اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - ٭٭٭ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات مباحث ۱ - تفہیم اقبال کے مسئلے شرکائ:عرفان صدیقی، شمس الرحمن فاروقی،نیر مسعود ۱ فکریات ۲ - زمان اور انا خضر یٰسین ۲۳ ۳ ۔تصوف اور وحدت الوجود ۔ شیخ اکبر اور اقبال کی نظر میں محمد شفیع بلوچ ۳۷ ۴ - اقبال کا فلسفیانہ نظام ڈاکٹر وحید عشرت ۶۱ شخصیات ۵ - اقبال پر مرتضیٰ مطہری کے اعتراضات کا مطالعہ سکندر عباس زیدی ۷۱ تنقیدات ۶ ۔ علامہ اقبال پر حمید نسیم کے اعتراضات کا جائزہ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ۸۳ کتابوں پر تبصرہ ۷ ۔ فکر اقبال کے دو بنیادی تصورات خودی اور آخرت مصنف: چودھری مظفر حسین مبصر : صلاح الدین ایوبی ۱۰۱ ۸ ۔ خودی تے بے خودی مصنف :ڈاکٹر ریاض مجید مبصر : ڈاکٹر وحید عشرت ۱۱۳ ۹ ۔ جبریل اڈاری (بال جبریل کا منظوم پنجابی ترجمہ) مترجم: پروفیسر اسیر عابد مبصر: ڈاکٹر وحید عشرت ۱۱۴ ۱۰ ۔اقبال فکر و فن کے آئینے میں مصنف : احمد ہمدانی مبصر: ڈاکٹر وحید عشرت ۱۱۶ ۱۱ ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے خطوط اکبر حمیدی کے نام مرتب : اکبر حمیدی مبصر : ڈاکٹر وحید عشرت ۱۱۸ مباحث و استفسارات ۱۲ ۔اقبال کے ہاں زندگی اور موت ایک قسم کی جدلیت پروفیسر ڈاکٹر عارفہ فرید ۱۱۹ اخبار اقبالیات مرتبہ : ڈاکٹر وحید عشرت ۱۲۳ ۱ - علامہ اقبال کا ۱۲۵ ویںیوم ولادت ۲۰۰۲ء کو سال اقبال کی حیثیت سے منایا جائے گا ۔ ۱۲۵ ۲ -اقبال کے تصور انسان پر علمی نشست ۱۳۰ ۳ - مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ، شعبہ اردو میں آل احمد سرور پر دو روزہ سیمینار ۱۳۲ ۴ - مجلس اقبال عالمی اردو مرکز کی اقبال پر تقریب ۱۳۹ ۵ - کشمیر یونیورسٹی میں اقبال اور احترام آدمیت دو روزہ سیمینار ۱۴۰ ۶۔ اقبال ریسرچ اکادمی بنگلہ دیش کی تقریب ۱۴۲ ۷ - قائد اعظم کی یاد میں ریاض میں تقریب ۱۴۳ ۸ -ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر رفعت حسن کے ٹی وی پر لیکچرز ۱۴۳ ۹ -گورنمنٹ کلیۃ البنات لیک روڈ لاہور میں یوم اقبال ۱۴۳ ۱۰ - گورنمنٹ گرلز کالج مدینہ ٹائون فیصل آباد میں یوم اقبال ۱۴۴ ۱۱ -گورنمنٹ اسلامیہ گرلز کالج کوپر روڈ میں یوم اقبال ۱۴۴ ۱۲ -ریڈیو پاکستان کا اقبال پر خصوصی سیمینار ۱۴۴ ۱۳ - دی ٹرسٹ سکول ٹھوکر نیاز بیگ میں یوم اقبال ۱۴۴ وفیات ۱۴ -ممتاز اقبال شناس آل احمد سرور کا انتقال ۱۴۵ ۱۵ - ڈاکٹر حسن رضوی کی وفات ۱۴۵ قلمی معاونین ٭ شمس الرحمن فاروقی ۲۹ ۔سی ہیسٹنگز روڈ الہ آباد، یو۔پی، انڈیا ٭ عرفان صدیقی معرفت شمس الرحمن فاروقی ، یو ۔ پی ، انڈیا ٭ ڈاکٹر نیر مسعود ادبستان دین دپال روڈ، لکھنؤ ۔ ۲۲۶۰۰۳ ٭ ڈاکٹر ایوب صابر ۴۷ لنک روڈ، ایبٹ آباد، پاکستان ٭ خضر یٰسین سی بی اے ۱۰؍R گلبرگ، ٹو، لاہور ٭ محمد شفیع بلوچ موضع درگاہی شاہ ڈاکخانہ ۱۸ ہزاری، ضلع جھنگ ، پاکستان ٭ ڈاکٹر عارفہ فرید استاد، شعبہ فلسفہ، جامعہ کراچی، کراچی ٭ صلاح الدین ایوبی ۱۸۱ ۔ سی گلشن راوی، لاہور ٭ ڈاکٹر وحید عشرت اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱ - ڈاکٹر منظور احمد سابق وائس چانسلر ہمدرد یونیورسٹی کراچی - ۲ - پروفیسرابوالکلام قاسمی استاد شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت - ۷ ۔ اکبر حیدری کشمیری ہمدانیہ کالونی بمنہ ۔ سری نگر کشمیر ۸ ۔ ڈاکٹر محمد اسلم ضیاء استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج جھنگ ۔ پاکستان ۹ ۔ظفر الاسلام ظفر ریسرچ سکالر شعبہ اردو بنگلور یونیورسٹی بنگلور ۱۴ ۔ پروفیسر زاہدہ پروین استاد شعبہ اردو گورنمنٹ گرلز کالج ، مدینہ ٹائون فیصل آباد ۔  مباحث تفہیمِ اقبال کے مسئلے (گفتگو) شرکائے گفتگو : عرفان صدیقی ، شمس الرحمن فاروقی ، نیر مسعود پہلی نشست عرفان صدیقی : کلام اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں جو چیز سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے یہاں تاریخی، مذہبی ، اساطیری اور ایسی طرح کے حوالے تلمیحات اور استعارے اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ لگتا ہے جب تک ان سے پوری طرح واقفیت نہ ہو اس کلام کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہو گا ۔ اقبال کے یہاں یہ حوالے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں ۔ اُن کی بہت سی شاعری مختلف رجحانات، تحریکوں اور تاریخی واقعات سے کوئی ربط اور سلسلہ رکھتی ہے۔ مثلاً جب ہم پڑھتے ہیں: ’’لے گئے تثلیت کے فرزند میراث خلیل خشت بنیاد کلیسابن گئی خاکِ حجاز ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز‘‘ تو ’’کلاہِ لالہ رنگ ‘‘ کو صرف سُرخ رنگ کی ٹوپی سمجھ لینے سے کام نہیں بنتا۔ جب تک آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ خلافت عثمانیہ کا زوال کس طرح ہوا اور اس میں انگریزوں کا کیا کردار رہا تھا ، اُس وقت تک ’کلاہِ لالہ رنگ ‘ ترکی ٹوپی ، کے رسوا ہونے کا مفہوم روشن نہیں ہوتا ۔ فاروقی صاحب ، آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ان حوالوں کو سمجھے بغیر کلام اقبال کی علیحدہ سے تفہیم ممکن ہے؟ شمس الرحمن فاروقی:اس میں شک نہیں کہ جیسا آپ نے فرمایا ، اقبال کے یہاں تاریخی اشارے،علمی اشارے، فلسفیانہ اشارے کثرت سے ہیں اور جب تک ان سے کچھ نہ کچھ واقفیت نہ ہو تب تک بہت سے اشعار کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا، اور اس میںتو کوئی شک ہی نہیں کہ ان اشعار کی بڑائی اور عظمت سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک مشکل اور بھی ہے، اس سے زیادہ وہ اس وقت پیش آتی ہے جب تاریخ اور فلسفے کا وہ تصور جو اقبال کے ذہن میں تھا ، اس سے واقفیت نہ ہو، کیونکہ یہ تو ممکن ہے کہ جو واقعات ہیں، وہ تاریخ میں لکھے ہوئے دیکھ لیے جائیں کہ انیس سو تین میں یہ ہوا اور چار میں یہ ہوا ،اور سلطان عبدالحمید کو یوں معزول کیا گیا وغیرہ وغیرہ ،یا حضرت ابوبکرؓ کا واقعہ یا جو بھی واقعہ سمجھ لیجیے ۔ لیکن جیسے ، ’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسینؓ ، ابتدا ہے اسمٰعیل‘‘اب اس میں اسلامی اور مسلم تاریخ کا بھی ایک خاص نظریہ ہے ، اس سے واقفیت چاہیے ۔ مان لیجیے میں آپ کو بتا بھی دوں کہ صاحب ، اس میں اسمٰعیل علیہ السلام کی اور حسین علیہ السلام کی قربانی کا جو معاملہ ہے ، جو اُن کا کارزار تھا حق و باطل کا، وہ ہے ۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ ایک پورا تاریخی پس منظر اور تاریخ کا ایک تصور بھی ہے اور وہیں پر مشکل آ پڑتی ہے۔ اب ، مثلاً یہ کہ چونکہ ہم نے پچھلے پچاس ساٹھ ستر برس سے اقبال کا ایک طرح سے استحصال کر رکھا ہے ؛ کچھ لوگ جو ایک خاص نظریے کے مالک ہیں وہ اقبال کو بھی اسی نظریے کا حامل سمجھنا چاہتے ہیں ۔ کوئی انہیں انقلابی کہتا ہے ، کوئی مسلم، Chauvinistic،کوئی کہتا ہے وہ پاکستان کے نظام کے گویا بانی تھے وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ لوگ جو اقبال کے مخالف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کے فاشسٹ خیالات ہیں، جنگ جویانہ خیالات ہیں، وہ امن کے مخالف ہیں، قوت کے حامی ہیں وغیرہ ، تو یہاں مشکل آ پڑتی ہے کہ جب اقبال کا ایک تصور تاریخ ہے اور اس کو سمجھے بغیر ہم اُن کے کلام کی پوری معنویت کو نہیں سمجھ سکتے ، تو اس تصور تاریخ کو ہم کیسے متعین کریں؟ چونکہ اقبال کے ساتھ vested interest بہت ہیں،اس لیے ۔۔۔۔ اب اگر اسی شعر کو آپ لے لیجیے ’’غریب و سادہ و رنگیں ہے ۔۔۔۔‘‘ تو اس میں سوشلسٹ قسم کا نقاد تاریخی اعتبار سے کچھ اور معنی بتائے گا،جو اسلام پسند ہے وہ کچھ اور معنی نکالے گا ، جو اقبال کو قومیت پرست ثابت کرنا چاہتا ہے، کہ گویا وہ ہندوستان کی سا لمیت کے معاملے میں کانگریس کی پالیسیوں کے حامی تھے ، کم و بیش ، وہ اور معنی نکالے گا۔ کتنے معنی نکالے کوئی ۔ تو سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ اقبال کا اپنا تصور تاریخ تصورِ فلسفہ اور تصور فن کیا تھا اور اس کو ہم اپنے طور پر نہیں ، خود اقبال کے اقوال ، تصورات اور کلام سے نکالیں ۔ ایک تو صاحب یہ مشکل ہے ، دوسری مشکل یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں جو اقبال نے پڑھی تھیں وہ ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے وہ اشعار جو فلسفیوں ، اسپنوزا، افلاطون ، ہیگل وغیرہ یا شعرا ، بائرن ، برائوننگ وغیرہ کے بارے میں ہیں، اب وہ تو دو دو شعر لکھ کے چلے گئے ہیں ، لیکن ظاہر ہے ان کے پیچھے خود اقبال کا پورا انیسویں صدی کے ذہنی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے مطالعہ تھا کہ اٹھارہ سو نو ّے یا انیس سو چار، پانچ، دس کے قریب مغربی یورپ میں لوگوں کا بائرن کے بارے میں کیاخیال تھا، برائوننگ کے بارے میں کیا خیال تھا ، اس سے واقفیت اگر نہ ہو تو پھر یہ اشعار ۔۔۔۔ آپ تعریف ضرور کر دیں گے ۔ لیکن ان اشعار کی گہرائی تک نہیں پہنچیں گے۔ تو معاملہ صرف میکانیکی طور پر تلمیحات اور حوالوں کا نہیں ہے، بلکہ ان کے پیچھے جو تاریخی فلسفیانہ تصور اقبال کے ذہن میں تھا اس تک پہنچنے کا بھی معاملہ ہے۔ عرفان : فاروقی صاحب ، آپ نے بہت صحیح فرمایا۔ اقبال کے یہاں بعض حوالے ایسے ہیں کہ محض تاریخی طور پر آپ انہیں تھوڑا سا decode کر لیں تو کام نہیں بنتا۔ مثال کے طور پر انہوں نے بہت سے مغربی مفکرین کے اقوال کا ایک طرح سے ترجمہ کر دیا ہے، جمہوریت کے بارے میں، آمریت کے بارے میں، فلاں اصول کے بارے میں، فلاں تحریک کے بارے میں، تو دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے پورے شعری ، فکری نظام میں ان چیزوں کی اہمیت کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے ایک جگہ کہہ دیا کہ صاحب وہ بھی ترجمہ ہے، کہ ’’جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تو لا نہیں کرتے‘‘، درست کہا اچھا ، اب مجھے یہ لگتا ہے کہ بہ ظاہر انہوں نے محض ترجمہ کر دیا ہے ۔ لیکن دراصل یہ جمہوریت پر اُن کا Comment بھی ہے۔ اور جب Comment ہے تو اس میں شاعر کا اپنا نقطۂ نظر بھی شامل ہو گیا ۔ نیر صاحب ، آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟ نیّر مسعود : عرفان صاحب ، ہمارے سامنے جو مسئلہ ہے وہ ایک تو اسی نقطۂ نظر کو سمجھنے کا ہے۔ اس کو ہم صحیح سمجھ رہے ہیں یا نہیں ، یہ تو بعدمیں۔۔۔۔ بلکہ وہ ہم قارئینِ ادب کا دردِ سر ہے بھی نہیں۔ عرفان : ہاں ، بالکل صحیح ہے ۔ نیّر: آپ نے صحیح فرمایا کہ اقبال کے یہاں مختلف قسم کے حوالے اور تلمیحات بہ کثرت ہیں۔ حوالے اور تلمیحات ہماری شاعری میں پہلے بھی بہت تھیں۔ یعنی علوم کا ایک وسیع قسم کا مطالعہ اپنی کلاسیکی شاعری کو سمجھنے کے لیے پہلے بھی ہمارے لیے ضروری تھا ، تھوڑا بہت نجوم جانیں ، کچھ طب جانیں ، کچھ تاریخ ، کچھ دینیات جانیں ، لیکن وہ مطالعہ صرف شاعری کے حوالے سے تھا ۔ مثلاً مانی پیغمبری کا مدعی اور ایک تحریک کا بانی تھا ، اس سے ہم کو مطلب نہیں ، ہم کو صرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ چین کا بہت بڑا مصور تھا ۔ حالانکہ نہیں تھا، چینی بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر ہم کو اس قسم کا علم نہیں ہے تو ہم ناقص قاری ہیں اور ہم کو شاعری پڑھنے اور سمجھنے کا حق نہیں ہے۔ لیکن اقبال کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی علم کافی نہیں ہے جتنا کلاسیکی شعری نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ اقبال کے مطالعے کے لیے ہمارا علم نہ صرف وسیع بلکہ گہرا بھی ہونا چاہیے۔ ہم صرف مانی کو نہ جانیں بلکہ ایران کی پوری ذہنی تاریخ سے بھی ہم کو تھوڑی بہت واقفیت ہو۔ گویا اقبال کو سمجھنے کے لیے ہمیں لُغت سے زیادہ انسائکلوپیڈیا دیکھنا ہو گا۔ فاروقی : جی ہاں ، بہت خوب ۔ نیّر : ترکانِ عثمانی کا ابھی ذکر ہوا تھا ۔ ایک شعر مجھے بھی یاد آیا، کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری اس شعر کی شرح بیخود دہلوی نہیں کر سکتے تھے ، نہ بیخود موہانی کر سکتے تھے ، نہ ہم کر سکتے ہیں جب تک ترکوں کی اس تاریخ سے واقف نہ ہوں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ۔ تو اقبال کی تفہیم کا ایک تو یہ مسئلہ ہے۔ یہ سیدھا سیدھا علمی مسئلہ ہے جس کے لیے میں نے عرض کیا کہ انسائکلوپیڈیا چاہیے اور یہ حل بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقبال فوراً آپ کو مرعوب کر کے مبہوت کر دیتے ہیں ۔ خود اپنا تجربہ بتائوں کہ بچپن میں اقبال کے کلام سے آشنا ہوا اور پہلی ہی بار میں اُن کے جو شعر دل پر نقش ہو گئے وہ تھے ،’’دیکھ چکا المعنی شورشِ اصلاح دیں جس نے،نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں ،چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب ۔۔۔۔وغیرہ تو اس سے مجھے غرض نہیں تھی کہ المعنی کسی آدمی کا نام ہے یا کوئی قوم ہے، یا فرانسیس کوئی شخص تھا یا کوئی ملک یا ملت ہے۔ اصلاح دیں کی شورش کیا تھی ، اس سے مجھے کوئی مطلب نہیں تھا ، بس شعر بہت عمدہ معلوم ہوئے اور دل میں اُتر گئے۔ عرفان : صحیح ہے۔ نیّر : تو ایک قاری گویا مطمئن ہوگیا ۔ اب اسے کوئی فکر نہیں ہے اس لیے کہ وہ لطف اندوز ہو چکا۔ لیکن جب اسی کلام کی تفہیم کا معاملہ ہو تو پھر اب یورپ کی تاریخ سے واقف ہونا بھی ضروری ہو جائے گا۔ وہی بات آ گئی کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے ہمیں دوسری طرح کا علم بھی درکار ہے۔ ایک اور مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ہم اپنے کلاسیکی شعری نظام کی مانوس چیزیں اقبال کے یہاں پاتے ہیں لیکن ان کو بھی سمجھنے میں ہمارا گذشتہ مطالعہ اور شعری مسلمات کا علم ہماری مدد نہیں کرتا ۔مثلاً سب سے سامنے کی چیز عشق ۔ اقبال کے یہاں عشق کا ذکر تو بہت ہے لیکن یہ وہ عشق نہیں ہے جس سے ہم واقف چلے آ رہے ہیں ۔ ’’خواجہ ‘‘ اقبال کے یہاں کیا ہیں ، ’’ملا‘‘ کیا ہیں ، یہ مختلف قسم کے لوگ بن گئے ہیں ۔ اقبال کو سمجھنے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے اور اس کا حل بھی بڑی حد تک اقبال کے کلام ہی میں موجود ہے ۔ اقبال کے یہاں عشق کیا ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے اقبال ہی کو پڑھیے۔ لیکن بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو صرف اقبال کو پڑھنے سے حل نہیں ہوں گی ۔ گذشتہ گفتگووں میں ہم اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ میر اور غالب کو سمجھنے کے لیے انہیں کو پڑھنا کافی ہے ۔ لیکن اقبال کو سمجھنے کے لیے صرف اقبال کو پڑھنا ۔۔۔۔ عرفان :۔۔۔۔۔ کافی نہیں ہے ۔ نیّر : بلکہ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بھی پڑھنا کافی نہیں ہے ۔ فاروقی : ایک بات مجھے اس میں اور کہنے کاخیال آیا ۔ جیسا کہ نیّر صاحب نے فرق کیا ، کہ بہت ساری معلومات ہیں جو کتابوں میں ملتی ہیں ۔ انسائکلوپیڈیا وغیرہ ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ صرف اطلاع نہیں بلکہ اقبال کے کلام کو سمجھنے کے لیے کچھ علم بھی چاہیے ۔ اب جیسا میں سمجھتا ہوں ، علم سے مراد صرف یہ نہیں کہ صاحب ، آپ نے فلسفہ پڑھا ہو، تاریخ پڑھی ہو، بلکہ عمومی طور پر ایک ایسا ذہن ہو جو علمی مسائل کو انگیز کر سکتا ہو اور علمی مسائل سے لطف اٹھا سکتا ہو ۔ اگر لطف نہیں ملتا تو پھر مشکل ہو جائے گا کہ آپ اقبال کے کلام کو کسی صورت سے پسند کر سکیں ۔ بہت سے لوگ جو اقبال کے شاکی ہیں انہوں نے کہا صاحب دیکھیے یہ تمام اونچی اونچی باتیں کرتے ہیں، بڑی بلند آہنگی ہے ۔ مگر دل کو چھونے والی بات نظر نہیں آتی ۔ تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ دل کو چھونے والی بات اقبال کے یہاں ہے یا نہیں ہے اور اگر نہیں ہے تو اس سے اقبال کا نقصان کتنا ہوا ہے۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ آج کے زمانے کے لحاظ سے دل کو چھولنے والی بات اقبال کے یہاں کم ملے گی ۔ ممکن ہے سنہ بیس یا تیس میں جب بڑا انقلابی اور حریت پسندی کا ماحول تھا تو ان کے کلام میں یہ صفت رہی ہو کہ وہ لوگوں کے دلوں کو گرما دے اور ان کو میدان میں لے آئے ۔ لیکن آج جو ان کے یہاں strong affirmation ہے وہ کچھ ہم کو گویا متاثر نہیں کرتا ۔ چونکہ دنیا اتنی منتشر اور تہہ و بالا ہو چکی ہے اور ہم لوگوں کے آدرش اور آئیڈیل اتنے شکستہ اور مجروح ہو چکے ہیں کہ اب اقبال کے یہاں جو self assurance ہے وہ ذرا کھٹکتی ہے ، اور اگر علمی مذاق نہ ہو تو اور بھی کھٹکے گی ۔ لیکن پھر بھی اس شاعر کی جو فکر کی جولانی ہے وہ متاثر کیے بغیر نہیں رہتی ۔ ’’کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معّری ‘‘، اب ابوالعلامعّری کے بارے میں تین صفحے لکھ دیجیے ، کچھ بھی پلے نہیں پڑے گا اس لیے کہ جہاں لے جا کے ختم کیا ہے اس نے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ اب یہ ایک فکری معاملہ ہے ۔ آدمی اگر علمی اور فکری ذہن رکھتا ہے تب تو اس نظم کو بہت پسند کرے گا اور enjoy کرے گا ۔ اور وہ ذہن اگر نہیں ہے تو ۔۔۔ اچھا ہم لوگوں کی نسل کے مقابلے میں اگر آپ دیکھیں ، جیسا کہ نیّر صاحب نے کہا کہ بارہ پندرہ برس کی عمر میں پڑھنا شروع کیا، پلّے تو نہیں پڑ رہا ہے لیکن۔۔۔ عرفان : ہاں ، مرعوب ہو رہے ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں ۔۔ ۔ فاروقی : ۔۔۔۔ کہ کیا چیز ہے بھئی ! جھوم رہے ہیں اُس پر ۔ لیکن آج ، مثلاً اپنے بچوں کو اقبال پڑھاتے وقت میں نے محسوس کیا مجھ سے پوچھتی تھیں لڑکیاں کہ صاحب ٹھیک ہے، لیکن بات کچھ بن نہیں رہی ہے، تو وہ اسی وجہ سے کہ جس طرح کا تیقن اور جس طرح کا بلند آہنگ دعویٰ اقبال کے یہاں ملتا ہے وہ موجودہ ذہن کو متاثر نہیں کرتا ۔ یہ میں سمجھتا ہوں۔ عرفان : فاروقی صاحب ، آپ نے یہاں دو بہت اہم نکتے اٹھائے ۔ ایک تو اقبال کی شاعری کی۔۔۔ اگر میں اس کو تاثیر کہوں تو انگیز کر لیجیے۔ فاروقی : ہاں ہاں ، تاثیر عرفان : کہ دل کو چھوتی نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اس وقت ہمارے اُس مسئلے ،’ تفہیم اقبال‘سے اس کا سیدھا سروکار نہیں ہے جس سے ہم کہنا چاہیے جنگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ ۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ سروکار تو صاحب ، خیر بعد میں عرض کروں گا ۔ آپ کہہ لیجیے۔ عرفان : تو اس کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی رکھتے ہیں کہ تاثیر اور اس کا معاملہ کیا ہے ۔ لیکن یہ بات طے ہو گئی کہ اقبال کے سلسلے میں محض مطلب شناسی سے کام نہیں بنتا ۔ جب تک آپ اُس کی شعری فکر کی تہ تک نہ پہنچیں ،ا ور اس تک پہنچنے کے لیے جیسا کہ ہمارے نیّر صاحب نے فرمایا ، صرف لغات سے یا اور فرہنگوں سے، بلکہ قاموس سے بھی کام نہیں چلتا ۔ اقبال کے حوالوں کو بہرحال decode کرنا ہے، اس کے بغیر اقبال فہمی کے سلسلے میں قدم آگے نہیں بڑھا سکتے ۔ اس کے علاوہ آپ کو اُس پورے عصر کی تاریخ کو سمجھنا ہوگا ۔ فاروقی : یہ بات صحیح ہے ۔ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو میں اگلی نشست میں عرض کروں گا جہاں مجھے کچھ اختلاف بھی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فکری تاریخ اور خود اقبال کی ذہنی تاریخ سے واقفیت کے بغیر اقبال کا کلام خاصا مشکل معلوم ہو گا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کے دروازے بند نظر آئیں گے ۔ عرفان : جی ہاں درست ہے ۔ شکریہ دوسری نشست عرفان صدیقی : پچھلی گفتگو میں فاروقی صاحب ، آپ نے یہ اہم نکتہ اٹھایا تھا کہ آج کے ماحول میں جب ہم اقبال کی شاعری پڑھتے ہیں تو بہت سی جگہوں پر اس کی تاثیر پہلے کی طرح دل پر قائم نہیں ہوتی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ یہ بات یہاں صاف ہو جائے کہ کسی شعر کی تاثیر کا اُس شعر کی تفہیم سے کتنا تعلق ۔۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی: ہاں ، یہ تو اتنا عمدہ سوال اٹھا ہے اس وقت کہ میرے خیال میں نیّر صاحب بھی اس کی داد دیں گے۔ نیّر مسعود : یقینا فاروقی : میرا خیال یہ ہے کہ شعر کو سمجھنے کے لیے اس سے متاثر ہونا ضروری ہے ۔ جب تک شعر کی تاثیر آپ کے ذہن پر مرتب نہیں ہو گی ۔تب تک آپ اس کی تہیں کھولنے سے قاصر رہیں گے، اس لیے کہ تاثیر کے بغیراس کی شکل یہ ہو جائے کہ گویا کوئی معما ہے ۔ آپ دماغ لگاتے رہیے پسینا ٹپکاتے رہیے، وہ آپ کے ذہن میں شعر کی سطح پر جلوہ گر نہیں ہو گا ۔ رچرڈس نے بہت مزے کی بات کی تھی کہ کسی نظم کے معنی بیان کرنا اس کو سمجھنے کا طریقہ نہیں بلکہ یہ خود نظم ہے ۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ جب تک شعر آپ پر اثر نہ کرے ، آپ کو بر انگیختہ نہ کرے کہ اس کو سمجھنے کے لیے کچھ زحمت کریں کوشش کریں، اُس وقت تک۔۔۔۔ میں نے پچھلی گفتگو میں عرض کیا کہ اقبال کو exploit بہت کیا گیا۔ کوئی کہتا ہے اقبال فلسفی ، کوئی کہتا ہے اقبال اسلامی مفکر۔ مگر اقبال کا بہت سا ایسا کلام ہے جس میں تاثیر ہی تاثیر ہے۔ معنی اور تصور کو جانے دیجیے ، خود ’’مسجد قرطبہ ‘‘کو لے لیجیے۔ اب بلاوجہ کے اس میں فلسفے چھانٹے جا رہے ہیں کہ صاحب یہ وہ ساٹائم ہے اور real ٹائم ہے ، اور فلانا ٹائم ہے ۔ مگر وہاں تو یہ ہے کہ دو مرتبہ آپ پہلا مصرع پڑھ دیجیے: ’’سلسلہ روز و شب نقش گرِ حادثات‘‘ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۱ ۔ یہ ضروری ہے کہ اقبال کے کلام کے اس پہلو ۔۔۔ یہ جو اس کا آہنگ ہے، خوب صورتی ہے، بہائو ہے، اس کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ شعر اچھا ہے کہ نہیں اور اس کے کیا معنی نکل سکتے ہیں۔ ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک بار اقبال نے صبح اٹھ کر کہا کہ بھئی رات کو میں نے خواب میں ایک شعر کہا ہے اور معنی اس کے واضح نہیں ہو رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت یہ کیا بات ہوئی، ذرا فرمائیں۔ تو انہوں نے شعر پڑھا کہ ’’دوزخ کے کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے ۔ خاکستر اسکندر و چنگیز و ہلاکو ‘‘اب میں نے جب یہ واقعہ پڑھا ، اُس وقت میری عمر کم تھی تو میں نے کہا بھئی اس میں کیا ہے ۔ اس میں تو کوئی بات ہی نظر نہیں آ رہی جو مشکل ہو۔ لیکن جب آپ غور کیجیے تو پھر مشکل بھی نظر آتی ہے کہ دوزخ کے کسی طاق میں ۔۔۔ اور ان تینوں کو خاص کر لایا جانا ۔ تو اب ظاہر ہے کہ اس میں تاریخی علم بھی ضروری ہے، تاریخی شعور بھی ضروری ہے، لیکن اس علم اور شعور کے بغیر بھی شعر میں ایک تاثیر موجود ہے جو آپ کو فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ اس پہلو پر بھی ہم ذرا زور دیں کہ آجکل تفہیم اقبال میں جو ناکامی ہو رہی ہے اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم اقبال شاعر کی جگہ اقبال فلسفی اور محقق اور مفکر پر توجہ کرتے ہیں۔ نیّر : فاروقی صاحب ، جیسا کہ آپ نے کہا ۔ اقبال کی تفہیم میں یہ چیز حائل ہوتی ہے کہ ہم اُن کو شاعرکم ، مفکرزیادہ سمجھتے ہیں۔ چلیے بہت انصاف کریں گے تو برابر کا شاعر اور مفکر مان لیں گے۔ کم اور زیادہ کی ناپ تول سے قطع نظر، دراصل وہ بہ یک وقت شاعر بھی تھے اور مفکر بھی تھے ۔ ان کے شعر کی تفہیم میں ہم کو بھی گویا سوئچ آن اور آف کرنا پڑتے ہیں۔ کبھی یہ سمجھ کر کہ کوئی مفکرانہ ، دانش ورانہ بات کہی گئی ہے ہم ان کے شعر کا مطلب دوسری طرح سوچتے ہیں ۔ اگر وہ ہمارے جذبات کو مہمیز کر رہا ہے تو اسے خالص شاعری سمجھ کر دوسری طرح سوچتے ہیں۔ اقبال کا یہ گویا مخصوص انداز ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں کو عجیب طرح سے ملا دیتے ہیں ۔ مثلاً بات شروع کریں گے ۔ وہ تفکر اور فلسفے سے، ’’میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے ‘‘ ، اب ہم تیار ہو کر بیٹھتے ہیں کہ کچھ فلسفۂ زوالِ اقوام ۔۔۔۔ عرفان : ۔۔۔۔ بیان کیا جائے گا ۔ نیّر : ۔۔۔۔ مگر وہاں آتا ہے ’’شمشیر و سناں اوّل ، طائوس و رباب آخر ‘‘۔ تو فوراً ہم کو سوئچ اوور کرنا پڑتا ہے ۔ یا ’’اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے ‘‘، اس کے دوسرے مصرعے میں ہم تیموریوں وغیرہ کا ذکر سننے کے لیے دماغ کو تیار کرتے ہیں ، مگر مصرع کہتا ہے ’’کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ‘‘۔ اور وہ جو اُن کی نظم ہے ، فاروقی صاحب ، میں تو اسی کو ان کا شاہکار سمجھتا ہوں، ’’ذوق و شوق ‘‘ فاروقی : بالکل صحیح ہے ۔ نیّر : اس میں یہ چیز بہت نمایاں ہے۔ ’’لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ‘‘، یہ بالکل دوسرا وہی تفکر والا آہنگ ہے، لیکن دوسرا مصرع ہے ’’گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط ہیں حباب ‘‘ عرفان : واہ کیا کہنے ۔ نیّر مسعود : تو یہ جو اقبال کی ایک بہت بڑی قوت ہے، یہی ان کے بیچارے مفسّروں کو کم زور کر دیتی ہے کہ دونوں مصرعوں کو ایک ہی ڈور میں کس طرح پرویا جائے، کہ اس شعر کی عظمت آخر ہم دونوں میں سے کس کی بنا پر سمجھیں گے ۔ بالعموم ہم یہ کرتے ہیں کہ کبھی تو اس پہلو پر زور دے رہے ہیں کہ صاحب یہ بہت عمدہ مفکرانہ شعر ہے اور اس کے شاعرانہ فنی پہلو کو فراموش کر گئے اور کبھی ۔۔۔۔ اس سلسلے میں ، عرفان صاحب ، کچھ دیر بعد میں شاید بھول جائوں تو آپ یاد رکھیے گا ، اس پر ذرا غور کرنا ہے ، ان دونوں پہلوئوں کے سلسلے میں کہ خالص فن کار کی حیثیت سے اقبال ۔۔۔۔۔ فاروقی : ایک مشکل ، میرا خیال ہے ، اقبال کو سمجھنے میں یہ بھی ہے کہ وہ جو بہرحال ان کی بہت بڑی اور مشہور نظمیں ہیں، بڑی بھی اور مشہور بھی، مثلاً ذوق و شوق‘‘ کا ذکر آیا ، یا مثلاً ’’مسجد قرطبہ‘‘ اور جو نظمیں میرے خیال میں اتنی بڑی نہیں ہیں لیکن مشہور بہت ہوئیں مثلاً ’’طلوع اسلام ‘‘ یا وہ نظمیں جن کے بعض بعض حصے واقعی بڑی شاعری ہیں ، جیسے ’’خضر راہ ‘‘ بعض جو اتنی اچھی نہیں ہیں ، مثلاً ’’شمع و شاعر ‘‘ کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ بیچ کی نظم ہے ۔ بہت اچھی ہے مگر اقبال کے بہترین کلام کے برابر نہیں ہے ، ان سب نظموں میں ایک بات مجھ کو شروع ہی سے محسوس ہوتی رہی ہے کہ اس شخص کو کسی بھی غیر معمولی یا غیر فطری یا مافوق الفطرِی طاقت یا قوت یا ہستی سے خطاب کرنے ہیں جھجک نہیں ہوتی ، وہ برابر کی گفتگو ان سے کرتا ہے ، چاہے وہ شمع سے شاعر کی بات ہو رہی ہو ، چاہے وہ ساحلِ دریا پر خضر سے ، چاہے۔۔۔۔۔ عرفان : ۔۔۔ بندہ خدا سے بات کر رہا ہو ۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔ جو بھی ہو ، اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ انیسویں صدی میں لوگوں کے ذہن میں شاعر کے متعلق ایک رومانی قسم کا تصور تھا کہ شاعر عام انسانوں کی فطرت سے بھی اور مافوق الفطرت چیزوں سے بھی ہم آہنگ ہیں اور ان سب میں ایک ہی قسم کی روح دوڑ رہی ہے جس کو برگساں نے vitality of life کہا تھا۔ یہ پھر وہی فکری معاملہ ہے کہ اس شخص کو جو کوئی ’حجاب نہیں ہے ، خفتگانِ خاک سے بھی بات کر لیتا ہے جگنو سے بھی بات کر لیتا ہے اور پہاڑ سے بھی، اور پیغمبرؐ سے بھی بات کر لیتا ہے، وہ اسی لیے کہ اس کے یہاں یہ سب ایک نظامِ حیات ہے جس میں ایک ہی روح دوڑ رہی ہے۔ اور یہی چیز اقبال کے کلام کو ایک غیر معمولی وسعت اور پہنائی بھی عطا کرتی ہے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ سامنے آتے ہیں ان میں کسی کے یہاں وہ وسعت اور پہنائی نہیں ہے۔ اگر اس بات کو ہم فراموش کر جائیں تو پھر ہمیں مشکل ہو جائے گی کہ ان کی بڑائی کو کس طرح ظاہر کریں۔ عرفان : صحیح ہے ، فاروقی صاحب ، کہ جو وسعت اور پہنائی اور گہرائی اقبال کے یہاں ہے، اس کا انداز اپنے معاصروں سے تو الگ ہے ہی، پہلے والے شاعروں سے بھی الگ ہے ۔ مثلاً آپ نے تخاطب کا معاملہ لیا ۔ تو تخاطب تو ہماری شاعری میں بہت ملتا ہے، خدا سے بھی اور دوسروں سے بھی ، لیکن اقبال کے یہاں دو فطری عناصر جس طرح بات کرتے ہیں اُن کی شناخت اور ایک دوسرے سے گفتگو کا انداز ہی بالکل مختلف ہے۔ ظاہر ہے اس کی جڑیں بھی تفہیم سے اس طرح ملتی ہیں کہ ہمیں تلاش کرنا پڑے گا کہ اقبال نے ان عناصر میں گفتگو کا یہ approach کیوں اختیار کیا ۔ تو یہ تفہیم کا مسئلہ بنتا ہے ۔ میں ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں جو میرے ذہن میں نیّر مسعود صاحب کی گفتگو سے آئی ۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کہی کہ اقبال نے ایک بڑا کام ، یعنی شعری اور تخلیقی اعتبار سے بڑا کام ، یہ کیا کہ بہت سے مروجہ الفاظ اور اصطلاحات بدل دیے، بلکہ کہیں کہیں الٹ دیے ۔ مثلاً عشق ان کی بڑی زبر دست اور بنیادی اور کلیدی اصطلاح ہے لیکن یہ عشق بالکل وہ عشق نہیں ہے جو اس سے پہلے تھا ۔ بلکہ اُن پر اعتراض بھی ہوا کہ صاحب ، آپ عشق کو اتنی فوقیت دیتے ہیں اور قرآنی فکر سے اس کا رشتہ جوڑتے ہیں ۔ قرآن میں تو عشق ۔۔۔ یعنی یہ لفظ ہی ۔۔۔ فاروقی : ہاں ، لفظ ہی استعمال نہیں ہوا ۔ عرفان : نہیں ہوا ہے ، اور مذہبی فکر میں عشق خاصامبغوض اور مردود لفظ ہے ۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ یعنی عشق کو آپ پرانے حوالے سے پڑھنا چاہیں گے تو اقبال آپ پر کھلیں گے ہی نہیں ۔ یہ بات درست کہی نیّر مسعود صاحب نے کہ اقبال نے بہت سے شعری کلیدی الفاظ استعمال کیے لیکن ان میں ایک دوسرا رنگ اور دوسری معنویت بھر دی ہے۔ اس معنویت کی تلاش اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں ایک بڑا کام ہے اور اسی وجہ سے میرے خیال میں ، فاروقی صاحب کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ اقبال کا آہنگ بھی خاصا مختلف نظر آتا ہے ۔ اقبال کی غزلیں جو ہیں وہ اپنی پیش رو غزلوں سے بالکل الگ ہیں، اور نظمیں بھی، آپ فرما رہے تھے ، نیّر مسعود صاحب نے بھی ’’ذوق و شوق‘‘ کا حوالہ دیا ، اس طرح کی نظمیں آپ کو اُس وقت بھی نہیں ملتی تھیں ، آج بھی نہیں ملتیں ۔ تو آہنگ کا یہ فرق جو ہے ، اقبال کی شعری سچائی کو دریافت کرنے کے لیے اس کی بھی تلاش کرنا چاہیے کہ یہ فرق کیاہے اس کی وجہ سے ان کا شعر کیوں مختلف اور بہتر ہو جاتا ہے؟ فاروقی : عرفان صاحب ، غزل کو تو میرے خیال میں اگلی نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ غزل کے بارے میں بہت کچھ کہنا ہے، اور یہ کہ اقبال کی غزل غزل ہے بھی کہ نہیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ ابھی تو وہ پہلی والی بات سامنے رکھتے ہیں کہ جیسا کہ نیّر صاحب نے کہا یہ عشق وغیرہ ، دسیوں لفظ ایسے ہیں ۔ اس لیے ایک بات جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگرچہ اقبال کا جو عام لہجہ ہے وہ کلاسیکی شعرا سے ملتا جُلتا ہے لیکن ایک معاملے میں وہ بالکل جدید ہیں اور گویا پہلے بڑے شاعر ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے کہ الفاظ کو اپنے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ اب اس پہلو پر لوگ غور نہیں کرتے کہ اقبال نے ان کو جب اپنے معنی دیے ہیں تو جب تک ہم اقبال کے اپنے ذہن سے ان معنی کو نہ نکالیں ، بات نہیں بنتی۔ جب وہ کہتے ہیں ، ’’اک دانش نورانی ، اک دانش برہانی‘‘ ، تو غور کرنا پڑتا ہے کہ بھئی دانش تو دونوں جگہ کہہ رہے ہیں پھر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نورانی الگ ہوتی ہے، برہانی الگ ہوتی ہے ۔ تو وہ کیا ہے ، صرف تعقل اور تصوف ہے ، یا کچھ اس سے بڑھ کر ہے یا کم ہے ۔ مجھے اپنی بات پھر یاد آتی ہے، جیسے ، مان لیجیے کہ ’’ لالۂ صحرائی ‘‘ ہے ۔ جب میں نے پہلی بار اس کو پڑھا اور اس وقت سے لے کر اب تک ہزاروں بار پڑھ چکا ہوں اور کتنی بار بہ آواز بلند پڑھ چکا ہوں ۔۔۔۔ نیّر : اس میں کوئی تلمیحی حوالہ نہیں ہے ۔ وہ خالص ۔۔۔ فاروقی : کوئی تلمیحی حوالہ نہیں ہے، لیکن اسی لیے وہ نظم اپنی جگہ پر اس قدر مکمل بھی ہے اور مشکل بھی کہ اُس میں تمام الفاظ کو اقبال نے خود اپنے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ مثلاً ’’ یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی ۔ مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پنہائی‘‘ ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ گنبد مینائی آسمان ہے بھی اور نہیں بھی ، اور یہ دشت جو ہے ، یہ دشتِ حیات ہے بھی اور نہیں بھی ہے ۔ اس پر مجھے خوف ہے کہ بہت کم لوگوں نے غور کیا ہے ۔ لوگ یہی کہتے رہے ہیں کہ عشق ان کے یہاں علامت ہے اور شاہین ان کے یہاں ۔۔۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے شاعری کے جو روز مرہ کے الفاظ ہیں اُن کو اپنے معنی میں استعمال کیا ہے، اسی لیے ان کی نظم مشکل معلوم ہوتی ہے۔ نیّر : آپ نے بہت صحیح بات کہی ، فاروقی صاحب ۔ اسی ’’لالۂ صحرائی‘‘ میںجو شعر ہے ۔ اس کا مطلب اب تک پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا ہے لیکن بہت زبردست شعر معلوم ہوتا ہے اور ابھی جیسا آپ نے کہا معلوم ہوتا ہے اس کا ہر لفظ اقبال کسی الگ معنی میں، ذاتی معنی میں استعمال کر رہے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی ‘‘۔ یہ بالکل عام الفاظ ہیں۔ عرفان : بہ ظاہر بالکل کلاسیکی رنگ کا شعر معلوم ہوتا ہے ۔ نیّر : جی ہاں ۔ کوئی بھی تو معنی خیز لفظ نہیں، حتیٰ کہ بھنور کے لیے ’’گرداب ‘‘ بھی نہیں استعمال کیا جو نسبتہً معنی خیز معلوم ہوتا ہے ۔ تو اس پر بھی زرا گفتگو ہونا چاہیے ۔ اقبال کا استعمالِ الفاظ۔ عرفان : درست ہے۔ اس گفتگو میں یہ بالکل طے شدہ بات لگی کہ اقبال نے تمام شعری نظام میں جو تبدیلیاں کیں ان میں ایک بڑی تبدیلی الفاظ کو ۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ اپنے معنی میں استعمال کرنا ۔۔۔ عرفان : ۔۔۔۔ اپنے طور پر برتنا ہے ، پہلے وہ کسی بھی انداز میں استعمال ہوتے رہے ہوں ۔ نیّر : اچھا ، اسی سے عرفان صاحب یہ بھی مان لینا چاہیے کہ اگر ایسا کوئی شاعر ہے جو لفظوں کو اپنے طور پر استعمال کر سکے تو زبان کا اس سے بڑا ماہر تو کوئی ۔۔۔۔ فاروقی: ۔۔۔۔ قطعی ، بے شک ۔ عرفان : یقینا وہ زبان کے بہت بڑے ماہر تھے ، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ زبان سے ان کا بڑا اجتہادی رشتہ تھا، بلکہ کہیں کہیں تو بڑا باغیانہ رشتہ ہو جاتا ہے۔ نیّر : اور اقبال کو بڑا شاعر ماننے کا سوال ہی نہیں جب تک ہم پہلے یہ نہ تسلیم کر لیں کہ وہ زبان کے بڑے ماہر تھے ۔ اگر ہم اُن کو سب سے بڑا شاعر مان رہے ہیں تو انہیں سب سے بڑا ماہر زبان بھی مان رہے ہیں۔ فاروقی : ہاں ، ماننا پڑے گا ۔ نیّر : اور یہ حقیقت بھی تھی ۔ ایک مثال بس، اس گفتگو کا وقت ختم ہو رہا ہے ۔ فاروقی صاحب ، وہ جو سنائی کی زمین میں قصیدہ ہے ۔۔۔ فاروقی : ہاں ’’سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا ‘‘ نیّر : اسی میں ، ’’یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے ‘‘۔۔۔۔ چُرا کر بیچ کھانا ، کسی اور شاعر کی ہمت نہ پڑتی کہ اس شان کے قصیدے میں ایسا عامیانہ محاورہ استعمال کرے ۔ فاروقی : اور وہ بھی کن چیزوں کے سلسلے میں ۔ عرفان : کن چیزوں کے سلسلے میں ، واقعی ۔۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ گلیم بوذر و دلق اویس و ۔۔۔۔۔ عرفان : ۔۔۔۔ چادر زہرا ؑ! نیّر : اس فعل کا گھٹیا پن اور چھچھورا پن ظاہر کرنے کے لیے ایسا ہی عامیانہ محاورہ چاہیے تھا ۔ فاروقی : یہ تو میر ہی کر سکتے تھے کہ ’’بس ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت ‘‘اُسی نے کہا صاحب، اور اُس کے بعد پھر اقبال نے کہا اور کوئی نہیں کہ سکتا ۔ عرفان : درست ہے ۔ شکریہ ۔ تیسری نشست عرفان صدیقی : پچھلی گفتگو کا سلسلہ اس پر ختم ہوا تھا کہ اقبال نے کس انداز میں پرانے شعری الفاظ اور اصطلاحوں کو اپنے طور پر ایک نئی معنویت دی ہے اور تقریباً بالکل معنی بدل کے استعمال کیا ہے۔ ایک شعر کے حوالے سے میں اس بات کو تھوڑا سا آگے بڑھانا چاہتا ہوں ۔ یہ شعر خاص طور پر اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ اقبال کی تفہیم سے تعلق رکھنے والے دونوں مسئلے اس میں سامنے آتے ہیں ۔ یعنی تاریخی اور مذہبی حوالے اور الفاظ کی نئی معنویت ۔ شعر ہے ان کا کہ ’’ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف‘‘۔ ٹھیک ہے معلوم ہے کہ انہوں نے قرآن کی دو تفسیروں کا حوالہ دیا ہے ۔ لیکن میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہاں اگر آپ ’’ کتاب کو صرف قرآن کے معنوں میں سمجھیں گے تو شاید پور اشعر منکشف نہیں ہوگا ۔ ’’ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب ‘‘ظاہر ہے کہ قرآن آپ پر نہیں اتر سکتا ۔ لگتا ہے کہ اس میں کچھ اور بات کہی گئی ہے۔ یہاں ’’کتاب ‘‘ کا جو لفظ ہے وہ کسی وسیع تر معنویت کا حامل ہے اور اس کی تلاش کی جانی چاہیے۔ نیّر مسعود : اس پر ، عرفان صاحب یاد آ گیا ۔ ایک بہت ذہین نوجوان عالم دین سے ایک مرتبہ گفتگو ہو رہی تھی ۔ موضوع یہی نزولِ قرآن تھا۔ انہوں نے بہت عمدہ بات کہی کہ اکثر جب میں کلام پاک کی تلاوت کرتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں دو کتابیں پڑھ رہا ہوں۔ شمس الرحمن فاروقی : واہ ! نیّر : ایک تو وہ جو آنحضرتؐ پر نازل ہوئی،اور ایک وہ جو خاص مجھ پر نازل ہو رہی ہے ۔ تو یہ غالباً بلکہ یقینا اقبال کا بھی تجربہ ہو گا ۔ ان کے یہاں کتاب صرف قرآن نہیں بلکہ کچھ کتاب کائنات قسم کی چیز بھی ہے ۔ فاروقی : ہاں ۔ اس لیے کہ اس اصطلاح کوتو انہوں نے اورجگہ بھی برتا ہے : ’’خدا تجھے کس طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ۔ تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں ‘‘ ۔ جب میں نے اس کو پہلی بار پڑھا تو سوچا یہ کیا بات ہے ؟ کتاب خواں ہے ، مگر صاحب کتاب نہیں ؟ صاحب کتاب تو ہم سب لوگ ہیں ۔ تو جیسا کہ عرفان صاحب نے کہا کہ یہاں پر کتاب کی معنویت کو بدل کے دیکھنا ہو گا ۔ نیّر : جی ہاں ۔ ’’کہہ ڈالے قلندر نے اسرار ۔۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ کتاب آخر ‘‘ بالکل ۔ پھر پیغمبرؐ کے لیے خاص کر ’’الکتاب ‘‘ کہتا ہے ۔ تو ظاہر بات ہے ، اب اس طرح کے الفاظ چونکہ شاعری میں پہلے سے موجود تھے، پوری زبان ہی میں مستعمل ہیں، کتاب ہے ،قلم ہے ،لوح ہے ۔ تو اگر پڑھنے والا ان کو غور سے نہ پڑھے اور ان پر نگاہ نہ رکھے گا تو ممکن ہے کہ وہ ان سے یوں ہی گذر جائے ۔ عرفان: یا یہ کہ گم راہ ہو جائے ۔ اگر مروجہ معنوں میں لفظ کو سمجھ لیا تو مفہوم شعر تک رسائی تو درکنار ، وہ بالکل دوسری سمت میں چلنا شروع کر دے گا ۔ فاروقی : ہاں ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے اور یہیں سے وہ بات نکلتی ہے جو پچھلی گفتگو میں آئی کہ جواُن کا تخاطب ہے ، مثلاً تخاطب جو اللہ سے ہے، یا جو تخاطب پیغمبرؐ سے ہے، اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہ وہی تخاطب ہے جو عام طور پر دو شخصیتوں یا ہستیوں میںہوتا ہے تو مشکل پڑ جائے گی ۔ مثلاً اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے، یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا اب اس میں اگر ایک طرح کا چڑ چڑا پن سمجھ لیا جائے کہ صاحب ، دیکھیے یہ تو محض لڑکپن کا سا انداز ہے ۔ اتنا ہی رکھا جائے ۔ تو ظاہر ہے کہ ہم اس کی اصلی معنویت سے محروم رہ جائیں گے ، کیونکہ اقبال کے کلام کی ایک طرح سے بنیادی لے ، یا زیریں لہر یہی سوال ہیں کہ کائنات میں انسان کا رول کیا ہے اور کائنات سے انسان کا رشتہ کیا ہے ۔ اس کی ان کو بہت فکر ہے۔ اور وہ اس کے بارے میں بہت سوچتے ہیں اور بہت پوچھتے رہتے ہیں۔ خود سے بھی پوچھتے ہیں ، اللہ سے بھی پوچھتے ہیں ، تمام لوگوں سے پوچھتے ہیں، خود کائنات سے سوال کرتے ہیں ، اور غالباً پہلی بار اتنا تجسس ، اتنا سوال اور استفسار اردو شاعری میں نظر آتا ہے کیونکہ پہلے زمانے میں تو گویا لوگوں کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہی تھا کہ بھئی انسان کی کیا وقعت ہے، کائنات میں اس کی کیا حیثیت ہے اور اللہ کہاں پر ہے ، اور کائنات کہاں پر ہے ، اور ہم کہاں پر ہیں ۔ ان تمام رشتوں کو بھی ایک طرح سے upset کرنا ۔۔۔ عرفان : ہاں جو roles پہلے defined تھے ان سب کو بدل دینا ۔۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ یا ان کو کم سے کم question کرنا ۔ نیّر : اب دیکھئے یہ جو گفتگو اس وقت ہو رہی ہے اس کا تعلق اقبال کی شاعری کے موضوع اور مشتملات اور نفس مضمون سے ہے، خالصتہً ان کے فن یا شعری حرفت سے نہیں ہے۔ ایک دل چسپ یا افسوس ناک بات کہہ لیجیے ؛ فاروقی صاحب تو شاید مشتعل ہو جائیں ۔ میرا خیال ہے عرفان صاحب ، آپ سے گفتگو کی جائے ۔ اقبال کی شاعرانہ حیثیت کے علاوہ ایک دانش ورانہ ، مدبرانہ اور سیاسی حیثیت بھی تھی اور ایک معمارِ ملک بھی مانے جاتے ہیں۔ تو فاروقی ۔۔۔۔ نہیں فاروقی صاحب سے بات نہیں کر رہا ہوں ۔ عرفان : کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ بات تو ان سے کی ہی جائے گی ۔ نیّر : ان کو غصہ آئے گا ، اور پھر ۔۔۔۔ عرفان : نہیں تو ان کو تھوڑا سا مشتعل کیا جائے گا ۔ نیّر : خاص طو رپر ہندوستان کے نقاد ، اور ان میں فاروقی صاحب یقینا شامل ہیں۔ اگر اقبال کے فنی محاسن پر گفتگو کو مرکوز رکھتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ گویا ایک منصوبے کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے۔ اور اقبال کی جو اصل عظمت تھی ، فکری عظمت ، اس کو چھپانے کے لیے اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ صاحب وہ ’’شاعر بہت اچھے تھے، ’’شاعر‘‘ بہت اچھے تھے اور یہ جو فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ اُن کے موضوعات سے ہم کو مطلب نہیں ہے، اور فلسفی وہ بہت غیر معمولی قسم کے نہیں تھے اور اُن سے بہتر فلسفی تو مثلاً رسل تھا ، یہ سب ایک سازش ہے کہ اقبال کی جو اصل عظمت ہے اس کو چھپا کے بس یہ کہتے ہیں کہ وہ ’’شاعر‘‘ بہت عمدہ تھے، تو عمدہ شاعر تو ’’داغ‘‘ بھی تھے ۔ اب اس پر غصہ ظاہر ہے آنا بھی چاہیے ۔ اور ایہ احتجاج صحیح بھی نہیں ہے۔ عرفان : درست ہے ، نیّر صاحب ۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ ہم اقبال کو اس لیے اہم سمجھ رہے ہیں کہ وہ شاعر تھے ۔ اب اگر وہ شاعر تھے تو شاعر کی حیثیت سے اور شاعری کے وسیلے سے انہوں نے کن کن موضوعات کو برتا ، فکر کی کون کون سی تہیں ان کے یہاں ہیں ۔۔۔۔ فاروقی : ۔۔۔۔ اس پر بھی ہم بات کر رہے ہیں۔ عرفان : جی ہاں ، اس پر بھی ہم نے بات کی ہے، لیکن اگر وہ صرف فلسفی تھے، یا صرف دانش ور تھے، یا صرف مفکر تھے تو میں سمجھتاہوں کہ وہ ادب کے پڑھنے والوں کا بہت زیادہ concern نہیں رہتے ۔ فاروقی : نہیں ، زیادہ کیا بالکل نہیں عرفان : وہ بہت کچھ تھے لیکن شاعر بھی تھے اور ہم شاعر اقبال ہی کو پڑھیںگے اور اس پر بات کریں گے۔ نیّر : تو اب ہماری گفتگو اسی موضوع پر ہے ،یعنی اقبال بہ حیثیت فن کار ۔ فاروقی صاحب نے کہیں یا تو لکھا ہے یا کسی تقریر میں کہا تھا ، بہرحال لوگ اس پر بہت ۔۔۔ تقریباً اچھل پڑے تھے کہ یہ فاروقی صاحب کیا کہہ رہے ہیں کہ اقبال کے یہاں ابہام اور رعایت لفظی بھی ہے ۔ یہ تو اقبال کے دامن پر گویا ایک دھبا لگایا جا رہا ہے ۔ خیر ، اب شاعری اور اپنے شعری اظہار کے سلسلے میں اقبال کے وہ دو فارسی شعر ہیں جن کا پڑھنا ناگزیر ہوتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ ’’برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی ست حدیث خلوتیاں جز بہ رمزو ایمانیست ‘‘ یعنی بہترین تکلم یا بہترین شاعری وہ ہے جس میں بات کو براہ راست نہ کہا جائے ۔ دوسرا شعر وہ ہے ’’دقتِ برہنہ گفتن است ، من بہ کنا یہ گفتہ ام خود تو بگو کجا برم ہم نفسانِ خام را‘‘ کہ یہ تو کُھل کر اور واشگاف انداز میں بات کہنے کا وقت ہے، میں کنایوں میں بات کر رہا ہوں، پھر بھلا بتائو میں اپنے ہم نفسوں کی کیا ہدایت کر پائوں گا ۔ یعنی وہ تو ہدایت اور رہنمائی کے مقصد کو بھی شاعرانہ اظہار پر قربان کیے ہوئے ہیں ۔ اور اس پہلو سے اقبال کا جائزہ نہ لینا تو واقعی ۔۔۔۔ عرفان : ایک ظلم سا ہو گا اقبال پر تو اب شاعر اقبال کے مطالعے میں ، فاروقی صاحب ان کی غزلوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ format کے اعتبار سے اپنی شکل اور ہیئت کے اعتبار سے وہ غزلیں ہیں بھی اور بعض حیثیتوں سے شاید نہیں بھی ہیں۔ یہ ایک خاصی تکنیکی بحث ہو جائے گی ، لہٰذا تھوڑی دیر کے لیے یہ مانتے ہوئے کہ بال جبریل میں جو چیزیں ہیں وہ بیشتر غزلیں ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں اقبال کا جو ڈکشن ہے وہ دوسرے شاعروں کی غزلوں سے بہت مختلف ہے ۔ مثال کے طور پر ایک شعر پڑھتا ہوں : ’’یہ زیرِ کہن کیا ہے ، انبار خس و خاشاک مشکل ہے گذر اِس میں بے نالۂ آتش ناک ‘‘ ۔ تو یہ نالہ وہ نالہ تو نہیں ہے جو کوئی پرانا عاشق کرتا تھا ۔ فاروقی : بلکہ یہ وہ نالہ بھی نہیں جو ’’شکوہ‘‘ جواب شکوہ ‘‘ میں ہے۔ عرفان : وہ بھی نہیں ہے ۔ تو یہ لگتا ہے کہ اقبال نے ان فن پاروں میں جنہیں ہم اپنی سہولت کی خاطر غزل کہہ رہے ہیں ۔ ڈکشن کا اور ترسیل خیال کا ایک بالکل ہی نیا انداز اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فاروقی : مجھے ایک تو اس سلسلے میں آپ سے اختلاف کرنا ہے کہ ’’ بال جبریل ‘‘ کی جن چیزوں پر وہ نمبر پڑے ہوئے ہیں ، ان کو آپ غزل کہہ رہے ہیں ۔ غزل تو وہ نہیں ہیں ۔ ان پر شاعر نے نمبر ڈالے ہیں اور نمبروں میں وہ بھی شامل ہے ۔ ’’سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا‘‘ عرفان : نہیں میں سب کو نہیں کہہ رہا ہوں ۔ فاروقی : تو پھر اس میں تو کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔ جن چیزوں پر غزل کا عنوان ڈالا گیا ہے وہ تو ضرب کلیم میں ہیں اوروہ اس طرح کی چیزیں ہیں ، ’’دریا میں موتی اے موج بے باک ساحل کی سوغات خار و خس و خاک ‘‘۔ بال جبریل میں تمام نمبر لگے ہیں اور ان میں ایک نمبر ایسا ہے ، پانچواں یا چھٹا جس میں چار شعر کسی اور زمین[مستعار کا، ناپائدار کا] اور ایک شعر ، آخری کسی اور ردیف قافیے [ کھٹک لا زوال ہو ، کسک لازوال ہو] میں ہے۔ عرفان : وہ تو ظاہر ہے کہ غزل نہیں ہے، لیکن میں پوچھتا ہوں ۔ بہت دل چسپ بحث آپ نے چھیڑی ہے ۔ آئیے اسے آگے بڑھائیں ۔ مثلاً ’’اک دانشِ نورانی اک دانش برہانی ہے دانشِ برہانی حیرت کی فراوانی ‘‘ آپ نے پڑھا تھا ۔ یہ کیا ہے ۔ مطلع ہے ، یا نہیں ہے ؟ فاروقی : پتا نہیں ، میں نہیں کہ سکتا کہ یہ کیا ہے ۔ عرفان : نہیں ، تو آپ اسے کیا کہیے گا ؟ فاروقی : ’’اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی‘‘۔ اب یہ وہ شعر ہے کہ اس پر سرد ھُنیے آپ ، آسمان چھو لیجیے ۔ دیکھیے نا ، ایک مطلع لگا دینے کی وجہ سے اسے غزل کہنا ۔۔۔۔ نیّر : اسے قصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ عرفان : نہیں میں نے اس لیے عرض کیا تھا کہ تکنیکی اعتبار سے ہم ان کو غزل کہنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ ان کا format غزل کا سا ہے۔ فاروقی: قصیدے کا format کیوں نہیں مانتے ہیں اس کو آپ ؟ ’’ ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی ‘‘ ، بالکل قصیدے کا format ہے۔ عرفان : نہیں، قصیدے کا format تو ۔۔۔ اچھا تو مجھے یہ بتائیے ، ’’وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبریل دے تو کہوں ‘‘ تو صاحب اس میں ’’قصیدیت ‘‘ کہاں آپ کو ملے گی؟ فاروقی : یہی تو مشکل ہے کہ اب ۔۔۔۔ عرفان : یہی میں عرض کر رہا ہوں فاروقی : میں یہی عرض کر رہا ہوں ۔کہ اقبال شاید یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو یہ قصیدے اور غزل دونوں سے ماورا ۔۔۔۔ عرفان : ۔۔۔۔ کوئی چیز ہے ۔ لیکن فی الحال ہم ان کو غزل کہہ لیتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان فن پاروں کے ڈکشن اور ترسیل خیال کے لحاظ سے آپ ان کی معنویت کو کس طرح دیکھتے ہیں، اور ان اشعار کی تفہیم کو نظموں کی تفہیم سے کس طرح مختلف پاتے ہیں ؟ نیّر : ایک سوال میں بھی اس میں جوڑدوں، فاروقی صاحب ، اقبال کا کلام اپنے آہنگ کی وجہ سے فوراً پہچان میں آتا ہے ، لیکن اس آہنگ کو بیان کس طرح کیا جائے؟ فاروقی : پہلے میرا خیال ہے ، پہلی بات کولیتے ہیں ۔ میرا خیال ہے جس بنا پر لوگوں نے نمبروں والے کلام کو غزل کہا وہ یہ ہے کہ اس میں معنی سے زیادہ کیفیت کی فراوانی ہے اور اس کے معنی بیان کرنا مشکل بھی ہے اس لیے کہ اس میں فکر کا ویسا غلبہ نہیں ہے جیسا ہم اقبال کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں اور یقینا یہ ایک طرح کا کلام ہے ’’محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی شہید محبت نہ کافر نہ غازی یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے ’’تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی‘‘۔ان میں اس قدر ۔۔۔۔ اس کو سرمستی کہیے، سرشاری کہیے، جو بھی کہیے ، لیکن ایک ایسی کیفیت کی فراوانی ہے کہ شعر بہرحال آپ کو متاثر کرتے ہیں ۔ اگر یہ کہیے کہ ان میں مثلاً قصیدے کا وہ رنگ ہے جو منوچہری کے چھوٹی بحر والے قصیدوں ۔۔۔ نیّر : ہاں ’’سلام ’’علیٰ دارِ اُمّ الکواعب‘‘ فاروقی : ۔۔۔۔ اس قسم کے ، تو بات اس لیے نہیں بنتی کہ ’’سلام علیٰ دارِ امُ الکواعب‘‘ قسم کے جو چھوٹی بحر والے قصیدے ہیں ، اُن میں تغزل تو بہت ہے، لیکن ان میں آہنگ کا وہ سبک پن نہیں ہے جو اقبال کے یہاں ہے کہ ۔۔۔۔ نیّر : ۔۔۔۔ لفظ بہتے چلے جا رہے ہیں ۔ فاروقی : جی ہاں اور یہ جو نئی نسل کے لوگ اقبال کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتے ، اگر ان سے کہا جائے کہ اس کو غزل یا قصیدہ یا نظم سمجھ کر نہ پڑھو ، بس کلام سمجھ کر پڑھو تو وہ لوگ زیادہ متاثر ہوں گے ، کیونکہ وہ توقعات جو ہمیں عام غزل ، داغ بلکہ غالب کی بھی غزل سے ہیں وہ اس کلام سے پوری نہیں ہوتیں اور اس میں معنی بیان کرنے کے وہ مراحل نہیں ہیں جو مثلاً ’’خضر راہ‘‘ میں یا دوسری مشکل نظموں میں ہم دیکھتے ہیں ، بلکہ ان کی جگہ پر ایک سرمستی ۔۔۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ کیا یہ سرشاری اور سر مستی کی سی کیفیت اور جگہ نہیں ہے؟ تو اس کا جواب میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ ہے بھی اورنہیں بھی ہے ۔ اس لیے کہ اور جگہ پر معنی بھی کثرت سے ہیں اور یہاں معنی کم ہیں ۔ مثلاً سر راس مسعود پر جو نظم انہوں نے لکھی تھی ۔ اس کو پڑھیے آپ ۔ پہلا بندجو ہے وہ تو مرثیہ ہے گویا ، سر راس مسعود کے بارے میں ، دوسرے میں بہت فکری رنگ ہے، مگر آہنگ دونوں میں بہت ہی ٹھہرا ہوا اور گمبھیر ہے ۔ تو اقبال کے یہاں آہنگ کا تنوع اس طرح ہے ، کہ کہیں معنی کی کثرت ہے ، پھر بھی آہنگ بہت پُر شکوہ ہے ،بعض جگہ معنی کی کثرت نہیں ہے لیکن آہنگ میں روانی بھی نہیں ہے اور جو یہ پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہے، تو صاحب اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ عرفان : اس کا جواب ، فاروقی صاحب، میرے خیال میں کسی کے پاس نہیں ہے، جیسے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ وہ فن پارے کیا ہیں انہیں قصیدہ نہیں کہہ سکتے ، غزل نہیں کہہ سکتے ، لیکن ان میں آہنگ کی فراوانی ہے اور یہ decode کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ فراوانی کثرت مفہوم کی بنا پر ہے یا الفاظ کے نئے پن کی بنا پر ہے ، یا خود الفاظ کے اپنے آہنگ کی بنا پر ہے ۔ نیّر : اس کی بہت اچھی مثال ’’ساقی نامہ ‘‘ ہے ۔ روانی اور تسلسل بھی ہے ، فکر اور کثرت معنی بھی ہے اور الفاظ کی غنائیت بھی ہے ۔ لیکن یہ وہ مسئلہ ہے جو ہم لوگوں کو حل کرنا بھی نہیں ہے کہ یہ آہنگ کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ رہ گیا یہ طریقہ کہ ایک لفظ کو ، جیسے کسی نے کہا بھی ہے کہ ’’نیکر کا خرام بھی سکوں ہے‘‘ والی نظم میں کچھ حرفوں ۔۔۔ فاروقی : ارے وہ کہاں ، ’’دریا کے خموش ۔۔۔‘‘ ش ش اور وہ ۔۔۔ عرفان : بس اس آہنگ سے ہم لطف اندوز بھی ہوں ۔ اگر اتنا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں تفہیم کا ہمارا ایک مرحلہ سر ہو جائے گا ۔ شمس الرحمن فاروقی : ہاں ، بس نیّر مسعود : بس ، اتنا کافی ہے ۔ عرفان صدیقی : بہت بہت شکریہ ۔  فکریات زمان اور انا خضر یٰسین ہم انسان جس دنیا کا ادراک یا احساس رکھتے ہیں وہ زمانی اور مکانی کائنات ہے، یہ کائنات زمان و مکان کو قبول کرتی ہے، اس لیے ہم اس کا ادراک کر سکتے ، اور محسوس کرتے ہیں، ہمارے احساسات کے قویٰ یا حاسہ اس وقت تک کسی شے پر اثر انداز یا کسی شے سے اثر پذیر نہیں ہو سکتے جب تک وہ شے زمان و مکان میں واقع نہ ہو، نہیں بلکہ ہم اپنے خیالات میں موجود اشیاء کے وہمی وجود کی نسبت زمانی و مکانی ہونے کی صفت کا اضافہ نہ کر لیں تو ان سے متاثر نہیں ہو سکتے بالفاظ دیگر ہم اپنے شعور و ادراک میں کسی شے کی نسبت، غیر زمانی اور غیر مکانی تصور کر کے ان سے نہ صرف احساسات کو خالی کر لیتے ہیں بلکہ اپنے شعور کو بھی اس کی گرفت سے محروم کر لیتے ہیں۔ ہمارے وہم و خیال میں اگر کسی شے کا خاکہ مقصود ہوتا ہے تو اس کی پہلی شرط واقعیت ہے، واقعیت ذہنی ہوتی ہے اور واقعیت خارجی بھی ہوتی ہے ، اگر واقعیت کا درجہ ذہنی ہے تو اس سے متاثر ہونے کے لیے یا اس سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں اس کی خارجیت لازماً فرض کرنی پڑے گی، بصورت دیگر اس کا تعلق ، نفس الامر سے وابستہ امور سے منقطع ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا، ہمارے لیے معدوم اور معلوم ذہنی اپنی ہستی کے اعتبار سے یکساں ہیں،یعنی حقیقی وجود سے عاری ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے اوہام کی نسبت یہ یقین پیدا کر لیتے ہیں کہ وہ زمان و مکان میں اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے تو ان سے ہر طرح کی اثر انگیزی کے امکانات سے فارغ ہو جاتے ہیں ، گویا زمان و مکان ہمارے احساس کی تحقیق کی اوّلین شرائط ہیں، اگر کسی موجود کو اپنی ہستی ہم پر منکشف کرنی ہے یا پھر اپنی ہستی کی نسبت واقعیت کا انتساب کرانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمارے ذہن سے الگ اپنا وجود رکھے اسے ہمارے ذہنی حصار سے نکلنا ضروری ہے جس کا مطلب ہے کہ اسے زمان و مکان میں واقع ہونا ضروری ہے،زمان و مکان کی قیود سے ماوراء وجود ’’ذہنی‘‘ ہے ، ہم وجود ذہنی سے خارج کسی ہستی کے ادراک کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کر سکتے حتیٰ کہ کسی ایسی ہستی کا تصور تک نہیں کر سکتے الاّیہ کہ التباس اور فریب میں گھر جائیں ، وجود ذہنی سے نکل کر وجود حسی ہمارے سامنے آتا ہے جو ظاہر ہے زمانی و مکانی ہے، مگر ہمارا موضوع بحث نہ محسوس ہے اور نہ قویٰ احساس ہیں، بلکہ یہاں ہمارا موضوع محسوس اور قوت احساس کے تحقیق کی شرائط ہیں ، یعنی زمان و مکان نیز انا جو ان سب شرائط کا اصل الاصول ہے اس مرحلے پر موضوع کی تخصیص اس لیے ضروری ہے کہ قاری کی توجہ کا مرکز متعین رہے اور مختلف اطراف سے ہم اپنے موضوع کو ثابت کر سکیں، گویا اس بحث میں قویٰ احساس کی فعالیت اور محسوس کی واقعیت کو پہلے سے فرض کر لیا گیا ہے۔ اب واقعیت کے معنی کیا ہیں؟ اورمیرے احساس کے متحرک ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ان امور پر توجہ مطلوب ہے بالفاظ دیگر اب ہم فقط ان شرائط کی ماہیت کی تشکیل کے درپے ہیں جو مذکور ماقبل کے وجود کے لیے ناگزیر ہیں۔ زمان و مکان ہی وہ شرائط ہیں جو ہمارے ادراک احساس کے متحقق ہونے کے لیے لابدی ہیں تو سوال یہ ہے کہ زمان کیا ہے؟ نیز کیا کوئی وجود اس سے ماوراء یا خارج متصور ہو سکتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کی ماورائیت کے کیا معنی ہے؟ ہم انسان زمان کا تصور حرکت کی صورت میں کرتے ہیں، ایک ایسی حرکت جو اس قدر خالص ہے کہ اس میں سکون کا کوئی وجود نہیں ہے، سکون کا تصور زمان سے خارج ہے بلکہ زمان کی ضد ہے اسے ہم بہائو اوربے روک بے ٹوک تسلسل ہی سمجھتے ہیں، ہم اس زمانے سے باہر بھی زمان کا یہی تصور رکھتے ہیں اور اس زمان میں دیگر ازمنہ کا تصور بھی اپنے اندر یہی خصوصیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ سکون اور بالکل خالص سکون مکان ہے، زمان کی حرکت مکان میں واقع ہوتی ہے اور مکان کا سکون زمان میں واقع ہوتا ہے۔ زمان کی حرکت کو مکان میں واقع ہونے کے باعث ہمیں یہ سہولت میّسر آتی ہے کہ اسے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کر لیتے ہیں زمانی اعتبار سے یہ زمان کی حرکت کے وہ مدارج ہیں جو اپنی نوع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اپنا متمیز وجود رکھتے ہیں چنانچہ حرکت کا ادراک انہی مدارج سے واضح ہوتا ہے، مگر یہ مدارج زمان کی ایک وحدت میں جمع نہیں ہو سکتے یہ محال ہے کہ ماضی حال متصور ہو سکے ، یا پھر مستقبل ماضی متصور ہو سکے ، آپ کو ایک وقت میں ایک تصور ہی اپنے شعور میں لانا پڑے گا آپ کو اپنے شعور کو مکمل طور پر منتقل کر کے دوسرے کے تصور میں آنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جیسے مکان میں واقع کسی مربع صورت کو مدّور شکل میں دیکھنا محال ہے وقت کی اکائی میں مکان کی یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں جیسا کہ ماضی اور مستقبل ایک دوسرے کی ضد ہیں زمان مسلسل اوربے روک و بے ٹوک حرکت ہونے کی وجہ سے اپنے ابعاد میں فقط ایک ہی سمت رکھتا ہے تاہم اسی ایک سمت پر ماضی حال اور مستقبل کا اطلاق ہوتا ہے۔ زمان کا ہر تصور اپنے اندر ان مراحل کو لیے ہوتا ہے ، یہ اس لیے ہے کہ وہ حرکت ہے خالص حرکت ہونے کے باعث ان مراحل میں اعادے کا کوئی امکان نہیں ہے، زمانے کے تمام تصورات ان مراحل اور عدم اعادے کی صفت سے متصف رہتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہے کہ زمان ہو اور ان مراحل میں واقع نہ ہو ، یہی وجہ ہے کہ ہم انسانوں کے شعور میں زمان کے تمام تصورات ان مراحل ثلاثہ اور عدم اعادہ کی صفت سے متصف رہتے ہیں گویا حادث اور قدیم کا مطلب مراحل ثلاثہ میں واقع وقفے کی نسبت قرب و بُعد ہے، جہاں تک قدم بمعنی وراء زمان کا تعلق ہے تو وہ غیر زمانی وجود کی صفت ہے جو فقط ذہنی ہے۔ مکان زمان کا برعکس تصور ہے جن اوصاف سے زمان متصف ہے مکان ان کی نفی ہے بلکہ نفی تام ہے، مکان سکون محض ہے، انجماد تام ہے ، بے حرکت ہے ، مکان میں مکان کی حرکت زمان سے ہے یا زمان سے ممکن ہے ، فی نفسہٖ حرکت مکان سے خارج ہے، بالکل اُسی طرح جیسے زمان میں سکون کی نسبت کلی طور پر مکان ہے یا مکانی ہے سکون فی نفسہٖ زمان سے کلی طور پر خارج ہے، اس کا سبب اصلی یہ ہے کہ زمان متحرک نہیں بلکہ حرکت ہے اور مکان ساکن نہیں بلکہ سکون ہے ، ان تباینات کے باعث یہ دونوں ایک دوسرے کی عینیت سے عاری ہیں اور ایک دوسرے کی صفت کے حامل ہیں اور نہ متحمل ہیں یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔نقیض ہیں ، بایں ہمہ انسان کے احساس کی ناگزیر شرائط ہیں ۔ زمان و مکان کی ماہیت کے تضاد اور نوعیت کی انفرادیت کے باعث دونوں کے ادراک کے دو الگ محل ہیں زمان کا شعور ہمارے داخلی احساس سے اجاگر ہوتا ہے اور مکان کا ادراک خارجی حواس سے متعین ہوتا ہے ، زمان کے شعور کا مبداء داخلی احساس ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ زمان کی ہستی میرے احساس کی مرہون منت ہے یا میرے داخلی احساس کی تخلیق ہے ، اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ زمان کا شعور ہمارے داخلی احساس کی فعالیت کا نتیجہ ہے اور اسی طرح مکان کا شعور خارجی حواس سے پھوٹتا ہے جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مکان کی ہستی کا خلاق ہمارے خارجی حواس ہیں بلکہ اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ خارجی حواس سے مکان کا ادراک وابستہ ہے ، ہم انسان حواس ظاہری سے مکان کا جو ادراک حاصل کرتے ہیں وہ اس قدر ہے کہ وہ ابعاد ثلاثہ سے عبارت ہے ، اب چونکہ مکان ان حدود کی تعیین کی صورت کا نام ہے لہٰذا مکان در مکان حرکت ممکن ہے اورمکان کی نسبتاً کم صورت اپنے سے بڑے مکان میں حرکت کرتی ہے یا کر سکتی تو ایک بُعد مکانی سے دوسرے بُعد مکانی کے درمیانی فاصلے کو طے کرنے والے نسبتاً کم مکان کی حرکت کا امکان پیدا ہوتا ہے مگر حرکت مکان در مکان کے لیے زمان ایک لازمی شرط کے طور پر اپنی جگہ پر رہیگا ، حرکت فی المکان میں قابل اعادہ یا قابل رجوع یا رجعت ہونے کی اہلیت موجود ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زمان کے مراحل ، ناقابل رجعت ہوتے ہیں یعنی زمان میں رجعت نا ممکن ہے جبکہ مکان میں رجعت ممکن ہے۔ بحث کے اس مرحلے پر اس امر کو پوری وضاحت سے سمجھ لینا چاہیے کہ زمان اور زمانی مکان اور مکانی دونوں ایک دوسرے سے منفرد اور متمیز اور جدا جدا حقائق ہیں، بسا اوقات ان دونوں کے فرق و امتیاز سے صرف نظر نے حیران کن التباسات پیدا کیے ہیں، اس سلسلے علامہ اقبال کے خطبات میں دلچسپ عقدے نظر آتے ہیں بالخصوص جہاں و ہ زمانی و مکانی وجود اور زمان و مکان کے وجود میں بنیادی امتیازات کو نظر انداز فرماتے ہیں یا پھر جدید نظریات میں ان کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں جن میں نظریہ اضافیت کا فکری التباس بہت ہی نرالا ہے ، یہاں ممکنہ اختصار کے ساتھ نظریہ اضافیت کے مغالطے کو بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ نظریہ اضافیت کی رو سے کسی شے کی حرکت کی شدت مطلق ہے اور زمان و مکان اضافی ہیں گویا زمان و مکان کا انحصار در حقیقت حرکت شے کی شدت کے درجے پر منحصر ہے حرکت میں شدت کی جس قدر کمی ہو گی زمان و مکان کا تصور اسی قدر سخت ہو گا حرکت کی شدت جس قدر تیز ہو گی زمان و مکان کا وجود اتنا بے اصل ہو جائے گا گویا زمان و مکان کا انحصار حرکت شے پر ہے اور حرکت شے کا انحصار زمان و مکان پر نہیں ہے۔ اس نظریے کی صحت کا انحصار معلوم نہیں کس اصول پر ہے ، ایک مفروضہ کار آمد ہو سکتا ہے گرچہ اپنا اعتبار حقیقت پر نہ رکھتا ہو ، مگر کم از کم یہ ہونا لازمی شرط ہے کہ وہ حقائق کے انکار پر بھی مبنی نہ ہو ، مگر یہ ایسا مفروضہ ہے جو حقائق سے مختلف ہی نہیں بلکہ ان کے انکار پر مبنی ہے ۔ اب حرکت شے یا کسی مکانی و زمانی شے کی حرکت فی المکان، جسے رفتار (Speed) کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے مکان کا مکان کے اندر یا حرکت مکان در مکان ہی ہوتا ہے ایک شے مکان کے ایک بُعد سے دوسرے بُعد تک کی مسافت طے کرتی ہے اس فاصلے کو جتنے عرصے میں طے کیا جاتا ہے وہ حرکت شے کا معیار ٹھہرتا ہے گویا زمان و مکان بنیادی اور اولین شرائط ہیں جن پر حرکت شے متحقق ہوتی ہے، اگر ایک مکانی فاصلے کو ایک زمانی عرصے میں طے کر لیا جائے اور پھر مکان کے اسی فاصلے کو ۔ اُس زمانی عرصے سے کم سے یا زیادہ عرصے میں طے کیا جائے تو حرکت شے کی شدت میں کمی یا زیادتی واقع ہوگی ، مثلاً مکان کے دو ابعاد کے مابین فاصلے کو ایک شے ایک منٹ کا زمانی عرصہ لگا کر طے کرتی ہے او ر بعد کو اسی فاصلے کو اس کے نصف عرصے یعنی آدھے منٹ میں طے کرے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ حرکت کی شدت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح وقت کا عرصہ کم ہوتا جائے حتیٰ کہ زمانی عرصہ صفر پر پہنچ جائے تو حرکت بھی صفر ہو جائے گی اور یہ نا ممکن ہے کہ زمانی عرصہ متحقق نہ ہو مگر حرکت صادر ہو جائے ، ہم انسان اپنے شعور کو بر قرار رکھتے ہوئے ایسے کسی تصور کی صحت پر اصرار نہیں کرسکتے ، ہمارے اس تجزیے سے مادی اشیاء کی حرکت کا اصول واضح ہو گیا ہے ، اسے ہم حرکت مکان در مکان کہتے ہیں ، نظریہ اضافیت کے حامیین کو چاہیے کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ حرکت کے لیے زمان و مکان کا مقدم ہونا واجب ہے زمان و مکان مطلق اصول ہیں اور حرکت شے کی شدت سے جو اضافت اجاگر ہوتی ہے اس کا اطلاق زمان و مکان پر نہیں بلکہ حرکت فی نفسہٖ پر ہوتا ہے ، گویا حرکت شے جس قوت کے نتیجے میں صادر ہو رہی ہے یہ اس قوت کا کمال یا زوال ہے جس نے مکان کے دو نقطوں کے مابین فاصلے میں وقت کے عرصے میں کمی یا زیادتی پیدا کر دی ہے یہ تقابل متحرک قوتوں کے مابین ہے اور اضافت بھی انہی پر واقع ہو رہی ہے ۔ نظریہ اضافیت میں یہ خوامخواہ فرض کر لیا گیا ہے کہ حرکت شے کی شدت نے گویا زمان پر تسلط حاصل کر لیا ہے، زمان ہمیشہ غالب شرط کے طور پر برقرار رہتا ہے زمان میں عرصے کی کمی کو زمانے پر تسلط فرض کرنا لایعنی مفروضہ ہے جس نے زمان کو مطلق کے بجائے اضافی بنا دیا ہے، ہماری گزارش اس بارے میں یہ ہے یہاں درحقیقت زمانی اور زمان اور اسی طرح مکانی اورمکان کے شعور میں توارد واقع ہو گیا ہے جس نے دونوں کے تمیز کو شعور سے محو کر دیا ہے، زمانی و مکانی باہمی نسبتوں میں اضافی ہوتی یا ہو سکتی ہیں زمان و مکان مطلق ہیں ان کے مابین ہمارے شعور کو جو نسبت ہے وہ ہمیشہ برقرار رہتی ہے، اور یہ دونوں ہمارے احساس کی شرط کے طور پر رہتے ہیں ، اضافیت کے نظریے نے زمان و مکان کی مطلقیت زمانی و مکانی کو اور زمانی و مکانی کی اضافت ، زمان و مکان کو عطا کر کے کوئی فکری خدمت انجام نہیں دی اگرچہ اس کے حامیین میں غیر معمولی جوش ، تعصب کی حد کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ زمان کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ بُعد رابع ہے درحقیقت زمان کو مکان کا حصہ تصور کرنے سے پیدا ہوتا ہے، ابعاد ثلاثہ مکان کے ہیں یہ مکانی پر وارد ہوتے ہیں یعنی جس چیز نے مکان کو قبول کرنا ہے وہ ابعاد ثلاثہ میںواقع ہوتا ہے ان ابعاد کو قبول کیے بغیر وہ شے مکانی نہیں ہو سکتی مگر مکان خود مکانی محتویٰ سے مقدم اور متمیز وجود رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم مکانی و زمانی محتویٰ کے بغیر زمان و مکان کو سمجھ لیتے ہیں ، تو اگر کوئی شے اپنا وجود نفس الامر میں رکھتی ہے تو اس کی ہستی ہمارے سامنے اپنا وجود زمانی عرصے اور مکانی ابعاد میں ظاہر کرتی ہے، وقت بُعد رابع نہیں ہے بلکہ ہمارے احساس کی زد میں رہنے کا عرصہ ہے ، و ہ شے زمان کے عرصے میں اتنی دیر تک رہی اور اتنی دیر تک نہ رہی ، زمان تو عرصہ ظہور کی شرط ہے اورمکان امتداد ظہور کی شرط ہے مکان کو زمان پر اور زمان کو مکان نہ تقدم ہے نہ تاخر ہے نہ مماثلت ہے اور نہ ہی وجودکی یکساں نسبت ہے ، اس لیے شے کے جس پہلو کو زمان پر ظاہر کرتاہے وہ بالکل جداگانہ ہے اور مکان جس پہلو کو واضح کرتا ہے اس کی اپنی متمیز ہستی ہے ۔ اس لیے شے کی نسبت بھی زمان کا بُعد رابع ہونا ممکن نہیں ہے ،ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر ابعاد کا انتساب مکان کی بجائے مکانی سے بھی کیا جائے تب بھی ابعاد کی جس نوع کو مکان واضح کرتا ہے وہ اور ہے اور زمان جس جہت کو منکشف کرتا ہے وہ اور ہے اس لیے زمانی جہت کو مکانی جہت کا عرصہ تصور کرنا ممکن نہیں ہے ، عرصہ اور شے ہے احاطہ اور شے ہے، پھر رابع کا مفہوم ہی اس التباس کو واضح کر رہا ہے کہ اس کا انحصار مذکور ماقبل ثلاثہ جہات پر ہے جو کہ مکان کی جہات یا ابعاد ہیں۔ زمان ہمارے لیے ایک بہائو ہے ایک دوران ہے ، تسلسل ہے ،یکے بعد دیگرے تسلسل اعداد ہے یہ ایک ، دو ، سہ ہے ، ہم زمان کا یہ ادراک اپنے اندرونی احساس سے باور کرتے ہیں ، جب ہمارا داخلی احساس اپنی فعالیت سے فارغ ہو جائے تو زمان ہمارے شعور کا موضوع نہیں رہتا ہے، بالفاظ دیگر زمان کا ایسا وجود جو ہمارے اندرونی احساس سے ماوراء ہو وہ ہمارے شعور یا ادراک سے ماورا ہوتا ہے آپ کہیے کہ ہمارے لیے اس کا عدم وجود یکساں ہے، داخلی احساس سے ماوراء زمان کا وجود ایک دعویٰ ہے جسکا ہمیں نہ احساس ہے اور نہ ادراک ہے ، ہمارے لیے زمان کی حرکت اجتماع تفیضین کو ممکن بنا دیتی ہے، نیز اجتماع ضدین کا محال ہونا بھی زمان کے باعث ممکن ہوتا ہے، آن واحد میں یا ایک ہی وقت میں مکان کے ایک ہی نقطے پر دو متضاد حالتوں کا اجتماع نا ممکن ہوتا ہے مگر زمان و مکان میں تبدیلی کے باعث دو متضاد صفات کا اجتماع ممکن ہو جاتا ہے۔(اجتماع زمانی ، اجتماع مکانی) اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمان و مکان کا مبداء کیا ہے؟ ، زمان و مکان ناظر کے اضافات ہیں یا پھر یہ منظور کی صفات میں سے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ، میں بحیثیت ناظر کے جن اشیاء کا ادراک کرتا ہوں وہ چند صفات کا مجموعہ ہیں ، علاوہ ازیں میرے ادراک کا موضوع ہوتے ہوئے میں ان اشیاء پر کچھ اضافات کرتا ہوں ، تمیز ، تعین ، تحدید اور تحکیم وغیرہ ۔ ظاہر ہے تمیز میرے شعور کا اضافہ ہے جو اس نے پیدا کیا ہے ورنہ مماثلات بھی تو منظورات میں موجود ہوتی ہیں، جن امور کے ادراک کا مبداء وہ اشیاء ہیں ان میں اشیاء کی مسمّیت شامل نہیں ہے، منظور کو مسمّیت سے سرفراز کرنا ناظر کا اضافہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ زمان و مکان کا مبداء ناظر ہے یا منظور یعنی اشیاء کی ماہیت میں یہ دونوں شامل ہیں ۱یا کہ یہ ناظر کی جانب سے اضافات میں سے ہے؟ اب اشیاء فی نفسہٖ زمان و مکان میں موجود ہیں اور اسی باعث ہمارے ادراک حس کا موضوع بنتی ہیں اب اشیاء جن صفات کا مجموعہ ہیں ان میں کچھ مستقل ہیں اور کچھ عارضی ہیں تاہم مختلف صفات کے اجتماع کی کسی ایک صورت کو یعنی کسی شے کو سامنے رکھیے اب ایک ایک کر کے اس کی صفات کو الگ کرتے جائیے بالآخر جس صفت کو ہمیں اپنے شعور سے محو کرنا ہوگا وہ مکان ہو گا اگرچہ شے اپنی نمود میں بالکل ہی ختم ہو چکی ہو گی مگر ہمارے شعور سے محو ہونے کی آخری کڑی مکان ہوگا، تو یہ امر ثابت ہو جائے گا کہ مکان نمود شے کی صفات میں سے نہیں ہے ۔ اب زمان کو اس کو ختم کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ وہ ایک دورانیے کے طور پر نمود شے کی شرط تو ہے مگر جیسے ہی شے کے صفات کو یکے بعد دیگرے محو کیا جائے گا ویسے ویسے وہ ساتھ رہے گا ، چونکہ وہ دورانیہ ہے اس لیے شے کے وجود کی شرط ہونے کے بجائے وہ بھی نمود کی شرط کے طور پر آئے گا ، اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہو ں گے کہ زمان و مکان ناظر کے اضافات میں سے ہے اور شے فی نفسہٖ کے وجود سے متعلق نہیں ہیں علاوہ ازیں ایک دلیل ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے بھی قائم کی ہے کہ یہ ناظر کے اضافات میں سے ہے ۔ لیکن بالفرض اس موقف کی نسبت یہ کہا جائے کہ یہ ’’زمان و مکان ‘‘ جو گویا یہاں اس بحث میں ’’شی فی نفسہٖ‘‘ کا حکم رکھتے ہیں ، ان کا استعمال قطعی غیر محتاط ہے ، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ غیر محتاط استعمال ہے تاہم یہاں پر چند ایسے پہلو ہیں جن کی جانب توجہ کرنے سے شاید زمان و مکان کا استعمال اس قدر غیر محتاط نہ ہو جتنا کہ یہاں بظاہر دکھائی دیتا ہے ، امر واقعہ یہ ہے کہ ناظر اور منظور میں سے کسی کی جانب زمان و مکان کا انتساب تو کرنا ہی پڑے گا ، کیونکہ ہم زمان و مکان کو ناظر و منظور سے الگ وجود تصور نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں ، ایسا زمان یا ایسا مکان جس میں ناظر کی ہستی نہ ہو بغیر فہم و ادراک کے دعوے کا موضوع ہو سکتا ہے ، اس کے علاوہ درج بالا بحث میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ دونوں منظور کی صفات میں شامل نہیں ہیں اب فقط ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ ناظر کی جانب منسوب کیا جائے ، تو اس کے تحقق کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ناظر اپنی آرزوئے علم کے زیر اثر پہلے زمان و مکان تک پہنچتا ہے اور پھر اس کے بعد منظور تک رسائی پاتا ہے ، گویا ناظر کی آرزوئے علم سب پر مقدم ہے اس کے بعد دوسرا مرحلہ زمان و مکان میں جو ہماری آرزوئے علم کے متحقق ہونے کی شرائط میں اور ان شرائط کے وقوع پذیر ہونے کے بعد مشروط سامنے آتا ہے، زمان و مکان کا تعلق ناظر سے ہے مگر ناظر زمان و مکان پر غالب نہیں ہے بلکہ فطرتاً زمان و مکان ہمارے ادراک میں شامل ہیں ہم ان سے گریز نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کا وجود ناظر کے رحم و کرم پر ہے میرا مطلب یہ ہے کہ زمان و مکان کا ناظر سے منسوب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ناظر کی خیال آرائی کے مرہون منت ہیں کانٹ کی وہ Critique کے دوسرے مقدمہ سے موازنہ کیجیے جہاں سے اندیشہ ہوتا ہے جیسے ناظر زمان و مکان کو اپنے منظور پر اپنی جانب سے نافذ کرتا ہے ۔ ہمارے خیال میں ہماری توجیہہ کانٹ کے مطلب کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہم یہ امر طے کر چکے ہیں کہ زمان حرکت محض اور مکان سکون محض ہے، باین ہمہ ہم ان متضاد جہات کے حامل ہیں اور اپنے احساس کو انہی متضاد جہات سے فعال کرتے ہیں، تاہم جب ہم اپنے ادراک کے عمل کا موضوع ان دونوں جہات کو بناتے ہیں تو ہمارے شعور میں بعض امور میں توارد رونما ہونا شروع ہو جاتا ہے، حواس ظاہری جب فعال ہوتے ہیں تو زمان ہمارے شعور کے نہاں خانے میں پوشیدہ ہو جاتا ہے، ہم شرط احساس کے طور پر اس کے وجود کا شعور برقرار رکھیں تو حس ظاہری سے مکمل طور پر فیض یاب نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ہمارے شعور کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ حواس ظاہری میں سے کسی ایک کی فعالیت پر انہماک پیدا کر کے اس سے بھرپور فیض یاب ہو سکتا ہے ورنہ کسی حتمی نتیجے تک رسائی پانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہے ، لیکن اگر احساس کی فیض یابی وقت کے ساتھ مربوط ہو جائے تو وقت کی حرکت غیر معمولی ہو جاتی ہے، ہم بالعموم وقت کی حرکت کا جو شعور رکھتے ہیں وہ یاتوغیر معمولی حد تک تیز ہو جاتی ہے یا پھر غیر معمولی حد تک آہستہ خرام ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت کا شعور ہمارے لیے در حقیقت کس احساس سے وابستہ رہتا ہے ، مثلاً مسرت و شادمانی ، یا غم و الم وقت کے شعور کو شامل نہ کرکے ہمارے لیے وقت کا غیر معمولی تجربہ بن جاتے ہیں ، جب ہمار اشعور وقت کے احساس سے مستغنی ہو کر کسی طرح کے احساس میںمنہمک ہو جاتا ہے تو وقت اپنی حرکت برقرار رکھنے کے باوجود ہمارے شعور کی گرفت سے باہر ہو جاتا ہے ، لیکن جب کسی احساس کی فعالیت میں ہمارا انہماک وقت پر مرتکز ہو جائے تو وقت آہستہ خرام یا بے حد سُرعت افزا ہو جاتا ہے ، گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت کا وہ ادراک جو بالواسطہ یا بلا واسطہ احساس ہمارے ادراک میں آتا ہے وہ وقت کی صحیح قدر و قیمت اور صحیح ادراک میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا اس کے باوجود وقت کا جوہر یعنی حرکت محض برقرار رہتا ہے اور ہمیں وقت کے اس جوہری تعین سے غرض ہے۔ زمان و مکان وہ مطلق قیود ہیں جن میں گھر کر ہم انسان اپنے شعور سے کام لیتے ہیں یا جن میں گھر کر ہمارا شعور کام کرتا ہے ، اس لیے ان شرائط سے باہر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے ۔ زمان کا کوئی تصور ایسا نہیں ہے جو حرکت کے جوہر سے محروم ہو اس لیے کائنات میں وقوع پذیر ہونے کے لیے زمان و مکان کے جبر کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے تاہم بعض امور ایسے ہیں جو زمان و مکان سے ماوراء متصور ہوئے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے اندرایں صورت ان موجوداتِ وراء زمان و مکان اور ان کے مبداء کا ادراک حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے فہم کا مبداء حواس ہوں تو زمان اور مکان کو بطور شرطِ تحقیق حواس کے طور پر رہنا ہوگا ،نیز کسی حس کی فعالیت سے مکمل طور پر مستفید ہونے کے لیے زمان کے شعور کو محو ہو جانا پڑتا ہے لیکن اگر زمان بطور شعوری تقاضے کے حس کی فعالیت کے دوران برقرار رہے تو ہمارا احساس زمان کی نسبت غیر معمولی ہو جاتا ہے ، مگر یہ صورت فقط اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے فہم کا مبداء حواس ہوں لیکن اگر فہم مبداء محسوسات کے بجائے معقولات ہوں تو صورتِ حال یکسر بدل جاتی ہے، معقولات کی ماہیت ہی ایسی ہے کہ ان پر زمان کی اجراء اور مکان کا انجماد اطلاق پذیر نہیںہو سکتا ہے، اسی لیے معقولات کی منطقی صحت پر قناعت کرنا ان کی ایسی ہستی جو ہمارے عقل کے علاوہ بھی اپنا مستقل وجود رکھتی ہو، کو کسی طور پر واضح نہیں کرتا ، اس لیے مابعد الطبیعیات کی صحت کو چیلنج کیا جاتا ہے ، گویا معقولات کا وراء زمان و مکان ہونا ان کے استقلالی وجود کو غیر حقیقی بنا دیتا ہے، اور پھر معقولات کے حقیقی ہونے کا مطلب زمانی و مکانی ہونا ہوتا ہے ، گویا جب تک معقولات ، محسوسات بن کر حواس کی زد میں نہ آ جائیں ان کا اعتبار قابل اعتبار نہیں ہو سکتا اب انسان یا ’’انا‘‘ کی ہستی دو سطحوں کے ادراک سے فیض یاب ہونے کی اہلیت رکھتی ہے، ایک اس کے انا ہونے کا ثبوت ہے دوسرا ’’غیر انا ‘‘ ہونے کا مدلول ہے یعنی غیر انا کا احساس حواس خارجی سے میسر آتا ہے جبکہ انا ہونے کا شعور عقلیات سے ضوفگن ہوتا ہے ، معقولات میں اپنے غیر کا ادراک اس طور پر خیالی ہستی سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ عقل خیال تخلیق کرنے کی استعداد ہے، اس لیے ہم اس کی واقعیت کا ثبوت محسوسات میں طلب کر سکتے ہیں اور یہ بالکل حق بجانب جائز مطالبہ ہے، اس کے برعکس انا اپنی نسبت ادراک اپنے محتویٰ کو شامل ہے،یہ ایک بالکل منفرد مثال ہے ، انا کا عقلی ادراک اپنے علاوہ کسی ہستی کے نفس الامر کو ظاہر نہیں بلکہ اس کے ایسے ادراک یا شعور کو ظاہر کرتا ہے جو بلا واسطہ ہوتا ہے بلکہ علی الاستقلال ہوتا ہے اس لیے ایسے ادراک کو کسی دوسری ہستی یا انا کا ترجمان تصور کرنا خیال در خیال سے زیادہ کچھ نہیں ہے، حتیٰ کہ اقدار کا شعور بھی ہمارے لیے ان کی واقعیت کے مطالبے کو ترک نہیں ہونے دیتا ، اخلاقی اقدار کا شعور مکمل ہونے کے باوجود ہمیں ان کو عملاً واقعہ بنانا ہوتا ہے ، اور فقط عقلی سطح کا ادراک قطعی ناکافی ہوتا ہے ، چنانچہ انا کا اپنی نسبت شعور جو در حقیقت شعور کا شعور ہے ، اپنی عقلی سطح پر اپنے محتویٰ کو حاصل ہے اس لیے وہ وراء زمان و مکان ہوتا ہے لہٰذا انا کا وجود اپنی ہستی کے اعتبار سے وراء زمان ہے جبکہ اپنی فعلیت کے لیے زمان و مکان میں واقع ہے اس کی فعلیت کے لیے زمان و مکان ضروری ہے جبکہ اس کی ہستی کا زمان و مکان پر وارد ہونا ناگزیر ہے، انا فی نفسہٖ اور شے ہے جبکہ انا کی فعالیت چیزے دیگر ہے، برگساں اورپھر علامہؒنے وراء زمان کی نسبت استدام محض (Pure duration) تصور قائم کرتے ہوئے وراء زمان ہونے کو استدام محض سے تصور کیا ہے، جو پھر زمان کی ہستی کا صحیح تصور قطعاًنہیں ہے ، کیونکہ استدام محض سے مراد ہے زمان بلا حرکت ، لیکن حرکت کا اخراج زمان سے ہو جائے تو زمان اپنے جوہر سے محروم ہو جاتا ہے بالفاظ دیگر زمان کا تصور ہی ختم ہو جائے ، زمان کا انجماد اور شے ہے جبکہ وراء زمان اور چیز ہے وراء زمان اس وجود کو کہا جائے گا جس پر زمان غیر موثر ہو اور زمان کا انجماد تو ایک باہم متصادم تصور ہے۔ جس کا مطلب نہ صرف غیر واضح ہے بلکہ لایعنی اور بے معنی بھی ہے ، ورائے زمان ، ایک صفت ہے جو وجود ذہنی سے متعلق ہے ۔ یاوجودذہنی سے صفات میں ایک صفت ورائے زمانی ہونا ہے وجود ذہنی کا قدم سبوق الی غیر النہائیہ ہوتا ۔ اگر ہم انسان وقت کا تجزیہ الی غیر النہانیہ کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس نوع تجزیہ حسی وجود کا تو ہو ہی نہیں سکتا یہ فقط ایسا وجود ہے جو زمانے کی قید سے آزاد ہوا اور وہ وجود ذہنی ہے، اسی طرح مکان کا تجزیہ الی غیرالنہانیہ بھی ذہنی ہی ممکن ہے، زمان و مکان کا الی غیر النہانیہ تجزیہ ہی اس امر کی کافی دلیل ہے کہ وجود ذہنی وراء زمان و مکان ہوتا ہے، یوں وجود ذہنی مرور زمان سے متاثر نہیں ہوتا ، اور جہاں تک استدام محض کا تعلق ہے تو اس کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ زمان تو موجود ہے مگر حرکت سے عاری ہے ۔ انجماد کا شکار ہے۔ گویا یہ وقت بے حرکت ہے، اجزاء استحرار سے خالی ہے، جس کا مطلب اس بے معنی قضیہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ، جیسے کہا جائے، بے حرکت ہی با حرکت، مربع جو مدّور ہے ، یعنی موضوع کو محکوم کیا جائے ایسے محمول سے جو موضوع کی نفی تام ہے ۔ یہ ایک شاعرانہ خیال تو ہو سکتا ہے جس کے التباس سے مسرت و انبساط حاصل کیا جائے فلسفہ جس طرح کے وضوع و انشراح کا متقاضی ہے اس تصور میں نظر نہیں آتا ۔ ’’انا‘‘ EGO مراتب وجود میں جس مقام پر انا کا ظہور ہوتا ہے وہ اپنے سے ماقبل مراتب کی طرح اپنے اندر خواص اور تمیزات کی حامل ہوتی ہے ، جس شے نے یا جس درجہ وجود نے انا کو امتیازی وجود عطا کیا ہے وہ شعور ہے مگر پھر چونکہ شعور کی ایک نوع ایسی بھی ہے جو اپنے علاوہ کا شعور ہے تو فقط ایسا شعور جو اپنے علاوہ کا شعور ہو تو یہ انا کا درجہ ظہور نہیں ہے اس لیے کہ انا کی سطح پر اپنے غیر کا شعور ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کے غیر ہونے کا شعور ہوتا ہے یعنی اپنی نسبت یہ شعور ہوتا ہے کہ میں ہر دوسری چیز کا غیر ہوں ، یہ شعور ہے جو فردیت کی طرف نہیں بلکہ انفرادیت کی جانب لے آتا ہے، اپنے افعال و کردار کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ ہر دوسری چیز کے غیر ہونے کا شعور ہی ہوتا ہے جو اپنے با شعور ہونے کا شعور بھی ہے ۔ یعنی درجہ وجود میں انا کی آمد درحقیقت شعور کے شعور کی آمد ہے ، کیونکہ شعور کا شعور یا انا اپنی نوعیت کے اعتبار سے ’’محض شعور‘‘ سے منفرد ہے اس لیے ’’شعور محض‘‘ کے درجے ہر داخلی اور خارجی جبر کی جو صورت فطرتاً موجود نہیں ہے وہ یہاں آ کر ناپید ہو جاتی ہے ۔ اس لیے شعور کا شعور اختیار ہے اور حقیقی اختیار ہے زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہے، زمان و مکان ’’غیر انا‘‘ کے لیے شعور کے تحقق کی خارجی شرائط ہیں یہی وجہ ہے انا کے شعور کا ادراک حِسّی کبھی نہیں ہوتا ، جیسے ہی ہم اس حسی حصار سے باہر قدم رکھتے ہیں شعور ذات یا انا ہمیں خوش آمدید کہہ رہا ہوتا ہے۔ انا کی سطح پر ہر شعور اپنے ظہور کے تین پہلو رکھتا ہے اور یہ پہلو جذبہ، ارادہ، اور ادراک ہیں ہمارا شعور جب کبھی فعال ہوتا ہے تو ان سہ گونہ پہلو میں سے کسی ایک کو زیادہ شدت سے کام میں لاتا ہے ۔ اگرچہ باقی دو بھی متحرک ہوتے ہیں مگر غالب عنصر ان میں سے کوئی ایک ہوتا ہے اور یوں ہم شعور کے شعور کی فعالیت کو باور کرتے ہیں ، ہم انسان انا کی اسی امتیازی خوبی سے باخبر ہیں، اور جب بھی انا کا تصور قائم کرتے ہیں تو اس کی سلبی تحدید یہی ہوتی ہے کہ میں ہر دوسری چیز کا غیر ہوں اور ایجابی تحدید یہ ہوتی ہے کہ شعور کے شعور سے مستفید ہو کر ہم انا کو برتر وجود کے طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ، ہمیں معلوم نہیں ہے کہ نفس الامر میں انا کے اختیار اور فعالیت یا عالم خلق میں زمان و مکان میں ظہور کے سوا بھی انا کی کوئی صفت ہے یہی وجہ ہے کہ انائے مطلق کی نسبت ایسے امور کو منسوب کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ انا کے درجہ وجود پر بھی اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتا اگرچہ درست مان لیا جائے کہ انائے مطلق اپنے اقوال و افعال کے علاوہ موضوع بحث ہو سکتا ہے تو ہمیں کم از کم سطح وجود کے اس رتبے کو نظر انداز نہیں کرنا جس پر اس کی ہستی کا شمار انا کے مرتبہ وجود میں آئے ۔ انا کے خصائص میں ایک اور شرط کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ انا کا تجزیہ ’’شے‘‘ کے طور پر نہ کیا جائے بلکہ انا کا تجزیہ کرتے ہوئے اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ ’’انا ‘‘ کی انانیت ہر لمحہ برقرار رہے ’’انا ‘‘ زمانی و مکانی ’’چیز‘‘ نہیں ہے کہ اس کے اجزاء کسی طرح سے یک جا ہو گئے ہیں اور اگر ہم اس کے اجزاء کو الگ کرنا چاہیں تو اگرچہ وہ ’’شے‘‘ تو معدوم ہو جائے گی مگر وہ اجزا آپ کے سامنے ضرور رہیں گے اس کے برعکس انا کا تجزیہ اگر شے کے تجزیے پر قیاس کرتے ہوئے کیا جائے اور اس کے اجزاء کو اس سے منفصل کر دیا جائے تو نہ وہ جز رہے گا اور نہ کل رہے گا ۔ مثلاً اگر آپ شعور کے پہلوئوں کی یعنی جذبے کو ارادے اور ادراک سے یا ارادے کو ادراک و جذبے سے منفصل کر دیں تو نہ شعور باقی ہو گا اور نہ ہی جذبہ ، ارادہ یا ادراک باقی رہے گا ۔ یہی جوہری فرق ہے، اس جوہری فرق سے صرف نظر کر کے جو تجزیہ و تحلیل وجود میں آئے گی وہ بابصیرت تجزیہ ہو گانہ تحلیل ہو گی ، اس لیے ضروری ہے انا کو شے پر قیاس نہ کیا جائے شے ساکن تصور ہے اور انا سیال تصور ہے ، اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ انا عناصر کا مجموعہ ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے شعور کی تربیت پر وقت صرف کرے ۔ انا کی ہستی یا وجود ورائے زمان و مکان ہے مگر وہ اپنے پورے شعور کے ساتھ ضوفگن ہونے کے لیے مشروط ہے جو ایک خاص وقت اور تربیت و تعلیم سے بروز ہوتی ہے، گویا شعور کا شعور ایک قوت ہے جسے ایک عمل بننے کے لیے چند ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے اور پھر یہ ضرورتیں یا شرطیں بھی یکساں طور پر ہر ایک کو پوری کرنی ضروری نہیں ہیں بعض اوقات عقلی استعداد کی نشو و نما کے لیے تعلیم و تربیت ضروری ہوتی ہے اور بعض مرتبہ وہبی طور پر یہ نشو و نما یافتہ ہوتی ہے، مگر یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم و تربیت ایک زمانی عمل ہے جو انا کے قویٰ کو فعال کر دیتا ہے مگر جو نہی انا اپنے منصب پر فائز ہوتی ہے تو وہ زمان و مکان سے محکوم نہیں ہوتی بلکہ زمان و مکان کو محکوم بنا دیتی ہے ،اس فرق کو پیش نظر رکھیئے کہ انا کے قویٰ کو صیقل کرنا اور انا کی ذاتی فعالیت دو مختلف امور میں ان دونوں امور میں واضح خط فاصل قائم نہ کر سکنے نے وہبی تصورات کے انکار پر لا کھڑا کیا ہے ۔ ’’ربنا لا علم لنا الّاما علمتنا انک انت العلیم الحکیم ‘‘  تصوّف اور وحدت الوجود شیخ الاکبر اور اقبال کی نظر میں محمد شفیع بلوچ علامہ اقبال تصوف ، وحدت الوجود اور شیخ الاکبر کے بارے میںاپنی ایک رائے رکھتے تھے جو مختلف ادوار میں مختلف رہی، شروع میں علامہ تصوف کے پرستار تھے ۔قیام یورپ سے واپسی کے بعد انہوں نے عجمی تصوف اور وحدت الوجود پر کڑی تنقید کی اور آخری عمر میں وہ پھر سے تصوف کی طرف مراجعت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر عشرت انور لکھتے ہیں: ’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی فکر دو منازل سے گزری ، ماقبل وجدانی اور وجدانی ۔ پہلی منزل میں وہ اُس روایتی طرز فکر کا اتباع کرتے ہیں جو ہمہ اوستی یا وحدت الوجودی تصورات سے قریبی تعلق رکھتا تھا اور اس دور کے شکستہ و متزلزل مسلم معاشرے کو بہت اپیل کرتا تھا لیکن یورپ کے سفر نے ان کے حوصلے اور فکر کو نئی توانائی اورا ن کے عزم کو نئی قوت بخشی ، ان میں ایک سیاسی رد عمل پیدا ہوا، اب وہ انفعالیت ، سکون وجمود اور نفی ٔ ذات کے بجائے فعالیت، عمل اور اظہار ذات پر زور دینے لگے ۱‘‘ ۔ اسرار خودی کی اشاعت تک اقبال وجودی تصوف سے وابستہ رہے اور اپنے افکار کی اساس نظریہ وحدت الوجود پر رکھی حتیٰ کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے قیام یورپ کے دوران بھی وہ مولانا جلال الدین رومی اور منصور حلاج کے روایتی نظریہ وحدت الوجود کا اتباع کرتے نظر آتے ہیں لیکن یورپ سے واپسی پر انہوں نے محسوس کیا کہ وحدت الوجود فکر رومی کا ایک رخ ہے اور پھر انہوں نے رومی کو پُر تپاک طور پر عقیدہ وحدت الوجود کے نمائندے کی حیثیت میں پیش نہ کیا بلکہ ذاتِ خداوند اور انسان کے درمیان والہانہ عشق کے پُر جوش نقیب کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ حلاج کے بارے میں بھی ان کے نظریے میں تبدیلی آ چکی تھی ۲ ‘‘۔ علامہ کا ابتدائی طبعی میلان تصوف کی طرف تھا۔ تصوف کو سمجھنے کے لیے انہوں نے اپنے معاصر مشاہیر سے رابطے بھی کیے خواجہ حسن نظامی کے نام ایک مکتوب محررہ ۱۹۰۵ء میں علامہ ، تصوف اور وحدت الوجود کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک خط پہلے ارسال کر چکا ہوں اور بڑی شدت کے ساتھ اب ایک اور تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف میں جس قدر آیات صریحاً تصوف کے متعلق ہیں ان کا پتہ دیجیے ، سیپارہ اور رکوع کا پتہ لکھیے ۔ اس بارے میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کر کے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں ۔ اس مضمون کی سخت ضروررت ہے اور یہ گویا آپ کا کام ہے ۔ شاہ سلیمان صاحب کی خدمت میں میرا یہی خط بھیج دیجیے اور بعد التماس دعا کیجیے کہ میرے لیے زحمت گوارا کریں اور مہربانی کر کے مطلوب قرآنی آیات کا پتہ دیویں ۔اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلہ وحدت الوجود یعنی تصوف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے اور کون کون سی آیات پیش کر سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے تعلق ہے کیا حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟ غرض اس امر کا جواب معقول اور منقول اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں ۔ میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استفسار ضروری ہے ۔ آپ اپنے کسی اور صوفی دوست سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں ۳ ‘‘ ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت تک علامہ صاحب وحدت الوجود اور تصوف کو مترادف ہی سمجھتے تھے جیسا کہ خط کے مضمون سے عیاں ہے۔ بعد میں کیا ہوا؟ علامہ مغربی فلسفہ کے زیر اثر اور کچھ رہبانیت کے مضر اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفہ حرکت و عمل اور اسرار خودی کے جواز میں تصوف کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انہیں دراصل اس بات کا افسوس تھا کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا اور شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت ، حکمت اور جمال کو مسخ کیاا ور رہی سہی کسر متکلمین نے نکال دی انہوں نے تو اسے عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دیا ؎ تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام بُتانِ عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھوگئی وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد محبت میں یکتا حمیت میں فرد عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے وہ مسخ شدہ تصوف اور صوفیائے خام کے خلاف تھے۔ وہ اس تصوف کے خلاف تھے جس کا خمیر عجمی خیالات و فلسفے کے آمیزش سے تیار کیا گیا تھا۔ اپنے ایک مقالے سر اسرار خودی میں علامہ رقمطراز ہیں: ’’عجمی تصوف (عجمی اس واسطے کہ اس کی تدوین کرنے والوں میں بیشتر عجمی تھے) جزو اسلام نہیں یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے جس سے اسلام کو قطعاً تعلق نہیں اور جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں سے قوت عمل مفقود ہو گئی ہے ۔ تصوف کا تو لفظ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ ۱۵۰ھ میں یہ لفظ پہلے پہل استعمال میں آیا اور رفتہ رفتہ تصوف کے عجمی حامیوں نے ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی نصب العین پیدا کر دیا جو آخر کار مسلمانوں کی بربادی کا باعث ہوا یا کم ازکم اور بواعث میں ایک باعث یہ بھی تھا ۴ ‘‘۔ انہوں نے تصوف یا وحدت الوجود کی جس تعبیر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی وہ غیر اسلامی یا ویدانتی تصوف تھا ۔ ۱۹؍جولائی ۱۹۱۴ء کو منشی سراج الدین کو لکھتے ہیں: ’’تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے جس نے ’’لمعات ‘‘ میں فصوص الحُکم کی تعلیمات کو نظم کیا ہے ۔ جہاں تک مجھے علم ہے ’’فصوص ‘‘ میں سوائے زندقہ اور الحاد کے اور کچھ نہیں، اس پر ان شاء اللہ میں مفصل لکھوں گا اور سب سے آخری شاعر حافظ ہے (اگر اُسے صوفی سمجھا جائے) ۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا ۔ جب قوم میں طاقت اور توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تھی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا وجہ تسکین ۔ اس ترکِ دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اُس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں چھپایا کرتی ہیں خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے ان کی ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا ۵ ‘‘ ۔ مولانا اسلم جیراج پوری کے نام ایک خط (۱۷؍ مئی ۱۹۱۹ئ) میں لکھتے ہیں: ’’ سرچشمۂ اسلام یعنی قرآن و حدیث تصوف کے لفظ تک سے نا آشنا ہیں ۔ یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔۔۔ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدا میں جو لوگ تارک الدنیا اور گوشہ گیر ہو کر عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے تھے ان کو عام لوگ صوفی کے لقب سے پکار نے لگے ۔ اس زمانے میں تصوف ’’اخلاص‘‘ کا نام تھا جس کو حدیث شریف میں ’’احسان ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وہ تصوف ہے جس کی مدح غزالی وغیرہ آئمہ اسلام نے لکھی ہے ۶ ‘‘۔ اپنے ایک مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف ‘‘ میں علامہ لکھتے ہیں : ’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصہ تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے ۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا ، مسئلہ وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں کیا ہے ۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے ۷ ‘‘۔ ایک زمانہ تھا جب اقبال بھی صوفیوں کے تصور وحدت الوجود سے متاثر تھے اور انسانی روح کے فراق زدہ ہونے پر اعتقادات رکھتے تھے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان کا یہ عقیدہ جاتا رہا اور خودی کی تنظیم میں مادیت کے مستقل وجود کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگ گئے تاہم بعد میں ان کے اشعار میں صوفیوں کے احساسِ جدائی کا تصور کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے ۸ ۔ ان کے ابتدائی دور کا یہ شعر دیکھیں جس میں وہ وحدت الوجود کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں ؎ کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا وحدت الوجود کے بارے میں انہوں نے معاصر علما اور خاص طور پر سید سلیمان ندویؒ سے متعدد استفسارات کیے ۔ سید صاحب کے جواب پر علامہ ایک حد تک مطمئن ہو گئے تھے یہی وجہ ہے کہ آخری ایّام میں وہ اسلامی تصوف اور وحدت الوجود کے قائل ہوگئے ۔ وحدت الوجود کے سلسلے کی وضاحت کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی علامہ صاحب کو لکھتے ہیں: ’’وحدت الوجود کے باب میں آپ نے کئی دفعہ پوچھا ۔ وحدت الوجود کی کئی تشریحات ہیں اور ان کے اختلافِ معنی کی بنا پر حکم بدل جاتا ہے۔ انہی میں ایک وہ ہے جس کو جاہل صوفیہ مانتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان فرق اعتباری رہ جائے بلکہ ہر مخلوق کو دعویٰ خالق ہو جائے یہ تمام تر کفر ہے اور اس کا مآخذ نو فلاطونیت معلوم ہوتی ہے اور ہندوئوں کا فلسفہ بھی اسی قبیل کا ہے۔ ہندوستان میں یہ مسئلہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ؒکی روایت کے مطابق آٹھویں صدی ہجری میں آیا ورنہ حضرات چشت کے کلام میں حضرت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی سنجریؒ سے لے کر حضرت سلطان الاولیاء نظام الدینؒ کے ملفوظات میں اس کا ذکر نہیں آیا۔ حضرت مجددالف ثانی ؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، مولانا اسماعیل شہید و غیرہ وحدت الوجود یا وحدت الشہود کی جو تشریح کرتے ہیں اس کا مقصد مسئلہ قیومیت کی تفصیل ہے۔ ’’انت قیوم السمٰوٰت والارض و من فیھن ‘‘حدیث صحیح میں وارد ہے اور اس کی تشریح بر مذاق وحدت الوجود یہ ہے کہ ساری مخلوقات اپنے وجود و بقا میں ہر آن اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں، جس طرح وہ اپنے خلق میں محتاج نہیں ۔۔۔’’ انتم الفقرا ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری حقیقت فقر محض ہے اور ’’اللہ ھوالغنی ‘‘ سے ظاہر ہے کہ وہی غنی ہے۔فقر کے دوسرے معنی عدم کے ہیں ۔ ہماری حقیقت عدم ہے ، جس میں وجود یا کسی صفت کی نیرنگی اسی ذاتِ غنی کی صفات کے ظلال ہیں۔ ظل (سایہ) کی حقیقت عدم ہی ہے ۔ عدم نور کا نام ظل ہے تاہم کسی ظل کا وجود اصل کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے ظل کا وجود اپنی ذات میں ہم معنی عدم ہے لیکن اصل کے پرتو سے وجود کا ایک وہمی نقش پالیتا ہے ۔ یہ ان حضرات کا وحدت الوجود ہے ۔ گو کہ ہمارے نزدیک حضرت مجدد صاحب کا یہ مسلک ، اخیر مسلک نہیں۔ اخیر مسلک وہی وحدت تنزیہ ہے جس پر شرع وارد ہے ۔ ہمارے حضرات کے یہاں وحدت الوجود کا تصور ایک حالی کیفیت ہے جِس کی نظر میں اللہ تعالیٰ محبت و عظمت و جلالت یوں چھا جائے کہ ساری مخلوقات اس کی نگاہوں سے چھپ جائے جیسے آفتاب کے طلوع سے سارے ستارے چھپ جاتے ہیں مگر معدوم نہیں ہوتے جیسے مجنوں کا یہ قول تمثل بی لیلیٰ بکل سبیل ۔ جس وحدت الوجود کو ہم نے فلاسفۂ افلاطونی خیال کیا ہے یا ہندوئوں سے ماخوذ بھی بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ذات الٰہی ہی پھیل کر عالم بن گئی ہے جیسے انڈا پھٹ کر چوزہ بن جاتا ہے ۹ ‘‘۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے مطابق اگر وحدت الوجود کا مفہوم یہ قرار دیا جائے کہ (الف) ۔خدا کے علاوہ انسان بھی موجود ہے لیکن اس کا وجود ظلی ہے ، اصلی نہیں ، قائم بالذات نہیں (ب) ۔انسان کا مقصودِ حیات یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو برقرار رکھے لیکن اپنے اندر خدائی صفات کا رنگ پیدا کرے ( جس طرح لوہا اپنے اندر آگ کے خواص پیدا کر لیتا ہے) (ج) ۔خدا اور انسان میں بلحاظِ ذات ، مغائرت پائی جاتی ہے یعنی بندہ لاکھ ترقی کرے مگر خدا نہیں بن سکتا ۔ خدا ، خدا ہے اور بندہ ، بندہ ہے ۔ تو اقبال اس وحدت الوجود کے قائل ہیں اور ان کا سارا کلام پیام مشرق سے کر ارمغانِ حجاز تک اس پر شاہد و عادل ہے ۱۰ ۔ وہ کسی نہ کسی رنگ میں وجودی بہرحال تھے ۔ ملاحظہ ہوں حسب ذیل اشعار ؎ صیاد آپ، حلقۂ دام ستم بھی آپ بام حرم بھی، طائر بام حرم بھی آپ حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ گئے ۔ وہاں انہوں نے ایرانی فلسفہ اور تصوف کا مطالعہ کیا۔ ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا پر مقالہ لکھا ۔ اس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قرآن حکیم میں بعض آیات ایسی ہیںجن سے وحدت الوجود کا عقیدہ مستنبط ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس عقیدہ کی کون سی تعبیر لائق قبول ہے ۔ ہمہ اوست یا ہمہ از اوست ۔ علامہ لکھتے ہیں: ’’ میرے خیال میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ میں صوفیانہ نظریہ کی طرف اشارات موجود ہیںلیکن وہ عربوں کی خالص عملی ذہانت کی وجہ سے نشو و نما پاکر بارآور نہ ہو سکے، جب ان کو غیر ممالک میں موزوں حالات میسر آگئے تو وہ ایک جداگانہ نظریہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ۔ قرآن نے ایک مسلم کی حسب ذیل تعریف کی ہے، وَ فیِ الاَرضِ اٰیَات’‘ لِلمُؤقِیننَ۰وَ فیِ اَنْفُسِکُم اَفَلاَ تُبْصِرُونَ ۰ (سورۃ الزاریات ۲۰،۲۱) ۔ اور پھر کہا ہے وَ نَحنُ اَقْرَبَ الَیہِ مِن حَبْل الوَریْد۰(سورہ ق ۔۱۵) اسی طرح قرآن کی تعلیم ہے کہ اس ’’غیب ‘‘ کی اصلی ماہئیت خالص نور ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرضِ (سورہ طور ۔ ۳۵) اس سوال کے متعلق کہ آیا نور اولیٰ شخصی ہے ۔ قرآن نے شخصیت کے تصور کو مختلف عبارتوں میں پیش کرنے کے باوجود مختصر الفاظ میں یہ جواب دیا ہے کہ لَیْسَ کَمِثٰلہٖ شیٔ’‘ (سورہ شوریٰ :۹ ) یہ چند خاص آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے ۱۱ ‘‘۔ اس زمانے میں جو نظمیں انہوں نے لکھیں ان میں بھی وحدت الوجود کا رنگ موجود ہے مثلاً تارے میں وہ ، قمر میں وہ جلوہ گرِ سحر میں وہ چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۱۳ء تک انہوں نے اس مسئلہ پر غور کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ عجمی تصوف یا وحدت الوجود کی غیر اسلامی تعبیر نے مسلمانوں میں رہبانیت کا رنگ پیدا کر دیا جس کی وجہ سے ان کی قوتِ عمل مردہ ہو گئی چنانچہ انہوں نے اسرار خودی میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۲۲ء تک انہوں نے جس قدر نظمیں لکھیں (اور وہ سب کی سب بانگ درا میں موجود ہیں) کسی میں بھی وحدت الوجود کا رنگ نہیں۔ علامہ کے تصوف اور وحدت الوجود کے موافق یا مخالف ہونے کی بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں وحدت الوجود اور بالخصوص حافظ شیرازی کے نظریۂ حیات پر سخت تنقید کی تھی۔ حافظ کو تو صوفیہ میں شمار کیا جاتا تھا اور انہیں لسان الغیب کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ اسرار خودی کے دیباچہ میں علامہ نے شنکر اور شیخ الاکبر کونہ صرف ہم خیال گردانا بلکہ وحدت الوجود کو عالم اسلام کے لیے ذوق عمل سے محرومی کی وجہ قرار دیا ۔ لکھتے ہیں: ’’مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اوروہ یہ کہ جس نکتۂ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی اُسی نکتۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے ۔ شیخ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ ان تھک مفسر تھے اسلامی تخئیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا ۔ اوحد الدین کرمانی اور فخر الدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودہویں صدی کے تمام عجمی شعرا اس رنگ میں رنگین ہو گئے ۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے ۔ انہوں نے جزو اور کل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخئیل کی مدد سے طے کر کے’’ رگِ چراغ‘‘ میںخونِ آفتاب کا اور شرار سنگ میں جلوئہ طور کا بلا واسطہ مشاہدہ کیا ۔ مختصر یہ کہ ہندو حکما نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلے کی تفسیر میں زیادہ خطر ناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا ۱۲ ‘‘ ۔ علامہ نے حافظ کے خلاف ۳۵ اشعار لکھے تھے ۔ مندرجہ ذیل پانچ اشعار کے اسلوب اور لہجہ سے وہ تندی اور تلخی عیاں ہو جاتی ہے جو باعث نزع ہوئی ۔ ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار آں فقیہہ ملت مے خوارگاں آں امام امت بے چارگاں بگذر از جامش کہ درمینائے خویش چوں مریدانِ حسن دارد حشیش محفل او در خود ابرار نیست ساغر او قابل احرار نیست بے نیاز از محفل حافظ گزر ! الحذر از گو سفنداں ، الحذر ! اسرار خودی شائع کیا ہوئی کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ اقبال کی تصوف اور حافظ دشمنی پر ہر طرف سے تنقیدہونے لگی ۔ علامہ کی مخالفت کرنے والوں میں خواجہ حسن نظامی اور پیر زادہ مظفر احمد پیش پیش تھے ۔ خواجہ صاحب نے اپنے ہفتہ وار رسالیخطیب میں اس مثنوی کی مخالفت میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور پیرزادہ صاحب نے تردید میں ایک مثنوی راز بے خودی شائع کی ۔خواجہ حسن نظامی نے اکبر الہ آبادی کو بھی اپناہمنوا بنا لیا ۔ اکبرالہ آبادی نے مولانا عبدالماجد دریابادی کو لکھے گئے خطوط میں کئی جگہ علامہ پر تعریض کی۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں: ’’حضرت اقبال ، معلوم نہیں کیوں تصوف کے پیچھے پڑے ہیں‘‘ (۶؍اگست ۱۹۱۷ئ) اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے ، کہتے ہیں کہ عجمی فلاسفہ نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے ، خلافِ اسلام ہے (یکم ستمبر ۱۹۱۷ئ) اقبال صاحب نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ برُا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں ۔ ان کی مثنوی اسرار خودی آپ نے دیکھی ہو گی ۔ اب رموز بے خودی شائع ہوئی ہے۔میں نے نہیں دیکھی ۔ دل نہیں چاہا (۱۱؍جون ۱۹۱۸ئ) ۱۱؍جنوری ۱۹۱۹ء کو خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں : ’’حضرت اقبال نے میرے نزدیک تمہید (دیباچہ اسرار خودی) میں احتیاط نہیں کی اور ایک بڑا مجموعہ دلوں کا مایوس و مغموم ہوگا لیکن اب وہ سنبھل کر مسئلہ وحدت الوجود اور مسئلہ رہبانیت پر گفتگو کریں گے ‘‘ اسی زمانے کے اکبرکے یہ اشعار بھی مشہور ہوئے ؎ حضرت اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی ان میں، اُن میں بانکپن جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آئو گتھ جائیں خدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلف ہی سہی ہاتھا پائی کو تصوف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص۱۳ علامہ نے اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لیے اکبر الہ آبادی ، خواجہ حسن نظامی اور دیگر مشاہیر کو خطوط لکھے ۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’۲۰؍جنوری ۱۹۱۸ء ۔۔۔۔ میں نے دو سال کا عرصہ ہوا تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیاتھا اور وہ اختلاف ایک عرصہ سے صوفیائے اسلام میں چلا آتا ہے۔ کوئی نئی بات نہ تھی مگر افسوس ہے کہ بعض نا واقف لوگوں نے میرے مضامین کو (جو مثنوی میں لکھے ہیں) تصوف دشمنی پر محمول کیا ۔ میں نے اپنی پوزیشن محض اس لیے واضح کی ہے کہ خواجہ صاحب (خواجہ حسن نظامی) نے مثنوی پر اعتراض کئے تھے ۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا، اس ملک کے لوگوں کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہو گا اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۱۴ ‘‘ ۔ اکبر الٰہ آبادی کو لکھتے ہیں: ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء ۔۔۔ مخدومی ! السلام علیکم ، کل اور آج دو اور خط آپ کے موصول ہوئے ۔ میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے میکشی بڑھ گئی ۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے۔ اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیاوہ ایک لڑیری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر (مقبول ) ہے ۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا لیکن اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولائت سے اس تنقید میںکوئی سروکار نہیں تھا، نہ ان کی شخصیت سے نہ ان کے اشعار میں۔ مئے سے مراد وہ مئے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس سے وہ حالتِ سُکر مراد ہے جو حافظ کے کلام سے پیدا ہوتی ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوںکہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابلِ اعتراض ہے ، میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ مجھ سے پہلے حضرت علائوالدولہ سنجانی یہی بات لکھ چکے ہیں ۔ حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں ۔ میں نے تو شیخ محی الدین ابن عربی اور منصور حلاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سنجانی اور جنید نے ان بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں، ہاں میں نے ان کے عقائد اور خیالات سے بیزاری ضرور ظاہر کی ہے۔ معاف کیجیے ، مجھے تو آپ کے خطوط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کے وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے،باقی اشعار پر نظر نہیں فرمائی ۔ کاش آپ کو ان کو پڑھنے کی فرصت مل جاتی تاکہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے ۔ عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن تو پیدا ہوتا ہے لیکن ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ، اس کے برعکس اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے ۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر تمام مالک اسلامیہ میں قابلِ اصلاح ہے۔ قنوطی لٹریچر کبھی دنیا میں زندہ نہیںر ہ سکا ، قوم کی زندگی کے لیے اس کا اور اس کے لٹریچر کا رجائی ہونا ضروری ہے۱۵‘‘۔ علامہ نے خواجہ حسن نظامی کو بھی تصوف ، حافظ شیرازی ، وحدت الوجود اور شیخ الاکبر کے بارے میں اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے متعدد خطوط لکھے ۔ ان میں سے ایک خط (۳۰؍ستمبر ۱۹۱۵ئ) تو تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں گویا انہوں نے حقائق و معارف کے دریا بہا دیئے ، لکھتے ہیں : مخدومی خواجہ صاحب ! السلام علیکم آپ کا والا نامہ ملا۔ آپ کی علالت کا حال معلوم کرکے تردد ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ صحتِ عاجل عطا فرمائے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے عشق ہے، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ایک اسلامی حقیقت معلوم ہو جائے اور آپ اس سے انکار کریں ؟ بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ بالآخر آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے ۔ میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے۔ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ کیونکہ یورپین فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے مگر قرآن میں تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا اور اس مقصد کے لیے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔ رہبانیت اور اسلام پر مضمون ضرور لکھوں گا لیکن آپ کے مضمون کے بعد ۔ رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میںپیدا ہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثر کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام در حقیقت اسی رہبانیت کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ تصوف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا اور اس جگہ تصوف سے میری یہ مراد ایرانی تصوف ہے اس نے ہر قوم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا ہے اور ہر رہبی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ قرامطی تحریک کا مقصد بھی بالآخر قیود شرعیہ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا اور بعض صوفیا کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے کہ وہ اس تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تک جو اعتراضات آپ کی طرف سے ہوئے ہیں وہ مثنوی کے دیباچے پر ہوئے ہیں نہ کہ خود مثنوی پر ۔ اس لیے جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ مثنوی پر آپ کے کیا اعتراضات ہیں اس وقت تک میں کیوں کر قلم اٹھا سکتا ہوں ؟ اب تک مثنوی پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حافظ شیرازی کی بے حرمتی کی گئی ہے ۔ لیکن جب تک اصولی بحث نہ ہو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ میں حافظ پر تنقید کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے مکتوبات میں ایک جگہ یہ بحث کی ہے کہ گسستن اچھا ہے یا پیوستن ؟ یعنی فراق اچھا ہے یا وصال ؟ میرے نزدیک گسستن ، عین اسلام ہے اور پیوستن رہبانیت یا ایرانی (غیر اسلامی) تصوف ہے اور میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں ۔ گزشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا جب آپ نے مجھے ’’ سرِّ الوصال‘‘ کا لقب دیا تھا تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’سرِّ الفراق‘‘کہا جائے ۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر میں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہوگا کہ شانِ عبدیت انتہائی کمال ، روح انسانی کا اس سے آگے کوئی مرتبہ نہیں ہے یا ابن عربی ؒ کے الفاظ میں ’’عدم محض‘‘ ہے یا بالفاظِ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ حالتِ سُکر ، منشائے اسلام اور قوانین حیات دونوں کے خلاف ہے اور حالتِ صحو جس کا دوسرا نام اسلام ہے قوانینِ حیات کے عین مطابق ہے اور خود آنحضرت ﷺکا منشا بھی یہی تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جن کی حالت کیفیتِ صحو ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے صحابہ میں ہمیں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ تو ملتے ہیں لیکن حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ مضمون بہت طویل ہے اس مختصر خط میں نہیں سما سکتا ۔ ان شاء اللہ اس پر مفصل بحث کروں گا، جب حالات مساعدت کریں گے مگر شیخ ابن عربی کے ذکر سے ایک بات یاد آ گئی جس کو اس لیے بیان کرتا ہوں کہ آپ کو غلط فہمی نہ رہے ۔ میں شیخ کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور اُن کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سے سمجھتا ہوں۔ مجھے اُن کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیوں کہ جو عقائد ان کے ہیں (مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) ان کو انہوں نے فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرآن حکیم سے مستنبط کیا ہے پس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط ، قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انہوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا منقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط ؟ میرے نزدیک ان کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر صحیح نہیں ہے اس لیے گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتا ہوں مگر ان کے عقائد کا پیرو نہیں ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ صوفیا کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں ہیں ۔ مقدم الذکر کا مفہوم مذہبی ہے اور مؤخرالذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ توحید کی ضد کثرت نہیں ہے جیسا کہ بعض صوفیا سمجھتے ہیں بلکہ شرک ہے۔ ہاں وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانہ حال کے فلسفہ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا وہ موحد تصور کیے گئے ، حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلہ کا تعلق مذہب سے بالکل نہ تھا بلکہ نظام عالم کی حقیقت سے تھا (یعنی یہ کہ اس کائنات کا وجود حقیقی نہیں ہے)۔ اسلام کی تعلیم نہائت صاف ، واضح اور روشن ہے یعنی یہ کہ عبادت کے لائق صرف ایک ذات ہے باقی جو کچھ ، کثرت ، عالم میں نظر آتی ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے، گو علمی اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کی حقیقت ایک ہی کیوں نہ ہو ۔ چونکہ صوفیا نے فلسفہ اور مذہب کے دو مختلف مسائل(وحدت الوجود اور توحید) کو ایک ہی سمجھ لیا ہے اس لیے ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ توحید کو ثابت کرنے کا کوئی اور طریق ہونا چاہیے جو عقل اور ادراک کے قوانین سے تعلق نہ رکھتا ہو، اس غرض کے لیے حالت سُکر ممدو معاون ہوتی ہے ، اور یہ ہے اصل، مسئلہ حال و مقامات کی ۔ مجھے حالت سُکر کی واقفیت سے انکار نہیں۔ انکار صرف اس بات سے ہے کہ جس غرض کے لیے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے وہ غرض اس سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ صاحبِ حال کو ایک علمی مسئلہ کی تصدیق ہو جاتی ہے نہ کہ مذہبی مسئلہ کی (یعنی حالتِ سُکر یا جذب و مستی میںسالک کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ واقعی کائنات میں اللہ کے سوا اور کسی کا وجود نہیں ہے) صوفیا نے وحدت الوجود کی کیفیت کو محض ایک مقام لکھا ہے اور شیخ اکبر کے نزدیک یہ انتہائی مقام ہے اور اس کے آگے ’’عدم محض ‘‘ ہے لیکن یہ سوال کسی صوفی کے دل میں پیدا نہیں ہوا کہ آیا یہ مقام کسی حقیقت نفس الامری کو بھی واضح کرتا ہے یا نہیں؟ اگر کثرت حقیقت نفس الامری ہے تو یہ کیفیت وحدت الوجود جو سالک پر طاری ہوتی ہے محض دھوکہ ہے اور مذہبی یا فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے نیز اگر یہ کیفیت وحدت الوجود محض ایک مقام ہے اور کسی حقیقت نفس الامری کا اس سے انکشاف نہیں ہوتا تو پھر اس کو معقولی طور پر ثابت کرنا بھی بے سود ہے جیسا کہ ابن عربی اور ان کے متبعین نے کیا ہے اور نہ اس کے مقام ہونے کی بنا پر ہمیں روحانی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یا اس کی رو سے وجود فی الخارج(کائنات) کی ذات باری کے ساتھ اتحاد یا عینیت کی نسبت نہیں ہے بلکہ مخلوقیت کی نسبت ہے(یعنی خدا خالق ہے اور کائنات مخلوق ہے اور خالق اور مخلوق کے مابین مغائرت ہوتی ہے) اگر قرآن کی تعلیم یہ ہوتی کہ ذات باری تعالیٰ کثرت نظام عالم میں دائرو سائر ہے تو کیفیت وحدت الوجود کو قلب پر وارد کرنا مذہبی زندگی کے لیے نہایت مفید ہوتا بلکہ یہ کیفیت مذہبی زندگی کی آخری منزل ہوتی ۔ مگر میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن کی تعلیم نہیں ہے (یعنی قرآن کی رو سے خالق اور مخلوق یا عابد اور معبود میں مغائرتِ کلی ثابت ہوتی ہے) ا س کا نتیجہ ظاہر ہے کہ میرے نزدیک یہ کیفیت قلبی ، مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور علم الحیات کی رو سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس کیفیت کا ورود ملّی اعتبار سے بہت مضر ہے مگر علم الحیات کی رو سے اس پر بحث کرنا بہت فرصت چاہتا ہے ۔ فی الحال اس خط کو ختم کرتا ہوں اور اس طویل سمع خراشی کی معافی چاہتا ہوں ۱۶‘‘۔ اگرچہ علامہ نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن خواجہ صاحب کا دل ان کی طرف سے صاف نہ ہوا ۔ ان کو یہ اندیشہ تھا کہ علامہ خدا نخواستہ تصوف کو مٹانا چاہتے ہیں۔ حافظ کے متعلق اپنے ایک وضاحتی مضمون میں علامہ رقمطراز ہیں: ’’میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ خواجہ شیراز محض ایک شاعر ہیں اور ان کے کلام سے جو صوفیانہ حقائق اخذ کیے گئے ہیں وہ بعد کے لوگوں کا کام ہے مگر چونکہ عام طور پر ان کو صوفی اور مجذوبِ کامل سمجھا گیا ہے اس واسطے میں نے ان کی تنقید ہر دو اعتبار سے کی ہے یعنی بحیثیت صوفی اور بحیثیت شاعر ۔ بحیثیت صوفی ہونے کے ان کا نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں اور دوسروں میں(بذریعہ اپنے اشعار کے) وہ حالت و کشف پیدا کریں جس کو تصوف کی اصطلاح میں حالتِ سُکر کہتے ہیں ۔ ان کے صوفی شارحین نے صہبا و شراب وغیرہ سے یہی مراد لی ہے ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا سُکر کی حالت اسلامی تعلیم کا منشا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی زندگی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ایک مسلمان قلب کی مستقل کیفیت بیداری ہے نہ خواب یا سُکر ۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تو کوئی مجذوب نظر نہیں آتا بلکہ ابتدائی اسلامی لٹریچر میں مجذوب کی اصطلاح بھی مثل دیگر اصطلاحات صوفیہ کے نہیں ملتی ۱۷ ‘‘۔ اس سلسلے میں جہاں علامہ کی مخالفت ہوئی وہاں ان کی حمائت میں بھی بعض دانشوروں نے قلم اُٹھایا اور مولانااسلم جیراج پوری ان میں سے ایک تھے ۔ ان کا اس قضیہ کے متعلق ایک مضمون فروری ۱۹۱۹ء میںالناظر لکھنؤ میں شائع ہوا ۔ حضرت علامہ نے جب اس تبصرہ کا مطالعہ کیا تو انہیں بہت مسرت ہوئی کہ کم از کم کوئی دانشور تو ایسا ہے جس نے مثنوی کے اصل مقاصد کو سمجھا ہے چنانچہ انہوں نے مولانا کی خدمت میں ایک خط (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ئ) لکھا جس کے مندرجات کچھ اس طرح کے تھے: مخدومی ! السلام علیکم آپ کا تبصرہ اسرار خودی پر الناظر میں دیکھا ہے جس کے لیے میں آپ کا نہائت شکر گزار ہوں ؎ دید مت مر دے دریں قحط الرجال خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لڑیری اصول کی توضیح اور تشریح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کی معتقدات سے کوئی سرو کار نہ تھا مگر عوام اس باریک فرق کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لڑیری اصول یہ ہو کہ حُسن ، حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں یا مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اس لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کی طرف اشارہ کرنے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی مثلاً گرفتم آنکہ بہشتم و ہند بے طاعت قبول کر دنِ صدقہ نہ شرطِ انصاف است لیکن اس مقابلہ سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی ۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا جو وقتاً فوقتاًشائع ہوتی رہتی ہیں ۔ کیمرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنوا ہیں کہ دیباچہ کو دوسرے ایڈیشن سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا ۔ انہوں نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا ہے شاید انگریزی ایڈیشن کے ساتھ شائع کر دیں۔ پیرزادہ مظفر الدین احمد صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا ۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد لی جائے اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور ذات باری تعالیٰ کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے تصوف کی تاریخ لکھنی شروع کی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو بات لکھ کر رہ گیا ۔ پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا ۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی فہرست میں ہے فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ حسین منصور کے اصلی معتقدات پر اس رسالہ سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے مسلمان اس کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے ۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل و النحل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے اس کی اس رسالہ سے پوری تائید ہوتی ہے ۔لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب منصور سے بیزار تھے معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے ۔ مذہب آفتاب پرستی کے متعلق جو تحقیقات موجودہ زمانہ میں ہو رہی ہیں اس سے امید ہوتی ہے کہ عجمی تصوف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کو معلوم ہو جائے گی ۔ مجھے امید ہے کہ طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرما ئیں گے ۔ آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۱۸ ‘‘ روز گار فقیر کی جلد دوم میں لکھا ہے کہ : ’’ علامہ کی مثنوی اسرار خودی کے خلاف جب یہ ہنگام گرم تھا، انہی دنوں علامہ سیالکوٹ تشریف لائے اور باپ بیٹے جب یکجا بیٹھے تو مثنوی پر حلقۂ صوفیہ کی برہمی کا ذکر آیا ۔ علامہ نے فرمایا کہ میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا ۔ میں نے صرف ایک اصول کی تشریح کی ہے ۔ اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ہیں کہ وہ زہر کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔ علامہ کے والد بزرگوار نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی ۔ انہوں نے اس پر فرمایا کہ اگر حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اصول کی تشریح کر دی جاتی تو اچھا تھا ۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’یہ حافظ پرستی بھی تو بت پرستی سے کم نہیں ‘‘ اس پر ان کے والد نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو بتوں کو بھی بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدت مندانِ حافظ کو اعتراض ہے آئندہ ایڈیشن میں ان کا حذف کر دینا ہی مناسب ہوگا۔ علامہ نے اس پر زبان سے کچھ نہیں کہا بس مسکرا کر رہ گئے اور اپنے والدِ محترم سے بحث کرنے کی بجائے ان کے حضور سر تسلیم خم کر دیا۱۹ ‘‘۔ اب یہاں وہ مرحلہ آتا ہے کہ علامہ پھر سے تصوف اور وحدت الوجود کی طرف مراجعت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولانا شاہ سلیمان پھلواروی کو اپنے ایک مکتوب (۹؍مارچ ۱۹۱۶ئ) میں لکھتے ہیں: ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔میں نے تصوف کا لٹریچر کرآت سے دیکھا ہے ۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہی غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے ہی مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور یہ حملہ انہوں نے حقیقت میں اسلام پر کیا ہے ۔ ان حالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوفِ اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیر اسلامی عناصر سے تقطیع ہو جائے ۔ سلاسلِ تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانہِ حال کا علم النفس جو مسئلہ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے اس کا پیشتر ہی سے علاج ہونا ضروری ہے ۲۰‘‘ ۔ اسی طرح سید نذیر نیازی کو ایک خط (۴؍جون ۱۹۲۹ئ) میں لکھتے ہیں: ’’تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، کرنے کی چیز ہے کتابوں کے مطالعہ اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے کسی کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ نہ کتابوں کے مصنف کو نہ اس کے پڑھنے والوں کو ۲۱‘‘۔ علامہ اپنے ساتویں خطبے میں وحدت الوجود کی طرف واضح تر الفاظ میں رجوع کرتے ہوئے دکِھائی دیتے ہیں: ’’اجمالاً پوچھئے تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو جاتی ہے اس میں پہلا دور عقیدہ (Faith) کا ہے دوسرا فکر (Thought) کا اور تیسرا ، کشف یا عرفان (Discovery) کا ۔۔۔ اس تیسرے دور میں انسان میں اس کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ حقیقتِ مطلقہ سے براہ راست اتحاد و اتصال پیدا کرے۲۲‘‘۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں : ’’ یہ صرف وجود حقیقی ہے جس سے اتصال میں خودی کو اپنی یکتائی اور مابعد الطبیعی مرتبہ و مقام کا عرفان ہوتا ہے ۲۳ ‘‘۔ اقبال اور شیخ اکبر : علامہ اقبال اور شیخ الاکبر کا معاملہ بھی عجیب رہا ہے ۔ بعض مسائل میں علامہ کا شیخ سے فکری اختلاف ضرور رہا لیکن جہاں تک ان کی عظمت و محبت کا تعلق ہے علامہ نے اس کا اعتراف اپنے متعدد خطوط اور تحریروں میں کیا ہے ۔ اپنے ایک مقالہ’’ عبدالکریم جیلی کا تصور توحید مطلق ‘‘ مطبوعہ انڈین اینٹی کیوری بمبئی شمارہ ستمبر ۱۹۰۰ء کے حاشیہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’شیخ محی الدین ابن عربی امت محمدی کے عظیم ترین صوفیاء میں سے تھے ۔ حیرت ناک حد تک کثیر التصانیف تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور سمندر پار ایک اور دنیا ہے۲۴ ‘‘۔ اسی طرح فلسفہ عجم میںایک جگہ لکھا ہے : ’’ تصوف کا وہ طالب علم جسے اصول توحید کی ایک جامع تفسیر و تعبیر کی تلاش ہو اُسے چاہیے کہ اندلس کے ابن العربی کی ضخیم کتابوں سے رجوع کرے جس کی عمیق تعلیمات اس کے ہم وطنوں کے روکھے پھیکے اسلام سے عجب تضاد رکھتی ہیں۲۵ ‘‘۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ میں علامہ لکھتے ہیں : ’’سپین کے ایک عظیم مسلمان صوفی فلسفی ، محی الدین ابن عربی نے ایک بڑی نازک بات کہی ہے کہ خدا تو احساس ہے اور دنیا ایک تصور ہے ۲۶ ‘‘۔ شاہ سلیمان پھلواروی کو اپنے ایک خط (۲۴؍ فروری ۱۹۱۶ئ) میں شیخ سے اپنی محبت و اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒکی نسبت کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کوفتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی ، برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا ۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا ، بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی ۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں تک میرا یہی خیال رہا ہے کہ میں غلطی پر ہوں ، گو اب میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں اس واسطے بذریعہ عریضہ ہذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ از راہ عنائت و مکرمت چند اشارات تسطیر فرما دیں ۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم ورائے میں مناسب ترمیم کرلوں گا ۲۷ ‘‘۔ علامہ نے اپنے ایک خط (۸؍اگست ۱۹۳۳ئ) میں مولانا سید سلیمان ندوی سے شیخ اکبر کی تعلیم حقیقت زمان کے متعلق دریافت کرنے اور اس سلسلے میں ان کی رہنمائی کے طلب گار ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دراصل علامہ ، شیخ اکبر اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے انگلستان میں لیکچر دینے کے خواہش مند تھے ۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۳۲ء میں حضرت مجدد الف ثانی پر ایک لیکچر دے چکے تھے جو ان کے بقول بہت سراہا گیا تھا ۔ علامہ لکھتے ہیں: ’’مخدومی! السلام علیکم چند ضروری امور دریافت طلب ہیں جن کے لیے زحمت دے رہا ہوں ، از راہ عنائت معاف فرمائیے ۔ ۱ ۔ حضرت محی الدین ابن عربی کے فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقت زمان کی بحث کس کس جگہ ہے؟ حوالے مطلوب ہیں ۔ ۲ ۔ حضراتِ صوفیہ میں اگر کسی اور بزرگ نے بھی اِس مضمون پر بحث کی ہو تو اس کے حوالے سے بھی آگاہ فرمائیے ۔ ۳ ۔ متکلمین کے نقطۂ خیال سے حقیقت زمان یا آن سیّال پر مختصر اور مدلل بحث کون سی کتاب میں ملے گی ؟ امام رازی کی مباحث مشرقیہ میں آج کل دیکھ رہا ہوں ۔ ۴ ۔ ہندوستان میں بڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں اور مُلا محمود جونپوری کو چھوڑ کر کیا اور فلاسفہ بھی ہندوستانی مسلمانوں میں پیدا ہوئے؟ ان کے اسماء سے مطلع فرمائیے اگر ممکن ہو تو ان کی بڑی بڑی تصنیفات سے بھی ۔ امید ہے کہ مزاج بخیر و عافیت ہوگا ۔ والسلام مخلص محمد اقبال ۲۸ اسی قسم کے مضمون کا ایک خط (مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۳۳ئ) علامہ نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو بھی لکھا۔ پیر صاحب اس وقت عالم استغراق میں تھے اس لیے جواب نہ دے سکے ۔ علامہ کے ساتھ بھی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ شیخ اکبر پر لیکچر دینے کی خواہش دل میں لیے واصل بحق ہوئے ۔ وفات تک علامہ ، شیخ اکبر کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف رہے۔پیر صاحب کو لکھتے ہیں : ’’مخدوم و محترم حضرت قبلہ ! السلام علیکم ۔ اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے ، تاہم اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا ۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہو گی بہرحال جناب کی وسعت اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھر میںکوئی اور دروازہ نہیں جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے ۔ میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر اُدھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں ۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہو گا اگر سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے۔ ۱ ۔ اول یہ کہ حضرت شیخ اکبرؒ نے تعلیم حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور آئمہ متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے ؟ ۲ ۔ یہ تعلیم شیخ اکبرؒ کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ؟ اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کا مطالعہ کر سکوں ۔ ۳ ۔ حضرات صوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھاا اس کا نام تھا درائیۃ الزمّان ۔جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس لیے مزید روشنی کی ضرورت ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جناب نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک فرما دیا ہے اس لیے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا، لیکن مقصود چونکہ خدمت اسلام ہے ، مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب معاف فرمائیں گے ۔ باقی التماسِ دعا ہے ۲۹‘‘ ۔ ڈاکٹر الف، د، نسیم ، علامہ کے وحدت الوجود اور شیخ اکبر سے گریز و کشش کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اقبال اپنے بچپن ، لڑکپن اور ابتدائے شباب میں تصوف اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ فلسفہ عجم و یورپ کے مستشرقین اور مغرب زدہ مصنفین کی تحریروں سے تصوف اسلامی اور عجمی تصوف میں مشابہت اور یگانگت کے مغالطے کی بنا پر وہ اسلامی تصوف اور وحدت الوجود کے خلاف ہو گئے ۔ جب ان کا واسطہ چند صحیح الخیال ہم عصر بزرگوںکے اعتراضات سے پڑا تو احساس ہوا کہ کہیں میری ہی غلط فہمی نہ ہو ۔ ان سے خط و کتابت کے ذریعے حقیقت سے آگاہ ہونے کی خلوصِ دل سے سعی کی ۔ اس خط و کتابت سے قاری کو دو چیزوں کا علم ہوتا ہے ایک تو یہ کہ علامہ اقبال کو تصوف و وجود کی مخالفت کے زمانے میں اسلامی تصوف ثقہ صوفیہ اور ان کے خیالات و افکار خصوصاً ابن عربی اور ان کے متبعین کے خیالات اور مذہب کے بعض رخوں سے مکمل اور صحیح واقفیت نہ تھی ۔ اقبال میں رفتہ رفتہ تصوف اور وجود کے صحیح رخ سے تعارف اور اس کے سمجھنے کے لیے ایسا اضطراب پیدا ہو چکا تھا جس نے انہیں وہ اقبال بنا دیا جو تصوف اور وجود کا شیدائی تھا ۳۰ ‘‘۔ علامہ شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود سے کسی حد تک ضرور متاثر تھے اور کہیں کہیں ان کے خوشہ چین بھی۔ محمد شریف بقا، اقبال اور تصوف میں لکھتے ہیں : ’’ علامہ موصوف کا نظریہ وحدت الوجود کافی حد تک مولانا روم کی طرح ابن عربی سے متاثر نظر آتا ہے اگرچہ بعد میں انہوں نے وحدت الشہود کے تصور کو اپنا لیا تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ پوری طرح وحدت الوجود کے تصور سے چھٹکارا نہ پا سکے ضرب کلیم کی ایک نظم ’’تقدیر ‘‘ میں زیادہ تر محی الدین ابن عربی کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالی ہے ۔ یہ ابن عربی سے ماخوذ ہے ۳۱ ‘‘ علامہ کے نزدیک وحدت الوجود کی منزل وحدت الشہود سے پہلے کی ہے جیسا کہ حضرت مجدد کا خیال ہے شہودی منزل گویا انتہا ہے ۔ حضرتِ علامہ کا جھکائو مؤخرالذکر نظریہ کی طرف رہا اس لیے وہ اپنے روحانی مرشد مولانا رومی سے جو خود بہت بڑے وجودی تھے، سے اسی مقام سے الگ ہوتے دکھائی دیتے ہیں: ’’رومی اور اقبال صرف ایک منزل پر الگ ہو جاتے ہیں اور وہ تصوف کی منزل ہے۔ رومی وحدت الوجود کا قائل ہے اور اقبال وحدت الشہود کا۔ اقبال خودی کی انفرادیت کو کسی منزل میں بھی کھونا نہیں چاہتا ۳۲ ‘‘ ۔ علامہ کو رومی کے ہاں عشق کا اور ابن عربی کے ہاں انسانی عظمت کا تصور پسند ہے۔ انسانِ کامل کے تصور کے حوالے سے انہوں نے ابن عربی سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔ واجد رضوی رقمطراز ہیں : ’’شیخ محی الدین ابن العربی کا انسان کامل بجائے خود ایک عالم ہے کیونکہ وہ خدا کی تمام صفات اورکمالات کا مظہر ہے ۔ وہ حقیقت کی ایک مختصر تصویر ہے ۔ خدا سے مکمل اتحاد و یگانگت کے باعث اُسے یہ مقام نصیب ہوتا ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانِ کامل کا کمال کیا ہے۔ وہ اپنے علم میں کامل ہوتا ہے یا اپنے وجود میںیا ان دونوں میں کمال حاصل کرتا ہے یا خدا کا کامل مظہر ہونے کی وجہ سے کامل ہے یا محض اپنی عارفانہ کیفیت میں وہ خدا سے یگانگت محسوس کرتا ہے؟ ابن عربی ان صورتوں کو مخلوط کر دیتے ہیں۔ اپنی کامل حیثیت میں انسان خدا کا ایک عکس ہے۔ وہ ایک آئنہ ہے جو خدا کی تمام صفات کو منعکس کرتا ہے ۔ روحانی تربیت اور صوفیانہ مشقت سے یہ کمال حاصل ہوتا ہے ۔ اس ترقی کے تین مدارج ہیں۔ پہلے درجہ میں انسان خدا کے اسماء پر غور کرتا ہے ۔ دوسرے میںاس کی صفات کو جذب کر کے معجزانہ طاقت حاصل کرتا ہے اور تیسرے درجہ میں وہ اسماء اور صفات سے متجاوز ہو کر جوہر کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے اور انسان کامل بن جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس کی آنکھ ،خدا کی آنکھ، اس کی زبان خدا کی زبان ، اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اس کی حیات خدا کی حیات بن جاتی ہے اسی تصور کو اقبال نے حسین پیرایہ میں اس طرح پیش کیا ہے ؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا ، کار ساز خاکی و نوری نہاد بندئہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ ۳۳ اقبال اور ابن عربی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ بہشت و دوزخ مقامات نہیں بلکہ دوزخ اور بہشت روح اور دماغ کی کیفیات ہیں۔ قرآن میں ان کا بیان ایک حالتِ شعوری کا ہے جسے انسان اپنے اندر اپنے اعمال کے مطابق محسوس کرتا ہے اگرچہ یہ دونوں اپنے بیان کے انداز میں مختلف ہیں لیکن دونوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ وہ States ہیں Localities نہیں ہیں ۔ جنت مقام تفریح نہیں ہے ، وہاں تو روح دائمی طور پر عمل کرتے ہوئے مزید مراحل طے کرتی ہے ۳۴۔ افکار کے انہی اتحاد اور اقبال کے ابن عربی سے استفادے کی بنیاد پر تلمیحات اقبال میں سید عابد علی عابد مرحوم نے پتے کی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’علامہ نے ایران کے مابعدالطبیعیات اور اپنے خطبات میں ابن عربی سے استفادہ بھی کیا ہے اوران کی تردید بھی کی ہے ۳۵ ‘‘۔ شیخ الاکبر اور وحدت الوجود کے سلسلے میں علامہ کے خیالات میں بتدریج تبدیلی آ گئی تھی جیسا کہ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں : ’’اقبال نے آغازِ کار میں یہ کہا تھا کہ’’ تصوف نوافلاطونیت سے متاثر ہے اور ابن عربی اور شنکر متحدالخیال ہیں ‘‘۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ وحدت الوجود کے سلسلے میں ان تینوں مکاتیب کو متحدالخیال سمجھتے تھے مگر بعدازاں جب انہیں محسوس ہوا کہ شنکر کا فلسفہ نفی ٔ خود پر منتج ہوتا ہے جبکہ شیخ محی الدین ابن العربی عالم کو فریبِ نظر سمجھتا بلکہ اسے مظہر حق قرار دیتا ہے(میکش اکبر آبادی ۔ نقد اقبال ، ص ۷۸) تو وحدت الوجود کے خلاف ان کے رد عمل میں تبدیلی آگئی ۳۶ ‘‘۔ ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم تو یہاں تک کہتے ہیں : ’’علامہ اقبال اور شیخ ابن عربی کے درمیان مسئلہ وحدت الوجود پر کوئی نزاع نہیں بلکہ دونوںایک ہی حقیقت کے قائل ہیں ۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ شیخ ابن عربی انائے مطلق (اللہ یا وجود مطلق) کو اصل قرار دے کر انائے مقید (خودی یا اشیائ)کو اس کی شان قرار دیتے ہیں لیکن اقبال یہ تسلیم کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ انائے مقید (خودی) پر مربوط رکھتے ہیں اور انائے مقید کی معرفت سے انائے مطلق (خدا) کی معرفت کی طرف پڑھتے ہیں ۳۷ ‘‘ ۔ ان اقتباسات کے تناظر میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ : ’’اقبال آخری عمر میں وحدت الوجود کے قائل ہو گئے تھے اور ایسا ہونا کوئی خلافِ توقع یا حیرت انگیز بات نہیں ہے۔خدا کو ماننے والا فلسفی آخر وجودی ہو ہی جاتا ہے اور اقبال کی سرشت ہی صوفیانہ تھی ۳۸ ‘‘۔ علامہ اقبال کے وجودی ہونے کے حوالے سے پروفیسر صاحب ، علامہ سے اپنی ایک ملاقات جو ۱۹۳۰ء میں ہوئی کا احوال بیان کرتے ہیں : ’’ایک ملاقات کے دوران علامہ اقبال سے عرض کی کہ مجھے مسئلہ وحدت الوجود سمجھا دیجیے اس پر انہوں نے جواب دیا کہ دراصل یہ مسئلہ قال سے تعلق نہیں رکھتا جب تک تم پر یہ حالت طاری نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا وجود نظر نہ آئے اس وقت تک تم یہ مسئلہ کما حقہ ، نہیں سمجھ سکتے ۔ علاوہ بریں اس کی تفسیر بذریعہ الفاظ بہت دشوار ہے بلکہ اس قدر نازک ہے کہ اگر بیان کرنے والے سے معمولی فروگزاشت ہو جائے یا سننے والا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے تو دونوں صورتوں میں کفر یا الحاد لازم آ جاتا ہے اس لیے تم بطور خود اس کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ میں نے حضرت حکیم برکات احمد ٹونکی کے رسالہ وحدت الوجود کا مطالعہ کیا تو میں نے یہی مسلک اختیار کر لیا ۔ لا موجود اِلاَّ ھُوْا (اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں) اور مجھے خوشی ہے کہ آخر عمر میں اقبال بھی وجودی ہو گئے تھے۳۹ ‘‘ ۔ اسی طرح محمد طاہر فاروقی لکھتے ہیں : ’’مسلمان صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات خدا سے علیحدہ نہیں بلکہ اس کے مظاہر کا نام عالم ہے ۔ قرآن کی آیات بھی اس حقیقت پر شاہد ہیں ۔ اقبال بھی وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔ لیکن اپنے بیان میں اس مصلحت کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں مگر جوش میں آ کر اصل حقیقت بھی کہہ جاتے ہیں۴۰ ‘‘ ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ علامہ اقبال نہ صرف اسلامی تصوف کے قائل تھے بلکہ وہ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے اور ان صوفیائے کرام سے والہانہ عقیدت و شیفتگی رکھتے تھے ۔ جنہوں نے اسلامی تصوف کو اپنے حکیمانہ نظریات سے پروان چڑھایا ۔ وہ شریعت کے آئینے میں حقیقت کا جمال دیکھنا چاہتے تھے اور جس آئنہ گر کے آئینے میں یہ جمال ہم آہنگ ہو کر نظر آ جاتا ، علامہ اس کے والہ و شیدا ہو جاتے ۔ وہ ان صوفیائے کرام کے بے حد مداح و معترف ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکی اور زوال وا نحطاط کے دور میں احیائے دین کے نئے راستے تلاش کیے اور مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کے آراستہ کرنے میں عظیم الشان کارنامے انجام دیے ۔ علامہ نے اپنے شعری و نثری سرمائے میں ان کے ناموں کے ساتھ انہیں خراج عقیدت پیش کر کے اپنی تصوف دوستی کا اعتراف کیا ہے اور ان میں اکثریت وجودی صوفیہ کی ہے ۔ حواشی ۱ ۔ عشرت حسن انور ؍مترجم ڈاکٹر شمس الدین صدیقی ’’اقبال کی مابعدالطبیعات ‘‘ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع اوّل ۱۹۷۷ء ۔ دیباچہ ۲ ۔ جاوید اقبال ، ڈاکٹر ، ماہنامہ ماہ نو ۔ ۴۰ سال مخزن ، جلد اوّل ، ناشر ادارہ مطبوعات پاکستان ، لاہور ، سن اشاعت اگست ۸۷ ۱۹ئ، ص ۸۰۹ ۳ ۔ عطاء اللہ ، شیخ ، ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد دوم ۔ لاہور ، ۱۹۵۱ء ، ص۳۵۵ ۴ ۔ سید عبدالواحد معینی ، محمد عبداللہ قریشی (مرتبین) ’’مقالاتِ اقبال ‘‘ ، آئینہ ادب ، لاہور ، بار دوم ۱۹۸۸ء ، ص ۲۱۸ ۵ ۔ عطا للہ ، شیخ ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد اوّل ۔ شیخ محمد اشرف ، لاہور ، ۱۹۴۵ء ، ص ۴۰ ۶ ۔ ایضاً ، ص ۵۴ ۷ ۔ سید عبدالواحد معینی ، محمد عبداللہ قریشی (مرتبین) ’’مقالات اقبال ‘‘ محولہ بالا ، ص ۲۰۱، ۲۰۲۔ ۸ ۔ عبداللہ ، ڈاکٹر سید ، ’’مسائل اقبال ‘‘ ۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈیمی ، لاہور ، ص ۱۳۳ ۹۔ مسعود عالم ندوی (مُرتب) مکاتیبِ سلیمان(خط ۱۷۲۔الف) چراغ راہ ، لاہور ، ۱۹۵۴ء ، ص۱۸۶ ۱۰۔ یوسف سلیم چشتی ، پروفیسر ، شرح اسرار خودی ، عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور ۔ سن اشاعت ندارد ۔ ص ۱۸۸، ۱۸۹ ۱۱۔ علامہ محمد اقبال ۔ فلسفہ عجم (مترجم میر حسن الدین) ۔ نفیس اکیڈمی کراچی ، چھٹا ایڈیشن ، ۱۹۸۴ئ۔ ص ۱۰۸تا ۱۱۰ ۱۲۔ سید عبدالواحد معینی ، مقالات اقبال ،محولہ بالا ، ص ۱۹۵، ۱۹۶ ۱۳ ۔ بحوالہ یوسف سلیم چشتی ، پروفیسر ۔ شرح اسرار خودی ۔ محولہ بالا ، ص ۳۴،۴۵،۴۶ ۱۴۔ روح مکاتیب اقبال ۔ اقبال اکادمی ، لاہور ۔ ص ۱۵۰ ۱۵ ۔ عطاء اللہ ،شیخ ۔ اقبال نامہ جلد دوم ۔ محولہ بالا ۔ ص ۳۴ ۱۶ ۔ رفیع الدین ہاشمی (مرتب) خطوط اقبال خیابان ادب لاہور ۔ ۱۹۷۶ء ۔ ص ۱۱۷ ۱۷ ۔ سید عبدالواحد معینی ۔ مقالات اقبال ۔ محولہ بالا ۔ ص ۲۰۵ ۱۸ ۔ عطا اللہ ، شیخ ۔ اقبال نامہ ۔( جلد اوّل) محولہ بالا ، ص ۵۲ تا ۵۵ ۱۹ ۔ فقیر سید وحید الدین ، روز گار فقیر (جلد دوم) آتش فشاں پبلیکیشنز، لاہور ۱۹۸۸ء ص، ۴۲۰ ۲۰ ۔ بشیر احمد ڈار ، انوار اقبال ۔ اقبال اکادمی ، لاہور (طبع دوم) ۱۹۷۷ء ۔ ص ۱۸۱ ۲۱ ۔ سید نذیر نیازی ، مکتوبات اقبال ، کراچی ۔ ۱۹۵۷ء ، ص ۱۰ ۲۲ ۔ علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ نذیر نیازی) ۔ اقبال اکادمی لاہور ، ۱۹۸۹ء ۔ ص ۲۷۸،۲۷۹ ۲۳ ۔ ایضاً ، ص ۲۸۳ ۲۴ ۔ محمد سہیل عمر ، ابن عربی اور اقبال (مقالہ) مطبوعہ ماہنامہ سیارہ ، لاہور (۳۹) ۔ سالنامہ ۱۹۹۵ء ۔ ص ۳۸ ۲۵۔ علامہ محمد اقبال ، فلسفہ عجم ۔ محولہ بالا ، ص ۱۰ ، دیباچہ ۲۶ ۔ مولانا عبدلمجید سالک ، ذکر اقبال ، بزم اقبال لاہور ، ۱۹۸۳ء ، ص ۱۸۲، ۱۸۳ ۲۷ ۔ بشیر احمد ڈار ، انوار اقبال ، محولہ بالا ، ص ۱۷۷ ۲۸ ۔ طاہر تونسوی ، اقبال اور سید سلیمان ندوی ،مکتبہ عالیہ ، لاہور ، ۱۹۷۷ء ، ص ۸۹ ، ۹۰ ۲۹۔ عطااللہ ، شیخ ، اقبال نامہ ، (جلد اوّل) محولہ بالا ، ص ۴۴۳ ۳۰ ۔ ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ۔ مطبوعہ بزم اقبال لاہور ۔ ۱۹۹۲ء ، ص ۱۵۷،۱۵۸ ۳۱ ۔ محمد شریف بقا ، اقبال اور تصوف ، جنگ پبلشرز لاہور ، اشاعت اوّل۱۹۹۱ء ، ص ۱۴۲ ۳۲ ۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ۔ فکراقبال ۔ بزم اقبال ، لاہور ، طبع چہارم ۔ ۱۹۸۶ء ۔ ص ۴۳۵ ۳۳ ۔ سیّد واجد رضوی ، دانائے راز ، مقبول اکیڈیمی ، لاہور ، طبع دوم ، ۱۹۶۹ء ص ۱۴۴،۱۴۵ ۳۴ ۔ پروفیسر محمد فرمان ، اقبال اور تصوف ، بزم اقبال ، لاہور ، طبع سوم ۱۹۸۴ء ص ۹۶ ۳۵ ۔ ڈاکٹر سیّد عابد علی عابد ، تلمیحات اقبال ، لاہور ، ۱۹۵۹ء ، ۱۵۱ ۳۶ ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ۔ تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع ثانی ، ص ۱۶۵۔۱۶۶ ۳۷ ۔ ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ۔ محولہ بالا ۔ ص ۱۶۲ ۔ ۱۶۳ ۳۸ ۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، شرح ارمغان حجاز ، مطبوعہ عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور ، ص۱۸ ۳۹ ۔ ڈاکٹر الف ۔ د۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ، محولہ بالا ، ص ۱۶۴ ۴۰ ۔ محمد طاہر فاروقی ، پروفیسر ، سیرت اقبال ، قومی کتب خانہ ، لاہور ، ۱۹۶۶ء ، ص۲۹۶  اقبال کا فلسفیانہ نظام ڈاکٹر وحید عشرت اقبال کا فلسفہ دو وسیلوں سے ہم تک پہنچا ہے ایک بڑاپیرائیہ اظہار ان کی شاعری ہے تو دوسرا ان کی نثر۔ نظم اور نثر دونوں پر مشتمل ان کی کتب میں ان کے فلسفیانہ افکار کا اظہار ہوا ہے ۔ فلسفیانہ افکار کے اظہار کے لیے ذریعہ ٔ ابلاغ کی اہمیت ثانوی ہے اولین چیز افکار کا طبع زاد ہونا اور علمی اور وہ عقلی دلائل ہیں جن سے کوئی فلسفی اپنے نظام فکر کو مرتب کرتا اور نتائج اخذ کرتا ہے ۔ اقبال کے فلسفیانہ فکر کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اظہار کے دونوں پیرائیوں کو استعمال کیا یہ ان کی اظہار کے مختلف پیرائیوں پر قدرت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور یہ اقبال کے فکر کی جامعیت ہے کہ وہ اظہار کے سب ہی پیرائیوں پر مکمل دسترس رکھتے تھے ، علامہ اقبال کا تخلیقی فکر ان کی شاعری میں اور ان کا ارتباطی فکر ان کی نثر میں زیادہ تر اظہار پایا ہے ۔ تخلیقی فکر میں انہوں نے جو طبع زاد نظریہ پیش کیا ہے وہ ایک لفظ میں ان کا فلسفہ خودی ہے جس میں ان کے مابعد الطبیعیاتی افکار کا پورا نظام مکنون ہے اور ارتباطی فلسفے میں وہ مختلف نظام ہائے فلسفہ کے تجزیہ اور تنقید سے ایک نیا سماجی اور عمرانی نظام مرتب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو ایسے عمرانی تصورات پر مبنی ہے جو اس سے قبل کہیں اور نظر نہیں آتے ۔ تاریخ فکر میں دو طرح کے فلسفی ہوئے ہیں ایک وہ جن کا فکر و فلسفہ تخلیقی ہے اور دوسرے وہ فلسفی جو مختلف فلسفیانہ نظریات میں ارتباط پیدا کرکے ایک نئے فلسفہ کی تشکیل کرتے ہیں ۔ اقبال ہمارے واحد عظیم فلسفی ہیں جو تخلیقی اور ارتباطی دونوں اسلوب فلسفہ کے منفرد نمائندے ہیں لہٰذا انہیں بیسویں صدی کے بڑے فلسفیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس سے پیشتر کہ میں اقبال کے فلسفیانہ افکار کے طبع زاد پہلوئوں اور اقبال کے نظام فکر کے بنیادی نکات کو بیان کروں میں اقبال کے فلسفی نہ ہونے کا دعوی کرنے والوں کے اعتراضات کا جائزہ لوں گا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ جائزہ مختصر ہو گا مگر کسی بھی صاحب علم کے لیے یہ میرا موقف سمجھنے کے لیے کافی ہو گا ۔ ۱ ۔ علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب اقبال کا علم کلام میں اقبال کو متکلم قرار دیا ہے کہ انہوں نے مذہبی معتقدات کی فلسفیانہ توضیح و تشریح علم کلام کے ذریعے کی ہے ۔ مذہبی معتقدات کی فلسفیانہ توضیح و تشریح کرنے والا متکلم تو ہو سکتا ہے فلسفی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے افکار طبع زاد نہیں ہوتے۔ لفظ طبع زاد ایک مجرد اصطلاح ہے جس سے مراد بالکل نیا خیال یا نظریہ ہے مگر مجھے یہ کہنے دیجیے کہ کوئی تصور اور خیال مکمل طور پر طبع زاد نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی فلسفہ خلا میں نہیں اگتا ۔ ہر خیال کے پیچھے ایک فکری روایت موجود ہوتی ہے اور ہر تصور اپنے عہد کی ایک مخصوص سماجی اور عمرانی صورت حال میں پیدا ہوتا ہے ۔ طالیس ملطی جو پہلا فلسفی ہے اس نے کہا کہ کائنات پانی سے بنی ہے اور کون نہیں جانتا کہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے باب پیدائش میں واضح طور پر کائنات کی پیدائش کا بنیادی عنصر پانی کہا گیا ہے ۔ کائنات کی پیدائش کے بارے میں پہلا سوال اور اس کا جواب بھی مذہب نے دیالہٰذا تمام مابعد الطبیعیاتی سوالات ان کے جوابات پر ان کے غور و فکر کا اسلوب اور منہاج مذہب سے ہی وجود میں آیا ہے لہٰذا طالیس ملطی ، پارمنڈیز ،اینکسی منڈر راینکمینز ، انیکسا غورس اور فیثا غورث تمام کا منہاج فکر اور نتائج فکر کا مبداء مذہب ہے ۔ یہ تصور بھی غلط ہے کہ فلسفے کا آغاز دیو مالائی ادب سے ہوا ۔ اصل اس کی یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں لکھنے اور پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے انبیاء کی شخصیات ، ان کی سوانح اور افکار دھندلا گئے اور وہ دھندلائے ہوئے کردار اور شخصیات مافوق البشردیوتائوں اور ان کی سیرتیں کہانیوں کا روپ دھار گئیں اور انہیں اساطیر شمار کر لیا گیا ۔ البیرونی کے بقول خود سقراط اور افلاطون حضرت موسیٰ کے پیرو کار تھے ۔ اگر تاریخ فلسفہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر فلسفی کی فکر کی کاشت اس کے عمرانی اور مذہبی افکار سے ہی تشکیل پائی ہے اور طبع زاد فکر ایک رومانوی اور افسانوی بات نظر آتی ہے ۔ اقبال کی فکر کے تشکیلی عناصر بھی مذہب ، برصغیر کی عمرانی اور سیاسی صورت حال اور مغربی اور اسلامی روایت فکر کے مختلف منابع میں اپنی جڑ رکھتے ہیں ۔ لہٰذا اقبال ہر لحاظ سے ایک طبع زاد فلسفی ہے یا پھر تمام فلسفی متکلم قرار دے دئیے جائیں ۔ ۲ ۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ اقبال نے فلسفے پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ یہ لوگ اسرار خودی اور رموز بے خودی کو بھول جاتے ہیں جو خالص اقبال نے فلسفہ خودی پر لکھی ہیں ۔ اسرار خودی میں فرد کے حوالے سے اور رموز بے خودی میں معاشرے ، جماعت اور اجتماع کے حوالے سے اقبال نے اپنے خیالات کو ظاہر کیا ہے ۔ ایک فرد کی خودی یا شخصیت کی تعمیر کے لیے کیا لازم ہے اور ایک نظام اجتماعیت کے لیے کیا ضروری ہے ان دونوں کتب میں اقبال نے انفرادیت اور اجتماعیت کے نظامات پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور ان کی تفصیلی بحث خطبات اور دوسری شعری کتب حتیٰ کہ خطوط میں بھی بیان ہوئی ہے اقبال کے فلسفہ انفرادیت اور فلسفہ اجتماعیت میں جس کو اقبال نے فلسفہ خودی کہا ہے ایک پورا مابعد الطبیعیاتی ، عمرانی اور اخلاقی نظام واضح طور پر موجود ہے جس کی تشریحات اقبال کی باقی تحریروں میں بھی دستیاب ہیں ۔ ہم سقراط کو فلسفی بلکہ فلسفیوں کا باپ (ابوالفلاسفہ) قرارد یتے ہیں مگر اس نے تو کوئی کتاب نہیں لکھی بلکہ وہ تو کتاب لکھنے کے ہی خلاف تھا اس کا مشہور قول ہے کہ وہ فلسفے کو انسانوں سے نکال کر مردہ کھالوں پر منتقل نہیں کرنا چاہتا ۔ یاد رہے کہ کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں جانوروں کی کھالوں پر لکھا جاتا تھا ۔ اگر سقراط کا فلسفہ افلاطون اور ارسطو کی تحریروں میں اجاگر ہوا ہے تو اقبال کا فلسفہ بھی برصغیر کے مسلمانوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحرک کر کے زندہ کرتا ہے لہٰذا کتاب کا لکھا یا نہ لکھا جانا ایک بودی سی بات ہے۔ میرے خیال میں علی عباس جلالپوری اور ڈاکٹر عطا الرحیم دونوں کے اعتراضات کے جوابات اوپر آ گئے ہیں کہ اپنی اصل میں کوئی فلسفہ نیا یا طبع زاد نہیں ہوتا بلکہ کنفیوشس کے الفاظ میں ہم پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں ہی پیش کرتے ہیں ۔ پرانے افکار و نظریات نئی سماجی، عمرانی اور فکری صورت حال میں اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق جب نئے پیرائیوںمیں ڈھل کر اپنے عہد کے چیلنجوں پر پورا اترتے ہیں تو ان کا جواز اور استناد خود پیدا ہو جاتا ہے ۔ اب میں ان عناصر کی طرف آتا ہوں جو فلسفہ اقبال کے تشکیلی عناصر ہیں اور جو اپنی اصل میں طبع زاد اور نئے ہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ اس مختصر مضمون میں ، میں ان کی طرف صرف اشارہ ہی کر سکوں گا اس پر تفصیلی اظہار کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے ۔ ۱ ۔ اقبال کے فلسفے کا ایک بنیادی اور اساسی تصور ایک نئی مابعد الطبیعیات کی تشکیل ہے ۔ اقبال کی مابعد الطبیعیات کائنات کو مادی کی بجائے روحانی الاصل کے تصور پر اپنی اٹھان رکھتی ہے ۔ اقبال نے کائنات کے روحانی الاصل ہونے کا تصور گرچہ قرآن سے لیا مگر انیسویں اور بیسویں صدی کے مادہ کے بارے میں نظریات سے بھی استفادہ کیا اور اپنی بات کو محکم کیا کہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اور قابل فنا بھی ۔ خطبات میں اس پر تفصیلی بحث موجود ہے ۔ کائنات کی تشکیل مادہ سے نہیں ہوئی جبکہ نوری لہروں سے ہوئی ہے ، مادہ کوئی ٹھوس شے نہیں بلکہ یہ نوری لہروں کا انجماد اوران کی ترتیب و ترکیب کی نوعیتوںسے تشکیل پاتا اور مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے ۔ اللہ بھی چونکہ نورالسمٰوٰات والارض ہے لہٰذا ان نوری لہروں کا مرجع بھی خدا ہی ہے ۔ لہٰذا کائنات کوئی ٹھوس مادی شے نہیں بلکہ اپنی اصل میں نوری یا روح ہے یہ خدا کے ہی نور کاپھیلائو ہے ۔ ۲ ۔ اقبال کے فلسفے کی دوسری بڑی خصوصیات کائنات کا حرکی ہونا ہے ۔ یونانی اور ان کے تحت اہل مغرب کائنات کو سکونی سمجھتے تھے وہ کائنات کے حرکی ہونے کے منکر تھے۔ جب کائنات مادی کی بجائے روحانی ٹھہری تو اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ کائنات کو حرکی تصور کیا جائے ۔ اقبال نے کائنات کو حرکی اور حرکت کو اصل قرار دیا ؎ چلنا چلنا مدام چلنا اقبال کے نظریہ حرکت کا جوہر ہے ۔ ۳ ۔ یقینا اسلامی روایت میں خودی کا تصور موجود ہے ان معنوں میں بھی جن میں اقبال نے اسے لیا اور غرور ، تکبر کے معانی میں بھی ۔ مگر مغربی اور اسلامی روایت میں خودی کا تصور ایک فلسفیانہ نظام کے طور پر کسی نے بھی استعمال نہیں کیا۔ سقراط نے بھی کہا کہ اپنے آپ کو پہچانو(Know thyself) اور من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ بھی موجود ہے ۔صوفیا نے بھی خودی کو عرفان نفس کے معانی میں لیا مگر پوری فلسفے کی روایت خواہ مغرب کی ہو یا مشرق کی خودی ، ایغو یا اناایک فلسفے کے وسیع تر معانی میں موجود نہیں کہ اس سے انفرادی اور اجتماعی نظام کی تشکیل کی گئی ہو ۔ اقبال سے پہلے خودی کا لفظ استعمال کرنے والوں کے ہاں خودی کا تصور محدود ہے جبکہ اقبال نے اسرار خودی میں اسے فردیت کی شناخت ، تعمیر اور استحکام کا پورا ایک نظام بنایا کہ کس طرح یہ ایک فردیا ذات کی تشکیل و ارتقا کا بنیادی اصول بنتا ہے اور وہ عرفان ذات کی اعلیٰ منازل اور مدارج تک رسائی حاصل کرتا ہے اور ایک عمرانی اور سماجی فلسفہ میں خودی ایک جماعت کی تشکیلی شناخت اور استحکام کا بنیادی تصور کیونکر قرار پاتاہے جس کی روشنی میں برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاںمسلمان اسلام کی ایک سرزمین سے پیوستگی کرتے ہوئے اپنے دین کے مطابق ایک نیا نظریاتی معاشرہ تشکیل دیں یوں پاکستان خود اقبال کے تصور خودی کا ہی ثمر ہے جو ایک عظیم نظریاتی شناخت کے ساتھ وجود میں آیا ۔ دنیا میں یہ بھی ایک منفرد واقعہ ہے کہ کسی فلسفی کے فلسفہ اور نظریہ پر کوئی نئی ریاست وجود میں آئی ہو ۔ پاکستان کا قیام اقبال کے فلسفے کے تخلیقی ہونے کا اشتہاد ہے ۔ جو انسانی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اس سے قبل مدینہ کی ایک نظریاتی ریاست وجود میں آئی۔مارکس کے فلسفے نے روس پر قبضہ کیا اپنی فکر کی بنیاد پر ریاست تخلیق نہیں کی ۔ البتہ بعد میں ۱۹۴۹ء میں اسرائیل کی نظریاتی ریاست ضرور وجود میں آئی جو بعد کا واقعہ ہے۔ پاکستان اقبال کے فلسفہ خودی کے اطلاق و نفاذ پرا پنی اٹھان رکھتا ہے یوں اقبال کے فلسفہ خودی نے اپنی تنفیذ کے لیے خود ایک سرزمین تخلیق کی ۔ یہ ان کا خودی کا تخلیقی اور اطلاقی شعور ہے کہ اس نے اپنے لیے خود ایک اجتماع کو وضع کیا ۔ یوں اقبال کا فلسفہ خودی اپنے جوہر میں گہری تخلیقی اور عملی جہت سے بھی مرصّع ہے ۔ یوں اقبال کا نظریہ اجتماع سب فلسفیوں سے منفرد ہے کہ وہ محض تجریدی ہیں جبکہ اقبال کا نظریہ اجتماع عملی اور اطلاقی بھی ہے ۔ ۴ ۔ خلیفہ عبدالحکیم ، بشیر احمد ڈار ،ایس ایم رشید، ڈاکٹر این میری شمل اور بعض دوسرے لوگوں نے اقبال کی فکر کو یہ کہہ کر مسخ کیا ہے کہ اقبال کا تصور مرد مومن نیٹشے یا مغربی فلاسفہ سے اخذ کردہ ہے۔ اقبال کا مرد مومن یا فرد مصدقہ اپنی اطلاقیت میں حضور نبی پاک ﷺ کی سیرت و کردار سے مستنیر ہے۔ حضورؐ نے قدیم تمدن اور جدید تمدن کے سنگم پر جنم لیا بلکہ حضور ؐ نے قدیم تمدن کا اختتام کیا اور ایک نئے تمدن کی نیو رکھی ۔مرد مومن کے تمام خواص انہوں نے حضورؐ کی ذات سے اخذ کئے ۔ نیٹشے اور اہل مغرب کا فرد مصدقہ یا سپر مین اندھی میکانکی قوتوں کا پروردہ ہے جو طاقت و قوت کو اپنا معبود قرار دیتا ہے ۔ قوت ہی جہاں ہر چیز کا معیار اور پیمانہ ہے۔ لارڈ ولیم برٹینڈ رسل نے بھی اپنی کتاب Power میں طاقت (Power) کو ہی تاریخ کی اصل قوت متحرکہ کہا ہے یوں اس نے مذہب، اخلاق اور روحانی اقدار کی طاقت کی نفی کی ہے۔ اس کے نزدیک بھی قوت ہی اصل چیز ہے۔ قوت جبر و استحصال کی مظہر ہے جہاں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا کر توانائی حاصل کرتی ہے ۔ جس میں فرد سماج کا دشمن اور سماج فرد کا دشمن ہے ۔ بقول سارتر اور بعض دوسرے فلاسفہ مغرب (کومت وغیرہ )کے اجتماع فرد کی آزادی کو محدود کرتا ہے۔اور فرد سماج کی آزادی کا دشمن ہے۔ نیٹشے کا سپر مین جرمنی میں ہٹلر کی صورت میں ارتقا یا ب ہوا بلکہ مجسم ہوا ۔ جس نے دو عظیم جنگوں کو جنم دیا اور ہر طرف تباہی پھیلا دی ۔ جو قوت کے حصول میں اس قدر مستغرق تھا کہ اس کے نزدیک قوت ہی اعلیٰ ترین قدر بن گئی ۔ جس نے جنگل کے قانون کو رواج دیا ۔ اقبال کا مرد مومن یا فرد مصدقہ الوہی صفات رکھتا ہے اس کا کردار قرآن کی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے تشکیل پاتا ہے جو معاشرے کوفرد کا دشمن تصور نہیں کرتا بلکہ اجتماع فرد کی صلاحیتوں کی تعمیر اور انہیں نکھار نے اور پروان چڑھانے کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔ جس میں قوت بالمقصد ہے ۔ جو خدا کی قائم کردہ اخلاقی حدود کی پاسداری کرتا ہے جہاں اندھی قوت کا کوئی تصور نہیں۔ جہاں فرد جماعت کی تعمیر کا باعث بنتا ہے فرد اپنی فردیت کے لیے ربط ملت کو لازم سمجھتا ہے لہٰذا یہ کہنا چغدپن ہے کہ اقبال اپنے تصور مرد مومن میں نیٹشے سے متاثر تھے وہ صرف اور صرف حضورؐ اور انبیاء عظام سے متاثر تھے۔ نیٹشے کے سپر مین نے ہٹلر کو جنم دیا جس نے یورپ کا ہی نہیں پوری دنیا کا سکون برباد کر دیا اور اقبال کے مرد مومن نے قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت میں اظہار پایاجس نے برصغیر کے مسلمانوں کو بغیر جنگ کیے ایک نیا ملک پاکستان دیا جہاں وہ اپنی روایات اور دین کو فروغ دے سکیں۔ ہٹلر سراپا جبر و ظلم تھا اور جھوٹ اس کا پیراہن تھا جبکہ قائد اعظم نے سیاست کو سچ کے اصول پر مدون کیا اور سچ کے فروغ کے لیے پاکستان کی صورت میں انسانوں کا گہوارہ بنایاہے جس نے ہمیں آشتی دی ۔ ہٹلر کی شخصیت جبر وظلم کا شہکار تھی اور قائد اعظم امن و سلامتی کے سفیر تھے ۔ ۵ ۔ علامہ اقبال نے نیشنلزم کے تصور کی نئی تشکیل کی ۔ مغرب میں نیشنلزم کی تشکیل کے عناصر نسل، علاقہ ، زبان اور مشترکہ مفادات تھے جبکہ اقبال نے مغربی نیشنلزم کے اس تصور کو رد کر دیا۔ دین اورمذہب کو نیشنلزم کی اساس قراردیا ۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانہ دین نبویؐ ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوؐی ہے نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوؐی خاک میں اس بت کو ملا دے ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزادِ وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنتِ محبوبؐ الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت کی گواہی گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے نیشنلزم اور قومیت کے مغربی تصور اور وطنیت کے تصور کو صرف اقبال نے رد کیا اور یہ کہہ کر کہ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ‘‘مسلم نیشنلزم کا نیا تصور دیا جس پر برصغیر میں ایک قومی نظریے کو مات ہوئی اور دو قومی نظریہ وجود میں آیا جس کو اپنا کر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک نیا خطہ ارض پاکستان کو وجود بخشا۔ اقبال کا نظریہ قومیت ایک نیا اور منفرد فلسفہ اجتماعیت ہے جس نے بیسویں صدی میں جنم لیا ۔ اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ایک نئی اساس عطا کی ۔ ۶ ۔ اقبال نے مذہب کے تصور کو بھی بدل کر رکھ دیا اسے ایک ذاتی اور نجی معاملہ کی بجائے ریاست کے ایک بنیادی اور رہنما اصول کی حیثیت سے پیش کیا۔ اسے مجموعہ عقائد و عبادات سے بڑھ کر مسلم اجتماعیت کا ایک اصول قرار دیا اور اسلام کو بطور اصول مدنیت اور اصول سیاست قرار دیا اور اسلام کو نظام حیات بتا کر جدید تہذیب و تمدن کے لیے واحد راہ نجات قرار دیا ۔ دین کی تعبیر و تفسیر ایک نظام زندگی کے بطور کی۔ ۷ ۔ اقبال نے روح کی لافانیت کا نظریہ پیش کیا ۔خودی اقبال کے نزدیک نہ تو ختم ہو جاتی ہے اور نہ وہ خدا میں جذب ہو جاتی ہے ۔ بلکہ وہ اپنی انفرادیت اور بقا کو باقی رکھتی ہے ۔ ۸ ۔ اقبال نے تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام ۔ بتان عجم کے پجاری تمام کہہ کر دین اور اسلام کا تصور بھی بدل دیا اور مسلمانوں کو یہ کہا کہ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ۔ اقبال نے یوں پوری دنیا کے مسلمانوں کو حرکت و عمل کا تصور دیا اور اسلام کے ساتھ چپکے ہوئے باطل نظریات کو رد کر دیا ۔ یوں اقبال نے اسلام کو آلائشوں سے پاک کیا ۔ اور دنیا کی استکباری قوت سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیا۔ ۹ ۔ اقبال بیسویں صدی کا پہلا شخص ہے جس نے مغرب پر اس کے فلسفے پر اور اس کے نظریات اور مغرب کی تہذیب پر اس وقت تنقید کی جب برطانیہ کا سورج غروب نہ ہوتا تھا ۔ اس وقت اس کو شیشہ گری کہا اور اس کی خود کشی کی پیش گوئی کی اور اسلام کے روشن مستقبل کی نوید سنائی ۔ فکر اقبال کے انفرادیت اور اجتماعیت کے فلسفے کی جڑیں اس کے فلسفۂ خودی میں ہیں اور یہ فلسفہ اقبال نے کہیں سے مستعار نہیں لیا ۔ ایسے ہی بہت سے پہلو ہیں جن سے ہم اقبال کو محض فلسفی ہی نہیں ایک بڑا فلسفی کہہ سکتے ہیں ۔ ۱۰ ۔ اقبال مسلمانوں میں ہی نہیں دنیا بھر میں ایک منفرد و عظیم فلسفی ہے جس نے جمہوریت کے نقائص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کا مستقبل روحانی جمہوریت ، جمہوری خلافت یا نظریاتی اسلامی خلافت و جمہوریت سے قائم کیا۔ اقبال نے صدیوں سے مسلمانوں کی روح کو کچلتی ہوئی آمریت اور ملوکیت کو اسلام کے منافی قرار دیا جس نے سلطانی جمہور یعنی جمہور کی حکمران کی بات کی وہ نوع انسانی کے لیے امن، آزادی ، حریت ، عزت نفس اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا نقیب ہے۔ ایک انقلابی اورعملی اور اطلاقی فکر رکھنے والا فلسفی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی جو غلام قوموں کے لیے آزادی کا نعرہ اور انسانوں کی بے مثل آزادی کا سب سے بڑا محرک تھا ۔وہ دنیا بھر کی مظلوم اور استبداد میں جکڑی ہوئی اقوام کے لیے نغمۂ آزادی ہے اور مظلوموں کی مدد کرنے کا داعی ہے۔ ان کو استعمار سے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے ۔ مغربی استعماریت اور نو آبادیاتی نظام سے سب سے پہلے آزاد ہونے والا برصغیر بالخصوص پاکستان اقبال کے فکر کا ہی شہکار ہے ۔ ہمارے بعد ہی چین، افریقہ ، اور تیسری دنیا کے ممالک کو آزادی نصیب ہوئی ۔ اقبال نو آبادیاتی پر پہلا پتھر تھا جس نے اسے پاش پاش کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال کا فکر و فلسفہ ابھی نکھر کر سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اقبال کے فلسفیانہ افکار کی کسی نے نظام بندی کی ہے ۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے صرف اقبال کے فلسفہ کی نظام بندی پر پھسھپسا سا مقالہ تحریر کیا ۔ اقبال کا فلسفہ اور کلام ابھی دریافت ، تدوین و ترتیب اور تشریح کے مرحلے میں ہے اور وہ بھی ناقص ہاتھوں میں ہے ۔ اقبال کے نظریہ ریاست کو پاکستان کی صورت میں تجرید سے عمل میں لانے کے لیے قائد اعظم جیسی شخصیت ہی کامیاب بنا سکتی تھی ۔ اتنی ہی بڑی شخصیت اقبال کے فلسفے کی نظام بندی کے لیے درکار ہے تبھی ہم اس عظیم فلسفی کی فکرسے آگاہی حاصل کر سکیں گے ۔ جگن ناتھ آزاد کی اقبال اور مغربی مفکرین اور ڈاکٹر نذیر قیصر کی کتاب اپنے موضوع پر بچوں کی کتابیں ہیں جو ان کے فلسفے کا مغربی فلاسفہ سے تقابل کرنے کے قابل نہیں ۔نہ وہ اقبال کے کسی فکری نظام کی تشکیل کرتی ہیں اور نہ موازنہ۔ ان کے کام صرف کلام اقبال اور نثر اقبال سے ان فلاسفہ کے متعلق اشعار اور اقتباسات پیش کرنے تک محدود ہیں ان میں سے کسی نے کانٹ پر اقبال کے اعتراضات اور اشپنگلر یا دوسرے فلاسفہ کے ساتھ گہرائی میں مطالعہ نہیں کیا ہے ۔ بی۔اے ۔ ڈار، ڈاکٹر این میری شمل، ایس ایم رشید اور بعض دوسرے لکھنے والوں نے اقبال کو کبھی نیٹشے کا ، کبھی گوئٹے کا، کبھی دانتے کا اور کبھی ہیگل و مارکس اور ولیم جیمز کا پیرو کار بنا دیا حالانکہ اقبال نے ان میں سے کسی کو بھی پورے طور پر قبول نہیں کیا ان پر نقد و نظر کے بعد ان کے افکار کا تجزیہ کر کے ان کے بعض پہلوئوں پر تخلیقی انداز میں صاد کیا جو ان کے نظریات کو تقویت دیتے تھے اور بعض پر نقد کی۔ اقبال نے برگساں ، نیٹشے ، اشپنگلر ، ڈارون ، کانٹ اور ہیگل کے ساتھ ساتھ مارکس پر بھی سخت تنقید کی ، ہیگل کے صدف کو گہر سے خالی قرار دیا ۔ افلاطون کو گوسفند قدیم قرار دیا ارسطو کے سکونی نظریات کو رد کیا کانٹ کے اخلاقی جواز اور شے نفسہ کو نہ جانے کے دعویٰ اور مذہب کو محض اخلاقی ضرورت کہنے کو مسترد کیا ، مذہب ، دینی تجربے کی اثابت کو قبول کیا ۔ اشپنگلر کے اسلامی تہذیب پر اعتراضات کا ابطال کرتے ہوئے کہا کہ تہذیبیں دوبارہ بھی جنم لے سکتیں ہیں ۔ بعض جدید طبیعین اور نفسیات دانوں کے تصورات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ظاہر ہے اس مختصرمضمون میں ان کے اور اقبال کے نظریات کا تقابل ممکن نہیں لیکن ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ اقبال نے مشرق و مغرب کے تمام فلسفوں کا مطالعہ کیا، ان سے استفادہ کیا مگر وہ مجموعی طور پر سب کے نقاد تھے اور کسی کے بھی کسی تصور میں مقلد نہ تھے انہوںنے مشرق و مغرب کے فلسفے کے مطالعے سے اپنا ایک فلسفہ حیات اور نظریہ کائنات تشکیل دیا ۔ اگر کسی چیز کو اقبال کے افکار کا ماخذ اور مصدر کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن ہے۔ انہوں نے بعض لغزشوں کے باوجود قرآن کے نظام فلسفہ کی کوشش کی ۔ کسی حد تک وہ ناکام اور کسی حد تک کامیاب رہے تاہم ہمیں ایک بہت بڑی ضرورت اور ایک ناگزیر کمی کا احساس و ابلاغ عطا فرما گئے ۔ یہی ان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ جدید دور میں انہوںنے مسلم نشاۃ ثانیہ کی اساسیات کی تدوین کا شعور پیدا کیا ۔  شخصیات اقبالؒ پر مرتضیٰ مطہری کے اعتراضات کا مطالعہ سکندر عباس زیدی شہید مرتضی مطہری ۲ فروری ۱۹۱۹ء میںمشہد مقدس سے ۷۵ کلو میٹر دور ایک گائوں فریمان میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ محمد حسین مطہری سے حاصل کی۔ ۱۳ سال کی عمر میں حصول علم کے لیے مشہد آئے ، ۱۹۳۷ء میں قم سے تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔آیت اللہ میرزا مہدی شہید ، میرزا علی آقای شیرازی اصفہانی ۔ آیت اللہ بروجردی اور محمد حسین طباطبائی آپ کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں استعمار کے خلاف انجمن حسینہ ارشاد کی بنیاد رکھی اس طرح ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۱ء تک انجمن اطبائے اسلامی میں توحید ، عدل، نبوت ، امامت ، قیامت پر لیکچر کا سلسلہ جاری رکھا اس کے علاوہ خواتین کے حقوق ، اقتصاد اسلامی اور اسلام کے فلسفی اور نظریاتی مسائل پر لیکچر کا سلسلہ شروع کیا۔ فلسطینی مہاجرین کے لیے امداد جمع کرنے پر گرفتار کیا گیا ۔ آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے لیے اس دور میں بھرپور جدوجہد کی جب شاہ ایران نے ملک ایران کا آئینی اور قانونی ڈھانچہ امریکہ اور برطانیہ کے اشارے پر مکمل سیکولر بنا دیا تھا ۔ عدالتوں میں قرآن پاک کی گواہی بے معنی ہو گئی تھی ۔ دین اور سیاست میں دوری پیدا کر کے علما اسلام اور اسلام پسند مفکرین اور سیاستدانوں کی برسر عام توہین کر کے جیل بھجوایا جاتا شاہ ایران اور اس کا شاہی خاندان ایران کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر ملک کے تمام وسائل پر قابض تھا۔ ملک کی اقتصادیات پر امریکی لابی اور شاہی خاندان کامکمل قبضہ تھا۔ قومی تعلیمی ادارے جو کسی قوم یا نسل کی نظریاتی تربیت کا مرکز ہوتے ہیں کو رقص و شراب کے اڈے کے طور پر متعارف کروایا ان حالات میں شہید مطہری نے کمر ہمت باندھ کر ان تمام برائیوں کامقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ۔ شاہ ایران کی حکومت نے آپ کی زبان بندی کر کے عوام سے دور کرنے کی کوشش کی کیونکہ شاہ کسی بھی صورت میں اسلامی انقلابی تحریک روکنا چاہتا تھا اور اس کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے اشتراکی گروہ بنا کر انہیں فعال بھی کیا گیا لیکن استاد مطہری نے اپنی تقریر و تحریر کا سلسلہ جاری رکھا ۔ استاد مطہری کا براہِ راست دین قرآن حدیث فلسفہ ، کلام ، تاریخ اور عرفان سے رابطہ تھا ۔ انہوں نے حقیقی اسلامی متون پر تحقیق کی استاد مطہری مشرق و مغرب کے مختلف مکاتب فکر کے فلسفی اور نظریاتی متون سے نہ صرف پوری طرح آگاہ تھے بلکہ اپنی علمی بحثوں میں ان کے نظریات کو پیش کرنے کے بعد اُن پر تنقید بھی کرتے تھے ۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے موقع پر استاد مطہری کو امام خمینی کی طرف سے انقلابی کونسل کا رکن نامزد کیا گیا تھا لیکن ۲ مئی ۱۹۷۹ء کو انقلاب کی کامیابی کے ٹھیک۱۰ روز بعد فخر آباد میں آپ کو شہید کر دیا گیا ۔ ایران کے مذہبی اور علمی مرکز قم میں واقعہ بی بی معصومہ قم کے حرم میں مدفون ہیں۔ شہید مرتضی مطہری جو اقبال شناس کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے فکر و نظریات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے جن کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتب میں اقبال کو بھرپور خراج عقیدت پیش کر کے کیا ہے ۔ مطہری شہید نے اپنی کتب میں تقریباً ۷۰ مختلف مقامات پر علامہ اقبال کی شخصیت و فن اور کلام کے حوالے سے اظہار خیال کیا ہے اور علامہ اقبال کے انقلابی فکر کا بھر پور اعتراف کیا ہے۔ اقبال اور شہید مرتضی مطہری دونوں نے تقریباً ایک سے موضوعات پر اظہار خیال کیا خاص طور پر دونوں عظیم شخصیات نے استعمار کی سازشوں اور مسلمانوں میں پائی جانے والی بداعمالیوں کی نشاندہی کر کے قوم میں اسلامی شعور کی بیداری کی بھر پور کامیاب کوشش کی ہے۔ مرتضی مطہری نے اقبال کی پیروی کرتے ہوئے اُن کے انقلاب انگیز فکر کو کامیابی سے آگے بڑھایا ان کے مطابق اقبال ان روشن اور تابناک چہروں میں سے ہیں جنہوں نے اسلامی معاشرے کو اسلام کی نئی تعبیر دی استاد شہید مرتضی مطہری نے اقبال کو ’’رہبر اصلاح‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اقبال کے اصلاحی نظریات اس کے ملک کی سرحدوں کو پار کر گئے اقبال مغربی تہذیب کا وسیع مطالعہ رکھنے کے باوجود مغرب کو ایک جامع انسانی نظریے سے محروم سمجھتے تھے مطہری اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ اقبال لاہوری کی آہ و فغاں ہے جو مسلمانوں کے خوابیدہ دلوں اور پریشان ذہنوں کو تسلیم سحر کی طرح بیدار کر رہی ہے اور انہیں خلق خدا کی بے لوث خدمت اور انسانی آزادی کی بشارت کا احساس دلا رہی ہے ۔ مطہری کا خیال ہے کہ اقبال جہاں مذہبی افکار نو کی تشکیل چاہتے تھے وہاں انہیں عمل کے احیا کے بغیر بے کار سمجھتے تھے ۔ اقبال صرف ایک مفکر نہیں تھے بلکہ صاحب عمل بھی تھے وہ استعمار کے خلاف تھے اس کا ثبوت ان کے عمل سے ملتا ہے ۔ وہ مرد میدان اور نظریہ پاکستان کے محرک تھے۔ان کے نزدیک اقبال ایک زبر دست شاعر تھے انہوں نے نے اپنی صلاحیتیں مقصد اسلام کو واضح کرنے کے لیے وقف کر دیں یہ اقبال لاہوری کی آہ و فغاں ہے جو مسلمانوں کے خوابیدہ دلوں اور پریشان ذہنوں کو نسیم سحر کی طرح بیدار کر رہی ہے اور انہیں خلق خدا کی بے لوث خدمت اور انسانی آزادی کی بشارت کا احساس دلا رہی ہے اسی وجہ سے اسلامی معاشرہ اقبال کا بہت احسان مند ہے مطہری فرماتے ہیں کہ اقبال گو مغرب کے تہذیب و تمدن سے پوری طرح آگاہی رکھتے تھے مگر اس کے باوجود وہ اس کے زبردست نقاد رہے انہیں مغربی فلسفہ حیات اور اجتماعی زندگی سے گہری واقفیت رہی ۔ لیکن وہ مغربی مدنیت کو مرتبۂ انسانیت سے کم تر تصور کرتے رہے وہ ذہنی طور پر مسلمانوں کے سیاسی اقتصادی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے سرگرداں رہے ان مسائل کے حل کے لیے انہوں نے اجتہاد اور اجماع کی ضرورت پر خصوصی توجہ دی ۔ ان کے نزدیک اسلامی ثقافت ہی حقیقت میں انسانی ثقافت ہے۔ وہ جہاں مغربی علوم و فنون کے حصول کے داعی اور اس کام کے قدردان تھے وہاں وہ تقلید مغرب اور جہاں غرب میں بے جا آزاد خیالی اور فتنہ انگیزی کے زبر دست نقاد رہے ۔ انہوں نے دوسرے علوم و تمدن کا مطالعہ اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے کیا وہ ان شعرا میں شامل ہیں جن کی معاصر عرب عالم اورمفکر عبدالرحمن الکواکبی نے بھی تعریف کی ہے اور فرمایا اقبال کی انقلابی شاعری نے انہیں حضرت حسّان بن ثابت انصاریؓ اور ابومستہل کمیت بن زید اسلامی کی صف میں لا کھڑا کیا۔ شہید مرتضی مطہری اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ ان کے اردو اشعار بھی عربی یا فارسی میں ترجمہ ہونے پر اپنی اثر انگیزی اور حماسہ آفرینی قائم رکھتے ہیں درحقیقت شاعری کی قوت اقبال کے ہاں ایک وسیلہ و آلہ رہی لیکن ان کا اصل مقصد یہ نہ تھا ۔ اقبال کی نظم و نثر امتِ اسلامیہ کے شاندار ماضی کو خاطر نشین کرتی ہے حال کے تقاضے سمجھاتی ہے اور بہتر مستقبل کی راہیں دکھاتی ہے ۔ ان کی کوشش رہی کہ اسلامی تاریخ میں چھپی ہوئی شخصیات کے کردار کو منظر عام پر لا کر امت اسلامیہ کو باخبر کریں ۔ اسی وجہ سے اسلامی معاشرہ اقبال کا بڑا احسان مند ہے ۔ مطہری کے نزدیک اقبال صرف مفکر ہی نہیں بلکہ صاحب عمل بھی تھے ۔ ایران میں میٹرک کی سطح تک جو مضمون اقبال کی شخصیت اور فن کے بارے میں پڑھایا جا رہا ہے وہ بھی شہید مرتضی کا تحریر کردہ ہے وہ علامہ اقبال کے انقلابی افکار کا بھرپور اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ: علامہ بلند پایۂ شاعر تھے انہوں نے اپنے فن کو اسلامی مقاصد میں صرف کیا اُن کے اشعار کی انقلاب آفرینی اب تک باقی ہے ۔ اقبال اس حقیقت کے معترف ہیں کہ اسلامی سماج مغربی ثقافت اورتمدن کی بنا پر متزلزل ہو کر رہ گیا ہے اولین کام یہ ہے کہ سماج خود اپنی خودی پر ایمان لائے اور یہ خودی عبارت ہے اسلامی تعلیم اورتمدن سے اسی کو فلسفۂ خودی کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنے اشعار مضامین اور تقاریر میں ہمیشہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور آبا کی بے پناہ استعداد و صلاحیت کو بھر پور انداز میں پیش کیا اپنے بزرگ مسلمانوں کے کارناموں کو یاد دلاکر مسلمانوں میں دوبارہ خود اعتمادی اور حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی یہ ساری کوشش اسلامی سماج پر اقبال کا بڑا احسان ہے ۔ بقول اقبال مسلماں آن فقری کج کلاہی رمید از سینۂ او سوز آ ہی دلش نالہ چرا نالہ نداند نگاہی یا رسول اللہ نگاہی اسلامی تعلیمات کی تشریح میں چند ایک امور میں مرتضی مطہری علامہ اقبال سے اختلاف کا اظہار بھی کرتے ہیں اس اختلاف رائے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہید مرتضی مطہری اس دور کے سیاسی اور ثقافتی حالات کو نہیں سمجھ سکتے جس کا ادراک خود اقبال رکھتے تھے اور جن زبوں حال معاشرے میں اقبال نے اپنے فکر کو پروان چڑھایا اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ۔ اختلاف رائے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہید مرتضی نے اقبال اردو اور انگریزی تحریروں کا شاید دقیق مطالعہ نہ کیا ہو جس میں ان کے فارسی کلام کی وضاحت بھی ہوتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کی فکر میں ایک ارتقائی رجحان پایا جاتا ہے جس سے بعض قارئین کو ان کے بعض افکار میں شبہات نظر آتے ہیں بہرحال اعتراض کرنا نقاد کا حق ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ کا علم عوام کے شعور کی بیداری اور دو قومی نظریہ کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے تھا نہ کہ فلسفہ اور شاعری کی اصطلاحات کی وضاحت کرنا مقصود تھا۔ استاد شہید مرتضی مطہری نے اقبال کی جہاں بہت سی خوبیوں اور انقلابی افکار کی نشاندھی فرمائی وہاں چند ایک مقامات پر اختلاف رائے کا اظہار بھی کیا ۔مثلاً وہ فرماتے ہیں کہ مغربی دنیا میں تو واقعاً وہ ایک فلسفی ہیں لیکن اسلامی فلسفہ کے بارے میں گہری معلومات نہیں رکھتے خاص طور پر اثبات واجب اور علم قبل الایجاد جو کہ اسلامی فلسفہ کے اہم مسائل کے سلسلے ہیں ختم نبوت کے بارے میں جو فلسفہ پیش کیا وہ ختم نبوت کی بجائے ختم دین پر انتہا پذیر ہوتا ہے ۔ جو خود اقبال کے مقصد اور مدعا کے خلاف ہے۔ وہ لکھتے کہ اگرچہ اقبال کی روش عارفانہ ہے لیکن عرفانی علوم و معارف کے دقیق مسائل پر گہری نظر نہیں رکھتے اس طرح اسلامی دنیا کی بعض شخصیات اور اسلامی ممالک میں استعماری چالوں کو سمجھنے میں غلطی ہوئی بعض ڈکٹیٹروں کے اقدامات کی اصلاحی اور اسلامی تصور کرنے ان کی مدح و ثنا کی جہاں تک فلسفہ کا تعلق ہے استاد شہید مرتضی مطہری بنیادی طور پر الٰہیات و فلسفہ کے استاد تھے انہوں ے اسلامی افکار کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کو ختم کیا ور منطقی انداز سے اسلام کا علمی دفاع کیا کیونکہ استاد شہید جدلیات کے فلسفے ، مادیت پرستی اور حقیقت پسندی پر مبنی افکار و نظریات کے بارے میں مکمل آگہی کے ساتھ اس مسئلے میں تفصیلی تحقیق بھی کر چکے تھے ۔تہران یونیورسٹی میں الٰہیات و معارف اسلامی کے استاد کی حیثیت سے کافی عرصہ تک تدرس کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ مطہری شہید کا یہ اختلاف کہ اقبال کا فلسفہ ختم نبوت ختم دین پر منتج ہوتا ہے یہ اعتراض انہوں نے اقبال کی کتاب ’’احیاء فکر دینی در اسلام‘‘ کے ص ۱۴۵ کے حوالے سے کیا ہے جس میں اقبال کا خیال ہے کہ رسول اکرم ؐ قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے ہیں جہاں تک آنحضرت کا رابطہ الہامی سر چشمے سے ہے تو اس لحاظ سے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے اور جہاں تک آپ کی روح ہدایت کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے آپ جدید دنیا سے متعلق ہیں زندگی نے آپ کے اندر معرفت کے نئے سر چشمے آشکار کیے جو آج کی جدید زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اسلام اور عقل کا ظہور ایک استقرائی دلیل ہے ظہور اسلام کے ساتھ خود رسالت کے ختم ہو جانے کی ضرورت آشکار ہو جانے کے نتیجے میں رسالت بھی اپنے حد کمال کو پہنچ جاتی ہے اوریہ چیز خود اس امر کا بین ثبوت ہے کہ زندگی ہمیشہ مرحلہ طفلی اور خارج سے رہبری کی سطح پر نہیںرہ سکتی ۔ استاد شہید کے مطابق اگر اس فلسفے کو درست مان لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ مزید کسی وحی اور نبی کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وحی کی رہنمائی کی بھی قطعاً ضرورت نہیں رہتی کیونکہ تجرباتی عقل کی ہدایت وحی کی ہدایت کی جگہ لے چکی ہے ۔ مطہری کے مطابق اگر یہ فلسفہ صحیح ہو تو پھر یہ فلسفہ دین کے خاتمے کا فلسفہ ہے نہ ختم نبوت کا ۔ حقیقت میں اقبال کا عقیدہ تھا کہ حضورؐ زندہ ہیں اور اس زمانے کے بزرگ بھی صحابہ کی طرح فیض اٹھاتے ہیں دین کی حقیقت اور رسولؐ اکرم کے خلقِ عظیم کا ایک گہرا نقش اقبال کے قلب و نظر پر نقش ہو چکا تھا علامہ اقبال کے مطابق جو شخص حضورؐ کے عشق میں ڈوب جائے اور حضورؐ کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے اسے وہ بے پناہ قوتیں حاصل ہو جائیں گی کہ وہ بحرو برپر اپنا تسلط جمالے گا ۔ لہٰذا یہ اقبال کا عشق رسولؐ تھا جس سے سرشار ہو کر اقبال نے اس طرح کی توضیح فرمائی ۔ ختم نبوت کے حوالے سے اقبال ختم دین کے قائل نہیںبلکہ تکمیل دین کے قائل ہیں اقبال کی نظر میں دین اسلام ہر دور میں زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی عملی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسلام کے بنیادی شعار اور نبیؐ کا اتباع تمام مسلمانوں پر واجب ہے ان بنیادی احکامات میں تبدیلی کفر ہے۔ یوں اقبال کے اس نقطہ ِ ٔ نظر کو شہید مطہری نے اقبال کے ان افکار کی روشنی میں نہیں دیکھا جس سے شکوک پیدا ہوئے حالانکہ شہید مطہری خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس طرح کی بات اقبال کے مقصد کے خلاف ہے کیونکہ وہ ختم نبوت ثابت کرنا چاہتے ہیں نہ کہ ختم دین ۔ علامہ اقبال خود فرماتے ہیں کہ زندگی ثابت اصولوں اور بدلتے رہنے والے فرد کی محتاج ہے یہ اسلام میں حرکت کا اصول ہے جسے اصول اجتہاد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور اسلام میں اجتہاد کا کام اصول پر فروع کا منطبق کرنا ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ وحی کی راہنمائی کی ضرورت ہمیشہ باقی ہے اور تجرباتی عقل کی راہنمائی وحی کی راہنمائی کا بدل نہیں ہو سکتی مرتضی مطہری خود اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال ہدایت و رہنمائی کی دائمی احتیاج کی بقا کے سوفی صد حامی ہیں۔ اس طرح ختم نبوت اس کے برعکس توجہیہ نہ تو اقبال کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی ان کے لیے جنہوں نے اقبال کی تحریر سے اس قسم کے نتائج اخذ کیے ہیں ۔ مرتضیٰ مطہری کا یہ اختلاف کہ اقبال نے اپنے دور میں چند استعماری تحریکوں اور شخصیات کو سمجھنے میں غلطی کی اور انہیں اصلاحی تحریک قرار دیا اور اپنے اشعار میں بعض ڈکٹیٹروں کی بھی مدح و ثنا کرتے ہیں۔ درحقیقت اقبال کے فکر میں پائے جانے والے ارتقائی رجحان سے اس قسم کے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ اقبال کا دور دراصل عالم اسلام کے زوال اور انحطاط کا دور تھا ان حالات میں اقبال جہاں کہیں بھی آزادی و حریت کا پیغام سنتے اس تحریک کو برصغیر کے مایوس مسلمانوں کے لیے روشنی کی کرن تصور کرتے ہیں ۔ احیائے دین کی تحریک میں اقبال شروع ہی سے معتدل اور متوازن رویہ رکھتے تھے جوں جوں ان تحریکیوں کے محرکین اہداف اسلامی سے کنارہ کشی اختیار کرتے اقبال بھی ان تحریکیوں سے لاتعلقی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے جس کا ثبوت ان کے آخری کلام کے مطالعہ سے ملتا ہے ۔ مطہری خود اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال کا منتہائے نظر شاعری نہیں تھا شاعری کو صرف مسلم معاشرے کو بیدار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ کی یاد دلائی جائے تاکہ یہ امت اپنی عظمت اور بزرگی کا مقام دوبارہ حاصل کر سکے ۔ علامہ اقبال نے جب یہ دیکھا کہ اتاترک اور اس کا پیرو مسلمان ڈکٹیٹررضا شاہ پہلوی دونوں اسلام کو سیاسی ادارے سے خارج کر رہے ہیں اور استعمار کے ہاتھ کھلونا بن کر رہ گئے ہیں تو اقبال ان دونوں کو مسترد کرتے ہیں۔ نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی خود اقبال نے ابتدائی کلام میں کہیں ان تحریکوں کے محرکین کی تعریف کی ہے تو اپنے آخری کلام میں جسے مثنوی پس چہ باید کرد اقوام مشرق میں وضاحت کی ہے کہ ان لوگوں سے توقعات وابستہ تھیں لیکن یہ بھی استعمار کہ آلہ کار ثابت ہوئے جس سیاسی اور ثقافتی بے بسی کے دور میں برصغیر کے مسلمان عصر اقبال میں گذر رہے تھے اس کا ادراک کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ۔ بہرحال بنیادی اسلامی تعلیمات میں ان دو بڑی شخصیات کے درمیان اشتراک فکری پایا جاتا ہے انہوں نے اسلامی تعلیمات کی توضیح اپنے اپنے انداز میں کی ہے ۔ یہ علمی تحقیقی اور تنقیدی رویے ہی ہیں جو مسائل کے حل تلاش کرنے میں ممدو معاون ہوتے ہیں ۔ ایران کے اسلامی جمہوری انقلاب کے پس پردہ جو فکری روح کار فرما تھی اس میں اقبال کی بصیرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا علامہ اقبال عصر حاضر میں برصغیر اور فارسی زبان والے مسلمان ممالک کے لیے دراصل اسلام و ایمان آزادی و حریت اور خود شناسی و خود سازی کی ایک موثر آواز ہیں ۔ اقبال سے متعلق شہید مرتضیٰ مطہری کے بیانات پر مبنی فہرست موضوعات حواشی ۱۔ گفتار اقبال لاہوری پیرامون فلسفہ ختم نبوت و بی نیازی بشر آشنایی باقرآن : ج ۱،۲، صدرا، ۱۳۷۰ھ، ص ش : ۲۲۳، ت ، ص :۴ ۲ ۔ کلامی از حکیم اقبال لاہوری پیرامون حسن معنوی ویایش انسان آشنایی با قرآن : ج ا،۲، صدرا، ۱۳۲۹ھ ، ص ش:۳۸،ت ص :۱ ۳۔ کلامی از اقبال لاہوری دربارہ شخصیت پیامبر اسلام (ص) آشنایی با قرآن : ج ۱،۲، صدرا، ۱۳۲۹ھ ص ش :۶۱ ت ص :۱ ۴ ۔ ویژگیھای اقبال لاہوری و بررسی اشتباہات وی در زمینہ معارف استاد مطہری ورد شنفکران ، ج۱،۲، صدرا، ۱۳۲۹ھ ص ش :۱۰۰ت ص:۲ ۵ ۔ اہمیت محورھای ثبات در نھضتھاو حر کتھای اجتماعی و وجود این محورہا در استاد مطہری ورد شنفکران ،ج ۱،۲، صدرا ۱۳۲۹ھ ص ش :۸۹ ت ص:۲ اسلام و نظر اقبال لاہوری دراین بارہ ۶ ۔ نظر اقبال در کتاب احیای فکر دینی در زمینہ مانعیت غرب از استاد مطہری ورد شنفکران،ج :۱،۲، صدرا ،۱۳۶۹ھ ص ش:۹۷ت پیشرفت اخلاق بشریت ص:۱ ۷ ۔ نقش اقبال درتاسیس کشور اسلامی پاکستان استاد مطہری ورد شنفکران ، ج :۱،۲، صدرا، ۱۳۶۹ھ ص ش :۹۹ ت ص :۱ ۸۔ مختصری از حالات اقبال لاہوری اسلام و مقتصیات زمان، ج:۱، صدرا ، ۱۳۶۸ھ ص ش، ۲۳۱، ت ص:۱ ۹ ۔ جملہ ای از اقبال لاہوری پیرامون اجتھاد اسلام و مقتصیات زمان، ج:۱، صدرا ، ۱۳۶۸ھ ص ش، ۲۳۲، ت ص:۱ ۱۰۔ دیدگاہ اقبال لاہوری درکتاب احیای فکردینی در اسلام پیرامون اسلام و مقتصیات زمان، ج:۱، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ص ش، ۱۴، ت ص:۱ اجتھاد ۱۱ ۔ دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون قوانین اسلام ومقتصیات زماں اسلام و مقتصیات زمان، ج:۱، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ص ش، ۱۴، ت ص:۱ ۱۲ ۔ گفتاری از اقبال لاہوری پیرامون ضرورت وجود اصول وقوانین اسلام و مقتصیات زمان، ج:۱، صدرا ، ۱۳۸۰ھ ص ش، ۱۴، ت ص:۱ ثابت و متغیر بر ای جامعہ وویژگی آن ۱۳ ۔ دیدگاہ گوبینو پیرامون نظر صاحب کتاب روضات الجنات و دکتر اصول فلسفہ و روش رئالیسم، ج:۱، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ص ش،۱۳، ت ص:۱ در کتاب توسعہ حکمت در اسلام در مورد خط مشی ملاصدرا ۱۴ ۔ تبیین عدم آشنایی اقبال لاہوری با فلسفہ اسلامی در کتاب سیر اصول فلسفہ و روش رئالیسم، ج:۵، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ص ش،۳۷، ت ایران و کتاب احیای فکر دینی در اسلام ص:۱ ۱۵۔ دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون زیایش انسان در قرآن ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش : ۲۳،ت ص :۱ ۱۶ ۔ فرق میان خود آگاہی پیامبرانہ و خود آگاہی عارفان در کلام اقبال انسان در قرآن ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش : ۷۹، ت ص :۱ ۱۷ ۔ بررسی زیان انسان بہ علم و ایمان از دیدگاہ علامہ اقبال لاہوری انسان و ایمان ، صدرا ۱۳۶۹ھ ، ص ش : ۲۴، ت ص :۱ در کتاب احیای فکر دین در اسلام ۱۸ ۔ شعری از اقبال لاہوری در بارہ دیدگاہ قرآن از انقلاب پیرامون انقلاب اسلامی ، صدرا ۱۳۶۸ ھ ، ص ش ۱۰۷، ت ص : ۱ ۱۹ ۔ نیاز ہای بشریت در زندگی انسانی از دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون انقلاب اسلامی ، صدرا ۱۳۶۸ ھ ، ص ش : ۹۸، ت ص :۱ ۲۰ ۔ شعری از اقبال لاہوری در وصف امام علی جاذبہ و واقعہ علی ، صدرا ، ۱۳۶۸ ھ ، ص ش : ۴۰ ، ت ص :۱ ۲۱ ۔ دیدگاہ اقبال لاہوری در رابطہ بافرہنگ شوم و تمدن اروپایی حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۲ھ ص ش : ۶۸ ، ت ص و فرہنگ اسلامی و تفادت آن دو بیک دیگر :۸ ۲۲ ۔ آشنایی با شخصیت علمی و تفکر اقبال لاہوری حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش : ۶۹ ، ت ص :۸ ۲۳ ۔دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون پوچ بودن ادعای آزادی حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش :۷۲ ، ت ص:۲ و حقوق بشر در اروپا ۲۴ ۔لزوم تعریف جھان بر اساس معنویات وجود آزادی فردی حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش :۷۵ ، ت ص:۱ و تبیین اصولی جھانی بر ای تکامل بشر از دیدگاہ اقبال ۲۵ ۔ دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون غرب زدگی و عدم ہمت مسلمانان حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۲ھ ص ش : ۷۶ ، ت بہ اسلام و ضرورت احیای جامعہ اسلامی ص:۱۶ ۲۶۔ نقش اتحاد و ھمبستگی در حیات جامعہ اسلامی ازدید گاہ اقبال لاہوری حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۲ھ ص ش : ۸۲ ، ت و ذکر تمثلیھایی در این زمینہ ص:۱۰ ۲۷ ۔ علائم حیات و عدم حیات جامعہ از دیدگاہ اقبال حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۲ھ ص ش : ۸۲ ، ت ص :۱۰ ۲۸ ۔ جدایی اندلیس از پیکرہ جہان اسلامی بعنوان نشان عدم حیات حق و باطل ضمیمہ احیای تفکر اسلامی ، صدرا ۱۳۶۹ھ ص ش : ۸۴ ، ت ص :۱ جامعہ اسلامی از دیدگاہ اقبال ۲۹ ۔ اہمیت مسألہ احساس شخصیت در انسان و دیدگاہ اقبال لاہوری حماسہ حسینی ، ج : ۱،۱۳۶۸ ھ ، ص ش : ۱۶۴، ت ص : ۳ دربارہ آن ۳۰ ۔گفتاری از اقبال لاہوری دربارہ نحوہ قرات قرآن و توحید پدرش حماسہ حسینی ، ج :۱ ، ۱۳۶۸ھ ، ص ش : ۲۲۳، ت ص :۱ در این مورد ۳۱۔ شیوہ اقبال لاہوری در تبلیغات با استفادہ از شعر و سرود حماسہ حسینی ، ج :۱،۱۳۶۸ھ ص ش : ۲۲۸، ت ص :۱ ۳۲ ۔ تحلیل شعری از اقبال لاہوری پیرامون ناشناختہ ماندن بعضی حماسہ حسینی، ج:۲، ۱۳۶۹ ھ ص ش :۲۳۴، ت ص:۱ از شعر درزمان حیاتشان ۳۳ ۔ عوامل تقویت و تفعیف شخصیت انسانی و سعادت انسانی از حماسہ حسینی ، ج :۳، ۱۳۶۵ھ ، ص ش : ۳۲۷، ت ص : ۱ دیدگاہ اقبال لاہوری بہ نقل از کتاب اقبال شناسی ۳۴ ۔ جملہ ای از محمد اقبال در مورد اجتہاد خاتمیت ، صدرا ، ۱۳۷۰ ھ ، ص ش :۱۰۷، ت ص:۱ ۳۵ ۔ فرق بین نبی و عارف از دیدگاہ اقبال لاہوری ختم نبوت ، صدرا ، ۱۳۷۰ ھ ، ص ش : ۳۳ ، ت ص : ۱ ۳۶ ۔ دیدگاہ اقبال لاہوری در زمینہ لذرم ختم نبوت بعد از رسالت ختم نبوت ، صدرا ، ۱۳۷۰ھ ، ص ش : ۳۹ ، ت ص : ۱ بدلیل جانشینی علم و عقل بجای پیامبران تبلیغی در اسلام ۳۷ ۔ شعری از اقبال لاہوری در بیداری وجد انہای متفرق مسلمانان خدمات متقابل اسلام ایران ، صدرا ، ۱۳۶۲ھ، ص ش :۴۲، ت ص:۱ ۳۸ ۔ آشنایی با عبدالرحمن کو اکبی، سید جمال الدین اسد آبادی محمد خدمات متقابل اسلام و ایران ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش : ۴۲، ت ص :۱ عبدہ نائینی و اقبال و بشیر ابراہیمی پایہ گذاران ملیت جدید توحیدی ۳۹ ۔ شعری از اقبال لاہوری دربارہ وحدت مسلمانان خدمات متقابل اسلام و ایران ، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۵۱، ت ص :۱ ۴۰ ۔ برداشتی غلط از شعر اقبال لاہوری در مورد صادق وکنی و جعفربنگالی سیری در سیرہ آئمہ اطھارؐ ، صدرا، ۱۳۶۸ھ ، ص ش :۴۵، ت ص :۱ ۴۱ ۔ دیدگاہ اقبال لاہوری پیرامون نیاز بشریت قرآن بیتم بہ سیری در سیرہ نبوی ، صدرا ، ۱۳۶۸ھ ، ص ش :۱۸، ت ص : ۱ معنویات و دین از کتاب احیای فکر دینی در اسلام ۴۲ ۔ نقش عبادت در بازیابی خود از نظر اینشتن وویلیام جیمز و اقبال لاہوری سیری در نہج البلاغہ ، صدرا ۱۳۵۴ھ ، ص ش : ۳۰۴، ت ص :۱ ۴۳ ۔ نقش عبادت دربازیایی خود از نظر اقبال لاہوری سیری در نہج البلاغہ ، صدرا ، ۱۳۵۴ھ ، ص ش : ۳۰۵، ت ص : ۱ ۴۴ ۔ نقش اجتہاد در امکان نطباق اسلام با متقصیات زمان نظام حقوق زن در اسلام ، صدرا ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۱۶۸ ، ت ص : ۱ از اقبال لاہوری در این زمینہ ۴۵ ۔ جایگاہ اجماع در اہل سنت و میزان راھکشایی آن در مستحدثات نقدی بر مار کسیزم، صدرا ، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۱۶۸، ت ص : ۱ از نظر امثال اقبال لاہوری ۴۶ ۔ نظری بہ حرکت اصلاح گرایانہ اقبال لاہوری و نقش در تنویر افکار نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۴۸، ت مردم ص:۵ ۴۷ ۔ نظر اقبال لاہوری در مورد فرہنگ غرب و مسلمانان نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۴۸، ت ص:۱ ۴۸ ۔ مزیتھای روحی و عرفانی اقبال لاہوری نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۴۹، ت ص:۱ ۴۹ ۔ گفتاری از اقبال لاہوری در کتاب احیای فکر دینی پیرامون نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا :۱۳۶۹، ص ش :۴۹، ت ص:۱ فرہنگ و تمدن غرب اسلام ۵۰ ۔ اجتہاد از نظر اقبال لاہوری نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۹، ص ش :۴۹، ت ص:۱ ۵۱ ۔ اعتماد بہ خود و خویشتن (فلسفہ خودی) مسلمانان و جوامع اسلامی نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۵۰، ت ص:۱ در بر خورد بافرہنگ یگانہ غرب از نظر اقبال لاہوری ۵۲ ۔ قدرت و ذوق شعر ی اقبال لاہوری نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۹، ص ش :۵۰، ت ص:۱ ۵۳ ۔ میزان آشنایی اقبال لاہوری از فرہنگ اسلامی نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۵۲، ت ص:۱ ۵۴ ۔ گفتاری از اقبال لاہوری دربارہ ضرورت ہماہنگی مقولہ ہای نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا :۱۳۶۹، ص ش :۷۷، ت ص:۱ ثبوت و تغییر در زندگی اجتماعی انسان از نظر اسلام ۵۵ ۔ ثأثیر فرہنگ و معارف اسلامی در موفقیت نحضت سید جمال الدین نھضتھای اسلامی در صد سالہ اخیر ، صدرا : ۱۳۶۸، ص ش :۸۳، ت ص:۱ اسد آبادی از نظر اقبال لاہوری در کتاب معمار تجدید بنای اسلامی ۵۶ ۔ تفادت پیامبران باعرفاء (مردباطنی) از نظر اقبال لاہوری وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۱۵ ، ت ص :۱ در کتاب احیایی فکر دینی در اسلام ۵۷ ۔ نقد و بر رسی دیدگاہ اقبال در زمینہ وحی ، غریزہ و عقل وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۴۴ ، ت ص :۱۲ ۵۸ ۔ نقد و بر رسی نظرات اقبال لاہوری در بارہ فلسفہ ختم نبوت وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۴۴ ، ت ص :۱۲ در کتاب احیای فکر دینی در اسلام ۵۹ ۔ مغایرت نظریہ اقبال دربارہ فلسفہ ختم نبوت با نظریہ اش وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۴۸ ، ت ص :۲ درباب اجتہاد اسلامی و ضروریات اسلام ۶۰ ۔ الھامات معنوی از نظر اقبال لاہوری در کتاب طبیعت و تاریخ وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۵۱ ، ت ص :۱ ۶۱ ۔ نقد نظریہ اقبال پیرامون فرق غریزہ ووحی وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۵۳ ، ت ص :۱ ۶۲ ۔ توضیحی پیرامون علت بعضی از اشتباھات اقبال لاہوری در زمینہ وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۵۵ ، ت ص :۱ علوم اسلامی ۶۳ ۔ مقایسہ ای بین سید جمال الدین اسد آبادی و اقبال لاہوری وحی نبوت ، صدرا، ۱۳۶۹ھ ، ص ش :۵۶ ، ت ص :۱ در اندیشہ ھای اسلامی  تنقیدات علامہ اقبال ؒ پر حمید نسیم کے اعتراضات کا جائزہ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر حمید نسیم کی تصنیف اقبال ہمارے عظیم شاعر اقبال کی تحسین و تنقیص دونوں پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اصل کتاب سے مختلف نوعیت کا ہے اور خاص طور پر مخالفانہ ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’علامہ اقبال حکیم الامت؟‘‘ ۔ اس باب میں علامہ اقبال کے حکیم الامت ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ حمید نسیم نے اقبال کے بنیادی تصورات تین بتائے ہیں۔ نظریۂ خودی ، تصور مردِ کامل اور تصور علم و عشق اور تینوں بنیادوں کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک نظریۂ خودی اور تصور مردِ کامل مستعار افکار کا ملغوبہ ہے اور اسلام کے منافی ہے ، اس لیے کہ قرآن مردانِ کامل کے خلاف (anti hero) ہے ۔جہاں تک علم کا تعلق ہے تو اقبال علم کے مخالف ہیں لہٰذا انہیں حکیم الامت کہنا غلط ہے۔ حمید نسیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اقبال ہمارے عظیم شاعر ہیں اور اس وجہ سے انہیں حکیم الامت کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ یہ مرتبہ ان کے اصلی مقام سے کم تر ہے ۱ ۔ اقبال پر حمید نسیم کے اعتراضات کا جائزہ لینے سے سے پہلے مناسب یہ ہے کہ انہیں معترض کے اپنے الفاظ میں نقل کر دیا جائے ۔ ذیل کی تحریریں پہلے باب میں شامل ہیں ۔ حمید نسیم لکھتے ہیں : ۱ ۔ اقبال نے اپنے تعقلِ خودی کی تشکیل میں برگساں کے تخلیقی ارتقا (Creative Evolution) کے نظریہ سے اکتسابِ معارف کیا ۔ اس میں Elan Vital کا بھی ایک حصہ موجود ہے ۔ ہیگل سے بھی علاّمہ متاثر ہوئے کہ اس کا فلسفہ جدلیاتی فکر کا سرچشمہ ہے۔ کانٹ کے Pure Reason کا بھی علامہ پر خاصا اثر ہے ۔ برگساں کا تخلیقی ارتقاکا تعقل تو علامہ کی شاعری پر اکثر محیط نظر آتا ہے : یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں اب خودی کے عناصرِ ترکیبی پر غور کیجیے ۔ ان میں ارسطو کی True Self اور فرائڈ کی Superego اور نیٹشے کا نظریۂ قوت بہم آمیز ہیں ۲ ۔ ۲ ۔ اب رہ گیا اقبال کا مومن یا مردِ کامل کا تعّقل ۔ یہ بھی بیشتر مغربی مفکروں کے افکار سے مستعار ہے۔۔۔ کارلائل کا ہیرو کا تصور ، گوئٹے کا Eckerman ، نیٹشے کا فوق البشر ، گیتا کا یوگی جو مہاراج کرشن کی تربیت کا شاہکار ارجن ہے۔ان سب کو یکجا کرو اور کلمۂ پڑھوا دو تو وہ مردِ کامل بن گیا۔۔۔ یہ سراسر مغربی تصور ہے اور اسلامی قرآنی تعلیمات Anti hero ہیں۔۔۔ اسلام میںPersonality Cult کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں اور فوق البشر یا مردِ کامل کا تصور اس Cult پر منتج ہوتا ہے ۔۔۔ آمریت اور فاشزم کا راستہ جو انسانِ برتر کے نظریے پر مبنی ہے (اسلام میں) ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے ۔۔۔یہ مردِ کامل اور غلام پختہ کار ہونے کا تصور مغرب کی عیارانہ سیاست کے بانی (مکیاولی) کی فکر کی پیداوار ہے۔۔۔ اسی تصور نے ایفرو ایشیائی نو آزاد ممالک میں بونے مگر سفاک آمروں کوغصبِ اقتدار کی راہ دکھائی۳۔ ۳ ۔ علامہ نے اپنے کلام میں خودی کے ایسے ایسے نقشے دکھائے ہیں کہ جس سے یہ گمان ہو سکتا ہے کہ ان کی خودی علم اشیاء سے نفور ہے۔۔۔علامہ اپنی شاعری میں بیشتر مقامات پر Antiknowledge نظر آتے ہیں ۔ ضرب کلیم میں ایک نظم ہے۔ آغاز ہی میں ۔۔ عنوان ہے: ’’ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘ ۔ اس کے پہلے دو شعر یہ ہیں : تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زنّاری برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی آگے چل کر فرماتے ہیں : انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری علاّمہ نے اپنے سارے کلام میں صرف ایک دو مقام پر علم اشیا کی تعریف فرمائی ۔۔۔ علامہ فرماتے ہیں ؎ عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام یہ شاعری تو بہت اچھی ہے اور شاعری کی حد سے آگے اسے لے جانا مناسب بھی نہیں ۔ علم سے حاصل شدہ ’’حاصل‘‘ کو حرام کہنے کی روش خلافتِ راشدہ کے اختتام اور ملوکیت کے آغاز پر حاکموں نے کرائے کے عالموں کے وسیلے سے امتِ مسلمہ میں عام کرنے پر اپنی مطلق العنان بادشاہت کے تمام وسائل استعمال کیے تھے۔ یہی حاصل سے روکشی تھی جس کی وجہ سے مسلمان قوم صدیوں سے محکوم و مجبور چلی آ رہی ہے اور آج کی نو آزاد مسلمان اقوام ترقی یافتہ کافر اقوام سے نوری برس پیچھے ہیں۔۔۔ (اقبال کہتے ہیں) کرمِ کتابی نہ بن یعنی کتابیں پڑھنے میں منہمک نہ ہو جا ۔۔۔ (اقبال) اکثر مقامات میں ، اپنی شاعری میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو بالکل ایسے ہی ہیں جو سید احمد خان کی جدید علوم کے حصول کی تحریک کے دوران میں ہمارے نیم خواندہ ملا کہا کرتے تھے۔۔۔ علامہ مغرب میں ہونے والی تحریک احیائے علوم کو شیطان قرار دیتے ہیں۴ ۔ ۴ ۔ خرد ہوئی ہے زماں و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لاالہ الا اللہ اس آخری مصرعہ میں اقبال ویدانت اور نو فلاطونی فراری تصوف کے پیرو کار نظر آتے ہیں ۵۔ ۵ ۔ خطبات میں علامہ نے کوئی معرکہ آرا بات اسلامی اصول کے بارے میں نہیں فرمائی ۶ ۔ ۶ ۔ (اقبال کی) شاعری جو قومی سطح پر نہایت اہم تھی ، ادبی سطح پر علامہ کا زندہ جاوید کلام نہیں۔ یہ شاعری شاعری کی سطح پر Out Date ہو چکی ہے ۷ ۔ اسی پہلے باب میں اقبال کے مومن یا انسانِ کامل کے تصور کو بونا پارٹزم کہا ہے ۸ ۔ کتاب کے دوسرے ابواب میں بھی معترضانہ بیانات ہیں۔ مثلاً ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ اقبال کی نظم ’’وطنیت‘‘ Melodrama ہے ۔ یہ اسلامی شاعری یا اسلامی فکر و فلسفہ ہرگز نہیں۹۔ ایک اور مقام پر رقم طراز ہیںکہ اقبال کے نزدیک عورت کا سب سے رفیع مرتبہ یہ ہے کہ مرد اس کی خدمت گزاری اور سامانِ راحت ہونے کے بدلے میں اسے ’’زمرد کا گلوبند‘‘ عطا فرمائے ۱۰ ۔ ضرب کلیم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس کتاب میں برتر سطح کا کلام کم ہے اور اس کے جائزے کی ضرورت نہیں ہے ۱۱۔ (۲) کچھ نئے اعتراضات سے قطع نظر حمید نسیم نے ، اپنی زبان میں ، مخالفینِ اقبال کے روایتی اعتراضات کو دہرایا ہے۔ تصورخودی اور مردِ مومن (یہ ایک ہی تصور ہے ) کا مآخذ مغرب میں تلاش کرنا پرانی بات ہے۔ اقبال کے شعری مجموعوں کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے وہ اس الزام کو ثابت نہیں کر سکے ۱۲ ۔ اس کے برعکس ’’خودی کے مرکز تک پہنچتے ہوئے‘‘ حسبِ ذیل رباعی نقل کی ہے : خودی کی جلوتوں میں مصطفائیؐ خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی حمید نسیم نے اس کی وضاحت قرآنی حوالے سے کی ہے ۱۳ ۔ یہ اعتراض کہ تصورِ خودی اور تصورِ مردِ کامل مستعار افکار کا ملغوبہ ہے ، اب بے وزن ہوگیا ہے ۔ اقبال نے اپنی زندگی میں بار ہا اس کی تردید کی لیکن لوگ نکلسن ، فاسٹر اور ڈکنسن کی تقلید میں اسے دہراتے رہے۔ اب مغرب اور مشرق کے محققین کے نزدیک اس اعتراض میںکوئی جان نہیں ہے ۱۴ ۔ حمید نسیم کا یہ کہنا کہ اسلام میں Personality Cult کی گنجائش نہیں اور فوق البشر یا مردِ کامل کا تصور اس Cultپر منتج ہوتا ہے اور یہ مغربی تصور ہے ۔ نیز علاّمہ اقبال نے جمہوریت کی مخالفت کی اور آمریت اور فاشزم کا راستہ جو اسلام نے بند کر دیا تھا، اسے کھول دیا ہے اور بونے مگر سفاک آمروں کو غصب کی راہ اقبال نے دکھائی ہے اور یوں اقبال نے مکیاولی کی عیارانہ فکر کی پیروی کی ہے ۔ یہ سب اعتراضات اقبال پر بہتان ہیں ۔ اسی ضمن میں حمید نسیم لکھتے ہیں: خود علامہ اقبال کی زندگی میں دیکھیے ۔پیام مشرق امیر امان اللہ خان کے نام معنون ہے جسے علاّمہ اے امیر ابنِ امیر کہہ کر خطاب کرتے ہیں ۔۔۔ پھر علامہ نے نادر شاہ کو مردِ کامل اور کاروانِ ملت کا امیر قرار دیا ۔۔۔ اس سے پہلے مسولینی میں انہیں ایک عظیم برتر انسان نظر آیا تھا ۔۔۔ پھر دیکھیے ضرب کلیم کا انتساب والی بھوپال نواب حمید اللہ خان کے نام کیا تو یہ شعر نذر کیے۔یہ ایک نہایت مبالغہ آمیز قصیدہ ہے ۱۵ ۔ امیر امان اللہ خان کے نام جو ’’پیش کش‘‘ ہے ، اسی سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ اقبال حکمرانوں کو کون سی راہ دکھاتے ہیں ۔ اس پیش کش کے کچھ اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں : تازہ کن آئینِ صدیقؓ و عمرؓ چوں صبا بر لالۂ صحرا گزر زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلمِ انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر علم و دولت نظمِ کارِ ملت است علم و دولت اعتبارِ ملت است سروری در دینِ ما خدمت گری است عدلِ فاروقی و فقرِ حیدری است در قبائے خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند حکمرانے بود و سامانے نداشت دست او جز تیغ و قرانے نداشت ہر کہ عشقِ مصطفیٰؐ سامان اوست بحرو بر در گوشئہ دامانِ اوست سوزِ صدیقؓ و علیؓ از حق طلب ذرّہِ عشقِ نبیؐ از حق طلب خیزو اندر گردش آور جامِ عشق در قہستاں تازہ کن پیغام عشق۱۶ امیر امان اللہ خان (اور ہر مسلمان حکمران) کے نام اقبال کا پیغام یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے آئین کو تازہ کرو۔ ان کی پیروی ملّتِ افغانیہ کو نئی زندگی عطا کرے گی ۔ کمالِ زندگی کسی کا حق نہیں۔ زندگی کے کمالات جدو جہد سے حاصل ہوتے ہیں اور یہ کمالات علم النفس (انسانی خودی، نفسیات ، اخلاقیات) اور علمِ آفاق (طبیعات ، حیاتیات اور کیمیا یعنی سائنس) پر مشتمل ہیں۔ (علم النفس اور علمِ آفاق کی تلقین قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق ہے ۱۷) اللہ نے حکمت (دانائی ، عقل ، سائنس ) کو خیرِکثیر کہا ہے ۔ یہ خیر جہاں سے ملے حاصل کرو۔ علم و دولت پر کارِ ملت استوار ہے۔ علم و دولت سے ملّت کا اعتبار قائم ہوگا ۔ حکمرانی ہمارے دین میں عوام کی خدمت ہے۔ حکمران کو حضرت عمرؓ کی طرح عدل کرنا چاہیے اور حضرت علیؓ کی طرح سادگی اختیار کرنی چاہیے ۔ شاہی لباس میں درویشانہ زندگی بسر کرو اور عوامی مسائل کو نظر انداز نہ کرو۔ مسلمان حکمرانوں نے شاہی میں فقیری کی ہے۔ ان کا سامان قرآن اور تلوار کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جس مسلمان حکمران کے پاس عشقِ مصطفی کا سامان ہو گا وہ بحر و بر کا مالک ہو گا ۔ اللہ سے محبتِ رسولؐ کے لیے دعا کرو۔ یہ دعا کرو کہ صدیقؓ و علیؓ جیسا عشقِ رسول ﷺ تمہیں نصیب ہو ۔ اس سے بہرہ ور ہونے کے پیغام عشق کو کوہستانوں میں عام کردو۔ اقبال کے اس پیغام سے حسبِ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں: ۱ ۔ اقبال خلفائے راشدین کی پیروی پر زور دیتے ہیں ۔ یہی مردانِ حق ہیں۔ (اقبال اور عامتہ المسلمین اسی Cult کے روادار ہیں۔) ۲ ۔ علم و حکمت کی اقبال پر زور حمایت کرتے ہیں ۔ (چنانچہ علم کا ’’حاصل‘‘ ان کے نزدیک حرام نہیں ہے) ۳ ۔ اقبال حکمرانی کے ساتھ درویشی کو جمع کرتے ہیں۔ عدل اور سادگی کی تلقین کرتے ہیں (اس پیغام سے سفاک آمروں کا کردار مختلف ہے ۱۸) ۴ ۔ علم و حکمت کی اہمیت مسلّم لیکن اس سے اہم تر اللہ اور رسولؐ سے محبت و وفا کا رشتہ ہے۔ حمید نسیم نے اعتراض تو جڑ دیا کہ پیام مشرق امیرامان اللہ خان کے نام معنون ہے لیکن اس کی غرض و غایت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے۔ بقول اقبال : آشکارم دیدو پنہانم نہ دید ۱۹ ۔ اقبال کا یہ پیغام امیر امان اللہ خان سمیت کسی بھی مسلمان حکمران کو بونا اور سفاک بننے سے روکتا ہے ۔ یہ انتساب حکمرانی کی اسلامی اقدار کی تفہیم و تلقین کے لیے روا رکھا گیا ۲۰ ۔ مسولینی پر اقبال کی ایک نظم حمید نسیم نے پڑھ لی اور اقبال پر فاشزم کا الزام عائد کر دیا حالانکہ بال جبریل کی اس نظم کا تعلق ’’ندرتِ فکر و عمل ‘‘اور ’’ذوق انقلاب ‘‘ سے ہے ۲۱ ۔ مسولینی کا فاشزم والا چہرہ ابھی بے نقاب نہیں ہوا تھا ۔ جب اس نے ابی سینیا پر حملہ کیا تو اقبال نے اسی عنوان سے ایک نظم اور مسولینی کے عنوان سے دوسری نظم لکھ کر فاشزم کی شدید مخالفت کی۔ یہ دونوں نظمیں ضرب کلیم میں شامل ہیں لیکن ضرب کلیم کا مطالعہ و جائزہ حمید نسیم نے ضروری نہیں سمجھا۔ ان کا موقف ہے کہ ’’اس کتاب میں برتر سطح کا کلام کم ہے ‘‘ ۔ حمید نسیم کے اس موقف کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے ۔ حمید نسیم کا موقف یہ بھی ہے کہ اسلامی قرآنی تعلیمات Anti hero ہیں ۔ اسلام میں Personality Cult کی گنجائش نہیں ہے اور فوق البشر یا مردِ کامل کا تصور اس Cult پر منتج ہوتا ہے ۔ ہیرو اور کلٹ کے الفاظ سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ قرآن میں مردانِ کامل کا ذکر ہے یا نہیں ۔ قرآن کی تفسیر لکھنے کے باوجود حمید نسیم اس سامنے کی حقیقت کو جان نہ سکے ۔ ان کے برعکس فرانس کی خاتون محقق لوس کلوڈ متیخ لکھتی ہیں کہ ’’فکرِ اقبال قرآن مجید سے اخذو قبول کرتا ہے ۔۔۔ قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں انسان کی انفرادیت کا اثبات کیا ہے ۔۔۔ قران مجید میں انسانِ کامل کے تصور کی تکرار ملتی ہے۲۲ ‘‘۔ ضرب کلیم کے سرورق پر یہ بے مثل اشعار لائقِ توجہ ہیں: نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر کچھ آگے یہ شعر نظر سے گزرتا ہے : یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لَٓا اِلٰہَ اِلاَّ للہ! موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام انسانِ کامل ہیں۔ قرآن حکیم میں اور لہٰذا کلامِ اقبال میں ان کا ذکر بار بار آتا ہے۔ ذکر ِ ابراہیم ؑ ’’جواب شکوہ‘‘ سے شروع ہوگیا تھا: آج بھی ہو جو ابراہیم ؑ کا ایمان پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا حمید نسیم اقبال کے مردِ کامل کا تعلق ارسطو ، فرائڈ ، گوئٹے ، نٹشے اور گیتا کے کرداروں سے جوڑتے ہیں لیکن موسیٰ ؑاور ابراہیم ؑ انہیں دکھائی نہیں دیتے۔پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق میں’’حکمتِ کلیمی‘‘ کے عنوان کے تحت مردِ حق کی صفات پیدا ہوئی ہیں اور ’’حکمت فرعونی‘‘ کے عنوان کے تحت سفاک آمروں کی سیاست کا بیان ہے۔ اقبال حکمتِ کلیمی کے علمبردار ہیں ۔لیکن حمید نسیم نے انہیں حکمتِ فرعونی کا نقیب قرار دیا ہے ۔ مجنوں گورکھ پوری بھی معترضینِ اقبال میں شامل ہیں لیکن تصورِ خودی و بے خودی کو حمید نسیم سے بہتر سمجھا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : انسان کی انفرادی شخصیت کی تہذیب و ترقی اس لیے ضروری ہے کہ بالآخر اسی سے تمام جماعتِ انسانی کی فلاح ہو سکتی ہے۔جب انسان اپنی انفرادی شخصیت کو مکمل کر چکتا ہے تو پھر دوسرا فرض جو اقبال کا فلسفہ اس پر عائد کرتا ہے یہ ہے کہ اس تربیت یافتہ شخصیت کو جماعت کا تابع اور تمام دنیائے انسانیت کی ترقی و بہود کا ایک عنصر بنایا جائے ۲۳ ۔ نسلِ انسانی کے ہر فرد میں صفات الٰہی کی جھلک ، کسی نہ کسی حد تک موجود ہے ۔(وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ) صفات الٰہی جو بہترین صفات ہیں، جذب کر کے عام انسان مردِ مومن کے مقام پر فائز ہو سکتا ہے ۲۴ ۔ اللہ کی صفات ، جامع طور پر ، صرف قرآنِ حکیم میں بیان ہوئی ہیں اور صفاتِ الٰہی کے پرتو کا بہترین مظہر حضرت محمدؐ کی شخصیت ہے ۲۵ ۔ ان دو حوالوں کے علاوہ خودی اور مردانِ حق کی وضاحت اقبال نے ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبروں ، خلفائے راشدین ؓ اور دوسرے صحابہ ؓ ، اہل بیت ؓ اور امّت کے منفرد اور ممتاز افراد کے حوالے سے کی ہے ۲۶ ۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے البتہ مخالفینِ اقبال کی تحریریں کچھ اور بتاتی ہیں ۔ مخالفینِ اقبال ، اپنے اپنے مقاصد کے تحت، انہدامِ اقبال کے درپے ہیں۔ وہ ہر ایسی بات لکھتے ہیں جو حقائق کے برعکس ہوتی ہے۔ (۳) حمید نسیم کے خیال میں ’’علامہ نے اپنے سارے کلام میں صرف ایک دو مقام پر علم اشیا کی تعریف فرمائی ‘‘۔ اہم بات تو یہی ہے کہ اقبال نے علم اشیاکی تعریف کی ہے تاہم تعداد کے ضمن میں موصوف کو مغالطہ ہوا ہے۔ اقبال نے علم اور علم اشیا کی اہمیت و ضرورت بار بار اجاگر کی ہے ۲۷۔ البتہ نصب العین سے محبت کا مقام و مرتبہ اس سے بھی بلند تر ہے ۔ علم یا عقل کے تناظر میں اقبال عشق کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں تو مقصد عقل و علم کی کلی نفی نہیں ہوتا ۔ اسلوبِ بیان کو اقبال کا حقیقی موقف سمجھ لینے کے باعث حمید نسیم نے انہیں Anti Knowledge قرار دیا ہے ۔ اسلوبِ بیان کو حقیقی موقف سمجھ لینا گمراہ کن ہوتا ہے ۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوگی ۔ اقبال کہتے ہیں : نقطۂ پر کارِ حق مردِ خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم وطلسم و مجاز۲۸ اس شعر میں مردِ خدا کے یقین کی اہمیت کو واضح کرنا مقصد ہے نہ کہ جہان کو وہم قرار دینا۔ جہان تو موجود ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے : نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے۲۹ ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ اور ’’علم و عشق ‘‘ جیسی منظومات میں خرد اور علم کی کلی نفی مراد نہیںہے۔ پہلی نظم میں دین اور دوسری میں عشق کی اہمیت اجاگر کرنا مقصد ہے ۔ اقبال کے باقی کلامِ نظم و نثر کو نگاہ میں رکھیں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ۔ اقبال نے علم و دانش پر بار بار زور دیا ہے ۳۰۔ ’’علم و عشق‘‘میں علم کو ’’ابن الکتاب ‘‘ اور عشق کو ’’ام الکتاب ‘‘ کہا ہے ۔ ظاہر ہے علم کتابوں ہی سے حاصل ہوتا ہے تاہم عشق کا مقام اس سے بھی بلند تر ہے ۔ اس سے اقبال کو مخالفِ علم Anti Knowledge قرار دینا غلط ہے۔’’عشق پہ بجلی حلال ، عشق پہ حاصل حرام ‘‘ کا صحیح مفہوم وہی ہے جو اقبال کے حسبِ ذیل اشعار کا ہے: دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی! شہادت ہے مطلوب و مقصودِمومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی !۳۱ لیکن مذکورہ مصرع پر تبصرہ کرتے ہوئے حمید نسیم لکھتے ہیں کہ ’’علم سے حاصل شدہ ‘‘ ’’حاصل‘ ‘ کو حرام کہنے کی روش خلافتِ راشدہ کے اختتام اور ملوکیت کے آغاز پر حاکموں نے کرائے کے عالموں کے وسیلے سے امّت مسلمہ میںعام کرنے پر اپنی مطلق العنان بادشاہت کے تمام وسائل استعمال کیے تھے۔ یہی حاصل سے روکشی تھی جس کی وجہ سے مسلمان قوم صدیوں سے محکوم و مجبور چلی آ رہی ہے اور آج کی نو آزاد مسلمان اقوام ترقی یافتہ کا فر اقوام سے نوری برس پیچھے ہیں ‘‘ ۔ یہ سب غلط باتیں ہیں۔ فکرِ اقبال سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اقبال دنیا میں اپنا حصہ وصول کرنے کی مخالفت نہیں کرتے ، اس کی حمایت و تلقین کرتے ہیں ۳۲ ۔ تاہم مسلمان کا اصل نصب العین دنیا نہیں ، اللہ تعالیٰ ہے ۔ پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ دولت اور اقتدار کو نصب العین بنا لینا ہے۔ اس سے لوٹ مار کا در واہوا ۔ عقل اور علم جب حقیقی نصب العین سے کٹ جاتے ہیں اور غلط نصب العینوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو اقبال ان کی مخالفت کرتے ہیں ۳۳ ۔ پاکستانی معاشرے کو اقبال کی اسلامی بصیرت کے مطابق استوار کیا جاتا تو اب تک ہم بہت آگے نکل چکے ہوتے ۔اب بھی پاکستان کی بقا، سلامتی ، استحکام اور ترقی و خوشحالی کا انحصار اقبال کے تصورِ پاکستان کو بروئے کار لانے میں ہے۔ اقبال اس جمہوریت کے یقینا مخالف ہیں جو جنگِ زرگری کامظہر ہے اور جس کا تماشا ہم دیکھتے چلے آئے ہیں لیکن وہ روحانی جمہوریت کے حق میںہیں ۳۴ ۔ اس طرف پیش قدمی کرکے ہم دنیا کے لیے نمونہ فراہم کر سکتے ہیں ۔ (۴) اقبال دولت کے نہیں زر پرستی کے مخالف ہیں۔ مادے کے مخالف نہیں ہیںمادہ پرستی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اسی طرح زمان اور مکان بر حق ہیں لیکن انہیں معبود نہیں بنایا جا سکتا ۔ حسب ذیل شعر کا یہی مفہوم ہے : خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں ! لَٓا اِلٰہ اِلاَّ للہ! حمید نسیم کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اقبال ’’ویدانت اور نوافلاطونی فراری تصوف کے پیرو نظر آتے ہیں‘‘۔اسلوبِ بیان کو حقیقی موقف (View) سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔ اس ضمن میں ایک مثال پہلے دی جا چکی ہے۔ ایک اور مثال یہاں پیش کی جاتی ہے۔ ضرب کلیم کی نظم ’’دنیا‘‘ میں اقبال کہتے ہیں : حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے! اس شعر کا مقصد انسانی خودی کا اثبات ہے۔ دنیا کی نفی نہیں ہے کہ وہ موجود ہے ۔ اسی طرح زیر بحث شعر میں توحید کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے، زمان و مکان کی نفی نہیں کی گئی۔ معترض نے اسلوبِ بیان کو شاعر کا حقیقی موقف سمجھ لیا ہے ۔ حمید نسیم کے نزدیک ’’خطبات میں علامہ نے کوئی معرکہ آرا بات اسلامی اصول کے بارے میں نہیں فرمائی ‘‘۔ خطبات میں بیان کی گئی اقبال کی کسی رائے یا متعدد آرا سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے معرکہ آرا ہونے میں کیا شک ہے ۔ بقول مولانا سعید اکبر آبادی ’’حقیقت یہ ہے کہ عصرِ حاضر کو اسلامی حقائق سے آشنا کرنے کی ایک راہ علامہ نے ان خطبات کے ذریعے دکھائی ہے‘‘۳۵ ۔حمید نسیم لکھتے ہیں کہ اقبال کی نظم ’’وطنیت‘‘ میلو ڈراما ہے اور یہ اسلامی فکر و فلسفہ ہرگز نہیں ‘‘۔ اسلامی تصور شخصیت اور اسلامی تصورِ قومیت علامہ اقبال کے دو بنیادی تصورات ہیں۔ حمید نسیم کو دونوں کے اسلامی ہونے سے انکار ہے۔ حمید نسیم کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ادبی سطح پر کلام اقبال Out Date ہو چکا ہے ۔ ایسی صورت میں اقبال پر کتاب لکھنے کی کیا ضرورت تھی اور اس کانام اقبال ہمارے عظیم شاعر رکھنے کا کیا جواز تھا ۔ اسلامی تصورِ قومیّت صرف نظم ’’وطنیت‘‘ ہی میں بیان نہیں ہوا ، اقبال کے کلامِ نظم و نثر میں بکھراہوا ہے اور ناقابلِ تردید ہے۔ (تفصیل کے لیے ساتواں باب) حمید نسیم نے بہت عجیب دعوے کیے ہیں ۔ مثلاً ان کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ اقبال کی نظم بعنوان ’’رام‘‘ سوامی رام تیرتھ کے بارے میں ہے ۳۶ ۔ حمید نسیم کے خیال میں ’’اقبال کے نزدیک عورت کا سب سے رفیع مرتبہ یہ ہے کہ مرد اس کی خدمت گزاری اور سامانِ راحت ہونے کے بدلے میں اسے زمرد کا گلو بند عطا فرمائے‘‘ ۔ موصوف کی نظر یہاں بھی زمرد کے گلوبند پر اٹک گئی اور اسے اقبال کے حوالے سے مرد کی خدمت گزاری اور سامانِ راحت ہونے کا بدلہ بتایا جبکہ اقبال نے آزادیٔ نسواں ۔۔۔بمقابلہ مرد کے گلو بند کا سوال ، آرائش و قیمت کے تناظر میں اٹھایا ہے ۳۷ ۔ مرکزی مسئلہ’’ آزادیٔ نسواں ‘‘ہے نہ کہ زمرد کا گلوبند ۔ یہ بات نظم کے عنوان سے ظاہر ہے ۔ اب کیا کوئی مفسرِ قرآن آزادیٔ نسواں کو اسلامی فکر و فلسفہ قرار دے گا؟ خصوصاً جبکہ اس آزادی کا معیار مغربی ہو۔ حمید نسیم کے نزدیک اقبال کی تعلیم یہ ہے کہ ’’کرم کتابی نہ بن یعنی کتابیں پڑھنے میں منہمک نہ ہو جا ‘‘۔ یہ رائے مجموعی کلامِ اقبال کو نظر انداز کرنے، ایک بلند بحث کو کم تر سطح پر لانے اور اسلوبِ بیان کو حقیقی موقف سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔ ضرب کلیم کی اس نظم کا عنوان ہے’’علم و عشق‘‘ ۔ اقبال نے اس نظم میں علم پر عشق کو ترجیح دی ہے اور نظم کا ماحصل یہی ہے ۔ پیام مشرق کی نظم ’’محاورئہ علم و عشق‘‘سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال علم و عشق یا علم اور دین کا اتحاد چاہتے ہیں۳۸ ۔ضرب کلیم کی نظم ’’علم اور دین ‘‘سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے ۔ یہ نظم ’’علم و عشق‘‘ کے قریب واقع ہے ۔ تان اس شعر پر ٹوٹتی ہے: وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم! چنانچہ اقبال کم بصری کے خلاف ہیں اور بندئہ تحمین وطن بننے سے روکتے ہیں ۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ علم اور عشق کا امتزاج ہو۔ سینے میں لا اِلٰہ ہو تو فرنگی تعلیم تک سے خوف نہیں کھاتے ۳۹ ۔ وہ علم کی شمع سے محبت کے آرزو مند ہیں ۴۰ ۔ اور حالت یہ تھی کہ کتاب کے مطالعے کے دوران کھانا بھول جاتے تھے ۴۱ ۔ حمید نسیم لکھتے ہیں کہ ’’اقبال اکثر مقامات میں اپنی شاعری میں، ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو بالکل ایسے ہی ہیں جو سید احمد خان کی جدید علوم کے حصول کی تحریک کے دوران ہمارے نیم خواندہ ملا کہا کرتے تھے ‘‘۔ یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے ۔ ہمارے ہاں جدید و قدیم کی کشمکش عرصے سے جاری ہے ۔ سر سید اور ان کے حامی جدید کے علمبردار تھے ۔ ان کے پیرو کاروں کا حال بھی یہی ہے ۔ سرسید کے مخالفین قدیم کے علمبردار تھے۔ نتیجہ افراط و تفریط کی صورت میں ظاہر ہوا اور بقول شیخ محمد اکرام ’’اس نے بسا اوقات بڑی خطرناک صورت اختیار کر لی‘‘ ۴۲۔ اقبال نہ تو نیم خواندہ ملاّ ہیں اور نہ تہذیب جدید کے فرزند۔ اس لیے دونوں طبقے ان سے ناخوش ہیں اور انہیں ہدفِ اعتراض بناتے ہیں ۴۳۔جدید و قدیم کی ڈیڑھ سو برس سے جاری اِس کشمکش سے پہلے شاہ ولی اللہ نے توازن و اعتدال کی راہ دکھائی تھی۔ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ جدید دور میں ان کا نعم البدل اقبال ہیں۔ اقبال جس راستے پر چلا وہ عین شاہ ولی اللہ کے مطابق تھا۔ اس کے مطالعے اور مشاہدے کا نچوڑ تھا: زمانہ ایک، حیات ایک ، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم۴۴ حواشی ۱ تا ۸۔ علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر ، فضلی سنز [کتاب میں مقام اشاعت اور سالِ اشاعت درج نہیں]۔ ص ، ۱۹ تا ۳۱ ۹ تا ۱۱۔ ایضاً ، ص (بالترتیب) ۵۵، ۱۰۵، ۴۳۱ ۱۲ ۔ صفحہ ۴۱۴ پر ’’مسجد قرطبہ ‘‘ کے تین اشعار [ صفاتِ مومن کے ضمن میں] نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ تین شعر قرآنِ پاک میں مومنوں کی تعریف سے فیض یاب ہیں۔ اس کے بعد انجیل اور گیتا کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ اکثر ادیان کی مذہبی کتابیں ایک ہی پیغام دیتی ہیں نیز یہ تاثر دیا ہے کہ اقبال نے یہ ’’گم شدہ میراث‘‘ حضورؐ کے فرمان کے مطابق گیتا سے حاصل کی۔ سوال یہ ہے کہ جو سرمایۂ حکمت قرآن میں موجود ہے اسے ’’گم شدہ میراث‘‘ کہنے کا کیا جواز ہے۔ ۱۳۔ کتابِ مذکور ، ص ۲۲ ۔ رباعی کے لیے دیکھیے : کلیاتِ اقبال اردو ، ص ۳۷۵۔ حمید نسیم نے رباعی نقل کرتے ہوئے پہلے دو مصرعوں کی ترتیب بدل دی ہے۔ جو لوگ اصل متن کو سامنے رکھے بغیر اشعار نقل کرتے ہیں وہ اکثر کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ۱۴ ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ، راقم کا مقالہ بعنوان ’’علامہ اقبال کی فکری اساس ‘‘ مشمولہ قومی زبان ۔ کراچی ، نومبر ۱۹۹۷ء ۔ ۱۵ ۔ کتاب مذکور ، ص ، ۳۰ ۔ ۱۶ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص، ۱۸۸ تا ۱۹۱ ۔ ۱۷ ۔ (مکیاولی کی ) عیارانہ سیاست اور سفاک آمروں کی مذمت اقبال نے ’’حکمتِ فرعونی ‘‘ کے تحت کی ہے۔ (کلیات اقبال (فارسی) ، ص ، ۸۱۱ ۔ ۸۱۲) ۱۸ ۔ مذکورہ ’’پیش کش ‘‘ میں شامل حسبِ ذیل اشعار کا اطلاق حمید نسیم پر بھی ہوتا ہے: آشنائے من زمن بے گانہ رفت از خمِستانم تہی پیمانہ رفت کم نظر بیتابیٔ جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید ۱۹ ۔ نواب حمید اللہ خان کے بارے میں عبدالرئوف عروج لکھتے ہیں : نواب حمید اللہ خان نے تحریکِ پاکستان کو کامیابی سے ہم کنار کرانے میں اپنی ریاست اور اقتدار کی بھی پرواہ نہیں کی ۔۔۔ جب دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے بھوپال جا کر نواب حمید اللہ خان سے ملاقات کی ۔۔۔ نواب صاحب کو جب اقبال کے حالات کا علم ہوا تو انہوں نے اقبال کے لیے لائف پنشن پانچ سوروپے ماہوار مقرر کر دی ۔۔۔ اس کے ایک سال بعد ضرب کلیم شائع ہوئی تو اقبال نے اس کا انتساب چند اشعار کے ساتھ نواب حمید اللہ خان کے نام کیا ‘‘(تفصیل کے لیے دیکھیے ، رجال اقبال ، ص ۲۱۱تا ۲۱۳) ۲۰ ۔ دیکھیے : کلیات اقبال (اردو) ، ص ، ۴۴۲ ۔ ۴۴۳ ۔ نظم کا پہلا شعر ہے : ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب ! ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملّت کا شباب! ۲۱ ۔ فکر اقبال کی جہات ۔ مشمولہ اقبال ممدوحِ عالم ۔مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر، بزم اقبال، لاہور ، ۱۹۷۸ء ، ص ۱۹۴۔ ۲۲۔ اقبال (اجمالی جائزہ) ، ایوان اشاعت ، گورکھ پور، س ن ، ص ، ۲۲۔۲۳ ۲۳ ۔ اللہ کی جلالی اور جمالی صفات کو جذب کرنے والا مسلمان بنتا ہے ۔ ضرب کلیم کی نظم بعنوان ’’مرد مسلمان ‘‘ ایک شعر ہے ۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان! ۲۴ ۔ بال جبریل کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں اقبال کہتے ہیں : لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب! گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب! ۲۵ ۔ چند اشعار ، بطور مثال ، درج کیے جاتے ہیں : تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے! دلِ مرتضٰےؓ سوز صدیقؓ دے! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۱۲۴ دل بیدار فاروقی ، دل بیدار کرّاری مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیماری کلیات اقبال (اردو) ، ص ۳۲۹ قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن یا خالدِ ؓ جا نباز یا حیدر کرارؓ! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۴۸۹ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری کلیات اقبال (اردو) ، ص ۶۸۰ کیا نہیں اور غزنوی معرکۂ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۴۰۴ ۲۶ ۔ اقبال کے اردو اور فارسی کلام سے بعض مثالیں درج کی جاتی ہیں : باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۲۰۳ ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۲۷۱ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی کلیات اقبال (اردو) ، ص ۲۷۴ نہ ہو نومید ، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں! کلیات اقبال (اردو) ، ص ۴۱۲ علم اسما اعتبارِ آدم است حکمتِ اشیا حصارِ آدم است کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۱۴۴ زندگی جہدِ است و استحقاق نیست جز بعلمِ انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر علم اشیا علم الاسماتے ہم عصا و ہم ید بیضا ستے علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماست می بند د زدوغ علم و دولت نظم کارِ ملت است علم و دولت اعتبارِ ملت است کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۱۸۸۔۱۸۹ ساکنانش چوں فرنگاں ذوفنوں در علومِ جان و تن از ما فزوں! بر زمان و بر مکاں قاہر تراند زانکہ در علمِ فضا ما ہر تراند کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۶۹۰ قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چرا غش روشن است! کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۷۶۶ علمِ تفسیرِ جہانِ رنگ و بو دیدہ و دل پرورش گیرد ازو کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۷۷۷ چوں عرب اندر اروپا پرکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشیناں کا شتند حا ملش افرنگیاں برداشتند کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۸۸۰ ۲۷۔۲۸ کلیات اقبال اردو ، ص ۳۹۰، ۳۴۱ ۲۹ ۔ مثال کے طور پر کچھ اشعار نقل کیے جاتے ہیں: شوقِ بے پروا گیا، فکر فلک پیما گیا تیری محفل میںنہ دیوانے ، نہ فرزانے رہے کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۱۸۶ عقل ہے تیری سپر ، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش ! خلافت ہے جہانگیر تری کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۲۰۷ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی! کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۳۰۹ خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ! سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ! کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۳۴۳ یا حیرتِ فارابی ، یا تاب و تبِ رومی یا فکرِ حکیمانہ ، یا جذبِ کلیمانہ ! کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۳۵۹ فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو! کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۳۸۴ جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۳۹۰ ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناب! اے وادیٔ لولاب! کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۶۷۶۔۶۷۷ خرد افزو د مرا درسِ حکیمانِ فرنگ سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۳۱۵ ان مثالوں میں عقل اور عشق کا زیادہ تر ساتھ ساتھ ذکر ہوا ہے۔ اقبال دراصل دونوں کے امتزاج کے قائل ہیں: زیرکی از عشق گردد حق شناس کارِ عشق از زیرکی محکم اساس خیز و نقشِ عالمِ دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیزدہ کلیات اقبال (فارسی ) ، ص ۶۵۳ ۳۰۔ کلیات اقبال ،اردو ، ص ۳۹۷ ۳۱۔ حرف اقبال ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد ، ۱۹۸۴ء ، ص ۱۴۰ ۳۲۔ اقبال کے اشعار ہیں: علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لاہوتیاں! بے محبت علم و حکمت مردئہ عقل تیرے بر ہدف ناخوردئہ کلیات اقبال فارسی ، ص ۶۶۳ عقل اندر حکمِ دل یزدانی است چوں ز دل آزاد شر شیطانی است کلیات اقبال فارسی ، ص ۸۴۰ ۳۳ ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ، ڈاکٹر جاوید اقبال کا مضمون بعنوان ’’علامہ اقبال اور جمہوریت مشمولہ مئے لالہ فام ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۶ء ، صفحات ۳۰۳ تا ۳۰۸ ۔ ۳۴ ۔ خطباتِ اقبال پر ایک نظر ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۸۷ء ، ص ، ۸۴۔ ۳۵ ۔ حمید نسیم نے لکھا ہے کہ ’’میرے خیال میں یہ راج کماری سیتا والے رام نہیں ۔ سوامی رام ہیں۔ توحید پرست ہندو لیڈر ۔نظم کے یہ تین شعر نقل کیے ہیں: ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند اعجاز اُس چراغ ہدایت کا ہے یہی روشن تراز سحر ہے زمانے میں شامِ ہند تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا پاکیزگی میں ، جوشِ محبت میں فرد تھا سوامی رام توحید پرست نہیں تھے بلکہ ’’ویدانت یا وحدت الوجود ان کا عقیدہ تھا ‘‘۔ جیسا کہ جگن ناتھ آزادنے بیان کیا ہے۔ (اقبال اور اس کا عہد ، ص ، ۲۵) وہ ۱۹۰۶ء میں دریا میں ڈوب کر فوت ہوئے۔اقبال ابھی تک اسی نوعیت کے تصوف میں مبتلا ہے ۔ انہوں نے ۱۹۰۶ء ہی میں سوامی رام پر نظم لکھی جو۱۹۰۷ء میں مخزن میں شائع ہوئی۔ (ابتدائی کلامِ اقبال ، ڈاکٹر گیان چند، ص ۳۰۴) یہ نظم اقبال نے بانگ درا میں شامل کی ہے ،( ص۱۱۸) یہ نظم یورپ میں لکھی گئی تھی اور وہیں انہیں معلوم ہوا تھا کہ سوامی رام برہم چریہ نبھا نہ سکے اور امریکہ میں ایک مریدنی سے ان کا بچہ پیدا ہوا ۔ اس کا ذکر اقبال کے حوالے سے گیان چند نے کیا ہے۔(ابتدائی کلام اقبال، ص ، ۳۰۷) ’’رام‘‘ کے عنوان سے اقبال کی نظم (بانگ درا ، ص ۱۹۵)رام چندر جی کے بارے میں ہے ۔ اقبال کے شارحین اس پر متفق ہیں۔ (دیکھیے ، شرح بانگ درا ، یوسف سلیم چشتی ، ص ، ۳۳۰ ۔ مطالب بانگ درا ، غلام رسول مہر ، ص ۲۲۶) سوامی رام پر دوسری نظم لکھنا ، اوّلاً ’’رام‘‘ کے عنوان سے اور ثانیاً وجودی تصوف کو ترک کر دینے کے بعد بعید از قیاس ہے۔علاوہ ازیں سوامی رام تیرتھ نہ تو تلوار کے دھنی تھے اور نہ مریدنی کو ’’فیض یاب ‘‘ کرنے کے بعد پاکیزگی میں فرد تھے ۔ حمید نسیم نے غلط دعویٰ تو کیا لیکن اس کے نتیجے میں، بجا طور پر ، ایک الجھن پیدا ہوئی ۔ لکھتے ہیں کہ ’’آخری شعر میرے لیے ناقابل فہم ہے ‘‘ ۔ جبکہ مولانا غلام رسول مہر کی رائے ہے کہ ’’ یہ نظم سری رام چندر جی کے متعلق لکھی گئی ہے اور ان کی سیرت آخری شعر میں نہایت خوبصورتی سے پیش کر دی گئی ہے ‘‘۔ ۳۶ ۔ نظم ’’آزادی نسواں ‘‘ کے لیے دیکھیے ، ضرب کلیم ، ص ، ۹۳ ۳۷ ۔ ملاحظہ کیجیے ، نظم بعنوان ’’علم اور دین ‘‘ ۔ ضرب کلیم ، ص ، ۱۹ نیز حاشیہ نمبر ۲۹ ۳۸ ۔ ضرب کلیم کی نظم ’’جاوید سے ‘‘ کا ایک شعر ہے : جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ ! ۳۹ ۔ بانگ درا کی نظم ’’بچے کی دعا ‘‘ کا پہلا شعر ہے: لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ۴۰ ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ ’’کئی بار دوپہر کا کھانا کسی کتاب میں منہمک ہو جانے کی وجہ سے بھول جایا کرتے تھے اور جب وہ کتاب ختم ہو جاتی تو علی بخش کو بلوا کر معصومانہ انداز میں پوچھتے ’’کیوں بھئی ‘‘ میں نے کھانا کھا لیا ہے ؟ ‘‘ (مئے لالہ فام ، ص، ۳۳۷) ۴۱ ۔ دیکھیے ، موجِ کوثر ، دیباچہ ۴۲ ۔ اقبال نے خود اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ بال جبریل کے اشعار ہیں ۔ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند! اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند! ۴۳ ۔ موجِ کوثر ، دیباچہ ۔ منقولہ شعر ضرب کلیم کی نظم ’’علم اور دین ‘‘ کا ہے ۔  کتابوں پر تبصرہ فکرِ اقبال کے دو بنیادی تصوّرات خودی اور آخرت صلاح الدین ایوبی نام کتاب فکر اقبال کے دو بنیادی تصورات ، خودی اور آخرت مصنف چودھری مظفر حسین ناشر اردو اکیڈمی پاکستان ، لاہور قیمت ۔؍۱۵۰ روپے سال اشاعت ۲۰۰۱ء مبصر صلاح الدین ایوبی چوہدری مظفر حسین نے خودی اور آخرت کے بارے میں علاّمہ اقبال علیہ الرحمہ کے نظریات کو قرآن حکیمکی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ علامہ کے یہ نظریات شروع ہی سے علمی و دینی حلقوں میں بحث و نقد کا نشانہ بنے رہے ہیں تاہم چوہدری صاحب کے بھرپور اور ہمہ جہت علمی تجزیے کی داد دینا پڑتی ہے کہ آپ علامہ کے افکار کو قرآن حکیم کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ چوہدری مظفر حسین کی اس اہم تصنیف کی اصل قدر و منزلت جاننے کے لیے ڈاکٹر سید عبداللہ کا پیش لفظ ہی بہت کافی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’میں نے جب اس سلسلۂ مضامین کا مطالعہ کیا تو معاً میرے سامنے بہت سے اعتراضات ابھر آئے جو ایک زمانہ سے سنتا آیا تھا اور اب مظفر حسین کے مضامین میں ان کا جواب موجود ہے ‘‘۔(ص ۱۲) چوہدری صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ علامہ اقبال کے یہ نظریات فلسفیانہ غور و فکر کا ماحصل نہیں بلکہ قرآن حکیم میں گہرے تدبّر کا نتیجہ ہیں ، (ص ۱۷) ’’تصورِ خودی اور قرآن حکیم ‘‘ اس کتاب کا پہلا مضمون ہے ۔ اس مضمون میں خودی کے معانی کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ قرآن حکیم سے بہت سی آیات درج کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ’’خودی ‘‘ کا لفظ’’نفس‘‘ کا ہم معنی ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے اور انسان کی خودی کے لیے بھی نفس کی اصطلاح بہت ہی عام استعمال ہوئی ہے۔ جہاں تک نفس (خودی) کے اخلاقی مفہوم کا تعلق ہے ، خودی کو مقصود بالذات مان کر عمل کرنا ہی اخلاق ہے۔ خودی کو تباہ کرنے والی ہر شے بدی ہے اور اسے استحکام دینے والی ہر شے نیکی ہے۔ آیات قرآنی اس بات کی شاہد ہیں کہ خودی کی یکتائی اور اس کی بے مثل انفرادیت خودی کی نہایت اہم اوربنیادی صفت ہے ۔ خودی کی دوسری صفت اس کی خلوت و تنہائی ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ خودی مابعد الطبیعی حیثیت کی حامل ہے یعنی وہ موت کے بعد بھی اپنا مستقبل رکھتی ہے ۔ خودی (نفس) کو کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے چنانچہ انسان کی ساخت میں اس کی کمزوری اور اس کا ظالم و جاہل ہونا، اوصاف خداوندی کے سائے میں آ کر نشو ونما کی صلاحیت سے شاد کام ہوتے ہوئے اپنی صفات کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں خودی کی بقاء کو تعلق باللہ سے مشروط کر دیا گیا ہے (ص، ۲۶) خودی کے بارے میں قرآن حکیم کی آیات کے حوالے سے اس گفتگو نے ساری گتھیاں سلجھا دی ہیں اور مشرق و مغرب کے دانشوروں نے اب تک جو کچھ اس بارے میں خلافِ حق بیان کیا تھا اس کا پردہ چاک کر دیا ہے ۔ ٭ تصورِ آخرت کے بارے میں علامہ اقبال کے افکار بھی قرآن پاک کی منشا کے تحت ہیں ۔ علامہ لکھتے ہیں: انسان کے مرکر دوبارہ زندہ ہونے کا تصور یا نظریۂ ’’حیات بعد موت ‘‘مذہب کی تعلیمات کا ایک ایسا عنصر ہے جو سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے ‘‘(ص، ۳۱) علامہ بالکل سادہ الفاظ میں کہتے ہیں کہ ’’وہ گویا بطنِ مادر کی طرح بطن مرقد سے باہر قدم رکھتا ہے ‘‘(ص، ۵۵) اور یہ کہ ’’برزخ کو موت اور بعدالموت کے درمیان توقف اور انتظار کی ایک حالت سے تعبیر کرنا چاہیے ‘‘۔ علامہ کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان کا تصورِ آخرت ٹھیٹھ اسلامی اعتقادات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ، موت اور حیات بعدالموت کو وہ ایک سادہ عالمگیر حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔(ص ۸۴) دلچسپ بات یہ ہے کہ مفسرین و محدثین کی اکثریت برزخ کو ایک عالم (یعنی جہان) ایک مقام و مستقر تسلیم کرتی ہے جس کے لیے قرآن حکیم سے کوئی ثبوت فراہم نہیں ہو سکتا جبکہ علامہ اقبال بجا طور پر برزخ کو توقف اور انتظار کی ایک حالت قرار دیتے ہیں۔ اور یہی برحق ہے ۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر بہت سے قرآنی افکار کو درست یا غلط طور پر جاننے اور سمجھنے کا معاملہ مبنی ہے ۔ مثال کے طور پر حیات شہید اور کنتم ازواجاً ثلاثہ کا معاملہ جس کے بارے میں آئندہ صفحات میں گفتگو کی جائے گی ۔ حیات بعد الموت کو مرگِ خودی سے وابستہ جان لینا ایک اہم غلطی ہے۔ علامہ جب یہ کہتے ہیں کہ موت و حیات خودی کے احوال ہیں تو اس سے ان کی مراد حیات بعد الموت کا انکار نہیں بلکہ انسانی ذات، اس کی شخصیت ، اس کے نفس کا تعلق باللہ سے گریز پا ہو کر ’’ہر کہ بے حق زیست جز مردار نیست‘‘ کے قعرِ مذّلت میں گرجانا ہے یا پھر اس کا ذاتِ حق سے ہم نوا ہو کر منزلِ مراد کو پا لینا ہے۔ اس اہم نکتے کو چوہدری مظفر حسین نے اس طرح بیان کیا ہے: چنانچہ ظاہر ہے کہ جس شخص میں تعلق باللہ کا داعیہ بیدار نہ ہو اس کی شخصیت کا ماورائی پہلو نشوونما سے محروم رہتا ہے۔آخرت کی نورانی زندگی سے اسے کوئی حصہ نہیں مل سکتا اور اس اعتبار سے وہ بالکل مردہ ہے ‘‘(ص۴۵) یہی بات اس آیت قرآنی میں کہی گئی ہے وَمَالَہْ فِی الْاخَرَۃِ مِنْ نِّصیْبُ (شوریٰ ۲۰) ‘‘ اسے آخرت میں کچھ نہیں ملتا ۔ ٭ خودی اور آخرت کے بارے میں ان بنیادی افکار کی توضیح کے بعد چوہدری مظفر حسین لکھتے ہیں : خودی کا پیغام وحدت الوجودی تصوف کے خلاف ایک طرح کا اعلان جہاد تھا جس سے اسلام کے نام پر پھیلائی ہوئی گمراہیوں کا ازالہ ہوا۔ (ص۶۱) کمالِ انسانیت حصول مقام عبدیّت ہے۔ (ص،۶۰) قرآن حکیم میں کہیں بھی اتصال و اتحاد کی کسی ایسی کیفیت کا بیان نہیں ملتا جس میں انسان کی خودی کا خدا کی خودی میں مدغم یا گم ہو جانے کا اشارہ تک پایا جا سکتا ہے ۔اسلام میں انسان کی زندگی بعد موت، اُس کی شعوری کیفیات ہیں اور شعور کو مستقل بیدار رکھ کر ہی حیاتِ دوام حاصل ہو سکتی ہے۔(ص ۶۵) اسی تسلسل میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ حیات بعد الموت ایک یقینی امر ہے بایں ہمہ بقائے دوام ہمارا حق نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور انعام ہے(ص۷۴) وحدت الوجودی نظریات کے بالمقابل تصورِ خودی پیش کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے اقبال کے اس نظریے کی وضاحت بھی کی ہے کہ علامہ جسم اور روح کی ثنویت کے قائل نہیں۔ وہ جسم اور روح کی ثنویت کو سراسر ایک غیر اسلامی تصور سمجھتے ہیں(ص ۷۱) اسی ضمن میں ’’روح‘‘ کی اصل حقیقت بھی واضح کر دی گئی ہے: یوں دیکھا جائے تو امرِ ربّی ہی ہے جو انسانی جسم کو پیدا کر کے اس کے اندر خودی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے (ص ۶۸) یہی قرآنی نقطۂ نظر ہے ۔ روح ، امر رب کا دوسرا نام ہے۔ تاہم دیگر مفسرین و محدثین کی طرح چوہدری صاحب بھی سورہ زمر کی آیتِ مبارکہ نقل کر دینے کے بعد اس کے ترجمے میں نفس کا معنی روح قرار دینے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔ اللّٰہُ یَتَوفَّی الْاَنْفُسَ حِینَ موْتِھاَ کا معنی ہے ’’اللہ نفوسِ انسان کی موت کے وقت ان نفوس کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘‘ وہ روحیں قبض کر لیتا ہے ‘‘ ۔ عیاں ہے کہ نفس کا معنی روح نہیں اور روح کا معنی نفس ہرگز نہیں ہو سکتا۔ حضرت علامہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں اور جس بات کی تائید میں چوہدری مظفر حسین آیات قرآنی سے استشہاد کررہے ہیں ’سورہ زمر کی اس آیت مبارکہ میں نفس کو نفس تسلیم کر لینے سے ہی ان افکار کی توضیح زیادہ بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ بہرطور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے ائمہ تفسیرنے وحدت الوجودی صوفیاء کی سہولت کے پیشِ نظر صدیوں پہلے سے غلط ترجمانی کی نذر کر رکھا ہے ۔ اگر اس طرح اصطلاحات قرآنی کی بے محل ترجمانی کا تعاقب کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر پھیلائی گئی گمراہیوں کا منبع ترجمہ و تفسیر کی انہی غلطیوں میں پوشیدہ ہے۔ ٭ ’’تصور آخرت اور نفسیات ‘‘کے حوالے سے جو بحث اس کتاب میں کی گئی ہے وہ نہایت دلچسپ ہے ۔ علامہ اقبال حیات بعد الموت کو ایک عالمگیر قانون سمجھتے ہیں جس کا گہرا تعلق نظام زمانی سے ہے۔ اس سے علامہ کی مراد سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ نظام زمان میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جو موجودہ نظام کائنات کے خاتمے کا دن ہے ۔یہی بات سورہ الروم کی آیت نمبر ۶ میں بتائی گئی ہے جہاں حیات بعدالموت کے آغاز سے قبل انسانی زندگی کے مکمل خاتمے کو اجل مسمیٰ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ تاہم کسی بھی تعبیر کے لحاظ سے اجل مسمیٰ کو ’’معیّنہ امکان ‘‘ کا نام نہیں دیا جا سکتا ، جیسا کہ چوہدری مظفر حسین کا خیال ہے(ص۸۱) ہاں البتہ اجل مسمیٰ کو ہم خاتمۂ امکانات ہستی کہہ سکتے ہیں ۔Heidegger کے الفاظ میں Impossibility of all the Possibilities حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے نبی اکرم ﷺنے انسانی شخصیت کو چاروں طرف سے ایک مربّع شکل میں گھرا ہوا دکھلایا اور ان حدود کو ’’اجل‘‘ کا نام دیا ۔ یہاں بھی اجل ، انسانی شخصیت (نفس ۔ خودی) کے لیے خاتمۂ امکانات ہی کا مظہر ہے۔ بقائے دوام کے بارے میںچوہدری مظفر حسین بجاطور پر اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کر رہے ہیں: ’’چنانچہ علامہ اقبال کا یہ دعویٰ کہ بقائے دوام کے ہم امیدوار محض ہیں نہ کہ بربنائے استحقاق حقدار، بالکل صحیح نظر آتا ہے ۔(ص،۸۹) یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے لیکن اس کی تائید میں کُلُّ شَئیٍ ھَالِکُٗ اِلّاَ وَجْھَہَٗ (۲۸؍۸۸)کے ’’باطنی معانی ‘‘ کی تائید قطعاً بے محل ہے ’’اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ہلاک ہو جانے والی ہے ‘‘ قرآن حکیم کے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے وحدئہ لاشریک لہْ اور اوّل و آخر ہونے سے متعلق ہیں۔ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ توجۂ الیٰ اللہ سے محروم ہو جانے والا ہلاک ہو جاتا ہے (ص،۱۹۵) جیسا کہ مولانا روم ؒ کے حوالے سے چوہدری صاحب نے رقم فرمایا ہے (اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں) امام راغب اصفہانی نے باطنی علما کے حوالہ جات سے ایسی بہت سی لا یعنی باتیں اپنے ہاں درج کر دی ہیں جن سے اجتناب ہی قرآن حکیم کی تفہیم کے لیے بہتر ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اَلْزَمْنہُ طَائِرَ ہ فِیْ عُنقِہٖ اور مَالِھذَا الکِتَابِ لاَ یُغَادِرُ صَغِیْرَۃَ وَلاَ کَبِیْرَۃَ اِلّاَ اَحْصَاھَا سے اگر انسان کا لاشعور مراد لے لیا ہے تو اس کے لیے پوری گنجائش موجود ہے۔ انسانی ذہن کی Hard Disk اگر اپنی Memory میں یہ سبھی کچھ ریکارڈ کر رہی ہے جو لا شعور کا حصہ بنتا جا رہا ہے تو یہ بھی درست ہے کہ زندگی کی تمام سرگزشت کا اس طرح من و عن محفوظ رکھا جانا آخر کسی نہ کسی مقصد کے لیے ہے ۔ یہی وہ نتیجہ ہے جو فرائڈ کی گرفت میں نہ آ سکا ۔ ڈاکٹر صاحب کی اس دلیل کی تائید میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نفس انسانی کی موت کے وقت اس کی سرگزشت حیات کا یہ ریکارڈ ’’سِجَیِن اور عِلِیَین ‘‘میںمنتقل ہو جاتا ہے اور یہ ’’کِتَاب’‘ مَرْقُوم ‘‘ بالآخر انسان کو اس کے لیے اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا کے لیے یَومُ الدِّین اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ تاہم دو امور پر غور کر لینا چاہیے ایک تو یہ کہ ’’طائر‘‘ سے مراد نصیب ہے (منحوس ہو یا مبروک) جسے ہم لا شعور کا حصہ قرار نہیں دے سکتے ۔ اس آیت کا اگلے حصے میں فرمایا ہے کہ ’’وَنُخْرِجُ لَہْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً ‘‘ ’’ہم ہر شخص کے لیے قیامت کے روز ایک کتاب نکالیں گے ‘‘ چنانچہ کتاب کا تعلق انسان کے اعضاء و جوارح(گردن اور جیسا کہ دوسری آیت میں بتایا ہاتھوں ) سے ہو سکتا ہے اور اس سارے معاملے کو لاشعور سے متعلق ثابت کرنے کی کوشش تاحال ناکافی ہے ۔ دوسرے یہ کہ یوم حساب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اَلْیَومَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَ تُکَلَمِنُاَ اَیْدَیْھِمْ ’’ اس دن ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہمارے سامنے بولیں گے ‘‘ ۔ ہاتھوں کا کلام لاشعور سے کس صورت متعلق ہو سکتا ہے ، اس کی تطبیق بھی زیرِ غور آنی چاہیے ۔ ٭ ’’خودی اور آخرت ‘‘ جیسے اہم موضوعات پر چوہدری مظفر حسین صاحب کی اس کتاب کا اگلا باب ’’تصور آخرت اور جنت و دوزخ‘‘ سے متعلق ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ موت کا استقبال خندہ پیشانی سے کرتا ہے کیونکہ اس کی پوری زندگی کی جدوجہد آخرت میں کامیابی حاصل کرنے پر ہی مرکوز رہتی ہے ۔ موت مومن کے لیے ایک تحفہ ہے جس پر وہ خدا کا شکر بجالاتا ہے۔(ص۱۰۳) علامہ اقبال زندگی اور موت ، جنت اور جہنم سے زیادہ عمل پر زور دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک خیر و شر کا معیار ہی یہ ہے کہ جو عمل خودی کو استحکام بخشے وہ چیز جنت ہے اور جو عمل خودی میں اختلال و انتشار پیدا کرے وہ شر ہے اور دوزخ ہے۔ (ص۱۰۵) دوزخ انسان کے اندر بحیثیت انسان فلاح یا ناکامی کا کرب انگیز احساس ہے (تَطَّلِعْ عَلٰی الْاَفْئَدِۃِ)بعثت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرّت یعنی سلامتی ہی سلامتی اور خوف و غم سے نجات (ص۱۰۶) بعثت بعد الموت کوئی خارجی حادثہ نہیں بلکہ خودی ہی کے اندر ایک حیاتی عمل کی تکمیل ہے اور جسے انفرادی یا اجتماعی لحاظ سے بھی دیکھیے دونوں صورتوں میں محاسبۂ ذات کی وہ ساعت ہے جس میں خودی اپنے گزشتہ اعمال کا جائزہ لیتی اور مستقبل میں اپنے ممکنات کا اندازہ کرتی ہے (ص ۱۰۷) اگرچہ علامہ اقبال کے یہ خیالات مروّجہ افکار سے پوری طرح میل نہیں کھاتے تاہم علامہ کا یہ استدلال کافی وزن رکھتا ہے ۔ اوّلاً عالمِ آخرت کی حقیقت ہماری علمی رسائی سے ماورا ہے ، جنت اور دوزخ کے بیانات میں قرآن و حدیث میں تمثیلی پیرائے میں زندگی کو ایک مستقل حیاتی عمل کی صورت میں دکھایا گیا ہے اور آخرت کے حقائق نظروں میں سمانے والے نہیں۔ ثانیاً خودی یعنی نفسِ انسانی خلود کی منزل پر جلوہ گر ہونے والا ہے بنابریں وہ ایک ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے چنانچہ یہ کہنا کہ بعثت بعدالموت خودی کے اندرونی احوال ہی سے متعلق ہے ، کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ ثالثاًقرآن حکیم ہی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ’’یَومَ تُبَدَّلِ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ‘‘ تو ایسا ماحول جس سے انسانی ذہن آشنا نہیں ، اس کا بیان محض تمثیلی انداز میں ہی ممکن ہے ۔ نہ وہ زمین ایسی ہو گی ، نہ مکان ، نہ وہ پھل ایسے ہوں گے نہ مشروبات ۔ اصل حقیقت واقعہ بس ایک ہی ہے کہ لَھَا مَا کَسَبَتْ ، جو کچھ انسان نے اس دنیا میںکمایا، اس کی جزا و سزا اسے مل کر رہنی ہے ۔ یہ سارا معاملہ نشو و نمائے بدن سے متعلق نہیں بلکہ اس کی اصل ایک ایسی اخلاقی بنیاد وفراہم کرنا ہے جو نفسِ انسانی کو حقیقتِ نَفْسُ الْاَمْرِی سے قریب تر کر سکے۔ بعض مقامات پر چوہدری مظفر حسین صاحب نے جو نکتہ آفرینیاں کی ہیںوہ لائقِ توجہ ہیں۔ سیّد سلیمان ندوی اور دیگر علما کے حوالے سے آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دوزخ کو دوام نہیں۔ انسان کے اخلاقی وجودکی اصلاح کے بعد یقینا اس کی ضرورت باقی نہیں رہنی چاہیے تاہم قرآن حکیم میں مومنین کے ساتھ ساتھ کافرین کے لیے بھی ’’خَالِدْیِنَ فِیْھَا‘‘ کے ساتھ ’’اَبَداً‘‘ کے الفاظ بار بار استعمال ہوئے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کفر و شرک میں آخری حدوں کو چھونے والے فرعون و نمرود اور ابوجہل و ابولہب اسی دوامی دوزخ کا ایندھن بنے رہیں گے جس کا وعدہ اللہ جل شانہ نے بار بار دہرایا ہے ۔ اسی ضمن میں یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ سورہ رحمن میں جو لفظ ’’آلاَئِ رَبِّکُمَا ‘‘ بار بار دہرایا گیا ہے، اس کا معنی فقط نعمتیں ہی نہیں بلکہ مولانا اصلاحی کی رو سے اس کے معنی قدرتیں عظمتیں ، شانیں، نوازشیں اور احسانات بھی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی جامع اصطلاح ’’آلاء ‘‘ کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے یعنی ’’تم اللہ کی کن کن نشانیوں کو جھٹلائو گے ‘‘ ۔ اس طرح جہنم کی کیفیات کے بارے میں یہ اشتباہ ختم ہوجانا چاہیے کہ انہیں بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کا حورو غلمان کے بارے میں طویل اقتباس دلچسپی سے خالی نہیں ۔ آپ کی رائے میں حور و غلمان کا وجود انسانی مرد و زن ہر دو کے لیے دلنواز حسن و جمال اور سرور انگیز ہم نشینی کا حامل ہو گا (ص ۱۱۳) تاہم قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غلمان محض خدمت گار ہوں گے نہ کہ ازواج ۔ اب ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حیات بعد الموت کے ضمن میںقران حکیم نے مومنین کے لیے جنت میں تواضع کاجو بندو بست بیان کیا ہے اس میں ’’حُورِعِین‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ اس کے مقابل طبقۂِ نسواں کی دلجوئی کے لیے ایسی کوئی سبیل نہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی زیادتی کی بات نہیں ہے ۔ علامہ اقبال کے خواتین کے بارے میںافکار سے اہل علم بخوبی آگا ہ ہیں۔ جب سینٹ میں مخلوط تعلیم کا بل پاس ہونے کی اطلاع علامہ تک پہنچی تو آپ جوش میں آ کر فرمانے لگے ۔ ’’آج مسلمانوں نے اپنی ذلت پر مہر لگا دی ہے ‘‘ ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کی یہ بات قرآنی طرز فکر ہی کی نمائندہ ہے ۔ قرآن حکیم نے حورعین یعنی خواتینِ جنت کے بارے میں فرمایا حُورُٗعیِن کَا مْثَالِ اللُّولُوئِ الْمَکْنُون غزال چشم حوریں محفوظ کیے ہوئے موتیوں کی مانند ، وَجَعْلٰنھُّنَ اَبْکَاراً ہم نے انہیں کنوارا بنایا، لَمْ یَطْمِثْھُّنَ اِنْس’‘ قَبْلَھُمْ وَ لاَ جَانّ’‘ انہیں انس و جن میں سے اس سے قبل کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔اور حُور’‘مَقْصُورَات’‘ فِی الخِیَام، حوریں جو خیموں میں بند ہوں گی ۔ان تمام آیات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواتینِ جنت کا مقام پاکیزگی اور عفت و عصمت ، گھر کی چاردیواری میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے کا ہے ۔ طبقۂِ نسواں کے لیے خودی کی منزل آخریں یہی ہے ۔ اسی میںان کی عظمت ہے اور یہی ان کا انعام ہے۔ ٭ اس کتاب کا چھٹا باب زمان و مکان کے بارے میں ہے۔ علامہ اقبال کے افکار پر چوہدری مظفر حسین کے تبصرے کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ آزادی اور بقائے دوام لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان ’کفر‘ طاغوت، دنیوی علائق سے وارستگی، استغفار، ارادئہ اختیاری، قوت تخلیق، عشق اور ندرت فکر و عمل جیسے اوصاف حسنہ سبھی آزادی کے وسیع مفہوم میں شامل ہیں(ص ۱۲۵) روح کی آزادی میں جو چیز انسانی شخصیت کو بقائے دوام کا مستحق بناتی ہے وہ عشق ہے (ص ۱۲۸) اللہ تعالیٰ کی محبت ایک وجود ساز عمل ہے جس کا خاصہ یہ نہیں کہ دوسری خودیاں اس میں جذب ہو جائیں ۔ بلکہ یہ ہے کہ دوسری خودیاں نشو ونما پا کر اس قدر مستحکم ہو جائیں کہ وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکیں (ص۱۳۰) غرض خودی کی بقائے دوام کار ازللّٰہیت میں ہے، کثرتِ ذکر سے خدا کی محبت شعلے کی طرح روشن ہو جاتی ہے ۔ ذکر کی اعلیٰ ترین صورت نماز ہے جو خودی کی زندگی اوراختیار کے حقیقی سرچشمے کے قریب لا کر اسے اپنی ذات پر قابو حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے(ص ۱۳۲)علامہ اقبال کے نزدیک اگر انسان ان آرزوئوں میں شریک ہو جو اس کائنات میں ارادئہ خداوندی کی تخلیق ہیں تو وہ کائنات کی تقدیر خود متشکل کر سکتا ہے (ص۱۳۴) مردِ حر یا مردِ آزاد سے مراد ایسا شخص ہے جس کی شخصیت کا ماورائی پہلو اس حد تک نشو و نما پا گیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے انسانِ مرتضیٰ کے مقام پر فائزہو جائے جہاں خدا کی رضا اور بندے کی رضا میں فرق کرنا محال ہو (ص ۱۳۷) یہ ذہنی رویّہ انسان کو یہ ایقان بخشتا ہے کہ زمان و مکان اورعلیّت یعنی نیچر پر تسلّط وا قتدار اس کا حق ہے اور زمانِ خالص میں موت سے بھی آگے اس کے لیے بقا کی منزل ہے (ص ۱۳۸) معیّتِ الٰہی میں انسان جس قسم کے زمان کا تجربہ کرتا ہے، علامہ اقبال کے نزدیک حقیقی زمانہ وہی ہے ۔ اور طبیعی زمانہ یا Serial Time تو محض اس کی ایک خارجی جہت ہے یہی وہ زمانہ ہے جس کا مشاہدہ باطن کی دنیا انائے بصیر کرتی ہے (ص ۱۴۳) اس بحث کے آخر میں چوہدری صاحب نے نہایت بلیغ انداز میں زمان و مکان اور آخرت کے تعلق کو واضح کر دیا ہے: اگرچہ ہم اپنی عملی زندگی اس طبیعی زمان و مکان میں گزارنے پر مجبور ہیں جو اس خارجی اور مادی دنیا کے طور پر ہمیں گھیرے ہوئے ہے ۔ تاہم باطنی زندگی میں جس زمان کا تجربہ ہمیں معیّتِ الٰہی میں ہوتا ہے وہ ہمیں اس مادی دنیا کے جبر سے آزادی دلاتا ہے اور ہم اس مادّی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے ماورا محسوس کرتے ہیں اور یہی ماورائیت ہمیں اپنے لافانی ہونے کا شعور بخشتی ہے(ص ۱۴۷) یہ ساری بحث نہایت حکیمانہ ہے اور انتہائی پر مغز ۔ تاہم اس مقالے کے آغاز ہی میں قطعاً غیر ضروری طور پر منظور الحسن عباسی کی جانب سے ایک آیتِ قرآنی کی تشریح نقل کر دی گئی ہے۔ عبّاسی صاحب کے خیال میں مَنْ یَکْفُرْ بِالطاَّغُوْتِ وَ یُوْ مِنْ بِاللّٰہِ کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ ’’کفر بالطاغوت کو ایمان باللہ پر تقدیم حاصل ہے ‘‘(ص ۱۲۷) اگر ہم دیگر قرآنی اور نبوی افکار سے راہنمائی حاصل کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو فطرت الٰہیہ پر خلق کیا گیا ہے اور طاغوت کی حیلہ سازیاں بعد میں وارد ہوتی ہیں چنانچہ کفر بالطاغوت کا مرحلہ ایمان باللہ پر مقدم نہیں۔ بلکہ ایمان باللہ کو کفر کے پردے میں ڈھانک دیئے جانے کے بعد کا مرحلہ ہے اور یقینا یہی اصلاحی عمل مطلوب بھی ہے ۔ تاہم ’’لا‘‘ پر اس قدر اصرار صوفیاء کا خاصہ ہے ۔ جو نفیِ ذات کو ہمیشہ مقّدم رکھتے ہیں حالانکہ یہ تصور محض غیر مسلموں سے حاصل کردہ ہے اور دینِ اسلام کا مقصود مطلوب نہیں ہے ۔ جیسا کہ آزادیٔ ارادہ اختیار کی بحث میں علامہ اقبال نے واضح کیا، خودی کی نفی نہیں بلکہ اس کی تکمیل اور نشو ونما ہی مقصودِ حقیقی ہے۔ ٭ اگلا باب خودی کے ارتقائی مدارج سے بحث کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک خودی کی بقائے دوام ایک ارتقائی عمل کے ساتھ مشروط ہے ۔ سورہ المعارج میں انسان کی شخصیت کے ارتقائی مدارج کا ذکر ہے ۔ قیامت کے حوالے سے اس کی خلوت و تنہائی کا ذکر ہے جو کہ خودی کی ارتقائی ضرورت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس کے بعد خودی کے استحکام و ارتقا کی شرائط ہیں جو اعمالِ صالحہ اور اخلاق حسنہ پر مشتمل ہیں۔ یہ اِنداز بھی موجود ہے کہ کمزور شخصیتوں کی ہلاکت عین ممکن ہے ۔ (ص ۱۶۰) علامہ انسان کو لا محدود قُوّت ارادی کا ایسا احسنُ التّقویم جر ثومہ خیال کرتے ہیں جس میں بے پناہ نشو و نما کے امکانات مضمر ہیں۔ شخصیت (خودی) کو مستحکم بنانے والا اندازِ زیست اختیار کر کے ہم درحقیقت موت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں ۔ اسی لیے شخصی بقائے دوام ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔(ص۱۶۵) اس باب میں چند اور امور لائقِ توّجہ ہیں ۔ پہلا یہ کہ انسان کو دوبارہ جسمِ ظاہری دینے کا مقصد یہ نہیں کہ وہی پہلے جیسا جسم اس کو دوبارہ دیا جائے گا(ص ۱۵۶) یقینا اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ جس طرح زمین و آسمان بدل جائیں گے اسی طرح انسانی جسم بھی کسی نئے انداز میں جلوہ گر ہوں، ایسا انداز جو جنت کے ماحول کے لیے موزوں تر ہو۔ دوسرا مسئلہ اللہ تعالیٰ کے تصور کے بارے میں ہے، علامہ بجا طور پر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کا خدا قوت کا مظہر ہے۔عیسائیت خدا کو محبت کا مظہر بیان کرتی ہے اور اسلام خدا کو قوت کا مظہر تسلیم کرتا ہے۔ یعنی ایک زندہ اور قوی خدا جو قوی ارادے کے ساتھ اپنے بندوں میں شخصیت کے استحکام کا طالب ہے۔ تیسرا معاملہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے اور قارئین کے لیے یہ وضاحت ضروری خیال کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ چوہدری مظفر حسین صاحب کے لاَیَسْمَعُونَ حَسِیْسَھَا (۲۱؍۱۰۲)کو صاعقہِ قیامت سے متعلق جان لیا ہے حالانکہ اس آیت سے قبل اللہ تعالیٰ مشرکین سے خطاب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم سب جہنم کا ایندھن بنو گے ۔ ازاں بعد مومنین کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ جہنم کا قرب تو درکنار اس کا شور و غل کبھی بھی ان کی سماعتوں سے نہیں ٹکرائے گا ۔ ٭ تصور آخرت اور تسلسل فرائض ایک اور موضوع ہے جس پر چوہدری مظفر حسین نے قلم اٹھایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : بقائے دوام در حقیقت خود شعوری کی سطح پر انسانی زندگی کے ان امکانات سے عبارت ہے جو زندگی میں بالقوہ پائے جاتے ہیں او ر جو بالفعل وجود میں آ کر زندگی کو قائم و دوائم رکھتے ہیں۔(ص۱۷۷) اسی ضمن میں آپ کہتے ہیں کہ ممکنات زندگی کی کوئی حد نہیں ہے اور ان کو بروئے کار لاتے رہنے کا ہی دوسرا نام بقائے دوام ہے۔ قرآنی نظریہ تخلیق کی رو سے انسان بھی کوئی تکمیل یافتہ شے نہیں بلکہ وہ مسلسل تخلیق کے دائرئہ عمل میں ہے ۔ زندگی کے بارے میں لا متناہی امکانات کے ظہور پذیر ہونے کو قرآن ’’اَجْر’‘ غَیْرَ مَمْنُون ‘‘ کا نام دیتا ہے اور انسان اسِ عملِ تخلیق میں مصروف رہتے ہوئے بقائے دوام حاصل کر سکتاہے (ص ۱۸۷) خودی کا استحکام حرکت ، عمل اور تخلیقی صلاحیتوں کے نکھار سے عبارت ہے، ادھر اہلِ جنت کو مُتَّکِیِئْنَ عَلٰی الْاَراَنِکِ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ظاہر کیا گیا ہے ۔ بہ ظاہر یہ کیفیت بے عملی اور ناکارہ ہونے کی ہے ۔ لیکن ساتھ ہی قرآن حکیم میں یہ بھی مذکورہ ہے کہ دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّھُمَّ وَ آخِرُ دَعْوَ اھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْن ۔ ان الفاظ پر قرآن حکیم کی روشنی میں غور کریں۔ قرآن فرماتا ہے کہ شجر وحجر سمیت کائنات کی ہر شے اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو وظیفۂ حیات ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے ، اسے پوری طرح ادا کرتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ ملائکہ کی زبان سے کہلوایا گیا ۔ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحْمُدِکَ وَ نُقَدِسُ لَک ۔ یہ تسبیح و تحمید محض زبانی کلام نہیں ہے ، خود قرآن پاک نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ ملائکہ ہر طرح کے امورکونی انجام دیتے ہیں اور تدبیرِ امر میں مصروف رہتے ہیں (فَالْمُذِّبِرَاتِ اَمْراً) ۔ چنانچہ یہ مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ اہل جنت کا دعویٰ تسبیح و تحمید ، جنت میں بھی ان کے فکر و عمل کی توانائیوں کے بھر پور اظہار اور ان کی تخلیقی اہلیّتوں کے نکھار کا تذکرہ ہے ۔ اقبال کا یہ نقطۂ نظر بھی قرآنی افکار ہی پر مبنی ہے۔ ٭ کتاب کے آخر میں چوہدری مظفر حسین صاحب نے ڈاکٹر تاثیر اور علی عباس جلال پوری جیسے ناقدین کی جانب سے علامہ اقبال کے فکر پر اٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔ ان اصحاب کا یہ خلط مبحث حیران کن ہے کہ وہ بعث بعد الموت اور بقائے دوام میں تمیز نہیں کر سکتے ۔ اسی ضمن میں موت کے بعد افرادِآدم کے شخصی انجام کے بارے میں حضرت علامہ کی رائے بھی پیش کی گئی ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس قدر واضح قرآنی نظریے کے ہوتے ہوئے علامہ کو مفسرین و محدثین کی آراء سے کوئی مدد نہ مل سکی ۔ بعض صوفیاء نے اپنے ذاتی کشف کی بنا پر بلند بانگ دعوے کیے ہیں لیکن فی الحقیقت وہ بھی قرآن میں بیان کردہ مکمل صداقت کا محض ایک جزوی سا بیان ہیں۔ علامہ اقبال بالکل درست فرماتے ہیں کہ مستحکم خودی کی حامل شخصیات کو مرنے کے معاً بعد اپنے آخری انجام سے ہم کنار کر دیا جاتا ہے ۔ یہی قرآنی نظریہ ہے ۔ انبیاء صدیقین اور شہداء (خواہ وہ مقتولین فی سبیل اللہ ہوں یا شہادت حق کا فریضہ انجام دے کر طبعی موت حاصل کرنے والے) اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتے ہی جنت میں داخل کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کفر و شرک میں ظلم و عداوت کی آخری حدوں تک جانے والے نمرود و شداد ، فرعون ، ہامان ، قارون ، ابولہب اور ابوجہل مرتے ہی جہنم واصل کر دئیے جاتے ہیں اور یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ جن افرادِ آدم نے حیاتِ دینوی میںکوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا، جن کی خودی اپنی ابتدائی سطح سے ذرا سا بھی ابھرنہ پائی ہو، ان کے مقدر میں محض فنا ہے۔ نَسْیاَ مَنْسِیاَ ہو جانا ہی ان کا انجام ہے۔ اسی بنا پر ہم یہ بھی قیاس کرسکتے ہیں کہ معصوم بچے اور معذور افرادِ آدم کسی طرح بھی جزا و سزا کی منزلوں کے راہی نہیںبنائے جا سکتے ۔ بہر حال چوہدری مظفر حسین صاحب کی یہ تصنیف بڑی عالمانہ شان کی حامل ہے ۔ اس میں شامل مباحث بار بار پڑھے جانے کے قابل ہیں اور اقبالی ادب میں اس کا شمار ان نادر کتب میں کیا جائے گا جو خالصتاً تحقیقی و تخلیقی مواد کی حامل ہیں۔  نام کتاب خودی تے بے خودی (پنجابی) مصنف ڈاکٹر ریاض مجید ناشر مسلم پنجابی مجلس ، فیصل آباد قیمت ۔؍۱۵۰ روپے (مجلد ڈیلکس ایڈیشن) سال اشاعت ۱۹۹۳ء مبصر ڈاکٹر وحید عشرت پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید ، نعت کے حوالے سے اور اپنی کتاب ’’ اردو میں نعت گوئی کے حوالے سے بڑے معروف ہیں، فیصل آباد میں اردو کے استاد اور علمی اور ادبی رونقوں کی بہار ان کے دم قدم سے ہے ۔ زیر نظر کتاب خودی تے بے خودی انہوں نے پنجابی زبان میں لکھی ہے اس کے ابواب میں خودی ، بے خودی ، تنقیدی جائزہ اور اختتامیہ شامل ہیں ۔خودی اور بے خودی فلسفہ اقبال کا بنیادی جوہر ہے خودی جو تشخیص ذات ، اپنی شناخت اور پہچان سے عبارت ہے برصغیر کی ایک خاص سیاسی ، سماجی اور معاشرتی صورت حال میں فکر اقبال میں جلوہ گر ہوئی ۔ خودی میں فرد کی شخصیت کے بنیادی جواہر ، خواص اور تعمیر شخصیت کے بنیادی اصولوں کا بیان ہے۔ خودی کا حوالہ فرد ہے جبکہ اقبال کے تصور بے خودی میں جماعت کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ایک جدید اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کی عصر حاضر میں راہ سجائی گئی ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید کی اس کتاب میں ان ہی دونوں تصورات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اقبال پر پنجابی میں یہ پہلی معتبر اور سنجیدہ علمی کوشش ہے۔ جس میں اقبال کے شعری اور فلسفیانہ موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ نام کتاب جبریل اڈاری (بال جبریل کا منظوم پنجابی ترجمہ) مترجم اسیر عابد ناشر اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور سال ۱۹۹۵ء قیمت ۔؍۱۲۵ روپے مبصر ڈاکٹر وحید عشرت جبریل اڈاری معروف پنجابی مترجم پروفیسر اسیر عابد کا شہکار ہے اس سے قبل اسیر عابد دیوان غالب کا پنجابی ترجمہ کر چکے ہیںاور ان کے پنجابی ترجمے کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ پروفیسر اسیر عابد اس ترجمے کے بارے میں لکھتے ہیں : بال جبریل کو علامہ اقبال کی شاعری کی معراج کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں علامہ کا فلسفہ اور پیغام بڑا نکھرا ہوا ہے ۔ بال جبریل چونکہ علامہ کی پختہ اور اعلیٰ شاعری کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور اس کی غزلوں میں فن اور مقصدیت کا رچائو تمام کمال کے ساتھ موجود ہے ۔ ترجمے میں اس اعلیٰ معیار کو پوری طرح قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں ہم ترجمے کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین ترجمے کی خوبی سے آگاہ ہو سکیں ۔ ناد ہو کیا شوق بر کاٹ میرے حجرے ذات اس لامکان اندر بوہڑ بوہڑ سائیاں بوبو کار پے گئی بت خانیاں زی اسمان اندر حوراں ملک تخیلاں وچ جوڑے جیویں تاڑ دیے بندی دان اندر میری ویکھنی گھمنڈ دے پار ویکھے بیٹھا کون پھلکاریاں تان اندر پھل دی پتی ہیرے نوں کوئی چیر کلیجے پاندی؟ مورکھ نوں نئیں ریشم ورگی گل ذرا بھر ماندی مسجد قرطبہ کا پہلا بند ملاحظہ ہو آوندے جاندے شام سویرے خلقن نقش نگاراں آوندے جاندے شام سویرے موت، حیاتی کاراں آوندے جاندے شام سویرے ، ریشم تند دورنگی جہیڑی تندوں ذات ، صفات پوشاکاں انے ہزاراں آوندے جاندے شام سویرے ، ہاڑے ساز ازل دے جس تھیں ذات پچھان کراندی کومل تیور تاراں تینوںوی ایہ پرکھن بندیا مینوں وی ایہ پرکھن آوندے جاندے شام سویرے جگ تے وانگ سناراں اس ترجمے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پنجابی زبان میں اظہار کے تمام پیرائے موجود ہیں صرف زبان پر مہارت کی ضرورت ہے اور اس کا واضح ثبوت پروفیسر اسیر عابد نے فراہم کر دیا ہے۔ نام کتاب اقبال فکرو فن کے آئینے میں مصنف احمد ہمدانی ناشر اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور قیمت ۔؍۷۰ روپے ، مجلد سال ۱۹۹۵ء مبصر ڈاکٹر وحید عشرت احمد ہمدانی صاحب معروف شاعر اور ادیب ہیں ۔ ان کا مجموعہ کلام پیاسی زمین ہماری نظر سے گزر چکا ہے ۔ اقبال فکر وفن کے آئینے میں کتاب کے مضامین تصور خودی ، تصور حرکت و تغیر ، جدید کلچر، علامہ اقبال اور نظریہ وحدت الوجود یا تصوف ، تصور فن ، شمع و شاعر ، مسجد قرطبہ ، علامہ اقبال کی غزلیہ شاعری، خضر راہ اور اقبال کا ایک اجمالی جائزہ ہیں۔ احمد ہمدانی علامہ کے فلسفہ خودی کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ خودی ایک ایسا جوہر ہے جو انساں کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے انسان کی خودی اس کی حقیقت اصلی ہے ۔ تصور خودی علامہ کے فلسفے کی بنیاد ہے ۔ حرکت ، تغیر ، سعی و عمل ، زمان و مکان ، عقل و شعور اور حسن و عشق غرضیکہ ان کے تمام تصورات تصور خودی سے پھوٹتے ہیں۔ خودی تجربے کا مرکز اور اس دنیا کی بنیادی حقیقت ہے اور یہ بنیادی حقیقت ، ہیگل کے خیال مطلق اور بریڈلے کے حسی شعور کے برخلاف جذبے کی شدت کے ساتھ پوری شخصیت کا حوالہ اور پوری کائنات کی حقیقت اصلی ہے۔ خودی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار امکانات کے ساتھ پیدا کیا ۔ ان امکانات کی حامل خودی ہے اور ان امکانات ہی میں اس کی تقدیر پوشیدہ ہے وہ ان امکانات کو بروئے کار لا کر اپنی تقدیر آپ بناتا ہے ۔ علامہ کا یہ نظریہ افلاطون کے فلسفہ اعیان کی بالکل ضد ہے کیونکہ فلسفہ اعیان کے تحت انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے ۔ احمد ہمدانی نے جس خوبصورتی کے ساتھ اقبال اور افلاطون کی فکر میںبنیادی اختلاف کو بیان کیا ہے اور اقبال کے فلسفہ حرکت کو اپنے دوسرے مقالے میںبیان کیا ہے اس سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اقبال کی فکریات کا گہرا شعور موجود ہے۔ اقبال اور وحدت الوجود والے مقالے میں احمد ہمدانی نے فلاطونس، شنکر اچاریہ اورابن عربی کے حوالے سے اہم گفتگو کی ہے اور تینوں کے درمیان بنیادی فکر کے اختلاف کو واضح کیا ہے لکھتے ہیں ۔ ’’پلائی نس (فلاطونس) یا شنکر اچاریہ اور حضرت ابن عربی وجود مطلق کو واحد تسلیم کرنے میں تو متفق ہیں لیکن وجود عالم اور انسانی خودی کے بارے میں ان کے خیالات میں بڑا فرق ہے ۔ شنکر اچاریہ وغیرہ عالم اور انسانی خودی کو مایا، التباس اور شر کہتے ہیں اور انہیں دکھوں کا سبب سمجھتے ہیں جبکہ حضرت ابن عربی اور ان کے ہم خیال عالم اور انسانی خودی کو مظاہر حق سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عربی کے نزدیک ترک عمل ذریعہ نجات نہیں جبکہ شنکر اچاریہ وغیرہ کے ہاں ترک عمل کے علاوہ نجات کی کوئی صورت موجود نہیں ہے‘‘۔ احمد ہمدانی اس طرح اقبال اور ابن عربی کو ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں۔ احمد ہمدانی کے ہاں اس طرح کے بے شمار مسائل پر ایک مصالحانہ اور مفاہمانہ رویہ موجود ہے جو علمی اور خوش آئند ہے ۔ نام کتاب وزیر آغا کے خطوط اکبر حمیدی کے نام مرتب اکبر حمیدی ناشر بُٹر پبلشرز پی او بکس ۲۰۵۳ ، اسلام آباد قیمت ۔؍۸۰ روپے مبصر ڈاکٹر وحید عشرت ڈاکٹر وزیر آغا پاکستان کی علمی اور ادبی لحاظ سے بڑی قد آور شخصیت ہیں ۔ اقبالیات میں بھی ان کانام بڑا معتبر ہے ۔ اقبال پر تصورات عشق و خرد ان کی بڑی اہم کتاب ہے ۔ اس کے علاوہ بھی علمی موضوعات ، ادبی مسائل اور شعر کے حوالے سے ان کی کتب اپنا بلند مقام رکھتی ہیں ۔ اب ڈاکٹر وزیر آغا اس مقام پر ہیں کہ ان کی تمام چیزیں منظر عام پر آئیں اور ان کے حوالے سے علمی اور ادبی کاوشیں جمع کی جائیں ۔ اکبر حمیدی معروف خاکہ نگار ، انشائیہ نویس اور شاعر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر وزیر آغا کے ان کے نام خطوط پر مبنی ہے ۔ جن میں علمی و ادبی مسائل پر بہت کم گفتگو موجود ہے ۔ تاہم دیباچے میں ڈاکٹر وزیر آغا اورا حمد ندیم قاسمی کے حوالے سے گفتگو بے محل ہے ۔ اکبر حمیدی کے نام زیادہ تر خطوط نجی نوعیت کے ہیں اور ان کی ادبی افادیت محض اس قدر ہے کہ وہ ڈاکٹر وزیر آغا کے خطوط ہیں اور اکبر حمیدی کے نام ہیں ۔ ایک خط میں ڈاکٹر صاحب نے انشائیہ کی ہئیت پر بحث کی ہے اس کا اقتباس نذر قارئین ہے : انشائیہ مضمون کے اسلوب میں بھی لکھا جا سکتا ہے اور افسانے کے اسلوب میں بھی ، گو افسانے کے اسلوب میں لکھنا قدرے مشکل ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اگر انشائیے کا موضوع سبک اور لطیف ہو تو وہ افسانوی اسلوب میں ضم ہو جاتا ہے اور اس کی معروضی حیثیت باقی نہیں رہتی خود انشائیہ نگار بھی جب دونوں کے سنگم کو قبول کر لیتا ہے تو اس کے اسلوب میں افسانوی بہائو پیدا ہو جاتا ہے ۔ جو تفکر کو ملائم کر کے خود میں جذب کر لیتا ہے اور انشائیہ کا معروضی اور قدرے (detached) رویہ مدھم پڑ جاتا ہے۔  مباحث و استفسارات اقبالیات کے ضمن میں مختلف اطراف سے مختلف طرز کے اعتراضات موصول ہوتے رہتے ہیں اقبال اکادمی پاکستان اپنے قارئین کو حتی المقدور جوابات فراہم کرتی ہے جو شائع نہ ہونے کی وجہ سے اقبالیات کے شائقین کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں - اقبالیات میں ایسے مباحث کی اشاعت کا مقصد مناقشات کا دروازہ کھولنا نہیں بلکہ تفہیم اقبال ہے - آپ بھی حصہ لے سکتے ہیں تاہم مباحث کا علمی ہونا ہم سب کے لیے مفید ہو گا - (مدیر ) اقبال کے ہاں زندگی اور موت ایک قسم کی جدلیت جناب محمد سہیل عمر صاحب ۔ السلام علیکم ۔ نیا سال اور عید مبارک، امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ اقبالیات کے تازہ شمارے اور عید کارڈ کا بے حد شکریہ ۔ دونوں شمارے مجھے بے حد پسند آئے تحقیقی مقالے اعلیٰ معیار کے ہیں۔ خا ص طور پر سوال جواب کا سلسلہ دلچسپ ہے۔ اور فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ مثلا ً کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں اس شعر کو ’’شکوہ ‘‘ کے سیاق میں دیکھیے تو بت پرستی سے پاک نظر آئے گا ۔ خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظیر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر اوپر والے پہلے شعر میں ایک تڑپ کا اظہار ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محبوب (اللہ) پیکر محسوس میں نظر نہیں آ سکتا ۔ لیکن تمنا یہی ہے کہ کبھی کاش ایسا ہوتا ۔ اسی طرح التجاء مسافر میں : تیری لحد کی زیارت ہے زندگی کا پیام مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا اقبال کے یہاں زندگی اور موت دو منجمد حالات نہیں (Dialectic process) ایک دوسرے سے جڑے اور والمتیہ ہیں یہاں ایک قسم کی جدلیت ہے۔ زندگی سے موت اور موت سے زندگی نکلتی ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ تمام اسلامی عقیدہ کے مطابق اوپر اٹھا لیے گے اور غالباً ذائقۂ موت نہیں چکھا ۔ اس طرح حضرت خضر کے متعلق بھی عام خیال یہی ہے کہ آب حیات پی لینے کی وجہ سے ذائقہ موت سے نا آشنا رہے ۔ گویا زندگی کے ایک اسٹیج کی تکمیل کے بعد دوسرے اسٹیج میں نہیں داخل ہوئے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اقبال غالباً اسی جدلیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ زندگی کا پیام موت کے بعد ہی ملتا ہے ۔ موت جو اقبال کے نزدیک ایک وقتی Break ہے نئی زندگی کی نئی توانائی حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔ جبکہ زندگی کا ایسا سفر جو کبھی ختم نہ ہو غالباً Monotony کا سبب ہو سکتا ہے۔(یہ دونوں اشعار بت پرستی اور قبر پرستی سے پاک ہیں ) (واللہ اعلم بالصواب) طباعت کا معیار قابل تعریف ہے ۔ آپ کی کوششوں سے یہ مجلہ قارئین کے لیے یقینا دلچسپ علمی مواد فراہم کرتا ہے ڈاکٹر عارفہ فرید پروفیسر شعبہ فلسفہ سابق ڈین فکلٹی آف آرٹس کراچی یونیورسٹی ۔  اخبارِ اقبالیات ۱ - علامہ اقبال کا ۱۲۵ ویںیوم ولادت ۲۰۰۲ء کو سال اقبال کی حیثیت سے منایا جائے گا ۔ ۲ -اقبال کے تصور انسان پر علمی نشست ۳ -علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبہ اردو میں آل احمد سرور پر دو روزہ سیمینار ۴ - مجلس اقبال عالمی اردو مرکز کی اقبال پر تقریب ۵ - کشمیر یونیورسٹی میں اقبال اور احترام آدمیت دو روزہ سیمینار ۶۔ اقبال ریسرچ اکادمی بنگلہ دیش کی تقریب ۷ - قائد اعظم کی یاد میں ریاض میں تقریب ۸ -ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر رفعت حسن کے ٹی وی پر لیکچرز ۹ -گورنمنٹ کلیۃ البنات لیک روڈ لاہور میں یوم اقبال ۱۰ - گورنمنٹ گرلز کالج مدینہ ٹائون فیصل آباد میں یوم اقبال ۱۱ -گورنمنٹ اسلامیہ گرلز کالج کوپر روڈ میں یوم اقبال ۱۲ -ریڈیو پاکستان کا اقبال پر خصوصی سیمینار ۱۳ - دی ٹرسٹ سکول ٹھوکر نیاز بیگ میں یوم اقبال ۱۴۔ وفیات ممتاز اقبال شناس آل احمد سرور کا انتقال ڈاکٹر حسن رضوی کی وفات علامہ اقبال کا ۱۲۵ ویں سال ولادت ۲۰۰۲ء کو سال اقبال کی حیثیت سے منایا جائے گا حکومت پاکستان نے ۲۰۰۱ء کو سال قائد اعظم قرار دیا تھا ۔ پوری دنیا میں جس کے سلسلے میں تقریبات اور پروگرام مرتب ہوئے ۔ ۲۰۰۲ء کو حکومت پاکستان نے علامہ اقبال کے 125ویں سال ولادت کو سال اقبال کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے ۔ وفاقی سیکرٹری ثقافت نے اس سال کو خوب سے خوب تر ین اندازمیں منانے کے لیے اخبارات کے ذریعے ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان کو تجاویز بھیجنے کی ہدایت کی ہے ۔ محمد سہیل عمر ڈائر کٹر اقبال اکادمی نے ویب سائٹ اور ای میل کے ذریعے اس اشتہار کو دُنیا بھر میں بھجوادیا ہے ۔ تاکہ ان تجاویز کا دائر ہ وسیع تر ہوسکے ۔ اقبال اکادمی پاکستا ن کی ایگز یکٹو کمیٹی نے ڈائر کٹر اور ان کے معاونین کی مرتب کر دہ تجاویز کابڑی تفصیل سے جائز ہ لیا اور ان کی منظوری دی اور ڈائر کٹر محمد سہیل عمر کی مساعی کی تعریف کی۔ اس پروگرام کے تحت مختلف نوعیت کی جو سرگرمیاں مرتب کی گئیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے ۔ اہم نکات :- ۱- ہمارے پاس فنڈ چونکہ محدود ہیں لہذا اپنے پاؤ ں اپنی چادر کے مطابق پھیلائے جائیں گے ۔ ۲- اقبال میلہ اور جشن اقبال کی طرز کے پروگرامو ں کی بجائے اقبال جیسے شاعر فلسفی کے بنیادی نظریات اورتعلیمات کو اجاگر کیا جائے گا ۔ ۳- وقتی اور عارضی نمودونمائش کے پروگراموں کی بجائے دور رس اور مستقل اہمیت کے پروگرام وضع کئے جائیں گے تاکہ وسائل کاضیاع نہ ہو ۔ یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اور ادارے اس میں شمولیت کریں۔ ان ہی فکر انگیز تصورات کے پیش نظر سال اقبال کی تقریبات کی تجاویز مرتب کی گئی ہیں۔ افتتاح صدر پاکستان چونکہ اقبال اکادمی پاکستا ن کے سرپرست ہیں لہٰذا سال اقبال کا اعلان بھی ان کی طرف سے ہواہے ۔ اس بات کی بجاطور پر تو قع کی جا رہی ہے کہ وفاق صوبے اور وزارتیں اس سلسلے میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا کریںگی ۔ کانفرنسیں اور سیمینار اقبال کی سوانح اور اقبال پر سیمینار ---وفاقی وزارت ثقافت اس سلسلے میں دو روز ہ سیمینا ر منعقد کرے گی۔ جس میں ملک کے تما م حصوں سے آٹھ دانشور حصہ لیں گے تو قع ہے کہ یہ اسلام آباد میں ہوگا ۔ اس کے موضوعات اقبال او رعصری تقاضوں کے مطابق ہوں گے ۔ ۱- اسلامی ریاست کاتصور ۲- تعلیمی نظام - اقبال کا نکتہ نظر ۳- معاشی نظام - اقبال کا اندازفکر ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور محمد سہیل عمر ، موضوعات کی تشریح، سکالروں کا انتخاب اور دعوت ناموں وغیرہ کا اہتمام کریں گے ۔ عالمی اقبال کانفرنس --- اس موقع پر ایک عالمی اقبال کانفرنس کے انعقاد کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے تاکہ ایک بڑے فورم پر اقبال کے اذکار ونظریات کا جائزہ لیا جاسکے ۔ جس میں دنیا بھر سے ماہرین اقبال شرکت کریں گے۔ علاقائی سیمینار --- صوبائی حکومیتں - تمام صوبائی حکومتیں بشمول حکومت آزاد کشمیر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بھی فکر اقبال پر سیمینار منعقد کریں ۔ تعلیمی سیمینار --- صوبائی حکومیتں اپنے اپنے تعلیم کے صوبائی محکموں کے توسط سے یونیورسٹیوں،کالجوں اور سکولوں میں اقبال کے سوانح او رافکار پر تقریری مقابلے اور اس نوعیت کے پروگرام منعقد کریں گی ۔ پاکستانی سفارت خانے ---بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے بھی علامہ اقبال کے حوالے سے مقامی لوگوں کے تعاون سے پروگرام مرتب کریں گے ۔ ہفتہ اقبال --- نومبر کے پہلے ہفتے کوہفتہ اقبا ل قرار دیا گیا ہے ۔ 2نومبرسے 9 نومبر تک اقبال کے فلسفے ، افکار اور نظریا ت پر لیکچر اور پینل بحث ہو گی ۔ اس موقع پر کتب ، تصاویر اورآثار اقبال کی نمائش ہوگی ۔ بعد دوپہر اقبال کی شاعری پر بحث اورلیکچر ہوں گے۔ ڈاک ٹکٹ --- اس موقع کے حوالے سے یاد گاری ٹکٹ جاری ہوں گے ۔ قومی اور بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈز--- حکومت پاکستان ہر تین سال بعد یہ ایوارڈ اقبال پر کام کی حوصلہ افزائی کے لیے دیتی ہے ۔ اس موقع پر ان ایواڈر کا اعلان کیا جائے گا۔ اقبال پر سیریل ---پاکستان ٹیلی ویژن پر علامہ اقبال کے حوالے سے دستاویزی فلم ، شاعری کی گائیکی کے ساتھ ساتھ اقبال پر ایک ٹیلی سیریل بھی پیش کیا جائے گا ۔ 1970 میں اے ۔ کے۔ کاردار نے ایک اردو /انگریزی ڈاکومنٹری تیار کروائی تھی ۔ 1977 ء میں علی سردار جعفر ی کے مسودے پر ایک ڈاکومنٹری تیار کی گئی تھی ۔ 1977 ء میں صد سالہ تقریبات کے موقع پر فلم او ر پبلسٹی بیورو کے ایما پر سیلم احمد نے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ۔ ڈاکٹر انیس ناگی نے 1995میں ایک دستاویزی فلم تیار کی۔ اقبال پر ایک فلم بنانے کیلئے بھی اقبال اکادمی بنیادی مواد تیا ر کرچکی ہے ۔ نمائش ---اس موضوع پر علامہ کی تصاویر اقبال کے حوالے سے پینٹنگز، کتب ، جرائد ، آثاراقبال، خطوط وغیرہ اور آڈیوکیسٹس کی نمائش کی جائے گی ۔ عطیات --- اس موقع پر اہم اداروں او رلائبریریوں کو منتخب کتب ، رسائل ، جرائد ، بروشرز ، آڈیو کیسٹ وغیر ہ وغیر ہ فراہم کئے جائیں گے ۔ پاکستانی سفارت خانے ، کتب خانے اور ادارے اس میں شامل ہیں۔ ان تمام پر سال اقبال اندارج ہو گا۔ میڈیا--- پاکستان ٹیلی ویژن اس موقع پر ساراسال اپنے تمام چینلوں پر گذشتہ سالوں میں اقبال پر مرتب ہونے والے پروگراموں کا انتخاب ٹیلی کاسٹ کرے گا ۔ اس طرز پر ریڈیو پاکستا ن بھی نشریات جاری کرے گا۔ لانگ پلے --- پاکستان ٹیلی ویژن کے چینل علامہ اقبال کی شاعری پر لانگ پلے ٹیلی کاسٹ کریں گے ۔ مقبول موسیقی ---مقبول عام گلو گار اور ان کے گرو پ مثلاً شہزاد رائے ،ابرار الحق ،جمشید جنید اور جنون گروپ علامہ اقبال کے کلام پر مبنی پروگرام پیش کریں گے ۔ نوجوانوں کے اقبال کے حوالے سے پروگرام ---جناب انور مقبول ، جنا ب نعیم بخاری ، توثیق حید ر نواجوان کیلئے تعلیمی ، ادبی ،کوئز اور مباحثوں کے پروگرام پیش کریں گے ان سے اس سلسلے میں خصوصی رابطہ کیا جائے گا۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی --- ویب سائٹ - اقبال پر ویب سائٹ کا معیار بہتر کیاجائے گا ۔ ا سکی توسیع اور انعقا دکا اہتمام کیاجائے گا۔ مختلف زبانوں ، ساونڈ فائلوں ، سوالات کے جوابات ، سکیننگ، اردو او ر فارسی شاعری کامتن ۔ آڈیو و یڈیومیڑیل تمام عالمی معیا ر کے مطابق تیار اور دستیاب ہوں گے ۔ انٹرنیشنل ویب پیج مقابلے --- اقبال پر ویب پیج کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لئے ایک مقابلہ کروایا جائے گا۔او راس کیلئے تین بہترین مقابلہ جیتنے والوں کو معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ کثیراللسانی ڈیٹابیس لائبر یری --- اقبال اکادمی کثیراللسانی ڈیٹابیس لائیبریری قائم کررہی ہے جو ایک منفرد اقدام ہوگا ۔ یہ لائیبریری تحقیق کے میدان میں ہر طرح سے معاونت کرے گی ۔ اقبال سائیبرلائیبریری --- اقبال اکادمی اقبال سائیبر لائیبریری کے قیام کامنصوبہ تیا ر کررہی ہے جس سے اقبال پر الیکٹرانک کتب دستیاب ہوں گی۔ اقبال پر مصور سی ڈی --- اکادمی ایک ایسی سی ڈ ی تیار کررہی ہے جو خصوصی طور پر 2002 کے حوالے سے ہوگی ۔ اس میں اقبال کی زندگی سے متعلق تصاویر اور ان کی نثر و نظم کے نمونے بھی ہوں گے ۔ اقبال ملٹی میڈیا --- ایسی ملٹی میڈیا سی ڈیز تیار کی جارہی ہیں جن میں اقبال کی تما م نثر ی ، شعری ، ارود ،فارسی ،اور انگریزی تصاویر ،خطوط ، اشاریے وغیرہ موجود ہوں گے ۔ آڈیو ویڈیو پراجیکٹ --- ۱- آڈیو سی ڈیز اردو کلام ۲- آڈیو سی ڈی فارسی کلام ۳- اقبال وڈیو سی ڈی شامل ہیں۔ اقبال آرٹ گیلری --- ایوان اقبال لاہور میں ایک آرٹ گیلری کاقیا م بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے جس میں علامہ اقبا ل کی سوانح اور ان کی فکر کے حو الے سے ایک آرٹ گیلری قائم کی جارہی ہے ۔ جس میں اقبال پر پینٹنگ کرنے والے مصوروں کی تصاویر رکھی جائیں گی ۔ اقبال البم --- اقبال کی زندگی پر انگریزی میں کوئی اعلیٰ معیار کی البم تاحال دستیاب نہیں ۔ جوایک بار کبھی چھپی تھی وہ بھی موجود نہیں۔ سال اقبال کے دوران ایک اقبال البم کی اشاعت بھی ہوگی ۔ کتب --- سال اقبال کے دوران نئی اور پرانی کتب کی اشاعت کا ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ تعارفی کتب و بروشرز --- اقبال کی زندگی ،کارناموں اور افکار پرایک جامع تعارفی مواد شائع کیا جائے گا۔ بالخصوص ان زبانوں میں جہاں اقبال پر کو ئی قابل ذکر کام مو جو د نہیں ۔ خصوصی مطبوعات --- عالمی سطح پر فکر اقبا ل کی اشاعت کے لیے ایسی مطبوعات شائع کی جائیں گی جس سے عالمی سطح پر اقبال کے قارئین پیداہوں ۔ایسی کتب عالمی افکار اور موضوعات کے تناظر میں ہوں گی ۔ ۱- ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ۔ ’’پاکستان ، اپنے تشخص کی تلاش میں‘‘ (انگریزی ) ۲۔ڈاکٹر شیلا میکڈونلڈ (کینیڈا)شعلہء سنائی (انگریزی) ۳- ڈاکٹر مستنصر میر (امریکہ )لالہ ِ ٔ صحرا (انگریزی) ۴- ڈاکٹر این میری شمل (جرمنی) شہپر جبریل (نیا ایڈیشن) (انگریزی) (اردو ،اور فارسی )تراجم میں اقبال پاکستانی زبانو ں میں --- پاکستانی زبانو ںمیں کتب کی اشاعت کا سروے کیاجائے گا۔ ان زبانوں میں کتب شائع کی جائیں گی، جن میں کلام اقبال ترجمہ نہیں ہوا۔ پرانے تراجم بھی طبع ہوںگے۔ بچوں کے لئے مصور اقبال --- نوجوانوں کو اقبال نے جن نظموں میں خطاب کیاہے، اسے شائع کیاجائے گا ۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تعاون سے اور بعد میں دوسرے ٹیکسٹ بک بورڈ کے تعاون سے مصور کلام اقبال بچوں کیلئے شائع ہوگا۔ جودیگر پاکستانی زبانوں میں بھی ہوگا۔ تحقیقی منصوبے ۱- دستاویزات قائد اعظم میں ذکر اقبال ۲- زند ہ رود (اردو ) ۳- زند ہ رود کے عربی، بنگلہ ،چینی ، روسی اور انگریزی زبان میں تراجم ۴- خطبہ الہ آباد کے اردو ،فارسی ،عربی ، بنگالی، ملائی اور دوسری زبانوں میں تراجم ۵- کلیات نثریات اقبال ۶-کلیات اقبال انگریزی تراجم یکجا کرکے شائع ہوںگے۔ ۷- کلیات اقبال (اردو) ۸- کلیات اقبال(فارسی ) ۹- اقبال انسائیکلوپیڈیا ۱۰- کتابیات اقبال --- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۱-کلیات باقیات اقبال--- ڈاکٹر صابر کلوروی رسائل --- اقبال ریویو(انگریزی ) اقبالیات (اردو ) کے علاوہ اقبالیات (ترکی)اقبالیات (عربی )اوراقبالیات (فارسی) بھی شائع کئے جائیں گے ۔ آثار اقبال --- اقبال اکادمی کی لائبریری میں علامہ اقبال کی زندگی پر دستاویزات، خطوط اور دوسرے مواد کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کیا گیاہے ۔نئی نسل کیلئے پروگرام ---صدر پاکستا ن کی سرپرستی میں ایک قومی کمیٹی برائے تقریبات سال اقبال تشکیل دی گئی ہے جس کے ارکان میں ۔ ۱- وفاقی وزیر ثقافت (چیئر مین ) ۲- وفاقی سیکرٹیری وزارت ثقافت (رکن) ۳- ڈاکٹر جاوید اقبال (وائس چیئر مین) ۴- سیکرٹری تعلیم (ممبر) ۵-وفاقی سیکرٹری ،اطلاعات (ممبر) ۶- جسٹس (ر)سردار محمد اقبال (ممبر) ۷- ڈاکٹر وحید قریشی (ممبر) ۸-افتخار عارف (ممبر) ۹- سکندر حیات جمالی (ممبر) ۱۰- عبدالغفارسومرو (ممبر) ۱۱- ڈاکٹر صابر کلوروی (ممبر) ۱۲- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (ممبر) ۱۳- ڈاکٹر معین الدین عقیل (ممبر) ۱۴- پروفیسر عطیہ سیّد (ممبر) ۱۵-ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار (ممبر) ۱۶- پروفیسر ایوب صابر (ممبر) ۱۷- محمد سہیل عمر (ممبر/کنونیر) قومی کمیٹی منصوبوں کی منظوری ،سرگرمیاں اور فنڈز کی منظوری کا اختیار رکھتی ہے۔اقبال اکادمی پاکستان اس کاسیکرٹیریٹ ہوگا جہاں اجلاس منعقد ہوں گے ۔ اقبال کے تصور انسان پر علمی نشست حکومت پاکستان نے ۲۰۰۲ء کو سال اقبال قرار دیا ہے اس سلسلے میں ایک اہم تقریب اقبال اکادمی پاکستان اور خانہ فرہنگ ایران لاہور کے تعاون سے ایوان اقبال کے بینکویٹ ہال میں ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء کی سہ پہر تین بجے سے رات ۹ بجے تک منعقد ہوئی جس میں اقبال کے تصور انسان پر مقالات پڑھے گئے تقریب میں ڈاکٹر فتح محمد ملک نے ’’اقبال اوراسلامی عبادت کا تصور‘‘ ، ڈاکٹر اسلم انصاری نے ’’اقبال کا تصور تاریخ اور فرد‘‘ (انگریزی) ڈاکٹر نعیم احمد نے’’ اقبال کا تصور موت‘‘ ، ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’اقبال کا مثالی انسان ۔ نفسیاتی تناظر میں‘‘ ، چودھری مظفر حسین نے ’’اقبال کا روحانی انسان‘‘ ، خضر یاسین نے ’’انسان اور اس کے وجودی اصول‘‘ پر مقالات پڑھے ۔ خضر یاسین نے کہا ’’ انسان اعلیٰ ترین ہستی ہے وہ اپنے وجودی اصول میں لاثانی ہے اس سے بہتر وجود ممکن نہیں ہے ۔ وہ اس ہستی کی معرفت کا کوئی پیمانہ نہیں رکھتا اور نہ رکھ سکتا ہے ۔ جس کی تخلیق نے اسے وجود عطا کی ہے وہ کیا ہستی ہے ؟ جس نے کائنات کو بنایا ہے اور سب سے بڑھ کر شعور نے شعور کو پیدا کیا ۔ انسان کا علم و وجدان ، وہم و گمان، خیال و قیاس کچھ ایسا نہیں ہے جو اس تک رسائی میں انسان کی معاونت کر سکے اور اس کا راہ گیر و رہنما بن سکے اس کی ماہیت ، اس کی فطرت اوصاف و خصائص ہمارے لیے یہ سب انسانی وجود کے ادراک کے مقولات ہیں ‘‘ ۔۔۔۔ ’’ حقیقت یہ ہے کہ علامہ کے ہاں زندگی کا مظہر ہی واحد اور حقیقی وجودی اصول ہے اس سے زیادہ یا اس سے کم ہر مظہر کو وہ کسی نہ کسی سطح سے حیاتیات کے مقولات سے واضح کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ انا یا خودی ان کا مرغوب ترین مقولہ ہے لہٰذا یہ جوہر کے حقیر ترین وجود سے لے کر خدائے بزرگ و برتر کی ہستی تک ہر ایک مظہر وجود پر اطلاق پذیر ہوتا ہے ۔ خضر یاسین کا مقالہ طویل تھا تاہم اس مقالے کو حاصل تقریب کی حیثیت حاصل تھی ۔ ممتاز دانشور و ادیب ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’اقبال کامثالی انسان : نفسیاتی تناظر میں‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’ علامہ اقبال نے جلال وجمال کے حامل اپنے اسلوب کے ذریعے سے مرد مومن کی جو صفات اجاگر کیں ۔ ان کی اساس ثنویت اور ضدین کے امتزاج پر استوار ہے ۔ علامہ نے تضاد کے امتزاج سے پیکر نو کی مسافت طے کی ۔ یوں کہ دونوں تضادات کی بہترین صفات حاصل کر لیں ‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد صدر شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور نے اپنا مقالہ’’ اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘ لکھ کر ڈاکٹریٹ حاصل کی تھی ’’اقبال کا تصور موت‘‘ ان کا آج کا موضوع تھا انہوں نے کہا ’’علامہ اقبال کا تصور موت و حیات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔ صرف انہوں نے اس تصور کو فلسفیانہ اور علمی تناظر میں اس طرح پیش کیا کہ یہ جدید ذہن کے لیے قابل قبول اور دل کش بن گیاہے ‘‘ ۔۔۔۔ ’’علامہ کا خیال ہے کہ ایک دفعہ وجود پذیر ہو جانے کے بعد انائے انسانی فنا سے آشنا نہیں ہو سکتی ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انائے انسانی کا زمان میں ایک نقطہ آغاز ہے لیکن نقطہ انجام نہیں ہوتا ‘‘ ۔۔۔۔ ’’ علامہ نے موت اور بقائے دوام کے مسئلے سے اس طرح تعرض کیا ہے کہ انساں مایوسی اور قنوطیت کا مطلقاً شکار نہیں ہوتا ۔ موت کی آمد ، آنے والی حیات سرمدی کی نوید بنتی ہے ۔ اگر اس نے اس کا ر گہ عمل میں اپنی خودی کو مستحکم کر لیا ہو تو وہ موت کا استقبال خندہ پیشانی سے کرتا ہے ۔ چو مرگ آید تبسم بر لب اوست چودھری مظفر حسین ممتاز ماہر اقبالیات کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں انہوں نے ’’اقبال کا روحانی انسان‘‘ کے موضوع پر ضخیم مقالہ پیش کیا انہوں نے کہا ۔ ’’ اقبال کا روحانی انسان جمال و جلال کے حسین امتزاج کا مرقع ہوتا ہے ۔ انہوں نے ان صفات کے لیے صحیح اور قوی کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اور مثنوی اسرار و رموز کے سر آغاز میں مولانا روم کے جو اشعار نقل کئے ہیں ان میں شیرِ خدا اور رستمِ دستانم کے الفاظ کا بھی یہی مفہوم ہے ۔ روحانی انسان کی سیرت کی ہیئت ترکیبی کے جو عناصر اربعہ انہوں نے گنوائے ہیں ان میں غفاری و قدوسی کے ساتھ ساتھ قہاری و جبروت کو بھی شمار کیا ہے ‘‘ ۔ جامعہ پنجاب کے صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’’اقبال کے تصور تہذیب‘‘ پر مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے امریکی دانشور ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے تصور کے حوالے سے کہا کہ مغربی تہذیب کا اقبال نے معروضی مطالعہ کیا اور مغربی تہذیب کی موجودہ تباہ کن صورت حال کا ادراک کیا ۔ انہوں نے ہنٹنگٹن کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج انسان کو تصادم اور مناقشہ کی نہیں ایک پر امن دنیا کی ضرورت ہے ۔ لاہور یونیورسٹی و کالج برائے خواتین کی ڈین اور شعبہ فلسفہ کی سربراہ پروفیسر عطیہ سید نے ’’اقبال کے تصور عورت‘‘ پر مقالہ پیش کیا انہوں کہا کہ اقبال عورت کو تصویر کائنات میں رنگ قرار دیتے ہیں وہ عورت کی بصیرت پر اعتماد کرتے ہیں اس کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں تاہم وہ مشرقی عورت کو مغربی عورت بننے سے باز رکھنے کی بھی تلقین کرتے ہیں ۔ مرد اور عورت دونوں کے حوالے سے اقبال کا نظریہ بڑا متوازن ہے شعبہ اقبالیات جامعہ پنجاب کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم شاہ اکرام نے ’’اقبال کا تصور انسان‘‘ پر مقالہ پیش کیا کہ اقبال رومی کے مرید تھے اور رومی کی ہی طرح ایک برتر انسان کے آرزو مند تھے جو تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو ۔ خانہ فرہنگ ایران لاہور کے ڈائرکٹر جنرل محمد سعید معزالدین، جنہوں نے اس سیمینار کے لیے مالی تعاون پیش کیا تھا، نے بھی ’’اقبال اور فلسفہ خود شناسی‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’ اقبال کے فلسفہ خودی میں اگر اختیار کا اعتبار نہ ہوتا تو وہ بے اثر و بے ثمر ہوتا کیونکہ اگر انسان یا انسانی معاشرہ جو خود مختار ہو وہ سوچ سکتا ہے ، دیکھ سکتا ہے ۔ انتخاب کر سکتا ہے اور اپنی آئندہ کی سر نوشت خود اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہے ‘‘۔ انہوں نے اور ایرانی قونصل جنرل لاہور آقای مجید صادقی نے فارسی میں مقالات پیش کئے جن کے تراجم خانم ثمینہ نے پیش کئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے اپنا مقالہ انگریزی میں’’ اقبال کا تصور تاریخ اور انسان‘‘ پیش کیا ۔ ’’ تاریخ کے بارے میں اقبال کا اپنا مخصوص انداز فکر ہے کہ تاریخ حوادث گذشتہ کا ریکارڈ ہے جس میں آفاقی حرکت موجود ہے ۔ وہ تاریخ کو بھی قرآن کے ساتھ انسانی علم کا اہم ذریعہ شمار کرتے ہیں وہ فرد مصدقہ کا استناد تاریخ کے حوالے سے کرتے ہیں ۔ مقتدرہ قومی زبان پاکستان کے صدر نشین اور ممتاز دانشور پروفیسر فتح محمد ملک نے ’’اقبال اور عبادت کا اسلامی تصور‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اقبال کے خیال میں خالق اکبر کی نت نئی تخلیقی ادائوں کا سائنسی مشاہدہ افضل ترین عبادت ہے فطرت کے مطالعہ میں جذب سائنس دان کو اقبال ایک ایسا صوفی قرار دیتے ہیں جو اللہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ قوانین فطرت کی سائنسی تلاش و جستجو کو وہ قرب خداوندی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے رسمی عبادات کی پابندی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا۔ ان عبادات کی ادائیگی کو وہ ضروری خیال کرتے ہیں مگر اسے کافی نہیں سمجھتے ۔ تسخیر کائنات کو وہ رسمی عبادات کی علمی توسیع سمجھتے ہیں ‘‘۔ محمد سہیل عمر ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان لاہور جو جلسے کی نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے اور ہر مقالے کا بنیادی جوہر اور مقالہ نگار کا تعارف بیان کرتے انہوں نے پروفیسر فتح محمد ملک کے مقالہ پر نہایت اہم سوالات اٹھائے جن کے جوابات کسی آئندہ موقع پر اٹھا رکھنے کا عندیہ دیا ۔ اقبال اکادمی پاکستان کی اس تقریب کے انعقاد میں خانہ فرہنگ ایران کے ڈائرکٹر جنرل محمد سعید معزالدین کے کردار کو خصوصی طور پر سراہا گیا اس موقع پر اقبال اکادمی نے نمائش کتب کی اور فروخت پر پچاس فیصد رعایت پیش کی خانہ فرہنگ ایران نے بھی کتب ، تصاویر اور ایرانی تہذیب و ثقافت کے تعارف کے لیے وڈیو پیش کی ، ممتاز گلوکار پروفیسر جواد احمد شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور اور سانگلہ ہل کے محمد رفیع نے کلام اقبال پیش کیا ۔ لاہور کے ممتاز دانشوروں نے مسلسل پانچ گھنٹے مقالات سن کر اپنی اعلیٰ علم دوستی کا مظاہرہ کیا ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں آل احمد سرور پر دو روزہ قومی سیمینار شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زیر اہتمام آل احمد سرورؔ دورزہ قو می سیمینار ۲۴ فروری ۲۰۰۱ ء کو منعقد کیا گیا جس میں اردو کے ممتاز نقاد ، شاعر اور دانش ور پروفیسر آل احمد سرورؔ کی شخصیت ، فن اور ان کی نظم و نثر کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ۔ سیمینار کا افتتاح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنا ب محمد حامد انصاری نے فرمایا ۔ جناب شمس الرحمن فاروقی نے کلید ی خطبہ پیش کیا اور جناب سید حامد ، چانسلر ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی نے خطبۂ صدارت پیش فرمایا ۔ شعبۂ اردو کی تاریخ میں کسی زندہ شخصیت پر یہ پہلا سمینار تھاا ور غالباً سردار جعفری کے بعد سرور صاحب ہی ایسے ایک ادیب ہیں جن کی خد مات کااعتراف ان کی زندگی میں ہی اتنے بڑے سیمینار کے ذریعہ کیا گیا۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے سرورؔ صاحب کا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ ۱۹۳۷ء میںیہاں استاد مقرر ہوئے تھے اور ۱۹۵۶ء سے ۱۹۷۳ء تک شعبہ اردو کے صدر بھی رہے۔ سرور صاحب کی علمی شخصیت اور ان کی تدریسی خدمات کے اعترا ف میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ۲۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو ’’ پروفیسر ایمریطس ‘‘ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے سرفراز کیا ۔ ہندوستان کی دانش گاہوں میں ’’پروفیسر ایمریطس ‘‘ کا اعزاز پانے والے سرور صاحب اردو کے پہلے استاد ہیں اور تاحال یہ اعزاز اردو کے کسی اور استاد کو نصیب نہیں ہوا۔ شعبۂ اردو کی جانب سے سرور صاحب پر دوروزہ سیمینار کا اہتمام خود شعبہ کے اعزاز کا ذریعہ کہا جاسکتا ہے۔ سرور صاحب اس سیمینار میں خو د بھی شریک تھے اور ا س موقع پر حکومت مدھیہ پردیش کاسب سے بڑا ادبی انعام ’’اقبال سمان ‘‘ ایک لاکھ روپے کے چیک اور توصیفی سند کی صورت میں سرور صاحب کی خد مت میں پیش کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال کے سیکریڑی پروفیسر آفاق احمد حکومت مدھیہ پردیش کی جانب سے لے کر علی گڑھ آئے تھے ۔اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو ہند کے جنر ل سیکرٹری ڈاکٹر خلیق انجم بھی سرور صاحب کے لیے انجمن کی جانب سے ایک شال ،یادگار میڈل اور کتابوں کے تحفے لے کر دہلی سے علی گڑھ آئے تھے ۔ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور علی گڑھ کے دانش وروں کے علاوہ ملک کے کئی اہم مراکز کے مندوبین اس سیمینار میں شریک ہوئے ۔ افتتاحی جلسے کے بعد سیمینار کے مزید چار اجلاس منعقد ہوئے اور بیس مقالے پیش کیے گئے ۔ سیمینار کے تمام جلسوں کی روداد ذیل میں پیش کی جاتی ہے: افتتاحی جلسہ :- آل احمد سرور دو روزہ قومی سیمینار کا افتتا حی اجلاس ۲۴ فروری ۲۰۰۱ء کو گیارہ بجے دن کو آرٹس فیکلٹی لاوئج میں منعقد کیا گیا ۔ شعبۂ اردو کے طالبِ علم محمد احتشام کی تلاوت کلام پا ک سے افتتاحی جلسے کا آغاز ہوا ۔ شرکا ، مندوبین او رمہمانان گرامی کا سیمینار میں خیر مقدم کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو پروفیسر اصغر عباس نے استقبالیہ کلمات میں فرمایاکہ : یہ ہماری خوش بختی ہے کہ آج ہمارا شعبہ سرور صاحب کے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز ہے ۔ سرور صاحب نہ صرف یہ کہ اردو زبان وادب کے عارف، اردو تنقید کے قافلہ سالار اور اردو تحریک کے قائد کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں بلکہ آپ نے ہماری یو نیورسٹی کے وقار میں بے مثال اضافے کیے ہیں ۔ سرور صاحب کا رشتہ اس تعلیمی اور تہذیبی مرکز سے سات دہائیو ں پر پھیلاہواہے آپ زمانۂ طالب علمی میں ا س یونیورسٹی کے منتخبات میں گنے جاتے تھے ۔ سر راس مسعود جس زمانے میں یہاں وائس چانسلر تھے آپ نے یو نین کے نائب صدر کی حیثیت سے طلبا کی قیادت کی او راستاد کی حیثیت سے بھی آپ نے جو عزت و وقار حاصل کیا وہ کسی بھی عالم کے لیے باعث افتخار ہو سکتا ہے ۔ آپ نے شعبۂ اردو کی صدارت کے زمانے میں اپنی سرگرمیاں صرف ادبی مسائل تک محدود نہیں رکھیں بلکہ تہذیب ، تاریخ، تعلیم اور معاشرے کے ہر پہلو پر ذمہ دارانہ نظر ڈالی اور ہر دائرے میں مصلحت اور مفاد سے بے نیاز ہوکر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آزادی کے بعد ہمارے شعبے کو ترقی کی نئی راہوں سے سرور صاحب نے آشنا کیا ۔ شعبہ میں اساتذہ اور طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ تحقیقی اور تدریسی کامو ں کو مستحکم تر بنانے کے لیے کی کوشش کی گئی ۔ یہی نہیں بلکہ سرور صاحب نے جس دل نوازی او راحسا س ذمہ داری کے ساتھ نوجوان ذہنوں کی پر ورش کی اس پر ہمار ی کئی نسلیں فخر کرسکتی ہیں ۔ سرور صاحب میں خیال کی وہ وسعت اور شخصیت کی وہ بے تعصبی ہے جسے ہم تعلیم او رتہذیب کا اصل الاصول کہہ سکتے ہیں ۔ ا ن میں وہ کشادہ ذہنی ہے جو ایک عالم کی شان ہے، وہ تہذیب متانت اور وقار ہے جوایک اچھے استاد کا شرف ہے اور ملک کے تہذیبی اور معاشرتی مسائل سے وہ ذہنی ربط ہے جو ایک سچے دانشور کی پہچا ن قرار دیا جاسکتا ہے ۔ برصغیر میں آج چھو ٹے بڑے نقادوں کی کمی نہیں ہے لیکن ہر نقاد نے کسی نہ کسی عنوان سرور صاحب سے فیض اٹھایا ہے ۔ سرور صاحب نے شاعر ی بھی کی ہے اور ایک اچھے خاصے حلقے میں ان کو حسن قبول بھی ملاہے ۔ ان کی شاعری انسان او رانسانیت کے منظر نامے سے عبارت ہے۔ اپنے عہد کی سیاسی سماجی اور ادبی تبدیلیوں پر ان کی بڑی گہری نظر ہے اور انکی شاعر ی میں روح عصر فنکارانہ بصیرت کے ساتھ موجود ہے ۔ وہ کشاکش حیات سے مایوس یا ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اسی زمین پر ایک جہان آخریں کے مشتاق رہتے ہیں ۔ سرور صاحب کی صحافتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو نے فرمایا کہ سرور صاحب کی صحافت کا آغاز علی گڑھ میگزین کی ادارت سے ہو ا۔ رشید صاحب کے رسالہ سہیل کی ادارت میں بھی شامل رہے ۔ وہ انجمن ترقی اردو کے رسالہ اردو ادب او رمسلم یونیورسٹی کے علمی رسالہ فکر و نظر کے مدیر رہے ۔ آج بھی روزنامہ سیاست حیدرآبا د میں پندرہ روزہ ان کا کالم چھپتاہے ۔ اور سرمۂ اہل نظر بن جاتا ہے ۔ انجمن ترقی اردو ہند کے اخبارہماری زبا ن کی ادارت کے فرائض سرور صاحب نے تقریباً دو دہائی تک انجام دیے ۔ اسی اخبار کے ذریعہ سرور صاحب نے اردو تحریک کی قیادت کی ۔ صدر شعبہ ٔ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سرور صاحب پر اس دوروزہ مذاکرے میں انکی شخصیت ، انکی تنقید،ان کا اسلوب ، انکی خود نوشت ،انکے توسیعی خطبات ، انکے سفر نامے ، انکی صحافت ،انکی دانشوری اور اسکے علاوہ دوسرے موضوعات پر گفتگو ہو گی اور سرور صاحب کاخصوصی مطالعہ کرنے والے دانشوروں کے مقالوں سے بحث و نظر کی نئی راہیں کھلیں گی اور اس طرح ہمارے علمی سرمایے میں اضافہ ہوگا اور یہی اس سیمینار کا مقصد ہے۔ شعبۂ اردو کی درخواست پر اردو کے ممتاز نقاد اور دانش ور جناب شمس الرحمن فاروقی اس سیمینار میں کلیدی خطبہ کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ صدر شعبۂ اردو نے فاروقی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کسی ادبی محفل میں شمس الرحمن صاحب کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھاناہے ۔ اردو ادب کی تاریخ میںخاص طور پر آزادی کے بعد ایسی شخصیتیں شاذو نادر نظرآتی ہیںجو ملک کی انتظامیہ میں رہنے کے باوجو د ان کے علمی اور ادبی اکتسابات سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہوں ۔ ان مستثنیات میں شمس الرحمن صاحب سرفہرست ہیں ۔ صدر جلسہ جناب سید حامد کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر شعبۂ نے کہا کہ سید صاحب ہمارے ان اکابرین میں ہیںجن کی خدمات کسی ایک دائر ے تک محدود نہیں وہ ایک منفرد صاحب قلم ،سلجھے ہوئے نقاد اورممتاز شاعر ہیں ۔اور علی گڑھ کے زمانے طالب علمی میں وہ ہر جگہ نمایا ں رہے ۔ انھوں نے کئی ایسے اساتذہ اور مدبرین کی آنکھیں دیکھی ہیں جنھوں نے براہ راست سرسید کے آہنی عزم او رمد برانہ صفات سے فیض پایا تھا ۔ سید حامد صاحب نے طالب علمی کے زمانے سے اس یونیورسٹی سے جو پیمان وفا باندھا تھا۔ اس پر تاحال قائم ہیں ۔ جب وہ اس تعلیمی اور تہذیبی مرکز کے پاسبان ، محافظ ، معمار اور اسکے امین بن کر آئے تو انھوں نے ایک عاشق کی والہانہ شیفتگی کے ساتھ اس یونیورسٹی کے ہمہ جہت مفاد میں اپنی بہتر ین صلاحیتیں صرف کردیں ۔ انھیں قوم کے ہمہ جہتی فروغ سے والہانہ لگاؤ ہے۔ ان کی زندگی صبر و تحمل ، دررد مندی اور جہد مسلسل سے عبارت ہے ۔ وہ محض اداروں کے موسس اورمنتظم ہی نہیں ، وہ صرف سماجی مفکر یا ادیب اور شاعری ہی نہیں بلکہ اقدار عالیہ کے عاشق بھی ہیں ۔ میں اس سیمینار میںسید صاحب کا استقبال کرتا ہوں ۔ صدر شعبۂ نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کے مذاکرے کاافتتاح ہمارے وائس چانسلر محمد حامد انصاری صاحب فرمائیں گے اور صدارت سید حامد صاحب فرما رہے ہیں ۔ حاضرین کا یہ اجتماع ہر لحاظ سے فال نیک ہے ۔ محمد حامد انصاری صاحب جب سے ہماری یونیورسٹی کے اعلیٰ عہد پر فائز ہوئے ہیں وہ قدم قدم پر اپنی شرافت نفس اور جذبۂ کردارسازی سے اس تہذیبی او رتعلیمی مرکز کا وقار بلند کرنے میں مصروف ہیں۔وہ یہاں آتے ہی جس بحران سے دو چار ہوئے اور اس کے چیلنج کو انھوں نے جس عزم اور دلیری سے قبول کیا، نا سپاسی ہو گی اگر اس کا یہاں ذکر نہ کیا جائے ۔ سرورصاحب کا یہ شعر حامدین کے کیسا حسب حال ہے: نہ یہ عالی جناب اٹھے نہ وہ عالیٰ مقام آئے جب آئی آنچ صحرا پر تو دیوانے ہی کام آئے آج کایہ سیمینار حامد انصاری صاحب کی اردو دوستی کاایک نمونہ ہے اور اس کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس سیمینار کے لیے ان کا بھر پور تعاون ہمیں حاصل رہا۔ صدر شعبۂ کی استقبالیہ تقریر کے بعد بی اے کی طالبہ شاہدہ مرغوب نے سرور صاحب کی ایک نظم ترنم کے ساتھ پیش کی ۔ افتتاحی جلسے کی نظامت سیمینار ڈائریکٹر پروفیسر قیصر جہاں فرمارہی تھیں ۔ انھوں نے محمد حامد انصاری صاحب (وائس چانسلر )سے سیمینار کے افتتاح کی درخواست کی ۔ سیمینار کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے جناب محمد حامد انصاری نے اردو شعر وادب اور اردو تحریک کے سلسلے میں سرور صاحب کی خدمات کابطور خاص ذکر کیا او رفرمایا کہ شعبۂ اردو اور مسلم یونیورسٹی دونوں پر سرور صاحب کاجو قرض تھا،آج کی تقریب اس قرض کوادا کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ سیمینار کے باضابطہ افتتاح کے بعد شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ’’سروردانشور‘‘ کے عنوان سے کلید ی خطبہ پیش کیا جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ دانش وری کئی پہلو رکھتی ہے اور اس کا سب سے اہم اظہار اسی حالت میں ہو تا ہے جب دانش ور کوکسی ایسے علمی یا فکری موقف کاسامناہو جس سے وہ متفق نہ ہو ۔ایسی صورت میں اصل دانش وری یہ ہے کہ اپنی رائے کا بے کم وکاست اظہار کر دیاجائے لیکن اس بات کا احساس بھی رہے کہ فریق مخاف کی رائے کو بھی زندہ رہنے کاحق ہے ۔سرور صاحب اسی معاملے میں لائنل ٹرلنگ (LIONEL TRILLING)کے ہم نواہیںاور انکی دانش وری کاتفاعل بھی یہی ہے کہ کسی چیز کی حقیقت کے بارے میں تمام دعوے بنیادی طور پر عارضی ہوتے ہیں ۔فاروقی صاحب کے بقول ہمارے یہاں دانش ور کامطلب عام طور یہ سمجھاگیا ہے کہ دانشور ہر معاملے میں اپنی رائے رکھتا ہے ۔اور اپنے علاوہ کسی اور کی رائے کومعتبر نہیں جانتا،دانش ور کی اصل تعریف یہ نہیں ہے۔ دانشور کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر معاملے پر اپنی سوچی سمجھی رائے رکھتاہے ۔موقع پڑنے پر اس کا اظہار کرتاہے اور فریق مخالف کوبھی اپنی رائے رکھنے کا حق دیتاہے ۔دانش و رکے مفہو م کی وضاحت کرتے ہوئے فاروقی صاحب نے سرور صاحب کی تحریروں سے اقتباسات پیش کرکے انھیں ایک سچادانش ور ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں اکبر الہ آبادی پر سرور صاحب کے مضمون کو فاروقی صاحب نے بنیاد بنایا اور بتا یا کہ سرور صاحب کی دانش وری میں تھوڑی رومانیت بھی ہے ۔ یہ رومانیت نقادکے دل کوپاسبان عقل کی رقابت سے کبھی کبھی آزاد بھی کردیتی ہے اور آج کے عہد میں جب تنقید میں ادب سے محبت کی جگہ ادب سے نبرد آزما ہونے کارجحان دکھائی دینے لگا،یہ رومانیت کچھ زیادہ ہی ضروری ہوگئی ہے۔ سرورصاحب کی دانش ور ی پر یہ کلیدی خطبہ بے حد پسند کیاگیا ۔ ہمددر یونیورسٹی کے چانسلر جناب سید حامد نے اپنے خطبۂ صدارت میں سرور صاحب کی علمی، ادبی،انتظامی اور قائد انہ صلاحیتو ں اور خدمات کا شرح وبسط کیساتھ جائزہ لیااور ان کی دانش وری کو بھی موضوع بحث بنایا۔اسکے بعد حکومت مدہیہ پردیش کاسب سے بڑا ادبی انعام ’’اقبال سمان ‘‘ جسے حکومت مدہیہ پردیش کے نمائندے اور اقبال ادبی مرکز بھوپال کے سیکرٹری پروفیسر آفاق احمد لے کر آئے تھے ، سرور صاحب کی خدمت میں پیش کیاگیا۔ایک لاکھ روپے کے چیک او رتوصیفی سند کی صورت میں یہ انعام مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب محمد حامد انصاری کے ہاتھوں سرور صاحب کی خدمت میں پیش کیاگیا۔ انجمن ترقی اردو ہند کے سیکرٹر ی کی حیثیت سے سرور صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انجمن کے موجودہ جنرل سیکرٹری ڈاکٹر خلیق انجم ارمغان انجمن کے طور پر ایک شال، کتابیں اور یادگار میڈل لائے تھے جسے انجمن ترقی اردو ہند کے سابق صدر جناب سید حامد نے سرور صاحب کی خد مت میں پیش کیا ۔ اس کے بعد سرور صاحب کی دوتازہ مطبوعات (۱)’’اردوتحریک‘‘ (۲) ’’افکار کے دیے ‘‘ کی رسم اجرا شمس الرحمن فاروقی صاحب نے انجا م دی۔یہ دونوں کتابیں ’’ہماری زبان ‘‘ میں سرور صاحب کے اداریوں کے انتخاب پر مشتمل ہیں جنھیں ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ کے مالک اسد یارخان صاحب نے بڑے اہتمام سے حال میں شائع کیا ہے ۔ اپنی مستقل علالت اور نقاہت کے باوجو د سرور صاحب نے شعبہ اردو کی درخواست پر اس سیمینا ر میں شرکت کی دعوت قبول کی تھی اور افتتاحی جلسے میں تشریف رکھتے تھے اسلئے ان سے درخورست کی گئی کہ اپنے تاثرات پیش فرمائیں انھوں نے منتظمین سیمینار اور شرکائے جلسہ کاشکریہ ادا کرتے ہوئے علی گڑھ والوں کو سرراس مسعود کاوہ سبق یاد دلایا جو انھوں نے اپنے دور وائس چانسلری میں طلباکو دیاتھاکہ :- ’’میں اس ادارے میں کوئی چیز دوسرے درجے کی نہیں دیکھنا چاہتا ۔‘‘ سرورصاحب نے تکنیکی تعلیم کی قد دوقیمت کااعتراف کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیاکہ یونیورسٹی کامقصد علوم کی تعلیم ہے کیونکہ علوم سے ہی افکار جنم لیتے ہیں۔ اسکے بعد پروفیسر قیصر جہان نے مہمانوں اورشرکائے جلسہ کاشکریہ ادا کیا اور پھر سرور صاحب کے سلسلے میں مو لانا آزاد لائبریر ی میں کتابوں کی نمائش کا افتتاح پروفیسر عبدالمغنی سابق وائس چانسلر متھلا یونیورسٹی (بہار)نے فرمایا اورشعبۂ اردو میں شاندار چائے کے بعد افتتاحی جلسہ ختم ہوا۔ پہلا جلسہ : آل احمد سرور دوروزہ قومی سیمینار کاپہلا جلسہ ۲۴فروری ۲۰۰۱ء کو ۳ بجے سہ پہر شروع ہوا جس کی صدرات پروفیسر آفاق احمد (بھوپال)، پروفیسر سید عبدالباری (سلطان پور)اور پروفیسر عجب سنگھ (علی گڑھ)نے فرمائی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر خورشید احمد نے انجام د ے۔ کل پانچ مقالے پیش کیے گئے ۔ مقالہ نگارو ںمیں ڈاکٹر خلیق انجم، پر وفیسر صدیق الرحمن قدوائی ، پروفیسر زاہد ہ زید ی ، محتر مہ سلمی صدیقی اورپروفیسر محمود الحسن شامل تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے انجمن ترقی اردو کے حوالے سے سرور صاحب کی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیااور انجمن کے ریکارڈکی مدد سے سرور صاحب کی سیکرٹری شپ کے زمانے کی کئی اہم باتیںتحقیقی نقطہ نظر سے بیان کیں ۔ سلمی صدیقی نے ’’ہمارے سرورصاحب ‘‘ کے عنوان سے ایک تاثراتی مضمون پیش کیا جس میں سرور صاحب کی سیر ت وشخصیت اورانکی سوانحی زند گی کے بعض اہم گوشے سامنے آئے ۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سرور صاحب کی دانش وری پر ایک مفصل اورمدلل مضمون پیش کیا۔پروفیسر محمود الحسن نے ’’آل احمد سرور اور لکھنؤ ‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیا جس میں سرور صاحب کی علمی، انتظامی ،صلاحیتوں اور انکی شخضیت پر روشنی ڈالی گئی ۔ پروفیسر زاہد ہ زیدی کے مضمون میں بھی سرور صاحب کی حیات سیرت اور شخصیت کے جائزے پر زیا دہ توجہ دی گئی ۔ دوسراجلسہ : سیمینار کادوسرا جلسہ ۲۴فروری ۲۰۰۱ء کو شام ساڑھے چھ بجے منعقد ہواجس کی صدارت محترمہ سلمی صدیقی ،پروفیسر نورالحسن نقوی اور پروفیسر محمود الحسن نے فرمائی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید محمد ہاشم نے انجام دیے اور چار مقالے پیش کیے گئے ۔ ڈاکٹر شہناز ہاشمی نے’’ سرورصاحب کی سرگرمیاں‘‘ کے عنوان سے مضمون پڑھا جس میں خاکے کارنگ غالب تھا۔ ڈاکٹر امیر عارفی (دہلی یونیورسٹی )نے ’’سرور صاحب :چند تاثرات ‘‘کے عنوان سے مضمو ن پیش کیا ۔ پروفیسر شارب ردولوی نے ’’آل احمد سرور نظریے سے نظر تک ‘‘ کے موضوع پر نہایت جامع اور وقیع مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کے مضمون کاعنوان تھا:’’پروفیسر آل احمد سروراور میرشناسی‘‘ؔ جس میں میرسے متعلق سرورصاحب کی تنقید ی نگا رشات کاعمومی جائز ہ پیش کرتے ہوئے یہ کہا گیاتھاکہ سرور صاحب نے میر شناسی کے سلسلے میں جو باتیں اشارتاً کہی ہیں اگر انھیں پھیلادیا جائے تو اس موضوع پر کئی اہم کتابیں وجود میں آسکتی ہیں ۔ تیسراجلسہ : - آل احمد سرور دو روزہ قومی سیمینار کا تیسرا جلسہ ۲۵فروری ۲۰۰۱ء کو۱۰ بجے شروع ہوا ۔ جس کی صدارت پروفیسر نثار احمد فاروقی ، پروفیسر شارب ردولوی اور پروفیسر عبدالمغنی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر عقیل احمد نے انجام دیے ۔ اس جلسے میں پانچ مقالے پیش کیے گئے ۔ پروفیسر نورالحسن نقوی کے مقالے کا عنوان تھا: ’’پروفیسر سرور، اپنے اداریوں کی روشنی میں ‘‘۔ اس میں سرور صاحب کے بنیادی افکار اور ان کی بے لاگ تنقیدوں پرروشنی ڈالی گئی۔سرور صاحب نے اپنے اداریوں میں علی گڑھ تحریک اور سرسید کے افکار سے متعلق جو سخن گسترانہ باتیں بیان کی ہیں ان پر بھی مقالہ نگار نے اشارہ کیا۔ پروفیسر ریاض الرحمن خا ں شیروانی نے ہندوستانی مسلمانوں کے تشخص کے حوالے سے سرور صاحب کی دانش وری پر مضمون پیش کیا۔ پروفیسر عبداللہ ولی بخش قادری نے سرور صاحب کی نثر سے متعلق مضمون پڑھا جس میں سرورصاحب کے اسلوب اور تنقیدی نثر کے بیان کے سلسلے میں گفتگو کی گئی تھی۔ پروفیسر سعیدالظفرچغتائی نے سرور صاحب کے سفر نامے کی روشنی میں ان کے ’’تاثرات‘‘ امریکہ کا فکری وفنی جائزہ پیش کیا اور ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب نے اپنے مضمون ’’آل احمد سرور اور انجمن ترقی اردو‘‘ میں انجمن او راسکے سیکرٹری مولوی عبدالحق سے سرور صاحب کے دیرنیہ مراسم کاتذکرہ کرتے ہوئے انجمن کے سیکرٹری کی حیثیت سے سرو ر صاحب کی خد مات کا جائزہ پیش کیا ۔ اسکے بعد پروفیسر نثاراحمد فاروقی نے صدارتی کلمات میں اس اجلاس کے تمام مقالوں پر مختصر اً تبصرہ کرتے ہوئے اسے سرور فہمی کے سلسلے میں قابل قدر بتایا اور اسی کے ساتھ حاضر ین جلسہ بالخصوص طلبا کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنی تہذیبی شناخت پرتوجہ دیں اور سرسید کے اصلاحی مشن اورخدمت کے جذبے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ صدراتی کلمات کے بعد چائے کا وقفہ ہوا۔اس کے فوراً بعد ۱۲ بجے دن میں سیمینار کاچوتھا اورآخری اجلاس شروع ہوا۔ چوتھاجلسہ: آل احمد سرور دو روزہ قومی سیمینار کا یہ آخری جلسہ تھا۔ جس کی صدارت پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی ، پروفیسر سعید الظفرچغتائی ، پروفیسر عبداللہ ولی بخش قادری اور پروفیسر امیر عارفی نے فرمائی ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر قمر الہدیٰ فریدی نے انجام دے ۔ اس اجلاس میں چھ مقالے پیش کئے گئے ۔ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر عبدالباری ، ڈاکٹر ظفر احمد، ڈاکٹر خورشید احمد ، پروفیسر عجب سنگھ ، ڈاکٹر انجمن آراا ورپروفیسر عبدالغنی شامل تھے ۔ ڈاکٹر عبدالباری نے آل احمد سرورکا سفر ،’’ نقد و نظر سے دانش وری تک‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر ظفر احمد کے مقالے کاعنوان تھا:’’پروفیسر آل احمد سرور اور اقبال تنقید ‘‘ ڈاکٹر خورشید احمد ، پروفیسر عجب سنگھ او رپروفیسر عبدالغنی کے مضامین بھی سرور صاحب کی تنقید نگاری سے متعلق تھے۔ اس اجلاس میں صرف ڈاکٹر انجمن آر ا کا مضمون سرور صاحب کی شاعری کے سلسلے میں تھا۔ سرور صاحب پر یہ دو روز ہ سیمینار بہت کامیاب رہا ۔ شرکااور حاضر ین کثیر تعد اد میں موجود رہے ۔ اورعلمی حلقوں میں اس سیمینار کے بارے میں یہ تأثر قائم ہو اکہ شعبۂ اردو کی جانب سے یہ سیمینار سرور صاحب کیلئے خراج عقیدت ہی نہیں بلکہ اس سے سرور شناسی اور سرور فہمی کی فضا بھی عام ہوگی ۔ رپورٹ :- ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب مجلس اقبال عالمی اردو مرکزکی اقبال پر تقریب عالمی اردو مرکز جدہ نے حسب روایت اس سال بھی یو م اقبال کی تقریب شایان شان طریقے سے منعقد کی۔ تقریب کااہتمام عالمی اردو مرکز کی مجلس اقبالؒنے کیا تھا۔ صدارت ڈاکٹر غلام اکبر نیازی نے کی ۔ جبکہ جدہ میں پاکستان کے قونصل جنر ل جناب محمد نواز چودھری مہمان خصوصی تھے۔ سٹیج پر ان کے ساتھ عالمی اردو مرکز کے صدر پروفیسر منور اقبال شمس اور ممتاز شاعر اور تحریک پاکستان کے کار کن جناب احمد جمال صادق بھی موجود تھے ۔ جنہیں تقریب کے اعزازی مہمان کی حیثیت حاصل تھی ۔ آپ کو اقبال کی قربت بھی حاصل رہی اور فکر اقبال کے فروغ کے لیے آپ کی خدمات قابل قد ر ہیں ۔ تقریب کا آغاز محمد نذیر نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ جس کے بعد معبر قریشی نے حضرت اقبال کے نعتیہ اشعار اپنے خوبصورت ترنم میں پیش کیے، قوتِ عشق سے ہرپست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کر دے ہدیہ نعت کے بعد اردو مرکز کی طرف سے مجلس عاملہ کے رکن جناب گلاب خاں نے افتتاحی مضمون پیش کیا ۔ جس میں انھوں نے عصر حاضر کے لیے اقبال کے پیغام پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ اقبال سچے عاشق رسول ﷺ تھے ۔ انکے کلام سے تو حید کی تعلیم ملتی ہے۔ انھوں نے ہمیشہ قرآن پر عمل پیراہونے پر زور دیا۔ عصر حاضر کی نجات اقبال کے افکارکو حرزجاں بنانے میں ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب طارق محمود نے کہا کہ علامہ اقبال صاحب کا کلام قرآن کی تفسیر ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو ہد ایت کی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ اقبال ایک ایسے شاعر اور فلسفی تھے جنہوں نے امت مسلمہ میں بیداری اور زندگی کی لہر پیداکی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان ہاشمی نے ان حقائق پر روشنی ڈالی جن کی بنا پر انہیں دانائے راز کہا جاتا ہے ، انہوں نے کہا کہ اقبال راز ہستی اور راز کائنات سے آشنا تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز سکالر پروفیسر ڈاکٹر اطہر سعید نقوی نے کہا کہ اقبال کے فکر و فلسفہ نے انسان کو عظمتوںسے آشنا کیا۔ وہ ترجمان حقیقت تھے۔انہوں نے عشق و خرد کے اسرار فاش کیے۔ خود ی اور بے خودی کی لذتو ں سے آگا ہ کیا، مرد مومن یا انسان کامل کی تلاش ان کی شاعری کا مرکز و محور ہے ، پروفیسر نقوی کی تقریر کے بعد محمد مدثر قریشی رکن مجلس عاملہ عالمی اردو مرکز نے ترنم سے کلام اقبال پیش کیا۔ ؎گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا تقریب کے مہمان خصوصی جدہ میں پاکستان کے قونصل جنرل جناب محمد نواز چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ علامہ اقبال جیسے لوگ امتوں کا سرمایۂ افتخارہوتے ہیں ۔ اقبال کے اشعار مردہ جسموں میں زندگی کی تحریک پیداکرتے ہیں ، ان کے افکار ذہنوں کی پژمردگی دورکرتے ہیں ، اقبال کا کلام آج بھی انقلابات برپا کرسکتا ہے بشرطیکہ اسے پڑھا اورسمجھا جائے اور پھر اس پر عمل بھی کیا جائے ۔ انہو ںنے کہا کہ پاکستان اقبال کے تصورات کی عملی تعبیر ہے ۔ مگر ان کے افکارسے اس کی تعمیر کاکام بھی ہماری ذمہ داری ہے صدر تقریب ڈاکٹر غلام اکبر نیازی نے اپنے صدارتی خطبے میں علامہ کے بے شمار اشعار پڑھے اور انہیں عالمی سیاسی حالات اور مسلمانو ںکی بدحالی کے واقعات پر منطبق کیا، انہوں نے کہاکہ اقبال آج کے حالات کابھی چشم تصور سے مشاہدہ کررہے تھے۔ اسی لیے انکے اشعار ان حالات کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کے افکار پر عمل پیراہوکر اسلام کا بول بالا کریں ، عالمی اردو مرکز کے صدر مشہور شاعر اور دارنشورپروفیسر منور ہاشمی نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کے فکرو فلسفہ نے پوری دنیا کومتاثر کیا ۔ اقبال واحد مفکر ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے شاعرہیں ۔ جناب ہاشمی نے چند واقعات بھی سنائے جن میں علامہ اقبال کی شراب سے شدید نفرت اور ان کی ذاتی دیانت و شرافت کا اظہار ہوتاہے ۔انہوں نے تقریب کے شرکاکے لیے کلمات تشکر بھی اداکیے ، تقریب کے دوسر ے دور میں جد ہ کے معروف و ممتاز شعرا نے علامہ اقبال کی زمینوں میں اپنا تازہ کلام سنایا ۔ اور شاعر مشرق کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ ان شعرا میں جناب احمد جمال صادق ۔ جناب منور ہاشمی ۔ جناب طاہر جمیل ۔ جناب اطہر عباسی ۔ جناب انجم کاظمی ۔ جناب عرفان بارہ بنکوی ۔ جناب آفتاب ترابی ۔جناب حبیب صدیقی ۔جناب عبدالقیوم مبین۔ جناب زمردسیفی، نظر حجازی ، زوّار قمر عابدی اور دیگر شعرا شامل ہیں ۔ تقریب کے پہلے حصے کی نظامت حامد اسلام نے کی ۔ دوسرے دور کی نظامت اردو مرکز مجلس اقبال کے ناظم محمد حبیب صدیقی نے کی۔ (رپورٹ ۔ سید انوار رضوی ) کشمیر یونیورسٹی میں ’’اقبال اور احترام آدمیت ‘‘ دوروزہ سیمینار اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے شاعر مشرق علامہ اقبال کی تریسٹھویں برسی کے موقع پر اپریل ۲۰۰۱ء کی ۲۱اور ۲۲ تاریخ کو یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں ایک پروقار او رشاندار دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد ہوا۔ جس میں ریاست او ربیرون ریاست کے ماہرین اقبالیات اور ادباء نے ’’اقبال اور تعمیر آدمیت ‘‘ کے عنوان پر مقالات پیش کیے ۔ یہ سیمینار چار نشستوں میں ہوا، جس میں یونیورسٹی کے اساتذہ او رطلبہ کے علاوہ علماء فضلائ، مفکرین و شیدایان اقبال نے شرکت کی ۔ پہلی نشست کی صدارت کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالواحد نے کی ۔ انہوں نے دور حاضر میں اقبال کے فکرو فن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اسکالروں کو فکر اقبال کے مختلف گوشوں پر کا م کرنے کی تحریک و ترغیب دی۔ افتتاحی خطبہ میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بشیر احمد نحوی نے اقبال کی ہمہ پہلو شخصیت کی مختلف جہات پر سیر حاصل تقریر کی ۔ اس نشست میں کشمیریونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر حامد ی ؔ کشمیری اور دلّی یونیورسٹی کے پروفیسر اردو ماہر اقبالیات ڈاکٹر عبدالحق صاحب مہمانا ن خصوصی تھے ۔ جنہوں نے اقبال کی شاعری ، ادب و فکر پر روشنی ڈالی اور ان کے فلسفے کو عمل تحرک کا ترجمان قراردیا۔ او ران کو تعمیر آدمیت کا علمبر دار گردانا۔ اس نشست کے آخر میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات اجراء کی گئیں ا وروادی کے ایک معروف ماہر تعلیم و ادیب پروفیسر سید حبیب کی تصنیف "Iqbal's Raptures Melodize Education" کی رسم رونمائی کی گئی ۔ علاوہ ازیں وادی کے ایک بزرگ ادیب ، شاعر او رعلامہ اقبال کے معاصر جناب مرزا عارف بیگ کی عزت افزائی کی گئی او رانہیں خلعتِ فاخرہ سے نواز گیا ۔ انہوں نے اقبال کی معیت میں رہ کر لاہور کے شب وروز کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ۔نشست کے اختتام پر ادارہ کے ڈائر یکٹر نے صدر او رمہمانان خصوصی کے علاوہ حاضرین مجلس کاشکریہ ادا کیا۔ دوسری نشست کا آغاز دوپہر دو بجے ہوا۔ جس کی صدارت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیر یات کے سابق صدر پروفیسر مرغوب بانہالیؔ نے کی ۔ اس نشست میں دلی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالحق ، جسٹس علی محمد میر،پروفیسر سید حبیب کے علاوہ جموں یونیورسٹی کے رجسٹراراور صدر شعبہ اردو پروفیسر ظہور الدین نے اپنے بصیرت افروز مقالات پیش کیے۔فاضل مقررین نے اقبال کی متنوع فکری جہات پر بلیغ انداز میں تبصر ہ کیا اور اقبال کو گذشتہ ہزاریہ کی عبقری شخصیت گردانا ، جس نے آدم گری کے تعلق سے فکر و فن کا دامن وسیع کیا ۔ صدر موصو ف نے اپنے صدارتی خطبہ میں اقبال کو تعمیر آدمیت و امن عالم کا پیا مبرقرار دیا ۔ اور ان کی تعلیما ت کو فلاح انسانی کے راز سے تعبیر کیا۔ ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء کو صبح گیا رہ بجے تیسری نشست کا آغاز ہوا۔ اس نشست کی صدارت جموں یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردوجناب پروفیسر ظہور الدین نے انجام دی۔ سب سے پہلے جامعیہ ملیہ اسلامیہ دلی کے پروفیسر اردو اور ماہر اقبالیات جناب ڈاکٹر قدوس جاوید نے مقالات پیش کئے ۔ قدوس جاوید نے اقبال۔’’آدمیت ا وربین الاقوامیت ‘‘ کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ نشست کے اختتام پر میر محفل نے حاضرین کو صدارتی خطبہ سے نوازا۔ موصو ف نے اقبال کی تعلیمات کو پر آشوب دور کی گھٹاٹوپ آندھیوں میں مشعل راہ قرار دیا۔ او ران کی فکری جہات کو ملّی یگانگت کی زندہ و جاوید تصویر گردانا۔ چوتھی اور آخری نشست کا آغاز اسی روز دوپہر دوبجے ہوا جس کی صدارت ماہر اقبالیات اور دلی یونیورسٹی کے اردو کے پروفیسر عبدالحق نے کی ۔ اس نشست میں کشمیر ی زبان کے ماہر سابق صدر شعبہ کشمیری مرغوب بانہالی ؔ نے اپنامقالہ زیر عنوان ’’ اقبال کے ہاں تعمیر آدمیت و احترام آدمیت کا نظریہ ‘‘ پیش کیا۔ اسکے بعد وادی کے ایک کہنہ مشق استا د پروفیسر محمد عبداللہ شیداء نے ’’اقبال او رعظمت انسان ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا ۔ علاوہ از یں اقبال انسٹی ٹیوٹ کے دور یسرچ اسکالروں سید مجید اندرابی اور طارق احمد مسعودی نے بھی ’’اقبال داعی امن عالم ‘‘کے عنوان سے اپنے مقالات حاضرین کی نذر کیے۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض ادارہ کے ریسرچ سکالر سید مجید اندرابی نے انجام دئیے ۔ نشست کے اختتا م پر میر مجلس نے حاضرین کو ’’اقبال او رتعمیر آدمیت ‘‘ کے حوالے سے سوالات و استفسارات کی دعوت دی ۔ مقالہ نگار نے سوالوں کے جواب دئے اور قریباً آدھ گھنٹے تک بحث و تمحیص کا سلسلہ چلا۔ آخر میں پروفیسر موصوف نے علامہ اقبال کی فکری جہات کو محور بنا کر بسیط و سیر حاصل خطبہ دیا ۔ انہوں نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ’’اقبال نے عالمی امن اور قومی یگانگت کا جو اظہار کیا ہے۔وہ ملی یکجہتی اور بقائے باہم کی ولولہ انگیز اور بصیرت افروزدستاویزہے ‘‘ پروفیسر موصوف نے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جناب نحوی صاحب کی کارکردگی ، محنت شاقہ و عرق ریز ی کو سراہا ہے ۔ انہوں نے اس ادارہ کوملک بھر میں ایک مثالی ، یکتا او رمنفر د انسٹی ٹیوٹ قرار دیا او راس کو فعال بنانے میں نحوی صاحب کی مساعی جمیلہ کی پذیرائی کی ۔ ۲۲ اپریل شام کو یہ دو روز ہ قومی سیمینار اپنے اختتا م کو پہنچا۔ اقبال ریسرچ اکادمی بنگلہ دیش کی تقریب علامہ اقبال ریسرچ اکادمی ڈھاکہ بنگلہ دیش نے ، علامہ اقبا ل کے 123یو م پید ائش کے موقع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔جس کاموضوع ’’وحدت اسلا می ۔ علامہ اقبال کی نظر میں ‘‘ تھا۔ یہ سیمینار یکم نو مبر بدھ کو منعقد ہوا ۔ سیمینار کی صدارت ڈاکٹر وکیل احمد سابق وائس چانسلر اور صدر شعبہ بنگلہ زبان ڈھاکہ یونیورسٹی نے کی۔ خانہ فرہنگ ایران ڈھاکہ نے بھی سیمینار کے انعقاد میں تعاون کیا۔ اس سیمینار میں جن دوسرے حضرات نے شراکت کی ان میں جناب محمد عبدالروف سابق چیف الیکشن کمشنر اور جج سپریم کورٹ مہما ن خصوصی تھے ۔ ڈاکٹر اے ۔ این ۔ایم رئیس الدین صدر شعبہ اسلامیات ، شمس الدین درانی کلچرل کونسلر ایران اور پروفیسر سراج الحق صدر علامہ اقبال ریسرچ اکادمی ڈھاکا تھے ۔ممتازشاعر عبدالموقیت چودھری نے اقبال اور نذرالاسلام کے افکار و نظریا ت پر کلیدی مقالہ پیش کیا ۔ اور مولانا قاری رئیس الرحمن نے تلاوت کی ۔ ڈاکٹر کلثوم ابوا بشیر استاد شعبہ فارسی اور راردو ، ظہیر بسواس اور عابدین سحا دی نے کلام اقبال ترنم سے پڑھا ۔ تقریباً میں بڑ ی تعداد میں طلبا، اساتذ ہ اور اہل شوق نے شرکت کی ۔ جسٹس عبدالروف نے کہاکہ اقبال خو د اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں وہ صرف شاعرہی نہیں تھے بلکہ ایک عظیم شاعر اور مرد مومن تھے ۔ ان کے بقول اسلام خدا او ربند ے کے درمیان تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ خدا کافرمان ہے کہ میری روح ایک سریت ہے لہذا انسان بھی سریت ہے۔انہوں نے کہاکہ اسلا م کی روح توحید ہے اور اقبال نے وحدت نسل انسانی کے لئے کام کیا۔ انہو ں نے کہا کہ نوع انسانی کے اتحا دکے لئے کام کرنے والوں میں اقبال سرفہرست ہیں ۔وہ سچے انسان دوست تھے انہو ںنے نسلوں اور تہذیبوں میں وحدت کے لئے اپنی نظم ونثر میں کا م کیا۔ پروفیسرڈاکٹر وکیل احمد نے کہا اقبال جیسے عظیم شاعر کو کسی ملک و قوم یا علاقے تک محدود قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ان کا پیغا م تمام نوع انسانی کے لئے ہے ۔ اقبال دنیا بھر کے مظلو م انسانوں کی آواز ہے ۔ ڈاکٹر اے این ایم رئیس الدین نے کہا ہے کہ اقبال انسان کامل تھے ۔ او ر انہوں نے انسا ن کامل بننے کا درس دیا۔ وہ عصر جدید میں اسلام کے صحیح شارح تھے ۔ جناب شہاب الدین درانی نے کہا اقبال نے مغربی تہذیب کی شدید مذمت کی۔ پروفیسر سراج الحق نے کہا کہ اقبال ہر عہد کا عظیم شاعر ہے ان کا کلام صرف مسلمانوں کو ہی نہیں گرماتا بلکہ پوری دنیا کے پسے ہوئے لوگو ں کی آواز ہے ۔ انہوں نے ایران کے ملک الشعر اء بہار کا یہ شعر پڑھا۔ عصر حاضر خاصۂ اقبال گشت واحد ی کزصد ہزاران بر گذشت قائد اعظم کی یاد میں ریاض میں تقریب سعود ی عر ب کے دارالحکومت ریا ض میں بانی پاکستان قائد اعظم کی یاد میںایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا انعقا د پاکستا ن مسلم لیگ ریاض نے کیا تھا ۔اس تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح کے معروف صدارتی خطبہ جس کی تدوین جناب محمد حنیف شاہد نے کی رونمائی ہوئی ۔ محمد حنیف شاہد ، اقبا ل، پاکستا ن او رقائد اعظم پر کا م کرنے کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتے ہیں ۔ اس موقع پر متعدد شخصیات نے قائداعظم کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر رفعت حسن کے ٹی وی پر لیکچرز اقبال اکادمی پاکستا ن کے نائب صدر ڈاکٹر جاوید اقبال اور ممتاز ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفعت حسن نے ٹیلی ویژ ن پر چار جنوری ۲۰۰۲ کو خطبات دیئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا موضوع ’’قومیت کا تصور اور اسلام میں ریاست کا تصور‘‘ تھا جبکہ ڈاکٹر رفعت حسن نے ’’اسلام اور بنیادی حقوق‘‘ کے موضوع پر بصیرت افروز خطاب کیا۔ اقبال اکادمی پاکستان کے نائب ناظم ڈاکٹر وحیدعشرت اور بعض دوسرے لوگوں نے بھی سوالات کئے ۔ یہ خطبات فرور ی ۲۰۰۲ میں ٹیلی کاسٹ ہوں گے ۔ گورنمنٹ کلیتہ البنات لیک روڈ لاہور میں یوم اقبال گورنمنٹ کلیتہ البنات لیک روڈ پر یو م اقبال کی تقریب منعقد ہوئی۔ڈاکٹروحید عشرت نے صدارت کی انہوں نے علامہ اقبا ل کے لیکچرز پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامی فکریات کی جدید علوم کی روشنی میں نئی تشکیل ، تدوین او رتفسیر چاہتے تھے تاکہ اسلام عصر جدید کے تقاضوں سے مسلمانوں کو عہد ہ برآء ہونے میں رہنمائی دے ۔ جلسہ سے پرنسپل صاحب ، دیگر اساتذہ او رطالبا ت نے بھی خطاب کیا ۔ گورنمنٹ گرلز کالج مدینہ ٹاؤ ن فیصل آبا دمیں یوم اقبال گورنمنٹ گرلز کالج مدینہ ٹاؤن فیصل آبا د کے شعبہ فلسفہ اور شعبہ اردو او رفارسی کے زیر اہتما م یوم اقبال کی خصوصی تقریب ہوئی جس میں ممتاز محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا مہما ن خصوصی او رڈاکٹر وحید عشرت صد ر محفل تھے۔ اس تقریب کا اہتمام ڈاکٹر نزہت سلطانہ مدنی صدر شعبہ فلسفہ نے کیا۔ تقریب سے سابق پرنسپل کے علاو ہ موجودہ پرنسپل پروفیسر نرگس ، پروفیسر شاہدہ یوسف اور کئی دیگر پروفیسر حضرات نے خطاب کیا ۔ بچوں نے بھی اس سیمینا ر میں حصہ لیا۔ جس کا موضوع تھا فروفال محمود سے درگذر خودی پر نگہ رکھ ایازی نہ کر تقریب میں ٹیبلو بھی پیش کیا گیا سیمینار کے موضوع پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا او رڈاکٹر وحید عشرت نے مفصل خطاب کیا ہے تقریب ۷ نومبر ۲۰۰۱ء کو منعقد ہوئی۔ اکادمی کی طرف سے کتب انعام میں دی گئیں، گورنمنٹ اسلامیہ گرلز کالج کوپرروڈ میں یوم اقبال ۶ نومبر ۲۰۰۱ء کو ۱۰ بجے صبح کالج ہا ل میں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے یوم ولادت پر ایک خصوصی تقریب ہوئی جس میں کالج کی اساتذ ہ نے بھر پور حصہ لیا ۔ شعبہ فلسفہ لاہورکالج کی استاد پروفیسر فاخر ہ شیرازی مہمان خصوصی تھیں ۔ جبکہ صدارت ڈاکٹر وحید عشرت نے کی ۔اور اسلام ، عصر حاضر او راقبال کے موضوع پر کلید ی خطاب کیا۔ کالج کی طالبا ت نے بھی اس تقریب میں مقالات پڑھے اقبال اکادمی کی طرف سے طالبا ت کو کتب انعام میں دی گئیں ۔ ریڈیو پاکستان کا اقبال پر خصوصی سیمینار ’’ملت اسلامیہ او راقبال‘‘ کے موضوع پر ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک مذاکرہ نشر کیاگیا جس میں امجد اسلام امجد نے کمپیئر کے فرائض انجا م دیئے جبکہ شرکا میں ڈاکٹر نعیم احمد، ڈاکٹر وحید عشرت او رڈاکٹر حسن عسکری(استاد شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)شامل تھے۔ حسن فاروقی پرڈیوسر اور محترمہ شائستہ حبیب سینئر پروڈیوسر تھیں ۔ اس مذاکرہ میں اقبال کے تصور امت کو اجاگر کیا گیا ۔ بالحضوص ۱۱ستمبر کے حادثہ کے بعد کی امت مسلمہ کی صورت حال پر بحث ہوئی ۔ دی ٹرسٹ سکول ٹھوکر نیاز بیگ میں یوم اقبال پاکستان میں اپنی نوعیت کے واحد سکول دی ٹرسٹ سکول میں یوم اقبا ل کی تقر یب منعقد ہوئی ۔ جس میں کالجوں او رسکولوں کے طلبا او ر طالبات میں بیت بازی کے اقبال کے اشعار کے حوالے سے مقابلے ہوئے۔صدارت محمد سہیل عمر ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان نے کی انہوں نے اپنی تقریر میں نئی نسل کی فکر وکلام اقبال میں دلچسپی کو سراہااور اکادمی کی طر ف سے انعامات تقسیم کئے۔ ڈاکٹر وحید عشرت تقریب کے مہمان خصوصی تھے ۔ وفیات ممتاز اقبال شناس آل احمد سرور کا انتقال ممتاز ادیب ماہر اقبالیات : استاد اور شاعر آل احمد سرور ۱۰ فروری کو سری نگر کشمیر میں انتقال کر گئے ۔ آپ کو علامہ اقبال سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہے اور ان کے نام پر علامہ اقبال کے خط بھی موجود ہیں ۔ گذشتہ دنوں ان کے اعزاز میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک خصوصی ادبی ریفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ آل احمد سرور کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی کشمیر یونیورسٹی کے اقبال انسٹی ٹیوٹ کے طویل عرصہ تک ڈائریکٹر رہے۔ اقبال کی شاعری اور فکر پر آپ متعددکتب کے مصنف و مرتب تھے ۔ آل احمد سرور کا تعلق دبستان علی گڑھ سے تھا ۔ ان کی تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ آل احمد سرور ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے ان کی زندگی کا زیادہ حصہ علی گڑھ میں گذرا ، وفات کے وقت ان کی عمر ۹۰ سال تھی ان کی کتب میں نئے پرانے چراغ ، تنقیدی اشاریے ،ادب اور نظریہ ، تنقید کیا ہے ، مسرت سے بصیرت ، نظر اور نظریئے ، پہچان اور پرکھ ، خواب اور خلش ہیں ۔ خواب باقی تھے ان کی سوانح عمری چھپ چکی ہے ۔ وہ ایک اچھے مگر کم گو شاعر تھے ۔ ۲۰۰۱ء میں ان کے اعزاز میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں برصغیر کے ممتاز شاعروں ،ا دیبوں اور دانشوروں نے ان کی ادبی خدمات پر انہیں زبر دست خراج تحسین پیش کیا ۔ ڈاکٹر حسن رضوی کی وفات پروفیسر ڈاکٹر حسن رضوی ۱۶ فروری ۲۰۰۲ء بروز جمعہ انتقال کر گئے مرحوم کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔ ڈاکٹر حسن رضوی گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور کے شعبہ اردو کے سربراہ تھے وہ شاعر ، کالم نویس ، محقق ، استاد اور کمپئر بھی تھے اندرون اور بیرون ملک متعدد مشاعروں میں انہوں نے شرکت کی ان کی عمر ۵۶ برس تھی ڈاکٹر حسن رضوی کو ۱۹۹۳ء میں تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا ۔ قاضی عبدالغفار عالمی ایوارڈ (بھارت) بہترین میزبان شاعر کا اوسلو ناروے ایوارڈ بھی حاصل کیا ان کی غزلیات اور گیت فلمی دنیا میں بھی معروف ہوئے ملکہ ترنم نور جہاں اور نصرت فتح علی خان نے بھی ان کے گیت گائے ۔ انہوں نے اقبال پر بھی ایک کتاب مرتب کی جس کا نام اقبال کے فکری آئینے تھا ۔ انہوں نے ناصر کاظمی کے فکر و فن پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ملک کے متعدد علمی و ادبی حلقوں نے ان کی ناگہانی موت پر تعزیت کا اظہار کیا ۔