اقبالیات سرپرست: عرفان صدیقی ( مشیر وزیر اعظم برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ) رئیس ادارت: محمد سہیل مفتی مدیر: ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نائب مدیر: ارشاد الرحمن مجلس ادارت پروفیسر فتح محمد ملک، افتخار عارف، ڈاکٹر عبد الخالق، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر معین نظامی، ڈاکٹر نعیم احمد، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر بقائی ماکان (ایران)، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (مصر)، سویامانے یاسر (جاپان)، ڈاکٹر خلیل طوق آر (ترکی)، ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ (جرمنی)، ڈاکٹر مستنصر میر (امریکہ)، ڈاکٹر عبدالحق (بھارت) مجلس مشاورت منیب اقبال، بیرسٹر ظفر اللہ خان، ڈاکٹر محمد اکرم اکرام، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی، ڈاکٹر ایوب صابر، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر سید جاوید اقبال، ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ڈاکٹر خالد ندیم، ڈاکٹر محمد عمر میمن (امریکہ)، ڈاکٹر جلال سیدان (ترکی)، ڈاکٹر تاش میرزا (ازبکستان)، ڈاکٹر قاضی افضال حسین (بھارت)، ڈاکٹر عبد الکلام قاسمی (بھارت) اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 اقبالیات جولائی -ستمبر ۲۰۱۳ئ: طباعت مارچ ۲۰۱۶ء بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ اقبال کا فلسفہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۵ خ اقبال اور تصوف __ چند تنقیحات منظور احمد ۳۷ خ اقبال اور سیکولرازم بشیر احمد ڈار ۴۹ خ اقبال کے ہاں تقدیر کا تصور خلیفہ عبدالحکیم ۵۷ خ اقبال کا تصور زمان و مکان ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ۶۳ خ اقبال: مثالی دارالعلوم کا تصور بختیار حسین صدیقی ۷۱ خ اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو ڈاکٹر وحید اختر ۸۹ خ اردو غزل کی روایت اور اقبال شمس الرحمن فاروقی ۱۰۳ خ استدراک ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۱۵ خ اقبالیاتی ادب شعبہ ادبیات ۱۱۹ قلمی معاونین ڈاکٹر محمد رفیع الدین سابق ناظم اقبال اکادمی پاکستان، کراچی منظور احمد سابق ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد بشیر احمد ڈار سابق ناظم اقبال اکادمی پاکستان، لاہور خلیفہ عبدالحکیم سابق ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی سابق پروفیسر اینڈ سینئر ریسرچ فیلو، پنجاب یونیورسٹی، لاہور بختیار حسین صدیقی سابق استاد گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فارمین، لاہور ڈاکٹر وحید اختر سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، انڈیا شمس الرحمن فاروقی ۲۹، سی ہیسٹنگز روڈ، الٰہ آباد ۲۱۱۰۰۱، یوپی، انڈیا ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۲۸۔ ڈی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور اقبال کا فلسفہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ایک مفکر کی حیثیت سے اقبال نے جن تصورات کو پیش کیا ہے ان کا سرچشمہ صرف ایک تصور ہے جسے اقبال نے ’’خودی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اقبال کے تمام حکیمانہ تصورات اسی تصور سے ماخوذ ہیں اور اس سے ایک علمی اور عقلی تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام تصورات خود ایک دوسرے کے ساتھ بھی علمی اور عقلی رشتہ میں منسلک ہیں اور اقبال کا فکر ایک ایسے نظامِ حکمت کی صورت میں ہے جس کا ہر تصور دوسرے تمام تصورات سے علمی اور عقلی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہم اس نظام کے مرکز یعنی تصورِ خودی کو ٹھیک طرح سے نہ سمجھیں ہم اقبال کے کسی تصور کو بھی ٹھیک طرح نہیں سمجھ سکتے اور اس کے برعکس جب تک ہم اقبال کے ہر تصور کو جو اس کے نزدیک تصورِ خودی کے حاصلات یا مضمرات میں سے ہے ٹھیک ٹھیک نہ سمجھ لیں ہم خودی کے تصور کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے۔ گویا اقبال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے افکار کو الگ الگ کرکے اپنے غور و فکر کا موضوع نہ بنائیں بلکہ اس کے پورے فکر کا مطالعہ ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے کریں۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کا ہر تصور ایک پورے نظامِ فکر کا جزو ہے اور یہ پورا نظامِ فکر اس کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے تو ہم اسے اس نظام کے جزو کی حیثیت سے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے جدا کرکے نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی اس نظام کے کسی پہلو کو نظر انداز کرکے یا حذف کرکے یا غیر ضروری قرار دے کر سمجھ سکتے ہیں۔ جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کو اس کے پورے نظامِ فکر کی روشنی میں اور اس کے باقی ماندہ تمام تصورات کی مدد سے نہ سمجھیں وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور ہو تو ہو اقبال کا تصور نہیں ہوسکتا۔ اقبال کا تصور تو وہی ہوسکتا ہے جس کی ماہیت اس کے پورے نظامِ فکر نے معین کی ہو۔ جب ہم ایک نظام فکر کے کسی جزو کو اس سے الگ کر دیں تو وہ اسی طرح سے مردہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ جسم حیوانی کا ایک عضو جب جسم سے کاٹ دیا جائے تو مردہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول فہم اقبال کے لیے ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبال کا مطالعہ کرنے والوں یا اقبال پر لکھنے والوں میں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، آج اقبال کے نظریات کے بارے میں جس قدر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جس قدر مباحثے یا اختلافات موجود ہیں یا جس قدر ان نظریات کو نادانستہ طور پر اپنے اپنے خیالات کی تائید کے لیے استعمال کرنے کی غلط کوششیں کی جا رہی ہیں ان سب کا باعث یہی ہے کہ انھوں نے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود فکر یا حکمت کی نوعیت کیا ہے؟ اور ہمیں اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر اقبال کا فکر ایک نظامِ حکمت کی صورت میں کیوں ہے؟ اقبال نے ایک ہی حقیقت پر اپنے تمام افکار کی بنیاد کیوں رکھی ہے؟ کیا اقبال کا یہ طرزِ عمل ضروری تھا یا محض اتفاقی ہے؟ہم شاید اس سوال کو نظر انداز کرسکتے تھے لیکن فکر اقبال کی تشریح کے لیے اس سوال کو اُٹھانا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میںلگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں اچانک وہ آنکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اسے کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کیونکہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے اور اپنی حقیقت وہ اس لیے جاننا چاہتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی زندگی کا اصلی مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ اس سے اپنے لیے اس دنیا میں یا کسی اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج و ثمرات حاصل کرسکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب حاصل کرلے گا تو اسے اپنے آپ کے متعلق بھی ہر قسم کے سوالات کا تسلی بخش جواب مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی ر وشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کرسکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریق سے کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے۔ گویا اس کے لیے حقیقت کائنات کی تلاش نہ تو کوئی تفریحی مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ، بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بُری تشفی اس کی روزمرہ زندگی کی تمام چھوٹی بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔ یہ غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکماء یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل آج تک کوئی تندرست فرد بشر جاہل یا عالم ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوسکتا ہے جو حقیقت کائنات کا کوئی اچھا یا بُرا، صحیح یا غلط، جاہلانہ یا عالمانہ، مختصر یا مفصل، منظم یا غیر منظم تصور نہ رکھے اور اپنی ساری عملی زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکماء یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتادِ طبیعت کے لحاظ سے حقیقت کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرنے اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اور مستعد ہوتے ہیں جس طرح سے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے میں یا کپڑا بننے میں یا اور ضرورت کی چیزیں بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں اسی طرح نوع بشر کے حکماء و فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ذہنی یا روحانی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقت کائنات کے متعلق خود ان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیں۔ لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور ناقابلِ التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق و تجسس کے ایسے نتائج کا انتظار نہیں کرتے جو آئندہ دستیاب ہونے والے ہوں اور جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کرکے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں۔ لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی فلسفی کے نظریہ سے متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں۔ تاریخ کے اکثر بڑے بڑے انقلابات فلسفیوں، حکیموں اور دانائوں کی فکر کی پیداوار ہیں۔ حکماء اور فلاسفہ ہر دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے جو بعد میں آتے ہیں اپنے متقدمین کے فکر کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے ان کے اختلافات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ فلسفیوں اور حکیموں کا گروہ آج تک حقیقت کائنات کا صحیح تصور پیش کرنے سے قاصر رہا ہے تاہم جب سے اس گروہ نے حقیقت عالم پر غور و فکر شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک ایک پُراسرار وجدانی شہادت کی بنا پر اس بات کا پختہ یقین ان پر غالب رہا ہے کہ کائنات ایک یکساں کل یا وحدت ہے یعنی وہ فاصلہ اور وقت دونوں کے لحاظ سے ایسے منطقوں یا حصوںمیں بٹی ہوئی نہیں جن میں متضاد قسم کے قوانین قدرت جاری ہوں۔ کائنات کے قوانین مسلسل اور مستقل ہیں۔ وہ نہ صرف ہر جگہ ایک ہی ہیں بلکہ ہر زمانہ میں بھی ایک ہی رہتے ہیں۔ وحدت عالم کا یہ فطری اعتقاد تمام بڑے بڑے حکیموں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کے فکر میں خواہ وہ تصور پرست ہوں یا مادہ پرست ایک قدر مشترک کا حکم رکھتا ہے۔ اگرچہ کوئی بڑا فلسفی یا سائنسدان اس کی صحت کی دلیل طلب نہیں کرتا بلکہ آغاز ہی سے اسے اپنے مسلمات میں شمار کرتا ہے تاہم اس کی صحت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ وہ آج تک غلط ثابت نہیں ہوسکا۔ سائنس اور فلسفہ کی تمام ترقیات جو اب تک وجود میں آئی ہیں ان کی بنیاد یہی حقیقت ہے اور وہ سب مل کر اس کی صحت کی شہادت دیتی ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ اگر جویان حق و صداقت اور طالبان علم و حقیقت اس عقیدہ سے آغاز نہ کرتے اور یہ عقیدہ صحیح نہ ہوتا کہ کائنات ایک وحدت ہے اور اس کی تعمیر کے اندر ایک تسلسل موجود ہے جو کہیں نہیں ٹوٹتا، تو سائنس اور فلسفہ دونوں ممکن نہ ہوتے، یہی وہ عقیدہ ہے جو سائنسدان اور فلسفی دونوں کو اپنے اپنے دائرہ میں علمی تحقیق کے لیے اکساتا ہے اور اسی کی تصدیق سے وہ اپنی علمی تحقیق کے نتائج پر مطمئن ہوتا ہے اور اس کی راہ پر آگے قدم اُٹھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر فلسفی یا سائنسدان کو معلوم ہو جائے کہ جو علمی حقیقت (Scientific Fact) اس نے دریافت کی ہے وہ محض وقتی اور مقامی ہے اور اس کی متبادل یا متوازی علمی حقیقتیں (Scientific Facts) اس کائنات میں بہت سی ہیں یا آئندہ ہوسکتی ہیں تو وہ اپنی تحقیق کے اس نتیجہ کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دے گا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے ایک انسان کے لیے تو وحدت عالم کا عقیدہ ناگزیر ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے اور اسی کا مقصد پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ اسی طرح سے ایک تصور پرست فلسفی کاحکیمانہ زاویۂ نگاہ بھی اس عقیدہ کا تقاضا ہے لیکن یہ بات معنی خیز ہے کہ حکمائے مادیین بھی اس عقیدہ سے پہلو تہی نہیں کرسکے۔ وحدت کائنات کا مسلمہ ہمیں کئی نتائج کی طرف راہ نمائی کرتا ہے: اوّل: کسی کثرت کے اندر وحدت کا ہونا نظم کے بغیر ممکن نہیں اور نظم ایک مرکزی اصول کے بغیر محال ہے لہٰذا کوئی تصور ایسا ہونا چاہیے جو کائنات کی وحدت کا اصول ہو۔ جو ایک ایسے رشتہ کی طرح ہو جو کائنات کی کثرت کو پرو کر ایک وحدت بناتا ہو۔ دوم: کائنات کی وحدت کے اصول کو کائنات کی آخری اور بنیادی حقیقت ہونا چاہیے۔ اور باقی تمام حقائقِ عالم کو اس کے مظاہر۔ کیونکہ اگر وہ اس حقیقت کے مظاہر نہ ہوں تو وہ ان میں اتحاد و نظم پیدا نہیں کرسکتی اور نہ ہی وہ حقائق اپنی فطرت کے اختلافات کی وجہ سے اس قابل رہتے ہیں کہ ان میں اتحاد یا نظم پیدا کیا جاسکے۔ سوم: کائنات کی وحدت بطور وحدت کے عقلی طور پر سمجھ میں آنی چاہیے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام حقائقِ عالم، کائنات کی بنیادی حقیقت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ عقلی طور پر وابستہ ہوں اور اس باہمی وابستگی کے سبب سے ایک ایسی زنجیر کی صورت اختیار کریں جن کا پہلا اور آخری حلقہ کائنات کی وہی بنیادی حقیقت ہو اور جس کے تمام حلقے ایسے ہوں کہ ہر حلقہ اگلے حلقہ کی طرف راہنمائی کر رہا ہو۔ حکماء حقائقِ عالم کی ایک ایسی ہی زنجیر کو نظامِ حکمت (Philosophical System) کا نام دیتے ہیں۔ چہارم: اگر ہم حقائق عالم میں سے کسی حقیقت کی علت بیان کریں تو وہ علت اس حقیقت کی تشریح تو کر دیتی ہے لیکن خود کئی سوالات پیدا کر دیتی ہے اور پھر ان سوالات کا جواب اور سوالات پیدا کرتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر کائنات کو ایک وحدت مانا جائے تو ضروری ہے کہ ان پے در پے نمودار ہونے والے سوالات کا آخری جواب اورہر حقیقت کی فطرت ہو جو حقیقت الحقائق ہے۔ پنجم: اصولِ وحدتِ کائنات یا حقیقت کائنات کے ہزاروں تصورات ممکن ہیں لیکن ان میں صحیح تصور صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو کائنات کی وحدت ختم ہو جاتی ہے اور ضروری ہے کہ کائنات کے تمام صحیح اور سچے حقائق صرف اسی ایک تصور کے ساتھ عقلی اور علمی مناسبت رکھیں اور اسی کے ساتھ علمی اور عقلی لحاظ سے وابستہ ہوں اور حقیقت کائنات کے کسی دوسرے غلط تصور کے ساتھ مطابقت نہ کرسکیں اور جب کائنات کا صحیح نظام حکمت وجود میں آئے تو اس کا بنیادی یا مرکزی نکتہ یہی صحیح تصور ہو۔اگر کوئی ایک سچی علمی حقیقت بھی ایسی ہو جو کسی نظامِ حکمت کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نظامِ حکمت کسی غلط تصورِ حقیقت پر مبنی ہے اور اگر کوئی علمی حقیقت جسے علمی حقیقت سمجھا جا رہا ہو کسی صحیح نظامِ حکمت کے ساتھ جو صحیح تصور حقیقت پر مبنی ہو، مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ علمی حقیقت علم اور عقل کے معیاروں پر پوری نہ اُتر سکے گی۔ غلط تصورات صحیح نظامِ حکمت کے اندر نہیں سما سکتے اور صحیح تصورات غلط نظامِ حکمت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے لیکن صحیح نظامِ حکمت ہر دور میں تمام صحیح تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ا ور یہی اس کی صحت کا معیار ہے۔ ششم: وحدتِ کائنات حقائقِ عالم کی عقلی ترتیب و تنظیم کو چاہتی ہے اور یہ ترتیب و تنظیم ہمارے معلوم اور نامعلوم حقائق کے درمیان ایک رابطہ یا کشش پیدا کرتی ہے اور ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم معلوم حقائق کی مدد سے نامعلوم حقائق کو پیہم دریافت کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ حقائق عالم کے سلسلہ کی ساری کڑیاں اپنی اصلی عقلی ترتیب کے ساتھ ہمارے احاطۂ علم میں آجائیں۔ سائنسدان اور فلسفی دونوں اس کام کو انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کوششوں سے روز بہ روز معلوم حقائق کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جوں جوں ان کی تعداد زیادہ ہوتی جائے گی، صحیح اور سچے تصورِ حقیقت کے ساتھ ان کے مجموعے کی علمی اور عقلی مناسبت بڑھتی جائے گی اور ہر غلط تصورِ حقیقت کے ساتھ کم ہوتی جائے گی۔ اور ہم اپنے وجدان کی شہادت کی بنا پر زیادہ آسانی کے ساتھ بتا سکیں گے کہ حقیقت کائنات کا کون سا تصور ایسا ہے جو ان حقائق کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور کون سا ایسا ہے جو مناسبت نہیں رکھتا اور اس طرح سے ہم صحیح تصور حقیقت اور اس پر قائم ہونے والے صحیح نظامِ حکمت کے قریب آتے جائیں گے۔ ہفتم: صحیح نظامِ حکمت جب وجود میں آئے گا تو ابتدا میں لازماً مختصر ہوگا اور پھر جوں جوں معلوم حقائق کی تعداد بڑھتی جائے گی اور وہ اس کے اندر سماتے جائیں گے تو وہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، نئے دریافت ہونے والے حقائق علمی کی تائید و توثیق کی وجہ سے یہ نظام حکمت روز بہ روز زیادہ مفصل اور منظم اور معقول ہوتا جائے گا۔ اور اسی نسبت سے غلط نظام ہائے حکومت دن بہ دن اپنی معقولیت کھوتے جائیں گے حتیٰ کہ دنیا بھرمیں یہ تسلیم کرلیا جائے گا کہ یہی نظامِ حکمت ہے جو ہر لحاظ سے درست اور تسلی بخش ہے۔ اس نظامِ حکمت کے وجود میں آنے کے بعد تمام علوم کی ہر ترقی یا تو اس کی تائید کرے گی یا پھر وہ کوئی ترقی ثابت نہ ہوگی۔ کیا وحدت کائنات کا باعث یہ ہے کہ فی الواقع اس کا کوئی خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے اور کیا وحدت کائنات پر انسان کے غیر شعوری وجدانی اعتقاد کا سرچشمہ اس کی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کائنات کا کوئی خالق مانے۔ اور وہ خالق ایک ہی ہو۔ یہاں ان سوالات کے تحقیقی جواب کا موقع نہیں لیکن یہ گزارش کر دینا بے محل نہ ہوگا کہ قرآن حکیم نے کائنات کی وحدت کی طرف پُرزور الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور اس کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔ {الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ O ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ} (سورۃ الملک: ۳،۴) آپ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی فرق نہ دیکھیں گے۔ ذرا نظر لوٹائیے اور کائنات کا مشاہدہ کیجیے۔ کیا آپ کو خدا کی اس تخلیق میں کہیں کوئی تفاوت نظر آتا ہے پھر دوبارہ نظر دوڑائیے اور دیکھیے۔ نگاہیں مایوس اور درماندہ ہو کر لوٹیں گی کہ خدا کی تخلیق میںکہیں کوئی تفاوت نہیں۔ {قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ} (سورۃ الاحقاف: ۴) اے پیغمبر! کہیے کیا تمھیں معلوم ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر کس کی عبادت کرتے ہو۔ مجھے بتائو تو سہی کہ آیا انھوں نے زمین میں کچھ پیدا کیا ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ یعنی اگر کائنات کی تخلیق میں خدا کے ساتھ کوئی اور شریک ہوتا تو زمین و آسمان میں کہیں تو اس کی اپنی تخلیق کا نشان ملتا جہاں جدا قسم کے قوانین قدرت نافذ ہوتے۔ ظاہر ہے کہ منکرین قرآن حکیم کے اس سوال کے جواب میں اسی کائنات کا ایک حصہ پیش کرکے معقولیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ حصہ خدا کے اس شریک نے پیدا کیا جسے ہم مانتے ہیں۔ کیونکہ جب کائنات کے اس حصہ میں بھی قوانین قدرت وہی ہیں جو باقی کائنات میں ہیں تو کس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا خالق وہی نہیں جو باقی کائنات کا ہے۔ دوسرے فلسفیوں کی طرح اقبال بھی کائنات کو اس کی رنگا رنگی اور بوقلمونی کے باوجود ایک وحدت قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ دوسرے فلسفوں کی طرح ایک نظامِ حکمت ہے۔ لیکن اقبال میں اور دوسرے فلسفیوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک کائنات کی وحدت کا اصول یا حقیقت کائنات جو کائنات کی کثرت کو ایک وحدت بناتی ہے حق تعالیٰ کا وجود ہے ان صفات کے ساتھ جو خاتم الانبیاء کی تعلیمات میں اس کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور دوسرے فلسفیوں میں سے ہر ایک حقیقت کائنات کا جو تصور قائم کیے ہوئے ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ خدا وہ اصول ہے جو پوری کائنات کو ایک کرتا ہے۔ لہٰذا خدا کے عاشق کے دل میں پوری کائنات سما جاتی ہے۔ انسانی انا ایک ہے۔ لیکن اس کے خارجی اثرات بہت سے ہیں۔ وہ مخفی بھی ہے لیکن اس کے افعال آشکار ہیں۔ اسی طرح سے ذات حق ایک ہے لیکن کائنات کی کثرت میں اس کا ظہور ہوا ہے۔ ذاتِ حق مخفی ہے لیکن کائنات کی تخلیق نے اسے آشکار بنا دیا ہے۔ اور یہ حقیقت اسرارِ کائنات کو منکشف کرنے والی ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی اسرارِ ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی اوپر میں نے ’’علمی حقیقت‘‘ کی اصطلاح کا ذکر کیا ہے۔ اس اصطلاح کا مفہوم واضح کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ نہ صرف پوری کائنات ایک وحدت ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز جسے ہم جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں، ایک وحدت ہے۔ یا کم از کم ہم اسے ایک وحدت ہی کے طور پر جان سکتے ہیں اور کسی حیثیت سے نہیں جان سکتے۔ اگر وہ ایک وحدت نہ بن سکے تو ہم اسے جان بھی نہیں سکتے اور وہ ہمارے لیے قطعاً بے معنی ہے۔ کئی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور پھر کئی بڑی بڑی وحدتیں مل کر اس سے بھی بڑی ایک وحدت بناتی ہیں۔ و علیٰ ہذا القیاس۔ یہاں تک کہ ہم سب سے بڑی وحدت یعنی پوری کائنات پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی بڑی وحدت چھوٹی وحدتوں کا فقط ایک مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک کل (Whole) کی صورت میں ہوتی ہے جو ہمیشہ اپنے اجزا یا عناصر سے بڑھ کر ہوتا ہے اور جس کی تشریح یا تفہیم فقط اس کے اجزا یا عناصر سے نہیں ہوسکتی جیسے کہ ایک جسم حیوانی کہ وہ فقط اعضاء کے مجموعہ کا نام نہیں یا جیسے کہ ایک خوبصورت شاہکار ہنر جس کی دلکشی اس کے اجزاء پر نہیں بلکہ ایک مجموعی کیفیت پر موقوف ہوتی ہے جو اجزاء کی ترکیب کا ایک پُراسرار نتیجہ ہے۔ کسی وحدت کو جاننے کے لیے ہمیں قدرت نے جو استعداد بخشی ہے وہ وجدان (Intuition) ہے۔ وحدت کا وجدان ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمارا تمام علم فقط وجدانی تصورات یا اعتقادات کے ایک سلسلہ سے مرتب ہوتا ہے اور ہمارے علم کے د رست یا غلط ہونے کا سارا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ہمارے یہ اعتقادات درست ہیں یا غلط۔ عام طور پر سمجھتا جاتا ہے کہ ہم حواس یا عقل کے ذرائع سے بھی جانتے ہیں اور اپنی علمی جستجو میں سائنسدان کا دار و مدار زیادہ تر حواس پر ہوتا ہے اور فلسفی کا عقل پر۔ لیکن دراصل حواس اور عقل دونوں ہمارے وجدان کے مددگار ہیں یہ خود نہ وحدتوں کو جانتے ہیں نہ جان سکتے ہیں بلکہ وجدان ان کی مدد سے وحدتوں کو جانتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وجدان غلطی بھی کرتا ہے لیکن جانتا بھی ہے۔ اس لیے طالبانِ صداقت کی حیثیت سے اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی حیثیت سے وجدان کے بغیر ہمارا چارہ نہیں۔ میں جہاں بیٹھا ہوں میرے سامنے ایک رنگین پھولدار قنات لگی ہے لیکن یہ میرا وجدانی نتیجہ ہے میں قنات کو نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی ایک کیفیت کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اعتقاد یا وجدان کی دخل اندازی کے بغیر بے معنی ہوتی۔ اگر میں کہوں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ قنات ہے تو یہ بات قطعاً غلط ہوگی۔ میرا یہ نتیجہ کہ وہ قنات ہے غلط بھی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ قنات نہ ہو بلکہ قنات کے پیچھے کی دیوار پر ایک نقش ہو۔ اگرچہ میں نے اپنی طرف سے کل یا وحدت پر جسے میں قنات کہہ رہا ہوںپورا غور کیا ہے اور اپنی عقل سے اس کے اندر کی چھوٹی چھوٹی وحدتوں کے باہمی تعلق کا پورا جائزہ لیا ہے اور میرا وجدان اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر جس بڑی وحدت کو بناتی ہیں وہ قنات ہی ہوسکتی ہے، ایک نقش نہیں ہوسکتی۔ تاہم غلطی کا امکان موجود ہے۔ باوجود اس بات کے کہ ہمارے حواس اپنا پورا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم بار بار اپنے وجدان کی اس قسم کی غلطیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہی حال میرے تمام حسی تجربات کا ہے خواہ ان کا ذریعہ دیکھنا ہو یا سننا یا چکھنا یا چھونا یا سونگھنا۔ ان میں سے کوئی بھی میرے وجدان کے بغیر اور ایک وحدت کی صورت اختیار کیے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ قرآن حکیم بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: { قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ اِِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ اِِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (سورۃ النمل: ۴۴) (سورج پرست) ملکہ کو کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جایے۔ جب اس نے محل کے فرش کو دیکھا تو اسے گمان ہوا کہ وہ پانی ہے یہاں تک کہ اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا کسی قدر سمیٹ لیا تاکہ بھیگ نہ جائے۔ حضرت سلیمان نے کہا یہ محل تو شیشہ کا بنا ہوا ہے۔ اس پر ملکہ نے کہا اے میرے پروردگار میں اپنی جان پر ظلم کرتی رہی ہوں لیکن اب سلیمان کی طرح اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔ رب العالمین پر ایمان لانے کے لیے تو حضرت سلیمان کا پیغام پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ ملکہ نے دیکھا کہ کوئی تعجب نہیں کہ جس طرح وہ شیشہ کو پانی سمجھ رہی تھی وہ اپنے معبودِ حقیقی کے بارے میں بھی غلطی کا ارتکاب کر رہی ہو اور غلطی سے ہی سورج کو خدا سمجھ رہی ہو۔ لہٰذا اس نے فوراً اپنے ایمان کا اعلان کیا۔ اس قصہ کا ایک مقصد یہ بتانا ہے کہ نبوت ضروری باتوں میں انسان کو وجدان کی غلطیوں سے بچانے کے لیے قدرت کا ایک انتظام ہے۔جسے ہم عقل کہتے ہیں اس کا کام صرف یہ ہے کہ وجدان جن وحدتوں کو قبول کرچکا ہوتا ہے وہ ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لے، لہٰذا وہ ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری اور چوتھی کی طرف جاتی ہے اور ان سب کے تعلق کو ٹٹولتی ہے۔ تاکہ ان کی مدد سے وجدان معلوم کرسکے کہ وہ کس بڑی وحدت کے عناصر ہیں۔عقل کا کام فقط یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کے لیے ہمارے وجدان کو اکسائے۔ وہ صرف کسی وحدت کے اجزاء کے تعلقات پر غور کرتی ہے پوری وحدت کا احساس نہیں کرسکتی۔ وحدت کا احساس یا علم اس کا وظیفہ نہیں جب ہمارا وجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتا ہے تو اس سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہوچکی ہوتی ہے۔ اور ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا۔ عقل وہ راستہ دکھاتی ہے جو منزل کو جاتا ہے لیکن خود ہمارے ساتھ منزل پر نہیں پہنچتی۔ منزل پر پہنچنا وجدان کا کام ہے: گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور ہے چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے خرد سے راہ رو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہ گزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے جونہی کہ ہم وحدتوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کی بجائے کسی وحدت کا احساس کرنے لگ جائیں یا محسوس کرنے لگ جائیں کہ ہم کسی علم تک پہنچ گئے ہیں یا ہم نے کسی بات کو جان لیا ہے، ہماری عقل کی فعلیت موقوف اور ہمارے وجدان کی فعلیت شروع ہوجاتی ہے۔ کرداریت (Bhaviourism) اور منطقی اثباتیت (Logical Positivism) اور اس قسم کے دوسرے سطحیت پسند فلسفے جو فلسفہ کے اس عالمگیر انحطاط کے دورمیں حشرات الارض کی طرح پیدا ہو رہے ہیں ان کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے منکرین شعور موجدوں اور مبلغوں کی نگاہ ابھی تک انسان کے حسی تجربات کی وجدانی حقیقت پر نہیں پڑی۔ اگر ہم خودی کے اوصاف و خواص پر غور کریں تو حواس، عقل اور وجدان کی ماہیت اور باہمی نسبت کے متعلق اقبال کے نقطۂ نظر کی اور وضاحت ہو جاتی ہے اور آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اقبال نے کیوں وجدان کو عشق، جنون اور نظر وغیرہ ناموں سے بھی تعبیر کیا ہے۔ زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطری از بغاوت خرد است زمانہ ہیچ نہ داند حقیقت او را جنوں قبا است کہ موزوں بقامت خرد است جب سائنسدان کے پاس نام نہاد ’’مشاہداتی حقائق‘‘ (Observed Facts) (جن کو درحقیقت ہمارا وجدان صورت پذیر کرتا ہے) کی کچھ تعداد فراہم ہو جاتی ہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کی تشریح کے لیے یا بالفاظِ دیگران کو منظم کرنے یا ایک وحدت بنانے کے لیے اسے ایک مفروضہ یا نظریہ کی یا ایک وجدانی یا اعتقادی تصور کی ضرورت ہے لہٰذا وہ اس قسم کا ایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے اگر یہ مفروضہ فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو منظم کرکے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو ایک ایسی ہی قابلِ یقین حقیقت شمار کیا جاتا ہے جیسی کہ کوئی اور علمی حقیقت جس کو سائنسدان ’’مشاہدہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنسدانوں کے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو کیونکہ اس صورت میں کوئی دوسرا مفروضہ ان حقائق کی تشریح نہیں کرسکتا اور اس مفروضہ کی جگہ نہیں لے سکتا گویا سائنسدان ایک غائب چیز کی موجودگی پر اس کے نتائج و اثرات کی وجہ سے یقین کرلیتا ہے۔ یہی ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے: {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} (سورۃ البقرہ: ۳) (وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔) سائنسدان پر ہی موقوف نہیں ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگی میں مفروضات قائم کرتے رہتے ہیں یعنی بعض تصورات پر ایمان بالغیب لاتے رہتے ہیں مثلاً یہ کہ ’’کل سورج طلوع ہوگا‘‘، ’’میرا دوست ایک اچھا آدمی ہے‘‘ وغیرہ۔ اور ان ہی غائب از نظر تصورات پر ہماری ساری عملی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ ہر وہ حقیقت جس پر ہم یقین کرتے ہیں شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے پھر جوں جوں نئے نئے حقائق منکشف ہو کر اس مفروضہ کی تائید کرتے جاتے ہیں وہ مفروضہ ہمارے لیے ایک حقیقت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس پر ہمارا یقین حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر حقائق جو آشکار ہوتے جاتے ہیں اس مفروصہ کی تائید نہ کریں تو ہم اس مفروضہ کو غلط سمجھ کر ترک کردیتے ہیں۔ اس قسم کی ناقابلِ انکار حقیقت کی ایک مثال جس پر سائنسدان ایمان بالغیب رکھتا ہے ’’ایٹم‘‘ ہے جس کو آج تک معروف معنوں میں دیکھا نہیں گیا۔ ایٹم کو ایک مفروضہ کے طور پر آج سے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا لیکن ان کئی صدیوںمیں ہم نے ایٹم کے نتائج و اثرات کا یعنی ان وحدتوں کا جن کو ایٹم کا وجدانی تصور ایک نئی وحدت بناتا ہے جو تجربہ کیا ہے اس نے ایٹم کو آج ایک ناقابل انکار حقیقت بنا دیا ہے اور اس حقیقت کا علم یہاں تک مؤثر ہے کہ ہمیں ناگا ساکی اور ہیرو شیما کو آن واحد میں تباہ کرنے پر قادر بنا سکتا ہے۔ سائنسدان ایک مفروضہ کو جو اس کے ’’مشاہداتی‘‘ حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو ’’مشاہداتی‘‘ حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ’’مشاہداتی‘‘ حقائق تو سائنس ہیں لیکن یہ مفروضہ جو ان کی تشریح کرتا ہے سائنس نہیں۔ بعض وقت الگ تھلگ ’’مشاہداتی‘‘ حقائق سے زیادہ یہ مفروضہ اس کے کام آتا ہے کیونکہ اس کو اپنی علمی تحقیق اور تجسس کو جاری رکھنے کے لیے اور نئے نئے مشاہداتی حقائق کو سمجھنے کے لیے ایک بنیاد کا کام دیتا ہے اور اس مفروضہ کے بغیر اس کے مشاہداتی حقائق بھی کوئی زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ سائنسدان وجدانی مفروضات ایجاد کرنے کی جو ضرورت محسوس کرتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور ہم کائنات کی فطرت اور اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ حقائق کو وحدتوں کی ہی صورت میں جانیں اور سمجھیں۔ ہماری یہ مجبوری سائنسدان کو زود یا بدیر ایک ایسے مرحلہ پر پہنچا دے گی جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے مفروضہ یا ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور سے ہی ہوسکے گی جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد کرتا ہو اور جب سائنسدان اس مفروضہ سے حقائق کائنات کی تشریح کرے گا تو برابر ہے خواہ ہم اسے سائنسدان کہیں یا فلسفی۔ فلسفی بھی ایک وجدانی کائناتی مفروضہ کی مدد سے حقائق کائنات کی تشریح کرتا ہے۔ جو کام سائنسدان چھوٹے پیمانہ پر آج کر رہا ہے اور بڑے پیمانہ پر کل کرنے والا ہے وہ فلسفی بڑے پیمانہ پر آج ہی کر رہا ہے۔ فلسفی سائنسدان ہی کے بہم پہنچائے ہوئے آج تک کے علمی حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی تصور سے کرتا ہے جو اس کے خیال میں پوری کائنات کے حقائق کو ایک وحدت بناتا ہے خواہ اس کا یہ تصور روحانیاتی ہو یا مادیاتی۔ ان معروضات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ درحقیقت سائنسدان اور فلسفی میں کوئی فرق نہیں، دونوں کے کام کا دائرہ ایک ہی ہے اور دونوں کے علم کا دار و مدار بھی انسان کی ایک ہی استعداد پر ہے جسے وجدان کہتے ہیں سائنس کو اپنی ترقی کی انتہائوں پر پہنچ کر فلسفہ بننے کے بغیر چارہ نہیں رہتا کیونکہ اگر وہ فلسفہ نہ بنے تو بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تخلیق کی تین سطحیں ہیں۔ مادہ کی دنیا، حیوانات کی دنیا اور انسانوں کی دنیا اور ان کے بالمقابل علم کے بھی تین ہی بڑے شعبے ہیں۔ طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات۔ اس صدی میں جو طبیعیاتی حقائق دریافت ہوئے ہیں انھوں نے ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تشریح کے لیے یہ وجدانی تصور ایجاد کریں کہ کائنات کی آخری حقیقت شعور ہے کیونکہ یہ تصور کہ کائنات کی حقیقت مادی ہے جسے اب تک سائنسدان قبول کر رہے تھے ان نئے طبیعیاتی حقایق کی تشریح کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریہ کو واضح کرنے کے لیے ایڈنگٹن (Eddington) اور جیمز جینز (James Jeans) ایسے ماہرین طبیعیات نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ بظاہر طبیعیات کی کتابیں ہیں لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلسفہ کی کتابیں نہیں۔ اسی طرح سے اس صدی میں جو حیاتیاتی حقائق منکشف ہوئے ہیں انھوں نے ماہرین حیاتیات کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تشریح اسی مفروضہ سے کریں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ اس نظریہ کی تشریح کے لیے ہالڈین (Haldane) نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی Philosophy of Biology ہے۔اور پھر اس وقت نفسیات کے میدان میں جو حقائق منکشف ہو رہے ہیں وہ بھی شعور کی حقیقت پر دلالت کر رہے ہیں۔ تاہم ان علوم کے د ائرہ میں جو حقائق علمی دریافت ہوئے ہیں وہ اتنے نہیں اور نہ اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی روشنی میں ان علوم کے ماہرین اس شعور کے اوصاف کے متعلق بھی جو اَب ان کی نگاہ میں کائنات کی حقیقت ہے کوئی رائے قائم کرسکیں لیکن یہ بات ہر حالت میں نوع بشر کے علمی اور نظریاتی مستقبل کے لیے نہایت تسلی بخش ہے کہ ماہرین طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات سب حقیقت کائنات کے ایک ہی تصور پر اتفاق کرنے کے لیے ایک دوسرے کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ فلسفیوں اور سائنسدانوں کے نظریات کا بدلنا نہایت مفید اور نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ بدل بدل کر درستی کی طرف آتے رہتے ہیں جب نئے علمی حقائق دریافت ہوتے ہیں اور کوئی نظریہ جو پُرانے حقائق کی تشریح کے لیے پہلے کافی سمجھا گیا تھا ان کی تشریح کے لیے کفایت نہیں کرتا تو فلسفی اور سائنسدان دونوں مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی جگہ دوسرا نظریہ قائم کریں جو تمام نئے اورپرانے حقائق کی تسلی بخش تشریح کرتا ہو۔ ضروری ہے کہ اس طرح سے نظریات کے بدلنے کا نتیجہ بالآخر یہ ہو کہ ہم ایک ایسے کائناتی نظریہ پر پہنچ جائیں جو صحیح ہو اور پوری کائنات کے حقائق علمی کی تسلی بخش تشریح کرتا ہو۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کائنات کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے ایک فلسفی محض عقلی یا منطقی استدلال کے بل بوتے پر اپنے نتائج کو پہنچتا ہے اور اپنے اس استدلال میں جذبات کو رہ پانے نہیں دیتا لیکن عقلی استدلال کا یہ نظریہ درست نہیں۔ ہر فلسفی پہلے کائنات کے ان حقائق کی روشنی میں جو اسے معلوم ہوں کائنات کی حقیقت کا ایک وجدانی تصور قائم کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے اس تصور کی عقلی اور علمی تشریح کرنے کے لیے یعنی یہ بتانے کے لیے کہ یہی تصور ہے جو کائنات کی وحدت کا اصول ہے اور سارے حقائق کو منظم اور متحد کرتا ہے عقلی استدلال سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ اس کے استدلال سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا استدلال اس کے نتیجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا نتیجہ وہ پہلے ہی جانتا ہے اور اس کی طرف وہ اپنے استدلال کو اپنی پوری فکری قوت اور پورے زور بیان کے ساتھ موڑتا ہے۔ کوئی فلسفی چھوٹا ہو یا بڑا اس اصول سے منحرف نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کا تصورِ حقیقت غلط ہو گا تو گویا اس کی تعمیر کی خشت اول ہی غلط رکھی گئی۔ پھر اس کا سارا استدلال غلط ہو جائے گا یعنی اس میں جابجا منطقی اور عقلی خامیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے کہیں تو وہ بعض سچے علمی حقائق کو جو اس کے غلط تصورِ حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد رکھتے ہوں نظر انداز کر جائے گا۔ کہیں ان حقائق کی غلط توجیہ کرے گا اور ان کو غلط سمجھے گا اور سمجھائے گا۔ کہیں ان کی اہمیت کو اتنا کم کر دے گا کہ وہ اس کے تصورِ حقیقت کو چیلنج نہ کرسکیں اور اس کے برعکس کہیں وہ غلط علمی حقائق کو جنھیں اچھی طرح سے پرکھا نہیں گیا اور جو اس کے غلط تصورِ حقیقت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اپنے استدلال میں جگہ دے گا اور ان کی اہمیت کو اتنا بڑھائے گا کہ گویا وہی کائنات کی عقدہ کشائی کرسکتے ہیں۔ و علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن اگر اس کا تصور حقیقت صحیح ہوگا اور وہ اس تصور کو اور کائنات کے علمی حقائق کو جو اس کے زمانہ تک دریافت ہوچکے ہوں ٹھیک طرح سے سمجھتا ہوگا تو اس کا استدلال صحیح ہوگا اور یہ تمام علمی حقائق آسانی کے ساتھ اس کے نظامِ حکمت میں اپنی جگہ پاتے جائیں گے اور وہ ان کو جہاں سے اسے مل سکیں گے تلاش کرکے لائے گا اور اپنے نظامِ حکمت میں جگہ دیتا جائے گا۔ کیونکہ وہ اسی کے تصورِ حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھیں گے اور اسی کے لیے کارآمد ہوں گے۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے اگر اسے بعض حقائق کو جنھیں علمی حقائق سمجھا جا رہا ہو بدلنا پڑے گا تو وہ اس طرح سے بدلیں گے کہ ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور ہو جائیں گی اور اگر بعض کو نظر انداز کرنا پڑے گا تو وہ درحقیقت غلط اور نظر انداز کرنے کے قابل ہوں گے۔ اور اگر کہیں ان کی اہمیت کو کم کرنا پڑے گا تو فی الواقع ان کی اہمیت کم ہوگی۔اسی طرح سے اگر وہ بعض مفروضات کو اپنے نظامِ حکمت میں داخل کرے گا تو زود یا بدیر ثابت ہو جائے گا کہ وہ محض مفروضات نہیں بلکہ تمام علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق فی الواقع صحیح علمی حقائق ہیں۔ گویا حقیقت کائنات کے تصور کی درستی اور درست فہمی اس کے سارے نظامِ حکمت کو درست کرے گی اور اس کے ساتھ ہی بعض ایسے نام نہاد علمی حقائق کو بھی درست کرے گی جن کی نادرستی ابھی آشکار نہ ہوئی ہو بلکہ بعض نئے درست علمی حقائق کی دریافت کی تحریک بھی کرے گی۔ اس طرح درست تصور حقیقت کی مدد سے علم اپنے ہی تراشے ہوئے بتوں کو توڑتا ہوا صداقت کی منزلوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ اقبال اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم وہ علم کم بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم نہ صرف یہ کہ فلسفی جب فلسفہ لکھتا ہے تو جذبات سے الگ ہو کر نہیں لکھتا بلکہ اس کے سارے جذبات اس تصور حقیقت پر مرتکز ہوتے ہیں جس کی وہ تشریح کر رہا ہوتا ہے۔ اسے اس تصور سے عشق ہوتا ہے خواہ یہ تصور مادی ہو یا روحانی اور یہ بات ظاہر ہے اس لیے کہ جیسا کہ میں اوپر گزارش کر چکا ہوں حقیقت کائنات کا تصور ہر انسان کی عملی زندگی کی قوتِ محرکہ ہے اور فلسفی اس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ وہ اسی قوتِ محرکہ کے زیر اثر اپنا سارا فلسفہ لکھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کا تصورِ حقیقت ہر جگہ قبول کرلیا جائے تاکہ لوگ اپنی عملی زندگی کو اسی طرح سے بنائیں جس طرح کہ وہ خود اپنی عملی زندگی کو بنانا چاہتا ہے تاکہ ان فوائد سے مستفید ہوں اور ان نقصانات سے بچ جائیں جنھیں وہ فوائد یا نقصانات سمجھتا ہے اور جن سے مستفید ہونا یا بچنا اس کی رائے میں اس کے فلسفہ کے بغیر ممکن نہیں۔ فلسفہ شعر کی طرح عشق کا اظہار ہے۔ فلسفی جب اپنے عشق کو مقبولِ اذہان اور مرغوبِ خواطر بنانا چاہتا ہے تو سیدھی روبرو بات کہنے کی بجائے اپنے مخاطب کو بتاتا ہے کہ جس تصور کو وہ حقیقت کائنات سمجھتا ہے کیونکر تمام علمی حقائق مل کر اس کی تائید اور توثیق کرتے ہیں اور فلسفی یہ طریق گفتگو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ بے اثر نہ رہے گا۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اسے کوئی ایسا تصور حقیقت مل جائے جو فی الواقع تمام حقائق عالم کو منظم کرسکتا ہو اور کرتا ہو اور اس تصور کے لیے وہ بے قرار رہتا ہے۔ اقبال نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو لیکن فلسفی ایسے صحیح تصورِ حقیقت کو جو نہ صرف اس کے نظامِ حکمت کو بلکہ تمام نادرست علمی حقائق کے لیے معیار بہم پہنچاتا ہو کہاں سے لائے۔ ذہن انسانی حقیقت کائنات کے لاتعداد مادی اور روحانی تصورات قائم کرسکتا ہے کیونکہ اوصاف کی ذرا سی تبدیلی سے تصور بدل جاتا ہے۔ ان میں سے کون سا تصورِ حقیقت ایسا ہوگا جو اپنی فطرت اور اپنے اوصاف کی بنا پر حال کے علمی حقائق کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہو، کیوں کہ اگر ایسا تصور مل جائے تو وہ مستقبل کے حقائق کے ساتھ بھی پوری پوری مطابقت رکھے گا لیکن علمی حقائق کی تعداد ہمیشہ اس قدر کم رہے گی کہ تنہا اپنی کوششوں سے یا فقط ان علمی حقائق کی مدد سے اس تصور کا جان لینا ایک فلسفی کے لیے بہت دشوار ہے۔ اس قدر دشوار کہ اسے ناممکن کے درجہ میں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے تاہم ہر ایک فلسفی نے کوشش کی ہے کہ اپنے زمانہ کے معلوم علمی حقائق کی بنا پر ایک تصورِ حقیقت قائم کرے اور پھر اس کی بنا پر ایک فلسفہ کی تعمیر کرے۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ ہر فلسفی کا تصور حقیقت ادھورا اور بیکار اور اس کا استدلال غلط اور نامعقول رہا ہے۔ آج تک کوئی فلسفی ایسا نہیں ہوا جس کے استدلال کی معقولیت بجا طور پر دوسرے فلسفیوں کے شدید اعتراضات کی زد میں نہ آئی ہو۔ فلسفیوں کے باہمی اختلافات کبھی ختم نہیں ہوتے پھر اگر کوئی فلسفی دوسرے فلسفیوں کے اعتراضات کی روشنی میں اپنے فلسفہ کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو ایسا نہیںکر سکتا کیونکہ جب غلط فلسفہ کی ایک خامی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے اندر اور خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں ایک فلسفی کے لیے صحیح تصور حقیقت تک پہنچنے کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو فلسفی کو کائنات کے تمام حقائق کی واقفیت فی الفور حاصل ہوجائے پھر وہ ان کی روشنی میں بآسانی دیکھ لے گا کہ کون سا تصورِ حقیقت ایسا ہے جو ان حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کو منظم کرتا ہے پھر اس کو تصورِ حقیقت کی فطرت اور اوصاف کا صحیح اندازہ کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کیونکہ اگر وہ ان حقائق کے علم کے باوجود حقیقت کا کوئی ایسا تصور قائم کرے گا جو کسی پہلو سے تھوڑا سا بھی غلط ہو گا تو کوئی نہ کوئی علمی حقیقت اس کی تردید کرے گی لیکن یہ امیدِ عبث ہے۔ دنیا کے حکماء اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نوعِ انسانی کا علم قیامت تک بھی کائنات کے تمام علمی حقائق کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ قرآن نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے: {قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا} (سورۃ الکہف: ۱۰۹) کہیے اگر سمندر کا پانی بھی میرے پروردگار کی قدرت کے نشانات کو لکھنے کے لیے بطور سیاہی کے ہو تو پانی ختم ہو جائے گا خواہ ہم اتنا اور امداد کے لیے مہیا کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فلسفی کو کائنات کا صحیح تصور کہیں سے اتفاقاً دستیاب ہوجائے اور اس تصور کا علم اور اس کا عشق اسے یہاں تک حاصل ہو کہ وہ اس کی روشنی میں ان تمام حقائق علمی کو صحیح طو رپر دیکھ اور سمجھ سکے جو آج تک دریافت ہوسکے ہیں اور ان کو اس تصور کی بنیاد پر متحد اور منظم کرسکے۔ ایسی صورت میں اگرچہ اس کے پاس حقائق علمی کم تعداد میں ہوں گے تاہم حقیقت کے صحیح اور مکمل تصور کی بنا پر وہ ان کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکے گا اور بتا سکے گا کہ کیوں وہ فقط اس تصور کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کا نظام حکمت ناتمام تو ہوگا لیکن غلط نہیں ہوگا اور جوں جوں حقائق علمی دریافت ہوتے جائیں گے اس کے نظریۂ کائنات میں اپنی جگہ پاتے جائیں گے۔ اس طرح سے اس کا نظریہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اور یہ عمل قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ پہلے بھی گزارش کیا گیا ہے اس فلسفہ کے وجود میں آنے کے بعد فلسفہ کی تمام ترقیوں کا دار و مدار نئے غلط فلسفیوں کے ظہور پر نہیں بلکہ اسی فلسفہ کی زیادہ سے زیادہ ترقی اور تکمیل پر ہوگا۔ لیکن اس دوسری صورت کے وجود میں آنے کے لیے ایک اور شرط بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسری طرف سے حقائق علمی اس حد تک ترقی کرچکے ہوں کہ فلسفی اتفاقی طور پر ہاتھ لگ جانے والے اس صحیح تصورِ حقیقت کے ساتھ ان حقائق کی مناسبت یا مطابقت بآسانی دیکھ سکے ورنہ وہ اس تصورِ حقیقت کے ساتھ ان کو علمی اور عقلی طور پر وابستہ کرنے کا امکان نہ پائے گا اور کسی اور تصورِ حقیقت کی تلاش میں بدستور سرگرداں رہے گا۔ تاکہ فلسفی کا تصورِ حقیقت کائنات کے علمی حقائق سے بغل گیر ہو جائے، ضروری ہوگا کہ کچھ تو اس کا تصورِ حقیقت ان حقائق کی طرف بڑھے اور کچھ یہ حقائق اس کے تصورِ حقیقت کی طر ف پیش قدمی کریں۔ یہاں شاید یہ سوال کیا جائے گا کہ یہ بات تو سمجھ میں آسکتی ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک فلسفی کو حقیقت وجود کے صحیح تصور سے واقف ہونا چاہیے لیکن اس بات کی ضرورت کیا ہے کہ تصورِ حقیقت سے اسے عشق بھی ہو۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک علم وجدان سے حاصل ہوتا ہے اور وجدان عشق ہی کی ایک ابتدائی فعلیت ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ عشق وجدان ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ جب کوئی وحدت حسین و جمیل بھی ہو جیسی کہ حقیقت کائنات کی وحدت ہے (یہ بات ایک الگ بحث چاہتی ہے کہ حقیقت کائنات کے تصور کا حسین و جمیل ہونا کیوں ضروری ہے) تو وحدت کی حیثیت سے اس کا وجدان یا احساس بیک وقت اس کے حسن و جمال کا احساس بھی ہوتا ہے اور اسی احساس کا نام محبت یا عشق ہے۔ صحیح تصورِ حقیقت کا کامل عشق ہی اس کا کامل وجدان یا کامل علم ہے یعنی اتنا کامل علم جتنا کہ کسی شخص کی فطری استعداد معرفت اجازت دیتی ہو۔ قدرت نے ہر انسان کو عشق کی ایک خاص استعداد بخشی ہے یہ استعداد بالعموم افراد کی ذہانت کی نسبت سے کم و بیش ہوتی ہے۔ کوئی چاہے تو اسے غلط تصورِ حقیقت کے لیے استعمال کرے اور چاہے تو صحیح تصورِ حقیقت کے لیے لیکن بہرحال چونکہ استعداد ایک ہی ہے، جس حد تک کہ وہ اسے غلط تصور کے لیے استعمال کرے گا اس حد تک وہ صحیح تصورِ حقیقت کے لیے میسر نہیں آسکے گی۔ انگریزی زبان میں ایک مثل ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کیک کھا بھی لیں اور وہ آپ کے پاس جوں کا توں موجود بھی رہے۔ جس نسبت سے خدا کے لیے ایک انسان کی محبت بڑھتی جاتی ہے باطل تصورات کی محبت اسی نسبت سے کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ بالکل مٹ جاتی ہے۔ اس مقام پر صحیح تصورِ حقیقت کی محبت اتنی کامل ہو جاتی ہے جتنی کہ انسان کی فطری استعداد اجازت دیتی ہو لیکن یہ مقام بڑے مجاہدہ سے حاصل ہوتا ہے۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں اگر بعض تصوراتِ حقیقت کی استعداد محبت کے ایک حصہ کو مصروف کیے ہوئے ہوں تو وہ ان حقائق کو کسی قدر اس غلط محبت کی عینک سے دیکھے گا اور ان کی جو توجیہ کرے گا وہ کامل طور پر درست نہ ہوسکے گی یعنی وہ ان حقائق کو صحیح تصور حقیقت کے ساتھ ٹھیک طرح سے متعلق نہ کرسکے گا اور لہٰذا وہ ایک ایسا فلسفہ پیدا کرے گا جو اسی نسبت سے غلط اور ناقص ہوگا جس نسبت سے اس کی محبت غلط اور ناقص ہوگی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے تصور حقیقت کا عشق صرف اس فلسفی کے لیے ہی ضروری نہیں جو صحیح تصورِ حقیقت کو اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا رہا ہو۔ استدلال کی ظاہری قوت جو ایک غلط فلسفہ کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی اس کے موجد فلسفی کے اس عشق کی وجہ سے ہی ہوتی ہے جو اسے اپنے غلط تصورِ حقیقت سے ہوتا ہے۔ اسی عشق کی وجہ سے وہ ان سچے حقائق سے آنکھیں بند کرلیتا ہے جو اس کے غلط تصورِ حقیقت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں اور ان غلط حقائق کو صحیح سمجھتا ہے جو اس کے تصورِ حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اگر کارل مارکس کو اپنے غلط تصورِ حقیقت سے عشق نہ ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فلسفہ نہ لکھ سکتا جو قطعی طور پر غلط ہونے کے باوجود آج کروڑوں بندگانِ خدا کی زندگیوں کا مدار و محور بنا ہوا ہے۔ اب غور کیجیے کہ ایک طرف سے تو کائنات کا صحیح فلسفہ انسان کی شدید ترین نظری اور عملی ضروریات میں سے ہے اور دوسری طرف سے اس کے بہم پہنچنے کی راہ میں ناقابل عبور دشواریاں ہیں لیکن قدرت کا قاعدہ ہے کہ انسان کی ہر شدید قدرتی ضرورت کی تشفی کے لیے وہ اپنا انتظام کرتی ہے اور اس التزام کی بنیاد آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ اس کے بغیر کائنات میں اس کے مقاصد کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح سے قدرت ہماری شدید بدنی ضروریات کی تکمیل کے لیے بادل، ہوا، سورج، چاند، زمین اور آسمان ایسی قوتوں کو کارفرما کرتی ہے اسی طرح سے ہماری شدید روحانی ضرورت کی تشفی کے لیے انبیا کا سلسلہ قائم کرتی ہے۔ اس چھوٹے سے مقالہ میں مظہر نبوت کے متعلق اقبال کے نظریہ کی پوری تشریح کی گنجایش نہیں اس لیے یہاں صرف اس گزارش پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ حضرت انسان کے لیے ہر نبی کا سب سے پہلا اور سب سے قیمتی تحفہ حقیقت کائنات کا صحیح تصور ہوتا ہے۔ اسی تصور کو ہم خدا کا تصور کہتے ہیں۔ اس تصور کی پوری صفات اور صحیح فطرت اس کے عملی اطلاق سے سمجھ میں آتی ہے اور اس کا عملی اطلاق جس کا ظہور نبی کی عملی زندگی کی مثال میں ہوتا ہے، اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ انسان کی سماجی زندگی ارتقا کرکے ایک خاص درجہ پر نہ پہنچ جائے جہاں اس کے تمام ضروری قدرتی پہلو مثلاً تعلیم، قانون، سیاست، جنگ، اقتصاد، اخلاق وغیرہ پوری طرح سے نمایاں اور عام ہو جائیں۔ جونھی کہ انسانی سماج کا ارتقا اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اس میں ایک ایسا نبی پیدا ہوتا ہے جو اپنی عملی زندگی کی مثال کے ذریعہ سے انسان کی عملی زندگی کے ان تمام ضروری شعبوں پر خدا کے تصور کا اطلاق کرتا ہے اور اس طرح سے خدا کے تصور کی صفات کے نظری اور عملی پہلوئوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ گویا پہلا شخص ہوتا ہے جو نوع بشر کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کرتا ہے جو ایک مکمل اور آخری فلسفہ کی بنیاد بنتا ہے۔ اس نبی کے ظہور کے بعد نبوت کا اختتام ایک قدرتی بات ہے کیونکہ اس کے ظہور کے بعد اب انسان کے لیے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی زندگی کو ہر قسم کی درستی اور ثروت کے اعتبار سے کمال پر پہنچا سکے۔ وہ خاتم الانبیا جنھوں نے نوعِ انسانی کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کیا ہے جناب حضرت محمدﷺ ہیں۔ وہ فلسفی جس نے علمی حقائق کی ترقیوں کے اس دور میں سب سے پہلے اپنے فلسفہ کی بنیاد نبوتِ کاملہ کے عطا کیے ہوئے کامل تصورِ حقیقت پر رکھی ہے اقبال ہے اور وہ فلسفہ جو اس دور کے علمی حقائق کو کامل تصور حقیقت کی بنیادوں پرمنظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے۔ اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقیقت ہے جو صحیح ہے اور جو تمام حقائق کائنات کو منظم کرکے ایک وحدت بناتا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ اقبال بار بار کہتا ہے کہ وہ فلسفہ جو نبوت کاملہ کے عطا کیے ہوئے تصورِ حقیقت پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقت کے کسی ایسے تصور پر مبنی ہو جو کسی فلسفی نے حقائق عالم کی ناتمام معرفت کی بنا پر نبوت کی مدد کے بغیر خود بخود قائم کرلیا ہو بے کار اور غلط ہے اور سب فلسفے جو آج تک وجود میں آئے ہیں ایسے ہی ہیں۔ صرف خدا کا عشق ہی صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتا ہے اور اس عشق کا منبع رسول کی اطاعت ہے: نہ فلسفی سے نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناریِ برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری دل در سخن محمدی بند اے پور علی ز بو علی چند ہیگل کے فلسفہ پر اقبال نے جو تحقیر آمیز تنقید کی ہے وہ دراصل اس کے نزدیک ہر فلسفہ پر صادق آتی ہے: حکمتش معقول و بامحسوس در خلوت نرفت گرچہ فکر او پیرایہ پوشد چوں عروس طائر عقل فلک پرواز او دانی کہ چیست ما کیاں کز زور مستی خایہ گیرد بے خروس سچا تصورِ حقیقت فقط خدا کا تصور ہے جو زندہ اور حی و قیوم ہے باقی تمام تصوراتِ حقیقت ہمیشہ سے مردہ ہیں اور کبھی زندہ نہیں تھے۔ اور مردہ کی تصور کشی بھی مردہ اور بے معنی ہے۔ وہ آج نہیں تو کل نفرت سے پھینک دی جائے گی: یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہین وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا حکیماں مردہ را صورت نگارند ید موسیٰ دم عیسیٰ ندارند دریں حکمت دلم چیزے ندید است برائے حکمت دیگر تپید است ’’حکمت دیگر‘‘ سے اس کی مراد وہ حکمت ہے جو نبوتِ کاملہ کے تصورِ حقیقت پر مبنی ہو۔ یہی وہ تصور ہے جو سچے عشق کا منبع ہے جس کی فلسفی کو ضرورت ہے۔ اسی عشق سے کائنات کے راز ہائے سربستہ منکشف ہوتے ہیں یہی وہ ’’خونِ جگر‘‘ ہے جس سے فلسفہ لکھا جاتا ہے اور پھر نہ مرتا ہے نہ حالت نزع میں گرفتار ہوتا ہے: مے ندانی عشق و مستی از کجاست ایں شعاع آفتاب مصطفی است نشان راہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس بیا کہ عشق کمالے زیک فنی دارد نقشے کہ بستۂ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است بچشم عشق نگر تا سراغ او بینی جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است وہ علم کم بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم نقطۂ ادوار عالم لا الٰہ منتہائے کار عالم لا الٰہ لا و الا احتساب کائنات لا و الا فتح باب کائنات حریف نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرار لا الٰہ کے لیے ہر علمی حقیقت یا حکمت صرف اسی سچے فلسفہ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے لہٰذا جہاں سے مل جائے اسے تلاش کرکے اس فلسفہ کے ساتھ ملحق کر دینا چاہیے۔ گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر اقبال کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ خدا کی محبت یا عشق کے نظریہ کو ایک فلسفہ یا حکمت کی شکل دی جائے۔ اس کے بغیر نہ تو وہ عام قبولیت حاصل کرسکے گا اور نہ ہی عالم انسانی کو غلط فلسفوں سے نجات مل سکے گی۔ اس قسم کا فلسفہ ایک انقلاب لائے گا اور نئی دنیا پیدا کرے گا: غربیاں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیرکی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہمبر بود نقشبند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را بازیرکی آمیز دہ لیکن ان تمام علمی حقائق کو جو آج تک انسان کی جستجوئے صداقت پا سکی ہے حقیقت کے صحیح تصور کے ساتھ منسلک کرنے کے بعد بھی حقیقت کی تشریح اپنے کامل پر نہیں پہنچے گی۔ کیونکہ قیامت تک نئے نئے علمی حقائق دریافت ہو کر اس حقیقت کے رشتہ میں منسلک ہوتے رہیں گے اور اس کو زیادہ سے زیادہ واضح اور روشن کرتے رہیں گے۔ اسی لیے اقبال نے اپنے لیکچروں کے دیباچہ میں مشورہ دیا ہے: جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کے نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انسان کی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے تصورِ حقیقت کی روشنی میں ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص آج حقیقت کی معرفت تامہ کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عبادت اور ریاضت سے حقیقت کے حُسن و جمال کا ذاتی احساس یا تجربہ یا عشق پیدا کرے۔ ورنہ نہ تو کوئی دانائے راز حقیقت کی مکمل تشریح کرسکتا ہے اور نہ کوئی فرد بشر فقط اس تشریح کو سن کر یا پڑھ کر اس کی مکمل معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ فروزاں ہے سینے میں شمع نفس مگر تاب گفتار کہتی ہے بس (اقبال) رومی نے اس خیال کو بڑے زوردار الفاظ میں پیش کیا ہے: ہر چہ گویم عشق را شرح و بیان چوں بعشق آیم خجل باشم ازاں گرچہ تفسیر و بیاں روشنگر است لیک عشق بے زباں روشن تر است چوں قلم اندر نوشتن مے شتافت چوں بعشق آمد قلم بر خود شگافت چوں سخن در وصف ایں حالت رسید ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید عقل در شرحش چو خردر گل بخفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید از وے رو متاب اقبال ایسا ایک عاشق ذاتِ فلسفی اپنے عشق کی حکیمانہ توجیہ اسی لیے کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے والا اس کے عشق سے بہرہ اندوز ہو اور پھر جب اس کی محبت کا چراغ جل کر روشن ہو جائے تو وہ بے اختیار عبادت اور ریاضت کی طرف متوجہ ہو اور پھر اپنے عشق کو یہاں تک ترقی دے کہ اس غرض کے لیے اسے خود حکمت کی بھی حاجت نہ ر ہے۔ پہلے حکمت سے اس کا عشق پیدا ہو اور پھر اس کے عشق سے حکمت پھوٹتی اور بڑھتی اور پھولتی رہے۔ جب ہم کہیں کہ کائنات کی ہر علمی حقیقت صرف ایک تصور حقیقت کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر وابستہ ہے اور وہ خدا کا تصور ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ خدا ہی کائنات کی سچی حقیقت ہے اسی لیے قرآن نے کائنات کی ہر علمی حقیقت کو ایک آیت یا نشان کہا ہے۔ {وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ} (سورۃ الذاریات: آیت۲۰) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے خدا کے بہت سے نشانات ہیں۔ یعنی چونکہ کوئی علمی حقیقت کسی باطل تصورِ کائنات کے ساتھ علمی اور عقلی لحاظ سے وابستہ نہیں ہوسکتی وہ خدا کی خدائی کی ایک نشانی یا دلیل یا شہادت ہے۔ سچا فلسفی یہی کرتا ہے کہ جس قدر حقائق تمام نوعِ بشر کے احاطہ علم میں داخل ہوچکے ہیں ان کو معروف و مقبول علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق کائنات کی سچی حقیقت سے وابستہ کرکے معلوم کائنات کے ذرہ ذرہ سے کہلواتا ہے کہ کائنات کی سچی حقیقت وہی ہے: و فی کل شیء لَہ اٰیہ تدل علی انہ واحد اور اس طریق سے باطل تصورات حقیقت کے حق میں تمام ممکن شہادتوں کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ابھی نوعِ بشر کے احاطۂ علم میں بہت کم حقائق عالم داخل ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ سب اسی کے تصورِ حقیقت کی تائید کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ غلط تصوراتِ حقیقت کے حق میں جھوٹی شہادتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں ان کا دار و مدار بھی تو ان ہی حقائق کی غلط ترجمانی پر ہوتا ہے۔ جب ہماری معلوم کائنات کا ہر ذرہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دینے لگ جائے کہ کائنات کی سچی حقیقت خدا ہی ہے تو وہ ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے سوائے تمام تصورات حقیقت باطل اور نامعقول ہیں۔ {وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ لاَ بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ } (سورۃ المومنون: ۱۱۷) اور جو خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو پکارے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔ اور جب پوری کائنات کے اندر ایک بھی علمی شہادت کسی باطل تصورِ حقیقت کے حق میں باقی نہ رہے تو پھر باطل تصورات حقیقت کا باقی رہنا ناممکن ہو جاتا ہے اور پھر حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر قائم کیا ہوا نیا سچا فلسفہ دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہوتا ہے اور کسی مزاحمت کے بغیر دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ تصورات کی حقیقت فقط علمی دلچسپی کے نظریات نہیں ہوتے بلکہ افراد اور اقوام کی عملی زندگی کی پوری عمارتیں ان کی بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیں لہٰذا جب وہ علمی حیثیت سے ختم ہو جائیں تو ان تعمیرات کا منہدم ہو جانا بھی ضروری ہوتا ہے جو ان پر کھڑی ہوں اور جب ساری دنیا ہی باطل تصورات حقیقت پر تعمیر پائے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس نئے سچے فلسفے کا ظہور پانا اور اشاعت پانا جو دونوں دنیائوں کی حقیقت کے مرغوب اور مروجہ تصورات کو باطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہو، ساری دنیا کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ باطل تصورات حقیقت کے پرستاروں میں سے کون ایسا ہوگا جو کسی فردِ واحد کی ذات میں اس قیامت کو اُبھرتا ہوا دیکھے اور اسے مٹانے کے درپے نہ ہوجائے۔ لہٰذا اس قسم کے زلزلہ خیز فلسفے کو پیش کرنا بڑی جرأت کی بات ہے جس کی توقع ہر شخص سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے فکر کی تلوار سے لوگوں کی دونوں دنیائوں کو فنا کے گھاٹ اُتار دینا چاہتا ہے۔ حکمت و فلسفہ را ہمت مردے باید تیغ اندیشہ بروئے دو جہاں آختن است خوگر من نیست چشم ہست و بود لرزہ بر تن خیزم از بیم نمود تاہم یہ قیامت آ کر رہتی ہے اور جب حقیقت کے باطل تصورات مٹ رہے ہوتے ہیں اور ان کے اوپر کی عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوتی ہیں تو اس عمل کے ساتھ ساتھ اس نئے سچے نظامِ حکمت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے جسے عاشقانِ جمال ذات مل کر اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرتے ہیں اور ان کی مرضی خدا ہی کی مرضی ہوتی ہے۔ گویا اس سے پہلے ان کے اور خدا کے درمیان یہ مکالمہ ہوچکا ہوتا ہے: گفتند جہاں ما آیا بتومی سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ بر ہم زن اور پھر خدا ان عاشقوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہی ہوگا اور تمھاری مزاحمت کرنے والے مٹا دیے جائیں گے: قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست یہی مطلب اقبال کا ہے جب وہ صحیح تصورِ حقیقت پر ایک نئے فلسفہ کی تشکیل کی پُرزور تحریک کرتا ہے: زیرکی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں بازیرکی ہمبر بود نقشبند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را بازیرکی آمیزدہ منکرین نبوت فلسفیوں کو آج تک اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کائنات کی سچی حقیقت کا پورا علم نہیں ہوا۔ اگرچہ اس حقیقت کے علم کی طرف انھوں نے کچھ نہ کچھ ترقی ضرور کی ہے۔ دراصل فلسفہ اور نبوت دو مختلف راستوں سے ایک ہی منزل یعنی حقیقت عالم کی نقاب کشائی کی منزل کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ نبوت خاتم النبیینؐ کے ظہور سے پہلے اپنی منزل پر نہ پہنچ سکی۔ تاہم اسکی رفتار کا ہر قدم صحیح راستہ پر اُٹھتا اور صحیح منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ اس کے برعکس اگرچہ فلسفہ جزوی اور محدود کامیابیاں حاصل کرتا رہا لیکن حقیقت کائنات کے صحیح وجدانی تصور سے محروم ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر منزل سے دور ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نبوتِ کاملہ کی راہ نمائی کے بغیر صحیح قسم کے وجدان سے آغاز کرنا اور لہٰذا صحیح عقلی استدلال کو پانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ نبوت کی کوشش یہ تھی کہ انسان کو نظامِ عالم کی عقلی ترتیب کی تفصیلات میں لے جانے کی بجائے انسان کو اس کے ضروری حقائق کی واقفیت اس حد تک بہم پہنچا دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے عمل پر آمادہ ہو جائے جس سے وہ نہ صرف اپنی عملی زندگی کو درست کرے بلکہ جس سے اس کے اندر وہ صحیح وجدان پیدا ہو جائے جو نظامِ عالم کی عقلی تربیت کو دریافت کرنے میں اس کی ٹھیک ٹھیک راہ نمائی کرے۔ چنانچہ نبوت اپنے کمال کو پہنچ کر بھی ہمیں نظامِ عالم کی عقلی واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ صرف اس اعلیٰ قسم کے وجدان کی تربیت کا اہتمام کرتی ہے جو آخرکار اس واقفیت کے حصول کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر عقلی استدلال کامل طور پر درست نہیں ہوسکتا۔ فلسفہ نے ٹھیک سمجھا کہ نظامِ عالم ایک زنجیر کی طرح ہے جس کی ہر کڑی اگلی کڑی کے ساتھ ایک عقلی تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا اسے یہی نظر آیا کہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ سلسلۂ عالم کی ساری کڑیوں کو عقل کی مدد سے دریافت کرے گا لیکن بدقسمتی سے وہ ہر بار اپنے غلط وجدان کو ہی ایک منطقی زنجیر کی شکل دیتا رہا اور لہٰذا ہمیشہ ناکام رہا۔ اگر فلسفہ ذرا جرأت سے قدم اُٹھاتا اور نبوتِ کاملہ کے تصور کائنات کو جب وہ دنیا کے اندر موجود ہوچکی تھی اپنا لیتا تو اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتیں اور وہ صحیح عقلی استدلال کو جو صدیوں سے اس کی جستجو کا مرکز رہا تھا اسے حاصل ہو جاتا لیکن جب تک فلسفہ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے نبوت کے تصورِ حقیقت کے قرب و جوار میں ایک خاص مقام پر نہ پہنچ جاتا یہ دلیرانہ قدم اُٹھانا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے اکتشافات کی وجہ سے فلسفہ کو یہ مقام حاصل ہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اقبال کی حکمت میں تعلیم نبوت کے ساتھ پیوست ہونے کا دلیرانہ قدم بھی اُٹھا لیا ہے۔ اقبال کا فلسفۂ خودی نبوت کے عطا کیے ہوئے تصورِ کائنات کی ایسی تشریح بہم پہنچاتا ہے جس میں آج تک کے دریافت کیے ہوئے تمام علمی حقائق سموئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مستقبل کے علمی حقائق بھی اس کے اندر کیوں سموئے نہ جاسکیں گے۔ تعلیم نبوت اور فلسفہ کا یہ اتصال انسان کے علمی ارتقا کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو نوعِ انسانی کو ترقی کے ایک نئے دور میں داخل کرتا ہے اور اقبال اس دور کا نقیب ہے۔ اس واقعہ سے حقیقت انسان کا علم جس پر انسانی دنیا کے دائمی امن و اتحاد کا دار و مدار ہے۔ پہلی دفعہ ایسی منظم صورت میں سامنے آیا ہے جو دورِ حاضر کے انسان کو مطمئن کرسکتی ہے اور جو اس کی عالمگیر قبولیت کی ضامن ہے۔ اقبال اپنے اس مقام سے آگاہ ہے۔ اقبال نے اپنے فکر کی ضرورت اور اہمیت کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ محض شاعرانہ تعلیات اور مبالغات نہیں بلکہ ایسے ٹھوس حقائق ہیں جن کے متعلق خاموشی برتنا اس کے لیے کسی طرح سے بھی جائز نہ ہوتا۔ ذرہ ام مہر منیر آن من است صد سحر اندر گریبان من است خاک من روشن تر از جام جم است محرم از باز ادہائے عالم است فکرم آں آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیرون نجست ہیچ کسی رازے کہ من گویم نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سمت چشمۂ حیوان بر اتم کردہ اند محرم از راز حیاتم کردہ اند بچشم کم مبیں تنہائیم را کہ من صد کاروان در گل کنارم قلزم یاران جو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفان فروش انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زردشتیان آتشم عمرہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید برون سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ نہ آید شاید یہ کہا جائے گا کہ اگر آج تک کوئی غیر مسلم فلسفی ایسا نہیں ہو سکا جو نبوتِ کاملہ کے تصورِ حقیقت پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھتا تو یہ بات درست ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر اقبال سے پہلے کوئی ایک بھی مسلمان فلسفی ہو گزرا ہے تو اس کے فلسفہ کی بنیاد لازماً خدا کے اسلامی تصور پر ہوگی پھر اقبال کی خصوصیت کیا ہے اور پھر اس سلسلہ میں شاید ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی ایسے اکابر اسلام کا نام لیا جائے لیکن خودی کی حکیمانہ اصطلاح کو کام میں لانے کی وجہ سے اقبال کے لیے یہ ممکن ہوا ہے کہ وہ خدا کے اسلامی تصور کو محض ایک عقیدہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی علمی اور عقلی حقیقت کے طور پر پیش کرسکے جس کے ڈانڈے دوسرے تمام علمی اور عقلی تصورات سے جا ملتے ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زمانۂ حال کے تمام علمی حقائق کے ساتھ اور انسان کی زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس تصور کی علمی اور عقلی مناسبت آشکار ہوگئی ہے اور اس تصور کی یہ مخفی استعداد کہ صرف وہی کائنات کے تمام موجودہ اور آیندہ حقائق کی معقول تشریح اور مکمل تنظیم کرسکتا ہے، علمی تحقیق کے دائرہ کے اندر آگئی ہے اور یہی اقبال کی سب سے بڑی علمی خدمت ہے۔ دراصل اقبال کی عبقریت کا یہ مظاہرہ وقت کی ضرورت کا نتیجہ ہے اور وقت کے خاص علمی ماحول اور مقام نے اسے ممکن بنایا ہے۔ اقبال کے زمانہ میں حکمائے مغرب کی تحقیق و تجسس کی بدولت علم کے تینوں شعبوں میں علمی حقائق نے اس سرعت سے ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسرے سائنس کے خاص اسلوبِ تحقیق کے اثر سے فلسفہ کی دنیا میں بھی ایک نیا طرزِ استدلال وجود میں آیا ہے۔ جس میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے کہ کوئی حقائق نظر انداز نہ ہونے پائیں حقائق کا معاینہ کامل احتیاط سے کیا جائے اور نتائج وہی اخذ کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور یہ طرزِ استدلال علمی دنیا میں آیندہ کے لیے ایک مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ اس دور میں بہت سے فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے حقائق عالم کو ایک مرکزی تصور کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال جیسا کہ خود اسے اعتراف ہے حکمت مغرب کی ان علمی ترقیات اور خصوصیات سے پوری طرح متاثر ہوا ہے لہٰذا اس کی حکمت نے ایک ایسی شکل اختیار کی ہے جس کی وجہ سے اس میں صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ موجودہ اور آیندہ کے تمام علمی حقائق کو اپنے اندر جذب کرسکے اور اس طرح سے کائنات کا وہ صحیح اور آخری نظامِ حکمت ثابت ہو جو ہر دور کے باطل فلسفوں کا جواب ان ہی کی زبان میں دے سکتا ہو۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی کے زمانہ میں اس قسم کے فلسفہ کا وجود میں آنا نہیں تھا۔ آج اگر مسلمان یا کوئی اور قوم جدلی مادیات کا معقول علمی جواب دینا چاہے جسے دور حاضر کا انسان بھی سمجھ سکے تو وہ صرف اقبال کے نظام حکمت ہی سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ کائنات اور انسان کی صحیح اور سچی حقیقت کو سمجھنے کے لیے نوع بشر کی راہ میں جس قسم کی ذہنی رکاوٹیں کسی دور میں پیدا ہوتی ہیں قدرت ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے علاج بھی ایسا ہی پیدا کرتی ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اپنے مزاج کے لحاظ سے اپنے دور کے فلسفوں کی تمام ظاہری خصوصیات سے حصہ لیتا ہے تاکہ ان کا تسلی بخش جواب بن سکے۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی ایسے اکابر امت کے فلسفے اپنے زمانے کے باطل فلسفوں کا جواب تھے۔ لیکن اس زمانہ کے باطل فلسفوں کا جواب نہیں ہیں اور نہ بنائے جاسکتے ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر اقبال کو یہ کہنا زیب دیتا ہے: ہیچ کس رازے کہ من گویم نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت چونکہ اقبال ایک فلسفی کی حیثیت سے وحدت کائنات کا قائل ہے ضروری تھا کہ اس کا فلسفہ ایک نظامِ حکمت کی صورت میں ہوتا لیکن اقبال کا نظام حکمت نثر سے زیادہ نظم میں لکھا گیا ہے اور شعر کی زبان تصورات کے باہمی عقلی اور منطقی تعلقات کی باریک تفصیلات اور جزئیات بیان کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتی لہٰذا ہم اقبال سے جس حد تک وہ شعر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ان تفصیلات کی توقع نہیں کرسکتے تھے جیسی توقع مثلاً ہم اس فلسفی سے کرسکتے ہیں جو محض نثر نویس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا نظامِ حکمت ایک ہی سلسلہ کی صورت میں ایک ہی کتاب میں بیان نہیں ہوا بلکہ اس کے اجزا اس کی ساری کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ اتفاق کہ اقبال ایک حکیم ہی نہیں بلکہ ایک شاعر بھی تھا اس کے فلسفہ کی نشر و اشاعت کے لیے سازگار ثابت ہوا ہے۔ شعر تصورات کو ایک انقلاب انگیز اثر کے ساتھ لوگوں کے دلوں تک پہنچاتا ہے اگر اقبال محض ایک فلسفی ہوتا اور شاعر نہ ہوتا تو شاید اس کی قوم جو علمی روایات کو مدت سے کھو چکی ہے عرصۂ دراز تک اس کے فلسفہ کی طرف توجہ نہ کرسکتی لیکن اس قوم کو اپنی بے عملی کے علاج کی فوری ضرورت تھی لہٰذا اس قوم کے حق میں قدرت کا انتظام یہ تھا کہ اقبال اپنے فلسفہ کو ایک نہایت ہی سریلی آواز میں گائے اور گا کر اس قوم کو فوراً اپنے اردگرد جمع کر دے چنانچہ جب اس نے قوم کو اپنی آواز کی طرف بلایا: حلقہ گرد من زنید اے پیکران آب و گل آتشے در سینہ دارم از نیاگان شما تو قوم نے اس کے اردگرد جمع ہو کر ایک نئی ریاست کی بنیاد ڈالی جو پاکستان ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہی قوم جو اس کے شعر سے متاثر ہوئی ہے اس کے شعر کے مطالب ومعانی کو ایک منظم سلسلہ افکار کی صورت میں ضبط تحریر میں لائے تاکہ خود بھی اسے ٹھیک طرح سے سمجھے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف متوجہ کرسکے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم فکر اقبال کی اس قسم کی مسلسل تشریح بہم پہنچانے کی کوشش کریں گے تو اس کے تصورات کے آپس کے علمی اور عقلی تعلق کو آشکار کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم کسی ایک ایسی علمی حقیقت کو بھی نظر انداز نہ کریں جو اس تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے میں ہمیں مدد سے سکتی ہو یعنی جو سچی علمی حقیقت ہونے کی وجہ سے اقبال کے نظامِ حکمت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو، اقبال اسی خیال کی تائید کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح بہم پہنچانا نہ صرف علم کی اور نوعِ انسانی کی ایک بڑی خدمت ہے بلکہ غیروں کے روبرو خود اقبال کی عظمت کا بھی امتحان ہے جس میں اقبال کا پورا اُترنا یقینی ہے۔ یہ کہہ دینا بے محل نہیں کہ جو شخص بھی اس حد درجہ ضروری کام کو ہاتھ میں لے اس کے لیے دو شرطوں کا پورا کرنا ضروری ہے ایک تو یہ کہ اسے اقبال کے افکار کے ذہنی یا وجدانی سرچشمہ یا منبع تک رسائی حاصل ہو یعنی وہ اقبال کے اس قلبی احساس یا وجدان سے بہرہ ور ہو جس سے اس کے تمام تصورات سرزد ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسے نبوتِ کاملہ کے عطا کیے ہوئے حقیقت کائنات کے تصور کا وہی مشاہدہ یا روحانی تجربہ یا عشق حاصل ہو جو اقبال کو تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کے غیر مبہم الفاظ میں بار بار کہنے کے باوجود ہم اس بات کو بالعموم نظر انداز کر جاتے ہیں کہ گو اقبال ایک شاعر بھی ہے اور ایک فلسفی بھی، تاہم بنیادی طور پر وہ ایک درویش یا صوفی ہے اس کا شاعرانہ کمال اور حکیمانہ جوہر دونوں اس کے وجدان یا عشق کے خدمت گزار ہیں۔ اس کی ساری ذہنی کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کی معروف اور دورِ حاضر کے انسان کے لیے قابل فہم زبان میں اپنے روحانی تجربہ یا عشق کی ترجمانی کی ہے اور اس عمل کے دوران میں جو فلسفیانہ افکار و تصورات اس کے ہاتھ لگے ہیں ان کو شعر کے زوردار اور پُراثر طرز بیان کا جامہ پہنایا ہے۔ دوسرے شاعروں کی طرح محبت مجاز کی داستانوں اور غزلوں سے سننے والوں کا دل لبھانا اس کا مدعا نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کے لقب کو جو بعض وقت اسے دیا جاتا ہے بڑے زور سے رد کرتا ہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم مدار امید زاں مرد فرد است کہ بر من تہمت شعر و سخن بست او حدیث دلبری خواہد ز من رنگ و آب شاعری خواہد ز من کم نظر بے تابئے جانم نہ دید آشکارم دید و پنہانم نہ دید نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ایسے فلسفے جو خدا کی محبت یا حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے عاری ہوں اور لہٰذا حقیقت کے غلط یا ناقص تصور پر مبنی ہوں بے ہودہ اور بیکار ہیں۔ اگر وہ خود خدا کی محبت سے بہرہ ور نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی اس قیمتی حکیمانہ نتیجہ پر پہنچ سکتا۔ اور یہ ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ خود اقبال کا دعویٰ بھی ہے کہ اسے روحانیت کا ایک درجہ اور معرفت حق تعالیٰ کا ایک مقام عطا کیا گیا ہے۔ اس درجہ معرفت یا مقامِ محبت کو وہ سوز دروں، ذوقِ نگاہ، جانِ بیتاب، خدا مستی اور بادۂ ناب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور اپنے لیے درویش، فقیر، قلندر ایسے القاب استعمال کرتا ہے۔ جو صوفیا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں: درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ نہ آید قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا اے پسر ذوق نگاہ از من بگیر سوختن در لا الٰہ از من بگیر مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے عصر حاضر را خرد زنجیر پاست جان بیتابے کہ من دارم کجا است اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود سوزد از تاثیر او جاں در وجود اقبال کے فکر کو ایک مسلسل نظامِ حکمت کے طور پر پیش کرنے کے لیے دوسری شرط جس کا پورا کرنا اس کے شارح کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام علمی حقائق سے جو اب تک دریافت ہوچکے ہیں اور فلسفہ کے ان تمام نظریات و تصورات سے جو آج تک پیش کیے گئے ہیں پوری طرح سے واقف ہوتا کہ اقبال کے نظام تصورات کے ساتھ ان کی اور ان کے ساتھ اقبال کے نظام تصورات کی مناسبت یا عدم مناسبت کا ادراک کرسکے۔ اقبال کا جو شارح ان دو شرطوں کو پورا کرے گا وہ اس کے نظام حکمت کے بکھرے ہوئے تصورات کے علمی اور عقلی رشتہ کو سمجھنے کی وجہ سے نہ صرف اس قابل ہوگا کہ ان کو ایک سلسلہ کی صورت میں بیان کرسکے بلکہ اس کے لیے یہ بھی ممکن ہوگا کہ وہ اس کے نظامِ حکمت کو اور وسعت اور ترقی دے سکے یعنی اور علمی حقائق کو جو اس کے ساتھ مطابقت یا مناسبت رکھتے ہوں اس کے اندر داخل کرکے اس کی تائید مزید کا سامان پیدا کرسکے اور یہ ظاہر ہے کہ ایک سچے تصورِ حقیقت پر قائم ہونے والے نظامِ حکمت کی ہر ترقی اس کی اگلی ترقی کو آسان کرتی ہے۔ اور اس طرح سے اس کی غیر متناہی ترقیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب اقبال کے فلسفہ خودی کی ایک اور ترقی یافتہ صورت ہمارے سامنے آئے گی تو پھر وہ اور ترقی کرے گا اور لوگ تاقیامت اس پر لکھتے رہیں گے اور اس کی ترقی کا سلسلہ ختم نہ ہوگا کیونکہ علم کے تینوں شعبوں میں تمام حقائق صرف اسی کے اجزا و عناصر شمار کیے جائیں گے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک سچا فلسفہ ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کی ترقیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں اس کے برعکس چونکہ علمی حقائق ایک غلط فلسفہ کے ساتھ جو غلط تصورِ حقیقت پر مبنی ہو مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ان حقائق کی ترقی کی وجہ سے زود یا بدیر ایک ایسا وقت خودبخود آجاتا ہے جب غلط فلسفہ کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور وہ اپنا دم توڑ دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح ایک ایسے دور کو قریب لائے گی جب دنیا میں صرف ایک ہی فلسفہ باقی رہے گا اور وہ اقبال کا فلسفہ خودی ہوگا اور دوسرے تمام فلسفے یا تو مٹ جائیں گے اور یا پھر نوعِ انسانی کے ادوار جہالت کی یادگار کے طور پر باقی رہیں گے۔ اسی لیے اقبال دورِ حاضر کے انسان سے نہیں بلکہ مستقبل کے انسان سے امید رکھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے اس کی عظمت کا اعتراف کرے گا اور اس کے فکر کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائے گا: انتظار صبح خیزاں می کشم اے خوشا زرتشیان آتشم نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم عصر من دانندۂ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نغمۂ من از جہاں دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است لیکن یہ دو شرطیں اس قسم کی ہیں کہ ایسے افراد کی کوئی کمی نہ ہوگی جو ان میں سے تنہا ایک کو یا دوسری کو باحسن طریق پورا کرسکیں لیکن ایسے اشخاص بمشکل مل سکیں گے جو بیک وقت دونوں شرطوں کو پورا کریں۔ اس زمانہ میں جب مذہب علومِ جدیدہ سے ناواقف ہے اور علومِ جدیدہ سے شغف رکھنے والے اشخاص مذہب سے بے بہرہ ہیں ایسے درویشانِ خدا مست کا وجود نادر ہے جو علومِ جدیدہ میں بھی دسترس رکھتے ہوں۔ اقبال کے نظامِ حکمت میں خودی سے مراد وہ شعور ہے جو خود شناس ہو لیکن یہاں شعور کا مطلب تمیز یا ہوش نہیں بلکہ خود وہ چیز ہے جس کا خاصہ تمیز یا ہوش ہے یا جس کی وجہ سے ایک انسان تمیز یا ہوش رکھتا ہے۔ یہ ایک نور ہے لیکن مادی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اس کی مماثل ہو اور پھر یہ ایک قوت ہے لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ اس کو مشابہت دی جاسکے۔ یہی وہ نورانی قوت یا قوی نور ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے۔ ان معنوں میں ایک خاص سطح کا شعور حیوان میں بھی موجود ہے لیکن حیوان کا شعور آزاد نہیں بلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلتوں کے ماتحت کام کرتا ہے اس کے برعکس انسان کا شعور جبلتوں سے آزاد ہو کر بھی کام کرسکتا ہے۔ انسان میں شعور کی آزادی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس میں طلب حسن اور جستجوئے کمال کا جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ اس جذبہ کی تسکین اور تشفی کے لیے جبلتوں کی مخالفت کرسکتا ہے۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط سوچتا اور جانتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف سوچتا جانتا اور محسوس کرتا ہے بلکہ جب وہ ایسا کر رہا ہوتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے یعنی انسان میں اپنے شعور کے افعال کو جاننے اور سمجھنے کی استعداد ہے لہٰذا اس کا شعور خودشناس اور خود شعور ہے۔ وہ فقط شعور ہی نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی خود شعوری ہے اسی خود شعوری کو اقبال خودی کہتا ہے۔ ہم اپنی خودی کا علم حواس کی مدد کے بغیر براہِ راست حاصل کرتے ہیں۔ لیکن غیر کی خودی کا علم ہمیں فقط اس کے نتائج اور اثرات اور افعال و اعمال سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ہم اس کو کسی حالت میں بھی ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ اقبال کا سارا نظامِ حکمت علمی حقائق کی روشنی میں اسی خودی کے غیر مبدل اور فطری اوصاف و خواص اور عملی اثرات و نتائج کی تشریح پر ہے اور اس کی روشنی میں علمی حقائق کی تشریح اور تنظیم پر مشتمل ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں حقیقت انسان و کائنات کے ہر گوشہ کو موضوع بحث بنایا ہے اور انسان کی عملی زندگی کے تمام شعبوں کی ماہیت پر رائے زنی کی ہے۔ مثلاً وہ اس قسم کے سوالات کا جواب دیتا ہے کہ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ تخلیق کیا ہے؟ ارتقا کیا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ حیوان کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ جبلت کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی ہے؟ تخیل کیا ہے؟ حافظہ کیا ہے؟ جد و جہد کیا ہے؟ آرزو کیا ہے؟ ہوش کیا ہے؟ علم کیا ہے؟ عقل کیا ہے؟ وجدان کیا ہے؟ عشق کیا ہے؟ فقر کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ اخلاق کیا ہے؟ تعلیم کیا ہے؟ سیاست کیا ہے؟ قانون کیا ہے؟ آمریت کیا ہے؟ جمہوریت کیا ہے؟ ہنر کیا ہے؟ تیاتر کیا ہے؟ تاریخ کیا ہے؟ مذہب کیا ہے؟ جنگ کیا ہے؟ وغیرہ لیکن اس لیے کہ یہ تمام سوالات خودی کی ماہیت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر قلم اُٹھانا خودی کی ماہیت کو واضح کرنا ہے۔ اور اس لیے کہ اس کے نزدیک ان تمام سوالات کا صحیح جواب بھی خودی کی ماہیت سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ زندگی بغیر شعور کے نہیں ہوتی اور شعور بغیر زندگی کے نہیں ہوتا۔ اقبال نے خودی کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کیا ہے۔ خودی کا مرکزی وصف محبت یا عشق ہے اسی سے وہ اپنی ممکنات کا اظہار کرتی اور ترقی پاتی ہے ؎ نقطۂ نورے کہ نام او خودیست زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت مے شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکنات مضمرش فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیاموزد ز عشق خودی اپنی فطرت کے اس تقاضا کو پورا کرنے کے لیے کسی حسین و جمیل مقصد یا مدعا کی تلاش کرتی ہے۔ اور جب کوئی ایسا مقصد یا مدعا جو اس کی نگاہ میں حسین و جمیل ہو اس کے سامنے آجاتا ہے تو پھر وہ دل و جان سے اس کو چاہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے عواقب سے بے پروا ہو کر میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اور اپنی تمام مخفی صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کار لاتی ہے تاکہ اپنے راستہ کی تمام مشکلات پر غالب آئے اور تمام مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو دور کرکے اپنے مدعا کو حاصل کرے۔ مدعا کا حصول اس کا غلبہ بھی ہے اور اس کی خود نمائی بھی۔ لہٰذا حُبّ استیلا یا غلبہ کی خواہش اور خود نمائی اس کے ثانوی خواص ہیں جو اس کے تقاضائے عشق و محبت سے پیدا ہوتے ہیں: زندگانی را بقا از مدعا است کاروانش را درا از مدعا است زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو و ہنگامہ آرائے خودی موج بیتابے ز دریائے خودی اقبال کے بعض شارحین کو ’’خودی‘‘ کا یہ مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ خودی کا لفظ فارسی اور اُردو میں ایک اور معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے یعنی تکبر، خود پروری اور خود پرستی کے معنوں میں اور پھر اقبال نے بھی مسلمانوں کی اس زمانہ کی پست حالی کے پیش نظر خود کے گونا گوں ازلی اور ابدی صفات میں سے صرف اس صفت پر زور دیا ہے۔ جس کا ایک پہلو خود نمائی یا حب استیلا یا غلبہ کی خواہش ہے۔ اس صفت کی رو سے خودی حصولِ مدعا کے لیے مزاحمتوں کا مقابلہ کرکے ان پر غالب آنا چاہتی ہے۔ اس بنا پر بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا ہے کہ اقبال کے نزدیک بھی خودی کا مفہوم وہی ہے یا اس کے قریب قریب کچھ ہے جو عام لوگوں کے ذہن میں اب تک چلا آتا ہے۔ چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ جذبۂ خود نمائی اور قوت کے جائز یا ناجائز اظہار میں کوئی خاص خوبی ہے اور اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو اس جذبہ کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ بات قطعاً غلط ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی گزارش تو یہ ہے کہ جہاں تک انسان کی خودی کا تعلق ہے خودی کے مقاصد صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔ جدوجہد یا عمل سے خودی کا جذبۂ خود نمائی اسی صورت میں مکمل اور مستقل اطمینان پاتا ہے جب اس کا مقصد صحیح ہو یعنی اس کی اپنی فطرت کے مطابق ہو۔ غلط مدعا درحقیقت خودی کا اپنا مدعا نہیں ہوتا بلکہ اس کے اپنے اصلی فطری اور صحیح مدعا کی غلط ترجمانی ہوتی ہے جسے زود یا بدیر خودی کو درست کرنا پڑتا ہے لہٰذا غلط مدعا کی پیروی سے خودی کو عارضی طور پر تسلی ہو تو ہو لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی جدوجہد آخر کار خود اس کے خود نمائی کے مقصد کو شکست دے دیتی ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ عملی جدوجہد احساس مدعا کا لازمی نتیجہ ہے اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مدعا غلط یا صحیح رکھنے پر مجبور ہے۔ گویا وہ ہر وقت عمل یا جدوجہد کرنے پر بھی مجبور ہے غلط مدعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مدعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے اقبال صرف اسی عمل کی تلقین کرتا ہے جو ہمارے صحیح اور بلند مدعا کے ماتحت پیدا ہو اور اس کے نزدیک صحیح مدعا فقط مرد مومن کا امتیاز ہے۔ مومن کا نصب العین حیات صبح کی طرح روشن منتہائے حسن و کمال اور آسمان سے بالا تر ہوتا ہے کیونکہ وہ خود خدا ہی کا نصب العین ہوتا ہے: اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے مثل سحر تابندۂ ما سوے را آتش سوزندۂ مقصدے از آسماں بالا ترے دلربائے دلستانے دلبرے اوپر یہ کہا گیا ہے کہ اقبال کے نزدیک خودی وہ شعور ہے جو اپنے آپ سے آگاہ ہو اور یہ شعور انسان کا امتیاز ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خودی انسان میں کہاں سے آئی ہے۔ کیا وہ مادہ ہی کی ایک خاص ترقی یافتہ حالت کا وصف تو نہیں مثلاً مادہ کی ایسی ترقی یافتہ حالت جس کا مشاہدہ ہم وجود انسانی میں کرتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر خودی مادہ ہی کی ایک شکل ہے اور مادہ سے الگ کچھ نہیں۔ حکمائے مادیین نے یہی سمجھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب مادہ ترقی کرتے کرتے ایک خاص حالت پر پہنچ جاتا ہے تو طبیعیات اور کیمیا کے قوانین اپنا عمل اس طرح سے شروع کرد یتے ہیں کہ ہم کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس میں شعور پیدا ہوگیا ہے یا وہ زندہ ہے۔ زندہ مادہ کو ہم جسم حیوانی کا نام دیتے ہیں۔ شعور جسم حیوانی کے دماغ یا نظام عصبی میں مرتکز ہوتا ہے اور پھر جب زندہ باشعور مادہ اور ترقی کرتا ہے تو اس کا شعور بھی ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ انسان تک پہنچ کر وہ خود شعور ہو جاتا ہے اور خود شعور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا دماغ ایک مادی ساخت کی حیثیت سے دوسرے تمام حیوانات کے دماغ کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہے اگر یہ خیال درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں۔ لیکن اقبال اس نقطۂ نظر سے یکسر اختلاف کرتا ہے چنانچہ وہ مادہ پرست حکیم کے مسلمان پیرو سے خطاب کرکے کہتا ہے: تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی اقبال کے نزدیک خودی مادہ کی ترقی یافتہ شکل نہیں بلکہ خود کائنات کی آخری حقیقت ہے جو اپنے اوصاف کو آشکار کرنے کے لیے خود مادہ کو پیدا کرکے اس میں اپنا ظہور کرتی ہے۔ اور اسے رفتہ رفتہ ترقی کے مدارج سے گزار کر ایک خاص منزل تک پہنچاتی ہے: پیکر ہستی ز آثار خودیست ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست اور مادیین کے ساتھ اقبال کے اس نزاع میں تازہ ترین علمی حقائق کلیتاً حکمائے مادیین کے خلاف اور اقبال کے حق میں ہیں۔ /…/…/ اقبال اور تصوف __ چند تنقیحات ڈاکٹر منظور احمد اقبال اور تصوف کے عنوان سے اُردو زبان میں کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اور مختلف مجلوں میں آئے دن اسی عنوان سے مضامین بھی نکلتے رہتے ہیں۔ ان کتابوں اور مضامین میں مختلف مسلک اختیار کیے گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبال مجدد الف ثانی کے شہودی نظریہ کے قائل تھے اور محی الدین ابن عربی کے پیش کر دہ وجودی نظریہ سے سخت اختلاف رکھتے تھے، بعض ناقدین کی رائے میں علامہ آخری عمر میں ابن عربی مسلک سے قریب ہو گئے تھے، اور چند کے نزدیک مجدد الف ثانی اور ابن عربی کے نظریات میں چونکہ کوئی تضاد موجود نہیں ہے اور بظاہر جو فرق ہے، اس کی بھی تعبیرات ممکن ہیں اس لیے اقبال کا فلسفہ خودی ان دونوں کے درمیان اسی قسم کا ایک تعبیراتی امتزاج ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ایک شے جو تقریباً ان تمام نگارشات میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں نے درآنحالیکہ تصوف میں بحیثیت ایک طریق تزکیہ اور ایک مابعد الطبیعاتی نظریہ کے امتیاز تو ضرور پیدا کیا ہے ، لیکن موضوع کے برتائو میں ان دونوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ اور تصوف کے عملی پہلو اور نتائج سے زیادہ سروکار رکھا ہے، یہ بات ایک فطری امر بھی ہے۔ اس لیے کہ وجودی فلسفہ کی مابعد الطبیعات ایک مشکل مضمون ہے، اس پر ابن عربی کا غامض بیان اس کو اور بھی مشکل بنادیتا ہے تاہم ابن عربی کے بیان کا یہ غموض ان کے منشا کو ضرور پورا کرتا ہے، اس لیے کہ یہ کتابیں ’’خواص‘‘ کے لیے لکھی گئی ہیں۔ لیکن اس سے خود فلسفہ وجود مختلف قیاس آرائیوں اور غلط فہمیوں کا ہدف بن گیا ہے۔ اقبال نے خود بھی تصوف کے عنوان سے اپنی شاعری میں بہت کچھ کہا ہے۔ ان کے سرسری مطالعہ سے ایک عام آدمی جو نتیجہ نکالتا ہے، وہ یہ ہے کہ اقبال تصوف کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تصور کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ تصوف جمود اور بے عملی کا ایک بہانہ ہے، وہ خود حقیقت کے حرکی پہلو سے متاثر تھے اور زندگی کو ایک حرکت مسلسل سے تعبیر کر کے ارتقائے لا متناہی اور جہد متواتر کے قائل تھے۔ ذکر نیم شبی، مراقبے اور سر ور ان کی نظر میں اس وقت تک کوئی وقعت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ انسان کی خودی کی نشو ونما میں ممد و معاون ثابت نہ ہوں۔ ان کے کلام سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ یہ تصور خود تصوف کے معروف معنوں کی ضد ہے۔ عام طور پر ہوالکل، ہوالموجوداور لا موجود الا للہ جو صوفیا کے نزدیک فلسفہ تصوف کے بنیادی کلمات سمجھے جاتے ہیں، حقیقت کا ایک ایسا تصور پیش کرتے ہیں جس میں انسان کی اپنی بقا کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور اس کی فنا ہی میں اس کی تکمیل کا راز مضمر نظر آتا ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کا فلسفہ خودی انسانی عظمت کا اقرار کرتا ہے۔ بہ بحرش گم شدن انجام مانیست اگر او را تو در گیری فنانیست انسان کی خودی جبریل و سرافیل سے بھی آگے بڑھ کر خود یزداں پرکمند آوری کرتی ہے۔۱؎ اپنے اس فلسفہ خودی کے دفاع میں اُنھوں نے افلاطون، حافظ ، فلاطینوس اور ابن عربی کی سخت گرفت کی ہے۔ اس کا اظہار مجملاً اُنھوں نے اپنی آرا کی شکل میں مختلف مقامات پر کیا ہے مثلاً ایک خط میں محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں: یہی فلاطونیت جدیدہ جس کا اشارہ میں نے اپنے مضمون میں کیا ہے فلسفہ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ جس کو (اس کے) ایک پیرو (Plotinus) نے مذہب کی صورت میں پیش کیا۔ مسلمانوں میں یہ مذہب حران کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعے پھیلا اور رفتہ رفتہ مذہب اسلام کا ایک جز بن گیا۔ میرے نزدیک یہ قطعاً غیر اسلامی ہے اورقرآن کریم کے فلسفہ سے اسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تصوف کی عمارت اسی یونانی بے ہودگی پر تعمیر کی گئی ہے۔۲؎ یا مثلاً ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: جہاں تک مجھے علم ہے ’’فصوص‘‘ میں سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۳؎ جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور نظام عالم اور حقائق باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کر تا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔۴؎ ’’فلسفہ تصوف‘‘ کے متعلق اقبال کا یہ رد عمل اتنا شدید معلوم ہوتا ہے کہ اقبالیات کے ایک طالب علم کو بجا طور پر اس کی توقع ہونے لگتی ہے کہ اقبال نے اپنے نظریات کے بیان میں فلسفیانہ تشریح و توضیح کو قابل اعتنا نہ سمجھا ہوگا۔ لیکن اقبا ل کے کلام کے ذرا عمیق مطالعہ سے اس بات کے معلوم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ اقبال نے خود ’’ تصوف‘‘ کا ایک فلسفہ پیش کیا ہے جس کو وہ فلسفہ خودی کہتے ہیں۔ اس کی ایک مابعد الطبیعات ہے، جس میں کائنات کی حقیقت سے بحث کی گئی ہے۔ ایک نظریہ علم ہے، جس میں علم کا مبدا اور اس کی صحت اور عدم صحت کے معیار بتلائے گئے ہیں۔ ایک نظام اخلاق ہے ایک فلسفہ خیر و شرہے۔ ایک نفسیات ہے۔ غرض وہ فلسفہ کا ایک کلی نظام ہے۔ جس کی بنیاد حقیقت ذات پر رکھی گئی ہے۔ اور جس طرح ابن عربی کے مسلک کو بعض مبصرین فلاطینوس کے فلسفے کی ایک شکل قرار دیتے ہیں، اسی طرح اقبال کا یہ فلسفہ بھی الگزینڈر (Alexander)، جیمس وارڈ (James Ward) اور میکٹیگرٹ(Mc Taggart) کے فلسفوں سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔۵؎ اقبال کو تصوف سے فی نفسہٖ تو کوئی عناد نہیں معلوم ہوتا بلکہ وہ اس کو ایک نہایت عمدہ چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن جب یہی تصوف ایک نظام فلسفہ کی شکل اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے تو ان کی روح بغاوت پر آمادہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ خود ایک فلسفی تھے اور اس بات سے اچھی طرح باخبر تھے کہ فلسفہ کا مسئلہ کیوں اور کس طرح پید ا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ چاہے وہ تصوف ہو یا اور کوئی مذہب اس کا ایک فلسفہ کی شکل میں ظہور کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ انسانی فطرت میں کھوج کا جو مادہ موجود ہے وہ اس کو اعتقادات کے حلقے سے آگے بڑھا کر خود حقیقت کی جستجو پر برابر اکساتا رہتا ہے۔ اور اسی سبب سے دنیا میں نت نئے فلسفے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ خود اقبال کا ’’تصوف‘‘ بھی ایک نہایت رفیع مابعد الطبیعاتی نظام پر مبنی ہے۔ یہی حال ابن عربی کا ہے۔ پھر اقبال کو اس پر اصرار کیوں تھا کہ تصوف کو محض اخلاص فی العمل تک محدود رہنا چاہئے۔ اور آگے بڑھ کر فلسفہ کے میدان میں قدم رکھنا اس کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس کا ایک جواب تو سیدھا سادا ہے۔ قرن اول میں تصوف تزکیہ نفس اور اصلاح اخلاق کا ہی ایک دوسرا نام تھا۔ اور اس میں پر پیچ فلسفیانہ موشگافیاں نہیں تھیں۔ ا س لیے اب بھی تصوف کو اپنی اصلی اور منزہ شکل ہی میں رہنا چاہیے۔ کائنات کی حقیقت کے بارے میں سراغ لگانا اس کے لیے زیبا نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک فطری سی بات ہے۔ اس وقت اسلام خود بھی تو ایک سیدھا سادا مذہب تھا۔ اس میں نہ تو فقہی موشگافیاں تھیں، نہ کلامی بحثیں، اور نہ فلسفیانہ تدقیق۔ خود اقبال کا پیش کردہ فلسفۂ خودی اور اس کی مابعد الطبیعیات کا اس دور میں کہیں دور دور تک پتا نہیں چلتا۔ لیکن یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس کا تذکرہ خود اقبال نے کیا ہے۔ اور اس کی توجیہہ بھی پیش کر دی ہے۔ اُنھوں نے خود حیات مذہبی کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ جس میں پہلا دور ایمان کا ہے۔ دوسرا فکر کا۔ اور تیسرا یافت کا۔۶؎ اسی لیے مذہب کی طرح تصوف بھی اپنے پہلے دو رمیں وہ فکری لوازمات نہیں رکھتا جن کی وجہ سے اس کو نظام فلسفہ کا نام دیا جاسکے۔ ’’اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید‘‘ کا موضوع خود ایک ایسے نظام فلسفہ کی تلاش ہے جو اسلام کو ایک فکری اور وجدانی بنیاد فراہم کر سکے۔ اس لیے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ اقبال فلسفہ کے فی نفسہٖ مخالف ہیں اور نہ وہ اس امکان کے خلاف ہیں کہ مذہب یا کوئی نظریہ آگے بڑھ کر فلسفیانہ شکل اختیار کرے۔ اقبال کو اگر اختلاف ہے تو فلسفہ کی اس خاص شکل سے جو وحدۃ الوجود، یا ہمہ اوست کے نام سے پیش کی جاتی رہی ہے۔ وحدۃ الوجود بجائے خود کوئی آسان فلسفہ نہیں ہے اور اس رنگ میں اس کو عموماً مسلمان صوفیاے کرام نے پیش کیا ہے ، وہ اس ہمہ اوستی تصور سے مماثل نہیں جو عام طور پر موضوع بحث بنایا جاتا رہا ہے۔ فلسفہ وحدۃ الوجود کی ابتدا اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ عالم حادث بالذات اور بالزمان ہے۔۷؎ اگرچہ اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں موجودہ دور کے کچھ حقیقییّن (Realists) کو تامل تو ضرور ہو گا لیکن اس خیال کو عام طور پر فکر اسلامی کی تائید حاصل رہی ہے۔ البتہ اس کی تشریح و تفسیر اور اس کے ظہور کے متعلق اختلاف آرا کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ وحدۃ الوجود کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اگر عالم کو حادث بالذات اور بالزماں مان لیا جائے تو اس عالم کے ظہور کو سمجھنے کے لیے علم کی رسائی کہاں تک ممکن ہے؟ا س فلسفہ کا ا جمالی بیان یہ ہے کہ تخلیق عالم سے پہلے صرف ذات حق ہی موجود تھی، باقی تمام عالم معدوم تھا۔ ذات حق کے دو مرتبے ہیں، پہلے مرتبہ میں وہ ذات حق ہے جو واجب الوجود ہے، اور صفات کمالیہ سے متصف۔ دوسرے مرتبے میں یہی ذات حق علم کی صفت سے متصف ہونے کے باعث عالم بھی ہے اور جس طرح قدرت بغیر مقدورات کے اور سمع بے مسموعات کے اور بصر بے مبصرات کے ممکن نہیں، اسی طرح علم بھی بغیر معلومات کے ممکن نہیں۔ یہ معلومات الٰہیہ وہ امکانات ہیں جنھوں نے ابھی صبح تخلیق نہیں دیکھی، جو ابھی حرف کن کے مخاطب نہیں ہوئے۔ قبل تخلیق یہ معلومات الٰہیہ جن کو اصطلاحاً اعیان ثابتہ کہاجاتا ہے،علم خداوندی میں موجود تھیں اور چونکہ ذاتِ حق ازل سے عالم ہے اور علم بغیر معلومات کے ممکن نہیں ہے اس لیے یہ معلومات بھی حق تعالیٰ کے ساتھ ازل سے موجود ہیں اور ان پر حدوث زمانی اور مکانی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کو غیر مخلوق کہا جاتا ہے، فعل تخلیق ان اعیان کے خارج میں انکشاف کا دوسرا نام ہے۔ جو چیزیں خارج میں ہم کو نظر آرہی ہیں وہ پہلے سے علم الٰہی میں موجود تھیں، اللہ تعالیٰ نے جب تخلیق کا ارادہ کیا تو ’’کن‘‘ کہہ کر ان کو عالم مرئی میں ظاہر فرما دیا۔ کن کے مخاطب یہی اعیان ثابتہ تھے۔ ان اعیان ثابتہ کے ظہور کی حقیقت کیا ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں تخلیق عالم کی ماہیت کیا ہے؟ یہ معلوم سے موجود کس طرح ہوا؟ اس بارے میں مسلک وجود کے قائلین کہتے ہیں کہ اشیا عدم محض سے وجود میں نہیں آسکتیں، اس لیے کہ عدم سے عدم ہی پیدا ہوتا ہے (Ex Nihilo Nihilo Fit)۔ اور نہ ہی عدم محض مختلف اشیا کی صورتیں اختیارکرتا ہے اس لیے کہ از روئے تعریف عدم کوئی وجود نہیں ہے جیسا کہ موجودہ زمانے کے بعض وجودی مفکرین (Existentialists) سمجھتے ہیں ، اور نہ ہی خود ذات خداوندی مختلف صورتوں میں تقسیم ہو سکتی ہے اس لیے کہ اس سے خداوند تعالیٰ کی ذات میں تکثر لازم آئے گا اور اسی سے پھر حلول بھی ثابت ہوگا اس عالم کی تخلیق کی ایک ہی جائز صورت ممکن رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تخلیق ان صور علمیہ پر جو ذات باری میں پہلے سے موجود تھے ایک قسم کی تجلی یا تمثل ہے، جس کی وجہ سے یہ ا عیان اپنی استعداد اصلی کے مطابق وجود سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔۸؎ فلسفہ وحدۃ الوجود کے اس اجمالی بیان کے بعد ہم ان اختلافات کو متعین کر سکتے ہیں جو اقبال کے فلسفے کے مابین پائے جاتے ہیں۔ ا قبال کے کلام کی روشنی میں ان کو ہم مندرجہ ذیل نکات کے تحت مختصراً بیان کر سکتے ہیں: (۱) فلسفہ وحدۃ الوجود حقیقت کا ایک تکمیل شدہ تصور پیش کرتا ہے، جبکہ فلسفہ اقبال میں یہ کائنات ابھی تکمیلی مراحل سے گزر رہی ہے۔ (۲) فلسفہ وحدۃ الوجود جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے ایک فلسفہ وحدت ہے، جب کہ اقبال کا نقطہ نظر کثرت کا ہے۔ (۳) فلسفہ وحدۃ الوجود میں انسانی ارادہ کی آزادی کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس کے برخلاف اقبال ’’انا ‘‘ کی حقیقی آزادی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں انھی نکات کی تنقیح کی گئی ہے۔ ۱…اقبال کے خیال میں یہ کائنات کوئی فعل مختتم نہیں ہے بلکہ ابھی مراتب تکمیل طے کر رہی ہے۔ اس لیے اس کے متعلق کوئی بات قطعی اور اذ عانی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ عمل تخلیق جاری ہے (اور انسان اس میں شریک ہے) یہ کل کائنات افراد کے مجموعہ سے عبارت ہے اور افراد کی تعداد معین نہیں ہے، ہر روز نئے افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اس عمل تکوین میں تعاون کرتے ہیں۔ زندگی کوئی بنی بنائی مقرر چیز نہیں ہے۔ اس میں نئی خواہشات کے تحت ہر لمحہ نئے تغیرات کا ہونا لازم ہے۔ یہ دائمی طور پر کچھ ہونے (Becoming) کی حالت ہے۔ اس کی مستقل فعلیت کی وجہ سے اس کی شان یہی ہے کہ وہ ہمیشہ سفر میں رہے۔ اور منزل پر کبھی نہ پہنچے۔ ابتدا میں زندگی ایک اندھی جبلی رو کی مثل تھی اور مقصد سے قطعاً عاری تھی۔ مادہ سے متصادم ہو کر اور مزاحمت کی صلاحیت پیدا کر کے اس نے ارتقا کا زینہ چڑھنا سیکھا۔ دشت وجود میں بہت کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد اس نے اعمال کی قدر و قیمت میں فرق کرنے کی عادت ڈالی۔ قدر کا یہ شعور زندگی کا سب سے بڑا انقلاب تھا، اور اس کی سب سے بڑی متاع عزیز۔ اب قدر کا دامن عالم تکوین کے ساتھ بندھ گیا اور ہر ایسے تغیر کے لیے جو زندگی کو فراوانی بخشے، قدر (Value)بحیثیت ایک منہاج اور مقصد کے ہو گئی۔ اسی قدر آفرینی کی بدولت انسان میں یہ احساس بیدار ہوا کہ کائنات کی ہر چیز ابھی ناتمام ہے۔ اور اپنی تکمیل کے لیے سعی کی محتاج ہے۔ وحدۃ الوجود اور اقبالی فلسفہ کے اختلاف کا اگر آپ تاریخی سراغ لگانا چاہیں تو آپ کو یونانی فلسفے میں ان دونوں کی مثالیں آسانی سے مل جائیں گی۔ (Being) اور (Becoming) کے مسائل اور ان کے ماننے والے وہاں پر بھی اپنے معرکہ آرا دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔ ہیرا کلیٹس (Heraclitus) کے نزدیک انسان ایک ہی دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتا، زندگی بدلتے ہوئے حالات کا ایک دوسرا نام ہے۔ حقیقت کوئی منجمد شئے نہیں ہے۔ یہ ایک سیال ہے جو ہر دم حرکت میں ہے، اسی نظریہ کی باز گشت موجودہ زمانہ میں تصوریت مطلقہ (Absolutue Idealism) اور نتائجیت پسندوں (Pragmatists) کے نظریات میں ملتی ہے۔ ولیم جیمس (Wiliam James) کے نزدیک یہ کائنات کوئی تراشیدہ کائنات (Block Universe) نہیں ہے جو مکمل ہو۔ اس میں حقیقی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ زندگی میں نت نئے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ حقیقت کو مختلف مرا حل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہی تگ و دو زندگی کی اصل ہے۔ مطلق تصوریت کے پیش کر دہ نظام سے ولیم جیمس کے نزدیک ایسی مختتم کائنات کا تصور حاصل ہوتا ہے جو ایک منجمد شئے (Block Universe) معلوم ہوتی ہے، اس تصور میں حقیقت کی سیمابی کیفیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جہاں اشیا تغیر پذیر ہیں ان میں نموہے اور تخلیق کے نئے امکانات پوشیدہ ہیں۔ اقبال کے فلسفہ اور نتائجیت میں اس طرح یک گونہ مماثلت تو ضرور پائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر اقبال کا فلسفہ نتائجیت کا فلسفہ نہیں ہے اور نہ ہی فلسفہ وحدۃ الوجود مطلق تصوریت کا نام ہے۔ اقبال کے فلسفہ کی مابعد الطبیعات اور نتائجیت کے تصور میں بین فرق موجود ہے۔ فلسفہ نتائجیت تو صداقت کے ایک نظریہ کا بیان ہے، جس کی فی نفسہ کوئی مابعد الطبیعات نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ولیم جیمس کائنات کے بارے میں نظریہ کثرت (Pluralism) کا قائل ہے، لیکن یہ نتائجیت کے فلسفہ کا لازمی اور منطقی نتیجہ نہیں۔ جہاں تک وحدۃ الوجود اور اقبال کے مسلک کے اختلاف کا تعلق ہے، اس کی نوعیت بہت کچھ دراصل اس بیان کے معنی پر منحصر ہے۔ کہ ’’یہ کائنات کوئی فعل مختتم نہیں ہے بلکہ اس سے دما دم صدائے کن فیکون آرہی ہے۔‘‘ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ہماری نظر اس کائنات میں حرکت اور تغیر کو عیاں طور پر محسوس کرتی ہے۔ یہاں کسی چیز کو دوام و ثبات نہیں، لیکن یہ نظر ہماری نظر ہے جو ایک طرف تو زمان و مکان ، کیفیت و کمیت ، حالت اور استعداد کے تعینات اور تحدیدات میں جکڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف یہ نظر بہر حال جزوی نظر ہے جو کلی نظر سے مغایرت رکھتی ہے۔ زمان و مکان کے تعینات کا پردہ اگر کسی صورت سے اٹھتا ہے تو اس نظر کے کلی ہونے کا ایک امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی اس کا جزوی پہلو کم سے کم ہو تا چلا جاتا ہے اور لا محدود ارقام کی طرح وہ اپنی آخری حد کبھی حاصل نہیں کر پاتی۔ اس لیے کہ ہر حد کے بعد ایک حد اور ہوتی ہے۔ اس لیے خداوند مطلق کی کلی نظر اور ہماری جزوی نظر میں عینیت مطلقہ کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک جب انسان زمان و مکان کے اس ذہنی تعین سے آزادی حاصل کر کے وجداناً اپنی انا کے مشاہدے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ایک ایسی حقیقت کا وجدان پاتا ہے جو دوران محض یا مرور (Duration) ہے۔ کائنات کی حرکت کا یہی حقیقی منبع ہے، اور یہی وجود کی سب سے بڑی قسم (Category) ہے، جو اس وجدانی مشاہدہ سے حاصل ہوتی ہے۔ درآنحالیکہ یہ ایک کشفی امر ہے اور فلسفہ وحدۃ الوجود بھی ایک کشف ہی کی کشود ہے لیکن کائنات کے فعل مختتم نہ ہونے اور وحدۃ الوجود کے اس دعوے میں کہ خدائے مطلق کو اعیان ثابتہ کا علم تفصیلی حاصل ہے کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ وحدۃ الوجود کا فلسفہ اس کشف کی سب سے اہم خصوصیت مشاہدئہ وجدان کی ایک کلیت کو ٹھہراتا ہے، جس سے اقبال بھی انکاری نہیں ہیں۔۹؎ کائنات اس معنی میں کوئی فعل غیر مختتم نہیں کہ اس میں نئے امکانات اپنے سیاق سے آزاد بلا کسی تحدید اور تعین کے عدم محض سے وجود میں آتے رہتے ہوں اور جن سے خدائے قادر بھی باخبر نہ ہو۔ یہ تو در حقیقت خود اقبال کے الفاظ میں اس ذات باری کے درونی لا تعینات ہیں جو متواتر تخلیقی صورتوں میں جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے جزوی نقطہ نظر سے یہ کائنات کبھی نہ ختم ہونے والا ایک عمل ہے۔ جو ارادئہ الٰہی کی وجہ سے ہمیشہ جاری ہے۔ علم الٰہی کی تحدید ہم نہیں کر سکتے۔ لوح محفوظ کی قرأت سے زبانیں عاجز ہیں، اور سات سمندروں کا پانی بھی اس کی تحریر پر قادر نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ کائنات علم الٰہی میں موجود ہے اورفلسفہ وجود کے نقطہ نظر کے مطابق اعیان ثابتہ کے خارجی وجود پر تجلی کرنے سے ظہور میں آئی ہے۔ اس لیے یہ علم الٰہی میں محصور اور متعین ہے لیکن خود علم الٰہی پر کوئی قید اور حد نہیں لگائی جاسکتی۔ ذات الٰہی کا فعل تخلیق عرصہ لامتناہی تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس فلسفہ کا لازمی نتیجہ یہ بھی نہیں ہے کہ اس سے ہم کو ذات باری کا ایک ایسا منفعل تصور حاصل ہوتا ہے جو اس کے ارادہ اور حرکت کو ختم کر دیتا ہے، اور کائنات میں تجدید کی بجائے جمود کا نظریہ پیش کرتا ہے۔۱۰؎ اور خدا کا ایک ایسا جامد تصور پیش کرتا ہے جو ایک تکمیل شدہ کائنات کا ’’شاعر‘‘ تو ہو لیکن فعال نہ ہو۔ اشاعرہ کی تجدد امثال کی مابعد الطبیعات اسی قسم کے جامد تصور کے خلاف خداوند قدوس کی ہر دم فعالیت کا ایک نقطہ نظر پیش کرتی ہے، جس میں سلسلہ اسباب و علل کوئی میکانکی نظام نہیں ہے، بلکہ ہر فعل کے پیچھے خدائی فعالیت کام کرتی نظر آتی ہے۔ اس فلسفہ پر البتہ ایک اعتراض اب بھی وارد ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس طرح کائنات کا ایک ذہنی وجود تو متحقق ہو سکتا ہے لیکن خارجی اور حقیقی وجود یا یہ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ لیکن یہ اعتراض اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ خارجی اور حقیقی وجود ، ذھنی وجود سے علیحدہ کوئی صفت ہے جو اشیا میں موجود ہے۔ اور یہ کہ ذہنی وجود غیر حقیقی ہے۔ وہ شئے جس کو ہم ذہنی وجود کہتے ہیں، مراتب وجود میں خود ایک مقام کی حامل ہے۔ یہ دنیا اگرچہ اعتباری ہے، لیکن اس اعتبار کی شان بھی ایسی ہے کہ یہ محض موہوم نہیں بلکہ ایک مرتبہ حقیقت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمہ اوستی فلسفہ کی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اعتباری وجود معدوم محض ہے۔ ذہنی اور حقیقی وجود کی حقیقت کو جاننے کے لیے اگر ہم اپنے چاروں طرف کی خارجی کائنات پر غور کریں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ جس شئے کو ہم آزاد وجود کہتے ہیں اور جو اپنی صفات اور خصوصیات کے ساتھ ہمارے شعور سے آزاد معلوم ہوتا ہے اور جس کی بنا پر ہم اپنی حسی دنیا اور تصوری و تخیلی دنیا میں فرق قائم کرتے ہیں وہ اتنا حقیقی نہیں ہے جتنا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ وجود خارجی کے تحلیل و تجزیہ سے [اگر ہم تو حقیقین (Neo Realists) کا موقف اختیار نہ کریں، اس لیے کہ وہ ’’علم‘‘ کو ایک ناقابل تجزیہ (Sui Generi) عمل سمجھتے ہیں اور ذات معلوم کے خارج میں آزاد وجود کو بنیادی مفروضہ کے طور پر مان لیتے ہیں] جو کچھ ہم کو حاصل ہوگا وہ ایک شعوری کیفیت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ فرق جو ہم خارجی دنیا اور اپنے تصورات کے مابین قائم کرتے ہیں اور یہ حکم لگاتے ہیں کہ خارجی دنیا کا وجود حسی ہے۔ اور ذہنی دنیا کا تصوری یا تخیلی یہ محض ایک سراب ہے جو ذرا سے غور و فکر سے واضح ہو جاتا ہے آخر خود ہماری زندگی میں ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ خواب میں یا التباس نظر میں ہماری متخیلہ اس طرح ہماری نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے گویا کہ وہ کوئی حسی وجود ہے۔ اور اسی طرح ہمارے حسی ارتسامات بعد میں تصور اور تخیل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقت، تصور، اور تخیل میں کیفیت کا کوئی بنیادی فرق موجود نہیں بلکہ یہ ایک ہی حقیقت کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ جب اس خارجی دنیا کے وجود کو ہم اس طرح ایک ذہن کی کرشمہ سازی میں تحلیل کر سکتے ہیں ، تو ہم کو علم الٰہی کی شان کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی پھر ایسا کوئی استعارہ باقی رہ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے علم الٰہی میں ثبت شدہ حقائق کا خارجی دنیا میں ظہور کوئی اُنہونی سی بات معلوم ہو۔ ذات باری تعالیٰ کو اس طرح اگر علم اور ارادہ کی صفت سے متصف مانا جائے تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ عمل تخلیق اس کائنات میں برابر جاری نہیں۔ حرف کن سے جو تخلیقی حرکت پیدا ہوتی ہے وہ عرصہ غیر متناہی تک جاری رہ سکتی ہے ، ارادئہ الٰہی، علم الٰہی کو جس کے ادراک سے ہماری عقل عاجز ہے۔ وجود خارجی پر ہر دم منعکس کرتا رہتا ہے، اور یہی وہ صدائے کن ہے، جو برابر اس کائنات میں سنی جاسکتی ہے۔ البتہ فرق صرف نقطہ نظر کا ہے۔ ایک ہی حقیقت کو اگر جزی نظر سے دیکھا جائے تو وہ نامکمل ہے، جو اپنی تکمیل کے لیے ارتقا کے ایک لامتناہی عمل میں مصروف ہے، جو ایک جہد مسلسل ہے جس میں خوب سے خوب تر کی تلاش و تڑپ ہر ذرہ خاکی میں موجود ہے اور جو ایک متعین مقصد کی طرف برابر پیش قدمی کر رہی ہے لیکن یہی حقیقت کلی نظر سے ایک کلی نظام ہے جو بتمام و کمال مشخص ہے جو خود ہی رہروہے اورخود ہی منزل، جس کو نہ ہم حرکت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور نہ سکون سے، اس لیے کہ حرکت اور سکون خود ہمارے عقلی تعینات ہیںجو زمانی تغیر و تبدل کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اس حقیقت کلی کے لیے استحالہ ممکن نہیںہے۔ الوہیت، حق اور خلق دونوں پر جامع ہے حق کی شان تنز یہی ہے اور خلق کی تشبیہی، الوہیت کے تحت پہلا تنزل مرتبہ احدیت میں ہوتا ہے۔ اب وحدت کثرت میں شامل ہو جاتی ہے۔ حق کا ظہور جب الوہیت میں ہوتا ہے تو مرتبہ کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب الوہیت خلق میں ظاہر ہوتی ہے تو تغیر کے ساتھ۔ اس میں شبہ نہیں کہ تغیر اور حرکت نقائص میں لیکن بقول اقبال تخلیقی انا کا کمال عدم حرکت میں نہیں ہے بلکہ اس کی مسلسل فاعلیت میں مضمر ہے۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ خود مکتفی بالذات ہے۔ اس واسطے وہ کسی مقصد کے حصول کے لیے حرکت نہیں کر سکتی۔ لیکن اس کی ذات میں جو بے شمار امکانات موجود ہیں انھیں ظاہر کرنے کے لیے دائمی طور پر تخلیق کرتی رہتی ہے۔ لیکن اس مسئلہ کی اہمیت ایک دوسری بھی ہے۔جو اس بات سے کسی حد تک غیر متعلق ہے کہ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے یا تکمیل شدہ۔ خود یہ حرکت کیا ہے، حقیقت کوئی جامد شئے ہے یا حرکت کرتا ہوا ایک نظام، کیا لیل و نہار کی یہ گردش اور زمانے کے یہ تغیرات حقیقت اشیا میں داخل ہیں؟ کائنات میں حرکت دراصل دو قسم کی ہے ایک تو یہ ظاہری حرکت جس کو ہم زمانہ کہتے ہیں اور جس کو ماضی، حال اور مستقبل میں بانٹتے ہیں۔ پہروں اور دنوں کی یہ تقسیم، گھنٹوں اور ساعتوں کا یہ شمار ہمارے ذہن کے پیداکر دہ تعینات ہیں جو ہم نے حقیقت پر چسپاں کر رکھے ہیں، ان میں کوئی حرکت اصلی نہیں ہے، یہ ایک سراب ہے۔ گزرتے ہوئے لمحات کی پیمائش جو ہم کسی جگہ سے من مانے طریقے پر شروع کر دیتے ہیں،اس کی مثال بس ایسی ہی ہے جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا کوئی حصہ یخ بستہ ہو جائے۔ یہ ساکت اور منجمد پانی اس اصل دریا کی مثال نہیں ہو سکتا جس کی حقیقت روانی ہے۔ ہماری عقل نے بھی اس رواں دواں حقیقت کا ایک حصہ یخ بستہ کرکے اس کو سالوں اور دنوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ اس میں ماضی اور مستقبل کی تمیز پیدا کر دی، اس عقل کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اپنی آنکھوں پر رنگین چشمہ لگا رکھا ہو اور اس کو دنیا کی ہر چیز رنگین نظر آرہی ہو۔ کانٹ (Kant) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ رنگین دنیا جو تم کو نظر آرہی ہے یہ حقیقت نہیں ہے، حقیقت اس کے پیچھے کوئی اور شئے ہے جو ہم نہیں جان سکتے۔ اس لیے کہ ہماری آنکھیں تو ظاہر ہی کو دیکھنے کی عادت ہیں، ہماری عقل تو زمان و مکان، کیفیت و کمیت وغیرہ کے تعینات سے باہر نکل ہی نہیں سکتی۔ تو پھر کیا ہم سمجھیں کہ یہ حرکت جو بادی النظر میں اس کائنات میں معلوم ہوتی ہے۔ حقیقی نہیں ہے؟ کیا زینو (Zeno) کا استبعاد صحیح تھا کہ کمان سے نکلا ہوا تیر دراصل حرکت نہیں کرتا ، یہ حرکت محض نظر کا دھوکا ہے، حقیقت میں وہ ساکن ہے اور یہ کہ ایک ساعت وقت کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے نصف ساعت کا گزرنا ضروری ہے، اور اس نصف سے پہلے اس کا نصف …وقت گزرنے والی شئے نہیں ہے یہ تو قائم ہے۔ اس وقت ان استبعادات کا حل پیش نظر نہیں ہے، زینو (Zeno) کے فلسفہ سے پیدا شدہ مسائل کو اقبال کا فلسفہ زمان و مکان تشفی بخش طریقے پر حل کر سکتا ہے لیکن ہمیں اس وقت صرف اس سے بحث ہے کہ زمان و مکان کی ان ظاہری تحدیدات کے ماورا کیا حقیقت کارفرما ہے؟ یہ حقیقت اقبال کے نزدیک دوران محض، یا مرور (Duration) ہے بہ ظاہر زمانہ کی تقسیم بندی تو وقت کے بہتے دہارے کا کٹا ہوا ایک ٹکڑا ہے اور بس یہ مرور، یا دوران ایک تخلیقی حرکت ہے جو مسلسل اپنے امکانات کو اعلیٰ وجہ البصیرت ظاہر کر رہی ہے۔ کیا ذات باری تعالیٰ کو پھر ہم حرکت یا قوت تخلیق کے مماثل قرار دے سکتے ہیں، اگر ذات باری میں حرکت ہے تو آخر کس لیے؟ کیا کسی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف؟ اگر پہلی حالت ناقص ہے اور دوسری کامل تو اس سے ذات باری میں نقص کا وجود لازم آئے گا اور اگر دوسری ناقص ہے تو حرکت کامل سے ناقص کی طرف غیر عقلی ہوئی، اگر دونوں حالتیں ایک دوسرے کے عین ہیں تو حرکت بے معنی ہو گی۔ ذات باری تعالیٰ کے لیے استحالہ اگر ممکن نہیں تو پھر حرکت کی تعبیر ہم کس طرح کریں گے؟ اقبال کے نزدیک یہ پیچیدگیاں محض اس لیے پیدا ہوئی ہیں کہ ہم حرکت باری کو زمانہ کے عددی تصور سے ناپنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت عالیہ کی حرکت زمانی حرکت نہیں ہے۔ بلکہ ان امکانات کے ظہور کا دوسرا نام ہے جو اس کی ذات میں مضمر ہیں۔ اس میں حرکت اس لیے نہیں ہے کہ وہ نقص سے کمال کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے یا کوئی آئیڈیل یا مقصد خارج میں موجود ہے جس کی تلاش میں وہ سرگرداں ہے، یا مطلق تصوریت کی طرح یہ حرکت ایک مطلق (Absolute) حالت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہے، جس میں اس کے نقص کم سے کم تر ہوتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی منزل مراد کو پہنچ جائے اور کمال مطلق کے منصب پر سرفراز ہو کر اپنی حرکت کو ختم کر دے، اس لیے کہ اب اس کا مقصد حاصل ہو گیا، نہیں بلکہ یہ تو اندرونی حرکت ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی۔ اس کا مقصد محض اظہار ہے۔ کسی شئے کا حصول نہیں۔ ۲…دوسرا مسئلہ وحدت و کثرت کا ہے۔ اقبال کے نزدیک زندگی کی خصوصیت تفرد ہے کلی زندگی کوئی صفت نہیں رکھتی، خدا خود بھی ایک فرد ہے۔ اگرچہ فرد کامل کائنات افراد کے مجموعہ سے عبارت ہے۔ لائبنز (Leibniz) کی طرح اقبال کا فلسفہ بھی افراد کی کثرت کا قائل ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ لائبنز کے جواہر میں دریچے سرے سے ہی غائب ہیں۔۱۱؎ جب کہ اقبال کے افراد کھلے دریچے رکھتے ہیں۔ وحدۃ الوجود اور اقبالی فلسفہ دونوں حقیقت کے روحانی اور ایک ہونے کے قائل ہیں۔ دونوں ذات باری کو واجب الوجود تسلیم کرتے ہیں اور دونوں کے یہاں روحانی وحدت (Spiritual Monism) کا تصور مشترک ہے۔ لیکن فلسفہ وجود میں اس روحانی وحدت پر زیادہ زور ہے۔ کثرت اس کی نظر میں اعتباری ہے، حقیقی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اعتبارات کی دنیا بھی اپنی جگہ معتبر ہے لیکن حقیقت بہر حال ایک ہی ہے اور وجود ایک ہی ہستی کا محمول بن سکتا ہے۔ یوں اگر ہم چاہیں تو اقبال کے فلسفہ کی بھی ایک وجودی تعبیر کر سکتے ہیں اور اس کو کثرت کا فلسفہ قرار دینے کی بجائے اس کی روحانی وحدت پر زور دے کر اس کو لائبنز کے کچھ شارحین کی طرح ایک روح پرست وحدتی (Spiritualis Monist) ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن اقبال کے مجموعی کلام اور اس کے فلسفے کے رجحان سے جو بات سامنے آتی ہے اس کے پیش نظر یہ تعبیر بعید از قیاس معلوم ہونے لگتی ہے۔ اقبال کے منشا کے مطابق حقیقت اس کائنات میں سرایت کیے ہوئے نہیں ہے۔ بلکہ وہ انائوں کا ایک اجتماع ہے۔۱۲؎ جس میں ہر انا ایک دوسرے سے آزاد ہے درآنحالیکہ ان سب میں ایک ہی تخلیقی روح کام کر رہی ہے۔ انائوں کے اس مجموعہ میں جو نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ وہ بھی پہلے سے یا باہر سے بہ جبر نافذ کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خود مختلف انائوں کی جبلی اور شعوری مساعی کا نتیجہ ہے جو بدنظمی اور انتشار سے آہستہ آہستہ نظم و ترتیب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وحدت الوجود، اور کثرت کے ان دونوں فلسفوں کے لیے عقلی دلائل کے ساتھ ہی کشفی براہین بھی موجود ہیں، جن کی بنیاد پر وجودی اور شہودی مسلکوں کی بنیادیں استوار ہوئی ہیں۔ یہاں پر بجا طور پر ہم اقبال کے فلسفے اور وجودی مسلک میں ایک بین فرق محسوس کر سکتے ہیں اور ان دونوں میں تطبیق کی کوشش لا حاصل نظر آتی ہے۔ یہ دونوں رجحانات دو مختلف وجدانوں پر منحصر ہیں اور دو مختلف فلسفیانہ ڈھانچوں کے متقاضی ہیں۔ ان دونوں مسلکوںکے مقاصد اور ذرائع بھی اسی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ایک بقا کا متلاشی ہے اور فنا کو اس بقا کا ایک نچلا درجہ تصور کرتا ہے جس سے گزر کر آدمی حقیقت تک پہنچتا ہے۔ دوسرے کے نزدیک کثرت کی یہ نظر نقص کی دلیل ہے اور کمال یہ ہے کہ کثرت نظر سے اوجھل ہو جائے اور وحدت کے سوا انسان ماسوا سے بھی بے خبر ہو جائے۔ یہاں مقصود فنا ہے جہاں وحدت کا عرفان ہوتا ہے اور حقیقت ذات کا پتہ چلتا ہے۔ ۳…وحدت اور کثرت کا یہ اختلاف مسئلہ جبر و قدر سے براہ راست متعلق معلوم ہوتا ہے۔ اقبال قدر کے قائل تھے، اور ارادئہ انسانی کی عظمت کے معترف۔ زندگی کی اس ستیزہ کاری میں جہد و عمل پر ان کا ایمان تھا اور غالباً اسی وجہ سے اُنھوں نے ایک وحدتی (Monistic) نظام کی بجائے ایک کثرت کے (Pluralistic) نظام کا خاکہ پیش کیا جہاں پر حقیقی انا حقیقی آزادی اور ارادہ کے ساتھ موجود ہیں۔ کسی شئے کی تقدیر ایک نہ ٹلنے والی مقسوم نہیں ہے۔ جو خارج سے جبری طور پر عائد کر دی گئی ہو بلکہ خو دشئے کی اندرونی رسائی اور اس کے قابل تحقق امکانات ہیں جو اس کی فطرت میں پوشیدہ تھے۔ جہاں تک جبر و قدر کے اخلاقی متضمنات کا سوال ہے تو اخلاقی زندگی کے لیے نہ تو کلی جبر ہی ضمانت ہے اور نہ کلی قدر، وہ تو جبر و قدر کے بین بین ایک حیثیت ہے جس کو ہم ذاتی قدریت (Self Determinism) کہہ سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ہمارے افعال و اعمال علت و معلول کے میکانکی نظام کے سلسلہ کی ایک کڑی نہیں ہیں بلکہ وہ خود ذات فاعل سے متعین ہوا کرتے ہیں۔ جبر و قدر کی تفصیلی بحث کا یہ موقعہ نہیں ہے لیکن اقبال کے فلسفہ اور فلسفہ وجدۃ الوجود میں جبر و قدر کا جو فرق پہلی نظر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے وہ اپنے عملی نتائج کے لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رہتا۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں فلسفوں میں مابعد الطبیعاتی پس منظر کا فرق موجود ہے اور اس فرق میں غالباً اقبا ل کے پیش نظر فلسفہ قدر کی رعایت بھی شامل رہی ہو گی۔ لیکن وجودی فلسفہ کے نزدیک بھی اعتبارات محض نظر کا دھوکہ نہیں ہیں۔ ان کو بھی حقیقت کی ترتیب (Hierarchy) میں ایک مقام حاصل ہے۔ اسی فرق مراتب و اعتبارات سے اخلاقی احکام کا صدور ہوتا ہے اور یہی اخلاقی حس کا منبع اور ماخذ قرار پاتا ہے۔ اس بات کا شعور کہ ہم قوت ارادہ کے مالک ہیں، چاہے بنیادی حقیقت (Ultimate Reality) کے نقطہ نظر سے صداقت عالیہ نہ ہو لیکن ہمارے اپنے مقام کے نقطہ نظر سے اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ ہماری آزادی واقعی آزادی ہے اور ہمارا اختیار واقعی اختیار۔ اسی لیے جہاں تکاخلاقی مسئلہ کا تعلق ہے فلسفہ اقبال اور فلسفہ وحدۃ الوجود اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے یکساں ہیں اور دونوں میں کوئی بنیادی تنازع موجود نہیں ہے۔ جہاں تک جبر و قدر کی مابعد الطبیعات کا سوال ہے اس میں بھی بیان اور الفاظ کے فرق کے علاوہ دونوں بڑی حد تک مماثل ہیں۔ اگر اعتبار اقبال کے نزدیک قابل تحقق امکانات کا ظہور ہے تو لازماً سوال یہ پیدا ہوگا کہ ان امکانات کی خود نوعیت کیا ہے، جبر و قدر کا مسئلہ اسی پر منحصر ہے کہ آیا یہ امکانات انائے کامل کی تخلیق ہیں یا نہیں۔ پہلی صورت میں فرد کی آزادی کے کوئی معنی نہیں ہے۔ اور اگر یہ امکانات غیر مجعول اور غیر مخلوق ہیں، جیسا کہ اقبال کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے اور ان کا ظہور خدا کی فعلیت کے ساتھ ہو رہا ہے تو پھر ذات شئے پر کوئی جبر واقع نہیں ہوتا۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں محی الدین ابن عربی نے اس طرح ادا کیا تھا۔ ان الحق لا یعطیہ الا ما اعطاہ عینہ۔۱۳؎ یعنی حق تعالیٰ شے کو وہی عطا کرتا ہے جو اس کے عین کا تقاضا ہے۔ انسان کی فطرت یا ماہیت، اس کی قابلیات یا اس کے اقتضات معلوم الٰہی ہونے کی وجہ سے غیر محکوم ہیں، اسی لیے ان کو اختیار اور آزادی حاصل ہے۔ اسی کو اقبال نے قابل تحقق امکان کے ظہور سے تعبیر کیا ہے اور یہی مستقبل کا وہ کھلا ہوا امکان ہے۔ جس میں ہونے والا کوئی واقعہ کسی خارجی جبر سے وجود میں نہیں آتا۔ بات اتنی ہے کہ یہ مسئلہ موجود زمانے کے اقتضاء ا ت کے مناسب ایک پرانی حقیقت کا نیا بیان ہے۔ جن کے مابین دراصل کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے۔ ئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- یہ زیر کنگرئہ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار یزداں گیر ۲- مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خاں۔۔۔۔ناشر، صفحہ۱۔ ۳- مکاتیب اقبال حصہ اول۔۔۔صفحہ ۴۴ ۴- مکاتیب اقبال حصہ اول۔ صفحہ ۵۳۔ اقبال نامہ مرتبہ پروفیسر عطاء اللہ۔ ایک مکتوب میں خود اقبال نے اپنے فلسفے کے لیے الگزینڈر کا حوالہ دیا ہے۔ 5- M.M. Sharif. "The Conception of God in Iqbal", Iqbal as a Thinker, pp. 123-26 6- Reconstuction of Religious Thought in Islam p. 181. ۷- رسالہ ظہور العدم بنور القدم۔ مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ ۶۴۱ تا۶۶۵ بوادر النوادر مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند۔ ۸- تفصیل کے لیے دیکھیے: DR. Mir Valiudin, Quranica Sufism, Published by Motilal Banarsidas Delhi.اور ظہور العدم بنور القدم، مرتبہ از مولانا اشرف علی تھانوی۔ 9- Reconstuction of Religious Thought in Islam. pp. 181, 127 10- Reconstuction of Religious Thought in Islam. p.78. ; Iqbal as a thinker p. 118 11- Windowless Monads. 12- Colony of Egoes. 13- Dr. M. Wali-Uddin, Quranic Sufism, p. 130. /…/…/ اقبال اور سیکولر ازم بشیر احمد ڈار لفظ سیکولر اپنے لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں یورپ کے مذہبی ماحول کی پیداوار ہے۔ عیسائی مذہب کی جو تشریح اور تعبیر پولوس نے کی اس میں چند اخلاقی اصول تو موجود تھے لیکن شریعت کی اس میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس زمانے کے مروجہ باطنی مذاہب اور اسرار میں یہ تصور موجود تھا کہ انسانی روح ایک پاکیزہ شے ہے جو بدقسمتی سے اس مادی دنیا کی قید میں اسیر ہو گئی ہے، اس لیے انسان کا نصب العین یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس دنیوی زندگی کی آلائش سے اپنے آپ کو پاک رکھا جائے۔ انھی تصورات کے زیر اثر پولوس نے حضرت عیسیٰ کی تعلیم کو اس طرح پیش کیا کہ گویا وہ بھی اسی مقصد کی خاطر اس دنیا میں آئے تھے۔ چنانچہ پہلی دو تین صدیوں تک عیسائیوں کی کثیر تعداد اپنی انفرادی نجات کی کوششوں میں منہمک رہی۔ معاشرتی اور تمدنی ذمہ داریاں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ عیسائیت ایک نظام رہبانیت تھا جو اس ناپاک دنیا میں قائم کیا گیا اور جس کا مدنی امور میں کوئی دخل نہیں تھا۔ چنانچہ جہاں تک عملی زندگی کا تعلق ہے وہ ہر معاملے میںرومی حکومت کے زیر فرمان رہی۔ قسطنطین نے بادشاہ بننے کے بعد عیسائیت قبول کر لی، اس نے کوشش کی کہ اس نئے مذہب کی بنیاد پر رومی سلطنت میں اتحاد و یگانگت پیدا کر سکے لیکن حقیقت میں عیسائیت بطور نظام اجتماع نہ اِس وقت کارآمد ہے اور نہ اُس وقت کارآمد ثابت ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قسطنطین کے جانشین جولین نے پھر سے دیوتا پرستی کی طرف رجوع کیا اور اس کی فلسفیانہ تاویلات سے لوگوں میں وحدت افکار و کردار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھی قدیم باطنی اسرار اور عیسائیت کے تصورات کی آمیزش سے مانی نے اپنا فلسفہ حیات پیش کیا۔ اس کی نمایاں خصوصیت جسم و روح، مادیت و روحانیت، یزدان واہرمن کی مطلق ثنویت ہے، جن میں کسی قسم کا نقطہ اتصال موجود نہیں۔ اس مانوی تحریک نے عیسائیت کے ارتقا پر بڑا اثر ڈالا۔ اگستائن جس نے کلیسا کی ابتدائی تاریخ میں ایک مؤثر کر دار ادا کیا ہے، عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مانوی مذہب ہی کا پیرو تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ نور و ظلمت کی مانوی ثنویت کے افکار اس کے باعث عیسائیت میں رائج ہوئے۔ جیسا کہ اقبال نے خود ایک جگہ کہا ہے کہ ’’مغرب نے مادے او روح کی ثنویت کا عقیدہ مانویت کے زیر اثر قبول کر لیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے، وہ مادے اور روح کی کسی ناقابل اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں، جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر ترک کر دینا چاہئے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی اس شکل کا نام ہے جس کا اظہار قید مکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔‘‘ خطبات میں فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے روحانی اور ماد ے کی تفریق کبھی روا نہیں رکھی۔ کسی عمل کی ماہیت کا فیصلہ اس لحاظ سے نہیں کیا جاتا کہ اس کا تعلق کسی حد تک حیات دینوی یا سیکولر سے ہے بلکہ اس کا انحصار صاحب عمل کے ذہنی رجحان پر ہے۔ اگر زندگی کی مقصدیت کو سامنے نہیں رکھا جاتا تو ہمارا عمل دینوی ہے اور اگر یہ مقصدیت ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیںتو ہمارا عمل روحانی ہے۔ قرآن پاک کے نزدیک حقیقت مطلقہ محض روح ہے اور اس کی زندگی عبادت ہے، اس فعالیت سے جس کو ہم زمانا جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ طبیعی، مادی اور دینوی ہی تو ہے جس میں روح کو اپنے اظہار کا موقع ملتا ہے اور اس لیے ہر وہ شے جسے اصطلاحاً سیکولر کہا جاتا ہے اپنی اصل میں روحانی تسلیم کی جائے گی۔ ‘‘ (خطبات، ۲۳۷۔۲۳۹) تن و جان را دوتا گفتن کلام است تن و جان را دوتا دیدن حرام است بجان پوشیدہ رمز کائنات است بدن خالے ز احوال حیات است زندگی کے اس غلط نقطہ نظر کے باعث عیسائی مذہب میں شروع ہی سے کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک قسم کا بعد اور تفریق پیدا ہو گئی۔ یہ صحیح ہے کہ کلیسائی اقتدار اور حاکمیت نے کافی عرصے تک یورپ کے مختلف ملکوں میں خالص دینی بنیاد پر اتحاد و یگانگت قائم رکھی لیکن لوتھر کی بغاوت سے یہ حالات یکسر بدل گئے۔ ہزار برائیوں کے باوجود کلیسائی اقتدار نے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا تھا۔ لوگ زندگی کے ہر پہلو کو مذہبی اور اخلاقی نقطہ نگاہ کے مطابق ڈھالتے تھے۔ ان کی معاشرتی طرز زندگی، ان کا اقتصادی اور معاشی نظام، سلطنتوں کے باہمی میل جول، سبھی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں طے پاتے تھے لیکن لوتھر نے جب کلیسا کے خلاف آواز اٹھائی تو اس سے بہت سے دیگر نتائج کے علاوہ دو باتیں ہمیں خاص طور پر ظاہر ہوئیں۔ پروٹسٹنٹ راہنمائوں نے مروجہ مذہبی رسوم پر بڑی سخت تنقید کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ کلیسا کی حاکمیت کے زیر اثر افراد کی آزادی اور اختیار ختم ہو چکا ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔ آخری فیصلہ ہر معاملہ میں کلیسا کا ہوتا ہے۔ اس کے خلاف ان راہنمائوں کا موقف یہ تھا کہ اخلاق کا آخری معیار ہر انسان کا اپنا دل اور ضمیر ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مذہب کی سماجی اہمیت ختم ہو گئی۔ ہر آدمی کو اجازت تھی کہ وہ اپنی داخلی زندگی میں مذہب سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جس طرح چاہیے عمل کرے۔مذہب محض ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے، اس کا کوئی تعلق اس کی باقی ماندہ زندگی سے کچھ نہیں اور نہ ہونا چاہئے۔ اس اصول کے تحت مذہب اور ریاست میں مکمل علیحدگی اور تفریق پیدا ہو گئی۔ یہ تفریق ایک معنی میں اسی فلسفیانہ ثنویت کا منطقی نتیجہ تھی جو مغربی حکما نے بقول اقبال مانی کے زیر اثر اختیار کی تھی۔ بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاہش ملک و دین را ہم دو تا دید کلیسا سبحۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد بہ کار حاکمی مکر و فنے بین تن بے جان و جان بے تنے بین ملک و دین۔ ریاست اور مذہب مملکت اور اخلاق کی اس جدائی کا علمبر دار میکیاولی تھا جس نے اپنی کتاب ’’شہزادہ‘‘ میں حکومت کے معاملات میں مذہب اور اخلاق کو برطرف کرکے خالص ابن الوقتی حکمت عملی کی تلقین کی۔ اس باطل پرست اطالوی مفکر کے نزدیک مملکت ہی ’’معبود‘‘ یعنی نصب العین ہے جس کی ضروریات کسی قانون اخلاق کے تابع نہیں باطل از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندوزی فنے گرویدہ است شب بچشم اہل عالم چیرہ است مصلحت تزویر را نائیدہ است اس ’’حیلہ اندوز‘‘ اور پراز تزویر سیاست کو اقبال ’’لادین سیاست‘‘ یعنی سیکولر ازم کا نام دیتا ہے۔ مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دین کنیز اہرمن و دون نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر دین و اخلاق سے بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنی انفرادی زندگی میں اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور مذہب کے احکام کی پیروی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے لیکن جب وہی افراد ریاست و حکومت کے معاملات اور بین الاقوامی مسائل پر غور و خوض شروع کرتے ہیں تو ہر قسم کے اخلاقی تقاضوں سے بے نیاز ہو کر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سیاست فساد فی الارض کا ایک بدترین سرچشمہ ہے۔ اگر اقتدار کسی ایک مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں ہو یا عوام کے ہاتھوں میں۔ جب بھی سیاست کو اخلاق سے علیحدہ رکھا جائے گا۔ تو اس سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوگا۔ جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اس چنگیزیت کے باعث انسان کی تمدنی زندگی تباہی سے دو چار ہے۔ ہر قسم کی ترقی کے باوجود انسان اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی زندگی میں استحصال و لوٹ، سماجی زندگی میں بے چینی اور خود غرضی، بین الاقوامی سطح پر باہمی بد اعتمادی، جنگ کی خوفناک تیاریاں یہ سب پریشان کن حالات اقبال کے خیال میں صرف سیکولر نقطہ نگاہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہیں۔ یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردون رسم لادینی نہاد گرگے اندر پوستین برہ بر زمان اندر کمین برہ مشکلات حضرت انسان ازوست آدمیت را غم پنہاں ازوست یہاں تک کہ وہ علم و تحقیق جو اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ اس لادین نقطہ نگاہ کے زیر اثر قومی خودی کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تسخیر کائنات کا مقصد انسان کو اس دنیا میں صحیح معنوں میں نائب حق کے منصب کا اہل بناتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس سیکولر رجحان نے اس میں وہ زہر ملا دیا ہے جس کے باعث خود ’’مارہا درپیچ و تاب‘‘ علم اشیا خاک مارا کیمیا است آہ در افرنگ تاثیرش جدا است آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشہ لادین او اے کہ جان را باز می دانی زتن سحر این تہذیب لادین شکن یہی علم خیر کثیر ہے اگر اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہو۔ اگر دین و اخلاق کے سر چشمہ سے رابطہ موجود ہو تو یہ علم پیغمبر ی کے ہم پایہ ہے لیکن جب یہ علم سوز دل سے عادی ہو جائے اور حق سے بیگانگی کا مظہر ہو تو یہ بجائے خیر کثیر کے شر اعظم بن جاتا ہے جس کے فساد کی لپیٹ میں اس وقت ساری دنیا پھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد علاج اقبال کی نگاہ میں لادینیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ انسانی زندگی میں سکون و اطمینان راحت و سعادت تبھی ممکن ہے کہ دین و دنیا کی دوئی ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے۔ اخلاق اور سیاست کی بے تعلقی کے باعث جو غیر متوازن حالات پیدا ہوئے ہیں اس کو اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سر بلندی ہے یہ سربنریری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی اسیری ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشری ہے آئینہ دار نذیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی اردشیری جب علم و قوت لادینی سے متاثر ہوں تو زہرہلاہل سے زیادہ خوفناک ہیں لیکن جب یہی علم و قوت دین و اخلاق سے مربوط ہوں تو زہر کا تریاق اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ تیغ ایوبی اور نگاہ با یزید ایک ذات میں موجود ہونا ہی انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ جب انسان اس نہ سبہر کے طلسم کو توڑ دیتا ہے لیکن اس کے نشیب و فراز، رنج و راحت سے متاثر نہیں ہوتا تبھی دنیا فساد و فتنہ سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ شکوہ خسروی ایں است ایں است ہمیں ملک است کو توام بہ دین است لادینیت کاایک دوسرا مظہر وطن کا غلط تصور ہے۔ بدقسمتی کہنا چاہئے کہ اس خطرناک نظرئیے کا آغاز بھی تحریک اصلاح کلیسا کے ہاتھوں ہوا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کلیسائی حاکمیت کے باعث تمام عیسائی ممالک ایک رشتہ اخوت میں منسلک تھے اور اس اتحاد و اخوت کی بنیاد مذہبی اور اخلاقی یگانگت پر تھی۔ جب لوتھر نے کلیسا کے اس عالمگیر نظام کو ختم کر دیا تو ہر ملک کو اپنی نفرادیت قائم رکھنے کے لیے کسی نفسیاتی بنیاد کی ضرورت تھی یہ نفسیاتی بنیاد نظریہ وطن و نسل نے فراہم کیا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لوتھر کی یہ بغاوت درحقیقت جرمن قومیت کی سرفرازی کے لیے تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیح کے عالمگیر نظام اخلاق کی بجائے بے شمار اخلاقی نظام وجود میں آئے۔ چنانچہ اہل مغرب کی نگاہیں اس عالمگیر انسانی نصب العین سے ہٹ کر اقوام و عدل کی تنگ حدود میں الجھ کر رہ گئیں اس کے لیے انھیں وطنیت کے تصور سے زیادہ اور کوئی بہتر اساس میسر نہ آئی۔ وطنیت کی یہ اساس اپنے بنیادی مفہوم میں انسانی جماعت کی ہیئت کا ایک سیاسی اصول ہے۔ جس کے مطابق ایک خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگ جو ایک ہی زبان اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس وطن کو اپنا معبود اور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ وطن ہی ان کی تمام وفاداریوں کا مرکز ہے اور وہی نیکی اور بدی۔ خیر و شر کا آخری معیار۔ اس لیے اقبال نے مختلف جگہ ’’وطن‘‘ کو دیوتا اور خدا کے نام سے پکاراہے۔ ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ وطنیت کا یہ سیاسی نظریہ انسانیت کے لیے سم قاتل ہے، کیونکہ اس کے باعث انسان آدمیت سے محروم ہو کر اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ آں چناں قطع اخوت کرد اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند تا وطن را شمع محفل ساختند نوع انسان و قبائل ساختند ایں شجر جنت ز عالم بردہ است تلخیِ پیکار بار آوردہ است آدمی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد اسلام کا مقصد محض انسانوں کی اخلاقی اصلاح نہیں بلکہ ان کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب پیدا کرنا ہے جو قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو بدل کر خالص انسانی شعور پیدا کرے۔ ’’اسلام نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی۔ نہ انفرادی اور نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد تمام فطری امتیازات کے باوجود عالم بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے۔ ایسا نظام صرف عقائد کی بنا پر ہی قائم ہو سکتا ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے عالم انساں کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘ (حرف اقبال، ۲۵۱۔۲۵۲) یہ اساسی عقیدہ اقبال کے خیال میں صرف توحید ہے جس کی بنا پر انسانی سوسائٹی کو ایک بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکتا ہے۔ توحید کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری وفاداریاں ملوک و سلاطین اور دیگر سارے مفادات سے ہٹ کر صرف ذات الٰہی سے مخصوص ہو جائیں۔ چونکہ یہ ذات الٰہیہ فی الحقیقت زندگی کی روحانی اساس ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت دوسرے لفظوں میں انسان کی اپنی فطرت صحیحہ کی اطاعت ہوئی۔ جب اس اصل توحید کو سیاسی اصول عمل کی حیثیت دی جاتی ہے تو اس سے انسان کو بہ حیثیت انسان دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت ملک قوم رنگ نسل وغیرہ کے امتیاز بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ قرآن کے نزدیک قابل امتیاز اگر کوئی شے ہے تو وہ انسانی اعمال کا اچھا اور برا ہونا ہے نہ کہ اس کا رنگ و نسل وغیرہ۔ ’’وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو نسل و زبان و رنگ سے بالا ہو۔ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا۔ ‘‘ (حرف اقبال، ۲۴۷) برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است اقبال نے جب بین الاقوامی سطح پر جمعیت اقوام کی مخالفت کی تو اس کا باعث بھی اس نظریہ وطنیت کی مخالفت تھی۔ اس کے خیال میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ جس کی بنیاد انسانوں کے اجتماع کی بجائے محض اقوام کا اجتماع ہو کبھی خیر و سعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے نزدیک صحیح نصب العین جمعیت اقوا م کی بجائے جمعیت آدم ہونا چاہئے۔ تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم اقبال نے اپنے کلام میں لادینی جمہوریت کی سخت مخالفت کی ہے جس کی بنا پر لوگوں نے اس پر فسطائیت کا الزام لگایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی مخالفت کا باعث جمہور دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت دشمنی ہے۔ وہ عام لوگوں کی صلاحیت کا نہ منکر ہے اور نہ ان کوآزادی رائے اور صحیح اختیارات دینے کے خلاف ہے۔ اس کے خیال میں ہر بنی آدم تکریم و عظمت کا حامل ہے۔ نٹشے کے خیال میں عوام صحیح معنوں میں ’’انعام‘‘ ہیں اور اس لیے اس نے تمام اختیارات و حقوق ان سے لے کر فوق البشر کے سپرد کر دیے، ان کے لیے سوائے تقلید اور پیروی کے اور کوئی چارہ کار نہیں۔ لیکن اقبال کے ذہن میں عوام سے متعلق کوئی ایسا پست تخیل موجود نہیں۔ ’’اسلامی جمہوریت ایک روحانی اصول ہے۔ جس کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ ہر انسان چند بالقوہ صفات کا حامل ہے جو ایک خاص قسم کی سیرت کی تشکیل سے بروئے کار آسکتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے بہترین کارنامے پیش کیے وہ بھی عوام ہی تھے۔‘‘ (دیباچہ اسرار خودی۔ انگریزی ترجمہ، صفحہ ۱۹، لاہور۱۹۵۰ئ) اقبال نے جب جمہوریت پر اعتراض کیا ہے تو اس سے اس کی مراد جمہوریت کی وہ شکل ہے جو مغرب میں موجود ہے، جس کی اساس وطن و قوم کے غلط تصور پر قائم ہے اور جس نے لوگوں کو اخلاق اور انسانیت کا پیغام دینے کے بجائے فتنہ و فساد، خون ریزی اور ہلاکت ، استحصال اور لوٹ مار کے بازار گرم کیے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی جنگ زر گری ہے، قیصریت اور استبداد کا ایک پردہ ہے۔ اس ’’شراب رنگ و بو‘‘ کو اختیار کرنے سے سوائے نامرادی کے اور کچھ حاصل نہیں۔ فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گراں دیوے کشاد است زباغش کشت ویرانے نکو تر ز شہر او بیابانے نکو تر گروہے را گروہے درکمین است خدایش یاراگر کارش چنیں است جمہوریت کی حقیقی غلطی اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ لادینی نقطہ نگاہ کے زیر اثر مغرب نے لوگوں کو ہر معاملے میں مطلق العنان بنا دیا ہے، ان کے نزدیک اگر کوئی مقصد و مطلب ہے تو صرف مادی منفعت نہ کہ انسانی بھلائی۔ صحیح روحانی جمہوریت وہ ہے جس میں اقتدار کا ماخذ عوام کی بجائے ذات باری ہو۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری جاوید نامہ میں اس سلسلے میں کہتے ہیں: غیر حق چوں ناہی و آمر شود زور در بر ناتوان قاہر شود زیر گردوں آمری از قاہری است آمری از ما سوای اللہ کافری است اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانوں کو اجتماعی طو پر کسی نظام کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وہی نظام مملکت عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے جس کی بنیاد اخلاقی اور روحانی اصولوں پر ہو۔ الحکم للّٰہ اور الملک للّٰہ جب تک انسانی تمدن کی بنیاد عالمگیر روحانی اصولوں پر نہ رکھی جائے تب تک امن و عافیت ممکن نہیں۔ مغرب کی لادینی مادیت نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں کبھی وہ جمہوری قبا میں ظاہر ہوتی ہے کبھی وہ اشتراکیت کی شکل میں جلوہ فگن ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ سب قدیم جاہلیت ہی کی تازہ شکلیں ہیں اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے اسی روحانی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، جس نے پہلے بھی اس جاہلیت کے طلسم کو توڑا تھا۔ تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس دور میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم /…/…/ اقبال کے ہاں تقدیر کا تصور خلیفہ عبدالحکیم اقبال کے تصورات اور افکار میں ہر جگہ ایک نیا زاویہ نگاہ نمایاں ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ میں صدیوں سے جو تصورات ذہنوں پر مسلط تھے، ان میں سے ہر ایک کے تصور کی تحصیل اقبال نے کی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کے ذہنی اور ملی زوال کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر تصورات کو ایسے معنی پہنا دیے گئے ہیں جو اصل مفہوم سے بہت دور ہیں اور حیات بخش ہونے کی بجائے حیات کش ثابت ہو رہے ہیں۔ مفسروں، فقیہوں اور صوفیوں سے اقبال کو یہی شکایت ہے کہ وہ قرآن اور اسلام کی تاویلوں میں روح اسلام سے بہت دور جا پڑے۔ امام رازی کی تفسیر کبیر کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ فیہ کل شئی الا التفسیر کہ اس میں اصل تفسیر کو چھوڑ کر اور سب کچھ ملتا ہے۔ اکثر اور تفسیروں کے متعلق بھی اقبال کی یہی رائے تھی۔ توحید اور ایمان، قناعت اور توکل، تقلید اور اجتہاد ان سب اساسی تصورات کا مفہوم مسلمانوں کے مذہبی اور عقلی رہنمائوں نے کچھ ایسا بدل دیا کہ زندگی کی تخلیقی قوتیں اس قوم کے اندر سرد پڑ گئیں اور ٹھٹھر کر رہ گئیں: زما برسان بہ ملایان سلامے یا دادند پیغام خدا را ولے تاویل شان در حیرت افگند خدا و جبرئیل و مصطفی را اقبال کا خیال تھا کہ تقدیر کے غلط مفہوم نے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ تقدیر اور تدبیر کا مسئلہ حقیقت میں اہم ترین مسائل میں سے ہے اور کسی فرد یا قوم کی زندگی کا رخ بہت کچھ اس سے متعین ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے متعلق اس کا انداز فکر کیا ہے۔ اقبال کا تمام کلام خودی کے تعین اور تلقین سے لبریز ہے اور سب باتوں سے زیادہ وہ مبلغ خودی ہی نظر آتا ہے۔ حقیقت میں اس تبلیغ میں ایک عظیم الشان ذہنی انقلاب مضمر ہے۔ تقدیر کا مفہوم بھی اسی کی ایک شاخ ہے۔اقبال سے پہلے خودی ایک مذموم تصور شمار ہوتا تھا۔ یہ لفظ غرور اور پندار اورخود غرضی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ انسانوں کی تقسیم اس طرح کی گئی تھی کہ بعض خودی پسند ہیں اور بعض خدا پسند اور یہ دو متضاد باتیں شمار ہوتی تھیں۔ انھیں معنوں میں کسی کا یہ ایک شعر مشہور ہے: تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند اقبال سے قبل مسلمانوں کے تمام لٹریچر میں خودی کا لفظ انھیں مذموم معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پہلے فلسفیوں نے خواہ وہ مادی ہوں یا روحانی کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی خودی کو باطل قرار دیا۔ مادیت میں تو نفس انسانی ہی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی، اس میں کسی قسم کی خودی کا تصور کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے۔ مادیت حقیقت میں ایک طرح کی تقدیر پرستی ہے خواہ وہ تقدیر اندھی ہی ہو۔ تمام اعمال مادے کے اٹل قوانین سے متعین ہوتے ہیں، کسی واقعہ کی کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی، حیات و کائنات میں کوئی مقاصد نہیں، ہر مظہر وجود علت و معلول کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتا ہے۔ مادے کے میکانکی عمل میں ریاضیاتی اصول کا اطلا ق ہوتا ہے۔ جس طرح ریاضیات کے اصول اٹل ہیں۔ اسی طرح ہر علت اور ہر معلول کا عمل ناقابل تغیر میکانکی اصول کے ماتحت ہوتا ہے۔ انسان کا نفس او اس کے ارادے کسی چیز کو بدل نہیں سکتے۔ نفس خود ایک بے بس مظہر ہے۔ تمام ارادے مادے کے جبر سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی مادی جبر سے ہی ظہور میں آتے ہیں۔ نیک کی نیکی اور بد کی بدی قابل ستائش ہیں اور نہ لائق مذمت۔ مادیت کے اس تصور کا اثر تمام موجودہ سائنس میں نمایاں ہے اور اکثر سائنسدان انسانی زندگی کو بھی اسی جبری زاویہ نگاہ سے زدیکھنے کے عادی ہیں۔ مادیت کے علاوہ اکثر مذاہب نے بھی کسی نہ کسی قسم کے تقدیری جبر کو اپنی تعلیم کا اہم جزو بنا لیا تھا۔ کسی نے کہا کہ آدم و حوا نے ایک گناہ کیا تھا۔ جسے خدا نے معاف نہ کیا اور اس کی تمام اولادیں تو ارثی جبر کے تحت گناہ کی مرتکب ہو ں گی۔ اب ہر انسان ناکردہ گناہ کی اس پاداش کو لیے ہوئے ہوتا ہے اور وہ اس کو کسی اچھے سے اچھے اعمال سے بھی بدل نہیں سکتا۔ البتہ چند ناقابل فہم عقائد کو تسلیم کر لینے سے اس سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے۔ کسی نے قانون اخلاق کو اس انداز کا قانون حیات بنایا کہ ہر نیک و بد فعل ایک ایسی زنجیر کی کڑی ہے جس کا ایک سرا اَزل سے اور دوسرا ابد سے ملا ہوا ہے۔ زندگی کی غرض یہ بتائی کہ نیک اور بد دونوں قسم کے اعمال سے ماوریٰ ہو جانا چاہئے اور اس کا واحد نسخہ یہی ہے کہ ہر ارادے اور ہر خواہش کو ملیا میٹ کر کے خودی کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ انسان جب قطعاً بے مدعا ہو جائے گا تو خدا ہو جائے گا یا وہ نہیں رہے گا اور خدا ہی خدا رہ جائے گا۔ یہ نظریہ حیات مسلمانوں کے تصوف میں بھی داخل ہو گیا اور شعرائے متصوفین نے اس ایک رنگ کے مضمون کو سو ڈھنگ سے باندھا ہے۔ غالب کے ہاں کثرت سے اس مضمون کے اشعار ملتے ہیں: نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا بعض صوفیا نے ایک مقولہ وضع کر لیا: ’’وجودک ذنب‘‘۔ یہ نہیں کہ انسان کبھی کبھی گناہ کا بھی مرتکب ہوتا ہے بلکہ سرے سے اس کا اپنے انفرادی وجودکو حقیقی سمجھنا گناہ ہے۔ اصل عرفان نفس اس کو قرار دیا کہ نفس کو کالعدم تصور کیا جائے: گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور انسانی خودی کے نیست ہو جانے کے بعد بس خدا کی ذات اور اس کی صفات کے مظاہر رہ جائیں گے۔ اس کو تقدیر الٰہی کہہ لیجیے۔ یہ تقدیر خدا کے اپنے افعال ہی کی تقدیر ہوگی۔ انسان کے اعمال، اس کے ارادے، اس کے مقاصد، پاداش عمل، ثواب و عذاب، ترقی و تنزل سب مجازی اور اعتباری حیثیت اختیار کر کے موہوم و معدوم ہو جائیں گے۔ مادیت نے مادے کی ہمہ گیری سے تقدیر جبری قائم کر کے انسانی نفس اور اس کی خودی کو سوخت کر دیا تھا۔ اہل مذہب نے ایک دوسرا راستہ اختیار کر کے نفس کی خود اختیاری حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ جہاں توحید نے وحدت وجود کا رنگ اختیار نہیں کیا خالق و مخلوق اور عابد و معبودکی تمیز و تعریف کو قائم رکھا، وہاں بھی خدا کی قدرت مطلقہ کا ایک تصور قائم ہو گیا جس سے زندگی میں جبر حقیقی اور اختیار مجازی بن گیا۔ خدا قادر مطلق ہے، خیر و شر دونوں کا خالق ہے، جسے چاہا جیسا بنا دیا۔خیر و شر کا قانون جاری کر دیا لیکن اختیار کسی کو نہیں دیا۔ نیک سے نیکی کرائی اور اس کو اجر دے دیا اور بد سے بدی کرائی اور اس کو سزا دے دی، چونکہ وہ فعال لما یرید ہے اور اس لیے اس سے باز پرس نہیں ہوسکتی۔ کائنات کو وجود میں لانے سے قبل ذرے ذرے کی حرکت کو تا ابد متعین کر کے لوح محفوظ میں درج کردیا، جہاں سے کوئی حرف ادھر ادھر نہیں ہوسکتا، مٹ سکتا ہے نہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر خدا چاہتا تو چورچوی نہ کرتا لیکن اپنی مشیت سے اس نے ایسا چاہا تو اس نے ایسا کیا۔ اسلام کی تعلیم میں خدا کی قدرت کاملہ کی بھی تلقین تھی اورانسان کی اپنے اعمال کی ذمہ داری پر بھی زور تھا۔ لیکن تقدیر کے متعلق مسلمانوں کے اکثر مفکرین نے ایسا انداز استدلال اختیار کیا کہ تمام ذمہ داری کالعدم ہو گئی اور شعرا نے کہنا شروع کر دیا: حافظ بخود نہ پوشید این خرقہ مے آلود اے شیخ پاکدامن معذور دار ما را در کوئے نیک نامی ما را گذر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را میر تقی کہتا ہے: ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خودمختاری کی چاہیں ہیں سو آپ کر ے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا آزاد کہتا ہے: جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں سوار خاک ہیں، بے اختیار بیٹھے ہیں اقبال نے اس تمام تصور کے خلاف بغاوت کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی خاک زندہ نہ تابع ستارہ ہے نہ اس پر مادیت کا جبر مسلط ہے اور نہ خدا کا جبر۔ خدا نے انسان کے جسم کو مٹی سے بنایا لیکن اپنی روح اس کے اندر پھونک دی۔ اختیار روحِ الٰہی کا جوہر ہے، اس لیے انسانی روح اس جوہر سے کس طرح معرا ہو سکتی ہے۔ انسان کو خلیفہ کائنات بنایا گیا اور اس کو ایسی قوتیں ودیعت کی گئیں جن کو کام میں لاکر وہ تمام موجودا ت کو مسخر کر سکے۔ تقدیر پرستوں نے اس خلیفۃ اللہ اور مسخر کائنات کو مجبور محض اور ذرئہ بے اختیار بنادیا۔ طلوعِ اسلام کے وقت تقدیر کا صحیح مفہوم اور انسان کا صحیح مقام اور صحیح وظیفہ عمل سمجھنے والوں نے دنیا کی کایا پلٹ دی اور اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسان کی تقدیر کائنات کی تسخیر ہے۔ آفرینش آدم عالم کے اندر ایک زبردست انقلاب تھا اور اس انقلاب کی غایت یہ تھی کہ ایک انقلاب آفرین ہستی کو وجود میں لایا جائے۔ خدائے خلاق نے اپنی مخلوق میں سے ایک نوع کو اپنی خلاقی میں سے حصہ دیا۔ تفصیلی طور پر بنی بنائی اور لکھی لکھائی تقدیر پر گامزن ہونے والی مخلوق حقیقی آزادی اور اختیار سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے خلاقی میں حصہ نہیں لے سکتی۔ انسان کو خودی اس لیے عطا نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس کو باطل قرار دے کر اس کو معدوم کرنے میں مصروف ہو جائے۔ خودی اس لیے عطا ہوئی تھی کہ وہ اس کو بلند کرتا ہوا خدائے قادر کی مشیت کا ہم کار ہو جائے۔ خودی صفات الٰہیہ کو جذب کرتی ہوئی اپنی رضا کو اس کی رضا کے ساتھ اس طرح ملا دے کہ تمیز کرنا دشوار ہو جائے۔ جس طرح لوہا آگ کو جذب کر کے اس کا ہم رنگ اور ہم صفت بن جاتا ہے۔ اقبال کا تصورِ تقدیر اس کے فلسفہ خودی کا ایک حصہ ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ تفصیلی طور پر معین تقدیر تو اقبال کے نزدیک خدا کو بھی صحیح معنوں میں خلاق نہیں بناتی۔ اس قسم کی قضا تو خود خدا کے لیے قضائے مبرم بن جائے گی۔ خدا کی خلاقی یہ ہے کہ کل یوم ہو فی شأن۔ انسانوں نے خدا کے علم کو اپنے علم پر قیاس کر کے اس کی خلاقی کو اس کے ازلی و ابدی طور پر معین تفصیلی معلومات کے ماتحت کر دیا۔ اقبال کے نزدیک خلاقی علم کے ماتحت نہیں بلکہ علم خلاقی کے ماتحت ہے۔ اصلی خلاقی خواہ خدا کی مرحمت کردہ انسانی قوت سے سرزد ہو، وہ آزاد ہوتی ہے۔ خلاقی کی آزادی یہی خدا کی تقدیر ہے او یہی انسان کی تقدیر۔ مسخر کائنات مجبور کائنات کیسے ہو سکتا ؟ اقبال کو جو عارف رومی سے عقیدت تھی اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ قدیم صوفیائے کرام اور حکما میں اسی مرشد کامل نے نفی خودی اور جبر محض کے خلاف زور شور سے احتجاج کیا۔ جس وقت ایک طرف یونانی حکمت نے اور دوسری طرف فنا پسند تصوف نے انسان کی خودی کو باطل کر دیا تھا۔ اس وقت رومی نے یہ آوازہ بلند کیا کہ انسان کی تقدیر یہ ہے کہ وہ مخلوقات کو مسخر کرتا ہوا آخر میں خدا کو بھی مسخر کرے، اگرچہ اس آخری منزل میں شکار مسخر کرنا اور مسخر ہونا ایک ہی بات ہو جائیں گے: بزیر کنگرئہ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر خدا کی کبریائی اور عظمت کے سائے میں کچھ ایسے مردان جری بھی نظر آتے ہیں جو فرشتوں کا، پیمبروں کا بلکہ خدا کا بھی شکار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اقبال کو رومی کا یہ جری تصور بہت پسند تھا، اسی لیے اس نے رومی کے اس خیال کو اپنے ایک شعر میں دہرایا ہے۔ جبریل کو صید زبوں بنانے کے بعد یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ۔ رومی کے زمانے میں بھی یہ تصور عام ہو چکا تھا کہ جدوجہد کرنا قضا سے خواہ مخواہ کشتی لڑنا ہے۔ توکل اور قناعت اور تسلیم و رضا کے یہ معنی لیے گئے تھے کہ اللہ اللہ کرو اور جو کچھ خدا دکھائے یاکرائے اس کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائو۔ رومی نے مثنوی میں اس موضوع پر بڑی حکیمانہ بحث کی ہے, فرماتے ہیں: با قضا پنجہ زدن نبود جہاد زاں کہ آں را خود قضا برما نہاد کوشش کرنا قضا کے خلاف جدوجہد کرنا نہیں ہے، خود قضا نے اس جدوجہد کو انسان کے لیے مقدر کر دیا ہے۔ تقدیر قانون عمل کا نام ہے کہ خاص قسم کے اعمال سے خاص قسم کے نتائج سرزد ہوں گے۔ چور چوری کرے گا تو اس کی زندگی پر اس کا کیا اثر ہوگا، اس کا نام تقدیر ہے۔ یہ نہیں کہ ازل سے یہ معین ہو گیا تھا کہ فلاں شخص فلاں وقت ضرور چوری کرے گا۔ اگر تقدیر کا یہ مفہوم ہوتو قانون اخلاق اور جزا و سزا سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ قرآن نے تقدیر کا صحیح مفہوم سمجھایا تھا اور اس مفہوم کو سمجھ کر عمل کرنے والوں کو خلافت الٰہی عطا ہوئی تھی۔ غلط بین مفسروں نے اسی قرآن سے ترک دنیا کی تعلیم کو اخذ کرنا شروع کر دیا اور جدوجہد کرنے والی قوموں نے ان کو پیچھے چھوڑدیا۔ اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر ایک نظم میں اقبا ل نے تقدیر پر غور کرتے ہوئے افراد اور اقوام کی تقدیر کے متعلق دو الگ الگ خیالات پیش کیے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ فرد کی تقدیر تو بعض اوقات ہمارے لیے اچھی طرح قابل فہم نہیں ہوتی۔ کہیں کوئی اہل ذلیل نظر آتا ہے اور نا اہل معزز و با وقار۔ کہیں دانا کو رزق سے محرومی ہوتی ہے اور نادان کو بے کوشش بہت کچھ مل جاتا ہے۔ کہیں خرد مند محکوم ہے اور بے خرد حاکم۔ نا اہل صاحب اقتدار ہے اور جوہر ذاتی رکھنے والا بے بس اور خوار۔ یہ راز تو عقل پر منکشف نہیں ہوتا۔ لیکن قوموں کی تاریخ اس حقیقت کو ضرور واضح کرتی ہے کہ قوموں کی تقدیر صریح طور پر ان کے اعمال کے ساتھ وابستہ ہے: نا اہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت ہے خوار زمانے میں کبھی جوہر ذاتی شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی بران صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی /…/…/ اقبال کا تصور زمان و مکان ڈاکٹر برہان احمد فاروقی علامہ اقبال کے تصورزمان و مکان پر ان مسائل کے پیش نظر غور کرنا ضروری ہے کہ فلسفیانہ مسائل کیا ہیں؟ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ فلسفیانہ غوروفکر کس لیے کیا جاتا ہے؟ اقبا ل کو فلسفیانہ مسائل پر غور و فکر کی ضرورت کیوں پیش آئی اور مسئلہ زمان و مکان پر غورو فکر کا محرک کیا ہوا؟ اور کن عنوانات کے تحت مسئلہ زمان و مکان پر غور کیا؟ اور اس غور و فکر کے نتائج کس حد تک اطمینان بخش ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ اب فلسفیانہ مسائل یہ ہیں کہ وہ سب کچھ جو مجھے گھیرے ہوئے ہے، جس سے میں دو چار ہوں، کیا ہے؟ یعنی یہ کائنات کیا ہے، اس میں میری جگہ کیا ہے؟ اس کائنات میں میرے مقام ومنصب کے اعتبار سے کیا اعمال سزاوار ہیں؟ کیا یہ عالم مشہودات مادی کا ایک مجموعہ ہے؟ اس عالم میں جو حرکت پائی جاتی ہے، اس کا کوئی رخ اور سمت ہے یا نہیں؟ یہ عالم بے سرو پا اجزائے لایتجزی کا محض ایک وحشیانہ رقص ہے یا بے شعور زندگی کا ایک اندھا تقاضا ہے؟اور مزید یہ کہ میں کس حادثے کی پیداوار ہوں یا صرف ایک بھڑکتا ہوا شعلہ اور متغیربہ تسلسل ہوں؟ یعنی کیا میں ہستی محض سے فنائے کامل کی جانب ایک تغیر محض یا کوئی بہتر شے اور ایک ایسا وجود ہوں جو کوئی فضیلت رکھتا ہو اور ایک ایسی ہستی، جس کا اپنا کوئی مستقل وجود ہو اور جس کا اس نظام محسوس میں کوئی وقار ہو؟ یہی وہ مسئلہ ہے جسے فلسفہ حل کرنا چاہتا ہے۔ فلسفہ کائنات کی ایک تشکیل، اس کا ایک نظریہ مدون کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوالات پیدا اس لیے ہوتے ہیں کہ باقی مخلوق کے مقابلے میں انسان کا طرئہ امتیاز یہ ہے کہ وہ دانستہ سوچ سمجھ کر بالا رادہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور کچھ بننا چاہتا ہے۔ نہیں! وہ ، وہ کچھ کرنا چاہتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ وہ، وہ کچھ بننا چاہتا ہے جو اسے بننا چاہیے اور اسے وہ کرنا چاہیے اور وہ بننا چاہیے جو اس عالم کی حقیقت اور خود اس کی اپنی حقیقت کے لحاظ سے ضروری ہو،لہٰذا وہ اس عالم کو اور اپنے آپ کو سمجھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے مطابق بن سکے۔ اس غورو فکر کی تحریک اس طرح ہوتی ہے کہ جب انسان اس کائنات کے بالمقابل کھڑا ہو کر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتا ہے اور اس کی یہ رائے اس کی فطرت کے تقاضوں سے سازگار ہم آہنگ نہیں ہوتی تو ناسازگاری کا احساس اس کے ذہن پر ایک بوجھ بن جاتا ہے اور اس کے دل کے لیے بے اطمینانی کا باعث ہوتا ہے، اس لیے وہ اس بوجھ اور بے اطمینانی کو دور کرنا چاہتا ہے۔ چناں چہ ایرانی ذہن پر جو بوجھ فلسفیانہ فکر کا محرک بنا تھا وہ یہ تھا کہ اگر بنیادی خیر اور بنیادی شر کو کہنہ کائنات تصور کیا جائے تو حقیقت کائنات کی ایک ہم آہنگ تشکیل ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس سے جو بوجھ ذہن پر پیدا ہوتا ہے، اسے رفع کرنے کے لیے تشکیل کائنات کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ یونانی ذہن پر جو بوجھ فلسفیانہ غور وفکر کا محرک ہوا، وہ یہ تھا کہ محسوس اور معقول ایک دوسرے سے ناسازگار ہیں اور یہ ناسازگاری ذہن پر بارہے، جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے فلسفیانہ افکار کا محرک وہ ذہنی بوجھ ہے جو محسوس اور معقول کے باہم خوگر ناسازگاری ہونے سے پیداہوتا ہے۔ نصرانی (مسیحی) ذہن پر جو بوجھ فلسفیانہ غوروفکر کا موجب ہوا، جسے رفع کرنے کے لیے فلسفیانہ فکر کی تشکیل ضروری ہو گئی، یہ تضاد تھا کہ مذہب عقیدہ ہے اور علم، علم ہے نیز عقیدہ اور علم باہم دگر ناسازگار ہیں۔ مذہبی اور اخلاقی تقاضے ایک طرف اور عمرانی ثقافتی مطالبات دوسری طرف۔ ایک دوسرے سے متناقص ہیں۔ اس تضاد اور تناقص کو رفع کرنے کے لیے فلسفیانہ غوروفکر ضروری ہوگیا۔ مسلمانوں کے ذہن میں نہ تو وہ خیر و شر کی ثنویت سے پیدا ہونے والا تضاد ہے(کیونکہ ان کے ہاں توحید بنیادی تصور ہے اور علم اور اعتقاد کے درمیان وہ تضاد نہیں ہے جو مسیحیت کے تلقین کر دہ عقیدے میں مضمر ہے نیز سب سے پہلے نازل ہونے والی سورۃ علق میں ایمان اور علم کے بنیادی طور پر سازگار ہونے کی نشاندہی موجود ہے) اور نہ محسوس اور معقول کے درمیان تضاد و تناقض، جو اسلامی ذہن کے لیے ایک واقعہ ہے(کیونکہ اسلام عالم خارجی کے اثبات پر اپنی مثالی جدوجہدکی اساس رکھتا ہے) لہٰذا مسلمان مفکرین کے لیے اگر فلسفیانہ غور وفکر کے لیے کوئی محرک ہو سکتا ہے تو یہ ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو وحدت نوع انسانی کے تصور پر مبنی ایک معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اور اس غرض سے بعض بنیادی اعتقادات کی تلقین کرتا ہے۔ یہ اعتقادات جب ایسی اقوام کو تلقین کیے جائیں جو فلسفیانہ غوروفکر کی عادی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتقادات کی عقلی اساس دریافت کی جائے۔ حقیقت عمرانی وحدت پیدا کی جائے اور جن کو اسلام کا پیغام پہنچانا درکار ہے، ان کے ساتھ پہلے اشتراک فی العلم پیدا کیا جائے۔ یہی احتیاج، معتزلہ کے فلسفیانہ فکر کی نشوونما کے لیے محرک ثابت ہوئی اور افکار کی نشوونما میں وہ تضاد جو راسخ العقیدہ ذہن کے موقف کی تائید میں ابھرا، فکر کی ارتقا کے لیے محرک ثابت ہوا۔ علامہ اقبال کے لیے فلسفیانہ غوروفکر کے محرکات یہ تھے کہ ان کے نزدیک انسانیت تین چیزوں کی محتاج ہے: اوّل، کائنات کی روحانی تعبیر کی۔ دوئم، فردکے روحانی ارتقا کی۔ سوئم، ان بنیادی اصولوں کی جو اپنے معنی میں ہمہ گیر ہوں اور روحانی اساس پر معاشرے کی نشوونما کے محرک بن سکیں۔ بقول علامہ اقبال اگرچہ یورپ نے عینیتی (Idealistic) نظاموں کی تشکیل ان ہی خطوط پر کی تھی لیکن تجربہ شاہد ہے کہ وہ حقیقت جو عقل محض پر منکشف ہوئی، وہ ایسا ولولہ اور یقین پیدا کرنے سے قاصر رہی جو مذہبی واردات کی صورت میں ذاتی انکشاف سے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکر محض نے انسانوں کو صرف متاثر کیا ہے،جب کہ مذہب نے ہمیشہ افراد کو بلند کیا ہے اور اس طرح معاشروں میں تبدیلی کی ہے۔ یورپ کی عینیت کبھی بھی فکر محض سے زندگی میں ایک زندہ حقیقت نہیں بنی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسخ شدہ انا (Ego) ناروادار جمہوریتوں کے سہارے، جن کا مقصد مالدار کی خاطر نادار کو لوٹنا ہے، اپنے اغراض پورے کرتی رہی ہے۔ چنانچہ آج یورپ ہی انسان کی اخلاقی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بخلاف اس کے مسلمان وحی کی اساس پر مبنی ایسے حقیقی تصورات کے حامل ہیں، جن کی بدولت زندگی اپنی ظاہری نمود کو باطنی حقیقت میں بدل سکتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے زندگی کی روحانی اساس اذعان و یقین کا معاملہ ہے، اس کے لیے کم سے کم بصیرت رکھنے والا مسلمان بھی بہ آسانی اپنی جان قربان کر سکتا ہے۔ اسلام کے بنیادی تصور کے پیش نظر کوئی مزید الہام انسان کے لیے حجت نہیں ہوسکتا کیونکہ روحانی طور پر مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ عقلی اور نظری غوروفکر کے عادی ذہنوں کے لیے اسلامی تعلیمات کو قابل فہم بنانے کی خاطر ، غوروفکر کی سعی، جوہر دور کے تقاضوں کے مطابق کی جاتی رہی ہے، آج بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کلاسیکی طبعیات کی اپنی بنیادوں کی تنقید نے یہ نتیجہ پیدا کیا ہے کہ مادیت جو پہلے ناگزیر تھی، نابود ہوتی جارہی ہے۔ کلاسیکی طبعیات کی اپنی بنیادوں کی تنقید سے مراد وہ تنقید ہے جو نظریہ اضافیت کے نقطہ نظر سے نیوٹن کی طبعیات کے مقولات (Categories) کے خلاف کی گئی ہے۔ اس نے طبعیات کے نتائج کو اس طرح مذہبی معتقدات سے ہم آہنگ بنا دیاہے کہ ایک تو اس میں مادہ کی بحیثیت ’’جوہر‘‘ نفی ہو گئی ہے، دوسرے اس تنقید نے جو ایڈنگٹن نے علوم طبیعی کی صحت کے حدود واضح کرتے ہوئے کی ہے، سائنس کو مذہبی فکر کے قریب کر دیا ہے۔ علوم جدیدہ میں کلاسیکی طبعیات میں یعنی نیوٹن کے نزدیک ، طبعیات کے محولات یہ ہیں: مادہ بحیثیت’’جوہر‘‘۔ خواص، علت، معلول،کمیت، قوت ،مکان، وہان ، عدد اور وحدت۔ اگرچہ طبعیات کی حیثیت ایک ایجابی علم (Empirical Science) کی ہے لیکن ان مقولات کا مفہوم عقلیت کی رو سے متعین ہوا تھا۔ جب جدید طبعیات نے ان مقولات کے معنی ایجابیت کے اصول پر متعین کیے تو جوہر مادی کی حقیقت،محض واقعات کے تسلسل کی رہ گئی، یعنی (Series of event) کی، اور بجائے علت و معلول کے صرف مقدم و مؤخر کی رہ گئی۔ اس طرح مکان و زمان میں سے جدا جدا سہ ابعادی مکان اور ماضی، حال و مستقبل سے تقسیم پذیر زمان کی جگہ ’’زمان ومکان‘‘ کا تصور باقی رہ گیا۔ جن میں سہ ابعادی مکان کے ساتھ زمان ایک ’’بُعد رابع‘‘ بن گیا۔ طبعیاتی فکر میں اس تغیر کے واقع ہونے سے ازلی، ابدی، غیر فنا پذیر جوہر مادی کا تصور اور مادیتی مابعد الطبعیات کا نظریہ مضمحل ہوگیا۔ علامہ اقبال کو ضرورت محسوس ہوئی کہ جو لوگ حسی علوم سے مرعوب ہیں اور ان علوم کے زیر اثر مذہبی حقائق کے افکار کی طرف مائل ہوتے ہیں، ان کی بازیافت کے لیے یہ واضح کیا جائے کہ سائنس اور مذہب میں نیز حسیتی فلسفے اور مذہب میں تضاد اور تخالف نہیں ہے۔کلاسیکی طبعیات میں میکانکی علیت (Hypothesis of mechanical causation) کے بجائے، جس سے صرف موجودات جامد اور ساکن کی حرکت کی توجیہ ہوتی، مفروضہ ارتقا کے ذریعہ ارتقائی حرکت کو ثابت کیا جائے اور کلاسیکی طبعیات کے سہ ابعادی مکان اور ماضی و حال و مستقبل کے امتیاز پر مشتمل زمان کی بجائے اضافی نظریہ زمان کو سامنے لایا جائے جو سہ ابعادی مکان کے اندر ’’بُعد رابع‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک تصور زمان الٰہی کا پیش کیا گیا ہے جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ فلاسفۂ اسلام نے فلسفیانہ اور عملی نظریات زمان و مکان میں ’’زمان الٰہی‘‘ کا مفہوم سمجھانے کے لیے اپنے اپنے زمانے میں جو تصرفات کیے تھے، ان ہی کے مماثل علامہ اقبال کو بھی یہ ضرورت پیش آئی کہ موجودہ نظریات زمان و مکان کی روشنی میں زمان الٰہی کا مفہوم واضح کریں۔ دراصل حقائق پر غور کرنے کے تین اصول ہیں: اصول عقلیت، اصول حسیت، اصول تنقید۔ (۱) اصول عقلیت: عقلیت، عقل کے ذریعۂ علم حقیقت ہونے کے بارے میں لامحدود یقین کانام ہے۔ عقلیت کی رو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقیقت معقول، ذہنی ،کلی، بسیط ، واجب اور قدیم یعنی زمان و مکان سے ماورا ہے اور موجودہ خارجی، جزئی، مرکب، ممکن اور حادث یعنی زمانی و مکانی کا حقیقت نہ ہونا جائز ہے عقلیت کی رو سے قضیہ تحلیلہ (Judgment Analytic) علم ہے، جیسے اجسام متغیر ہیں مگر اس قضیے میں موضوع (Subject) کے تجزئیے سے محمول (Predicate) حاصل ہوتا ہے۔ اس سے موضوع کی نسبت ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ یہ طے پاتا ہے کہ اس قضیے کے متوازی خارج میں حقیقت ایسے ہی موجود ہے کیوں کہ قضیہ تحلیلیہ ، تصور کی تحلیل سے وجود میں آتا ہے۔ (۲) اصول حسیت: عقل کے ذریعہ علم حقیقت ہونے کی نسبت لا محدود بے یقینی کا نام حسیت ہے۔ حسیت کی رو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محسوس موجود خارجی، جزئی، مرکب، ممکن اور حادث کو حقیقت ہونا چاہیے۔ جبکہ ذہنی کلی بسیط، واجب اور قدیم کا حقیقت ہونا ثابت نہیں۔ حسیت کی رو سے حواس ذریعہ علم ہیں۔ قضیہ مرکبہ علم ہے۔ جیسے گھاس سبز ہے۔ مگر اس قضیے میں یقین کی اساس وجوب عقلی کے ساتھ نہیں ہے۔ (۳) اصول تنقید: تنقید کی رو سے عقل اور حواس مل کر ذریعہ علم ہیں۔ حواس سے علم کا مواد یعنی مدلولات حاصل ہوتے ہیں اور عقل اس مواد کو اپنے مقولات کے تحت منظم کر کے انھیں قضیہ کی صورت دیتی ہے۔ تنقید کے اصول کے مطابق علم، قضیہ مرکبہ وہبیہ (Judgment apriori synthetic) کا نام ہے۔ جیسے ’’تمام انسان فانی ہیں‘‘ اس قضیے میں مشاہدے اور تجربے سے مواد جمع ہوتا ہے اور یہ قضیہ، قضیہ کلیہ اس لیے بن جاتا ہے کہ علت ومعلول کے مقولات عقل کے حوالے سے موت کی علت، انسانی ساخت میں مضمر متصور ہوتی ہے۔ تنقیدکی رو سے محسوس بھی حقیقت ہے اور ورائے محسوسات بھی حقیقت کا انکار نہیں ہوسکتا۔ مگر علم تب ہی ممکن ہوگا جب حواس سے مدلولات کو جمع کیا جائے اور عقل اس مواد کو اپنے مقولا ت کے تحت منظم کر کے اس میں وجوب اور کلیت پیدا کرے۔ بغیر حواس حقیقت کے خارج میں موجود ہونے کااعتماد نہیں ہوسکتا اور بغیر عقل کے قضیہ علمیہ میں یقین میسر نہیںآسکتا۔ اب حرکت طبیعی جو زمان و مکان میں واقع ہوتی ہے، ایک محسوس حقیقت ہے جو عبارت ہے کسی وجود کے ایک نقطہ مکانی سے دوسرے نقطہ مکانی تک اور ایک لمحہ زمانی سے دوسرے لمحہ زمانی تک منتقل ہونے کا۔ زینو نے اس محسوس حقیقت کو اصلیت کے اصول پر سمجھنے کی سعی کی اور حرکت کو عقل سے سمجھنا چاہا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے حرکت کے واقعہ ہونے کا انکار کر دیا۔ حسئین کی نگاہ طبعیاتی زمان و مکان پر مرکوز ہے وہ زمان و مکان کو ’’لمحات‘‘ اور ’’نقطوں‘‘ کی صورت میں سمجھ رہے ہیں لیکن یہ ’’لمحات‘‘ اور یہ ’’نقطے‘‘ اپنا لا محدود تسلسل بھی رکھتے ہیں۔ اس طرح دو پہلو زمان کے واضح ہوتے ہیں اور دو مکان کے۔ ایک لمحات کی تدریج، دوسرے اس تدریج کا تسلسل اور ایک نقطوں کی تدریج ، اور دوسرے ان نقطوں کا تسلسل۔ علامہ اقبال اپنے تصور زمان و مکان کو واضح کرنے کے لیے ایک طرف تو مسلمان فلاسفہ کے نظریات کی تنقید کرتے ہیں۔ مثلاً اشاعرہ کے تصور زمان و مکان کی ، ابن عربی کے نظریہ زمان کی۔ رازی کے تصور زمان کی ، دوانی کے نظریہ زمان کی اور عراقی کے نظریہ زمان و مکان کی۔ دوسری طرف وہ زینو (Zeno) کے نظریہ کی، طبیعین کے نظریہ زمان و مکان کی، نیٹشے کے تصور زمان و مکان کی، کانٹ کے نظریہ زمان و مکان کی۔ آئن سٹائن کے نظریہ زمان و مکان کی اور الیگزینڈر کے نظریہ زمان ومکان کی تنقید کرتے ہیں۔ علامہ اقبال خود جو نظریہ پیش کرتے ہیں، یہ ہے کہ ، انا کی دو صورتیں ہیں۔ ایک انائے عاقل (Appreciative Self) اور دوسری انائے فاعل (Efficient Self)۔ انائے عاقل کے علم کی حیثیت علم حضوری کی ہے اور انائے فاعل کے علم کی حیثیت علم حصولی کی ہے۔ اور انائے عاقل کا زمان، تسلسل محض (Pure Duration) اور مکان، وسعت خالص (Pure Extension) ہے۔ چونکہ انائے عاقل انائے مطلق کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس لیے وہ ایک آن واحد ہے جس میں تدریج نہیں۔ انائے فاعل کثرت کو بطور علم محصولی کے مشاہدہ کرتی ہے، اس لیے اس کے زمان کی خصوصیت آفات (لمحات) ہیں۔ مگر یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ انائے عاقل کا معاملہ اس طرح کا ہے جیسے ایک ناظر کمال حسن کا ایک شاہکار دیکھ کر اس میں اتنا منہمک ہو جائے کہ منظور اور ناظر کے امتیاز کا شعور زائل ہو جائے اور اس کے ساتھ اس تدریج کا، جو زمان فاعل کا خاصہ ہے۔ لیکن اس صورت میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناظر اور منظور ایک ہو گئے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ناظر کی توجہ منظور میں اتنی جذب ہوئی کہ ناظر کو خود اپنا شعور باقی نہ رہا۔ اس حالت کو ’’ کل‘‘ کا مشاہدہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ انائے مطلق کے زمان کو جس میںتدریج لمحات سے صرف نظر ہٹ گئی ہے۔ تسلسل محض (Pure Duration) کہہ سکتے ہیں۔ زمان و مکان تما م محسوسات کی صورتیں ہیں۔ چیزیں ’’مکان‘‘ میں واقع ہیں جو ’’زمان‘‘ میں متغیر ہورہی ہیں اور تمام حس زمانی ہے جو اشیا مکان کی طرف منفی یا مثبت نسبت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر نہ احساس ہوگا نہ محسوس۔ زمان و مکان ہمارے ادراک حسی کی شرطیں ہیں۔ زمان و مکان کا تعلق ناظر (Subject) اور منظور (Object) سے تب واضح ہوگا، جب ہم سوال کریں کہ ادراک کیسے ممکن ہے، یعنی وہ شرائط کیا ہیں جن کے پورا ہونے کی صورت میں ادراک ممکن ہوگا اور پورا نہ ہونے کی صورت میں ناممکن؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ادراک کے واقع ہونے کے لیے چار شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ایک ناظر ہو، جسے مدرک کی حیثیت حاصل ہوگی۔ دوسری یہ کہ سامنے منظور ہو، جو مدرک کہلائے گا۔ تیسری یہ کہ ناظر میں ادراک کی صلاحیت ہو اور چوتھی یہ کہ منظور ایسا ہو جو ناظر کی استعداد سے ادراک میں آنے کو قبول کرے۔ اب چونکہ ادراک نام ہے مدرک کے ’’اب‘‘ اور ’’یہاں‘‘ کے حوالے سے ادراک میں آنے کا، یعنی ’’زمان‘‘ اور ’’مکان‘‘ کی نسبتوں کے ساتھ شعور میں آنے کا، لہٰذا سوال پیدا ہوگا کہ جس استعداد کے بغیر منظور خارجی کاادراک نہ ہو سکے، وہ کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ وہ استعدادات زمان و مکان ہیں جو ناظر کے ذہن کی صفات ہیں اور منظور کے قابل ادراک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ منظور ایسا ہے جو اضافات زمانی و مکانی کو قبول کرتا ہے۔ یعنی منظور زمانی اور مکانی ہے۔ یہ الفاظ دگر موجود خارجی کا زمانی و مکانی ہونا ضروری ہے وہ مکانی او زمانی اضافات کو قبول نہ کرے تو ادراک ناممکن ہو جائے۔ زمان و مکان موجود خارجی کے ادراک کی شرائط تب ہی بن سکتے ہیں، جب موجودات زمانی و مکانی ہوں۔ ایسا نہ ہو تو موجودات خارجی میرے ذہن کا فریب اور نمود بے بود ہو کر رہ جائیں گی۔ زمان و مکان ناظر کے ذہن کی خصوصیات ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر موجودات خارجی نہ بھی ہوں تو ہم زمان و مکان یعنی آفات (لمحات) اور نقاط کے تدریج و تسلسل کو پاسکتے ہیں اور موجودات خارجی یعنی اشیا زمانی اور مکانی نہ ہوں تو زمانی اور مکانی اضافات کے ساتھ ادراک میں نہیں آسکتیں نہ وہ اشیا ہو سکتی ہیں۔ زمان و مکان نہ تو اشیا کو اپنی جگہ سے ہٹاتے ہیں نہ ان میں کوئی تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور اس کے باوجود نہ اشیا بغیر زمان و مکان کے ادراک میں آسکتی ہیں۔ زمان و مکان تما م محسوسات کے تعلق میں مطلقاً کلی ہیںاور واجب۔ مکان محض جس کی صورت نہیں ہے، نہ میرے ساتھ محض اضافی ہے نہ اشیا کی اضافت ہے بلکہ اس کا اپنا وجود ہے اور بجائے خود موجود ہے۔ یہی زمان کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ یعنی زمان محض حس کی صورت نہیں ہے نہ میرے ساتھ محض اضافی ہے نہ اشیا کی اضافت ہے۔ اس کا اپنا وجود ہے اور خود موجود ہے۔ مکان تسلسل ہے نقطوں کا جن سے وہ مرکب ہے اور زمان تسلسل ہے لمحوں کا جن سے وہ مرکب ہے۔ مکان میں تین بعد ہیں: طول، عرض، اور عمق ، زمان بھی تین خوبیاں ہیں: ایک تدریج، دوسرے عود نہ کر سکنا۔ تیسرے استمرار مسلسل۔ ’’زمان مکان‘‘ کہہ دینا اور بات ہے مگر ان کو ایک ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ الیگزینڈر نے مکان زمان کو ایک حقیقت کہا ہے۔ اور علامہ اقبال نے عراقی کے تعد د زمان، تعدد مکان کے نظرئیے کی تائید کرتے ہوئے دو قسم کے زمان و مکان ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ اس طرح ایک مشکل تو حل ہو جاتی ہے کہ الٰہی زمان ایک آن واحد ہے اور الٰہی مکان ایک وسعت موجود ہے۔ اس طرح ارسطو کے اس لائق اعتراض موقف کا جواب تو ہو جاتا ہے کہ چوں کہ خدا کی ذات زمان و مکان سے ماورا ہے اور جزئیات (Particulars) زمانی و مکانی ہیں، اس لیے خدا عالم جزئیات نہیں ہوسکتا۔ اقبال کے نزدیک سب کچھ اس کے علم میں بلا امتیاز ماضی، حال، مستقبل، حاضر ہیں۔ لیکن جہاں تک مسلم ذہن کے مطالبے کا سوال ہے، انائے عاقل اور انائے فاعل کے امتیاز سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، کیوں کہ ایک طرف زمان الٰہی کاایک دن ہے جس کی مدت پچاس ہزار سال ہے اور دوسری طرف اس عالم کی ایک آن واحد، جو معراج شریف میں صرف ہوئی۔ جس میں دوسرے عالم کی سیر تمام ہو گئی اور انائے عاقل کے زمان کا آن واحد سے مسئلہ حل نہ ہوا۔ کانٹ کا نظریہ زمان و مکان حضرت علامہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے لیکن اگر ہم اس پہلو پر نظر رکھیں کہ ایک طرف علمیاتی مقولات (Categories Epistemological) کی حیثیت سے زمان و مکان پر غور کریں تو زمان و مکان اشیائے طبیعی کے ’’ادراک‘‘ کی شرائط ہیںاور دوسری طرف زمان و مکان کو طبعیات کے مقولات کے طور پر پیش نظر رکھیں تو زمان و مکان اشیائے طبیعی کے موجود فی الخارج ہونے کی شرائط قرار پاتے ہیں۔ اندریں صوت یہ نتیجہ تو صحیح ہے کہ اگر ادرک حسی واقعہ ہے اور موجود خارجی کو ’’اب‘‘ اور یہاں کے حوالے سے یعنی زمان و مکان کی نسبتوں سے ادراک کیا جاتا ہے تو یہ ادراک اس وقت ہی ممکن ہوگا جب موجودات خارجی زمانی و مکانی ہوتے ہوئے زمان اور مکان کی نسبتوں کو قبول کریں۔ اس محسوس و موجود کا زمانی اور مکانی ہونا لازم آتا ہے۔ مگر جہاں ورائے محسوسات حقیقت کے غیر زمانی اور غیر مکانی پر اصرار کیا جارہا ہے، وہاں یہ اصرار اضافات ذہنیہ (Determinations of thought) کے باب میں تو صحیح ہو سکتا ہے یعنی دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ ان دو اور دو چار کے لیے زمان و مکان میں ہونا ضروری نہیں، لہٰذا اضافات ذہنیہ زمان و مکان سے ماورا ہیں لیکن اضافات ذہنیہ کے ساتھ شے فی نفسہ اور خدا کو ورائے زمان و مکان کہنا عقلیت کے اثرات کے تحت ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ اگر کانٹ تنقید عقل نظری کے نتائج کے طور پر خدا کو بھی ورائے زمان و مکان قرار دے تو تنقید عقل عملی کے نتیجے کے طور پر ، جس تقاضے کے تحت خدا کی ہستی کا اقرار کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ نظام عالم جو انسان کے اخلاقی نصب العین کے حصول کی جدوجہد کے لیے سازگار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے تصرف سے سازگار ہو جائے گا۔ یہی مقصد اللہ تعالیٰ کو زمان و مکان سے ماورا ماننے کے بعد فوت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غیر زمانی اور غیر مکانی ہونے پر اصرار میں تو ایک تحکمانہ فیصلہ پایا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم اس باب میں صرف خاموش رہ سکتے ہیں۔ غیر زمانی اور غیر مکانی ہونے پر اصرار صحیح نہیں علامہ اقبال نے زمان و مکان الٰہی کا ایک خاص مفہوم لیا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو عقلیت (Rationalism) کے اثر سے آزاد رکھا ہے اور ہر چند کہ کانٹ نے عقلیت کا رد پیش کیا ہے مگر کانٹ اپنے آپ کو عقلیت کے اثرات سے آزاد نہ رکھ سکا۔ اس لیے خدا کے ورائے زمان و مکان ہونے پر اصرار کیا۔ علامہ اقبا ل نے اپنے تصور زمان و مکان میں انسانی زمان و مکان اور الٰہی زمان و مکان میں امتیاز برقرار رکھا ہے اور خدا کو عقلیت پسندوں کی طرح ورائے زمان و مکان بھی نہیں کہا اور اسے زمان و مکان سے بھی متصف نہیں کیا جو تدریج اور ترتیب کی خاصیت کے حامل ہیں، اس لیے اُنھوں نے انائے مطلق کے مشاہدے کے مکان کو محفوظ رکھا ہے۔ یوں تو خود علامہ اقبال کی رائے بھی یہی ہے کہ فلسفے میں حتمی اور قطعی نتائج فکر ممکن نہیں اور اس امکان کی نشاندہی بھی فرمائی ہے کہ بعد میں مدون ہونے والے نظریات بہتر ہو سکتے ہیں، مگر ان کی جدت فکر (Originality) کا انکار صرف وہ لوگ کرتے ہیں اور فکر اقبال کو فلسفہ جدید کے سلاطین کی فکر سے ماخوذ قرار دیتے ہیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صرف افکار ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ انھیں جذب کیا جاسکتا ہے، ان میں تصرف کر کے اپنایا جاسکتا ہے، انھیں مستعار نہیں لیا جاسکتا۔ علامہ اقبال کے تصور زمان و مکان کی ا ہمیت اس کے حرف آخر ہونے میں نہیں، اس کی فکر انگیزی میں ہے۔ اگر ہمیں دنیا میں اپنی کوئی امتیازی حیثیت محفوظ رکھنا ہے تو خود اپنے ثقافتی تقاضوں کے پیش نظر غور و فکر کرنا لازم ہوگا۔ اسلام کے نقطہ نظر سے زمان و مکان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ زمان و مکان کو ، دنیا کے حقیقت ہونے کو، تسلیم کرتا ہے اور اسی عالم زمان و مکان میں جدو جہد کے نتائج سے عالم آخرت کو محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ نہ تو کسی اور تہذیب میں تاریخ کو محفوظ رکھنے کی سعی کی گئی ہے نہ فلسفیانہ غوروفکر کو ان سے زیادہ کسی نے اہمیت دی ہے۔ اگر کائنات خارجی کو موہوم (مایا) قرار دیا جائے تو نہ اس کے واقعات کو محفوظ رکھنا لازم آتا ہے، نہ اس کی حقیقت پر غور کرنا۔ پس جب تک خود اپنے اوپر سے اعتماد ضائع نہ ہو جائے نہ موجودات خارجی کی اہمیت کا انکار ممکن ہے نہ زمانی و مکانی حقائق سے منہ موڑا جاسکتا ہے۔ /…/…/ اقبال: مثالی دارالعلوم کا تصور بختیار حسین صدیقی عینی نقطہ نگاہ سے شاگرداور تعلیمی عمل دونوں کا تصور صرف اس صورت میں واضح ہوتا ہے جب ہم پر یہ بات اچھی طرح منکشف ہو کہ ان کی اساس ایک روحِ مطلق یا خدا ہے جس کی ذات ہر لحاظ سے اپنے کمال پر پہنچی ہوئی ہے اور یہ دنیا جس کی صفات کا ایک پر تو ہے۔ اقبال دینی عینیت کے علم بردار ہیں، اس لیے یہ حقیقت ان پر پوری طرح آشکار ہے۔ زندگی کا اصل محرک اس کی اپنی ذات کے اثبات کا جذبہ ہے، جسے وہ خودی کہتے ہیں۔ خودی کی آزادی کو اُنھوں نے بندگی یا عبدیت سے محدود کیا ہے، کیونکہ اس کے بغیر نہ اس کی تعمیری صلاحیتیں بروئے کار آسکتی ہیں اور نہ ہی اس کی حقیقی نشوونما ہو سکتی ہے۔ عبدیت ہی سے خودی کا تحفظ ممکن ہے، لیکن اس کے ذریعے وہ خدا کے قریب آکر خود منفرد ہونا چاہتی ہے، اپنی ذات کو خدا کی ذات میں کھونا نہیں چاہتی۔ خدا میں جذب ہونے کے بجائے وہ خود خدا کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتی ہے۔۱؎ شاگرد چونکہ عبدیت کا حلقہ بگوش ہے، اس لیے تعلیم کا منتہائے مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خودی کی صحیح خطوط پر نشوونما کر کے اسے اس قابل بنائے کہ وہ خدا کو اپنے اندر جذب کر لے۔ مروجہ مغربی تعلیم پر تنقید: قرآن کی رو سے انفس اور آفاق دونوں میں آیات الٰہیہ کا ظہور ہو رہاہے۔۲؎ اس لیے اقبال خودی کی نشوونما کے لیے انفس اور آفاق ، روح اور مادے یعنی مذہب اور سائنس دونوں کے مطالعے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ سائنس انسان کو ایک بے پناہ طبعی قوت عطا کرتی ہے، جسے مذہب سے حاصل ہونے والی اخلاقی قوت کا مطیع بنا کر خودی فطرت کو مسخر کرتی اور خدا کو اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے اقبال نے جب اپنے زمانے کے علوم جدیدہ کے اداروں بالخصوص علی گڑھ کالج اور اسلامی مدارس بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما لکھنو کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ان اداروں میں طلبہ کو جس نہج پر تعلیم دی جارہی تھی وہ ملت کی روحانی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی تھی۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو دیکھ کر اُنھوں نے یہ رائے قائم کی: موجودہ نسل کا نوجوان مسلمان قومی سیرت کے اسالیب کے لحاظ سے ایک بالکل نئے اسلوب کا ماحصل ہے، جس کی عقلی زندگی کی تصویر کا پردہ اسلامی تہذیب کا پردہ نہیں ہے، حالانکہ اسلامی تہذیب کے بغیر میری رائے میں وہ صرف نیم مسلمان، بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی خالص دنیوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو متزلزل نہ کیا ہو۔ اس کا دماغ مغربی خیالات کی جولان گاہ بنا ہوا ہے اور اس نے اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔۳؎ سائنس کی بنیاد محسوس اور مشہود پر ہے۔ اس کی نظر قوانین فطرت پر رہتی ہے، آیات الٰہیہ اسے نظر نہیں آتیں۔ سائنس کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اگر ان اداروں میں دین کی بھی جامع تعلیم دی جاتی تو فرزندان توحید کو قوانین فطرت میں آیات الٰہیہ بھی نظر آتیں۔ دین کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک خالص قسم کی مادیت نظام تعلیم پر غالب آگئی اور اقبال کو کہنا پڑا: محسوس پر بِنا ہے علوم جدید کی اس دور میں شیشہ عقائد کا پاش پاش۴؎ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ۵؎ اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم ایک سازش ہے دین و مروت کے خلاف۶؎ سیرت کی تعمیر دینی تعلیم پر مبنی ہے۔ اس کے بغیر نہ نگاہِ بلند کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یقینِ محکم کا۔ لادینی تعلیم ذہن کو تو روشن کرتی ہے لیکن دل میں حرارت نہیں پیدا کرتی۔ وہ فکر کو آزاد تو کرتی ہے لیکن اسے مربوط اور منظم نہیں کرتی اور فکر میں وحدت کے بغیر نہ کر دار میں وحدت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی سیرت میں پختگی آتی ہے جو بالغ نظری کی اولین شرط ہے: مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام! مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام۷؎ آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ۸؎ لارڈ لٹن نے ایم اے او کالج ، علی گڑھ کا سنگ بنیاد رکھتے وقت اسے ’’ہندوستان میں معاشرتی تبدیلی کے دور کا آغاز‘‘۹؎ قرار دیا تھا۔ سر ہلٹن گب کے نزدیک یہ ’’دنیائے اسلام میں جدید طرز کا پہلا دارالعلم‘‘۱۰؎ ہے، لیکن اس جدید دارالعلم اور اس جیسے دوسرے دارالعلوم نے جس قسم کی ذہنی اور معاشرتی تبدیلی پیدا کی وہ جدید و قدیم کا امتزاج ہونے کے بجائے فرنگی تہذیب کی نقالی ثابت ہوئی، جس کا اسلامی مرکز ثقل سے دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا: تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازئہ تجدید مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ۱۱؎ جدید تعلیم شکم پری کے مقصد کو پورا کرتی ہے، روح کی غذا کا سامان مہیا نہیں کرتی۔ یہ اخلاقی اقدار کو پامال اور خودی کو مجروح کرتی ہے: عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا کہ جس نے قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش!۱۲؎ وہ علم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو !۱۳؎ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی !۱۴؎ شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا!۱۵؎ مروجہ دینی تعلیم پر تنقید: جس طرح اقبال کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لادینی تعلیم سے شاکی تھے اور ’’آوازئہ تجدید‘‘ کو ’’تقلید فرنگی کا بہانہ‘‘سمجھتے تھے، اسی طرح وہ اسلامی مدارس بالخصوص دیوبند اور ندوہ میں دی جانے والی دینی تعلیم سے غیر مطمئن تھے اور اسے وقت کے تقاضوں کو پوراکرنے کے لیے ناکافی سمجھتے تھے۔ ’’جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے، کہا جاسکتا ہے کہ قدیم تر دینیات فرسودہ خیالات کی حامل ہے، جہاں تک تعلیمی حیثیت کا تعلق ہے، جدید مسائل کے طلوع اور قدیم مسائل کی طرحِ نوکے مقابلے میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔‘‘۱۶؎ وہ ’’ایک نئی دینیات اور کلام کی تعبیر و تشکیل ‘‘۱۷؎کے خواہاں تھے۔ ان کے نزدیک ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘۱۸؎ کیونکہ قرآن نے ’’حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، بڑی اہمیت دی‘‘۱۹؎ہے۔ رسول اکرمﷺ ہمیشہ یہ دعا فرماتے: ’’اے اللہ! مجھے اشیا کی حقیقت سے آگاہ کر‘‘۔ اشیا کی حقیقت مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوتی ہے، جسے سائنس کی اصطلاح میں استقرائی طریقِ فکر کہتے ہیں۔ اقبال وحی اور وجدان کے ساتھ ساتھ اس طریقِ فکر کو بھی اسلامی مدارس میں رائج کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ صرف اسی صورت میں ایسے بالغ نظر علما پیدا ہوسکتے ہیں جو اجتہاد کا حق استعمال کر کے ’’ایک نئی دینیات اور کلام کی تعمیر و تشکیل‘‘ پر قادر ہوں۔ ’’کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروغ کی تلقین کے لیے موجود ہر زمانے کے واعظ کو تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمیہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہئے‘‘۲۰؎: شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!۲۱؎ مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے۲۲؎ ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذت کردار، نہ افکار عمیق حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق! ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق۲۳؎ آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام!۲۴؎ دینی اور دنیوی تعلیم میں تربیط: ’’دیدئہ بینائے قوم‘‘ کی حیثیت سے اقبال نے جب مروجہ تعلیم پر نظر ڈالی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک طرف تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خالص دنیوی تعلیم کی وجہ سے دینی عقائد کا شیشہ پاش پاش ہو رہا ہے، ’’تجدید‘‘ کے نام پر انسان کو حیوان بنایا جارہا ہے اور ’’فکر معاش‘‘دے کر اس کی روح قبض کی جارہی ہے، تو دوسری طرف مکتبوں اور مدرسوں میں ’’رعنائی افکار‘‘ اور ’’لذت کردار‘‘ کا کال ہے، ’’کشادہ دل‘‘ اور جرأت اندیشہ ‘‘ کی کمی ہے، تحقیق اور جستجو کا فقدان ہے، تقلید کا دور دورہ ہے، اجتہاد کے دروازے بند ہیں یا پھر قرآن کو ’’بازیچہ تاویل‘‘ بنایا جارہا ہے۔ ان دو قسم کے اداروں میں سے کوئی ایک ادارہ بھی وسیع تر ملی مقاصد کو پورا نہیں کر رہا تھا، اس لیے اُنھوں نے ان سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھی: نہ فلسفی سے نہ مُلا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت! وہ اندیشہ و نظر کا فساد۲۵؎ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ آیات الٰہیہ کا ظہور جس طرح انفس میں ہو رہا ہے اسی طرح آفاق میں بھی۔ اس لیے ان سے متعلق علوم کی علیحدہ علیحدہ تعلیم دینے کا کوئی جواز نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں علوم کی مربوط اور منظم تعلیم کا انتظام ایک ہی ادارے میں کیا جائے: وہ علم ، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم !۲۶؎ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اُنھوں نے ۱۹۱۰ ء میں اپنے خطبہ علی گڑھ میں ایک نئے ’’مثالی دارالعلوم‘‘ کے قیام پر زور دیا: یہ امر قطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دارالعلوم قائم کیا جائے، جس کی مسند نشین اسلامی تہذیب ہو اور جس میں قدیم اور جدید کی آمیزش عجب دلکش انداز میں ہوئی ہو۔ اس قسم کی تصویر مثالی کھینچنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ تخیل، زمانے کے رجحانات کا لطیف احساس اور مسلمانوں کی تاریخ اور مذہب کے مفہوم کی صحیح تعبیر لازمی ہے۔۔۔۲۷؎ مسلمانوں کو بے شک علوم جدیدہ کی تیز یا رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہئے، لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ اس کی تہذیب کا رنگ خالص اسلامی ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ایک ایسی یونیورسٹی موجود نہ ہو، جسے ہم اپنی قومی تعلیم کا مرکز قرار دے سکیں۔۔۔۲۸؎ الندوہ، علی گڑھ کالج، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کر سکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلوم ہونا چاہیے جہاں افراد قوم نہ صرف خاص قابلیتوں کو نشوونما دینے کا موقع حاصل کر سکیں بلکہ تہذیب کا وہ اسلوب یا سانچہ تیار کیا جاسکے، جس میں زمانہ موجودہ کے ہندوستانی مسلمانوں کو ڈھالنا چاہیے۔ ۲۹؎ مثالی دارالعلوم کے اغراض و مقاصد: مجوزہ مثالی دارالعلوم کا اصل کام: جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، تہذیب کا وہ سانچہ تیار کرنا ہے جس میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو ہمیں ڈھالنا چاہیے۔ اس سانچے میں ’’تجلیات کلیم‘‘ اور ’’مشاہدات حکیم‘‘ کی حسین آمیزش ہوگی۔ اسلام اس کی روحِ رواں ہوگا اور علومِ جدیدہ اس کا قالب۔ علوم جدیدہ کے متعلق اقبال کی رائے یہ ہے کہ اسلامی مفکرین اور سائنس دانوں کے افکار اور تجربات ہی نے ان کے لیے راہ ہموار کی۔ اس لیے مسلمانوں کو ان علوم کی تیز رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے: یورپ میں اسلام کا سیاسی زوال، بدقسمتی سے کہا جاتا ہے، ایسے وقت میں رونما ہوا جب مسلم حکما کو اس حقیقت کا احساس ہونے لگا تھا کہ استخراجی علوم لا یعنی ہیں اور جب وہ استقرائی علوم کی تعبیر کی طرف کسی حد تک مائل ہو چکے تھے۔ دنیائے اسلام میں تحریک ذہنی کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہونا شروع کیا۔ یورپ میں جذبہ انسانیت (Humanism)کی تحریک بڑی حد تک ان قوتوں کانتیجہ تھی جو اسلامی فکر سے بروئے کار آئیں۔ یہ کہنا مطلق مبالغہ نہیں ہے کہ جدید یورپین ’’جذبہ انسانیت‘‘ کا جو ثمر جدید سائنس اور فلسفے کی شکل میں برآمد ہوا ہے، اسے کئی لحاظ سے محض اسلامی تمدن کی توسیع پذیری کہا جاسکتا ہے۔ اس اہم حقیقت کا احساس نہ آج کل کے یورپین کو ہے اور نہ مسلمانوں کو، کیونکہ مسلمان حکما کے جو کارنامے محفوظ ہیں وہ ابھی تک یورپ، ایشیا اور افریقہ کے کتب خانوں میں منتشر اور غیر مطبوعہ شکل اور حالتوں میں ہیں۔ آج کل کے مسلمانوں کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ایک بڑی حد تک خود ان کے تمدن سے برآمد ہوا ہے، وہ اسے بالکل غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔۳۰؎ اقبال کے نزدیک جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ کیونکہ قرآن نے ’’حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے‘‘ بڑی اہمیت دی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس نے محسوس اور ٹھوس حقائق کو اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی کہ مجرداور غیر محسوس حقائق کو، جو اس کی توازن اور اعتدال کی عمومی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ پس مثالی دارالعلوم میں نہ صرف دینی اور وجدانی علوم پڑھائے جائیں گے بلکہ اس میں طبیعی اور عمرانی علوم پڑھانے کا بھی انتظام ہوگا۔ نصاب کی تدوین میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ان کا آپس کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ نصابی مواد میں توازن قائم رکھنے سے زیادہ اہم وجدانی اور عقلی علوم کی تربیط یعنی ’’تجلیات کلیم‘‘ کو ’’مشاہدات حکیم‘‘ سے ہمکنار کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس تربیط کا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ طبیعی اور عمرانی علوم اس طرح پڑھائے جائیں کہ دینی عقائد کی چھاپ ان پر صاف طور پر نظر آئے۔ مثلاً حیاتیات میں یہ پڑھانے کے بعد کہ زندگی زندگی سے پیدا ہوئی یابے جان مادے سے اس کا ارتقا ہوا، یہ بتانا ضروری ہوگا کہ پہلی مرتبہ زندگی کو خدا نے پیدا کیا۔ اس کے بعد زندگی سے زندگی کے پیدا ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس عقیدے کے ساتھ جب نظام عصبی کا مطالعہ کیا جائے گا تو خدا کی قدرت کاملہ میں ایمان اور پختہ ہوگا اور قوانین فطرت آیات الٰہیہ بن کر اُبھریں گے۔ صحیح علم یقینا حواس سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ علم کی ابتدا ہے۔ اس کی انتہا وہ علم ہے جو وحی اور وجدان سے حاصل ہوتا ہے اور حسی اور عقلی شعور میں نہیں سماتا۔ یہی علم علم حق کی آخری منزل ہے: علم حق اول حواس ، آخر حضور آخرِ او می نہ گنجد در شعور!۳۱؎ زندگی کے متعلق ملت کے زاویہ نگاہ کے دوش بدوش ملت کی روحانی ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ فرد کی حیثیت ، اس کی دماغی نجات و آزادی اور طبیعی علوم کی لامتناہی ترقی۔ ان چیزوں میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس نے جدید زندگی کی اساس کو یکسر متغیر کر دیا ہے۔ چنانچہ جس قسم کا علم کلام اور علم دین از منہ وسطی کے مسلمانوں کی تسکین قلب کے لیے کافی ہوتا تھا وہ آج تسکین بخش نہیں ہے۔ اس سے مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں ہے۔ اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا مقصود ہے تو فکر دینی کو از سر نو تعمیر کرنا لازمی ہے…جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے کہا جاسکتا ہے کہ قدیم تر دینیات فرسودہ خیالات کی حامل ہے اور جہاں تک تعلیمی حیثیت کا تعلق ہے، جدید مسائل کے طلوع اور قدیم مسائل کی طرحِ نو کے مقابل میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کو ایک نئی وادی کی طرف مہمیز کیاجائے اور ایک نئی دینیات اور کلام کی تعمیر و تشکیل میں اس کو برسرِ کار لایا جائے۔ ۳۲؎ مندرجہ بالا اقتباس مثالی دارالعلوم کے بنیادی مقصد پر روشنی ڈالتا ہے، جسے اقبال متوازن اور مربوط نصاب کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی دلی آرزو ’’اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل‘‘ کر کے ’’فکر دینی کو از سر نو تعمیر کرنا‘‘ ہے۔ ’’مشاہدات حکیم‘‘ کو ’’تجلیات کلیم‘‘ سے ہمکنار کرنا اس کے حصول کی لازمی شرط ہے۔ دوسری ضروری شرط یہ ہے کہ اس کام کو سر انجام دینے کے لیے استخراجی طریق کے بجائے استقرائی طریق تعبیر و تاویل اختیار کیا جائے، جیسا کہ فقہائے متقدمین نے اس سے پہلے ایک بڑھتے ہوئے تمدن کی ضروریات کے پیش نظر کیا تھا۔ ’’قرن اول کے تقریباً وسط سے لے کر قرن چہارم کے آغاز تک عالم اسلام میں اسی بنیاد پر فقہ اور قانون کے کم از کم انیس مذاہب کا ظہور ہو چکا تھا، جس سے پتا چلتا ہے کہ فقہائے متقدمین نے ایک بڑھتے ہوئے تمدن کی ضروریات کے پیش نظر کس سعی اور جدوجہد سے کام لیا۔۔۔۔فتوحات میں توسیع اور اضافے کے ساتھ ساتھ جب عالم اسلام کے مطمح نظر میں بھی وسعت پیدا ہوئی تو اس سے فقہائے متقدمین کو بھی ہر معاملے میں وسعت نظر سے کام لینا پڑا۔ وہ مجبور ہو گئے کہ جو قومیں اسلام قبول کر رہی ہیں، ان کے عادات و خصائل اور مقامی حالات کا مطالعہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس وقت کی سیاسی و ملی تاریخ کی روشنی میں ہم ان مذاہب فقہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس حقیقت کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سلسلہ تعبیر و تاویل میں استخراج کی بجائے رفتہ رفتہ استقرائی منہاج اختیار کرتے چلے گئے۔‘‘۳۳؎ پس دینی اور استقرائی (طبیعی اور عمرانی) علوم میں تربیط اور دین کی استقرائی تعبیر و تاویل کے ذریعے ایک ’’نئی دینیات اور کلام کی تعمیر و تشکیل‘‘ کر کے مثالی دارالعلوم میں تہذیب کا وہ سانچہ تیار ہوگا، جس میں اقبال کے نزدیک موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو ڈھالنا چاہیے۔اس تہذیب میں صرف ایک نمایاں رنگ ہوگا، یعنی دینی عقائد کا رنگ، اس لیے اس کے علم برداروں میں وحدت افکار ہو گی اور وحدت کردار بھی اور ساتھ ہی ساتھ ’’ندرت فکر و عمل‘‘ بھی جسے اقبال ’ملت کا شباب ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ اس سے خودی مستحکم ہوتی ہے اور خدا سے ہمارا شخصی تقرب بڑھتا ہے۔ نصب العین نواز نصاب: اقبال دینی عینیت کے علم بردار ہیں۔ اُنھوں نے خودی کی آزادی کو خدا کی بندگی سے محدود کیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اس کی تعمیری صلاحیتیں بروئے کار آسکتی ہیں اور نہ ہی اس کی حقیقی نشوونما ہو سکتی ہے۔ اس لیے مثالی دارالعلوم کا نصاب خدا کو اپنے اندر جذب کرنے کے اعلیٰ اور ارفع نصب العین پر مرکوز ہوگا۔ ’’فکرِ دینی کی از سر نو تعمیر‘‘ کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دینی علوم پر پورا پورا عبور حاصل ہو، قرآنی احکام کی اصل منشا ہم پر پوری طرح عیاں ہو، طبیعی علوم کی ترقی اوراس کے معاشرتی اثرات پر ہر دم ہماری نظر ہو، عمرانی، اقتصادی اور تاریخی عوامل پر ہماری گہری نظر ہو، یعنی ہماری ذات میں ’’تجلیات کلیم‘‘ ’’مشاہدات حکیم‘‘ سے ہمکنار ہوں۔ اور خدا کو اپنے اندر جذب کیے بغیر یہ سعادت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس نصب العین کو تدریسی مواد میں سمونے کے لیے مثالی دارالعلوم میں نصاب کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہوگی: (۱) قرآن،حدیث، فقہ، تفسیر، کلام وغیرہ کی تعلیم کو اس میں اولیت حاصل ہوگی۔ یہ علوم کائنات کی روحانی اساس کو اُجاگر کر کے ذہن کو لاہوتی سازو سامان سے لیس کریں گے، پختہ سیرت کی تعمیر اور اعلیٰ کر دار کی تشکیل کریں گے اور وہ مطمحِ نظر مہیا کریں گے، جس کی بالادستی میں بعد میں عمرانی اور طبیعی علوم کا مطالعہ کیا جائے گا۔ (۲)دوسرے درجے پر تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے علوم آئیں گے، جن کا ہماری انفرادی اور قومی زندگی کا رنگ اور رخ متعین کرنے میں کافی دخل ہوتا ہے۔ تاریخی ، معاشی اور معاشرتی حالات کے مطابق روحانی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے ہمیں ’’فکرِ دینی کو از سر نو تعمیر ‘‘ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قومی فکر اور تخیل پر دسترس حاصل کرنے کے لیے اقبال نے اس ضمن میں ’’قومی لٹریچر ‘‘ کے مطالعے کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ (۳) عمرانی علوم کے بعد یا ان کے ساتھ ساتھ استقرائی مشاہدے پر مبنی طبیعی علوم پڑھائے جائیں گے۔ سائنس کی تحقیق اور ایجادات سے ہماری معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے، سوچنے کے انداز بدلتے ہیں، روحانی ضرورتوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور تسکین قلب کے لیے ہمیں ایک نئی دینیات اور علم کلام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ علم حق کا سرچشمہ قرآن ہے۔ حواس سے بھی ہمیں علم حق حاصل ہوتا ہے لیکن یہ علم کی ابتدا ہے، انتہا نہیں۔ اس کی آخری منزل وہ علم ہے جو شعور میں نہیں سماتا اور جس کا سرچشمہ وحی اور وجدان ہے۔ حواس اور عقل سے حاصل ہونے والا علم بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے قدرت کا مشاہدہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے۔ قدرت سے اس کی مراد ’’انفس‘‘ (نفس انسانی) اور ’’آفاق‘‘ (دنیا) ہیں۔ ان دونوں میں اس نے خدا کی نشانیاں دکھانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس لیے اقبال نے ’’انفس‘‘ اور ’’آفاق‘‘ دونوں کے مشاہدے کو اپنے مثالی دارالعلوم کی نصابی سرگرمیوں میں شامل کیا ہے: ’’قرآن مجید نے آفاق اور انفس دونوں کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات الٰہیہ کا ظہور محسوسات اور مدرکات میں، خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی، ہر کہیں ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس کے ہر پہلو کی قدر و قیمت کا کما حقہ اندازہ کریں اور دیکھیں کہ اس سے حصولِ علم میں کہاں تک مدد مل سکتی ہے۔۳۴؎ سیرت کی تعمیر، کردار کی تشکیل اور نفس کی تہذیب دینی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اقبال نے دینی علوم کو اپنے نصب العین نواز نصاب میں پہلے درجے پر رکھاہے۔ اسی مناسبت سے پہلے ہم ’’انفس‘‘ اور پھر ’’آفاق‘‘ کے علم کی طرف رجوع کریں گے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ اقبال کے الفاظ میں ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی‘‘۔’’اپنے من میں ڈوب کر‘‘ ہی اسے پتا چلتا ہے کہ خدا کو اپنے اندرجذب کرنے کے لیے اسے تین مراحل سے ہو کر گزرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں نفس اپنے آپ کو محض ایک جسم سمجھتا ہے: ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے‘‘۔ اس کا رجحان برائی کی طرف ہوتا ہے اور خدا کی طرف سے وہ بالکل غافل ہوتا ہے۔ نفس کی اس حالت کو قرآن نے نفس امارہ۳۵؎ کہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں روح بیدار ہوتی ہے، غفلت کے پردے چھٹتے ہیں اور نفس اپنے آپ کو برائی میں ملوث ہونے پر لعن طعن کرتا ہے، نیکی کی طرف قدم بڑھاتا ہے اور برائی سے اپنا دامن بچاتا ہے۔ نیکی کی طرف بڑھنے اور برائی سے بچنے کے عزم سے خدا کو اپنے اندر جذب کرنے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ نفس کی اس حالت کو قرآن نے نفس لوامہ۳۶؎ کہا ہے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں جسمانی خواہشات اور روحانی تقاضوں میں کشمکش اور تصادم کی صورت ختم ہو جاتی ہے۔ جسم روح کی اطاعت قبول کرل یتا ہے۔ عقل فطرت کو مسخر کرلیتی ہے اور نفس کی بالادستی قائم ہو جاتی ہے۔ بندہ خدا سے راضی ہو جاتا ہے اور خدا بندے سے۔ یہ ہے خدا کو اپنے اندر جذب کرنے کی معراج اور علم النفس کی آخری منزل۔ قرآن نے نفس کی اس حالت کو نفس مطمئنہ۳۷؎کہا ہے۔ انفس ’’عالم صغیر‘‘ ہے تو آفاق ’’عالم کبیر‘‘۔ طبیعیات، حیاتیات، کیمیا، ارضیات، فلکیات وغیرہ کاتعلق علم آفاق سے ہے۔ جس طرح انفس کا علم کتاب سے زیادہ خود اپنے من میں ڈوبنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح آفاق کا صحیح علم کتب بینی سے زیادہ قدرتی مظاہر کے ذاتی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے جو قوانین قدرت سے پرے صانع قدرت تک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ خارجی مشاہدے کو اگر اندرونی بصیرت سے مربوط نہ کیا جائے تو علم ناقص، ادھورا اور نامکمل رہتا ہے۔ مروجہ نظام تعلیم میں مشاہدے کو بصیرت سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ وہ تجربے اور مشاہدے سے زیادہ بے جان کتاب کو علم کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔ اس لیے اقبال اسے ملت کی روحانی ضرورتوں کے منافی سمجھتے ہیں: خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں! تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے فقط صاحب کتاب نہیں!۳۸؎ مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش!۳۹؎ محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے بینائے کواکب ہوں کہ دانائے نباتات!۴۰؎ کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ!۴۱؎ قدرت خدا کا آرٹ ہے: اس کا نظام جن اصولوں پر چل رہا ہے سائنس دان انھیں طبیعی قوانین کہتے ہیں، ان قوانین کے پیچھے انھیں کوئی ابدی ہاتھ کارفرما نظر نہیں آتا۔ قرآن انھیں میکانکی قوانین کے بجائے آیات الٰہیہ کہتا ہے، جن کا ظہور آفاق میں ہر جگہ اسی طرح ہو رہا ہے جس طرح انفس میں۔ سائنس ہر چند انھیں میکانکی قوانین کہے لیکن ’’مشاہدات حکیم‘‘کو ’’تجلیات کلیم‘‘ سے ہمکنار کر لینے والے ’’بینائے کواکب‘‘ اور ’’دانائے نباتات‘‘ کو ان میں ’’فطرت کا سرود ازلی‘‘بھی سنائی دے گا اور ’’بوئے گل‘‘ کا سراغ بھی ان سے ملے گا۔ اب ہم مثالی دارالعلوم کے نصب العین نواز نصاب میں عمرانی علوم کی اہمیت کی طرف رجوع کریں گے۔ اپنے خطبہ علی گڑھ میں اقبال نے، جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، تاریخ، معاشیات اور عمرانیات کے علاوہ قومی لٹریچر کے مطالعے کو اخلاق و دین کی تلقین کرنے والوں کے لیے ضرورت قرار دیا تاکہ ان کے دین سے متعلق علم میں جامعیت اوران کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا ہوا۔ وجدان سے حاصل ہونے والے علم کو تجربے سے حاصل ہونے والے علم سے مربوط کر کے ہی ’فکر دینی کی از سر نو تعمیر‘‘ ہو سکتی ہے۔ عملی زنذگی میں معاشیات کی اہمیت کے مدنظر اُنہوں نے خود بھی ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ۱۹۰۳میں شائع ہوئی۔ ’’رموز بے خودی‘‘ کے دیباچے میں اُنہوں نے قومی تاریخ کی حفاظت پر ان الفاظ میں زور دیا: افراد کی صورت میں احساس نفس کا تسلسل قوتِ حافظہ سے ہے۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل اور استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے۔ گویا قومی تاریخ حیات ملیہ کے لیے بمنزلہ قوت حافظہ ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات اور اعمال کو مربوط کر کے قومی انا کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے۔۴۲؎ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ میں اُنھوں نے قرآنی تعلیمات کے مطابق ’’انفس‘‘ اور ’’آفاق‘‘ کے ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی علم کا ذریعہ قرار دیا۔ قرآن نے تاریخ کے لیے ’’ایام اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ تاریخ ’’اللہ کے دن‘‘ یا کام ہے اور اس میں صبر اور شکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔۴۳؎وہ مقاصد الٰہی کی حامل ہے۔ جس طرح دن اور رات کے آنے جانے، دریائوں میں کشتی چلنے، بادلوں سے پانی برسنے اور زمین سے اناج اُگنے میں ہوش مندوں کے لیے اللہ کی نشانیاں ہیں، اسی طرح قوموں کے عروج و زوال میں ارباب دانش کے لیے اخلاقی سبق ہے کہ قوموں کے کر دار پر ہمیشہ اجتماعی حیثیت سے حکم لگایا جاتا ہے اور یہ کہ ان کی بداعمالیوں کی سزا انھیں اس دنیا ہی میں ملتی ہے۔ اہل بصیرت اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ اللہ کا قانون کبھی بدلتا نہیں خواہ اس کا تعلق طبیعیات سے ہو یا تاریخ سے، قدرتی مظاہر سے ہو یا اقوام کے کردار سے۔ یہ ہے خدا کو اپنے اندر جذب کر لینے کے لیے اقبال کے مثالی دارالعلوم کے نصاب کا خاکہ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے علوم اسلامیہ کے نصاب پر اقبال کا تبصرہ۔ ۱۹۲۵ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ارباب حل و عقد نے علوم اسلامیہ کا ایک نیا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے چار بنیادی مقاصد تھے: (۱) بہتر اور مسلمہ جامعیت کے علما و فقہا پیدا کرنا۔ (۲) ایسے عالم پیدا کرنا جو اسلامی افکار و ادبیات کے مختلف شعبوں میں اپنی تحقیقات سے اسلامی تمدن اور موجودہ علوم کے درمیان حیات دماغی کا جو تسلسل پایا جاتا ہے، اس کی از روئے نشوونما جستجو کریں۔ (۳) ایسے عالموں کو تیار کرنا جو اسلامی تاریح ، آرٹ ، علم، تہذیب و تمدن ، سائنس اور فلسفے کے مختلف پہلوئوں پر حاوی ہوں۔ (۴) ایسے عالموں کا پیدا کرنا جو اسلام کے قانونی لٹریچر میں تحقیق و تدقیق کے لیے موزوں ہوں۔ مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے اقبال کے استاد سر طامس آرنلڈ نے مختلف امتحانات کے لیے مندرجہ ذیل نصاب تجویز کیا:۴۴؎ (الف) معمولی بی اے کی ڈگری کا نصاب: (۱)فرقہ جاتِ اسلام (۲)اسلام کا سیاسی نظریہ (۳)اسلامی علم الانساب (ب) بی۔ اے (آنرز) کی ڈگری کا نصاب: (۱)فرقہ جاتِ اسلام (۲)اسلام کا سیاسی نظریہ (۳)اسلامی علم الانساب (۴) اسلام کا دیگر مذاہب سے رشتہ یا سلوک۔ رواداری و عدم روا داری (ج) ایم۔ اے کی ڈگری کا نصاب: (۱) اسلامی اصول فقہ کی ابتدا اور ان کا ارتقا (۲) مسلمانوں کا فلسفہ اخلاق و مابعد الطبیعیات (۳)عالم اسلام میں سائنس کا درجہ (۴)ڈپلومیسی (حیل سازی) متعلق بر ممالکِ غیر اسلامی (۵) عالم اسلام پر بیرونی اثرات صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے مشاہیرِ ملت کو علوم اسلامیہ کے شعبے کے متذکرہ بالا مقاصد اور مجوزہ نصاب پر اظہار خیال کی دعوت دی۔ اقبال نے بھی ایک خط کے ذریعے انھیں اپنی رائے سے مطلع کیا۔ ۴؍جون ۱۹۲۵ء کا لکھا ہوا یہ خط انگریزی میں ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ پہلی مرتبہ اپریل ۱۹۲۶ء کے سہیل میں شائع ہوا اور اس کے بعد اقبال ریویو بابت اکتوبر ۱۹۶۲ء میں۔ شیخ عطاء اللہ کی تالیف اقبال نامہ ، حصہ دوم، میں یہ خط شامل ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اقبال اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اسی زمانے میں اُنہوں نے انگریزی میں ایک مقالہ ’’اجتہاد‘‘ پر لکھا لیکن بعض امور میں مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے اسے شائع نہیں کیا۔ بہر حال وہ بڑی سنجیدگی سے اس مسئلے کی تحقیق میں مصروف رہے۔ سید سلیمان ندوی کو ۷؍اپریل ۱۹۲۶ء کے خط میں وہ لکھتے ہیں: عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں ہے بلکہ میں نے اپنے مضمون میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کر نے کی کوشش کی ہے۔ ہاں معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چونکہ شرعیتِ احادیث (یعنی وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہو جاتا ہے اور ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا، اس واسطے وہ مضمون شائع نہیں کیا گیا۔ میرا مقصود یہ ہے کہ زمانہ حال کے جورس پروڈنس کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے، مگر غلامانہ انداز میں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں۔ اس سے پہلے مسلمانوں نے عقائد کے متعلق ایسا ہی کیا ہے۔۴۵؎ دسمبر ۱۹۲۸ء کے اواخر میں اقبال نے مدراس میں اسلام پر تین لیکچر دیے جو چار دیگر لیکچروںکے اضافے کے ساتھ ۱۹۳۰ء میں ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کا چھٹا لیکچر ’’اجتہاد فی الاسلام‘‘پر ہے۔ یہ وہی لیکچر ہے جس کا ذکر اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام اپنے خط میں کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک دنیائے اسلام کی سب سے بڑی ضرورت اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ اسی ضرورت کے مدنظر اُنھوں نے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کو مذکورہ بالاخط میں لکھا: ’’ میں آپ کے مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ میرے نزدیک قدیم طرز پر مسلم دینیات کا شعبہ قائم کرنا بالکل بے سود ہے۔ ’’میں آپ کی اس تجویز سے پورے طور پر متفق ہوں کہ دیو بند اور لکھنو کے بہترین مواد کو برسر کار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دینے کے بعد کیا کریں گے؟ کیا آپ ان کو بی اے اور ایم۔ اے بنائیں گے جیسا کہ سرٹامس آرنلڈ کی تجویز ہے؟ مجھے یقین ہے جہاں تک دینیاتی افکار دماغی کے مطالعہ یا ترقی کا تعلق ہے، وہ آپ کے مقصد کو پورا نہیں کر سکیں گے۔ دیو بند اور لکھنو کے وہ لوگ جو علم دینیات پر غور و فکر کر نے کا خاص ملکہ رکھتے ہوں، ان کو میرے نزدیک قبل اس کے کہ وہ آرنلڈ کے مجوزہ نصاب کو عبور کرنے دیے جائیں، جس کو ان کی ضرورتوں کا خیال کر کے بہت مختصر کر دینا پڑے گا، افکار جدیدہ اور سائنس سے آشنا کر دیا جائے۔ جدید سائنس اور خیالات کی تعلیم ختم کر نے کے بعد ان کو آرنلڈ کے مجوزہ نصاب کے ایسے مضامین پر لیکچر سننے کو کہا جاسکتا ہے، جو ان کے خاص مضامین سے متعلق ہوں۔ مثلاً اسلام کے فرقہ جات اور اسلامی اخلاق اور فلسفہ مابعد الطبیعیات۔ اس تربیت کے بعد انھیں مسلم دینیات، کلام اور تفسیر پر مجتہد انہ خطبہ دینے کے لیے یونیورسٹی فیلو بنایا جائے۔ صرف یہ لوگ یونیورسٹی میں دینیات کا ایک نیا سکول قائم کر سکیں گے۔ میری تجویز یہ ہے کہ اگر آ پ چاہتے ہیں کہ سوسائٹی کا قدامت پسندانہ عنصر مطمئن ہو جائے تو آپ قدیم طرز کی دینیات کے سکول سے ابتدا کر سکتے ہیں۔… مگر آپ کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ آپ تدریجاً اس کے بجائے ان لوگوں کی جماعت کو کار فرما بنائیں جو میری تجویز کردہ سکیم کے مطابق خود اجتہاد فکر پر قادر ہوں گے۔ ’’دیوبند اور لکھنو کے وہ لوگ جو خالص سائنٹیفک تحقیقات کا مخصوص ذوق رکھتے ہوں، ان کے میلانات طبعی کے مطابق جدید ریاضیات، سائنس اور فلسفہ کی مکمل تعلیم دینی چاہیے۔ جدید سائنس اور حکمت کی تعلیم کو پورا کرنے کے بعد اُن کو اجازت دی جائے کہ وہ آرنلڈ کا کورس پورا کریں جس کو ان کی ضرورتوں کا لحاظ کر کے مختصر کر دیا جائے گا۔ مثلاً صرف اس شخص کو آرنلڈ کورس کا نمبر ۳’’دنیائے اسلام اور سائنس‘‘ پر لیکچر سننے کی اجازت دی جائے جو صرف طبعی سائنس پڑھ چکا ہے۔ اس کے بعد اسے آپ یونیورسٹی فیلو بنا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنا پورا وقت خاص سائنس میں ریسرچ پر صرف کرے جس کا اس نے مطالعہ کیا ہے۔ ’’آرنلڈ کا کورس ان لوگوں کو لینے کی اجازت ہونی چاہیے جو سائنس اور فلسفہ میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مسلم تمدن اور تہذیب کے اصولوں کی عام تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں مگر اسے صرف لکھنو اور دیو بند کے لوگوں تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔… میں اس کورس میں مسلم آرٹ اور فن تعمیر بھی شامل کرنا چاہتاہوں۔ ’’ہمیں دیوبند اور لکھنو سے ایسے ذہین اور طباع لوگ منتخب کرنے چاہییں جو قانون کا خاص ذوق رکھتے ہوں، چونکہ قانون محمدی سر تا سر تعمیری تشکیل کا محتاج ہے۔ ہم کو چاہیے کہ انھیں اصول فقہ اور قانون سازی کے اصولوں کی تعلیم دیں اور شاید جدید اقتصادیات اور اجتماعیات (عمرانیات) کی جامع تعلیم دینے کی بھی ضرورت پیش آئے۔ اگر آپ چاہیں تو ان کو ایل ایل بی بنائیں اور پھر آرنلڈ کا کورس پڑھنے کی اجازت دیں مگر ان کے لیے بھی کورس میں تخفیف کرنا پڑے گی۔ مثلاً ان سے کہا جائے گا کہ ’’سیاسی نظریہ اسلامیہ‘‘ اور ’’اسلامی اصول فقہ ‘‘ کا ارتقا وغیرہ کے مضامین کے لیکچروں میں شریک ہوں۔ بعضوں کو وکالت کا پیشہ اختیار کرنے دیا جائے۔ دوسروں کو یونیورسٹی کی فیلو شپ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے۔ کچھ اپنے آپ کو قانونی ریسرچ کے لیے وقف کر دیں۔ مسلمان قانون دان جن کا پیشہ وکالت ہو اور جو قانون محمدی کے اصولوں پر پوری طرح حاوی ہوں، وہ عدالت اور کونسل دونوں میں بے حد مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ’’مختصراً میری تجاویز حسب ذیل ہیں: جو نصاب سر ٹامس آرنلڈ نے تجویز کیا ہے میں اس کو قبول کرتا ہوں، مگر پورا کورس صرف ان طالب علموں کو لینے کی اجازت ہونی چاہیے جو قانونی دینیات اور سائنس کے لیے کوئی خاص ذوق نہ ر کھتے ہوں۔ اس کی جگہ رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لیے اور ان کے لیے جو قانون اور خاص علوم کا مطالعہ کریں گے، آرنلڈ کا کورس ان کی ضروریات کے لحاظ سے مختصر کرنا پڑے گا۔ یہ جتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو اسلامی حکمت، ادبیات، آرٹ، تاریخ نیز دینیات کا نصاب اختیار کریں گے، جرمن اور فرنچ زبانوں کا حسب ضرورت جاننا از بس ضروری ہے۔ ’’…آپ ندوہ اور دیو بند کے لوگوں کو انٹرمیڈیٹ کے معیار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ یونیورسٹی انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کرنے پر مجبور کیے جائیں۔ یہاں وہ سوائے انگریزی کے کوئی دوسری زبان اختیار نہ کر سکیں گے : (الف) علوم طبعی (ب) ریاضیات(ج)فلسفہ(د)اقتصادیات۔ چونکہ ان کو انگریزی کی تعلیم محض کام چلانے کے مطابق حاصل کرنی ہوگی، میں یونیورسٹی کے اعلیٰ امتحانات ایم اے اور بی اے سے انگریزی کو بالکل حذف کر دینا چاہتا ہوں۔ ان امتحانوں میں ان کو صرف سائنس اور فلسفہ کے مضامین لینے کی ضرورت ہوگی۔۴۶؎ ’’اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل‘‘ کر کے ’’فکر دینی کی از سر نو تعمیر کرنا‘‘ وہ بنیادی مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اقبال نے ۱۹۱۰ء میں ایک ’’مثالی دارالعلوم‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر اُنہوں نے ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے علوم اسلامیہ کے مجوزہ نصاب پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آرنلڈ کامجوزہ نصاب ان کے نزدیک قوم کی بدلی ہوئی روحانی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا تھا۔ اس لیے اُنہوں نے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کو صاف لکھ دیا کہ وہ مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے بالکل اتفاق نہیں کرتے اور یہ کہ ان کے خیال میں قدیم طرز پر مسلم دینیات کا شعبہ کھولنا قطعی بے سود ہے۔ لیکن خط کے آخر میں ان کے لہجے کی تیزی و تندی نرمی میں بدل جاتی ہے اور وہ اس بات پر مفاہمت کرلیتے ہیں کہ معاشرے کے قدامت پرست طبقے کی تالیف قلب کے لیے ’’قدیم طرز کے دینیات کے سکول‘‘ سے ابتدا کی جائے اور رفتہ رفتہ اس کی ہیئت اس طرح بدلی جائے کہ یہاں سے جو لوگ فارغ التحصیل ہو کرنکلیں وہ ’’خود اجتہادی فکر پر قادر ہوں ‘‘۔ مؤثر تعلیم کا انحصار طلبہ کی اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں پر ہے۔ اس اعتبار سے ندوہ اور دیو بند کے طلبہ کو اقبال نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے چار انواع میں تقسیم کیا: دینیاتی امور میں بصیرت اور غور و خوص کرنے کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ، سائنسی تحقیق و تدقیق کا ذوق رکھنے والے طلبہ، فقہ اور قانون میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ اور اسلامی تہذیب و تمدن سے شغف رکھنے والے طلبہ۔ اس تقسیم کو ملحوظ رکھ کر پھر اُنھوں نے ہر طالب علم کی ضروریات کے مطابق آرنلڈ کورس میں تخفیف اور اضافے کی حسب ذیل تجاویز پیش کیں: (۱) جو طلبہ دینیات یا الٰہیات اسلامیہ سے شغف رکھتے ہوں ان کو چاہیے کہ قرآن کی استقرائی روح کے مطابق پہلے وہ جدید سائنس اور عمرانیات کا مطالعہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ جدید فلسفہ پڑھیں تاکہ روحانی ضرورتوں سے متعلقہ فکری اور معاشرتی عوامل کا انھیں پورا پورا شعور حاصل ہو۔ اس کے بعد وہ آرنلڈ کے علوم اسلامیہ کے ایم اے کے مجوزہ نصاب میں سے صرف وہ مضامین پڑھیں جن کا دینیات سے براہ راست تعلق ہو، مثلاًاسلام کے فرقہ جات، اسلام کا فلسفہ، اخلاق اور مابعد الطبیعیات وغیرہ۔ فقہ ،ڈپلومیسی، عالم اسلام میں سائنس وغیرہ کے مضامین ان کے نصاب سے خارج ہوں گے۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد انھیں دینیات، کلام اورتفسیر پر ’’مجتہدانہ‘‘لیکچر دینے کے لیے یونیورسٹی فیلو بنایا جائے۔ ’’صرف یہ لوگ ہی یونیورسٹی میں دینیات کا ایک نیا سکول قائم کر سکیں گے۔‘‘ (۲)اسی طرح وہ طلبہ جو سائنسی یعنی طبیعیات، کیمیا، حیاتیات وغیرہ میں تحقیق و تدقیق کا شوق اور صلاحیت رکھتے ہوں، انھیں پہلے جدید سائنس، فلسفہ اور ریاضی کی مکمل تعلیم دی جائے اور پھر وہ حسب ضرورت آرنلڈ کورس پڑھیں۔ وہ صرف عالم اسلام میں سائنس کا مضمون پڑھیں گے۔ باقی مضامین ان کے کورس سے خارج ہوں گے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھیں یونیورسٹی فیلو بنایا جائے تاکہ وہ سائنس میں تحقیقی کام کریں۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں نے جو کردار ادا کیا ہے اسے منظر عام پر لائیں۔ ان کے استقرائی طریق تحقیق اور اس کے ثمرات کا مغربی اقوام پر جو اثر پڑا اس کی نشان دہی کریں اور ازمنہ وسطی اور دور جدید کی سائنس میں فکری تسلسل کی مبسوط تاریخ مرتب کریں۔ (۳) جن طلبہ کی دلچسپی فقہ اور قانون میں ہو، انھیں قانون محمدی کی تشکیل نو کا اہم فرض ادا کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ تاریخی اور معاشرتی حالات کے ساتھ ساتھ روحانی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ اس لیے یہ لوگ پہلے تاریخ ، اقتصادیات اور عمرانیات کا مطالعہ کریں گے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ ایل ایل بی بھی کریں۔ اس کے بعد حسب ضرورت آرنلڈ کورس پڑھیں۔ وہ صرف اسلامی اصول فقہ اور قانون سازی اور اسلام کے سیاسی نظریے کے مضامین پڑھیں گے۔ باقی مضامین ان کے کورس سے خارج ہوں گے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان میں سے بعض کو وکالت کا پیشہ اختیار کرنے دیا جائے۔ یہ لوگ عدالتوں اور اسمبلیوں میں بہت مفید ثابت ہوں گے۔ بعض کو فقہ اور قانون سازی پر تحقیقی کام کرنے اور لیکچر دینے کے لیے یونیورسٹی فیلوبنایا جائے۔ (۴) آرنلڈ کا پورا کورس، جو پانچ مضامین پر مشتمل ہے، صرف ان لوگوں کو لینے کی اجازت دی جائے جو دینیات ، سائنس یا قانون سے کوئی خاص دلچسپی نہ رکھتے ہوں بلکہ صرف اسلامی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں۔ اس کورس میں اقبال مسلم آرٹ اور فن تعمیر کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اسلامی فلسفہ، ادبیات، آرٹ، تاریخ یا دینیات کا کورس لیں گے، ان کے لیے جرمن اور فرانسیسی زبانوں کا جاننا ضروری ہوگا۔ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ جب جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق تھا تو اسلامی سائنس، فلسفہ، آرٹ، ادبیات اور دینیات نے ہی اسے روشنی کی کرن دکھائی۔ اسلامی علوم و فنون پر جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں کتابیں لکھی گئیں۔ عربی کتابوں کے ترجمے کیے گئے جو یورپ کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیے گئے۔ یہ ترجمے تاحال یورپ کی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن اصل عربی کتب اکثر و بیشتر نایاب ہیں۔ اس ثقافتی سرمائے تک ہماری رسائی جرمن اور فرانسیسی زبانوں ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ دینیات، سائنس اور قانون کی تعلیم سے متعلق پہلے تین کورسز کو بے شک دیو بند اور ندوہ کے فارغ التحصیل ذہین اور طباع لوگوں تک محدود رکھا جائے لیکن اسلامی تہذیب و تمدن کے کورس پر یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے تاکہ دوسرے اداروں کے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ ندوہ اور دیو بند کے لوگوں کو انٹرمیڈیٹ کے معیار تک پہنچانا کافی نہیں۔ ان کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ وہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کریں۔ یہاں وہ انگریزی کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں پڑھیں گے۔ باقی مضامین طبیعی علوم، ریاضی، فلسفہ اور اقتصادیات میں سے اختیار کریں گے۔انگریزی کی صرف کام چلانے کی حد تک ضرورت ہے۔ اس لیے بی اے اور ایم اے کے نصاب سے اسے خارج کر دینا چاہیے۔ ان امتحانات میں سائنس اور فلسفے کے مضامین پڑھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس تبصرے سے دو باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں:ایک یہ کہ مؤثر تعلیم کے لیے طلبہ کی اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ دوسری یہ کہ تعلیم کا مقصد ثقافتی سرمائے کو نئی نسل میں صرف منتقل کرنا ہی نہیں بلکہ بدلی ہوئی روحانی ضروریات کے مطابق اس کی تجدید اور تعمیر نو بھی کرنا ہے۔ ’’ جس قسم کا علم، کلام اور علم دین ازمنہ وسطی کے مسلمانوں کی تسکین قلب کے لیے کافی ہوتا تھا، وہ آج تسکین بخش نہیں ہے‘‘۔ اس سے اقبال کا مقصود’’مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا‘‘ نہیں بلکہ فقہائے متقدمین کی طرح ’’اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا‘‘ اور ’’فکر دینی کی از سر نوتعمیر کرنا ہے‘‘ نئی دینیات اور نیا علم کلام ہی موجودہ دور کے مسلمانوں کی روحانی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس لیے اجتہاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ لیکن فقیہ بے توفیق کو اقبال یہ حق نہیں دینا چاہتے: ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگان محفوظ تر ئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- دیباچہ ’’اسرار خودی‘‘، انگریزی ترجمہ از آر اے نکلسن بعنوان سیکرٹس آف دی سیلف (لاہور: شیخ محمد اشرف،۱۹۳۴ئ) ، ص۱۹۔ ۲- قرآن، (۴۱:۵۳:’’ہم جلد ہی لوگوں کو آفاق اور انفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے‘‘: [قرآن، ۵۱:۲۱: ’’اور اہل یقین کے لیے زمین میں نشانیاں ہیں اور ان کے انفس میں بھی‘‘۔] ۳- ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ (خطبہ علی گڑھ، ۱۹۱۰ئ): سید عبدالواحد معینی، مولف، مقالات اقبال، (لاہور: شیخ محمد اشرف، ۱۹۶۳ئ)، ص۱۳۲۔ ۴- بانگ درا (کلیاتِ اُردو) ، ص۲۴۶۔ ۵- ایضاً ، ص۲۰۹ ۶- ضرب کلیم (کلیاتِ اُردو)، ص۵۴۸۔ ۷- ایضاً ، ص۵۴۳۔ ۸- ایضاً، ص ۵۳۷۔۵۳۸۔ ۹- این اکائونٹ آف دی سریمونی آف لے انگ دی فائونڈیشن اسٹون آف دی محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (الہ آباد، ۱۸۷۷ئ)،ص۶۴۔ ۱۰- محمدنزم (نیویارک، ۱۹۵۳ئ)، ص۱۸۱۔ ۱۱- ضرب کلیم (کلیات اُردو )، ص۶۳۰۔ ۱۲- ایضاً، ص۵۴۵۔ ۱۳- ایضاً، ص۲۶۹۔ ۱۴- بال جبریل (کلیات اُردو )، ص۲۴۸۔ ۱۵- ایضاً، ص۳۲۴۔ ۱۶- محمدحسین خان زبیری ، مولف ، مشاہیر کے تعلیمی نظریے، باب ۲۱: علوم اسلامیہ، (کراچی: جاوید پریس، س ن)، ص۲۷۱۔ ۱۷- ایضاً۔ ۱۸- سید نذیر نیازی، مترجم، (اقبال) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘، (لاہور: بزم اقبال، ۱۹۵۸ئ)، ص۱۹۳۔ ۱۹- ایضاً، ص۲۰۔ ۲۰- سید عبدالواحد معینی، مولف، کتاب مذکور، ص۱۳۵۔ ۲۱- ضرب کلیم(کلیات)، ص۵۴۱۔ ۲۲- بال جبریل (کلیات)، ص۳۵۶۔ ۲۳- ضرب کلیم (کلیات)، ص۵۸۴۔ ۲۴- ایضاً، ص۴۸۷۔ ۲۵- بال جبریل (کلیات)، ص۳۶۲۔ ۲۶- ضرب کلیم (کلیات)، ص۴۸۸۔ ۲۷- سید عبدالواحد معینی، مولف، کتاب مذکور، ص۱۳۵۔۱۳۶ے۔ ۲۸- ایضاً، ص۱۳۴۔ ۲۹- ایضاً، ص۱۳۵۔ ۳۰- محمد حسین خاں زبیری، مولف، کتاب مذکور، ص ۲۶۸۔۲۶۹۔ ۳۱- جاوید نامہ (کلیات فارسی)، ص۷۹۱۔ ۳۲- محمد حسین خاں زبیری، مؤلف ، کتاب مذکور، ص۲۷۰۔۲۷۱۔ ۳۳- سید نذیر نیازی ، مترجم، کتاب مذکور، ص۲۵۵ ۳۴- ایضاً، ص۱۹۴۔ ۳۵- قرآن۔ ۱۲:۵۳ ۳۶- قرآن۔ ۷۵:۲۔ ۳۷- قرآن۔ ۹۰:۲۷۔ ۳۸- ضرب کلیم (کلیات)، ص۵۴۴۔ ۳۹- ایضاً ، ص۵۴۵۔ ۴۰- بال جبریل (کلیات)، ص۳۹۸۔ ۴۱- ضرب کلیم (کلیات)، ص۵۴۷ ۴۲- سید عبدالواحد معینی، مولف، کتاب مذکور، ص۱۹۱۔۱۹۲۔ ۴۳- قرآن:۱۴:۵۔ ۴۴- محمد حسین خاں زبیری، مولف، کتاب مذکور، ص۲۶۲۔ ۴۵- شیخ عطاء اللہ ، مولف، کتاب مذکور، ۱؍۱۴۶۔۱۴۷۔ ۴۶- ایضاً،۲؍۲۱۶۔۲۲۵ /…/…/ اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو ڈاکٹر وحید اختر اقبال نے ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو‘‘ کے عنوان سے نئے تقاضوں کی روشنی میں اجتہاد کا ایک لائحہ عمل اور اس کے کچھ اساسی اصول پیش کیے۔ ہندوستان میں اسلام کی تفسیر نو کا سلسلہ شیخ احمد سر ہندیؒ سے ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ، شبلی اور سر سید تک پہنچتا رہا۔ اقبال اسی سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز سے عرب اور افریقی مسلم ممالک میں اسلام کی تشکیلِ نو کی تحریکیں اٹھنی شروع ہوگئی تھیں، جن کا نقطہ عروج پان اسلامیت ہے۔ اقبال کا اس تحریک سے بھی ذہنی رشتہ تھا اقبال نہ صرف ان اسلامی تحریکوں کے مؤید تھے بلکہ اُنھوں نے مغرب میں سائنس و فلسفہ، صنعت اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا بھی گہرا جائزہ لیا تھا۔ وہ بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے زوال سے بھی آشنا تھے۔ اُنھوں نے مغرب کی فکری اور سیاسی تاریخ سے بھی استفادہ کیا۔ وہ مغرب کو کہیں ردکرتے ہیں اور کہیں قبول۔ رد و قبول کے اس عمل میں ان کے سامنے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نصب العین ہی رہتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے اسلامی تہذیب کی روح کو ہمیشہ مغرب کی روح سے مختلف سمجھا۔ اختلاف کے اس عرفان نے انھیں جدید مغربی علوم کی روشنی میں اسلام کی اصل روح کی بازیافت پر اکسایا۔ وہ مغرب کے یکسر منکر نہیں، اس سے سائنسی علوم سیکھنا وہ چاہتے ہیں کیونکہ یہ مسلمان کی اپنی گم شدہ میراث ہے لیکن وہ مغربی مادی ترقی کو یک رخا ارتقا سمجھ کر اسلام کے ارتقا کو مستقبل کے لیے روحانی راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال کے یہاں روحانیت یا مذہبیت روح و مادے کا تناقص نہیں، بلکہ دونوں کی ہم آہنگی سے عبارت ہے اور یہی اُن کے نزدیک اسلام کی روح ہے۔ ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو‘‘ کو انھی خطوط پر پیش کیا گیا۔ یہ ایک اجتہادی کارنامہ ہے جس کے احکامات کو پوری طرح اب تک نہ سمجھا گیا ہے اور نہ اُس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اقبال کی یہ کتاب نثر میں اُن کی واحد مستقل، مربوط اور منظم کتاب ہے جس میں ان کے فلسفیانہ مسلک اور مذہبی اجتہاد کا یکجا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے: ۱- علم اور مذہبی تجربہ ۲- مذہبی تجربے کے الہامات کی فلسفیانہ جانچ ۳- خدا کا تصور اور عبارت کا مفہوم ۴- انسانی افلاس کی آزادی اور لافانیت ۵- مسلم تہذیب کی روح ۶- اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول ۷- کیا مذہب ممکن ہے؟ پہلے باب میں اُنھوں نے مذہبی تجربے کے عملی پہلو سے سائنس کی روشنی میں بحث کی ہے اور سائنس سے اس کا تقابل کرتے ہوئے اس علم کی ہمہ گیری کو سائنس کے یک رخے پن سے افضل قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے نہ صرف نظری لحاظ سے بلکہ عملیتی Pragmatic یا نتائجی نقطہ نظر سے بھی مذہبی تجربے اور اس پر مبنی علم کو درست، ضروری اور مفید قرار دیا ہے۔ اسی باب میں اُنھوں نے کائنات کی ماہیت، تغیر کی ہمہ گیری، زمان کے تصور اور فعالیت سے بحث کی ہے۔ آخر میں مذہبی تجربے کی اہم خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے۔دوسرے باب میں اُنھوں نے وجود خدا کے روایتی دلائل سے آغاز کر کے کائنات کی ماہیت سے تفصیلی بحث کی ہے اور تفصیل سے نظریہ زمان کی تفسیر و توجیہ کی ہے۔ تیسرے باب میں خالق و عبد کے رشتے کو اسلامی عبارت کی روشنی میں ایک فعال شکل میں پیش کیا ہے۔ چوتھے باب میں خودی ، انسانی آزادی اور بقا کے تصور سے فلسفیانہ بحث کی ہے۔ پانچویں باب میں اسلامی تہذیب کی قوت معرکہ یعنی عقلیت ، استخراجی طریقہ کار اور ہر طرح کی اذعانیت کے خلاف بغاوت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چھٹے باب میں اجتہاد کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ساتواں مذہب کی ضرورت اور عہد حاضر میں اس کی معنویت کا اثبات کرتا ہے۔ پوری کتاب میں جو مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے، وہ زماں کا مسئلہ ہے۔ زماں کی حقیقت اور فعالیت پر اقبال سے قبل کسی مسلم مفکر نے اتنا زور نہیں دیا تھا۔ اس مسئلے کی طرف انھیں عہد جدید کی تغیر آفرینی اور تازہ کاری نے متوجہ کیا۔ تغیر کا یہ عمل تاریخ کے کسی بھی دور میں اتنا واضح اور انقلاب آفریں نہیں بن سکا تھا جتنا بیسویں صدی میں بنا۔ زماں کے ساتھ تغیر کا مسئلہ جڑا ہوا ہے۔ اقبال تغیر کو حقیقت ابدی تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ تغیر کے عمل ہی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید ہے۔ وہ اسلام کو تغیر کے عمل میں شریک فاعل دیکھتا چاہتے ہیں۔ نیز اسلام کی تشکیل جدید کی ضرورت بھی اسی لیے محسوس ہوئی ہے کہ وہ اُسے تغیر پذیر کائنات سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وقت کا ناگزیرتقاضا ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل اُنھوں نے کہا تھا: حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل، ایشیا اور افریقہ میں اپنے عقیدہ کی نئی توجیہ چاہتی ہے۔ اسلام کی بیداری کے ساتھ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم آزادانہ طور پر یہ دیکھیں کہ یورپی فکر کیا ہے اور اس کے فکری نتائج اسلام کی دینیاتی فکر پر نظر ثانی کرنے یا اس کی از سر نو تشکیل کرنے میں کہاں تک ہماری مدد کر سکتے ہیں۔۱؎ اقبال کو یقین ہے کہ مذہب کو سائنس سے خطرہ نہیں، کیونکہ سائنس بھی حقیقت کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے جو مذہبی تجربے کی مدد کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم اُس کے یک رُخے پن پر غالب آسکیں۔۲؎ سائنس ، طریقہ کار کے اختلاف کے باوجود مذہب کے ساتھ متحد المقصد ہے۔ دونوں اپنے اپنے طو رپر حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ خود مذہب کو اثباتی سائنس مانتے ہیں۔۲؎ سائنس صرف نظری علم ہے، جب کہ مذہب نظریے اور عمل کو ہم آہنگ کرنے کا علم ہے۔ سائنس اپنے نتائج پر قدرت نہیں رکھتی۔ مگر مذہب ایسا علم ہے جو عمل کے ذریعے نتائج کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔ وہ کائنات کی تفہیم بھی ہے اور تسخیر بھی، اگر ہم مذہب کو محض علم یا محض عمل سمجھ لیں تو اس کی روح فوت ہو جاتی ہے۔ مذہب علم و عمل کی ہم آہنگی ہے، اسی لیے اقبال اس پر زور دیتے ہیں کہ ہم مذہبی تجربے کی روشنی میں جدید علوم کو استعمال کر کے انھیں عمل کی وہ سمت اور مقصدیت عطا کریں جو تغیر پذیر کائنات کو انسانی مقصد کے تابع رکھے۔ اس مقصد کے لیے وہ اسلامی فکر کی تشکیل نو کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ کائنات ، ثابت، جامد اور مستقل نہیں۔ اقبال ان یونانی تصورات کی تردید کرتے ہیں جو یا تو اعیان (تصورات) کو ثابت جان کر مادے کی نفی کرتے ہیں یا مادے کو اصل حقیقت مان کر مقصد اور غائت کا انکار کرتے ہیں۔ اقبال نے اکثر مقامات پر افلاطون پر سخت تنقید کی ہے، کیوں کہ وہ تغیر کو التباس مانتا ہے اور اثبات کو اصل حقیقت۔ اس کے ساتھ اُنھوں نے ارسطا طالیسی منطق کو بھی رد کیا جو صدیوں تک اسلامی فکر پر مسلط رہی۔ وہ اسلام کو تصوریت اور اثباتیت کی ہم آہنگی سے تعبیر کرتے ہیں۔۴؎ اقبال نے میکانکیت کو بھی رد کیا ہے اور میکانکی قانون علیت کوبھی وہ کائنات میں علت و معلول کے قانون کو کار فرما دیکھتے ہیں مگر میکانکی انداز میں نہیں بلکہ آزادانہ اور مقصدی انداز میں۔ وہ کائنات کو وائٹ ہیڈ کی طرح ایک عمل سمجھتے ہیں جو غیر حرکی خلا میں موجود نہیں بلکہ ایسے وقوعات کا نظام ہے جو مسلسل تحقیقی بہائو رکھتے ہیں۔ مجرد فکر انھیں کاٹ کر جامد بنا دیتی ہے یا اس طرح دیکھتی ہے۔۵؎ قدیم طبیعیات نے فطرت کو مادیت کی اصطلاح میں سمجھا اور مادے کو جامد ساکن مان کر فطرت کی توجیہہ میکانکی قوانین سے کی۔ جب کہ جدید طبیعیات مطلقیت کی جگہ اضافیت پر اور مادی جواہر کے جمود کی بجائے اُن کی قوت و حرکت پر زور دیتی ہے۔کائنات کی اس ماہیت کو زمان کے قدیم تصورات سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اقبال نے افلاطون، کانٹ ، اشاعرہ ، عراقی، رومی اور ابن حزم کے ساتھ برگساں، آسپنسکی اور آئن سٹائن کے نظریات زمان سے مفصل بحث کی ہے۔ برگساں کے تصور ’’دوران خالص‘‘ کو حقیقی زمان کا صحیح نظریہ مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں برگساں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ارادے اور فکر کی ثنویت کا شکار ہو گیا۔۶؎ آئن سٹائن کے نظریے کی خامی یہ ہے کہ وہ زماں کو مکاں کا چوتھا بُعد Dimension مان کر اُس کی آزاد تخلیقی قوت سے انکار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف اسپنسکی Ouspenskyزمان کو اپنے سے ماورا حرکت مانتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہماری فکر اس قدر مکان بستہ رہی ہے کہ ہم زمان کو بھی مکان کی جنس سے ہی سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔۷؎ اقبال کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں سلسلہ وار زماں Serialاور غیر سلسلہ وار زمان Nonserial دونوں کا ذکر ملتا ہے۔ الوہی زماں غیر سلسلہ وار ہے مگر خدا سلسلہ وار زمان سے متعلق ہو کر بھی ماورائے زماں رہتا ہے۔ زمان اور مکان اس کے دواظہارات ہیں۔ اقبال زمان کو معروض مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اُسے انسانی آزادی اور تخلیقیت کا جز بھی سمجھتے ہیں۔ انسان اور زمان ایک دوسرے کے حریف نہیں حلیف ہیں۔ وہ زمان کی حرکت کو مقصدی مانتے ہیں۔ زمان کو یہ مقصدیت انسان کا عمل عطا کرتا ہے۔ اقبال نے نطشے کے نظریہ ’’تواترِ اَبدی‘‘Eternal Recurrenceکو اس لیے رد کیا ہے کہ اس کے مطابق زماں کی مسلسل حرکت ایک دائرے اور متعین وقوعات کی پابند ہو جاتی ہے، آزاد اور تخلیقی نہیں رہتی۔ یہ بھی برگساں کی طرح ایک قسم کا نظریہ زماں ہے۔۸؎ اقبال نے زماں کو حقیقی اور فاعل مان کر ارتقا کے نظریے کو تسلیم کیاہے۔ زمان کا انکار ارتقا کا انکار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن میں ارتقا کے نظریے کے شواہد ملتے ہیں۔ جاحظ، اخوان الصفا، ابن مسکویہ اور رومی نے اس نظریے کی تشکیل، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پہلے بھی کی ہے۔۹؎ اقبال ارتقا کے میکانکی تصور کو رد کر کے فجائی یا تخلیقی ارتقا Creative of Emergentکو قبول کرتے ہیں۔ مگر اسے برگساں کی میکانیت سے متمائز کرنے کے لیے موقدیت اور روحانیت کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ اقبا ل نے زمان کے ساتھ مکان اور مادے کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ انھیں آئن سٹائن کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ اگر مادہ نہ ہوتا تو تمام کائنات ایک نقطے پر سمٹ جاتی ہے۔۱۰؎ اُنھوں نے عراقی کے حوالے سے مکان کی مختلف سطحوں کا ذکر کیا ہے اور اس طرح مکان کی اضافیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اگر مکان کو علیحدہ سے دیکھا جائے تو وہ لفظوں میں قابل تقسیم ہے لیکن عمل کے بہائو میں وہ ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔۱۱؎ کائنات، زماں اور مکاں میں موجود ہے۔ ہم جسے فطرت کہتے ہیں، وہ خدا کے لیے ایک لمحہ پراں ہے۔ اقبال خدا کی شخصیت کو مانتے ہیں جو لامحدود ہے اور زماں و مکاں سے ماورا۔ وہ نفس مطلق ہے مگر نفس کی محدودیت سے بالا ہے۔ وہ خدا کے علم بسیط اور ہر جگہ موجودگی کو بھی تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ قرآن کی آیات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ ہر جگہ ہوتے ہوئے بھی مکان سے ماورا ہے اور تاریخ کے دھارے پر متصرف ہوتے ہوئے بھی اپنی مطلق شخصیت رکھتا ہے۔ اقبال نے جزئی اور کلی علم کی متکلمانہ حکمت نہیں چھیڑی بلکہ محدود و لا محدود کے رشتے پر توجہ صرف کی ہے۔ پوری کائنات میں صرف آدمی اپنے خالق کی تخلیقی زندگی میں شعوری طور پر شریک ہوسکتا ہے اوریہی شرکت نفس محدود کو لافانیت عطا کرتی ہے۔ انا کے دورُخ ہیں۔ عرفانی Appraciative اور فاعلی Sefficientعرفانی انا دوران خالص میں رہتی ہے اور فاعلی انا سلسلہ وار زمان میں۔ اناکی زندگی مسلسل حرکت ہے۔ عرفانیت Appraciation سے کارکردگی تک اور وجدان سے عقل تک۔ اسی عمل سے جوہری زماں پیدا ہوتا ہے۔۱۲؎ انائے مطلق میں یہ تقسیم نہیں نہ اس کے لیے کوئی غیر ہے۔ تاریخ اور کائنات کا علم خدا کو ایک ابدی ’’حال‘‘ کی شکل میں ہوتا ہے۔ عبادت کے ذریعے انسان کا محدود نفس خدا کے نفس لا محدود سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ عبادت، مراقبہ ہے اور مراقبہ علم ہے۔ عبادت علم الیقین ہے، رویت باری ہے۔یہ رویت یا علم انسان کو عمل کی قوت عطا کرتا ہے اور مقصد کے حصول تک رہنما ہوتا ہے۔ اجتماعی عبادت اجتماعی حصول علم کا محرک بنتی ہے۔ عبادت انفرادی ہو یا مشترکہ، یہ اظہار ہے، انسان کی داخلی اُمنگ کا جو کائنات کے ہیبت ناک سکوت سے جواب چاہتی ہے۔ یہ دریافت کا ایسا عمل ہے جس کے ذریعے نفی ذات کے لمحے میں نفس اپنا اثبات کرتا ہے اور حیات کائنات میں اپنی قیمت کا تعین کرتا اور اپنے کو ایک حرکی عامل کی حیثیت سے جانتا ہے۔۱۳؎ اقبال کے نزدیک انسان خدا کی منتخب مخلوق ہے، اس کا خلیفہ ہے اور آزاد شخصیت رکھتا ہے۔ اقبال کے فلسفے کا ایک بنیادی تصور انسانی خودی ہے۔ ان کے نزدیک منصور حلاج کا دعویٰ انا الحق متکلمانہ عقلیت کے لیے چیلنج بن کر ابھرا۔ خودی انسان کی پوری شخصیت ہے، یہاں روح اور جسم کی دوئی نہیں جسم و روح کے درمیان متوازیت اور باہمی تعامل کے نظریات ناکافی ہیں۔ عمل کے دوران یہ دونوں متحد رہتے ہیں اور یہی حقیقت ہے۔۱۴؎ نفس آزاد شخصی علیت ہے۔۱۵؎ عبادت اسے میکانکی علیت سے آزاد کرتی ہے۔ اقبال نے جبریت کے نظریے کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے استبدادی مطلق العنان شاہی کا سیاسی حیلہ قرار دیا ہے، جس پر سب سے بڑی ضرب کربلانے لگائی۔۱۶؎ انسان خود اپنی تقدیر ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’میں قرآن ناطق ہوں‘‘، بایزید کا کہنا کہ ’’اعظم ما شأنی‘‘ اور حسین بن منصور حلاج کا نعرئہ ’’انا الحق‘‘ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔۱۷؎ نفس انسان کی محدودیت عبادت و شہادت کے وسیلے سے لافانیت حاصل کرتی ہے۔ کانٹ اور جدید فلسفے میں دوامِ نفس کا مسئلہ خالص اخلاقی ہے۔ قدیم فلسفے میں اس کی نوعیت مابعد الطبیعیاتی تھی۔ اقبال کے لیے یہ مسئلہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآنی نظریہ تقدیر جزوی طور پر اخلاقی ہے اور جزوی طور پر حیاتیاتی نفس کی ابتدا ہے، وہ موت کے بعد زمین پر واپس نہیں آتا اور محدودیت بدبختی نہیں۔ کیونکہ وہ محدودیت کے وسیلے سے ہی لا محدود نفس تک رسائی حاصل کرتا، اپنے اعمال گزشتہ کو پرکھتااور امکانات مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ قرآن محدودیت سے مکمل آزادی کا قائل نہیں۔ برزخ، جنت، دوزخ اور حشر مختلف کیفیات میں جن کا قرآن میں استعاراتی بیان ملتا ہے۔ برزخ، موت اور حشر کا درمیانی تعطل ہے۔ حشر ایک آفاتی مظہر حیات ہے، جس کا اطلاق حیوانات اور طیور پر بھی ہوتا ہے۔ جنت اور دوزخ عارضی کیفیات ہیں۔ مستقل مقامات سزا نہیں، نہ عذاب جہنم ابدی ہے، نہ جنت مکمل تعطیل کا نام ہے۔ یہ سب وہ منزلیں ہیں جن سے انسان آزادانہ گزرتا اور مستقبل کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لاتا ہے۔۱۸؎ اقبال نے ہبوط آدم کو بھی زوال سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے انسان کے ارادئہ زندگی و عمل کے نتیجے سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن میں آدم کے جنت سے اخراج کا قصہ انسان کی تشنگی علم اور آزاد نفس پر شعوری اختیار کی خواہش کو بیان کرتا ہے۔ یہی نفس انسان کی ماہیت ہے، جس نے ا س طرح اپنا اثبات کیا۱۹؎ اسی طرح بقا کے حصول پر قادر ہو سکتاتھا۔ آزادی، تخلیقیت اور خواہش دوام انسانی انا کی بنیادی صفات ہیں اور ان ہی کے ذریعے وہ لا محدود نفس ربانی کا شریک کار ہو سکتا ہے۔ تخلیقی عمل میں شرکت کی یہی خواہش اسے جنت کی بے عملی سے کارجہاں کی عمل گاہ میں لائی۔ زماں حصول مقصد کا طویل انتظار ہے مگر یہ انتظار انفالی کیفیت نہیں جدو عمل کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ مذہبی تجربہ ہمیں کائنات، زمان، مکاں ، خدا اور خودی کا علم عطا کرتا ہے۔ اس تجربے کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے، اُسے وجدان اور عقل کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ مذہبی تجربے میں یہ دونوں علیحدہ نہیں ہوتے۔ خود مذہبی تجربہ بلا واسطہ، ناقابل تجزیہ اور متعلق باللہ ہوتا ہے۔ یہ ناقابل ترسیل ہوتا ہے لیکن اس کا وقوفی Cognitueعنصر خیال کی شکل اختیار کرتا ہے اور خیال الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں۔ اس جگہ اقبال نے ضمنی طور پر قرآن کے الفاظ اور معانی کی قدامت کی بحث کے لا حاصل ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تجربہ، خیال اور اس کا لفظی اظہار ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں۔ اس لیے تقدم و تأخر کی بحث فضول ہے۔ مذہبی تجربہ سلسلہ زمان و مکان سے بالکل غیر منقطع نہیں ہوتا، اس لیے عارف یا صوفی عام تجربات کی سطح پر واپس آجاتا ہے اورانھیں سمجھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔۲۰؎ اقبال نے عام صوفی اور نبی میں بنیادی فرق یہی بتایا ہے اور صوفی عبدالقدوس گنگوہی کے خیال کے مطاق نبی کی طرح معراج سے واپس آنا پسند نہیں کرے گا۔ لیکن نبی پر یہ واپسی فرض ہے اور یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔۲۱؎ نبی کا یہی منصب اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یعنی اجتماعی نجات و فلاح سے عبارت ہے۔ نبوت وہ مذہبی شعور ہے، جس میں وحدانی تجربہ اپنی حدود سے باہر نکل کر حیات اجتماعی کے دھاروں کو موڑنے اور بدلنے کے مواقع تلاش کرتا ہے۔۲۲؎ وحی قرآن کے مطابق ایک آفاقی وصف حیات ہے۔ اقبال کے خیال میں ختمِ نبوت کے معنی وحی کے سلسلے کے منقطع ہونے کے نہیں۔ وحی حیات کا تخلیقی عمل ہے۔ اُنھوں نے ختمِ نبوت کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ دراصل ہر طرح کی اذعانیت کے خاتمے کا اعلان ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس کے ساتھ استخراجی طریقہ پیدا ہوا اور خالص تفکر طریقہ ختم ہوا۔ پر دیت اور مشابہت کااقتدار ختم ہوا۔ رسولﷺ کی تاریخ اور تاریخ ساز نظر دیکھ رہی تھی کہ اس خاتمہ اذعانیت کے بعد اب انسان کسی نبی کو تسلیم نہیں کرے گا، بلکہ عقل، مشاہدے اور تجربے سے وہ علم حاصل کرے گا جو اَب تک اسے نبیوں کے وسیلے سے ملتا تھا۔ نبوت کے خاتمے کے معنی یہ بھی نہیں کہ اب جذبے کی جگہ پوری طرح عقل نے لے لی ہے۔ ختم نبوت کے تصور کی اہمیت اس بات میں ہے کہ نبوت کے سلسلے کے انقطاع نے ایک آزاد تنقیدی رویے کو جنم دیا جو مذہبی تجربے کو بھی شخصی سند یا کسی مافوق الفطرت مبدا کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسلام کے ظہور کے بعد تاریخ میں اب اس کی گنجائش نہیں رہی تھی۔۲۳؎ مسلمانوں نے یونانی فلسفے کو قبول کر کے اسلام کی روح سے انصاف نہیں کیا۔ یونانی تہذیب کی روح عقلیت ہے، اسلام اس کلاسیکی عقلیت کے خلاف بغاوت ہے۔ غزالی جنھوں اس راز کو سمجھا تھا، ارسطو کی منطق کی ہی پیروی کرتے رہے۔ اسلام میں عقل کے ساتھ وجدان، تفکر کے ساتھ عمل اور تصور کے ساتھ ٹھوس حقیقت پر زور ہے۔ اس کا طریقہ استقرائی نہیں، استخراجی ہے۔ قرآن میں جا بجا تعقل ، تفکر اور مراقبے کے پہلو بہ پہلو مشاہدے پر زور ہے۔ مشاہدہ مرئی حقیقت کا ہوتا ہے۔ مشاہدے کے ذریعے مرئی حقیقت کا علم سائنس بنتا ہے اس طرح سلام نے سائنس کی ترقی کا راستہ دکھلایا۔ یونانی فلسفے میں ٹھوس مرئی حقیقت پر تصور غالب تھا اسلام کا آدرش ’’لامحدود ‘‘ ہے جبکہ یونانی ذہن کا آدرش تناسب تھا۔ اسی لا محدود کی تلاش میں اسلام نے منطق ، ریاضیات، حیاتیات، نظریہ ارتقا اور نفسیات کے مطالعے کو ترقی دی۔۲۴؎ اسلامی تہذیب کی دوسری بنیادی خصوصیت اس کی تاریخی بصیرت ہے، قرآن میں انسانی تاریخ کے حوالے جا بجا ملتے ہیں۔ ابن خلدون نے سب سے پہلے فلسفہ تاریخ کی تدوین کی اور یہ قرآنی تصورِ تاریخ ہی کا اثر تھا۔ قرآن نے واقعات کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا سبق دیا ہے، اسی لیے مسلمانوں نے علم رجال کی بنیاد ڈالی۔ روایت کو قبول کرنے کے لیے راوی کا معتبر ہونا ضروری ہے۔ قرآن میں تاریخ کے دو بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں (۱) تمام انسانوں کی ابتدا ایک ہی اصل سے ہوئی ہے(۲) زماں حقیقی ہے اور زندگی میں ایک مسلسل تخلیقی حرکت ہے۔۲۵؎ اسپنگلر نے اسلام پر تقدیر پرستی کا الزام لگایا ہے جو اسلام کی تاریخیت کی روشنی میں سراسر غلط ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مغربی تہذیب سراسر مخالف کلاسیکی ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ کلاسکیت کے خلاف بغاوت کا راستہ تو سب کو اسلام ہی نے دکھایا۔۲۶؎ اقبال سمجھتے ہیں کہ جب اسلام نے اپنی تہذیب کی حرکی روح کو بھلا دیا تو وہ زوال کاشکار ہوگیا۔ عموماً زوال کا ذمہ دار ترکوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال اس سے متفق نہیں، ان کے خیال میں اسلامی فکر کے زوال کے تین اسباب ہیں۔ (۱) متکلمین کی یونانی فلسفے کے زیر اثر عقلی موشگافیاں جو روح اسلامی کو بروئے کار لانے میں مانع رہیں۔ (۲)تصوف کے دائرے میں مرتاضیت کا فروغ، جس نے بے عملی اور ترک دنیا کی تعلیم عام کی۔ (۳)زوال بغداد کے ساتھ اسلام کے سائنسی اور عقلی علوم کا خاتمہ۔ جس نے مذہبی اذعانیت کو راسخ کیا۔ شکست خوردہ ذہن مذہب کو شیش محل سمجھ کر اس میں بند ہو گئے اور آزاد تفکر و اجتہاد کے تمام دروازے کھڑکیاں بند کر لیں۔۲۷؎ اسلام کی حرکی قوت کی کلید اجتہاد ہے، جسے مسلمانوں نے ترک کر دیا اور اس کے نتیجے کے طور پر ملائیت اور ذہن بستگی کو فروغ ہوا۔ اس کے خلاف سب سے پہلی بغاوت ابن تیمیہ نے کی۔ اُنھوں نے اپنے زمانے کے عوام کی گری ہوئی اخلاقی اور علمی حالت کی بنا پر اجماع کے اصول سے انکارکیا۔ کیونکہ اس وقت اجماع کے معنی تھے، ذہنی زوال و جمود، قدامت پسند اور اندھی روایت پر اتفاق۔ سیوطی۲۸؎نے سولہویں صدی میں ابن تیمیہ کی تائید کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر صدی کے خاتمے پر ایک مجدد کا ظہور میں آنا ضروری ہے۔۲۹؎آہستہ آہستہ یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ اسلام کی اصل روح تک رسائی کے لیے قرآن و سنت کی طرف مراجعت ضروری ہے۔ ابن تیمیہ کے اثر نے اٹھارہویں صدی میں نجد سے اٹھنے والی وہابی تحریک کو جنم دیا۔ ابن تیمیہ نے تمام مکاتبِ فقہ کی مطابقت اور حرف آخر ہونے سے انکار کر کے اپنے لیے اجتہاد کی آزادی کا اعلان کیاتھا، جس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر سنوسی تحریک ، پان اسلامی تحریک اور بابی تحریک میں دیکھا جاسکتا ہے۔۳۰؎ ترکی میں حلیم ثابت نے جدید عمرانی تصورات پر اسلامی قانون کی بنیاد رکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ اقبال نے محسوس کیا کہ ہمیں بھی ترکوں کی طرح اپنے ورثے پر تنقید ی نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر ہم اس پر سخت تنقید نہ کر سکیں تو کم از کم دوسرے مضر اثرات کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو روکنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔۳۱؎ اقبال حلیم پاشا سے بھی متاثر ہیں جنھوں نے قومیت کے تصور کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے بین الاقوامیت پر زور دیا۔ ان کی نظر میں یہ ایسے اجتہادات ہیں جو مستقبل کے لیے اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے لیے راستے اور طریقے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اجتہاد کے تین درجے ہیں۔ ۱- قانون سازی کا مکمل اختیار جو عملی طور پر بانیان مکاتیب فقہ کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ ۲- اضافی اختیار جو کسی مخصوص مکتب فقہ کے دائرے میں رہ کر ممکن ہے۔ ۳- خصوصی اختیار جو کسی ایسے خاص مسئلے میں استعمال کیا جاسکتا ہے جسے ائمہ فقہ نے حل نہیں کیا۔۳۲؎ اقبال کی دلچسپی دراصل پہلے درجے سے ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اختیار صرف ائمہ فقہ تک محدود نہیں ہو نا چاہیے، جس طرح قدیم فقہا نے اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر قانون بنائے، نئے تقاضوں کی روشنی میں یہ اختیار علما اور امت کو حاصل ہونا چاہیے۔ اسلام میں اجتہاد کی اس لیے گنجائش ہے کہ ابتدا میں کوئی لکھا ہوا قانون موجود نہ تھا ، رسول کے بعد خلفا اور صحابہ کے بعد تابعین موقع کے لحاظ سے قرآن اور سنت کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے۔ خود ائمہ مکاتب اربعہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے مطابق فقہ کی تدوین کی۔ ان میں اختلاف کی موجودگی ، تاویل و توجیہ میں آزادی کے ساتھ کٹرپن اوراندھی تقلید کی نفی کرتی ہے۔۳۳؎ اجتہادکے بنیادی ماخذ چار ہیں۔ قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس۔۳۴؎ قرآن ضابطہ قوانین نہیں، اس کا بنیادی مقصد انسان میں خدا اور کائنات کی نسبت سے اعلیٰ تر شعور پیدا کرنا ہے۔ اس طرح یہ علم اخلاق و علم مدن و سیاست و معیشت کے کچھ عمومی اصول پیش کرتا ہے۔ کہیں کہیں کچھ ضوابط قانونی نوعیت کے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً خاندان سے متعلق اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ قرآن روحانیت کو انسانی زندگی سے الگ نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ اسلام نے مذہب کو سیاست و معاشرت سے بھی متحد رکھا۔ ان اصولوں کی روشنی میں قرآن کے علم کی مدد سے بدلتے ہوئے حالات کی توجیہ و تفسیر کی جاسکتی ہے۔ حدیث دوسرا اہم ماخذ ہے، لیکن احادیث کے کثیر ذخیرے میں ضعیف اور موضوع حدیثیں اس کثرت سے شامل ہیں کہ حدیث سے سند کے لیے بہت احتیاط اور دِقت نگاہ کی ضرورت ہے۔ خود اقبال پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ایک ضعیف یا موضوع حدیث قدسی ’’لا تسبوا الدھر‘‘ پر اپنے تصور زماں کی پوری عمارت کھڑی کی ہے۔ تیسرا ماخذ اجماع ہے جو اقبال کے نزدیک اسلام کا اہم ترین قانونی تصور ہے لیکن انھیں یہ بھی احساس ہے کہ ایک تو یہ تمام فرقوں میں متفق علیہ نہیں، دوسرے اسے اسلام میں کبھی بھی مستقل ادارے کی صورت حاصل نہیں ہوئی، کیونکہ ہر دور کے اہل اقتدار کو اجماع میں اپنے لیے خطرہ نظر آیا۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ موجودہ جمہوری دور میں اسمبلیاں اور پارلیمان اس کی جگہ لے سکتی ہیں۔ جیساکہ ایران میں کبھی علما کی ایک مجلس تشکیل دی گئی تھی لیکن ساتھ ہی اقبال یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ اسمبلیاں جہاں عموماً اراکین اسلام کے اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں، اجماع کا نعم البدل ہو سکتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اجماع قرآن سے انحراف بھی کر سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ دوسرے سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ البتہ پہلے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابن تیمیہ نے اجماع پر جو تنقید کی تھی وہ آج بھی عامۃ المسلمین کی ذہنی پسماندگی، قدامت پسند و تقلیدی رویے کی وجہ سے بڑی حد تک صحیح ہے۔ البتہ تعلیم یافتہ طبقے کے مشورے اور باہمی مذاکرے سے اجتہاد کا کام کیا جاسکتا ہے مگر علمائے دین جدید تعلیم یافتہ طبقے کے مخالف ہیں اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بیزار ہے۔ قیاس قانون سازی میں تمثیلی دلالت Analogical Reasoning کی شکل ہے، جس کا استعمال ابو حنیفہ نے کیا۔ یہ اصول آریائی ذہن کی تجریدیت پر ٹھوس حقائق کا بند باندھتا ہے۔ ابوحنیفہ کے سکول نے اس اصول کی روشنی میں تخلیقی مطابقت پذیری کا ثبوت دیا ہے لیکن بعد میں چل کر اس اصول کو بھی محض جامد سمجھ لیا گیا۔ قیاس جس فکری جرأت کا متقاضی ہے، اس کی ہمارے دور کے مجتہدین میں افسوسناک کمی ہے۔ اقبال قاضی شوکانی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اجتہاد کی اجازت خود حیات محمدیﷺ میں بھی صحابہؓ کو حاصل تھی، جس کا ثبوت یہ واقعہ ہے کہ معاذؓ کو حاکم یمن مقرر کرتے وقت پیغمبرﷺ نے دریافت کیا کہ تم معاملات کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ اُنھوں نے کہا کتاب خدا کی روشنی میں، پھر دریافت فرمایا اگر کتاب خدا سے کسی معاملے میں ہدایت نہ ملے تو؟ جواب دیا پیغمبر خداؐ کی نظیروں کا اتباع کروں گا۔ سوال ہوا ’’اگر وہاں بھی نہ ملے تو ؟ جواب میں کہا، تب میں اپنے فیصلے پر عمل کروں گا۔‘‘۳۵؎ دور انحطاط میں یہ کہا جانے لگا کہ اب باب اجتہاد بند ہوگیا ہے۔ یہ عذر تقلید اور روایت پرستی کا زائدہ تھا جس نے اسلامی روح کو ترک کر دیا تھا۔ سر خشی نے دسویں صدی میں اس پر تنقید کی تھی۔ اگر باب اجتہاد کے بند ہونے کا اعلان کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ علمائے عہد گزشتہ کو آج کے علما سے زیادہ آسانیاں حاصل تھیں تو یہ محض افسانہ طرازی اور لغویت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بعدوالوں کے لیے علمائے ماسبق کے مقابلے میں اجتہاد آسان تر ہے، کیونکہ احادیث اور تفاسیر کا ذخیرہ روز بروز بڑھتا چلا گیا ہے اور تحقیق کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہ رہی۔۳۶؎ اقبال دور حاضر کی تقلید پرستی پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ بنیادی اصولوں اور نظام ہائے فقہ میں کوئی چیز اجتہاد کو مانع نہیں۔ عہد جدید کے علما نے علم اور تجربے کے ساتھ جرأت مندانہ طور پر اسلام کے افکار کی از سر نو تشکیل کر سکتے ہیں مگر ان کی مصلحت پسندی اور روایت بستگی انھیں اس جرأت کی توفیق نہیں دیتی۔ اقبال کے خیال میں آج انسانیت کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ (۱) کائنات کی روحانی توجیہ (۲) فرد کی روحانی آزادی، اور (۳) انسانی سماج کے روحانی ارتقا کے لیے آفاقی اہمیت رکھنے والے اصول اقبال کے خیال میں یہ دولت صرف اسلام کو حاصل ہے۔ یورپ نے عظیم الشان تصوری نظام ہائے فلسفہ تعمیر کیے مگر یہ تصوریت مغربی زندگی کا غالب عنصر کبھی نہ بن سکی۔ خالص تفکر کسی قوم کے مزاج کو بدل نہیں سکتا۔ اسلام کے پاس تصوریت کی قوت محرکہ پہلے سے موجود تھی، اسی لیے اسی نے اپنے فعالیت اور حرکت پذیری سے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ناممکن نہیں اگر اسلام تشکیل نو کے بعد پھر پہلی ایسی فعالیت کے ساتھ دنیا کی رہنما کر سکے کیونکہ مسلمانوں کے علاوہ اور کسی کے پاس ختم نبوت کی دی ہوئی وہ توانائی نہیں جو روحانی اتحاد پیدا کر سکے۔۳۷؎ اسلام ہی اقبال کے خیال میں ایک ایسا مذہب ہے جو نظری اور عملی دونوں پہلوئوں کو ساتھ لے کر چلتاہے۔ ایک طرف وہ سائنسی مشاہدے اور تجربے کا مبلغ ہے، دوسری طرف عمل کی آزادی اور خلاقیت کا نقیب۔ سائنس کی ترقی نے فکر کی دنیا میں انسان کو اپنے آپ سے متصادم کر دیا اور سیاست و معاشرت میں دوسرے افراد سے اس تصادم پر غلبہ سائنس کے لیے اس واسطے ممکن نہیں کہ وہ مقاصد کا کوئی نظام نہیں دے سکتی۔ مذہب کی اقدار کے تابع ہو کر ہی ان دونوں پہلوئوں میں تطابق پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں نہ تو نفس کائنات کے لیے غیر ہے نہ کائنات نفس کی حریف، اس لیے مذہب ہی خود اجنبیت اور کائناتی اجنبیت کو دور کر کے حقیقت کے تمام پہلوئوں کو دوبارہ متحد و ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم سائنس سے مدد لے سکتے ہیں کیونکہ سائنس کو مقاصد مذہب کے تابع کرنا پڑے گا۔ اسی صورت میں روحانی جمہوریت اور اسلامی اشتراکیت کا نظام دنیا میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلام مغرب کے تصور قومیت کا بھی مخالف ہے اور کسی قوم کی سامراجیت کا بھی۔ اسلام اگر حدود مکاں سے بالاتر ہے تو عرب سامراجیت کے تصور سے بھی ماورا ہے۔ مستقبل میں اسلام کی ترقی کے لیے ضرور ی ہے کہ ہر مسلم قوم اپنے ورثے اور موجودہ تقاضوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی نئی تشکیل کرے، اسی ترقی کے بعد ہی عالم اسلام آزاداور ترقی یافتہ اقوام کی مجلس اتحاد بن سکتا ہے۔ یہ ترقی مادی بھی ہوگی اور روحانی بھی اور مادی اور روحانی آزادی ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔۳۸؎ اقبال نے اسلامی افکار کی تشکیل نو کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ عقلی اور سائنسی ہے لیکن اس کی بنیاد مذہبی عقید ے، خصوصاً توحید کے آزادی بخش اصول پر ہے۔ توحید اپنے روحانی مضمرات اور عملی امکانات کے ساتھ ایسا عقیدہ ہے جو نفس محدود کو نفس لا محدود کی حضوری عطا کرتا ہے۔ یہ حضوری خود احتسابی کی وہ صلاحیت دیتی ہے جو نفس کو اپنے ماضی پر تنقید اور مستقبل کی نئی تعمیر کا اہل بناتی ہے۔اقبال نے فلسفیانہ تصورات کو عقیدے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سائنسی نظر اور رویے سے مدد لی ہے۔ ان کے فلسفے کے ارکان چار ہیں۔ (۱) توحید ، یعنی نفس لا محدود کی خلاقیت و فعالیت پر وہ ایمان جو نفس محدود کو بھی ان اوصاف سے مزین کرتا ہے۔ (۲) کائنات کا حرکی تصور، جس میں زمان و مکان خدا کے اظہارات ہیںاور تخلیقی فعلیت کا آزاد مظہر وہ کائنات کو حقیقی مان کر انسان کی فعلیت اور تخلیقیت کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔ (۳)خودی جو آزاد انسانی انا کی فعالیت کا جدید تصور ہے۔ یہ تصور بے عملی کے تمام میلانات کا رد ہے۔ (۴)اجتہاد کا حرکی اصول، جو اسلامی نظام کو جامد اور زوال آمادہ ہونے سے بچاتا ہے۔ اقبال نے مختلف مغربی فلاسفہ پر جو تنقید کی ہے اس سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور اپنے پیشرو مسلم مفکرین کی جن خامیوں اور ناکامیوں کی طرف اشارے کیے ہیں ان سے بھی صد فیصد اتفاق ممکن نہیں۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ ہم ان کے مخصوص فلسفیانہ تصورات، مثلاً نظریہ زمان سے اختلاف رکھتے ہوں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اقبال سائنس کی ترقی سے یہ غلط امید وابستہ کیے ہوئے تھے کہ اس کے انکشافات انسان کو کائنات کی روحانیت کے تصور کی طرف لے جارہے ہیں۔ اقبال کے زمانے میں جیمر، جینس اور ایڈنگٹن کے جدید طبیعیات کی تحقیقات پر مبنی فلسفیانہ تصورات کافی مقبول تھے۔ اس لیے اُنھوں نے یقینا ان کا اثر قبول کیا ہوگا۔ ان طبعیین کا یہ ادّعا تھا کہ مادہ اپنے آخری تجربے میں توانائی یا دوسرے لفظوں میں روحانی قوت ہے اور جوہر کے اجزائے ترکیبی کی آزادی حرکت ان میں ایک آزاد نفس کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اقبال نے وحی کے عالمگیر ہونے کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیاد بھی اس تصور پر ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خودی اور آزادی کا سرمایہ دار ہے۔ طبیعیات دانوں کے ان محتاج دلیل فلسفیانہ تصورات کو آئن سٹائن ہی نے رد کر دیا تھا جس کے تصور زمان و مکان سے اقبال نے بڑی حد تک استفادہ کیا ہے۔ مسلم اقوام کی بیداری کی بنا پر اُنھوں نے اسلامی اقوام کی برادری اور بین الاقوامیت کا جو تصور پیش کیا تھا، وہ بھی بعد کے برسوں میں بڑھتی اور مضبوط ہوتی ہوئی قومیت کی تحریکوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوگیا۔ ان کے جمہوریت اور اشتراکی معاشرے کے تصورات کو بھی غیر جمہوری اور غیر اشتراکی قرار دے کر رد کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تشکیل جدید کے لیے اُنھوں نے جو تصورات پیش کیے ہیں، ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اقبال نے پہلی بار اسلامی فکر کو تغیر کے انقلاب آفریں تصور اور ارتقا کے روحانی ابعاد سے روشناس کرایا۔ آج بھی مسلم علما میں ایسے عمائدین موجود ہیں جو تغیر کے منکر ہیں یا اسلامی نظام فکر و معاشرت کو تغیر پذیر حالات کے ساتھ بدلنے کے مخالف ہیں۔ اقبال نے اسی جامد ذہن پر ضرب لگائی تھی لیکن تقلید اور قدامت پرستی نے اس ضرب کو سہہ کر جیسے اقبال کے تصورات خودی و عشق سے مسلح ہو کر خود ان کے بعض تصورات کو انھی کے خلاف استعمال کیا۔ ان کی مخالف عقلیت تنقید کو تو اپنا لیا گیا لیکن ان کے نظام فکر کی عقلی بنیاد اور طریقہ کار کو رد کر دیا گیا۔ خود اقبال پرستوں کی اکثریت آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں اُن کے حرکی تصورات اور اجتہاد کی انقلابی ضرورت کی سب سے بڑی حریف ہے۔ اقبال کی شاعری کی جذباتی اپیل نے انھیں اللہ کی رحمت کا تو مسلمانوں کے نزدیک مستحق بنا دیا لیکن ان کی فکر کی اجتہادی عقلیت کو امت کے لیے برکت نہ مانا گیا۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ خود فکر اقبال کے تناقضات سے تفصیلی بحث کی جائے نہ ان کے مثبت اور منفی اثرات مابعد کے جائزے کی گنجائش ہے۔مختصر طور پر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ چند فروعات میں اختلاف کے باوجود ان کے پیش کردہ لائحہ عمل کے بنیادی اصول آج ان کے وقت سے بھی زیادہ لائق توجہ ہیں۔ سرسید اجتہاد کے دروازے سے اس لیے ٹکرا کر رہ گئے کہ ان کے پاس جدید مغربی فلسفے ، تاریخ اور سائنس کے تازہ آلات نہ تھے۔ اقبال کو یہ آلات میسر تھے جن سے اُنھوں نے دروازہ کھول دیا لیکن یہ کشادہ دروازہ آج بھی آنے والوں کو چشم تہی سے تک رہا ہے۔ اقبال نے علمائے دین کے لیے جدید سائنسی اور معاشرتی علوم سے آگاہی کی جو شرط لگائی تھی، وہ اب بھی تشنہ تکمیل ہے۔ ہمارے علما جدید علوم سے بے بہرہ، تغیر کے عمل سے ہراساں اور اسلام کی تشکیل نو میں فرد کی فعال آزادی کے منکر ہیں۔ ہماری وہ نسلیں جو جدید تعلیم سے بہرہ ور ہیں، دین کی روح سے نا آشنا ہیں۔ علما سے خوفزدہ ہیں اور قدامت پسند ی کے اندیشے سے کمزور ہیں۔ جب تک یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک فکر و عمل نہ کریں گے، جدید علم مذہب سے اور مذہب جدید علم سے ہم آہنگ نہ ہو سکے گا۔ اس لیے اسلامی افکار کی تشکیل نو ممکن نہ ہو سکے گی۔ اس تشکیل نو سے وہ جہانِ تازہ پیدا ہو سکتا ہے، جس کی بشارت اقبال نے دی تھی۔ ہم ابھی تک پرانی تعمیر کے سنگ و خشت کو بتوں کی طرح پوج رہے ہیں۔ ہم میں اُس بت شکن جرأتِ فکر کی کمی ہے جو پرانی تعمیر کو ڈھاکر نئی تعمیر کر سکے۔ اقبال میں خود بھی شاید پوری طرح بت شکنی کا حوصلہ نہ تھا، اسی لیے وہ اجتہاد کے چند بنیادی اصولوں سے بحث کر کے تفصیلات سے دامن بچا گئے۔ ان کی تازہ کار فکر قدیم پرستی سے پوری طرح نبردآزما نہ ہوسکی، وہ خود اپنے اجتہادی کارنامے کو مسلم عوام و علما کے سامنے لاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ان کی اُمیدیں جدید تعلیم یافتہ نسل سے وابستہ تھیں لیکن آزادی کے بعد کے حالات نے تقسیم کے دونوں طرف عقلیت کے بجائے رجعت، سائنسی رویے کے بجائے تنگ نظری، ارتقائیت کے بجائے احیا پرستی کے قدم اور بھی مضبوط کر دیے۔ اگر اقبال کے اس کارنامے کی توجیہ و تفسیر بھی کی گئی تو مخالف عقلیت، متعصبانہ تنگ نظری ، علیحدگی پسندی اور محدود قومی تقاضو ں کے تحت ہی کی گئی۔ اقبال کی تشکیل نو کا منصوبہ آزاد، فعال اور خلّاق اسلامی ذہن وعمل کا منتظر ہے۔ اسی کام کے لیے خود اقبال کی تجویز کردہ تشکیل نو کے نظام کی از سر نو تنقید کی ضرورت ہے۔ ئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات 1- Reconstuction of Religious Thought in Islam, Oriental And Distributers, Delhi, 1975, p. 8 2- Ibid. p.43 3- Ibid. p. 160 4- Ibid. p. 56 5- Ibid. p. 35 6- Ibid. p. 53 7- Ibid. p. 40 8- Ibid. p 40, 41 9- Ibid. p. 121 10- Ibid. p. 40 11-Ibid. p 38 12- Ibid. p. 77 13 -Ibid. p. 93 14- Ibid. p. 105 15-Ibid. p. 108 16- Ibid. p. 110 17-Ibid. p. 109 18- Ibid. p. 116, 123 19-Ibid. p. 85 20- Ibid. p. 18, 28 21-Ibid. p. 124 22- Ibid. p. 125 23-Ibid. p. 123 24- Ibid. p. 121 25-Ibid. p. 143 26- Ibid. p. 140, 141 27-Ibid. p. 143 28- Ibid. p. 151 29-Ibid. p. 152 30- Ibid. p. 152 31-Ibid. p. 153 32- Ibid. p. 165 33-Ibid. pp. 148, 149 34- Ibid. pp. 165, 178 35-Ibid. p. 191 36- Ibid. p. 178 37-Ibid. p. 179 38- Ibid. p. 160 /…/…/ اردو غزل کی روایت اور اقبال شمس الرحمن فاروقی اقبال کی غزل کا مطالعہ اگر اصنافِ سخن کی قسمیات (Typology) کے نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمیں کسی دوسرے اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ تقریباً ہر صنفِ سخن اپنی جگہ پر بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر قماش (pattern) کا حصہ ہوتی ہے اور اس لیے کسی بھی صنفِ سخن کی ایسی تعریف ممکن نہیں جو ہر طرح سے جامع اور مانع ہو۔ لیکن غزل کے ساتھ یہ صورتِ حال کچھ زیادہ شدید ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں، ایک کا تعلق غزل کی روایت سے ہے اور ایک کا غزل کی تنقید سے۔ اوّل تو یہ کہ غزل میں ہمارے یہاں شروع ہی سے ہر طرح کا مضمون بیان ہوتا رہا ہے اور دوسری یہ کہ عام طور پر ہم غزل کا تصور جریدہ اشعار کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پوری پوری غزلوں کا تصور ہمارے ذہن میں شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ یہ دو وجہیں آپس میں متضاد ہیں۔ اس معنی میں کہ ایک طرف تو غزل کے مضامین لامحدود ہیں، لہٰذا کوئی بھی شعر غزل کا شعر ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ہم تنہا اشعار کی روشنی میں غزل کا مزاج متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب کا مطلع ہے : جادئہ رہ خور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع چرخ وا کرتا ہے ماہِ نور سے آغوشِ وداع اس کے بارے میں طبا طبائی نے لکھا ہے کہ اس شعر میں غزلیت کچھ نہیں، قصیدے کا مطلع تو ہو سکتا ہے۔ طباطبائی کے اس فیصلے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس شعر کا خیال بہت دقیق ہے، لیکن اس میں کوئی لطف نہیں۔ یعنی شعر کی بنیاد جس منطق پر ہے وہ شاعرانہ نہیں لیکن اگر ایسا ہے تو خود غالب نے اپنے ایک شعر کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں خیال تو ہے بہت دقیق، لیکن لطف کچھ نہیں، یعنی کوہ کندن و کاہ برآوردن۔ طباطبائی نے اس کے بارے میں کیوں نہیں کہا کہ اس شعر میں غزلیت نہیں ہے اور یہ قصیدے کا مطلع ہو سکتا ہے : قطرئہ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا خطِ جامِ مے سرا سر رشتۂ گوہر ہوا ممکن ہے طباطبائی نے مندرجہ بالاشعر کو اس لیے قابلِ اعتراض نہ سمجھا ہو کہ اس میں مے خواری اور حیرت کے مضمون ہیں اور یہ مضامین غزل کے رسمی دائرے میں داخل ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو پھر مندرجہ ذیل شعر کو بھی غزل کا نہیں بلکہ قصیدے کا مطلع سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس کی بلند آہنگی اور تقریباً جارحانہ عدمِ انفعالیت اور تحکمانہ انداز (یعنی ایسی صورتِ حال جس میں انسان مجبور و محکوم ہونے کے بجائے کائنات پر حاوی نظر آئے) یہ سب چیزیں غزل کے رسمی دائرئہ مضامین سے خارج کہی جا سکتی ہیں۔ شعر یہ ہے : بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کلامِ غالب سے بے تکلف حاصل کی ہوئی ان مثالوں کو یہ کہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے کہ غالب خود ہی اردو غزل کی روایت کے باہر ہیں۔ طباطبائی کے فکری تضادات جو بھی ہوں، لیکن ان تضادات کو غالب کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ غالب کو اردو غزل کی روایت سے باہر قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اب بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اسے تسلیم کریں گے۔ آج کے انتہائی قدامت پرست شخص کی طرف سے بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کی غزل میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اردو غزل کی روایت میں موجود نہ تھیں۔ اب غالب نے ان کو غزل میں استعمال کر لیا تو وہ باتیں بھی غزل کی روایت کا حصہ بن گئیں۔ لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اب اکثر لوگ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غزل کے مضامین لامحدود ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے دو معنی ہیں۔ اوّل تو یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو چکا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ غالب کے مندرجہ بالا شعر، غزل کی روایت میں شامل نہیں ہیں اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اگرچہ وہ مضامین جن پر ان اشعار کی اساس ہے، وہ غزل کی روایت میں شامل نہیں تھے، لیکن اب جب غالب نے ان کو استعمال کر لیا تو پھر یہ غزل کی روایت کا حصہ بن گئے۔ تو کیا پھر غزل کی روایت کوئی ماورائی وجود رکھتی ہے؟ یعنی یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے کسی نے خلق نہیں کیا یا جو غزل کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھی؟ میرا خیال ہے کہ اردو کی حد تک ان سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے۔ ہم لوگ جب اردو غزل کی روایت سے بحث کرتے ہیں تو ہماری نگاہ عام طور پر دلّی سے آگے نہیں جاتی۔ حالانکہ قدیم اردو یعنی دکنی میں ولیؔ سے کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے سے غزل موجود تھی۔ جب قدیم اردو کے شعرا نے غزل لکھنی شروع کی تو ان کے سامنے فارسی کی روایت تھی اور ہندستانی ادب کی روایت تھی۔ ان دونوں روایتوں پر وہ ذہن کارفرما ہوا جو بیک وقت ہندستانی بھی تھا اور غیر ہندستانی بھی۔ اس ذہن کے ذریعے اور ان روایات کے امتزاج و تصادم کے نتیجے میں جو غزل وجود میں آئی، وہ نہ صرف ایرانی غزل سے مختلف ہے بلکہ اپنے زمانے کے ہندستانی ادب سے بھی مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جن ذہنوں نے یہ غزل خلق کی ہو گی، ان کے سامنے ادب، شاعری اور غزل کے بارے میں واضح یا غیرواضح کچھ تصورات و مفروضات تو رہے ہوں گے اور ان ہی کی روشنی میں انھوں نے ایسی غزل خلق کی ہو گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان غزلوں میں مضامین و موضوعات کے علاوہ تصورات اور رویوں کی بھی فراوانی ہے۔ تصوف، موعظت، عام زندگی پر اظہارِ رائے، اخلاق و نصیحت، عشق کی خودسپردگی، انسان کی بلندی اور بے چارگی، جنس و لذاتِ جسمانی، ان سب باتوں پر مبنی اشعار کے ساتھ ساتھ عاشق کے کردار میں تنوع، عورت یا مرد کے بجائے مرد کا معشوق ہونا، معشوق کا عاشق کے ناز اٹھانا، یہ سب باتیں موجود ہیں۔ ان غزلوں میں شاعر معلمِ اخلاق سے لے کر آوارئہ شہر و صحرا اور رسواے زمانہ تک ہر رنگ میں نظر آتا ہے۔ اردو غزل کی یہ روایت پس منظری علم کی حیثیت سے ہمارے تمام شاعروں کے ساتھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بانگِ درا کے حصۂ غزلیات میں آخری غزل حسبِ ذیل ہے: گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لَایُخْلِفُ المیْعَاد رکھ یہ لسان العصر کا پیغام ہے اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ یاد رکھ اگر ان اشعار کی ترتیب حسبِ ذیل کر دی جائے: اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لَایُخْلِفُ المیْعَاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ یہ لسان العصر کا پیغام ہے اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقُّٗ یاد رکھ تو گمان گزر سکتا ہے کہ یہ غزل نہیں، بلکہ قطعہ یا نظم ہے۔ چونکہ پہلے شعر میں مسلمان سے خطاب ہے، لہٰذا آسانی سے فرض کیا جا سکتا ہے کہ بقیہ اشعار کا مخاطب بھی وہی مسلمان ہے اور اس طرح چاروں اشعار میں ربط پیدا ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ قطعہ بھی غزل کا حصہ ہو سکتا ہے اور چونکہ قطعہ ایک طرح کی نظم ہوتا ہے لہٰذا اس منظومے کی حد تک نظم و غزل برابر ہیں اور اس لیے مندرجہ بالا اشعار کی بدلی ہوئی ترتیب کے باوجود، ہمیں انھیں غزل کہنا ہی پڑے گا۔ اگر شاعر نے ان پر ’غزل‘ کا عنوان قائم کیا ہو، جیسا کہ اس وقت ہے تو اسے غزلِ مسلسل کہہ سکتے ہیں۔ مسلسل غزل کے وجود سے ہم سب واقف ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی ہو، لیکن ان اشعار میں غزل کا مزاج نہیں نظر آتا۔ ان کا لہجہ خطابیہ اور موعظانہ ہے، لیکن اس طرح ہم پھر اسی چکر میں پھنس جائیں گے کہ اگر غزل کے مضامین لامحدود ہیں تو پھر ان مضامین کو ہم غزل سے خارج کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ غزل کے مضامین لامحدود ہوں گے، لیکن غزل کا ایک خاص لہجہ ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مفروضے کی رُو سے غالب کے بھی وہ اشعار غزل سے خارج ہو جاتے ہیں جو میں نے شروع میں نقل کیے ہیں۔ غالب کو جانے دیجیے، خطابیہ اور موعظانہ لہجے کے اشعار متاخرین تک ہر غزل گو کے یہاں مل جائیں گے۔ دوچار شعر جو اس وقت سامنے ہیں، آپ بھی سن لیجیے : کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے ناگوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں زہر پی کر مزئہ شیر و شکر لیتا ہے (آتشؔ) نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا (ذوقؔ) بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا (ذوقؔ) کاسۂ چینی پہ اے منعم، نہ کر اتنا غرور ہم نے دیکھا ٹھوکریں کھاتے سرِ فغفور کو (ناسخؔ) ناسخؔ نہ ہو جیو مگس خوانِ اغنیا سنتا ہوں یہ سخن لبِ نانِ جویں سے میں (ناسخؔ) کریم وہ بہ تواضع کرم جو کرتے ہیں ثمر نہڑ ہی کے دے ہے جو ُپر ثمر ہے شاخ (سودا) آدمی ہے تو بہم آپ میں پہنچا کچھ فضل ورنہ بدنام نہ کر تو نسبِ آدم کو (سودا) انیسویں صدی کا آخر آتے آتے ہم لوگوں میں یہ خیال عام ہوا کہ غزل میں موعظانہ اور اخلاقی مضامین کے لیے جگہ نہیں۔ اقبال ہماری قدیم تر روایت سے آگاہ تھے، اس لیے انھیں ایسے مضامین کو باندھنے میں کوئی تکلف نہ تھا۔ غزل میں ’’غیرفاسقانہ‘‘ مضامین کی قدر شکنی کا آغاز حسرت موہانی سے ہوتا ہے۔ حسرت موہانی نے اقبال پر اعتراض کیے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ لیکن متفرق اشعار کی بنا پر غزل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں وہی قباحت ہے، جس کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں۔ اکیلا شعر چاہے وہ کتنا ہی اچھا یا کتنا ہی خراب یا کتنا ہی انوکھا کیوں نہ ہو، پوری غزل نہیں ہوتا۔ اوپر جو اشعار میں نے نقل کیے ہیں، ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ غزل میں اس طرح کے اشعار کی گنجائش ہے، لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غزل ایسے ہی اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ غزل ایسے اشعار پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ سودا، میر اور انشا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جنھیں اینٹی غزل کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔ حامد کاشمیری نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں یگانہؔ نے کئی غزلیں اینٹی غزل کے انداز میں کہی ہیں۔ اخلاقی یا مذہبی مضامین پر مشتمل غزلیں ذوقؔ اور میر کے یہاں موجود ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں اقبالؔؔ کی زیرِ بحث غزل کو غزل کے طور پر قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ اس طرح کی غزلوں کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اقبالؔؔ نے ہماری غزل کی روایت میں کوئی اضافہ کیا۔ اگر ایسا ہے تو میں نے شروع میں یہ کیوں کہا کہ اقبالؔؔ کی غزل کے مطالعے کے وقت ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جن کا سامنا ہمیں دوسرے غزل گویوں کے یہاں نہیں کرنا پڑتا؟ اس کی وضاحت کے لیے اصنافِ سخن کی شعریات پر پچھلے ساٹھ برس میں جو کام مغرب میں ہوا ہے، اس کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ اس کام میں تین مکاتبِ فکر کا حصہ ہے۔ سب سے پہلے تو روسی ہیئت پرست (یہاں میں ہیئت پرست کسی برے معنی میں نہیں استعمال کر رہا ہوں) پھر فرانسیسی و ضعیاتی نقاد (Structuralists) اور پھر بعد وضعیاتی نقاد جن پر جرمن Phenomenology of Reading کا بھی اثر ہے۔ مثال کے طور پر وکٹر شکلا وسکی (Shklovsky) نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی صنفِ سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی یعنی کوئی فن پارہ ایسا نہیں ہے جس میں اس کی صنف کے تمام خواص پوری طرح نمایاں ہوں، لیکن کسی فن پارے کو دیکھ کر ہم عام طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی صنف کا رکن ہے۔ روسی ہیئت پرستوں کا خیال تھا کہ اصناف کا مطالعہ اس نظام کے باہر ممکن نہیں ہے جس میں اور جس کے ساتھ ان کا باہمی رشتہ ہوتا ہے، یعنی ہر صنف کی تعریف اس ربط اور رشتے کی روشنی میں ہونی چاہیے جو اس صنف اور دوسری اصناف کے درمیان ہے، نہ کہ کسی مقررہ فن پارے کی روشنی میں۔ یہ خیال سب سے پہلے یوری ٹائنیا ناف (Tynianov) نے پیش کیا تھا۔ اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے رومان یاکبسن کا مشہور قول ہے کہ ادبی مطالعے کا مقصود ادب نہیں، بلکہ ادب پن (Literariness) ہے۔ یعنی وہ کیا چیز ہے جو کسی مقرر فن پارے کو ادب بناتی ہے۔ اس تصور کی روشنی میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ کوئی کلام غزل ہے کہ نہیں۔ اس کا تعین صرف ایک غزل یا اس کے چند اشعار کے حوالے سے نہیں بلکہ دوسری اصناف سے اس کے رشتوں کو لحاظ میں رکھتے ہوئے ہونا چاہیے۔ زویتان ٹاڈاراف (Tzvetantodorov) نے بہت عمدہ بات کہی ہے کہ ہر عظیم کتاب دو اصناف کا وجود قائم کرتی ہے۔ ایک تو اس صنف کا جس کی حدود کو وہ توڑتی ہے اور دوسرے اس صنف کا جو وہ خلق کرتی ہے۔ ٹاڈاراف کا کہنا ہے کہ صرف مقبولِ عام ادب، مثلاً جاسوسی ناول کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس صنف کا ہر فرد اپنی صنف کا پورا پورا نمائندہ ہوتا ہے۔ بقول ٹاڈاراف ’’عام قاعدہ یہ ہے کہ ادبی شاہ کار کسی بھی صنف کا نمایندہ نہیں ہوتا، سوائے اپنی صنف کے۔ لیکن مقبولِ عام ادب کا شاہ کار کلیتاً وہی ہوتا ہے جو اپنی صنف پر بالکل ٹھیک اترتا ہے۔‘‘ نئے اصناف کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی ایسے عنصر کے گرد تعمیر کیے جائیں جو پچھلی صنف کے لیے لازمی رہا ہو۔ ٹاڈاراف کہتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی تنقید اصناف کی منطقی تقسیم کی ناکام کوشش میں سرگرداں رہی۔ وہ مزید کہتا ہے کہ کسی فن پارے کی صنف کا تعین کرنے میں یہ بات بھی بہت اثرانداز ہوتی ہے کہ خود مصنف نے اسے کس صنف میں رکھا ہے کیوں کہ مصنف کی تقسیم ہم پر اثرانداز ہوتی اور ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مصنف اس فن پارے میں ہم سے کس طرح کا ذہنی استجاب (mental response) چاہتا ہے۔ جیسا کہ جانتھن کلر (Jonathan Culler) نے کہا ہے کہ صنف کا تصور قاری کے ذہن میں ایک معیار یا ایک توقع پیدا کرتا ہے اور اس معیار یا توقع کے ذریعے قاری کو متن کا سامنا کرنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر ’’ناول‘‘، ’’افسانہ‘‘، ’’غزل‘‘ وغیرہ لکھا ہوا دیکھ کر، ایک طرح قاری کے ذہن کی programming ہو جاتی ہے اور فن پارے کے ابعاد کو گرفت میں لانا اس کے لیے نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ کلر نے خوب کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ المیے اور طربیے کا وجود ہے، اس وجہ سے نہیں کہ ان کے محتویات میں کوئی نمایاں فرق ہوتا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ہم سے الگ الگ طرح کے مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا خیالات کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اگرچہ اقبالؔؔ نے اردو غزل کی روایت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، کیوں کہ اخلاقی، فلسفیانہ، بلند آہنگ لہجے والے مضامین تو اردو غزل میں پہلے سے موجود تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے غزل کی صنف کو ایک نیا موڑ ضرور دیا۔ اس معنی میں انھوں نے اپنی غزل جن عناصر کے گرد تعمیر کی وہ ان سے پہلے کی غزل کا لازمی حصہ نہ تھے۔ ان عناصر کو مرکزی یا تقریباً بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے اقبال نے یہ بات ثابت کر دی کہ کوئی صنفِ سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی۔ انھوں نے غزل اور نظم کے رشتوں، غزل اور قصیدے کے رشتوں میں تبدیلی پیدا کی اور ہمیں ان مسائل پر ازسرِ نو غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اقبال نے ہمیں اس بات سے آگاہ کیا کہ غزل اور قصیدے کے درمیان کوئی ایسی حدِ فاصل نہیں جسے واجب و لازم سمجھا جائے، لہٰذا اقبال کی غزل کا مطالعہ کرتے وقت پہلی مشکل تو یہ پیش آتی ہے کہ ہمیں غزل اور قصیدہ، دونوں کے بارے میں اپنے تصورات پر نظرِ ثانی کرنی پڑتی ہے۔ اقبال کی شروع کی غزلوں پر داغؔ کے اثر کا مفروضہ ہم لوگوں نے صرف اسی لیے عام کیا ہے کہ اقبال نے غزل کے نام نہاد لہجے سے جس طرح انحراف کیا، اس کے لیے کوئی جواز اور کوئی نقطۂ آغاز تلاش ہو سکے۔ ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بانگِ درا میں اقبال کی پہلی غزل: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی نہیں ہے، بلکہ: گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے۔اور یہ غزل داغؔ کے لہجے اور مضامین سے قطعی متغائر ہے، لہٰذا اقبال کی غزل کے مطالعے میں پہلا مسئلہ جس سے ہم دوچار ہوئے ہیں، یہ ہے کہ اس کا سلسلہ کسی بھی اسکول پر منتہی نہیں ہوتا، لیکن اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ملتی جسے ہم اردو غزل کی روایت سے قطعاً خارج قرار دیں۔ یعنی یہ غزل ہمیں اردو غزل کی روایت پر ازسرِنو غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہماری غزل کی روایت کے محاکمے میں خلطِ مبحث کی زیادہ تر ذمہ داری امداد امام اثر، آزاد اور حالی پر ہے۔ اثر میں تو تنقیدی شعور بہت کم تھا، حالی پر اصلاحی جوش غالب تھا، لیکن محمد حسین آزاد میں تاریخی شعور کی کمی تھی اور چونکہ محمد حسین آزاد کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ قدیم اصولوں کے مزاج داں تھے، اس لیے ان کے خلطِ بحث نے اس معاملے کو حالی اور اثر سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ آزاد کا خیال تھا کہ شعر کے اسالیب اور شاعری کی روایت میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ روایت دراصل وہ ڈھانچا ہوتی ہے جس کے گرد اسلوب تیار کیا جاتا ہے لہٰذا اسلوب بدلنے سے ڈھانچا نہیں بدلتا۔ دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انھوں نے ان چیزوں کو بھی متروک و منسوخ سمجھ لیا جو دراصل رائج تھیں۔ چنانچہ غلام مصطفی خاں یک رنگ کے چند شعر نقل کر کے کہتے ہیں : خدا جانے ان باتوں کو سن کر ہمارے شایستہ زمانے کے لوگ کیا کہیں گے، کچھ تو پروا بھی نہ کریں گے اور کچھ واہیات کہہ کر کتاب بند کر دیں گے… میرے دوستو! غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمھارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے، کل اوروں کے سامنے یہی تمھارے کلام کا حال ہونا ہے۔ ایک وقت میں جو بات مطبوعہ خلائق ہو، یہ ضرور نہیں کہ دوسرے وقت میں بھی ہو۔ اس کے پہلے پرانی زبان کا ذکر کرتے ہوئے آزاد کہتے ہیں: آج اس وقت کی زبان کو سن کر ہمارے ہم عصر ہنستے ہیں لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہِ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ آج تم ان کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمھاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس طرح کے خیالات پر وکٹوریائی عہد کے اس مفروضے کی غلط پرچھائیں ہے کہ ہر نیا خیال ہر پرانے خیال سے بہتر ہوتا ہے۔ وکٹوریائی مفکروں نے بھی اس مفروضے کو زبان اور اسلوب اور روایت پر جاری نہیں کیا تھا لیکن ان کے ہندستانی زلّہ رُوبائوں نے اسے یہاں بھی جاری کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے سمجھا روایت بدلتی رہتی ہے اور ہر نئی روایت ہر پرانی روایت کو منسوخ کرتی ہے۔ اس غلط خیال کی روشنی میں ہم لوگوں نے اردو غزل کی روایت سے وہ غزل مراد لی جو اقبال کے فوراً پہلے رائج تھی اور پھر یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال کی غزل ہماری روایت سے منحرف ہے۔ حالانکہ اقبال کا انحراف صرف اتنا تھا کہ جو موضوعات اور لہجے پرانی غزل میں رائج تھے، لیکن انھیں مرکزی عنصر کی اہمیت حاصل نہ تھی، اقبال نے انھیں مرکزی عنصر کی طرح برتا، مثلاً غزل میں عربی فقرے ڈالنا اور قرآن کے حوالے دینا اقبال کی ایجاد نہیں۔ لیکن ان چیزوں کو احساس یا تجربے کے اظہار کے بجائے فکر کے اظہار کے لیے استعمال کرنا، جو متقدمین کے یہاں کہیں کہیں نظر آتا ہے، اقبال کے یہاں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار شعر کی بلامطلع غزل جو میں نے اوپر بانگِ درا کے حوالے سے نقل کی ہے، اس صفت سے متصف نظر آتی ہے۔ لیکن اقبال کی غزل کا مطالعہ جس دوسری مشکل سے ہمیں دوچار کرتا ہے، اس کا تصفیہ اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ مصنف اپنی تصنیف کو کس صنف میں رکھتا ہے، کیوں کہ اس سے آپ کو مصنف کی طرف سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ آپ سے اس تصنیف کے بارے میں کس قسم کے response کی توقع کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ایک حیران کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ بڑے غزل گو کی حیثیت سے اقبال کی شہرت جس کلام پر ہے وہ تقریباً سارے کا سارا بالِ جبریل میں ہے۔ ان میں سے بعض حسبِ ذیل ہیں: ۱- میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں ۲- اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا ۳- گیسوے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر ۴- اثر کرے نہ کرے، سن تو لے مری فریاد ۵- پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے ۶- اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں ۷- وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں ۸- عالمِ آب و خاک و باد سرِّ عیاں ہے تو کہ میں ۹- پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دَمن ۱۰- ہر چیز ہے محوِ خود نمائی ۱۱- ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۱۲- حادثہ وہ جو ابھی پردئہ افلاک میں ہے ان میں سے ایک تا پانچ بالِ جبریل کے پہلے حصے میں ہیں اور چھہ تا بارہ دوسرے حصے میں۔ پہلے حصے سے میری مراد ہے شروع کا وہ کلام جس پر ایک تا سولہ نمبر پڑے ہیں اور دوسرے حصے سے میری مراد ہے نمبر سولہ کے فوراً بعد کا وہ کلام جو سنائی والے قصیدے (نظم/غزل) سے شروع ہوتا ہے اور جس پر پھر ایک نمبر سے شروع ہو کر ۶۱ تک نمبر پڑے ہیں۔ ان میں کسی پر ’’غزل‘‘ کا عنوان نہیں دیا گیا ہے بلکہ پوری بالِ جبریل میں کوئی بھی کلام ایسا نہیں جس پر غزل کا عنوان قائم کیا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال عنوان دینا بھول گئے ہوں کیوں کہ اس کلام کے علاوہ جس پر صرف نمبر ہیں، بال جبریل کے ہر مشمول پر ’‘قطعہ‘‘، ’’رباعی‘‘ یا نظم کا عنوان لکھا ہوا ہے۔ صرف دو ’’رباعیاں‘‘ ایسی ہیں جو حصۂ اوّل کے نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے بلاعنوان درج ہیں۔ یہاں میں اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ اپنے جس کلام کو اقبال نے رباعی کہا، وہ رباعی ہے کہ نہیں، فی الحال مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بالِ جبریل کے جس کلام میں سے ہم اقبال کی غزلیں برآمد کرتے ہیں، ان پر اقبال نے غزل کا عنوان نہیں دیا ہے۔ مزید یہ کہ انھوں نے اپنی تمام ’’رباعیات‘‘ پر رباعی کا عنوان لگایا ہے۔ سوائے ان دو کے جو نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے درج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ایک تا سولہ اور پھر ایک تا اکسٹھ نمبر شدہ کلام کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ اسے غزل کی طرح نہ پڑھا جائے۔ حصۂ اوّل کا نمبر پانچ تو غزل کی ہیئت میں بھی نہیں ہے کیوں کہ اس کا آخری شعر: کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو بقیہ اشعار کی زمین میں نہیں ہے اور مطلع کی ہیئت میں ہے۔ اس کے بعد جو رباعی درج ہے، وہ حسبِ ذیل ہے : دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر حریمِ کبریا سے آشنا کر جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوے حیدر بھی عطا کر اوپر کے اشعار سے اس کا ربط ظاہر ہے لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ اقبال کی نظر میں نمبر پانچ کے تحت درج شدہ اشعار اور یہ رباعی دونوں مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔ نہ وہ اِس سے الگ ہے اور نہ یہ اُس سے الگ ہے۔ ممکن ہے اقبال کا یہ عندیہ ان کے تحتِ شعور میں رہا ہو، لیکن یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایسی نظم کو، جو غزل کی ہیئت ہی میں نہیں ہے، اقبال نے غزل نہ سمجھا ہو گا اور چونکہ صرف دو نمبر ایسے ہیں جن کے نیچے ایک ایک رباعی درج ہے اور ان کے علاوہ ہر رباعی پر ’رباعی‘ کا عنوان لکھا ہوا ہے، اس لیے ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اقبال نے یہ رباعیاں ان ہی جگہوں پر اور بلاعنوان کیوں درج کیں؟ نمبر پانچ کے بارے میں تو میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کی رباعی اور دیگر اشعار میں مضمون کا ربط ہے، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ اب نمبر دو کو دیکھیے۔ اس کا مطلع ہے: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا سب اشعار میں اس قدر ربط ہے کہ غزلِ مسلسل یا نظم کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ سب میں خدا کے ساتھ ایک عاشقانہ محبوبانہ challenge کا رویہ ہے۔ اس کے نیچے رباعی حسبِ ذیل ہے : ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے اس کا بھی ربط اوپر گزرنے والے اشعار سے ظاہر ہے۔ اس لیے یہاں بھی میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اقبال کی نظر میں نمبر دو کے اشعار اور یہ رباعی مل کر ایک مکمل نظم بناتے ہیں۔۱ ؎ دوسرے حصے میں پہلا نمبر سنائیؔ والی مشہور نظم (قصیدہ… غزل؟) ہے۔ اقبال اِس کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ چند افکارِ پریشاں، جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روزِ سعید کی یادگار میں سپردِ قلم کیے گئے۔ ماازپئے سنائی و عطار آمدیم۔ ____________________ ۱۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مقالے کے آخر میں دیکھیے، ’استدراک‘۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اگرچہ لہجے اور مضامین کے اعتبار سے اس تحریر میں اور اقبال کی ان تحریروں میں کوئی خاص فرق نہیں، جنھیں ہم غزل کہتے ہیں اور اس تحریر میں بھی اشعار اسی طرح بے ربط ہیں جس طرح غزل میں ہوتے ہیں، لیکن اقبال نے اسے قصیدہ، غزل، نظم کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے، صرف نمبر ایک ڈال دیا ہے، لہٰذا اگر ہم اس حصے کی دوسری تحریروں کو غزل کہتے ہیں تو ہمیں اس منظومے کو بھی غزل کہنا ہو گا اور اگر ہم اس منظومے کو غزل نہیں کہتے تو اقبال کے عندیے کی روشنی میں بقیہ نمبروں کو بھی غزل کہنا ذرا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اقبال نے زبورِ عجم میں بھی منظومات پر صرف نمبر لگائے ہیں اور ہم انھیں غزل فرض کرتے ہیں۔ حالانکہ زبورِ عجم کے مشمولات میں مندرجہ ذیل چیزیں ایسی ہیں جو غزل کے دائرے میں مشکل ہی سے آئیں گی۔ حصۂ اوّل میں نمبر ایک صرف ایک شعر ہے۔ نمبر ۲۸، ۴۰ اور ۴۳ صرف دو دو اشعار ہیں۔ حصۂ دوم میں نمبر ایک، دو، سات، ۴۱، ۶۰، ۶۴ اور ۷۴ صرف دو دو اشعار ہیں۔ ان میں سے کسی پر عنوان نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کتاب میں عنوان سرے سے نہیں ہیں۔ اوّلین دو منظومات پر بالترتیب حسبِ ذیل عنوان ہیں۔ (۱) ’نجوانندئہ کتاب زبور‘ اور ’دعا‘۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اگر زبورِ عجم کے دیگر مشمولات پر کوئی عنوان نہیں دیا اور غزل نما نیز نظم نما ہر طرح کے کلام کو صرف نمبر کے ذریعے الگ کیا، لیکن دو مشمولات پر عنوان دیا تو ظاہر ہے کہ اقبال کی نظر میں نظم اور غزل کا فرق بے معنی تھا یا وہ اس کلام کو بھی جسے ہم غزل کی طرح پڑھتے ہیں، نظم کی طرح پڑھا جانا پسند کرتے تھے۔ بالِ جبریل کی ایک مشہور نظم ’زمانہ‘ میں اس صورتِ حال کا ایک اور پہلو نظر آتا ہے۔ نظم کے پہلے پانچ اشعار آپس میں مربوط ہیں اور عنوان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ چھٹے شعر میں ’’مغربی افق‘‘ کا ذکر آتا ہے جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا: شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوے خوں ہے، یہ جوے خوں ہے طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ لیکن چونکہ شعر میں ’طلوعِ فردا‘ اور ’دوش و امروز‘ کا بھی ذکر ہے، اس لیے اسے کھینچ تان کر موضوع سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصل مشکل اگلے شعر سے پیدا ہوتی ہے جب مغربی تہذیب کی تنقید اور اس کے زوال کی پیشین گوئی شروع ہوتی ہے جو نظم کہ وقت کا فلسفہ یا وقت کی اصلیت پر بعض تصورات کے بیان سے شروع ہوئی تھی، اب عہدِ حاضر کے ایک مسئلے کی طرف مڑ جاتی ہے جس کا نفسِ موضوع سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا آخری شعر ان دونوں معاملات سے بالکل الگ کسی مردِ درویش (شاید اقبال) کی ثنا کرتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ، جو بقیہ تمام اشعار کا متکلم تھا، اس شعر کا بھی متکلم ہے کہ نہیں: ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ اس منظومے پر اگر ’زمانہ‘ عنوان نہ ہوتا تو اسے غزل فرض کرنے میں کسی کو کوئی مشکل نہ ہوتی۔ یہی حال ’لالۂ صحرا‘ کا ہے، جس کے اشعار میں ربط ثابت کرنے کے لیے قاری کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کلیم الدین صاحب کو کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اقبال کو مربوط نظم کہنے کا فن نہ آتا تھا لیکن اب تک جو شواہد بیان ہوئے، ان کی روشنی میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال کو نظم اور غزل میں امتیاز کی چنداں فکر نہ تھی یا پھر یہ کہا جائے کہ اقبال اپنے بعض منظومات کے بارے میں یہ چاہتے تھے کہ انھیں نظم اور غزل دونوں سمجھا جائے یا انھیں نظم اور غزل سے مختلف کوئی تیسری چیز سمجھا جائے۔ یہاں ٹاڈاراف کا قول پھر یاد آتا ہے کہ بڑی تخلیق دراصل دو اصناف کا وجود ثابت کرتی ہے۔ ایک تو اس صنف کا جس کی حدوں کی وہ شکست و ریخت کرتی ہے اور دوسرا اس صنف کا جو وہ خلق کرتی ہے۔ ضربِ کلیم میں اقبال نے عنوان کا التزام رکھا ہے، لیکن جن منظومات پر انھوں نے ’غزل‘ لکھا ہے، ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے جان بوجھ کر نظم نما غزلوں پر غزل کا عنوان لگایا ہے۔ صرف پانچ غزلیں ہیں اور مشہور ترین غزل سب سے آخر میں ہے: دریا میں موتی، اے موجِ بے باک ساحل کی سوغات، خار و خس و خاک ان میں وہ انکشافی لہجہ نہیں ہے جو بالِ جبریل کے اکثر نمبروں میں ہے لیکن انکشافی لہجہ تو ضربِ کلیم ہی میں نہیں ہے۔ ہاں ضربِ کلیم کے اسلوب کی شدید جز رسی (economy) یہاں بھی نمایاں ہے۔ ’محرابِ گل افغان کے افکار‘ میں پھر نمبر ہیں اور ان میں بھی بعض منظومات غزل کی ہیئت میں ہیں۔ اگر بالِ جبریل کے ان نمبروں کو جو غزل کی ہیئت میں ہیں، غزل فرض کیا جائے تو سنائیؔ والے منظومے کے علاوہ ’محراب‘ کے بھی بعض منظوموں کو غزل فرض کرنا ہو گا۔ یہی عالم ارمغان حجاز میں شامل ’ملا زادہ ضیغم لولابی کا بیاض‘ کے مشمولات کا ہے۔ اقبال میں جہاں بہت سی بڑائیاں ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں کوئی قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ قاعدہ تو بن سکتا ہے لیکن اس سے قاری کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس معاملے میں وہ میر اور شیکسپیئر کے ساتھ ہیں۔ (تحریر ۱۹۸۵ئ)، بحوالہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟ مکتبہ جامعہ دہلی، ۱۹۹۳ء /…/…/ استدراک محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ بالِ جبریل میں کوئی بھی کلام ایسا نہیں ہے، جس پر غزل کا عنوان قائم کیا گیا ہو مگر انھوں نے حصۂ اوّل کے نمبر پانچ ’کیا عشق ایک زندگی…‘ اور اس کے نیچے درج ایک رباعی ’دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر‘ کے درمیان ربط کی طرف جو اشارہ کیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ اس طرح حصۂ اوّل کے نمبر دو ’اگر کج رو ہیں انجم…‘ کے تحت رباعی ’ترے شیشے میں…‘ سے وہ یہ فرض کرنے میں حق بجانب نہیں کہ ’’اقبال کی نظر میں نمبر دو کے اشعار اور یہ رباعی مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔‘‘ یہ غلطی اور غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم بالِ جبریل کے رائج الوقت نسخوں کو بنیاد بناتے ہیں۔ ان رائج الوقت نسخوں (پاکستان میں مطبوعہ ہوں یا بھارت میں) میں ترتیبِ کلام ۱۹۷۳ء کے شیخ غلام علی اڈیشن کے مطابق ہے۔ ساری گمراہی یہیں سے پھیلی اور اسی سے فاروقی صاحب کو بھی غلط فہمی ہوئی (ظاہر ہے، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے)۔ قصہ یہ ہے کہ اقبال صدی (۱۹۷۳ء اور بعدازاں ۱۹۷۷ئ) کی آمد کا غلغلہ بپا ہوا تو کلامِ اقبال کے ناشر کو ’’جدید کتابت و طباعت‘‘ کی ضرورت درپیش ہوئی کیوں کہ جن پلیٹوں سے اب تک کلامِ اقبال چھپتا چلا آ رہا تھا، کثرتِ استعمال سے ان کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔ جدید کتابت بلاشبہ حسین و جمیل تھی مگر اس میں اصولِ املا کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، لیکن سب سے بڑا ستم یہ کیا گیا کہ بالِ جبریل میں کئی جگہ کلامِ اقبال کی ترتیب بدل دی گئی۔ اب بالِ جبریل کے کسی قدیم (۱۹۷۳ء سے ماقبل، پرانی ترتیب اور کتابت والے) نسخے کو دیکھیے تو رباعی ’ترے شیشے میں…‘ حصۂ اوّل کے نمبر ایک کے بعد درج ہے، نہ کہ نمبر دو کے بعد، جیسا کہ غلام علی اڈیشن اور اس وجہ سے تمام جدید اشاعتوں میں ہے۔ اسی طرح فاروقی صاحب نے جو دوسری مثال دی ہے۔ قدیم نسخوں میں رباعی ’دلوں کو مرکزِ مہر…‘ حصۂ اوّل کے نمبر تین کے بعد درج ہے، نہ کہ نمبر پانچ کے بعد، جیسا کہ غلام علی اڈیشن میں ہے۔ فاروقی صاحب نے تو دو مثالیں دی ہیں، غلام علی اڈیشن میں ترتیبِ کلام میں تبدیلی اور ردّوبدل متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ بالِ جبریل کی قدیم اشاعتوں میں جو رباعیات (یا قطعات) حصۂ اوّل کے نمبر ایک تا سولہ کے تحت درج ہیں، ان میں سے دو کا محل بدل کر، انھیں نمبر دو اور پانچ کے تحت لکھ دیا گیا۔ باقی دس کو، نظموں سے ماقبل حصے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس حصے میں اقبال نے جو قطعات یکجا دیے تھے، ان پر کوئی عنوان نہیں تھا، غلام علی اڈیشن میں بالکل ناروا طریقے سے ان سب پر رباعیات کا عنوان جڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح بعض منظومات (ہسپانیہ، روحِ ارضی آدم کا…، پیرو مرشد، جبریل و ابلیس) کے آخر کے قطعات میں سے، کچھ تو رباعیات کے تحت دیے گئے ہیں اور بعض کو کتاب کے آخر میں درج کیا گیا ہے۔ نظم ’لالۂ صحرا‘ کے آخر کے دو بلاعنوان شعروں (اقبال نے کل…) کو نظم ’دعا‘ (ص:۹) سے پہلے خود ساختہ عنوان ’’قطعہ‘‘ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ راقم کا قیاس کہ یہ ردّوبدل کاتب (محموداﷲ صدیقی) نے من مانے طریقے سے، غالباً اپنی سہولت کے لیے کیا لیکن جیسا کہ جاوید اقبال صاحب نے ’اعتذار‘ کے تحت دیباچے میں بتایا ہے، کتابت شدہ کلام مولانا غلام رسول مہر نے دیکھا۔ تعجب ہے کہ ان جیسے فاضل اقبال شناس نے کلامِ اقبال میں اس ناروا اور بے جواز ردّوبدل کو کیسے گوارا کر لیا؟ یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ علامہ، اپنے شعری مجموعوں کی کتابت خود اپنی نگرانی میں کراتے تھے۔ کلامِ اقبال کی بیاضیں اور مختلف مجموعوں کے مسودے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ غزلوں، نظموں اور قطعات کی ترتیب اور اشعار کو بالمقابل یا اوپر نیچے لکھنے کے بارے میں وہ کاتب کو واضح طور پر تحریری ہدایات دیا کرتے تھے، مثلاً: بالِ جبریل کے ایک مسودے میں نمبر چودہ ’اپنی جولاں گاہ…‘ کے مصرعے نقل نویس نے آمنے سامنے لکھ دیے تھے۔ اس پر علامہ کی حسبِ ذیل دست نوشت ہدایت درج ہے : ہدایت برائے کاتب: ایک مصرع دوسرے مصرع کے نیچے لکھو، نہ کہ بالمقابل۔ اسی طرح بالِ جبریل کے ایک مسودے میں نظم ’الارض ﷲ‘ کے ساتھ بہ خطِ اقبال یہ ہدایت درج ہے: ایک مصرع دوسرے مصرع کے نیچے لکھو۔ پروین رقم کو تو اقبال واضح طور پر ہدایات دیتے رہے کہ کون سا قطعہ یا رباعی کہاں، کس غزل کے آخر میں درج کی جائے گی (اس کی تفصیل راقم ایک مضمون، ’اقبال کے غیرمطبوعہ رقعات بنام پروین رقم‘ مطبوعہ: اقبال ریویو، لاہور، جنوری ۱۹۸۴ء میں عرض کر چکا ہے)۔ محترم فاروقی صاحب کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ بالِ جبریل کی نام نہاد غزلیات میں سے بعض کو علامہ نظمیں سمجھتے تھے، مثلاً ایک بیاض میں حصہ اوّل کے نمبر پانچ کے اشعار ’کیا عشق ایک…‘ سب سے پہلے بطور ایک نظم بعنوان ’زندگی‘ درج ہے۔ بعدازاں انھیں ’عشق‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ پھر علامہ نے ان اشعار کے لیے تیسرا عنوان ’دعا‘ تجویز کیا۔ آخر میں یہ عنوان بھی قلم زد کر دیا اور (بقول شمس الرحمن فاروقی) یہ ’منظومہ‘ بلاعنوان ہی پہلے حصے میں شامل ہوا۔ ایک اور مثال: حصہ دوم میں نمبر ۱۷ کے اشعار کے لیے سب سے پہلے علامہ نے ’لندن‘ کا عنوان تجویز کیا، پھر اسے کاٹ کر ’فرنگ‘ سے تبدیل کیا گیا۔ آخر میں صرف اس وضاحت پر اکتفا کیا، ’یورپ میں لکھے گئے‘۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جدید نسخوں میں کلامِ اقبال کی اصل ترتیب بحال کرنا کیوں اور کس قدر ضروری ہے۔ رفیع الدین ہاشمی /…/…/ اقبالیاتی ادب ڈاکٹر محمد سفیان صفی، ’’مادہ، روح اور ابلیس : اقبال کی نظر میں ‘‘ ، دریافت، شمارہ ۱۲، جنوری ۲۰۱۳ئ، ص ۱۸۶ - ۱۹۴۔ ڈاکٹر مزمل حسین، ’’سید فدا حسین اویس - ایک گمنام اقبال شناس‘‘، دریافت، شمارہ ۱۲، جنوری ۲۰۱۳ئ، ص ۱۹۵ - ۲۰۶۔ پروفیسر عبدالمغنی ، ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، جنوری ۲۰۱۳ء ص ۳۰ - ۳۲۔ الحافظ عطاء المصطفی، ’’الآیات القرآنیۃ فی ابیات اقبال الشعریہ : اقتباساً و استشھاداً‘‘، اورینٹل کالج میگزین، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، جنوری - مارچ ۲۰۱۳ئ، ص ۲۳ - ۵۰۔ فقیر سید وحید الدین، ’’اقبال اور عشق رسول‘‘، علم و عمل، سر سید میموریل سوسائٹی اینڈ انجینئرنگ ایجوکیشن ٹرسٹ، اسلام آباد، جنوری - مارچ ۲۰۱۳ء ، ص ۴۱ - ۴۳۔ پروفیسر رحیم بخش شاہین، ’’اسلامی ثقافت کی روح - خطبہ اقبال کا ایک مطالعہ‘‘، سہ ماہی الاقربائ، الامتی فائونڈیشن، اسلام آباد، جنوری - جون ۲۰۱۳ئ، صفحہ ۱۱۸-۱۴۱۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامرن، ’’اقبال اور عصر حاضر کا نظریاتی محاربہ - توضیح و تعبیر‘‘، سہ ماہی الاقربائ، الامتی فائونڈیشن، اسلام آباد، جنوری - جون ۲۰۱۳ئ، ص ۱۴۲- ۱۶۶۔ پروفیسر عبدالمغنی ، ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، فروری ۲۰۱۳ء ص ۳۰ - ۳۲۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’اقبال کا تصور فقر‘‘، ماہنامہ ترجمان القرآن، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۸۷-۹۶ واصف علی واصف، ’’اقبال اور خودی ‘‘، ماہنامہ پیام، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۳۳ - ۳۷۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، ’’قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کی فکری و سیاسی ہم آہنگی‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۵- ۶۔ سید اکرم اکرام شاہ، ’’علامہ محمد اقبال ایک کامیاب سیاستدان‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۷ - ۱۲۔ ’’قائداعظم کے نام علامہ محمد اقبال کے تاریخی خطوط‘‘، میگزین رپورٹ، ماہنامہ نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ء ، ص ۱۳ - ۲۰۔ شکیل احمد چوہان، ’’علامہ محمد اقبال بطور عظیم مفکر ‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ء ، ص ۲۸ - ۳۱۔ سر محمد شفیع، ’’ علامہ اقبال کی زندگی کے آخری لمحات‘‘، ماہنامہ تہذیب الاخلاق، تہذیب اخلاق ٹرسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۱۷ - ۲۰۔ سعود احمد برکاتی، ’’اقبال اور بچوں کا ادب ‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۵- ۸۔ ڈاکٹر سلیم اختر، ’’عصری صورت حال اور اقبال‘‘ ، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۹ - ۱۵۔ ڈاکٹر خالد ندیم، ’’علامہ اقبال مسائل اور مباحث (تبصرہ) ، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۱۶ - ۱۹۔ ڈاکٹر محمد عارف خان، ’’اقبل شناس میں معنوی پیش رفت اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۲۰ - ۲۵۔ اعظم نوید، ’’مثالی معاشرہ تصور خودی کی روشنی میں‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۶۶ - ۳۱۔ ایس - ایچ قادری، ’’اسرار شریعت از اقبال ‘‘، ماہنامہ مراۃ العارفین، لاہور ، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص۴۵ - ۴۸۔ مفتی محمد بشیر القادری ، ’’ ہدیہ آوردم ز قرآن عظیم ‘‘، ماہنامہ مراۃ العارفین، لاہور ، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۳۹ - ۴۴۔ پروفیسر محمد علی عثمان، ’’علامہ اقبال شاعر عظمت انسان ‘‘، ماہنامہ پیام، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۳۸ - ۴۵۔ ثاقب اکبر، ’’علامہ اقبال کا متحرک انگیز نظریہ اور نوجوان نسل‘‘، ماہنامہ پیام، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۴۶ - ۴۹۔ پروفیسر حمید احمد خان ، ’’اقبال اور انگریزی شعراء ‘‘، ماہنامہ الحمرائ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۶- ۹۔ ڈاکٹر انور محمود خالد ، ’’اپنا گریباں چاک -چند مکتوبات ‘‘ ، ماہنامہ الحمرائ، لاہور، اپریل ۲۰۱۳ئ، ص ۵۵ - ۴۶ ۔ عثمان احمد یار، ’’علامہ محمد اقبال کے بطور عملی سیاستدان اصولی و آئینی نظریات ‘‘، ماہنامہ وہیگل سن، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء ، ص ۲۹ - ۳۰۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’اقبال اور عالمی ادب - اقبال اقبال اور ملٹن‘‘، ماہنامہ ضیاء آفاق، لاہور ، مئی ۲۰۱۳ئ، ص ۲۸ - ۳۰۔ حافظ عاکف سعید، ’’علامہ اقبال اور قائداعظم کا پاکستان - سیکولر یا اسلامک؟‘‘ ، ماہنامہ میثاق، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، جون ۲۰۱۳ئ، ص ۲۷- ۴۵۔ میمونہ شمل حورانی، ’’اقبال میر اشاعر -بولتے زمانوں میں ‘‘، ماہنامہ تہذیب اور اخلاق، تہذیب اور اخلاق ٹرسٹ، لاہور، جون ۲۰۱۳ء ، ص ۲۰ - ۲۳۔ ABSTRACTS OF THIS ISSUE The Philosophy of Iqbal Dr. Muhammad Rafiuddin Khudi is the essential part of the thought of Allama Muhammad Iqbal. Other thoughts and philosophical systems were also before Iqbal when he was developing his thought. It is his creative and action oriented approach that he made Khudi the pivotal point of his thought. So, it is inevitable to understand the concept of Khudi to understand his thought. It has been a question for Iqbal scholars that why and how the concept of Khudi is the foundation of his philosophy. Without analyzing these issues proper understanding of Iqbal is not possible. This article deals with all these questions. Iqbal and Tassawuf - Some Explanations Dr. Manzoor Ahmad Tasawuf has been an area of interest for Allama Muhammad Iqbal. He appreciated the objectives and methodology of Tasawuf and also criticized many of its aspects. If Iqbal's concept of Khudi is explained with its intellectual and historical background, tasawuf is one of its origin. However, Iqbal does not accept the philosophisizing of Tasawuf. He considers Tasawuf a practical discipline, whose primary role was purification of self and moral reformation. Iqbal emphasizes this role of Tasawuf. In his poetry and prose he appreciates many dimension of Tasawuf and criticizes many too. Iqbal and Secularism Bashir Ahmad Dar The concept of Secularism is of European origin in its lexical and conventional perspective. When the concept of secularism flourished in Europe, the teachings of religion were also understood and interpreted under its impact. Such an attitude became a trend in the West later on. So, gradually all the concepts of life in Europe and in Western world were influenced by the concept of secularism. Iqbal has criticized the western approach of secularism. He considers life a unity which cannot be bifurcated into religious and secular domains. Iqbals' Concept of Destiny Khalifa Abdul Hakeem According to Allama Muhammad Iqbal Khudi is the pivotal point of human life and the destiny is a branch of it. Iqbal gave a positive meaning to a term which has been of deplorable connotation in our tradition. He interprets the concept of destiny in the light of his philosophy of Khudi. In doing so he does not ignore the thought of Muslim mystics, theologians and philosophers. The concept of destiny has sensitive meanings in our tradition and has been effective in shaping our approach. According to Iqbal the concept of Khudi gives a positive interpretation of individual and community life of Muslim society. Iqbal's Concept of Time Dr. Burhan Ahmad Faruqi Iqbal discussed the Muslim and Western Philosophers concept of time critically while describing his concept of time. He criticized Ashar'its, Ibn-e-Arabi, Razi and Dawani. He also mentioned the flaws of western thinkers like Zeno, Nietzche, Kant and Einstein. Iqbal's concepts of time originates from his concept of Khudi. He defines self as appreciative and efficient self. The knowledge of appreciative self is knowledge by presence and the knowledge of efficient self is acquired knowledge. He also maintains difference between the time of human ego and the time of absolute ego. This article elaborates various dimensions of Iqbal's concept of time and its relevance with human and absolute ego. Iqbal - Concept of an Ideal Research Institute Bukhtiar Hussain Siddiqui Allama Muhammad Iqbal proposed the establishment of an ideal research institute to promote the research culture in Muslim society and to initiate the reconstruction of Islamic thought. For the same propose he gave proposals to update the syllabus of Islamic studies for Aligarh University in 1925. He was of the view that a new Scholastic theology was needed to fulfill the religious and spiritual needs of Muslim world in modern times. This need can be fulfilled through the process of ijtehad. A mind having understanding of the spirit and vision of Islam can do this job. Iqbal and Reconstruction of Islamic Thought Dr. Waheed Akhtar Iqbal discussed the revolutionary concepts of change and introduced the spiritual dimensions of evolution in the history of Muslim thought. There are many people in society who offer the concepts of change and evolution. Iqbal addressed the same mind. But the reactionaries used the arguments of Iqbal against him. It is a reality that a harmony between the modern science and religion is a pre-requisite for this task. Iqbal hoped that this task would be taken by young generation. The reconstruction of Islamic thought demands for independent and creative Muslim minds who may be capable to fulfill this job and even to review the paradigm of reconstruction introduced by Iqbal. Tradition of Urdu Ghazal and Iqbal Shams ur Rehman Farooqi The poetry of Iqbal gives a new turn to the Ghazal tradition in Urdu. He introduced new relationship between Ghazal and Nazm and between Ghazal and Qaseeda. So, he gave new dimensions to understand the significance of these forms of Urdu poetry. Iqbal said that there is no compulsory boundary between Ghazal and Qaseeda which creates an absolute bifurcation between them. So when we study the Ghazal and Qaseeda in Iqbal's poetry we have to review our traditional concepts. These innovations in Iqbal's poetry introduce new dimensions of meaning for the reader.