اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات تصورات ۱ - اقبال کا عالمی نظام پروفیسر محمد انور صادق ۱ ۲ - قرآن اور اقبال بریگیڈیئر(ر) حامد سعید اختر ۱۷ ۳ ۔ قرآن اور اقبال کا تصور زماں ظفر اقبال خان ۲۹ شعریات ۴ ۔ اردو غزل کی روایت میں اقبال کی انفرادیت پروفیسر ابوالکلام قاسمی ۵۷ شخصیات ۵ ۔عظمت ٹیپو ؒ ۔ علامہ اقبالؒ کی نظر میں ظفر الاسلام ظفر ۷۱ پاکستانیات ۶ ۔ تحریک پاکستان میں اقبال کا کردار ڈاکٹر محمد اسلم ۱۰۱ ۷ ۔ درجہ بندی سکیم (ترمیم و اضافہ کے ساتھ) خادم علی جاوید ۱۱۷ قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر محمد انور صادق استاد شعبہ نفسیات گورنمنٹ کالج ، جڑانوالہ - ۲ ۔بریگیڈیئر(ر) حامد سعید اختر صوبائی وزیر بلدیات حکومت پنجاب ،لاہور۔ ۳ ۔ظفر الاسلام ظفر ریسرچ سکالر شعبہ اردو بنگلور یونیورسٹی بنگلور ۴ - پروفیسرابوالکلام قاسمی استاد شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت - ۵ ۔ ڈاکٹر محمد اسلم ضیاء استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج، جھنگ ۔ پاکستان ۶ ۔ ظفر اقبال خان ایڈیٹر سہ ماہی اسلامائزیشن ، جھنگ ۔ پاکستان ۷۔خادم علی جاوید لائبریرین اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔  تصورات اقبال کا عالمی نظام پروفیسر محمد انور صادق اقبال کے عالمی نظام اور امریکہ کے عالمی نظام کے مابین بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اس لیے ان دونوںنظاموںکے درمیان تصادم کا رونما ہونا ناگزیر معلوم ہوتاہے جسے مغربی دنیا میں ’’تہذیبی تصادم‘‘ کا نام دیا جا رہاہے اور وہ اکیسویں صدی میں فیصلہ کن معرکہ آرائی کی پیش بندی کر رہی ہے امریکہ کا دانشور طبقہ بھی اس ممکنہ محاذ آرائی کا جواز فراہم کرنے کے لیے نظریہ سازی میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر ہارورڈ یونیورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسرسموئیل پی ہنٹنگٹن نے ’’سلامتی کا بدلتا ہوا ماحول اور امریکہ کے قومی مفادات‘‘ کے عنوان سے اپنے تحقیقی مقالہ میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اشتراکی نظامِ حکومت کی ناکامی کے بعد آئندہ عالمی سیاست میں قومی بقا کی جنگ زیادہ تر تہذیبی محاذوں پر ہی لڑی جائے گی۔ اس لیے ہمیں مغربی تہذیب کی حفاظت کی خاطر اپنے تہذیبی دشمنوں سے باخبر رہنا ہو گا ۔ پروفیسر موصوف کے نزدیک مغربی تہذیب کو کنفیوسش اور اسلامی تہذیبوں کے اتحاد سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لیے ہمیں ہر ایسے امکان کا خاتمہ کر دینا چاہیے جس کی بدولت یہ تہذیبی اتحاد قائم ہو سکتا ہو ۔ یاد رہے کہ پروفیسر ہنٹنگٹن کا یہ نظریہ ۱۹۹۳ء میں پہلی بار منظر عام پر آیا جبکہ اقبال نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ آج سے تقریباً چورانوے سال پہلے ہی پیش کر دیا تھا ۔ جیسا کہ وہ اپنے ایک مضمون ’’قومی زندگی ‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۴ء میں تحریر فرماتے ہیں:۔ ہاتھوں کی لڑائی کا زمانہ گزر چکا ۔ اب دماغوں ، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں کا وقت ہے اوریہ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کے زخم رسیدہ زنگاری اور کافوری مرہم سے ہر گز اچھے نہیں ہو سکتے ۱ ۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کو اپنے قیام یورپ (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ئ) کے دوران ہی میں احساس پیدا ہو گیا تھا کہ اس وقت دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یورپ کا موجودہ نظامِ تمدن جو سیاست میں لا دین وطن پرستی ، معیشت میں سرمایہ داری ، معاشرت میں مرد و زن کی مساوات مطلق اور مذہب میں ذاتی اختیار کی آزادی جیسے مہلک تصورات پر مشتمل ہے نہ صرف عالمی نظام بننے کی صلاحیت سے محروم ہے بلکہ وہ بنی نوع انسان کے موجودہ مسائل اور مشکلات کا واحد ذمہ دار بھی ہے ۔ اس لیے اقبال ، یورپ کے نظامِ حیات کو بدل کر اس کی جگہ دنیا میں ایک نئے منصفانہ عالمی نظام کو نافذ کرنے کے آرزو مند تھے۔ اقبال کی اس آرزو مندی کا ابتدائی خاکہ بانگ درا کی ایک غزل ۱۹۰۷ئ( یاد رہے کہ اس دور میں اقبال یورپ میں قیام پذیر تھے)، میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایک طرف مغربی نظامِ حیات کے مرنے کی نوید بھی ہے اور دوسری طرف ایک نئے عالمی نظام کے ظہور میں آنے کی امید بھی۔ اس لیے اقبال کی اس غزل کو بجا طور پر نئے عالمی نظام کا اعلامیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اہلِ مغرب کو واشگاف الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا : دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہووہ اب زرِ کم عیار ہو گا! تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپایدار ہو گا۲ اقبال کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یورپ سے واپس آئے ہوئے ابھی سات سال بھی نہ ہوئے تھے کہ مغربی تہذیب و تمدن کا خود اپنے ہاتھوں سے خودکشی کرنے کا عمل شروع ہو گیا یعنی ۱۹۱۴ء میں یورپی اقوام کے مابین جنگ عظیم اوّل چھڑ گئی ۔ اقبال کے نزدیک اس جنگ کی بنیادی و جوہات خود مغربی تہذیب کے خمیر میں دریافت کی جا سکتی ہیں جن میں سے ایک وجہ حکومت اور مذہب کی جدائی کا تصور بھی ہے جس کی بدولت مغربی نظامِ حیات روحِ اخلاق سے عاری ہو گیا اور اس کا رخ دہر یانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ بہر حال اقبال اپنے عمیق تر تہذیبی شعور کی بدولت اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی زمانے کا یورپ نہ صرف کسی نئے عالمی نظام کو جنم دینے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے بلکہ خود اس کی اپنی اجتماعی قدروں کا داخلی انتشار بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے جس کی وجہ سے فرد اور معاشرہ دونوں کو شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ اس لیے بقول اقبال ’’ اس وقت دنیا کو حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہونے کی ضرورت ہے‘‘۳۔ لیکن یورپ کا نظامِ حیات جو خود شکست خوردگی کا شکار ہے دنیا کو دوبارہ زندہ کرنے کی صلاحیت سے قاصر ہے۔ اقبال نے یورپ کی پہلی عالمگیر جنگ کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: میں نے آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں ۔ اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتا تھا ۔ یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے۔ اس سے چھ سال بعد یعنی ۱۹۱۴ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہو گئیں ۴۔ اقبال کو جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں، مغربی نظامِ حیات کے یورپی عناصر کی موجودگی میں جو سیاست میں وطن پرستی اور حکومت و مذہب کی علیحدگی ، معیشت میں سرمایہ داری ، معاشرت میں مرد و زن کی مساوات مطلق اور مذہب میں ذاتی اختیار کی آزادی جیسے مہلک تصورات پر مشتمل ہے، نئے عالمی نظام کے فروغ کا خواب پورا ہوتے دکھائی نہیں دیتا اس لیے انہوں نے اس نظام کے تمام تشکیلی عناصر کو اپنی جارحانہ تنقید کا نشانہ بنایا اور دنیا بھر کو اس کے اندرونی کھوکھلے پن سے آگاہ کیا۔ مد راس(بھارت)کی مسلم خواتین کے سپاس نامہ کے جواب میں اقبال نے بجا طور پر فرمایا؛ ’’یورپین تہذیب باہر ہی سے دیکھی جا رہی ہے ۔ کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوں‘‘۔ لیکن اقبال اس وقت کے معروضی حالات کے ماتحت مغربی تہذیب کے امریکی عنصر کے بارے میں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور اس سے توقع رکھتے تھے کہ شاید آگے چل کر یہ عنصر نئے عالمی نظام کی تعمیر و تشکیل میں معاون ثابت ہو جیسا کہ وہ پیام مشرق کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں: امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتا ہے۵۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی دُور رس نگاہوں نے امریکہ کی عالمی قیادت کے امکانات کو بیسویں صدی کے آغاز ہی میں بھانپ لیا تھا جس کا اظہار ان کے ایک تعزیتی خط سے ہوتا ہے ۔ جو انہوں نے ۱۹۰۲ء میں ڈاکٹر سٹراٹن کی وفات پر ان کی بیگم کے نام لکھا تھا ۔ اس خط میں وہ امریکہ کے عالمی کردار کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بلامبالغہ یہ صرف انہی کی شخصیت کا اثر تھا جس نے ہمیں اہل امریکہ اور ان کے شریفانہ و مخلصانہ (NOBLE AND DISINTERESTED CHARACTER)کردار کی طرف مائل کیا۔ وہ کینیڈا کے باشندے تھے لیکن ہم انہیں امریکی سمجھتے رہے کیونکہ یہاں کے لوگ اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر سٹراٹن کی شخصیت ہی سے متاثر ہو کر بعض لوگ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک میں بھی ہوں۶۔ اسی طرح تمدن ہی کے حوالے سے امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال ۱۹۰۴ء میں اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’قومی زندگی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: حال کی قوموں کی طرف نظر دوڑائو تو معلوم ہو گا کہ امریکہ اور آسٹریلیا کی اصلی قومیں ایک اعلیٰ تر تمدن و تہذیب کے سیل رواں کے آگے قریباً قریباً نیست و نابود ہو گئی ہیں ۷۔ اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جن کے تحت اقبال کے دل میں یہ تاثر یا توقع پیدا ہوئی کہ عالمِ اسلام کے بجائے امریکہ ان کے نئے عالمی نظام کے خواب کی تکمیل میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے حالانکہ مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل میں وہ بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار This was the time when Iqbal visualized a new world order emerging through the muslim countries. 8 کی بات کر رہے تھے تو پھر یہ بیچ میں امریکہ بہادر کہاں سے آ گیا؟ راقم کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ مذکورہ بالا غزل کے وہ الہامی خیالات ہیں جن کی کم از کم اس وقت کے معروضی حالات سے تائید نہیں ہو رہی تھی۔ جیسا کہ خود اقبال کے اپنے الفاظ ’’اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتا تھا‘‘سے ظاہر ہوتا ہے پہلی جنگِ عظیم سے قبل کے مغرب کے حالات جن میں اقبال کی یہ غزل تخلیق ہوئی ، پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیفہ عبدالحکیم نے تحریر کیا: پہلی جنگِ عظیم سے قبل تک برٹش امپیریلزم بڑے زوروں پر تھی ۔ انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلاواسطہ نصف دنیا پر قابض تھے۔ انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ پر نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا ۹۔ اگر ایک طرف یورپ کے معروضی حالات اس غزل کے مفاہیم کی بظاہر تردید کر رہے تھے تو دوسری طرف عالمِ اسلام کے حالات بھی اس کے مضامین سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار بلادِ اسلامیہ کے ناگفتہ بہ معروضی حالات کے پیشِ نظر اقبال کی اس غزل کو شاعرانہ وجدان کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: Was this a poetic intution, at a time when muslim ummah was facing decadence everywhere? 10 جس طرح جنگِ عظیم اوّل سے پہلے کے حالات اس غزل کے حوالے سے اسلام کے عالمی نظام کی بنیاد بننے کے لیے ساز گار نہیں تھے ۔ اسی طرح بعد کے حالات بھی مسلمانوں کے حق میںبہتر نہ تھے ۔ پہلی جنگِ عظیم کا انجام مسلمانوں کے حق میں بہت افسوسناک ہوا۔ طاقتور قوموں کا سارا نزلہ عالمِ اسلام پر گرا۔ ترکی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اتحادیوں نے اس کے مقبوضات کی بندر بانٹ کر لی۔ ترکی کا مشرقی حصہ روس کے ہاتھ لگا اور مغرب کے مشرقی صوبے بلقان ، ہنگری اور بلغاریہ وغیرہ مکمل طور پر خود مختار قرار دے دئیے گئے ۔ ایران اور شام عملاً فرانس کے قبضے میں چلے گئے ۔ مصر اور عراق پر برطانیہ نے اپنا تسلط جما لیا ۔ اس طرح عالمِ اسلام کے حصے بخرے ہو گئے ۱۱ یہ تھے وہ معروضی حالات جنہوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد امریکہ کو دنیا میں ایک بین الاقوامی طاقت کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ اقبال اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یورپ کی جنگِ عظیم ایک قیامت تھی، جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اوراب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے ۱۲۔ اب اگر پہلی جنگ عظیم کے حالات و واقعات اور اقبال کے پیامِ مشرق کے دیباچہ کے اس مخصوص حصے کے بین السطور کا جس میں انہوں نے پرانی دنیا کی تباہی ، آئن سٹائن اور برگساں کے حوالے سے نئی دنیا کے ظہور اور امریکہ کی عالمی قیادت کے امکانات پر بات کی ہے۔ کا اگر بنظر غور مطالعہ کیا جائے تو اقبال کی مارچ ۱۹۰۷ء کی الہامی غزل کے مضامین کے برعکس ، عالم اسلام کے بجائے ، امریکہ سے نئے عالمی نظام کے فروغ کے سلسلے میں توقع باندھنے کا فیصلہ ، معروضی حالات کے مطابق درست دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ اس وقت تک یورپ اور عالم اسلام دونوں ہی عالمی قیادت کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔ اب تک کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کے خیال میں جنگِ عظیم اوّل کے بعد مغربی تہذیب و تمدن مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اس کے کھنڈرات سے ایک نیا ثقافتی اور سیاسی منظر نامہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ آئن سٹائن اور برگساں کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے نیز اس خاکے میں امریکہ سے مزید رنگ بھرنے کی توقع وابستہ کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ وہ ثقافتی اعتبار سے ایسا کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر بہرہ ور دکھائی دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ اقبال کی توقعات کے مطابق اس خاکے میں رنگ بھر کر اسے مزید جاذبِ توجہ بنا رہا ہے یا اسے مسخ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جب ہم اس اعتبار سے امریکہ کے موجودہ عالمی کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ نہ صرف اقبال کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا بلکہ وہ ایک ایسے فلسفۂ حیات پر عمل پیرا ہے جو اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام کے برعکس بھی ہے اور جس کا انجام تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ یہ فلسفہ ٔ حیات ولیم جیمز اور جان ڈیوی کا فلسفۂ نتائجیت (Pragmatism) ہے ۔ اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام کے مطابق امریکہ کا متوقع کردار یہ تھا کہ وہ اپنی مستحکم بین الاقوامی ساکھ کی بدولت اخوت، حریت اور مساوات جیسے اصولوں کی حکمرانی اور بالا دستی قائم کرنے کے لیے دنیا کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا لیکن اس کا موجودہ کردار نہ صرف ان اصولوں کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ وہ خود غرضی ، لوٹ کھسوٹ اور امیر و غریب میں تمیز روا رکھنے جیسی قدروں کے فروغ کا باعث بھی بن رہا ہے جس سے دنیا کا دامن امن و سلامتی اور عدل و انصاف سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کا بنایا اور اپنایا ہوا راستہ نتائجیت کا فلسفہ ہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کی اعلیٰ قیادت کے موجودہ عالمی کرداروں کی بہتر تفہیم کے لیے فلسفہ نتائجیت کو سمجھنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سی اے قادر کا خیال ہے کہ : بیسویں صدی کے پہلے ربع میں نتائجیت امریکہ میں بہت مقبول فلسفہ تھا۔ نتائجیت کو امریکی فلسفہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اسی فلسفہ سے امریکہ کا ذہن منکشف ہوتا ہے ۱۳۔ نتائجیت کا فلسفہ ہی اصل میں امریکہ کی پہچان ہے جس کے آئینے میں امریکی عوام کے مزاج، ان کی امنگوں اور قومی عزائم کو بے نقاب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ صداقت کی ایک نئی تعریف پیش کرتا ہے جسے ولیم جیمز نے اس لیے وضع کیا کہ امریکی عوام کے روّیوں اور ان کے قومی مقاصد کا جواز پیدا کیا جا سکے: اس نظریے کے تحت اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ انسان عملی فائدہ حاصل کرے اور فلسفیانہ سوالات اور حقیقی سچائیوں کی تلاش نہ کرے اس طرح نتائجیت کا فلسفہ امریکی سرمایہ دار حکمران طبقے کی ضروریات پر پورا اترتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے شروع سے آج تک نتائجیت امریکہ کا مقبول ترین فلسفہ رہا ہے ۱۴۔ اس لیے نتائجیت کو بجا طور پر امریکہ کا قومی فلسفہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جس کے تحت وہ پوری دنیا کے مادی وسائل پر کنٹرول حاصل کر کے اپنے سرمایہ دارانہ عزائم کی تکمیل میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہے۔ نتائجیت کے فلسفہ کو بنیادی طور پر صداقت کا فلسفہ قرار دیا جاتا ہے جس کے مطابق صداقت کا معیار کسی خیال یا تصور کی عملی افادیت ہے۔ اگر وہ ہماری رہنمائی تسلی بخش نتائج کی طرف کرتا ہے تو وہ خیال یا تصور درست ہو گا بصورتِ دیگر اسے غلط قرار دیا جائے گا ۔ نیز اس نظریے کے مطابق درست اور غلط کے تصورات مستقل نہیں ہوتے بلکہ مقامی اور اضافی ہوتے ہیں جو حالات اور مقام بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔یوں یہ فلسفہ عملاً افادیت پسندی کا فلسفہ بن جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر دنیا میں جہاں کہیں امریکہ کے عالمی مفادات کسی فوجی آمریت سے وابستہ ہوں وہاں وہ فوجی آمریت کی حمایت کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا اورجہاں اس کے مفادات جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہوں وہاں وہ فوجی آمریتوں کا مخالف بن کر خود کو انسانی حقوق کی سربلندی کا چمپیئن ثابت کرتا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے ایٹم بم چونکہ امریکہ کے مفادات کے مطابق ہیں اس لیے وہ درست ہیں لیکن پاکستان کی پر امن جوہری حکمتِ عملی چونکہ امریکہ کے مفاد میں نہیں اس لیے وہ غلط ہے ۔ یہ ہے ولیم جیمز اور جان ڈیوی کافلسفہ نتائجیت جس پر امریکہ عمل پیرا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ نے ولیم جیمز اور جان ڈیوی کے فلسفہ نتائجیت کو قبول کرنا کیوں ضروری خیال کیا۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمارا امریکی عوام کی نفسیات کو جاننا ضروری ہے۔ اس کی پہلی وجہ امریکی لوگوں کا ابھی تک اپنی الگ شناخت نہ ہونے کے باعث شدید طور پر احساسِ کمتری کا شکار ہونا ہے ۔ وہ ابھی تک اپنے یورپی آباد کار اجداد کی ثقافتی غلامی سے نکل کر علیحدہ قومی شناخت کروا نے کے عمل میں مصروف ہیں۔ امریکی عوام کو ولیم جیمز کے فلسفہ نتائجیت کی شکل میں اپنی علیحدہ شناخت نظر آئی ۔ ولیم جیمز کے فلسفہ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ول ڈیورنٹ نے لکھا ’’ولیم جیمز کی آواز ، اس کا بیان اور محاورہ تمام تر امریکی ہے ‘‘۔ جبکہ جارج ستنیانا پر اسی مصنف کا تبصرہ کچھ یوں ہے ’’گمانِ غالب یہ ہے کہ اس کے بعد ستنیانا جیسا مفکر پیدا نہ ہو گا کیونکہ اس کے بعد امریکہ کا فلسفہ امریکی قلم بند کریں گے ، یورپ کے رہنے والے نہیں ۱۵‘‘۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جو قوم خود شناسی کے جنون میں اپنے یورپی آباو اجداد کی ثقافتی بالا دستی تسلیم نہ کرتی ہو وہ بھلا تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک کے شاعر کے مشوروں کو کیسے قبول کر سکتی ہے۔ امریکہ میں فلسفۂ نتائجیت کے مقبول ہونے کی دوسری وجہ وہاں کے لوگوں کی تاجرانہ ذہنیت ہے۔ وہ آئن سٹائن اور برگساں کے مابعد الطبیعیاتی مسائل میں الجھنے کے بجائے فوری ، واقعی اور حقیقی مفاد کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے نتائجیت کا فلسفہ امریکی مزاج سے زیادہ قریب ہے۔ ہونیکر کے نزدیک ’’ یہ تجارت پیشہ لوگوں کا فلسفہ ہے اور اس سے بنئے پن کی بو آتی ہے‘‘۔ امریکہ در حقیقت عملی آدمیوں کا ملک ہے، عملی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ملک اور سخت گیر تجارت کرنے والوں کا ملک ۔ ان کے نزدیک توخدا کا تصور بھی افادی نقطہ نظر کا حامل ہے ۔ بقول سید علی عباس جلال پوری ’’اس فلسفے میں اگر خدا کی ہستی پر ایمان لانے سے انسان کو کسی قسم کا بھی فائدہ پہنچ سکے تو اس پر ایمان لانے میں چنداں مضائقہ نہیں گویا خدا پر ایمان لانا اس لیے ضروری نہیں کہ وہ فی الواقع موجود ہے بلکہ اس لیے لازم ہے کہ اس عقیدے سے انسان کو عملی فائدہ پہنچ سکتا ہے ۱۶ ‘‘۔ اس لیے امریکیوں کے نزدیک ایسے اعلیٰ و ارفع قسم کے افکار و خیالات جن کی کوئی عملی افادیت نہ ہو بے فائدہ ہوتے ہیں۔ امریکی عوام کے عملی رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے ول دیورنٹ نے بجاطور پر لکھا ہے: یہ فلسفہ (نتائجیت) دراصل نوجوان امریکہ کا یورپ کی مابعد الطبیعیات اور سائنس کے خلاف ایک مدافعانہ ردِ عمل تھا ۱۷۔ نتائجیت کا فلسفہ اپنی تاجرانہ فطرت کی بنا پر جوہر شے کی Cash Value دیکھتا ہے کسی فرد یا قوم کو امیر تو بنا سکتا ہے مہذب نہیں بنا سکتا ۔مہذب بننے کے لیے کسی اعلیٰ نصب العین کا ہونا ضروری ہے جو نہ صرف فرد یا قوم کی مادی ضرورتیں پوری کر تا ہو بلکہ ان کے اخلاقی اور روحانی تقاضوں کی تسکین کا سامان بھی فراہم کرتا ہو ۔ یہ صلاحیت نتائجیت کے فلسفے میں نہیں ہے اس لیے وہ کسی مستحکم تہذیب یا نظام کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ اس فلسفے نے امریکیوں کو امیر تو بنا دیا ہے مہذب نہیں بنایا۔ اس حقیقت کا اعتراف ایک امریکی دانشور نے خود ان الفاظ میں کیا ہے: ہمیں اتنا وقت نہیں ملا کہ اپنے ملک کا کوئی ادب اور ایک پختہ فلسفہ پیدا کر سکیں ۔ دولت مند بننا پہلی ضرورت تھی۔ کیونکہ ایک قوم کو فلسفہ پیدا کرنے سے پہلے زندہ رہنے کی ضرورت ہے ہمارے ذہن ہمارے جسموں کے ساتھ اور ہماری ثقافت ہماری دولت کے ساتھ ساتھ ترقی کرنا شروع کردے گی ۱۸ ۔ یہاں اس امر کی نشان دہی کرنا بھی ضروری ہے کہ امریکیوں کا تخلیقِ ثقافت کا تصور بھی محدود تر ہے جس کی توثیق ول ڈیورنٹ کے مندرجہ ذیل خیال سے ہوتی ہے۔ ’’ہم دولت مند ہو چکے ہیں اور دولت فنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ۱۹ ‘‘حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ کسی قوم کا نظریہ ہی اس کی تہذیب و ثقافت کی تخلیق کا ذمہ دار ہوتا ہے نہ کہ دولت کی فراوانی ۔ امریکہ اپنے قومی فلسفہ کے بنیاد پر دنیا میں نیا عالمی نظام نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ وہ اس میںکامیاب ہوتا ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ تو آنے والی صدی میں ہو گا ۔ مگر ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جو فلسفہ امریکہ میں کسی مستحکم تہذیب و ثقافت کو جنم نہیں دے سکا وہ دنیا کو کیا عالمی ثقافت یا نظام دے سکے گا ۔ امریکہ اگر امن و سلامتی، عدل و انصاف اور انسانی بھائی چارے کی بنیاد پر نیا عالمی نظام متعارف کروانا چاہتا ہے تو راقم کے خیال میں اسے اپنی بین الاقوامی حکمت عملی کا رشتہ اقبال کے تصورات سے جوڑنا پڑے گا۔ اسی صورت میں یہ نظام عالمی ثقافت کی بنیاد بن سکے گا ۔ لیکن ابھی تو وہ نیو ورلڈ آرڈر کی راہ میں حائل ہونے والی ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے میں مصروف ہے جن میں سے ایک رکاوٹ امریکیوں کی نظر میں مسلمانوں کی ’’بنیاد پرستی‘‘ ہے حالانکہ اسلام میں بنیاد پرستی کی گنجائش نہیں وہ تو ایک ترقی زا مذہب ہے۔ اس امر کا قوی امکان ہے کہ اقبال کے افکار و تصورات کو ’’مسلم بنیاد پرستی ‘‘کا حصہ قرار دے کررّد کر دے ۔ موجودہ حالات میں امریکہ کے نئے عالمی نظام کے بارے میں اقبال کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام وائے تمنائے خام ! وائے تمنائے خام ۲۰ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو کیا وہ امریکہ کی موجودہ عالمی روش کو دیکھتے ہوئے اپنی توقع پر قائم رہتے جو پہلی جنگِ عظیم کی فضا میں ابھری اور جسے انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے امریکہ سے وابستہ کر لیا کہ یہ ملک چونکہ ابھی تک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتا ہے ۔ اس لیے شاید یہ نئے عالمی نظام کے فروغ میں مددگار ثابت ہو۔ فکرِ اقبال کی روشنی میں اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اور ہم بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اقبال کی توقع پر پورا نہیں اترا ۔ تو کیا اب اقبال کا نئے عالمی نظام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ! اقبال کا یہ خواب ضرور پورا ہو گا کیونکہ بقول پروفیسر محمد عثمان ’’اقبال کے دوسرے خوابوں کی طرح یہ خواب بھی پورا ہونے کے لیے دیکھا گیا ہے ‘‘۔ مگر اس کی تکمیل امریکہ کے ہاتھوں نہیں، اس قوم کے ہاتھوں ہوگی جس کے بارے میں اقبال نے یہ شعر کہا تھا بشرطیکہ وہ قوم ان شرائط کو پورا کر دے جو اس شعر میںبیان ہوئی ہیں: سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ۲۱ اقبال دنیا بھر میں ،۱۔ احترام انسانیت کی بحالی ، ۲۔عدل و انصاف کی سر بلندی، ۳ ۔ امن و سلامتی کے فروغ ، ۴۔ آزادی و حریت کی محافظت کے پر جوش حامی اور ان تھک مجاہد تھے ، ۵ ۔وہ قوم پرستی کے مخالف، ۶۔ بنی نوع انسان کی وحدت کے علمبردار تھے۔ یہ ہیں وہ اصول جن پر اقبال اپنے نئے عالمی نظام کو استوار کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو اپنے ایک نشری پیغام میں اقبال نے فرمایا : انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک دنیا کی علمی قوتیں اپنی توجہ احترامِ انسانیت کے درس پر مرکوز نہ کر دیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی رہے گی۲۲‘‘ ۔ اقبال نے اپنے اس پیغام میں اگر ایک طرف تمام دنیا کی علمی قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احترامِ انسانیت کی سربلندی کے لیے مل جل کر کام کریں تو دوسری طرف عالمی حکمرانوں کے حق میں دعا بھی کی ہے کہ خدا انہیں اس مقصد کے حصول کی توفیق عطا فرمائے ۔ اقبال جو خود بھی اس دنیا کی ایک بہت بڑی علمی قوت تھے ، احترام انسانیت کی سر بلندی کی خاطر تمام عمر سر گرمِ عمل رہے ۔ کیا اقبال کا یہ شعر ان کے جذبے کا ترجمان نہیں ہے؟ آدمیت احترامِ آدمی با خبر شو از مقام آدمی۲۳ احترامِ انسانیت کی سربلندی اوربنی نوع انسان کی وحدت کا حصول ممکن بنانے کی خاطر اقبال دنیا میں ایک ایسا نیا عالمی نظام قائم کرنے کے آرزو مند ہیں ۔ جس کا دامن معاشی نا ہمواریوں رنگ و نسل کے امتیازات ، مذہبی اور لسانی منافرت اور جغرافیائی حد بندیوں سے پاک صاف ہو اور جہاں ایک ایسی تہذیب و ثقافت فروغ پائے جس کی بنیاد عالمگیر اصولوں پر رکھی گئی ہو اور جس میں دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی اعتماد ، تعاون اوربھائی چارے کی فضا قائم کر نے میں مدد ملتی ہو۔ پروفیسر محمد عثمان نے اقبال کے آرزو کردہ اسی نئے عالمی نظام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اقبال فقط مفکرِ پاکستان نہیں وہ ان معدد دے چند ابنائے آدم میں سے ہیں جنہوں نے عالمی ثقافت اور عالمی برادری کا خواب دیکھا ہے اور اقبا ل کے دوسرے خوابوں کی طرح یہ خواب بھی پورا ہونے کے لیے دیکھا گیا ہے ۲۴۔ اقبال کے نزدیک نئے عالمی نظام کی تشکیل کے لیے آج انسانیت کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ اوّل کائنات کی روحانی تعبیر ، دوم فرد کا روحانی استخلاص یعنی ہر قسم کے جبر اور توہم پرستی سے نجات اور سوم ، وہ بنیادی اصول جن کی نوعیت عالمگیر ہو اور جن سے انسانی معاشرے کا ارتقاء روحانی اساس پر ہو سکے ۔ اگرچہ یہ تینوں اصول اساسی طور پر اسلام میں موجود ہیںتاہم اقبال نے جدید ذہن کو براہِ راست اس طرح متوجہ نہیں کرایا بلکہ اسے آئن سٹائن اور برگساں کے نظریات پر غور و فکر کا مشورہ دیا ہے تاکہ مکمل بے تعصبی سے مشترکہ انسانی مقصد کو حاصل کیا جا سکے یعنی ایک مشترکہ نئے عالمی نظام کا فروغ ۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال تحریر فرماتے ہیں : آئن سٹائن کے نظریے نے کائنات کو ایک نئے روپ میں پیش کر دیا ہے اور ہم محسوس کر رہے ہیںکہ اس طرح ان مسائل پر بھی جو فلسفہ اور مذہب میں مشترک ہیں نئے نئے زاویوں کے ماتحت غور کرنا ممکن ہو گیا ہے ۲۵ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کائنات کا وہ کون سا نیا روپ ہے جس کے ماتحت فلسفے اور مذہب کے مشترکہ مسائل پر غور کرنا ممکن ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آئن سٹائن کے نظریے سے پہلے کائنات کی تعبیر مادیت کی اساس پر کی جاتی تھی لیکن بقول ’’اقبال مادے کے تصور پر سب سے زیادہ کاری ضرب عہدِ حاضر کے مشہور طبیعی آئن سٹائن کے ہاتھوں لگی جس کے اکتشافات نے فکرِ انسانی میں بڑا دور رس انقلاب پیدا کر دیا ہے‘‘۔ اس نظریے کی رو سے مادہ اب موجود فی الخارج اور مکان کا محتاج یعنی ایک سخت ، بسیط اور بدیہی شے نہ رہا ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ باہم دگر مربوط حوادث کے ایک نظام میں بدل گیا جس سے جمود کا قدیم تصور ختم ہوا ۔ اور یوں کائنات کی مادی تعبیر کی جگہ روحانی تعبیر کی راہ ہموار ہوئی۔ عقل و وجدان کے حوالے سے کچھ اسی قسم کے نتائج کی طرف برگساں نے ہماری رہنمائی کی۔ اقبال انہی وجوہات کی بنیاد پر جدید ذہن کو ان دونوں مفکرین کا مطالعہ کر کے کائنات کی روحانی تعبیر کی دعوت دیتے ہیں۔ کائنات کی روحانی تعبیر کے علاوہ اقبال نئے عالمی نظام کی نشو و نما کے لیے ایک ایسے معاشرے کے قیام کے آرزو مند ہیں جہاں ہر فرد جبر و استحصال اور توہم پرستی سے آزاد ہو کر ادراک بالحواس کی مدد سے تسخیرِ کائنات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مذہبی مشاہدات کی روشنی میں روحانی زندگی کی تکمیل کے عمل میں بھی مصروف رہ سکے ۔ اقبال کے اس معاشرہ میں تسخیرِ کائنات سے حاصل ہونے والے مادی فوائد کو دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کی اجازت نہیں ہو گی ۔ بلکہ انہیں بنی نوع انسان کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جائے گا ۔ گویا اقبال کے عالمی نظام میں افراد ہوں یا اقوام سائنسی قوت کی بناء پر ایک دوسرے پر غلبہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اقبال کو آئن سٹائن کے تصورات میں ایسے ہی نظام کی ایک جھلک دکھائی دی تھی۔ اس لیے وہ ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ہیوم کی تنقید کا مطلب یہ تھا کہ علومِ اختیاری یعنی سائنس کا دامن قوت کے تصور سے پاک ہو۔ آئن سٹائن کے تصورِ کائنات سے جو اس نے ریاضیات کے نقطہ نظر سے قائم کی گویا اس عمل کی جس کی ابتداء ہیوم نے کی تھی، تکمیل ہو گئی جیسا کہ ہیوم کی تنقید کا تقاضا تھا۔ اس نظریے نے قوت کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ۲۶ ۔ اقبال کے نئے عالمی نظام کی تعمیر و تشکیل کا تیسرا اہم رکن ایسے آفاقی نوعیت کے اصولوں کی دریافت ہے جو روحانی بنیادوں پر انسانی معاشرے کے ارتقا میں ہماری رہنمائی کر سکیں ۔ اقبال کے نزدیک بنی نوع انسان کی وحدت ہی وہ بنیادی اصول ہے جس پر عالمگیر انسانی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکتا ہے نیز بنی نوع انسان کی وحدت کا یہ اصول توحید کے تصور سے حاصل ہوتا ہے اور اخوت ، حریت اور مساوات اسی اصولِ توحید سے متفرع ذیلی تصورات ہیں۔ اقبال یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو لاہور ریڈیو سے اپنی ایک نشری تقریر میں عالمِ انسانیت سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو رنگ و نسل و زبان سے بالاتر ہے ۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت ، اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوںکو مٹایا نہ جائے گا ۔ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو گا جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا۔ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا ۔ اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندئہ معنی نہ ہوں گے۲۷ ۔ اقبال کا مجوزہ نیا عالمی نظام در حقیقت اسلام ہی کا نیا عالمی نظام ہے۔ اس لیے وہ امریکہ کے مروجہ نئے عالمی نظام سے مفاہمت نہیں کر سکتا کیونکہ ان دونوں کے بنیادی اصولوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت اور مذہب کی جدائی کا تصور امریکہ کے مروجہ نئے عالمی نظام کا ایک اہم رکن ہے جس کے مطابق ہر وہ حکومت جو اپنے ریاستی معاملات میں مذہب سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتی ہے نہ صرف اسے دقیانوس ، تنگ نظر اور بنیاد پرست جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے بلکہ دنیا کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام میں دین و سیاست کی علیحدگی کا تصور مٹا دیا جائے گا اور ان دونوں کی یکجائی سے بنی نوع انسان کی بقا ء اور حفاظت کا سامان فراہم کر کے دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں اقبال کے نئے عالمی نظام میں مغرب کی جسمانی جمہوریت کی جگہ جس میں صرف بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، اسلام کی روحانی جمہوریت کو فروغ دیا جائے گا کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے عالمِ انسانی کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی بدولت ایک عالمی برادری کی تشکیل میں مدد مل سکتی ہے۔ دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نا بصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری اسی میںحفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری۲۸ اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام میں جہاں نظامِ حکومت اور طرز سیاست کو یکسر تبدیل کر دیا جائے گا وہاں نظامِ معیشت میں بھی انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی ۔ جن میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہو گی کہ مال و دولت کو ہر قسم کی بد عنوانی سے پاک کر کے حکمرانوں اور صاحبِ ثروت لوگوں کو اس کا امین بنا دیا جائے گا اور وہ اسے بنی نوع انسان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر صرف کریں گے ۔ نیز سرمایہ داری کی قوت کو امریکہ کے مروجہ نئے عالمی نظام کی طرح نہ تو حدِ اعتدال سے متجاوز ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی روسی بالشوزم کی طرح معاشی نظام سے خارج کیا جائے گا ۔ بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق میانہ روی کا راستہ اختیار کیا جائے گا ۔ اسی طرح اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام میں انسانوں کا معاشرتی نظام بھی مختلف ہو گا جس میں ہر فرد ، عورت ہو یا مرد ، اپنے اپنے محاذ پر سرگرمِ عمل ہو گا۔ اقبال کے نزدیک عورت کا بنیادی کردار امومت کے فرائض ادا کرنا ہے جبکہ روز گار کی فراہمی مرد کا بنیادی فریضہ ہے تاہم جہاں تک مساوات کا تعلق ہے اسلام کے اندر مردو زن میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں کے حقوق برابر ہیں ۔ اقبال مغربی نظامِ تمدن میں عورت کی معاشی آزادی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مغربی دنیا میں جب عورتوں نے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کسبِ معاش کی جدوجہدمیں مرد کا ساتھ دینا شروع کیا تو خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی یہ اقتصادی حریت دولت کی پیداوار میں معتدبہ اضافہ کرے گی لیکن تجربہ نے اس خیال کی نفی کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس خاندانی وحدت کے رشتہ کو جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو اعظم ہے یہ حریت توڑ دیتی ہے۲۹ ۔ اقبال کا نئے عالمی نظام کا خواب جو انہوں نے مارچ ۱۹۰۷ء میں قیام انگلستان کے دوران میں دیکھا تھا۔ بنیادی طور پر تین باتوں پر مشتمل ہے ۔ (۱) زوالِ مغرب کی پیش گوئی (۲) اسلام اور ملت اسلامیہ کے احیائے نو کی نوید (۳) اور اس سلسلے میں اقبال کی طرف سے فکری رہنمائی فراہم کرنے کا اعلان ۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا یہ خواب نو ّے برس گزرنے پر بھی ابھی تک شرمندۂ تعبیرنہیں ہوا ۔ مغربی نظامِ تمدن اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے فرق صرف یہ پڑا ہے کہ اب اس کی قیادت یورپ کے بجائے امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح اسلام اورملتِ اسلامیہ بدستور سیاسی ابتری ، معاشی بدحالی اور معاشرتی انحطاط کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے نیز وہ خود انحصاری کی منزل سے دور ابھی تک غیروں کی محتاجی پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال کی بنیادی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے مسلسل تعلیماتِ اقبال کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ راقم کے خیال میں اگر مسلمان اکیسویں صدی میں غیروں کی محتاجی سے آزاد خود انحصاری کی آبرو مندانہ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بہر طور تعلیماتِ اقبال سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی ۔ اس سلسلے میں اقبال مارچ ۱۹۰۷ء کی تاریخی غزل میں مسلمانوں کو آمادئہ انقلاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا۳۰ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف اقبال کا مجوزہ نیا عالمی نظام ہے اور دوسری طرف امریکہ کا مروجہ نیا عالمی نظام اور ان دونوں کے درمیان بیسویں صدی کا درماندہ مسلمان، جسے اکیسویں صدی میں داخل ہونے کا کوئی مناسب راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔ اس لیے تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہمیں اقبال کے مجوزہ نئے عالمی نظام کے مطابق اخوت، حریت اور مساوات کی زندگی بسر کرنا ہے یا امریکہ کے مروجہ نئے عالمی نظام کے تحت سیاسی غلامی ، اقتصادی محتاجی اور معاشرتی ابتری کی زندگی ۔میرے خیال میں مسلمانوں کے جملہ مسائل کا حل اقبال کے نئے عالمی نظام میں ہے۔ اس لیے اس کے نفاذ اور ترویج و اشاعت کے لیے بھرپور کوشش کرنا چاہیے اس سلسلے میں ابتدائی اقدام کے طور پر اقبال مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام ‘‘ میں لکھتے ہیں : بحالتِ موجودہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اممِ اسلامیہ میں ہر ایک کو اپنی ذات میں ڈوب جانا چاہیے۔ انہیںچاہیے کہ اپنی ساری توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دیں حتیٰ کہ ان سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہوریتوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کر لیں ۳۱۔ پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقطِ حفظِ حرم کا اِک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر۳۲ حواشی ۱ ۔ اقبال ،علامہ محمد، مقالات اقبال (مرتبہ عبدالواحد معینی) آئینہ ٔ ادب چوک مینا ر انارکلی لاہور، ص ۷۵ ۲ ۔ اقبال ، علامہ محمد،کلیات اقبال (اردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ، ص ۱۴۱ ۳ ۔ اقبال ،علامہ محمد، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ نذیر نیازی ) بزمِ اقبال کلب روڈ ، لاہور، ص ۲۹۲ ۴۔ فاروقی ،محمد حمزہ، سفر نامۂ اقبال، مکتبۂ معیار کراچی ، ۱۹۷۳ء ، ص ۵۲ ۵ ۔ اقبال ،علامہ محمد، مقالات اقبال ، (مرتبہ عبدالواحد معینی) آئینۂ ادب چوک مینار ، انار کلی ، لاہور ، ص ۲۴۸ ۶ ۔ Dar, B.A(ed) Latters and writings of Iqbal, Iqbal Academy pakistan Lahore, 1981, p.129 ۷ ۔ اقبال ،علامہ محمد ، مقالات اقبال (مرتبہ عبدالواحد معینی ) آئینۂ ادب چوک مینار ، انارکلی ، لاہور ، ص ۷۹ ۸ ۔ ذوالفقار، ڈاکٹر غلام حسین،(مدیر) مجلہ اقبال ، بزم اقبال ، کلب روڈ ، لاہور ، جنوری ۱۹۹۶ء ، ص۶۰ ۹ ۔ عبدالحکیم ،ڈاکٹر خلیفہ، فکر اقبال ، بزمِ اقبال ، کلب روڈ ، لاہور ، جون ۱۹۸۸ء ۔ ص ۹۰ ۱۰ ۔ ذوالفقار ،ڈاکٹر غلام حسین، مجلہ اقبال ، بزم اقبال ، لاہور ، جنوری ۱۹۹۶ء ، جلد ۴۳ شمارہ ۱ ، ص۶۰ ۱۱ ۔ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر، اقبال سب کے لیے ، الوقار پبلی کیشنز ، ۵۰ لوئر مال روڈ ، لاہور ، ۱۹۹۶ئ، ص ۱۹۷۔ ۱۲ ۔ اقبال ،علامہ محمد مقالاتِ اقبال ، ص ۲۴۸ ۱۳ ۔ قادر ،ڈاکٹر سی اے، فلسفہ جدید اور اس کے دبستان ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور ، ۱۹۸۱ء ، ص ۱۸۶ ۱۴ ۔ رفیق جعفر ،پروفیسر، نفسیات کا ارتقاء ، اظہار سنز ۱۹ اردو بازار ، لاہور ، اکتوبر ۱۹۸۸ء ۔ ص۱۱۴ ۱۵ ۔ ڈیورنٹ،ول ، داستانِ فلسفہ (ترجمہ سید عابد علی عابد) مکتبۂ اردو ، لاہور ، ۱۹۸۹ء ، ص ۴۰۳،۴۳۵ ۱۶ ۔ علی عباس جلال پوری ، روح عصر ،آئینہ ادب چوک مینار ، انار کلی ، لاہور ، ص ۱۳۸ ۱۷ ۔ ڈیورنٹ ،ول ، داستان فلسفہ ، ص ۴۵۰ ۱۸ ۔ ڈیورنٹ ،ول ، داستان فلسفہ ، ص ۴۶۵ ۱۹ ۔ ڈیورنٹ ،ول ، داستان فلسفہ ، ص۴۶۵ ۲۰ ۔ اقبال ،علامہ محمد ،کلیات اقبال (اردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ، ص ۳۴۵ ۲۱ ۔ اقبال ،علامہ محمد ،کلیات اقبال (اردو) شیخ غلام علی ینڈ سنز ، لاہور ، ص ۳۲۰ ۲۲ ۔ محمود عاصم (مرتب) اقبال کے ملّی افکار ، مکتبہ عالیہ ایبک روڈ لاہور ، ۱۹۷۷ء ، ص ۳۲۰ ۲۳ ۔ اقبال ، علامہ محمد ،کلیات اقبال (فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ، مارچ ۱۹۷۸ئ، ص ۷۹۳ ۲۴ ۔ قاسمی،احمد ندیم ، (مدیر) اقبال (جولائی ۔ اکتوبر ۱۹۸۲ئ) بزمِ اقبال لاہور ، ص ۴۴ ۲۵ ۔ اقبال ،علامہ محمد، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سید نذیر نیازی ، ص ۱۲ ۲۶ ۔ اقبال ،علامہ محمد، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سید نذیر نیازی ، ص ۳۰۴ ۲۷ ۔ محمود عاصم ، اقبال کے ملّی افکار ۔۔۔۔۔۔ ص ۲۲۱ ۲۸ ۔ اقبال،علامہ محمد، کلیات اقبال (اردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ، ص ۴۱۰ ۲۹ ۔ محمود عاصم (مرتب) اقبال کے ملّی افکار ، مکتبہ ٔ عالیہ ایبک روڈ لاہور ، ۱۹۷۷ء ص ۱۹۶ ۳۰ ۔ اقبال ،علامہ محمد، کلیات اقبال (اردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ، ص ۱۴۲ ۳۱ ۔ اقبال ،علامہ محمد، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۔۔۔۔۔ ص ۲۴۵ ۳۲ ۔ اقبال ، علامہ محمد،کلیات اقبال (اردو) ۔۔۔۔۔۔ ص ۲۶۵  قرآن اور اقبال بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر اقبال اور قرآن اور اقبال اوراسلامی تعلیمات کے موضوع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے اور مزید کام کرنے کی لا محدود گنجائش ہے۔ تاہم وقت کی قلت اس موضوع کی وسعت کو سمیٹنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ میرے پیشِ نظر قرآنی آیات کے حوالوں سے کلام اقبال کا مختصر سا جائزہ مقصود ہے تاکہ اس پیغام کی روح کو سمجھا جا سکے جیسے اس دانائے راز نے ہم تک پہنچانے کے لیے شاعری کا سہارا لیا ۔ لہٰذا شعوری کوشش کر کے اس جائزے کو فقط چیدہ چیدہ قرآنی آیات تک محدود رکھا گیا ہے۔ مولانا عبدالرحمن جامی نے مثنوی مولانا روم کی نسبت فرمایا ہے : مثنویٔ مولویٔ معنوی ہست قرآں در زبانِ پہلوی مثنوی رومی میں اسلامی تعلیمات کو عام فہم فارسی میں روز مرہ امثال کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا ہے۔ تاہم مثنوی رومی میں قرآنی آیات کا حرف بحرف فارسی ترجمہ غالباً موجود نہیں۔ اس کے برعکس حضرت علامہ کے فارسی اور اردو کلام میں جا بجا قرآنی آیات کا منظوم ترجمہ موجود ہے۔ جہاں تک مفہوم کا تعلق ہے تو کلام اقبال کا پیشتر حصہ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو شاعری کے ذریعے عام کرنے کا کام ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے ۔ برصغیر میں سورۃ فاتحہ کا منظوم ترجمہ شاید آپ نے بھی سنا ہوگا ۔ جس کا پہلا شعر ہے۔ سزاوار ثنا اللہ کی ذات گرامی ہے جو رب العالمین ہے جس کی رحمت بھی عوامی ہے اسی طرح مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان نے بھی چیدہ چیدہ قرآنی آیات کا بہت خوبصورت منظوم ترجمہ کیا ہے اس ضمن میں مولانا ظفر علی خان کے دو اشعار تو زبان زد عام ہیں کہ : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا یہ شعر قرآن مجید کی سورہ رعدآیت نمبر ۱۱ کا بہترین ترجمہ ہے۔ آیت : ترجمہ : خداکسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔ انہی کا دوسرا شعر ؎ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا سورۃ صف کی آیت نمبر ۸ اور سورۃ توبہ آیت نمبر ۳۲ کا ترجمہ ہے ۔ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو براہی لگے ۔ چیدہ چیدہ آیات اور سورتوں کے تراجم تو جوش ملیح آبادی جیسے شاعر نے بھی کیے ہیں ۔ بہت سے شعرا نے قرآن مجید کے منظوم تراجم بھی کیے ہیں۔ اس سلسلے میں شمس الدین شائق ایزدی کا منظوم ترجمہ ۱۹۲۱ء میں آغاشاعر دہلوی کا ۱۹۲۳ء میں ، کیف بھوپالی کا ۱۹۳۸ء میں اور سیماب اکبر آبادی کا وحیٔ منظوم کے نام سے ۱۹۴۴ء میں شائع ہو چکا ہے۔ منصور فخری نے بھی پورے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور حال ہی میں محسن بھوپالی نے بھی قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تراجم ہو رہے ہیں جن میں اصغر علی کوثر اور عقیل روبی کا کام بھی منظر عام پر آ رہا ہے جو زیر تکمیل ہے۔ تاہم علامہ اقبال کی حیثیت اس حوالے سے منفرد ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کے منظوم ترجمے کی شعوری کوشش تو ہر گز نہیں کی لیکن ایسی آیات جن کا مسلمانانِ ہند کی عملی جدو جہد سے تعلق تھا انہیں ’’حرفاً اور معناً ‘‘ شاعری کی زبان میں ادا کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن کریم کی موجودگی میں آیات کے ترجمے کا محرک کیا تھا ۔ آیا علامہ اقبال نے شعوری کوشش کر کے قرآنی آیات کا ترجمہ کیا ہے؟ کیا ان کے پیش نظر قرآن کا شعری ترجمہ تھا یا کہ یہ ترجمہ انسپریشن کا فطری نتیجہ تھا؟ حضرت علامہ کی زندگی کے معمولات اور قرآن کریم سے ان کے شغف کا علم رکھنے والے حضرات کی آراء بھی اس سلسلے میں منقسم ہو سکتی ہیں۔ دراصل اقبال کے پیش نظر زندگی کے ہر موڑ پر قرآنی تعلیمات تھیں ۔ ۱۹۱۷ء میں رموز بے خودی کی تصنیف کے زمانے میں مولانا گرامی کے نام خط میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے مستقبل کے ضمن میں لکھا ہے کہ میری سمجھ اور علم کے مطابق ملت اسلامیہ کو پیش آمدہ تمام حالات قرآن شریف میں موجود ہیں۔ استدلال ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے ۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن مجید پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔۱ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اور کوئی مسلمان بقائمی ہوش و حواس اس سلسلے میں کذب بیانی کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ واقعی علامہ اقبال کا قرآن کریم کا مطالعہ اتنا وسیع و عمیق تھا کہ وہ اس میں غوطہ زن ہو کر گوہر بے بہا برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور دانائے راز ہونے کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب تھے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعرانہ حیثیت کو خود بھی پسند نہیں فرمایا بلکہ محض قبول عام کے لیے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا ۔ وہ شاعری کو اپنے لیے ایک تہمت گردانتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے متعدد بار شاعر کہے جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا ہے فرماتے ہیں ؎ نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ بر من تہمت شعر و سخن بست ترجمہ : یہ خیال نہ کرنا کہ میں بغیر پئے مست ہو گیا ہوں اور شاعروں کی طرح کہانیاں گھڑ رہا ہوں۔ جو کم مایہ شخص مجھ پر شعر و سخن کی تہمت لگائے اس سے خیر کی امید نہ رکھنا ۔ مزید ارشاد ہوتا ہے ؎ نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را ترجمہ : کہاں نغمہ اور کہاں میں شعر تو محض بہانہ (ذریعہ) ہے میں تو قوم کی بے مہار اونٹنی کو کھینچ کر واپس قطار میں لے جا رہا ہوں۔ سید عابد علی عابد سے آرٹ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’میرے کلام کو آرٹ سے کیا تعلق میری شاعری اسلامی تفکر کی تفسیر و تعبیر ہے ‘‘۔ ضرب کلیم میں فرماتے ہیں ؎ مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگِ صورِ سرافیل دل نواز نہیں اقبال ’’فلسفی شاعر‘‘ تھے یعنی ان کی بنیادی حیثیت ایک فلسفی کی تھی جن کے پاس ایک مخصوص پیغام تھا اور وہ پیغام عام کرنے کے لیے انہوں نے شاعری کو محض ذریعہ ٔ اظہار بنایا ۔ اقبال کے نزدیک نفس مضمون کی اہمیت حسن بیان سے بڑھ کر تھی اس سلسلے میں علامہ اقبال نے اپنی حتمی رائے کا اظہار یوں کیا ہے کہ :۔ شاعری کی اصل حیثیت محض محاورات اور اظہار بیان کی درستگی سے ماورا ہے ۔ میرا شاعری کا معیار نقادوں کے ادبی معیار سے قطعی مختلف ہے میرے کلام میں شاعری (حسن اظہار) نفس مضمون کے تابع ہے اور میری ہر گز یہ خواہش نہیں کہ میرا شمار عصر حاضر کے شعرا میں ہو۔ جیسا کہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے علامہ اقبال شاعری برائے شاعری یا ادب برائے ادب کے نظرئیے کے سخت مخالف تھے اور صرف ’’شاعری برائے حیات اقوام‘‘ پر یقین رکھتے تھے۔ منطقی طور پر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے پاس وہ کونسا پیغام تھا جو انہیں ’’شعرائے محض ‘‘ سے ممیز کرتا ہے اور کس پیغام کو قبول عام بنانے کے لیے انہوں نے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا۔ علامہ کے اپنے الفاظ میں ان کی شاعری اسلامی تفکر کی تفسیر و تعبیر ہے ۔ قوم کی زبوں حالی، تنگدستی ، پست ہمتی اور ذہنی دیوالیہ پن حضرت علامہ کے لیے سوہان روح تھا ۔ متاع کارواں تو لٹ ہی چکا تھا لیکن اس سے بد تر بات یہ تھی کہ قوم کا احساسِ زیاں بھی مٹ چکا تھا ۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام سے نہ صرف قوم کو کچو کے دے کر زیاں کا احساس دلایا بلکہ تسلی و تشفی سے امید بھی بندھائی اور زخم پر مرہم بھی رکھا ، عظمتِ رفتہ کے حوالے سے قوم کو اپنے عروج کا زمانہ یاد دلایا ، زوال کے اسباب کا تجزیہ کیا اور قرآنی تعلیمات کی دعوت دے کر ایک تابناک مستقبل کی نوید سنائی۔ یہی پیغام ابدی ان کی شاعری کا مقصود عین تھا اس ضمن میں کلیات اقبال میں فرماتے ہیں ؎ گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآں مضمر است پردۂ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں را ز خارم پاک کن ترجمہ : اگر میرا دل جوہر آبدار نہیں بلکہ بے وقعت کانچ کا ٹکڑا ہے اور اگر میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور تحریر ہے تو اے خدا کے رسول ؐ میرے افکار کی حرمت ختم کر دیجیے اور اس گلشن کو میرے وجود کے کانٹے سے پاک کر دیجیے۔ ڈاکٹر اقبال نے اپنی زندگی کی راتیں سوز و ساز اور پیچ و تاب کی کشمکش میں گزاریں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ صوفی و مُلا کی قرآنی تشریح سے مزید کٹھ ملا اور سجادہ نشین تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن گہرائی اور گیرائی کے فقدان اور جذبے کی کمی کی وجہ سے نہ تو قوم میں بیداری کی روح پھونکی جا سکتی ہے اور نہ ہی قرآنی تعلیمات کے حقیقی ثمرات سے بہرہ ور ہوا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس شارح قرآن مجید نے جدید زندگی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور بطور خاص ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت کے پیش نظر قرآن کی وہ تشریح کی جو کہ قوم کو اس حالت زار سے نجات دلا کر اوج ثریا تک پہنچا سکتی تھی۔ علامہ اقبال کے پیشِ نظر قرآن کا شعری ترجمہ ہر گز نہ تھا کیونکہ انہیں تو خود کو شاعر کہلوانا بھی گوارانہ تھا ۔ ان کے نزدیک اصل اہمیت پیغام کی تھی نہ کہ حسن بیان کی ۔ میری رائے میں جس وقت قوم خواب خرگوش میں محو تھی اس وقت علامہ اقبال کرب آ گہی سے دوچار تھے ۔ انہوں نے قوم کی نجات کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بار بار قرآن پاک کی طرف رجوع کیا ۔ جتنا انہوں نے قرآنی آیات پر غور و خوض کیا اتنا ہی یہ خیال ان کے دل میں راسخ ہوتا چلا گیا کہ قرآنی تعلیمات پر قرآن کی حقیقی روح کے مطابق عمل کئے بغیر مسلمانان عالم کی زبوں حالی ختم نہیں کی جا سکتی ۔ ادھر قوم تھی کی جھنجھوڑ نے پر بھی خواب غفلت سے بیدار ہونے پر تیار نہ تھی ۔ یہ خیال علامہ اقبال کے لیے سوہان روح تھا کہ وہ قوم جو قدرت کا بازوئے شمشیر زن بننے کی اہل ہے محض اپنی بے حسی ، غفلت ، آرام کوشی، سہل انگاری اور بے عملی کی وجہ سے ذلت و رسوائی سے دو چار ہے اور غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کرب میں مزید اضافہ اس حقیقت کے ادراک سے ہوا کہ اس الم ناک صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک نسخہ کیمیا بھی دستیاب ہے لیکن احساس زیاں سے عاری قوم اس اکسیر کو آزمانے پر آمادہ ہی نہیں ہو رہی ۔ ان حقائق کے پیشِ نظر اسی قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے وہ جھنجھلاہٹ اور ہیجان کی کیفیت سے بھی گزرے۔ بایں ہمہ ایک عارف اور صاحب بصیرت رہنما کی حیثیت سے انہوں نے کسی بھی مرحلے پر نہ تو امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور نہ ہی مایوسی کو خود پر غالب آنے دیا ۔ البتہ وہ ابدی سوز دروں میں ضرور مبتلا ہو گئے۔ رب کریم نے قرآن مجید میں اللہ کے رنگ میں رنگے جانے کی جو دعوت دی ہے اس کی روح کو ان دشوار گزار وادیوں سے گزرنے کے بعد ہی پایا جا سکتا ہے ؎ یہ مرتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں؟ ان کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے بھی وہ مستقلاً قرآن کریم سے ہی رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ سوز و گداز کی ان منازل کو طے کرنے کے بعد محبوب ہی کی خصوصیات محب میں جلوہ فگن نظر آنے لگتی ہیں اور جس طرح بندئہ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے ویسے بندئہ مومن کی زبان اللہ کی زبان بن کر دعوت الی الحق دینے لگتی ہے ۔ اس ضمن میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ علامہ اقبال نے قرآنی آیات کے ترجمے کی شعوری کوشش ہرگز نہیں کی بلکہ انہوں نے قرآنی تعلیمات کو اس طرح حرز جان بنا لیا تھا کہ آیات کا مفہوم خود بخود شعری قالب میں ڈھل کر ان کے قلم سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہو گیا ۔ ایسے تراجم کی تین طرح سے درجہ بندی کی جا سکتی ہے ۔ پہلے درجے میں وہ اشعار آتے ہیں جو قرآنی آیات کاہو بہو ترجمہ ہیں مثلاً قرآن مجید کی سورئہ فتح آیت نمبر ۲۹ میں ارشاد ہے ۔ قرآن : ترجمہ : یعنی وہ کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں آپس میں پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر اقبال کا شعر شاید آپ کے ذہن میںآ گیا ہو ۔ فرماتے ہیں ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اسی موضوع پر علامہ اقبال کا دوسرا شعر ہے ؎ مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا دوسرے درجے میں وہ اشعار ہیں جن میں الفاظ تو قرآنی آیات سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتے لیکن آیت کا مفہوم سمجھ میں آ جاتا ہے اور توجہ متذکرہ آیت کی طرف مبذول ہو جاتی ہے ۔ اس ضمن میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۶۰ ملاحظہ کیجیے۔ آیت : ترجمہ : جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ پتھر پر اپنی لاٹھی مارو اور (جب انہوں نے ایسا کیا) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اسی آیت سے متاثر ہو کر علامہ نے وہ شعر کہا جو ضربِ کلیم کے متن میں تو شامل نہیں لیکن سرِ ورق پر مرقوم ہے ؎ ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر تیسرے درجے میں وہ اشعار ہیں جن کا بظاہر کسی قرآنی آیت سے تعلق دکھائی نہیں دیتا لیکن در حقیقت وہ کسی نہ کسی قرآنی حکم یا تعلیم پر ہی مبنی ہوتے ہیں مثلاً ؎ تو ضمیرِ آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے نہیں بیقرار کرتا تجھے غمزئہ ستارا یہ شعر ان قرآنی آیا ت پر مبنی ہے جن میں انسان کو فضائوں ، خلائوں ، ستاروں ، چاند ، سورج ، زمین اور آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آئیے اب اقبال کے اشعار کے حوالے سے ان تینوں درجوں میں آنے والے متفرق اشعار کا قرآنی آیات کے حوالے سے جائزہ لیں۔ ملاحظہ کیجیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۳۸ جس میں ارشاد ہے۔ قرآن : میں پہلے ترجمہ پڑھ دوں آیت کا ’’ہم نے خدا کارنگ اختیار کر لیا ہے اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے؟‘‘علامہ صاحب دیکھیے کس خوبصورتی سے یہ پیغام آپ تک پہنچاتے ہیں۔ قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دِہ عشق را ناموس و نام و ننگ دِہ یعنی اپنے دِل کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے اور عمل سے اپنے عشق کی عزت و وقار میں اضافہ کر لے۔ سورۃ انفال کی آیت نمبر ۱۷ میں ارشادِباری تعالیٰ ہے۔ قرآن : اس آیت کا ترجمہ ہے کہ : تم نے ان کفار کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا اور (اے محمد ﷺ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں ۔ اس آیت میںغزوئہ بدر کی جانب اشارہ ہے جب حضور ﷺ نے مٹھی بھر کنکریاں کفار کی جانب پھینکی تھیں تو لشکرِ کفار کا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں ، چہروں اور نتھنوں تک ان کا اثر نہ پہنچا ہو۔ علامہ اقبال نے اس آیت کو شعری جامعہ یوں پہنایا ہے ؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا کار ساز دنیا کی مال و دولت اور اولاد کی نعمت کے موضوع پر دو آیات ملاحظہ کیجیے۔ قرآن : ( ۴۶:۱۸) ترجمہ : مال و دولت اور اولاد تو صرف دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہیں باقی رہنے والے صرف نیک اعمال ہیں۔ قرآن : ( ۱۵۷:۳) ترجمہ: لوگ جو مال و دولت جمع کرتے ہیں اس سے خدا کی بخشش و رحمت کہیں بہتر ہے۔ اب دیکھئے کہ علامہ نے کس خوبصورتی سے ان دونوں آیات کو شعر کے قالب میں ڈھالا ہے ؎ یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لا اِلہَ اِلاّ اللہ پھر ہم دیکھتے ہیں سورۃ محمد آیت نمبر ۲۴ جس میں انسان کو قرآن میں غور کرنے کی دعوت یوں دی گئی ہے۔ قرآن : ترجمہ : بھلا یہ لوگ قرآن میں غور کیوںنہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں ؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار پھر سورۃ یوسف کی آیت نمبر ۴۰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ قرآن : ترجمہ: حکمرانی کا حق صرف اللہ کو ہے۔ اقبال فرماتے ہیں ؎ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بُتانِ آذری دانائی اور حکمت کے موضوع پر ارشادِ خدا وندی ہے۔ قرآن : ( ۲۶۹:۲) ترجمہ : جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔ اور علامہ اقبال کہتے ہیں ؎ گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر یعنی اللہ تعالیٰ نے دانائی کو خیر کثیر کہا، جہاں کہیں اس (حکمت کی نعمت)کو پائو حاصل کر لو۔ قرآن کریم کی سورۃ ذرا یٰت آیت نمبر ۲۱ میں اللہ تعالیٰ استفسار کرتے ہیں ۔ آیت : ترجمہ : یعنی تم اپنے نفسوں کے اندر کیوں نہیں دیکھتے ؟ علامہ اقبال کہتے ہیں ؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن قرآن مجید کی سورۃ طور آیت نمبر ۲۱ میں اللہ تعالیٰ نے اعمال کی اہمیت یوںبیان کی ہے۔ آیت : اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن (گروی)ہے یعنی اچھے اعمال پیش کرنے سے ہی گروی شخص کو رہائی مل سکتی ہے۔ علامہ صاحب کے اس موضوع پر متعدد اشعار ہیں۔ میں ایک پڑھ دیتا ہوں ؎ یہ گھڑی محشر کی ہی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے سورۃ شوریٰ آیت نمبر ۳۰ میں انسان کے اعمال اورمصائب کا رشتہ یوں واضح کیا گیا ہے۔ آیت : ترجمہ : جو مصیبت تمہارے اوپر آتی ہے تمہارے اعمال سے آتی ہے یعنی انسان اپنے اعمال کی جو فصل بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اقبال اس موضوع پر فرماتے ہیں ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے منافقوں اوربے عمل عالموں کے متعلق سورۃ صف آیت نمبر ۲ میں ارشاد ہے۔ قرآن : ترجمہ : تم جو بات کرتے نہیں ہو اسے کہتے کیوں ہو؟ اقبا ل ان بے عمل عالموں کے ضمن میں فرماتے ہیں ؎ اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا اقبال کا تصور خودی آج کی نشست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اقبال کے فلسفہ خودی پر بھی تھوڑا سا اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں۔ مستشرقین نے خودی سے مراد EGO یا انانیت لیا ہے۔ Jhon T.Plattاور Dr. S.W Fallon نے اردو انگریزی ڈکشنری میں خودی کے لیے چار انگریزی حروف استعمال کیے ہیں۔ Egotism یعنی انانیت، Arrogance یعنی ہٹ دھرمی، Self Conceit & Paronoia یعنی اپنی عظمت اور بڑائی کے متعلق بلا جواز زعم ۔ میری عاجزانہ رائے کہ علامہ اقبال نے خودی کی اصطلاح جن معنوں میں استعمال کی ہے اُس سے مراد عرفانِ ذات یا خودِ آگہی ہے یعنی (Self Recognition) اور وہ چار عناصر کا مرکب ہے یعنی:۔ Self Confidence Self Reliance Self Respect & Unflinching Faith in Allah's Benevolence and one's own Capabilities (یعنی ۱۔خود اعتمادی یا اعتمادِذات ۲ ۔ خود انحصاری ۳۔ عزت نفس ۴ ۔ اللہ کی رحمت پر غیر متزلزل ایمان اور اپنی صلاحیتوں پر کامل یقین) اپنے اس خیال کو تقویت دینے کے لیے میں ایک بار پھر وہ شعر پڑھتا ہوں۔ ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر یعنی جب موُسیٰؑ نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنا عصا پتھر پر مارا تو سدِ راہ بننے والے پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے ۔ اعتماد ذات خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بے یقینی مسئلہ جبر و قدر (تقدیر مبرم و معلق) عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیںہے تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند ستارہ میرے مقدر کی کیا خبر دے گا وہ خود فراخی ٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے کلامِ اقبال کے اس موضوعی جائزے سے علامہ اقبال کے کلام کے مقصدیت کے متعلق کوئی شکوک و شبہات باقی نہیں رہتے ۔ مجھے اس حقیقت کا شدت سے احساس ہے کہ کلام اقبال کا اتنا مختصر جائزہ ان کے ابدی پیغام سے ناانصافی کے مترادف ہے ۔ تاہم آج کے اس نفسا نفسی اور مادیت سے بھر پور ماحول میں اگر ہمیں اس زندہ جاوید فلسفی کے کلام پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کی فرصت بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ اس سے پیشتر کہ آپ میرے متعلق بھی یہ رائے قائم کر لیں کہ گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ حواشی ۱۔ ۲ ؍اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ایوانِ کارکنانِ پاکستان کے زیر اہتمام مجلس مذاکرہ میں صدارتی خطبہ دیا گیا۔  قرآن اور اقبال کا تصور زماں ظفر اقبال خان قرآن کا فلسفہ زمان و مکان یہ ہے کہ مکان سے مراد کائنات ہے اور زمان اس کائنات پر گذر رہا ہے۔ انسان اس کائنات کے اندر شامل ہے ۔ اسی وجہ سے انسان کا وجود ہر لمحے تبدیل ہو رہا ہے ۔ اسی باعث انسان کا وجود زمان و مکان کی گردش میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ والعصر ان الانسان لفی خسر زمانہ کے تغیرات گواہ ہیں کہ انسان گھاٹے میںہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں :۔ ’’الوقت سیف قاطع‘‘ ’’زمانہ تیز کاٹنے والی تلوار ہے ‘‘جو کائنات کی ہر شے کو تغیرات میں تبدیل کر رہا ہے ۔ انسان جو اس کائنات کے اندر زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ بھی ان زمانی تغیرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ جب تک اپنا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہ جوڑ لے ۔ امن و سکون کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں چل سکتا ۔ تعلق باللہ سے انسان زمانے کی قلمرو سے نکل کر ابدیت کی منزل بقا میں داخل ہو سکتا ہے۔ ربط بین الحادث و القدیم کے تحت اللہ اور کائنات کا جو آپس میں تعلق تھا اس تعلق کی عدم تفہیم کی وجہ سے بہت سارے مغالطے پیدا ہو گئے ۔ فلاسفہ یونان نے اسے عقل اوّل کے ساتھ تعبیر کیا،ہنود نے برہما ، نصاریٰ کلمۃ اللہ ، یہود نے لوگوس ، اور اس امت محمدیہؐ نے حقیقت محمدیہ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تعلق ایسا ہے کہ جس سے ایک تو: ۱ ۔ کائنات قدیم ثابت ہوتی ہے۔ ۲ ۔ زمان و مکان قدیم ثابت ہوتے ہیں۔ ۳ ۔ اللہ تعالیٰ علت تامہ سے مجبور و مضطر ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ تعد و قد ماء کا نظریہ صحیح نہیں ہے۔ اس کا اصل ماخذ نظریہ وحدۃ الوجود ہے ۔ چنانچہ علامہ اقبال زمانہ (دہر) کو قدیم ثابت کر کے اللہ کو علم الٰہی میں مجبور ثابت کر رہے ہیں۔ خرد ہوئی ہے زمان و مکان کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ من کسوتِ انسانم ، پیراہن یزدانم قرآن کریم کے تصور زمان کے خلاف اقبال یہاں ذات باری تعالیٰ کو زمانی قرار دے رہے ہیں ۔ پھر الٰہیات کی تشکیل جدید میں حقیقت زمان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کی صحیح توجیہ میں سابق مفکرین نا کام رہے ہیں۔ ’’زمانہ کو جب ایک عضو کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو قرآن کی زبان میں اس کو تقدیر کہتے ہیں۔ لفظ تقدیر کی مسلمانوں کے ہاں اور غیر مسلموں میں بھی بالکل غلط تعبیر کی گئی ہے۔ تقدیر زمانہ ہی کی ایک شکل ہے۔جب کہ امکانات کے ظہور سے قبل اس پر نظر ڈالی جائے … زمانہ کو جب تقدیر خیال کیا جاتا ہے تو ماہیت اشیاء بن جاتا ہے‘‘۱ ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اقبال کا نظریہ زمان کہاں تک اسلامی اور قرآنی الاصل ہے۔ جبکہ محدثین کے نزدیک زمانہ اور دہر حادثات میں شامل ہے۔ لازم ہوا کہ اس کا کوئی محدث ہو لہٰذا زمانہ مخلوق ہے۔ قرآن کا فلسفہ زمان و مکان تمام کائنات زمان میں رہتی ہے ۔ یعنی زمان و مکان کا اتحاد لازم و ملزوم ہے۔ اگر اللہ چاہے تو ازل سے تا ابد کائنات ظلمت میں گرفتار ہو جائے ظلمت و نور وقت کی دو کیفیتوں کا نام ہے ۔ جو دنیا پر گزرتی ہیں ۔ ورنہ ظلمت کے وقت بھی زمانہ گزر رہا ہوتا ہے ۔ اس طرح دن کے وقت بھی زمانہ اپنا تصرف کر رہا ہوتا ہے ۔ دوسرے اس سے معلوم ہوا۔ جس طرح مکان حادث ہے۔ اس طرح زمان بھی حادث ہے۔ اس کے حادث ہونے کی اہم دلیل یہ ہے ۔ ان جعل اللہ اللیل مرمدًا۔ رات کی ظلمت کو طویل کرنا۔اس کے حادث ہونے کی یہ اہم دلیل ہے ۔ اس کے علاوہ درج ذیل آیات زمانہ کے حادث ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ولہ ما سکن فی اللیل و انھار ۔ (۱۳:۶) قل ارایتم ان جعل اللہ اللیل علیکم مرمدًا الی یوم القیامۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم ۔ (۷۱:۲۸) ھل انی علی الانسان حین من الدھر۰لم دیکن شیا مذکورا (۱:۷۶) اولم یزکر الانسان انا خلقناہ من قبل ولم یک شیاً (۹۷:۱۹) قرآن میں جن امم سابقہ کا ذکر کیا گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سامنے ایسی باتیں ابھی ابھی گزری ہوں اور قیامت میں آنے والے واقعات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس کے سامنے اسی زمانہ حال میں ہو رہے ہوں یعنی اللہ کے سامنے زمانہ ایک ہی حالت میں ہر وقت موجود رہتاہے ۔ نہ اس میں اس کا کچھ حصہ ماضی کی صورت میں گزرتا ہے اور نہ اپنے حال زمانہ کے بعد مستقبل زمانہ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ بلکہ ہر وقت اس کے سامنے یکساں حالت میں رہتا ہے۔ جب زمانہ ایک حالت میں رہتا ہے ۔ تو زمانہ سے جو حوادثات صادر ہوتے رہتے ہیں ۔ وہ زمانہ کی طرح ایک ہی حالت میں نہیں رہتے ہیں ۔ علامہ اقبال چونکہ مغربی فلسفہ سے متاثر ہوئے تو انہوں نے بھی اپنی تصانیف میں زمانہ کو قدیم خیال کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب زمانہ کو تقدم خیال کیا جاتا ہے تو وہ ماہیت اشیاء بن جاتا ہے۔ ماہیت اشیاء کا اصل ماخذ ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم ہے۔ ابن عربی علم اور معلوم کے تحت زمانہ کے قدیم ہونے کاقائل ہے ۔ اقبال نے ایک وقت میں ابن عربی کے نظریات سے بچنے کے لیے کہا ۔ لیکن آخری دور میں نظریہ وحدۃ الوجود کے چنگل سے باہر نہ نکل سکے۔ اقبال کے تصور زمان کا ماخذ سید علی عباس جلال پوری لکھتے ہیں:۔ ’’اقبال کا نظریہ زمان برگساں سے ماخوذ ہے ‘‘۳۔ خلیفہ عبدالحکیم فرماتے ہیں:۔ اقبال زمان کو ماہیت و جود اور عین خودی سمجھتا ہے۔ لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں۔بلکہ تخلیقی ارتقاء کا نام ہے ۔ یہ نظریہ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دل نشیں انداز میں اپنے ’’نظریہ حیات‘‘ کا اہم جزو بنایا ۔ اقبال برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا ۴۔ بشیر احمد ڈار زمانہ کے ماخذکے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں سے ماخوذ ہے‘‘۵ زمانہ کی تعریف زمان لفظ زروان کی بدلی ہوئی صورت ہے ۔ مجوسیوں کے ایک فرقے کا عقیدہ تھا کہ زروان اصل حقیقت ہے اور ہر مزد اور اہرمن دونوں پر حاوی اور متصرف ہے۔ زروان سے مقدر کا مفہوم بھی وابستہ رہا ہے۔ ایران میں زروانیت کی اشاعت یزدگرد دوم سا سانی کے عہد میں ہوئی تھی۔ زمان یا وقت کی تعریف کرنے میں اہل فکر کو خاصی الجھن محسوس ہوتی رہی ہے ۔ اس کی ماہیت پر بحث کرتے ہوئے ولی آگسٹائن نے کہا تھا کوئی شخص مجھ سے یہ پوچھے کہ وقت کیا ہے ؟ تو مجھے معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کیا ہے ؟ جب کوئی اس کے بارے میں مجھ سے استفسار نہ کرے تو میں جانتا ہوں کہ وقت کیا ہے؟ قدیم زمانے سے وقت کا تصور مابعد الطبیعیات کا ایک اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے پر سیر حاصل بحثیں کی گئی ہیں افلاطون، ارسطو اور دوسرے مثالیت پسندوں کے یہاں وقت حقیقی نہیں ہے بلکہ غیر حقیقی ہے۔ وجود مطلق یا اللہ کا تعلق کائنات سے زمانی نہیں ہے۔ یعنی کائنات کی نہ ابتداء ہے نہ انتہا اور اللہ کائنات کا خالق نہیں ہے۔ کیا وقت خلق ہوا ہے؟ اگر یہ مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ بھی وقت ہی تھا ۔ کیا وقت قدیم اور غیر مخلوق ہے ؟ فلاسفہ قدیم کی اکثریت کی رائے یہی ہے ۔ مثالیت کی طرح وجودی نظریات میں بھی وقت کی حرکت کو مستقیم نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ دولابی مانا جاتا ہے۔ وقت کے موضوعی اور معروضی ہونے کے بارے میں بھی اختلاف رہا ہے ۔ کانٹ کہتا ہے کہ زمان و مکان فہم انسانی کے سانچے میں ڈھلے ہیں ان کا وجود اعتباری ہے ۔ ہستی کی ماہیت میں نہ زمان ہے نہ مکان ہے ہیگل بھی زمان اور مکان کے حقیقی ہونے کا منکر ہے۔ وقت کا تصور دراصل حرکت اور تبدیلی سے پیدا ہوا ۔ کائنات میں کوئی تبدیلی اور حرکت نہ ہو تو وقت بھی نہ ہو۔ وقت کی بنیاد تغیر کے معروضی تصور پر ہے اور باقی رہے گا ۔ خواہ ارض سے سب انسان مٹ بھی جائیں ۔ برگساں کے فلسفے کا اصل اصول زمان کا تصور ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی تغیر ہے اور زمان ہی اس کی ماہیت ہے۔ یعنی زندگی اور زمان ایک ہیں ۔ یہ زمان وہ نہیں ہے۔ جو میکانکی نقطہ نظر سے مانا جاتا ہے ۔ بلکہ جو انسان کے وجدان میں موجود ہے ۔ اسے طلوع و غروب آفتاب کے پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا۔ ۶ سامی مذاہب اور مجوسیت کا تصور زمان سامی مذاہب اورمجوسیت میںوقت حقیقی ہے اور اس کی حرکت مستقیم یعنی اللہ نے کائنات کو ایک خاص لمحے میں تخلیق کیا تھا اور وہ اسے مٹا دینے پر بھی قادر ہے ۔ اکثر آریائی مسالک و نظریات مثلاً اشراق ، ویدانت ، نواشراقیت وغیرہ میں وقت کی گردش دولابی ہے۔ یعنی کائنات کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ اس کی کوئی انتہا ہوگی ۔ اسپینوزا اور ابن عربی کے وجودی نظریات کی اساس یہی ہے۔ ہمارے زمانے میں آئن سٹائن نے وقت کو زمان و مکان کی اکائی کی چوتھی بعد قرار دیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے وقت کو مکان کی چوتھی بعد مانا ہے۔ اقبال کی یہ ترجمانی صحیح نہیں ہے۔ ۷ اقبال کا تصور زمان اقبال نے ماہیت زماں کے سلسلے میں اسرار خودی کے فلسفہ میں خاصی عمیق فکر سے کام لیا ہے۔ اس کے خیال میں زمانے کو مسخر کر کے تقدیر پر غلبہ پایا جا سکتا ہے۔ ہم یہاں اس ضمن میں خود اقبال کے الفاظ میں اس نظریے کی تصریحات پیش کرتے ہیں۔ زمانے کو جب ایک عضوی کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو قرآن کی زبان میں اس کو تقدیر کہتے ہیں ۔ لفظ تقدیر کی مسلمانوں اور غیر مسلم علماء کے ہاں بالکل غلط تعبیر یں کی گئی ہیں۔تقدیر زمانے کی ہی ایک شکل ہے جب کہ اس کے امکانات کے ظہور سے قبل اس پر نظر ڈالی جائے تقدیر وہ زمانہ ہے ۔ جو سلسلہ اسباب کے شکنجے سے آزاد ہو چکا ہو ۔ فہم منطقی اس پر اپنی مخصوص اشکال عائد کر دیتی ہے۔ مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں کہ تقدیر وہ زمانہ ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں نہ کہ جس کا ہم تفکر کرتے یا جس کی بابت ہم حساب و اندازہ لگاتے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ بادشاہ ہمایوں اور شاہ طہماسپ کیوں ہم عصر تھے ؟ تو میں اس کی کوئی علت نہ پیش کر سکوں گا۔ اس کا جواب صرف یہ دیا جا سکتا ہے کہ فطرت کی ماہیت کا تقاضہ یہی تھا کہ مستقبل کے لا متناہی امکانات میں ہمایوں اور طہماسپ کی زندگیاں بھی، جو ان امکانات سے عبارت تھیں ۔ ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوں۔ زمانہ کو جب تقدیر خیال کیا جا تا ہے تو وہ اشیاء کی ماہیت میں متبدل ہو جاتا ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ہے ۔ خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا ۔ (۲:۲۵) (اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی تقدیر و اندازہ مقرر کیا) کسی شے کی تقدیر نہ ٹلنے والا مقسوم نہیں ۔ جو خارج سے جبراً عائد کیا گیا ہو۔ بلکہ وہ خود شے کی اندورنی دسترس اور رسائی اور اس کے قابل تحقیق امکانات ہیں جواس کی فطرت میں پوشیدہ تھے۔ ان امکانات کا ظہور متواتر طور پر بلا کسی خارجی جبر کے عمل میں آتا ہے ۔ (۲) اقبال نے برگسان کے فلسفہ زمان کو کیوں اپنایا؟ اقبال نے برگساں کا تصور زمان اس لیے اپنایا کہ برگساں افلاطون یا زینو کی طرح وقت کو غیر حقیقی نہیں سمجھتا نہ رواقیین کی طرح اس کی گردش کو دولابی قرار دیتا ہے ۔ برگساں کہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی ۔ بلکہ ماضی مستقبل میں محفوظ رہتا ہے ۔ اسی لیے تاریخ کو اس نے اجتماعی حافظہ کا نام دیا ہے۔ جس طرح اقبال نے فشٹے کی ’’انائے مطلق‘‘ پر اللہ کا اطلاق کر کے اسے اسلامی الٰہیات کا جز بنانے کی کوشش کی تھی۔ اسی طرح برگساں کے نظریہ زمان کو اسلامی ثابت کرنے کے لیے انہوں نے چند مقولوں سے استناد کیا ہے اور ان کے ظاہر ی معنی سے اعراض کر کے حسب منشاء ان کی تاویل کی ہے ۔ اسرار خودی میں الوقت سیف کے تحت جو امام شافعی کا قول ہے ۔ اقبال برگساں کا نظریہ زمان اسطرح پیش کرتے ہیں:۔ سبز بادا خاک پاک شافعی عالمے سر خوش زتاک شافعی فکر او کوکب زگردوں چیدہ است سیف برّاں وقت را نامیدہ است من چہ گویم سرّ ایں شمشیر چیست آب او سرمایہ دار از زندگیست صاحبش بالاتر از امید و بیم دست او بیضا تر از دست کلیم اے اسیر دوش و فردا در نگر در دل خود عالم دیگر نگر در گلِ خود تخم ظلمت کاشتی وقت را مثل خطے پنداشتی باز با پیمانہ لیل و نہار فکر تو پیمود طول روزگار ساختی ایں رشتہ را زنّار دوش گشتہ مثل بتاں باطل فروش کیمیا بودی و مشت گل شدی سر حق زائیدی و باطل شدی مسلمی ؟ آزاد ایں زّنار باش شمع بزم ملت احرار باش تو کہ از اصل زماں آگہ نئی از حیات جاوداں آگہ نئی تاکجا در روز و شب باشی اسیر رمز وقت ازلی مع اللہ یادگیر ایں و آں پیداست از رفتار وقت زندگی سریست از اسرار وقت اصل وقت از گردش خورشید نیست وقت جاوید است و خور جاوید نیست وقت را مثل مکاں گستردۂ امتیاز دوش و فردا کردۂ اے چو بُورَم کردہ از بستان خویش ساختی از دست خود زندان خویش وقت ما کو اول و آخر ندید از خیابان ضمیر ما دمید زندگی از دہر و دہر از زندگی است لاتسبو الدھر فرمان نبی است نغمۂ خاموش دارد ساز وقت غوطہ در دل زن کہ بینی راز وقت اقبال جاوید نامہ میں زروان کی زبان سے برگساں کا نظریہ زماں پیش کرتے ہیں:۔ گفت زروانم جہاں را قاہرم ہم نہانم از نگہ ہم ظاہرم بستہ ہر تدبیر با تقدیر من ناطق و صامت ہمہ نخچیر من غنچہ اندر شاخ می بالد ز من مرغک اندر آشیاں نالد ز من دانہ از پرواز من گردد نہال ہر فراق از فیض من گردد وصال ہم عتابے ہم خطابے آورم تشنہ سازم تا شرابے آورم سب سے بڑا مانع اس توجیہ کے تسلیم کرنے میں یہ ہے کہ ایرانی الاصل ہے ساسانی عہد کے آخر میں جب کہ ایران میں سیاسی انتشار کے ساتھ مذہبی انتشار پھیل رہا تھا اور قدیم زروانیت کا احیا ہو رہا تھا تقدیر کو زمانہ (زردان) ہی کا دوسرا نام بتایا جاتا ہے ۔ چنانچہ مشہور ار منی مصنف از نیک جو بعثت اسلام سے قبل گذرا ہے ۔ ایرانیوں کے اس الحاد کا ذکر کرتا ہے۔ مارٹن ہیگ لکھتا ہے:۔ Eznik says, in his refutations, of hereries in the second book containing a refutation of the false doctrine of persians: Before anything, heaven or earth, or creature of any kind whaterver therein, was existing Zeruen existed, whose name means fortune or glory (Essays on the Sacred language, writing and Religion of the (11) ازنیک اپنی کتاب ’’ابطال بدعات‘‘ کے دوسرے حصہ میں جس کے اندر ایرانیوں کے عقائد باطلہ کا بیان ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر کرتا ہے۔ پیشتر اس کے کہ آسمان یا زمین یا کسی بھی قسم کی کوئی مخلوق موجود ہو، زروان موجود تھا جس کا مطلب تقدیر یا برکت ہے۔ ۷ شبیر احمد غوری ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :۔ اسی طرح ایک دوسرا مصنف تھیوڈور مصیصی بھی ایرانیوں کے اس نئے عقیدے کی شہادت دیتا ہے:۔ مارٹن ہیگ اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتا ہے۔ on the same matter theodoros of mopouestia writes as follows, according to the fragment preserved by the polyhistor photios (Belio th.18): In the first book of his work (on the doctrines of the magi), says photies, he propounds the nefarious doctrine of the persians, which zarastrades introduced, riz, that alout zarouam, whom he makes the ruler of the whole universe, and calls him Destiny. مارٹن ہیگ کے علاوہ کرسٹن سین نے ایران بعہد ساسانیان میں تھیوڈ ورمصیصی کی اس شہادت کو نقل کیا ہے:۔ اپنی کتاب کے جز اوّل میں اس نے (تھیوڈورمصیصی) ایرانیوں کے نفرت انگیز عقیدے کو بیان کیا ہے۔ جو زار روس (زرتشت) نے رائج کیا۔ یہ عقیدہ زرام (زروان) کے متعلق ہے جس کو اس نے سارے جہان کا بادشاہ بتایا ہے اور جس کو وہ قضاو قدر بھی کہتا ہے ۸۔ کرسٹن سین زروانی عقیدہ کی شہادت دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ :۔ اس نئے عقیدے کی شہادت زروانیوں کے علاوہ خود ایرانیوں کی مذہبی کتاب و ادبستان نیوگ خرد سے بھی ملتی ہے۔ کرسٹن سین دوسری جگہ کہتا ہے :۔ زروانی عقائد جو ساسانیوں کے عہد میں مروج تھے۔اس زمانہ میں جبر کا عقیدہ پیدا کرنے میں ممد ہوئے۔ جو قدیم مزدائیت کی روح کے لیے سم ّ قاتل تھا۔ خدائے قدیم جو اہور مزدا اور اہرمن کا باپ تھا ۔ نہ صرف زمان نامحدود کا نام تھا ۔ بلکہ تقدیر بھی وہی تھا ۔ چنانچہ کتاب و ادبستان نیوگ خرد میں عقل آسمانی یہی اعلان کرتی ہے۔ (۱۳) اب تصور زمان کے بارے میں فلاسفہ کے مختلف تصورات بیان کیے جاتے ہیں۔ برگسان کا تصور زمان قاضی قیصر الاسلام برگسان کے تصور زمان کے بارے میں لکھتے ہیں:۔ زمان کی ماہیت کے بارے میں ہمارے مباحث برگساں کے ذکر کے بغیر نا مکمل رہتے ہیں۔ برگساں دنیا کے متغیر مظاہر سے ، جو وقوع پذیر ہوتے ہیں اور پھر گزر جاتے ہیں ۔ بہت متاثر ہے۔ مسرت اور خوشگواری کے وہ لمحات جو ہم ایک بار گزار چکے ہوتے ہیں۔ دوبارہ ہماری زندگی میں لوٹ کر نہیں آتے۔ دنیا ہمارے سامنے وقوعات و حالات کا ایک سیلِ مسلسل پیش کرتی ہے۔ تغیر کائنات کا ایک بنیادی اصول یعنی یہ کہ تغیر لازمی ہے۔ لیکن تغیر ایک تواتر نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک دوران یا ایک میل خودرو ہے ۔ اس میں کوئی خلا نہیں ہے بلکہ یہ ایک کل ہے ۔ ایک ایسا کل کہ جس میں ماضی حال میں مدغم ہوتا ہے اور مستقبل کی پیش بندی کرتا ہے۔(۱۴) برگساں اور زمانے کے تصورات برگساں نے ہردو تصورات کے مابین تفریق کی ہے ۔ وہ تصورات جو زمان کے مفہوم میں شامل ہے۔ پہلی صورت میں ہم سائنسی یا ریاضیاتی زمان کا تصور کرتے ہیں ۔ زمانہ کی یہ صورت خارجی عالم کی حقیقت کا کوئی جز نہیں ہوا کرتی ۔ بلکہ یہ محض مادی اشیاء کے درمیان ایک ربط یا اضافت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارا فہم اشیاء کو یکے بعد دیگرے مدرک کرتا رہا ۔ لہٰذا زمانہ ایک وہ صورت ہے۔ جو حقیقت کے فہم کے لیے لازمی و لابدی ہے اسے ہم ذہن کے واسطے سے قابل فہم بناتے ہیں ۔ زمانے کا ایک دوسرا تصور بھی ہے اور وہ یہ کہ زمانہ کا ہم وقتی ادراک کیے جانے کے بجائے جیسا کہ ہم ریاضیاتی یا سائنسی طریق پرکرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس کا ادراک محض ایک دوران کی حیثیت سے کریں۔ جہاں کوئی تواتر نہیں ہوتا ۔ چنانچہ زمان کے ایک ایسے تصور میں ماضی حال اور مستقبل کے تصورات باہم ناپید ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں وہاں ہمارے پاس زمان کا صرف وہ احساس باقی رہ جاتا ہے ۔ جیسے ہم صرف سیلان مسلسل ارتقا کی صورت میں مستقبل کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ یہی دوران ایک جوششِ حیات ہے جسے برگسان کہتا ہے کہ وہ بالذات تخلیقی عمل میں محرک کا کردار ادا کرتا ہے ۔ دوران محض ایک صورت ہے ۔ جسے ہماری شعوری حالت کا تواتر ہمارے متخیلہ کو عطا کرتا ہے۔ جب کہ ہمارا جذبہ ہی (خودی) ہمارے اندر جوششِ حیات پیدا کرتا ہے اور یہ اپنی حالت میںمتمیز کرنے کا کوئی موقع نہیں دیتا ۔ اقبال اور برگسان کے نظریہ زمان میں تطبیق اقبال اور برگسان کے نظریہ زمان کی دسترس تقریباً ایک جیسی ہے ۔ اقبال نے اپنے نظریہ زمان کا استنباط اس حدیث قدسی سے بھی کیا ہے ’’لا تسبو الدھر فانی انا ادھر ‘‘ یعنی زمانے کو برا نہ کہو کہ میں ہی زمانہ ہوں۔ اقبال زمانہ کو مجرد و ساکن نہیں سمجھتا ۔ بلکہ یہ ایک تخلیقی حرکت کا نام ہے ۔ اقبال کہتا ہے کہ زمانہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ جو اپنی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اس کا یہی جذبۂ دلیرانہ انسان کے تسخیر کائنات کے عمل میں اسے ماہ وانجم پر کمندیں ڈالنے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ زمانہ کوئی ایسی صورت حال نہیں ۔ جسے کسی لکیر کی مانند ازل سے ابد تک کھینچ دیا گیا ہو۔ یہ انقلاب لیل و نہار بھی نہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی امروز ہے اور نہ ہی دیروز ۔ انسان کی کم فہمی زمانہ کو سحر و شام کے پیمانوں سے ناپتی ہے۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ جس طرح اللہ کا وقت ہمارا نہیں۔ بالکل اسی طرح ’’خودی‘‘ میں گم اور زندگی کے اسرار سے آشنا انسان کا وقت بھی ماضی ، حال اور مستقبل میں منقسم کسی مکانی انداز کی شے نہیں۔ بلکہ ’’خودی ‘‘ کی ماہیت حقیقی ایک حیات جاوداں ہے۔ زمان کوئی ایسا ظرف نہیں۔ جس کے اندر سے ہو کر حیات کا گزران وقوع پذیر ہوتا ہو ۔ بلکہ زمانہ اور حیات کی تخلیقی توانائی ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ سورج کے گرد زمین کی محوری گردش سے پیدا ہونے والا وقت دراصل مادی وقت ہے۔ حقیقی زمانہ کا اس مادی وقت سے کوئی علاقہ نہیں ۔ وہ لوگ جو لیل و نہار کے اسیر ہیں۔ دراصل کم ہمتی اور مردہ حیات کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ اقبال کے نزدیک زمانہ کے ہاتھوں میں مرد مومن کی تقدیر نہیں ہوا کرتی ۔ بلکہ اقبال کا یہ مرد دلیر زمانہ پر اپنا پورا تصرف و اختیار رکھتا ہے اس کا یقین ہے کہ جس کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہے۔ وہی امکانات زمانہ کو معرض وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے ۔ زمانہ کی ظاہری ہیت سے ہم آہنگ ہو جانے والا شخص بزدل و کم حوصلہ ہے جب کہ مرد آزاد وہ شخص ہے۔ جو اس زمانہ سے ستیزہ کاری کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہو۔ آمادگی کی ایک ایسی ہی صورت حال عین تصور حریت ہے ۔ جسے اقوام زندہ کا اصل جوہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یاد ایامی کہ سیف روزگار با توانا دستیِٔ ما بود یار اقبال پھر کہتا ہے کہ اگر زمان حقیقی ہے اور ایک ہی جیسے لمحوں کی تکرار نہیںجو شعوری تجربہ کو ایک خیال خام بنا دیتے ہیں ۔ تو پھر حیات حقیقی کا ہر لمحہ بالکل نیا ہونا چاہیے۔ جو ایسی چیزوں کو وجود دے ۔ جو بالکل نئی ہوں اور ان کے بارے میں پہلے سے کچھ کہنا ممکن نہ ہو زمان حقیقی میں زندہ رہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم زمان مسلسل کی جکڑ بندیوں میں گرفتار ہو کر رہ جائیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لمحہ بہ لمحہ اسے تخلیق کیا جائے اور انسان اپنی تخلیقی فعالیت میں آزاد و خود مختار ہے۔ اے اسیر دوش و فردا درنگر در دل خود عالم دیگر نگر (۱۶) زمانے کے بارے میںکانٹ کے اختلافات کانٹ نے زمانے کی ماہیت کے بارے میں اختلاف آراء کے مابین ایک طرح کی مفاہمت کی کوشش کی اور یہ کہا کہ زمان ایک قبل از تجربی ادراک ہے۔ اس نے قبل از تجربی زمان کو درج ذیل دلائل سے ثابت کیا۔ تصور زمان ہمارے تمام اوراکات کا ایک پیش از قیاسی نتیجہ ہے۔ ہم اشیاء کا حوادثات کے طور پر مشاہدہ کرتے ہیں خواہ وہ ایک تواترمتسلسل کے طور پر ہو یا پھر یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہو، تواتر اور تدارج کے تصورات کا اطلاق زمان کے تصور پر ہوتا ہے۔ لہٰذا تصور زمان کو تجربہ سے ماخوذ نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ اسے قبل از تجربی ہونا چاہیے ۔ ہم ان حوادثات کے بارے میں خیال کر سکتے ہیں ۔ جو اندرون وقت وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن زمان بالذات کی نفی نہیں کر سکتے۔ زمان کے قبل از تجربی ہونے کا نہایت نتیجہ خیز ثبوت ہمیں ریاضی سے ملتا ہے۔ ریاضی اعداد کا علم ہے ۔ جو وقت اور وقفوں کے تصورات سے متعلق ہے۔ ریاضی کے نتائج قطعی صادق اور آفاقی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس طرح کا مطلق ایقان اور آفاقیت ہونی چاہیے۔ اشیاء کی تجربی ترتیب سے بار نہیں پا سکتے ۔ لہٰذا زمان کو قبل از تجربی ریاضیاتی اور طبیعی علوم کی جدید تحقیقات، زمان و مکان کے سلسلے میں مسلّم الثبوت اور واضح تبدیلیاں لائی ہیں ۔جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ یہ دونوں اپنا اپنا ایک جداگانہ وجود نہیں رکھتے ہیں ۔ اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ زمان و مکان اور مادے کا ایک مشترک قالب ہے۔ یہ نظریہ کہ زمان و مکان ایک استمرار (تسلسل) تشکیل دیتے ہیں۔ اسے عام طور پر سائنس نے تسلیم کر لیا ہے اور آئن سٹائن نے ریاضیاتی طور پر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ کائنات چار بُعد (ابعاد اربعہ) پر مشتمل ہے ۔ جس میں زمانہ چوتھا بُعد ہے۔ کانٹ کا تصور زمان و مکان کانٹ کے نزدیک زمان و مکان کا تصور فہم انسانی کے سانچے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ زمان و مکان مثل عینک کے ہیں ۔ جس کی مدد سے انسانی فہم اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی کائنات کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے ۔ گویا زمان و مکان کا وجود نفسی اور اعتباری ہے۔ مگر اقبال کہتا ہے کہ ماہیت ہستی میں نہ تو زمان ہی کو ئی چیز ہے اور نہ مکان بلکہ نہ ہے زمان نہ مکان لا الہ الا اللہ اپنے اسی خیال کو اقبال اس طرح بھی پیش کرتا ہے۔ جہانِ ما کہ پایانے نہ دارد چو ماہی دریم ایام غرق است ہماری یہ بے کراںدنیا وقت کے بحر ذخّار میں مثل ایک ماہی سیم و تاب کے تیرتی پھر رہی ہے ۔ تاہم وقت کا یہ سمندر ہمارے نفس کے ظرف غیر محسوس میں سمایا ہوا ہے ۔ اقبال کے یہاں زمانہ کی حیثیت میں ’’خودی ‘‘ اور ماہیت وجود ہے ۔ (۱۷) زمانے کی ماہیت حقیقی کے بارے میں فلاسفہ کے اختلافات کی عجمی تعبیرات قاضی قیصرا لاسلام لکھتے ہیں :۔ ۱ ۔ قدیم یونان میں پارمینیڈیز اور ہر اقلیٹس کے مابین اس بارے میں زبر دست اختلاف رائے تھا۔ پارمینیڈیز نے تغیر پر غور و فکر کیا اور اسے غیر عقلی التباس نظر قرار دیا ۔ اس کے برعکس ہر اقلیٹس ایک دوسری انتہا تک پہنچا اور اس نے دعویٰ کیا کہ کوئی غیر متغیر مستقل وجود نہیں ہے۔ ۲ ۔ دوسرا بڑا اختلاف رائے نیوٹن اور لائی بنیز کے مقلدین میں ہوا۔ نیوٹن ایک زمان مطلق کے وجود کا قائل ہے ۔ اس کے نزدیک زمان مطلق یا ریاضیاتی وقت بغیر کسی خارجی تعلق کے یکساں طور پر رواں دواں ہے۔ لیکن لا ئی بنیز کا موقف یہ تھا کہ زمانہ حوادث سے علیحدہ کوئی شے نہیں۔(۱۸) فلاسفہ کے نزدیک زمانہ کی اقسام قاضی قیصر الاسلام زمانے کی اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں:۔ زمان کی درج ذیل اقسام ہیں۔ زماں کا تصور ’’پہلے ‘‘و ’’بعد‘‘ کے شعور سے مربوط ہے ۔ ہمارے مشاہدے کی یہ دنیا ایک تغیر مسلسل ہے اور اس متبدل دنیا میں ہم اشیاء اور حوادث کا ادراک یکے بعد دیگرے کرتے رہتے ہیں۔ حقائق کا یہ تواتر ہمارے زمان کے تصور کے باعث ہوا کرتاہے۔ زمان کے مسئلے کو ہم دو نکتہ ہائے نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں ۔ (۱) تصوراتی زمان تصوراتی زمان نفسی زمان سے ذرا مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ یہ زمان کے مختلف نفسی مشاہدوں کی تعمیم کے واسطوں سے ہم تک پہنچتا ہے ۔ یہ ایک ایسا جھرنا ہے جہاں تغیرات کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ اسے خود حوادث سے کم و بیش آزاد و خود مختار خیال کیا جاتا ہے ۔ گویا یہ ایک دوران عمومی ہے ۔جس کے بارے میں ہم تصور کرتے ہیں، دراصل ایک مجرد زمان ہے یہ حرکت و تغیر کے مطالعے کی تمام مجرد کوششوں کی نظری حرکیات کا زمانہ ہے ۔ ایک ایسے مجرد تصور زمان کے مطابق حال کسی تیز استرے کی مانند ایک کنار غیر محسوس ہے ۔ جس کا کوئی وقفہ بالواسطہ نہیں اور ماضی اور مستقبل کی مثال اسی کے لا متناہی پھیلائو میں ہے۔ (۲) نفسی زمان نفسی زمان وہ ہے جسے ہم ماضی حال اور مستقبل کے طور پر مدرک کرتے ہیں ۔ تغیرات جن کا براہ راست مشاہدہ ہم اپنی ذات اپنے اکناف میں پھیلی ہوئی اشیاء میں کرتے ہیں ۔وہ دراصل زمان کے بارے میں ہمارے نفسی بیان کی بنا پر ودیعت ہوتے ہیں اور اس کا تعلق کسی شخص کے شعور سے ہوا کرتا ہے اور جیسے ہی یہ شخص شعور سے عاری ہونے لگتا ہے۔ ویسے ہی یہ تصور بھی اپنے وجود سے خارج ہونے لگتا ہے۔ ہم حوادث کے تواتر کے مشاہدے کے سبب ہی ایک سیلِ زمانی کا تصور کر پاتے ہیں ۔ اقبال کے تصور زمان کا دوسرا نام تقدیر اور اس کا ماخذ شبیر احمد غوری لکھتے ہیں :۔ ان واضح شہادتوں کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ اقبال کی یہ نئی دریافت زمانہ ہی کا دوسرا نام تقدیر ہے ۔ ساسانی عہد کی روایت سے ماخوذ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے جب چھٹی صدی عیسوی میں سیاسی انتشار کے ساتھ فکری انتشار بھی پھیلنے لگا اور حکومت کی گرفت کمزور ہو جانے کی بنا پر قدیم زردانیت کو پھیلانے کا موقع ملا تو توحید کے پردے میں زمانہ پرستی کی اشاعت شروع ہوئی ۔ چنانچہ ہوادٹ (Ancient Persian & Iranian Civilization) میں کہتا ہے۔ ساسانیوں کے زمانہ میں خارجی فرقوں کے اندر ایک توحیدی رجحان واضح طور پر نظر آتا ہے۔ زمان ’’لا محدود‘‘ یا ’’زروان ‘‘ اکراں کی اصطلاح جو اوستا کے آخری باب میں ملتی ہے۔ اللہ واحد کے تصور کے لیے بطور انسان استعمال کی گئی جو مبداء خیرو شر ہے۔ مزدا اور اہرمن دونوں سے بلند تر ہے ۔ یہ عقیدہ چوتھی صدی میں تھیوڈور مصیصی کے اور پانچویں صدیں میں ارمنی مصنفین ازنیک کے علم میں تھا (۲۰) غرض یہ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات کی عظیم دریافت ’’زروانیت سے ماخوذ ہے‘‘ جسے خود مجوسی بھی دہریت اور الحاد سمجھتے تھے ۔ اسی طرح علامہ اقبال کا خیال جو زمانہ کی زبان سے ادا کیا ہے :۔ من کسوت انسانم پیراہن یزدانم اسلام کی مسلمہ تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ۔ (۲۱) اقبال کا تصور ذات باری تعالیٰ زمانی ہے تمام اسلامی فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ ذات باری تعالیٰ زمانی نہیں ہے۔ مگر علامہ زمانہ کو پیراہن یزداں بتانے پر مصر ہیں۔ اسی طرح علامہ کا یہ خیال جو انہوں نے زبان سے ادا کیا ہے آدم و افرشتہ در بندِ من است! عالمِ شش روزہ فرزند من است! ہر گلے کز شاخ می چینی منم اُمِّ ہر چیزے کہ می بینی منم ! اقبال کا تصور ایرانی زروانیت ہی سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ مارٹن ہیگ لکھتا ہے:۔ The First Greek writer who alludes to it is Damascius. In his book on Primitiro Principle's (12th P.384 ed koop) he says the Magi and the whole Aryan nations consider, as Eude mos writes some space and the others time . as the universal cause out of which the good God as well as the evil spirits were seperated (22) شبیر احمد غوری ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ جمہور متکلمین و حکماء کے مسلک کے بر خلاف انہوں نے ذات باری تعالیٰ کو بھی زمانی قرار دے ڈالا ۔ چنانچہ اپنی نظم (نوائے وقت) میں فرماتے ہیں:۔ من کسوت انسانم پراہن یزدانم ظاہر ہے کہ زمان و مکان کے سرے سے انکار اور سلسلہ روز و شب کو نقش گر حادثات ماننے میں بُعد المشرقین ہے ۔ جسے وحدت تنظیم کے تابع نہیں لایا جا سکتا ۔ لہٰذا اس فکری اضطراب کے بعد علامہ اقبال کے نظریہ زمان کی تائید میں ان کے اشعار سے استشہاد انتہائی گمراہ کن ثابت ہو سکتا ہے (۲۳) محدثین کے نزدیک فلسفہ زمان کا مفہوم شبیر احمد غوری لکھتے ہیں:۔ محدثین کرام کے نزدیک دہر اور زمانہ اللہ تعالیٰ کی منجملہ مخلوقات کے ایک مخلوق ہے ۔ جس کا حوادث میں کوئی دخل نہیں ہے چنانچہ امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے۔ واما الدھر الذی ھوالزمان فلا فعل لہ بل ھو مخلوق من جملہ خلق اللّٰہ تعالٰی رہا دہر جو زمانہ ہے تو اس کا کوئی فعل نہیں ہے۔ وہ تو صرف منجملہ مخلوقات خداوندی کے ایک مخلوق ہے۔(۲۴) متکلمین کے نزدیک فلسفہ زمان کا مفہوم متکلمین کے دو گروہ ہیں ۔ دائیں بازو والوں (اشاعرہ) نے اس باب میں ایک عملی نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک زمانہ انساں کا اندازہ ہے اور معاشرتی ضرورتوں کے لیے ایک پیمانہ ہے۔ مجّدد معلوم بقدریہ متجدد آخر مو ھوم ایک معلوم و متعین امر متجدد ہے جس سے دوسرے مجہول متجدد کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اور گرم بازو والے گروہ نے سرے سے اِس کے وجود خارجی ہی کا انکار کر دیا جیسا کہ شرح الموقف میں ہے ۔ المقصد السابع انھم ای المتکلمین انکرو ایضاً الزمان ساتواں مقصد اس باب میں کہ انہوں نے یعنی متکلمین نے زمانہ (کے وجود خارجی) کا انکار کیا ہے۔ اور اس انتہا پسندانہ اقدام کے لیے وہ مجبور بھی تھے کیونکہ زمانہ کے وجود خارجی کا اقرار خواہ اس کے حدوث کے قول کے ضمن میںہی کیوں نہ ہو منطقی طور پر قائل کو زمانہ کی ازلیت(دہر پرستی) کاقائل بنا دیتا ہے۔جیسا کہ امام رازی نے مباحث مشرقیہ میں ارسطو کی طرف منسوب کیا ہے۔ من قال بحدوث الزمان فقد قال بقدمہ من حیث لا یشعر جو زمانہ کے حدوث کا قائل ہے اس نے غیر شعوری طور پر زمانہ کے قدم کا اعتراف کر لیا۔ بہرحال یہ ہے زمانہ کا اسلامی تصور ۔ مگر محدثین کی تعلیم کے خلاف جس میں زمانہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ حوادث کائنات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ علامہ اقبال اسے موثر بالذات مانتے ہیں۔ جیسے سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات(۲۵) شبیر احمد خان غوری ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:۔ متکلمین کا انکار زمان شرح الموقف میں متکلمین کے بارے میں لکھا ہے ’’المقصد السابع انہم ای المتکلمین انکرو ایضا الزمان ۔ یاتو ان کا مقصد اس بات میں ہے کہ انہوں نے یعنی متکلمین نے زمانہ (کے وجود خارجی ) کا انکار کیا ہے ۔ (جزب) متکلمین کا انکار مکان: اسی طرح مکان کے متعلق ان کے مذہب کے بارے میں لکھا ہے:۔ الاحمال الثالث فی المکان انہ البعد المفروض و ھوالخلاء وجوّزہ المتکلمون و منعہ الحکماء مکان کی حقیقت کے باب میں تیسرا احتمال یہ کہ وہ بعد مفروض کانام ہے ۔ جس کا دوسرا نام خلاء ہے۔ متکلمین خلاء کے جواز کے قائل ہیں۔ لیکن حکماء اس کے منکر ہیں ۔(۲۶) اقبال کا انکار زمان یہ مسلک ضرب کلیم کے افتتاحیہ میں علامہ اقبال نے اختیار کیا ہے وہ بھی طبیعیین و فلاسفہ کی تمام فکری سرگرمیوں کو جو انہوں نے حقیقت زمانہ کی توضیح کے باب میں پیش کی ہیں ۔ شرک اور زمانہ پوشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ(۲۷) شبیر احمد غوری ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :۔ علامہ اقبال بھی زمانہ کو نقش گر حادثات بلکہ اصل حیات و ممات قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ بال جبریل کے اندر مسجد قرطبہ کا آغاز اسی مقصد سے کرتے ہیں۔ سلسلۂ روز و شب نقشگر حادثات سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات(۲۸) ظاہر ہے کہ زمانہ کے موثر بالذات ہونے کا اعتراف نقش گر حادثات سے زیادہ صریح طور پر نہیں کیا جا سکتا ۔ اقبال کے نزدیک زمان ازلی اور ابدی ہے اسی طرح اقبال زمانہ کی ازلیت و ابدیت کے باب میں فرماتے ہیں :۔ وقت ماکو ’’اول و آخر‘‘ ندید از خیابانِ ضمیر ما دمید دوسری جگہ فرماتے ہیں :۔ اصل وقت از گردش خورشید نیست وقت جاوید ست و خور جاوید نیست(۲۹) اقبال کے نزدیک اللہ تعالیٰ زمانی ہے اور وہی کائنات میں پھیلا ہوا ہے روح اقبال کے مصنف نے اقبال کے نظریہ زمان کی توضیح میں لکھا ہے:۔ اقبال نے اپنی نظم نوائے وقت میں زمان کے مختلف پہلوئوں کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ زمانہ انسان کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے میں تیری جان ہوں ، میں تمام عالم پر محیط ہوں ۔ انسان اور فطرت دونوںپر الگ الگ طریقوں سے اثر انداز ہوتاہوں ۔ میں فنا کے گھاٹ بھی اتارتا ہوں اور اپنے سرجیون چشموں سے حیات جاوداں بھی عطا کرتا ہوں ، قوموں کا عروج و زوال مجھ سے ہے۔ غرضیکہ حیات و کائنات کی ساری ہنگامہ آرائیاں میرے ایک اشارہ ابرو کا نتیجہ ہیں۔ خورشید بہ دامانم ، انجم بہ گریبانم در من نگری ہیچم ، در خود نگری جانم در شہر و بیابانم در کاخ و شبستانم من دردم و درمانم ، من عیش فراوانم من تیغ جہاں سوزم ، من چشمۂ حیوانم چنگیزی و تیموری ، مشتے ز غبار من ہنگامۂ افرنگی ، یک جستہ شرار من انسان و جہانِ او از نقش و نگارِ من خون جگر مرداں ، سامان بہار من من آتش سوزانم من روضۂ رضوانم ظاہر ہے کہ زمان و مکان کے سرے سے انکار اور سلسلہ روز شب کو نقش گر حادثات ماننے میں بُعد المشرقین ہے۔ جسے وحدت فکر کے تابع نہیں لایا جا سکتا ۔ لہٰذا اس فکری اضطراب کے بعد علامہ اقبال کے نظریہ زمان کی تائیدیں ان کے اشعار سے استشہاد انتہائی گمراہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ (۳۰) اہل عرب کا انکار زماں عرب جاہلیت میں دہر پرستی تک پہنچ جاتے ہیں عرب جاہلیت دہر کو حوادث کائنات میں موثر بالذات مانتے تھے ۔ چنانچہ شہر ستانی نے کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے:۔ واعلم ان العرب اصناف شتّی فمنھم معطلۃ و منہ محصلہ نوع تحصیل معطلۃ العرب وھی اصناف فصنف منھم انکار الخالق والبعث و الا عادۃ وقالو الطبع المحی والدھر المغنی و ھم الذین اخبر عنھم القرآن المجید و قالو اماھی الا حیالتا الدنیا نموت ونحی و ما یھکنا الا الدھر اشارۃ الی الطبائع المحسومۃ و قصر الحیاۃ و الموت علی ترکّبھا و تحللھاو الجامع ھوا لطبع و المھلک ھو الدھر (۳۰) جاننا چاہیے کہ عربی (جاہلیۃ)کے مختلف فرقے تھے ۔ بعض مذہب تعطیل کے پیرو تھے۔ بعض ایک حد تک معطلہ تھے ۔ معطلہ عرب کی کئی قسمیں ہیں ایک قسم خالق کائنات اور حشر و نشر کی منکر تھی اور اس بات کی قائل تھی کہ طبیعت فطرت زندگی بخشنے والی ہے اور دہر فنا کرنے والا ہے۔ اسی فرقے کے قول کو قرآن کریم دہراتا ہے اور بولے وہ تونہیں مگر ہماری دنیا کی زندگی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ ، جس کا اشارہ طبائع محسوسہ کی جانب ہے۔نیز اس بات کی طرف زندگی اور موت انہیں طبائع کی ترکیب پر موقوف ہیں۔ پس طبیعت جامع (موجب) تکوین اور ہلاک و برباد کرنے والا ’’دہر‘‘ ہے (۳۱) الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید اور حقیقت زماں یورپی فکر کی رہنمائی سے مایوس ہو کر علامہ اقبال نے اسلام کی طرف نظریں اٹھائیں۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے مقالہ کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں عہد اسلامی کے ایران کی الٰہیاتی و مابعد الطبیعیاتی سرگرمیوں کامطالعہ کیا تھا ۔ مگر اب انہوں نے مستشرقین کی وساطت کے بغیر براہ راست اسلامی مفکرین کے افکار کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس آزادانہ تفکر کا نتیجہ وہ لیکچر تھے۔ جو انہوں نے ۱۹۲۸ء میںحیدر آباد اور مدراس میں الٰہیات اسلامی کی تشکیل جدید کے عنوان سے دیے۔ اس میں انہوں نے حقیقت زمان کی توضیح بھی کی ۔ جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ اس کی صحیح توجیہہ سے تمام سابق مفکرین نا کام رہے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں:۔ زمانہ کو جب ایک عضوی کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو قرآن کی زبان میں اس کو تقدیر کہتے ہیں۔ لفظ تقدیر کی مسلمانوں کے ہاں اور غیر مسلموں میں بھی بالکل غلط تعبیر کی گئی ہے ۔ تقدیر زمانہ ہی کی ایک شکل ہے۔ جب کہ اس کے امکانات کے ظہور سے قبل اس پر نظر ڈالی جائے۔ زمانہ کو جب تقدیر خیال کیا جاتا ہے تو ماہیت اشیا بن جاتی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے خلق کل شئی و قدرہ تقدیرا ۔(۲:۲۵) غرض مصنف روح اقبال کے لفظوں میں اقبال کے نزدیک زمانہ ہی کا دوسرا نام تقدیر ہے پھر بات محض اتنی ہی ہوتی تو کسی سنجیدہ نقد و تبصرہ کی ضرورت نہ پڑتی ۔ لیکن مطالعہ اقبالیات کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے مفکر اسلام ہونے پر زور دیا جاتا ہے اور ان کے خیالات کو عہد حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں تعلیمات اسلام کی ترجمانی سمجھا جاتا ہے ۔ (۳۲) شبیر احمد غوری ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:۔ ’’ایسا خیال ہوتاہے کہ علامہ جتنے دن جرمنی میں رہے The Development of Metaphysics in Persia کی ترتیب و تحریر کے سلسلے میں انہیں جرمن مستشرقین سے ایران قدیم کے زروانی خیالات سننے کا اتفاق ہوتا رہا ۔ ایرانی زروانیت جو مجوسیت سے پہلے جنوب مغربی ایشیا کا مقبول مذہب تھی زمانہ پرستی کی قائل تھی ۔ اس لیے بہت سے زروانی خیالات ان کے لا شعور میںجمع ہوتے رہے آخری عمر میں جب ان پر اسلام فہمی کا شوق غالب ہوا تو قرآن حکیم کے مطالعہ کے دوران میں یکایک بہت سے زروانی خیالات لاشعور سے شعور میں آنے لگے اور انہیں ایسا محسوس ہوا گویا پہلی مرتبہ حقائق قرآنی کا ان پر انکشاف ہو رہا ہے ۔ مثال کے طور پر آیہ کریمہ خلق کل شئی و قدرہ تقدیرا (۲:۲۵) کی تلاوت کے بعد انہوں نے اس کی تفسیر یہی سمجھی کہ :۔ ’’زمانہ کو جب تقدیر خیال کیا جاتا ہے تو وہ ماہیت اشیاء بن جاتا ہے ‘‘۔ حالانکہ قرآن فہمی کے عام اصول اس تاویل کی مساعدت نہیںکرتے۔ زمان و مکان کے متعلق اہل یونان کا تصور (۱) افلاطون کا فلسفہ زمان و مکان ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں کہ :۔ افلاطون نے اپنی کتاب (Timaeus) میں مکان کے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا ہے:۔ مکان وہ ہے جس میں تمام اجسام واقع ہیں۔ وہ ہمیشہ غیر متغیر ہے ۔ کیونکہ وہ کبھی اپنی صفت نہیں بدلتی ۔ اگر یہ کسی ایسی شے کی طرح ہو ۔ جو اس میں واقع ہے تو جب دو متضاد یا بالکل مختلف خاصیتوں والی اشیاء اس میں آئیں تو ان کی خاصیت بدل جائے گی ۔ کیونکہ مکان کی خاصیت بھی ان میں ظاہر ہوگی اس لیے جس چیز میںتمام دوسری اشیاء جگہ پائیں ۔ اس کو ہر قسم کی شکل و صورت سے پاک ہونا چاہیے ۔ اس کی مثال یوں ہے ۔ جیسے خوشبو دار عطر بناتے وقت ان مائعات میں جن سے مختلف عطر بنائے جاتے ہیں ۔ پہلے سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں ہوتی ۔ یا جیسے کہ ملائم مٹی سے مجسمے بنائے جاتے ہیں تو پہلے سے مٹی میں کسی قسم کی شکل کا اظہار نہیں ہوتا ۔ بلکہ مٹی پہلے بالکل بے شکل ہوتی ہے ۔ فضا کبھی معدوم نہیں ہوتی ۔ بلکہ وہ ہر پیدا شدہ شے کے لیے جگہ مہیا کرتی ہے۔ غرض کہ تمام وہ اشیاء جن کا وجود ہے۔ کسی نہ کسی جگہ ہونی چاہیں اور انہیں کچھ نہ کچھ فضا گھیرنی چاہیے ۔ جو نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر وہ ’’لاشے‘‘ ہے۔ اس تصور کے مطابق نیچر کو ٹھوس اشیاء کا ایک مجموعہ سمجھا گیا۔ جس کے درمیان ایک خلا ہے ۔ جس کی کوئی شکل و صورت یا خاصیت نہیں۔ یونانیوں کے خیال میں مکان کوئی خارجی مطلق شے نہیں۔ بلکہ اس کا مقصد محض یہ تھا کہ وہ مختلف مادی اشیاء کی ترتیب کے لیے ایک واسطے کا کام دے (۳۳) (۲) ۔ زینو کا فلسفہ زمان و مکان ایک دوسرے یونانی فلسفی زینو (Zeno) کا خیال تھا کہ فضا ایک لا متناہی درجے تک قابل تقسیم شے ہے ۔ یعنی فضا کے کسی حصے کو جس قدر چاہئیں چھوٹے اجزا میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ فضا میںحرکت محض ایک فریب نظر ہے،کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کسی محدود وقت میں لا محدود نقطے طے کیے جائیں ۔ حرکت کو اس طرح غیر حقیقی تصور کرنے سے فضا کے خارجی مستقل بالذات وجود کی نفی ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ زینو یہ سوال کرتا ہے کہ :۔ اگر آپ کسی آن میں کسی مقام پر ہوں تو اس کے بعد کی متصلہ آن میں متصلہ پر کیوں کرپہنچ سکتے ہیں،جب کہ آپ کسی درمیانی آن میں کسی مقام پر بھی نہ ہوں ؟ یہ خیال صریحاً اس بنا پر پیدا ہوا ہے کہ زینو کے نزدیک زمان کا محدود آنوں سے اور مکان لامحدود نقطوں سے مل کر بنا ہے۔ اگراس لا محدود تقسیم پذیری کو مان لیا جائے تو پھر چونکہ ایک متحرک جسم دو متصلہ نقطوں کے درمیان خارج العمل ہوگا۔ اس لیے حرکت نا ممکن ہوگی ۔ کیونکہ اس کے درمیان اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی( ۳۳) (۲)۔ علماء اسلام کا فلسفہ زمان و مکان ا ۔ اشاعرہ کا تصور زمان و مکان اشاعرہ نے زمان و مکان کی لا محدود تقسیم پذیری کے تصور کو رد کر دیا ۔ ان کے خیال میں زمان و مکان اور حرکت ایسے نقطوں اور آنوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ جن کی مزید تقسیم نہیں ہو سکتی۔ گویا زمان و مکان کے متعلق اشاعرہ کا تصور ایک طرح کا کوانٹم تصور ہے ۔ اس تصور کی مدد سے انہوں نے زینو کے اس خیال کی تردید کی کہ حرکت نا ممکن ہے۔ جب زمان و مکان کو صرف ایک حد تک قابل تقسیم مان لیا جائے ۔ تو پھر صریحاً یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک محدود وقت میں مکان میں نقل مقام اور حرکت کی جا سکے ۔ اشاعرہ کے نزدیک کسی جسم کی حرکت کا تصور حسب ذیل تھا ان کا خیال تھا کہ فضا جواہر فردہ پر مشتمل ہوتی ہے اور اس لیے حرکت در حقیقت جواہر کا نقل مقام ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ کوئی جسم دوران حرکت میں فضا کے تمام نقطوں پر سے ہو کر گزرتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح خلا کے آزاد اور خارجی وجود کو تسلیم کرنا پڑتا اور انہیں اس سے انکار تھا ۔ اس لیے انہوں نے ’’چھلانگ‘‘ کا تخیل پیش کیا کہ سالمے دوران حرکت میں تمام درمیانی نقطوں پر سے گزرنے کی بجائے صرف چند نقطوں پر سے گزرتے ہیں اوربقیہ فضا چھلانگ کے ذریعے پھلانگ جاتے ہیں ۔ عبدالباری ندوی صاحب کے قول کے مطابق ’’طفرہ‘‘ (چھلانگ) کا نظریہ اشاعرہ کا نہیں ۔ بلکہ نظام معتزلی کا ہے ۔(۳۴) زمان و مکان کے متعلق کوانٹم کا جدیدنظریہ جوہر کی چھلانگ کا یہ تخیل پلانک (Planck) اور بوہر (Bohr) کے موجودہ کوانٹم تخیل سے ملتا جلتا ہے۔ جدید کوانٹم نظریے میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی متحرک نظام کی حالتوں میں تغیر مسلسل نہیں بلکہ غیر مسلسل ہوتا ہے ۔ ایک ذرہ الیکٹرون اپنے مرکز ے کے گرد صرف چند خاص مداروں میں حرکت کرتا ہے ۔ اسے اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ ان مداروں کے درمیان اور بھی مدار ہو سکتے ہیں (۳۵) اقبال کے نزدیک زمان کوئی مطلق شے نہیں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں:۔ اقبال کے نزدیک زمان بھی کوئی مطلق شے نہیں ۔ بلکہ نفسیاتی زندگی پر منحصر ہے۔ وہ اشاعرہ اور جدید علمائے طبیعیات کے ساتھ اس خیال میں متفق ہیں کہ زمان و مکان دو علیحدہ، ایک دوسرے سے بے تعلق چیزیں نہیں ۔ بلکہ صرف ایک ہی چیز ’’نقطہ آن‘‘ موجود ہے جسے سائنس دان ’’سلسلہ زمان و مکان ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ لیکن جہاں تک نقطوں اور آنوں کے باہمی رشتوں کا تعلق ہے ، اقبال کو اشاعرہ کی رائے سے اختلاف ہے۔ اقبال کے نزدیک نقطہ اور آن دونوں میں سے آن زیادہ اساسی ہے ۔ اگرچہ نقطے کو آن سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ آن کے ظہور کے لیے نقطہ لازمی ہے۔ آگے چل کرہم دیکھیں گے کہ نقطہ اور آن کا یہ تصور جدید نظریۂ اضافیت کی رو سے بھی ٹھیک ہے ۔ اشاعرہ نے زمان کا جو جوہری یا کوانٹم تخیل پیش کیا ہے ۔ اس پر بھی اقبال کو اعتراض ہے ۔ وقت کو انفرادی آنوں کا سلسلہ ماننے سے یہ غلط نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ وقت کی دو آنوں کے درمیان کچھ نہ کچھ خلا یا خالی وقت ہے۔ (۳۶) ابن حزم کا تصور زمان مسلم مفکرابن حزم نے اشاعرہ کے اس سالمی تصور کی تردید کی ۔ کیونکہ اس کی رائے میں وقت کے اس تصور کو مان کر ہم زینو کے مذکورہ بالا معمے کو حل نہیں کر سکتے ۔ کہ دنیا میں حرکت نا ممکن ہے۔ ابن حزم کے نزدیک زمان اور مکان مسلسل ہیں ۔ یہ تصور عہد جدید کے ریاضی دانوں کانٹور (Cantor) ویژسٹراس (weierstrass) وغیرہ کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ عددوں اور نقطوں کے اس جدید ریاضیاتی نظریے میںبتایا جاتا ہے کہ کسی دو لفظوں الف اور ب کے درمیان ’’خواہ یہ کتنے ہی قریب لے جائیں‘‘ ہم شمار نقطے معلوم کر سکتے ہیں ۔ نقطوں کی ہم جماعت کی اس خاصیت کو حسب ذیل طریقے سے واضح کیا جا سکتا ہے ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی نقطہ ب کسی نقطہ الف کے متصل ہے۔ کیونکہ در حقیقت نقطہ ب نقطہ الف کے متصل نہیں ہے اور نہ کوئی دوسرا نقطہ’’ ج‘‘ یا’’دال‘‘ وغیرہ نقطہ الف کے متصل ہے۔ غرض ہم کسی مقام کے متصل مقام کا تعین نہیں کر سکتے(متصل سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسرا مقام نہ ہو)اور نہ کسی آن کے متصل آن کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی جسم حرکت کر رہا ہے۔ تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ مختلف آنوں میں ہم اسے مختلف مقامات پر دیکھتے ہیں۔ کسی آن ت ا میں وہ کسی مقام پر ہوتا ہے اور دوسری آن ت ۲ میں وہ کسی دوسرے مقام ۲ پر ہوتا ہے۔ اس طرح کی کسی دی ہوئی آن کے متناظر جسم کا ایک مقام ہوتا ہے اور جسم کا ایک مقام ہوتا ہے اور جسم کے کسی دیئے ہوئے مقام کے متناظر وقت کی ایک آن۔ آنوں کے تواتر اور مقاموں کے تواتر کا یہ باہمی تناظر ہی حرکت کہلاتا ہے۔ اس جدید نظریے کے تحت ہم زمان و مکان اور حرکت کے حقیقی ہونے کی تصدیق اور توجیہ کر سکتے ہیں اور اس طرح زینو کے معمے کو حل کر سکتے ہیں۔ ملا جلال الدین دوّانی اور صوفی شاعر عراقی کا تصور زمان و مکان ملا جلال الدین دوّانی اور صوفی شاعر عراقی نے وقت کا ایک اضافی تصور لیا ہے ۔ مختلف ہستیوں کے لیے ، جو خالص روحانیت تک مختلف مدارج رکھتی ہیں ۔ زمان کی نوعیت مختلف ہے۔ مادی اشیاء کے لیے وقت آسمانوں کی گردش سے پیدا ہوتا ہے اور اس کو ماضی ، حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ جب تک ایک دن ختم نہیں ہو جاتا ، دوسرا دن شروع نہیں ہوتا دوسرا دن غیر مادی ہستیوں کے لیے یہی ترتیب اور تسلسل موجود ہے ۔ لیکن وقت کا بہائو ایسا ہے کہ جو مدت مادی ہستی کے لیے ایک سال کی ہے وہ غیر مادی ہستی کے لیے ایک دن سے زیادہ نہیں۔ غیر مادی ہستیوں کے نچلے طبقوں کو درجہ بدرجہ طے کر کے آخر میں ہم ربانی یا الٰہی وقت پر پہنچتے ہیں۔ جو گزرنے یا بہائو کی خاصیت سے بالکل مبرّا ہے اور اس لیے اس میں نہ تقسیم ہے، نہ ترتیب اور نہ تغیر، یہ دوام سے بھی بالاتر ہے اور اس کا نہ آغاز ہے نہ انجام ۔ یہی وہ وقت ہے ۔ جس کو قرآن کریم نے ’’ام الکتاب ‘‘ کا لقب دیا ہے اور جس میں ساری تاریخ عالم علت و معلول کے سلسلے سے آزاد ہو کر ایک مافوق الدوام ’’اب ‘‘ میں سما جاتی ہے۔ عراقی نے اسی قسم کی طبقہ بندی مکان یا فضا کے لیے بھی کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ فضا کے تین طبقے ہیں (ا) پہلا طبقہ مادی اشیاء کی فضا کا ہے۔ جس کے پھر تین درجے ہیں۔ پہلے درجے میں وزن دار اشیاء کی فضا ہے۔ دوسرے درجے میں ہوا اور اسی نوعیت کی ہلکی چیزوں کی فضا ہے اور تیسرے درجے میں نور یا روشنی کی فضا ہے ۔ یہ تینوں فضائیں ایک دوسرے کے اس قدر قریب واقع ہیں کہ ان میں سوائے ذہنی تحلیل اور روحانی واردات کے اور کسی ذریعے سے امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پہلے طبقے کی فضا میں ہم دونقطوں کے درمیان ایک فاصلے کی تعریف کر سکتے ہیں۔ (۲) دوسرا طبقہ غیر مادی ہستیوں یعنی ملائکہ وغیرہ کی فضا کا ہے ۔ اس فضا میں بھی فاصلے کا ایک مفہوم موجود ہے۔ کیونکہ اگرچہ غیر مادی ہستیوں پتھر یعنی ملائکہ وغیرہ کی فضا کا ہے ۔ اس فضا میں بھی فاصلے کا ایک مفہوم موجود ہے ۔ کیونکہ اگرچہ غیر مادی ہستیاں پتھر کی دیواروں میں سے گزر سکتی ہیں ۔ تاہم وہ حرکت سے بالکل بے نیاز نہیں ہیں اور حرکت کے ساتھ فاصلے کا مفہوم لا زماً پایا جاتا ہے۔ فضا سے آزادی اور بے نیازی کا بلند ترین درجہ انسانی روح کو عطا ہوا ہے۔ (۳) تیسرا طبقۂ ربّانی یا الٰہی فضا کا ہے جس تک ہم فضا کے تمام لا محدود اقسام سے گزر کر پہنچتے ہیں۔ یہ فضا ابعاد اور فاصلوں کی تمام قیدوں اور بندشوں سے آزاد ہے اور اسی پر تمام لا متناہیاں آکر مرتکز ہو جاتی ہیں ۔ اس طرح عراقی نے مکان کے جدید تصور تک یعنی اس تصور تک پہنچنے کی نا تمام کوشش کی ہے۔ کہ فضا ایک لا محدود سلسلہ ہے اور حرکیاتی خواص رکھتی ہے۔(۳۸) (۳) یورپ کے جدید فلاسفہ اور سائنسدانوں کا تصور زمان و مکان (ا) ڈیکارٹ (Dscartes) کا تصور زمان و مکان ان میں سے سب سے پہلا نام ڈیکارٹ کا ہے۔ جو سترہویں صدی میں فرانس کا مشہور فلسفی اور ریاضی دان تھا اور جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ جدید فلسفے اور جدید ریاضی کا بڑا نام ہے۔ اس نے اپنے فلسفیانہ نظام کے ضمن میں فضا کا ایک نیا تصور پیش کیا ۔ اس کے فلسفے کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تمام اشیاء ذہن یا مادے میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ذہن کی خاصیت خیال ہے ۔ جو نہ تو جگہ گھیرتا ہے اور نہ فضا میں واضح ہوتا ہے۔ اس بنا پر ڈیکارٹ کا خیال تھا کہ تمام فضا میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور موجود ہو نی چاہیے ورنہ خالی فضا کسی کام کی نہ رہے گی اور یہ خالق عالم کے منافی ہے کہ کسی چیز کو بغیر مقصد کے پیدا کرے۔ علمائے قدیم بھی اس خیال سے متفق تھے ۔ چنانچہ ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ ’’نیچر خلا سے نفرت کرتی ہے ‘‘ اس لیے اگرچہ ستاروں کی درمیانی فضا ہم کو خالی نظر آئے ۔ لیکن دراصل ایسا نہیں ہے ، بلکہ اس میں ایک قسم کی مسلسل شے بھری ہوئی ہے ۔ جس کو اثیر کہتے ہیں اور جو اپنی امتیازی خاصیتیں رکھتی ہے ۔ دیکارٹ کے زمانے سے فضا محض خالی پیدا ہونے کی بجائے ایک خارجی شے ہو گئی ۔ جس کا وجود حقیقی تسلیم کیا گیا ۔(۳۹) (۲) نیوٹن کا تصور زمان و مکان ڈیکارٹ کے بعد نیوٹن نے زمان و مکان کے متعلق تفصیلی تصور پیش کیا ۔ نیوٹن کے تصور کی بنیادیں ایک عالمگیر اثیر پر رکھی گئی تھیں ۔ کیونکہ اس کی میکانیات کا دارومدار ایسے مقاموں پر ہے ۔ جو مطلق طور پر ساکن اور ثابت ہوں۔ اگر اثیر موجود نہ ہو تو فضا میں ہم کوئی ثابت نقطے کہیں حاصل نہیں کر سکتے ۔ زمین اور سیارے سورج کے گرد حرکت کرتے ہیں اور ان کی رفتاریں ۳ سے لیکر ۳۰ میل ہیں فی ثانیہ تک بدلتی ہیں۔ خود سورج ، ستارے اور سحاب بھی ہزاروں میل کی رفتار سے متحرک ہیں۔ غرض کہ ساری فضا میں کوئی جسم ایسا ہم کو معلوم نہیں ہے جو ثابت ہو۔ اس لیے فضا میں کسی نقطے کا تعین کرنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ لیکن نیوٹن کے اصول حرکت کے لیے کسی ایسے مقام کا معلوم کرنا ناگزیر تھا۔ جو مطلق طور پر ساکن ہو اور جس کے ذریعے اشیاء کے مقاموں اور رفتار وں کا تعین کیا جا سکے چونکہ زمین یا آسمان میں کوئی ایسا بالکل ساکن جسم معلوم نہیں ہے ۔ اس لیے نیوٹن نے اثیر اور مطلق فضا کا تصور پیش کیا ۔ چنانچہ وہ خود اس کو یوں بیان کرتا ہے۔ مطلق فضا (مکان) کسی خارجی شے کے لحاظ سے نہیں۔ بلکہ فی نفسہٖ محض اپنی حقیقت کی بنا پر غیر متغیر اور غیر متحرک ہے۔ اضافی مکان کا ایک حرکت پذیر حصہ ہے۔ ہمارے حواس اس کو دوسری اشیاء کے لحاظ سے اس مقام کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔ زمان یا وقت کی ماہیت کے بارے میں بھی نیوٹن کے ایسے ہی خیالات ہیں۔ مطلق ، حقیقی اور ریاضیاتی وقت کسی خارجی شے کے لحاظ سے نہیں۔ بلکہ فی نفسہٖ اور بذات خود یکساں طور پر بہتا ہے۔ اضافی ، ظاہری اور معمولی حقیقی اور مطلق وقت کا ایک خارجی ناپ ہے۔ جسے روز مرہ کے کاروبار میں استعمال کرتے ہیں اور جو گھنٹے ، دن مہینے اور سال سے تعبیر ہوتا ہے۔ آگے چل کر نیوٹن کہتا ہے تمام حرکتوں کو تیز یا سست کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن مطلق وقت کے بہائو میںکوئی تبدیلی پیدا کرنی قطعی ناممکن ہے ۔ تمام اشیاء کے وجود میں ایک ہی امتداد اور ایک ہی استواری ہے، خواہ حرکت آہستہ ہو ، تیز ہو یا بالکل نہ ہو ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نیوٹن کے خیال میں مکان اور زمان دونوں مطلق خارجی وجود رکھتے ہیں اور کسی مشاہدہ یا متحرک شے پر منحصر نہیں ہیں ۔ وقت کے اس تصور پر ، جس کو نیوٹن نے پیش کیا ہے، اقبال نے اس پر کئی اعتراضات کیے ہیں۔ چنانچہ ’’خطبات‘‘ کے صفحہ ۱۰۲ پر لکھتے ہیں:۔ اگر وقت کوئی اپنی چیز ہے جو خود بخود اور بلا کسی خارجی شے کے حوالے کے اس بہائو میں داخل ہونے سے کوئی تغیر پیدا ہو سکتا ہے اور وہ اس شے سے مختلف ہو سکتی ہے ۔ جس نے اس بہائو میں حصہ نہ لیا ہو۔ اور اگر ہم وقت کو ایک ندی کے بہائو کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو پھر ہم اس کی ابتداء انتہا اور حدود کو نہیں سمجھ سکتے۔ نیز یہ کہ اگر وقت کی ماہیت سوائے اس کے کچھ نہ ہو کہ اس کو الفاظ بہائو ، حرکت یا گزران سے کامل طور پر معین کیا جا سکے ۔ اس سے پہلے وقت کو شمار کرنے کے لیے ہمیں ایک اور وقت کی ضرورت ہو گی اور اس دوسرے وقت کو شمار کرنے کے لیے ایک تیسرے وقت کی اور اس طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا ۔ ان وجوہ کی بنا پر اقبال کا خیال ہے کہ وقت کے اس نیوٹنی تخیل میں کئی خامیاں ہیں۔ اسی کے ساتھ انہیں اعتراف ہے کہ وقت کو یونانیوں کی طرح ایک غیر حقیقی شے بھی نہیں قرار دے سکتے اور نہ ہی اس سے انکار کر سکتے ہیں اگرچہ ہمارے پاس وقت کے احساس کے لیے کوئی علیحدہ حس نہیں ہے۔ تاہم وہ ایک قسم کا بہائو ہے اور کچھ ایسی خارجی یا سالمی نوعیت رکھتا ہے ۔ جس کی کوانٹم نظریے سے تصدیق ہوتی ہے ۔(۴۰) نطشے کا تصور زمان و مکان زمان و مکان کا جو تصور نطشے نے پیش کیا ہے ۔ اس پربھی اقبال نے تنقیدی نظر ڈالی ہے ۔ نطشے نے دائمی تکرار اور لا فانیت کے متعلق اپنے عقیدے کی بنیاد بقائے توانائی کے اصول پر رکھی تھی جو انیسویں صدی میں رائج ہوا تھا ۔ اس عقیدے کی تشریح کے ضمن میں نطشے نے زمان و مکان کے متعلق بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مکان یا فضا کے متعلق نطشے کو کانٹ اور دوسرے فلسفیوں سے اتفاق ہے کہ مکان محض داخلی یا موضوعی شکل ہے اور یہ کہنا مہمل ہے کہ پہلے سے کوئی خلا موجود ہے جس میں دنیا واقع ہے۔ لیکن زمان یا وقت کے متعلق نطشے کا تصور کانٹ اور شوپنہار کے تصورسے مختلف ہے۔ اس کے خیال میں زمان داخلی یا موضوعی شے نہیں وہ وقت کو ایک حقیقی اور لا متناہی عمل تصور کرتا ہے جو بار بار لوٹ کر آتا ہے ۔ چونکہ توانائی کے نقصان کا نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام نہ کوئی اوّلین تغیر ہے ، نہ آخری اب چونکہ کائنات کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ توانائی کے تغیروں کا نام ہے۔ اس لیے نطشے کا خیال ہے کہ یہ دنیا ازل سے قائم ہے اور ابد تک رہے گی ۔وقت کے اس طرح لامتناہی ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توانائی کے مرکزوںکی تمام ممکنہ ترتیبیں اور اجتماع ختم ہو چکے ہیں ۔ ہر واقعہ اپنے آپ کو ایک دوسری ترتیب میں بار بار دہراتا ہے ۔ جو آج ہو رہا ہے اور اس سے پہلے بے شمار مرتبہ ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی بے شمار مرتبہ ہو گا۔ کائنات میں واقعات کی ترتیب بھی بالکل معین ہے۔ کیونکہ لا متناہی زمانہ گزرنے کی وجہ سے توانائی کے مرکزوں کا طریقہ عمل معین ہو چکا ہے۔(۴۱) آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں زمان و مکان کا تصور آئن سٹائن نے بتایا ہے کہ نظری اور تجربی دونوں قسم کی وجوہات کی بنا پر مطلق مکان اور مطلق زمان کا تصور ناقابل قبول ہے ۔ مثلاً پہلے اس جملے کو لیجیے کہ فلاں فلاں دو واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوئے۔ اگر یہ واقعات ایک ہی جگہ پر ہوں اور ایک ہی نظام میں ہوں یعنی اگر مشاہد ساکن ہوں یا یکساں سیدھی رفتار سے حرکت کر رہے ہوں تو ’’ ہم وقتی‘‘ کا ایک معین تصور لیا جا سکتا ہے اور اس کی واضح اور غیر مبہم تعریف کی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ تعریف اس وقت کا م نہیں دے سکتی ۔ جبکہ نظام مختلف ہوں اور واقعات مختلف مقاموں پر رونما ہوں۔ آئن سٹائن نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ واقعات کا ہم وقت ہونا ایک اضافی چیز ہے ۔ ایک مشاہد زید کے لیے جو واقعات ہم وقت ہوں ضروری نہیں کہ دوسرے مشاہد بکر کے لیے بھی وہ ہم وقت ہوں۔ بلکہ یکے بعد دیگرے ہو سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وقت کے بہائو کی شرح کا بھی ان دونوں کے لیے یکساں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اگر دو واقعات کے درمیان زید کی گھڑی ایک گھنٹے کا وقفہ ظاہر کرے تو یہ ممکن ہے کہ انہی دو واقعات کے درمیان بکر کی گھڑی میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقفہ معلوم ہو ۔ اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وقت کوئی مطلق چیز نہیں ۔ بلکہ اضافی حرکت کر رہے ہیں ۔ تو ان کے وقت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے ۔ اسی طرح مکان یا فضا بھی مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے کیونکہ دو متحرک اشیاء کے درمیانی فاصلے کے کوئی معنی نہیں ، جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ کس خاص وقت کے لیے یہ فاصلہ ناپا جا رہا ہے اور کون سا مشاہد اس فاصلے کو ناپ رہا ہے لازماً اضافی ہو گا تجربوں کے ذریعے بھی سائنس دانوں نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ متحرک جسموں کا درمیانی فاصلہ دو مختلف مشاہدین کے لیے مختلف ہوتاہے غرض نظریہ اضافیت کی رو سے مکان و زمان مطلق اور ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں بلکہ اضافی اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں ۔ کائنات میں دو مختلف چیزیں زمان و مکان نہیں بلکہ صرف ایک ہی چیز ’’زمان ۔ مکان ‘‘ پائی جاتی ہے ۔ جس میں مکان اور زمان گھل مل جاتے ہیں اور ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انیسویں صدی تک دنیا کا جو سہ ابعادی تصور رائج تھا۔ اس کی بجائے اب چار ابعاد مان لیے گئے ہیں ۔ کیونکہ کائنات محض مقاموں اور نقطوں کا مجموعہ نہیں۔ بلکہ واقعات پر مشتمل ہے ۔ کسی واقعے کومعین کرنے کے لیے صرف اس کے جائے وقوع کا بیان کر نا کافی نہیں ۔ بلکہ یہ بھی بتانا لازمی ہے کہ واقعہ کس وقت ظہور میں آیا ۔ اس طرح واقعے کے تعین کے لیے چار ابعاد یعنی طول ، عرض ،بلندی اور وقت کے معلوم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہماری دنیا جو واقعات کی دنیا ہے ، چار ابعادی ہے۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں زمان اور مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ اس اضافیت کی بنا پر عمل ریاضی کے ذریعے سے یعنی منطق و استدلال سے ، چند اہم نتیجے اخذ کیے جاتے ہیں ، جن کی صداقت میں شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ (الف) اضافیت کے نظریے میں روشنی کی رفتار بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی ثانیہ ہے، یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی ثانیہ ہے۔ بظاہر یہ رفتار ہم کو بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی ایک شعاع زمین کے ایک مقام سے کسی دوسرے مقام تک پلک جھپکنے میں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی رفتار ایک محدود رفتار ہے اور تجربہ خانے میں بعض ایسے مادی ذرے حاصل ہوتے ہیں ۔ جن کی رفتار روشنی کی رفتار کے لگ بھگ ہوتی ہے ۔ نیوٹن کے نظریے میں جو مساواتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ان میں یہ رفتار شامل نہیں ہوتی ۔ لیکن آئن سٹائن کی مساواتوں میں یہ ہمیشہ پائی جاتی ہے ۔ دنیا کے معمولی مظاہر میں رفتاریں بہت سست ہوتی ہیں ۔ چنانچہ تیز ہوائی جہاز کی رفتار ایک گھنٹے میں ۵۰۰ میل یعنی ایک ثانیے میں چند گزسے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ رفتار روشنی کی رفتار کے مقابلے میں بہت ہی حقیر ہے۔ ایسے معمولی واقعات کے لیے نیوٹن اور آئن سٹائن کی مساواتوں میں اس قدر خفیف اور ناقابل لحاظ فرق ہے کہ وہ موجودہ آنوں کی مدد سے نہیں ناپا جا سکتا ۔ ان واقعات کے لیے نیوٹن کی مساواتیں استعمال کرنا کافی ہے۔ البتہ تیز رفتار والے واقعات کے لیے نیوٹن کا نظریہ قطعی غلط ہے ۔ ان واقعات کی توجیہ کے لیے آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ کوئی مادی شے روشنی سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی اور اس لیے روشنی کی رفتار بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ نتیجہ جو باضابطہ ریاضی کی مدد سے حاصل ہوتا ہے ۔ فلسفیانہ نقطہ نظر سے بھی تشفی بخش ہے۔ کیونکہ بفرض محال اگر کوئی مادی شے روشنی سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ۔ تو ایک ایسے مشاہدے کے لیے جو اس نظام میں واقع ہو۔ علت و معلول کا تمام سلسلہ درہم برہم ہو جاتا مثلاً فرض کیجیے کہ ایک مشاہد زید روشنی سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ سفر کررہا ہے ۔ جب وہ ایک مکان کے مقابل سے گزرتا ہے تو بکر ایک کھٹکہ دبا کر چراغ روشن کرتا ہے ۔ زید کو چراغ کی روشنی پہلے نظر آئے گی اور کھٹکہ دبا نابعد میں دکھائی دے گا۔ اس لیے زید کی نظر میں کھٹکہ دبانے کا نتیجہ روشنی ہونا نہیں ۔ بلکہ روشنی ہونے کا نتیجہ کھٹکہ دبانا ہو گا ۔ زید کے لیے تمام واقعات اسی الٹی ترتیب میں رونما ہوں گے۔ لیکن علت و معلول کی اس برہمی کا انسداد آئن سٹائن نے پہلے ہی کردیا ہے ۔ کیونکہ نظریہ اضافیت کا یہ بنیادی مسئلہ ہے کہ زید یا کسی مادی جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے مساوی بھی نہیں ہو سکتی ۔ اس سے زیادہ تیز ہونا تو بدرجہ اولیٰ نا ممکن ہے۔ (ب) اضافیت کے نظریے کا دوسرا اہم نتیجہ یہ ہے کہ متحرک جسموں کا طول حرکت کی سمت میں کم نظر آتا ہے مثلاً فرض کیجیے کہ زید مشرق کی طرف کسی یکساں سیدھی رفتار سے تیز حرکت کر رہا ہے اور بکر ساکن ہے ۔ زید کے ہاتھ میں ایک لکڑی ہے ۔ جس کا طول ایک گز ہے اور جو شرقاً غرباً واقع ہے۔ بکر تجربہ کر کے معلوم کرتا ہے کہ زید کی لکڑی کا طول پورا ایک گز ہوتا ہے نظریہ اضافیت میں اس امر کی تشریح کی جاتی ہے کہ زید اور بکر دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور ان کے مشاہدوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ لکڑی کے طول کو اپنے اپنے نظام میں یعنی مکان زمان میں ناپتے ہیں۔ اگر ہم ان کے نتیجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لورنٹرز کے ضابطوں کو استعمال کریں تو دیکھیں گے دونوں کے نتیجے ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ لکڑی کا ’’اصلی‘‘ طول کوئی معنی نہیں رکھتا ہر طول کسی ناپنے والے یا مشاہد کے لحاظ سے ہوگا ۔ کوئی طول مطلق نہیں سب اضافی ہیں۔ یاد رہے کہ زید کی لکڑی کے طول میں کمی صرف بکر کو معلوم ہو گی ۔ خود زید کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہو گا ۔ کیونکہ اپنی نظر میں وہ ساکن ہے اور اس کی دنیا ہی معمولی دنیا ہے ۔ البتہ زید دیکھے گا کہ بکر مغرب کی طرف تیز رفتار سے جا رہا ہے اور بکر کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں وہ سب حرکت کی سمت میں سکڑی ہوئی ہیں ۔ غرض کہ طول میںکمی کا یہ احساس باہمی ہے۔ (ج) مکان کی طرح زمان بھی اضافی ہے اور مختلف مشاہدین کے نزدیک وقت کا بہائو مختلف ہوتا ہے۔ اس کی تشریح کے لیے بھی وہی اوپر کی مثال لیجیے جس میں زید کے ہر کام میں زیادہ دیر لگتی ہے۔ جس کام کو بکر خود پانچ منٹ میں کرتا ہے ۔ اس کے کرنے میں زید کو چھ منٹ لگتے ہیں۔ بکرکا سگار ۲۰ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے ۔ تو زید کا سگار بکر کی نظر میں آدھ گھنٹہ جلتا رہتا ہے ۔ غرض بکر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ زید کا وقت سستی سے طے ہو رہا ہے ۔ وقت کی سستی کا یہ احساس بھی باہمی ہے۔ کیونکہ زید اور بکر میں سے ہر ایک خود کو ساکن اور دوسرے کو متحرک سمجھتا ہے۔ (د) اسی نظریہ اضافیت کی بنا پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر متحرک شے کی کمیت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ زید اور بکر ایک ہی مقام پر ساکن ہیں اور دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک پونڈکا گولہ رکھا ہوا ہے ۔ پھر کسی طرح ان دونوں میں تیز اضافی حرکت پیدا ہو جاتی ہے ۔ بکر سمجھتا ہے کہ زید تیز رفتار کے ساتھ حرکت کر رہا ہے ۔ تجربہ کرنے پر بکر کو معلوم ہوتا ہے کہ زید کے گولے کی کمیت ایک پونڈ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح زید کے نظام کی تمام چیزوں کی کمیت میں اور زید کی کمیت میں بھی بکر کو اضافہ محسوس ہوتا ہے ۔ حالانکہ خود کو ان چیزوں کی کمیت میں کوئی فرق معلوم نہیں ہونا چاہے وہ کوئی تجربہ کیوں نہ کرے ۔ البتہ زید کی نظروں میں بکر تیز رفتار سے حرکت کر رہا ہے اور اس لیے بکر کے ہاتھ کے گولے اور بکر کے نظام کی تمام دوسری چیزوں کی کمیت میں اضافہ معلوم ہوتا ہے۔(۴۲) مصادر و مراجع ۱ ۔ معارف نمبر ۲ ج ۲ ص۹۱ ۲ ۔ جلالپوری ، علی عباس ، اقبال کا علم کلام ،مکتبہ خرد افروز جہلم، ص ۱۷۶ ۳ ۔ جلالپوری ، علی عباس ، اقبال کا علم کلام ، ص ۱۷۶ ۴ ۔ جلالپوری ، علی عباس ، اقبال کا علم کلام ، ص ۲۶۰، ۲۶۱ ۵ ۔ جلالپوری ، علی عباس ، اقبال کا علم کلام ، ص ۲۶۱، ۲۶۳ ۶ ۔ قیصر الاسلام ،قاضی ، فلسفے کے بنیادی مسائل ، ص ۵۴۱ ، نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد، ایڈیشن ۴، ۱۹۹۴ء ۷ ۔ جلال پوری ،علی عباس ، اقبال علم کلام ، ص ۱۷۷ تا ۱۷۹ (معارف نمبر۲، جلد نمبر ۸۸، ص ۹۹) ۸ ۔ جلال پوری ، علی عباس ، اقبال علم کلام، ص ۱۷۹ ، ۱۸۰ ۹ ۔ معارف نمبر ۲ جلد نمبر ۸۸ ، ص ۹۵ ۱۰ ۔ جلالپوری ، علی عباس ، اقبال علم کلام، ۱۸۲ ۱۱ ۔ Parsis P.13 ۱۲ ۔ معارف ، ۲ ج ۸۸ ، ص ۱۰۰، (ایران بعہد ساسانیاں) ، ص ۱۹۶، ۱۳ ۔ اسدی ، علامہ ابوالخیر (مرتب )،ایران بعہد ساسانیاں ، ص ۵۸۵ مرتب کنندہ ، علامہ اقبال کے بعض نظریات پر تنقید ، ص ۱۰۱ ۱۴ ۔ قیصر الاسلام ،قاضی ، فلسفے کے بنیادی مسائل ، ص ۲۰۹ ۱۵۔ قیصر الاسلام، قاضی ، فلسفہ کے بنیادی مسائل ، ص ۲۱۰۔ ۱۶ ۔ قیصر الاسلام، قاضی ،فلسفے کے بنیادی مسائل ، ص ۵۴۵ ، ۵۴۶۔ ۱۷ ۔ قیصر الاسلام، قاضی ، فلسفے کے بنیادی مسائل ، ۵۴۴ ، ۵۴۵ ۱۸ ۔ قیصر الاسلام ،قاضی، فلسفہ کے بنیادی مسائل ، ص ۲۰۸ ۱۹ ۔ قیصر الاسلام، قاضی، فلسفہ کے بنیادی مسائل ، ص ۲۰۶، ۲۰۷ ۲۰ ۔ اسدی ، علامہ ابوالخیر ،ایران بعہد ساسانیان ، ص ۱۵۲، اقبال کے بعض نظریات پر تنقید ، ص ۱۰۱ ۲۱ ۔ اقبال کے بعض نظریات پر تنقید ، ص ۱۰۲ ۲۲ ۔ معارف نمبر ۳ جلد نمبر ۸۸ ، ص ۱۰۳ ۲۳ ۔ معارف نمبر ۲ جلد نمبر ۸۸ ، ص ۹۰ ۲۴ ۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸ ، ص ۹۶ ۲۵۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸ ۲۶ ۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸ ۲۷ ۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸، ص ۸۸ ۲۸ ۔ اقبال، علامہ محمد ، بال جبریل ، ص ۱۲۶ ۲۹ ۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸، ص ۸۹ ۳۰۔ معارف نمبر ۲ ، جلد نمبر ۸۸، ص ۹۰ ۳۱ ۔ شہرستانی، امام ، الملل و النحل ، جلد ۲ ، ص ۹۶ ۳۲ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ، ص ۸۸، ۸۹ ۳۳ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ، اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ، ص ۹۱ ۳۴۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ، اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ، ص ۹۱ ، ۹۲ ۳۵۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ، اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، ص ۹۲ ، ۹۳ ۳۷ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، ص ۹۳، ۹۴ ۳۸ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ، ص ۹۵،۹۶ ۳۹ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، ص ۹۷ ۴۰۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، ص ۹۷،۱۰۰ ۴۱ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین ، ص ۱۰۰، ۱۰۱ ۴۲ ۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر ،اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین، ص ۱۰۲، ۱۰۸  شعریات اردو غزل کی روایت میں اقبال کی انفرادیت پروفیسر ابوالکلام قاسمی علامہ اقبال اپنی پوری شاعری کے سیاق و سباق میں اپنے مخصوص تصورات اور مربوط انداز فکر کے باعث ایک نمائندہ اور ممتاز ترین نظم گو کی حیثیت سے اتنے معروف اورمقبول رہے کہ غزل کی صنف میں ان کی انفرادیت اور کارکردگی کو کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی گئی ۔ اکثر ان کی غزلوں کو نظموں میں رونما ہونے والے افکار و تصورات کا ضمنی اور ثانوی ذریعۂ اظہار قراردیا گیا، اور موڈ کی یکسانیت اور ان کی نظم سے مخصوص فکری نظام سے مربوط ہونے کے سبب ان کی غزل کو بھی نظم سے مختص ربط و تسلسل کا مورد الزام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کی اکثر نظموں پر یہ اعتراض وارد کیا گیا کہ ان میں ربط و تسلسل کی کمی ہے اور ان کے اشعار بسا اوقات غزل جیسی اکائیوں کا تاثر دیتے ہیں ۔۔۔۔ سردست چونکہ موضوع گفتگو اقبال کی نظم نہیں، غزل ہے ، اس لیے دیکھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کی غزل کے معاملے میں بے اعتنائی برتنے یا اعتنا کا منفی رویہ اختیار کرنے کے اسباب و عوامل کیا ہو سکتے ہیں؟ اردو غزل کی پوری روایت میں اقبال کی غزل جتنی مختلف ، منفرد اور روایتی لفظیات سے الگ اپنا مخصوص اسلوب اور نظام لفظیات متعین کرتی ہے اس کے پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لب و لہجہ، لفظیات، اور اس کے غیر مقلدانہ انداز کو سمجھا اور نشان زد کیا جائے ، اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ اقبال کی غزل اپنے اجتہادی طریق کار اور طرز گفتار کا تعین کن محرکات کے باعث اور کن بنیادوں کے حوالے سے کرتی ہے؟ ہماری تنقید کا عام رویہ تجزیاتی جائزے سے صرف نظر کرنے اور فیصلے صادر کرنے کی طرف مائل رہا ہے ، اس لیے کہیں ایسا تو نہیں کہ اقبال کی غزل بھی ہماری اس سہل پسندی کا شکار رہی ہو ، اور ہم نے غزل کی پوری روایت میںاقبال کی انفرادیت کی شناخت کے جوکھم سے احتراز کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رکھی ہو ۔ اس لیے سب سے پہلے اس زمانی سیاق و سباق کو سامنے رکھنا چاہیے جس میں اقبال کی ذہنی اور ادبی نشو و نما ہوئی اور جس فضا میں انہوں نے غزل گوئی کا آغاز کیا پھر یہ اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ مواد اورفکر کے اعتبار سے روایتی شاعری سے مختلف زاویۂ نظر کے ساتھ سامنے آنے والے کسی شاعر کے لیے اس وقت اظہار و بیان کے کیا مسائل ہو سکتے تھے؟ اقبال کی ذہنی نشو و نما اور ادبی تربیت کا زمانہ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے سامنے آنے والی جدید نظم کی تحریک کے غیر معمولی طور پر مقبول ہونے کا زمانہ تھا۔ الطاف حسین حالی نے غزل کی صنف کی نار سائی اور ماضی ٔ قریب کی روایت پر بڑی حد تک خط تنسیخ کھینچنے کی پوری کوشش کی تھی ، ڈپٹی نذیر احمد اور محمد حسین آزاد غزل کی صنف کو از کار رفتہ قرار دے چکے تھے اور اکاّد کاّ مثالوں کے باوجود غزل گوئی کا ماحول قریب قریب ختم سا ہو کر رہ گیا تھا ۔ اس کے بجائے جس طرح کی نظم گوئی کا رجحان پروان چڑھایا جا رہا تھا اس میں حقیقت اور فطرت کی سطحی تعبیروں اور اکہرے پن کا واضح عکس دیکھا جا سکتا تھا ۔ اس وقت نظم گو شاعروں کے سامنے یا تو نظیراکبر آبادی کی بیانیہ نظمیں تھیں یا انگریزی نظموں کے ایسے تراجم جن کے زیر اثر سپاٹ ، اکہری اور واقعیت پسندانہ نظموں کو ہی فروغ مل سکتا تھا ۔ غزل کی وہ روایت جس میں جامعیت اور رمزیت کے اسرار پنہاں تھے، غزل کی عام معنویت کے باعث، اردو غزل میں ان کا احیا قرین قیاس ہی نہیں تھا ، اس لیے اُس نوع کے کسی اسلوب سے نظم میں استفادہ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں غزل کی صنف کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ آیا وہ اپنی روایت کے تسلسل میں اپنی بقا کا سامان فراہم کرے یا پھر ریزہ خیالی ، معاملہ بندی اور متعین مضامین جیسے اعتراضات کا عملی جواب نئی لفظیات اور نئے ڈکشن کی تشکیل کے ذریعہ دے یا پھر موضوعاتی وحدت پر مبنی نظم کی روایت کی بعض ایسی خصوصیات کو اپنے اندر جذب کر لے جو غزل کی ہئیت کو مجروح بھی نہ کریں ۔ اس صورت حال میںبعض غزل گو شاعروں نے غزل کے احیا کی بھی کوشش کی۔ خود الطاف حسین حالی کی بعد کی غزل روایتی موضوعات کے تعین سے انحراف اور عام انسانی معاملات کی تعبیر نو کے قالب میں سامنے آنے لگی تھی ، تاہم غزل کے احیا کے معاملے میں اصغر اور فانی کو کچھ میر و غالب سے استفادہ ، کچھ تفکر آمیز لہجے کی آمیزش اور کسی قدر غزل کے متصوفانہ اسالیب سے استفادہ ، جیسے عناصر کے سبب اہمیت حاصل ہوئی۔ اقبال کی غزل میں تفکر آمیز لہجے کے علاوہ اس طرح کے کسی اور طرح کے روایتی تقلید سے واضح اجتناب برتا گیا۔ اس طرح اقبال نے اپنے لیے غزل کی حد تک نہایت مجتہدانہ روش اختیار کی ۔ عام طور پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ سفر یورپ سے پہلے اقبال کی ابتدائی غزلوں کا مزاج استاد داغ ، امیر مینائی اور اس قبیل کے دوسرے شاعروں سے متاثر ہے۔ یہ بات غلط نہیں کہ اگر بانگ درا اور بال جبریل کی غزلوں کو آمنے سامنے رکھا جائے تو مزاج اورلہجے کے فرق میں اس خیال کی تائید چھپی معلوم ہوتی ہے اور بال جبریل کی غزلیںموضوعات ، لفظیات اور اسلوب اظہار کے اعتبار سے ایک بڑی جست کا پتہ دیتی ہیں ۔ لیکن اس عام مفروضے میں تبدیلی کی ضرورت ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں جب ہمیں بانگ درا کی محض معدودے چند غزلیں داغ اورامیر کی روایت سے وابستہ معلوم ہوتی ہیں ۔ ان غزلوں کے موضوعات روایتی غزل کے موضوعات اور ان کی نشاطیہ کیفیت روایت سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ مگر یہ حکم بھی اقبال کی تمام ابتدائی غزلوں پر نہیں لگایا جا سکتا۔ انہوںنے روایت کے تسلسل میں ایسے شعر ضرور کہے کہ : نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی لائوں وہ تنکے کہاں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں عین ممکن ہے دو ایک اور ایسی غزل نکل آئے جس پر روایت کی پرچھائیں پڑتی ہو ، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کم حیرت انگیز بات نہیں کہ عین اسی زمانے میں جب اقبال روایت کے سُر میں سُر ملا کر مشق سخن کا آغاز کر رہے تھے، ان کی بعض ایسی غزلیں بھی سامنے آنے لگی تھیں جو اپنے استفہامیہ اور مکالماتی لہجے کے باعث نہ صرف یہ کہ ان کی دوسری غزلوں سے مختلف تھیں بلکہ اس بات کا واضح ثبوت بھی فراہم کرتی تھیں کہ اقبال ابتداء سے ہی بعض سوالات سے دو چار تھے۔ اس رویہ کے نتائج ابتداء میں ہی ان کی نظموں اور غزلوں دونوں میں ہئیت و مواد کی سطح پر محسوس کئے جا سکتے تھے۔ اقبال کی اس کشمکش اور فکری آو یزش کا عکس اس نوع کی غزلوں میں صاف دیکھا جا سکتا تھا جن کی نمائندگی یہ اشعار کر سکتے ہیں۔ کیا کہوں، اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب وہ جو تھا پردوں میں پنہاںخود نما کیونکر ہوا تونے دیکھا ہے کبھی اے دیدئہ عبرت ، کہ گُل ہو کے پیدا خاک سے، رنگیں قبا کیونکر ہوا اس نوع کے اشعار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس زمانے میں جب جدید نظم کی تحریک اور مغرب کی سطحی نقالی کے سبب اکہری اور سپاٹ نظمیں کہنے کے رجحان کو فروغ مل رہا تھا، اقبال کے کلام بالخصوص غزل میںبعض نئے سوالات کو حل کرنے اور تہذیب کے دوراہے پر اپنے لیے مناسب راہ متعین کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس زمانے میں محمد حسین آزاد کو اردو شاعری کی نجات انگریزی نظموں کی تقلید میں نظر آ رہی تھی اور الطاف حسین حالی غزل کے مقابلے میں نظم اور مثنوی کو صرف تسلسلِ خیالات اور موضوعاتی ربط کی خاطر رائج کرنے کے طرفدار تھے۔ ایسے عالم میں قومی ، وطنی ، موضوعاتی اور منظری نظموں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہونا کوئی حیرت کی بات نہ تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نے قومی نظم نگاری کے میلان سے اس حد تک اثر ضرور قبول کیا تھا کہ ان کی ابتدائی شاعری میں ملک و قوم سے وابستگی اور وطن سے متعلق مظاہر زندگی پر مبنی بعض نہایت موثر اور معنی خیز نظمیں سامنے آ چکی تھی ۔ مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اقبال کی بالکل ابتدائی نظمیں بھی انجمن پنجاب کے سایے میں پروان چڑہنے والی نظموں کے مقابلے میں نسبتاً دور رس اور خیال انگیز ہوا کرتی تھیں اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ان کی نظموں میں ان کی مخصوص فکر اور انفرادی نقطۂ نظر کا عکس واضح طور پر نظر آنے لگا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس شاعر نے اپنی نظم نگاری میں معاصرِ نظم کے غالب رجحان کو محض صنفی طورپر قبول کیا اور لفظیات ، اسلوب اور شعری طریق کار کے اعتبار سے دبازت اور گہرائی سے عاری نظموں کی تقلید کو اپنا شعار بنانا گوارہ نہ کیا ، بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ غزل میں روایتی لفظیات یا اسالیب اظہار پر اکتفا کر لیتا ۔ چنانچہ اقبال نے اپنی ابتدائی غزلوں میں روایت کا اثر قبول کرنے کے باوجود بہت جلد اپنے لیے بالکل نئی راہ نکالی ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ راہ مشکل اور دشوار گذار تھی ۔ اقبال نے جو نئی روش اختیار کی اس میں ان کو اپنے نو تشکیل پذیر افکار و تصورات سے شعری سطح پر ہم آہنگ ہونا تھا ، غیر روایتی نقطۂ نظر کے لیے غیر روایتی لفظیات کا انتخاب کرنا تھا اور غزل کی متصوفانہ روایت سے ظاہری قربت کے باوجود مذہبی اور مابعد الطبیعیاتی مسائل کے بیان میں اپنے لیے نئے ڈکشن کی تشکیل کرنی تھی۔اقبال نے چونکہ حالی اور آزاد کے برخلاف نو آبادیاتی فکر کی مزاحمت کو اپنا شعار بنایا تھا اور مشرق وطن اور مذہب کے حوالے سے وہ ایک مربوط نظام فکر کو مرتب کرنے میں مصروف تھے ، اس لیے روایتی غزل کی وہ صنفی خصوصیت جس کے باعث شعر کی اکائی پر ارتکاز تک کو قربان کیا جا سکتا تھا ۔ اقبال نے عملی طور پر غزل گوئی میں اس سے الگ رویہ اختیار کیا ۔ اس پس منظر میں اقبال کی غزل میں موڈ کی یکسانیت اور ارتکاز کی کیفیت کچھ غیر فطری نہیں معلوم ہوتی ۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کا یہ مخصوص انداز کس حدتک انحرافی تھا اور وہ اپنے انحراف کو کس قدر شعوری بنیادوں پرقائم کرنا چاہتے تھے؟ اس کا اندازہ اقبال کے بعض مضامین سے زیادہ بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے ۔ جن میںانہوں نے اپنے کسب فیض کے سر چشموں کا ذکر کیا ہے اور میر، سودا ، غالب ، مومن ، ناسخ ، مصحفی ، انیس ، جلال، بیدل اور علی حزیں جیسے مختلف لہجوں کے نمائندہ شعراء سے مثالیں پیش کی ہیں۔ اقبال کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایت کی تقلید اور اس سے انحراف کے مسئلے سے بالکل شروع سے ہی واقف اور دو چار تھے ۔ اسی لیے اپنے کلام پر ہونے والے اعتراضات اور لسانی اجتہادات کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وہ زبان و بیان میں وسعت پیدا کرنے والے رویوں کے امکانات کا بھی ذکر کرتے ہیں اور پنجاب کے شاعروں کے یہاں پنجابی محاورے کی آمیزش پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں علاقائی اثرات اور لسانی تحریفات کو بہ نظر استحسان دیکھتے ہیں ۔ یہ کوئی کم حیرت کی بات نہیں کہ غزل کی لسانیات اور بڑی حد تک متعین رموز و علائم میں جس نوع کی تبدیلی کی بحث اس صدی کے آخری بیس برسوں میں جدید شاعروں مثلاً ظفر اقبال وغیرہ نے بڑے موثر اور مدلل انداز میں اٹھائی اور غزل کی روایتی لفظیات کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل اور حرکت کی ضرورت پر اصرار کیا، علامہ اقبال کے لیے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں غور و خوض کا مرکزی حوالہ بن چکی تھی ۔ اس بات کا اندازہ اقبال کے ایک اہم مضمون سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے تنقید ہمدرد کے جواب میں لکھا تھا اور ’’اردو زبان پنجاب میں ‘‘ کے عنوان سے اپنے موقف کی مدلل وضاحت کی تھی ۔ اس مضمون میں اقبال نے علاقائی زبانوں کے اثرات قبول کرکے اردو شاعری کی لسانی حدوں کو وسعت دینے کے مسئلے پر علم لسان کے نقطۂ نظر سے جدلیاتی شعریات کا نقطۂ نظر پیش کیا تھا ۔ نمونے کے لیے اس مضمون کے بعض فقروں کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے: جو زبان ابھی بن رہی ہو اور جس کے محاورات اور الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتا فوقتاً اختراع کئے جا رہے ہوں ، اس کے محاورات وغیرہ کی صحت اور عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات میں سے ہے۔۔۔ یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس زبان کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت ، ان کے تمدنی حالات اورا ن کا طرز بیان اس پر اثر کئے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ مسلمہ اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے ، اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے ۔ تعجب ہے کہ انگریزی اور فارسی کے محاورات کے لفظی ترجمے کو بلا تکلف استعمال کرو، لیکن اگر کوئی شخص اپنی اردو میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پُر معنی پنجابی لفظ استعمال کر دے تو اس کو کفر و شرک کا مرتکب سمجھو ۔۔۔۔۔۔۔ اس زاویۂ نظر کے بعد اس وضاحت کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ اقبال اردو شاعری کے موجود اسالیب سے مطمئن نہیں تھے اور زبان کے تمام رموز و نکات سے باخبری کے ساتھ وہ لسانی اجتہاد اور شعری محاورے میں تبدیلی کے طرفدار تھے ۔ ان کو یقین تھا کہ اردو کا روایتی شعری سرمایہ جب تک رائج اورمنجمد لفظیات اور کلیشے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، نئے موضوعات و مطالب کے بیان اور نئی فکر کے امکان کو شاعری میںپوری طرح روبہ عمل نہیں لایا جا سکتا۔ وہ خوب واقف تھے کہ ان کو کس حد تک شاعری کی روایتی لفظیات سے استفادہ کرنا ہے اور کہاں کہاں انہیں انفرادی صلاحیت کی بنیاد پر اجتہاد و انحراف کے ذریعہ زبان کے اسلوب میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو غزل کے روایتی سرمایے میں عشق و محبت کے بڑی حد تک متعین روّیے ، عشق مجازی اور عشق حقیقی کو سِکّے کے دورخوں کی حیثیت سے پیش کرنے کی ہنرمندی ، لسانی سطح پر مناسبات لفظی کا اہتمام اور متعین موضوعات کی ترجمانی کے لیے بڑی حد تک متعین لفظیات جیسی حقائق اقبال کے لیے آئینہ تھیں ۔ ظاہر ہے کہ ان ہی عناصر کے سبب غزل کی صنف نے ہماری تہذیبی جمالیات ، رمزیت اور ایمائیت اور مشرقی طرز احساس کا احاطہ کر رکھا تھا ۔ اقبال نے چونکہ عشق کو ایک نیا سیاق و سباق دے کر حقیقی اور مجازی کی حد بندیوں سے نکالا ۔ عقل کے مقابلے میں عشق کو قوتِ محرکہ کے طور پر پیش کیا ، غزل کے واحد متکلم کو انسان کے عالم اصغر ہونے کا شعور بخشا اور داخلی واردات کو انسان کی داخلی قوت ، خود شناسی ، عرفان ذات اور تربیت نفس کے تناظر سے آشنا کیا ، اس لیے اس زاویۂ نظر کی مناسبت سے وہ اظہار کے سانچے میں بھی مناسب اور موزوں تبدیلی پر عمل پیرا تھے ۔ پھر یہ کہ انہوں نے اپنی غزل میں بھی ان موضوعات کو نظم کے موضوعات ہی کی طرح برتنے کی کوشش کی۔ یہ موضوعات ان کے مخصوص تصور حیات اور نظریہ کائنات سے مربوط ہونے کے باعث نظم اور غزل میں کسی نوع کی ثنویت کا تاثر نہیں دیتے ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ انسانی وجود کے مسائل ، عشق کے بالکل اچھوتے تصور اور انسان اور کائنات کی جدید فلسفیانہ تعبیرات پرانے محاورے اور پرانی امیجری پیش نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ اقبال ، اردو غزل کی روایت میں شامل ہند ایرانی تصور حیات اور طرز فکر کو مشرق کا ایک ایسا وسیع سیاق و سباق فراہم کرنا چاہتے تھے جو عجمی روایات کے ساتھ عربی روایت سے ہم آہنگ ہو، اور ایک طرف جہاں مشرق کے مزاج کی نمائندگی کرے وہیں دوسری طرف نام نہاد سیکولر طرز فکر کے بجائے مذہبی اور مابعد الطبیعیاتی مسائل کو بھی اپنے حیطۂ اظہارمیں لاسکے ۔ اس لیے ان کے مخصوص انداز فکر پر مبنی غزل گوئی کے لیے ، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ،روایتی اسلوب اور متعین لفظیات نا کافی تھی ۔وہ غزل کے معنوی افق میں وسعت پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھے اور اس کو شش کا لفظی نظام اور صوتی آہنگ میں تبدیلی پیدا کئے بغیر کامیابی سے ہم کنار ہونا آسان نہ تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرحلہ اقبال کے لیے نہایت آزمائشی بھی تھا اور غزل کی شعریات کو نئے سرے سے مرتب کرنے کا متقاضی بھی۔ اس ضمن میں انہوں نے سب سے پہلا کام یہ انجام دیا کہ اپنی غزل کو تفکر آمیز لہجے سے آشنا کیا اور غزل کی ہئیت میں شامل ان عناصر کو حتیٰ الامکان منہا کرنے کی طرف توجہ دی جن کے باعث الفاظ کی بے جا تکرار اور محض روایت کی تقلید کا تاثر قائم ہوتا تھا ۔ غزل کی ہئیت میں ردیف کے استعمال کا بنیادی مقصد تمام اشعار کو ایک آہنگ کا تابع کرنا تھا۔ مزید برآں یہ کہ ردیف کے باعث غزل کے اشعار کی ریزہ خیالی زیادہ نمایاں ہونے کے بجائے غزل کے پس منظر کا حصہ معلوم ہوتی تھی ، اور ہر شعر کے آخر میں ایک لفظ یا چند الفاظ کی تکرار ، غزل کو ھئیتی وحدت سے ہم آہنگ کر سکتی تھی ۔ اقبال سے جہاں تک ممکن ہو سکا ردیف کے بجائے قافیوں کی بنیاد پر غزل کی ھئیتی وحدت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اور اپنی اردو اور فارسی غزلوں کو بالعموم غیر مردّف رکھا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی غزلوں میںسے نصف سے زیادہ غزلیں غیر مردف اور نصف سے کم غزلیں مردف ملتی ہیں۔۔۔ غزل کی ہئیت کے معاملے میں اقبال کے اس شعوری انحراف اور غیر تقلیدی طریق کار کی توثیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بانگ درا ، کی غزلیں چونکہ غزل کی ھئیتی روایت سے پوری طرح چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب نہیں، اس لیے ان میں بالعموم ردیف کا اہتمام ملتا ہے ۔ مگر اپنے فکری اور فلسفیانہ نظام کی تشکیل کے مرکزی زمانے ، سفر یورپ اور اس کے بعد کی غزلوں میںردیف سے نجات حاصل کرنے اور قافیوں کی بنیاد پر غزل کے آہنگ کو قائم کرنے کا رجحان نمایاں ہے ، اہم بات یہ ہے کہ اس آہنگ میں عربی شاعری کا آہنگ بھی شامل ہے جو ردیف کے استعمال سے مجروح ہو سکتا تھا اور صرف قافیوں کے باعث عربی سے مماثلت کا زیادہ احساس دلاتا ہے ۔ بانگ درا ، اور بال جبریل کی غزلوں کا اگر تقابلی مطالعہ کیا جائے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ اقبال کے شعری اظہار میں وہ کون سے محرکات تھے جو بعد کے زمانے میں بالکل بدلی ہوئی فکر ، غیر روایتی موضوعات اور شاعر کے طرز احساس کے ساتھ تصور کائنات کو نمایاں کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بانگ درا میں اقبال روایت کے ضمن میں رد و قبول کی کیفیت سے دو چار ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ روایتی فکر کے ساتھ پرانے اسلوب کو بھی اپنے لیے ناکافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جہاں ابتداء میں اس طرح کی روایت سے ہم آہنگ اشعار ملتے ہیں کہ: مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی ستم ہو کہ ہو وعدئہ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں وہیں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو غزل کے ان عناصر سے انحراف کرتے ہیں جو محبوب کو مرکزی حوالہ کے طور پر قبول کرنے کی طرف مائل ہوں اور جن میں خود سپردگی اور نفی،انا ، تہذیب عاشقی کا بدل ہو۔ ان کے اس نوع کے اشعار میں واحد متکلم کو ایک متوازی انا کے طور پر پیش کرنے اور کائنات کے تضادات کو حل کر کے بعض متضاد اور متخالف مظاہر کائنات میں وحدت ڈھونڈنے کا رجحان نمایاں ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدئہ دل وا کرے کوئی وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تاروں نے پائی ہے جہاں سے نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں یوں تو ان اشعار کی لفظیات میں بھی ان کے مخصوص اور منحرف طرز فکر کا عکس موجود ہے لیکن اگر اقبال کے انحراف میں اردو کی شعری روایت سے کسی نمونے کو کسب فیض کی سطح پر اپنانے کا سراغ لگایا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام روایتی شاعروں کے بر خلاف اقبال غالب کے تفکر آمیز طریق کار سے انحراف کا سلیقہ سیکھتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرصرف موخرالذکر شعر ؎ میںجبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتاہے وہ باطل ہوں میں میں غالب کے طرز فکر کی نشاندہی کی کوشش کی جائے تو اس کی مماثلت غالب کے درج ذیل شعر سے بہت واضح معلوم ہوتی ہے ؎ پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک چراغ سے چراغ جلانے کے ساتھ اپنے چراغ کی لو کو تیز اور مختلف رکھنے کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ غالب کے شعر کا واحد متکلم ’عنایت کی نظر ہونے تک‘ اپنے الگ وجود کا اقرار کرتا ہے اور وہ بھی شعری اظہار کے عمومی اسلوب میں ، جب کہ اقبال کے یہاں جلوہ پیرائی کو نمودِ حق سے تعبیر کرنے اور اپنے وجود کے مٹ جانے کو باطل کا استعارہ قرار دینے میں اس مذہبی اور ماورائی سر چشمے کا اعتراف بھی شامل ہے جو اقبال کی فکر کو ذاتی وجدان کے ساتھ مذہبی وجدان سے ہم آہنگ کر دیتا ہے ۔۔۔ اقبال کا یہ شعری طریق کار اس وقت اور بھی نمایاں ہوتا ہے جب وہ بانگ درا کی ہی بعض غزلوں میں استعارہ تخلیق کرنے کے بجائے تلمیح اور تمثیل کو استعارہ کا نعم البدل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ؎ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی اس شعر کے ظاہر میں سوائے نمرود کے کوئی اور تلمیح دکھائی نہیں دیتی مگر صرف ایک تلمیح کے باعث پورے شعر کے ڈکشن میں شامل آتش ، عشق، عقل، محو تماشا اور لب بام جیسے سارے الفاظ تلمیح کے لیے فضا سازی کا کام کرتے ہیں اور اس تلمیح کو تمثیل کی سطح پر زیادہ وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس شعری طریق کار کو کچھ بھی کہا جائے مگر روایتی اسلوب کا تتبع کسی طرح بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بانگ درا کی غزلوں میں متذکرہ بالا نوعیت کے اشعار کی نشاندہی سے جہاں ایک طرف شاعر کے بدلے ہوئے ڈکشن ، طرز احساس کی انفرادیت اور قدرے مختلف تہذیبی حوالوں کو نمایاں کرنے کی شعوری کوشش کا پتہ چلتا ہے وہیں اُس رائج مفروضے کی بھی تردید ہوتی ہے جو اردو تنقید نے داغ کے اثر اور روایتی لب و لہجے کی تقلید کے نام سے بانگ درا کی غزلوں کے بارے میں علیٰ العموم قائم ہے۔ پھر یہ کہ ظاہر کی آنکھ، دیدئہ دل ، نالہ خام، بلبل شوریدہ ، نمود حق و باطل اور آتش نمرود جیسے الفاظ جہاں ایک طرف بانگ درا کی متعدد غزلوں کو ایک نئے ذائقے اور فکر کی ایک خاص جہت سے آشنا کرنے لگے تھے وہیں عشق اور عقل کا وہ تصور بھی سامنے آنے لگا تھا جس کو قدرے بعد میں اقبال نے خودی ، انسان کامل، جستجوئے مسلسل اور عشق کی عقل کے ساتھ آویزش کی صورت میں ارتقاء کے عمل سے گزارا اور ان تمام عناصر کی باہمی آمیزش سے انسان کا ایک خود مکتفی تصور پیش کیا، جو کائنات کی تخلیق کے عمل میں قادر مطلق کا شریک ، اپنی مختلف اور الگ شناخت رکھنے والا اور عرفان ذات کا مرکب ہے۔ اقبال ایک شاعر کی حیثیت سے اپنے جو فرائض محسوس کرتے ہیں وہ غزل کی تہذیب میں عاشقی کی روایت کو آگے بڑھانے یا پھر حسن و عشق کی امیجری میں یا اس سے وابستہ مؤلف کی صورت میں مسائل کائنات کا عکس پیش کرنے پر قانع نہ تھا ۔ اقبال کو اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات میں علامتوں کا ایک مرتب نظام نظر آتاتھا جس کے اسرار کی عقدہ کشائی وہ اپنا منصب تصور کرتے تھے ۔ اسی منصب کے باعث وہ اپنے شعری اظہار بشمول غزل میں نئے محاورے کے متلاشی تھے۔ اسی منصب کے تقاضے نے غزل کی پرانی لفظیات سے الگ ایک نیاڈکشن وضع کرنے پر انہیں مجبور کیا ۔ اس بات کا اندازہ اقبال کی ڈائری کے بعض اقتباسات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن میں انہوں نے اپنی ذہنی تربیت میں شامل اور شاعری پر اثر انداز ہونے والے شاعروں میں گوئٹے ، بیدل، غالب اور ورڈز ورتھ کے نام خصوصیت کے ساتھ لیے ہیں اور بیدل اور غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انہوں نے مجھے یہ سکھایا کہ شاعری کے غیر ملکی تصورات جذب کرنے کے بعد بھی جذبہ و اظہار میں مشرقیت کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے ‘‘ اسی طرح انہوں نے دوسری جگہ کائنات اور شاعر کو رو برو رکھ کر دونوں کے منصب کی نشاندہی کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ: روح عالم اپنی باطنی زندگی کی مختلف صورتوں کو علامتوں میں پوشیدہ رکھتی ہے۔ کائنات ایک بڑی علامت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ ہمارے لیے علامتوں کی ترجمانی گوارہ نہیں کرتی ۔ یہ شاعر کا فرض ہے کہ وہ علامتوں کی ترجمانی کرے اور بنی نوع انسان پر ان کے اسرار منکشف کرے ۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ شاعر اور روح عالم ایک دوسرے کے مخالف نہیں۔ کیوں کہ شاعر اسرار کی نقاب کشائی کرتا ہے جنہیں روح عالم پوشید ہ رکھنا چاہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال بحیثیت شاعر، حیات و کائنات کے مخفی حقائق کا سراغ قدیم و جدید فلسفہ و فکر کے پس منظر میں اپنے مخصوص زاویۂ نظر کے ساتھ کرتے ہیںمگر ان کے اظہار کے اسلوب میں رمز و ایما سے زیادہ قدرے وضاحت ملتی ہے ۔ اس کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ کائنات کی اسرار کو بیان کرنے کی خاطر وہ خود بیان و اظہار کے ابہام کے شکار نہیں ہونا چاہتے ۔ علامتوں کی بات آنکلی ہے تو اقبال کے اسلوب اظہار کے حوالے سے یہ بحث بھی کم اہم نہیں کہ اقبال کی غزلوں میں علامت کے بجائے تمثیل پر زور کیوں ملتا ہے؟ اس ضمن میں شاعری کی علامتوںاور علامت نگاری کے پورے رویے میں فرق کرنا لازمی ہے ۔ دراصل ہم نے مغربی شاعری کے بعض ایسے رجحانات کو جو نظم کے لیے مختص تھے غزل کی صنف کے لیے بھی قریب قریب من و عن قبول کر لیا ۔ شاید اسی باعث اردو کی جدید تنقید عرصے سے یہ تاثر قائم کرنے میں مصروف ہے کہ گویا غزل کی صنف میں بھی اس طرح علامت نگاری کو اپنایا جا سکتا ہے جس طرح کی علامت نگاری نظم کے ارتقا، خیال کے تسلسل یا پورے علامتی نظام سے مخصوص ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غزل میں جستہ جستہ متفرق علامات ضرور استعمال ہو سکتی ہیں مگر ہم انہیں ایک رجحان کی حیثیت سے علامت نگاری کا متبادل قرار نہیں دے سکتے ۔ البتہ ایسا ضرور ہوا ہے کہ رمزیت اور ایمائیت کی بنیاد جس نوع کی استعارہ سازی پر قائم تھی اور جن استعاروں کی حیثیت تو اتر استعمال کے سبب اظہار کے محاورے کی سی ہو کر رہ گئی تھی، ایسے الفاظ کو ہماری تنقید علائم کا نام دیتی رہی ۔۔۔ جہاں تک اقبال کی غزل میں زبان کی علامتی یا استعاراتی نوعیت کا سوال ہے تو یہ تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی مضائقہ نہ ہونا چاہیے کہ اقبال غزل میں بعض استعارات تخلیق کرنے کے باوجود ان کو علامتوں کی سطح پر استعمال کرنے کا کوئی تاثر نہیں دیتے ۔ مزید برآں یہ کہ ان کے استعارے بھی استعارے کم اور تمثیل زیادہ ہیں۔ اس لیے اگر اقبال کی غزل میں رمزیت اور تہہ داری کے کسی قدر نشانات ملتے ہیں تو وہ تلمیحوں اور تمثیلوں کو استعاراتی سطح پر استعمال کرنے کے باعث ہیں۔ مثال کے طور پرچند اشعار میں تلمیح یا تمثیل کی نوعیت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی گزر اوقات کر لیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف ان اشعار میں حریم ذات، بت کدہ صفات، باغ بہشت، حکم سفر ، فریب خوردہ شاہیں، طائر لاہوتی ،جلوئہ دانش فرنگ اور خاک مدینہ و نجف جیسے الفاظ لغوی دلالتوں سے کہیں بلند ہو کر تمثیل کی سطح پر ایک مخصوص تصور کائنات سے بھی مربوط ہیں اور معنوی ترسیل سے کہیں زیادہ اقبال کے نظام فکر کے تشکیلی عناصر کو نمایاں کرتے ہیں ۔ جہاں تک اظہار کے براہ راست اور بالواسطہ اسلوب کا سوال ہے تو جس طرح علامت یا استعارہ تہہ دار معنویت کو بعض نئے امکانات سے آشنا کرتا ہے اسی طرح تلمیح اور تمثیل بھی رمزیت اورا یمائیت کی فضا تخلیق کرتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی تہذیبی یاد داشت کو مہمیز کر کے عصر حاضر کا سیاق و سباق بھی تشکیل دیتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ اقبال نے غزل کے مخصوص مزاج اور نظم سے مختلف شعریات کا جو انداز موخر الذکر شعر میں اختیار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں تلمیح بمنزلۂ استعارہ استعمال ہوتی ہے ۔ جلوئہ دانش فرنگ کا تصور مشرقی اقوام کے لیے حیرت و استعجاب کی وہ کیفیت پیدا کر چکا ہے جو آنکھوں کو چکا چوند کرنے سے مماثل ہو سکتی ہے۔ اقبال اس کی مزاحمت کے لیے خاک مدینہ و نجف کو اپنی آنکھ کا ایک ایسا سرمہ بتا کر کرتے ہیں جو آنکھوں کی خیرگی اور چکا چوند سے تحفظ کے لیے موثر ترین ذریعہ ہے ۔ اگر ظاہری لفظیات کے اندر جھانکنے کی کوشش کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ نو آبادیاتی فکر کی برتری کو تسلیم نہ کرکے اور اپنی تہذیب ، اپنی مذہبی اقدار اور عقیدے کی قوت کو وہ اپنے نظام فکر کا سر چشمہ تصور کرتے ہیں ۔ کچھ اسی نوع کا تخلیقی طریق کار بال جبریل کی غزل کے اس شعر میں بھی استعمال کیا گیا ہے: عذابِ دانش حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل یہاں دانش حاضر سے پیدا ہونے والے کرب اور اس کرب و ابتلا سے اس طرح گزرنے کا احساس نمایاں کیا گیا ہے جس کی مثال اسلامی تاریخ سے آتش نمرود اور گلزار خلیل کی تلمیحوں کے ذریعہ نہایت موثر اور پیکریت کی آمیزش کے ساتھ دی گئی ہے ۔ یہ انداز فکر چونکہ اقبال کی معاصر غزل کے انداز فکر سے مختلف ہے اس لیے اس کو لفظی پیکر دینے کا طریق کار بھی غزل کی رسمیاتی لفظیات سے الگ دوسری طرح کی متوازی لفظیات پر مبنی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ غزل کے سرمایے میں جذبہ و احساس کی بالادستی نے جس طرح غزل کی روایت کو داخلیت کا تناظر دے رکھا تھا ، اقبال کے یہا ں یہ داخلیت صرف خارجیت سے ہم آہنگ نہیں ہوتی بلکہ ان کے یہاں خارجیت محض انسانی تجربے اور معاملات کی شعری تشکیل سے عبارت نہیں رہ جاتی بلکہ فکر و دانش سے مربوط ہو کر ماضی کا ایک ایسا پس منظر تیار کرتی ہے جس میں شعور کے ساتھ اجتماعی لاشعور بھی کار فرما دکھائی دیتا ہے ۔ غزل گوئی میں پرانے اسلوب کو ترک کرنے اور ایک بالکل مختلف اسلوب کی داغ بیل ڈالنے کا یہ طریقہ اس وقت غزل کی مخصوص ایمائیت سے الگ قرار دیا جا سکتاتھا جب اقبال نے انحراف کو انحرافِ محض بنایا ہوتا ۔ اس کے برخلاف ہمیں دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ بال جبریل کی غزلوں میں جہاں وہ روایت سے انحراف کرتے یا اس کے عناصر کو ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں اظہار و اسلوب میں اپنا منفرد انداز شامل بھی کر دیتے ہیں جس کو ہم روایت سے بہت سے عناصر نہ لے کر ایک نئی روایت کی تشکیل کے ذریعہ بہت کچھ دینے کا نام بھی دے سکتے ہیں، اس کے نمونے کے طور پر بہت سی اور مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر تفصیل سے گریز کرتے ہوئے محض ان دو شعروں سے سردست غزل کو اقبال کی دین کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل اندھیری رات کی تمثیل کے ساتھ چیتے کی آنکھ کو چراغ بنانا اور داستانِ حرم کی غریب الوطنی ، سادگی اور رنگینی کے پیکر کی تخلیق کے لیے امام حسینؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے واقعات سے بے وطنی ، غیر مصنوعی اور خون کے رنگ سے رنگین حوالوں کا استعمال کرنا ایک ساتھ تلمیح اور استعارہ سازی کی ایسی منفرد اور جدت آمیز فضا کو تخلیق کرنے کے مترادف ہے جس کو غزل کی نوترتیب شدہ شعریات سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم بال جبریل کی غزلوں کو اقبال کی غزل گوئی کی معراج قرار دیں تو کوئی غلط بات نہ ہو گی، اس لیے کہ غزل کی رسومات سے انحراف اور اظہار و اسلوب کے نئے انداز کے عمدہ ترین نمونے ہمیں ان غزلوں میں ہی ملتے ہیں ۔ اظہار کے اس اسلوب میں لفظی تراکیب کی ندرت اور طرز فکر کی انفرادیت کی تشکیل کی خاطر اقبال نے نئی اضافتوں ، نئے لفظی جوڑوں اور نئی تراکیب کو جس طرح استعارہ سازی کا متبادل بنا کر پیش کیا اس کے بعض نمونے نوائے شوق ، حریم ذات ، دِل وجود سینۂ کائنات ، ہنگامۂ ہائے شوق، حرف شیریں ترجمان، گیسوئے تابدار ، محیط بے کراں ، دم نیم سوز ، لذت ایجاد ، خیمۂ گل،جہانِ بے بنیاد ، عروج آدم خاکی اور فیضان نظر جیسی تراکیب میں بخوبی ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ اخیر میں ان چند اشعار سے غزل کی بدلی ہوئی شعریات اور غیر روایتی لہجے سے اقبال کے اسلوبِ غزل کے تنوع پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جا سکتی ہے: یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کر رہ گئی میرے توھمات میں محولہ بالا معروضات کی بنیاد پر اقبال کی غزل کی بدلی ہوئی شعریات کے ساتھ پوری اردو غزل کی بدلتی ہوئی لسانیات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اردو غزل میں یہی اقبال کا اجتہاد ہے اور یہی غزل کو اقبال کی دین بھی ۔  شخصیات عظمتِ ٹیپوؒ علامہ اقبالؒ کی نظر میں ظفر الاسلام ظفر مشہور مورخ و مصنف محمود خان محمود بنگلوری اپنی تصنیف صحیفۂ ٹیپو سلطانمیں ایک جگہ لکھتے ہیں : ٹیپو سلطان کی عظمت کو نمایاں کرنے میں علامہ اقبالؒ نے بھی کچھ کم حصہ نہیں لیا۔ آپ کی سرنگاپٹم میں تشریف آوری اور اخبارانقلاب لاہور میں آپ کے مضامین اور اس کے بعد جاوید نامہ کی اشاعت نے ملک میں سلطان کی شہرت کو اور وسیع کر دیا ۔ مجھے حیرت ہے کہ اس حکیم ملت نے ایک ہی دن میں اپنی روحانی بصیرت سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جس کو ہندوستان ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں نہ دیکھ سکا۔ ان آنکھوں نے یہاں دیکھا ۔ مشرق اندر خواب و او بیدار بود علامہ اقبال اولیاء کرام بزرگان دین اور شاہان اسلام کے بہت معتقد تھے۔ اہل اللہ اور مردان خدا سے ارادت مندی و حسن سلوک کا وصف علامہ اقبال کی سرشت میں اسی طرح رچ بس گیا تھا کہ یورپ میں ’’شراب علم کی لذت ‘‘ سے آشنا ہونے کے باوجود زائل نہ ہو سکا ۔ آپ نے ہر اس صوفی با صفا و مرد خدا کی بارگاہ میں بصد عجز سر تسلیم و نیاز خم کیا جس میں ’’علم وعمل کا وصف ‘‘ ہو۔ زر کیا ہے سر بھی دیدیں گے مریدان باصفا علم و عمل کا وصف کسی پیر میں بھی ہو آپ اہل اللہ اور مردان خدا کے مقبروں کی زیارت کو ’’دل کی زندگی ‘‘ سے تعبیر کرتے تھے ۔ آپ کا زندہ و بیدار دل ’’یاد عہد رفتہ ‘‘سے معمور تھا۔ ’’ اپنے شاہوں ‘‘کی پرانی داستان سطوت و عظمت کو آپ کبھی فراموش نہ کر سکے ۔ شاہی محلات کے ’’اجڑے بام و در‘‘ اور کھنڈرات آپ کو اشکباری کے لیے اکساتے تھے۔ ان کے ’’گریہ پیہم ‘‘ سے آپ کی چشم تر بینا تھی۔ دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در گریۂ پہیم سے بینا ہے ہماری چشم تر علامہ اقبال کے ’مرد مومن ‘ کی امتیازی خصوصیات خود آگہی ’ایمان و یقین کی گہرائی ’جرات و شجاعت ‘ عزم و استقلال ‘سخت کوشی و خطر پسندی ’جذبۂ جہاد‘جلالی و جمالی صفات کی موزوں آمیزش بدرجۂ اتم ’’شیر میسور‘‘حضرت ٹیپو سلطان شہید میں پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ اس مرد مومن کی بارگاہ میں حاضری کی خواہش آپ کے ذہن و تخیل کو ایک طویل عرصہ تک اسیر کئے ہوئے تھی۔ عبدالواحد بنگلوری نے علامہ اقبال کو بنگلور کی سیاحت کی دعوت دی تو اپنے مکتوب محررہ ۸؍فروری ۱۹۲۳ء میں تحریر فرمایا ۔ … مجھے کسی نے پہلے بھی بتایا ہے کہ بنگلور نہایت خوشگوار مقام ہے ۔ آپ سے اس کی تصدیق ہو گئی ۔ ان شاء اللہ میں اس امر کی کوشش کروں گا کہ کچھ عرصہ وہاں گذاروں۔ اس کے علاوہ سلطان شہیدؒ سے مجھے ایک خاص عقیدت بھی ہے ۔ غرض یہ کہ میں آپ کی عنایت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا بشرطیکہ یہاں کے علائق سے نجات مل گئی ۱۔ انجمن اسلامیہ مدراس کی جانب سے جب علامہ اقبال کو کسی خاص اسلامی عنوان پر خطبات پیش کرنے کی دعوت دی گئی تو آپ نے اسے قبول فرما لیا اور پانچ جنوری ۱۹۲۹ء کو مدراس رونق افروز ہوئے۔ دورئہ جنوبی ہند میں حضرت علامہ کے ہمسفر محمد عبداللہ چغتائی اور چودھری محمد حسین تھے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔ … علامہ کے پیش نظر مدراس کی دعوت پر اس لیکچر کے علاوہ میسور میں سلطان ٹیپو شہید کے مرقد کی زیارت بھی تھی ۔ علامہ اقبال کو سلطان شہید سے بہت لگائو تھا کیونکہ سلطان شہید نے حق و باطل کی جنگ میںخود شہید ہو کر نام پیدا کیا تھا۲ ۔ علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سوانح اقبال پر لکھی گئی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف زندہ رود میں رقم طراز ہیں ۔ ان کے (علامہ اقبال کے) نزدیک اس دعوت کو قبول کرنے کے دو اہم وجوہ تھے۔ اوّل یہ کہ جنوبی ہند کے سفر میں وہ سلطان شہید کی تربت کی زیادت کرنا چاہتے تھے اور اس تجربہ سے جو سوز و گداز کی کیفیت ان پر طاری ہو اسے نظم کر کے لافانی بنا دینے کا قصد تھا۔ دوم یہ کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کرتمدن اسلام کے بعض نہایت اہم مسائل کے متعلق ہمعصری تقاضوں کی روشنی میں اپنی تحقیقات یا ان پر مبنی اپنے نظریات یکجا کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ انہیں کتاب کی صورت میں شائع کرا کے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے …۳ دورئہ جنوبی ہند کے مقاصد کا اظہار خود علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب بنام محمد صالح انصاری بانی و سیکریٹری مسلم لائبریری بنگلور محررہ ۸؍دسمبر ۱۹۲۸ء میں یوں کیا ہے: … افسوس ہے میں جنوبی ہند کا دورہ نظم پڑھنے کے لیے یا لکھنے کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ مقصود تعلیم یافتہ مسلمانوں سے مل کر ان کی اسلامیت کا مشاہدہ کرنا ہے اور بعض اہم مذہبی مسائل پر لیکچرز دینا ہے ۔ یہی لیکچر ممکن ہے بعض ممالک اسلامیہ میں بھی دئیے جائیں ۔ شاعری کچھ مدت کے لیے ملتوی کی جا سکتی ہے۔ اس وقت زمانہ اور طرف بلا رہا ہے بنگلور حاضر ہوں گا۔ اس سے مقصود صرف سلطان شہید کے مقبرے کی زیارت ہے اور بس ۴ ۔ چہار شنبہ ۹؍ جنوری ۱۹۲۹ء کی صبح علامہ اقبال اپنے دست راست چودھری محمد حسین اور دیرینہ رفیق ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کی معیت میں مدراس سے بذریعہ ریل بنگلور فروکش ہوئے اور دوسرے دن صبح مہاراجہ میسور شری کرشناراج وڈیر کی خاص موٹر کار میں میسور روانہ ہوئے۔ مہاراجہ کی طرف سے اسٹیٹ کا ایک افسر بھی معزز مہمانوں کی رہنمائی کے لیے ساتھ تھا ۵ حاجی سر محمد اسماعیل سیٹھ کے دولت کدے سے معزز مہمانوں کا یہ قافلہ دفتر روز نامہ ’’ الکلام ‘ ‘ بنگلور پہنچا اور تھوڑی دیر بعد مدیر الکلام کلیم الملک سید غوث محی الدین کو اپنے ساتھ لیے عازم میسور ہوا ۶۔ جمعہ گیارہ جنوری ۱۹۲۹ء کی دوپہر علامہ اقبالؒ چودھری محمد حسین ، محمد عبداللہ چغتائی ، سید غوث محی الدین ، نواب غلام احمد کلامی ، محمد ابا سیٹھ اور صدیق الملک صادق زین العابدین شاہ، پرائیویٹ سیکریٹری مہاراجہ میسور کے ہمراہ سرنگاپٹم روانہ ہوئے ۔ ساتھ ہی میسور کے ماہر موسیقار ، درباری گویے اور شاعر علی جان اپنے آرکسٹرا کے ساتھ موجود تھے جنہیں خصوصیت کے ساتھ مہاراجہ میسور نے علامہ ممدوح کی مصاحبت کے لیے روانہ کیا تھا ۔ یہ قافلہ سرنگا پٹم میں جانب مشرق لال باغ کے وسط میں گنبد سلطانی کے صدر دروازے پر پہنچ کر رکا ۔ علامہ اقبال صدر دروازے سے باغ میں داخل ہوئے۔ سامنے باغ کی روشوںپر ناریل کے درخت دورویہ صف باندھے کھڑے تھے اور وسط میں بیچوں بیچ بلند و بالا گنبد سلطانی اپنی خوش بختی پر نازاں سر اٹھائے ایستادہ تھا جس کی دہلیز پر رحمت حق لپٹی ہوئی تھی اور ملائکہ کے جنود جھک جھک کر اسے چوم رہے تھے ۔ گنبد سلطانی کے قریب اسی چبوترے پر مغربی جانب مسجد اقصیٰ کے منقش خوشنما مینار دعوت نظارہ دے رہے تھے ۔ شمالی دروازے سے نوبت و نقارہ کی آواز آ رہی تھی جس کی روایت سلطان کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔ سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں اور ریاست میسور کے درمیان جو معاہدے ہوئے تھے ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ سلطانی عظمت و جلال کی شان باقی رکھنے کے لیے ہر روز پنج وقتہ نوبت و نقارہ بجتے رہیں۔ افسوس کہ اس قدیم روایت کو اب ختم کر دیا گیا ہے تاہم سلطان شہید کا جاہ وجلال اور اس کی عظمت و احترام ہنوز کروڑوں قلوب میں اسی طرح جا گزیں ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ اس آستانے پر شاہ و گدا کے سر برائے تعظیم خم نہ ہوتے ہوں۔ علامہ اقبال نہایت ہی عقیدت و احترام سے آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ چبوترے کی سیڑھیوں پر اپنے جوتے اتارے اور دھڑکتے دل اور امڈتے جذبات کو سینے میں دبائے گنبد سلطانی کی شمالی دیوار کی طرف بڑھے اور ’’السلام علیکم یا اہل القبور ‘‘ کہہ کر سیاہ سنگ مرمر کی سنگین جالی پر نگاہ ڈالی تو سیاہ مر مر کے کتبے پر نہایت نفیس خط ثلث میں سفید مر مر کے بنے حروف میں یہ آیت قرآنی درج تھی۔ کل من علیہا فان ۔ و یبقی وجہ ربک ذوالجلال و الااکرام ۔ (۲۷؍۲۶:۵۵) آیت قرآنی کے نیچے نستعلیق خط میں یہ شعر کندہ تھا ۔ نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بدیں جانباز سلطانے کہ آمد شد چو مہمانے یہاں سے علامہ اقبال مشرقی برآمدے کی طرف بڑھے تو شیشم کے خوبصورت اور منقش دروازے کی پیشانی پر نصب سیاہ مر مر کے کتبے پر کندہ اس رباعی پر نظر پڑی ۔ از فاطمہؓ زوجہ علیؓ شیر خدا شد سبط نبیؐ سید شہداؓ پیدا ایں فاطمہ زاد از علی حیدر ٹیپو سلطان کہ گشت شاہ شہدا یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کے والد کا نام حیدر علی تھا لیکن اس امر سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ سلطان کی والدہ کا نام بھی حسن اتفاق سے فاطمہ تھا۔ نواسہ رسولؐ شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کے جلیل القدر قابل صد احترام والدین حیدر کرار حضرت علیؓ کرم اللہ وجہ اور جگر گوشۂ رسولؐ حضرت فاطمہؓکے ناموں کی اس باہمی مناسبت نے حضرت علامہ کی طبیعت پر گہرا اثر کیا اور یہی حالت آپ کے تمام رفقائے سفر کی بھی تھی ۔ سب پر سکتہ طاری تھا ۔ کسی کو اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ علامہ نے اپنے قدم جنوبی دروازے کی طرف بڑھائے تو سب نے آپ کی پیروی کی۔ یہاں پہنچے تو دروازے کی پیشانی پر یہ رباعی کندہ تھی : در ملک حجاز از علی حیدرؓ مفتوح شدہ ہفت قلاع خیبر زیں حیدر دکنی دوّل کرناٹک گشتند مطیع یک خدیو کشور حضرت علامہ نے کچھ دیر گرد و نواح پر ایک حسرت بھری نظر ڈالی اور پھر اسی دروازے سے گنبد کے اندر داخل ہو گئے۔ آپ کے پیچھے پیچھے دیگر تمام احباب بھی گنبد میں داخل ہوگئے ۔ علامہ نے گنبد کے اندر داخل ہو کر اوّلاً قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ۔ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتط بل احیاء و لکن لا تشعرون (۱۵۴:۲) ترجمہ : اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۔ گنبدکے اندر تین مزار ہیں ،درمیان میں نواب حیدر علی بہادر کا مزار ہے۔ بائیں جانب ٹیپوسلطان شہید کا اور دائیں جانب ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بیگم کا مزار ہے۔ سلطان شہید کے مزار پر سرخ غلاف تھا۔ اس کی زیارت سے علامہ اقبال کی طبیعت پر انتہائی غم و اندوہ کے اثرات طاری ہوئے۔ خاموش اور اشک بار آنکھوں سے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ بقول ڈاکٹر عبداللہ چغتائی : … علامہ نے جس عقیدت، خلوص اور رقت سے قبر پر فاتحہ خوانی کی اس کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی …۷ ۔ فاتحہ خوانی کے بعد ان ہی کیفیات کے زیر اثر علامہ اقبال اور ان کے رفقائے سفر مسجد اقصیٰ اور گنبد سلطانی کے درمیان واقع برآمدے میں آ کر چپ چاپ بیٹھ گئے ۔ یہاں علامہ اقبال کی جو حالت تھی اس کا نقشہ مدیر الکلام ، کلیم الملک سید غوث محی الدین نے جو اس سفر میں دیگر عمائدین شہر کے ساتھ شریک تھے، حسب ذیل الفاظ میں کھینچا ہے جو بالاختصار درج ذیل کئے جاتے ہیں : … فاتحہ خوانی کے بعد ہم سب مسجد میں آئے جو گنبد کے پاس واقع ہے۔ یہاں دکن کے مشہور و معروف خوشنوا مطرب جناب علی جان صاحب نے شیر میسور نواب ٹیپو سلطان خلد آشیاں کی شان میں ایک بہترین نظم خوش الحانی کے ساتھ پڑھی جو سوز و گداز اور درد دل کے جذبات سے بھری ہوئی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ سامنے گنبد حضرت ٹیپو سلطان شہید واقع تھا اور نگاہیں بار بار ادھر دوڑ کر اس کے صدقے ہوا کرتی تھیں۔ جس وقت علی جان صاحب نظم پڑھ رہے تھے علامہ اقبال پر ایک رقّت کا عالم طاری تھا ۔ کبھی آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں خون کبوتر کی طرح لال ہو جاتی تھیں اور کبھی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو جاتا تھا ۔ اس نظم کے اختتام کے بعد جناب نواب غلام احمد کلامی صاحب نے علی جان صاحب سے ایک اور نظم پڑھنے کی فرمائش کی ۔ جناب علی جان صاحب نے نہایت پر درد اور سوز وگداز آواز میں علامہ سر محمد اقبالؒ کے یہ اشعار پڑھے ۔ نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری سا معین کے جذبات پہلے ہی پر درد تھے اور دلوں میں یاس و حسرت اور درد و غم کا ایک طوفان برپا تھا مگر اس تصویر درد کی نظم نے آگ پر تیل کا کام کیا ۔ سامعین کی حالت متغیر ہو گئی ۔ اگر جناب علی جان صاحب کی یہ پر درد راگنی اور کچھ دیر قائم رہتی تو یقینا سامعین اپنا گریبان چاک کر لیتے ۸ ۔ یہاں سے علامہ اقبال دوبارہ روضۂ مبارک کی زیارت کرنے کے لیے اٹھے اور جب مغربی دروازے پر پہنچے تو پیشانی پر یہ رباعی جگمگا رہی تھی : آں سید شہدائے عرب سبط نبیؐ لخت جگر فاطمہؓ و جان علیؓ از فاطمہ و حیدر دکنی ٹیپو سلطان شہیداں شدہ از جان دلی اس دروازے کے دائیں بائیں دو سنگین کتبے نصب ہیں جن پر ابھرے ہوئے جلی نستعلیق خط میں فارسی اشعارکندہ ہیں۔ دروازے کے بائیں جانب جو کتبہ نصب ہے اسے ٹیپو سلطان نے نواب حیدر علی خان بہادر کی تدفین اور گنبد سلطانی کی تکمیل کے بعد لگوایا تھا ۔ اس میں اس عمارت کی عظمت و شان اور خوبی کی تعریف کی گئی ہے اور ’’حیدر علی خان بہادر‘‘ نام ہی سے ان کی تاریخ سال وفات نکالا گیا ہے یعنی ۱۱۹۵ھ (مطابق ۱۷۸۲ئ) اس کتبے میں شہادت سلطانی پر عربی میں ایک اور فارسی میں سات ابیات مرقوم ہیں۔ فارسی ابیات غلام حسین کے اور عربی بیت السید الشیخ الجفری کے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم رب ارحم السلطان الکریم ٹیپو سلطان شہید شد ناگاہ خون خود ریخت فی سبیل اللہ بود ذیقعدہ بیست و ہشتم آہ شدہ در روز شنبہ حشر عیاں میر سالش بہ نیم آہ بگفت نور اسلام و دیں ز دنیا رفت تاریخ کشتہ شدن سلطان حیدری ٹیپو بوجہ دین محمد شہید شد چو آں مرد میداں نہاں شد ز دُنیا یکی گفت تاریخ شمشیر گم شد روح قدسی بعرش گفت کہ آہ نسل حیدر شہید اکبر شد ان اخذت مصر کما قد ذکروا و سرنج فتن اخذت و ربہا مصیبۃ ما مثلہا ازختہا ذھب عز الروم و الھند کلہا سال و تاریخ او شہید بگفت حامی دیں شہ زمانہ برفت اس کتبہ میں شہادت سلطانی کے چھ تاریخی مادوں میں پانچ فارسی میں ہیں اور ایک عربی میں۔ عربی کے ایک اور فارسی کے چار مادوں سے سال شہادت ۱۲۱۳ھ (مطابق ۱۷۹۹ئ) نکلتا ہے جو حسب ذیل ہیں۔ ۱۔ نیم آہ نور اسلام و دین ز دُنیا رفت ۲۔ ٹیپو بوجہ دیں محمد شہید شد ۳۔ حامی دین شہ زمانہ برفت ۴۔ ذھب عزّ الروم الھند کلہا فارسی کا پانچواں مادئہ تاریخ جو بہت مشہور ہے وہ ’’شمشیر گم شد ‘‘ ہے۔ ۲۷؍ذیعقدہ ۱۲۱۳ھ مطابق ۴؍مئی ۱۷۹۹ء تاریخ عالم کی حسرتناک شام جب سلطان کی خاک و خون سے آلودہ نعش ملی تو منجملہ شاہی دستار اور موتیوں کے ہار کی وہ تلوار جس نے فرنگی استعمار کے حوصلے پست کئے تھے اور جو ملک و قوم کی آزادی، وقار اور عظمت کے لیے بلند ہوئی تھی ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اس وقت سے ’’شمشیر گم شد ‘‘ کے الفاظ سلطان شہید کی تلوار کے لیے بطور استعارہ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ’’شمشیر گم شد‘‘ سے جو مادہ تاریخ حاصل ہوتا ہے وہ ۱۲۱۴ھ ہے جب کہ شہادت سلطانی کا سال ۱۲۱۳ھ ہے۔ مغربی دروازے کے دونوں جانب نصب کتبوں کو پڑھنے کے بعد علامہ اقبال الوداعی دعا کے لیے ایک مرتبہ پھر گنبد کے اندر داخل ہوئے ۔ بقول مدیر ’الکلام‘ سید غوث محی الدین، علامہ اقبال نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’سید صاحب ! میں گنبد سلطانی میں مراقبہ کرنے والا ہوں۔ جب تک میں خود واپس نہ آ جائوں مجھے کوئی نہ بلائے‘‘۔ دوپہر کے تقریباً دو بجے مہاراجہ کے پرائیویٹ سیکریٹری صادق زین العابدین شاہ نے مدیر الکلام سے کہا کہ دریا دولت باغ میں سرکاری طور پر ڈاکٹر صاحب اور پارٹی کے لیے لنچ کا انتظام کر دیا گیا ہے ۔ پکوان ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دیدی جائے۔ مدیر الکلام نے معذرت ظاہر کر دی۔آخر کار علامہ اقبال تقریباً ڈھائی بجے مراقبہ کے بعد باہر تشریف لائے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے ۔ اس موقع پر مسجد اقصیٰ کے صحن میں بنگلور، میسور اور دیگر مقامات کے سینکڑوں افراد موجود تھے ۔ میسور کے مشہور و معروف قومی کار کن اور تاجر پارچہ محمد ابا سیٹھ (سابق ریاستی وزیر عزیز سیٹھ صاحب کے تایا) نے پوچھا ’’حضرت ! آپ نے اتنی دیر جو مراقبہ فرمایا اس دوران میں سلطان شہید نے آپ کو کوئی پیغام بھی قوم کے نام دیا ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ’’ہاں! مجھے بہت سے پیغامات ملے ہیں جن میں سے ایک پیغام کا فارسی شعر مراقبہ کے دوران ہی بن گیا جو یہ ہے ۔ در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہم چوں مرداں جاں سپر دن زند گیست۹ یہ شعر اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب ٹیپو سلطان کے ایک مصاحب خاص نے شہادت سے کچھ دیر قبل یہ مشورہ دیا کہ وہ خود کو انگریزوں کے حوالے کر دیں تو انہوں نے فوراً جواب دیا ’’گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ‘‘۔ بعد ازاں چار اور شعر بھی موزوں ہو گئے جو حضرت علامہ کے انتہائی ذاتی تاثرات پر مبنی تھے اور ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں۔ بشیر احمد ڈار نے انوار اقبال میں بخط اقبال ان اشعار کی فوٹو کاپی صفحہ نمبر ۲۲۹ پر شائع کی ہے۔ پیغام شہید حضرت ٹیپوؒ سلطان شہید آتشے درد دل دگر بر کردہ ام داستانی از دکن آوردہ ام در کنارم خنجر آئینہ فام می کشم او را بتدریج از نیام نکتہ گویم ز سلطان شہید زاں کہ ترسم تلخ گرد روز عید پیشتر رفتم کہ بوسم خاک او تاشنیدم از مزار پاک او درجہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہم چو مرداں جاں سپردن زند گیست ’’ترجمہ : دکن سے میں ایک داستان لایا ہوں جس نے میرے دل میں آگ بھڑکا دی ہے ۔ میرے پہلو میں ایک چمکدار خنجر ہے جسے میں آہستہ آہستہ نیام سے نکال رہا ہوں۔ سلطان شہید کا ایک نکتہ بیان کرتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں عید کی خوشیوں میں تلخیاں نہ پیدا ہو جائیں۔ میں ان کی خاک کو بوسہ دینے کے لیے پہنچا تو ان کے مزار پاک سے یہ آواز آئی کہ اگر دنیا میں مردانہ وار جینا میسر نہ ہو تو مردوں کی طرح جان دے دینا ہی زندگی ہے‘‘۔ گنبد سلطانی کی زیارت اور فاتحہ خوانی کے بعد علامہ اقبال نے صحن کے شمال اور جنوب میں واقع سلطان شہید کے اعزہ کی قبروں کی زیارت کی۔ اس کے بعد علامہ اقبال اپنے رفقاء کے ہمراہ گنبد سلطانی کی شمالی روش پر آگئے ۔ یہاں کچھ دیر رک کر وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کی۔ دوران گفتگو کسی نے علامہ کی توجہ سلطان کے ایک مصاحب خاص میر زین العابدین شوستری کی تصنیف فتح المجاہدین کی طرف مبذول کروائی جسے سلطان نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا اور اس کے ہر مضمون کے اخیر میں سلطان کے دستخط مع مہر ثبت تھے۔ حضرت علامہ نے اس کتاب کو دیکھنے کا اشتیاق ظاہر فرمایا تو محمد ابا سیٹھ نے علاّمہ کو یقین دلایا کہ وہ اس کتاب کو حاصل کر کے لاہور ارسال کریں گے ۔ (اس کا ذکر راقم الحروف کے والدین کے ماموں محمد عبدالجمیل بنگلوری ، متولی لال مسجد کے نام علامہ اقبال کے مکاتیب میں ملتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے سات مکاتیب بنام محمد عبدالجمیل اقبال نامہ حصہ دوم مرتب شیخ عطاء اللہ ناشر شیخ محمد اشرف لاہور میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ مکاتیب کلیات مکاتیب اقبال سید مظفر حسین برنی حصہ دوم اور سوم میں بھی شامل اشاعت ہیں) علامہ اقبال کو شروع ہی سے سلطان شہید کی اعلیٰ مرتبت شخصیت سے خاص عقیدت تھی۔ یہاں آ کر سلطان کی عزت و عظمت ، سطوت و جلال اور اسلام دوستی کو بچشم خود ملاحظہ فرمایا تو اپنے تاثرات کا اظہار یوں فرمایا۔ ہمارا خیال تھا کہ اورنگ زیب ہی ایسا مسلم شہنشاہ تھا جس پر مسلمانان ہند بجا طور پر ناز کر سکتے ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ ٹیپو سلطان شہید خلد آشیاں بھی ایک بہت بڑی بلند پایہ اور اسلام دوست ہستی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے شہنشاہ اورنگ زیب کے کارنامے بھی ہیچ ہیں۱۰ ‘‘اور جب سلطان شہید کا جلال علامہ کے حواس پر پوری طرح حاوی ہوا تو فرمایا ’’سرزمین ہند میں اگر نیابت حقہ کے مقام تک کسی نے رسائی حاصل کی ہے تو وہ ٹیپو ابن حیدر علی ہے اور اس کی نیابت الٰہیہ کی ایک ادنیٰ سی جھلک صرف یہی سن کر آنکھوں میں پھر جائے گی کہ اس کی سلطنت کا نام ’’ دولت خداداد ‘‘ اور اس کی ایوان عدالت کا نام ’’ دریا دولت ‘‘ تھا ۱۱ ۔ دریا دولت باغ سے معزز مہمان کا قافلہ سر نگاپٹم کے ویران لیکن تاریخی مقامات کی طرف چل پڑا ۔ یہاں علامہ اقبال نے اپنے رفقائے سفر کے ساتھ اس اجڑے شہر کو دیکھا جہاں ویرانی کی حکمرانی ہے۔ جہاں کے کھنڈروں اور شکستہ دیواروں میں غدار ان وطن میر صادق’ پور نیا ‘میرمعین الدین ،قاسم علی،لنگڑے غلام علی کی ’’ارواح رذیلہ ‘‘ بھیانک راتوں میں چیخیں مارتی ہوئی بھٹکتی رہتی ہیں اور نالہ فریاد کرتی ہیں کہ جہنم نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آہ سرنگاپٹم جو کبھی سرکار خداداد کا پایہ تخت تھا آج ایک اجڑا ہوا قصبہ بن کر رہ گیا ہے ۔ قلعہ دیکھا جہاں بیٹھ کی سلطان داد سلطنت دیتا تھا ۔ آہ یہ وہ قلعہ ہے جہاں سلطانی علم پوری آن بان اور شان کے ساتھ لہراتا تھا جہاں دولت کا دریا بہتا تھا۔ جس کے چپے چپے پر سلطانی شان امارت سایہ فگن تھی لیکن آج شکستہ حالی کی بدولت یہ حال ہے کہ یہاں زاغ و بوم بھی آشیانہ بنانے سے ڈرتے ہیں۔ مشہد سلطانی دیکھا جو ملک و ملت کی او لوالعزمیوں اور سر بلندیوں کا مقتل ہے۔ جس کی خاک کا ذرہ ذرہ شہیدوں کے مقدس خون سے لالہ زار ہے ۔ جہاں خاک و خون کے بستر پر ہندوستان کا روشن اور تابناک آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ سلطانی محل کے کھنڈر ات دیکھے جہاں شان جہاں بانی اور شکوہ حکمرانی مدفون ہے جس کے ویرانے ’’یاد عہد رفتہ ‘‘ کی سوگ بھری نشانی ہیں۔ سری رنگاناتھ سوامی مندر دیکھا جس کی دیو قامت چوٹی سر اٹھائے سلطان کی ہندو پروری اور مذہبی رواداری کااعلان کر رہی ہے۔ لیکن آج اسی سلطان کو فسطائی طاقتیں ایک متعصب ،سفاک اور ہندو دشمن حکمران ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مسجد اعلیٰ دیکھی وہ مسجد جہاں ہر روز پانچ وقت مجاہدین وطن کے سر بارگاہ الٰہی میں خلوص کے ساتھ جھکتے تھے ۔ وہ مسجد جس کے بلند میناروں سے اللہ اکبر کی آواز گونجتی تو مجاہدین کی رگوں میں برقی لہر دوڑ جاتی تھی۔ وہ مسجد جس کے بام و درو دیوار شہیدان وطن کے خون کے چھینٹوں سے گلنار بن گئے تھے۔ وہ مسجد جس کے کتبے دیکھ کر خیر القرون کی یاد آ جاتی ہے۔ مسجد اعلیٰ کے کتبوں کو دیکھ کر اور پڑھ کر علامہ اقبال کی طبیعت پھڑک اٹھی اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔ ’’تمام ہندوستان کی مسجدوں میں پھر جائیے ۔ کیا شہنشاہوں کی بنائی ہوئی اور کیا عوام کی ۔ کیا اسلامی عہد کی اور کیا محکومی کے زمانے کی، سوائے مسجد اعلیٰ کے آپ کسی میں یہ بات نہ پائیں گے ۔ شاہ جہاں کی مسجدوں میں یہ آیہ المسجد اسعس علی التقوی من اول یوم احق تقوم فیہ (۱۰۸:۹) پڑھ کر دل خوش ہو جاتا ہے کہ اتنی عظیم الشان بنائوں کو تعمیر کرتے وقت شاہ جہاں کے دل سے مسجد نبوی کا احترام نہیں گیا مگر مسجد اعلیٰ کو دیکھ کر شاہ جہاں کی مسجدوں کی خصوصیت بھی اتنی اہم نہ رہ گئی ۱۲ ‘‘ حیات و فکر اقبال میں دورئہ میسور و سرنگاپٹم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کو اپنا تخلیقی و شعری شاہ کارجاوید نامہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تحریک اسی سفر کے دوران ملی ۔ جاوید نامہ علامہ اقبال کے ایک طویل منصوبے کا نتیجہ ہے۔مشہور اطالوی شاعر دانتے کی ڈیوائن کامیڈی یا طربیہ خداوندی ابنِ عربی کا معراجِ نامہ فتوحات مکیہ ابوالعلاء المعری کا رسالہ غفران کا پس منظر ان کے ذہن میں ۱۹۰۳ء سے تھا ۱۳ ۔مگر اس کا آغاز اوائل ۱۹۲۹ء میں ہوا۔ محمد عبدالجمیل بنگلوری کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ میں اسے اپنی زندگی کا ماحصل (Life work) بنانا چاہتا ہوں ۱۴۔ جاوید نامہ منظوم تمثیلی معراج نامہ ہے جس میں علامہ اقبالؒ اپنے پیر و مرشد شیخ جلال الدین رومی کی رہنمائی میں چھ افلاک اور فردوس بریں کی سیر کرتے ہیں ۔ رومی آپ کو متعدد افلاک میں مختلف اشخاص کی روحوں سے ملاتے ہیں۔ فردوس بریں میں آخری ملاقات ٹیپو سلطان شہید سے ہوتی ہے ۔ یہ اس تمثیل کا نقطۂ عروج ہے یا اگر یہ کہا جائے کہ اس مثنوی کا مقصد تخلیق ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ سلطان شہید سے علامہ اقبالؒ کو جو ’خاص عقیدت تھی وہ گنبد سلطانی پہنچ کر معراج کمال کو پہنچ گئی چنانچہ آپ نے اپنے روحانی سفر میں سلطان شہید کو جنت الفرودس کے بلند ترین مقام پر فائز المرام ملاحظہ فرمایا ۔ سفر میسور کے بعد علامہ اقبال سلطان شہید کی شخصیت اور عظمت سے کس قدر متاثر ہوئے اس کا اندازہ اس مکتوب سے کیا جا سکتا ہے ۔ جو آپ نے میجر سعید محمد خان کے نام لکھا ۔ میجر موصوف علامہ اقبالؒ کے نام سے ایک فوجی اسکول قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان کی اس تجویز کے جواب میں علامہ نے ارقام فرمایا: ’’ایک معمولی شاعر کے نام سے فوجی اسکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی اسکول کا نام ’’ٹیپو فوجی اسکول ‘‘ رکھیں ۔ ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بہت جلد فراموش کر دینے میں بڑی ناانصافی سے کام لیا ہے ۔ جنوبی ہندوستان میں جیسا کہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگی رکھتی ہے ۔ یہ نسبت ہم جیسے لوگوں کو جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں ۱۵ ‘‘۔ علامہ اقبالؒ سلطان شہید کے مستند قلمی نسخوں اور روز نامچہ کے متلاشی تھے تاکہ جاوید نامہ میں سلطان کے صحیح صحیح حالات پیش کر سکیں ۔ بنگلور میں علامہ اقبالؒ کے مداح محمد عبدالجمیل مرحوم متولی لال مسجد بنگلور (راقم الحروف کے والدین کے ماموں ) سے حضرت علامہ کی خط و کتابت تھی۔ ان کے نام علامہ اقبال اپنے مکاتیب میں تحریر فرماتے ہیں : … مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ میرا سفر میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخی تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا ۔ سیٹھ محمد ابا نے مجھے سلطان شہید کی تاریخ سے متعلق ایک قلمی مسودہ جو ایک شخص کے پاس ہے جو ہمیں سلطان کے مقبرہ پر ملا تھا ارسال فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا ۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس کو شش میں کامیاب ہوں گے ۔ ان تک میرا سلام شوق پہنچا دیجیے اور ان سے کہیے کہ اسلام کی خدمت کے لیے ان کے ذوق و جوش نے میرے دل میں ایسا اثر پیدا کیا ہے جو کبھی محو نہ ہو گا ۔ میں دست بدعا ہوں کہ انہیں بنگلور کے حاجی سر اسماعیل کی سی عظمت و منزلت حاصل ہو … ۱۶ ‘‘ … سلطان شہید پر میری نظم اس کتاب کا حصہ ہو گی جسے میں اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کو کافی انتظار کرنا پڑے گا ۔ میں نے اس کا ایک حصہ کچھ عرصہ ہوا مرتب کیا تھا لیکن پھر ضروری مشاغل کی بنا پر اس کو نا مکمل چھوڑ دینا پڑا۔ سلطان شہید کے کسی روزنامچہ کا مجھے علم نہیں لیکن اگر واقعی کوئی روز نامچہ موجود ہے تو کچھ دیر کے لیے مستعار مرحمت فرما دیجیے ۔ میں اس سے ضروری نوٹ لے کر واپس کردوں گا…۱۷ … سلطان شہید کے روز نامچے کے لیے جو سلسلہ جنبانی آپ نے شروع کی ہے اس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔اگر آپ ایک نسخہ بھجوا سکیں تو میرے لیے ایک گنج گراں بہا ہو گا ۔ اس روزنامچے سے امید ہے کہ سلطان سے متعلق مجوزہ نظم میں مجھے سلطان شہید کے صحیح صحیح حالات پیش کرنے میں بہت امداد ملے گی ۔ از راہ کرم مطلع فرمائیے کہ وہ مالک کتاب قیمت چاہتے ہیں تو کیا ؟ میں بخوبی مناسب قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں ۔ اگر وہ آپ کو کتاب کی نقل لینے دیں تو خو شخط نقل لے لیجیے … ۱۸ علامہ اقبال کی نظر میں جاوید نامہ کی جو قدر و منزلت تھی اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مکاتیب سے ہوتا ہے ۔ … آخری نظم جاوید نامہ جس کے دو ہزار شعار ہوں گے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ممکن ہے مارچ تک ختم ہو جائے ۔ یہ ایک قسم کی ڈیوائن کامیڈی ہے اور مثنوی مولانا روم کی طرز پر لکھی گئی ہے ۔ اس کا دیباچہ بہت دلچسپ ہوگا اور اس میں ہند و ایران بلکہ تمام دنیائے اسلام کے لیے نئی نئی باتیں ہوں گی … ۱۹ … اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے ۔ یہ نظم ایک قسم کی ڈیوائن کامیڈی ہے ۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے ۔ اگر وہ ترجمہ میں کامیاب ہو جائے اور اگر ترجمہ کو کوئی عمدہ مصور illustrate بھی کر دے تو یورپ اورایشیا میں مقبول تر ہوگا ۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اورمصور کے لیے بہت عمدہ مسالہ ہے … ۲۰ … میری رائے میںمیری کتابوںمیں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی کتا ب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے ۔ مگر اس کے لیے پوری مہارت فن کے علاوہ الہام الٰہی اور صرف کثیر کی ضرورت ہے … ۲۱ … آپ محض فن مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ دنیائے اسلام میں بحیثیت مصور اقبال ایک زبر دست خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ جو کہ شاید قدرت آپ سے لینا چاہتی ہے ۔ پوری مہارت فن کے بعد اگر آپ نے جاوید نامہ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے…۲۲ … کاش آپ میری فارسی غزلیات اور نئی تصنیف جاوید نامہ پڑھ سکتے ۔ ان سے آپ کو اسلامی تصوف سے کچھ واقفیت ہو جاتی ہے … ۲۳ … مجھے امید ہے کہ اس کو (جاوید نامہ کو) پڑھ کر آپ کو رومی کے بارے میں میرے نظریے کا کچھ اندازہ ہو جائے گا اور اُن اہم مسائل کا بھی جو دور جدید میں اسلام کو درپیش ہیں…۲۴ جاوید نامہ کی ابتدا مناجات سے ہوتی ہے ۔ شام کا وقت ہے اور علامہ اقبال سمندر کے کنارے کھڑے رومی کے چند اشعار گنگنا رہے ہیں اتنے میں پیر رومی کی روح آشکار ہوتی ہے جس سے اقبال کئی سوالات پوچھتے ہیںبالخصوص یہ کہ روح انسانی کے لیے زمان و مکاں سے باہر نکلنا کیوںکر ممکن ہے۔ یہاں اقبال دراصل معراج نبوی کا فلسفہ بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ زمان و مکاں کی روح ظاہر ہوتی ہے جو ایک دورخی فرشتہ کی شکل میں ہے۔ ایک چہرہ تاریک اور خوابیدہ ، دوسرا روشن و بیدار ، یہ روح اقبال کو مسحور کر دیتی ہے اور عالم بالا کی طرف لے جاتی ہے ۔ پیر رومی کی روح بھی ساتھ ہے اور دونوں مکاں میں پرواز کرتے ہوئے فلک قمر پر پہنچتے ہیں۔ یہاں کرئہ قمر میں اقبال اور رومی کی ملاقات جہاں دوست (وشوامترا) نام کے ایک عارف ہندی سے ہوتی ہے۔ اس موقع پر اقبال کی جہاں دوست کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے ۔ پھر وادی طواسین رسل پہنچتے ہیں ۔ طاسین گوتم میں ایک زن رقاصہ جہاں دوست کے ہاتھ پر توبہ کرتی ہے ۔ طاسین زرتشت میں اہر من زرتشت کو آزماتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ طاسین مسیح میں حکیم طالسطائی کا ایک حقیقت نما خواب ہے جس میں طالسطائی دکھاتا ہے کہ اہل مغرب میں عیسائیت کاکیا حال ہے۔ طاسین محمدؐ میں کعبہ کا بت خانے سے حرم بن جانے پر ابوجہل نوحہ خواں ہے۔ یہاں سے اقبال اور رومی فلک عطار د پر پہنچتے ہیں جہاں ان کی ملاقات جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا سے ہوتی ہے ۔ افغانی سے تعارف کراتے ہوئے رومی اقبال کا نام ’’زندہ رود ‘‘ بتاتے ہیں۔ ان دونوںسے وقت کے اہم اسلامی مہمات پر گفتگو چھڑ جاتی ہے۔ فلک زہرہ میں اقوام قدیم کے دیوتائوں کی ایک مجلس جمی ہوئی ہے جس میں ان کے نغمے سنائی دیتے ہیں ، پھر دریائے زہرہ میں فرعون اور کچنر کی ارواح نمودار ہوتی ہیں ۔ آخر میں مہدی سوڈانی جلوہ گر ہوتے ہیں اور عربوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ باہمی تفرقہ ختم کر کے حرم کی پاسبانی کے لیے متحد ہو جائیں۔ فلک مریخ میں حکیم مریخی سے ملاقات ہوتی ہے جہاں زندہ رود (اقبال) اور حکیم مریخی کے درمیان خودی ، تقدیر اور تدبیر کے مسئلے پر مکالمہ ہوتا ہے۔ پھر ایک فرنگن جو مصنوعی نبیہ ہے نمودار ہوتی ہے اور آزادیٔ نسواں کا پیغام دیتی ہے ۔ فلک مشتری میں منصور حلاج ،اسد اللہ خان غالب اور بابی مبلغہ قرۃ العین سے گفتگو ہوتی ہے ۔ حلاج جنت اور خودی کے حقائق بیان کرتا ہے ۔ غالب اپنے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے رحمتہ اللعالمین کے اسرار و حقائق آشکار کرتے ہیں ۔ اس بحث کے آخر میں ابلیس نمودار ہوتا ہے اور انسان کی کمزوری اور اپنی آسان فتوحات پر ماتم کرتے ہوئے کسی مرد حق کی آرزو کرتا ہے تاکہ شکست کی لذت سے آشنا ہو سکے ۔ فلک زحل میں ’’جعفر از بنگال و صادق از دکن ’’جیسے‘‘ ننگ آدم ’ننگ دین ‘ننگ وطن ، غداران ملک و ملت کی ارواح رذیلہ کو خونین قلزم کے عذاب میں مبتلا دکھایا گیا ہے جن کو قبول کرنے سے دوزخ نے بھی انکار کر دیا ہے۔ پھر ’’روح ہندوستان‘‘آشکار ہوتی ہے اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے موجودہ غلامی کے اسباب بتاتی ہے کہ جب تک جعفر اور صادق جیسے غدار اس ملک میں پیدا ہوتے رہیں گے اس وقت تک غلامی باقی رہے گی۔ اس کے بعد ماورائے افلاک پر عروج ہوتا ہے جو سیاروں سے آگے کا جہاں ہے ۔ یہاں مشہور جرمن فلسفی نطشے سے ملاقات ہوتی ہے ۔ جسے زندہ رود (اقبال) مجذوب فرنگی کہتا ہے اور اس کے افکار کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کے فلسفے کو ناقص قرار دیتا ہے ۔ آنسوئے افلاک سے زندہ رود (اقبال) اور رومی جنت الفردوس میں وارد ہوتے ہیں ۔ یہاں رومی زمان و مکاں اور جنت و دوزخ کی حقیقت بیان کرتے ہیں ۔ جنت الفردوس میں قصر شرف النساء نظر آتا ہے ۔ جس میں مغلیہ دور کے ایک حاکم پنجاب عبدالصمد کی جواں مرگ دختر فرو کش ہے جسے قرآن اور تلوار سے تعلق خاطر تھا ۔ قصر شرف النساء کی زیارت کے بعد سید علی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری سے ملاقات ہوتی ہے ۔ ان مکالمات میں کشمیر کے ماضی ، حال اور مستقبل کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کے بعد ہندو شاعر بھرتری ہری اپنا نغمہ سناتا ہے ۔ بعدازاں کاخ سلاطین میں نادر شاہ اور ابدالی سے ملاقات ہوتی ہے ۔ نادر شاہ ایرانیوں کی موجودہ حالت دریافت کرتا ہے ۔ جواب میں زندہ رود (اقبال) بیان کرتا ہے کہ وہ اسلامیت اور عربیت سے رو گردانی کرتے ہوئے ایرانیت کے راستے پر گامزن ہیں اور فرنگیوں کی تقلید کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ ابدالی افغانیوں کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو محفوظ رکھیں اور فرنگیوںکی تقلید نہ کریں ۔ آخری مکالمہ زندہ رود (اقبال) اور ٹیپو سلطان شہید کے درمیان ہوتا ہے اور سلطان شہیدؒ اپنے پیارے دکن کے حالات دریافت کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا وہاں زندگی کے کچھ آثار پائے جاتے ہیں ؟ زندہ رود (اقبال) کو اپنا سفر دکن یاد آ جاتا ہے اور اثبات میں جواب دیتے ہیں ۔ اس کے بعد سلطان شہید رودکاویری کو پیغام دیتے ہوئے حیات، مرگ اور شہادت کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ فردوس بریں سے رخصت ہوتے وقت حور ان بہشتی زندہ رود (اقبال) سے کچھ اشعار سنانے کی فرمائش کرتی ہیں تو وہ عشق ،عمل ، خودی اور سلطانی کے نکات پر مشتمل اپنا کلام پیش کرتا ہے ۔ بہشت سے نکلنے کے بعد شاعر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں رومی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ناگہاں ’تجلی حق‘نمودار ہوتی ہے۔ یہاں شاعر خدا کے حضور چند اہم سوالات کرتا ہے ۔ جاوید نامہ کا تمتہ ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ ہے جو ’’سخنے بہ نژاد نو‘‘ یعنی نئی نسل کے نام پیغام ہے۔ آمدم بر سر مطلب جاوید نامہ کے خلاصے کے بعد اس مثنوی کے اس حصہ کی تشریح پیش کی جاتی ہے جس میں زندہ رود (اقبال) کی سلطان شہید سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس موقع پر سلطان شہید اور زندہ رود (اقبال) کے درمیان ایک بصیرت افروز مکالمہ ہوتا ہے جس میں زندہ رود(اقبال) سلطان شہید کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ بعد ازاں سلطان شہید رودکاویری کو پیغام دیتے ہوئے حسب ذیل حقائق حیات و مرگ و شہادت کا انکشاف اور بعض اہم ترین تصورات کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔ سلطان شہید اور زندہ رود (اقبال) سے ملاقات اور گفتگو سے پہلے پیر رومی سلطان شہید کا یوں تعارف کراتے ہیں۔ آں شہیدان محبت را امام ’’آبروئے ہند و چین و روم و شام‘‘ نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاک قبرش از من و تو زندہ تر! عشق رازے بود بر صحرا نہاد تو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد از نگاہ خواجۂ بدر و حُنین فقر سلطاں وارث جذب حسینؓ رفت سلطان زیں سرائے ہفت روز نوبت او در دکن باقی ہنوز! ترجمہ : ٹیپو سلطان شہید جو شہیدان محبت کا امام ہے جو ہند و چین و روم و شام کی آبرو ہے۔ جس کانام مہ و خورشید سے زیادہ تابندہ ہے جس کی قبر کی مٹی ہم زندہ انسانوں سے زیادہ زندہ ہے۔ جس نے عشق کا راز فاش کر دیا ۔ یعنی دنیا کو دکھا دیا کہ عاشق اسے کہتے ہیں ۔ اے زندہ رود تو نہیں جانتا کہ اس نے کس ذوق و شوق کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ خواجہ بدرو حنین سرکار دو عالم ﷺکی نگاہ میں اس کا فقر جذبہ حسینؓ سے متصف ہے ۔ اگرچہ کہ سلطان اس چند روزہ دار الفنا سے رخصت ہو چکا ہے مگر ابھی تک اس کا شہرہ دکن میں باقی ہے ۔ یہاں اس امر کی وضاحت بے محل نہیں کہ علامہ اقبال نے مندرجہ بالا مصرعہ ’’آبروئے ہندو چین و روم و شام ’’گنبد سلطانی کے مغربی دروازے کی دائیں جانب نصب سنگین کتبہ پر کندہ عربی مادہ تاریخ شہادت سلطان ’’ذھب عزّالروم و الھند کلہا‘‘ سے متاثر ہو کر لکھا ہے ۔ علامہ اقبال کے قریبی ساتھی سید نذیر نیازی لکھتے ہیں : ’’حضرت علامہ اقبال نے اپنے انگریزی بیان میں لکھا تھا کہ سرنگاپٹم میں سلطان ہند کے مزار پر جو تاریخ کندہ ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ۔ ’’ہندوستان اور روم کی عظمت کا چراغ گل ہو گیا‘‘اور اس کی بنا پر انہوں نے ایک شعر میں سلطان الہند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا آں شہیداں محبت را امام آبروئے ہند و چین و روم و شام اصل تاریخ جو عربی میں ہے حضرت علامہ کو یاد نہیں رہ سکی ۲۵۔ جس انگریزی بیان کا ذکر سید نذیر نیازی نے کیا ہے وہ Islam and Ahmedism ہے جو علامہ اقبال نے ردّ قادیانیت کے موضوع پر دیا تھا ۔ اس مضمون کا کتابچہ کی شکل میں انجمن خدام الدین لاہور نے اپنے مجلہ ’’اسلام ‘‘ مورخہ ۲۲؍جنوری ۱۹۳۶ء میں شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ میر حسن الدین نے ختم نبوت اور قادیانیت کے عنوان سے حیدر آباد (دکن) سے شائع کیاہے۔ اس کے صفحہ نمبر ۲۰ پر علامہ اقبال ارقام فرماتے ہیں۔ … دنیائے اسلام کی تاریخ میں ۱۷۹۹ء بے حد اہم ہے ۔ اسی سال ٹیپو کو شکست ہوئی ۔ اس کی شکست کے ساتھ مسلمانوں کا ہندوستان میں سیاسی نفوذ حاصل کرنے کی جو امید تھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اسی سال جنگ نوارینو وقوع پذیر ہوئی جس میں ترکی کا بیڑہ تباہ ہوگیا ۔ جو لوگ سرنگاپٹم گئے ہیں ان کو ٹیپو کے مقبرے پر یہ تاریخ وفات کندہ نظر آئی ہو گی ’ہندوستان اور روم کی عظمت ختم ہو گئی ‘ ان الفاظ کے مصنف نے پیش گوئی کی تھی ۔ پس ۱۷۹۹ء میں ایشیا میں اسلام کا انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تھا لیکن جس طرح کے ژینامیں جرمنی کی شکست کے بعد جدید جرمن قوم کی نشو ونما ہوئی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسی طرح ۱۷۹۹ء میں اسلام کی سیاسی شکست کے بعد جدید اسلام اور اس کے مسائل معرض ظہور میں آئے… اب سلطان شہید اور زندہ رود (اقبال) کے درمیان گفتگو ہوتی ہے ۔ سلطان شہید زندہ رود (اقبال )سے ہندوستان کا حال پوچھتے ہیں : باز گو از ہندو از ہندوستان آنکہ باکاہش نیرزد بوستاں! آنکہ اندر مسجدش ہنگامہ مُرد آنکہ اندر دیر او آتش فُسرد آنکہ دل از بہر او خوں کردہ ایم آنکہ یادش را بجاں پروردہ ایم از غم ماکن غم او را قیاس آہ ازاں معشوق عاشق ناشناس ترجمہ :اے زندہ رود (اقبال) !مجھے ہندوستان کا حال سنائیے ۔ وہ ہندوستان جس کی گھاس کی برابری کوئی باغ نہیں کر سکتا ۔ جس کی مسجدیں ویران پڑی ہیں۔ جس کے آتش کدوں کی آگ بجھ چکی ہے یعنی مسلمان اور ہندو سب فرنگیوں کی غلامی میں مست ہیں۔ جس کی آبرو کی حفاظت میں ہم نے اپنا خون دل دیا ۔ وہ ہندوستان جس کی یاد اب بھی ہمارے دل میں پلتی ہے ۔ ہمارے غم سے اس کے غم کا قیاس کر لینا، وہ کیسا معشوق ہے جو عاشق کو نہیں پہچانتا۔ زندہ رود (اقبال ) جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ہندیاں منکر ز قانون فرنگ در نگیرد سحر و افسون فرنگ روح را بار گراں آئین غیر گرچہ آید ز آسماں آئین غیر ترجمہ : اس وقت (۱۹۳۱ء میں) اہل ہند فرنگی قانون کے منکر ہو رہے ہیں۔ یعنی فرنگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں۔ اب فرنگیوں کا کوئی جادو ان پر اثر نہیں کرتا ۔ غیر کا آئین روح پر بھاری بوجھ ہے اگر آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہو۔ سلطان شہید پھر سوال کرتے ہیں : چوں بروید آدم از مشت گلے بادلے ، با آرزوے در دلے لذت عصیاں چشیدن کار اوست غیر خود چیزے ندیدن کار اوست زانکہ بے عصیاں خودی ناید بدست تا خودی ناید بدست آید شکست زائر شہر و دیارم بودئہ چشمِ خود را بر مزارم سودئہ اے شناسائے حدود کائنات در دکن دیدی ز آثار حیات؟ ترجمہ : چونکہ آدمی مشت خاک سے پیدا ہوتا ہے اس کا ایک دل ہوتا ہے اور دل میں آرزو ہوتی ہے ۔ وہ گناہ کی لذت ضرور چکھتا ہے وہ اپنے سوا کسی اور چیز کو نہیں دیکھتا ۔ کیونکہ گناہ کے بغیر خودی ہاتھ نہیں آتی۔ جب تک خودی ہاتھ نہیں آتی شکست ہی ملتی ہے یعنی انسان ٹھوکر کھا کر ہی کچھ سیکھتا ہے۔ اے زندہ رود(اقبال) ! آپ نے (۱۹۲۹ء میں) میرے شہر و دیار کی زیارت کی تھی اور میرے مزار کو بھی آنکھوں سے لگایا تھا۔ اے شناسائے حدود کائنات ! کیا آپ نے دکن میں کچھ آثار حیات بھی دیکھے؟ ۔ زندہ رود (اقبال) جواب دیتے ہیں : تخم اشکے ریختم ، اندر دکن لالہ ہا روید ز خاک آں چمن رود کاویری مدام اندر سفر دیدہ ام در جان او شورے دگر ترجمہ : میں نے دکن میں اپنے آنسوئوں کے بیج بو دئیے ہیں ۔ اس چمن کی خاک سے بہت سے گل و لالہ پیدا ہوں گے ۔ دریائے کاویری ہمیشہ کی طرح سرگرم سفر ہے اور میں نے اس کی جان میں ایک نیا ہی شور دیکھا ہے۔ سلطان شہید فرماتے ہیں : اے ترا دادند حرف دل فروز از تپ اشک تو می سوزم ہنوز کاو کاو ناخن مردان راز جوے خوں بکشاد از رگہائے ساز آں نوا کز جان تو آید بروں می دہد ھر سینہ را سوز دروں بودہ ام در حضرت مولائے کل آنکہ بے او طے نمی گردد سبل گرچہ آنجا جرات گفتار نیست روح را کارے بجز دیدار نیست سوختم از گرمیٔ اشعار تو بر زبانم رفت از افکار تو گفت ’’ایں بیتے کہ بر خواندی ز کیست؟ اندرو ہنگامہ ہائے زندگست‘‘ باہمہ سوزے کہ در سازد بجاں یک دو حرف از مابہ کاویری رساں درجہاں تو زندہ رود او زندہ رود خوشترک آید سرود اندر سرود ترجمہ: اے زندہ رود (اقبال) ! آپ کو دلوں کو روشن کرنے والے الفاظ دیئے گئے ہیں۔ آپ کے آنسوئوں کی تپش سے میں جل رہا ہوں۔ مردان راز کے ناخنوںکی پیہم ضربوں نے ساز کی رگوں سے خون کی ندیاں بہائی ہیں۔ آپ کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہر فرد کے سینے میں سوزو گداز کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے ۔ مجھے مولائے کل سرکار دو عالم ﷺ کے حضور میں حاضری کا شرف حاصل ہو چکا ہے جن کی اطاعت کے بغیر راستے طے نہیں ہوتے ۔ اگرچہ آپؐ کی بارگاہ میں کسی کو جرأت گفتار نہیں۔ بجز دیدار کے روح کچھ نہیں کر سکتی لیکن میں چونکہ آپ کے اشعار کی گرمی میں جل چکا ہوں۔ آپ کے افکار میری زبان پر آہی گئے۔ انہیں سن کر حضورؐ نے فرمایا یہ جو بیت آپ نے پڑھی ہے وہ کس کی ہے؟ اس میں زندگی کے ہنگامے پنہاں ہیں۔ آپ میرا ایک پیغام دریائے کاویری کو پہنچا دیجیے ۔ دنیا میں دریائے کاویری ایک حیات افروز دریا ہے اور آپ بھی علم و دانش کا زندہ جاوید دریا ہیں ۔ دونوں کا سرود مل جائے تو بہت خوب ہوگا ۔ چنانچہ سلطان شہید علامہ اقبال کے ذریعہ دریائے کاویری کے نام ایک طویل پیغام بھیجتے ہیں جسے علامہ اقبال نے ’’حقیقت حیات و مرگ و شہادت ‘‘ کا عنوان دیا ہے ۔ پیغام سلطان شہید بہ رود کاویری (حقیقت حیات و مرگ و شہادت ) رود کاویری یکے نرمک خرام خستہٖ شاید کہ از سیر دوام! در کہستان عمر ہا نالیدہ راہ خود راہ بامژہ کاویدہ اے مرا خوشتر ز جیحون و فرات اے دکن را آب تو آب حیات آہ شہرے کو در آغوش تو بود حسن نوشیں جلوہ از نوش تو بود کہنہ گردیدی شباب تو ہماں پیچ و تاب و رنگ و آب و تو ہماں موج تو جز دانہ گوہر نزاد طرۂ تو تا ابد شوریدہ باد! اے تیرا سازے کہ سوز زندگی است ہیچ می دانی کہ ایں پیغام کیست؟ آنکہ می کردی طواف سطوتش بودہ آئینہ دار دولتش! آنکہ صحرا ہا ز تدبیرش بہشت! آنکہ نقشِ خود بخون خود نوشت آنکہ خاکش مرجع صد آرزو ست اضطراب موج تو از خون اوست! آنکہ گفتارش ہمہ کردار بود مشرق اندر خواب و او بیدار بود ترجمہ: اے رود کاویری جو کہ آہستہ خرام ہے مسلسل بہتے رہنے سے شاید تو تھک گئی ہے۔ تو نے مدتوںتک کوہستان میں نالہ و فریاد کی ہے۔ تو خود اپنی راہ بناتی رہی ۔ اے دریا ! تیرا پانی دکن کے لیے آب حیات ہے۔ آہ ! وہ شہر جو کبھی تیری آغوش میں آباد تھا ۔ جس کے دلنواز حسن میں تیرے حسن کا پر تو نظر آتا تھا ۔ تو پُرانی ہو گئی ہے تاہم تیرا شباب ہنوز باقی ہے۔تیرا رنگ و آب و بیچ و تاب ابھی وہی ہے تیری موجوں نے موتی کے سوا کچھ پیدا نہیں کئے ۔ تیرا طرہ ابد سے شوریدہ ہے۔ اے کاویری ! تیرے ساز میں سوزِ زندگی پوشیدہ ہے تجھے خبر بھی ہے کہ میں کس کا پیغام لایا ہوں؟ سن یہ اس کا پیغام ہے جس کی سطوت و شوکت کا تو نے مدتوں طواف کیا ہے ۔ جس کی دولت و حکومت کی تو آئینہ دار تھی ۔ جس نے اپنے حسن انتظام سے دکن کے صحرائوں کو بہشت بنا دیا تھا ۔ تیری موجوں میں جو اضطراب ہے وہ اس کے خون سے ہے۔ وہ جس کی گفتار سراپا کردار تھی۔ سارا مشرق محو خواب تھا مگر وہ بیدار تھا یعنی تمام مشرقی ممالک انگریزوں کی عیاری سے بے خبر و غافل تھے ۔ صرف سلطان شہید ان کے ناپاک عزائم سے خبردار تھا ۔ اے من و تو موجے از رود حیات ہر نفس دیگر شود ایں کائنات زندگانی انقلاب ہر دمے ست زانکہ او اندر سراغ عالمے ست! تار و پود ہر وجود از رفت و بود ایں ہمہ ذوق نمود از رفت و بود جادہ ہا چوں رہرواں اندر سفر ہر کجا پنہاں سفر پیدا حضر! کارواں و ناقہ و دشت و نخیل ہر چہ بینی نالد از درد رحیل در چمن گل میہانِ یک نفس رنگ و آبش امتحان یک نفس موسم گل ؟ ماتم و ہم نائے و نوش غنچہ در آغوش و نعش گل بدوش لالہ را گفتم یکے دیگر بسوز گفت راز مانمی دانی ہنوز! از خس و خاشاک تعمیر وجود غیر حسرت چیست پاداش نمود؟ ترجمہ: اے دریا ! ہم دونوں دریائے حیات کی موجیں ہیں۔ ہر نفس اس کائنات میں تغیر ہے۔ زندگی میں ہر دم ایک انقلاب واقع ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک نئے عالم کے سراغ میں لگی رہتی ہے ۔ ہر وجود کے تارپود آمدو رفت کے مرہون منت ہیں ۔ ظاہر کی یہ تمام نیرنگیاں بھی آمد و رفت سے ہیں۔ راہ چلنے والوں کی طرح راہیں بھی سفر میںلگی رہتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو بظاہر ساکت ہیں۔ لیکن حقیقت میں سفر کر رہے ہیں ۔ کارواں سواری ، صحرا ، باغ جس کو دیکھو جدائی کے درد سے رو رہا ہے ۔ چمن میں پھول بس گھڑی بھر کا مہمان ہے۔ اس کے آب و رنگ کا امتحان بھی عارضی ہے۔ موسم گل؟ مسرت کا مقام بھی ہے اور ماتم کا موقع بھی۔ وہ کلی کو آغوش میں اور نعش گل کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے لالہ سے کہا ایک بار پھر اپنے سوز کا جلوہ دکھا ۔ اس نے جواب دیا آپ ہمارے راز سے ابھی واقف نہیں۔ وجود کی تعمیر محض خس و خاشاک سے ہوتی ہے نمود و ظہور کی سزا حسرت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ در سراے ہست و بود آئی؟ میا از عدم سوئے وجود آئی؟ میا وربیائی چوں شرار از خود مرو در تلاش خرمنے آوارہ شو! تاب و تب داری اگر مانند مہر پا بنہ در وسعت آباد سپہر! کوہ و مرغ وگلشن و صحرا بسوز ماہیاں را در تہ دریا بسوز! سینہ داری اگر در خورد تیر در جہاں شاہیں بزی شاہیں بمیر! زانکہ در عرض حیات آمد ثبات از خدا کم خواستم طول حیات! زندگی راچیست رسم و دین و کیش؟ یک دم شیری بہ از صد سال میش ترجمہ :آپ سرائے وجود میں آنا چاہتے ہیں مت آئیے۔ عد م سے وجود کی طرف آنا چاہتے ہیں ۔ مت آئیے اور اگر آہی گئے ہیں تو چنگاری کی طرح اپنے آپ سے جدانہ ہو جائیے بلکہ ایک خرمن کی تلاش میں بھٹکتے رہیے ۔ اگر آپ آفتاب کی طرح تب و تاب رکھتے ہیں تو آسمانوں کی وسعتوں میں قدم رکھیے ۔ پھر پہاڑوں ،پرندوں ،گلشن و صحرا، کو جلا دیجئے ۔ اگر سینہ رکھتے ہیں تو تیر کھائیے اور دنیا میں شاہین کی طرح جئیں اور مریں ۔ چونکہ ثبات عرض حیات میں ہے اس لیے میں نے خدا سے طویل زندگی نہیں مانگی ۔ زندگی کی رسم ، دین اور مذہب کیا ہے؟ بھیڑ بکری کی سو سالہ زندگی سے شیر کا ایک لمحہ بہتر ہے۔ زندگی محکم ز تسلیم و رضا ست موت نیرنج و طلسم و سیمیاست! بندئہ حق ضیغم و آہوست مرگ یک مقام از صد مقام اوست مرگ! می فتد بر مرگ آں مرد تمام مثل شاہینے کہ افتد بر حمام! ہر زماں میر و غلام از بیم مرگ زندگی او را حرام از بیم مرگ! بندئہ آزاد را شانے دگر مرگ او را می دہد مانے دگر! او خود اندیش است مرگ اندیش نیست! مرگ آزاداں ز آنے بیش نیست! بگذر از مرگے کہ سازد بالحد زانکہ ایں مرگ است مرگ دام و دد! مرد مومن خواہد از یزدان پاک آں دگر مرگے کہ برگیرد زخاک! آں دگر مرگ ! انتہائے راہ شوق آخریں تکبیر درجنگاہ شوق! گرچہ ہر مرگ است بر مومن شکر! مرگ پور مرتضیٰؓ چیزے دگر! جنگ شاہاں جہاں غارت گری است جنگ مومن سنت پیغمبری است! جنگ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست ترک عالم ، اختیار کوے دوست! آنکہ حرف شوق با اقوام گفت جنگ را رہبانی اسلام گفت! کس نداند جز شہید ایں نکتہ را کو بخون خود خرید ایں نکتہ را ترجمہ : زندگی تسلیم و رضا سے مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ۔ موت محض ایک فریب نظر ہے۔ بندئہ خدا شیر اور موت ہرن ہے ۔ سو مقامات میں ایک مقام موت ہے ۔ مرد کامل موت کا استقبال اس طرح کرتا ہے جس طرح شاہین کبوتر پر جھپٹتا ہے۔ ایک غلام موت کے خوف سے ہر لمحے مرتا رہتا ہے ۔ اس کا جینا حرام ہو جاتا ہے ۔ لیکن ایک بندئہ آزاد کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ موت اسے ایک اور زندگی بخشتی ہے۔ وہ خودی کی فکر کرنے والا ہے موت کی فکر کرنے والا نہیں۔ مرد حر کی موت ایک لمحے سے زیادہ کی نہیں ہوتی ۔ اس موت کو نظر انداز کر دے جس کا تعلق لحد اور قبر سے ہوتا ہے کیونکہ ایسی موت تو بس جانوروں اور درندوں کی ہوتی ہے۔ مرد مومن تو خدائے پاک سے ایسی موت مانگتا ہے جو اسے خاک سے اٹھا کر بلند و بالا کر دے۔ وہ موت راہ شوق و محبت کی انتہا ہے۔ شوق و محبت کے میدان جنگ میں آخری تکبیر ہے۔ اگرچہ مومن کے لیے ہر موت شکر کی طرح شیریں ہوتی ہے لیکن حضرت علی المرتضیٰؓ کی فرزندکی موت ایک اور ہی چیز ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی جنگ غارت گری ہے اور مومن کی جنگ سنت پیغمبری ہے۔ مومن کی جنگ کیا ہے؟ محبوب کی طرف ہجرت اور ترک عالم کیا ہے؟ دوست کا کوچہ اختیار کرنا ۔ حضور اکرم ﷺ کا وہ پیغام جو آپؐنے اقوامْ عالم کو دیا وہ جنگ اور جہاد کا اسلام کی رہبانیت قرار دینا ہے ۔ یہ نکتہ سوائے شہید کے کوئی نہیں جانتا جس نے اپنے خون کی قیمت دے کر اسے خریدا ہے ۔ علامہ اقبال کی فکری بلندی ، کردار نگاری کی صداقت و سچائی اور تخیل کی بلند پروازی سے دنیائے علم و ادب خوب واقف ہے تصویر کشی و منظر نگاری اور اس کی وساطت سے قوم و ملت کو ایک زندہ پیغام دینے میں آپ طاق ہیں ۔ آپ کی علمی، فکری اور پیغام کی حامل کاوشوں میں جاوید نامہ کا وہ حصہ سر فہرست اور نمایاں طور پر آتا ہے جو ٹیپو سلطان شہید سے متعلق ہے اور کیوں نہ ہو یہ شہید بے مثل تھا بھی اس قابل۔ علامہ اقبال نے دیار ٹیپو اور سر زمین سرکار خداداد میں قدم رنجہ فرما کر ایسا محسوس کیا گویا ان کے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو۔ ان کے جوہری قلم نے جہاں ٹیپو سلطان شہید کی جانبازی ، جوانمردی اور شجاعت سے متاثر ہو کر رشک و اغتباط کے زمزمے چھیڑے ہیں ۔ وہیں امت کی حالت زبوں و ناگفتہ بہ پر اشک ریزی اور گلہ و شکوہ بھی کیا ہے اور اس کے ذریعہ نفوس امت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دیدہ عبرت نگاہ کو اس کا مشاہدہ کرنے پر ابھارا ہے۔ علامہ اقبال نے اس شیر میسور شہادت کا حقیقی نمونہ قرار دیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ سلطان شہید نے دکھا دیا کہ عشق کیا ہے اور اس کو کیوں کر عملی جامہ پہنا کر انسان خود کو حیات ِ جاودانی سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔ علامہ اقبال دریائے کاویری کو ٹیپو سلطان کے خطاب کا مخاطب بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے کاویری تو سست خرام کیوں ہو گئی؟ دراصل یہ امت کی سستی کی طرف اشارہ و تلمیح ہے کہ امت کی رگوں میں وہ لہو اب باقی کیوں نہیں رہا جو حوصلہ مندی کا پتہ دیتا ہے ۔ بزدلی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ زندگی جو محکومیت و غلامی سے تعبیر ہو زندگی کی نہیں بلکہ موت سے بدتر کوئی شئے ہے اس کے برعکس شجاعت و جوانمردی کی ایک لمحہ کی زندگی حیات جاودانی ہے اور شہید کی موت اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی زندگی کا آغاز ہی وہاں سے ہوتا ہے جو ایک مرد حر و مرد مومن کا طرئہ امتیاز اور مقصود و مطلوب ہے۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اس پیغام کو جو کئی ضخیم کتابوں کا متقاضی تھا اور جس کو بیان کرنے کے لیے صفحات کے صفحات درکار تھے بڑی ہی حسن و خوبی کے ساتھ دریا بہ کوزہ کی مثال سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ تشنگی باقی نہیں رہی۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیا ہے اور یہ واقعی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود جاوید نامہ کا ماحصل جاوید نامہ کا وہ حصہ ہے جو سلطان شہید سے متعلق ہے۔ بالفاظ دیگر جاوید نامہ اقبال کی علمی کاوشوں کا نگینہ ہے اور خود جاوید نامہ کا نگینہ یہ موخرالذکر حصہ ہے ۔ ایک قابل غور و بیان نکتہ یہ بھی ہے کہ علامہ تمام مشاہیر سے افلاک قمر ، عطارو ، زہرہ ، مریخ ، مشتری ، زحل یا آنسوئے افلاک پر ملتے ہیں لیکن سلطان سے ان کی ملاقات کائنات کی حدود سے باہر بے جہت جنت الفردوس میں منتہیٰ درجے پر ہوتی ہے اور اس کے بعد حوران بہشتی سے مل کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ امر اظہر من الشمس کی طرح واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو سلطان شہید سے کس درجہ عقیدت تھی اور اس عقیدت کا سبب وہ عظمت سلطان تھی جس نے علامہ کے دل میں نہ صرف گھر بنا لیا تھا بلکہ وہ ان کے ذہن و دماغ ، احساسات و جذبات اور افکار و خیالات کے ساز پر مسلسل نغمہ سرائی کر رہی تھی ۔ یہ وہ ساز تھا جس کا اظہار علامہ کے جوہری قلم نے جاوید نامہ کے اس مذکورہ حصہ کی شکل میں کیا اور اس طرح جاوید نامہ کو زندئہ جاوید بنا دیا ۔ علامہ اقبال نے فارسی کے علاوہ ٹیپو سلطان شہید پر اردو میں بھی ایک نظم لکھی ہے جو ’’ٹیپو سلطان کی وصیت ‘‘ کے عنوان سے آپ کے مجموعہ کلام ضرب کلیم میں شامل ہے اس میں بھی علامہ اقبال نے الفاظ کا وہی جادو جگایا ہے جو آپ کا جوہرِ فطری ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ تو رہ نورد شوق ہے ! منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز! ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا صنم کدئہ کائنات میں محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول خ خ خ خ حواشی ۱ ۔ برنی ، سید مظفر حسین،کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم ، اردو اکادمی دہلی ، ص ۴۲۵ ۲۔ عبداللہ ، ڈاکٹر سید ، (مرتب)متعلقات خطبات اقبال ، مضمون ’’علامہ اقبال کا جنوبی ہند کا سفر‘‘ از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ، ص ۱۹۔ ۳ ۔ جاوید اقبال ، ڈاکٹر، زندہ رود جلد سوم ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص ۳۴۸ ۔ ۴ ۔ مسلم لائبریری بنگلور میں محفوظ اپنی یاد داشت کی فائل میں محمد صالح انصاری مرحوم نے علامہ اقبال کے اس خط کو نقل کیا ہے ۔ ۵ ۔ چغتائی ، ڈاکٹر محمد عبداللہ ، اقبال کی صحبت میں، ص ۳۳۴۔ ۶ ۔ روز نامہ الکلام بنگلور ’مورخہ۱۲ جنوری ۱۹۲۹ء ۷ ۔ چغتائی ، ڈاکٹر محمد عبداللہاقبال کی صحبت میں ، ص ۳۳۶، متعلقات خطبات اقبال، ڈاکٹر سید عبداللہ ، ص۳۸ ۸ ۔ روز نامہ الکلام بنگلور مورخہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۲۹ء ۹ ۔ ماہنامہ نشتر بنگلور اقبال نمبر فروری ۱۹۷۸ء مضمون بعنوان ’’علامہ ڈاکٹر اقبال کی رفاقت میں چند روز از کلیم الملک سید غوث محی الدین ایڈیٹر روز نامہ الکلام بنگلور ص ۱۲ ۱۰۔ روز نامہ الکلام بنگلور مورخہ ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء ہفتہ وار قوم معسکر بنگلور اقبال نمبر مورخہ ۷؍جون ۱۹۳۸ئ۔ ماہنامہ نشتر بنگلور اقبال نمبر فروری ۱۹۷۸ء ۱۱ ۔ تاج محمود ، محمود خان ، تاریخ سلطنت خداداد، ص ۵۱۹ ۔ ۱۲ ۔ تاج ،محمود خان محمود ، ص ۶۱ ۱۳ ۔ کتاب نما ، دہلی مئی ۱۹۸۵ئ، ص ۳۴ ، مگر اس کا آغاز اوائل ۱۹۲۹ء میں ہوا ۔ نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۳ء ، ص ۲۰۱۔ ۱۴ ۔ عطا اللہ ، شیخ (مرتب )اقبال نامہ حصہ دوم ، ص۳۸۸، کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ، سید مظفر حسین برنی ، ص ۷۴ ، علامہ اقبال کی زندگی کا یہ ماحصل اپریل ۱۹۳۱ء میں اختتام پذیر ہوا اور فروری ۱۹۳۲ء میں طبع ہو کر منظر عام پر آیا۔ ، کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ، ص ۱۹۸؍اور ۲۷۰۔ ۱۵ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ، ص ۵۶ ۔ ۱۶ ۔ مکتوب محررہ ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ، کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم ، ص ۵۴ ۔ ۱۷ ۔ مکتوب محررہ ۲۴؍اگست ۱۹۲۹ء کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ۔ ص ۷۴ ۔ ۱۸ ۔ مکتوب محررہ ۴؍نومبر ’کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم ۔ ۱۹ ۔ مکتوب بنام ڈاکٹر ناموس شجاع منعمی محررہ ۲۰؍جنوری ۱۹۳۱ء ۔ کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم۔ ص ۱۸۹ ۔ ۲۰ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم، مکتوب بنام ڈاکٹر صوفی غلا م محی الدین ، محررہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۳۱ء ، ص ،۳۳۸۔ ۲۱ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد چہارم ، ص ۱۴۱۔مکتوب بنام ضرار احمد کاظمی ، محررہ ۲۵ ؍جون ۱۹۳۵ء ۲۲ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد چہارم ، ص ۲۷۲ ۔مکتوب بنام ضرار احمد کاظمی ، محررہ ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء ، ۲۳ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ، مکتوب بنام ایڈورڈ تھامس، محررہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۳۳ء ۔ ص ۳۶۶۔ ۲۴ ۔ برنی ، سید مظفر حسین ،کلیات مکاتیب اقبال ، جلد سوم ، مکتوب بنام بی بی آمنہ ، محررہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۴ئ۔ ص ۵۴۳ ۔ ۲۵ ۔ نیازی ، سید نذیر ، مکتوبات اقبال ، ناشر ، اقبال اکادمی پاکستان ، ص ۳۵۸۔  پاکستانیات تحریک پاکستان میں اقبال کا کردار ڈاکٹر محمد اسلم ضیا دنیا علاّمہ اقبال کو شاعر اور فلسفی کی حیثیت سے زیادہ جانتی ہے مگر ایک سیاست دان کے طور پر کم کم پہچانتی ہے ۔ عموماًشاعروں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ دنیائے تخیل میں کھوئے رہنے کی وجہ سے میدان عمل کے مرد ہی نہیں ہوتے مگر اقبال ایسے شاعر نہ تھے آپ کی شاعری مقصدی ہے ۔آپ شاعر بھی تھے ، مجاہد بھی اور سالارِ کارواں بھی ؎ سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را حالی، شبلی اور اکبر الہ آبادی ان کے پیش رو تھے۔ دنیا کے کسی شاعر نے اپنی قوم کے حال و مستقبل پر اتنا اثر نہیں ڈالا جتنا اقبال نے ۔آپ کا قول ہے: سیاست کو قوم سے وہی نسبت ہے جو جسم سے جان کو ۔ سیاست آزادی ہے، سیاست کے معنی ہیں حیات ملّی کا شعور ، سیاست مدعا ہے اس نصب العین کی جدوجہد سے جس سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے ۱۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے آپ کو گہری دلچسپی ہے۔ جنوبی ایشیا کی سیاست کا وہ دور جو ہنگاموں ، فسادات ، خون ریزیوں، کشمکش اور تصادم کا دور تھا ، اقبال جیسا حساس مفکر اپنے آپ کو کیسے الگ کرتا، چنانچہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے آپ سرگرم عمل نظر آتے ہیں ، آپ نے کئی سال تک برصغیر کی سیاست میں عملی شرکت کی اور بعض اہم فرائض سنبھالے ، تقسیم ہند اور پاکستان کا واضح تصور ، مسلم لیگ کے سیاسی پلیٹ فارم سے پیش کیا، ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے حصول کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اپنے ہمعصر سیاستدانوں کو بھی قائل کرتے رہے۔ قائد اعظم جیسے ماہرِ سیاست نے آپ کو عملی سیاست دان تسلیم کیا ہے یوم اقبال منعقدہ ۹؍ دسمبر ۱۹۴۲ء کے لیے، اپنے پیغام میں آپ نے کہا: وہ ایک بڑے شاعر اور فلسفی تو تھے ہی ، لیکن عملی سیاست دان کی حیثیت سے بھی کم نہیں تھے ۲ اس مضمون میں عملی سیاست دان کی حیثیت سے آپ کی خدمات پہ روشنی ڈالی گئی ہے اگرچہ اس موضوع پر چند کتابیں اور مضامین بھی ملتے ہیں تاہم اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ تمام مباحث ایک جگہ سما جائیں ، عام قاری اور طالب علم مستفید ہو سکے ۔ پیشتر اس کے ہم عملی سیاست میں آپ کا سفر شروع کریں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے سیاسی حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے۔ مسلم قومیت کا شعور اجاگر کرنے میں سر سید احمد خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے الیکشن کے مغربی طریقے اور یورپی نیشنلزم کو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ، اردو ، ہندی جھگڑے سے ، آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو اور مسلم متحد ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ۱۹۰۵ء میں بنگال کی تقسیم سے ہندوئوں کا تعصب اور واضح ہو گیا، ہندو قوم پرستوں کے ناروا سلوک نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کسی پلیٹ فارم پر جمع ہوں چنانچہ علی گڑھ کے فکری ارتقا ہی سے دسمبر ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی ابتدا ہوئی ، مسلمان زعما جیسے حکیم اجمل ، سر آغا خان ، ظفر علی خان ، محسن الملک ، وقارالملک ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ کے گھر جمع ہوئے اور اپنی اس نمائندہ جماعت کے قیام پر اتفاق کر لیا ۔ مسلمان رہنمائوں کی کوششوں سے ۱۹۰۹ء کے آئین میں ، جداگانہ انتخاب کا مطالبہ ، حکومت برطانیہ نے تسلیم کر لیا ۔ ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کے احکام کو منسوخ کر دیا گیا جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ جنگ عظیم کے دوران ، انگریزوں نے ، جنوبی ایشیا کے لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے ، ان سے وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر انہیں آزادی اور خود مختاری دیدی جائے گی ، مگر اسے وعدہ فردا پہ ٹال دیا گیا ۔ برصغیر کے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی ۱۹۱۸ء میں نام نہاد دستوری اصلاحات سامنے آئیں۔ رولٹ ایکٹ (فروری ۱۹۱۹ئ)نے حالات میں مزید تلخی پید ا کی ، قائد اعظم نے احتجاجاً ، امپیریل کونسل سے استعفیٰ دے دیا ، گاندھی نے اس ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ کی مہم چلائی ۔ ۶ اپریل ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ پیش آیا ،ہندوستان، آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا، رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج ، پنجاب کی فائرنگ اور تحریک خلافت نے دونوں قوموں کو اور قریب کر دیا مسٹر گاندھی کو تحریک کا لیڈر قرار دیا گیا ۔ بقول سید حسن ریاض : خلافت کانفرنس اور کانگرس کے اشتراک سے عدم تعاون کی تحریک، زلزلے اور طوفان کی طرح چلی ۳۔ مارچ ۱۹۲۰ء میں وفد خلافت انگلستان گیا، مولانا محمد علی جوہر، سید سلیمان ندوی، سید حسین اور حسن محمد حیات نے مسلمانوں کی نمائندگی کی، جس کا مقصد ، ترکی کو بچانا اور اس طرح سے اسلام کی مرکزیت کو برقرار رکھنا تھا اس وفد کو ایک حد تک کامیابی ہوئی ، اہل اسلام ، اتحادی ممالک کی چیرہ دستیوں سے کسی قدر محفوظ ہو گئے ۔ تحریک خلافت اور کانگرس کا اتحاد ، گاندھی کے متعصبانہ روّیے کی بنا پر ، دیر پا ثابت نہ ہوا ۔۱۹۲۱ء کے بعد حالات بدل چکے تھے۔ انگریز کے جانے کے بعد ، اکثریت کی حکومت کے آثار نظر آر ہے تھے، ہندو چاہتے تھے کہ انگریز جلد از جلد ، حکومت ، اکثریت کے حوالے کر دے ،مسلمان اپنے سیاسی و ثقافتی تحفظات چاہتے تھے ۔لکھنؤ پیکٹ (۱۹۱۶ء )میں کانگرس نے جداگانہ انتخاب منظور کر لیا بعد میں اس سے منحرف ہو گئی مولانا محمد علی جوہر نے گاندھی کو آمادہ کرناچاہا کہ وہ ملک کی رہنمائی کریں مگر انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر اپنی زبان بند رکھی ، کوہاٹ کے فسادات ۱۹۲۴ء کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی، آریہ سماج نے ہندو مذہب کا پرچار کیا۔ ہندو مہا سبھا کا عروج ہوا جس کا لیڈر پنڈت مالویہ تھا ۔ اس نے ہر مسئلے پر مسلمانوں کی مخالفت کی۔ کانگرس ، ہندو مہا سبھا کی رو میں بہہ گئی بلکہ ۱۹۲۶ء کے عمومی انتخاب کے بعد، ہندو مہا سبھا کی دست نگر بن گئی ۔ ۱۹۲۷ء کا سال ، تاریک سال تھا ۔ فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ، سائمن کمیشن ہندوستان آیا۔ کانگرس اور مسلم لیگ نے اس سے عدم تعاون کا فیصلہ کیا مگر سر محمد شفیع کی ’’لیگ‘‘ نے (جس کے اقبال ان دنوں جنرل سیکرٹری تھے)، تعاون کیا۔ کانگرس کے لیڈروں نے اپنے عمل سے متحدہ قومیت کی نفی کی۔ مسلمانوں کے حقوق چھینے ، نہرو نے مرکزی اسمبلی میں ، صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کو صوبائی درجہ دینے کی مخالفت کی ۱۹۲۸ء کی رپورٹ میں پنجاب و بنگال کی عددی مسلم اکثریت کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ، نہرو رپورٹ کیا تھی، برطانوی سنگینوں کے سائے میں مہا سبھا کی حکومت قائم کر دی جائے، ہندو پریس نے اس کی خوب نشرو اشاعت کی ۔ آل پارٹیز کانفرنس ۱۹۲۸ء میں کہا گیا کہ اس رپورٹ کو ایک شوشے کی تبدیلی کے بغیر قبول کیا جائے۔ مولانا محمد علی اور جناح کا موقف یہ تھا کہ نہرو رپورٹ کو تجاویز دہلی سے ہم آہنگ کیاجائے مگر مسلم رہنمائوں کی بات نہ مانی گئی اس پس منظر میں جناح نے فرمایا کہ اب ہمارے اور ہندوئوں کے راستے جداجدا ہیں ، مارچ ۱۹۲۹ء میں قائد اعظم نے قومی تشخص کے لیے چودہ نکات (۱۴) پیش کئے ۔ کانگرس نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، مسلمان الگ رہے۔ ۱۹۳۰ء میں سائمن رپورٹ شائع ہوئی یہ مردہ بچہ تھا جو پیدا ہوتے ہی دفنا دیا گیا ۴۔پھر گول میز کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی آواز کا یہ اثر ہوا کہ ۱۹۳۵ء کے آئین میں اقلیتوں کے تحفظات کی ضمانت دے دی گئی یہ آئین ۱۹۳۷ء میں نافذ کیا گیا ۔ تو معلوم ہوا کہ اکثریت کے معاندانہ رویوں کے سامنے اقلیتوں کے تحفظات کی کوئی قدر و قیمت نہیں، قومی ترانے کی حیثیت سے بندے ماترم کا نفاذ واردھاکی تعلیمی سکیم اور اردو کشی کی کانگرسی مہم نے ثابت کر دیا کہ آئین پرعمل کر نا یا نہ کرنا ۔۔۔۔ اکثریت کی مرضی پر موقوف ہے اقلیت کا مستقبل ، اکثریت کے رحم و کرم پر ہوتاہے۔ اس احساس نے مسلمانوں میں قومی وطن کے مطالبے کو جنم دیا نیز یہ کہ قومی تشخص حاصل کرنے کے لیے ، سیاسی اور عسکری قوت لازمی ہے۔ یہ حالات اور رویے تھے جب علامہ محمد اقبال نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اگرچہ ان کا یہ سفر مختصر ہے لیکن بھرپور ہے۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں اور دنیائے اسلام کے ہر مسئلہ پر سوچا سمجھا تحریک خلافت کے بارے میں اپنے عمل اور رد عمل کا اظہا کیا ، پنجاب اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے آپ نے خدمات سر انجام دیں، گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی، تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا خطبہ پیش کیا ۔ سائمن کمشن سے جزوی تعاون کیا، نہرو رپورٹ کی مخالفت کی ، پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی اور قائد اعظم کی قیادت عظمیٰ میں کام کیا ۔۔۔ غرض مختلف اورمتنوع حیثیتوں سے جہدو عمل کا پیکر نظر آتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے تقریریں بھی کیں، بیانات بھی دیئے ، سیاسی معاصرین سے بر سر پیکار بھی رہے ، الغرض بہت سے واقعات پیش آئے آئندہ صفحات میں مذکورہ بالا حالات و واقعات کو اجاگر کیا جائے گا۔ علامہ محمد اقبال کے ابتدائی کلام میں وطن سے محبت ، ہندو مسلم اتحاد کی خواہش موجود ہے ، قیامِ انگلستان کے دوران ، آپ کے ذہن و نظر میں بڑی تبدیلی آئی آپ کو یورپی وطنیت کے نقصانات کا اندازہ ہوا، اسلام کا احیا اور مسلمانوں کی سربلندی ، آپ کی زندگی کا نصب العین بن گیا ۔۔۔ ۱۹۰۸ء میں سید امیر علی نے لندن میں مسلم لیگ کی شاخ قائم کی ۵ ۔ آپ نے اس کا افتتاح کیا اور وہیں مسلم لیگ کے رکن بنے اس کے اجلاس اور پروگراموں میں شرکت کرتے رہے، وطن لوٹ کر یہاں کی مسلم لیگ کے ممبر بنے (۱۹۰۹ئ) اور اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ آپ کو عالم اسلام اور خلافت عثمانیہ سے خصوصی لگائو تھا عالم اسلام پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تو آپ نے معرکۃ الآرا اور جذباتی منظومات لکھیں اپنی نظموں کی آمدنی بلقان فنڈ میں دے دی۔ برصغیر کے دیگر رہنمائوں کی طرح آپ کو نہ صرف تحریک خلافت سے دلچسپی تھی بلکہ قائد تحریک علی برادران سے بھی ہمدردی تھی ، ان کے قید ہونے پر نظم لکھی ۔ اس تحریک کے حامیوں پر حکومت کی سختی سے آپ کو صدمہ ہوا۔ لاہور میں مولوی محمد عرفان کو پولیس نے زد و کوب کیا تو بطور خاص احتجاج کیا۶۔ خلافت وفد کی ناکامی پر سید سلیمان ندوی کو خط لکھا اور ان کی کوششوں کو سراہا۔ آپ ۱۹۱۹ء میں تحریک کے ممبر بنے مگر جلد مستعفی ہو گئے ۔ اس کی چند وجوہات تھیں۔۔۔ سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے ۱۹۰۵ء میں لندن میں ، آپ نے ایک نیم سیاسی انجمن کی رکنیت اختیار کی ، کانگرس نے مسلمانوں کی رہنمائی اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ گاندھی جی کو تحریک خلافت سے دلچسپی ہندو مفادات کی خاطر تھی وہ اپنی سیاست کی دھاک بٹھانا چاہتے تھے۔ آپ نے کانگرس خلافت سوراج پارٹی ، میں شرکت سے انکار کر دیا۔ تحریک کی اس روش سے آپ سخت نالاں تھے سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں آپ نے اس کی پرزور مخالفت کی ۸ ۔ تحریک خلافت نے اسلامیہ کالج لاہور کو بند کرنا چاہا کہ اسے اپنا مرکز بنائیں مگر آپ نے اس امرکی سخت مخالفت کی ۹ ۔ خلافت وفد کے انگلستان جانے پر بھی اعتراض تھا کہ یہ خلافت کی گدائی تھی۔ اقبال یہ چاہتے تھے کہ یہ کام آزادانہ اور مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پائے خلافت کی خاطر انگریزوں اورہندوئوں کے آگے ہاتھ پھیلانا انہیں گوارا نہ تھا ؎ مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست پھر یہ بات کہ ترک بھی خلافت کے احیا کے حق میں نہ تھے، مصطفی کمال پاشا کی کوششوں کی آپ نے تعریف کی ۔ ترکی کی تحریک آزادی و استقلال کے بہت بڑے حامی تھے ۔ پنجاب لیجِسلیٹِو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے: ۱۹۲۳ء میں علامہ اقبال نے ملک کی خدمت کے نقطۂ نظر سے عملی سیاست میں شرکت کا مظاہرہ کیا اور پنجاب قانون ساز کونسل کی رکنیت کے امیدوار بنے مگر اپنے دوست میاں عبدالعزیز کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ بہرحال ۱۹۲۶ء میں آپ مذکورہ کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ۔ آپ کا مقابلہ خان بہادر ملک دین محمد سے ہوا۔ ۱۹۲۷ء ۔۱۹۳۰ء تک ، آپ کونسل کی کار روائیوں میں شریک رہے۔ اور نہایت مدلل، شگفتہ ، بلیغ اور عالمانہ تقریریں کیں جو حرف اقبال میں شامل ہیں چند مخصوص عنوانات پر آپ کے خیالات کا ملخّص پیش کیا جاتا ہے:۔ غیر ملکی حکومت اور تعلیم : ۱۱؍مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ نے حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا : ہماری آئندہ ترقی کا دارو مدار تعلیم پر ہے مگر تعلیم کی مدّ میں جو کچھ خرچ ہو رہا ہے ۔ سب رائیگاں ثابت ہو گا ۔۔۔۔ جہاں جہاں لازمی پرائمری تعلیم کو نافذ کیا گیا ہے وہاں اس کی حیثیت کاغذی کاروائی سے زیادہ نہیں ۱۹۳۰ء کے بجٹ سیشن میں، آپ نے اعداد و شمار کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کو جو مجموعی گرانٹ دی جاتی ہے اس کا صرف پانچواں حصہ اسلامیہ سکولوں کے حصے میں آتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اکثریت کا صوبہ ہونے کے باوجود، مسلمانوں کی تعلیم سے ، دانستہ طور پر بے رخی اختیار کی گئی ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب ایک وفد لیکر ناظم تعلیمات انڈرسن سے بھی ملے اور انہوں نے تلافی کا وعدہ کیا ۔ انکم ٹیکس اور لگان : کاشتکاروںکی زبوں حالی پر آپ اکثر گفتگو کیا کرتے تھے ۔ انگریز حکومت کم سے کم زمین پر بھی سرکاری لگان معاف کرنے کو تیار نہ تھی ۔ اس لیے کہ وہ زمین کی مالک تھی دوسری طرف ساہو کار اور بنیے تھے کہ سود در سود کے ذریعے غریب کسان کی کمر توڑ رہے تھے ۔آپ نے فرمایا کہ زمین کے مالک ، اہل ملک ہیں نہ کہ حاکم لوگ بادشاہ تو آتے جاتے رہتے ہیں ، آپ نے سفارش کی کہ جس طرح بڑھتی ہوئی غیر زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی شرح مسلسل بڑھتی ہے اس نسبت سے بڑی بڑی زمینداریوں کے لگان کی شرح میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ ملک کے محدود مالی ذرائع کے پیش نظر انتظامیہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات میں تخفیف کرنا چاہیے ۔ آپ مختلف بجٹوں کے اعداد و شمار سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ترقیاتی منصوبوں سے گرانقدر رقموں کا زیاںہو رہا ہے ۔ آپ کو مسلمانوں کی اقتصادی بہبود سے بہت دلچسپی تھی، مسلمان قرض کے نیچے دب گئے ہیں ۔ مسلمانوں کو صنعت و حرفت کی طرف توجہ دینا چاہیے ، کپڑا بننے اور چمڑے کی صنعتیں ،خاص طور پر مسلمانوں کے لیے موزوں ہیں ۔۔۔۔ تجارت کے بنیادی اصولوں کے مطابق بدیشی چیزیں صرف انہی منڈیوں سے خریدی جائیں جہاں وہ ارزاں مل سکتی ہوں ۔ (بجٹ تقریر ۱۹۲۹ئ) انگریزی اور دیسی طریقۂ علاج: ۱۹۲۸ء کے بجٹ سیشن میں تقریر کرتے ہوئے ، آپ نے یونانی اور آیور ویدک علاج کے طریقوں کی حمایت کی ، مغربی طریقہ علاج ، مہنگا ہونے کے علاوہ ، لوگوں کے مزاج کے مطابق نہیں،اس میدان میں مسلمان اطّبا کی حکمت گم گشتہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اس سلسلے میں بالخصوص سمر قندی کی تصانیف کی تعریف کی۔ ہندو مسلم فسادات : ۱۹۲۷ء میں فرقہ وارانہ فسادات زوروں پر تھے لاہور میں ایک ہولناک اور خونریز فساد ہوا۔ موسم گرما کے اجلاس میں، آپ نے اس موضوع پر دو تقریریں کیں : ۱ ۔ فرقہ وارانہ فسادات کے مختلف اسباب ہیںمگر بنیادی بات یہ ہے کہ ہنود نے ہر شعبے میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے ہندو قوم کے تصور میں، مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ۲۔ آپ اتحاد کمیٹیوں اور کانفرنسوں کے طریق کار سے بھی مطمئن نہ تھے کہ ان میں عمل کی کمی ہے۔ سردار اجل سنگھ کی قرار داد (صوبے کی تمام سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے لیے امتحانوں کا طریقہ رائج کیا جائے) پر آپ نے سخت تنقید کی کہ ہر ممتحن اپنی قوم کے امیدواروں سے ترجیحی سلوک کرے گا ہمارے حالات یکسر مختلف ہیں۔ آپ نے دیہاتی علاقوں میں حفظان صحت اور عورتوں کے علاج معالجے کی سہولتوں کی بہم رسانی پر زور دیا ۔ بانیان مذہب اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی کرنے والوں کی خاطر تقریری قانون منظور کروایا۔ شراب کی درآمد اور کشید کی مخالفت کی ۔ تلوار کو قانون اسلحہ ہند سے مستثنیٰ کرایا ۔ اقبال اور مسلم لیگ (۱) مسلم لیگ کانگرس کی چیرہ دستیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی۔ یہ جماعت آپ کے ذہن کے مطابق تھی لہٰذا آپ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے، رفتہ رفتہ اس کے جنرل سیکرٹری بن گئے ۔ جس بات کو آپ نے صحیح محسوس کیا اس پر ڈٹ گئے ۔ آپ نے سائمن کمیشن سے تعاون پر زور دیا کہ کمیشن کا بائیکاٹ مسلمانوں کے لیے ضرور رساں ہو گا ۔ اس طرح کمیشن کے سامنے اپنی امیدیں اور مفاد پیش کرنے کا موقع مل جائے گا جب سر شفیع لیگ نے ، صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو اہمیت نہ دی تو آپ معتمد کی حیثیت سے مستعفی ہو گئے ۔ اگرچہ بعد میں ، سر محمد شفیع نے علّامہ کی تجویز کو منظور کر لیااور آپ نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا ۱۰ ۔ جب سائمن کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو آپ نے ۲۶ جون ۱۹۳۰ء کے ’انقلاب‘ میں اس پر تبصرہ کیا اوراس کی خامیوں کو بے نقاب کیا۔ مسلم لیگ کی صدارت اور خطبہ الہ آباد : ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو آپ نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا خطبہ ارشاد فرمایا ، جو مسلمانان ہند کی سیاسی تاریخ میںاہم ترین دستاویز ہے۔ یہ خطبہ اپنی معنویت ، افادیت اور جدتِ افکار کے لحاظ سے لا جواب ہے اس خطبے کے خاص خاص مباحث مختصر طورپر پیش کیے جاتے ہیں: مسلمان اور نظریہ قومیت : اس خطبے میں آپ نے حب الوطنی اور سیاسی وطنیت کا فرق سمجھایا یورپ کے تصور دین و دنیا کی نفی کی اور اس بارے میں اسلامی نقطہ نظر پیش کیا ۔ اسلام ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کو نسل و وطن کی قید سے آزاد کر سکتی ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ہندو مسلم اتحاد سے مایوسی : آپ نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا مگر دریں حالات مایوسی کا اظہار کیا، نہرو رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جب سیاسی رہنما ، اس ذہنیت کا مظاہرہ کریں تو عوام میں یگانگت کیسے پیدا ہو گی۔ پاکستان کا تصور : یورپ کے اصول جمہوریت کو ہندوستان میں اس وقت کام میںلایا ہی نہیں جا سکتا جب کہ فرقہ وارانہ گروہوں کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ ہند کے اندر ، ایک اسلامی ہند ہونا چاہیے ۔۔۔ ذاتی طور پر میری یہ خواہش ہے کہ صوبہ پنجاب ، سرحد ، سندھ ، اور بلوچستان کو ملا کر ایک مجموعی ریاست بنا دیا جائے خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا باہر مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ کم از کم شمالی مغربی ہند کے مسلمانوں کو آخر کار ہند میں ایک مسلم ریاست بنانی ہوگی ۔۔۔۔ اگر اس میں سے غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے مثلاً ضلع انبالہ اور دیگر اضلاع الگ کر دئیے جائیں تو اس کی وسعت اور انتظامی مشکلات میں اور کمی ہو جائے گی ۔ اس طرح مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔ ہندوستان ، مسلم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اگر ہم چاہتے ہیںکہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے اس طرح نہ صرف ہندوستان کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ خود اس سے مسلمانوں کے احساس ذمہ داری قوی ہو جائیں گے اور ان کا جذبہ حب الوطنی بڑھ جائے گا۔ گول میز کانفرنس ۱۹۳۰ء کی فرقہ وارانہ ذہنیت کے بارے میں آپ نے مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ اس کانفرنس کے ہندو نواز صدر مسٹر ریمزے میکڈانلڈ ، جداگانہ انتخاب کا حق ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ یہ مغربی جمہوریت کے منافی ہے۔ آپ نے انگریزوں پر واضح کیا کہ مغربی جمہوریت مجموعہ اقوام (ہندوستان ) کے روگ کا علاج نہیں۔ مسلمانان ہندوستان کسی ایسی آئینی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے جس کے تحت وہ بنگال اور پنجاب میںجداگانہ انتخاب کے ذریعے اپنی اکثریت حاصل نہ کر لیں یا مرکزی مجلس میں انہیں ۳۳ فیصد نشستیںنہ مل جائیں ، اس سلسلے میں ، آپ نے میثاق لکھنؤ کی مذمت کی ، سائمن کمیشن پر انتقاد کیا اور آپ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے بلوچستان میں ضم کر دیا جائے ، سندھ اور سرحد کو صوبوں کے برابر درجہ دیا جائے اور ان میں بھرپور اصلاحات کی جائیں ۔ علاوہ ازیں اس خطبے میں آپ نے مشترکہ دفاع ، قوموں کے عروج و زوال ، مسلم امّہ کی نااتفاقی اور اچھے رہنمائوں کے فقدان کا بھی ذکر کیا ۔ مسلم کانفرنس اور اقبال : جب خلافت تحریک دم توڑ چکی اور مسلم لیگ میں پہلا سا دم خم نہ رہا تو ْمسلم قیادت کا خلا پیدا ہوا ضرورت محسوس ہوئی کہ نامور اور چیدہ رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے چنانچہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے نام سے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا ۱۱ ۔ جو حکومت کی پالیسیوں کا سخت ناقد بن گیا ۔ مسلم لیگ اور مسلم جماعتوں نے جناح کے ۱۴ نکات سے اتفاق کر لیا ۔ نیز اقبال کے خطبہ الہ آباد کی تائید کی۔ اقبال نے ۱۹۲۹ء میں اس جماعت کے اچھے مقاصد کے پیش نظر اس کی رکنیت قبول کی اور مختلف اوقات میں اس کے اجلاس کی صدارت کی۔ ان میں اہم جلسہ وہ ہے جو ۲۱ ؍مارچ ۱۹۳۲ء کو منعقد ہوا ۔ اس میں آپ نے خطبہ الہ آباد کی مانند زبر دست خطبہ دیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس خطبے میں آپ نے سرکاری پالیسیوں پر بیباکی سے تنقید کی۔ آپ کی تقریر کے اہم نکات یہ تھے ۔ (الف ) مسلمانوں کے جداگانہ حقوق کے تحفظ پر زور، (ب) گول میز کانفرنس میں ہندوئوں اور انگریزوں کے رویّے پر انتقاد (ج) صوبہ سرحد اور ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی حالت زار اور آئندہ کا لائحہ عمل، پروگرام کے آخر میں قرار دادیں پیش کی گئیں جو آپ کے مشورے سے مرتب ہوئیں۔ جون ،جولائی ۱۹۳۲ء میں آپ نے مسلم کانفرنس کی سرگرمیوں کے بارے میں چند اخباری بیانات دیئے، مسلم کانفرنس کا ایک اجلاس ۷؍اگست کو دہلی میں ہوا، صدارت علامہ نے کی ۔ ۲۳ ؍ اگست کو ، مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت بھی آپ نے فرمائی ۔ اس اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی مسلم کانفرنس کو ، لیگ میں مدغم کرنے میں ، آپ کا بڑا حصہ تھا۔ گول میز کانفرنس : ۱۹۳۰ء میں ، برصغیر کے سیاسی مسئلے اور آئندہ دستور پر بحث و تمحیص کے لیے ایک گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ علامہ اقبال نے اس میں شرکت نہیں کی مگر مسلم مطالبات کی حمایت میں اخباری بیان جاری کیے، جب مسلم مندوبین برطانوی حکومت کی خوشنودی کے لیے جداگانہ طریق انتخاب کا مطالبہ ، ترک کرنے پر رضا مند ہو گئے تو آپ نے دیگر رہنمائوں کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار ایک تار کے ذریعے کیا۔ ’اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو وہ کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے واپس آ جائیں‘۔ دوسری گول میز کانفرنس (۱۹۳۱ئ) مسلم وفد کے سربراہ آغا خان تھے اس میں علامہ اقبال نے شرکت کی اور موصوف کو مفید مشورے دیئے ۔ دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں (۱) اقلیتوں کے مسائل کی کمیٹی (۲) مجلس تشکیل وفاق، آپ اوّل الذکر کمیٹی سے متعلق تھے ۔ آپ نے اقلیتوں کا مسئلہ خوش اسلوبی سے اٹھایا ۔ اقلیتوں نے جداگانہ انتخاب کا متفقہ فیصلہ پیش کر دیا۔ گاندھی نے عجیب و غریب شرطیں عائد کیں ، سکھوں نے بھی عدم تعاون کیا ۔ جس کی وجہ سے اقلیتوں کی کمیٹی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ۔ ’آل انڈیا فیڈریشن ‘ کے متعلق ، آپ پہلے خطبہ الہ آباد میں اظہار فرما چکے تھے کہ پہلے صوبوں کو خود مختاری دی جائے پھر مرکز میں وفاق قائم کیا جائے ۔ یہ طے ہوا کہ مسلم مندوبین کمیٹی کی کارروائیوں میں حصہ نہ لیں لیکن بعض ممبروں نے طے شدہ پالیسی کے خلاف نہ صرف اجلاس میں شرکت کی بلکہ سرگرم حصہ لیا۔ آپ کو یہ بات ناگوار گزری اور مسلم وفد سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ یہ بات غلط ہے کہ آپ کانفرنس سے مستعفی ہوگئے ۔۔۔ غرض کانگرس کے متعصبانہ رویّے کی وجہ سے یہ کانفرنس بھی ناکام رہی۔ کانفرنس کے خاتمے پر آپ فلسطین چلے گئے اور مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں مسلمانان ہند کے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ تیسری گول میز کانفرنس : وائسرائے کی پر زور سفارش پر آپ کو تیسری کانفرنس میں مندوب بنایا گیا ۔ آپ نے جانے سے پیشتر ’’ ہمدم‘‘ لکھنؤ کے نام خط لکھا جس میں مسلمانوں کے مطالبات کا ذکر تھا، علامہ نے کانفرنس میں زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی البتہ وفاق کے مباحث میں حصہ لیا، آپ نے سرے سے وفاق کے تصور کی مخالفت کی اور کہا کہ ہر صوبے کو خود مختار ریاست بنا دیا جائے اور اس کا تعلق براہ راست لندن میں وزیر ہند سے ہو ۔ آپ کی رائے کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ ایک فیصلے سے آپ خوش تھے کہ اچھوت قوم کو نئی زندگی ملے گی ۔ لندن میں آپ نے اہل الرائے سے نجی ملاقاتیں کیں دارالعوام کے جلسے میں شرکت کی اور مسلم مطالبات کا اظہار کرتے رہے ۔ کانفرنس سے فارغ ہو کر آپ پیرس ،ہسپانیہ اور اٹلی گئے اور چار ماہ بعد وطن واپس لوٹے۔ آخر میں حکومت برطانیہ نے ایک قانون کا اعلان کر دیا جو دسمبر ۱۹۳۴ء کو پارلیمنٹ میں منظور ہوا۔ اسے ۱۹۳۵ء کا ایکٹ کہتے ہیں یہ مایوس کن دستاویز تھی جناح اور اقبال دونوں اس ایکٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھے ۔ مجوزہ فیڈریشن کو دھوکہ قرار دیا۔ جس میں ہندوئوں کو پورا پورا مفاد پہنچایا گیا اور مسلمانوں کے مستقبل کو نظر انداز کر دیا ۔ علامہ اقبال اور پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو ایکٹ ۱۹۳۵ء کے نفاذ سے ہند کی سیاست میں نیا تموّج پیدا ہوا، ہر صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کاآغاز ہوا، قائد اعظم نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا، بمبئی کے اجلاس میں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ مرکزی پارلیمانی بورڈ اور ہر صوبے میں صوبائی الیکشن بورڈ قائم کیے جائیں ۔ مجوزہ بورڈوں کی تشکیل کے سلسلے میں آپ نے سب سے پہلے پنجاب کا دورہ کیا (۲۹؍اپریل۱۹۳۶ئ) پنجاب اس وقت سرکار پرستوں کا مرکز تھا۔ یہاں یونینسٹ پارٹی کا راج تھا آپ نے اس کے سربراہ سر فضل حسین سے ملاقات کی اور تعاون چاہا انہوں نے مسلم لیگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ قائد اعظم کو بہت مایوسی ہوئی پھر آپ نے علامہ اقبال کی طرف رجوع کیا جو کہ اندھیرے میں ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی تھی ۔ علامہ نے صحت کی کمزوری و دیگر مصائب کے باوجود مددکا وعدہ فرمایا اور مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے پر زور دیا ۔ ۸ ؍مئی۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال نے دیگر مسلم رہنمائوں کے اشتراک سے ، مسلم لیگ اور قائد اعظم کی حمایت میں ایک پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیا جس کا عنوان تھا ۔ ’’مسلمانان پنجاب کے نام ایک اپیل ‘‘ ۱۲؍مئی ۱۹۳۶ء کو علامہ کی زیر صدارت پنجاب ، مسلم لیگ کی تنظیم نو کا اجلاس ہوا۔ مندرجہ ذیل عہدیداران کا تقرر عمل میں آیا ۔ صدر (علامہ اقبال) نائب صدر (ملک برکت علی، خلیفہ شجاع الدین) سیکرٹری (غلام رسول بیرسٹر ایٹ لا) جوائنٹ سیکرٹری (عاشق حسین بٹالوی، میاں عبدالمجید) یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب مسلم لیگ ، مرکزی پارلیمانی بورڈ اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرے گی ۔ ۲۱؍مئی کو قائد اعظم نے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اراکین کا اعلان کیا جس میں ہندوستان کے ہر صوبے کے نمائندے شامل تھے۔ پنجاب کے لیے گیارہ اراکین منتخب کیے گئے جن میں علامہ اقبال سر فہرست تھے۔ ۲۳؍مئی ۱۹۳۶ء کے خط بنام قاعد اعظم میں ، علاّمہ نے مسلم لیگ کی کامیابی کا ذکر کیا۔ ۲۸؍مئی کو علاّمہ کے دولت کدہ جاوید منزل میں، علامہ کی صدارت میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرار داد پاس ہوئی کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ حصہ لے گی اس کے لیے صوبائی بورڈ کی تشکیل ہو قواعد و ضوابط مرتب کیے جائیں ۸ ؍جون کے اجلاس میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ضلع اور تحصیل کے سطح پر مسلم لیگ کی تنظیم نو کے لیے کوششیں شروع ہوئیں اقبال کے نام سے اپیلیں ارسال کی گئیں ۔ علاّمہ نقاہت کے باوجود، سارے کام کی نگرانی کرتے تھے ۔ ایک موقع پر ۶ ، جون کو قائد اعظم کو لاہور پہنچنا تھا۔ یونینسٹوں نے سیاہ جھنڈیوں سے مظاہرے کا پروگرام بنایا علاّمہ نے اپنے مسلم لیگی ساتھیوں کی مدد سے اس پروگرام کو ناکام بنا دیا۔ ابتدا میں ، اتحاد ملّت اور مجلس احرار نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا مگر یہ تارعنکبوت ثابت ہوا ۔اسی طرح مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے درمیان مفاہمت کی بات چیت ہوئی مگر وہ بھی بے سود رہی ، اس بارے میں علاّمہ نے ایک خط کے ذریعہ قائد اعظم کی رائے دریافت کی( خط بنام قائد اعظم ۲۲؍اگست ۱۹۳۶ء ) میاں فضل حسین کے انتقال کے بعد، سر سکندر حیات یونینسٹ پارٹی کے سربراہ بنے تو انہوں نے مسلم لیگ سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔ خرابی ٔ صحت کی بنا پر ، علامہ نے مسلم لیگ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا مگر جب یہ محسوس کیا کہ اس کا فائدہ مخالفین کو پہنچے گا تو اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔ اور پہلے سے بھی زیادہ سرگرمی دکھائی ۔ ان کی ذاتی کوششوں سے بے شمار لوگ مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات کے لیے علاّمہ نے درخواستیں طلب کیں صرف آٹھ امیدواروں نے درخواستیں دیں ۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں، علامہ نے قائد اعظم کو لاہور آنے کی دعوت دی ، آپ ۹؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کو لاہور تشریف لائے دو ہفتے قیام کیا۔ ۱۱؍اکتوبر کو مسلم لیگ کا جلسہ ہوا جس میں جناح نے تقریر کی اور اس طرح انتخابی مہم کا آغاز ہوا۔ علاّمہ، علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے ، قائد اعظم نے، اقبال کی عیادت کی اور مسلم لیگ کی تنظیم کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا ۔ مسلم لیگ کی روز افزوں ترقی اور عوامی مقبولیت یونینسٹوں کو کھٹک رہی تھی ۔ سر سکندر حیات نے اقبال کو کہلوا بھیجا کہ اگر مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ الیکشن سے دستبردار ہو جائے تو دو مسلم لیگی ممبران بلا مقابلہ منتخب کر لیے جائیں گے مگر علامہ نے خفگی کے ساتھ اس تجویز کو ردّ کر دیا انہوں نے فرمایا: ’’مسلم لیگ کا مقصد محض اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرنا نہیں بلکہ پنجاب کے عوام میں سیاسی و سماجی شعورپیدا کرنا اور انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہے مسلم لیگ کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرے گی ۱۲ ‘‘۔ مسلم لیگ نے آٹھ حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے اور محدود وسائل کے باوجود جم کر مقابلہ کیا مجلس احرار اور انجمن اتحاد ملت نے، مشترکہ امیدوار کی تجویز کو نہ مانا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یونینسٹوں نے اکثر مقامات پر کامیابی حاصل کی ۔مسلم لیگ کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے اگر صورت حال کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ کی ظاہر شکست بھی فتح معلوم ہوتی ہے اس قسم کے احساسات کا اظہار قائد اعظم نے سیکرٹری مسٹر غلام رسول کے نام ایک خط میں فرمایا ۱۳ ۔ صرف پانچ ماہ کے اندر ، پنجاب میں مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑنا اور اسے مضبوط بنیاد پر استوار کرنا ، اقبال کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آپ نے پنجاب میں ایسی فضا پیدا کر دی جس سے مسلم لیگ کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار ہو گئی ۔ علاّمہ نے قائد اعظم سے درخواست کی آل انڈیا مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس پنجاب میں منعقد کیا جائے۔ اس سلسلے میں آپ نے چند خطوط لکھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ملّی تحفظ کا عظیم الشان فیصلہ لاہور ہی میں ہو گا ۱۴ ۔ ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کولاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے دوسرے دن قائد اعظم نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے فرمایا ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے ہی کیا جس کی وہ خواہش کرتے تھے ۱۵ ‘‘ مندرجہ بالا جائزے سے ذیل کے نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں : ۱ ۔ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ ہنود آپ کے نزدیک ایک قوم نہ تھے ۔ ہندوئوں کے متعصبابہ روّیے سے آپ پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ہندو مسلم اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ ۲ ۔ آپ کو ابتدا ہی سے سیاست سے دلچسپی تھی، آپ کی سیاست میں ذاتی اغراض اور مادی فوائد کو دخل نہ تھا۔ آپ نے جو قدم بھی اٹھایا وہ مسلمانان ہند کی بہتری کے لیے تھا، پنجاب اسمبلی میں آپ نے اپنا سیاسی ، معاشرتی اور قانونی کردار ادا کیا اور بہت سی آئینی اصلاحات کروائیں ۔ پاکستان اور مسلمانان پاکستان پر آپ کے بہت سے اثرات ہیں، ہمارے دستور کے کئی حصے ہیں جو اسلام کی تعلیمات پر مبنی ہیں جن پر آپ نے بہت زور دیا ۔ ۳۔ سیاسی لیڈروں سے آپ کا اختلاف ایک مخصوص فکر کی وجہ سے اور اس کا خاص پس منظر ہے، لکھنؤ پیکٹ ہو یا مسئلہ خلافت ، سائمن کمیشن کی بات ہو یا گول میز کانفرنس میں مسلم وفد سے مقاطعہ ۔۔۔ آپ پر انگریز دوستی کا الزام بھی غلط ہے وہ انگریزوں کے مورد عنایت ہوئے مگر اپنے اصولوں سے منحرف نہیں ہوئے ۔ ۴ ۔ مسلم کانفرنس کا پلیٹ فارم ہو یا مسلم لیگ کا ، آپ نے مسلمانوں کی عظیم الشان سیاسی خدمات سرانجام دیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں ، بیماری اور ذاتی مصائب کے باوجود بڑی محنت کی ۔ قائد اعظم کے صلاح کار بنے ۔ موصوف کو بھی آپ کے سیاسی آرا و افکار سے پورا پورا اتفاق تھا ’’مسلم لیگ کے نازک ترین اوقات میں آپ ایک چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی قدم نہ ڈگمگائے ‘‘ ہم اپنے مضمون کو سر شیخ عبدالقادر کے اس قول پر ختم کرتے ہیں: سیاست دان کے لیے تین باتیں ضروری ہیں اوّل نہایت وسیع معلومات رکھتا ہو ۔ دوم طویل تجربے کا حامل ہو اور صائب الرائے ہو، سوم ۔ سیاست دان وہ کام سر انجام دے ، جو مناسب وقت پر ہو جس میں نفع یقینی ہو اور نقصان کا احتمال کم ہو ۔ جس سے ملک کے باشندوں کو حقیقی اور دیرپا فائدہ پہنچے۱۶‘‘ اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ علامہ اقبال میں تینوں صفات موجود تھیں ۔ حواشی ۱۔ قریشی، محمد صدیق، اقبال ایک سیاستدان ، قنطار پبلی کیشنز ، جہلم ، ۱۹۷۷ء ۔ ۲ ۔ Ahmed,Jamil-ud-Din(Ed) Some Recent Speeches and writings of Mr.Jinnah, 1952(2vol)Lahore ۳ ۔ ریاض ، سید حسن ، پاکستان ناگزیر تھا ، ص ۱۰۶، اشاعت پنجم ۱۹۸۷ء ۴ ۔ عبدالحمید ، ڈاکٹر ،اقبال بحیثیت مفکر پاکستان ، ص ۱۲۸ ، طبع اوّل ، ناشر اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء ۵ ۔ قدوسی ، عبیداللہ ، آزادی کی تحریکیں ، ص ۳۲۷ ، طبع اوّل ۱۹۸۸ء ۶ ۔ افضل ، محمد رفیق ، گفتار اقبال ، ص ۴۷۔۴۸، لاہور ۱۹۶۹ء ۷ ۔ عطاء اللہ،شیخ (مرتب) اقبال نامہ ، ص ۱۱۲۔۱۱۳ ،شیخ محمد اشرف ، لاہور ، سن ندارد ۸ ۔ عطا اللہ، شیخ (مرتب) اقبال نامہ ، ص ۱،۱۵۸ ۹ ۔ ریاض ، ڈاکٹر محمد ، اقبال اور برصغیر کی تحریک آزادی ، ص ۳۰ ، لاہور ، ۱۹۷۸ء ۱۰ ۔ قریشی ، محمد صدیق ، اقبال ایک سیاستدان ، ص ۹۵ ، جہلم ، ۱۹۷۷ء ۔ ۱۱ ۔ قدوسی ، عبید اللہ ، آزادی کی تحریکیں ، ص ۳۵۲ ، طبع اوّل ۱۹۷۷ء ۱۲ ۔ بٹالوی ، عاشق حسین ، اقبال کے آخری دو سال ،اقبال اکادمی پاکستان، ص ۳۷۷۔۳۷۸ ۱۳ ۔ محمد احمد خان ، اقبال کا سیاسی کارنامہ ، اقبال اکادمی پاکستان ، ص ۵۳۹ ۔۵۴۰ ، لاہور ۱۴ ۔ اقبال ،علامہ محمد ، اقبال کے خطوط جناح کے نام ، مرتبہ محمد جہانگیر عالم ، ص ۷۵ ، ۷۷ ، فیصل آباد ۱۵ ۔ مطلوب الحسن سید ، محمد علی جناح ۔ ایک سیاسی مطالعہ ۱۶ ۔ شاہد ، محمد حنیف ، اقبال اور پنجاب کونسل ، لاہور ،۱۹۷۷ء  اسلام 220 عام موضوعات 221-229 معیاری ذیلی تقسیم ٭یہ اختیاری ہے ۔چاہیں تو ذیلی تقسیم کرتے وقت ڈیوی کاجدول نمبر۱ استعمال کریں مثلاً لغات الاسلام 220.3 221 اصول ، فلسفہ ،نظریات ،فکر 222 متفرق(خاکے، خلاصے، کتابچے وغیرہ ) 223 لغات ، دائرۃ المعارف، اشاریے وغیرہ 224 اطلاق عام والے خاص موضوعات 225 جرائد و مجلات 226 ادارے اور انجمنیں 226.1 بین الاقوامی ادارے اورانجمنیں 226.2 قومی ،صوبائی اور مقامی ادارے و انجمنیں ٭ جغرافیائی تقسیم کیلئے ڈیوی کاجدول نمبر 2استعمال کریں ۔ مثلاً امریکہ میں اسلامی ادارے اورانجمنیں226.273 227 تعلیم و تدریس 227.1 دینی تعلیمی ادارے اور ان کا نصاب ٭ جغرافیائی تقسیم کیلئے ڈیوی کاجدول نمبر2استعمال کریں 227.2 دینی مدارس کے طلبہ 227.3 دینی مدارس کے طلبہ کی انجمنیں 228 مختلف طبقات میں اسلام کی تاریخ ٭مجموعوں کے لئے یہ نمبرترک کردیاگیاہے مجموعوں کو 221میں رکھیں 228.8 مخصوص طبقات میں اسلام کی تاریخ وتوضیح ٭اس نمبر کو ڈیوی کے جدول نمبر7کے مطابق مزید تقسیم کریں ۔مثلاً سائنسدانوں میں اسلام 228.85 228.9 مخصوص نسلی ، قبائلی اور قومی طبقات میں اسلام کی تاریخ ٭اس نمبر کو ڈیوی کے جدول نمبر5کے مطابق مزید تقسیم کریں۔ مثلاًچینیوں میں اسلام 228.951 229 تاریخی و جغرافیائی تقسیم ٭ یہاں صرف دین اسلام کی تاریخی اورجغرافیائی تقسیم کی جائے ۔ جبکہ اسلامی ممالک کی تاریخ و ثقافت کی تقسیم ان کے جغرافیائی محل و قوع کی بنا پر 900کی کلاس میں کی جائے ۔ مثلاً ہسپانیہ مسلم دور میں946.02 ٭اس نمبر کی مزید تقسیم ڈیوی کے جدول نمبر1اور2کے مطابق کریں ۔ مثلاً ۱۔ اسلام در عہد جدید 229.03 ۲۔ اسلام چین میں 229.51 229.2 سوانح 229.22 اجتماعی، ماسوائے صحابہ و انبیاء کرام جن کے لیے دیکھئے248.81اور249.1 229.24 انفرادی،ماسوائے سیرت انبیاء (انفرادی)جن کے لیے دیکھیے 248 اور 249.2 ٭ان نمبروں کا استعمال اختیار ی ہے۔ اگر چاہیں تو اجتماعی سوانح کے لیے922 اور انفرادی سوانح کے لیے حرف ’’س‘‘ (انگریزی ’’ B‘‘)استعمال کریں ۔ ٭ اگر ان نمبروں کا استعمال کیا جائے تو اس بات کا خیال رہے کہ اس کے اندر واقع ہونے والے مخصوص مضامین کے افراد کے سوانح اُس مضمون کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے۔ مثلاً فقہا کی سوانح 250.92 230 قرآن اورعلوم قرآن 230.1-9 معیاری تقسیم ٭حسب ضرورت ڈیوی کا جدول نمبر ۱۔استعمال کریں مثلاً لغات القران 230.3 231 نزول قرآن 231.1 ارض قرآن 231.11 جو حصہ مکہ میں نازل ہوا 231.12 جوحصہ مد ینہ میں نازل ہوا 231.13 جوحصہ سفر میں نازل ہوا 231.2 زمانہ نزول قران 231.3 شان نزول ، اسباب نزول 231.4 کیفیت نزول 231.5 ترتیب نزول 231.6 232 متن قرآن 232.1 اجزائے قرآن(آیات ، رکوع ، سورۃ ، پارہ، پنج سورۃ وغیرہ ) 233 قرآن۔جمع وتدوین 233.1 مصحف عثمانی 233.2 دیگر مصاحف 233.3 233.4 اعراب المصحف 233.5 طباعت مصحف 233.6 رسم الخط 234 الفاظ القرآن ٭جامع کتب 234میں رکھیں 234.1 غریب القرآن 234.2 مفردات القرآن ٭230.3میں رکھیں 234.3 قرآن میں فارسی الفاظ ٭230.3میں رکھیں 235 تجوید قرآن ، صوتیات ، علم تجوید ٭جامع کتب 235میں رکھیں 235.1 حروف مقطعات 235.2 اوقاف و رموزالقرآن 235.3 سات متواتر قرأتیں 235.4 تین تکمیلی قرأتیں 235.5 دس قرأتیں 235.6 چودہ قرأتیں 235.7 شاذ قرأتیں 235.8 موضوعی قرأتیں 236 بلاغتِ قرآن ٭جامع کتب 236میں رکھیں 236.1 علم معانی 236.2 علم بیان 236.3 علم بدیع 236.4 محکم و المتشابہ 236.5 اعجاز القران 237 قرآن ۔تراجم 237.3 کثیر الغات تراجم 237.4 تراجم قرآن و معافی مع متن وغیر متن مختلف زبانوں کے اعتبار سے ٭مزید تقسیم کے لئے ڈیوی کاجدول نمبر6 استعمال کریں ۔مثلاً انگریزی ترجمہ قرآن 237.42 238 قرآن ۔ تفسیر 238.1 مقدمات تفسیر 238.11 اصول تفسیر 238.12 خصوصیات مفسر 238.13 علوم مفسر (مفسر کیلئے ضروری علوم ) 238.14 طرزہائے علم تفسیر (اسلوب و مزاج) 238.2 مختلف فرقوں کے اعتبار سے 238.21 تفاسیر سنی 238.22 تفاسیر شیعہ 238.23 دیگر فرقوں کی تفاسیر 238.3 ملخص تفاسیر 238.31 تفسیر آیات و سورۃ 238.4 تفسیر قرآن زبانوں کے اعتبار سے ٭زبانوں کے اعتبارسے تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدول نمبر6 استعمال کریںمثلاً انگریزی زبان کی تفسیر 238.42 238.5 قرآن کے عام مباحث 238.51 آداب قرآن ، فضائل قران ، محاسن قران، خواص القرآن وغیرہ 238.52 قصص القرآن (مع آیات متعلقہ اہل کتاب) 238.521 قصص الانبیاء ٭انبیاء کی سیرت پر جامع کتب 248 اور249میںرکھیں 238.53 تمثیلات القرآن 238.54 قرآنی دعائیں 238.55 قرآنی آثار قدیمہ مثلاًآثار قوم ثمود ، قومِ عاد وغیر ہ 238.56 احکام القرآن 238.57 مبہات القرآن 238.58 فقہ القرآن 238.59 دیگر 238.6 حروف مقطعات 238.7 ناسخ و منسوخ 238.8 قرآن میں تحریفات کی کوششیں 238.9 قرآن اور دیگر شعبہ ہائے علوم ٭ یہا ں ایسے موضوعات پر کتب رکھی جائیں جو مختلف علوم و فنون پر قرآنی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہیں ۔ ٭ 238.9کوبنیاد بناکر سکیم ہذا کے نمبر 287 کے بعد شروع ہونے والے نمبردر 287.1-287.9 شامل کریں مثلاً قرآن اور سائنس 238.95 240 حدیث 240.1-9 معیاری ذیلی تقسیم ٭حسب ضرورت ڈیوی کاجدول نمبر1 استعمال کریں مثلاً لغات الحدیث 240.3 241 اصول حدیث 241.1 اسباب و ورود 241.2 تاریخ نصوص 241.3 علل حدیث 241.4 ناسخ ومنسوخ 241.5 توفیق حدیث (بشمول مختلف و مئوتلف) 241.6 اقسام حدیث 241.61 صحیح 241.62 ضعیف 241.7 علم الاسناد 241.8 241.9 دفاع و اہمیت حدیث 242 علم روایت ،علم الجرح والتعدیل 242.1 شرائط روایت 242.2 آداب تحمل 242.3 آداب کتابت حدیث 242.4 آداب روایت حدیث 242.5 آداب طالب حدیث 242.6 آداب محدث 242.7 سفر برائے طلب حدیث 242.8 فقہ الحدیث، احکام الحدیث 243-46 ترجمہ و شرح حدیث (اہل سنت) ٭زبانوں کے اعتبار سے تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدول نمبر6 کا استعمال کریں مثلاً -: ۱۔ انگریزی ترجمہ صحیح بخاری 243.1142 ۲۔ شرح صحیح بخاری 243.11142 243.1-6 صحاح ستہ 243.1 متن صحیح بخاری 243.11 ترجمہ صحیح بخاری 243.111 شرح صحیح بخاری 243.2 متن صحیح مسلم 243.21 ترجمہ صحیح مسلم 243.211 شرح صحیح مسلم 243.3 متن جامع ترمذی 243.31 ترجمہ جامع ترمذی 243.311 شرح جامع ترمذی 243.4 متن سنن ابی داؤد 243.41 ترجمہ سنن ابی دائود 243.411 شرح سنن ابی داؤد 243.5 متن سنن نسائی 243.51 ترجمہ سنن نسائی 243.511 شرح سنن نسائی 243.6 متن سنن ابن ماجہ 243.61 ترجمہ سنن ابن ماجہ 243.611 شرح سنن ابن ماجہ 244 مسانید آئمہ کرامؒ (اہل سنت) 244.1 متن مسند امام ابوحنیفہ 244.11 ترجمہ مسند امام ابوحنیفہ 244.111 شرح مسندامام ابو حنیفہ 244.2 متن مؤطاامام مالک 244.21 ترجمہ مؤطا امام مالک 244.211 شرح مؤطاامام مالک 244.3 متن مسند امام شافعی 244.31 ترجمہ مسند امام شافعی 244.311 شرح مسند امام شافعی 244.4 متن مسند امام احمد بن حنبل 244.41 ترجمہ مسند امام احمد بن حنبل 244.411 شرح مسند امام احمد بن حنبل 245 دیگر مجمو عہ ہائے حدیث(اہل سنت) 245.1 متن سنن الکبریٰ ازبیہقی 245.11 ترجمہ سنن الکبریٰ از بیہقی 245.111 شرح سنن الکبریٰ از بیہقی 245.2 متن سنن الدارمی 245.21 ترجمہ سنن الدارمی 245.211 شرح سنن الدارمی 245.3 متن سنن الدارقطنی 245.31 ترجمہ سنن الدارقطنی 245.311 شرح سنن الدارقطنی 245.4 متن سنن طحاوی 245.41 ترجمہ سنن طحاوی 245.411 شرح سنن طحاوی 245.5 متن مستدرک ابن حاکم 245.51 ترجمہ مستدرک ابن حاکم 245.511 شرح مستدرک ابن حاکم 245.6 متن صحیح ابن خزیمہ 245.61 ترجمہ صحیح ابن خزیمہ 245.611 شرح صحیح ابن خزیمہ 245.7 متن صحیح ابن حبان 245.71 ترجمہ صحیح ابن حبان 245.711 شرح صحیح ابن حبان 246 متن و شرح حدیث (اہل تشیع) 246.1-4 کتب اربعہ 246.1 متن الکافی 246.11 ترجمہ الکافی 246.111 شرح الکافی 246.2 متن من لایحضر الفقیہ 246.21 ترجمہ من الایحضر الفقیہ 246.211 شرح من لایحضر الفقیہ 246.3 متن تہذیب الاحکام 246.31 ترجمہ تہذیب الاحکام 246.311 شرح تہذیب الاحکام 246.4 متن الاستبصار 246.41 ترجمہ الاستبصار 246.411 شرح الاستبصار 246.5-8 دیگر مجموعہ ہائے حدیث (اہل تشیع ) 246.5 متن الوافی 246.51 ترجمہ الوافی 246.511 شرح الوافی 246.6 متن وسائل الشیعہ 246.61 ترجمہ وسائل الشیعہ 246.611 شرح وسائل الشیعہ 246.7 متن بحارالانوار 246.71 ترجمہ بحار الانوار 246.711 شرح متن بحارالانوار 246.8 دیگر 247 حدیث اور دیگر شعبہ ہائے علوم ٭ یہا ں ایسے موضوعات پر کتب رکھی جائیں جو مختلف علوم و فنون پر حدیث کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہوں ۔ ٭ 247 کو بنیاد بنا کر سکیم ہذا کے نمبر 287 کے بعد شروع ہونے والے نمبر در 287.1-287.9 شامل کریں۔مثلاً :حدیث اور طب 247.56 248 سیرت حضرت محمد ﷺ ٭سیرت محمدؐسے متعلق جامع کتب 248میں رکھیں 248.1 واقعات قبل ازولادت 248.2 ولادت تا نزول وحی 248.3 نزول وحی تا ہجرت (بشمول واقعہ معراج ) 248.4 ہجرت مدینہ تا وفات 248.5 اخلاق و فضائل حضرت محمد ﷺ 248.51 بطور معلم (بشمول خطبات ، فصاحت وبلاغت) 248.52 بطور مصلح 248.53 بطورسیاستدان ، حکمران ( بشمول مکتوبات ، معاہدات ) 248.54 بطور سپہ سالار (بشمول غزوات وسرایا) 248.55 بطور قانون دان ، منصف 248.56 بطور فقیہ 248.57 بطور ماہر نفسیات 248.58 بطور روحانی رہنما 248.6 وصایا شریف 248.7 خاندان حضرت محمد ﷺ 248.71 والدین 248.72 ازواج مطہرات (انفرادی واجتماعی ) 248.73 بنون (انفرادی و اجتماعی) 248.74 بنات (انفرادی واجتماعی) 248.8 صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ ٭خلافت راشدہ اورمابعد کے دور کی تاریخ پر کتب 953میںرکھیں 248.81 صحابہ کرام (اجتماعی) 248.82-7 صحابہ کرام (انفرادی) 248.83 حضرت ابوبکرصدیق ؓ 248.84 حضرت عمر فاروق ؓ 248.85 حضرت عثمان غنی ؓ 248.86 حضرت علی ؓ 248.87 دیگر 248.88 صحابیات (اجتماعی) 248.89 صحابیات (انفرادی) 248.9 تابعین و تبع تابعین 248.91 تابعین (اجتماعی) 248.911 تابعین(انفرادی) 248.92 تبع تابعین(اجتماعی) 248.921 تبع تابعین (انفردی) 249 سیرت انبیاء علیہ السلام 249.1 سیرت انبیا ئ(اجتماعی) 249.2 سیرت انبیا ئ(انفرادی) ٭سیرت حضرت محمد ﷺ سے متعلق کتب 248میں رکھیں 250 فقہ اسلامی 250.1-9 معیاری ذیلی تقسیم ٭ فقہ اسلامی کی ذیلی تقسیمات کے تمام اجزاء پر مختلف اسلامی فرقوں کے نقطۂ نظر کی تطبیق کے لیے مخصوص مباحث کے نمبرکو بنیاد بنا کر سکیم ہذا کے نمبر 257کے بعد شروع ہونے والے نمبر در 257.1-257.2کا اضافہ کریں۔ مثلاً اجہتاد اہل تشیع کی نظر میں 251.152 ٭ تاریخی و جغرافیائی تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدول نمبر1اور جدول نمبر 2 استعمال کریںمثلاً ۱۔تدوین فقہ در عہد جدید 251.1903 ۲۔ تدوین فقہ برصغیر میں 251.1954 251 اصول فقہ 251.1-6 مآخذ 251.11 قرآن 251.12 سنت 251.13 اجماع 251.14 قیاس 251.15 اجہتاد و تقلید 251.16 دیگر مآخذ 251.161 استحسان 251.162 استصحاب 251.163 المصالح المرسلہ 251.164 فتادی الصحابہؓ 251.17 تدوین فقہ ٭اس کی مزید تقسیم ڈیوی کے جدول نمبر ۱ اور جدول نمبر2 کے مطابق کریں مثلاً ۱۔تدوین فقہ در عہد جدید 251.1703 ۲ ۔ تدوین فقہ برصغیر میں 251.175 252 احکام (عبادات ومتعلقات) 252.1 طہارت (بشمول غسل وغیرہ ) 252.11 وضو (بشمول تیمم وغیر ہ ) 252.2 نماز پنجگانہ(بشمول اذان ، اقامت ) 252.21 نماز جمعہ 252.22 نماز عیدین 252.23 نماز جنازہ 252.24 نماز تراویح 252.3 روزہ (بشمول اعتکاف ) 252.31 رویت ہلال کمیٹی 252.4 زکوٰۃ 252.41 فطر، صدقات 252.5 حج (بشمول عمر ہ ) 252.6 قربانی 252.7 جہاد 252.71 مال غنیمت کے مسائل 252.72 انفال کے مسائل 252.73 اسیران حرب کے مسائل 252.74 جزیہ وغیرہ کے مسائل 252.8 اذکار وادعیہ 252.81 محافل ذکر وفکر 252.82 محافل میلاد 252.83 محافل ایصال ثواب 252.84 فضائل درود شریف 253 احکام (معاملات ) 253.1 معاہدہ 253.2 بیع 253.21 السلم (کچی فصل کاسود اکرنا ) 253.3 المزارعتہ(ٹھیکہ داری معاملات) 253.31 المساقاتہ (بنجر زمین کی آبادی کاری ) 253.32 احیا ء الموات (مشترکہ ملکیتی معلامات ) 253.33 مضاربت (Partnership) 253.34 حق شفعہ 253.35 زمین 253.36 ہبہ 253.37 عاریہ 253.38 وقف 253.39 میراث(بشمول وصیت نامے) 253.4 عشر 253.5 خراج 253.6 جزیہ 253.7 قرض 253.8 سود 253.9 حلال وحرام کے مسائل 254 (احکام)عائلی معاملات و قوانین ٭معیاری ذیلی تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدو ل نمبر 2 استعمال کریں مثلاً پاکستان کے عائلی قوانین ۔254.5491 254.1 ازدواج 254.11 نکاح 254.12 حق مہر 254.13 متعہ اور اس سے متعلقہ مسائل 254.2 ازدواج سے متعلقہ مسائل 254.3 طلاق 254.31 خلع 254.32 رجوع 254.33 عدت 254.4 نفقہ 254.5 رضاعت 254.6 پرورش 254.7 دیگر 255 (احکام )جرم وسزا 255.1 زنا 255.2 رجم 255.3 قصاص ودیت 255.4 قذف 255.5 سرقہ 255.6 رہزنی 255.7 شراب نوشی 255.8 ارتداد مع قتل مرتد 255.9 دیگر 256 [خالی] 257 اسلامی مذاہب و فرقے 257.1-16 اہل سنت 257.11 حنفی 257.12 مالکی 257.13 شافعی 257.14 حنبلی 257.15 اہل حدیث 257.16 دیگر 257.2-26 اہل تشیع 257.21 امامیہ ، جعفریہ 257.22 زیدیہ 257.23 اسماعیلیہ 257.24 اثنا عشریہ 257.25 دروز 257.26 دیگر 257.3-36 الحادی مذاہب و فرقے 257.31 قادیانیہ 257.32 بہائیہ 257.33 ازلیہ 257.34 بابیہ 257.35 بلیک مسلمز 257.36 دیگر 258 فتاوی اسلامیہ 258.1-15 اہل سنت 258.11 حنفی 258.12 مالکی 258.13 شافعی 258.14 حنبلی 258.15 دیگر 258.2-26 اہل تشیع 258.21 امامیہ 258.22 زیدیہ 258.23 اسماعیلیہ 258.24 اثنا عشریہ 258.25 دروز 258.26 دیگر 258.3 فتاوی دیگر مذاہب (علاوہ اہل سنت واہل تشیع) 258.4 فقہی مناظرے اور مباحثے 258.5 فقہ اسلامی کا تقابلی جائزہ 259 نظم اسلامی (ریاست اسلامی) ٭عنوان بالاکے لیے یہ نمبر ترک کردیا گیا ہے اس مقصد کے لیے 287.1-9کے نمبر استعمال کریں 260 علم الکلام و عقائد ٭ذیلی معیاری تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدول نمبر 1استعمال کریںمثلاً لغات علم الکلام وعقائد 260.3 ٭خاص مباحث سے متعلق کسی خاص فرقے کے رویے کے لیے متعلقہ مباحث کے نمبر کو بنیاد بنا کر سیکم ہذا کے نمبر 257کے بعد شروع ہو نے والے نمبر در 257.1-257.2 کا اضافہ کریں مثلاً صیلب عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق اہل تشیع کانظریہ 262.182 261 الہٰیات (خدا) 261.1 وجود باری تعالیٰ 261.11 صفات باری تعالیٰ(حیات، السمع، البصر، علم الارادہ، قدرت وغیرہ) 261.2 توحید 261.21 شرک و الحاد 261.22 اسماء الحسنیٰ 262 نبوت ورسالت 262.1 نبیوں اور رسولو ں کی آمد 262.12 مدارج انبیاء 262.13 معجزات 262.131 عصمت انبیاء 262.14 اہانت کے واقعات اور متعلقہ قوانین 262.15 معراج و شفاعت ٭حضرت محمد ﷺ کی معراج کیلئے دیکھئے 248.3 262.16 وحی 262.17 ختم نبوت 262.18 عقائد متعلقہ مسیح و مہد ی 262.19 آسمانی کتب (کتب مقدسہ) 263 بشریت 263.1 تخلیق و ہبوط آدم علیہ السلام 263.2 روح 263.3 نجات 263.4 رحمت 263.5 ایمان و اعتقاد 263.51 تقویٰ 263.52 معصیت(بشمول کفارہ) 263.53 توبہ و انفال 263.54 شفاعت(بشمول التوسل والوسیلہ) 263.55 مسئلہ تقدیر 263.6 ملائکہ 263.61 جن و ابلیس 263.7 معاد(آخرت) 263.71 موت 263.72 عالم برزخ(بشمول حالات قبر) 263.73 زیارت قبور 263.74 حشروقیامت 263.741 میزان و حساب 263.742 حیات اخروی (بشمول بہشت، اعراف ، جہنم) 263.75 تعویذ گنڈے 263.76 خوابوں کی تعبیر 263.77 استخارہ 263.78 فال نامے ٭نفسیات کے ذیل میں دیکھئے 263.9 دیگر 264 [خالی] 265 دفاعِ اسلام (اسلام کا دیگر مذاہب کے بارے میںرویہ) 265.1 ردیہودیت 265.2 ردِمسیحت 265.3 ردبدھ مت 265.4 ردِجین مت 265.5 رد ہندو مت 265.6 ردسکھ مت 265.7 دیگر 270 تصوف اسلامی 270.1-9 معیاری ذیلی تقسیم ٭ان ذیلی تقسیمات کے لیے حسب ضرورت ڈیوی کے جدول استعمال کریں ۔ مثلاً سلسلہ چشتیہ پاکستان277.15491 271 مآ خذ 271.1 کتاب (قرآن مجید) 271.2 سنت 271.3 دیگر 272 ملفوظات ،اقوال 273 مصطلحات ، لغات ٭270.3میں رکھیں 274 وحدت الوجود 274.1 وحدت الشہود 274.2 تجریدو تفرید 274.3 سالک،مجذوب ، ملائحہ اورملول 274.4 اعیان ثابتہ 274.5 تصور شیخ 274.6 کرامات 275 رسائل و جرائد 276 ادارے اورانجمنیں 277 سلاسل ، طرق ، خانوادے 277.1 چشتیہ 277.2 قادریہ 277.3 سہروردیہ 277.4 نقش بندیہ 277.5 دیگر(بشمول قلندریہ ، رفاعیہ ، سنوسیہ ، شاذلیہ، شطاریہ ، غزالیہ ، حلاجیہ، مولویہ ، فردوسیہ) 277.6 مقامات تصوف (بشمول توبہ، ورع ، زہد ، فقر ، صبر ، توکل ، رضا ، فنا ، بقا، حقیقت ، عالم ظاہر و باطن، جزب) 278 احوال العارفین(بشمول مراقبہ ، خوف ، رجا، شوق ، انس ، اطمینان ، یقین ، مشاہدہ وغیرہ ) 278.1 محافل سماع 278.2 خانقاہیں اور تکیے ٭خانقاہوں اور تکیوں کے لیے یہ نمبر ترک کر دیا گیا ہے ۔ انہیں 282.94 میں رکھیں 279 تاریخ و تنقید 280 متفرق مباحث 281 اخلاقیات اسلامی ٭ یہاں صرف اسلامی نقطۂ نظر سے لکھی گئی کتب رکھیں اس موضوع کی عام کتب ڈیوی کی ہدایات کے مطابق 170میںرکھیں۔ 281.1 فضائل انسانی 281.11 حکمت ،علم ودانش 281.12 شجاعت 281.13 عفت 281.131 پاکیزگی 281.132 پردہ 281.14 عدالت 281.15 تواضع 281.16 صداقت 281.17 صبروشکر 281.18 تزکیہ نفس 281.19 رحم وغیرہ 281.2 رذائل انسانی 281.21 کذب 281.211 غیبت و چغل خوری 281.22 ظلم و جبر 281.23 تکبر و غرور 281.24 طمع و حرص 281.241 رشوت ستانی 281.25 فحاشی 281.251 عصمت فروشی 281.26 نفاق 281.27 بزدلی 281.28 مسکرات 281.281 تمباکو نوشی 281.29 دیگر 281.3 اخلاق(حقوق وفرائض) 281.31 حقوق وفرائض والدین 281.32 حقوق وفرائض زوجین 281.33 حقوق وفرائض اولاد 281.4 اخلاق اجتماعی (حقوق و فرائض دوست، ہمسایہ ، استاد، شاگرد وغیرہ) 281.5 اخلاق (سیاسی) 281.51 اخلا ق شہریت ، پابند ی قانون 281.52 آداب سلطنت ،پابند ی حقوق سلطنت 281.53 آداب پابندی امن عامہ 281.54 آداب انتظامات عامہ 281.6 آداب پیشہ وری 281.61 ماتحتوں کے حقوق وفرائض 281.62 کاروباری آداب 281.8 آداب تفریح وکھیلیں 281.81 شکار 281.82 گھڑ دوڑ 281.83 قمار بازی 281.9 دیگر اخلاقی موضوعات 282 مقدس مقامات (عبادت گاہیں،زیارت گاہیں ، مزارات) 282.1-9 معیاری ذیلی تقسیم ٭متعلقہ شہروں کی عمومی تاریخ پرکتب ان ممالک کی تاریخ کے ساتھ رکھیں ٭جغرافیائی تقسیم کے لیے ڈیوی کا جدول نمبر2 استعمال کریں مثلاً ۱۔ جامعہ مسجد دہلی 282.854 ۲۔مزار حضرت علی ہجویریؒ ، لاہور 282.945491 282.1 خانہ کعبہ 282.2 مسجد حرام 282.3 بئر زم زم 282.4 روضہ رسول ﷺ 282.5 مسجدنبوی ﷺ 282.6 بیت المقدس(قبلہ اول ) 282.7 مسجدحرام 282.8 مساجد(عمومی ) 282.81 فن تعمیر(مسجد) 282.82 انتظامی کمیٹیاں 282.83 دینی مدارس و دارالعلوم ٭227.1میں رکھیں 282.9 زیارت گاہیںو مزارات 282.91 جنت البقیع 282.92 نجف اشرف 282.93 کربلائے معلی 282.94 دیگر زیارت گاہیںو مزارات 283 اسلامی ثقافت(تہذیب اسلامی) ٭یہاں صرف اسلامی تہذیب و ثقافت پرجامع کتب رکھیں۔ جغرافیائی اعتبار سے لکھی ہوئی کتب کو 900میں ان ممالک کی تاریخ کے ساتھ رکھیں مثلاً ہسپانوی اسلامی تہذیب 946.02 ٭ مزید رہنمائی کے لیے 229کے تحت دیاہوا نوٹ ملاحظہ کریں 283.1 شادی بیاہ کے اسلامی شعائر 283.2 دعوت ولیمہ 283.3 دعوت عقیقہ 283.4 زچہ وبچہ کے مسائل 283.5 بچوں کے اسلامی نام رکھنا 283.6 ختنے کروانا 283.7 تجہیزوتکفین کے مسائل 284 اسلامی تہوارو تقریبات 284.1 عید الفطر 284.12 عیدالاضحی 284.13 عیدمیلادالنبی ﷺ 284.2 جمعۃ الوداع 284.3 لیلتہ القدر 284.4 شب معراج 284.5 چہارشنبہ 284.6 عاشورہ محرم 284.7 دیگر 285 اسلامی تحریکیں ٭جغرافیائی تقسیم کیلئے ڈیوی کاجدول نمبر2 استعمال کریں 285.1 دعوت سلفیہ 285.11 دعوت وہابیہ 285.12 دعوت سنوسیہ 285.13 دعوت مہدیہ 285.14 دعوت اخوان المسلمین 285.15 دعوت جماعت اسلامی 285.2 پان اسلام ازم 285.21 تحریک جمال الدین افغانی 285.22 تحریک شاہ ولی اللہ 285.23 تحریک مفتی محمد عبدہ 285.24 تحریک سرسید احمد خان 285.25 تحریک علامہ محمد اقبال 285.26 تحریک سید احمد شہید 285.3 دعوت دینیہ 285.31 تحریک تبلیغی جماعت 285.32 تحریک دعوت اسلامی 285.33 تحریک اسلامک ورلڈمشن 285.34 تحریک اسلامک مشن 285.35 تحریک المودر 285.4 اتحاد امّہ کے لیے کام کرنے والی تحریکیں / تنظیمیں 285.41 موتمر عالم اسلامی 285.42 اسلامی سربراہی کانفرنسیں 285.43 اسلامی وزرا کانفرنسیں 285.44 دیگر 286 [خالی] 287 اسلام کادیگر علوم اور مسائل کے بارے میں موقف ٭یہاں صرف ان مضامین کی درجہ بند ی کی جائے جن کے لیے اسلام کے موقف کے نمبر اس سے بیشتر نہیںدئے گئے ۔ 287.1 اسلام اور فلسفہ 287.11 اسلام اور یونانی فلسفہ 287.12 اسلام اور ہندو فلسفہ 287.13 اسلام اور ایرانی فلسفہ 287.14 اسلام اور دہریت 287.15 اسلام اور مابعدالطبیعیات 287.16 اسلام اور ارتیابیت(تشکیک) 287.2 اسلام اور عمرانی علو م 287.21 اسلام اور بشریات 287.22 اسلام اور عورت 287.23 اسلام اور غلام و لونڈیا ں 287.24 اسلام اور مزدور 287.25 اسلام اور مطالعہ تہذیب 287.26 اسلام اور آثاریات 287.3 اسلام اور مختلف سیاسی نظام 287.31 اسلام اور جمہوریت 287.32 اسلام اور آمریت 287.33 اسلام اور اشتراکیت 287.34 اسلام اور مسائل خلافت وامامت 287.35 اسلام اور بین الاقوامی معاملات و معاہدات 287.36 اسلام اور نظم اداری (بیوروکریٹک سسٹم) 287.37 اسلام اور نظام قانون سازی 287.371 اسلا م اور مجلس شوریٰ 287.372 اسلام اور اہلیت ممبران 287.38 اسلام کا نظام قضا 287.381 اسلام اور قاضی عدالتیں 287.382 اسلام اور اہلیت قاضی 287.4 اسلام اور اقتصادی معاملات 287.41 اسلام اور سرمایہ داری 287.42 اسلام اور سوشلسٹ معیشت 287.43 اسلام اور اوپن مارکیٹ 287.44 اسلام اور بینکاری 287.45 اسلام اور اسٹاک ایکسچینچ 287.46 اسلام اور انشورنس 287.5 اسلام اورسائنس 287.51 اسلام اور قدیم طبیعات 287.52 اسلام اور جدید طبیعات 287.53 اسلام اورکیمیا 287.54 اسلام اور حیاتیات 287.55 اسلام اور ریاضی 287.56 اسلام اور طب 287.6 اسلام اور ذرائع ابلاغ 287.61 اسلام اور صحافت 287.62 اسلام اورٹیلی ویژن 287.63 اسلام اور ریڈیو 287.64 اسلام اور سینما 287.7 اسلام اورفنون لطیفہ 287.71 اسلام اور شعر وادب 287.72 اسلام اور موسیقی 287.73 اسلام اورفلم 287.8 [خالی] 287.9 اسلا م اور جدید مسائل 287.91 اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی 287.92 اسلام اور کلوننگ 291 تقابلی ادیان 298 عیسائیت(Christianilty) 298.1 انجیل مقدس(Bible) ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر220کے مطابق کریں 298.2 عہد نامہ قدیم(Old Testament) ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر221-224 کے مطابق کریں 298.3 عہد نامہ جدید (New Testament) ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر 225-229 کے مطابق کریں 298.4 عیسائی دینیات ، کلام ،عقائد ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر230کے مطابق کریں 298.5 عیسائی دینیات ، عملی وظائف و اعمال ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر 240 کے مطابق کریں 298.6 عیسائی کلیسا ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر250کے مطابق کریں 298.7 عیسائی سماجی اور کلیسائی دینیات ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر 260کے مطابق کریں 298.8 عیسائی کلیسائی ، تاریخی و جغرافیائی تقسیم ٭مزید تقسیم ڈیوی کے نمبر270کے مطابق کریں 298.9 عیسائی فرقے اور کلیسا ٭مزیذ تقسیم ڈیوی کے نمبر 280کے مطابق کریں