہے - جیسا کہ ایک عظیم مصلح صوفی نے دیکھا ہے - ان کے ارشاد کے مطابق عالم امر رہنمائی دینے والی توانائی کی دنیا ہے - منفرد تجربے تک رسائی سے پہلے جس میں سے گزر ضروری ہے - جو خالص معروضی علامت ہے اسی بنا پر میں کہتا ہوں کہ ابھی جدید نفسیات نے اس موضوع کی بیرونی حد کو بھی چھوا تک نہیں - ذاتی طور پر ،میں حیاتیاتی یا نفسیاتی سطح پر چیزوں کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی پر امید نہیں تخیل کی عضویاتی شرائط کی کچھ تفہیم کی بنا پر محض تجزئیاتی تنقید سے ، ہم انسانی شخصیت کی زندہ جڑوں تک نہیں پہنچ سکتے ، جس میں مذہبی زندگی بھی بعض اوقات خود اپنا اظہار کرتی ہے - یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ جنسی تخیل بھی مذہب کی تاریخ میں اہم کردار کا حامل ہے یا یہ کہ مذہب نے فرار کے تخیلاتی ذرائع پیدا کئے ہیں یا غیر پسندیدہ حقائق سے مدافقت پیدا کی ہے ، اس معاملے کے بارے میں اس طرح کے خیالات کوئی معنی نہیں رکھتے اور کم از کم مذہبی زندگی کے حتمی مقاصد کو یہ متاثر نہیں کرتے - یہ کہا جا سکتا ہے کہ متناہی خودی کی تعمیر ہمیشہ کی زندگی کے عمل سے منسلک کی جا سکتی ہے - اس سے اسے ایک مابعد الطبیعیاتی مقام ملے گا جس کو ہم اپنے موجودہ دم گھٹنے والے ماحول میں بھی کسی حد تک جان سکتے ہیں- اگر نفسیات کا علم نوع انسانی کی زندگی میں عمل دخل کا کوئی حقیقی جواز رکھنے کا خواہش مند ہے تو اسے ہمارے عہد کے ماحول کے مطابق کوئی زیادہ موزوں نئی تکنیک دریافت کرنی ہو گی جو ایک نپے تلے خود مختار منہاج پر مشتمل ہو ، کوئی خبطی جو عالی دماغ ہو اس طرح کا امتزاج (خبطی اور عالی دماغی کا) کوئی ناممکن چیز نہیں - شاید ہمیں اس تکنیک کا کوئی سرا پکڑا سکے - آج کے جدید یورپ میں نطشے ، جس کی زندگی اور سرگرمیاں ہم اہل مشرق کے لیے مذہبی نفسیات میں ایک دلچسپ مسئلے کو ابھارتی ہیں - وہ اس قابل تھا کہ اس قسم کے کسی کام کے لیے موزوں ثابت ہوتا - اس کی ذہنی ساخت (تاریخ) سے ہم آہنگی رکھنے والا ایسا عنصر نہیں ہے کہ مشرقی تصوف کی تاریخ میں پیدا نہ ہوا ہو - اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کو عطا ہونے والا خدا کا جلوہ اپنے پورے تحکم اور حقیقی جلال کے ساتھ اس پر عیاں تھا - میں نے اس پر اترنے والی تجلی کے لیے تحکم کا لفظ استعمال کیا ہے اس لیے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسے ایک خاص طرح کی پیغمبرانہ بصیرت ملی ہوئی تھی جس نے اسے ایک مخصوص قسم کی تکنیک اور مقاصد کے ساتھ ایک پائیدار زندگی کی قوتوں سے بہرہ ور کیا تھا تاہم نطشے ایک نا کام شخص تھا اور اس کی ناکامی کا سبب اس کے پیش رو تھے جن میں شوپن ہار ، ڈارون اور لانگے شامل تھا جن کے اثرات نے اسے اندھا کر رکھا تھا جس سے وہ اپنی بصیرت کی موزونیت سے لا علم رہا- بجائے اس کے کہ وہ کسی روحانی اصول کی طرف دیکھتا جو خدا کی الوہیت کو کمتری میں بھی ترقی پاتا دیکھتا اور یوں وہ ہمارے سامنے کسی لا متناہی مستقبل کے دروازے کھولتا نطشے نے اپنے آپ میں جس چیز کو جانا وہ رئیسانہ انتہا پسندی تھی جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں کسی اور مقام پر لکھا ہے- آنچہ او جوید مقام کبریا ست ! این مقام از علم و حکمت ماورا ست خواست تا از آب و گل آید بروں خوشہ کز کشت دل آید بروں اگرچہ وہ مقام کبریا ، خدا کی قربت کے اعلیٰ مقام کا متلاشی ہے مگر یہ مقام تو علم و حکمت سے بہت بالا و بلند ہے - یہ پورا نظر نہ آنے والے انسان کے دل کی کھیتی میں پیدا ہوتا ہے اور اس وقت اگتا ہے جب اس کی پیدائش محض مٹی کے ڈھیر سے نہیں ہوتی - پس نطشے جیسا ذہین آدمی ، جس کی بصیرت مکمل طور پر محض اس کی اپنی اندرونی قوتوں کی پروردہ تھی نا کام ہو گیا اور وہ اس لیے بے ثمر رہ گیا کیونکہ اس کی روحانی زندگی کسی مرد کامل کی خارجی رہنمائی سے محروم تھی - بد قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ یہ آدمی اپنے دوستوں کے سامنے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی ایسے ملک سے آیا ہو جہاں کوئی انسان بھی زندگی بسر نہ کرتا ہو - مگر وہ اپنی روحانی احتیاج سے مکمل طور پر آگاہ تھا - وہ کہتا ہے - ’’ صرف مجھے ہی یہ عظیم مسئلہ درپیش ہے یہ اس طرح ہے جیسے میں جنگل میں کھو گیا ہوں جو ازلی جنگل ہے - مجھے مدد کی شدید ضرورت ہے - مجھے پیروکار چاہیں ، میں ایک آقا کا متلاشی ہوں جس کی اطاعت میں مجھے لطف محسوس ہو ‘‘- اور پھر وہ کہتا ہے - ’’ مجھے یہ سب لوگ زندہ انسانوں میں نظر کیوں نہیں آتے ، جو مجھ سے بلند تر ہو کر دیکھ سکیں اور پھر وہ ان بلندیوں سے نیچے میری طرف دیکھ سکیں - یہ محض اس وجہ سے ہے کہ میری تلاش میں کوتاہی ہے - اور میں ان کے لیے مارا مارا پھرتا ہوں ‘‘- سچی بات تو یہ ہے کہ مذہبی اور سائنسی عمل اگرچہ مختلف طریق کار استعمال میں لاتے ہیں مگر وہ اپنے مقصد و مدعا میں ایک دوسرے سے مماثل ہیں - دونوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ حقیقت تک رسائی ہے - درحقیقت بعض وجوہات کی بنا پر جن کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں ، مذہب ، سائنس سے کہیں زیادہ حقیقت تک رسائی کا آرزو مند ہے اور دونوں ہی راہوں کے لیے خالص معروضیت کو قطعیت کے ساتھ تجربے کی پاکیزگی کی زیادہ سے زیادہ احتیاج ہے - اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم تجربے اور حقیقت کے درمیان ایک امتیاز قائم کرتے ہیں - ایک تجربہ جو حقیقت کے ظاہری قابل مشاہدہ کردار کا عمومی جواز پیش کرتا ہے اور دوسرا جو تجربے کی حقیقت کی باطنی ماہیت کے بارے میں ہمیں جواز دیتا ہے - ایک فطری حقیقت کی حیثیت سے اپنے سیاق و سباق ، نفسیات اور طبیعیات کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے - حقیقت کی باطنی ماہیت کے حوالے سے ہم اس کے معیار کا مختلف چیزوں پر انطباق کرتے ہوئے ان کے معانی سمجھ سکتے ہیں مگر سائنس کے میدان میں ہم حقیقت کے خارجی کردار کے حوالے سے ہی معانی کی تفہیم حاصل کر سکتے ہیں - مذہب کے میدان میں اسے کسی حقیقت کا نمائندہ سمجھ کر اس کے معانی کی دریافت میں ہم حقیقت کی باطنی ماہیت کے حوالے سے معنی کی زیادہ تفہیم حاصل کر سکتے ہیں - سائنسی اور مذہبی طریق کار دونوں ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں - دونوں ہی اس دنیا کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں ان میں اختلاف یہ ہے کہ سائنسی عمل میں خودی لازمی طور پر اپنا منفرد اور مخصوص نکتہ نظر رکھتی ہے ،جبکہ مذہبی عمل میں خودی ان کے مختلف رجحانات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اور ایک یکتا اور منفرد کردار سامنے لاتی ہے جس میں مختلف تجربات مرکب دعویٰ کی صورت میں ایک ہمہ گیر رویے میں جمع ہو جاتے ہیں - اس تجربے کی ماہیت اور مقصد کے محتاط مطالعے کے نتیجے میں حقیقی اعمال یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دونوں ہی اپنے اپنے میدان میں تجربے کی پاکیزگی کی طرف رہنمائی دیتے ہیں ایک تشریح میرے مطالب کی واضح طور پر تشریح کرے گی - انگلستان کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی ہمارے نظریہ علت پر تنقید کو فلسفے کی بجائے سائنس کی تاریخ کا ایک باب سمجھا جاتا ہے - سائنسی حواسیت کی روح کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہم کسی ایسے تصور پر کام نہیں کر سکتے جو موضوعی نوعیت کا ہو - ڈیوڈ ہیوم کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حواسی سائنس کو قوت کے تصور سے آزاد رکھا جائے جیسا کہ اس کی خواہش ہے کہ حواسی تجربہ اس کے لیے کوئی بنیاد نہیں رکھتا جدید انسانی ذہن کی پہلی کوشش کا مقصد سائنسی عمل کی تطہیر ہے - کائنات کے بارے میں آئن شٹائن کا ریاضیاتی نکتہ نظر تطہیر کا وہ مکمل عمل ہے جس کا ڈیوڈ ہیوم نے آغاز کیا اور یہ ہیوم کی تنقید کی حقیقی روح کے مطابق ہے اور اس سے قوت کے تصور سے نجات مل جاتی ہے - وہ پہرا جو میں نے برصغیر کے ممتاز مسلمان صوفی کے حوالے سے اوپر دیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی نفسیات کا با عمل طالب علم بھی تطہیر کا ایسا ہی نکتہ نظر رکھتا ہے - اس کی معروضی حس بھی اسی طرح انہماک رکھتی ہے جس طرح کا انہماک کوئی سائنس دان اپنے میدان عمل میں رکھتا ہے - وہ ایک تجربے کے بعد دوسرے تجربے سے محض ایک متشکک کے طور پر نہیں گزرتا بلکہ وہ تجربے کی ایک ایسی تنقیدی چھلنی سے کام لیتا ہے جو ایک مخصوص مہارت کے اصولوں کے دائرہ استفسار کے لیے موزوں ہو- اور جس سے ہر طرح کے نفسیاتی اور طبیعی موضوعی عناصر ختم ہو جاتے ہیں - اس کے تجربے کے مندرجات کے نکتہ نظر سے بالآخر وہ ایک مطلق معروضیت پر پہنچ جاتا ہے ، یہ حتمی اور قطعی تجربہ نئے عمل حیات کا الہام ہوتا ہے جو طبع زاد ، اساسی اور فوری ہوتا ہے - خودی کا حتمی راز یہ ہے کہ جس وقت بھی وہ اس حتمی الہام تک پہنچے وہ اسے بغیر کسی معمولی سی ہچکچاہٹ کے اپنے وجود پر قطعی جڑ کے طور پر شناخت کر لے - ابھی تک اس تجربے میں بذاۃ کسی قسم کی کوئی سریت نہیں اور نہ جذبات انگیز کوئی چیز ہے اس تجربے کو غیر جذباتی بنانے کے لیے ہی یقینا مسلمان صوفیا کی تکنیک یہ رہی ہے کہ انہوں نے عبادت میں موسیقی کے استعمال کو ممنوع قرار دینے میںکم از کم اچھی احتیاط برتی اور معمول کی روزانہ پڑھی جانے والی نمازوں کی ادائیگی پر زور دیا تاکہ خلوت کے مراقبے میں غیر معاشرتی اثرات کا تدارک ہو سکے - یوں یہ تجربہ ایک مکمل طور پر فطری تجربے تک پہنچ سکے اور خودی کے لیے ایک اہم اور اعلیٰ حیاتیاتی جواز کا باعث بن سکے - یہ انسانی خودی ہی ہے جو تفکر سے کہیں اوپر تک پرواز کر سکتی ہے اور دوامیت پر قبضے کے ذریعے اپنی نا پائیداری پر قابو پا سکتی ہے اس مقدس الوہی تلاش میں خودی کے بکھر جانے کا جو واحد خطرہ درپیش ہے وہ اس کی اپنی کوشش میں سست خرامی ہے جو اس تجربے میں لطف اندوزی کے سبب پیدا ہوتی ہے کیونکہ آخری تجربے کی طرف بڑھتے وقت مختلف تجربات اسے جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں - مشرقی صوفیا کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے - یہی وہ تمام نکتہ ہے جس سے برصغیر کے ایک عظیم صوفی نے اپنی تحریروں سے اصلاح کی ابتدا کی - میں نے پہلے بھی ایک اقتباس کا حوالہ دیا ہے - جس کی وجہ صاف ظاہر ہے - خودی کا حتمی مطمع نظر کسی شے کا دیدار کرنا نہیں ہے بلکہ خود کچھ بننا ہے یہ خودی کی کوششوں میں مستور ہے کہ وہ کچھ بن جائے- اور وہ اپنی معروضیت کو منزیٰ کر کے اپنے لیے حتمی موقع دریافت کرے اور اپنی اصل بنیاد ’’ میں ہوں ‘‘ کو پا لے- جو اس کی اپنی حقیقت کی شہادت کو پانا ہو گا - یہ ڈیکارٹ کے مفہوم میں ہر گز نہیں جیسا کہ اس نے کہا تھا ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ‘‘ بلکہ اس کے برعکس کانٹ کی طرح کہ ’’میں ہو سکتا ہوں ‘‘ - خودی کی تلاش کا اختتام انفرادیت کی حدود و قیود سے آزادی نہیں بلکہ اس کے برعکس خود اپنی مخصوص تعریف کا حصول ہے - آخری عمل محض عقلی عمل نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی عمل ہے جو خودی کے وجود کو اور گہرائی میں لے جاتا ہے اور اس کے ارادے کو تخلیقی ایقان سے اور تیز کرتا ہے کہ دنیا محض دیکھنے کی چیز نہیں بلکہ تصورات کے ذریعے جاننے کا عمل ہے - مگر کسی شے کا بننا اور بار بار بننا ایک مسلسل عمل ہے یہ ایک اعلیٰ روحانی مسرت ہے اور ساتھ ہی ساتھ خودی کے لیے ابتدا کا ایک عظیم لمحہ بھی ہے - زندہ یا مردہ یا جان بلب از سہ شاہد کن شہادت را طلب شاہد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بنور خویشتن شاہد ثانی شعور دیگری خویش را دیدن بنور دیگری شاہد ثالت شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق پیش این نور اربمانی استوار حی و قائم چون خدا خود را شمار بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات را بی پردہ دیدن زندگی است مرد مومن در نسازد با صفات مصطفی راضی نہ شد الا بذات چیست معراج ؟ آرزوی شاہدی امتحانی روبروی شاہدی شاہد عادل کہ بی تصدیق او زندگی ما را چو گل را رنگ و بو در حضورش کس نماند استوار ور بماند ہست او کامل عیار ذرئہ از کف مدہ تابی کہ ہست پختہ گیر اندر گرہ تابی کہ ہست تاب خود را بر فزودن خوش تر است پیش خورشید آزمودن خوشتر است پیکر فرسودہ را دیگر تراش امتحان خویش کن موجود باش این چنیں ’’موجود‘‘ ’’محمود‘‘ است و بس ورنہ نار زندگی دود است و بس ٭٭٭ تسہیل و تشریح فرہنگ و حواشی کلیات اقبال (اردو ) (۲) احمد جاوید ہر بڑے شاعر کی طرح اقبال بھی ایک مشکل شاعر ہیں - ان کی شاعری ذوق اور فہم کی جن سطحوں پر کھلنا شروع کرتی ہے ، آج کا قاری ان میں سے اکثر سے بے بہرہ ہے - یہی وجہ ہے کہ شعر اقبال ایک پر زور نعرے اور ایک کار آمد پیغام کی حیثیت سے تو ہمارے درمیان موجود ہے ، لیکن اس کی عظمت کے فکری ، تخلیقی اور فنی شواہد بہت تیزی کے ساتھ ہم سے اوجھل ہو تے جا رہے ہیں - شاعری اور ادب سے سنجیدہ تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی کم از کم فہم کی اس سطح تک پہنچنا دشوار ہو چلا ہے جہاں اقبال کی شاعرانہ بزرگی کا ادراک میسر آ سکتا ہے - اس صورت حال میں اقبال کی شاعری کا ایک ایسا تجزیہ ضروری معلوم ہوتا ہے جس کے ذریعے سے یہ دکھانا آسان ہو جائے کہ یہ کلام بلند ترین شعری معیارات کے مطابق تو ہے ہی ، ان میں سے بعض کا خالق بھی ہے - اس سلسلے میں اقبال اکادمی نے مطالعۂ شعر اقبال کا ایک پورا منصوبہ تیار کیا ہے جس کا پہلا مرحلہ تسہیل کلیات اقبال (فارسی) کی صورت میں مکمل ہو چکا ہے - دوسرا مرحلہ یعنی کلیات اردو کا فرہنگ اور تحشیہ ، تکمیل کے قریب ہے - اس کے کچھ نمونے اقبالیات میں اس غرض سے شائع کیے جا رہے ہیں کہ ہمارے قارئین ، خصوصاً ماہرین اقبالیات اس کام میںہمارا ہاتھ بٹائیں - ہم ہر تجویز و تنقید کے لیے چشم براہ ہیں- البتہ یہ ملحوظ رہے کہ اس کام میں زیادہ تر اہل علم کی ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے - ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ علامہ کی شعری عظمت میں جو فکری و تخلیقی عناصر کار فرما ہیں ، ایک خاص سطح سے نیچے اتر کر ان کی نشان دہی بھی نہیں کی جا سکتی - تاہم عام طالب علموں کی رہنمائی کا بھی سامان موجود ہے - توقع ہے کہ ان کی کوئی بڑی ضرورت تشنہ ٔ تکمیل نہیں رہے گی - اس کام کی اصل افادیت یہ ہے کہ اصطلاحات کی تشریح ، اور مشکلات کے حل میں کلام اقبال کی کسی اچھی سے اچھی شرح اور فرہنگ سے بھی وہ مدد نہیں مل سکتی ، جو یہ فراہم کرتا ہے- امید ہے کہ مکمل ہونے کے بعد’’فرہنگ و حواشی کلیات اقبال‘‘ مستقبل کے شارحین اقبال کے لیے ایک ماخذ کاکام دے گی - (رئیس ادارت ) ٭ ۱ - اس منصوبے کے دو حصے ہیں ، تحشیہ اور فرہنگ - ۲ - حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے :- الف - کلام اقبال کے بارے میں تاریخی تفصیل : یعنی یہ نظم یا غزل کب لکھی گئی تھی ، پہلی مرتبہ کہاں چھپی تھی ، اس میں کیا تبدیلیاں کی گئیں وغیرہ - ب - اعلام اور تلمیحات : یعنی اقبال نے جن شخصیات ، واقعات ، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے ، ان کا ضروری تعارف - ج - مشکلات ---- یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو ---- ان مقامات کی تشریح ، توضیح اور تفصیل - اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہل علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہو سکتے ہیں ، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جا سکتا ، مجروح نہ ہو - ۳ - فرہنگ میںکلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے ، اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ج ‘‘ میں بیان ہوا - ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے - ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص جگہ پر اقبال کے پیش نظر تھے - حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آ جائیں گے - ٭ صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں نوائے شوق ۱ - عاشق کی پکار جس میں ہجر کا اٹل دکھ ، اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یکجا ہو گئی ہو - صدائے عشق جس کی رسائی حریم ذات تک ہے ۲ - اس عاشق کی فریاد جو : ۱:۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا نا ممکن ہونا فراموش کر دے ۲:۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزو مند ہو ۳:۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو جن کا ہدف ذات ہے ، ماورائے صفات ذات ۴:۲ ذات عبد کو ذات معبود سے اس طرح واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز برقرار رہے صفحہ کلیات ۳۴۵ حریم ذات ذات الہٰیہ کا مکان جو صفات سے ماورا اور جہات سے پاک ہے - یہاں کسی کا گزر نہیں نیز دیکھیے :’’ لا مکاں‘‘ صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎غلغلہ ہاے الاماں بت کدئہ صفات میں غلغلہ ہاے الاماں خدا کی پناہ ، کا شور ، یا اللہ خیر! کا شور ، الامان و الحفیظ کی پکار صفحہ کلیات ۳۴۵ بت کدئہ صفات بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت ، اعتبار نے حقیقت ‘ظاہر نے باطن اور صورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو - یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، وہ خود مقصود بن گیا ہو بت کدئہ صفات ، کا مطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں ، مگر مقصود حقیقی ذات ہی ہے جو کسی بھی طرح کے ظہور کو قبول نہیں کرتی - اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ چونکہ ذات باری تعالیٰ قادر ہے ’ سمیع ہے‘ بصیر ہے لہٰذا قدرت ، سمع اور بصر بھی معبود ہے صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎ حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں تخیلات ’ تخیل (خیال میں آنا) کی جمع ‘ غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل نیز دیکھیے :’’ تخیل‘‘ صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں نگاہ وہ نظر جو : ۱- حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے ۲ - ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے ۳ - غیب کو شہود بنالیتی ہے یعنی جو چیزیں حواس کی گرفت سے باہر ہیں، انہیں بھی دیکھتی ہے ۴ - کائنات سے خالق کائنات تک جا پہنچتی ہے ۵ - صفات کا پردہ اٹھا کر ذات کو دیکھنا چاہتی ہے تجلیات ۱ - تجلی کی جمع ۲ - ظہور صفات جو بلا واسطہ مظاہر اور لامتناہی ہے نیز دیکھیے :’’ تجلی‘‘، ’’ ذوق تجلی‘‘ ،’’ برق تجلی ‘‘ صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند جستجو : یعنی حقیقت کی تلاش ، اللہ کو پانے کی تڑپ جس میں امید کا پہلو غالب ہو صفحہ کلیات ۳۴۵ دیر و حرم ۱ - مندر اور کعبہ ۲ - ظہور حق کے دو اصول جو کثرت و وحدت اورتشبیہ و تنزیہ پر دلالت کرتے ہیں ۳ - ’دیر ‘ کا تعلق صفات سے ہے اور ’ حرم ‘ کا ذات سے صفحہ کلیات ۳۴۵ نقش بند : ۱ - نقش باندھنے والا ، نقاش ، مصور ۲ - معمار ۳ - ان دیکھے کی تصویر بنانے والا ۴ - حقیقت کو اظہار دینے اور معنی کو صورت میں ڈھالنے والا ۵ - اپنی سہولت کے لیے حقیقت محض کے تعینات ایجاد کرنے والا صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎ میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں فغاں : ۱ - فریاد ، چلا کے رونا ، دہائی دینا ۲ - وصل سے مایوس ہو کر ہجر کے درد و غم کا اظہار جو محبوب کو سنانے کے لیے کیا جائے صفحہ کلیات ۳۴۵ رستخیز : قیامت ، ہنگامہ ، ہلچل صفحہ کلیات ۳۴۵ کعبہ و سومنات دیکھیے: ’ دیر و حرم ‘ صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎ گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود چیر گئی دل وجود : وجود کے دل میں جو کچھ ہے ، اس تک پہنچ گئی --- یعنی ہستی کی انتہائی حقیقت تک رسائی حاصل کر لی صفحہ کلیات ۳۴۵ ؎ گاہ الجھ کے رہ گئی میرے تو ہمات میں توہمات : ۱ - ’’تو ہم‘‘ (وہم میں آنا) کی جمع ،غیر حقیقی کو حقیقی اور حقیقی کو غیر حقیقی سمجھنا ۲ - اوہام باطل نیز دیکھیے : ’ وہم ‘ (۲) صفحہ کلیات ۳۴۶ ؎ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا کج رو ۱ - ٹیڑھی چال والا ۲ - سیدھی رہ نہ چلنے والا ۳ - کسی ضابطے کی پابندی نہ کرنے والا ۴ - جو کسی ضابطے کی پابندی نہ کرے ۵ - بگاڑ پیدا کرنے والا ۶ - سرکش صفحہ کلیات ۳۴۶ انجم : ۱ - ستارے ۲ - ستارے جن کی چال دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے ۳ - نظام تکوین کے فعال عناصر صفحہ کلیات ۳۴۶ ؎خطا کس کی ہے یا رب ! لامکاں تیرا ہے یا میرا لامکاں : ’مکاں‘ کی ضد جو جہات سے پاک ہے - ذات باری تعالیٰ کا عالم صفحہ کلیات ۳۴۶ اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا یعنی ۱ - اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا - اس میں یہ ہمت کہاں سے آئی ، یہ ایک ایسا راز ہے جسے اللہ جانتا ہے یا خود ابلیس - آدم بچارہ متاثر فریق ہونے کے باوجود بے خبر ہے ۲ - شیطان کو اللہ کا رازداں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ : ۱ :۲- اللہ کی معرفت رکھتا ہے ۲:۲ - تقدیر کے اسرار سے آگاہ ہے ۳:۲ - تخلیق آدم کے پورے منصوبے میں ایک فعال کردار رکھتا ہے ۴:۲ - اللہ کے قرب کا طویل تجربہ رکھتا ہے ۵:۲ - معتوب ہونے کے باوجود موحد ہے ، اور اللہ کی رضا پر راضی ۶:۲ - بندوں کے احوال ، افعال اور انجام کا خداداد علم رکھتا ہے ۷:۲ - اختیار کی حقیقت کا عالم اور معلم ہے صفحہ کلیات ۳۴۶ محمدؐ بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا یعنی ۱ - اے اللہ ! تیری ترجمانی کے لیے محمد ﷺ بھی ہیں ، جبریل بھی ہے اور قرآن بھی - آخر میرا بھی تو کوئی ترجمان ہونا چاہیے ! سو یہ نوائے شوق اور جذبۂ عشق ہی وہ چیز ہے جو تیری جناب میں میری ترجمانی کرتی ہے - ۲ - رسول ﷺ ’ جبریل اور قرآن سے ‘ تو ظاہر ہے ، اور یہ نغمۂ محبت جو میرے سینے سے بلند ہو رہا ہے ، میرا اظہار ہے - ۳ - وحی تیرا پیغام ہے میری طرف ، اور یہ حرف شیریں جو میرے دل سے برآمد ہوا ہے ، میرا جوابی پیغام ہے تیرے حضور - ۴ - مانا کہ پورا عالم وجود تیرا ہی مظہر ہے ، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبۂ عشق میں جو میرے حرف حرف میں سمایا ہوا ہے ، کس کا ظہور ہے،تیرا یا میرا یا دونوں کا - کہیں ایسا تو نہیں کہ محبت ہی نے تجھے بھی ظاہر کیا ہو اور مجھے بھی ! نیز دیکھیے : محبت، محمد ﷺ ، جبریل ، قرآن ، حرف شیریں - صفحہ کلیات ۳۴۶ محمد ﷺ ۱ - رسول اکرم ﷺ ۲ - خدا کا آخری ، ابدی اور عالم گیر پیغام لانے والے پہلے اور آخری نبی ۳ - آپ ؐ کی ذات سے حق کا تفصیلی اور حتمی ظہور ہوا - حق کی کوئی ایسی صورت یا معنی جس کی سند آپؐ سے نہیں ملتی ، وہم باطل ہے حتیٰ کہ آپ پر ایمان لائے بغیر توحید کا دعوا بھی ناقابل قبول ہے ، چاہے گزشتہ شرائع کی بنیاد پر ہو یا عقلی دلائل کی اساس پر ۳ - تمام مکلف مخلوقات کے لیے مستقل مدار نجات اور ذریعۂ وصول الی اللہ صفحہ کلیات ۳۴۶ جبریلؑ : ۱ - انبیا علیہم السلام پر وحی لانے والے اللہ کے مقرب ترین فرشتے ۲ - اللہ کا آخری پیغام ، آخری نبی کو پہنچانے والے ۳ - قرآن مجید نے جبریل امین کو روح القدس (پاک روح) روح الامین (فرشتۂ معتبر) [الروح] ، رسول کریم (پیغام بر گرامی قدر) ذومرہ (زور آور یاحسین) ، ذی قوۃ (صاحب طاقت) ، شدید القویٰ (سخت قوتوں والا) مکین (مرتبے والا) مطاع (سب کا مانا ہوا) امین (با امانت) جیسے گراں قدر اوصاف سے متصف کیا ہے اور ان سے عداوت کو خدا سے عداوت کا سبب بتایا ہے - (لغات القرآن ، مولانا محمد عبدالرشید نعمانی ، جلد دوم ، ص ۲۴۱ ، ندوۃالمصّنفین دہلی ، طبع اول ستمبر ۱۹۴۵ئ) نیز دیکھیے : ’’جبریل امین‘‘، ’’ روح القدس ‘‘ صفحہ کلیات ۳۴۶ حرف شیریں : ۱ - میٹھا کلام ۲ - نواے شوق ’ نغمۂ محبت ‘ ترانۂ عشق ۳ - عاشق کا خطاب جو محبوب کو خوش کر دے ۴ - جمال محبوب کی حکایت ۵ - کلام اقبال (۳ ) صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر گیسوئے تاب دار : ۱ - بل کھائے ہوئے کھلے بال جنہیں جال سے تشبیہ دی جاتی ہے ، کنڈل والی زلف جسے کمند سے تشبیہ دی جاتی ہے ۲ - تجلی جمال جو شان تنزیہ کے منافی نہ ہو ، مخفی کو مخفی تر اور ظاہر کو ظاہر تر کرنے والی تجلی ۳ - کشش الہٰیہ کا وہ درجہ جہاں حصول بھی یقینی ہے اور عدم حصول بھی - یہاں قرب کا نشاط اور اٹل دوری کا قلق ، ایک کیفیت میں ڈھل جاتا ہے ۴ - وہ تجلی جس سے ظہور و خفا اور جمال و جلال کی عینیت کا انکشاف ہوتا ہے ۵ - ذات کا پردئہ جمال ۶ - وہ مرتبۂ ظہور جو اصول جمال کا آئنہ دار ہے اور ذات و صفات کے باہم ’لاغیر‘ ہونے پر دلالت کرتا ہے - (متکلمین اور صوفیہ کے اکثریتی موقف کے مطابق ذات و صفات میں’ لا عین ولا غیر ‘کی نسبت ہے ، جلال سے ’لاعین ‘ کا اثبات ہوتا ہے اور جمال سے ’ لا غیر ‘ کا ) صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر ہوش و خرد : ۱ -’’ہوش سے مراد ہے : شعور ، جو حواس خمسہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس شعور کی ترقی یافتہ صورت کو عقل (یعنی خرد) سے تعبیر کرتے ہیں‘‘ (شرح بال جبریل، یوسف سلیم چشتی ، ص ۹۷) ۲ - اپنا احساس اور دوسروں کی خبر - ہوش سے مراد ہے یہ احساس کہ و میں ہوں، اور خرد سے مراد ہے یہ شعور کہ کائنات ہے ۳ - ہوش کا تعلق حسن اور حال سے ہے، اور خرد کا ذہن اور استدلال سے ۴ - ’’ ہوش و خرد شکار کر ‘‘ یعنی حب عقلی عطا فرما صفحہ کلیات ۳۴۷ قلب و نظر ۱ - دل اور نگاہ ۲ - دل جو محبوب کی معرفت کے لیے ہے اور چشم دل جو محبوب کے دیدار کے لیے ہے ۳ - ’ نظر‘ اگر’ فکر‘ کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے استدلال ’غور‘خیال ---- اور اگر ’قلب ‘ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد یا تو صرف آنکھ ‘ ہو گی یا ’چشم دل ‘ - اہل منطق نے ’ فکر ‘ کو جنس اور ’ نظر ‘ کو اس کا فصل قرار دیا ہے ، یہی اصول ، قلب و نظر ، پر بھی وارد ہوتا ہے - ’ نظر ‘ کو ’قلب ‘ کا فعل ذاتی سمجھنا چاہیے ۴ - ’’ قلب و نظر شکار کر ‘‘ یعنی حب عشقی عطا فرما صفحہ کلیات ۳۴۷ عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر یعنی : ۱ - دونوں میں سے کوئی آشکار ہو جائے ، نتیجہ ایک ہی ہے - حسن ظاہر ہو گیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہو گیا تو گویا حسن کا ظہور ہو گیا - مطالبہ یہ ہے کہ خدایا ! خود کو ظاہر کر دے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کر دے تا کہ تو پوشیدہ نہ رہے ۲ - بار الہٰا! یا تو خود کا ظاہر کر دے اور مجھے چھپا رہنے دے ، یا مجھے ظاہر کر دے اور خود کو چھپا رہنے دے - ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ کارخانہ وجود بے معنی ہے اس شعر میں اقبال نے عشق کو وحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے - صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو صدف : ۱ - سیپ جس میں موتی پوشیدہ ہو ۲ - اعلیٰ روحانی امکانات رکھنے والا آدمی ، صاحب دل ۳ - مثالی مسلمان جس کا باطن اللہ کے نور سے منور ہو ، اللہ کا عاشق صفحہ کلیات ۳۴۷ گہر : ۱ - موتی ۲ - خودی ۳ - عشق ۴ - روح ۵ - نور باطن ۶ - فطری خوبی اور خیر صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر خزف ۱ - ٹھیکری ، سنگ ریزہ ۲ - جس کا وجود و جسمانیت کی سطح تک محدود ہو ۳ - بے وقعت اور بے مصرف ہستی ۴ - وہ آدمی جو روح ’ عشق ‘ تخلیقی امکانات ’ حقیقی معنویت ‘ اندر کی روشنی، حرارت ، خودی اور فطرت کی بلندی سے محروم ہو گوہر شاہوار ۱ - وہ موتی جو بادشاہوں کے لائق ہو ، بے بہا موتی ۲ - وہ آدمی جس کے ذاتی اوصاف اور فطری کمالات بے مثال ہوں صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو نغمۂ نوبہار بھری بہار میں گایا جانے والا گیت، یعنی ملت اسلامیہ کے روحانی اور تاریخی عروج کو دیکھ کر اس کی خوشی میں چھیڑا جانے والا نغمہ صفحہ کلیات ۳۴۷ ؎اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر دم نیم سوز : ۱ - ادھ جلا سانس ۲ - نغمہ گری کی قوت جسے طرح طرح کی مشتقوں اور پابندیوں سے گزرنا پڑا ہو ۳ - نغمہ بننے والی سانس جو سینے میں لگی آگ سے گزر کر آتی ہے ۴ - عروج اور آزادی کی شدید تمنا میں کی جانے والی شاعری ، اقبال کی شاعری صفحہ کلیات ۳۴۷ طائرک بہار ۱ - بہا رکا پنچھی ، خزاں میں بہار کی خوش خبری لانے والا پرندہ ۲ - اچھے زمانے کی آمد کی خبر دینے والا ، ملت اسلامیہ کو عروج کی بشارت دینے والا نیز دیکھیے : ’’نغمہ نو بہار ‘‘ ’’ دم نیم سوز ‘‘ (۴) صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎نہیں ہے داد کا طالب یہ بندئہ آزاد بندئہ آزاد : ۱ - اللہ کا غلام اور ہر چیز سے آزاد ۲ - اللہ کا بے غرض بندہ جو انعام وغیرہ کی خواہش نہیں رکھتا ۳ - جس کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف اللہ ہو ۴ - جس کو بندگی نے ماسوی اللہ سے بے نیاز کر دیا ہو ۵ -’ بندئہ آزاد‘ کی ترکیب میں تضاد سے حسن پیدا کیا گیا ہے صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎ کرم ہے یا کہ ستم تیری لّذت ایجاد لّذت ایجاد تخلیق کا ذوق : کار تخلیق سے لطف اندوز ہونا ، کائنات کی تخلیق مسلسل کا محّرک صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن قصور وار جن سے جنت میں گندم کھانے کا قصور سرزد ہوا یعنی آدم ، مراد انسان صفحہ کلیات ۳۴۸ غریب الدیار : ۱ - جس سے وطن چھوٹ گیا ، پردیسی ۲ - آدم جنہیں اپنا وطن یعنی جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا ۳ - انسان جو اپنے اصلی وطن سے دور ہے صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد خرابہ ویرانہ ، یعنی زمین صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎وہ دشت سادہ ‘ وہ تیرا جہان بے بنیاد دشت سادہ اجاڑ صحرا ، چٹیل میدان --- یعنی آدم کے نزول سے پہلے کی دنیا جہان بے بنیاد یعنی دنیا جسے انسان نے آ کر ہونے کی بنیاد فراہم کی صفحہ کلیات ۳۴۸ ؎ مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں مقام شوق مرتبۂ عشق ، شوق سے مراد ہے محبوب تک پہنچنے کی ایسی تڑپ کہ سر کٹا دینا بھی کوئی بڑا کام نہ لگے ، عشق میں سختیاں جھیلنے کا مقام (۵) صفحہ کلیات ۳۴۹ ؎میری بساط کیا ہے ، تب و تاب یک نفس تب و تاب یک نفس دم بھر کی چمک دمک ، پل بھر کی نمود ، ایک سانس کی زندگی (۶) صفحہ کلیات ۳۵۰ ؎ بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو عشق : ۱ - حقیقت انسانی کا ذاتی داعیہ جو انسان کو اس کے انفرادی اور نوعی تشخص کے افقی حدود سے بلند ہونے کی قوت دیتا ہے ۲ - اللہ نے چاہا کہ اس کا ظہور ہو ، یہ ’ حب ‘ ہے - انسان اسی خواہش ظہور کا ایک فعال مظہر ہے ، اور ظہور حق کے لیے ضروری ہے کہ خود انسان بھی اپنے اس کمال کے ساتھ ظاہر ہو جو اسے مظہر حق بننے کے لیے بخشا گیا ہے ، اور جسے موجودیت کے عام پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا - یعنی موجودات جن حدود سے عبارت ہیں ، وہ اس کمال کا احاطہ نہیں کر سکتے - مظہریت کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ، جو اس پر ڈالی گئی ہے ، انسان بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ ظاہر ہونا چاہتا ہے - اقبال کی اصطلاح میں یہ ’عشق ‘ ہے - گویا تقاضائے ظہور مشترک ہے ، اللہ کی طرف سے ہو تو اس کا نام ’حب ‘ ہے اور بندے کی طرف سے ہو تو ’ عشق ‘ ۳ - بندگی کا منتہا ، یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ جانا - صفحہ کلیات ۳۵۰ ؎یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے خود نگہداری : ۱ - خود کو سینت سینت کر رکھنا ؛ اپنے آپ میں مگن رہنا ، اپنی ہی طرف متوجہ رہنا ، اپنی ہی فکر میں لگے رہنا ۲ - خودی کی نچلی سطح تک محدود رہنا ۳ - خودی کی حقیقت یعنی خدا سے غافل اور لا تعلق رہنا ۴ - انفرادی خودی کو اجتماعی خودی میں ضم نہ ہونے دینا صفحہ کلیات ۳۵۰ ؎کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری عالم بے رنگ و بو : ۱ - دوسری دنیا ، عالم آخرت جو دارالعمل نہیں ۲ - ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں: وہ عالم جو ظہور صفات کے دائرے سے ماورا ہے صفحہ کلیات ۳۵۰ ؎وہی افسانہ ٔدنبالہ ٔمحمل نہ بن جائے افسانہء دنبالہء محمل ۱ - محمل کے پیچھے چلنے کی کہانی ۲ - مجنوں ، لیلیٰ کی سواری کے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا تھا ، یہاں اسی طرف اشارہ ہے ۳ - محبوب کے قریب ہو کر بھی اس کی جستجو میں رہنے والے عاشق کا قصہ فکریات صحت احادیث جوزف شاخت کی ’’ دلیل سکوت ‘‘ کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ترجمہ: محمد سہیل عمر اقبال اور حدیث نبوی علامہ اقبال اور حدیث نبوی کا موضوع کئی اعتبار سے اہم ہے - افکار اقبال کی تفہیم ، اشعار میں عیاں و پنہاں تلمیحات کی شرح اور عمومی فکری رجحانات کے تجزیہ و تحلیل کے لیے احادیث نبوی کے مطالعہ اور تخریج کی ضرورت تو سامنے کی بات ہے - اس ضمن میں بہت سا کام ہوا بھی ہے (۱) - ان تحریروں کو معیار اور تعداد دونوں اعتبار سے قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے - تاہم احادیث نبوی کی تشریعی حیثیت ، صحت و استناد حدیث اور حجیت و حفاظت حدیث کا پہلو ایسا ہے جس کے حوالے سے اقبالیات میں تحقیقی کام نسبتاً کم نظر آتا ہے - حدیث کی اس حیثیت کے بارے میں علامہ کی رائے کا تعین کرنے کے لیے جن مصنفین نے قلم اٹھایا ہے انہیں ہم دو دستہ قرار دے سکتے ہیں - ایک طرف وہ اہل قلم ہیں جنہوں نے صرف اتنا بتانا کافی سمجھا ہے کہ اگر علامہ اقبال کے اشعار میں احادیث رسولؐ کے بکثرت حوالے اور تلمیحات پائی جاتی ہیں تو یہ فی نفسہ اس امر کا ثبوت ہے کہ علامہ احادیث رسولؐ کو قانون سازی کے عمل میں قرآن کے بعد مأخذ قانون کا درجہ دیتے تھے (۲) - دوسری طرف ماہرین اقبالیات کا وہ گروہ ہے جس نے علامہ کی نثری تحریروں، خطوط اور مقالات کے حوالے سے علامہ کی شعری تخلیقات اور نثر میں ظاہر کی گئی آراء کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا ہے - ان حضرات کی تحریروں میں عموماً یہ بات سامنے آتی ہے کہ علامہ کا رویہ اس ضمن میں دولخت ہے (۳) -شعر میں وہ احادیث سے استناد و استشہاد کرتے ہیں اور ضعیف روایات بھی منظوم کر لیتے ہیں جبکہ نثری تحریروں بالخصوص تشکیل جدید میں حدیث کے بارے میں ان کا رویہ احتیاط و گریز کا ہے- اس کے بارے میں مختلف لوگوں نے اپنے وسعت و قلت علم کے مطابق اور اپنے حسب فہم گمان قائم کیا ہے- بعض ماہرین نے اس احتیاط و گریز میں سے ایک اصول فقہ دریافت کرنے کی سعی کی جس کے تحت قانون سازی کے عمل میں حدیث کو ماخذ قانون نہ بنانا علامہ کی منشا قرار پائی (۴) - کچھ اور حضرات نے اس میں ایک فلسفہ تشکیک اور ’’ تاریخی تنقید ‘‘ کی جھلک دیکھی اور اسے علامہ کی رائے قرار دیا - اس وقت ہمیں ان آراء سے بحث نہیں ہے کیونکہ ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ نکتہ بھی علامہ کی اس تطبیقی منہاج علم کے ناگزیر نتائج میں سے ہے جو تشکیل جدید میں ختیار کی گئی (۵) -اس میں سے اصول فقہ اور فلسفہ تشکیک برامد کرنا شوق فضول و جرأت رندانہ کے زمرے میں شمار ہونا چاہیے - سردست قارئین اقبالیات کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف دلانا مقصود ہے جو علامہ کے احتیاط پسند رویے کو سمجھنے کی کلید بھی ہے اور تاریخ و تدوین حدیث کی ایک الجھن کو حل کرنے میں ہماری مدد بھی کرتا ہے - اس بات کے پس منظر کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات سامنے رکھنا مناسب ہو گا - علم مغرب کے ظلمات طلسم میںکے حجرئہ ہائے چند بلا میں سے یوں تو بہت سے بلائیں نکلی ہیں لیکن ان میں ’’تاریخی تنقید‘‘historical criticism کا عفریت ایسا ہے جس نے عیسوی دینیات کو سب سے زیادہ متاثر کیا - مطالعہ انجیل کو تو گویا اس نے سارا نگل رکھا ہے- مستشرقین اسی معاشرے کے نمائندے اور اسی ذہنی فضا کے پروردہ تھے سو ان کی تحریروں میں یہ بلا اسلام پر بھی حملہ آور ہوئی- مطالعات قرآن کے ضمن میں تو اس کی کامیابی سرے سے قابل اعتناء نہ ہو سکی لیکن حدیث نبوی پر مغربی محققین اور مستشرقین کی تاریخی تنقید نے عالم اسلام کے بہت سے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کیا - کچھ حصہ اس میں مرعوبیت کا بھی تھا - جدید مسلمان مفکرین پر مغربی مورخین اور مستشرقین کی دیانت و وسعت علمی اور تحقیق کے اسالیب و وسائل کے نتیجہ خیزی کی دھاک جو بیٹھی ہوئی تھی - علامہ اقبال تک آتے آتے صحت و استناد حدیث کے بارے میں مغربی اہل علم کی ایک خاص رائے قائم ہو چکی تھی اور اس کو ہمارے مفکرین میں سے کئی لوگوں نے قبول کر لیا تھا - اس رائے کے قائم ہونے کا ایک پس منظر ہے - احادیث نبوی کی صحت و استناد کو معرض تشکیک میں ڈالنے کا عمل برسوں پہلے اسپرنگر کی جرمن تحریروں سے شروع ہو چکا تھا (۶) - ان کا انگریزی ترجمہ بھی ہندوستان میں اسی دور (۱۸۵۶ئ) میں چھپ گیا تھا (۷) -اس کے چار برس بعد نولد یکے کا کام سامنے آیا (۸)- ۷۷- ۱۸۷۵ء میں الفرڈ وان کریمر کی تصنیف دو جلدوں میں منظر عام پر آئی (۹) - ان سب کے ہاں ذخیرہ احادیث کے بارے میں وہی رویہ کارفرما تھا جسے بعدازاں تاریخی تنقید کے نام سے شہرت ملی - گولٹ تسیھر تک آتے آتے یہ رجحان ایک مکمل فلسفہ تشکیک اور مدلل تنقید و تردید صحت احادیث میں ڈھل چکا تھا جو اس کی کتاب Muhammedanische Studien میں پوری شدت اور تفصیل سے ظاہر ہوا - بیسویں صدی کے اوائل تک مستشرقین کے حلقوں اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کرنے والوں میں یہ بات مسلمات میں داخل ہو چکی تھی کہ احادیث کا ذخیرہ تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہے - یہی وہ رائے ہے جو تشکیل جدید میں علامہ نے نقل کی اور علامہ اقبال اور حدیث نبوی کے موضوع پر قلم اٹھانے والے مصنفین نے اسی عبارت کا بار بار حوالہ دیا ہے - یہ تشکیل جدید(۱۰) کا وہ اقتباس ہے جو حدیث کے مأخذ قانون ہونے کی بحث کا آغاز کرتے ہوئے علامہ نے درج کیا ہے - عبارت کا تعلق ہے گولٹ تسیھر کی اس رائے سے جو اس نے اپنی کتاب کی جلد دوم میں نقد حدیث کے ضمن میں پیش کی تھی (۱۱) - تشکیل کی انگریزی عبارت درج ذیل ہے - The Hadith. The second great source of Muhammadan Law is the traditions of the Holy prophet. These have been the subject of great discussion both in ancient and modern times. Among their modern critics Professor Goldziher has subjected them to a searching examination in the light of modern canons of historical criticism, and arrives at the conclusion that they are, on the whole, untrustworthy بعد کے سالوں میں اس صورتحال میں خاصی تبدیلی آئی لیکن علامہ کے زمانے کو پیش نظر رکھئے تو تین ہی امکانات سامنے آتے ہیں - - مخاطب کے مسلمات فکر کی رعایت کرتے ہوئے انہی کے حوالے سے تعبیر دین یا تعبیر حقائق کی جائے - - مخاطب کے مسلمات کی ترمیم؍ تردید؍ تغلیط کی جائے اور اسے اپنے مسلمات فکر اور قضایا تک لا کر آغاز کلام کیا جائے - - اساسی مفاہیم اور مبادی فکر پر اتفاق رائے نہ پا کر مکالمے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے خود کلامی پر اکتفا کیا جائے - علامہ نے اول الذکر منہاج تطبیق اپنائی اور تشکیل جدید کے دیگر بہت سے مباحث کی طرح یہاں بھی مخاطب کو رعایت دیتے ہوئے اسی کی بات کے سہارے اسے اپنانقطۂ نظر سمجھانے کی سعی کی - اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک پہلو بھی تھا - مذکورہ بالا مصنفین کے علاوہ مغرب میں جو دیگر انصاف پسند اہل قلم ہوئے ہیں ان کا کام ابھی سامنے نہیں آیا تھا - مسلمان اہل علم نے تاریخ حدیث ، تدوین حدیث اور صحت و استناد و حدیث پر مذکورہ مغربی اعتراضات کا جوابی کام ابھی پیش نہیں کیا تھا - مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں میں علوم حدیث پر فنی گرفت بھی مفقود تھی اور مغرب کی تنقید کا رعب بھی طاری تھا - ہر دو اسباب نے ان میں علمی جواب دینے کی اہلیت باقی نہ چھوڑی تھی - علمائے وقت مغربی اہل قلم کی جرح و تنقید سے نہ تو واقف تھے نہ اس کے نئے ڈھنگ کے اعتراضات کو سمجھ پائے تھے - ایسے حالات میں انگریزی میں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال یہی راستہ اختیار کر سکتے تھے جو انہوں نے کیا - ان کا محتاط رویہ اور گریز اسی مجبوری کا نتیجہ اور اسی منہاج کا تقاضا تھا(۱۲)- علامہ کے زمانے کے بعد صورتحال رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی - ایک طرف تو مغرب میں کچھ لوگوں نے معروضیت اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے ذخیرہ حدیث اور تاریخ حدیث کا مطالعہ کیا اور مذکورہ بالا مستشرقین کی آراء کی کمزوری واضح کی اور دوسری طرف مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے اہل علم ابھرے جو علوم حدیث پر اور علوم اسلامیہ پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی منہاج علم اور مستشرقین کی تحقیقات سے بخوبی آشنا تھے (۱۳)- ان کی اس جامعیت نے حدیث اور مطالعات حدیث میں ایک نئے دور کا آغاز کیا- ان کی تحریروں سے مستشرقین کی غلط آراء کا طلسم بھی ٹوٹا اور مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں پائی جانے والی بے بنیاد مرعوبیت کا بھی کسی حد تک ازالہ ہوا- ان لوگوں میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ، فواد سیزگین، ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب کے نام سر فہرست ہیں(۱۴)- گولڈ تسیھر اور ان کے ہم خیال حضرات کی میراث فکر بھی معددم نہیں ہوئی - ان کی آراء پر حاشیہ چڑھانے والے اور اسی روش تحقیق کو آگے بڑھانے والے لوگ بھی سامنے آئے - ان میں سب سے نمایاں نام جوزف شاخت کا ہے - شاخت کو صحیح معنوں میں گولڈ تسیھر کا فکری جانشین کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ گولڈ تسیھر کی تنقید حدیث شاخت تک آتے آتے دو آتشہ ہو کر کہیں زیادہ شدید اور جارحانہ ہو گئی - ہم نے جن مسلمان محققین کا ذکر سطور بالا میں کیا ہے ان میں سے مصطفی اعظمی صاحب اور طفر اسحاق انصاری صاحب نے شاخت کی تحریروں کو خصوصیت سے اپنا موضوع نقد بنایا ہے اور اس کے منہاج علم ، تحقیق اور نتائج پر ایسے موثر علمی انداز میں تنقید کی ہے کہ اس کے اعتراضات کا بودا پن تو خیر واضح ہو ہی جاتا ہے اس کے استدلال کی کمزوری بھی کچھ اس طرح آشکار ہوتی ہے کہ شاخت کی دیانت ہی نہیں ذہانت بھی مشکوک معلوم ہونے لگتی ہے - ان حضرات کے علمی کام کی گہرائی ، گیرائی اور قوت کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب کی علمی دنیا میں بھی گولڈ تسیھر وغیرہ کی آراء کو پہلے سا قبول عام حاصل نہیں رہا اور سنجیدہ اہل علم ان تحریروں کو’’ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا ‘‘ کے طور پر پیش کرنے سے کترانے لگے ہیں - ان حضرات کی محنت ، علمی لیاقت اور دلائل کی مضبوطی نے اپنا لوہا عہد جدید کے مغربی محققین سے بھی منوا لیا ہے - ویل بی حلاق اس وقت فقہ اسلامی کی تاریخ اور ارتقاء پر مغرب میں سند سمجھے جاتے ہیں - ان حضرات کی تحریروں نے جو اثر مغرب میں چھوڑا ہے اس کا عکس ہمیں حلاق کی تازہ کتاب میں نظر آتا ہے(۱۵)- حلاق نے ان تحریروں کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مجبوراً اعتراف کیا ہے کہ : However, mounting recent research, concerned with the historical origins of individual prophetic reports, suggests that Goldziher, Schacht and Juynboll have been excessively skeptical and that a number of reports can be dated earlier than previously thought, even as early as the Prophet. These findings, coupled with other important studies critical of Schacht's thesis, go to show that while a great bulk of prophetic reports may have originated many decades after the Hijra, there exists a body of material that can be dated to the prophet's time. Therefore, I shall not a priori preclude the entirety of prophetic reports as an unauthentic body of material, nor shall I accept their majority though many may have been admitted as autentic (sahih) by the Muslim "science" of hadith criticism. صفحات آئندہ میں ہم ظفر اسحاق انصاری صاحب کے ایک اہم مقالے کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں - شاخت نے حدیث پر تنقید کرتے ہوئے ایک قاعدہ استعمال کیا ہے جسے اس نے ’’ دلیل سکوت ‘‘ کا نام دیا ہے - انصاری صاحب نے اس قاعدے کے صحت و سقم کا جائزہ لے کر دکھایا ہے شاخت کی تنقید حدیث میں کیا خامی ہے اور اس کے نتائج فکر کس درجہ پایۂ استناد سے ساقط شمار ہونا چاہیں - مقالہ اپنی علمی اور تحقیقی جہت سے اتنا اہم اور موثر ہے کہ ہم یہ کہنے میں کوئی مبالغہ تصور نہیں کرتے کہ اگر یہ مقالہ ۱۹۲۰ء میں چھپ گیا ہوتا تو تشکیل جدید کے پانچویں خطبے کی مذکورہ صدر عبارت قطعاً مختلف ہوتی - محمد سہیل عمر حواشی و تعلیقات ۱ - مثال کے طور پر دیکھئے : اکبر حسین قریشی ، مطالعہ تلمیحات و اشارات اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۸۶ باب:تلمیحات حدیث، ص ۱۰۵ ؛ محمد حنیف شاہد ، ’’احادیث نبوی ، کلام اقبال میں‘‘، اقبال ، بزم اقبال لاہور ۱۹۹۱ء جلد ۳۸ ، شمارہ ۱ - ۲ ، صفحات ۱۳ - ۵۰ ؛ حافظ منیر خان ’’ اقبال اور حدیث (اسرار خودی کے حوالے سے)، اقبال ، بزم اقبال ، لاہور ، جلد ۴۷، شمارہ ۳،۲،۱، جنوری - جولائی ۲۰۰۰ء ، ص ۱۳۹ - ۱۵۸- ۲ - مثال کے طور پر دیکھئے ، محمد فرمان ، اقبال اور منکرین حدیث ، گجرات ، ۱۹۶۳ء ص ا تا۶۰ ۳ - عمران نذر حسین ، ’’ اقبال اور زمان آخر ‘‘ ، (انگریزی) تیسری علامہ اقبال کانفرنس پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، ۱۹۹۸ء - ۴ - الطاف حسین آہنگر ، ’’ اقبال اور حدیث - قانونی تناظر ‘‘ ،( انگریزی) اقبال ریویو ، اقبال اکادمی پاکستان ، جلد ۳۷ ، شمارہ ۳ ، اکتوبر ۱۹۹۶ء ص ۸۹ - ۱۱۰(خصوصاً ص ۱۰۲ ، ۱۰۵) ۵ - تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے محمد سہیل عمر ، خطبات اقبال نئے تناظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۶ء 6- A Sprenger; "Ueber das Traditionswesen beiden Arabern", Zeitschift des Dcentschen Mondentandische gesellschaft (ZDMG) vol . 10 , 11856), pp 1-17 7- A Sprenger; "On the origin and Progress of writing down Historical Facts among the Musulmans" Journal of the Asiatic Society of Bengal, 25 (1856), pp,303-329, 375-381. 8- M.Noldeke: Geschichte des Korans.1860 9- Alfred von Kremer: Kulturgeschichte des Orlients unter den Chalifen, 2 vols., 1875 - 1877 ۱۰- مکمل اقتباس یوں ہے : The Hadith. The second great source of Muhammadan Law is the traditions of the Holy prophet. These have been the subject of great discussion both in ancient and modern times. Among their modern critics Professor Goldziher has subjected them to a searching examination in the light of modern canons of historical criticism, and arrives at the conclusion that they are, on the whole, untrustworthy. Another European writer, after examining the Muslim methods of determining the genuineness of a tradition, and pointing out the theoretical possibilities of error, arrives at the following conclusion: 'It must be said in conclusion that the preceding considerations represent only theoretical possibilites and that the question whether and how far these possibilities have become actualities is largely a matter of how far the actual circumstances offered inducements for making use of the possibilities. Doubtless, the latter, relatively speaking, were few and affected only a small proportion of the entire sunnah. It may therefore be said that ... for the most part the collections of sunnah considered by the Moslems as canonical are genuine records of the rise and early growth of Islam' (Mohammedan Theories of Finance). For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how far they embody the pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. ( The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Allama Muhammad Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore,1989,pp 135) ۱۱ - گولٹ تسیھر کی کتاب Muhammedanische Studien دو مجلدات پر مشتمل تھی - دونوں جلدیں جرمنی سے Halle کے مقام سے بالترتیب ۱۸۸۹ء اور ۱۸۹۰ء میں طبع ہوئیں- نقد حدیث کا موضوع دوسری جلد میں آیا ہے - انگریزی زبان میں اس کے ترجمے کے لیے دیکھئے ، سی - آر - باربر نیز - ایس - ایم - سٹرن،مسلم سٹڈیز (انگریزی) دو جلد ، ایلن ان، لندن ، ۱۹۶۷ء متعلقہ اقتباس کے ترجمے کے لیے دیکھئے جلد دوم ، ص ۱۸ ۱۲- ورنہ ان کی اصل رائے اس ضمن میں کچھ اور تھی - اس کا اندازہ ہمیں ان کے اس غیر مطبوعہ خط سے ہوتا ہے جو ادھر چند سال پہلے دریافت ہوا ہے - محمد عبداللہ العمادی کے نام ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں: مولوی صدرالدین ، پروفیسر عربی گورنمنٹ کالج ، لاہور کو میں نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ گولزیر نے جو تنقید احادیث کی کی ہے اسے اردو میں ترجمہ کر ڈالیں اگر آپ یہاں ہوتے تو گولزیر کی تنقید کی تردید میں آپ سے گراں بہا مدد ملتی ہے - تاہم جو کچھ مجھے معلوم ہے مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر کر دیا جائے گا - (کلیات مکاتیب اقبال ، جلد اول ، مظفر حسین برنی (مرتب) ، اردو اکادمی دہلی ، ۱۹۹۳ء ص ۱۶۱۷) اس عبارت کی روشنی میں تشکیل جدید کا متعلقہ حصہ دوبارہ دیکھئے تو یہ کہنا کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ علامہ نے گولٹ تسیھر کی رائے قبول کر لی تھی - 13- For a useful summary of the views about the origins of prophetic Sunna, see David S.Powers,Studies in Quran and Hadith: The Formation of the Law of Inheritance (Berkeley University of California Press, 1986), 2 ff. See also Harald Motzki, " The Musannaf of 'Add al-Razzaq al-Sanani as a Source of Authentic Ahadith of the First Century A.H," Journal of Near Eastern Studies,50(1991): l f. 14- Notable of these studies are those by M.M.Azami, Studies in Early Hadith Literature (Beirut: al-Maktab al-Islami,1968); M.M.Azmi, On Schacht's Origins of Muhammadan Jurisprudence (New York: John Wiley,1985); Nabia Abbott, Studies in Arabic Literary Papyri, ii (Chicago: University of Chicago press,1967), 5-83; Fuat Sezgin, Geschichen Schrifttums,I (Leiden: E.J.Brill, 1967). 53-84 and generally: 15- Wael B. Hallaq, A history of Islamic Legal Theories. An Introduction to Sunni Usul al-Fiqh, Cambridge University Press, 1997, pp.2-3 اسلام کے ابتدائی دور کو موضوع تحقیق بنانے والے مغربی اہل علم میں جس مفروضے کو مسلمہ حقیقت کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہو چکا ہے یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی احادیث نبوی یا اقوال صحابہ کا کوئی تعلق نہ تو عہد نبوی سے ہے اور نہ عہد صحابہ سے ، بلکہ روایات کا یہ سارا ذخیرہ بعد کے دور کی پیداوار ہے - ان کے خیال کے مطابق احادیث اقوال صحابہ کا آغاز افراد کی ذاتی آراء کی حیثیت سے ہوا جن کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی غرض سے اسناد کا ایک پورا سلسلہ ایجاد کر لیا گیا - پھر ان اسناد میں عہد بہ عہد ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ آخر کار ان کو خود آںحضرتؐ سے منسوب کر دیا گیا - ظاہر ہے کہ مختلف افراد یا مکاتب فکر کے لیے اس عمل کا محرک صرف ایک ہی ہو سکتا تھا اور وہ یہ کہ آں حضرتؐ یا صحابہ کرامؓ سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان آراء کو قبول و اعتبار حاصل ہو جائے-سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو ان اہل علم کے دعویٰ کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہؓ سے منسوب یہ سارا ذخیرہ وسیع پیمانے پر کیے جانے والے ایک سلسلہ ٔ وضع و افتراء کی پیداوار ہے جسے حسن نیت سے خدمت دین سمجھ کر انجام دیا گیا - مغربی اہل علم میں احادیث کے بارے میں منفی انداز کے سوال اٹھانا بلکہ ان کی صحت کا انکار کرنا کوئی آج کی بات نہیں ہے - یوں تو انیسویں صدی کے وسط ہی سے ولیم میور ، الوئے سپرنگر ، الفرڈ وان کریمر اور تھیور ڈور نویلدیکی(۱) جیسے معروف مغربی اہل علم کی تحریروں میں یہ رجحان کھل کر سامنے آ چکا تھا تاہم انیسویں صدی کے آخر تک آتے آتے اگناز گولڈ تسیھر کی تحریروں میں یہ رجحان اپنی پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ ایک بھر پور انداز میں ظاہر ہوا - گولڈ تسیھرنے اپنی اہم ترین تصنیف Muhammedanische Studien کی دوسری جلد کو حدیث ہی کے تنقیدی مطالعے کے لیے مخصوص کر دیا تھا- گولڈ تسیھر کی تحقیق کا حاصل یہ تھا کہ احادیث اور آثار کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انہیں اگرچہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مسلم معاشرے میں لوگوں کے فکری رجحانات اور ان کی فقہی آراء کے معلوم کرنے کا ایک اچھا ذریعہ قراردیا جا سکتا ہے لیکن ان کا اسلام کی پہلی صدی سے کوئی تعلق نہیں جس سے ان کو منسوب کیا جاتا ہے- مغربی اہل علم میں اس مفروضے کو جلد ہی وسیع پیمانے پر قبول عام حاصل ہو گیا اور موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اس مفروضے سے اختلاف کرنے والے مغربی اہل علم خال خال ہی نظر آتے ہیں (۲) - گولڈ تسیھر کے بعد بھی متعدد مغربی اہل علم نے تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے مطالعہ کے سلسلے میں احادیث سے بکثرت رجوع کیا ہے - ان میں دو نام بہت نمایاں ہیں؛ اے جے ونسنک اور جوزف شاخت - ونسنک نے احادیث کی روشنی میں اسلامی عقائد کے ارتقاء کا مطالعہ کیا - ونسنک نے بھی کم و بیش وہی انداز تحقیق اختیار کیا ہے جو اس سے قبل گولڈ تسیھر اختیار کر چکا تھا (۳) - دوسری طرف شاخت کی اصل دلچسپی فقہ اسلامی کے آغاز کی تحقیق سے تھی - (ملاحظہ ہو ان کی تصنیف کا عنوان: The Origins of Muhammadan Jurisprudence وہ احادیث کی طرف اس لیے متوجہ ہوئے کہ فقہ کے اصول اور فروع کی تشکیل میں احادیث کا کردار متعین کر سکیں - شاخت نے صرف گولڈ تسیھر کے قائم کردہ بنیادی مفروضے کی تصدیق پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کیا کہ عام خیال کے برخلاف مسلمانوں میں احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کرنے کا رواج بہت بعد میں شروع ہوا - انہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ قانونی مسائل کے بارے میں رسول اکرمﷺ سے مروی احادیث کی ایک بڑی تعداد کو سنہ ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ (وضع کر کے ) لوگوں میں پھیلایا گیا - شاخت کے خیال میں یہ وہی دور ہے جس میں ’’تحریری‘‘ شکل میں احادیث کی روایت کا سلسلہ شروع ہوا- جس کسی نے بھی شاخت کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات سے اتفاق کرے گا کہ اس کی تشکیک گولڈ تسیھر سے بھی زیادہ شدید اور جارحانہ ہے - اگر شاخت کے اس ’’ منہاجی قاعدے‘‘ کو سامنے رکھیں جو انہوں نے صراحتاً بیان کیا ہے تو یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے - شاخت کے قول کے مطابق یہ منہاجی قاعدہ (ضابطہ جرح و تعدیل)گولڈ تسیھر ہی کے نتائج تحقیق سے ماخوذ ہے - ان کے اپنے الفاظ میں یہ قاعدہ مندرجہ ذیل ہے - قانونی امور کے بارے میں نبیؐ سے مروی کسی حدیث کو --- جب تک اس کے برعکس ثابت نہ ہو جائے --- نبی ؐ یا صحابہؓ کے دور کے لیے معتبر ، یا بنیادی طور پر معتبر گو کسی قدر مبہم ، بیان کے طور پر درست تسلیم نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اسے بعد کے دور میں تشکیل پانے والے نظریہ کا ایک جعلی اظہار قرار دیا جائے گا (۴) - شاخت نے اپنا یہ نقطہ نگاہ ۱۹۵۰ء میں اپنی کتاب The Origins of Muhammadan Jurisprudence میں پیش کیا تھا - چودہ سال بعد ۱۹۶۴ء میں اس کی دوسری کتاب An Introduction to Islamic Law منظر عام پر آئی - ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مؤخر الذکر کتاب کی تصنیف تک حدیث کے بارے میں شاخت کی تشکیک میں کچھ مزید شدت پیدا ہو چکی تھی - اس کا مندرجہ ذیل بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’جہاں تک مذہبی قانون (فقہ) کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں شاید ہی کسی حدیث کو قابل اعتماد قرار دیا جا سکے ‘‘(۵) شاخت نے اپنی تحریروں میں اس نقطہ ٔنظر کو ثابت کرنے کے لیے اکثر مقامات پر ’’ دلیل سکوت‘‘ argument e silentio کا استعمال کیاہے اور اس کے سہارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ان روایات کا سرے سے وجود ہی نہ تھا جو بعد کے دور میںہمیں احادیث رسولؐ یا آثار صحابہؓ کی شکل میں ملتی ہیں - یہ دلیل یعنی ’’دلیل سکوت‘‘ شاخت کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے: کسی معین دور میں ایک حدیث کی عدم موجودگی کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ آپ یہ دکھا دیجئے کہ کسی ایسے قانونی بحث و تمحیص کے دوران جس میں اس حدیث کا بطور دلیل پیش کیا جانا ضروری تھا اسے پیش نہیں کیا گیا - اس صورت میں ہم یہ نتیجہ نکالنے میں اس وجہ سے بھی حق بجانب ہیں کہ خود امام محمد بن الحسن شیبانی نے فقہاء اہل مدینہ کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے : ’’یہ ہے اس معاملے کا صحیح رخ الا یہ کہ اہل مدینہ (اس کے برعکس) اپنی رائے کے حق میں کوئی روایت پیش کر دیں - لیکن ان کے پاس اس کے حق میں پیش کرنے کے لیے کوئی روایت موجود نہیں ہے - اس لیے کہ اگر ان کے پاس کوئی روایت ہوتی تو وہ اسے ضرور پیش کر چکے ہوتے ‘‘- بنا بریں ہم اطمینان کے ساتھ یہ فرض کر سکتے ہیں کہ فقہی احکام سے تعلق رکھنے والی وہ روایات جن سے ہم یہاں تعرض کر رہے ہیں ان کو رواج دینے کے فوراً بعد ہی وہ لوگ ان روایات کو ضرور پیش کر دیتے جن کی آراء کی تائید ان روایات (کے وضع کرنے) کا مقصود تھا (۶) - جہاں تک اس دلیل کے عملی اطلاق کا تعلق ہے تو شاخت اپنی ہی عائد کردہ مندرجہ ذیل شرط کو بسا اوقات فراموش کر دیتا ہے : ’’ہر اس حدیث کو اس زمانے میں معدوم سمجھا جائے گا جس میں اس حدیث کو کسی ایسی بحث میں بطور دلیل استعمال نہ کیا گیا ہو جہاں اس کا پیش کیا جانا ضروری تھا‘‘(۷) - شاخت نے اپنی پیش کردہ دلیل کو جس بے ہنگم شدت کے ساتھ استعمال کیا ہے اس پر اگر نظر ڈالیں تو یہ فرض کرنا پڑے گا کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مسلمان علماء ہمہ وقت فقہی بحث و مباحثہ ہی میں مشغول رہتے تھے اور یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے عقل سلیم کے لیے قبول کرنا محال ہے - سطور ذیل میں ہم جو کچھ پیش کر رہے ہیں اس کا اصل مقصد احادیث کی صحت کے حق میں دلائل فراہم کرنا نہیں ہے اور نہ ہم یہاں صحت احادیث کے بارے میں شاخت کی مجموعی رائے سے ہی تعرض کرنا چاہتے ہیں - ان موضوعات پر راقم الحروف بھی کچھ لکھ چکا ہے اور بعض دوسرے اہل علم بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں - اس مقالہ میںہماری گذارشات شاخت کی پیش کردہ ’’ دلیل سکوت‘‘ کے تنقیدی جائزہ تک ہی محدود رہیں گی اس لیے کہ اسی دلیل کو شاخت نے احادیث کی صحت کو مشتبہ بنانے ، بلکہ ان کو ساقط الاعتبار قرار دینے کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا ہے - (۲) شاخت کی کتاب Origins کے سر سری مطالعے ہی سے یہ بات پوری طرح سامنے آجاتی ہے کہ اس کا قائم کردہ ’’ منہاجی قاعدہ ‘‘ اور اس کا طریق استدلال دونوں میں مبالغہ کا رنگ غالب ہے - اگر آپ شاخت کی دلیل پر غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ اس کی دلیل صرف اس صورت میں درست اور قابل قبول ہو سکتی ہے اگر ہم مندرجہ ذیل چند مفروضات کو درست تسلیم کر لیں - ۱ - یہ کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں جب بھی کوئی فقہی رائے کہیں بھی زیر تحریر آتی تھی تو اس کے تائیدی دلائل ، بالخصوص وہ احادیث جو ان کی تائید کرتی ہوں ، ان کو بھی لازماً درج کر دیا جاتا تھا - ۲ - یہ کہ وہ احادیث جو ایک فقیہ (یا محدث) کے دائرہ علم میں ہوتی تھیں وہ لازماً اس زمانے کے دوسرے فقہاء (اور محدثین) کے دائرہ علم میں لازماً شامل تھیں - ۳ - یہ کہ کسی خاص دور میں جو بھی احادیث ’’رائج ‘‘ تھیں ان سب کو مناسب انداز میں وسیع پیمانے پر متعارف کرا دیا گیا تھا اور انہیں محفوظ کرلیا گیا تھا - لہٰذا اگر کسی معروف عالم کی تحریروں میں کوئی ایسی حدیث نہ پائی جائے جس کا تعلق کسی ایسے موضوع سے ہو جس پر اس نے کچھ کہا ہے ، تو اسے اس بات کا ثبوت سمجھا جائے گا کہ اس دور میں وہ حدیث نہ صرف اس مصنف کے علاقے میں بلکہ باقی عالم اسلام میںبھی موجود نہ تھی - ان مفروضات کو قبول کرنا ممکن نہیں اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک مفروضے کی بھی تاریخی شواہد سے تصدیق نہیں کی جا سکتی - بلکہ اس کے برعکس یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہ مفروضات اس دور کے ثابت شدہ حقائق کی خلاف ہیں - احادیث کی وہ قدیم ترین کتب جو آج ہماری دسترس میں ہیں ، ان کا تعلق دوسری صدی ہجری کے وسط اور اس کے بعد زمانے سے ہے (۸) -ان کتابوں کی تالیف میں متعدد محرکات کار فرما تھے - ان کی تالیف کا ایک مقصد اسلاف کی آراء کا جمع کرنا تھا ، بالخصوص ان آراء کا جن کو کسی مؤلف کے علاقے یا مکتب فکر میں عمومی قبولیت حاصل ہو - بنا بریں اس زمانے میں بسا اوقات ایک مؤلف اپنے مکتب فکر کی فقہی آراء کو یکجا تو کر دیتا تھا لیکن ان احادیث یا اقوال صحابہؓ کے اندراج کا التزام نہیں کرتا تھا جن سے ان آراء کی تائید ہوتی تھی - کبھی اہل علم اپنی کتابوں میں اپنی ذاتی یا اپنے مکتب فکر کی فقہی آراء کے ذکر پر ہی اکتفا کرتے تھے ، اور کبھی کبھی ان آراء کے متعلق احادیث اور آثار صحابہؓ کو بھی درج کر دیا جاتا تھا - بہرکیف اس امر کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا تھا (۹) - یہ بات کسے نہیں معلوم کہ اس دور کی تصانیف میں اور ما بعد کی تصانیف میں بھی اس امر کی بے شمار مثالیں ہیں کہ بسا اوقات قرآن مجید سے مستنبط احکام کو تو بیان کر دیا جاتا تھا لیکن اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ان آیات قرآنی کا بھی ذکر کر دیا جائے جن سے وہ احکام مستنبط کیے گئے تھے یا کیے جا سکتے تھے (۱۰) - اس بات کی بہت سی شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ یہی صورت حال احادیث کے سلسلے میں بھی تھی - بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ایک فقیہ نے کسی فقہی مسئلے پر اپنے مکتب فکر کی آراء کو مدون کیا لیکن اس حدیث کا حوالہ دینے کی طرف کوئی توجہ نہ کی جو مسئلہ زیر بحث سے متعلق تھی یا جس سے خود اس کی اپنی رائے کی تائید ہوتی تھی - یہ ان حالات میں بھی ہوا جب متعلقہ حدیث کا وجود اور اس حدیث کا اس فقیہ کے علم میںہونا پوری طرح ثابت ہے (۱۱) - یہ خود اپنی جگہ ایک دلچسپ مطالعہ ہو گا اگر ان احادیث کو جمع کر دیا جائے جو ہماری قدیم ترین کتب میں موجود ہیں اور جو بعد کے زمانہ کی تصانیف میں نظر نہیں آتیں - گویا کہ اگر ہم شاخت کی مذکورہ دلیل کو الٹ کر اس کا اطلاق کریں تو گمان غالب ہے کہ اس سے حیران کن نتائج برآمد ہوں گے - ہم نے اس کلیہ کا ایک محدود پیمانے پر اطلاق کر کے دیکھا ہے اور اس سے بعض عجیب و غریب نتائج سامنے آئے ہیں - اس طریق کار کے اطلاق سے دو باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں : اول یہ کہ احادیث کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو قدیم تصانیف میں موجود تھی لیکن دوسری معاصر کتب کا تو ذکر ہی کیا دور مابعد کی کتب میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا - ثانیاً یہ کہ مذکورہ عہد کے فقہاء اپنے آپ کو ہرگز اس بات کا پابند نہیں سمجھتے تھے کہ ان تک جو احادیث پہنچی ہوں وہ ان سب کا حوالہ ضرور دیں ، خواہ وہ احادیث ان کی اپنی آراء کی تائید ہی کیوں نہ کرتی ہوں - اگر یہ دونوں باتیں پوری طرح ثابت ہو جائیں - اور ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں قطعیت کے ساتھ ثابت کی جا سکتی ہیں - تو شاخت کی بنیادی دلیل بری طرح مجروح ہو جاتی ہے اور اس کے استدلال کی پوری عمارت آپ سے آپ منہدم ہو جاتی ہے - صفحات ذیل میں ہم دوسری صدی ہجری کے بعض فقہاء کے قانونی مباحث میں سے چند آراء کا تقابلی مطالعہ پیش کر رہے ہیں تاکہ شاخت کے مفروضوں کا جائزہ لیا جا سکے - اس مطالعے کے آغاز کے لیے ہم نے موطا کے دو نسخے منتخب کیے ہیں یعنی موطا امام مالکؒ اور موطا امام محمد الحسن الشیبانی ؒ - موطا امام مالکؒ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ فقہائے مدینہ کی قانونی آراء کا ذخیرہ بھی ہے اور اس کا شمار حدیث کے ابتدائی مجموعوں میں بھی ہوتا ہے - امام مالک (ولادت: ۹۵ھ) مالکی فقہ کے بانی ہیں - ان کا زمانہ امام محمد الحسن الشیبانی ؒسے خاصا پہلے کا ہے - امام شیبانی ؒ کی ولادت ۱۳۲ھ کی ہے اور ان کا تعلق امام ابو حنیفہؒ (م ۱۵۰ھ) کے فقہی مذہب سے ہے - امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے امام مالکؒ کی موطا کا ایک نسخہ تیار کیا تھا- اس نسخے میں انہوں نے امام مالکؒ کی روایت کردہ احادیث اور ان کی فقہی آراء کے علاوہ ان آراء کو بھی درج کیا ہے جو امام شیبانی ؒ کے اپنے فقہی مسلک کے مطابق اور امام مالکؒ کے مسلک سے متعارض ہیں - کبھی کبھی امام محمدؒ نے اپنے مذہب کی آراء کا ذکر کرنے کے بعد ان کی تائید کرنے والی احادیث کو بھی درج کیا ہے - ان تمہیدی باتوں کے بعد آئیے اب موطا امام مالکؒ اور موطا امام محمد بن الحسن شیبانی کا تقابلی مطالعہ کریں - اس مطالعہ کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ امام مالکؒ کی موطا میں احادیث کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ہمیں امام شیبانی ؒ کی موطا میں نظر نہیں آتی اگرچہ امام شیبانی ؒ کا زمانہ امام مالکؒ کے بعد کا ہے (۱۲) - اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات وہ احادیث جو خود امام شیبانی ؒ کے مسلک اور ان کی آراء کو موید ہیں ، وہ ہمیں موطا امام مالکؒ میں ملتی ہیں لیکن خود امام شیبانی کی موطا میں نہیں ملتیں - ذیل کی مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی - ٭ موطا امام مالکؒ میں اوقات نماز کے بارے میں ۱۳ روایات ہیں - (ملاحظہ ہو موطا مالک ص ۳ و مابعد) جبکہ موطا امام شیبانی میں ان میں سے صرف تین روایات مذکور ہیں - (ملاحظہ ہو صفحہ ۴۲ و مابعد) ٭ نماز فجر کے افضل وقت کے بارے میں اہل کوفہ اور اہل مدینہ کا اختلاف معروف ہے - اہل مدینہ نماز فجر غلس یعنی قدرے اندھیرے میں پڑھنے کے قائل تھے اور اہل کوفہ اسفار یعنی قدرے روشنی میں نماز فجر کے پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے - موطا شیبانی (ص ۴۲) میں اہل کوفہ کی اس رائے کا ذکر ہے - تعجب کی بات یہ ہے کہ امام شیبانی نے اپنے موطا میں اس حدیث نبوی کا کوئی حوالہ نہیں دیا جو موطا امام مالکؒ (ص ۴ و مابعد) میں موجود ہے اور جس سے خود امام شیبانی کے اپنے مذہب کی رائے کی تائید ہوتی ہے(۱۳) - ٭ مس ذکر سے نقض وضو کے بارے میں موطا مالک (ص ۴۲) میں چھ روایات ہیں - ان میں سے صرف دو روایات موطا امام شیبانی میں ملتی ہیں (ملاحظہ ہو ص ۵۰) - ان غیر موجود روایات میں سے ایک روایت کی نسبت رسول اللہﷺ سے ہے اور دوسری کی حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے - ٭ غسل جنابت کے مسئلے پر موطا امام مالکؒ میں چار روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص ۴۴)- ان میں سے صرف ایک روایت موطا امام شیبانی ؒمیں شامل ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۷) - موطا امام مالکؒ کی ان چار میں سے دو روایات آنحضورﷺ سے مروی ہیں - ٭ موطا امام مالکؒ میں ’’ غسل المراۃ اذا رأت فی المنام ‘‘ کے عنوان کے تحت دو روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص ۵۵) جبکہ موطا امام شیبانی ؒ میں صرف ایک روایت پائی جاتی ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۹) - موخرالذکر مجموعے میں جو روایت شامل نہیں کی ہے وہ حدیث نبوی ہے اور اس کی اسناد یہ ہیں : مالک - ام سلمی - ام سلیم - نبی ﷺ - ٭ ’’ الوضو ء من القبلۃ‘‘ کا باب موطا امام مالکؒ میں تو موجود ہے (ملاحظہ ہو ص ۴۳) مگر موطا امام شیبانی میں یہ باب موجود نہیں - ٭ ’’ الطہور فی الماء ‘‘ کا باب موطا امام مالکؒ میں موجود ہے (ملاحظہ ہو ص ۲۲) مگر موطا امام شیبانی ؒ میں موجود نہیں - ٭ اسی طرح ’’ البول قائما ‘‘ اور ’’ السواک ‘‘ کے ابواب بھی موطا امام مالکؒ میں موجود ہیں (ملاحظہ ہو ص ۶۶ و ما بعد) لیکن یہ ابواب امام شیبانی کی موطا میں موجود نہیں - ٭ موطا امام مالکؒ کے ابواب النداء فی الصلوۃ (ملاحظہ ہو ص ۶۷ و مابعد) کا اگر امام شیبانی کی موطا سے مقابلہ کریں (ملاحظہ ہو ص ۸۲) تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موطا امام مالکؒ کی متعدد روایات (مثلاً نمبر ۱ ، ۳ ، ۶ ، ۷ ، ۹) موطا امام شیبانی ؒ میں موجود نہیں ہیں - ٭ موطا امام مالکؒ میں ’’ کفن المیت ‘‘ کا حصہ (ملاحظہ ہو ص ۲۲۳) تین روایات پر مشتمل ہے- ان میں موطا امام شیبانیؒ میں صرف ایک روایت موجود ہے (یعنی روایت نمبر ۷ - ملاحظہ ہو ص ۱۶۲) - یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص ؓ سے مروی ہے - جو دو احادیث موجود نہیں ہیں ان میں سے ایک میں آنحضرت ﷺ کی تکفین کا بیان ہے - ٭ موطا امام شیبانی ؒ میں ’’ زکوۃ الفطر ‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۱۷۶) کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی وہ روایت موجود نہیں ہے جو موطا امام مالکؒ کے ص ۲۸۳ پر ہمیں نظر آتی ہے - ٭ موطا امام مالک کی وہ روایتیں جو ’’ من لا تجب علیہ زکوۃ الفطر ‘‘ کے عنوان کے تحت مندرج ہیں (ملاحظہ ہو ص ۲۸۵) اور جو ’’ مکیلۃ زکوۃ الفطر ‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۲۸۳) کے تحت آتی ہیں - ان میں کوئی روایت موطا امام شیبانی ؒ میں موجود نہیں - ٭ ’’ استیذان البکر والایم ‘‘ کے باب موطا امام مالکؒ میں ۳ روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص ۵۲۴) جبکہ امام شیبانی کے ہاں ایک روایت ملتی ہے (ملاحظہ ہو ص ۲۳۹) - جو دو روایات موخرالذکر کتاب میں مفقود ہیں ان میں سے ایک حدیث رسول ﷺ ہے(۱۴)- ٭ موطا امام شیبانی ؒ کا ’’ لعان ‘‘ کا حصہ (ملاحظہ ہو ص ۲۶۲) کئی ایسی روایات سے تہی ہے جو موطا امام مالک ؒ کے حصہ ’’ لعان ‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۵۶۶) میں موجود ہیں - ٭ بیع تمور کی ممنوعہ صورتوں کا بیان موطا امام شیبانی ؒ میں (ملاحظہ ہو ص ۳۳۰) صرف ایک روایت پر مشتمل ہے جبکہ موطا امام مالکؒ میں اسی مسئلے پر تین روایات پائی جاتی ہیں اور تینوں کی سند آں حضرت ﷺ تک جاتی ہے - (ملاحظہ ہو ص ۶۲۳ و ما بعد) یہی صورت حال اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب ہم اسی نقطہ نظر سے امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی تصانیف ، بالخصوص آثار ابو یوسف ؒ اور آثار امام شیبانی ؒ کا موازنہ کرتے ہیں - یہ بات پیش نظر رہے کہ امام ابو یوسف کا انتقال ۱۸۴ھ میں ہوا اور امام شیبانی ؒ کا ۱۸۹ھ میں - اگر امام ابو یوسف ؒ اور امام شیبانی ؒ کے سن پیدائش کو پیش نظر رکھا جائے (جو بالترتیب ۱۱۳ھ اور۱۳۲ھ ہیں) تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابو یوسف ؒ امام محمد ؒ سے عمر میں خاصے بڑے تھے - لہٰذا یہ بات قرین قیاس ہے کہ امام محمدؒ کی تصانیف کا زمانہ امام ابو یوسف ؒ کے آخری عمر کا زمانہ ہو - یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ امام محمد ؒ کی متعدد تصانیف امام ابو یوسفؒ کی تصانیف پر مبنی بلکہ ان سے مأخوذ ہیں - ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل حقائق پر توجہ فرمائیے - آثار ابو یوسفؒ میں شامل روایات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو آثار امام شیبانی ؒ میں موجود نہیں ہے جبکہ موخر الذکر کے مولف یعنی امام شیبانی ؒ کا زمانہ امام یوسفؒ سے قدرے بعد کا ہے (۱۵) - ٭ آثار ابو یوسف ، روایت نمبر ۸۴۵، حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ایک روایت ہے جس کا تعلق مضاربہ سے ہے - یہ روایت آثار امام شیبانی میں موجود نہیں - ٭ آثار ابو یوسف ، روایت نمبر ۸۳۰ ،نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک حدیث ہے جس کا تعلق بائع اور مشتری کے درمیان قیمت پر اختلاف سے ہے - یہ حدیث آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ہے - ٭ آثار ابو یوسف ، روایت نمبر ۶۶۶ ، حضرت عمرؓ سے مروی ایک روایت ہے جس کا تعلق طلاق اور عدت سے ہے - یہ روایت آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ہے - ٭ ’’ نفقہ ‘‘ اور ’’ سکنی ‘‘ کے مسئلے پر آثار ابو یوسف میں متعدد روایات ہیں - ملاحظہ ہوں روایات نمبر ۵۹۲، ۶۰۸ ، ۷۲۶ اور ۷۲۸ - ان میں سے کوئی بھی روایت آثار امام شیبانی میں موجود نہیں - ٭ آثار ابو یوسف ، روایات نمبر ۷۰۴ ، ۷۰۷ ، ۷۰۹’’ لعان ‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں ، یہ روایات آثار امام شیبانی میں موجود نہیں - ٭ ’’ ظہار ‘‘ سے متعلق کئی روایات آثار ابو یوسف میں موجود ہیں - یہ روایات آثار امام شیبانی کا جزو نہیں ہیں - ٭ ’’ مزارعۃ ‘‘ کے متعلق سالم ؓ کی روایت آثار ابو یوسف میں نمبر ۸۵۷ پر ہے جبکہ وہ آثار امام شیبانی میں موجود نہیں - ٭ ’’ فرائض ‘‘ سے متعلق آثار ابو یوسف کی روایات (۷۸۰ ، ۷۷۹) آثار امام شیبانی میں موجود نہیں - ٭ آثار ابو یوسف کی روایات (۳۹۹ ، ۴۰۱، ۵۹۷ ، ۶۰۷ وغیرہ ) جو متفرق موضوعات سے متعلق ہیں آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ہیں (۱۶) - اس موازنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ اس بات کے باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ امام ابو یوسفؒ کی کتاب الآثار کی روایات امام شیبانی کے علم میں نہیں تھی وہ روایات ان کی تالیف میں شامل نہیں ہیں - یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے شاخت کے اختیار کردہ منہاج تحقیق کے اس بنیادی مفروضے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں جس کے سہارے انہوں نے ’’ احادیث کی افزائش ‘‘ کے کلیہ کو بڑے زور شور سے پیش کیا ہے- اس سلسلے میں شاخت نے مندرجہ ذیل تین امکانات کو سرے سے نظر انداز کر دیا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا احتمال موجود ہے - ۱ - ممکن ہے کہ کسی شخص تک ایک روایت پہنچی ہو اور بعد میں وہ اس کے حافظہ سے محو ہو گئی ہو(۱۷) - ۲- ممکن ہے کہ اس شخص تک وہ روایت پہنچی ہو مگر اس کی نظر میں اس کی صحت مشکوک ہو لہٰذا اس نے اس کا ذکر یا اندراج نہ کیا ہو - ۳ - ممکن ہے کہ اس کے علم میں وہ روایت ہو مگر آج جو تالیفات ہماری دسترس میں ہیں ان میں اس روایت کا سراغ نہیں ملتا کیونکہ فقہ وحدیث کا پورا ذخیرہ ہم تک منتقل نہیں ہو سکا بلکہ گردش لیل و نہار بے شمار کتابوں کے ضیاع کا سبب ہو گئی - یہ بات خاص طور پر ان علماء اور فقہاء کے بارے میں درست ہے جن کا تعلق اسلام کے ابتدائی دور سے ہے - لہٰذا اس بات کے باور کرنے کے قوی اسباب ہیں کہ بہت سی روایات بعض محدثین یا فقہاء کے زمانے میں موجود تھیں لیکن مرور ایام کے ساتھ وہ تلف ہو گئیں اور آج وہ موجود نہیں ہیں - ان تمام باتوں کو در خور اعتناء نہ تسلیم کرنا اور اپنے قائم کردہ مفروضے کے خلاف پائے جانے والے تمام شواہد کو بلا کسی معقول سبب کے مسترد کر کے اپنی مبالغہ آمیز تشکیک پر اڑا رہنا کسی طرح بھی پختہ کار اور محتاط اہل علم کو زیب نہیں دیتا - حواشی ۱ - دیکھیے ظفر اسحاق انصاری ’’ کوفہ میں اسلامی فقہ کی ابتدائی نشو و ارتقاء ، بحوالہ تصانیف ابو یوسف و شیبانی‘‘ مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، ادارہ مطالعات اسلامی ، میکگل یونیورسٹی، مونٹریال ۱۹۶۶ء ، صفحہ ۱۹۳ و مابعد اور متعلقہ حواشی- گولڈ تسیھر کی کتابMuhmmedanische Studien کی دو جلدوں کی اشاعت Halle میں بالترتیب ۱۸۸۹ء اور ۱۸۹۰ء میں ہوئی - کتاب کا انگریزی ترجمہ ۱۹۶۷ء میں لندن سے شائع ہو چکا ہے- عہد حاضر کے مسلمانوں میں حدیث کے بارے میں تشکیک کے اس رویے کا جائزہ لینا ہو تو دیکھئے جی ایچ اے جوین بول، مجموعہ احادیث کا صحت و استناد : جدید مصر کے مباحث ، لاائیڈن ، ۱۹۶۹ء ۲ - اس معاملے میں بعض اہل علم کو مستثنیٰ قرار دینا ضروری ہے - ان میں سب سے نمایاں نام نابیہ ایبٹ کا ہے - اس موضوع پر ان کی کتاب ہے - Studies in Arabic Literary Papyri,ii:Qur'anic Commentary and Tradition,Chicago,1967 اس کتاب میں نابیہ ایبٹ نے حدیث کے ابتدائی دور کے بارے میں اتنی وافر اور قیمتی معلومات فراہم کر دی ہیں کہ ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مستشرقین کا قائم کردہ مفروضہ نہ صرف مبالغہ پر مبنی ہے بلکہ مضبوط بنیادوں سے یکسر خالی ہے - بعض اور مصنفین نے بھی اپنی تصانیف میں مختلف پہلوئوں سے اس مفروضے کی تردید کی ہے - مثال کے طور پر ملاحظہ ہو فواد سیز گن کی کتاب : Geschichte des Arabischen Schrifttums, Vol.1. Leiden 1967. ان دو مصنفین کی تحریروں کی اہمیت کے بارے میں دیکھئے سی-جے- ایڈمز، ’’اسلامک ریلیجس ٹریڈیشن ‘‘ شمولہ لیو نارڈ بائینڈ (مرتب) ، دی سٹڈی آف دی مڈل ایسٹ ،نیو یارک ۱۹۷۶ء ص ۶۶ تا ۶۹ - گولڈ تسیھر اور شاخت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور انہی رویوں پر مبنی ایک اور کتاب بھی شائع ہو چکی ہے - دیکھئے : G.H.A Juynboll, Muslim Tradition in Chronology, Provenance and Authorship in Early Islam, Cambridge, London,New York, 1983. ۳- اسلامی عقائد کی ابتدائی تاریخ اور اس موضوع کے سلسلے میں احادیث کے کردار کے بارے میں اور بھی تحریریں سامنے آئی ہیں - مثال کے طور دیکھئے : Josef van Ess,Zwischen Hadit und Theologie:Studien Zum Entstehten Pradistinationischer uder Lieferung,Berlin and New York, 1975. اس سلسلے میں مزید ملاحظہ ہو - Michael Cook,Early Muslim Dogma:A Source Critical Study, Cambridge and New York:Cambridge University Press,1981. ایک حدیث ہی کیا ابتدائی اسلامی مصادر کے بارے میں مائیکل کک تشکیک کے معاملہ میں شاخت سے بھی آگے ہیں - ۴ - جوزف شاخت، The Origins of Muhammadan Jurisprudence (فقہ اسلامی کا آغاز) تیسری اشاعت آکسفورڈ ، ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۴۹ - آئندہ سطور میں اس کتاب کا حوالہ ’’ آغاز فقہ ‘‘ کے طور پر دیا جائے گا - ۵ - جوزف شاخت ، An Introduction to Islamic Law (فقہ اسلامی کا تعارف) ، لندن ۱۹۶۴ء صفحہ ۳۴ - آئندہ سطور میں اس کا حوالہ ’’ تعارف اسلامی قانون‘‘ کے طور پر دیا جائے گا - ۶ - آغاز فقہ ، صفحہ ۱۴۰ بہ بعد -محولہ بالا کتاب کے صفحہ ۱۴۲ پر شاخت نے ایک عنوان قائم کیا ہے : ’’ادزاعی اور مالک کے درمیانی عہد میں ظاہر ہونے والی احادیث ‘‘ - یہاں شاخت کی اپنی پیش کردہ مثال سے اس کے اپنے ہی قائم کردہ مفروضوں میں سے ایک مفروضہ کی تردید ہوتی ہے - جس پر شاخت نے اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے - یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر خود شاخت نے اس ضرورت کا احساس کیا ہے کہ ’’ دلیل سکوت کے استعمال میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ‘‘ یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اس ضمن میں بعض اوقات اپنے ہی بیان کردہ قاعدوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں - یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کی آراء کے مطالعے کے سلسلے میں بعض اوقات شاخت نے وہ ماخذ استعمال کیے ہیں ، جو پہلی صدی کے کہیں بعد کے زمانے کے ہیں - یہ اس کے اپنے ہی قائم کردہ منہاجی قاعدہ (حوالہ بالا صفحہ ۱۴۰) کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے - اس سلسلہ میں چند مثالوں کا تذکرہ نا مناسب نہ ہو گا - شاخت نے امام شیبانی کی بیان کردہ ایک دلیل کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے اپنے فقہی مذہب کی رائے کی تائید میں پیش کی تھی - شاخت نے یہ حوالہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر کی ایک تالیف یعنی المبسوط سرخسی (م ۴۸۳ھ) سے اخذ کیا ہے - اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شاخت لکھتے ہیں :’’ شیبانی نے اس دلیل کو ماہرانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے اور یہاں ایک قانونی امتیاز قائم کیا ہے - ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ دلیل ہے جو فی الواقع شیبانی نے دی تھی ‘‘ (آغاز فقہ صفحہ ۲۷۱) ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے - دوسری صدی ہجری کے ابتدائی دور سے منسوب ایک رائے کا حوالہ دینے کے لیے شاخت نے قاضی عیاض (م۵۴۴ھ) کو بنیاد بنایا ہے -اور یہ حوالہ زرقانی کی شرح موطا سے لیا گیا ہے (دیکھئے شاخت کی محولہ بالا کتاب صفحہ ۱۰۷) - ایسی ہی بعض دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو شاخت کی محولہ بالا کتاب کے صفحات ۲۷۳ اور ۳۰۳ وغیرہ ) ۷ - آغاز فقہ ،صفحہ ۲۷۱ ۸ - شاخت کے بیان کے مطابق فقہ اسلامی کی تاریخ کا تدوینی یا تحریری دور سن ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے (دیکھئے اس کا مقالہ ’’ فقہ اسلامی کی نشو و نما ابتدائی دور اور ظہور اسلام سے قبل اس کا پس منظر ‘‘ ، مشمولہ ،مشرق وسطی میں قانون (انگریزی) مرتبہ ،ماجد خدوری اور جے - لیبسنی ، واشنگٹن ڈی سی ، ۱۹۵۹ء ،جلد اول ، ص ۵ - مارگولیوتھ کی رائے بھی بنیادی طور پر یہی ہے - (ڈی - ایس - مارگولیوتھ، محمدیت کی ابتدائی نشو ونما (انگریزی) لندن ، ۱۹۱۴ء صفحات ۳۹ و مابعد)-ہماری رائے میں اگرچہ تدوین کتب کا کام اس دور سے کچھ پہلے شروع ہو چکا تھا تاہم اس زمانے کی کچھ ہی تصانیف دستبرد زمانہ سے بچ سکی ہیں - مزید برآں بالکل ابتدائی مجموعے اور کتابیں بالعموم مختصر ہوتی تھیں اور ان میں وہ ترتیب اور تنظیم بھی نہ تھی جو بعد کی کتابوں میں پائی جاتی ہے - جیسے جیسے زیادہ جامع تالیفات سامنے آتی گئیں یہ ابتدائی کتب زائد از ضرورت ہوتی گئیں اور ان میں سے بہت سی کتب رفتہ رفتہ منصہ شہود سے غائب ہو گئیں - احادیث کے ابتدائی عہد کے لیے دیکھئے فواد سیزگین، محولہ ما قبل ، نیز دیکھئے محمد مصطفی الاعظمی ، حدیث کے اولین عہد کے مطالعات ، (انگریزی) بیروت ، ۱۹۶۸ء - ۹ - دیکھئے انصاری ’’ کوفہ میں فقہ اسلامی کے ابتدائی نشو و نما کا ارتقاء ‘‘ ص ۶۲ و مابعد ، ص ۲۱۸ و بعد اور ۲۲۵ و مابعد - ۱۰ - ایضاً ، ص ۱۹۲ اور باب ۴ نوٹ ۵۱ ۱۱ - مثال کے طور پر دیکھئے امام ابو یوسف ، کتاب الآثار (قاہرہ ، ۱۳۵۵) حدیث نمبر ۱۰۴۸، اور اس کا مقابلہ کیجئے امام شیبانی کی کتاب الآثار (کراچی - ۱۹۶۰ئ) کی حدیث نمبر ۸۷۸ - (ان دونوں کتب کے حوالہ میں ہم نے صفحات کا نہیں ، بلکہ حدیث کے نمبروں کا حوالہ دیا ہے ) امام ابو یوسف نے ایک بات کی نبیؐ کے ایک قول کے طور پر درج کیا ہے جس کے راوی ابراہیم النخعی ہیں - اسی قول کا اندراج امام شیبانی نے اپنی کتاب الآثار میں کیا ہے اور صرف ابراہیم نخعی کے قول کے طور پر کیا ہے اور اس ضمن میں رسول اکرم ؐ کا کوئی ذکر نہیں ہے - اسی طرح ام ابو یوسف نے اپنی تالیف اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلی ، (قاہرہ ، ۱۳۵۸) میں رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث درج کی ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۸ - ۷۹) - ابو یوسف، نے جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اپنی ایک دوسری کتاب ، کتاب الآثار (حدیث نمبر ۷۳۸) میں اسی قول کو صرف امام ابو حنیفہ کے قول کے طور پر درج کیا ہے - ۱۲ - یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ موطا امام مالک اور موطا امام شیبانی کے مابین یہ موازنہ اور اس سے اخذ کردہ نتائج بلا جواز ہیں اس لیے کہ موطا امام مالک تو دراصل وہ نسخہ ہے جو یحییٰ اللیثی (م۲۳۴ھ) نے مرتب کیا تھا - بنابریں موطا امام مالک کو موطا امام محمد سے موخر قرار دینا دیا جانا چاہیے - اس اعتراض کے بارے میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں - اول تو یہ کہ خود شاخت نے موطا امام محمد کو موطا امام مالک سے موخر قرار دیا ہے اور اسی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کیے ہیں - (دیکھئے آغاز فقہ ، ص ۱۴۳)- دوسرے یہ کہ اگر ہم موطا امام مالک کو موطا امام محمد سے موخر تسلیم کر لیں اور اس بنیاد پر اس کی روایات کا موطا امام محمد کی روایات سے موازنہ کریں تو جو نتائج برآمد ہوں گے ان سے شاخت کا وضع کردہ منہاج تحقیق کہیں زیادہ سنگین اعتراضات کی زد میں آ جائے گا - ۱۳ - ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی کتاب الحج (لکھنؤ ۱۸۸۰ء ، ص ۱ و مابعد) میں اپنے فقہی مذہب کی آراء کی تائید میں جہاں بہت سی دوسری روایات کی سند پیش کی ہے وہاں موطا امام مالک کی مذکورہ بالا روایت کا حوالہ بھی دیا ہے - ۱۴ - اس روایت کا حوالہ نہ دینا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ امام شیبانی اس روایت سے واقف نہیں تھے - اس لیے کہ خود انہوں نے اپنی کتاب الحج کے صفحہ ۲۸۹ پر یہ روایت عین اسی اسناد سے نقل کی ہے جو ہمیں موطا امام مالک میں ملتی ہے - اور پھر خود اپنی رائے کی بنیاد بھی اس روایت کو بنایا ہے - ہمارا دعویٰ بعینہ یہی ہے کہ یہ مفروضہ قطعاً بلا جواز ہے کہ ہر عالم ہر موقع پر ہر اس روایت کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتا تھا جو اس کے علم میں تھی - اسی طرح یہ فرض کرنے کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ کسی عالم کی تحریر میں کسی روایت کا نہ ملنا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ روایت سرے سے موجود ہی نہ تھی - ۱۵ - امام محمد بن الحسن شیبانی ، امام ابو یوسف سے کم عمر تھے اور امام ابو یوسف ان کے استاد بھی تھے- مزیدبراں امام محمد نے امام ابو یوسف کی تالیفات کی تدوین بھی کی اور خود انہی موضوعات پر یا امام ابو یوسف کی تالیفات پر مبنی کتابیں بھی تحریر کیں - یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو یوسف کی بیان کردہ روایات کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ہمیں ان کی بعض تصانیف میں ملتی ہیں لیکن امام شیبانی کی اسی عنوان کی تصانیف میں موجود نہیں - اس سے ان مفروضات کی صحت و صداقت کی کوئی بنیاد نہیں رہ جاتی جن کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا ہے - اب اگر یہ مفروضات ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکیں تو شاخت کی ’’ دلیل سکوت‘‘ سرے سے بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے - ۱۶ - ملاحظہ فرمائیے انصاری ، ’’ ابتدائی نشو و نما ‘‘ باب چہارم ، حاشیہ نمبر ۱۱۵، ۱۱۶ اور ۱۲۰ ۱۷ - احادیث یا احادیث کے اسناد بھول جانے یا ان احادیث پر مشتمل کتب کے تلف ہو جانے ، یا اپنے علم میں موجود سبھی روایات کے حوالہ نہ دینے کا تذکرہ اگر صراحت سے دیکھنا ہو تو ملاحظہ ہو کتاب الخراج (ص ۵۷) اور امام شافعی کا الرسالہ (مرتبہ احمد محمد شاکر ، قاہرہ ، ۱۹۴۰ء ص ۴۳۱) - اس ضمن میں امام شافعی کے مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں - امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ : الف - اپنی کتاب میں انہوں نے کتنی ہی احادیث کو مقطوع یا غیر متصل کے طور پر درج کیا ہے جبکہ ان تک وہ متصل اور مشہور کی حیثیت سے پہنچی تھیں - انہوں نے بہتر یہ جانا کہ پوری طرح یاد نہ رہنے کی وجہ سے ان کو غیر متصل روایات کے طور پر ہی درج کر دیں - ب - ان کی متعدد تالیفات ضائع ہو گئیں لہٰذا ان میں درج جو احادیث ان کو یاد رہ گئیں ان کی تصدیق دیگر علماء سے کروائی گئی - ج - بہت سی روایات اس خوف سے حذف کر دی گئیں کہ کتاب کی ضخامت بہت بڑھ جائے گی- امام شافعی کے بقول بس اتنا ہی درج کیا گیا جو ضروری تھا اور ساری معلومہ احادیث کا حوالہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی - ملاحظہ ہو امام شافعی کی کتاب الام (۷ مجلدات) بولاق، ۱۳۲۱، جلد ششم ، ص ۳ - و ص ۱۷۲ نیز جلد ہفتم ، ص ۴۱ - خلیفہ عبدالحکیم اور اسلامی فطریت ڈاکٹر روبینہ کوثر لودھی یونانی لفظ (Physi) فطرت (Nature) سے مراد تمام مظاہر (Phenomenon) یا عالم ظواہر (World of Appearance) ہے - دوسرے لفظوں میں فطرت (Nature) سے مراد کسی بھی شے کے ان قوانین اور اصولوں کا نام ہے جن کے تحت ان اشیاء کے کردار کو بیان کیا جاتا ہے ، چنانچہ فطرت کے ان دونوں مفاہیم کو ایک دوسرے سے کسی صورت بھی جدا نہیں کیا جا سکتا ہے- دور حاضر میں فطریت (Naturalism) سے مراد فلسفیانہ احدیت کی وہ نوع ہے جس کے مطابق جو کچھ بھی موجود ہے یا جو کچھ بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے ، وہ صرف اسی مفہوم میں فطرتی یا (Natural) ہو گا،اگر فطرتی علوم کے طریقہ ہائے کار اور مثالوں سے اسے ثابت کیا گیا ہو گا،جب کہ فطریت یا Naturalism کی عام تعریف کے مطابق سائنسی وضاحتوں سے قطع نظر کائنات میں تمام اکائیوں کا وجود اور واقعات کا وقوع پذیر ہونا ایک اصول یا قانون کے مطابق ہے-تاہم فطریت (Naturalism) کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کائنات میں موجود یہ مخصوص قسم کی اکائیاں کون سی ہیں اور کتنے مختلف قسم کے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں - اس کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ ان اکائیوں کا وجود زمان و مکان کا رہین منت اور قانون علت کا پابند ہے - مسلم مفکرین بالخصوص جدید پاکستانی مفکرین میں خلیفہ عبدالحکیم وہ صاحب بصیرت شخص ہیں جنہوں نے فطریت پر بحث کو آگے بڑھایا ہے - خلیفہ صاحب کے تصور فطرت پر نظر ڈالنے سے پہلے ہم مسلم فکر کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں - جہان فطرت اور قانون فطرت سے متعلق تین نظریات ملتے ہیں:- ۱ - ایک نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی واقعہ خلاف فطرت وقوع پذیر نہیں ہوتا - قوانین فطرت ازلی و ابدی ہیں جن میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں کیونکہ یہ قوانین خدا کے عملی وعدے کی حیثیت رکھتے ہیں - معتزلہ اسی نظریے کے علمبردار تھے اور انیسویں صدی کے مسلم مفکر سید احمد خان نے بھی اسی نقطہ ٔنظر کو اختیار کیا ہے - ان کے نزدیک بھی خدا جب قوانین فطرت کو ایک مرتبہ وضع کر دیتا ہے تو پھر ان میں کسی بھی صورت تبدیلی کا امکان نہیں رہتا ، یہی سائنسی نظریہ بھی ہے - سائنس میں اس نظریے کی حمایت مل نے کی ہے - اس کے خیال میں کائنات میں علت و معلول کا ایک لا متناہی سلسلہ پایا جاتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا - قوانین فطرت ، تخلیق فطرت سے قبل متعین کر دیے گئے تھے جن میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی - چنانچہ سر سید احمد خان کے نظریے کو اس سائنسی فطریت کے پس منظر ہی میں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ خود اسلام ، ایک خاص سطح پر ، فطرت میں دخل اندازی کی تردید کرتا ہے ، اور نہ ہی قرآن میں کہیں ایسے واقعات کی تائید ملتی ہے جو فطرت کے عمومی قوانین کے خلاف ہوں ، اور اسی وجہ سے سر سید احمد نے معجزات کا انکار کر دیا تھا - ارشاد خداوندی ہے : ’’ تم خدا کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں پائو گے ‘‘(۱) - تفسیر القرآن ، جلد سوم ، میں سر سید احمد لکھتے ہیں ’’ میں معجزات کے وجود سے اس لیے انکار نہیں کرتا کہ وہ عقل کے خلاف ہیں بلکہ اس لیے نہیں مانتا کہ قرآن ایسے واقعات کی تائید نہیں کرتا جو فطرت کے عمومی قوانین کے خلاف ہوں ‘‘(۲) - ۲ - دوسرا نقطہ ٔنظر یہ ہے کہ کائنات میں جتنے بھی واقعات رو نما ہوتے ہیں ، وہ سب بلا واسطہ اور براہ راست اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے سے رونما ہوتے ہیں - کوئی ایسے قوانین موجود نہیں جو فطرت میں از خود کار فرما ہوں اور جن کی معروضی نوعیت کو سائنسی تجرباتی تحقیق سے دریافت کیا جا سکے، مثلاً اگر پانی کا کام پیاس بجھانا اور آگ کا کام جلانا ہے تو پانی پینے اور پیاس بجھ جانے کے مابین کسی قسم کے علت و معلول کا رشتہ نہیں ہے - خدا در اصل اپنے ذاتی ارادے سے ہر فعل کو اسی وقت پیدا کر دیتا ہے - ان کے نزدیک معجزات معمول کے عین مطابق اور سراسر فطری ہیں ، اور تمام فطرت کلیتاً معجزات پر مشتمل ہے - ان کے نظریے کا پر چار اشاعرہ اور امام غزالی نے کیا - انہوں نے اس آیت قرآنی کو اپنے موقف کی حمایت میں بطور دلیل پیش کیا ’’بے شک خدا ہر شے پر قادر ہے‘‘- ۳ - ان دو نقطہ ہائے نظر کے مابین عوام الناس کا نظریہ ہے - ان کے نزدیک عام حالات میں تو قوانین فطرت موثر رہتے ہیں لیکن جب خدا چاہے تو ان میں دخل اندازی کر کے کوئی غیر معمولی واقعہ وقوع پذیر کر سکتا ہے جسے مذہب کی زبان میں معجزہ کہتے ہیں - عصر حاضر میں مسلم فکر کی اس روایت کو خلیفہ عبدالحکیم نے برقرار رکھا ہے - انہوں نے معتزلہ اور سر سید احمد خان کی قائم کردہ اس روایت کو فطریت اور فوق الفطریت کی بحث کے ذریعے آ گے بڑھانے کی کوشش کی ہے اور فوق الفطریت اور فطریت کے مابین تعلق کو واضح کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہی وہ اسباب تھے جو مشرق و مغرب میں عقائد کی توجیہ کے دورران ان کی کمزوری کا باعث بنے - مذاہب میں بعض رسومات اور مذہبی معمولات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اعتقاد رکھنا لازم ہو جا تا ہے لیکن جدید دور میں ان اعتقادات کی کچھ ایسی توجیحات پیش کی گئیں ہیں کہ عوام الناس کے ان معتقدات کی پہلے کی سی حیثیت قائم نہیں رہی - چنانچہ مذہب کی اس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے فوق الفطرت عناصر کو سمجھا جائے - اس دوران فطریت کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے - خلیفہ صاحب کے خیال میں یہ دواصطلاحات فطریت اور فوق الفطریت غیر متعین اور گمراہ کن ہیں ، اور ضرورت جس امر کی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ان دونوں کے رابطے سے کسی مفید نتیجے پر پہنچا جائے ، ان کی واضح تعریف کر دینی چاہیے (۳) - فطریت ما فوق الفطریت نفس بشری نفس الوہی نفس بہمی نفس بشری نفس نفس بہمی مادہ مادہ مثلاً اگر فطرت سے مراد مادئہ حیات ، نفس اور ماورائے نفس منظم موجودات ہیں ، اور اگر واقعی اس کی کوئی حقیقت ہے ، تو فطریت سے مراد ہستی کے تمام مراتب بمع حیات الوہی شامل ہوں گے - خلیفہ صاحب کے خیال میں فطریت کے اس وسیع اور جامع مفہوم کو تسلیم کرنے کے بعد کوئی چیز فطرت سے باہر نہیں ہو سکتی اور اس طرح فوق الفطریت محض ایک سلبی تصور رہ جائے گا جس کی فطریت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رہے گی - یوں فطریت خلیفہ صاحب کے نزدیک ایک وسیع مفہوم کی حامل ہے ، یعنی انیسویں صدی میں پروان چڑھنے والی وہ فطریت نہیں جو بہت محدود وسعت رکھتی ہے - اس فطریت کو صرف مادی یا میکانی مفہوم میں لیا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک صرف وہی اشیاء حقیقت کی حامل تھیں جن پر غور و فکر کیا جا سکتا تھا- مادہ اور توانائی ان کے نزدیک مجرد حقیقت کی حیثیت رکھتے تھے - اس فطریت کے متعلق خلیفہ صاحب کا خیال تھا کہ یہ فطریت عام سائنس نہیں تھی بلکہ ایسی فطریت تھی جو سائنس نہیں کہلائی جا سکتی - یہ ایک طبیعیات تھی جو مذہب سے برسر پیکار رہی (۴) - یہی فطریت یورپ کے فلسفہ ٔفطریت کی بنیاد بنی جس کی رو سے قوانین فطرت پوری کائنات پر حاوی ہیں اور کارخانہ ٔ کائنات چند ازلی و ابدی اور آفاقی اصولوں کے مطابق چل رہا ہے جو غیر متبدل اور ناقابل شکست ہیں - اور وہی انسان کامیاب اور کامران ہے جو فطریت کے قوانین کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ہئیت کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ ان کی خلاف ورزی قانون فطریت کی خلاف ورزی ہے - چنانچہ اس کے یورپی محققین نے بھی یہ موقف اختیار کیا کہ رائج الوقت مذاہب کی تردید کر کے ایک ایسا مذہب ایجاد کیا جائے جو فطریت کے قریب تر ہو اور تحقیقات علمی کا ساتھ دے سکے - برطانوی فلسفی ’’ ولیم پیلی‘‘ کی کتاب Natural Theologyنے فطریتی مذہب کے لیے بنیادیں فراہم کیں ، علاوہ ازیں جان سٹورٹ مل ، ہکسلے،سپنسر اوراگست کومتے کے نظریات نے اس مذہب کی ترویج کو تقویت دی- اس طرح فطریت عوام الناس کے مذہبی نظریات سے ٹکراتی رہی - انیسویں صدی کے برصغیر میں فطریت پسندی کی اس تحریک کے بانی سر سید احمد خان تھے جنہوں نے اسلام کو مذہب فطرت ثابت کرنے کے لیے اس کے مابعدالطبیعیاتی تصورات جنت ، دوزخ ،ملائکہ ، وحی ، معجزات کی فطریتی توجیہ کی جو روایتی مذہبی عقائد سے تصادم کا باعث بنی کیونکہ ان مذہبی عقائد کی فطریتی توجیہ ممکن نہیں ، صرف ایمان بالغیب کے تحت ہی مانا جا سکتا ہے ، اور انسان موجودہ زندگی میں ان میں سے بعض تصورات کی کیفیت کو نہیں جان سکتا ، یہ انسان کے لیے غیب کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ صرف انسانوں کے لیے ہے کیونکہ خدا علیم و بصیر ہے اور ہر شے کا علم رکھتا ہے (۵) - مذہب ، غیبیات پر یقین رکھتا ہے ، اور فطریت مظاہر تک محدود رہتی ہے ، اسی لیے مذہب نے فطریت سے کنارہ کر لیا کیونکہ اس کے نزدیک غیبیات کی کوئی حقیقت نہیں ہے - فطریت کی بنیادیں چونکہ عقلیت میں ہیں ، اور عقل ہر شے کا ثبوت مانگتی ہے، اس لیے فطرت کے زمرے میں ہستی کے وہ تمام مراتب آتے ہیں جو اصول علیت کے تابع ہیں (۶) - کائنات کی اشیاء کے مابین علت و معلول کے رشتے ساری فطرت کی عکاسی کرتے ہیں - کوئی شے محض غیب سے یکایک ظہور پذیر نہیں ہوتی بلکہ اپنے وجود کے لیے اپنے سے پیشتر کسی نہ کسی علت کی رہین منت ہے ؛ جبکہ مذہب اکثر فوق الفطرت حقائق کو زیر بحث لاتا ہے جو فطریت کے دائرئہ کار سے باہر ہوتے ہیں - اور یہی ان کے مابین وجہ اختلاف بھی ہے - فوق الفطریت سے انکار گویا ان مذہبی حقائق سے انکار ہے، اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ اس کی تعریف اس طرح کی جائے کہ ہم فطریت کے مدارج طے کرنے کے بعد خود بخود فوق الفطریت کی طرف گامزن ہو جائیں - اس نقطہ ٔ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ اگر فوق الفطریت کی اس اصطلاح کو برقرار رکھنا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فطریت در جاتی وجود کی حامل ہے جس کے چار درجات تو مشاہدے اور تجربے میں آ ہی چکے ہیں ، یعنی مادہ ، حیات ، نفس بہمی اور نفس بشری - اگر ہم ان چاروں کو ترتیب وار ادنیٰ سے اعلیٰ کی جانب اور اعلیٰ سے ادنیٰ کی جانب دیکھیں تو حیات مادہ کے لیے فوق الفطرت چیز ہے ، نفس بشری ان تمام مراتب کے لیے ماورائے فطرت ہے جو اس سے ادنیٰ ہیں - ادنیٰ کے قوانین اعلیٰ پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے گو کہ اعلیٰ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ ادنیٰ کو اپنے اندر سمولے اور اصول تعلیل کے مطابق ڈھال لے (۷) - وجود کے یہ مراتب انسان کے روز مرہ تجربے میں آتے رہتے ہیں - خلیفہ صاحب کے خیال میں اگر مذہب ان مراتب پر اعتقاد رکھتا ہے تو یہ کوئی غیر عقلی بات نہیں بلکہ یہ ان مراتب کو وسعت دے کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ فطرت تجربہ شدہ حقائق پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہ مادہ سے خدا کے طرف وسعت پذیر ہوتی ہے جو ہر چیز کا ظاہر و باطن ہے - اسے وہ فوق الفطریت کا نام دیتے ہیں اور یہی غیبیات پر ایمان لانا بھی ہے ، اور مذاہب حق بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں-- ان کے نزدیک فوق الفطریت کے وہ معنی نہیں ہیں جو عام طور پر لیے جاتے ہیں ، یعنی ایسی چیز جو خلاف فطرت ہو - ان کا کہنا ہے کہ اسلام ایسی فوق الفطریت کی تردید کرتا ہے جو فطرت کے کاموں میں ایک خاص سطح پر بے اصول دخل اندازی ہے - کوئی بھی غیر معمولی واقعہ جو روحانی قوت کے ذریعے کسی برگزیدہ پیغمبر یا ولی سے سر زد ہوتا ہے ، وہ کوئی فوق الفطرت چیز نہیں ہے ، محض اتنی سی بات ہے کہ اعلیٰ سطح کی علیت ادنیٰ سطح کے وجود میں تعلیلی نتائج کو بدل دیتی ہے (۸) - اگر روز مرہ کے تجربات کا بغور جائزہ لیا جائے تو وجود کے تین طبقات ، مادہ ، حیات ، نفس ، سامنے آتے ہیں - ان تینوں طبقات کی قسمیں اپنی علیت میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں - ہر سطح کی اپنی علیت ہوتی ہے جو اپنے سے نچلی سطح کو متاثر کرتی ہے - جب حیات اپنے سے نچلی سطح کو متاثر کرتی ہے تو مادی علیت (Material Cause) کی جگہ حیاتی اعمال یا Life Actions لے لیتے ہیں - مثلاً بیج ایک بے جان چیز ہے - اگر اسے مادہ متصور کر لیا جائے تو اسے زمین میںبویا جاتا ہے تو اس میں جب زندگی کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو مادی علیت کی جگہ حیات کے اعمال لے لیتے ہیں جن میں موسموں کی تبدیلی ، زمین کی ہمواری نشو و نما کی خوراک شامل ہوتے ہیں - مادے کا اصول یہ ہے کہ جس حالت میں ہو ، اسی میں رہتا ہے ، اور کشش ثقل کے اصول کے مطابق اشیاء نیچے کی طرف آتی ہیں ، اوپر کی طرف نہیں جاتیں- اسی طرح جب حیات بیج یعنی مادے پر اثر انداز ہوتی ہے تو مادی سطح کے قوانین ختم ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جب نفس حیات کو متاثر کرتا ہے تو نفسی اعمال حیاتی علیت کی جگہ لے لیتے ہیں اور حیات کے قوانین دب جاتے ہیں - مثلاً انسان نفس و حیات کا مجموعہ ہے لیکن نفس کی کار فرمائی زیادہ واضح ہو تی ہے کیونکہ حیات کے اندر بلا ارادہ نشو و نما کی صلاحیت ہوتی ہے ، لیکن جب یہ انسانی جسم میں نفس انسانی کے ساتھ مل جاتی ہے تو نفسی اعمال حیاتی اعمال پر حاوی ہو جاتے ہیں - اور وجود کے ان تین مدارج یعنی مادہ ، نفس اور حیات میں بر تر اپنے سے فروتر کے اعمال میں تبدیلی پیدا کرتے ہوئے ایک اعلیٰ مقصد کو پورا کرتا ہے - یوں ہمیں ایک عالم گیر قانون ہستی سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ، اگرچہ اس عمل کی منطقی و نظری توجیہ ممکن نہیں- خلیفہ صاحب کے نزدیک نفس کے اوپر وجود کے اور بھی مراتب ہو سکتے ہیں جنہیں عام آدمی اور سائنس دان کی نسبت مذہبی اور متصوفانہ تجربات رکھنے والے حضرات زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اول الذکر کو مافوق الفطرت کا تجربہ نہیں ہوتا ؛ جبکہ تمام بڑے بڑے مذاہب روح یا مافوق النفس حیات سے بحث کرتے ہیں - جس طرح وجود کے تین طبقات کی سطح پر علیت کار فرما ہوتی ہے جس کی بنا پر یہ درجات صعود کرتے ہوئے نفس کی سطح پر منتہی ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح نفس کے اوپر جو الوہیت کی سطح ہے ، وہاں بھی ایک خاص قسم کی علیت ہونی چاہیے جہاں خدا علت العلل کی طرح کار فرما ہو جو اپنے سے فروتر پر اثر انداز ہو کر اس میں تبدیلی پیدا کرے ، کیونکہ جب حیات مادے کے اعمال بدل سکتی ہے اور نفس حیات کے اعمال میں تبدیلی پیدا کر سکتا ہے تو پھر اقالیم اپنے جملہ ما تحت اقالیم میں ایک برتر کلی مقصد کی تکمیل کے لیے تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں- مادی فطرت اس وقت تک اپنے تسلسل و ترتیب کو جاری رکھ سکتی ہے جب تک کہ حیات واضح ہو کر اسے اپنے مقاصد کے مطابق نہ ڈھال لے - اسی طرح حیات اس وقت تک ترقی کرتی رہتی ہے جب تک کہ نفس اسے اپنے مقاصد کے مطابق نہیں کر لیتا - اس طرح ہم درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے خدا تک رسائی حاصل کر تے ہیں تو خدا میں یہ قدرت اور ارادہ ہوتا ہے جو اپنے تابع ہر شے کو اپنے مقاصد کے مطابق کر لیتا ہے - اسی کو مذہب کی زبان میں معجزہ کہتے ہیں - خلیفہ صاحب معجزہ سے مراد قوانین فطرت کی خلاف ورزی نہیں لیتے ، کیونکہ اگر تمام مراتب وجود کی کلیت کو فطرت کا نام دیا جائے تو فوق الفطرت کی اصطلاح بے معنی ہو جائے گی کیونکہ قوانین کو توڑا نہیں جا سکتا ، بلکہ ایک قانون دوسرے قانون کے کاموں میں دخل اندازی کر سکتا ہے اور نتیجے میں اس کے مطابق تبدیلی واقع ہوتی ہے(۹)- فطرت نفس الوہی نفس بشری نفس بہمی نفس مادہ خلیفہ صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر فطرت سے مراد تین مراتب وجود یعنی مادہ ، حیات اور نفس ہیں جس کی سب سے اعلیٰ سطح الوہیت ہے تو ہمیں کائنات میں ہر چیز معجزہ نظر آئے گی - مادے کے حوالے سے دیکھیں تو حیات کی سطح کے تمام اعمال معجزہ دیکھائی دیں گے، اور اگر حیات کی سطح سے دیکھیں تو نفس کے تمام اعمال معجزہ دیکھائی دیں گے - لیکن اگر ان تینوں اعمال کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو اس کائنات میں کوئی معجزہ نہیں ہوتا اور ہر چیز قوانین فطرت کے عین مطابق ہو رہی ہے - خلیفہ صاحب نے اسے واضح کرنے کے لیے خوارق عادت کے مفہوم کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے - عام طور پر خوارق عادت کے معنی قوانین فطرت کو معطل کر دینے کے لیے جاتے ہیں- امام رازی کے استدلال کے مطابق خرق عادت وہ شے ہے جو خلاف عادت وقوع میں آئے گو اس کے لیے کوئی غیرمعمولی علت موجود نہ ہو(۱۰)- اصغر علی روحی کے نزدیک-’’خرق عادت کے صرف یہی معنی ہیں کہ کوئی امر خلاف طریق معہود وقوع میں آیا ہے (۱۱) - خلیفہ صاحب کے خیال میں ’’ اسلام ، خوارق عادت کی اصطلاح کو عام فہم میں تسلیم نہیں کرتا کہ یہ عارضی طور پر قوانین فطرت کو معطل کر دیتے ہیں ، یہ ان کو خدا کی ذات سے وابستہ کرتا ہے جس کو ہم اپنے تجرباتی مراتب وجود میں دیکھتے ہیں(۱۲) ‘‘ - خدا کائنات کا خالق ہے اور کائنات میں ہر عمل اس کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے - اس نے انسان کو بہت محدود اختیارات سے نوازا ہے - تمام تر علیت کا خالق وہی ہے لہٰذا اس سے مختلف قسم کی علیتوں کے ذریعے سے جو خود اس کی مشیّت کی تخلیق ہیں ، کا پابند نہیں - کوئی مخلوق اپنے خالق کو مطلقاً محدود نہیں کر سکتی --- فطرت کے کاموں میں تبدیلی کس طرح اور کب واقع ہوتی ہے ، یہ صرف تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ہی ممکن ہے(۱۳) - اگر انسان فطرت کا بغور مشاہدہ کرے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس کائنات کی تمام اشیاء اور انہیں نظم و ترتیب عطا کرنے والے قوانین براہ راست کسی ہستی مطلق کے تابع ہیں جو ان میں نظم و ترتیب کا باعث بنتی ہے - اسلام ، خدا کا جو تصور پیش کرتا ہے ، وہ ایک قادر مطلق کا تصور ہے جو قوانین فطرت سمیت ہر شے پر قادر ہے اور کسی کے قانون فطرت کا پابند نہیں - مثلاً ، جیسا کہ سر سید احمد خان کا یہ خیال تھا کہ خدا نے ایک بار جو قوانین نافذ کر دیے ہیں وہ ان میں تغیر کا مجاز نہیں اور قانون فطرت ناقابل تغیر ہیں ، اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان کے خلاف کبھی کوئی چیز وقوع پذیر ہو - اس نظریے کے بالکل برعکس یہ نظریہ ہے کہ خدا کو قادر مطلق تسلیم کر لینے کے بعد قانون فطرت کو ناقابل تغیر نہیں کہا جا سکتا ؛ البتہ قوانین فطرت کو لا متناہی ضرور کہا جا سکتا ہے - مولانا اصغر علی روحی کے نزدیک قوانین فطرت کو ہم محدود نہیں کر سکتے --- اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے قویٰ محدود ہیں اور قدرت ذات باری غیر محدود ہے؛ اس لیے محدود شے کسی بھی غیر محدود شے کا کبھی بھی احاطہ نہیں کر سکتی (۱۴) - خدا جب ان قوانین کی بدولت کائنات میں کوئی ردو بدل کرتا ہے تو انسان اپنی محدود عقلیت کی بنا پر انہیں سمجھ نہیں پاتا - اس کے لیے اسے وسعت نظری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ان کی صحیح نوعیت سے با خبر ہو سکے - اس ضمن میں خلیفہ صاحب کا خیال ہے کہ اگر فطرت میں کہیں انتشار نظر آتا ہے تو انسان کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ درست طریقے پر سمجھ نہیں رہا - کائنات خدا کی ایک منظم تخلیق ہے - علیت کے طریقے تو بدلتے ہی رہتے ہیں ، لیکن قانون ہر جگہ کار فرما ہے - مختلف علتوں کی صورت مختلف قوانین مختلف سطحات پر کار فرما ہیں - خدا علت العلل ہے - خلیفہ صاحب کے نزدیک علیت سے مراد محسوسات میں خدا کا قائم کردہ ایسا سلسلہ ہے جس میں صرف برتر قوانین کے ذریعے سے ہی تغیر ہو سکتا ہے(۱۵) - خلیفہ صاحب کے اس نظریے سے ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ معجزات ایک لحاظ سے فطرت کے خلاف بھی ہوتے ہیں - کیا معجزات خلاف فطرت ہیں یا فطرت کے عین مطابق، اس سوال کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم فطرت سے کیا مراد لیتے ہیں - اگر فطرت سے ہماری مراد محض مادی یا میکانی قوانین نہیں بلکہ تین مراتب وجود یعنی مادہ ، حیات اور نفس کی علمبرداری ہے تو مادے پر حیات کی کار فرمائی بھی ہمیں معجزہ دکھائی دے گا ، اور حیات کی سطح سے دیکھا جائے تو نفس کی فعلیت بھی ہمیں معجزہ نظر آئے گی- اگر ان تینوں مراتب وجود سے الوہی علیت کو دیکھا جائے تو وہ ہمیں معجزہ دکھائی دے گی - اگر ان چاروں سطحات وجود کو فطرت کا مترادف قراد دیا جائے تو کائنات کی کوئی شے معجزہ نہیں رہے گی - بہر حال ، اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ ہم فطرت کا ایک وسیع مفہوم لیں جیسا کہ قرآن نے لیا ہے - قرآن ، کل فطرت کو فطرت اللہ سے تعبیر کرتا ہے ؛ چنانچہ انسان کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ فطرت الٰہی ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی- فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا ط (قائم ہو جائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا )(۱۶) - اس مفہوم میں فطرت ہر جگہ یکساں ہے ، خدا کی مرضی کے خلاف اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی - لن تجد لسنتہً اللہ تبدیلاً (اور آپ خدا کے دستور میں کسی شخص کی طرف سے کوئی ردو بدل نہ پا ویں گے)(۱۷) - اس نوعیت کی تمام آیات کا مفہوم ہماری سمجھ میں اس وقت آتا ہے جب ہم فطرت کو ایک وسیع ترین مفہوم میں لیتے ہیں - خلیفہ صاحب نے اسے اسلامی فطریت یا Islamic Naturalism کا نام دیا ہے- حواشی ۱ - القرآن ، ۲۳ : ۴۸ ۲ - Quoted by M.M Sharif:A History of Muslim Philosophy:P.1605 ۳ - قطب الدین احمد (مترجم) : اسلامی نظریہ ٔحیات ص : ۳۶ ۴ - ایضاً ص : ۳۷ ۵ - ایضا ً ۶ - ایضاً ۷ - ایضاً ۸ - ایضاً ص : ۳۸ ۹ - ایضاً ص : ۴۴ ۱۰ - شبلی نعمانی : علم الکلام اور الکلام مطبوعہ مسعود پبلشنگ ہائوس کراچی ، ۱۹۶۷ء ص ، ۲۱۱ ۱۱ - اصغر علی روحی: ماضی الاسلام ، جلد اول مطبوعہ منظور عام پریس سٹریٹ پیسہ اخبار لاہور ۱۹۵۰ء ۱۲ - قطب الدین احمد (مترجم) اسلامی نظریہ ٔحیات : ص ۴۴ ۱۳ - ایضاً ۱۴ - اصغر علی روحی : ماضی الاسلام ص ، ۳۲ ۱۵ - قطب الدین احمد :مترجم اسلامی نظریہ ٔحیات ص ، ۴۵ ۱۶ - القرآن : ۳۰ : ۳۰ ۱۷ - القرآن : ۳۳ : ۶۲ نقد و نظر علامہ اقبال پر جوش کے اعتراضات کا جائزہ پروفیسر ایوب صابر جوش ملیح آبادی نے اپنی سوانح عمری یادوں کی برات ، اپنی منظومات ، انٹرویو اور کالم میں علامہ اقبال کے فکری انہدام کی سخت کوشش کی ہے - یادوں کی برات میں لکھتے ہیں کہ روح ادب شائع ہوئی تو اقبال نے میری شاعری کی تعریف کی اور یہ بھی فرمایا کہ حافظ اور ٹیگور کی پیروی ترک کر کے فکری شاعری کی طرف آ جائوں - میری تخئیل کا دھارا زور شور سے تصوف کی وادیوں کی طرف بہہ رہا تھا ، ان کی نصیحت پر عمل پیرا نہ ہو سکا لیکن یہ نصیحت مجھ پر اثر کرتی رہی اور جب تصوف سے روگردانی کر کے میں سیاسی شاعری کرنے لگا اور سیاست سے مڑ کر میری شاعری تجسس اور تشکک کی جانب گامزن ہوگئی تو میرے ناصح حضرت اقبال کی شاعری اقوال ، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس تصوف اور مابعدالطبیعیات سے انہوں نے مجھے روکا تھا ، اس پر ’حرکی ‘ کا لیبل لگا کر وہ خود اسی طرف چلے گئے اور عقل کو ’ بولہب ‘ اور’’عشق‘‘ کو ’’مصطفٰی‘‘ کا خطاب دے کر--- السلام اے عشق خوش سودائے ما --- کے نعرے لگانے لگے- اس کے بعد جوش ملیح آبادی لکھتے ہیں : چونکہ وہ اعلیٰ درجے کے پڑھے لکھے اور بلا کے ذہین انسان تھے ، اس لیے شروع شروع میں انہوں نے مغرب کے الحاد اور مشرق کے مابین مصالحت کی بڑے خلوص کے ساتھ کوشش کی - لیکن جب ان کی سعی مشکور نہیں ہوئی تو انہوں نے ، نٹشے کے ’’ مافوق البشر ‘‘ کو مشرف بہ اسلام کر کے ’’ شاہین بچہ ‘‘ بنا دیا - قرآن کے مردود لفظ ’’ عشق ‘‘ کو آسمان پر چڑھا کر اسے تمام انسانی شرف و مجد کا مرکز تسلیم کیا اور قرآن کے محبوب لفظ ’’ عقل ‘‘ کو خاک میں ملا کر ، اس کو تمام مقاصد کا سر چشمہ ٹھہرا دیا - اور میں چیخ اٹھا : چیست ، یاران طریقت ، بعدازیں تدبیر ما (۱)- اسی کتاب میں ، آگے چل کر ، ’’پلان چٹ‘‘ کے ذریعے اقبال کو آدھا شاعر قرار دیا ہے - بقول جوش ’’ پلان چٹ لکٹری کا ایک ، قلب صورت ، آلہ ہوتا ہے جس کے ایک طرف پنسل لگانے کا سوراخ ہوتا ہے ، اور جب کسی کی ’ روح‘ بلا نے کے واسطے ، ذہن پر زور ڈالا جاتا ہے تو وہ آلہ خودبخود معرض حرکت میں آ جاتا اور کاغذ پر جوابات لکھنے لگتا ہے‘‘(۲)- اس پلان چٹ کی ’مدد‘ سے غالب کو مغلوب اور فانی کو ایک فاحشہ عورت کا عاشق قرار دیا ہے- پلان چٹ کا اعتبار قائم کرنے کے لیے تلک کی ایک پیش گوئی بیان کی جو آزادی کے بارے میں تھی اور سچی ثابت ہوئی - یہ تمہید اٹھانے کے بعد علامہ اقبال پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں: ’’ فانی صاحب نے ایک رات کو میر تقی میر کی ’روح ‘ کو بلا کر پوچھا : اقبال کیسے شاعر ہیں پلان چٹ نے لکھا : میں ان کو آدھا شاعر مانتا ہوں ، اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے‘‘(۳) - یادوں کی برات ہی میں علامہ اقبال پر ، کچھ الزامات قاضی خورشید احمد کے حوالے سے عائد کیے ہیں - اقبال کا شعر ہے : کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں بقول جوش ، قاضی خورشید احمد نے یہ شعر سن کر زور سے منہ جھٹکا ، لاحول پڑھی اور کہا بھلا یہ بھی کوئی شعر ہے - شاعر صاحب اللہ تعالیٰ سے فرما رہے ہیں کہ ہر چند میرے ماتھے میں ہزاروں سجدے پھدک رہے ہیں لیکن تو جب تک چانکی بائی آف الہ آباد کے لباس میں ، انگیا کرتی پہن کر نہیں آئے گا ، میں تیری بار گاہ میں سجدہ نہیں کروں گا - اس سے زیادہ مادہ پرستی اور اہانت الٰہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا - جوش لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب کو اس غزل کے دو اور شعر یاد آ گئے جن میں سے پہلا یہ ہے : نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ، جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم ہائے سیاہ کو ، ترے عفو بندہ نواز میں اس پر قاضی موصوف کا (بقول جوش ) انتقاد یہ تھا کہ شعر کے معنی یہ ہوئے کہ شاعر نے جس قدر بھی اودے ، نیلے ، پیلے ، سفید اور دھانی گناہ کیے تھے ، وہ جب پناہ مانگنے آئے تو انہیں بھگا دیا گیا اور شاعر صاحب کے حبشیوں کی طرح کالے گناہوں کو پناہ دے دی گئی - اس کے علاوہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’ جہاں ‘‘ کا لفظ انتہائی حشو ہے -- اسی حوالے سے جوش لکھتے ہیں: ’’اب دوسرا شعر دیکھیے کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا تو حرم سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو ہے بحرم چو سجدہ کردم ز حرم ندا برآمد کہ مرا خراب کردی تو بسجدۂ ریائی اور دوسری بات یہ ہے کہ مصرعہ اول کے جزو اول یعنی ’’ کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جس کو میں زبان پر نہیں لا سکتا - تو بہ توبہ ’’ کھڑا ہوا ‘‘ - ایسی فحاشی - معاذ اللہ ‘‘ (۴) ایک انٹرویو میں جو ۱۹۷۸ء میں ، پاکستانی اخبارات میں ، شائع ہوا تھا ، جوش ملیح آبادی نے ، علامہ اقبال کے بارے میں کہا : ’’میرے نزدیک قدرت نے انہیں سمندر بنایا تھا - وہ کوشش کر کے ایک دریا میں تبدیل ہو گئے - قدرت نے انہیں آفاقی شاعری کے لیے پیدا کیا تھا - وہ اسلامی شاعری پر اتر آئے - وہ قطبین کو چھو سکتے تھے - لیکن انہوں نے اپنے آپ کو محدود کر لیا ، عرب اور حجاز میں - پھر انہوں نے جو تعلیم دی اس سے نقصان پہنچا ‘‘- ایک روز وہ بیمار تھے- میں پہنچا ان کے پاس --- میں نے ان سے کہا صاحب آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اسلام اور قرآن کی - اس لیے کہ ہم لوگ جو ہیں ، اسلامی شاعر نہیں ہیں - آپ مبلغ اسلام ہیں - آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ اسلام کے خلاف باتیں کریں --- عشق کو قرآن نے ترک کیا - تھرڈ کلاس کے حب کے لفظ کو قرآن نے لیا --- عشق جو ہے وہ قرآن کا مردود لفظ ہے --- فکر اس کا محبوب لفظ ہے - تو آپ نے قرآن کے محبوب لفظ کو مردود قراد دیا اور مردود لفظ کو محبوب قرار دیا - آپ فرماتے ہیں ؎ عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بولہب‘‘(۵) عشق کا لفظ قرآن میں استعمال نہیں ہوا - یہ بات جوش ملیح آبادی کو معلوم ہوئی تو اقبال شکنی کے لیے ایک ہتھیار ان کے ہاتھ آ گیا ؛ چنانچہ اپنے شعروں میں ، اس حوالے سے ، اقبال کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا ہے : اک جنس کا میلان ہے اور کچھ بھی نہیں اک جسم کا ہیجان ہے اور کچھ بھی نہیں اے مرد خدا ! روح سے کیا عشق کو کام یہ خون کا ارمان ہے اور کچھ بھی نہیں --- سوئے ہوئے فتنوں کو جگا دیتی ہے جاگے ہوئے ذہنوں کو سلا دیتی ہے جس قوم کے اعصاب پہ عورت ہے سوار وہ عقل سے عشق کو بڑھا دیتی ہے (۶) --- یا علم کی منزلوں میں گھبراتے ہیں یا علم کی وادیوں سے کتراتے ہیں کیوں شرم انہیں آتی نہیں اے عقل سلیم جو لوگ کہ عشق عشق چلاتے ہیں (۷) اردو ادب کے آٹھ سال مرتبہ عشرت رحمانی ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی - ’عقل و عشق‘ کے عنوان سے جوش کی یہ نظم بہترین سمجھ کر شامل کی گئی: وہاں معقولیت کی اور پرسش ہو ، یہ ناممکن جہاں مجذوبیت ہے دولت کون و مکاں ساقی قیامت ہے خودی کا دیوتا بھی یہ نہیں کہتا کہ اے انسان تو خود ہے خدائے این و آں ساقی پہن کر مغربی پہنائوں کی سب سے بڑی ٹوپی نیا ملا سناتا ہے پرانی داستاں ساقی وہی عشق سبک سر ، خیر سے جو عقل کی ضد ہے جسے مطلق نہیں اندازئہ سود و زیاں ساقی وہی عشق فریب انگیز جس کے دام میں آ کر دم اژدر پکڑ لیتا ہے طفل ناتواں ساقی لباس عشق میں وہ خبط ہے یہ کون سمجھے گا نہیں جس عشق کی دست فراست میں عناں ساقی بہت کم لوگ واقف ہیں کہ عشق پختہ و بالغ نہال عقل کی ہے ایک شاخ مے چکاں ساقی کسے سمجھائیں کن الفاظ میں اور کس توقع پر کہ نور عقل سے روشن ہے یہ سارا جہاں ساقی کہ دانش صرف دانش ہے لباس مردم کامل کہ حکمت صرف حکمت ہے کلاہ مقبلاں ساقی یہ ہند و پاک کیا ، کل ایشیا اک خواب آبا ہے یہ تیرا جوش بیداری کو لے جائے کہاں ساقی ؟(۸) ’’حب وطن اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ، جوش کی حسب ذیل نظم ، اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی: ظرف اور اس حد تک کا تنگ اے حامی دین مبیں حیف ! اے نا آشنائے رحمۃ للعالمیں سعی کرنا چاہیے پہلے تو گھر کے واسطے گھر سے فرصت ہو تو پھر نوع بشر کے واسطے تیرے لب پر ہے عراق و شام و مصر و روم و چین لیکن اپنے ہی وطن کے نام سے واقف نہیں کون کہتا ہے زمین و آسماں تیرا نہیں کل جہاں تیرا ، مگر ہندوستاں تیرا نہیں مرد حق کو قعر باطل سے ابھرنا چاہیے کعبۂ حب وطن میں سجدہ کرنا چاہیے سب سے پہلے مرد بن ہندوستاں کے واسطے ہند جاگ اٹھے گا پھر سارے جہاں کے واسطے (۹) مخالفت اقبال کے سلسلے میں جوش ملیح آبادی کی تان ایک اخباری کالم پر ٹوٹتی ہے جس میں علامہ اقبال کو ، نام لیے بغیر ، غدار قرار دیا ہے - کالم کا متعلقہ حصہ حسب ذیل ہے : ’’ اور اس خون کو کھولا دینے والے موقع پر جبکہ ہندوستان کے راہنمائوں کے سروں پر ڈنڈے برس رہے تھے اور ان کو جیل کی کوٹھڑیوں میں ٹھونسا جا رہا تھا، اس وقت ہم (شعرائے اردو) اپنی غداری کے صلے میں انگریز سرکار سے ’’ ان بہادر ‘‘ اور ’’سر‘‘ کے خطاب وصول پا رہے تھے ‘‘(۱۰) -۲- علامہ اقبال پر جوش کے اعتراضات کو ، تفصیلاً ، ان کے اپنے الفاظ میں نقل کیا گیا ہے - مختصراً یہ اعتراضات حسب ذیل ہیں : ۱ - ایک مصرعے میں اقبال نے ’جہاں‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ’انتہائی حشو ‘ ہے - ۲ - ’ جرم ہائے سیاہ ‘ غلط - جرم کالے ، پیلے اور سیاہ نہیں ہوتے- ۳ - اقبال علم کی وادیوں سے کتراتے ہیں - ۴ - اقبال ، مسلم ممالک کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہندوستان کا نام نہیں لیتے- وہ ’حب وطن‘ سے بے بہرہ ، لہٰذا ’قعر باطل‘ میں غرق ہیں - ۵ - اقبال آفاقی شاعری کے لیے پیدا کیے گئے تھے ، لیکن وہ اسلامی شاعری پر اتر آئے، اور اس طرح محدود ہو کر رہ گئے - ۶ - اللہ تعالیٰ سے لباس مجاز میں نظر آنے کی خواہش کا اظہار کر کے اقبال ، ’مادہ پرستی ‘ اور ’اہانت الٰہی کے مرتکب ہوئے - ۷ - کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جسے زبان پر نہیں لایا جا سکتا - ۸ - اقبال نے ’عشق کو آسمان پر چڑھا دیا ‘ اور ’ عقل کو خاک میں ملا دیا ‘ حالانکہ ’ عشق ‘ قرآن کا مردود اور ’عقل‘ محبوب لفظ ہے - ۹ - اقبال آدھے شاعر ہیں ، اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں ، اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے - ۱۰ - اقبال نے نٹشے کے ’مافوق البشر‘ کو مشرف بہ اسلام کر کے ’شاہین بچہ ‘ بنا دیا - ۱۱ - اقبال کی شاعری اقوال ، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی - ۱۲ - اقبال نے تصوف اور مابعد الطبیعیات کو ’ حرکی ‘ کا لیبل لگا کر اپنا لیا - ۱۳ - انگریز سرکار سے اقبال نے سر کا خطاب غداری کے صلے میں وصول کیا - ان میں سے بیشتر الزامات -- دوسرے مخالفین اقبال نے بھی ، اپنے اپنے انداز میں، اقبال پر عائد کیے ہیں -- ان کا مطالعہ وجائزہ راقم کا خاص موضوع ہے - تاہم جوش کے خاص حوالے سے ان الزامات کا مطالعہ خاصا دلچسپ ہے ، اس لیے کہ بیشتر اعتراضات کا ہدف جوش خود بنتے ہیں ، اور علامہ اقبال پر یہ الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں - جوش ، علامہ اقبال کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور اس خبط میں بری طرح مبتلا ہیں - اس خبط کے محرکات کا ذکر بھی ہو گا، لیکن پہلے علامہ اقبال کے خلاف عائد کیے گئے الزامات پر ایک نظر ڈال لینا مناسب رہے گا - -۳- ’ نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ میں ’جہان ‘ کو جوش نے ’ انتہائی حشو ‘ قرار دیا ہے - ’انتہائی ‘ کا لفظ یہاں بہرحال حشو ہے - سوال اصل یہ ہے کہ یہاں لفظ ’جہاں‘ حشو ہے یا نہیں - ابتدائی یا انتہائی کے لفظ کا اضافہ بے معنی اور فالتو ہے - اقبال کے مصرع میں لفظ ’جہان‘ معنی کی تکمیل کرتا ہے - اس کے برعکس جوش کے ہاں الفاظ ہی نہیں ، پورے مصرعے ، پورے شعر اور پورے پورے بندحشو ہوتے ہیں- پہلے چند مثالیں حشو الفاظ کی پیش کی جاتی ہیں : ہندوستان سے خطاب کرتے ہوئے جوش کہتے ہیں ؎ تجھ کو عورت نے جنا ہے ، جھوٹ ہے یہ اولیں آدمی کی نسل سے اور تو ، نہیں ہرگز نہیں ! (۱۱) کسی ملک کو عورت جنتی ہے اور کیا وہ آدمی کی نسل سے ہوتا ہے ؟ اس سے قطع نظر نشاندہی اس بات کی کرنی ہے کہ شعر کے پہلے مصرعے میں ’ یہ اولین ‘ حشو ہے - یہ الفاظ زائد ہیں اور محض وزن پورا کرنے کے لیے ٹھونسے گئے ہیں - ’ کیا گل بدنی ‘ کا ایک شعر ہے ؎ یہ طے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی مہکا ہوا یہ تن ہے کہ یہ رات کی رانی دوسرے مصرعے میں ایک ’ یہ ‘ حشو ہے - یہ مصرع اس طرح درست ہوتا ہے ؎ مہکا ہوا یہ جسم ہے یا رات کی رانی (۱۲) اثر نے کہا تھا کہ ’’ جوش دل پھینک بھی ہیں اور الفاظ پھینک بھی ‘‘ (۱۳) - پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، مثالیں دے کر ، لکھتے ہیں : ’’ جوش صاحب کی نظم چالیس بند پر مشتمل ہونے کے باوجود جہاں سے چلی تھی ، قریب قریب وہیں آ کے ختم ہو گئی ، اور اقبال کی نظم کا مذکورہ بند نو اشعار میں اتنی منزلیں طے کر گیا کہ اس پر اس وقت تک دنیا کی مختلف زبانوں میں صفحے کے صفحے لکھے جا چکے ہیں(۱۴) - رشید حسن خان نے جوش کی نظم ’’ ماتم آزادی ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے اکتالیسواں بند نقل کیا ہے، جو یوں ہے ؎ سرو سہی ، نہ ساز ، نہ سنبل ، نہ سبزہ زار بلبل ، نہ باغباں ، نہ بہاراں ، نہ برگ و بار جیحوں ، نہ جام جم ، نہ جوانی ، نہ جوئیبار گلشن ، نہ گل بدن ، نہ گلابی ، نہ گل عذار اب بوئے گل ، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’ لفظ جمع کر دیے گئے ہیں، حرفوں کی مناسبت سے- اصل بات وہ ہے جو آخری مصرعے میں کہی گئی ہے- چھے مصرعوں کے بند میں پانچ مصرعے قطعاً زائد اور فضول ہیں‘‘(۱۵) - رشید حسن خان کے مضمون کا عنوان ہے ’’ جوش کی شاعری میں لفظ اور معنی کا تناسب‘‘- اس مضمون میں وہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’’ جوش ملیح آبادی کی چار چھے نظمیں پڑھی جائیں یا ان کے دو چار شعری مجموعوں کا مطالعہ کیا جائے ، دونوں صورتوں میں آخر کار یہی تاثر ذہن میں باقی رہ جائے گا کہ شاعر ایک بات کو بار بار کہنے اور ایک پھول کے مضمون کو ، سو رنگ سے نہیں ، سو لفظوں میں دہرانے کے شوق بے حد کا مارا ہوا ہے ‘‘ - وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’لفظ ان کے یہاں مفہوم کی توسیع نہیں کرتے ،محض تکرار کرتے ہیں، اور یہ تکرار بالآخر بے مزا ہو کر رہ جاتی ہے --- آپ ان کے مجموعے کو پڑھ لیں تو پھر باقی مجموعوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی - ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ لفظی اصراف کی بدترین مثال کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘(۱۶) - رشید حسن خان مزید لکھتے ہیں : ’’ موضوع سخن کوئی ہو ، عنوان کچھ بھی ہو ، انداز ایک ہے - یعنی وہی فضول گوئی اور وہی تکلف نگاری اور تصنع آرائی --- مجاز نے جوش کو ’’ڈکشن ‘‘ کے بجائے ’’ڈکشنری‘‘ کا شاعر کہا تھا - اس ایک جملے میں مجاز نے بہت کچھ کہہ دیا (۱۷) ‘‘- -۴- جوش نے اقبال کی ترکیب ’جرم ہائے سیاہ ‘ کو غلط قرار دیا ہے ، اس لیے کہ جرائم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا - اودے ، نیلے ، پیلے ، سفید اور دھانی گناہوں کا ذکر کر کے اور حبشیوں کی طرح کالے گناہوں کی تشبیہ استعمال کر کے مضحکہ بھی اڑایا ہے ؛ حالانکہ یہ ترکیب خود جوش ملیح آبادی کے ہاں بھی ملتی ہے ؎ جتنے بھی زمیں پر مجرم ہیں ، خواہش ہی کے زیر فرماں ہیں ہر جرم سیہ کے محضر پر خواہش ہی کی مہریں تاباں ہیں (۱۸) -۵- جوش نے علامہ اقبال پر ’ علم کی وادیوں سے کترانے ‘ کا الزام عائد کیا ہے - حقیقت یہ ہے کہ اس الزام کے مصداق خود جوش ہیں - اقبال کو علم حاصل کرنے کے جو مواقع میسر آئے ، ان سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا - سید میر حسن سے بھر پور فیض اٹھایا اور اردو ، فارسی ، عربی پر دستگاہ حاصل کی - لاہور پہنچ کر بی اے اور ایم اے کیا اور پروفیسر آرنلڈ سے ، فلسفے کے ضمن میں ، خاص طور پر استفادہ کیا- پھر وہ یورپ گئے اور بہت کچھ حاصل کر کے واپس آئے - یورپ میں انہوں نے نہ صرف پی ایچ ڈی اور بیرسٹری کی اسناد حاصل کیں بلکہ یورپی تہذیب کا گہرا مشاہدہ کیا - اقبال نے زندگی بھر مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف علوم کے سلسلے میں ایک مفکرانہ نظر پیدا کر لی - بقول ابوالاعلیٰ مودودی علامہ اقبال علم کا سمندر پئے بیٹھے تھے (۱۹) - شبیر حسن خان کو بھی علم حاصل کرنے کے مواقع ملے ، لیکن اپنے جنسی مشاغل کی بدولت انہیں ضائع کر دیا - یہ قصہ جوش نے فخریہ بیان کیا ہے - یادوں کی برات میں وہ ’’ علی گڑھ میں- ایم اے او کالج میں میرا داخلہ ‘‘ کے زیر عنوان رقم طراز ہیں : ’’ ہر چند مظہر علیم صاحب مہربان استاد تھے مگر ایک ناگفتنی علت کی بنا پر ہمارے مابین رقابت پیدا ہو گئی تھی اور وہ محسن اللہ خان ، عبدالجلیل خان اور مجھ سے ناخوش رہا کرتے تھے --- ایک بار مجھے اور محسن کو یہ شرارت سوجھی کہ ، چھت کے روشندان سے ، مظہر علیم صاحب کے منہ پر پیشاب کیا جائے - چنانچہ ، رات کے بارہ بجے ، ہم دونوں چھت پر چڑھ گئے - ان کے کمرے میں لیمپ جل رہا تھا - ہم نے جب یہ دیکھا کہ عین روشن دان کے نیچے ان کی چار پائی بچھی ہوئی ہے ، تو ہم دونوں نے بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے اپنے پائے جامے کھولے اور نشانہ باندھ کر ، شر شر ان کے منہ پر دھاریں مارنے لگے- سوتے میں ان کے منہ پر جب گرما گرم پیشاب کی دھاریں پڑنے لگیں ، وہ چیخ مار کر اٹھ کر کھڑے ہوئے ‘‘- جو ش نے کتاب ضبط ہونے کے خوف سے ’’ ناگفتنی شرارتیں ‘‘ نہیں لکھیں - اپنے نزدیک جو گفتنی شرارتیں تھیں ، وہ بیان کی ہیں - بہرحال ، ان شرارتوں کا محور جوش کا جنسی رجحان تھا - موصوف کو کالج سے نکال دیا گیا (۲۰) ،اور وہ میٹرک تک بھی تعلیم مکمل نہ کر سکے - تین چار دوسرے سکولوں میں بھی انہوں نے داخلہ لیا لیکن میٹرک نہ کر سکے(۲۱) - ان حقائق کی روشنی میں’علم کی وادیوں سے کترانے ‘ کا علامہ اقبال پر جوش کا الزام ، جوش کی حیلہ جو عقل کا شاہکار ہے - علم کی وادیوں سے کترانے کا مفہوم ممکن ہے جوش کے نزدیک یہ ہو کہ اقبال نے علم کی مخالفت کی ہے یا علم کی اہمیت سے انکار کیا ہے - معترضین اقبال نے یہ الزام ، بہرحال ، اقبال کے خلاف عائد کیا ہے - یہ غلط فہمی اقبال کے سطحی مطالعے سے پیدا ہوئی ہے (۲۲) - اقبال اللہ اور رسول ؐ کی محبت کو ، عقل اور علم سمیت ، ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں ، لیکن وہ نہ عقل کے مخالف ہیں اور نہ علم کے - اقبال کا حقیقی مقصد علم کی اہمیت کا انکار نہیں بلکہ عشق کو اہم تر قرار دینا ہے ؛ بشرطیکہ علم کے ساتھ فروتر مقاصد وابستہ نہ ہوں ، اور عشق بھی حقیقی نصب العین یعنی اللہ سے ہو(۲۳) -علم اور عشق ، دونوں انسان کے امتیازی اوصاف ہیں ، تاہم اپنے نصب العین سے شدید محبت کا مرتبہ بلند تر ہے - حسب ذیل اشعار سے اقبال کے موقف کی وضاحت ہوتی ہے ؎ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی(۲۴) خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل (۲۵) وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم ! (۲۶) وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جو (۲۷) آخری شعر کا وہی مفہوم ہے جو مولانا رومی کے مصرعے ’’ علم را برتن زنی مارے بود‘‘ کا ہے - اسی طرح اگر عشق حقیقی نصب العین کے ساتھ نہ ہو تو مادہ پرستی کی مختلف شکلیں جنم لیتی ہیں - زن پرستی ، نسل پرستی ، وطنیت پرستی اور زر پرستی وغیرہ مادہ پرستی ہی کی مختلف شکلیں ہیں - -۶- اقبال حب وطن سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے - ’ہمالہ‘ سے لے کر جو ’بانگ درا‘ کی پہلی نظم ہے ، ’شعاع امید ‘ تک جو آخری زمانے کا کلام ہے ، اقبال کشور ہندوستان سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں - تاہم حب وطن (Patriotism) اور وطنیت پرستی (Nationalism)میں فرق ہے - اقبال نے ۱۹۰۵ء تک نیشنلزم کی حمایت کی لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا ، ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کی جگہ ’’ مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کا نظریہ اختیار کر لیا - یہ ذہنی سفر محدود وطن پرستی سے اسلامی بین الاقوامیت کی طرف تھا - ملت اسلامیہ کسی ایک علاقے میں محدود نہیں ہے - وہ مکانی اور زمانی حدود سے ماورا ہے - اقبال جہاں عراق ، شام ،مصر اور فلسطین کا ذکر کرتے ہیں ، وہاں ہندوستان کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ مشرق و مغرب کی شب کو سحر کرنے کے آرزو مند ہیں - وطنی قوم پرستی قید مقامی کا شکار ہوتی ہے - اقبال ملت کو ’قید مقامی ‘کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں اور اسے آفاقی کردار کے لیے آمادہ کرتے ہیں ، جو اس کا اصل کردار ہے ؎ رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ؟ ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے (۲۸) علامہ اقبال وطنی قوم پرستی کے ’قعر باطل‘ سے ابھر کر ہی عظیم اسلامی شاعری کر پائے - یہ حق پرستی تھی - اقبال کے آفاقی نقطہ ٔنظر کو محکم بنیاد اسلامی فکر ہی نے مہیا کی - -۷- ہمہ اوستیوں کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اہانت الٰہی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اس لیے کہ وہ مادی کائنات ہی کو خدا تصور کرتے ہیں - خدا کو لباس مجاز میں دیکھنے کی خواہش سے اہانت الٰہی کیسے ہو گئی؛ جبکہ شاعر کو معلوم ہے کہ ایسا کبھی ہوا نہیں - یہ تو محبت کا ایک اظہار ہے- ’’ میں تیری درگاہ میں تب تک ایک بھی سجدہ نہیں کروں گا ‘‘، اقبال کے شعر کا مفہوم نہیں ہے؛ البتہ جوش نے خود اس طرح کی باتیں کہی ہیں اور بار بار اہانت الٰہی کا ارتکاب کیا ہے - کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں ؎ یقیں ہے تو کیوں گم ہے گرداب میں جھلک قصر دانش کی محراب میں یقیں بن کے جب تک نہ آئے گا تو تو اے وہم دیرینۂ اہل ھو، رہ کفر کی خاک چھانے گا جوش نہ مانا ہے تجھ کو نہ مانے گا جوش (۲۹) جوش کا رویہ محبت کا نہیں ، چیلنج کا ہے - اللہ کو چیلنج کرنا اللہ کی توہین کے مترادف ہے - حسب ذیل رباعی میں جوش نے اہانت الٰہی کا ارتکاب انتہائی حد تک کیا ہے ؎ کل رات گئے عین طرب کے ہنگام پر تو یہ پڑا پشت سے کس کا سر جام تم کون ہو، جبریل ہو ، کیوں آئے ہو سرکار فلک کے نام کوئی پیغام (۳۰) -۸- جوش معترض ہیں کہ ’’ کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جسے زبان پر نہیں لایا جا سکتا ؛ حالانکہ جوش کی زبان پر اس سے زیادہ فحش الفاظ آتے ہیں - اور اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ خود جوش نے گھڑے ہیں اور اقبال سے منسوب کر دیے ہیں - علامہ اقبال کا شعر اس طرح ہے ؎ جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں (۳۱) جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ میں نے جوش سے کئی بار کہا کہ پہلا مصرع یوں نہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں - لیکن وہ صرف یہی نہیں کہ اس کو اسی طرح پڑھنے پر مصر تھے بلکہ اس پر اعتراضات بھی کرتے تھے جن میں فحاشی اور بدتمیزی کا اعتراض شامل ہے (۳۲)- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ اعتراض جوش کا اپنا ہے اور یادوں کی برات میں اسے (بعض دوسرے اعتراضات سمیت) مصلحتاً قاضی خورشید احمد کے حوالے سے بیان کیا ہے - اقبال کے مصرعے میں تبدیلی کر کے اس پر فحاشی اور بدتمیزی کا الزام عائد کرنا جوش کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے ! فحاشی اور بدتمیزی کا الزام علامہ اقبال پر ہے ، لیکن اس کے مرتکب خود جوش ہیں - انہوں نے فحاشی اور بدتمیزی قولاً بھی کی اور عملاً بھی کی ، اور زندگی بھر کرتے رہے - ایک استاد کے منہ پر پیشاب کرنے کا واقعہ اوپر درج ہوا ہے - یادوں کی برات اور خطوط جوش ملیح آبادی میں فحاشی اور بدتمیزی کی انتہا ہے - انیس معاشقوں کا فحش بیان کیا ہے اور بقول سید حامد ’’ ان بہو بیٹیوں کے نام بھی گنائے جن کی آبرو ریزی پر فاضل مصنف کو فخر ہے(۳۳) ‘‘- ۱۹۷۶ء میں جوش کی عمر اسی برس تھی - عمر کے اس حصے میں آدمی بدکاری کے قابل نہیں رہتا ؛ تاہم جوش سے جو کچھ ہو سکا ، کرتے رہے - آخری محبوبہ کے بارے میں جسے ’’فتنہ ٔآخرالزمان ‘‘ کہتے تھے ، ۹ دسمبر ۱۹۷۶ء کے ایک مکتوب میں موصوف نے داستان غمزہ سنانے کا جو پست اور لچر انداز اپنایا ہے اور اپنا دامن اپنے ہی ہاتھوں سامنے سے پھاڑ نے کی جو کوشش کی ہے ، وہ ہم نقل کرنے سے قاصر ہیں (۳۴) - انسان دوستی کے مدعی، جوش کا یہ اصل کردار ہے - جنگلی جانور بھی اس سطح تک پستی میں نہیں اترتے - خطوط جوش ملیح آبادی کے صرف دو صفحے (۱۰۵، ۱۰۷) پڑھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال کو ( جعل سازی کے سہارے) فحاشی کا مرتکب ٹھہرانے والا ، فحاشی میں خود کس قدر مبتلا ہے (۳۵) - -۹- ’’عشق تمام مصطفٰے ‘‘ اور ’’ عقل تمام بولہب ‘‘ پر جوش بہت معترض ہیں --- یہ قرآن کا مردود لفظ ہے - عشق جنس کا میلان ہے اور جسم کا ہیجان ہے - اعصاب پر عورت سوار ہو تو عقل سے عشق کی اہمیت بڑھ جاتی ہے - جو لوگ عشق عشق چلاتے ہیں ، انہیں شرم آنی چاہیے- وغیرہ- قرآن کے نزدیک جو عشق مردود ہے ، وہ انہی صفات کا حامل ہے اور اس عشق میں خود جوش مبتلا رہے ہیں - جنسی میلان اور جسمانی ہیجان ہی ان کا سرمایہ ٔحیات ہے - عورت کو انہوں نے، اعصاب پر ، اتنا سوار کیا کہ خوار ہو کر رہ گئے - جوش کا بیان ہے : ’’ آج سرکار تشریف نہیں لائیں گی ، گھر بیٹھ کر ایتوار منائیں گی -- ہائے ، دل پھٹا جا رہا ہے میرا- ارے ، کوئی مجھے موت کے چنگل سے بچائے - ارے ، ہے کوئی ، جو میرے پاس آئے ، میرا دل بہلائے ؟ کوئی نہیں ، کوئی نہیں - چنٹو ، چنٹو، چنٹو، ارے خدا کے واسطے آئو - میری چنٹو آئو - اف دم گھٹ رہا ہے میرا(۳۶) ‘‘- قرآن کے علاوہ یہ عشق ، اقبال کے نزدیک بھی مردود ہے - ایسے معاملات میں اقبال نے عقل سے کام لینے کی تلقین کی ہے ؎ عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے (۳۷) اقبال عقل سلیم کی حمایت اور عقل عیار کی مخالفت کرتے ہیں - اسی طرح اعلیٰ مقاصد کے ساتھ لگائو کے معنی میں عشق کی حمایت اور جنسی ہیجان والے عشق کی مخالفت کرتے ہیں - انسان کا اعلیٰ ترین مقصد اللہ تعالیٰ ہے جو بہترین صفات سے متصف ہے - قرآن حکیم نے اللہ کے ساتھ ’’ شدید محبت ‘‘ کو مومن کا وصف قرار دیا ہے - شدید محبت کے لیے ’’عشق ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے - عشق جنس پرستوں کا بھی ہوتا ہے جیسے جوش کا، اور عشق اللہ اور رسول کے ساتھ بھی ہوتا ہے جیسا کہ اقبال کو تھا - ان معنوں میں عشق کا لفظ ، رومی سمیت ، عظیم صوفیا نے استعمال کیا ہے اور اب یہ لفظ اسلامی ادبیات کا جز ہے- یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود جوش نے بھی ، ان معنوں میں ، عشق کا لفظ استعمال ہے ؎ ہاں اے حسین بے کس و نا چار ! السلام اے کشتگان عشق کے سردار ! السلام (۳۸) ’’ عقل تمام بولہب‘‘ کو سمجھنے کے لیے جوش کی عقل کا تجزیہ کار آمد رہے گا - اس عقل عیار کی قدم قدم پر مثالیں یادوں کی برات میں ملتی ہیں ؛ تاہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں جوش کے چند بیانات کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے - جوش نے پلان چٹ کے ذریعے اقبال کو آدھا شاعر بتایا ہے ، اور اقبال کی ذاتی پونجی کو اوچھی قرار دیا ہے - قاضی خورشید احمد کے حوالے سے اقبال پر فحاشی اور بدتمیزی کا الزام عائد کیا ہے ، اور وہ بھی اقبال کے مصرعے میں مطلوبہ تبدیلی کرکے - یہ عقل عیار کی کارستانی ہے ، اور تمام بولہبی ہے ! جوش لکھتے ہیں کہ مجھے دو چیزوں سے شدید نفرت تھی - ایک بادہ خواری ، اور دوسری دروغ گفتاری - بادہ خواری اختیار کر لی لیکن دروغ گفتاری سے نفرت قائم رہی(۳۹) - اگلے ہی صفحے پر یہ بیان نظر سے گزرتا ہے : ’’ اگر غیر مفکر عوام میں ، جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے ، اس کو مان لیا جائے تو مجھے اعتراف ہے کہ اپنے اٹھارہ معاشقوں کے دور متلاطم میں ، اپنی بیوی کے دل کو ٹوٹ جانے سے بچا لینے کی خاطر میں نے اپنے سر پر قرآن رکھ رکھ کر ، ایک بار نہیں ، اٹھارہ ہزار مرتبہ ’’جھوٹ‘‘ بولا ، اور بڑے دھڑلے کے ساتھ بولا ہے ‘‘- ’غیر مفکر عوام‘ کے الفاظ قابل توجہ ہیں - جوش کی عقل یہاں بھی ڈنڈی مار رہی ہے- وہ جس عقل اور جس فکر کے علمبردار ہیں ، اس سے انسان صرف گمراہ ہو سکتا ہے - یادوں کی برات میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ میری جوانی کو اللہ تعالیٰ نے عاشقی پر مامور فرمایا - اس کے حکم سے مجھے سرتابی کی مجال نہ تھی اور اگر مجھے دوزخ میںجھونکا گیا تو میں اس کی پھاٹک کی محراب پر، آتشیں حروف میںیہ کندہ کر دوں گا کہ زمین ہی کی طرح آسمان پر بھی عدل و انصاف کا کوئی پتا نہیں پایا جاتا (۴۰) - یہ تو ہیں عقل عیار اور بولہبی کی مثالیں - اب دانش نورانی کی ایک مثال ؎ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند (۴۱) اقبال عقل کے مخالف نہیں ، عقل اور عشق کی آمیزش کے حامی ہیں تاکہ بہترین نتائج حاصل ہو سکیں ؛ تاہم عقل عیار کے مخالف ہیں جو بولہبی کا روپ اختیار کر لیتی ہے - اقبال کہتے ہیں : عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے (۴۲) عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات (۴۳) آہ یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے ! اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے !(۴۴) عقل اور عشق کے ضمن میں اقبال کا موقف اور تلقین حسب ذیل اشعار سے واضح ہے : خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ (۴۵) پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے(۴۶) عشق چوں با زیرکی ہمبر شود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیز دہ (۴۷) جوش کے نزدیک اقبال آدھے شاعر ہیں کہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے - یہ الزام پلان چٹ کے سہارے عائد کیا ؛ تاہم اقبال کے شعر ؎جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی --- الخ پر ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو ہے - جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں -- ’’ حالانکہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو اسی صورت میں ہے ، جس صورت میں’’ بانگ درا ‘‘میں چھپا ہے نہ کہ جس طرح جوش صاحب اسے پڑھا کرتے تھے‘‘(۴۸) - اقبال کے ہاں ، ڈھونڈنے سے ، ایسی مثالیں اور بھی مل سکتی ہیں ، لیکن اس بنا پر اقبال کی ذاتی پونجی کو اوچھا قرار دینا احمقانہ بات ہے - علامہ اقبال کے ہاں افکار کی ثروت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی - جہاں تک دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کا تعلق ہے ، جوش نے ، ایک اور اعتراض میں ، خود اس کی نفی کر دی ہے - طنزو تعریض سے پر جوش کا شعر ہے ؎ پہن کر مغربی پہنائوں کی سر سے بڑی ٹوپی نیا مُلّا سناتا ہے پرانی داستاں ساقی یہ اعتراض اقبال کو رجعت پسند کہنے والے اشتراکیوں کا ہے - جوش نے ان کے خیال کو پیش کیا ہے - اعتراض یہ ہے کہ نیا ملا پرانی داستان سناتا ہے - یہ بات درست ہے - لیکن اس سے دوسروں کے خیالات کی ترجمانی ، کی نفی ہو جاتی ہے - اقبال نے ۱۹۱۲ ء میں کہا تھا ؎ ہاں ، یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں (۴۹) اقبال کی داستان مختصر لفظوں میں لا الٰہ الا اللہ ہے -یہی خودی کا سرنہاں ہے ، اور یہی نغمہ ٔماضی ، حال اور مستقبل پر محیط ہے ؎ خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ خودی ہے تیغ ، فساں لا الٰہ الا اللہ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ (۵۰) اس ’نئے ملا ‘ نے ’پرانے مولوی ‘ ہی کی طرح اذان دی ؎ چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرار جاں من بہ دور فتنۂ عصر کہن ، او بہ دور فتنۂ عصر رواں من (۵۱) جوش اپنی شاعری پر اقبال کا کوئی اثر ماننے سے انکار کرتے تھے ؛ تاہم انہوں نے اقبال کی خوشہ چینی کی - اقبال کا ایک متروک شعر ہے ؎ قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا اور جوش کہتے ہیں ؎ در پہ آیا ہے وحی لے کر جبریل خدام ! خود اس پہ وحی نازل کر دو تم کون ہو ، جبریل ہو ،کیوں آئے ہو سرکار فلک کے نام کوئی پیغام (۵۲) ’زبور عجم ‘ کی ایک نظم میں ’’ انقلاب ! انقلاب ! اے انقلاب‘‘ کے الفاظ ہر شعر کے بعد دہرائے گئے ہیں - جوش نے ایک نظم میں ’’ ہوشیار ،ہوشیار اے مرد غافل ہوشیار ‘‘ کے الفاظ دہرائے ہیں -’ زبور عجم ‘ ہی کی ایک اور نظم کے ہر بند کے بعد --’’ از خواب گراں خواب گراں خواب گراںخیز ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں - جوش نے اس کی پیروی ’’ بیدار ہو بیدار ہو بیدار ہو بیدار کی شکل میں کی ہے - -۱۱- نیٹشے کے فوق البشر کو مشرف بہ اسلام کرنے کا الزام ، ۱۹۲۰ء میں ای ایم فوسٹر نے لگایا تھا- اقبال نے اس کی مؤثر تردید کر دی تھی(۵۳)- جوش کا اعتراض یہ بھی ہے کہ اقبال نے تصوف اور مابعدالطبیعیات پر’ حرکی‘ کا لیبل لگا کر اسے اختیار کر لیا - اقبال کا تصوف اور مابعدالطبیعیات تصور خودی سے الگ نہیں ہیں - انہوں نے اسلامی تصوف کو کبھی ترک نہیں کیا ؛ البتہ تصوف کی اصلاح کی ہے - ’حرکی ‘ کا لیبل لگانے سے کوئی بات نہیں بن سکتی - اقبال کا پیغام ہی ایمان اور عمل کا ہے ، اور یہ نچوڑ ہے قرآنی تعلیمات کا - جوش ، معترض ہیں کہ اقبال کی نصیحت کے زیر اثر ، میں نے فکری شاعری شروع کی تو میرے ناصح حضرت اقبال کی شاعری اقوال ، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی - جہاں تک روایات اور عقائد کا تعلق ہے ، اقبال اسلام میں خرافات کی آمیزش کے خلاف ہیں - مثلاً ’’ساقی نامہ ‘‘ میں کہتے ہیں ؎ تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام بتان عجم کے پجاری تمام ! حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھوگئی! تاہم اسلامی روایات اور اسلامی عقائد اقبال کا سرمایہ حیات ہیں - وہ ان کے علمبردار بھی ہیں اور ترجمان بھی ، اور یہ کردار انہیں عظیم بناتا ہے (۵۴) -جہاں تک اقوال کی شاعری کا سوال ہے ، تو اس کے لیے خود جوش نے شعوری کوشش کی - جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں ؎ ’’ بعض دفعہ میں نے انہیں فلسفیانہ کتابوں پر نظر ڈالتے بھی دیکھا ، اور ان کتابوں کا استعمال اکثر انہوں نے یوں کیا کہ ان میں مندرج فلسفیانہ مقولوں کو منظوم لباس پہنا دیا- کبھی نظم کے اشعار میں اور کبھی رباعیات میں - لیکن اقبال کا تعلق فلسفے کے ساتھ منہ کا مزا بدلنے کے لیے نہیں بلکہ ایک گہرا تعلق ہے‘‘(۵۵) - جوش کی فکری شاعری کے بارے میں آزاد لکھتے ہیں : ’’غالباً جوش کا غنچۂ فکر محض نفس کے زور سے وا ہوا - آفتاب کا پرتو اس کے نصیب میں نہیں تھا - خدا جانے انہیں اپنی اس کوتاہی کا احساس تھا یا نہیں ، لیکن انہوں نے اپنے کلام میں فکری عناصر کی کمی کو شکوہ الفاظ سے پورا کرنے کی کوشش کی ، اور ظاہر ہے کہ اس کوشش کو کوشش ناکام ہی ہونا تھا - شکوہ الفاظ ، فکری شگفتگی اور ندرت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا -تفکر کی چمک دمک پیدا کرنے کے لیے صرف بار بار عقل ، خرد ، فکر اور فلسفے کا ، مختلف انداز سے ، ذکر کرنا ہی کافی نہیں ، اس میں فکر کی گہرائی کا ہونا ضروری ہے - یہی وجہ ہے کہ جوش کے یہاں فلسفیانہ قسم کے اشعار بھی قاری کو دعوت فکر نہیں دیتے ، اور اقبال کے یہاں دعوت فکر قدم قدم پر موجود ہے (۵۶) ‘‘- جگن ناتھ آزاد نے مثالوں سے اس نکتے کی وضاحت کی ہے اور لکھا ہے کہ جوش کے اشعار تبحر ، تجسس ، تامل ، تفکر وغیرہ وغیرہ کی بھرمار کے باوجود قاری کو دعوت فکر دینے سے معذور ہیں ،لیکن اقبال کے اشعار بیک وقت و جدان کو متاثر بھی کرتے ہیں اور قاری کو غور و فکر کی دولت بھی عطا کرتے ہیں (۵۷) - جوش کے اس اعتراض پر بحث ہو چکی ہے کہ اقبال کی ذاتی (فکری) پونجی اوچھی ہے- اس الزام کا صحیح مصداق بھی دراصل جوش خود ہیں - ان کی نہ تعلیم مکمل ہوئی ، اور نہ اقبال کی طرح فلسفہ ، تاریخ ، دین ، سیاست اور دوسرے علوم میں دست گاہ حاصل ہو سکی- اشتراکیوں کی فراہم کی ہوئی کچھ کتب کا مطالعہ کیا تو کارل مارکس کو ’’اولین پیغمبر فرش زمین ‘‘ قرار دیا - نیٹشے کے تصورات کا کچھ علم ہوا تو ’’ پڑھ کلمۂ لا الٰہ الا انسان ‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا - خدا کو اپنے سے چھوٹا کہنے کے علاوہ بھی لغوبیانی اور الحاد میں مبتلا رہے - سچ یہی ہے کہ جوش کی ذاتی پونجی اوچھی ہے - -۱۲- ’سر‘ کے خطاب پر متعدد اہل قلم نے اعتراض کیا ہے ، لیکن یہ الزام کہ’ سر‘ کا خطاب اقبال کو سیاسی خدمات کے صلے میںملا، ہندو اخبار ’بندے ماترم ‘ نے لگایا تھا - جوش نے کھلم کھلا غداری کا لفظ استعمال کیا ہے - بات صرف اتنی ہے کہ اقبال اس خطاب کے مستحق تھے - خطاب کی اصل وجہ اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ اور اس پر یورپ اور امریکہ میں چھپنے والے متعدد ریویو تھے - خطاب ملنے کی روداد مرزا جلال الدین ، عبدالمجید سالک ، عبدالسلام خورشید اور محمد احمد خان نے بیان کی ہے (۵۸) -اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے نہ خطاب کی خواہش کی اور نہ کوشش - ان کے نزدیک اس کی کوئی خاص وقعت بھی نہ تھی - خطاب کے بعد اقبال کی حق گوئی میں بھی کوئی فرق نہ آیا - ’ سر‘ کا خطاب انگریزوں نے متعدد لوگوں کو دیا - انہوں نے خواہش بھی کی ہو گی اور کوشش بھی، اور ان کی سیاسی خدمات بھی ہوں گی ، لیکن اعتراض اقبال پر ہوا - اس میں شک نہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک ترک موالات کی تحریک چل رہی تھی - جن راہنمائوں کا ذکر جوش نے کیا ہے ، وہ یا ہندو تھے یا نیشنلسٹ مسلمان - اقبال سرے سے ترک موالات کے خلاف تھے ، اس سے متحدہ قومیت فروغ پا رہی تھی - اگر اقبال بھی متحدہ قوم پروری کی اس رو میں بہہ جاتے تو پاکستان تو نہ بنتا - وہ پاکستان جس میں اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ سمجھ کر بالآخر جوش بھی یہاں آ گئے تھے ! اقبال ، انگریزوں کی غلامی سے نجات کے خواہش مند تھے ، لیکن اس کی جگہ ہندوئوں کی غلامی میںمبتلا ہو جانے کے روا دار نہ تھے - اقبال کے ساتھ غداری کا تصور وابستہ کرنا ہی شرمناک ہے ، اور اس تناظر میںکوئی بحث کرنا ہی نا مناسب ہے - استعمار سمیت جس طرح ہر باطل قوت کے خلاف ہندی مسلمانوں ، عالم اسلام اور عالم انسانی کو بیدار کرنے کی کوشش علامہ اقبال نے کی ہے ، اس سے کلام اقبال کا سر سری مطالعہ کرنے والے بھی آگاہ ہیں - -۱۳- سوال پیدا ہوتا ہے کہ جوش نے اقبال کے لیے غدار کا لفظ کیوں استعمال کیا، انہیں فحاشی اور بدتمیزی کا مرتکب کیوں قرار دیا ، ان کی فکری پونجی کو اوچھا کیوں کہا ، ان کے علاوہ دوسرے سنگین الزامات اقبال پر کیوں عائد کیے - یہ الزامات اس قدر ناروا ہیں کہ عام حالات میں کوئی معقول انسان اتنی پست سطح تک نہیں اترتا - علامہ اقبال نے جوش کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ مدد کی - حیدر آباد کی ملازمت کے لیے جوش نے جن صاحبان سے سفارشی خط لیے تھے ، ان میں اقبال شامل تھے - جگن ناتھ آزاد ، جوش کے بہت قریب رہے ہیں - جوش کی نفسیات کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ’’ جوش اپنے آپ کو اقبال سے بہتر فلسفی شاعر سمجھتے تھے - اگرچہ انہوں نے کبھی ان الفاظ میں اپنی شاعری کا ذکر نہیں کیا ، لیکن نو برس کی رفاقت میں اتنی بات ضرور میرے سامنے آ گئی تھی - ایک بار جوش صاحب کی محفل میں ان کے برادر خورد رئیس احمد صاحب نے کہا ، اقبال خوش قسمت تھا کہ اسے نکلسن ایسا مترجم مل گیا - اگر جوش صاحب کو بھی کوئی ایسا ہی مترجم مل جائے تو یورپ اور امریکہ میں ان کا نام اقبال سے بھی زیادہ مشہور ہو سکتا ہے - جوش صاحب نے اس احمقانہ بات پر رئیس احمد خان کو ہر گز نہ ٹوکا (۵۹) ‘‘ - رشید حسن خان لکھتے ہیں کہ جوش نے کھلے لفظوں میں کبھی اعتراف تو نہیں کیا ، مگر ہے یہ واقعہ کہ وہ اقبال کو اپنا حریف تصور کرتے تھے - یہ غلط اندیشی کی انتہا تھی - جوش اور اقبال میں زمین ، آسمان کا فرق تھا - اقبال کو حریف فرض کرنے کا نتیجہ تھا کہ سیاسی اورسماجی شعور کا اقبال سے بڑھ کر مظاہرہ کرنا لازم ٹھہرا - اس کے لیے یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ جس قدر چلا کر بات کہی جائے گی اور جس قدر زیادہ شور مچایا جائے گا ، اسی قدر اس شعور کا حق ادا ہو گا - یوں ان کی صلاحیت کا بہت بڑا حصہ ایسی شاعری کی نذر ہوتا رہا جس میں سطحی جوش و خروش کتنا ہی ہو اور بیان کی درشتی کتنی ہی ہو ، صداقت اور حسن اس قدر کم ہے کہ گویا نہیں ہے (۶۰) - جوش کا دعویٰ ’’شاعر آخر الزمان ‘‘ ہونے کا ہے ، اور وہ اس زعم میںمبتلا تھے کہ اہل نظر کو میرا کلمہ پڑھنا چاہیے ؎ دانائے رموز ایں و آں ہوں اے دوست مولائے اکابر جہاں ہوں اے دوست کیوں اہل نظر پڑھیں نہ کلمہ میرا میں شاعر آخرالزماں ہوں اے دوست(۶۱) لیکن بقول پروفیسر محمد منور ، اقبال ہیں کہ ان کا زمانہ آنے ہی نہیں دیتے (۶۲) - اقبال، عالم اسلام کا بلند ستارہ ہیں اور ایک آفاقی مفکر اور شاعر ہیں - وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے - اس کے برعکس جوش کی اہمیت کم ہو رہی ہے - ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی مرتب کردہ کتاب جوش ملیح آبادی - تنقیدی جائزہ کے دیباچے میں شکایت کی ہے کہ شاہد احمد دہلوی نے ساقی کے جوش نمبر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر جوش مخالف مضامین شائع کیے ؛ تاہم جوش ملیح آبادی - تنقیدی جائزہ سے بھی اصل حقائق سامنے آگئے ہیں - مثلاً گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ یہ تصور ہی نہیںکیا جا سکتا تھا کہ جوش اس قدر جلد روایت پارینہ بن جائیں گے(۶۳)- نارنگ صاحب کو حیرت ہے ، مگر ایسا ہی ہونا تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا - یہ وقت کا امتحان تھا اور وقت کی میزان سے سلامت گزرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے نہال غم کی آبیاری نفس کے آب گم سے نہیں روح و عقل کے چشمہ ٔصافی سے ہوتی ہے - ’الفاظ‘ کی منزل سے گیا کون سلامت - یاں اسباب لٹا ہر سفری کا ، بجز اس کے کہ جس کا اسباب شعر خود مسبب الاسباب کی عطا رہا ہو! حواشی ۱ - یادوں کی برات ، اضافہ شدہ ایڈیشن ،مکتبہ شعر و ادب، سمن آباد ، لاہور ، ۱۹۷۵ء ، صفحات ۱۷۰ - ۱۷۱ ۲ - ’ پلان چٹ ‘ جیسا مفید آلہ بڑے پیمانے پر تیار ہوناچاہیے - برصغیر پاک و ہند میں بہت فروخت ہو گا ، اس لیے کہ یہاں اکثر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے مخالفین کتنے گھٹیا ہیں- یہ آلہ نقادوں کے لیے بھی کار آمد ہے - معلوم ہو سکتا ہے کہ کون آدھا شاعر ہے اور کون چوتھائی - جوش کے نام لیوائوں کو اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے- ۳-۴ کتاب مذکور ، صفحات ۴۹۰ ، ۴۱۸ - ۴۴۹ ۵ - ہندوستان میں اقبالیات - آزادی کے بعد اور دوسرے توسیعی لیکچر ، جگن ناتھ آزاد ، مکتبہ علم و دانش ، مزنگ لاہور ، ۱۹۹۱ء صفحات ۹۲ - ۹۳ ۶- بحوالہ میزان اقبال ، پروفیسر محمد منور ، اقبال اکادمی لاہور ، طبع دوم ۱۹۸۶ ء صفحات ۱۴۶ - ۱۴۷ ۷- بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۹۴ ۸ تا ۱۰ بحوالہ میزان اقبال ،صفحات (بالترتیب) ۱۴۸-۱۴۹، ۱۳۲- ۱۳۳، ۱۲۱ - ۱۲۲ ۱۱-۱۲ دیکھیے ساقی ،جوش نمبر ،مرتبہ شاہد احمد دہلوی ، کراچی ، ۱۹۶۳ء صفحات ۱۷ ، ۱۸۷ - ۱۸۸ ۱۳- جوش ملیح آبادی : تنقیدی جائزہ ، مرتبہ خلیق انجم ، انجمن ترقی اردو ہند ، نئی دہلی ، ۱۹۹۲ ء صفحہ ۱۸۶ ۱۴- ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۱۰۹ ۱۵-۱۷ تلاش و تعبیر ، جمال پرنٹنگ پریس ، جامع مسجد دہلی ، ۱۹۸۸ء صفحات ۳۱ تا ۴۱ ۱۸- بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۱۰۶ ۱۹ - اقبال کی ایک تصویر ، مولانا مودودی کے الفاظ میں - مشمولہ سیارہ اقبال نمبر ، لاہور ، مئی ۱۹۶۳ ء ۲۰-۲۱ یادوں کی برات ، صفحات ، ۱۳۴ تا ۱۳۷ ، ۱۴۴ تا ۱۵۶ ۲۲ - تفصیل کے لیے دیکھیے ’’ اقبال کے نظریہ ٔعلم کے چند پہلو ‘‘ ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، مشمولہ صحیفہ ٔاقبال نمبر ۲ ، مجلس ترقی ادب ،لاہور ، جنوری ۱۹۷۴ ء ، صفحہ ۱۲ ۲۳- ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے حکمت اقبال میں ان امور کو جامعیت ، عمدگی اور توازن کے ساتھ بیان کیا ہے - ۲۴-۲۸ کلیات اقبال اردو ، صفحات (بالترتیب) ۲۷۴ ، ۳۵۵ ، ۴۸۸ ، ۶۲۹ ، ۳۴۱ ۲۹-۳۰ بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات ، صفحات ۱۰۵ ، ۱۰۱ ۳۱- کلیات اقبال اردو ، صفحہ ۲۸۱ ۳۲- ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۹۶ ۳۳- جوش ملیح آبادی - تنقیدی جائزہ ، مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم ، صفحات ۸۱ - ۸۲ ۳۴تا ۳۶ خطوط جوش ملیح آبادی ، جامع و مرتب ، راغب مراد آبادی ، ویلکم بک پورٹ ، کراچی ، ۱۹۹۳ ء صفحات ۱۵۱ ، ۱۰۵ ۳۷- کلیات اقبال اردو ، صفحہ ۵۶۵ ۳۸- بحوالہ تلاش و تعبیر ، صفحہ ۳۹ ۳۹-۴۰ یادوں کی بارات ، صفحات ۱۷۶ - ۱۷۷ ، ۶۴۱ ۴۱-۴۶ کلیات اقبال اردو ، صفحات (بالترتیب) ۵۲۶ ، ۳۵۲ ، ۶۶۴ ، ۱۶۱، ۳۴۳ ، ۵۰۴ ۴۷- کلیات اقبال فارسی ، صفحہ ۶۵۳ ۴۸- ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۹۶ ۴۹-۵۰ کلیات اقبال اردو ،صفحات ۱۹۶ ، ۴۷۷-۴۷۸ ۵۱- کلیات اقبال فارسی ،صفحہ ۹۳۸ ۵۲- ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۱۰۱ ۵۳- تفصیل کے لیے دیکھیے ،میرا مضمون ’’ علامہ اقبال کی فکری اساس ‘‘ مشمولہ قومی زبان کراچی ، شمارہ نومبر ۱۹۹۷ ء ۵۴- جوش ملیح آبادی نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ میں نے جب روح ادب کی متصوفانہ شاعری کو ترک کر دیا اور اقبال کی نصیحت کے مطابق فکری شاعری شروع کی تو خود اقبال نے اقوال ، روایات اور عقائد کی شاعری شروع کر دی - یہ سب حیلے ہیں ، اپنا قد بلند کرنے اور اقبال کو گرانے کے- روح ادب ۱۹۲۰ ء میں شائع ہوئی - اقبال کا شعری رجحان اور نقطہ ٔنظر ، اس سے پہلے ، متعین ہو چکا تھا - ۵۵-۵۶ ہندوستان میں اقبالیات ،صفحات ۱۰۳ -۱۰۴ ، ۱۰۵ ۵۷- دیکھیے ، (۱) ملفوظات اقبال ، صفحات ۱۲۳ تا ۱۲۵ (۲) ذکر اقبال ، صفحات ۱۱۸ تا ۱۲۰ (۳) سرگذشت اقبال ، صفحات ۱۶۱ تا ۱۶۴ (۴) اقبال کا سیاسی کارنامہ ، صفحات ۶۱۶ تا ۶۲۵ - نیز دیکھیے ، محمد حنیف شاہد کا مضمون ’ سر ہو گئے اقبال ‘ صحیفہ اقبال نمبر ۷۸-۱۹۷۷ -( علاوہ ازیں’ سر‘ کے خطاب پر اعتراضات کا جامع جائزہ میرے تحقیقی مقالے کا حصہ ہے ، اور تیار ہے لیکن مسودے کی شکل میں ہے-) ۵۸- ہندوستان میں اقبالیات ، صفحہ ۹۷ ۵۹- تعبیر و تلاش ، صفحات ۴۵ - ۴۶ ۶۰- کتاب جوش ، ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی ، نامی پریس لکھنؤ ، ۱۹۹۱ ، صفحہ ۶۱ - میزان اقبال ، صفحہ ۱۲۳ ۶۲- جوش ملیح آبادی - تنقیدی جائزہ ، صفحہ ۹۲ علامہ اقبال کے بارے میں چند اہل مدرسہ کا تذبذب وحید الدین سلیم ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ پیش رفت کی اشاعت جنوری ۲۰۰۰ء میں ’’اردو شاعری کا تیسرا ستون ‘‘ کے عنوان پر جناب طیب عثمانی ندوی کی ایک تحریر Leading Articleکے طور پر چھاپی گئی ہے - یہ مضمون اصل میں صاحب نگارش کی تصنیف اقبال - شخصیت اور پیام (۱) اور اس کی پہلی اشاعت بنام حدیث اقبال مطبوعہ ۱۹۶۱ء کے دیباچوں کے چند حصوں کو ملا کر بنایا گیا ہے- حدیث اقبال پر اقبالیات کے مشہور ممتاز اسکالر ڈاکٹر یوسف حسین خان نے جو پیش لفظ لکھا تھا ، اس کو تازہ ایڈیشن میں بھی شامل رکھا گیا ہے - تازہ ایڈیشن کے دیباچے میں طیب عثمانی نے لکھا ہے کہ: ’’ اقبال کی شعریات سے میری یہ والہانہ دلچسپی اور شغف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے نزدیک ان کی شخصیت انسانی کمزوریوں سے مبرا، ملکوتی تقدس سے مشابہ ہے- میری حمایت میں ایسی حمیت نہیں ہے جو انہیں معصوم قرار دے - اس موقع پر مجھے مولانا سید سلیمان ندوی کا وہ بلیغ جملہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے اپنے استاد علامہ شبلی کی سوانح حیات شبلی میں لکھا ہے کہ شبلی اپنی تمام علمی و ادبی عظمت اور خوبیوں کے باوصف شبلی ، شبلی تھے، جنید و شبلی نہ تھے - میرے نزدیک بھی اقبال بیسویں صدی کے شاعر تھے ، مغربی تہذیب کے لیے ایک چیلنج ، وہ ایک اسلامی مفکر ، فلسفی اور حکیم و دانشور تو تھے ، لیکن دینی رہنما اور روحانی پیشوا نہ تھے ----- اور واقعہ یہ ہے کہ اقبال ،اقبال تھے ، عطار و رومی نہ تھے ‘‘ - واضح رہے کہ یہ تحریر حدیث اقبال والی کتاب کے دیباچے میں نہ تھی ، اگر یہ ہوتی تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر یوسف حسین ایسا جید عالم اقبالیات اس کتاب پر پیش لفظ ہرگز نہ لکھتا، اور اگر لکھتا تو مصنف کے ذہنی جھول کو بے نقاب کر دیتا - مصنف کتاب ، اقبال کو اسلامی مفکر فلسفی اورحکیم و دانشور تو تسلیم کر چکے ہیں ، لیکن انہیں دینی رہنما اور روحانی پیشوا ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے ، اسی تحریر میں ذرا آگے ، یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال نہ صرف اسلامی افکار و اقدار کے ترجمان تھے بلکہ اسلام ان کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا جو خون جگر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکا اور جس نے ایسی زندہ جاوید شاعری کو جنم دیا ‘‘- اسلام،خون جگر بن کر آنکھوں سے ٹپکنے کے باوجود علامہ اقبال کے درجے کے مسلمان میں روحانیت پیدا نہیں ہو سکتی ہے اور متذکرہ تمام فضائل کے جمع ہو جانے کے باوجود ایک مرد مومن کو عطار و رومی کا درجہ خداوندان مکتب کی بارگاہ سے عطا نہیں کیا جا سکتا ہے تو اس میں مومن کا قصور کم اور اہل مکتب کا کردار زیادہ دکھائی دیتا ہے ، اور یہ مزاج و انداز نظر اس بات کا غماز ہے کہ اس قسم کے رہروان روحانیت اپنے باطنی سفر میں تضاد ،تشکیک و تذبذب کے خارزار میں کہیں نہ کہیں پھنس کر رہ گئے ہیں - یہ خیالات مصنف کتاب کے ذہن میں ۱۹۶۱ء میں پیدا نہ ہوئے تھے تو پھر ۱۹۹۶ء میںکیسے پیدا ہو گئے ؟ اس تجسس کے دوران میں جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کا ایک فاضلانہ مقالہ اقبال اور عصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور مطالعہ سے گزرا - اس میں جاوید صاحب نے فکر اقبال کی ترسیل کے مسائل و مشکلات میں علمائے مکتب کے چند تاثرات درج کیے ہیں - ان میں سے ایک حوالے کی تصدیق کے لیے ہم نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی مشہور کتاب نقوش اقبال کا از سر نو مطالعہ کیا - دوران تحریر مولانا، اقبال کے فن پر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اقبال کو کوئی معصوم و مقدس ہستی اور کوئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ میں ان کے کلام سے استناد اور مدح سرائی میں حد افراط کو پہنچا ہوا ہوں جیسا کہ ان کے غالی معتقدین کا شیوہ ہے(۱) - میں سمجھتا ہوں کہ حکیم سنائی ، عطار اور عارف رومی آداب شریعت کے پاس و لحاظ اور ظاہر و باطن کی یک رنگی اور دعوت و عمل کی ہم آہنگی میں ان سے بہت آگے ہیں - اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے(۲)- میں بعض پرجوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم و حقائق تک ان کے سوا کوئی پہنچا ہی نہیں(۳)- بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا کہ وہ اسلامیات کے مخلص طالب علم رہے اور اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے - ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جو ان کے علم و فن اور پیغام کی عظمت سے میل نہیں کھاتے اور جنہیں دور کرنے کا موقع انہیں نہیں ملا(۴) ‘‘ ان کے مدراس کے خطبات میں جو انگریزی میں The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہو چکے ہیں اور ان کا اردو اور عربی میں ترجمہ بھی ہوا ہے ان میں بہت سے ایسے خیالات و افکار ملتے ہیں جن کی تاویل و توجیہ اور اہل سنت کے اجتماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے ،یہی احساس استاد محترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تھا (۵)- مولانا ندوی کی اس عبارت سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ طیب عثمانی ندوی نے حضرت شیخ کے اتباع میں انہی خیالات کو دہرا کر یہ تصور کر لیا کہ وہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں - یہاں ہم حضرت شیخ کے ارشادات ہی کا تھوڑا سا تجزیہ کرتے چلیں تاکہ ان کے مفروضات کا معیار واضح ہو جاے - خط کشیدہ جملوں کا بالترتیب جواب ملاحظہ ہو : ۱ - غالی معتقدین تو مولانا ابوالحسن علی کے بھی پائے جاتے ہیں ، اگر علامہ اقبال کے بھی ہوں تو اس کا مکلف انہیں کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ؟ --- اقبال کاکوئی معتقد انہیں معصوم قرار نہیں دیتا - اہل سنت کے نزدیک سوائے انبیاکے ، امت کاکوئی شخص اور کوئی طبقہ معصوم نہیں ہوتا - علامہ اقبال کی شخصیت کا تقدس اور ان کی پیشوائی و قیادت کے متعلق مسلمانوں کے احساسات ان کے فضائل و شمائل ، خدمات دین و امت سے وابستہ مسئلہ، ہماری جدید تاریخ کا مسئلہ ہے ، یہ کوئی اعتقادی نوعیت کا مسئلہ نہیں- ۲ - حکیم سنائی ، عطار و عارف رومی کے ظاہر و باطن میں اگر یک رنگی پائی جاتی تھی تو علامہ اقبال کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار میں مولانا ابوالحسن علی کو کونسا تضاد دکھائی دیا ؟ جس کی نشاندہی کے بغیر حضرت علامہ کی شخصیت پر شک ظاہر کیا گیا ہے - علامہ کی ذات گرامی عوام و خواص کے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح تھی - ان کے افکار و نظریات ڈھکے چھپے نہیں تھے اور نہ ان کے بنیادی اعتقادات میں کوئی سقم پایا جاتا تھا - مولانا کے لب و لہجہ سے ایسا احساس ہوتا ہے کہ وہ حضرات صوفیہ کے سب سے بڑے قدر شناس ہیں حالانکہ علامہ اپنی امتیازی و انفرادی خصوصیات کے باوجود صوفیہ کے ساتھ حد درجہ عقیدت رکھتے تھے ، اگرچہ وہ خانقاہی نظام کے موجودہ سلبی تخیل پر تنقیدی ضرب بھی لگاتے رہے ہیں - ۳ - حضرت علامہ نے کب اور کہاں دعویٰ کیا ہے کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے نہیں سمجھا- دنیائے علم و فکر کے بحر بے کراں ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ عجز و انکسار سے کام لیا ہے ، اور اگر ان کی شخصیت سے متاثر نوجوانان امت نے جوش عقیدت کا جو کبھی بڑھ چڑھ کر اظہار کیا ہو ، تو اس میںان کا کیا قصور ہے ؟ ۴ - حضرت علامہ اقبال کے متعلق مولانا ابوالحسن علی کا یہ ریمارکس ملاحظہ کیا جائیں کہ ’’میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا کہ وہ (اقبال) اسلامیات کے مخلص طالب علم رہے‘‘- افسوس یہ ہے کہ یہ جملہ ایک پختہ کار مصنف کے قلم سے نکلا ہے اور یہ ایک ایسی عظیم ہستی کے متعلق لکھا ہے جو علم و ادب ، فکر و فلسفہ میں ایک عہد پر چھائی ہوئی ہے - اس قسم کی طرز نگارش خود اپنے متعلق تو بھلی معلوم ہوتی ہے اور لکھنے والے کے بارے میں اچھی رائے بنتی ہے- اور آگے مولانا نے لکھا ہے’’ (وہ) اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے‘‘- یہاں ’’ استفادہ ‘‘ کے بجائے ’’ مشورہ ‘‘ کرتے رہے لکھنا چاہیے تھا - وہ جن مقتدر معاصرین سے مشورہ کیا کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ مقتدر نہ تھا - حضرت علامہ کی سیرت کا یہ ایک امتیازی وصف ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو بھی برابری کا مقام دیا کرتے تھے - اور علمی تحقیق و جستجو میں ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کرنا ایک احسن طریق کار ہے اور مستحق ستائش بھی - ۵ - علامہ اقبال ہی پر کیا موقوف ہے ، دنیا کی کونسی ایسی شخصیت ہے جس میں کمزوریاں نہیں پائی جاتیں، لیکن اس طرح کی مجمل گفتگو اور تشکیک زدہ اشاریت سے کسی اعلیٰ اخلاقی مقصد کا حصول ممکن نہیں ہے ، اس سے صرف کسی شخصیت کو داغدار بنانے کی مہم شروع کی جا سکتی ہے اور یہ طریقۂ کار کسی ’’صفائے باطن‘‘ کے دعویدار کو زیب نہیں دیتا - بات صاف لفظوں میں ، اور متعین معاملات پر ہونی چاہیے تاکہ دنیا اس کو قبول کرے یا رد کر دے - اگر علامہ اقبال پر لکھتے ہوئے، ان کے پیغام کی عظمت اور سیرت کے درمیان فرق پیدا کر دیا جائے تو اس سے دشمنان دین و ملت خوب فائدہ اٹھا سکیں گے کہ کسی قوم و ملت کو گرانے کے لیے اس کے اکابرین کو پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے - ۶ - علامہ کے خطبات مدارس کا اردو ترجمہ سب سے پہلے ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے پروفیسر نذیر نیازی نے کیا تھا ، اور اب کئی اور ترجمے ہو چکے ہیں - ان خطبات پر جدید و قدیم علماء کی طرف سے ہمیشہ بحث و گفتگو ہوتی رہی ہے ، اور یہ کتاب نہایت گہرے فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ہے اور اس کی عبارت بھی دقیق ہے اور اس میں اسلام اور عالمی افکار پر اس قدر مواد بھر دیا گیا ہے کہ یہ بالکلیہ CONDENSED ہو کر رہ گئی ہے ، اور اسی بنا پر اس کے ایک ایک مضمون کو سمجھنے کے لیے کئی کئی ماہ درکار ہیں - علاوہ ازیں اس کی تفہیم کے لیے فلسفے کے چند بنیادی نظریات پر دسترس حاصل کرنی بھی ضروری ہے - جہاں تک علماء و دانشوروں کے درمیان اختلاف کا مسئلہ ہے ، ابن عربی ، غزالی اور ابن تیمیہؒ جیسے بزرگوں کے درمیان بھی اختلافات پائے جاتے ہیں ، لیکن ان اختلافات علمی کی بناء پر ان میں سے کسی کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا - امت میں ان سب کا وقار برقرار رہا ہے - مولانا ابوالحسن علی کا فرض تھا کہ اپنی دسترس کی حد تک فکر اسلام کو درپیش مسائل میں علامہ اقبال کے حوالہ سے ایک مستقل کتاب لکھ جاتے - اس میں اقبال سے کہیں چوک ہو گئی ہو تو اس کو بھی علمی انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا کہ کوئی دُر نایاب ہاتھ آتا - ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی ایک کتاب عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح کے پیش لفظ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کو علامہ کی کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے طرز کی کتاب قرار دیا ہے ، اور اقبال و مودودی ، دونوں کے طریقۂ کار و منہبح علمی پر بیک وقت ضرب لگائی ہے - ۷ - مولانا نے اپنی حمایت میں آخری بات یہ لکھی ہے کہ ’’ یہی احساس استاد محترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تھا ‘‘ ، لیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے - نقوش اقبال پر پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسے بڑے ادیب و دانشور کا مقدمہ بھی شامل اشاعت ہے - رشید صدیقی صاحب نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ ’’ میرا خیال ہے سید صاحب کو میرے اس خیال سے کہ اقبال کا کلام اس صدی کا علم کلام ہے ، اختلاف نہ ہو گا‘‘ - قارئین خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ مصنف کتاب کی متذکرہ آراء کی موجودگی میں رشید احمد صدیقی کی نیک توقعات کی کیا معنویت رہ جاتی ہے ؟ ابھی تو ہم دو ندوی صاحبان علم و تحقیق کا ذکر کر رہے تھے ، اب ایک اصلاحی بزرگ کے خیالات بھی حضرت اقبال کے متعلق ملاحظہ کیجئے ، فرماتے ہیں کہ ’’ ہم ڈاکٹر اقبال مرحوم کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ حیثیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں، کیونکہ ہم نے ان کے کلام کو بغور پڑھا ہے - اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مرحوم کے جہاں سینکڑوں اور ہزاروں اشعار مفید ہیں ، وہاں ان کے کتنے ہی اشعار ایسے ہیں جن میں کھلے بندوں اسلام اور اسلامی فلسفے پر ان کی زد پڑتی ہے‘‘- علامہ اقبال کے متعلق اس جائزے سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان کے علم و فکر کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے - علم و تحقیق کی دنیا تنقید کے بغیر وسعت نہیں پا سکتی بشرطیکہ نقد و احتساب کا یہ عمل علمی اصولوں اور فکری نظریات کی اساس پر ہو - تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ پر ابھی تک کتنی ہی تنقیدیں کی گئیں ، لیکن فکر اسلامی پر گزشتہ پوری صدی میں اس سے بہتر کتاب پوری مسلم دنیا کی طرف سے پیش نہ کی جا سکی - جس شخصیت نے اپنی پیغمبرانہ شاعری ، مدبرانہ سیاسی بصیرت اور اسلام کی DYNAMIC فکر کے ذریعے مسلمانوں کی بزم سکوت کو جدید تاریخ کی سب سے بڑی رزم گاہ بنا ڈالا اور دنیا سے نظام باطل کو مٹا کر اسلام کا انقلاب بپا کر نے کی دعوت اپنے یقین کامل و پختہ کردار کے ساتھ دی ہو ، اس کو مشکوک بنانے کی ہر سعی ، سعی نا مسعودہو کررہے گی - ہم نے چند مکتبی قلم کاروں کی روش خام سے دل برداشتہ ہو کر مدرسہ و خانقاہ کی خاک چھاننے کی کوشش شروع کی تو بفضلہ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی ایسا قدر دان اقبال ملا جس کے خیالات و احساسات میں امید کی شعاع دکھائی دی - مولانا ،علامہ شبلی ایسے مرد آزاد کے خاص فیض یافتگان میں سے تھے ، تبھی وہ اپنے بزرگ اور عالی مرتبت دوست علامہ اقبال کی وفات پر ایسا خراج عقیدت پیش کر سکے جس کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جذبات و واردات قلبی کی برسات ہو رہی ہے - صرف چند جملے ملاحظہ ہوں : ’’ اقبال کی تصنیفات زمانے میں یاد رہیں گی --- ان کی شرحیں لکھی جائیں گی ، نظریے ان سے بنیں گے ، ان کا فلسفہ تیار ہو گا - اس کی دلیلیں ڈھونڈی جائیں گی ، قرآن پاک کی آیتوں ، احادیث شریفہ کے جملوں ، مولانا، حافظ و حکیم سنائی کے تاثرات سے ان کا مقابلہ ہو گا - اقبال صرف شاعر نہ تھا ، وہ حکیم تھا ، وہ حکیم نہیں جو ارسطو کی گاڑی کا قلی ہو یا یورپ کے نئے فلاسفروں کے خوشہ چیں بلکہ وہ حکیم جو اسرار کلام الٰہی کے محرم اور رموز شریعت کے آشنا تھے - اقبال - ہندوستان کا فخر اقبال ، اسلامی دنیا کا ہیرو اقبال ، فضل و کمال کا پیکر،اقبال، حکمت و معرفت کا دانا اقبال ، کاروان ملت کا رہنما اقبال ‘‘ - حواشی ۱ - یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی ،دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے - ۲ - مولانا نجم الدین اصلاحی - ماخوذ از فکر اسلامی کی تشکیل جدید مرتبہ سید حسین محمد جعفری - دہلی ایڈیشن ص ۸۱ یہی احساس استاد محترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تھا ۳ - ماخوذ از نقوش اقبال ساتواں ایڈیشن صفحات ۴۰ - ۴۱ ۴ - ماتم اقبال - معارف ۱۹۳۸ء - ماخوذ از سلیمان ندوی حیات اور ادبی کارنامے صفحات ۳۲۲ - ۳۲۳ ، مصنفہ ڈاکٹر سید محمد ہاشم - شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ - ۵ - ماخوذ از نقوش اقبال ساتواں ایڈیشن صفحات ۴۰ -۴۱ مباحث و استفسارات اقبالیات کے ضمن میں مختلف اطراف سے مختلف طرز کے اعتراضات موصول ہوتے رہتے ہیں اقبال اکادمی پاکستان اپنے قارئین کو حتی المقدور جوابات فراہم کرتی ہے جو شائع نہ ہونے کی وجہ سے اقبالیات کے شائقین کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں - اقبالیات میں ایسے مباحث کی اشاعت کا مقصد مناقشات کا دروازہ کھولنا نہیں بلکہ تفہیم اقبال ہے - آپ بھی حصہ لے سکتے ہیں تاہم مباحث کا علمی ہونا ہم سب کے لیے مفید ہو گا - (مدیر ) ڈاکٹر این میری شمل کی گبرئیلز ونگ ( Gabriel's Wing) اور بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈ (۴۷ - ۱۹۸۱ئ) برطانیہ میں مقیم پاکستانی محترم حمید اللہ خان صاحب نے ممتاز مستشرق خاتون اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر این ،میری ،شمل کی کتاب Gabriel's Wing کے بعض مندرجات کو اپنے خط میں نقل کر کے ان کے ضمن میں بعض اعتراضات اٹھائے تھے - ان کے خط کا جواب اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے دیا گیا - محترم حمید اللہ خان صاحب نے یہی مضمون تحریک اسلامی کے ممتاز رہنما ، ادیب اور شاعر محترم نعیم صدیقی صاحب کو بھی بھجوایا - جو انہوں نے اپنے خط کے ساتھ اقبال کادمی کو بھجوا دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اس کتاب کے مضر پہلوئوں کو سامنے لایا جائے اور اس پر نقد کر کے ان کے ہر نکتے کا جواب دیا جائے - اقبال اکادمی پاکستان کے مجلہ اقبالیات میں ہم حمید اللہ خان صاحب کا مضمون ، اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے ارسال کردہ جواب اور محترم نعیم صدیقی صاحب کا خط شائع کر رہے ہیں تاکہ تمام مبحث اقبالیات کے قارئین کے سامنے آ سکے - علامہ اقبال کے حوالے سے قومی اور علمی موضوعات پر مباحث کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے تاہم مباحث کا ذاتیات سے بالا اور علمی ہونا تفہیم مبحث کے لیے زیادہ مفید ہو گا- (دیکھئے ص ۱۶۷ آخری دو سطریں) (مدیر ) ممتاز مستشرق خاتون اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر شمل کی کج بیانیاں حمید اللہ خان (یو، کے ) ’’اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام ۱۲ فروری ۱۹۹۸ء کو شام کے چھ بجے ایوان اقبال بینکویٹ ہال میں پہلے بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی - جس میں اکادمی کی طرف سے محترمہ ڈاکٹر این میری شمل کو مرکزیہ مجلس اقبال کے سربراہ جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے ہاتھوں سے بین الاقوامی صدارتی اقبال ایورڈ برائے ۱۹۴۷ء تا ۱۹۸۱ء پیش کیا گیا - تقریب کی صدارت جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نائب صدر اقبال اکادمی نے کی ‘‘ - یہ اس غیر معمولی تقریب کی رپورٹ ہے جو اقبال اکادمی پاکستان کے اردو مجلہ اقبالیات کے شمارہ برائے جنوری ، جولائی ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی اور میری نظر سے اب گزری ہے اس تقریب کی تفصیل یہ ہے کہ این میری شمل کو ------- ان کی کتاب Gabriel's Wing جو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۸۱ء تک اقبالیات پر بہترین کتاب قرار پائی بین الاقوامی صدارتی اقبال (سونے کا تمغہ اور ۵ ہزار ڈالر ) ایوارڈ دیا گیا ------ گویا اس طرح اقبال اور پاکستان کی عزت افزائی کی گئی - این میری شمل وہ مستشرق ہیں جنہوں نے اپنے باضابطہ منصوبہ اور مقصد کے تحت پہلے تو علامہ اقبال کی غیر معمولی مدح و ستائش کی --- اور اس کے بعد علامہ پر ہرزہ سرائی کی ، یعنی علامہ پر باطل الزامات لگائے اور علامہ کے علم و منزلت کی تحقیر کی - حوالہ کے لیے سب سے پہلے موصوفہ کی تصنیف Gabriel's Wingصفحہ viii دیکھئے،جہاں وہ علامہ پر الزام لگاتی ہیں کہ : "Iqbal Changed Western ideas according to his concept of Islam" اس کے بعدصفحہ ۲۴۲ پر ضیا گو کلپ کے حوالہ سے فرماتی ہیں : " Iqbal did not know Turkish, has studied his (Ziya Gokalp's) work through the German translation of August Fisher, and it is of interest to see how he (Iqbal) sometimes changes or omits some words of the translation when reproducing the verses in the Lecture," این میری شمل کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس امر کا اظہار کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ترکی زبان کی ماہر ہیں اور ساتھ ہی علامہ جیسے شخص پر یہ لغو الزام عائد کرتی ہیں کہ انہوں نے جرمن ترجمہ میں کہیں تبدیلی کی اور کہیں کچھ الفاظ حذف کر دیئے - علامہ اقبال پر الزام تراشی کی انتہا یہ ہے کہ وہ صفحہ ۳۸۵ پر فرماتی ہیں : " Iqbal's interpretation of the Writ (The Holy Quran)is sometimes very personal and influenced by the wish of combining Quranic revelations with the experience of modern science" مستشرق موصوفہ کی یہ جرأت قابل غور ہے کہ وہ علامہ جیسی ہستی پر جہل آمیز الزام عائد کر کے اپنی غیر معمولی علمیت اورلیاقت کی نمائش کرتی ہیں ، گویا اس طرح اپنی قرآن فہمی کے ادعا کا اظہار کرنا چاہتی ہیں - اسی صفحہ پر علامہ کی مغرب پر تنقید کو بے جا اور ناروا سمجھتی ہیں اور ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے علامہ کی تنقید کو ایک مناظرہ قرار دیتی ہیں - ان کے الفاظ درج ذیل ہیں : " His criticism of the West sometimes took forms worthy of medieval polemics". اس سے آگے میری شمل کا علامہ پر ایک غیر معقول الزام ملاحظہ ہو : " The Christian reader will be shocked by the devaluation of nearly everything Christian and European in Iqbal's work, and by the lack of understanding of the ethical ideals of Christianity (the dogmatic differences are not of interest to Iqbal and are not discussed in his work). He should then realise that Iqbal in this respect does not talk with the calmness required of a historian of religion". اس طرح میری شمل نے اپنے عیسائی اور مغربی ہونے کے زعم میں عیسائی مصنفین کو بھی علامہ کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی - موصوفہ کا لہجہ دیکھیے کہ وہ علامہ کو عیسائیت کے اخلاقی تصورات سے نابلدسمجھتی ہیں اور مزید الزام عائد کرتی ہیں کہ علامہ بحیثیت مذہبی مورخ، حداعتدال میں نہ رہے - حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ ایسی مستشرق کو ---- جس نے علامہ کی علمیت اور عظمت کو اپنے مخصوص مستشرقانہ رویہ کا نشانہ بنایا ------ بین الاقوامی اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا - ممکن ہے بعض نقاد حضرات اپنی ناقدانہ بصیرت سے میری شمل کی یا وہ گوئی کو علمی تنقید سے موسوم کریں ، لیکن یہ تنقید نہیں علامہ کی تکذیب اور تخفیف ہے - اس وقت پاکستان میں اتنے بڑے اقبال شناس اور اہل علم و دانش حضرات موجود ہیں ، اس کے باوجود ایک مستشرق کو ----- جس نے علامہ اقبال کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا ------ ایک غیر معمولی ایوارڈ دے کر سراہا گیا- پہلے لاہور کی ایک شاہراہ کا نام خیابان شمل رکھا گیا ------ حالانکہ دنیا بھر میں یہ دستور مسلم ہے کہ اس قسم کے انتساب زندہ شخصیتوں کے ناموں سے نہیں کیے جاتے ----- اور اب’’ ان کی اسلامی علوم و فنون ، شاعری ، تصوف اور اقبالیات پر محققانہ بصیرت پر ‘‘ ان کی شان میں یہ نذرانہ پیش کیا گیا - یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ اس تقریب کی صدارت علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس(ر) جاوید اقبال نے فرمائی ؎ غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را نہ جانے ہم کب تک ایسی مرعوبانہ ذہنیت کا شکار رہیں گے - این میری شمل کے ایک اور کارنامے کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ہم لوگ موصوفہ کو ، اور ’’خوبیوں ‘‘ کے علاوہ ’’ اسلام دوست ‘‘ بھی تصور کرتے ہیں - ۰۰۰۰۰۰۰ حمید اللہ خان ۲۴ اگست ۱۹۹۹ء ٭٭٭٭٭ جناب حمید اللہ خان کو اس سلسلے میں اقبال اکادمی کی طرف سے یکم دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو جوابی خط لکھا گیا ذیل میں اس کا اقتباس درج ہے تاکہ اس سے اس امر کی تفہیم ہو سکے کہ ڈاکٹر شمل کے کام کو عمومی طور پر کس انداز سے دیکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی اقبال ایوارڈ اسے کن بنیادوں پر دیا گیا - ’’اقبال اکادمی پاکستان بلکہ پاکستان کا کوئی علم دوست ڈاکٹر این میری شمل کا فدائی نہیں اور نہ ان کو پاکستان اور اسلام کا پرچارک تصور کرتا ہے اور ایوارڈ اس بات کی سند نہیں کہ ہم نے انہیں امام مان لیا ہے اقبال ایوارڈ کے اپنے تقاضے ہیں اس کی شرائط یہ ہیں کہ اقبال پر کسی غیر ملکی زبان میں سب سے بہتر کام کس نے کیا ہے اور اس کام کی نوعیت ترجمے کی نہیں ہونی چاہیے - اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو اقبال پر سب سے اچھی کتاب یہی ’’ گبرلز ونگ ‘‘ ہے اس کی نارسائیاں اپنی جگہ مگر اس کی خوبیاں بھی کم نہیں - اقبال کے بارے میں اس نے سب سے بہتر رویہ رکھا اور سب سے بڑھ کر علمی کام کیالہٰذا اسے ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا گیا - یہ ایوارڈ اس کے نظریات کی کسی طرح بھی تائید اور تحسین نہیں کرتا صرف اقبالیات پر اس کے کام کا عمومی اعتراف ہے - نیز یہ بھی نظر میں رہنا چاہیے کہ ان کی ضخیم کتاب میں آپ کے نشانزدہ مقامات کے علاوہ بھی تو کچھ ہے اور کس معیار کا ہے! مزید یہ عرض کر دیں کہ ان کو دیا جانے والا ایوارڈ کسی کی حق تلفی کر کے نہیں دیا گیا - قومی اقبال ایوارڈ ۱۹۷۷ء سے دئیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے کئی اقبال شناس اس ایوارڈ سے استفادہ کر چکے ہیں - ‘‘ ٭٭٭٭٭ اس کے بعد یہی خط حمید اللہ خان صاحب نے مولانا نعیم صدیقی صاحب مدیر سیارہ لاہور کو روانہ کیا جس پر محترم نعیم صدیقی صاحب نے اقبال اکادمی کو خط روانہ کیا - جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے - ’’میرے ایک دوست حمید اللہ خان صاحب نے برطانیہ سے مجھے ایک مضمون ڈاکٹر این میری شمل کے متعلق روانہ کیا - جو باتیں علامہ اقبال اور اسلام کے متعلق انہیں غلط اور ناگوار لگیں ، موصوفہ کی تحریروں سے نکال کر انہوں نے سامنے رکھ دی ہیں ‘‘- میں نے انہیں خط لکھا تھا کہ براہ کرم جو چارجز یا اعتراضات آپ نے پیش کیے ہیں ان کے ساتھ ان کی ضروری عبارتیں شامل کر دیں - مگر انہوں نے کہا کہ یہ کام یہاں سے تو نہیں ہو سکتا وہیں کوئی انتظام کیا جائے ۰۰۰۰۰۰ مقام افسوس ہے کہ ہم مسلمان کئی ایسے مستشرقوں سے امید لگاتے ہیں کہ یہ شخصیت متعصب پادریوں اور سلوپوائزن ہمارے دماغوں میں انجکٹ کرنے والے فلسفیوں اور دانشوروں سے بہت مختلف، وسیع الظرف اور انصاف پسند ہے - یہی مغالطہ تھا کہ ڈاکٹر شمل صاحبہ یہاں کے محبان اقبال اور دلدادگان اسلام کی آنکھ کی پتلی بنی رہیں ، بلکہ خود میں نے بڑی عقیدت سے ان کے بارے میں سیارہ کے صفحات میں لکھا اور اس سلسلے میں ملاقات بھی کی - مگر مسخ شدہ عیسائیت کے دھندلے اور ادھورے خیالات کے سرمستوں کا حال یہ ہے کہ بہ لحاظ تعصب بخلاف اسلام ان کو دیکھا جائے تو جس پر بھی توجہ کیجیے اس کی شان یہ ہے کہ ’’ چوں دم برداشتم مادہ برآید ‘‘ - آج کے سرمست الحاد مغرب نے ایسی طرزیں تحریر و تقریر کی ایجاد کرلی ہیں کہ سطور تو کیا ، بین السطور کے پردے سے بھی پیچھے نہایت ہی لطیف قسم کے طنزو تعریض کے لمبے لمبے خار مغیلان کی طرح نیزے اسلام کے خلاف تانے ہوئے ہیں اور اوپر دانش وری اور عدل و صداقت کے گلہائے استدلال کی تہیں جمی ہوئی ہیں - میرا خیال ہے کہ مذہبی گفتگو ہو یا معاشرتی و تمدنی مسائل کی بحثیںیا عالمی سیاست کی ڈپلومیسی ،ان میں جس شان سے مغرب نے منافقت کو سمویا ہے ، ایسی ایجاد تو شاید ایٹم بم اور کمپیوٹر سے بھی زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہے- جناب من ! ہمیں اگر سر اٹھانے کے لیے مرعوبیت فرنگ کا قفس توڑنا ہے تو پھر مغربی پادریوں اور فلسفیوں اور سیاست بازوں کی منافقت کو نمایاں کرنے کے لیے نہایت بے رحمانہ پوسٹ مارٹم ان کے ہر تھیسس کا کرنا چاہیے - آخر سانپوں کے ساتھ مصلحت کے تحت خیر سگالی قائم رکھنے کے لیے ہم اقبال یا اسلام کی بھینٹ تو ان کی خوشنودی پر نہیں چڑھا سکتے - میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ پہلے تو اس مضمون کو موجودہ شکل ہی میں شائع کر دیں اور ضرورت سمجھیں تو میری طرف سے یہ اشارہ لکھ دیں کہ میں نے صاحب مضمون کو اس تحریر کے لیے کچھ اور تحقیقی کام کرنے کے لیے لکھا تھا - مگر انہوں نے معذوری ظاہر کی- یہاں سے آپ یہ ارادہ ظاہر فرمائیں کہ آپ اب اس سلسلے میں ضروری تحقیق کا اہتمام خود کر رہے ہیں اور دعوت بھی دے دیں کہ کوئی اور صاحب کچھ اور لکھنا چاہیں تو ادارہ احسان مند ہوگا - اگر کچھ نہ کرنا ہو تو مضمون وغیرہ واپس کر دیں میں احتیاطً نقل رکھ رہا ہوں - نیاز کیش نعیم صدیقی ذیل میں ہم نے گبرلز ونگ کے وہ مقامات دے دئیے ہیں جن پر حمید اللہ صاحب نے اعتراض وارد کیا ہے تاکہ محققین کو ڈاکٹر شمل اور حمید اللہ صاحب کے نفس مضمون پر تقابلی مطالعہ کرنے میں سہولت ہو - It seemed however,necessary to give a sketchy introduction to the religious situation of India at Iqbal's time. a survey of his life. and of his artistic and theological ideals.Further, the influences that Eastern and Western thought have exerted upon him - positively or negatively - could not be left aside, though it is not the purpose of our study to enter into details concerning his debt to European philosophy, or the way he changed Western ideas according to his concept of Islam. This side of Iqbal's thought we leave to the philosophers who are more competent than the present writer. The same principle has been applied to Iqbal's political and social ideas which are treated only in so far as they form an integrating part of his religious thought".(P.vii- Forword) "From his Lectures it becomes clear how intensely Iqbal had examined the Turkish situation and especially the ideals of Ziya Gokalp,the leading Turkish sociologist who had, in the beginning of the century, launched the ideas of Turkification, Islamisation, Modernization, and had deeply influenced the generation from which the leader of Turkish freedom movement emerged. Iqbal who did not know Turkish has studied his work through the German translation of August Fischer, and it is of interest to see how he, sometimes, changes or omits some words of the translation when reproducing the verses in his Lectures (L 242.) "The Christian reader will be shocked by the devaluation of nearly everything Christian, and European, in Iqbal's work, and by the lack of understanding of the ethical ideals of Christianity (the dogmatic differences are of no interest to Iqbal and not discussed in his work). He should, then, realize that Iqbal in this respect does not talk with the calmness required of a historian of religions who has to compare ideal with ideal but preaches with the ardent zest of a prophetical critic who wants to exalt his own religion and is deeply convinced that it is the only remedy for all ills of a rotten society, and far superior to a civilization which has left far behind the lore of Christ and has due to its alleged implicit dualism of body and soul, church and state, resulted in either ascetic spiritualism or materialism".(p.382) "The poet has often complained of the difficulty of his position, struggling against heavy odds. Here is right; for he did not belong to the ultra-conservative orthodoxy though his unflinching and unassailable belief in the tenets of the Quranic revelation was worthy of the staunchest orthodox Muslim; and he did not belong either to the modernists for whom Islam was, no doubt, the last revealed and best religion but compatible with wide rationalist interpretations and valid more or less only in its internal ethical aspects, though Iqbal's interpretation of the Holy Writ is sometimes very personal and in fluenced by the wish of combining Quranic revelation with the experiences of modern science; he was no adherent of the traditionalist school who rejected everything European and especially British as periculous for the Muslim mind though his criticism of the West sometimes took forms worthy of medieval polemics; nor was he a Westerner for whom European civilization meant everything though his wide knowledge of European Weltanschauung surpasses by far the normal scope of an oriental- and even of many an occidental--scholar and a vital interest in German poetry and philosophy has left deep marks on his creativeness; he was not a stern Wahhabi rejecting every innovation in Islam as unlawful though he has flung challenges against the all-embracing grave-worship, Pirism and pantheistic mysticism which was overshadowing Indian Islam; nor was he a mystic who aimed at attaining the highest bliss of union with the Divine though his piety was tinged by the personalist mysticism, the voluntarist mysticism of early Islamic type, and his veneration of the saints of yore was deep and honest--in short, his work and personality contained all the divergent elements of conservatism and liberalism, of prophetical and mystical religious experience, of orthodoxy and heterodoxy---" (p385-86) اخبار اقبالیات مرتبہ : ڈاکٹر وحید عشرت ٭ اقبال - بین الایشیائی سیمینار ٭ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی تقریبات ٭ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی کے موقع پر اقبال اکادمی کی نمائش کتب ٭ ننکانہ صاحب میں کتب کی نمائش ٭ تاجکستان میں یوم اقبال ٭ کلام اقبال کے چینی ترجمے کی اشاعت وفیات ٭ پروفیسر کرار حسین ٭ پروفیسر حسنین کاظمی ٭ پروفیسر محمد یونس حسرت اقبال -- بین الایشیائی سیمینار کلچرل سوسائٹی آف مخدوم قلی فراغی کے تحت ۲۸ نومبر ۱۹۹۹ء کو اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں بین الایشیائی سیمینار کی تقریب منعقد ہوئی - اس سیمینار میں علامہ اقبال اور مخدوم قلی کے تصورات میں علمی اور فکری ہم آہنگیوں پر اظہار خیال کیا گیا - مخدوم قلی فراغی ، ترکمانستان کے ایک ممتاز دانشور ہیں - اس سیمینار کا مقصد وسط ایشیا میں علامہ اقبال اور پاکستان میں مخدوم قلی فراغی کے افکار و نظریات کو متعارف کرانا تھا - تقریب میں بڑے ہی متنوع موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا - جس کی تفصیل کچھ یوں ہے- تقریب کی صدارت مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین اور حال میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب افتخار عارف نے کی سٹیج سکریٹری کے فرائض اوغوز خان مدیر ترجمان افکار نشریاتی نے ادا کئے جبکہ محمد سہیل عمر ناظم اکادمی عبدالکریم مخدوم اور محمد آید وغدی مہمان خصوصی تھے تقریب کا آغاز شاہ مردان قلی مرادی کے ابتدائی کلمات سے ہوا- مقالہ نگار حضرات کے اسمائے گرامی اور مقالات کے نام یوں ہیں - اقبال اور انسانی حقوق از مولانا محمد جورہ ، ممتاز عالم دین اور اقبال شناس ’’ ترکمن‘‘ ایران میں اقبال شناسی از دکتر مہدی توسلی رئیس ایران پاکستان مرکز تحقیقات ، اسلام آباد - اقبال اور جہان ترک از پروفیسر اسد اللہ محقق ، استاد زبان اوزبکی و تاجیکی ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد - علامہ اقبال کو خراج عقیدت از نظم توسط فضل منان مخدوم ، معاون کمیشہ فرہنگی مخدوم قلی فراغی - مخدوم قلی فراغی اور مادر وطن ترکمنستان ۲۱ صدی کے دہلیز پر از دکتر نصر اللہ ناصر ، ممتاز محقق اور مخدوم قلی شناس ’’ ترکمن‘‘ مخدوم قلی فراغی اور علامہ اقبال از ظفر بختاوری ،چیئرمین کلچرل فورم اسلام آباد پاکستان - اقبال اور مخدوم قلی - از پروفیسر گل حسن ، استاد رشین ڈیپارٹمنٹ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد - افغانستان میں اقبال شناسی اور اخلاص و عقیدت مردم افغان با اقبال از پروفیسر محمد اسماعیل اکبر ، ممتاز محقق ’’ افغان ‘‘ - مخدوم قلی فراغی کو خراج عقیدت نظم توسط خواجہ نفس مساعد ، ممتاز شاعر و ادیب ’’ترکمن ‘‘ - مخدوم قلی فراغی اور شاعر مشرق از دکتر محمد حسین تسبیسحی ’’ رھا ‘‘ کتابدار و کار مسند مرکز تحقیقات فارسی ایران پاکستان اسلام آباد - وسطی ایشیا میں فروغ اقبالیات از محمد سہیل عمر ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی تقریبات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے ۱۵ تا ۲۰ نومبر ۱۹۹۹ء کو اپنی سلور جوبلی تقریبات منعقد کیں - جس کا نہایت مفصل پروگرام منعقد کیا گیا - ۱۵ نومبر ۱۹۹۹ء کو یوم اقبال منایا گیا جس کے مہمان خصوصی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر جناب معراج خالد تھے جبکہ مقررین میں الخیر یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر پریشان خٹک ، ڈاکٹر وحید قریشی اور پروفیسر فتح محمد ملک کے اسمائے گرامی شامل تھے- اس موقع پر خطاطی اور علامہ اقبال کی تصاویر کی نمائش ہوئی - ۱۶ نومبر اطلاعات اور تعلیمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک قومی سیمینار منعقد کیا گیا - سابق وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل مہمان خصوصی تھے ممتاز ماہر تعلیم محسن اقبال (کراچی) کا خصوصی خطبہ اس کی خاص بات تھی - ٹیکنیکل سیشن میں ڈاکٹر اعجاز خواجہ صدر تقریب اور تعلیم کو ٹیکنیکل بنیادوں پر جدید کرنے کے موضوع پر ڈاکٹر ایم عقیل برنی چیئرمین شعبہ کمپیوٹر سائنس کراچی یونیورسٹی کراچی ، پروفیسر ڈاکٹر نصیر اے سانگی ، مس فرحانہ جبین ، ڈاکٹر عامر جعفری ، ڈاکٹر اعجاز خواجہ ، ڈاکٹر آر ، او ، حمید ، ڈاکٹر محمد افضل،ایم دائود اور محمد خالد جاوید نے مقالات پیش کئے - ۱۷ نومبر کو وفاقی وزیر لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈویلپمنٹ پنجاب ڈاکٹر ایم - ایچ - قاضی ، سابق وائس چانسلر ہمدرد یونیورسٹی کراچی نے خطبہ دیا - دوسرے سیشن میں ڈاکٹر ڈبلیو - ایم - ذکی سابق وائس چانسلر ،ڈاکٹر ذوالفقار احمد ، چودھری محمد منیر ،ڈاکٹر اشفاق احمد چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن اور ڈاکٹر ایم الیاس ، ڈاکٹر ایس - ایم - زمان چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر شریف المجاہد ، ڈاکٹر ایم - رفیق اور ڈاکٹر منظور احمد نے مقالات پیش کئے - ۱۸ نومبر کوناروے کے سفیر نے گولڈ میڈل تقسیم کئے ۱۹ نومبر کو فاصلاتی تعلیم کے موضوع پر سیمینار کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم محترمہ زبیدہ جلال نے کی جو اوپن یونیورسٹی کی پرد چانسلر ہیں - جبکہ ڈاکٹر دولت مشترکہ شعبہ تعلیمی کے صدر ڈاکٹر گیجارج ڈھا جن نے خطبہ دیا دوسرے اجلاسوں میں پروفیسر جاوید اقبال سید ، کرن کرنیک ، ڈاکٹر احمد زہادی، عبدالحمید ڈرن، تن عبدالرزاق یونیورسٹی ملائیشیا ، ڈاکٹر جی - اے - الانہ نے شرکت کی - ۱۹ نومبر کو مختلف موضوعات پر پینل مباحث ہوئے - اور تقریبات کے شرکاء نے حصہ لیا - جبکہ ۲۰ نومبر کو تعلیمی کانوکیشن ہوا - جس میں صدر پاکستان عزت مآب محمد رفیق تارڑ صاحب نے اسناد اور گولڈ میڈل تقسیم کیے - علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی سلور جوبلی کے موقع پر اقبال اکادمی کی نمائش کتب اقبال اکادمی پاکستان ملک بھر میں اور بیرون ملک علامہ اقبال پر اپنی کتب کی نمائش کرتی رہتی ہے - امسال بھی اکادمی نے مزار اقبال ، علامہ اقبال کی میکلوڈ روڈ کی رہائش گاہ اور ایوان اقبال میں کتابوں کی نمائش منعقد کیں - علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سلور جوبلی کے موقع پر بھی اکادمی کی کتب کی نمائش کی گئی اور پچاس فی صد رعایت پر کتب فروخت کے لیے پیش کی گئیں - ننکانہ صاحب میں کتب کی نمائش ننکانہ صاحب کو سکھ مذہب میں تقدس کا درجہ حاصل ہے - اس بار سکھوں کی ننکانہ صاحب آمد کے موقع پر اقبال اکادمی پاکستان نے بھی اپنی کتابوں کی نمائش کی - جس کو مقامی طلباء ، اساتذہ اور شائقین نے بہت پسند کیا اور سکھوں نے علامہ اقبال کی کتب کی خریداری کی - تاجکستان میں یوم اقبال تاجکستان میں اقبال سوسائٹی کے قیام کے بعد اقبالیات کی ترویج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے - تاجکستان کی ستمبر ۱۹۹۹ء میں گیارہ سو سالہ تقریبات عہد سامانیان منعقد ہوئیں - اس موقع پر تقربیات یوم اقبال بھی منعقد ہوئیں پاکستان سے خصوصی طور پر محترم ڈاکٹر جاوید اقبال ، محترم ناصرہ جاوید اقبال اور اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محترم محمد سہیل عمر کو بلایا گیا - تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں تاجکستان کی اکادمی برائے سائنس کے ممتاز سکالروں اور طلباء سے ملاقات کرائی گئی - پاکستان کے تاجکستان میں قائمقام سفیر عزت مآب جناب سجاد احمد سیہر اور دوسرے حضرات یوسف قربان ، جناب محمد شریف اور سی این آکرکے چیئرمین جوربیک نذیر،جناب ستار زادہ نائب وزیر خارجہ ،عبدالشکور ٹی - ایم نے شرکت کی - تاجکستان میں اقبالیات پر مفصل رپورٹ الگ سے پیش کی جا ئے گی - کلام اقبال کے چینی ترجمے کی اشاعت اقبال اکادمی پاکستان کے تعاون سے پیکنگ یونیورسٹی چین کے شعبہ فارسی کے پروفیسر لیو شیو شانگ نے مثنوی اسرار خودی کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جو کتابی صورت میں شائع ہو گیا ہے - پروفیسر لیو شیوشانگ اردو اور انگریزی زبان پر بھی پوری طرح مہارت رکھتے ہیں - چینی زبان میں زندہ رود کا بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے - مثنوی اسرار خودی کے چینی ترجمے کا دیباچہ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نائب صدر اقبال اکادمی پاکستان نے تحریر فرمایا ہے - وفیات پروفیسر سید کرار حسین بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے وائس چانسلر ، انگریزی ادبیات کے استاد اور ممتاز دانشور سید کرار حسین انتقال کر گئے - آپ میرٹھ میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی - میرٹھ کالج میں ہی انگریزی کے استاد کے طور پر تدریس کا سلسلہ شروع کیا - آپ نے اپنے سیاسی کیئریر کا آغاز طالب علمی کی زمانے میں خاکسار تحریک سے وابستگی سے کیا اور تمام زندگی اس سے وابستہ رہے - خاکساروں کی حمایت میں میرٹھ سے ایک اخبار بھی جاری کیا - جنوری ۱۹۴۸ء میں گاندھی کے قتل سے بد دل ہو کر پاکستان چلے آئے کیونکہ متعدد لیڈروں کے ساتھ انہیںبھی جیل جانا پڑا - پاکستان میں اسلامیہ کالج کراچی ، گورنمنٹ کالج کوئٹہ ، گورنمنٹ کالج خیر پور اور گورنمنٹ کالج میر پور خاص میں رہے - جامعہ ملیہ کراچی میں بھی تدریسی فرائض انجام دئیے - ۱۹۷۶ء میں آپ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے وائس چانسلر بنے - وہاں سے فارغ ہونے کے بعد اسلامک سنٹر کراچی سے وابستہ ہو گئے - آپ کی قرآن کے مطالعہ پر مشتمل تقاریر مطالعہ قرآن کے نام سے معروف ہوئیں - قرآن اور زندگی ان کی معروف کتاب ہے جبکہ ان کی تقاریر کی تلنحیصات بھی شائع ہوئیں - اقبالیات پر ان کی گہری نظر تھی ان کے اقبالیات پر بعض مقالات قدر کی نظر سے دیکھے گئے - پروفیسر حسنین کاظمی پاکستان کے ممتاز ادیب ، دانشور ، استاد اور اقبال اکادمی پاکستان کی مجلس حاکمہ کے سابق رکن پروفیسر حسنین کاظمی ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو وفات پا گئے - آپ ۱۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو کان پور یوپی میں پیدا ہوئے والد کا نام سید شبیر حسین کاظمی تھا - حلیم مسلم کالج سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد آپ نے کرائسسٹ چرچ کالج کان پور سے بھی تعلیم حاصل کی - پروفیسر حسنین کاظمی اور ان کے بڑے بھائی ایس - ایم - کاظمی نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں بڑا فعال کردار کیا ان کا گھر تحریک پاکستان کا مرکز تھا - ۱۹۴۶ء میں آپ کے بھائی نے کان پور میں ’’ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ‘‘ بنائی ، احمد جعفر مرحوم اس کے صدر تھے - پروفیسر حسنین کاظمی نے ۱۹۴۴ء تا ۱۹۴۶ء کے عرصے میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیے انتھک کام کیا اور مختلف عہدوں پر رہے اور ۱۹۴۶ کے انتخاب میں حصہ لیا - ۱۹۴۸ء میں آپ پاکستان آئے ۱۹۵۲ء میں اسلامیہ کالج سے بی - اے - آنرز اور ۱۹۵۴ء میں اسلامی تاریخ میں ایم - اے کیا - آپ نے جناح کالج اور نیشنل کالج اور ۱۹۶۶ء میں علامہ اقبال کالج کے قیام کی تحریک میں حصہ لیا - ۱۹۶۶ء میں آپ علامہ اقبال کالج کے پرنسپل بنے ۱۹۷۲ء میں کالج سرکاری تحویل میں چلا گیا آپ نیشنل کالج کے پرنسپل بھی رہے آپ ۱۹۹۶ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے - ریڈیو ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے علاوہ جنگ کراچی میں مقالات لکھے راہ روشنی ، منزل پاکستان ، تحریک پاکستان کی تاثراتی تاریخ اور سیرت پاک ان کی معروف کتب ہیں علامہ اقبال پر بھی آپ نے چند مقالات لکھے آپ کراچی سے شائع ہونے والے ایک علمی رسالے کے مدیر تھے اقبال اکادمی پاکستان کی مجلس حاکمہ کی رکنیت بھی آپ کا اعزاز تھا - پروفیسر محمد یونس حسرت پروفیسر محمد یونس حسرت کا انتقال ۱۳ ستمبر ۱۹۹۹ء کو ننکانہ صاحب میں ہوا وہیں ان کی رہائش تھی اور گورنمنٹ گورو نانک کالج ننکانہ میں طویل عرصہ تک اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دئیے آپ ۱۹۳۳ء میں ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے - تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ سو کتب تصنیف کیں - آپ بچوں کے ادیب کے طور پر اور پر اسرار جاسوسی کہانیوں کے خالق کی حیثیت سے معروف ہوئے متعدد درسی کتب بھی لکھیں آپ نے کلام اقبال اردو اور فارسی کے دو اشاریے مرتب کئے کلید کلام اقبال کے نام سے ان کا اشاریہ اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کیا جبکہ کلید کلام اقبال فارسی اور حکایات اقبال کے مجموعے منتظر اشاعت ہیں حکایات اقبال میں انہوں نے کلام اقبال میں موجود حکایات کو بچوں کے لیے سہل نثر میں لکھا ہے -