اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : سید قاسم محمود رفیع الدین ہاشمی احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات ۱ - تاریخ مجھ سے بات کر ڈاکٹر جاوید اقبال ۷ ۲ ۔اقبال کا تصور خیر و شر طالب حسین سیال ۲۳ ۳۔ متشابہاتِ اقبال ڈاکٹر محمد منصور عالم ۳۵ ۴۔علامہ شبلی کی فارسی غزل ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی ۴۹ ۵۔ حواشی کلیات اقبال (اردو) احمد جاوید ۵۷ ۶۔ بال جبریل (چند تصریحات) خرم علی شفیق ۷۵ ۷۔ مستشرقین کی مخالفتِ اقبال (نوعیت و محرکات) ڈاکٹر ایوب صابر ۹۳ ۸ ۔ڈاکٹر این میری شمل (یادیں ہی یادیں) اسلم کمال ۱۰۱ ۹۔ مفتاحِ اقبال ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۰۹ ۱۰۔ فہارس تحلیلی ہشتگانہ مبصر ۔ محمد خلیل صدیقی مجددی ۱۱۳ ۱۱۔ اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ مبصر۔ محمد سہیل عمر ۱۱۹ قلمی معاونین ۱ - جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱۔بی مین بیلووارڈ ،گلبرگ ۳۔ لاہور۔ ۲ ۔ طالب حسین سیال ۱۲۔ سوان روڈ، جی ۳؍۱۰۔ اسلام آباد۔ ۳ ۔ڈاکٹر محمد منصور عالم استاد، شعبہ اردو؍فارسی ج ۔ ڈی ۔ جنین کالج ۔آگرہ ۔ بھارت ۴ - ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی یزدانی سٹریٹ ملت روڈ ، ملت پارک ، سمن آباد ،لاہور ۔ ۵ ۔ احمدجاوید معاون ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۶ ۔ خرم علی شفیق اے ۳۰۔الاعظم اپارٹمنٹس ۔ بلاک۱۳۔اے نزد حسن اسکوئر کراچی ۷۵۳۰۰ ۷۔ اسلم کمال ڈائریکٹر پروجیکٹ، ایوان اقبال ، لاہور ۔ ۸۔ محمد خلیل صدیقی مجددی سعید منزل ، ماڈل ٹائون ، سانگلہ ہل ،پاکستان۔ ۹۔محمد سہیل عمر ناظم : اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔  تاریخ! مجھ سے بات کر ڈاکٹر جاوید اقبال جب کن فیکون کا عمل جاری تھا تو کائنات کی تشکیل کے ساتھ ’’وقت‘‘ اور اس کی چھوٹی بہن ’’تاریخ‘‘ بھی وجود میں آگئے ۔ اِن دونوں کا کوئی دین یا مذہب نہیں ہے۔ وقت کی بے شمار جہتیں اور قسمیں ہیں اور اسی طرح تاریخ بھی ایک نہیں بلکہ کثرت پر مشتمل ہے ۔ مجھے یہاں جس تاریخ سے غرض ہے، وہ مسلمانوں کی تاریخ ہے جسے بعض حلقوں میں غلطی سے یا دیدہ دانستہ دین اسلام کا حصہ بنا کر مقدّس سمجھا جانے لگا ہے، حالانکہ آگے بڑھنے کے لیے ضرورت اُسے تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ہے۔ میں مسلمانوں کو قومیت یا نیشنلٹی کے تصور اور اسلامی ریاست کی تشکیل اور ارتقاء کے متعلق تاریخ کے پس منظر میں معلومات اس لیے حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ جن کتابوں میں ان موضوعات پر بحث کی گی ہے، وہ بہت دیر کے بعد یا ان زمانوں میں تحریر کی گئیں، جب غاصبانہ موروثی ملوکیت کا دور بھی قریب قریب ختم ہونے والا تھا۔ اس لیے گہرے مطالعے کے باوجود ایسی کتابوں سے مجھے مثبت رہبری نہیں ملی ۔ تاریخ کے پس منظر میں ان موضوعات کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور اُن کی تہہ تک پہنچنا اس لیے مناسب ہے کہ تاریخ لادین ہونے کے سبب جانبدارانہ ، متعصبانہ یا فرقہ وارانہ نقطۂ نگاہ نہیں رکھتی ۔ اُس کی حیثیت تو محض ایک آئینہ کی ہے جس میں اچھے اور برے انسانوں اور واقعات کی تفصیل فلم کی طرح محفوظ ہے اور اُن کی جانچ پڑتال معروضی انداز میں کی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ تاریخ ایک مستند گواہ ہے جس کی شہادت قابل اعتبار ہے، بشرطیکہ تاریخ دان اُس کے سیکولر کیریکٹر کو برقرار رکھے اور اپنے ذاتی مقاصد کی تحصیل کی خاطر حقائق کو غلط انداز میں پیش نہ کرے۔ ہمارے دین کا منبع دراصل قرآن مجید ہے اور اُسی سے احادیث نبوی کی روشنی میں ، عبادات اور معاملات کے بارے میں رہبری حاصل کی جاتی ہے۔ اسلام میں چند بنیادی نوعیت کے اعتقادی اصول تو مستقل ہیں ، لیکن یہاں ایک بات جسے سمجھنا بڑا ضروری ہے، یہ ہے کہ اگر ہمارے عقیدے کے مطابق قرآن مجید ہر زمانے کے لیے رہبر ہے تو سوال پیدا ہوگا کہ کیا اُس کے معانی تمام زمانوں کے لیے متعین ہیں یا وقت کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی خاطر بدلے بھی جا سکتے ہیں؟ اگر معانی متعین ہیں تو وقت کا عدم وجود تسلیم کرنا پڑے گااور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ وقت جامد نہیں بلکہ متحرک ہے تو احکامِ قرآنی کی تعبیر میں خصوصی طور پر معاملات میں وقت یا تاریخ کے بدلتے تقاضوں کے مطابق، تبدیلی لا سکنا ضروری ہو گا۔ پہلا انداز فکر ’’تقلیدی‘‘ کہلاتا ہے اور دوسرا ’’اجتہادی‘‘ یا پہلے کو ’’روایتی‘‘ اور دوسرے کو ’’اصلاحی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آج کے زمانے میں ’’جہاد‘‘ پر بڑی شدو مد سے بحث جاری ہے ۔ دہشت گردی کی صورت میں جہاد کی مخالفت یا تائید کے سلسلے میں جو نئی اصطلاحیں وضع ہوئی ہیں وہ ’’مفاہمتی اسلام‘‘ یا ’’مزاحمتی اسلام‘‘ ۔ یہ فیصلہ کرنا کہ آپ تقلیدی ہیں یا اجتہادی ، روایتی سوچ رکھتے ہیں یا اصلاحی ، مفاہمتی مسلمان ہیں یا مزاحمتی، یہ مَیں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ قرآن وسُنّہ کا اصل مقصد اشتراک ایمان کی بنیادوں پر انسانوں کا ایک معاشرہ (سول سوسائٹی) وجود میں لانا ہے جس پر احکام الٰہی کا اطلاق ہو سکے۔ اس معاشرے پر احکام الٰہی کے نفاذ کے لیے ’’اتھارٹی‘‘ یا کسی بااختیار ادارے کے قیام کی ضرورت پیش آئی اور اسلامی ریاست (سٹیٹ) اسی ادارے کی شکل میں وجود میں لائی گئی۔ پس مختصراً اسلامی ریاست کی تعریف یہ ہے: ایسی ریاست جو مسلم شہریوں پر قوانین اسلام نافذ کرنے کا اہتمام کرے۔ اس مرحلے پر اسلامی ریاست کے سیاسی نظام پر توجہ مبذول کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اُسی نے تو ایک مخصوص خطّے میں اسلامی قوانین کا ڈھانچا استوار کرکے اُس کا نفاذ کرنا ہے۔ یہاں مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں ، مثلاً کیا تاریخی نقطہ نگاہ سے اسلامی ریاست کبھی حتمی شکل میں وجود میں آئی؟ یا یہ محض ایک نظریاتی ، تخیّلی یا آئیڈیل ریاست ہے جسے قائم کرنا مسلمانوں کی تمنا ہونا چاہیے؟ نیز اگر ایسی مثالی ریاست کبھی وجود میں لائی گئی تو اُس کا ماڈل کیا ہے؟ اگرچہ قرآن مجید میں اسلامی ریاست کے مختلف منصبوں مثلاً خلیفہ ، سلطان، ملک ، اولامر یا امیر، وزیروغیرہ کی اصطلاحیں موجود ہیں، مگر وہ خصوصی طور پر اسلامی ریاست کے ضمن میں استعمال نہیں کی گئیں، نہ قرآن مجید ہی میں کہیں اسلامی ریاست کا ذکر ہے ۔ البتہ فقہا نے ، اسلامی ریاست کی بدلتی ہوئی شکلوں میں ضرورت کے مطابق اُنہیں قرآن مجید سے اخذ کر کے ترتیب دے رکھا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی اسلامی ریاست ایسی اصطلاح کا سراغ نہیں ملتا ۔ مگر یہاں میرا مقصد صرف ان اہم قرآنی احکام کی نشاندہی کرنا ہے جو اسلامی ریاست کی تشکیل سے متعلق تصوّر کئے جا سکتے ہیں۔ اس بارے میں تین قرآنی احکام کا ذکر کرنا ضروری ہے: ۱ ۔ وَاَمرُ ہم شُوْریٰ بَیْنَھُم (الشوریٰ : ۳۸) اور اُن (مسلمانوں) کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ ۲ ۔ وَ شَاوِرُھُمْ فیِ اْلاَمرِ ۔ فَاِذا غَزَمْتَ فَتَوَکلَّ عَلَی اللّٰہِ (آل عمران :۱۵۹) اور (اے محمد) مشورے لیتے رہو اُن سے معاملات میں۔ پھر جب خود حتمی فیصلے پر پہنچ جائو تو اللہ پر توکل کرو (اور کر گزرو)۔ ۳ ۔ اَطِیعُو اللّٰہَ وَ اَطِیْعُو الرَّسُولَ وَاُولیِ الْاَمرِ منْکُم (النسآء : ۵۹) اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن صاحبانِ اقتدار کی جو تم میں سے ہوں۔ تاریخ سے واضح ہے کہ آنحضورؐ نے مدینہ میں مہاجرین مکہّ اورانصارمدینہ کو باہم ملا کر اشتراک ایمان کے اصول پر امّہ کی بنیاد رکھی ۔ لہٰذا باوجود اس کے کہ وہ لوگ جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی گروہوں یا قبیلوں اور قومیتوں میں بٹے ہوئے تھے (اس تفریق کو قرآن مجید نے بھی تسلیم کیا ہے) کم از کم رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد اشتراکِ ایمان یا اُمّہ ہی کے اصول پر استوار کی۔ آج کی مسلم قومی ریاستیں اگرچہ نسلی ، لسانی یا علاقائی بنیادوں پر قائم ہیں، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ قومیت یا نیشنلیٹی کے اِسی اصول پر وجود میں لایا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے سیاسی یا فوجی قائدین کی کو تاہیوں کے سبب نصف صدی گزرنے پر بھی یہ اصول ہمیں صحیح معنوں میں ایک پاکستانی مسلم قوم نہیں بنا سکا۔ آنحضورؐ نے اپنے عہد امامت کے دو ر میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے پہلی اسلامی ریاست قائم کی، مگر کیا اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے یہ مراد لی جانی چاہیے کہ اسلامی ریاست کا اقتدار محدود ہے؟ جدید جورس پروڈنس یا بین الاقوامی قانون کے تحت کسی ریاست کے آزاد تصوّر کئے جانے کی خاطر تین شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے: اوّل ، وہ ’’قومی‘‘ (نیشنل) ہو۔ دوم، علاقائی (ٹیری ٹوریل)ہو۔ اور سوم، مقتدر (ساورن) ہو۔ آنحضورؐ نے مُجتہدِ مُطلق کی حیثیت سے فقہ اسلامی کے اس بنیادی اصول کو واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ اسلامی ریاست کے مقتدر ہونے کے رستے میں حائل نہیں، کیونکہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر معاملات سے متعلق قرآنی احکام کی تعویق ، تحدید یا توسیع ممکن ہے۔ آنحضورؐ حضرت دائود علیہ السلام کی طرح اپنی امت کے سربراہ تھے۔ آنحضورؐ نے صداقت اور عدل کے اصولوں پر اپنی حکومت استوار کی۔ امت کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کو مدّنظر رکھ کر زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی۔ جہاد کے ذریعے وادیٔ حجاز کا دفاع کیاا ور اپنے زمانے کے مسائل اجتہادی طریق کار اپناتے ہوئے اپنی فراست سے حل کئے ۔ بحیثیت امام آپؐ کا استحقاق صرف یہ تھا کہ ہر سرکاری دستاویز یا معاہدہ جو تجویز کیا جاتا ، اُس پر آنحضورؐ کی مہر (ختم) ثبت کی جاتی۔ آنحضورؐ کے کئی کارہائے نمایاں میں سے ایک سر زمین حجاز میں ’’میثاق مدینہ‘‘ کا نفاذ تھا۔ یہ سینتالیس شقوں پر مشتمل دنیا میں پہلا تحریری دستور تھا جو ایک معاشرتی معاہدے(سوشل کانٹریکٹ) کی صورت میں نافذ کیا گیا۔ اس دستاویز سے ثابت ہے کہ تحریر شدہ دستور یا آئین کو نافذ کرنا اور اُس کی شرائط کا پابند ہونا سُنّتِ نبوی ہے۔ اس معاہدے میں مسلم قبائل کے علاوہ وادیٔ حجاز کے یہودی ، مسیحی اور کافر قبائل نے اپنے اپنے قوانین کے تحت اپنے اپنے علاقوں میں آزاد رہتے ہوئے شرکت اختیار کی تھی ۔ گویا یہ علاقائی ’’اٹانومی‘‘ کے اصول پر قائم ایک وفاقی یا ’’فیڈرل ‘‘ آئین تھا جو تمام فریقوں کی ایما سے تحریر میں لایا گیا۔ ’’میثاق مدینہ‘‘ کے ذریعے مختلف مذاہب پر مشتمل ایک مخلوط یا مشترک معاشرہ وجود میں لانا تھا ، جس میں شریک ہر فریق کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔ اسی سبب سے اس معاہدے میں شامل قبائل کو الاُمّتِ واحدۃ کا نام دیا گیا۔ ظاہر ہے یہ معاشرتی معاہدہ آنحضورؐ کی اتحادِ انسانیت کو وجود میں لانے کی ایک اہم کوشش تھی۔ سوانح کی جو بھی تعبیر پیش کی جائے ، تاریخ سے واضح ہے کہ آنحضورؐ نے ۶۳۲ء میں اپنی رحلت سے پیشتر نہ تو اپنے جانشین کے متعلق اور نہ سربراہ مملکت کے تقرر کے بارے میں کوئی خاص طریق کار اپنانے کی کوئی ہدایت کی۔ اگر ایسی کوئی ہدایت کی جاتی تو یقینا اُس پر عمل ہوتا ۔ اس معاملے میں آنحضورؐ کی خاموشی سے ظاہر ہے کہ قرآن و سُنّہ کا اصل مقصد مسلم معاشرہ قائم کرنا اور اس پر قوانین اسلامی کا نفاذ ہے۔ اس بنیادی مقصد کے حصول کے لیے وقت کی ضرورت کے مطابق جو بھی سیاسی نظام امّہ قبول کرے، وہ درست ہوگا ۔ غالباً یہی اصول پیش نظر رکھتے ہوئے بعد کے فقہا نے فرما دیا کہ اگر کوئی غاصب بھی حکومت پر قبضہ کرے تو اُسے اس شرط پر قبول کر لیا جائے کہ وہ عبادات میں مخل نہ ہوگا اور شریعت کے نفاذ میں روڑا نہ اٹکائے گا۔ اس تمہید سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلامی ریاست کی کوئی حتمی یا متعین سیاسی شکل نہیں۔ نہ وہ سیاسی نظام کا کوئی ایسا مخصوص ڈھانچا ہے جسے اسلامی ریاست کہا جا سکے۔ کیا آنحضور ؐ کا عہدِ امامت مثالی تھا؟ اس سوال کا جواب الفارابی نے اپنے رسالہ ’’المدینۃ الفاضلہ‘‘ میں یوں دیا ہے کہ آنحضورؐ کی امامت کا عہد مثالی تھا، اس لیے کہ اُس ریاست کے سربراہ یعنی آنحضورؐ کا رابطہ بحیثیت ’’پیغمبر امام‘‘ اللہ تعالیٰ سے براہ راست تھا ۔ لہٰذا اس زمانے کی ریاست کے ہر شہری نے ’’دوہری خوشی‘‘ پالی ۔ یعنی اُسے اس دنیا میں بھی خوشی ملی اور آخرت میں بھی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر عہدِ امامت رسول اللہﷺ تو سیاسی اعتبار سے یکتا تھا۔ اُسے دوبارہ لا سکنا ممکن نہیں۔ وہاں تو ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اسلامی قوانین کے تحت مسلم معاشرے کی شناخت قائم رکھی جانی چاہیے۔ مگر یہ مدعا کس طرز کے سیاسی نظام کے ذریعہ حاصل کیا جائے؟ اس کا جواب اُمّہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ ۶۳۲ء میں آنحضورؐ کی رحلت کے بعد جانشین یا اسلامی ریاست کی قیادت کے لیے ایک واحد خلیفہ کے تقرر کی ضرورت کا فیصلہ اجماع صحابہ کے ذریعہ کیا گیا۔ مگر کیا خلیفہ کے تقرر کا طریق کار یعنی خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب (الیکشن) بھی اجماع صحابہ کا فیصلہ تھا؟ اس مسئلے کے بارے میں کچھ کہہ سکنا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو خلیفہ دوم کے تقرر کے وقت بھی اسی نظیر کی تقلید کی جاتی۔ خلیفہ اوّل نے اپنی وفات سے پیشتر ، خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کو اپنے جانشین کے طور پر نامزد (نامینیشن) کیا۔ خلیفہ دوم نے اپنی شہادت سے پیشتر چھ افراد پر مشتمل ایک انتخابی ادارہ (الیکٹورل کالج) قائم کیا تاکہ یہ حضرات آپس میں کسی ایک کو خلیفہ چن لیں۔ چنانچہ اس طریقہ سے خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کا تقرر ہوا۔ خلیفہ سوم کی شہادت کے بعد خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا تقرر بذریعہ استصواب رائے(ریفرنڈم) کیا گیا۔ بالآخر ۱۶۶۱ء میں خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کی شہادت پر اسلامی ریاست کے جمہوری یا رپیبلکن دور کا خاتمہ ہو گیا۔ اگرچہ بعد میں آنے والی مسلمانوں کی نسلوں نے اس تیس سالہ دور کو خلفاء راشدین کے عہد کا نام دے کر مثالی قرار دیا، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس دور کا احیاء کبھی عمل میں نہ آ سکا ۔ اہم سوال ہے، خلفاء راشدین کے زمانے (۶۳۲ء تا ۶۶۱ئ) کی اسلامی ریاست کی ناکامی کے اسباب کیا تھے؟ ۱۔ خلیفہ کے تقرر سے متعلق سیاسی نظام میں یکسانیت برقرار نہ رکھی جا سکی ۔ انتخاب، نامزدگی ، انتخابی ادارہ اور استصواب رائے گو چاروں طریق کار خلفاء راشدین کی سُنّت قرار دئے جا سکتے ہیں، وہ اس لیے اہم ہیں کہ جمہوری تھے اور ایسی شخصیات نے اختیار کئے جو آنحضورؐ کے قریب ترین تھیں ۔ اسی بنا پر شریعت کی نگاہ میں تقرر امام کے لیے یہ چاروں طریقے جائز قرار دئیے گئے ۔ بلکہ بعد میں سیاسی اقتدار کے غصب کو بھی (جس کے ذریعے امیر معاویہ خلیفہ بنے) شرعاً جائز سمجھ لیا گیا۔ یہاں تک کہ موروثیت کے اصول کو بھی قبول کر لیا گیا جب دعویٰ کیا گیا کہ امیر معاویہ نے اپنے فرزند یزید کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی قائم شدہ نظیر کے مطابق اپنا ولی عہد منتخب اور نامزد کیا ہے۔ اسی دور میں تقررِ امام کے بارے میں بھی تین مختلف نقطہ ہائے نگاہ سامنے آ گئے تھے ۔ اہل بیت کے نزدیک آنحضورؐ نے حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ اس لیے امامت کے منصب پر صرف اُن کا اور اُن کی اولاد کا استحقاق تھا۔ اہل سُنّت و الجماعت کے خیال میں خلافت کے منصب پر اوپر بیان کئے گئے پانچ طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ صرف قبیلہ قریش میں سے سربراہ کا تقرر ہو سکتا تھااور اہل سُنّت والعدل (خوارج) کے نظریہ کے مطابق کسی خلیفہ کے تقرر کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایسا تقرر محض فرضِ کفایہ تھا۔ دراصل شوریٰ سے متعلق قرآنی حکم کے تحت مسلم ارباب بست و کشاد صرف آپس میں مشورہ کے ذریعہ اُمّہ کے مسائل حل کر سکتے تھے ۔ لیکن اگر امام کا تقرر لازمی ہو تو اُسے اہل بیت یا قریش تک محدود نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ ایک سیاہ فام حبشی یا عورت بھی اس منصب پر فائز کئے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتے ہوں۔ ۲۔ شوریٰ کو صحیح معنوں میں بااختیار بنانے کی بجائے ایک ایسے مشاورتی ادارے کے طور پر استعمال کیا گیا جس کے مشورے کو قبول کرنا یا رد کرنا امام کا اختیار تھا۔ حالانکہ قرآنی حکم (آل عمران :۱۵۹) کے تحت صرف آنحضورؐ کو شوریٰ کے مشورے کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ ۳۔ خلیفہ کا تقرر تاحیات کیا جاتا تھا ۔ اُس کی ناقص کارکردگی کے سبب اُسے ہٹانے ، معزول کرنے یا اُس کا مواخذہ کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ ۴ ۔ خلیفہ کے تحفظ (سیکورٹی) کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اس لیے تیس سال کی مدت میں چار خلفاء راشدین میں سے تین کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ ۵ ۔ شرعاً مقرر کردہ امام کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے عمل (جیسے کہ عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانوں میں ہوا) سے ظاہر ہے کہ سیاسی اقتدار کے لیے کشمکش ان ہی ادوار سے شروع ہو گئی تھی جس کا انجام مطلق العنان موروثی ملوکیت کے قیام کی صورت میں رونما ہوا۔ اب ہم ایک طویل چھلانگ کے ساتھ تاریخ کے بارہ سو سال عبور کرتے ہیں۔فقہا نے تاریخ کی اس ’’پھانک‘‘ کو خلافت یا اسلامی ریاست قرار دینے کی بجائے ’’ملک ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یعنی ایسی حکمرانی جو قوّت کے زور کے ساتھ لوگوں پر زبر دستی مسلط کی جائے۔ اموی ملوکیت ۶۶۱ء سے لے کر ۷۵۰ء تک قائم رہی۔ مدینہ کی بجائے دمشق دارالخلافہ بنا اور سربراہ کو جو دو رعایتیں ، ختم (مہر) اور خطبہ (میں خلیفۂ وقت کی سلامتی کے لیے دعا کرنا ۔ حضرت علیؓ کے دور میں رائج ہوا) پہلے حاصل تھیں، اُن میں سریر (تخت)، مقصورہ (مسجد میں عام نمازیوں سے علیحدہ محفوظ جگہ) اور سِکیّ کا اضافہ کر دیا گیا ۔ عربی زبان حکومتی زبان قرار پائی اور یوں ایک اعتبار سے عربی ’’امپریل ازم ‘‘ کا دور شروع ہوا۔ عباسیوں کے ہاتھوں اُمویوں کی شکست کے بعد یعنی ۷۵۰ء سے لے کر ۱۲۵۸ء تک عباسی عالم اسلام کے حاکم رہے۔ دارالخلافہ دمشق سے اٹھوا کر بغداد لایا گیا، جہاں عباسی خلفاء نے اپنی ریاست کی تشکیل قدیم ایرانی یا ساسانی شہنشاہوں کی طرز پر کی۔ مگر اسی عہد میں اسلامی ایمپائر زوال پذیر ہونے لگا۔ سلاطین نے اُس کے مختلف ٹکڑوں پر غاصبانہ قبضہ جما لیا اور ان ٹکڑوں پر مشتمل کئی ریاستیں بن گئیں ۔ گیارھویں صدی عیسوی میں عالم اسلام میں ایک کی بجائے تین خلافتیں (یعنی بغداد میں عباسی ، قاہرہ میں فاطمی اور قرطبہ میں اموی) قائم ہو گئیں ۔ پھر ۱۰۳۷ء میں قرطبہ میں اموی خلافت کا خاتمہ ہو گیا (ہسپانیہ سے مسلمان کلی طور پر ۱۶۱۰ء میں نکال دئیے گئے)۔ فاطمی خلافت کا اختتام صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۷۱ء میں مصر فتح کرنے کے بعد کیا ۔ بالآخر ۱۲۵۸ء میں جب منگولوں کے ہاتھوں سقوط بغداد کا المیہ پیش آیا تو تین برس کی مدّت تک (۱۲۵۸ء تا ۱۲۶۱ئ)دنیائے اسلام میں کوئی خلیفہ نہ تھا (حالانکہ علما ء و فقہا کے قدیم فتویٰ کے تحت اگر کوئی مسلمان کسی خلیفہ یا امام کی بیعت میں نہ ہو تو دوزخ میں جائے گا) ۔ عالم اسلام لاتعداد چھوٹی بڑی ریاستوں میں منقسم تھا ۔ آخر کار ۱۲۶۱ء میں قاہرہ میں سلطانِ مصر کی ایما سے عباسی خلافت کا احیاء عمل میں لایا گیا ۔ مگر اب خلیفہ کی حیثیت محض ایک مذہبی رہنما کی تھی بلکہ وہ سلطانِ مصر کے عملے کا ایک فرد بن کر رہ گیا تھا جس کے سپرد یہ کام تھا کہ سلطان کی مرضی کے مطابق مختلف مسلم ریاستوں کے سلاطین کو خطابات سے نوازے۔ (سلطانِ ہندوستان محمد تغلق نے ۱۳۲۴ء میں اسی نام نہاد خلیفہ سے اپنی حکومت کے اسلامی طور پر با ضابطہ ہونے کی سند حاصل کی تھی) ۔ یہ صورت تقریباً اڑھائی سو برس تک قائم رہی۔ ۱۵۱۷ء میں عثمانی سلطان سلیم نے جب مصر فتح کیا تو وہ خلیفہ متوکل سوم کو اپنے ساتھ استنبول لے گیا، جہاں متوکل سوم نے خلافت کا منصب سلطانِ سلیم کو منتقل کر دیا۔ یوں بالآخر خلافت سلطنت میں ضَم ہو گئی۔عثمانی خلفاء قریش میں سے نہ تھے بلکہ تُرک النسل تھے۔ مگر سولھویں صدی عیسوی کے سنّی علماء اور فقہا نے اُنہیں اس بنیاد پر قبول کر لیاکہ جب قریش کی ’’عصبیت‘‘ ختم ہو جائے اور وہ اس منصب کو اپنے پاس رکھنے کے قابل نہ رہیں تو کوئی اور قبیلہ اپنی ’’عصبیت‘‘ کے بل بوتے پر اُسے حاصل کر سکتا ہے ۔ عثمانی خلافت کو شیعہ ایران نے قبول نہ کیا ۔ اسی طرح ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے نزدیک بھی وہ ناقابل قبول تھی کیونکہ وہ عثمانی ترکوں کو حریف اور مدّ مقابل سمجھتے ہوئے شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عثمانی خلافت تقریباً چار سو برس تک قائم رہی، لیکن چونکہ وہ یورپی ریاستوں کے ہمسائے کی حیثیت سے اپنے اندر وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں نہ لا سکی ، اُسے یورپی اقوام نے ’’یورپ کے بیمار آدمی‘‘ کا نام دیا ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یُورپی اقوام اصلاحِ دین اور احیائے علوم جیسی تحریکوں یا سیاسی ، صنعتی اور معاشی انقلابات کے ذریعے اپنی تاریخ کے تاریک ادوار سے گزر کر روشن خیالی کے عہد میں داخل رہی تھیںاور اُن کے مقابلے میں مسلم اقوام انتہا پسندی یا مذہبی جنون کے تحت اپنے قلمی کتب کے بیش قیمت خزانے جلا چکنے کے بعد غفلت کی نیند سونے کی تیاریاں کر رہی تھیں ۔ آخر کار ۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال پاشا کے ہاتھوں خلیفہ، سلطان اور شیخ الاسلام کے مناصب کی تنسیخ عمل میں آئی اور معاملات سے متعلق اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے کر ترکی کے ’’سیکولری پبلک‘‘ ہونے کا اعلان کر دیا گیا ۔ اگر تاریخ کے متذکرہ حصے کا جائزہ اس نقطۂ نگاہ سے لیا جائے کہ اسلامی ریاست وہی ہے جو اپنے مسلم شہریوں پر قوانین اسلام نافذکرے، تو یہ مختلف قسم کی خلافتیں یا ریاستیں ، جو خلافت کی بجائے ’’ملک‘‘ کہلائیں، اُن کو بھی اسلامی ریاست کا نام دیا جانا چاہیے ، کیونکہ ان سب ریاستوں کے کسی بھی صاحب اقتدار نے اپنی مسلم رعایا کی عبادات میں کبھی مداخلت کی نہ اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالی ۔ البتہ اُن کے فرماروا یقینا مطلق العنان تھے اور اُن کی حکومتیں قرآن و سنہ کے تجویز کردہ سیاسی ، معاشی یا اخلاقی اصولوں کی بجائے ’’جاہلیہ‘‘ (مثلاً یُونانی ، رومن یا ساسانی ) اصولوں پر قائم کی گئی تھیں ۔ یہی سبب ہے کہ جب یہ دور تاریخ ختم ہوا اور یورپی نو آبادیاتی طاقتیں دنیائے اسلام پر چھا گئیں تو حقیقت کھلی کہ مسلمان بحیثیت مجموعی سیاسی طور پر نظریات سے خالی ، معاشی طور پر مفلوک الحال ، اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کے شکار اور تعلیمی ، معاشرتی اور تمدنی طور پر پسماندہ ہیں۔ مسلمان اسی سراسیمگی کے عالم میں جدید تاریخ میں داخل ہوئے۔ پہلی شخصیت جس نے اُنہیں سیاسی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی وہ سید جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ء تا ۱۸۹۷ئ) تھے۔ اُنھوں نے عثمانی سلطان خلیفہ عبدالحمید کو آئین یا شوریٰ کے مشورے کا پابند کرنے کی کوشش کی اور یوں تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ ’’آئینی خلافت‘‘ کا تصور پیش کیا ۔ اُن کی خواہش تھی کہ عثمانی سلطنت میں شامل مختلف مسلم علاقوں کو ’’اٹانومی‘‘ دے کر ایک وفاق کی صورت میں پہلے سے موجود سلطان عبدالحمید کی آئینی خلافت کے تحت متحد کر دیا جائے۔ اسی کوشش کو یورپی میڈیا نے ’’پان اسلام‘‘ کی تحریک کا نام دیا، مگر اُس زمانے میں مسلم فرماں روائوں کی مطلق العنانیت کو محدود یا آئین کا پابند کرنا آسان نہ تھا، خصوصی طور پر جب شیخ الاسلام جیسے ’’پیچھے دیکھنے والے ‘‘ علماء کی حمایت اُنہیں حاصل تھی۔ نتیجے میں سیکولر ذہن رکھنے والے نوجوان ترک فوجی افسروں نے ۱۹۰۸ء میں سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیااور بالآخر ۱۹۲۴ء میں خلافت ہی کا خاتمہ ہو گیا۔ دنیائے اسلام ، خصوصی طور پر مصر اور دیگر مسلم ممالک میں ضرور ایسے دانشور ہوں گے جنھوں نے جدید مسلم ریاست کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہو۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کا تعلق ہے، یہاں شاہ ولی اللہ ، سر سید احمد خان اور مولانا شبلی ایسی کئی ہستیوں نے اپنے اپنے انداز میں اسلام کی تعبیر وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر جدید اسلامی ریاست کے موضوع اور معاملات میں اجتہاد پر جتنا اصرار ہمیں علامہ اقبال (۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ئ) کے ہاں ملتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ اب ہم جدید تاریخ کے اُس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں، جہاں افکارِ اقبال کی روشنی میں مسلم قومیت کے اصول اور جدید اسلامی ریاست کے تصور کا موازنہ قدیم (روایتی یا تقلیدی) اسلامی ریاست کے تصور سے کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور مسلم قومیت (نیشنلیٹی) سے متعلق اقبال کے تصور کی بنیاد آنحضورؐ کے ارشادات پر قائم ہے۔ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اسلامی ریاست کے مقتدر ہونے کی راہ میں حائل نہیںاور یہ کہ مسلمان اشتراکِ ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں۔ لہٰذا پاکستان اسی قوم کے وطن کے طور پر وجود میں لایا گیا ۔ جب تک مسلمان اپنی قومیت کی اس بنیاد کو مضبوط رکھتے ہیں، پاکستان قائم رہے گا۔ اقبال کی نگاہ میں جدید اسلامی ریاست صرف ’’انتخاب‘‘ ہی کے ذریعے قائم کی جا سکتی ہے ۔ بہ الفاظ دیگرجدید اسلامی ریاست کے انعقاد کے بارے میں وہ روایتی پانچ طریقوں میں سے صرف الیکشن ہی کو بطور نظام قبول کرتے ہیں ، کیونکہ بقول اُن کے وہ اسلامی سپرٹ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اگرچہ جدید الیکشن کے نظام میں کئی خامیاں ہیں(جن کی اقبال نے نشاندہی بھی کر رکھی ہے) ، اُس کا متبادل آمریّت یا مُطلقُ العنانیّت ہے جو اس لیے ناقابل قبول ہے کہ قرآن مجید کی روح کے خلاف ہے۔ اقبال قرآنی حکم (النسآ :۵۹) میں ’’اُولُوالاَمر منکم ‘‘ کی تشریح کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ صاحب اقتدار وہی ہو سکتا ہے جو ’’سٹیٹس ‘‘ کے اعتبار سے ’’تم میں سے یا تم جیسا ہو ‘‘ ۔ یعنی بادشاہ یا امراء کے طبقہ میں سے نہ ہو بلکہ عوام الناس میں سے ہو۔ ایسے ’’اولو الامر ‘‘ جمہوری نظام ہی کے ذریعے وجود میں لائے جا سکتے ہیں ۔ خلیفہ کے تقرر کا قدیم طریق انتخاب یہ تھا کہ پہلے ایک محدود حلقہ آپس میں مشاورت کر کے کسی ایک شخص کو اس منصب کے لیے منتخب کر لیتا تھااور بعد میں عوام الناس اُسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے تھے۔ بیعت کرنے والوں میں خواتین اور غیر مسلم شریک نہ ہوتے تھے۔ اس نظامِ انتخاب کے تحت ایک سے زائد اشخاص کے درمیان انتخابی مقابلہ ممنوع تو نہ تھا، مگر خلفاء راشدین کے عہد میں ایسی صورت کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ البتہ اقبال اسمبلیوں میں آج کے رائج طریق انتخابات کے خلاف نہ تھے جس میں مرد اور عورتیں سب ووٹ ڈال سکیں ، بلکہ اُسی کے تحت خود بھی انتخابات میں حصہ لے چکے تھے۔ لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اُن کی نظر میں جدید اسلامی ریاست میں رائج طریق انتخابات کے ذریعے اسمبلیوں کو وجود میںلانا ، قرآن و سُنّہ سے متصادم نہ تھا ۔ قدیم اسلامی ریاست میں ’’شوریٰ‘‘ کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی تھی جو خلیفہ یا امام کو مشورہ دے سکے، مگر امام اُس کے مشورے کا پابند نہ تھا۔ اس اختیار کا جواز غالباً قرآنی حکم (آل عمران :۱۵۹) اور تقلیدِ سنّۃ سے لیا گیا تھا ، مگر اقبال کی جدید اسلامی ریاست کا رستہ اس مقام سے اسلامی ریاست کے قدیم تصورات سے جدا ہو جاتا ہے۔ قرآنی حکم (آل عمران :۱۵۹) سے ظاہر ہے کہ صرف آنحضورؐ شوریٰ کے مشورے کی پابندی سے مستثنیٰ تھے اور اگر قرآنی حکم (شوریٰ : ۳۸) کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اسلامی ریاست میں ’’باہم مشورہ‘‘ کا ادارہ مقتدر اور ’’سپریم ‘‘ سمجھا جانا چاہیے تھا ۔ مگر بقول اقبال ، خلفاء راشدین کے مختصر دور کے خاتمہ کے بعد فرماںروائوں نے اس باہم مشاورت کے ادارے کی حیثیت کو قریب قریب ختم کر دیا تاکہ اُن کی مطلق العنانیت میں دخل انداز نہ ہو سکے۔ اقبال کے نزدیک تنسیخ خلافت کے بعد خلیفہ کے تمام اختیارات شوریٰ کو منتقل ہو چکے تھے اور شوریٰ سے اقبال کی مراد منتخب مسلم اسمبلی یا پارلیمنٹ تھی۔ اقبال کے ہاں پارلیمنٹ نہ صرف شہریوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر ایک مشاورتی ادارہ ہے بلکہ لیجسلیٹو اسمبلی (قانون ساز ادارے) کی حیثیت سے وہ اُسے ’’اجماع‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں جس کے اراکین اجتہاد کے ذریعے وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی قانون سازی بھی کر سکیں ۔ یہ قدرے نازک معاملہ ہے۔ اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ پارلیمنٹ میں منتخب نمائندے اگر تعلیم یافتہ ہوں، تب بھی فقہ اسلامی کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکنے کے اہل نہ تھے۔ دوسری طرف اقبال یہ بھی سوچتے تھے کہ علوم کی بے انتہا ترقی اور وسعت کے سبب وقت کے جدید تقاضوں کو سمجھنا اور بعض معاملات میں متبادل طرز پر سوچنا علماء کے بس کی بات نہ تھی ۔ اس لیے غیر علماء ماہرین کو اجتہاد کے عمل میں شریک کرنا ضروری تھا۔ نیز ایسے عام لوگوں کی آراء کو بھی نظر انداز نہ کیا جا سکتا تھا، جن میں بدلتے زمانے کے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی فطرتاً صلاحیت ہو ۔ ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں ، لاء کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قانونی نصاب میں تبدیلی کی جائے اور اس میں فقہ اسلامی کے ساتھ جدید جورس پروڈنس کا تقابلی مطالعے کا موضوع شامل ہو ۔ اس موضوع میں مہارت حاصل کرنے والے وکلاء و ٹیکنوکریٹس کی حیثیت سے مختلف جدید علوم کے ماہرین غیر علماء کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر مستقبل کی پارلیمنٹ میں لائے جائیں تاکہ وہ ’’اِجماع‘‘ کی صورت میں اجتہاد کے ذریعہ اسلامی قانون سازی کرنے کے قابل ہو سکے۔ اقبال نے یہ واضح تو نہیں کیا کہ جدید مسلم معاشرے کو کِن کِن معاملات میں اجتہاد کی ضرورت ہے، مگر اُن کی بعض تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں تھے۔ اسی طرح ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ نکاح کے امتناع کو شرعاً جائز سمجھتے تھے کیونکہ اُن کی رائے میں اسلامی ریاست کا سربراہ معاشرتی حالات کے پیش نظر کسی قرآنی اجازت کی تحدید کر سکتا ہے۔ جدید اسلامی پارلیمنٹ کے بارے میں اقبال کے تصور میں چند مسائل ایسے ہیں جن کا حل اُنہوں نے تجویز نہیں کیا۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اگر مخلوط طریق انتخاب کے ذریعہ غیر مسلم نمائندے منتخب ہو کر آئیں اور اُنہیں ہر معاملے میں اپنی اپنی پارٹیوں کی طرف سے ووٹ دے سکنے کا حق حاصل ہو، تو کیا وہ اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجماع میں مسلم نمائندوں کے ساتھ شریک ہو کر اجتہاد میں حصہ لے سکیں گے؟ یہاں یہ امر ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے زمانے سے مسلم پرسنل لاء (جسے اینگلو محمڈن لاء بھی کہا جاتا ہے اور جو پاکستان میں آج بھی رائج ہے) کا ارتقاء اس طرح عمل میں آیا کہ اُس میں بعض عناصر برٹش جورس پروڈنس کے شامل ہو گئے ہیں اور اسلامی سول لاء نے دیگر سیکولر قوانین کی طرح ایک اعتبار سے معروضی صورت اختیار کر لی ہے۔ لہٰذا اب ضروری نہیں کہ صرف مسلم جج ہی مسلم پرنسل لاء کے تحت قضیوں کے فیصلے کر سکیں ، بلکہ غیر مسلم جج بھی ایسا کرتے چلے آئے ہیں اور اب بھی یہ اختیار رکھتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ ناسخ و منسوخ کا ہے جو اسلامی فقہ کا نازک ترین مسئلہ ہے۔ کیا حالات کے یکسر تبدیل ہو جانے کی صورت میں اجماع کسی قرآنی اجازت یا حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار رکھتا ہے؟ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ جدید اسلامی قانون سازی کے لیے اجتہاد کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو کیا اجماع کے قبول شدہ نئے اسلامی قوانین کا اطلاق صرف پاکستان کی حدوں تک محدود نہ ہو گا اور کیا یوں فقہ کا ایک نیا ’’نیشنل‘‘ مسلک وجود میں نہ آ جائے گا؟ روایتی نقطۂ نگاہ کے مطابق اسلامی ریاست میں صرف وہی قوانین نافذ کئے جا سکتے ہیں جو قرآن و سُنّہ سے اخذ کردہ ہوں (ابن خلدون ایسے قوانین کو سیاست دینیہ کا نام دیتا ہے) ۔ اگر قرآنی احکام کے ساتھ ساتھ انسان کے بنائے ہوئے قوانین (یعنی سیاست عقلیہ) کا نفاذ کیا جائے تو وہ اسلامی ریاست نہیں کہلا سکتی بلکہ مخلوط قوانین کی حامل ایسی ریاست کو ’’ملک‘‘ کا نام دیا جائے گا۔ مگر اقبال کی جدید اسلامی ریاست میں انسان کے بنائے ہوئے ایسے قوانین (سیاست عقلیہ) نافذ کئے جا سکتے ہیں جو قرآن و سُنّہ سے ’’متصادم ‘‘ نہ ہوں ۔ لہٰذا اُن کی جدید اسلامی ریاست ’’مخلوط‘‘ قوانین کا نفاذ کر سکنے کی مجاز ہے۔ قدیم اسلامی ریاست کی آمدنی یا محصولات کے ذرائع صرف وہی تھے جن کی قرآن و سنت نے اجازت دے رکھی ہے۔ یعنی جزیہ ، خراج ، عشر ، زکوٰۃ ، فے اور غنیمہ ۔ جدید عالم اسلام میں ان ذرائع میں، سوائے زکوٰۃ کے جو رضا کا رانہ طور پر بھی ادا کی جا سکتی ہے ، اور کوئی بھی ذریعہ ایسا نہیں جو آج زیر استعمال ہو۔ پاکستان میں تکنیکی طور پر اقلیتوں کا شمار نہ تو ذمیّوں میں کیا جا سکتا ہے اور نہ یہاں کوئی خراجی اراضی موجود ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی ریاست کے قدیم ذرائع آمدنی اس ملک کی آج کی ضرورت یا معاشی ترقی کے لیے کافی نہیں تھے۔ لہٰذا اُسے بقول اقبال فلاحی ریاست بنانے کے لیے نئے ٹیکسوں کی ضرورت تھی جو قرآن و سنت کی معاشی تعلیمات سے اخذ کئے جا سکتے تھے ۔ قدیم اسلامی ریاست میں رِبأ وصول کرنے کی خصوصی طور پر ممانعت تھی، مگر اقبال کی جدید اسلامی ریاست میں ’’فری مارکیٹ اکانومی ‘‘ کو فروغ دینے کی خاطربینک کا منافع رِبأ کے زمرے میں نہ آتا تھا۔ اس معاملے میں اقبال مولانا شبلی کے ہم خیال تھے۔ قدیم اسلامی ریاست مسلمانوں کے لیے’’ دوہری خوشی‘‘ کے حصول کے تصور پر استوار کی گئی تھی ۔ یعنی ریاست کا کام صرف یہی نہیں تھا کہ مسلمانوں کی بنیادی ضروریات فراہم کر کے اس دنیا میں اُن کی خوش حالی کا سامان پیدا کرے بلکہ عبادات یا اسلامی اخلاق کے اصول اپنا نے کے خاطر محکمہ حسبہ کے جبر کے ذریعہ اُنہیں آخرت میں مسرت و شادمانی کے حصول کے لیے تیار کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شمار سمجھا جاتا تھا۔ یعنی ریاست کا کام صرف حقوق العباد کا تحفظ ہی نہ تھا بلکہ حقوق اللہ کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ریاست کی تھی۔مگر اقبال کے تصور انفرادی واجتماعی خودی، اُن کے فلسفہ جبر و اختیار اور سیاسی افکار کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کر سکنا ممکن ہے کہ اُن کی جدید اسلامی ریاست عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب نمائندوں کی پارلیمنٹ کے قیام ، حقوق انسانی کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے اصولوں پر قائم ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے ریاست صرف حُقوقُ العباد کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے پاس رکھ سکتی ہے، مگر حُقوقُ اللہ کے تحفظ کا معاملہ فرد اور اللہ کے درمیان ہے، اُس میں ریاست کے جبر و اکرہ کے ذریعے مداخلت کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ مسئلہ تعلیمی اداروں میں عبادات یا اسلامی اخلاق کی تربیت دینے سے حل کیا جانا چاہیے اور اُس کے لیے صرف صوم و صلوٰۃ کی میکنیکل پابندی ہی کافی نہیں، بلکہ انسان دوستی ، رواداری ، حلم ، عجز ، سادگی ایسی اخلاق محمدی کی خصوصیات کی ترغیب کے ساتھ طلباء و طالبات میں اقبال کے تصورِ غیرت ، خود داری ، خود اعتمادی ، بلند حوصلگی اور تجسس کا جذبہ پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے علوم کے میدان میں اِختراع اور اِیجاد کا مُنقَطَع سلسلہ از سر نو جاری رکھ سکیں ۔ قدیم اسلامی ریاست میں ’’حدود ‘‘ یا تعزیرات کا سختی سے اطلاق کیا جا تا تھا ۔ مگر اسلام کے کریمینل لاء کے بارے میں اقبال مولانا شبلی سے اتفاق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی ’’سزائیں‘‘ چونکہ مخصوص لوگوں کے رواجات ، عادات اور خصائل کو مدّنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئیں اور اُن کا اصل مقصد محض سزائیں دینا نہ تھا ، بلکہ معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی تھا، اس لیے ضروری نہیں کہ آئندہ آنے والی نسلوں پر ایسے قوانین کا مستقل طور پر سختی سے اطلاق کیا جائے ۔ دوسرے لفظوں میں اقبال اسلامی تعزیرات پر سختی سے عمل کرنے کی بجائے جدید اسلامی ریاست میں اسلام کی معاشی ’’برکات‘‘ سے متعلق قانون سازی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے کیونکہ اُن کی نگاہ میں مسلمانوں کی شدید معاشی پسماندگی ہی دراصل مختلف قسم کے جرائم کی فراوانی کا سبب تھی ۔ قدیم اسلامی ریاست میں غیر مسلم اپنے قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے میں آزاد تھے اور اُن پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہ ہوتا تھا ۔ اُن سے فتح کردہ علاقوں میں عسکری خدمات سے مستثنیٰ ہونے کے عوض جزیہ اور خراج وصول کیا جاتا تھا ۔ کریمینل لاء کی خلاف ورزی میں اُنہیں مسلمانوں کے مقابلے میں جہاں تک ممکن ہو سکے ، نصف سزا ملتی ۔ مگر عام معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز ہر صورت میں برقرار رکھا جاتا۔ اقبال کی جدید اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم میں شہریوں کی حیثیت سے ایسی کوئی سیاسی تمیز موجود نہیں ہے ۔ برصغیر میں مسلمانوں کی ’’علیحدہ نیابت ‘‘ کے اصول پر بھی اقبال کی رائے یہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر نافذ کروایا گیا، لیکن اگر صوبوں کی تقسیم مختلف جماعتوں کے مذہبی اور تمدنی رجحانات مدّ نظر رکھ کر کی جائے تو مسلمانوں کو ’’مخلوط ‘‘ انتخابات پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اقبال کے نزدیک توحید کا مطلب انسانی اتحاد ، مساوات اور آزادی کی بنیادوں پر زمان و مکان کے اندر ایک مثالی معاشرہ وجود میں لانا تھا۔ وہ جنوبی ایشیا میں پہلی شخصیت تھے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ شاید اُنہوں نے اپنے اس تصور کی بنیاد ’’میثاقِ مدینہ ‘‘ پر رکھی ہو۔ بہر حال اُن کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ اُن کی مجوزہ اسلامی ریاست میں بلا تفریق مذہب ، ذات پات ، رنگ ، نسل ، زبان سب برابر کے شہری سمجھے جائیں گے۔ قدیم اسلامی ریاست میں آئمہ مساجد کا تقرر خلیفۂ وقت کرتا تھا، مگر اسلامی علوم اور فقہ کے مدرسے آزاد تھے ۔ عثمانی خلافت کے دور میں شیخ الاسلام کا منصب قائم ہوا اور آئمہ مساجد اور مدرسے شیخ الاسلام کے کنٹرول میں چلے گئے ۔ چنانچہ اس طریق سے ریاست میں اسلام کی صرف حکومتی تعبیر ہی کی تشہیر ہو سکتی تھی۔ بعدازاں جب سیکولر ترکی میں اتاترک نے مدرسوں پر حکومتی کنٹرول کی خاطر مذہبی امور کی وزارت قائم کی اور حکم جاری ہوا کہ صرف وہی آئمہ مساجد خطبہ دے سکیں گے جنہیں حکومت لائسنس جاری کرے گی، تو اقبال نے اس اصلاح کو سراہا اور واضح کیا کہ جدید اسلامی ریاست میں دینیات کے شعبے کی ریاست کے دیگر شعبوں سے علیحدگی ’’چرچ ‘‘ اور’’ سٹیٹ‘‘ کی طرز کی علیحدگی نہیں بلکہ محض رسمی (فنکشنل) علیحدگی ہے۔ اُن کے نزدیک اس شعبے کا کام مساجد اور مدارس کو کنٹرول کرنا ، مدارس کے لیے جدید نصاب کا تعین کرنا اور اُنھیں یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا ، اس طرح یونیورسٹیوں کے سندیافتہ آئمہ کا تقرر مساجد میں کرنا حکومت کی ذمہ داری سمجھی جانی چاہیے۔ اب ہم سب سے اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں یعنی مسلمانوں کی معاشی بہتری یا یوں کہئے کہ اسلام کا معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قدیم اسلامی ریاست کے اربابِ اختیار نے کیا اقدام کئے ۔ قدیم علماء و فضلاء اپنی کتب میں یہ دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں کہ اسلامی ریاست مسلمانوں کی ’’دوہری خوشی ‘‘ کے تصور پر وجود میں لائی گئی ہے۔ یعنی اُس کا فرض مسلمانوں کی بنیادی ضروریات بہم پہنچا کر اُن کے لیے اس دنیا میں شادمانی کا سبب بنتا ہے اور اسی طرح آخرت میں بھی مسرت حاصل کرنے کی خاطر اُنہیں تیار کرنا ہے۔ مگر کیا عملی طور پر قدیم اسلامی ریاست اس دنیا میں مسلمانوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکنے میں کامیاب رہی؟ خلفاء راشدین کے مختصر دور میں بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں جب حکام نے عام لوگوں کی بہبود کی خاطر قدم اٹھانے کی کوششیں کیں۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ بعد کی سینکڑوں صدیوں میں اسلامی ریاست کے فرماںروائوں نے عام مسلمانوں کی بہبود کے لیے کھانے پینے، رہنے سہنے ، بدن ڈھانپنے ، تعلیم عام کرنے یا اُن کی صحت کا خیال رکھنے کے سلسلے میں ایسی نمایاں خدمات انجام نہیں دیں جنہیں تاریخ یاد رکھے ۔ جہاں تک مسلمانوں کی عاقبت سنوار نے کا تعلق ہے، یہ ذمہ داری پوری کرنے کی غرض سے ابتداً احتساب کا محکمہ قائم کیا گیا تاکہ اوائل عہد کے مسلمانوں میں حُقوقُ اللہ کی ادائیگی کا شعور پیدا کیا جا سکے ۔ مگر یہ ادارہ بعد کی تاریخ میں اس لیے مستقل صورت اختیار نہ کر سکا کہ اس معاملے میں حکومتی جبر و اکراہ مسلمان قبول کرنے کو تیار نہ تھے ۔ مختصراً قدیم اسلامی ریاست نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی غربت و افلاس کے مسئلے کو قرآنی احکام مثلاً زکوٰۃ ، صدقات و خیرات کی ادائیگی کے ذریعے ہی حل کرنے کی کوشش کی، مگر بقول اقبال، قرآن مجید کی اصل معاشی تعلیمات کی طرف توجہ مرتکز نہ کی گئی۔ اقبال چونکہ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کے مخالف تھے ، اس لیے جدید اسلامی ریاست کے معاشی نظام کا مقصد ، ان کی نگاہ میں ، دراصل ایک درمیانی طبقہ کی فلاحی ریاست وجود میں لانا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے کلّی طور پر خارج نہیں کرتا بلکہ اُسے قائم رکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل تجویز کرتا ہے جسے اپنانے سے یہ قوت اپنی مناسب حدود سے تجاوز نہ کر سکے۔ اقبال، جدید اسلامی ریاست کا حصہ بننے کے لیے ، اپنے معاشی تصورات کا ’’سٹرکچر‘‘ مندرجہ ذیل قرآنی احکام پر استوار کرتے ہیں : (۱) وَ فیِ اَمْوالِھُِم حقُٗ لِلّسَّائِلِ وَالْمَحْروُم (الذّاریٰت :۱۹) اور دولتمندوں کی دولت میں ناداروں اور حاجت مندوں کا حصہ ہے۔ (۲) وَ یَسْئلُوْنَکَ مَاذَا یُنفِقُوْنَ۔ قُلِّ العَفْوَ ۔ (البقرۃ : ۲۱۹) اور وہ پوچھتے ہیں کیا ادا کیا جائے ؟ کہہ دو ، جو ضرورت سے زائد ہے۔ قرآن مجید کے اِن اور دیگر فلاحی احکام سے اقبال یہ معانی اخذ کرتے ہیں کہ فلاح عامہ کے لیے جو بھی قانون سازی کی جائے، وہ شریعت کے مخالف تصور نہیں کی جا سکتی ۔ فلاحی مقاصد کے حصول کی خاطر وہ زکوٰۃ اور عشر کی مناسب تنظیم پر زور دیتے ہوئے اسلام کے قانونِ وراثت پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی تلقین کرتے ہیں، کیونکہ عام طور پر مسلم جاگیردار اپنی بیٹیوں یا خواتین کو اراضی کی تقسیمِ وراثت میں اُنہیں اپنے حق سے محروم رکھنے کی خاطر یہ جواز پیش کر دیتے ہیں کہ ہم شریعت کی بجائے رواج کے پابند ہیں۔ اراضی سے متعلق اقبال بٹائی (مخابرہ) کی وصولی کے اصول کے خلاف تھے۔ اُن کے قول کے مطابق جاگیردار صرف اتنی اراضی اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے جو وہ خود کاشت کر سکے ۔ بقیہ اراضی اُس سے قانوناً حاصل کر کے سرکاری اراضی کے ساتھ بے زمین کاشتکاروں کو قیمت کی آسان قسطوں کی صورت میں تقسیم کر دینی چاہیے ۔ اقبال جاگیرداروں پر ایگریکلچرل انکم ٹیکس کی وہی شرح نافذ کرنے کے حق میں تھے جس شرح پر عام انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ وہ بے زمین کاشکاروں کے جائز حقوق کے تحفظ کی خاطر قانون سازی کو شرعاً درست سمجھتے تھے۔ اقبال کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ ’’ویلفیئر ‘‘ یا فلاحی ریاست وسائل کے بغیر وجود میں نہیں لائی جا سکتی ۔ اس کے باوجود جدید اسلامی ریاست کی صنعتی پالیسی کے بارے میں اُن کی تحریروں سے واضح ہے کہ وہ مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے ’’فری مارکیٹ اکانومی ‘‘ کے فروغ کے حامی تھے۔ کپیٹل یا سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی خاطر وہ بینک کے منافع کو رِبأ کے زمرے میں شمار نہ کرتے تھے ۔ صنعتوں کے قیام کے بارے میں وہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی تمیز جاری رکھنے کے قائل تھے، مگر اس اصول کی پابندی کے بارے میں قانون سازی کے حق میں تھے کہ مزدوروں اور صنعتی کارکنان کی کم از کم اجرت حکومت متعین کرے۔ صنعت قائم کرنے کے اجازت نامے ان شرائط پر دئیے جائیں کہ کارخانہ دار یا صنعتکار اپنے مزدوروں اور صنعتی کارکنان کی رہائش ، بچوں کی تعلیم، طبی امداد، زخمی یا حادثاتی موت ہونے پر معاوضے اور ریٹائرمنٹ پر مراعات کی سہولتیں فراہم کریں گے اور اُن کے عوض اُنہیں انکم ٹیکس کی ادائیگی میں کھلے دل سے حکومت رعایتیں دے گی ۔ نیز جوں جوں ریاست کے وسائل میں اضافہ ہوگا، حکومت مزید فلاحی اقدام کرتی چلی جائے گی ۔ مختصراً تاریخ کے ساتھ گفتگو اس سوال پر ختم کی جاتی ہے کہ بقول قائد اعظم محمد علی جناح ، اقبال مسلمانوں کے قدیم اوطان میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے ۔ مگر کیا اقبال کی سوچ کے مطابق پاکستان میں جدید خطوط پر جمہوری ، فلاحی ، اسلامی ریاست قائم ہوئی ؟ تاریخ کا جواب ہے :نہیں ۔ اب بتائیے ، میں کیا بات کروں ؟  طالب حسین سیال اقبال کا تصور خیر و شر اقبال کے نزدیک سرشت انسانی کی اصل شر نہیں ہے اور نہ ہی انسان کسی گناہ کی پاداش میں اس دنیا میں آیا ہے بلکہ انسان کی تخلیق سلیم فطرت پر کی گئی ہے اور اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو خیر کا راستہ اختیار کر کے اپنی شخصیت کی تعمیر کرے اور چاہے تو شر کا راستہ اختیار کر کے اپنی شخصیت کی تحلیل کرے۔ اقبال کے اس تصور کی بنیاد قرآن حکیم کی یہ آیات ہیں: وَنَفْس وَّ مَاْ سَوّٰھا ۰ فَأَلْھَمَھَا فْجُورَھَا وَ تَقُو ھٰا۰قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکھّٰا ۰وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھٰا ۰(۹۱:۷۔۱۰) ترجمہ: اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔ یقینا فلاح پا گیا وہ، جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ، جس نے اُس کو دبا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے انسان کا ضمیر اسے برائی سے آگاہ کر دیتا ہے لیکن یہ انسان کی اپنی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اسلام انسانی ضمیر و وجدان کی گواہی کو سچ قرار دیتا ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکا پیدا کرے۔ انسانی ضمیر کی روشنی کا نہ صرف اسلام قائل ہے بلکہ دیگر مذاہب عالم بھی انسان کے ضمیر کے فیصلوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ کئی مفکرین انسان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی سرشت میں نیکی ہے اور اُس کے باطن کی آواز پر مبنی فیصلہ صحیح ہوتا ہے۔ مثلاً کانٹ (Kant) کا نقطئہ نظر بھی یہ ہے کہ : انسان میں اخلاقی حاسّہ ہے جس کی وجہ سے فطرتاً وہ نیکی کی طرف میلان رکھتا ہے ۔ آزمائش و ابتلا کے وقت بھی یہ احساس قائم رہتا ہے کہ فلاں عمل غلط ہے ۔ ممکن ہے کوئی شخص آزمایش کا مقابلہ نہ کر سکے اور جھوٹ بولے لیکن وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ جھوٹ عالمگیر قانون بن جائے ۔ کانٹ کے نزدیک نیکی کرنا امرِغیر مشروط ہے۔ نیکی کرتے ہوئے انسان اپنے فرض کو نبھاتا ہے، اس لیے اس کو کسی صلہ کی تمنا نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کو بلا خوف و خطر اور بلا حرص و آز اچھا کام کرنا چاہیے۔ نیکی کو صرف نیکی کی خاطر سر انجام دینا چاہیے ۱۔ نیکی میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے۔ اقبال بھی انسانی شرافت کے قائل ہیں اور مسلم صوفیاء کی طرح اس مسلک کے حامی ہیں کہ انسان کو نیکی کرتے وقت کسی حور و قصور کی تمنا نہیں رکھنی چاہیے اور نہ اسے اللہ کی عبادت دوزخ کے ڈر کی وجہ سے کرنی چاہیے بلکہ عبادت الٰہی میں صرف خدا کی محبت کا جذبہ کار فرما ہونا چاہیے۔اقبال واعظ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے! اے بے خبر ! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے۲ اقبال خیر و شر کو نفس ، شخصیت اور اسرارِ خودی کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت جو ایک با شعور ہستی ہے اس کے باطن میں اپنی تعمیر اور تخریب کی قوتیں مضمر ہیں۔ وہ قرآنی قصۂ آدم سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میری سوچ کا میلان اس طرف ہے کہ وہ جنت جس میں آدم کو رکھا گیا، ایک تصور ہے انسان کی ابتدائی حالت کا جس میں وہ عملی لحاظ سے اپنے ماحول سے منسلک نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ انسانی آرزوئوں کی چبھن سے نا شنا تھا۔ انھی آرزوئوں کے پیدا ہونے سے انسانی ثقافت کی ابتدا ہوئی۔۔۔۔ پس ہم سمجھتے ہیں کہ ہبوطِ آدم کی تمثیل کا مقصد یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ اس کرہ ارض پر انسان پہلی دفعہ کیسے ظاہر ہوا بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے ارتقا کو واضح کیا جائے جو اس نے ابتدائی جبلتوں کی حالت سے شروع کیا اور آزاد اور باشعور ہستی کے مقام تک پہنچا ۔ ایسی ہستی جو کہ شک کرنے اور نافرمانی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ہبوط کا مطلب کوئی اخلاقی گمراہی نہیں ہے۔ یہ انسان کا سادہ شعور سے ادراکِ ذات کی پہلی کوند کی طرف عبوری سفر تھا۔ اس طرح وہ اپنے باطن میں خوابِ فطرت سے بیدار ہوا اور سمجھ گیا کہ اُس کی حیثیت خود بھی اپنی جگہ پر ایک سبب کی ہے یعنی وہ مجبور محض نہیں بلکہ اسباب خود بھی تخلیق کر سکتا ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ زمین کوئی دارالعذاب نہیں جہاں بد اصل انسان کو اُس کے بنیادی گناہ کی پاداش میں اسیر کر دیا گیا ہے۔ انسان کی پہلی نافرمانی اُس کے آزاد انتخاب کا پہلا عمل بھی تھا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کے مطابق آدم کا یہ تجاوز معاف کر دیا گیا ۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اچھائی اب کوئی امرِ مجبوری نہیں بلکہ یہ آزاد انسان کا اپنی رضا و رغبت کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی قدروں کے سامنے اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے مترادف ہے۔ ایک ایسی ہستی جس کی حرکات ایک مشین کی طرح لگی بندھی ہوں وہ اچھائی کی تخلیق نہیں کر سکتی ۔ پس اچھائی کے لیے آزادی بنیادی شرط ہے۳۔ اقبال مادام بلوتسکی (Balvatski) کی کتاب (Secret Doctrine) کا حوالہ دیتے ہوئے مزید تشریح کرتے ہیں: شجر، راز کی وہ علامت تھا جسے علومِ مخفیہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آدم ؑ کو اس درخت کا پھل چکھنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ اس کی ذات ، اُس کے حواس اور اس کی عقلی صلاحیتیں ایک مختلف قسم کے علم کے لیے موزوں تھیں۔ وہ علم جس میں صبر آزما مشاہدہ درکار ہوتا ہے اور جو بتدریج حاصل ہوتا ہے ۔ شیطان نے آدم کو اس سری درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی اور آدم ؑ آمادہ ہو گیا، اس لیے نہیں کہ شر اُس کی سرشت میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ وہ فطری طور پر جلد باز (عجولا) ہے۔ اس نے تحصیلِ علم کے لیے مختصر راستہ اختیار کرنا چاہا۔ اُس کے اِس رجحان کو درست کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اسے ایک ایسے ماحول میں رکھا جائے جو اگرچہ تکلیف دہ ہو لیکن اس کی ذہنی صلاحیتیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ پس آدم ؑ کو جسمانی لحاظ سے تکلیف دہ ماحول میں رکھنے سے مقصود اس کو سزا دینا نہ تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ انسان کے دشمن شیطان کو شکست دی جائے جس نے عیّاری سے انسان کو مسلسل نشو ونما اور پھیلائو کی لذت سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی۔ نفس متناہیہ کی زندگی کا متزاحم ماحول میں اس بات پر دارو مدار ہے کہ وہ خود اپنے تجربات کی بدولت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے اور اس متناہی خودی یعنی انسان کے سامنے سعی و عمل کے کئی امکانات کھلے ہیں جن کو وہ امتحان و آزمائش اور غلطی و خطا کے طریقوں سے طے کر سکتا ہے۔ آدم ؑ کی غلطی جسے ہم ایک ذہنی برائی سے تعبیر کر سکتے ہیں،حصولِ تجربات کے لیے ناگزیر تھی ۴۔ اقبال خیر و شر کو ایک کل سے تعبیر کرتے ہیں، اگرچہ وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ وہ قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے : وَنَبْلُوْ کُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ترجمہ : ہم خیر و شر کے ذریعے آپ کو آزماتے ہیں۔ (۲۱:۳۵) یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال خیر کی نشو و نما کے لیے شر کے وجود کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ابلیس کا وجود انسان کے تزکیہ اور اس کے کردار کی مضبوطی کے لیے ناگزیر تھا۔ اگر ابلیسی قوت نہ ہو تو انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ سکتیں اور انسان میں عزم و ہمت اور استقامت ایسی خصوصیات نہیں آ سکتیں۔ اقبال ، جبریل اور ابلیس کے مکالمے کو اس طرح نظم کرتے ہیں: جبریل پوچھتا ہے: ہمدمِ دیرینہ ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بو؟ ابلیس جواب دیتا ہے: سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبریل کہتا ہے: کھو دئیے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو! ابلیس جواباً کہتا ہے: ہے میری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو! دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تو؟ میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط ! اللہ ہو ، اللہ ہو، اللہ ہو!۵ اقبال ہر اُس عمل کو خیر سمجھتے ہیں جو انسانی شخصیت کو تقویت پہنچاتا ہو اور جس سے انسانی خودی بیدار اور محفوظ ہوتی ہو اور ہر وہ عمل شر ہے جو انسانی شخصیت کو کمزور کرتا ہو اور جس سے انسانی خودی کو نقصان پہنچتا ہو۔ اپنے ایک مقالے میں اقبال نیکی اور بدی کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: نیکی انسان کے احساسِ شخصیت کو ترقی دینے والی ہے اور بدی اس احساس کو کمزور کرتی ہے ۔پس نیکی ایک قوت، طاقت اور توانائی ہے۔ بدی ایک کمزوری ہے۔ انسان میں اس کی اپنی شخصیت کا ایک تیز احساس پیدا کر دو۔ اس کو خدا کی زمین میں بے خوف اور آزاد پھرنے دو۔ وہ دوسروں کی شخصیتوں کی عزت کرے گا اور بالکل نیک ہو جائے گا۶۔ اقبال اپنی بیاض میں لکھتے ہیں : لہٰذا ہمیں چاہیے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کو تحلیل کرنے پر مائل ہوں مثلاً عجز و انکسار، قناعت ، غلامانہ تابعداری وغیرہ ۔ اس کے برخلاف بلند حوصلگی ، اعلیٰ ظرفی ، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں ۔ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اسی کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر وقیمت کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو ۔ اگر ہم وہ طرزِ زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے برخلاف نبرد آزما ہیں۔ موت جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑبڑ ہو جاتی ہے ۔ پس شخصیت کی بقاء ہمارے اپنے اختیار میں ہے، اس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا ہے دور رس نتائج کا حامل ہے۷ ۔ جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے نا خوب نمود جس کی فرازِ خودی سے ہو ، وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا ، قبیح و نامحبوب۸ اقبال کے نزدیک سرود و شعر اور کتاب و دین کا مقصد بھی خودی کی حفاظت کرتا ہے ۔ اگر سیاست و دین اور فنونِ لطیفہ خودی کی حفاظت کرتے ہیں تو وہ سرا سر خیر ہیں اور اگر وہ خودی کی حفاظت نہیں کرتے تو وہ شر ہیں۔ فرماتے ہیں: سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر گہر ہیں اُن کی گرہ میں تمام یک دانہ! اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ۹ اقبال کے نزدیک انسانی شخصیت کوئی شے نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔ شخصیت کوئی جامد یا بنی بنائی چیز نہیں اور نہ یہ پہلے سے مقدر ہے۔ شخصیت کوشش اور عمل سے بنتی بگڑتی اور تعمیر ہوتی ہے۔ انسان جب کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اس کا اس کی شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور جب کوئی برا عمل کرتا ہے تو اس کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ گویا اچھائی اور برائی کے اثرات سے مفر نہیں ۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہ ۰وَ مَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّٰاًیَّرَہ۰ (۹۹:۷۔۸) ترجمہ: اور جو کوئی ذرہ بھر نیک عمل کرتا ہے، وہ ضرور اسے دیکھے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برا عمل کرتا ہے وہ اُسے ضرور دیکھے گا۔ انسان اپنے تخیلات اور تمنیّات اور عمل و افعال سے اپنی شخصیت کی ہر لمحہ تخلیق کرتا رہتا ہے ۔ اگر اس کے ذہن میں برے خیالات آتے ہیں یا وہ اپنی جلد بازی کی وجہ سے کسی برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو اُس کی شخصیت پر بُرے اثرات پڑتے ہیں۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اقبال کے نزدیک شر انسان کی سرشت میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ اپنی طبیعت کی عجلت کے باعث شر کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ انسان جب کچھ سنتا ہے یا کوئی منظر دیکھتا ہے تو اُس کا فوری رد عمل ، جلد بازی کا رد عمل ہوتا ہے لیکن اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے توقف کرے اور سوچے تو اُس کا رد عمل معقول ہو جاتا ہے ۔ گویا عجلت کا عمل حیوانی جبلت کا عمل ہے اور غور و فکر اور صبر وتحمل معقول عمل ہے اور یہی اصل انسانی رویہ ہے۔ اِس انسانی رویے کو ہم حکمت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ قرآن حکیم کے مطابق ’’جس کو حکمت دی گئی اُسے خیر کثیر عطا کی گئی‘‘ (۲:۲۶۹)انفرادی یا قومی سطح پر جو بھی فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہو اور جو بھی قدم عجلت میںاٹھایا گیا ہو، وہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے اور اُس کا انجام خیر نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس افراد یا اقوام جو بھی فیصلے غور و فکر اور باہمی مشاورت اور صبر آزما بحث و تمحیص کے بعد کرتے ہیں اور جو قدم کافی غور و خوض اور مشاورت کے بعد اٹھائے جاتے ہیں، وہ ہمیشہ اچھے نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ شیطان انسان کی فطرت کی اس عاجلانہ خاصیت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اُس کے لیے شہوات کو مزیّن کر کے دکھاتا ہے، اس لیے انسان جذبات کی رو میں بہہ کر غلط قدم اٹھا لیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: زُیّنَ للِنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِّنَ النِسَآئِ وَالبْنَیْنَ وَالقَنَاطِیْرالْمُقَنْطَرَۃِ مَنَ الذَّھَبِ وَالفِضَّۃِ وَالْخِیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاِنْعامِ وَالْحَرْثُ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنُیا ۔(۳:۱۴) ترجمہ: لوگوں کے لیے مرغوبات نفس ۔۔۔ عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چند گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں مگر یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہے۔ حب نساء و بنین اور مال و دولت کی خواہش ، مویشی اور زرعی زمین کی تمنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ان خواہشات کو اخلاقی اقدار اور اصولِ اعتدال کا پابند کرنا لازم ہے۔ اقبال خواہشات کے استیصال کو خودی کی موت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک خواہش کی نفی ، عزلت نشینی اور دنیا کو چھوڑ کر ویرانوں میں عبادت و ریاضت کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد رہبانیت اور فنائیت نہیں بلکہ آرزو ہی تو عین زندگی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است۱۰ کائنات کی ہر شے میں ذوقِ نمود ہے۔ آرزو ہی کی وجہ سے کائنات میں تخلیق کا عمل جاری و ساری ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ صدائے کن فیکون آر ہی ہے۔ نباتات سے لے کر انسانی دنیا تک ، ہر ایک اپنی آرزوئوں کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہے لیکن انسان چونکہ علم رکھتا ہے اور باشعور ہے اس لیے وہ اپنی آرزوئوں کی تنظیم کرتا ہے۔ اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو قواعد و ضوابط کا پابند کرتا ہے۔ انسان کی قوت اندھی قوت نہیں ہے بلکہ یہ قوت اخلاقی اقدار کی پابند ہے، اس لیے کہ انسان توانا ہونے کے ساتھ ساتھ دانا و بینا بھی ہے: تسلیم کی خو گر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت ، سرگرم تقاضا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہئیت چمنستاں کی یہ ہستیِ دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے۱۱ اقبال آرام و سکون اور تعطیل کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ اضطراب ، مشکلات اور عمل پیہم کی راہ دکھاتے ہیں، اس لیے کہ زندگی میں مشکلات اور خطرات کے بغیر خیر کا حصول نا ممکن ہے۔ خیر کی نشو و نما کے لیے کئی مشکل مرحلوں اور ابتلائوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ گوہر مقصود کے لیے دشت پیمائی کرنی پڑتی ہے اور خونِ جگر کو جلانا پڑتا ہے۔ شکست و ریخت اور سوز و کشید مصاف زندگی میں ناگزیر مراحل ہیں۔ فرماتے ہیں: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز سرشت اُس کی ہے مشکل کشی ، جفا طلبی مقام بست و شکست و فشار و سوز و کشید میانِ قطرئہ نیساں و آتشِ عنبی۱۲ اقبال کی توجہ کا مرکز فرد ہے ۔ فرد کی آزادی اور تعمیر و ترقی سے وہ معاشرے اور قوم کی آزادی و ترقی کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ معاشرہ اور قوم افراد سے بنتے ہیں۔ اقبال کا نصب العین مضبوط اور توانا شخصیت ہے۔ یہ شخصیت خیر کی ترجمان ، خیر کی نمائندہ اور خیر کی پرورش کرنے والی ہے۔ اس کے برعکس کمزور شخصیت شر کی طرف میلان رکھتی ہے اور وہ آسانی سے شیطان کے دھوکے میں آ جاتی ہے ۔ شیطان برائی کو مزین کر کے دکھاتا ہے اور کمزور انسان ظاہری زیب و زینت دیکھ کر اور جلد ملنے والی منفعت یا لذت کی توقع میں برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے برعکس مضبوط انسان میں خلفشار نہیں ہوتا۔ وہ حکمت اور تدبر سے کام لیتا ہے ۔اُس کی شخصیت کا استحکام اُسے شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ مضبوط ارادے والے انسان کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور اُسے نیک رویے اور نیک اعمال کی وجہ سے صبر آزما کلفتوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ ان ظاہری ناگواریوں سے نہیں گھبراتا اور ثابت قدم رہ کر کامیابی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے: وَعَسٰی اَنْ تَکْرَ ھُوْا شَیئاً وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لّکُمْ وَّعَسٰی اَنْ تُحِبُّوا شَیُئاً وَّ ھُوَ شَر’‘ لّٰکُمْ۰(۲:۲۱۶) ترجمہ : اور ہو سکتا ہے تم ایک شے کو ناگوار سمجھو لیکن وہ تمہارے لیے خیر ہو۔ ہو سکتا ہے تم ایک شے کی محبت رکھتے ہو لیکن وہ تمہارے لیے شر ہو۔ ابلیس بھی اسی قسم کی مضبوط شخصیت رکھنے والے مردِ حق پرست سے شکست کھا کر لذت حاصل کرتا ہے اور وہ فرماں پذیر بندے سے پناہ مانگتا ہے۔ صید خود صیاد را گوید بگیر الاماں از بندئہ فرماں پزیر فطرتِ او خام و عزمِ او ضعیف تا بہ یک ضربم نیارد ایں حریف بندہ باید کہ پیچد گردنم لرزہ اندازد نگاہش در تنم اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست۱۳ اقبال کے نزدیک خیر صداقت ، قوت اور روشنی ہے جبکہ شر ظلمت ، اخلاقی پستی اور کمزوری ہے ۔ شر ظاہری طور پر مزین ہوتاہے۔ اُس کی قوت کھوکھلی اور عارضی ہوتی ہے۔ آزادی ، غیرت وجسارت ، نظم و ضبط ، بلند حوصلگی ، عزیمت، رواداری ، خدمتِ خلق ، فعالیت اور تخلیقی عمل خیر کے مظاہر ہیں۔ جن افراد اور اقوام میں یہ صلاحیتیں ہوں وہ خیر کے نمائندے ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس غلامی و محکومی ، توہم پرستی، بے عملی و عزلت نشینی ، دہشت گردی و بد نظمی استعماریت ، تشدد پسندی و فرقہ واریت اور ہوسِ زر شر کے مظاہر ہیں۔ اقبا ل محکوم قوم کی فرماں پذیری اور گراوٹ کا اس طرح بیان کرتے ہیں: ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود اُن کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام۱۴ اقبال زندہ قوموں کا یہ نشان بتاتے ہیں کہ وہ اپنے عقل و شعوراور مشاہدات و تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے نئے افکار کو جنم دیتی رہتی ہیں ۔ اپنے مسائل کو حل کرتی ہیں اور انسانیت کو نئی راہوں سے روشناس کرتی ہیں۔ جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اس آبجو سے کیے بحرِ بے کراں پیدا!۱۵ اقبال انسان کو توہم پرستی ، جہالت ، ملوکیت اور اندھی تقلید سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کمزوریوں سے شرفِ انسانیت اور روشن ضمیری باقی نہیں رہتی۔ فرماتے ہیں: باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری۱۶ اقبال فرد کی شخصیت کے حوالے سے فرد کی فروگذاشتوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں بلکہ اُن کا خیال ہے کہ انسانی شخصیت میں غلطی و خطا اور تجربے کے ذریعے تادیبی عمل جاری رہتا ہے ۔ جب انسان اپنی کسی خطا یا گناہ پر نادم ہوتا ہے تو اس کی شخصیت سے شر کے اثرات زائل کر دیے جاتے ہیں ۔ اُس کا نفس لوامہ جب اسے ملامت کرتا ہے تو اس کی تعمیری قوتیں اور اس کی فطرت میں کارفرما خیر کے داعیات زیادہ سر گرم عمل ہو جاتے ہیں اور اُس کی شخصیت میں توبہ وا ِنابت کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آتی ہے اور وہ اُس کے درجات کو بلند کرتا ہے: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے۱۷ اس کے برعکس اقبال قوموں کے گناہوں کے منطقی اثرات کو غیر متبدل سمجھتے ہیں، اس لیے کہ قوم نے شر پر اتفاق کر لیا ہے اور مجموعی لحاظ سے اُس کے اکثر افراد کا عمل نا خوب ہے، اس لیے اُس قوم کے لیے بربادی لازم ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں اُن کے اپنے اعمال کا دخل ہے۔ جب کسی قوم میں بگاڑ غالب آ جائے تو وہ قوم مٹ جاتی ہے یا محکوم ہو جاتی ہے ۔ فرماتے ہیں: اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!۱۸ اقبال خیر و شر کا نتیجہ دائمی سزا و جزا کو قرار نہیں دیتے اُن کاخیال ہے کہ ارتقائے شخصیت میں جزا و سزا مراحل ہیں۔ دوزخ تادیب کا ایک عمل ہے جس کا وجود عملِ اصلاح سر انجام دینے کے بعد ختم ہو جائے گا۔ اللہ کی رحمت اُس کے غضب پر سبقت حاصل کر لے گی۔ ’’سبقت رحمتی علی غضبی‘‘ ۔ اقبال کے ذہن میں وہ قرآنی آیات تھیں جن کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کو ابدیت حاصل نہیں ہے جبکہ جنت کو ابدیت حاصل ہے ۔ سورۃ تغابن ۶۴ کی آیت ۹ اور ۱۰ میں کہا گیا: وَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہ وَ یَعْمَلُ صَالِحاً یُّکَفِّرْ عَنْہ‘ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاْ الَاْنھٰر خٰلدِیْنَ فِیھَا اَبَدً ذٰلِکَ الْفَوُزُ العَظِیْم۰ وَالذِّیْنَ کَفَرُوْا کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنا اُوْلٰئِکَ اَصْحٰبُ النّٰارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَبِئْسَ الْمَصِیْر۰ ترجمہ اور جو شخص اللہ پر ایمان لا کر نیک عمل کرے ، اللہ اُس سے اُس کی برائیاں دور کر دے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ابدلآباد تک رہے گا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ سب جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے(جب تک جہنم کا وجود ہوگا) وہ بہت براٹھکانا ہے۔ اِسی طرح سورۃ البیّنۃ میں بھی جہاں دوزخ کا ذکر ہے وہاں صرف خلدین فیھا کے الفاظ آئے ہیں۔ ابدیت صرف جنت کو حاصل ہے جہاں رحمتِ خداوندی کی نوبہ نو تجلیات کا ابدی اور لا متناہی سلسلہ ہوگا ۔ اقبال نے قرآن حکیم کے اِس نکتے کو بیان کر کے بنی نوعِ انسان کو رجائیت اور خوشی کا پیغام دیا ہے۔ اقبال اپنے خطبے بعنوان ’’خودی ، جبر وقدر اور حیات بعد الموت‘‘ میں کہتے ہیں: قرآنی آیات میں دوزخ کے بارے میں لفظ ’’خلود‘‘ کا استعمال زمانی مدت کے معانی میں کیا گیا ہے۔۔۔۔لہٰذا سیرت و کردار کی تبدیلی کے لیے بھی وقت کی ضرورت ہو گی ۔۔۔ دوزخ دراصل تادیب کا ایک عمل ہے تاکہ جو خودی پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے، وہ پھر رحمتِ خداوندی کی نسیم جان فزا کا اثر قبول کر سکے۔ لہٰذا جنت بھی عیش و آرام اور تعطل کی کوئی حالت نہیں ۔ زندگی ایک ہے اور مسلسل اور اس لیے انسان بھی اُس ذات لامتناہی کی نو بہ نو تجلیات کے لیے جس کی ہر لحظہ نئی شان ہے ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہے گا۔۔۔۔ خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے جس کا ہر عمل ایک نیا موقع پیدا کرتا ہے اور یوں اپنی خلاقی اور ایجاد طباعی کے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے۱۹۔ اقبال انسان کو نائب خدا کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کا ایک طرف یہ فریضہ ہے کہ وہ فطرت کو مسخر کرے اور دوسری طرف باہمی تعلقات میں احترامِ آدمیت کے اصول کو اختیار کرے۔ ان دونوں طریقوں سے انسان کی قوت اور اقتدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی خودی مضبوط ہوتی ہے اور وہ خالق حقیقی کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ تسخیر فطرت کے ذریعے انسان نو امیس وقوانین فطرت کی آگہی حاصل کرتا ہے اور تخلیق کے رازوں سے آشنا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک انداز ہے قربِ خداوندی کا۔ طبیعیاتی علوم میں ترقی کا نصب العین انسان کی آزادی اور اُس کی خوشحالی و بہتری ہونا چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ سائنسی ایجادات واختراعات کو انسانی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال کیا جائے۔ اگر سائنسی ترقیاں انسان کو مشین کا غلام کر دیں اور اُسے مادیت کا اسیر کر دیں تو اُس کا باطن روشن نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف جو قوم سعی و عمل سے غافل ہو جائے اور وہ تسخیرِ فطرت کے علوم سے بے بہرہ ہو، وہ کار گاہِ حیات میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے بلکہ طاقتور قوموں کی غلام بن جاتی ہے۔ اقبال اس طرف اشارہ کرتے ہیں: خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلاے جذام خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام۲۰ اقبال انسان کو قوی اور نیک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا پیغام کہ انسان ظاہری اور باطنی قوت حاصل کرے اور اسی طرح معاشرے بھی قوی ہوں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آزادی ، اچھائی کے لیے بنیادی شرط ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوت کے حصول اور استعمال میں کیا اصول کار فرما ہونا چاہیے۔ اقبال ایک بنیادی اصول کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور وہ ہے احترام آدمیت کا اصول ، جب انسان ایک دوسرے کے حقوق کا پاس کریں گے اور وہ بقائے باہمی پر یقین و عمل کر کے ایک عالمگیر برادری کی حیثیت سے آگے بڑھیں گے تو وہ خیر کے راستوں پر چل رہے ہوں گے۔ انسانی اخوت اور احترامِ انسان کے اصولوں پر عمل کر کے ابلیس کے ارادوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور ان اصولوں ہی میں انسانیت کی بقا اور بھلائی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: اعمال کی غایت نہ تو لطف و حظ ہے اور نہ کرب و درد ۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا خودی کی تحلیل باعث بنتے ہیں ۔ یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے، عمل پر موقوف ہے۔ خودی کو وہی اعمال برقرار رکھیں گے جن کی بناء اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیازِ من و تو خودی کا احترام کریں۔۲۱۔ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں: حرفِ بد را بر لب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلقِ خدا است! آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی! آدمی از ربط و ضبط تن بہ تن بر طریقِ دوستی گامے بزن! بندئہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق!۲۲ خ خ خ حواشی ۱۔ وِل ڈیورنٹ ، داستانِ فلسفہ (مترجم، سید عابد علی عابد) فکشن ہائوس ،لاہور ، ۱۹۹۵ئ، ص ۳۵۰،۳۵۱۔ ۲۔ ’’کلیات اقبال ، اردو (بانگ درا) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، ۲۰۰۰ء ، ص ۱۳۳۔ ۳۔ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought شیخ محمد اشرف ، لاہور ، ۱۹۸۲ء ، ص ۸۶۔۸۷ ۴۔ ایضاً ، ص ۸۶ ۵۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ اردو (بال جبریل) ، ص ۴۷۳۔ ۶۔ محمد اقبال ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتب : سید عبدالواحد)آئینہ ادب ، ۱۹۸۸ء ص ۳۱۱۔ ۷۔ محمد اقبال ’’شذرات فکرِ اقبال‘‘ (مترجم : افتخار احمد صدیقی) بزم اقبال ، لاہور ، ۱۹۷۳ء ، ص ۷۶۔۷۸۔ ۸۔ ’’کلیات اقبال‘‘ اردو (ضرب کلیم ) ، ص ۵۹۳۔ ۹ ۔ ایضاً ، ص ۶۱۲۔ ۱۰۔ ’’کلیات اقبال‘‘ ، فارسی (اسرارو رموز) شیخ غلام علی، لاہور ، ۱۹۷۳ء ، ص ۱۵۔ ۱۱۔ ’’کلیات اقبال‘‘ اردو (بانگ درا) ، ص ۱۹۰۔ ۱۲۔ ایضاً ، ص ۲۳۵۔ ۱۳۔ ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، فارسی (جاوید نامہ) ، ص ۷۲۵۔۷۲۶۔ ۱۴۔ ’’کلیاتِ اقبال‘‘اردو (ارمغان حجاز) ، ص ۷۰۲۔ ۱۵۔ ’’کلیات اقبال‘‘ اردو(ضرب کلیم) ، ص ۶۱۳۔ ۱۶۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ اردو (ارمغان حجاز) ، ۷۲۷۔ ۱۷۔ ’’باقیات اقبال (مرتب: سید عبدالواحد معینی و محمد عبداللہ قریشی) آئینہ ادب ، لاہور، ۱۹۷۸ء ، ص ۳۸۹۔ ۱۸۔ ’’کلیا تِ اقبال‘‘اردو (ضرب کلیم) ، ص۵۹۹۔ ۱۹۔ The Reconstruction of Religious Thought ، ص ۱۹ ۲۰۔ ’’کلیات اقبال‘‘ اردو (ضرب کلیم) ، ص ۵۹۳۔۵۹۴ ۲۱۔ The Reconstruction of Religious Thought ، ص ۱۲۳ ۲۲۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ ، فارسی (جاوید نامہ) ، ص ۷۹۳  ڈاکٹر محمد منصور عالم متشابہاتِ اقبال متشابہات سے ہمارا ذہن محکمات کی طرف جاتا ہے۔ یہ الفاظ قرآن مجید میں ایک دوسرے کی ضد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ ھُوالِّذیٰٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الکتٰبَ مِنْہُ آیٰتُٗ مُحْکَمٰتُٗ ھُنّٰ اُمُّ الکِتٰب وَ اُخَرْ مُتَشبٰھت’‘ط فَاَمَّا الَّذیْنَ فِیْ قُلوُْ بِھِمْ زَیْغ’‘فَیَتَّبعُوْنَ مَاتَشَا بَہِ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفتُنۃِ وَ ابْتِغَآئَ تاوِیْلِہٖ ج(۳:۷) ترجمہ : وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ، جس کی بعض آیات محکم ہیں ، اور وہی اصل کتاب ہیں۔ اور بعض آیات متشابہ ہیں ۔ تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ، وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مُرادِ اصلی کا پتا لگائیں۔ محکمات وہ آیتیں ہیں جن کا مفہوم واضح متعین اور غیر مشتبہ ہے۔ ان میں تاویلات کی گنجائش نہیں۔ ان کی زبان ایسی صاف اور واضح ہوتی ہے کہ ہمیں مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ۔ لیکن متشابہات میں سنگِ مفہوم بھاری اور ناتراشیدہ ہوتا ہے۔ اسے اٹھانے اور صحیح جگہ پر رکھنے کے لیے راسخ علم اور ذہنی رسا کی ضرورت ہے متشابہات میں خدا کا واقعی کیا منشا ہے، کون جانے۔ لیکن علم راسخ اور ذہن رسا رکھنے والے حضرات متشابہات کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، ان میں الجھتے نہیں، ان کے پیچھے نہیں پڑتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ متشابہات وہ آیتیں ہیں جو مُشتبہ المراد ہیں۔ اس اشتباہ مفہوم کی وجہ انداز بیان ہے ۔ حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس لفظ کی تفسیر لکھتے ہوئے وضاحت کی ہے: جو چیز یں انسان کے حواس سے ماورا ہیں جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں نہ آ سکتی ہیں ، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا ، نہ چھوا نہ چکھا ، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اِنھی کے لیے وضع کئے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھینچ جائے جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زباں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔ اس وضاحت سے چند ایسے نکات سامنے آتے ہیں جن کی ہماری ادبی گفتگو اور اسلوبی بحث میں بڑی اہمیت ہے۔ ۱۔ جب ایسے مضامین کو موضوع گفتگو بنانا مقصود ہو جو مخاطب کے لیے نامعلوم یا نامحسوس ہوں تو اسلوب وہ اختیار کرنا پڑے گا جو مماثل محسوس موضوعات کے پیرایۂ بیان سے قریب تر ہو یا موزوں تمثیل کے ذریعے قریب کر دیا گیا ہو۔ اس سے ابلاغ کا مقصد ظاہر ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخاطب اس کا مفہوم متعین کر ہی لے کیونکہ عام طور پر اس کی دانش کی گرفت میں پوری صورت حال نہیں ہوتی۔ اس کا ذہن جتنا رسا ہو گا اور قوت سخن فہمی جتنی زندہ اور راست رو ہو گی، اتنا ہی وہ قائل کے مافی الضمیر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگا اور متشابہات روشن ہو کر محکمات میں شامل ہوں گے۔ ۲۔ خود قائل موضوع سے پوری طرح واقف نہ ہو تو اس پر محکمات کی طرح اظہار خیال تقریباً ناممکن ہے۔ موضوع نامحسوس یا نا معلوم ہو تو اسلوب لامحالہ نامانوس ہو جائے گا۔ اور نتائج قبیح متشابہات کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ اسے آپ یو ں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موضوع معلوم و محسوس ہو تو وہ فطری طور پر معروف اسلوب بیان کی طرف جھکتا ہے۔ موضوع سے آشنائی اور اس سے مختلف پہلوئوں پر گرفت کے باوجود اسلوب بیان اجنبی رہا تو یہ نقصِ اسلوب ہے۔ اسلوب کا تہ دار ہونا ایک بات ہے اور اس کا اجنبی یا غیر معروف ہوجانا دوسری بات ہے۔ اسلوب کی تہہ داری عیب نہیں کیونکہ یہ دراصل انسان گویا کہ قدرتِ کلام، موضوع سے گہری واقفیت ، موضوع سے موضوعات پیدا کرنے کی صفت اور ذہنوں کو نئی سمتوں میں لے جانے کے حوصلے کی طرف اشارے کرتی ہے۔ ادب میں جسے ہم ابہام کہتے ہیں اور جس ابہام کو جوہر شعر سمجھتے ہیں ، وہ یہی تہہ داری ہے۔ ورنہ محض نامانوسیت عرض ہنر نہیں۔ یہ تہہ داری موضوع اور اسلوب دونوں کے جذباتی ، راغبانہ اور تشفی بخش اتصال سے عالم وجود میں آتی ہے۔ اس تہہ داری کی حامل تخلیقات کو میں متشابہات کے ذیل میں رکھتا ہوں۔ یہ فن کے اعلیٰ اور عمدہ نمونے ہوتے ہیں ۔ تہہ داری کوششِ خام اور جاہلانہ ہے تو نتیجہ مہمل ہے، پختہ اور خلاقانہ ہے تو وہ متشابہ ہے۔ ۳ ۔ متشابہات کی تخلیق ایک نہایت مشکل مرحلہ ہے۔ اسے وہی لوگ طے کر سکتے ہیں جو مختلف علوم و فنون کا وسیع علم، کائنات کے عناصر و مظاہر کا باریک مشاہدہ اور مختلف حالات کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں اور اپنے احساسات و جذبات کو ان کے پس منظر میں پیکری نقوش عطا کرنے پر قادر ہیں۔ اس صورت میں جو متشابہات خلق ہوں گے، وہ خلاق کی عظمت و قدرت کے بین دلیل ہوں گے کیونکہ ان میں فکر و دانش، ذہنی رسائی اور مرصع نقش کاری کی تلاطم خیز موجیں ہوں گی ۔ مگر ان میں معنوی خلش اور خلا بھی ضرور ہو گا۔ ۴ ۔ ہم خالق کو نہیں کہہ سکتے کہ تونے متشابہات کا سہارا کیوں لیا۔ صرف محکمات ہی پر قناعت کیوں نہ کی۔ کیونکہ ان سے ہماری فہم آزمائش میں مبتلا ہو گی تو اسے خلجان کا شکارہونا پڑے گا! نہیں یہ سراسر سامع یا قاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ متشابہات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ان کے خلا کو پر کرکے خلش کو دور کرنا فقط اس کا کام ہے۔ دراصل یہ صورت ذہنی بالیدگی ، فکری رسائی اور اعجاز فن اور عجائبات حسن سے لطف اندوزی کے لیے بہت موزوں اور نافع ہوتی ہے۔ ۵۔ متشابہات کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے ، معنی پر نہیں۔ معنی خواہ کیسے ہی ادق اور اجنبی ہوں ، اگر ان پر غور و فکر کیا گیا ہے ، ان کے موضوعی نشیب و فراز اور حدو و و سعت کو سمجھا گیا ہے تو قادر الکلامی کا تقاضا یہ ہے کہ الفاظ ان کا ساتھ دیں اور موزوں پیراے میں ان کی ترسیل کریں۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ ترسیل کے باوجود وہ محکم نہ ہو سکیں ، متشابہہ کے زمرے میں چلے جائیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب مماثل پیرانہ بیان سے متواتر کام لیا گیا ہو۔ متشابہہ اور مشابہ کا مادہ تو ایک ہی ہے۔ مگر متشابہ غیر محکم اور غیر واضح کے معنی رکھتا ہے اور مشابہ میں مماثلت کے معنی ہیں جیسے کسی شے کے بارے میں کہا جائے کہ وہ فلاں شے کی طرح ہے ، اُس جیسی ہے وغیرہ۔ بعض مفسرین کے نزدیک خود متشابہ بھی مشابہ کا ہم معنی ہے۔ اس سلسلے میں تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ محکم اور متشا بہ کے بہت سے معنی سلف سے منقول ہیں۔۔۔ حضرت مجاہدؒ کا قول ہے کہ یہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں جیسے ایک جگہ ہے ۔ ’’کِتَاباً مُّتَشَابِھاً مَّثَانِی ‘‘ ۔ اور یہ بھی مذکور ہے کہ وہ کلام ہے جو ایک ہی طرز کے ماتحت ہو اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل چیزوں کا ذکر ہو۔ (محکمات و متشابہات کی تفسیر میں ۔ پارہ ۳ ۔ رکوع ۹) حضرت ابن کثیرؒ نے سلف کے اقوال نقل کرنے کے بعد اپنا خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ: ’’اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں ہے‘‘ لیکن میں اپنے موضوع کی وضاحت کے لیے متشابہ میں کلام کی ہم طرزی کو فراموش نہیں کروں گا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک وجہ تو سلف کا قول ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ۔ دوسری اہم وجہ خود کلام اللہ ہے۔ قرآن میں تشابہ ، اشتباہ اور مشابہت ، دونوں مفہوموں میں استعمال ہوا ہے۔ اشتباہ موضوعی اور اسلوبی دونوں طرح سے ہوتا ہے۔ مشابہت کی کوشش ہی سے معنوی یاصوری اشتباہ ہوتے ہیں۔ ۶۔ متشابہات سے طرز خاص کا تعین ہوتا ہے۔ بعض الفاظ ، ترکیبیں ، تلازمے اور فقرے تو اتر سے استعمال ہوں تو وہ گو بالکل نئے ہی کیوں نہ ہوں ، اپنا پس منظر بنا لتے ہیں۔ سامع یا قاری یہ سمجھنے لگتا ہے کہ انشاپرداز کی فکر فلاں نہج پر زیادہ چلتی ہے یا فلاں موضوع پر وہ زیادہ سوچتا ہے یا کسی خاص موضوع کو ادا کرنے کے لیے چند نقوش بطور خاص مرتب کرتا ہے۔ اس طرح اس کی جنابت خیال بھی دور ہوتی ہے اور اسلوبی شناخت بھی ہوتی ہے۔ اب آئیے ۔ اس پس منظر میں کلام اقبال کے چند متشابہات معنوی و لفظی پر نظر ڈالیں ۔ مسجد قرطبہ کے دو اشعار یہ ہیں: اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام شعر اوّل پڑھنے کے بعد ذہن قرآن کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ سورہ رحمن میں ہے: کُلُّ عَلَیْھَا فَانٍ وَّ یَبْقیٰ وَجُہُ رَبَّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَاَم۰ مگر اقبال اس شعر کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ بقا صرف اللہ کو ہے ۔ مسجد قرطبہ کے سیاق و سباق میں وہ بالکل دوسری ہی بات کہہ جاتے ہیں ۔ یعنی ہر نقش کو فنا ہے مگر جِس نقش کو کس مرد خدا نے بنایا ہے، اسے فنا نہیں۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ’’ ھُوالاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الُبَاطِن‘‘ تو خاص خدا کی صفت ہے۔ اقبال نے اوّل و آخر کے الفاظ دوسری جگہ سرکار دو عالم ﷺ کے لیے بھی استعمال کئے ہیں: نگاہ عشق و مستی میں ، وہی اوّل وہی آخر یہاں ’’نگاہ عشق و مستی‘‘ کی تخصیص بھی ضروری نہ تھی۔ رسالت کی حیثیت سے یہ عالمی اور دائمی صداقت ہے۔ اسے شریعت بھی تسلیم کرتی ہے اور طریقت بھی۔ اگر ’’نگاہ عشق و مستی‘‘ سے وہ راہ مراد لی جائے جس کے سالک حبیب خدا کو خدا کہہ بیٹھتے ہیں تو یہ اقبال کا مسلک نہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال مسجد قرطبہ کے اشعار زیر بحث میں اوّل و آخر اور ظاہر و باطن استعمال کرتے وقت سورئہ الحدید (پارہ ۲۷) کی ابتدائی آیتوں کو فراموش کر گئے تھے ۔ اس لیے ایسی متناقص بات کہہ گئے تو یہ میرے نزدیک قابل تسلیم نہیںہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان چاروں خصوصی الفاظ کو مصرع ہذا میں لاتے وقت اقبال کا ذہن آیت قرآنی سے خالی نہ رہا ہو گا۔ مگر یہاں ان کی روش شعری تکفیر کی ہے۔ یہ لا دراصل اِلاَّ کو ثابت کرتا ہے جو شعر دوم سے ظاہر ہے۔ اور معنوی اشتباہ ، خلا پیمائی سے دور ہو جاتا ہے۔ ہمیں مصرعے کو تنہا کر کے نہیں دیکھنا جاہییٔ۔ مصرع دوم میں ’’نقش کہن ہو کہ نو‘‘ موجود ہے جو اقبال کے منشا کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے اوّل و آخر اور ظاہر و باطن کو فنا ہے مگر اس دنیا کے جو نقوش مرد خدا کے ہاتھوں انجام پائے ہیں ، انہیں فنا نہیں ہے۔ یہ مفہوم اقبال کے فلسفۂ زمان و مکان سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے: حسنِ ازل کی ہے نمود و چاک ہے پردئہ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں یہ شعر’’ ذوق و شوق‘‘ سے ماخوذ ہے جو اردو کی بہترین نعتیہ نظموں میں سے ایک ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں: اس مصرع (مصرع دوم) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک نگاہ مصروفِ نظارہ رہتی ہے، بصیرت (دل کی قوت) مضمحل رہتی ہے۔۔۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دل کی ترقی کے لیے نگاہ کو نظارہ سے محروم کرنا بہت ضروری ہے۔ (شرح بال جبریل) مجھے شک ہے کہ اقبال کے مافی الضمیر میںیہ مفہوم رہا ہو گا ۔ چشتی نے جس طرح سے معنی کا بند کھولا ، ہم ذوق نظارہ رکھ کے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ اس شعر سے ٹھیک پہلے نظم کا افتتاحی شعر یہ ہے : قلب و نظر کی زندگی ، دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندّیاں رواں یہ منظر تقاضا کرتا ہے کہ نگاہ کو نظارے سے محروم نہ کیا جائے۔ ورنہ پورے بند کی معنویت ختم ہو جائے گی۔ دراصل چشتی صاحب کو تشابۂ معنوی ’’نگاہ کا زیاں‘‘ سے ہوا ہے ۔ اقبال کی فن کاری نے ایسی گرہ لگائی ہے جو تہہ دار و پرُ معنی ہے۔۔۔ ’’نگاہ کا زیاں‘‘ ۔۔۔ ایک ’’نگاہ‘‘ نہیں دیکھا تو گویا ایک نگاہ کا نقصان ہوا ۔ یعنی اسے ہم چشم بندی کے معنی میں لیں تو وہ مفہوم ہوگا جو یوسف صاحب نے بیان کیا ہے اور اگر اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ ایک نگاہ دیکھا تو گویا ایک نگاہ برباد کی ۔ نہ دیکھتا تو وہ بچی رہتی ، ہمیں ایک نگاہ کا نقصان نہ ہوتا۔ تو اس صورت میں مصرع کا معنی یہ ہوگا کہ اگر ایک نگاہ اٹھا کر دیکھ لو یا ایک نگاہ کا نقصان ہو تو دل کو ہزار فائدے ہوں گے ۔ اقبال کی شاعری کے پس منظر میں میں اس مفہوم کو زیادہ قرین قیاس سمجھتا ہوں۔ کیونکہ اقبال چشم و گوش و لب بندی کو اختر عاتِ اقوام مغلوبہ میں سے سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’اسرار خودی‘‘ کی حکایت ’’مسئلہ نفی خودی از مخترعات اقوامِ مغلوبۂ بنی نوع انسان کا یہ شعر: چشم بند و گوش بند و لب بہ بند تا رسد فکرِ تو بر چرخِ بلند اسی مثنوی میں در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰ یہ شعر ملتا ہے: چشم و گوش و لب کشا اے ہوشمند گر نہ بینی راہ حق بر من نجند یہی اقبال کا اصل خیال ہے۔ شعر زیر بحث کی رعایتیں بھی ہمیں بھلا وے میں پڑنے سے بچاتی ہیں۔ حسن ۔۔۔۔ دل ۔۔۔ نگاہ ۔۔۔ نمود ۔۔۔ چاک ہے پردئہ وجود ۔ ہزار ۔۔ ۔ ایک سود ۔۔۔۔ زیاں۔ کی ۔۔۔۔ کا ۔ ازل ۔۔۔ وجود ۔ زیادہ رعایتیں ہمیں آمادئہ نگاہ کرتی ہیں ۔ اس لیے دل کے لیے سود مند غنچہ نظری نہیں، ارتکابِ نگاہ ہے۔ اقبال کی شاعری میں متشابہاتِ معنوی کی مثالیں بھی بہت ہیں ۔ مثلاً یہ مشہور شعر دیکھیے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اس میں ’’نرگس کی بے نوری‘‘ اشتباہِ مفہوم کی وجہ ہے اور یہ شعر : محمد بھی ترا ، قرآن بھی، جبریل بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا اس میں تشابہ کی وجہ ’’حرفِ شیریں‘‘ ہے۔ زیادہ مثالوں کی یہاں گنجائش نہیں۔ اب چند لفظی تشابہات پر بھی نظر ڈالیے: (۱) ابلیس کی مجلس شوریٰ’’ارمغان حجاز ‘‘ اردو میں تیسرا مشیر ایک شعر میں کہتا ہے۔ وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب یہاں کارل مارکس کی طرف اشارہ ہے۔اقبال نے مصرع دوم کے ایک رکن (فاعلائن) کم کر کے اس مصرع کو ’’پیام مشرق‘‘ میں گوئٹے کے لیے بھی کہا ہے۔ نظم ہے ’’جلال و گوئٹے‘‘ شعر سماعت فرمائیے: شاعرے کو ہمچوآں عالی جناب نیست پیغمبر ولے دارد کتاب میں نے یہ مصرع ایک جگہ پڑھا تو حاضرین چونک کر ہوشیار ہو گئے۔انہوں نے مجھے کم خواں جانا۔ کیونکہ ان کے ذہن میں صرف مصرعِ مشیر سوم ہی تھا۔ (۲) ’’پیام مشرق‘‘ کی نظم اوّل کے پانچویں بند میں ایک شعر ہے: گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر اس کے بعد یہ شعر ہے: سیّد کل، صاحب اُم الکتاب پرد گیہا برضمیرش بے حجاب لیکن ’’جاوید نامہ‘‘ میں ’’محکماتِ عالم قرآنی‘‘ کے تحت نظم چہارم بعنوان ’’حکمت خیر کثیر است‘‘ ہے۔ اس کا پہلا شعر وہی ہے جو اوپر پہلے درج ہوا ۔ لیکن اس کے بعد بالکل ہی دوسرا شعر ہے: علم حرف وصوت را شہپر دہد پاکیٔ گوہر بہ ناگوہر دہد جو حضرات شعر خوانی کے شائق ہیں، انھیں تسلسل شعر کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ (۳) ’’جاوید نامہ‘‘ میں حلاج ابلیس کے بارے میں ہدایت کرتا ہے: کم بگو زاں خواجۂ اہل فراق تشنہ کام و از ازل خونیں ایاق لیکن جب آگے خواجہ اہل فراق (ابلیس) نمودار ہوتا ہے تو: گفت رومی خواجۂ اہل فراق آں سراپا سوز و آں خونیں ایاق حلاج و رومی کے فرقِ بیان کو ملحوظ رکھیے، ورنہ ممکن ہے کہ ان شعروں کے مصرعے آپ کے حافظے کی مدد سے کوئی سازش کر بیٹھیں۔ (۴) ’’زبور عجم ‘‘ نمبر ۴۵ اور ’’جاوید نامہ ‘‘ میں بعنوان ’’نغمہ ملائک‘‘ کے تحت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ زبور عجم جاوید نامہ فروغ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے فروغ مشت خاک از نوریاں افزوں شود روزے زمیں از کوکبِ تقدیر ما گردوں شود روزے زمیں از کوکب تقدیر او گردوں شود روزے خیالِ ماکہ او را پرورش دادند طوفانہا خیال او کہ از سیلِ حوادث پرورش گیرد ز گرداب سپہرِ نیلگوں بیروں شود روزے ز گرداب سپہر نیلگوں بیرون شود روزے یکی در معنی آدم نگر ، از من چہ می پرسی یکی در معنیٔ آدم نگر از ما چہ می پرسی ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے ہنو زاندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے یہاں خود شاعر کو تشابہ ہوا ہے ۔ طبع موزوں مشابہتوں سے مغالطے خوب کھاتی ہے۔ اس کی وافر مثالیں مولانا ابوالکلام آزاد ’’غبار خاطر ‘‘ میں فراہم کرتے ہیں۔ (۵) ’’اسرار خودی‘‘ (مرحلۂ دوم ، ضبط نفس) میں یہ شعر ہے ۔ امتزاج ما و طیں تن پرور است کشتۂ فحشا ہلاک منکر است چند شعروں کے بعد ایک شعر ایسا آیا ہے جس کا مصرع دوم مذکورہ بالا مصرع دوم سے مشابہت رکھتا ہے۔ در کفِ مسلم مثالِ خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است (۶) ’’اسرار خودی‘‘ (خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد) میں مدینہ طیبہ کی تعریف کرتے ہوئے اقبال نے یہ شعر لکھا ہے۔ خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است لیکن ’’رموزبیخودی ‘‘ میں ’’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمتہ اللعالمین ؐ ‘‘کے تحت مدینہ طیبہ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ فرخا شہرے کہ تو بودی درآں اے خنک خاکے کہ آسودی درآں حافظہ ہوشیار رہے۔ دونوں شعروں کے مصرع دوم کے الفاظ ’’شہرے‘‘ اور ’’خاکے‘‘ اپنے مقام بدل دیں تو وزن میں کوئی فرق نہ آئے گا مگر شعر کے مزاج پر اثر پڑ جائے گا۔ (۷) ’’اسرار خودی‘‘ (چوں خودی از عشق ، محبت محکم میگیرد قوائے ظاہرہ و مخفیۂ نظامِ عالم را مسخر می سازد) میں حضرت بو علی قلندرؒ کا حوالہ آیا ہے۔ با تو می گوئم حدیث بوعلی در سوادِ ہُنر نام او جلی آں نوا پیراے گلزار کہن گفت با ما از گل رعنا سخن شعر آخر میں بو علی کے ایک شعر کی طرف اشارہ ہے۔ وہ شعر یہ ہے: مرحبا اے بلبل باغ کہن از گل رعنا بگو با ما سخن شعر اقبال میں اس کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ حافظہ ایک مصرع اقبال کا اور ایک مصرع بوعلی قلندرؒ کا محفوظ کر لے۔’’ گلزار کہن ‘‘اور ’’باغ کہن‘‘کے لفظی فرق کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ (۸) ’’اسرا ر خودی‘‘ (اندر ز میر نجات نقشبند معروف بہ بابائے صحرائی) میں ایک شعر ہے : پاے خویش از مکبتم بیروں گذار قیل و قال است ایں ترا باوی چہ کار چند شعروں کے بعد ایک شعر میں مصرع دوم بادنی تغیر پھر آیا ہے۔ وہ یہ ہے: گفت شیخ اے مسلم زنّار دار ذوق و حال است ایں ترا باوی چہ کار مصرع دوم کا تشابہ ظاہر ہے ۔ ’’قیل و قال ‘‘ والے شعر کے بعد یہ شعر ہے: قال ما از فہم تو بالا تر است شیشۂ ادراک را روشن گر است مصرع ’’اوّل‘‘ ’’ذوق و حال‘‘ والے شعر کے بعد بادنیٰ تغیر پھر آیا ہے: حال ما از فکر تو بالا تر است شعلۂ ما کیمیائے احمر است غضب ہے، تشابہ کیا ظلم ڈھاتا ہے۔ حافظہ کیا کرے۔ حال و قال کے چکر میں مصرع مکان بدل ہی دیتا ہے۔ (۹) گستاخی معاف ہو، ایک چھوٹا سا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا اقبال کے یہاں عروج آدم خاکی سے انجم صرف سہمتے ہیں؟ ’’بال جبرل‘‘ میں سلسلۂ اوّل کی غزل نمبر ۶ کا آخری شعر ضرور آپ کو یاد ہو گا: عروج آدم خالی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے جو اب کے لیے سلسلۂ دوم کی غزل نمبر ۴۶ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔ عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں ، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک ’’عروج آدم خاکی‘‘ دونوں جگہ ہے۔ لیکن پہلے ستارے عروج سے خائف تھے۔ اب یہ عروج کے منتظر ہیں۔ (۱۰) ’’بال جبریل‘‘ سلسلۂ دوم کی غزلوں میں (پہلی غزل حصہ سوم) ایک مصرع ہے: غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا یہ مصرع نسبتاً زیادہ مشہور ہے۔ لیکن اس سے مشابہ ایک اور مصرع ہے۔ ملاحظہ ہو ’’ارمغان حجاز‘‘ میں نظم بعنوان ’’مسعود مرحوم‘‘ کا مصرعِ ذیل: غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال (۱۱) ’’ساقی نامہ‘‘، ’’بال جبریل‘‘میں ایک مصرع ہے: ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ’’ارمغان حجاز‘‘ (اردو) میں ’’مُلا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ کے زیر عنوان جو نظمیں لکھی گئی ہیں، ان میں نظم نمبر ۱۲ کا یہ مصرع دیکھیے: ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک (۱۲) ’’ارمغان حجاز‘‘ (اردو) میں اِسی عنوان کے تحت نظم نمبر ۱۹ کے شعر اوّل کا مصرع اوّل یہ ہے۔ غریب شہر ہوں، سن تولے مری فرباد اور ’’بال جبریل‘‘ میں شروع کی چوتھی غزل کے مطلع کا مصرع اوّل یہ ہے۔ اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد تشابہ ظاہر ہے۔ (۱۳) اچھا، صاحب! بھیس بدلنا صحیح ہے یا بھیس بنانا ؟ ’’بال جبریل‘‘ سلسلۂ دوم کی غزل نمبر ۳۹ میں ایک شعر ہے۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم یہ شعر تقریباً زبان زد ہے۔ لیکن میں شاہد ہوں کہ کئی اصحابِ علم کی زباں پر مصرع اوّل یوں ہے: عقل عبار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے اقبال نے بھیس بدلنا بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن یہاں نہیں ،’’ضرب کلیم‘‘ میں نظم ’’نماز‘‘ پڑھیے ۔ شعر یہ ہے: بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات تو ثابت ہوا کہ بھیس بدلنا اور بھیس بنانا دونوں صحیح ہے۔ (۱۴) ’’بانگ درا‘‘ آخری حصہ کی غزلیات میں تیسری غزل کا مطلع ہے۔ نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور زرا تھام ابھی اسی قافیے اور ردیف میں ’’بال جبریل‘‘ میں ’’’فرشتوں کا گیت‘‘ ہے۔ عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا ، نقش ہے ناتمام ابھی غزل کی بحر رمل مثمن مخبون مقطوع (فاعلا تن فعلاتن فعلا تن فعلن) ہے۔ اور ’’گیت ‘‘ رجز مثہمن مطوی مخبون (مفتعلن ، مفاعلن ، مفتعلن مفاعلن) میں لکھا گیا ہے۔ ردیف و قوافی کی یکسا نیت سے مجھے شبہ ہوا کہ کہیں بحر رمل میں ڈال کے بحر ہزج تو نہیں چلے گئے ؟نہیں نہیں، یہ بحر رجز ہے۔ (۱۵) ’’ارمغان حجاز‘‘ (ارود) کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ایک مصرع ہے۔ الحذر ! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر! اسی مجموعے میں نظم ’’عالمِ برزخ‘‘ کا ایک مصرع ہے۔ الحذر ! محکوم کی میت سے سوبار الحذر! اور آپ کو خواجہ الطاف حسین حالی کا مصرع یاد آتا ہو گا۔ الحذر ! اس فقر و ناداری سے سو بار الحذر ! میں نے گذشتہ سطور میں لکھا تھا کہ طبعِ موزوں مشابہتوں سے مغالطے خوب کھاتی ہے۔ اقبال کے یہاں ایک دو مثالیں ایسی ملاحظہ فرمائیے جن سے یہ معلوم ہو گا کہ ان کی موزوئی متشابہت خوب خلق کرتی ہے۔ (۱۶) ’’بانگ درا‘‘’’ اسیری‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے ۔ اس کے آخر میں حافظ کا شعر یوں لکھا ہے: شہپرِ زاغ و زغن در بند قید و صید نیست ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ ماند لیکن یہ شعر ’’دیوان حافظ‘‘(سب رنگ ، کتاب گھر، دلی) میں اس طرح ہے: شہپرِ زاغ و زغن زیباے صید و قید نیست کایں کرامت ہمرہِ شہباز و شاہیں کردہ اند اسی طرح ’’بانگ درا‘‘ میں ہی ’’در یوزہ خلافت‘‘ کے عنوان سے جو نظم ہے۔ اس کے آخر میں بھی حافظ کا شعر ہے۔ مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی لیکن یہ یہ شعر بھی ’’دیوان حافظ‘‘ میں بتخیر نظر آیا۔ دل خستہ من گرش ہمتے نیست نخواہد ز سنگیںدلاں مومیائی ان شعروں میں شاعر کی موزوئی طبع نے قارئین کو متشابہات سے دو چار کیا ہے۔ مثالیں اور بھی ہیں۔ اس مقالے میں ان کا استحصاء مقصد نہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اقبال کی شاعری میں معنوی اور لفظی دونوں طرح کے متشابہات موجود ہیں۔ ابھی دوسرے شعرا بالخصوص میر اور غالب اور انیس اور شاد کے متشابہات کا مطالعہ باقی ہے۔ اس لیے یہاں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ہاں اقبال سے زیادہ متشابہات ہیں یا کم ۔ میرا خیال ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ متشابہات کا وجود کسی شاعر کا عیب نہیں بلکہ یہ اس کی شعری عظمت کی دلیل ہیں ۔ ہاں مگر وہ ایسے معمے نہ ہوں کہ انسانی عقل انھیں حل کرنے سے قاصر رہ جائے۔ میںمتشابہات کو شاعر کی انفرادیت ، عظمت اور شناخت کا ایک پیمانہ سمجھتا ہوں۔ اقبال کے متشابہات وسیع علمیت اور غائر محیط فکر کا پتا دیتے ہیں۔ انہوں نے اکثر ایسے موضوعات پر لکھا ہے، جو ان کے لیے تو معلوم و محسوس ہیں مگر مخاطب ان سے کم آشنا ہے۔ لازماًانھیں ایسا اسلوب اختیار کرنا پڑا ہے جس سے خیال کا موزوں ابلاغ ہو سکے۔ ایسا کہیں نہیں ہے کہ شاعر بھی اپنے موضوع سے پوری طرح واقف نہیں۔ نہیں ، وہ تو اپنے موضوع پر حاوی ہے۔ اس وجہ سے اکثر و بیشتر محکمات کی طرح ان پر روشنی ڈالتا ہے۔ مگر اس کی پختہ فکر اور خلاقانہ حس اسے متشابہات کی تخلیق پر مائل کر دیتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اقبال کے متشابہات میں محکمات سے زیادہ شعریت ہے۔ مثلاً پہلے یہ شعر پڑھیے: کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچے گرد یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغز آشفتہ ہو! اب اس کے مقابلے میں یہ شعر دیکھیے۔ فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار شاید آپ کہیں کہ یہ شعر متشابہات میںکیسے شامل ہو گیا؟ میر ا جواب یہ ہو گا کہ اس کا اسلوب معنی کو مزین بھی کرتا ہے، پیچ دار بھی بناتا ہے اور حرکی پیکر میں منقش بھی کرتا ہے ۔ مرغزار و جوئبار کو تو ہم کانپتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن کوہسار میں جنبش نہیں۔ کوہسار کی وجہ سے معنی میں اشتباہ ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم مرغزار، جوئبار کے ساتھ جنبش کوہسار کو تسلیم کر لیتے ہیں کیونکہ شعری خلا سے گزرنا ہمارا یعنی قاری کا ہی کام ہے۔اس مقام پر یہ کہنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ شعری خلا بھی عیب نہیں اور یہ زیادہ تر آفریدئہ اسلوب ہی ہوتا ہے۔ اس لیے متشابہات کی نمود میں شعری صنعتوں ، تمثیلوں اور علامتوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ دو ایک اشعار اور ملاحظہ ہوں: سرور و سوز میں ناپائیدار ہے ورنہ مئے فرنگ کا تہہ جرعہ بھی نہیں نا صاف یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا اقبال متشابہات کے ذریعے محکمات کی تشکیل میں مدد لیتے ہیں۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ متشابہات روشن ہو کر محکمات میں اس وقت داخل ہوتے ہیں جب معروف پیرایۂ بیان اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سے میری مراد صنعت ، تمثیل اور علامت کا ایسا استعمال ہے جو خیال، احساس یا جذبہ کو پیکری نقش عطا کرے اور اس کی بہتر تفہیم کے لیے لفظوں کو راہ نما بنا دے ۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں معروف اسالیب بیان سے کسی قدر سہارا ضرور لیا جائے گا۔ خیال یک بیک بالکل ہی نئے اسلوب بیان کے ساتھ نمودار نہیں ہو سکتا ۔ نیا اسلوب بنیاد ضرور ہے مگر موجود سے منقطع ہو کر نہیں۔ اسلوب موجودہ سے یک گونہ تعلق ہی اسلوبِ جدید کو قاری کے لیے گوارا بناتا ہے۔ کیونکہ قاری محکمات سے واقف ہوتے ہیں اور متشابہات کی پہلی تفہیمی کوشش اِسی پس منظر میں کرتے ہیں ۔ مثال کے لیے آپ اردو شاعری کے معروف اسلوب میں نفس ، آتش ، گل ، مرغ ، چمن ، نوا ، صلہ جیسے لفظوں سے واقف ہیں۔ واقفیت کے اس پس منظر میںیہ شعر آپ کے سامنے آتا ہے۔ تیرے نفس سے ہوئی آتش گل تیز تر مرغ چمن! ہے یہی تیری نوا کا صلہ! تو آپ پہلے اس پس منظر میں شعر کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور فوری طورپر پورا مفہوم نہ سمجھتے ہوئے بھی آپ واہ واہ کہہ اٹھتے ہیں۔میں معافی کا خواستتگار ہوں کہ مجھے یہ جملہ کہنا پڑا ۔ دراصل کوئی بھی شخص کس عمدہ شعر کے پورے مفہوم تک بیک لمحہ نہیں پہنچ سکتا ،یہ رسائی غور و فکر کے بعد ہوتی ہے بلکہ شعر غور و فکرکا تقاضا خود کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انہیں سخن سازی کا فن نہیں آتا اور انہیں شاعری کی فکر بھی نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تمام ہی خیال ، جسے ہم سب پیغام یا فلسفہ کہتے ہیں ، احساس اور جذبے میں شیر و شکر ہو گیا ہے۔ اور بیشتر حالات میں وہ شعریت سے خالی نہیں ۔ انہوں نے اپنے محکمات کو اتنا آراستہ کیا ہے ، چند مخصوص لفظوں ، ترکیبوں اور تلازموں کو یوں تواتر سے استعمال کیا ہے کہ وہ ایک طرف متشابہات کا لطف دیتے ہیں اور دوسری جانب ان کے انداز بیان کو مخصوص منفرد بنا کر معنویت سے لبریز بنا دیتے ہیں۔ اس صورت حال سے عہد اقبال کے سیاسی سماجی ، مذہبی ، معاشی حالات کے ساتھ شاعر کے نفسیاتی انسلاک و کیف کا گہرا شعور حاصل ہوتا ہے اور ہم دور سے ہی اس کے اندازِ بیان کو پہچان لیتے ہیں۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو : نگاہِ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکارِ مردہ سزا وار شاہباز نہیں فرض کیجیے کہ کوئی نہ بھی جانتا ہو کہ یہ کس کا شعر ہے تو طرز شعر کی روشنی میں وہ کہہ اٹھے گا کہ یہ اقبال کا نتیجۂ فکر ہے۔ اقبال کے متشابہات ان کی شعری عظمت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔  ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی علامہ شبلی کی فارسی غزل پنجابی کے ایک مشہور صوفی شاعر کا مصرع ہے: دل دریا سمندروں ڈونگا ، تے کون دِلاں دیاں جانے ہُو (دل ایک ایسا دریا ہے جو سمندر سے بھی زیادہ گہرا ہے ، دلوں میں جو کچھ سمایا ہوا ہے، اس کی کسی کو کیا خبر) یہ دل کہ بیک وقت غم و آلام کی آماجگاہ بھی ہے اور عشق و محبت کا گہوارہ بھی ، جو سوز و درد کی جائے پناہ ہے اور کیف و سرمستی کا چشمہ بھی، جس میں ایک جہانِ جذبات و احساسات آباد ہے ، کون اس کی اتھاہ گہرائیوں کو پا سکتا ہے۔ اسی دل نے عشق و محبت میں فنا ہو کر حیاتِ جاوید حاصل کی اور اسی دل ، اِسی ظالم دل نے اچھے بھلے زاہدوں اور پرہیز گاروں کو کچھ اس قدر ور غلایا کہ بیچارے ’’پیرانہ سالی‘‘ میں ’’غم خرد سالاں‘‘ میں الجھ کر اور یوں چشم عزیزاں میںخوار ہو کر رہ گئے ۱۔ شبلی مرحوم جیسے بلند پایہ عالم بھی اس دل ستم پیشہ کی دست درازیوں سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ اس نے ان سے ایسے ایسے شعر کہلوائے کہ ان کے حوالے سے علامہ کی ’’حیاتِ معاشقہ‘‘ کی ایک پوری داستان مرتب ہو کر کتابی صورت میں چھپ گئی۔ مولانا شبلی ایک زبر دست مذہبی و دینی عالم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ دل بھی تھے ، نرے دقیا نوسی اور خشک قسم کے زاہد نہ تھے اور بقول شیخ محمد اکرام : اگر وہ اپنے عہد شباب میں ایک طرف تارکینِ صلوٰۃ کو نماز نہ پڑھنے پر دو دو گھنٹے تک پِیٹا کرتے تھے تو دوسری طرف شہر میں جو مشاعرے ہوتے تھے، ان کے میر مجلس بنتے اور گرم گرم عاشقانہ اشعار لکھتے ۲۔ مولانا کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے میرزا احسان احمد رقم طراز ہیں: حُسن و عشق کی اخلاقی اور روحانی عظمت ، بلندی اور پاکیزگی کا احساس جو ایک باکمال غزل گو شاعر کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مقدم شرط ہے ، اس کا اثر علامہ مرحوم کے مذاق تغزل میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۳۔ شبلی مرحوم کی غزلیات کے مطالعے سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کلام اُس شبلی کا نہیں ہے جنہوں نے ’’سیرۃ النبی ﷺ ‘‘اور’’ الفاروق ؓ‘‘ جیسی بلند پایہ مذہبی کتب لکھیں ، بلکہ کسی ایسے شبلی کا ہے جو ایک رندِ سرمست ہے، جس میں بے پناہ جوش و مستی ہے اور جو مے و معشوقِ مجازی کا بے طرح والہ و شیدا ہے ۔ ان کی کوئی غزل اٹھا کر دیکھ لیجئے ، اس میں تقریباً ہر شعر اپنے اندر ایک جہانِ کیف و مستی اور رندی و سرشاری لیے ہوئے ہوگا اور خصوصاً وہ غزلیں جو انہوں نے ’’دیارِ حبیب ، بمبئی‘‘ میں بیٹھ کرلکھی ہیں وہ حافظ شیرازی کے کلام سے ٹکر کھاتی ہیں۔ بمبئی (بھارت کا مشہور شہر) کا ذکر انہوں نے مختلف مواقع پر نہایت والہانہ انداز میں کیا ہے۔ مثلاً نثارِ بمبئی کُن ہر متاعِ کُہنہ و نو را طراز مسندِ جمشید و فرِّ تاجِ خسرو را شبلی عناں گسستہ مرو سوئے بمبئی مانیز با تو ہم سفریم ، این شتاب چیست ز ذوق طبع شبلی من در اوّل روز دانستم کہ در آشوب گاہِ بمبئی در بازد ایماں را اس مختصر سے مضمون میں چونکہ مولانا شبلی مرحوم کی غزلیات سے صرف فنّی اور تنقیدی لحاظ سے بحث کرنا مقصود ہے اس لیے ، طوالت سے اجتناب کی خاطر، ان کے مختلف اشعار کے پس منظر کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ اس ضمن میں محترم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کی تصنیف ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ کی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سلاست و روانی اور سادگی مگر پُر کاری علامہ شبلی کی غزلیات کا طُرّئہ امتیاز ہے۔ انہوں نے ’’سبک ہندی‘‘ کے مقلدوں کی مانند پیچ در پیچ مضامین اور دور از کار تشبیہات و استعارات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ ان کی شاعری دل کی شاعری ہے۔ جو بھی کیفیت ان کے دل پر گزرتی ہے ، وہ اپنے زُہد و وَرع کا خیال کیے بغیر، اس کا اظہار برمَلا اور سیدھے سادے مگر دل نشیں انداز میں کر دیتے ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں: چند در پردہ توان کرد سخن ، فاش بگوی سنگ بر شیشۂ تقویٰ زدہ ام ، ہاں زدہ ام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: شبلی ہر آنچہ داشت بہ دل ، بر زباں فگند گویا کہ کار با صنمِ تُند خُو نماند ہمارے بیشتر شعرا اوّل تو وَصلِ محبوب سے محروم ہی رہتے ہیں اور جو خو ش بختی سے کہیں وصل نصیب ہو بھی گیا تو وہ بیچارے خود اس قدر بے ہوش یا حواس باختہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں نہ تو آغازِ وصل ہی کا پتا چلتا ہے اور نہ انجام ہی کا، لیکن ہمارے شاعر کو جب اپنے ’’ماہِ تمام‘‘ کی خلوت گاہ میں بار حاصل ہوتا ہے تو وہ ان تمام نعمت ہائے غیر مترقبہ سے، جو معدودے چند کو میسر آتی ہیں ، پورے طور پر متمتع ہوتا ہے: کس چہ داند کہ بخلوت گہ آں ماہِ تمام زدہ ام ساغر و بر یادِ حریفاں زدہ ام جاے آنست کہ گلشن دمد از کنجِ لَبَم بوسہ ہا بسکہ برآں عارضِ خنداں زدہ ام صد چمن لالہ و گل جو شدم از جیب و بغل قرعۂ فالِ ہم آغوشیِ جاناں زدہ ام صد دکاں لعل و گہر چیدہ ام از گفتارش طعنہ بر بے سرو سامانیِ عمّاں زدہ ام بوسہ ہا بر لبِ نوشیں زدہ ام از پیہم طوطیِ گرسنہ ام ، بر شکر ستاں زدہ ام یا مثلاً من فداے بُت شو خے کہ بہنگام وصال بمن آموخت خود آئین ہم آغوشی را سنبلستاں می دمدا ز جیب و آغوشم ہنوز زلفِ مُشکیں در برم روزے پریشاں کردہ بود۴ اور اگر کبھی ایسے مواقع پر محبوب پر حیا طاری ہو جاتی ہے تو وہ بڑے ملتجیانہ انداز میں اسے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتا ہے: شب وصل است حیا گر بگذاری چہ شود یک دمم تنگ در آغوش فشاری چہ شود تو بدیں حُسنِ توانگر چہ زیاں برداری ایں دو سہ بوسہ اگر خود نہ شماری ، چہ شود از تو ناید گرہِ بندِ قبا وا کردن اگر ایں عقدہ بہ من باز سپاری ، چہ شود بوسہ ہا بر لبِ نوشینِ تو وام است مرا وامِ من ہم بمن ار باز سپاری چہ شود محبوب سے دوری بھی کیا بُری شے ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان بھی پاگلوں اور دیوانوں جیسی حرکات کرنے لگتا ہے۔ علامہ نے اس مضمون کو جس طریقے سے ادا کیا ہے، یہ اُنھی کا حصہ ہے: بے حاصلی نگر کہ بہ ایں دوری از رُخش صد جای بہرِ بوسہ نشاں کردہ ایم ما علامہ شبلی کے کلام میں،جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، یاس و نا امیدی اور غم و اندوہ کے بر عکس کیف و مستی اور سرور و انبساط کا عنصر زیادہ ہے۔ہجر و فراق کی تلخیوں کا ذکر ان کی غزلیات میں بہت کم ہے۔ کوئی غزل لے لیجیے، یہی معلوم ہوگا، جیسے ایک رندِ لا ابالی بادئہ وصل سے سرشار و سرمست ہو کر نغمہ ہائے نشاط الاپ رہا ہے۔ وصل کے متعلق چند اور شعر ملاحظہ ہوں: گوئیا دشمن ہم از ذوقش نصیبے بردہ است بادئہ وصلش چشیدم ، از مذاق افتادہ بود کس اچھوتے پن سے رقیب کی دست درازی اور محبوب کی جا و بیجا سپردگی کو ظاہر کیا ہے۔ بادئہ وصل کا چکھنا اور اسے ذائقہ سے گرا ہوا پانا ، ان تراکیب نے شعر میں ایک حُسن پیدا کر دیا ہے: آغوشِ شوق و دیدئہ گستاخ و دستِ شوخ در وصل ہر چہ بود زِ من خود بکار بود از بس کہ تُند بود ، مے خوشگوارِ وصل مستی بروں ز حوصلۂ اختیار بود شب وصلے و شغلے ایں چنیں صدرہ نصیبم باد کہ تو بندِ قبا را عقدہ بر بستی و وا کردم علامہ ایک دل شیدا رکھتے تھے ۔ ظاہر ہے ایسے دل کے بہلاوے یا اسے قربان کرنے کے لیے ’’لالہ رخ‘‘ در کار ہیں اور ایسے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بعض اوقات برسوں کا حاصل کردہ مایۂ تقویٰ و پرہیز گاری بھی لٹانا پڑ جاتا ہے، کیا کیا جائے، آخر ’’دل ہی تو ہے۰۰۰۰ ‘‘: من کہ در سینہ دلے دارم و شیدا، چہ کنم میل با لالہ رخاں گرنکنم تا چہ کنم من نہ آنم کہ بہر شیوہ دل از دست دہم لیک با آں نگہِ حوصلہ فرسا، چہ کنم ہست چِل سال کہ بیہودہ نگہ دا شتمش گر نہ بر سنگ زنم شیشۂ تقویٰ ، چہ کنم ساغر بادہ و طرفِ چمن و لالہ رُخے چوں بہ اینہا فتدم کار، بفرما چہ کنم دل متاعے ست گراں مایہ بہ کس نتواں داد رایگاں گر برد آں ترک بہ یغما ، چہ کنم مندرجہ ذیل شعر کس قدر حقیقت کا رنگ لیے ہوئے ہے: زہد را من آشنائی دادہ ام با عاشقی ورنہ عمرے ہر دو را باہم نفاق افتادہ بود علامہ کے نزدیک اس ہاتھ سے بیکار تر دنیا کی اور کوئی شے نہیں ہے، جو ہاتھ کہ حلقۂ طوق کمر میں نہیں ہے اور زندگی کا لطف جبھی ہے کہ اس میں ذوقِ نگاہ اور ہنگامۂ عشق ہو: بیکار تر از او نبود در حلقۂ عالم آں دست کہ در حلقۂ طوق کمرے نیست نے ذوق نگاہے و نہ ہنگامہ عشقے اے واے نہ شہرے کہ در و فتنہ گرے نیست شعر ذیل میں رمزیت ، جو غزل کی جان ہے، پورے طور پر کار فرما ہے: دل از خوباں گرفتی خوب کردی و لیکن ذوق و عرفاں را زیاں کرد کس لطیف پیرائے میں حسینوں سے دل پھیر لینے کو بُرا ثابت کیا ہے ؛ کہتے ہیں: اگر محبوب کے ہونٹ ایمان کو تازگی بخشنے والے نہ ہوتے تو اس کی کافر آنکھیں خرمنِ ایمان کو جلا چکی ہوتیں: لعل معجز کیشِ او طرحِ مسلمانی نہاد ورنہ چشمش رخنہ ہا درکارِ ایماں کردہ بود محبوب کے ظلم و جور پر دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ وہ ابھی بچہ ہے۔ اس کا یہ جور وستم کسی جفا کے باعث نہیں، بلکہ محض نادانی کی بنا پر ہے: از بس کہ طفل بودہ و کار آشنا نبود جورے کہ کردہ است بہ طورِ جفا نبود شبلی مرحوم نے زُہاد و واعظین کی ریا کاری کو بھی مختلف طریقوں سے فاش کیا ہے، جس طرح غالب نے واعظ کی مے نوشی کا یقین دلانے کے لیے پہلے خود کو میخوار ثابت کیا ہے: کہاں مے خانے کا دروازہ غالب ، اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے اسی طور علامہ نے بھی ان مذہب کے اجارہ داروں کی قلعی کھولی ہے۔ فرماتے ہیں: از ما بگیر درس فنونِ ریا کہ ما عمرے دراز زاہد و مستور بودہ ایم سبحہ اے داشتم از جملۂ اسباب ورع رفت ازیادم و در خانۂ خمّار بماند این نمی دانم کہ گبرم ، یا مسلماں نیستم ایں قدر دانم کہ زاہد آنچہ ہست آں نیستم من نیز ہمچو شیخ دم از زہد می زنم اوّل مرا بہ بادہ دَمے آزموں کنید اس آخری شعر میں کتنا لطیف طنز ہے ۔ یعنی یہ زُہد و تقویٰ اتنی ہی دیر تک ہے جب تک مے ارغواں کا دور نہیں چلتا۔ ضایع مساز خرقۂ مستوری مرا وقتے رسد کہ باز بہ برمی کنیم ما ذیل کا شعر تو قتیل کے شعر کا چربہ معلوم ہوتا ہے: مولانا کے مطابق: راہے دگر بغیرِ حریم ، حرم نداشت زاہد کہ تابِ جلوئہ روے صنم نداشت اور بقول قتیل : زاہد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت اگرچہ شبلی مرحوم کا کلام سراسر بادئہ انگور کی مستی اور جوش لیے ہوئے ہے، لیکن کہیں کہیں صہبائے تصوف کے چھینٹے بھی نظر آ جاتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے، یہ ان کے اپنے علم و فضل کے باعث ہو، لیکن ان کے بقیہ کلام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بظاہر ایسے اشعار میں جذبے کا خلوص نظر نہیں آتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اشعار انھوں نے یا تو بادئہ مجاز کی تلخی و تندی کم کرنے کے لیے کہے ہیں یا پھر ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ پر عمل کیا ہے۔ صرف تین اشعار ملاحظہ ہوں: برقِ عشقے کہ مرا بر دل و بر تن زدہ بود ایں ہمان است کہ بر وادی ایمن زدہ بود چشمم ہر آنچہ دید نہ ہر دیدہ بنگرد نظارئہ جمال تو عام است و عام نیست ہر جا کہ روے روشنِ تو جلوہ ساز بود ہر ذرّہ را نظر بہ جمالِ تو باز بود مختصر یہ کہ علامہ چونکہ ایک بہت بڑے نقادِ سخن تھے، اس لیے انھوں نے شاعری کرتے وقت ہر قسم کے فنی معایب سے بچنے کی پوری کوشش کی ہے۔ انہوں نے موزونیِ الفاظ ، بندش کی چُستی اور ترکیبوں کی لطافت اور اسی طرح کے دوسرے محاسن کا خاص خیال رکھا ہے، جس سے ان کے فارسی کلام میں ایک خاص قسم کی برجستگی اور روانی آگئی ہے، جو فنِ شعر گوئی میں ان کی پختگی کی دلیل ہے۔ حواشی ۱۔ فیضی کہتا ہے : بچشم عزیزاں مرا خوار دارد بہ پیرانہ سالی غمِ خُرد سالاں اس ضمن میں شیخ صنعان کا بھی واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے جو اپنی تمام تر عبادت و زہد کے باوصف ایک حسینہ کے عشق میں گرفتار ہو کر دین سے منحرف ہو گئے ۔ تاہم کچھ عرصہ بعد واپس آ گئے۔ ۲۔ ’’شبلی نامہ ‘‘ ص ۱۴۵۔ ۳۔ ماہنامہ ’’معارف (اعظم گڑھ) مارچ ۱۹۴۹ء ۴۔ عمادِ فقیہ کرمانی کا شعر یاد آ گیا : اگرچہ اس نے ذرا دوسرے انداز میں بات کی ہے، تاہم ہے بوے یار ہی سے متعلق : ازیں دیار گذشتی و سالہا بکذشت ہنوز بوے تو می آید از منازل ما  احمد جاوید فرہنگ و حواشی کلیات اقبال (اردو) ص کلیات ۱۳۷ محبت : مطبوعہ ’’مخزن‘‘ ، جنوری ۱۹۰۶ء ۱۔ اس نظم میں محبت کی اصطلاح مندرجۂ ذیل معنوں میں استعمال ہوئی ہے: ۱:۱۔ وجود کی اوّلین حرکت ۲:۱۔ زندگی کا نقطۂ آغاز ۳:۱۔ زمانے کی بنیاد ۴:۱۔ نظامِ کائنات کی اصل ۵:۱ ۔ کائنات میں روح پھونکنے والی قوت ۶:۱ ۔ موجودات کا اصولِ تعلق ۷:۱۔ انسان اور کائنات کو مرتبہ کمال تک پہنچانے اور ان کے تمام امکانات کو انتہائی درجے پر بروئے کار لانے والا خداوندی فیضان ۲۔ محبت کے اجزائے ترکیبی : ہدایت رسانی + مقصود تک پہنچنے کی مستقل لگن +تہ داری+ بے قراری + پاکیزگی+حیات بخشی+ بے نیازی+عاجزی +ایثار +ابدیت ص کلیات ۱۳۷ عروسِ شب: رات کی دُلھن ، دلھن ایسی رات (عروس = دلھن+شب) ص کلیات ۱۳۷ آئینِ مسلّم: قانونِ فطرت، اٹل ضابطہ [آئین = قانون +مسلّم= مانا ہوا، فطری، اٹل، یقینی] ص کلیات ۱۳۷ لذّتِ رم : رفتار کی لذّت ، حرکت کا ذوق جس پر ستاروں کے وجود کا مدار ہو۔ ص کلیات ۱۳۷ امکاں : ’ممکن‘ کا وصفِ ذاتی یا ’ممکن‘ کی ماہیت ۔ وجود کی تین حالتیں ہیں:وجود ، امکان اور امتناع۔ پہلی حالت ایجابی ہو، دوسری نیم ایجابی و نیم سلبی اور تیسری سلبی۔ ’واجب‘ وہ ہے جس کا وجود ضروری ہو اور عدم محال ۔ نیز وہ اپنے وجود میں غیر کا محتاج نہ ہو۔ ’ممکن‘ کا نہ وجود ضروری ہے نہ عدم، اور یہ اپنے وجود میں غیر کا محتاج ہے۔ ’ممتنع‘ کا عدم ضروری ہے اور وجود محال۔ آسان تعریف یہ ہے کہ: ۱۔ وہ عدم جو وجود کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ’امکان‘ ہے اور وہ وجود جو عدم کو قبول کر سکتا ہے ’ممکن‘ ہے۔ ۲۔ ہر مخلوق ’ممکن‘ ہے کیونکہ اس کے وجود سے پہلے بھی عدم ہے اور بعد میں بھی ۔ ۳ ۔ جو شے ذاتی طور پر معدوم اور عطائی طور پر موجود ہو یا جس کا نہ ہونا مستقل اور ہونا عارضی ہو، ’ممکن‘ ہے۔ چوکہ ’ممکن ‘ کی اصل ’نیستی‘ ہے، لہٰذا اقبال نے یہاں، ’امکان‘ کو عدم کے معنی میں باندھا ہے۔ مزید دیکھیے: ’’ممکن‘‘ ، ’’ممکنات‘‘، ’’واجب‘‘ ص کلیات ۱۳۷ مذاقِ زندگی: زندگی کا حسّی تجربہ ، موجود ہونے کی لذّت ، حقیقتِ حیات کو سمجھ کر اُس سے پیدا ہونے والا ذوق۔ [مذاق = ذوق ، احساس + زندگی] ص کلیات ۱۳۷ پہنائے عالم: دُنیا کی وُسعت ، مُراد کائنات [پہنا = پھیلائو+ عالم = دُنیا، کائنات] ص کلیات ۱۳۷ کمالِ نظمِ ہستی: وجود کے کائناتی نظام کی تکمیل جو تخلیقِ کائنات کا مقصود ہے۔ موجودات کے درمیان جو تال میل پایا جاتا ہے، اُس کا کمال (کمال+ نظمِ ہستی= نظامِ عالم، فطری قوانین زندگی کا نظام) [کمال = پورا پن+نظم= نظام+ہستی=کائنات، وجود] ص کلیات ۱۳۷ ہویدا: ظاہر ص کلیات ۱۳۷ چشمِ خاتم: ۱۔ انگوٹھی کی آنکھ ۲۔ انگوٹھی کا خانہ جس میں نگ بٹھایا جاتا ہے [چشم + خاتم= انگوٹھی] ص کلیات ۱۳۷ صفا: صفائی جو آئینے میں ہوتی ہے ص کلیات ۱۳۷ ساغرِ جم : جمشید کا پیالہ جس میں دُنیا بھر میں ہونے والے واقعات نظر آتے تھے [ساغر=پیالہ+جم = جمشید ، مشہور ایرانی بادشاہ] ص کلیات ۱۳۷ اکسیر: مختلف اجزاء کا ایک مرکّب جس سے پیتل وغیرہ کا سونا بنایا جاتا ہے۔ ایک عمل جس کے واقعی اور علامتی معنی یہ ہیں : ۱۔ ادنیٰ چیزوں کی ماہیت بدل کر اُنہیں اعلیٰ درجے کی اشیاء بنا دینے کا عمل ۲۔ چیزوں کو معنی عطا کرنا ۳ ۔ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف اشیاء کو اُن کی حقیقتِ واحدہ سے جوڑ دینا۔ ۴۔ مُردے کو زندہ کر دینا۔ مزید دیکھیے : ’’کیمیا‘‘ ص کلیات ۱۳۷ اسمِ اعظم : ۱۔ اللہ کا سب سے بڑا نام جسے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کے وسیلے سے کی جانے والی ہر دُعا قبول ہوتی ہے۔ ۲۔ سّری عملیات کرنے والوں کے نزدیک خدا کا وہ نام جس کے ذریعے عملِ تسخیر کیا جاتا ہے اور ناممکن کام بھی ممکن ہوجاتے ہیں۔ ص کلیات ۱۳۷ سعی پیہم : مسلسل کوشش [سعی= کوشش ، بھاگ دوڑ+ پیہم = مسلسل ، لگاتار] ص کلیات ۱۳۷ میدانِ امکاں: کائنات نیز دیکھیے :’امکان‘ ص کلیات ۱۳۷ زلفِ برہم: بکھری ہوئی زلف [زلف+برہم=بکھری ہوئی، پریشاں] ص کلیات ۱۳۷ نفسہائے مسیح ابن مریمؑ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے پر قم باذن اللہ (کھڑا ہو جا اللہ کے حکم سے) پڑھ کر دم کرتے تھے تو وہ جی اٹھتا تھا۔ یہاں اُسی معجزے کی طرف اشارہ ہے۔(نفسہا=’نَفَس‘ کی جمع ، سانس ، پھونک ، دم+ مسیح = حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ۔نجات دہندہ، بہت سفر کرنے والا ، جس کا خمیر خیر و برکت سے اٹھا ہو، دوست + ابن = بیٹا +مریم) مزید دیکھیے : ’’مسیح‘‘ ، ’’مسیح ابن مریم ؑ ‘‘، ’’مریم‘‘ ص کلیات ۱۳۷ ربوبیت: ۱۔ پروردگاری، پالنہاری۔ ۲ ۔ خدا کی وہ صفت جو تمام موجودات کے وجودی تقاضوں اور فطری امکانات کی تکمیل اور نشو و نما کرتی ہے۔ مزید دیکھیے : ’’ربّ‘‘ ص کلیات ۱۳۷ شانِ بے نیازی: کسی کا محتاج نہ ہونے کی خداوندی صفت ، (شان= صفت ، حالت+ بے نیازی= کسی کا محتاج نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ ان معنوں میں بے نیاز (صمد) ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اُس کے محتاج ہیں، انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کے سوا کسی کا محتاج نہیں) ص کلیات ۱۳۷ ملک : فرشتہ ص کلیات ۱۳۷ عاجزی: ۱۔ بے بسی ، محتاجی ۲۔ کامل اطاعت ، بندگی ۳ ۔ اللہ کے آگے جھک جانا ۴ ۔ اللہ کے سامنے اپنے اختیار ، مرضی اور ارادے سے دست بردار ہوجانا۔ ص کلیات ۱۳۷ اُفتادگی : ۱۔ گرنا ۲ ۔ خاکساری ۳۔ کسی بڑے مقصد کی خاطرخود کو مٹا ڈالنا۔ ص کلیات ۱۳۸ چشمۂ حیواں: آب حیات کا داستانی چشمہ جس کا پانی پی لینے سے موت نہیں آتی۔ یہاں مُراد ہے ’ہمیشگی‘ اور ’ابدیت‘ کا سوتا۔ ص کلیات ۱۳۸ عرشِ اعظم : اللہ کا تخت یعنی بارگاہِ خداوندی۔ ص کلیات ۱۳۸ مرکّب : وہ چیز جسے مختلف اجزا کو ملا کر بنایا گیا ہو۔ ص کلیات ۱۳۸ مہوِّس: کیمیا گر ص کلیات ۱۳۸ ہستیِ نو خیز: نئی نئی پیدا ہونے والی کائنات، زندگی کی ابتدائی حالت۔ [ہستی = زندگی ، وجود، کائنات+ نوخیز = جس کی تخلیق کو زیادہ وقت نہ ہوا ہو] ص کلیات ۱۳۸ گرہ کھولی ۔۔۔ کارِ عالم سے: کائنات کی مشکل حل کر دی، اس کی رکاوٹ دور کر دی، اس کی زندگی اور روانی کا سامان کر دیا، اس کا کام بنا دیا۔ [گرہ از کار کشودن= مشکل حل کرنا، دستگیری کرنا، کام بنانا] ص کلیات ۱۳۸ لطفِ خواب: نیند کا مزا [لطف = مزا + خواب = نیند] ص کلیات ۱۳۸ خرامِ ناز : بانکی چال [خرام = چال + ناز = بانکپن] ص کلیات ۱۳۹ پیام: فروری ۱۹۰۶ء کے ’مخزن‘ میں جب یہ نظم ’پیغام راز‘ (ایک خط کے جواب میں) کے عنوان سے شائع ہوئی تو مفتعلن؍ مستفعلن ، مفاعلن ، مفتعلن؍ مستفعلن مفاعلن کے وزن میں تھی ۔ نظرِثانی میں ابتدائی متن کے چار شعر حذف ہو گئے اور باقی اشعار میں بھی ترمیم کر کے پوری نظم کو ایک ہی وزن یعنی مفتعلن ، مفاعلن ، مفتعلن ، مفاعلن میں ڈھالا گیا۔ ص کلیات ۱۳۹ ذوقِ تپش: عشق کی آگ میں جلنے کی لذّت ، تڑپنے کا مزا۔ [ذوق= لطف اٹھانے کی صلاحیت ، لذّت ، کیفیت +تپش = جلن ، تڑپ] مزید دیکھیے : ’’تپش ‘‘، ’’اضطراب‘‘ ص کلیات ۱۳۹ حاصل سوز و ساز: ۱۔ جلنے اور چمکنے کا حاصل یعنی حرارت اور روشنی ۲ ۔ عشق کی بخشی ہوئی کیفیات کا نچوڑ یعنی روحانی بے تابی اور قلبی اطمینان ۳ ۔ عاشق کی فنا اور بقا کی حقیقت ۴ ۔ جستجو اور حصول کے مسلسل عمل کا نتیجہ [ حاصل+ سوز= جلن تڑپ ، فراق اور شوق کی کیفیت+ و = اور + ساز= ٹھنڈک، اطمینان ، وصال اور نشاط کی کیفیت] ص کلیات ۱۳۹ شانِ کرم : ۱ ۔ مہربانی اور بندہ نوازی کا وصف جو اللہ کا خاصّہ ہے ۲ ۔ خدائے بے نیاز کا فضل [شان = وصف ، ذاتی صفت ، کمال ، خاص مرتبہ + کرم = مہربانی ، فضل] ص کلیات ۱۳۹ عشق گرہ کشاے : ۱۔ گرہ کھولنے والا عشق (عشق+ گرہ کشا= گتھی سلجھانے والا ، رکاوٹ دور کرنے والا، مشکل کشا+ ے= یاے تعظیمی) ۲ ۔ وہ عشق جو محبوب کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ گرا دیتا ہے۔ ۳ ۔ حقیقت کی گرہ کھولنے والا عشق مزید دیکھیے : ’’عشق‘‘ ص کلیات ۱۳۹ دیر و حرم : ۱ ۔ بُت خانہ اور کعبہ (دیر= غیر مسلموں کی عبادت گاہ، مندر ، گرجا ، آتشکدہ + و + حرم = کعبۃ اللہ) ۲ ۔ خدا کا اوتاری یا تشبیہی تصور رکھنے والوں کا مقام ’دیر‘ہے اور توحیدی یا تنز یہی اعتقاد رکھنے والوں کا مقام ’حرم‘ ۳ ۔ دیر : کثرت و تشبیہ کا عالم حرم : وحدت و تنزیہ کا عالم ص کلیات ۱۳۹ بے نیاز : ہر تعین سے ماور ا، جو کسی کا پابند نہ ہو، جس کو کسی کی اور کسی سے کوئی احتیاج نہ ہو یعنی اللہ ص کلیات ۱۳۹ دہر : یہاں مُراد ہے ’دنیا‘ ص کلیات ۱۳۹ گریۂ جاں گداز: ۱ ۔ دل پگھلا دینے والا رونا ۲ ۔ اشک باری جس میں دل بھی آنسوئوں کے ساتھ بہ جائے ۳ ۔ عاشق کی آہ و زاری ۴ ۔ بندگی اور عشق کا یکجاہر کر ایک کیفیت میں ڈھل جانا [گریہ = رونا + جاں = جان، روح، دل + گداز = گدا زندہ = گداز کرنے والا ، پگھلا دینے والا] ص کلیات ۱۳۹ بلند بال: ۱ ۔ اونچا اُڑنے والا، بلند حوصلہ ۲ ۔ بلند، بے نیاز ص کلیات ۱۳۹ چشمِ نظارہ میں نہ تو سُرمۂ امتیاز دے یعنی چیزوں میں اختلاف دیکھنے کے بجائے اُس حقیقت پر نظر رکھنی چاہیے جو سب میں مشترک ہے۔ ص کلیات ۱۳۹ پیرِ مغاں : ۱۔ شراب خانے کا مالک ۲ ۔’ آتش پرستوں کا پیشوا‘ ۳ ۔ معلّم ، رہ نما ۴ ۔ روحانی مرشد ۵ ۔ وہ رہنما جو سالکوں کو خدا تک قال کے ذریعے نہیں بلکہ حال کی راہ سے پہنچائے [پیر= بڑا، مرشد + مغاں = ’مغ‘ کی جمع ، شراب بنانے والے ، آتش پرست، روحانی احوال پیدا کرنے والے ] ص کلیات ۱۳۹ نشاط : ۱۔ لفظی معنی خوشی، سرمستی ، سُرور ، فراغت ، خوشحالی ۲ ۔ نفس کی وہ کیفیت جو اُسے اپنی خواہشات کی تکمیل اور دوسروں پر غالب آ جانے سے ملتی ہے ۳ ۔ نفس کا بے فکر اپن ، غفلت کا مزا ۴ ۔ وہ خوش حالی جو دل کے سوزاور روح کی تڑپ سے خالی ہو ص کلیات ۱۳۹ کیفِ غم : ۱۔ غم کی مستی (کیف = کیفیت ، سر مستی، لذّت +غم) ۲ ۔ محبوب کو پانے کی شدید لگن کے باوجود اُس کو نہ پا سکنے کا یقین ، غم ہے۔ اور اس ’طلب و نایافت‘ کا کبھی زائل نہ ہونا ’کیف غم‘ ہے ۳ ۔ عشق کی آگ میں جلتے رہنے کا مزا جو فراق میں بیزار نہیں ہونے دیتا ۴ ۔ محبوب تک رسائی کا کوئی رستہ نہ پانے کے باوجود اس کی محبت میں غرق رہنا ۵ ۔ محبوب کی رضا کو اپنی خواہش پر ترجیح دینا ۶ ۔ وہ کیفیت جو نفس پر روح کے غلبے سے حاصل ہوتی ہے ۷ ۔ نفس کی شکستگی جو بندگی کی حقیقت کے تجربے سے میسر آتی ہے ۸ ۔ کسی حال پر قناعت نہ کرنے کی حالت ۹ ۔ فکرِ قوم + فکرِ مستقبل + فکرِ آخرت ص کلیات ۱۳۹ خانہ ساز: ۱ ۔ گھر کی بنی ، دیسی (شراب) ۲ ۔ محبت اور معرفت کا وہ طریقہ اور ذریعہ جو اسلام کی دین ہے ۳ ۔ اسلامی نظامِ حیات ص کلیات ۱۳۹ بزمِ کہن : پرُانی محفل، یعنی : ۱ ۔ دُنیا ۲ ۔ اسلامی دُنیا اور اس کی روایات ۳ ۔ مسلمان اور ان کی روایتی تہذیب و نفسیات ۴ ۔ مسلمانوں کی پُرانی ذہنیت اور طبیعت ص کلیات ۱۳۹ میٔ مجاز : ۱ ۔ ’مجاز‘ کی شراب (مے + مجاز = غیر حقیقی، علامتی ، تشبیہی ۔ وہ غیر حقیقی شے جو حقیقت کی طرف اشارہ کرے، حقیقت کا قائم مقام لفظ ؍ معنی؍ صورت وغیرہ ، حق کو خلق میں دیکھنا) ۲ ۔ ’خلق‘ کی صورت میں ’حق‘ کو دیکھنے کا ذوق ، صورت سے معنی تک پہنچنے کا طریق، ’غیب‘ کو ’شہود‘ بنانے کا باطنی حال۔ مزید دیکھیے : ’’مے‘‘ ، ’’شراب‘‘، ’’مجاز‘‘ ص کلیات ۱۳۹ سوامی رام تیرتھ: مطبوعہ ’مخزن‘ ، جنوری ۱۹۰۷ء ابتدائی متن کا آخری شعر منسوخ ۔ ص کلیات ۱۳۹ سوامی رام تیرتھ: ویدانت کے مبلغ ، انگریزی ، اردو اور فارسی کے شاعر ۔ اصلی نام تیرتھ رام تھا۔ ضلع گوجرانوالہ کے گائوںمراری والہ میں ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے۔ غریب گھر کے تھے۔ نہایت مشکل حالات میں انٹرنس کرنے کے بعد ۱۸۸۸ء میں ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھانی پڑی ۔ دورانِ تعلیم ہی میں ویدانت کی طرح مائل ہو گئے تھے ۔ زیادہ وقت عرفان کی کتابوں کے مطالعے اور مراقبے وغیرہ میں گزرتا تھا ۔ اوپر سے سختیِ حالات کی وجہ سے صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔نتیجۃً بی اے میں فیل ہو گئے۔ اُس ناکامی نے تعلیم کی طرف متوجہ کر دیا۔ خوب محنت کی اور مارچ ۱۸۹۳ء میں بی اے اوّل درجے میں پاس کر لیا۔ پھر گورنمنٹ کالج، لاہور میں ایم اے (ریاضی) میں داخلہ لے لیا۔ اس زمانے میں وہ ایک مخلص اور ذہین ویدانتی کی حیثیت سے مشہور ہو چلے تھے۔ لوگ ان کے لیکچر سننے آتے تھے۔ ۱۸۹۵ء میں ایم اے کر کے ایف سی کالج میں ریاضی کے عارضی لیکچرار مقرر ہوئے۔ ایک مرتبہ کالج ہال میں ان کالیکچر کروایا گیا ۔ اس میں انھوں نے دعوا کیا : ’’ایک بار میں عیسیٰ مسیح بن کر پیام دینے آیا تھا۔ مجھے غلط سمجھا گیا ، اس لیے میں دوبارہ حاضر ہوا ہوں‘‘۔ اس دعوے پر مسیحی لوگ ان کے مخالف ہو گئے اور انہیں کالج سے برطرف کر دیا گیا۔ یہ مرے کالج، سیالکوٹ میں پروفیسر ہو کر چلے گئے ۔ ایک برس بعد پھر ایف سی کالج میں ریاضی کے سینئرپروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گئے۔ ۱۸۹۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج میں ریاضی کے ریڈر مقرر ہوئے۔ اقبال کے ساتھ ان کی دوستی کا یہیں سے آغاز ہوا۔ کچھ مدّت بعد سنیاس لے لیا۔ ہندوستان بھر میں ویدانت کا درس دیتے پھرتے ۔ اسی مقصد کے لیے امریکہ بھی گئے۔ وہاں سے واپس آ کر ہر دوار میں ٹھکانا کیا۔ نومبر ۱۹۰۶ء میں دیوالی کے دن گنگا میں اشنان کرنے اُترے ۔ تیرتے ہوئے ذرا دور گئے تھے کہ ایک باڑھ کی لپیٹ میں آ کر ڈوب گئے۔ تین دن بعد لاش اس حالت میں ملی کہ آنکھیں بند تھیں اور جسم مراقبے کی مخصوص نشست یعنی سمادھی کے آسن میں تھا۔ ص کلیات ۱۳۹ پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہرِ نایاب تو وہ [سوامی تام تیرتھ] اپنی زندگی میں اتنے اونچے تھے کہ انہیں انسانیت کا موتی کہنا مناسب تھا۔ ڈوب گئے تو اس اعتبار سے بھی گوہر نایاب بن گئے کہ وہ ہاتھ نہ آ سکتے تھے۔ چونکہ نہایت بیش قیمت موتی کو بھی گوہر نایاب کہتے ہیں، اور ڈوب کر اصل سے مل جانے کے باعث سوامی جی کی ہستی زیادہ بلند ہو گئی تھی، لہٰذا اس لحاظ سے بھی انہیں گوہرِ نایاب قرار دینا بہت موزوں معلو م ہوتا۔ (مطالبِ بانگ درا ، مولانا غلام رسول مہر، ص ۱۳۵) ص کلیات ۱۳۹ رازِ رنگ و بو: ۱ ۔ کثرت کی حقیقت (راز+ رنگ و بو = کثرت ، ظہور ، مایا) ۲۔ صورت اور معنی کا بھید (راز+ رنگ = صورت ، ظہورِ کثیف ، مایا کا زمینی درجہ + و + بو=معنی۔ لطیف ، مایا کا سماوی مرتبہ) ۳ ۔ دُنیا کے غیر حقیقی ہونے کا راز مزید دیکھیے : ’’رنگ و بو‘‘ ص کلیات ۱۴۰ اسیرِ امتیازِ رنگ و بو: ۱ ۔ صورت اور حقیقت کی دوئی کے وہم میں مبتلا ۲ ۔ دُنیا میں گرفتار ، عالمِ کثرت کا اسیر ۳ ۔ حقیقی وحدت کے شعور سے محروم [اسیر = گرفتار + امتیاز = فرق ، دوئی + رنگ و بو= دیکھئے: پچھلا اندارج : ’رازِ رنگ و بو‘] ص کلیات ۱۴۰ آتش خانۂ آزر: ۱ ۔ آزر کا آتش کدہ ۲ ۔ صورت اور حقیقت کی یکجائی کا مقام ۳ ۔ بت پرستی کا منتہا ۴ ۔ سوامی رام تیرتھ کے حوالے سے یہ ترکیب بہت برجستہ اور معنی خیز ہے۔ ۵ ۔ آزر = حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت پرست باپ اور آزر = آگ میں صوتی یکسانی ہے اور آذر کی مناسبت ’آتش خانہ‘ کے ساتھ ظاہر ہے۔ ص کلیات ۱۴۰ نفیِ ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا ’لا‘ کے دریا میں نہاں موتی ہے الاَّ اَللہ کا ۱۔ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ہے۔ معرفت رکھنے والا قلب اس حقیقت کا تجربہ کروا دیتا ہے ۲ ۔ حیات و کائنات اور من و تو ایک پردہ ہے جس نے حقیقت کو ڈھانپ رکھا ہے ۔ دل آگاہ یہ پردہ اُٹھا دیتا ہے ۳۔اللہ کے ہونے کا عرفان، ماسوی اللہ کی ہستی کے انکار میںپوشیدہ ہے۔ ’لا الہ‘ سے گزرے بغیر ’الا اللہ ‘ کی منزل حاصل نہیں ہوتی ۴۔ سوامی رام تیرتھ کی غرقابی کے حوالے سے دیکھیں تو دوسرے مصرعے کی معنویت دو چند ہو جاتی ہے ۵ ۔ اس نظم کے پہلے شعر میں سوامی رام تیرتھ کو گوہر نایاب کہا گیا ہے۔ ’الا اللہ کا موتی‘ اس حوالے سے وہ معنی دیتا ہے جو ویدانتی فکر کا جوہر ہے، یعنی وہ گوہرِ نایاب دراصل یہی موتی ہے ص کلیات ۱۴۰ نفیِ ہستی: ۱۔ ماسوی اللہ کے وجود کا انکار ۲ ۔ ہستی کو مٹا دینا ۳ ۔ لا موجود الا اللہ (نہیں کوئی موجود مگر اللہ) کی حقیقت تک پہنچ جانا ۴ ۔ خود کو ذات الٰہیہ میں فنا کر دینا ص کلیات ۱۴۰ کرشمہ : کرامت ، اعجاز ص کلیات ۱۴۰ دلِ آگاہ : ۱ ۔ وہ دل جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ ۲ ۔ خدا، انسان اور کائنات کی حقیقت جاننے والا ، مردِ عارف ص کلیات ۱۴۰ چشمِ نابینا: ۱۔ اندھی آنکھ ۲ ۔ حقیقت کے مشاہدے سے محروم آنکھ ص کلیات ۱۴۰ معنیِ انجام: انجام کا مفہوم یعنی آخری حقیقت ص کلیات ۱۴۰ سیمِ خام : کچی چاندی یعنی بے حقیقت اور بے وقعت چیز [سیم = چاندی+ خام = کچی] ص کلیات ۱۴۰ توڑ دیتا ہے بُت ہستی کو ابراہیم عشق ہوش کا دارو ہے گویا مستیِ تسنیمِ عشق یعنی عشق ’لا موجود الا اللہ‘ (اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں) کا علم بردار ہے۔ اس شعر میں یہ بات جس طرح کہی گئی ہے،اس میں کئی چیزیں فنی اور جمالیاتی لحاظ سے بہت با معنی ہیں: ۱۔ ’ہستی‘ کو ’بُت‘ اور ’عشق‘ کو ’ابراہیم‘ سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا ہے کہ عشق کا مقصود ، اللہ میں فنا ہو جانا ہے ۔ ۲ ۔ ’بُتِ ہستی‘ ۱:۲ ۔ وجود ، اللہ کا سب سے بنیادی ذاتی وصف ہے۔ اسی پر اس کی تمام صفات مثلاً معبودیت وغیرہ کا قیام ہے۔ یعنی اللہ معبود اس لیے ہے کہ موجود ہے۔ جس طرح اللہ کے سوا کسی معبود بنانا شرک ہے، اسی طرح غیر اللہ کو موجود ماننا بھی شرک ہے، بلکہ زیادہ بڑا شرک ہے ۲:۲ ۔ ’ہستی‘ نرا مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۳:۲ ۔ خود کو موجود ماننا دراصل اپنی پر ستش کرنا ہے ۳ ۔ ’ابراہیمِ عشق‘ : ۱:۳۔ وحدت الوجودی حضرات ہر نبی میں دو جہتیں ثابت کرتے ہیں: نبوت اور ولایت ۔ ان کے نزدیک نبی کی جہتِ ولایت اُس کی جہتِ نبوت پر فضیلت رکھتی ہے۔ ’ابراہیمِ عشق‘ کو اس حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی جہتِ نبوت سے پتھر کا بُت توڑتے تھے اور جہتِ ولایت سے ہستی کا۔ان دونوں میں فرق واضح ہے ۴۔’بُتِ ہستی‘ اور ’ابراہیمِ عشق‘میں تضاد کی نسبت ہے۔ ’بُت‘ اور ’ابراہیم‘ باہم متضاد ہیں ۔ ’ہستی‘ اور ’عشق‘ کا بھی یہی معاملہ ہے ۵ ۔ ’ہوش‘؍ ’ہوش کا دارو‘ ۱:۵ ۔ ’ہوش‘ کثیر المعانی لفظ ہے۔ یہاں اکثر معانی مراد ہیں: احساس ، خبر،خیال، علم ، عقل، شعور، تمیز وغیرہ ۲:۵ ۔ یہاں ’ہوش‘ ، ’وہم‘ کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔کسی لفظ کو بالکل متضاد معنی میں استعمال کرنا بڑے کمال کی بات ہے ۳:۵ ۔ ’ہوش‘ کے کچھ نادر معنی بھی ملتے ہیں۔ زندگی، موت، زہر قاتل۔ اس شعر میں اضافی طور پر ان معانی کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ گنجائش ’بُتِ ہستی‘ ، ’دارو‘ ،’ تسنیم‘ اور’ عشق‘ سے پیدا ہوتی ہے ۱:۳:۵۔ ’ہوش‘ بمعنی ’زندگی‘ اور ’بُتِ ہستی‘ میں مکمل معنوی مناسبت ہے۔ دونوں فریب ہیں ۲:۳:۵۔ ’ہوش‘ بمعنی ’موت‘ اور ’ہستی‘ بظاہر متضاداور بباطن ہم معنی ہیں۔ اس ہم معنویت کو ’بت‘ کا لفظ مزید محکم کر دیتا ہے ۳:۳:۵۔ ’ہوش‘ بمعنی ’موت‘ اور ’دارو‘ بمعنی ’دوا‘ کی مناسبت واضح ہے ۳:۳:۵۔ ’ہوش‘ بمعنی ’موت‘ اور ’مستی‘ کی مناسبت بھی ظاہر ہے۔ اسی طرح ’موت‘ اور’ تسنیم‘ یعنی ’جنت کی نہر‘ میں بھی کئی مناسبتیں پائی جاتی ہیں ۴:۳:۵۔ ’ہوش‘ بمعنی ’زہرِ قاتل‘ اور ’دارو‘ بمعنی ’تریاق‘ کی نسبت واضح ہے۔ ’زہر‘ اور ’تسنیم‘ میں بھی تضاد کی نسبت ہے۔ زہر کڑوا ہوتا ہے جبکہ تسنیم کا پانی شیریں ہے۔ زہر ، موت ہے جبکہ تسنیم ، زندگی ہے۔ زہر بے خبر کرتا ہے جبکہ تسنیم کی بخشی ہوئی مستی، کمال معرفت ہے ۴:۵۔ ’ہوش‘ اور ’دارو‘ بمعنی ’شراب‘ میں تضاد کی نسبت ہے۔ یہ ’ہستی‘ میں مبتلا رکھتا ہے اور وہ ’ہستی‘ سے اوپر اُٹھاتی ہے ۵:۵۔ ’ہوش‘ اور ’مستی‘ ، ’تسنیم‘ اور ’عشق‘ میں درجہ بدرجہ تضاد ظاہر ہے ۶:۵ ۔ ’ہوش‘ کی کلی مطابقت ’ہستی ‘ کے ساتھ ہے اور کلی مغائرت ’عشق‘ کے ساتھ ۶۔ ’مستیِ تسنیمِ عشق‘ : ضروری باتیں، ’ہوش‘ کے ضمن میں ہو چکی ہیں۔ ’مزید دیکھیے یہی اندارج ۷ ۔ ’تسنیمِ عشق‘ : سوامی رام تیرتھ کے گنگا میں ڈوب جانے کو اقبال نے، لا کے دریا میں غوّاصی اور ’تسنیمِ عشق کی مستی سے تعبیر کیا ہے۔ دونوں میں خود سے گزر جانا مشترک ہے۔ نیز دیکھیے : ’بُتِ ہستی‘ ، ’ابراہیمِ عشق‘ ، ’ہوش‘ ، ’دارو‘، ’مستیِ تسنیم عشق‘ ص کلیات ۱۴۰ بُتِ ہستی: ۱ ۔ ہستی کا بُت ۲ ۔ اللہ کو موجود مان کر کائنات کو بھی موجود ماننا ، شرک فی الوجود ۳ ۔ عقل کا وہ تصور جس کی رو سے کائنات بھی واقعی اور حقیقی وجود رکھتی ہے نیز دیکھیے: توڑ دیتا ہے بُت ہستی کو ابراہیم عشق ہوش کا دارو ہے گویا مستیِ تسنیمِ عشق ص کلیات ۱۴۰ ابراہیمِ عشق: ۱۔ عشق کا ابراہیم ۲ ۔ عشق جو ابراہیم ہے ۳ ۔ عشق جو اللہ کے سوا کسی کو موجود نہیں مانتا ۴ ۔ عشق کی وہ قوّت جس سے عقل کی تصور پرستی اور توہمات کا خاتمہ ہوتا ہے ۵ ۔ ہستی کا بُت مسمار کرنے والا نیز دیکھیے: ’بُتِ ہستی‘ ص کلیات ۱۴۰ ہوش : ۱ ۔ اپنے ہونے کا احساس ًً ۲۔ عقل ۳ ۔ تصور ، خیال، وہم ص کلیات ۱۴۰ دارو : ۱ ۔ دوا ، تریاق ، علاج ۲ ۔ شراب ص کلیات ۱۴۰ مستیِ تسنیمِ عشق : ۱ ۔ عشق کی تسنیم سے سیراب ہو کر حاصل ہونے والی بے خودی اور سر مستی ۲۔ اللہ کے دیدار کی کیفیت ۳ ۔ وحدت الوجود کی حقیقت کا تجربہ [مستی+ تسنیم = جنت کی ایک نہر ، مراد فیضان کا سرچشمہ + عشق = دیکھیے تمام اندراجات]  خرم علی شفیق بالِ جبریل چند تصریحات بال جبریل کی ترتیب میں بعض چیزیں قارئین کو کبھی کبھی الجھن میں مبتلا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر فہرست عنوانات کا شامل نہ ہونا، حصہ غزلیات پر عنوان نہ ہونا اور غزلیات کے نمبر شمار کا ایک سے سولہ تک پہنچ کر بغیر کسی توجیہہ کے دوبارہ نمبر ایک سے شروع ہو جانا ۔ جب سے کلام اقبال کی اشاعت کا پی رائٹ سے آزاد ہوئی ہے، بہت سے ناشروں نے ان الجھنوں کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ اس مجموعے کے شروع میں یہ سوچ کر اپنی طرف سے ایک ’’فہرست مضامین‘‘ دے دیتے ہیں کہ اقبال حکیم الامت اور علامہ وغیرہ ضرور رہے ہوں گے مگر بہرحال انسان ہونے کی وجہ سے غلطی کے مرتکب ہو سکتے تھے، چنانچہ اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ اب غزلیات کے حصے پر عنوان بھی دیا جانے لگا ہے اور اس نادرِ روز گار مجموعے کی ایسی ہی دوسری خامیوں کا ازالہ بھی مختلف ناشر اپنی اپنی بساط کے مطابق کر رہے ہیں ۔ مجھے ان سے بھی اختلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے ہے کہ کسی کتاب کی ہئیت اس کے معانی کی وضاحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اگر مصنف نے اُسے کسی خاص انداز میں ترتیب دیا ہو تو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ اقبال کے بارے میں تو ہم یوں بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کتاب کی ترتیب ، کتابت اور طباعت کے تمام مراحل میں خود دلچسپی لیتے تھے ۔ میری نظر میں ’’بال جبریل‘‘ کو اقبال نے جس غیر معمولی انداز میں پیش کیا تھا، اس کا اس کتاب کے معانی سے گہرا تعلق ہے۔ سب سے پہلے ’’فہرست عنوانات‘‘ کے سوال پر غور کرتے ہیں ۔ فہرست کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قاری کتاب کو شروع سے آخر تک نہ پڑھنا چاہے اور درمیان میں سے کسی حصے کو اس کی ترتیب سے علیحدہ کر کے دیکھنا چاہے تو فہرست کی مدد سے وہ اس کا صفحہ نمبر معلوم کر کے ایک دم اس تک جا پہنچے ۔ اس کے علاوہ فہرست کسی کتاب کے اندراجات کا ایک سر سری جائزہ لینے میں مدد بھی کرتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ناولوں کے شروع میں فہرست نہیں دی جاتی، کیونکہ وہاں کتاب کو ایک تسلسل سے پڑھوانا مقصود ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ ’’بال جبریل‘‘ کی ابتدا میں اقبال نے فہرست مضامین نہیں دی ہے ۔ گویا ’’بانگ درا‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ کے برعکس (جن میں فہرستیں موجود ہیں) یہ کتاب متفرق نظموں کا مجموعہ نہیں ہے جن میں سے کوئی بھی نظم نکال کر تفریح طبع حاصل کر لی جائے ۔ اس کتاب کا تقاضا یہ ہے کہ اسے شروع سے آخر تک ایک تسلسل کے ساتھ پڑھا جائے اور تب ہی اس کے معانی واضح ہوں گے (کہا جا سکتا ہے کہ ’’جاوید نامہ‘‘ بھی ایک مسلسل کتا ب ہے تو پھر اس کی ابتدا میں اقبال نے فہرست کیوں شامل کی؟ میرے خیال میں جاوید نامہ کے موضوعات کی ندرت اس بات کی متقاضی تھی کہ قارئین کو شروع ہی میں ان کی ایک جھلک دکھا کر بتا دیا جائے کہ یہ کتاب کسی دوسرے جہان سے تعلق رکھتی ہے)۔ میں زیر نظر مضمون میں ’’بالِ جبریل‘‘ کی بعض مشہور نظموں کے ایسے معانی کی طرف نشان دہی کرنے کی کوشش بھی کروں گا جو میرے خیال میں صرف سیاق و سباق ہی سے واضح ہوتے ہیں اور جن پر عام طور سے شارحین نے توجہ نہیں دی ہے یا انھیں غلط سمجھا ہے مگر اس سے پہلے ہمیں ’’بالِ جبریل‘‘ کی ترتیب سے متعلق دوسرے اہم سوال پر توجہ دینی چاہیے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ’’بالِ جبریل‘‘ کی غزلوں پر ’’حصہ غزلیات‘‘ کا عنوان کیوں نہیں ہے اور ان کے نمبر شمار ، اسے ۱۶ تک پہنچنے کے بعد دوبارہ کیوں شروع ہو جاتے ہیں؟ ان دونوں باتوں کے جواب بالکل ہماری نظر کے سامنے ہیں۔ ان پر غزلیات کا عنوان اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ یہ غزلیات نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے حصے کی غزل نمبر ۵ کو دیکھیے ۔ آخری دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ صورت غزل نہیں کہلاتی بلکہ ترکیب بند ہوتی ہے۔ اسی حصے کی غزل نمبر ۱۶ کو دیکھیے ۔ مطلع غائب ہے اور موضوع میں تسلسل موجود ہے ۔ اسے بھی غزل کی بجائے قطعہ کہا جائے گا۔ چنانچہ جس حصے میں ایسی چیزیں موجود ہوں انھیں غزلیات کا عنوان دینا( جیسا کہ بعض ناشرین اب کر ہے ہیں) اقبال پر سخن نا شناسی کی تہمت لگانے کے مترادف ہے۔ اقبال نے اپنی ’’زبورِ عجم‘‘ کی غزلوں کو اپنے ایک خط میں ’’غزل نما ٹکڑے‘‘ کہا تھا ۔ میں اس مضمون میں ’’بالِ جبریل‘‘ کی غزلوں کے لیے ٹکڑوں کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے ان چیزوں کو جو غزلیں نہیں تھیں ، کتاب میں کسی اور جگہ کیوں نہیں رکھ دیا؟ مثال کے طور پر وہ بہت آسانی سے غزل نمبر ۵ پر ’’زوال ‘‘ یا ’’ابدیت‘‘ قسم کی کوئی سرخی جما کر اسے نظموں کے ساتھ رکھ سکتے تھے یا غزل نمبر ۱۶ کو ’’اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں‘‘ والے قطعے کی طرح کہیں الگ سے رکھ سکتے تھے ۔ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ ٹکڑے کسی خاص چیز کے بیان میں ایک تسلسل قائم کرتے ہیں ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بالِ جبریل کے مندرجات کی سیاق و سباق کے حوالے سے اب تک تشریح نہیں کی گئی۔ جہاں تک نمبر شمار کے ایک سے سولہ تک پہنچنے کے بعد دوبارہ شروع ہونے کا تعلق ہے، میرا خیال ہے اس بات کو عام طور ’’بالِ جبریل‘‘ کا مطالعہ کرنے والے جلد ہی سمجھ جاتے ہیں کہ پہلے حصے میں خدا سے خطاب ہے اور دوسرے میں انسان سے خطاب ہے(’’زبورِ عجم‘‘ میں بھی یہی التزام ہے) ۔ نیز ’’بالِ جبریل‘‘ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودے میں کاتب کے لیے واضح ہدایت موجود ہے کہ بعض رباعیات کو پہلے حصے میں شامل کیا جائے ۔ یہ تمام رباعیات بھی ایسی ہیں جن میں خدا سے خطاب کیا گیا ہے۔ ’’بالِ جبرل‘‘ کے پہلے شعر سے شروع کریں جو اقبال کے مشہور ترین اشعار میں سے اور ایک عجیب و غریب غنائی تاثر رکھتا ہے: میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں اگر ہم یہاں ایک لمحہ رک کر پوچھیں کہ یہ بات کون کہہ رہا ہے اور کس موقع پر کہہ رہا ہے اور کسی وجہ سے یہ جواب تسلیم کر لیں کہ یہ بات کہنے والا آدم یا پہلا انسان ہے اور یہ بات وہ ابتدائے آفرینش یعنی اپنی تخلیق کے موقع پر کہہ رہا ہے تو نہ صرف اس ٹکڑے کے معانی آپس میں مربوط ہو جاتے ہیں بلکہ اس حصے کے تمام سولہ ٹکڑے ایک مسلسل کہانی بن جاتے ہیں ، یعنی ابتدائے آفرینش سے لے کر آخری زمانے تک (جسے آپ چاہیں تو کل جگ بھی کہہ سکتے ہیں جو اگرچہ ویدانتی اصطلاح ہے مگر اقبال نے ’’بالِ جبریل‘‘ کی تمہید بھی تو بھرتری ہری سے کی ہے!) ۔ حریمِ ذات اور بت کدئہ صفات کی تشریح تو خوب کی گئی ہے یعنی حریمِ ذات لامکاں کا وہ گوشہ ہے جہاں خدا کے سوا کسی کی موجودگی کی اجازت نہیں اور جہاں خدا اپنی ذاتِ واحد میں موجود ہے۔ صفات سے مراد خدا کے وہ جلوے ہیں جو ہمیں دنیا میں عام طور پر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انسان کے پیدا ہونے سے حریمِ ذات میں شور ہوا ہے (پیدائش پر شور ہوتا ہی ہے) اور بُت کدئہ صفات میں غلغلہ مچ گیا ہے کیونکہ اس بُت کدے کو درہم برہم کرنے والا پیدا ہو گیا ہے (یاد رہے کہ ’’علم الاسما‘‘ ایک طرح سے آدم کی سرشت میں تھا)۔ صاحب نظر قارئین سوال اٹھائیں گے کہ انسان ’’نوائے شوق‘‘ کو اپنی طرف کیوں منسوب کر رہا ہے؟ اس کی پیدائش خدا کے حکم سے ہوئی ہے تو پھر اسے خدا کی نوائے شوق کہنا تو شاید رعایتِ شعری میں جائز ہو مگر یہ خود انسان کی اپنی نوائے شوق کس طرح ہوئی؟ جواباً میں اقبال کے اس سے پچھلے شعری کارنامے ’’جاوید نامہ‘‘ کی طرف اشارہ کروں گا ۔ وہاں بھی ابتدائے آفرینش سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چیزوں کے وجود میں آتے ہی یہ عالم ہوتا ہے کہ : ہر کجا از ذوق و شوق خودگری نعرئہ ’من دیگرم تو دیگری‘ یہ خود گری کا ذوق و شوق ہی ہے جسے آدم اپنی طرف منسوب کر رہا ہے اور وہ نوائے شوق بھی اسی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ یہ آواز خواہ اُسی ساز کی ہو جو حریمِ ذات میں براجمان ہے مگر رومی کی بانسری میں اور اقبال کی بانسری میں اتنا فرق ضرور ہے۔ اقبال کے یہاں ’’من دیگرم‘ تو دیگری‘‘ کا نشہ بے خودی کے طور پر ہی سہی ، ایک خود فریبی کے طور پر ہی سہی ، مگر موجود ضرور ہے اور دوری کا رونا رونے والے کی فریاد سن کر جو لوگ اُسے ایک نغمہ سمجھ بیٹھتے ہیں، اُن میں خود رونے والا بھی شامل ہے (اس فرق سے رومی کے مقام میں کمی واقع نہیں ہوتی ،شاید اقبال کے مقام میں کمی آتی ہو) ۔ خدا سے دوری اور قربت کا یہ تضاد ، اُس کے وجود سے متعلق ہونے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی کشمکش اور اس پیچ و تاب کا حقیقت کے سامنے کوئی معانی نہ رکھنا یہ تمام کیفیات تیسرے ٹکڑے میں خوب کھل کر بیان ہوں گی (یعنی وہی ٹکڑا جس کا آغاز ہے ، گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر)۔ تُو ہے محیطِ بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بیکنار کر! پہلے ٹکڑے کی طرف واپس آتے ہیں ۔ یہ بات تسلیم کرنے سے کہ ’’جاوید نامہ‘‘ کی طرح بالِ جبریل کا آغاز بھی ابتدائے آفرینش سے ہو رہا ہے، اس ٹکڑے کے بقیہ اشعار کے معانی میں ایک خاص لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں، یہ بات کسی ان دیکھی چیز کے بارے میں دعویٰ نہیں ہے بلکہ اب جو تصویر ہماری نظروں کے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے۔ حور و فرشتہ بھی سامنے اور اردگرد کہیں چل پھر رہے ہیں اور شاعر کوئی دعویٰ نہیں کر رہا بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہے کہ یہ نورانی صورتیں جو نظر آ رہی ہیں یہ اس کے تخیل میں اسیر ہو گئی ہیں۔ اسی طرح جن تجلیات کا وہ ذکر کر رہا ہے، جن میں اس کی نگاہ سے خلل آ رہا ہے، وہ بھی سامنے موجود ہیں۔ ’’گرچہ ہے میری جستجو‘‘ میں پیشین گوئی ہے یا پھر یوں سمجھ لیجئے کہ ایک امکان کو حقیقت کے انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یعنی انسان کی جستجو نے ابھی کعبہ اور سومنات کی تصویریں بنانا شروع نہیں کی ہیں اور یہ نہیں کہا جا رہا کہ ایسا ہوا ہے بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا ہے (یاد رہے کہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں بھی جہاں انسان کی تخلیق کی پیشین گوئی ہو رہی ہے، وہاں اس کے معجزات کے لیے بعض اوقات اسی طرح کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں)۔ اگلے شعر سے ذہن اُن واقعات کی طرف جاتا ہے کہ ایک طرف تو انسان نے کائنات کی ہر چیز کے درست نام بتا دئیے جس پر خدا نے فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور دوسری طرف اس کے بعد انسان اُسی ابلیس کے بہکاوے میں آگیا جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا: گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں یہاں اُن توہمات کی طرف ذہن جاتا ہے جنہیں ابلیس نے آدم کی فطرت میںتلاش کر کے اُن سے فائدہ اٹھایا یعنی یہ کہ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے سے ہمیشہ زندہ رہو گے ، فرشتے بن جائو گے ، وغیرہ وغیرہ ۔ آخری شعر ہبوط کے حکم پر انسان کا رد عمل ہے۔ خدا نے انسان کو زمین پر بھیج کر سزا نہیں دی بلکہ اپنا راز فاش کرنے کا سامان کر لیا۔ انسان کہہ رہا ہے کہ صرف وہی اس کائنات کے سینے میں ایک راز تھا۔ انسان راز کیسے تھا ؟ اسے کئی طرح سمجھا جا سکتا ہے مگر میرا ذہن اُس طرف جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان بڑا خونریز ہوگا تو خدا نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔ انسان کہہ رہا ہے کہ اب وہ بات ظاہر ہو جائے گی جو پہلے صرف خدا جانتا تھا اور فرشتے نہیں جانتے تھے اور وہ بات کیا ہے؟ انسان کے وہ کون سے مضمرات ہیں جو صرف علمِ الٰہی میں تھے اور ایسے عظیم الشان ہیں کہ فرشتوں کو بھی ان کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ اس کا جواب اگلے ٹکڑوں میں بتدریج سامنے آئے گا۔ بالِ جبریل کا ادبی حسن یہی ہے کہ اس موضوع کے لوازمات خود متن میں سے سامنے آتے ہیں مگر اس کے لیے متن کو مربوط کرکے پڑھنا لازمی ہے۔ اب دوسرے ٹکڑے پر آئیے ۔ اس کا مضمون وہی ہے جو ایک اور نظم ’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ وہاں نظم کی آزادی ہے یہاں تغزل کا انجذاب ہے۔ اس کے علاوہ اگرچہ دونوں منظومات کا موضوع ایک ہے مگر معرض بحث الگ الگ ہے۔ انسان زمین پر آ کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو شاید خالق کا یہ بھید اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ آسمان جس کی روشنیوں کی بڑی دھوم دھام تھی، درحقیقت اس کے چاند ستارے سب ٹیڑھے میڑھے ہیں۔ اگر انسان کی نظر سے دیکھا جائے( جو خدا کی نظر ہے اُس دیکھنے والے کی جو اپنے آپ کو نورِ حق سے دیکھ چکا ہو) ۔ دنیا میں ہر چیز ناتراشیدہ ہے جس کے پتھروں میں سے انسان کو شیشہ بنانا ہے اور جس کے زہر میں سے نوشینہ نکالنا ہے مگر ایک ضدی بچے کی طرح جسے اسکول جانا اس لیے ناگوار گزرتا ہے کیونکہ وہ اپنے والدین سے دور نہیں ہونا چاہتا اور شاید ماں باپ کے سرزنش کرنے پر ذرا سا ناراض بھی ہے۔ انسان بھی فی الحال یہ ذمہ داری اٹھانے میں رد وقدح کر رہا ہے۔ اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟ مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟ شاید انسان کو لا مکاں سے مکاں پر بھیج کر خدا مطالبہ کر رہا ہے کہ انسان اپنی ریاضت سے اپنے درجے بلند کر کے اپنے آپ کو دوبارہ لامکاں میں لانے کی فکر کرے جس پر انسان آمادہ نہیں( یہ مضمون آگے اس صورت میں آئے گا کہ ’’باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں۔ کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر‘‘ ، مگر یہاں ایک اور انداز میں آتا ہے): اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ اس سے اگلا شعر ایک قسم کا لطیف طنز ہے جس کی ایمائیت واضح ہے۔ اُس کے بعد والے شعر کی عام طور پر جو تشریح کی جاتی ہے مجھے اس سے شدید اختلاف ہے: محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ عام طور پر شارحین نے کہا ہے کہ ’’حرفِ شریں‘‘ سے اقبال کی مراد اُن کا اپنا کلام ہے یا پھر جذبۂ عشق وغیرہ۔میرے خیال میں اس شعر میں ادبی حسن اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم یہ مراد لیں کہ حرفِ شریں سے بھی قرآن ہی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی قرآن خدا کا کلام ہے جسے اُس کا معتبر فرشتہ خدا کے ایسے محبوب بندے پر لایا ہے جو معصوم ہے، اور گناہ گاروں کو جس قسم کی کشمکش اور ٹوٹ پھوٹ کا ہر روز سامنا رہتا ہے وہ اُس سے بہت بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ کلام ہم جیسوں کے دل کو سکون پہنچاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ ہماری ہی آواز ہو تو پھر از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ اس طرح انسان گویا خدا کو یاد دلانا چاہ رہا ہے کہ خواہ انسان کو ظلوماًجہولاً کہہ کر معتوب کر دیا جائے اور لامکاں سے دور لا کر ایک بنجر سیارے میں چھوڑ دیا جائے مگر اُس کی اصل تو خدا ہی کی ذات ہے اور جب کئی صدیوں کے بعد خدا اپنا خاص کلام نازل کرتا ہے تو وہ بھی اسی بات کی غمازی کر بیٹھتا ہے کہ وہ جو آسمانوں کے اُس طرف بیٹھا ہے، وہ کس طرح شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس پورے ٹکڑے میں انسان اپنے زمین پر بھیجے جانے پر ناخوشی کا اظہار کر رہا ہے اور ایک ایسے عاشق کی طرح جسے محبوب نے بزم سے اٹھا دیا ہو، وہ محبوب حقیقی سے اُس قسم کی باتیں کر رہا ہے جنھیں ہمارے روایتی شعراء عام طور پر محبوب مجازی سے ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ قسم کے مضامین میں کیا کرتے تھے۔ اقبال کے بعد اور شاعروں نے بھی خدا سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی ہے مگر اُس میں فرق یہ ہے کہ اقبال کہیں بھی پندارِ عاشقانہ سے آگے نہیں گزرتے بلکہ اکثر تو ان کے ناز میں بھی نیاز شامل رہتا ہے۔ اس ٹکڑے کے آخری شعر میں مجھے صرف ایک لفظ کی تشریح کرنی ہے: اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟ یہاں زوال سے مراد ہبوط آدم ہے یعنی یہ لفظ (یعنی زوال) اُن معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے ہم زوال آفتاب وغیرہ کہتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال استعارے سے خوب کھیلے ہیں ۔ پہلے کوکب یعنی ستارے کا لفظ لائے جسے آدم خاکی پر منطبق کیا اور پھر کوکب کی حرکت کی رعایت اسی آدم خاکی کو دے دی۔ میرے نزدیک ایک اس شعر کا مفہوم وہی ہے جو اس پورے ٹکڑے کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے یعنی اصل روشنی روح کی روشنی ہے نہ کہ چاند ستاروں اور سورج کی روشنی۔ یہ روشنی صرف ایک وجود میں تھی جو انسان کا وجود تھا۔ اسے زمین پر بھیجنے سے زمین روشن ہو گئی ہے اور آسمانوں کا نقصان ہوا ہے مگر خیر ، یہ بات خدا ہی جانے کہ اس نے اپنے آسمانوں کا (یعنی اپنے جہان کا) نقصان کیوں گوارا کیا۔ اس کے بعد ہم تیسرے ٹکڑے پر آتے ہیں تو اچانک یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزر چکا ہے، انسان کے ابتدائی ردِ عمل کا زور و شور اور اُس کے وہ بڑے بڑے دعوے جو اُس نے ابھی کیے تھے وہ سب ماند پڑ چکے ہیں اور یہ ایک انتہائی مقرب راز عاشق کی طرح، جسے اپنے محبوب سے اپنے خاص تعلق پر ناز ہے، وہ یہ بات یک سر بھلا کر کہ ابھی ابھی اُس نے کیا کہا تھا، اب براہِ راست نیاز مندی پر اتر آیا ہے۔ انسان اور خدا کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ مزاج کی اس یک لخت تبدیلی کے لیے نہ کسی تمہید کی ضرورت ہے نہ اظہارِ عشق سے پہلے اپنی پچھلی لاف و گزاف پر معذرت پیش کرنا لازمی ہے۔ جہاں گلہ تھا وہاں بلا تکلف گلہ کر دیا اور اب ہجر کا درد محسوس ہوا ہے تو بلا تردد اس کا اظہار کر کے وصل کی خواہش پیش کر دی: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر! عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں! یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر! یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ اس سے پہلے شوق کا لفظ استعمال ہوا تھا ۔ اس منظوم داستان میںیہ پہلا موقع ہے کہ انسان عشق کا لفظ استعمال کر رہا ہے۔ گویا یہ پہلا اظہارِ عشق ہے اور اگرآپ اس سے پہلے کے دونوں ٹکڑوں کو غور سے پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچیں تو یہ اظہارِ عشق اُسی طرح کا تاثر دیتا ہے جیسے کوئی مدتوں کسی کے ساتھ رہنے اور تعلقات میں بڑے اتار چڑھائو کے بعد اچانک یہ محسوس کرے کہ اُسے ہمیشہ سے اسی شخص سے محبت تھی اور اس کا شدت سے احساس پہلی بار ہوا ہے۔ پوری نظم (یعنی ٹکڑا) عشق اور نیاز مندی میں ڈوبا ہوا ہے مگر آخری دو اشعار میں اقبال پھر اقبال بن جاتے ہیں: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر! روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر! مجھے ان دونوں اشعار کے بارے میں دو باتیں کہنی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی کہانی میں کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو کچھ دیر پہلے اُسی کہانی میں پیش آیا ہو تو اُس میں ایک خاص لطف پیدا ہوتا ہے جو اُس صورت میں پیدا نہیں ہوتا اگر مصنف کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو عام طور پر دنیا میں کہیں ہوا ہو مگر جس کا کہانی سے تعلق نہ ہو۔ مثلاً اگر کوئی کہانی کے کسی باب میں ایک کردار کسی کردار سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ یہ سلوک اس لیے کر رہا ہوں کہ تم نے بھی میرے ساتھ فلاں معاملہ کیا تھا، تو اس میں قارئین کی دلچسپی بڑھ جائے گی۔ اگر وہ معاملہ کہانی ہی کا ایک حصہ تھا اور پہلے بیان کیا گیا تھا تو اس طرح کہانی سمٹتی ہے اور اس میں ایک شدت آ جاتی ہے۔ یہاں اقبال نے باغ بہشت سے حکمِ سفر ملنے کے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے، اگر ہم پہلے دونوں ٹکڑوں کو ابتدائے آفرینش اور ہبوط آدم کے تناظر میں پڑھتے ہوئے آ رہے ہوں تو انسان کا خدا سے یہ بات کہنا بھی ادبی پہلو سے زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ کردار اپنی جو کیفیات بیان کر رہا ہے وہ ہمارے سامنے درجہ بدرجہ تشکیل ہوئی ہیں۔ پہلے انسان پیدا ہوا تھا اور اپنے وجود کی لذت سے سرشار تھا، اُسے خدا سے تقرب پر ناز بھی تھا کہ حورو فرشتہ بھی اس کے تخیل میں اسیر تھے ، پھر اُسے ہبوط کا صدمہ اٹھانا پڑا اور وہ ایک دل شکستگی سے دو چار ہوا، اس نے نیاز مندی قائم رکھتے ہوئے خدا سے تھوڑا سا گلہ شکوہ بھی کیا۔ اب عشق غالب آیا ہے اور اظہارِ عشق ہو رہا ہے مگر دنیا دامن کھینچ رہی ہے اور اس کی اس کشمکش پر ہم اس سے ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اس کیفیت کی تشکیل کے مرحلوں میں اس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جو روزِحساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہونے پر انسان کے ساتھ ساتھ خدا کے شرمسار ہونے کی بات آئی ہے، اُس کی دلیل اور توجیہہ بھی پچھلے ٹکڑوں میں پیش کی جا چکی ہے۔ چنانچہ اگر اُس قسم کے اشعار کو سامنے رکھیں مثلاً میں ہی تو ایک راز تھا۔۔۔۔۔الخ ‘‘ اور ’’مگر یہ حرفِ شیریں۔۔۔۔۔ الخ ‘‘اور دوسرے اشعار ، تو یہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کہ جب روزِ حساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہو گا تو اس میں انسان اور خدا دونوں کے شرمندہ ہونے کی گنجایش کیوں کر ہو گی۔ ’’بال جبریل‘‘ کو تسلسل میں پڑھ کر اس شعر کی تشریح اس کے سیاق و سباق میں کرنے سے اس کی ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو مثال کے طور پر اس صورت میں سامنے نہیں آتی، اگر ہم اپنی مرضی سے اس شعر کی تشریح کرنے کی آزادی حاصل کر لیں۔ اگرچہ اقبال کے عام خیالات اور ’’بال جبریل‘‘ ہی کے دوسرے مقامات اور اسی سلسلے کے ایک آئندہ ٹکڑے کی روشنی میں یہ معانی بعید از کار ہوں گے۔ زیادہ قرین قیاس تو جیہہ یہ نظر آتی ہے کہ یہاں ستاروں کا خوف اور ان کا وہم بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ یہ بحث نہیں ہے کہ انسان واقعی خدا بن سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر یہ انسان خاص طور پر صاحب معراج محمد عربیؐ ہے تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقبال اپنی اولین غزلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا خود محمدؐ کے لباس میں یثرب میں آیا ، وغیرہ ، اگرچہ بعد میں اپنے کلام میں سے ایسے اشعار نکال دئیے اور بظاہر اس قسم کے معتقدات سے دُور ہٹ گئے ۔ ممکن ہے یہاں ایک شاعرانہ لطافت کے طور پر بات کو اس مقام سے قریب پہنچا کر دانستہ رک گئے ہوں ۔ چونکہ شاعر اپنا خیال پیش نہیں کر رہا بلکہ ستاروں کا وہم بیان کر رہا ہے (جو اس شعر میں ویسے بھی بیچارے اس طرح سہمے ہوئے ہیں جس طرح مویشی اچانک سہم کر ادھر اُدھر بھاگنے لگتے ہیں) چنانچہ جو خیال بھی پیش کیا جا رہا ہے اُس کے بارے میں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ شاعر کا اپنا نظریہ بھی یہی تھا یا نہیں تھا۔ انسان کو ٹوٹا ہوا تارا ہبوط کی رعایت سے کہا ہے، کیونکہ وہ ایک طرح سے ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا (اور ہم کم از کم ضرورتِ شعری کے تحت اس بحث سے قطعِ نظر کر سکتے ہیں کہ جنتِ ماویٰ زمین پر تھی یا آسمان پر تھی) ساتویں اور آٹھویں ٹکڑے اس لحاظ سے قابلِ غور ہیں کہ اس پورے سلسلے میں پہلی بار ان میں کچھ تاریخی استعارے سامنے آتے ہیں۔ساتویں ٹکڑے میں کہا جا رہا ہے کہ عجم سے لالہ زاروں سے دوبارہ کوئی رومی نہیں اُٹھا ۔ ایران کا ذکر ہے اور تبریز کا ذکر ہے ۔ اس سے اگلے ٹکڑے پر آئیے تو ایک خاص ترکیب نظر آتی ہے جو کم سے کم تغزل کی شاعری میں بہت ہی عجیب اور بے ڈھب محسوس ہوتی ہے یعنی ’’تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند۔۔۔۔۔۔ ‘‘ تین سو سال سے کیوں؟ اور کیا اگر میخانے ساڑھے تین سو سال یا پونے پانچ سو سال سے بند ہوتے تو اقبال اُسے کس طرح نظم کرتے ؟ یہ شعر پڑھ کر ایک عقیدت مند نے اقبال سے پوچھا بھی تھا کہ تین سو سال پہلے تو جہانگیر کا دورِ حکومت تھا، کیا اقبال یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اب اس طرح شراب نہیں پی جاتی جس طرح جہانگیر پیا کرتا تھا۔ اقبال نے جواب میں وضاحت کی تھی کہ یہاں ذرا رک جائیں اور محسوس کریں کہ اب ایک خاص زمانے کا ذکر ہو رہا ہے (اور پھر یہ بات الگ ہے کہ شعر کے وزن اور طرزِ بیان میں یہ ترکیب اپنی جگہ خوبصورت لگتی ہے)۔ ملاحظہ ہو کہ یہاں پہلی بار اقبال اپنا تخلص لائے ہیں ورنہ اس سے پہلے کے ٹکڑوں میں کہیں اقبال کا نام نہیں آیا تھا۔ بالِ جبریل کے اس سلسلے کو روحانی تاریخ کے طور پر پڑھتے ہوئے ساتویں اور آٹھویں ٹکڑے پر پہنچیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال خاص اپنے زمانے کا ذکر کر رہے ہیں۔ ساتویں ٹکڑے سے متعلق صرف چند تصریحات پیش کرنا چاہوں گا ۔ اس شعر پر نظر ڈالی جائے: حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی! اگر ہم پورے سلسلے کو ترتیب سے پڑھتے آ رہے ہوں تو ’’اب تک‘‘ سے ذہن تیسرے ٹکڑے (یعنی گیسوئے تابدار ۔۔۔۔۔۔ الخ) کی طرف جاتا ہے جس میں کہا تھا کہ ’’عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں۔ یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر!‘‘ یہاں یاد دلایا جا رہا ہے کہ کچھ حجاب اٹھے تو تھے مگر شاید کچھ حجاب باقی ہیں۔ ساتویں ہی ٹکڑے کے دو شعر ہیں: نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گلِ ایران ، وہی تبریز ہے ساقی نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ان میں سے دوسرا شعر بے حد مشہور ہے اور عام طور پر اس کے معانی یوں لیے جاتے ہیں کہ اقبال نئی نسل سے مایوس نہیں ہیں اور اگر نوجوانوں کے دل میں تھوڑا سا درد وغیرہ پیدا ہو جائے تو اقبال کے کلام پر توجہ دے کر وہ اپنی کشتی پار لگا سکتے ہیں ،وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اگر اس شعر کو بالکل پچھلے شعر کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہاں ’’کشتِ ویراں‘‘ سے مراد نئی نسل نہیں ہے بلکہ اقبال نے اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کہا ہے جس پر ساقی کا کرم ہو جائے تو اُس میں بھی رومی کے لالہ زاروں کے پھول اگ سکتے ہیں (یہ مضمون اگلے ٹکڑوں میں بار بار ادا ہوا ہے) یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے دور میں جب اقبال اپنے تمام بڑے شاہکار لکھ چکے تھے وہ اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کیوں کر کہہ سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ٹکڑا اقبال کی ذہنی زندگی کے کسی ابتدائی دور کی طرف اشارہ کر رہا ہے ، بالکل اُسی طرح جیسے کتاب کے آغاز میںابتدائے آفرینش کا ذکر یوں شروع نہیں ہوا تھا کہ ’’ہزاروں سال پہلے کی بات ہے ۔۔۔۔۔ ‘‘ اس پورے سلسلے میں مختلف ادوار اور حالات میں ایک انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو براہ راست بیان کیا گیا ہے(شعور کی رو کی مثال فوراً سامنے آتی ہے مگر اُس کا تعلق نثری افسانے سے ہے،لہٰذا اس کے ساتھ تفصیلی موازنہ لا حاصل ہو گا) اقبال نے یہ خواہش کیوں کر کی کہ ان کی شاعری کی کھیتی ہری بھری ہو جائے؟ کیونکہ ان کے پاس ایسا پیغام تھا جو ان کی غلام قوم کو دوبارہ قوت و شوکت عطا کر سکے ۔ یہ وضاحت اگلے ہی شعر میں کر دی ہے: فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سلطانی بہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی! اگلے ٹکڑے میں اور بھی کھل کر کہتے ہیں: لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی! گویا اقبال کی مینائے غزل میں مجدد الف ثانی کی بچی ہوئی تھوڑی سے مے باقی تھی، مگر شیخ نے اُسے بھی حرام قرار دے دیا ہے۔شیخ صاحب کو ایسی پاکیزہ چیز سے دشمنی کیوں ہے؟ اس کی وضاحت بالکل اگلے اشعار میں ہو جاتی ہے یعنی تحقیق کا جنگل شیر مردوں سے خالی ہو گیا ہے اور اب صوفی و ملاّ کے غلام رہ گئے ہیں ۔ عشق کی تیغِ جگر دار کس نے اڑالی ہے، علم کے ہاتھ میں خالی نیام ہے۔ اگلے دونوں اشعار کو ایک دوسرے سے ملا کر پڑھنا چاہیے: سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی! توُ مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! یہاں ’’مری رات‘‘ سے شاعر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ باہر پھیلی ہوئی رات کی طرف (عیسائی تصوف سے شغف رکھنے والوں کا ذہن سینٹ جان آف دی کراس کی تصنیف ’’ڈارک نائٹ آف دی سول‘‘ کی طرف جائے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ اقبال اس سے واقف تھے یا نہیں مگر اس تصنیف نے بہت لوگوں کو متاثر کیا ہے اور اب نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے مصنف پر اسلامی اثرات بہت تھے) ۔ میرے خیال میں ان چار مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ میرے سینے میں رات ہے جسے تو اپنی شراب سے روشن کر سکتا ہے اور ایسا کر دے کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو میری شاعری مرگِ دوام بن جائے گی جبکہ سینہ روشن ہونے کی صورت میں عینِ حیات ہوگی ۔ دیکھیے اگلا ٹکڑا کس طرح شروع ہوتا ہے: مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الاّ ھُو درخواست مقبول ہوئی ، شرابِ توحید جو پچھلے ٹکڑے میں مانگی گئی تھی وہ مل گئی اور اس کا اثر سوزِ سخن پر کیا ہوا؟ وہ مرگِ دوام بنایا عینِ حیات؟ ملاحظہ کیجئے: جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو! پورا ٹکڑا شعورِ ذات کی مستی سے سرشار ہے۔ پہلے ہمیشہ کی زندگی مانگی گئی تھی اور کچھ اندیشے ظاہر کیے گئے تھے ۔ اب اگلے ٹکڑے میں بات ہی کچھ اور ہے: متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی! اقبال کے ذہنی ارتقا سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے پیغامبرانہ دور کی باقاعدہ ابتدا اُس زمانے میں ہوئی جہاں وہ ہجر اور فراق کو وصل اور سکون سے بہتر سمجھنے لگے اور اسی شعور سے گویا ان کی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا مسالہ تیار ہوا ۔ وہی مثنوی ان کے پیغام کا نقطۂ آغاز تھی۔ اسی ٹکڑے میں یہ شعر بھی موجود ہے جو اس منظوم سلسلے کو ایک مسلسل نظم کی طرح پڑھنے والوں کو اچانک چونکا دے گا: زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے سکھایا ذوقِ الوندی کیا اقبال اس سلسلے میں اپنی موت کے تجربے کی پیش بینی کر رہے ہیں؟ یہ درست ہے کہ اگلے چار ٹکڑوں (یعنی نمبر ۱۱،۱۲،۱۳ اور ۱۴) میںجا بجا ایک ایسی فضا دکھائی دیتی ہے جو بظاہر اس دنیا کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اقبال اپنی زندگی پر اس طرح نظر ڈال رہے ہیں جیسے وہ گزر چکی ہو: تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہِ محبت ، وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ ! نہ تراشِ آذرانہ! میں نے ان دونوں اشعار کو یہاں اس لیے اکٹھا لکھا ہے کہ میرے خیال میں انھیں الگ کر کے نہیں پڑھنا چاہیے، یعنی یہ ایک رباعی کی طرح ہیں جس کے آخری مصرعے پہلے مصرعوں کے بغیر سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ اپنے دل کے اس زمانے کا ذکر کرنے سے ، جس میں محبت کی ادب گاہ تھی اور نگاہ کے تازیانے نے دل کو سبق سکھائے تھے، اقبال یہی کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ نئے زمانے کے بت اس ادب گاہ کی بجائے مدرسے میں تیار ہوئے ہیں اس لیے اُن میں بہت کمی رہ گئی ہے۔ مگر اگلے شعر میں جس فضا کا ذکر ہے کیا وہ جدید دنیا کے ماحول کی نشاندہی کرتی ہے یا اس دنیا سے باہر کسی ماورائی فضا کا ذکر کیا جا رہا ہے ، مثلاً عالم ارواح یا جاوید نامے کی رعایت سے یوں کہیے کہ وہ فردوس جسے حلاج ، غالب اور قرۃ العین طاہرہ جیسے مجذوب ٹھکرا دیا کرتے ہیں: نہیں اِس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس نہ آشیانہ اگرچہ اقبال دنیا کا ذکر بھی کر رہے ہیں( مثلاً عجم کے میکدوں میں نہ رہی مئے مغانہ) مگر معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کو وہ عالمِ ارواح سے دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ہم صفیران کی نوائے عاشقانہ کی سطحی تفسیریں کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے باوجود شاید اقبال کے خاک و خون سے کوئی نیا جہاں بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے لیے وہ کہتے ہیں: مرے خاک و خوں سے تُو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاوِدانہ اس شعر کے بارے میں یہ کہے بغیر آگے بڑھنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ شعر شہادت کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ ہمارے اخبارات ، رسائل اور ٹیلی وژن پر اسے بے تکلفی سے نشانِ حیدر کے شہداء وغیرہ پر منطبق کر دیا جاتا ہے۔ اصل میں یہاں شاعر اپنی بات کرتے ہوئے کہہ رہاہے چونکہ محض ایک دنیا پیدا کرنے کے لیے خدا نے اُسے ایسی ایسی تکلیفیں سہنے پر مجبور کیا تھا چنانچہ شاعر کو کم سے کم شہادت کا رتبہ تو ضرور ہی ملنا چاہیے اور جس طرح شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے اُسی طرح شاعر کو بھی تب و تابِ جاودانہ عطا ہونی چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ دنیا کی تخلیق کے لیے شاعر کو کیا تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور کس طرح وہ خدا کو اپنا قرض دار بنا رہا ہے تو یہ اقبال کے یہاں ایک مستقل خیال ہے جس کی وضاحت فارسی کلام میں زیادہ ہوئی ہے، مثلاً صد جہاں میردید از کشتِ خیالِ ما چو گل یک جہان و آں ہم از خونِ تمنا ساختی (ترجمہ: سو جہاں میرے خیالوں کے کھیت سے پھولوں کی طرح اُگے ۔ تو نے صرف ایک جہان بنایا اور وہ بھی تمنائوں کے خون سے)۔ بر سبیلِ تذکرہ اشارہ کرنا مناسب ہو گا کہ حضرت علیؓ کا وہ قول کہ انھوں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا، اقبال کے مستقل ذہنی اثاثے کا حصہ تھا۔ چنانچہ بے تکلف دوست گرامی جن کی کاہلی اور ارادہ کر کے چیزوں کو ادھورا چھوڑ دینے کی عادت مشہور تھی ، انہیں ایک خط میں اقبال نے بڑے ادب سے کہا تھا کہ اگر ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا جاتا ہے تو اس زمانے میں آپ سے بڑا عارفِ کامل کوئی نہیں ہو گا۔ مختصر یہ کہ اقبال کے ذہنی پس منظر میں خدا سے یہ شکایت رنگیں بار بار دکھائی دیتی ہے کہ یا خدا، یہ آپ نے کیسی دنیا بنائی ہے جس میں ناکامیوں اور صدموں کے بغیر درجات بلند ہوتے نظر نہیں آتے۔ کیا اپنے آپ کو پہچاننے کی کوئی آسان صورت نہیں ہو سکتی تھی؟ یہ شعر بھی اِسی شکایتِ رنگیں کا ایک لطیفہ ہے۔ اگلے ٹکڑے (یعنی نمبر ۱۲) کے اشعار کچھ اس قسم کے ہیں جنہیں دنیوی زندگی پر بھی منطبق کی جا سکتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کا شاعرانہ بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے: ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز اگر انھیں موت کے بعد کی زندگی سے منطبق کریں تو اُس صورت میں جس لالے کا ذکر ہے، وہ اپنی روح ہو گی اور مئے لعل خدا کی معرفت ہے جو حجابات اٹھنے کے بعد ملی ہے۔ چنانچہ اب پرہیز کی ضرورت نہیں رہی۔ عشق نے انسان کو بالآخر اس جنت میں پہنچادیا ہے جہاں بقول حضرت عیسیٰ مساکین ہی وارث بن جائیں گے۔ اسلامی اصطلاح میں جہاں ان لوگوں کو عیش میسر ہو گا جنھوں نے دنیا میں خدا کا راستہ اختیار کیا تھا اور وہ بادشاہ بے بس اور مسکین ہوں گے جنھوں نے خدا کے حکم سے روگردانی کی تھی۔ اگلا شعر اُسی قسم کی بحث و حجت پر مشتمل ہے جو اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں حلاج ، غالب اور طاہرہ سے خدا کے ساتھ کروائی ہے یعنی: پرانے ہیں یہ ستارے ، فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز اس کے بعد کے دونوں اشعار بظاہر دنیاوی زندگی سے متعلق ہونے کی بجائے موت کے بعد عالمِ برزخ میں قیامت کا انتظار کرنے یا خدا سے سامنا ہونے کے احوال پر زیادہ بہتر منطبق ہوتے نظر آتے ہیں: کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا؟ تری نگاہ کی گردش ہے میری رستا خیز! نہ چھین لذّتِ آہِ سحرگہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کہ التفات آمیز ان میں سے دوسرے شعر کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ اقبال موت کے بعد خدا سے وصال نہیں چاہتے کیونکہ اس طرح جدائی کی تڑپ اور اس میں پیدا ہونے والی خواہش ، جستجو ، آرزو وغیرہ سب ختم ہو جائیں گی اور خدا کے عشق میں جدائی کے مراحل انہیں اتنے عزیز ہو گئے ہیں کہ اب شام وصال گوارا نہیں۔ دشواری یہ ہے کہ اسی ٹکڑے کے شروع میں بہار کا ذکر بھی ہے جس کی وجہ سے ہم اِس شعر کی یہ تشریح بھی کر سکتے ہیں کہ اقبال خدا کے جس التفات کی بات کر رہے ہیں وہ فردوسِ بریں میں خدا کی نگاہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسی دنیا میںموسم بہار کی ان رنگینیوں کا بیان ہے جن میں دیکھنے والے خدا کا جلوہ دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس ٹکڑے کے پہلے دو اشعار جنھیں ہم نے اوپر درج کیا ہے وہ اس روشنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اُس صورت میں لالہ سے مراد روح نہیں ہو گی بلکہ سچ مچ کی بہار میں کھلے ہوئے پھول ہی مراد ہوں گے ۔البتہ ’’اشارہ پاتے ہی‘‘ کی ترکیب ایسی دل فریب ہے کہ اس کی اصل باریکی پر شاید اب تک کسی شارح نے توجہ نہیں کی۔ یہاں یہ لطیف نکتہ ہے کہ چونکہ شراب پر پابندی صرف اس دنیا تک ہے اور جنت میں یہ پابندی اٹھ جائے گی تو صوفی نے بہار کی آمد سے یہی مطلب لیا ہے کہ وہ جنت جس کا انتظار تھا، وہ آگئی ہے ۔ یہ اس لیے کہ خزاں ایک طرح سے دنیا کی موت ہوتی ہے یعنی قیامت ہوتی ہے ۔ بہار کی آمد قیامت کے بعد دنیا کا دوبارہ پیدا ہونا ہے ۔ بس یہی وہ ’’اشارہ‘‘ ہے جسے پا کر صوفی نے شراب کو حلال سمجھا ہے۔ یہاں غور کیجئے کہ یہ اشارہ پانے والا زاہد ، ناصح اور شیخ بھی ہو سکتا تھا (اور شاید اقبال سے کم تر درجہ کا شاعر یہاں انھی میں کسی کا ذکر کرتا ) ۔ مگر اقبال صوفی کی بات کر رہے ہیں یعنی وہ جو دنیا کے ظاہر میں حقیقت کے باطن کو دیکھنے پر مائل رہتا ہے۔ بہار کو قدرت کی طرف سے حیات بعدالموت کااشارہ سمجھنا اور ضمیر لالہ میں مئے لعل تلاش کر کے خدا سے راضی ہو جانا کہ یہی جنت کافی ہے ، یہ لطیف اشارے صرف صوفی ہی سے تعلق رکھتے تھے اور ملا یا زاہد یا ناصح کے روایتی کردار سے میل نہیں کھا سکتے تھے۔ اگلے ٹکڑے کے پہلے شعر میں یوں لگتا ہے کہ کسی پچھلے واقعے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جس کا بیان اوپر ہو گزر چکا ہو: وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی! مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی! اس میں کون سے کم نصیبی کی بات ہو رہی ہے؟لفظ ’’وہی‘‘ کا اشارہ تو یہ بتاتا ہے کہ پہلے بھی اس کا ذکر ہوا ہو گا ۔ میرے خیال میں یہ کم نصیبی وہی ہے جس کے لیے ٹکڑا نمبر ۵ میں بڑے زور و شور سے واویلا کیا گیا تھا ، یعنی انسان کا فانی ہونا۔ یاد رہے کہ ’’جاوید نامہ‘‘ جیسی معرکتہ الآرا کتاب جس چھوٹے سے واقعے سے شروع ہوتی ہے وہ بھی یہی ہے کہ شاعر دریا کے کنارے جا کر اپنے فانی ہونے کا رونا روتا ہے اور اس زور شور سے فریاد کرتا ہے کہ نظام کائنات زیر و زبر ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اقبال کو خدا سے اسی بے نیازی کی شکایت ہے (جیسا کہ ’’بال جبریل‘‘ ہی کی اگلی نظم میں کہا جائے گا کہ : ) اپنے لیے لا مکاں ، میرے لیے چارسو‘‘ ۔ یہاں دیکھیے ، اگلا ہی شعر ہے: میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ یہ جہاں مرا جہاں ہے یا تری کرشمہ سازی؟ یہ شعر اس صورت میں زیادہ مزا دیتے ہیں جب ہم اس سلسلے کو مسلسل پڑھ رہے ہوں اور اس مقام پر شاعر کو دنیا کی زندگی گزارنے کے بعد آسمانوں سے گزرتے ہوئے خدا کی جانب بڑھتا ہوا تصور کر رہے ہوں۔ اس سے اگلے شعر کو ایک گزری ہوئی زندگی کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اس میں جس کشمکش کا ذکر ہے وہ شاید اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہوتی رہی کہ ’’میں کہاں ہوں ، توُ کہاں ہے؟‘‘ اسی کشمکش میں گزریں ، مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی ، کبھی پیچ و تابِ رازی! اس ٹکڑے اور اس سے اگلے ٹکڑے کا یہی مزاج ہے کہ انہیں بعد الموت کی دنیا یا ’’جاوید نامہ‘‘ کی دنیا کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور دنیوی زندگی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اگلاٹکڑا بہت مشہور ہے اور مجھے اس کے بارے میں یہی عرض کرنا ہے کہ کم سے کم پہلے چار اشعار میں سے دو دو اشعار کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تب ہی ان کے معانی مکمل ہوتے ہیں ۔ عام غزل کی طرح انہیں الگ الگ پڑھنے سے یہ معانی سامنے نہیں آتے: اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اِک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں گویا یہ کہا جا رہا ہے اپنی جولاں گاہ کو زیر آسماں سمجھنے اور آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھنے کی غلط فہمی اُس وقت ختم ہوئی جب محبوب کی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹا اور معلوم ہوا کہ یہ نیلی چادر جو زمین پر چھائی ہوئی ہے، یہ پرواز کی حد نہیں ہے بلکہ اس کے دوسری طرف بھی پہنچا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اگلے دو اشعار کو بھی ایک ساتھ پڑھنا چاہیے: کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری و ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی ایک جَست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں گویا پہلے تو مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا ،مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ کارواں تو محض فضا میں گردش کرتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ چلنے میں تو صرف تھکن ہی ملے گی ، منزل نہیں ملے گی کیونکہ جو منزل شاعر کی ہے، وہاں تو یہ یہ ستارے سیارے نہیں پہنچتے۔ ان اجرام فلکی کے حوالے سے دنیا کو دیکھا تو اس کائنات کو عبور کرنا مشکل دکھائی دیا (یعنی یہ بیکراںمعلوم ہوئی) مگر پھر عشق کی ایک جست نے تمام قصہ طے کر دیا ۔ یہ گویا وہی عقل کو چھوڑ کر عشق کو راہنما بنانے یا رازی کے مکتب سے نکل کر رومی کا مرید ہونے کی بات ہے جسے اقبال نے جا بجا کہا ہے ۔ مہرو ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھنے سے مراد سائنس اور ظاہری علوم کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش ہے جو کامیاب نہیں ہوئی۔ عشق سے مراد وجدان اور روحانیت کی مدد لینا ہے جس میں انسان کا ادراک کائنات کی حدود سے نکل کر معرفت کی منزل پر پہنچتا ہے۔ اگلے ٹکڑے یعنی نمبر ۱۵ کا موضوع یہی ہے: اِک دانشِ نورانی ، اِک دانشِ برُہانی ہے دانشِ برُہانی ، حیرت کی فراوانی! یہ حیرت کی فراوانی وہی کیفیت ہے جس کے لیے اوپر کہا گیا کہ ستاروں سیاروں کے قافلے میں شامل ہو کر محض ایک دائرے میں گردش رہے گی ، کائنات کو مسخر کرنے کی کوئی صورت نہیں ملے گی اور بالآخر تھکن محسوس ہو گی ۔ یاد رہے کہ شیخ فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘ میں خدا کی تلاش کے سفر میں سات دشوار وادیوں میں سے چھٹی وادی حیرت کی وادی ہے۔ وہاں یقین کی دولت ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور بے یقینی ایسی شدید ہوتی ہے کہ اپنے شبہات پر بھی شبہات محسوس ہوتے ہیں۔اگر ہم اس سلسلے کو یوں پڑھ رہے ہوں جیسے ٹکڑے نمبر ۱۰ میں اقبال اپنی موت کے تجربے کا ذکر کر کے اُس کے بعد حیات بعدالموت سے گزر رہے تھے تو اس ٹکڑے کا اگلا شعر ایک مشکل پیدا کرتا ہے کیونکہ اس میں شاعر ابھی تک جسم کی قید میں دکھائی دیتا ہے: اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے ، سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی! اس شعر کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے ۔ یعنی یہ بھی موت کا بیان ہے۔ عطار کی منطق الطیر میں حیرت کی وادی کے بعد آخری امتحان فقر اور فنا کی وادی سے گزرنے کا ہوتا ہے ۔ کیا یہی منزل ہے جسے اقبال کہہ رہے ہیں کہ اس پیکرِ خاکی میں جو چیز خدا کی تھی، وہ اُسے لوٹا رہے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد کے باقی تمام اشعار اور اگلا ٹکڑا (جو اس سلسلے کا آخری ٹکڑا ہے) کچھ اس طرح ہے جیسے اقبال اپنی زندگی کا حساب دے رہے ہوں ۔ نکیرین کی طرف سے لگائے ہوئے الزامات پر وہ بڑے جار حانہ انداز میں اپنا دفاع کر رہے ہوں اور براہِ راست خدا کے سامنے سوال اٹھا رہے ہوں: اب کیا ، جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک توُ نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملاّ ہیں کیوں ننگِ مسلمانی! تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی! آخری مصرعے میں الحاد ، کفر ، بدعت یا اسی قسم کے کسی اور لفظ کی بجائے ’’زندیقی‘‘کی وجہ سے ایک خاص لطف پیدا ہوا ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ زندیق قدیم ایران کا ایک مکتب فکر تھا جس پر غلط قسم کے مذہبی عقائد رکھنے کا الزام تھا ۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ اُن پر افرنگ سے یعنی یورپ سے زندیقی سیکھنے کا الزام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اقبال نے یورپ میں تعلیم کے دوران جس موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی تھی، وہ موضوع ہی قدیم ایران میں الٰہیات پر تحقیق تھا اور مقالے کا عنوان تھا: Development of Metaphysics in Persia ۔ اس لحاظ سے اقبال نے اپنے اوپر جو افرنگ سے زندیقی سیکھنے کی پھبتی کسی ہے، اس کی برجستگی کی داد دینی چاہیے۔ البتہ اس الزام کے جواب میں یہ اپنا دفاع بالکل اُسی طرح کرتے ہیں جس طرح کچھ عرصہ بعد ’’ضرب کلیم‘‘ کی ایک نظم میں انھوں نے مسولینی سے اُس کا دفاع کروایا تھا یعنی مخالفین مجھ پر جو الزام لگا رہے ہیں انھیں دیکھنے کی بجائے اس پر غور کیجئے کہ اُن مخالفین کا دامن انھی غلطیوں سے داغدار ہے۔ افرنگ سے زندیقی سیکھنے پر خدا کے سامنے جواب دہ ہونا یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اقبال کو کبھی کبھی اس بات پر افسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنی عمر مغربی فلسفہ سیکھنے میں صرف کر دی جبکہ ان کے والد شروع ہی سے انہیں مذہبی تعلیم دلوانا چاہتے تھے ۔ اگر اقبال خود اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے تو شاید یہ سوچ سکتے تھے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کا حال اور بھی گیا گزرا ہے اور اس دور کے ملاّ ننگِ مسلمانی ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ بیچارے ملاّئوں سے آخر وہ کون سی غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اقبال انھیں ننگِ مسلمانی کہہ رہے ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں ملاّئوں پر لگائے گئے عام اعتراضات اور اُن کے خلاف اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے سے زیادہ متین طریقہ مطالعہ کرنے کا یہ ہے کہ قارئین اگلے شعر پر نظر ڈالیں اور اسی کو وضاحت سمجھیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آخری مصرع میں جو لفظ ’’نادان‘‘ آیا ہے یہ عام طور پر نادانوں کا ذکر نہیں ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا جا رہا کہ جو لوگ کسی کو تقدیر کا زندانی کہتے ہیں وہ نادان ہیں ، بلکہ یہ لفظ نادان پچھلے شعر کے تسلسل میں ملاّئوں ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی شعر کا مزاج کچھ یوں ہے کہ ملاّ ننگِ مسلمانی ہیں، یہ نادان ہمیں تقدیر کا زندانی کہتے ہیں ۔ چنانچہ یہاں ملاّئوں پر غصہ اسی لیے ہے کہ وہ انسان کو تقدیر کا زندانی کہہ رہے ہیں جبکہ انسان میں ایسی قوت چھپی ہوئی ہے جو تقدیر کو شکست دے سکتی ہے۔ تقدیر کو شکست دینا کیوں ضروری ہے ؟ کیا جبر و قدر کا یہ خالص علمی مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ ا س میں ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے پر کسی کو اتنا سخت سست کہا جائے اور ننگِ مسلمانی کا خطاب دیا جائے ؟ اس کا جواب واضح ہو جاتا ہے اگر ہم ’’جاوید نامہ‘‘ میں زندہ رود اور مریخی ستارہ شناس کی گفتگو کا وہ حصہ یاد کریں جہاں بالکل یہی موضوع بہت وضاحت کے ساتھ پیش آیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال نے مریخ پر ایک ایسی دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں کوئی بادشاہ یازمیندار نہیں ہے ، افلاس اور غربت موجود نہیں ہے، ظلم نہیں ہے اور ہر شخص خوشی اور آسودگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر زندہ رود (یعنی خود شاعر) جو وہاں مہمان ہے، وہاں کے ایک دانا سے کہتا ہے کہ یہ تو خدا کی تقدیر سے بغاوت کرنے والی بات ہے کیونکہ غربت اور بادشاہوں کا استبداد خدا کی طرف سے انسان کے امتحان وغیرہ کے لیے ہیں۔ مریخی بزرگ اس پر چراغ پا ہو کر طویل تقریر کرتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ جو مذہب ایسی تعلیم دے وہ مذہب نہیں ہے افیون ہے اور زہر ہے ۔ اگر ایک تقدیر تمہیں دُکھ دے تو خدا سے اس کی بجائے کوئی دوسری تقدیر مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور پھر جیسے تم خود ہو گے ویسی ہی تمہاری تقدیر ہو گی۔ اگر تم شیشہ ہو تو ٹوٹنا تمہارا مقدر ہے اور اگر تم پتھر ہو تو تمہارا مقدر کچھ اور ہے۔ چنانچہ اگر جیسی تقدیر چاہتے ہوخود کو ویسا ہی بنا لو کیونکہ خدا کے خزانوں میں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اس میں بہت اچھی اچھی تقدیریں بھی ہیں(ظاہر ہے کہ یہ نکتہ حضرت عمر فاروقؓ کے اُس قول سے لیا گیا ہے جسے شبلی نے الفاروق میں بھی لکھا ہے کہ جب ایک وبا زدہ علاقے سے نکلنے پر کسی نے حضرت عمرؓ پر اعتراض کیا کہ آپ خدا کی تقدیر سے بھاگ کر کہاں جا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہے ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی بنائی ہوئی ہے)۔ اقبال کا قطعہ کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملّت مٹا رہے ہیں یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں ، خدا تری قوم کو بچائے! بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں سنے گا اقبالؔ کون اِن کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں بتا رہے ہیں کلیات اقبال ص ۱۷۹ ۔مطبوعہ اقبال اکیڈمی معروضات: ۱۔ چونکہ یہ قطعہ ’’بانگِ درا‘‘ میں ’’شکوہ‘‘ سے پہلے شامل کیا گیا ہے لہٰذا عام طور پر یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے ۱۹۱۱ء کے اجلاس میں ’’شکوہ‘‘ سنانے سے پہلے اقبال نے جو قطعہ پڑھا تھا وہ شاید یہی تھا۔ ایسا نہیں ہے ۔ شکوہ سے پہلے پڑھا جانے والا قطعہ اپنی اصلاح شدہ صورت میں ’’نصیحت‘‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں علیحدہ شامل ہے۔ اقبال کا مکتوب اکبر کے نام (اقتباس) میں آپ کو اُسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ نا تمام نظم کے اشعار آپ نے پسند فرمائے ۔ مجھے یہ سن کر مسرت ہوئی ہے کہ آپ میرے اشعار پسند فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مکتوب ۱۶ ، اکتوبر ۱۹۱۱ء ص ۶۔۲۲۷ ، کلیات مکاتیب اقبال مرتبہ برنی اکبر الٰہ آبادی کا قطعہ بنائے ملّت بگڑ رہی ہے ، لبوں پہ ہے جان ، مر رہے ہیں مگر طلسمی اثر ہے ایسا کہ خوش ہیں ، گویا ابھر رہے ہیں اِدھر ہے قوم ضعیف و مسکیں ، اُدھر ہیں کچھ مرشدانِ خود بیں یہ اپنی قسمت کو رو رہے ہیں، وہ نام پر اپنے مر رہے ہیں کٹی رگِ اتحادِ ملّت ، رواں ہوئیں خونِ دل کی موجیں ہم اس کو سمجھیں ہیں آبِ صافی ، نہا رہے ہیں ، نکھر رہے ہیں صدائے الحاد اٹھ رہی ہے ، خدا کی اب یاد اٹھ رہی ہے دلوں سے فریاد اٹھ رہی ہے کہ دیں سے ہم گذر رہے ہیں قفس ہے کم ہمتی کا سیمیں ، پڑے ہیں کچھ دانہائے شیریں اِسی پہ مائل ہے طبعِ شاہیں ، نہ بال ہیں اب نہ پر رہے ہیں اگرچہ یورپ بھی مبتلا ہے ، وہاں بھی پھیلی یہی وبا ہے خیال مَیٹر کا بڑھ چلا ہے ، خدا کا انکار کر رہے ہیں مگر وہاں کی بنا ہے نیشن ، رُکا ہے ملحد کا آپریشن نہیں ہے گم لفظ سالویشن ، خدا سے اب بھی وہ ڈر رہے ہیں یہاں بجائے نماز گپ ہے ، وہاں وہی عزتِ بشپ ہے یہاں مساجد اجڑ رہی ہیں ، وہاں کلیسا سنور رہے ہیں جناب اکبر سے کوئی کہہ دے کہ لوگ بیٹھے ہیں ہر طرح کے اس انجمن میں اور ایسی باتیں ، یہ آپ کیا قہر کر رہے ہیں کلیات اکبر(حصہ اوّل) ، صفحہ ۶۷ ۔ مرتبہ محمد یونس حسرت ۔ مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز (روشن کتابیں) تحقیق طلب : ۱۔ کیا ’’ناتمام نظم کے اشعار‘‘ جن کا حوالہ خط میں ہے وہ یہی قطعہ ہے ؟ ابتدائی اشاعت کس رسالے میں ہوئی ؟ کیا اُس کے حوالے سے قطعے کی اوّلین تاریخ اشاعت متعین کی جا سکتی ہے ؟ ۲۔ اکبر الٰہ آبادی کا قطعہ کب شائع ہوا؟ اگر یہ کلیات اکبر کے پہلے ایڈیشن میں شامل تھا تو کیا وہ ایڈیشن ۱۹۱۱ء تک شائع ہو چکا تھا؟ (میرا خیال ہے کہ ہو چکا تھا) ۔ ۳۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کا قطعہ اکبر الٰہ آبادی کے قطعے سے محرکہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو چند دلچسپ نکات سامنے آتے ہیں: الف۔ پہلے مصرعے کے ’’شوریدہ ‘‘ سے مراد اکبر الٰہ آبادی ہیں۔ نیز آخری شعر میں ’’ان‘‘ کااشارہ اکبر الٰہ آبادی کی طرف ہے ( شارحین نے، جن میں مہر صاحب بھی شامل ہیں ، اسے شاعر کا اپنی طرف اشارہ بتایا ہے جسے درست ماننے سے شعر کی زبان بد مزہ سی معلوم ہوتی ہے اور عجزِ بیان کی کیفیت معلوم ہوتی ہے)۔ ب ۔ اکبر کے قطعے میں مرشدانِ خود بیں اور شاہیں کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ پہلی ترکیب تو اقبال نے اِسی قطعے میں استعمال کی ہے مگر شاہین بعد میں اقبال کی شاعری کی ایک مستقل علامت بنا اور اکبر نے اُس کے ساتھ جو لوازمات اکٹھے کیے ہیں مثلاً بال و پر وغیرہ وہ خاص وہی انداز ہے جو بعد میں اقبال کے یہاں سامنے آیا۔ شاید یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ اقبال نے شاہین کا تمام فلسفہ اسی ایک شعر سے اخذ کیا اور اگر یہ شعر ان کی نظر سے نہ گزرتا تو ان کی شاعری میں شاہین کا ذکر بھی نہ آتا مگر کیا ہم اکبر کے اس قطعے کو بھی شاہین کے ماخذوں میں، ایک چھوٹے ماخذ کے طور پر ہی سہی ، رکھ سکتے ہیں؟ ج ۔ اگر اقبال کا قطعہ واقعی اکبر کے قطعے سے محرکہ ہے اور ان کا ’’شوریدہ‘‘ اکبر ہی ہیں تو کیا اس سے اقبال کی اپنی تخلیقی نفسیات کے بارے میں یہ اندازہ لگانا درست ہوگا کہ اکبر نے تو عمومی طور پر اپنی قوم کی مذہب سے دوری کا رونا رویا تھا اور مغربی اقوام کی بعض خوبیوں سے موازنہ کیا تھا جس میں یورپ کے بارے میں اتفاقاً یہ بات آ گئی تھی کہ وہاں کی ’’بِنا ہے نیشن ‘‘ ، مگر اقبال نے اکبر کے اس عمومی قطعے کو وطنیت بمقابلہ وغیرہ اُن افکار سے جوڑ لیا جو اُس زمانے میں خود ان کے ذہن میں پرورش پا رہے تھے اور جو اقبال سے مخصوص تھے؟ کیا یہ حسنِ ظن کا ایک انداز تھا اور اقبال کی طبیعت میں بالخصوص اکبر الٰہ آبادی کے حوالے سے اور جگہوں پر بھی نظر آیا (مثلاً ’’اسرارِ خودی‘‘ کے ہنگامے میں اقبال کو توقع تھی کہ اکبر ان کا ساتھ دیں گے اور جب ایک موقع پر اکبر کا رجحان حسن نظامی کی طرف نظر آیا تو اقبال نے شکایت کی مگر یہ سمجھا کہ اکبر نے مثنوی کا مطالعہ نہیں کیا اور اگر بغور مطالعہ کر لیں تو بہر حال اقبال ہی کا ساتھ دیں گے ۔ دوسری طرف اکبر خواہ اقبال کی دل شکنی نہ کرنے کی خاطر سے کھل کر نہ کہتے ہوں مگر درحقیقت وہ اقبال کے ’’از کلید دیں درِ دنیا کشاد‘‘ قسم کے خیالات سے ہمیشہ مجتنب رہے اور عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اقبال کی فکر سے بیزاری کا اظہار بھی کیا ؟)  ڈاکٹر ایوب صابر مستشرقین کی مخالفتِ اقبال (نوعیت و محرکات) یورپ کی عیسائی سلطنتیں ، متحد ہو کر ، اسلامی مشرقِ وسطی کے خلاف مسلسل دو سو سال (۱۰۹۶ء تا ۱۲۹۲ئ) تک بر سرِ پیکار رہیں ۔ مسلمانوں سے مقاماتِ مقدسہ چھیننے کے علاوہ اسلامی مشرق پر قبضہ کر کے یہاں کی دولت و ثروت کو اپنے تصرف میں لانا مقصود تھا۔ اپنے مشترکہ دشمن اسلام کے خلاف صف آرائی سے متحدہ یورپ کا تصور پیدا ہوا ۔ تیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک یورپی زعما اور مفکرین برابر غور کرتے اور منصوبے بناتے رہے کہ یورپ کی قوت کو مجتمع کر کے مشرقی یورپ سے عثمانی ترکوں کو کس طرح باہر نکالا جائے۔ صلیبیوں نے اپنی نسلوں کے دلوں میں نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسے اولوالعزم قائدین اور عظیم سلاطینِ عثمانی کے خلاف نفرت کے بیج بوئے اور مسلمانوں ، بالخصوص ترکوں ، سے انتقام لینے کی تلقین کی۔ یہ اسی صلیبی جذبے کا رد عمل ہے کہ آج بھی یورپ اور امریکہ ہر محاذ پر عالم اسلام کے خلاف برسر پیکار ہے اور اسے نیچا دکھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ علمی اور فکری محاذ پر اسلام ، پیغمبر اسلامؐ اور مسلم زعما و مفکرین کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی گئیں ۱۔ مسلم ممالک پر قبضہ جمایا گیا ۔ اسلامی دنیا میں وطنی قوم پرستی کو فروغ دے کر اور عثمانی سلطنت کے حصے بخرے کر کے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کیا گیا۔ مسلم مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں یہودی چھائونی قائم کی گئی اور جنگِ خلیج کے ذریعے عربوں کے وسائل پر تصّرف کو یقینی بنایا گیا اور اب عراق پر براہ راست قبضہ کرلیا گیا ہے۔ مغرب نے خود تو اتحاد کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ نیٹو اور یورپی مشترکہ منڈی اور مشترکہ کرنسی اس کی واضح مثالیں ہیں لیکن مسلمانوں کے اتحاد کی راہ روکنا اور انہیں کمزور رکھنا اہلِ مغرب کا ہدف ہے۔ خود تو روایتی اور جوہری اسلحے کے انبار لگا دیے ہیں لیکن کسی مسلمان ملک کا جوہری طاقت بننا گوارا نہیں۔ مختصر عرصے کے لیے سوویٹ یونین مغرب کا حریف رہا لیکن اشتراکی انقلاب سے پہلے اور سوویٹ روس کے ٹوٹنے کے بعد عالمِ اسلام کو بدستور حریف سمجھا جا رہا ہے اور ہر میدان میں اسے نیچا دکھانے اور اپنے تصرف بلکہ معاشی غلامی میں رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسلامی نشات ثانیہ میں مسلمانوں کی طاقت کا راز مضمر ہے چنانچہ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کو اقتدار میں نہ آنے دیا گیا اور ترکی میں رفاہ پارٹی کی بساط لپیٹ دی گئی ۔ ان جملہ حقائق کو پیشِ نظر رکھا جائے تو مستشرقین کی اقبال شکنی کے محرکات کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ اقبال پر بیسوں مستشرقین نے لکھا ہے اور سب کا رویہ ایک جیسا نہیں ہے ۔ بقول ڈاکٹرسیّد عبداللہ ، نکلسن (Nicholson) برائون (Brown) گِب (Gibb) ڈینی سن راس (Denison Ross) نیلی نو (Nallino) ماسینو (Massignon) ، بوسانی (Bousani) ، آربری (Arberry) اور شمل (Schimmel) وغیرہ سلیم المزاج مستشرق ہیں ۔ نکلسن نے اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں اور فکری فطانت کو زبر دست خراجِ تحسین پیش کیا ۔ شمل کی تحریریں مذہبی تعصب اور سیاسی محرکات سے مبرا ہیں۔ آربری یورپ میں مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں قابلِ اعتماد راہنما نظر آتا ہے۔ ’’رموز بے خودی‘‘ کا ترجمہ اس سلسلے کی کڑی ہے جس کا مقصد مغرب و مشرق میں خیر سگالی کا فروغ ہے۔ آربری یورپی فضلا کے خلافِ اسلام حملوں کے برعکس اقبال کے نقطۂ نظر کی حمایت کی ۔ آربری نے لکھا کہ ’’مسلمانوں کی مثبت تہذیبی کامرانیاں نظر انداز کی جاتی رہی ہیں اور صدیوں تک یورپ میں علمی تحقیق کورانہ مذہبی تعصب کی کنیز رہی ہے‘‘۔ڈاکٹر عبداللہ نے مستشرقین کے تین گروہ بتائے ہیں ۔ اوّل : جن کا مطالعۂ اقبال سنجیدہ اور غائر ہے ۔ دوم: جن کی تحریریں رسمی اور غیر معیاری ہیں۔ سوم:وہ معروف مستشرق جن کی تحریک تعصباتی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ کے رائے ہے کہ اقبال پر قلم اٹھانے والے دیانت دار اہلِ مغرب نے بھی مخفی ذہنی تحفظات کے تحت لکھا ہے۔ ان نقادوں کی خلش یہ ہے کہ اسلام کو جدیدیت (مغربیت) کی طرف راغب کرنے کے سلسلے میں اقبال ان کے دام میں نہیں آئے۔ ڈاکٹر عبداللہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپی لکھنے والوں میں اسلام کے خلاف تعصب کی جڑیں بہت گہری ہیں ۲۔ اقبال کے اوّلین یورپی معترضین میں ای ایم فوسٹر (E.M.Forster) اور ایل ڈکنسن (L. Dickinson) کے نام نمایاں ہیں۔ دونوں نے پروفیسر نکلسن کے انگریزی ترجمہ’’ اسرار خودی‘‘ کو پڑھ کر اپنے اپنے ریویو لکھے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ شائع ہوا تو یورپ میں اسے ، وسیع دائرے میں، پڑھا گیا ۔ بقول ایس اے واحد اکثر قارئین کا رد عمل یہ تھا کہ اقبال اقوام مشرق کو یورپی استعمار کے خلاف صف آرا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اٹلی کے مستشرق نیلی نو نے یورپی اقوام کو واضح طور پر اقبال کی تحریروں سے خبردار کیا۳۔ نیلی نو سے پہلے ڈکنسن نے حسب ذیل الفاظ میں ، اپنی رائے ظاہر کی:۔ War is war, whatever its avowed object.... And if the East once gets going to recover by arms a free and united Islam, it will not stop till it has either conquered the world or failed in that attempt. In either case there will not be much left of Mr. Iqbal's philosophy among his coreligionists. If this book be prophetic, the last hope seems taken away. The East. if it arms, may indeed end by conquering the West. But if so, it will conquer no saluation for mankind. The old bloody duel will swing backwards and forwards across the distracted and tortured world. And that is all. Is this really Mr. Iqbal's last word? 4 اس قدر شدید رد عمل کے پس منظر میں صلیبی جنگ ہے جو خود عیسائی مغرب نے شروع کی اور جو بالآخر ان کی شکست پر فتح ہوئی ۔ عالم اسلام کو اہل مغرب نے اب بھی چراگاہ بنایا ہوا ہے اور جنگی سرگرمیاں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔ عقل و خرد کے پرچم برداروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کا رستانیوں کا ایک قدرتی رد عمل بھی ہوگا ۔ سارا زور اس پر ہے کہ اسلامی دنیا کو کمزور رکھا جائے اور کوئی مسلمان رہ نمایا مفکر جنگ کا نام تک نہ لے ۔ اقبال کے حسب ذیل دو شعروں کو نقل کر کے ڈکنسن نے دو طویل پیراگراف قلم بند کیے ہیں (طوالت سے بچنے کے لیے جنہیں پورا نقل نہیں کیا گیا۔) قربِ حق از ہر عمل مقصود دار تا ز تو گردد جلالش آشکار صلح شر گردد چو مقصود است غیر گر خدا باشد غرض جنگ است خیر جس عنوان کے تحت یہ شعر کہے گئے ہیں، اس کا مفہوم یہ کہ ’’مسلمان کا مقصدِ حیات اعلائے کلمہ اللہ ہے اور اگر جہاد کا محرک تسخیر ممالک ہو تو وہ اسلام میں حرام ہے‘‘۔ اقبال کا زور اعلائے کلمۃ اللہ اور قربِ حق پر ہے۔ صلح ہو یا جنگ اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ اشعار جنگجو یا نہ للکار پر مبنی نہیں ہیں اور نہ ان میں مغرب کا ذکر ہے ۵۔ لیکن سمجھ دار مستشرقین یہ نکتہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اسلامی نشات ثانیہ سے دنیائے اسلام مضبوط اور متحد ہو جائے گی اور اگر اہلِ مغرب اپنی دراز دستیوں سے باز نہ آئے تو جنگ بھی ممکن ہے۔ چونکہ ’’اسرار خودی‘‘ اسلامی نشات ثانیہ کی آئینہ دار ہے، اس لیے ڈکنسن کے معترضانہ انداز میں شدت ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ کے حوالے سے جن مستشرقین نے اقبال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا ، انہوں نے اقبال شکنی کی۔ بقول ایس اے واحد انہوں نے اقبال کو مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی نظر میں گرانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کو بتایا کہ فکرِ اقبال میں غیر اسلامی عناصر ہیں اور عیسائیوں سے کہا کہ اقبال کٹر مسلمان ہے۶۔ برصغیر میں جن اعتراضات کو مخالفینِ اقبال نے بار بار دہرایا ہے وہ اوّلا مستشرقین نے وارد کیے تھے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ پر فوسٹر کا تبصرہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۲۰ء کو ، ڈکنسن کے ریویو سے دو ہفتے پہلے شائع ہوا۔ فوسٹر نے مضمون بعنوان ’’محمد اقبال ‘‘ بعد میں لکھا جو اس کے مجموعہ مضامین Two Cheers for Democracy میں شامل ہے۔ یہ کتاب ۱۹۴۶ء میں شائع ہوئی۔ اپنے تبصرے میں فوسٹر نے لکھا ہے کہ ’’اسرار خودی‘‘ کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ اس میں غیر اسلامی عناصر ہیں۔ اپنے دوسرے معاصرین کی طرح اقبال بھی نٹشے سے متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال اس کی راہنمائی میںمنازل حیات طے کرنا چاہتے ہیں جبکہ یورپ میں بحیثیت معلم اخلاق نٹشے کا کوئی مرتبہ نہیں ۷۔ ڈکنسن نے لکھا ہے کہ اقبال نے اپنا فلسفہ مغربی مصنفین نٹشے ، برگسان اور میک ٹیگرٹ سے لیا ہے۔ نٹشے کا اثر خاص طور پر بہت گہرا ہے۔ اقبال نے پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھر کر پیش کی ہے۔ اقبال کا فلسفہ آفاقی ہے لیکن اس کا اطلاق مسلمانوں تک محدود ہے، نیز اقبال جنگ کی تلقین کر کے انسانیت کی آخری امید کو ختم کر دیتے ہیں۔ ان کی حیثیت سرخ سیارے کی سی ہے۸۔ فوسٹر نے بھی اپنے بعد والے مضمون میں لکھا کہ اقبال کا فلسفہ صداقتوں کا کھوج لگانے کے بجائے آدابِ رزم سکھاتا ہے۔ نیز اقبال کی ثقافت مشرقیت پر مبنی رہی، اس لیے اسے بین الاقوامی ذہن کا حامل نہیں سمجھا سکتا ۹۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اقبال کے مغربی معترضین اقبال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ مثلاً فوسٹر نے ۱۹۲۰ء میں لکھا تھا کہ گذشتہ دس سال سے اقبال بہت بڑا نام ہے۔ اقبال کی نظر گہری تھی۔ اس کی شخصیت میں غالباً حق کے شرارے موجود ہیں۔ ۱۹۴۶ء میں لکھا کہ اقبال قدآور اور نابغۂ روز گار شاعر ہے۔ میں ٹیگور سے اتفاق اور اقبال سے اختلاف کرتا ہوں لیکن پڑھتا اقبال کو ہوں۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے میں خود کو راہ گم کردہ محسوس نہیں کرتا ۱۰۔ اقبال کا ایک بڑا معترض ، کینیڈا کا ، کانٹ ویل سمتھ ہے ۔ اسلام پر اس کی پہلی کتاب (Modern Islam in India) ۱۹۴۳ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ ایس اے واحد نے اسے جنونی عیسائی لکھا ہے ۱۱۔مگر ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک پرجوش اشتراکی ہے اور اُس نے اِسی نقطۂ نظر سے اقبال کا مطالعہ کیا ہے۔(یہاں اس کا مجمل ذکر مقصود ہے۔ تفصیل ’’اشتراکی اور دہریے‘‘ کے زیر عنوان آئے گی۔) سمتھ کی تحریروں سے برصغیر اور یورپ کے دانشور برابر مستفید یا گمراہ ہوئے ہیں۔ اس کے اعتراضات کامشرق و مغرب میں چرچا رہاہے ۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ آل احمد سرور اور ایچ اے آرگب جیسے صاحبانِ علم بھی سمتھ سے متاثر ہوئے ہیں۔ آل احمد سرور نے اپنے مشہور مضمون ’’اقبال اور اس کے نکتہ چیں‘‘ میں سمتھ کے اعتراضات کو نقل کرنے کے بعد لکھا: اقبال پر یہ جو اعتراضات ہیں وہ پچھلے (اہل زبان اور مقامی ترقی پسندوں کے) اعتراضات کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہیں۔ اس وجہ سے اور بھی کہ معترض کی نگاہ صرف اقبال کی خامیوں پر ہی نہیں ہے ، اس نے اس شاعرِا عظیم کی خوبیاں بھی تفصیل سے گنائی ہیں۔ ان میں سے ہر اعتراض کا جواب علیحدہ علیحدہ دینے کے لیے ایک دفتر چاہیے ۔ لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں ذرا پس و پیش نہیں کہ ان میں سے بعض اعتراض صحیح ہیں۔اقبال واقعی جتنا جدید فلسفے سے واقف تھے، اتنا جدید سائنس اور جدید سوسائٹی سے واقف نہیں تھے۔ گو وہ ہمارے ہندوستان کے بسم اللہ کے گنبد میں بیٹھنے والوں میں سب سے بیدار ذہن رکھتے تھے مگر اپنی بڑھی ہوئی مذہبیت کی وجہ سے بعض اوقات سطحی مذہبیت کی حمایت میں وہ مذہب کی انقلابی روح کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے اور بعض اوقات صبحِ کاذب کو صبحِ صادق سمجھ لیتے تھے۔ اشتراکیت کا انھوں نے شروع میں اچھی طرح مطالعہ کیے بغیر اس کی مذمت کی تھی مگر آخر عمر میں وہ اشتراکیت کی طرف بہت مائل تھے ۔ بہت سی باتوں میں وہ گفتار کے غازی تھے اور کردار کے غازی نہ تھے ، گفتار میں بھی سب پہلوئوں پر ان کی نظر نہ ہوتی تھی ۱۲۔ آل احمد سرور کے یہ اعتراضات افسوس ناک ہیں۔ سرور نے لکھا ہے کہ ’’ڈبلیو سی سمتھ نے اقبال کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے‘‘۔خود سرور نے سمتھ کا مطالعہ گہری نظر سے نہیں کیا ۔ اور اس کے مقاصد و محرکات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایچ اے آر گب کی اسلام پر پہلی کتاب Wither Islam? ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اقبال کا ذکر متعدد بار آیا ہے اور اقبال کے حوالوں سے اقبال کا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔انداز علمی اور بڑی حد تک منصفانہ ہے، معتراضانہ نہیں، حتیٰ کہ ماڈرنزم اور راسخ العقیدگی کے ضمن میں بھی توازن و احتیاطِ سے اظہارِ خیال کیاہے ۔ تاہم سمتھ کی کتاب پڑھنے کے بعد گب کا اندازِ نظر تبدیل ہو گیا۔ اسلام پر گب کی دوسری کتاب (Modern Trends in Islam) ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اقبال کے ضمن میں اندازِ نظر مخالفانہ ہے ۔۔۔ گب نے اقبال پر بار بار تضاد عائد کیا ہے۔ گب نے لکھا ہے کہ اقبال نے جنگجو مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ عورت کو مظلوم رکھنے کی حمایت کی اور اس طرح ماڈرنزم کا جنازہ نکال دیا۔ عربوں کی طرح اقبال کو بھی یورپ کی رومانیت پسند آئی اور اس ضمن میں برگسان کی تقلید کی۔ گب نے اقبال پر قرآنی آیات کی غلط تاویل کا الزام بھی عائد کیا ۱۳۔ اگرچہ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی ۔ اسلام پر اپنی تیسری کتاب (Mohammadanism) میں اقبال کو صوفی قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ تصوف کے سلسلوں کا تعلق اسلام سے برائے نام ہے۔ نیز فکرِ اقبال کی بنیاد متصوفانہ فلسفہ ہے جسے نٹشے کے سپر مین اور برگسان کے تصورِ زمان کے مطابق ڈھال لیا ہے۱۴۔ کانٹ ویل سمتھ کی طرح ایڈورڈ تھامس بھی قیام پاکستان کا مخالف تھا۔ ۱۹۳۲ء میں جب اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں انگلستان میں مقیم تھے، تھامس نے ’’پان اسلامی سازش‘‘ کے سنسنی خیز عنوان کے تحت ، خطبۂ الٰہ آباد کے رد عمل میں، ایک مراسلہ ’’لندن ٹائمز‘‘ میں شائع کرایا۔ پان اسلامی سازش کا پروپیگنڈا مسلم ریاست کے قیام میں زبردست رکاوٹ بن سکتا تھا، اس لیے اقبال نے جوابی مراسلہ شائع کرایا۱۵۔ اور اس طرح اس کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ایچ ٹی سورلے کی کتاب موسیٰ پرویگنز (Musa Pervagans) ۱۹۵۳ء میں شائع ہوئی ۔ سورلے نے بقول خود دنیا کی بہترین غنائی شاعری کا انتخاب مع ترجمہ پیش کیا ہے۔ اس میں ’’بانگ درا‘‘ کی بارہ نظمیں شامل ہیں۱۶۔ موصوف نے چار پانچ صفحات کے اپنے تبصرے میں افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ اقبال کو قومی مشاہیر پرستی کے معیاروں سے جانچا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں اقبال انجمنیں اسی طرح کام کر رہی ہیں۔ جیسے انگلستان میں برائوننگ سوسائٹیوں کا شعار تھا اور اقبال کا حشر بھی برائوننگ جیسا ہوگا ۔ رفعت حسن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں اقبال کے ساتھ ارادت مندی (Iqbal Cult) اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ سورلے کی رائے ہے کہ ’’اقبال اپنی حدود میں یقینا ایک پختہ شاعر ہے لیکن خیالات اور قوتِ بیان کی تنگی کے ساتھ وہ ایک معمولی شاعر سے زیادہ نہیں‘‘۔اس کے جواب میں رفعت حسن لکھتی ہیں کہ ’’قوتِ بیان کی تنگی کے ساتھ اقبال نے ’جگنو‘ اور ’گل پژمردہ‘ جیسی نظمیں کہیں جنہیں سورلے نے دنیا کی بہترین نظموں میں جگہ دی ہے‘‘۔ سورلے کا موقف ہے کہ ’’اقبال بہترین شاعر ہوتے اگر ان میں کوہ ایورسٹ پر چڑھ جانے کا جذبہ ہوتا‘‘۔ رفعت حسن لکھتی ہیں کہ اقبال سنگھ اپنی تالیف The Ardent Pilgrim میں کہتے ہیں کہ شاعر کے کام کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کچھ دوسرے تناظرات سے ہوگا بہ نسبت ان کے جو نٹشے پر دکھائے گئے ہیں ۱۷۔ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی نے سورلے کے اعتراضات نقل کر کے لکھا ہے کہ ’’یہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کسی تصریح و تنقید کے محتاج نہیں ہیں۱۸۔ الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume) نے اپنی کتاب ’’اسلام‘‘ (۱۹۵۴ئ) میں ، ڈھائی صفحات اقبال پر بھی لکھے ہیں اور اقبال کو مسلمان اور عیسائی قارئین کی نظر میں گرانے کی کوشش کی ہے۱۹۔ گیوم لکھتا ہے کہ اقبال نے ، مروجہ اسلام سے ہٹ کر، انسانی خودی کو تخلیقی آزادی کا حامل قرار دیا ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کے تصورِ تقدیر کو پست کہا ہے۔ جنت اور دوزخ کے بارے میں اقبال کے خیالات خطرناک بدعت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبال کے تصورات کچھ تو اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں اور کچھ دورِ حاضر کے عیسائی افکار پر ۔ گیوم نے یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ ماڈرن مسلمان قرآن کو محمد کی تصنیف سمجھتے ہیں اور دورانِ گفتگو اس کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ گیوم کا اعتراض ہے کہ جب جدید تقاضوں کے تحت قرآن کی تاویل کا سوال اٹھتا ہے تو اقبال اپنی ذمہ داری سے بچتے ہیں۔ پروفیسر رالف رسل کا خطبہ بعنوان ’’اقبال اور ان کا پیغام‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ۱۹۹۶ء میں شائع کیا۔ رالف رسل نے لکھا ہے کہ اقبال نے فارسی شاعری اس خوش فہمی کی بنا پر کی کہ یہ زبان اب بھی وسیع علاقے کے مسلمانوں سے انھیں ہم کلام کر سکتی ہے۔ اقبال جب آدمی کو خلیفہ خدا کی شکل میں دیکھتے ہیں تو ان کے تصور میں پوری نسل آدم نہیں ہوتی بلکہ اس نسل کا صرف مسلمان حصہ ہوتاہے۔ اقبال شاہی نظام کو کوستے ہیں لیکن بالعموم تاثر یہ دیتے ہیں کہ طاقت ور مسلمان حکمران جنہیں عظیم انسان سمجھتے ہیں، واقعی عظیم انسان ہیں۔ بقول سمتھ ان کی توجہ یہ واضح کرنے کی طرف اتنی مائل نہیں کہ انسان کا عمل کیا ہونا چاہیے جتنی اس امر کی جانب کہ انسان کو ہر عمل اپنی پوری طاقت کے ساتھ کرنے پر تل جانا چاہیے۔ اقبال نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے بے رحم اور جابر حکمرانوں کے مدح سرا ہیں، اس لیے کہ وہ مسلمان تھے۔ اقبال کو اہلِ پاکستان عظیم اس لیے سمجھتے ہیں کہ بقول عزیز احمد ’’وہ ہمیں احساس بخشتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں‘‘۔میر جعفر اور صادق پر اقبال نے تنقید کی حالانکہ انگریزوں کے مخالفین اور حامی دونوں ایک ہی نوع کے حکمران تھے۔ ایسی مذمت اقبال نے سر سید احمد خان کی نہیں کی جنہوں نے مسلمانوں اور انگریز حکومت کے درمیان سمجھوتہ کرانے کے لیے زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اقبال کے ہاں مسلمانوں کی حکومت کے ماتحت غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں کوئی ٹھوس بیان نہیں ملتا۔ اقبال سامراج کے دشمن ہیں لیکن ترک سامراج کو سامراج نہیں سمجھتے ۔ انہیں یہ بات یقینی لگتی ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو گی وہاں از خود حق و انصاف کا دور دورہ ہوگا ۔ ان کو اصرا ر ہے کہ مسلمانوں کو قوم (Nation) سے صرف مسلمان قوم یا امّتِ مسلمہ ہی مراد لینا چاہیے لیکن شمالی مشرقی ہند کے مسلمانوں کا ذکر تک نہیں کرتے ۔ پروفیسر رسل نے ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘ سے استشہاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’خود آگہی کی یہ کمی ہی غالباً ان ابہامات اور تضادات کی ذمہ دار ہے جو میں نے بیان کیے ہیں‘‘۔ رسل کا فہمِ اقبال ناقص ہے تاہم ان کے اعتراضات لائق توجہ ہیں۲۰۔ یورپ کی زبانیں ، انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن اور اطالوی ، ترقی یافتہ زبانیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان زبانوں میں شعر اقبال کے جرعۂ تیز کا ترجمہ کٹھن ہوتا ہے۔ آربری جیسے اقبال شناس نے بھی جو ، شمل اور بوسانی کی طرح ، اقبال شناسی میں ایک مقام رکھتا ہے ۔ اس کا اعتراف کیا ہے۔ مستشرقین نے ترجمے کے علاوہ دوسرے امور کے ضمن میں بھی دلچسپ غلطیاں کی ہیں ۔ بسا اوقات وہ اقبال کا وسیع و عمیق مطالعہ نہیں کر پائے ۔ مشرقی تہذیب و ثقافت سے ان کی محدود آشنائی بھی تسامحات کا باعث بنی ہے۔ ایس اے واحد نے لکھا ہے کہ کانٹ ویل سمتھ جب پہلی مرتبہ ان سے ملاقات کے لیے آیا تو اسے اردو نہیں آتی تھی حالانکہ وہ اقبال پر بھر پور انداز سے قلم چلا چکا تھا۲۱۔ پروفیسر نکلسن کے ترجمہ ’’اسرار خودی‘‘ سے اقبال مطمئن نہیں ہے۔ کیونکہ نکلسن نے ترجمے میں کئی فاش غلطیاں کی ہیں ۲۲۔ فوسٹر کے خیال میں ’’اسرار خودی‘‘ کی تخلیق کا زمانہ ’’ترانہ ٔ ہندی ‘‘ اور ’’نیا شوالہ‘‘ کے درمیان ہے۔ ’’نیا شوالہ‘‘ اس کے نزدیک ۱۹۱۶ء میں لکھی گی ۲۳ ۔ درحقیقت ’’ترانۂ ہندی‘‘ ۱۹۰۴ء اور ’’نیا شوالہ‘‘ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئیں۔ کلامِ اقبال کی صحیح زمانی ترتیب سے لا علم ہونے کے باعث فوسٹر نے اقبال کے فکری ارتقا کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے اور وطنی و اسلامی قومیت کے ضمن میں اقبال کے موقف کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے۔ کلامِ اقبال کی صحیح زمانی ترتیب سے واقف ہونے کی صورت میں فوسٹر کا زوایۂ نگاہ بقول اقبال مختلف ہوتا ۲۴۔ حواشی ۱۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ جلد ۱۲ ، ص ۲۰۹ تا ۲۲۰۔ ۲۔ ’’مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ ص ۲۶۹ تا ۲۷۳ ۔ یہ تعصّب شمل تک میں موجود ہے۔ دیکھیے Gabriel's Wing ص ۳۸۵۔ ۳۔ ’’اقبال ریویو‘‘اپریل ۱۹۶۴ء ، ص ۴،۵۔ ۴ ۔ The Secret of the Self ۔ مشمولہThe Sword and the Sceptre ۔ مرتبہ رفعت حسن ، ص ۲۸۹۔۲۹۰۔ ۵۔ کلیات اقبال ، فارسی ، ص ۶۳۔ ۶۔ دیکھیے ، Iqbal and is Critics ۔ مشمولہ ’’اقبال ریویو ‘‘ ۔ اپریل ۱۹۶۴ء ، ص ۱۱۔ ۷ ۔ دیکھیے ، The Secrets of the Self ۔ مشمولہ The Sword and the Sceptre۔ ص ، ۲۷۹ تا ۲۸۵۔ اس مضمون کا ترجمہ سید سلیمان ندوی نے ، ۱۹۲۱ء میں کیا تھا جو اب ’’اقبال ممدوحِ عالم ‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسرے مضمون کا ایک ترجمہ ڈاکٹر سید حامد حسین نے کیا جو ماہ نامہ ’’ سب رس ‘‘ کراچی کے اقبال نمبر ، حصہ دوم ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون کا ایک اور ترجمہ ڈاکٹر سلیم اختر نے کیا ہے جو ان کی مرتب کردہ کتاب ’’اقبال ممدوحِ عالم ‘‘ میں شامل ہے۔ ۸۔ دیکھیے ، The Secrets of the Self ۔ مشمولہ The Sword and the Sceptre۔ ص ۲۸۶ تا ۲۹۰ ۔ واضح رہے کہ ’’اسرار خودی‘‘ پر کیے گئے فوسٹر اورڈکنسن کے اعتراضات کا جواب اقبال نے خود دیا تھا۔ (دیکھیے Discourses of Iqbal ۔ ص ۱۸۹ تا ۱۹۶) ۔ ۹۔۱۰۔ دیکھیے ، ’’اقبال ممدوحِ عالم‘‘ ، ص ۱۳۴ تا ۱۵۱۔ ۱۱۔ ’’اقبال ریویو‘‘ ، اپریل ۱۹۶۴ء ، ص ۷۔ ۱۲ ۔ ’’عرفان اقبال‘‘ ، ص ۹۴ ۔ ۱۳۔ Modern Trend in Islam ۔ص ، ۵۲، ۶۱، ۸۴، ۱۰۰تا ۱۰۳ ، ۱۱۰۔ ۱۴۔ دیکھیے ، Mohammadism ۔ص ۱۶۱ ، ۱۸۵۔ ۱۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ، اقبال کا سیاسی کارنامہ ، ص ۲۹۲ ۔ ۲۹۳۔ ۱۶۔ ان نظموں کے نام یہ ہیں ۔ محبت ، کلی ، شمع و پروانہ ، ابر ، انسان ، خطاب بہ جوانانِ مسلم ، موج دریا، گل پژمردہ ، فراق ، دعا، جگنو ۔۔ ایچ ٹی سورلے کی کتاب کا اقبال سے متعلق حصہ رفعت حسن نے اپنے مرتب کردہ مجموعۂ مقالات (The Sword and the Sceptre) میں شامل کیا ہے۔ ۱۷۔ (The Sword and the Sceptre) ۔ ص ، ۱۷۶؛۱۷۸، xx-xxi ۔ ۱۸۔ ’’اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ‘‘ ۔ ص ۱۶۲۔۱۶۳۔ ۱۹۔ اسلام ۔ (Islam) ص ۔ ۱۵۷ تا ۱۵۹۔ ۲۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : پروفیسر رالف رسل کا کتابچہ :’’اقبال اور ان کا پیغام‘‘، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،۱۹۹۶ء ۲۱۔ ’’اقبال ریویو‘‘ ، اپریل ، ۱۹۶۴ء ، ص ۷۔ ۲۲۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ، ’’حیاتِ اقبال‘‘ ص ۱۸۸۔ ۲۳۔ دیکھیے (The Sword and the Sceptre) ۔ ص ۲۸۱۔ ۲۸۲۔ ۲۴۔ مکتوبِ اقبال بنام پروفیسر نکلسن مورخہ ۲۴ ؍ جون ۱۹۲۱ء ، ’’کلیات مکاتیب اقبال ‘‘ ۔ ۲ ، ص ۲۲۷۔  اسلم کمال ڈاکٹر انماری شمل (یادیں ہی یادیں) ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر شمل پاکستان آئیںاور اس بار حکومت ان کی زیادہ سے زیادہ آئوبھگت کرنا چاہتی تھی۔ لاہور عجائب گھر نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے پتا چلا کہ میری مصورانہ خطاطی کا ایک فن پارہ ڈاکٹر شمل کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے صدر پاکستان ، وزارتِ خارجہ اور وازرتِ ثقافت و سیاحت نے وقتاً فوقتاً میری مصورانہ خطاطی کے کئی نمونے غیر ملکی سربراہوں ، نمائندہ سفارتی شخصیتوں اور میٹرو پولٹن میوزم آف آرٹ نیویارک جیسے ہنر و فن کے اعلیٰ اداروں کو تحفے میں دئیے تھے اور لاہور عجائب گھر نے بھی میرے فن کا ایک نمونہ کچھ ہی عرصہ پہلے اردن کی شہزادی وجدان کو پیش کیا تھا ۔ شہزادی وجدان اردن کی کونسل برائے فنونِ لطیفہ کی چیئر پرسن تھی اور ان کے حوالے سے میری مصورانہ خطاطی کا نمونہ اردن کی مرکزی آرٹ گیلری کی زینت بنا۔ یہ سب اعزازات میرے لیے ہر ایک انداز میں اگرچہ نہایت بیش قیمت تھے، لیکن ڈاکٹر انماری شمل کو میری پینٹنگ تحفہ میں دئیے جانے کے احساسِ مسرت کی اور ہی شان اور انفرادیت تھی۔ وہ کسی ملک کی سربراہ یا ملکہ یا شہزادی تو نہ تھی۔ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی ایک بے بدل عالمہ اور اقبالیات کی اقلیمِ مغرب کی فرمانروا ضرور تھی۔ فنِ خطاطی کا آغاز اور اس کے ارتقا کے بارے میں مجھے جہاں جہاں سے علم حاصل ہُو، میں نے ایک ندِیدے بچے کی طرح اپنی جھولی بھرنے کی پوری پوری کوشش کی۔ لیکن استاد، کتابیں، مکتب، اکادمیاں، عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں اگرچہ ہنر و فن کی بصیرت بخشنے اور رہنمائی ارزانی کرتے ہیں لیکن فوری زیادہ اور قابل بھروسہ علم اور بے لوث بصیرت ہمیں ان افراد یا اشخاص سے محض خوش نصیبی کی بنا پر مل جاتی ہے جو حسنِ اتفاق سے ہمارے پسندیدہ افراد کسی بھی وجہ سے قرار پا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شمل ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھی، جس نے ’’خطاطین ، سلاطین اور درویش ‘‘ اور ’’خطاطی اور شاعری ‘‘ اور ’’خطاطی اور تصوف‘‘ کے عنوانات سے تاریخ کے مسلم معاشروں میں فنِ خطاطی اور خطاطین کے مقام اور مرتبے کے بارے میں لکھا ۔ ان خطاطین کے بارے میں بتایا جن کے جوتے اٹھانے میں شہزادے اور شہزادیاں پہل کرتی تھیں، ان سلاطین کا ذکر کیا جو خطاطین کی دوات پکڑ کر مؤدب اور مستعد کھڑے ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر شمل نے ان درویشوں کی حکایات بیان کیں، جنھوں نے خطاطین کے ہاتھ پر بیعت کی۔ میں عالم اسلام میں شامل کم و بیش ہر ایک ملک کا نام جانتا ہوں لیکن چند ممالک کے علاوہ بہت سارے مسلم ممالک کی زبانوں کا بھی نام مجھے معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ میں ڈاکٹر شمل کا ممنونِ احسان ہوں، جس نے فن خطاطی کی مقدس اور صوفیانہ کردار کی ترجمان لیکن بکھری ہوئی ہندی افغانی ، چینی ، اندلسی ، ایرانی ، عراقی ، ترکی ، اور مصری کڑیاں جوڑ کر مسلم اُمہ کی رگوں میں ایک رواں دواں روایت کا شعور مجھے دیا تو میں نے جانا کہ ترکی میں شیخ حامد اللہ نہ صرف یہ کہ عظیم ترین خطاط تسلیم کئے جاتے ہیں بلکہ وہ اتنے ہی بلند روحانی مرتبے پر بھی فائز ہیں۔ ان کے فنِ خطاطی میں فیضِ عام کا عالم یہ ہے کہ نو آموز تو ایک طرف، بڑے بڑے اساتذئہ فن بھی نسخ اور ثلث کے قلم تراشتے ہیں، اس کو کاغذ میں لپیٹے ہیں۔ پھر شیخ حامد اللہ کی قبر کی مٹی میں دو انگشت گہری جگہ بنا کر پیغمبر اسلام ﷺ پر درود و سلام کے بعد اس میں قلم جمعہ کی رات کو دفن کر دیتے ہیںاور ایک ہفتہ بعد یہ قلم نکال لیتے ہیں او رجب بھی وہ مشقِ فن کرتے ہیں پہلی سطر ان قلموں سے لکھ کر آغاز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شمل سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات اُس وقت ہوئی، جب میری مصورانہ خطاطی لاہور عجائب گھر کے اُس وقت تاحیات چیئرمین، فن پرور اور فن کار نواز مرحوم بی اے قریشی نے ان کو پیش کی۔ ڈاکٹر شمل نے میرے فن کی بہت تعریف کی۔ ایک جملہ خاص طور پر یاد رہ گیا ہے ۔ ’’اسلم کمال لکھے ہوئے الفاظ کو تصویر کی طرح دیکھتا ہے ‘‘۔ اس رمزیہ اور کنایہ جملے کا حقیقی مفہوم تو ڈاکٹر شمل کے ذہن میں ہو گا ۔ جو میں سمجھ سکا وہ یہ تھا کہ شاعری کو شاعر بن کر پڑھنا اور ہے لیکن اسی شاعری کو مفکر بن کر پڑھنا بالکل اور ہے۔ اسی طرح الفاظ کو مصور بن کر دیکھنا بھی بجا لیکن ان کو خطاط بن کر بھی پڑھنا چاہیے ۔ چنانچہ میں ڈاکٹر شمل کا احسان مند ہوا کہ ان کے رمزیہ اشارے نے میرے اندازِ نظر میں ایک نئے زاویے کا اضافہ کر دیا ۔ مجھے یاد ہے اس اضافے سے پہلے میں غالب کے اس شعر کو ایک سوقیانہ شعر خیال کرتا تھا : خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے لیکن اس شعر کو اپنے اندازِ نظر کے نئے زاویے سے خطاط بن کر پڑھتا ہوں تو یاد آ جاتا ہے : لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب جادئہ رہِ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو یعنی کششِ کاف کرم والے قلم سے بے غرض اور بے لوث ہو کر کسی کے نام کی محبت میں بغیر مطلب خط لکھنا اور خط لکھتے ہی چلے جانا ہی تو درا صل وہ عمل اعلیٰ ہے جس کے اعجاز سے خط بالآخر خطاطی کے بلند مرتبے پر فائز ہو کر اسمائے حسنہٰ کے نور سے معجز نگاری کرنے لگتا ہے بقول مولانا روم : از خطِ تخلیقِ او دانی کی چیست؟ انفس و آفاق ہا یک نقطہ نیست! خدا، انسان اور شاعر (God, Man and Poet) کے عنوان سے اپنی مصوری کی متعدد بڑی نمائشیں یورپ کے مختلف ممالک میں ۱۹۸۶ء میں کیں۔ آیاتِ قرانی کی مصورانہ خطاطی کو خدا سے ، فکری مصوری پر مشتمل تصاویر کو انسان سے اور کلام اقبال کی مصوری کو شاعر سے منسوب کیا گیا تھا۔ جرمنی میں اس کی نمائش بون کے کلچر سنٹر میں ہوئی۔ سفیر پاکستان نے افتتاح کیا۔ ڈاکٹر شمل کئی کام چھوڑ کر آئیں اور خود کہہ کہ انہوں نے میری مصوری ، خطاطی اور تشریحی مصوری پر جرمن زبان میں اتنا فاضلانہ اظہارخیال کیا کہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ میں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ میں نے انسان، کائنات اور خدا کو فکرِ اقبال کی روشنی میں سمجھا ہے اور میرا ایمان فکرِ اقبال کے تنوع اور تازگی کا مرہونِ احسان ہے۔ چنانچہ میں ایک ’’اقبالی مسلمان ‘‘ ہوں۔ ڈاکٹر شمل کو میری یہ ’’اقبالی مسلمان ‘‘ کی اصطلاح اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اس کا ذکر ڈائریکٹر اقبال اکادمی کے نام خط میں تفصیل سے کیا۔ لیکن وہ خط گم ہو گیا۔ خط اکثر گم ہو جایا کرتے ہیں۔ خط جو قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ایک پرانی کہاوت کے مطابق ’’قلم بیک وقت آنسو بھی بہاتا ہے اور مسکراتا بھی ہے‘‘۔ بون کلچر سنٹر سے ڈاکٹر شمل کا فلیٹ چند منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا ۔ ڈاکٹر عثمان ملک کی سیکرٹری یوٹاشمتھ کی رہنمائی میں وہاں پہنچا تو ڈاکٹر شمل منتظر تھیں ۔ چھوٹا سا فلیٹ دوسری منزل پر تھا ۔کتابیں، رسائل تصویریں اور دیس دیس کے نوادرات گھر میں ادھر اُدھر اگرچہ ایک سلیقے اور قرینے سے رکھے گئے تھے لیکن صاف نظر آتا تھا ایک بوڑھی عورت لیکن عالمہ ، تنِ تنہا ان سب اشیاء کی دیکھ بھال آخر کہاں تک کر سکتی ہے؟ اُنھی دنوں ڈاکٹر شمل کے مشرف بہ اسلام ہونے اور مکلی قبرستان میں اپنے لیے قبر محفوظ کروانے اور اپنا اسلامی نام جمیلہ رکھنے کی خبریں سیکنڈے نیویا میں پہنچنے والے پاکستانی اخبارات میں عام پڑھنے میں آ رہی تھیں ۔ میں نے ان خبروں کے حوالے سے پوچھا تو ڈاکٹر شمل نے مشرف بہ اسلام ہونے کے معاملے میں کچھ انکار اور کچھ اقرار کا انداز اپنا کر موضوع بدل دیا ۔ میں نے جمیلہ نام رکھنے کی تصدیق چاہی تو آپ ’’اللہ جمیل و یحب الجمال ‘‘ (God is beautiful and loves beauty) مشہور حدیث کا حوالہ دے کر طرح دی گئیں۔ میں نے مکلی قبرستان کا ذکر چھیڑا تو ڈاکٹر شمل نے اس قبرستان کی تاریخی نوادریت پر اچھا خاصا لیکچر دے دیا۔ میں نے ایک اور حربہ آزماتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر صاحبہ ! اردو کے مشہور شاعر احسان دانش نے کیا خوب کہا ہے: قبر کا چوکھٹا خالی ہے ، اسے یاد رکھو کیا خبر کب کوئی تصویر سجا دی جائے ’’بہت خوب‘‘ ڈاکٹر شمل نے احسان دانش کے اس شعر پر اردو میں داد دینے کے بعد کچھ توقف کیا، آنکھیں بند کیں۔ پھر سنبھل کر خوشگوار لہجے میں انگریزی میں کہا : A good muslim remembers his grave always and I have got reserved one for myself, look at me! ڈاکٹر شمل کے گھرمیں دوسرا فرد ان کی بلی نظر آتی تھی۔ جو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان کی گود میں آ کر چند لمحے رکتی اور پھر جیسے گھر کی دیکھ بھال کو نکل جاتی تھی۔اس کے علاوہ کارنس پر، تپائیوں پر، اور شوکیس میں جگہ جگہ کالی بھوری، سفید، گرے اور چتکبری ننھی منھی بہت ساری بلیاں، دھات کی بنی ہوئیں، کانچ اور چوب کی بنی ہوئیں ماڈل کھلونوں، شیلڈز کی صورت، جا بجا اپنی نیلی پیلی آنکھوں سے دیکھتی نظر آتی تھیں ۔ بلیوںکی یہ فراوانی دیکھ کر میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحبہ آپ کو بلیوں سے بہت زیادہ محبت ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ؟‘‘ ڈاکٹر شمل نے آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر، کچھ یاد کر کے اور مسکرا کر اردو میں کہا ’’صحابی رسولؐ ابوہریرہؓ تھے ۔ میں اُمِ ہریرہ ہوں‘‘ میری مصورانہ خطاطی کی جو پینٹنگ لاہور میوزیم نے ڈاکٹر شمل کو پیش کی تھی ، وہ آپ نے ڈرائننگ روم اور بیڈ روم کے دروازے کے اوپر چھت کے نیچے آویزاں کر رکھی تھی۔ مجھے اُس کی طرف متوجہ کر کے کہا۔ I come and go, come and go under the words of God. ہائیڈل برگ سے واپس بون آنے کی بجائے ڈیوس برگ میں اپنے دوست عثمان ملک کے ہاں ٹھہرا ۔ ڈاکٹر عثمان ملک ایک ماہر دندان ساز ہیں۔ آپ ایک قابلِ فخر پاکستانی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی کلچر کے تعارف پر جرمن زبان میں جو کتاب لکھی، وہ آج بھی سیکنڈے نیویا کے ممالک میں مستند خیال کی جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے مقدر میں یہ اعزاز آیا کہ ڈاکٹر شمل جیسی بے مثال مستشرق ڈاکٹر عثمان کی اس کتاب کی شریک مصنفہ ہیں۔ میں نے ڈاکٹر شمل کو فون پر بتایا کہ میں ڈاکٹر عثمان ملک کے ہاں ڈیوس برگ میں ٹھہرا ہوں۔ ڈاکٹر شمل نے ڈاکٹر عثمان اور اس کی فرنچ بیوی کو سلام کہا اور دعوت دی کہ اگر بون کا چکر لگے تو چائے کا کپ پیش کروں گی اور جب میں کچھ دنوں بعد ان کے ہاں پہنچا تو ڈاکٹر صاحبہ نے برادرِ مکرم فتح محمد ملک کی خیریت پوچھنے کے بعد یہ سوال کیا کہ ہائیڈل برگ میں دن کیسے گزرے ؟ ہائیڈل برگ میں ایک صبح سویرے ڈاکٹر صاحبہ، میں اور فتح محمد ملک ان کی رہائش گاہ سے نیچے بسمارک پلائز کی طرف جا رہے تھے۔ دریائے نیکر کے دونوں کناروں پر بتدریج بلند ہوتی ہوئی ڈھلوانیں اور ان کے درمیان ایک کتاب کی طرح کھلتا ہوا ہائیڈل برگ کا منظر ناقابلِ فراموش ہے۔ علم و ادب کی متانت اور حسنِ فطرت کی فرحت کا امتزاج قلب و نظر کی زندگی کا سامان کرتا ہے۔ میں ہر قدم پر اس شہر کی دلکشی کا اسیر ہو رہا تھا۔ سامنے تھنکرز روڈ کے اُوپر جہاں پہاڑ کی بلندی ختم ہو تی ہے، وہاں چیٹر کے درختوں کا ایک جھنڈ سر بلند تھا اور اس جھنڈ کے عقب میں گہرے گرے رنگ کے بادل پیچ و تاب کھا رہے تھے۔سورج طلوع ہو کر پہاڑ کی منڈیر اور درختوں کے جھنڈ کی چھتنار کے درمیان سے جھانکتا ہوا جلال و جمال کا مسحور کن منظر بنا رہا تھا۔ میں اس نظارے میں یوں کھویا کہ ملک صاحب بہت آگے جا کر مجھے اپنے ساتھ نہ پا کر واپس پلٹ کر آئے اور مجھے از خود رفتہ پا کر بولے۔ اے مصور تو کہاں گم ہے؟ میں چونک کر بے خودی سے باہر نکلا۔۔ ملک صاحب! جِس تجلی کا مشاہدہ میں نے یہ سامنے کے اس منظر میں کیا ہے، مجھے یقین ہے علامہ اقبال نے بھی جبین جبریل کا نقش و عکس ہائیڈل برگ کے ہی کسی منظر میں دیکھا ہو گا ۔ یا نمایاں بامِ گردوں سے جبینِ جبریل ’’اقبال اوفر ‘‘ کی سیر کی ۔ بانگ درا کی مشہور نظم ’’ایک شام‘‘ کاجرمن زبان میں ترجمہ پتھر پر کندہ ایک باغیچے میں نصب دیکھا ۔ دریائے نیکر کے ہی دوسرے کنارے پر اُس مکان کی زیارت کی اور اس پر یادگاری تختی کے پاس فوٹو بھی کھنچوائی جس میں علامہ اقبال نے رہائش رکھی تھی ۔ اس مکان کے سامنے نیچے اتر کر نیکر کے کنارے پر مشامِ تیز سے ان نقوش کفِ پا کی تلاش کی کوشش کی جن پر ’’ایک شام‘‘ مصرع مصرع، شعر شعر اتری ہوگی ، جس کے سات اشعار میں حرف س چھ بار، لفظ خاموش چار بار اور اس کا مخفف خموش تین بار، اور مجموعی طور پر حرف ش کی سولہ بار صوت اس نظم کی بافت میں شاعر نے کسی نور باف کی طرح یوں بن دی ہے کہ شعر کا ایک مصرع صدائوں کو دھیما کر کے پر سکون کرتا ہے اور دوسرا مصرع اس پر چپ کی تہ بِچھاتا چلا جاتا ہے اور پوری نظم آہستہ آہستہ ایک اونگھ میں اتر جاتی ہے۔ مجھ سے یہ نقشہ سن کر شاعرِ مشرق کی اس مغربی مداح نے آنکھیں بند کر لیں ۔ اس نے دونوں ہاتھ آپس میں ملا کر ٹھوڑی کے نیچے رکھ لیے ۔ میں نے اس کے ضعیف لیکن فکرِ اقبال کے نور سے روشن روشن چہرے پر معصومیت آمیز شوخیاں کی کرنیں بکھرتی دیکھیں ۔ ڈاکٹر شمل نے رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر اردو زبان کے الفاظ تلاش کرتے ہوئے کہا۔ تم مصور ہو، ہر ایک شئے کو ایک تصویر کی طرح دیکھتے ہو۔ ہائیڈل برگ واقعی بہت خوبصورت شہر ہے۔ یہ معلموں اور متعلموں کا شہر ، یہ مکتبوں اور مدرسوں کی وادی ہے۔ مجھے امید ہے پروفیسر ملک نے ضرور اس شہر کے کسی بلند مقام سے، کسی ایسے کوچے، کسی ایسی گلی کی طرف بھی متوجہ کیا ہو گا، جہاں دھوپ اور چھائوں ، روشنی اور سائے آپس میں گھل مل کر اس احساس میں ڈھل جاتے ہوں گے کہ یہاں ایما ویگے ناسٹ کا گھر ہے۔ ایما جِس کی رعنائی خیال سے عبارت ہائیڈل برگ اور اس کی ہوائے حکمت و دانش ’’زبورِ عجم‘‘ کے اس شعر میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں: وادیٔ عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے ۱۹۹۳ء میں جرمنی کے شہر کو لون جانا ہوا۔ کولون یونیورسٹی سے متعلق میرے دوست عثمان ملک کے حلقۂ ہم نفساں کی روحِ رواں شاعرہ بار برا میولر اور مصورہ کرسچیانے کی میزبانی کا لطف اٹھانے کا موقع ملا۔ کرسچیانے بون میں ڈاکٹر شمل کے گھر کے قریب رہتی تھی اور ڈاکٹر صاحبہ کی نیاز مند بھی تھی ۔ اُسی نے ڈاکٹر شمل کو میری آمد کے بارے میں اور میرے پروگرام کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ اس نے میرا سلام بھی ڈاکٹر صاحبہ تک پہنچایا اور میری ملاقات کے لیے وقت اور دن بھی طے کیا۔ ڈاکٹر شمل سے ملنا گم شدہ اسلامی تہذیب کی ایسی مستند کتاب سے ملنا تھا جو کتاب بولتی تھی ۔ باتیں کرتی تھی اور اپنے قاری کو قونیہ، کوفہ، قم، کبھی قرطبہ، کبھی دمشق، دہلی، لاہور، کبھی شیراز بلخ بخارا، کبھی بغداد کبھی جیحوں سیحوں اور کبھی کنارِ دجلہ و فرات لیے پھرتی تھی ۔ ڈاکٹر شمل کو شعائر اسلامی اور اسلامی تصوف سے عشق تھا۔ وہ اپنے آپ کو کبھی کبھی رابعہ بصری کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا کرتی تھی۔ اس بار ڈاکٹر شمل کے ہاں گیا تو چائے پر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہی ۔ ڈاکٹر شمل نے کئی پاکستانی شاعروں، ادیبوں اور مصوروں کے بارے میں پوچھا۔ پھر اچانک وہ اٹھیں اور تھوڑی دیر بعد واپس آئیں اور اپنا لیٹر پیڈ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ تمہاری فلاں بلیک اینڈ وائٹ کیلی گرافی، جس میں تم نے اپنا سلہوٹ ایک قرآنی دعا کے ساتھ ایک سٹی سکیپ میں دکھایا ہے، مجھے چاہیے۔ ایک سندھی خاتون (جس کا نام مجھے یاد نہیں رہ سکا) کے ساتھ ایک کتاب صوفی ازم پر مکمل ہونے والی ہے۔ یہ کیلی گرافی میں اس میں استعمال کروں گی۔ یہ لو لیٹر پیڈ اور اس پر تم اس کو استعمال کرنے کی تحریری اجازت دے دو۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحبہ، آپ کو اس اجازت کی کیا ضرورت ہے ، میں تو خطاطی کے جملہ حقوق آپ کے نام کر سکتا ہوں۔ لیکن ڈاکٹر شمل نے جس اصرار کے ساتھ مجھ سے اجازت لکھوائی، اُس کے پس پردہ آپ کی عظمت ہی عظمت تھی۔ مجھے بخوبی احساس تھا کہ ایک بزرگ خاتون عالمہ صرف اور صرف میری عزت افزائی اور میرے ناچیز ہنر کی قدر دانی کے لیے یہ تکلف کر رہی ہیں۔ ’’اقبال اکادمی پاکستان‘‘ کا انٹر نیشنل ایوارڈ لینے ڈاکٹر شمل لاہور آئیں تو اکادمی نے اس موقع پر کلام اقبال کی میری مصوری پر مشتمل ایک نمائش کا اہتمام بھی کیا اور اس کا افتتاح آپ سے کروایا ۔ میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ انہیں تصویریں دکھائیں ۔ وہ جگہ جگہ رک کر کچھ ایسے مقامات کی نشاندہی کرتیں کہ مجھے حیرت ہوئی کہ نامحسوس طور پر میرے اسلوب میں رونما ہونے والی کئی تبدیلیوں کا انہیں کس قدر ادراک تھا۔ اسی رات اقبال اکادمی پاکستان نے ’’سلوز‘‘ میں ڈنر دیا۔ ڈاکٹر شمل کے اعزاز میں ڈاکٹر جاوید اقبال، جسٹس ناصرہ جاوید اور ان کے فرزند منیب اقبال بھی کھانے میں شامل تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مجھ سے پوچھا کہ یہ جو نمائش میں اتنی تصویریں رکھی ہیں، یہ میں اپنے گھر میں کہاں رکھتا ہوں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے گھر میں میرے بچوں کے بیڈ دراصل تصاویر کے بکس ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کمال قدردانی سے فرمایا کہ’’ ایوان اقبال‘‘ کے بورڈ آف گورنر کی اگلی میٹنگ میں ان تصاویر کو آپ سے خرید کر ایوانِ اقبال میں آویزاں کرنے پر انشا اللہ بات ہوگی ۔ ڈاکٹر شمل نے بہت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تائید کی اور کہا ۔ ’’اس کام میں مزید دیر اب نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا ۔ آ نکھ آنسوئوں سے بھر گئی ۔ ’’ایوانِ اقبال‘‘ میں میری اقبالیاتی مصوری کی گیلری کی خشتِ اوّل لگ گئی تھی۔ اگلے روز ناظم اقبال اکادمی ڈاکٹر شمل کو الحمراء آرٹس کونسل لے کر آئے، جہاں خطاطی کی کل پاکستان نمائش لگی ہوئی تھی ۔ اس نمائش کا کرتا دھرتا راقم تھا۔ میں نے ڈاکٹر شمل کو خطاطوںاور مصور خطاطوں سے ملایا اور ان کے فن پارے دکھائے ۔ اس پیرانہ سالی کے باوجود پوری نمائش دیکھی اور پسند کی اور کچھ باتوں پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار بزرگانہ شفقت کے ساتھ کیا ۔ یہاں اس تحریر کا موضوع اجازت نہیں دیتا ۔ میں وہ ساری باتیں کبھی مصورانہ خطاطی کے باب میں لکھوں گا۔ ڈوسل ڈارف جرمنی کا کلچرل کیپٹل کہلاتا ہے۔ پچھلے برس ۲۰۰۲ء میں میرے جرمن دوستوں نے مجھے وہاں بلایا ۔ کنسٹ میو سے ڈوسل ڈارف کو دیکھنے کی میری بہت دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ وہاں سے میں نے ڈاکٹر شمل کو بون فون کر کے ان کی خیریت معلوم کی۔ ان کی آواز سے پتہ چلتا تھا کہ بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ کہنے لگیں ۔ تم جانتے ہو کہ میں اپنے مہمانوں کی صرف چائے کے ایک کپ سے ہی تواضع کر سکتی ہوں ۔ ڈوسل ڈارف سے تم اتنے مارک خرچ کر کے چائے پینے آئو، یہ فضول خرچی ہے۔ اگر تمہارا بون آنے کا پروگرام ہے تو میری طرف سے دعوت ہے۔ میں نے بون آنا ہی تھا ۔ بون سے فون کر کے جب ڈاکٹر شمل کے ہاں پہنچا تو وہ توقع سے زیادہ کمزور ہو چکی تھیں۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر شمل نے پاکستان کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں جو ہ عموماً نہ کیا کرتی تھیں اور نہ انہیں ان کی فرصت ہوا کرتی تھی ۔ کئی پاکستانی پینٹرز اور شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں پوچھا۔ اس بار انہوں نے اپنی نوجوانی اور جوانی کی بہت ساری فوٹو گرافس مجھے خاص طور پر دکھائیں ۔ وہ اپنی مدھم او ر نحیف آواز میں کچھ اردو اور زیادہ انگریزی زبان میں ان تصویروں میں مقامات، شخصیات اور دیگر اہم تفصیلات بھی بیان کرتی رہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ماضی کو دہرانے میں انہیں لطف مل رہا تھا ۔ انہوں نے خاص طور پر پاکستان میں ضیاء الحق کے دورِ حکومت کا ذکر بہت پسندیدگی سے دو تین بار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جھیل سیف الملوک کی سیر کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لیے انہیں وہاں تک لے جانے کے لیے بہت خوبصورت ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا گیا۔ ڈاکٹر شمل نے آنکھیں بند کر کے ماضی کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میاں محمد بخش کے سیف الملوک کی پری بدیع الجمال کی طرح جھیل پر آسمان سے میں اتری تھی‘‘۔ اقبالیات کی شہرہ آفاق عالمہ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بے مثال دانشور اور مفسر ڈاکٹر انماری شمل ۲۶ ؍جون ۲۰۰۳ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی ۔ ان کی آخری رسومات بون کے ایک گرجا گھر میں ادا کی گئیں۔ ڈاکٹر شمل تمام عمر آخرت (Hearafter) کے بارے میں متجسّس رہیں۔ اسی جستجو میں ان کے لبوں پر آخری الفاظ یہ تھے ۔ ’’مجھے جانے دو‘‘ (LET ME GO) ہائیڈل برگ میں دریائے نیکر کے کنارے پر ایک شاہراہ کو علامہ اقبال کے جشنِ صد سالہ کے موقع پر ’’اقبال اوفر‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ اہل جرمنی کے اس اظہار عقیدت کے جواب میں اہلِ پاکستان نے لاہور کی خوبصورت نہر میاں میر کے مال روڈ سے گلبرگ روڈ تک کے کنارے کو ’’خیابان گوئٹے ‘‘ اور اس کے بالمقابل کنارے کو گلبرگ روڈ سے مال روڈ تک ’’خیابانِ ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے ناموں سے منسوب کرکے عقیدت و احترام کی روایت کو آگے بڑھا دیا۔ ان دنوں ابھی ڈاکٹر شمل سے میری ملاقات بالمشافہ نہیں ہوئی تھی اور میری سواری موٹر سائیکل تھی۔ لاہور کی شدید گرمی میں اگر صبح صبح ہوا چلنے لگے تو نہر کنارے جو لطف موٹر سائیکل کی سواری میں آتا وہ کسی اور سواری پر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک دن صبح سویرے جب میں نے موٹر سائیکل پر گلبرگ روڈ کو عبور کیا تو سامنے ’’خیابان ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے نہر کنارے بورڈ پر نظر پڑی تو آگے سے آتے ہوئے ہوا کے جھونکے مجھے موجِ بادِ صبا کی طرح معطر اور فرحت بخش لگنے لگے ۔ ایک اعلیٰ و ارفع علمی اور فکری راحت کا احساس میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ لیکن یہ احساس زیادہ دیر اور زیادہ دور تک ساتھ نہ چل سکا ۔ مال روڈ کے پل کے پہلو میں نصب بورڈ پر نظر پڑی تو شدید جھٹکا لگا۔ ’’خیابانِ ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے آخری لفظ شمل کے سپیلنگ کا آخری حرف ایل لکھا ہوا نہیں تھا ۔ میں نے ’’لاہور کارپوریشن‘‘ جو ان دنوں ابھی کارپوریشن ہی تھی، خط بھی لکھا اور متعدد بار فون کیا کہ شمل کے سپیلنگ ادھورا ہے۔ برائے کرم اسے پورا کر دیاجائے۔ لیکن جب خط کا اثر ہُوا نہ فون کا، تو میں نے اس زمانے کے مشہور اردو اخبار ’’امروز‘‘ میں ’’شمل کا ایل‘‘ کے عنوان سے دو کالم لکھے کہ اقبالیات کی اتنی بڑی محسنہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کے نام میں آخری حرف کی ناروا کمی بُری طرح کھٹکتی ہے۔ چنانچہ: بخیلی ہے یہ رزاقی نہیںہے جب میں نے یہ کالم لکھے تو ڈاکٹر شمل سے میری نیاز مندی کا ابھی باب نہیں کھلا تھا ۔ چونکہ میں نے ان کالموں کے تراشے ڈاکٹر شمل کو نہیں بھجوائے تھے اور ایسا کرنا مناسب بھی نہیں تھا، اس لیے یہ کالم ان کے علم میں آنے کی توقع کرنا اتنا ہی عبث ہے ، جتنا اس خبر کا ان تک پہنچنا عبث ہو گیا ہے کہ لاہور کی نہر کے مال روڈ سے گلبرگ تک دونوں کناروں پر ادھر بھی جشنِ بہاراں اُدھر بھی جشنِ بہاراں ہے اور اس جوشِ جشنِ بہاراں میں نہ خیابان گوئٹے اور نہ ’’خیابان ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کا کوئی اشارہ کوئی استعارہ باقی نہ کوئی نشان اور نہ کوئی نشانی باقی : خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی  تبصرہ کتب مفتاح اقبال ، جلد دوم مرتب : عبداللہ خاور ناشر : اقبال انسٹی ٹیوٹ ، کشمیر یونی ورسٹی سری نگر ضخامت : ۲۹۹ صفحات قیمت : ۲۰۰ روپے گذشتہ تین عشروں سے اقبالیات نے ایک وسیع الاطراف شعبۂ علم و ادب کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اس کے مختلف شعبوں میں بڑی تیزی سے کتابوں ، تحقیقی مقالوں اور مضامین کا اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً اقبالیاتی تنقید کے ذخیرے میں مضامین و مقالات کی تعداد نسبتاً روز افزوں ہے۔ کسی تحقیق کار کے لیے مختلف علمی و ادبی رسائل اور تنقیدی مجموعوں میں پھیلے ہوئے اس بڑھتے اور پھلتے پھولتے ذخیرئہ مضامین کو گرفت میں لینا اور اس سے استفادے کی صورت نکالنا کارے دارد ۔ اقبالیات کے کسی خاص موضوع پر قبل ازیں کیا کچھ لکھا جا چکا ہے؟ ایک حد تک اس کا جواب کسی اقبالیاتی اشاریے یا کتابیات ہی سے مل سکتا ہے۔ اشاریے، تحقیق اہداف کے حصول میں مدد بہم پہنچا کر تحقیق کار کی مشکلات کو آسان بناتے ہیں۔ اقبالیات پر اب تک متعدد کتابیات اور اشاریے تیار کیے جا چکے ہیں اس کی کچھ تفصیل راقم کی ’’کتابیاتِ اقبال‘‘ (لاہور ، ۱۹۷۷ئ) کے دیباچے اور ایک مضمون ’’کلام اقبال کے اشاریے‘‘ (مطبوعہ اورینٹل کالج میگزین ، لاہور ، ۱۹۸۹ئ) میں دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔ مضامینِ اقبالیات کے چند اشاریے اس کے بعد بھی چھپے ہیں، مثلاً: ۱۔ ’’اقبالیات کا موضوعاتی تجزئی اشاریہ‘‘ ، مرتبین: زمّرد محمود ، محمود الحسن۔ علاّمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ، ۱۹۸۶ء ۲۔ ’’اشاریہ سہ ماہی اقبال‘‘ ۔ مرتبہ : اختر النّسائ۔ بزم اقبال ، لاہور ، فروری ۱۹۹۴ء ۳۔ ’’مفتاح اقبال‘‘ ۔ مرتب : عبداللہ خاور ۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر، اگست ۱۹۹۴ء ۴۔ ’’موضوع وار اشاریہ مضامین اقبال شناسی‘‘ (بحوالہ کتب) مرتب: قمر عباس ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۶ء ۵۔ Iqbal and the English Press of Pakistan ۔ مرتب: ندیم شفیق ملک ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۶ء ۶۔ اشاریہ اقبالیات (اردو، انگریزی، فارسی ، عربی ، ترکی) مرتب : اختر النساء ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۱۹۹۸ء اوّل الذکر اشاریہ حد درجہ ناقص ہے۔ (اس پر ایک تبصرہ راقم کی کتاب ’’اقبالیات کے تین سال ‘‘: لاہور ۱۹۹۲ء ، ص ۱۴۵ ۔۱۴۶ میںدیکھا جا سکتا ہے۔) جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، بہت سے اشاریے امتحانی تحقیقی مقالوں کی صورت میں تیار کیے گئے ہیں( ان کی ایک فہرست راقم کی کتاب ’’تحقیق اقبالیات کے مآخذ‘‘(لاہور ، ۱۹۹۶ئ) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ۹۳۔۱۹۹۲ء کے تعلیمی سیشن میں ایم اے اردو (یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور) کے امتحان کی جزوی تکمیل کے لیے دو طالب علموں نے راقم کی نگرانی میں حسب ذیل دو تحقیقی مقالات تیار کیے: ۱۔ اشاریہ تنقید اقبال بحوالہ کتب قمر عباس ۲۔ اشاریہ تنقید اقبال بحوالہ رسائل سید نجف علی عین اسی زمانے میں کشمیر یونی ورسٹی سری نگر کے اسسٹنٹ لائبریرین جناب عبداللہ خاور بھی ایسی ہی کاوش میں مصروف تھے۔ خاور صاحب کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ، قمر عباس کے کام سے بے خبر تھے۔ دیباچے میں لکھتے ہیں ’’ یہ موضوعاتی اشاریہ اس نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔ برصغیر میں غالباً ابھی تک اس طرح کا کام نہیںہوا ہے ‘‘۔ (ص ۸) بہر حال ان کا مرتبہ اشاریہ ’’مفتاح اقبال‘‘ ، ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ قمر عباس کا محولہ بالا مقالہ اقبال اکادمی لاہور نے اشاریہ مضامین اقبال شناسی کے عنوان سے۱۹۹۶ء میں شائع کیا (سید نجف علی کا مقالہ ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔) قمر عباس کا مقالہ ، خاور صاحب کے اشاریے سے پہلے مرتب ہوا، مگر اس کی اشاعت ’’مفتاح اقبال‘‘ کے بعد عمل میں آئی۔ دونوں کا تقابلی مطالعہ کریں بعض دل چسپ نکات سامنے آتے ہیں: ۱۔ قمر عباس نے تقریباً ۵ ہزار مضامین کے حوالے یکجا کیے اور یہ صرف کتابوں سے جمع کیے گئے(رسالوں میں مطبوعہ مضامین کے حوالے انھوں نے سید نجف علی کے لیے چھوڑ دیے) عبدللہ خاور کے ہاں تقریباً ۳۵۰۰ مقالات کی فہرست ملتی ہے (ص ۱۴) یہ حوالے کتابوں کے ساتھ رسالوں سے بھی اخذ کیے گئے ہیں۔ ۲ ۔ قمر عباس نے تقریباً چار سو عنوانات کے تحت حوالے یکجا کیے ہیں ۔ عبداللہ خاور کے ہاں عنوانات کی تعداد ۳۳ ہے۔ ۳۔ قمر عباس کے حوالوں میں مقالات کی ضخامت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہر حوالے میں مقالے کے صفحات نمبر (مثلاً: از ۱۹ تا ۳۲) بھی دیے گئے ہیں۔ عبداللہ خاور کے ہاں یہ اہتمام نہیں ملتا۔ ۴۔ دونوں اشاریہ نگاروں نے بجا طور پر ہر حوالے کے ساتھ کتاب کا نام اور رسالے کے ساتھ اشاعت کا ماہ و سال بھی دیا ہے۔ قمر عباس نے اشاریے کے آخر میں ’’کتابیات ‘‘ کے تحت ۶۶۳ کتابوں کی فہرست بھی دے دی ہے (مع ناشر و سنہ اشاعت) خاور صاحب کے ہاں یہ اہتمام نہیں کیا گیا۔ بایں ہمہ دونوں اشاریوں کی اہمیت مُسلِّمَہ ہے، لیکن آگے بڑھیں تو قمر عباس اس کام سے دست کش ہو گئے(شاید دوسری دل چسپیوں میں کھو گئے یا مصروفیات میں الجھ گئے) اور عبداللہ خاور نے اپنے کام کو آگے بڑھایا، چنانچہ حال ہی میں انھوں نے مفتاح اقبال کی دوسری جلد شائع کی ہے ۔ اس میں پہلی جلد کے ۳۳ موضوعات کے مقابلے میں ۵۰ موضوعات کے تحت پانچ ہزار حوالے مرتب کیے گئے ہیں۔خاور صاحب کے اس اشاریے میں برعظیم پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے اقبالیاتی ذخیروں کے حوالے یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اندازہ ہوتاہے کہ بعض پاکستانی کتابوں اور کتابوں سے زیادہ ادبی جرائد کے حوالے بھارتی مطبوعات کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں اور یہ عین فطری بات ہے، اس لیے کہ بھارت اور کشمیر کے اقبالیاتی ادارے ، حلقے اور اقبال پر کام کرنے والے سکالر سرحد پار اقبالیاتِ پاکستان کی پیش رفت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوپاتے ۔ عبداللہ خاور صاحب کی زیر نظر کاوش مفتاح اقبال ایک اہم اقبالیاتی حوالہ ہے۔ طلبائے اقبالیات خصوصاً اقبالیاتی تحقیق کاروں کے لیے اس کی حیثیت ایک نہایت مفید مآخذ اور معاون کی ہے۔مفتاح اقبال کی قدر و قیمت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اوّل : مرتب نے اسے کسی امتحانی مشق (assignment) یا تفویض کردہ کام کے طور پر، یا کسی ڈگری کے لیے نہیں بلکہ فقط اپنے ذوق و شوق اور ایک علمی لگن کی بنا پر یہ مہم انجام دی ہے۔ انھیں باقاعدہ نگران یا اقبالیات کے اس شعبے میں مہارت رکھنے والے کسی گائڈکی راہ نمائی بھی حاصل نہیں تھی ۔ دوم: ایک تو وہ بھارت کے علمی مراکز (دہلی ، علی گڑھ ، پٹنہ ، حیدر آباد دکن وغیرہ) سے دور بیٹھے ہیں، دوسری طرف پاکستانی ذخیرۂ اقبالیات (جس کا حجم اور رقبہ بہرحال اقبالیاتِ بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ ) براہ راست ان کی دسترس میں نہیں ہے۔ کوئی بھی انسانی کاوش کامل و اکمل نہیں ہو سکتی، چنانچہ ’’مفتاح اقبال‘‘ کی اس قدر و قیمت کے باوجود اسے اور بہتر اور زیادہ پُر افادیت بنانے کے لیے ذیل میں ہم چند تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ ۱۔ موضوعات کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا جائے، مثلاً ’’مشاہیر ‘‘عنوان کے تحت مختلف شخصیات (جیسے رومی، بیدل، اسد ملتانی، ابوالکلام ، سرسید احمد خاں وغیرہ ) کے متعلقہ حوالوں کویکجا درج کیا جائے۔ ۲۔ موجودہ صورت میں ہر حوالے میں کتاب کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ کتاب کب اور کہاں چھپی؟ اور ناشر کون ہے؟ اس کا پتا نہیں چلتا ۔ تجویز یہ ہے کہ کتاب کے آخر میں کتابیات شامل کی جائے جس میں ہر محولہ کتاب کے کتابیاتی کوائف (نام مصنف ، ناشر، سنہ اشاعت ) دیے گئے ہوں۔ ۳۔ موجود صورت میں رسائل کے ہر حوالے کے ساتھ مقام اشاعت (لاہور، سری نگر، حیدر آباد دکن وغیرہ) درج ہے۔ ہمارے خیال میں ہر اندارج میں اس کی ضرورت نہیں۔ حوالے میں تو رسالے کا نام اور ماہ و سال کا اندراج کافی ہے، البتہ کتابیات میں الفبائی ترتیب سے رسائل کی فہرست( نام اور مقام اشاعت) دے دینی چاہیے۔ ۴۔ اگر کتابت قدرِ خفی کر دی جائے تو اسی ضخامت میں زیادہ حوالے یکجا ہو سکیں گے۔ ۵۔ اگر اشاریے کے آخر میں مقالہ نگاروں کا الفبائی اشاریہ بھی دیا جا سکے (گویہ ایک خاصا محنت طلب کام ہے ) تو مفتاح اقبال زیادہ جامع، سائنٹی فک اور پُر افادیت اقبالیاتی معاون (tool) ثابت ہوگی۔ بہر حال موجودہ صورت میں بھی زیر نظر اشاریہ، اقبالیات کے حوالہ جاتی ذخیرے میں ایک نہایت مفید اضافہ ہے اور ہمیں توقع ہے کہ مرتب اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، جب تک ممکن ہو، مزید جلدیں تیار کرتے رہیں گے۔  تبصرئہ کتب : نام کتاب : فہارس تحلیلی ہشتگانہ تحقیق : آرثور بیولر قیمت : ۱۵۰ روپے پاکستانی ۱۰ ڈالر امریکی ناشر : اقبال اکادمی پاکستان مبصر : محمد خلیل صدیقی مجددی نفس مضمون اور مواد (Matter) کے اعتبار سے یہ کتاب نہایت اہم ہے بلکہ اسلام کی اشاعت کے لیے عمدہ کاوش ہے۔ حضرت ابوالحسن زید فاروقی ؒفرماتے ہیں۔ ’’حضرت کے مکتوبات قدسی اکسیر ہدایت ہیں‘‘ پروفیسر محمد فرمان نے لکھا ہے کہ ’’آپ کی دو بڑی کرامتیں دنیا کے لیے بڑے فیوض و برکات کا باعث ہوتی ہیں۔ ایک آپ کی نیک و صالح اولاد ہے جن میں سے ہر ایک یگانۂ روز گار تھا ۔۔۔۔۔ دوسری کرامت جناب کے مکتوبات ہیں جن کے مطالعے سے آپ کی علمیت ، خلوص اور شرع کی پابندی کا ایک حسین، دلکش اور مستحکم منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، جس سے پڑھنے والا اپنے دل میں سرور اور سوز محسوس کرتا ہے اور مزاج و افعال میں نمایاں تبدیلی پاتا ہے‘‘۔ اس کاوش جلیلہ ’’فہارس تحلیلی ہشتگانہ ‘‘ جیسی کتاب کے سلسلے میں حضرت ابوالحسن زید فاروقی مجددیؒ فرماتے ہیں۔ ’’حضرت محمد عبداللہ جان معروف بہ شاہ آغا ، ساکن ٹنڈہ سائیں داد ضلع حیدر آباد سندھ ، متوفی ۱۳۹۳ھ نے مکتوبات کا انتخاب بہ اعتبار مضامین کیا ہے۔ انہوں نے چار ابواب قائم کئے ہیں ۔ پہلا اصول عقائد اہل سنت و جماعت کا ، دوسرا مسائل وا حکام کا، تیسرا حقائق و انوار اور اذواق و مواجیہ کا ، چوتھا مواعظ و نصائح کا اور اس کانام ’’فیض البرکات من عین المکتوبات‘‘ رکھا ہے۔ کتابی تقطیع پر ۴۹۲ صفحات کی کتاب ہے۔ چونکہ انتخاب فارسی میں ہے، اس لیے حضرت مجددؓ ہی کی عبارت ہے۔ اگر حضرت محمد عبداللہ جان ؒ تمام مکتوبات کو بالا ستیعاب بہ اعتبار ابواب لکھتے اور کچھ مزید ابواب کا اضافہ کرتے تو نہایت اعلیٰ کام ہوتا ‘‘۔ مزید فرماتے ہیں ۔ ’’میں نے سنا ہے کہ ہندوستان میں ایک پروفیسر مکتوبات کا انگریزی ترجمہ کر رہے ہیں۔ وہ اس کام میں دو تین سال سے مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کامیاب فرمائے‘‘۔ آخر میں فرماتے ہیں ۔ ’’حضرت مجددؓ کے مکتوبات کا، جس زبان میں بھی ترجمہ ہوگا، اسلام کو تقویت ملے گی ۔ جو بھی آپ کے مکتوبات کو پڑھے گا ، اس کے سامنے اسلام اور اسلامی تصوف کا صحیح نقشہ آئے گا‘‘۔ غلام آں کلماتم کہ آتش افروزد نہ آبِ سرد زند در سخن بر آتش تیز فقیر و خستہ بہ درگاہت آمدم رحمے کہ جزو لائے توام نیست ہیچ دستاویز مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی ؓ سے متعلق متعدد دل چسپ کتابیں ملتی ہیں مثلاً ’’کنز الہدایات‘‘جو حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ کے خلیفہ خاص مولانا محمد باقر لاہوریؒ کی تالیف ہے۔ انہوں نے مکتوبات میں سے عبارات اخذ کر کے طریقۂ نقشبندیہ کو بطریق احسن بیان فرمایا ہے۔ دوسری کتاب ’’ارشاد الطالبین‘‘ ہے جو حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی عثمانی مجددیؒ کی تالیف ہے۔ اس میں طریقہ نقشبندیہ مجددیہ کو مکتوبات مجدد الف ثانیؒ کی روشنی میں بیان فرمایا ہے۔ یہ دونوں کتب فقیر حقیر کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں راقم الحروف اور برادر بزرگ جناب محمد یوسف مجددی مرحوم نے مشترکہ کاوش کی اور مضامین مکتوبات مجدد الف ثانی ؒ کو کافی حد تک ترتیب دیا۔ یہ کتاب قریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن برادر بزرگ کاانتقال ہو گیا اور میں کچھ علیل رہا۔ سردست یہ کام معرضِ التواء میں پڑا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس ادنیٰ سی کاوش کو اس صورت میں قبول و منظور فرمائے کہ اس کی تکمیل و اشاعت کے اسباب مہیا ہو جائیں تاکہ جتنی کاوش کی ہے، وہ تو اسلام کے شیدا ئیوں اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے عقیدت مندوں کے استفادہ و استفاضہ کا باعث ہو۔ حسب ارشاد مَالَا یدرُکْ کُلّہٗ لَا یَشرکْ کُلّہٗ۔ جو میسر آ جائے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ آمین بہ حُرمت سید المرسلین عَلَیْہِ الصّلوٰۃ اَتَمُّھَا وَ التَّحِیَّۃُ اَکْمَلُھَا۔حضرت مجدد الف ثانی ؓ پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور باقی رہے گا۔ مکتوبات شناسی کے لیے صرف فارسی جاننا ہی کافی نہیں۔ اس کے طالب و سالک کا، دینی علوم و معارف کے ساتھ ساتھ تصوف و طریقت کے اسرار و رموز سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔ درویش لاہوری حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں۔ ؎ نہ ہر کس کہ سر بترا شد قلندری داند اگر مکتوبات دانشور کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ اِسے ایک دانشور کی تحریر سمجھے گا۔ مفکر، فلسفی ، ادیب ، مصنف اور عالم اپنی اپنی علمیت کے پیمانے پر پرکھے گا۔ صوفی اپنے تصوف کے انداز میں ٹٹولے گا۔ لیکن مکتوبات ہمہ جہت، جملہ مقاصد کی حامل اور جامع تحریر ہے۔ مونالزا (Monaliza) اس لیے عجوبہ روز گار ہے اور عجائباتِ عالم میں سر فہرست سمجھا جاتا ہے کہ اس کا خالق کہتے ہیں کہ چھتیس علوم و فنون کا ماہر تھا۔ لیکن ہزار سالہ مجدد، اس سے زیادہ علوم و مہارات کا ماہر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی جہتوں کا تعین و شمار ممکن نہیں ۔ مکتوبات کی حقانیت کے بارے میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ کے اپنے بیان کردہ، فرمودہ شواہد موجود ہیں۔ ۱۔ الہامات رحمانی ۔ اے فرزند این معارف کہ مسودہ یافتہ است، اُمیّد است کہ از الہامات رحمانی باشند کہ اصلاً شائبہ و ساوس شیطانی را در انجا مجال نبود ۔دلیل بریں معنیٰ آں دارد کہ چوں در صد و تحریر ایں علوم شدو ملتجی بجناب قدس خداوندی جَلَّ سُلْطَانُہٗ کَشت، دید کہ گوئیا ملائکہ کرام علیٰ نَبِیِّنَا وَ عَلَیِھُم الصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَمُ از نواحِی آں مقام دفع شیطان میکرد ند و نمے گزاشتند کہ در حوالۂ آں مکان بگردد ۔ وَاللّٰہُ سُبحَانَہٗ اَعَلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ۔ (مکتوب ۲۳۴ ۔دفتر اوّل) ۲۔ ہمہ مقبول و منظور ۔ دفتر سوم کے دیباچہ میں تحریر ہے ۔ ’’حضرت از غایت انکسار و خشیت در جواب (سواے) فرمودند۔ ایں ہمہ علوم کہ تبیین و تحریر یافت ، دراں حیرتم کہ آیا مقبول و مرضی بوندیانہ آنگاہ خاموش گشتہ مترصدِ بشارت وائسارت گشتند ۔ فردائے آنروز فرمودند کہ دوش ندادر داند و ظاہر ساختند کہ ایں ہمہ علوم کہ نوشتہ ، بل ہرچہ در گفتگوئے تو آمدہ ، ہمہ مقبول و مرضی است۔ و اشارت بنوشتہائے من کردہ فرمودند ایں ہمہ ما گفتہ ایم و بیان ما است و دراں وقت ہمہ آں علوم بنظر من نیز داشتند و من بریک یک اجمالاً و تفصیلاً نظر میکردم۔ سیمّا در علومیکہ وقتے مرا در آنہا ترددے بود، ہمہ را دراں حکم داخل یافتم ۔ اَلْحَمْدُللّٰہِ عَلَی الاحِسَانِ۔ ۳ ۔ خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ۔ ’’حضرت خواجہ ما قدس سرہٗ نوشتہ بودند کہ علوم شماہمہ صحیح است‘‘ (مکتوب ۱۰۷۔ دفتر اوّل) ۴ ۔ مکتوبات سے امام مہدی حظِ وافر اٹھائیں گے ۔ فرمایا ۔ ’’سُبْحَان اللّٰہ ! معارضے کہ ازیں حقیر (حضرت مجدد الف ثانیؒ) بیخواست بظہور مے آید، اگر اکثرے جمع شدہ در تصویر آں کوشند ، معلوم نیست کہ میسر شود۔ماناکہ حظِّ وافر ازیں معارف نصیب حضرت مہدی علیہ الرضوان خواہد بود ؎ اگر بادشہ بر در پیر زن بیاید تو اے خواجہ سُبلت مکن (مکتوب ۲۳۴۔ دفتر اوّل ، ص ۳۸۸) ۵ ۔ رسول اللہ ﷺ کی تحسین ۔ وآں رسالہ بالتماس بعضے یاران میسر شدہ ۔ التماس نمودہ بودند کہ نصائح بنویسیر کہ در طریقہ نافع باشد و بمقتضائے آں زندگانی کردہ شود۔ الحق رسالۂ غیر مکّررکثیر البرکات است، بعد از تحریر آں چناں معلوم شد کہ حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ والسلام والتحیۃ با جمعے کثیر از مشائخ اُمتِ خود حاضر اند و ہمیں رسالہ در دستِ مبارکِ خود دارندو از کمالِ کرِم خویش آں را بوسہ مے کنند و بہ مشائخ مینمایند کہ ایں نوع معتقدات می باید حاصل کردد جماعہ کہ بایں علوم مستعد گشتہ بودند نورانی و ممتاز اند و عزیز الوجود ، در رو بروئے آں سرور علیہ الصلوۃ والسلام والتحیۃ ایستادہ اند ۔ والقصۃ بطو لھا۔ و در ہماں مجلس باشاعت ایں واقعہ حقیررا امر فرمودند۔ ؎ باکریماں کارہا دشوار نیست (مکتوب ۱۶۔ دفتر اوّل ، ص ۳۵) ۶ ۔ حضرت علی ؓ کی تائید۔ ایک سید عالم رات کو مکتوبات کا مطالعہ کر رہا تھا ۔ دوران مطالعہ کسی عبارت پر اُسے طیش آیا۔ مکتوبات کو زمین پر ڈال دیا اور سو گیا۔ وہ عبارت مناقشت و محاربت حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ کے بارے میں تھی۔ خواب میں حضرت مجدد الف ثانی ؓ جلال میں تشریف لائے اور فرمایا ۔ ’’اے طفل نادان! تو ہماری تحریر پر اعتراض کرتا ہے۔ آ میں تجھے حضرت علیؓ کی بارگاہ میں لیے چلتا ہوں ‘‘ جب اُن کی بارگاہِ اقدس میں پہنچے تو آپؓ نے فرمایا ۔ ’’خبردار ! ہزار بار خبردار! حضور ﷺ کے اصحاب ؓ سے اپنے دل میں بغض نہ رکھنا اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی بات کا انکار مت کرنا‘‘۔ حضرت مجدد ؒ نے پھر عرض کی ’’حضرت ! اس کا دل اب بھی صاف نہیں ہوا‘‘ ۔ تو وہ بیان کرتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے ارشاد کے مطابق حضرت مجددؒ نے میری گُدّی پر تھپڑ مارا ۔ اسی وقت میرا دل اس کدورت سے صاف ہو گیا۔ اور مجھے حضرت مجدد ؒاور اُن کے کلام سے عقیدت و محبت پیدا ہو گئی۔ (ملخصاً) (حضرات القدس کرامت ۱۰) ۷۔ اجازت نامۂ رسول اللہ ﷺ ۔ بعد از حلقۂ صباح چوں کوفت شب داشتہ بود، بخواب رفت ، مے بیند کہ حضرت رسالت پناہ ﷺ از برائے فقیر اجازت نامہ نوشتہ اند، چنانچہ عادتِ مشائخ است کہ خلفاء را مے نویسند۔ ویکے از یاران جہت مند من دریں معاملہ است۔ دریں اثناء گوئیا ظاہر گشتہ است کہ در امضائے ایں اجازت نامہ مخوے از فتور است۔ و تعین وجہ فتور ہمدراں وقت معلوم است۔ آں یار کہ متصدی ایں خدمت است بار دیگر گوئیا ایں اجازت نامہ را در ملازمت آں سرور بردہ است عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلہٖ الصَّلَوَاتُ وَ التَسْلِیْمَاتُ ۔ وآں سرور در پشت آں اجازت نامۂ دیگر نوشتہ اند یا نویسانیدہ۔ ایں تشخص نشدہ ۔ اما نسبت بآں سرور معلوم ست۔ و بعد از نوشتن بمہر خود مزین فرمودہ اند عَلَیْہٖ وَ عَلٰی اٰلِہٖ الصَّلوٰۃ وَالسَّلَام ۔ مضمون ایں اجازت نامہ آنست کہ در عوض اجازت نامۂ دنیا، اجازت نامۂ آخرت دادہ اند۔ و از مقام شفاعت نقیب عنایت فرمودہ اند۔ و کاغذ ہم طولانی ست و سطرہائے بسیار نوشتہ اند۔ (مکتوب ۱۰۶ ۔ دفتر سوم) طوالتِ مضمون کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اب کہاں سے ہمہ جہت شخصیت پیدا ہو جو مکتوبات کا کماحقّہٗ ادراک کر سکے۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے بارے میں ان کے ہمعصر ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں: ۸۔ وجزآں معارف جدیدہ و حقائقِ نادرہ کہ از اں قلم نورانی رقم ریختہ ، آفتابے ست کہ چشم منکراں ازاں خیرہ و روزِ حاسداں تیرہ ۔ ایں معارف و حقائق کہ می شنوی وا یں ہدایت و ارشاد کہ می بینی با علی ندا ندا مے کند کہ صاحبِ آں مجدد است ۔ ونہ مجدّد مائتہ بل مجدّد الف ، صد تا ہزار فرقی نہ اندک ست، لو کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن۔ (اخبار الاخیار فارسی۔ ص ۳۲۵) ۹ ۔ اس ضمن میں آخری کلمات حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی زبانی سنیں ۔ عبارت عربی میں ہے اس لیے ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کی جو عادت مستمرہ اپنے انبیاء کے ساتھ رہی ہے، اسی کو اس نے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ساتھ برتا ہے کہ ظالموں اور مبتدعین نے آپ کو ایذا پہنچائی۔ اور متقشف فقہا نے آپ کا انکار کیا ، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی حسنات میں اضافہ ہو۔ مومن ہی کو آپ سے محبت ہوگی اور شقی فاجر ہی کو آپ سے عداوت ۔ (ترجمہ احوال الامام الربانی۔ برحاشیہ مکتوبات عربی) ۱۰۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے بارے میں علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی ؒ تحریر فرماتے ہیں: قدح کردن در سخن بزرگان بے مرادِ ایشاں جہل است و نتیجہ ٔ نیک نہ دارد ۔ پس رد کلام مشیخت پناہ، عرفان دستگاہ شیخ احمد از جہل و نافہمیدگی است۔ (ہدیہ مجددیہ کہ از رسالہ کشف العظاء نقل کردہ ۔ ازحضرت محمد فرخ نبیرئہ حضرت مجددؒ) دانشورانہ ، مفکرانہ ، ادیبانہ ، مصنفانہ اور عالمانہ فکر کے حامل حضرات نے ’’فہارس تحلیلی ہشتگانہ‘‘ مکتوبات امام ربانی حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کتاب میں ، آپ کو حضرت یا شیخ لکھنا بھی گورا نہیں کیا ۔ محض احمد سرہندی سمجھا ہے: چمن میں میری تلخ نوائی گوارا کر کہ کبھی زہر بھی کرتا ہے کار تریاقی ہرشخص کی شخصیت اس کے مقامات و درجات سے پہچانی جاتی ہے۔ محض نام سے نہیں، نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کو مستشرقین (Qrientalists) کی طرح محمد مکّی یا محمد عربی کے نام سے یاد کریں یا تحریر کریں کہ کیسے واضح ہو گا کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو نام سے کم، اور ان کے صفات و مقامات و درجات سے زیادہ یاد اور ذکر فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ ، ہمیں تعلیم و تدریس مہیا فرماتا ہے کہ محض آپ کے سرسری نام سے نہیں، بلکہ آپ کے صفات و کمالات سے یاد تحریر کرنا چاہیے۔ میاں احمد سرہندی کہہ کر آپ نے اُن کے جائز مقام و درجہ سے اغماض فرمایا ہے۔اس سے ان کا اُمت رسولؐ میں درجہ و مقام اجاگر نہیں ہوتا ۔ اور نہ دانشور کی دانشوری کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ احمد سرہندی کے نام سے نہیں، حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے اسم گرامی و لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ جو حضرات آپ کو سرسری ہزار سالہ مجدد نہیں مانتے وہ بھی لفظ مجدّد لکھنے سے گریز نہیں کرتے ۔ معلوم نہیں آپ حضرات ایسے لقب سے کیوں گریزپا ہیں۔ آپ حضرات کے محض احمد سرہندی لکھنے پر اکتفا کرنے سے ان کے عظمت و وقار میں کمی نہیں آئے گی : حضرت مجدد الف ثانی ؒ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نائب، خلیفہ اللہ اور خلیفۃ الرسول ہیں۔ اولوالعزم رسول ، جو صاحبِ کتاب، صاحب و شریعت ہوتا ہے، کے قائم مقام ہیں۔ آپ اپنے مکتوبات قدسی آیات میں فرماتے ہیں کہ سو سالہ مجدد نبی کا قائم مقام اور ہزار سالہ مجدد اولوالعزم رسول کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اسی لیے امام مہدی ؓ اس امت کے سو سالہ مجدد نہیں، ہزار سالہ مجدد بن کر مبعوث ہوں گے۔ یاد رہے کہ ہر مجدد مبعوث و مامُور بن اللہ ہوتا ہے۔ ضروری خیال کریں تو مجدد والی حدیث کے الفاظ پر غور فرما لیں۔ اس عظیم کاوش اور کار نمایاں کو سر انجام دے کر اسے چار چاند لگانے کی بجائے اسے خاک میں ملانے کی سعی نا تمام کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَ مَنْ یَّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَیْ الْقُلُوْب۔ کتاب کی کتابت انتہائی باریک اور تمام تر نسخ میں ہے۔ اس جدید ترقی یافتہ دور میں ایسی کتابت اور ضرورت سے زیادہ کفایت شعاری کو کون پسند کرتا ہے۔ ہم جیسے ضعیف العمر اور ضعیف البصر لوگ تو چشمہ سے بھی بدقت نظر اس کا معالعہ کر سکیں گے۔ آئندہ ایڈیشن میں ان کوتاہیوں کا ازالہ لازمی ہے۔ نام کتاب : اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ مصنف : پروفیسر ایوب صابر صفحات : ۳۸۷ قیمت : ۳۰۰ روپے ناشر : انسٹی ٹیوٹ آف اقبال سٹڈیز، بیت الحکمت ، لاہور مبصر : محمد سہیل عمر انسان اپنی اجتماعی بلکہ نوعی ساخت میں ایک شخصیت کی طرح ہے جس کی تشکیل انہی عناصر سے ہوتی ہے جو فرد کی تعمیر میں کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ روایت جو انسانیت کی حقیقت کا تعین کر کے اسے شعور ، ارادے اور طبیعت میں راسخ کرتی ہے، اپنے اظہار کی غیر پیغمبرانہ سطحوں پر بھی افراد ہی کو مظہر بناتی ہے۔ ان میں سے بعض افراد اپنی ذات کے ہر جز میں اس مظہریت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس روایت کے ترجمان بن کر اسے تغیر و تبدیلی پر اساس رکھنے والی انسانی صورت حال میں نہ صرف یہ کہ اوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ زندگی کے سب سے بنیادی اور حقیقی اصول کے طور پر اس کو نفسِ انسانی کی سطح پر قائم اور محفوظ رکھتے ہیں۔ پہلی قسم میں وہ حضرات آتے ہیں جو اپنی ذات میں بھی انسانیت کا معیار ہوتے ہیں، یعنی ائمہ و اولیا ، وغیرہ ۔ جبکہ دوسری قبیل ان لوگوں کی ہے جن کا قول ہی اتنا زندہ ، بامعنی اور پرُ اثر ہوتا ہے کہ ان کے احوال و اعمال میں موجود جزوی نقائص سرے سے غیر اہم اور ناقابلِ اِلتفات ہو کررہ جاتے ہیں۔ انسانی تکمیل کا مجموعی عمل گو کہ اپنی روح میں حال سے عبارت ہوتاہے، تاہم اس کے بعض مطالبات قال کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ۔ انسان کی باطنی اور خارجی پیش رفت جب اجتماعی اسلوب اختیار کرتی ہے تو اس کے بنیادی محرکات اور حتمی مقاصد کو مستحضر رہنے کے لیے لفظ کا وسیلہ درکار ہوتا ہے جو فکر و تخیل اور جذبہ و احساس کی تشکیل میں ایک فیصلہ کُن کردار رکھتا ہے۔ لفظ ، آدمی کی سب سے بڑی قوت ہے۔ شاعروں اور مفکروں کے ہاں یہ قوت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ عام طور سے ان کی شخصیت، خصوصاً کردار کے اعتبار سے ، اس کا پورا مصداق بننے سے قاصر رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک کمی ہے ، لیکن دیانت داری سے دیکھا جائے تو بعض شعرا اور مفکرین میں یہ کمی شخصیت کی کسی منافقانہ یا مریضانہ دولختی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ انسان کی کچھ مجبوریوں کا ایک لائق فہم اور قابل قبول مظہر ہے۔ اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اس طرف اشارہ کر دیا جائے کہ بعض شخصیتیں اپنی قوم کے لیے معیار بن جاتی ہیں۔ یہ معیار ذاتی کردار کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے اور خیال و فکر کی وجہ سے بھی۔ قومی زندگی کی بقا اور کمال کے لیے دونوں طرح کے معیارات کا موجود اور محفوظ رہنا ضروری ہے۔ ہم اپنی صورت حال پر نظر کریں تو ہمارے موجودہ تصور زندگی اور مروجہ اقدار حیات میں قائد اعظم کی شخصیت اور علامہ اقبال کے پیغام کی حیثیت مرکزی ہے۔ ہماری قومی زندگی کی صورت گری میں کردار و گفتار کی بیشتر ضروریات انھی دو ہستیوں کو نمونہ بنا کر پوری ہوئی ہیں۔ فرد کی طرح قوم بھی ذہن ، مزاج اور ارادے کا مجموعہ ہوتی ہے جن میں یکجائی اور یکسوئی کے حصول کے لیے نظریے اور عمل کے قطبین میں توازن پیدا کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ اگر نظریاتی ساخت کو مستحکم کرنے والا عنصر بالفرض عملی مطالبات کی تکمیل نہ کر سکتا ہو تو قومی زندگی میں اسے ایک اساسی قدر کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی اس ناگزیر حیثیت کو مجروح کرنے کی ہر کوشش اپنی بنیاد منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ اس بات پر شبہ کرنے کے لیے دانش و بینش سے مکمل محرومی درکار ہے کہ جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمانوں کا نظریاتی جوش اور فکری اطمینان جن نبیادوں پر استوار ہے اور استوار رہ سکتا ہے ، ان میں ایک بڑی بنیاد اقبال کے خطبات اور شاعری نے مہیا کی ہے۔ کم از کم مسلمانان برصغیر نے اب تک وہ دفاعی نظام ایجاد نہیں کیا جو ان کے دین ، تہذیب اور نفسیات کو محفوظ رکھنے میں کلام اقبال سے زیادہ نہ سہی ، اُس کے برابر ہی مؤثر اور قابل اعتماد ہو۔ علامہ کی اس منفرد حیثیت کو ان کی شخصیت پر کئے گئے منفی تجزیوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا ۔ ان کا یہ مقام ان کے کلام کی وجہ سے ان کی شخصیت سے ماورا ہے۔ نظریے اور عمل کا جو توازن قوم کا مدارِہست و بُود ہے، ہم نے اسے اقبال کی فکر اور شاعری سے اخذ کیا ہے، ان کی شخصیت سے نہیں ۔ ان کا مردِ کامل ہمارے لیے مثالی نمونہ ہے مگر ہمارے اندر اس خیال نے کبھی سر نہیں اٹھایا کہ خود اقبال اپنے ’’مردِ کامل‘‘ کا مصداق ہیں یا انھیں ہونا چاہیے ۔ علامہ سے محبت اور ان کا احترام ہمیں اس طرف نہیں لے جاتا کہ انہیں اس نظر سے دیکھنا شروع کر دیں جس نظر سے دینی اور روحانی کمالات کے حاملین کو دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ذات سے وہ گراوٹ اور گھٹیا پن منسوب کر دیا جائے جو عام سے عام آدمی کے لیے بھی باعثِ شرم ہو۔ ولی اللہ نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ آدمی کو عیب جوئی کا ہدف بنالیا جائے ۔ دین داری اور اتباع سُنّت کے بعض اعلیٰ معیاروں پر پورا نہ اتر سکنے کے باوجود عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایسے اوصاف اور ایسی صلاحیتیوں کا مالک ہو جو اربابِ صلاح اور اصحابِ تقویٰ کے لیے بھی لائق رشک ہوں۔ اس امکان کی صحت کا سب سے بڑا ثبوت خود اقبال ہیں۔ ملّت اسلامیہ کے جسد مردہ میں روح پھونکنے کا جو کام انہوں نے کیا ہے، وہ کسی بھی مجدّد اور مصلح کے لیے سرمایۂ افتخار ہو سکتا ہے اور پھر یہ کارنامہ وقت کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں ہے۔ انسانوں کے قلوب میں یقین پیدا کرنے کے جتنے اسباب ممکن ہیں ، ان سب کو بروئے کار لا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل بعید میں بھی اُمّتِ مُسلِمَہ میں بیداری کی جولہریں اٹھیں گی ، ان میں سے اکثر اقبال کے سرچشمۂ فکر ہی سے نکلی ہوں گی ۔ اقبال کی یہ مسلمہ حیثیت ہی ان کی شخصیت کا سب سے بڑا بلکہ واحد عنوان ہے۔ اس سے واقف ہو جانے کے بعد کسی شخص کو ، بشرطیکہ وہ آدمیت سے بالکل ہی محروم نہ ہو ، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقبال کی چھوٹی موٹی کمزوریاں تلاش اور مزے لے لے کر بیان کرنے بیٹھ جائے۔ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ نا کام و نامراد لوگوں کو سمجھنے کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے لیکن اقبال ایسی شخصیت پر اس کا اطلاق ایسے ہے، جیسے کوئی مستری ہمالہ کی ساخت کے نقائص ڈھونڈ نے میں لگ جائے۔ سامنے کی بات ہے کہ نفسِ انسانی کو جمال و جلال اور خیر و کمال کے اصلی اور قدرتی سانچے میں ڈھالنے کی قوت رکھنے والی کوئی ہستی اتنی گئی گزری نہیں ہو سکتی کہ کوڑا کرکٹ چننے اور گندگی کرید نے والی مخلوق اس پر حرف زنی کر سکے۔ اقبا ل کی شخصیت میں یقینا کئی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہوں گی۔ ان کی نوعیت ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور علمی و فکری بھی ۔ لیکن وہ معائب و نقائص ان کے کمالات کے آگے گویا معدوم ہیں۔اُنھیں حاضر و موجود کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی ، وہ بجائے خود ایک پست، گھٹیا اور مسخ نفسیات کی آئینہ دار ہو گی۔ ’’اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ‘‘ کی شہرت اس کی اشاعت سے ایک قدم آگے رہی ہے۔ کتاب کا مسودہ مجھے بھی بعد میں پہنچا اور اس پر رائے زنی اور سنی سنائی باتوں کا فشردہ پہلے وارد ہوا ۔ کتاب دیکھنے سے قبل اندیشہ یہ تھا کہ پروفیسر ایوب صابر کا یہ کام کہیں اقبال دشمنی کے رجحان کو مزید حوالہ جات فراہم کر کے اس کی تقویت کا سبب نہ بن جائے۔ لیکن جب کتاب کا مسودہ ہاتھ میں آیا اور میں نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ اندیشہ رفع ہو گیا ۔ پروفیسر صاحب کا یہ کام بلاشبہ بہت سے فوری بہت سے دور رس فوائد رکھتا ہے ۔ اقبال کو جن معاندانہ اعتراضات ، الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنایا گیا ہے ،عوام و خواص کی ایک اچھی خاصی تعداد انھیں درست یا تقریباً درست سمجھتی ہے اور اس سلسلے میں خاموش رہتی ہے ۔ اس طبقے میں اکثریت یقینا ایسے لوگوں کی ہے جو شراب نوشی وغیرہ کو علامہ کا ذاتی فعل کہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ مہربانی ہمیں اقبال کا وہ حق ادا کرنے سے نہیں روک سکتی، جو ہم پر واجب ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے محسن کی کردار کشی اور اہانت کی ہر مہم کا مقابلہ کریں تاکہ اقبال سے ہمیں جو نسبت ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے داغ ، بے غُبار اور محکم رہے۔ یہ ہماری ذاتی ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ پروفیسر ایوب صابر اقبال دشمنی کی پوری روایت کو، اس کی تمام صورتوں کی پردہ کشائی، اس کی نارسائیوں کا آئینہ دکھا نے اور اس کی کج فہمی ، کج بینی اور کج نویسی کی تردید و اصلاح پر کمر بستہ ہیں۔ ان کا یہ منصوبہ کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر کتاب کا موضوع ہے: ’’اقبال کی شخصیت پر کیے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب ‘‘ یہاں اعتراضات کا تار و پود جس طرح بکھیرا گیا ہے ، وہ اپنی جگہ ایک چشم کشا مطالعہ ہے۔ اعتراضات کی ایک نوع تو ایسی ہے کہ اس کی تردید کے لیے صرف اسے نقل کرنا کافی ہے۔ یہ اعتراضات داخلی تضادات سے بھرپو ُر واشگاف غلطیوں کا مرقع اور حکایت بافی کا نمونہ ہیں۔ ان کی تردید میں کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ یہ کام ان کی عبارت خود ہی بخوبی انجام دے رہی ہے ۔ ان کے معاملے میں گِلِ کُوزہ سے لے کر کوزہ شکنی کے جملہ مراحل کا سامان ان کی اپنی تعمیر میں مضمر ہے۔ کچھ اعتراضات افسانہ اور حقیقت ، فکشن اور سچی واردات کا ملغوبہ ہیں۔ بافندگان حرف و حکایت نے کہانی کا تانا بانا بنتے بنتے اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا کر اس کا رنگ، رخ اور ’’ذائقہ ‘‘ بدل دیا ہے۔ پھر ان اقبال شناسان خام کار کے خامۂ ہذیان رقم اور خود بین و خود آرانے ایسی مطلق العنانی اور بسا اوقات مطلق الانانیت دکھائی ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو گیا ہے اور وہ اپنے زور تخیل سے اقبال کا ماضی اور اپنا مستقبل آپ بنانے نکل کھڑا ہوا ہے۔ بعض اعتراضات میں تو ’’اجتماعی کاوشوں‘‘ کی عجب رنگارنگی نظر آتی ہے۔ ایک کہانی کار داستان کا ست رنگا تانا بانا بنتا ہے، دوسرا اس پر زرد وزی کام کے بیل بوٹے بناتا ہے، تیسرا کلی پُھندنے ٹانکتا ہے ۔ پھر سب مل کر غیبت بافی کا شاہکار جھول جسدِ اقبالیات پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ ماضی وہ نہیں ہوتا جو واقعتا تھا ، بلکہ وہ جو داستان طرازوں نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق از سر نو گھڑکر آراستہ پیراستہ کیا ہوتا ہے ۔ اقبال اور اقبالیات کا ’’ماضی تمنائی ‘‘ اس پاستان طرازی کے پس منظر میں ان اقبال شناسوں کی مجروح انا کا طائوسی رقص دیدنی ہوتا ہے کیونکہ پھر یہ اعتراضات صرف نقد ادب و شعر یا سوانحی تجزیہ نہیں رہ جاتے بلکہ ہمارے رویوں کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اس آئینے میں کیسے کیسے عکس ابھرتے ہیں۔ شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے ، یہ لکھنے والے کے ذوق ، تاب ہزیمت اور طاقت فرار یا خوئے انتقام پر منحصر ہے۔ جن لوگوں کا تصور شعر اور مقیاس الشعرا، مضافاتی یا قصباتی نوعیت کا ہے، وہ اقبال کی شاعری کو اسلامی تہذیب کے جمال و زیبائی کا نمونہ جاننے کی بجائے اسے اپنے اسی دہقانی پیمانے پر ناپتے رہے ہیں۔ ان کی نارسائیوں کا عکس آپ کو کتاب میں جا بجا ملے گا ۔ ان بزرگوں کا کارنامہ بھی نظر آئے گا جو اپنے کسی عیب کا جواز اقبال کی زندگی کے مفروضہ مخفی گوشوں میں تلاش کرتے پائے جائیں گے ۔ وہ ذہن بھی منعکس ہوگا جو گھٹیا الزامات اور عیب جوئی سے لذت کشید کرتا ہے اور بڑے آدمی کی ، بزعم خویش ، تذلیل کر کے مسرت حاصل کرتا ہے۔ مسلک کا اختلاف کیونکر عظمت کے اعتراف میں حائل ہوتا ہے، یہ منظر بھی بار بار سامنے آئے گا۔ اعتراضات کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا خمیر غلطی یا ناکافی معلومات سے اٹھا ہے۔کتاب کی سب سے بڑی افادیت اسی نوع کے اعتراضات کی تصحیح ، ترمیم اور تردید میں مضمر ہے ورنہ اہل عناد کا مرض تو درد لا دوا ہی پایا گیا ہے۔ وہ قارئین ، جن کی قِلّتِ معلومات اور عقیدت کے مابین ایک کشاکش رہتی ہے، اُنھیں اس کتاب کی صورت میں ایک مضبوط سہارا میسر آ جائے گا ۔ صرف اتنا ہی نہیں، کتنے ہی اعتراضات ایسے ہیں جن کا شافی جواب خود ہمیں بھی ڈاکٹر ایوب صابر کے توسط سے حاصل ہوا اور صُورتِ مسئلہ پوری طرح واضح ہو گئی ۔ اس خارستانِ جرح و نقد میں ہم ایسے اور بھی بہت سے قارئین ہوں گے جن کے لیے اس کتاب سے استفادہ گونا گوں فوائد رکھتا ہو گا ۔ مطالعہ شرط ہے۔ الغرض ، علامہ کی شخصیت پر اب تک جتنے اعتراضات اور الزامات عائد کیے گئے ہیں ، پروفیسر ایوب صابر نے ان سب کاسامنا کیا ہے، دیکھا پرکھا ہے اور ایک ایک کا جواب دیا ہے۔ اکثر جوابات اور توضیحات محکم ، مدلل ، مسکت اور برمحل ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی مزید تشفّی درکار ہے۔ اسی طرح ایک آدھ جگہ پر کسی اختلافی نکتے کو بھی معاندانہ اعتراض فرض کر لیا گیا ہے ۔ خلیفہ عبدالحکیم کی یہ شکایت کہ اقبال، مغرب دشمنی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور سلیم احمد کی یہ دریافت کہ ان کی شاعری کا مرکزی مسئلہ ’موت‘ ہے ، اقبال دشمنی کا مظہر نہیں ہے۔ ان پر گفتگو کی سطح اور اَسلُوب بالکل مختلف ہونا چاہیے ۔ یہ خاصے سنجیدہ مباحث ہیں۔ تاہم کچھ کھانچوں کے باوجود اقبال کی شخصیت کا ایسا ٹھوس اور متوازن دفاع اقبالیات کی روایت میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا ۔ پروفیسر ایوب صابر کے اخلاص ، جذبے اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ درخواست کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اقبال دشمنی کے اس پوشیدہ روّیے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں صاف نظر آتا ہے۔ اقبال مجدّدِ مُطلَق ہیں، اقبال تاریخ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں ، اقبال دنیا کے سب سے بڑے اور آخری مفکر ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ مبالغہ آرائیاں ان تہمتوں سے زیادہ مضر اور خطر ناک ہیں جو منشی امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں ۔ یہ غیر تربیت یافتہ اور نا پختہ ذہن کو اقبال سے بدظن کر سکتی ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر جہاں ایک فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کی شخصی بڑائی بھی بالکل واقعاتی سطح پر سامنے آ جاتی ہے، وہیں دنیائے شعر و ادب میں کارفرما بعض انسانی رویے اور ان کے محرکات و مقاصد بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ اقبال دشمنی جو کہیں نظریاتی مخاصمت ہے، کہیں فکر و اندیشہ کی تنگ دامانی اور کہیں ذاتی حسد و عناد ، اپنی اصل حقیقت میں ایک ایسا رویّہ ہے جو انسان ہونے کی بعض بنیادی شرائط کے منافی ہے۔ اس کا غیر اخلاقی پن تو ظاہر و باہر ہے، سب سے تشویشناک پہلو وہ غیر انسانی پن ہے جس سے اس کا خمیر اٹھا ہے۔ اقبال سے کلی یا جُزوی اختلاف اپنی شدید ترین حالت میں بھی ایک سنجیدہ اور مخلصانہ ذہنی سرگرمی کے طور پر قابلِ غور ہو سکتا ہے لیکن انہیں غلاظت میں ملوث اور آلودہ کرنے کی سازشیں پوری قوت سے رد کر دیے جانے کے لائق ہیں۔ پروفیسر ایوب صابر نے ان سازشوں کو بے نقاب کر کے اقبالیات کا ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔  اخبار اقبالیات مرتبہ : ڈاکٹر وحید عشرت ٭ ۔ اقبال : فروغِ نو نوجوانوں کے لیے منصوبے ، مقابلے، اور نمایشیں وفیات ٭ ڈاکٹر الف ، د ، نسیم ٭ سید مصلح الدین سعدی ٭ ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ٭ چودھری مظفر حسین ٭ شیخ ایم سعید اقبال : فروغِ نو نوجوانوں کے لیے منصوبے ، مقالے اور نمایشیں اقبال اکادمی پاکستان نے ’’سالِ اقبال۔ ۲۰۰۳ء کے دوران میں فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے متعدد منصوبے بنائے۔ اِن منصوبوں پر بہ احسن طریق عمل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چار نکاتی لائحہ عمل بنایا گیا: ۱۔ علامہ اقبال کے آثار و افکار کی ترویج کرنا ۲ ۔ علامہ اقبال کے خیالات و نظریات کو عام کرنا ۳ ۔ علامہ اقبال کی شاعری کو عام کرنا ۴ ۔ علامہ اقبال کی اپنی تصانیف و تخلیقات کی اشاعتِ عام اِن چار نکات کو مدنظر رکھ کر جو کام مکمل کئے گئے ، اُن کی تفصیل یہ ہے :۔ ۱۔ کتابوں کی اشاعت دنیا کی بیس سے زیادہ زبانوں میں بڑوں اور بچوں کے لیے چار سو سے زیادہ کتابیں اقبال اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔ پانچ زبانوں میں رسائل و جرائد شائع ہوئے، جن میں اردو ، انگریزی ، فارسی ، عربی اور ترکی زبانیں شامل ہیں۔ ۲۔ تحقیقِ مزید اور گہری نظر ثانی کے بعد مستند و معتبر نسخے تیار کر کے ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) اور’’ کلیاتِ اقبال‘‘ (فارسی)خوبصورتی سے شائع کئے گئے ۔ اب یہ دونوں اکادمی کے نسخے کہلاتے ہیں اور اس سے پہلے کے نسخوں اور دوسرے ناشران کے شائع کردہ نسخوں پر ہر لحاظ سے فضیلت رکھتے ہیں۔ ۳۔ پیام اقبال، بچوں کے لیے: علامہ اقبال نے بچوں کے لیے جو نظمیں کہی ہیں، اُن کی اشاعت کے لیے خصوصی کلیات مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے نامور مصنفین سے اقبال کے خاص حوالے سے ، بچوں کے لیے کتابیں لکھوائی گئی ہیں، تاکہ اقبال کا پیام بچوں تک بھی پہنچے۔ ۴ ۔ پیام اقبال : دور دراز علاقوں تک علامہ اقبال کا پیام ملک کے گوشے گوشے میں پہنچانے کے لیے کتب خانوں اور دانشوروں کو کتب و رسائل اور پمفلٹ اعزازی طور پر بھجوائے گئے۔ بعض کتب بطور تحفہ دی گئیں۔ مختلف مقامات پر ’’یوم اقبال‘‘ منائے گئے۔ سیمینار ، کانفرنسیں اور کتب کی نمایشیں منعقد ہوئیں۔ نیز مختلف شہروں میں خصوصی اقبال لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔ ۵ ۔ بیرون ملک اقبال کے پیغام کا فروغ غیر ملکی زبانوں میں کتب کی اشاعت ، پڑھنے لکھنے والوں کو کتب اور رسائل کی ترسیل اور آئی ٹی اور آڈیو وڈیو کے ذریعے اور ویب سائٹ سے معلومات اور دیگر چیزیں فراہم کی گئیں۔ ۶۔ کتب خانہ اقبال اکادمی نے ایک بڑی لائبریری بنائی جس میں تیس ہزار سے زیادہ کتب اور رسائل ہیں۔ اقبالیات کے حوالے سے یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے جس میں دنیا کی ہر زبان میں شائع ہونے والی اقبال پر کتب دستیاب ہیں۔ اقبالیات پر ان کتب کی تعداد ساڑھے چھ ہزار ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات و رسائل کے اقبال نمبر بھی محفوظ ہیں۔ رسائل کی تعداد پندرہ ہزار ہے ۔ علامہ اقبال کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی شعری بیاضیں اور خطوط بھی محفوظ ہیں۔ اس لائبریری میں عام قارئین کے علاوہ ایم ۔ اے ، ایم فل۔ اور پی ایچ ڈی پر ریسرچ کرنے والے طلبا و طالبات کو کتب ، مطلوبہ مواد ، فوٹو کاپی کی سہولت اور تحقیقی رہنمائی بھی دی جاتی ہے۔ ۷ ۔ صدارتی اقبال ایوارڈز علامہ اقبال پر لکھی جانے والی اردو ، انگریزی ، پنجابی، پشتو ، بلوچی اور سندھی کتابوں پر صدارتی ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی کتب پر بین الاقوامی اقبال ایوارڈز بھی دئیے جاتے ہیں۔ ۸ ۔ نمایشوں کا انعقاد سال اقبال کے دوران مختلف مواقع اور مقامات پر ۱۹ سے زیادہ کتب کی نمایشیں منعقد کی گئیں۔ ۹ ۔ ٹیلی ویژن ، ریڈیو اقبال اکادمی پاکستان نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ مل کر ۱۲ حصوں پر مشتمل ’’آئینہ اقبال‘‘ کے نام سے علامہ اقبال پر تعارفی پروگرام پیش کیا۔ ناظم اقبال اکادمی اور نائب ناظم (ادبیات) نے مختلف مذاکرات، لیکچروں اور سیمیناروں میں حصہ لیا ۔ ’’ذوق آگہی‘‘ کے نام سے طلبہ کے لیے ٹی وی کوئز مقابلے اہم ٹی وی مراکز سے کرائے گئے ۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان کے مذاکروں میں شرکت کی گئی اور اقبال کوئز نیشنل چیلنج ٹرافی کا پروگرام پیش کیا گیا۔ ۱۰۔ کتب و رسائل کی اشاعت سال اقبال کے دوران مختلف زبانوں میں ۳۷ کتب اور ۹ رسالے شائع ہوئے، جن میں علامہ اقبال کے خطبات کا اردو ترجمہ تجدید فکریات اسلام ،The Flame of Sinai ، تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ ، Islam, Pakistan's Identity، علامہ کی نظموں کا انگریزی ترجمہ Poems from Iqbal نمایاں ہیں۔ ۱۱۔ آڈیو ویڈیو سی ڈیز سال اقبال ۲۰۰۳ء کا ایک اہم کام آڈیو ویڈیو سی ڈیز ہیں جن میں تین وڈیو ڈاکومینٹری کی سی ڈیز، تین وڈیو موسیقی کی سی ڈیز اور تین ملٹی میڈیا سی ڈیز شامل ہیں۔ ۱۲۔ آل پاکستان اقبال ویب سائٹ سالِ اقبال کی ایک خصوصی پیش کش آل پاکستان ویب سائٹ مقابلہ ہے:۔ ٭ ۔ یہ مقابلہ ۵۱۵ گروپوں کے درمیان ہوا، جس میں ٭ ۔ایک ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے ملک بھر سے شرکت کی۔ ٭ ۔ ۱۲۴ ویب سائٹس بنائی گئیں۔ ٭ ۔ ۸۰ ویب سائٹس معیار ی قرار دی گئیں۔ ان مقابلوں میں جیتنے والوں کو انعامات دئیے گئے۔ دوسرا آل پاکستان اقبال ویب سائٹس مقابلہ بھی منعقد ہُوا۔ ۱۳۔ اقبال شناسی (فارسی) کلاسوں کا اجرا اقبال اکادمی نے فارسی زبان کی کلاسوں کا اہتمام کیا جس کا مقصد فارسی زبان کی تدریس بحوالہ کلامِ اقبال ہے۔تین کلاسیں جاری ہیں۔ اس کے لیے اکادمی نے اقبال شناسی کے نام سے چار سہ ماہیوں کے لیے خصوصی نصاب تیار کرایا ہے۔ یونیورسٹی کے دو اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ۱۴۔ بین الاقوامی اقبال کانفرنس علامہ اقبال پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ۲۱ ؍اپریل کو منعقد کرائی گئی جس کا مقصد دنیا کے مختلف ملکوں اور زبانوں میں اقبالیات کی تدریس اور ان پر ہونے والے کام سے آگاہی تھا کہ وہ کس سطح اور کس انداز سے ہو رہے ہیں اور کن ممالک اور کن زاویوں میں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طرح سے مطالعے کی ورکشاپ تھی تاکہ اکادمی اپنے منصوبوں کو مرتب کرتے وقت ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ سکے۔ ساری دنیا سے ۴۵ ماہرین اقبالیات اور پاکستان بھر سے اقبال شناسوں نے شرکت کی۔ ۱۵۔ علامہ اقبال ویب سائٹ جدید عصری تقاضوں اور نوجوانوں کی آج کی ضروریات کے پیش نظر علامہ کا پیغام عام کرنے کے لیے اقبال اکادمی نے ایک بہت بڑی ویب سائٹ تیار کی ہے۔ اس ویب سائٹ پر آپ کو علامہ کے سارے اردو ، فارسی شعر، ان کے تراجم ، ان کی خطاطی ، موسیقی ، وڈیو، علامہ کی تصاویر ، حالات زندگی کے علاوہ بہت سی ضروری معلومات اکٹھی مل جاتی ہیں۔ ۱۶۔ اردو کا پہلا آفاقی کتب خانہ اردو کی پہلی سائبر لائبریری بھی تیار کی گئی ہے جس پر آپ اردو کتب پڑھ بھی سکتے ہیں ۔ ڈائون لوڈ کر سکتے ہیں۔ اس پر اب تک ۶۰۰۰ سے زائد صفحات شامل کئے جا چکے ہیں۔ ۱۷۔ کتابدار ۔ کیثراللسانی نظام کتب خانہ اکادمی نے سافٹ ویئر بنانے میں بھی ایک کارنامہ انجام دیا۔اس سلسلے میں لائبریری کا ایک ایسا سافٹ وئیر بنایا گیا ہے جو اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی ، بنگالی ، انگریزی اور روسی سب زبانوں میں کام کر سکتا ہے اور آپ کو علامہ اقبال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ۱۸۔ اقبال اور نوجوان ۔۔۔ زیر تکمیل منصوبے ٭ ۔ علامہ اقبال پر آن لائن کورسزشروع کرنے کا منصوبہ ۔ ٭ ۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے کتنی ہی کتابیں مزید تیار کی جا رہی ہیں ۔ جو جلد ہی شائع ہوں گی۔ ٭ ۔ اقبال البم ۲۰۰ صفحات ۔ کافی ٹیبل کی شکل میں ۔ ٭ ۔ تصویروں کی سی ڈی بھی مکمل ہونے کے قریب ہے۔ جس میں ۵ سو کے لگ بھگ تصاویر شامل ہیں۔ ۱۹۔ سفری نمایش یہ ایک سفری نمایش ہے جسے سکول اور کالج کے طلبا کو اقبال سے متعارف کروانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں علامہ کی زندگی کے مختلف ادوار اور مواقع کی تصاویر ، اہم واقعات، خیالات اور کتابیں اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ نمایش میں گزرتے ہوئے ، اُسے دیکھتے ہوئے آپ علامہ کے بارے میں ساری ابتدائی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ جس جگہ سفری نمایش کا اہتمام ہو گا، وہاں اس کے ہمراہ ایک ویڈیو فلم بھی دکھائی جائے گی ۔ ایک لیکچر دیا جائے گا اور کتابوں کا سٹال لگایا جائے گا۔ ۲۰۔ میرا اقبال ۔ بچوں کے لیے پانچ علمی کتابوں کا سلسلہ میرا اقبال ۔ چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کے لیے پانچ علمی کتابوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کا مقصد بچوں میں اردو شاعری کا ذوق پیدا کرنا اور انہیں اقبال کے افکار سے روشناس کرانا ہے۔ ہر کتاب کی اہم خصوصیات یہ ہیں: حیات شاعر، سرگرمیاں ، منظومات کا انتخاب، بنیادی تصورات ، مشمولات ، سوالات ، کیا آپ جانتے ہیں ، پراجیکٹس ، فرہنگ ، میری بیاض ۲۱۔ میرا اقبال۔ سی ڈی ان پانچ کتابوں کی Companion CDs تیار کی جا رہی ہیں۔ Animation, Quizes, Exercises,Games کے ذریعے علامہ کی زندگی ، شاعری اور تعلیمات کو نہایت دل چسپ انداز میں پیش کیا جائے گا۔ ۲۲۔ میرا اقبال ۔ چھٹی سے دسویں کتاب میرا اقبال سلسلے کی چھٹی سے دسویں کتب ، نویں جماعت سے بی ۔ اے ۔ کے موجودہ نصاب اور طلبا کی تعلیمی استعداد کو مدنظر رکھ کر تیار کی جا رہی ہے۔ جسے شامل نصاب کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ نیز تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں تک ارسال کی جائے گی۔ حکومت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جائے گا۔ ۲۳۔ کلام مشرق یہ تین آڈیو سی ڈیز کا ایک سیٹ ہے جس میں سارا اردو کلام MP3 سی ڈیز پر لایا گیا ہے۔ پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں اس کو سننے کے لیے کمپیوٹر ضروری نہیں۔ آپ گاڑی میں اور گھر میں کسی بھی جدید آڈیو پلیئر پر سن سکتے ہیں۔ ۲۴۔ اقبال کی پھلواری معروف اداکار اور صدا کار شجاعت ہاشمی کے تعاون سے علامہ اقبال کی ۹ نظمیں منتخب کر کے ملک کے بہترین موسیقاروںسے خوب صورت اور سریلی دھنوںمیں ترتیب دی گئی ہیں۔ جنہیں ۹ ٹیبلو کی شکل میں بہترین Sets کو ریوگرافی ، میک اپ اور اچھی لائٹنگ کے ذریعے وڈیو پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کیٹس کا اصل مقصد ننھے منے بچوں کے ذہنوں تک رسائی ہے۔ اس میں موجود ورکشاپ میں ٹیبلو کرنے، میوزک ، کیش، میک اپ ، کوریو گرافی اور لائٹنگ کے انداز اور طریقے درج ہیں۔ ۲۵ ۔ مصوری کے کل پاکستان مقابلے اس کے تحت نوجوان مصوروں کو اقبال کا پورٹریٹ بنانے کی دعوت دی گئی۔اس مقابلے میں ہر عمر کے مصوروں کو موقع دیا گیا ۔ اقبال پر موضوعاتی مصوری کے مقابلے میں بھی سب شریک ہو سکتے تھے ۔ موضوعاتی مصوری کا دوسرا مقابلہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لیے تھا ۔ سکینڈری سکول کے طلبہ اور طالبات کے لیے بھی خصوصی طور پر ایک تیسرا مقابلہ رکھا گیا ۔ اس میں ۲۴۲ تصویریں موصول ہوئیں جن کے نتائج مرتب کرکے حقدار مصوروں کو انعامات اور اسناد دی گئیں۔ ۲۶۔ نیشنل ریڈیو کوئز ٹرافی نیشنل ریڈیو کوئز ٹرافی کے نام سے ایک نیا معلوماتی پروگرام منعقد کیا گیا ۔ اکادمی نے علمی اور مالی تعاون اور انعامات کتب اور نقد کی صورت میں فراہم کئے۔ فائنل مقابلہ لا کالج جامعہ پنجاب اور گورنمنٹ کالج وحدت روڈ کی ٹیموں کے درمیان ہوا، جس میں لا کالج کی ٹیم جیت گئی۔ سید رضا حسن کاظمی پروڈیوسر ریڈیو پاکستان نے اس سارے پروگرام کا اہتمام کیا۔ فروغ فکر اقبال کے لیے اقبال اکادمی کا سفر جاری ہے۔ اس میں بہت سے کام درج نہیں ہو سکے مثلاً ایم ۔ اے ۔ ایم فل اقبالیات اور پی ایچ ڈی اقبالیات کے طلبہ کی رہنمائی اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بسلسلہ اقبالیات لیکچرز اور مذاکروں ، سیمیناروں اور کوئز پروگراموں میں شرکت اور بیرون ملک کانفرنسوں میں نمائندگی بھی شامل ہے ۔ اقبال اکادمی کو بین الاقوامی معیار کا ریسرچ سنٹر بنانے کے لیے محدود عملے اور محدود وسائل کے باوجود غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وفیات ڈاکٹر الف ،د ، نسیم اردو زبان و ادب کے معروف اُستاد ، ادیب اور اقبال شناس ڈاکٹر الف د (اللہ دتہ) نسیم ۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء کو انتقال کر گئے ۔ ڈاکٹر نسیم ایک محقق ، عالم ، مصنف اور اقبال کے عقیدت مند تھے۔ مدتوں گورنمنٹ کالج ساہی وال میں اُستاد رہے۔ علامہ اقبال کے کلام کی شرحیں بھی لکھیں ۔ فارسی زبان پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔ وضع دار اور مرنجاں شخصیت کے مالک تھے۔ شیخ اکبر ، ابن عربی کے مداح اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علامہ اقبال نہ تصوف کے خلاف تھے نہ وحدت الوجود کے۔ ڈاکٹر نسیم نے اپنی کتاب ’’مسئلہ وحدت وجود اور اقبال‘‘ لاہور کا مقصد تحریر یہ بتایا ہے کہ : ’’علامہ کو تصوف اور وجود کا معترف ، قائل بلکہ داعی ثابت کیا جائے‘‘مذکورہ کتاب کے آخر میں وہ یہ کہتے ہیں کہ وجود اور شہود بات کہنے کے دو مختلف اسلوب ہیں، ورنہ بات ایک ہی ہے، اس لیے اس نزع میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ’’اقبال وجودی ہیں یا شہودی ہیں‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ ’’یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اقبال وجودی ہوتے ہوئے شہودی ہیں اور شہودی ہوتے ہوئے وجودی ہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی) سید مصلح الدین سعدی سید مصلح الدین سعدی ایک ممتاز دانش ور ، زیرک اقبال شناس اور حیدر آباد دکن کی اقبال اکیڈمی کے ایک نمایاں رکن تھے۔ ۹ جنوری ۲۰۰۳ء کو حیدر آباد میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ وہ ۳؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو دکن کے ضلع ورنگل کے مقام منہم کنڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ ان کے دادا حضرت معین الدین فارسی اور عربی زبان و ادب کے ساتھ تفسیر، حدیث اور تصوف سے بھی لگائو رکھتے تھے۔ سعدی کی ذہنی تربیت میں اُن کے دادا مرحوم کو خاصا دخل رہا۔ سعدی کے چھوٹے بھائی مظفر الدین سعید بتاتے ہیں کہ : ’’دادا حضرت انھیں بے حد چاہتے تھے۔ اکثر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو اُن سے اردو ، فارسی شعر و ادب اور شعرا کے بارے میں گفتگو کرتے ۔ تفسیر وحدیث سے متعلق اس طرح باتیں ہوتی تھیں ، جیسے سامنے کوئی عالم و فاضل بیٹھا ہو‘‘۔ سعدی کے والد مولانا مُعزّ قادری الملتانی بھی اعلیٰ درجے کے علمی و ادبی ذوق (خصوصاًعروض و قوافی) کے ساتھ منطق ، موسیقی اور تصوف سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ تاریخ گوئی میں انہیں مہارت حاصل تھی ۔ متعدد فارسی رسالوں کے تراجم ان سے یاد گار ہیں۔ سعدی نے چوتھی جماعت کا امتحان مدرسہ تحتانیہ دبیر پورہ شاہی سے اور پھر چنچل گوڑا ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن گھریلو حالات کی بنا ء پر سلسلہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ اس زمانے میں انھوں نے ٹیوشن پڑھائی اور تجارت و زراعت اور پولیس کے محکموں میں کئی ایک ملازمیتں کیں۔ کچھ وقت کوچۂ صحافت میں بھی گزارا ۔ مگر اپنی تعلیمی استعداد میں اضافے کے لیے برابر کوشاں رہے، تاآنکہ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس کے بعد سنٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد میں ایم ۔ اے اردو میں داخلہ لیا لیکن جدہ میں ایک اچھی ملازمت ملنے پر ایم اے کا سلسلہ ناتمام چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔ جدہ کی ملازمت تقریباً چودہ سال تک جاری رہی ، اس عرصے میں وہ جدہ کی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی برابر شریک رہے۔ آخر ۱۹۸۵ء یا اوائل ۱۹۸۶ء کا زمانہ تھا،جب وہ کچھ دنوں کے لیے لاہور آئے تھے۔ اس سفر میں پروفیسر ضیاء الدین فاروقی بھی (بعدازاں ڈائریکٹر : ڈاکٹر ذاکر حسین اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دہلی) بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ مگر افسوس کہ ان سے میری ملاقات نہ ہو سکی ۔ پہلی (اور آخری) بار ملاقات دسمبر ۱۹۹۵ء میں جدہ میں ہوئی اور دو دن ، ان سے مسلسل ملاقات و محبت رہی۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ ، ذہن اور فاضل دانش ور تھے ۔ تحریر و تقریر ، دونوں میں انھیں بخوبی دست گاہ حاصل تھی۔ اقبالیات اور بعض دیگر موضوعات پر چند اعلیٰ پایے کے مقالات ان سے یاد گار ہیں۔ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد دکن نے ان کے مقالات اقبالیات ، اقبال ریویو (اپریل ۲۰۰۳ئ) میں یکجا کر کے چھاپ دیے ہیں۔ سعدی مرحوم اپنے مضامین کی ترتیب و اشاعت سے تو بے نیاز رہے لیکن ۔ انھوں نے اقبالیات پر دوسروں کے مقالات کے تین مجموعے مرتب کرکے شائع کیے:۔ ۱۔ اقبالیات باقی پروفیسر عبدالقیوم باقی ۲ ۔ اقبالیاتِ ماجد مولانا عبدالماجد دریابادی ۳ ۔ چشمہ آفتاب مختلف حضرات دراصل کہیں جم کر بیٹھنا اور کسی علمی موضوع پر ایک تسلسل کے ساتھ کام کرنا سعدی کے سیمابی مزاج کے خلاف تھا۔ چنانچہ ان کی صلاحیتوں کے مقابلے میں ان کا قلمی و تحریری سرمایہ کم ہے۔ ان کے دیرینہ رفیق محمد ظہیر الدین احمد صاحب کہتے ہیں کہ ہر کام میں اعلیٰ معیار ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ ’’خوب سے خوب تر کی جستجو‘‘ کی لگن، مختلف جہتوں میں ان کی مصروفیات اور کچھ حالات کی وجہ سے ان کے علمی منصوبے تکمیل نہ پا سکتے۔ راقم کے خیال میں ان کا مزاج قلندرانہ تھا اور طبیعت میں ایک گونہ آشفتگی و سیماب پائی ، چنانچہ اندازہ ہے کہ مرحوم کا زیادہ تر وقت مجلس آرائی ، گفتگوئوں ، بحث مباحثوں یا پھر تقریروں میں گزرتا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی مظفر الدین سعید بتاتے ہیں کہ سعدی بھائی کے دیوان خانے میں دوست احباب سے ان کی طویل نشستیں رہتیں ۔ رات کب گزر جاتی،اس کا پتا نہ چلتا۔ سعدی بھائی کو شب بیداری کی عادت تھی۔ نماز فجر پڑھتے اور سو جاتے ۔ بعض بے تکلف احباب نے ان کی اس محفل کا نام ہی ’’محفل قاتلان شب‘‘ رکھ دیا تھا۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک جدّہ میں ان کے ساتھ دو روزہ قیام کے دوران میں نے بھی دیکھی ۔ مجھے تقریباً نصف شب جدّہ سے لاہور کے لیے سعودیہ ایرلائن کی پرواز پکڑنی تھی۔ اسی شب سعدی صاحب نے اپنے ہاں ایک تقریب ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ جناب محمد طارق غازی(سعودی گزٹ جدّہ) محمد ضیاء الدین، ڈاکٹر منور ہاشمی (پاکستانی اسکول جدّہ)اور محمد خالد احمد کے علاوہ متعدد حیدر آبادی احباب شریک محفل تھے۔ طعام و کلام اور شعر و شاعری کی اس نشست نے اس قدر طول پکڑا کہ ہوائی اڈے پہنچتے پہنچتے بہت تاخیر ہو گی۔ سعودیہ کاونٹر نے نشست دینے سے صاف انکار کر دیا۔لیکن خیریت گزری کہ ایک واقف کار ڈاکٹر کی سفارش پر بورڈنگ کارڈ مل گیا۔ جدّہ میں دو روزہ ملاقاتوں میں اندازہ ہوا، سعدی صاحب کے ذہن میں طرح طرح کے علمی و ادبی اور اقبالیاتی منصوبے موجود ہیں، مثلاً محمود شبستری کی ’’گلشن راز‘‘اور علامہ اقبال کی ’’گلشن راز جدید ‘‘ کا تقابلی مطالعہ ۔ خطباتِ اقبال پر بھی کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے چند کتابوں کی فرمائش کی۔ میں نے لاہور پہنچتے ہی مطلوبہ کتابیں انھیں بھیج دیں ۔ کچھ عرصہ رابطہ برقرار رہا۔ دو تین بار خطوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ کبھی کبھی ان کا ٹیلی فون آ جاتا لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا، وہ جدّہ سے واپس حیدر آباد چلے گئے ہیں۔ اس درمیان وہ شکاگو کے بین الاقوامی سمینار میں شریک ہوئے اور وہاں ایک عالمانہ مقالہ پیش کیا۔ ایک سال قبل یکایک خبر آئی کہ ۹ جنوری کی شب وہ اس دنیا سے منہ موڑ کر مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ انا لِلّٰہِ و اِنَّا الیہ راجعون۔ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد سے وابستگی کے زمانے میں وہ نہایت انہماک اور مستعدی کے ساتھ اکیڈیمی کی مختلف النوع سرگرمیوں میں شامل و شریک رہے۔ ایک عرصے تک وہ اکیڈیمی کے معتمد رہے اور اس کے ساتھ مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ بہت اچھے مقرر اور خطیب تھے۔ بقول محمد ظہیر الدین : ’’ان کی تقریر کا انداز بڑا دلکش اور والہانہ ہوتا ۔ سامعین پر محویت طاری ہوجاتی‘‘۔ ان کی تقریروں سے حیدر آباد میں اقبال فہمی اور مطالعہ اقبال کی تحریک کو خاصا فروغ ملا۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین ، تبصرے اور فتنہ بند تقاریر بھی مرتب اور شائع کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد کے دوستوں پر قرض ہے۔ رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر اکبر حسین قریشی اقبالیات کی ایک معروف و مقبول کتاب’’مطالعہ اشارات و تلمیحات ‘‘ کے مصنف ، محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ۱۴۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو اپنے رب سے جا ملے۔ وہ ۱۹۲۶ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بسلسلہ ملازمت علی گڑھ کے قریب ایک قصبے ہیٹے میں مقیم تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل والد کی نگرانی میں طے ہوئے ۔ ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ میں داخل ہوئے اور وہیں سے ۱۹۵۰ء میں ایم اے کی سند حاصل کر کے پاکستان آئے۔ ۱۹۵۱ء میں بزم اقبال لاہور، میں ریسرچ سکالر ہو گئے۔ انھیں تلمیحات اقبال کا منصوبہ تفویض کیا گیا۔ لیکن دو اڑھائی برس کام کر چکے تو سبکدوش کر دیے گئے اور لوازمہ بھی اُن سے لے لیا گیا۔ قریشی صاحب کا بیان ہے کہ پروفیسر عابد علی عابد دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ہٹا دیے گئے تھے ۔ بزم اقبال نے مجھے مجبور کیا کہ جتنا کام ہو چکا ، ہمارے حوالے کریں۔ میں نے کام بزم کے سپرد کیا اور فارغ ہو گیا۔ عابد علی عابد کو اس نشست پر لایا گیا تو انھوں نے میرے کام کو کچھ پھیلا کر آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ۱۹۵۹ء میں شائع کی ۔ جب کہ میرا مقالہ ۱۹۵۶ء میں مکمل ہو چکا تھا اور ۱۹۶۲ء میں مکمل ہو چکا تھا اور ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ (انٹرویو: روزنامہ نوائے وقت ، راولپنڈی ۲۸؍اگست ۲۰۰۰ئ) بزم اقبال سے سبکدوشی کے بعد قریشی صاحب علی گڑھ چلے گئے تھے اور وہاں انھوں نے ’’مطالعہ اشارات و تلمیحات اقبال‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرالی ۔ اُن کے نگران کار پروفیسر رشید احمد صدیقی مقرر ہوئے۔ دوتین سال کی محنت کے بعد کام مکمل کر لیا۔ ڈگری مل گئی اور وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں وہ شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ مدت العمر، اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پروفیسر اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے سبکدوش ہوئے۔ ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ، رٹائرمنٹ کے بعد ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے بعض علمی منصوبوں پر کام کرتے رہے جن میں سے ’’فرہنگ فسانۂ ازاد‘‘ ’’فرہنگ طلسم ہوشربا‘‘ چھپ چکی ہیں اور ’’فرہنگ بوستان خیال‘‘ زیر طبع ہے۔ اس کے بعد اُن کا منصوبہ فرہنگ ظفر علی خان مرتب کرنے کا بھی تھا۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ ظفر علی خان کے ہاں ’’جس قدر لفظ اور تلمیحات و اشارات استعمال ہوئے ، شاید کسی کے ہاں ہوئے ہوں۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جس قدر قدرت حاصل ہے، اقبال کو نہیں ۔ اقبال کے ہاں تو بہت سی غلطیاں ملیں گی مگر مولانا کے ہاں شاذ ہی کوئی غلطی مل جائے، حالاں کہ انھوں نے زیادہ تر کلام فی البدیہہ رکھا ہے۔ مولانا کے نعتیہ کلام کا تو عالم یہ ہے کہ علامہ اقبال انھیں بلا کر کلام سنا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’فرہنگ ظفر علی خان‘‘ دو جلدوں میں مرتب ہوگی ۔ایک جلد شاعری اور دوسری نثر پر بنے گی ،اور یہ کام دو سال میں مکمل ہو گا۔ اکبر حسین قریشی اقبالیات میں تخصیص رکھتے تھے ۔ ایک عرصے تک ، شعبۂ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے ٹیوٹر اور تحقیقی مقالوں کے نگران کار رہے۔ علاوہ ازیں وہ بعض اقبالیاتی کمیٹیوں کے رکن بھی تھے ۔ ایم فل اقبالیات کی سالانہ ورکشاپ میں بھی شریک ہوتے تھے۔ راقم بھی بالعموم اجلاسوں میں بلایا جاتا تو ملاقات ہو جاتی۔ نہایت نرم خو ، وضع دار، اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ اقبالیات کی تعلیم و آموزش میں سینکڑوں طلبہ و طالبات نے ان سے استفادہ کیا اور ایم فل کے متعدد مقالات ان کی نگرانی و راہنمائی میں لکھے گئے۔ ۱۴؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کو چند ڈاکوئوں نے ان کے مکان واقع خیابان سر سید راولپنڈی میں داخل ہو کر انھیں زخمی کر دیا۔ دو دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اور ۱۶؍اکتوبر کو انتقال کر گئے ۔ خدا ان کی مغفرت کرے (آمین) رفیع الدین ہاشمی چودھری مظفر حسین چودھری مظفر حسین کہ انھیں اقبال اور اُن کے کلام نظم و نثر سے عشق تھا اور جو اقبال کو بیسویں صدی کا عظیم ترین انسان اور مفکر اسلام سمجھتے تھے، قضائے الٰہی سے ۲۲ ؍جولائی ۲۰۰۳ء کو رحلت فرما گئے۔ چودھری صاحب ۱۹؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ضلع امرتسر (بھارت) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ڈاکٹر نواب دین محکمۂ امورِ حیوانات میں ملازم تھے ، لیکن ساتھ ہی اُنھیں علمِ طب پر بھی عبور حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا ۔ مظفر صاحب کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ اُن کے والد محترم نے ان سب کی اچھی تربیت کی۔ وہ ایک دین دار اور تہجد گزار مسلمان تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد طبیب کے طور پر رزقِ حلال کمانے لگے۔ مظفر صاحب نے تشریح الابدان اور فزیالوجی کے ساتھ بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۵۲ء میں محکمۂ زراعت کے انٹومالوجی سیکشن میں ملازمت اختیار کر لی۔ پھر دورانِ ملازمت بی ایس سی (زراعت) کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ محکمہ زراعت کے انٹومالوجی سیکشن میں انھوں نے چھ برس کام کیا اور پھر لاہور میں شعبۂ توسیعِ زراعت سے منسلک ہوگئے۔ اُن کا زیادہ تر تعلق شعبۂ نشرو اشاعت سے رہا۔ انھوں نے ملازمت کے دوران میں ایک سال تک بحیثیت ڈائرکٹر ریسرچ انفارمیشن ، زرعی تحقیقاتی کونسل، وزارتِ خوراک و زراعت، حکومتِ پاکستان فرائض سر انجام دئیے۔ دس برس بطور ڈائرکٹر زرعی اطلاعات حکومت پنجاب گزارے۔ جریدہ زراعت نامہ اور دوسرے زرعی جریدوں کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل انھیں کسان کمیشن کا ممبر مقرر کر دیا گیا، جہاں انھوں نے اڑھائی برس صرف کئے اور بڑی کار آمد رپورٹیں تیار کیں۔ چودھری مظفر حسین سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی فراغت سے نہ بیٹھ سکے، بلکہ انھوں نے ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے قائم کردہ ادارے’’اسلامک ایجوکیشن کانگرس‘‘ کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور آپ تادمِ زیست اس ادارے کے اکیڈمک اینڈ ایڈمنسٹریٹو ڈائرکٹر رہے۔ اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے قرآن پاک کا مطالعہ دل کی گہرائیوں سے کیا تھا۔ علماء کرام کی تفاسیر بھی پڑھیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور دیگر مشاہیر اسلام کی کتب سے بھی استفادہ کیا۔ وہ ہمیشہ حق کے متلاشی رہے۔ آخر کار علامہ اقبال کے کلام سے متعارف ہوئے تو بس اقبال ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ انھوں نے کلامِ اقبال کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا۔ اُن کا پختہ خیال تھا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ افکارِ اقبال پر غور و فکر کریں اور انھیں اپنی عملی زندگی میں اپنا رہبر بنا لیں۔ چودھری صاحب کو انگریزی ، اردو اور فارسی زبانوں پر کامل عبور حاصل تھا ۔ وہ اپنے خیالات کی ترجمانی اپنی تحریروں میں لانے کی پوری قدرت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے بہت زور لگایا کہ مظفر صاحب اقبال اور کلامِ اقبال پر اپنے مقالات کتابی صورت میں مدّون کر کے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں، لیکن انھوں نے ڈگری حاصل کرنے پر توجہ نہ کی۔ اُن کی کئی تصانیف یاد گار ہیں، جن میں زیادہ اہم اور قابلِ ذکر یہ ہیں: سائنس کی دینیات ، اقبال کے دو بنیادی تصورات، خودی اور آخرت ۔ پاکستان : تجربہ گاہِ اسلام ۔ روحانی جمہوریت۔ اساسِ فکرِ اقبال۔ (سید قاسم محمود) پروفیسر محمد سعید شیخ معروف فلسفی محقق اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد سعید شیخ مئی ۲۰۰۲ء میں رحلت کر گئے۔ گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گئے ۔ وہاں فُل برائٹ سکالر کی حیثیت سے پرنسٹن یونیورسٹی میں تحقیقی کام کرنے کا موقع ملا۔ حصول تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج ، لاہور کے شعبۂ فلسفہ سے وابستہ ہو گئے اور کم و بیش بیس بائیس سال تک تدریس و تحقیق کے فرائض سر انجام دئیے ۔ اس ملازمت کے دوران میں پاکستان فلسفہ کانگرس کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۳ء میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے اور گیارہ سال تک مختلف نوعیت کے علمی و تحقیقی مشاغل میں مصروف رہے۔ ابتدائی زمانے ہی میں شیخ صاحب کو ایک نایاب موقع ملا اور انھوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اُن دنوں پروفیسر ایم ایم شریف’’اے ہسٹری آف مسلم فلاسفی ‘‘ کی تالیف میں مصروف تھے۔ انھوں نے شیخ صاحب کو اپنا شریکِ کار بنالیا۔ اس کتاب میں امام غزالی پر شیخ صاحب کے دو مقالے بھی شامل ہیں۔ اِن دونوں مقالات کا تعلق غزالی کی مابعد الطبیعیات اور ’’غزالی کے اثرات‘‘ سے ہے۔۱۹۶۰ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک شیخ صاحب اِس کام میں نہایت عرق ریزی سے مصروف رہے۔ اُن کی اہم تصانیف میں ’’سٹڈیز اِن مسلم فلاسفی ‘‘ ، ’’اے ڈکشنری آف مسلم فلاسفی‘‘ اور ’’سٹڈیز اِن اقبالز تھاٹ ‘‘ ہیں ۔ اُن کی بہترین کاوش علامہ اقبال کے خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam کا مشرح ایڈیشن ہے۔ علامہ اقبال کے یہ خطبات کتابی شکل میں ضروری حوالوں اور حواشی کے بغیر شائع ہوئے۔ پروفیسر سعید شیخ نے سال ہا سال کی محنت کے بعد یہ خطبات حوالوں اور حواشی کے ساتھ شائع کئے ہیں۔ شیخ صاحب اردو ، عربی ، فارسی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن زبانیں بھی جانتے تھے ۔ انھیں اسلام ، فلسفے اور اقبال سے عشق تھا۔ ایک عرصہ علیل رہنے کے بعد مئی ۲۰۰۲ء میں لاہور میں رحلت کر گئے۔ (سید قاسم محمود)  نام کتاب : علامہ اقبال کا روحانی مقام مرتب : انجم ، محمد اقبال ناشر : مدینہ کتاب گھر گوجرانوالہ صفحات : ۱۰۴ قیمت : ۱۰۰ روپے مبصر : محمد اصغر نیازی علاّمہ اقبال کی شاعری اپنے حلقۂ اثر میں ساحری سے کم نہیں، اُن کے خطوط گاہے گاہے ملفوظات کا مزا دیتے ہیں اور ان کی ایسی دوسری تحریروں میں بھی ایسا مواد بکثرت مہیا ہے جس کی بنیاد پر روحانیّت اور رومانیت کا شیش محل تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ لگتا ہے علامہ اس معاملے میں خاصے خود آگاہ تھے انھوں نے اپنے کلام اور پیام میں جا بجا ایسے آثار اور نقوش چھوڑے ہیں جنھیں نشانِ راہ قرار دے کر ان کے روحانی مقام و مرتبہ کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ جاوید نامہ کے اپنے سفرآں سوئے افلاک کے لیے روانگی سے پہلے وہ ہمیں اپنے مرشدِ رومی کی اُنگلی تھامے حیران نظر آتے ہیں ۔ عارف ہندی حضرتِ رومی سے پوچھتے ہیں: گفت با رومی کہ ہمراۂ تو کیست؟ در نگاہش آرزوی زندگیست جواب میں رومی علاّمہ کا تعارف جن الفاظ میں کراتے ہیں ان سے علاّمہ کے روحانی مقام کی خبر ملتی ہے۔افسوس اقبال انجم کی نظر وہاں تک نہ پہنچ سکی۔ حیرت ہے، رومی بھی جیسے اُن کے روحانی مقام سے خنداں آگاہ نہیں۔ اُن کا اسلوب بیان اور طرزِ تَکلُّم اسی بات کا پتہ دیتے ہیں: مروی اندر جستجو ، آوررہ ئی ثابتی با فطرتِ سیارئوئی ہر زماں از شوق مینالد چوں نال می کشد او را فراق و ہم وصال من ندانم چیست در آب و گِلش من ندانم از مقام و منزلش مرشدِ اقبال تو اقبال کے مقام و منزل سے نا آشنا رہے ، خود اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہ تھے۔ ایسے میں اقبال انجم کی کاوش اگر کامیاب ہو گئی تو اُس کا کیا بنے گا۔ علاّمہ نے ’’بانگ درا‘‘ میں ایک مولوی صاحب کی کہانی سنائی ہے جس میں اقبال کے ایک شناسا سے اُن کے احوال پر رائے زنی کر کے اس مجموعۂ اضداد کی حقیقت معلوم کرنا چاہی ہے۔ اتفاق سے آنجناب کی اقبال سے براہ راست ملاقات ہو گئی تو اقبال نے اپنے بارے میں اس طرح صفائی پیش کی: میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت سے شناسا گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی مُجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر ہیں ، واللہ نہیں ہے جاوید نامے میں جب رومی و اقبال کا گذر فلکِ عطارد سے ہوا تو وہاں کے بے آب و گیاہ صحرا اقبال کو بڑے بھلے لگے۔ رومی نے اُسے بتایا کہ یہ مقامِ اولیا بھی ہے اور یہاں کی خاک کو ہماری خاک سے نسبت خاص ہے۔ دیکھیے، یہاں کیسے کیسے مردانِ مقامِ بلند مصروفِ سجدہ و قیام ہیں۔ اس خاکداں میں رومی کے جی میں کیا آئی کہ وہاں کے باسیوں سے اپنے شریک سفر کا تعارف ایسے جچے تُلے الفاظ میں کرایا کہ وہ اس پورے سفر نامے کا تعارف لگتا ہے، گفت رومی ذرئہ گردوں نورد در دلِ اُو یک جہانِ سُوز و درد چشم جز بر خویش نکشادئہ ئی دل بکس نادا دہ ئی ہم آزادئی تُندسیر اندر فراخائی وجود من ز شوخے گویم او را ’’زندہ رود‘‘ دیکھیے جمال الدین افغانی اس تعارف سے کس قدر از خود رفتہ ہوتے ہیں۔ زندہ رود از خاکدانِ مابگوی از زمین و آسمانِ ما بگوی خاکی و چوں قُدسیاں روشن بصر از مسلمانان بدہ مارا خبر بہرحال جناب اقبال انجم صاحب کو اس سلسلہ میں زیادہ کدو کاوش اور تحقیق و تفتیش کی زحمت نہ اٹھانا پڑی ہو گی بلکہ ان کی کتاب کو سرسری دیکھنے ہی سے لگتا ہے کہ فاضل محقق کو سارا مواد یہیں کہیں ، ادھر اُدھر سے بآسانی مل گیا کیونکہ کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است اس اینٹ گارے سے کوئی بھی معمار ایسی ہی شاندار عمارت استوار کر سکتا ہے جس کی ایک جھلک زیر تبصرہ کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سرِ دست اقبال کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں جو اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۳ پر درج ہے ۔ یہ خط علاّمہ نے محترمہ عطیہ بیگم کے نام لکھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر میری روح کے عمیق تریں خیالات کبھی پبلک پر ظاہر ہو جائیں ۔ اگر وہ باتیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں، کبھی سامنے آ جائیں تو مجھے یقین ہے کہ دنیا میرے انتقال کے بعد ایک نہ ایک دن ضرور میری پرستش کرے گی۔۔۔۔۔۔ لیجیے ، اقبال انجم صاحب کا مشن مکمل ہو گیا کیونکہ روحانی مقام کی انتہا اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے ، مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں لمحہ فکریہ ہے کہ کیا علامہ اقبال کے روحانی مقام کی تعیین اس قدر اہم اور ناگزیر کام ہے کہ ہم اُن کے فکر و نظر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس پر خامہ فرسائی اپنے آپ پر لازم کر لیں ، جبکہ ان کا کلام اور پیام ہمارے غور و فکر اور دقّتِ نظر کا بدرجہ اُولیٰ مستحق ہے یا ان سے استفادہ اور استفاضہ صرف اس بات پر موقوف ہے کہ اُن کی شخصیت کو مزعومہ اور موہومہ روحانیت کے جامے سے ڈھانپ دیا جائے، اس طرح اور کچھ ہونہ ہو، اُن کے اور ہمارے درمیان ایسے حجابات ضرور نمودار ہو جائیں گے کہ جنھیں ہم کم از کم اپنے طور پر دور کرنے سے معذور ہوں گے۔ کسی بڑے آدمی کے روحانی مقام و مرتبہ کا کشف اور اس کی تحقیق ! معاف کیجیے گا جناب اقبال انجم ! یہ کسی بھی محقق گرامی کے کرنے کا کام نہیں بلکہ انھیں زیب ہی نہیں دیتا ۔ چہ جائے کے اس طرح کے جملے ان کے قلم سے ٹپک پڑیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیائے روحانیت کی سب سے بڑی شخصیات اقبال کے در دولت پر رونق افروز ہوئیں۔ص۸۴ آگے جو روایت بیان ہوئی ہے وہ عامیانہ طرز نگارش اور عوامی طرزِ قصہ گوئی کا شہکار ہے۔ اس روایت سے قطع نظر خود اقبال انجم صاحب اپنی اس کتاب کے ص نمبر ۶۹ پر لکھتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کی پسندیدہ رفاقتیں صفحہ ہستی پر نہیں بلکہ کتابوں کے اوراق میں اور کچھ زیر زمین تھیں۔ اس لیے آپ نے رہنمائی کے لیے کبھی رومی کو آواز دی ، کبٰھی رازی کو پکارا کبھی سنائی کے فکر میں غَوّاصی کی، کبھی۔۔۔۔۔۔ اقبال انجم صاحب نے اس روایت سے جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی اسے عقل و فہم کی بارگاہ میں کیا مرتبہ ملتا ہے ، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ذرا سوچیں کہ یہ کہیں حضرتِ راوی ہی کے ذہن کی اختراع تو نہیں! بہرحال ایسے راوی تو اقبال کے فکر و فن پر بات کرنے کی بجائے اس طرح کی کہانیوں سے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن ہمیں تو محققین اور ماہرین اقبال سے گلہ ہے کہ وہ کس وادی کی خاک چھان رہے ہیں۔ اب اگر آپ چاہیں تو یہ قصہ کتاب میں خود مطالعہ فرما لیں۔ زیر نظر کتاب میں علاّمہ کے روحانی مقام کے حوالے سے رسول کریم ﷺسے اُن کی محبت و عقیدت اور تعلقِ خاص کو خاص اہمیت دی گئی ہے لیکن خود اقبال انؐ کے حضور ہمارے خلاف جو استغاثہ پیش کرتے ہیں اور خاصا معنی خیز ہے۔ من اے میر اممؐ داد از تو خواہم مرا یاراں غزل خوانی شمُرد ند کسی شاعر کو صرف ایک غزل خواں شمار کرنا واقعی باعثِ عار ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام کے بارے میں عام طور پر یہ قیاس کر لیا جاتا ہے کہ اس میں سوائے عریاں رومانیت اور رقیق تک بندی کے اور کچھ نہیں۔ اس کے برعکس اقبال شاعر کی اہلیت و فکر کا جو معیار بیان کرتے ہیں وہ قابل توجہ ہے یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اس معیار پر علاّمہ خود بھی اور وہ خود اس معیار پر ہر لحاظ سے پورا اترتے ہیں۔ فطرتِ شاعر سراپا جستجوست خالق و پرور دگارِ آرزو ست شعر را مقصود اگر آدم گر ی است شاعری ہم وارث پیغمبری است اس میں ذرہ بھی شک نہیں ، اقبال کی شاعری اُن کے ایسے ہی اشعار کی بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مجھے اقبال کا رشتہ ہندوستان کی جس شخصیت سے سب سے زیادہ استوار نظر آتا ہے وہ شیخ احمد سرہندی ہیں حالانکہ مجدد صاحب علامہ کے کلام میں بہت کم نظر آتے باین ہمہ وہ علامہ کے پیام میں سرعام اور برسر بام بولتے نظر آتے ہیں ۔ اقبال اور مجدد صاحب میں مشابہتیں بہت ہیں ، بہت سہی لیکن مغائرتیں اور دوریاں بھی بہت ہیں ۔ اب یہ محققین کے کرنے کا کام ہے ، وہ اپنے تحقیقی کام کو تجدیدی اور تخلیقی رنگ دینے کی کوشش کریں تاکہ کوئی ڈھنگ کا کام سامنے آ سکے۔ دراصل مجدد صاحب کے کارنامہ ہائے تجدید اس قدر نمایاں اور مؤثر و عام ہیں کہ انھیں منظر عام پر لانے کے لیے کسی ایسے ویسے محقق کی ضرورت نہیں۔ اُدھر علامہ کے کارہائے نمایاں کسی انور شاہ کاشمیری کی نظر التفات کے منتظر ہیںاور یہ علمِ تاریخ کا ایک المیہ ہے کہ وہ بس منتظر ہی رہ گئے۔ یا کوئی مولانا تھانوی ہی اُن کی مدد کر آتا جو لالے کی حنا بندی میں فطرت کی مدد کر کے انھیں حکیم الامت کے عالی مقام منصب کا صحیح معنوں میں اہل بنا دیتا شاید اس طرح مزارِ مجدد پر لب ِ اقبال سے نکلنے والی اس عجیب دُعاکی اجابت برنگ دِگر نظر آتی ۔ تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی  اقبال : فروغِ نو نوجوانوں کے لیے منصوبے ، مقالے اور نمایشیں اقبال اکادمی پاکستان نے ’’سالِ اقبال۔ ۲۰۰۳ء کے دوران میں فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے متعدد منصوبے بنائے۔ اِن منصوبوں پر بہ احسن طریق عمل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چار نکاتی لائحہ عمل بنایا گیا: ۱۔ علامہ اقبال کے آثار و افکار کی ترویج کرنا ۲ ۔ علامہ اقبال کے خیالات و نظریات کو عام کرنا ۳ ۔ علامہ اقبال کی شاعری کو عام کرنا ۴ ۔ علامہ اقبال کی اپنی تصانیف و تخلیقات کی اشاعتِ عام اِن چار نکات کو مدنظر رکھ کر جو کام مکمل کئے گئے ، اُن کی تفصیل یہ ہے :۔ ۱۔ کتابوں کی اشاعت دنیا کی بیس سے زیادہ زبانوں میں بڑوں اور بچوں کے لیے چار سو سے زیادہ کتابیں اقبال اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔ پانچ زبانوں میں رسائل و جرائد شائع ہوئے، جن میں اردو ، انگریزی ، فارسی ، عربی اور ترکی زبانیں شامل ہیں۔ ۲۔ تحقیقِ مزید اور گہری نظر ثانی کے بعد مستند و معتبر نسخے تیار کر کے ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) اور’’ کلیاتِ اقبال‘‘ (فارسی)خوبصورتی سے شائع کئے گئے ۔ اب یہ دونوں اکادمی کے نسخے کہلاتے ہیں اور اس سے پہلے کے نسخوں اور دوسرے ناشران کے شائع کردہ نسخوں پر ہر لحاظ سے فضیلت رکھتے ہیں۔ ۳۔ پیام اقبال، بچوں کے لیے: علامہ اقبال نے بچوں کے لیے جو نظمیں کہی ہیں، اُن کی اشاعت کے لیے خصوصی کلیات مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے نامور مصنفین سے اقبال کے خاص حوالے سے ، بچوں کے لیے کتابیں لکھوائی گئی ہیں، تاکہ اقبال کا پیام بچوں تک بھی پہنچے۔ ۴ ۔ پیام اقبال : دور دراز علاقوں تک علامہ اقبال کا پیام ملک کے گوشے گوشے میں پہنچانے کے لیے کتب خانوں اور دانشوروں کو کتب و رسائل اور پمفلٹ اعزازی طور پر بھجوائے گئے۔ بعض کتب بطور تحفہ دی گئیں۔ مختلف مقامات پر ’’یوم اقبال‘‘ منائے گئے۔ سیمینار ، کانفرنسیں اور کتب کی نمایشیں منعقد ہوئیں۔ نیز مختلف شہروں میں خصوصی اقبال لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔ ۵ ۔ بیرون ملک اقبال کے پیغام کا فروغ غیر ملکی زبانوں میں کتب کی اشاعت ، پڑھنے لکھنے والوں کو کتب اور رسائل کی ترسیل اور آئی ٹی اور آڈیو وڈیو کے ذریعے اور ویب سائٹ سے معلومات اور دیگر چیزیں فراہم کی گئیں۔ ۶۔ کتب خانہ اقبال اکادمی نے ایک بڑی لائبریری بنائی جس میں تیس ہزار سے زیادہ کتب اور رسائل ہیں۔ اقبالیات کے حوالے سے یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے جس میں دنیا کی ہر زبان میں شائع ہونے والی اقبال پر کتب دستیاب ہیں۔ اقبالیات پر ان کتب کی تعداد ساڑھے چھ ہزار ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات و رسائل کے اقبال نمبر بھی محفوظ ہیں۔ رسائل کی تعداد پندرہ ہزار ہے ۔ علامہ اقبال کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی شعری بیاضیں اور خطوط بھی محفوظ ہیں۔ اس لائبریری میں عام قارئین کے علاوہ ایم ۔ اے ، ایم فل۔ اور پی ایچ ڈی پر ریسرچ کرنے والے طلبا و طالبات کو کتب ، مطلوبہ مواد ، فوٹو کاپی کی سہولت اور تحقیقی رہنمائی بھی دی جاتی ہے۔ ۷ ۔ صدارتی اقبال ایوارڈز علامہ اقبال پر لکھی جانے والی اردو ، انگریزی ، پنجابی، پشتو ، بلوچی اور سندھی کتابوں پر صدارتی ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی کتب پر بین الاقوامی اقبال ایوارڈز بھی دئیے جاتے ہیں۔ ۸ ۔ نمایشوں کا انعقاد سال اقبال کے دوران مختلف مواقع اور مقامات پر ۱۹ سے زیادہ کتب کی نمایشیں منعقد کی گئیں۔ ۹ ۔ ٹیلی ویژن ، ریڈیو اقبال اکادمی پاکستان نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ مل کر ۱۲ حصوں پر مشتمل ’’آئینہ اقبال‘‘ کے نام سے علامہ اقبال پر تعارفی پروگرام پیش کیا۔ ناظم اقبال اکادمی اور نائب ناظم (ادبیات) نے مختلف مذاکرات، لیکچروں اور سیمیناروں میں حصہ لیا ۔ ’’ذوق آگہی‘‘ کے نام سے طلبہ کے لیے ٹی وی کوئز مقابلے اہم ٹی وی مراکز سے کرائے گئے ۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان کے مذاکروں میں شرکت کی گئی اور اقبال کوئز نیشنل چیلنج ٹرافی کا پروگرام پیش کیا گیا۔ ۱۰۔ کتب و رسائل کی اشاعت سال اقبال کے دوران مختلف زبانوں میں ۳۷ کتب اور ۹ رسالے شائع ہوئے، جن میں علامہ اقبال کے خطبات کا اردو ترجمہ تجدید فکریات اسلام،The Flame of Sinai ، تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ ، Islam, Pakistan's Identity، علامہ کی نظموں کا انگریزی ترجمہ Poems from Iqbal نمایاں ہیں۔ ۱۱۔ آڈیو ویڈیو سی ڈیز سال اقبال ۲۰۰۳ء کا ایک اہم کام آڈیو ویڈیو سی ڈیز ہیں جن میں تین وڈیو ڈاکومینٹری کی سی ڈیز، تین وڈیو موسیقی کی سی ڈیز اور تین ملٹی میڈیا سی ڈیز شامل ہیں۔ ۱۲۔ آل پاکستان اقبال ویب سائٹ سالِ اقبال کی ایک خصوصی پیش کش آل پاکستان ویب سائٹ مقابلہ ہے:۔ ٭ ۔ یہ مقابلہ ۵۱۵ گروپوں کے درمیان ہوا، جس میں ٭ ۔ ایک ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے ملک بھر سے شرکت کی۔ ٭ ۔ ۱۲۴ ویب سائٹس بنائی گئیں۔ ٭ ۔ ۸۰ ویب سائٹس معیار ی قرار دی گئیں۔ ان مقابلوں میں جیتنے والوں کو انعامات دئیے گئے۔ دوسرا آل پاکستان اقبال ویب سائٹس مقابلہ بھی منعقد ہُوا۔ ۱۳۔ اقبال شناسی (فارسی) کلاسوں کا اجرا اقبال اکادمی نے فارسی زبان کی کلاسوں کا اہتمام کیا جس کا مقصد فارسی زبان کی تدریس بحوالہ کلامِ اقبال ہے۔تین کلاسیں جاری ہیں۔ اس کے لیے اکادمی نے اقبال شناسی کے نام سے چار سہ ماہیوں کے لیے خصوصی نصاب تیار کرایا ہے۔ یونیورسٹی کے دو اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ۱۴۔ بین الاقوامی اقبال کانفرنس علامہ اقبال پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ۲۱ ؍اپریل کو منعقد کرائی گئی جس کا مقصد دنیا کے مختلف ملکوں اور زبانوں میں اقبالیات کی تدریس اور ان پر ہونے والے کام سے آگاہی تھا کہ وہ کس سطح اور کس انداز سے ہو رہے ہیں اور کن ممالک اور کن زاویوں میں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طرح سے مطالعے کی ورکشاپ تھی تاکہ اکادمی اپنے منصوبوں کو مرتب کرتے وقت ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ سکے۔ ساری دنیا سے ۴۵ ماہرین اقبالیات اور پاکستان بھر سے اقبال شناسوں نے شرکت کی۔ ۱۵۔ علامہ اقبال ویب سائٹ جدید عصری تقاضوں اور نوجوانوں کی آج کی ضروریات کے پیش نظر علامہ کا پیغام عام کرنے کے لیے اقبال اکادمی نے ایک بہت بڑی ویب سائٹ تیار کی ہے۔ اس ویب سائٹ پر آپ کو علامہ کے سارے اردو ، فارسی شعر، ان کے تراجم ، ان کی خطاطی ، موسیقی ، وڈیو، علامہ کی تصاویر ، حالات زندگی کے علاوہ بہت سی ضروری معلومات اکٹھی مل جاتی ہیں۔ ۱۶۔ اردو کا پہلا آفاقی کتب خانہ اردو کی پہلی سائبر لائبریری بھی تیار کی گئی ہے جس پر آپ اردو کتب پڑھ بھی سکتے ہیں ۔ ڈائون لوڈ کر سکتے ہیں۔ اس پر اب تک ۶۰۰۰ سے زائد صفحات شامل کئے جا چکے ہیں۔ ۱۷۔ کتابدار ۔ کیثراللسانی نظام کتب خانہ اکادمی نے سافٹ ویئر بنانے میں بھی ایک کارنامہ انجام دیا۔اس سلسلے میں لائبریری کا ایک ایسا سافٹ وئیر بنایا گیا ہے جو اردو ، فارسی ، عربی ، ہندی ، بنگالی ، انگریزی اور روسی سب زبانوں میں کام کر سکتا ہے اور آپ کو علامہ اقبال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ۱۸۔ اقبال اور نوجوان ۔۔۔ زیر تکمیل منصوبے ٭ ۔ علامہ اقبال پر آن لائن کورسزشروع کرنے کا منصوبہ ۔ ٭ ۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے کتنی ہی کتابیں مزید تیار کی جا رہی ہیں ۔ جو جلد ہی شائع ہوں گی۔ ٭ ۔ اقبال البم ۲۰۰ صفحات ۔ کافی ٹیبل کی شکل میں ۔ ٭ ۔ تصویروں کی سی ڈی بھی مکمل ہونے کے قریب ہے۔ جس میں ۵ سو کے لگ بھگ تصاویر شامل ہیں۔ ۱۹۔ سفری نمایش یہ ایک سفری نمایش ہے جسے سکول اور کالج کے طلبا کو اقبال سے متعارف کروانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں علامہ کی زندگی کے مختلف ادوار اور مواقع کی تصاویر ، اہم واقعات، خیالات اور کتابیں اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ نمایش میں گزرتے ہوئے ، اُسے دیکھتے ہوئے آپ علامہ کے بارے میں ساری ابتدائی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ جس جگہ سفری نمایش کا اہتمام ہو گا، وہاں اس کے ہمراہ ایک ویڈیو فلم بھی دکھائی جائے گی ۔ ایک لیکچر دیا جائے گا اور کتابوں کا سٹال لگایا جائے گا۔ ۲۰۔ میرا اقبال ۔ بچوں کے لیے پانچ علمی کتابوں کا سلسلہ میرا اقبال ۔ چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کے لیے پانچ علمی کتابوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کا مقصد بچوں میں اردو شاعری کا ذوق پیدا کرنا اور انہیں اقبال کے افکار سے روشناس کرانا ہے۔ ہر کتاب کی اہم خصوصیات یہ ہیں: حیات شاعر، سرگرمیاں ، منظومات کا انتخاب، بنیادی تصورات ، مشمولات ، سوالات ، کیا آپ جانتے ہیں ، پراجیکٹس ، فرہنگ ، میری بیاض ۲۱۔ میرا اقبال۔ سی ڈی ان پانچ کتابوں کی Companion CDs تیار کی جا رہی ہیں۔ Animation, Quizes, Exercises,Games کے ذریعے علامہ کی زندگی ، شاعری اور تعلیمات کو نہایت دل چسپ انداز میں پیش کیا جائے گا۔ ۲۲۔ میرا اقبال ۔ چھٹی سے دسویں کتاب میرا اقبال سلسلے کی چھٹی سے دسویں کتب ، نویں جماعت سے بی ۔ اے ۔ کے موجودہ نصاب اور طلبا کی تعلیمی استعداد کو مدنظر رکھ کر تیار کی جا رہی ہے۔ جسے شامل نصاب کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ نیز تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں تک ارسال کی جائے گی۔ حکومت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جائے گا۔ ۲۳۔ کلام مشرق یہ تین آڈیو سی ڈیز کا ایک سیٹ ہے جس میں سارا اردو کلام MP3 سی ڈیز پر لایا گیا ہے۔ پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں اس کو سننے کے لیے کمپیوٹر ضروری نہیں۔ آپ گاڑی میں اور گھر میں کسی بھی جدید آڈیو پلیئر پر سن سکتے ہیں۔ ۲۴۔ اقبال کی پھلواری معروف اداکار اور صدا کار شجاعت ہاشمی کے تعاون سے علامہ اقبال کی ۹ نظمیں منتخب کر کے ملک کے بہترین موسیقاروںسے خوب صورت اور سریلی دھنوںمیں ترتیب دی گئی ہیں۔ جنہیں ۹ ٹیبلو کی شکل میں بہترین Sets کو ریوگرافی ، میک اپ اور اچھی لائٹنگ کے ذریعے وڈیو پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کیٹس کا اصل مقصد ننھے منے بچوں کے ذہنوں تک رسائی ہے۔ اس میں موجود ورکشاپ میں ٹیبلو کرنے، میوزک ، کیش، میک اپ ، کوریو گرافی اور لائٹنگ کے انداز اور طریقے درج ہیں۔ ۲۵ ۔ مصوری کے کل پاکستان مقابلے اس کے تحت نوجوان مصوروں کو اقبال کا پورٹریٹ بنانے کی دعوت دی گئی۔اس مقابلے میں ہر عمر کے مصوروں کو موقع دیا گیا ۔ اقبال پر موضوعاتی مصوری کے مقابلے میں بھی سب شریک ہو سکتے تھے ۔ موضوعاتی مصوری کا دوسرا مقابلہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لیے تھا ۔ سکینڈری سکول کے طلبہ اور طالبات کے لیے بھی خصوصی طور پر ایک تیسرا مقابلہ رکھا گیا ۔ اس میں ۲۴۲ تصویریں موصول ہوئیں جن کے نتائج مرتب کرکے حقدار مصوروں کو انعامات اور اسناد دی گئیں۔ ۲۶۔ نیشنل ریڈیو کوئز ٹرافی نیشنل ریڈیو کوئز ٹرافی کے نام سے ایک نیا معلوماتی پروگرام منعقد کیا گیا ۔ اکادمی نے علمی اور مالی تعاون اور انعامات کتب اور نقد کی صورت میں فراہم کئے۔ فائنل مقابلہ لا کالج جامعہ پنجاب اور گورنمنٹ کالج وحدت روڈ کی ٹیموں کے درمیان ہوا، جس میں لا کالج کی ٹیم جیت گئی۔ سید رضا حسن کاظمی پروڈیوسر ریڈیو پاکستان نے اس سارے پروگرام کا اہتمام کیا۔ فروغ فکر اقبال کے لیے اقبال اکادمی کا سفر جاری ہے۔ اس میں بہت سے کام درج نہیں ہو سکے مثلاً ایم ۔ اے۔ ایم فل اقبالیات اور پی ایچ ڈی اقبالیات کے طلبہ کی رہنمائی اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بسلسلہ اقبالیات لیکچرز اور مذاکروں ، سیمیناروں اور کوئز پروگراموں میں شرکت اور بیرون ملک کانفرنسوں میں نمائندگی بھی شامل ہے ۔ اقبال اکادمی کو بین الاقوامی معیار کا ریسرچ سنٹر بنانے کے لیے محدود عملے اور محدود وسائل کے باوجود غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وفیات ڈاکٹر الف ،د ، نسیم اردو زبان و ادب کے معروف اُستاد ، ادیب اور اقبال شناس ڈاکٹر الف د (اللہ دتہ) نسیم ۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء کو انتقال کر گئے ۔ ڈاکٹر نسیم ایک محقق ، عالم ، مصنف اور اقبال کے عقیدت مند تھے۔ مدتوں گورنمنٹ کالج ساہی وال میں اُستاد رہے۔ علامہ اقبال کے کلام کی شرحیں بھی لکھیں ۔ فارسی زبان پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔ وضع دار اور مرنجاں شخصیت کے مالک تھے۔ شیخ اکبر ، ابن عربی کے مداح اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علامہ اقبال نہ تصوف کے خلاف تھے نہ وحدت الوجود کے۔ ڈاکٹر نسیم نے اپنی کتاب ’’مسئلہ وحدت وجود اور اقبال‘‘ لاہور کا مقصد تحریر یہ بتایا ہے کہ : ’’علامہ کو تصوف اور وجود کا معترف ، قائل بلکہ داعی ثابت کیا جائے‘‘مذکورہ کتاب کے آخر میں وہ یہ کہتے ہیں کہ وجود اور شہود بات کہنے کے دو مختلف اسلوب ہیں، ورنہ بات ایک ہی ہے، اس لیے اس نزع میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ’’اقبال وجودی ہیں یا شہودی ہیں‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ ’’یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اقبال وجودی ہوتے ہوئے شہودی ہیں اور شہودی ہوتے ہوئے وجودی ہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی) سید مصلح الدین سعدی سید مصلح الدین سعدی ایک ممتاز دانش ور ، زیرک اقبال شناس اور حیدر آباد دکن کی اقبال اکیڈمی کے ایک نمایاں رکن تھے۔ ۹ جنوری ۲۰۰۳ء کو حیدر آباد میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ وہ ۳؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو دکن کے ضلع ورنگل کے مقام منہم کنڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ ان کے دادا حضرت معین الدین فارسی اور عربی زبان و ادب کے ساتھ تفسیر، حدیث اور تصوف سے بھی لگائو رکھتے تھے۔ سعدی کی ذہنی تربیت میں اُن کے دادا مرحوم کو خاصا دخل رہا۔ سعدی کے چھوٹے بھائی مظفر الدین سعید بتاتے ہیں کہ : ’’دادا حضرت انھیں بے حد چاہتے تھے۔ اکثر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو اُن سے اردو ، فارسی شعر و ادب اور شعرا کے بارے میں گفتگو کرتے ۔ تفسیر وحدیث سے متعلق اس طرح باتیں ہوتی تھیں ، جیسے سامنے کوئی عالم و فاضل بیٹھا ہو‘‘۔ سعدی کے والد مولانا مُعزّ قادری الملتانی بھی اعلیٰ درجے کے علمی و ادبی ذوق (خصوصاًعروض و قوافی) کے ساتھ منطق ، موسیقی اور تصوف سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ تاریخ گوئی میں انہیں مہارت حاصل تھی ۔ متعدد فارسی رسالوں کے تراجم ان سے یاد گار ہیں۔ سعدی نے چوتھی جماعت کا امتحان مدرسہ تحتانیہ دبیر پورہ شاہی سے اور پھر چنچل گوڑا ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن گھریلو حالات کی بنا ء پر سلسلہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ اس زمانے میں انھوں نے ٹیوشن پڑھائی اور تجارت و زراعت اور پولیس کے محکموں میں کئی ایک ملازمیتں کیں۔ کچھ وقت کوچۂ صحافت میں بھی گزارا ۔ مگر اپنی تعلیمی استعداد میں اضافے کے لیے برابر کوشاں رہے، تاآنکہ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس کے بعد سنٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد میں ایم ۔ اے اردو میں داخلہ لیا لیکن جدہ میں ایک اچھی ملازمت ملنے پر ایم اے کا سلسلہ ناتمام چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔ جدہ کی ملازمت تقریباً چودہ سال تک جاری رہی ، اس عرصے میں وہ جدہ کی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی برابر شریک رہے۔ آخر ۱۹۸۵ء یا اوائل ۱۹۸۶ء کا زمانہ تھا،جب وہ کچھ دنوں کے لیے لاہور آئے تھے۔ اس سفر میں پروفیسر ضیاء الدین فاروقی بھی (بعدازاں ڈائریکٹر : ڈاکٹر ذاکر حسین اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دہلی) بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ مگر افسوس کہ ان سے میری ملاقات نہ ہو سکی ۔ پہلی (اور آخری) بار ملاقات دسمبر ۱۹۹۵ء میں جدہ میں ہوئی اور دو دن ، ان سے مسلسل ملاقات و محبت رہی۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ ، ذہن اور فاضل دانش ور تھے ۔ تحریر و تقریر ، دونوں میں انھیں بخوبی دست گاہ حاصل تھی۔ اقبالیات اور بعض دیگر موضوعات پر چند اعلیٰ پایے کے مقالات ان سے یاد گار ہیں۔ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد دکن نے ان کے مقالات اقبالیات ، اقبال ریویو (اپریل ۲۰۰۳ئ) میں یکجا کر کے چھاپ دیے ہیں۔ سعدی مرحوم اپنے مضامین کی ترتیب و اشاعت سے تو بے نیاز رہے لیکن ۔ انھوں نے اقبالیات پر دوسروں کے مقالات کے تین مجموعے مرتب کرکے شائع کیے:۔ ۱۔ اقبالیات باقی پروفیسر عبدالقیوم باقی ۲ ۔ اقبالیاتِ ماجد مولانا عبدالماجد دریابادی ۳ ۔ چشمہ آفتاب مختلف حضرات دراصل کہیں جم کر بیٹھنا اور کسی علمی موضوع پر ایک تسلسل کے ساتھ کام کرنا سعدی کے سیمابی مزاج کے خلاف تھا۔ چنانچہ ان کی صلاحیتوں کے مقابلے میں ان کا قلمی و تحریری سرمایہ کم ہے۔ ان کے دیرینہ رفیق محمد ظہیر الدین احمد صاحب کہتے ہیں کہ ہر کام میں اعلیٰ معیار ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ ’’خوب سے خوب تر کی جستجو‘‘ کی لگن، مختلف جہتوں میں ان کی مصروفیات اور کچھ حالات کی وجہ سے ان کے علمی منصوبے تکمیل نہ پا سکتے۔ راقم کے خیال میں ان کا مزاج قلندرانہ تھا اور طبیعت میں ایک گونہ آشفتگی و سیماب پائی ، چنانچہ اندازہ ہے کہ مرحوم کا زیادہ تر وقت مجلس آرائی، گفتگوئوں ، بحث مباحثوں یا پھر تقریروں میں گزرتا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی مظفر الدین سعید بتاتے ہیں کہ سعدی بھائی کے دیوان خانے میں دوست احباب سے ان کی طویل نشستیں رہتیں ۔ رات کب گزر جاتی،اس کا پتا نہ چلتا۔ سعدی بھائی کو شب بیداری کی عادت تھی۔ نماز فجر پڑھتے اور سو جاتے ۔ بعض بے تکلف احباب نے ان کی اس محفل کا نام ہی ’’محفل قاتلان شب‘‘ رکھ دیا تھا۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک جدّہ میں ان کے ساتھ دو روزہ قیام کے دوران میں نے بھی دیکھی ۔ مجھے تقریباً نصف شب جدّہ سے لاہور کے لیے سعودیہ ایرلائن کی پرواز پکڑنی تھی۔ اسی شب سعدی صاحب نے اپنے ہاں ایک تقریب ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ جناب محمد طارق غازی(سعودی گزٹ جدّہ) محمد ضیاء الدین، ڈاکٹر منور ہاشمی (پاکستانی اسکول جدّہ)اور محمد خالد احمد کے علاوہ متعدد حیدر آبادی احباب شریک محفل تھے۔ طعام و کلام اور شعر و شاعری کی اس نشست نے اس قدر طول پکڑا کہ ہوائی اڈے پہنچتے پہنچتے بہت تاخیر ہو گی۔ سعودیہ کاونٹر نے نشست دینے سے صاف انکار کر دیا۔لیکن خیریت گزری کہ ایک واقف کار ڈاکٹر کی سفارش پر بورڈنگ کارڈ مل گیا۔ جدّہ میں دو روزہ ملاقاتوں میں اندازہ ہوا، سعدی صاحب کے ذہن میں طرح طرح کے علمی و ادبی اور اقبالیاتی منصوبے موجود ہیں، مثلاً محمود شبستری کی ’’گلشن راز‘‘اور علامہ اقبال کی ’’گلشن راز جدید ‘‘ کا تقابلی مطالعہ ۔ خطباتِ اقبال پر بھی کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے چند کتابوں کی فرمائش کی۔ میں نے لاہور پہنچتے ہی مطلوبہ کتابیں انھیں بھیج دیں ۔ کچھ عرصہ رابطہ برقرار رہا۔ دو تین بار خطوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ کبھی کبھی ان کا ٹیلی فون آ جاتا لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا، وہ جدّہ سے واپس حیدر آباد چلے گئے ہیں۔ اس درمیان وہ شکاگو کے بین الاقوامی سمینار میں شریک ہوئے اور وہاں ایک عالمانہ مقالہ پیش کیا۔ ایک سال قبل یکایک خبر آئی کہ ۹ جنوری کی شب وہ اس دنیا سے منہ موڑ کر مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ انا لِلّٰہِ و اِنَّا الیہ راجعون۔ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد سے وابستگی کے زمانے میں وہ نہایت انہماک اور مستعدی کے ساتھ اکیڈیمی کی مختلف النوع سرگرمیوں میں شامل و شریک رہے۔ ایک عرصے تک وہ اکیڈیمی کے معتمد رہے اور اس کے ساتھ مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ بہت اچھے مقرر اور خطیب تھے۔ بقول محمد ظہیر الدین : ’’ان کی تقریر کا انداز بڑا دلکش اور والہانہ ہوتا ۔ سامعین پر محویت طاری ہوجاتی‘‘۔ ان کی تقریروں سے حیدر آباد میں اقبال فہمی اور مطالعہ اقبال کی تحریک کو خاصا فروغ ملا۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین ، تبصرے اور فتنہ بند تقاریر بھی مرتب اور شائع کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اقبال اکیڈیمی حیدر آباد کے دوستوں پر قرض ہے۔ رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر اکبر حسین قریشی اقبالیات کی ایک معروف و مقبول کتاب’’مطالعہ اشارات و تلمیحات ‘‘ کے مصنف ، محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ۱۴۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو اپنے رب سے جا ملے۔ وہ ۱۹۲۶ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بسلسلہ ملازمت علی گڑھ کے قریب ایک قصبے ہیٹے میں مقیم تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل والد کی نگرانی میں طے ہوئے ۔ ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ میں داخل ہوئے اور وہیں سے ۱۹۵۰ء میں ایم اے کی سند حاصل کر کے پاکستان آئے۔ ۱۹۵۱ء میں بزم اقبال لاہور، میں ریسرچ سکالر ہو گئے۔ انھیں تلمیحات اقبال کا منصوبہ تفویض کیا گیا۔ لیکن دو اڑھائی برس کام کر چکے تو سبکدوش کر دیے گئے اور لوازمہ بھی اُن سے لے لیا گیا۔ قریشی صاحب کا بیان ہے کہ پروفیسر عابد علی عابد دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ہٹا دیے گئے تھے ۔ بزم اقبال نے مجھے مجبور کیا کہ جتنا کام ہو چکا ، ہمارے حوالے کریں۔ میں نے کام بزم کے سپرد کیا اور فارغ ہو گیا۔ عابد علی عابد کو اس نشست پر لایا گیا تو انھوں نے میرے کام کو کچھ پھیلا کر آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ۱۹۵۹ء میں شائع کی ۔ جب کہ میرا مقالہ ۱۹۵۶ء میں مکمل ہو چکا تھا اور ۱۹۶۲ء میں مکمل ہو چکا تھا اور ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ (انٹرویو: روزنامہ نوائے وقت ، راولپنڈی ۲۸؍اگست ۲۰۰۰ئ) بزم اقبال سے سبکدوشی کے بعد قریشی صاحب علی گڑھ چلے گئے تھے اور وہاں انھوں نے ’’مطالعہ اشارات و تلمیحات اقبال‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرالی ۔ اُن کے نگران کار پروفیسر رشید احمد صدیقی مقرر ہوئے۔ دوتین سال کی محنت کے بعد کام مکمل کر لیا۔ ڈگری مل گئی اور وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں وہ شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ مدت العمر، اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پروفیسر اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے سبکدوش ہوئے۔ ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ، رٹائرمنٹ کے بعد ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے بعض علمی منصوبوں پر کام کرتے رہے جن میں سے ’’فرہنگ فسانۂ ازاد‘‘ ’’فرہنگ طلسم ہوشربا‘‘ چھپ چکی ہیں اور ’’فرہنگ بوستان خیال‘‘ زیر طبع ہے۔ اس کے بعد اُن کا منصوبہ فرہنگ ظفر علی خان مرتب کرنے کا بھی تھا۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ ظفر علی خان کے ہاں ’’جس قدر لفظ اور تلمیحات و اشارات استعمال ہوئے ، شاید کسی کے ہاں ہوئے ہوں۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جس قدر قدرت حاصل ہے، اقبال کو نہیں ۔ اقبال کے ہاں تو بہت سی غلطیاں ملیں گی مگر مولانا کے ہاں شاذ ہی کوئی غلطی مل جائے، حالاں کہ انھوں نے زیادہ تر کلام فی البدیہہ رکھا ہے۔ مولانا کے نعتیہ کلام کا تو عالم یہ ہے کہ علامہ اقبال انھیں بلا کر کلام سنا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’فرہنگ ظفر علی خان‘‘ دو جلدوں میں مرتب ہوگی ۔ایک جلد شاعری اور دوسری نثر پر بنے گی ،اور یہ کام دو سال میں مکمل ہو گا۔ اکبر حسین قریشی اقبالیات میں تخصیص رکھتے تھے ۔ ایک عرصے تک ، شعبۂ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے ٹیوٹر اور تحقیقی مقالوں کے نگران کار رہے۔ علاوہ ازیں وہ بعض اقبالیاتی کمیٹیوں کے رکن بھی تھے ۔ ایم فل اقبالیات کی سالانہ ورکشاپ میں بھی شریک ہوتے تھے۔ راقم بھی بالعموم اجلاسوں میں بلایا جاتا تو ملاقات ہو جاتی۔ نہایت نرم خو ، وضع دار، اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ اقبالیات کی تعلیم و آموزش میں سینکڑوں طلبہ و طالبات نے ان سے استفادہ کیا اور ایم فل کے متعدد مقالات ان کی نگرانی و راہنمائی میں لکھے گئے۔ ۱۴؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کو چند ڈاکوئوں نے ان کے مکان واقع خیابان سر سید راولپنڈی میں داخل ہو کر انھیں زخمی کر دیا۔ دو دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اور ۱۶؍اکتوبر کو انتقال کر گئے ۔ خدا ان کی مغفرت کرے (آمین) رفیع الدین ہاشمی چودھری مظفر حسین چودھری مظفر حسین کہ انھیں اقبال اور اُن کے کلام نظم و نثر سے عشق تھا اور جو اقبال کو بیسویں صدی کا عظیم ترین انسان اور مفکر اسلام سمجھتے تھے، قضائے الٰہی سے ۲۲ ؍جولائی ۲۰۰۳ء کو رحلت فرما گئے۔ چودھری صاحب ۱۹؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ضلع امرتسر (بھارت) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ڈاکٹر نواب دین محکمۂ امورِ حیوانات میں ملازم تھے ، لیکن ساتھ ہی اُنھیں علمِ طب پر بھی عبور حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا ۔ مظفر صاحب کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ اُن کے والد محترم نے ان سب کی اچھی تربیت کی۔ وہ ایک دین دار اور تہجد گزار مسلمان تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد طبیب کے طور پر رزقِ حلال کمانے لگے۔ مظفر صاحب نے تشریح الابدان اور فزیالوجی کے ساتھ بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۵۲ء میں محکمۂ زراعت کے انٹومالوجی سیکشن میں ملازمت اختیار کر لی۔ پھر دورانِ ملازمت بی ایس سی (زراعت) کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ محکمہ زراعت کے انٹومالوجی سیکشن میں انھوں نے چھ برس کام کیا اور پھر لاہور میں شعبۂ توسیعِ زراعت سے منسلک ہوگئے۔ اُن کا زیادہ تر تعلق شعبۂ نشرو اشاعت سے رہا۔ انھوں نے ملازمت کے دوران میں ایک سال تک بحیثیت ڈائرکٹر ریسرچ انفارمیشن ، زرعی تحقیقاتی کونسل، وزارتِ خوراک و زراعت، حکومتِ پاکستان فرائض سر انجام دئیے۔ دس برس بطور ڈائرکٹر زرعی اطلاعات حکومت پنجاب گزارے۔ جریدہ زراعت نامہ اور دوسرے زرعی جریدوں کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل انھیں کسان کمیشن کا ممبر مقرر کر دیا گیا، جہاں انھوں نے اڑھائی برس صرف کئے اور بڑی کار آمد رپورٹیں تیار کیں۔ چودھری مظفر حسین سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی فراغت سے نہ بیٹھ سکے، بلکہ انھوں نے ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے قائم کردہ ادارے’’اسلامک ایجوکیشن کانگرس‘‘ کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور آپ تادمِ زیست اس ادارے کے اکیڈمک اینڈ ایڈمنسٹریٹو ڈائرکٹر رہے۔ اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے قرآن پاک کا مطالعہ دل کی گہرائیوں سے کیا تھا۔ علماء کرام کی تفاسیر بھی پڑھیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور دیگر مشاہیر اسلام کی کتب سے بھی استفادہ کیا۔ وہ ہمیشہ حق کے متلاشی رہے۔ آخر کار علامہ اقبال کے کلام سے متعارف ہوئے تو بس اقبال ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ انھوں نے کلامِ اقبال کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا۔ اُن کا پختہ خیال تھا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ افکارِ اقبال پر غور و فکر کریں اور انھیں اپنی عملی زندگی میں اپنا رہبر بنا لیں۔ چودھری صاحب کو انگریزی ، اردو اور فارسی زبانوں پر کامل عبور حاصل تھا ۔ وہ اپنے خیالات کی ترجمانی اپنی تحریروں میں لانے کی پوری قدرت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے بہت زور لگایا کہ مظفر صاحب اقبال اور کلامِ اقبال پر اپنے مقالات کتابی صورت میں مدّون کر کے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں، لیکن انھوں نے ڈگری حاصل کرنے پر توجہ نہ کی۔ اُن کی کئی تصانیف یاد گار ہیں، جن میں زیادہ اہم اور قابلِ ذکر یہ ہیں: سائنس کی دینیات ، اقبال کے دو بنیادی تصورات، خودی اور آخرت ۔ پاکستان : تجربہ گاہِ اسلام ۔ روحانی جمہوریت۔ اساسِ فکرِ اقبال۔ (سید قاسم محمود) پروفیسر محمد سعید شیخ معروف فلسفی محقق اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد سعید شیخ مئی ۲۰۰۲ء میں رحلت کر گئے۔ گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گئے ۔ وہاں فُل برائٹ سکالر کی حیثیت سے پرنسٹن یونیورسٹی میں تحقیقی کام کرنے کا موقع ملا۔ حصول تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج ، لاہور کے شعبۂ فلسفہ سے وابستہ ہو گئے اور کم و بیش بیس بائیس سال تک تدریس و تحقیق کے فرائض سر انجام دئیے ۔ اس ملازمت کے دوران میں پاکستان فلسفہ کانگرس کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۳ء میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے اور گیارہ سال تک مختلف نوعیت کے علمی و تحقیقی مشاغل میں مصروف رہے۔ ابتدائی زمانے ہی میں شیخ صاحب کو ایک نایاب موقع ملا اور انھوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اُن دنوں پروفیسر ایم ایم شریف’’اے ہسٹری آف مسلم فلاسفی ‘‘ کی تالیف میں مصروف تھے۔ انھوں نے شیخ صاحب کو اپنا شریکِ کار بنالیا۔ اس کتاب میں امام غزالی پر شیخ صاحب کے دو مقالے بھی شامل ہیں۔ اِن دونوں مقالات کا تعلق غزالی کی مابعد الطبیعیات اور ’’غزالی کے اثرات‘‘ سے ہے۔۱۹۶۰ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک شیخ صاحب اِس کام میں نہایت عرق ریزی سے مصروف رہے۔ اُن کی اہم تصانیف میں ’’سٹڈیز اِن مسلم فلاسفی ‘‘ ، ’’اے ڈکشنری آف مسلم فلاسفی‘‘ اور ’’سٹڈیز اِن اقبالز تھاٹ ‘‘ ہیں ۔ اُن کی بہترین کاوش علامہ اقبال کے خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam کا مشرح ایڈیشن ہے۔ علامہ اقبال کے یہ خطبات کتابی شکل میں ضروری حوالوں اور حواشی کے بغیر شائع ہوئے۔ پروفیسر سعید شیخ نے سال ہا سال کی محنت کے بعد یہ خطبات حوالوں اور حواشی کے ساتھ شائع کئے ہیں۔ شیخ صاحب اردو ، عربی ، فارسی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن زبانیں بھی جانتے تھے ۔ انھیں اسلام ، فلسفے اور اقبال سے عشق تھا۔ ایک عرصہ علیل رہنے کے بعد مئی ۲۰۰۲ء میں لاہور میں رحلت کر گئے۔ (سید قاسم محمود)