اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل مفتی مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ اسلام ، سیکولرازم اور اقبال پروفیسر(ر) محمد انور صادق خ بال جبریل رباعی احمد جاوید خ اقبال، شام اور مذہبی تحمل ڈاکٹر زاہد منیرعامر خ اشتراکیت : اقبال کے نکات اتصال اور انحرافات ڈاکٹر فاروق عزیز خ علامہ اقبال کی ممدوح باضمیر جرمن قوم جغرافیائی ، تہذیبی ، ثقافتی اور سیاسی پس منظر انجینئر مختار فاروقی خ اقبال اور حریت انسانی سلمی صدیقی خ فکر اقبال کی سیاسی اور تہذیبی اہمیت فضہ پروین خ خطبات اقبال انگریزی کے اردو تراجم عابد حسین خ اقبالیاتی ادب شعبہ ادبیات قلمی معاونین پروفیسر(ر) محمد انور صادق محلہ میونسپل کالونی مکان نمبر ۱۶،نزد جناح پارک، جڑانوالہ احمد جاوید سابق ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۵۸-ای، سٹاف کالونی، نیوکیمپس، پنجاب یونیورسٹی، لاہور ڈاکٹر فاروق عزیز اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن، وفاقی اردو یونیورسٹی، گلشن اقبال کیمپس، کراچی انجینئر مختار فاروقی قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر سلمی صدیقی سینئر لیکچرار ، کنیرڈ کالج، لاہور فضہ پروین نقد پورہ ، نزد علی ٹائون ، جھنگ عابد حسین رکھ دھریمہ، دھریمہ، سرگودھا اسلام ،سیکولرازم اور اقبال محمد انور صادق اسلامی دنیا میں سیکولرازم کو فروغ دینا بھی نئے عالمی نظام کے اہاداف میں شامل ہے۔ جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی خیر خواہی بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا میں عالمی نظام نافذ کرنے والوں کے نزدیک یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کا راز چونکہ سیکولرنظامِ حیات کے اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اِس لیے وہ اپنے تجربے کی روشنی میں مسلم معاشروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں بھی سیکولرنظامِ حیات کو رواج دیں گے۔ امریکہ اور یورپ کی عالمی قیادت کی رائے میں مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ چونکہ ریاست کے معاملات میں مذہب کی بے جا مداخلت ہے اِس لیے اگر اسلامی دنیا کے لوگ بھی آزادی اور خوش حالی کی منزل سے ہم کنار ہونا چاہتے ہیں تو انھیں بھی امریکہ اوریورپ کی پیروی میں مذہب کو ریاستی امور سے جدا کرنا ہوگا۔ نیا عالمی نظام نافذ کرنے والوں کی جانب سے مسلمان معاشروں میں سیکولرازم کے فلسفے کو رواج دینے کا مشورہ یا زیادہ بہتر الفاظ میں فیصلہ اِس دلیل کی بنا پر کہ یورپ او امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کاراز اِس فلسفے کی ترویج میں پوشیدہ ہے کہ کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے مسلم معاشروں کو نہ صرف اپنے دینی اصولوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ایسا کرنے میں اُن کے تہذیبی تشخص کے مٹنے اور قومی تسلسل کے ٹوٹنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ جب کہ اقبال کے ہاں اِس دور میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اپنے تہذیبی تشخص اور قومی تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ جسے ہم سیکولر نظامِ حیات کو اپنا کر قائم نہیں رکھ سکتے۔ اِس لیے غیروں کی جانب سے ترقی اور خوش حالی کے نام پر سیکولرنظامِ حیات کو اختیارکرنے کا مشورہ قبول کرنے سے پہلے ہمارے روشن خیال حکمرانوں اور سیکولرذہن رکھنے والے دانشوروں کو اقبال کے اِس مشورے پر بھی غور کرنا ہوگا جس میں وہ کسی تصور یا فلسفے کی پیدائش کے تاریخی پس منظر کو جاننا از حد ضروری قرار دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اقبال نے فرمایا: فکری ارتقاکو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن اُن مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب و عوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں جن سے فکرِ انسانی کا کردار متعین ہوا فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقینا ایک دشوار کام ہوگا۔ ۱؎ اقبال کے حوالے سے فلسفے کی تاریخ نویسی کا جو اہم اصول ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے جب ہم اُس کی روشنی میں سیکولرازم کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس نظام حیات کی تشکیل میں کم از کم چار بڑے واقعات نے نمایاں کردار ادا کیاہے جنھیں یورپ کی تاریخ میں عام طور پر رینے ساں، ریفارمیشن، روشن خیالی کی تحریکاور صنعتی انقلاب کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں اگریورپ کی تاریخ میں یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو شاید سیکولرازم کا ظہور بھی عمل میں نہ آتا۔ بہرحال اِن واقعات پر روشنی ڈالنے سے پہلے یورپ کی اُس تمدنی حالت کا شعور حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جس میں اُس وقت وہاں کے لوگ اپنی زندگی بسر کرر ہے تھے اورجس کے خلاف ردِ عمل کے طورپر سیکولر خیالات کا ظہور عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں یورپ کے لوگوں نے عیسائیت کے عنصر کوجو وہاں کی غالب اکثریت کا مذہب تھارفتہ رفتہ ریاست کے معاملات سے خارج کرنا شروع کر دیا اور یوں سیکولرازم کے فروغ کا رستہ ہموار ہوتا چلاگیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی تاریخ میں عیسائیت کا آغاز رومی سلطنت کے زیر سایہ ہوا تھا جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ خدا کاحق خدا کو دو اور سیرز کا حق سیرز کو دو جوگویا اِس امر کا اعلان تھا کہ مذہب اور ریاست دو جدا جدا معاملات ہیں جنھیں ایک دوسرے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم مذہب اور ریاست کی یہ جدائی اُس وقت اپنے اختتام کو پہنچ گئی جب قسطنطین نے عیسائیت کا مذہب اختیار کر لیا اوردونوں اداروں ملا کر ایک کر دیا جس کانتیجہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کے الفاظ میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ یور کے ہر ملک میں دہری حکومت تھی ایک تو مقامی یعنی دنیوی حکومت ااور دوسری غیر ملکی حکومت جس کے اقتدارار ت کا مصدر و مرکز پاپائے روما تھا۔ روما کے اثر کامقامی اثر پر غالب ہونا ایک لازمی امر تھا۔ ۲؎ چنانچہ چرچ اور سٹیٹ کے اِس گٹھ جوڑ کے اثرات یورپ کی تمدنی حالت پر کیا مرتب ہوئے اِس کا اندازہ ہمیں مشہور اشتراکی دانش و رسید سبط حسن کے اِس اقتباس سے بخوبی ہوسکتا ہے جو اُن کے ایک مضمون ’’تھیوکریسی‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں وہ بجا طور پر تحریر کرتے ہیں: مغربی مورخین کلیسا کے ہزار سالہ اقتدار کو عہد تاریک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِس وجہ سے کہ وہاں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک تعصب، تنگ نظری اور توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا۔ کلیسا نے عقل و خرد پر پہرے بٹھا رکھے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کلیسائی عقائد سے سرِمو اختلاف کر سکے۔ ہر جگہ مذہبی عدالتیں قائم تھیں جن کے فیصلوں کی داد تھی نہ ۔ یورپ کا ہر فردِ بشر جس کو بادشاہوں کی براہ راست سرپرستی حاصل نہ تھی۔ مذہبی عدالتوں کے خوف سے کانپتا رہتا تھا۔۳؎ قرون وسطیٰ میں یورپ کے عام تمدنی حالات کے بارے میں کچھ ایسی ہی رائے کا اظہار ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اپنی کتاب یورپ کی تاریخ میں اِن الفاظ میں کیا ہے: چرچ اور مذہبی عقائد نے قرونِ وسطیٰ کے معاشرے کو اِس قدر سختی سے جکڑ رکھا تھا کہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ اِس کی تعلیمات کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ سائنس دان اپنی تحقیق کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفروضوں پر رکھتے تھے کیونکہ اوّل تو انھیں تجربات کی سہولت نہیں تھی۔دوئم اُن کے تجربات مذہبی عقائد سے ٹکراتے تھے۔ اِس لیے وہ مذہب سے منحرف ہونے پر گھبراتے تھے۔۴؎ اس مقام پر اگر قرونِ وسطی میں یورپ کی عام سماجی حالت کا خلاصہ بیان کر دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ چنانچہ اُس وقت کے یورپ کا معاشرہ مکمل طور پر چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لارڈز کے مشترکہ تسلط میں جکڑا ہوا تھا جنھوںنے نہ صرف عوام کے فکر ونظر کی آزادی کو سلب کر رکھا تھا بلکہ یورپ کا پورے کا پورا معاشرہ بھی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کے مصداق دنیا میں کوئی معاشرہ بھی زیادہ تیر تک ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتا اور اُس میں تبدیلی کا رونما ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہی کچھ یورپ کے ساتھ بھی ہوا اور وہاں جلد ہی رینے ساں RENAISSANCEکی تحریک جسے اردو میں تحریک احیائے علوم کا نام دیا جاتا ہے کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں لوگوں میں نئے نئے علوم حاصل کرنے کا شوق پیداہوا اورانھوں نے چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کر دیا کیونکہ اب اُنھیں نئے سائنسی علوم کے حقائق جنھیں عام طوپر مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کیا جاتا تھا براہِ راست مذہبی عقائد سے متصادم دکھائی دینے لگے تھے۔ چنانچہ یورپ کے رہنے والوں نے اِس تصادم کا علاج سیکولرازم کے فلسفے میں تلاش کیا جس کی رو سے مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار پایا اور اسے نہ صرف سائنس کی دنیا میں مداخلت سے روک دیا گیا بلکہ زندگی کے دوسرے امور سے بھی بے دخل کر دیا گیا۔ اِس کے برعکس اقبال چونکہ مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کے خیال کو نہ صرف غیر اسلامی قرار دیتے ہیں بلکہ وہ اِن دونوں قوتوں کے مابین ہم آہنگیوں کو تلاش کرنے کے آرزو مند بھی ہیں اس لیے ہم اِس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ کم از کم اسلام کی حدود میں سیکولرازم کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیںہے۔ اقبال کی رائے میں مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کا جو خیال عام طورسے رواج پاگیا ہے وہ درست نہیں ہے اور اُس کا اطلاق دنیا کے تمام مذاہب پر یکساں طورپر نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے نزدیک تصادم کا یہ خیال عیسائیت کے پس منظر میں یورپ کے مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا ہواتھا جسے آنکھیں بندکرکے اسلام پر منطبق کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔کیونکہ اقبال کے نزدیک دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے سائنسی علوم سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ چنانچہ اقبال نے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ جیسی معرکۃ آلارا کتاب لکھ کر جہاں تصادم کے اِس خیال کی تردید کی ہے وہاں انھوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگیوں کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ بہرحال اقبال ۶؍مارچ۱۹۲۷ء کو اپنے ایک اخباری بیان میں مذہب اور سائنس کے تصادم پر اظہار خیال کرتے ہوئے بجا طور پر فرماتے ہیں: سائنس اورمذہب کا تصادم غیر اسلامی ہے۔ قرآن کے ہر صفحہ پر انسان کو مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے .......... ڈاکٹر ولیم جان ڈریپر کی تصنیف معرکۂ مذہب اور سائنس اصل میں مذہب اور سائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے۔ اِس تصادم کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے حکما اور علما مسلمانوں کی علمی ترقی سے متاثر ہو ئے تو اہل فرنگ کے خیالات بھی زبردست انقلاب پیدا ہونے لگا اور رومن کیتھولک مذہب والے اِس علمی انقلاب سے متصادم ہوئے۔ ۵؎ بہرحال تحریکِ احیائے علوم کے علاوہ یورپ کی تاریخ میں جس دوسری بڑی تحریک نے وہاں کے لوگوں کو سیکولرازم کا فلسفہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا وہ ریفارمیشن کی تحریک تھی جس کا بانی مارٹن لوتھر نامی ایک شخص تا جو ۱۴۸۳ء میں جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہواتھا۔ مارٹن لوتھر کی اِس تحریک کابنیادی مقصد در اصل عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق ازسرِ نوبحال کرنا تھا جو خدا کی اطاعت اپنی جگہ اور بادشاہ کی اطاعت اپنی جگہ کے اصول پر مشتمل تھی ۔ اب صاف ظاہر ہے کہ قرونِ وسطی کے معاشرے میں اِس اصول کو ازسرِ نو بحال کرنا بغاوت سے کم نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست اور چرچ کے ہزار سالہ گٹھ جوڑ کے ٹوٹنے کا اندیشہ تھا جس کی زد براہِ راست کلیسا کے مفادات پر پڑ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوپ نے اپنے ایک فرمان میں لوتھر کے باغیانہ اقدامات کی پُرزور مذمت کی اور اُسے ایک ایسا جنگلی سور قرر دیا جو لارڈ کے باغ میںگھس آیا ہو لیکن اِس سب کے باوجود جرمنی کے حکمرانوں نے جو پہلے ہی پوپ کی دخل اندازیوں سے تنگ آ چکے تھے لوتھر کا بھرپور ساتھ دیا اور پوپ کے ظلم سے اُس کی حفاظت کی۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ریفارمیشن کی اِس تحریک سے یورپ کی سر زمین پر سیکولرازم کا پودا کیسے فروغ پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوتھر کی جارہ کردہ اِس تحریک نے جہاں عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق ازسرِ نو بحال کر دیا تھا وہ اُس نے یورپ کے پورے معاشرے کو بھی مختلف قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔ اب چونکہ نئی پیدا ہونے والی ان قومی ریاستوں کو منظم اور مستحکم کرنے میں کلیساکے فراہم کردہ شرعی قوانین کارگر ثابت نہ ہوسکتے تھے۔ لہٰذا نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکمرانوں کو یونان اورروم کے وضع کردہ سول قوانین کا سہارا لینا پڑا جو اپنی نوعیت میں بڑی حد تک سیکولر مزاج کے حامل تھے ۔ اب جگہ جگہ لا کالج قائم ہو چکے تھے جن میں رومن لا کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ قومی ریاستوں کی روز افزوں قانونی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے ۔ دوسری طرف یہ تعلیم کلیسا کے حق میں بڑی مہلک ثابت ہوئی کیونکہ اِس کی وجہ سے عدالتوں کاکردار بدل گیاتھا اور فیصلے شرعی قوانین کے بجائے سیکولر قوانین کے تابع ہونے لگے اور یوں پورے کا پورا یورپین معاشرہ رفتہ رفتہ سیکولرنظامِ حیات کی گرفت میں آتا چلا گیا۔ اِس صورتِ حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سید سبطِ حسن بجا طورپر لکھتے ہیں: دوسرا اہم رجحان جس سے سیکولر عناصر کو تقویت ملی شرعی قوانین کی جگہ سول قوانین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی۔ اِس رجحان کو بھی اٹلی کی جمہوری حکومتوں نے ہی سہارا دیا۔ چونکہ کلیسا کے وضع کردہ فرسودہ قوانین نئی زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتے تھے ۔ لہٰذا ........ہر جگہ لا کالج قائم ہو گئے ۔ اِن درس گاہوں میں قدیم رومن لاکی تعلیم دی جاتی تھی ۔۶؎ اقبال جب مسلمانوں کے موجودہ تمدنی حالات کا موازانہ یورپ کے اُن تمدنی حالات سے کرتے ہیں جو لوتھر کے زمانے میں موجود تھے تو انھیں اِن دونوں معاشروں کے احوال میں گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وہ اس مماثلت کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح لوتھر کے انداز میں کرنا پسند نہیں کرتے ۔ راقم کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اصلاحی نقطہ ہائے نظر کا وہ ختلاف ہے جو اسلام اور عیسائیت کی ماہیت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ ازروئے اسلام دین کا تعلق انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے جب کہ عیسائیت میں دین اور دنیا الگ الگ معاملات ہیں اورانھیں ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہونا چاہیے ۔ اسلام میں اصلاحی کوششیں دین و دنیا کی یک جائی پر جب کہ عیسائیت میں اِن دونوں کی جدائی پر منتج ہو تی ہیں۔ اب چونکہ یورپ میں لوتھر نے عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق بحال کرکے زندگی کے دیگر شعبوں کو سیکولر نظام ِ حیات کے حوالے کر دیا تھا۔ اِس لیے اُس کایہ تجربہ اسلامی دنیامیں دہرایا نہیں جا سکتا ۔ چنانچہ اقبال اسلام میں دین و دنیا کی یک جائی کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے الہ آباد والے خطبے میں فرماتے ہیں : اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اُس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کو رد کیا گیا تو دوسرا خود بخود مسترد ہو جائے گا۔ اس لیے ایک مسلمان اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پرمرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول ِ اتحاد کی نفی ہو جائے۔ ۷؎ احیائے علوم اور اصلاحِ مذہب کی ان زور دار تحریکوں کے بعد جس تیسری تحریک نے یورپ کے مزاج کو زیادہ سے زیادہ سیکولر بنانے میں معاون کا کردار ادا کیا ہے وہ روشن خیالی Enlightenmentکا نام بھی دیا جاتا ہے۔ روشن خیالی کی یہ تحریک ہالینڈ اورانگلستان سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ سارے یورپ میں پھیلتی چلی گئی اور بالآخر فرانس میں اپنے اوجِ کمال تک جا پہنچی۔ انگلستان میں اِس تحریک کا آغازبیکن ، ہابزاورلاک وغیرہ کی تجربیت پسندی سے ہوا تھا جب کہ فرانس میں اِسے والٹیر اور اُس کے قاموسی رفقا نے پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔ جرمنی میں اِس تحریک کا باعث ریفارمیشن سے مایوسی اور مذہبی تنازعات تھے۔ اس لیے لوگ عقل کی جانب لوٹے اور فطرتی مذہب اور رواداری کے حامی بنے۔ اِن لوگوں میں ولف اور لیسنگ وغیرہ شامل تھے۔ بہرحال روشن خیالی کی یہ تحریک جن اصولوں پر قائم کی گئی تھی اُن کا خلاصہ حسبِ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ۱- انسان فطرت پر قابو پا سکتا ہے ۲- خدا کی ذات سے انکار نہیں مگر اُس کی بنائی ہوئی کائنات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ۳- انسان خدا سے آزاد ہے۔ ۴- لوگوں پر حکمرانوں اور بادشاہوں کی بجائے قواعد و ضوابط کے ذریعہ حکومت کی جائے۔ ۵- دنیا کے بارے میں علم تجربات سے ہوگا۔ مذہبی عقائد سے نہیں ۔۸؎ یورپ میں احیائے علوم اور اصلاحِ مذہب کی تحریکوں کے ظہور اور اُن کے نتائج کے بارے میں اقبال کے ردِ عمل کا احوال بیان کرنے کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ روشن خیالی کی تحریک پر وہ کیا رویہّ اختیار کرتے ہیں تاہم اِس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے مغربی تہذیب و ثقافت کے متعلق اقبال کے مجموعی رویے کی وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ راقم کے نزدیک اقبال مغربی تہذیب کے بارے میں مجموعی طور پر اعتدال پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے مطابق وہ اُس کی خوبیوں کو اپنانے اورخرابیوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال جس طرح مسلمانوں کو یورپ میں فروغ پانے والے علوم و فنون کو حاصل کرنے اور وہاں کی تہذیب و ثقافت کی ظاہری آب و تاب سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں اُسی طرح وہ اگرایک طرف اسلامی دنیا میں روشن خیالی کے فروغ کا دل سے خیر مقدم کرتے ہیں تو دوسری جانب اِس میں پوشیدہ خطروں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا بھی اپنا فرض خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی فرض کی بجا آوری میں اقبال روشن خیالی میں پوشیدہ خطروں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں فرماتے ہیں : بہرحال ہم اُس تحریک کا جوحریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ کی طرف ہوتا ہے۔ لہٰذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اِس وقت دنیائے اسلام میں کارفرما ہیں اُس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔۹؎ انتشار انگیزی کے علاوہ اقبال کے نزدیک روشن خیالی کی تحریک میں ایک خطرہ اور بھی پوشیدہ ہے جسے وہ مذہب بیزاری کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ایک خط مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۲۲ء میں اِس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے شیخ اعجاز احمد کے نام بجا طورپر لکھتے ہیں: اس وقت تو بالعموم انھیں مسلمانوں کو ملازمت کے لیے پسند کیا جاتا ہے (خاص کر اعلیٰ ملازمتوں کے لیے) جن کی اسلامیت حکومت کے خیال میں کمزور ہو اور اس کمزوری کا نام وسعتِ خیال یا لبرل ازم رکھا جاتا ہے۔۱۰؎ احیائے علوم، اصلاحِ مذہب اور روشن خیالی کی تحریکوں کے علاوہ صنعتی انقلاب کے ثمرات نے بھی سرزمین یورپ میں سیکولرنظام حیات کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ احیائے علوم اور روشن خیالی کی بدولت جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے لوگوں نہ صرف نئے نئے علوم کو حاصل کرنے کی تحریک پیدا ہوئی بلکہ اُن کے دلوں میں مشاہداتی منہاج کی مدد سے تسخیرِ فطرت کا جذبہ بھی بیدار ہوا جس کے نتیجہ میں وہاں نت نئے سائنسی علوم کا ظہور عمل میں آیا چنانچہ یہی تو وہ سائنسی علوم ہیں جن کی بنیاد پر یورپ میں صنعتی انقلاب رونما ہوا اور وہاں بڑے پیمانے پر ترقی اور خوشحالی کادور شروع ہوا۔ اب صاف ظاہرہے کہ وہ معاشرہ جس میں مذہب لوگوں کی اجتماعی زندگی سے خارج ہو کر محض فرد کا ذاتی معاملہ بن چکا ہو اور جہاں لوگوں کو سوچنے اور اپنے فیصلے آپ کرنے کی آزادی حاصل ہو چکی ہے اور جہاں بے پناہ ترقی اور خوشحالی کی بدولت لوگوں کو کھل کر کھیلنے کے تمام مواقع میسر ہو چکے ہیں تووہاں سیکولرنظام ِ حیات کو فروغ حاصل نہ ہوگا تو اورکیا ہوگا؟ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں سیکولرازم کے ظہور، ارتقا اور عروج کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہمیں اِس سوال پر غور کرنا ہوگاکہ اگر زندگی کا یہ فلسفہ یورپ کی عیسائی دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے تو کیا یہ اسلامی دنیا میں بھی ہمکنار ہوسکتا ہے تو کیا یہ اسلامی دنیا میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے تو کیا یہ اسلامی دنیا میں بھی کامیابہ ہوسکتا ہے اورکیا مسلمان معاشرے بھی اِس پر عمل پیرا ہو کر وہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں جو یورپین معاشروںنے حاصل کیے ہیں ؟راقم کے نزدیک اِس کاجواب یقینا نفی میں ہے جس کی بنیادی وجہ عیسائیت اور اسلام کے تاریخی پس منظر کا وہ اختلاف ہے جس نے ابتدا ہی میں اِن دونوں مذاہب کے سماجی رویوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔عیسائیت کا ظہور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہود کی قانون پرستی کے خلااف ایک شدید ردِ عمل کے طورپر اُس وقت ہوا تھا جب رومیوں نے فلسطینی علاقوں پر نہ صرف قبضہ کر لیا تھا بلکہ وہاں اپنے قوانین بھی نافذ کر دئیے تھے ۔ یہودیوں نے ان قوانین کی مخالفت کی جس کے نتیجہ میں وہاں کشت و خون بھی ہوا۔ چنانچہ اِس تجربے کی روشنی میں حضرت عیسیٰ ؑنے عدم تشدد کی ٌپالیسی اختیار کی اور یہ کہہ کر ’’خدا کا حق خدا کے لیے اور سیزر کا حق سیزر کے لیے‘‘ ریاست کو مذہب سے جدا کر دیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ ؑکی اِس پالیسی کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال ناؤمن کے حوالے سے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میںبجا طورپر لکھتے ہیں ابتدا ئی مسیحیت نے ریاست، قانون ، نظم امور پیداواری اور اِس قسم کے دوسرے حقائق کو مطلق اہمیت نہیں دی۔ بالفاظ ِ دیگر اُس نے انسانی معاشرے کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔۱۱؎ اس کے برعکس اسلام اپنے ظہور کے وقت موجود سماجی حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے انھیں تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرہ نمائے عرب میں سب سے پہلے کثرت پرستی کے خلاف جو اُس وقت معاشرے کی سب سے بڑی برائی تھی اپنی مہم کا آغاز کیا اور لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی جس نے عرب معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا۔ بہرحال ماہرینِ نفسیات کے خیال میں انسان کی سماجی زندگی اُس کے تصورِخدا کاعکس ہوا کرتی ہے۔ اب چونکہ عربوں میں صدیوں سے کثرت پرستی کا رواج عام تھا اِس لیے اُن کے ہاں مرکزی قیادت کا فقدان تھا اور اُن کی سماجی زندگی مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اِسلام نے اِس صورت حال کو بدلا اور وحدت پرستی کی بدولت نہ صرف انسانیت کو ایک پرچم تلے جمع کیا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ودنیا کو یک جا بھی کر دیا اوریوں اسلام نے دین ودنیا کی وہ دوئی جسے عیسائیت نے رواج دیا تھا سرے سے مٹا دیا۔ چنانچہ عیسائیت اور اسلام کے اِس بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے بجا طور پر فرمایا: اسلام دین و دنیااورجنت ِ ارضی سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اوّل ہی روزسے پیدا ہوا۔ اِس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہیں۔ ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدودِ حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰ۔۱۲؎ اقبال کے نزدیک عیسائیت اور اسلام کے مابین زندگی کے بارے میں سماجی رویوںکافرق دراصل دونوں مذاہب کی داخلی توانائی کا وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر عیسائیت کو اپنے خارجی حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا جب کہ اسلام اپنے خارجی حالات کو یکسر تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہو گیا۔ اقبال کی رائے میں دنیا کے اِن دونوں مذاہب کا بنیادی مقصد اگرچہ شرک اور بت پرستی کو ختم کرنا ہی تھا لیکن اپنی داخلی کمزوری کی وجہ سے عیسائیت کو بت پرستی سے مفاہمت اختیار کرنا پڑی ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال حضرت عیسیٰ ؑکو نہ صرف دنیا کے بڑے انقلابیوں میں شمار نہیںکرتے بلکہ وہ یورپ کی عیسائیت کو بھی جاہلیت قدیمہ کاایک ناقص ترجمہ قرار دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس اسلام نے کبھی شرک اور بت پرستی سے کمپرومائز نہیں کیا بلکہ اُسے ہر ممکن طریقے سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر وہ شے یا خیال جو اسلام کی روح سے متصادم ہوتا ہے وہ اُسے ہر گز قبول نہیں کر سکتا۔ راقم کے نزدیک اب چونکہ شرک اور بت پرستی کی طرح سیکولرازم بھی اسلام کی روح سے براہِ راست متصادم ہوتا ہے۔ اِس لیے وہ اُسے بھی اپنے ہاں جگہ دینے کا روادار نہیں ہو سکتا۔ بہرحال شرک اور بت پرستی کے حوالے سے عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جان ولیم ڈرپیر نے جو رائے ظاہر کی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ اِس بارے میں وہ لکھتا ہے : اشاعتِ اسلام و اشاعتِ مسیحیت میں ایک بہت بڑا اہم فرق ہے۔ مسیحیت کو کبھی بھی اتنی طاقت حاصل نہ ہوئی کہ دولتِ روما کی بت پرستی کا قلع قمع کرسکتی۔ جس قدر اس کو ترقی ہوئی اُسی قدر بت پرستی کا عنصر اس میں زیادہ ملتا گیا۔ لیکن عرب میں حضرت محمد ؐ نے قدیم بت پرستی کو ایسامٹایا کہ اُس کا نشان تک باقی نہ رکھا۔ جن عقاید کی آپ نے اور آپ کے جانشینوں نے تلقین کی اُن میں بت پرستی کا ڈھونڈنے سے بھی سراغ نہیں ملتا۔ ۱۳؎ اقبال کی رائے میں علوم و فنون کی طرح دنیا میں مذاہب بھی دو قسموں کے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زندگی کو ہاں کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو زندگی کی ناں کہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اسلام کا تعلق پہلی قسم کے مذاہب سے ہے جب کہ عیسائیت کو وہ دوسری قسم کے مذاہب کی صف میںشمار کرتے ہیں ۔ راقم کے خیال میں زندگی کو ہاں کہنے والے مذاہب سے اقبال کی مراد وہ مذہب ہوتے ہیں جن میں اگر ایک طرف فرد کارشتہ خدا سے استوار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اجتماعی زندگی کے معاملات و مسائل کو حل کرنے کے احکام بھی بتائے جاتے ہیں جب کہ زندگی کو ناں کہنے والے مذاہب میں صرف خدا اور بندے کے تعلق پر ہی زور دیا جاتا ہے اور اجتماعی زندگی کے معاملات و مسائل کے حل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم اسلام کو ایک مکمل نظام حیات قرار دے سکتے ہیں جس میں عبادات و عقائد کے ساتھ ساتھ معاملات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔اِس لیے اُسے کسی ’’ازم‘‘ کی ضرورت نہیں جب کہ عیسائیت میں ہمیں معاملات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ چنانچہ اقبال زندگی کو ناں یا ہاں کہنے کے حوالے سے اسلام اورعیسائیت کا باہمی فرق شعر کی زبان میں یوں بیان فرماتے ہیں: کاروبارِ خسروی یا راہبی؟ کیا ہے آخر غایتِ دین نبی؟ مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ۱۴؎ راقم کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام حیات یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ہے جس میں عقائد اور عبادات کے علاوہ معاملات کا عنصر بھی شامل ہے۔ جب کہ عیسائیت صرف ایک مذہب ہے۔ اگرکسی قوم کے نظامِ حیات میں جسے اپنے آسمانی ہونے کا دعویٰ بھی ہو عقائد، عبادات اورمعاملات کے تینوں عناصر یکجا موجود پائے جائیں تو ہم اُسے دین کا نام دیں گے لیکن اگرکسی نظامِ حیات میں صرف پہلے دو عناصر تو موجود ہوں اورمعاملات کا تیسرا عنصر اُس میں مفقود ہو تو اُسے مذہب سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں اسلام ایک مکمل دین ہے اور عیسائیت ایک مذہب لیکن بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ازروئے اسلام معاملات سے کیا مراد لی جاتی ہے؟ چنانچہ اسلام کی رو سے معاملات کا اطلاق سماجیات، اقتصادیات ، سیاسیات اور تہذیب وثقافت کے اُن تمام شعبوں پر ہوتا ہے جنھیں قرآنی تعلیمات کے مطابق چلانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اب صاف ظاہرہے کہ جس معاشرے میں رہنمائی کی یہ صورت ہووہاں سیکولرازم جیسے انسانی فلسفے کی ضرورت کیسے پڑ سکتی ہے؟بہرحال سید سلیمان ندوی معاملات کے حوالے سے دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب کی صف بندی کرتے ہوئے بجا طورپر فرماتے ہیں : دنیا کے مذاہب نے معاملات کو اپنی تعلیم کا حصہ بنانے میں مختلف رجحانات ظاہر کیے ہیں تورات میں وہ مذہبی قوانین کا ضروری اوراہم جزو ہیں لیکن عیسائیت نے اُن کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہندوستانی مذہبوں میں بھی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔ عام ہندوؤں میں منوشاستر اور اُس کی مختلف تشریحیں انہی معاملات کی شاخیں ہیں مگر شاید بودھ مت نے اخلاق ہی کو بڑھا کر قانون بنانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ سب قومیں اپنے قانون کا ماخذعلمِ ا لٰہی اور علم مافوق انسانی کوقراردیتی ہیں۔۱۵؎ اب ذہن میں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر اسلام دین کے اصولوں پر مبنی ایک مکمل نظام حیات ہے جوانسان کی روحانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی دنیاوی حاجات بھی پوری کر سکتا ہے تو پھرمسلمانوں کی موجودہ تمدنی حالت اور دیگر زمینی حقائق اُس کے اِس دعوے کے شہادت کیوں نہیں دیتے؟ راقم کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جب تک خلافت کا ادارہ قائم رہا اُس وقت تک ہمیں دین و دنیا کی مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے جو اُن کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن تھی لیکن ملوکیت کے سراٹھاتے ہی اِن دونوں میں جدائی کا عمل شروع ہو گیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں مسلمان بھی اُسی فرض کاشکار ہو کررہ گئے جس کا اُن سے پہلے عیسائی ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں دین و دنیا کی جدائی کا یہ عمل اُس وقت اور بھی تیز ہو جاتا ہے جب کہ مغربی اقوام نے مسلم ممالک پر نہ صرف زبردستی قبضہ جمالیا بلکہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کی خاطر اُن کی تعلیمی اور عدالتی نظام کو تبدیل کرکے اُس کی جگہ اپنے نصاب اور قوانین نافذکر دئیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو کبھی اپنے علاقوں میں دین کی صورت میں نافذہوا کرتا تھا غلامی میں ایک مذہب بن کر رہ گیا۔ اقبال کے نزدیک اسلام چونکہ بجائے خود ایک تقدیر ہے اورجسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا اِس لیے وہ صرف آزاد ماحول ہی میں اپنی توانائیوں کا فطری اظہار کر سکتا ہے جس کے پیش نظر انھوں نے برصغیرپاک و ہند میں ایک اسلامی ریاست کے حصول کا خواب دیکھا جس میں اِسلامی نظامِ حیات کو نافذکرنا اُس کا بنیادی مقصد قرار دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے نہ صرف اِس مقصد سے مکمل طورپر اتفاق کیا بلکہ اُس کے حصول کابیڑا بھی اٹھایا جس میں وہ ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو کامیابی سے ہم کنار بھی ہوئے مگر آج ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیاتھا اُس میں روشن خیالی کے نام پر سیکولرازم کو مسلط کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اُس کے لیے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سیکولر اصولوں پر چل کر ہی پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اورخوشحال ملک بنایا جا سکتا ہے۔ راقم کے نزدیک پاکستان میں اِس قسم کی باتیں کرنا نہ صرف اقبال اور قائد اعظم کے تاریخی مؤقف سے انحراف ہے بلکہ یہ اس بات کا برملا اظہار بھی ہے کہ اسلام گویا موجودہ عہد کے مسائل کو حل کرنے کا اہل بھی نہیں۔ چنانچہ سید سبطِ حسن پاکستان میں سیکولرنظام کے نفاظ کی وکالت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں : سیکولر ازم سے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور نہ اِس سے پاکستان کی بقا و سالمیت پر کوئی ضرب پڑتی ہے بلکہ ہماراخیال یہ ہے کہ سیکولر اصولوں ہی پر چل کر پاکستان ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بن سکتا ہے۔۱۸؎ راقم کے خیال میں سید سبطِ حسن کا یہ خیال درست نہیں ہے اور اُسے اُن کی اِس رائے سے بھی سخت اختلاف ہے کہ سیکولر ازم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے دین دار بے دین اور خدا پرست دہریہ نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ راقم کے نزدیک سیکولرازم اور اسلام نہ صرف دوجداگانہ نظام ہائے حیات کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ان دونوں کے اصولوں میں بھی بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ سیکولرازم مابعد الطبیعیات کے انکار پرمبنی وہ نظام ِ حیات ہے جو صرف اِسی دنیااور اسی زمانے کی بات کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس اسلام مابعدالطبیعیات کو نہ صرف اپنا ماخذ و مصدر قرار دیتا ہے بلکہ وہ اِس دنیا کے ساتھ ساتھ اُِس دنیا کی بات بھی کرتا ہے جسے وہ آخرت کا نام دیتا ہے۔ اِس لیے جب کوئی فرد اِس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بیک وقت مسلمان بھی ہے اور سیکولر بھی تو اُس کا یہ دعویٰ محل نظردکھائی نہیں دیتاکیونکہ ایسافرد یا تو انتہائی سادہ لوحی کا شکار ہے جسے نہ اسلام کا پتا ہے نہ سیکولرازم کا یا پھر وہ گہرا سازشی ذہن رکھنے والا انسان جو اپنی مسلمان کی آڑ میں پاکستان کی نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ہی سازشی انسانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا سید ابوالحسن ندوی کیا خوب لکھتے ہیں : روشن خیالوں کے منہ میں دو زبانیں ہوتی ہیں ایک دوسروں سے گفتگو کے لیے اورایک اپنوں سے بات چیت کرنے کے لیے اور سیکولر ازم بلکہ الحاد و مذہب دشمنی کی ساری تبلیغ بھولے بھالے اسلامی ممالک کے لیے ہے جنھوں نے نئی نئی آزادی حاصل کی ہے ۔۱۷؎ اس وقت پاکستان بھی ایسا ہی سازش ذہن رکھنے والے روشن خیال دانشوروں کی زد میں ہے جو اِس کا مقدرِ اسلام کے ساتھ جوڑنے کی بجائے سیکولرازم کے ساتھ جوڑنے کے آرزومند ہیں اورانھوں نے اس مقصد کے حصول کی خاطر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے جس کی ایک مثال تحریک پاکستان اور اُس کے مرکزی رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا ہے۔ ۱۸؎ راقم کے نزدیک تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا دراصل تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہی تو ہے جس کی تردید کرنے کے لیے اگرچہ تاریخ کے اوراق میں ہزاروں شواہد موجود ہیں تاہم اِس مقصد کے لیے اگر اقبال اور قائداعظم کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا مطالعہ ہی کرلیا جائے گاتو کافی ہوگا۔ مثال کے طورپر اقبال قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام پر اپنے ایک خط محررہ ۲۸ ؍مئی ۱۹۳۷ء میں ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کہ اُس میں شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ ممکن بنایا جا سکے جس کی بدولت اگر ایک طرف مسلمانوں کے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد ملتے تودوسری جانب اُن کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کوبھی ممکن بنایاجائے۔ بہرحال پاکستان میں سیکولردانشوروں کی سرگرمیوں سے باخبر کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال روزنامہ جنگ دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں: اِسی طرح قائد اعظم کے بارے میں متنازعہ چند سوالات اور باتیں پھیلائی جاتی رہتی ہیں اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہتا ہے کہ وہ سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں وہ اِسلامی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں تھے....... اِس طرح یہ ادارے اور شخصیات ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔۱۹؎ چونکہ اِسلام اور سیکولر ازم مخالف سمتوں میں جانے والے دو ایسے راستے ہیں جن سے ایک کی منزل صرف دنیا کے حصول تک ہی محدود رہتی ہے جب کہ دوسرا رستہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے حصول میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔اِس لیے جب کسی مسلم معاشرے کو ازسرِ نو اسلامائز یا سیکولرائز کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یقینی طور پر اِن دونوں اعمال میں بھی زمین و آسمان کا فرق دیکھنے میں آئے گا۔ مثال کے طور پر اسلامائزیشن کے تحت اگر معاملات زندگی کو جن میں سیاست، معیشت، معاشرت اور تعلیم و ثقافت وغیرہ سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ اسلامی اصولوں اور قوانین کے تابع لایا جاتا ہے تو سیکولرائزیشن کے تحت اِ نہی معاملات کو اِسلامی اصولوں اور قوانین سے آزاد کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اوریوں اسلام کو لوگوں کی اجتماعی زندگی سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں کو جہاں اسلام پہلے ہی موجود ہوتا ہے اسلامائزکرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ صدیوں کی غلامی اورملوکیت کے زہریلے اثرات کو مٹانے کا موثرترین حربہ چونکہ اسلام کو ازسرِ نو نافذکرنا ہے۔ اِس لیے جب کسی مسلم معاشرے میں اِسلام کو ازسرِ نو نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے تو ایسی ہر کوشش کو جدید دور کی زبان میں اسلامائزیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اب ہمیں اُن اصولوں کو تلاش کرنا ہے جن کی بنیاد پر کسی ریاست یا معاشرے کو اِسلامائیز یا سیکولرائیز کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک کسی ریاست یا معاشرے کو اِسلامائیز کرنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے کائنات کی روحانی تعبیر کو تسلیم کیا جائے جس کامفہوم اِس کے سوااور کیا ہو سکتا ہے کہ اِس کائنات میں ایک ہستی ایسی موجود ہے جو اُسے از خود بنا بھی رہی ہے اور اُسے چلا بھی رہی ہے۔ ازروئے اسلام کائنات کی اِس روحانی تعبیر کا دوسرا نام اللہ ہے جو اس کائنات کا خالق بھی ہے۔ اقبال کی رائے میں کسی ریاست یا معاشرے کی اِسلامائزیشن کا دوسرا اصول فرد کا روحانی استخلاص ہے جو فرد کی ہر قسم کی ارضی غلامی سے نجات پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں ریاست یا معاشرے کی توحید سے متفرع ہونے والے آفاقی اورپائیدار اصولوں پر تشکیل کرنا بھی اقبال کے ہاں اِسلامائزیشن کا تیسرا اصول قرار پاتا ہے۔ ۲۰؎ جب کہ اس کے برعکس ریاست یامعاشرے کی سیکولرائزیشن کا عمل مذہب کے ماورائی مصدر سے انکار آفاقی اورپائیدارقدروں سے انحراف اور سیاست کو تقدس عطا کرنے والے اصولوں سے نجات حاصل کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسلام اورسیکولرازم کا موازنہ کرنے کے بعد اب ہمیں اپنی پوری توجہ سیکولرازم کے بھرپور مطالعہ پر صرف کرنا ہوگی جس کا آغاز اگر سیکولرازم کے لغوی مفہوم اور اُس کے مروجہ اردو ترجمہ سے کیا جائے تو دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ چنانچہ سیکولرازم کی اصطلاح لاطینی زبان کے الفاظ SECULUMسے اخذ کی گئی ہے جس کے لغوی معنی دنیا کے ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم زندگی گزارنے کا وہ نظام ہے جس میں صرف اِس دنیا کے معاملات ہی کو دیکھا جا تا ہے جب کہ آخرت کے معاملات سے اُسے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں اِس کا ترجمہ بالعموم لادینیت یا غیر مذہبیت جیسے الفاظ میں کیا جاتا ہے جو ازروئے منطق درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایک منفی تعریف ہے جس سے ہم پر یہ انکشاف تو ہوتا ہے کہ سیکولرازم کیا نہیں ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے؟ راقم کے نزدیک سیکولرازم کا درست اورمثبت ترجمہ ’’دنیاویت‘‘ ہے۔ وہ اِس لیے کہ اس کا مصدر چونکہ لاطینی زبان کالفظ ’’سیکولم‘‘ہے جس کے معنی جیساکہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں دنیا کے ہیں۔ اِس لیے سیکولرازم کے فلسفہ کو اردو میں دنیاویت کافلسفہ کہنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے اوراِس فلسفے میں یقین رکھنے والے کو سیکولر یا دنیا دار ہی قرار دیا جائے گا۔بہرحال سیکولرازم کے مروجہ اردو ترجمے پر تبصرہ کرتے ہوئے الطاف گوہر سیّد عابد حسین کے حوالے سے اپنے مضمون ’’سیکولرازم کیا ہے؟‘‘ میں لکھتے ہیں: اردو میں لفظ سیکولر کا ترجمہ لادینی، غیر مذہبی اور نامذہبی کے الفاظ سے کیا جاتا ہے اور یہ ایسے الفاظ ہیں جن سے مذہب کی مخالفت یا اِس سے بیگانگی کا مفہوم نکلتا ہے لیکن لفظ سیکولر کا حقیقی مفہوم اس دنیا سے متعلق اور دنیاوی کے الفاظ سے ادا ہوتا ہے۔۲۱؎ سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاحات اگرچہ خالصتاًمغربی ذہن کی پیداوار ہیں تاہم یورپ میں بھی اِن کا فروغ پذیر ہونا کوئی زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یورپ میں سیکولرائزیشن کالفظ پہلی بار ۱۶۴۸ء میں اُس وقت استعمال کیا گیا جب کہ جرمنی میں چرچ کی جائداد پروٹسٹنٹ حکمرانوں کو دے دی گئی۔ البتہ سیکولرازم کا لفظ ۱۸۵۱ء میں استعمال کیا گیا تھا۔۲۲؎ جب کہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق سیکولرازم کی اصطلاح جارج جیک ہولی اوک نامی ایک آزاد خیال انگریز نے ۱۸۴۰ء میںوضع کی تھی جو برمنگھم شہر کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں استاد تھا۔ جس نے ۱۸۵۱ء میں لندن میں سنٹرل سیکولر سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن قائم کی جس کا بنیادی مقصد روشن خیالی کا فروغ تھا۔ چنانچہ اِس سوسائٹی کے زیزانتظام ندائے عقل نامی ایک رسالہ بھی جاری کیا گیاتھا جس میں روشن خیالی کے حق میں مضامین شائع ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں یورپ میں سیکولرازم کی اصطلاح کے فروغ پذیر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں رومن کیتھولک پادری دو گرہوں میں بٹے ہوئے تھے ایک وہ جو کلیسائی ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے جب کہ دوسرے وہ جو عام لوگوں کی طرح شہروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اِن پادریوں کو ’’سیکولر‘‘ بمعنی دنیادار پادری کہا جاتا ہے۔ ۲۳؎ سیکولر ازم کے لغوی معنی اور اُس کے اردو ترجمہ کے مسائل پر بحث کرنے کے بعد اب ہمارا اگلا قدم سیکولرازم کی تعریف اور اُس کے حدود کی واضح نشاندہی کرنا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر مبارک علی جنھیں اپنے روشن خیال دانشور ہونے کا دعویٰ ہے سیکولرازم کی تعریف بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب یورپ کا عروج میں لکھتے ہیں : یورپ میں سیکولر عمل مذہب کے بطن سے پیدا ہوا عہد نامہ قدیم میں ہے کہ خدا نے دنیا کو پیدا کیا پھر اُسے الہی طاقت سے علیحدہ کر دیا۔ اب اِس کا مالک انسان ہے اور یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس کے معاملات کو دیکھے۔ عیسائیت میں خدا اور سیزر دونوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا ہے یعنی خدا کی اطاعت اپنی جگہ اورسیزر کی تابع داری اپنی جگہ۔۲۴؎ ڈاکٹر مولوی عبدالحق جنھیں اردو زبان کی خدمت کے صلے میں بابائے اُردو کا خطاب دیا گیاہے کی اردو ڈکشنری کے مطابق : سیکولرازم اُس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کی بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔۲۵؎ جب کہ انسائیکلو پیڈیا امریکانہ میں سیکولرازم کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو فطرت کے اصولوں پر مبنی ہے اورجو الہامی مذہب یا مابعد الطبیعیات سے جدا ہے۔اس کا پہلا اصول انسانی فکر کی آزادی ہے یعنی ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق۔۲۶؎ اوپربیان ہونے والی تعریفوں کی روشنی میں اگر سیکولرازم کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اُس کے حسبِ ذیل اصولوں کی واضح نشاندہی ہوتی ہے جن کے بغیر اِس نظام حیات کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اوّل یہ کہ سیکولرازم کے مطابق مذہب اور ریاست دو علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں جنھیں ایک دوسرے میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوم یہ کہ انسان صرف مذہب کی حد تک خدائی احکام کا پابند ہوتا ہے جب کہ وہ ریاستی معاملات میں مطلقاًآزاد ہے اور اُسے ان معاملات کو چلانے میں کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ سوم یہ کہ سیکولرازم ایک ایسے اخلاقی، معاشرتی اور تعلیمی نظام کا نقشہ پیش کرتا ہے جس کی تشکیل میں مذہب کے مادرائی اصولوں کے بجائے فطری اصولوں اور سائنسی حقائق کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔ چہارم یہ کہ سیکولرنظامِ حیات کے مطابق ریاست صرف انسان کی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کی پابند ہوتی ہے جب کہ معاد کے بارے میں فکر مند ہونا خالصتاًانسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اب اسلامی تعلیمات اورفکرِ اقبال کی روشنی میں سیکولرازم کے ان بنیادی اصولوں کا شق وار تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ریاست اور مذہب کی جدائی کا تصور جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں سیکولر نظام حیات کا سب سے زیادہ بنیادی تصور خیال کیا جاتا ہے تاہم راقم کے نزدیک یہی تووہ مقام ہے جہاں سے اسلامی سوچ رکھنے والوں اور سیکولر سوچ رکھنے والوں کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کے نزدیک دنیا میں چنگیزیت کی اصل وجہ ریاست کا مذہب سے جدا ہونا ہے جب کہ سید علی عباس جلالپوری کی رائے میں عوام کی سیاسی اور ذہنی غلامی کاراز ان دونوں کی یکجائی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے خیال میں مذہب سے ریاست کی جدائی کا یہ تصور تہذیبی اعتبار سے بہت خطرناک نتائج کا حامل ہوا کرتا ہے۔ وہ اِسے ملک و دین کی نامرادی اور چشم تہذیب کی نابصیری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک یورپ کی تمام تر سیاسی، معاشرتی اورتہذیبی خرابیوں کی اصل جڑ سیکولر نظام حیات کا یہی تصور ہے جس کی کسی صورت بھی تائید نہیں کی جاسکتی۔ کیا اقبال کے یہ اشعار ہمیں اِس بات کا ثبوت فراہم نہیں کرتے؟ تن و جاں را دو تا گفتن کلام است تن و جاں را دوتا دیدن حرام است بدن را تا فرنگ از جاں جدا دید نگاہش ملک و دیں را ہم دو تادید کلیسا سجۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد۲۷؎ یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد گرگے اندر پوستینِ برۂ ہر زماں اندر کمینِ برۂ مشکلاتِ حضرتِ انساں از دست آدمیت را غم پنہاں از دست۲۸؎ اس کے برعکس اسلام نے ریاست اور مذہب کے اتحاد کا تصور پیش کیا۔ اقبال نے اِسلام کے اس تصور کو نہ صرف اپنے نظامِ فکر میں مرکزی مقام عطا کیا بلکہ انھوں نے زندگی بھر مسلمانوں کو اِس تصور پر عمل پیرا ہونے کی تلقین بھی کی کیونکہ وہ بنی نوعِ انسان کی بقا اور اُس کی فلاح کو اس تصور سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ریاست سے مذہب کی جدائی ہی ’’چنگیزیت‘‘ کی بنیادی وجہ ہے۔ اس لیے اگر ہم انسانیت کوظلم و بربریت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک بار پھر دین اور سیاست کی یکجائی کے نصب العین کو حاصل کرنا ہوگا۔ اقبال اگرچہ نظریاتی اعتبار سے دین اور سیاست کی وحدت میں دل و جان سے یقین رکھتے ہیں تاہم وہ انتظامی اعتبار سے اُن کی علیحدگی کے تصور سے اسلام کوغیر مانوس بھی قرار نہیں دیتے۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کی تاریخ میں اس قسم کی علیحدگی کے شواہد پائے جاتے ہیں لیکن اسے یورپ کی نظریاتی علیحدگی کے ساتھ مخلوط نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ دین اور سیاست کی جدائی کے حوالے سے یورپ کے نظریاتی اور اسلام کے انتظامی تصور کا فرق بیان کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’قادیانیت ..... پس پردہ مقاصد‘‘ میں بجا طورپر لکھتے ہیں : ریاست کی مذہبی و سیاسی وظائف کی تقسیم کے اِسلامی تصور کو کلیسا اور سلطنت کے مغربی تصور سے مخلوط نہ کرنا چاہیے۔ اوّل الذکر تو محض وظائف کی ایک قسم ہے جیسا کہ اسلامی ریاست میں شیخ الاسلام اور وزراکے عہدوں کے تدریجی قیام سے واضح ہو جاتا ہے لیکن آخر الذکر روح اورمادہ کی مابعد الطبعی ثنویت پر مبنی ہے۔۲۹؎ راقم کے نزدیک جو شے اسلام کو دین کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رکھتی ہے ۔ وہ ریاست اورمذہب کا اتحاد ہی تو ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ بھی دنیا کے دیگرمذاہب کی طر ح محض ایک مذہب بن کر رہ جاتا ہے جس میں نماز روزہ رکھنے کی گنجائش تو ہوتی ہے مگر ریاستی امورکو چلانے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسلام ایک ایسی وحدت کا نام ہے جس کا ہر جزو اپنے کل کے ساتھ اِس طرح پیوستہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اُس میں رہ کر ہی موثر طورپر کام کرسکتا ہے۔ اِس لیے اسلام کے کسی بھی جزو کو اُس کی وحدت سے جدا کرنا گویا ناخن سے گوشت کو جدا کر دینے ہے۔ جس طرح پانی کے اجزائے ترکیبی آکسیجن اور ہائیڈروجن کو جدا کردینے سے پانی کا وجودباقی نہیں رہتابالکل اُسی طرح سے اسلام کا وجود بھی غنقا ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں ریاست اور مذہب کا یہ اتحاد فطرت کا وہ کھلا راز ہے جسے نہ صرف اقبال جیسا مفکر ہی جانتا ہے بلکہ اُسے اسلام کا معمولی سا علم رکھنے والا ہر انسان بھی بخوبی جان سکتا ہے۔ اسلام کے اِس منفرد پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سلیمان ندوی نے کیا خوب لکھا ہے: اصل دین الٰہی ایک ہی رہا ہے اور ازل سے ابدتک ایک ہی رہے گا اوروہ اسلام ہے اس دین کی جامعیت کی تشریح مختلف پہلوؤں سے کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔ انھی میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سلطنت اور دین کا متعدل مجموعہ ہے وہ ایسی سلطنت جو ہمہ تن دین ہے یا ایسا دین ہے جو سرتاپا سلطنت ہے مگر سلطنت الٰہی۔ ۳۱؎ اسلامی تعلیمات کے مطابق اب چونکہ اجتہاد کے تصوّر سے ریاست اورمذہب کے باہمی تعلق پر روشنی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے اب ہمیں اس تصور کی وضاحت پر بھی اپنی پوری توجہ صرف کرنا ہوگی۔ اقبال کے نزدیک اسلامی معاشرہ بھی اگرچہ ہر لحظہ بدلتی اور تغیّر پذیر دنیا میں تشکیل پاتا ہے۔ تاہم اِس کی تشکیل میں جو اصول کارفرما ہوتے ہیں وہ دوامی نوعیت کے حاصل ہوا کرتے ہیں اس لیے اسلامی معاشرے کو ہر دور میں اپنی بقا کی خاطر ثبات اور تغیر دونوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اب چونکہ اسلام جس پر معاشرے کو استوار کیا جاتا ہے۔ بنیادی طورپر عقائد ، عبادات اور معاملات جیسے تین ارکان سے عبارت ہے جن میں سے پہلے دو کا تعلق ہر لحظہ بدلتی دنیا سے ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کے معاملات کو توحید و رسالت کے اصولوں سے مربوط رکھنا ہر دور میں اسلامی معاشرہ کی ضرورت رہی ہے۔ چنانچہ وہ بنیادی قوت جو ہر دور میں اِس رابطے کو بحال رکھتی ہے فقہ کی زبان میں اُسے اجتہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی بات دوسرے الفاظ میں یوںبھی کہی جا سکتی ہے کہ ریاست کومذہب سے مربو ط رکھنے کا دوسرا نام اجتہاد ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں ثبات اور تغیر کے باہمی رابطے یعنی اجتہاد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اقبال اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: اب اگر کوئی معاشرہ حقیقتِ مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے اُس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونا چاہئیں جو حیاتِ اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جماسکتے ہیں تو دوامی ہی کی بدولت۔۳۲؎ ریاست اورمذہب کے باہمی تعلق پر اختلافِ رائے کے علاوہ اقبال اور سیکولر ذہن رکھنے والے روشن خیال دانشوروں کی فکری راہیں جدا ہونے کی دوسری بڑی وجہ بجائے خود اِسلام کے حوالے سے ریاست کے ظہور کا نظریہ بھی ہے۔ روشن خیال دانشوروں کے خیال میں اسلام کے نزول کا بنیادی مقصد ریاست کا قیام ہر گز نہ تھا بلکہ وہ دنیا میں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے آیا تھا جس کی اساسی قدروں کی تشریح قرآن میں موجود ہے۔ اُن کے نزدیک ریاست خالصتاًانسان کا بنایا ہوا ایک ایسا سماجی ادارہ ہے جس کی تشکیل میں کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے ۔ راقم کے نزدیک ریاست کا ادارہ اگرچہ اسلام کے ظہور سے پہلے وجود میں آ چکا تھا۔ تاہم یہ کہنا کہ اسلام کا بنیادی مقصد ریاست کا قیام نہ تھا بلکہ وہ صرف معاشرہ تشکیل دینے آیا تھا کسی طرح بھی درست نہیں ہے جیسا کہ اقبال کے حسب ذیل بیان سے ظاہر ہوتا ہے جو اُن کے الہ آباد والے تاریخی خطبے سے اخذ کیاگیا ہے اور جس کے مطابق وہ اسلامی دنیا میں ایک عالمگیر نظامِ ریاست پر جو وحی و تنزیل سے متنوع ہونے والی آفاقی اصولوں پر قائم ہوتا ہے ۔روشنی ڈالتے ہوئے بجا طور پر ارشاد فرماتے ہیں : دنیائے اسلام میں ایک عالمگیر نظام ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی و تنزیل کا نتیجہ ہے اور ثمرہ ہیں۔۳۳؎ اسلام کے بارے میں روشن خیال سیکولر دانشوروں کی یہ رائے کہ ریاست کا قیام اُس کے بنیادی مقاصد ہیںشامل نہ تھا بلکہ وہ صرف ایک نیا معاشرہ قائم کرنے کا آرزو مند تھا ۔تاریخی حقائق سے انحراف کرنے کے مترادف ہے۔ راقم کے نزدیک اسلام کا بنیادی مقصد اگرچہ ایک صالح معاشرے کا قیام بھی ہے تاہم سید سلیمان ندوی کے مطابق کسی جماعت کو منظم جماعت بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قانون کو چلانے اورپھیلانے کے لیے ایک قوتِ عاملہ یا قوتِ آمرہ کی ضرورت فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ ۳۴؎ اب صاف ظاہر ہے کہ وہ قوتِ عاملہ یا قوتِ آمرہ جسے کسی معاشرے کی حفاظت کے لیے بنایا جاتا ہے ریاست کے سوا اورکیا ہوسکتی ہے؟اس لیے اسلام اپنے قائم کردہ معاشرے کی حفاظت کے لیے بقول اسلام بجائے خود ایک تقدیر ہے جسے کسی دوسری تقدیرکے حوالے نہیں کیا جا سکتا کے مصداق ریاست کا قیام ضروری خیال کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھر کی جدوجہد کا بنیادی مقصد بھی دراصل ریاست کا قیام ہی تھا جس کا منطقی نتیجہ ریاست مدینہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آیا تھا تاہم کچھ روشن خیال دانشور و ریاست مدینہ کے شعوری قیام کو واقعات کا اتفاقی نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیسا کہ سید سبطِ حسن کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے: آنحضرت کبھی نہ ریاست قائم کرنے کے آرزو مند ہوئے نہ اُنھوں نے ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور نہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدوجہد کی البتہ مدینہ کے حالات ہجرت نبوی کے بعد ایسی صورت اختیار کرتے چلے گئے کہ ریاست کا قیام ناگزیر ہوگیا۔۳۵؎ اِسلامی معاشرے کی بقا اور اس کی حفاظت کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام کس قدر ضروری ہواکرتا ہے اس بات کا اندازہ ہمیں اقبال کے تصور نبوت کا مطالعہ کرنے سے بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ایک نظر اس پر ڈالنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک نبوت دو اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے ایک روحانیت کا مقامِ خاص ہے جسے وہ ولایت کا نام دیتے ہیں جب کہ دوسرا ایک سماجی ادارہ Socio-Poloitiacal Institutionقائم کرنے کا منصب اقبال کی رائے میں اگر کسی شخص میں بیک وقت دونوں اجزاموجود ہوں تو اسے نبی جب کہ صرف پہلے جزو کی موجودگی میں اُسے ولی کہا جائے گاتاہم نبوت ختم ہونے کے بعد اگرکوئی فرد یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں نبوت کے دونوں اجزاموجود ہیں تو ایسا فرد کاذب اور واجب القتل قرار پائے گا ۔۳۶؎ لیکن بنیادی طور پر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماجی ادارے کے قیام سے اقبال کی مراد کیا ہے؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہے ریاست کا قیام کیونکہ ریاست ہی وہ ادارہ ہوتا ہے جس میں کسی معاشرے کے افراد اپنے عقائد اورنظریات کے مطابق آزادانہ طورپر اپنی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے اقبال کے تصورنبوت کی رو سے ریاست کے قیام کو اگر نبی کے فرائض منصبی میں شمار کیا جائے توبیجا نہ ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی ہر ریاست کا بنیادی مقصد خدائے واحد کی حاکمیت کاقیام ہوتا ہے جس کو صرف توحید کے عقیدہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ اس لیے اب ہمیں فکر اقبال کی روشنی میں اپنی توحید کے مفہوم اور اس کے سیاسی مضمرات پر صرف کرنا ہوگی۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک توحید کا عقیدہ جہاں فرد کے نفسیاتی نشوونما کے عمل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے وہاں وہ ریاست کی اجتماعی زندگی کو منظم بنانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم یہاں صرف توحید کے اجتماعی کردار پر ہی بات کی جائے گی۔ اقبال کی رائے میں توحید کا عقیدہ ہی وہ مشترکہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر مسلمانوں کو تو کیا پوری انسانیت کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ وہ دنیا میں توحید کی بنا پر ایک ایسی مثالی ریاست قائم کرنے کے آرزو مند ہیں جو رنگ و نسل کے امتیازات مذہبی اورلسانی فسادات اور وطنی قومیت کے تعصبات سے پاک ہو۔ اُن کے خیال میں بنی نوع انسان کی وحدت ہی وہ اصول ہے جس پر ایک عالمگیر انسانی معاشرے کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے نیزبنی نوع انسان کی وحدت کا یہ اصول صرف توحید کے تصوّر ہی سے حاصل ہوتا ہے اور اخوت، حریت اور مساواتِ انسانی اِسی توحید کے تصور سے متفرع ہونے والے ذیلی تصورات ہیں جن کو اطلاقی طورپر نافذ کرنا ہر اسلامی ریاست کا دائمی منشور ہے۔ چنانچہ اقبال عقیدۂ توحید کی عمرانی قدر وقیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے خطبے’’ الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں بجا طورپر لکھتے ہیں: بہ حیثیت ایک اصولِ عمل توحید اساس ہے حریت مساوات اور حفظِ نوع انسان کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازورائے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول و زماں کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک محض جمعیتِ بشری میں مشہود دیکھنے کی۔۳۷؎ اسلامی ریاست کے تصور پر اقبال کے افکار و خیالات کا مطالعہ کرنے سے جو عمومی تاثر ہمارے ذہن میں پیداہوتا ہے اگر اُسے ایک سوال کی صورت میں بیان کیا جائے تو اس کے الفاظ کچھ یوں ہو سکتے ہیں ۔ کیا اقبال تھیو کریسی کے حق میں تھے؟ راقم کے نزدیک اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اورناں میں بھی۔ اقبال کے نزدیک جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں اسلام میں ریاست کا بنیادی کردار حریت، مساوات اور حفظِ نوع انسانی جیسے شانداراصولوں کا عملی نفاذہوتا ہے جو دراصل توحید کے تصور سے ماخوذہوتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ ریاست جواسلام کے نام پر ان اصولوں کی پاسداری میں بنائی جائے گی ۔ اقبال اُسے تھیوکریٹک ریاست کا نام دیں گے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ریاست مدینہ بھی ایک تھیوکریٹک ریاست ہی تھی جس کا اعتراف مشہور اشتراکی دانشور سید سبط حسن کو بھی کرنا پڑا ہے جیسا کہ اُن کے الفاظ طرز حکومت کے لحاظ سے یہ ریاست تھیوکریسی تھی یعنی ریاست کا حاکم اعلیٰ خدا کا رسول تھا جو تعلیمات قرآنی کی روشنی میں احکام صادر کرتا تھا۳۸؎سے ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اقبال کسی بھی ایسی ریاست کو تھیوکریٹک ریاست ماننے کو تیار نہیں جس کی زمام اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو خود کو مامور من اللہ قرار دے کر اپنے جور و استبداد کو جواز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔۳۹؎ اقبال کا تصورریاست بنیادی طور پر ان کے ما بعد الطبیعیاتی افکار سے جڑا ہوا ہے اس لیے جب تک ان کے ما بعدالطبیعیاتی افکار سے آگاہی حاصل نہ کرلی جائے اُن کا تصور ریاست سمجھ میں نہیں آسکے گا۔ اقبال کے نزدیک ازروئے قرآن اس کائنات کی اصل حقیقت مادی نہیں سرتا سر روحانی ہے جس کا مسلسل اظہار زمانی فعالیت کی صورت میں ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہ فطری قوانین ہو یامادی اشیایا پھر ہم انسانوں کے دنیوی معاملات سب کے سب روح کائنات کے بے ساختہ اظہار کی مختلف صورتیں ہی تو ہیں۔ اس لیے ہر وہ شے جسے ہم بظاہر دنیوی یا سیکولر خیال کرتے ہیں اپنی اصل میں وہ روحانی ہی تسلیم کی جائے گی۔ اب چونکہ اقبال اپنے تصور ریاست کی بنیاد توحید باری یا پھر دوسرے الفاظ میں حقیقت مطلقہ کے روحانی تصور پر رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تجویز کردہ ریاست کی حدود میں سیکولرازم کی نہ صرف از خود نفی ہوجاتی ہے بلکہ تمام تر ریاستی امور بھی احکام شریعت کی روشنی میں فیصل کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اقبال اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں اسلامی ریاست کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا طورپر لکھتے ہیں : اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسے روحانی کہتے ہیں اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ میں ہی کریں لیکن پھر ان معنوں میں تو ہر اُس ریاست کو حکومت الٰہیہ (تھیوکریٹک) ٹھہرایا جائے گا جس کی بنیاد استیلا اور تغلب کی بجائے مثالی اور عینی اصولوں پر ہے۔۴۰؎ ریاست سے مذہب کی جدائی اور ریاست کے بارے میں ایک خاص قسم کا تصور رکھنے کے بعد سیکولر ازم کا سب سے اہم ترین اصول جسے روشن خیال دانشور بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کرتے ہیں انسان کی آزادی مطلق کا اصول ہے جس کے مطابق انسان اپنے ریاستی معاملات کوچلانے میں خدا سے مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہے اور اسے کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے وہ صرف مذہبی امور کی حد تک خداکی اطاعت کرنے کا پابند ہے۔ راقم کے نزدیک انسانی آزادی کے حوالے سے جو شے سیکولرازم میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اسی شے کو اسلام میں قابل مذمت قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس اصول میں انسان کی جانب سے خدا کے خلاف بغاوت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے اسی اصول کو اپنی تنقید کانشانہ بنایاہے۔ چنانچہ خدا نے سورۂ علق کی ابتدائی چند آیات میں جنھیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آج سے تقریباًچودہ سو سال پہلے ہی انسان کی اس باغیانہ روشن کا ذکر فرمادیا ہے جس نے جدید دور میں آزادی افکار کے نام پر انسان دوستی اور خرد افروزی جیسے خوشنما فلسفوں کی صورت اختیار کر رکھی ہے جن میں انسان کو تو مرکزی مقام حاصل ہے مگر خدا کوئی فعال کردار نہیںہے۔ بہرحال سید سبط حسن آزادی فکر و نظر کی وکالت کرتے ہوئے اپنے مضمون ’’سیکولراز م‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: سیکولر ازم کی بنیاد اس کلیے پر قائم ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لہٰذا ہر فرد بشر کو اس کی پوری پوری اجازت ہونی چاہیے کہ سچائی کا ر استہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل پر خواہ اُن کا تعلق سیاسیات اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب و فن سے اپنے خیالات کی بلا خوف و خطر ترویج کرے۔ ۴۱؎ اب چونکہ اسلام بنیادی طورپر توازن اور اعتدال کا دین ہے اس لیے وہ اپنے ماننے والوں کے فکر و عمل میں بھی توازن قائم کرنے کاخواہش مند ہے۔ چنانچہ اسلام کی رو سے کسی فرد یا معاشرے مین فکری توازن اُس وقت پیا ہوتا ہے جب اُن کی عقل سلیم وحی یا آسمانی ہدایت کے مطابقت اور متابعت میں کام کرنے لگتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ایک سیکولر ذہن رکھنے والا انسان آسمانی ہدایت یا اتھارٹی کو ایک طرف رکھتے ہوئی صرف اپنے فکر و تدبیر پر ہی بھروسہ کرتا ہے ۔ اس طرح وہ گویا فکری توازن کا مظاہرہ کرنے کے بجائے فکری انتہا پسندیremism Intellectual Extکا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ خدائے واحد ایسے ہی انتہا پسند انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کی پہلی وحی میں فرماتا ہے کہ میں ہی وہ ہستی ہوں جس نے نہ صرف انسانوں کو خون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا ہے بلکہ اسے قلم لکھنا بھی سکھایا ہے اور اسے وہ علم بھی عطا فرمایا جو وہ پہلے نہیں جانتاتھا اس کے باوجود سرکشی اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہم سے بے نیاز دیکھتا ہے حالانکہ اسے پلٹ کر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اب اگر ان آیات کے بین السطور کا مطالعہ کیا جائے تو کیا ہمارا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہو کر انسان کے فیصلہ سازی کی رویے کو خدا باغیانہ روش سے تعبیر کرتا ہے حق بجانب نہ ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اب ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ اقبال فکر و نظر کی آزادی کے سوال پر کیا موقف اختیارا ختیار کرتے ہیں؟ راقم کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس بارے میں اقبال کا موقف بھی وہی ہے جو اسلام کا موقف ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے نہ صرف پر جوش حامی اورنقیب تھے بلکہ وہ دنیا کی تمام تر ترقی اورخوش حالی کو بھی فکر خداداد کا نتیجہ خیال کرتے ہیں جوانسان کو صرف اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب وہ اپنی عقل سلیم کو وحی کی رہنمائی میں چلانا سیکھ لیتا ہے ۔ اِس کے برعکس فکر و تدبر کا وہ طریقہ جسے ایک سیکولر ذہن اختیار کرتا ہے۔ اُس میں چونکہ آسمانی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار اور عقل کی خود مختاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس لیے اقبال اُسے ابلیس کی ایجاد قرارا دیتے ہیں۔ اُن کی رائے میں فکر وتدبر کی مادرپدر آزادی نہ صرف ناپختہ فکر انسانوں کو حیوان بنانے کا طریقہ ہے بلکہ وہ قوموں کی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے جیسا کہ اُن کے حسب ذیل اردو اشعار سے نمایاں ہوتا ہے: آزادیٔ افکار سے ہے اُن کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سیلقہ انسانوں کو حیوان بنانے کا طریقہ۴۲؎ اس قوم میں ہے شوخیٔ اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد۴۳؎ اقبال کے نزدیک آج کے انسان کی فکری ناپختہ کاری کی بنیادی وجہ اُس کے ثقافتی اور روحانی ماحول میں تلاش کی جا سکتی ہے جس میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے اورجس کو تشکیل دینے میں موجودہ دور کے نظام تعلیم نے بڑااہم کردار ادا کیا ہے۔ اُن کے خیال میں اِس دور کے تعلیمی ادارے انسان کو فکری آزادی تو عطا کرتے ہیں لیکن اس کے افکار وخیالات کو کسی مربوط نظامِ فکر میں تبدیل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ موجودہ دور کے نظام تعلیم کا سیکولربنیادوں پر استوار ہوتا ہے ۔ اقبال کی رائے میں یہ کوئی دین ہو یا کوئی فلسفہ یا پھر تصوف ہو یا کسی ریاست کا سیاسی انتظام دنیا میں پختہ عقائد کی بنا پر ہی تعمیر ہوا کرتے ہیں جو ہمیں صرف آسمانی ہدایت کی بدولت ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اب چونکہ سیکولر نصاب تعلیم کی تدوین میں کسی آسمانی ہدایت سے مدد نہیں لی جاتی۔ اس لیے نظام تعلیم کے تحت فارغ ہونے والے افراد کا دامن پختہ افکار وخیالات کی دولت سے خالی رہ جایا کرتا ہے۔ کیا اقبال کے یہ اشعار ہماری اِس بات کا ثبوت فراہم کرتے دکھائی نہیں دیتے؟ پختہ افکاار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز خام مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام۴۴؎ دین ہو فلسفہ ہو فقر ہو سلطانی ہو ہوتے ہین پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر حرف اُس قوم کا بے سوز عمل زار و زبوں ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر۴۵؎ اسلام اور سیکولر ازم کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ فلاحی ریاست Welfare Stateکا تصور بھی ہے اس لیے اب ہمیں اس تصور پر بی ان دونوں نظاموں کے افکاار کا مطالعہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیکولر ازم یا دنیاویت کی فلسفے کی اصل روح کے مطابق ریاست صرف فرد کے معاش کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جب کہ معاد کے بارے میں فکرمند ہونا خالصتاًفرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اب چونکہ سیکولرازم میں فلاحی ریاست کا یہ تصور عیسائیت کے خلاف جس میں صرف نجاتِ اخروی پر ہی زور دیا جاتا ہے۔ ردِ عمل کے طورپر نمودار ہوا تھا۔ اس لیے سیکولر ریاست نے خود کو فرد کی دنیاوی فلاح و بہبود تک ہی محدودکرنا ضروری خیال کر لیا تھا جب کہ اس کے برعکس اسلام کی نام پر بننے والی ریاست نہ صرف فرد کے معاش کی ذمہ داری قبول کرتی ہے بلکہ وہ اس کے معاد کی فلاح و بہوود کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی اسلام اور سیکولر ازم کے نام پر بننے والی فلاحی ریاستوں میں انسانی زندگی کا فرق قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : غرض یہ ہے کہ جو تنہا دنیا کا طالب ہے وہ آخرت سے محروم ہے لیکن جو آخرت کا طلبگار ہے اس کے لیے دونوں گھروں کے دروازے کھلے ہیں لیکن جو اپنی حماقت اور نادانی سے صرف دنیا کے ثواب کا طالب بنے گا تو دنیا تو اس کو مل جائے گی مگر آخرت کے ثواب کا دروازہ اس کے لیے بند ہو جائے گا۔۴۶؎ انسائیکلوپیڈیا امریکانہ کے مطابق جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں سیکولرازم کا تعارف ایک ایسے اخلاقی نظام کے طور پر کرایا گیا ہے جو مابعد الطبیعیاتی مذہبی اصولوں کے بجائے خالصتاًقدرتی اخلاق کے فطری اصولوں پرمبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اب ہمیں فکر اقبال کی روشنی میں سیکولرازم کی اِس حیثیت کا تنقیدی جائزہ بھی لینا ہوگا اور اُس کا اسلام کے اخلاقی نظام سے موازانہ بھی کرنا ہوگا۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے اخلاقیات کے بارے میں کچھ ابتدائی قسم کی واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ اخلاقیات کا علم انسانی زندگی کا وہ شعبہ ہے جس میں اعمال کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اب اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ وہ اخلاقی حس جس کی مدد سے اعمال کے خیروشر کافیصلہ کیا جاتا ہے۔ اب اِس سلسلے میں بنیادی سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ اخلاقی حس جس کی مدد سے اعمال کے خیر و شر کا فیصلہ کیا جاتا ہے کیا انسان میں پیدائشی طورپر موجود ہوتی ہے یا اُسے تجربے کی بدولت حاصل کیاجاتا ہے؟ فلاسفہ اس سوال کے جواب میں دوگروہوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ ہر انسان میں قوتِ غیر نری یا فطری ملکہ موجود ہوتاہے جو اُس میں حق و باطل ، خیر و شر اور اخلاقی وغیر اخلاقی شعور پیدا کرتا ہے۔ اس گروہ کی رائے میں ہر انسان کو ایک خاص قسم کا وجدان عطا ہوتا ہے جس کی بدولت وہ اشیاء کے خیر و شر سے خودبخود آگاہ ہو جاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ خیر وشر کی معرفت دوسری چیزوں کی معرفت کی طرح تجربات سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا نشوونما زمانے کی ترقی اورکثرتِ تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ علم اخلاقیات میں ان گروہوں کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سید علی عباس جلالپوری نے فرمایا ہے: اہل فکر نے انسان کی حس اخلاق کی پیدائش پر غور کرنا شروع کیا۔ اس ضمن میں دو واضح نظریے سامنے آتے ہیں ایک کو وجدانیت کہتے ہیں دوسرے کو فطرت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ وجدانیت کی روسے اخلاقی حس پیدائشی اور وہبی ہوتی ہے۔ فطرت پسندوں کاکہنا ہے انسان پیدائش کے بعد ماحول کے اثرات سے اخلاقی حس کا اکتساب کرتا ہے۔ اخلاقیات کے تمام مکاتبِ فکر انھی دو نظریات کی شاخیں ہیں۔۴۷؎ انسان میں اخلاقی حس پیدائشی طورپر موجود ہوتی ہے یا اُسے تجربے کی بنیاد پر حاصل کیا جاتا ہے؟ دیگر معاملات کی طرح اس سوال پر بھی اسلام اور سیکولرازم کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسلام کا اخلاقی نظام بھی اس کے سیاسی اور سماجی نظاموں کی طرح گہرے طور پر مذہبی عقائد کے ساتھ وابستہ دکھائی دیتا ہے اور وہ انسان کی اخلاقی حس کو پیدائشی اور وہبی خیال کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس سیکولرازم کا اخلاقی نظام مذہب کے ناتغیر پذیر عقائد کے بجائے معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات اور تقاضوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے معاشرہ بدلتا رہتا ہے ویسے ویسے اُس کا اخلاقی نظام بھی تبدیل ہوتارہتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کے اخلاقی نظام کا تعلق وجدانیت کے ساتھ جب کہ سیکولرازم کے اخلاقی نظام کا تعلق فطرت پسندی کی ساتھ ملتا جلتا ہے گویا اخلاقی نظام کے حوالے سے بھی اسلام اور سیکولرازم کی راہیں ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتی ہیں۔ بہرحال سیکولرازم کے نظام اخلاق کی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور امریکی مفکرول ڈیورنٹ نے بجا طورپر لکھا ہے: اخلاقیات کانظام دینیات پر نہیں بلکہ عمرانیات پر مبنی ہونا چاہیے۔ خیر کا تعین معاشرے کی تغیر پذیر احتیاجات پر مبنی ہونا چاہیے۔ ناتغیر پذیر وحی یا معتقدات پر نہیں ۔۔۔اس اثنا میں ہمارا فرض ہے کہ علم کی اشاعت کریں اور صنعت کی حوصلہ افزائی، صنعت و حرفت کے فروغ سے امن قائم ہوگا اور علم کی اشاعت سے ایک نیا اور فطری نظام اخلاق وجود میں آئے گا۔۴۸؎ واقعہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے وہ نظام جو عام طورپر وجدانیت کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں مستقل اخلاقی قدروں میں یقین رکھتے ہیں جو آسمانی ہدایت یا پھر دوسرے الفاظ میں مذہب سے متفرع ہوا کرتی ہیں جب کہ اس کے برعکس اخلاقیات کے وہ نظام جن کا زیادہ تر انحصار فطری اخلاق کے اصولوں پر ہوتا ہے مستقل اخلاقی قدروں کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اُن کے نزدیک اخلاقی قدریں اضافی، عارضی اور آلاتی ہوا کرتی ہیں جنھیں ہم معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات اور تقاضوں سے اخذ کرسکتے ہیں۔ معاشرے کی یہ اخلاقی قدریں کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ تو ہوسکتی ہیں لیکن بذاتِ خود مقصد نہیں نیز یہ کہ جس حد تک یہ اقدار کسی مقصد کے حصول میں ممد ثابت ہوں انھیں اُسی حد تک خیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم وجدانیت کی روسے اخلاقی قدریں نہ صرف حقیقی ،مستقل اور مطلق ہوا کرتی ہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں خیرِ محض کا درجہ بھی رکھتی ہیں۔ اب چونکہ اسلام کے اخلاقی نظام کا تعلق وجدانیت سے ہے۔ اس لیے وہ مستقل اخلاقی اقدار میں یقین رکھتا ہے جن پر وقت اور مقام کی تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑتاجب کہ سیکولر نظامِ اخلاق کے مطابق اخلاقی قدریں وقت اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ بہرحال اخلاقی نظام میں مستقل اقدار کے ماخذ پر تبصرہ کرتے ہوئے غلام احمد پرویز نے لکھا : مستقل اورمطلق اقدار کا تصور ہی پیدا نہیں ہوسکتا جب تک انسان خدا اور حیات اخروی پر ایمان نہ لائے اگر خدا اور آخرت پر ایمان نہ رہے تو مطلق اور مستقل اقدار کا تور ہی باقی نہیں رہتا اورجب مطلق اقدار کا تصور نہ رہے تو اخلاقیات کی ساری عمارت نیچے آگرتی ہے کیونکہ اخلاقیات کا قصرِ فلک بوس تو قائم ہی انہی بنیادوں پر ہے۔۴۹؎ اخلاقی نظام کے علاوہ سیکولرازم کی ایک شناخت اور بھی ہے جسے ہم اس کے معاشرتی اور تعلیمی نظاموں کا نام بھی دے سکتے ہیں جن کی بنیاد مذہب کے بجائے سائنسی حقائق پر رکھی جاتی ہے اورجن کے بارے میں خاص طورپر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اُن پر عمل کر لیاجائے تو نہ صرف فرد کومکمل آزادی کی ضمانت مل جاتی ہے بلکہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے راستے بھی کھل جاتے ہیں اس لیے اب ہمیں اپنی کچھ توجہ سیکولر ازم کے معاشرتی اور تعلیمی نظاموں پر بھی مبذول کرنا ہوگی لیکن بنیادی سوال تو یہ پیداہوتا ہے کہ معاشرہ کسے کہتے ہیں اور وہ کس اصول کے تحت وجود میں آتا ہے؟ معاشرہ دراصل افراد کے ایک ایسے مجموعے کا نام ہوتا ہے جن کے درمیان عمرانی وحدت کا یہ شعورپایا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں۔ چنانچہ جب ہم عمرانی وحدت کے اصول کی روشنی میں اسلام اور سیکولرازم کے معاشرتی نظاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہااں بھی ان دونوں کے درمیان اختلاف رائے صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال سیکولر معاشرے میں وحدت کے اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’علم اورعمل‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: لادینیت کی بنیاد پر یا اشتراکیت کی بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آئے گا وہ ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہین ہوسکتا ۔ اس لیے لا دینی معاشرے میں عمرانی وحدت کے شعور کی بنیادیا تو نسلی وحدت ہے یا جغرافیائی وحدت کے حوالے سے عمرانی وحدت کا شعور اور عمرانی وحدت کے شعور کی بنیاد حیثیت سے یہ دونوں موقف محدود و فاداری پیدا کرتے ہیں۔ ۵۰؎ اس کے برعکس اقبال کے نزدیک مسلمانوں میں عمرانی وحدت کا بنیادی اصول توحید کا عقیدہ ہے جو ہر طرح کے زمینی علائق سے بالاتر ہے۔ اُن کے خیال میں توحید کا عقیدہ ہی وہ مشترکہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر مسلمانوں کو تو کیا پوری انسانیت کوبھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ دنیا میں توحید کی بنا پر ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کرنے کے آرزو مند ہیں جورنگ و نسل کے امتیازات، مذہبی اورلسانی منافرت اور علاقائی ہد بندیوں سے پاک ہو۔ اُن کی رائے میں بنی نوع انسان کی وحدت ہی وہ بنیادی اصول ہے جس پر عالمگیر انسانی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ اُن کے نزدیک جن معاشروں کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہو او وہ اِس پر سختی سے کاربند بھی رہتے ہوں وہ معاشرے کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتے ۔ مسلمانوں کا ابتدائی معاشرہ جب تک توحید کے اصول پر قائم رہا اُس وقت تک وہ ہر قسم کی کامرانیوںسے ہمکنار رہا ہے لیکن جونہی مسلمانوں کی اِس عقیدہ پر گرفت ڈھیلی پڑی وہ زوال کی پستیوں میں جا گرے۔ بہرحال اقبال دوسرے معاشروں کی عمرانی وحدت کے اصول سے اسلامی معاشرے کے اصولِ وحدت کا موازانہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں بجا طورپر تحریر کرتے ہیں: مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کی تصور سے بالکل مختلف ہے ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن نہ اشتراک اغراض اقتصادی بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ اِس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔۔۔اسلام تمام مادّی قیود سے بیزاری ظاہرکرتا ہے۔ ۵۱؎ اسلام اور سیکولرازم کے اخلاقی اورمعاشرتی نظاموں کا تقابلی مطالعہ کرنے کی بعد اب ہمیں ان دونون کے تعلیمی نظاموں کا موازانہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے لیکن جب تک تعلیم کے مفہوم اور اس کے مقاصد نیز ان مقاصد کوحاصل کرنے کے نظام جیسے سوالوں کا جواب تلاش نہ کیا جائے۔ اس وقت تک موازنے کا یہ عمل مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ راقم کے نزدیک تعلیم دراصل ایک ایسے معاشرتی عمل کا نام ہے جو ایک معاشرہ اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی ثقافت کو نئی نسلوں تک منتقل کر سکے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد اگرچہ ہر جماعت اور ہر معاشرے میں ایک ہی ہوتا ہے یعنی معاشرے کا ارتقا اور اس کی نشوونما لیکن اس کے باوجود اس کا مفہوم ہر جماعت اور ہر معاشرے میں جدا ہو سکتا ہے۔ اِس اختلاف کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ہر معاشرے کی اپنی ایک ثقافت اور اپنا ایک اسلوبِ حیات ہوتا ہے جس میں اُس معاشرے کی تعلیم جنم لیتی اور پروان چرھتی ہے۔ اس لیے ہر زندہ اور صحت مندمعاشرہ ایک ایسا نظام تعلیم اپنانے کا پابند ہوتا ہے جو نہ صرف اس کی ثقافت اور اسلوبِ حیات سے مطابقت رکھتا ہو بلکہ وہ اسے آگے بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہو۔ بہرحال ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ثقافت کے حوالے سے نظام تعلیم کے بامقصد ہونے کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : اسلامی نظام تعلیم اسلامی مقاصد کو حاصل کرنے کی تربیت پرمشتمل ہے۔ اس لیے ہر نظام تعلیم اسلام ہو یا لا دینی اشتراکی ہو یا کسی اورنمونے کا ہر ایک کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ایک فلسفۂ زندگی ہو جس میں یہ واضح کیا جائے کہ اس کا مقصد کیا ہے؟۵۲؎ اب چونکہ اسلام اور سیکولرازم کے فلسفہ ہائے زندگی میں بنیادی طورپر زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کی بنیاد پر تشکیل پانے والے معاشروں میں بھی تعلیم کے مقاصد اور انھیں حاصل کرنے والے نظام اور نصاب بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ہوں گے۔ سیکولر معاشرے میں تعلیم کا بنیادی مقصد ایسے ہنر مند افرادپیدا کرتاہوتا ہے جو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکیں اس لیے ریاست اپنے باشندوں کے لیے تعلیم کا ایسا نظام وضع اور ایسا نصاب مدون کرتی ہے جس کی بدولت مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہوں۔ اقبال کے نزدیک ازروئے اسلام تعلیم کا بنیادی مقد اگرچہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہنرمند افراد پیدا کرنا بھی ہے تاہم قومی ہستی کا تسلسل قائم رکھنا بھی اس کے اعلیٰ ترین مقاصد میں شامل ہے جسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے خیال میں وہ نظام تعلیم جو معاشی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت تو عطا کرتا ہو لیکن قومی ہستی کا تسلسل قائم رکھنے میں معاون ثابت نہ ہو وہ مسلمانوں کے لیے ہر گز قابل قبول نہ ہوگا۔ اقبال قومی ہستی کا تسلسل قائم رکھنے کو تعلیم کا وہ بنیادی مقصد قرار دیتے ہیں جسے کسی صورت بھی معاشی فوائد کے حصول پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں بجا طورپر تحریر فرماتے ہیں : قوم کی وحدت بقا اور اُس کی زندگی کا تسلسل قومی آرزوؤں کا ایک ایسا نصب العین ہے جوفوری اغراض کی تکمیل کے مقابلہ میں بہت زیادہ اشرف و اعلیٰ ہے ایک قلیل البضاعت مسلمان جو سینہ میں ایک درد بھرا اسلامی دل رکھتا ہو میری رائے میں قوم کے لیے بمقابلہ اُس بیش قرار تنخواہ پانے والے آزاد خیال گریجویٹ کے زیادہ سرمایۂ نازش ہے جس کی نظروں میں اسلام اصول زندگی نہیں ہے، بلکہ محض ایک آلۂ جلب منفعت ہے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے سرکاری عہدے زیادہ تعداد میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔۵۳؎ اقبال کو سیکولرنظام تعلیم پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ اُس میں نہ صرف مذہب کی اہمیت و افادیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ اُسے فرد کاذاتی معاملہ قرار دے کر نصاب سازی کے عمل سے بھی مکمل طور پر خارج کردیا جاتا ہے۔ سیکولر فلسفۂ حیات کے مطابق تعلیم کا بہترین نصاب دہ ہوتا ہی جسے مذہب کا سہارا لیے بغیر خالص جدید سائنسی علوم کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔ سیکولر ذہن رکھنے والوں کے خیال میں ایسا نصاب تعلیم ہی فرد کی آزادی، ترقی اور خوش حالی کی ضمانت دے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس اقبال کے نزدیک نئے علوم کی بنیاد چونکہ محسوس ہونے والی مادی اشیا پر ہوتی ہے اس لیے ان علوم کو پڑھنے والے افراد مذہب کو جو دراصل کسی غائب اور غیر محسوس ہستی میں یقین رکھنے کا دوسرا نام ہوتا ہے وہم و گمان اور دیوانگی خیال کرنے لگتے ہیں حالانکہ اقبال کی رائے میں مذہب ہی تو وہ قوت ہے جس کی بدولت قومی ہستی کا تسلسل قائم رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر اقبال نے اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں نہ صرف سیکولرنظام تعلیم کی خرابیوں کو اجاگر کرنا شروع کیا بلکہ مسلمانوں کو اس کے مہلک اثرات سے بچنے کی تلقین بھی کی۔ مثال کے طور پر وہ یورپ میں سیکولر نظام تعلیم سے پیداہونے والے ممکنہ نتائج پر جن کی بعد کے ہولناک واقعات سے تصدیق بھی ہو جاتی ہے روشنی ڈالتے ہوئے خالد خلیل کے نام پر ایک خط میں تحریر کرتے ہیں : بحیثیت مجموعی یورپ نے اپنے باشندوں کی تعلیم و تربیت میں سے مذہب کا عنصر حذف کر دیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی بے لگام انسانیت کا کیا حشر ہوگاشاید ایک نئی جنگ کی صورت میں وہ اپنی ہلاکت کا باعث خود۔۔۔۔مذہب قوم میں ایک متوازن سیرت پیدا کرتا ہے جو حیاتِ ملی کے مختلف پہلوؤں کے لیے بیش بہا ترین سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ۵۴؎ اِسی طرح سے جب ہم اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انھوںنے ۱۹۰۸ء ہی سے مغربی نظام تمدن کے ہرشعبے کو بالعموم اور اُس کے نظام تعلیم کو بالخصوص اپنی جارحانہ تنقید کانشانہ بنانا شروع کر دیا تھاکیونکہ وہ اگر ایک طرف اپنے قیام یورپ کے دوران میں بذاتِ خود اس نظام کی خرابیوں کا مشاہدہ کر چکے تھے تو دوسری جانب برصغیر میں بھی اِس کے مہلک اثرات نمایاں ہونے لگے تھے۔ چنانچہ وہ سیکولر نظام تعلیم کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں فرماتے ہیں : خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ۵۶؎ تعلیم پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش۵۷؎ اقبال کے نزدیک جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں قومی ہستی کا تسلسل قائم رکھنے میں نظام تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نوجوان نسل کو قومی روایات کی ترسیل کاکام صرف نظام تعلیم ہی کی بدولت ممکن ہوتاہے۔ چنانچہ اقبال جب اِس معیار کی روشنی میں مسلمانوں کے موجودہ یعنی بیسویں صدی کے ابتدائی زمانے کے نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اِس نے ہماری قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے اورموجودہ نسل کا نوجوان قومی سیرت کے اعتبار سے ایک بالکل نئے اسلوب کا ماہصل ہے جس کی عقلی زندگی کی تصویر میں اسلامی تہذیب کارنگ نظر نہیں آتا۔ اس لیے اقبال مسلمانوں کے لیے برصغیر کی حد تک ایک ایسا نظام تعلیم وضع کرنا چاہتے تھے جو نہ صرف قومی روایات کی حفاظت اور قومی سیرت کی تشکیل میں مددگارثابت ہو بلکہ مسلمانوں کی دنیاوی ترقی اور خوشحالی کے مواقع بھی فراہم کر سکتا ہو۔ چنانچہ ان مقاصدکے پیش نظر اقبال ہندوستان میں ایک ایسی اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کے آرزو مند تھے جس میں قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تدریس کا بندوبست بھی کیا گیا ہو ۔ چنانچہ وہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں بجا طور پر فرماتے ہیں: پس یہ امر قطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دار العلم قائم کیا جائے جس کی مسند نشین اسلامی تہذیب ہو اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دل کش اندا سے ہوئی ہو۔اِس قسم کی تصویرمثالی کھینچنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ تخیل، زمانے کے رجحانات کا لطیف احساس اورمسلمانوں کی تاریخ اور مذہب کے مفہوم کی صحیح تعبیر لازمی ہے۔ فکرِ اقبال کی روشنی میں اسلام اور سیکولرازم کا موازنہ کرنے کا بنیادی مقصد جیسا کہ اس مضمون کے آغاز میں عرض کیا جا چکا ہے ۔ اِس دعوے کا تنقیدی مطالعہ کرنا تھا جو نیا عالمی نافذ کرنے والی قوتوں کی جانب سے بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کی مانند اسلامی دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا راز بھی سیکولر نظامِ حیات کو اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اقبال کے نزدیک سیکولر نظامِ حیات کو اختیار کرنے سے دنیاوی ترقی اور خوشحالی تو حاصل ہو سکتی ہے لیکن ایسا کرنے سے مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ماضی کی اقدار و روایات سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ اس طرح اُن کی قومی ہستی کا شیرازہ بکھر جانے کا اندیشہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اِس لیے اقبال مسلمانوں کو سیکولرنظامِ حیات سے زندگی بھر دامن کش رہنے کی تلقین کرتے رہے ہیں جیسا کہ اُن کی شاعری اورنثر تحریروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کی رائے میں سیکولرازم کا فلسفہ دراصل ابلیس کا اپنے سیاسی فرزندوں کے نام جاری کردہ وہ فرمان ہے جسے اب نئے عالمی نظام کی صورت میں مسلمانوں پر مسلط کیا جارہا ہے اور جس کا بنیادی مقصد فاقہ کش مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کا جھانسہ دے کر اُن کے بدنوں سے روح ِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبض کرناہے جیسا کہ اقبال کی ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمدؐ اُس کے بدن سے نکال دو فکرِ عرب کو دے کر فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو اہل حرم سے اُن کی روایات کو چھین لو آہو کو مرغ زارِ ختن سے نکال دو افغانیوں کو غیرت دیں کا ہے یہ علاج ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو۵۸؎ کتابیات - ڈاکٹر جاوید اقبال (مرتب) شذراتِ فکرِ اقبال (ترجمہ افتخار احمد صدیقی ) مجلس ترقی ادب ، کلب روڈ لاہور، ۱۹۸۳ء - مولانا ظفر علی خاں (مترجم)معرکۂ مذہب و سائنس ، الفیصل تاجران کتب لاہور - سید سبطِ حسن ، نوید ِفکر، مکتبہ دانیال عبداللہ ہارون روڈ صدر کراچی ۲۰۰۲ء - ڈاکٹر مبارک علی، یورپ کا عروج، فکشن ہاؤس ۱۸،مزنگ روڈ لاہور، ۲۰۰۵ء - رفیق افضل (مرتب )گفتار اقبال، ادارہ تحقیقات دانشگاہِ پنجاب لاہور - علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ نذیر نیازی) ، بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور، مئی ۱۹۸۶ء - سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیاتِ مکاتیب اقبال(جلد دوم) ، اردو اکادمی دہلی،بھارت ۱۹۹۹ء - سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی، المصباح۱۶،اردو بازار لاہور (جلد ہفتم)، - علامہ محمد اقبال ، کلیاتِ اقبال (اردو) اسد پبلی کیشنز۱۹۹، سرکلر روڈ لاہور - علامہ محمد اقبال ، کلیاتِ اقبال (فارسی) اسد پبلی کیشنز۱۹۹، سرکلر روڈ لاہور - ابوالحسن علی ندوی ، مسلم ممالک میںاسلامیت اورمغربیت کی کشمکش ، مجلس نشریاتِ اسلام، ناظم آباد کراچی، ۱۹۷۶ء - ڈاکٹر وحید عشرت (مرتب) اقبال۸۵، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۸۹ء - محمود عاصم (مرتب ) اقبال کے ملی افکار، مکتبہ عالیہ ایبک روڈ انار کلی لاہور - سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیاتِ مکاتیب اقبال(جلد دوم) ، اردو اکادمی دہلی،بھارت ۱۹۹۹ء - سید علی عباس جلالپوری ، عام فکری مغالطے، آئینۂ ادب ، چوک مینار انارکلی لاہور، سن ندارد اکتوبر ۱۹۷۵ء - ول ڈیورنٹ ، داستانِ فلسفہ (ترجمہ سید عابد علی عابد)، فکشن ہاؤس ،۱۸ مزنگ روڈ لاہور، بار دوم ۲۰۰۴ء - غلام احمد پرویز ، انسان نے کیا سوچا، طلوعِ اسلام ،۲۵-گلبرگ لاہور - ڈاکٹربرہان احمد فاروقی ، اسلام اور فلسفہ (مرتبہ شیما مجید) تخلیقات علی پلازہ ۳-مزنگ روڈ لاہور - سید عبدالواحد معینی (مرتب) مقالاتِ اقبال، آئینہ ادب چوک مینار، انار کلی لاہور ،۱۹۸۸ء - سنڈے میگزین روزنامہ نوائے وقت، ۱۰؍جون ۲۰۰۷ء - مجلہ اقبال (جولائی ۱۹۸۴ئ) بزم اقبال کلب روڈ لاہور حواشی ۱- ڈاکٹر جاوید اقبال ، شذرات فکر اقبال ، مجلس ترقی ادب کلب روڈ لاہور، ۱۹۸۳ئ، ص ۱۱۱۔ ۲- مولانا ظفر علی خان (مترجم) معرکۂ مذہب و سائنس ، الفیصل تاجران کتب لاہور، ص ۳۸۱۔ ۳- سید سبطِ حسن ، نوید ِفکر، مکتبہ دانیال عبداللہ ہارون روڈ صدر کراچی ۲۰۰۲ئ، ص ۲۳۔ ۴- ڈاکٹر مبارک علی، یورپ کا عروج، فکشن ہاؤس ۱۸،مزنگ روڈ لاہور، ۲۰۰۵ء ،ص ۹۰۔ ۵- رفیق افضل (مرتب )گفتار اقبال، ادارہ تحقیقات دانشگاہِ پنجاب ،لاہور، ص ۲۳ ۶- سید سبطِ حسن ، نوید ِفکر، مکتبہ دانیال وکٹوریہ چیمبرز ۲، عبداللہ ہارون روڈ صدر کراچی، اشاعتِ نہم ۲۰۰۲ئ، ص ۷۸۔ ۷- محمد جہا نگیر عالم(مترجم) اقبال کا خطبۂ الہ آباد در اقبال (جولائی ۱۹۸۴ئ) ، ص ۶۰۔ ۸- ڈاکٹر مبارک علی، یورپ کا عروج، فکشن ہاؤس ، مزنگ روڈ لاہور، ۲۰۰۵ء ،ص ۱۳۰۔ ۹- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۵۱۔ ۱۰- سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیاتِ مکاتیب اقبال (جلد دوم) ، اردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۹ئ، ص ۳۱۶۔ ۱۱- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۵۶۔ ۱۲- سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی، المصباح۱۶،اردو بازار لاہور (جلد ہفتم)، ص ۳۰۔ ۱۳- ظفر علی خان (مترجم) معرکۂ مذہب و سائنس، الفیصل غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص ۱۸۳۔ ۱۴- کلیاتِ اقبال (اردو)، ص ۴۳۱۔ ۱۵- سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ، (جلد ہفتم) المصباح ۱۶، اردو بازار لاہور، ص ۱۱۔ ۱۶- سید سبط حسن، نوید فکر، مکتبہ دانیال وکٹوریہ چیمبرز ۲ عبداللہ ہارون روڈ صدر کراچی ،ص ۷۱۔ ۱۷- ابوالحسن ندوی ، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ، ۱۹۷۶ء ،ص ۲۰۶۔ ۱۸- سید سبطِ حسن ، کتاب ِمذکور، ص ۱۵۸،۱۶۱۔ ۱۹- ڈاکٹروحید عشرت (مرتب) اقبال ۸۵، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص ۴۶۸۔ ۲۰- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۷۵۔ ۲۱- الطاف گوہر، ’’سیکولرازم کیا ہے‘‘؟ سنڈے میگزین روزنامہ نوائے وقت ، ۱۰؍جون ۲۰۰۷ئ۔ ۲۲- ڈاکٹر مباک علی ، یورپ کی تاریخ، فکشن ہاؤس ،۱۸ مزنگ روڈ لاہور، ۲۰۰۵، ص ۱۸۵۔ ۲۳- سید سبط حسن، کتاب مذکور، ص ۶۹۔ ۲۷- ڈاکٹر مباک علی ، یورپ کی تاریخ، فکشن ہاؤس ،۱۸ مزنگ روڈ لاہور، ۲۰۰۵، ص ۱۸۵۔ ۲۸- کلیاتِ اقبال(فارسی )، ص ۵۴۷۔ ۲۹- کلیاتِ اقبال(فارسی )، ص ۸۳۹۔ ۳۰- محمود عاصم (مرتب)اقبال کے ملی افکار، مکتبہ عالیہ انار کلی لاہور، ۱۹۷۷ء ،ص ۲۸۳۔ ۳۱- سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی ؐ(جلد ہفتم) المصباح۱۶ ،اردو بازور لاہور، ص ۶۸۔ ۳۲- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۲۷۔ ۳۳- پروفیسر جہانگیر عالم (مترجم) خطبۂ الہ آباد، مجلہ اقبال (۱۹۸۴ئ) بزم اقبال لاہور، ص ۵۸۔ ۳۴- سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی (جلد ہفتم) ،ص ۹۷۔ ۳۵- سید سبط حسن، نویدِ فکر، ص ۴۶۔ ۳۶- مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیاتِ مکاتیب اقبال (جلد چہارم)، اردو اکادمی دہلی، ص ۲۱۳۔ ۳۷- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۳۸۔ ۳۸- سید سبط حسن، نویدِ فکر، ص ۴۵۔ ۳۹- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۳۸۔ ۴۰- تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۳۹۔ ۴۱- سید سبط حسن، نویدِ فکر، ص ۷۲۔ ۴۲- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص ۵۳۷۔ ۴۳- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص ۶۴۰۔ ۴۴- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص ۵۴۳۔ ۴۵- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص ۶۰۶۔ ۴۶- سید سلیمان ندوی، سیرت النبیؐ (جلد ہفتم)،ص ۱۹۔ ۴۷- سید علی عباس جلالپوری ، عام فکری مغالطے، آئینۂ ادب ، چوک مینار انارکلی لاہور، سن ندارد اکتوبر ۱۹۷۵ء ،ص ۱۶۴۔ ۴۸- ول ڈیورنٹ ، داستانِ فلسفہ (ترجمہ سید عابد علی عابد)، فکشن ہاؤس ،۱۸ مزنگ روڈ لاہور، بار دوم ۲۰۰۴ء ، ص ۲۹۸،۲۹۹۔ ۴۹- غلام احمد پرویز ، انسان نے کیا سوچا، طلوعِ اسلام ،۲۵-گلبرگ لاہور، ص ۱۸۵۔ ۵۰- ڈاکٹربرہان احمد فاروقی ، اسلام اور فلسفہ (مرتبہ شیما مجید) تخلیقات علی پلازہ ۳-مزنگ روڈ لاہور، سن ندارد، ص ۱۲۵۔ ۵۱- سید عبدالواحد معینی (مرتب) مقالاتِ اقبال ، آئینہ ادب چوک مینارانارکلی لاہور،۱۹۸۸ء ، ص ۱۵۹۔ ۵۲- ڈاکٹربرہان احمد فاروقی ، اسلام اور فلسفہ (مرتبہ شیما مجید) تخلیقات علی پلازہ ۳-مزنگ روڈ لاہور، سن ندارد، ص ۱۵۵۔ ۵۳- سید عبدالواحد معینی (مرتب ) کتابِِ مذکور ، ص ۱۷۴۔ ۵۴- مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیاتِ مکاتیب اقبال (جلد چہارم)، اردو اکادمی دہلی، ص ۵۷۳۔ ۵۵- علامہ محمد اقبال ، کلیاتِ اقبال(اردو)،ص ۲۰۹۔ ۵۶- علامہ محمد اقبال ، کلیاتِ اقبال(اردو)،ص ۲۰۹۔ ۵۷- سید عبدالواحد معینی (مرتب)، مقالاتِ اقبال ،آئینۂ ادب ،چوک مینار انارکلی لاہور، ص ۱۷۶۔ ۵۸- علامہ محمد اقبال ، کلیاتِ اقبال(اردو)،ص ۶۰۸۔ /…/…/ اقبال کی شاعری: ایک سلسلۂ گفتگو ’’بال جبریل‘‘ رباعی مقرر احمد جاوید ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے اس قطعے کا شمار اقبال کے ان قطعات میں ہوتا ہے جو زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ اللہ سے ایک زندہ مکالمے کی فضا میں بندہ گویا برابری کی سطح پر اپنے رب کو مخاطب کر رہا ہے ----- یہ منظر اس قطعے میں صاف نظر آتا ہے۔ یہیں نہیں بلکہ اقبال کی شاعری میں جا بجا مکالمے کی یہ فضا موجود ہے۔ کہیں جذبۂ بندگی کے ساتھ، کہیں عارفانہ ٹھہراؤ کے ساتھ، کہیں عاشقانہ جوش کے ساتھ، کہیں مناجاتی انداز سے، اور کہیں شکوے کے رنگ میں۔ اقبال تقریباً ہر رخ سے خدا کو مخاطب کرتے ہیں، اور ہر طرح کے خطاب میں ایسی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ہماری شعری روایتوں میں انھی سے خاص ہے۔ یہ بے تکلفی، خصوصاً شکوے کے وقت، چونکہ اللہ اور بندے کے تعلق کے معروف اسالیب اور روایتی حدود سے باہر کی چیز ہے تو اس سے مانوس ہونے میں، اور اسے سمجھنے میں خاصی دقت محسوس ہوتی ہے۔ یہ قطعہ بھی ایک زور دار شکوہ ہے اللہ سے۔ اس میں بھی قاری، خصوصاً مذہبی ذہن رکھنے والا قاری، انھی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ یہ مشکلات چونکہ ایمانی شعور کو face کرنی پڑتی ہیں، اس لیے اس قطعے کے معنوی اور جمالیاتی پہلوؤں کی طرف متوجہ ہونے کا اسے راستا نہیں ملتا۔ کیونکہ کوئی شعری بیان اگر کسی مخاطب کے شعور میں وحشت اور اضطراب پیدا کر دے تو اس حالت میں اس بیان سے جمالیاتی تسکین حاصل کرنا خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔ اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بندے اور خدا کے تعلق کو اس وقت تک حقیقی اور بامعنی نہیں گردانتے، جب تک اس تعلق کے دنوں اطراف ----- یعنی خدا اور بندہ ----- پوری فعالیت کے ساتھ ایک دوسرے کی ضرورت نہ ہوں۔ دونوں فعال ہوں، دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہوں، دونوں کو دوسرے کی ضرورت کا ادراک اور احساس ہو، اور یہ ادارک و احساس عملاً نتیجہ خیز بھی ہو۔ بظاہر یہ پورا تصور، اس تصورِ خدا سے بہت مختلف ہے جس سے ہم مانوس ہیں، اور جو ایمانی شعور کا بنیادی مسلمہ اور حال ہے۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش ضروری ہے تاکہ اس قطعے کی معنویت اور کیفیت کو سمجھا اور محسوس کیا جا سکے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کی ایک فطری، بلکہ نفسیاتی ساخت بھی ہوتی ہے جو اللہ کے بنائے اور بتائے ہوئے معیارِ بندگی پر پوری اتر جائے تو اسی کو’ روحانی‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تعلق باللہ کی روحانی انتہا پر بات نہیں کرتے، اس کی نفسیاتی بناوٹ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں تو تعلق میں شدت، شکایت سے کچھ ایسی مناسبتیں رکھتی ہے جو تشکر کے عمل اور حال میں بھی کم ہی پائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ خیال رہے کہ تشکر کو ہم محض نفسیاتی معنی میں استعمال کر رہے ہیں، دینی اور شرعی مفہوم میں نہیں۔ ورنہ تو ساری بات خطرناک حد تک غلط ہو جائیگی۔ تو بہر حال، نفسیاتی نکتہ یہ ہے کہ تشکر تعلق کا وہ ثمر ہے جسے پا لینے کے بعد مزید کی طلب ماند پڑ جاتی ہے۔ مطلب، نفسیاتی اور طبعی سطح پر کمزور پڑ جاتی ہے، اور وہ اضطراب بھی باقی نہیں رہتا جو مسلسل آگے بڑھتے رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جبکہ یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف خدا ہے، جس کے دینے کی قوت لامحدود ہے، اور دوسری جانب بندہ ہے، جس کا کشکول کبھی نہیں بھرتا۔ اس میں لینے کی غیر محدود صلاحیت ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ خدا دیتے وقت میری اس صلاحیت کے مطابق مجھے عطا فرمائے۔ میں اس کی لا محدود فیاضی، اور اس فیاضی کے لامتناہی تسلسل کا ساتھ دے سکتا ہوں، کیونکہ میری طلب اور ضرورت بھی غیر محدود ہے۔ اس طلب میں ایک تخلیقی رو بھی چلتی رہتی ہے جو نئی نئی آرزوئیں ایجاد کرتی جاتی ہے۔ انسان کے اس تصور کے ساتھ تعلق باللہ کا جو نظریہ قائم ہو گا، اس میں بندہ کسی حاصل پر قانع نہیں رہے گا، کسی منزل پر اپنا سفر تمام نہیں کرے گا۔ کوئی مطلوب ایسا نہیں ہے جسے حاصل کر کے طلب کی تکمیل ہو جائے، بلکہ مطلوب جتنا ھاصل ہوتا جائے گا، طلب اتنی بڑھتی جائے گی۔ یہ ایسا تعلق ہے جس میں قرب کا ہر مرحلہ شکر کو پیدا کرنے کے ساتھ اگلے مراحلِ قرب کے فقدان کو ابھار کر ’شکایت‘ کے جذبے کو حرکت میں لے آتا ہے۔ یہ شکایت، اللہ پر اسی یقین سے جنم لیتی ہے، جو شکر کو پیدا کرتا ہے۔ بلکہ شدت تعلق کے پہلو سے یہ ’شکایت‘ تشکر سے زیادہ با معنی ہے۔ تو ایک آدمی اپنے آپ کو مزید اکرام، مزید انعام، مزید عطائوں کے لائق سمجھتے ہوئے، جو انعامات مل چکے ہیں ان کو جاننے، شکر گزاری سے قبول کرنے کے باوجود مزید انعامات کو شکوے کے ذریعے سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو یہ اس کا مضمون ہے، اور یہ اقبال کا اللہ کے ساتھ مزاجِ تعلق ہے۔ اس میں انتہائے قرب کا اعتماد شامل ہے۔ نیز یہ کہ جو نفسیاتِ تعلق ہم سب میں مشترک ہے، اگر اس کی رو سے بھی دیکھیں تو جتنا تعلق بڑھتا جائے گا، اتنا ہی شکایتوں کے زور میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ ایسی شکایتیں جو مزید جوڑنے کا کام کریں گی۔ اس نفسیاتِ تعلق کو اقبال نے اللہ اور بندے کے تعلق پر بھی اطلاق کر کے دکھایا ہے۔ اب وہ فقرہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دینے والے کا دینا بھی نامحدود ہے اور لینے والے کا لینا بھی لامحدود ہے۔ بس اس پس منظر میں اس کو دیکھیں کہ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے۔ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے کیونکہ میرا ساقی ہونے کے لیے شرط ہے کہ اس کے پاس شراب ہمیشہ موجود رہے۔ تو یہ جو تعطل آ گیا ہے میرے پیالے کے بھرنے میں، تو اس کی وجہ سے میں فیصلہ نہیں دے رہا، میں اپنے استعجاب کو ایک گلہ مندی کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ تعجب ہے کہ تیرے شیشے میں مے باقی نہیں! اور وہ مے باقی نہیں ہے جو تو نے صرف میرے لیے رکھی ہوئی ہے۔ ’’مرا ساقی‘‘ میں جو ’’مرا‘‘ کا لفظ ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ جو ’’مے‘‘ ہے، یہ صرف میرے لیے ہے۔ تو کہہ رہے ہیں کیا تو نے مجھے بھی دیگر رندوں کی طرح سمجھ لیا ہے جو دو چار پیالے بھر کے سلام کر کے رخصت ہو جاتے ہیں، جن کو اپنا پیالہ خالی ہوتا برا نہیں لگتا۔ تو نے مجھے ان لوگوں میں سمجھ رکھا ہے! یہ ذہن میں رہے کہ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے، یہ محال تصور ہے، یعنی باقی ہے۔ اگر یہ کہہ دیتے کہ تیرے شیشے میں مے باقی ہے تو اس میں اتنا زور نہ ہوتا جتنا اس میں ہے۔ اس مصرعے کا مطلب ہے کہ یقینا باقی ہے، بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے، یقینا تو ہی مرا ساقی ہے۔ یہ اس کا مطلب ہے۔ ان دو مصرعوں میں الفاظ کا تنوع اور لہجہ بدل کر بعض لفظوں کو پڑھنے کی گنجائش بہت ہے۔ مثال کے طور پر ’’ترے‘‘ کو خوب کھینچ کر اور تعجب کے لہجے میں ادا کیا جائے تو پورا قطعہ ایک خاص معنوی اور کیفیاتی ساخت بنا لیتا ہے ----- یعنی یااللہ ! یہ کیسے ممکن ہے کہ تیرے، ہاں تیرے شیشے میں مے باقی نہ ہو۔ یہ تو تشنگی کی انتہا کو بھی پہنچ کر نہیں سوچا جا سکتا۔ اسی طرح ’’ترے‘‘ کو سادہ انداز سے ادا کر کے ’’شیشے‘‘ کا لفظ تھوڑا سا کھینچ کر پڑھا جائے تو اس سے بھی اس قطعے کا معنوی اور کیفیاتی کُل تو وہی رہے گا لیکن اس میں کچھ نئے اجزا بھی داخل ہو جائیں گے۔ یونہی ’’مے‘‘ کے ساتھ بھی کر کے دیکھیں۔ اسے stress word سمجھ کر ادا کریں اور پچھلے الفاظ کو عام لحن ہی سے پڑھیں۔ ’’مے‘‘ کو تاکید اور پھیلائو کے ساتھ ادا کرنے سے یوں محسوس ہو گا جیسے خدا کے حضور میں انسان اپنی حقیقت، کمال اور احتیاج کے ساتھ حاضر ہے۔ اور بس اتنا ہی نہیں، بلکہ یہ احساس بھی ہو گا کہ ’’مے‘‘ خدا احوالی کا سرچشمہ ہے جس سے انسان اپنے حقائقِ بندگی کو عارف اور عاشق بن کر experience کرتا ہے۔ ایسے ہی ’’باقی نہیں ہے‘‘ کو کھینچ کر اور اچنبھے کے ساتھ زبان سے کہہ کر دیکھیں تو یوں لگے گا جیسے پورا نظامِ وجود، عدم کے اندھیرے میں ڈوب جانے کو ہے۔ معدومیت کا ایک طوفان ہے جو اٹھنے کے انتظار میں ہے۔ ’’نہیں ہے‘‘ کے ٹکڑے میں جو ڈرائوناپن ہے وہ سوال و جواب کی معروف صورتوں اور حالتوں سے ماورا ہے۔ ہر موجود و معدوم اس کے دائرے میں سمایا ہوا ہے، اور خود یہ ’’نہیں ہے‘‘ کسی دائرے میں محدود نہیں ہے۔ یہ ذرا شاعرانہ سا فقرہ ہو گیا، لیکن خیر کوئی بات نہیں، ہم بہرحال شاعری ہی پڑھ رہے ہیں۔ غرض اسی طرح لفظوں کی ادائی میں، اور اپنے لہجے میں تنوع پیدا کر کے اس قطعے کے مختلف احوال کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ احوال محسوس ہو جائیں تو معانی میں بھی جان پڑ جاتی ہے، اور ان کی مختلف جہتیں بھی باہمی مناسبت اور ٹکرائو کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔ ارے یاد آیا، دوسرے مصرعے میں ’’مرا‘‘ کا لفظ بھی بہت بامعنی اور کیفیت انگیز ہے۔ ’’مرا‘‘ کو بھی کم و بیش اسی آہنگ میں recite ہونا چاہیے جس آہنگ میں پہلے مصرعے میں ’’ترے‘‘ کو پڑھا جائے۔ جس طرح ’’ترے‘‘ میں اللہ اپنے شکوہ و جلال اور جمال و کمال کے ساتھ دل اور ذہن کو اپنی طرف یکسو کرتا ہے، اور بندہ انکشاف اور حضور کی حالت سے خود کو گزرتے ہوئے محسوس کرتا ہے، اسی طرح ’’مرا‘‘ کی گونج اور وسعت میں پورا انسان اپنے تمام حقائق اور کمالات سمیت حاضر ہو جاتا ہے۔ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے یہاں جو ہے ’مے‘ کو سمجھ لینا چاہیے تو یہ سب کچھ کھل جائے گا۔ اقبال حضور خداوندی میں یہ عرض کر رہے ہیں کہ ایک تو مجھے وہ شعور عطا فرمائیے جو میری حدود و قیود بھی متعین کر دے، آپ کی شناخت بھی فراہم کر دے۔ ’مے‘ پہچان دیتی ہے اپنی، اور جس نے بنائی ہے، جس نے پلائی ہے، اس کی۔ ساقی کو جاننے کے لیے رندی ضروری ہے اور اپنے آپ کو جاننے کے لیے بھی کہ ہم کیا ہیں؟ ہم وہ وجود ہیں جس کی معروضی تعریف متعین ہے، یعنی ہمیں define کرنے میں زیادہ کردار ہماری حقیقت کے شعور کا نہیں ہے، ہماری عملی وضع و حیثیت، ہماری فعلیت کا ہے۔ ہم اپنے معروض سے define ہوتے ہیں۔ تو اس تعریف و حدبندی کی تنگنائی کو شراب توڑ دیتی ہے، یعنی شراب ہماری معروضی تعریف کو توڑ دیتی ہے۔ ہماری تعریف ہمارے لیے بھی متعین کرتی ہے، اور اپنے پلانے والے کی شناخت اور تعریف بھی فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ جو تعلق ایک رند اور ساقی کا ہوتا ہے، وہ براہ راست ہوتا ہے۔ تو ’مے‘ کو بہ اعتبارِ معنی دو تین مرحلوں میں دیکھنا چاہیے۔ پہلا مطلب ہے اپنا شعور اور تیرا شعور، جو تو فراہم کرے گا، میں اسے قبول کر کے استعمال کروں گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ میری تمنا ہے کہ مجھے وجود کا وہ حال نصیب ہو جو تیرے وجود کا ذوقی تجربہ کروا دے۔ میں وجود کے ایسے حال کا طالب ہوں جو حال تیری ملکیت ہے۔ وہ حال مل جائے تو میں انسان ہونا بھی تجربہ کر لوں اور تیرا خدا ہونا بھی میرا تجربہ بن جائے، خدا ہوئے بغیر۔ ساقی اور رند کی تفریق اس قطعے میں آخر تک باقی ہے، تو خدا ہوئے بغیر خدا کے ہونے کا ذوقی تجربہ کر لینا، یہ حال ہے۔ تیسرا میرا یہ مطالبہ ہے کہ میرا شعور اور نظمِ وجود یکساں نہیں ہے۔ کیوں یکساں نہیں ہے؟ کیوں کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ میں نہیں ہوں۔ میرا معلوم، میرا غیر ہے۔ یہ قید مجھ پر اتنی سختی سے لگا دی گئی ہے کہ میں جتنا خود اپنے آپ کو معلوم ہوں، میں خود بھی اپنا غیر بن جاتا ہوں۔ میں اپنے علم میں آتے ہی اپنا غیر بن جاتا ہوں۔ یہ ذرا سی باریک بات ہے۔ تو انسانی علم اور شعور کی بناوٹ ایسی ہے کہ اس کا ہر مشمول انسان کا غیر بن جاتا ہے، یعنی ہمارا علم غیریت کو متحقق (realize) کرواتا ہے۔ غیریت کو لزوم دیتا ہے، غیریت کو اصول بناتا ہے، اور یہ اصول اتنا مضبوط، ہمہ گیر اور بے لچک ہے کہ میں خود جتنا اپنے علم میں ہوں، اتنا ہی اپنا غیر ہوں۔ تو اس مسئلے سے اپنی جان چھڑانے کے لیے، اس انتہائی بڑے المیے سے خود کو نکالنے کے لیے میری تمنا یہ ہے کہ یا اللہ میرے شعور اور وجود کو عینِ یکدگر (identical) کر دیجیے۔ ’مے‘ وہ وسیلۂ شناخت، ذریعۂ خود شناسی ہے جو شعور اور وجود کو identical بنا دیتا ہے۔ کیوں بنا دیتا ہے؟ ’مے‘ کہتے کسے ہیں روایتی طور پر؟ معنی کا حال بن جانا، حال ہی کا معنی بن جانا۔ ’مے‘ کیا ہوتی ہے! معنی کو حال بنا دیتی ہے، حال کو معنی بنا دیتی ہے۔ تو معنی کا حال یا حال کا معنی بن جانا، دراصل شعور اور وجود کا ایک ہو جانا ہے۔ غیریت کا یہ جبر جو ہے، اگر یہ اٹھ جائے تو میرے وجود کی نشوونما کے احکامات اسی طرح غیر محدود ہو جائیں گے جس طرح غیر محدود امکانات پر مجھے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ ساقی بن کر۔ اللہ ساقی بن کر جو مجھ پر فیضان کرتا ہے، اس فیضان میں ان تینوں مطالبات کی تکمیل موجود ہے۔ تو اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ یا اللہ وہ شراب جو ہے، کیا وہ آپ کے شیشے میں باقی نہیں رہی! کیونکہ میرے مسئلے تو وہی ہیں۔ میرا علم بھی بڑھ رہا ہے، میرا تجربہ بھی بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ احساس غیریت بھی بڑھ رہا ہے۔ تو اب ان تینوں مطالبات کو ذہن میں رکھیے۔ ان تینوں مطالبات کی تکمیل کا ذریعہ ’’مے‘‘ ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ کیا اب تو وہ فیضان نہیں فرما رہا میرے اوپر۔ مراد یہ ہے کہ اب کیا وہ فیضان مجھ پر نہیں ہو رہا۔ مجھے تو خلق ہی تو نے کیا تھا اس فیضان کی قبولیت دے کر۔ تو اب کیا تو اپنے مقصد تخلیق کو پورا نہیں کرے گا؟ تو فیضان ایک بہت اہم لفظ ہے۔ تصوف کی بڑی اہم اصطلاح ہے جو الوہی معاملات میں بھی استعمال ہوتی ہے اور مخلوق کے درجے میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ تو مانگنے کا سب سے مؤثر طریقہ کیا ہوتا ہے جوش دلانا۔ یعنی یہ کہ تو میری مدد نہیں کر سکتا۔ اس کو اس رنگ میں دیکھیے تو چیزیں بہت زیادہ مؤدبانہ محسوس ہوں گی۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں اقبال نے عشق اور ادب کو یکجان کیا ہے عشق کے غلبے کے ساتھ۔ یہ ایک بہترین قوام ہے کہ بندگی عشق اور ادب کا مجموعہ ہے۔ بعض لوگوں میں عشق ادب پر غالب ہو جائے تو بھی وہ بندگی کی حقیقت پر کھڑے ہیں۔ بعض لوگوں میں ادب عشق پر غالب آ جائے تو وہ بھی بندگی کی دوسری حقیقت اور دوسرے موقف پر کھڑے ہیں۔ تو یہ وہ موقف ہے جہاں آدمی کا عشق ادب پر غالب ہے۔ وہ کہتے ہیں نا ’’ہر شوق نہیں گستاخ‘‘ تو کون سا شوق گستاخ نہیں ہے؟ جو ادب سے خالی ہے۔ وہ مثبت معنوں میں گستاخ نہیں ہے، منفی معنی میں گستاخ ہے۔ تو مانگنے کا مطلب ہے دینے والے کے لیے اپنی تمنا کو پرکشش بنا دینا۔ دینے والا آپ کی تمنا سے خوش ہو جائے۔ اپنی تمنا کو پرکشش بنانے کے یہ سارے جتن کیے جا رہے ہیں۔ ’ساقی‘ وہ ذات ہے، وہ وجود ہے جو اپنے آپ کو بھی ظاہر کرتا ہے اور جس کو شراب دے رہا ہے، خود اسے بھی اس پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی ساقی اور رند میں ساقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے نا۔ تو ساقی کون ہے۔ وہ شراب دیتے ہوئے خود ظاہر ہوتا ہے اور شراب پلا دینے کے بعد وہ رند پر اپنی معرفت یعنی رند کو خود اپنے آپ سے آشنائی کے انتہائی مراحل بھی طے کروا دیتا ہے۔ تو ساقی وہ ہے جو خود کو ظاہر کرے اور دوسرے کو بھی خود اس پر ظاہر کر دے، اور جس کا ظہور مشروط ہو ناظر کے ظہور سے۔ اب یہ پوری بات ہو گئی کہ جس کا عرفان مشروط ہو ناظر کے عرفان سے، وہ ساقی ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ کی معرفت کی شرط ہے معرفتِ خویش۔ تو اس کی اپنی معرفت یعنی اللہ کی معرفت کا اندازِ حصول معرفت نفس کے اسلوب میں ہی ہو گا، ورنہ نہیں ہو گا۔ اب آپ سوچیں کہ یہ کتنا بڑا فیضان ہے کہ اللہ یعنی حقیقت الحقائق اپنی معرفت کو مشروط کر رہا ہے، ہم رنگ کر رہا ہے، ہم حال کر رہا ہے معرفتِ نفس سے۔ تو اس پورے عمل کا نتیجہ شعور اور وجود کا عین ہونا نہیں نکلے گا! اس پورے عمل کا نتیجہ وجود کے پورے مظاہر کی ہم احوالی کی شکل میں برآمد نہیں ہو گا؟ اسے ذرا اور کھولیے تھوڑے سے شاعرانہ انداز میں۔ ساقی کہتے ہیں غیاب کو حضور سے بدلنے والا۔ اپنے غیاب کو بھی، میرے غیاب کو بھی۔ اس پر ذرا سا غور کیجیے گا۔ شراب کہتے ہیں وہ چیز جو بے حضوری کو حضوری بنا دے۔ ساقی کا غیاب بھی حضور میں بدلے اور پینے والے کی بے حضوری کو بھی حضور میں بدلے۔ تو حضور ہی نام ہے شعور اور وجود کی یکجائی کا۔ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک چیز عرض کر دوں کہ اقبال کے یہاں مصرعوں میں ربط بہت گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔ طویل نظمیں ہوں یا قطعات وغیرہ، ہر بیان میں اس کے تمام اجزا شروع سے آخر تک ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ الفاظ اور مصرعوں کا یہ آپسی جوڑ نثری انداز کا نہیں ہوتا، بلکہ اس ربط کی تعمیر میں وہ خاصی خلاقی اور چابک دستی دکھاتے ہیں۔ ان کا تقریباً ہر شعری بیان ایک مربوط بہائو کی طرح ہوتا ہے جس میں مضمون کا تسلسل ، تصویروں کی حرکت اور آوازوں کی ہم آہنگی، یہ سب کارفرما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال کی ایک تکنیک یہ ہے کہ وہ اکثر مقامات پر مصرعوں میں ایسا ربط پیدا کرتے ہیں جس میں اگلا مصرع پچھلے مصرعوں کے تمام معانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے نہیں ہوتا بلکہ اس طریقے سے ہوتا ہے کہ اگر ایک مصرعے میں چار معانی بیان ہوئے ہیں تو اگلے مصرعے میں یا اگلے شعر میں ممکن ہے کہ دوہی معانی اظہار پائیںاور ان دو کا تعلق پچھلے معانی کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ پڑھنے والا یہ کہہ سکے کہ بات کو دہرایا جا رہا ہے۔ اب اسی تیسرے مصرعے کو دیکھیے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ معانی کے لحاظ سے پچھلے دو مصرعوں میں بیان شدہ معنی قدرے سکڑ گیا ہے، یا اصطلاح میں کہیں تو زیادہ particularise ہو گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو صورت (form) کے لحاظ سے تیسرے مصرعے میں ایک توسیعی عمل نظر آتا ہے۔ ’’مے‘‘ معنی میں سمندر سے زیادہ ہے، اسی طرح ’’شیشہ‘‘ بھی سمندر کے مقابلے میں زیادہ بامعنی ہے، تاہم باعتبارِ صورت، سمندر کی تصویر زیادہ بڑی ہے۔ یہ بات کہہ کر اچانک خیال آیا کہ یہ بات صرف ایک پہلو سے ٹھیک ہے، ہر پہلو سے نہیں۔ پوری بات جو ابھی ذہن میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس مصرعے میں پچھلے دو مصرعوں کے ساتھ ربط کا ایک دہرا انداز پایا جاتا ہے۔ اس کے تین کردار ہیں: سمندر، پیاسا اور شبنم۔ سمندر کی رعایت پہلے مصرعے کے ’’شیشے‘‘ کے ساتھ ہے، پیاسا دوسرے مصرعے کے متکلم کا عنوان ہے، اور شبنم مصرعے میں مذکور ’’مے‘‘ سے جڑی ہوئی ہے۔ اب ان کے درمیان مناسبتوں کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ایک دو نمونے کے طور پرہم نے ابھی عرض کیے ہیں۔ ہماری صوفیانہ شعری روایت میں اللہ کے ساتھ تعلق میں ایک ایسی بے تکلفی خاصی عام ہے جو ادب کو مصنوعی نہیں بننے دیتی، اور بندے کو اپنے طے شدہ حدود سے باہر نکل کر اللہ سے کلام کرنے کی ایک ایسی فضا میں لے جاتی ہے جہاں اس تعلق کے معروف تقاضے اس طرح پورے ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے جس طرح اس تعلق کی احوالی اور اظہاری روایت میں ایک مرکزی دھارے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ اس فضا میں بندہ یوں لگتا ہے کہ اپنی حیثیت سے تجاوز کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود خدا کا مرتبہ کسی پہلو سے مجروح نہیں ہونے دیتا۔ اقبال ، حضور الہیہ میں جہاں شکوے کا رنگ اختیار کرتے ہیں، وہاں اکثر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہم، اس طرح کی صورتحال میں بھی اقبال بندے کو اس کی معروف حیثیت سے بہت آگے بڑھا دینے کے باوجود اسے بندگی کے ideals سے ہم آہنگ رکھتے ہیں۔ یعنی بندگی یا آدمیت کے حقائق اور امکانات کو اس کی عملی محدودیت پر غالب کر دیتے ہیں۔ اسی عملی محدودیت کو ہم بندے کی حیثیت کہہ رہے ہیں۔ جب بندہ اپنے آدرشی وجود میں ڈھل کر اللہ سے کلام کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اپنی واقعی حیثیت سے تجاوز کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم بھی بے تکلفی سے کہیں تو اس قطعے میں، خصوصاً تیسرے مصرعے میں اللہ کی فیاضی کو جوش میں لانے اورا بھارنے کی کوشش کی جارہی ہے، یعنی اللہ کے بحر کرم سے پیاسے بندے کو شبنم جتنی مقدار میں پانی ملے تو کہیں وہ پیاسا بندہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ سمندر بس اتنا ہی ہے، شبنم جتنا! اس پہلو سے اللہ کی جناب میں ایک عارفانہ اعتماد اور عاشقانہ اضطراب کے ساتھ عرض کیا جا رہا ہے کہ یا اللہ! تیری عطا میری طلب سے کم تو ہو نہیں سکتی، مگر اس کے باوجود کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم تیرے سمندر کو شبنم مان لیں اور یہ تسلیم کر لیں ہماری طلب کی تکمیل تیری عطا سے بھی نہیں ہوگی !ظاہر ہے کہ بندگی کی انتہائی گہرائی اور پوری سچائی کے ساتھ ابھرنے والی یہ آواز اللہ سنے گا ضرور۔ وہ بھلا کب چاہے گا کہ اس کے سمندر کو شبنم سمجھا جائے اور اس کی فیاضی کو محدود جانا جائے۔ اور ہاں، یہاں ’’پیاسا‘‘ بھی بہت اہم ہے۔ پیاسا وہ ہے جو کامل سیرابی کا متمنی ہے۔ وہ جو بات میں عرض کر رہا تھا کہ دینے والے کا دنیا بھی لامتناہی ہے اور مانگنے والے کا لینا بھی غیر محدود ہے، تو یہاں لینے والے کی غیر محدودیت ’’پیاسا‘‘ کے کردار میں مجسم ہو گئی ہے۔ یعنی سمندر کا پیاسا، لا محدود فیضان کو قبول کر سکنے کی صلاحیت رکھنے والا۔ اب دیکھیں، صلاحیت تو لا محدود ہے مگر جو دیا جارہا ہے وہ بہت ہی محدود ہے۔ یہ تقابل کسی واقعیت پر قائم نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا مبالغہ ہے جو اپنی التجا میں شدت پیدا کرنے کے لیے روا رکھا گیا ہے۔ اس اسلوب کی خاصیت یہ ہے کہ جو نہیں مانا جارہا بظاہر اسی کو مانا جارہا ہے، یا جو لفظوں سے مانا جارہا ہے، معنی اس کا انکار کرتے ہیں۔ چوتھے مصرعے میں ’’بخیلی‘‘ کے لفظ کا استعمال اسی اسلوب میں کیا گیا ہے کہ میں تجھے ہر گز بخیل نہیں سمجھتا، میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے یا اللہ! میں تیری شان فیاضی تو اچھی طرح دیکھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہوں۔ لاریب، تو ہی رزاق ہے بس مجھے اپنی رزاقی کا تجربہ فراہم کردے۔ یقین پہلے سے موجود ہے، بس ایک حال درکار ہے۔ یہاں رزاق سے مراد ہے رزقِ وجودی فراہم کرنے والا، کمالاتِ وجود کے تمام وسائل عطا کرنے والا۔ یعنی رزاق وہ ہے جو جود کے اقتضا اور تشنگی کی کامل اور مسلسل تسکین کرتا ہے۔ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم ---- اس مصرعے کی خوبصورتی دیکھیے کہ کس حسن اظہار کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ میں دنیا وغیرہ کا پیاسا نہیں ہوں، مجھے تو بس تیری پیاس ہے۔ آپ سمجھ گئے ناں! اس سے مضمون کی بلندی کا احساس اور ادراک ہو جاتا ہے۔ یہ غریبی ‘ بیماری اور مصیبت زدگی وغیرہ کا شکوہ نہیں ہے بلکہ اپنی ایسی وجودی تکمیل کا تقاضا ہے جو تعلق باللہ کے عارفانہ اور عاشقانہ مقامات طے کروا دے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو اقبال کہہ رہے ہیں کہ سمندر اگر شبنم بن کر ظاہر ہو گا تو ایک طرف پیاسے کو اپنی پیاس بری لگنے لگے گی، اور دوسری جانب وہ سمندر کو بھی شبنم سمجھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اب بھلا خدا اپنے بارے میں اس معرفت کو جو اس کے بالکل شایان شان نہیں ہے، کیسے روا رکھے گا۔ سمندر کب چاہے گا کہ اسے شبنم سمجھا جائے۔ آپ نے دیکھا کہ کس صداقت اور مہارت کے ساتھ شکوے کو عاشقانہ ندا اور دعا بنا دیا گیا ہے۔ اس قطعے کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں جہاں ’’نہیں‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کو اثباتی معنی میں لیا جائے، یعنی کہ تیرے ہی شیشے میں مے باقی ہے، تو ہی میر اساقی ہے، تو ہی رزاق ہے۔ ۔۔ ئ…ئ…ء اقبال، شام اور مذہبی تحمل ڈاکٹر زاہد منیرعامر دمشق کو ایک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھنے کی ہوس تھی یا اقبال کے پیغام کی کشش کہ مجھے جامعہ دمشق کے کلیہ شریعہ کی طرف سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ’’موتمر التسامح الدینی فی الشریعہ الاسلامیہ ‘‘ میں شرکت کا بلاوا آگیا ۔قاہرہ کی گوناگوں مصروفیات میں ایک بار پھر بیرونی سفر کے لیے وقت نکالنا اور محدود مدت میں مقالہ تیار کرنا آسان نہ تھا لیکن اقبال کے پیغام کی محبت نے اسے آسان کردیامیںنے اپنے لیے مذہبی تحمل و برداشت کے حوالے سے کلام اقبال کے مطالعے کا موضوع منتخب کیاجسے میزبان یونی ورسٹی نے بلا تامل قبول کرلیا۔ سفارت خانوںکے کڑے مراحل سے گزر نے کے بعد میںنے دمشق آمد کی اطلاع کلیہ شریعہ جامعہ دمشق کے ڈین ڈاکٹر محمد الحسن البغا کو دے دی اوریوں دس جولائی ۲۰۰۹ء کی سہ پہر کو میں ایک بار پھر دمشق ایر پورٹ پر تھا ۔میزبان یونی ورسٹی کے نمائندے نے استقبال کیا اور وہ مجھے جامعہ دمشق کی گاڑی میں بٹھا کر فندق فردوس دمشق لے گیا۔ یہاں عالم عرب کے متعدد ممالک کے سکالرز آئے ہوئے تھے اور باقی ابھی آرہے تھے ۔رات تک مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اگلے دن صبح یونی ورسٹی کی گاڑی ہمیں ہوٹل سے جامعہ دمشق کے کانفرنس سنٹر قاعۃ رضا سعید للموتمرات لے گئی جہاں سوا نو بجے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کاپرجوش آغاز ہوااجلاس کے کمپیر ڈاکٹر علی اسعد نے التسامح کے لفظ پر روشنی ڈالی اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت پر زور دیا ان تمہیدی کلمات کے بعد شام کا قومی ترانہ نشید العربیۃ السّوریۃ بجایا گیا جس کے احترام میں سب مہمان کھڑے ہوئے۔ قومی ترانے کے بعد تلاوت ہوئی سورہ النحل کی وہ آیات جن میں حضرت ابراہیم ؑ کی یکسوئی اور اصول دعوت کا بیان ہے تلاوت کی گئیں ۱؎ کانفرنس کا موضوع چونکہ دینی تحمل اور برداشت تھا اور تین بڑے سماوی ادیان میں حضرت ابراہیم ؑ یکساں محترم ہیں اس لیے اس موقع پر ان آیات کا نتخاب بہت مناسب تھا۔ امت کو آج جہاں بقائے باہم کے لیے تسامح یعنی تحمل و برداشت کی ضرورت ہے وہاں دعوت کے لیے بھی حکمت اور اور موعظہ حسنہ کی ضرورت ہے اس لیے قرآن کا یہ پیغام ہماری توجہ چاہتا ہے کہ بے شک ابراہیم اللہ کے تابع فرمان اور یک سو پیش وا تھے ،وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے اللہ نے انھیں چن لیا تھا اور راہ راست کا شعور عطا کردیا تھااس طرح انھیں دنیا میں بھی بہتری دی گئی اور آخرت میں بھی ان کا شمار صالحین میں ہوگا،رسول اللہ ؐ کو بھی ان کی پیروی کا حکم دیا گیا وہ جو یک سوتھے(یک سوئی، پریشان خیالی کی ضد ہے ) اور جن کا عمل آلودئہ شرک نہیں تھااسی مقام پر اصول دعوت بھی بیان کیا گیاکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے حکمت ،خیر خواہی، بہترین نصیحت، رفق، ملائمت، مہربانی، جدال بالاحسن،اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے درشتی، شدت اور تلخی کی نہیں …کاش دین کی بنا پر شدید رویے اپنانے والے قرآن کے اس پیغام پر غور کریں ۔اسی آیت میں متصلاً خالق ِکائنات نے یہ بھی کہا ہے کہ یقیناآپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔دیکھیے ،نور قرآنی سے مستنیر،اقبال کی آواز کتنی واضح ہے بی خبر از سرّ دین اند این ہمہ اہل کین اند اہل کین اند ایک ہمہ اہل دین را باز دان از اہل کین ہم نشین ِحق بجو با او نشین۲؎ عالمی اور بالخصوص عالم اسلام کے حالات کے تناظر میں ان آیات کی تلاوت اور شام کے خوش گلو قاری کی آواز نے سماں باندھ دیا۔کانفرنس کاتعارف بھی ہوچکا ،قومی ترانہ بھی اور اب تلاوت بھی ہوگئی لیکن ابھی تک مہمانوں کو سٹیج پررکھی کرسیاں سنبھالنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی، شام کے وزیر اوقاف کا استقبال کیا گیا اور ایک بار پھر سٹیج سیکریٹری نے ایک ایسے زمانے میں جب کہ تہذیبوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اس کانفرنس کے انعقاد کی غرض و غایت اور اہمیت پر روشنی ڈالی۔اور شام کے ایک بزرگ سکالر الاستاذ الدکتوروہبی الزحیلی کو خبطاب کی دعوت دی گئی انھوں نے جامعہ دمشق کی طرف سے مہمانوں کو خوش آمدیدکہا ۔وہ اگرچہ کہن سال بزرگ تھے لیکن ان کا لب و لہجہ اور انداز بہت پرجوش تھاانھوںنے التسامح کے مفہوم کو روشن کرتے ہوئے موجودہ عالمی صورت ِحال میںاسلام کے مقام اور مسلمانوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا خطاب خاصا تفصیلی تھا لیکن انداز بیان کے باعث طول کلام بوجھل نہیں ہوا ۔وہبہ الزحیلی میزبانوں کے نمائندے تھے تو اب مہمانوں کے نمائندے کی باری تھی چنانچہ مہمانوں کی طرف سے الموسسات المالیہ الاسلامیہ قطر کے پروفیسر ڈاکٹر علی القرضاوی کو دعوت دی گئی انھوںنے جامعہ کی جانب سے حسن استقبال کو سراہتے ہوئے رئیس الجامعہ اور عمید الکلیہ کا شکریہ ادا کیا ۔دمشق شہر کی تعریف کی یہاں کے تاریخی آثار اور اس کی اہمیت کا بیان کیا۔عربی اشعار سے اپنی تقریر کو سجایا اس وقت مسلمانوں کے بڑے مسئلے کی حیثیت سے مسئلہ فلسطین کا ذکر کیا اور غزہ پر اسرائیل کے ظلم و ستم کی مذمت کی ،ان کا کہنا تھا کہ اس پس منظر میں اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے یہ ایک موزوں وقت ہے ۔ ڈاکٹر قرضاوی کے بعد کانفرنس کے مہتمم اور عمید الکلیہ کی حیثیت سے ہمارے براہ راست میزبان پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن مصطفیٰ البغا کا خطاب تھا انھوںنے قرآن حکیم کے حوالے سے اس حقیقت کو روشن کیا کہ سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھااس لیے بقائے اصلح کی اس دنیا میں تفوق و برتری کی بنیاد نسل و قومیت نہیں ہے۔اس اجلاس کی آخری تقریر جامعہ دمشق کے وائس چانسلر الاستاذ الدکتور السید وائل المعلیٰ کی تھی انھوںنے بحیثیت سربراہ ادارہ انبیا و صلحا کی اس سرزمین پر تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہادمشق کی تاریخی اہمیت بیان کی اپنے ایک پیش رو مقرر کی طرح انھوںنے بھی مسلمانوں کے بڑے مسئلے کے طور پر فلسطین کے مسئلے کا ذکر کیا۔عالم اسلام میں کسی کو اس مسئلے کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن آج عالم اسلام دہشت گردی کے جس عذاب سے گزر رہا ہے اسے کسی مقرر نے موضوع سخن نہیں بنایا۔ اگرچہ کانفرنس کا موضوع اس مسئلے کے ساتھ براہ راست متعلق تھالیکن بعد میں پیش کیے جانے والے مقالات بھی زیادہ تر اکیڈیمک تھے عصری صورت حال کم ہی زیر بحث آسکی ۔راقم کا مقالہ کانفرنس کے تیسرے سیشن میں تھا،راقم کا مقالہ اس کانفرنس میں پیش کیا جانے والا واحد انگریزی مقالہ تھا مقالے کا عنوان Religious Tolerance and Muhammad Iqbal's Philosophy. تھامیرے ساتھ جن دوسرے مقالہ نگاروںنے اس سیشن میں اپنے مقالات پیش کیے ان میں ڈاکٹر نصار نصار ڈاکٹر فرید ہ جاوید اورڈاکٹر علی عکام شامل تھے ڈاکٹر نصار پاکستان میں رہ چکے ہیں اورکسی حد تک اردوسے آشنا ہیں ان کے مقالے کا عنوان اسس التعایش فی الاسلام تھا جبکہ ڈاکٹر علی عکام کا مقالہ منھج الدفع بالحسنیٰ(رویہ قرآنیہ)اور ڈاکٹر فریدہ حاید کا مقالہ السماحۃ فی الفقہ الاسلامی کے موضوع پر تھا۔راقم نے اپنے مقالے میں کہا: وحدت آدم کی بنیاد احترامِ آدم پر استوار ہے ۔اسلام احترام آدم کی تعلیم دیتا ہے تمام دنیا کو ایک کنبہ قرار دینے والے دین اور اس کے نبی نے ایک اسلامی مملکت میں اہل اسلام ہی کی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کی بھی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی نجران کے عیسائیوں کے وفد نے جب مسجد نبوی میں مذاکرات کے بعد عبادت کے لیے جگہ دریافت کی تو رسول اللہ نے انھیں مسجد نبوی ہی میں عبادت کرنے کے لیے کہا فتح مکہ کے بعد آپ نے عیسائیوں اور یہودیوں کی املاک اور جان و مال کی حفاظت کا ذمہ لیا ۔جس کا مظاہرہ بعد میں آپ کے پیروکاروں کی حکومتوں میںبھی دیکھاگیا۔جس کا اعتراف برٹرینڈرسل جیسے مذہب مخالف مفکرنے بھی اپنی کتاب ۳؎ Why I Am Not A Christian میں کیا ہے۔ رسول اللہ نے دین کو خیر خواہی قرار دیا۔ خیر خواہی کا کلمہ دین اور دنیا کے تمام امور کا جامع ہے ۔ایک سچا خیر خواہ دوسروں کو گھٹیا نہیں سمجھتا ان کے احترام میں کمی نہیں کرتا ان کے رسوم و رواج کو نشانہ تضحیک بناتا ہے نہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کی دینی و دنیوی صلاح و فلاح کے لیے کوشش کرتا ہے ۔وسیع المشربی کے حامل اس اسلامی رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے: ’’جو فرقہ دوسرے فرقوں کی طرف بد خواہی کے جذبات رکھتاہووہ نیچ اور ذلیل ہے میں دوسری قوموں کے رسوم، قوانین ،معاشرتی اور مذہبی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں، یہی نہیں بلکہ قرانِ پاک کی تعلیم کے مطابق ضرورت پڑے تو ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی میرا فرض ہے‘‘شاعری میں بھی اقبال کا یہی رویہ ہے جہاں وہ کہتے ہیں آدمیت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی بندئہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق کفر و دین را گیر در پہنای دل دل اگر بگریزد از دل وای دل۴؎ اقبال ہر گروہ کو یہ حق دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیبی روایات کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکے انھوں نے اس خیال کا اظہار اپنے الہ آباد کے مشہور خطبے میں کیا تھا وہی خطبہ جس میں مسلمانان برصغیر کے لیے ایک الگ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا گیا تھا جس کی بنا پر بعد ازاں اپنے وقت کی سب سے بڑی مسلم ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ہوئی ۔آج دنیا جن حالات سے دوچار ہے ان میں پاکستان ہی کو نہیں نفس اسلام کو چیلنج درپیش ہے اقبال نے اس کا ادراک کرتے ہوئے ۱۹۲۵ ء میں کہا تھا :’’میری ناقص رائے میں مذہب اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پرکسا جارہاہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا‘‘۵؎ اقبال اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ دنیا کی فلاح اخوت انسانی اور مساوات کے تصورات میں ہے اور دنیا کو ان تصورات کا سبق اسلام ہی نے دیا ہے چنانچہ اقبال نے واضح کیا ہے کہ میرا مقصد سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے میں سمجھتا ہوں کہ صرف مسلمان نہیں بلکہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور انسانوں کی نجات مساوات میں ہے رنگ و نسل کا تصور انسانیت کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسلام اس کا سب سے بڑا مخالف ہے اور میرا مقصد ایک عالمی سماجی نظام کی تشکیل کرنا ہے اس راہ میں سفر کرتے ہوئے اگر ایک ایسا نظام پہلے سے موجود مل جائے جس کا مقصد ہی ذات پات، رنگ و نسل اور انسان ساختہ بتوں کے امتیازات کا خاتمہ ہو اور جو دنیوی معاملات میں بہت باریک بین ہو اور جو ایثار کا سبق بھی دیتا ہو اور جو ہمسایوں کے حقوق کی تلقین بھی کرتا ہو تو اس کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ راقم نے سیموئل پی ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریے۶؎ اورمصر کی مشہور یونی ورسٹی جامعہ قاہرہ سے امریکی صدر باراک حسین اوباما کے عالم اسلام سے خطاب ۷؎ کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ قرآن نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک دستور العمل وضع کردیا ہے اسے بنیاد بناکر دنیا کو کشمکش اور جنگ کی موجودہ صورت سے نجات دلوائی جا سکتی ہے ۔یہ دستور العمل سورہ آل عمران ۸؎ میں بیان کیا گیا ہے کہ توجہ ان امور کی جانب مرتکز کرنی چاہیے جو مشترک ہوں نہ کہ ان امور کی جانب جو مختلف ہوں یہ ایک مثبت زاویہ نظر کی طرف راہ نمائی کرنے والی آیت ہے اقبال نے اس آیہ مبارکہ کویکساں اخلاقی نصب العین رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی دعوت قرار دیا ہے۔راقم کے مقالے کا عربی ترجمہ جامعہ دمشق کے شعبہ انگریزی کے استاد پروفیسر اسماعیل یاسین نے کیا مقالات کے بعد سوالات کا سیشن تھاجس میں آغاز مجھی سے کیا گیا ایک صاحب نے التسامح کے انگریزی ترجمے کے حوالے سے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس عربی کا لفظ عفو اس کا ہم معنی ہے جس کا ترجمہ Toleranceسے نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کا یہ اعتراض درست نہیں تھا اس لیے کہ عالم عرب میں التسامح کے لیے Tolerance کا ترجمہ مسلم حیثیت اختیار کرچکاہے چنانچہ صدر جلسہ نے اس سوال کے جواب کو غیر ضروری قراردیا۔ عالم عرب میں عام طور سے سوالات کے سیشن میں سوال کم ہوتے ہیں مقالات پر اظہار خیال زیادہ کیا جاتا ہے جو بعض اوقت تو اتناطول کھینچتا ہے کہ ایک نئی تقریرکی صورت پیدا ہوجاتی ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا بہ ہر حال مجموعی طور پر مقالے کو سراہا گیا اور خاص طورپراس بات کو پسند کیا گیا کہ اس مقالے میں تسامح کولبرل ازم سے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقیاوصاف سے متعلق بتایا گیا ہے ۔ کانفرنس کے مختلف سیشنز کے دوران میں جب وقفہ آتا تو قاعۃ رضا سعید للموتمرات کے دائیں بائیں بنے ہوئے طول طویل کمروں میں جہاں چائے کا سلسلہ چلتا وہیں مختلف علمی موضوعات کی توسیع بھی ہوتی یہاں بھی راقم عا لم ا سلام اور عرب کے حوالے سے اقبال کے خیالات اہل عرب تک پہنچاتا رہا۔انھی وقفوں کے دوران پروفیسر اسماعیل یاسین مجھے اپنے کچھ احباب سے ملوانے کے لیے اسی علاقے کی ایک تجارتی عمارت میں لے گئے یہاں ایک مکتبے پر ان کے ایک عزیز نے چائے کا اہتمام کیا۔ اس محفل میں بھی شامی حضرات سے دلچسپ گفتگو رہی،یہاں راقم کا ایک مقالہ جو اس نے مسئلہ فلسطین پر اقبال کے خیالات کے حوالے سے لکھا تھااور جو مصر سے شائع ہو چکا ہے، زیربحث آیا ،راقم نے جب انھیںشام کے بارے میں اقبال کے خیالات سے آگاہ کیا تو وہ لوگ بہت حیران ہوئے خاص طور پر اقبال کے وہ اشعار سن کر جو انھوںنے ’’یورپ اور سوریا‘‘ کے عنوان سے لکھے تھے : فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا نبی عفت و غم خواری و کم آزاری صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے مے و قمار و ہجوم زنان بازاری۹؎ ان حضرات کے لیے یہ بات ہی تعجب کا باعث تھی کہ پاکستان کے کسی شاعر نے ان کے ملک کے بارے میں اتنی توجہ اور گہرائی سے سوچاہے اس محفل کے اکثر احباب کا کہنا تھا کہ یہ تو بالکل آج کے شام کا منظر نامہ ہے حالانکہ اقبال نے یہ خیالات ۱۹۳۶ء میں شائع کیے تھے ۔ ـئ…ئ…ء حواشی ۱- القرآن ۱۶: ۔۱۲۱۳ ۲- اقبال کلیات اقبال فارسی لاہور؛شیخ غلام علی اینڈ سنز ۱۹۹۰ء ص۷۹۵ 3- Russell B. Why I Am Not A Christian London:George Allen and Unwin 1957 p16 اس کتاب کا اردوترجمہ بھی شائع ہوچکاہے دیکھیے: پروفیسرامیرخان حکمت (مترجم) میں عیسائی کیوں نہیں ہوں از لارڈ برٹرینڈ رسل لاہور:بک ٹائم ۲۰۱۱ء ۴- کلیات اقبال فارسی محولہ بالا ص۷۹۳ ۵- صوفی تبسم کے نام خط مورخہ ۲/ ستمبر ۱۹۲۵ء در اقبال نامہ یعنی مجموعہ مکاتیب اقبال لاہور:شیخ محمد اشرف پبلشرز ۱۹۵۱ء حصہ دوم ص ۹۹ 6- Huntington Samuel P. The Clash of Civilizations and the Remaking of the world order Newyark: Simon and Schuster 1998 ۷- یہ تقریر بہ کثرت شائع ہوئی ہمارا مآخذ Cairo May 5,2009 The Egyptian Gazette ۸- القرآن ۳:۶۴ ۹- اقبال، کلیات اقبال اردو لاہور:شیخ غلام علی ایند سنز ۱۹۸۴ء ص۱۴۹ ـئ…ئ…ء اشتراکیت: اقبال کے نکاتِ اتصال اور انحرافات ڈاکٹر فاروق عزیز اشتراکیت انسانی تاریخ کی اس پہلی منضبط کوشش کا نام ہے جب انسان نے مذہب کی اساس کو مستردکرتے ہوئے ایک جداگانہ تصور کی بنیاد پر ایک مکمل فلسفہ ء حیات پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اشتراکیت کو درحقیقت سرمایہ داری کے گناہوں نے جنم دیا ۔ اس نظریئے کے تحت فلسفہ و استدلال کی بنیاد پر خدا کے وجود سے انکا ر کیا گیا کیونکہ اس تحریک کے ڈانڈے بھی بہرحال اہل ِمغرب کی کلیسا کے خلاف جنگ سے جاملتے ہیں۔ کلیسا کا انحصار خدا پر تھا لہٰذا اشتراکیت اور مغرب دونوں نے مکمل طور پرخداکے وجود سے انکار کردیا۔ اٹھارویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد نجی ملکیت کے ادارے نے انسانوں پر جو حیاسوز مظالم ڈھائے وہ تاریخ انسانی کا ایک انتہائی شرمناک باب ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نجی ملکیت کے ادارے کے خلاف ایک شدید رد عمل اُبھرا جس کی اساس اس ادارے کی نفی اور تمام دنیا کے مزدوروں کی یکجائی پر رکھی گئی۔ نجی ملکیت کی نفی اس سے قبل بھی انسانی تاریخ میں ہوتی رہی ہے تاہم اس دفعہ یہ استرداد اس انفرادیت کے ساتھ کیا گیا کہ اس کے لئے باقاعدہ ایک فلسفیانہ بنیاد بلکہ پورا نظام حیات پیش کیا گیا جسے اشتراکیت کا نام دیا گیا۔ اس فلسفہ حیات کی بنیاد ہیگل کے جدلی تصور پر رکھی گئی مارکس نے اس جدلی عمل کو عالم فکر سے نکال کر معاشی تنظیم پر منطبق کردیا۱؎۔ اس کے نزدیک تاریخ کے ہر دور میں زندگی کی اصل بنیاد اس عہد کا معاشی نظام ہوتا ہے اور اسی پر تمدن کی عمارت استوار ہوتی ہے ۔ ایک معاشی نظام کچھ عرصے تک انسانوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے پھر اس نظام کے اندر اس کی کچھ مخالف قوتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کی شکست ور یخت کے درپے ہوجاتی ہیں اس کشمکش کے نتیجے میں ایک نیا نظام وجود میں آجاتا ہے اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ وہ قوت جو یہ عمل انجام دیتی ہے وہ کارل مارکس کے نزدیک ’’تاریخ کی قوت‘‘ (Force of History)کہلاتی ہے۔ ۲؎ اخلاق و مذہب، علوم و فنون اور تمدن و معاشرت سب کے سب ابن الوقتوں کی طرح اپنے زمانے کے غالب معاشی نظام میں رنگ جاتے ہیں ان کی حیثیت صرف متبعین کی ہوتی ہے یہاں تک کہ اخلاقی اقدار بھی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہیں۔۳ ؎ مارکس کے نزدیک ہرمعاشی نظام حالاتِ پیداوار اور پیداواری قوتوں کی ہم آہنگی کا مظہر ہوتا ہے تاہم کسی نظام کی تمام پیداواری قوتیں جو اس کی وسعت میں سماسکتی ہوں جب اپنی ترقی کے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اس وقت اس معاشی نظام میں نئی پیداواری قوتیں اُبھرآتی ہیں ۔ نئی ایجادات و انکشافات کی وجہ سے طریق پیدائش میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس کے نتیجے میں پیداواری حالات اور پیداواری قوتوں کے مابین موجود ہم آہنگی نہ صرف یہ کہ ختم ہوجاتی ہے بلکہ ان کے مابین تصادم شروع ہوجاتا ہے جو پرانے نظام کے خاتمے اور نئے نظام کے قیام پرمنتج ہوتا ہے۔۴؎ ا س اعتبار سے مارکس نے انسانی سماج کے تین ادوار قرار دیئے ہیں ان ادوار کا تعین سماج میں لین دین کی شکل پر ہوتا ہے ۔ ان میں سے پہلا مرحلہ سرمایہ دارانہ سماج (Capitalist Society)دوسرا مرحلہ اشتراکی سماج (Socialist Society)اور تیسرا اور آخری مرحلہ کمیونسٹ سماج (Communist Society) ہے۔ ان میں سے پہلے مرحلے میں لین دین قدرِ تبادلہ (Exchange Value) ثانی الذکر میں قدرِ اصل (Intrinsic Value)جبکہ آخری الذکر میں قدرِ استعمال (Use Value) پر ہوتا ہے ۔ یہ سماج کا بلند ترین مرحلہ ہے جس میں صرف چیزوں کی قدر استعمال دیکھی جائے گی گویا تبادلے کی بنیاد محض فرد کی ضرورت ہوگا نفع یا معاوضہ خدمت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ ایک کمیونسٹ غیر مساوی کمائی کی مساوی تقسیم چاہتا ہے۔۵؎ اس فلسفے کی رو سے کائنات اول تا آخر ایک مادی وجود ہے جس میں یا اس سے باہر خالق یا خداکا کوئی تصور نہیں ہے انسانی ارتقاء اور ترقی محض اقتصادی کشمکش و پیکار کا ثمر ہے۔ انسان کسی ارادہ و اختیار کا مالک نہیں اور محض حالات کا پرور دہ ہوتا ہے لہٰذا مستقل اخلاقی اقدار کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ۶؎ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اقبال نے ان تمام اُمور کے باوجود اس نظام کی حمایت کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انقلاب کی خواہش اقبال کی اشتراکی تحریک میں دلچسپی کا ایک سبب ہوسکتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس میں ان کے انقلاب کی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی تھی۔ مزید برآں ایک محدود تناظر میں یہ تحریک اقبال کے افکار و خیالات سے ہم آہنگ تھی لہٰذا اس کی طرف اقبال کا جھکا ئو بڑی حد تک فطری تھا دونوں کے فکری نقاطِ اتصال مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ دونوں اندازِ کہن سے بے زار اور نئی دنیا کی تعمیر چاہتے ہیں (تاہم یہاں مجوزہ نئی دنیا کی تعمیر کا مقصد ، نقوش ، تعمیر کے لئے لائحہ عمل اور طریق کار کا فرق بہر حال ملحوظ خاطررکھنا ضروری ہے)۔ ۲۔ دونوں رنگ ، نسل ، زبان یا علاقائی بنیادوں کی بجائے بین الاقوامیت کے علمبردار ہیں اشتراکیت تمام دنیا کے مزدوروں کی یکجہتی کے نعرے پر اُٹھی تھی تو اقبال بھی بنی آدم کی یکجائی کے علمبردار ہیں۔ آب و نانِ ماست ازیک مائدہ دودئہ آدم’’کَنَفسٍ وَّاحِدَہ‘‘۷؎ ۳۔ دونوں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بحالی چاہتے ہیں۔ ۴۔ دونوں سود کے خلاف ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تاہم یہاں ان بنیادوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو اس کی اساس بنتی ہیں اقبال ظاہر ہے احکام قرآنی کی بنیاد پر ایسا چاہتے ہیں کہ جب کہ سوشلزم سرمایے اور نجی ملکیت کی نفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ ۵۔ سوشلزم کے تحت معاوضہ صرف محنت کا ہے ایک محدود تناظر میں اقبال بھی اس کے موئید ہیں۔ ۶۔ دونوں زمین کی نجی ملکیت کے خلاف ہیں لیکن سوشلزم اس وجہ سے ایسا کرتا ہے کہ وہ وسائل پیداوار کی ملکیت کے ادارے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا اس کے برعکس اقبال اس کی بنیاد قرآن مجید سے لاتے ہیں جس میں انسان کی محنت سے حاصل شدہ سرمایہ پر اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ ۷۔ سوشلزم محض نظریہ ہی نہیں عمل بھی ہے اقبال بھی حرکت و عمل کے داعی ہیں۔ ۸۔ دونوں مغربی جمہوریت کے مخالف ہیں۔ ۹۔ اقبال بھی زندگی کو ایک مخصوص پس منظرمیںہیگل کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہیگل کی طرح اقبال کا تصورِ زندگی بھی ارتقاء پذیر ہے۔ سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات اُبھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات بڑی تیز جولاں، بڑی زودرس! ازل سے ابد تک رمِ یک نفس! زمانہ کہ زنجیر ایام ہے دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے۸؎ اسے بآسانی ہیگل کے دعویٰ (Thesis)جوابِ دعویٰ (Antithesis)اور مرکب (Synthesis)کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اس نقطہ نظر کی ترجمان کہی جاتی ہے ۹؎ تاہم ایک بنیادی فرق بہرحال مد نظر رکھنا چاہئیے کہ ہیگل کے نزدیک تاریخ عالم روحِ مطلق کی نمائش گاہ ہے اور تمام انسان اور ان کی صلاحیتیں سب کی سب اسی روحِ مطلق کی آلہ کار ہیں جو بدترین جبریت ہے ۔ مزید یہ کہ ہیگل کے نزدیک اس کشمکش کا نتیجہ بقائے اصلح ہے جب کہ اقبال کے نزدیک کشمکش کی اصل بنیاد حق و باطل کی کشمکش ہے۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی۱۰؎ ۱۰۔ ایک محدود حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کی سوشلزم میں دلچسپی یا اس کی حمایت اس بنیاد پر بھی تھی کہ ’’ میرے دشمن کا دشمن میرا دوست‘‘۔ اقبال کی مغربی تہذیب سے دشمنی او ر مخالف کوئی ڈھکی چھپی نہیں لہذا جب اشتراکیت مغربی سامراج کے مخالف کی حیثیت سے سامنے آئی تو اقبال نے اس کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ پایا۔ غالباً یہی وجوہات تھیں کہ جب سوشلزم نے کمزور او ر معاشی لحاظ سے پس ماندہ ترین طبقے یعنی مزدوروں کے لئے آواز بلند کی تو اقبال نے اسے اپنے دل کی آواز جانا۔ دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا قریب آگئی شاید جہاںِ پیر کی موت۱۱؎ یا قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ رفتار! اندیشہ ہوا شوخیٔ افکار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار! انسان کی ہوس نے جنہیں رکھاتھا چھپاکر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار۔۱۲؎ کارل مارکس کو جو اشتراکیت کا فکری معمار ہے اسے اس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وہ کلیم بے تجلی! وہ مسیحِ بے صلیب! نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب! کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لئے روزِحساب! اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑدی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب۱۳؎ متذکرہ بالا اشعار کے علاوہ کلام اقبال سے اور بھی کئی حوالے دیئے جاسکتے ہیں جن سے اقبال کی اس تحریک کے لئے پسندید گی مترشح ہوتی ہے اورا س حوالے سے بعض لوگوں کا خیال اس جانب گیا ہے کہ وہ اقتصادیات کے موضوع پر عقید تاً ایک اشتراکی واقع ہوئے تھے اس عنوان پرعلامہ کو بہت رعایت دی جاتی ہے تو ان کے متعلق یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ’’ اگر اقبال خود کمیونسٹ نہیں تھا تو کم از کم کمیونزم کا ایک سرگرم موئید وحامی ضرور تھا‘‘۱۴؎۔ اس طرح مولانا عبدالسلام ندوی کی رائے میں ’’ ڈاکٹر (اقبال) صاحب مختلف حیثیتوں سے اشتراکیت کی تائید کرتے ہیں اور ان کو اس نظام حکومت میں اسلامی نظام حکومت کے بہت سے اجزاء ملتے ہیں‘‘۔۱۵؎ خلیفہ عبدالحکیم کی رائے میں اقبال ایک مسلم سوشلسٹ ہے۔۱۶؎ا سی طرح صفدر میر کے خیال میں بھی اقبال کی سوشلزم سے ہمدردی ڈھکی چھپی نہیں ۱۷؎۔ پروفیسر عزیز احمد شہر مرغدین کے اوصاف پر بحث سے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ الارض اللہ کا ترجمہ اگر جدید اصطلاحوں میں کیا جائے توا س کے کم و بیش یہی معنی ہیں کہ تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں نہ کہ کسی فرد کے‘‘۔۱۸؎ باالفاظ دیگر ان کے نقطہ نگاہ سے یہ نظم ایک مکمل اشتراکی فکر کی حامل ہے۔ اس حوالے سے دوسری رائے یہ ہے کہ ’’اقبال کو کمیونسٹ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ اقبال درحقیقت ایک ہندوتھا اور اسکا نام اقبال چند تھا‘‘۔۱۹؎ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اقبال کو ایک کمیونسٹ ثابت نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ خود اقبال کو کمیونسٹ قرار دینے والوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ ’’اقبال کے اسلامی اشتراکیت کے تصور میں یقینا کسی قدر ابہام ہے اور بہت سی کڑیاں مربوط نہیں ہیں‘‘۔۲۰؎ یا یہ کہ ’’معاشی سطح پر وہ (اقبال ) کارل کارکس کی اشتمالیت کے بنیادی تصورات کو قریب قریب پوری طرح مانتے ہیں کارل مارکس سے ان کے اختلافات دوہیں ایک تو وہ بہ حیثیت فلسفہ مادی جدلیت کورد کرتے ہیں دوسرے یہ کہ تاریخ کی معاشی تطبیق کے بعض اصولوں سے انہیں اتفاق نہیں‘‘۔۲۱؎ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اسلام کے بنیادی تصورات کو تو قریب قریب قبول کرے ساتھ یہ بھی کہے کہ اسے توحید و رسالت سے اتفاق نہیں۔۲۲؎ اس طرح خواجہ محمد ذکریا کو تسلیم کرنا پڑا کہ ’’ اقبال کے فلسفے کا تار پودا سلام کے عقائد سے بناہے اس لئے خدا اور مذہب سے متعلق اشتراکی نقطہ نگاہ انہیں قبول نہیں۔‘‘۲۳؎ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ہمدردی کے باوجود اقبال کی نظرمیں سوشلزم کیا معاشی مسئلے کا حل بھی ہے ؟ اسکا سیدھا سادا اور قطعی جواب نفی میںہے۔ دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیںہوتے رفو۲۴؎ کیونکہ اس صورت میں بھی کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا! طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔۲۵؎ صرف یہ تبدیلی ہوگی کہ شیریں کے خرید اربدل جائیں گے خسر و نہ سہی کوہکن سہی۔ نماند نازِ شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست۲۶؎ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ حکمران پرویز ہو یا کو ہکن خرابی کہیں اور ہے اوروہ یہ ہے کہ اشتراکیت کے بنیادی اُصول جن پر اس نظام کا تانا بانا بناگیا ہے کسی مسلمان کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ اس کے علاوہ سوشلزم کی سب سے بنیادی خامی یہ ہے کہ اس نظام میں لوگوں کے پاس نجی ملکیت اور منافع کی عدم موجودگی کی وجہ سے کام کرنے کے لئے کوئی جذبہ محرکہ نہیں ہوتا ۲۷؎۔ اس خرابی کی جانب اقبال نے بہت پہلے نشاندہی کردی تھی۔ اے کہ می خواہی نظامِ عالمے جستہء او را اساسِ محکمے؟۲۸؎ یہاں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اقبال کو اس فلسفے کے خام ہونے کا علم تھا تو انہوں نے اس کی حمایت کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقبال نے انقلاب روس کو منزل ’’لا‘‘ تصور کیا تھا اور انہیں اپنی فطری رجائیت پسندی کی وجہ سے یہ قوی اُمید تھی کہ روس ’’لا‘‘ کے مرحلے کے بعد ’’الا‘‘ کے مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔۲۹؎ اسی بنیاد پر اقبال سوشلزم اور اسلام میں سوائے دہریت کے اور کوئی فرق محسوس نہیں کرتے گویا اصل فرق محض ’’لا‘‘ اور ’’الا‘‘ کا ہے۔ ۳۰؎ اس وجہ سے ابوجہل طعنہ دیتا ہے کہ اسلام میں مساوات کا تخیل مزدکی ہے۔ ایں مساوات، این مواخات است عجمی خوب می دانم کہ سلمانؓ مزدکی است۳۱؎ اپنی اسی رجائیت کی بناء پر انہیں اُمید تھی کہ جب انقلاب کے بعد روس میں حالات صحیح ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ روس اسلام کو ہضم کرلے یا اسلام روس کو ۔۳۲؎ ’’باقی رہا سوشلزم سواسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے بہت کم فائد ہ اُٹھایاہے‘‘۔۳۳؎ یہی وجہ ہے کہ جمال الدین افغانی کے ذریعے ملت ِ روسیہ کو ’’ مقام ِالا‘‘ کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیںانقلاب منزل ’’لا‘‘ تھی لہٰذا اب ’’الا‘‘ کی طرف چلو کیونکہ یہی بقاء کا راستہ ہے۔ تو کہ طرحِ دیگرے انداختی دل زدستورِ کہن پرداختی ہمچو ما اسلامیاں اندر جہاں قیصریت راشکستی استخواں کہنہ شد افرنگ را آئین ودیں سوئے آں دیرِ کہن دیگر مبین کردۂ کارِ خداونداں تمام بگذر ازلاَ جانبِ الا خرام۳۴؎ لیکن اقبال کی توقع کے برخلاف روسی ایسا نہیں کرسکے اور نتیجے کے طورپر محض ستر(۷۰) سال کے عرصے میں روسی مملکت مکافاتِ عمل کا شکار ہوکر ختم ہوگئی۔ اشتراکیت ایک ایسا انقلاب تھا جو فکری اساس سے محروم تھا لیکن اقبال جس انقلاب کے خواہشمند ہیں وہ محض احوال کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ وہ زندگی کو تبدیلیٔ احوال کیساتھ نئی وسعتوں اور رفعتوں سے بھی آشنا بھی کرتا ہے ۔ایک ایسا ہمہ گیر انقلاب جو سار امنظر تبدیل کردے۔۳۵؎ یہ راہ دیگر تمام نظاموں کی ناکامیابی کے بعد صرف اور صرف اسلام کی رہ جاتی ہے۔ جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے مزدکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے۳۶؎ کیونکہ یہ خدا کا آخری پیغام ہے جسے بہرحال غالب آناہے۔ بے خبر! تو جوہرِ آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خداکا آخری پیغام ہے۳۷؎ ئ…ئ…ء حوالہ جات 1. Karl Marks, Das Capital, Vol. 1, p.19. ۲۔ محمد مظہر الدین صدیقی، اشتراکیت اور اسلام ، ص ۱۳۹ 3. Karl Markes, Selected Workes, Vol. 1, p.12. ۴۔ صدیقی، اشتراکیت اور اسلام، ص ۱۴۰ ۵۔ مولانا وحید الدین خان، سوشلزم اور اسلام، ص ۱۲ ۶۔ ہیر لڈ لاسکی، اشتراکی منشور ، پیش لفظ ، از اینجلز ۷۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال فارسی (جاوید نامہ) ص (۶۶۹ ) ۸۱ ۸۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال اُردو (بال جبریل) ص (۴۱۹ ) ۱۲۷ ۹۔ محمد حنیف رامے، اقبال اور سوشلزم ، مرتب خواجہ محمد ذکریا ، اقبال اور اشتراکیت ، ص ۲۳ ۱۰۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال اُردو (بانگ درا) ص ( ۲۲۳) ۲۲۳ ۱۱۔ ایضا ً (ضرب کلیم) ص( ۶۰۰) ۱۳۸ ۱۲۔ ایضا ً ص (۵۹۸) ۱۳۶ ۱۳۔ ایضاً (ارمغان حجاز) ص( ۶۵۰) ۸ ۱۴۔ عبدالرحمن طارق، جوہر اقبال ، ص ۲۷۷ ۱۵۔ مولانا عبدالسلام ندوی، اقبال کامل ، ص ۳۵۶ ۱۶۔ خلیفہ عبدالحکیم ، فکر اقبال، ص ۲۰۷ 17. M. Safdar Mir, Iqbal the Progressive, pp.118-119. ۱۸۔ عزیزاحمد، اقبال کی نئی تشکیل، ص ۴۲۵ ۱۹۔ غلام احمدپرویز، اقبال اور قرآن، ج۲، ص ۲۰۷ ۲۰۔ عزیز احمد، اقبال کی نئی تشکیل ، ص۴۲۵ ۲۱۔ ایضاً ص ۳۵۶ ۲۲۔ رحیم بخش شاہین، اقبال کے معاشی نظریات ، ص۱۱۱ ۲۳۔ محمد حنیف رامے، اقبال اور سوشلزم ،مرتب ، خواجہ محمد ذکریا ، اقبال او ر اشتراکیت ، ص ۲۷ ۲۴۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال اردو (ارمغان حجاز) ص (۶۵۳) ۱۱ ۲۵۔ ایضاً (بال جبریل) ص (۳۳۲ ) ۴۰ ۲۶۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال فارسی (پیام مشرق) ص( ۳۸۰) ۲۱۰ ۲۷۔ عبدالحمید صدیقی، اشتراکیت کی فکری بنیادیں اور ان کا تنقیدی جائزہ ، چراغ راہ، سوشلزم نمبر، شمارہ ۱۰، جلد ۲۱، دسمبر ۱۹۶۷،ص ۱۷۱ ۲۸۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال فارسی (جاوید نامہ) ص (۶۶۷) ۷۹ ۲۹۔ این میری شمل، شہپرجبریل، مترجم ڈاکٹر محمد ریاض ، ص ۱۴۴ ۳۰۔ عزیز احمد، اقبال کی نئی تشکیل ، ص ۳۷۶ ۳۱۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال فارسی (جاویدنامہ) ص (۶۴۳) ۵۵ ۳۲۔ غلام احمد، پرویز ، اقبال اور قرآن ، ج۲ ، ص۲۲۸ ۳۳۔ ایضاً ص ۱۷۱ ۳۴۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال فارسی (جاوید نامہ) ص( ۶۶۷) ۷۹ ۳۵۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ، فکر اقبال ، ص ۱۳۸ ۳۶۔ علامہ اقبال ، کلیات اقبال اردو (ارمغان حجاز) ص ( ۶۵۴) ۱۲ ۳۷۔ ایضاً (بانگ درا) ص (۱۹۲)۱۹۲ ـئ…ئ…ء علامہ اقبال کی ممدوح باضمیر جرمن قوم جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی پس منظر انجینئر مختار فاروقی انسانوں کی طرح قوموں کا بھی ایک مزاج ہوتا ہے۔ فرد انسانی کی طر ح قو میں بھی سوتی اور جاگتی ہیں زندہ ضمیر اور بے ضمیر بھی ہوتی ہیں۔ قومیں زندہ بھی ہو جاتی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں۔ چند مستثنیٰ پہلوئوں کو الگ کر کے دیکھیں تو اجتماعیت یا قومیں بھی فرد واحد کی طرح عمل سے گذر کرتی ہیں اور ردِ عمل کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں۔ یہ اجتماعیت نظریاتی بھی ہوتی ہے اور غیر نظریاتی بھی۔ رنگ و نسل، علاقہ، زبان، ثقافت اور جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر بھی اجتماعیتیں ہیں۔ ان میں کئی اجتماعیتوں پر لفظ قوم کا اطلاق ہوتا ہے اور کئی اجتماعیتوں پر اس لفظ کا اطلاق محل نظر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے اس مزاج کے بارے میں چھٹے پارے کے آخر میں ایک تقابلی جائزہ دیا ہے جس سے ایک مسلمان کے لیے اقوام عالم اور دیگر اجتماعیتوں کے مزاج کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الْیَہُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُھْبَانًا وَّ اَنَّہُمْ لاَیَسْتَکْبِرُوْنَ (المائدۃ:۸۲ ) (اے پیغمبر) تم دیکھو گے کہ مؤمنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مؤمنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان مذہبی قوموں کے افراد اپنے اچھے برے اعمال کے مطابق دیکھے جائیں گے مگر قرآن پاک کے مطابق مشرکین اور یہود مسلمانوں کے بارے میں سخت نفرت، بغض اور انتہائی دشمنی کے جذبات رکھتے ہیں جبکہ ___ نصاریٰ ان دونوں کے مقابلے میں اسلام دشمنی، قرآن دشمنی اور مسلم دشمنی میں ذراکم ہیں۔ اس تقابلی جائزے میں آج سے ۱۴۰۰سال پہلے کے ’’نصاریٰ‘‘ میں اور آج کے نصاریٰ میں بھی فرق ہو گا۔ تاہم یہ قیمتی اُصول قرآن پاک کا ہی دیا ہوا ہے۔ اقوام یورپ بنیادی طور پر مسیحی مذہب کی حامل ہیں اور نصاریٰ کہلاتے ہیں تاہم ان نصاریٰ میں سے بھی ایک عام مشاہدے کے اُصول کی رو سے ؎ نہ ہر زن زن ست و نہ ہر مرد مرد کہ خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد سب نصاریٰ ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ آج کے نصاریٰ میں سے ایک بڑا گروہ جو دیگر یورپی ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے بارے میں زیادہ نرم گوشہ رکھتا ہے ہمارے نزدیک وہ جرمن قوم ہے۔ علامہ اقبال آج سے ایک صدی قبل یورپ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے کئی ممالک کو دیکھا تھا اور کئی قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا تاہم فرانسیسی، ڈچ برطانوی، اطالوی اور دیگر شمالی یورپی ممالک کے مقابلے میں مشرقی یورپ کے ملک جرمنی کو آپ نے ایک منفرد ملک اور جرمن قوم کو ایک منفرد قوم پایا۔ آپ نے جرمن قوم کو ایک اسلام دوست، علم دوست، حقیقت کے متلاشی اور حق کو قبول کرنے والی قوم کے طور پر دیکھا۔ ان باتوں کا بخوبی اندازہ علامہ اقبال کے منفرد مجموعۂ کلام پیام مشرق کے اشعار میں ہر قاری کو ہو جاتا ہے مزید برآں علامہ اقبال نے پیام مشرق کا جو دیباچہ تحریر فرمایا اس کے بین السطور جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ علامہ اقبال اس جرمن قوم میں اٹھارویں صدی کے خدا بیزار خداناشناس مغربی افکار کے سیلاب میں ’’تحریک مشرقی‘‘ کو ’’اُمید کی کرن‘‘ اور یورپ کے ایک کونے میں دھندلاسا ایک لائٹ ہائوس (LIGHT HOUSE) سمجھ رہے تھے۔ اٹھارویں صدی میں صہیونی اور یہودی ذہن نے دین اور سیاست میں جدائی پیدا کردی تھی اور مذہب اور ریاست مدمقابل آگئے تھے۔ خدا پرستی اور خدا شناسی یورپی معاشرے میں ایک کھوٹا سکہ شمار ہونے لگا تھا۔ اعلیٰ علمی حلقوں میں اور فلسفیانہ سطح پر یورپ سیکولرازم، سیکولر جمہوریت اور سیکولرمعاشرے کی بنیاد رکھ چکا تھا اور یہی کام زیادہ سکون کے ساتھ بہت دور امریکہ میں بیٹھ کر یہی یہودی اور صہیونی لابی منظم انداز میں بھی آگے بڑھا رہی تھی۔ ایک مثال بطور اشارہ کافی ہے کہ امریکہ میں طویل خانہ جنگی کے بعد برطانیہ سے آزادی حاصل کی گئی (جو برطانیہ آج اسی امریکہ کا طفیلی ہے) اور جمہوریت قائم ہوئی۔ آئین بنا، 1776ء کا سال امریکہ کی آزادی کا سال ہے امریکی کرنسی‘ ڈالر ہے اور ایک ڈالر کے نوٹ پر (تاکہ غریب سے غریب امریکی کے ہاتھ میں یہ پیغام ہروقت رہے اور اس کی جیب میں محفوظ ہو) آج بھی ORDO NOVO SECLORUM کے الفاظ کندہ ہیں اور ۱۷۷۶ء کا سن درج ہے۔ اس ماحول میں جرمن ذہن کا ایک فلسفی KANT (۱۷۲۲ئ- ۱۸۰۴ئ) اخلاقی اُصول، ضمیر اور REALITY کے لیے لڑ رہا تھا اور خالص عقلیت پرستی کے خلاف سینہ سپر تھا۔ اُس نے "CRITIQUE OF PURE REASON" لکھ کر عقلیت پرستی کا منہ بند کر دیا مگر یہودی اور صہیونی طاقتوں کے درپردہ دبائو اور عزائم کے سامنے یہ فکر پنپ نہ سکا اور دم توڑ گیا۔ اس پس منظر میں جرمنی کا شاعر گوئٹے اور اس سے پہلے دیگر دانشور ترکی، ایران، افغانستان میں اسلام اور اسلامی لٹریچر میں جاری و ساری خدا پرستی اور خدا شناسی کے جذبات کے اسیر ہو چکے تھے۔ یاد رہے کہ شاعری، ادب (لٹریچر) آرٹ، فن تعمیر وغیرہ کسی قوم کے نظریات و اعتقادات کا ہی عکس ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی شاعری اور ادب کا جرمن دانشور طبقہ اسیر ہو رہا تھا تو وہ دراصل اسلام کے الہامی نظریات و عقائد ہی تھے اور ''KANT'' کی سوچ ہی تھی جو کہیں پروان چڑھ رہی تھی ۔ اس ’’تحریک مشرقی‘‘ کا سحر تھا جو علامہ اقبال کے جرمنی کے قیام میں ایران کی تاریخ کے مطالعے کے دوران ان کے سامنے آیا (یاد رہے ایران، افغانستان، پاکستان ماضی میں ہمیشہ اس طرح نہیں رہے جیسے آج ہیں۔ ان کی سرحدیں، ادلتی بدلتی رہی ہیں ایران کا بادشاہ نادرشاہ آج کے جنوبی افغانستان پاکستان سمیت دہلی تک کا حکمران تھا، احمد شاہ ابدالی کا دارالحکومت قندھار تھا اور دہلی تک حکمرانی کر رہا تھا) جس سے آپ کی سوچ کے کئی اور دریچے کھل گئے۔ جرمنی جیسے یورپی ملک میں ’’فلسفۂ عجم‘‘ اور ایران میں مذہبی رجحانات کی تاریخ پڑھنا، اس پر کتاب لکھنا اور اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنا____یہ واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ جرمنی میں ان مسلمان ممالک کے بارے میں ایک ہمدردانہ سوچ پائی جاتی تھی۔ وہاں علامہ اقبال کے نام سے ایک شاہراہ موسوم کی گئی جو آج بھی موجود رہے۔ جرمنی میں تحریک مشرقی کا اجرا اور فروغ، جدیدیورپ میں ایک منفرد واقعہ ہے اور اس کا ماضی کے دھندلکوں میں پھیلا ہوا ایک حیران کن پس منظر ہے جس کی طرف پاک و ہند کے مسلمانوں کی نگاہیں نہیں اُٹھ سکیں۔ یہ پس منظر ماضی کی کم از کم تین صدیوں پر محیط ہے۔ آج کی جرمن قوم کے اس ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو یہ منظر روز روشن کی طرح واضح بھی ہے اور حقیقی بھی۔ اس پہلوکو سامنے نہ لانے کی سب سے بڑی وجہ جرمنی کے روایتی حریف برطانیہ کا افریقہ، جنوبی ہند اور مشرق وسطی پر تسلط ہے جس کے ہم غلام تھے اور بالعموم ہمارے دانشور اور نوجوان برطانوی درسگاہوں تک ہی رسائی حاصل کرتے رہے یا آج امریکہ جارہے ہیں۔ یہ بات فطری ہے کہ یہ برطانیہ اپنے دشمن جرمنی کے بارے میں عوامی سطح کی معلومات اور تعلیمی اداروں کے ماحول کی کتابوں کے مواد میں وہی معلومات دے سکتا تھا جو اس کے مفاد میں ہوں۔ جرمنی____برطانیہ دشمنی واضح طور پر پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۴ئ-۱۹۱۸ء ) سے ربع صدی قبل سے لے کر ۱۹۰۰ء میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد تقسیم جرمنی کی واضح لکیر کے طور پر بنائی گئی دیوار برلن کے گرنے تک قائم رہی ہے۔ چونکہ ہمارا ماضی قریب تحریک آزادی، قیام پاکستان اور اس کے بعد کے ساٹھ سال زیادہ تر اسی دور کے ہیں؛ لہٰذا____ہمارے ذہنوں پر بھی برطانیہ جرمنی مخاصمت کی وجہ سے تالے پڑے رہے اور عوامی سطح پر کوئی دریچہ اس طرف کھل نہیں سکا۔ مسلمان اور جرمن قوم کے باہمی تعلقات (INTERACTION) کی اس تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے ہم درج ذیل پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ (ہماری معلومات کم ہیں۔ اہل علم اور دانشور طبقہ کے باصلاحیت لوگ اس میں آگے بڑھیں گے تو مزید پہلو بھی سامنے آتے چلے جائیں گے۔) ۱- جغرافیائی پہلو ۲- تہذیبی اور ثقافتی پہلو ۳- تاریخی پہلو ۴- معاشی ؍ سیاسی پہلو ۵- صہیونی عزائم آئیے ان پہلوئوں پر ترتیب وار گفتگو کرتے ہیں عالم اسلام اور جرمنی__ جغرافیائی پہلو جغرافیائی پہلو پر گفتگو کا تقاضا ہے کہ ہم پہلے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے نقشے کو نگاہوں کے سامنے کر لیں تاکہ بحث کا مقصدسمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکے۔ ۱- یورپ کے نقشے پر نگاہ مرکوز کریں تو سب سے اوپر علیحدہ ملک UK یا برطانیہ ہے اس سے دائیں طرف ذرا فاصلے پر سکینڈے نیوین ممالک یعنی ناروے، سویڈن اور ڈنماک وغیرہ ہیں۔ نیچے کی طرف آئیں تو براعظم یورپ کا بڑا حصہ شروع ہوتا ہے۔ برطانیہ سے نیچے چھوٹا سا ملک بلجیم ہے بائیں طرف نیچے فرانس ہے مزید بائیں طرف سپین ہے جسے ماضی میں ہسپانیہ بھی کہا جاتا تھا اور مسلم عہد ۷۱۱ء تا ۱۴۹۲ء میں اندلس کہا جاتا تھا (یورپ کے نقشہ سے کسی مسلم دشمن غیبی قوت نے ملک کا نام ہی بدل دیا تاکہ نقشہ دیکھتے ہی احساس نہ ہو کہ یہاں کبھی مسلمان بھی آباد تھے اور آٹھ صدیاں حکمران رہے ہیں۔ مسلمان نوجوان اپنی تاریخ میں اندلس کا پڑھ کرنقشے دیکھتا پھرے اُسے اس نام کا ملک کہیں نہیں ملے گا) اس سے مغربی طرف پرتگال ہے۔ بلجیم سے دائیں طرف آج کا جرمنی ہے نیچے کی طرف اٹلی ہے یاد رہے کہ اٹلی کے اندر ہی چھوٹی سی سلطنت ویٹی کن ہے جو عیسائیت کا عالمی مرکز ہے اور عیسائی مذہب کا پوپ اعظم وہیں بیٹھتا ہے۔ عیسائیت کے فروغ اور نگرانی کا کام یہیں سے ہوتا ہے اس سلطنت اور اس کے تحت چلنے والی عالمی مسیحی مشنری چرچ اور سکولوں کے اخراجات یورپی مسیحی ممالک مل کر پورا کرتے ہیں (یہ ممالک بظاہر سیکولر اور آزاد خیال ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔) جرمنی کے دائیں طرف پولینڈ، چکوسلواکیہ، کروشیا، رومانیہ، بوسنیا، ہرزگووینا اور کئی چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں۔ یورپ کا شمال مشرقی حصہ ایشیا میں روس سے ملحق ہے اور شمالی ترکستان کہلاتا ہے جبکہ مشرقی حصہ میں ترکی، یونان اور قبرص آتے ہیں۔ ملک ترکی کا کچھ حصہ یورپ براعظم میں ہے اور کچھ حصہ براعظم ایشیا میں ہے۔ براعظم یورپ سے نیچے بحیرہ روم پھیلا ہوا ہے سپین سے نیچے یورپ براعظم افریقہ سے ملا ہوا ہے، سمندر کی چوڑائی ۳۰-۴۰کلومیٹر ہے۔ (یہیں جبل الطارق ہے جہاں ۷۱۱ء میں مسلم جنرل طارق بن زیادہ رحمہ اللہ شمالی افریقہ سے یورپ میں داخل ہواتھا اور کشتیاں جلا کر داخل ہوا تھا کہ ہمارا واپس جانے کا ارادہ نہیں یا فاتح ہوں گے یا مر جائیں گے۔ اسی کے بعد سپین کی مسلم سلطنت قائم ہوئی اور آٹھ صدیاں یورپ میں علم کی روشنی پھیلاتی رہی جبکہ یورپ ظلمت و جہالت کی DARK AGES میں تھا)۔ شمالی افریقہ کے ممالک میں دائیں طرف مصر ہے پھر لیبیا، پھر الجزائر اور مراکش ہیں (لیبیا اور الجزائر کے جنوبی حصے میں دنیا کا سب سے بڑا صحرا صحرائے اعظم ہے) نیچے بہت سے چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک ہیں جنوبی افریقہ کے ممالک میں مسلمان کم اور عیسائیت زیادہ ہے۔ بحیرہ روم کے مشرق کی طرف اسرائیل (فلسطین) ہے پھر لبنان، شام اور اوپر ترکی کا حصہ لگتا ہے۔ ان ممالک سے مزید مشرق کی طرف آئیں اسے مشرق وسطی کہتے ہیں یہ ممالک اردن، عراق___نیچے کی طرف کویت اور امارات ہیں۔ اس سے نیچے سعودی عرب ہے مزید نیچے کی طرف جزیرہ نمائے عرب میں یمن(شمالی یمن اور جنوبی یمن) اور اومان ہیں۔ جزیرہ نمائے عرب کے مغرب میں بحیرہ قلزم ہے جو مصر اور سعودی عرب کے درمیان واقع ہے۔ مشرقی طرف خلیج فارس ہے، ایران کی سلطنت ہے ترکی سے مشرق کی طرف اوپر روسی علاقہ جات ہیں جو کبھی USSR کہلاتا تھا آج آزاد مسلم ریاستیں ہیں پھر مشرق کی طرف افغانستان ہے پھر پاکستان، اس سے مشرق کی طرف کشمیر اور بھارت ہے۔ بھارت سے مشرق کی طرف مسلم ملک بنگلہ دیش ہے جو ۱۹۷۱ء سے پہلے مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ بھارت سے نیچے جنوب کی طرف سری لنکا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ساتھ جزائر مالدیپ ایک خوشحال مسلمان ریاست ہے۔ برطانیہ (دراصل جزائر برطانیہ ہیں) کو چاروں طرف سے سمندر لگتاہے، فرانس کو شمال اور جنوب میں طویل ساحل میسر ہے۔ اٹلی کو جنوبی ساحل میں بحیرہ روم تک رسائی حاصل ہے۔ پرتگال کو مغربی طرف بحیرہ اوقیانوس میں طویل ساحل لگتا ہے۔ ساحلی علاقہ لگنے سے ماضی میں اور آج بھی سمندری تجارت کے مواقع میسر ہیں۔ بحیرہ روم اور پرتگال کے ساحل گرم سمندر ہیں اور سارا سال تجارت ہو سکتی ہے جبکہ برطانیہ کے شمالی اور مشرقی حصہ میں سمندر منجمد ہو جاتا ہے اور جنوبی حصہ میں سارا سال تجارت ہو سکتی ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں سمندر منجمد ہو جاتاہے اور سال کے چند ماہ ہی سمندری تجارت ممکن ہوتی ہے۔ جرمنی ملک کو شمالی طرف مختصر سا سمندر لگتا ہے اور اس میں سارا سال تجارت نہیں ہوسکتی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران تجارت کے لیے جانے والے سمندری جہازوںکو دشمن برطانیہ اور فرانس کی نیوی سے واسطہ پڑتا تھا۔ جرمنی اور اس کے ملحقہ ممالک سے مختصر تعارف کے بعد اب جرمنی کے مسلمانوں سے تعلقات کا جغرافیائی پہلو سامنے آسکے گا۔ جرمنی زمینی طور پر مشرق کے آج کے یورپی مسلمان ممالک ترکی، ایران، افغانستان، اردن، عراق اور سعودی عرب سے جڑا ہوا تھا، جرمنی کے لوگ ان علاقوں میں زمینی راستوں سے (BY ROAD) منسلک ہیں اور جہاں ریلوے کا نظام آگیا تھا وہاں سفر بڑا آسان تھا اور یہ سہولت صدیوں سے میسر تھی ؛لہٰذا __ ان علاقوں کے باشندوں کا آپس میں میل جول، تجارت اور رابطے صدیوں کی تاریخ رکھتے تھے۔ ان رابطوں سے یہاں کے عوام ایک دوسرے کو جانتے اور ایک دوسرے کے رجحانات و خیالات اور ماضی سے واقف تھے۔ صرف تقابلی جائزے کے لیے چند لمحے اس پر غور فرمائیں کہ جرمنی کے برعکس برطانیہ فرانس، اٹلی کو مشرق وسطی، عثمانی سلطنت اور جنوبی ہند سے رابطے میں جغرافیہ حائل ہے کوئی براہ راست آسان زمینی یا سمندری راستہ نہیں تھا۔پرتگالی انڈونیشیا، ملائیشیا گئے تو جنوبی افریقہ راس امید ہو کر واپس خلیج فارس، سری لنکا اور پھر وہاں پہنچے۔ اسی طرح برطانیہ کو بنگال پہنچنے کے لیے ۷۰۰۰ یا۸۰۰۰ میل کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ جغرافیہ نے برطانیہ فرانس، اٹلی، پرتگال کے لیے صنعتی انقلاب کے بعد سلطنت عثمانیہ کی صورت میں متمدن دنیا سے رابطے میں مشکلات پیدا کی ہوئی تھیں۔ تہذیبی اور ثقافتی پہلو اسلام یورپ میں مغرب کی طرف سپین سے تو آٹھویں صدی میں ہی آگیا تھا اور آٹھ صدیاں چھایا رہا۔ غرناطہ شبیلیہ وغیرہ کی مسلم تہذیب کی تعمیرات آج بھی یورپی ماہرین اور انجینئرز کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ مسجد قرطبہ اور الحمرا کا محل سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یورپ میں مشرق کی طرف سے اسلام کے داخلہ میں رومی سلطنت حائل تھی کیونکہ ایشیا اور یورپ کے اتصال پر ہی اس سلطنت کا دارالحکومت تھا اور قسطنطنیہ بہت مضبوط قلعہ تھا اور عیسائیت کا بھی مرکز تھا۔ قبرص اور بعض یونانی علاقے ابتدائے اسلام ہی میں فتح ہو گئے تھے مگر یورپ میں اسلام عثمانیوں؍ ترکوں کے دور میں وارد ہوا۔ پہلے قسطنطنیہ کے مغربی علاقوں سے مسلمان اندر تک گھس گئے اور سلطنت قائم کر لی۔ رومی سلطنت بھی دوحصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ بالآخر مشہور ترک حکمران سلطان محمد فاتح نے ہمت کر کے ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کر لیا جس سے یورپ میں داخلے کا ’شاہدرہ‘ اسلام کے لیے کھل گیا۔ چنانچہ مسلمان افواج ایک وقت میں سارے مشرقی یورپ اٹلی، جرمنی سمیت فرانس میں پیرس کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں۔ موجودہ جرمنی تک کا علاقہ تین صدیاں عثمانیوں کے زیر نگین رہا۔ سپین میں مسلم دورِ حکومت کی طرح عثمانی حکومت کا دور بھی آسودگی، خوشحالی، فراوانی، علم دوستی، اقلیتوں سے حسن سلوک اور رحمدلی کا دور تھا۔ مسلمانوں کے اس فراخدلانہ طرز عمل سے مشرقی یورپ کے ان علاقوں کے باسی مسلمانوں سے مخاصمانہ کی بجائے دوستی اور انسانی ہمددری کے لازوال رشتوں میں بندھ گئے۔ اس دوستی اور رابطوں (INTERACTION) کے نتیجے میں اسلام پھیلا اورسترہویں صدی تک مشرقی یورپ کے بیشتر لوگ مسلمان ہوگئے۔ اس طرح موجودہ جرمن قوم سے مسلمانوں کے روابط اور دوستی کا رشتہ گزشتہ پانچ صدیوں کی تاریخ رکھتا ہے اور اس علاقے کے مسلمان تو مسلمان ہیں‘ غیرمسلم بھی عثمانی دور حکومت کے انسان دوست اور اقلیتوں سے حسن سلوک کی بنا پر اچھے تأثرات رکھتے ہیں۔ بوسنیا، ہرزگووینا میں گزشتہ تین عشروں سے عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے پھر بھی تاہم مسلمان اسلام پر قائم اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں آزاد ہونے والی ریاست کوسووا (KOSOVA) دنیا میں ۵۸ویں آزاد مسلم ریاست ہے۔ اس طرح تہذیبی رشتوں کے ساتھ مشرقی یورپ (حالیہ جرمنی وغیرہ) کے یہ علاقے عثمانی عہد سے مسلمانوں کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی روابط بھی رکھتے ہیں اور مشرقی یورپ کے یہ مسلم علاقے مسیحی یورپ کے لیے اسلام دوستی کا پیغام جبکہ مسیحی رویّے ظالمانہ اور رومی طرز کے ہیں۔ مسلم مشرقی یورپ اب بھی UNO کے تحت دیے گئے اقلیتوں کے حقوق کے منتظر ہیں۔ عثمانی دور میں وسطی اور مشرقی یورپ کے لیے تجارتی اور سفارتی رابطوں کے مشرق میں ایران، افغانستان اور ہند تک سفر بلا روک ٹوک کرتے تھے اور مسلمانوں کی فراخدلی اور مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار، پاکیزہ کاروباری اُصول، طرز بود و باش، کھیل کود کے مشاغل وغیرہ کا ذاتی تجربہ رکھتے تھے جو ان کی نسل در نسل روایات میں آج بھی موجود ہے۔ مشرق وسطی، ترکی، مشرقی یورپ کی مسلم ثقافت کے آثار اس علاقے میں یکساں طور پر واضح ہیں طرز تعمیر، رہائش، لباس، کھیل کود کے مشاغل میں عثمانی ترکوں کے دور کے اثرات کا مشاہدہ ہر کھلی آنکھ کر سکتی ہے۔ تاریخی پہلو تاریخی اعتبار سے سپین سے مسلم تہذیب و ثقافت کے اثرات مغربی فرانس اور برطانیہ تک بھی پہنچے اس لیے کہ عثمانی ترکوں کے عہد میں فرانس کے مشرقی علاقوں سمیت سارا علاقہ مسلمانوں کے زیر تسلط رہا۔ ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کی فتح سے ترکوں کی حکومت مستحکم ہوگئی اور سارے یورپ میں کوئی مدمقابل قوت موجود نہ رہی۔ ۲۵۰سال تک یہ علاقہ ترکوں کے زیر حکومت رہا اور یہاں مسلمانوں کی ترقی، علم دوستی، اقلیتوں سے حسن سلوک اور اعلیٰ تہذیبی روایات کا چرچا رہا۔ عثمانی حکومت اٹھارویں صدی کے آغاز تک شمالی افریقہ مشرقی یورپ، روسی ترکستان، مشرق وسطی اور جزیرہ نمائے عرب کے شمالی اور مغربی حصے حجاز (جہاں حرمین شریفین واقع ہیں) تک محیط تھی۔ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کا بھی ایک ضابطہ اور قانون ہے کوئی فرد ہو یا اجتماعیت وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ اس اُصول سے مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں یہی سنہری اُصول بتائے گئے ہیں۔ اٹھارویں صدی شروع ہوئی تو عثمانی سلطنت پر زوال کے آثار رونما ہو گئے اور دوسری طرف یورپ میں صنعتی انقلاب آگیا اور اقوام یورپ بیدار ہو گئیں اور مشرقی یورپ سے بھی علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے شروع ہو گئے اور ترکستان میں روس نے بیداری کے بعد توسیع پسندانہ جذبے سے عثمانی حکومت کے علاقے فتح کرنا شروع کیے۔ یہی زمانہ ہے جب برطانیہ اور فرانس نے اپنے ملکوں سے نکل کربحیرہ روم کے شمالی اور مغربی ساحلوں پر لوٹ مار شروع کی اور اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ اٹلی اور فرانس نے یورپ سے جنوب کی طرف بحیرہ روم عبور کر کے شمالی افریقہ میں عثمانی مقبوضات ہتھیالیے۔ برطانیہ نے مغربی افریقہ کی طرف سے یلغار کر کے وسطی افریقہ میں علاقے فتح کرنا شروع کر دیے۔ تاآنکہ اٹھارویں صدی کے آخر تک (۱۸۰۰ئ) افریقی مقبوضات عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے، مشرقی یورپ کا بیشتر حصہ روس ترکستان کا حصہ بن گیا تھا اور باقی ریاستیں علیحدہ ہو کر خود مختار ریاستیں بن گئی تھیں، جن پر بعد میں روس نے قبضہ کر لیا تھا۔ اسلام اور جرمن قوم کے تعلقات کے حوالے سے دیکھیں تو جرمنی اور عثمانیوں کی آپس میں کشمکش ہونا یا کشیدگی ہونا تو سلطنتوں کے مابین فطری امور ہیں تاہم بڑی جنگ یا ایک دوسرے کو تہس نہس کر دینے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ حتیٰ کہ اٹھارویں صدی تک عثمانیوں نے فرانس سے بھی تجارتی تعلقات استوار کرلیے تھے۔ اس بقائے باہمی کا نتیجہ یہ تھا کہ اٹھارویںصدی میں بھی مشرقی یورپ اور جرمنی کے لوگ ایران، افغانستان تک آزادانہ تجارت کر رہے تھے۔ اٹھارویں صدی میں عثمانیوں کے زوال پذیر ہونے اور یورپ میں صنعتی انقلاب سے، طاقت کا توازن صنعتی اقوام کے ہاتھ میں آگیا۔ پہلے علم، ترقی، تہذیب وثقافت، کلچر رہن سہن کے انداز مشرق وسطی اور ترکی سے یورپ کو جارہے تھے۔ یورپی اقوام کی سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب سے صورت حال اُلٹ ہوگئی اب مسلمان یورپ اور جرمن یونیورسٹیوں میں علم حاصل کرنے جارہے تھے اور وہاں سے صنعتی مصنوعات اور سائنسی علوم کے ساتھ مغربی تہذیب و ثقافت مشرق وسطی منتقل ہو رہی تھی۔ یورپ سے مشرق وسطی اور اسلامی ممالک کی طرف اس بہائو میں جرمن قوم کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ ذہنی طور پر اسلامی دنیا سے منسلک تھی لہٰذا جرمنی تجارتی انداز میں مسلمانوں سے معاملات کرتا رہا جبکہ فرانس، اٹلی اور برطانیہ کو زمینی راستہ میسر نہیں تھااُسے سلطنت عثمانیہ سے لڑائیاں لڑکر شمالی افریقہ میں پائوں جمانے پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی مشرق وسطی، ایران، افغانستان تک جرمنی کا اثر و رسوخ بڑھ گیا جبکہ دیگر علاقوں میں فرانس، اٹلی اور زیادہ تر برطانیہ کا تسلط قائم ہوگیا۔ معاشی اور سیاسی پہلو اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویںصدی کے آغاز (۱۸۰۱ئ) تک یورپی اقوام صنعتی ترقی کے نتیجے میں فوجی لحاظ سے مستحکم ہو گئی تھیں، صنعتوں میں مشینی پیداوار سے بے پناہ تجارتی مال تیار ہوتا تھا جس کی کھپت درکار تھی اور صنعتوں کو چلانے کے لیے خام مال درکار تھا جو یورپ میں میسر نہیں تھا؛ لہٰذا___یہ یورپی اقوام اپنی اغراض کے لیے تسخیر ممالک کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ یہ یورپی اقوام ڈچ (پرتگال)، فرانسیسی (فرانس)، اطالوی (اٹلی)، انگریز (برطانیہ) اور جرمن(جرمنی)اقوام تھیں۔ ڈچ قوم بحراوقیانوس کے کنارے ہی تھی لہٰذا اس نے جلد ہی مغربی افریقہ مشرقی افریقہ کے ساحلوں پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت مغلیہ سلطنت مستحکم تھی لہٰذا یہ قوم انڈونیشیا، ملائیشیا کے بعض علاقوں پر جا قابض ہوئی۔ فرانسیسیوں کو شمال کی طرف سے برطانیہ سے ٹکرائو کا اندیشہ تھا اس نے جنوبی ساحل سے بحراوقیانوس عبور کر کے شمالی افریقہ، الجزائر اور مصر کے علاقوں پر قبضہ جمالیا۔ اطالوی قوم نے بھی بحراوقیانوس سے نکلنے کے لیے ڈچ، برطانیہ، فرانس سے مقابلہ کرنے کی بجائے لیبیا اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر کے افریقہ میں علاقے اپنے قبضے میں کر لیے۔ انگریزوں کو کھلا سمندر ملتا تھا لہٰذا یہ یورپ کے مغربی ساحل سے ہو کر افریقہ کے مغربی علاقوں اور جنوبی علاقوں پر قابض ہوگئے پھر جزیرہ نمائے عرب کے یمن، اومان اور خلیج فارس میں اثرورسوخ بڑھایا، بعد ازاں بحیرہ ہند میں ہند کے ساحلی علاقوں پر قبضے کیے۔ مغلیہ سلطنت مضبوط تھی؛ لہٰذا___انگریزوں نے بنگال میں جا کر ساحلی علاقے کو آباد کیا۔ فرانسیسی قوم نے بھی سندھ کا ساحلی علاقہ اور جنوبی ہند کا مشرقی ساحلی علاقہ قبضے میں لیا تھا تاہم جلد ہی انگریزوں سے جنگوں میں اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پس پردہ قوتوں نے برطانیہ کو آگے بڑھتے دیکھا تو اس قوم کو اشیرباد دے کر عالمی استعمار کا سب سے بڑا مہرہ بنا دیا۔ برطانیہ نے انیسویں صدی کے شروع میں جنوبی ہند سے فرانسیوں کو ماربھگایا (سلطان ٹیپو شہادت ۱۷۹۹ء بھی فرانسیسیوں سے صنعتی روابط رکھتے تھے) اور مصر سے بھی فرانسیسیوں کو نکال دیا اور نپولین بونا پارٹ کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ مصر کی فتح کے نتیجے میں بحیرہ قلزم کو خلیج سویز جو اوپر جا کر ختم ہوتی ہے اور بحیرہ روم سے صرف ۱۸۰ میل دور رہ جاتی ہے‘ انگریزوں نے نہر سویز بنائی اور بحیرہ روم سے جہاز رانی کا راستہ بحیرہ قلزم اور بحیرہ ہند تک نکال لیا اس سے انگریزو ں کو ہندوستان آنے کے لیے چار ہزار میل کا فاصلہ کم ہو گیا اور مقبوضات کی نگرانی آسان ہوگئی اور فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ تاہم برطانیہ، فرانس، اٹلی، ڈچ سب اقوام جہاں جہاں گئیں انہوں نے لوٹ مار کی، مقامی باشندوں کو دبایا (جیسے برطانیہ نے امریکہ پہنچ کر مقامی باشندوں ریڈانڈین قوم کو سرے سے ختم کر دیا تاکہ اپنا تسلط پائیدار ہو سکے) اسی طرح بنگال وغیرہ میں انگریز، فرانسیسی اور اطالوی اپنے ان مقبوضات میں غاصب، لٹیرے، غیر ملکی بدمعاش ہی سمجھے جاتے رہے اور مقامی لوگوں نے جلد یا بدیر آزادی کی تحریکیں چلا کر ان استعماری قوتوں سے آزادی حاصل کر لی۔ اس پس منظر میں معاشی اور سیاسی دونوں پہلوئوں سے جرمن قوم کامعاملہ بالکل منفرد ہے۔ اطالوی قوم کی طرح جرمن بھی تسخیر ممالک کی مہم میں شریک ہوئی تو اولاً اُسے صرف شمال کی طرف سمندر ملتا ہے جو سارا سال تجارت کے قابل ہی نہیں ہوتا پھر وہاں سے نکلتے ہی برطانیہ اور فرانس کے ساحلوں سے گزرنا پڑتا جس سے لڑائی اور جنگیں ناگزیر تھیں۔ یہ سہولت قدرت کی طرف سے جرمنی اور جرمن قوم کو ملی کہ اُسے جغرافیائی طور پر مشرق میں وسیع اسلامی دنیا کا ملحقہ علاقہ میسر تھا جہاں زمینی روابط صدیوں سے استوار تھے۔ تاریخی طورپر عثمانیوں اور ان کے زیرنگیں علاقوںمیں پہلے بھی آنا جانا تھا، تہذیبی اور ثقافتی رشتے بھی موجود تھے لہٰذا ___جرمن قوم نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اور مشرقی یورپ سے ہوتے ہوئے ترکی مشرق وسطی، سعودی عرب، ایران افغانستان تک تجارتی روابط بڑھائے۔ برطانوی اور فرانسیسی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچنے کے لیے ہزاروں میل کا سمندری راستہ طے کرنا پڑتا تھا پھر دشمن علاقے، آپس کی مسابقت اور مقامی طور پر لوگوں میں غیرملکیوں کی نفرت جیسے عوامل درپیش رہتے تھے۔اس کے مقابلے میں جرمن قوم کو مسلم ممالک میں ایک باوقار تاجر او ر نئی نئی مصنوعات متعارف کرانے والی قوم کے طور پر پہلے سے جانے پہچانے لوگوں میں کام کرنے کا موقع میسر تھا۔ اس صورت حال سے ان ممالک کے مسلمانوں میں جرمنوں کے لیے خیر سگالی اور احسان مندی کے جذبات موجزن تھے۔ معاشی اور سیاسی طور پر جرمن قوم کے مسلمانوں سے روابط اور تعلقات کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ : افغانستان میں احمد شاہ ابدالی (وفات ۱۷۷۳ئ) کے دور میں جرمن اسلحہ اور تجارتی مال کا دور دورہ تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے ۱۷۶۱ء میں ہندوستان پر حملہ کیا اور پانی پت کے میدان میں تین لاکھ مرہٹوں کو شکست فاش سے دوچار کر دیا، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ جرمن ساختہ توپیں تھیں جوجنگ میں کام آئیں انہی توپوں میں سے ایک لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے سامنے مال روڈ پر نصب ہے۔ ترکی میں جرمن مصنوعات عام تھیں اور شام، لبنان، اردن، فلسطین، عراق سارے علاقے جرمن مصنوعات ہی استعمال کرتے تھے، بڑے پراجیکٹ بھی جرمن کمپنیوں کے ذریعے اور جرمن ٹیکنالوجی پر ہی تکمیل پذیر ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں استنبول سے شام، لبنان، فلسطین، اردن ہوتے ہوئے مدینہ اور مکہ تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایاگیا اور اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ منصوبہ بھی جرمن انجینئروں کے ہاتھوں آگے بڑھا۔ مدینہ تک ریلوے لائن بچھ گئی تھی اور مدینہ تک ریل گاڑیوں کی آمدورفت شروع بھی ہو گئی تھی کہ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ئ) چھڑ گئی جس سے کام بند ہو گیا، ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا، پھر جرمنی کی شکست کے بعد دوبارہ کام شروع نہ ہو سکا۔ سعودی عرب کے علاقے مکہ اور مدینہ میں ۱۹۹۵ء تک کی (نئے توسیعی منصوبے کے آغاز )تک گھروں میں حاجیوں کے لیے جرمنی طرز فٹنگز استعمال ہوتی تھیں۔ اس طرح جرمنی عالم اسلام کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتا تھا اور اسی کا اثر تھا جو جرمن دانشوروں پر اسلام کی حقانیت اور فطری دین ہونے کی وجہ سے نمایاں ہو رہا تھا۔ آج سے تین دہائیاں پہلے تک جرمن دانشور این میری شمل کا اقبالیات اور تصوف اسلامی کا مدّاح ہونا جرمن قوم میں اسی متوازن سوچ اور عالم اسلام سے سابقہ صحت مند روابط ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ صہیونی عزائم صہیونیت ایک ادارے اور تحریک کے طور پر جس طرح واضح درجہ بندی (CADRES) کے ساتھ گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دنیا کے سامنے ہے۔ اس طرح کی تحریک اور شناخت پہلے تو نہ تھی مگر___بنی اسرائیل کے ایک بگڑے ہوئے گروہ کے طور پر جس کے ابلیسی اور شیطانی عزائم قرآن پاک نے بڑے واضح بیان کیے ہیں وہ یقینا بہت پہلے سے ہے اور اس کی تاریخ حضرت یوسف ں کے بھائیوں کی طرف سے ان کے ساتھ رویے سے جا ملتی ہے۔ قرآن مجید___ ایک آسمانی کتاب ہے اور اس کتاب میں جس طرح اس ابلیسی گروہ کی نقاب کشائی کی گئی ہے وہ کسی اور کتاب میں ممکن نہیں ہے پھر دنیا میں جتنی بھی کتابیں اس ابلیسی گروہ کے کردار کا چہرہ دکھانے کے لیے لکھی گئیں وہ اس گروہ نے دنیا سے غائب کردیں THE SECRET SOCIETITIES OF THE WORLD اور THE PAWN OF THE GAME طرح کی ہزاروں کتابیں دنیا سے ناپید کر دی گئیں حتی کہ THE HUNDRED جیسی کتاب جس میں حضرت محمدﷺ کی تعریف کی گئی تھی اور ایک عیسائی نے لکھی تھی اسے بھی غائب کر دیا گیا۔ اس گروہ نے تو حضرت محمدﷺ کی کردار کشی کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ (آج جو کچھ کارٹون اور خاکوں کی آڑ میں ہورہا ہے اس کے پس پردہ یہی صہیونی ابلیسی گروہ یہود ہے) یہی گروہ___قرآن مجید کو بھی دنیا سے غائب کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے مگر یہ خالق کائنات نے نازل فرماکر اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا ہے۔ (’’ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ ۔الحجر آیت ۹) ورنہ صہیونیت کی طرف سے گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ضمن میں ایک سے ایک بڑھ کر خوفناک شازشیں ہوئیں مگر کامیاب نہ ہوسکیں نہ آئندہ ہوں گی ان شاء اللہ۔ اس صہیونی اور ابلیسی گروہ کے عزائم کا صرف دورِ حاضر کے اعتبار سے خاکہ درج کیا جارہا ہے جس گروہ نے مغربی اقوام کے عروج کو ذریعہ بناکر اور انہی قوموں کو بطور آلہ استعمال کرکے اسلام کو ختم کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہے وہ ایک الگ باب ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ہونے والی ترقی سے اس صہیونی گروہ نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ ۱۶۰۲ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی جس سے ہندوستان میں تجارت کی آڑ میں برطانوی قبضے اور توسیع کا پروگرام بنا۔ اس ابلیسی گروہ نے اپنے منصوبوں کی کامیابی کے لیے مسیحیت کو فرنٹ مین کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا مگر مسیحیت میں ’پوپ‘ کا اصل اختیار تھا اور ’یہود‘ کو کام کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ اس گروہ نے طویل تحریک چلا کر مسیحیت میں ہی پروٹسٹنٹ کے نام سے ایک فرقہ کھڑا کردیا جو آسمانی ہدایت میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کا قائل تھا، اسی گروہ کے ذریعے سودحلال کردیا گیا اور بینکوں کا نظام قائم ہوا، ۱۶۴۵ء میں بینک آف انگلینڈ قائم ہوا اور بعد میں یہ سلسلہ یورپ اور ساری دنیا میں پھیل گیا۔ روایتی عیسائیوں کو کیتھولک نام سے پوپ کے ساتھ منسلک سمجھا گیا اور اس فرقہ کی بھی ہر طرح سے سرپرستی کی گئی۔ مذہب کو سیاست سے الگ کردیا گیا، پوپ کا اختیار صرف مذہبی معاملات تک تھا جبکہ برطانوی بادشاہ کو سیاسی طور پر مسیحیت کا محافظ (DEFENDER OF FAITH) قرار دیا گیا۔ اس طرح تاج برطانیہ کو مسیحیت کے تحفظ اور حکومت برطانیہ کو پروٹسٹنٹس کے فروغ کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ برطانوی مقبوضات سب سے زیادہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے، سائنسی ایجادات سب کی سب اس عالمی حکومت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے اصول پر سامنے آئیں۔ ریل، برقی تار، سمندری سفر کی سہولت وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا بعد ازاں یہی ترقی ریڈیو، ٹی وی، کلر ٹی وی، وائرلیس، کمپیوٹراور ہوائی سفر نے اس عالمی حکومت کے قبضے کو جاری رکھنے کے لیے آسانی پیدا کردی۔ جرمنی کے عالم اسلام سے زمینی رابطے، تاریخی، ثقافتی اور برادرانہ تجارتی تعلقات اور باہمی اعتماد اس صہیونی گروہ کے سینے میں تیر کی طرح پیوست تھے۔ ۱۸۹۷ء میں صہیونیت باقاعدہ ایک تحریک اور ادارہ ORGANISATION کے طور پر سامنے آگئی یہودی دانشور نے سوئزرلینڈ کے شہر BASEL میں کانفرس بلاکر یہود کے لیے مشرق وسطی میں ایک وطن کا خاکہ پیش کیا جس کا نام اسرائیل تجویز ہوا اس وطن کے حصول کے لیے ایک صدسالہ منصوبہ بنا۔ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں یہود کی شکست کے سات صدیوں بعد انہیں ایک سنہری موقع مل رہا تھا۔ فلسطین (سمیت سارا مشرق وسطی) سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا یہ سلطنت پانچ صدیوں کے اقتدار کے بعد اب مضمحل ہوکر لڑکھڑا رہی تھی لہٰذا ایک جنگ کا منصوبہ بنا۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور جرمنی آمنے سامنے آگئے۔ عثمانی حکومت جرمنی سے روابط اور دوستی کی وجہ سے اس کے ساتھ ہوگئی۔ جرمنی نے بڑا زور دار مقابلہ کیا مگر منصوبہ سازوں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق (جس کی تفصیلات بھی تاریخ میں محفوظ ہیں) جرمنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اب جرمنی اور ترکی کو ہارنے والے فریق کے طور پر سزا ملی اور سارا مشرق وسطی اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ فلسطین پر ۱۹۱۷ء کے بالفور ڈیکلریشن سے یہود کو ۶۴۴ء میں حضرت عمر ص کے فلسطین فتح کرنے کے بعد اب داخلے کی اجازت ملی تھی۔ جرمنی پر اسلام اور کے جو کچھ اثرات باقی تھے اور دوبارہ منظم ہونے کی اس کے اندر سکت تھی اس کو دوسری جنگ عظیم میں تہس نہس کردیا گیا تاکہ یورپ میں صہیونی لابی کا کنٹرول ہو (جو اب متحدہ یورپ ایک حکومت ایک پارلیمنٹ ایک کرنسی کے ذریعے سامنے آچکا ہے) اورجرمنی کو تقسیم کرکے دیوار برلن تعمیر کردی گئی تاکہ جرمنی عالم اسلام سے کٹ جائے اور مکمل طور پر WESTWARD LOOKING ہو کر رہے۔ یہ وہ جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی عوامل ہیں جن کے اثرات جرمنی کو منوّر کررہے تھے جن کا مشاہدہ حضرت علامہ اقبال نے ۱۹۰۵ئ۔۱۹۰۷ء میں قیام یورپ میں کیا تھا اور تحریک مشرقی سے متأثر ہوئے تھے اور ’پیام مشرق‘ کے نام سے ایک مجموعۂ کلام بھی تخلیق کردیا مگر صہیونی لابی نے اس پھول کو کھلنے نہیں دیا۔ پیام مشرق (مطبوعہ ۱۹۲۴ئ) میں علامہ اقبال نے واحد آزاد مسلمان ملک افغانستان کے فرمانروا امان اللہ خان کو مخاطب کر کے ملت اسلامیہ کی بیداری اور خلافت اسلامیہ کے احیا کے لیے بہت سی تجاویز دی تھیں اور ان سے بہت سی توقعات بھی وابستہ کی تھیں۔ ۱۹۳۳ء میں سید سلیمان ندوی، علامہ اقبال اورسر راس مسعود دورئہ افغانستان پر تشریف لے گئے تھے۔ قیام کابل کے دوران حکومتی اور ملکی معاملات کے علاوہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ اور خلافت اسلامیہ کے احیا کے لیے تجاویز بھی زیر بحث آئیں اس وقت نادر شاہ کابل کا حکمران تھا۔ اس سے پہلے علامہ اقبال ۱۹۲۷ء میں مدراس کی ایک مسلم انجمن کے زیر اہتمام ’’الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے موضوع پر لیکچرز میں دور حاضر میں اسلام کے غلبے اور احیائے خلافت کے بارے میں اعلیٰ علمی فلسفیانہ سطح پر گفتگو کر چکے تھے۔ ۱۹۳۰ء میں برطانوی ہند کے شمال مغرب میں ایک خطے میں مسلم ریاست کا تصور بھی دے چکے تھے جہاں اسلام کو نافذ کرکے اسلام کی تعلیمات کی برکات کا ایک نمونہ دورِ حاضر میں دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردانہ تعلقات اور صدیوں کے دوستانہ رویوں کی وجہ سے جرمنی میں عوامی سطح پر اسلام کے حق میں ایک لہر آج بھی موجود ہے اور اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس رُخ پر مزید تحقیق سے اس تحریک مشرقی کے اثرات کا مزید گہرائی میں جاکرجائزہ لیا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال کی دوررس نگاہ نے اس کا مشاہدہ کرلیا تھا اور کوئی عجب نہیں کہ آنے والے وقت میں اس کا کوئی عملی نمونہ بھی سامنے آسکے اور جرمن قوم کا ELITE طبقہ مشرف بہ اسلام ہوجائے۔ ـئ…ئ…ء اقبال اور حریت انسانی سلمی صدیقی علامہ اقبال نے برصغیر کی غلامی کے ایام میں، جب انگریز کی تہذیبی اور استعماری یلغار عروج پر تھی، آنکھ کھولی۔ اقبال اُن مسلم مفکرین میں سے ہیں جنہیں اس صدی کے آغاز ہی میں مغربی اور سیاسی صورتحال اور استعماری رویوں کا تنقیدی اور غائر مطالعہ کا بھرپور موقع ملا۔ اس مطالعہ کے بعد انہوں نے نا صرف برصغیر بلکہ پورے مشرق کے زوال اور اس کے مصائب کا سر چشمہ مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کو قرار دیا جس نے مشرق کی روح کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اقبال نے اصولی طور پر مغربی استعمار کی مخالفت کو اپنا عقیدہ یا لائحہ عمل فقط اس لیے بنایا کہ وہ جان گئے تھے کہ مغرب مشرق کے لیے خدائی کرنے کاد عویدار بن چکا ہے جب کہ خود مغرب نے اپنے لیے اقتدار اور زر اندوزی کے بتوں کو بطور خدا کے تجویز کر لیا ہے۔ ان حالات میں مغربی دین و دانش کے پس منظر میں ہوس کی حیلہ گری کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ ۱؎ یہی وجہ ہے کہ اپنے فکری استحکام کے بل پر اقبال نے اس انگریزی استعمار کے خلاف باقاعدہ جہاد کا آغاز کیا۔ لہٰذا اُن کا بیش تر کلام اس پس منظر کی یاد دلاتا ہے جو انگریزی حکومت کے دورِ غلامی میں جمود و تعطل، بے خبری اور بے عملی کاشکار بنا ہوا تھا۔ اقبال نے اسی لیے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ زور زندہ دلی، حرکت و عمل، ہمت و جرأت بیداری اور قوت پر دیا ہے کیونکہ اُن کو یقین تھا کہ سوئی ہوئی قوم میں جنگ کی روح پھونکے بغیر غلامی کے بڑے عفریت کا مقابلہ ناممکن ہے۔ چنانچہ اقبال کی بہت سی نظمیں ہنگامی حالات کے پیشِ نظر جوشِ عمل کو ابھارنے میں سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوئیں اور قوم کے اندر نئی قوت اور نئی روح پھونکنے کے کام آئیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر نہ صرف جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ مردہ روح زندہ ہو جاتی ہے۔ ۱۹۰۴ء میں جب ابھی آزادیٔ ہند کا ہلکا ہلکا خیال لوگوں کے ذہن میں پیدا ہو رہا تھا اقبال نے ’’تصویرِ درد‘‘ جیسی ایک طویل نظم لکھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا ذہن غلامی سے کس قدر بے زار اور دل آزادی کا طالب ہو رہا تھا۔ انہوں نے یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے کثیر مجمع کے سامنے پیش کی اور لوگوں کو آزادیٔ ہندوستان کے جذبے اور انگریزی غلامی سے نجات کی طرف متوجہ کیا۔ ’’تصویرِ درد‘‘ کے ان اشعار پر غور کیجئے۔ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں یہ خاموشی کہاں تک؟ لذتِ فریاد پیدا کر زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائوں گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۲؎ اقبال مغربی سامراج کی پُرفریب چالوں سے اچھی طرح باخبر تھے اور اپنے کلام کے ذریعہ اہل وطن کو بھی باخبر رکھتے تھے۔ روس کے انقلاب ۱۹۱۷ء کے بعد اقبال کی اس ضمن میں سب سے اہم نظم ’’خضر راہ‘‘ تھی۔ اس نظم میں مغربی نظام حکومت کی عیاریوں کا پردہ جس سنجیدگی اور بالغ نظری کے ساتھ فاش کیا گیا ہے اس کی دوسری مثال اس عہد کی اردو شاعری میں ملنا مشکل ہے۔ اقبال نے اس نظم میں اہل فرنگ کو بُری طرح ہدفِ ملامت بنایا اور حریت کے متوالوں اور آزادی پسندوں کے خون کو گرمایا۔ اقبال نے انگریزوں کی نام نہاد جمہوریت کا راز بھی کھول کر رکھ دیا اور بتایا کہ یہ بھی ہندوستانیوں کو آزادی سے بے خبر کرنے اور مکر و فریب میں پھنسانے کی ترکیبیں ہیں۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں: خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری۳؎ یوں اقبال مغرب کے پُر اسرار جمہوری نظام کے چہرے سے پردہ اٹھا کر دیوِ استبداد کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ پھر جمہوریت کے ان سبز باغوں میں سرمایہ و محنت کی آویزش کا آغاز ہوتا ہے اور نغمۂ بیداریٔ جمہور بلند ہوتا ہے: نغمۂ بیداریٔ جمہور ہے سامانِ عیش قصۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہُوا آسماں! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دوریٔ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک۴؎ ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے عنوان کے تحت ہندوستان کے غریب مزدور عوام کا خون کس طرح ایک سرمایہ دار جسے اقبال ’’حیلہ گر‘‘ کہتے ہیں، چوستا ہے، اس کا بیان بھی اس نظم کی انقلابی جہت کو نمایاں کرتا ہے۔ اقبال جس طرح غریب مزدور کو بیداری کا پیغام دیتے ہیں اس کی نظیر اردو شاعری میں ملنا مشکل ہے۔ اس دور میں انگریزی راج میں مزدور کا جس طرح استحصال ہو رہا تھا اس کی نہ صرف خوب عکاسی کی گئی ہے بلکہ انقلاب کے لیے ابھارا بھی گیا ہے دیکھئے: بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات۵؎ درج ذیل شعر تو ایسا انقلابی ہے جس میں نہ صرف جوش و جذبہ بلکہ خوش آئند دور کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے اگرچہ اس وقت تک ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا لیکن اکتوبر انقلاب کی گونج ہندوستان میں سب سے پہلے اقبال کی اسی نظم میں سنائی دیتی ہے۔ یہ شعر دیکھئے: اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۶؎ اقبال یہ بھی جانتے تھے کہ جرأت اور قوت کی ضرب کے بغیر غلامی کی زنجیر نہیں توڑی جاسکتی یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ہزاروں اشعار زندگی بخش اور حوصلہ انگیز ملتے ہیں۔ اقبال یہ بتاتے ہیں کہ طاقت غلبہ کی اور کمزوری مظلومیت کی نشانی ہے۔ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستانی عوام کو قوت و عمل کا یہ سبق دیا تاکہ وہ باآسانی محکوم و مغلوب بن کر نہ رہ جائیں اور قوت و حوصلہ کی امنگ سے غلامی کے بندھن توڑ ڈالیں۔ بالِ جبریل کی نظم ’’ابو العلا معری‘‘ اس سلسلہ کی عمدہ مثال ہے جس میں بڑے فلسفیانہ انداز اور دانش مندانہ طریقے سے قوت کا پیغام دیا گیا ہے۔ جب معری بھنا ہوا تیتر دیکھتا ہے تو تیتر سے یہ کہتا ہے: اے مرغک بیچارہ! ذرا یہ تو بتا تُو تیرا وہ گناہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟ افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۷؎ غلامی سے نجات کے لیے طاقت اور قوت ضروری ہے اس کے بغیر افراد یا اقوام آزادی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اگر ہم اقبال کی فارسی شاعری کا بھی مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اقبال آزادی اور غلامی میں کس طرح فرق کرتے ہیں اور غلامی یا غلام کی حیثیت اُن کی نظر میں کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر رضی الدین صدیقی: ’’انسان تو کُجا اگر جبریل کو بھی غلام بنا دیا جائے تو وہ اپنی ملکوتی صفات کھو کر عرشِ معلی سے گر کر تخت الثریٰ پہنچ جائے گا… (لہٰذا) آزاد مردوں اور غلاموں کا فرق بیان کرتے ہوئے اقبال بتاتے ہیں کہ محکوم قوموں میں نئے حقائق منکشف کرنے، نئے علوم حاصل کرنے اور نئے آلاتِ تسخیر ایجاد کرنے کا وہ ذوق و شوق نہیں پایا جاتا جو آزاد قوموں کا خاصہ ہے بلکہ محکوم صرف غیروں کی تقلید ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ‘‘ ۸؎ اردو شاعری میں اپنے مجموعہ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ میں اقبال بڑے واضح انداز میں آزاد اور محکوم کا فرق بیان کرتے ہیں: آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات۹؎ یہی وجہ ہے کہ غلامی کو، خواہ وہ کسی شکل میں ہو، اقبال نوعِ انسانی کے لیے سب سے بڑی لعنت سمجھتے ہیں اور ہر فرد بشر کو آزاد دیکھنے کے متمنی ہیں بلکہ ایسے نادان انسانوں کو جو اپنی غلامی پر مطمٔن ہیں ’’اقبال یہ کہہ کر جھنجھوڑتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنی غلامی کی خصلت کے باعث کتوں سے بھی ذلیل تر ہیں کیونکہ کوئی کُتا کسی دوسرے کُتے کے آگے سر خم نہیں کرتا۔‘‘ ۱۰؎ ’’بالِ جبریل‘‘ کی مایۂ ناز نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں فرنگی اقتدار کے ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹ لینے اور آزادیٔ ملک کی خوشخبری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی پوری خبر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جلد ہی سرمایہ داری کے اس دیوِ استبداد کو ہندوستان کی سر زمین سے روانہ ہونا پڑے گا۔ اسی لیے وہ بڑے تیقن اور امید افزا الفاظ کے ساتھ کہہ اٹھتے ہیں کہ : زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں مہر و سلطان سے بیزار ہے گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا۱۱؎ ملوکیت اور سرمایہ پرستی اقبال کے نزدیک ظالمانہ بت تھے جن کے خلاف انہوں نے ہمیشہ آواز بلند کی۔ مزدور کی خوشحالی کی تمنائیں اور اس کی آسودگی کی خواہشیں اقبال کے دل و دماغ میں مچلتی رہیں۔ کیونکہ اقبال کو معلوم تھا کہ ہندوستان کا انقلاب کمزور، غریب اور مزدور عوام کے ہاتھوں لکھا جا چکا ہے اس لیے اقبال، لینن کی زبان سے اس خواہش کا اظہار بڑی شدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ خدا کے دربار میں فریاد تھی جو کہ ہندوستان کی تقدیر بدلنے کی دعائیں تھیں۔ لکھتے ہیں: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات۱۲؎ اقبال کی یہ آرزو ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور ’’فرمان خدا‘‘ میں جوش اور ولولہ کے منتہائے عروج پر نظر آتی ہے جس کی وجہ سے یہ دونوں نظمیں مزدور کی انقلابی دنیا میں ترانۂ جمہور کا درجہ رکھتی ہیں یعنی اقبال نے اس انقلابی تحریک کے قیام کا آغاز کر کے غلام ہندوستانیوں کا خون گرمانے اور انگریز سے لڑ جانے کا ہی درس نہیں دیا بلکہ غلاموں کے سینہ میں آزادی کی آگ بھی لگا دی تھی۔ مثلاً ’’فرمان خدا‘‘ کے یہ اشعار انقلاب اور آزادی کی پکار بن کر گونجنے لگتے ہیں: گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۱۳؎ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اقبال نے اپنی شاعری میں محکوم قوم کی غیرت جگانے کے ساتھ ساتھ براہِ راست انگریزوں کی شاطرانہ چالوں پر تنقید بھی شروع کر دی۔ اُن کے اندر حریفانہ احساس بیدار ہو گیا۔ انہوں نے انگریز کی سفاک چالوں کو ابلیسی نظام تصور کیا اور ’’سیاست افرنگ‘‘ جیسی نظموں کے تحت فرنگی عیاریوں کو اہل وطن کے سامنے بے نقاب کیا۔ انگریز اور مغربی تہذیب کی مخالفت میں ایک پہلو یہ بھی چھپا تھا کہ اقبال نے دیکھا کہ ’’کمزور اقوام کو غلام بنانا اور لوٹنا اس تہذیب کا شیوہ ہے او ران اقوام کی بہت سی دولت اسی لوٹ سے حاصل ہوئی۔‘‘ ۱۴؎ لہٰذا اقبال انگریزوں کی اس سفاکی کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ یوں تو اقبال نے مغربی سامراج کے جبر و استحصال کے ہر پہلو کو بیان کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنی نظم ’’مسولینی(اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے)‘‘ میں جس طرح مسولینی کی زبان سے سامراج کے تخت و تاراج کی داستان سنائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مسولینی، یورپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جُرم؟ بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زُجاج؟ آلِ سیزر چوبِ نَے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لُوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے طیام تم نے لُوٹی کشتِ دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاج پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج۱۵؎ اقبال کی ایسی شاعری کے تناظر میں جب دیکھیں تو مشہور نقاد ثاقب رزمی کی یہ رائے بہت معقول اور درست دکھائی دیتی ہے کہ : ’’اقبال ایشیا میں مغربی سامراج کی تاخت و تاراج اور اس کے جبر و استحصال کو دیکھ کر ایک کربِ مسلسل میں مبتلا تھا۔ اس نے اس کرب کا اظہار مغربی سامراج کے خلاف مسلسل اعلانِ جہاد کی شکل میں کیا اور ایشیا کو طویل خواب گراں سے جگانے اور اسے جدوجہد پر ابھارنے کے لیے بھر پور اور مؤثر انداز میں لکھا۔ اس نے مثنوی ’’پس چہ باید کرد‘‘ لکھ کر مغربی سامراج کے خلاف بڑے پیمانے پر پرچارکا آغازکیا اور اس طرح اقوام مشرق کیلئے لمحہ فکریہ کو مجسم کر دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اقبال نے یہ مثردہ بھی سنایا کہ مشرق میں ایک انقلاب ظہور پذیر ہو چکا ہے۔‘‘ ۱۶؎ اقبال اصل میں پسے ہوئے انسانوں کو جبر و استحصال کے مقابلے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سرمایہ دار زمین کا بوجھ ہے اور کھانے اور سونے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس تمدن کی بنیاد سرمایہ داری پر ہو وہاں انسان، انسان کا شکار کرتا ہے اور وہاں سوچ اورفکر اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں: ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انسا ں نوعِ انساں کا شکاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاںمیں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے۱۷؎ دوسرے لفظوں میں ہم سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے بغیر دانش اور تہذیب کو روبۂ عمل میں نہیں لا سکتے اور نہ ہی معاشرے کو افلاس، جہالت، بیماری اور دیگر سماجی اور اخلاقی قباحتوں کے گڑھے سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسی لیے اقبال سرمایہ داری کے زیر اثر پنپنے والے استحصالی نظام کے خلاف بھر پور جدوجہد کے حامی ہیں۔ وہ حالت موجو دمیں انقلاب چاہتے ہیں بلکہ ایسے انقلاب کو انہوں نے امتوں کی زندگی قرار دیا ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں یہ شعر اسی حقیقت کو آشکار کرتا ہے: جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب۱۸؎ اسی حقیقت کے پیشِ نظر انہوں نے ہر موقع پر جدوجہد کی تلقین کی ہے۔ لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا: ابھی آپ کو ایک شدید جنگ میں قربانیاں کرنی ہیں اور وہ سرمایہ داری کی لعنت کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے لیے بھی ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار رہیں۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی دوسری قوم یا انگریز اس کی دست گیری کرے گا تو وہ بدبخت ہے۔ اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائو ورنہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ زندہ رہو۔ ۱۹؎ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قوم کی غلامانہ ذہنیت کو دور کرنے اور اسے قعرِ غلامی سے نکالنے کے لیے اقبال نے ہمیشہ آزادی کے گیت گائے اور ان گیتوں کے مخاطب زیادہ تر محکوم اور غریب عوام ہی رہے بلاشبہ اقبال کے کلام کا مقصد غلامانہ ذہنیت کو فتح کر کے اس میں حریت پسندانہ روح پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے غلام قوم کے احساس کمتری کو دور کر کے برتری کا احساس پیدا کیا اور یقین دلایا کہ غلام کے خون کی گرمی سے حکومت و اقتدار تو کیا ساری کائنات لرز جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اقبال نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم کو آزاد اور بے قید دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کا ثبوت ایک واقعہ سے بھی ملتا ہے، جب اقبال ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے تو بمبئی میں اقبال کی ملاقات ایک یونانی سوداگر سے ہوئی جو تجارت کی غرض سے افریقہ کے ایک صوبہ ٹرانسوال جا رہا تھا جہاں کوئلے، تانبے، لوہے، سونے اور ہیرے وغیرہ کی بہت سی کانیں ہیں۔ اقبال نے جب اس سے پوچھا کہ چین میں تم کیا کام کرتے تھے تو اس نے جواب دیا سودا گری کرتا تھا لیکن چین والے ہماری چیزیں نہیں خریدتے، تو یہ سن کر اقبال کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ چینیوں نے یورپ والوں کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور وہ اس طرح ان کو نکال باہر کریں گے۔۲۰؎ شاید اسی خیال کو اقبال نے ’’بالِ جبریل‘‘ کی مشہور نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں یوں نظم کیا ہے: گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ سے چشمے اُبلنے لگے۲۱؎ اقبال عوام کے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ کی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کے لوگوں کی سیاسی محکومی اور غلامانہ ذہنیت پر کڑھتے ہیں۔ اور حضور باری تعالیٰ میں شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ایک ایسے وطن میں کیوں پیدا کر دیا جس کے لوگ غیروں کی غلامی و محکومی پر رضامند ہو گئے ہیں اور اپنی اس ذلت آمیز زندگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جس کے رہنما خود تو نہیں بدلتے لیکن خدائی احکامات کو بدل دینے پر ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور مختلف بہانے بنا کر غلاموں کو غلامانہ طور طریقوں پر چلتے رہنے کی سر توڑ کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ذیل کا قطعہ ملاحظہ ہو اس میں ہندوستان کی غلامی و محکومی، بے بسی و بے چارگی کا گلہ یا نوحہ کتنے درد و الم میں کیا گیا ہے: معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بے چارا کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے جاں بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیںہے یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے۲۲؎ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی قوم کی اسی غلامانہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی شاعری کا رخ آزادی کی حقیقت کو بیان کرنے اور آزادی کی برکات کو آشکار کرنے کی طرف کردیا۔ انہوں نے حریت و آزادی کے نغمے گائے اور محکوم قوم کے اندر آزادی کے جذبے کے ساتھ ساتھ آزادی کا شعور بھی بیدار کیا۔ انہیں بتایا کہ آزادی کس قدر بڑی نعمت اور غلامی کتنی بڑی لعنت ہے۔ غلامی میں قومیں کس طرح مضمحل ہو جاتی ہیں اور آزادی انہیں کس طرح شاداب اور تروتازہ رکھتی ہے۔ جو قوم آزاد ہونا نہیں جانتی دنیا میں اس کا مقام اور مرتبہ کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی تقدیر بنا سکتی ہیں۔ لہٰذا توقیر احمد خان کی زبان میں: اقبال کا پیغام پست ہمتوں کے لیے حوصلہ افزا اور جرأت آموز بنا۔ جس نے ہندوستان کی آزادی میں سب سے اول اور سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اقبال کا کام ہندوستان کی آزادی تک ہی ختم نہیں ہو جاتابلکہ اُن کا آفاقی پیغام سارے عالم کے لیے ایک پیغام ہے جو دنیا کے ہر گوشے کے محکوم و مظلوم کے لیے نوید حیرت اور پیامِ حیات ہے، جس سے ساری دنیا کے غریب مزدور ہمیشہ تازگی، فرحت، امید اور حوصلہ حاصل کرتے رہیں گے اور اقبال کے انقلابی خیالات ہر غلام ملک اور غلام قوم کے لیے حریت و آزادی کا مثردہ جاں فزا سناتے رہیں گے۔۲۳؎ اقبال نے اپنی قوم کو انقلاب اور آزادی کا نعرہ دے کر ایسا احسانِ عظیم کیا ہے جس کا بدل شاید کبھی نہ چکایا جا سکے گا۔ سلمیٰ صدیقی، ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱۔ سمیع اللہ قریشی، پروفیسر، ’’موضوعاتِ فکرِ اقبال‘‘ ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۶ئ، ص: ۳۸ ۲۔ اقبال، ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو)، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۹ئ، ص: ۱۰۰ ۳۔ ایضاً، ص: ۲۸۹ تا۲۹۰ ۴۔ ایضاً، ص: ۲۹۲ ۵۔ ایضاً، ص: ۲۹۱ تا۲۹۲ ۶۔ ایضاً، ص: ۲۹۲ ۷۔ ایضاً، ص: ۴۸۷ ۸۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر، ’’اقبال کا تصورِ زمان و مکان اور دوسرے مضامین‘‘ ، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۳ئ، ص:۱۵۶ ۹۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، ص: ۵۹۱ ۱۰۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر، ’’اقبال کا تصورِ زمان و مکان اور دوسرے مضامین‘‘ ، ص: ۱۶۱ ۱۱۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، ص: ۴۵۰ ۱۲۔ ایضاً، ص:۴۳۶ ۱۳۔ ایضاً، ص:۴۳۷ ۱۴۔ خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر، ’’فکر اقبال‘‘ ، لاہور، بزم اقبال، ۱۹۸۸ئ، ص: ۲۲۷ ۱۵۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، ص: ۶۶۱ تا ۶۶۲ ۱۶۔ ثاقب رزمی، ’’اقبال ایک نیا مطالعہ‘‘ ، لاہور، آئینہ ادب، ۱۹۸۴ئ، ص: ۶۱ ۱۷۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، ص: ۵۱۵ ۱۸۔ ایضاً، ص: ۴۲۸ ۱۹۔ بحوالہ ثاقب رزمی، ’’اقبال کی انقلابیت‘‘ ، لاہور، مقبول اکیڈمی، ۱۹۹۰ئ، ص: ۹۷ ۲۰۔ بحوالہ توقیر احمد خان، ’’احتجاج کی منفرد آواز : اقبال‘‘ ، مشمولہ ’’احتجاج اور مزاحمت کے رویے‘‘ ، مرتبہ: ڈاکٹر ارتضیٰ کریم، دہلی، اردو اکادمی، ۲۰۰۴ئ، ص۱۲۲ ۲۱۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، ص: ۴۵۱ ۲۲۔ ایضاً، ص: ۳۲۷ ۲۳۔ توقیر احمد خان، ’’احتجاج اور مزاحمت کے رویے‘‘ ، ص: ۱۱۸ کتابیات ۱۔ ارتضیٰ کریم،ڈاکٹر ، مرتب ’’احتجاج اور مزاحمت کے رویے‘‘ ، دہلی، اردو اکادمی، ۲۰۰۴ء ۲۔ اقبال، ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو)، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۹ء ۳۔ ثاقب رزمی، ’’اقبال ایک نیا مطالعہ‘‘ ، لاہور، آئینہ ادب، ۱۹۸۴ء ۴۔ ثاقب رزمی، ’’اقبال کی انقلابیت‘‘ ، لاہور، مقبول اکیڈمی، ۱۹۹۰ء ۵۔ خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر، ’’فکر اقبال‘‘ ، لاہور، بزم اقبال، ۱۹۸۸ء ۶۔ رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر، ’’اقبال کا تصورِ زمان و مکان اور دوسرے مضامین‘‘ ، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۳ء ۷۔ سمیع اللہ قریشی، پروفیسر، ’’موضوعاتِ فکرِ اقبال‘‘ ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۶ء ـئ…ئ…ء فکر اقبال کی سیاسی اور تہذیبی اہمیت فضہ پروین فکر اقبال کے دو اہم مدار قارئین کے لیے قابل توجہ ہیں ۔ان میں سے ایک مدار تو وہ ہے جس میں وہ اپنی بصیرت کے اعجاز سے معاشرتی اور سماجی زندگی کو قومی اور ملی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتے ہیںفکر اقبال کا دوسرا مدار اس سے زیادہ وسعت کا حامل ہے ۔اس میں وہ اپنی پوری قوت ،جذبے اور ارتکاز توجہ کے ساتھ اپنی خداداد صلاحیتوں کو رو بہ عمل لا کر دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کی کو شش کرتے ہیں ۔یہ مدار اپنی نوعیت کے لحاظ سے آفاقی نوعیت کا حامل ہے ۔بادی النظر میں یہ دونوں مدار اپنے الگ الگ مقاصد اور اہداف کی جانب سر گرم سفر رہتے ہیں مگر ان میں ربط باہمی بھی موجود ہے ۔علامہ اقبال نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں جو فقیدالمثال جد و جہد کی اس کا تاریخی تناظر میں مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی علمی سطح فائقہ سے انھوں نے مستقبل کے بارے میں جو پیش بینی کی تھی وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔زندگی کے تمام مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ معاشرتی ،سماجی ،تہذیبی اور سیاسی زندگی کے حسن و قبح پر ان کے مدبرانہ تجزیے متعدد نئی بصیرتوں کے مظہر ہیں۔ان کے افکار میں تدبر ،تفکر اور تعقل کا جو دھنک رنگ منظر نامہ دکھائی دیتاہے اس کے اعجاز سے قاری ایک جہان تازہ کی جھلک دیکھ لیتا ہے جو ملت اسلامیہ کے روشن مستقبل کی نوید لیے ہوئے ہے ۔حرف صداقت لکھنے کا یہ منفرد انداز فکر اقبال کا منفرد روپ سامنے لاتا ہے ۔ علامہ اقبال نے مغرب کے تصور قو میت کوببانگ دہل ہدف تنقید بنایا ۔ مغربی تصور قومیت اس قدر لغو، غیر حقیقی اور غیر فطری ہے کہ اس کے مسموم اثرات سے رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں ۔ مغربی تصور قومیت میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا سرے سے کوئی معیار ہی دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یورپی اقوام نے اسلامی تعلیمات سے متصادم ایک ایسا تصور قو میت اپنایا جس میں بنیادی انسانی حقوق کو ئی خیال نہیں رکھا گیا ۔ اسلامی قو میت کا تصور ان کے خیال میں جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور اس کے اعجاز سے ملت اسلامیہ کے اتحاد کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ علامہ اقبال نے مغربی تصور قومیت اور اسلامی تصور قومیت کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے اصلاحی اور تعمیری انداز میں یہ مشورہ دیا تھا: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی اسلامی قومیت سے علامہ اقبال ملت اسلامیہ کی مجموعی قوت مراد لیتے ہیں ۔انھوں نے بالعموم قوم کے بجائے ملت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ملت کا یہ آفاقی تصور مذہب کی اساس پر استوار ہے جس میں نہ صرف ہر قسم کے امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی راہ دکھائی گئی ہے ۔علامہ اقبال نے علاقائی ،نسلی ،لسانی اور رنگ کی بنیاد پر کی جانے والی حد بندیوں اور امتیازات کے خلاف ہمیشہ کھل کر لکھا۔ان کا خیا ل تھا کہ جو بھی اس نوعیت کے امتیازات کا حامی ہو گا وہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ملت اسلامیہ کی ترقی ،خوش حالی اور بقا نوشتہء تقدیر ہے ۔ملت اسلامیہ نے روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا ہے ،اس کی راہ میں حائل ہونے والی قوتوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا ۔ملت اسلامیہ کے بارے میں علامہ اقبال کے تصورات نے نہ صرف بر عظیم کے مسلمانوں کوایک ولولہ ء تازہ عطا کیابل کہ اس کے اثرات پوری دنیا پر بالعموم اور اسلامی ممالک پر بالخصوص مرتب ہوئے ۔علامہ اقبال کا خیال تھا کہ مذہب ،تہذیب و تمدن ،تاریخ اور مستقبل کے لیے ایک ٹھوس اور واضح منصوبہ بندی کو جہد للبقا کے سلسلے میں کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ملت اسلامیہ کو تصور قومیت کی حقیقی روح سے آشنا کرنے کے سلسلے میں علامہ اقبال کی خدمات بہت اہم ہیں۔انھوں نے مذہب کو اسلامی قومیت کا اہم ترین جزو قرار دیا ۔ قوم ، مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری ،محبت کی فراوانی بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی ،نہ ایرانی ،نہ افغانی ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا ،محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی ،وہ خراسانی ،یہ افغانی ،وہ تورانی تو اے شرمندہء ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا غبار آلودہء رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا اسلامی تصور قومیت کی افادیت سے آگاہ کر تے ہوئے علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو حقائق کا حساس و ادراک کر نے کی جانب متوجہ کیا ہے اور اپنے مو قف کی مز ید و ضاحت کی ہے اور حق و صداقت پر مبنی اپنے خیالات کو اپنے افکار کی اساس بنایا ہے ۔انھوں نے تاریخ اسلام اور پوری انسانیت کے مسائل کو ایک منفرد انداز میں اپنے افکار کی زینت بنایا ہے ۔علامہ اقبال نے ا سلامی قومیت کے حوالے سے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر بھر پور توجہ دی ہے ۔انھوں نے تاریخ کے ہر دور پر نظر رکھی ہے اور تاریخ کے وہ سر بستہ راز اور سیل زماں کے وہ مہیب تھپیڑے جو کئی اقوام کو اپنی مہیب موجوں میں بہا لے گئے ان کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا ۔وہ اپنے تاریخی شعور کو اس طرح بروئے کار لاتے ہیں کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال نے ہر قسم کی عصبیت ،منافرت ،عناد اور تنگ نظری کے خلاف سخت جدو جہد کی اور اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کو مقیاس العمل قرار دیا ۔1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بر عظیم کے بے بس اور مظلوم مسلمانوں کو جس ہلاکت آفریں دور سے گزرنا پڑا اور جن لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور وح فرسا واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے ۔ان مسموم حالات میںجب مسلمانوں کی عدم شناخت اور بے چہرگی کا مسئلہ گمبیھر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا ،علامہ اقبال نے اپنے افکار سے ملت اسلامیہ میںایک نئی روح پھونک دی ۔ منفعت ایک ہے، اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ، ایمان بھی ایک حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟ یورپ میں نظام سیاست نے جو رخ اختیا ر کیا ہے اس میں مفاد پر ستی ، خود غرضی اور استحصال نے انسانیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ملت اسلامیہ ایسا نظام سیا ست وضع کر ے جوکہ فطرت اور اسلام کے تقاضوں سے کامل ہم آہنگی رکھتا ہو۔ یہ نظام سیاست اسلام کے ابد آشنا اصولوںکا آئینہ دار ہو نا چاہیے۔ اسلام کے نظام سیاست کو وہ ملت اسلامیہ کے لیے نجات کا وسیلہ سمجھتے تھے او ر ملی وحدت کے لیے اسے بہت اہمیت دیتے تھے ۔انھوںنے ملت اسلامیہ میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کے لیے تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب توجہ مبذول کرائی ۔ہیگل نے لکھا ہے : ’’چونکہ انسانی آزادی اور احساس آزادی ایک چیز ہے لہٰذاآزادی کا ارتقا شعور و ذہن کا ارتقا ہے ۔اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بل کہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔‘‘ ۱؎ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو درپیش خطرات کا نہایت خلوص اور دردمندی سے جائزہ لیا۔انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ آزمائش اور ابتلا کا یہ دور محض اتفاقی یا حادثاتی ہرگز نہیں بل کہ اس کے پس پردہ صدیوں کی غفلت اور بے بصری ہے جس کے مسموم اثرات کے باعث اجتماعی زندگی اور گلشن ہستی میں رتیں بے ثمر اور کلیا ںشرر کر دی گئی ہیں ۔اجتماعی زندگی میں فلاح اور امن و سلامتی کا دور لانے کے لیے ضروری ہے کہ ملت کے اندر ایک جذب باہمی کو پروان چڑھایا جائے ۔انسانی جبلت کا تقاضا یہی ہے کہ باہمی اشتراک عمل سے زندگی کی شب تاریک کو سحر کیا جائے ۔علامہ اقبال نے واضح کر دیا کہ جذب باہمی ہی سے اس عالم آب و گل کے سارے نظام چل رہے ہیں ۔جن پر باطن ا یام روشن ہے وہ جانتے ہیں کہ کہکشاں کے ستارے ہمیں یہی درس دیتے ہیں کہ باہمی اشتراک عمل ہی سے ضیاپاشیاں ممکن ہیں۔ملت اسلامیہ کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ واضح کر دیاکہ مذہب کو روحانی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے سے نئی قدریں اور نئے انداز فکر سامنے آ سکتے ہیں ۔اپنے ایک خطبے میں وہ لکھتے ہیں: ’’میں تو کچھ یوں ہی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شاید ہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے ،نہ شہنشاہیت ،بل کہ ایک انجمن اقوام جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے تو محض سہولت تعارف کے لیے ۔اس لیے نہیںکہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمح نظر محدود کر لیں۔‘‘۲؎ انسانی زندگی کی تمام تر رنگینیاں اور ہنگامہ آرائیاں فکر انسانی کی جو لانیوں ،بصیرت افروز تصورات اور فہم و ادراک کی مرہون منت ہیں ۔انسان کی تخلیق سے فطرت کے متعدد مقاصد وابستہ ہیں۔انسانی ذہن و ذکاوت کے اثمار سے نہ صرف موجودہ بل کہ آنے والی نسلیں بھی فیض یاب ہوتی ہیں۔عقل و خرد کی گتھیاں سلجھانے والے اس بات سے متفق ہیں کہ فہم و ادراک نے روشنی کا جو سفر شروع کیا ہے اس کی تکمیل نسل در نسل فکر انسانی کے پیہم سفر اور تاریخ کے مسلسل عمل سے وابستہ ہے ۔عصری آگہی سے متمتع افکار اقبال میں ان تمام امور کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔زندگی کی برق رفتاریوں اور سائنسی انقلاب نے حالات کارخ بدل دیاہے ۔علامہ اقبال نے بدلتے ہوئے سماجی حالات اور تغیر پذیر اقدار و روایات کے بارے میںاپنے مضمون ’’قومی زندگی ‘‘میں لکھا ہے : ’’اب دماغوں ،تہذیبوںاور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں کا وقت ہے اور یہ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کے زخم رسیدہ زنگاری اور کافوری مرہم سے ہر گزاچھے نہیں ہو سکتے ۔ظاہری فاصلہ جو قوموں کے خلا و ملا میں بہ منزلہ ایک سد سکندری کے تھا ،اب ریل اور پیام برقی کی حیرت انگیز ایجادوں سے گویا بالکل معدوم ہو گیا ہے۔‘‘۳؎ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں علامہ اقبال نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ فغان صبح گاہی کو ترک نہ کیا جائے ۔اگر ہلاکت خیزیوں کے اس دور میں کہیں اماں ملنے کی توقع ہے تو وہ اللہ ہو ہی ہے جس کے زیر سایہ رہنے سے سیل زماں کے تھپیڑوں سے بچنے کی ایک معتبر صورت موجود ہے ۔ یورپ میں نظام سیاست ،معیشت ،معاشرت اور تہذیب نے جو رخ اختیار کیا علامہ اقبال اس سے مطمئن نہ تھے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ کے لیے ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیاجو کہ فطرت اور اسلام کے تقاضوں سے کامل ہم آہنگی رکھتا ہو ۔فکر اقبال کے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو دور رس اثرات مرتب ہوئے ان کا ایک عالم معترف ہے ۔ان افکار کی بدولت تہذیبی اور ثقافتی سطح پر ایک ہلچل پیدا ہوئی اور جمود کاخاتمہ ہوا۔تاریخ اسلام کے اوراق میں علامہ اقبال کی فہم و فراست ،ذہن وذکاوت اور ذہنی و شعور فکری اثاثے کو نہایت خوش اسلوبی سے محفوظ کیا گیا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فکر اقبال نے جس تاریخی عمل کو مہمیز کیا اس کے اعجازسے آنے والی نسلوں کے لیے چشم کشا صداقتیں محفوظ کر دی گئی ہیں ۔ اسلام کی ابد آشنا تعلیمات اور آفاقی طرز حیات کے بارے میںعلامہ اقبال نے نہایت صراحت کے ساتھ لکھا ہے : ’’اسلام کی حقیت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بل کہ اس سے بہت بڑھ کر ہے ۔ اسلام میں قو میت کا مفہوم خصو صیت کے ساتھ چھپا ہوا ہے اور ہماری قو می زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میںنہیں آسکتاجب تک کہ ہم اصول اسلام سے پو ری طرح باخبر نہ ہوں۔ بہ الفاظ دیگر اسلامی تصور ہمار ا وہ ابد ی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ‘‘۴؎ علامہ اقبال نے مذہب کی آفاقی تعلیمات کے بارے میں اپنے روحانی تجربات کا اظہار 1914ئکے بعد نہایت واضح انداز میں کیا۔اسرارخودی میں انھوں نے اپنے نئے تصورات پر کھل کر بات کی اور اپنے تصور خودی کے ذریعے نئے زمانے اور نئی سوچ کی نویدسنائی ۔علامہ اقبال کا دل ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روتا تھا ۔انھوں نے ملت اسلامیہ کو درپیش خطرات کے بارے میں اپنی تشویش کا بر ملااظہار کیا۔انھوں نے اس بات پر زور دیاکہ غلامی میں کوئی امید بر نہیںآتی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صور ت دکھائی دیتی ہے ۔جب تک ذوق یقیں پیدا نہیں ہوتا غلامی کی زنجیریں نہیں کٹ سکتیں ۔اپنی شاعری اور نثر میں علامہ اقبال نے اسلامی نظام سیاست میں انسانیت کے اتحاد ،وقار ،سر بلندی اور مساوات کوکلید ی اہمیت کاحامل قرار دیا۔ان کے نزدیک جمعیت اقوام کے بجائے جمعیت آدم کا تصور زیادہ مفید ہے ۔مغرب میں تہذیب کی آڑ میںاخلاقی اقدارکو جس بے دردی سے نقصان پہنچایا جا رہاہے ،علامہ اقبال نے اس پر ہمیشہ اپنے دلی رنج کا اظہار کیا اور اس مذموم روش کے خلاف آوازبلندکی ۔مغربی تہذیب کی یلغار اور استعمار کے جبرکے خلا ف علامہ اقبال نے مثبت شعور وآگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ۔ مجھ کو تو سکھادی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میںنے شیخ و برہمن وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے نم ناک نہیںہے یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پابہ رکاب سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف جسے کساد سمجھتے ہیں تا جران فرنگ وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا سے سحر فرنگیانہ علامہ اقبال نے مغربی تہذ یب کو بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لیے وہ اس کے تاریک پہلووں کو منظر عام پر لانے میں کبھی تامل نہیں کرتے ۔ان کی شاعری میں مغربی تہذیب کے بارے میں جو انداز فکر پایا جاتاہے ،وہ بالعموم مخالفانہ نوعیت کا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب کی مخالفت علامہ اقبال کے رگ و پے میں رچی ہوئی تھی۔۴؎ اسی جذبے کے زیر اثر وہ اپنے خیالات کے اظہار اور تزکیہ نفس کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔علامہ اقبال نے مغربی جمہوری نظام پر بھی کڑی تنقید کی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اہل مغرب نے جس جمہوری نظام کو اپنے ممالک میں نافذ کر رکھا ہے وہ بڑی حد تک ملو کیت کی راہ ہموار کر دیتا ہے ۔اس نام نہاد جمہوری نظام نے آمریت کے رجحانات کوتقویت دی ہے۔ جہاں تک سلطانیء جمہور کا تعلق ہے تو وہ مغرب کے جمہوری نظام میں ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔مغرب کی سیاسی تحریکوں نے جو گل کھلائے ہیں اس کے مسموم اثرات سے گلشن ہستی میں کلیاں شرر بن گئی ہیں اورآہیں بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے مغربی طرز جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’علامہ اقبال مغر بی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف تھے جس کی وجہ سے قو م کے صالح اور عاقل افراد مجالس آئین ساز میںداخل نہیں ہو سکتے ۔ بعض مشرقی ممالک نے مغر بی طریق انتخاب اعضاے مجلس کا ڈ ھا نچہ تقلید اً اختیا ر کر لیا ہے یا ان کے گذشتہ فرنگی حکمرا ن مصلحتاً اس کو رائج کر گئے ہیں ، اس میں یہ عجیب و غریب نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و فضل والے اہل الرائے لو گ منتخب نہیں ہو سکتے ۔ ووٹ ایسے جاہل زمینداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے ۔‘‘ ٰ۶؎ گر یز از طرز جہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسا نے نمی آید فر نگ آئین جمہو ری نہا د است رسن از گر دن دیو ے کشا د است چو رہزن کا روا نے در تگ و تا ز شکم با بہر نا نے در تگ و تاز گر وہے را گر وہے در کمین است خدا یش یا ر اگر کا رش چنین است ز من دہ اہل مغر ب را پیا مے کہ جمہور است تیغ بے نیا مے چہ شمشیر ے کہ جا ں ہا می ستا ند تمیز مسلم و کا فر ند ا ند مغرب کی سیاسی تحریکوں کے زیر اثر وہاں وطنیت کا تصور جڑ پکڑ گیا ہے ۔فکر اقبال کے ارتقائی مراحل پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے وطنیت پر بھی اپنے موافق خیالات کا اظہار کیا ۔ان کی نظمیں ’’ہمالہ‘‘، ’’تصویر درد‘‘،’’ترانہ ہندی‘‘،’’ہندوستانی بچوں کا گیت ‘‘اور نیا شوالہ میں وطنیت کے بارے میں ایک سازگار فضا موجود ہے ۔جلد ہی علامہ اقبال نے اپنے ابتدائی دور کی اس شاعری سے آگے نکل کر ملت کے تصور کو اپنا مطمح نظر بنا لیا ۔مغرب میں وطنیت کاجو تصور صدیوں سے پروان چڑھ رہا ہے علامہ اقبال نے اس پر گرفت کی اور اقتضائے وقت کے مطابق ملت اسلامیہ کے لیے قومیت کاایک آفاقی تصور پیش کرکے ملی اتحاد کی راہ ہموار کر دی ۔مغر بی سیاسی تحریکوں نے اپنے مذموم مقا صد کے لیے ملت اسلامیہ کو انتشار کی بھینٹ چڑھانے کی سازش کی ۔اہل مغرب اسلامی وحدت سے خائف تھے اس لیے انھوں نے ملت اسلامیہ کے اتحاد کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے ۔علامہ اقبال نے دین اور وطن میں موجود حد فصل کی جانب توجہ دلائی اور یہ واضح کر دیا کہ جہاں تک ایک سیاسی تصور کا تعلق ہے دین اور وطن میں بعد المشرقین ہے اور ان کا یک جا ہونا ممکن نہیں ۔اہل مغرب نے دین اور وطن کو یک جا کرنے کی آڑ میںلا دینیت پر مبنی خیالات کی ترویج و اشاعت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔علامہ اقبال نے مغربی سیاسی تحریکوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کے مسموم اثرات سے متنبہ کیا ۔انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی بھی مخالفت کی۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علامہ اقبال نے کھل کر لکھا ۔ اپنی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘میں انھوں نے سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف نہایت خلوص اور دردمندی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ انھیں اس بات کا رنج ہے کہ سرمایہ دار ہمیشہ مکر کی چالوں سے وسائل پر غاصبانہ طور پر قابض ہو جاتاہے اور مزدور اپنی سادگی کے باعث مات کھا جاتا ہے ۔اشتراکیت نے تاریخ کے مادی جدلیاتی تصور کو حرز جاں بنایااور مذاہب کے تصور کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ۔علامہ اقبال کی شاعری میں مارکس کی اجتماعیت سے کہیں زیادہ بلند پروازی موجود ہے جو قاری کو ایک جہان تازہ سے آشنا کرتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام سے علامہ اقبال کو شدید نفرت تھی لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ یہ سوچ اشتراکیت کے زیر اثرتھی بہت بڑی غلطی ہے ۔علامہ اقبال نے ہمیشہ توحید ،رسالت اور قرآن حکیم کی آفاقی تعلیمات کو اپنے افکار اور اسلوب کی اساس بنایا۔ انقلاب روس کے بعد علامہ اقبال نے یہ محسوس کر لیا کہ مغربی تہذیب اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں لرز رہی ہیں ۔مغرب کی سیاسی تحریکوں نے ہر شعبہء زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔مغربی استعمار نے نو آبادیات میں غلامانہ نوعیت کا نظام تعلیم نافذ کیا ۔اس نظام تعلیم کا مقصد محض حصول معاش قراردیا گیا ۔مغرب کی بھونڈی نقالی نے محکوم اقوام کو پوری دنیا میں تماشا بنا دیا ۔کردار سازی پر توجہ نہ دی گئی اور محکوم ممالک میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔معاشرتی زندگی سے خلوص اور دردمندی کا عنصر ناپید ہو گیا ۔اہل مغرب نے اسلامی معاشرے کو ہوس زر ،خود غرضی اور بے سکونی کی بھینٹ چڑھا دیا۔المیہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشرے میں مغرب کی چیرہ دستیوں کے باعث اخلاقی اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچا۔ عورت کو جذبہ امومت سے عاری کرنے میں مغربی سیاسی تحریکوں کا گہرا عمل دخل ہے ۔ علامہ اقبال نے مذہب کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا نصب العین بنایا۔مغربی استعمار نے محکوم ممالک میں فسطائی جبر سے انسانیت کی توہین ،تذلیل اور بے توقیری کو وتیرہ بنا لیا۔ان اعصاب شکن حالات کے باعث زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا گیا۔علامہ اقبال نے زندگی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے آلام روزگار کی تمازت اور اس کی شدت کو اپنے افکار کی گرفت میں لیا اور اسے الفاظ کے قالب میں ڈھالا۔انھوں نے پر خلوص جذبا ت سے اقدار کی روح کشید کی ۔ان کی بصیرت نے انھیں زندگی کی اقدار عالیہ تک رسائی کی راہ بتائی اور وہ اس راہ پر گامزن ہو کر اپنے من میں غوطہ زن ہو کر سراغ زندگی پانے پر آمادہ کرتے رہے ۔انھوں نے خودی کو تیغ فساں کے مانند سمجھا اور اس کے زیر اثر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر اصرار کیا۔یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جب تک افراد اپنی عزت نفس اور خودی کی نگہبانی کر کے ان کے بتائے ہوئے لائحہء عمل کو نہیں اپناتے وہ کبھی معزز و مفتخر نہیں ہو سکتے ۔اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہ کہنے والے جبر کے سامنے سپر انداز ہو کر بیرونی قوتوں کے حلقہ بگوش ہوجاتے ہیں۔علامہ اقبال نے اسی لیے خودی کی حفاظت کو اہم قرار دیا۔علامہ اقبال نے مذہب کی آفاقی اقدار کو اسلامی معاشرے کے دوام کے لیے نا گزیر قراردیا۔انھیں یقین تھا کہ مذہب کی قوت کو رو بہ عمل لا کر ابتلا اور آزمائش کی گھڑیوں سے بچ نکلنے میں کامیابی ہو سکتی ہے ۔اگر اسلامی معاشرے میں تہذیبی ،ثقافتی ،اخلاقی ،انسانی اور ملی اقدار کے تحفظ اور بالیدگی پر توجہ دی جائے تو آج بھی آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے عہد کی سیاسی ،تہذیبی اور معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز جس خلوص کے ساتھ پیش کیے ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔اپنے عہد کے بارے میں ان کا شعور اور انداز فکر در اصل تاریخ اسلام کے وسیع مطالعہ کی اساس پر استوار ہے ۔انھوں نے ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں جو پیش بینی کی ہے اس کا تعلق ان کے حال سے ہے ۔انھوں نے اپنے عہد کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو تجزیہ کیا وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے ۔ان کے تخلیقی عمل میںان کے عہد کی روح جس طرح رچ بس گئی ہے ہر دورمیں فکر و نظر کو مہمیز کرتی رہے گی ۔ ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱۔ مبارک علی ڈاکٹر ،تاریخ اور فلسفہ تاریخ، فکشن ہائوس، لاہور، اشاعت اول، ۱۹۹۳ئ، ص ۱۴۰۔ ۲۔ محمد اقبال علامہ ڈاکٹر، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، اردو ترجمہ سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ۲۰۱۰ئ، ص ۲۳۴۔ ۳۔ محمد اقبال علامہ ڈاکٹر، مقالات اقبال، مرتبہ سید عبد الواحد معینی، القمر انٹر پرائزز، لاہور، ۲۰۱۱ئ، ص ۷۵۔ ۴۔ محمد اقبال علامہ ڈاکٹر، ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، مترجم ظفر علی خان، بزم اقبال، لاہور، نومبر ۱۹۹۴ئ، ص ۱۸۔ ۵۔ عبدالحکیم خلیفہ ڈاکٹر، فکر اقبال، بزم اقبال، لاہور، ۲۰۱۰ئ، ص ۱۵۷۔ ۶۔ ایضاً، ص ۲۲۶۔ ـئ…ئ…ء خطباتِ اقبال (انگریزی) کے اردو تراجم عابد حسین علم و ادب میں حضرت علامہ اقبال کی حکیمانہ عظمت قائم کرنے میں ان کی سرمایہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی تصنیف The Reconstruction of Religious Thought in Islam ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ جدید فلسفہ مغرب کی روشنی میں فلسفہ اسلام کی تشکیل جدید کی ایک حکیمانہ کوشش ہے ۔ حضرتِ علامہ کی یہ تصنیف در اصل سات خطبات کا مجموعہ ہے ،جو بہ زبان انگریزی لکھے گئے ۔ حضرت ِعلامہ نے ۲۹۔۱۹۲۸ء میں اپنے معروف انگریزی خطبات مدراس ، بنگلور ،حیدر آباد دکن اور علی گڑھ کے علمی اور عوامی جلسوں میں پیش کیے ۔۱۹۳۰ء میں یہ خطبات Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ ستمبر ۱۹۳۲ء میں حضرت ِعلامہ نے Aristotelian Societyکی دعوت پر ایک اور خطبہ باعنوان Is Religion Possible لکھا، جو لندن کی اسی سوسائٹی میں پڑھا گیا ۔ ان خطبات کی دوسری اشاعت میں ساتویں خطبے کا اضافہ کیا گیا اور یہ مجموعہ The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے عنوان سے مئی ۱۹۳۵ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن سے شائع ہوا ۔ان خطبات کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں ۔ یہ کتاب جتنی مقبول ہے ، اتنی ہی مشکل اور دقیق بھی ہے ۔ ان لیکچرو ں میںمذہب، فلسفہ اور سائنس تینوں ہی ، کبھی ایک دوسرے کے مقابل ، کبھی ایک دوسرے کے متوازی اور کبھی ایک امتزاجی رنگ میں ہمارے سامنے زبان و بیان کا ایک ایسا اسلوب رکھ دیتے ہیں ،جس سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لیے اور جس کی اندرونی تہوں اور گرہوں کو کھولنے کے لیے با استعداداور ذی علم قارئین کی ضرورت ہے اور چونکہ اس خاص منطقے میںبا استعداداور ذی علم قارئین قدرتی طور سے کچھ زیادہ نہیں ، اس لیے عام افہام کے لیے ان خطبات کو اطمینان بخش شرحوں اور قطعی و صحیح حواشی کے بغیر زیرمطالعہ نہیںلایا جا سکتا ۔۱؎ حضرتِ علامہ کی خواہش تھی کہ ان خطبات کو ترجمے کے ذریعے اردو دان طبقے تک پہنچایا جائے۔حالاں کہ انہیں احساس تھا کہ اردو دان طبقہ ان سے استفادہ نہیں کر سکے گااور خطبات کے مباحث صرف چیدہ چیدہ لوگوں کی سمجھ میں ہی آ سکتے ہیں،چنانچہ غلام بھیک نیرنگ کو انھوں نے ایک خط کے ذریعے اپنے خد شے سے آگاہ کیا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیوں کہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۲؎ خطباتِ اقبال کے براہِ راست مخاطب اگر چہ ایسے مسلمان اور غیر مسلم مفکرین تھے،جوانگریزی زبان اور جدیدفلسفیانہ مباحث و مسائل سے آگاہ تھے،لیکن حضرتِ علامہ وسیع تہذیبی اور ثقافتی سطح پر ان مباحث کو پھیلا نا چاہتے تھے اور یہ کام ترجمے ہی کے ذریعے ممکن ہو سکتا تھا۔ اردو ترجمے کے متعلق حضرتِ علامہ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سید نیازی لکھتے ہیں ۔ دسمبر۱۹۲۹ء میں جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتوں باتوںمیں اردو ترجمے کا ذکر آیا تو ارشاد ہوا: کیا مضائقہ ہے،ترجمہ ہو جائے تو غیرانگریزی دان ارباب علم بھی ان کا مطالعہ کر سکیں گے اور یہ ا مر شایدفائدے کا ہی موجب ہو ۔ گویا ترجمے کاخیال شروع ہی سے علامہ کے ذہن میں تھا ۔۳؎ تاہم حضرت ِعلامہ خطبات کا ترجمہ ڈاکٹر عابد حسین سے کروانا چاہتے تھے ،جو اس وقت دہلی میں فلسفہ کے پروفیسر تھے ، لیکن بعض مصروفیات کے سبب ڈاکٹر عابد حسین نے معذوری کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر عابد حسین کی معذرت کے بعد آخر کار قرعہ فال سید نذیر نیازی کے نام نکلا ۔ سید نذیر نیازی نے حضرتِ علامہ کی زیر نگرانی خطبات کا ترجمہ مکمل کیا ۔دوسرے خطبے کے ترجمے پر نظر ثانی بھی فرمائی ۔ بلاشبہ سید نذیر نیازی حضرتِ علامہ کے قریبی رفقامیں شامل تھے اور انہوں نے بڑی محنت ،عرق ریزی اور علمی لگن کے جذبے سے سرشار ہو کر ان خطبات کو اردو کا روپ دیا ۔خطبات ِاقبال کے اردو تراجم میں جو شہرت اور سند سید نذیر نیازی کے اولین ترجمے کو حاصل ہوئی اس کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ ترجمہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں بطور بنیادی ماخذ کے استعمال ہوتا ہے ۔ تشکیل ِجدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں ۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، پروفیسر محمد منور، پروفیسر آل احمد سرور اورپروفیسر جگن ناتھ آزاد جیسے اکابر علم و ادب اور اقبال شناسوںنے اس ترجمے پر اطمینان ظاہر کیا ۔۴؎ خود نذیر نیازی نے حضر ت ِعلامہ،مو لانا اسلم جیراج پو ری اور ڈاکٹرعابدحسین سے استفا دے کا اعتراف کیا ہے۔۵؎ سید نذیر نیازی کو خطباتِ اقبال کے دیگر مترجمین میں ایک امتیازی مقام یہ بھی حاصل ہے کہ وہ خطباتِ اقبال کے پہلے اردو مترجم ہیں ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی تصنیف کا پہلا ترجمہ قدرے مشکل اور زیادہ محنت و کاوش کا متقاضی ہوتا ہے ۔خطباتِ اقبال کے متاخرین اردو مترجمین کے لیے ایک سہولت یہ بھی رہی کہ انگریزی تصنیف کے ساتھ ساتھ ان کے پیش نظر سید نذیر نیازی کا اردو ترجمہ بھی تھا ۔تقریبا تمام متاخرین اردو مترجمین نے سید نذیر نیازی کی وضع کردہ اصطلاحات سے اکتساب کیا ہے ۔ عربی اور فارسی الفاظ سے قطع نظر، تفہیم مطالب میں سید نذیر نیازی کا ترجمہ آج بھی اپنی الگ شناخت کا حامل ہے۔ مثلا تیسرے خطبے میں انگریزی عبارت اس طرح ہے. But it is hard to understand what exactly is an individual.As Bergson has taught us in his Creative Aevolution, individuality is a matter of degrees and is not fully realized even in the case of the apparently closed off unity of the human being.6 ترجمہ: لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے لیے فرد کا ٹھیک ٹھیک تصور قائم کرنا کوئی آسان بات نہیں ،جیسا کہ ارتقائے تخلیقی میں برگساں نے لکھا ہے ۔ انفرادیت کے کئی مدارج ہیں ، حتی کہ ذات انسانی کی الگ تھلگ وحدت میں بھی اس کاتمام و کمال اظہار نہیں ہوتا ۔۷؎ تا ہم بعض حضرات سید نذیر نیازی کے ترجمے سے متفق نہیں ۔ڈاکٹر محمد سمیع الحق کے خیال میںسید نذیر نیازی نے ترجمے کوخود ساختہ عربی سے بوجھل بنایا ہے۔اس سلسلے میںانھوںنے چند الفاظ کی نشاندہی بھی کی ہے، مثلاََSpontanious کے لیے ابدائی، Embraceکے لیے احتوا،Catagorical Imperative کے لیے قطعی حکم،Vested Interestکے لیے حقوق مذعومہ ۔ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ : ترجمے کا یہ مقصد نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ترجمہ پڑھنے کے لیے کسی کو ایک اور زبان سیکھنی پڑے۔۸؎ اس سے انکار نہیں کہ سید نذیر نیازی مرحوم نے اردو ترجمے میں کہیں کہیں عربی اور فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں، لیکن اس سے یہ قیاس کرنا درست نہیں کہ عربی و فارسی کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے ۔جس زمانے میں سید نذیر نیازی نے خطباتِ اقبال کا ترجمہ کیا ،اُس زمانے میں عربی اور فارسی آج کی طرح کوئی اجنبی زبان نہیں تھی ،بلکہ عربی اور فارسی اہل علم و دانش کی شناخت تھی ۔اگر آج تشکیل ِجدیدالٰہیاتِ اسلامیہ میں مستعمل عربی وفارسی الفاظ ہماری طبع نازک پہ گراں گزرتے ہیں تو یہ ہمارا زوال علم ہے نہ کہ مترجم کی مشکل پسندی یا خدا ناخواستہ اردو زبان کے خلاف کوئی سازش۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ حضرتِ علامہ نے انگریزی خطبات میں قرآنی آیات کا انگریزی ترجمہ لکھا ہے، جب کہ مترجم نے صرف قرآنی آیات لکھی ہیں، اردو ترجمہ نہیں کیا گیا ۔اسی طرح حضرت ِعلامہ نے دوسرے خطبے میں ناصر علی سر ہندی اور ایرانی شاعر عرفی اور چوتھے اور ساتوین خطبے میں مولانا روم کے فارسی اشعار کا انگریزی ترجمہ لکھا ہے، جب کہ سید نذیر نیازی نے صرف فارسی اشعار لکھے ہیں، اردو ترجمہ نہیں کیا گیا ۔ خطبات ِاقبال کے اردو تراجم میں تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ خطباتِ اقبال کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔تقریباً تمام متاخرین اردو مترجمین نے سید نذیر نیازی کے ترجمے سے اکتساب کیا ہے ۔تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ پر معترض قارئین اس ترجمے کو مشکل اور ثقیل قرار دیتے ہیں ،جس کی وجہ ان کی اپنی کم علمی اور عربی و فارسی سے نا شناسائی ہے۔ ماہرین اقبالیات اور اسلام و فلسفہ جدید سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہآج بھی دیگر تراجم کی نسبت ایک مستند ترجمہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ زبان و بیاں کے اندر تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں، لہٰذا پرانے اسالیب کو نئے اسالیب سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت بن جاتا ہے۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کی تکمیل ہوئے تقریباً ایک صدی کا عرصہ ہونے کو ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے جدید اسلوب سے ہم آہنگ کیا جائے تا کہ جدید ذوق کے قارئین حضرت علامہ کی فکر اور اسلام و فلسفہ جدید کے متعلق حضرت علامہ اقبال کے نکتہ نظر سے روشناس ہو سکیں ۔ خطباتِ اقبال کے اردو تراجم میں مذہبی افکار کی تعمیر نوپروفیسر شریف کنجاہی کا ترجمہ ہے یہ ترجمہ ۱۹۹۲ء میں بزم اقبال لاہور سے شائع ہوا ۔پنجابی زبان و ادب میں پروفیسر شریف کنجاہی کا مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اقبالیات کے حوالے سے جاوید نامہ کا منظوم پنجابی ترجمہ، علم الاقتصاد کا پنجابی روپ اور خطباتِ اقبال کا پنجابی اور اردو ترجمہ، شریف کنجاہی کی اقبال فہمی کا ثبوت ہیں ۔ مذہبی افکار کی تعمیر نو کے متعلق پروفیسر شریف کنجاہی لکھتے ہیں ۔ علامہ اقبال کے ان افکار و خیالات کو جنھیں انہوں نے انگریزی لباس پہنا کر پیش کیا تھا امکانی حد تک عام فہم زبان میں ڈھالنے کی ایک کاوش ہے ۔۹؎ خطباتِ اقبال کے تقریبا تمام اردو مترجمین نے اپنے ترجمے کے متعلق رواں ، سلیس اور عام فہم ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اصطلاحات کا کم از کم استعمال ترجمے کا وصف قرار دیا گیا ہے، حالاں کہ ا صطلاح سازی ایک فن ہے ،جو کسی بھی تحریر کی قطعیت میں اضافہ کا موجب ہے اور قطعیت عمدہ اسلوب کی ایک بنیادی صفت ہے ۔ ڈاکٹرمرزا حامد بیگ لکھتے ہیں : ہمارے بیشتر مترجمین نے روانی اور سلاست کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اگر کسی ترقی یافتہ زبان میں تخلیق کار نے پیچیدہ ترجذبات و احساسات کو لفظوں میں بیان کیا ہے تواسے کیوں نہ کوشش کر کے انہیںقواعد و ضوابط کے ساتھ اردو میں منتقل کر لیا جائے ۔۱۰؎ پروفیسر شریف کنجاہی نے خطبات اقبال کے اردو ترجمے کے لیے ، سید نذیر نیازی کے اردو ترجمے کو بنیاد بنایا اور احمد آرام کے فارسی ترجمے اور عباس محمود کے عربی ترجمے سے استفادہ کیا اس لیے تفہیم مطالب میں مترجم کی کاوش قابل ستائش ہے، مثلا پہلے خطبے میں انگریزی عبارت یوں ہے : Religious beliefs and dogmas,according to the theory,are no more than merely primitive theories of Nature, whereby mankind have tried something to redeem Reality from its elemental ugliness and to show it of nearer to the hearts desire than the facts of life would warrant.11 ترجمہ: اس تھیوری کے مطابق مذہبی آراء وعقائد حقیقت میں اس کے سوا کچھ نہیںہیں کہ وہ نیچر کے متلعق وہ ناپختہ سی تھیوریاں ہیں جن کے سہارے نسل انسانی نے خقیقت کل کو اس کی عناصری بد صورتی سے آزاد کرانے اور اس کو ایسا روپ دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم اس کو اپنی دلی تمنا کے اس سے قریب تر ہونے والی کوئی چیز سمجھیں جتنا کہ زندگی کی حقیقتیں ہماری جھولی میں ڈالتی ہیں۔۱۲؎ پروفیسر شریف کنجاہی چوںکہ بنیا دی طور پر پنجابی زبان و ادب کی ایک معروف شخصیت ہیں۔خطبات ِاقبال کے اردو ترجمے سے قبل وہ انہی خطبات کا پنجابی ترجمہ بھی مکمل کر چکے تھے ۔مذہبی افکار کی تعمیر نو میں بھی مترجم نے بعض جگہ ایسے پنجابی الفاظ کا استعما ل کیا ہے جن کی تفہیم پنجابی زبان سے جانکاری رکھنے والے قاری کے لیے بھی مشکل ہے۔مثلاً چوتھے خطبے میں انگریزی عبارت اس طرح ہے : Again mental and physical events are both in time,but the time-span of the ego is fundamently different to the time-span of the physical events.13 ترجمہ: ذہنی اور مادی شدنیاں دونوں ہی یوں تو پابند زماں ہیں ،لیکن ایگو کا کال پاٹ مادی شدنی کے کال پاٹ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔۱۴؎ مترجم نے بعض انگریزی فقرات کے اردو ترجمے میں پنجابی الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً Efficient- Appreciative کے لیے کرن ہار اور پرکھنہار Inseparable کے لیے اکھنڈ Quality کے لیے گن،Knowing ego کے لیے جا ننہار ایگو وغیرہ۔ اگرچہ اختصار ترجمے کا ایک بنیادی وصف ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اصل متن میں موجود مفہوم ،ولولہ اور روح ہی بجائے اپنے پورے شباب کے ،مختصر ہو کر رہ جائے اور قاری اصل متن کی روح تک پہنچنے میں تشنہ کام رہے۔مذہبی افکار کی تعمیر نو میں بعض مقامات پر مترجم نے عبارت کو مختصر کرتے ہوئے اصل متن کے مفہوم میں تشنگی پیدا کر دی ہے، حالانکہ خطباتِ اقبال کی انگریزی عبارت بجائے خود قطعیت اور اختصار کی آئینہ دار ہے۔مثلا چوتھے خطبے میں انگریزی عبارت یوں ہے : The appropriation of the passing pulse by the present pulse of thought, and that of the present by its successor is the ego.15 ترجمہ : سوچ کی ہر موج کو اس کے بعد آنے والی موج کے اپنے کام میں لے آنے کا نام ہی خودی ہے۔۱۶؎ حضرت ِعلامہ نے انگریزی عبارت میں مختصر، مگر جامع الفاظ میں خودی کی definationکی ہے مگر وہ جامعیت اور ا ختصار اردو ترجمے میں نہیں آ سکا ،جس کی انگریزی عبارت متقاضی تھی ۔ ترجمہ یوں ہونا چاہیے تھا: موجودہ لمحہ فکر سے ما قبل اور اس ماقبل (موجودہ)کا اپنے مابعد سے تصرف خودی ہے ۔ انگریزی خطبات میں حضرت ِعلامہ نے فارسی اشعار کا انگریزی ترجمہ لکھا ہے ،جب کہ مترجم نے فقط فارسی اشعار درج کیے ہیں ، اردو ترجمہ نہیں کیا گیا ۔فارسی زبان سے نا بلد قاری مذہبی افکار کی تعمیر نو کا مطالعہ کرتے ہوئے اصل متن کے مفہوم تک رسائی میں دقت محسوس کرتا ہے ۔ رواں اور با محاورہ ترجمے کے لیے بعض اوقات مترجم چند اضافی الفاظ کا استعمال کرتا ہے ،جو قوسین کے اندر لکھے جاتے ہیں یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصل متن کا کوئی لفظ ترجمے کی سلاست اور بہائو میں حائل ہوتا ہے ،جسے برقرار رکھنے کے لیے قوسین کے اندر لکھا جاتا ہے ۔دونوں صورتوں میں امتیاز ضروری ہے تا کہ قاری پر یہ واضح ہو سکے کہ کو ن سالفظ اصل متن میں موجود ہے یا مترجم کی طرف سے بہتر تفہیم کے لیے اضافہ ہے ۔مذہبی افکار کی تعمیر نو میں مترجم نے اصل متن کے بعض الفاظ کا ترجمہ اور اضافی الفاظ دونوں قوسین کے اندر درج کیے ہیں ۔کوئی امتیاز برقرار نہیں رکھا گیا ۔ گرچہ خطباتِ اقبال جیسی علمی تصنیف کا ترجمہ لفظی ترجمے کی ذیل میں آتا ہے تاہم لفظی ترجمے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ مترجم نے اصل متن کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بہتر انداز میں بیان کیا ہے ۔پروفیسر شریف کنجاہی نے مروّجہ و مصدقہ اصطلاحات کو بدل کر پیش کیا ہے، جس سے اصل متن کی تفہیم میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تا ہم شریف کنجاہی نے کچھ اصطلاحات کے مترادفات بے جا طور پر روایت سے ہٹ کر استعمال کیے ہیں۔مثلاً’مذہبی واردات‘یا ’مذہبی تجربہ‘ مقبول و معروف اصطلاحات ہیں۔ان کی بجائے’ کشفی دریابی‘ اورفلسفیانہ پرکھ یا معیار کے لیے ’میزان عقل‘ ،لیکن اس قسم کے انتخابات کا کوئی خاص لسانی جواز نہیں۔خصو صاً اس وقت جب ان کے مترادفات موجود ہوں اور مروّج بھی ہو چکے ہوں۔ مذہبی افکار کی تعمیر نو میںپنجابی زبان کے نامانوس الفاظ ، عربی و فارسی کا جزوی استعمال قاری کے لیے تفہیم مطالب میں دشواری کا باعث ہے ۔مترجم نے ہر خطبے کے آخر میں وضاحتی حواشی درج کیے ہیں ،جس میں مشکل انگریزی الفاظ کے اردو ، فارسی اور عربی مترجمین کے تراجم درج کیے گئے ہیں، جن کی مدد سے قاری مناسب اور بہتر مفہوم اخذ کر سکتا ہے۔ انگریزی عبارت اور اردو ترجمے میں اگرچہ کافی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے ،مفہوم کے لحاظ سے بلاشبہ کم سے کم غلطیاں دیکھنے میں آئیں ، تاہم مذہبی افکار کی تعمیر نو کو غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کی وجہ راقم کے نزدیک مترجم کا اصل متن سے کم سے کم اکتساب ہے ۔ اگر مترجم دیگر تراجم کے ساتھ ساتھ انگریزی عبارت کا بالاستعاب مطالعہ کرتے تو مذہبی افکار کی تعمیر نو، خطبات اقبال کے اردو تراجم میں ایک اہم پیش رفت شمار ہوتی۔ بھارت میں مقیم مسلمانوں کی فکری ،روحانی اور فلسفہ جدید سے جنم لینے والے سوالات کی تشفی کے لیے ڈاکٹر سمیع الحق نے خطباتِ اقبال کا تمام قومی زبانوں میں ترجمہ ضروری خیال کرتے ہوئے ۱۹۵۶ء میں خطباتِ اقبال کے اردو ترجمے کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۲ء تک خطباتِ اقبال کا اردو ترجمہ پایہ ء تکمیل کو پہنچ گیا اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس کوچہ پنڈت لال کنواں دہلی سے تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر کے عنوان سے ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا ۔ ڈاکٹر سمیع الحق ، سید نذیر نیازی کے اردو ترجمے سے متفق نہیں اور آسان سے آسان الفاظ کے استعمال پر زور دیتے ہوئے عرض مترجم میں لکھتے ہیں : ترجمہ مذکور کو بالاستعاب پڑھا ۔ انگریزی لفظوں کو خود ساختہ عربی میں ترجمہ کر کے بوجھل بنایا گیا ہے ۔اردو کے آسان سے آسان لفظوں کی تلاش ہی ایک مترجم کی پابندی ہے ۔۱۷؎ لیکن جب ہم تفکیرِدینی پر تجدید ِنظر کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہیں تو بعض جگہ وہ خود بھی اس ضمن میں زیادہ پیش رفت نہیں کر سکے ۔مثلاً: With the birth of reason and critical faculty, however, life, in its own interest, inhibits the formation and growth of non-rational modes of conciousness through which psychic energy flowed at an earlier stage of human evolution.18 تفکیرِ دینی میںترجمہ : لیکن تعقل اور تنقیدی صلاحیتوں کے فروغ کے ساتھ ہی زندگی نے، اپنے مفاد کے پیش نظر، ان بے بہرہ خرد اوضاع شعور یعنی توانائی وجدان نفسی کی تشکیل و نشونما کو ، جس کی انسانی ارتقاء کے اولین مراحل میں عام روش تھی، اپنے اوپر حرام کر لیا۔۱۹؎ خطباتِ اقبال کے اردو تراجم میں تشکیل ِجدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے بعد تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر مترجم کی قابل تحسین کاوش ہے تا ہم ابلاغ اور عمدہ اسلوب کے ساتھ ساتھ اصل متن کا مفہوم اور مصنف کا مدعا بعینہ دوسری زبان میں پیش کرنا ترجمے کی بنیادی صفت اور مترجم کی اساسی ذمہ داری ہے۔ تفکیرِ دینی پر تجدید ِنظر کے تنقیدی جائزے کے دوران جہاں عمدہ ترجمہ دیکھنے کو ملتا ہے وہاں بعض مقامات پر انگریزی عبارت اور اردو ترجمے میں تضاد ہے ۔مثلا دوسرے خطبے کی انگریزی عبارت یہ ہے: The infinite divisibility of space and time means the compectness of points in the series, it does not mean that point are mutually isolated in the sense of having a gap between one another.20 تفکیرِ دینی میں ترجمہ: مکان اور زبان کے لامتناہی اجزاء میں تجزیہ ہونے کی صلاحیت کا مطلب سلسلہ کے اندرنقطوں کی پیوستگی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نقطے باہم ایک دوسرے سے اس مفہوم میںالگ تھلگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کے بیچ میں خالی جگہ رہ جا تی ہے ۔۲۱؎ ترجمہ اس طرح ہونا چا ہیے تھا: زمان و مکان کی لامتناہی تقسیم پذیری کا مطلب سلسلہ کے اندر نقاط کی پیوستگی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپس میں وقفہ رکھنے کے مفہوم میں نقاط باہم الگ ہیں ۔ انگریزی زبان میں بعض الفاظ ایک سے زیادہ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔مترجم کو چاہیے کہ انگریزی عبارت کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی لفظ کا مناسب اور موزوں معنی منتخب کرے تب ہی وہ مفہوم کی ادائیگی اور تسلسل سے احسن طریقے سے عہدہ برآہو سکتا ہے ۔مثلا تیسرے خطبے میں انگریزی Sentenceاس طرح ہے : Freedom is thus a condition of goodness.22 تفکیرِ دینی میںترجمہ : چناں چہ آزادی نیکی کی حالت ہے ۔۲۳؎ تشکیلِ جدید میںسید نذیر نیازی نے درج بالا انگریزی جملے کا ترجمہ نہایت دلکش اور خوبصورت اسلوب میں پیش کیا ہے: آزادی خیر کی شرط اولین ہے۔۲۴؎ مترجم نے اختصار، قطعیت اور خوبصورت اردو الفاظ کے انتخاب سے تفکیرِدینی پر تجدیدِ نظر میں بہتر اسلوب پیش کیا ہے ۔ تفکیرِ دینی میں ابلاغ کا عنصر دیگر تراجم سے قدرے زیادہ ہے ۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے بعد تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر میں انگریزی متن اور اردو ترجمے میں زیادہ مناسبت پائی جاتی ہے ۔ مفہوم کے حوالے سے کم سے کم غلطیاں دیکھنے میں آئیں ۔ مفہوم کی ادائیگی میں اگرچہ ڈاکٹر سمیع الحق بعض مشکل مقامات سے بڑی کامیابی سے گزرے ہیں۔ تاہم تفکیر دینی پر تجدید نظر میں چند ایسے مقامات بھی ہیں جہاں ترجمے میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے وہ اصل متن سے مختلف ہے خصو صاًخطبات کے عنوانات کا اردو ترجمہ اصل عبارت کے مطابق نہیں مثلاًThe principle of movement in the structure of Islamکا ترجمہ ’وضع اسلامی میں تغیر کا اصول‘ اسی طرح Is Religion possible کا ترجمہ ’کیا مذہب کا امکان اب بھی ہے‘ اور The conception of God and the meaning of prayerکا ترجمہ ’تصور الہ اور حقیقت ذکر ‘انگریزی عبارت کے مطابق معیاری ترجمہ نہیں ۔ ۲۰۰۰ء میں اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے عنوان سے خطباتِ اقبال کا اردو ترجمہ منظر عام پر آیا، جو شہزاد احمد کی کاوش ہے ۔ اس سے قبل شہزاد احمد نفسیات اور فلسفہ و سائنس کی بعض اہم کتب کے تراجم کر چکے تھے اور بحیثیت مترجم علم و ادب کے حلقوں میں متعارف ہو چکے تھے ۔خطباتِ اقبال کا اردو ترجمہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : سراج منیر صاحب نے ڈاکٹر اجمل کی ایک کتاب مجھ سے ترجمہ کروائی اور پھر اچانک اقبال کے خطبات کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کر دی ۔ مَیںنے فورا ًاسے قبول کر لیا ۔ مجھے مشکلات کا سامنا تو تھا ،مگر میرا جی چاہتا تھا کہ مَیں اس چیلنج کو قبول کر لوں۔مَیںنے اسے پانچ ماہ میں مکمل کر لیا ۔۲۵؎ اسلامی فکر کی نئی تشکیل سے قبل سید نذیر نیازی کا اردو ترجمہ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ ،شریف کنجاہی کا اردو تر جمہ مذہبی افکار کی تعمیرِنواور ڈاکٹر سمیع الحق کا اردو ترجمہ تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظرکے عنوان سے منظر عام پر آ چکے تھے ۔انگریزی متن اور ان تین تراجم کے باوجود اسلامی فکر کی نئی تشکیل کو خطباتِ اقبال کے اردو تراجم میں کوئی اہم پیش رفت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ خطباتِ اقبال کے دیگر مترجمین کی طرح شہزاد احمد بھی اپنے ترجمے کے متعلق سہل نگاری اور عام فہم ہونے کا دعوی کرتے ہیں ،لیکن عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ مترجم کے لیے یہ بات بھی لازم ہے کہ وہ انگریزی متن کا متبادل اردو متن پیش کرے ۔عام فہم اور آسان اردو ترجمہ بجائے خود ایک بنیادی وصف ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ قطعا نہیں کہ سہل ترجمے کی کوشش میں اصل متن سے انحراف کیا جائے ۔ خطباتِ اقبال میں حضرتِ علامہ نے اسلام اور فلسفہ جدیدکے متعلق اٹھائے گئے مباحث کو پوری قوت اور علمی جرات سے بیان کیا ہے اور ان خطبات کے لیے وہ English diction منتخب کی ہے ،جس کا عکس ان کے اردو اور فارسی سرمایہ شاعری میں موجود ہے ۔ شہزاد احمد،خطباتِ اقبال کے اردو تر جمے کا یہ جواز پیش کرتے ہیںکہ زبان چونکہ مسلسل ار تقا کے عمل سے گزر رہی ہے، لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ کتب کے تراجم جدید اسلوب کے مطابق پیش ہونے چا ہییں۔اگرچہ وہ بعض مقامات پر اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں، لیکن کئی جگہ ان کا ترجمہ لا پر واہی کا شکار ہے۔مثلاً ساتویں خطبے میں انگریزی عبارت اس طرح ہے : In order to understand this we must make a distinction between experience as a natural fact, significant of the normally observable behaviour of Reality, and experience as a significant of the inner nature of reality.26 اسلامی فکر کی نئی تشکیل میں ترجمہ یوں ہے: اسے سمجھنے کے لیے ہمیں تجربے اور فطری حقیقت کے مابین خط امتیاز کھینچناہو گا ، جو عمومی طور پر نظر نہ آنے والی حقیقت اور تجربے کے کردار کی اہمیت کا بطور باطنی فطری حقیقت مظہر ہو گا ۔۲۷؎ یہاں مترجم نے انگریزی عبارت پر تفکر کیے بغیر اور سیاق وسباق کو نظر انداز کرتے ہوئے تجربے اور فطری حقیقت کے مابین خط امتیاز کھینچ دیا ہے ،جب کہ حضرتِ علامہ کے نزدیک تجربہ ایک فطری حقیقت ہے، جس پر انھوں نے اسی خطبہ میں سیر حاصل بحث کی ہے ، اسی طرح بعض جگہ لغت کی ظلطیوں کی وجہ سے بھی مفہوم میں بگاڑ پیدا ہوا ہے ۔ مثلا تیسرے خطبے میں انگریزی عبارت یوں ہے : All the meaningless thiological controversies about the idia of creation arise from the narrow vision of the finite mind.28 شہزاد احمد ترجمہ یوں کرتے ہیں : خیال تخلیق کے متعلق تمام بے معنی دینیاتی بحثیں اس لا متناہی ذہن کی تنگ نظری سے پیدا ہوتی ہیں۔۲۹؎ یہاں لفظ finite لغت کے مطابق’ محدود‘ یا’ متناہی‘ کے معنوں میں مستعمل ہے نہ کہ’ لامتناہی ‘کے ۔ ’لامتناہی‘ کے لیے لغت میں الگ لفظ Infinite موجود ہے ۔ تنقیدی جائزے سے لغت کی جو غلطیاں سامنے آئیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔doctrin کے لیے مجموعہ,revealکے لیے اخفا، wave motion کے لیے طول موج، competing tendencies متصادم رجحانات، facetsکے لیے اجزائ، primitive کے لیے غیر مہذب وغیرہ ۔ حضرت ِعلامہ نے فلسفیانہ مباحث کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی آیات کے کچھ حصوں کا حوالہ دیا ہے اور انھیں حصوں کا انگریزی میں ترجمہ لکھا ہے ،لیکن شہزاد احمد نے پوری قرآنی آیت لکھ کر اسے اردو میں ترجمہ کر دیا ہے ،جو اصل متن میں اضافہ ہے۔ مثلاً ـ: If a wound hath befallen you, a wound like it hath already befallen others, we alternate the days of successes and reverses anong people.30 ترجمہ: اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے ۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فرازہیں، جنھیںہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔تم پر یہ اس وقت لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچا مومن کون ہے ۔ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا ہے جو واقعی (راستی) کے گواہ ہیں ،کیونکہ ظالم لوگ اللہ کوپسند نہیں ۔۳۱؎ چند آیات ایسی بھی ہیں ،جن کا اردو ترجمہ اسلامی فکر کی نئی تشکیل میں نہیں ملتا ۔ مترجم نے چونکہ یہ ترجمہ انتہائی قلیل مدت یعنی پانچ ماہ میں مکمل کیا، لٰہذا ایسی غلطیوں کی گنجائش بعید از قیاس نہیں تھی ۔ اسلوب کے حوالے سے اگرچہ مترجم نے بعض جگہ جدید ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے عام فہم اور معیاری اسلوب اختیار کیا ہے، لیکن ایسے مقامات بھی ہیں جہاں مشکل اور ادق اسلوب کے باعث قاری کے لیے فکرِ اقبال تک رسائی دشوار ہوئی ہے۔ مترجم نے بعض انگریزی الفاظ کا مشکل ترجمہ کیا ہے ،حالانکہ ان کے متبادل آسان اردو الفاظ موجود تھے مثلاً ًtransformation کے لیے قلب ماہیت ،suggestionکا ترجمہ ایک جگہ ایمائی دوسری جگہ ایعاذ، transcending تزیہی، pontificalکا اسقفی وغیرہ، تا ہم مترجم نے اسلامی فکر کی نئی تشکیل میں بعض اردو الفاظ کی انگریزی قوسین میں درج کی ہے،جس سے قاری بذات خود بہتر مفہوم اخذ کر سکتا ہے ۔شہزاد احمد نے مولانا روم کے فارسی اشعار اور خطباتِ اقبال میں موجود دیگر فارسی اشعار کا کامیاب اردو ترجمہ کیا ہے ۔ خطباتِ اقبال کے اردو مترجمین میں ایک اہم شخصیت ڈاکٹر وحید عشرت ہیں ،جنھوں نے تجدید ِفکریاتِ اسلام کے عنوان سے خطباتِ اقبال کا اردو ترجمہ مکمل کیا ۔ یہ ترجمہ اقبال اکادمی پاکستان سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا ۔تجدیدِ فکریاتِ اسلام سے قبل خطباتِ اقبال کے چار مکمل اردو تراجم شائع ہو چکے تھے ،جن میں سید نذیر نیازی کا اردوترجمہ تشکیلِِِ جدید الٰہیات ِاسلامیہ(۱۹۵۸ئ) ، پروفیسر شریف کنجاہی کا اردو ترجمہ مذہبی افکار کی تعمیر نو (۱۹۹۲ئ) ، ڈاکٹر سمیع الحق کا اردو ترجمہ تفکیرِ دینی پر تجدید ِنظر(۱۹۹۴ئ) اورشہزاد احمد کا اردو تر جمہ اسلا می فکر کی نئی تشکیل(۲۰۰۰ئ) شامل ہیں ۔ ڈاکٹر وحید عشرت نے جب خطباتِ اقبال کے اردو ترجمے کا آغاز کیا اس وقت وہ اقبال اکادمی پاکستان میں بطور معاون ناظم ادبیات اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے ۔ڈاکٹر وحید عشرت فلسفہ اور فکرِ اقبال پر دقیق نظر رکھتے ہیں ۔ کم و بیش بیس کتابوں کے مصنف ہیں ۔ڈاکٹر وحید عشرت نے انتہائی غور و فکر اور عرق ریزی سے خطباتِ اقبال کا یہ ترجمہ آٹھ سال میں مکمل کیا۔ تجدیدِ فکریاتِ اسلامکے تنقیدی جائزے سے یہ واضح ہے کہ مترجم نے خطباتِ اقبال کے اردو ترجمے میں محنت ، لگن اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کے مدعا تک رسائی حاصل ہو سکے ۔اپنی اس کاوش کے بارے میں لکھتے ہیں : ترجمہ کرتے وقت یہ بات دامن گیر رہی کہ اگر علامہ اردو میں لکھتے تواپنا مدعا کس طرح ادا کرتے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اسے ترجمے کی بجائے طبع زاد کتاب کا روپ مل سکے۔۳۲؎ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ اور تفکیرِ دینی پر تجدید ِنظر کے بعد بلا شبہ تجدیدِ فکریاتِ اسلام خطباتِ اقبال کے اردو تراجم میں ایک اہم اور قابل ستائش ترجمہ ہے ۔مترجم کی اقبال فہمی ، ماہرین اقبالیات سے مشاورت و رہنمائی، انگریزی متن اور تمام اردو تراجم کا بالاستیعاب مطالعہ تجدیدِ فکریاتِ اسلام کو دیگر تراجم سے نمایاں کرتا ہے۔ ترجمے کے لیے وہ ایڈیشن استعمال کیا گیا ،جو پروفیسر محمد سعید شیخ نے مرتب و مدون کیا ۔دوسرے مترجمین نے یہ ایڈیشن استعمال نہیں کیا ۔مثلا دوسرے خطبے میں انگریزی عبارت اس طرح ہے: The poet means to say that if you had a vehement desire for drink, the sands of the desert would have givin you the impression of a lake.Your freedom from the illusion is due to the absence of a keen desire for water.You have perceived the thing as it is because you were not interested in perceiving it as it is not.33 ترجمہ : شاعر یہ مفہوم ادا کرنا چاہتا ہے کہ اگر تمہاری پیاس میں خامی نہ ہوتی اورتم سچی پیاس رکھتے تو صحرا کی ریت بھی تمہیں جھیل دکھائی دیتی۔ فریب خوردگی سے تو تم اس لیے بچ گئے کہ تمہارے اندر پانی کے لیے طلب صادق نہیں تھی ۔تم نے صورت حال کا ایسا ہی ادراک کیا جیسی کہ وہ ہے کیوں کہ تمہیں اس کا ایسا ادراک کرنے میں دلچسپی نہیں تھی جیسی کہ وہ نہیں ہے ۔۳۴؎ یہاں مترجم نے چند اضافوں سے قطع نظر انگریزی عبارت کا کامیاب اردو ترجمہ کیا ہے اور جدید اسلوب کے باوصف قاری کے لیے کشش اور تفہیم کا باعث ہے ۔ تاہم بعض مقامات ایسے ہیں ،جہاں مترجم کوشش کے باوجود انگریزی متن کے معنی و مفہوم تک رسائی حاصل نہیں کر پائے، جس کی وجہ سے تجدیدِ فکریاتِ اسلام کو طبع زاد کتاب کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔مثلاً ساتویں خطبے میں انگریزی عبارت یوں ہے: If we look at the movement embodied in creation from the outside, that is to say, if we apprehend it intellectually, it is a process lasting through thousand of years, for one Devine day, in the terminology of Quran, as of the Old Testament is equal to one thousand years.35 تجدیدِ فکریاتِ اسلام میں ترجمہ یوں ہے : اگر ہم اس لمحہ کو خارج سے دیکھیں ،جس میں کہ تخلیق ہوئی اور اس کا عقلی طور پر تصور کریںتو کہا جائے گا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے ،جو ہزاروں سالوں پرمحیط ہے۔کیوں کہ خدا کاایک دن قرآن کی اصطلاح میں اور جیسا کہ عہد نامہ قدیم میں بھی آیا ہے ، ہمارے ایک سا ل کے برابر ہے ۔۳۶؎ یہاں مترجم نے movement کا ترجمہ’’ لمحہ‘‘ کیا ہے جبکہ درست ترجمہ ’’حرکت ‘‘ ہے ۔اسی طرح one thousand years کا ترجمہ ’’ایک سال‘‘ کیا گیا ہے، جب کہ پورا ترجمہ ’’ایک ہزار سال‘‘ ہے ،تا ہم تفہیم مطالب اور تر سیل مدعا کے لحاظ سے سید نذیر نیازی درج بالا انگر یزی عبارت کو اردو کا روپ دینے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں: جب ہم اس حرکت کا مشاہدہ ،جس کا اظہارعمل تخلیق میں ہوتا ہے خارج سے کرتے،یعنی عقلا ً ا س کو اپنے تصور میںلاتے ہیںتو یہی عمل ہزار ہا سال پر محیط نظر آتا ہے۔’’عہد نامہ عتیق‘‘کی طرح قرآن مجید کی اصطلاح میں بھی خدا کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔۳۷؎ تجدید ِفکریاتِ اسلام میں مترجم نے انگریزی متن کے بعض Sentencesکا اردو ترجمہ ہی نہیں کیا ،جس سے انگریزی عبارت کے مفہوم اور اردو ترجمے کے تسلسل میں رکاوٹ پیش آئی ہے ۔مثلا ًدوسرے خطبے میں ـ: On the analogy of our inner experience, then, concious existence means life in time. We can derive things from movement, we cannot derive movement from things.38 ترجمہ: ہم اشیاء کا حرکت سے استحراج کر سکتے ہیں۔۳۹؎ تجدید ِفکریاتِ اسلام کا اگر اسلوب کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ مترجم نے کوشش کی ہے کہ اس ترجمے کو جدید ذوق اور جدید اسلوب کا روپ دیا جائے ۔ڈاکٹر وحید عشرت اسلوب کے حوالے سے لکھتے ہیں : ترجمے کی زبان انتہائی سہل ، رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی ۔۴۰؎ سہل، رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک عبارت بجائے خود ایک اہم وصف ہے ،لیکن عبارت کے اندر ابلاغ کا عنصر اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔تجدیدِ فکریاتِ اسلام میں بعض جگہ آسان اور رواں ترجمہ دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن قاری پر فکرِ اقبال کی وہ گرہیں کشا نہیں ہوتیں ِجو انگریزی عبارت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ مترجم کی محنت، انہماک اور ماہرین اقبالیات سے مشاورت و رہنمائی قابل تحسین ہے ،تاہم تجدیدِفکریاتِ اسلام کو غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی یہ قدغن لگائی جا سکتی ہے کہ خطباتِ اقبال کے مزید اردو ترجمے کی گنجائش نہیں ۔ تا ہم مترجم کی یہ خواہش کہ اسے طبع زاد کتاب کا روپ مل سکے ، شاید ہی کوئی ترجمہ اس مقام تک پہنچ سکا ہو۔ تجدیدِ فکریاتِ اسلام میں بعض مقامات پر اردو فقرات کی بے جا طوالت کے با وجوہ ابلاغ میں دشواری پیدا ہوئی ہے۔ فقط آسان الفاظ کا استعمال اور اصطلاحات سے اجتناب ہی سہل اور رواں ترجمے کا معیا ر نہیںبلکہ اردو فقرے کی ہیت اور ترتیب بھی ایک لازمی عنصر ہے تا کہ قارئین اقبال ، فکر اقبال تک رسائی حاصل کرنے میں سہولت محسوس کریں ۔ انگریزی عبارت میں Prepositionsیعنی حروف جار اپنی الگ اہمیت رکھتے ہیں انگریزی سے اردو ترجمے میں، مترجم کو چاہیے کہ Prepositionsکا خیال رکھتے ہوئے ا ردو ترجمہ سر انجام دے تا کہ وہی مفہوم ترجمے میں آئے جو اصل عبارت میں موجود ہے ۔ تجدید فکریات اسلام میں بعض جگہ مترجم نے اس بات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اصل عبارت سے مختلف مفہوم بیان کیا ہے ۔ تجدیدِ فکریاتِ اسلاممیں بعض جگہ لغوی غلطیوں اور اہم انگریزی الفاظ کا ترجمہ رہ جانے کی وجہ سے بھی ترسیل مدعا میں رکاوٹ پیش آئی ہے ۔ بعض انگریزی فقرات کا اردو ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ۔ خطباتِ اقبال کے اردو تراجم میں تجدیدِ فکریاتِ اسلام آخری مکمل اردو ترجمہ ہے ۔ تا ہم تنقیدی جائزے سے یہ واضح ہے کہ خطباتِ اقبال کے مزید اردو ترجمے کی گنجائش موجود ہے ۔ ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱۔ ڈاکٹرسید عبد اللہ(مرتب):متعلقاتِ خطبا تِ اقبال،لاہور:اقبال اکاد می پا کستان،۱۹۷۷ئ،ص،’ ر‘،’ش‘ ۲۔ شیخ عطااللہ(مر تب):اقبال نامہ،لا ہور:اقبال اکا د می پا کستان،۲۰۰۵ئ،ص۱۹۷ ۳۔ سید نذیر نیازی: تشکیل ِجدید الٰہیاتِ اسلامیہ ،لاہور:بزم اقبال ،جنوری۲۰۱۰ء ، ص۷ ۴۔ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی: ’خطباتِ اقبال(تفہیم، رجحانات،معنویت)‘ مشمولہ اقبالیات :تفہیم و تجزیہ،محولہ بالا۱،ص۴۶ ۵۔ سید نذیر نیازی: تشکیلِ جدید الٰہیا تِ اسلامیہ،محولہ بالا۲، ص۸ ۶۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ،۲۰۰۴ء ششم ،ص۵۰ ۷۔ سید نذیر نیازی: تشکیلِ جدید الٰہیا تِ اسلامیہ،محولہ بالا۲، ص ۱۱۵ ۸۔ ڈاکٹرسمیع الحق : تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر ، دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہائو س، ۱۹۹۴ئ،ص۵ ۹۔ پروفیسرشریف کنجاہی : مذہبی افکار کی تعمیر نو، لاہور: بزم اقبال،۱۹۹۲ء ۱۰۔ ڈاکٹر مرزاحامد بیگ :ترجمے کا فن: نظری مباحث۴۶ق م تا۱۹۸۶ء ،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۱۹۸۷ئ،ص۴۳ ۱۱۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۲۰ ۱۲۔ پروفیسرشریف کنجاہی:مذہبی افکار کی تعمیر نو،محولہ بالا۸،ص۳۸ ۱۳۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۷۹ ۱۴۔ پروفیسرشریف کنجاہی:مذہبی افکار کی تعمیر نو،محولہ بالا۸،ص۱۱۷ ۱۵۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۸۱ ۱۶۔ پروفیسرشریف کنجاہی:مذہبی افکار کی تعمیر نو،محولہ بالا۸،ص۱۲۰ ۱۷۔ ڈاکٹرسمیع الحق : تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، محولہ بالا۷ ۱۸۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۱۰۰ ۱۹۔ ڈاکٹرسمیع الحق : تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، محولہ بالا۷،ص ۱۳۳،۱۳۴ ۲۰۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۲۹ ۲۱۔ ڈاکٹرسمیع الحق : تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، محولہ بالا۷،ص۴۷ ۲۲۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۶۸ ۲۳۔ ڈاکٹرسمیع الحق : تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، محولہ بالا۷،ص ۹۲ ۲۴۔ سید نذیر نیازی:تشکیلِ جدید الٰہیا تِ اسلامیہ،محولہ بالا۲، ص۱۹۳ ۲۵۔ شہزاد احمد : اسلامی فکر کی نئی تشکیل، لاہور:علم و عرفان پبلیشرز ،جنوری ۲۰۰۵ئ، ص۹ ۲۶۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۱۵۵ ۲۷۔ شہزاد احمد : اسلامی فکر کی نئی تشکیل، محولہ بالا۳۳،ص۲۲۶ ۲۸۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۵۲ ۲۹۔ شہزاد احمد : اسلامی فکر کی نئی تشکیل، محولہ بالا۳۳، ص۹۰ ۳۰۔ علامہ محمد اقبال: The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۱۱۱ ۳۱۔ شہزاد احمد : اسلامی فکر کی نئی تشکیل، محولہ بالا۳۳، ص۱۶۹ ۳۲۔ ڈاکٹروحید عشرت: تجدیدِفکریاتِ اسلام،لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ،۲۰۰۲ئ،ص۲۳۷ ۳۳۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۴۲ ۳۴۔ ڈاکٹروحید عشرت: تجدیدِ فکریاتِ اسلام،محولہ بالا۲۴،ص ۷۲ ۳۵۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۳۹ ۳۶۔ ڈاکٹروحید عشرت: تجدیدِ فکریاتِ اسلام،محولہ بالا۲۴،ص۶۸ ۳۷۔ سید نذیر نیازی: تشکیلِ جدید الٰہیا تِ اسلامیہ،محولہ بالا۲، ص۹۴ ۳۸۔ علامہ محمد اقبال : The Reconstruction of Religious Thought in Islam،محولہ بالا ۵،ص۳۸ ۳۹۔ ڈاکٹروحید عشرت: تجدیدِ فکریاتِ اسلام،محولہ بالا۲۴،ص۷۰ ۴۰۔ ڈاکٹروحید عشرت: تجدیدِ فکریاتِ اسلام،محولہ بالا۲۴،ص۲۳۶ ـئ…ئ…ء اقبالیاتی ادب مجلات و رسائل میں شائع شدہ مقالات کی فہرست محمد ارشد ’’ ڈاکٹر محمد اقبال بنام سید ہاشمی فرید آبادی ‘‘ ، فکر و نظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، شمارہ ۳، جنوری - مارچ ۲۰۱۴ئ، ص ۱۲۷-۱۴۱۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’چند قدم، اقبال کے ساتھ‘‘ [تبصرۂ کتب]، فکر و نظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، شمارہ ۳، جنوری - مارچ ۲۰۱۴ئ، ص ۱۴۵-۱۵۰۔ ڈاکٹر آصف اعوان، ’’ اقبال کے ایک مکتوب الیہ - مہاراجہ سر کشن پرشاد‘‘ ، معیار ، شعبہ اردو، کلیہ زبان و ادب، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، شمارہ ۱۱، جنوری - جون ۲۰۱۴ء ، ص ۲۷۳ - ۲۷۸۔ سید عبداللہ /سید حسن عباس، ’’مذکر الاصحاب : یک تذکرۂ فارسی‘‘ دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، شمارہ ۱۱۴، ۱۱۵، ص ۹-۱۶۔ مجتبیٰ بشر دوست، ’’ اقبال و پیر رومی‘‘ دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، شمارہ ۱۱۴، ۱۱۵، ص ۱۹-۳۶۔ محمد مہدی توسلی /بہروز کراوند، ’’خودی و خود آگاہی در اندیشہ ایران شناسی شحصیر علامہ محمد اقبال‘‘ ، دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، شمارہ ۱۱۴، ۱۱۵، ص ۳۷-۴۶۔ روزینہ انجم نقوی، ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مع مسافر‘‘ ، دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، شمارہ ۱۱۴، ۱۱۵، ص ۴۷-۵۶۔ روزینہ انجم نقوی، ’’غزل فاسی علامہ محمد اقبال‘‘ ، دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، شمارہ ۱۸، ص ۷۱-۸۵۔ ڈاکٹر زینت افشاں، ’’علامہ اقبال کی تین طویل نظموں کے مشترکہ موضوعات‘‘ ، الماس، شعبۂ اردو، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی، خیرپور، سندھ جون ۲۰۱۳ئ- ۲۰۱۴ء ، ص ۱۲۲ - ۱۲۸۔ سیدہ نغمہ زیدی، ’’فلاسفۂ مغرب اور اقبال‘‘ ، الاقربائ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۱۰۰ - ۱۱۱۔ سیدہ نغمہ زیدی، ’’فلاسفۂ مغرب اور اقبال‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۱۰۰ - ۱۱۱۔ ڈاکٹر مظہر حامد، ’’اقبال کی متصوفانہ فکر‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۱۱۲ - ۱۲۰۔ سیدہ نغمہ زیدی، ’’ اقبال کا نظریۂ قومیت و ملت‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ اکتوبر - دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۵۹ - ۶۸۔ ڈاکٹر کوثر طلعت، ’’ڈاکٹر محمد اقبال - عہد آئندہ کا فلسفی‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۶۹ - ۷۴۔ ڈاکٹر مظہر جاوید، ’’اقبال کے بعد طویل نظم - ایک جائزہ‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ سالنامہ ۲۰۱۴ئ، ص ۶۵ - ۷۷۔ سید نغمہ زیدی، ’’ اقبال اور اتحاد بینِ المسلمین‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۷۸ - ۸۷۔ سید انتخاب علی، ’’ترجمۂ رموزِ بے خودی: رسد بر زمین مسدس رمل‘‘ ، الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن ، اسلام آباد، شمارہ جولائی - ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۱۴۲ - ۱۵۶۔ محمد طالب جلال ندوی، ’’ علامہ اقبال کا تصور اتحاد‘‘ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور، شمارہ نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۶۷-۷۶۔ شاہد رضا، ’’ علامہ اقبال اور بیداری امت‘‘ ماہنامہ اشراق ، لاہور، شمارہ نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۲۲-۲۵۔ مدثر رشید، ’’ تعمیر خودی‘‘ سہ ماہی حکمت قرآن ،ماڈل ٹائون، لاہور، شمارہ جنوری - مارچ ۲۰۱۴ئ، ص ۵۷-۷۰۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’ علامہ اقبال کے آخری ایام‘‘ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۵۰-۶۳۔ ڈاکٹر وحید عشرت، ’’اقبال کا تصور جبر و قدر‘‘ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۶۴-۷۰۔ انیلا جاوید، ’’مزار اقبال‘‘ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۷۱-۷۴۔ ابرار خٹک، ’’پیغام آشنا: اقبال کی شخصیت اور فکر وفن‘‘ [پیغام آشنا کی دو خصوصی اشاعتوں کا جائزہ]، پیغام آشنا ،سفارت اسلامی جمہوریہ ایران ، اسلام آباد، شمارہ ۵۶، سال ۲۰۱۴ئ، ص ۶۱-۷۰۔ پروفیسر ایس- ایچ فاروقی، ’’توحیدو رسالت اور اقبال ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، جنوری ۲۰۱۴ئ، ص ۴۰-۴۲۔ سکندر حیات میکن، ’’ارمغان رفیع الدین ہاشمی- ایک مطالعہ ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، جنوری ۲۰۱۴ئ، ص ۵۸-۶۰۔ ڈاکٹر خالد ندیم، ’’مکاتیب اقبال بنام خواتین ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۵-۲۶۔ طارق کلیم، ’’اقبال کی طویل نظموں پر قصیدے کے اثرات ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۲۷-۳۱۔ سید محمد اصغر کاظمی، ’’اقبال سب کے لیے- ایک مطالعہ ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۳۸-۴۶۔ ڈاکٹر سلیم اختر، ’’مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۵-۱۲۔ جاوید احمد خورشید، ’’سفر نامہ ٔاقبال- ایک اہم سرگزشت ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۱۳-۱۷ کلیم احسان بٹ، ’’اقبال کا نظریۂ فن ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۵-۲۱۔ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ’’فکر اقبال کے تناظرمیں تصور قیادت ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۲۲-۲۵۔ پروفیسر ایف ایچ فاروقی، ’’اقبال کے مثالی دارالعلوم کا تصور ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۲۶-۳۰۔ میاں ساجد علی، ’’بچے کی دعا میں خودی کے مراحل ‘‘ ماہنامہقومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۳۱-۳۳۔ ڈاکٹر جمال نقوی، ’’مشرق و مغرب اور اقبال‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۳۴-۳۶۔ ڈاکٹر جاوید منظر، ’’علامہ اقبال ہمارے محسن‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۳۷-۳۹۔ ڈاکٹر صابر حسین جلیری، ’’خودی، فکر اقبال در حکمت قرآن‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۴۰-۴۴۔ حیات نظامی، ’’اقبال کا تصورِ عشق‘‘، ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۴۵-۴۸۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل‘‘، ماہنامہ ادب دوست، لاہور، جنوری ۲۰۱۴ئ، ص ۸-۱۲۔ عکاشہ سحر، ’’تصور اقبال‘‘، [غزل] ماہنامہ ادب دوست، لاہور، جنوری ۲۰۱۴ئ، ص ۴۴۔ ڈاکٹرخواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل ‘‘ ماہنامہ ادب دوست،لاہور، اپریل ۲۰۱۴ئ، ص ۹-۱۳۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل ‘‘ ماہنامہ ادب دوست، لاہور، مئی ۲۰۱۴ئ، ص ۸-۱۲۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل ‘‘ ماہنامہ ادب دوست، لاہور، ستمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۸-۱۲۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل ‘‘ ماہنامہ ادب دوست، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۴ئ، ص ۸-۱۲۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیم بال جبریل‘‘، ماہنامہ ادب دوست، لاہور، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۸-۱۲۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ، ’’علامہ اقبال اور سر شیخ عبد القادر‘‘، [قسط :۱] ماہنامہ تہذیب اخلاق، لاہور، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۷-۱۷۔ ڈاکٹر سلیم ملک، ’’علامہ اقبال : بچوں کا شاعر‘‘، ماہنامہ تہذیب اخلاق، لاہور، نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۱۸-۲۰۔ ڈاکٹرقرۃ العین طاہرہ، ’’علامہ اقبال اور سر شیخ عبد القادر‘‘، [قسط:۲] ماہنامہ تہذیب اخلاق، لاہور، دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۷-۱۹۔ جاوید حفیظ، ’’اقبال- ایک مضبوط ثقافتی پل‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، نومبر- دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۲، ۳۔ یاسمین فاطمہ، ’’اقبال کا تصور تعلیم‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، نومبر- دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۴۔ میاں ساجد علی، ’’بچے کی دعا میں خودی کے مراحل ‘‘ماہنامہ اخبار اردو،مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد،نومبر- دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۶۔ سیدہ نغمہ زیدی، ’’اقبال اور نوجوان‘‘ علم و عمل، اسلام آباد،جنوری- مارچ ۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۴۔ عبدالرحمٰن عبد، ’’علامہ اقبال کی انتخابی مہم‘‘ علم و عمل، اسلام آباد،جنوری- مارچ ۲۰۱۴ئ، ص ۴۱، ۴۲۔ جمیل یوسف، ’’فکر اقبال کا ماخذ‘‘ علم و عمل، اسلام آباد،اکتوبر- دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۹-۱۴۔ ڈاکٹر مظہر حامد، ’’اقبال کی متصوفانہ فکر‘‘ علم و عمل، اسلام آباد،اکتوبر- دسمبر ۲۰۱۴ئ، ص ۳۴-۳۷۔ اشفاق نیاز، ’’اقبال اور ان کی بیگمات‘‘ پندرہ روزہ، سٹی میگ، سیالکوٹ،یکم نومبرتا ۱۵ نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۷، ۸۔ اشفاق نیاز، ’’اقبال اور ان کی بیگمات‘‘ پندرہ روزہ، سٹی میگ، سیالکوٹ،یکم نومبرتا ۱۵ نومبر ۲۰۱۴ئ، ص ۹، ۱۰۔ پیر کرم شاہ الازہری، ’’اقبال کا نظریہ‘‘ ماہنامہ ، دلیل راہ، لاہور،اپریل۲۰۱۴ئ، ص ۱۸-۱۹۔ سعید احمد بدر قادری، ’’علامہ اقبال کاذوق استفہام‘‘[۱] ماہنامہ ، دلیل راہ، لاہور،اپریل۲۰۱۴ئ، ص ۴۸-۵۰۔ سعید احمد بدر قادری، ’’علامہ اقبال کاذوق استفہام‘‘[۲] ماہنامہ ، فیض الاسلام، راولپنڈی،نومبر۲۰۱۴ئ، ص ۳۵-۴۱۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’فکر اقبال اور قرآن حکیم‘‘ ماہنامہ ، فیض الاسلام، راولپنڈی،نومبر۲۰۱۴ئ، ص ۳۵-۴۱۔ ثاقب اکبر، ’’علامہ اقبال، قائداعظم اور فلسطین‘‘ ماہنامہ ، پیام، اسلام آباد،اگست۲۰۱۴ئ، ص ۴۷-۵۴۔ قدرت اللہ شہاب، ’’اقبال کی فریاد‘‘ ماہنامہ ، پیام، اسلام آباد،نومبر۲۰۱۴ئ، ص ۳۶-۳۸۔ ڈاکٹر فیض احمد فیض، ’’دانائے راز کی نظر میں شہید کربلا کی سیرت جلیلہ ‘‘ ماہنامہ ، پیام، اسلام آباد،اگست۲۰۱۴ئ، ص ۳۹-۴۲۔ سیداسد عباس نقوی، ’’علامہ اقبال کے چند اہم خطوط‘‘ ماہنامہ ، پیام، اسلام آباد،اگست۲۰۱۴ئ، ص ۴۷-۵۳۔ میاں محمد ضیاء الدین ، ’’کتاب ہدایت اور اقبال‘‘ ، مراۃ العارفین، لاہور،جنوری۲۰۱۴ئ، ص ۲۳-۲۸۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی، ’’علامہ اقبال کے رول ماڈل خانوادہ اہل بیت رسول‘‘ مراۃ العارفین، لاہور،نومبر۲۰۱۴ئ، ص ۱۵-۳۹۔ میاں محمد ضیاء الدین، ’’آدمیت احترام آدمیت‘‘ مراۃ العارفین، لاہور،نومبر۲۰۱۴ئ، ص ۴۰-۴۷۔ غلام احمد پرویز، ’’اقبال کا مرد مومن‘‘ ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور،مئی۲۰۱۴ئ، ص ۵-۱۷۔ حافظ غلام مرشد، ’’علامہ اقبال سے سعادت مند ملاقاتیں‘‘ ماہنامہ طلوع اسلام، لاہورنومبر۲۰۱۴ئ، ص ۳۷-۴۰۔ حافظ غلام مرشد، ’’علامہ اقبال سے سعادت مند ملاقاتیں‘‘ ماہنامہ طلوع اسلام، لاہوردسمبر۲۰۱۴ئ، ص ۷-۱۵۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہورجنوری۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہورفروری۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہورمارچ۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہوراپریل۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہورمئی۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ محمد سہیل عمر، ’’اقبال فکری تناظر اور عصری معنویت‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور اگست۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ محمد سہیل عمر، ’’اقبال فکری تناظر اور عصری معنویت‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور ستمبر۲۰۱۴ئ، ص ۳۰-۳۲۔ Abstract When Allama Iqbal opened his eye in the sub-continent, the stories of the oppression of a sub-judged nation and the longing to free country from the foreign rule were becoming common gradually with reference to geographical nationalism. Iqbal was against the western concept of nationalism but he was also not in favor of any maneuvering to enslave man. The concern for human liberty can be seen many times in his poetry.