اقبالیات (اُردو) رئیسِ ادارت: محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت: سیّد قاسم محمود رفیع الدین ہاشمی احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی۔ مثلاً اسلامیات، فلسفہ، تاریخ، عمرانیات، مذہب، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ :دو شمارے اردو(جنوری، جولائی) دو شمارے انگریزی(اپریل، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان(مع محصول ڈاک) فی شمارہ :۔/۳۰ روپے سالانہ :۔/۱۰۰ روپے بیرونِ پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ :۶ امریکی ڈالر سالانہ:۲۰ امریکی ڈالر تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل، اکادمی بلاک، ایوانِ اقبال، ایجرٹن روڈ ، لاہور ۵۴۰۰۰ Tel: 92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iaqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات جلد نمبر ۴۶ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵ء شمارہ نمبر ۳ مندرجات ۱۔ اردو غزل کی روایت اور اقبال شمس الرحمن فاروقی ۷ ۲۔ اقبال اور شعرِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال ۲۳ ۳۔ اجتماعی اجتہاد:ضرورت،تاریخی پس منظر،تجاویز طارق مجاہدجہلمی ۳۱ ۴۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۴۷ ۵۔بالِ جبریل۔چند تصریحات خرم علی شفیق ۷۹ ۶۔ ارسطو پر اقبال کی تنقید ڈاکٹر وحید عشرت ۹۰ ۷۔اقبال اور غزالی۔ ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر علی رضا طاہر ۱۰۹ ۸۔ڈاکٹر مبارک علی، چند معروضات خرم علی شفیق ۱۲۵ ۹۔سرسیّد:مصدرِ اقبال پروفیسر عبدالحق ۱۳۷ ۱۰۔فکرِ اقبال میں زمان ومکاں کی اہمیت ایس اقبال قریشی ۱۴۵ ۱۱۔کیرالا میں مطالعۂ اقبال اور عبدالصمدصمدانی کے پی شمس الدین ۱۵۱ ۱۲۔اقبال بنگلا میں لطف الرحمن فاروقی ۱۵۹ ۱۲۔کشمیر میں مطالعۂ اقبال ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ۱۷۵ ۱۳۔اقبالیاتی ادب نبیلہ شیخ ۱۸۵ قلمی معاونین ۱- شمس الرحمن فاروقی ۲۹۔ سی ہیسٹنگز روڈ۔ الٰہ آباد ۲۱۱۰۰۱، یو پی، بھارت ۲- ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱۔ بی، مین گلبرگ روڈ، لاہور ۳- طارق مجاہد جہلمی بریڈ فورڈ، انگلستان ۴- احمد جاوید نائب ناظم (ادبیات) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۵- خرم علی شفیق فلیٹ نمبر ۳۰، بلاک نمبر اے؍۱۳، الاعظم اپارٹمنٹس نزد حسن اسکوائر، گلشن اقبال، کراچی ۶-ڈاکٹر وحید عشرت ۳۱۳۔ ایچ، ایچ۔۲، جوہر ٹاؤن، لاہور ۷-ڈاکٹر علی رضا طاہر استاد شعبۂ فلسفہ، جامعہ پنجاب، لاہور ۸-پروفیسر عبد الحق شعبہ اردو، یونیورسٹی آف دہلی، دہلی ۱۱۰۰۰۷۔ بھارت ۹- کے پی شمس الدین اقبال بھون، سرہندنگر، کوتاکل ۶۷۶۵۰۳ملاپُرم، ضلع کیرالا، بھارت ۱۰- لطف الرحمن فاروقی دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، مسجد شاہ فیصل، اسلام آباد ۱۱- ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی اقبال انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف کشمیر، سری نگر ۱۲-ایس اقبال قریشی ٹیچنگ اسسٹنٹ، یونیورسٹی آف کشمیر، سری نگر ۱۳- نبیلہ شیخ معاون ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور اردو غزل کی روایت اور اقبال شمس الرحمن فاروقی اقبال کی غزل کا مطالعہ اگر اصنافِ سخن کی قسمیات (Typology) کے نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمیں کسی دوسرے اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ تقریباً ہر صنفِ سخن اپنی جگہ پر بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر قماش (pattern) کا حصہ ہوتی ہے اور اس لیے کسی بھی صنفِ سخن کی ایسی تعریف ممکن نہیں جو ہر طرح سے جامع اور مانع ہو۔ لیکن غزل کے ساتھ یہ صورتِ حال کچھ زیادہ شدید ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں، ایک کا تعلق غزل کی روایت سے ہے اور ایک کا غزل کی تنقید سے۔ اوّل تو یہ کہ غزل میں ہمارے یہاں شروع ہی سے ہر طرح کا مضمون بیان ہوتا رہا ہے اور دوسری یہ کہ عام طور پر ہم غزل کا تصور جریدہ اشعار کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پوری پوری غزلوں کا تصور ہمارے ذہن میں شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ یہ دو وجہیں آپس میں متضاد ہیں۔ اس معنی میں کہ ایک طرف تو غزل کے مضامین لامحدود ہیں، لہٰذا کوئی بھی شعر غزل کا شعر ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ہم تنہا اشعار کی روشنی میں غزل کا مزاج متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب کا مطلع ہے : جادئہ رہ خور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع چرخ وا کرتا ہے ماہِ نور سے آغوشِ وداع اس کے بارے میں طبا طبائی نے لکھا ہے کہ اس شعر میں غزلیت کچھ نہیں، قصیدے کا مطلع تو ہو سکتا ہے۔ طباطبائی کے اس فیصلے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس شعر کا خیال بہت دقیق ہے، لیکن اس میں کوئی لطف نہیں۔ یعنی شعر کی بنیاد جس منطق پر ہے وہ شاعرانہ نہیں لیکن اگر ایسا ہے تو خود غالب نے اپنے ایک شعر کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں خیال تو ہے بہت دقیق، لیکن لطف کچھ نہیں، یعنی کوہ کندن و کاہ برآوردن۔ طباطبائی نے اس کے بارے میں کیوں نہیں کہا کہ اس شعر میں غزلیت نہیں ہے اور یہ قصیدے کا مطلع ہو سکتا ہے : قطرئہ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا خطِ جامِ مے سرا سر رشتۂ گوہر ہوا ممکن ہے طباطبائی نے مندرجہ بالاشعر کو اس لیے قابلِ اعتراض نہ سمجھا ہو کہ اس میں مے خواری اور حیرت کے مضمون ہیں اور یہ مضامین غزل کے رسمی دائرے میں داخل ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو پھر مندرجہ ذیل شعر کو بھی غزل کا نہیں بلکہ قصیدے کا مطلع سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس کی بلند آہنگی اور تقریباً جارحانہ عدمِ انفعالیت اور تحکمانہ انداز (یعنی ایسی صورتِ حال جس میں انسان مجبور و محکوم ہونے کے بجائے کائنات پر حاوی نظر آئے) یہ سب چیزیں غزل کے رسمی دائرئہ مضامین سے خارج کہی جا سکتی ہیں۔ شعر یہ ہے : بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کلامِ غالب سے بے تکلف حاصل کی ہوئی ان مثالوں کو یہ کہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے کہ غالب خود ہی اردو غزل کی روایت کے باہر ہیں۔ طباطبائی کے فکری تضادات جو بھی ہوں، لیکن ان تضادات کو غالب کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ غالب کو اردو غزل کی روایت سے باہر قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اب بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اسے تسلیم کریں گے۔ آج کے انتہائی قدامت پرست شخص کی طرف سے بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کی غزل میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اردو غزل کی روایت میں موجود نہ تھیں۔ اب غالب نے ان کو غزل میں استعمال کر لیا تو وہ باتیں بھی غزل کی روایت کا حصہ بن گئیں۔ لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اب اکثر لوگ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غزل کے مضامین لامحدود ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے دو معنی ہیں۔ اوّل تو یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو چکا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ غالب کے مندرجہ بالا شعر، غزل کی روایت میں شامل نہیں ہیں اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اگرچہ وہ مضامین جن پر ان اشعار کی اساس ہے، وہ غزل کی روایت میں شامل نہیں تھے، لیکن اب جب غالب نے ان کو استعمال کر لیا تو پھر یہ غزل کی روایت کا حصہ بن گئے۔ تو کیا پھر غزل کی روایت کوئی ماورائی وجود رکھتی ہے؟ یعنی یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے کسی نے خلق نہیں کیا یا جو غزل کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھی؟ میرا خیال ہے کہ اردو کی حد تک ان سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے۔ ہم لوگ جب اردو غزل کی روایت سے بحث کرتے ہیں تو ہماری نگاہ عام طور پر دلّی سے آگے نہیں جاتی۔ حالانکہ قدیم اردو یعنی دکنی میں ولیؔ سے کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے سے غزل موجود تھی۔ جب قدیم اردو کے شعرا نے غزل لکھنی شروع کی تو ان کے سامنے فارسی کی روایت تھی اور ہندستانی ادب کی روایت تھی۔ ان دونوں روایتوں پر وہ ذہن کارفرما ہوا جو بیک وقت ہندستانی بھی تھا اور غیر ہندستانی بھی۔ اس ذہن کے ذریعے اور ان روایات کے امتزاج و تصادم کے نتیجے میں جو غزل وجود میں آئی، وہ نہ صرف ایرانی غزل سے مختلف ہے بلکہ اپنے زمانے کے ہندستانی ادب سے بھی مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جن ذہنوں نے یہ غزل خلق کی ہو گی، ان کے سامنے ادب، شاعری اور غزل کے بارے میں واضح یا غیرواضح کچھ تصورات و مفروضات تو رہے ہوں گے اور ان ہی کی روشنی میں انھوں نے ایسی غزل خلق کی ہو گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان غزلوں میں مضامین و موضوعات کے علاوہ تصورات اور رویوں کی بھی فراوانی ہے۔ تصوف، موعظت، عام زندگی پر اظہارِ رائے، اخلاق و نصیحت، عشق کی خودسپردگی، انسان کی بلندی اور بے چارگی، جنس و لذاتِ جسمانی، ان سب باتوں پر مبنی اشعار کے ساتھ ساتھ عاشق کے کردار میں تنوع، عورت یا مرد کے بجائے مرد کا معشوق ہونا، معشوق کا عاشق کے ناز اٹھانا، یہ سب باتیں موجود ہیں۔ ان غزلوں میں شاعر معلمِ اخلاق سے لے کر آوارئہ شہر و صحرا اور رسواے زمانہ تک ہر رنگ میں نظر آتا ہے۔ اردو غزل کی یہ روایت پس منظری علم کی حیثیت سے ہمارے تمام شاعروں کے ساتھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بانگِ درا کے حصۂ غزلیات میں آخری غزل حسبِ ذیل ہے: گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لَایُخْلِفُ المیْعَاد رکھ یہ لسان العصر کا پیغام ہے اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقُّٗ یاد رکھ اگر ان اشعار کی ترتیب حسبِ ذیل کر دی جائے: اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لَایُخْلِفُ المیْعَاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ یہ لسان العصر کا پیغام ہے اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقُّٗ یاد رکھ تو گمان گزر سکتا ہے کہ یہ غزل نہیں، بلکہ قطعہ یا نظم ہے۔ چونکہ پہلے شعر میں مسلمان سے خطاب ہے، لہٰذا آسانی سے فرض کیا جا سکتا ہے کہ بقیہ اشعار کا مخاطب بھی وہی مسلمان ہے اور اس طرح چاروں اشعار میں ربط پیدا ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ قطعہ بھی غزل کا حصہ ہو سکتا ہے اور چونکہ قطعہ ایک طرح کی نظم ہوتا ہے لہٰذا اس منظومے کی حد تک نظم و غزل برابر ہیں اور اس لیے مندرجہ بالا اشعار کی بدلی ہوئی ترتیب کے باوجود، ہمیں انھیں غزل کہنا ہی پڑے گا۔ اگر شاعر نے ان پر ’غزل‘ کا عنوان قائم کیا ہو، جیسا کہ اس وقت ہے تو اسے غزلِ مسلسل کہ سکتے ہیں۔ مسلسل غزل کے وجود سے ہم سب واقف ہیں۔ آپ کہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی ہو، لیکن ان اشعار میں غزل کا مزاج نہیں نظر آتا۔ ان کا لہجہ خطابیہ اور موعظانہ ہے، لیکن اس طرح ہم پھر اسی چکر میں پھنس جائیں گے کہ اگر غزل کے مضامین لامحدود ہیں تو پھر ان مضامین کو ہم غزل سے خارج کیونکر کہ سکتے ہیں؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ غزل کے مضامین لامحدود ہوں گے، لیکن غزل کا ایک خاص لہجہ ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مفروضے کی رُو سے غالب کے بھی وہ اشعار غزل سے خارج ہو جاتے ہیں جو میں نے شروع میں نقل کیے ہیں۔ غالب کو جانے دیجیے، خطابیہ اور موعظانہ لہجے کے اشعار متاخرین تک ہر غزل گو کے یہاں مل جائیں گے۔ دوچار شعر جو اس وقت سامنے ہیں، آپ بھی سن لیجیے : کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے ناگوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں زہر پی کر مزئہ شیرو شکر لیتا ہے (آتشؔ) نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا (ذوقؔ) بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا (ذوقؔ) کاسۂ چینی پہ اے منعم، نہ کر اتنا غرور ہم نے دیکھا ٹھوکریں کھاتے سرِ فغفور کو (ناسخؔ) ناسخؔ نہ ہو جیو مگس خوانِ اغنیا سنتا ہوں یہ سخن لبِ نانِ جویں سے میں (ناسخؔ) کریم وہ بہ تواضع کرم جو کرتے ہیں ثمر نہڑ ہی کے دے ہے جو ُپر ثمر ہے شاخ (سودا) آدمی ہے تو بہم آپ میں پہنچا کچھ فضل ورنہ بدنام نہ کر تو نسبِ آدم کو (سودا) انیسویں صدی کا آخر آتے آتے ہم لوگوں میں یہ خیال عام ہوا کہ غزل میں موعظانہ اور اخلاقی مضامین کے لیے جگہ نہیں۔ اقبال ہماری قدیم تر روایت سے آگاہ تھے، اس لیے انھیں ایسے مضامین کو باندھنے میں کوئی تکلف نہ تھا۔ غزل میں ’’غیرفاسقانہ‘‘ مضامین کی قدر شکنی کا آغاز حسرت موہانی سے ہوتا ہے۔ حسرت موہانی نے اقبال پر اعتراض کیے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ لیکن متفرق اشعار کی بنا پر غزل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں وہی قباحت ہے جس کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں۔ اکیلا شعر چاہے وہ کتنا ہی اچھا یا کتنا ہی خراب یا کتنا ہی انوکھا کیوں نہ ہو، پوری غزل نہیں ہوتا۔ اوپر جو اشعار میں نے نقل کیے ہیں، ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ غزل میں اس طرح کے اشعار کی گنجائش ہے، لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غزل ایسے ہی اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ غزل ایسے اشعار پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ سودا، میر اور انشا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جنھیں اینٹی غزل کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔ حامدی کاشمیری نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں یگانہؔ نے کئی غزلیں اینٹی غزل کے انداز میں کہی ہیں۔ اخلاقی یا مذہبی مضامین پر مشتمل غزلیں ذوقؔ اور میر کے یہاں موجود ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں اقبالؔؔ کی زیرِ بحث غزل کو غزل کے طور پر قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ اس طرح کی غزلوں کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اقبالؔؔ نے ہماری غزل کی روایت میں کوئی اضافہ کیا۔ اگر ایسا ہے تو میں نے شروع میں یہ کیوں کہا کہ اقبالؔؔ کی غزل کے مطالعے کے وقت ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جن کا سامنا ہمیں دوسرے غزل گویوں کے یہاں نہیں کرنا پڑتا؟ اس کی وضاحت کے لیے اصنافِ سخن کی شعریات پر پچھلے ساٹھ برس میں جو کام مغرب میں ہوا ہے، اس کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ اس کام میں تین مکاتبِ فکر کا حصہ ہے۔ سب سے پہلے تو روسی ہیئت پرست (یہاں میں ہیئت پرست کسی برے معنی میں نہیں استعمال کر رہا ہوں) پھر فرانسیسی و ضعیاتی نقاد (Structuralists) اور پھر بعد وضعیاتی نقاد جن پر جرمن Phenomenology of Reading کا بھی اثر ہے۔ مثال کے طور پر وکٹر شکلا وسکی (Shklovsky) نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی صنفِ سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی یعنی کوئی فن پارہ ایسا نہیں ہے جس میں اس کی صنف کے تمام خواص پوری طرح نمایاں ہوں، لیکن کسی فن پارے کو دیکھ کر ہم عام طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی صنف کا رکن ہے۔ روسی ہیئت پرستوں کا خیال تھا کہ اصناف کا مطالعہ اس نظام کے باہر ممکن نہیں ہے جس میں اور جس کے ساتھ ان کا باہمی رشتہ ہوتا ہے، یعنی ہر صنف کی تعریف اس ربط اور رشتے کی روشنی میں ہونی چاہیے جو اس صنف اور دوسری اصناف کے درمیان ہے، نہ کہ کسی مقررہ فن پارے کی روشنی میں۔ یہ خیال سب سے پہلے یوری ٹائنیا ناف (Tynianov) نے پیش کیا تھا۔ اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے رومان یاکبسن کا مشہور قول ہے کہ ادبی مطالعے کا مقصود ادب نہیں، بلکہ ادب پن (Literariness) ہے۔ یعنی وہ کیا چیز ہے جو کسی مقرر فن پارے کو ادب بناتی ہے۔ اس تصور کی روشنی میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ کوئی کلام غزل ہے کہ نہیں۔ اس کا تعین صرف ایک غزل یا اس کے چند اشعار کے حوالے سے نہیں بلکہ دوسری اصناف سے اس کے رشتوں کو لحاظ میں رکھتے ہوئے ہونا چاہیے۔ زویتان ٹاڈاراف (Tzvetantodorov) نے بہت عمدہ بات کہی ہے کہ ہر عظیم کتاب دو اصناف کا وجود قائم کرتی ہے۔ ایک تو اس صنف کا جس کی حدود کو وہ توڑتی ہے اور دوسرے اس صنف کا جو وہ خلق کرتی ہے۔ ٹاڈاراف کا کہنا ہے کہ صرف مقبولِ عام ادب، مثلاً جاسوسی ناول کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس صنف کا ہر فرد اپنی صنف کا پورا پورا نمائندہ ہوتا ہے۔ بقول ٹاڈاراف ’’عام قاعدہ یہ ہے کہ ادبی شاہ کار کسی بھی صنف کا نمایندہ نہیں ہوتا، سوائے اپنی صنف کے۔ لیکن مقبولِ عام ادب کا شاہ کار کلیتاً وہی ہوتا ہے جو اپنی صنف پر بالکل ٹھیک اترتا ہے۔‘‘ نئے اصناف کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی ایسے عنصر کے گرد تعمیر کیے جائیں جو پچھلی صنف کے لیے لازمی رہا ہو۔ ٹاڈاراف کہتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی تنقید اصناف کی منطقی تقسیم کی ناکام کوشش میں سرگرداں رہی۔ وہ مزید کہتا ہے کہ کسی فن پارے کی صنف کا تعین کرنے میں یہ بات بھی بہت اثرانداز ہوتی ہے کہ خود مصنف نے اسے کس صنف میں رکھا ہے کیوں کہ مصنف کی تقسیم ہم پر اثرانداز ہوتی اور ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مصنف اس فن پارے میں ہم سے کس طرح کا ذہنی استجاب (mental response) چاہتا ہے۔ جیسا کہ جانتھن کلر (Jonathan Culler) نے کہا ہے کہ صنف کا تصور قاری کے ذہن میں ایک معیار یا ایک توقع پیدا کرتا ہے اور اس معیار یا توقع کے ذریعے قاری کو متن کا سامنا کرنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر ’’ناول‘‘، ’’افسانہ‘‘، ’’غزل‘‘ وغیرہ لکھا ہوا دیکھ کر، ایک طرح قاری کے ذہن کی programming ہو جاتی ہے اور فن پارے کے ابعاد کو گرفت میں لانا اس کے لیے نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ کلر نے خوب کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ المیے اور طربیے کا وجود ہے، اس وجہ سے نہیں کہ ان کے محتویات میں کوئی نمایاں فرق ہوتا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ہم سے الگ الگ طرح کے مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا خیالات کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اگرچہ اقبالؔؔ نے اردو غزل کی روایت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، کیوں کہ اخلاقی، فلسفیانہ، بلند آہنگ لہجے والے مضامین تو اردو غزل میں پہلے سے موجود تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے غزل کی صنف کو ایک نیا موڑ ضرور دیا۔ اس معنی میں انھوں نے اپنی غزل جن عناصر کے گرد تعمیر کی وہ ان سے پہلے کی غزل کا لازمی حصہ نہ تھے۔ ان عناصر کو مرکزی یا تقریباً بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے اقبال نے یہ بات ثابت کر دی کہ کوئی صنفِ سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی۔ انھوں نے غزل اور نظم کے رشتوں، غزل اور قصیدے کے رشتوں میں تبدیلی پیدا کی اور ہمیں ان مسائل پر ازسرِ نو غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اقبال نے ہمیں اس بات سے آگاہ کیا کہ غزل اور قصیدے کے درمیان کوئی ایسی حدِ فاصل نہیں جسے واجب و لازم سمجھا جائے، لہٰذا اقبال کی غزل کا مطالعہ کرتے وقت پہلی مشکل تو یہ پیش آتی ہے کہ ہمیں غزل اور قصیدہ، دونوں کے بارے میں اپنے تصورات پر نظرِ ثانی کرنی پڑتی ہے۔ اقبال کی شروع کی غزلوں پر داغؔ کے اثر کا مفروضہ ہم لوگوں نے صرف اسی لیے عام کیا ہے کہ اقبال نے غزل کے نام نہاد لہجے سے جس طرح انحراف کیا، اس کے لیے کوئی جواز اور کوئی نقطۂ آغاز تلاش ہو سکے۔ ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بانگِ درا میں اقبال کی پہلی غزل: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی نہیں ہے، بلکہ: گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے۔اور یہ غزل داغؔ کے لہجے اور مضامین سے قطعی متغائر ہے، لہٰذا اقبال کی غزل کے مطالعے میں پہلا مسئلہ جس سے ہم دوچار ہوئے ہیں، یہ ہے کہ اس کا سلسلہ کسی بھی اسکول پر منتہی نہیں ہوتا، لیکن اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ملتی جسے ہم اردو غزل کی روایت سے قطعاً خارج قرار دیں۔ یعنی یہ غزل ہمیں اردو غزل کی روایت پر ازسرِنو غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہماری غزل کی روایت کے محاکمے میں خلطِ مبحث کی زیادہ تر ذمہ داری امداد امام اثر، آزاد اور حالی پر ہے۔ اثر میں تو تنقیدی شعور بہت کم تھا، حالی پر اصلاحی جوش غالب تھا، لیکن محمد حسین آزاد میں تاریخی شعور کی کمی تھی اور چونکہ محمد حسین آزاد کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ قدیم اصولوں کے مزاج داں تھے، اس لیے ان کے خلطِ بحث نے اس معاملے کو حالی اور اثر سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ آزاد کا خیال تھا کہ شعر کے اسالیب اور شاعری کی روایت میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ روایت دراصل وہ ڈھانچا ہوتی ہے جس کے گرد اسلوب تیار کیا جاتا ہے لہٰذا اسلوب بدلنے سے ڈھانچا نہیں بدلتا۔ دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انھوں نے ان چیزوں کو بھی متروک و منسوخ سمجھ لیا جو دراصل رائج تھیں۔ چنانچہ غلام مصطفی خاں یک رنگ کے چند شعر نقل کر کے وہ کہتے ہیں : خدا جانے ان باتوں کو سن کر ہمارے شایستہ زمانے کے لوگ کیا کہیں گے، کچھ تو پروا بھی نہ کریں گے اور کچھ واہیات کہ کر کتاب بند کر دیں گے… میرے دوستو! غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمھارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے، کل اوروں کے سامنے یہی تمھارے کلام کا حال ہونا ہے۔ ایک وقت میں جو بات مطبوعہ خلائق ہو، یہ ضرور نہیں کہ دوسرے وقت میں بھی ہو۔ اس کے پہلے پرانی زبان کا ذکر کرتے ہوئے آزاد کہتے ہیں: آج اس وقت کی زبان کو سن کر ہمارے ہم عصر ہنستے ہیں لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہِ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ آج تم ان کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمھاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس طرح کے خیالات پر وکٹوریائی عہد کے اس مفروضے کی غلط پرچھائیں ہے کہ ہر نیا خیال ہر پرانے خیال سے بہتر ہوتا ہے۔ وکٹوریائی مفکروں نے بھی اس مفروضے کو زبان اور اسلوب اور روایت پر جاری نہیں کیا تھا لیکن ان کے ہندستانی زلّہ رُوبائوں نے اسے یہاں بھی جاری کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے سمجھا روایت بدلتی رہتی ہے اور ہر نئی روایت ہر پرانی روایت کو منسوخ کرتی ہے۔ اس غلط خیال کی روشنی میں ہم لوگوں نے اردو غزل کی روایت سے وہ غزل مراد لی جو اقبال کے فوراً پہلے رائج تھی اور پھر یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال کی غزل ہماری روایت سے منحرف ہے۔ حالانکہ اقبال کا انحراف صرف اتنا تھا کہ جو موضوعات اور لہجے پرانی غزل میں رائج تھے، لیکن انھیں مرکزی عنصر کی اہمیت حاصل نہ تھی، اقبال نے انھیں مرکزی عنصر کی طرح برتا، مثلاً غزل میں عربی فقرے ڈالنا اور قرآن کے حوالے دینا اقبال کی ایجاد نہیں۔ لیکن ان چیزوں کو احساس یا تجربے کے اظہار کے بجائے فکر کے اظہار کے لیے استعمال کرنا، جو متقدمین کے یہاں کہیں کہیں نظر آتا ہے، اقبال کے یہاں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار شعر کی بلامطلع غزل جو میں نے اوپر بانگِ درا کے حوالے سے نقل کی ہے، اس صفت سے متصف نظر آتی ہے۔ لیکن اقبال کی غزل کا مطالعہ جس دوسری مشکل سے ہمیں دوچار کرتا ہے، اس کا تصفیہ اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ مصنف اپنی تصنیف کو کس صنف میں رکھتا ہے، کیوں کہ اس سے آپ کو مصنف کی طرف سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ آپ سے اس تصنیف کے بارے میں کس قسم کے response کی توقع کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ایک حیران کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ بڑے غزل گو کی حیثیت سے اقبال کی شہرت جس کلام پر ہے وہ تقریباً سارے کا سارا بالِ جبریل میں ہے۔ ان میں سے بعض حسبِ ذیل ہیں: ۱۔ میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں ۲۔ اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا ۳۔ گیسوے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر ۴۔ اثر کرے نہ کرے، سن تو لے مری فریاد ۵۔ پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے ۶۔ اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں ۷۔ وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں ۸۔ عالمِ آب و خاک و باد سرِّ عیاں ہے تو کہ میں ۹۔ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن ۱۰۔ ہر چیز ہے محوِ خود نمائی ۱۱۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۱۲۔ حادثہ وہ جو ابھی پردئہ افلاک میں ہے ان میں سے ایک تا پانچ بالِ جبریل کے پہلے حصے میں ہیں اور چھہ تا بارہ دوسرے حصے میں۔ پہلے حصے سے میری مراد ہے شروع کا وہ کلام جس پر ایک تا سولہ نمبر پڑے ہیں اور دوسرے حصے سے میری مراد ہے نمبر سولہ کے فوراً بعد کا وہ کلام جو سنائی والے قصیدے (نظم/غزل) سے شروع ہوتا ہے اور جس پر پھر ایک نمبر سے شروع ہو کر ۶۱ تک نمبر پڑے ہیں۔ ان میں کسی پر ’’غزل‘‘ کا عنوان نہیں دیا گیا ہے بلکہ پوری بالِ جبریل میں کوئی بھی کلام ایسا نہیں جس پر غزل کا عنوان قائم کیا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال عنوان دینا بھول گئے ہوں کیوں کہ اس کلام کے علاوہ جس پر صرف نمبر ہیں، بال جبریل کے ہر مشمول پر ’‘قطعہ‘‘، ’’رباعی‘‘ یا نظم کا عنوان لکھا ہوا ہے۔ صرف دو ’’رباعیاں‘‘ ایسی ہیں جو حصۂ اوّل کے نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے بلاعنوان درج ہیں۔ یہاں میں اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ اپنے جس کلام کو اقبال نے رباعی کہا، وہ رباعی ہے کہ نہیں، فی الحال مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بالِ جبریل کے جس کلام میں سے ہم اقبال کی غزلیں برآمد کرتے ہیں، ان پر اقبال نے غزل کا عنوان نہیں دیا ہے۔ مزید یہ کہ انھوں نے اپنی تمام ’’رباعیات‘‘ پر رباعی کا عنوان لگایا ہے۔ سوائے ان دو کے جو نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے درج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ایک تا سولہ اور پھر ایک تا اکسٹھ نمبر شدہ کلام کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ اسے غزل کی طرح نہ پڑھا جائے۔ حصۂ اوّل کا نمبر پانچ تو غزل کی ہیئت میں بھی نہیں ہے کیوں کہ اس کا آخری شعر: کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو بقیہ اشعار کی زمین میں نہیں ہے اور مطلع کی ہیئت میں ہے۔ اس کے بعد جو رباعی درج ہے، وہ حسبِ ذیل ہے : دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر حریمِ کبریا سے آشنا کر جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوے حیدر بھی عطا کر اوپر کے اشعار سے اس کا ربط ظاہر ہے لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ اقبال کی نظر میں نمبر پانچ کے تحت درج شدہ اشعار اور یہ رباعی دونوں مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔ نہ وہ اِس سے الگ ہے اور نہ یہ اُس سے الگ ہے۔ ممکن ہے اقبال کا یہ عندیہ ان کے تحتِ شعور میں رہا ہو، لیکن یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایسی نظم کو، جو غزل کی ہیئت ہی میں نہیں ہے، اقبال نے غزل نہ سمجھا ہو گا اور چونکہ صرف دو نمبر ایسے ہیں جن کے نیچے ایک ایک رباعی درج ہے اور ان کے علاوہ ہر رباعی پر ’رباعی‘ کا عنوان لکھا ہوا ہے، اس لیے ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اقبال نے یہ رباعیاں ان ہی جگہوں پر اور بلاعنوان کیوں درج کیں؟ نمبر پانچ کے بارے میں تو میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کی رباعی اور دیگر اشعار میں مضمون کا ربط ہے، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ اب نمبر دو کو دیکھیے۔ اس کا مطلع ہے: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا سب اشعار میں اس قدر ربط ہے کہ غزلِ مسلسل یا نظم کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ سب میں خدا کے ساتھ ایک عاشقانہ محبوبانہ challenge کا رویہ ہے۔ اس کے نیچے رباعی حسبِ ذیل ہے : ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے اس کا بھی ربط اوپر گزرنے والے اشعار سے ظاہر ہے۔ اس لیے یہاں بھی میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اقبال کی نظر میں نمبر دو کے اشعار اور یہ رباعی مل کر ایک مکمل نظم بناتے ہیں۔۱ ؎ دوسرے حصے میں پہلا نمبر سنائیؔ والی مشہور نظم (قصیدہ… غزل؟) ہے۔ اقبال اِس کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ چند افکارِ پریشاں، جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کے پیروی کی گئی ہے، اس روزِ سعید کی یادگار میں سپردِ قلم کیے گئے۔ ماازپئے سنائی و عطار آمدیم۔ ٭۱۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مقالے کے آخر میں دیکھیے، ’استدراک‘۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اگرچہ لہجے اور مضامین کے اعتبار سے اس تحریر میں اور اقبال کی ان تحریروں میں کوئی خاص فرق نہیں، جنھیں ہم غزل کہتے ہیں اور اس تحریر میں بھی اشعار اسی طرح بے ربط ہیں جس طرح غزل میں ہوتے ہیں، لیکن اقبال نے اسے قصیدہ، غزل، نظم کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے، صرف نمبر ایک ڈال دیا ہے، لہٰذا اگر ہم اس حصے کی دوسری تحریروں کو غزل کہتے ہیں تو ہمیں اس منظومے کو بھی غزل کہنا ہو گا اور اگر ہم اس منظومے کو غزل نہیں کہتے تو اقبال کے عندیے کی روشنی میں بقیہ نمبروں کو بھی غزل کہنا ذرا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اقبال نے زبورِ عجم میں بھی منظومات پر صرف نمبر لگائے ہیں اور ہم انھیں غزل فرض کرتے ہیں۔ حالانکہ زبورِ عجم کے مشمولات میں مندرجہ ذیل چیزیں ایسی ہیں جو غزل کے دائرے میں مشکل ہی سے آئیں گی۔ حصۂ اوّل میں نمبر ایک صرف ایک شعر ہے۔ نمبر ۲۸، ۴۰ اور ۴۳ صرف دو دو اشعار ہیں۔ حصۂ دوم میں نمبر ایک، دو، سات، ۴۱، ۶۰، ۶۴ اور ۷۴ صرف دو دو اشعار ہیں۔ ان میں سے کسی پر عنوان نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کتاب میں عنوان سرے سے نہیں ہیں۔ اوّلین دو منظومات پر بالترتیب حسبِ ذیل عنوان ہیں۔ (۱) ’نجوانندئہ کتاب زبور‘ اور ’دعا‘۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اگر زبورِ عجم کے دیگر مشمولات پر کوئی عنوان نہیں دیا اور غزل نما نیز نظم نما ہر طرح کے کلام کو صرف نمبر کے ذریعے الگ کیا، لیکن دو مشمولات پر عنوان دیا تو ظاہر ہے کہ اقبال کی نظر میں نظم اور غزل کا فرق بے معنی تھا یا وہ اس کلام کو بھی جسے ہم غزل کی طرح پڑھتے ہیں، نظم کی طرح پڑھا جانا پسند کرتے تھے۔ بالِ جبریل کی ایک مشہور نظم ’زمانہ‘ میں اس صورتِ حال کا ایک اور پہلو نظر آتا ہے۔ نظم کے پہلے پانچ اشعار آپس میں مربوط ہیں اور عنوان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ چھٹے شعر میں ’’مغربی افق‘‘ کا ذکر آتا ہے جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا: شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوے خوں ہے، یہ جوے خوں ہے طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ لیکن چونکہ شعر میں ’طلوعِ فردا‘ اور ’دوش و امروز‘ کا بھی ذکر ہے، اس لیے اسے کھینچ تان کر موضوع سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصل مشکل اگلے شعر سے پیدا ہوتی ہے جب مغربی تہذیب کی تنقید اور اس کے زوال کی پیشین گوئی شروع ہوتی ہے جو نظم کہ وقت کا فلسفہ یا وقت کی اصلیت پر بعض تصورات کے بیان سے شروع ہوئی تھی، اب عہدِ حاضر کے ایک مسئلے کی طرف مڑ جاتی ہے جس کا نفسِ موضوع سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا آخری شعر ان دونوں معاملات سے بالکل الگ کسی مردِ درویش (شاید اقبال) کی ثنا کرتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ، جو بقیہ تمام اشعار کا متکلم تھا، اس شعر کا بھی متکلم ہے کہ نہیں: ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ اس منظومے پر اگر ’زمانہ‘ عنوان نہ ہوتا تو اسے غزل فرض کرنے میں کسی کو کوئی مشکل نہ ہوتی۔ یہی حال ’لالۂ صحرا‘ کا ہے، جس کے اشعار میں ربط ثابت کرنے کے لیے قاری کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کلیم الدین صاحب کو کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اقبال کو مربوط نظم کہنے کا فن نہ آتا تھا لیکن اب تک جو شواہد بیان ہوئے، ان کی روشنی میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال کو نظم اور غزل میں امتیاز کی چنداں فکر نہ تھی یا پھر یہ کہا جائے کہ اقبال اپنے بعض منظومات کے بارے میں یہ چاہتے تھے کہ انھیں نظم اور غزل دونوں سمجھا جائے یا انھیں نظم اور غزل سے مختلف کوئی تیسری چیز سمجھا جائے۔ یہاں ٹاڈاراف کا قول پھر یاد آتا ہے کہ بڑی تخلیق دراصل دو اصناف کا وجود ثابت کرتی ہے۔ ایک تو اس صنف کا جس کی حدوں کی وہ شکست و ریخت کرتی ہے اور دوسرا اس صنف کا جو وہ خلق کرتی ہے۔ ضربِ کلیم میں اقبال نے عنوان کا التزام رکھا ہے، لیکن جن منظومات پر انھوں نے ’غزل‘ لکھا ہے، ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے جان بوجھ کر نظم نما غزلوں پر غزل کا عنوان لگایا ہے۔ صرف پانچ غزلیں ہیں اور مشہور ترین غزل سب سے آخر میں ہے: دریا میں موتی، اے موجِ بے باک ساحل کی سوغات، خار و خس و خاک ان میں وہ انکشافی لہجہ نہیں ہے جو بالِ جبریل کے اکثر نمبروں میں ہے لیکن انکشافی لہجہ تو ’ضربِ کلیم‘ ہی میں نہیں ہے۔ ہاں ضربِ کلیم کے اسلوب کی شدید جز رسی (economy) یہاں بھی نمایاں ہے۔ ’محرابِ گل افغان کے افکار‘ میں پھر نمبر ہیں اور ان میں بھی بعض منظومات غزل کی ہیئت میں ہیں۔ اگر بالِ جبریل کے ان نمبروں کو جو غزل کی ہیئت میں ہیں، غزل فرض کیا جائے تو سنائیؔ والے منظومے کے علاوہ ’محراب‘ کے بھی بعض منظوموں کو غزل فرض کرنا ہو گا۔ یہی عالم ارمغان حجاز میں شامل ’ملا زادہ ضیغم لولابی کا بیاض‘ کے مشمولات کا ہے۔ اقبال میں جہاں بہت سی بڑائیاں ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں کوئی قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ قاعدہ تو بن سکتا ہے لیکن اس سے قاری کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس معاملے میں وہ میر اور شیکسپیئر کے ساتھ ہیں۔ (تحریر ۱۹۸۵ئ)، بحوالہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟ مکتبہ جامعہ دہلی، ۱۹۹۳ء ٭٭٭ استدراک محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ بالِ جبریل میں کوئی بھی کلام ایسا نہیں ہے، جس پر غزل کا عنوان قائم کیا گیا ہو مگر انھوں نے حصۂ اوّل کے نمبر پانچ ’کیا عشق ایک زندگی…‘ اور اس کے نیچے درج ایک رباعی ’دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر‘ کے درمیان ربط کی طرف جو اشارہ کیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ اس طرح حصۂ اوّل کے نمبر دو ’اگر کج رو ہیں انجم…‘ کے تحت رباعی ’ترے شیشے میں…‘ سے وہ یہ فرض کرنے میں حق بجانب نہیں کہ ’’اقبال کی نظر میں نمبر دو کے اشعار اور یہ رباعی مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔‘‘ یہ غلطی اور غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم بالِ جبریل کے رائج الوقت نسخوں کو بنیاد بناتے ہیں۔ ان رائج الوقت نسخوں (پاکستان میں مطبوعہ ہوں یا بھارت میں) میں ترتیبِ کلام ۱۹۷۳ء کے شیخ غلام علی اڈیشن کے مطابق ہے۔ ساری گمراہی یہیں سے پھیلی اور اسی سے فاروقی صاحب کو بھی غلط فہمی ہوئی (ظاہر ہے، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے)۔ قصہ یہ ہے کہ اقبال صدی (۱۹۷۳ء اور بعدازاں ۱۹۷۷ئ) کی آمد کا غلغلہ بپا ہوا تو کلامِ اقبال کے ناشر کو ’’جدید کتابت و طباعت‘‘ کی ضرورت درپیش ہوئی کیوں کہ جن پلیٹوں سے اب تک کلامِ اقبال چھپتا چلا آ رہا تھا، کثرتِ استعمال سے ان کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔ جدید کتابت بلاشبہ حسین و جمیل تھی مگر اس میں اصولِ املا کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، لیکن سب سے بڑا ستم یہ کیا گیا کہ بالِ جبریل میں کئی جگہ کلامِ اقبال کی ترتیب بدل دی گئی۔ اب بالِ جبریل کے کسی قدیم (۱۹۷۳ء سے ماقبل، پرانی ترتیب اور کتابت والے) نسخے کو دیکھیے تو رباعی ’ترے شیشے میں…‘ حصۂ اوّل کے نمبر ایک کے بعد درج ہے، نہ کہ نمبر دو کے بعد، جیسا کہ غلام علی اڈیشن اور اس وجہ سے تمام جدید اشاعتوں میں ہے۔ اسی طرح فاروقی صاحب نے جو دوسری مثال دی ہے۔ قدیم نسخوں میں رباعی ’دلوں کو مرکزِ مہر…‘ حصۂ اوّل کے نمبر تین کے بعد درج ہے، نہ کہ نمبر پانچ کے بعد، جیسا کہ غلام علی اڈیشن میں ہے۔ فاروقی صاحب نے تو دو مثالیں دی ہیں، غلام علی اڈیشن میں ترتیبِ کلام میں تبدیلی اور ردّوبدل متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ بالِِ جبریل کی قدیم اشاعتوں میں جو رباعیات (یا قطعات) حصۂ اوّل کے نمبر ایک تا سولہ کے تحت درج ہیں، ان میں سے دو کا محل بدل کر، انھیں نمبر دو اور پانچ کے تحت لکھ دیا گیا۔ باقی دس کو، نظموں سے ماقبل حصے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس حصے میں اقبال نے جو قطعات یکجا دیے تھے، ان پر کوئی عنوان نہیں تھا، غلام علی اڈیشن میں بالکل ناروا طریقے سے ان سب پر رباعیات کا عنوان جڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح بعض منظومات (ہسپانیہ، روحِ ارضی آدم کا…، پیرو مرشد، جبریل و ابلیس) کے آخر کے قطعات میں سے، کچھ تو رباعیات کے تحت دیے گئے ہیں اور بعض کو کتاب کے آخر میں درج کیا گیا ہے۔ نظم ’لالۂ صحرا‘ کے آخر کے دو بلاعنوان شعروں (اقبال نے کل…) کو نظم ’دعا‘ (ص:۹) سے پہلے خود ساختہ عنوان ’’قطعہ‘‘ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ راقم کا قیاس کہ یہ ردّوبدل کاتب (محموداﷲ صدیقی) نے من مانے طریقے سے، غالباً اپنی سہولت کے لیے کیا لیکن جیسا کہ جاوید اقبال صاحب نے ’اعتذار‘ کے تحت دیباچے میں بتایا ہے، کتابت شدہ کلام مولانا غلام رسول مہر نے دیکھا۔ تعجب ہے کہ ان جیسے فاضل اقبال شناس نے کلامِ اقبال میں اس ناروا اور بے جواز ردّوبدل کو کیسے گوارا کر لیا؟ یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ علامہ، اپنے شعری مجموعوں کی کتابت خود اپنی نگرانی میں کراتے تھے۔ کلامِ اقبال کی بیاضیں اور مختلف مجموعوں کے مسودے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ غزلوں، نظموں اور قطعات کی ترتیب اور اشعار کو بالمقابل یا اوپر نیچے لکھنے کے بارے میں وہ کاتب کو واضح طور پر تحریری ہدایات دیا کرتے تھے، مثلاً: بالِ جبریل کے ایک مسودے میں نمبر چودہ ’اپنی جولاں گاہ…‘ کے مصرعے نقل نویس نے آمنے سامنے لکھ دیے تھے۔ اس پر علامہ کی حسبِ ذیل دست نوشت ہدایت درج ہے : ہدایت برائے کاتب: ایک مصرع دوسرے مصرع کے نیچے لکھو، نہ کہ بالمقابل۔ اسی طرح بالِ جبریل کے ایک مسودے میں نظم ’الارض ﷲ‘ کے ساتھ بہ خطِ اقبال یہ ہدایت درج ہے: ایک مصرع دوسرے مصرع کے نیچے لکھو۔ پروین رقم کو تو اقبال واضح طور پر ہدایات دیتے رہے کہ کون سا قطعہ یا رباعی کہاں، کس غزل کے آخر میں درج کی جائے گی (اس کی تفصیل راقم ایک مضمون، ’اقبال کے غیرمطبوعہ رقعات بنام پروین رقم‘ مطبوعہ: اقبال ریویو، لاہور، جنوری ۱۹۸۴ء میں عرض کر چکا ہے)۔ محترم فاروقی صاحب کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ بالِ جبریل کی نام نہاد غزلیات میں سے بعض کو علامہ نظمیں سمجھتے تھے، مثلاً ایک بیاض میں حصہ اوّل کے نمبر پانچ کے اشعار ’کیا عشق ایک…‘ سب سے پہلے بطور ایک نظم بعنوان ’زندگی‘ درج ہے۔ بعدازاں انھیں ’عشق‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ پھر علامہ نے ان اشعار کے لیے تیسرا عنوان ’دعا‘ تجویز کیا۔ آخر میں یہ عنوان بھی قلم زد کر دیا اور (بقول شمس الرحمن فاروقی) یہ ’منظومہ‘ بلاعنوان ہی پہلے حصے میں شامل ہوا۔ ایک اور مثال: حصہ دوم میں نمبر ۱۷ کے اشعار کے لیے سب سے پہلے علامہ نے ’لندن‘ کا عنوان تجویز کیا، پھر اسے کاٹ کر ’فرنگ‘ سے تبدیل کیا گیا۔ آخر میں صرف اس وضاحت پر اکتفا کیا، ’یورپ میں لکھے گئے‘۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جدید نسخوں میں کلامِ اقبال کی اصل ترتیب بحال کرنا کیوں اور کس قدر ضروری ہے۔ رفیع الدین ہاشمی ٭٭٭ اقبال اور شعرِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال اقبال کا اردو شاعری میں کیا مقام ہے؟ سچی بات ہے، میں آج تک اس کا صحیح تعین نہیں کر پایا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتے تھے بلکہ انھیں خیال تھا کہ آیندہ آنے والی نسلیں بھی شاید انھیں شاعر تسلیم نہ کریں۔ اسی طرح وہ اپنے آپ کو فلسفیوں میں بھی شمار نہیں کرتے تھے کیوں کہ ان کی فکر میں کسی مبسوط فلسفیانہ نظام کا وجود نہیں۔ وہ دینی موضوعات یا دینی فلسفے کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے لیکن عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کبھی نہ کیا۔ اگر ان سے کبھی پوچھا گیا کہ شعر و شاعری سے آپ کا کیا تعلق ہے؟ تو فرمایا کہ میرے چند مخصوص خیالات ہیں جو لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں اور انھیں لوگوں تک پہنچانے کی خاطر میں نے شاعری کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کیا تھے وہ خیالات جو اقبال لوگوں تک پہنچانے کے درپے تھے اور اس قدر جلدی میں تھے کہ عقلی دلائل کو بالاے طاق رکھ کر قلب پر فوری طور پر اثرانداز ہونے والے اشعار کا ذریعہ اختیار کیا؟ اردو میں شعر تو اقبال بچپن ہی سے کہتے تھے، مگر پہلی تصنیف اسرارِ خودی فارسی میں شائع کی۔ کیوں؟ غالباً اس لیے کہ وہ اپنے بقول چاہتے تھے کہ ان کی بات صرف ایک محدود حلقے تک پہنچے مگر فکرِ اقبال تک رسائی کے لیے اس تصنیف سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرارِ خودی میں پھر انھی خیالات (یا انقلابی پیغام) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو اقبال ایک پیغامبر کی حیثیت سے کسی ہم دم کے سپرد کرنا چاہتے تھے۔ اقبال صاحبِ فکر تھے۔ انھیں کسی صاحبِ عمل کی تلاش تھی، مگر لہجہ رازدارانہ تھا : خواہم از لطفِ تو یارے ہمدمے از رموزِ فطرتِ من محرمے تابجانِ او سپارم ہوئے خویش باز بینم در دلِ او روے خویش سازم از مشتِ گلِ خود پیکرش ہم صنم او را شوم ہم آزرش دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسرارِ خودی کے ذریعے اقبال نے کم از کم ّبرِعظیم کے مسلمانوں کو توحیدِ وجودی کی ظلمات سے نکال کر توحیدِ اسلامی کے روزِروشن میں لاکھڑا کیا۔ صوفیوں اور سجادہ نشینوں نے بڑا اُودھم مچایا، واویلا کیا اور ہنگامہ بپا کیا۔ ان میں سے بیشتر اقبال کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ توحیدِ وجودی اور توحیدِ اسلامی میں امتیاز پر بحث مدتوں جاری رہی مگر اقبال نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے : اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو اپنی راہ پہ قائم ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی دراصل تمدنِّ اسلامی کی اقدار کے احیا کے ذریعے ایک نئے مسلم فرد اور نئے مسلم معاشرے کو وجود میں لانے کی پیغمبرانہ دعوت تھی۔ اسی دعوت کے نتیجے میں ّبرِعظیم کے جمہورِ مسلمین یا ہجومِ مومنین میں رفتہ رفتہ ملّی شعور پیدا ہوا اور جب وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے تو ایک صاحبِ عمل ہم دمِ اقبال (یعنی قائدِاعظم محمدعلی جناح) کی زیرِ قیادت ایک منظم قوم میں منتقل ہو چکے تھے۔ اسی صاحبِ عمل کے ہاتھوں ّبرِعظیم میں اسلام کو علاقائی شناخت نصیب ہوئی۔ جب اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں ایک علاحدہ مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا تو بعض یار لوگوں نے پھبتی کسی تھی کہ خطبہ کیا دیا، غزل پڑھ ڈالی ہے۔ ذرا غور کیجیے، تاریخِ عالم میں نئی قومیں یا نئی ریاستیں تو سیاسی ّمدبروں کے ہاتھوں وجود میں آتی ہیں۔ کیا کوئی ایسی مثال بھی موجود ہے جہاں کوئی شاعر کسی نئی قوم یا نئے ملک کو منصہ شہود میں لانے کا سبب بنا ہو؟ یہی اردو زبان کے اس شاعر یا شاعر نما کا کمال ہے، لیکن اردو زبان بھی مستحقِ داد ہے کہ اس نے فکرو شعرِ اقبال کا بھاری بوجھ اٹھا کر دبستانِ اردو میں انھیں سنگِ مرمر کی ایک نئی عمارت تعمیر کرنے میں مدد دی۔ اقبال پر اعتراض کیا گیا کہ وہ انسانیت کے نہیں بلکہ صرف مسلم فرقے کے شاعر ہیں۔ اس پر سرتیج بہادر سپرو نے جواب دیا کہ اگر کالی داس شکنتلا لکھے تو اسے کوئی ہندو فرقے کا شاعر نہیں کہتا۔ اسی طرح ملٹن فردوسِ گم گشتہ تحریر کرے تو اسے کوئی مسیحی مذہب کا شاعر قرار نہیں دیتا۔ اگر اقبال کی شاعری روحِ اسلامی کو زمانۂ حال کی روشنی میں ظاہر کرنے کی کوشش ہے تو اس پر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کی تہمت کیوں لگائی جاتی ہے؟ قطعِ نظر ایسے سب اعتراضات کے اقبال اپنے آپ کو اسلامی شاعر سمجھتے تھے جیسے کہ اسرارِ خودی کی آخری نظم ’عرضِ حال مصنف بحضور رحمتہ اللعالمین ﷺ‘ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر میرے اشعار کے کسی بھی حرف میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے تو روزِ قیامت مجھے رسوا کیجیے اور اپنے بوسۂ پا سے محروم رکھیے لیکن اگر میں نے اپنے اشعار میں قرآن ہی کے موتی پروئے ہیں اور مسلمانوں سے حق بات کہی ہے تو میرے لیے خدائے عزّو جَلّ کے روبرو عرض کیجیے کہ میرا عشق، عمل سے بغل گیر ہو جائے۔ اقبال اور شعرِ اقبال کی اسلامیت اور راست فکری کے بارے میں ّبرِعظیم کے بعض مستند علماے کرام کی آرا پر نگاہ رکھنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی قرآن مجید کی سورۃ شعرا (۲۶: آیات ۲۲۴ تا ۲۲۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کی نگاہ میں وہ شاعر معتوب ہیں جو عشق بازی، شراب نوشی یا آوارگی کے مضامین بیان کریں، بازاری عورتوں یا کسی کی بہو بیٹی کے حسن کو موضوعِ سخن بنا کر پیش کریں۔ بقول ان کے یہ وہ دہریے اور مادہ پرست شاعر ہیں جو اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جسمانی لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کی مخلوق، جنھیں احساس نہیں کہ دنیا میں انسان کے لیے کوئی بلندتر مقصد ہو سکتا ہے مگر جن شاعروں کو ان سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، وہ چار خصوصیات کے حامل ہیں: پہلی یہ کہ مومن ہوں۔ دوسری یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں۔ تیسری یہ کہ ذاتی طور پر اور اپنے کلام میں اﷲتعالیٰ کو اکثر یاد کرنے والے ہوں اور چوتھی یہ کہ ذاتی غرض کے لیے کسی کی ہجو نہ کریں۔ نسلی یا قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ نہ بھڑکائیں، مگر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پڑے تو زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد شمشیر سے لیتا ہے۔ ۱ ؎ کیا اقبال کا شمار ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جن میں یہ چار خصوصیتیں موجود ہوں؟ مولانا مودودی کے ہاں اس سوال کا جواب تو نہیں ملتا، البتہ اقبال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان میں کچھ فرقۂ ملامتیہ کے سے میلانات تھے، جن کی بنا پر اپنی رندی کا اشتہار دینے میں انھیں کچھ مزہ آتا تھا ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا، نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔ ۲ ؎ مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کا مناظرہ ہوا تھا۔ بعدازاں صلح صفائی ہو جانے کے باوجود نہ تو عمر بھر مولانا نے انھیں بخشا اور نہ اقبال نے مولانا کو معاف کیا۔ اقبال کے بارے میں مولانا حسین احمد مدنی کی رائے ہمیشہ یہی رہی کہ اقبال اپنی ساری زندگی غلط فہمیوں کا شکار رہے اور ساحرینِ برطانیہ کے سحر میں مبتلا۔ یعنی انگریز کے اشاروں پر ناچتے ناچتے تمام عمر گزار دی۔ (متحدہ قومیت اور اسلام، ص: ۹)۳ ؎ اقبال کے متعلق مجلسِ احرار کے قائد مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری کا فیصلہ تھا کہ اقبال کا قلم تو تمام عمر صحیح رہا لیکن قدم اکثر و بیشتر غلط۔ ۴ ؎ مولانا نجم الدین اصلاحی ارشاد کرتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ حیثیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم نے ان کے کلام کو بغور پڑھا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مرحوم کے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں اشعار مفید ہیں، وہیں ان کے کتنے اشعار ایسے ہیں جن میں کھلے بندوں اسلام اور اسلامی فلسفے پر ان کی زد پڑتی ہے۔ پاکستان میں قانون سازی کا اصول فکرِ اقبال کی روشنی میں تو ہو سکتا ہے کیوں کہ پاکستان جس اسلام کے نام پر بنا ہے، وہ مرحوم ہی کے فلسفے کا دوسرا نام ہے، ۵ ؎ یعنی صحیح اسلام کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ انگریزی نثر میں اقبال کی تصنیف یعنی خطبات کے بارے میں چند برس ہوئے ریاض (سعودی عرب) میں کسی سیمی نار میں ایک مصری عالم کی تحریک پر قرار دیا گیا کہ اقبال کی یہ کتاب کفریات پر مبنی ہے۔ اس لیے مسلمان اسے پڑھنے سے گریز کریں۔ اقبال کی اس تصنیف کے متعلق مولانا سیّد سلیمان ندوی کی ابتدا ہی سے یہ رائے تھی کہ یہ کتاب نہ لکھی جاتی تو بہتر تھا۔ شاید اسی بنا پر ان خطبات کا اردو ترجمہ خاصی مدت کے بعد شائع ہوا۔ اسی متنازعہ تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے نقشِ اقبال کے مصنف مولانا ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ وہ اقبال کو نہ تو معصوم سمجھتے ہیں نہ متقی و پرہیزگار، نہ رہبرِ دین نہ امامِ مجتہد۔ نہ ان کی فکری کاوشوں کی تعریف میں، ان کے مداحین کی طرح، حد سے گزر جانا انھیں قبول ہے۔ ان کی راے میں حکیم سنائیؔ، عطارؔ اور عارفِ رومیؔ احترام و اتباعِ شریعت، ہم آہنگیِ فکر و عمل، اور یگانگتِ قول و فعل میں اقبال سے بہت آگے تھے۔ اقبال کے ہاں اسلام اور فکرِ اسلامی کی بعض ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن کے ساتھ اتفاق کرنا بڑا مشکل ہے۔ اقبال کے بعض نوجوان حامیوں کی طرح وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ اقبال سے بہتر اسلام کو کوئی نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ اسلامی علوم اور تاریخی حقائق کے متعلق جو معلومات اقبال کو حاصل ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ تمام عمر اقبال اپنی ہم عصر عالم شخصیتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسی خامیاں تھیں جن کی تطبیق ان کے علم کی وسعت اور پیغام کی عظمت کے ساتھ نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے انھیں اپنی ان خامیوں سے نجات حاصل کر سکنے کا موقع نہ ملا۔ ان کے خطباتِ مدراس میں کئی ایسے خیالات و نظریات پیش کیے گئے ہیں جو اہلِ سنت و الجماعت کے کئی اعتقادات سے متصادم ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے آپ نے غور کیا ہو گا کہ اقبال بقول خود نہ شاعر تھے، نہ فلسفی، نہ عالمِ دین۔ لیکن اگر وہ اپنے طور پر یہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ انسانیت کے نہ سہی، اسلام کے شاعر تو ہیں تو خطبات یعنی تشکیلِ جدید الہییاتِ اسلامیہ کی اشاعت کے بعد ان کی مسلمانی کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا۔ اقبال کو بخوبی احساس تھا کہ ّبرِعظیم کے نہ صرف عامی مسلمان بلکہ بعض علماے کرام بھی وسعتِ نظر سے عاری اور قدامت پسند ہیں، لہٰذا وہ نئے نظریات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پس متنازعہ خطبات پیران کہن کے لیے تحریر نہیں کیے گئے تھے جن سے اقبال مایوس تھے بلکہ آنے والی نسلوں کی امانت تھے : من کہ نو میدم ز پیرانِ کہن دارم از روزے کہ می آید سخن برجواناں سہل کن حرفِ مرا بہرِ شاں پایاب کن ژرفِ مرا اسی صورتِ حال کے سبب اقبال کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اپنے آج کے نہیں بلکہ آنے والے کل کے شاعر ہیں : نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نواے شاعرِ فرداستم اب ہم اس پہلو کی طرف آتے ہیں کہ اگر اقبال بقول خود اسلامی شاعر تھے تو شاعری کے بارے میں ان کا اپنا مطمحِ نظر کیا تھا؟ یعنی ان کی اپنی رائے میں شاعری کا معیار کیا نہیں اور کیا ہونا چاہیے؟ اقبال کے خیال میں مسلمانانِ ّبرِعظیم کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کا نتیجہ تھا۔ اس لیے انھیں کسی نئے ادبی نصب العین کی تلاش تھی۔ فرماتے ہیں کہ : آرٹ میں جو کچھ خوب ہے، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں خوب سے مشابہت رکھتا ہو۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعر پر جو قومی زندگی کی مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کی بجائے فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھائے۔ اس کی ذمے داری تو یہ ہے کہ فطرت کی لازوال دولتوں میں حیات و قوت کا جو حصہ اسے ودیعت کیا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ کہ اٹھائی گیرا بن کر جو رہی سہی پونجی اس کے پاس ہے، اس کو بھی ہتھیا لے۔۶ ؎ اقبال آرٹ کو حیاتِ انسانی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ اس لیے شاعری کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے۔ ایسی شاعری جو اس صلاحیت سے محروم ہو، اقبال کے نزدیک حیات کش ہے۔ ان کی راے میں تمام انسانی عمل کا منتہاے نظر شوکت، قوت اور جوش و خروش سے بھری زندگی کی تحصیل ہے۔ پس ارفع شاعری وہی ہے جو انسان کی خوابیدہ قوتِ عزم کو بیدار کرے اور اسے زندگی کی آزمایشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے، لیکن وہ سب کچھ جس کے اثر سے وہ اونگھنے لگے اور جو جیتی جاگتی حقیقتیں اس کے گرد و پیش موجود ہیں، جن پر غلبہ پانے کا نام زندگی ہے، ان سے آنکھوں پر پٹی باندھ لے، انحطاط اور موت کا پیغام ہے۔ اقبال کی شاعری ہمیشہ ان کے اپنے بیان کردہ اسی نصب العین کی پابند رہی بلکہ ایک مقام پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصودِ ہنر سوزِ حیاتِ ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرئہ نیساں! وہ صدف کیا، وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنّی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا، وہ ہنر کیا شعر و فکرِ اقبال کی اب تک ترو تازگی کا باعث کیا ہے؟ میری دانست میں صرف پاکستان کے قیام سے ان کے خواب کی تکمیل نہیں ہوئی۔ وہ تمدّنِ اسلامی کی احیا کے شاعر تھے اور جب تک اس احیا کی تکمیل ان کے واضح کردہ اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی، ان کے افکار کی شگفتگی ہمیں اپنی طرف کھینچتی رہے گی۔ مختصراً جو بات سمجھنے کی ہے وہ اقبال کے ان افکار کی تفہیمِ نو ہے جو تشکیلِ جدید الہییاتِ اسلامیہ کا موضوع ہیں اور جنھیں علماے کرام نے اپنی قدامت پسندی اور تنگ نظری کے سبب اور جدید تعلیم سے آراستہ نام نہاد روشن خیال طبقے نے اسلامی تمدن کی تاریخ سے اپنی لاعلمی یا ناواقفیت کے سبب آج تک ہاتھ نہیں لگایا۔ معلوم ہوتا ہے روحِ اقبال تقاضا کر رہی ہے کہ بطور شاعر اقبال کا پیچھا اب چھوڑ دیا جائے اور جو حقائق ان کی نثر میں پوشیدہ ہیں، انھیں منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی جائے۔ اقبال کی اس تصنیف اور دیگر نثری کاوشوں میں کیا کیا وضاحت طلب باتیں ہیں؟ ان کی تفصیل میں جانے کے لیے ایک علاحدہ مقالے کی ضرورت ہے۔ فی الحال یہی کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ ان خطبات کی روشنی میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام اور عالم شرق عہدِ کہن سے نکل کر بآسانی دنیاے جدید میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر یہ کام کون انجام دے گا؟ وہی افراد جو زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور ایسے نئے معیار دریافت کر سکتے ہوں، جن کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کے قابل ہو جائیں کہ ہمارے گرد و نواح کی حیثیت دائمی نہیں بلکہ انھیں بدلا بھی جا سکتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں : کسی قوم کی تقدیر کا انحصار اس بات پر نہیں کہ اسے کسی نہ کسی اصول کے تحت مستقل طور پر منظم رکھا جائے بلکہ اس بات پر ہے کہ قوم کس قسم کی لائق اور جرأت مند انفرادی شخصیتیں پیدا کر سکنے کی اہل ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں محض تنظیم ہی پر زور دیا جائے، فرد کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ماحول کے معاشرتی فکر کی دولت تو حاصل کر لیتا ہے، مگر وہ اپنی ذاتی اجتہادی روح گنوا بیٹھتا ہے۔ پس اپنی گزشتہ تاریخ کا جھوٹا احترام اور اس کا مصنوعی احیا کسی قوم کے زوال کو نہیں روک سکتے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ایسے نظریات جنھیں کسی قوم نے خود متروک قرار دیا ہو، اس قوم میں کبھی قوت حاصل نہیں کر سکتے۔ کسی قوم کے زوال کو روکنے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے، وہ آزاد، نڈر اور خودشناس افراد کی پیدایش، پرورش اور حوصلہ افزائی ہے۔ اردو زبان یقینا ایسے ہی بے باک شاعروں، ادیبوں اور دانش وروں کی منتظر ہے۔ (یہ مضمون بین الاقوامی اردو کانفرنس اسلام آباد منعقدہ ۹ تا ۱۳ مارچ ۲۰۰۵ء میں پیش کیا گیا) ٭٭٭ حواشی ۱۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن، سوم- ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۹۱ئ، ص، ۵۴۶-۵۵۰۔ ۲۔ ایضا: رسالہ جوہر، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، ۱۹۳۸ئ، ص، ۳۹۔ ۳۔ حسین احمد مدنی، متحدہ قومیت اور اسلام- مکتبہ محمودیہ لاہور، ۱۹۷۵ئ، ص ۹۰ ۴۔ صابر کلوروی، یادِ اقبال مکتبہ شاہکار لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص، ۵۷۔ ۵۔ مکتوباتِ شیخ الاسلام، سوم ۱۹۶۶ئ، ص، ۱۴۱۔ ۶۔ علامہ اقبال: Speeches, Writings and Statements of Iqbal، مرتبہ، لطیف احمد شروانی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۵ئ، ص، ۱۵۸۔ ٭٭٭ اجتماعی اجتہاد: ضرورت، تاریخی پس منظر، تجاویز طارق مجاہد جہلمی انگریزی زبان میں جسے Collective Diligence یاcollective exertion in solving a question کہا جاتا ہے یہ اجماع (Consensus) سے عبارت ہے۔ انفرادی اجتہاد پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس میں لغوی اعتبار سے اجتہاد کی روایتی تعریفات میں بابِ افتعال کی صرف مبالغے کی خصوصیات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اگر بابِ تفاعل کی خصوصیات کے معنی کو ملحوظِ خاطر رکھ لیا جائے تو اس میں مشارکت کا مفہوم ابھر آتا ہے، یعنی مل جل کر کام کرنا، جس سے اجتماعی اجتہاد کا تصور سامنے آجاتا ہے اور اس باب میں تعامل کے معنی بن جاتے ہیں : ۱ ؎ جب سلاطین کی نوازشات کی بدولت علما میں شرعیت کی بجائے تشرع (لفظ قانون کی پیروی) کا نقطۂ نگاہ پیدا ہوا تو احکامِ شریعت کی اتباع میں خلوص ناپید ہونے لگا تو اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صوفیاے کرام نے تزکیہ کی خاطر طریقت پر زور دیا اور مسلم معاشرے میں شریعت و طریقت دینی زندگی کے دو مظہر بن گئے۔ جب تک سلاطین اقتدار قانون کی قوتِ نافذہ سے محروم نہیں ہوئے تھے تو قانون سازی کے ذریعے اقدارِ حیات کی حفاظت کی جاتی رہی۔ اچانک مؤثراتِ زندگی بدل گئے۔ جب مؤثراتِ زندگی، علم، اخلاق، مذہب، معاشرت، معیشت، سیاست اور بین الاقوامی معیارِ زندگی بدل جائیں تو جو تدبیر اقدارِ حیات کی حفاظت کے لیے تبدیلی سے پہلے وضع کی گئی تھی، اس کی خلاف ورزی کے بغیر زندگی کے تقاضے پورے ہونے بند ہو جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں فقہاے اسلام اجتہاد کے ذریعے طریقِ کار میں وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس سے انحراف کی راہ اختیار کرنے والوں کو روکا جا سکے مگر ’’ہمہ اجتہاد‘‘ اور ’’فقہی اجتہاد‘‘ میں فرق ہے۔ اگر مؤثراتِ زندگی بدل جائیں اور زندگی کے تقاضے انحراف کے بغیر پورے ہونے بند ہو جائیں تو فقہی اجتہاد بھی بے اثر ہو جاتا ہے کیوں کہ قانون کی پیروی کی آرزو ختم ہو جاتی ہے۔۲ ؎ ظاہر ہے، ایسی صورت میں ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ قوتِ نافذہ اور پیروی کی آرزو مہیا کرتا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت عیاں ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ اسلام میں دینی فکر کی تشکیلِ نو کے چھٹے خطبے ’اسلام کی ہیئتِ اجتماعی میں حرکت کا اصول‘ یعنی ترقی و زندگی کا اصول میں رقم طراز ہیں: فقہ اسلامی کا تیسر ماخذ اجماع ہے اور میرے نزدیک یہ قانون اسلامی کے تصورات میں سب سے اہم ہے۔ موجودہ صورتِ حال کو سامنے رکھ کر وہ کہتے ہیں: اس وقت دنیا میں جو نئی نئی قوتیں ابھر رہی ہیں کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیشِ نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدروقیمت اور اس کے منفی امکانات کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون ساز مجالس کا بتدریج قیام بڑا ترقی زا قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاہبِ اربعہ کے نمائندے جو سرِدست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق ’’مجالسِ تشریعی‘‘ کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو ’’اجماع‘‘ کی شکل میں… مزید برآں غیر علما بھی جو ان امور میں گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے، ازسرِ نو پیدا کر سکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی نقطۂ نظر پیدا ہو گا۔ ۳ ؎ آگے علامہ موصوف لکھتے ہیں: لیکن ابھی ایک اور سوال ہے جو اس سلسلے میں کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ موجودہ دور میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی اس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں لہٰذا اس کا طریقِ کار کیا ہو گا کیوں کہ اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں لہٰذا ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیا ہو گی؟ آگے علامہ موصوف ایرانی دستور اور اس کے خطرناک پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سنی ممالک کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: سنی ممالک اسے (مجالسِ تشریعی) اختیار بھی کریں تو عارضی طور پر۔ انھیں چاہیے مجالسِ قانون ساز میں علما کو بطور ایک ’’مؤثر جزو‘‘ شامل تو کر لیں لیکن علما بھی ہر امرِ قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہارِ رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ بایں ہمہ شریعتِ اسلامیہ کی غلط تعبیرات کا سدِ باب ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ بحالتِ موجودہ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج میں ہو رہی ہے اس کی اصلاح کی جائے۔ فقہ کا نصاب مزید توسیع کا محتاج ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جدید فقہ کا مطالعہ بھی باحتیاط اور سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ ۴ ؎ ’’مجالسِ تشریعی‘‘ کے توسط سے روپذیر ہونے والے اجماع کو علامہ موصوف کے نزدیک اس قدر اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس طریق سے مختلف ملکوں کے اہلِ نظر و قانون کے باہم قریب آ جانے کی امید ہو گی لہٰذا انفرادی اور مسلکی بلکہ فرقہ وارانہ اجتہاد کی بجاے اگر مجالسِ تشریعی میں کسی مسئلے کی چھان پھٹک ہو جائے تو اس میں وہ لوگ جو علماے فقہ تو نہیں مگر زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہونے کی بنا پر اپنے تجربات کی روشنی میں رائے دینے پر قادر ہوں گے، رائے دیں گے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا کوئی فیصلہ بھی قرآنی روح سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔ مجلسِ تشریعی اساساً قرآنی روح کو ہی بروے کار لائے گی مگر مختلف زاویہ ہاے نظر اور گوناگوں تجارب کی عطاکردہ بصیرت کا ایک جگہ جمع ہو جانا فرحت بخش ہے۔ ۵ ؎ چنانچہ شیخ عبدالقادر المغربی لکھتے ہیں: اہلِ یورپ نے جماعت اور اجتماع سے فائدہ اٹھایا۔ اسے اپنے سماجی اور سیاسی اداروں کی اساس بنایا جب کہ مسلمان جن کے ہاں اس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی، غافل رہے۔ مجلسِ اعیان، مجلسِ نواب، سناتو، رشتاغ، اسمبلی، پارلیمنٹ اور مؤتمرِ اسلام اس کی مثالیں ہیں۔ ۶ ؎ بہرحال مذکورہ مباحث کا حاصلِ مطالعہ یہی نکلتا ہے کہ مفکرینِ ملتِ اسلامیہ انفرادی اجتہاد کی بجاے اجتماعی اجتہاد کے قائل تھے مگر اس میں علماے کرام کی شمولیت اور سرپرستی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ عصری علما کا اجتماعی اجتہاد کی ضرورت پر زور : مولانا ابوالعرفان ندوی، فکرِ اسلامی کی تشکیل جدید: ضرورت و اہمیت میں لکھتے ہیں: علم کا قافلہ بہت آگے نکل چکا ہے اور تحقیق و اکتشاف کے نئے گوشے اب سامنے آ چکے ہیں۔ ایک شخص کی مختلف علوم میں جامعیت و مہارت کا تصور بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ تو بظاہر ممکن نہیں ہے کہ دین کے عقائد و احکام کے سلسلے میں تمام باریکیوں پر نظر رکھنے والا اور جدید حالات، تقاضوں اور ضروریات پر فنی نظر رکھنے والا ایک ہی شخص ہو۔ اس لیے اس عہد میں جو اجتماعیت کا عہد ہے، ضروری ہے کہ نئے مسائل پر غور و خوض بھی اجتماعی طور پر ہو اور دونوں طرح کے اہلِ علم، ایمان و احتساب کے ساتھ نئے نئے مسائل کا حل تلاش کریں۔ ۷؎ ڈاکٹر منیر احمد مغل اپنے ایک مقالے ’شریعت کا مفہوم‘ میں رقم طراز ہیں : دورِ حاضر میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت ہے۔ تمدن کی ترقی سے جو نئے مسائل امتِ مسلمہ کو درپیش ہیں، وہ انفرادی اجتہاد سے حل نہیں ہو سکتے۔ ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر مسلمان فقہا و مفکرین کی ایک ایسی مجلس کی ضرورت ہے جو پوری امتِ محمدیہ ﷺ کی نمائندہ مجلس ہو اور پورے غوروخوض اور خلوصِ نیت کے ساتھ ان مسائل کا حل پیش کرے اور اپنی اس رائے کو امت کے ردّ و قبول پر چھوڑ دے۔ ایک مدت کے گزرنے کے بعد امتِ اسلامیہ خودبخود یا تو اس کو تسلیم کرے گی یا رد کر دے گی کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کے مطابق پوری امت گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اجتہاد اور اجماع فطری طور پر دونوں ایک سے مربوط ہیں۔ ۸؎ حافظ صلاح الدین یوسف ایڈیٹر الاعتصام لاہور لکھتے ہیں : اجتماعی اجتہاد ہی کے ذریعے سے عصری مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے جس کی صورت یہ ہے کہ عالمِ اسلام کے فاضل علما کی ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اپنے اسلامی کردار اور زہد و ورع میں بھی ممتاز اور اس لحاظ سے مسلم عوام میں قابلِ اعتبار گردانے جاتے ہیں۔ اور وہ قرآنی علوم اور احادیث پر بھی گہری نظر کے ساتھ چاروں مذاہب فقہ کی کتابوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ وہ ہر فقہ کی دو دو اہم اور بنیادی کتابیں رکھیں، مثلاً فقہ حنفی سے المبسوط اور البدائع و الصنائع، فقہ مالکی سے مؤطا امام مالک اور المدونۃ الکبریٰ، فقہ شافعی سے کتاب الام اور شرح مہذب اور فقہ حنبلی سے المغنی لابن قدامہ اور کشاف القناع اور فقہ ظاہری سے المحلی لابن حزم اور فقہ الحدیث سے صحیح بخاری اور دوسری کتبِ صحاح ِستہ۔ ان کتابوں میں مزید کمی و بیشی یا رد و بدل ممکن ہے۔ یہ ایک سرسری خاکہ ہے جس میں مزید رنگ و روغن بھرا جا سکتا ہے۔ ان متبحر علما کی کمیٹی میں جدید علوم و فنون یعنی اقتصادیات، اجتماعیات، قانون و تجارت وغیرہ جملہ علوم عصریہ کے ایسے ماہرین شامل کیے جائیں جو عقیدہ و عمل کے لحاظ سے سچے اور کھرے مسلمان ہوں۔ تعلیمِ جدید نے ان کی ایمانی بنیادوں کو متزلزل نہ کیا ہو بلکہ وہ عصری مسائل کا ادراک و شعور رکھنے کے ساتھ ان کے شرعی حل کا احساس و جذبہ اور دلی تڑپ بھی رکھتے ہوں تاکہ علماے شریعت جدید عصری معاملات اور فنی (ٹیکنیکل) مسائل میں ان کی رائے اور تفصیلات پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھا سکیں اور جدید مسائل کی تہ تک پہنچنے میں علما کو آسانی ہو۔ مذکورہ فقہی کاوشوں سے استفادہ کرتے ہوئے اور علمِ جدید سے بہرہ ور دیانت دار لوگوں کی رائے اور معلومات کو سامنے رکھ کر کھلے دل و دماغ سے اجتہادی مسائل کا حل اس اجتماعی طریقے سے نکالا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عصری مسائل کو شرعی احکام کے ساتھ تطبیق نہ دے سکیں اور ان کا مناسب حل تلاش نہ کر سکیں۔ ۹ ؎ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سرپرست ادارئہ منہاج القرآن سے سوال کیا گیا کہ ’’اسلامی ریاست میں اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کس طرح حاصل ہو گا؟‘‘ آپ اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں : اس سلسلے میں میرے غور و خوض اور فکر و تامل کا نتیجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں اسلامی ریاست کے لیے ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ یعنی اجتہاد الجماعۃ ہی قانون کی حیثیت سے قابلِ قبول ہونا چاہیے کیوں کہ امتِ مسلمہ میں موجودہ گروہی، مسلکی اور طبقاتی تقسیم کے باعث واقعتا ’’اجتہاد الفرد‘‘ یعنی انفرادی اجتہاد آج ریاستی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اجتماعی زندگی میں حالات و مسائل کے تنوعات اور پیچیدگیاں بھی اس امر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس ’’اجتہاد‘‘ کو ’’ریاستی اجماع‘‘ کا درجہ حاصل ہو گا۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے : ۱۔ ہر اسلامی ریاست اپنے اپنے مخصوص حالات و مقتضیات کے مطابق جداگانہ طور پر اجتہاد کی اجماعی صورت اپنائے۔ ۲۔ ہر ریاست ایک ایسا قومی ادارہ تشکیل کرے، جو دو ایوانوں پر مشتمل ہو، ان سے ایک ’’شورائے عام‘‘ اور دوسرا ’’شورائے خاص‘‘ کہلائے۔ ’’شورائے خاص‘‘ صرف اکابر علما و فقہا اور مختلف عصری علوم و فنون اور معاملات کے ماہرین اور محققین و متخصصین پر مشتمل ہو۔ ان میں سے بعض تناسبِ آبادی کے اعتبار سے منتخب کیے جائیں اور بعض معینہ کوٹے کے مطابق نامزد ہوں۔ جبکہ ’’شورائے عام‘‘ پورے ملک سے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو۔ ان نمائندوں کے انتخاب کے لیے کم از کم معیارِ تعلیم اور معیار اخلاق مقرر ہو تاکہ وہ قومی نمائندے اہلِ عدالت اور اہلِ رائے کی شرط پوری کر سکیں۔ یہ دونوں ایوان باہمی مشاورت سے آئین قوانین ریاست کی تشکیل و توضیح کے لیے اجتہاد کریں۔ ان کا یہ ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ بہرصورت: ۱۔ قرآن و سنت کا پابند ہو اور اجماعِ ماسبق کی روشنی میں واقع ہو۔ ۲۔ ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے اکثریتی فقہی مذہب کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق ہو مگر حسبِ ضرورت دوسرے فقہی مذاہب کو بھی جگہ دی جا سکے۔ ۳۔ اگر یہ دو دیوانی مقننہ یا مجلسِ شوریٰ کی ضرورت محسوس کرے تو اہلِ علم و فکر کی کسی اور وقیع مجلس مثلاً Islamic Idealogy Council یا دیگر ماہرین (Technocrate) وغیرہ سے علمی اور فنی مشورہ طلب کر سکے۔ مذکورہ بالا طریقے پر اہلِ علم و فکر کی بھرپور مشاورت کے نتیجے میں جو ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ وجود میں آئے گا اسی کو اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔ یہی مجلسِ شوریٰ اسلامی ریاست کی پارلیمنٹ (parliament) یا نیشنل اسمبلی یا سینٹ وغیرہ کہلائے گی۔ میری تحقیق کے مطابق دورِ خلافتِ راشدہ کے اکثر اجتہادات اسی اجتماع اور شورائی نوعیت کے تھے۔۱۰ ؎ ڈاکٹر حمیداﷲ مرحوم کی تجویز موجودہ دور میں فقہا کی اجتہادی کوششوں کو منظم کرنے اور جدید دور کے مشہور مسائل پر ان کے اختلافات کو کم کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد حمیداﷲ صاحب کی تجویز بڑی اہمیت رکھتی ہے، جسے انھوں نے تفصیل سے پیش کیا۔ یہاں ان کے الفاظ نقل کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہر ملک میں انجمنِ فقہا قائم کی جائے۔ کسی مقام پر اس کا صدر مرکز ہو۔ یہ مرکز پاکستان بھی ہو سکتا ہے اور پاکستان سے باہر بھی۔ حتیٰ کہ ماسکو اور واشنگٹن میں بھی ہو سکتا ہے اس میں کوئی امر مانع نہیں کیوں کہ یہ صرف مسلمانوں کا ایک مخصوص ادارہ ہو گا۔ جہاں بھی مرکز ہو اس کو سوال پیش کیا جائے گا۔ اگر سکریٹریٹ کی رائے میں وہ سوال واقعی اس کا متقاضی ہو۔ مسلمان فقہا عالم رائے دیں تو اس سوال کو اپنی ساری شاخوں کے پاس روانہ کر دے گا، اسلامی ممالک کی شاخوں کو بھی اور غیراسلامی ممالک کی شاخوں کو بھی۔ ہر شاخ کا سکریٹری اپنے ملک کے سارے مسلمان قانون دانوں کے پاس سوال کی نقل روانہ کر کے درخواست کرے گا، تم اپنا مدلل جواب اس کے متعلق روانہ کرو جب اس کے پاس یہ جواب جمع ہو جائیں تو مرکز کو روانہ کرے گا کہ یہ متفقہ جواب ہے۔ اگر اختلافی جواب ہو تو اختلافات کے ساتھ۔ غرض جب ساری شاخوں کے پاس سے جواب آ جائے اور دیکھا جائے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے تو اس امر کا اعلان کیا جا سکتا ہے کہ اس جواب پر سب متفق ہیں لیکن اگر اختلاف ہو تو دلیلوں کا ایک خلاصہ تیار کیا جائے اور دوبارہ اس کو گشت کرایا جائے تاکہ جن لوگوں کی پہلے رائے تھی ان کے سامنے مخالف دلیلیں بھی آئیں اور انھیں غور کرنے کا موقع ملے۔ ممکن ہے وہ اپنی رائے بدل کر اس دوسری رائے پر متفق ہو جائیں جو ان کے مخالفین کی تھی۔ جب اس طرح کافی غور و خوض کے بعد دوبارہ تمام شاخوں سے مرکز کے پاس جواب موصول ہو جائیں تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ کس چیز پر اجماع ہوا ہے اور کس چیز پر اختلافِ رائے ہے۔ نیز یہ کہ اختلافی پہلو پر اکثریت کی رائے کیا ہے؟ ان سب نتائج کو ایک رسالے کی صورت میں شائع کیا جائے جس میں جوابات مع دلائل درج ہوں۔ یہ میرا تصور ہے کہ ہمارے زمانے میں اجماع کا اگر ہم ایک ادارہ بنانا چاہیں تو کس طرح بنائیں اور کس طرح اس سے استفادہ کریں۔ یہ قطعاً ممکن نہیں کہ دنیا بھر کے ماہر فقہاے اسلام کو مستقل طور پر ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ وہ کسی چند روزہ اجتماع میں شرکت کے لیے آ تو سکتے ہیں لیکن ساری عمر ایک مقام پر گزارنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان ملکوں کے لیے جہاں کے باشندے ہیں، فائدہ مند چیز ہو گی کیوں کہ ان کی خدمات سے ان کے ہم وطن محروم ہو جائیں گے۔ اس کے برخلاف اگر اس طرح انجمن بنائی جائے تو وہ اپنی رائے آسانی کے ساتھ دے سکتے ہیں اور اس سے ساری دنیا کے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔ ۱۱ ؎ ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی کی تجویز پر تجویز اس مثالی اجماع (ڈاکٹر حمید اﷲ کے تجویز کردہ) کی تنظیم کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر نئے مسائل کے باب میں علما کی اجتماعی رائے معلوم کرنے اور پھر اسے مشتہر کرنے کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بات اس وجہ سے اور زیادہ توجہ طلب ہے کہ ہر ملک میں سماجی و معاشی زندگی سے متعلق نئے نئے مسائل ابھرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ایک ملک کے یہ مسائل مقامی مخصوص صورتِ حال کی پیداوار ہوتے ہیں جو دوسرے ملک میں نہیں پائے جاتے یا وہاں کے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ عام مسلمان ان کے بارے میں شریعت کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ انفرادی طور پر فقہا یا مفتیانِ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور بعض دفعہ ایک مسئلے پر دو فقیہوں کے فتوے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور لوگ حیص بیص میں مبتلا رہتے ہیں کہ کس پر عمل کریں۔ اس صورتِ حال میں بہتر ہو گا کہ ہر ملک کی راج دھانی یا وہاں کے کسی بڑے شہر میں اجماع کی ادارتی تنظیم قائم کی جائے اور فقہا کا ایک مرکزی بورڈ تشکیل دیا جائے اور تمام صوبوں یا علاقوں کے معروف فقہا کو اس مرکزی بورڈ سے منسلک کیا جائے۔ درپیش مسائل کے بارے میں ان کی اجتماعی رائے معلوم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ خواہ ان کی میٹنگ بلا کر اور باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے یا تحریری صورت میں علاحدہ علاحدہ ان کی رائے حاصل کر کے اور ان کے اختلاف کی صورت میں دوبارہ غور و فکر کے لیے وہی طریقہ اپنایا جائے جس کا ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا تجویز میں ذکر ملتا ہے اور پھر اس مسئلے میں فقہا کے متفقہ فیصلے یا ان کی اکثریت کی رائے نافذ العمل قرار دے کر عام مسلمانوں کو اس سے باخبر کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے فقہی اختلاف بھی کم ہو جائیں گے اور ہر دور میں ابھرنے والے نئے مسائل سے متعلق شریعت کا مؤقف واضح ہوتا رہے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس طور پر اجتماعی غور و فکر کے نتیجے میں جو فتوے یا فیصلے سامنے آئیں گے وہ عوام میں قابلِ قبول ہوں گے۔ اس لیے کہ (جیسا اوپر اشارہ کیا گیا) اجتماعی رائے بہرحال انفرادی رائے کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام کوششوں کی بارآوری اس پر منحصر ہے کہ کسی مسئلے پر غور کرتے وقت علما مسلکی اختلافات، جماعتی تعصبات اور ذاتی رجحانات سے بلند ہو کر اس رائے پر اتفاق کریں، جو قرآن و سنت کے زیادہ قریب نظر آئے۔ ۱۲ ؎ ختمِ رسالت کا اعجاز علومِ جدید سے پیدا ہونے والے نئے مسائل سے انکار یا صرفِ نظر بھی ممکن نہیں ہے اور نہ کسی نبی کی بعثت کا امکان ہے۔ ایسے میں دینِ اسلام کی شانِ کمال کے اظہار اور ضروریاتِ انسانی کی تکمیل کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ پرانے اصول نئے مستند علما کی توجہات کا مرکز بنیں اور اخذ و استنباط کی ان وسعتوں کو کام میں لایا جائے جو ہر غائب و موجود، ہر جدید و قدیم کے خالق، خداوندِ قدوس نے اپنے دینِ متین میں ملحوظ رکھی ہیں کیوں کہ وہ علمِ ازل میں یقینا یہ بات جانتا تھا، اسے اپنی دنیا کو کہاں سے کہاں تک لے جانا ہے۔ اس لیے اگر ہم مسلمان ہیں، اگر ہم تکمیلِ دین پر ایمان رکھتے ہیں اور اگر ختمِ نبوت کا عقیدہ ہماری اساس ہے اور الحمدﷲ ایسا ہی ہے تو ہمیں یقین کرنا ہو گا کہ ہمارے یہی اصول نہ صرف موجودہ ضرورتوں بلکہ قیامت تک پیش آ سکنے والی تمام ضرورتوں کے لیے ایسے ہی کافی ہیں جیسے کہ کبھی تھے کیوں کہ گو نزولِ وحی کا دروازہ بند ہے لیکن اخذ و استنباط کی راہیں کھلی ہیں۔ اب مسلمانوں نے اگر ارشادِ ربانی کے مطابق زندگی کی ضروریات کے لیے قرآنِ کریم اور آنحضور ﷺ کے ارشاد سے استفادہ کے طریقے متعین کیے تو اسے قرآنِ کریم اور ختمِ رسالت کا اعجاز کہنا چاہیے کہ جو قواعد و ضوابط مقرر کیے گئے ہیں وہ دنیا کے کسی انقلاب اور زمانے کے کسی تغیر سے بے کار یا بے اثر نہیں ہوئے اور انھی قدیم پیمانوں سے اس نئی دنیا کی پیمائش بھی بآسانی ممکن ہے اور اس قیاس و استنباط و اجماع میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے جنھیں علومِ جدیدہ کا سیلِ رواں اپنے ساتھ لایا ہے۔ ادیانِ سماوی کا وہ آخری قانون جسے تمام چیزوں کے جاننے والی ذاتِ حکیم نے دنیا میں آ سکنے والے انقلابات و تغیرات کی رعایت اور انسانی ضروریات کا لحاظ کر کے تعلیم فرمایا اس میں اتنی جامعیت ہو کہ وہ ترقی پسند انسان کی ہر دور میں کامل رہنمائی کے لیے کافی ہو۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اسلامی اصول، عام اس سے کہ منصوص ہوں یا مستنبط، انشااﷲ بشرطِ غور و فکر تدبر تمام مسائل کے لیے کافی و وافی ہیں۔ ۱۳ ؎ اجماع بحیثیت ادارہ اجماع اس دور میں تقریباً ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کا ہم معنی ہو گیا ہے اجماع کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دینا اس دور میں بے انتہا ضروری ہو گیا ہے۔ قرآنِ مجید نے جس ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کی اطرف اشارہ کیا ہے اس کی عملی شکل اجماع کا ادارہ ہے۔ اجماع کے اس ادارے میں پوری امت کی نمائندگی ضروری ہے بلاشبہ اس دور میں جدید فقہ کی ضرورت ہے، اسے ’’انفرادی اجتہاد‘‘ کے ذریعے وجود میں لایا نہیں جا سکتا۔ اس کے لیے ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کی ضرورت ہے۔ یہ ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اجماع کو باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی جائے۔۱۴ ؎ قانونِ اجماع چونکہ زمانے کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور انسان کی معاشرتی اور تمدنی زندگی میں تغیر رونما ہوتا رہتا ہے اس لیے نئے پیش آمدہ حالات و مسائل اور ان کے تصفیے کے لیے اسلامی حکومت کے اصحابِ علم و تدبر کی رائے عامہ کا کسی قانونی معاملے میں متحد ہو جانا اجماعِ امت ہے اور اس اتحاد کے بعد اسلامی معاشرے کی پوری رائے عامہ جمع ہو جاتی ہے اور بقول علامہ ابوبکر حصاصؒ خداوندِ عالم نے امتِ مسلمہ کو امتِ وسطیٰ و بہترین امت کا خطاب دیا ہے اور اس کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے حجت قرار دیا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امت کا اجماع فی نفسہٖ حق ہے اور اس امت کا اجماع اصولاً صحیح اور قابلِ عمل ہے۔ کیوں کہ حضور رسالت مآب ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہ ہو گی۔ عہدِ نبوت سے لے کر قیامت تک صالح اور متدین مسلمانوں کی رائے عامہ کا اجماع تقلید ہے۔ البتہ اجماع کے لیے شرط ہے کہ وہ اساسی قانون کے مطابق ہو، مسلمان جس فیصلے پر مجتمع ہوں، وہ قانونِ الٰہی کے منشا کے خلاف نہ ہو۔ اگر فاسق اور بدکار اشخاص مسلمانوں کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنی رائے پر جمع ہو جائیں اور وہ رائے اصولِ دین کے خلاف ہو تو اس کو قانونِ اجماع کا درجہ حاصل نہ ہو گا۔ بقول حضرت علامہ ابوالبقا حنفی امتِ محمدیہ کے اربابِ اجتہاد (راسخ العلم فقہا و مفکرین و مدبرین) کا قانونی حکم پر جمع ہو جانا اجماعِ امت ہے۔ اس کو قانونی طور پر حجت سمجھا جاتا ہے۔ قانونِ اجماع کے جو نظائر تواتر اور تسلسل کے ساتھ رہیں تو ان کو قانون کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ۱۵ ؎ اصل سرچشمہ وحی و نبوت ہے جمہور مسلمانوں کے نزدیک شریعت کے وہ اصول جن سے اخروی نفع و نقصان یا دنیوی احکام ثابت کیے جا سکیں وہ صرف چار ہیں: (۱) قرآنِ حکیم (۲) سنتِ رسول ﷺ یعنی حدیث (۳) اجماع (۴) قیاس ان میں قرآنِ کریم اور سنتِ رسول ﷺ یعنی حدیث کو اصل الاصول کی حیثیت حاصل ہے اور یہی دراصل اجماع اور قیاس کے لیے سرچشمہ اور مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ اجماع بھی کسی ایسی بات پر منعقد ہوتا ہے جو خبر واحد یا قیاس یا کسی اور طریقے پر مفہوم ہو۔ کسی بے بنیاد امر پر اجماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ جو جی میں آئے اس پر اجماع منعقد کر لیا جائے۔ شریعت میں اپنی طرف سے کسی چیز کا عقل اضافہ نہیں کرتی بلکہ وہی بات یعنی نتائج و احکام کا جو روغن وحی و نبوت کے ان معلومات میں چھپا ہوا تھا، عقل کی مشین ان کو ہی اپنی طاقت کی حد تک نچوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی کوشش کا نام اجتہاد ہے۔ چنانچہ شیخ محی الدین ابنِ عربی فتوحاتِ مکیہ میں ایک مقام پر ارقام فرماتے ہیں: یہ جاننا چاہیے کہ نئے سرے سے کسی حکم کا پیدا کرنا اجتہاد نہیں ہے۔ یہ قطعاً غلط ہے۔ شریعت میں جس اجتہاد کا اعتبار ہے وہ قرآن و سنت سے دلیل تلاش کرنے میں جدوجہد کرنا یا اجماع یا زبانِ عربی کے محاورات کی رہنمائی میں کسی خاص مسئلے میں کسی ایسے حکم کو ثابت کرنا ہے جو دلیل سے پیدا ہوتا ہو جس کی تلاش میں تم نے کوشش کی اور اپنے خیال میں اس حکم کا علم اسی دلیل سے تمھیں حاصل ہوا۔ بس اسی کا نام ’’الاجتہاد‘‘ ہے یعنی شریعت میں یہی اجتہاد بہتر ہے۔ پھر آگے شیخ اکبر لکھتے ہیں: کیوں کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا ہے۔ پس ’’الدین‘‘ کسی زیادتی کو قبول نہیں کر سکتا۔ اگر کہا جائے کہ دین میں اضافے کی گنجائش ہے تو دین کے نقص کے ہم معنی ہو گا۔ ۱۶ ؎ دین میں اضافے کی گنجائش نہیں۔ ہمارے لیے وہی معتبر و معیارِ شریعت ہے جو اﷲتعالیٰ نے نبیِ کائنات ﷺ کی وساطت سے ہمیں بھیجی۔ اب رہا ’’اجماع‘‘ یہ قرآن مجید اور حدیث کے بعد شریعتِ اسلامیہ کا ماخذ ہے، لہٰذا اس کا بھی شرعی دلیل بننے کی صلاحیت کا انحصار ان دونوں پر ہے یعنی قرآن و سنت پر ہے۔ اصولیین نے اس کی حسبِ ذیل تعریفات مرقوم کی ہیں: ۱۔ ایک زمانے کے عام فقہاے مجتہدین کے کسی شرعی حکم پر اتفاق کر لینے کو اجماع کہتے ہیں۔ ۲۔ بعض اصولیین نے علمائے امت، اربابِ حل و عقد پر پھر اہلِ رائے و اجتہاد کا نام اجماع رکھا ہے۔ ۳۔ سیف الدین آمدی اور کچھ دوسرے اصولیین کی رائے میں امتِ مسلمہ کے اتفاق کا نام اجماع ہے۔ ۴۔ بعض امورِ شرعیہ میں اجماع کو حجت مانتے ہیں اور امورِ عرفیہ و عقلیہ میں بھی۔ ۵۔ محمد شوکانی کی رائے ہے امورِ شرعیہ کی قید درست نہ ہو گی بلکہ اس کی جگہ کسی بھی ’’امر‘‘ پر اجماع کرنا ہو گا۔ اب ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ امت کے اہلِ علم و فضل سب کے سب کسی امر پر اتفاق رائے کر لیں جس کے لیے ان کے پاس دلیلِ شرعی نہ ہو۔۱۷ ؎ شوریٰ اسلامی حکومت میں شوریٰ یا مجلسِ اہلِ حل و عقد یعنی حکومت کے مدبروں اور مشیروں کا مرکزی ادارہ جس کے ارکان اپنے اعلیٰ کردار اور بلند خدمات کی وجہ سے امت کے اعتماد کا مرکز ہوتے ہیں، اسلامی حکومت کی جان ہے۔ شوریٰ کے فیصلے قانونِ اساسی کو پیشِ نظر زمانہ کے تغیر پذیر حالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ شوریٰ اسلامی حکومتی دنیا کی تمام جمہوری حکومتوں سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ شوریٰ کی قانونی حیثیت شوریٰ کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے۔ نہ صرف امت کے لیے بلکہ رسالت مآبﷺ کو فرمایا گیا، ’’وشاورھم فی الامر‘‘ یعنی حکومتی معاملات میں شوریٰ پر عمل کیجیے اور مسلمانوں کے اجتماعی تعامل کے متعلق باضابطہ طور پر فرمایا گیا، ان کی حکومت کے کام شوریٰ سے انجام پاتے ہیں۔ سورۃ شوریٰ اس پر شاہدِ عادل ہے۔ ۱۸ ؎ تاریخی پس منظر صحابہ کرام کے تعامل میں بھی اجماع کی نظیر موجود ہیں جو اجماع کی حجیت کو ثابت کرتی ہیں، مثلاً چند نظیر حسبِ ذیل ہیں : ۱۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اس امت میں سب سے پہلا کام جو صحابہ کرام نے کیا وہ اجماع ہوا یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر اجماع۔ ۲۔ شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے، اجماعِ صحابہ سے طے ہوئی اور غیرمتبدل قانون بن گئی۔ ۳۔ کاریگر کو اجماعِ صحابہ سے دی ہوئی چیز کا ذمہ دار قرار دیا گیا کہ اگر وہ تلف ہو جائے تو اسے قیمت ادا کرنی ہو گی۔ ۴۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنا اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے۔ ۵۔ مفتوحہ علاقے کی زمین اجماعِ صحابہ ہی سے اوقاف میں شامل کی گئی۔ اسی طرح کی اور مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو کہ اجماعِ صحابہ کی وجہ سے مستقل قانون بن گئے۔۱۹ ؎ حضرت عمرؓ کا خیال مفسرینِ کرام کی تحقیقات سے غور و فکر کی نئی راہیں ضرور سامنے آتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مفسرین کی تفسیر ہے۔ قرآن کا حقیقی مطلب نہیں ہے، جس طرح حالات نے ان کے سامنے نئی راہیں کھولیں اس طرح آئندہ زمانے میں محققین کی نظر دوسرے پہلوئوں پر بھی پڑ سکتی ہے۔ عہدِ صحابہ میں بھی اس کی نظیر مل جاتی ہیں، مثلاً عراق کی فتوحات کے بعد صحابہ کا اصرار تھا کہ ساری مفتوحہ اراضی مالِ غنیمت کے اصول پر فوج کے درمیان تقسیم کر دی جائے لیکن حضرت عمرؓ کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوا تو سلطنت چھوٹی چھوٹی زمینداریوں میں بٹ جائے گی۔ اس کی وجہ سے نہ اجتماعی نظام قائم ہو سکے گا، نہ سلطنت کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام ہو پائے گا لیکن دوسرے صحابہ سابق نظیر کی بنا پر تقسیم پر مصر تھے۔ بالآخر سورئہ حشر کی آیت والذین جاء وامن بعدھم نے تقسیم کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ یہ آیت سب کے سامنے تھی۔ لوگ تلاوت بھی کرتے رہتے تھے مگر اس کا خاص پہلو اس سے پہلے کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا مگر جب اس موقع پر پڑھی گئی تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔۲۰ ؎ اس دلیل سے جہاں اجماع کے تاریخی پس منظر پر نظر پڑتی ہے، وہاں اس امر کی بھی دلیل میسر آتی ہے کہ اجماع قرآن و سنت سے ماخوذ دلیل پر ہوا کرتا ہے۔ اجماع کے ناسخ ہونے کی بحث حنفی اصولِ فقہ کی معروف کتاب کشف الاسرار، شرح اصول بزدوی میں علامہ عبدالعزیز بخاری لکھتے ہیں: ہمارے بعض مشائخ کے نزدیک جن میں عیسیٰ بن ابان شامل ہیں، اجماع، کتاب، سنت اور اجماع کا ناسخ ہو سکتا ہے۔ بعض معتزلہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔ انھوں نے اس روایت سے سند لی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے دو بھائیوں کی موجودگی کی وجہ سے ماں کا حصہ تہائی کی بجائے چھٹا کر دیا تو حضرت ابنِ عباس نے دریافت فرمایا کہ جب قرآن کا حکم ہے کہ کئی بھائی ہوں تو ماں کا حصہ چھٹا ہو گا تو آپ نے ماں کا حصہ کیسے کم کر دیا جبکہ دو بھائی کئی بھائی (بھائی کی جمع) نہیں ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا، ’’اے لڑکے! تیری قوم نے اس کا حصہ کم کر دیا ہے۔‘‘ اس روایت کو اجماع کے ناسخ ہونے کے جواز کی دلیل کہا گیا۔ دوسرے یہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں جو اجماع منعقد ہوا، اس کی رو سے صدقات میں مؤلفین قلوب کا حصہ ختم کر دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ اجماع شرع کے ان دلائل اور حجتوں میں سے ہے جو کتاب اور سنت کی طرح علم کا وجوب بہم پہنچاتی ہیں۔ چنانچہ نصوص کی طرح اس سے بھی نسخ جائز ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اجماع مشہور خبر سے زیادہ قوی ہے جب خبر مشہور سے نسخ جائز ہے جیسا کہ اس کی بنا پر نص کا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو نسخ کی ایک شکل ہے تو اجماع تو اس سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ۲۱ ؎ اوپر کی مثال اجماعِ صحابہ کی ہے، مگر جمہور فقہا کا اس سے اتفاق نہیں اور سارے حنفی فقہا کی بھی یہ رائے نہیں تھی۔ راقم السطور کا مقصد اس روایت کو بیان کرنے کا یہ ہے۔ اجماعِ صحابہ ہوا اور اجماع کی تاریخی حیثیت موجود ہے۔ اس سے کسی مسئلے کے اثبات یا نفی کے مقاصد نہیں ہیں، صرف اجماع کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ قانونِ صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین قانونِ صحابہ مستقل قانون نہیں بلکہ قانونی تفصیلات پر مبنی ہے جس طرح قانونِ سنت کا ماخذ قرآنِ حکیم ہے۔ اسی طرح قانونِ صحابہ کا ماخذ کتاب و سنت دونوں ہیں۔ صحابہ کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ وہ اسلام کے اوّلین زمانۂ قانون میں موجود تھے۔ ان کو خداوندِ تعالیٰ کی طرف سے مستند قرار دیا گیا ہے۔ ان کے دل نورِ نبوت سے مستنیر تھے اور حضورِ اکرم ﷺ نے اپنے اور اپنے صحابہ کے راستے کو ہی راہِ نجات اور صراطِ مستقیم فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲتعالیٰ عنہم قانونِ اسلامی کو بخوبی سمجھتے تھے۔ علمِ صحیح اور عملِ صالح سے بہرہ مند تھے۔ ان میں خلفاے راشدین بھی تھے۔ عہدِ نبوی کے گورنر، سپہ سالارانِ افواجِ اسلامی بھی۔ اسی لیے ہم لوگوں سے زیادہ صحابہ کو قرآنی قانون کی تشریح کا حق حاصل ہے۔ بقول ابنِ قیم: صحابہ اپنے تشخص میں اجتماعی ہیئت کے سردار اور قائد تھے اور صحابہ کے عدل (راست بازی) ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اسی لیے علامہ ابو اسحق شامی غرناطی نے فرمایا، سنت الصحابۃ کسنت الرسول (صحابہ کا قانون، قانونِ سنت کی طرح ہے) کیوں کہ یہ قانونی تفصیلات، تشریحات اور نظائر مہیا کرتا ہے۔ ۲۲ ؎ نوٹ اجماعِ صحابہ اور صحابی کی رائے میں فرق ہے۔ صحابی کی رائے انفرادی حیثیت رکھتی ہے اور اجماعِ صحابہ، صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ ہوتا ہے۔ جہاں تک انفرادی رائے کا تعلق ہے، وہ مختلف صحابہ کی مختلف ہو سکتی ہے اور ہوئی ہے۔ ان راویوں میں امت کو اختیار ہے خواہ وہ کسی بھی رائے کو اختیار کرے، کسی بھی رائے کو چھوڑ دے لیکن اجماعِ صحابہ کو چھوڑا نہیں جا سکتا، کیوں کہ یہ مسلمہ حقیقت بن جاتا ہے۔ ۲۳ ؎ تغیر آیتِ الٰہی ہے چونکہ خداتعالیٰ ہی تمام کائنات اور زندگی کی روحانی بنیاد ہے، اس لیے خدا سے وابستگی درحقیقت انسان کی اپنی بلند ترین خودی سے وابستگی کے مترادف ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے کائنات کی یہ بنیادی حقیقت ازلی ہے جو ہر لمحہ اور ہر آن ایک نئی شان سے ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے یہ ازلی اور ابدی حقیقت مرورِ زمانہ سے مختلف لباسوں میں جلوہ گر ہوتی ہے، چنانچہ وہ مثالی ہیئت اجتماعیہ جو اس بنیادی حقیقت پر تعمیر ہو گی، یقینا اسی طرح پائیداری اور تبدیلی کا مجموعہ ہو گی۔ اس کی اجتماعی زندگی کے روزمرہ کے حالات کو استوار کرنے کے لیے چند پائیدار اساسوں کی ضرورت ہو گی اور اسی سے اس تغیر پذیر ماحول میں اس کو پائیدار ارتقا حاصل ہو سکے گا لیکن اگر یہی اساس اصول تمدنی زندگی کے تغیرات کی رہنمائی نہ کر سکے تو اس کا نتیجہ جمود اور تباہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اسی پائیداری اور تبدیلی کی ہم آہنگی کو ہر زمانے اور ہر دور میں قائم رکھنے کا اصطلاحی نام اجتہاد ہے۔ اوپر کی عبارت کے معنی زیادہ واضح کرتے ہوئے اس کی تشریح اس طرح ہے کہ اسلام بحیثیت ایک ثقافتی تحریک کے کائنات کو جامد اور غیرمتحرک نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک کائنات تغیر اور حرکت سے عبارت ہے لیکن اس کی اساس روحانی اور ابدی ہے اس ابدیت کا زمانی اور تاریخی اظہار تغیر اور تنوع کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام اثبات اور تغیر کا یکساں لحاظ رکھتا ہے۔ وہ ابدی اصولوں کی رہنمائی میں اجتماعی زندگی کو منظم کرتا ہے۔ یہ ابدی اصول تغیر کے منافی نہیں کیوں کہ تغیر قرآن حکیم کے لحاظ سے خدا کی آیات میں سے ایک زبردست آیت ہے اور جب ابدیت کے اصولوں کی تعبیر اس طرح کی جائے کہ تغیر خارج از امکان ہو جائے تو زندگی جامد ہو جاتی ہے۔ اگر یورپ کی ناکامی کی وجہ ابدی اصولوں سے چشم پوشی ہے تو پچھلی صدیوں میں اسلام کا جمود تغیر سے بے اعتنائی کا مرہونِ منت ہے، لہٰذا اجتہاد سے اصولِ اسلام میں حرکت کا اظہار ہوتا ہے۔ ۲۴ ؎ یعنی اجتہاد زندگی کی حرکت و حرارت کا اصول ہے۔ آخری بات ڈاکٹر خالد مسعود اپنی علمی و تحقیقی اور فکری کتاب اقبال کا تصورِ اجتہاد میں عہدِ حاضر کے علما کی اجتماعی رائے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اجماع اور اجتہاد کے بارے میں علامہ اقبال نے ایک طرح سے دو اجتہادات پیش کیے تھے۔ ایک تو اجتہاد کے انفرادی کے بجائے اجتماعی عمل کا تصور، دوسرے قانون ساز اسمبلیوں سے اجماع اور اجتہاد یا اجتماعی اجتہاد کے اداروں کا کام لینے کی تجویز۔ ان میں سے پہلی بات تو علما میں خاصی مقبول ہوئی اور بہت سے علما کے ہاں اس کی تائید ملتی ہے۔ اگرچہ اس میں براہِ راست اقبال کے حوالے سے بات نہیں کی گئی تاہم پاکستان سے مولانا محمد یوسف بنوری اور بھارت میں مولانا تقی امینی نے بہت زور کے ساتھ انفرادی کی بجائے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اس خیال کو حمایت حاصل ہوئی۔ چنانچہ شیخ ابوزہرہ (الاجتہاد فی الفقہ الاسلامی)، مصطفی احمد الزرقا، (الاجتہاد و مجال التشریع فی الاسلام) اور شیخ عبدالقادر المغربی نے (البینات) میں بہت زور دیا۔ البتہ اس اجتماعی اجتہاد کی شکلیں کیا ہوں گی، اس پر علامہ اقبال کے خیال کو قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا۔ اکثر علما نے جن میں شیخ ابوزہرہ اور مصطفی زرقا بھی شامل ہیں، علما کی خصوصی مجالس اور تحقیقاتی اداروں کی تشکیل کی تجاویز دی ہیں لیکن یہ اختیارات قانون ساز اسمبلیوں کو دینے کی تائید علما کی جانب سے ابھی تک نہیں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگرچہ قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اس لحاظ سے علامہ اقبال کی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانا ممکن تھا کہ اسمبلی کو اجماع و اجتہاد کا ادارہ بنا لیا جائے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بجائے پہلے پہل علما کا خصوصی بورڈ قائم ہوا جو قانون ساز اسمبلی کی کارروائی کی نگرانی و رہنمائی کر سکے۔ تحقیقی ادارے مثلاً تحقیقاتِ اسلامی وغیرہ قائم ہوئے۔ علما کی مجالس ’’اسلامی مشاورتی کونسل‘‘ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے آئینی تحفظات کے ساتھ قائم ہوئیں لیکن چونکہ قانون ساز اسمبلی کا باقاعدہ حصہ نہیں تھیں، اس لیے علامہ اقبال کی تجویز عمل میں نہیں لائی جا سکی اور وہ طریقہ جسے وہ سنی ملکوں کے لیے خطرناک سمجھتے تھے، وہ اکثر اسلامی ممالک میں رائج چلا آ رہا ہے۔ ۲۵ ؎ راقم السطور نے یہ مقابلہ ’اجتماعی اجتہاد‘ کے حوالے سے مسلمان مفکرین اور علما کی تحقیقات کی روشنی میں پیش کیا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ اس کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل اجتماعی انداز سے تلاش کرے کہ اجتماعی آرا سے فائدہ لینے پر ملت کے عظیم علما و مفکرین متفق ہیں۔ ٭٭٭ حوالہ جات ۱۔ ڈاکٹر خالد مسعود، اقبال کا تصورِ اجتہاد، مطبوعہ مطبوعاتِ حرمت راول پنڈی ۱۹۸۵ئ، ص ۱۱۲۔ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، کشاف اصطلاحاتِ قانونِ اسلامی، جلد اوّل، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۱ئ، ص۲۶۔ ۲۔ برہان احمد فاروقی، ’سوال و جواب‘، بحوالہ: منہاج، اجتہاد نمبر، مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری ٹرسٹ، لاہور ۱۹۸۳ئ، ص ۲۵۲، ۲۵۳۔ ۳۔ ڈاکٹر محمد اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، اردو ترجمہ، سید نذیر نیازی، بزمِ اقبال، لاہور ۱۹۸۵ئ، ص ۲۲۸۔ ۴۔ ایضاً۔ ص ۲۷۰، ۲۷۱۔ ۵۔ مرزا محمد منور، ’اقبال اور اجتہاد‘، بحوالہ: منہاج، اجتہاد نمبر، لاہور ۱۹۸۳ئ، ص ۴۸۔ ۶۔ شیخ عبدالقادر مغربی، البینات فی الدین و الاجتماع و الادب و التاریخ، جلد اوّل، ص۹۸، بحوالہ ڈاکٹر خالد مسعود، اقبال کا تصورِ اجتہاد، ص ۳۹۔ ۷۔ ابوالعرفان ندوی، ’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید، ضرورت و اہمیت اور لائحۂ عمل‘، بحوالہ: فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور، ص۷۸۔ ۸۔ منہاج، نفاذِ شریعت نمبر، مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری، لاہور ۱۹۹۱ئ، ص ۴۲۲۔ ۹۔ منہاج، اجتہاد نمبر مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری، لاہور ۱۹۹۱ئ، ص ۲۸۵، ۲۸۶۔ ۱۰۔ منہاج، اجتہاد نمبر مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری، لاہور ۱۹۹۱ئ، ص ۳۰۱، ۳۰۲۔ ۱۱۔ فکر و نظر، ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نمبر، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد ۲۰۰۳ء ص ۱۸۹، ۱۹۰۔ ۱۲۔ ایضاً۔ ص ۱۹۰، ۱۹۱۔ ۱۳۔ ریاست علی بجنوری، ’فقہ حنفی میں فہمِ معانی کے اصول‘، بحوالہ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور، ص: ۱۲۸، ۱۲۹۔ ۱۴۔ انور علی سوزا، ’نوراسخ العقیدگی اور فکر اسلامی کی تشکیلِِ جدید‘، بحوالہ: فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو، لاہور، ص: ۲۷۹۔ ۱۵۔ مولوی محبوب علی، تشریح و تفہیم و تشریح مسائل مندرجات کتاب ہدایت المسلمین، مطبوعہ نظامتِ اوقات، مظفرآباد، آزادکشمیر ۱۹۸۰ئ، ص: ۳۱۸۔ ۱۶۔ مناظر احسن گیلانی، مقدمہ تدوینِ فقہ، مکتبہ رشیدیہ، لاہور ۱۹۷۶ئ، ص: ۳۲، ۳۳۔ ۱۷۔ محمد اقبال انصاری، ’اجماعِ شریعت اسلامی کا تیسرا ماخذ‘، بحوالہ: فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور، ص: ۱۵۰۔ ۱۸۔ مولوی محبوب علی، تشریح و تفہیم و تشریح مسائل مندرجات کتاب ہدایت المسلمین، ص: ۳۱۹۔ ۱۹۔ سید عطااﷲحسینی، اسلامی نظام ایک مطالعہ، مطبوعہ گردیزی پبلشر، کراچی ۱۳۹۹ھ، ص:۳۶۰۔ ۲۰۔ عبدالسلام قدوائی، ’اسلامی شریعت اور وقت کے تقاضے‘، بحوالہ: فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ص: ۲۵۹۔ ۲۱۔ بحوالہ: اقبال کا نظریۂ اجتہاد، ڈاکٹر خالد مسعود، ص: ۱۹۲، ۱۹۳۔ تفصیلات کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں۔ ۲۲۔ مولوی محبوب علی، تشریح و تفہیم و تشریح مسائل مندرجاتِ کتاب ہدایت المسلمین، ص: ۲۱۸۔ ۲۳۔ عطااﷲحسینی، اسلامی نظام ایک مطالعہ، ص: ۳۶۱۔ ۲۴۔ بشیر احمد ڈار، ’فکرِ اقبال- مسئلہ اجتہاد‘، بحوالہ: مطالعۂ اقبال، مرتب گوہر نوشاہی، بزمِ اقبال، کلب روڈ لاہور، ۱۹۸۳ئ، ص: ۲۸۵۔ سید وحید الدین، ’اسلامی فکر کی تشکیلِ نو‘، اکابر کی نظر میں، بحوالہ: فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار، لاہور، ص: ۲۶۱۔ ۲۵۔ ڈاکٹر مسعود خالد، اقبال کا تصورِ اجتہاد، ص: ۲۳۴، ۲۳۵۔ ٭٭٭ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات : یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات… یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصّور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن : یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ O صفحاتِ ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اُردو) ص کلیات۔۲۹۶ سطوتِ رفتارِ دریا: ۱۔ سمندر کی رفتار کا دبدبہ، دریا کے تیز بہائو کی فاتحانہ شان۔ ۲۔ مغرب کا غلبہ اور عروج۔ ص کلیات۔ ۲۹۶ موجِ مضطر: ۱۔ بے قرار موج ۲۔ وہ رجحان جس پر قابو نہ پایا جا سکے ۳۔ مغرب کی بے دینی اور مادّہ پرستی جس کے ہولناک نتائج اب خود اسے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ص کلیات۔ ۲۹۶ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیشِ نظر لایخلف المیعاد دار (تو مسلمان ہے، سینے کو امید اور آرزو سے معمور رکھ اﷲ کا یہ فرمان ہمیشہ پیشِ نظر رکھ کہ وہ اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑتا) یہی مضمون بانگِ درا کی آخری غزل کے ایک شعر میں یوں باندھا گیا ہے : اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لایخلف المیعاد رکھ (ص ۲۹۸) ص کلیات۔ ۲۹۶ لایخلف المیعاد: اشارہ ہے متعدد آیاتِ قرآنی کی طرف مثلاً ربنا انک جامع الناس لیوم لاریب فیہ ط ان اﷲ لایخلف المیعادO (آلِ عمران: ۹) (اے ہمارے رب: تو جمع کرنے والا ہے لوگوں کو ایک دن جس میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شک اﷲ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا) حتی یاتی وعد اﷲ ان اﷲ لایخلف المیعاد (الرعد: ۳۱) (جب تک کہ پہنچے وعدہ اﷲ کا، بے شک اﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا) ص کلیات۔ ۲۹۷ تنک تابی: (ستاروں کی) چمک کا ماند پڑ جانا ص کلیات۔ ۲۹۷ دورِ گراں خوابی: گہری نیند کا زمانہ، غفلت کا دور ص کلیات۔ ۲۹۷ عروقِ ُمردئہ مشرق: مشرق کی مردہ رگیں، مشرقی اقوام خصوصاً مسلمانوں کی خوابیدہ قوتیں۔ ]عروق: ’عرق‘ کی جمع، رگیں+ مردہ + مشرق[ ص کلیات۔ ۲۹۷ سینا: ابنِ سینا دیکھیے: ’بو علی سینا‘ ص کلیات۔ ۲۹۷ شکوہِ ترکمانی: ترکوں کا ساجاہ و جلال جس نے اسلام کا یہ مطالبہ پورا کیا کہ مسلمانوں کو طاقت اور حکومت حاصل ہونی چاہیے۔ ص کلیات۔ ۲۹۷ ذہنِ ہندی: ۱۔ اہلِ ہند کا ذہن جو ادراک کی تیزی اور فکر کی بلندی میں تمام قوموں سے آگے تھا۔ خصوصاً مابعدالطبیعی مباحث میں، نہ یونانی ان کی ہم سری کر سکتے ہیں، نہ چینی اور مصری۔ ۲۔ ہندیوں کا سا ذہن جو حقائق تک پہنچ سکتا ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۷ نطقِ اعرابی: عربوں کی سی فصاحت و بلاغت جو اسلام کی تبلیغ کے لیے درکار ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۷ شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی ۱۔ ملتِ اسلامیہ حالتِ عروج و کمال میں صفاتِ باری تعالیٰ کی مظہر ہے۔ اﷲ کی صفات سہ گانہ مراتب رکھتی ہیں۔ ایک جہت سے یہ مراتب ارادہ، علم اور کلام ہیں اور دوسری جہت سے جلال، جمال اور حق… ’شکوہِ ترکمانی‘ ارادے اور جلال کا، ’ذہنِ ہندی‘ علم اور حق کا اور ’نطقِ اعرابی‘ جمال اور کلام کا مظہر ہے۔ ۲۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اسے غالب کیا جائے، سمجھا جائے اور پھیلایا جائے۔ غلبے کے لیے تاتاریوں اور سلجوقوں کا سا شکوہ، فہم کے لیے ہندیوں کا سا ذہن اور تبلیغ کے لیے عربوں کا سا نطق یعنی حسنِ اظہار اور قدرتِ کلام درکار ہے۔ ۳۔ شکوہ، ذہن اور نطق دین کی دنیاوی، حقیقی اور انسانی جہات کے مظاہر ہیں۔ ص کلیات۔ ۲۹۷ نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی دیکھیے: نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی (عرفی) ص کلیات۔ ۲۹۷ تقدیرِ سیمابی: پارے کی خاصیت، پارے کی فطرت ]تقدیر= شے کے مستقل حدود جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی، ذاتی تعیّن+ سیماب+ ی = یابے نسبت کا[ ص کلیات۔ ۲۹۸ وہ چشم پاک بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی ۱۔’’ اقبال کہتے ہیں کہ بے شک مسلمانوں کے پاس لڑائی کا وہ سازو سامان موجود نہیں جو اہلِ یورپ کے پاس ہے، لیکن ان میں جاں باز مجاہدوں کی کمی نہیں اور اس کی تازہ مثال وہ ترک غازی پیش کر چکے تھے جنھوں نے مصطفی کمال کی سالاری میں یورپ کی بڑی بڑی طاقتوں کے سازشی پھندے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ ان کے پاس کون سا سازو سامان تھا؟ وہ اپنی ہمت سے اٹھے اور یونانیوں کو پے در پے شکستیں دے کر اناطولیہ سے نکال دیا۔ حالانکہ انگریز اور فرانسیسی یونانیوں کی پشت پر تھے۔ یونانیوں سے فارغ ہو کر ترک غازی قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی طرف بڑھے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ترک اس سے ہراساں نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس نے ترکوں سے الگ صلح کر لی۔ انگریزوں کے وزیراعظم لائڈ جارج نے جنگ کی ٹھانی، کسی نے بھی اس کا ساتھ نہ دیا۔ اس کی وزارت ٹوٹ گئی۔ نئی وزارت نے ترکوں سے صلح کی گفتگو شروع کر دی۔ لوزان میں عہد نامہ مکمل ہو گیا اور ترکوں کو آزادی مل گئی۔ اس مثال سے روزِ روشن کی طرح آشکارا ہے کہ ہمت، دلیری اور جاں فشانی موجود ہو تو بڑے سازو سامان کے بغیر بھی فتح و نصرت پائوں چومنے لگتی ہے۔‘‘ ]غلام رسول مہر، مطالبِ بانگِ درا، ص ۳۲۵[ ۲۔ اس شعر میں چند لفظی رعایتوں کے ذریعے سے حسنِ معنی میں اضافہ کیا گیا ہے: ۱ ۔ ’پاک‘ کم از کم پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے: سادہ، اسلحے سے بے نیاز، لطیف، روشن، پاکیزہ۔ ۱:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’سادہ‘ اور ’زینت‘ باہم متضاد ہیں۔ ۲:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’اسلحے سے بے نیاز‘ اور ’برگستواں‘ بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ۳:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’غیرمادّی و لطیف‘ اور ’زینتِ برگستواں‘ میں تضاد کی نسبت ہے۔ ۴:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’لطیف‘ کا وجود باطنی ہے جب کہ ’زینتِ برگستواں‘ ظاہر ہے۔ یہ ان کے تضاد کا ایک اور رخ ہے۔ نیز اس معنی میں ’پاک‘، ’جگر تابی‘ سے معنوی مناسبت رکھتا ہے کیوں کہ ’جگر تابی‘ بھی ایک باطنی عمل یا وصف ہے۔ ۵:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’روشن‘ اور ’جگر تابی‘ یعنی ’جگر کو روشن کرنا‘ یا ’دل کا منور ہونا‘ میں جو مناسبت ہے وہ واضح ہے۔ ۶:۱۔ ’پاک‘ بمعنی ’پاکیزہ‘، ’مردِ غازی‘ اور ’جگر تابی‘ میں پاکیزگی مشترک ہے۔ ۷:۱۔ ’پاک‘ اور ’جگر تابی‘ میں ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ ’جگر تابی‘ بھی پاکی کا عمل یا ثمر ہے۔ ۲۔ ’زینتِ برگستواں‘ اور ’مردِ غازی کی جگرتابی‘ میں دہرا تقابل ہے۔ ایک وصف کا، جس کے ذریعے سے یہ دکھایا گیا ہے کہ حقیقی بہادری اور ہتھیار سجا لینے میں بڑا فرق ہے، اور دوسرا موصوف کا، جو یہ بتاتا ہے کہ آدمی چاہے خالی ہاتھ ہی کیوں نہ ہو، آراستہ پیراستہ گھوڑے سے بہرحال افضل ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ چشمِ پاک بین: وہ آنکھ جس کی نظر کثافت کی بجائے لطافت پر ہو، ظاہر سے دھوکا کھائے بغیر باطن کو دیکھنے والی آنکھ، حقیقت پر نگاہ رکھنے والی آنکھ۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ زینتِ برگستواں: ۱۔ پاکھر کی سجاوٹ، لڑائی کے گھوڑے کے جامے کی سج دھج۔ ۲۔ جنگی سازو سامان کی چکاچوند۔ ]زینت= آرائش + برگستواں = گھوڑے کا ساز، پاکھر[ ص کلیات۔ ۲۹۸ جگر تابی: جگر گرم رکھنا یعنی بہادری، فطری شجاعت، سخت محنت جو کسی بڑے جذبے سے کی جائے۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ ضمیرِ لالہ: مراد مسلمان کا دل نیز دیکھیے: ’لالۂ صحرائی‘ ص کلیات۔ ۲۹۸ چمن: مراد ملتِ اسلامیہ، عالمِ اسلام ص کلیات۔ ۲۹۸ سرشکِ چشمِ مسلم: مسلمان کی آنکھ کا آنسو ص کلیات۔ ۲۹۸ نیساں: یعنی ابرِ نیساں جس سے برسنے والی کچھ بوندیں سیپی میں پہنچ کر موتی بن جاتی ہیں، ابرِ بہار ص کلیات۔ ۲۹۸ خلیل اﷲ ؑ کے دریا: مراد امتِ محمدیہ جو ملتِ ابراہیمی ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ شاخِ ہاشمی: رسولِ ہاشمی ﷺ کی لگائی ہوئی ٹہنی یعنی امتِ مسلمہ، ہاشم، آپ ﷺ کے پردادا تھے۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ برگ و بر: برگ و بار، پتے اور پھل، سرسبزی اور ثمرداری ص کلیات۔ ۲۹۸ ربود آں ترکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را (وہ شیرازی ترک تبریز اور کابل کا دل اچک لے گیا) یہ مصرع حافظ شیرازی کے مشہور شعر کی یاد دلاتا ہے: اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را ص کلیات۔ ۲۹۸ ترکِ شیرازی: مراد جدید ترکی کا بانی مصطفی کمال پاشا ص کلیات۔ ۲۹۸ اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا…: اشارہ ہے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی طرف ص کلیات۔ ۲۹۸ جہاں بانی سے ہے دشوارتر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا اس شعر میں کئی نکتے اور رعایتیں ہیں: ۱۔ ’جہاں بینی‘، ’جہاں بانی‘ سے مشکل یعنی افضل ہے کیوں کہ: ۱۔ ’جہاں بانی‘ کا تعلق صورت سے ہے اور ’جہاں بینی‘ کا معنی سے۔ ب۔ ’جہاں بانی‘ کا ’جہان‘ تاریخی ہے اور ’جہاں بینی‘ کا تقدیری۔ ج۔ ’جہاں بانی‘ میں ارادہ، عقل پر اور عمل، علم پر غالب ہے جب کہ ’جہاں بینی‘ میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے اور مراتب کے حقیقی توازن کے مطابق۔ د۔ ’جہاں بانی‘ کا اصول قوت ہے اور ’جہاں بینی‘ کا معرفت۔ ہ۔ ’جہاں بانی‘ دنیا میں رہے بغیر ناممکن ہے جبکہ ’جہاں بینی‘ دنیا سے اوپر اٹھے بغیر محال ہے۔ ۲۔ دونوں کا موضوع ایک ہے اور ان کی آواز بھی ملتی جلتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ’بانی‘ میں الف نے زور، تحکم اور بلندی پیدا کر کے آواز کا رخ باہر کی طرف کر دیا ہے جبکہ ’بینی‘ میں ’ی‘ کی وجہ سے گداز، گونج اور گہرائی پیدا ہو گئی ہے اور آواز سینے کی طرف پلٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ۳۔ ’جہاں بانی‘ کے لیے ’جگر‘ چاہیے اور ’جہاں بینی‘ کے لیے ’چشمِ دل‘۔ چشمِ دل کو بینا کرنے کے لیے جگر خوں کرنا پڑتا ہے یعنی ’جہاں بینی‘ کی خاطر ’جہاں بانی‘ کے جھگڑوں سے دور رہنا پڑتا ہے، اور ظاہر ہے کہ صلاحیت رکھنے کے باوجود ’جہاں بانی‘ کی طرف ملتفت نہ ہونا خود ’جہاں بانی‘ سے زیادہ دشوار ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۸ جہاں بانی: دنیا پر حکمرانی کرنا، دنیا کا نظام چلانا ص کلیات۔ ۲۹۸ جہاں بینی: مطالعۂ کائنات، نظامِ عالم کی حقیقت جاننے کی کوشش ص کلیات۔ ۲۹۹ بلبل: یعنی خود اقبال جو اپنی قوم کو نغمۂ امید سنا رہے ہیں۔ اقبال نے اپنے آپ کو ایک تو شاعر ہونے کی وجہ سے بلبل سے تشبیہ دی ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ بلبل اس عاشق کی علامت ہے جس کا محبوب اس کی آنکھ سے اوجھل نہ ہو اور جس کے اندر امید، یاس پر اور بقاے ذات کا داعیہ، فناے ذات کی خواہش پر غالب ہو۔ ص کلیات۔ ۲۹۹ کبوتر: مراد موجودہ مسلمان جس نے غلامی اور بزدلی کو شعار بنا رکھا ہے ص کلیات۔ ۲۹۹ شاہیں: آزادی، حوصلے اور بہادری کی علامت، مراد مسلمانوں کے اسلاف ص کلیات۔ ۲۹۹ حدیثِ سوز و سازِ زندگی: ۱۔ زندگی کے دکھ سکھ اور عروج و زوال کی حکایت، زندگی جس حرارت و حرکت سے عبارت ہے اس کا ماجرا، حقیقتِ حیات کا بیان ۲۔ سوز و ساز کا تعلق عشق سے ہے اسی لیے ان کا اظہار بلبل کی زبان سے کروایا جا رہا ہے ص کلیات۔ ۲۹۹ خداے لم یزل: خداے قدیم جسے زوال نہیں ص کلیات۔ ۲۹۹ مکاں: دنیا، کائنات، ظرفِ وجود ص کلیات۔ ۲۹۹ مکیں: اہلِ عالم، انسان ص کلیات۔ ۲۹۹ آنی: جس کا وجود بس پل بھر کا ہو، وقتی، لمحاتی، وہ وجود جو زمانے کے تابع ہو ص کلیات۔ ۲۹۹ ازل: ہمیشگی باعتبارِ ماضی، زمانے کا مصدر جو خود زمانی نہیں ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۹ ابد: ہمیشگی باعتبارِ مستقبل، زمانے کا مرجع اور منتہا جو خود زمانی نہیں ہے ص کلیات۔ ۲۹۹ حنا بندِ عروسِ لالہ: ۱۔ گلِ لالہ کو جو گویا دلھن ہے، مہندی لگانے والا ۲۔ جس کے ذریعے اسلام کی محبوبیت اور جمال ظاہر ہو ۳۔ اسلام کے شجر کو اپنے لہو سے سینچنے والا ۴۔ انسانیت کے فطری امکانات کی تکمیل کرنے والا ]حنا بند= مہندی لگانے والا، آراستہ کرنے والا + عروس = دلھن + لالہ= علامت ہے اسلام کی جمالی جہت اور انسان کی فطرتِ اصلی کی[ ص کلیات۔ ۳۰۰ فطرت: وجودِ انسانی کے دو اصول ہیں: خلق اور امر یہاں ’فطرت‘ وجود کی وہ اصل ہے جو امر سے متعلق ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۰ امیں: حامل، امانت دار۔ ص کلیات۔ ۳۰۰ ممکناتِ زندگانی: زندگی کے پوشیدہ امکانات، منتہاے حیات، عروج اور پھیلائو کی وہ تمام ممکنہ صلاحیتیں جو زندگی کو ودیعت کی گئی ہیں ص کلیات۔ ۳۰۰ جوہرِ مضمر: ۱۔ پوشیدہ جوہر، چھپی ہوئی صلاحیتیں، مخفی امکانات ۲۔ کسی چیز کی اصل جس پر اسے پیدا کیا گیا، اور غایت جس کے لیے پیدا کیا گیا۔ ص کلیات۔ ۳۰۰ امتحاں: پرکھ، کسوٹی ص کلیات۔ ۳۰۰ عالمِ جاوید: ہمیشہ رہنے والی دنیا، عالمِ آخرت ص کلیات۔ ۳۰۰ ارمغاں: تحفہ، ہدیہ ص کلیات۔ ۳۰۰ صداقت: ۱۔ سچائی جس سے نفاق کا ازالہ ہوتا ہے۔ دنیا کی محبت سے نجات ملتی ہے، ماسوی اﷲ کا خوف دل سے غائب ہو جاتا ہے اور نفس پر قابو میسر آتا ہے ۲۔ حق کا ظہور انسانی طبیعت میں ص کلیات۔ ۳۰۰ عدالت: عدل و انصاف جو جانب داری، تعصب اور ظلم کی ضد ہے اور جس سے اپنے نفس اور تمام معاملات کو احکامِ الٰہیہ کے تابع رکھنے کی وہ قوت میسر آتی ہے جو اگر نہ ہو تو انسانیت اور کائنات کا نظام ناہموار ہو جائے۔ دنیا میں انسانی وجود کے جواز اور اس کے کردار کی تشکیل کے جو عناصر لازماً درکار ہیں، عدل ان میں سے ایک ہے ۲۔ حق کا ظہور انسانی ارادے میں ص کلیات۔ ۳۰۰ شجاعت: ۱۔ بہادری جو حق سے انحراف کا راستہ طاقت سے بند کرتی ہے اور زندگی کو مقصد کے تابع رکھنے کے لیے کسی سطحی اور وقتی سود و زیاں کی پروا نہیں کرتی ۲۔ روحِ جہاد ۳۔ حق کے لیے جاں نثاری کا جذبہ اور اس کا عملی اظہار ۴۔ اعلاے کلمتہ الحق کے لیے سب سے زیادہ درکار وصف ص کلیات۔ ۳۰۰ دنیا کی امامت: ۱۔ اﷲتعالیٰ نے امتِ محمدیہ ﷺ کو دنیا کی امامت عطا کی ہے، یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے، مثلاً: ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تومنون باﷲ ط…‘‘ (آلِ عمران: ۱۱۰) (]اے امتِ محمدیہ ﷺ[ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور ایمان لاتے ہو اﷲ پر) اقبال نے اس امامت کے جو تین اوصاف بتائے ہیں، وہ بھی اسی آیت سے مستفاد ہیں۔ ’عدالت‘، ایمان باﷲ کے لیے، ’صداقت‘ امربالمعروف کے لیے اور ’شجاعت‘ نہی عن المنکر کے لیے ضروری ہے۔ ۲۔ یہ امامت وہ ہے جو دنیا میں ترقی و خوشحالی اور آخرت میں نجات کی واحد ضامن ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۰ مقصودِ فطرت: ۱۔ تخلیق کا مقصد ۲۔ فطرتِ سلیم کا تقاضا ص کلیات۔ ۳۰۰ میانِ شاخساراں: ۱۔ شاخساروں کے بیچ، درختوں کے جھنڈ میں، ہرے بھرے باغ میں ۲۔ نسل پرستی اور علاقائیت کی جھوٹی جنت میں ۳۔ دنیا کی چمک دمک اور عیش و آرام میں ص کلیات۔ ۳۰۰ شاہینِ قہستانی: ۱۔ قہستان کا شاہین، قہستان، خراساں کا ایک علاقہ ہے جہاں کے شاہین کسی زمانے میں مشہور تھے ۲۔ مسلمان جو ارضیت اور اس کے تمام مظاہر مثلاً نسلی امتیاز، علاقائیت، دنیا پرستی وغیرہ سے بلند ہے ص کلیات۔ ۳۰۱ گماں آبادِ ہستی: ۱۔ دنیا جو گمان کا گھر ہے ۲۔ عالمِ موجودات جسے میر نے ’توہم کا کارخانہ‘، درد نے ’خیال کا چمن‘ اور غالب نے ’حلقۂ دامِ خیال‘ اور ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘ کہا ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ یقیں: ۱۔ ایمان ۲۔ حق کی معرفت سے پیدا ہونے والی مستقل کیفیت جو ذہن کے حوالے سے علم اور قلب کے حوالے سے عین یعنی مشاہدہ کہلاتی ہے ۳۔ معلوم جو حقیقی ہے، علم کا اس کے مطابق ہونا ۴۔ علم جس کی اساس وحی پر ہو۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ قندیلِ رہبانی: ۱۔ راہبوں کا چراغ، کسی زمانے میں عیسائیوں کے تارک الدنیا درویش جو آبادیوں سے دور جنگل بیابان میں سکونت رکھتے تھے، رات کے وقت اپنی کٹیا کے آگے ایک چراغ جلائے رکھتے تھے جس کی روشنی دیکھ کر بھولے بھٹکے، تھکے ماندے مسافر پہنچ جاتے تھے۔ وہاں خوراک اور آرام کا بندوبست ہوتا تھا۔ جو مسافر راستہ بھولے ہوئے ہوتے، ان کی رہنمائی بھی ہو جاتی تھی۔ ۲۔ دنیا و آخرت میں رہنمائی کرنے والی روشنی جو ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو دنیا کی محبت سے آزاد ہو کر اﷲ کی طرف یکسو ہو چکے ہیں یعنی مسلمان۔ ۳۔ نورِ ہدایت ]قندیل= چراغ + رُہبان = زاہد، پارسا، تارک الدنیا درویش۔ بعض لوگ اسے راہب کی جمع بتاتے ہیں۔ ’رہبان‘ کو ’ر‘ پر زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ’رُہبان‘ کے ہیں اور دوسرے معنی ’راستے کی دیکھ بھال کرنے والے‘ کے ہیں جس سے ’رہنما‘ بھی مراد لیا جا سکتا ہے لہٰذا مسلمان کی نسبت سے ’رُہبان‘ کہنا زیادہ مناسب ہے + ی = یا ے نسبت، کا[ ص کلیات۔ ۳۰۱ استبداد: ظلم و ستم، مطلق العنانی ص کلیات۔ ۳۰۱ زورِ حیدرؓ، فقرِ بوذرؓ، صدقِ سلمانی ؓ ۱۔ مثالی مسلمان تین اوصاف کا حامل ہوتا ہے: قوت جس سے کفر کا زور ٹوٹے اور غلبۂ اسلام کی راہ ہموار ہو، فقر جو حب دنیا اور نفس پرستی سے محفوظ رکھتا ہے اور صدق جو معاشرے کی ہیئت اجتماعی کو مثبت بنیادوں پر برقرار رکھتا ہے اور انسان کے نظامِ تعلق کی تمام جہات کو باہم مربوط رکھتا ہے۔ ۲۔ انسان جسم، نفس اور روح کا مجموعہ ہے۔ ’زور‘ جسم کا، ’فقر‘ نفس کا اور ’صدق‘ روح کا کمال ہے۔ یہ گویا لف و نشرِ مرتب ہوا۔ نیز دیکھیے: ’زورِ حیدرؓ ‘، ’فقرِ بوذرؓ ‘، ’صدقِ سلمانی ؓ‘ ص کلیات۔ ۳۰۱ زورِ حیدرؓ: ۱۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی طاقت جس نے کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اسلام کے غلبے کا وہ درازہ کھول دیا جس پر دستک دینا بھی دشوار تھا ۲۔ حیدر، شیر کو کہتے ہیں، یعنی شیرِ خدا کا زور جوہر قوت پر غالب ہے۔ نیز دیکھیے: ’زورِ حیدری‘ ص کلیات۔ ۳۰۱ فقرِ بوذرؓ: حضرتِ ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ کی درویشی جس نے یہ بتا دیا کہ جاہ و مال کی محبت سے چھٹکارا پانا کس قدر ضروری اور کس طرح ممکن ہے، اور فرمانِ رسول اﷲ ﷺ کے مطابق دنیا میں مسافر کی طرح رہنے کی کیا شان ہوتی ہے ص کلیات۔ ۳۰۱ صدقِ سلمانی ؓ: ۱۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی سچائی اور راستی جو رسول اﷲ ﷺ تک رسائی کا سبب اور حصولِ فضائل کا ذریعہ بنی ۲۔ ’صدق‘ کی درجہ بہ درجہ تعریفات: ا۔ سچ، خبر مطابقِ واقعہ ب۔ ظاہر و باطن، حال و قال، قول و فعل اور خلوت و جلوت میں کوئی فرق، کوئی تضاد نہ ہونا ج۔ اعمال میں نقص، احوال میں کھوٹ اور عقیدے میں شک نہ ہونا د۔ ہر نیکی محض اﷲ کی خوشنودی کے لیے کرنا ر۔ ظہورِ حق نیز دیکھیے: ’’صداقت‘‘، ’صدقِ خلیلؑ ‘‘ ص کلیات۔ ۳۰۱ احرارِ ملت: ملت کے مردانِ آزاد یعنی ترک ص کلیات۔ ۳۰۱ تجمل: شان و شکوہ، آن بان ص کلیات۔ ۳۰۱ ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی یعنی زندگی کی بقا کا دارومدار فوجی قوت اور جنگی سازوسامان کی بھرمار پر نہیں بلکہ پختہ ایمان پر ہے۔ اسی لیے جرمن شکست کھا گئے اور ترکوں کو فتح نصیب ہوئی۔ جرمن اپنے لیے لڑے لہٰذا اس قانونِ فنا و زوال کی زد میں آ گئے جو انسان کا مقدر ہے، ترک اﷲ کے لیے لڑے اور اس اصولِ بقا و کمال سے ہم آہنگ ہو گئے جو اﷲ کا عظیم انعام ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ ثباتِ زندگی: ۱۔ زندگی کی بقا ۲۔ زندگی کا تاریخی انقلابات اور زمانی تغیرات سے متاثر نہ ہونا ۳۔ زندگی کی بنیادی اقدار کا ہر صورتِ حال میں برقرار رہنا ص کلیات۔ ۳۰۱ ایمانِ محکم: ۱۔ مضبوط ایمان ۲۔ اﷲ پر اٹل ایمان اور اس کے تمام تقاضوں پر عمل ۳۔ پختہ ایمان اور پکا تو ّکل، اﷲ پر پورا اعتقاد اور اعتماد ۴۔ ’محکم‘ کی تعریف یہ ہے کہ مبہم نہیں ہوتا اور اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی اور تغیر محال ہے۔ ’ایمانِ محکم‘ وہ ہے جس میں لفظ اور معنی دونوں مستقل اور ناقابلِ تغیر ہوں اور اس کے مفہوم میں اختلاف جائز نہ ہو۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ المانی: المانیہ (جرمنی) کا باشندہ، جرمن ص کلیات۔ ۳۰۱ تورانی: ترک ص کلیات۔ ۳۰۱ انگارئہ خاکی: مٹی کا پتلا ]انگارہ= ادھورا نقش، کوئی بھی ناتمام تخلیق+ خاکی[ ص کلیات۔ ۳۰۱ یقیں: ۱۔ ایمانِ محکم ۲۔ علم کا عین بن جانا، شنیدہ کا دیدہ ہو جانا نیز دیکھیے: ’ایمانِ محکم‘، ’ذوقِ یقیں‘ ص کلیات۔ ۳۰۱ بال و پر ِ روح الامیں: ۱۔ حضرت جبریل علیہ السلام کے سے بال و پر ۲۔ دنیاے خاک سے عالمِ پاک تک پرواز کرنے کی استعداد ۳۔ اﷲ تک رسائی کی قوت، منتہاے کمال تک پہنچنے کی صلاحیت ۴۔ یہاں ’روح الامیں‘، ’’انگارئہ خاکی‘ کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ’انگارئہ خاکی‘ استعارہ ہے نقص، پستی، جہل، فنا اور خدا سے دوری کا… جب کہ ’روح الامیں‘ علامت ہے کمال، عروج، علم، بقا اور قربِ الٰہی کی۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ ذوقِ یقیں: ۱۔ حق الیقین: سن کر ماننا علم الیقین ہے، دیکھ کر ماننا عین الیقین ہے اور چھو کر، چکھ کر ماننا حق الیقین ہے ۲۔ ایمان کے سانچے میں ڈھلی ہوئی طبیعت کا بنیادی حال ۳۔ ایمان کا طبیعی اور فطری امر بن جانا ۴۔ ’حق‘ کا محسوس بن جانا ۵۔ اﷲ نے مسلمانوں سے جو وعدے کیے ہیں ان کو بدترین حالات میں بھی اٹل جاننا اور اس یقین کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حال سے سرشار رہنا ۶۔ ’یقین‘ بمعنی ’تجربی توثیق‘ اور ’ایمان بالغیب‘ کی یکجائی سے پیدا ہونے والی نفس کی مستقل کیفیت نیز دیکھیے: ’یقیں‘ ص کلیات۔ ۳۰۲ ولایت، بادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں ۱۔ ایمان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ذاتِ الٰہیہ کا قرب، احکامِ الٰہیہ کی اطاعت اور افعالِ الٰہیہ کی معرفت نہ صرف یہ کہ خود حاصل کی جائے بلکہ ان کے حصول کا راستہ دوسروں کو بھی بتایا جائے۔ ولایت یہ بتاتی ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود، مقصود اور محبوب نہیں۔ ’بادشاہی‘ یہ دکھاتی ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی مالک و حاکم نہیں اور ’علمِ اشیا‘ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی خالق و صانع نہیں۔ ۲۔ قربِ خداوندی، دنیاوی غلبہ اور علمِ کائنات۔ ایمان کا تقاضا بھی ہے اور اس کا پھل بھی۔ ۳۔ اﷲ سے شدید تعلق اور دنیا پر علمی و عملی غلبہ۔ یہ ہے ایمان کا وہ نکتہ جس کی تفسیر صوفی کرتا ہے تو اﷲ کی محبوبیت، بادشاہ کرتا ہے تو اﷲ کی حاکمیت اور سائنس داں کرتا ہے تو اﷲ کی فاعلیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ ولایت: دوستی، اﷲ کا عاشق و مخلص دوست ہونا، قربِ خداوندی، معرفتِ الٰہی جو رسول اﷲ ﷺ کی کامل پیروی کی بدولت میسر آئے۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ علمِ اشیا: کائنات کا علم جس کے ذریعے اﷲتعالیٰ کے فعلِ تخلیق میں کار فرما حکمت کا سراغ ملتا ہے اور کائنات پر انسان کے غلبے کی راہ کھلتی ہے، سائنس۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ علمِ اشیا کی جہانگیری: اشیا کا ایسا علم کہ دنیا کی کوئی شے اس سے باہر نہ ہو، علمِ اشیا جو پوری دنیا کو محیط ہو ص کلیات۔ ۳۰۲ براہیمی نظر: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی نظر جو: ۱۔ حقیقت تک رسائی رکھتی ہے اور جسے شیطان دھوکا نہیں دے سکتا۔ ۲۔ حقائقِ توحید کے مشاہدے میں مشغول ہے اور کثرت کو بھی وحدت ہی کا ظہور سمجھتی ہے اور کسی بھی صورتِ حال میں اپنے رب کی حضوری سے خالی نہیں رہتی۔ ۳۔ اﷲ کی طرف یکسو ہے اور جس چیز کو بھی دیکھتی ہے، اﷲ کی نشانی کے طور پر دیکھتی ہے۔ ۴۔ ہر حال میں اﷲ کی مرضی دیکھتی ہے۔ ۵۔ شرک کی تمام صورتوں کو پہچانتی ہے خواہ وہ توحید ہی کے پردے میں کیوں نہ ہوں۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ تمیزِ بندہ و آقا: غلام اور مالک، حاکم اور محکوم، امیر اور غریب کا امتیاز… اور اس کی بنیاد پر بننے والا پورا نظامِ زندگی۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ فسادِ آدمیت: آدمیت کا بگاڑ، انسانیت کی روح میں پیدا ہونے والی خرابی جس سے انسانیت کی تعریف بدل جائے۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ حذر: خبردار، ڈرو، سنبھل جائو ص کلیات۔ ۳۰۲ چیرہ دستاں: ’چیرہ دست‘ کی جمع، اہلِ اقتدار، زورآور اور بااختیار لوگ ص کلیات۔ ۳۰۲ فطرت: ۱۔ قدرتِ الٰہیہ جو موجودات کی حقیقت کی بھی خالق ہے ۲۔ قدرت جو کائنات کی خالق ہے اور اس کا نظام چلا رہی ہے ص کلیات۔ ۳۰۲ تعزیریں: سزائیں ص کلیات۔ ۳۰۲ حقیقت: وہ امرِ مشترک جس پر تمام موجودات قائم ہیں اور جو ان کے باہمی امتیازات سے متاثر نہیں ہوتا ص کلیات۔ ۳۰۲ چہ باید مرد را طبعِ بلندے، مشربِ نالے دلِ گرمے، نگاہِ پاک بینے، جانِ بیتابے (مرد خدا کو کیا چاہیے؟ بلند طبیعت، پاکیزہ مشرب حرارت بھرا دل، پاک بیں نظر، بے تاب روح!) ص کلیات۔ ۳۰۳ یہ خاکی: یعنی ترک ص کلیات۔ ۳۰۳ عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال و پر نکلے ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے ’’جرمن جن کے جھنڈوں کا نشان عقاب تھا، عقابی شان سے اپنے دشمنوں پر حملہ آور ہوئے تھے لیکن لڑائی ختم ہوئی تو یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ بال و پر ُنچوا بیٹھے تھے۔ دوسری طرف نگاہ ڈالو کہ سرزمینِ شام کے ستارے یعنی ترک، شفق کے لہو میں ڈوب کر پھر ابھر آئے۔ عقابی شان کے ساتھ جھپٹنے والوں سے اشارہ جرمنوں کی طرف ہے جن کی ابتدائی فتوحات نے (پہلی جنگِ یورپ) ساری دنیا پر کپکپی طاری کر دی تھی، لیکن چار سال میں ان کی قوت زائل ہو گئی اور وہ ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ برطانیہ، فرانس اور امریکا نے جو صلح نامہ ان کے سامنے پیش کیا، اسے چپ چاپ قبول کر لیا۔ شام کے ستاروں سے مراد ترک ہیں اور لفظ شام، وقت اور سرزمین دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ترکوں کے پاس ویسی قوت ہرگز نہ تھی جیسی جرمنوں کے پاس تھی۔ ان بے چاروں کا خون بڑی بے دردی سے بہایا گیا۔ انھوں نے بھی ہتھیار ڈالے لیکن اس شرط پر کہ ان کی آزادی بحال رہے گی۔ جب اتحادیوں نے ان آزادی کو مجروح کرنا چاہا تو ترک تلوار سنبھال کر کھڑے ہو گئے اور آزادی کو محفوظ کر چکنے کے بعد ہی اطمینان سے بیٹھے۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص ۳۳۱) ص کلیات۔ ۳۰۳ ہوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے ’’جن کی آبدوزیں سمندر کے نیچے ہر جگہ دوڑتی پھرتی تھیں یعنی جرمن، وہ سمندر ہی میں دفن ہو گئے، یعنی اپنے بچائو کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس کے برعکس ترکوں کو دیکھو کہ وہ ہر جگہ لہروں کے طمانچے کھا رہے تھے اور بظاہر ان کی حالت بہت خستہ نظر آتی تھی، لیکن انھی مصیبتوں کے طوفانوں میں سختیاں سہتے سہتے وہ موتی بن گئے اور آج ان کی آب و تاب سے دنیا کی نگاہوں میں چکاچوند پیدا ہو رہی ہے۔ اس شعر میں بھی جرمنوں اور ترکوں ہی کا مقابلہ کیا ہے۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص ۳۳۱) ص کلیات۔ ۳۰۳ ’’غبارِ رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے‘‘ ’’جس قوم کو سائنس کے علوم میں کمال کا درجہ حاصل تھا (یعنی جرمن قوم)، وہ راستے کا غبار بن کر رہ گئی، لیکن جس قوم کی پیشانیاں خداے پاک کے روبرو سجدہ ریز ہوتی تھیں (یعنی ترک قوم)، وہ اکسیر بنانے والی ثابت ہوئی۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص ۳۳۱) ص کلیات۔ ۳۰۳ کیمیا: ۱۔ کیمسٹری، مراد سائنسی علوم ۲۔ مادّے میں تصّرف کر کے اس کی صورت یا خاصیت یا ماہیت بدلنے کے لیے زمانۂ قدیم میں پانچ علوم ایجاد کیے گئے تھے۔ کیمیا، لیمیا، سیمیا، ریمیا اور ہیمیا۔ کیمیا کا بنیادی تصور یہ تھا کہ دیگر موجودات کی طرح معدنیات میں بھی روح اور نفس کی ایک خاص ترکیب اور امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ امتزاج ناقص ہو تو جوہر بھی ناقص رہ جاتا ہے، تاہم امتزاج کے اس نقص کو دور کر کے گھٹیا جوہر کو اعلیٰ جوہر بنایا جا سکتا ہے، مثلاً قلعی کو چاندی، تانبے کو سونا وغیرہ۔ ۳۔ تمام مخفی علوم کی طرح کیمیا کی بھی دو جہتیں ہیں، ایک مادّی اور دوسری روحانی۔ البتہ اصول دونوں کا ایک ہے: قلبِ ماہیت یا انقلابِ تشخص۔ روحانیت میں کیمیا کا کردار یہ ہے کہ روح اور نفس کو ان کے اصلی امتزاج اور توازن کی طرف لوٹا کر انسان کی ارضیت کو زائل کر کے اس کو سماوی بنایا جائے تاکہ وہ وجود کے روحانی مرکز میں دوبارہ قیام پکڑ لے۔ ۴۔ اکسیر، سونا بنانے کی چٹکی نیز دیکھیے: ’’کیمیا کیا ہے‘‘ ص کلیات۔ ۳۰۳ اکسیر گر: اکسیر بنانے والا ۲۔ جو ایسی دوا بنانا جانتا ہو جس سے مردہ بھی جی اٹھے ۳۔ چیزوں کی ماہیت بدل دینے والا، مثلاً مٹی کو سونا، شکست کو فتح اور غلامی کو آزادی بنا دینے والا۔ ۴۔ اﷲ کے احکام پر عمل کر کے ناقابلِ یقین کارنامے انجام دینے والا ۵۔ اﷲ پر توکل کر کے اسباب کے پورے نظام کو الٹ پلٹ کر دینے والا ۶۔ اپنی حقیقت کا عرفان کر کے اس کی قوت سے کائنات کو مسخر کر لینے والا ۷۔ اﷲتعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کر لینے والا جہاں تقدیر بندے کی مرضی کے تابع ہو جاتی ہے ص کلیات۔ ۳۰۳ ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں، وہ بے خبر نکلے ۱۔ ایک طرف یونانی اور یورپی افواج تھیں جن کے پاس جنگوں میں خبر رسانی کا جدید ترین نظام موجود تھا اور دوسری طرف ترک تھے جو وائرلیس، ٹیلی گراف، ٹیلی فون وغیرہ سے محروم تھے مگر ان کے پاس زندگی کا وہ پیغام تھا جسے ان کے دشمن پکڑ ہی نہ سکے۔ ۲۔ جرمنوں کے پاس باخبر رہنے کا سارا انتظام موجود تھا لیکن انھیں اپنے انجام کی اطلاع نہ ہوئی۔ ترکوں کے پاس کچھ نہیں تھا مگر وہ پیغامِ حیات تھا جو ان ذریعوں کا محتاج نہیں اور جسے وہی دل موصول کر سکتا ہے جو آزادی کے جذبے سے سرشار ہو۔ ص کلیات۔ ۳۰۳ حرم: ۱۔ خانۂ کعبہ ۲۔ اسلام ۳۔ عالمِ عرب ۴۔ حجاز ص کلیات۔ ۳۰۳ پیرِ حرم: یعنی شریفِ مکہ، حسین جس نے اپنے اقتدار کے لیے انگریزوں سے سازباز کر کے ترکوں کے سینے چھلنی کر دیے اور انھیں حجاز سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ص کلیات۔ ۳۰۳ کم نگاہی: اندھا پن، کسی عمل کا انجام نہ سوچنا، عاقبت نااندیشی، خودغرضی ص کلیات۔ ۳۰۳ جوانانِ تتاری: تاتاری جوان یعنی ترک جاں باز ص کلیات۔ ۳۰۳ صاحب نظر: نگاہ والا، فراست رکھنے والا، دوراندیش، عمل کرنے سے پہلے اس کے تمام ممکنہ نتائج پر نظر رکھنے والا۔ ص کلیات۔ ۳۰۳ نوریانِ آسماں پرواز: آسمان پر اڑنے والے فرشتے ص کلیات۔ ۳۰۳ زندہ تر: ۱۔ زیادہ زندہ ۲۔ تاریخ کی فناکاری کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والا ۳۔ زندگی کی عمومی اور معمولی سطح سے بلند ہو جانے والا ۴۔ زندگی کے ہر امتحان سے سرخرو ہو کر نکلنے والا ۵۔ زندگی کو کسی بڑے مقصد کے تحت رکھنے والا ۶۔ موت کے خوف سے آزاد اور زندگی کی حقیقت سے بہرہ ور ص کلیات۔ ۳۰۳ پائندہ تر: ۱۔ زیادہ قائم اور استوار ۲۔ جس کے اصولِ حیات اٹل اور غیرمتغیر ہوں ۳۔ جو تاریخ کے سفاک دھارے کے آگے کھڑا ہو کر بھی اپنی جگہ پر برقرار رہے ۴۔ جو زندگی کی اصل یعنی بقا سے ہم آہنگ ہو جائے ۵۔ جو وقتی زوال سے سمجھوتا نہ کرے اور کھویا ہوا عروج دوبارہ حاصل کر لے ص کلیات۔ ۳۰۴ رازِ کن فکاں: آفرینش کا بھید، تخلیق کا مقصد، کائنات کی حقیقت ص کلیات۔ ۳۰۴ خودی: ۱۔ انسان کا ذاتی تعین جو زمانی ہونے کے باوجود معدومیت سے محفوظ ہے اور متحرک ہونے کے باوجود اس کی حرکت کا رخ ہمیشہ کمال کی طرف رہتا ہے۔ ۲۔ ذاتِ انسانی جس کا حدوث ذاتی ہے نہ کہ زمانی۔ ۳۔ انسانی وجود کا اصولِ امتیاز جو بقاباﷲ اور غیریت پر استوار ہے، فنا فی اﷲ اور عینیت پر نہیں۔ ۴۔ مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی انا جو اﷲ کے رنگ سے رنگین اور رسول اﷲ ﷺ کی محبت و اطاعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ۵۔ وہ امر جو وجود کی طرح بدیہی ہے اور انسان کے انفرادی اور نوعی تشخص کی تمام بنیادیں اسی پر کھڑی ہیں۔ ۶۔ وجودِ مخلوق کی اصل اور غایت جو صرف انسان میں متحقّق اور برسرِ عمل ہے۔ ۷۔ انسان کا وجودی مرکز جس کی تشکیل ایمان بالغیب پر ہوئی ہے۔ ۸۔ انسان کی حقیقتِ جامعہ جو بلند تر حقائق کا اثبات تو کرتی ہے مگر ان میں ضم نہیں ہوتی۔ ۹۔ وہ امرِ ذاتی جس کی بنیاد پر آدمی مقاصدِ تخلیق کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ۱۰۔ ذاتِ انسانی کا نقطۂ کمال جس میں شعور، دینی حقائق سے اور ارادہ، دینی مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔ ۱۱۔ ’میں کون ہوں؟‘، ’میں کیا ہوں؟‘ اور ’میں کس لیے ہوں؟‘ کا حتمی جواب۔ ۱۲۔ نفسِ انسانی جو ’تخلّق باخلاق اﷲ‘ کے مراحل طے کر چکا ہو۔ ۱۳۔ انسان کی حقیقت یعنی اﷲ کی بندگی اور کائنات پر حکمرانی۔ ص کلیات۔ ۳۰۴ خدا کا ترجمان: ۱۔ خلیفۃاﷲ، جس کی مرضی خدا کی مرضی ہو، جس کا قول خدا کا قول ہو، جس کا فعل خدا کا فعل ہو، یعنی مسلمان جو دراصل قرآنِ ناطق ہے۔ ۲۔ اپنی حقیقت کی معرفت رکھنے والا جو اﷲ کے پیغام یعنی قرآن کا امین ہے اور اسے تمام انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہے۔ ۳۔ مسلمان جس کے سوا کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ اﷲ یہ کہتا ہے، اﷲ یہ چاہتا ہے۔ ۴۔ اﷲ کی حاکمیت کا مظہر۔ ص کلیات۔ ۳۰۴ شرمندئہ ساحل: ۱۔ ساحل کے آگے سرنگوںِ، کناروں میں گھرا ہوا ۲۔ جس نے اپنے آپ کو گھٹیا چیزوں تک محدود کر لیا ہو ۳۔ چھوٹی چھوٹی حد بندیوں میں محصور ۴۔ جو زمین کی گرفت سے نہ نکل سکے اور علاقے اور نسل ہی کو اپنی پہچان بنا لے ص کلیات۔ ۳۰۴ غبار آلودئہ رنگ و نسب: رنگ اور نسل کی گرد سے اٹا ہوا ص کلیات۔ ۳۰۴ مرغِ حرم: ۱۔ حرم کا پرندہ یعنی مسلمان ۲۔ قربِ الٰہی کی فضا میں پرواز کرنے والا پرندہ، جو زمین کی کشش سے آزاد ہے ص کلیات۔ ۳۰۴ پرفشاں ہو جا: اپنے پر جھاڑ لے ص کلیات۔ ۳۰۴ سرِّ زندگانی: زندگی کا بھید، بقا کا راز، زمانے کی گردش سے بچنے کا نسخہ ص کلیات۔ ۳۰۴ مصافِ زندگی: زندگی کا میدانِ جنگ جہاں حق اور باطل ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں ص کلیات۔ ۳۰۴ حریر و پرنیاں: ۱۔ ریشم ۲۔ نرم اور مہربان ]حریر= ریشم + و + پرنیاں = ریشم کی ایک قسم جس پر پھول بوٹے بنے ہوتے ہیں[ ص کلیات۔ ۳۰۴ جوے نغمہ خواں: گنگناتی ندی ص کلیات۔ ۳۰۵ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی ’معلوم‘ کی انتہا نہ ہو گی تو علم بھی بے انتہا ہو گا اور ’محبوب‘ لامحدود ہو گا تو محبت کی بھی کوئی حد نہ ہو گی۔ چونکہ مسلمان کا ’معلوم و محبوب‘ اﷲ ہے لہٰذا اس کا علم بھی غیرمحدود ہے اور محبت بھی۔ اس کا علم اپنی ہر جہت سے، خواہ دنیاوی ہو یا اخروی، انفسی ہو یا آفاقی، عقلی ہو یا حسی، طبیعی ہو یا مابعد الطبیعی، اﷲ ہی کی کسی نہ کسی پہچان پر تمام ہوتا ہے اور یہی حال اس کی محبت کا ہے کہ جس طرف بھی لپکتا ہے، اﷲ تک پہنچ جاتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’’علم و محبت‘‘ ص کلیات۔ ۳۰۵ علم و محبت: ۱۔ معرفت اور عشق ۲۔ علم کا تعلق اﷲ کی صفات اور ان کے آثار یعنی کائنات سے ہے اور محبت کا ذات سے۔ ۳۔ علم، صورتِ شے کا حصول ہے اور محبت حقیقتِ شے کا۔ صورت، حقیقت پر دلالت کرتی ہے اور حقیقت اپنی لامحدودیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس دلالت کو قبول کرتی ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر ’معلوم‘ اور ’محبوب‘ ایک ہو جاتے ہیں۔ کانٹ نے علم پر جو دروازہ بند کر دیا تھا، محبت اسے کھول دیتی ہے کیوں کہ محبت وجود کے ان احکام و احوال تک رسائی رکھتی ہے جن کے ادراک و اثبات کی شرائط علم بالحواس سے پوری نہیں ہوتیں۔ ۴۔ حصول جو عقل کے اور وصول جو حواس کے نقص سے پاک ہے۔ ۵۔ اصطلاحِ تصوف میں علم سے مراد حبِّ عقلی ہے اور محبت سے حبِّ عشقی۔ ۶۔ علم، کمالِ حقیقی کا ظہور ہے عقل میں اور محبت، جمالِ حقیقی کا، قلب میں۔ ۷۔ حقیقت کو اپنے اندر سمیٹ لینا، علم ہے اور حقیقت میں خود کھپ جانا، محبت۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ سازِفطرت: ۱۔ فطرت کا ساز ۲۔ وجود کے امکانات ۳۔ کائنات، ’کن‘ کے تحت آنے والا تمام عالم ۴۔ قدرتِ الٰہیہ کے آثار، خواہ مخفی ہوں یا ظاہر ۵۔ اسرارِ تخلیق جن میں سے کچھ کا ظہور ہو گیا اور کچھ پوشیدہ ہیں ۶۔ دائرئہ خلق سے تعلق رکھنے والے مراتبِ ہستی اور ان کے حقائق ص کلیات۔ ۳۰۵ صیدِ زبونِ شہریاری: ملوکیت کا بے دست و پاشکار، بادشاہت کا بے دام غلام ]صید = شکار + زبون = عاجز، حقیر، لاچار، گرا پڑا + شہریاری = ملوکیت[ ص کلیات۔ ۳۰۵ صنّاعی: کاریگری، زیورات وغیرہ پرنگ جڑنے کا کام ص کلیات۔ ۳۰۵ ریزہ کاری: مہین کام، نازک اور باریک کام، چھوٹے چھوٹے نگوں کو مہارت اور دیدہ ریزی سے جوڑنا ص کلیات۔ ۳۰۵ حکمت: فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی ص کلیات۔ ۳۰۵ ہوس: غلبے کی ایسی خواہش جو کسی ضابطے کی پابند نہ ہو، ہوسِ اقتدار، استعمار، دوسروں کو اپنا غلام بنانے کا داعیہ ص کلیات۔ ۳۰۵ پنجۂ خونیں: ۱۔ لہو میں لتھڑا ہوا پنجہ، خون آلود ہاتھ ۲۔ ظلم کا ہاتھ، دستِ قاتل ص کلیات۔ ۳۰۵ تیغِ کار زاری: لڑائی میں کام آنے والی تلوار، جنگ میں مصروف تلوار، جنگی ہتھیار ص کلیات۔ ۳۰۵ تد ّبر: غور و فکر، منصوبہ سازی، کسی کام کا بہترین نتیجہ حاصل کرنے کے لیے دماغ لڑانا ص کلیات۔ ۳۰۵ فسوں کاری: جادوگری، جادو، ناممکن کو ممکن باور کروانا ص کلیات۔ ۳۰۵ تمدّن: تہذیب و معاشرت جس کے اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہوں ص کلیات۔ ۳۰۵ خاکی: مٹی کا بنا ہوا یعنی آدمی ص کلیات۔ ۳۰۵ فطرت: اصل، سرشت، وہ بنیاد جس پر کسی چیز کو پیدا کیا جائے ص کلیات۔ ۳۰۵ نوری: ۱۔ نور کا بنا ہوا، فرشتہ ۲۔ معصوم، گناہوں سے پاک ۳۔ جس کا خمیر خیر سے اٹھایا گیا ہو ص کلیات۔ ۳۰۵ ناری: ۱۔ آگ کا بنا ہوا، شیطان ۲۔ گناہ اور نافرمانی کا مجسمہ ۳۔ شر کا پتلا ص کلیات۔ ۳۰۵ خروش آموزِ بلبل: ۱۔ بلبل کو نالہ و زاری سکھانے والا، بلبل کو عاشقانہ ترانے اور دردِ دل کا اظہار تعلیم کرنے والا ۲۔ عمل کی تحریک پیدا کرنے والا ۳۔ محبت کو عام کرنے والا ص کلیات۔ ۳۰۶ پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی زمیں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے اس شعر میں چند لفظی محاسن کی نشان دہی ضروری ہے : ۱۔ ’ایشیا کے دل‘ سے مراد وسطِ ایشیا ہے جو ترکوں اور تاتاریوں کا اصلی وطن ہے۔ یہ علاقہ محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی ایشیا کا دل ہے اور اہمیت کے لحاظ سے بھی۔ ۲۔ دل، بدن کو خون فراہم کرتا ہے اور وسطِ ایشیا، برِاعظم ایشیا کو۔ خون کے جتنے بھی مثبت معنی ہو سکتے ہیں، وہ سب کے سب ترکوں میں مجسم ہو گئے ہیں۔ زندگی، حرارت، حرکت، جوش، بہادری حتیٰ کہ رنگت بھی۔ ۳۔ ’اطلس قبایانِ تتاری‘ کو ’محبت کی چنگاری‘ کہنا تشبیہ کا کمال ہے اور یہی اس شعر کی جان ہے۔ ترکوں کی دین کے ساتھ جذباتی وابستگی، شجاعت، سرفروشی، گرم جوشی، حریت پسندی، غیرت وغیرہ کا بیان شاید اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ ۴۔ ’محبت کی چنگاری‘ میں ترکوں کا جلال و جمال یکجان ہو گیا ہے اور محبت کے پھیلائو کے لیے معرکہ آرائی کی تصویر کھنچ گئی ہے۔ ۵۔ ’اطلس قبا‘ اور ’چنگاری‘ میں سرخی اور چمک مشترک ہونے کی وجہ سے ظاہری مشابہت بھی ہے۔ ۶۔ ’چنگاری‘ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنے مقصود کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد سرِ دست ابتدائی مراحل میں ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۶ بیا پیدا خریدار ست جانِ ناتوانے را پس از مدت گزار افتاد برما کاروانے را (آجا کہ جانِ ناتواں کا خریدار پیدا ہو گیا ہے بڑی مدت کے بعد قافلے کا ہماری طرف گزر ہوا ہے) دوسرا مصرع ایک لفظ کے فرق کے ساتھ نظیری نیشا پوری کا ہے۔ پورا شعر یوں ہے: بہر جاے کہ می گیرند اخلاص و وفا خوب است پس از عمرے گزار افتا برما کاروانے را ص کلیات۔ ۳۰۶ بیا ساقی نواے مرغِ زار از شاخسار آمد بہار آمد نگار آمد، نگار آمد قرار آمد (ساقی آجا کہ پیڑوں کے جھنڈ سے عشق کے مارے پرندے کا نغمہ بلند ہو رہا ہے۔ بہار آگئی، محبوب آ گیا، محبوب آ گیا دل کو چین آ گیا) ص کلیات۔ ۳۰۶ کشید ابرِ بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا صداے آبشاراں از فرازِ کوہسار آمد (بہار کے بادل نے وادی و صحرا میں خیمہ سا تان رکھا ہے پہاڑوں کی بلندی سے آبشاروں کا شور سنائی دے رہا ہے) ص کلیات۔ ۳۰۶ سرت گردم تو ہم قانونِ پیشیں ساز دہ ساقی کہ خیلِ نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد (ساقی! میں تیرے قربان جائوں، تو بھی وہی پرانا ساز چھیڑ دے کہ گانے والوں کی پوری فوج قطار در قطار چلی آ رہی ہے) ص کلیات۔ ۳۰۶ کنار از زاہداں برگیر و بے باکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخِ کہن بانگِ ہزار آمد (روکھے پھیکے زاہدوں سے کنارہ کر لے اور دھڑلے سے ساغر اٹھا ایک مدت کے بعد اس پرانی شاخ پر سے بلبل کی چہکار کان میں پڑی ہے) ص کلیات۔ ۳۰۶ بہ مشتاقاں حدیثِ خواجہؐٔ بدر و حنین آور تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد (جن کے دل رسول اﷲ ﷺ کی قدم بوسی کے لیے تڑپ رہے ہیں، انھیں بدروحنین کے آقا کی کوئی بات سنا، آپ ﷺ کے پوشیدہ تصّرفات میری آنکھوں پر آشکارا ہیں) ص کلیات۔ ۳۰۷ دگر شاخِ خلیلؑ از خونِ مانم ناک می گردد ببازارِ محبت نقدِما کامل عیار آمد (سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی لگائی ہوئی ٹہنی ہمارے لہو سے سیراب ہو رہی ہے، محبت کے بازار میں ہماری جنس کھری نکلی اور سونا سچا۔) ص کلیات۔ ۳۰۷ سرِ خاکِ شہیدے برگ ہاے لالہ می پاشم کہ خونش بانہالِ ملتِ ماسازگار آمد (میں اس شہید کی تربت پر گلِ لالہ کی پتیاں بکھیر رہا ہوں جس کا خون ہماری ملت کے پودے کو راس آ گیا) ص کلیات۔ ۳۰۷ بیاتاگل بیفشانیم ومے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم (آ کہ سارے میں پھول برسائیں اور شراب پیالے میں انڈیلیں آسمان کی چھت میں شگاف ڈال دیں اور ایک نئی بنیاد رکھ دیں) یہ شعر خواجہ حافظ شیرازی کا ہے مگر دیوانِ حافظ کے مستند نسخوں میں اس طرح نقل ہوا ہے: بیاتا گل برا فشانیم و مے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرحے نو در اندازیم دیکھیے: دیوانِ حافظ، غزلیات، بہ تصحیح و توضیح پرویز ناتل خانلری، شرکت سہامی انتشاراتِ خوارزمی، تہران، باب دوم ۱۳۶۲ھ- ش، ص ۷۵۰۔ ٭٭٭ بالِ جبریل چند تصریحات خرم علی شفیق آخری قسط بالِ جبریل کا وہ حصہ جس میں عنوان دے کر نظمیں شامل کی گئی ہیں، دعا سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دعا اور اس سے اگلی نظمیں ۱۹۳۳ء میں اسپین میں لکھی گئی تھیں۔ پچھلے برس فلسطین کے سفر میں جو عالی شان نعت ’ذوق و شوق‘ کے عنوان سے کہی گئی تھی وہ بعد میں رکھی۔اقبال سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دعا اور نعت کے بیچ میں دوسری نظموں کو (خاص طور پر لینن جیسے دہریے کے قصیدے کو) جگہ دیں گے۔ بات دراصل یہ ہے کہ دعائیہ مضمون اس ایک نظم میں ختم نہیں ہو جاتا جو مسجدِ قرطبہ میں لکھی گئی تھی بلکہ ’ذوق و شوق‘ تک نو نظموں کے سلسلے میں جا کر پورا دعائیہ ختم ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کی تمہید ِ آسمانی بھی ہے : دعا مسجدِ قرطبہ قید خانے میں معتمد کی فریاد عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت اندلس طارق کی دعا لینن فرشتوں کا گیت خدا کا فرمان تشکیلِ جدید والے خطبات میں انھوں نے کہا تھا کہ تاریخ خدا کی تین نشانیوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ ان دعائیہ نظموں میں تاریخ کا ذکر حمد بن جاتا ہے۔ بات اس طرح شروع ہوتی ہے کہ اقبال خدا کے حضور اپنی نوا پیش کر رہے ہیں جس میں ان کے جگر کا لہو شامل ہے: ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو ایک دفعہ پھر ’جاوید نامہ‘ کی کہانی سے استعارے لیے گئے ہیں، مثلاً وہاں خدا کے حضور جاتے ہوئے کہا تھا کہ حوریں بھی روک رہی تھیں اور محلات بھی تھے مگر عاشق سواے محبوب کے دیدار کے کسی اور بات پر راضی نہیں ہوتا اور وہاں تنہا ہی جانا پڑتا ہے کہ عشق کی غیرت محبوب کی موجودگی میں کسی تیسرے کو برداشت نہیں کرتی۔ اب: راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو! ’جاوید نامہ‘ کے آخر میں خدا نے ان پر دنیا کی تقدیر یوں بے حجاب کی تھی کہ انھیں اپنے سیارے کا آسمان لہو کی سرخی میں ڈوبا دکھائی دیا تھا۔ بالِ جبریل کے پہلے حصے میں اپنا سینہ روشن کرنے کی دعا بھی مانگی تھی اور ساقی کی تعریف کی ہے جس نے مئے لا الٰہ الا ھو پلا کر سینہ روشن کر دیا ہے۔ یہاں بھی یہی مضامین دُہرائے ہیں۔ تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اﷲ ھو ’جاوید نامہ‘ میں خدا سے پوچھا تھا کہ آپ لافانی ہیں تو میں کیوں فانی ہوں؟ اس کے جواب میں خدا نے کہا تھا کہ ہماری قوتِ تخلیق میں سے حصہ تلاش کرو، اگر ہماری دنیا پسند نہیں تو اسے اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالو اور ہمارے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھ لو گے تو باقی رہو گے۔ اب دعا کے آخری اشعار دیکھیے: تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سو! فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمنا جسے کہ نہ سکیں روبرو گویا خدا نے اپنی قوتِ تخلیق میں سے اقبال کو صرف فلسفہ و شعر کی نعمت عطا فرما کر سمندر سے پیاسے کو شبنم دی ہے۔ یہاں یہ شکایت بہت دبی زبان میں ہے مگر آگے چل کر مثلاً لینن والی نظم میں اقبال کا جنون فارغ نہیں بیٹھے گا۔ بہرحال اگر فلسفہ و شعر ہی نماز اور وضو ہے تو اب عبادت کی صورت یہ ہے کہ الفاظ میں وہی کام دکھاتے ہیں جو کبھی اندلس کے معماروں نے پتھروں سے لیا تھا۔ انھوں نے مسجدِ قرطبہ بنائی تھی اور اقبال ایک ایسی نظم پیش کر رہے ہیں جس میں شعری اعتبار سے وہی حسن ہے جو تعمیراتی اعتبار سے مسجدِ قرطبہ میں موجود ہے (اور خیال رہے کہ اس نظم میں فلسفہ اور شعر دونوں موجود ہیں)۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ پر بہت لکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح اس مسجد میں ٹھوس پتھر کی سلیں ایک دوسرے پر مضبوطی سے جمائی گئی ہیں اسی طرح نظم کے شروع میں فعل کے بغیر مصرعے بنا کر گویا ٹھوس اسمی تراکیب کو مضبوطی کے ساتھ جما دیا گیا ہے: سلسلۂ روز و شب، نقشِ گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات ان مصرعوں میں سے کسی لفظ کو اِدھر اُدھر سرکانا اگر مسجدِ قرطبہ میں سے کسی پتھر کو کھینچ کر دوسری جگہ لگانے کے برابر مشکل نہیں تب بھی کچھ ایسا آسان نہیں ہے۔ نظم کے بعض مقامات جن کی سیاق و سباق کے ساتھ تشریح عام طور پر نہیں کی گئی ان میں سے ایک مردِ خدا اور مردِ مسلماں کا فرق ہے۔ اقبال کے نزدیک مردِ خدا کوئی بھی ہو سکتا ہے اور بالِ جبریل میں آگے چل کر (مثلاً نپولین کے مزار پر) وہ سکندرِ اعظم، امیر تیمور اور نپولین تک کو مردِ خدا کہ دیں گے۔اسی سکندر کے ہاتھوں بقول اقبال انسانیت کی قبا چاک بھی ہوئی اور تیمور نے جو مظالم ڈھائے وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں تھے۔ اس لحاظ سے ’مسجدِ قرطبہ‘ میں مردِ خدا کے عمل کو عشق پر قائم اور دیرپا اثر والا بتاتے ہیں تو اسے عام اخلاقیات کی رو سے مردِ خدا پر فیصلہ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اس سے ایک ایسا انسان مراد لینا پڑتا ہے جو خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں جاری قوتوں کو اپنے عشق کے زور پر تسخیر کر کے اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ جائے۔ گویا اپنی محدود شخصیت سے ماورا ہو کر لامحدود امکانات کا حامل بن جائے۔ اس کے برعکس مردِ مسلماں سے مراد تاریخی طور پر اسلامی تہذیب سے وابستہ شخصیات ہیں جن کا اثر آج بھی اندلس کی تہذیب پر باقی ہے۔ مندرجہ ذیل شعر میں مذکر اور مؤنث کی بحث عام طور پر شرح لکھنے والوں کے لیے اتنی مشکل ثابت ہوتی ہے کہ وہ اسے یوں ہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں: جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں بظاہر یہاں ’لہو کے طفیل‘ آنا چاہیے مگر یہ کتابت کی غلطی ہرگز نہیں ہے۔ ان کے اپنے ہاتھ میں نظم کے پہلے نسخے میں بھی یہ شعر اسی طرح لکھا گیا۔ بالِ جبریل کے صاف شدہ مسودے میں غلطی سے ’’کے‘‘ لکھ بیٹھے تو اسے باقاعدہ کاٹا اور دوبارہ ’کی‘ بنایا۔ میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ مؤنث کا صیغہ یہاں طفیل کی رعایت سے نہیں بلکہ اندلسی کی رعایت سے آیا ہے کیوں کہ یہاں تمام اندلسیوں کی نہیں بلکہ صرف اندلس کی عورتوں کی بات کر رہے ہیں (چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر دلنشیں ہونا اسپین کے مردوں کی تصویرکشی نہیں ہے)۔ اس کے فوراً بعد تلمیح ہے ایک ایسی حدیث کی طرف جس پر خاص طور پر اہلِ تصوف وجد میں آتے ہیں یعنی اویس قرنی ؓ یمن میں رہتے تھے تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ یمن کی طرف سے خوشبو آتی ہے۔ اقبال اندلس کے بارے میں کہتے ہیں: بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے رنگِ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے یہ بات یاد کر لیجیے کہ اویسِ قرنی ؓ کبھی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے اور عشق کی یہ داستان عاشق اور محبوب کے درمیان جدائی کے درد سے لبریز ہی رہی۔ چنانچہ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ اندلس کے مسلمان عربوں نے جس دل سوزی کے ساتھ ایک تہذیب کی پرورش کی تھی اب جب کہ انھیں اندلس سے نکالا جا چکا ہے تب بھی یہاں خواتین کی مشرقیت میں انھی کی نشانی دکھائی دے جاتی ہے گو اویسؓ مدینے نہ آسکے مگر ان کی خوشبو فضا میں موجود ہو۔ اندلس کی موسیقی کے عربی سر تال آج بھی اس جدائی کا احساس دلاتے ہیں۔ عورت کے ساتھ خوشبو کا ذکر کرنے میں اس حدیث کی طرف لطیف اشارہ جس میں رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں سے تین چیزیں آپ ﷺ کے لیے محبوب بنائی گئی ہے۔ عورت اور خوشبو، اور آپ ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ اقبال نے اس حدیث کے حوالے سے ایک نجی خط میں لکھا بھی تھا کہ عورت کا ذکر نماز اور خوشبو کے ساتھ کرنا کس قدر لطیف استعارہ ہے۔ نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ میں اقبال یہی کر رہے ہیں۔ اب یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ابنِ عربی نے فصوص الحکم میں اسی حدیث کے حوالے سے ’’حکمت فرویہ دربکلمہ محمدیہ‘‘ کے عوان سے ایک ’فص‘ لکھی ہے اور بچپن ہی میں اس کتاب کے درس اقبال کے کانوں میں پڑے تھے (اگرچہ فصوص جیسی کتاب اس سے زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتی تھی مگر فی الحال یہ بات جانے دیجیے)۔ تب اقبال کی سب سے عظیم اردو نظم پر ابنِ عربی کا جو اثر محسوس اور غیرمحسوس سطحوں پر موجود ہے وہ سامنے آجاتا ہے۔ جملۂ معترضہ: کسی زمانے میں، متروک مسودات کا ایک آدھ فقرہ پکڑ کر جس میں ابنِ عربی پر کچھ تنقید کی گئی ہو، سمجھا جاتا تھا کہ اقبال نظریات پختہ ہونے کے بعد ہمیشہ ابنِ عربی کے مخالف ہی رہے۔ اس کے برعکس اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے کہ اب یہ مفروضہ اقبالیات کا نہیں بلکہ pseudo-Iqbaliyat کا حصہ ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ میں دخترِ دہقاں کے گیت کا ذکر بھی ہے جس طرح جاوید نامہ کے شروع میں اقبال کسی دریا کے کنارے رومی کی غزل گا رہے ہیں، اسی طرح اس نظم کے آخر میں بالکل ویسے ہی لینڈاسکیپ میں کسی کسان کی نوجوان لڑکی گیت گا رہی ہے۔ کتنا خوب صورت، متحرک اور مترنم پس منظر ہے جس کے آگے دریاے کبیر کے کنارے کھڑے اقبال دنیا کی تقدیر کے اس منظر کو یاد کر رہے ہیں جو انھوں نے(جاوید نامہ کے مطابق) خدا کے حضور دیکھا تھا اور جسے دیکھ کر بے ہوش ہو گئے تھے۔ یہ آخری بند اس سیاق و سباق میں پڑھیے : وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نو ہے ابھی پردئہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرئہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر ’’معتمد اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا‘‘، وہ اگلی نظم کے نوٹ میں لکھتے ہیں: ’’ہسپانیہ کے ایک حکمراں نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا، معتمّد کی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر ’وزڈم آف دی ایسٹ‘ سیریز میں شائع ہو چکی ہیں۔‘‘ ہسپانیہ کا حکمراں جس نے معتمد کو شکست دی تھی وہ یوسف بن تاشفین تھا جسے اسلامی تاریخ میں ہیرو اور معتمد کو عیاش اور نااہل سمجھا جاتا ہے مگر اقبال نے یہاں یہ تفصیل غیرضروری سمجھی ہے۔ ’قید خانے میں معتمد کی فریاد‘ ’مسجدِ قرطبہ‘ کا اینٹی کلائمکس ہے: اک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا جاتی رہی تاثیر بھی قوموں کے عروج کی طرح ان کا زوال بھی خدا کی نشانیوں میں سے ہے: جو مری تیغِ دودم تھی اب مری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالقِ تقدیر بھی معلوم ہوا اقبال کو طائوس و رباب آخر والوں سے بھی دلچسپی تھی۔ اگلی نظم میں شمشیروسناں کے ساتھ عبدالرحمن اوّل داخل ہوتا ہے تو اتفاق سے وہ بھی جنگ کا طبل نہیں بجوا رہا بلکہ سرزمینِ اندلس میں بوئے ہوئے کھجور کے پہلے درخت کو دیکھ کر دل سوز ہو رہا ہے۔ اگرچہ خطاب کھجور کے درخت سے ہے مگر نظم دعائیہ ہی ہے: غربت کی ہوا میں بارور ہو ساقی ترا نمِ سحر ہو معتمد بعد کا حکمراں ہے جس کے ہاتھ سے حکومت چلی گئی۔ اس کی نظم کا جواب اس سے پہلے کے حکمراں کی زبانی دلوایا ہے جو ملکِ شام کے قریب سے بہت خطرات میں کھیل کر یہاں پہنچا تھا اور حکومت بنائی تھی لہٰذا یہ کہنے کا حق رکھتا تھا: ہے سوزِ دروں سے زندگانی اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبحِ غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے معتمد سینے سے سوز رخصت ہونے کی بات کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کے حکمراں سے یہ جواب دلوایا ہے کہ زندگی دینے والا سوز اپنے آپ ہی میں سے آتا ہے ورنہ مٹی میں چنگاری پیدا نہیں ہوتی (انسانی جسم کے لیے خاک اور زندگی کے لیے چنگاری پُر لطف استعارے ہیں)۔ معتمد کی نظم اور عبدالرحمن کی نظم گویا مدھم اور پنچم ہیں۔ دونوں ہی میں ذاتی کیفیات کا ذکر ہے۔ اگلی دو نظمیں بھی اسی طرح مدھم اور پنچم ہیں مگر اجتماعی زندگی کی کیفیات کے بارے میں ہیں۔ نظم ’ہسپانیہ‘ میں اقبال اندلس سے خطاب کر رہے ہیں (اگرچہ خاک میں سجدوں کے نشاں اور صبح کی ہوا میں خاموش اذانیں دعا کے تاثر کو قائم رکھتی ہیں) جہاں سے مسلمان رخصت ہو چکے ہیں اور اگلی نظم میں ان کے زمانے سے بہت پہلے طارق بن زیاد اندلس کے میدانِ جنگ میں کھڑا خدا سے فتح کی دعا مانگ رہا ہے۔ اقبال گویا اس تہذیب کا آخری رازداں ہے جو ہسپانیہ سے رخصت ہو رہا ہے اور طارق پہلا جواں مرد تھا جو اس تہذیب کو قائم کرنے آیا تھا۔ ظاہر ہے کم از کم اتنا ضرور لازم ہے جو اقبال ہسپانیہ سے پوچھ رہے ہیں: پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟ باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں بہرحال اقبال مسافر ہیں زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں؟ دیکھا بھی دکھایا بھی مگر دل کی تسلی نہ خبر میں ہے نہ نظر میں۔ دل کی تسلی جس میں ہے وہ اس قسم کی دعا ہے جسے مانگنے کی اقبال خود ہمت نہیں کر سکتے، خاص طور پر کسی لائو لشکر کے بغیر۔ چنانچہ اس دعا کو فلیش بیک میں طارق کی زبانی اس منظر کے ساتھ پیش کرتے ہیں جب خیاباں میں لالہ بے لباس ہے تو اسے اپنے خون کی قبا دینے کے لیے تمام عرب صف باندھے کھڑے ہیں جن کی ٹھوکر پر صحرا اور دریا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی ہو جاتے ہیں۔ لالہ، لہو، سوز وغیرہ کے استعارے ہیں جو ان نظموں میں ایک لفظی اشتراک بھی پیدا کرتے ہیں۔ ’طارق کی دعا‘ کے بعد لینن والی نظم ہے۔ یہ بھی دعا ہی ہے اگرچہ اس میں شاعر کے تخیل نے ایک ایسے شخص کی زبان سے دعا منگوائی ہے جسے زندگی میں خدا کے وجود سے انکار تھا۔ جب وہ مرنے کے بعد خدا کے حضور پہنچا ہو گا تو اس کا تجربہ کیا رہا ہو گا؟ اس نظم میں یہی تصور پیش کیا گیا ہے، اسے جاوید نامہ کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں تو پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ رومی نے وہاں اقبال سے کہا تھا کہ اگر خدا کے حضور پہنچ کر بھی باقی رہو تو ہمیشہ باقی رہو گے اور یہ گویا اپنے وجود پر تیسری گواہی طلب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے لینن کا بیڑہ بھی پار ہوتا نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر لینن کی روح کو جاوید نامہ کی کائنات میں رکھیں تو غالباً اس کا مقام عطارد کے فلک پر ہو گا جہاں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا پہلے سے موجود ہیں۔ جس طرح جاوید نامہ کی تمہیدِ آسمانی میں فرشتوں کا گیت موجود ہے اسی طرح بالِ جبریل کی ان نظموں میں جنھیں ہم تمہیدِ آسمانی کہ سکتے ہیں، لینن والی نظم کے فوراً بعد فرشتوں کا گیت آتا ہے اور پھر اس پورے دعائیہ حصے کا اختتام خدا کے جواب پر ہوتا ہے۔ یہ صرف لینن کی شکایت (یا دعا) کا جواب ہی نہیں ہے بلکہ اپنی دعا میں اقبال نے جو شکایت کی تھی کہ انھیں صرف فلسفہ و شعر عطا کیا گیا ہے، اس میں خدا اس کا جواب بھی دیتا ہے اور اسی پر بات ختم ہوتی ہے: تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گری ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو یہ بات دلچسپ ہے کہ اس کے بعد اقبال کے اگلے اردو مجموعے کا عنوان ضربِ کلیم ہے جو ایک طرح سے اس شعر کی تعبیر بنتا ہے۔ دعائیہ حصہ ختم ہونے پر نعتیہ حصہ ’ذوق و شوق‘ سے شروع ہوتا ہے۔ صراحت موجود ہے کہ ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ فلسطین کا سفر اسپین کے سفر سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا مگر کتاب کی ترتیب میں یہ نظم اسپین والی نظموں کے بعد رکھی گئی اور اس بات سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بالِ جبریل میں نظموں کی ترتیب کسی موضوعاتی اہتمام کے تابع ہے مسجدِ قرطبہ ایک شام پر ختم ہوئی تھی اور ’ذوق و شوق‘ ایک صبح سے شروع ہوتی ہے۔ شاعر کسی صحرا میں پچھلی رات ہونے والے بارش کے آثار دیکھ رہا ہے۔ سامنے وہ پہاڑ ہے جس کے دوسری طرف مدینہ کا راستہ صاف دکھائی دے گا اور آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر ان قافلوں کا پتا دے رہی ہے جو پہلے اس مقام سے گزر چکے ہیں۔ شاعر آگے جانا چاہتا ہے مگر: آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی صدائے جبرئیل کا استعارہ معنی خیز ہے۔ اس سے مراد شاعر کا وجدان اور اس کے دل کی آواز بھی ہو سکتی ہے مگر ایسی آواز جسے کم سے کم فطرت کی ازلی سچائیوں سے پیوستہ ہونے کے ناتے خدا سے تعلق ضرور ہو۔ اہلِ فراق جاوید نامہ کی اصطلاح میں وہ روحیں ہیں جنھیں جنت راس نہیں آتی بلکہ ان کی اندرونی خلش انھیں دائمی حرکت پر اکساتی رہتی ہے۔ اقبال کی کاسمالوجی میں ایسی روحیں مشتری کے فلک پر پائی جاتی ہیں۔ حلاج، غالب اور قرۃالعین طاہرہ کو وہ انھی میں شمار کرتے ہیں مگر خواجۂ اہلِ فراق یعنی اہلِ فراق کا سردار ابلیس ہے۔ بالِ جبریل کے پہلے حصے کی سولھویں نظم میں اقبال نے اپنے لیے چاند کے غاروں میں نظربند ہونا پسند کیا تھا جو وشوامتر کے مسلک سے بہت قریب تھا۔ یہاں وہ کسی اور مسلک کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حلاج کا مسلک ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات کہنہ ہے بزمِ کائنات، تازہ ہیں میرے واردات کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات اس بند کو جاوید نامہ میں اہلِ فراق سے گفتگو کی روشنی میں پڑھنا چاہیے جہاں حلاج اپنے اس جرم کا ذکر کرتے ہیں کہ انھیں ایک قوم دکھائی دی جس کے افراد خدا پر یقین رکھتے تھے مگر اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اہلِ حرم کے یہی سومنات ہیں جنھیں اقبالِ سجدہ نہیں کرنا چاہتے مگر کوئی نہیں جو تقدیر پرستی کے توہمات سے قوم کو نجات دلائے۔ ذکرِ عرب کا سوز عربی مشاہدات سے خالی ہے جس نے کبھی استقرائی طریقۂ کار کی بنیاد رکھ کر سائنس کو نئی زندگی دی تھی اور فکرِ عجم کے ساز میں وہ عجمی تخیلات نہیں رہے جن سے رومی کے شعر کا لالہ زار کھلا تھا۔ سیاست کا حال یہ ہے کہ یزیدیت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے مگر قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عشق کی کمیابی: عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدئہ تصورات صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ اقبال نے عشق کی جامع تفسیر اسرارِ خودی میں پیش کی تھی اور وہیں مسلمانوں کے حوالے سے عشق کو عشقِ رسول سے لازم و ملزوم کر دیا تھا۔ چنانچہ عشق کی شان میں یہ پورا بند عشقِ رسول کی تمہید ہے جیسا کہ ابھی معلوم ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک مذہب کی اساس اس کے فکری نظام پر نہیں رکھی گئی بلکہ پیغمبر کو خدا کی تجلیات کا جو ذاتی تجربہ ہوتا ہے وہ اس کی بنیاد ہے۔ قوم کی زندگی کی تجدید بھی انھی استعاروں کی تجدید سے ہوتی ہے۔ یہی عشق ہے اور اگر یہ نہ ہو تو شرع ودیں صرف تصورات کا صنم کدہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آقائے بدر و حنین کہ صدقِ خلیلؑ گویا آپ ﷺ کی بعثت کی تمہید اور صبرِ حسینؓ اس کا فیضِ بازگشت تھا۔ اب تیسرے بند سے گفتگو براہِ راست ان کے بارے میں شروع ہوتی ہے۔ پہلا ہی مصرع ایسا ہے جس کی تشریح کے لیے اقبال کو اس نعت کے بعد اور کئی نظموں کی ضرورت پیش آئے گی۔ رسولِ اکرم ﷺ کی ذات کائنات کی آیت کا وہ معنی ہے جو بہت دیر میں سامنے آئے: آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تُو! یہ کائنات خدا کی آیات یعنی نشانیوں میں سے ہے۔ قدرت کے قوانین بھی اسی کی مرضی کے آئینہ دار ہیں اور تاریخ کے عمل سے بھی خدا کی مشیت ظاہر ہوتی ہے۔ وقت کو برا نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ خدا کہتا ہے کہ میں ہی وقت ہوں چنانچہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اقبال اسے خدا کی نشانی قرار دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس نشانی کا کیا مطلب سمجھا جائے؟ اگر دنیا میں ظلم ہے تو کیا ظالموں کو خدا کی حمایت حاصل ہے؟ اگر دنیا میں غریب اور امیر کے حال میں فرق ہے تو کیا خدا یہی چاہتا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو دنیا کو خدا کی نشانی قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں اور اقبال کے خیال میں ان کا بہترین جواب رسولِ اکرم ﷺ کی ذات میں موجود ہے جس کی ایک جھلک آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہے مگر افسوس کہ اب اس شریعت کے زندہ حقائق کو سمجھنے والے صرف اقبال ہی رہ گئے ہیں، باقی سب فروعی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں: جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ مے کدہ کم طلب و تہی کدُو میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہووں کی جستجو کھوئے ہووں کی جستجو سے کیا مراد ہے؟ کیا اقبال یہ کہ رہے ہیں کہ ان کا کلام ماضی پرستی کا آئینہ دار ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ ’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘ رومی کی مشہور غزل کے ایک ٹکڑے ’یافت می نشود آنم آرزوست‘ کا آزاد ترجمہ ہے۔ جب اقبال خود اس غزل کو اپنے فارسی کلام میں کم سے کم دو جگہ بڑی آب و تاب اور باقاعدہ حوالوں کے ساتھ نقل کر چکے ہوں بلکہ اپنی دو کتابوں کی تمہید بنایا ہو تو یقینا وہ اپنے پڑھنے والوں سے امید کر سکتے ہیں کہ وہ اس حوالے کو پہچانیں گے اور ان کے شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے رومی کی پوری غزل کو سامنے رکھیں گے: بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست یک دست جام بادہ و یکدست زلفِ یار رقصِ چنیں بصحنِ گلستانم آرزوست دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دَد ملولم و انسانم آرزوست زین ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایمِ ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست اب دیکھیے کہ’کس سے کہوں‘ والا بند یعنی نظم کا دوسرا بند خاص طور پر ’زین ہمرہانِ سست عناصر‘ والے شعر کا اکسایا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جہاں تک کھوئے ہووں کی جستجو کی بات ہے تو رومی کی غزل کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں ماضی پرستی کا استعارہ نہیں بلکہ ایک تخیل کی تلاش اور پرورش کرنے کا ذوق جھلکتا ہے۔ اس بند کاٹیپ کا شعر اقبال کا اپنا ہے اور ایسا پسندیدہ کہ پوری فارسی غزل زبورِ عجم کے بعد دوبارہ جاوید نامہ میں استعمال کی، پھر اس کے مطلعے کا ترجمہ ’گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر‘ کی صورت میں کیا اور شاید اس پر بھی دل نہیں بھرا ہو گا کہ اب اصل فارسی مطلع ٹیپ کے شعر کے طور پر دوبارہ لے آئے ہیں۔ اقبال نے شاید اپنے کسی اور شعر کی اپنے کلام میں اس طرح تکرار نہیں کی ہے: فرصتِ کشمکش مدہ ایں دلِ بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را اب ایک بہت ہی نازک بات یہ آجاتی ہے کہ زبورِ عجم اور بالِ جبریل دونوں جگہ یہ شعر بلکہ پوری غزل خدا کو مخاطب کر کے کہی ہے۔ جاوید نامہ میں یہ غزل گناہ گار عورت توبہ کرنے کے بعد مہاتمابدھ سے مخاطب ہو کر پڑھتی ہے اور بدھ مت کے مطابق وہ ایک طرح سے مہاتما بدھ کو اگر الوہیت کا درجہ نہیں دیتی تو یہ مقام ضرور دیتی ہے کہ ان کا دھیان کرنے سے روح اپنی اصل تک پہنچ سکتی ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال نے عبدہ کی بحث میں جو نکات پیش کیے ہیں انھیں سامنے رکھیے تو اسی شعر کو حمد سے نکال کر نعت میں رکھ دینے کی شاعرانہ رمز بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اگلا پورا بند آیۂ کائنات والے مصرعے کی تشریح ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت نے ہمیں زندگی کے کون کون سے رموز سکھائے ہیں؟ یہاں ان کی صرف فہرست ترتیب پا رہی ہے اور آگے چل کر ہر موضوع پر کم سے کم ایک نظم آپ کو ضرور ملے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کی رفعت و منزلت کا ادب کرنے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت زندگی کے اسرار کو ان کے اندر سے منکشف کرتی ہے۔ یہ زندگی کا داخلی تجربہ ہے۔ فلسفیانہ طریقِ کار جو زندگی کو خارجی طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس پیغمبرانہ افہام کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کر سکتا۔ اس بات کو اقبال نے یہاں اس لازوال شعر میں ادا کیا ہے کہ لوحِ محفوظ جس پر قرآن لکھا گیا وہ بھی رسول ﷺ ہی کی ذات ہے، جس قلم نے اسے لکھا وہ بھی آپ ﷺ ہی ہیں اور وہ قرآن جو لکھا گیا، وہ بھی آپ ﷺ ہی ہیں: لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے وجود میں حباب! دوسرے مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ وہ سمندر ہیں جو اتنا وسیع ہو کہ یہ پورا آسمان اس پر الٹا رکھا ہوا ایک بلبلہ دکھائی دے۔ نعتیہ ادب اتنا وسیع ہے کہ اس میں کسی ایک شعر کا دوسرے شعر سے موازنہ کرنا مشکل بھی ہے اور خلافِ ادب بھی مگر یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ یہ شعر اقبال کے نعتیہ تخیل کا ایسا انوکھا کارنامہ ہے کہ اس کے معنی کھلنے پر کچھ دیر کے لیے ذہن محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ بہرحال یہ تو زندگی کو سمجھنے کے لیے اس داخلی طریقِ کار کی نشاندہی تھی جو نبوت کا امتیاز ہے۔ اب نبوت کے فیض کی چند مثالیں: ۱۔ تہذیبوں کا عروج جیسے ذرّۂ ریگ کو فروغِ آفتاب مل جائے۔ ۲۔ جہاں بانی اور امورِ مملکت کی تدوین گویا شوکتِ سنجر و سلیم آپ ﷺ کے جلال کی نمود تھی۔ ۳۔ تزکیۂ نفس گویا فقرِ جنید و بایزید آپ ﷺ کا جمالِ بے نقاب ہے۔ ۴۔ روح کو دنیاوی سطح سے بلند کر کے خدا تک پہنچانا گویا آپ کا شوق نماز نہ پڑھوا رہا ہو تو یہ بات قیام سے میسر آ سکتی ہے نہ سجدوں سے۔ ۵۔ انسان کی تمام صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی جس کی وجہ سے زندگی کو اس کی کلیت میں سمجھا جا سکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کی نگاہِ ناز سے خارجی طور پر بڑی تسلی کے ساتھ زندگی کا تجزیہ کرنے والی عقل بھی مراد پا گئی اور داخلی طور پر تڑپ تڑپ کر مشاہدہ کرنے والا عشق بھی مراد پا گیا۔ آئندہ کئی نظموں میں ان مقامات کی تشریح آئے گی مگر نظم کا اختتام ایک ذاتی واردات پر ہوتا ہے یعنی ’مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رطب۔‘ رومی کی طرح ہر ایک کو کبھی نہ کبھی اپنی کتابیں کسی تالاب میں پھنکوانی پڑتی ہیں تاکہ بانسری کی آواز کا مطلب سمجھ میں آ سکے۔ ہجر کا بیان نظم کے شروع میں بھی تھا اور آخر میں بھی ہے۔ اگلی نظم ’پروانہ اور جگنو‘ اسی سے پیوستہ ہے۔ اس کے بعد چند مختصر نظمیں ہمیں ایک بہت بڑی نظم کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ’جاوید کے نام‘، ’گدائی‘، ’ملا اور بہشت‘، ’دین و سیاست‘ اور ’الارض ﷲ‘ ایک تسلسل کے ساتھ اس خیال کا اثبات کرتی ہیں کہ روح اور مادّہ ایک ہی حقیقت ہیں اور اس اندازِ نگاہ کا سب سے گہرا اثر دنیاوی معاملات پر یہ ہونا چاہیے کہ انسان دنیا کو قیصر کی جاگیر سمجھ کر اپنا حق چھوڑ نہ دے۔ حقیقی فقر ترکِ دنیا نہیں ہے بلکہ استبداد کا مقابلہ کرنے کا نام ہے۔ طاغوتی قوتوں کے انعام و اکرام سے بے نیاز ہو کر گنبدِ مینائی اور عالمِ تنہائی میں یہ راز سمجھنے کا نام ہے کہ ہم شاخ سے کیوں ٹوٹے ہیں؟ ’ایک نوجوان کے نام‘، ’نصیحت اور لالۂ صحرا‘ میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے اور اس کے بعد وہ طویل نظم جو اردو زبان میں ان تمام افکار کا خلاصہ ہے جنھیں اقبال فارسی مثنویوں میں تفصیل سے پیش کر چکے تھے۔ یہ طویل نظم ’ساقی نامہ‘ ہے جو خودی، زندگی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک مثالی روش کے نقوش شاعرانہ اختصار کے پیش کرتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ بائیس تئیس برس پہلے جب اقبال نے اپنی طویل مثنوی لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا تو پہلے اردو ہی میں طبع آزمائی کی تھی مگر پھر فارسی کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ’ساقی نامہ‘ کو اسی پرانی کوشش کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ اسرارِ و رموز اور جاوید نامہ سے اس کا موازنہ کریں تو یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اردو میں فلسفیانہ خیالات اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیے جا سکتے تھے جس تفصیل کے ساتھ وہ ان کتابوں میں بیان ہوئے۔ اس طویل نظم کو ان تینوں مثنویوں کے ساتھ ملا کر ہی پڑھنا چاہیے۔ اقبال کا خودی کا فلسفہ وقت کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسرارِ خودی کے آخر میں بھی امام شافعی کے ایک قول کی تفسیر میں وقت پر باب لکھا تھا۔ یہاں بھی ’زمانہ‘ کے عنوان سے ایک نظم موجود ہے۔ انسان اپنی خودی کی تعمیر اور اثرِ آہِ رسازمان و مکاں کی قید میں آ کر ہی بہتر کر سکتا ہے جیسا کہ اس کے بعد کی دو نظموں میں وضاحت کی ہے۔ ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ اور رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘۔ یہ تینوں نظمیں پیامِ مشرق کی نظموں ’نوائے وقت‘ اور ’تسخیرِ فطرت‘ سے ماخوذ دکھائی دیتی ہیں اگرچہ شعری اسلوب میں مختلف ہیں اور آخری دو نظمیں پیامِ مشرق کی ’تسخیرِ فطرت‘ سے زیادہ دلچسپ ہیں۔ اگلی طویل نظم کو منقبت سمجھنا چاہیے جس میں اقبال اپنے پیر و مرشد رومی سے مکالمے کی صورت میں عہدِ جدید کے مسائل کو رومی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مشرق میں رواج رہا ہے کہ شعرا دوسرے بڑے شاعروں کے کلام میں سے اپنی پسند کے اشعار اکٹھے کر کے رکھتے تھے اور اسے کشکول کہتے تھے۔ رسالہ مخزن، جس میں اقبال کی نظمیں شروع شروع میں شائع ہوتی تھیں، ’کشکول ‘کے عنوان سے ایسا انتخاب باقاعدہ شائع بھی کیا کرتا تھا۔ نظم ’پیر و مرید‘ ایک طرح سے اقبال کا ’کشکول‘ ہے جس میں رومی کے پسندیدہ اشعار کو بہت سلیقے سے سجایا گیا ہے اور دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنے سوال شامل کر دیے ہیں۔ رومی کے ذکر پر اقبال عام طور پر آسمانی فضا میں پہنچ جاتے ہیں اور بالِ جبریل میں بھی پیرومرید کے فوراً بعد جو نظمیں ہیں وہ مابعد الطبیعیاتی فضا قائم کرتی ہیں۔ ’جبریل و ابلیس‘، ’اذان‘، ’محبت‘، ’ستارے کا پیغام‘، ’جاوید کے نام‘، ’فلسفہ و مذہب‘، ’یورپ سے ایک خط‘ اور ’جواب‘ بہت واضح طور پر جاوید نامہ کی باقیات ہیں جنھیں شاعر کے ذہن نے اردو میں منتقل کر دیا ہے۔ آج مغرب میں رومی جس طرح مقبول ہو رہا ہے اس کی روشنی میں نظم ’یورپ سے ایک خط‘ زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہے: ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحرِ پُرآشوب و پُراسرار ہے رومی تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی اس نظم کو اقبال کے اس قسم کے اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھیں جیسے ’علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا‘ وغیرہ، تو محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں رومی کی مقبولیت کی پیشین گوئی اقبال پہلے سے کر گئے تھے۔ ’یورپ سے ایک خط‘ کے جواب میں رومی سے کہلوایا ہے کہ جو بھی گھاس کھائے گا وہ آخر چھری کے نیچے آئے گا اور جو نورِ حق سے اپنی پرورش کرے گا، وہ خدا کی نشانی بن جائے گا۔ اس لحاظ سے اگلی چند نظمیں یورپ کے ماحول میں ایک پُرجوش مسافر کے تجسس کی علامت ہیں۔ وہاں اقبال کو نپولین کا مزار اور مسولینی ماضی اور مستقبل کے استعارے دکھائی دیتے ہیں (ان کا موازنہ اسپین والی نظموں سے کیا جا سکتا ہے)۔ اقبال نے دل کھول کر مسولینی کی تعریف کی ہے۔ اس نظم کے حوالے سے اقبال کی گرفت کرنا اقبال کے ناقدین اور بالخصوص ان ناقدین کا محبوب مشغلہ ہے جنھیں کبھی فرصت سے اقبال کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بحث کا آغاز اقبال کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا مگر بعض دوسرے شاعروں، مثلاً ٹیگور کے برخلاف اقبال نے کبھی اپنی نظموں کی سیاسی درستگی کے لیے دور از کار دلائل لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ’بندئہ خدا! اگر اس آدمی میں ولی اور شیطان دونوں کی صفات جمع ہو گئی ہوں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘ اقبال کا اپنی مسولینی والی نظم کے بارے میں سیدھا سادہ بیان تھا۔ چونکہ انھوں نے اپنی اگلی کتاب میں مسولینی کی ہوسِ ملک گیری کی مذمت بھی کی اور حبشہ پر حملے کے حوالے سے اسے یورپ کے کرگسوں میں بھی شمار کیا، لہٰذا ہم یہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں مسولینی کے اچھے یا برے ہونے پر اصرار نہیں ہے بلکہ اٹلی کی ایک مختصر سیاحت میں اقبال نے جو کچھ محسوس کیا اسے ایک کرشمہ ساز رہنما سے منسوب کر کے بیان کر دیا۔ انسانی تاریخ کے شروع سے لے کر اقبال کی وفات کے کچھ عرصے بعد تک یہ عام خیال رہا ہے کہ قوموں کی پرورش کسی سحر انگیز شخصیت کی رہنمائی کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے اور اس زمانے کے اچھے اور برے بہت سے مفکروں کی طرح اقبال بھی اسی خیال کے حامی تھے۔ اگرچہ ان کے یہاں پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کی توانائیوں کے ایک خودی کی طرح یکجا ہونے کا تصور بھی فلسفۂ بے خودی کی شکل میں نمودار ہو رہا تھا۔ نظم ’مسولینی‘ کو اسی تناظر میں دیکھیں اور یاد رکھیں کہ یہ نظم دوسری جنگِ عظیم سے پہلے لکھی گئی تو اسے ایک نظم کی حیثیت میں سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مشرق کی سیاسیات کے حوالے سے کچھ نظمیں ایک سوال کے ساتھ شروع ہوتی ہیں کہ اے خدا کیا فرشتے آپ کی اجازت سے کم ظرف لوگوں کو اقتدار عطا کرتے ہیں؟ نظم ’پنجاب کے دہقان سے‘ اس سوال کی وضاحت ہے۔ مشرق میں مزاحمت کی روح اگلی نظموں ’نادرشاہ افغان‘، ’خوشحال خاں کی وصیت‘ اور ’تاتاری کا خواب‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ نظم ’تاتاری کا خواب‘ پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تیمور کی روح سے یہ کیونکر کہلوایا گیا کہ ترکوں کا ترکوں سے دور ہونا ٹھیک نہیں۔ اگر تیمور کو ترک سمجھا جائے تو پھر اس نے ترکی کے عثمانی سلطان کی آبرو جس طرح خاک میں ملائی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے بہت معروضیت پسند مؤرّخ کا قلم بھی ایک بار کانپ ضرور جاتا ہے، مگر یہ اعتراض مؤرّخ پر ہو سکتا ہے شاعر پر نہیں ہو سکتا۔ نظم میں تیمور کے پیغام کو ایک تاتاری کے خواب میں بیان کیا گیا ہے اور خواب میں کچھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگلی نظمیں خودداری اور سخت کوشی کی سلسلہ وار تلقین ہیں: ’حال و مقام‘، ’ابوالعلامعری، سنیما‘، ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘، ’سیاست‘، ’فقر‘، ’خودی‘، ’جدائی‘، ’خانقاہ‘، ’ابلیس کی عرض داشت‘،’ لہو‘ اور ’پرواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں اس زمانے کے شمالی ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر کچھ تبصرے پیش کیے گئے ہیں۔ ان نظموں کو آپس میں مربوط کر کے پڑھنے سے معاصر زندگی کی یہ تصویر کافی مکمل اور رنگین ہو جاتی ہے۔ آخری چند نظمیں مربوط کر کے پڑھنے سے خاص طور پر اقبال کی مشہور نظم ’شاہیں‘ کے معانی میں کافی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ ’شیخِ مکتب سے‘، ’فلسفی‘ اور ’شاہیں کو ترتیب میں رکھیے تو پہلے قاآنیؔ کے حوالے سے کہا کہ روح کی عمارت بناتے ہوئے سورج کے سامنے دیوار مت کھینچ دینا ورنہ صحن میں روشنی نہیں آئے گی۔ فلسفی کے ساتھ غالباً یہی ہوا کہ سوچ تو بہت دور تک پہنچی مگر جسارت اور غیرت کی کمی کی وجہ سے وہ محبت کے راز سے بے خبر رہا یعنی زندگی کا براہِ راست تجربہ نہ کر سکا۔ اس کی مثال ایسے گدھ سے دیتے ہیں جو فضا میں شاہیں کی طرح پرواز کرے مگر تازہ شکار کی لذت سے بے نصیب رہے۔ اب دیکھیے کہ اگلی نظم ’شاہیں‘ ہے تو پھر کیوں نہ شاہیں کو لغوی معنی میں سمجھنے کی بجائے اس شخص کا استعارہ سمجھا جائے جو زندگی کے حقائق کی دریافت کے لیے فلسفے اور ظن و تخمین سے آگے بڑھ کر اپنی واردات پر بھروسا کرتا ہے؟ بالِ جبریل کے سیاق و سباق میں شاہیں صرف میدانِ عمل میں بہادری، دلیری اور سپاہیانہ شجاعت کا سبق نہیں ہے بلکہ یہ میدانِ فکر و تحقیق میں بھی دوسروں کی رائے (شکارِ مردہ) پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی جسارت اور غیرت سے سرِ محبت دریافت کرنے کی دعوت ہے۔ اس لحاظ سے نظم کے تمام استعارے علم و تحقیق کی دنیا پر چسپاں کیے جائیں تو بہت دلچسپ صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، غوروفکر اور تحصیلِ علم کے معانی میں بھی لیا جا سکتا ہے جس کا اصل مقصد لہو گرم رکھنا یعنی اپنے ذہن اور حواس کو تازہ رکھنا ہے نہ کہ حمام و کبوتر یعنی ایسی کتابی بحثیں جن سے آپ کا مقام کسی خاص حلقے میں بہت بلند ہو سکتا ہے مگر زندگی کی روح سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خیابانیوں سے مراد یہی حلقے ہیں جن سے پرہیز لازم ہے۔ پورب، پچھم وہی مشرق اور مشرق کی تفریق ہے جو اچھلے بھلے انسان کو کسی ایک جانب جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر سچائی بے کراں آسماں کی طرح ہے جس پر آپ اسی وقت پہنچ سکتے ہیں جب آپ کی روح گروہ بندیوں سے آزاد ہو جائے۔ گویا یہ وہی درویشِ خدامست کے شرقی یا غربی نہ ہونے کی بات ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سچا سالک کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہر سکتا بلکہ راہِ تحقیق میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے : پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ اس کے بعد کی چند چھوٹی چھوٹی نظمیں کچھ فکری بحثیں ہیں۔ بالِ جبریل کا یہ حصہ شعری لحاظ سے بھی اور منطقی اعتبار سے بھی قاری کو اس سطح پر لے جاتا ہے جہاں وہ اگلے مجموعۂ کلام کے لیے تیار ہو جاتا ہے, ضربِ کلیم یعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف۔ ٭٭٭ ارسطو پر اقبال کی تنقید ڈاکٹر وحید عشرت اقبال نے ارسطو۱ ؎ کے مابعد الطبیعیاتی افکار کو اپنے خطبات ۲ ؎ میں متعدد مقامات پر تنقید کا ہدف بنایا ہے، بالخصوص کائنات کے سکونی نظریے کو انھوں نے قبول نہیں کیا۔ ارسطو کے برعکس اقبال کائنات کے حرکی نظریے کے قائل تھے۔ ارسطو نے خدا کو بھی غیرمتحرک محرک (Unmoved Movelr) کہا ہے، جب کہ اقبال خدا کو ایک خلاق اور حی و قیوم ذات تصور کرتے ہیں جس کی شان ہے، کل یوم ہو فی الشان۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال نے پورے سقراطی مکتبۂ فکر کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ تاریخِ اسلام میں یونانی فلسفہ ایک زبردست ثقافتی قوت رہا ہے ۳ ؎ اور یونان کے فلسفے نے مسلمانوں کے اندر فکر میں بڑی وسعت پیدا کر دی تھی۴ ؎ اقبال نے یونانی فلسفے پر یہ شدید اعتراض وارد کیا کہ اس نے قرآن کے بارے میں مجموعی طور پر مسلم مفکرین کی سوچ کو متاثر کرتے ہوئے دھندلا دیا۔۵ ؎ اقبال نے سقراط کے بارے میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ: سقراط نے انسانی دنیا پر ہی اپنی توجہ مرتکز رکھی۔ اس کے نزدیک ان کے مطالعے کا موضوع خود انسان ہے۔ یہ کرئہ ارض، حشرات زمین اور ستارے وغیرہ اس کے مطالعے کا موضوع نہیں ہیں۔ بظاہر قرآن کی تعلیم کے کس قدر منافی ہے۔۶ ؎ اقبال نے سقراط کے فلسفے کے خلاف دلیل دیتے ہوئے کہا کہ قرآن شہد کی مکھی کی وحی کی بات کرتا ہے اور اپنے قاری کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ہوائوں کے تغیر و تبدل، دن اور رات کی گردش، بادلوں کی آمدورفت اور تاروں بھرے آسمان کا مطالعہ کرے اور ان سیاروں کا جو فضائے بسیط میں تیر رہے ہیں۔ اقبال نے سقراط کے ساتھ ساتھ اس کے شاگرد افلاطون پر بھی تنقید کی کہ وہ بھی ’’حسی ادراک کو بہ نظرِ تحقیر دیکھا کرتا تھا جو اس کے خیال میں حقیقی علم کے بجائے محض ایک رائے کی بنیاد ہو سکتا ہے۔‘‘۷ ؎ اس پر اقبال نے قرآن سے دلیل لاتے ہوئے کہا کہ ’’قرآن اس نقطۂ نظر کو کس طرح پسند کر سکتا ہے جو سماعت اور بصارت کو خدا کے قابلِ قدر دو تحفے قرار دیتا ہے۔‘‘۸ ؎ انھی کی بنیاد پر اقبال مسلم مفکرین پر تنقید کرتے ہیں کہ اسلام کے دورِ اوّل میں قرآن کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے وہ چوک گئے اور ان نکات کو نظرانداز کر بیٹھے۹ ؎ اور انھوں نے قرآن کا مطالعہ یونانی فلسفے کی روشنی میں کیا اور کوئی دو سو سال کے عرصے میں انھیں کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ قرآن کی روح یونانی کلاسیکی فکر سے لازمی طور پر مختلف ہے۔۱۰ ؎ بلاشبہ افلاطون۱۱ ؎ اور ارسطو کے حوالے سے یونانیت پر اقبال کی تنقید کا ایک جواز ہے کہ ان کے افکار کی گہری چھاپ نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مبہوت بنائے رکھا اور قرآن کی تعلیم پر اپنی فکریات کی بنیادیں اٹھانے کے بجائے یونانی فلسفے کو اصولِ اوّلیہ تصور کرتے ہوئے قرآن کی تاویل و تعبیر ان کے مطابق کی اور فلاطونس اور دوسرے مسیحی متکلمین کی پیروی میں یونانی فلسفے سے قرآن کی تطبیق کر کے مسلم علمِ کلام کی اساس رکھی جس نے اموی اور عباسی ملوکیت کے دور میں برپا ہونے والے اعتقادی اور عمرانی جدال میں انھیں قرآن کی روح کو ملوکیت کے مفادات کے سانچے میں ڈھالنے میں معاونت کی۔ تاہم سقراط۱۲ ؎ کے معاملے میں اقبال کی تنقید زیادہ اہمیت اس لیے نہیں رکھتی کیوں کہ خود قرآن کا اور ان کے خطبات اور شاعری کا موضوع عالم طبیعی نہیں بلکہ انسان ہے۔ قرآن میں عالمِ طبیعی کے جس احوال و مقامات کے مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان سے بھی ان علائق و عوالم کی تفہیم ہی مقصود ہے جو خدا اور انسان کے مابین معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ سقراط پر تنقید میں اقبال کی نظر یونان کے فلسفے کے دورِ نمو کے آیونیا کے فلاسفہ ۱۳ ؎ اور ایلیائی مفکرین۱۴ ؎ پر نہیں گئی جس میں طالس ملطی، انکس منطور، انکس مینز، فیثاغورث، زینوفینیس، پارسنی نڈیس اور زینو نمایاں تھے اور ہرا قلیطس، ایمپودکلیس اور انکساغورس جن کے ہم رکاب تھے۔ ان تمام فلاسفہ نے کائنات، مادّہ، کائنات کے عناصرِ اربعہ، جوہریت یعنی عالمِ حواس کی ہی بات کی تھی۔ کائنات کی ابتدا اور ساخت اور اس میں جاری و ساری قوانین ان کا موضوع تھے۔ کائنات کی اہم ترین حقیقت انسان اور اس کے مسائل پر گفتگو کو وہ تضیع اوقات اور غیرفلسفیانہ مسئلہ تصور کرتے تھے۔ ان کی اسی حد سے بڑھی ہوئی طبیعیاتی اور مادّی فلسفیانہ اپروچ کے خلاف سوفسطائیوں نے اکتاہٹ کا اظہار کیا اور ایک عظیم سو فسطائی پروٹاگورس کو دوسری انتہا پر جا کر یہ کہنا پڑا کہ: ’’آدمی ہر شے کا پیمانہ ہے۔ جو اشیا ہیں ان کا پیمانہ کہ وہ ہیں یا نہیں ہیں کا پیمانہ کہ وہ نہیں ہیں انسان ہے۔‘‘ ۱۵ ؎ Man is the measure of the things, of those that are that they are, of those that are not, that they are not .؎ 16 سوفسطائیوں کی بحث کو چھوڑتے ہوئے ہم اتنا عرض کریں گے کہ ہماری محولہ بالا معروضات کے بعد اقبال پر سقراط کا اعتراض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے کہ سقراط نے حد سے بڑھی ہوئی کائنات اور حواس پرستی کے بالمقابل انسان پر توجہ مرکوز کر کے فلسفے کو ایک نیا اور اہم موضوع دیا جو کائنات کا سب سے بنیادی مظہر تھا پھر اگر سقراط کے شاگرد افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کو دیکھا جائے تو انھوں نے توازن قائم کرتے ہوئے عالمِ مادّی یعنی حواس کی دنیا اور انسان دونوں کے مسائل کو پہلے فلسفے کا موضوع بنایا۔ یوں فلسفے میں سقراط کا اجتہاد پیغمبرانہ بصیرت کا حامل تھا۔ سقراط نے جب یہ کہا کہ علم نیکی ہے تو اس نے اسی اخلاقی فضیلت کی بات کی جو خود قرآن اور اقبال کے فلسفے کا بنیادی جوہر ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جس کی اہمیت اقبال واضح کرنے سے قاصر رہے بلکہ الٹا سقراط کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ حواس کے مطالعے کے پُرجوش مبلغ اقبال نے ارسطو کے مطالعۂ حواس سے یہ نتیجہ نہ نکالا کہ یہ بھی سقراط ہی کے اثرات تھے کہ ارسطو نے دنیاے حواس کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا اور نفسیات، نباتات اور طبیعیات کی دنیا میں حیرت انگیز نتائج چھوڑے۔ افلاطون پر اقبال نے اپنے خطبات میں بات نہیں کی، اس پر جتنی بھی تنقید کی وہ صرف شاعری بلکہ فارسی شاعری میں ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی میں اقبال افلاطون کے بارے میں بعض نظریات پر تنقید کرتے ہیں: راہب اوّل فلاطون حکیم از گروہِ گوسفندانِ قدیم گوسفندے در لباسِ آدم است حکم او برجانِ صوفی محکم است بسکہ از ذوقِ عمل محروم بود جانِ او وارفتۂ معدوم بود منکر ہنگامۂ موجود گشت خالقِ اعیان نامشہود گشت کارِ او تحلیلِ اجزاے حیات قطع شاخِ سرو رعناے حیات۱۷؎ افلاطون کو اقبال نے راہب کہا اور اس کے فلسفے کی رہبانیت کو مسترد کر دیا۔ اسے پرانی بھیڑوں میں سے ایک بھیڑ کہا جو گری پڑی چیزوں پر گزارا کرتی ہے جن کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی اور وہ تگ و تازِ حیات سے الگ تھلگ محض ذبح ہونے میں ہی اپنی عافیت تصور کرتی ہے۔ اقبال نے کہا کہ افلاطون خود آدمی کے لباس میں ایک بھیڑ ہے جس کے کوئی عزائم نہیں۔ صوفیہ نے اس کے تصورات کی پیروی میں عملی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی اور یوں وہ فکرِ افلاطون کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ وہ ذوقِ عمل سے محروم تھا اور فنا کی تعلیم دیتا تھا۔ اس کے فلسفۂ اعیان (امثال) سے کائنات کے حرکی نظریے اور اس کے ارتقا کے تصور کو زک پہنچی۔۱۸ ؎ نظریۂ امثال میں چونکہ یہ دنیا سایہ ہے جو اپنی اصل یعنی تصورِ مطلق کی طرف اپنی تکمیل کے لیے بڑھتی ہے، لہٰذا وہ ایک محدود دائرے میں گھری رہتی ہے۔ اس میں افزائش، حرکت اور تغیرِ فطرت کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا۔ یوں اقبال افلاطون کے تصورِ حرکت کی تجدید کو عیاں کرتا ہے۔ امثال یا اعیان چونکہ کسی برتر ہستی (عین یا مثل) کا پرتو ہیں جو پہلے ہی مطلق اور جامع ہے اور یہ عین خدا کی ذات ہے۔ لہٰذا وہ بے حرکت ہے۔ اس سے ارسطو نے خدا کے غیر متحرک ہونے کا تصور اخذ کیا۔ افلاطون کائنات کو خدا کا ظل اور سایہ قرار دیتا ہے۔ خدا ساری کائنات میں حلول ہے۔ افلاطون کے اسی تصور سے فلسفۂ وحدت الوجود نے جنم لیا جو ابنِ عربی کے توسط سے تمام مسلم فکر، تصوف اور شاعری میں در آیا اور صوفیہ نے ترکِ دنیا کی تعلیم دینے اور دنیا کو مردہ دلہن اور مردود سمجھنے اور جدوجہد اور تگ و تازِ حیات کو شغل بے کار قرار دیا جس نے مسلمانوں کو زوال کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ یقینا اسلام نے دنیا کی۔ زندگی پر آخرت کی زندگی کو فوقیت دی ہے مگر اسلام میں ترکِ دنیا اور رہبانیت کی تعلیم نہیں۔ اسلام میں اس رہبانیت کو اموی اور عباسی ملوکیت نے جنم دیا۔ ۱۹ ؎ اقبال نے جب مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا تو انھوں نے ملوکیت اور اس کے زیرِ اثر تشکیل پانے والے فقہ، تصوف اور کلام کو بتانِ عجم کہا۔ یونان کے اس فلسفی کے نظریۂ عیان کو جس کے تحت کائنات ساکن اور غیرمتحرک تھی اور یہ ذات عین کا پرتو تھی اور اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے فلسفے وحدت الوجود کو بھی مسترد کر کے خدا اور انسان میں معبود اور عبد کا رشتہ بیان کیا جو کبھی ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوتے۔ یہ اقبال کا بقاے خودی کا نظریہ اور مومن کا سب سے بلند ترین مقام عبدیت قرار پایا جب کہ وحدت الوجود میں انسان کا وجود اپنے اصل وجود میں ضم ہونا لازم ہے۔ اقبال نے افلاطون کو بھیڑ اس لیے کہا کہ اس کی کوئی شخصیت، شناخت اور خودی یا انا نہیں ہوتی۔ مرگِ مفاجات ہی اس کی تقدیر ہے جب کہ اقبال کے ہاں ہر انسان اپنی تقدیر کا خود بنانے والا ہے، وہ خدا کی طرف سے دیے گئے اختیار کے تحت لاتعداد یا متعدد امکانات میں سے اپنا مقدر خود چنتا اور اپنی تقدیر کا خود خالق ہے۔ اس لیے اسے جزا اور سزا کا سزاوار گردانا جائے گا۔ اقبال کے نزدیک تو قومیں اور ملتیں بھی اپنی تقدیر کی خود صورت گر ہیں۔ اس لیے اقبال نے فریڈرک اشپنگلرکے اس تصور کو رد کر دیا کہ ثقافتیں بھی جسم نامی کی طرح ہوتی ہیں جن پر بچپن، جوانی اور کہولت (بڑھاپا) طاری ہوتا ہے اور جب ایک کلچر مر جاتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے اور دوبارہ زندہ نہیں ہوتا۔۲۰ ؎ اقبال نے اس کے برعکس کہا کہ اسلام حیات بعدالموت پر یقین رکھتا ہے۔ گھاس پھونس جو جل سڑ جاتی ہے وہ بھی بارش کے بعد زندہ ہو جاتی ہے، لہٰذا اسلامی ثقافت بھی دوبارہ زندگی پا سکتی ہے اور مسلم ثقافت نشاۃِثانیہ سے شاد کام ہو سکتی ہے۔ افلاطون اور شعر میں اس کے مقلد حافظ پر جو تنقید کی اس پر خواجہ حسن نظامی، ظغرائی، اسلم جیراج پوری اور متعدد دوسرے لوگوں نے اقبال پر تنقید کی جس کے جواب میں اقبال نے اپنی تحریروں، بیانات اور خطوط میں افلاطون اور خواجہ حافظ کے بارے میں اپنے خیالات بیان کیے۔۲۱؎ پھر ایک بلکہ پہلے خطبے میں اقبال نے لکھا: سقراط کے شاگردِ رشید افلاطون کو بھی ادراک بالحواس سے نفرت رہی۔ اس کا خیال تھا کہ ادراک بالحواس سے کوئی حقیقی علم تو حاصل نہیں ہوتا۔ ہم اس کی بنا پر صرف ایک رائے قائم کر سکتے ہیں۔ برعکس اس کے قرآن مجید نے سمع و بصر کا شمار اﷲتعالیٰ کے گراں قدر انعامات میں کیا اور عنداﷲ اپنے اعمال و افعال کا جواب دہ ٹھہرایا۔ یہ حقیقت تھی جسے شروع شروع کے مسلمانوں نے قرآن مجید کے مطالعے میں یونانی ظن و تخین سے مسحور ہو کر نظر انداز کر دیا۔ باالفاظ دیگر انھوں نے اس کا مطالعہ بھی فکرِ یونان ہی کی روشنی میں کیا اور پھر کہیں دو سو برس میں جا کر سمجھے اور وہ بھی پورے طور پر نہیں کہ قرآن کی روح اساساً یونانیت کے منافی ہے۔۲۲ ؎ اقبال نے نزدیک: ۱۔ افلاطون ادراک بالحواس کا قائل نہیں تھا بلکہ ادراک بالعقل کا قائل تھا۔ زمینی حقائق کو اس نے بالکل نظرانداز کر کے خرد کی گتھیاں سلجھانے تک خود کو محدود رکھا۔ ۲۔ اقبال کے نزدیک سمع و بصر خدا کی نعمتیں ہیں جو حواس بالادراک کے آلات ہیں۔ جس کائنات میں ہم موجود ہیں اس کا مطالعہ، اس کو سمجھنا اور اپنا لائحۂ عمل اور جادئہ عمل اس کے اندر اور اس کے حوالے سے متعین کرنا ناگزیر ہے۔ ۳۔ ادراک بالعقل میں ظن و تخمین کا زیادہ انحصار ہے کیوں کہ اس کا معروض غیرمرئی ہے۔ ادراک بالحواس میں یقین اور ٹھوس حقائق کا امکان اس لیے زیادہ ہے کہ ہمارے سامنے کائنات ایک ٹھوس حقیقت کی شکل میں (مرئی) موجود ہے اور یہی ہماری جولان گاہ ہے۔ اس سے رابطوں کی نوعیتوں سے ہماری ساری تگ و دو عبارت ہے۔ ۴۔ یونانیت کی روح قرآن کے منافی یوں ہے کہ قرآن اس کائنات اور زمین کو ہمارا مستقر قرار دیتا ہے اور یہاں کے اعمال پر ہماری جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے جب کہ افلاطون کے نزدیک یہ کائنات حقیقت نہیں بلکہ ظِل (سایہ) ہے حقیقت کسی اور جگہ واقع ہے۔ یہ دنیا فریب ہے، دھوکا ہے اور یہی تصور ہمارے صوفیہ میں پروان چڑھا جس سے اس دنیا سے فرار کی راہ ہموار ہوئی جو درحقیقت قرآن کے نزدیک ایک حقیقت اور ہمارا دارالعمل تھی جہاں خدا نے ہمیں بھیجا۔ بقول اقبال: مرا ایں خاکدانِ من ز فردوسِ بریں خوشتر مقامِ درد و داغ است ایں حریمِ سوزو ساز است ایں۲۳؎ ۵۔ اس سے مسلمانوں نے ظل یعنی دنیا کو اور اس میں سرگرمیوں کو بے کار اور حقیر قرار دیا اور اس سے اجتناب اور کنارہ کشی اور ترکِ دنیا کی تعلیم پائی۔ دنیا غیروں کے لیے چھوڑ دی اور مسلمان علم، حکومت، تجارت اور تسخیر کے تمام میدانوں سے فارغ ہو گئے۔ اقبال نے اس فلسفے کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ کائنات خدا نے باطل پیدا نہیں کی۔۲۴ ؎ اس کا مطالعہ، اس کو سمجھنا اور اس کی تسخیر قرآن کا پیغام ہے اور یہ آخرت کی کھیتی ہے۔ اس میں انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔ اقبال نے کائنات کے حرکی تصور پر ایک نئی مابعد الطبیعیات کی تشکیل کی جس کی اساس قرآن مجید ہے۔ اقبال نے تاریخ کو بھی حرکت سے تعبیر کیا اور ابنِ خلدون کے افکار کو یونانیت کے خلاف بغاوت قرار دیا کیوں کہ افلاطون کے نزدیک زمانے کی کوئی حقیقت نہیں، یہ ایک دائرے میں متحرک ہے، لہٰذا یہ قرآن کے منافی ہے۔ اسرارِ خودی میں اقبال نے اس بنا پر وحدت الوجودی نظریے کے خالق افلاطون اور اثرات کے لحاظ سے اس نظریے کے حامل شعرا کے افکار کو تنقید کا ہدف بنایا اور واضح الفاظ میں بتایا کہ ان کے فلسفے سے احتراز کرنا چاہیے۔۲۵؎ اقبال نے خان نیازالدین کے نام خط میں لکھا، نوافلاطونیت فلسفۂ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جس کو ایک پیر Plotinus نے مذہب کی صورت میں پیش کیا۔۲۶؎ عبدالرحمن بجنوری نے مثنوی اسرارِ خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال اور افلاطون کے حوالے سے لکھا کہ: اقبال ایک محدود زمانے کے اندر اسلامی نظام کو ازسرِ نو حیاتِ تازہ اور شباب بخشنے کا دعویٰ کرتا ہے بعینہ جس طرح ایک کیمیا گر مادۂ خام سے سونا نکال لیتا ہے۔ وہ موجودہ زمانے کا ہے مگر اس کی نظر مستقبل پر بھی ہے اور موجودہ زمانے کا نکتہ چیں بھی ہے.......... افلاطون اس پرندئہ صبح کی مانند ہے جو ایک اثیری دنیاے خواب و خیال میں پرواز پر قانع ہے۔ برخلاف اس کے کہ اقبال ایک بحری عقاب ہے، کی طرح جو بحریات کے طوفان خیز موجوں پر سوار ہو، اقبال کا فلسفۂ خودی اور عمل کا فلسفہ ہے۔ ۲۷؎ اقبال نے افلاطون کے نظریۂ اعیان، اس سے جنم لینے والے فلسفۂ وحدت الوجود، کائنات کے غیرحرکی تصور اور دنیا کو غیرحقیقی اور فریب سمجھنے کے طرزِ عمل کو مسترد کیا۔ اقبال کے نزدیک اسلام کا اساسی اصول توحید ہے۔ توحید مثبت ہے اور ہمہ اوست منفی۔ اقبال اور افلاطون کے مطالعے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ افلاطون اور ارسطو اور فلاطونس کی کتب کے اسکندریہ اور بغداد میں تراجم ہوئے تو ان پر قرآن کی اساس پر کوئی حکم لگانے کے بجائے مسلمانوں نے قرآن اور اسلام کی ان کے تصورات سے تطبیق اور تصدیق کی روش اختیار کی اور قرآن کی روح کو مسخ کر دیا۔ اقبال کا احتجاج اسرارِ خودی اور خطبات میں اس کے خلاف ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں مختلف مباحث کے ضمن میں ارسطو کا ذکر نو (۹) بار کیا ہے۔ پہلی بار پہلے خطبۂ علم اور مذہبی مشاہدات میں، ۲۸؎ جہاں اقبال نے افلاطون کے ادراک بالحواس سے نفرت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیوں کہ افلاطون کا خیال تھا کہ ادراک بالحواس سے کوئی حقیقی علم حاصل نہیں ہوتا۔ مسلمانوں نے افلاطون کے اس نظریے کا اتباع کرتے ہوئے قرآن کے مطالعے میں یونانی ظن و تخمین کو اپنایا اور اس کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کیا۔ حالانکہ قرآن کی روح اساساً یونانیت کے منافی تھی۔ امام غزالی نے اس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔ ابنِ رشد نے یونانی حکمت و دانش کا دفاع کرتے ہوئے ارسطو کی پیروی میں بقائے عقلِ فعال کا عقیدہ وضع کیا جس کی وجہ سے ابنِ رشد مغرب میں مقبول ہوا۔ اقبال ارسطو کے اس نظریے کو جو ابنِ رشد نے پیش کیا خلاف قرآن تصور کرتے ہیں۔ ۲۹؎ انھوں نے کہا کہ ابنِ رشد بھی اسلام کے ایک نہایت اہم اور پُرمعانی تصور کے فہم سے قاصر رہا۔ اقبال نے ابنِ رشد کے حوالے سے یہاں دراصل ارسطو پر تنقید کی جس کی پیروی میں ابنِ رشد نے یہ نظریہ قائم کیا تھا۔ اسی طرح دوسرے خطبے ’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘ میں اقبال اپنے تصورِ حرکت میں ارسطو کے کائنات کے سکونی تصور پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں : ایک ایسے انا کے لیے جو سر تا سر خلاّق ہے، تغیر کے معنی نقص کے نہیں ہو سکتے، اس کا ملیت کے فہم میں یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ہم اسے میکانیاتی قسم کی عدم حرکت سے ہی تعبیر کریں جیسا کہ ارسطو کے زیرِ اثر شاید ابن حزم کا خیال تھا۔ ۳۰ ؎ ارسطو کے تتبع میں مسلمانوں کا یہ بھی خیال تھا کہ حرکت کسی نقص پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا وہ خدا کو بھی حرکت سے پاک تصور کرتے تھے کیوں کہ حرکت کمالِ ذات کے منافی ہے۔ اس کے مقابل اقبال کہتے ہیں کہ خلاّق مطلق کا کمالِ ذات یہ ہے کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے سرچشمے بے پایاں ہیں بعینہ، جیسے اس کی بصیرت کی کوئی حد نہیں۔ اس کی زندگی انکشافِ ذات کی زندگی ہے۔۳۱ ؎ یوں اقبال ارسطو کے کائنات کے سکونی نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ اشاعرہ کا نظریۂ جواہر بھی ارسطو کے سکونی نظریے کائنات کے خلاف ہے جو عالمِ اسلام کی تاریخ میں نشوونما پایا۔ اقبال کہتے ہیں: عالمِ اسلام میں نظریۂ جواہر کا نشوونما فلسفۂ اسلام کی تاریخ کا ایک بڑا دلچسپ باب ہے، جسے گویا ارسطو کے اس نظریے کے خلاف کہ کائنات ایک ساکن وجود ہے، مسلمانوں کی ذہنی بغاوت کا پہلا اہم مظہر تصور کرنا چاہیے۔۳۲ ؎ اسلام میں اشاعرہ کے نظریۂ جواہر کے نشوونما کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ سب سے پہلے بصرہ کے ابوہاشم ۹۳۴ء نے جواہر کے نظریہ کو مرتب کیا، جسے بعد میں ابوبکر باقلانی ۱۰۱۲ء نے پیش کیا۔ اس کو اندلس کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے تیرھویں صدی کے ایک یہودی عالم موسیٰ ابنِ موسیٰ نے اپنی کتاب دلیل الحائرین میں باقاعدہ ایک جامع نظریے کی شکل میں پیش کیا جس کا منک نے فرانسیسی میں ترجمہ کیا اور اس کے بعد ایک امریکی پروفیسر مکڈانلڈ نے اس کی توضیح و تشریح کی۔۳۳؎ گویا مسلم دنیا میں ارسطو کے سکونی نظریات کے خلاف بغاوت موجود تھی جسے بعد میں مسلم مفکرین نے ابنِ رشد کی شدید مخالفت اور مزاحمت کی بنا پر آگے نہیں بڑھایا، چنانچہ اقبال کے ہاں ابنِ رشد پر ارسطو کے ایک مسلمان پیروکار کی حیثیت سے تنقید موجود ہے۔ ممکن ہے ابنِ رشد مزاحمت نہ کرتا تو مسلم فکریات اس سائنسی انقلاب کی طرف پیش رفت کرتیں جو مسلم استقرائی تصورات سے نمو پذیر ہو کر یورپی سائنس نے کی۔ پھر سائنس یورپ کے بجائے مسلم دنیا میں انقلاب برپا کرتی۔ اقبال نے اپنے خطبے و ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت، میں کائنات کی عدم حرکت اور یونانی سکونی نظریات پر جو نقد کی ہے اس سے اقبال کا نظریۂ حرکت مرتب ہوتا ہے۔ اقبال قرآن کی روح کو یونانیت کے خلاف تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: قرآن مجید کا نقطۂ نظر بحیثیت مجموعی یونانیات کے منافی ہے اور اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشاعرہ نے حقیقتِ مطلقہ یا قدرتِ مطلقہ کی بنا پر فی الواقع اس امر کی کوشش کی کہ تخلیقِ عالم کا ایک نظریہ قائم کریں جو اپنی خامیوں کے باوجود ارسطو کے اس تصور کی نسبت کہ کائنات ایک ساکن وجود ہے، قرآن مجید کے نقطۂ نظر کی زیادہ صحت کے ساتھ ترجمانی کرے۔۳۴؎ اقبال کے نزدیک جدید سائنس کا رجحان بھی کائنات کے حرکی تصور کی طرف ہے، لہٰذا جدید علماے الٰہیات کو قرآن سے رہنمائی لے کر علومِ عصرِ حاضر کی مدد سے کائنات کی حرکی مابعدالطبیعیات کی تدوین و تشکیل کرنی چاہیے۔ یوں اقبال ارسطو کے نقاد کی حیثیت سے سامنے آ کر کائنات کے حرکی نظریے کے تحت ایک نئی مابعد الطبیعیات کی اساس فراہم کرتے نظر آتے ہیں جس کا آغاز اسلامی فکریات میں اشاعرہ سے ہوا۔ اقبال نے جہاں غزالی کو یونانیت کے خلاف بغاوت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے وہاں وہ خود امام غزالی پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے فلسفے میں تو یونانیت کو رد کیا مگر اپنا منطقی استدلال ارسطو کی منطق پر رکھا۔ منطق میں غزالی نے ارسطو ہی کی پیروی کی ہے، چنانچہ قسطاس کو دیکھیے تو امام موصوف نے قرآنی دلائل کو بھی ارسطاطالیسی اشکال ہی کے رنگ میں پیش کیا۔۳۵؎ حالانکہ اقبال کہتے ہیں کہ سورئہ شعرا میں اس دعوے کا اثبات کہ انبیا کی تکذیب سے عذاب لازم آتا ہے، تاریخی نظائر کے حوالے سے کہا گیا ہے۔ بہرحال یہ اشراقی اور ابنِ تیمیہ تھے جنھوں نے یونانی فکر اور منطق کی باقاعدہ تردید کی جسے پھر ابوبکر رازی نے ارسطو کی شکلِ اوّل پر تنقید کے ذریعے آگے بڑھایا۔۳۶؎ موجودہ زمانے میں جان اسٹورٹ مل نے اس کو اپنایا۔ اقبال کا استدلال یہ ہے کہ افلاطون اور ارسطو کی مابعدالطبیعیات میں خدا خود ساکن ہے۔ اگرچہ ساری حرکت کا منبع وہی ہے اس طرح کائنات بھی ساکن ہے۔ اقبال اس کو قرآن کے منافی تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے اگرچہ یونانیت کی پیروی کی مگر ان کے ہاں ارسطو کی اس مابعدالطبیعیات اور منطق کے خلاف انحراف بھی موجود ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے راجربیکن، فرانسس بیکن، جان اسٹورٹ مل اور دوسرے فلاسفہ اور سائنس دانوں نے جدید طبیعیات میں حرکیات کو فروغ دیا۔ اقبال کہتے ہیں کہ مغربی سائنس اور فکریات کے ابتدائی مرتبین بھی اندلس اور عالمِ اسلام کی دیگر جامعات کے فارغ التحصیل تھے جس کا اعتراف رابرٹ بریفالٹ کی کتاب تشکیلِ انسانیت میں صفحہ ۱۹۰، ۲۰۲ پر بھی ملتا ہے۔ قرآن کے علم کی اساس محسوس پر رکھی جب کہ افلاطون اور ارسطو نے تصور اور نظریہ امثال پر اپنی مابعدالطبیعیات کو قائم کیا جس کی اساس منطق پر تھی جب کہ قرآن نے استخراجی منطق کو بنیاد بنایا۔ اقبال کے نزدیک جس اسلامی فلسفہ اور سائنس کی اساس استقرائیت پر رکھی گئی۳۷؎ اس کو بنیاد بنا کر جدید یورپی فلسفہ اور سائنس نے ترقی کی اور موجودہ محیرالعقول ایجادات کو فروغ دیا۔ تشکیلِ جدید کے صفحہ ۳۸۲۰۵؎ پر بھی اقبال نے ارسطو کے اسی سکونی نظریے کو بیان کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک کائنات کے اس حرکی نظریے سے ابنِ مسکویہ کا نظریۂ ارتقا اور ابنِ خلدون کا نظریۂ تاریخ اور تصور عمرانیات وضع ہوا۔ قرآن نے بھی تاریخ کو ایامِ اﷲ سے تعبیر کیا اور اسے علم کا سرچشمہ ٹھہرایا جس سے تعمیمات کر کے تاریخ کا حرکی نظریہ مسلمانوں نے اپنایا۔ اقبال کے خیال میں: اس امر کا احساس کہ زمانہ ایک حقیقت ہے، لہٰذا زندگی کا یہ تصور کہ وہ عبارت ہے ایک مسلسل اور مستقل حرکت سے۔ زمانے کا یہی تصور ہے جو ابنِ خلدون کے نظریۂ تاریخ میں ہماری دلچسپی کا خاص مرکز بن جاتا ہے اور اسی سے فلنٹ بجا طور پر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے وہ کہتا ہے کہ افلاطون ہو یا ارسطو یا آگسٹائن ان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اس کی ہمسری کر سکے۔۳۹؎ یوں اقبال ابنِ خلدون کو استقرائی منطق کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کا تاریخی فہم یا عمرانیات میں افلاطون اور ارسطو سے بھی مرتبہ بلند کر دیتا ہے۔ اقبال نے اپنی فارسی کلیات میں افلاطون پر تنقید کرتے ہوئے بھی ارسطو کا حواشی میں ذکر کیا ہے کہ ارسطو نے افلاطون کے نظریۂ اعیان پر بڑی عمدہ تنقید کی۔۴۰؎ جب کہ فارابی نے افلاطون اور ارسطو کو اپنی کتاب الجمع بین الرائین میں ہم خیال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ارسطو نے افلاطون کے نظریۂ امثال (اعیان) کو مبہم، تشریح کے حوالے سے ناکافی، دہرے پن کا شکار اور حرکت سے مبرا قرار دیا تھا۔۴۱؎ ارسطو کہتا تھا کہ یہ غیر حسی ہے، اس میں اشیا کی ماہیت بھی واضح نہیں۔ اقبال نے گلشنِ راز جدید میں بھی ارسطو کے سکونی نظریے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ زمانہ جو ارسطو سے آگاہ تھا، بعد میں بیکن سے آگاہ ہوا جس نے ارسطو کے سکونی نظریے اور اس کی استقرائی منطق سے انحراف کیا: زمانے با ارسطو آشنا باش دمے باساز بیکن ہم نوا باش ولیکن از مقام شاں گزر کن مشو گم اندریں منزل سفر کن بآں عقلے کہ داند بیش و کم را شناسد اندروں کان ویم را جہانِ چند و چوں زیرِنگیں کن بگردوں ماہ و پرویں را مکیں کن ولیکن حکمتِ دیگر بیاموز رہاں خودرا ازیں سکر شب و روز مقامِ تو بروں از روزگاراست طلب کن آں یمیں کو بے یسار است۴۲؎ ٭٭٭ حوالے اور حواشی ۱۔ ارسطو ۳۸۴ق م میں تویس کی ساحلی بندرگاہ اور یونانی کالونی شاگیرا (Stagira) میں تولد ہوا۔ ارسطو کا والد نکومیکس مقدونیہ کے حکمران کا شاہی طبیب تھا۔ جوانی میں ارسطو نے اپنے باپ سے ہی جراہی اور طبابت سیکھی مگر طبیعت سیر نہ ہوئی، چنانچہ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ایتھنز میں آیا اور افلاطون کی اکادمی میں داخل ہوا۔ ارسطو ۳۶۸ ق م میں اکادمی میں آیا اور افلاطون کی وفات ۳۴۸ ق م یعنی بیس سال تک وہاں رہا، اکادمی میں اس نے حیاتیات، سیاسیات، اخلاقیات اور الٰہیات کے علوم سیکھے اور افلاطون کے مکالمات کی تدوین کی۔ افلاطون اپنے اس ذہین شاگرد کو درس گاہ کی ذہانت (intellegence of the school) کہا کرتا تھا۔ ۳۴۷ ق م میں جب افلاطون کا بھتیجا سپیوسیپس (Speusippus) اکادمی کا سربراہ بنا تو ارسطو اس سے الگ ہوگیا۔ ارسطو اپنے ہم جماعت زینو کریٹس کے ہمراہ اٹارینس کے حکمران ہرمیاس کے دربار میں چلا گیا، اور تین سال وہیں رہا۔ وہاں اس نے ہرمیاس (Harmeias) کی بھتیجی پتھیاس (Pythias) سے شادی کی۔ دوسری بار اس نے ہرپائیلس (Harpyllas) سے شادی کی، جس سے اس کا بیٹا نیکومیکس پیدا ہوا۔ ہرمیاس کے حکمرانوں نے جب ایرانیوں سے بغاوت کی تو وہ مائیٹالیس کی طرف کوچ کرگیا اور وہاں کئی برس قیام پذیر رہا۔ ارسطو کی شہرت کی بنا پر مقدونیہ کے بادشاہ فلپ نے اسے اپنے بیٹے سکندر کا اتالیق مقرر کیا۔ سکندر کی عمر اس وقت تیرہ سال تھی۔ ارسطو نے پانچ سال تک اس کی تعلیم و تربیت کی۔ فلپ کے قتل کے بعد سکندر جب حکمران بنا تو ارسطو ایتھنز لوٹ آیا۔ یہاں ارسطو نے لائیسم (Lyceum) میں اپنی اکادمی قائم کی۔ ارسطو چونکہ ٹہل ٹہل کر اپنا لیکچر دیا کرتا تھا، لہٰذا اس کے شاگرد مشائین Peripatetics کہلائے۔ ارسطو ایتھنز میں تیرہ سال رہا اور یہاں اس نے اپنی زیادہ تر تصانیف رقم کیں۔ ۳۲۳ ق م میں سکندر اعظم کا انتقال ہوا تو مقدونیہ میں افراتفری پیدا ہوگئی اور وہ سکندر کے پس روئوں کے ہاتھ سے نکل گیا جس پر ارسطو پر سکندر کا حمایتی ہونے کی بنا پر بدمعاشی کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس پر ارسطو ایویوٹیا (Ewota) بھاگ آیا۔ اس نے کہا کہ میں دوبارہ اہلِ ایتھنز کو موقع نہیں دوں گا کہ وہ ایک اور فلسفی کو قتل کریں۔ (اس سے قبل وہ سقراط کو زہر کا پیالہ دے کر مار چکے تھے)۔ یہاں آکر ارسطو بیمار پڑ گیا اور ۶۳ سال کی عمر میں وفات پاگیا۔ ارسطو نے چار سو کتب لکھیں جن میں سے زیادہ تر ضائع ہوگئیں (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے تاریخ فلسفۂ یونان از پروفیسر نعیم احمد، علمی کتب خانہ لاہور، ۱۹۹۰ئ۔ افکارِ یونان، خالد الماس، دارالتذکیر، لاہور، ۲۰۰۱ء ص۱۳۷)۔ ۲۔ اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹ئ۔ ۳۔ اقبال، تجدیدِ فکریاتِ اسلام (ترجمہ خطبات) ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۲۰۰۲ء ص ۱۷۔ ۴۔ ایضاً ص ۱۷۔ ۵۔ ایضاً ص ۱۷۔ ۶۔ ایضاً ص ۱۷۔ ۷۔ اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ (ترجمہ خطبات) سید نذیر نیازی، بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۸۳ ص ۵، مزید دیکھیے تجدیدِ فکریاتِ اسلام ص ۱۸۔ ۸۔ اقبال، تجدیدِ فکریاتِ اسلام ص ۱۸۔ ۹۔ ایضاً ص ۱۸۔ ۱۰۔ ایضاً ص ۱۸۔ ۱۱۔ ’’افلاطون (Plato) کا اصلی نام ارسٹو کلیز (Aristioclies) ہے۔ یونانی زبان میں افلاطون کا مطلب ہے، بہت کشادہ (the broad)۔ اپنے بہت کشادہ کندھوں کی نسبت سے ارسٹو کلیز (افلاطون) پکارا جانے لگا۔ وہ ۴۲۷ قبلِ مسیح میں ایتھنز کے انتہائی معزز اور امیر گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام ارسٹون (Arsiton) اور والدہ کا نام پیرکیسٹون (Peric tione) تھا۔ اس کا عنفوانِ شباب ایتھنز کی سیاسی تاریخ کے بدترین دور سے گزرا۔ ربع صدی پر محیط پیلوپنیشین جنگ (Pelopononesion war) کے خاتمے پر ایتھنز کی سیاسی قوت اندرونی خلفشار کا شکار تھی۔ اس کا استاد کریٹیلس (Cratylus) ہر اقلیٹس کا مقلد تھا۔ افلاطون نے اس سے ہر اقلیتوس کے نظریات سیکھے۔ اپنے ہم عصر ’’سوفسطائیوں کے نظریات سے بھی شناسائی حاصل کی۔ انکساغورس کی تصانیف سے بھی آگہی حاصل کی۔ افلاطون کا ماموں کریٹیاس (Critias) اور اس کا چچا زاد بھائی کارمیدس (Charmidas) سقراط کے دوست تھے۔ انھی کے توسط سے تقریباً بیس سال کی عمر میں وہ سقراط سے متعارف ہوا، پھر سقراط کی موت تک تقریباً آٹھ سال تک وہ سقراط کا شاگرد رہا… ’’مزید تفصیل کے لیے دیکھیے خالد الماس، افکارِ یونان ص ۱۱۳، ۱۱۴، ۱۱۵۔ ۱۲۔ سقراط ۴۶۹ ق م میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سوفرونسکوس (sophroniscus) ایک غریب سنگ تراش تھا اور ماں فینا راٹے (Phaena rate) دایہ تھی۔ سقراط کا قد چھوٹا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں اور شخصیت نہایت بدوضع تھی۔ تین مختصر جنگوں میں شرکت کے سوا وہ ساری زندگی ایتھنز میں رہا۔ وہ غیر معمولی قوتِ برداشت اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔ سردیوں، گرمیوں میں وہ ایک ہی لباس میں برہنہ پا پھرتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ایک پراسرار آواز (Deamon) اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ وہ ایک پرہیزگار اور اعتدال پسند انسان تھا مگر خاص موقعوں پر بے تحاشا شراب پیتا، مگر کبھی نہیں بہکا۔ اکثر حالتِ استغراق میں رہتا۔ اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ علم کو زندہ انسانوں سے مردہ کھالوں میں منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ مکالمات کرنا اس کا طریقِ کار تھا۔ وہ مکالمات کے ذریعے دوسرے پر اس کی غلطی واضح کرتا۔ اس کی بے پناہ مقبولیت پر حکومت نے اس پر تین الزامات عائد کیے کہ: ۱- وہ قومی دیوتائوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ ۲- وہ خدائے واحد کے تصور کی تعلیم دیتا ہے۔ ۳- وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ سقراط پر مقدمہ چلا کر اسے زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی گئی۔ سقراط نے اپنے ساتھیوں کے کہنے پر جیل سے فرار ہونا پسند نہ کیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ جس قانون نے اس کی ساری زندگی حفاظت کی وہ اسے توڑنا پسند نہیں کرتا۔ ۳۹۹ ق م میں زہر کا پیالہ بطور سزا پینے سے اس کی وفات ہوئی۔ مکالماتِ افلاطون سقراط ہی کے مکالمات پر مبنی ہے۔ ارسطو کے مطابق سقراط کا کارنامہ استقرائی طرزِ تحقیق (Inductive Method) کی ایجاد ہے۔ سقراط نے کہا علم نیکی ہے۔ علم تعقلات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے دوسرے نے فلسفے کا موضوع انسان کو قرار دیا، جب کہ اس سے پہلے فلسفۂ کائنات کے مطالعے کو فلسفے کا موضوع سمجھا جاتا تھا۔ دیکھیے ڈاکٹر نعیم احمد کی کتاب تاریخ فلسفۂ یونان ص ۷۹ تا ۹۹۔ ۱۳۔ آیونیا کے مفکرین، تھیلیز، (طالیس ملطی)(۵۷۰ ق م)، اینسکسی منڈا، (۶۱۰ تا ۵۴۷ ق م)، انکسی مینز (۵۸۸ ق م) ۱۴۔ ایلیا کے مفکرین، زینو فینیز، پارمنڈیز، زینو- آیونیا اور ایلیا کے تمام مفکرین کا موضوع کائنات کا مطالعہ تھا جس کی طرف اقبال کے بقول قرآن نے دعوت دی۔ بقول ڈاکٹر نعیم احمد ’’تھیلیز سے لے کر پارمنڈیز تک تمام فلسفیوں کی کوشش رہی ہے کہ مظاہر کے پیچھے کارفرما اصلیت (Essence) کو معلوم کیا جائے۔ آیونیا اور ایلیا کے فلسفی حقیقت کو البتہ غیر متغیر، جامد اور ساکن سمجھتے تھے، مگر ہر اقلیتس نے موجودات کے وجود کو حرکت، تغیر اور کشمکش کا نتیجہ قرار دیا۔ یوں کائنات کا مطالعہ اور حرکت کا تصور دونوں یونانیوں کے ہاں موجود تھے (تاریخِ فلسفۂ یونان ص ۵۴۷۔ نعیم احمد)۔ پھر ارسطو نے بھی حرکت کو تسلیم کیا اور کہا، ’’مادہ حرکت کرتا ہے اور صورت غیر متحرک رہتی ہے‘‘ (ایضاً ص ۱۵۷)۔ اب اگر ارسطو کی طبیعیات کو دیکھا جائے تو اس کا نباتات، حیوانات اور دوسری چیزوں کا مطالعہ تجربی اور حسی نظر آتا ہے۔ اس کا تصورِ زمان بھی کہتا ہے کہ زمان (Time) کا تعلق حرکت کی پیمائش سے ہے (ص ۱۶۲)۔ ارسطو کا نظریۂ ارتقا بھی ابنِ مسکویہ اور جاحظ کے نظریۂ ارتقا کا پیش رو ہے (ص ۱۶۳)۔ لگتا یوں ہے کہ یونانیت کے خلاف اقبال کے تصورات رابرٹ بریفالٹ کی کتاب تشکیلِ انسانیت (The Making of Humanity) سے متاثرہ تھے اور وہ ہر چیز کا سہرا مسلمانوں کے سر باندھتے، یونانیت کے بارے میں کوتاہ نظری کا شکار ہوگئے۔ یونانی فکر میں متعدد متنا قضات یقینا ہیں ان کی نشاندہی مفید ہوسکتی تھی لیکن رابرٹ بریفالٹ کے ہاں ان کا بھی ادراک سطحی نظر آتا ہے۔ مسلمان قرآن کے مطالعے سے ان کو دور کرسکتے تھے مگر انھوں نے بعض مخصوص حالات کی وجہ سے خود قرآن کی تشریح و تعبیر کا اصول بھی یونانی اور نوافلاطونی منطق اور علمِ کلام کو بنالیا۔ ۱۵۔ پروٹا گورس یا پروطاغورس- سوفسطائی (Sophist) تویس کے شہر ایبڈرا میں ۴۸۱ ق م میں پیدا ہوا۔ وہ یونان کے مختلف شہروں میں لیکچر دیتا اور دولت کماتا۔ یونانی دیوتائوں کے خلاف اس کی کتاب نذرِ آتش کی گئی۔ اسی نے یہ مشہور مقولہ کہا کہ آدمی ہر شے کا پیمانہ ہے (تاریخِ فلسفۂ یونان، ڈاکٹر نعیم احمد ص ۷۲)۔ دوسرے فسطائیوں میں پروڈیکس، گورجیس نمایاں تھے۔ پروڈیکس سیوس (Ceos) کا رہنے والا تھا اور گورجیس سسلی (اٹلی) کے شہر لیوفٹنی کا باشندہ تھا جہاں پروٹاگورس احتساب سے بچنے کے لیے بھاگ آیا تھا۔ ان تمام کے فلسفے کا موضوع انسان تھا جو سقراط کے پیشِ رو قرار دیے جاتے ہیں۔ سقراط پر بھی سوفسطائیت کا الزام لگایا گیا تھا۔ ۱۶۔ مکالمات افلاطون۔ مکالمہ تھیائیٹس، ص ۱۵۱۔ ۱۷۔ اقبال، اسرارِ خودی، کلیاتِ اقبال فارسی ص ۳۳۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۹۰ئ۔ ۱۸۔ یہ امثال یا اعیان وہی ہیں جنھیں سقراط نے تجریداتِ فکری یا کسی شے کی تعریف کا نام دیا تھا۔ یہ نظریۂ حقیقت اور ظاہر یا حس اور عقل کے امتیاز سے پیدا ہوتا تھا۔ افلاطون کے امثال ازلی اور غیر مخلوق ہیں۔ افلاطون نے انھیں ہیئت بھی کہا ہے، یہ امثال مستقل بالذات ہیں اور مادی عالم کے تغیرات سے متاثر نہیں ہوتے، مادی عالم کی اشیا ان امثال کے سائے ہیں۔ روایاتِ فلسفہ، علی عباس جلا لپوری مکتبہ خردو افروز جہلم ۱۹۹۲ء ص ۳۸)۔ مزید دیکھیے برٹرینڈرسل کی کتاب History of Western Philosophy ص ۱۳۵۔ ناشر George Allen & Unwin, London ۱۹۶۷ئ۔ ارسطو نے خود ان امثال پر تنقید کی۔ اس کے مطابق افلاطون کا نظریۂ امثال دنیاے موجودات کی تسلی بخش تشریح نہیں کرتا یہ ناکافی اور مبہم ہیں۔افلاطون کے نظریۂ امثال کا دنیائے موجودات سے تعلق کس نوعیت کا ہے اس کی صاف وضاحت نہیںملتی، زمان و مکاں میں مقید دنیائے موجودات کی مقرون اشیا کو زمان و مکاں سے ّمبرا دنیائے امثال کے مجرد تصورات کی غیر مکمل نقول قرار دینا محض تمثیلی اندازِ بیان ہے کیوں کہ اس سے تصورات اور اشیا کے باہمی تعلق کی وضاحت نہیں ہوتی۔ ۳۔ افلاطون کے نظریۂ امثال اور دنیاے موجودات کے ایسے باہمی تعلق کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اشیا کی تخلیق تصورات سے ہوئی ہے تو تب بھی حرکت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کیوں کہ دنیائے امثال ساکن اور جامد ہے۔ ۴۔ دُہراپن، افلاطون نے اشیا کی کثرت کی تشریح و توجیہ کرنے کی خاطر تصورات کی کثرت بنا ڈالی، ارسطو کے خیال میں افلاطون کا حال اس شخص کی طرح ہے جس نے قلیل اشیا کی کثرت کی توجیہ کی خاطر دنیائے امثال میں تصورات کی کثرت و دہرا پن قائم کیا مگر اس سے توجیہ نہیں ہوئی۔ ۵۔ افلاطون کے ان تصورات کا کوئی ماخذ نہیں، اس نے محض حسی اشیا کی توجیہ کے لیے حسی اشیا کی تعمیم کرکے مجرد تصورات پر مبنی دنیائے امثال بنا ڈالی اور اسے حسی اشیا کا غیر حسی اصول متصور کیا۔ یوں دنیائے امثال کے تصورات کا ماخذ غیر حسی نہیں بلکہ حسی ہے۔ ۶۔ افلاطون نے نظریۂ امثال کے مجرد تصورات کو اسققرا کی مدد سے جانا۔ جہاںوہ مخصوص اور متعدد اشیا کے مابین مشترک صفت کو ڈھونڈتا اور اس بنا پر اس اشیا کا تعقل وضع کرتا، جسے وہ مجرد خیال کرتا اور متعدد اشیا کو اس کا پر تو سمجھتا۔ ۷۔ اشیا کی ماہیت: افلاطون نے نظریۂ امثال اور نظریۂ موجودات کی ثنویت قائم کی۔ دنیائے امثال کو زمان و مکاں سے ّمبرا اور دنیائے موجودات کو زمان و مکاں میں مقید تصور کیا۔ افکارِ یونان ص ۱۴۵۔ ۱۹۔ اقبال، تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ ص ۱۶۷ پر دیکھیے جبر و قدر کی اور علت و معلول کی بحث میں مظالم بنوامیہ کے اثرات۔ ’’دمشق کے موقع شناس امولی فرمانروائوں کو بھی جو عملاً مادہ پرستی اختیار کرچکے تھے، کسی ایسے عذر کی ضرورت تھی جس سے وہ کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال دیں تاکہ اس طرح عوام کو موقع نہ ملے کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اور انھیں امیر معاویہ کی بغاوت کے ثمرات سے محروم کردیں… الخ (ص ۱۶۷) نیز دیکھیے خلافت و ملوکیت ازِ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، ناشر اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۶۷ء ص ۱۰۳ تا ۱۸۴، نیز دیکھیں تحقیقِ مزید بہ سلسلہ خلافتِ معاویہ و یزید، خلافتِ معاویہ و یزید از محمود عباسی مکتبہ محمود کراچی، یزید کا مقدمہ از سعید الرحمن علوی، فکرِ شیعی میں یزید از سعید الرحمن علوی، مکتبہ آلِ عمران لاہور، ۱۹۹۹ئ، سیرتِ امیر معاویہ دو جلد از محمد نافع، تخلیقات لاہور جولائی ۲۰۰۰ء سیرت علی مرتضیٰ از محمد نافع، تخلیقات لاہور ۲۰۰۱ء اور سی سالہ خلافت راشدہ از معراج الدین، حافظ امجد اینڈ سنز لاہور ۱۴۰۹ ھ ص ۴۰ تا ۷۰۹۔ نیز رسول اکرم اور خلافتِ راشدہ کے آخری لمحات، از ابو الکلام آزاد، مکتبہ جمال لاہور ۱۹۹۹ء ص ۶۷ تا ۱۰۶۔ ۲۰۔ اقبال، تشکیلِ جدید۔ ص ۲۱۸ اشپنگلر کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی تہذیب ہو اسے اپنی جگہ پر ایک جسمِ نامی تصور کرنا پڑے گا… الخ‘‘ ص ۲۱۸۔ ۲۱۔ حق نواز پرفیسر۔ اقبال اور لذتِ پیکار، اقبال اکادمی پاکستان لاہور ۱۹۸۵ء ص ۱۸۔ ۲۲۔ اقبال، تجدیدِ فکریاتِ اسلام ص ۱۸ و تشکیلِ جدید ص ۵۔ ۲۳۔ اقبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۹۰ء ص ۵۲۱۔ ۲۴۔ قرآنِ حکیم (مَاخَلَقْتَ ھٰذٰا بَا طِلاَج) سورہ آل عمران آیت ۱۹۱۔ ۲۵۔ حق نواز، پروفیسر، محولہ بالا ۲۶۔ اقبال، خان نیاز الدین کے نام مکاتیب، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، (خط ۱۹ جنوری ۱۹۱۴ئ) ۲۷۔ حق نواز، اقبال اور لذتِ پیکار ص ۳۷۔ ۲۸۔ اقبال، تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ ص ۵ تاالخ۔ ۲۹۔ اقبال، تشکیلِ جدید۔ ص ۴۰۔ ۳۰۔ ایضاً ص ۱۰۶۔ ۳۱۔ ایضاً ص ۱۰۶۔ ۳۲۔ ایضاً ص ۱۲۰۔ ۳۳۔ ایضاً ص ۱۲۱۔ ۳۴۔ ایضاً ص ۱۲۴۔ ۳۵۔ ایضاً ص ۱۹۵۔ ۳۶۔ ایضاً ص ۱۹۶۔ ۳۷۔ اقبال کا خیال ہے کہ یونانی استقرائیت سے ناواقف تھے۔ اسقرائیت کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی، ڈاکٹر نعیم احمد اپنی کتاب تاریخِ فلسفۂ یونان میں لکھتے ہیں: ’’استقرا کو ارسطو جزئیات میں کلّی عنصر کے شعور و آگاہی سے تعبیر کرتا ہے۔‘‘ (ص ۱۴۵) جس کا مطلب ہے کہ ارسطو اپنی منطق میں استخرا جیہ اور استقرائیہ دونوں طریقے استعمال کرتا تھا کیوں کہ اس کے نزدیک ’’متعارفات کی نوعیت و جدانی یا استقرائی ہوتی ہے۔‘‘ (ص ۱۴۵) ’’استقرا استخراج کا راستہ ہموار کرتا ہے۔‘‘ (ص۱۴۵) لہٰذا اقبال کا یہ کہنا کہ یونانیت میں استقرائی منطق کا استعمال نہیں تھا محض رابرٹ بریفالٹ کا مغالطہ ہے جسے اقبال نے قبول کرلیا۔ ڈاکٹر نعیم احمد مزید لکھتے ہیں کہ ’’سقراط نے جب یہ کہا کہ علم صرف تعقلات کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے تو اس کی مراد یہ تھی کہ علم حاصل کرنے کے استقرائی اور استخراجی دونوں طریقے لازم و ملزوم ہیں۔ استدلال اور تفکر کی جتنی بھی شکلیں ہیں وہ یا تو استقرائی ہیں یا استخراجی۔ ان استدلالی طریقوں کو سقراط نے باقاعدہ مرتب نہیں کیا۔ یہ کام اس کے بعد آنے والے فلسفی ارسطو نے سرانجام دیا تھا تاہم سقراط کے نظریات اس بات کے شاہد ہیں کہ ان طریقوں کی تفصیلات اور باریکیاں سقراط کو معلوم تھیں۔ (تاریخِ فلسفۂ یونان ص ۹۰) ۳۸۔ اقبال، تشکیلِ جدید ص ۲۰۵۔ ۳۹۔ ایضاً ص ۲۰۹۔ ۴۰۔ اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی) ص ۳۳۔ ۴۱۔ دیکھیے حوالہ ۱۸۔ ۴۲۔ اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی) ص ۵۴۸، نیز گلشنِ رازِ جدید۔ ٭٭٭ اقبال اور غزالی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹرعلی رضا طاہر محکماتِ قرآنی پر قائم رہتے ہوئے اقبال علم کے ہرگھاٹ اور فکر کے ہر چشمے سے سیراب ہوئے، تشکیلِ فکر کے اس تعمیری سفر میں انھوں نے مشرق و مغرب کے تمام نمایاں مفکرین سے استفادہ کیا۔ مشرقی مفکرین میں غزالی ایک اہم نام ہے۔ غزالی سے اقبال کا فکری اشتراک و اختلاف، اقبالیات کا ایک دلچسپ باب ہے۔ فکری سفر کی اس دلچسپ داستان سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ہم اقبال کے تمام فکری آثار میں، غزالی کے حوالوں کے مطالعے کو پیش کرتے ہیں۔ ۱۰۸۵ء میں بغداد کی درس گاہ نظامیہ میں علمِ کلام کی مسند پر فائز ایک متکلم نے تشکیک کی راہ کیوں اپنائی۔ اس نے حقیقتِ مطلقہ تک فلسفے کی نارسائی کے ادراک سے۱ ؎ فلسفے کے دوراہے سے گزر کر کس طرح تصوف میں پناہ ڈھونڈھی، کلام کی سرحدوں پر کھڑا شخص، تصوف کی وادی میں کیسے اترا؟۲؎ اس کے اس سفر کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور اس سفر کی علمی دنیا میں کیا حیثیت ہے؟ اس بارے میں اقبال کا تفصیلی بیان سب سے پہلی مرتبہ اس کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں ان الفاظ میں ملتا ہے : اگر ہم الغزالی (المتوفی، ۱۱۱۱ئ) کے کارناموں کو نظرانداز کر دیں تو اشاعرہ کی مابعد الطبیعیات کا ذکر بالکل نامکمل رہ جائے گا۔ غزالی کے متعلق اکثر راسخ العقیدہ متکلمین کو غلط فہمی ہوئی ہے لیکن ان کا شمار ہمیشہ اسلام کی عظیم الشان شخصیتوں میں ہو گا۔ اس متشکک نے جس کی قابلیت نہایت زبردست تھی، اپنے فلسفیانہ اسلوب میں ڈیکارٹ کی پیش بینی کی تھی۔ ہیوم نے علیّت کی گرہ کو جدلیات کی دھار سے کاٹ دیا تھا لیکن غزالی اس سے بھی پہلے شخص ہیں جنھوں نے فلسفے کا ایک باضابطہ رد لکھا اور راسخ العقیدہ لوگوں پر عقلیت کا جو رعب چھا گیا تھا اس کو کامل طور پر زائل کر دیا۔ انھی کا یہ خاص اثر تھا کہ لوگ تحکمی عقائد کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعیات کا مطالعہ کرتے تھے اور اس سے ایک ایسا نظامِ تعلیم وجود میں آ گیا جس سے شہرستانی، الرازی اور الاشراقی جیسے مفکرین پیدا ہوئے۔۳ ؎ غزالی کے وحدت الوجود کی طرف میلان کا تذکرہ کرتے ہوئے مذکورہ بالا مباحث کے تسلسل میں ہی اقبال کہتے ہیں : اشاعرہ توحید کے زبردست حامی تھے۔ ماہیتِ جوہر کے اس تخیل کے ساتھ روحِ انسانی کی ماہیت پر محفوظ طریقے سے بحث نہیں کر سکتے تھے۔ صرف الغزالی نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا اور صحت کے ساتھ یہ بیان کرنا آج تک دشوار ہے کہ ماہیتِ خدا کے متعلق ان کا کیا خیال ہے؟ جرمنی کے بورگر (Borger) اور سولگر (Solger) کی طرح ان میں صوفیانہ وحدت الوجود اور اشاعرہ کا عقیدہ گھل مل گیا ہے۔ یہ ایسا امتزاج ہے کہ اس کی و جہ سے یہ بتانا نہایت دشوار ہے کہ وہ محض وحدت الوجود کے قائل تھے یا لوٹزے (Lotze) کی طرح شخصی وحدت الوجود کو مانتے تھے۔۴؎ اسی بات میں غزالی کے متعلق اقبال کی اس رائے کا پتا چلتا ہے کہ وہ غزالی کو اشعری نہیں سمجھتے تھے، وہ کہتے ہیں:۵ ؎ ان کا شمار بھی عموماً اشاعرہ میں کیا جاتا ہے گو انھوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اشاعرہ کا طریقِ فکر عوام کے لیے بہتر ہے پھر بھی صحیح معنوں میں یہ اشاعرہ نہیں ہیں۔ مولانا شبلی علم الکلام ص ۶۶ پر کہتے ہیں۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مذہب کا راز افشا نہیں کیا جا سکتا اور اسی وجہ سے انھوں نے اشاعرہ کے علم الکلام کی ترویج و اشاعت میں بہت بڑا حصہ لیا لیکن اپنے شاگردوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ ان کے نتائجِ فکر شائع نہ کریں۔ مذکورہ باب میں ہی غزالی کے تصورِ روح کو بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:۶؎ الغزالی نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی تحقیقات کا رخ وحدت الوجود کی طرف ہے اور اسی و جہ سے روح کی انتہائی ماہیت کے متعلق انھوں نے سکوت اختیار کیا۔ مذکورہ بالا مباحث کے تسلسل میں ہی غزالی کے فکر و فلسفہ کے بارے میں اقبال کا ایک اجمالی تبصرہ یوں ملتا ہے:۷؎ الغزالی نے اپنے ملک کے فلسفے میں جو کچھ اضافہ کیا ہے اس کا پتا ان کی چھوٹی سی کتاب مشکوٰۃ الانوار سے چل سکتا ہے۔ جس میں انھوں نے قرآن کی اس آیت’اﷲ نورالسمٰوٰت و الارض‘ (اﷲ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) سے بحث شروع کر کے جبلی طور پر ایرانی تصور کی طرف رجوع کیا جس کے زبردست شارح الاشراقی گزرے ہیں۔ غزالی کی آزاد نظری کے بارے میں اقبال کا ایک بیان ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقا کے باب نمبر۵ میں الاشراقی کے ذیل میں ان الفاظ میں ملتا ہے:۸ ؎ اسلامی علم الکلام میں یونانی جدلیات کے استعمال سے تنقید کی روح بیدار ہو گئی جس کا آغاز الاشعری کے ساتھ ہوا اور یہ الغزالی کی تشکیک میں مکمل طور پر نمودار ہو گئی۔ عقلییّن میں بھی نظام جیسے نقاد موجود تھے جنھوں نے یونانی فلسفے کو من و عن تسلیم نہیں کیا بلکہ اس پر آزادی سے تنقید کی۔ تحکم کے عقائد کے حامی الغزالی، الرازی، ابوالبرکات اور آمدی وغیرہ نے یونانی فلسفے کی پوری تعمیر پر حملے کیے۔ مذکورہ بالا باب میں ہی شیخ الاشراق شیخ شہاب الدین سہروردی کے تسلسل میں ایک اور مقام پر غزالی کا ذکر یوں ملتا ہے :۹؎ ان کے فلسفے میں قدیم ایرانی روایات جن کا جزوی اظہار طبیب رازی، الغزالی اور اسماعیلیہ فرقہ کی تصانیف میں ہوا تھا اپنے پیش روئوں کے فلسفے سے اور اسلامی علمِ کلام سے آخری مصالحت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ غزالی کے بارے میں اقبال کے مذکورہ بالا بیانات کو خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱۔ غزالی نے ڈیکارٹ کی پیش بینی کی تھی۔ ۲۔ غزالی، ہیوم سے بھی پہلے شخص ہیں جنھوں نے فلسفے کا باضابطہ رد لکھا۔ ۳۔ غزالی نے راسخ العقیدہ لوگوں پر چھایا ہوا عقلیت کا رعب ختم کیا۔ ۴۔ شہرستانی، رازی اور الاشراقی جیسے مفکرین کے لیے بنیادیں غزالی نے فراہم کیں۔ ۵۔ غزالی کو عموماً اشاعرہ میں شمار کیا جاتا ہے لیکن وہ اشعری نہیں تھے۔ ۶۔ روح کی انتہائی ماہیت کے متعلق ان کی تحقیقات کا رخ وحدت الوجود کی طرف تھا۔ ۷۔ اپنی کتاب مشکوٰۃ الانوار میں ’نور‘ کے مباحث شروع کر کے وہ قدیم ایرانی تصورِ وجود کو متعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک مکمل فکری نظام کی صورت میں بعدازاں الاشراقی میں ظاہر ہوا۔ ۸۔ غزالی فلسفۂ یونان کے اوّلین ناقدوں میں سے تھے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے (جو کہ ۱۹۰۷ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچا) کے بعد کی تحریروں میں غزالی کے بارے میں اقبال کون سا نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں۔ ماسٹر عبداﷲ چغتائی کے نام اپنے ۱۳؍ جون ۱۹۳۷ء کے ایک خط میں غزالی اور ڈیکارٹ کے method کے بارے میں یوں اظہارخیال کرتے ہیں: ڈیکارٹ پر مضمون لکھنے کی اب مجھ میں ہمت باقی نہیں رہی۔ اگر آپ کو پیرس میں نوجوان عمر کا اسکالر مل جائے تو اس سے یہ کہنا کہ ڈیکارٹ کی مشہور کتاب Method کا غزالی کی احیاء العلوم سے مقابلہ کرے اور یورپ والوں کو دکھائے کہ ڈیکارٹ اپنے اسی Method کے لیے جس نے یورپ میں علوم کی بنیاد رکھی کہاں تک مسلمانوں کا ممنونِ احسان ہے۔۱۰؎ غزالی اور ڈیکارٹ کے حوالے سے اقبال کا بالکل یہی نقطۂ نظر ہمیں ان کی تشکیلِ جدید کے خطبہ نمبر۵ میں بھی ملتا ہے۔۱۱؎ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تاحیات اس بات کے قائل رہے کہ غزالی نے ڈیکارٹ کی پیش بینی کی تھی اور یوں وہ یورپ پر مسلمانوں کے احسانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ (غزالی اور ڈیکارٹ کے حوالے سے اقبال کا یہ نقطۂ نظر ہمیں ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں بھی ملتا ہے جس کا ذکر ہم گزشتہ سطور میں کر چکے ہیں)۔ اقبال کی کتاب تاریخِ تصوف٭ میں دو مقامات پر غزالی کے حوالے ملتے ہیں۔ اقبال کی مذکورہ بالا کتاب کا synopsis پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ اقبال نے اس کتاب کی تحریر کا آغاز ۱۹۱۶ء میں کیا۔ اقبال نے اس کتاب کے پہلے دو باب تو تحریر کیے لیکن بعض گو نہ گوں مجبوریوں اور مصروفیات کی و جہ سے وہ دیگر ابواب تحریر نہ کر سکے اور یوں تصوف کے موضوع پر یہ نایاب کتاب نامکمل رہ گئی۔ البتہ وہ باب جو اقبال تحریر نہ کر سکے ان کے اشارات اقبال کے نوٹس (notes) سے ضرور ملے ہیں۔ اس ضمن میں غزالی کا تذکرہ ایک بار تو کتاب کے نامکمل باب چہارم بعنوان ’تصوف اور اسلام‘ کے اشارات میں ان کتابوں کے ذیل میں ملتا ہے جن سے وہ اس باب کی تحریر میں مدد لینا چاہتے تھے چنانچہ کتاب تاریخِ تصوف کے ص نمبر ۹۳ پر اردو کتابوں کے ذیل میں تیسرے نمبر پر یہ عبارت ملتی ہے: ۳۔ امام غزالی مصنفہ شبلی۱۲؎ اسی طرح کتابِ مذکورہ میں ضمیمہ کے تحت بیان کیے گئے انگریزی اشارات میں بھی ص ۱۱۹ پر غزالی کا یوں تذکرہ ملتا ہے: ’’Defence of Hallaj… ۱۔ غزالی، ۲۔ عبدالقادر جیلانی، ۳۔ ابن عربی‘‘ ۱۳؎ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تو اقبال اس کتاب میں امام غزالی کے بارے میں تجزیاتی گفتگو کرنا چاہتے تھے اور دوسرے منصور حلاج کے بارے میں غزالی نے جو گفتگو کی تھی اس کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ ۱۵؍ جون ۱۹۱۶ء کو وکیل امرتسر میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون بعنوان ’اسرارِ خودی اور تصوف‘ میں (جو کہ مقالاتِ اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی میں شامل ہے) وحدت الوجود کے بارے میں اپنے اختلافی اور تبدیل شدہ نقطۂ نظر کے اظہار میں غزالی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔۱۴؎ مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیراسلامی ثابت ہوئے، مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا، مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلاتِ ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم الجیلی نے اپنی کتاب انسانِ کامل میں کیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیوں کہ انھوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے۔ مسئلہ قدمِ ارواح افلاطونی ہے۔ بوعلی سینا اور ابونصر فارابی دونوں اس کے قائل تھے۔ چنانچہ امام غزالی نے اس وجہ سے دونوں بزرگوں کی تکفیر کی ہے۔ ٭ تاریخِ تصوف کے بارے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ بالکل ابتدائی نوعیت کے نوٹس ہیں جن کو وہ ایک کتاب کی صورت میں احاطۂ تحریر میں لانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ کر سکے۔ انھی بالکل ابتدائی نوعیت کے منتشر نوٹس کو صابر کلوروی صاحب نے مرتب کر کے تاریخِ تصوف کے نام سے شائع کیا ہے۔ اپنے مقالے میں اقبال نے غزالی میں روح کی ماہیت اور ان کے نظریۂ خدا کے بیان میں وحدت الوجودی میلانات و رجحانات کو بیان کیا تھا جب کہ یہاں وہ غزالی کے حوالے سے ہی بو علی سینا اور الفارابی کے نظریۂ قدمِ ارواح پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مابعد دور میں غزالی کے مزید مفصل مطالعات کے بعد غزالی کے بارے میں اقبال کے مذکورہ بالا نظریات میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ مذکورہ بالا بیان میں اقبال غزالی کو وحدتِ وجود کی اساس مسئلۂ قدمِ ارواح کے ناقد کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور ۱۱؍ جنوری ۱۹۲۷ء کے ایک خط میں غزالی کے بارے میں اپنے جس تبدیل شدہ نقطۂ نظر کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے اس سے اس کی بھی قدرے وضاحت ہو جاتی ہے۔۱۵؎ تشکیلِِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے پہلے خطبے ’علم اور مذہبی مشاہدات‘،میں اسلام اور فلسفۂ یونان کی بنیادی روح میں تفاوت کو بیان کرتے ہوئے، مسلمان فلاسفہ میں یونانی فلسفے کے بارے میں پیدا ہونے والی بغاوت کا تذکرہ غزالی کے حوالے سے یوں کرتے ہیں:۱۶؎ قرآن پاک کی روح اساساً یونانیت کے منافی ہے، اس انکشاف نے ان کے اندر جو ذ ہنی بغاوت پیدا کر دی تھی اس کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ کچھ اس بغاوت اور کچھ غزالی کے ذاتی حالات کا تقاضا تھا کہ امام موصوف نے مذہب کی بنا فلسفیانہ تشکک پر رکھی۔ حالانکہ یہ مذہب کی کوئی محکم اساس ہے اور نہ تعلیماتِ قرآنی کے مطابق۔ آگے چل کر غزالی کے حریفِ اعظم ابنِ رشد نے جو گویا باغیوں کے خلاف حکمت یونان کی حمایت میں سینہ سپر تھا، ارسطو کی پیروی میں بقاے عقلِ فعال کا عقیدہ وضع کیا۔ یہاں پر غزالی کی تشکیک کو ان کے خاص ذاتی احوال اور فلسفۂ یونان سے بغاوت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ نقطۂ نظر تقریباً ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقا میں اختیار کیے گئے نقطۂ نظر سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ مقالے میں بھی اقبال نے غزالی کو ’عقلیت کے خلاف ردِعمل۔ اشاعرہ‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔۱۷؎ اور غزالی کا بڑا کارنامہ بھی یہی بیان کیا ہے کہ انھوں نے فلسفے کا باضابطہ رد لکھا اور یوں لوگوں پر عقلیت کے چھائے ہوئے رعب کو ختم کیا۔۱۸؎ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے پہلے خطبے میں ہی غزالی کا کانٹ سے تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:۱۹؎ بایں ہمہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ غزالی کی دعوت میں ایک پیغمبرانہ شان پائی جاتی ہے۔ کچھ یہی حیثیت اٹھارہویں صدی میں کانٹ کو جرمنی میں حاصل ہوئی۔ جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ عقائد کا اثبات ازروئے عقل ناممکن ہے تو اہلِ جرمنی کے لیے بجز اس کے چارئہ کار نہ رہا کہ عقائد کے حصے کو مذہب سے خارج کر دیں مگر عقائد کے ترک سے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح عقلیت ہی کے زیرِ اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہو گیا۔ یہ حالت تھی مذہبی غور و فکر کی جب کانٹ کا ظہور جرمنی میں ہوا اور پھر جب اس کی ’تنقیدِ عقلِ محض‘ سے عقل انسانی کی حدود واضح ہو گئیں تو حامیانِ عقلیت کا وہ ساختہ پر داختہ طومار جو انھوں نے مذہب کے حق میں تیار کر رکھا تھا، ایک مجموعۂ باطل ہو کر رہ گیا، لہٰذا ٹھیک کہا گیا کہ کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو خدا نے جرمنی کو عنایت کیا، تقریباً یہی نتیجہ غزالی کے فلسفیانہ تشکیک سے دنیاے اسلام کے لیے مرتب ہوا ہے یہ اور بات ہے کہ امام موصوف اپنے اس تشکک میں کسی قدر آگے بڑھ گئے تھے۔ غزالی نے بھی اس بلند بانگ مگر بے روح عقلیت کا زور ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جس کا رجحان ٹھیک اسی جانب تھا جس طرف کانٹ سے پہلے جرمنی میں۔ لیکن کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک بڑا اہم فرق ہے اور وہ یہ کہ کانٹ نے اپنے اصول و کلیات کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا کہ ذاتِ الٰہی کا ادراک ممکن ہے برعکس اس کے غزالی نے فکرِ تحلیلی سے مایوس ہو کر صوفیانہ واردات کا رخ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے لیکن جس کا مطلب گویا یہ تھا کہ مذہب کو سائنس اور مابعد الطبیعیات سے الگ رہتے ہوئے بھی اپنا آزاد اور مستقل وجود برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ امام موصوف نے مجموعی لامتناہی (Total Infinite) (لامتناہی کل) کا مشاہدہ چونکہ صوفیانہ واردات میں کیا تھا اس لیے انھیں یقین ہو گیا تھا کہ فکر متناہی بھی ہے اور نارسا بھی۔ لہٰذا انھیں فکر اور وجدان کے درمیان ایک خطِ فاصل کھینچنا پڑا۔ امام موصوف یہ نہیں سمجھتے کہ فکر اور وجدان میں ایک نامی رشتہ کام کر رہا ہے۔ ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقا پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں اقبال نے غزالی کا ڈیکارٹ کے ساتھ تقابلی مطالعہ پیش کیا تھا جس میں غزالی اور ڈیکارٹ کے طریقِ کار کی مشابہت کا خاص طور پر ذکر ہے جب کہ یہاں کانٹ کے حوالے سے بات کی ہے وہاں اقبال نے جرمنیکے Borger اور Solger سے غزالی کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے غزالی میں وحدت الوجودی میلانات کا تذکرہ کیا تھا۔۲۰؎ جب کہ یہاں جرمنی میں کانٹ اور اسلامی دنیا میں غزالی کے کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دونوں نے بے روح عقلیت کا زور توڑ دیا تھا۔۲۱؎ کانٹ پر غزالی کی برتری بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ کانٹ اپنے اصول و کلیات سے اس نتیجے تک نہ پہنچ سکا کہ ذاتِ الٰہی کا ادراک ممکن ہے۔۲۲؎ جب کہ غزالی نے صوفیانہ واردات کے سہارے ذاتِ الٰہی کے مشاہدے کے امکان کو تسلیم کیا۔۲۳؎ اپنے مذکورہ بالا تبصرے میں ہی وہ غزالی پر بہت مفید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ غزالی نے لامتناہی کُل کا مشاہدہ صوفیانہ واردات میں کیا تھا، لہٰذا وہ خیال کرتے تھے کہ فکر متناہی بھی ہے اور نارسا بھی اور اسی وجہ سے انھوں نے فکر اور وجدان میں ایک حدِ فاصل قائم کی جب کہ اقبال کے نزدیک یہی امام غزالی کا اشتباہ تھا اس لیے کہ صرف صوفیانہ واردات کے سہارے آگے بڑھنے کی وجہ سے وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ فکر اور وجدان میں ایک نامی رشتہ کام کر رہا ہے۔۲۴؎ یہاں اقبال نے غزالی کو ایک نئے انداز سے پیش کیا ہے اور ان کی ’صوفیانہ واردات‘ اور ’ردِ عقلیت‘ کو بھی تجزیہ و تحلیل کے ساتھ ایک نئے زاویے سے بیان کیا ہے جب کہ ان کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں غزالی کی صوفیانہ واردات اور تردیدِ عقل کے مباحث اس انداز سے نہیں ملتے۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے تیسرے خطبے میں اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کا جائزہ لیتے ہوئے زمان و مکاں اور حرکت کے مباحث کے ذیل میں رومی کا غزالی کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے رومی کو غزالی پر یوں ترجیح دیتے ہیں:۲۵؎ بایں ہمہ میرا خیال ہے کہ اشاعرہ کے ذہن میں اگرچہ نقطے، لمحے کا جدید تصور موجود تھا لیکن وہ ان کے باہمی تعلق کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے تھا کہ نقطے اور لمحے میں، لمحے ہی کا وجود زیادہ اساسی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نقطے کو لمحے سے الگ رکھنا ناممکن ہے کیوں کہ لمحہ مشہود ہوتا ہے تو نقطے ہی کی شکل میں۔ نقطہ شے نہیں، اسے ایک اندازِ نگاہ کہیے، ایک طریق لمحے کو دیکھنے کا، لہٰذا جب رومی یہ کہتا ہے: پیکر از ما ہست شد نے ما ازو بادہ ازما مست شد نے ما ازو (بدن ہم سے موجود ہوا نہ کہ ہم بدن سے، شراب میں نشہ ہم سے ہے، نہ کہ ہم شراب سے نشہ حاصل کرتے ہیں) تو اس سے غزالی کی نسبت اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی زیادہ صحت کے ساتھ ہو جاتی ہے کیوں کہ حقیقت اپنی کنہ میں محض روح ہے۔ قطعِ نظر اس سے کہ روح کے بھی مختلف درجات ہیں۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے مترجم نذیر نیازی کتاب کے آخر میں ’تصریحات‘ کے عنوان کے تحت اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:۲۶؎ جیسا کہ خطبات میں مذکورہ ہے قدیم طبیعیات میں زمان و مکاں کا وجود ایک دوسرے سے آزاد اور اپنی جگہ پر مستقل تسلیم کیا جاتا تھا اور اس لیے زمانے کی محسوس اور مکان کی مرئی شکل یعنی لمحوں اور نقطوں یا پھر جیسا کہ عربی اصطلاح ہے آفات و ہنات کا وجود بھی ایک دوسرے سے الگ رہا۔ طبیعیاتِ حاضرہ نے البتہ جب اس ثتوی نقطۂ نظر کے خلاف ابعادِ ثلاثہ کے بجائے ابعادِ اربعہ کا تصور قائم کرتے ہوئے زمانے کو مکان میں مدغم کر دیا تو نقطوں اور لمحوں کے دو الگ الگ اور جداگانہ نظامات کا بھی خاتمہ ہو گیا، لیکن طبیعیاتِ حاضرہ کے نزدیک نقطے کا وجود لمحے سے متقدم ہے بہ الفاظ دیگر لمحے کا وجود غیرحقیقی ہے، برعکس اس کے اگر لمحے کا وجود نقطے سے متقدم ہے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ جواہر کی حقیقت دراصل روحانی ہے (جیسا کہ بصورتِ دیگر مادّی) لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ روح دراصل مادّے ہی کی ایک لطیف شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رومی کے اشعار سے بہ نسبت غزالی کے اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کہیں زیادہ بہتر شکل میں ہو جاتی ہے۔ اپنے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں اقبال کے ہاں غزالی کے بارے میں ابتدائی نوعیت کے مباحث ملتے ہیں جو کہ مذکورہ مقالے کے باب نمبر۳ اور باب نمبر۴ میں ہیں لیکن تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں زیرِ بحث موضوع کے تحت پیش کیے جانے والے مباحث قدرے تفصیلی ہیں اور ان کا مذکورہ بالا مقالے میں پیش کیے جانے والے مباحث سے درجِ ذیل باتوں میں فرق ہے: ۱۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے مذکورہ بالا مباحث سے پہلے کی جملہ تحریروں میں اقبال نے غزالی کا تذکرہ عظیم اسلامی مفکر، صوفی اور متکلم کے طور پر ضرور کیا ہے اور وجود، روح اور ہستیِ مطلق کی ماہیت کے بارے میں اس کے کچھ نظریات بھی اجمالاً بیان کیے ہیں مگر زمان و مکاں اور حرکت کے حوالے سے غزالی کا تذکرہ نہیں ملتا، جب کہ یہ مباحث تشکیلِ جدید کے مذکورہ بالا مباحث میں نمایاں ہیں۔ ۲۔ خطبات کے مذکورہ مباحث میں اقبال، حرکت اور زمان و مکاں کے پیچیدہ مباحث میں غزالی اور رومی کا تقابل کرتے ہوئے بعض مقامات پر رومی کو غزالی پر ترجیح دیتے ہیں اور اسے اسلامی نقطۂ نظر کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے چوتھے خطبے ’خودی، جبرو قدر اور حیات بعدالموت‘ میں خودی کی حقیقت و ماہیت پر بحث کرتے ہوئے غزالی کے حوالے سے یوں گویا ہیں:۲۷؎ الٰہیاتِ اسلامیہ کے اس مذہب میں جس کے امام غزالی شارحِ اعظم ہیں، خودی یا انا کی حیثیت ایک سادہ، ناقابلِ تجزیہ اور ناقابلِ تمحول جوہرِ روحانی کی ہے جسے کیفیاتِ نفسی کے سارے مجموعے سے کلیتاً مختلف، علیٰ ہذا مرورِ زمانہ کے اثرات سے سرتا سر آزاد تصور کیا جاتا تھا، گویا خیال یہ تھا کہ ہماری وارداتِ شعور اگر ایک وحدت ہیں تو اس لیے کہ ہماری کیفیاتِ نفسی اس سادہ سی شے کی گوناگوں صفات میں جو ان کی پیہم آمد و شد کے باوجود جوں کی توں قائم اور برقرار رہتی ہیں۔ تشکیلِ جدید میں غزالی کے بارے میں اختیار کیا گیا اقبال کا یہ نقطۂ نظر اس کے سابقہ نقطۂ نظر سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں اقبال غزالی میں وحدت الوجودی میلانات کے بجائے اس کے انا، خودی اور روح کے متعلق نظریات کو بیان کرتے ہیں اور غزالی کے یہ مباحث اقبال کے اس نقطۂ نظر سے زیادہ قریب ہیں جو اس نے ماہیتِ خودی اور انا کے متعلق اپنی مابعد فکر میں اختیار کیا اور اپنی آخری دور کی شاعری، خطوط اور خطبات میں وہ جس کی تشریح و تفسیر کرتے رہے اور جس کے شعور و ادراک کو انھوں نے مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل قرار دیا۔ فلسفۂ یونان پر مسلمانوں کی تنقید اور خاص طور پر غزالی کے اختلافِ نظر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۲۸؎ فلسفۂ یونان کے خلاف یہ عقلی بغاوت اگرچہ فکر کے ہر شعبے میں عیاں ہے لیکن افسوس ہے ریاضی، فلکیات اور طب میں اس کا اظہار جس طرح ہوا میں اس کی تشریح و توضیح سے قاصر ہوں۔ اشعری کے مابعد الطبیعی افکار میں البتہ اس کی جھلک صاف صاف نظر آتی ہے۔ منطق کی تنقید بھی علماے اسلام نے جس رنگ میں کی وہ اس کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت ہے اور یہ پھر ویسے بھی ایک طبعی امر تھا، کیوں کہ ایک دفعہ جب انسان کسی ایسے فلسفے سے جس کی بنیاد ظن و تخمین پر ہو، بدگمان ہو جائے تو پھر اس کے سوا چارئہ کار نہیں رہتا کہ علم کے کسی ایسے سرچشمے کی تلاش کرے جو قطعی اور یقینی ہو۔ نظام ہی نے شاید سب سے پہلے یہ اصول قائم کیا تھا کہ علم کی ابتدا تشکیک سے ہوتی ہے اور جسے غزالی نے احیاء العلوم میں مزید وسعت دی اور جس سے آگے چل کر کارتیسی منہاج کا راستہ صاف ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ منطق میں غزالی نے اس کے باوجود ارسطو ہی کی پیروی کی ہے، چنانچہ ’قسطاس‘ کو دیکھیے تو امام موصوف نے قرآنی دلائل کو بھی ارسطا طایسی اشکال ہی کے رنگ میں پیش کیا ہے حالانکہ سورئہ شعرا میں اس دعویٰ کا اثبات کہ انبیا علیہ السلام کی تکذیب سے عذاب لازم آتا ہے، تاریخی نظائر کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ جہاں تک کارتیسی منہاج کی پیش بینی کا تعلق ہے، غزالی کے حوالے سے اقبال نے یہ بات اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں بھی کی ہے۲۹؎ لیکن یہاں کی جانے والی بات کارتیسی منہاج کی نشاندہی کے علاوہ دو حوالوں سے زیادہ وقیع اور جامع ہے: ۱۔ یہاں غزالی کا تذکرہ ان کی منطق کی خدمات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ ۲۔ غزالی کی منطقی روش پر تنقید بھی کی گئی ہے اور اس کی روش کو ارسطو کا اتباع قرار دیا گیا ہے گویا یہاں غزالی کی شخصیت ایک وسیع canvas پر ان کے سامنے آ رہی ہے۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے خطبہ نمبر۶ ’الاجتہاد فی الاسلام‘ میں بھی ایک جگہ پر غزالی کا تذکرہ کیا ہے لیکن وہ نظریات کے حوالے سے نہیں بلکہ غزالی کے ایک شاگرد کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا ہے جس کا بیان یہاں غیر متعلق ہو گا ۔۳۰؎ غزالی کے بارے میں اقبال کا ایک خوب صورت تبصرہ ان کے خان نیاز الدین کے نام خط میں ان الفاظ میں ملتا ہے:۳۱؎ امام غزالی کی نسبت یہ فیصلہ کرنا کہ وہ ہمہ اوست یا ہمہ ازاوست کے قائل تھے، نہایت مشکل ہے وہ فلسفی تھے اور دونوں طرف کی مشکلات کو سمجھتے تھے۔ حال کے حکما میں جرمنی کا مشہور فلسفی ٹالسٹا بالکل دوسرا غزالی ہے۔ جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں بیان کر چکے ہیں، غزالی کے تصورِ توحید کے حوالے سے اقبال کا یہ نقطۂ نظر ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں اسی حوالے سے اختیار کیے گئے نقطۂ نظر سے خاصا مختلف ہے جب کہ یہ نقطۂ نظر اقبال کے خطبات میں اختیار کیے گئے نقطۂ نظر سے خاصا مماثل ہے یوں اس حوالے سے اقبال کے غزالی کے بارے میں ابتدائی اور نہائی فکر میں بدلتے ہوئے نقطۂ نظر کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، اقبال نے تین مقامات پر اردو ایک مقام پر فارسی شاعری میں غزالی کا تذکرہ کیا ہے۔ ان چاروں مقامات پر اقبال نے غزالی کا تذکرہ تصوف و عرفان، جذب و کیف، سوز و سرور اور عشق کے بیان کے حوالے سے کیا ہے۔ اردو شاعری میں پہلی مرتبہ بانگِ درا میں ’جوابِ شکوہ‘ کے عنوان کے تحت غزالی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ شاعری یورپ جانے سے قبل (۱۹۰۰ء سے قبل) کی ہے، اس میں غزالی کو ایک مصلح کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں: ۳۲؎ فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی دوسری بار بالِ جبریل میں آہِ سحر گاہی کی اہمیت کے بیان میں غزالی کا تذکرہ کرتے ہیں جو کہ شریعت و طریقت ہر دو میں حصولِ منازل کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے اور یہاں اسلامی فکری روایت کے ایک تسلسل کے طور پر بھی غزالی نمایاں ہوتے ہیں:۳۳؎ عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی اردو شاعری میں تیسری بار ارمغانِِ حجاز کی فارسی نظم میں غزالی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس میں بھی غزالی کا بیان تصوف کے پیرائے میں ہی ہے جس سے اقبال کی نظر میں غزالی کی عارفانہ حیثیت آشکار ہوتی ہے:۳۴؎ دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی فارسی شاعری میں غزالی کا تذکرہ جاوید نامہ میں شامل اقبال کی نظم بعنوان ’زیارتِ امیر کبیر حضرت سیّد علی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری‘ میں اس شعر میں ملتا ہے: ۳۵؎ تا غزالی درس اﷲ ہو گرفت ذکر و فکر از دودمان او گرفت یہاں غزالی کا تذکرہ اس کے سرچشمۂ عرفان کے بیان کے ضمن میں ملتا ہے۔ مذکورہ بالا بیان کے ساتھ اقبال کے جملہ نثری و شعری آثار میں غزالی کا تذکرہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ غزالی کے بارے میں اقبال کی جملہ آرا سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگرچہ دونوں میں بعض اہم موضوعات پر بنیادی نوعیت کا اختلاف ہے تاہم ان دونوں کے افکار میں بہت سی مشابہتیں بھی ہیں، مثلاً جہدِ مسلسل، سخت کوشی، موت، یقین، منصور حلاج، ابلیس اور قوتِ عمل وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر دونوں کے ہاں بہت مشابہت ہے۔ اس سلسلے میں غزالی کی احیاء العلوم اور اقبال کے جملہ نثری و شعری آثار میں بہت سے حوالے موجود ہیں۔۳۶؎ اقبال کی تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کا فارسی میں ترجمہ ہوا تو اسے ’احیائے فکر دینی در اسلام‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ ڈاکٹر سیّد حسین نصر نے مذکورہ فارسی ترجمے کے دیباچے میں غزالی کے ’احیاء العلوم‘ اور اقبال کی احیاے فکرِ دینی‘ میں نام کی مماثلت کو دونوں مفکرین میں گہرے فکری و معنوی اشتراک کے ذیل میں بیان کیا ہے۔۳۷؎ اسی بات کی طرف ڈاکٹر اینے میری شمل کی Gabriel's Wing میں بھی اشارہ ملتا ہے۔۳۸؎ علاوہ ازیں مذہب و فلسفہ میں مطابقت، مذہب کی مابعدالطبیعیات و فلسفہ اور سائنس سے برتر بنیادی اور مستحکم و مستقل حیثیت، روحانی تجربہ (جو کہ مذہب کا ذریعۂ علم ہے) کا بطور مستند ذریعۂ علم اثبات، سیرالی الحق میں روحانی راہنما کی ضرورت و اہمیت۳۹؎، فلسفۂ یونان کی تنقیص، عقل کی محدودیت اور مذہب کے لیے عقل و حواس سے ہٹ کر ایک الگ مستند اساس، جیسے اہم موضوعات پر بھی ان دونوں میں بعض اہم اشتراکات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ اپنی ابتدائی فکرایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں اقبال نے غزالی کے وحدت الوجود کی طرف میلان کا ذکر کیا ہے جب کہ اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے بعد کی جملہ تحریروں میں وہ وحدت الوجود پر غزالی کے حوالے سے ہی تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے خطبات میں غزالی کو انا اور خودی کے ایک نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی نظریے نے بعد ازاں اقبال کے نظامِ فکر میں اساسی حیثیت حاصل کی۔ اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ اپنے خطبات میں اقبال نے غزالی کا کانٹ سے موازنہ کرتے ہوئے غزالی کو کانٹ سے بہتر و برتر قرار دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ، غزالی فکر اور وجدان میں کسی قسم کے تعلق کے ادراک تک نہ پہنچ سکے، اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے دنیائے فکر و فلسفہ کو جو نقصانات ہوئے اس کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی کے مطابق:۴۰؎ Ghazali tried to destroy philosophy, but this very theme led Sohrawardi to advance philosophy on a new basis rather destroy the effects of philosophers as such. جب کہ مرتضیٰ مطہری اس ضمن میں یوں اظہارِ نظر کرتے ہیں:۴۱؎ ضدِ فلسفہ در جہانِ اسلام زیادہ بودہ اند۔ اماہیچکس بقدرت غزالی نبودہ است، اگر بہ فاصلہ کمی افرادی نظیر سہروردی و خوا جہ نصیرالدین ظہور نکردہ بودند غزالی بساط فلسفہ برچیدہ بود۔ اقبال کے نزدیک غزالی کی دو حیثیتیں ہیں، ایک متصوفِ اسلام اور دوسرے متکلمِ اسلام۔ ایک مسلم متصوف کی حیثیت میں اقبال غزالی کی تحسین کرتے ہیں اور اس کے اس کارنامے کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے تصوف کو مذہبی حلقوں میں مضبوط مقام دلایا۴۲؎ اور یہ کہ اس نے کلام اور تصوف کو ہم آہنگ کرنے میں اہم خدمات انجام دیں۔۴۳؎ لیکن اس سب کے باوجود متکلمِ اسلام کے طور پر غزالی کے متعدد نتائجِ فکر کو اہم تصور کرنے اور جدید ڈیکارٹی منہاج کے پیش رو تسلیم کرنے کے باوجود، ایک ایسے مفکر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو کسی علمی روایت کی تشکیل میں ناکام ہونے کی وجہ سے مایوس ہو کر تصوف میں پناہ لے لیتا ہے اور یوں وہ تحریک دم توڑ دیتی ہے جو یونانی فکر کے خلاف بغاوت کی صورت میں غزالی میں نمودار ہوئی۔ وہ قرآنی منہاج پر کسی فلسفیانہ تحریک کو جنم دینے کے بجائے صوفیانہ واردات کی بھول بھلیوں میں کھو گئے اور یوں وہ نتائجِ فکر حاصل نہ ہو سکے جن کی مسلم تاریخِ فکر میں اقبال غزالی سے امید کر سکتے تھے۔ اپنی گفتگو کو سمیٹنے سے پہلے غزالی اور ڈیکارٹ کی تشکیک کے حوالے سے ہم ایک اور اقبال شناس کی رائے درج کرنا چاہیں گے جو ملائیشیا کے معروف دانشور ڈاکٹر عثمان بکر کے مضمون ’غزالی کے فلسفے میں تشکیک کی معنویت اور اہمیت‘ کے تعارف میں بیان کی گئی ہے۔۴۴؎ مغربی محققین اور متشرقین کی تصانیف میں ابوحامد محمدالغزالی کے بارے میں یہ خیال بالعموم ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ وہ نہ صرف تشکیک کو ایک منہاجِ حصولِ علم سمجھتے تھے بلکہ اس ضمن میں ان کے افکار ڈیکارٹ کے فلسفیانہ ارتبابیت کے پیش رو بھی ہیں۔ بعض مسلمان مفکرین بھی اس رائے کے قائل ہوئے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ایک سطحی مشابہت ہے اور دونوں مفکرین کے تصورِ کائنات کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے سے ان دونوں کا اساسی فرق واضح ہو سکتا ہے نیز یہ اسلامی تمدن کے ان مظاہر اور ان افکار کی بھی ایک مثال ہے جو اپنے اسلامی تناظر سے اکھاڑ کر ایک اجنبی تمدن میں پیوند کیے گئے اور ان کی مابعد کی منفی نشوونما کو اسلامی تہذیب کا فیض قرار دے کر اس پر فخر کیا گیا۔ یوں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: ۱۔ غزالی اور ڈیکارٹ کی منہاجی مشابہت سطحی ہے۔ ۲۔ دونوں مفکرین کا مبلغِ علم اور تصورِ کائنات مختلف ہے، لہٰذا دونوں کی تشکیک میں اساسی فرق ہے۔ ۳۔ اسی طرح ڈیکارٹ کی تشکیک کے اثرات کا غزالی کی تشکیک کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اس بات کو عثمان بکر یوں بیان کرتے ہیں:۴۵؎ الغزالی کو ان کے علمیاتی بحران تک لے جانے میں تصوف نے مرکزی کردار ادا کیا۔ الغزالی کی تشکیک جو عقل پر بھروسا کرنے نہ کرنے سے متعلق ہے اس کا آغاز ’نیچے‘ سے یا خود عقلِ جزئی کے اپنے اوپر تفکر سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا خیال انھیں اوپرسے وارد ہوتا ہے کیوں کہ وہ صوفیہ کے منہاجِ علم سے آگاہ تھے جو فوق الفکری ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا اور اپنے طور پر عقلِ جزئی کا ناقد تھا۔ اسی طرح یہ شک دور بھی عقلِ جزئی کے عمل سے نہیں ہوا بلکہ انعامِ الٰہی کی روشنی کے نتیجے کے طور پر چھٹ گیا جو تمام قواے علمیہ کو ان کے حقیقی مقام پر لے جاتی ہے اور اپنی اپنی سطح پر ان کا جواز اور اعتماد بحال کر دیتی ہے۔ غزالی کے تشکیک اور تشکیک سے روشنی کے سفر کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ اسکالر نے غزالی اور ڈیکارٹ کی تشکیک کا تقابلی جائزہ یوں پیش کیا ہے:۴۶؎ الغزالی کی نام نہاد تشکیک کا موازنہ جدید مغربی فلسفے میں پائی جانے والی کسی تشکیک سے نہیں کیا جا سکتا۔ الغزالی کا ذہن مبتلائے تشکیک ہو کر بھی وحی اور ایمان سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ایک ’حتمی اور یقینی‘ ایمان پر اپنی بنیاد رکھتا ہے، جدید متشکک کا ذہن عملِ تشکیک میں وحی اور عقل دونوں سے کٹ جاتا ہے اور اپنی بے سمت حرکات کی پیروی کرتے کرتے ایمان سے بھی منھ موڑ لیتا ہے۔ غزالی اور ڈیکارٹ کی تشکیک کے اس تقابلی مطالعیکی گفتگو کو ہم ڈاکٹر سیّد حسین نصر کی اس رائے پر تمام کرتے ہیں کہ:۴۷؎ ڈیکارٹ تیرھویں صدی کے فلاسفہ کے پیش رو یقینا نہ تھے۔ اگر ان فلاسفہ کی کتابیں غزالی تک پہنچ گئی ہوتیں تو وہ یقینا ایک اور تہافۃ رقم کرتے جو شیخ الرئیس اور فارابی کے خلاف لکھی جانے والی تہافۃ سے کہیں زیادہ تندوتیز ہوتی۔ وحی کی مدد سے علمِ لدنی تک عقل کی رسائی کا امکان دیکھتے ہوئے وہ ان فلسفیوں کے افکار پر یقینا تعجب کرتے۔ جب کہ ڈاکٹر سیّد حسین نصر اپنے ایک مضمون ’فلسفے کا مخالف فلسفی‘ میں غزالی کو فلسفے کا ناقد سمجھنے کے باوجود ایک ایسا حکیم و فلسفی قرار دیتے ہیں جس نے فلسفے پر عقائد یا احساسات کے اعتبار سے تنقید نہیں کی بلکہ اس کی فلسفے پر تنقید، فلسفیانہ تنقید تھی اور وہ اسے فلسفیانہ علمِ کلام کا مؤسس ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں:۴۸؎ غزالی کا علمِ کلام فلسفے کا مخالف ہے مگر خود ایک فلسفیانہ جہت رکھتا ہے اور اگر لفظ فلسفے کو اس کے متداول معنی میں استعمال کریں تو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ غزالی کی تصانیف فلسفیانہ فکر کے اہم منابع میں سے ہیں گو مشائی فلسفے کے اعتبار سے فلسفہ نہ کہلائیں۔ حادث اور قدیم کا ربط، علت و معلول، جسم کی جوہریت، جزو لایتجزیٰ، علمِ اشیا وغیرہ جیسے مباحث ان کی کتب میں منطق و استدلال کے سہارے بیان ہوئے ہیں اور ایسے انداز میں ان کی تفصیل دی گئی ہے جو ان کی تحریر کو اشاعرہ اور دیگر متکلمینِ سابقہ کے مکتبِ فکر سے جدا کرتا ہے باوجودیکہ انھوں نے اشاعرہ کے علمِ کلام کی بنیاد کا دفاع کیا اور وہ خود اس مکتبِ فکر کے اہم ترین مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔ فکر و فلسفہ پر غزالی کے اثرات کے حوالے سے مذکورہ بالا مختلف النوع آرا کے باوجود یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ شرق و غرب ہردو پر غزالی کے کلام، فلسفہ اور تصوف تینوں میدانوں میں آج بھی گہرے اثرات موجود ہیں۔۴۹؎ اور بقول Massimo Campanini:۵۰؎ The breadth of Al-Ghazali's thought means that he can be viewed as the prototype of the Muslim intellectuals. ٭٭٭ حوالہ جات ۱۔ اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ،زیرِ اہتمام دانش گاہِ پنجاب لاہور جلد ۴ا/۲، باب ’الغزالی‘۔ طبع اوّل، ۱۹۸۲،ص ۴۸۴ ۲۔ Encyclopaedia Britanica.Vol-10,pp.330,1962 ۳۔ علامہ محمد اقبال: فلسفۂ عجم ، مترجم میر حسن الدین ، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۶۹ئ،ص ۱۰۳۔۱۰۴ ۴۔ ایضاً ص ۱۰۵ ۵۔ ایضاً ص ۱۰۶۔۱۰۷ ۶۔ ایضاً ص ۱۰۶ ۷۔ ایضاً ص ۱۰۸۔۱۰۹ ۸۔ ایضاً ص ۱۶۲ ۹۔ ایضاً ص ۱۶۴ ۱۰۔ علامہ محمد اقبال، اقبال نامہ، حصہ دو م، مرتبہ شیخ عطا اللہ، شیخ محمد اشرف، ۱۹۵۱، لاہور، ص ۳۴۲ ۱۱۔ علامہ محمد اقبال، تشکیلِ جدید اِلہٰیاتِ اسلامیہ، مترجم نذیر نیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۶ئ، ص ۱۹۸ ۱۲۔ علامہ محمد اقبال، تاریخِ تصوف، مرتبہ صابر کلوروی مکتبہ تعمیرِ انسانیت، اردو بازار لاہور، ۱۹۸۷ئ، ص ۹۳ ۱۳۔ ایضاً ص ۱۱۹ ۱۴۔ علامہ محمد اقبال، مقالاتِ اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی، شیخ محمد اشرف، ۱۹۶۳، ص ۱۶۲ ۱۵۔ علامہ محمد اقبال، اقبال نامہ، حصہ دوم، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف، ۱۹۵۱، ص ۱۰۰ ۱۶۔ علامہ محمد اقبال، تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ، مترجم نذیر نیازی، بزمِ اقبال، لاہور ۱۹۸۶، ص ۵ ۱۷۔ علامہ محمد اقبال، فلسفۂ عجم، مترجم میرحسن الدین، نفیس اکیڈمی کراچی، ۱۹۶۹، ص ۱۳۰ ۱۸۔ ایضاً۔ص ۱۰۳ ۱۹۔ علامہ محمد اقبال، تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ، مترجم نذیر نیازی بزمِ اقبال ۱۹۶۹، اقبال لاہور ص ۷۔۸ ۲۰۔ Allama Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Bazm i Iqbal, Club Road, Lahore,1947,p.60 ۲۱۔ Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy, Pakistan,1989.p.30 ۲۲۔ Ibid-p-4 ۲۳۔ Ibid-p-4 ۲۴۔ Ibid-p-5 ۲۵۔ علامہ محمد اقبال ، تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ، مترجم نذیر نیازی بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۶ص،۱۰۸۔ ۱۰۹ ۲۶۔ ایضاً ص ۲۳۲۔ ۲۳۳ ۲۷۔ ایضاً ص ۱۵۰۔۱۵۱ ۲۸۔ ایضاً ص ۱۹۷۔۱۹۸ ۲۹۔ Allama Muhammad Iqbal, The Dovelopment of Metaphysics in Persia, Bezm i Iqbal, Lahore,1964, p.59-60 ۳۰۔ Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy, Lahore, 1989, p.121. ۳۱۔ علامہ محمد اقبال، مکاتیبِ اقبال بنام خاں محمد نیاز الدین خاں، بزمِ اقبال، لاہور ۱۹۸۶ئ، ص۶ ۳۲۔ علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۴، ص۲۰۳ ۳۳۔ ایضاً، ص ۔ ۳۴۸ ۳۴۔ ایضاً، ص ۔ ۶۸۵ ۳۵۔ علامہ محمد قبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، شیخ غلام اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۷۴۶ ۳۶۔ ڈاکٹر صدیق شبلی، اقبال اور غزالی، مقالات جشنِ اقبال صدی، شعبہ اقبالیات، جامعہ پنجاب لاہور ۳۷۔ علامہ محمد اقبال، احیاے فکر دینی دراسلام (فارسی‘ مقدمہ از دکتر سیدحسین نصر، ہفت مطبوعہ موئسسہ فرھنگی، منطقہ نو، تہران۔ ۳۸۔ A.Schimmel, Gabriels Wing, Iqbal Academy, p.50, Lahore,1989 ۳۹۔ نصر اللہ پور جوادی، ’احمد اور محمد غزالی کے ایک دوسرے پر اثرات۔ ایک جائزہ‘ مترجم محمد سہیل عمر، اقبالیات، جنوری، ۱۹۸۷، اقبال اکادمی ، لاہور، ص۔۱۴۰ ۴۰۔ The Encyclopaedia of Philosophy, vol-3, The Macmillan Company, New york, 1967, p.327 ۴۱۔ مرتضیٰ مطہری، خدمات متقابل اسلام و ایران، انتشارات صدرا، تہران، ۱۴۶۲، ص، ۵۵۸۔ ۴۲۔ Shorter Encyclopaedia of Islam, NetherLands, 1961,p,112. ۴۳۔ Encyclopaedia Britannica,Vol-10, 1962, p.330 ۴۴۔ عثمان بکر، ’غزالی کے فلسفے میں تشکیک کی معنویت اور اہمیت‘، مترجم محمد سہیل عمر، اقبالیات، جنوری، ۱۹۸۶، اقبال اکادمی لاہور، ص ۷۰۔ ۴۵۔ ایضاً ص ۸۰ ۴۶۔ ایضاً ص ۸۰ ۴۷۔ سید حسین نصر، ’فلسفے کا مخالف فلسفی‘، مترجم محمد سہیل عمر، اقبالیات، جنوری، ۱۹۸۷، ص ۱۳۰ ۴۸۔ ایضاً ص ۱۲۸ ۴۹۔ Masarrat Husain Zubeeri, Aristotle and Al- Ghazali, Royal Book Company, Karachi,1986. pp.142-143 ۵۰۔ Massimo Companini, ''Al- Ghazzali'', in Encyclopaedia of Islammic Philosophy, (Ed.S.H.Nasr), Suhail Academy, Lahore, 2002,pp.271 ٭٭٭ ڈاکٹر مبارک علی، چند معروضات خرم علی شفیق جیو ٹیلی وژن نے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کا عنوان تھا’’ میں نہیں مانتا‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ مفروضات جنھیں عام طور پر بغیر سوچے سمجھے درست تسلیم کیا گیا ہے اور جن پر سوال اٹھانے کی پاکستان میں کبھی اجازت نہیں رہی اُن کے بارے میں اختلافی آرا سننے کو مل سکیں۔ تاہم اس سلسلے کا وہ پروگرام جس میں ڈاکٹر مبارک علی اس بات سے اختلاف کرنے کے لیے مدعو کیے گئے تھے کہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں، اگر صرف اُس قسط کا عنوان’’میں نہیں جانتا‘‘ رکھ دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں بھی موجود تھا اور اگرچہ میں اس بات کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے بارے میں بہت سی دل چسپ کتابیں لکھ کر اس معاشرے کی خدمت سر انجام دی ہے مگر اُس روز ان کی گفتگو سن کر معلوم ہوا کہ انھوں نے تاریخ لکھی ضرور ہے مگر پڑھی نہیں ہے۔ حوالے غلط تھے، اقبال سے ایسی باتیں منسوب ہوئیں جو اقبال نے کبھی نہیں کہی تھیں، جن موضوعات پر اقبال نے مفصل کتابیں تحریر کی ہیں، ان کے بارے میں فرمایا کہ اُن پر اقبال نے کچھ نہیں لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد جب میز بان غازی صلاح الدین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ڈاکٹر مبارک علی سے اتفاق کرتا ہوں تو میرے لیے اتفاق یا اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں یہی عرض کرسکا کہ ڈاکٹر صاحب کی دس منٹ کی گفتگو میں آٹھ تاریخی حقائق غلط پیش کیے گئے، میں صرف ان کی نشاندہی کرنا چاہوں گا ، اور وہ میں نے کی، مگر اب خیال آتا ہے کہ بعض غلط فہمیوں کا ازالہ زیادہ تفصیل سے ہونا چاہیے۔ میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اگرچہ میں اقبال کی ایک مفصل سوانح کا مصنف ہوں اور آج کل تقریباً کل وقتی طور پر اقبال ہی کے موضوع پر کام کررہا ہوں مگر مجھے یہ ثابت کرنے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ پاکستان کا تصور اقبال ہی نے پیش کیا تھا۔ میرا اپنا خیال تو یہی ہے مگر میرے نزدیک یہ علمی بحث ہے جس میں ایک سے زیادہ آرا کی گنجائش ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر مبارک علی کی بجائے کے کے عزیز یہی مؤقف پیش کررہے ہوتے(جیسا کہ وہ کرتے ہیں) تو شاید مجھے زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوتی کیوں کہ اُن کے علم کے مقابلے میں اپنی کم مائیگی کا مجھے احساس ہے۔ مگر مبارک علی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ علم اور تحقیق کا روگ وہ نہیں پالتے۔ بنیادی ماخذوں سے انھیں سروکار نہیں اور بہت بڑی بڑی باتیں محض اس بھروسے میں کہ جاتے ہیں کہ مثلاً بھپن چندرانے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ میری شکایت یہی ہے کہ انسان اپنی کم علمی پر منافع وصول نہ کرے اور کسی بات کو کہنے سے پہلے تحقیق ضرور کرے۔ بالخصوص جب کہ اسے دوسروں سے یہی شکایت ہو۔ مبارک علی صاحب نے اقبال کے بارے میں جو شکایات پیش کیں وہ مندرجہ ذیل ہیں اور ان کے ساتھ میری گذارشات بھی۔ پہلی شکایت مبارک علی صاحب کو یہ ہے کہ اقبال نے الٰہ آباد والے خطبۂ صدارت میں ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے ایک ریاست کی بات کی تھی جب کہ پاکستان اس وفاق سے باہر ایک خود مختار ریاست ہے، چنانچہ اس ریاست کا تصور اقبال کا نہیں ہوسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مبارک علی صاحب نے خطبۂ صدارت کا مطالعہ ہی نہیں کیا کیوں کہ وہاں "within or without the British India" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے یا اس سے علاحدہ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لڑکپن میں ہندوستان سے چھپی ہوئی بعض کتابوں مثلاً رفیق ذکریا کی کتاب مِیںمَیں نے بھی یہی بیان پڑھا تھا مگر جب اصل دستاویز کا مطالعہ کیا تو حقیقت معلوم ہوئی۔ ڈاکٹر مبارک علی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک تاریخی دستاویز کو غلط quote کریں۔ یہ عذر کافی نہیں کہ انھوں نے وہ دستاویز نہیں پڑھی۔ دوسری بات، ڈاکٹر مبارک علی نے ایڈورڈ تھامپسن کے نام اقبال کے مشہور خط کا حوالہ دیا جس میں اقبال نے کہا تھا کہ ان کا پاکستان اسکیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حوالہ بھی اصل ماخذ دیکھے بغیر بآسانی مل جاتا ہے کیوںکہ یہ اقتباس تو اب رسائل میں بھی بے تحاشا آچکا ہے۔ یہاں مبارک علی صاحب آدھا سچ بول رہے ہیں اور انھیں یہ ضرور بتانا چاہیے کہ جس پاکستان اسکیم سے اقبال نے اپنی لاتعلقی ظاہر کی ہے اس سے نہ صرف اقبال، بلکہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے تمام زعما آخر تک لاتعلق ہی رہے تھے، یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد بھی! یہ اسکیم کیمبرج میں چوہدری رحمت علی نے شروع کی تھی اور اُس پاکستان سے بہت مختلف تھی جو وجود میں آیا۔ اس کے مطابق ہندوستان میں جگہ جگہ اسلامی ریاستیں قائم ہونی چاہیے تھیں اور ہندو اکثریت کے بعض ضلعے پاکستان میں ضرور آنے چاہیے تھے تاکہ ہندوستان والے دبائو میں رہتے۔ مسلم لیگ کو اس اسکیم سے کوئی واسطہ نہیں تھا، ہاں مسلم لیگ نے رحمت علی کی مجوزہ ریاست کا نام ضرور اقبال کی تصوراتی ریاست کے لیے منتخب کرلیا۔ اگر یہ سرقہ تھا تو وہ ایک الگ بحث ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد چوہدری رحمت علی لاہور تشریف لائے تھے اور علانیہ کہنا شروع کیا تھا کہ جو ملک بنا ہے اُس کا اُن کی پاکستان اسکیم سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا تقسیم منسوخ ہونی چاہیے اور وہ از سرِ نو اپنا پاکستان بنانے کی تحریک چلائیں گے۔ یہ ۱۹۴۸ء کی بات ہے اور رحمت علی اس حد تک حکومتِ پاکستان کے لیے دردِ سر بنے کہ بالآخر انھیں ملک سے رخصت کردیا گیا اور پاکستانی پاسپورٹ بھی نہیں دیا گیا، چنانچہ وہ آخر تک برطانوی شہری رہے اور پاکستان کے خلاف مزید تحریریں شائع کرنے کے بعد فوت ہوگئے۔ لیجیے ، صرف اقبال ہی نہیں بلکہ خود رحمت علی بھی کہ رہے ہیں کہ پاکستان ہی کا ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ڈاکٹر مبارک علی کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اتنی وضاحت ضرور کردیں کہ ’’پاکستان اسکیم‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مگر میں اپنی جلد بازی میں ڈاکٹر مبارک علی صاحب پر علمی بد دیانتی کا الزام نہیں لگانا چاہتا۔ علمی بد دیانتی اُس وقت ہوگی جب انھیں پوری بات معلوم ہو اور وہ جان بوجھ کر چھپائیں۔ مجھے شبہ ہے کہ شاید ڈاکٹر مبارک علی صاحب کو بھی پوری بات معلوم نہ رہی ہو، کیوںکہ خوامخواہ تحقیق کرنے کی انھیں عادت نہیں ہے۔ تیسری بات، ڈاکٹر مبارک علی نے فرمایا کہ اقبال نے تحریکِ پاکستان میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ جب پاکستان بن گیا تو چونکہ اس کی تخلیق میںا ہلِ پنجاب کا بہت کم حصہ تھا لہٰذا اُنھوں نے اپنا پلڑا بھاری رکھنے کے لیے یہ کہنا شروع کیا کہ پاکستان کا تصور ہی اقبال نے دیا تھا۔ اس کا مختصر جواب تو میں نے پروگرام میں بھی دیا تھا کہ پاکستان سے اقبال کا تعلق جس سیاست دان نے جوڑا تھا اس کا تعلق پنجاب سے نہیں بلکہ بمبئی سے تھا اور نام اس کا محمد علی جناح تھا۔ قائد اعظم نے قرار دادِ پاکستان والے تاریخی اجلاس میں جو خطبۂ صدارت پیش کیا تھا اگر اُسے پڑھیں( اور میری درخواست ہے کہ مبارک علی بھی اُسے پڑھیں)، تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے الٰہ آباد والے خطبۂ صدارت کو لفظی ردو بدل کے بعد آسان بناکر دُہرایا گیا ہے( مگر اس موازنے کے لیے مبارک علی صاحب کو خطبۂ الٰہ آباد بھی پڑھنا پڑے گا اس لیے چلیے جانے دیجیے)۔ چوتھی بات، مبارک علی صاحب فرماتے ہیں کہ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ اس شکایت پر واقعی ناطقہ سربہ گربیاں کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ متفرق تحریروں کو چھوڑیے، اقبال کی فارسی کتاب پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ساری کی ساری برطانوی سامراج کے خلاف ہی لکھی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ضربِ کلیم کا ذیلی عنوان بھی ’’اعلانِ جنگ دَورِ حاضر کے خلاف‘‘ ہے۔ چنانچہ میں نے پروگرام کے دوران یہ بات مبارک علی صاحب کے گوش گزار کی اور نمونے کے لیے ضربِ کلیم کی ’’تابندہ نگیں ہے‘‘ والی نظم بھی پڑھ کر سنائی۔ پس چہ باید کرد کے اشعار اس لیے نہیں سنائے کہ مبارک علی صاحب کو اس بات پر بہت شدید اعتراض ہے کہ اقبال نے فارسی میں کیوں لکھا۔ اسی ضمن میں مبارک علی صاحب کو یہ اعتراض بھی ہے کہ اقبال نے جارج پنجم کا قصیدہ کیوں لکھا تھا؟ میں انھیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اقبال نے بعض انگریزوں کے قصیدے ضرور لکھے تھے مگر اتفاق سے جارج پنجم ان میں شامل نہیں ہیں۔ تحقیق تو آپ کیا کریں گے کہ پرانی عادتیں بدلنا دشوار ہوتا ہے لیکن اگر ہماری بات کا یقین نہ ہو تو گیان چند صاحب سے دریافت کرلیجیے۔ یہ بھی عرض دوں کہ بظاہر مبارک علی صاحب نے کہیں سے اُس قصیدے کے بارے میں سن لیا ہے جس کا پہلا مصرعہ ہے’’اے تاجدارِ خطۂ جنت نشانِ ہند‘‘۔ یہ درست ہے کہ وہ ایک انگریز حاکم کے لیے لکھا گیا تھا مگر وہ جارج پنجم یاکوئی اور بادشاہ نہیں تھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، مبارک علی صاحب نے اگرچہ لکھا بہت ہے مگر پڑھنے کا انھیںزیادہ شوق نہیں ہے تو اُن میں یہ شوق پیدا کرنے کے لیے میں یہ اشارہ بھی دے دوں کہ جنابِ عالی، جب آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کون سا بدبخت انگریز تھا تو آپ کو اقبال کے خلاف اُس سے بھی زیادہ سنسنی خیز بات مل جائے گی جتنی آپ اس وقت کررہے ہیں۔ اُس انگریز کا نام معلوم کرکے آپ اقبال پر ایک بہت سنگین الزام لگاسکیں گے اور ایمان داری کی بات یہ ہے کہ اُس وقت آپ کا جواب دینے میں مجھے بھی ذرا سی دقت ہوگی۔ چلیے اسی بہانے کچھ نہ پڑھنے کی قسم توڑیئے اور ذرا جلدی سے کوئی کتاب کھول کر جھانک لیجیے۔ پانچویں بات، دلچسپ لطیفہ( اسے لطیفہ ہی کہنا چاہیے) یہ ہے کہ مبارک علی صاحب کہتے ہیں کہ اقبال نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا اور قائد اعظم کے نام ان کی خط کتابت محض خط کتابت ہی تھی اسے تحریکِ پاکستان میں ان کی شمولیت نہیں سمجھنا چاہیے۔اس کے جواب میں ان سے صرف اتنا پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ حضرت، کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ ۱۹۳۶ء میں اقبال نے مسلم لیگ میں کون سا عہدہ قبول کیا تھا؟ میں یہ سوال اس لیے ان سے پوچھ رہا ہوں کہ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے بنیادی ماخذ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عام کتابوں میں بھی اس کا جواب مل جاتا ہے۔ دوسرے قارئین ، جنھیں بنیادی ماخذوں کا مطالعہ اتنا ناگوار نہ ہوتا ہو جتنا مبارک علی صاحب کو گزرتا ہے، ان کے لیے یہ عرض کردوں کہ جناح کے نام اقبال کے خطوط جو ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئے تھے اور بار بار چھپ چکے ہیں، ان کے دیباچے میں خود قائد اعظم نے تحریکِ پاکستان میں اقبال کے کردار کے حوالے سے بہت ہی معروضی انداز میں بہت سے حقائق پیش کردیے ہیں۔ مطالعہ ضرور کیجیے۔ چھٹی بات، مبارک علی صاحب کہتے ہیں کہ اقبال نے شروع میں ہندوستان کے لیے شاعری کی اور بعد میں صرف مسلم امت کے لیے مخصوص ہوگئے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کی تردید اقبال نے اپنی زندگی میں بار بار کی۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد برسرِ اقتدار طبقے نے بھی مذہب کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اقبال کے نام کو استعمال کیا اور ان حلقوں کی طرف سے بھی یہ مفروضہ بار بار پیش ہوا ہے کہ اقبال مسلم امت کے شاعر تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال کا پیغام تمام انسانیت کے لیے تھا اور یہ محض زبانی دعوے کی بات نہیں ہے۔ اقبال نے جس کتاب کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دیا ہے وہ جاوید نامہ ہے۔ یہ آسمانی سفر نامہ ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے ( اور مبارک علی صاحب چونکہ فارسی سے نالاں ہیں تو بہت جلد اس کے آسان خلاصے انگریزی اور اردو میں میری ہی ادارت میں شائع ہونے والے ہیں)۔ جاوید نامہ میں ہندو شاعر کو جنت الفردوس میں دکھایا گیا ہے جب کہ پیغمبروں کے گوشے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسول مقبول ﷺ کے ساتھ زرتشت اور مہاتما بدھ کی الواح بھی موجود ہیں۔ میں نے مبارک علی صاحب کو وہاں بھی چیلنج کیا تھا اور یہاں بھی کررہا ہوں کہ وہ بر صغیر کے پچھلے دو سو سال کے ادبِ عالیہ میں کوئی دوسری کتاب دکھائیں جس میں مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم کی اتنی وسیع کوشش کی گئی ہو۔ ٹیگور کے کلام کو بھی شام کرلیجیے اور بتائیے کہ اقبال کے سوا بر صغیر کے کون سے بڑے شاعر نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے شاہکار میں تمام مذاہب کو سامنے لائے اور ان کی فلسفیانہ باریکیوںکو اپنے طویل رزمیے کے تانے بانے میں استعمال کرے۔ اب ذکر آگیا ہے تو یہ بھی عرض کردوں کہ اقبال کے بارے میں امتِ مسلمہ کا شاعر ہونے کا شوشہ پہلی بار ان کے مترجم نکلسن نے اسرارِ خودی کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں چھوڑا تھا۔ نکلسن کی تصحیح کرتے ہوئے اقبال نے انھیں خط میں لکھا تھا کہ ان کی فارسی شاعری کا مقصد اسلام کو پیش کرنا نہیں ہے، ان کا مقصد تو عالمی نظام کی از سرِ نو تدوین ہے اور اگر اتفاق سے ایک ایسا معاشرتی نظام موجود ہے جو اس کام کو آسان بناتا ہے تو اسے نظر انداز کرنا حماقت ہوگی۔ چنانچہ ’’مشرق سے ہو نو مید نہ مغرب سے حذر کر‘‘ کے مصداق اقبال نے اپنی نظر ہمیشہ وسیع ہی رکھی۔ انھیں مسلم امت کا شاعر قرار دینے میں بہتوں کا فائدہ تھا، چنانچہ یہ غلط مفروضہ پھیلتا ہی گیا مگر جب کبھی اس کا تجزیہ کیا گیا، یہ غلط ثابت ہوا ہے۔ ایک دفعہ خود اقبال کے پاس کچھ ہندو عقیدت مند آئے اور یہی شکایت کی تو اقبال نے اپنے ملازم سے اپنی ساری کتابیں اٹھواکر ان کے سامنے رکھ دیں اور کہا کہ اب آپ مجھے ایسے اشعار نکال کر دکھائیں جو صرف اسلام سے مخصوص ہوں۔ بہت کم ایسے اشعار نکلے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہر شاعر اپنے ثقافتی اور ادبی پس منظر سے اپنے شعر کو رنگین بناتا ہے اور اقبال کے ادبی پس منظر میں بہرحال اسلامی ثقافت کے استعارے اُسی طرح موجود تھے جس طرح ہومرؔ کے یہاں یونانی دیو مالا، ملٹنؔ کے یہاں عیسائیت اور ٹیگورؔ کے یہاں ہندو دیو مالا موجود ہے۔ ساتویں بات، مبارک علی صاحب فرماتے ہیں کہ اقبال نے فارسی میں شاعری اس لیے کی تاکہ وہ زیادہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ خیر، اس بارے میں، میں ان کی معلومات میں اضافہ کرچکا ہوں اور جب میں نے انھیں بتایا کہ اقبال کے اپنے بیان کے مطابق فارسی میں شعر کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے خیالات کم لوگوں تک پہنچیں تو انھیں بہت حیرت ہوئی۔ اگر وہ کچھ لکھنے یا بولنے سے پہلے پڑھ لیا کریں تو ایسی حیرت کے مواقع کم ہوتے جائیں گے۔ ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اقبال نے فارسی میں شعر کہنا اس وقت شروع کیے جب مثنوی لکھنا شروع کی۔ بات یہ ہے کہ نظم اور غزل کا دامن تنگ ہوتا ہے۔ وہاں ایک طویل بحث اس طرح پیش نہیں کی جاسکتی کہ اس میں پیچ در پیچ کئی طرح کے مباحث کا احاطہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگا تو اکثر صورتوں میں یہ نظم کی خامی قرار پائے گی۔ مثنوی میں اس کی گنجائش ہوتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے اسرارِ خودی بھی پہلے اردو ہی میں لکھنا شروع کی تھی اور وہ اشعار اگرچہ شائع نہیں ہوئے مگر اقبال کے کاغذات میں میری نظر سے گزرے ہیں اور میری لکھی ہوئی اقبال کی سوانح کی دوسری جلد میں شامل ہوں گے۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی اردو میں وہ سب کہنا ممکن نہیں تھا جو اقبال کے ذہن میں تھا۔ فارسی مثنوی میں اس کی روایت موجود تھی کہ وہاں فردوسیؔ، نظامیؔ، رومیؔ اور نہ جانے کس کس بڑے شاعر نے مثنوی کو ایک ایسی صنف کے طور پر پروان چڑھایا تھا جس میں فلسفیانہ خیالات کا تسلسل قائم رہ سکے۔ چنانچہ اقبال کو اسی طرف رجوع کرنا پڑا۔ آٹھویں بات، مبارک علی صاحب کہتے ہیں کہ اقبال ماضی پرست تھے۔ خیر، یہ کوئی نیا الزام نہیں بلکہ دوسرے لوگ جنھوں نے اقبال کو نہیں پڑھا وہ بھی یہ بات عام طور پر کرتے رہتے ہیں۔ ان سے بس اتنی گزارش ہے کہ اقبال کی نثری مطبوعات میں سے کوئی ایک ٹکڑا ہمیں ایسا دکھادیں جس میں انھوں نے ماضی پرستی کی تلقین کی ہو۔پوری Reconstruction of Religious Thought in Islam یعنی اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید سامنے ہے۔ اس کے علاوہ الٰہ آباد والا خطبۂ صدارت موجود ہے (جسے مبارک علی صاحب نے کم سے کم آج تک تو نہیں پڑھا)۔ اس کے علاوہ اقبال کے مختلف لیکچر اور مضامین ہیں جن کا سلسلہ ۱۹۰۴ء سے شروع ہوتا ہے اور تامرگ یعنی ۱۹۳۸ء تک جاری رہتا ہے۔ میں ان تمام لوگوں کو جنھیں اقبال سے ماضی پرستی کی شکایت ہے، یہ چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مجھے اقبال کا مکمل مضمون نہیں بلکہ کسی مضمون کا ایک پیراگراف بھی ایسا دکھادیں جس میں ماضی پرستی کی تلقین کی گئی ہو۔ میں یہ دعویٰ اس بنیاد پر کررہا ہوں کہ اقبال کی یہ تمام تحریریں نہ صرف میں نے پڑھی ہیں بلکہ اقبال کی مفصل سوانح کے لیے مجھے تقریباً حفظ کرنی پڑی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی تمام نثری تحریروں میں تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ ہمیں ماضی پرستی کا دامن چھوڑنا چاہیے۔ میں یہاں کسی ایک آدھ تحریر کی بات نہیں کررہا بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اقبال کے ہر ایک نثری شہ پارے کی بات کررہا ہوں، جی ہاں انھوں نے اپنے ہر نثری شہ پارے میں ماضی پرستی کے خلاف بات کی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے معاشرے میں لکھنا شروع کیا جہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے اور پڑھے لکھے لوگ بھی عموماً کتابیں نہیں پڑھتے۔ پھر تاریخ کے معاملے میں تو خدا بھلاکرے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا جنھوں نے اپنی ساری زندگی ہی اس کوشش میں صرف کردی کہ پاکستانی عوام تاریخ سے براہِ راست واقفیت حاصل نہ کرسکیں۔ اس ماحول میں ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے باہر کی چھپی ہوئی تحریروں کو دریافت کرکے انھیں اپنے الفاظ میں لکھنا شروع کیا (میرا اندازہ یہی ہے اور اگر یہ غلط ہے تو مبارک علی صاحب بنیادی ماخذوں سے واقفیت ثابت کردیں، میں اپنا خیال بدل لوں گا)۔ظاہر ہے کہ ان تحریروں میں وہ نقطۂ نظر موجود تھا جس سے عوام واقف نہیں تھے۔ چنانچہ کم پڑھے لکھے لوگوں میں بہت قدر ہوئی۔ یہاں سے مبارک علی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنا معیار بلند کرتے مگر اس کی بجائے انھوں نے عوام کی لاعلمی سے فائدہ اٹھایا اور بے دریغ ایسی باتیں لکھنا شروع کردیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جو مورّخ نہ سہی مگر مورّخ ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے۔ اگر مبارک علی صاحب کسی تعلیم یافتہ معاشرے میں لکھ رہے ہوتے تو وہاں کے اشاعتی اداروں کے معیار اور قارئین کے ذوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ خود ہی اپنی اصلاح پر مجبور ہوجاتے بلکہ اصلاح کے مواقع بھی انھیں میسر آتے۔ پاکستان میں لکھنے والوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ انھیں خود ہی اپنا معیار مقرر کرنا پڑتا ہے اور خود ہی اپنی اصلاح کرنی پڑتی ہے ورنہ کوئی اور آسرا تو ہے نہیں۔ وہ چار لوگ جنھوں نے کچھ پڑھا لکھا ہوتا ہے وہ میری طرح اُن کی غلطیوں کو طویل مدت تک اس لیے نظر انداز کرتے رہتے ہیں کہ چلو کوئی لکھنے والا تو ہے جو اس گھٹن کی فضا میں الٹی سیدھی ہی سہی کچھ مختلف باتیں کررہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مبارک علی صاحب نے اپنے معیار کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے پڑھنے والوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھانے کو ایک علمی کاروبار بنالیا ہے۔ بغیر حوالوں کے بات کرنا اور بہت سی غلط باتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ غلط ہیں، محض اس لیے کردینا کہ کوئی ان کی تردید نہیں کرے گا، کیا یہ عوام کی لاعلمی سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے؟ کیا میں سنجیدگی سے یہ توقع کرسکتا ہوں کہ مبارک علی اس بات سے ناواقف تھے کہ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف بہت کچھ لکھا تھا اور کیا مبارک علی صاحب نے واقعی اقبال کی کتابوں ضربِ کلیم اور پس چہ باید کرد کے سرورق بھی کبھی نہیں دیکھے تھے؟ اگر دیکھے تھے تو وہ اس طرح کہہ سکتے تھے کہ اگرچہ اقبال نے سامراج کے خلاف لکھا مگر ان کے خیال میں کافی نہیں لکھا۔ عوام سے یہ جھوٹ بولنا کہ اقبال نے کبھی اس موضوع پر لکھا ہی نہیں، یہ ایک علمی جرم ہے۔ میری تحریر میں تلخی اس وجہ سے نہیں ہے کہ مجھے مبارک علی صاحب کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہے یا نہیں ہے۔ جو لوگ اُن پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے یا ہندوستانی نظریات کی ترویج کا الزام لگاتے ہیں مجھے ان سے بھی کوئی ہمدردی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ سنجیدگی کے ساتھ اس قسم کے الزام لگانا ایک لچر حرکت ہے۔ اگر یہ کوئی نقطۂ نظر رکھتے ہیں تو ان کا حق ہے اور اگر اُس میں ہندوستانی مصنفین کا اثر ہے یا مار کسی اثرات ہیں تو محض اس بات کو اعتراض کے قابل نہیں سمجھا جاسکتا۔ خود قائد اعظم کی سیاسی تربیت میں بعض غیر مسلم رہنمائوں کا ہاتھ تھا اور اقبال اگر ویدانت، شاستروں اور گیتا سے متاثر نہ ہوتے تو ان کے کلام میں وہ رنگ نہ ہوتا جو ہے۔ مبارک علی نے اگر ہندوستانی اور مارکسی نظریات سے استفادہ کیا ہے تو ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے کیوں کہ اگر ہم زندہ قوم ہیں اور اپنی نشوونما چاہتے ہیں تو ہمارے یہاں دنیا کے ہرنقطۂ نظر سے واقفیت بھی ہونی چاہیے اور اس کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو صحت مند بحث کا وہ دروازہ جسے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی ہٹ دھرمی نے ہمارے ملک میں تاریخ نگاری پر بند کردیا تھا، بند ہی رہے گا۔ مجھے ڈاکٹر مبارک علی سے وہی شکایت ہے جو انھیں بعض دوسرے تاریخ نگاروں سے ہے، یعنی یہ کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، غلط حقائق پیش کررہے ہیں اور اس میں وہ اشتیاق حسین قریشی سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ قریشی صاحب کم سے کم بنیادی ماخذوں سے واقف تھے اور اس کے بعد بددیانتی کے مرتکب ہوتے تھے۔ مبارک علی صاحب بھی وہی کچھ کررہے ہیں مگر بغیر معلومات کے۔ قریشی صاحب دو قومی نظریے کی خاطر جھوٹ تو نہیں بولتے تھے مگر حقائق کو مسخ کردیتے تھے۔ مبارک علی صاحب کسی اور نظریے کی خاطر حقائق کو مسخ بھی کرتے ہیں اور جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ یہ المیہ ایسے ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے نظریے کو علم سمجھ بیٹھے۔ نظریہ ایک چیز ہوتا ہے مگر علم کچھ اور ہوتا ہے۔ تاریخ کسی نظریے کی پابند نہیں ہوسکتی، کیوں کہ تاریخ خود ایک نقطۂ نظر ہے۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ سمجھنے کا نقطۂ نظر۔ مثال کے طور پر مبارک علی صاحب کا نقطۂ نظریہ ہے کہ اہلِ پنجاب نے پاکستان بننے کے بعد دوسرے صوبوں کی حق تلفی کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات درست ہو یا نہ ہو مگر اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ اقبال کو تصورِ پاکستان کا بانی قرار دینا بھی اہلِ پنجاب کا کام ہوگا اور یہ کام پاکستان کی تشکیل کے بعد ہوا ہوگا، یہ ایک مورّخ کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مورّخ کا کام یہ ہے کہ وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کے اخبارات کا مطالعہ کرے، اُس زمانے کے شواہد اور بنیادی ماخذوں کو دیکھے اور پھر معروضی طور پر یہ فیصلہ کرے کہ کیا اقبال کا تصورِ پاکستان سے تعلق تھا یا نہیں اور ان کے بارے میں پاکستان کے قیام سے پہلے کیا کہا جاتا تھا اور بعد میں کیا کہا گیا۔ مجھے یہ کہنے کا حق اس لیے ہے کیوں کہ میں ان میں تمام دقت طلب مراحل سے خود گزر چکا ہوں۔ نظریاتی تاریخ کو میں زیادہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتا مگر بہرحال یہ ایک صنف ہے۔ تاہم اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو مبارک علی صاحب سمجھ بیٹھے ہیں۔ نظریاتی تاریخ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمام تاریخی حقائق معلوم کرکے اپنے نظریے کی تائید میں انھیں ترتیب دے کر پیش کیا جائے۔ یہ نہیں کہ ایک نظریہ قائم کرکے فرض کرلیا جائے کہ تاریخ میں جو کچھ بھی ہوا ہوگا وہ اس کے مطابق ہی ہوا ہوگا اور پھر اپنی طرف سے تاریخی واقعات ایجاد کیے جائیں جو آپ کے نظریے کو تقویت دیتے ہوں۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات بھی نہیں بلکہ یہ تو محض جھوٹ بیچنے کا کاروبار ہے۔ اشتیاق حسین قریشی نظریاتی مورّخ تھے اور انھوں نے ہماری تاریخ کو مسخ کیا۔ مبارک علی صرف دروغ گو ہیں جنھوں نے تاریخ لکھی ہے مگر پڑھی نہیں ہے۔ ان کے ہاتھوں تاریخ کا کیا انجام ہوتا ہے، اس کے بارے میں مجھے اب تشویش ہونے لگی ہے۔ ٭٭٭ سرسیّد: مصدرِ اقبال (فکری سیاق کے حوالے سے) پروفیسر عبدالحق اسے فکر و نظر کا استعجاب کہیے یا دنیائے ادب کی حیرت فزائی کہ ایک عظیم فن کار استفادے اور استخراج کے اتنے گوناگوں مصادر کا حامل ہو جس کی نظیر علم و دانش میں موجود نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر دنیا کے بیشتر قابلِ ذکر فلاسفہ، فن کار، صحائف، انبیا کے اقوال و آثار اور مختلف النوع تصورات کا ایسا دل نشین مرکب اقبال کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ یہاں اخذ و استنباط کی نوعیت پر گفتگو مقصودِ خاطر نہیں ہے، صرف ایک سرچشمۂ دانش کے مؤثرات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ میں اقبال کو سرسیّد کے مشن کی تجدید اور توسیع سمجھتا ہوں۔ علمی و فکری سطح پر اس مشن اور منصوبے کی تکمیلی صورت کا نام ہی اقبال ہے۔ سرسیّد کے علم و عمل نے افکار کی آویزش کا جو سیل پیدا کیا اسے مربوط و منظم فکر کی صورت اقبال نے دی۔ فکری عناصر ہوں یا اس کے اجزا و ابعاد کہیں نہ کہیں ان کا سر رشتۂ فیض سرسیّد سے ملے گا۔ راقم نے بہت پہلے ۱۹۶۹ء میں اپنی پہلی کاوش میں یہ اعتراف کیا تھا۔ بعدازاں ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحریر نے مجھے مزید تقویت بخشی کہ اقبال کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف اقبال پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ برصغیر کی مسلم روایت دانش میں مرشدِ معنی کے افکار کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ یہ مسلم ثقافت کی معجز نمائی ہے کہ انحطاط کے فتنہ و فسوں میں بھی حیات بخشی کے امکانات روشن رہے اور معاشرے کو مہمیز کرتے رہے ہیں۔ فکری تبحر اور تجدید نے نئے نئے عنوان سے تیرہ و تاریک فضا کو روشن کیا ہے۔ اس سوادِ عظیم کے علم و عمل کی اساس اور ترفع میں، عبقری فکر تسلسل کے ساتھ کارفرما رہی ہے۔ شیخ مجددِ سرہندی سے شاہ ولی اﷲ دہلوی، سر سیّد احمد خاں اور شیخ محمد اقبال کے نفوذ سے ہی یہ معاشرہ تابکار ہے۔ اس سیل کی فکر میں دوسرے ضمنی اور اضافی تصورات بھی معاون رہے ہیں مگر ہماری شناخت اسی فکری تسلسل کے اقرار اور اعتراف کے سبب ہے۔ شرح و بیاں کی تفصیلات سے قطعِ نظر عرض ہے کہ ولی الٰہی تحریک سے سرسیّد کا براہِ راست تعلق ہے اور موخرالذکر نے اقبال کے قلب و نظر کو کشادگی اور فراخی بخشی ہے۔ میں پیشین گوئیوں کا نہ معتقد ہوں اور نہ ہی مرعوب۔ جیسے پیکرِ اقبال میں روحِ غالب کا حلول کرنا یا اگر سر سیّد نہ ہوتے تو فارسی زبان میں خودی کا فلسفہ نازل نہ ہوتا یا حالی نہ ہوتے تو اقبال کی شاعری نہ ہوتی جیسے اقوال بے معنی ہیں۔ ہر مفکر اور مجتہد نہاں خانۂ ازل سے اپنی متاعِ فکر کا مالک ہوتا ہے مگر وہ اسلاف کی فکری یافت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ انسانی فلسفہ و ادراک ایک فکری تسلسل کا نام ہے جو ردّ و قبول کے باوجود رواں دواں رہتا ہے۔ وحدتِ فکر میں ارتباط و انضمام کے عمل کی کارفرمائی بھی نمایاں رہتی ہے۔ ولی الٰہی تحریک سرسیّد کے استفادے اور نشوونمائے ادراک کی ترتیب اور تربیت میں مرکزی مقام رکھتی ہے۔ اسی خانوادے کے فرزندانِ ارجمند شاہ عبدالعزیز اور شاہ اسمٰعیل شہید سے ذہنی و فکری قربت کے احوال محفوظ ہیں۔ مولانا حالی سے لے کر بشیر احمد ڈار تک سنجیدہ مصنّفین کی کاوشیں ہماری راہ نما ہیں۔ یہی تعلق ہے جو سر سیّد کے شب و روز کی بصیرتوں میں ڈھل کر شعبہ ہائے حیات پر محیط ہو جاتا ہے۔ ان کی عقابی نظر صرف معاشرے کی اصلاح پر ہی مرتکز نہیں ہے وہ آگے بڑھ کر اجتہاد کی سرحدوں کو بھی عبور کرتی ہے اور اجتماعی لہجے کی بدولت احساس میں ہلچل پیدا کرتی ہے۔ اس منزل کے آگے ندرتِ فکر و عمل کے انقلاب کی داعی بن جاتی ہے اور فرد کے وجود سے معاشرے کے ممکنہ حدود پر کمندیں ڈالتی ہے۔ ان انقلاب آفرین تصورات کو محض اصلاحی تحریک کا نام دے کر مطمئن ہو جانا دراصل اس خام نظر کی بدتوفیقی ہے جو اسی پر قانع ہے۔ وہ اس لازوال تحریک اور فعالیت کے جوہر کو دیکھنے سے قاصر ہے جو تقدیرِ امم بدل دینے کا عزم رکھتی ہے۔ جدید اسلوبِ فکر کا مطالبہ ہے کہ ہم مغلوب ذہن کی درماندگی سے دور ہو کر ان تازہ کار منصوبوں کے سیاق کی مہم جوئی میں مشغول ہوں اور ُپروقار زندگی جینے کا دستورالعمل ترتیب دیں۔ یہ نہ اسرار بینی ہے اور نہ ہی ادّعایت بلکہ سرسیّد کی تفہیم اور ان کے تصورات کی باز آفرینی کی عاجزانہ کوشش ہو گی۔ اسے صرف اصلاح تک محدود نہ کریں۔ کبھی گل کہ کے پردہ ڈال دیتے ہیںہم اس رخ پر اس سعی کے حاصلات پر ہی معاشرے کا استحکام اور اقتدار کا انحصار ہو گا۔ سر سیّد کی اجتہادی فکر ممدوح بھی بنی اور مذموم بھی، جس میں عوام و خواص بھی شامل ہیں۔ علما کا ایک بڑا گروہ اختلافی آرا کو شہ دے رہا تھا اور درپے زیاں تھا۔ پنجاب کے اکابر علما بھی تنبیہ و توبیخ میں آگے ہی تھے۔ چند ہی عالم ان کے ہم خیال تھے۔ جن میں مولانا سیّد میر حسن پیش پیش ہی نہیں سرسیّد کے بڑے معاون و موید تھے۔ وہ ہر طرح ان کی تحریک کے تحفظ کے لیے تیار رہتے۔ خود بساط بھر دامے درمے مدد پہنچاتے اور دوسرے حضرات کو بھی متوجہ کرتے۔ غبن کے خسارے کی تکمیل کے لیے ان کی کوشش کو سرسیّد نے بہ نظرِ استحسان تسلیم کیا ہے اور سپاس گزاری میں فراخ دلی کے ساتھ ممنویت کا اقرار کیا ہے۔ سر سیّد جب کبھی پنجاب کا دورہ کرتے مولانا استقبال کرتے اور پذیرائی فرماتے۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں کے انعقاد کا اہتمام کرتے اور کھلے لفظوں میں تحریک کا تعارف کراتے۔ وہ سر سیّد کی دعوت پر علی گڑھ بھی تشریف لاتے وہ ۱۸۷۳ء میں یعنی ۳۰ برس کے ُپرجوش جواں سال زمانے میں سر سیّد سے ملے ۱۸۷۷ء میں وائسرائے نے کالج کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مولانا اس تقریب میں شریکِ محفل تھے۔ مولانا سرسیّد کے علمی کاموں سے بھی کمال شغف رکھتے۔ تفسیری مباحث میں ان کے اسفسارات شاہد ہیں کہ علمی و فکری سطح پر بھی دونوں میں بڑا قرب تھا۔ دونوں کی مراسلت گہرے تعلقات پر مبنی ہے۔ مکتوباتِ سر سیّد میں مولانا کے نام دس خطوط ہیں جو دوستانہ روابط کے مظہر ہیں۔ یہ وہی مولانا میر حسن ہیں جو علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی کی روایت کے امین ہیں اور جو شیخ محمد اقبال کے استاذِ کل اور اقبال گر بھی کہے جاتے ہیں۔ اقبال کے بیشتر ناقدین نے اقبال کی فکری تشکیل میں اس عنصر کی اہمیت کی وضاحت کی ہے۔ ذکرِ اقبال میں عبدالمجید سالک نے مولانا کی شخصیت اور اثرات کے پیشِ نظر علاحدہ ایک باب قائم کیا ہے۔ مولانا میر حسن کے فیضِ تربیت سے اقبال برابر بہرہ اندوز ہوتے رہے اور فاضل و شفیق استاد نے اس جوہرِ قابل کو علم و حکمت، شعر و ادب، فارسی و عربی زبان دانی اور فکرِ صحیح کے محاسن سے مالا مال کر دیا۔ علامہ اقبال بھی مولانا کے عزو احترام میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے اور ۱۹۲۹ء تک جب مولانا کا انتقال ہو گیا ہمیشہ جب کبھی سیالکوٹ جاتے اس آستانۂ علم پر جبہ سائی سے ہرگز غفلت نہ کرتے۔ (ذکرِ اقبال: ص ۱۶) خود علامہ کے اقرار کی صداقت کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یورپ جانے سے قبل کی ۱۹۰۴ء کی نظم ’التجائے مسافر‘ کے اشعار ہی اس نسبت پر قولِ فیصل کا درجہ رکھتے ہیں : وہ شمعِ بار گہِ خاندانِ مرتضویؓ رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروّت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو ابتدائی دور کے کلام میں ایک اعلانیہ حرفِ آخر کی سند رکھتا ہے : مجھے اقبال اس سیّد کے گھر سے فیض پہنچا ہے پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں گویا مولانا سیّد میر حسن کے توسط سے سر سیّد تک رسائی کے واضح نشانات موجود ہیں اور اقبال و سرسیّد کے درمیان سیّد میر حسن ہی نقطۂ اتصال ہیں۔ یوں بھی اقبال کی چشمِ حقیقت بیں نے سر سیّد کی زندگی کے ۲۱ سال دیکھے اور پھر سر راس مسعود کے پیکرِ اخلاص میں سر سیّد کی شفقت اور دل نوازی کی سعادت براہِ راست حاصل کی۔ سر راس مسعود مرحوم نے اقبال کی مشکل وقتوں میں جو مدد کی ہے اس کے لیے پوری ملت سر سیّد کے جگر گوشے کی ممنونِ احسان ہے۔ بڑے بڑے فرماں روائوں کے کنزو کشکول اقبال کے لیے خالی تھے۔ حکیم الامت کے علاج و اعانت سے اعراض ناقابلِ معافی ارتکاب جرم تھا۔ سیّد کے نورِ نظر کا ملت پر احسان باقی ہے۔ اقبال کو ان پر کیا کیا ناز اور اعتماد تھا، یہ ان کے وصیت نامے کی عبارت سے عیاں ہے۔ ان کی ناگہانی وفات پر اقبال کو جو صدمہ پہنچا اس کا اندازہ اس نظم کے حرف و صوت سے محسوس کیا جا سکتا ہے : رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگارِ کمالاتِ احمد و محمود زوالِ علم و ہنر مرگِ ناگہاں اس کی وہ کارواں کا متاعِ گراں بہا مسعود نہ کہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارئہ غمِ دوست نہ کہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود غالب سے صرفِ نظر کر لیں تو اقبال نے جس شخصی رثائی تخلیق کی ابتدا سر سیّد سے کی تھی وہ داغ، والدہ مرحومہ سے ہوتی ہوئی فلسفہ و شعر کے عروج کے ساتھ راس مسعود مرحوم پر ختم ہو جاتی ہے۔ گویا ابتدا اور انتہا دونوں میں اقبال کے قلبی واردات اور فکر و نظر کی کیفیات کا دل نشین ارتباط اسی خاندان کے تعلق سے قائم ہے۔ ۱۹۰۳ء میں لکھی گئی نظم ’سیّد کی لوحِ تربت‘ کا تجزیہ بڑی تفصیل چاہتا ہے۔ وہ الگ عنوان کا متقاضی ہے۔ اجمالاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے شعر و پیغام کے ُپرشکوہ آغاز کی حامل یہی نظم ہے۔ شاعری پیغمبری کی ہم دوش ہو کر آواز دیتی ہے : پاک رکھ اپنی زباں تلمیذِ رحمانی ہے تو ہو نہ جانے دیکھنا تیری صدا بے آبرو سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمنِ باطل جلا دے شعلۂ آواز سے لوحِ تربت کی تحریر میں بہت سے اسرار کندہ ہیں مگر ایک نکتے کے حروف قدرے جلی ہیں۔ وہ سرسیّد کو عزیز، اقبال کو عزیز تر اور ہمارے لیے سامانِ زیست ہیں : مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں سرسیّد کی اسی تعلیمی وابستگی کی سعی پر ان کے مشن کا بہت کچھ مدار ہے۔ اسے فلسفے اور شعر کے آہنگ میں ڈھالنے کا کام اقبال نے انجام دیا۔ ۲۷؍ مارچ ۱۸۹۸ء کو مردِ خود آگاہ کی وفات کی خبر ملی۔ مولانا میر حسن اور اقبال نے مادئہ تاریخ برآمد کیا۔ اوّل الذکر نے غفرلہ اور علامہ نے قرآن کریم کی آیتِ پاک سے استخراج کیا۔ حیاتِ جاوید میں مولانا حالی نے توثیق کی ہے اور بدونِ حوالہ یہ اندراج موجود ہے: ’’اگرچہ سر سیّد کی وفات کی بے شمار تاریخیں لکھی گئی ہیں لیکن دو عربی مادّے عجیب و غریب نکلے ہیں۔ ایک غفرلہ اور دوسری قرآن مجید کی یہ آیت : انی متوفیک ورافعک الی و مطھرک‘‘ دیگر مباحث سے قطعِ نظر سر سیّد تحریک کے اسی اکتساب کا ذکر اقبال کے حوالے سے کرنا چاہوں گا۔ اقبال نے اپنے اکتسابات کی نوعیت کے ساتھ ماخذ و منابع کی پردہ پوشی نہ کر کے بڑی بے باکی سے اظہار بھی کیا ہے۔ خاص طور پر یہ اعتراف بڑی معنویت کا حامل ہے۔ خرد افزود مرا درس حکیمانِ فرنگ سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں یہاں بھی سرسیّد مرحوم کی اساسی تعلیم کی کارفرمائی نمایاں ہے۔ دین و دنیا اور مشرق و مغرب کی تفریق نے نوعِ بشر کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اقدارِ عالیہ ہی انسانی فلاح کے لیے لازم ہیں۔ باقی سب نخیلِ بے رطب کے مانند ہیں۔ سرسیّد نے تعلیم پر جو توجہ دی وہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اقبال فکری تشکیل کے ابتدائی دور سے ہی اس کے نقیب نظر آتے ہیں۔ ۱۸۹۶ء کی ابتدائی دور کی نظم ’فلاحِ قوم‘ ہے جو حذف شدہ کلام میں ہے جس کے اشعار میں اسی بنیادی موضوع کو پیش کیا گیا ہے : جو دوڑ کے لیے میدانِ علم میں جائیں سبھوں سے بڑھ کے رہے ان کے فہم کا گلگوں دکھائیں فہم و ذکا و ہنر یہ اوروں کو زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنون اس نظم سے اقبال کی شہرت کا آغاز ہوا۔ ۱۹۰۰ء کی اہم نظم ’نالۂ یتیم‘ میں پیغمبرِ اعظم و آخر ﷺ سے عاجزانہ التماس ہے : اے دیارِ علم و حکمت قبلۂ راحت ہے تو اے ضیائے چشمِ ایماں زیبِ ہر مدحت ہے تو اے کہ ہم نامِ خدا بابِ دیارِ علم تو امیے بودی و حکمت را نمایاں کردئہ ہاں دعا کن بہر ما اے مایۂ ایمانِ ما پرشود از گوہرِ حکمت سرِ دامانِ ما یہی موضوع اسرارِ خودی میں فلسفیانہ اظہار کے ساتھ نمودار ہوتا ہے : حرفِ اقرا حق بما تعلیم کرد رزقِ خویش از دست ماِ تقسیم کرد علم از سامان حفظِ زندگی است علم از اسبابِ تقویت خودی است متروک کلام میں سے ۱۹۰۲ء کی ایک اور طویل مگر بے حد مؤثر نظم ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘ کا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ بہت سے موضوعات ماضی و حال کے اس میں در آئے ہیں مگر اصل توجہ تشویقِ علم پر ہی ہے۔ آٹھویں بند کا اختتام حدیثِ پاک کے آفاقی ارشاد اور تاکید و توثیق پر ہوتا ہے : جل کے مر جانا چراغِ علم پر مشکل نہیں پہلے تیرے دل میں پیدا نورِ پروانہ تو ہو اے کہ حرفِ اَطلِبوا لو کان باسین گفتۂ گوہرِ حکمت بہ تارِ جانِ امت سفتۂ یہی تعلیم کی فضیلت ہے جو ان کے نظامِ فکر میں مختلف پہلوئوں سے نقشِ حیات بن کر ابھرتی ہے۔ ہاں یہ نکتہ بھی پیشِ نظر رکھیے کہ یہ علم زمان و مکاں کی تحدید سے آزاد ہے۔ جدید و قدیم دلیل کم نظری ہے تو مشرق و مغرب کا اطلاق بھی بے بصری ہے۔ سرسیّد مرحوم کو مغربی تعلیم اور معیشت سے ایک گونہ انس رکھنے کی وجہ سے ہدفِ تنقید بننا پڑا۔ حالانکہ اچھے اقدار اور مثبت افکار کے حصول میں کوئی شے مانع نہیں ہے۔ کوئی ذی فہم اس کی تائید سے گریز نہیں کرے گا۔ اقبال کے نقادوں نے بھی ان کی مغرب سے بے زاری پر اکثر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اس انتقادی ابلاغ میں اقبال کے اس مرکزی خیال کو نظرانداز کیا گیا جس میں یہ نکاتِ ثبت ہیں : کھلے ہیں سب کے لیے غربیوی کے مے خانے علومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں یا ’شعاعِ امید‘ کا حاصل شعر: مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر یا ایک تیسری تمثیل بھی قابلِ توجہ ہے۔ انھیں مثلِ شعاعِ آفتاب رکھنے والی نظر بہت عزیز ہے کیوں کہ وہ مشرق و مغرب کو خاطر میں نہیں لاتی اور کائنات کو روشن کرتی ہے : فطرتش از مشرق و مغرب بری است شاہین بھی پسندیدہ پرندہ ہے کیوں کہ وہ بھی پورب پچھم کے قید و بند سے آزاد ہے : یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ اس خیال کی گہرائی اور بے کراں کیفیات نے فکرِ اقبال کو آفاقی افق سے ہم کنار کیا ہے جس کا ایک مصدر : مسجدِ ما شد ہمہ روئے زمیں جیسا بلیغ اشارہ ہے۔ اقبال کے مؤقر پیشروئوں نے بھی اس خیال کا احاطہ کیا ہے۔ مولانا حالی کا مشہور قول ہے : حالی اب آئو پیرویِ مغربی کریں علامہ شبلی کو کم سواد تنقیدی نظر نے حریفِ سیّد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ مغربی تہذیب کو بحرِ اوقیانوس میں غرقِ آب دیکھنا چاہتے تھے۔ علامہ شبلی کی نظر اتنی محدود نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس حقیقت سے اجتناب کر سکتی تھی، ہاں ہم نے شاید دانستہ طور پر دانائی نہیں برتی۔ ان کے تصورات میں یہ نکتہ ایک اہم مقام رکھتا ہے : جادئہ مغربیاں گیر کہ ایں طرزِ نوی دل پذیر است و دلاویز و دل آرا ماند راقم اس راست بیانی اور جسارت کے لیے کسی اعتذار کا خواہاں نہیں ہے کہ ہماری تنقیدی نظر ہو یا تفکری بصیرت، وہ ابھی تک چند مفروضات پر ہی مستحضر ہے۔ سر سیّد اور اقبال کی بخشی ہوئی امکانی وسعتوں کی تفہیم اور توضیح کے لیے ہماری دانشوری ہنوز شرر سے شعلے تک رسائی کی منتظر ہے۔ ٭٭٭ فکرِ اقبال میں زمان و مکاں کی اہمیت ایس اقبال قریشی اقبال کی پہچان ان کے اپنے انفرادی فلسفۂ خودی کی و جہ سے ہے اور یہ فلسفہ اقبال سے اس حد تک وابستہ ہے کہ ان کی شخصیت اور ان کے پیغام کا جزوِ لاینفک بن گیا ہے۔ جب بھی اقبال کا نام لیا جائے تو بے ساختہ خودی یاد آتی ہے اور جب خودی کا ذکر ہو تو اقبال یاد آتے ہیں۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اقبال کی پوری توجہ اسی خودی کے اقرار و اعتراف میں ہے اور ان کے دوسرے تمام تصورات خودی کے تابع ہیں۔ ڈاکٹر ایس عالم خوند میری رقم طراز ہیں: The world, for him (Iqbal), consists of living-Willing egos' who are continuously and unceasingly struggling to rise to higher stages of life and will. The universe is an ordered system of egos or individualities and the continuation of individuality depends upon the strenghtening of the ego of self. ؎1 مگر حیرت ہے کہ کہیں کہیں خودی زمان و مکاں کے تابع ہو جاتی ہے۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کو پیش کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے لیکن ان کی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خودی سے کہیں زیادہ زمان و مکاں کے تصورات نے اقبال کو متوجہ کیا ہے جیساکہ مختلف صوفیہ یا فلسفیوں کے ساتھ ہوا ہے: It is to be kept in mind that the problem of time has always attracted the attention of philosophers and mystics. This is because according to the Qur'an the alternation of day and night Sone of the greatest signs of God.؎ 2 ان تصورات کو اپنے نقطۂ نگاہ سے پیش کرنے کے لیے اقبال نے حتی الامکان اپنا پورا زور صرف کیا۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں: اقبال نے اپنے فلسفیانہ نظریات میں جو اہمیت تصورِ زمان و مکاں کو دی ہے، وہ شاید اپنے کسی اور نظریے کو نہیں دی۔۳؎ ان کے خطوط شاہد ہیں کہ زمان و مکاں کے نظریے کو اپنانے اور پیش کرنے کے لیے ماخذ کی تلاش میں انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس دور کے تمام علما سے وہ رجوع کرتے رہے۔ کچھ خطوط کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے: مولانا سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’کیا حکماے صوفیۂ اسلام میں سے کسی نے زمان و مکاں کی حقیقت پر بحث کی ہے؟‘‘۴ ؎ ایسے ہی علامہ اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میں ملا محمود جونپوری کی مشہور کتاب شمس بازغہ کے بارے میں لکھا : شمس بازغہ یا صدرا میں جہاں زمان کی حقیقت کے متعلق بہت سے اقوال نقل کیے ہیں، ان میں ایک قول یہ ہے کہ ’زمان خدا ہے‘ ۔بخاری میں ایک حدیث بھی اس مضمون کی ہے: لاتّسبو الدّھر، کیا حکماے اسلام میں سے کسی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ بحث کہاں ملے گی؟۵ ؎ ایک اور خط میں اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کے نام لکھا : (۱) حضرت محی الدین ابن عربی کے فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقتِ زمان کی بحث کس کس جگہ ہے، حوالے مطلوب ہیں۔ (۲) حضراتِ صوفیہ میں کسی اور بزرگ نے بھی اس مضمون پر بحث کی ہو تو اس کے حوالے سے بھی آگاہ فرمایئے۔ (۳) متکلمین کے نقطۂ خیال سے حقیقتِ زمان یا آن سیال پر مختصر اور مدلل بحث کون سی کتاب میں ملے گی۔۶؎ مزید سیّد سلیمان ندوی سے ایک اور خط میں پوچھتے ہیں: نور الاسلام کا عربی رسالہ بابتِ مکان، جو رام پور میں ہے کس زبان میں ہے، قلمی ہے یا مطبوعہ، نورالاسلام کا زمانہ کون سا ہے۔۷؎ دوسرے ایک اور خط میں علامہ رقم طراز ہیں: مسئلے کے متعلق ابھی تک مشکلات باقی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ پر جو اعتراضات ہمارے متکلمین نے کیے ہیں وہ مسئلۂ زمان کے متعلق خود ان کے افکار پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ مولوی سیّد برکات احمد مرحوم نے دہر اور زمان میں امتیاز کر کے کسی قدر مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ مسئلہ نہایت مشکل ہے۔ ممکن ہے حضرت ابنِ عربی اس پر روشنی ڈال سکیں۔۸؎ ان خطوط کے علاوہ کئی جگہوں پر علامہ نے اپنے خطوط میں تصورِ زمان و مکاں کا ذکر کیا، مثلاً مختلف خطوط میں انھوں نے خوا جہ غلام السیّدین، پیر مہر علی گولڑوی اور سیّد نذیر نیازی کے ساتھ بھی ان کی خط کتابت رہی۔ یہ دوسری بات ہے کہ علما اس مسئلے میں ان کی رہنمائی نہ کر سکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس فلسفۂ حیات کے لیے وہ مضطرب تھے وہ یہی نقطۂ نظر ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ بیسویں صدی میں اس تصور نے انسانی ذہن کو جس طرح جھنجھوڑا اور بے چین کیا تھا اس کا تقاضا تھا کہ اقبال بھی ان کے حقائق کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتے۔ ڈاکٹر رضی الدین کے مطابق: اقبال نے اپنے کلام ،خطبات اور دوسری تحریروں میں جن بنیادی مسئلوں پر غور و فکر کیا ہے، ان میں زمان و مکاں کا سائنسی اور فلسفیانہ مسئلہ بھی شامل ہے جو ان کے زیرِ نظر بہت زیادہ رہا ہے، حتیٰ کہ خطبات کا بیشتر حصہ محض اسی مسئلے کی توضیح و تشریح اور اس کے اطلاقات پر مشتمل ہے۔ اس کی روشنی میں انھوں نے مذہب اور الٰہیات کے مختلف اصولوں پر غائر نظر ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ زمان و مکاں کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔۹؎ اگر یہ کہا جائے کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی فلسفیانہ یافت یہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ارسطو اور افلاطون سے لے کر انیسویں صدی کے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت نے زمان و مکاں کے تصور کو ایک نئے نقطۂ نگاہ سے پیش کیا۔ اقبال اپنی ابتدائی فلسفیانہ تصنیف اسرارِِ خودی سے ہی اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ خودی جب بے زماں اور بے مکاں ہو جائے تو پھر اس کا وجود اور اس کی حدود پر گفتگو آسان نہیں ہوتی: مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں جہاں بیں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں۱۰؎ خودی کا یہ تصور بڑا پیچیدہ اور ماورائی حیثیت کا حامل ہے اور یہاں انسانی فکر کی حیرانی بڑھ جاتی ہے۔ اقبال نے خودی اور بے خودی کی تشکیل میں اسلامی فلسفے اور فکر کا سہرا لینا چاہا۔ علامہ اقبال نے خودی اور بے خودی کو اپنے آئینہ خانے میں ڈھالنا چاہا۔ یہی و جہ ہے کہ انھوں نے اسرارِِ خودی میں ’الوقت سیف‘ کے قول سے اسے مربوط کرنا چاہا۔ پروفیسر ایم ایم شریف لکھتے ہیں: Iqbal thkes a dictum of Imam Shafi's الوقت سیف (time is sword) and writing under the title poem of sixty one couplets in Asrar i Khudi.؎11 اقبال کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی میں برگساں سے ملاقات اور گفتگو مفید رہی۔ Iqbal paid a visit to Bergson who was very pleased to see him.؎12 اس ملاقات کے بعد اقبال کی تشنگی اور زیادہ بڑھ گئی۔ راقم کا خیال ہے کہ شاید اس ملاقات کے ہی سبب ان کی سب سے اہم تصنیف بالِ جبریل کا بڑا حصہ اسی فیضان کا نتیجہ ہے: Following Bergson Iqbal makes a destination between pure time and serial time, pure time for him is not unreal as Zeno and Plato... like Bergson he holds that pure duration is identical with life and is an unceasing flow or a continual change, as perpetual flux.؎13 بالِ جبریل ان کی عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ ان کے افکار کی ارتقائی صورت پیش کرتا ہے۔ گویا ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک اقبال پوری توجہ کے ساتھ اس خیال کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ برگساں معمولی فکر کا فلسفی نہ تھا۔ اگر اُسے بیسوی صدی کے فلسفیانہ تصورات کا حامل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جس سے اقبال بہت متاثر ہوئے۔ Iqbal's poetry and thought are so indebted to Bergson that one cannot miss the Bergsonean note in his works. Leaving aside the influences and impressions from Bergson, one might feel attracted to discover the raison d'etre for the Bergsonean note in him. What seems to have appealed to Iqbal most is the poetic language that Bergson has used in all his works.؎14 ان دونوں فلسفیانہ تصورات یعنی زمان و مکاں اور قوت میں ایک باریک رشتہ بھی ہے، جس کی طرف بڑا لطیف اشارہ نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ میں موجود ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ کے پہلے بند میں وی زمان و مکاں ہے جو حادثات کا تسلسل ہے جس کی زد سے دُنیا کی کوئی شے محفوظ نہیں ہے۔ مگر مسجدِ قرطبہ کیوں کہ محفوظ اور باقی ہے اس لیے کہ مردِ خدا نے اس کی تخلیق کی ہے۔ اقبال کی نظر میں مردِ خدا لازوال قوت کا سرچشمہ ہے جو بڑے سے بڑے طوفان کو روک دیتا ہے۔ فناہر تخلیق کا مقدر ہے لیکن مردِ خدا کی تخلیق کو زوال نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنی بے پناہ قوت سے تخلیق کو لافانی شاہکار میں تبدیل کرتا ہے:۱۵؎ عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام یہاں زمانے کی رو اس تخلیق کو فنا نہیں کر پاتی، یہ بات بڑے غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہے اور مردِ خدا کا یہ سرچشمۂ قوت فیضانِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے۔ اسی نظم میں ہے:۱۶؎ مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ دوسرے لفظوں میں اقبال کا مردِ مومن زمان و مکاں کے حدود کا پابند نہیں ہے۔ اس نظم میں زمان و مکاں اور سرچشمۂ قوت پر جو توجہ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسولینی کی جن آنکھوں کی چمک نے اقبال کو بہت متاثر کیا وہ بے سبب نہیں ہے۔ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خطبات میں بعض اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں وقت کی ابدیت اور مکاں کے حدود اس مادّی دنیا سے ماورا حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں قوت کے سرچشمے کی علامت حضرت علیؓ کو قرار دیا ہے جنھیں بار بار اسداﷲ، خیبرشکن، یداﷲ اور بازوے حیدرؓ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف زمان و مکاں کو سمجھنے کے لیے اقبال نے معراج نبوی ﷺ کے واقعے کو بار بار دہرایا ہے: دے ولولۂ شوق جسے لذّتِ پرواز کر سکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج تو معنی والنّجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدوجزر ابھی چاند کا محتاج اس سے زیادہ واضح لفظوں میں زمان و مکاں کو سمیٹنے اور سر کرنے کا بہت ہی واضح تصور اس شعر میں ہے: سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ﷺ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں ان اسلامی واقعات کی مدد سے اقبال نے زمان و مکاں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ سورۃوالعصر کی بھی فکرانگیز تعبیر ان کے یہاں ملتی ہے اور لاتّسبوا الدّھر کی حدیثِ پاک کا بھی حوالہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اقبال کے زمان و مکاں کو ایک نئے امکانی فلسفے کی صورت میں دیکھا جائے۔ چنانچہ اقبال کے بیشتر نقادوں نے ان کے اس تصور کو سمجھنے اور سمجھانے کو اپنی بساط بھر کوشش کی، لیکن یہ سچائی ہے کہ صرف ادبی نقاد اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان اقبال شناسوں نے بڑی جگر کاوی کی ہے اور اس میں فلسفے کے بیشتر پہلوئوں کو بروئے کار لانے میں اپنی پوری قوت صرف کی ہے۔ خواہ وہ خلیفہ عبدالحکیم ہوں یا رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اور پروفیسر ایم ایم شریف۔ یہ حضرات صرف ادب کے عالم نہ تھے بلکہ فلسفے کے بھی عالم تھے۔ ان بزرگوں کے ساتھ ساتھ جناب شبیراحمد خان غوری نے بھی بڑی فکرانگیز گفتگو کی ہے اور اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنا چاہا ہے۔ اگرچہ انھیں اقبال کے کئی پہلوئوں سے اختلاف بھی ہے لیکن یہ سچائی ہے کہ ابھی تک اقبال کے ان فلسفیانہ پہلوئوں کا احاطہ نہیں ہو سکا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اقبال ایک عبقری ذہن کے مالک تھے اور ان کے فلسفہ و فکر کی باز آفرینی کے لیے وہی ذہن درکار ہے، شاید کوئی ایسا نابغہ پیدا ہو جو اس کا احاطہ کر سکے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مشرقی ادب اور فکر میں اقبال پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس اہم تصور کی تفہیم پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ وہ اس لیے بھی ناگزیر ہیں کہ انھوں نے بیسویں صدی کے اس عظیم الشان فلسفیانہ فکر کو لبیک کہا۔ اقبال نے ہندوستانی ادبیات میں عالمی مسائل پر غوروفکر کرنے کی طرح ڈالی۔ ان کے معاصر ادب میں کسی زبان میں بھی کائناتی حوادث کا منظر نامہ توکجا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ اسی طرح فکر کے اہم میلانات کو فکر و شعر سے ہم آہنگ کرنے میں اور ہندوستان کے رہنے والوں کے دلوں کو درد آشنا بنانے میں انھوں نے پہل کی ہے اور اسی طرح یہ صرف اقبال کا کلام ہے یا تحریریں جن میں زمان و مکاں کی سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ یہ فلسفہ ان کے لیے حیرت و استعجاب کا سبب بھی تھا اور ان کی تخلیقی فعالیت کا سرچشمہ بھی بنا رہا۔ اس کی ابدیت کے اقرار و اعتراف سے ہی اقبال کو فلسفے کی وسعتوں کے ممکنات سے شناسائی حاصل ہوئی۔ ٭٭٭ حواشی 1- Dr.S Alam Khundmiri Some Aspects of Iqbal's Poetic Philosophy, Iqbal Institute, Srinagar, March 2000, p-31. 2- Syed Latif Hussain Kazmi, Philosophy of Iqbal, A.P.M. Publishing Corporation, New Delhi, 1997, p-18. ۳۔ جگن ناتھ آزاد، ’آئن اسٹائن اور برگساں کے نظریاتِ زمان اور اقبال‘، اقبال اور مغرب، مرتبہ: آل احمد سرور، اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی، سری نگر، ۱۹۹۷ئ، ص:۲۲۔ ۴۔ کلیاتِ مکاتیب اقبال، جلد دوم، مرتبہ: سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۳ئ، ص: ۲۷۹۔ ۵۔ ایضاً، ص: ۶۹۰- ۶۹۲۔ ۶۔ ایضاً، جلد سوم، ص: ۳۶۷-۳۶۸۔ ۷۔ ایضاً، ص: ۳۸۱۔ ۸۔ ایضاً، ص: ۳۹۸۔ ۹۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ’اقبال کا تصورِ زمان و مکاں‘، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، ۱۹۷۳ئ، ص:۸۳۔ ۱۰۔ کلیاتِ اقبال (اردو)، بالِ جبریل، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص: ۸۲۔ 11- Prof. M.M. Sharif, 'Iqbal on the Nature of Time', Selection from the Iqbal Review by Dr. waheed Qureshi, April 1983, p-377. 12- Anwar Beg. The Poet of the East, Sh. Mohd Ashraf Lahore, 1961, repr. IAP.2004, p-77. 13- Prof. M.M. Sharif, Op.Cit, p-376. 14- T.C. Rastogi, Western Influence in Iqbal, Ashish Publishing House, New Delhi, 1987, p-93. ۱۵۔ کلیاتِ اقبال (اردو) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۹۹۴ئ، ص:۹۶۔ ۱۶۔ ایضاً ٭٭٭ کیرالا میں مطالعۂ اقبال اور عبدالصمد صمدانی کے پی شمس الدین جنوبی ہندستان کی ریاست کیرالا کے علمی، ثقافتی، تہذیبی حالات کے متعلق بہت کم لوگ واقف ہیں۔ سیاسی ادبی اعتبار سے بھی اس ریاست کو وہ شہرت نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔ اب انفارمیشن ٹکنالوجی کا دور ہے۔ گلوبل ولیج کا زمانہ ہے۔ سب خاص و عام اس تاریخی خطے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جنگِ آزادی کی پہلی لڑائی پرتگیزیوں کے خلاف اسی کے ساحل پر ہوئی۔ تاریخی روایات کے مطابق اسی کے ساحل پر نبیِ اکرم ﷺ کے دورِ حیات میں ہی اسلام کا تعارف ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی ریاست کے ساحل پر یہاں کے راجہ چیرامان پرومال نے شق القمر کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دینِ اسلام قبول کیا تھا۔ کیرالا اپنی تہذیب و تمدن اور زبان کے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے مشترکہ طور پر دوسرے صوبوں سے میل ملاپ میں زیادہ ربط قائم نہیں رہا۔ آج شمالی ہندستان میں جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ کیرالا میں ہو رہا ہے۔ اردو زبان کی ترقی، اقبالیات جیسے موضوع پر کیرالا میں سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں۔ علامہ اقبال پر دنیا کے کونے کونے میں مطالعہ اور تحقیق کا کام جاری ہے۔ اردو کے شاعروں میں اقبال پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہندستان میں شاید ہی ایسی کوئی ریاست ہو جہاں اقبال پر کچھ نہ کچھ کام نہ ہو رہا ہو۔ جنوبی ہند میں ہی نہیں، شاید سارے ہندستان میں سب سے زیادہ اقبال کے موضوع پر کتابیں رسالے، تحقیقی مقالے حیدرآباد کی اقبال اکادمی میں موجود ہیں لیکن اقبال کے نام پر عالی شان عمارت کا وجود (برائے نام نہیں بطور کام) شاید کیرالا میں ہی ہے۔ کیرالا میں اقبال پر ملیالم زبان میں بہت کام ہوا ہے، لیکن شروعات اقبال کی زندگی میں ہی ہوئیں، رسالوں میں اقبال پر مضامین شائع ہوتے رہے اور کوچین میں ۱۹۳۶ء میں ’اقبال لائبریری اینڈ ریڈنگ روم‘ جناب ابراہیم حاجی قاسم سیٹھ کو چین والا نے قائم کی اور وہ اس کے پہلے صدر بھی تھے۔ یہ لائبریری صرف اقبال کے نام پر ہی ہے لیکن یہاں اقبال پر کتابیں کم ہی ہیں، اس کے علاوہ چند کتب خانے اور دارالمطالعے اقبال کے نام سے قائم ہوئے۔ عملاً اقبال کی تعلیمات کو عام کرنے سے ان کا تعلق نہیں رہا۔ ملیالم زبان میں اقبال پر سب سے پہلی کتاب اقبال کے نام سے ۱۹۴۶ء میں تریوندرم سے شائع ہوئی۔ دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مصنف و کّم عبدالقادر (Vikkam Abdul Qadir) تھے۔ بعد میں انھوں نے اسرارِ خودی کا ترجمہ بھی شائع کیا۔ اس کے بعد ٹی عبید، او ابو، سی سی، ایم- صالح، موسیٰ ناصح محمد تلمور وغیرہ اور مادھون جیسے غیرمسلم اصحاب نے بھی مختصر کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ کچھ آزادی سے پہلے اور کچھ آزادی کے بعد شائع ہوئیں۔ ملیالم روزناموں میں اقبال پر اکثر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان مضمون نگاروں میں کے کے- محمد عبدالکریم، ایس ایم سرور، کے پی کنجی موسیٰ، کے ایم احمد، ابراہیم بے و نجا، احمد کٹی کلاتل جیسی شخصیتوں کے نام شامل ہیں۔ کیرالا کے واحد اردو ادیب و شاعر مرحوم ایس ایم سرور، اقبال سے متاثر تھے۔ سرور صاحب کے ابتدائی کلام میں اقبال کا رنگ ڈھنگ اور طرز جھلکتا ہے۔ سید محمد سرور کے دو مجموعۂ کلام شائع ہو چکے ہیں، ارمغانِ کیرالا اور نوائے سرور۔ اس میں اقبال پر بھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ اقبال کے فرزند جاوید اقبال نے شعری مجموعہ ارمغانِ کیرالا ملنے پر اس کی ستائش کرتے ہوئے سرور صاحب کو پیغام بھی ارسال کیا تھا۔ سرور صاحب نے اقبال کی فارسی کی چند نظموں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ بطورِ نمونہ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں : تو شب آفریدی چراغ آفریدم بنائی ہے شب تو نے، میں نے چراغ سفال آفریدی ایاغ آفریدم بنائے خزف تو نے، میں نے ایاغ بیاباں و کہسار و راغ آفریدی کیے تو نے پیدا، بیاباں و کہسار خیاباں و گلزار و باغ آفریدم کیے میں نے پیدا، خیاباں و گلزار من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم میں کرتا ہوں سنگ سے آئینہ پیدا من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم میں کرتا ہوں زہر سے نوشینہ پیدا (۱۱) نومبر ۱۹۶۶ئ) علامہ اقبال کی بانگِ درا کا ترجمہ کچھ عرصہ قبل ملیالم میں ہوا ہے لیکن یہ ترجمہ اصل مفہوم سے قریب نہیں ہے۔ موپلا شاعر پی ٹی عبدالرحمن نے موپلاگیت کے طرز پر ترجمہ کیا ہے۔ پی ٹی عبدالرحمن کی اردو سے ناواقفیت کی وجہ سے ترجمانی کا حق ادا نہ ہو سکا۔ مرحوم نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ راست اردو کلام سے استفادہ کرتے ہوئے پی ٹی عبدالرحمن اور پی اے کریم نے اشعار کا جو مفہوم ملیالم میں پیش کیا ہے، وہ موپلاطرز کے گیت کے طرز پر ہے۔ پھر بھی بانگِ درا کا ملیالم میں ترجمہ قابلِ قدر بات ہے۔ اسی طرح اردو کے گلوکار عبدالرحمن آواز اور ان کے چند احباب نے مل کر اقبال کی چند نظموں کے ترنم و آہنگ کے ساتھ کیسٹ جاری کیے۔ اس کیسٹ میں دوسرے گلوکار بھی ہیں، البتہ ملیالم کا کچھ اثر ان نغموں میں ہے۔ بعض لوگوں نے اپنی شہرت کے لیے بھی اقبال کو نامناسب انداز میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں اقبال پر ایک دو کتابیں شائع ہوئی ہیں جو اقبال کو بدنام کرنے کے برابر ہیں۔ کسی نے اقبال کو عاشق مزاج شخص کے روپ میں پیش کیا ہے۔ کسی نے دوسرے انداز میں لیکن ایسی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ بازار میں دستیاب ہیں کیوں کہ عام لوگوں نے بھی ایسی کتابوں کو نظرانداز کر دیا ہے۔ ویسے اردو اور فارسی سے واقفیت کے بغیر اقبال پر یا ان کے اشعار پر کچھ لکھنا ہی غلط ہے۔ یہ کمی ایسے مفاد پرست لوگوں کی بڑی کوتاہی ہے۔ آزادی سے قبل کیرالا تین صوبوں پر مشتمل تھی ملی بار، کوچین اور ٹراونکور جس میں ملی بار پر مسلم لیگ کی مضبوط گرفت تھی۔ مسلم لیگ کے ہر چھوٹے بڑے آفس میں علامہ اقبال کی تصویر پہلے دکھائی دیتی تھی۔ جلسے منعقد کیے جانے والے مقامات کو ’’علامہ اقبال نگر‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ ۱۹۳۴ء سے شائع ہونے والا چندریکا اخبار مسلم لیگ کا ترجمان ہے (آج بھی باقاعدہ طور پر شائع ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ اقبال پر مضامین شائع کرنے والا اخبار ہے) جس میں ہمیشہ اقبال پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند اور آزادی کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ یہاں کے مسلم لیگ کے رہنما اور محمد علی جناح کے دستِ راست جناب حاجی عبدالستار حاجی اسحق سیٹھ صاحب کے پاکستان چلے جانے سے یہاں کے سیاسی حالات میں بہت تبدیلی ہوئی۔ آزادی کے بعد محمد اسمٰعیل صاحب نے انڈین یونین مسلم لیگ قائم کی تو کیرالا کے مسلمانوں کی ایک نئی سیاسی پارٹی کا اثر اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا پہلے تھا۔ اردو کا نام لینا یا اقبال پر کچھ لکھنا تنگ نظری سمجھا جاتا تھا۔ اسی دور میں انڈین یونین مسلم لیگ کے قیام کے بعد IUML کے ترجمان چندریکا نے اقبال پر خصوصی شمارہ جاری کیا۔ آپسیّ سے میمن حضرات نے اقبال پر سوونیر شائع کیے۔ IUML کے دفتروں میں بھی اقبال کی تصاویر نظر آنے لگیں۔ کیرالا اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن کا سہ ماہی جریدہ اردو بلٹن نے بھی اقبال نمبر شائع کیا اس طرح ادبی اور ثقافتی حلقوں میں بھی اقبال کا چرچا ہونے لگا۔ اسی دوران روزنامہ چندریکا میں مسلسل اقبال پر مضامین شائع ہو رہے تھے جو سب کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مسلسل اقبال پر لکھنے والے کون ہیں جو اقبال پر تحقیقی نظر رکھتے ہیں۔ یہ تھے خوبرو نوجوان جناب ایم پی عبدالصمد صمدانی جو ایک اچھے مقرر بھی ہیں۔ اقبال کے اشعار کے بغیر ان کی تقریریں ادھوری رہتیں۔ آج کیرالا کا بچہ بچہ صمدانی کو جانتا ہے اور جو صمدانی کو جانتا ہے وہ اقبال کو جاننے لگا۔ اقبال کے پیام، ان کے فن وغیرہ کا جس انداز اور ڈھنگ سے کیرالا میں صمدانی نے تعارف کرایا ہے شاید ہی کسی اور نے کرایا ہو۔ عبدالصمد صمدانی کی پیدائش ضلع ملاپورم میں ایک بزرگ عالم دین مولانا عبدالحمید حیدری کے گھر ہوئی۔ مولانا عربی، اردو، فارسی اور ہندی کے ماہر تھے۔ عبدالصمد صمدانی کے لیے مولانا عبدالحمید ان کے والد محترم ہی نہیں بلکہ استاد بھی تھے۔ ابتدائی تعلیم کے علاوہ عربی، اردو، فارسی کی تعلیم بھی گھر پر ہوئی۔ سنسکرت کی تعلیم کے لیے والد نے ایک استاد (کنجونمبیار) کو مقرر کیا تھا۔ بچپن ہی سے گھر میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ، حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اور علامہ اقبال کا چرچا ہوتا تھا۔ اقبالیات کا ماحول تھا۔ صمدانی صاحب کے والدِ محترم بڑے خوشخط انداز میں علامہ اقبال کے اشعار اور اس کی شرح لکھا کرتے تھے۔ یہی نہیں، مولانا عبدالحمید صاحب نے قرآن شریف کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ یہ کیرالا کی واحد شخصیت تھے جنھوں نے قرآن شریف کے اردو ترجمہ کے لیے پہل کی ہے لیکن اس نیک کام کی تکمیل سے پہلے ہی اﷲتعالیٰ کا بلاوا آ گیا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جناب عبدالصمد صمدانی اسکول کی تعلیم کے بعد جب کالج پہنچے تو بطور سیکنڈ لینگویج اردو کا انتخاب کیا اس کی خاص وجہ یہی تھی کہ اردو کے ذریعے اقبال کو اور زیادہ جاننے کا موقع ملے۔ فاروق کالج میں ڈاکٹر سیّد قدرت اﷲ باقوی صاحب (جو اس وقت میسور کے سر قاضی ہیں) کے شاگرد بنے تو اقبال کی شاعری اور فلسفے سے زیادہ لگائو ہوا۔ تاریخ میں ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد ایم فل میں علامہ اقبال اور امینیول کانٹ (Immanuel Kant) کا تقابلی مطالعہ کے موضوع پر مقالہ پیش کر کے ڈگری حاصل کی۔ فی الحال دہلی کے جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں ڈاکٹر آر پی سنگھ کی زیرِنگرانی میں اقبال اور فلسفہ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اسی دوران ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر کے تلشیری کی دو سو سال پرانی عدالت میں ۱۸؍اپریل ۲۰۰۴ء کو انرولمنٹ بھی کیا۔ اس کے دوسرے دن تمام اخباروں میں ’صمدانی راہِ اقبال پر‘ کی سرخی کے ساتھ خبریں شائع ہوئی تھیں۔ ان ساری سرگرمیوں کے علاوہ جناب عبدالصمد صمدانی ایک اچھے سیاست داں اور مقرر کی حیثیت سے ساری ریاست میں مقبول ہیں۔ جناب عبدالصمد صمدانی مسلم لیگ کے اعلیٰ درجے کے رہنمائوں میں سے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں صمدانی صاحب کو راجیہ سبھا کے لیے چن لیا گیا۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں اردو میں حلف لیا جس پر دوسرے ممبران پارلیمنٹ حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ ملیالی ایم پی اور اردو! یہی نہیں حلف برداری کے بعد انھوں نے اقبال کی نظم ’فنونِ لطیفہ‘ پڑھی۔ اے اہلِ نظر، ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا سارا ایوان اقبال کے اشعار سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس وقت کی ڈپٹی اسپیکر محترمہ نجمہ ہبت اﷲ نے اس نظم کو دوبارہ مکمل طور پر سنانے کی فرمائش بھی کی۔ ایم پی بننے کے بعد صمدانی کو دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ دل میں اقبال کو لیے گھومتے گھومتے کیرالا میں علامہ اقبال کی ایک خوب صورت یادگار Allama Iqbal Indian Humanitarian Foundation قائم کرنے کی ٹھان لی۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا جتنا سوچا گیا تھا۔ اﷲ کے بھروسے پر عبدالصمد صمدانی نے قدم آگے بڑھایا۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی نصرت سے ان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اقبال فائونڈیشن کا سنگِ بنیاد، ریاست کیرالا کے مسلم لیگ کے صدر سیّد محمد علی شہاب تھنگل نے رکھا۔ اس کے بعد اقبال پر کئی پروگرام اور سیمینار وغیرہ منعقد کیے گئے۔ ایسے ہی ایک سیمینار میں مشہور صحافی اور ممبر پارلیمنٹ جناب کلدیپ نیر بھی تشریف لائے اور اپنی مسحورکن تقریر سے اقبال کے تاریخی حقائق پر روشنی ڈالی۔ ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۳ء بروز اتوار کو علامہ اقبال کی یادگار عالی شان عمارت کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس تقریب میں افتتاحی خطبہ سید محمد علی شہاب تھنگل اور کلیدی خطبہ کلدیپ ّنیر ایم پی نے پیش کیا۔ تقریری مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ میں مہمانِ خصوصی مولانا انظرشاہ کشمیری نے انعامات تقسیم فرمائے اور دیگر وزرا، ممبران پارلیمنٹ، ضلع کلکٹر، کالی کٹ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر جیسی عظیم ہستیوں نے اس تقریب میں شرکت کی، شکریہ ملیالم کے مشہور شاعر پی کے گوپی نے ادا کیا۔ اس عالی شان عمارت کے رنگ ڈھنگ کا اپنا الگ ہی انداز ہے۔ فائونڈیشن کو دیکھتے ہی اقبال سے ناواقف لوگ بھی اقبال کو جاننے کی ضرور کوشش کریں گے۔ یہاں ہمیشہ کسی نہ کسی پروگرام کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔ اندرون و بیرونِ کیرالا سے نامور ہستیاں یہاں شریک ہوتی ہیں۔ اہلِ علم بے حد مفید مقالے بھی پیش کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ۲۸؍ جنوری ۲۰۰۴ء بروز بدھ پروفیسر گوپی چند نارنگ یہاں تشریف لائے تھے اور علامہ اقبال پر ایک بہترین تقریر کی۔ نارنگ صاحب نے اقبال کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو پراثر انداز میں پیش کیا۔ اس جلسے کا صدارتی خطبہ خود عبدالصمد صمدانی نے دیا اور خطبہ استقبالیہ جناب ایس سی ای آر ٹی کے اردو ریسرچ آفیسر این محی الدین کٹی نے پیش فرمایا۔ اس تقریب میں کیرالا اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جناب احمد کٹی کلاتل، انجمنِ ترقیِ اردو (کیرالا) کے جنرل سکریٹری حمید کار اشیری اور ملیالم کے شاعر پی کے گوپی نے حصہ لیا۔ ۱۷؍ فروری ۲۰۰۴ء بروز منگل کالی کٹ میں منعقدہ کیرالا اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سالانہ جلسے میں آئے ہوئے مہمانِ خصوصی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے ڈائریکٹر جناب حمیداﷲ بھٹ صاحب نے اقبال فائونڈیشن کا معائنہ کیا اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، ’کیرالا میں اقبال واہ بھئی واہ…‘ اسی جلسے میں بمبئی سے آئے ہوئے روزنامہ اردو ٹائمز کے فیچر ایڈیٹر جناب سعید حمید صاحب نے بھی فائونڈیشن کی اس عمارت کو دیکھ کر کہا، ’’علامہ اقبال کی ایسی یادگار بمبئی میں کہاں؟‘‘ کیرالا کے ضلع کالی کٹ کی اہم شاہراہ پر یادگارِ اقبال کے طور پر اس غیراردو داں ریاست میں عشقِ اقبال میں عبدالصمد صمدانی نے جو عمارت بنائی ہے اس کی تعمیر میں کسی اردو اکادمی یا اردو کونسل یا ریاستی اور مرکزی حکومت یا کسی ایم ایل اے یا ایم پی کے فنڈ کا ایک روپیہ بھی شامل نہیں ہے۔ حال آنکہ خود ایم پی کو کثیر فنڈ ملتا ہے لیکن سرکار کا ایک روپیہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ صمدانی صاحب نے نہ صرف اپنا سرمایہ لگایا اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے تعاون سے یہ شان دار عمارت تعمیر کی اور کثیر سرمائے سے کتابیں (صرف اقبال پر) یہاں جمع کیں۔ اقبال فائونڈیشن میں مندرجہ ذیل علمی اور ادبی ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ ادارہ ایک علمی اور ادبی مرکز بن گیا ہے : ۱۔ علامہ اقبال انڈین ہیومینٹیرین فائونڈیشن ۲۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف فلاسفی ۳۔ اقبال اکادمی ۴۔ علامہ اقبال آڈیٹوریم ۵۔ ڈاکٹر اقبال سینٹر فار انڈین اینڈ فلانتر وفک اسٹڈیز ۶۔ بیرسٹر اقبال لیگل سینٹر ان سب کاموں کے لیے اکادمی میں خود کا ایک پرنٹنگ پریس بھی ہے۔ عبدالصمد صمدانی نے اقبالیات پر اب تک ملیالم میں پندرہ کتابیں شائع کی ہیں۔ صمدانی کے اقبال پر اب تک کے مقالات جو انھوں نے مختلف رسائل، اخبارات اور سووینرز میں لکھے ہیں ان سب کو یکجا کیا جائے تو تین جلدوں میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی صاحب کی نقوشِ اقبال کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ ندوی صاحب سے قریبی تعلقات تھے اس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب کاروانِ زندگی میں کیا ہے۔ کیرالا میں کثیرتعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کا سہرا بھی صمدانی کے سر جاتا ہے۔ ماہِ رمضان المبارک میں تین شبینہ دینی تقاریر ہوتی ہیں۔ یہ دینی جلسہ کالی کٹ کے ساحل پر منعقد کیا جاتا ہے جس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ تقریباً چار گھنٹے مسلسل تقریر کرتے ہیں۔ خطبے میں اقبال کے اشعار کی پھلجھڑیاں بکھرتی ہیں، سمندر کی لہروں سے ٹکراتے ہوئے اقبال کے اشعار سننے والوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔ اجتماع کی جگہ کو ’علامہ اقبال نگر‘ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کو سچے دل سے چاہنے والی ایسی شخصیت شاید ہی کہیں اور ملے۔ اقبال کا قرآن مجید سے لگائو اور رسولِ اکرم ﷺ سے گہری محبت، یہ باتیں جناب عبدالصمد صمدانی کی تقریر کا خاص وصف ہیں۔ وہ اپنی تقاریر سے ان باتوں کو عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ ٭٭٭ از ’’اقبال ریویو‘‘ (نومبر ۲۰۰۴ئ) حیدر آباد دکن اقبال بنگلا میں (بنگلا اقبالیات پر ایک مفصل کتابیات) لطف الرحمن فاروقی بنگلا ایک جدید زبان ہے اور ادبی سرمائے سے مالا مال ہے۔ اس زبان کو ۱۹۱۳ء کا ادبی نوبل پرائز حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دنیا کی ۲۴ کروڑ آبادی بنگلا زبان بولتی ہے جن میں سے ۱۷ کروڑ مسلمان ہیں۔ یہ صرف ۱۳ کروڑ آبادی پر مشتمل بنگلادیش کی قومی اور سرکاری زبان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے صوبہ مغربی بنگال، بہار اور تیری پورا کی بھی شریک سرکاری زبان ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہندوستان کی تیسری بڑی سرکاری زبان بھی ہے۔ ملتِ اسلامیۂ بنگلا ہمیشہ سے فکری، روحانی، علمی اور سیاسی طور پر ملتِ اسلامیۂ ہند کا جزوِلاینفک رہی ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ایک ایسے فلسفی شاعر اور سیاسی رہنما تھے جو اپنے افکار و فلسفۂ حیات سے صرف مسلمانانِ ہند ہی کو نہیں بلکہ مغربی دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے، کس طرح ممکن تھا کہ وہ بنگلا زبان بولنے والے مسلمانوں کو متاثر نہ کرتے۔ چنانچہ کلامِ اقبال شمال مغربی ہند میں متعارف ہوتے ہی بنگلا زبان و ادب میں ترجمہ ہونا شروع ہو گیا۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے جن تین زبانوں یعنی اردو، فارسی اور انگریزی میں اپنے فکر و کلام کا اظہار کیا، بنگال میں ان زبانوں کے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی مگر سب لوگ تو ان زبانوں پر دسترس نہیں رکھتے تھے اور اقبال کے فکر و فن تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ چنانچہ بنگال کے اہلِ فکر و دانش نے اس حقیقت کو محسوس کیا اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھے، کلامِ اقبال کو بنگلا زبان میں منتقل کرنے کی طرف توجہ دی اور ایک تسلسل کے ساتھ مطالعۂ اقبال جاری رکھا۔ جنگِ عظیم اوّل ملتِ اسلامیہ کو پارہ پارہ اور منتشر کرنے کا سبب بنی۔ اس کی مناسبت سے علامہ اقبال کا مقبول ترین نغمہ ’ترانۂ ملی‘ بنگلا زبان میں ترجمہ ہو کر مسلمانانِ بنگال کا ملت سے رشتہ مزید مستحکم کرنے کا باعث بنا۔ شاید اقبال کا یہ وہ پہلا کلام ہے جسے سب سے پہلے بنگلا میں ترجمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بنگلا زبان میں اقبال شناسی کو فروغ دینے والوں کے پیش رو کوی میزان الرحمن اس سلسلے میں بتاتے ہیں: میں علامہ اقبال سے ۱۹۱۵ء یا ۱۹۱۶ء میں ماہنامہ الاسلام میں شائع ہونے والی ان کی مشہور نظم ’ترانۂ ملی‘ کے بنگلا ترجمہ کے ذریعے سے متعارف ہوا۔ اس بیان کے علاوہ تاریخِ بنگلا زبان میں اقبال شناسی کے آغاز کا کوئی متعین ثبوت نہیں ملتا۔ چنانچہ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ بنگلا زبان میں اقبال شناسی کا نقطۂ آغاز ۱۹۱۵ء یا ۱۹۱۶ء ہے۔ اس کے بعد بنگلا شاعری کے افق پر انقلابی شاعر قاضی نذرالاسلام شعلہ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جذبہ و حرارت کی بلندیوں کو چھونے والا شاعر ہے۔ جو اتحادِ ملت، ارتقائے خودی اور ہر باطل سے ٹکرا جانے کے جذبے سے سرشار تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے تک بنگلا زبان میں اقبال کے مزید تراجم وغیرہ نظر نہیں آتے، تاہم ۱۹۳۰ء میں جب الٰہ آباد کانفرنس میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں مسلمانوں کے لیے ایک متعین راہ پیش کی تو اہلِ بنگال اقبال سے مزید متاثر ہوئے اور اہلِ قلم نے اقبال کو بنگلا میں منتقل کرنے پر بھی توجہہ دی۔ اس سلسلے میں عظیم اقبال شناس ڈاکٹر سید علی احسن کی رائے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور بنگلا زبان میں اقبال شناسی کی تاریخ کے سلسلے میں انتہائی اہم ہے۔ وہ اپنی مرتبہ و مترجمہ کتاب اقبالیرکویتا (اقبال کی نظمیں) کے بھومیکا یعنی پیش لفظ میں لکھتے ہیں: بنگال کے مسلمانوں کے ہاں مسلم تہذیب و ثقافت کے احیا و بازیابی کی باتیں اجنبی نہیں تھیں۔ سیاسی احتجاجی لہروں نے بنگالی مسلمانوں کے جمود کے شکار دلوں میں بھی حرکت پیدا کی۔ ادیب و شعرا خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے بے جان مسلمانوں کو جگانے کی باتیں کرنے لگے۔ میر مشرف حسین، مزمل حق، اسماعیل حسین شیرازی اور کیقباد وغیرہ جیسے مشاہیر ادیب و شعرا کی تصانیف میں غلامی کے خلاف بے حد دکھ کا احساس نمایاں تھا اور انگریزوں سے رواداری کے احساسِ کمتری کا شائبہ بھی نہیں ملتا۔ اس کے بعد سلسلہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال سے ہمارا تعارف اس سے بھی بعد کی بات ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے سے جب عالمگیر مسلم اخوت کا خواب ماند پڑ گیا تھا، تو نذر الاسلام نے اچانک اسلام کے قرونِ اولا کی داستانیں اور عظمتِ رفتہ یاد دلاتے ہوئے ہمارے بے حس و حرکت دلوں پر کاری چوٹ لگائی۔ وہ شعلہ بن کر نمودار ہوئے جس نے ہمارے دلوں میں امنگ اور جذبہ پیدا کیا۔ اسی زمانے میں اشرف علی خان نے اقبال کی نظم ’شکوہ‘ سے ہمیں متعارف کرایا۔ وہ نذرالاسلام کی سالاری میں بنگالی مسلمانوں کی زندگی کے مصائب و آلام و بے قراری اور کسی سچے نظریے کی کمی کے خلاف اﷲ سے شکایت کرتے نظر آتے تھے۔ یوں ’شکوہ‘ ان کے اپنے دل کی بازگشت تھی۔ ’شکوہ‘ کی ادبی حیثیت جیسی بھی ہو مگر اس شکایت نے ہمارے احساسات میں ہلچل پیدا کر دی۔ نذرل ہمیں اچھا لگا تھا، اقبال اور بھی اچھا لگا۔ نذرل میں تپش غیرمعمولی تھی مگر اس تپش میں جلن ضرور تھی، ٹھنڈک سے عاری۔ اقبال کی شاعری میں جلن بھی ہے مگر مذہب کی مستحکم ابدی حقائق سے بیگانگت نہیں۔ اس لیے وہ دراصل تسکین بخشنے اور احساسِ زندگی میں بے مثال ہے۔ اس کے بعد جب انھوں نے صاف صاف آواز میں ہندوئوں سے منفرد ہو کر ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی اور ملی اتحاد تلاش کرنے کو کہا تب ہم نے ان کو رہبر و رہنما کا منصب عطا کیا۔ چنانچہ اہلِ قلم اور فکر و دانش میں اقبال شناسی کے سلسلے میں سرگرمی شروع ہوئی جو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی اقبال شناسی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ جب ہم بنگلا زبان میں اقبال شناسوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں اس دور کے درجۂ اوّل کے مشاہیر و اہلِ قلم ادبا و شعرا نظر آتے ہیں جن میں شاعر غلام مصطفی، ابوالحسین، فروغ احمد، تعلیم حسین، سیّد علی احسن، امیاچکراورتی، بینظیراحمد، سیّد عبدالمنان، کمال الدین خان، قاضی عبدالودود، صوفیہ کمال، محمد محفوظ اﷲ، عبدالمنان طالب وغیرہ جیسے نامور اہلِ علم و نظر شامل ہیں۔ اقبال شناسی کا یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا مگر ۶۸ء میں حکومت کے خلاف جو طوفانی تحریک برپا ہوئی اس سے بنگلا زبان میں اقبال شناسی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کیوں کہ اقبال نظریۂ پاکستان کے خالق تھے اور مشرقی پاکستان میں برپا ہونے والی تحریک جو حکمرانوں کے خلاف اٹھی تھی، رفتہ رفتہ نظریۂ پاکستان، سلامتیِ پاکستان اور اردو زبان کے خلاف چل پڑی۔ تعصب کی بنیاد پر چلنے والی اس تحریک کے دوران میں نہ صرف ڈھاکا یونی ورسٹی کے مشہور اقبال ہال کو اپنے نام سے محروم کر دیا گیا بلکہ اس کی لائبریری میں موجود اقبالیاتی ادب بھی بلوایوں کا نشانہ بنا۔ چنانچہ نو ماہ پر محیط علاحدگی کی خونی تحریک اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے بنگلادیش میں نظریۂ پاکستان، اردو زبان، مصورِ پاکستان اور خالقِ پاکستان کے ساتھ ساتھ ان کے نشانات کو بھی مٹا دیا گیا۔ جو ادیب و شعرا پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اردو و اقبال سے بے حد محبت رکھتے تھے وہ زیرِ عتاب آ گئے۔ کچھ لوگوں نے حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے اپنا راستہ بدل لیا۔ کچھ نے دل برداشتہ ہو کر خاموشی اختیار کر لی۔ کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی کتب خانوں کو بھی نظریۂ پاکستان سے متعلق کتابوں سے پاک کر دیا، تاہم عاشقانِ اقبال نے انفرادی طور پر اپنا کام جاری رکھا مگر ناموافق حالات نے اقبال شناسی کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اس کے نتیجے میں نئی نسل اردو و فارسی میں دسترس نہ رکھنے کے باعث اقبال کے نام تک سے بے خبر ہو گئی۔ جب اقبال شناسی کو آزادی ملی تو نئی نسل نے عظمتِ رفتہ سے سلسلہ منقطع پایا۔ اب نئے کام کرنے کے مواقع بہت کم میسر ہیں اور اقبال پر شائع ہونے والی تصانیف کے بارے میں معلومات بھی بہت کم دستیاب ہیں۔ ذیل میں منتشر معلومات کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کتابیات کی ترتیب سے اقبالیاتی ادب کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور اقبال سے منسوب رسائل، جرائد و مجلات میں شائع ہونے والے تراجم مضامین اور مقالات کو انفرادی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ کتابیات کچھ تذکروں اور ادبی مضامین اور ذیلی تذکروں کی مدد سے مکمل کی گئی ہے اس لیے اس میں کہیں کہیں تشنگی محسوس ہو گی مگر ہم اس سلسلے میں معذور ہیں۔ اس مطالعے میں یہ کوشش ضرور کی گئی ہے کہ اقبالیات پر ہونے والا کوئی مختصر کام بھی شامل ہونے سے رہ نہ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دریافتوں کے ذریعے سے یہ خلا بھی ُپر ہوتے جائیں۔ بنگلا دیش بننے کے بعد دو اداروں نے اقبال شناسی کے میدان میں قابلِ ستائش کام کیا۔ نیم سرکاری ادارہ اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش اور غیرسرکاری ادارہ علامہ اقبال شنگشد۔ آغاز میں اسلامک فائونڈیشن بنگلادیش نے اقبال پر سیمینار وغیرہ کے انعقاد میں معاونت کی اور اقبالیات کی اشاعت میں ہر اوّل دستے کا کام کیا۔ دوسری جانب اقبال شنگشد اپنے قیام کے دنوں سے باقاعدگی کے ساتھ اقبال کے یومِ ولادت اور وفات کی مناسبت سے علمی مذاکرے اور کانفرنسیں منعقد کرواتا اور اس کے ساتھ ساتھ اقبال پر کتابیں بھی شائع کرتا رہا۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال شنگشد پتریکا کے عنوان سے ایک جریدہ باقاعدگی سے شائع کر رہا ہے جب کہ اپریل ۱۹۸۹ء اور اکتوبر- دسمبر ۹۸ء میں Iqbal Studies کے نام سے دو شمارے انگریزی میں شائع کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی شنگشد پتریکا کا ایک حصہ انگریزی میں بھی ہوتا ہے۔ بنگلا زبان میں اقبال شناسی کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے چنانچہ مضمون کے آخر میں اس کی ایک مکمل فہرست منسلک کی جا رہی ہے۔ اس مطالعے میں اقبالیات پر شائع ہونے والے تمام تراجم، مضامین و مقالات کو ممکنہ حد تک شامل کیا گیا ہے اس میں اقبال پر شائع ہونے والی خصوصی مطبوعات کے علاوہ دیگر کتب و رسائل میں شامل ترجمے یا مضامین کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے تاکہ ان تک رسائی آسان ہو سکے۔ اقبال سے متعلق مضمون یا ترجمے کا صفحہ نمبر بھی بتا دیا گیا ہے۔ اس مطالعے میں کتابیاتی ترتیب کے ساتھ بنگلا اقبالیات پیش کرنے سے پہلے ان تمام اقبال شناسوں سے رابطہ کیا گیا جو بقیدِ حیات ہیں۔ اس کے علاوہ ڈھاکا اور راج شاہی یونی ورسٹیوں کے کتب خانوں سے رابطہ کر کے استفادہ کیا گیا مگر اب بھی شائقینِ اقبال کے ذاتی کتب خانوں یا دیگر کتب خانوں سے کچھ چیزیں دریافت ہونے کا امکان ہے اس کے لیے مسلسل کوشش جاری ہے۔ امید ہے کہ اس کے نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ سابقہ مشرقی پاکستان کے نجی اور سرکاری کتب خانوں میں رکھی گئی مطبوعات میں سے اقبال، نظریۂ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قائداعظم جیسے موضوعات پر کتابوں میں سے کچھ تعصب کی نذر ہو گئیں مگر موجودہ پاکستان کے مختلف کتب خانوں میں ان موضوعات پر جو مواد اور کتابیں موجود ہیں، وہ انتہائی بے توجہی کا شکار ہیں جب کہ یہ نادر کتب تاریخی سرمایہ ہیں۔ ان کتب خانوں میں ادارئہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، ادارہ مطبوعاتِ پاکستان اور کراچی میں واقع جامعہ کراچی کے کتب خانے اور نذرل اکادمی کی لائبریری قابلِ ذکر ہیں۔ ان لائبریریوں میں وہ نادر مطبوعات موجود ہیں جو سابق مشرقی پاکستان کی کسی بھی لائبریری میں موجود نہیں ہیں۔ کتابیاتِ اقبال اتشوارگا (منظوم نذرانہ): فروغ احمد، شات شاگاریرماجھی، کلکتہ، نوروز پبلشنگ ہائوس، دسمبر ۱۹۴۴ئ، سرورق۔ احمد امین او اقبال (احمد امین اور اقبال): دتلف خالد، ترجمہ کمال الدین احمد خان، اسلام آباد، سندھان، آزادی نمبر جولائی- اگست ۱۹۷۱ئ، ص: ۴۱۷- ۴۴۲ ادھیکار (استحقاق): علامہ اقبال شنگشد یادگار، مجلہ، مدیر عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، نومبر ۱۹۸۷ء اسرارِ خودی: اقبال، مترجمہ سیّد عبدالمنان، کلکتہ پہلا ایڈیشن الحرا لائبریری، ۱۹۴۰ئ، دوسرا ۱۹۴۱ء ڈھاکا، تمدن پبلی کیشنز، اوّل ۱۹۴۵ئ، دوم ۱۹۵۰ئ، ۱۹۶۰، بیشیا شھیتیا کیندرا، ایڈیشن ستمبر ۱۹۹۴ء اسرارِ خودی (جزوی): محمد عبدالحئی، (ڈاکٹر) اسرارِ خودی: میرزا سلطان احمد، ڈھاکا، ۱۹۵۴ء اسلامے دھرمیا چنتبار پونارگاٹھان (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) سر محمد اقبال، مترجمہ کمال الدین خان، محمد مقصود علی، ادھیاپک سعید الرحمن، عبدالحق، مرتبہ، ادھیا پک ابراہیم خان، ڈھاکا، پاکستان پبلی کیشنز، طباعت اوّل ۱۹۵۷ئ، اشاعت سوم اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش اوّل ۱۹۸۶ء دوم جون ۱۹۸۷ئ، چہارم علامہ اقبال شنگشد اوّل: جنوری ۲۰۰۳ء اقبال اکاڈیمی پتریکا (مجلہ اقبال اکاڈیمی): مدیر: میزان الرحمن، ڈھاکا، کراچی، اقبال اکاڈیمی، پہلا شمارہ ۱۳۷۸ب اقبال: ابراہیم خاں، بتائن ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعت اوّل ۱۹۶۷ئ، ص: ۳۵-۳۵۲ اقبال:عبدالقیوم ترجمہ محمد عبدالحئی، پاکستانیز شنگشکرتیک اترادھیکار (پاکستان کا تہذیبی ورثا) مدونہ شیخ محمد اکرم، ڈھاکا، پاکستان پبلی کیشنز، دوسرا ایڈیشن، ۱۹۶۶ئ، ص: ۳۱۲- ۳۲۴ اقبال: غلام رسول، ڈھاکا اقبال: عبدالودود، قاضی عبدالودود راچانابلی، مرتبہ عبدالحق، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعت اوّل، اشاڑ ۱۳۹۵ب جون ۱۹۸۸ئ، ص: ۴۸۴-۴۹۰ اقبال (پانچ مضامین): محمد عبداﷲ، مسلم جاگارانے کایکجن کوی شھیتیک (مسلمانوں کی بیداری میں چند ادیب و شعرا) ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، اشاعت اوّل اکتوبر ۱۹۸۰ئ، ص: ۲۸۲-۳۰۹ اقبال: محمد شہید اﷲ، ڈھاکا رینیسیاں پرنٹرز، اشاعت اوّل ۱۹۴۵ئ، دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۷ئ، اضافہ شدہ نیا ایڈیشن ۱۹۴۹ء اضافہ شدہ ایڈیشن ۱۹۵۸ئ، جون ۱۹۶۷ء اقبال و پاکستان اندولن (اقبال اور تحریک پاکستان): ممتاز حسن، مترجم محمد مطیع الرحمن، اسلام آباد، سندھان، فروری- مارچ ۱۹۶۶ئ، ص: ۴۱-۵۲ اور اپریل ص: ۳۳-۴۵ اقبال اور رابندراناتھ (اقبال اور رابندراناتھ): غلام مصطفی، امارچنتا دھارا (میرے افکار) ڈھاکا، احمد پبلی کیشنگ ہائوس، طباعتِ دوم اکتوبر ۱۹۶۸ئ، ص: ۲۱۳-۲۳۳ اقبال او غلام مصطفی: تولانا ملک آلوچانا (قبال اور غلام مصطفی: تقابلی جائزہ): محمد عبداﷲ، مسلم جاگارانے کیک جان کوئی شاہتیک، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلا دیش، اشاعت اوّل اکتوبر ۱۹۸۰ئ، ص: ۲۸۶- ۳۰۹ اقبال او ماناباتاناد (اقبال اور نظریۂ انسانیت): دیوان محمد اظرف، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش اقبال او ماناباتاناد (اقبال اور نظریہ انسانیت): نصیر احمد، کلکتہ اقبال او مسلم چنتادھارا کایکٹی کاتھا (اقبال اور مسلم افکار کی چند باتیں): حسن زمان، شماج شنشکریتی شاہیتا ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعتِ اوّل ۱۹۶۷ئ، ص: ۱۲۷-۱۴۲ اقبال ایک اننیا پراتیبھا (اقبال ایک منفرد صاحبِ کمال شخصیت): عبدالمنان طالب، ڈھاکا، قلم، اگست ۱۹۸۶ئ، ص: ۱۷-۳۰ اقبال بھارتیرکوی (اقبال بھارتی شاعر): سیّد مظفر حسین برنی، ترجمہ دیوی پراشاد بندوپدہیائے، نیا دہلی، شاہتیا اکادمی، ۱۹۹۸ء اقبال پراتیبھا: (کمالِ اقبال) ادھیاپک غلام رسول، ڈھاکا، اشاعت اوّل اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، دوم ایضاً ۳۸۶ اب اقبال (علامہ محمد اقبال): شنکھیپتا اسلامی بشیاکوش (الموسوعۃالاسلامیۃ الموجزۃ بلغۃالبنغالیۃ) جلد اوّل، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، جون ۱۹۸۲ئ، ص: ۱۰۳- ۱۰۵ اقبال پراتیبھا: سیّد عبدالمنان، ڈھاکا اقبال پراشنگا (بسلسلہ اقبال): فروغ احمد، فروغ راجانابلی (کلیاتِ فروخ) جلد دوم، مرتبہ عبدالمنان سیّد، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی جون ۱۹۹۶ئ، ص: ۳۲۱- ۳۲۶ Iqbal-The Philosopher: سیّد عبدالحئی، چاٹ گام، اسلامی کلچر سینٹر، نومبر ۱۹۸۰ء اقبال چایانیکا (منتخب اقبال): ڈھاکا ناشر پاکستان پبلی کیشنز، پہلا ایڈیشن، دسمبر ۱۹۶۹ء اقبال دارشنے بودھی (فلسفۂ اقبال میں خود شناسی): محمد اظرف، پرنسپل، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی پتریکا، سال سوم اول شمارئہ بیشاخ- سر ابن ۱۳۶۶ ب، ص: ۱-۴ اقبال دارشنے خداتتنا (فلسفۂ اقبال میں حقیقتِ خدا): ڈاکٹر محمد شہید اﷲ، ڈھاکا، ماہ نو، بیساخ ۳۳۶ اب، ص: ۲-۵ اقبال دیشے بدیشے (اقبال دیش پردیش میں: یومِ اقبال پر تقاریر): ڈھاکا، کراچی، اقبال اکاڈیمی، پہلا ایڈیشن ۳۷۴ اب، ۱۹۶۲ئ، دوسرا ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد اپریل ۱۹۹۹ء اقبال شاہیتئے شماج دریشٹی (ادبیات اقبال میں معاشرتی نقطۂ نظر): حسن زمان، شماج شتکریتی شاہیتا، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعت اوّل ستمبر ۱۹۶۷ئ، ص: ۱۱۶- ۱۲۶ اقبال شاہیتیر ادارشا: (نظریۂ ادبِ اقبال) ڈھاکا، قلم اپریل، ۹۰ء (اداریہ) اقبال شریتی بکتریتابلی (مقالاتِ یومِ اقبال): مرتبہ عاشق حسین، ڈھاکا، پاکستان پبلی کیشنز، ۱۹۶۸ء اقبال شاہیتیر بھومیکا (دیباچہ ادبِ اقبال): حسن زمان، شماج، شنگشکریتی، شاہیتیا ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعتِ اوّل ستمبر ۱۹۶۷ئ، ص: ۱۰۳- ۱۷۲ اقبال کبیر شیلپا روپ (اقبال کی شاعری کے فنی محاسن): محمد محفوظ اﷲ، شاہیتا اوشایتیک (ادب و ادیب) ڈھاکا، موکتا دھارا، ۱۹۷۸ئ، ص: ۱۵۱- ۱۶۹ اقبال کیئے شماج دارشن (اقبال کی شاعری میں فلسفۂ معاشرہ): اشرف فاروقی، ڈھاکا، روزنامہ آزاد، آزادی نمبر، اگست ۱۹۵۰ء اقبال کبیر ناتون پراشنگھا: امیا چکراورتی، ڈھاکا، ڈھاکا ڈائجسٹ اقبال مانانے انپشنے (خیالاتِ اقبال کی تلاش): فہمید الرحمن، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، پہلا ایڈیشن، نومبر ۱۹۹۵ء اقبال مانش (خیالاتِ اقبال): مدونہ پاکستان پبلی کیشنز، ڈھاکا، پہلا ایڈیشن ۱۹۶۴ئ، دوم ۱۹۶۷ء اقبال، نذرل اور رابندراناتھ (اقبال، نذرالاسلام اور رابندرناتھ): حسن زمان، شماج شنشکریتی شاہیتا، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعتِ اوّل ۱۹۶۷ئ، ص: ۱۴۳- ۱۷۲ اقبال نذرل نامہ: میزان الرحمن او نورالاسلام، ڈھاکا، اقبال نذرل اسلام سوسائٹی، اوّل ایڈیشن جنوری ۱۹۶۰ء اقبالیر انسان کامل او نذرالاسلا میرپوروشتتام: (اقبال کا انسان کامل اور نذرالاسلام کا پورو شتتام) شاہد علی، ڈھاکا، پریکھان نذرل شماران سنکھا، ص: ۶۱-۶۴ اقبالیر بانی: غلام مصطفی، امارچنتادھارا، غلام مصطفی، ڈھاکا، احمد پبلشنگ ہائوس، طباعت دوم اکتوبر ۱۹۶۸ئ، ص:۹۲-۱۰۰ اقبالیر پیغام: غلام مصطفی، غلام مصطفی پراباندھاشنکلن، ڈھاکا، احمد پبلشنگ ہائوس، طباعتِ اوّل جون ۱۹۶۸ئ، ص: ۲۸۴-۲۹۲ اقبالیر پیغام: ایس، واجد علی، ڈھاکا، دی پاکستان بک کمپنی، ۶۶ فراش گنج روڈ اقبالیر جیبان دارشن (اقبال کا فلسفۂ حیات): حسن زمان، شماج شنشکریتی شاہیتا، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، اشاعتِ اوّل، ۱۹۶۷ئ، ص:۱۰۴- ۱۱۳ اقبال چنتا دھارا خودی (افکارِ اقبال- خودی): ڈاکٹر محمد شہید اﷲ، ڈھاکا، اعلان، سالِ اوّل شمارہ ۱۳، جولائی ۱۹۵۲ء اقبالیر دریشٹیتے اجتہاد (اقبال کی نظر میں اجتہاد): کمال الدین، اسلام آباد، سندھان مارچ ۱۹۶۹ئ، ص: ۹-۱۳ اقبالیر رباعی کو یتابال جبریل ہتے (رباعیات اقبال بالِ جبریل سے) اقبالیرزبورِ عجم (منتخب از زبورِ عجم): عبدالرشید خان، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، اشاعتِ اوّل ۳۹۳ اب، اپریل ۱۹۸۷ء اقبالیر سیر شٹھبا کویتا (اقبال کی شاہکار ۱۵۳ نظمیں): مرتبہ عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اشاعتِ اوّل، اپریل ۱۹۹۶ء اقبالیر شیکھا: میزان الرحمن، اقبالیر شیکئا دارشن (Iqbal's Educational Philosophy): اصل خواجہ غلام السیّدین، ترجمہ سیّد عبدالمنان، ڈھاکا، محفوظ پبلی کیشنز، اشاعتِ اوّل، یومِ اقبال اپریل ۱۹۵۸ئ، (زمانہ ترجمہ: ۱۹۴۵ئ- ۱۹۴۶ئ) اقبالیرراجنیتک چنتا دھارا (اقبال کے سیاسی افکار): محمد عبدالرحیم، ڈھاکا۔ کراچی، اقبال اکاڈیمی۔ ۱۹۶۰ئ، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، ۱۹۸۱ئ، ۱۹۸۴ئ، خیرون پراکاشنی جون ۲۰۰۲ء اقبالیر کبیا اودارشن (اقبال کی شاعری اور فلسفہ): ابوضحی نوراحمد، ڈھاکا، ماہِ نو، اپریل ۱۹۶۹ئ، ص: ۲۱-۲۲ اقبالیر کبیا شخچایان (مجموعۂ کلامِ اقبال): بے نظیر احمد، ڈھاکا۔ اقبالیر کبیا شخچایان (اقبال کا مجموعۂ کلام): مترجمہ منیر الدین یوسف، اشاعتِ اوّل، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی، کارتک ۳۶۷ اب، اکتوبر ۱۹۵۹ئ، دوسرا ایضاً، تیسرا ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، ۱۹۸۲ئ، چوتھا ایضاً ۱۹۸۸ء اقبالیرکویتا (اقبال کی شاعری): امیاچکراورتی، ڈاکٹر، ڈھاکا، قلم، مئی ۱۹۸۶ء اقبالیر کویتا (اشعارِ اقبال): کبیا نوباد: ابوالحسین، رنگپور ۱۹۸۶ئ، ڈھاکا ۱۹۵۲ء اقبالیر کویتا (اقبال کی نظمیں): فروغ احمد، سیّد علی احسن و ابوالحسین مرتبہ علی احسن، سیّد، ڈھاکا، پیراڈائز لائبریری ۱۹۵۲ء اقبالیر کویتا (اشعارِ اقبال): شتیا گنگو پدھیائے، کلکتہ، اشاعتِ اوّل، شوم پراکاش ۱۹۸۰ء اقبالیر نیا جہان (اقبال کا نیا جہان): محمد عبداﷲ، مسلم جاگا نانے کائک جان کوی شاہیتک، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلا دیش، اشاعتِ اوّل، ۱۹۸۰ئ، ص: ۲۶۶-۲۷۷ اقبالیکا باچھوٹو دیر اقبال: (اقبالیکا یعنی بچوں کا اقبال حیات و خدمات)، ماسٹر محبوب جمال زیدی، کلکتہ، کتاب محل اقبالیکا (منتخب نظمیں از بانگ درا): میزان الرحمن، ڈھاکا، نذرل اسلام، اقبال اکاڈیمی، ۱۹۵۲ئ، اقبال نذرل اسلام سوسائٹی ۱۹۶۰ء اقبالیر مانا موگدھا کا بانی تارون شماجیر شونیتا کے شیہاریتا کرے (خطبہ سلسلہ یومِ اقبال): میر قاسم علی، ڈھاکا، قلم، دسمبر ۱۹۹۳ئ، ص: ۷۳-۷۶ اقبالیر نیر باچیتا کویتا (اقبال کے منتخب اشعار): مترجم فروغ احمد، راج شاہی، اسلامک شنگشکریتیک کیندرا، راج شاہی سینٹر، ۱۹۸۰ئ، فروغ احمد راچانابلی (کلیات فروغ احمد) جلد دوم مرتبہ عبدالمنان سیّد، ڈھاکا، بنگلااکاڈیمی، جون ۱۹۹۶ئ، ص: ۲۳۰، ۲۷۹ انوبھائو (علامہ اقبال شنگشد یادگار مجلہ): مدیرِاعلیٰ محمد عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اپریل ۱۹۸۷ء بالِ جبریل: علامہ اقبال، مترجمہ میزان الرحمن، ڈھاکا، اقبال نذرل سوسائٹی، اشاعتِ اوّل ستمبر ۱۹۶۰ئ، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش گیارہویں اشاعت، جون ۱۹۹۷ء بانگِ درا: قاضی اکرم حسین (جوگ بانی میں شائع ہوئی) بیکیتریتیا بادیر کبیاروپ: علامہ اقبال اور نذرل اسلام (تصویرِ خودی شاعری میں: علامہ اقبال اور نذرل اسلام) ریحان شریف، ادھیاپک، اسلام آباد سندھان، جون ۱۹۶۹ئ، ص: ۹-۱۵ بیشیا جانی ناتارکوی علامہ اقبال (عالمی شاعر اقبال): منصور احمد، ڈھاکا، ماہ نامہ مدینہ، جولائی ۲۰۰۲ء بیشیا شھیتیا، او علامہ اقبال (عالمی ادب اور علامہ اقبال): منصور احمد، ڈھاکا، ماہ نامہ مدینہ، اکتوبر ۱۹۹۷ء بیشیا شبھیاتائے اقبالیرآبادان (تہذیب و تمدنِ عالم میں اقبال کے خدمات): دیوان محمد اظرف، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اشاعت اوّل نومبر ۲۰۰۰ء بیشیا نبیبرکبیا شمالوچنا (جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ): اقبال، ترجمہ لطف الرحمن فاروقی، ڈھاکا، قلم، اکتوبر ۱۹۹۳ئ، ص: ۳-۵ پاتھیربانشی: قاضی اکرم حسین ادھیاپک، پاتھیر پیغام (پیغامِ اقبال: حیات و خدمات): میزان الرحمن، مولوی، کلکتہ، کتاب محل ۱۹۴۳ء پاکستان اندولانیراو یتیہاشک پاٹابھومی (تحریکِ پاکستان کا تاریخی پس منظر): ممتاز حسن، ترجمہ محمد مطیع الرحمن، اسلام آباد، سندھان، آزادی نمبر جولائی- اگست ۱۹۷۱ئ، ص: ۴۰۱- ۴۱۶ پاکستانیز اویتیہاشیک پاٹا بھومیکا: (پاکستان کا تاریخی پس منظر علامہ اقبال کے دو خطبات، قائداعظم کو لکھے گئے ۱۳ خطوط اور اسلام اور قوم پرستی کے عنوان سے ایک مضمون کا ترجمہ) سیّد عبدالمنان، کراچی، اقبال اکاڈیمی پاکستان، اشاعتِ اوّل ۱۴؍ فروری ۱۹۵۹ء پاکستانیرکوی (علامہ اقبال): فروغ احمد، آزادکرو پاکستان، کلکتہ، قاضی افسر الدین احمد اویس، ایم فدالحق، اشاعت اوّل ۱۹۴۶ئ، نظم نمبر۷ پرارتھانا (دعا): ترجمہ ڈاکٹر محمد شہید اﷲ، ڈھاکا، چھاتروبارتا، ۱۴؍ اگست ۱۹۷۱ء پرکیریتیر اوپر مانا بادھیتیا: اقبال دارشن (فطرت پر انسانی اختیار: فلسفۂ اقبال) محمد عبداﷲ، مسلم جاگارا نے کیک جان کوی، شاہیتک، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلا دیش، اشاعتِ اوّل، اکتوبر ۱۹۸۰ئ، ص: ۲۷-۲۸۵ پراگیان چارچائے ایران: (The Development of Metaphysics in Persia) محمد اقبال، ڈاکٹر، مترجمہ، کمال الدین خان، ڈھاکا، پوربا پاکستان اقبال اکاڈیمی، اشاعتِ اوّل، بھادو، ۳۷۲ اب ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش۔ پیامِ مشرق: امیاچکراورتی ترانۂ ملی: فضل الحق سلبرس ترانثیر کانپوں لگئیے دائو: (علامہ اقبال شنگشد یادگار مجلہ) مدیر: محمد عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اپریل ۱۹۸۶ء تعارفی پیمپلٹ: اقبال گاوے شاناپاریشد، (ادارئہ تحقیقاتِ اقبال) کولکتا، ۲۰۰۰ء توماربانیر موکورے (نذرانۂ عقیدت): تعلیم حسین، راچاناشاما گرا، مرتبہ: مفروجہ چوہدری، ڈھاکا، پریتی پراکاش، اشاعتِ اوّل، ۱۹۹۸ئ، ص: ۱۵۸ جاگارانی: میزان الرحمن، کلکتہ، کتاب محل، ۱۹۴۳ء جاوید نامہ: شنکھاگھوش، کلکتہ جباب: (جواب، یادگار مجلہ) ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، نومبر ۱۹۸۶ء جوباشما جیر پراتی اقبال: (نوجوانوں کو اقبال کی نصیحت)، دیوان محمد اظرف، ڈھاکا، قلم، ص: ۶-۹ جوگ شنکا ٹیری کوی اقبال (مشکل دور کے شاعر اقبال): امیاچکراورتی جلوہ اقبال: منور الدین چوہدری، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلا دیش جوباشماجبرپراتی اقبال (نوجوانوں سے اقبال کا خطاب): دیوان میں اظرف، ڈھاکا، قلم، دسمبر ۱۹۹۳ئ، ص:۶-۹ جیبان شلپیں اقبال (مصورِ حیات اقبال): محمد محفوظ اﷲ، شاہیتا اوشاہیتک، ڈھاکا، موکتا دھارا، ۱۹۷۸ئ، ص: ۱۳۷- ۱۵۰ چار دین بیاپی انٹرنیشنل اقبال کانفرنس: (چار روزہ بین الاقوامی اقبال کانفرنس)، (اقبال اکاڈیمی منعقدہ لاہور کانفرنس)، ڈاکٹر عبدالواحد، ڈھاکا، روزنامہ سنگرام، ۹؍مئی ۲۰۰۳ء چھوٹودیر پریا اقبال (بچوں کا پیارا اقبال): کھندکار بشیرالدین، بریسال، قرآن منزل لائبریری، اشاعتِ اوّل، جنوری ۱۹۶۹ء چھوٹودیر علامہ اقبال (بچوں کا علامہ اقبال): قاضی ابوالحسن، ڈھاکا، پبلشنگ ہائوس، چوتھی اشاعت، جولائی ۱۹۶۵ء حجازیر شوغات (ارمغانِ حجاز): غلام صمدانی قریشی، کراچی، اقبال اکاڈیمی، (اشاعت جون ۱۹۶۲ئ، علامہ اقبال شنگشد، ۲۰۰۴ء رموزے بے خودی: آدم الدین، ادھیایک، رموزے بے خودی: عبدالحق فریدی، اے ایف ایم، ڈھاکا، پاکستان پبلی کیشنز ۱۹۵۵ئ، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش یکم جولائی ۱۹۸۷ رموزے بے خودی (جزوی): میرزا سلطان احمد، ڈھاکا، ۱۹۵۴ء زندہ اودے آکاش برامان: (زندہ دور میں سیرِ فلک) سلہٹ، اسلامک فائونڈیشن بنگلادیش شاعرِ اعظم اقبال: ابوضحی نوراحمد، ڈھاکا شاہین: مرتبہ: عبدالواحد ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد شاہین: صوفیہ کمال، پراشنتی اوپر ارتھنا، ڈھاکا، شہادتِ حسین، جولائی ۱۹۸۸ئ، نظم نمبر ۲۲ شکایت (شکوہ):ابوالفضل، Shikwa-jwabe Shikwa: Altaf Husain شکوارکوی (شکوہ کا شاعر): صوفیہ کمال، من اوجیبان، ڈھاکا، بایزیدخان، پلی، ۱۹۵۷ئ، نظم نمبر۳۷ شکوہ مترجم: محمد کلیم اﷲ، ابوالحسنات، ڈھاکا، بنگلا اکاڈیمی اشاعتِ اوّل، ستمبر ۱۹۶۸ء شکوہ او جواب: سیّد عبدالمنان، ڈھاکا شکوہ او جوابِ شکوہ: اکرم حسین قاضی شکوہ او جوابِ شکوہ: اشرف علی خان، اشاعتِ اوّل ۱۹۴۶ء شکوہ او جوابِ شکوہ: امین الدین، ادھیاپک شکوہ او جوابِ شکوہ: بزل الرشید، ادھیاپک شکوہ او جوابِ شکوہ: مولانا تمیز الرحمن، چاٹگام، (شکوہ ۱۹۳۸ئ، جواب ۱۹۴۶ئ) ایضاً اسلامیہ لائبریری شکوہ او جوابِ شکوہ: مترجمہ غلام مصطفی، ڈھاکا، ۱۹۶۰ئ، پیشیاشناہیتیارکندرا (مرکزِ ادبیات عالم) اشاعت استمبر ۱۹۹۰ئ، غلام مصطفی کبیتیا شاماگرا، (کلیاتِ اشعار غلام مصطفی) مرتبہ فیروزہ خاتون، ڈھاکا، غلام مصطفی ٹرسٹ، اشاعتِ اوّل ۱۹۹۹ئ، ص: ۴۵۹- ۵۳۵ شکوہ او جوابِ شکوہ: علامہ اقبال بنگلانو باد محمد سلطان (شکوہ) غلام مصطفی (جواب شکوہ) انگلش ٹرانسلیشن: اے جے اربیری، شمپادک، عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، ۲۱؍ اپریل ۲۰۰۲ء شکوہ او جوابِ شکوہ (کبیانوباد): محمد سلطان، رنگپور اشاعتِ اوّل ۱۹۴۶ء ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۴ء شکوہ او جواب: محمد اقبال، ترجمہ میزان الرحمن کلکتہ، کتاب محل اشاعتِ اوّل، نومبر ۱۹۴۳ئ، دوم مئی ۱۹۴۵ء شکوہ او جواب: منیرالدین یوسف، ڈھاکا، ۱۹۶۰ء شکوہ او جواب شکوہ (نالش او نالیشیبر حباب): محمد شہید اﷲ، ڈھاکا، پروبنسیل لائبریری اشاعتِ اوّل ۱۹۴۲ئ، ایضاً اضافہ شدہ نیا ایڈیشن رینینیساں پرنٹرز، ۱۹۴۵ئ، اپریل ۱۹۶۴ء شمارانی (اقبال کو نذرانۂ عقیدت): فروغ احمد، ۱۹۳۸ء شمع اور شاعر (جزوی): محمد عبدالحئی، (ڈاکٹر) ضربِ کلیم: مترجمہ عبدالمنان طالب، (اقبال اکاڈیمی پاکستان کی طرف سے اشاعت کے لیے ۱۹۶۸ء میں منظور شدہ ترجمہ) ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اشاعت اوّل، اشاعت اوّل جنوری ۱۹۹۴ء علامہ اقبال: ابوضحی نورمحمد، ڈھاکا، پاک کتاب گھر، اشاعت اوّل ۱۹۶۰ء علامہ اقبال مجلہ: عبدالواحد، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، نومبر ۱۹۸۹ء علامہ اقبال (حصہ پنجم) : شمپادک عبدالواحد، ڈھاکا، فروری ۱۹۹۴ء علامہ اقبال (حصہ چہارم): شمپادنا کمیٹی، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد نومبر ۱۹۹۲ء علامہ اقبال (حصہ دوم): شمپادناکمیٹی ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد نومبر ۱۹۹۰ء علامہ اقبال (حصہ سوم): شمپادناکمیٹی، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد جون ۱۹۹۱ء علامہ اقبال: شتیاگنگوپادھیائے، کلکتہ علامہ اقبال گابیشنا پاریشد: (تعارفی کتابچہ)، کلکتہ ۲۰۰۰ء علامہ اقبال گابیشاناپاریشد پتریکا، کلکتہ، ۲۰۰۱ء علامہ اقبال: ہارون ابن شہادت، ڈھاکا، ناتون قلم، اگست ۲۰۰۳ئ، ص: ۳۸-۴۰ علامہ اقبال (یادگاری کتابچہ): ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش ۱۹۸۲ء علامہ اقبال: محمد ابوطاہر صدیقی، ڈھاکا، اشاعت اوّل، اسلامک فائونڈیشن بنگلادیش، دسمبر ۱۹۸۶ء علامہ اقبالیرجیبان کتھا: ۱، ف، م، عبدالحق، کلکتہ، میزان ۷؍اکتوبر، ۲۰۰۱ء علامہ اقبالیر دریشٹیتے اوشماج: (علامہ اقبال کی نظر میں فرد اور معاشرہ) کلکتہ، میزان اپریل ۲۵، ۱۹۹۹ء علامہ اقبالیر کیریتیتیا (اقبال کا اصل کارنامہ): سیّد ابواالاعلیٰ مودودی، ترجمہ لطف الرحمن فاروقی، کلکتہ ہفت روزہ میزان، یکم دسمبر ۱۹۸۵ء ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، ادھونیک مسلم مانیشا (جدید مسلم دانش): جلد اوّل، ادھیاپک محمد عبداللطیف، ڈھاکا، بنگلاشاہیتیاپاریشد، اشاعت اوّل، اپریل ۲۰۰۴ئ، ص: ۶۰-۷۱ علامہ محمد اقبال (تین ورقہ تعارف): ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، ۱۸؍ نومبر ۱۹۸۷ء علامہ اقبال: شکیل ارسلان، ڈھاکا، ماہ نامہ قلم، اپریل ۱۹۹۳ئ، ص: ۷۸ علامہ محمد اقبال: عبدالودود، مسلم ماینشا (مسلم دانش) ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن بنگلادیش، طباعت چہارم جون ۱۹۸۴ئ، ص: ۲۸۰-۲۹۳ علم الاقتصاد: علامہ اقبالیرپراتھام پراکاشیتیا گرانتھا (علم الاقتصاد پر تبصرہ): لطف الرحمن فاروقی، ڈھاکا، ماہ نامہ پرینھیوی، دسمبر ۱۹۹۲ء فروغ احمد او اقبال: شہاب الدین احمد، ڈھاکا، روزنامہ شنگرام، اکتوبر ۱۸، ۲۰۰۲ء فلسفۂ عجم (زبورِ عجم): کمال الدین خان، ڈھاکا، اقبال اکاڈیمی ۱۳۷۲ھ (۱۹۵۲ئ) قادیانی اندولن اوکھتمے نبوت شمپار کے اقبالیربکتبیا: (تحریکِ قادیانیت اور ختمِ نبوت کے بارے میں اقبال کے خیالات): لطف الرحمن فاروقی ڈھاکا، ماہ نامہ اگست ۱۹۹۹ء قلم، ماہ نامہ: (اقبال نمبر) ڈھاکا، اپریل ۱۹۸۸ء (عبدالمنان طالب: اقبال کی تین نظمیں، بے نظیر احمد: اقبال تھیلے ترجمہ، فروغ احمد: شمارانی، سیّد علی احسن: اقبالکے، محبوب الحق، مہاکوی اقبال۔ اشرف الدین: شوبھاگیامانا باتار، مشرف حسین خان، اقبال، مکول چودھری، انانیترشوار، بلبل سرور: امارچوکھیر شمیانائے، عشرت حسین: علامہ اقبال، منیرالدین یوسف: نابامولایانے اقبال، مریم جمیلہ، ترجمہ میزان الکریم، علامہ اقبالیر جاتھارتھابانی پرایاش، شری زامینی کنتاسین: مہاکوی اقبال، غلام مصطفی: اقبالیربانی، ڈاکٹر گوبندرادیو: پریم، کرمیرشنچائے اوشمانجاشئے اقبال، ابوسعید چودھری: تانکے آپان مانے باران کری، عبدالستار: مہاکوی اقبالیر جیبانے شیکھا دیکھا، مشرف حسین خان: منیرالدین یوسوفیراقبالیرکابیاشخچایان پراشنگے، عبدالواحد: اقبالیر جیبان نچبی، گرانتھاپنجی اوبنگلا بھاشائے راچیتا اقبال بیشایک راچانابلی، ادارت، شمپادالیرکتھا) کلامِ اقبال: تعلیم حسین، کوتباشماگر (کلیات اشعار تعلیم حسین) مرتبہ مفروحہ چوہدری، ڈھاکا، پرایتی پراکاشن، اشاعت اوّل جولائی ۱۹۹۸ئ، ص: ۳۷۱، ۳۸۱ کلامِ اقبال: روح الامین، ڈھاکا کلامِ اقبال (اقبال کبیرانوباد): مترجمہ غلام مصطفی، ڈھاکا مسلم بنگال لائبریری، اشاعت اوّل ۱۹۵۷ئ، غلام مصطفی کبیا شماگرا، مرتبہ فیروزہ خاتون، ڈھاکا، غلام مصطفی ٹرسٹ، اشاعت اوّل، دسمبر ۱۹۹۹ئ، ص: ۴۵۷- ۵۰۴ کوی اقبال او اقبالیر کویتا (شاعر اقبال اور اقبال کی شاعری): ادھیاپک ابوجعفر، ڈھاکا، نتوں قلم، اپریل ۲۰۰۴ئ، ص: ۷-۱۵ کوی اقبال (شاعر اقبال): امیاچکراورتی بمع حبیب اﷲ بہار، کلکتہ، بلبل ہائوس، سنہ ۱۹۴۱ء کوی اقبال: محمد حبیب اﷲ کوی اقبال: مرتبہ: محمد حبیب اﷲ، (بہار)، (حبیب اﷲ بہار، ایس واجد علی، امیاچکراورتی، ہمایوں کبیر، جمینی کانت سین، غلام مقصود دہلالی اور مستفیض الرحمن) کلکتہ بلبل ہائوس ۱۹۴۰ء کوی اقبال کے جاتاٹوکوجینیچھی: (شاعر اقبال کو جہاں تک سمجھی) نورجہاں بیگم مسز، ڈھاکا، پہلا ایڈیشن، ۱۹۶۲ئ، دوسرا ۱۹۹۶ء کوی اقبالکے جاتا ٹوکو دیکھے چھی (شاعر اقبال کو جہاں تک دیکھا): جہاں آرا بیگم، ڈھاکا، شوچایان پراکاش، مارچ ۱۹۹۶ء کینو اقبال (اقبال کیوں؟): شنکھاگھوش، ڈھاکا، روزنامہ اتفاق، ۲۸-۴-۱۹۹۴ء ماہِ نو (ماہ نامہ): ڈھاکا، اپریل ۱۹۶۹ء (مہاکوی اقبال: دیوان محمد اظرف، ص: ۱-۲۰، اقبالیر کبیادرشن، ابوضحا نوراحمد، ص: ۲۱-۲۲، اقبالیر کویتا (از زبورِ عجم): عبدالرشید خان، ص:۲۳، اقبال تھیکے (ازاقبال: عزیز الرحمن، ص: ۲۴، تعارف کتاب: اقبال چایانیکا: سیّد عزیز الحق، ص: ۷۱ ماناشیک بیپلب شادھانے ڈاکٹر اقبال (ذہنی انقلاب پیدا کرنے میں ڈاکٹر محمد اقبال): محمد عبداﷲ، مسلم جاگارا نے کایک جان کوی شاہیتیک، ڈھاکا، اسلامک فائونڈیشن، بنگلادیش، اشاعتِ اوّل اکتوبر ۱۹۸۰ئ، ص: ۱۴۲، ۱۶۵ محمد اقبال (نذرانۂ عقیدت): تعلیم حسین، کویتا شاماگرا، مرتبہ، مفروجہ: چودھری، بیرتی پراکاشن، ڈھاکا، اشاعت اوّل ۱۹۹۹ئ، ص: ۱۸۵ مسجدِ قرطبہ (جزوی): محمد عبدالحئی (ڈاکٹر) مسلمانیرپاریکھا (مسلمانوں کا امتحان): اقبال ترجمہ لطف الرحمن فاروقی، کلکتہ، میزان، اپریل ۱۹۹۹ء ملیتر پونارجاگارا نے اقبال بھومیکا (ملت کی بیداری میں اقبال کا کردار): ڈھاکا، ماہ نامہ پیریتھیوی، اپریل- اگست ۲۰۰۲ء مولانا عبدالرحیم شمارانے (مولانا عبدالرحیم کی یاد میں): مرتبہ عبدالواحد، ظفراحمد بھونیاں، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، مارچ ۱۹۸۸ء مودودیر چوکھے اقبال (اقبال مودودی کی نظر میں): ترجمہ لطف الرحمن فاروقی، ڈھاکا، سونار بنگلہ، جون- جولائی ۱۹۹۷ء مہاکوی اقبال (شاعر اعظم اقبال): محمد اظرف، ادھیاپک، ڈھاکا، ماہِ نو، اپریل ۱۹۶۹ئ، ص: ۱-۲۰، جاتیا ادھیاپک دیوان محمد اظرف: بیکتی اوجیبان (نیشنل پروفیسر دیوان محمد اظرف: شخصیت اور زندگی)، عبدالواحد، مرتبہ: ڈھاکا، الامین پراکاشن، فروری ۲۰۰۱ئ، ص: ۲۹-۴۷ مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): بذل الرشید، آ، نا، ما، ڈھاکا، اشاعت سوم، ۱۹۵۰ء مہا کوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): ابوسعید نورالدین، ڈاکٹر، ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، اشاعت اوّل فروری ۱۹۹۶ء مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): امیاچکراورتی بمع حبیب اﷲ بہار، کلکتہ بلبل ہائوس، ۱۹۴۱ئ، ۱۹۴۹ء مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): شری زامینی کنت شین، کلکتہ، ماہ نامہ محمدی، ۱۱واں سال اگست مطابق جیٹھ ۳۴۵ اب، مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): سیّد عبدالمنان، ڈھاکا، تمدن پریس نومبر ۱۹۵۱ء مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): سیبا، ڈھاکا، ۹؍ نومبر، ۱۹۸۷ء مہاکوی اقبال (شاعرِ اعظم اقبال): غیرمدونہ، فروغ احمد، ڈھاکا، قلم اکتوبر ۱۹۸۶ء مہاکوی اقبال: لطیفہ رشید، ڈھاکا، برندابن دھاربک ہائوس ۱۳۵۴ مہاکوی اقبالیرا نتیم اوپاددیش (شاعرِ اعظم اقبال کی آخری وصیت): مترجمہ لطف الرحمن، ڈھاکا، قلم، مارچ ۱۹۹۴ئ، ص: ۳-۶ مہاکوی اقبالیر اودیشئے (شاعرِ اعظم اقبال کے لیے): شہادت حسین، شوغات، بیساخ، ۳۴۷ اب مہاکوی علامہ اقبال (شاعرِ اعظم علامہ اقبال): زمان سیّدی، ڈھاکا، نتون قلم، اپریل ۲۰۰۵ء نابابارشبربانی (سالِ نو پر پیغام): اقبال، ترجمہ لطف الرحمن فاروقی، ڈھاکا، قلم دسمبر ۱۹۹۳ئ، ص: ۳-۵ نابامولایانے اقبال (اقبال نئے ترازو میں): منیرالدین یوسف، ڈھاکا، قلم، اپریل ۱۹۹۰ء ہے علامہ (اے علامہ): تعلیم حسین، تعلیم حسین کوتیاشاماگرا، مرتبہ: مفروحہ چودھری، ڈھاکا، پریتی پراکاشن اشاعت اوّل، جولائی ۱۹۹۸ئ، ص: ۷۰ علامہ اقبال شنگشدپتریکا علامہ اقبال شنگشدپتریکا: ڈھاکا، علامہ اقبال شنگشد، مارچ ۱۹۸۸ئ، نومبر ۱۹۸۸ئ، نومبر ۱۹۸۹ئ، اپریل ۱۹۹۰ئ، جون- اگست ۱۹۹۱ئ، ستمبر- نومبر ۱۹۹۲ئ، دسمبر - فروری ۱۹۹۳ئ، ستمبر- نومبر ۱۹۹۳ئ، دسمبر- فروری ۱۹۹۴ئ، جولائی- ستمبر ۱۹۹۴ء اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۴ئ، جنوری- مارچ ۱۹۹۵ئ، اپریل- جون ۱۹۹۵ئ، جولائی- ستمبر ۱۹۹۵ئ، اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۵ئ، جنوری- مارچ ۱۹۹۶ئ، اپریل- جون، جولائی- ستمبر ۱۹۹۶ئ، اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۶ئ، جنوری- مارچ ۱۹۹۷ئ، اپریل- جون ۱۹۹۷ئ، جولائی- ستمبر ۱۹۹۷ئ، اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۷ئ، جنوری- مارچ ۱۹۹۸ئ، اپریل- جون، جولائی- ستمبر ۱۹۹۸ئ، جنوری- مارچ ۱۹۹۹ئ، اپریل، جون، جولائی، ستمبر ۱۹۹۹ئ، اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۹ئ، جنوری- مارچ، اپریل- جون ۲۰۰۰ئ، (دیوان محمد اظرف نمبر) جولائی- ستمبر، اکتوبر- دسمبر ۲۰۰۰ئ، جنوری- مارچ ۲۰۰۱ئ، اپریل- جون، جولائی- ستمبر ۲۰۰۱ئ، جنوری- مارچ ۲۰۰۲ئ، (پروفیسر شاہد علی نمبر) اپریل- جون ۲۰۰۲ئ، (سولھویں سالگرہ نمبر) جولائی- ستمبر ۲۰۰۲ئ، اکتوبر- دسمبر ۲۰۰۲ء جنوری- مارچ ۲۰۰۳ئ، Iqbal Studies اپریل- ۱۹۸۹ئ، اکتوبر- دسمبر ۱۹۹۸ئ۔ ٭٭٭ کشمیر میں مطالعۂ اقبال (بحوالہ: اقبال انسٹی ٹیوٹ، سری نگر) ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی علامہ اقبالؒ پر اس وقت تک خاصا تحقیقی و تنقیدی کام ہوا ہے اور ہنوز شدومد سے جاری ہے اور آیندہ بھی ان شاء اﷲ جاری رہے گا۔ برعظیم ہندو پاک میں اقبالیات پر جتنا کام اور مواد جمع ہوا ہے، وہ شاید ہی کسی اور ادبی و تخلیقی موضوع پر ہوا ہو، حالانکہ علی سردار جعفری کے بقول، ’’ایک عرصے تک ہندوستان نے علامہ اقبال کے فکر و فلسفے کو نظر انداز کیا اور پاکستان میں اسے محدود کیا گیا۔‘‘ مگر اب تو فکر و نظر کی کشادگی اور ذہن کی بالیدگی سے معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دونوں ممالک میں اب پوری شعوری کاوشوں سے اقبال کے متنوع فکری و عملی جہات پر کام ہو رہا ہے۔ کشمیر میں علامہ اقبالؒ کی مقبولیت کا سبب صرف اُن کا فکرو فن ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ اقبالؒ اصل میں فرزندِ کشمیر ہیں، لہٰذا برعظیم کے ہر حصے بلکہ تمام دنیا سے زیادہ اہلِ کشمیر کو اقبال پر فخروناز ہے۔ اُن کے کلام کے علاوہ خطوط میں کشمیر کا ذکر موجود ہے اور پھر اُن کی اپنی زندگی میں کشمیر اور مسائلِ کشمیر کی جو معنویت رہی ہے، اُس سے کسی بھی حالت میں صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اقبال کی شاعری اور فکر و عمل کے اثرات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال شناسی اور اقبال فہمی کا آغاز اُن کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔ اقبال کے ہم عصر اُدبا و شعرا نے اُسی دور میں اُن کا رنگ و آہنگ اختیار کیا۔ اس سلسلے میں منشی محمد الدین فوق، منشی سراج الدین احمد، چودھری خوشی محمد ناظر، خلیفہ عبدالحکیم، غلام احمد مہجور اور عبدالاحد آزاد جیسے ادبا و شعرا شرفِ اوّلیت رکھتے ہیں۔ ان میں بھی منشی محمد الدین فوق کا اسمِ گرامی سب پر فوقیت کا حامل ہے کہ انھوں نے ہی سب سے پہلے علامہ کی سوانح مع کشمیری میگزین اپریل ۱۹۰۹ء میں شائع کی، حالانکہ اُن کی یہ پہلی کوشش نہایت سرسری نوعیت کی تھی۔ بہرحال اس سرسری کوشش کے بعد فوق نے مشاہیرِ کشمیر ۱۹۳۰ئ، نیرنگِ خیال ۱۹۳۲ء اور تاریخِ اقوامِ کشمیر جلد اوّل ۱۹۳۴ء اور جلد دوم ۱۹۴۳ء میں علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی، آبائی گائوں اور ذات وغیرہ کے حوالے سے کافی حد تک بحث بھی کی ہے۔ دوسری اہم کشمیری شخصیت مولوی احمد دین کی ہے جنھوں نے اقبال پر پہلی اردو کتاب اقبال ۱۹۲۴ء میں شائع کی مگر اقبال کی ناپسندیدگی کی وجہ سے انھوں نے اس کتاب کی ساری کاپیاں جلا ڈالیں اور پھر خاصی ترامیم اور حذف و اضافے کے ساتھ اسے ۱۹۲۶ء میں ازسرِ نو شائع کیا۔ ابتدا میں یہاں اقبال سے متعلق زیادہ تر ادب مضامین ہی کی صورت میں تخلیق ہوا ہے۔ اُن کی شاعری اور فکر و فلسفے کے بارے میں کشمیر میں پہلے پہل خلیفہ عبدالحکیم، محمد دین تاثیر، جعفر علی اثر اور خواجہ غلام السیدین نے خامہ فرسائی کی ہے۔ اقبال شناسی اور اقبال فہمی کی باضابطہ تحریک کشمیر میں برعظیم کی آزادی کے کئی سال بعد شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں مشہور ماہرِ اقبالیات، ادیب اور شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا نام سرِفہرست ہے جن کی ان تھک تحقیقی و تخلیقی کاوشوں سے نہ صرف جموں و کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں ایک طرح سے اقبالیات کی نشاتِ ثانیہ ہوئی۔ پروفیسر آل احمد سرور کا حصہ بھی اس ضمن میں وافر اور ناقابلِ فراموش ہے۔ ان دونوں مقتدر اصحابِ علم اور ماہرینِ اقبالیات کی کوششوں سے کلامِ اقبال پر یہاں شان دار ادبی و تحقیقی کام ہوا اور اس طرح سے اقبالیات کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ جموں و کشمیر میں اقبال کے بارے میں باضابطہ طور پر غالباً پروفیسر جگن ناتھ آزاد ہی نے پہلی دفعہ ۵۵۔۱۹۵۴ء میں کشمیر یونی ورسٹی سری نگر میں اقبال پر تین لیکچر دینے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن حکومتِ ہند کی ملازمت میں رخصت کی درخواست نامنظور ہونے کی وجہ سے وہ یہ لیکچر اُس وقت نہ دے سکے۔ البتہ ۱۹۶۰ء میں ان لیکچروں کو کتابی صورت دینے میں کامیاب ہوئے جو اقبال اور اس کا عہد کے عنوان سے الٰہ آباد سے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر محمد اسد اﷲ وانی کے مطابق: ’’پروفیسر آل احمد سرور نے شیخ محمد عبداﷲ مرحوم کی وزارتِ اعظمی کے دور میں انھی کی فرمائش پر کشمیر یونی ورسٹی میں اقبال پر ایک لیکچر دیا تھا۔‘‘۱؎ لیکچر کا عنوان کیا تھا اور کس محکمے میں دیا گیا، اس کی کوئی تفصیل وانی صاحب نے نہیں دی ہے حالانکہ پروفیسر آزاد کی تحریروں اور مقالات کے مطابق کشمیر یونی ورسٹی کے لیے اقبالیات پر لیکچر رقم کرنے کی پہلی سعادت انھی کو حاصل ہے۔ اس بارے میں پروفیسر آزاد کی کتاب ہندوستان میں اقبالیات آزادی کے بعد اور دوسرے توسیعی لیکچر کا یہ لمبا اقتباس ملاحظہ ہو: یہاں ۵۵۔۱۹۵۴ء کا ایک ذاتی واقعہ بھی سن لیجیے۔ جناب آصف علی اصغر فیضی جموں و کشمیر یونی ورسٹی سری نگر کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں جموں و کشمیر یونی ورسٹی سری نگر میں تین لیکچر غالب کے فکر و فن کے متعلق دوں اور پھر یہی لیکچر یونی ورسٹی کے جموں ڈویژن میں بھی دیے جائیں۔ جموں میں اُس وقت الگ یونی ورسٹی نہیں تھی، بلکہ جموں و کشمیر یونی ورسٹی ہی کا ایک ونگ جموں میں کھول دیا گیا تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ غالب پر بھی میں لیکچر دے دوں گا لیکن اِس وقت تو آپ مجھ سے اقبال پر لیکچر دلوایئے۔ فیضی صاحب جیسے سناٹے میں آگئے۔ فرمانے لگے، ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک کسی نے جموں و کشمیر میں اقبال کا نام نہیں لیا، آپ کیوں اس موضوع پر لیکچر دینا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ اقبال کا ذکر نجی محفلوں میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری پر بات چیت بھی ہوتی ہے، یہاں سے ایک اخبار نکلتا ہے آفتاب اس کی پیشانی پر علامہ اقبال ہی کا ایک شعر لکھا ہوتا ہے۔ جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند اس کے علاوہ کشمیر کے قریباً ہر پڑھے لکھے گھر میں جہاں مجھے جانے کا اتفاق ہوا ہے، علامہ اقبال کے کلام کے مجموعے موجود ہیں۔ اقبال کشمیر ہی کے فرزند ہیں۔ اس یونی ورسٹی میں اقبال پر لیکچروں کا انتظام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ فیضی صاحب نے کہا کہ آپ سوچ لیجیے، میں اس پر غور کروں گا اور پرسوں آپ کو قطعی طور پر بتائوں گا۔ انھوں نے پرسوں کے لیے مجھے کھانے کی دعوت دی اور جب میں اُن کے یہاں ڈنر پر پہنچا تو غالباً وہ اس مسئلے پر پوری طرح غور کرچکے تھے۔ شیخ محمد عبداﷲ کا دورِ وزارتِ اعظمیٰ تو اُس وقت ختم ہوچکا تھا، بخشی غلام محمد کا زمانہ تھا۔ ممکن ہے انھوں نے بخشی صاحب سے بھی اس ضمن میں مشورہ کیا ہو۔ بہر طور مجھ سے انھوں نے جب بات چیت شروع کی تو وہ کچھ اس طرح تھی کہ فرض کیجیے، آپ یہاں ہماری یونی ورسٹی میں اقبال پر لیکچر دیتے ہیں، تو آپ بات چیت کس طرح شروع کریں گے؟ میں نے کہا فیضی صاحب، یہ تو آپ نے بڑا مشکل سوا کیا کیوں کہ میں نے ابھی تک لیکچر لکھنے کے بارے میں ان نکات پر غور نہیں کیا ہے لیکن اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ لیکچر میں اس لیے نہیں لکھوں گا کہ یہ مجھے صرف جموں و کشمیر میں پڑھنا ہیں۔ ہوسکتا ہے، میں یہ لیکچر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دوں اور چونکہ ۱۹۴۷ء کے بعد کسی بھی یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کے متعلق یہ پہلے توسیعی لیکچر ہوں گے اس لیے میں کوشش کروں گا کہ کسی قسم کی غلط بیانی کیے بغیر جس حد تک ممکن ہو، سامعین کو اپنے ساتھ لے کر چلوں۔ کسی بھی بڑے فن کار کے فکر و فن کے ذکر میں اختلافِ رائے کی گنجائش تو ہوتی ہے لیکن میری کوشش یہی ہوگی کہ اختلافِ رائے ایسی مخالفت کی صورت اختیار نہ کرے کہ ہمارا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ اس کے بعد انھوں نے رسمی دعوت نامہ مجھے دے دیا اور دہلی واپس جاکر میں نے اپنے مقالات کی ابتدا کردی۔ محترم فیضی صاحب کی فرمائش تین لیکچروں کے لیے تھی اور میں نے ان لیکچروں کے عنوان یہ تجویز کیے: (۱) کلامِ اقبال کا ہندوستانی پس منظر (۲) کلامِ اقبال کا صوفیانہ لب و لہجہ اور (۳) اقبال اور اس کا عہد۔ چونکہ میرا ارادہ ان لیکچروں کو کشمیر سے باہر بھی مختلف جلسوں میں پڑھنے کا تھا، اس لیے میں اپنی بات چیت کی ترتیب بھی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جب یہ تینوں لیکچر مکمل ہوچکے اور میں نے کشمیر آنے کے لیے رخصت کی درخواست دی تو یہ ہمارے پرنسپل انفارمیشن آفیسر نے اُس وقت کے وزیر ڈاکٹر پی وی کیسکر کو بھیج دی جہاں سے یہ درخواست نامنظور ہوکر واپس آگئی۔ میں نے چاہا کہ وزیر موصوف کے ساتھ ملاقات کرکے اس موضوع پر بات کرلوں لیکن جواب آیا کہ اگر اقبال کے توسیعی لیکچروں کے متعلق بات کرنا ہے تو ملاقات ممکن نہیں۔ میں نے اپنے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک خالص ادبی معاملہ ہے، یونی ورسٹی میں لیکچر دینا ہیں علامہ اقبال کے فکر و فن کے متعلق، لیکن جب متعلقہ وزیر میری چھٹی نامنظور کرچکے تھے تو پرنسپل انفارمیشن آفیسر کیا کرسکتے تھے جب کہ وہ خود بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ میں اس موضوع پر لیکچر دوں، ورنہ وہ چار دن کی چھٹی کی یہ درخواست وزیر موصوف کو بھیجتے ہی کیوں۔ بہر طور یہ معاملہ تو جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ کچھ مدت بعد یہ لیکچر کتابی صورت میں اقبال اور اس کا عہد کے نام سے ادارہ انیسِ اُردو الٰہ آباد نے شائع کیے۔‘‘ ۲؎ زمانے نے کروٹ لی اور ۱۹۶۸ء میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد اپنی ملازمت کے سلسلے میں دہلی سے تبدیل ہوکر واردِ کشمیر ہوئے اور تب سے وفات تک وہ مختلف حیثیتوں سے اسی ریاست میں مقیم رہے بلکہ ۱۹۸۹ء میں جموں یونی ورسٹی کی طرف سے انھیں تاحیات پروفیسر ایمرٹس شپ عطا ہونے کی وجہ سے وہ اسی ریاست کے باشندے بن گئے اور یہاں بودوباش اختیار کرکے انھوں نے اقبالیاتی ادب میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔ پروفیسر آزاد کی دیگر تصانیفِ اقبال یہ ہیں: اقبال اور مغربی مفکرین، اقبال اور کشمیر، مرقّعِ اقبال، اقبال: زندگی، شخصیت اور شاعری، اقبال کی کہانی، بچوں کا اقبال، ہندوستان میں اقبالیات، Iqbal: His Poetry and Philosophy، Iqbal: Mind and Art۔ آزاد صاحب نے تقریباً یہ تمام تصانیف کشمیر ہی میں دورانِ ملازمت رقم کی ہیں۔ کشمیر میں اقبالیات کے سلسلے میں ۱۹۷۷ء کا سال تاریخی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ یہی سال اقبال صدی تقریبات کے انعقاد کا سال بھی مقرر ہوا اور ریاستی سطح پر جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز ان تمام سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔ اس کے اُس وقت کے سیکریٹری جناب محمد یوسف ٹینگ اور اُن کے ساتھیوں کی کوششوں سے ریاست بھر میں اقبال سیمیناروں، مباحثوں، مذاکروں اور موسیقی کے مقابلوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اس ادارے کے آفیشل آرگن اور ادبی مجلہ شیرازہ کے خصوصی اقبال نمبر کے علاوہ کلامِ اقبال کے تراجم بھی کیے گے اور کتابیں بھی تحریر کی گئیں۔ ۱۹۷۷ء ہی میں اس وقت کے ریاست کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداﷲ نے ایک مستحسن کام کے طور پر کشمیر یونی ورسٹی میں ’’مسندِ اقبال‘‘ قائم کروائی جس کے پہلے پروفیسر مرحوم آل احمد سرور مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۹ء میں اس مسند کو ’’اقبال انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی حیثیت سے توسیع دی گئی اور پروفیسر آل احمد سرور کو پہلا ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ مقرر کیا گیا۔ اس طرح دنیا بھر میں پہلے پہل اقبال انسٹی ٹیوٹ کا قیام کشمیر یونی ورسٹی ہی میں عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد پنجاب یونی ورسٹی لاہور میں اقبال چیئر قائم کی گئی۔ اگرچہ اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی کو متذکرہ بالا اقبال چیئر پر اوّلیت کا شرف حاصل ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک اس ادارے میں صرف ایک ڈائریکٹر کم پروفیسر اور ایک ریڈر ہی کام کرتے ہیں حالانکہ اس ادارے کے کام کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ اُمید ہے یہاں کے اربابِ اقتدار اس جانب توجہ مبذول کرکے اس میں مزید اسامیاں پیدا کرکے اس کو توسیع دیں گے۔ ۱۹۷۹ء میں کشمیر یونی ورسٹی میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے فوراً بعد جب پروفیسر آل احمد سرور کو اس کا ڈائریکٹر بنادیا گیا تو انھوں نے اپنے تبحرِعلمی وادبی مقام و مرتبے کی وجہ سے جلد ہی اس ادارے کو ایک متحرک علمی و ادبی مرکز بنا دیا۔ کچھ سنجیدہ اُستادوں اور دانشوروں نے سرور صاحب سے ان کے علمی و ادبی کاموں میں بھرپور تعاون کیا، جن میں پروفیسر شکیل الرحمن، پروفیسر قاضی غلام محمد مرحوم، پروفیسر مرغوب بانہالی، پروفیسر غلام رسول ملک، محمد امین بچھ مرحوم، مرزا کمال الدین شیدا، مرزا غلام حسن بیگ عارف، پروفیسر محمد عبداﷲ شیدا، پروفیسر محمد امین اندرابی مرحوم اور پروفیسر بشیر احمد نحوی کے اسمائے گرامی سرِفہرست ہیں۔ دراصل اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی کے قیام کا مقصد ہی تحقیق و تدوین کے ذریعے علامہ اقبال کی حیات اور فکر و فن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ رہا ہے تاکہ فکرِ اقبال کے ساتھ ساتھ سچی دانشوری کو فروغ مل سکے۔ اسی جذبے کے تحت یہ ادارہ معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ریاست جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ شیخ محمد عبداﷲ مرحوم ایک اہم خط کے ذریعے ادارے کی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے آل احمد سرور مرحوم سے یوں گویا ہوئے تھے: ۳؎ محترم سرور صاحب! السلام علیکم آپ کا خط مورخہ ۱۷ اپریل ۱۹۷۹ء موصول ہوا۔ کشمیر یونی ورسٹی میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے متعلق آپ کی تجویز مجھے پسند آئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی منظوری سے کشمیری قوم کی اُس دیرینہ عقیدت کا اعادہ ہوسکے گا جو اُسے شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی ذات اور اُن کے پیغام سے رہی ہے۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ اقبال انسٹی ٹیوٹ کو سچی روحانیت اور تہذیبی و ادبی قدروں کے عرفان کے لیے انتہائی اہم خدمات انجام دینی ہوں گی اور معاشرے کی اخلاقی و شعوری اصلاح کے لیے بھی نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اقبال انسٹی ٹیوٹ کو اسلام کے فلسفیانہ افکار کی روشنی میں نوجوانوںکی ذہنی تربیت کا ایک عملی منصوبہ اپنانا ہوگا تاکہ مادیت پرستی کے رجحان سے چھٹکارا حاصل کرکے ہماری نوجوان نسل اعتدال و توازن کے اُن اصولوں سے آگاہی حاصل کرسکے جو اسلامی تہذیب کی بنیاد رہے ہیں اور جن کے بغیر قوموں کی فلاح اور اتحاد کا ہر تصور بے ثبات ہوجاتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اقبال انسٹی ٹیوٹ کی سربراہی کے لیے ہمیں آپ جیسی علمی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوسکی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے خلوص اور اعتماد سے اس انسٹی ٹیوٹ کو ایک فعال ادارہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوسکیں گے۔ اس کام میں میری تمام نیک خواہشات آپ کے اور کشمیر یونی ورسٹی کے ساتھ ہیں، اُمید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا مخلص شیخ محمد عبداﷲ اسی جذبے کے تحت انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے بعد اقبال پر باقاعدہ تحقیقی کاوشوں کی شروعات ہوئیں۔ اس کے لیے اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ اقبال پر کتابوں کی اشاعت کا کام شروع ہوا۔ سیمینار اور توسیعی خطبات شروع کیے گئے۔ تحقیق کے سلسلے میں اساتذہ کی نگرانی میں تحقیقی مقالے لکھوائے گئے۔ انسٹی ٹیوٹ کی یہ روایت شروع ہوئی کہ یہاںہر سال مشاعرے اور سیمینار منعقد کیے جانے لگے۔ ان سیمیناروں میں وادی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی اصحابِ علم تشریف لاکر اپنے مقالات پیش کرتے رہے۔ ایک روزہ سیمیناروں کے علاوہ دو روزہ اور سہ روزہ سیمیناروں کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا۔ چنانچہ سرور صاحب کی ادارت میں متعدد مقالات اور کتابیں ضبطِ تحریر میں لائی گئیں۔ اس سلسلے میں اقبال اور تصوف، اقبال اور مغرب، تشخص کی تلاش کا مسئلہ اور اقبال، اقبال اور جدیدیت، جدید دنیا میں اسلام، خطباتِ اقبال پر ایک نظر، حکمتِ گوئٹے اور فکرِ اقبال، علامہ اقبال (مصلحِ قرنِ آخر)، ہندوستان میں اقبالیات وغیرہ جیسی اہم کتب و تصانیف اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ انگریزی زبان میں بھی آل احمد سرور کی ادارت میں مندرجہ ذیل کتب اقبال انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوئیں: 1. Islam in the Modern World-Problems and Prospects 2. Islamic Resurgence 3. Some Aspects of Iqbal's Poetic Philosophy 4. Modernity and Iqbal 5. Islam in India Since Independence 6. Iqbal and Indian Heritage 7. Tagore, Sri Aurobindo and Iqbal پروفیسر آل احمد سرور کی رفاقت میں پروفیسر غلام رسول ملک، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر شکیل الرحمن، پروفیسر محمد امین اندرابی نے بالترتیب سرودِ سحر آفرین، اقبال کا تخلیقی شعور، اقبال۔ روشنی کی جمالیات، اقبال اور فنونِ لطیفہ، مطالعۂ مکتوباتِ اقبال جیسی اہم تصانیف مدوّن کرکے اقبالیاتی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ مرحوم پروفیسر آل احمد سرور نے تقریباً دس سال تک اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ادارے کے سربراہ پروفیسر محمد امین اندرابی صاحب بنائے گئے۔ اُن کی ادارات میں مندرجہ ذیل کتب اس ادارے سے شائع ہوئیں: ۱۔ ہندوستان میں اقبالیات از پروفیسر حگن ناتھ آزاد ۲۔ اقبال کی فارسی شاعری مرتبہ پروفیسر محمد امین اندرابی ۳۔ اقبال، خطابت اور شاعری مرتبہ پروفیسر محمد امین اندرابی ۴۔ سرودِ سحر آفرین از پروفیسر غلام رسول ملک ۵۔ اقبال اور قرآن مرتبہ پروفیسر محمد امین اندرابی ۶۔ مفتاحِ اقبال ،عبداللہ خاور ۷۔ اقبال اور مابعد التاریخ، ڈاکٹر حیات عامر حسینی ۸۔ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، مرتبہ محمد امین اندرابی ۹۔ اقبال کا فن، مرتبہ محمد امین اندرابی ۱۰۔ اقبال اور جمالیات از پروفیسر قدوس جاوید مرحوم امین اندرابی صاحب بھی لگ بھگ دس سال تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔ اُن کے بعد ۱۹۹۹ء کے اواخر میں پروفیسر بشیر احمد نحوی صاحب کو اس ادارے کی نظامت سونپی گئی۔ پروفیسر نحوی محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ آپ صحیح معنوں میں اقبال کے عاشق ہیں اور حافظِ اقبال کے نام سے وادی بھر میں معروف ہیں۔ انھیں اقبال کا تقریباً تمام اُردو اور فارسی کلام از بر ہے۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ سے وابستگی سے پہلے آپ ہی کے ہاتھوں سے وادیِ کشمیر میں ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ چنانچہ اس اکیڈمی کے پہلے سربراہ پروفیسر مرزا عارف بیگ منتخب کیے گئے اور سیکریٹری کے فرائض آپ بذاتِ خود انجام دیتے رہے۔ اس اکیڈمی کے تحت آپ نے پوری وادی میں متعدد کانفرنس اور سیمینار منعقد کرکے اقبال فہمی کو عوامی سطح پر فروغ دیا۔ آپ ایک متحرک اور فعّال شخصیت ہیں۔ آپ کا فکری مرکز و محور اقبالیات ہی ہے۔ آپ کے خلوص اور پُر اعتماد طریقِ کار کو دیکھ کر آپ کے بزرگ آپ کے ساتھ چلنے پر بخوشی مائل ہوگئے۔ ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے تحت آپ نے کئی کتب و جرائد شائع کیے۔ مثلاًپروفیسر غلام رسول ملک صاحب کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب Bloody Horizon (Iqbal's Response to the West)۔ اسی طرح سے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے تحت حو سیمینار منعقد کیے گئے اُن میں جن سربرآوردہ شخصیات نے مختلف عنوانات کے تحت مقالے پڑھے وہ بھی شائع کرائے جن میں ’حکیمِ مشرق‘ اور ’چشمۂ آفتاب‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح سے مشہور سخنور اور دانشور مرحوم محمد امین بچھ کی شخصیت اور اُن کی ادبی خدمات پر بھی ایک کتاب شائع کی۔ دراصل آپ اقبال کا نورِ بصیرت حقیقی معنوں میں تمام دنیا میں عام کرنے کے متمنی ہیں۔ شعبۂ اقبالیات میں آپ کی سربراہی میں ایک نئی توانائی اور نیا ولولہ پیدا ہوا۔ فکرِ اقبال کی معنویت سے اب عوام و خواص روشناس ہورہے ہیں۔ آپ ان موضوعات و افکار پر سیمیناروں، مباحثوں اور مذاکروں کا اہتمام و انتظام احسن طریقے سے ہر سال کراتے رہتے ہیں جن کے ساتھ علامہ کو بھی دلچسپی تھی۔ متعدد مشاعروں اور سیمیناروں کے علاوہ پہلی بار اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی کے اہتمام سے سال ۲۰۰۱ء میں کل ریاستی سیرت کوئز کا اہتمام پروفیسر نحوی صاحب نے ہی کرایا جس کے اوّل انعام یافتہ کو عمرہ ٹکٹ سے نوازا گیا۔ اسی طرح سے اب کل ریاستی مضمون نویسی اور تقریری مقابلے کا بھی اہتمام ہر سال کیا جاتا ہے۔ ستمبر ۲۰۰۳ء میں ’اقبالیات کے گزشتہ دس سال‘ کے موضوع پر پروفیسر نحوی صاحب نے دو روزہ عظیم الشان نیشنل سیمینار منعقد کرایا، جس کے شرکا میں پروفیسر آفاق احمد (بھوپال)، پروفیسر عبدالحق (دہلی)، پروفیسر علی احمد فاطمی (الٰہ آباد)، پروفیسر ظہور الدین (جموں) اور ڈاکٹر محمد اسد اﷲ وانی (جموں) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ نوآموز ادیبوں اور محققوں کے متعدد مقالے شعبے کے مجلے اقبالیات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ نحوی صاحب کے اسی حوصلہ افزا مزاج کی وجہ سے اب اقبالیات پر سنجیدہ تحقیق کرنے والے نوجوان محققین کی ایک کھیپ تیار ہوچکی ہے جن سے مستقبل میں کافی توقعات وابستہ ہیں۔ اسلامیات کے ریڈر اور ممتاز محقق ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی نے خطباتِ اقبال پر ایک شان دار کتاب رقم کی ہے جسے شعبۂ اقبالیات نے ۲۰۰۲ء میں خطباتِ اقبال کا تنقیدی مطالعہ کے نام سے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرشید بٹ صاحب نے بھی کئی سال پہلے اقبال پر ایک کتاب Iqbal's Approach to Islam شائع کی تھی۔ علامہ اقبال لائبریری کے اسسٹنٹ لائبریرین جناب عبداﷲ خاور صاحب، پروفیسر آلِ احمد سرور کے زمانے سے لے کر پروفیسر محمد امین اندرانی مرحوم کے دور تک شعبۂ اقبالیات میں پروفیشنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ انھوں نے ۱۹۹۸ء میں مفتاحِ اقبال رقم کرکے علامہ اقبال سے متعلق مقالات کا موضوعاتی اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ مفتاحِ اقبال کا دوسرا حصہ حال میں شعبۂ اقبالیات سے شائع ہوا ہے۔ اشاریہ سازی پر عبداﷲ صاحب مزید کام کر رہے ہیں۔ اب تک انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر نحوی صاحب کی ادارت میں تقریباً تیس (۳۰) کتب و جرائد شائع ہوچکے ہیں جن میں نصف درجن سے زیادہ انگریزی میں ہیں۔ اہم کتابوں کے نام یہ ہیں۔ (۱) اقبال ایک تذکرہ، حکیم منظور، (۲) اقبال ایک تجزیہ، ڈاکٹر بشیر احمد نحوی، (۳) مطالعۂ مثنوی اسرارِ خودی، ڈاکٹر تسکینہ فاضل، (۴) تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے مسلم اعلام، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی، (۵) وہ دانائے سبل، از ڈاکٹر بشیر احمد نحوی، (۶) نفحاتِ اقبال، از ڈاکٹر بشیر احمد نحوی، (۷) اقبال کا تخلیقی شعور، ڈاکٹر حامدی کاشمیری، (۸) رازِ الوند، سید حبیب وغیرہ۔ مندرجہ ذیل انگریزی کتب بھی اس ادارے سے شائع ہوچکی ہیں: 1. Iqbal's Raptures Melodize, Education by Prof. Syed Habib 2. Iqbal's Multiformity, compiled by Prof. B.A. Nahvi 3. Iqbal's Idea of Self, edited by Prof. B.A. Nahvi 4. Iqbal's Religio-Philosophical Ideas, compiled by Prof. B.A Nahvi سیمیناروں کے ساتھ ساتھ انسٹی ٹیوٹ ابتدا ہی سے توسیعی لیکچروں کا بھی اہتمام کرتا آیا ہے۔ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ کو بیرونِ ریاست کے جن عالموں، دانشوروں اور اقبال شناس شخصیتوں کا تعاون حاصل رہا، ان میں مشہور علماے دین مولانا سعید اکبر آبادی، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، پروفیسر سید وحید الدین، پروفیسر عالم خوند میری، پروفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر سید حامد، ضیاالحسن فاروقی، مشیر الحق، مشیر الحسن، پروفیسر انا میری شمل، شانتی نکیتن یونی ورسٹی کے سِسر کمار گھوش، راجستھان یونی ورسٹی کے دیا کرشن، کولمبیا یونی ورسٹی کے اے ٹی ایمبری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ اب تک پانچ درجن سے زائد سیمینار منعقد کراچکا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور کے زمانے میں ڈاکٹر کبیر احمد جائسی بھی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک رہے اور انھوں نے بعض قابلِ قدر کام کیے۔ شعبے کا کتب خانہ اقبال سے متعلق برعظیم کا اہم کتب خانہ ہے جہاں پر تقریباً بارہ ہزار نادر کتابیں، رسائل اور جرائد موجود ہیں۔ اس ادارے سے اب تک اقبالیاتی فکر و فلسفہ اور شاعری کے حوالے سے تیس (۳۰) ایم فل اور پندرہ (۱۵) پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاچکے ہیں اور یہ تحقیقی کام مسلسل جاری ہے۔ اس وقت اس ادارے میں چار (۴) ایم فل اور گیارہ (۱۱) پی ایچ ڈی اسکالرز اپنے کام میں منہمک ہیں۔ علامہ اقبال کا عرفان عام کرنے، ماضی کے تجزیے اور مستقبل کے لیے عملی کام کرنے کی جانب اس ادارے کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ اب اپنی ویب سائٹ بھی رکھتا ہے۔ پروفیسر بشیر احمد نحوی صاحب کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں اب اس ادارے میں ایک شان دار میوزیم کا قیام عمل میں آرہا ہے جس میں علامہ اقبالؒ کے تعلق سے جموں و کشمیر میں جہاں کہیں بھی کوئی دستاویز، مخطوطہ یا تصویر وغیرہ دستیاب ہوگی، وہ یہاں محفوظ کی جائے گی۔ ٭٭٭ حواشی (۱) محمد اسد اﷲ وانی، ’جموں و کشمیر میں اقبالیات کا جائزہ‘ مشمولہ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، مرتبہ: پروفیسر محمد امین اندرابی، ۱۹۸۷ئ، ص: ۱۷۰۔ (۲) پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ہندوستان میں اقبالیات آزادی کے بعد اور دوسرے توسیعی لیکچر، مرکنٹائل پریس، لاہور ۱۹۹۱ئ، ص ۱۹-۱۷۔ (۳) یہ خط مرحوم شیخ محمد عبداﷲ نے جموں سے ۱۸ اپریل ۱۹۷۹ء کو مرحوم پروفیسر آل احمد سرور کو بھیجا تھا۔ راقم الحروف کو یہ خط اتفاقاً کہیں سے دستیاب ہوا اور اب محفوظ ہے۔ ٭٭٭ اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ۱۔مقالہ : دورِ حاضر میں فکرِ اقبال کی معنویت مقالہ نگار : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مجلہ : ’’جہانِ اردو‘‘، دربھنگہ، اکتوبر۰۴ تا مارچ ۰۵ صفحات : ۹ تا ۱۱ ڈاکٹر ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے چھہ عشرے بیت جانے کے بعد بھی ان کی شاعری بدستور تروتازہ اور بامعنی ہے۔ علامہ اقبال جیسی بصیرت اور ان جیسا وژن بیسویں صدی کے کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا۔ دورِ حاضر میں قتل، غارت گری، ظلم، بربریت کا جو بازار گرم ہے، درحقیقت ایک بے خدا تہذیب کے بے لگام ہونے کا نتیجہ ہے۔ اقبال کے دور میں فتنہ و فساد کا بنیادی سبب اخلاقی قدروں کا بحران تھا جس کے پسِ پردہ ملحدانہ مادّہ پرستی، ہوسِ زر اور جوع الارض کارفرما تھی۔ عصرِ حاضر میں ان خرابیوں کے ساتھ خاندانی نظام کی تباہی نے بھی مغربی تہذیب کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ علامہ نے بھی اپنی شاعری میں امومت کی بقا پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ کلامِ اقبال کی صحیح تفہیم کے بعد اس پر صدقِ دلی سے عمل بھی کیا جائے، تب ہی ہم موجودہ سنگین بحران سے نکل سکتے ہیں۔ ۲۔مقالہ : اقبال کا تصورِ تہذیب مقالہ نگار : ڈاکٹر تحسین فراقی مجلہ : ’’جہانِ اردو‘‘، دربھنگہ، اکتوبر۰۴ تا مارچ ۰۵ صفحات : ۱۲ تا ۱۹ اقبال کے تصورِ مذہب کے موضوع پر اقبال کے تحریرکردہ ایک مضمون ’قومی زندگی‘ کے حوالے سے ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنے شعری اور نثری آثار میں نہ صرف اپنے تصوراتِ تہذیب و ثقافت نہایت خوبی سے بیان کیے ہیں بلکہ معاصر مادّی تہذیب کا موازنہ کر کے بعض مثبت پہلوئوں کے دوش بدوش اس کی ہلاکت خیزیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم تہذیب کی برکات و ثمرات سے پوری نوعِ انسانی فیض یاب ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہو سکتی ہے۔ اقبال نے مسلم تہذیب کی اصل ’احترامِ آدمیت‘ کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے متعدد مقامات پر مسلم تہذیب کو ایک برگزیدہ، برتر اور تاریخ ساز تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے برعکس اقبال کی نظر میں تہذیبِ نو روشن چہرے والی ہے مگر چنگیز کا باطن رکھتی ہے جس کا مقصود آدم دری اور لادینیت ہے۔ یہ تہذیب آنے والی نسلوں کے لیے زہریلا ہلاہل اور ہماری عزتِ نفس پر ایک گروِ گراں ہے۔ اقبالی تعلیمات سے ہم آزادی، حریت، عزتِ نفس، ملی طرزِ احساس حاصل کر کے تہذیبِ باطن کے سچے اور صحیح معانی سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ ۳۔مقالہ : علامہ اقبال کا تصورِ ملت مقالہ نگار : ڈاکٹر محمد عطااﷲ خان مجلہ : ’’ہم قدم‘‘، جنوری ۲۰۰۵ء ڈاکٹر محمد عطااﷲ صاحب مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معاشرے میں انحطاط کا سبب جغرافیائی اور لسانی بنیادوں پر ہے۔ بیسویں صدی میں بھی دورِ جاہلیت کی طرح قومیت کا تصور یعنی قومیں اوطان سے بنتی ہیں، موجود ہے۔ علامہ نے اس نظریے کی شدید مذمت کی ہے۔ علامہ کی نظر میں قوم جغرافیے کے بجائے نظریۂ حیات سے بنتی ہے۔ جدید قومیت کے نظریے سے دنیا امن و سلامتی کے بجائے فساد اور خون ریزی کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صدی میں طاقت ور ممالک کمزور ممالک کا استحصال کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عراق، افغانستان اور فلسطین کی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ اس مقالے میں مقالہ نگار نے تصورِ ملت کے حوالے سے علامہ کے اردو اور فارسی اشعار سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ۴۔روداد : شامِ اقبال/ فکرِ اقبال کی یادگار محفل روداد نویس: طارق مخدومی مجلہ : ’’آفاق‘‘ جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۳۲ تا ۳۶ ٹورانٹو میں اقبال اکادمی کینیڈا کے زیرِ اہتمام ’’شامِ اقبال‘‘ کے نام سے ایک خوب صورت اور باوقار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے شرکا میں جناب ڈاکٹر تقی عابدی، پروفیسر مستنصر میر، سیّد سجاد حیدر، ڈاکٹر منہاج قدوائی اور مہمانِ خصوصی جناب محمد سہیل عمر صاحب، ناظم اقبال اکادمی پاکستان اور حاضرین کی کثیرتعداد بھی شریک تھی۔ جناب تقی عابدی نے اقبال کے فلسفۂ تقدیر کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے علامہ کے فارسی اور اردو اشعار کے حوالوں سے فلسفۂ تقدیر کے جملہ پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ جناب مستنصر میر نے اقبال کی شاعری میں انسان، خودی اور دین کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اقبال کے کلام میں انسانوں کے لیے وہ رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر عامل ہو کر انسان اپنی خودی کو بیدار کر سکتا ہے۔ اس طرح قوم کی اجتماعی خودی کے لیے بھی قرآن و سنت میں ایسے رہنما اصول موجود ہیں جن کو اپنا کر نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی وہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے جو ان رہنما اصولوں پر عمل نہ کرنے سے ان سے چھن چکا ہے۔ میر صاحب کے خطاب کے بعد ڈاکٹر منہاج صاحب نے جناب سہیل عمر کو خطاب کی دعوت دی۔ سہیل عمر صاحب اقبال اکادمی پاکستان کی سربراہی کے علاوہ معروف علمی اور فکری پس منظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں عصرِ حاضر میں اقبال کی اہمیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ دورِ جدید میں انسان جس بحران کا شکار ہے، اس بحران کو سمجھنے اور اس سے نکلنے کے لیے اقبال کے کلام اور پیغام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اقبال کی شاعری درحقیقت اﷲ، بندے اور دین کے بارے میں اسلامی فکر کی نمائندہ شاعری ہے۔ اقبال نہ صرف مصورِ پاکستان ہیں بلکہ انھوں نے عہدِ نو کے لیے ایسے رہنما اصول وضع کیے جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان موجودہ درپیش عالمگیر امتحان سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ تقریر کے اختتام پر حاضرین کو سوالات کی دعوت دی گئی۔ اس تقریب میں خصوصی طور پر اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے حیاتِ اقبال پر مبنی ایک گشتی نمائش اور علامہ اقبال پر لکھی جانی والی کتب کی فروخت کا اہتمام کیا گیا۔ علامہ کے مداحوں نے اس گشتی نمائش اور کتابوں میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ پروگرام کا اختتام ُپرلطف عشائیے سے ہوا۔ ۵۔مقالہ : اقبال اور تربیتِ اطفال مقالہ نگار : ڈاکٹر محمد آصف اعوان مجلہ : ماہنامہ ’’افکارِ معلم‘‘، لاہور، جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۴۹ تا ۵۹ ڈاکٹر محمد آصف اعوان صاحب لکھتے ہیں کہ اقبال اپنے فکر و نظر کے سفر میں سب سے پہلے بچوں کی تہذیبی ساخت و پرداخت کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بچوں کی صحیح تربیت اور مثبت تعلیمی نظام کے لیے بہت فکرمند نظر آتے ہیں۔ بانگِ درا میں بچوں کے لیے ایسی نظمیں ہیں جن میں اخلاقی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقبال گہری فکر و بصیرت کے حامل انسان تھے۔ ان کی نظر میں کسی بھی ملک و قوم کی سب سے قیمتی متاع اس کی نئی نسل ہوا کرتی ہے۔ اس لیے نئی نسل کی تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر مبنی ہونی چاہیے جو قومی تقاضوں اور ضرورتوں کے آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ اقدار آشنا ہوں۔ اقبال بچوں کی ایسی تعلیم و تربیت کے قائل ہیں جو ان کے لیے مستقبل میں ایک کامل انسان بننے میں معاون ثابت ہو۔ ہر زندہ اور باشعور قوم اپنی اقدار و روایات کو زندہ رکھنا چاہتی ہے جس کا بہترین ذریعہ اقدار و روایات کے اس سرمائے کو نظامِ تعلیم کے ذریعے نئی نسل تک منتقل کیا جائے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت نہایت اعلیٰ خطوط پر استوار کی جائے، انھیں دنیا کے عظیم شخصیتوں کے حالات زندگی اور کارناموں سے متعارف کرایا جائے تاکہ وہ ان سے متاثر ہو کر خود اپنے اندر ان جیسی صفات اور کمالات پیدا کرنے کی آرزو کریں۔ اقبال اس بات سے بخوبی آگاہ تھے، کہ بچوں کی تربیت اور ذہنی نشوونما میں معلم کے فرائض بہت اہم ہیں اور معلم ہی نئی نسل کو سنوارنے اور ملک کی خدمت کے قابل بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اقبال نے اپنی نظموں میں نہایت سادگی اور سلاست سے اخلاقی درس دیا ہے۔ اقبال نے ایک مصلح کی حیثیت سے اپنی شاعری میں اصلاح کا پہلو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا، بلکہ تعلیم و تربیتِ اطفال کے زریں اصول بھی، اپنی خوب صورت اور شگفتہ نظموں میں بیان کیے ہیں۔ ۶۔مقالہ : ’’اسلامی تصوف اور اقبال‘‘- ایک تجزیاتی مطالعہ تجزیہ نگار : شاہد اقبال کامران مجلہ : سہ ماہی ’’الاقربا‘‘، جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۲۸ تا ۵۰ ’اسلامی تصوف اور اقبال‘ کے عنوان سے لکھے جانے والے تحقیقی مقالے پر ۱۹۵۶ء میں کراچی یونی ورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر نورالدین کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی۔ بعد میں ۱۹۵۹ء میں اس مقالے کو کتابی صورت میں اقبال اکادمی پاکستان نے پہلی بار شائع کیا۔ ۱۹۷۷ء میں اس کی دوسری اشاعت ہوئی۔ زیرِ نظر تجزیہ دوسرے ایڈیشن کا ہے۔ تجزیہ نگار شاہد اقبال کامران صاحب نے اپنے تجزیے میں بالترتیب تحقیق کی غرض و غایت، مقالے کا تعارف، ابواب کی تقسیم، مباحث، مآخذ، حواشی، حوالے اور اقتباسات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ انھوں نے نہ صرف مفصل انداز میں محقق کی فروگزاشتوں کی نشان دہی کی ہے بلکہ مدلل انداز میں اصل مآخذ کی روشنی میں اس کی تصحیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں کہیں تحقیق پر گرفت کمزور نظر آئی، انھوں نے اپنی بے لاگ رائے سے اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ تنقیدی جائزہ قابلِ تحسین کاوش ہے جس نے آنے والے محققین کے لیے اغلاط سے پاک تحقیق کے باب میں آسانیوں کی راہ دکھائی ہے۔ ۷۔مقالہ : اقبال کا نظریۂ فن مقالہ نگار : سیّدہ نغمہ زیدی مجلہ : سہ ماہی ’’الاقربا‘‘، جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۸۶ تا ۹۲ سیّدہ نغمہ زیدی مقالے کی تمہید میں ارسطو اور افلاطون کے نظریۂ فن کا جائزہ پیش کرتی ہیں۔ اس کے بعد علامہ کے فن کے بارے میں لکھتی ہیں کہ اقبال نے فن برائے زندگی کا نظریہ پیش کیا۔ اقبال ایک مسلمان مفکر ہیں، اس لیے وہ ہر اس فن کو ناپسند کرتے ہیں جو اسلام کے منافی ہو اور جو خودی کو ضعف پہنچائے۔ خودی ہی دراصل مرکزِ حیات ہے۔ خودی کی عدم موجودگی میں فن میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ اقبال کے نزدیک فن کا بلند ترین مقصود یہ ہے کہ وہ قلب کو گرما دے۔ فن کے لیے لازم ہے کہ وہ ذہنِ انسانی میں ابدی زندگی کے حصول کی لگن پیدا کر دے۔ اقبال کے نزدیک نغمہ کار کا اصل فن بامقصد تخلیق ہے۔ وہ اس فن کو وقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں جو انسان کی سوئی ہوئی قوتِ عمل کو بیدار کرے اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کرے۔ اقبال فن برائے فن کے قائل نہیں ہیں بلکہ انھوں نے اسے اپنے مخصوص ’’مقصدِ حیات‘‘ کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ تمام فنونِ لطیفہ میں اقبال نے اپنے لیے شاعری منتخب کی۔ اقبال شاعری کو حیاتِ ابدی کا پیغام سمجھتے ہیں اور شاعر کو دیدئہ بینائے قوم قرار دیتے ہیں۔ شاعر ہی اپنی پیغمبرانہ قوتوں سے ملتِ خوابیدہ کو بیدار کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر شاعر کا کلام حسرت و یاس پر مبنی ہے تو بہتر ہے کہ وہ خاموش رہے، کیوں کہ اقبال شاعری کو اخلاق کے ماتحت قرار دیتے ہیں۔ اقبال مصوری، موسیقی اور دیگر فنون میں جوشِ عمل، سرمستی اور جلال و جمال کے رنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ تمثیل یا تھیٹر کو بھی تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ان کی نظر میں یہ سوزِ خودی اور سازِ حیات دونوں کے لیے مہلک ہے۔ سیّدہ نغمہ زیدی صاحبہ نے اقبال کا نظریۂ فن اجاگر کرنے میں اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بطور نمونہ استعمال کیے ہیں۔ ۸۔مقالہ : اقبال کا تصورِ خدا اور ملاصدرا تعارف کنندہ : ادارہ مجلہ : ’’اخبارِ تحقیق‘‘ صفحات : ۳ تہران میں کچھ عرصہ قبل ’بنیادِ حکمتِ اسلامی ملاصدرا‘‘ کے زیرِ اہتمام سالانہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں چالیس اسکالرز مختلف ممالک سے شریک ہوئے تھے۔ ان کے پیش کردہ مقالات کو مجموعۂ مقالات ہمایش جہانی ملاصدرا کے زیرِ عنوان کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔ ادارئہ تحقیقات اسلامی کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر سیّد ناصر زیدی کا مقالہ بعنوان ’’خدا شناسی از دید گاہ اقبال و تطبیق آن بابرنی از آرا ملا صدرا‘‘ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اقبال کے تصورِ خدا کا عالمِ اسلام کے نامور فلسفی ملا صدرا کی آرا سے موازنہ کیا ہے۔ ۹۔مقالہ : اقبال اور حلاج مقالہ نگار : ڈاکٹر محمد علی صدیقی مجلہ : ’’قومی زبان‘‘، جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۱۳ تا ۱۸ مقالہ نگار جناب ڈاکٹر محمد علی صدیقی لکھتے ہیں کہ بعض علمائے کرام نے حلاج کو زندیق، شعبدہ باز اور ملحد قرار دیا جب کہ بعض جن میں ابوعبداﷲ خفیف، حضرت عثمان ہجویری، شیخ ابوقاسم گرگانی اور شیخ ابوالعباس شقانی شامل ہیں، حلاج کو صاحبِ اسرار اور کامل بزرگ قرار دیتے ہیں۔ مولانا ابوسلیمان ندوی نے طبری کی سند پر حلاج کے بارے میں بہت اچھی رائے نہیں دی۔ طبری نے اسے شعبدہ باز کہا ہے۔ علامہ اقبال اپنی تصنیف فارس میں مابعد الطبیعیات کے ارتقا (۱۹۰۵ئ) میں حلاج سے برہم نظر آتے ہیں، جب کہ جاوید نامہ (۱۹۳۲ئ) میں یکسر مختلف مؤقف اختیار کر لیتے ہیں۔ اقبال کی فکر و نظر میں یہ تبدیلی مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف کسی نامہ (تاہنوز غیرمطبوعہ) اور آر اے نکلسن کی تصنیف "Idea of Personality in Islamic Mysticism" کی وجہ سے ہے جس میں حلاج کی بھرپور وکالت کی گئی ہے۔ یہ محولہ بالا کتب اقبال کے تحقیقی مقالے کے بعد شائع ہوئیں۔ حلاج کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، وہ بہت متنازعہ مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مقالہ نگار نے تمام علما کے اقوال اور کتب کے حوالے نقل کیے ہیں جن سے حلاج کے نظریات سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ اقبال جاوید نامہ میں فلکِ قمر کی سیر کے دوران حلاج کے گرویدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کی فکری مثلث میں حسین بن منصور کے تصورِ وجدان کو سب سے اعلیٰ درجہ حاصل ہے اور کیوں نہ ہو منصور حلاج نے واقعتا اسلامی تاریخ میں عقل اور وجدان کے مابین منفرد تخلیقی رشتہ قائم کیا ہے۔ ۱۰۔مقالہ : عشق فکرِ اقبال کے آئینے میں مقالہ نگار : فضل حسین قلیل مجلہ : ’’امید‘‘، فروری ۲۰۰۵ء صفحات : ۲۱ تا ۲۲ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے عشق کی روایتی، کہن، لاحاصل اور فرسودہ ہیئت کو ایک نئے رخ اور نئے زاویے میں بدل کر ملک و ملت کے بلند مقاصد اور اعلیٰ و ارفع نصب العین کے لیے فولادی سیرت کے ڈھانچے میں ڈھال دیا۔ علامہ کے خیال میں قوم کی بقا، فروغ و ارتقا اور ترقی و ترویج، اس کے نونہالوں اور نوجوانوں کی عقل و دانش، ہمت و استقامت اور عزم و سطوت کی پختگی اور بلند حوصلگی سے وابستہ ہوتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اپنی سیرت اور کردار کو عشق کی کٹھالی میں ڈال کر اس میں فولاد کی سی سختی اور کندن کی آب و تاب پیدا کر تاکہ تیرا پیکرِ خاکی تمام خام آلائشوں اور کثافتوں سے پاک ہو کر ناقابلِ تسخیر چٹان بن جائے۔ ۱۱۔مقالہ : فکرِ اقبال اور بھوپال مقالہ نگار : پروفیسر آفاق احمد مجلہ : ’’آفاق‘‘، فروری ۲۰۰۵ء صفحات : ۳۲ تا ۳۴ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ اور لاہور کو چھوڑ کر اقبال نے غیرمنقسم ہندوستان کے کسی شہر میں سب سے زیادہ قیام کیا ہے تو وہ بھوپال ہے۔ بھوپال کو اقبال کی آمد سے پہلے ہی ’’دارِ الاقبال‘‘ کہا جاتا تھا لیکن جب پہلی بار اقبال ۹؍مئی ۱۹۳۱ء کو یہاں تشریف لائے اور بھوپال کو ان کے قدم لینے کی سعادت حاصل ہوئی تو یہ ’’دارالاقبال‘‘ اقبال مند بھی ہو گیا۔ بھوپال میں اقبال نے ’’ریاض منزل‘‘ اور ’’شیش محل‘‘ میں زیادہ قیام کیا۔ ضربِ کلیم کا انتساب بھی نواب بھوپال حمیداﷲ خان کے نام ہے۔ پیشِ نظر مقالے میں بھوپال کی فضا میں کہی جانے والی منظومات کا نفسِ مضمون واضح کیا گیا ہے۔ یہ مختصر مضمون اقبال کے قیامِ بھوپال کے حوالے سے ایک دلچسپ تحریر ہے۔ ۱۲۔مقالہ : اقبال اور قادیانیت (ماخوذ ’’حرفِ اقبال‘‘) مرتبہ : مولانا یوسف لدھیانوی مجلہ : ’’سوئے حرم‘‘ صفحات : ۶۹ تا ۷۰ ختمِ نبوت کے عقیدے کے مطابق رسولِ کریم ﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کسی وحی اور الہام کا امکان نہیں جب کہ قادیانیوں کا اعتقاد ہے کہ تحریکِ احمدیت کا بانی ایسے الہام کا حامل تھا۔ قادیانی اخبار سن رائز نے ایک دفعہ اپنی اشاعت میں اقبال پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے تو علامہ اس تحریک کو اچھا سمجھتے تھے، اب خود ہی اس کے خلاف بیان دینے لگے تو اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے اپنا مؤقف یوں بیان کیا: ذاتی طور پر اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا جب ایک نئی نبوت نے بانیِ اسلام کی نبوت سے اعلیٰ ترین نبوت کا دعویٰ کیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا۔ جب میں نے تحریک کے رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرت ﷺ کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا۔ اگر موجودہ رویے میں کوئی تناقض ہے تو بھی یہ ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے۔ ۱۳۔مقالہ : اقبال پر ایک اور نظر مقالہ نگار : سرور جاوید مجلہ : ماہنامہ ’’اظہار‘‘ کراچی، جنوری ۲۰۰۵ء صفحات : ۳۸ تا ۴۱ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ اقبال کو شاعرِ اسلامی کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اقبال کا کلام نسل در نسل اقوالِ زرّیں کی طرح سفر کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف مسلم نشاۃِ ثانیہ کے فکری اور سماجی زوال کے فوری اسباب پیشِ نظر تھے تو دوسری جانب کارل مارکس اور اینگلز کا فلسفۂ اشتراکیت اپنے عروج کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ اقبال نے ان تمام رجحانات کو فکر و تفکر کی سطح پر جمالیاتی اظہار کے ساتھ اپنی شاعری کا جزو بنایا۔ اقبال کو بطور شاعر سمجھنا اور پڑھنا ہی ان کی اصل شخصیت کا ادراک فراہم کر سکتا ہے۔ شاعرِ مملکت تو انھیں معاشرے نے بنایا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال آفاقی شاعر ہیں جن کی فکر سے ہر عہد اور ہر نسل فیض حاصل کرتی رہے گی۔ ۱۴۔مقالہ : علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ مقالہ نگار : پروفیسر محمد سرور مجلہ : ’’الشریعۃ‘‘، فروری ۲۰۰۵ء صفحات : ۱۱ تا ۱۶ پروفیسر محمد سرور مرحوم کی تصنیف افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی سے یہ اقتباس رسالہ الشعریعہ میں شامل کیا گیا ہے جو اقبال کے افکار و خیالات پر مولانا سندھی کی ناقدانہ رائے پر مشتمل ہے۔ مولانا سندھی شیخ القرآن شیخ الحدیث تھے۔ ان کے مزاج اور افکار میں انقلاب کا جذبہ موجزن تھا۔ وہ اسلام کے انقلابی تصور کو عام کرنا چاہتے تھے۔ انگریز کے دشمن تھے اسی سبب انگریزوں کے عہد میں جلاوطنی کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ۱۵۔مقالہ: اقبال کا ذہنی و فکری ارتقا مقالہ نگار: ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار مجلہ: ’’اقبال‘‘۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء صفحات: ۱۱تا ۳۶ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب لکھتے ہیں، ’’علامہ اقبال کی سرگزشتِ حیات کے مآخذ ان کی زندگی میں ماسوا ان کی شاعری اور خطبات اور چند علمی مضامین و تالیفات کے بہت کم منظرِ عام پر آئے ہیں۔ اقبال نے اپنی ایک ذہنی سرگزشت لکھنے کا ذکر کیا ، جس کا تذکرہ ان کے مکاتیب بنام سیّد سلمان ندوی، بنام وحید احمد مدیر نقیب (بدیواں) میں ملتا ہے۔ اقبال رسمی طور پر سرگزشت تونہ لکھ سکے مگر اس سرگزشت کا حاصل کلام اقبال کے کلام و پیام میں پھیلا ہوا ہے۔‘‘ اقبال نے اپنی ذہنی و فکری ارتقا کی صورت گری کی راہ اپنے کلام میں خود واضح کردی تھی اور اپنے تمام مجموعہ ہائے کلام کو زمانی ترتیب میں رکھ کر، ذہنی ارتقا کے عمل کی وضاحت بھی کی، مثلاً بانگِ درا اردو کے شعری مجموعے کے تین ادوار خود انھوں نے قائم کیے۔ اسی طرح اسرار ورموز کے بعد فارسی میں پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، مثنوی مسافر، پس چہ باید کرد، ارمغانِ حجاز اور پھر اردو مجموعے بال جبریل اور ضربِ کلیم اس ترتیب سے سامنے آئے جو اقبال کے ذہنی و فکری ارتقا کے تسلسل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’اقبال کے ذہنی و فکری ارتقا کے سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے شروع میں وہ ایک شاعر کے ساتھ ساتھ سیاسی مفکر، مدبر اور پیام بر کے طور پر بھی ایک مقصد اور پیام لے کر گامزن سفر ہوئے۔ ان کا یہ اصلاحی کلام بھی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔‘‘ ۱۶۔مقالہ : اقبال اور حدیث مقالہ نگار : ڈاکٹر حافظ منیر احمد خان مجلہ : اقبال۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء صفحات : ۳۷۔ ۶۳ زیرِ نظر مقالے میں مشہور مثنوی جاوید نامہ میں علامہ اقبال نے جن اشعار میں قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی کو بطور تلمیح استعمال کیا ہے، ان کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات سے متعلقہ احادیثِ نبوی اور روایات کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح کلامِ اقبال کا مفہوم احادیثِ نبوی کی روشنی میں عام پڑھنے والوں کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے واضح ہوجاتا ہے۔ مقالہ نگار نے مثال کے طور پر نمونے کے اشعار مع ترجمہ اور ان کی تشریح احادیثِ نبوی کی روسنی میں سلجھے ہوئے انداز میں پیش کی ہے۔ ۱۷۔تعارف: اقبال اور میر صاحب تعارف کنندہ: ادارہ مجلہ : ماہنامہ ’’سوئے حرم‘‘۔ اپریل ۲۰۰۵ء صفحات : ۱۰۳ تا ۱۰۴ ایس اے حمید المعروف بہ ’’میر صاحب‘‘ پاکستان کے معروف کارٹونسٹ ہیں۔ ان کے کارٹون روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہور اور روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حمید صاحب ۷ جنوری ۱۹۲۴ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ نسبی لحاظ سے ان کا تعلق علامہ اقبال کی ہمشیرہ کے خاندان سے ہے۔ میر صاحب بسلسلہ روزگار بیروت، دمشق، شام، قاہرہ، ایران، عراق، اردن اور فلسطین میں مقیم رہے۔ میر صاحب کو علامہ سے اپنے رشتے کی وجہ سے زیادہ، اُن کے والہانہ کلام کی وجہ سے گہری عقیدت ہے۔ چنانچہ انھوں نے ۱۹۹۵ء میں علامہ اقبال کا ’’مصور زندگی نامہ‘‘ پیش کرنے کا عزم کیا۔ میر صاحب اب تک تقریباً سو سے زیادہ تصویریں بناچکے ہیں، جن میں علامہ صاحب کی زندگی ، بچپن، جوانی، بڑھاپا، دُکھ سکھ، عبادت، پڑھائی، وکالت، شاعری، مشاعرے، ملکی اور غیر ملکی سفر، سیاست، سوشل ورک، مشہور ہستیوں سے ملاقاتیں، پارٹیاں، کھیل کود، شادیاں، جدائیاں، غرض کہ علامہ کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا، جسے مصور نہ کیا گیا ہو۔ ۱۸۔مقالہ : اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار مقالہ نگار : ڈاکٹر تحسین فراقی مجلہ : اقبال اپریل تا جون ۲۰۰۵ء صفحات : ۲۷ تا ۴۲ زیرِ نظر مقالے میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے پہلے تو اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ کیا ادب کی آزاد حیثیت کسی یہودی، عیسوی یا اسلامی سابقے کی متحمل ہوسکتی ہے اور کیا ایسا کرنا ادب کی لامحدود وسعتوں کو زنجیر کرنے کے مترادف نہ ہوگا؟ اُن کا خیال ہے کہ مذہبی عقائد کی حامل شاعری قاری کی لیے زنجیرِ پا نہیں ہوتی، بشرطیکہ یہ عقائد شاعری کے تاروپود میں اس طرح حل ہوجائیں کہ ’’بوبگلاب اندر‘‘ کی صورت پیدا ہوجائے۔ اقبال اپنے اوّلین اردو شعری مجموعے اور اپنے اوّلین فارسی شعری مجموعے سے لے کر اپنی آخری شعری دستاویز ارمغانِ حجاز تک ایک ہی تصّورِ شعر کو نئے سے نئے اور تازہ بہ تازہ شعری پیکر و پیرہن میں تسلسل سے بیان کرتے رہے۔ اسلامی ادب کی ترویج کے ضمن میں اسرارِ خودی، زبورِ عجم اور ضربِ کلیم خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان تینوں تخلیقات کی تشریح کے بعد ڈاکٹر تحسین فراقی نے یہ نتیجہ نکالا ہے:’’دل کی تہوں سے نکلا اور خونِ جگر سے پلا اقبال کا کلام، ادبِ اسلامی کا ایک لازوال نمونہ ہے…۔‘‘ اقبال نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں اپنے بارے میں دو ٹوک انداز میں کہا تھا: میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہووں کی جستجو ۱۹۔تبصرہ : محمد علی صدیقی کی ’’تلاشِ اقبال‘‘ کا ایک جائزہ مبصر : عبدالحمید کمالی مجلہ : ’’اقبال‘‘۔ اپریل تا جون ۲۰۰۵ء صفحات : ۴۳ تا ۴۸ فاضل تبصرہ نگار نے پہلے تو محمد علی صدیقی کے ادبی مبصر، نقاد اور پاکستانیت کے ماہر ہونے کی حیثیت سے تعارف کراتے ہوئے تعریف و تحسین کی ہے، اُن کی سابقہ تنقیدی تصانیف توازن (۱۹۷۶ئ)، نشانات (۱۹۸۱ئ) اور تازہ تالیف تلاشِ اقبال میں جو مقامات انھیں قابلِ تنقید اور قابلِ گرفت لگے، اُن کو بیان کیا ہے، پھر اُنھیں اِس تالیف میں جو تازہ نکات نظر آئے، اُن کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: چھٹا اور ساتواں باب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ’’اقبال اور حلاّج‘‘، ’’علامہ اقبال اور قرۃ العین طاہرہ‘‘، البتہ ’’اقبال: جہانِ دیگر‘‘، ’’اقبال اور فیض‘‘ پندرھواں اور سولھواں باب بس تشنہ سے ہیں۔ مندرجہ عنوانات بہت بلند پایہ ہیں۔’’علامہ اقبال کا فلسفۂ خودی اور وحدت الوجود‘‘ ’’مجدّد الف ثانی‘‘، اقبال اور تصوف‘‘، یہ تینوں مضامین (باب ۲ سے باب۴ تک) بہت محققانہ ہیں، بلکہ ان کے بارے میںیہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ خاص اس موضوع پر مزید معروضی تحقیق اور خلّاقانہ جستجو کے لیے نہایت ہی مستند خاکے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ انھو ں نے بہت ہی کاوش سے حال تک تمام حوالہ جات جمع کیے ہیں جن سے ان مضامین و مقالات کی اہمیت اور افادیت بہت ہی بڑھ گئی ہے۔‘‘ ۲۰۔مقالہ : اقبال اور اکتسابِ سخن بحوالہ مرزا داغ دہلوی مقالہ نگار : عبدالکریم قاسم مجلہ : ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘ ۲۰۰۵ء صفحات : ۱۵۵ تا ۱۶۸ شیخ عبدالقادر، محمد عبداﷲ قریشی، سیّد عابد علی عابد، لالہ سری رام وغیرہ کی تحقیق کے مطابق اقبال اپنے ابتدائی دور میں اپنے استاد میر حسن، مرزا ارشد گورگانی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری، ناظم لکھنوی اور مرزا داغ دہلوی سے اپنی غزلوں اور نظموں میں اصلاح لیتے رہے ہیں۔ اس مقالے میں مرزا داغ دہلوی سے اکتسابِ سخن کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا گیاہے۔ مقالہ نگار نے اقبال کی ابتدائی دو غزلوں ’’جان دے کر تمھیں جینے کی دُعا دیتے ہیں‘‘ اور ’’کیا مزہ بلبل کو شیوۂ بیداد کا‘‘ کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’یہ ابتدائی غزلیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اقبال نے غزلیں چھپوانے سے ایک دو سال پہلے داغ سے بذریعہ خط اصلاح لی ہوگی، کیوں کہ اقبال ایسے شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ بغیر اصلاح کے انھوں نے اپنے آپ کو ’’تلمیذ بلبلِ ہند حضرت داغ دہلوی‘‘ لکھ دیا ہو۔‘‘ ۲۱۔مقالہ : اقبال کا کچھ غیرمتداول کلام مقالہ نگار : اکبر حیدری کاشمیری مجلہ : سہ ماہی ’’فکر و تحقیق‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء قومی کونسل برائے فروغِ اردو، نئی دہلی صفحات : ۲۱ تا ۴۰ پروفیسر اکبر حیدری اقبال کے عاشق، کلامِ اقبال کے پرستار اور اقبالیات کے نکتہ شناس ماہر ہیں۔ نوادرات و باقیاتِ اقبال کی جستجو میں منہمک رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اِس تحقیقی مقالے میں بھی اقبال کے کچھ غیر متداول کلام کی نشان دہی کی ہے، مثلاً اقبال کی ایک طویل نظم ’’شمعِ ہستی‘‘ جو وحید الدین سلیم پانی پتی نے ماہانہ جریدے معارف علی گڑھ میں شائع کی تھی، وہ چند غزلیں جو اودھ پنچ لکھنو، دستورِ آصفی اور مخزن میں شائع ہوئیں، لیکن باقیاتِ اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ یا مثلاً نظم ’’کچلول‘‘ جو مخزن کے شمارے بابت جون ۱۹۰۲ء میں چھپی تھی، لیکن بانگِ درا میں شامل نہیں کی گئی، البتہ باقیاتِ اقبال میں کسی حوالے کے بغیر شامل کی گئی ہے۔ اِن چند باقیات کے علاوہ ایک قابلِ ذکر بات وحید الدین سلیم اور ڈاکٹر تارا چرن رستوگی کے سوانحی خاکے ہیں۔ اسی طرح اودھ پنچ کے بارے میں نئی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’اودھ پنچ کی اوّلین اشاعت کے بارے میں اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ محمد عبداﷲ قریشی، بشیر احمد ڈار اور ان کی تقلید میں جگن ناتھ آزاد نے بھی سالِ اجرا ۱۹۱۶ء قرار دیا ہے۔ جب کہ پہلا پرچہ ۱۶ جنوری ۱۸۷۷ء کو منشی سجاد حسین کاکوروی کی ادارت میں شائع کیا گیا تھا… اودھ پنچ ہمیشہ کلامِ اقبال کو تنقید کا ہدف بنانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اخبار نے بانگِ درا اور بالِ جبریل کو بھی نشانہ بنایا تھا۔‘‘